(۱) ’’فلمی ستاروں کی عجلت ‘‘
10 منٹ پہلے افطاری
آج سے کچھ سال پہلے کاذکر ہے کہ لاہور کے چند مقامات پر رمضان المبارک کے مہینے میں کیمپ لگائے گئے۔ ان میں ایک کیمپ شوبز کے افراد کی طرف سے والٹن روڈ نزد ڈیفنس موڑ پر لگایا گیا، ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ کیمپ کس سلسلہ میں لگایا گیا تھا۔ ہمیں بھی اس کیمپ پر افطارکی دعوت ملی، مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں پہنچے تو شوبز سے تعلق رکھنے والے کئی ستارے اور دوسرے معروف افراد بھی وہاں موجود تھے۔
افطاری کا خاص اہتمام کیا گیا تھا، کافی اشیاء تھیں مگر کچھ دیر بعد افراد کچھ زیادہ ہی ہوگئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر چند ہوشیار افراد نے اپنی پسندیدہ اشیاء سے پلیٹیں بھرنا شروع کر دیں، چند دوسرے افراد نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی افطاری پر ٹوٹ پڑے چند منٹوں میں ہی ڈشزخالی ہوچکی تھیں، سمجھ دار افراد اپنی پلیٹیں بھر کردائیں بائیں کھڑے ہو گئے تھے۔کچھ افراد کے ہا تھ کچھ نہیں آیا وہ تاسف سے اپنی سسُتی اور ’’شرافت ‘‘ کو کوس رہے تھے ، پھر ایک نسبتاً ہوشیار شخص نے روزہ کھلنے سے دس منٹ پہلے ہی کسی کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا، جب پلیٹ والے نے اپنے ’’مال غنیمت‘‘ کا یہ حشر دیکھا تو اُس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً ہی اس کے ہاتھ بھی چلنا شروع ہوگئے یہ صورتحال دیکھ کر وہاں ہڑبونگ مچ گئی۔
تقریباً تمام افراد پا نچ منٹ پہلے ہی ’’افطاری‘‘ کر چکے تھے سب کچھ صاف ہو چکا تھا۔ مگر اسکا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ کئی راہ چلتے افراد سمجھے کہ افطاری کا وقت ہو چکا ہے انھوں نے اپنے پاس موجود کسی بھی چیز سے روزہ افطار کر لیا، ان کا روزہ مکمل ہوا یا نہیں یہ تو مفتی حضرات ہی بتا سکتے ہیں، جب قریبی مسجد سے افطار کا اعلان ہوا تو ہم نے بڑی مشکل سے روزہ افطار کیا،اس تمام صورتحال سے ایک مخصوص طبقے کے متعلق عوام میں کیا تاثر پیدا ہوا اسکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، شائد ہم لوگوں میں صدیوں کی بھوک ہے جوکسی بھی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آتی ۔ رمضان کے علاوہ بھی لوگوں کا یہی رویہ نظر آتا ہے۔
(۲) ’’روزہ کھلتے ہی صبر ختم ہوگیا‘‘
ایک دینی جماعت نے مختلف حلقوں میں افطاریوں کاا ہتمام کیا،ایک راہنما ماہ رمضان کی فضیلت اور سعادتوں کا ذکر کر رہے تھے مگر مدعوئین کی اکثریت انکی بات سننے کی بجائے وہاں موجود تھی کہ جہاں افطاری اور کھانے پینے کا سامان رکھا گیا تھا، عین اُسی وقت خطیب صاحب روزہ کھولنے سے پہلے دعاؤں کی قبولیت کے متعلق بیان فرما رہے تھے، وہ بتا رہے کہ روزہ رکھ کر اپنے نفس پر قابو پانے کا اللہ کے ہاں کتنا بڑا اجّر تیار ہے مگر شائد اب زیادہ تر افراد کا نفس بے قابو ہو چکا تھا انکا دھیان صرف افطاری کا سامان اکٹھا کرنے کی طرف تھا۔
نفس کشی کی مشق آخری چند لمحوں میں ہی زائل ہو چکی تھی، اس جماعت کے سربراہ بھی اس افطارپارٹی میں موجود تھے۔انتہائی تاسف کے ساتھ انکے منہّ سے نکلا ’’سارے دن کی محنت پر ہمارے نفس نے پانی پھیر دیا، روزہ جس صبر کا درس دیتا ہے کہاں گیا،یہ سُن کر میں سوچتا رہا کہ شائد آج بھی ہم لوگ روزے کی اصل روح اور مفہوم سے ناآشنا ہیں۔
(۳)’’اجتماعی افطاری کی برکات‘‘
ہمارے مرحوم والد صاحب کے دور میں ہر سال ماہ رمضان میں کم از کم دو افطار پارٹیاں ضرور ہوتی تھیں کہ جن میں قریبی رشتہ دار، دوست احباب اور محلے دار مدعو کئے جاتے تھے، آئی جے آئی کے دور حکومت میں ہماری رہائش گاہ پر افطاری کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں اہم رہنماؤں کے علاوہ قریبی دوست صحافیوں اور سیاستدانوں کی خاصی تعداد بھی موجود تھی۔ ایم این اے میاں عثمان نے اقلیتی رہنما جے سالک کو بھی افطار پارٹی میں دیکھا تو ازراہ ِتفنن پوچھنے لگے’’ کیا تمھارا بھی روزہ ہے؟ جے سالک نے فوراً جواب دیا’’ آج میںنے بھی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی روزہ رکھا ہے‘‘ یہ سُن کر میاںعثمان کہنے لگے کہ ’’اسکا روزہ ڈبل کھلوانا ایک عیسائیوں والا اورایک مسلمانوں والا انکی یہ بات سُن کر سب بھڑک اُٹھے مگر جے سالک کہنے لگے’’جیسا دیس ہوتا ہے میں ویسا بھیس بناتا ہوں آج صرف مسلمانوں والا روزہ ہی کھولوں گا‘‘ پھر کہنے لگے کہ افطاری کے یہ مناظر مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ مسلمان ایک متحد قوم ہیں ان کی عبادات بھی اجتماعیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں ۔
چند جملوں کے بعد انھوں نے دیکھا کہ اہم شخصیات کے ڈرائیور اور ساتھ آنے والا دوسرا عملہ بھی ایک ہی جگہ بیٹھے افطار کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں تو انھیں کچھ یاد آیا، بولے’’میں اپنا ڈرائیور بھی بُلا لاتا ہوں یہ کہ کے وہ باہر نکِلے واپسی پر ایک نوجوان انکے ساتھ تھا کہنے لگے’’ یہ میرا ڈرائیور ہے‘‘ افطاری کے بعد سب نماز میں مصروف ہوگئے تو جے سالک کہنے لگے کہ اجتماعی افطاری سے احساس ہوتا ہے کہ سب برابر ہیں۔’’جے سالک کو اسلام کے اس بنیادی فلسفے کا علِم تھا کہ نہیں، جس میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا گیا ہے، انکی خوشیاں اور دکھ سانجے ہیں، ہمارا مذہب صرف اجتماعیت کا درس دیتا ہے، دینی اجتماعات میں کوئی چھوٹا بڑ ا یا کوئی حقیر فقیر نہیں ہوتا۔ دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا، کھانے میں شریک کرنا یا روزہ کھلوانے کیلئے انکے گھروں میں اشیاء بھیجنا بھی ایسی عبادت ہے کہ جسکا بے پناہ اجّر ہے۔ روزوں اور ماہ صیام کا یہی فلسفہ ہے مگر اسکا رنگ پورا سال اور زندگی کے ہر پہلو میں نظر آنا چاہیے۔
(۴) ’’بے وضو نماز‘‘
ایک ایسی افطارپارٹی میں جانے کا اتفاق بھی ہوا کہ جہاں ہر مکتبہ فِکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ملک کی روحانی و دینی شحصیات بھی شریک تھیں، افطاری کے بعد مائیک پر اعلان کیا گیا کہ نما زمغرب کا وقت ہوچکا ہے سب لوگ نماز کیلئے مخصوص جگہ پر پہنچ جائیں آدھے سے زائد افراد وہیں بیٹھے رہے، جب ایک پیر صاحب نے یہ دیکھا تو انھوں نے مائیک پر آکر کہا کہ’’ نماز تو رمضان کے علاوہ بھی فرض ہے اور نماز چھوڑنے کی کوئی دلیل یا تاویل پیش نہیں کی جا سکتی۔
روزہ کھولنے کے بعد نمازنہ پڑھنے کا کتنا بڑا گُناہ ہوگا یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘ ان کی یہ بات سُن کر وہاں بیٹھے ہوئے افراد شرمندہ ہوگئے اور نماز کیلئے چل پڑے نماز شروع ہونے سے پہلے امام صاحب نے اعلان کیا ’’ جو شخص جان بوجھ کر بے وضو نماز پڑھے وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اسکی سخت سزا ہے پانی نہ مِلے تو بھی تیمم ضروری ہے یہاں تو وضو کا باقاعدہ انتظام اور وافر پانی موجود ہے‘‘ انکی یہ بات سُن کر تقر بیاً نصِف کے قریب افراد وضو کرنے چلے گئے۔ اسوقت احساس ہواکہ ہم دین کے معاملے میں بھی منافقت کا شکار ہوتے جارہے ہیں، روزہ کھولنے والے افراد بھی نمازکی فرضیت اور اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور نماز کے آداب و فرائض سے بھی ناواقف ہیں۔
(۵)’’دیگ ہی اٹھالی‘‘
ایک دفعہ پیپلز پارٹی کی افطار پارٹی میں شرکت کا اتفاق ہوا، جہانگیر بدر مرحوم اس افطار پارٹی کے مہمان خصوصی تھے۔ اافطاری سے قبل جب قبولیت روزے اور عبادات کی دُعا مانگی جارہی تھی تو جیالے دُعا مانگنے کی بجائے کھانے پر پل پڑے، ایک صاحب تو دیگ پکڑ کر ہی ایک سائیڈ پر لے گئے۔ ایک سینئر صحافی یہ منظر دیکھ کر تاسف کے ساتھ بولے’’ جانے ہم لوگوں کی بھوک و ننگ کب ختم ہوگی۔
(۶)’’ مجاہد کی افطاری‘‘
کئی سال پہلے ایک افطار پارٹی میں حزب المجاہدین کے سیکرٹری کمانڈرغلام رسول ڈار بھی جماعت اسلامی کے راہنماؤں کے ساتھ تشریف لائے، جماعت اسلامی کے موجودہ نائب امراء ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، میاں مقصود احمد، پی ٹی آئی کے میاں محمود الرشیدکے علاوہ سینئر صحافیوں اور دوسری جماعتوں کی اہم شحصیات بھی موجود تھیں، افطاری سے قبل حزب المجاہدین کے سیکرٹری کمانڈر غلام رسول ڈار سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اب مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی کی کیا صورتحال ہے تو وہ بتانے لگے کہ ’’اب وہاں مائیں اپنے بچوں کو شہید ہونے کیلئے ہی پیدا کرتی ہیں ،کہنے لگے میرا تعلق بڈگام سے ہے جب وہاں کوئی نوجوان شہید ہوتا ہے تو مائیں بین ڈالنے کی بجائے اسے کفن پہنانے کے ساتھ سہرا سجاتی ہیں اور سہرے کے گیت گائے جاتے ہیں۔
کہنے لگے کہ ہماری منزل صرف آزادی اور پاکستان کے الحاق ہے ہم کسی سیکنڈ یا تھرڈآپشن کیلئے جدوجہد نہیں کررہے اور نہ ہی ایک خودمختار ریاست کیلئے ہماری جدوجہد ہے‘‘ انکی گفتگو کے دوران گہرا سکوت چھا چکا تھا، انکے چہرے پر عزم اور تازگی تھی، کچھ سال بعد انھیں مقبوضہ وادی میں شہید کردیا گیا، انکی شہادت کی خبر قومی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی۔ میری زندگی میں سینکڑوں افطاریاں آئیں مگر ہر افطاری کے موقع پر انکا پُر عزم چہرہ نگاہوں کے سامنے پھرتا رہا۔
(۷)’’ قاضی حسین احمد کا استقلال ‘‘
کچھ سال قبل علماء اکیڈمی منصورہ کی افطار پارٹی میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔ انکے دل کا بائی پاس ہو چکا تھا اور وہ سارا دن جماعتی سرگرمیوں میں مصروف رہے تھے مگر افطار سے پہلے جب کہ اچھے خاصے تندرست افراد کا چہرہ اُترا ہوا تھا وہ بالکل تازہ دَم تھے، ایک مسکراہٹ سی انکے چہرے پر تھی، افطار اور نماز کی ادائیگی کے بعد وہ عام افراد میں اس طرح گُھل مِل کر بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے وہ ان کے قریبی عزیز ہوں، انکے چہرے سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں، انھیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مرض روزے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا، اب تو لوگ سردرد کا بہانہ بنا کر بھی روزہ نہیں رکھتے اور طبی عُذر پیش کردیتے ہیں۔ روزے کا بڑا اجّر ہے، روزہ خاص اللہ کیلئے اور اللہ ہی اسکا اجّر دے گا، مگر اکثریت روزے کی اہمیت سے ہی ناآشنا ہے، ہٹے کٹے افراد بھی روزہ نہیں رکھتے بلا عذر روزہ چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے جس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
(۸)’’رشوت کی کمائی سے افطاری‘‘
ایک ایسے بیوروکریٹس کی افطاری میں جانے کا اتفاق ہوا کہ جو رشوت خوری کے معاملے میں مشہور تھے، وہ صاحب ریٹائر منٹ کے بالکل نزدیک پہنچ چکے تھے، وہاں افطاری کی بجائے ولیمے کی تقریب کا گمان ہو رہا تھا۔ انھوں نے علاقے کے امام صاحب کو دُعا کیلئے مدعو کیا ہوا تھا، مولانا صاحب نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ دعا کے بعد فوراً مسجد نماز پڑھانے چلے جائیں گے۔، افطاری سے پہلے مولانا صاحب نے سورۃ بقرہ کی چند آیات تلاوت کیں ان کا ترجمہ بیان کیا اور تفسیر یہ بیان کی کہ حرام مال زکواۃ ،روزہ کھلوانے یاکسی بھی نیکی کے کام پر خرچ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس مال حرام سے کسی مستحق کی مدد کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسکا کوئی اجّر ہے، جب وقت افطار ہوا تو مولانا نے اپنی جیب سے کجھور نکالی، روزہ افطار کیا اور چلے گئے۔
آئے ہوئے مہمان کھانے پر پل پڑے ،کسی کو مولاناصاحب کی بات یاد نہیں تھی مگر وہ بیوروکریٹ خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے، پریشان نظر آرہے تھے۔ ان سے اجازت مانگی تو اُن کے منُہ سے صرف اتنا نکلا ’’ اب میں اور میرا خاندان اس حرام کمائی اور شان وشوکت کی دلدل میں اس طرح دھنس چکا ہے کہ نکِلنا ممکن نظر نہیں آتا، شائد دنیا کی چکا چوند نے میری بینائی چھین لی تھی‘‘ ان کے چہرے پر پریشانی اور تفکرات کے آثار نمایاں تھے، مگر آئے ہوئے مہمان ہر چیز سے بے نیاز ’’افطاری ‘‘ کے سامان سے پیٹ بھرنے میں مشغول تھے۔ حرام کمائی سے روزہ کھولنے کا کسی کو بھی احساس نہیں تھا ۔
(۹)’’ماہ رمضان انعام واکرام اور بخشش کا مہینہ‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے وہ جِسے اس دنیا میں بھیجتا ہے، انکے رزق، خاندان کی تشکیل اور دوسری نعمتوں کا بندوبست کرنے کے علاوہ انھیں بخشنے کی بھی سبیل پیدا کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کو بخشنے اور اپنی رحمتوں سے نوازنے کیلئے اُس نے سب سے بڑا تحفہ ماہ رمضان کی صورت میں دیا ہے،اس مہینے کی ایک رات لیلتہ القدر کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل ہے، اس ماہ مبارکہ میں ہر نیکی کا اجّر ستر گنا زیادہ ہے۔ روزہ صرف اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہے۔
روزہ نام ہے پاکیزگی حاصل کرنے کا، غیبت، جھوٹ، حرام اور گناہوں سے بچنے کا، اپنے نفس پر قابو پانے کا، لالچ اور خود غرضی سے بچنے کا، صرف اپنی ذات کو ترجیح دینے سے بچنے کا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا، اپنے اندر کے لالچ اور بّرے انسان کو ختم کرنے کا، قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے کا، اور پورا سال اس مشق کو جاری رکھنے کا۔
اجتماعی افطاریوں کا مقصد مسلمانوں کا اکٹھا ہوکر اس کے رزق کی مساوی تقسیم،طبقاتی تفریق سے بالا تر ہو کر اکٹھے افطار کرنا، نماز ادا کرنا اور باری تعالیٰ کا شکرادا کرنا ہے، مگر اب کچھ عرصہ سے رمضان مبارک کا وہ تقدس نظر نہیں آتا جو کہ پہلے کبھی مسلم ریاستوں میں نظر آتا تھا، مصنوعی مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،غیر مستحق افراد کا زکواۃ حاصل کرنا اور گناہوں کا بھی عام نظر آنا یقیناً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ ہر سال بخشش کا بھر پور موقع دیتا ہے مگر ہم اس موقع کو ضائع کردیتے ہیں۔
روزے کا اصل مقصد اپنے نفس پر قابو پانا اور صبر و تحمل ہے، اسکا عملی نمونہ افطاری کے وقت نظر آنا چاہیے کہ ہم میں صبر اور ایثار پیدا ہوا ہے؟ ہمارے اندر کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے یا ہم نے صرف ’’فاقہ کشی ‘‘ کی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا رمضان المبارک کے بعد مسلم معاشرے میں کوئی تبد یلی واقع ہوئی ہے؟ سوچ و فکر تبدیل ہوئی ہے یا ہم ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسا کہ رمضان سے پہلے تھے؟؟؟؟
The post افطاریاں کیسی کیسی! appeared first on ایکسپریس اردو.