پاکستان اور اس کے اردگرد واقع ممالک چین ،بھارت ، ایران ،افغانستان اور اس سے آگے سنٹرل ایشیا کی ریاستیں ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان، آزربائجان اور پھر بحیرہِ عرب کے ساتھ خلیج فارس کے ساحلوں پر عرب امارت اور دیگر خلیجی ریاستیں سب ہی میں گذشتہ 70 برسوںسے قدرتی اور غیر قدرتی یعنی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے منفی ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں جن سے سب سے زیا دہ پا کستان متا ثر ہو ا ہے۔
اس دوران اِن تمام ملکوں میںکسی نہ کسی انداز سے انسانی سرگرمیاں گذشتہ ڈھائی ہزار سال کے مقا بلے میں اِن 70 برسوں میں کئی گنا زیاہ تیز ہو گئیں اِن ستر برسوں میں اِن ملکوں کی آبایوں میں تقریبا چار سے پانچ گنا اضافہ ہوا۔
دوسری جنگ اعظیم کے اختتام 1945 ء کے فوراً بعد سائنس اور ٹیکنالو جی کی ترقی نے تجارتی مقاصد کے ساتھ مفاہمت کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو زیادہ تر سرمایہ کے حصول اور لالچ سے ہم آہنگ کر دیا۔ اگر چہ میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کی وجہ سے انسان نے چیچک ، طاعون،جیسی وبائی بیمایوں کا دنیا سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور دیگر بیماریوں کے علاج اور کنٹرول کے لیے بھی نہایت موثر ادویات ایجاد اور دریافت کرکے انسانی اوسط زندگی جو 70 برس پہلے صرف چالیس سال تھی وہ ترقی پزیر ملکوں میں 80-82 برس اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں 66-67 سال تک بڑھادی ہے ، جہاں تک تعلق ترقی یافتہ ممالک کا ہے تو اِن ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے ایک جوڑے پر دو بچوں کے اصول کو اپنا تے ہو ئے ،اپنی آبادیوں کو منجمد کر دیا۔
مثلاً 1951 ء میںپہلی مردم شماری ہو ئی تو اُس وقت کے مغربی پاکستا ن اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ40 لاکھ تھی اُس وقت برطانیہ کی کل آبادی 5 کروڑ 30 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی آج برطانیہ کی آبادی تقریبا 6 کروڑ ہے اور اس آبادی میںجو 70 لاکھ کا اضافہ ہے وہ تارکین وطن کی وجہ سے ہے۔ جب کہ ہماری آبادی 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ،ہمارے ریجن یا علاقے میں واقع صرف چین ایسا ملک ہے جس نے جب یہ دیکھا کہ اس کی آبادی ایک ارب پندرہ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے تو اسی کی دہائی میں اُس نے اپنے ملک میں ایک جوڑے پر صرف ایک بچہ پیدا کر نے کے جبری قانون کو نافذ العمل کر کے تیز رفتار صنعتی اقتصادی ترقی کی اور اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جدید اور اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر استعما ل کیا ،یہی کچھ سابق سویت یونین نے کیا اور بہت حد تک بھارت اور ایران نے بھی کیا۔
مثلاً سابق سویت یونین نے پچاس کی دہائی میںسنٹرل ایشیاء کی ریاستوں میں خصوصاً ازبکستان میں واقع بحیرہ خوارزمAral Sea میں گرنے والے دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم تعمیر کرکے اِن دریاؤں کا پانی روک دیا جس کے بعد خشکی میںواقع اس چھوٹے سے سمندر یا کھارے پانی کی جھیل کا پانی دھوپ سے اڑتے اڑتے کم سے کم ہونے لگا پہلے مرحلے میں پانی کے خشک ہونے سے پانی میں نمکیات کے تناسب میں اضافہ ہوا اور مچھلیاں اور دیگر آبی مخلو قات ختم ہو نے لگی اور یوں لاکھوں ماہی گیر اور اس سے منسلک دیگر شعبوں سے وابستہ افراد بے روزگار ہوئے۔ ستر کی دہائی تک اس مختصر سمندر کے پانی کے خشک ہونے سے اس کا پانی کناروں سے کئی کئی کلو میٹر اندر سکڑ گیا اور پھر کناروں پر نمکیات کی پپڑیاں اور ریت گرمی کے ساتھ بگولوں کے ساتھ نہ صرف ازبکستان بلکے دیگر سنٹرل ایشیائی ریاستو ں اور روس اور چین تک کے علاقوں کو متاثر کرنے لگیں اور آج یہ صورتحال ہے کہ اس کے اثرات جاپان تک پہنچ رہے ہیں اور اس نمیکن پانی کی بڑی جھیل کا پانی اب صرف 20% رہ گیا ہے۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ اس مختصر سمندر کو دوبارہ بھرا جا سکے مگر اب ازبکستان کے ماہر ین نے اس کے منفی ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے یہاں اربوں درخت لگانے کے منصوبے پر عملدر آمد شرع کردیا ہے ،چین میں جہاں دنیا کا بڑا صحرائے گوبی بہت تیز رفتاری سے جنگلات ،چراگاہوں ،باغات اور کھیتوں کو سالانہ کئی کئی کلو میٹر نگلتا ہو بیجنگ سے صرف ستر کلو میٹر دور رہ گیا تھا، تو چینی قو م نے متواتر کو ششوں کے بعد اس پر گریٹ گرین وال قائم کر دی جو سینکڑوں کلومیٹر طویل اور اربوں درختوں کے انسانی ہاتھوں سے لگائے جنگل پر مشتمل ہے ،ہمارا ہمسایہ، مگر نقصان پہنچانے والا ہمسایہ ملک بھارت ہے جس کے ساتھ 1960-61 کے سندھ طاس معاہدے کے مطابق اس علاقے میں بہنے والے چھ دریاؤں میں سے تین پر ہمیں اس کا حق تسلیم کرنا پڑا تھا، بھارت نے اپنے پانی کے ذخائر میں اضافے کے لیے نہ صرف ہمارے حصے کے پانی پر بھی ڈاکہ ڈالابلکہ سیاہ چین گلیشیر پر بھی قبضہ کیا۔ ہمارے ملک میں صحرائی رقبے میں جاری اضافے کے عمل کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔
ایران میں سیستان ،بلو چستان میں دشت لوط ہے جہاں جون ،جولائی اور اگست میں درجہ حرارت 60 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اب دس بارہ برسوں سے یہاں سے بھی ایک عذاب پاکستان کی طرف اِن گرم مہینوں کچھ دنوں کے لیے آتا ہے جب ایرانی دشت لوط سے گرمیوں میں پوڈر کی طرح باریک مٹی بگولوں کی صورت آسمان پر تیس تیس چالیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی تک اٹھتی ہے اور ہوا کے ساتھ پاکستانی علاقے میں داخل ہوتی ہے اور اب یہ مٹی انتہائی بلندی پر اڑتی پاکستانی بلو چستان سے ہوتی سندھ کے بعض علاقوں کے علاوہ جنوبی پنجا ب آتی ہے اور آسمان سے متواتر دودو تین تین دن برستی رہتی ہے۔ اُس دوران بلو چستان میں طیاروں کی پرواز یں میں منسوخ کرنا پڑ جاتی ہیں۔ افغانستا ن جو گذشتہ چالیس سال سے متواتر جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار ہے وہاں بھی جنگلات رینج لینڈ اور چراگاہوں کو بہت نقصان پہنچا ہے،چین اور بھارت کوئلے کے ذریعے توانائی حاصل کرنے والے اور بڑے ڈیم بنانے والے بالترتیب دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر کے ملک شمار کئے جاتے ہیں۔
ان ممالک کی وجہ سے عالمی ماحولیات نظام کو سخت نقصا ن پہنچا ہے مگر چین کے بعد بھارت بھی علاقے کا ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے جنگلاتی رقبے میں اضافہ کیا ہے واضح رہے کہ 1935 کے قانونِ ہند میں جنگلات کا شعبہ صوبائی اختیار میں تھا اور آزادی سے قبل غیر تقسیم شدہ ہندوستان کے کل رقبے کا 19 فیصد جنگلات پر مشتمل تھا ستر کی دہائی کی کوششوں سے اب بھارت میں جنگلاتی رقبہ 23 فیصد تک پہنچ رہا ہے ہماری صورتحال بہت ہی خوفناک ہے ایف اے او کے فاریسٹری سیکٹر پلان 1992 ء کے مطابق اُس وقت 4.8% رقبے پر جنگلا ت مو جود تھے اقوام متحدہ کے مطابق خواندگی اورماحولیاتی شعور میں کمی کی وجہ سے آج پاکستا ن میں جنگلاتی رقبہ مزید سکڑ کر صرف 1.9 فیصد رہ گیا ہے اور ہولناک صورت یہ ہے کہ 1990 ء سے 2015 ء تک یعنی 25 برسوں میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ جنگلاتی کٹائی ہو ئی جس کا تناسب 2,1فیصد سالانہ رہا IPCC انٹر نیشنل چینل آن کلائمیٹ چینج کے مطابق کسی بھی ملک ماحولیاتی استحکام کے لیے کل رقبے کا 25 فیصد پر جنگلات کا ہو نا ضروری ہے چین اس معیار پر پورا اتر تا ہے بھارت معیار کے قریب قریب ہے اور ہماری صورتحال ہولناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس اعتبار سے سیاسی قیادت بھی شعور کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ مگر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو اس کریڈیٹ سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے 2013 ء کے انتخا بات میں موحولیات کے مسئلے کو اقتصادی ترقی سے مربوط کیا تھا اور خصوصاً انقلابی بنیادوں پر شجر کاری کی ضرورت پر نہ صرف زور دیا تھا بلکہ صوبہ خیبر پختونخواہ جہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم ہوئی تھی وہاں اربوں درخت لگانے کے منصوبے شروع کئے تھے۔ وزیر اعظم کا عہد ہ سنبھالتے ہی انہوں نے اس جانب بھی توجہ دی اور پورے پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر جنگلاتی رقبے میںاضافے کے منصوبے بنائے۔
مگر یہ بھی ایک نہایت ہی تلخ حقیقت ہے کہ جس قدر مشکلات اور مسائل کی شکار یہ حکومت ہے اس سے قبل شاید ہی کو ئی حکومت رہی ہو اس وقت سب سے زیادہ مشکلات اقتصادیات کے شعبے میں ہیں کہ ماضی میں ملک میں بڑے منصوبے ایسے رہے کہ ان سے پیداواری عمل نہ تو تیز رفتار ہو سکا اور نہ ہی پیداوار میں اضافہ ہوا مہنگے قرضے لئے گئے جن پر شرح سود کی ادائیگی کی مدت کا ٹائم ٹیبل اگست 2018 ء کے بعد کا رکھا گیا ،یوں اب میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر لیے گئے قرضوں کی واپسی اِن پر سالانہ سود کی ادائیگی اور پھر اِن منصوبوں سے روزانہ مستفید ہونے والے ایک سے دو لاکھ افراد کو یومیہ کروڑوں روپے سبسڈی کی صورت میں جو نقصان ہو گا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اربوں روپے خرچ کر کے تعمیر کئے جانے والے ان منصوبوں توڑ دیا جائے بلکہ کیا یہ جانا چاہیے کہ ایسے اقدامات تجویز کئے جائیں کہ ان منصبوں کے نقصانات کو ختم کر کے انہیں ملک و قوم کے لئے فائدہ مند بنایا جا سکے۔
اسی طرح کچھ منصوبے جن کے بارے میں بین الاقوامی ادروں نے اِن کے شفاف ہونے کی تصدیق کی اُن منصو بوں کی پوری طرح چھان بین کئے بغیر جلد بازی میں ختم کردینا مناسب نہیں۔ ایسا ہی ایک اہم منصوبہ تقریباً دو سال قبل ساوتھ پنجاب فارسٹ کمپنی( SPFC ) کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 50.96 لاکھ ایکڑ ہے جس میں سے صرف 1.66 لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات ہیں۔ ملک میں لکڑی کی صنعت اس وقت اس لیے زوال پذیر ہے کہ ہمارا جنگلاتی رقبہ سُکڑ کر بہت کم رہ گیا، یوں اس شعبے سے وابستہ ہنر مند اور نہایت لاجواب کاریگر جن کے ہاتھوں سے بنے فرنیچر اور دیگر اشیا دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور ماضی قریب میں اِن اشیا کی برآمد سے ملک کو کرو ڑوں ڈالر کا زرِمبادلہ ملتا تھا اب بر آمد کی بجائے ہمیں بنے بنائے دروازے کھڑکیاں اور فرنیچر انڈونیشا اور چین سے در آمد کر نا پڑتا ہے جس کے باعث ہمارے لاکھوں ہنر مند اور کاریگر بے روز گار ہو رہے ہیں۔
ایسے اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کو کم کرنے اور رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے پنجا ب کی صوبائی حکومت نے کمپنیز ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 42 کے تحت صوبہ پنجاب میں رجسٹرار جوائنٹ اسٹاک کمپنیز ،لاہور کے ساتھ ایک پبلک سیکٹر غیر منافع بخش کمپنی ،،ساوتھ پنجاب فا ریسٹ کمپنی کی بنیاد رکھی اس کے تحت فاریسٹری ،وائلڈلائف اور فشریز کی جانب سے 16 مارچ 2016 ء کو ایک نو ٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے مطابق ،،ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کو جنوبی پنجاب کے 6 اضلاع ڈیرہ غازی خان ،راجن پور ،مظفر گڑھ، بہالپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں جنگلات کے لیے مختص کیئے گئے 134995 ایکڑ رقبے 42 جنگلات کی اراضی دوبار جنگلات کی صورت میں بحال کرنا تھا،اس مقصد کے حصول کے لیے ساوتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی نے کم از کم 15% حصص کے ساتھ پبلک پرئیویٹ پاٹنر شپ (پی پی پی )کے تحت نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پندرہ سال کے معاہدے پر جنگلات کے قیام دیکھ بھال اور منتقلی Build, Operate, Transfer کا فیصلہ کیا۔ اس پراجیکٹ کے پندرہ سال کی تکمیل کے بعد اراضی دوبارہ SPFC کو منتقل کردی جا ئے گی اور یہ پھر دوبارہ پروپوزل کے ذریعے اہل سرمایہ کاروں کو فراہم کی جائے گی۔
سرمایہ کاروں کو اراضی کی پیشکش سے پہلے عالمی سطح کی معروف اور مستحکم ساکھ کی ٹرانزکیشن ایڈوائزر کنسلٹنٹ (M-s Grant Thornton Consulting Pvt Limited) کی جانب سے ٹیکنیکل اور فنانشل امکانات بشمول قانونی مسائل فیلڈسروے ، پانی ،مٹی اور ماحولیات وغیرہ پر مبنی رپورٹس تیار کی گئی جس کے بعد بہالپور ،رحیم یار خان،راجن پور ،مظفر گڑھ،اور ڈیرہ غازی خان پانچ اضلاع کے 99077 ایکڑ رقبے پر جنگلات لگانے کے لیے ٹیکنیکل اور فنانشل امکانات، درخواست، برائے تجویز (آر ایف پی ) کی دستاویز ات اور رعایتی معاہد ہ جات ایس پی ایف سی کے جنگلات لگانے کے پراجیکٹس کو (پی پی پی ) کے اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ حکومت ِ پنجاب کی جانب سے جون 2017 ء میں پراجیکٹ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ( پی پی پی ) کے BOT کے قوانین کے تحت منظور کیا گیا ایس پی ایف سی نے اس ضمن میں بین الاقوامی سطح کے میڈیا پر 30 جولائی سے 12 اگست 2017 ء تک کے جنوبی پنجاب کے پانچ اضلاع بہاولپور،رحیم یار خان،راجن پور، مظفر گڑھ، اور ڈیرہ غازی خان میں 189 پراجیکٹس پر مشتمل 99077 ایکڑ اراضی کے لیے پرپوزل کی درخواستیںدی تھیں۔درخواست برائے تجویز اشتہار کے نتیجہ میں کل 348 پیشکشیں وصول ہوئیں اور 2 اکتوبر2017 ء کوتین بجے کھلنے والی پیشکشوں کے موقع پر 450 پیشکش دہندہ گان اور مجاز نمائندگان نے شراکت کی ۔
SPFC کی بڈ اوپننگ اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی ( بی او ای سی ) نے معزز پیشکش دہندگان کے سامنے پیشکشیں کھولیں ۔بی او ای سی نے اکتوبر 2017 ء کو 124 سب سے زیادہ بولی دینے والے پیشکش دہند گان کو منتخب کیا اور کامیاب پیشکش دہندگان کو 124 پراجیکٹس پر عملدر آمد کے لیے مجاز قرار دیا گیا۔ اراضی کے حوالے سے یہ کل 59862 ایکڑ رقبہ بنتا تھا جو کہ مجموعی اراضی 99077 ایکڑ کے 60 فیصد کے برابر ہے۔اس کامیاب پیشکش کے بعد پیشکش دہندگان کو لیٹر آف ایوارڈ ( ایل اواے) جاری کئے گئے اور ضروری اقدامات مثلاً اسپیشل پرپوزل وہیکل ( ایس پی وی)کی تشکیل ،پرفارمنس گارنٹی کی وصولی اور تفصیلی ڈیزائن وغیرہ کی منظوری کے بعد اب 55 سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدہ جات کئے گئے SPFC کے تحلیل ہونے تک 65 معاہدوں پر سر مایہ کاروں کے ساتھ دستخط کئے گئے ،مگر ان کو اس کے با وجود اراضی کا قبضہ نہ دیا جا سکا۔
اس پروجیکٹ کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس اہم ، نفع بخش اور ماحول دوست منصوبے کے بارے میں بعض ایسے افراد جو کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے نز دیک ہیں اور اِن کو غالباً اس منصوبے کی پوری اہمیت اور افادیت کے بارے میں معلومات بھی نہیں ہیں ممکن ہے اُ نہوں نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے اِس کی غلط انداز میں عکاسی کی ہے اور اب اس منصوبے پر نزلہ گرا ہے کہ عنقریب اس اہم اور مفید منصوبے کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر یہ پروجیکٹ پندرہ سال چلتا ہے تو پرائیویٹ پارٹیز کی جانب سے جو سرمایہ کاری کی جانی تھی اسی کے تحت ً35.5% ( کم ازکم فیصد پی پی پی سٹیرنگ کمیٹی میں مقررکی ہے) علاقہ جنگل کاشت کرکے ایس پی ایف سی کو مہیا کیا جانا تھا۔
جس پر مستقل جنگل قائم رہتے۔ اس منصوبے کے باعث ایندھن اور لکڑی کی صنعت کو خام مال فراہم ہوتا۔ نئے جنگل آباد ہونے سے قدرتی جنگلات پر کٹائی کا دباؤ ختم ہو جاتا ۔مقامی سطح پر 15000 افراد کو بلواسطہ یابلا واسطہ روزگار کے مواقعے میسر آتے۔ اسی طرح اس منصوبے سے فضاء میں35 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی واقع ہو تی جس سے ماحول خو شگوار ہوتا40 میلن یعنی چار کروڑ درخت لگائے جاتے اور SPFC اپنے حصے کے کم ازکم 25 فیصد کردار سے انہیں یعنی پرائیویٹ پارٹنرز کو 15 سال کے دورانیے میں درخت کاٹنے نہیں دیتی اور اس کے بعد میکنزم کے تحت یہ پیداوار مستحکم ہو تی اور ماحول میں بہتری آتی ،اس کے علاوہ اس پراجیکٹ کے دوران 240 ارب روپے گردش میں آتے اورحکومت کو 20 ارب روپے کا ریونیو ملتا ،لیکن اگر اب یہ منصوبہ ختم کر دیا جاتا ہے تو یہ بالکل اس طرح ہو گا کہ جسے فائد ے کو بڑے نقصان میں تبدیل کر دیا جائے یہ ضرور ہے کہ حکومت اپنے طور پر اس منصوبے کی اچھی طرح چھان بین کر لے اور ضرورت ہو تو نیب سے بھی تحقیقات کروا لے مگر خدارا ایسے مفید منصوبے کو ختم نہ کرے کیونکہ اس سے پہلے توکئی سو ارب روپے کا ملک کو نقصا ن ہو گا اور پھر آنے والے وقتوں میں اس کا ا ندیشہ ہے کہ ان زمینوں پر جنگلات کے بجائے تجارتی بنیادوں پر ہاوسنگ اسکیمیں وجود میں آجائیں یا بااثر افراد اِن زمینوں پرقبضہ کر لیں۔
عرفان احمد بیگ (تمغۂ امتیاز)
مصنف پاکستان کے واحد صحافی ہیں جو گرین جرنلسٹایوارڈ حاصل کر چکے ہیں کیونکہ حکومت نے یہ ایوارڈصرف ایک مرتبہ جاری کیا
The post پاکستان کو جنگلات بڑھانے کی ہنگامی منصوبوں کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.