دنیا میں ہر جگہ کی اپنی ایک خاص شنا خت ہے، کچھ مقامات مذہب کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں تو کچھ ممالک کی وجہ شہرت وہاں پیدا ہونے یا بننے والی مصنوعات ہیں۔
فرانس کے شہر پیرس کو خوشبویات سے جوڑا جاتا ہے تو مصر اپنے پراسرار اہرام اور ممیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ مقامات ایسے ہیں جن کی شہرت کہ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی تاریخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، جن کا احوال درج ذیل ہے:
٭ زندگی اور موت کی ایک عجیب کہانی
تین دسمبر1967، نسلی عصیبت کے شکار ملک جنوبی افریقا میں سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہی تھیں۔ دارالحکومت کیپ ٹاؤن کے Groote Schuur اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں ایک پُراسراریت سی چھائی ہوئی تھی۔ آج یہ اسپتال دنیا بھر میں جنوبی افریقا کی ایک نئی شناخت بنانے جا رہا تھا۔ صبح چھے بجے پروفیسرکرسٹیان نیتھلگ برنارڈ نے مضطربانہ انداز میں سرجیکل ماسک کے پیچھے سے ڈینس ڈارویل کے دل کو دیکھا، جو بے ترتیبی کے ساتھ زندگی کی طرف واپس آرہا تھا، اس کی دھڑکن ردھم میں آرہی تھی۔
اس سارے منظرنامے میں ایک بات نہایت غیرمعمولی تھی۔ ڈینس ڈارویل کا دل اب ایک دوسرے فرد لوئس وشکان اسکائے کے سینے میں دھڑک رہا تھا۔ ڈینس ڈارویل کا دھڑکتا دل ایک جیتا جاگتا انسانی معجزہ تھا۔ دنیا کی طبی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص کا دل دوسرے انسان کے سینے میں زندگی کی لو جلا رہا تھا۔ طبی تاریخ کے اس معجزے نے راتوں رات کیپ ٹاؤن کو دنیا بھر کے اخبارات کی شہہ سُرخی بنادیا۔ ہارٹ سرجن برنارڈ راتوں رات ایک عام سرجن سے سیلے بریٹی بن گئے۔ دنیا میں تبدیلی قلب کے اس پہلے آپریشن کی لمحہ بہ لمحہ کی داستان پوری دنیا میں سنائی گئی۔
ڈاکٹر برنارڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیپ ٹاؤن میں Groote Schuur اسپتال کے ساتھ ہی ’دی ہارٹ آف کیپ ٹاؤن‘ کے نام سے ایک میوزیم قائم کیا گیا۔ اس میوزیم کے بانی اور میوزیم کے مہتمم Hennie Joubertکا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ایک میوزیم نہیں ہے، یہ ایک تاریخی ورثہ ہے‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں طبی تاریخ کا ایک محیر العقل معجزہ رونما ہوا۔ جوبرٹ کا کہنا ہے کہ یہ اسپتال اب کیپ ٹاؤن کا سب سے بڑا اسپتال بن چکا ہے اور یہاں علاج کے لیے آنے والے مریض اس میوزیم کا بھی لازمی دورہ کرتے ہیں۔
جوبرٹ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر برنارڈ اور میرے والد نے تعلیم کا آغاز ایک ساتھ یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤ ن سے کیا تھا، لیکن بعد میں برنارڈ جراحی کی دنیا میں چلے گئے اور میرے والد نے سیریس قصبے میں جنرل پریکٹس کا آغاز کردیا۔ طبی تاریخ میں انقلاب برپا کرنے والے ڈاکٹر کرسٹیان برنارڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جوبرٹ نے 2006 میں اپنے کاروبار کو فروخت کرکے میوزیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور دنیا میں تبدیلیٔ قلب کے پہلے آپریشن کی چالیسویں سال گرہ کے موقع پر اس میوزیم کو کھولا گیا۔ اس بابت جوبرٹ کا کہنا ہے کہ میوزیم میں حقیقی آپریشن تھیٹر کی بحالی اور ان تاریخی لمحات سے جُڑی ہر شے کو بنانے جمع کرنے کے لیے ساڑھے چار لاکھ پاؤنڈ کی رقم اپنی جیب سے لگا چکا ہوں۔ اس آپریشن سے پہلے جنوبی افریقا ایک ایسا ملک تھا جو اپنی پالیسیوں اور نسلی امتیاز کی وجہ سے دنیا بھر سے الگ تھلگ تھا۔ ڈاکٹر برنارڈ کی کام یابی نے دنیا بھر میں موت کی قانونی تشریح تبدیل کی۔
ڈاکٹر برنارڈ کے تبدیلیٔ قلب کے آپریشن سے پہلے امریکا کے ڈاکٹر رچرڈ لوور اور ڈاکٹر نارمین شموے پچاس کی دہائی میں ایک کُتے کے دل کی منتقلی کا کام یاب تجربہ کرچکے تھے، لیکن امریکی قانون کی وجہ سے وہ تبدیلی قلب کا تجربہ انسانوں پر نہیں کر سکے، کیوں کہ امریکی قانون کے تحت صرف حرکت قلب بند ہونے کے بعد ہی کسی فرد کو قانونی طور پر مردہ قرار دیا جاسکتا ہے، جب کہ جنوبی افریقا کے قانون کے تحت دماغی طور پر مردہ ہوجانے والے فرد کو قانونی طور پر مردہ قرار دے کر اس کے اعضا عطیہ کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر رچرڈ نے ایک مریض بروس ٹکر کے لواحقین کے علم میں لائے بنا انسانوں میں تبدیلی قلب کا آپریش کرنے کے لیے اس کا دل نکال لیا۔ بروس کے لواحقین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر رچرڈ پر بروس کی غلط موت کا کیس دائر کردیا۔ طویل قانونی کارروائی کے بعد1972میں بالآخر لوورکو اس الزام سے بری کرتے ہوئے موت کا تعین کرنے کے لیے امریکی قانون میں تبدیلی کی گئی۔ لیکن اس وقت تک ڈاکٹر برنارڈ تبدیلی قلب کا آپریشن کرنے والے دنیا کے پہلے سرجن بن چکے تھے۔ اور اب یہ اعزاز جنوبی افریقا کے پاس ہی رہے گا۔
٭ فجی نے ہمارے سفر کے طریقے تبدیل کردیے
گلوبل پوزیشنگ سسٹم (جی پی ایس) کے بارے میں آج ہم سب ہی جانتے ہیں، ٹیکنالوجی کی اس نئی جہت نے ہمارے سفر کے طریقہ کار کو یکسر ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں پہلی بار جی پی ایس کا استعمال خوب صورت جزائز پر مشتمل ملک فجی سے کیا گیا۔ ہوابازی کے نظام میں جی پی ایس کی شمولیت فجی کے جزائز سے کی گئی، جس نے ہمارے پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک کے سفر کرنے کے طریقۂ کار کو بدل دیا۔ ستر کے عشرے میں امریکی فوج نے پہلے سے موجود نیوگیشن کے طریقۂ کار کو بہتر بنانے کے لیے جی پی ایس ڈیولپ کیا۔ اس وقت تک فلائٹ نیوی گیشن راڈار اور بصری طور طریقوں پر منحصر تھی۔ 1940تک ہوا باز زمین پر بنائے گئے سگنل اسٹیشن کی مدد سے روٹ کا تعین کرتے تھے، یا پھر ریڈیو سگنل اور بصری نشانات انہیں راہ نمائی فراہم کرتے تھے۔
مثال کے طور پر اس وقت فجی کے صرف پانچ کنٹرول ٹاور ریڈیو سگنل اسٹیشن سے لیس تھے، اور باقی ملک کی اسی فی صد فضائی حدود میں ہواباز کی مدد کے لیے کوئی راڈار نہیں تھا۔ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوابازوں کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ ریڈیو سگنل اسٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے انہیںRECKONING (نیوی گیشن کی ایک تیکنیک جس میں آخری جانی گئی لوکیشن کی بنیاد پر موجودہ لوکیشن کا اندازہ لگایا جاتا ہے) یا فلک پیمائی (سورج ، چاند اور ستاروں کی حرکت سے سمت کا تعین کرنا) کا طریقہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک فلائٹ نیویگیٹر ہوا بازوں کا نیوی گیشن کا بوجھ کافی حد تک کم کر دیتے تھے۔ جی پی ایس کی بدولت سیٹلائیٹ اور زمین پر اس کے محل وقوع کے درمیان مثلثی تقسیم کا ڈیٹا جہازوں کے درست محل وقوع سے متواتر آگاہ کر تا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے 1978میں 24 سیٹلائیٹ خلا میں بھیج کر جی پی اسی کے نظام کو مکمل کرنے کے پندرہ سالہ پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔
ابتدائی طور پر امریکی محکمۂ دفاع اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر عوام سے فیس وصول کرتا رہا، 1983میں سابق سوویت یونین کی جانب سے ممنوعہ فضائی حدود میں غلطی سے داخل ہونے والے کوریا کے مسافر بردار طیارے کو تباہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار 269افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے جی پی ایس سروس کو دنیا بھر میں مفت فراہم کرنے کا اعلان کردیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے سانحات سے بچا جاسکے۔ اس اعلان کے بعد نجی کمپنیوں نے بھی شہری استعمال کے لیے ایکوئپمنٹ تیار کرنے شروع کردیے۔ 1993کے اواخر تک پندرہ سالہ پراجیکٹ کے آخری اور چوبیسویں سیٹلائٹ کو آن لائن کردیا گیا اور اپریل 1994میں فجی کو آفیشیلی نیوی گیشن سسٹم میں جی پی ایس شامل کرنے والے دنیا کے پہلے ملک کا اعزاز مل گیا۔ اور آج دنیا بھر میں ہوائی جہاز سمندروں پر کئی کئی گھنٹے طویل پروازیں کر رہے ہیں۔ اور جی پی ایس کی بدولت ہمارے زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔
٭وہ شہر جس نے ہمیں وقت بتانا سکھایا
وقت ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جو اگر ہاتھ سے نکل جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کام یابی نے ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیا جو وقت شناس اور اس کے قدر داں ہوتے ہیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے ’وقت ازدست رفتہ و تیز از کمان جستہ بازینا ید‘ یعنی ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔ کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمدورفت کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ سے اس شہر کا نام پوچھا جائے جہاں سے ’وقت‘ کی فروخت کا آغاز ہو ا تو یقیناً بہت سے لوگ اس سوال کو احمقانہ سوال سمجھ کر نظرانداز کردیں گے، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ وقت کی فروخت کا آغاز امریکی ریاست میسا چیوٹیس کے ایک شہر والتھیم سے ہوا۔ اسی شہر سے نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرینوں کی آمدورفت کو وقت سے مشروط کیا گیا۔
اٹھارہویں صدی کے وسط میں اس شہر میں والتھیم واچ کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے قبل تک یہ شہر صنعتی اور تیکنیکی ایجادات کا مرکز تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک اس شہر میں تیار ہونے والی گھڑیاں مکمل طور پر انفرادی حیثیت میں تیار کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے یہاں بننے والی گھڑیاں بہت مہنگی اور تاخیر سے بنتی تھیں اور صرف امرا ہی گھڑی رکھنے کے متحمل ہوسکتے تھے ، جب کہ ایک ہی وقت بتانے کے لیے دو ٹائم پیس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دنیا کو درست وقت بتانے کے سفر کا آغاز بوسٹن کے ایک گھڑی ساز Aaron Lufkin Dennison کی کوششوں سے ہوا، ایک دن ڈینی سن کومیسا چیوٹٰس کی اسپرنگ فیلڈ میں واقع فوجی اسلحہ خانہ جانے کا موقع ملا۔ وہ وہاں بننے والے سازوسامان کی تیاری میں ان کی مہارت سے بہت متاثر ہوا اور واپس آکر اس نے فوجی طریقۂ کار کو لاگو کرتے ہوئے گھڑی سازی کے کام کا آغاز کیا۔ اس نے مزدوروں کے لیے سب ڈیویژن بناتے ہوئے ایسے آلات بنانے شروع کیے جنہیں ایک ہی ماڈل کی گھڑی میں آسانی سے استعمال کیا جاسکے۔
اپنے کام کو بڑھانے کے لیے اس نے کچھ سرمایہ کاروں کو راضی کیا اور بوسٹں واچ کمپنی کے نام سے گھڑی سازی کے کام کی شروعات کی۔ 1854میں ڈینی سن ویلتھم منتقل ہوگیا اور اپنی کمپنی کو ’ ویلتھم واچ کمپنی‘ کا نیا نام دے دیا۔ یہ اسمبلی لائن تیکنک استعمال کرنے والی امریکا کی پہلی کمپنی تھی۔ اسمبلی لائن تیکنیک کی وجہ سے گھڑیوں کی پیداوار بڑھی اور جیبی گھڑیوں کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی۔ دوسری جانب ایک جیسے آلات کے استعمال کی وجہ سے ہر گھڑی میں ایک ہی وقت ظاہر ہوتا تھا۔ دنیا بھر میں درست وقت بتانے میں اس چھوٹے سے امریکی شہر ویلتھم اورڈینی سن کا کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اور آج دنیا بھر میں گھڑیاں درست وقت بتاتی ہیں۔
٭ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز مقام
ذرا تصور کریں کہ اچانک سے اربوں ٹن وزنی چٹانیں اچانک پانی کی طرح اچھلنے لگیں تو اس پر کسی سائنس فکشن فلم کا گمان تو کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت کا نہیں، لیکن دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں66 ملین سال پہلے ایک شہاب ثاقب کے ٹکرانے کی وجہ سے ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ کئی دہائیوں کی تگ و دو کے بعد سائنس داں ان عظیم تصادم کی تفصیلی تصویر کشی کرنے کے اہل ہوچکے ہیں۔ اس دیوہیکل تصادم نے ڈائنوسارز کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا۔ 2016 میں بچھی کھچی بُھربُھری چٹانوں میں کی گئی ڈرل کی جانچ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں ابھی تک پگھلنے کا عمل جاری ہے۔
سائسی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ چٹانوں کے سفوف بننے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب خلا سے گرنے والا بارہ کلومیٹر چوڑا شہاب ثاقب پوری رفتار کے ساتھ زمین سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں تیس کلومیٹر گہرا اور سو کلو میٹر چوڑا پیالہ نما گڑھا بنا۔ یہ تصادم جس جگہ ہو وہ جگہ اب خلیج میکسیکو کی قریبی بندرگاہ Chicxulub کے نیچے دفن ہے۔ اس بارے میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے سائنس داں پروفیسر سین گیولک کا کہنا ہے کہ یہاں کی چٹانیں پگھل نہیں رہی، بلکہ انتہائی شدت کے ارتعاشی دباؤ کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہورہی ہیں۔ یہ دباؤ کا اثر ہے کہ ان چٹانوں سے گزرنے والی توانائی دس یا گیارہ زلزلے کے جھٹکوں کے برابر تھی۔ یہاں گرنے والے شہاب ثاقب کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے دس ارب ہیروشیما کی طاقت کے برابر تھی۔
انیس سو اسی کے وسط میں امریکا کے ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل ایک گروپ نے میکسیکو کے یاکٹین پینی سولاکے سیٹلائیٹ امیجز دیکھے جس نے انہیں حیرت میں مبتلا کردیا۔ اس علاقے کے دو سو کلو میٹر رقبے پر گول دائرے نما غیرمتوقع پیٹرن دکھائی دیا۔ یہ دائرہ ایوکاٹیسن کے دارالحکومت میریڈا اور ساحلی قصبوں سیسال اور پروگ ریسو کے گرد دکھائی دے رہا تھا۔ ان پر اسرار گڑھوں کی ہیت نے محققین کو دہشت زدہ کردیا۔ ماہرین آثار قدیمہ اور سائنس دانوں نے ان سیٹلائیٹ تصاویر کو 1988میں میکسیکو میں ہونے والی سائنس کانفرنس ’سیلپر‘ میں پیش کردیا۔ اس کانفرنس میں شریک ایک ماہر ارضیات اینڈریانا اوکیمپو جس نے بعد میں امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا میں ملازمت کرلی تھی، کا کہنا ہے کہ اس سیٹلائیٹ امیجز نے مجھے ڈرا کر رکھ دیا تھا کیوں کہ وہ وہ محض ایک دائرہ نہیں بلکہ ایک بپھرے ہوئے بیل کی آنکھ کی طرح خوف ناک دکھائی دے رہا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ دائرہ بارہ کلومیٹر چوڑے کسی شہاب ثاقب کے کے ٹکرانے کی وجہ سے بنا ہے، اور ناقابل بیان قوت سے ہونے والے اس ٹکراؤ نے ٹھوس چٹانوں کو پانی میں تبدیل کردیا۔ آج یہ جگہ ایک چھوٹے سے قصبے Chicxulub Puerto کے نیچے کئی سو کلومیٹر زمین میں دفن ہے اور اسے دنیا کے سب سے ہلاکت خیز مقام کا درجہ حاصل ہے جس نے روئے زمین سے ڈائنو ساز اور دیگر جان داروں کو صفحۂ ہستی سے ہی ختم کردیا۔
سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk
The post جہاں تاریخ نے جنم لیا appeared first on ایکسپریس اردو.