ڈاکٹر نسرین نمل یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کی پروفیسر ہیں، ایک سرکاری میٹنگ جب ملتوی ہوئی تو ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ دوران گفتگو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر نسرین محترمہ بینظیر بھٹو کے بچوں بلاول اور بختاور کو قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم پر مامور رہی ہیں۔
ان دنوں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں اور بحثیت ماں، بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکرمند بھی رہتی تھیں۔ قرآن مجید کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو وزیراعظم ہاؤس کے امام مسجد کا انتخاب کیا گیا لیکن محترمہ نے کہا کہ ان کے بچوں کے لیے عربی زبان و ادب کی خاتون پروفیسر کا انتخاب کیا جائے کیوںکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ ان کے بچوں کی عربی زبان و تجوید کسی عربی زبان کی ماہر پروفیسر کی نگرانی میں مکمل ہو سکے۔ لہٰذا نمل یونیورسٹی سے رابطہ کیا گیا اور یوں ڈاکٹر نسرین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔
ڈاکٹر نسرین کے مطابق جب وہ بلاول اور بختاور کو قرآن کی تعلیم دے رہی ہوتی تھیں تو محترمہ بینظیر بھٹو اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کمرہ میں تھوڑی دیر کے لیے داخل ہوتیں، کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ نا صرف سر کو دوپٹے سے ڈھانپ لیتیں بلکہ قرآن مجید کے تقدس کے پیش نظر جوتے بھی اتار دیتی تھی۔
ڈاکٹر نسرین کے لیے یہ مناظر بڑے حیرت انگیز تھے کیونکہ ان کا محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں تاثر میڈیا سے ماخوذ تھا جس کا ایک بڑا حصہ انہیں اسلام اور پاکستان کے لیے خطرہ قرار دینے پر تلا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاستدان ذاتی زندگی میں اپنے عوامی تاثر کے برعکس کتنے مختلف ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نسرین کے بقول چند ہی روز میں محترمہ ان کی کارگردگی سے مطمئن دکھائی دینے لگیں تو انہوں نے ڈاکٹر نسرین سے درخواست کی کہ وہ اپنی نگرانی میں بلاول اور بختاور کو نماز سکھائیں اور پڑھائیں، اس پر ڈاکٹر نسرین نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بتایا کہ آپ نے مجھ سے میرا مسلک نہیں پوچھا، میرا مسلک دیوبندی ہے جو کہ آپ کے مذہبی مسلک سے مختلف ہے۔ اس پر محترمہ بینظیر بھٹو نے جواب دیا کہ میرے لیے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے مسلکی اختلاف اہمیت نہیں رکھتے لہٰذا میں اپنے بچوں کو صرف اور صرف اچھا مسلمان بنانا چاہتی ہوں اگر میرے لیے یہ بات اہمیت کی حاملِ ہوتی تو میں خود آپ سے آپ کا مسلک دریافت کرلیتی۔ سیاسیات کے طالبِ علم کی حیثیت سے محترمہ بینظیر بھٹو کے دور کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کی تصویر ذہن میں ابھر آئی۔
محترمہ بینظیر بھٹو جب سیاست میں وارد ہوئیں تو اطلاعات اور سیاستدانوں کی ذاتی زندگی تک رسائی کا ذریعہ صرف چند اخبارات اور رسائل تھے، صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جس پر نو بجے کا خبر نامہ نشر ہوتا، ان کی پاکستان واپسی پر فقید الامثال استقبال سے جنرل ضیاء آمریت کا خوف دور ہوا، طاقتور حلقوں نے ان کے خلاف کردار کشی پر مبنی میڑیا مہم شروع کردی۔
جنرل ضیاء اگرچہ ۱۹۸۸ میں طیارہ حادثہ میں ہلاک ہوگئے، بعد میں آنے والی آئی جے آئی کی حکومت نے بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف کردار کشی کی مہم جاری رکھی۔ لیکن تاریخ کے سفر میں پراپیگنڈا کی عمر قلیل ہوتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو تاریخ میں ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
The post ایک مثالی ماں appeared first on ایکسپریس اردو.