محترمہ بے نظیر بھٹو کی 30 سالہ سیاسی جدوجہد جو 1977 میں شروع ہوئی، عزم، ہمت اور ویژن کی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم اس سفر میں ایک حوالہ ان کا بے مثل پارلیمانی کردار ہے۔ محترمہ کا پارلیمانی کردار 1988 سے لے کر 1999 تک کم و بیش 11 سالوں پر محیط ہے۔
اس عرصہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو دنیا کی کم عمر ترین، عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کا تاریخی اعزاز نصیب ہوا۔ اس عرصہ میں محترمہ کو دو بار قائد ایوان اور دو بار قائد حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بے مثال پارلیمانی کردار پر تحقیق کی جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، ان کی پارلیمان میں کی گئی تقاریر پر ایک الگ کتاب مکمل ہو سکتی ہے۔
1988 کا الیکشن جیت کر محترمہ بے نظیر بھٹو اسی سال 30 نومبر کو پہلی بار قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے آئیں۔ حلف برداری کے بعد پارلیمانی روایت ہے کہ معزز اراکین ’’رول آف ممبر‘‘ پر دستخط کرتے ہیں۔ 1988 کے اسمبلی کے رول آف ممبر پر سب سے پہلے دستخط محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود کیے۔ 3 دسمبر 1988 کو جب ملک معراج خالف اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو محترمہ نے اسمبلی کے فلور سے اپنے پہلے پارلیمانی کلمات ادا کیے۔
اس موقع پر محترمہ کے تاریخی الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کا جمہوری ویژن کیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’یہ آپ کی کامیابی نہیں ہے، یہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔ ہم اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ اسپیکر کا جو کردار ہے وہ خالی ایک پارٹی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ پورے ہاؤس کے لیے ہوتا ہے۔‘‘
’’آج ہم نے آپ کو جمہوریت میں پیش کردیا۔ آج سے آپ خالی ہمارے نہیں ہیں، آپ پورے گھر کے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ نے کبھی جانب داری ماضی میں بھی نہیں کی اور ابھی بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ جو بھی رولز ہوں، جو بھی ریگولیشنز ہوں آپ ان کے مطابق چلیں اور اگر آپ ہمارے خلاف بھی فیصلہ دیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے اندر برداشت کی قوت ہے۔ آپ قانون کی حفاظت کریں اور آئین کی بالادستی۔‘‘
بے مثال جدوجہد کے بعد پارلیمانی اداروں اور آئین کی حرمت کا مشن محترمہ کے ان تاریخی کلمات سے عیاں ہوتا ہے۔
12 دسمبر 1988 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 237 اراکین کے ایوان میں انہیں 148 ووٹ ملے۔ اس موقع پر ایک مذہبی جماعت کے دو اراکین نے ’’ اسلام میں عورت کی حکمرانی‘‘ کا سوال اٹھا کر تھوڑی دیر کے لیے تلخی پیدا کی۔ تاہم محترمہ نے اپنے خطاب میں صرف اتنا جواب دیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح مذہبی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار ہو سکتی تھیں تو آج یہ مسئلہ کیوں؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارلیمانی تقاریر ادب، تاریخ اور مستقبل کے بارے میں دستوری رستے پر کے ترغیبی محاورے سے عبارت ہوتی تھیں۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے اپنی جیت کو عوام کی جدوجہد کی جیت اور خود کو وفاق پاکستان کی وزیراعظم قرار دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے دستوری اور جمہوری ڈھانچے میں پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھیں۔ وہ نہ صرف اجلاسوں میں باقاعدگی سے حاضر ہوتی تھیں بلکہ ملکی حالات، خارجہ امور، معاشی حالات اور انسانی حقوق ایسے موضوعات پر کھل کر بات کرتی تھیں۔
1988 کی اسمبلی میں حزب اختلاف ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی جو کہ ناکام ہوئی۔ اس موقع پر بھی محترمہ کی گفتگو میں ذاتی دکھ نہ تھے بلکہ پاکستان کی پارلیمانی راستوں پر چل کر عوام کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت نمایاں رہی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارشل لا ریگولیشن 60 کا خاتمہ کر کے اسٹوڈنٹس یونین بحال کیں۔ 6 اگست 1990 کو جب 58(2) بی کا اژدہا عوام کی منتخب اسمبلی کھا گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی سیاست پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا۔
1990 کے انتخابات کی کہانی سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کے بعد اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 1990-93 کی اسمبلی میں محترمہ نے قائد حزب اختلاف کے طور پر انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ اسی دور میں وہ خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن بنیں جو کہ تلخیوں کے باوجود مل کر پارلیمانی کردار نبھانے کے کلچر کی ابتدا تھی۔ 1993 میں اسمبلی کی تحلیل اور سپریم کورٹ کے ذریعہ بحالی کے بعد بھی محترمہ کا پارلیمانی کردار قابل فخر رہا۔
15 اکتوبر 1993 کو محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر کامیاب رہنما کے طور پر قومی اسمبلی میں پہنچیں۔ 19 اکتوبر 1993 کو جب وہ 217 کے ایوان میں 121 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئیں تو مذہبی جماعتیں ایک بار پھر عورت کی حکمرانی کا سوال اٹھا رہی تھیں۔ اس عرصہ کے دوران قومی اسمبلی کی عمارت میں حادثاتی ا?گ لگ گئی اور اسمبلی کے اجلاس اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں ہوئے جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین بنایا تھا۔ اس طرح اس تاریخی ہال میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی آواز گونجی۔
اپنے عہد اقتدار میں محترمہ نے عوامی مقامات پر کوڑے مارنے کے قانون کا خاتمہ کیا اور انسانی حقوق کی وزارت قائم کی۔
1997 کے انتخابات کے بعد محترمہ نے ایک بار پھر قائد حزب اختلاف کا کردار نبھایا۔ جب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسمبلیوں کو ہڑپ کر جانے والے آرٹیکل 52(2) بی کے خاتمے کا عزم کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے غیرمشروط حمایت کی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالم اسلام کی خواتین پارلیمنٹیرین کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں خطاب کے دوران جمہوری ممالک کی انجمن بنانے کا تصور پیش کیا۔ آپ اگر آج پارلیمنٹ ہاؤس جائیں تو وہاں قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر کا پورا متن آویزاں ہے۔ یہ فیصلہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔
آج دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر پارلیمنٹ کو اس کی آئینی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے دو ہی حوالے ہیں۔ اول یہ کہ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو دستور کی چھاؤں میں پارلیمانی راستے ہی منزلوں تک جائیں گے۔
دوئم یہ کہ حزب اختلاف ذاتی دشمن نہیں ہوتی بلکہ ایک متبادل نقطہ نظر کا نام ہے اور پارلیمنٹ میں مل کر کام کرنا ہی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ اس لیے مکالمے کا دروازہ بند نہیں رکھا جا سکتا۔
(ظفراللہ خان پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات کے سربراہ رہے ہیں اور پارلیمانی تاریخ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ )
The post محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار appeared first on ایکسپریس اردو.