یہ تائیوان کے شہر ’’تائی تنگ‘‘ سے محلقہ قصبے کی ایک مارکیٹ کا منظر ہے، رات ہوچکی ہے، مارکیٹ کی تمام دکانیں بند ہیں، دکاندار سارا دن کے بزنس کے بعد آرام دہ نیند کے حصول کی خاطر گھروں کو سدھار چکے ہیں، مارکیٹ کی بتیاں گل ہوچکی ہیں اور اندھیرا بڑھ رہا ہے، اندھیرے سے نبرد آزما سبزیوں کے ایک سٹال پر رکھا ایک لیمپ روشنی پھیلانے کی جدوجہد میں مصروف ہے، سٹال کی مالکہ ’’چن شوچیو‘‘ خاموشی سے سر جھکائے سبزیاں چھانٹنے میں مگن ہے۔
معاشرے کے لئے چن شو چیو کا کردار کسی طرح بھی اس روشن لیمپ سے کم نہیں۔ لیمپ اندھیرے میں روشنی پھیلانے کا سبب ہے جبکہ چن شو چیو غربت کے اندھیروں میں ڈوبی بے کس انسانیت کے چہرے پر خوشیوں کی روشنی بکھیرنے کی سعی کرتی ہیں۔چن شو چیو کی عمر تقریباً 60 برس ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چن شو چیو ایک لگی بندھی روٹین کے تحت زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ ہر روز علی الصبح 3 بجے اٹھتی ہیں اور ہلکا سا ناشتا کرنے کے بعد سبزیوں کی ہول سیل مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں جہاں ان کا سٹال موجود ہے۔ رات گئے تک وہ اپنے سٹال پر کام کرتی رہتی ہیں۔ برسوں کی انتھک محنت نے ان کے ہاتھوں کی انگلیوں میں خم ڈال دیئے ہیں جبکہ ان کے پائوں بھی اپنی اصل ہئیت کھوبیٹھے ہیں۔ چونکہ وہ صبح مارکیٹ سب سے پہلے پہنچتی ہیں اور مارکیٹ سے نکلنے والی آخری فرد بھی وہی ہوتی ہیں تو مارکیٹ کے دیگر دکانداروں نے انہیں بطور عزت و محبت ’’مارکیٹ مینیجر‘‘ کا خطاب دیا ہوا ہے۔
سبزیوں کا یہ سٹال ’’چن شو چیو‘‘ کو اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے جو انہیں بے حد عزیز ہے۔ ان کی دنیا سبزیوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ چن شو چیو بہت ہی کم منافع پر سبزیاں فروخت کرتی ہیں مگر اس کے با وجود وہ اب تک تقریباً ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر مختلف ضرورت مند اداروں اور افراد کو عطیہ کرچکی ہیں۔ ان اداروں میں سکول، یتیم خانے اور غریب افراد کی ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ اتنی کم آمدنی اور اتنا زیادہ عطیہ، دکھی انسانیت کیلئے چن شو چیو کی اس بے پایاں اور بے لوث محبت نے انہیں عالمی سطح پر پذیرائی بخشی ہے۔ چن شو چیو اس مقولے کی جیتی جاگتی تصویر ہیں کہ ’’محنت اتنی خاموشی سے کرو کے تمہاری کامیابی شور مچادے‘‘۔ فوربز میگزین نے مارچ کے شمارے میںچن شو چیو کو ان 48 مخیر افراد کی فہرست میں شمار کیا کہ جو انسانیت کی بھلائی کیلئے مصروف عمل ہیں۔ ایک ماہ بعد ہی ٹائمز میگزین نے انھیں 100 مؤثر ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ ان کا نام ”Heroes of Philanthropy” کی کیٹگری میں شامل کیا گیا۔ تائیوان سے ہی تعلق رکھنے والے آسکر انعام یافتہ ڈائریکٹر لی اینگ نے ذاتی طور پر ان کے یہ الفاظ تحریر کیے کہ ’’دولت اس وقت ہی اپنی قدر پاتی ہے کہ جب یہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے استعمال کی جائے، میرے خیال میں دولت کا صحیح اور اصل مقصد یہی ہے‘‘۔
عالمی سطح پر پذیرائی اور اس قدر عزت و تکریم حاصل ہونے کے باوجودچن شو چیو کو صرف اپنے سبزیوں کے سٹال کی ہی فکر لاحق رہتی ہے۔ اگر صدر ماینگ جیو اور وزیر خارجہ انہیں ذاتی طور پر ملاقات کیلئے مدعو کرکے نیویارک جانے پر آمادہ نہ کرتے تو شاید وہ ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے نیویارک بھی نہ جاتیں کیونکہ چن شو چیو کے مطابق ’’میں نے کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی میں یہ کام کسی ایوارڈ وغیرہ کو جیتنے کیلئے کرتی ہوں‘‘۔ پاسپورٹ بنوانے اور ویزہ لگوانے کے عمل کے دوران بھی انہیں یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ ان کی سبزیاں خریدنے والے گاہکوں کا کیا بنے گا۔ چن شو چیو، تائی تنگ میں مدد اور اعانت کی ایک علامت بن چکی ہیں۔ مقامی ارباب اختیار نے ان کے اسٹال کو پھولوں سے سجا رکھا ہے اور اس پر پوسٹر بھی آویزاں کئے ہوئے ہیں جن پر ’’تائی تنگ کا فخر‘‘ اور ’’مدد و ہمدری کی قابل تقلید مثال‘‘ جیسے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ لوگ ان کے سٹال پر ان کے ساتھ تصویریں بنوانے آتے ہیں اور انہیں انتہائی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر اس انتہائی توجہ اورعزت نے انہیں مفرور نہیں بنایا بلکہ انہیں مزید عجزو انکساری سے معمور کردیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا اور یہ کام تو جو بھی کرنا چاہے بآسانی کرسکتا ہے۔ میرے علاوہ بھی بے شمار مخیر انسان ہیں، بس ہم ان سے واقف نہیں ہیں۔ میں پیسے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ جب میں دوسروں کی مدد کی غرض سے پیسہ عطیہ کرتی ہوں تو یہ عمل مجھے خوشیوں سے روشناس کرواتا ہے اور میں رات کو پُرسکون نیند سوتی ہوں کیونکہ غریبوں کی مدد کرنے کاجذبہ ہی ایک ایسا محرک ہے جو میٹھی نیند سلاتا ہے۔‘‘
چن شو چیو کی زندگی پر ایک مصنف یونگ لی لیو نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کوچن شو چیو کی آپ بیتی گردانا جاتا ہے۔ یونگ لی نے تقریباً چھ ماہ چن شو چیو کے خیالات سے استفادہ کے بعد ”Chen,Shu-Chu-Extraordinary Generosity” کے نام سے ان کی آپ بیتی کو کتابی شکل دی۔ چن شو چیو 1950ء میں پیدا ہوئیں۔ ابھی انہوں نے پرائمری تک ہی تعلیم مکمل کی تھی کہ ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ ہوا یوں کے ان کی والدہ کو زچگی کے مسائل ہوئے تو انہیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ مگر ان کو طبی امداد دینے سے قبل چن شو چیو کے خاندان کو ہسپتال کو ہیلتھ انشورنس کی مد میں 160 امریکی ڈالر ادا کرنے تھے۔ غربت کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ چن شو چیو نے اپنے والد کو محلہ داروں اور رشتہ داروں وغیرہ سے امداد کی اپیل کرتے دیکھا مگر دیر ہوچکی تھی اورچن شو چیو کی والدہ اس دنیا کو خیر باد کہہ گئیں۔ چن شو چیو چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں اس لیے ذمہ داریاں نبھانے کیلئے انہیں اپنے بچپن اور تعلیم کو الوداع کہنا پڑا اور انہوں نے اپنے والد کے ساتھ سبزیوں کے سٹال پر ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔ جب چن شو چیو 18 برس کی ہوئی تو ان کے بھائی کو ایک مرض لاحق ہوگیا جس کا علاج تقریباً ایک سال تک جاری رہا اور خاندان کی جمع پونجی علاج معالجہ پر خرچ ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ بہتر علاج کیلئے بھائی کو ’’تائیوان نیشنل یونیورسٹی ہسپتال‘‘ منتقل کردیا جائے، مگر یہاں پھر غربت آڑے آئی کہ ہسپتال کے اخراجات کیسے ادا کیے جائیں۔ پیسہ جمع کرنے کیلئے کوششیں شروع کی گئیں مگر یہاں بھی قسمت نے یاوری نہ کی اورچن شو چیو کا بھائی بھی خاندان کو روتا دھوتا چھوڑ کر چل بسا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا ایک اور بھائی ٹریفک حاثہ میں لقمہ اجل بن گیا اورچن شو چیو کی دنیا ایک دفعہ پھر غم کے اندھیروں میں ڈوب گئی۔
چن شو چیو نے ہمت نہ ہاری اورعہد کیا کہ جب بھی وہ اس قابل ہوئی تو غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے گی اور اس نیک اور کٹھن کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ جب چن شو چیو کے والد بھی وفات پاگئے تو انہوں نے اپنی جمع شدہ پونجی یعنی 32140 امریکی ڈالر ’’فوشو گوانگ شون مونیسٹری‘‘ کو عطیہ کردیئے۔ 2000ء میں چن شوچیو نے ’’رین آئی پرائمری سکول‘‘ میں غریب طلبہ اور بچوں کی امداد کیلئے ’’ایمرجنسی ریلیف فنڈ‘‘ قائم کیا اور تقریباً 33000 امریکی ڈالر عطیہ کیے۔ 2001ء میں سکول انتظامیہ کی طرف سے سکول میں لائبریری بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کا تعمیراتی تخمینہ تقریباً 4 سے 5 ملین تائیوان ڈالر لگایا گیا۔ جب سکول کے نمائندے عطیہ حاصل کرنے کی غرض سے چن شوچیو کے پاس پہنچے اور ان سے 50 ہزار تائیوان ڈالر کی مدد چاہی تو وہ یہ سن کر ہکے بکے رہ گئے کہ جب چن شوچیو نے پورے پراجیکٹ کو فنڈ کرنے کا عندیہ دیا۔ سکول والوں کو یقین نہ آیا مگر مئی 2005ء کو چن شوچیو کی مدد سے یہ 20 منزلہ عظیم الشان لائبریری پایہ تکمیل کو پہنچ گئی جس کا نام بھی ’’چن شوچیو لائبریری‘‘ رکھا گیا ۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل تک چن شو چیو نے 4.5 ملین تائیوان ڈالر عطیہ کیے اور اسی عطیہ کی وجہ سے لائبریری کی تکمیل ممکن ہوسکی۔ مگر ذہن میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ صرف ایک سبزی فروش خاتون اتنی بڑی رقم کیسے عطیہ کرسکتی ہے۔ چن شو چیو کہتی ہیں کہ ’’صرف اتنا ہی خرچ کرو جتنی ضرورت ہے، فضول خرچی سے پرہیز کرو تو آپ بے شمار پیسہ جمع کرسکتے ہو۔ میں اپنی روزانہ کی بچت گھر میں موجود تین ڈبوں میں باقاعدگی سے جمع کرتی ہوں اور آہستہ آہستہ بہت پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا کام ہے جو ہر کوئی کرسکتا ہے‘‘۔
دراصل چن شو چیو انتہائی سادہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ انہیں کسی قسم کا کوئی بھی دنیاوی لالچ نہیں ہے۔ انہیں صرف دو وقت کا سادہ کھانا اور سونے کیلئے جگہ درکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر چیز کو لگژری گردانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میرا کام ہی میرا مشلغہ اور خوشی ہے۔ میں اپنے کام سے عشق کرتی ہوں اور اگر ایسا نہ ہو تو میں سولہ سولہ گھنٹے کام کر ہی نہیں سکتی۔ ایوارڈ ملنے کے بعد بھی میری زندگی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ بزنس بھی پہلے کی طرح ہی چل رہا ہے‘‘۔ ایوارڈ ملنے کے بعد بے شمار فلم کمرشل بنانے والوں اور فنانشل منیجرز نے ان کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں جبکہ بے شمار دیگر افراد نے رقم عطیہ کرنے کا عندیہ دیا مگرچن شو چیو نے سب کو ملائمت سے انکار کردیا ۔ وہ کہتی ہیں ’’کسی سے ادھار لیے ہوئے پیسے کو واپس کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ کسی کے احسان کا قرض اتارنا بہت مشکل۔ میرا زندگی گزار نے کا فلسفہ بہت سیدھا اور سادہ ہے۔ اگر کوئی کام انجام دے کر آپ فکر مند اور پریشان ہوتے ہیں تو یقینا آپ نے کوئی غلط کام کیا ہے اور اگر آپ کو خوشی حاصل ہوتی ہے تو پھر آپ نے صحیح اور درست سمت قدم بڑھایا ہے۔ اگر آپ پر نکتہ چینی کی جاتی ہے تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ میں نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کررہی ہوں، مطمئن ہوں اور جب تک کرتی رہوں گی پرسکون رہوںگی۔ مجھے کسی اور چیز کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی تمنا۔ ‘‘
چن شو چیو کچھ ادھورے سپنے بھی ساتھ لیے پھرتی ہیں۔ جب وہ 20 برس کی تھیں تو قسمت کا حال بتانے والے ایک شخص نے ان کا ہاتھ دیکھ کر نوید دی تھی کہ شادی کے بعد وہ تین بیٹیوں کی ماں بنیں گی۔ بعدازاں جب چن شو چیو نے پیسے جمع کئے اور ایک گھر خریدا تو اس میں لڑکوں کے لیے تین کمرے بنوائے اور ان کی تزئین و آرائش کی کیونکہ ایک ’’ہیپی فیملی‘‘ ان کا خواب تھا ، مگر یہ خواب بھی پورا نہ ہوسکا۔ چن شوچیو کے علاوہ ان کمروں میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، وہ کہتی ہیں ’’ان کمروں میں میرے ادھورے خوابوں کی کرچیاں بکھری ہوئی ہیں‘‘۔ مگر وہ اس دکھ پر بھی قابو پاچکی ہیں اوردوسروں کی مدد اوراعانت کرکے دعائیں اور خوشیاں سمیٹ رہی ہیں۔ تائیوان کے صدر ماینگ جیو کا چن شو چیو کے متعلق کہنا ہے کہ ’’چن شو چیو کی کہانی بہت دل کو چھو لینے والی ہے۔ سارے تائیوان کو ان پر فخر ہے۔ انہوں نے تمام دنیا کو با ور کروایا ہے کہ تائیوانی لوگوں کے دل بہت بڑے ہیں۔‘‘