وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ یہ مثال شہید ایس پی سی آئی ڈی چوہدری محمد اسلم خان پر پوری اترتی ہے کیوں کہ 1984میں کراچی پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کی حیثیت سے بھرتی ہونے والے محمد اسلم خان کے ساتھ ٹریننگ کرنے والے اہل کار افسران اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے ساتھ رہنے والا یہ ہنس مکھ نوجوان ایک دن نہ صرف سندھ پولیس بل کہ پورے پاکستان کا ایک درخشاں ستارہ بن کر ابھرے گا۔
تربیت مکمل کرنے کے بعد چوہدری اسلم کو کراچی کے متعدد تھانوں میں تعینات کیا گیا، لیکن اس پر عزم نوجوان کی منزل کچھ اور ہی تھی۔ اس میں ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے کی ہمت تھی۔ اسلم خان کو بہادری اور حوصلہ دکھانے کا موقع اُس وقت ملا جب وفاق نے سندھ میں آپریشن کا آغاز کیا۔ کراچی آپریشن نے چوہدری اسلم خان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا اور انہوں اس آپریشن میں بھرپور حصہ لے کر اپنے افسران کو اپنی صلاحیتیں، عزم اور بہادری دکھا دی۔
دیکھا جائے تو چوہدری اسلم کی ترقی کا سفر 1992کے آپریشن کے بعد ہی شروع ہوتا ہے انہوں نے جرائم پیشہ عناصر کے دلوں میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ آپریشن چاہے طالبان کے خلاف ہو یا لیاری گینگ وار کے خلاف انہوں نے ہر موقع پر اپنی بہادری کا سکہ جمایا۔ خطرناک سے خطرناک آپریشن میں بھی وہ ہمیشہ کلف لگے بے داغ سفید کرتا شلوار پہنے اور ایک ہاتھ میں اپنے پسندیدہ پستول 9MMتھامے سگریٹ کے کش لگاتے نظر آئے۔ کراچی پولیس اور خصوصاً اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کے لیے وہ ایک رول ماڈل تھے، اُن کی بہادری دوسرے پولیس افسران اور اہل کاروں کے لیے باعث فخر تھی۔ جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسندوں کے خلاف ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’پاکستان پولیس میڈل‘‘،’’قائداعظم پولیس میڈل‘‘، اور گذشتہ سال تئیس مارچ کو صدر پاکستان (سابق) کی جانب سے ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ بدقسمتی سے طالبان نے ہم سے ہمارا ایک قیمتی اثاثہ چھین لیا ہے۔ چوہدری محمد اسلم خان کی پیشہ ورانہ زندگی خطرات سے کھیلتے گزری، جس میں کئی ڈرامائی موڑ آئے۔ پولیس کے لی جرأت کی مثال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے لیے خوف کی علامت بن جانے والے اس آفیسر کی یادیں ان کے ساتھیوں کے دلوں میں محفوظ ہیں۔ اس حوالے سے چوہدری اسلم خان کے قریبی دوستوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے افسران سے کی جانے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
٭ان کی دلیری یاد آتی ہے
علی رضا ( ڈی ایس پی، سی آئی ڈی)
علی رضا کا شمار مرحوم چوہدری اسلم خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ علی رضا چوہدری اسلم کی ٹیم کا حصہ تھے اور انہوں نے چوہدری اسلم کے ساتھ متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا۔ سندھ پولیس کے اس مایہ ناز افسر کی شہادت نے ڈی ایس پی علی رضا کو نہ صرف ایک مہربان افسر بل کہ ایک ایسے انسان سے بھی محروم کردیا جسے وہ اپنا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔
اس حوالے سے علی رضا کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم ہمارے لیے سگے بھائیوں کی طرح تھے۔ وہ ہم سب کے ہمدرد تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسا ہمارا افسر نہیں بھائی شہید ہوا ہے۔ ان کی ہر بات ہی بہت یاد آتی ہے۔ ان کی دلیری یاد آتی ہے۔ وہ ایک دلیر آدمی تھے۔ جبھی ان پر چھپ کر حملہ کیا گیا۔ ورنہ حملہ آور روڈ پر آکر لڑتے۔ انہوں نے ڈھائی سال پہلے ہی کہا تھا کہ مجھ سے روڈ پر آکر لڑو لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ ان جیسے بہادر لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔
٭ وہ ہر ایک کے سر پر سایہ تھا
رستم نواز (ڈی ایس پی)
ڈی ایس پی رستم نواز کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم شہید میرا بیج میٹ تھا۔ 1984میں ہم ایک ساتھ بھرتی ہوئے ایک ساتھ ٹریننگ اور پیشہ ورانہ کورسز کیے۔ چوہدری اسلم جیسا بہادر اور دلیر شخص میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، اُس نے اے ایس آئی کے طور پر بھی بہت کارنامے سر انجام دیے، سب انسپیکٹر کی حیثیت سے بھی بہت کارنامے سر انجام دیے، غرض کہ اے ایس آئی سے لے کر موجودہ عہدے تک اس کے اتنے کارنامے ہیں کہ اگر میں انہیں بیان کرنے بیٹھوں تو پورا دن گزر جائے، لیکن اس کے کارنامے ختم نہ ہوں۔ وہ ایک پرسنالٹی تھا اور جب تک یہ دنیا قایم ہے اس کا نام زندہ رہے گا۔ وہ شہید ہے اور شہید مرتے نہیں ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہوگا، سن رہا ہوگا۔ وہ ہر پولیس افسر، سپاہی، عام آدمی کے سر پر ایک سایہ تھا۔ سب کو پتا تھا کہ اسے کوئی مسئلہ ہوگا اور وہ چوہدری اسلم کے پاس جائے گا تو وہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور وہ اُن سب کے مسئلے حل کرتا بھی تھا۔ اﷲ اُس کی مغفرت کرے اور اس کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا کرے اور اُن کی حفاظت کرے۔ ڈی ایس پی رستم نواز کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس اور کراچی پولیس ایک بہترین فورس ہے، مرحوم چوہدری اسلم نے بڑے بڑے کیس حل کیے اُن کے قتل میں ملوث کچھ ملزمان پکڑے گئے ہیں اور کچھ مزید پکڑے جائیں گے لیکن ہمیں دکھ صرف اس بات کا ہے کہ اب چوہدری اسلم ہم میں نہیں ہے۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ پولیس میں اس کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ وہ ایک بہترین دوست، مہربان افسر اور ہر کسی کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنے والا شخص تھا۔ چوہدری اسلم شہید تا حیات ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔
٭بہترین دوست چلا گیا
محمد زبیر(ڈی ایس پی، کورٹ پولیس)
چوہدری اسلم شہید میرا بیج میٹ تھا۔ ایک ہی دن ہماری سروس کی شروعات ہوئی ۔ ہم دونوں نے کافی وقت اکٹھے گزارا کیوںکہ ہم ایک ہی بیرک میں ساتھ رہتے تھے، ساتھ ٹریننگ کرتے تھے۔ اُس کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے شاید وہ کبھی نہ بھر سکے اُس کی کمی ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہادری کے ساتھ خداداد صلاحیتیں بھی دی تھیں اسے جو بھی مشکل سے مشکل ٹاسک دیا گیا وہ اس نے بہت اچھے طریقے سے سر انجام دیا۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستوں کی طرح رہا۔ اُس کی شہادت نے کراچی پولیس کو ایک بہادر افسر اور ہمیں ایک بہترین دوست سے محروم کر دیا ہے۔
٭ہر آپریشن میں سب سے آگے
ایم اعظم دُرانی (ایس ڈی پی او گلبرگ)
ایم اعظم دُرانی کا شمار بھی چوہدری اسلم شہید کے دیرینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ساتھ کراچی سے بھرتی ہوئے۔ چوہدری اسلم کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے ایم اعظم دُرانی کا کہنا ہے کہ وہ فلاحی کام کرنے والے انسان تھے۔ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہنا، لوگوں کے کام آنا ان کی عادت تھی۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ اُن پر متعدد بار بار حملے ہوئے، لیکن ہر حملے کے بعد بجائے ڈرنے کے اُن کا حوصلہ اور بلند ہو جاتا تھا۔ وہ ہر آپریشن میں بنا بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے، جس پر ہم اُن سے کہتے بھی تھے کہ کچھ زیادہ نہیں لیکن کم از کم بلٹ پروف جیکٹ پہن لیا کرو، لیکن وُہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے ایک ہی بات کہتے تھے،’’موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ جس دن آنی ہوگی تو اس دن آکر رہے گی۔ موت کو کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں روک سکتی۔‘‘ ان کا ہر آپریشن بہت ہائی لیول کا ہوتا تھا اور ہمیں یقین ہوتا تھا کہ وہ (چوہدری اسلم ) اس آپریشن کو کام یابی سے مکمل کر کے ہی لوٹیں گے۔ وہ بڑے سے بڑے آپریشن کو بھی بہت نارمل لیتے تھے۔
ہم سب ان سے کہتے تھے کہ اپنے گھر والوں کو ملک سے باہر منتقل کردو اور خود بھی احتیاط کیا کرو، لیکن اُنھیں کبھی بھی موت سے خوف محسوس نہیں ہوا۔
٭ان کی چڑ۔۔۔اپنے نام سے مارے جانے والے چھاپے
سرور کمانڈو (انسپیکٹر)
انسپیکٹر سرور کمانڈو کے چوہدری اسلم خان شہید کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ انہوں نے چوہدری اسلم کے شانہ بہ شانہ متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا۔ چوہدری اسلم کی شہادت نے اُن کے گھر والوں کے بعد جن افراد کو سب سے زیادہ رنجیدہ کیا ہے اُن میں سے ایک قابل ذکر نام سرور کمانڈو کا بھی ہے۔ چوہدری اسلم کے بارے میں سرور کمانڈو کا کہنا ہے کہ وہ دل کے کُھلے اور بہت ہی شفیق انسان تھے۔ جہاں تک تعلق ہے اُن کے ساتھ کیے گئے آپریشن کی تو وہ خطرناک سے خطرناک آپریشن میں بھی آگے آگے ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی سروس کے دوران پیش آنے والے مسائل کا سامنا بہت خندہ پیشانی سے کیا۔ میں نے انہیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمیشہ بہت پرسکون دیکھا۔ انہیں بس ایک بات سے بہت چِڑ ہوتی تھی اور وہ بات یہ تھی کہ بہت سے لوگ میرے اور اسلم صاحب کے نام سے چھاپے مارتے تھے۔ یہ بات انہیں پریشان کرتی تھی اور وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں اور سرور کمانڈو بھی تو اپنے نام سے چھاپا مارتے ہیں ہم کسی دوسرے کے نام نہیں لیتے تو پھر وہ خوف کی وجہ سے ہر چھاپے میں ہمارا نام کیوں استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے اُن کی بہادری کی تو اُس میں اُن (چوہدری اسلم) کا کوئی ثانی نہیں ہے اور آج سے پانچ سال پہلے بھی اسی طرح سفید کلف لگے کرتا شلوار میں ملبوس ہوکر آپریشن میں حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ موت کی آنکھوں میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا۔ میں خطرناک ترین آپریشن کے دوران بھی انہیں ڈرتے یا خوف محسوس کرتے نہیں دیکھا۔ ان جیسا جری اور بہادر شخص کراچی پولیس کا اثاثہ تھا، لیکن دہشت گردوں نے اُسے ہم سے چھین لیا۔
٭آپریشن کے دوران موٹرسائیکل پر سفر
حسن کشمیری (دیرینہ دوست)
شدت غم سے نڈھال اور بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ چوہدری اسلم شہید کے دیرینہ ساتھی حسن کشمیری نے بتایا کہ میرا اور اس ساتھ 23سال پر محیط تھا۔ میں نے اُس جیسا باہمت اور بہادر انسان آج تک نہیں دیکھا۔ اُس کی بہادری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ 1992کے آپریشن کے بعد جب وہ معطل تھا تو میرے ساتھ اِسی شہر کراچی میں موٹر سائیکل گھوما کرتا تھا اور میرے خیال میں اُس وقت اُس کی حفاظت کے لیے بکتر بند گاڑی بھی ناکافی ہوتی، لیکن وہ دلیری کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومتا تھا۔ میں اُسے کبھی موت سے خوف زدہ ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ حقیقت میں شیر تھا شیر۔ وہ بہت بلند حوصلہ تھا۔ وہ تو اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتا تھا۔ جب اُس کے گھر کو دھماکے سے اڑا گیا تو سب سے پہلے امدادی کارروائی کرنے والا وہ خود تھا۔ اُس وقت بھی وہ پہلے سے زیادہ بلند حوصلہ تھا اس کا حوصلہ چٹانوں سے زیادہ مضبوط تھا۔ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد وہ اور بہادر ہوگیا تھا اور اپنے ہی گھر کے باہر بم دھماکے سے بننے والے گڑھے کی طرف اشارہ کرکے اس نے کہا تھا،’’یہاں، اسی گڑھے میں سب کو دفن کروں گا۔‘‘ اس سے زیادہ بہادری اور حوصلے کی بات کیا ہوگی۔
اُس کی ہر بات یاد آتی ہے اتنا پُرخلوص، نرم دل کے جب اُس سے ذاتی طور پر ملو تو کہیں سے پولیس افسر لگتا ہی نہیں تھا۔ میں تو کچھی گرائونڈ گل بہار میں ہونے والی کھلی کچہری میں اُس لڑکے کی ماں کو چوہدری اسلم کی تعریف کرتے دیکھا جس کے جوان بیٹا اُس (چوہدری اسلم) کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اِس سے زیادہ میں اُس شخص کی کیا تعریف کروں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں اُس سے پوچھا کہ اتنے حفاظتی اقدامات کیوں تم تو آزادی کے ساتھ گھومتے تھے ہمارے ساتھ چبوترے پر بیٹھ جاتے تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’حسن بھائی اُس وقت گولیوں والوں سے مقابلہ تھا ۔اب بم ہے بم۔‘‘
چوہدری اسلم نے تھوڑے عرصے پہلے بتایا کہ مجھے (چوہدری اسلم) شاہد اﷲ شاہد (طالبان ترجمان) نے فون کیا مجھے دوسرے لوگوں کے بھی فون آتے ہیں۔ کہ باز آجائو، وہ بھی ہمارے ہیں تم بھی ہمارے ہوں لیکن میں نے انہیں کہ دیا کہ فرض کے آگے کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے اُس بندے (چوہدری اسلم) کے اچھے اور بُرے دن دونوں دیکھے میں نے اُس کا وہ وقت بھی دیکھا۔ جب وہ معطل تھا اور سب نے اُس سے آنکھیں پھیر لی تھی لیکن وہ بہت بہادر اور نڈر آدمی تھا وہ حقیقت میں شیروں کی طرح بہادری سے جیا۔
وہ جیل میں رہا لیکن اُسے اس بات پر بھی فخر تھا وہ کہتا تھا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ باعزت بری ہوا۔ میں نے اُسے گلبہار کی گلیوں میں موٹر سائیکل پر گھومتے دیکھا۔
میں اُسے احتیاط کرنے کا کہتا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ موت کو کوئی نہیں ٹال سکتا ہے ہر آپریشن میں وہ سب آگے ہوتا تھا۔
ہر آپریشن میں وہ سب آگے لڑتا تھا میں اُسے احتیاط کا کہتا تو اُس کا جواب یہی ہوتا تھا،’’اگر کمانڈر بہادری سے لڑے تو سپاہی بھی جواںمردی سے لڑتے ہیں۔‘‘ اُس کی بیوی بھی بہادر خاتون ہے اور وہ اپنے فرزندوں کو بھی اپنے شوہر کی طرح بہادر بنائے گی۔
حملوں کی زد میں زندگی
سی آئی ڈی انتہا پسندی سیل کے سر براہ چوہدری محمد اسلم خان پر اس سے قبل بھی حملے کیے گئے تھے۔ اِن پر پہلا حملہ 4جنوری2006 میں گزری کے علاقے پنجاب چورنگی پر ہوا دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک اے ایس آئی عارف شہید ہوگیا تھا۔ تاہم چوہدری اسلم اور ان کے دیگر ساتھی اس حملے میں محفوظ رہے۔
ان پر دوسرا حملہ19ستمبر2011کو درخشاں تھانے کی حدود میں واقع اِن کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اس حملے میں دھماکا خیز مواد سے بھری ڈبل کیبن گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں چوہدری اسلم اور اِن کے اہل خانہ معجزانہ طور محفوظ رہے۔ اس حملے میں ان (چوہدری محمد اسلم) کا بنگلہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا، جب کہ اطراف کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں ایک معصوم بچے اور تین پولیس اہل کاروں سمیت 8افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
20جولائی2013 کو عیسیٰ نگری کے علاقے میں چوہدری محمد اسلم خان کے کانوائے کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ اس کوشش میں کام یاب نہیں ہوسکے اور میونسپل کمشنر متانت علی کی گاڑی اس حملے کی زد میں آکر تباہ ہوگئی تھی۔ چوہدری محمد اسلم خان پر چوتھا حملہ عیسی نگری کی حدود میں لیاری ایکسپریس وے پر کیا گیا۔ اس حملے میں وہ اپنے دو محافظوں سمیت جاں بحق ہوگئے۔ دھماکے نتیجے میں اُن کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے کے بعد لیاری ایکسپریس وے کی حفاظتی ریلنگ کا تقریباً6فٹ لمبا اور4فٹ چوڑا بلاک ٹوٹ کر نیچے جا گرا اور سڑک پر 20 فٹ لمبا دراڑیں پڑگئیں۔ جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے والی ڈسپوزایبل اسکواڈ کی ٹیم کے مطابق دھماکے میں 25سے 30کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا اور اس بم کو یونی ڈائریکشن پر رکھا گیا تھا جس کا مقصد اپنے ہدف کو سو فیصد نشانہ بنانا ہوتا ہے، جب کہ دہشت گردوں نے اس ریموٹ کنٹرول بم میں بال بیرنگ بھی استعمال کیے۔
دوسری جانب جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سی آئی ڈی افسر راجہ عمر خطاب اسے خود کش حملہ قرار دیتے رہے، جب کہ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی ٹیم نے اس دھماکے کو بارود سے بھری ہائی روف کے ٹکرانے کا نتیجہ قرار دیا۔ اس حوالے سے ایس آئی یو کے افسران کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات اس لیے زیادہ ہیں کہ جائے وقوعہ سے ہائی روف کے کچھ پرزے بھی ملے ہیں۔ تاہم تادم تحریر تحقیقاتی ٹیمیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہیں۔ چوہدری اسلم اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے اہل کاروں کو مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ سپر د خاک کردیا گیا ہے۔ اُن کی نماز جنازہ میں پاک فوج کے اسٹیشن کمانڈر، وزیراعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہ نمائوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ وزیراعظم نوازشریف نے چوہدری اسلم خان پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ایسے حملے دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے چوہدری اسلم پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے اور انہوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جان دی، انہوں نے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ وہ شہید افسر کے اہل خانہ کا ہر ممکن خیال رکھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے چوہدری اسلم کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں دہشت گردی کی کارروائیاں سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
طالبان نے ذمے داری قبول کرلی
کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے ایس پی چوہدری محمد اسلم خان پر حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی نے قبول کرلی ہے۔ طالبان ترجمان سجاب مہمند کا کہنا ہے کہ ہم کام یاب حملہ کرکے پولیس کی جانب سے مارے گئے متعدد طالبان کی موت کا بدلہ لیا ہے۔ چوہدری اسلم نے ہمارے کئی ساتھیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ اور متعدد کو قتل کیا، جس کی بنا پر وہ ہماری ہٹ لسٹ پر تھے۔
مجرموں کے لیے دہشت کی علامت
طالبان حملے میں شہید ہونے والے ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم جرائم پیشہ افراد کے لیے دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔31نومبر1984کو اے ایس آئی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والے چوہدری اسلم خان نے 1992میں کراچی میں ہونے والے آپریشن کے دوران ان کائونٹر اسپیشلسٹ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ لیاری گینگ وار کے سر غنہ عبدالرحمان بلوچ کی ہلاکت ، اور انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان کی گرفتاری بھی چوہدری اسلم کے ہاتھوں ہوئی۔ ویسپا اسکوٹر سے سی آئی ڈی کے ہیڈ کوارٹر میں پراڈو پر آنے والے چوہدری اسلم نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ ان کا تعلق خیبر پختون خواہ کی تحصیل مانسہرہ سے تھا۔ انہوں نے کراچی کے متعدد تھانوں میں بطور ایس ایچ او خدمات سر انجام دیں۔ 1992سے چوہدری اسلم کا عروج شروع ہوا اور اس آپریشن میں انہیں’’ان کائونٹر اسپیشلسٹ ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ ان پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی لگے ۔
2007 میں چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم پر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث اہم ملزم معشوق بروہی کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا اور ان سمیت 53پولیس افسران اور اہل کاروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جن میں عرفان بہادر، سرور کمانڈو، ناصر الحسن (شہید) کا نام قابل ذکر ہے۔2010میں انہیں سی آئی ڈی کے سربراہ کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ اسلم خان نے لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت سے لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف متعدد کارروائیاں بھی کیں، جس پر لیاری گینگ وار کے موجودہ سربراہ عذیر جان بلوچ نے بھی قتل کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ چوہدری اسلم خان کا نام طالبان اور انتہاپسندوں کے لیے بھی دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور شہادت والے دن ہی انہوں نے منگھو پیر میں ہونے والے پولیس مقابلے میں تین شدت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔