تضاد غالباً تمام ہی لوگوں کی میراث ہوتی ہے۔ یہ انہیں تمام عمر اسی طرح مصروف اور گھیرے بھی رکھتی ہے۔ باپ کے بعد بیٹے کی ذمہ داریوں میں بھی یہ دھوپ چھاؤں نمایاں رہی۔ ایسی زیست کو آپ معمول کے مطابق منظم کبھی نہیں کر پاتے۔
تاریخ میں سانحات ہمیشہ عظیم کامیابیوں کے درپے رہے ہیں۔ بے نظیر کی موت نے جہاں اسے انمٹ کر دیا وہیں اس کا قتل تاعمر ہمارے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔ اس کی موت کا لمحہ اب ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
وہ بظاہر نہایت مضبوط اور سخت گیر مگر باطن میں نہایت حساس اور اپنی سب سے بڑی نقاد تھی۔ اس کی حیثیت اور مرتبے کو اسے پہنچنے والے صدمات نے ہمیشہ جلا بخشی۔ وہ ایک پختہ ارادہ و پُراعتماد سیاستدان تھی تاہم اس کے باپ کے مقدمے اور صدمے نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی افسردگی اور تکلیف نے اسے غریب عوام سے مزید گہری وابستگی عطا کی۔ بے نظیر کبھی ہمہ جہت نہیں تھی۔ وہ موروثی طور پر بس منفرد تھی۔ وہ میڈونا سے لے کر معیشت تک بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ گفتگو کر لیا کرتی تھی۔ خود کو حاصل خاندانی تفاخر کے باوجود اپنی ترجیحات کی خوب چھان پھٹک کرنے کی عادی تھی۔ کائنات کی ہر شے اس کے لیے پرکشش تھی۔
خطے کی محرومیوں کا ادراک رکھنے والوں سے فوری ہم آہنگی اس کی حیرت انگیز صفت تھی۔ باپ کی طرح وطن کی مہک اس کے خمیر میں تھی۔ باپ ہی کی طرح وہ محرومیوں سے جُڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے وہ ملکہ عالیہ تھی۔
آج بھی ماحول پر اس کی نڈر اور لافانی روح کی گرفت اس کا ورثہ اور اس کی علامت سہی لیکن عام آدمی سے وابستگی ایک خودساختہ ذمہ داری کے طور پر ہے۔ وہ خود بھی خالصتاً عوامی شخصیت تھی۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ لامحدود وقت گزارتی بلکہ وہ ان لمحوں میں بھی ان سے الگ نہ ہوتی جب وہ دیگر فرائض سرانجام دے رہی ہوتی۔ اس نے تمام شکست و ریخت میں اپنے بچوں، خاوند، خاندان حتیٰ کہ دوستوں تک کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔
اس کی ہنسی بھی اس کی گرمجوشی ہی کی طرح دل کی گہرائیوں تک سرایت کر جانے والی تھی۔ دوشیزاؤں جیسی کھلکھلاہٹ، ماتھے پر فکرمندی کی شکنوں کے ساتھ ہمدردی، کچھ کر گزرنے کی خواہش اور اس پر ہر وقت کمربستہ رہنا اس کا کمال تھا۔ حقائق کی تلخیوں کے باوجود وہ خوابوں ہی میں زندہ رہی۔ اس نے خواب دیکھنے کبھی ترک نہیں کیے۔ دراصل وہ انتہائی منفرد اور حیرت انگیز انسان تھی۔
بے نظیر عوام ہی کی طرح دانشوروں اور اعلیٰ شخصیات کے درمیان تو نہایت مطمئن اور پراعتماد ہوتی البتہ باتونی اور سماجی متمول طبقات میں آنے پر حیرت انگیز طور پر خود کو غیرمحفوظ اور نہایت غیرمطمئن محسوس کرتی۔ اسے ہمیشہ گمان رہا یہ طبقہ ایک تو فرد کو غیرضروری گہرائی تک دیکھنے کا آرزومند ہے، دوسرے یہ کسی کے بارے میں فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کرتا۔
وہ اس بات سے باخبر تھی کہ اس کی زندگی جراثیم نما عادی کہانی کاروں کے نرغے میں ہے۔ وہ سچائی کی دھول اس طرح اڑانے کے ماہر ہیں جس سے خود سچائی ریزہ ریزہ ہو جائے۔ بھٹو خاندان کی کہانی قومی سطح پر کس قدر اہم قرار دی جاتی ہے یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔
بے نظیر ایک دانشور تھی، جس کی ایک جلد میں کئی ابواب اور ہر باب میں کئی کئی نظریے تھے۔ وہ تکالیف سے گزرتی ہوئی ڈان کوئیکزوٹ کی طلسماتی کہانی کا کردار تھی جو اپنے سفر کے دوران تن تنہا کئی اژدہے مار سکتا ہے۔ بے نظیر کی زندگی ہوائی چکی کے پنکھوں کی طرح گھومتے گھومتے ہی گزری جبکہ اس کی زندگی میں موجود اڑدہے بھی اصلی تھے۔
2007 کے گرما میں رات کے کھانے پر ہمارے درمیان کتابوں اور نظموں پر گفتگو شروع ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا ’’تم نے روسی شاعرہ اینا ایخماتوف کو پڑھا ہے، اسٹالن کے دور میں جسے اپنے بیٹے اور خاوند کے ساتھ انتہائی خوفناک الزامات سے گزرنا پڑا۔‘‘
میں نے کتاب نہیں پڑھی تھی، بہرحال میں نے اسے خریدنے کا ارادہ فوراً کر لیا گو اس کے قتل کر مجھے اسے کھولنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر جب میں ایک روز محض اس کے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا ذیل کے پیرے نے ششدر کردیا:
’’اس کا جسم کس خوفناک حد تک بدل گیا تھا
چہرہ تو گویا گل سڑ گیا تھا
میں تو اس طرح کی موت نہیں چاہتی
اس کی تاریخ طے کرنا میرے تو بس میں نہیں
لیکن مجھے دکھایا گیا ہے کہ بادل بادلوں کے ساتھ ٹکرائیں گے
بجلی کڑکے گی
اور فرشتے میری طرف بھیجے جائیں گے‘‘
کیا یہ اس کی موت کے حوالے سے کی گئی کوئی پیش گوئی تھی؟
اس نے وطن واپسی کا ارادہ کر لیا تھا، اب ہمارا احتجاج یا درخواستیں بے معنی تھیں۔ خطرات سے آگاہ ہوتے ہوئے وہ واپس آچکی تھی۔ وہ امکانات کی ان دیکھی کامیابیوں میں جھوم رہی تھی۔ 18 اکتوبر کو جلاوطنی سے واپسی پر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ٹرک میں اس کے ساتھ تھا۔ ہجوم کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ میری جانب مڑی اور کہنے لگی ’’کتنا دلکش تصور ہے میں ان لوگوں کے جذبوں کو محسوس کر سکتی ہوں۔‘‘ ایک وقفے کے بعد پھر گویا ہوئی ’’میں انہیں کبھی مایوس نہیں کروں گی۔‘‘ منشور میں تبدیلی کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔
چند لمحوں بعد بم دھماکے نے قومی روح کے پرخچے اڑا دیے۔ لمحہ پہلے جہاں انسانیت جھوم رہی تھی، تالیوں اور نعروں کا طوفان برپا تھا پلک جھپکنے میں وہاں جلن، ایندھن جلتے گوشت کی بو اور سیاہ لاشیں تھیں۔ چاہتوں کے نغمے آہوں اور سسکیوں میں دم توڑ گئے تھے، گویا دہشت گرد اس وقت اپنا نفرتوں بھرا گیت ہمیں سنا رہے تھے۔
یہ وقت تھا جب اسے سب چھوڑ چھاڑ کر نکل جانا چاہیے تھا۔ وہ لوٹ جانے پر آمادہ ہوتی تو اس کے لیے تمام دروازے کھلے تھے مگر بزدلی تو اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ اسے صرف کھڑے رہنا اور لڑنا تھا، لڑنا بھی اپنی آخری سانسوں تک!
ان دنوں جب بلاول ہاؤس میں محض مخصوص افراد رات دیر گئے آنے والے دنوں کے خدشات و امکانات پر اس سے بات کیا کرتے وہ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتی۔ اس کے سامنے تصویر واضح ہوتی۔ اس کی آنکھیں، اس کی دھڑکن اور اس کی روح سے نکلتا نغمہ ایک مکمل مختلف پیغام دے رہا ہوتا۔
اس نے یہاں پہنچنے کا طویل سفر ایک مثبت جذبے سے کیا تھا۔ سفر کے دوران اس میں اب ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ وہ معاملات زندگی کے وسیع تر پہلوؤں پر اپنے اعتقادات اور تصورات کا ازسرنو جائزہ لینے لگی تھی۔ ان دنوں کا جائزہ لینے پر میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ واقعات کی روشنی میں ہم سے الوداعی ملاقاتیں کر رہی تھی۔
وہ جان گئی تھی کہ عالمی قوتوں اور جرنیلوں کے ساتھ ایک معاہدے کے برعکس اس کے کراچی اترتے ساتھ ہی اندرون ملک اقتدار میں موجود سیاسی قوتوں کا توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ اسے اپنے نام لکھے والد کے اس معروف خط کے الفاظ یاد آنے لگے ’’عملیت پسندی حقیقت سہی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔‘‘ اسے فضا میں بددیانتی کی بو آنے لگی تھی مگر کمان تیر سے نکل چکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی وقت کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔
اس کے بعد ایک دن وہ راولپنڈی لیاقت باغ کے لیے نکلی، جہاں سے وہ جگہ کوئی زیادہ دور نہیں تھی جس جگہ 28 برس پہلے اس کے والد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس نے پرجوش مجمع کی جانب مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ فاتح ملکہ دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ سازشی ماحول کے اندر قتل کی صورت میں ایک سانحہ پہلے موجود تھا۔
اس روز بینظیر نے وہ اسٹیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جسے وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ بے نظیر کو دراصل حالات نے ایسی گندی اور آلودہ سیاست میں دھکیلا جہاں اسے پاکستانی سیاست کے محلات اور گٹروں میں بیک وقت پلنے والے بدقماشوں کا سامنا رہا۔ اسے بادشاہوں اور ملکاؤں کے ساتھ میل ملاقاتوں سے اقتدار اور ایوانوں تک میں چلنے کا سلیقہ دیا گیا۔ تقدیر دیکھیے اس کی زندگی اسے ایسی ناپسندیدہ دنیا میں لے گئی جہاں اسے مہم جوؤں اور موقع پرستوں کے ساتھ چلنا پڑا۔ اسے مجبور کیا گیا وہ ان کے اسلوب سیکھے اور ان سے ہم آہنگی پیدا کرے جو اس کی روح کے منافی تھا۔
یہ اس کی فطرت سے متصادم تھا اس نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ اس نے ایذارساں ’’بزرگوں‘‘، آستین کے سانپوں اور ریاستی تحفظ کے چار اطراف پھیلے ہوئے ذمہ داروں کا بیک وقت مقابلہ کیا۔ اس نے اپنی ایذا رساں مسافت میں ان سب کو باری باری بے نقاب کر کے کیفرکردار تک پہنچایا ہی مگر اس سے پہلے کہ ان ان اعتماد فروشوں کے خلاف فتح کا آخری نقارہ بجتا وہ اس جنگ میں بہادری سے لڑتی ہوئی شہید ہوگئی۔
اس کے قتل سے اس کی توقعات کے پورے ہونے میں کس قدر تیزی واقع ہوتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو مگر اس کے خون نے اس وطن کی مٹی کو جس طرح سینچا ہے اسے اس نے اپنی اس لیجنڈ ’’ماروی‘‘ سے زیادہ طاقتور کر دیا ہے جس کا تذکرہ اس نے اپنی 50ویں سالگرہ پر کہی گئی ایک نظم میں اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔
وہ کس طرح یاد کیا جانا پسند کرتی تھی، ایک جنگجو شہزادی جو آمروں کے ساتھ لڑی اور فاتح ہوئی، بہترین اصلاح پسند اور نجات دہندہ، مسیحا، ایسی شاعرہ جس نے دل دہلا دینے والی شاعری کی ہو، ایسی جون آف آرک جس نے استحصال کے خلاف جماعت کو علامت بنا دیا، پھول جس کی مہک کبھی کم پڑنے والی نہ ہو۔
بے نظیر دراصل یہ سب ہی کچھ تھی لیکن سب سے اہم جو اسے ہونا چاہیے تھا وہ تھا اس کا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونا اور یہ اس نے ثابت کیا۔ ہم سب کے لیے اور خود اپنے کنبے کے لیے وہ ایک ایسا گھنا سایہ دار درخت تھی جس سے اب ہمیں محروم کر دیا گیا ہے۔ وقت کی لہر جب کنارے نمایاں کرے گی تو لوگ اسے اس کی مہربانیوں اور محبتوں سے یاد کریں گے۔ وہ وقت سے پہلے ہی ہم سے جدا ہو گئی، ایک ادھ گایا نغمہ، ایک نامکمل نظم، ایک ناکمل زندگی، ایک ایسی زندگی جو مکمل بیان ہی نہ کی جا سکی۔
یہی پاکستان کی شہزادی بے نظیر کی کہانی ہے۔
The post بے نظیر بھٹو، ایک جنگجو شہزادی appeared first on ایکسپریس اردو.