ملک بھر میں ساڑھے 7 لاکھ بیڈ فورڈ ٹرک اور بسیں سڑکوں پر رواں دواں ہیں جن سے تقریباً 11 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔برطانوی ساختہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانے ٹرک اور بسیں اب تک ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان ٹرکوں پر ہمارے دست کاروں کی گل کاری دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بن گئی ہے۔
1986ء کے بعد بیڈ فورڈ کی درآمد بند ہوگئی تھی تاہم پاکستانی کاریگر اور مستری تا حال ان پرانے ٹرکوں اور بسوں کو سڑکوں پر دوڑانے میں کام یاب رہے ہیں۔ 5برس قبل سٹینڈرڈ کوالٹی کے نام پر کئی کمپنیوں نے بیڈ فورڈ گاڑیوں کے پرمٹ منسوخ کردیئے جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹرز کو ڈیڑھ سے 2 ارب روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق نئی گاڑیوں کو کمپنیوں میں رجسٹرڈ کرانے کیلئے بھی لاکھوں درکار ہیں۔ جس کے باعث خاص طور پر آئل ٹینکرز کی صنعت مالی بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
بیڈ فورڈ راکٹ ٹرکوں کی منفرد اور دیدہ زیب باڈیاں بنانے والے پاکستانی دستکاروں اور ہنر مندوں کو عالمی شہرت دلوانے میں کئی افراد نے کلیدی کردار ادا کیا لیکن ان میں نمایاں پاکستانی وزیر دفاع کی اہلیہ انجم رانا کا بھی اہم کردار ہے جن کی کاوشوں سے پسماندہ کاریگروں کا فن دنیا بھر میں قبائلی ٹرک آرٹ کے نام سے تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ چند برس سے کئی یورپی ممالک میں آرٹ اکیڈمیز اور دیگر فنی ادارے اپنے طالب علموں کو اس قبائلی آرٹ کی باقاعدہ تربیت بھی دے رہے ہیں۔ قبائلی ٹرک آرٹ کے فروغ کیلئے انجم رانا کی کاوشوں کا اعتراف یونیسیکو نے بھی کیا اور انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ٹرکوں کو سجانے کا شوق صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارت، منیلا، انگلینڈ، جاپان اور امریکا سمیت کئی ملکوں میں ٹرک آرٹ کے الگ الگ انداز مقبول ہیں اور ترقی کرتی دنیا میں اب ٹرکوں کو جدید پینا فلکس اور دیگر کمپیوٹر گرافکس کی مدد سے بھی سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں بیڈ فورڈ ٹرک کو ان کی ساخت کے لحاظ سے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ بیڈ فورڈ کے علاوہ اس کے مقبول ترین ناموں میں راکٹ ٹرک، راکٹ بس، ڈگ ڈگ اور راکٹ ٹرلو شامل ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں درآمد کئے جانیوالے بیڈ فورڈ ٹرک انجن میں لگے ہینڈل سے سٹارٹ کئے جاتے تھے جنکی قیمت 65 ہزار روپے تھی۔ 1971ء میں جدید بیڈ فورڈ ٹرک درآمد کئے جانے لگے جنہیں JT ماڈل کہا جاتا تھا۔ ان کی قیمت ایک لاکھ 10 ہزار روپے تھی۔ 1986ء میں آخری بار بیڈ فورڈ ٹرک درآمد کئے گئے تھے جس کے بعد جدید جاپانی گاڑیوں نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں جگہ بنالی۔ گزرتے وقت کے ساتھ جدید سے جدید ترین گاڑیاں پاکستانی ٹرانسپورٹ کا حصہ بنتی گئیں تاہم 26 برس پرانے بیڈ فورڈ ٹرکوں کی اہمیت و افادیت کم نہیں ہوئی۔ گلگت، بلتستان کے بعض علاقوں میں بیڈ فورڈ ٹرک کو ڈگ ڈگ کہا جاتا ہے۔ لاہور بادامی باغ بس سٹاپ سے براستہ گجرات وادی کشمیر کے علاقے چوکی سماہنی تک چلنے والی بیڈ فورڈ ٹرک کی آلٹریشن سے بنائی گئی بس ’’راکٹ ٹرلو‘‘ کہلاتی ہے جو اس روٹ کے علاوہ پاکستان کے کئی پہاڑی علاقوں میں بھی سڑکوں پر رواں دواں ہیں جبکہ پہاڑی علاقوں میں سامان کی ترسیل کیلئے بھی بیڈ فورڈ ٹرکوں کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔
عام بیڈ فورڈ گاڑیوں میں 5 گئیر ہوتے ہیں جن میں سے 4 آگے اور ایک ریورس گئیر ہوتا ہے جبکہ راکٹ ٹرلو میں پاکستانی مستری تبدیلی (آلٹریشن) کر کے 6 روسی گئیر لگاتے ہیں جن میں 5 گئیر آگے کے اور چھٹا گئیر ریورس کا ہوتا ہے اس گاڑی کے انجن میں متعدد پارٹس دوسری گاڑیوں کے بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس آلٹریشن اور مقامی تیار کردہ بس باڈی کی وجہ سے کشمیر اور حویلیاں میں اسے راکٹ ٹرلو کا لقب دے دیا گیا ہے۔ 1986ء سے بیڈ فورڈ ٹرک چلانے والے رفیق کا کہنا ہے کہ جس دور میں بیڈ فورڈ پاکستان کی سڑکوں پر چلنا شروع ہوئے اس زمانے میں ان سے زیادہ تیز گاڑی کوئی اور نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس تیز رفتاری کے باعث بیڈ فورڈ ٹرکوں پر لڑاکا طیاروں اور خلائی راکٹ کی تصاویر پینٹ کی جانے لگیں جس کے بعد گاڑی کے نام سے واقف لوگوں نے اسے ’’راکٹ ٹرک‘‘ کا نام دیدیا۔ یوں اب تک بیڈ فورڈ ٹرک راکٹ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی لحاظ سے بیڈ فورڈ بسوں کو بھی راکٹ بس کہا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ برطانیہ میں جہاں مقامی واکس ہال کمپنی بیڈ فورڈ ٹرک تیار کرتی ہے وہاں 39 سال قبل بیڈ فورڈ ٹرک چلانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاہم کمپنی کی جانب سے 1986ء تک بیڈ فورڈ ٹرک بنا کر بیرون ملک فروخت کئے جاتے رہے۔
واکس ہال کمپنی نے JO سے J6 تک بیڈ فورڈ کے 7 اقسام کے ٹرک بنائے۔ پاکستان اور بھارت میں بیڈ فورڈ کے J5 اور J6 ماڈلز نے مقبولیت حاصل کی۔ لوڈنگ کیلئے استعمال کئے جانیوالے ٹرکوں کو بھی ان کی ساخت کے لحاظ سے الگ الگ نام دیئے گئے ہیں جن میں بیڈ فورڈ، لوڈنگ راکٹ، پھٹہ باڈی، کنٹینری باڈی، تیل راکٹ اور چھوٹا لوکل کے نام سے مشہور ہیں۔ 1990ء سے قبل ٹرانسپورٹ کے تقریباً ہر شعبے میں راکٹ ٹرکوں کی اجارہ داری قائم تھی۔ تاہم ان کی درآمد رکنے اور ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہیوی گاڑیوں کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے جاپانی گاڑیاں بڑی تعداد میں درآمد کی جانے لگیں جس کے باعث راکٹ ٹراکوں کی تعداد میں کمی ہوگئی۔ 5 برس قبل تک ملک بھر میں تیل کمپنیوں سے پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل پر لگ بھگ 10 سے 12 ہزار راکٹ آئل ٹینکر مامور تھے۔ تاہم اب بھی بیڈ فورڈ راکٹ ٹرک پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل، کیمیکلز کی ترسیل اور مسافر گاڑیوں کے طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جن کی بدولت ٹرک ڈیلرز، مکینک، ویلڈرز، اسپیئر پارٹس سیلرز، کباڑیوں، لکڑی فروشوں، کار پینٹرز، پینٹرز، آرٹسٹوں، الیکٹریشنز، ٹرک مالکان، ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔ کئی نئی نویلی دلہن کی صورت سجے سجائے راکٹ اور دیگر اقسام کے ٹرکوں کی تیاری کا سب سے اعلیٰ کام ڈیرہ غازی خان میں کیا جاتا ہے جبکہ حویلیاں، پشاور اور بنوں میں بھی بڑی تعداد میں ٹرک اور بسیں تیار کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں چلنے والے ٹرکوں پر انتہائی خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر چلتی پھرتی پینٹنگز لگتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرک آرٹ کی یہ روایت 1920ء کی دہائی سے چلی آرہی ہے اور خیبرپختونخوا کو اس فن کی پیدائش کا مرکز مانا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خوبصورت فن اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اس آرٹ سے وابستہ افراد کو کام کی تلاش میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی کئی روز کے بعد کام کرنا نصیب ہوتا ہے۔ ٹرک آرٹ سے وابستہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے گل خان کا کہنا ہے کہ اب یہ کام ان کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اب زیادہ تر ٹریلرز باربرداری کا کام کرنے لگے ہیں، جن میں سامان کنٹینرز کے ذریعے جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں زیادہ سجاوٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیورز اور مالکان کو بم حملوں اور اغوا برائے تاوان کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گل خان اپنے متعدد صارفین سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ٹرک آرٹ کے ماہر کے مطابق بل، کرایہ اور دیگر اخراجات پورے نہیں کر پا رہا، میرے پاس کام نہیں تو یہ خرچے کیسے پورے کروں۔
میرے بچوں کو پیسوں کی ضرورت ہے مگر میں انہیں دینے میں ناکام ہوچکا ہوں۔ ان کے مطابق ٹرک کی سجاوٹ میں 10 سے 15 روز لگتے ہیں جس پر 4 ہزار سے 40 ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں گل محمد بہت زیادہ مصروف رہتے تھے اور ان کی روزانہ کی آمدنی ہی 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان تھی۔ ٹرک کے مالکان گاڑیوں کی سجاوٹ کیلئے گل خان کے فارغ ہونے کا انتظار ہفتوں ہنسی خوشی کرتے تھے۔ ہر ٹرک آرٹسٹ ایک خاص تصویر کا ماہر ہوتا ہے، گل خان کی یہ خاص تصویر وائٹ ہارس ہے جس میں پر لگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر، پہاڑیاں، پھولوں کے ڈیزائن اور دیگر تصاویر وغیرہ بنانے میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے۔ گل خان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دو ہزار سے زائد ٹرکوں کو رنگ چکے ہیں، تاہم انتہاپسندی بڑھنے سے انہیں اپنے کام کی تیکنیک تبدیل کرنا پڑی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر خوشی ہوتی تھی، مگر اب ایسا نہیں کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہوتا ہے، اب میں خطاطی کرنا پسند کرتا ہوں، جبکہ مجھے پہاڑی مناظر، شاہراہوں اور درختوں کی تصاویر بنا کر بھی مزہ آتا ہے۔ میرے جیسے فنکار انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر کافی رقم کمالیتے ہیں، مگر میں ان تصاویر کو بنانا اب گناہ سمجھتا ہوں۔ گل خان کے مطابق اکثر ٹرک مالکان کا کہنا ہے کہ آخر اپنی رقم کیوں کسی ایسے گھوڑے کی تصویر پر خرچ کروں جس کے سر پر خاتون کا چہرہ لگا ہو اور اس کے پرنکلے ہوئے ہوں؟ ہم نے تو حقیقی زندگی میں ایسی مخلوقات کبھی نہیں دیکھیں، جبکہ اب میرے موبائل فون میں میرے بچوں کی تصاویر موجود ہیں، اس لئے اب ٹرک پر ان کی تصاویر بنوانا بھی بے کار ہے۔ ایک آرٹسٹ کو ٹرک سجانے کیلئے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں، کوئی ٹرک مالک ہفتوں تک اپنی آمدنی کے ذریعے کو محض سجاوٹ کیلئے روکنے کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ زیادہ تر ٹرک آرٹسٹوں نے اس فن کی باضابطہ تربیت حاصل نہیں کی، تاہم ڈیرہ کے گل خان اب تک ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو اس فن کی تعلیم دے چکے ہیں۔
گل خان کا کہنا ہے کہ حکومت گلوکاروں اور مصوروں کو ایوارڈز دیتی ہے مگر وہ ٹرک آرٹسٹوں کونظرانداز کردیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنے بچوں کو اس شعبے میں نہ لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو کبھی اس پیشے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا، کیونکہ اب اس فن کا مستقبل تاریک ہے۔ ہمیں کم سے کم رقم پر کام کرنا پڑتا ہے، شدید گرمی ہو یا سردی ہمیں کھلے آسمان تلے کام کرنا پڑتا ہے، اگر حکومت نے اس فن کی سرپرستی نہ کی تو آئندہ 10 سے 12 برس کے دوران یہ دم توڑ دے گا۔
ادھر پاکستا ن کی بسوں اور ٹرکوں پر بنائے جانے والے نقش ونگار نے اب بین الاقوامی موٹر سائیکل ساز کمپنیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ نیو یارک کے ایک موٹر شو میں ایسی بائیکس پیش کی گئیں جن پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رنگین نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ شہزور ٹرک کی مانند سجی سنوری ان بایئکس پرکی گئی رنگین ڈیزائنگ میں مختلف فکشن اورویڈگیم کے کردار نمایاں تھے۔
ٹرک آرٹ کو فروغ دینے کیلئے مختلف ممالک میں نمائشوں کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کا ہنستا مسکراتا اور رنگا رنگ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے پاکستان کے عالمی شہریت یافتہ ٹرک آرٹ کی دلچسپ نمائش لیوٹن میں سٹاک ووڈ ڈسکوری سینٹر پر شاندار رنگوں اور کامیابی کے ماحول میںہوئی۔ موروں، عقابوں، پھولوں اور قدرتی مناظر کی رنگا رنگ پینٹنگز سے مزین ایک بیڈفورڈ ٹرک سٹاک ووڈ ڈسکوری سینٹر میں لیوٹن میلہ کی دلچسپی کا محور رہا۔ پاکستانی فنکار حیدر علی اور برٹش فوک ویگن آرٹسٹ روری کاکس ہل کی قیادت میں 20 نوجوان برطانوی اور پاکستانی نژاد فنکاروں نے بیڈفورڈ ٹرک کی پینٹنگ اور اسے آراستہ کرنے میں حصہ لیا۔ نوجوانوں کی ایک 12رکنی ٹیم نے ٹرک آرٹ سیکھنے کیلئے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔
ٹرک باڈی میکرز کا کام ملک کا فخر ہے فرانس، اٹلی، جاپان سمیت تمام ممالک کے سیاح خصوصی طور پر ان ٹرکوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن یہ کام کرنے والوں کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا کہ اس کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے کر باقی صنعتوں کی طرح مراعات دی جائیں۔ جن شہروں میں یہ فن پروان چڑھا اور وہاں بڑے بڑے استاد اب بھی قیام پذیر ہیں ان کی مکمل سرپرستی کی جائے اور اس فن کو ترویج دینے کیلئے مالی وسائل فراہم کئے جائیں۔