روزانہ علی الصبح شہر قائد کے طول وعرض سے جامعہ کراچی کے درجنوں ’پوائنٹس‘ روانہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ’پوائنٹ‘ کے مسافر 35 سالہ عادل بھی ہیں۔۔۔
وہ لیاقت آباد، کراچی سے عازم سفر ہوتے ہیں۔ یوں تو ’پوائنٹ‘ میں عمومی طور پر جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات سفر کرتے ہیں، لیکن عادل نہ تو جامعہ کے طالب علم ہیں اور نہ ہی ملازم۔۔۔ لیکن ان کی منزل ’جامعہ کراچی‘ ہی ہوتی ہے۔۔۔ مگر کس لیے۔۔۔؟ یہ جاننے سے پہلے ہم ذرا عادل سے تعارف کراتے چلیں۔۔۔
عادل عام لوگوں سے تھوڑے سے مختلف ہیں، وہ یوں کہ ان کا قد عام لوگوں کی نسبت ذرا چھوٹا ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو بڑے قد کے بہت سے ’پستہ قامت‘ لوگ ان پر آوازیں کستے ہیں۔۔۔ بہت سے انہیں طرح طرح کے تضحیک آمیز ناموں سے بھی پکارتے ہیں۔۔۔ مگر وہ ایسی باتوں کو کان میں مار جاتے ہیں، اِن دل آزار صداؤں پر وہ بالکل دھیان نہیں دیتے، لیکن جب ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر درپیش ہو تو انہیں کراچی کی بے لگام مسافر بسوں سے جھوجھنا پڑتا ہے، جس میں انہیں چڑھنے اور اترنے میں شدید دشواری پیش آتی ہے۔
کچھ انہی مسائل کے سبب عادل کے والد نے انہیں گھر سے زیادہ باہر نہیں نکلے دیتے تھے۔۔۔ لیکن 12 سال قبل جب اُن کے والد دنیا سے گزر گئے، تو بالآخر انہیں تلاش معاش کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔۔۔ کراچی کی انہی نہ رکنے والی بسوں سے چڑھنا، اترنا پڑا اور تکلیف دہ سفر کے دھکے کھانے اور اذیتیں سہنا پڑیں۔ کبھی کبھی کسی موٹر سائیکل سوار کی مدد بھی مل جاتی، لیکن ایسا کم ہی ہوتا تھا۔
اُن کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔۔۔ اس لیے انہیں شہر کی مختلف کمپنیوں اور اداروں میں چھوٹے موٹے مشقت اور مزدوری کے کام ہی مل سکے، کہتے ہیں کہ میں نے جہاں بھی ملازمت کی وہاں میری استطاعت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالا گیا، اس لیے میری اکثر ملازمتیں چند ماہ ہی چل پاتیں، اور پھر ہر تھوڑے روز بعد بے روزگاری کے دن دیکھنے پڑ جاتے۔ ڈین آف آرٹس ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اس بابت کہتی ہیں کہ ’چھوٹے قد کے افراد کو سماج سے لے کر گھروں تک میں مکمل توجہ نہیں دی جاتی، انہیں نظرانداز کیے جانے کے سبب ان کی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے، سماج میں بھی انہیں عضو معطل سمجھا جاتا ہے، ورنہ ان کی ذہنی استعداد کسی بھی طرح ایک نارمل فرد سے کم نہیں ہے، پہلے میرا خیال بھی یہی تھا کہ شاید یہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں، لیکن جب ان پر کام کیا تو یہ بات پوری طرح آشکار ہوئی کہ یہ بالکل کسی بھی عام فرد کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں، چوں کہ ایسے افراد کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے اور پھر اپنے چھوٹے قد کے سبب زیادہ مشقت کا کام نہیں کر سکتی، اس لیے یہ روزگار کے مسائل سے دوچار رہتی ہے، جو پھر براہ راست ان کی نجی اور سماجی زندگی کا پہیا روک دیتی ہے۔‘
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ عادل گذشتہ دو سال سے روزانہ جامعہ کراچی کیوں آ رہے ہیں، یہاں شعبہ ’سماجی بہبود‘ میں ان کے جیسے افراد کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ’منچی کرنچی‘ کے نام سے ٹافیوں، چپس اور بسکٹ وغیرہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول کر دی گئی ہے۔ جامعہ کراچی کی رئیس کلیہ فنون ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کے بقول چند برس قبل چھوٹے قد کے افراد کے مسائل پر تحقیق کے دوران ان پر انکشاف ہوا کہ ہمارے ہاں ان کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے، پھر اسی سے زندگی کے باقی مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں، چناں چہ ان کی جسمانی استطاعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طے کیا گیا کہ انہیں ’ٹک شاپ‘ کھول کر دی جائیں، تاکہ یہ اِدھر اُدھر ملازمتوں کے دھکے کھانے کے بہ جائے اپنی آمدنی کے مسئلے کو مستقل طور پر حل کر سکیں۔
اس منصوبے کے لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لی گئی اور پہلے مرحلے میں جامعہ کراچی میں دو ٹک شاپس کھولی گئیں۔ ایک دکان کی تیاری پر تقریباً20 ہزار روپے کا خرچہ آیا اور پھر اس میں پانچ ہزار کا سامان ڈلوایا گیا، یوں کُل 25 ہزار روپے میں ایک مکمل دکان تیار ہوگئی، جو ان کے حوالے کردی گئی، دکان کے مالکانہ حقوق جامعہ کراچی کے پاس ہیں، لیکن یہ دکان بلامعاوضہ ان کے حوالے ہے کہ یہ اسے خود چلائیں اور اپنی آمدنی کریں۔
یہ تمام کام مختلف مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوا، بہت سے لوگوں نے اسے اسپانسر کیا۔ جامعہ کراچی کی ہی ایک طالبہ نے عادل کو چپس بنانے کی مشین عطیہ کردی۔ پھر ایک کولڈڈرنک کمپنی سے بات کی گئی تو انہوں نے فریج بھی دے دیا۔ جب اس منفرد کام کا چرچا ہوا تو امریکا سے ایک اور مخیر صاحب نے رقم دی، تو ان کی دکان کے ساتھ ہی فریج کے لیے ایک محفوظ جگہ بنوا دی گئی، جس سے وہ روزانہ دکان کھولتے بند کرتے ہوئے فریج دھکیلنے کی مشقت سے بچ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ ’منچی کرنچی‘ منصوبے کے تحت جامعہ کراچی میں مزید تین ’ٹک شاپس‘ تیار ہیں، جس کی اجازت ملتے ہی انہیں مرحلے وار کھول دیا جائے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ جامعہ کراچی کی ہر فیکلیٹی میں یہ شاپس کھلیں۔ ساتھ ہی ایسے افراد کی آمدورفت کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ایسے جو افراد جامعہ کراچی سے دور رہتے ہیں، انہیں اپنے گھروں سے قریب ہی یہ دکانیں کھول کر دے دی جائیں۔ اس کے لیے ’بلدیہ کراچی‘ سے اجازت لیں گے، تاکہ کہیں تجاوزات قرار دے کر مسمار نہ کردی جائیں۔ ہم نے چھوٹے قد کے افراد کی تعداد کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس بابت ابھی تک کوئی باقاعدہ اعدادوشمار موجود نہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں ایسے افراد کی تعداد 10 سے 15 ہزار تک تو ہو گی۔
ان دنوں جامعہ کراچی کے ’سماجی بہبود‘ کے شعبے میں چھوٹے قد کے افراد پر ایک ’پی ایچ ڈی‘ کی سطح کی تحقیق بھی جاری ہے، ایسے غیرتعلیم یافتہ افراد کو دفاتر وغیرہ میں چھوٹے موٹے کام کرنا پڑتے ہیں۔ جو کسی قدر تعلیم یافتہ ہیں یا کوئی ہنر اور صلاحیت ہے تو کمپیوٹر وغیرہ پر بھی بہ آسانی کام کر لیتے ہیں، لیکن جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، ان کے لیے ہمارے سماج میں بے پناہ مسائل ہیں۔ اکثر خاندانی مسائل کے سبب پڑھ نہیں پاتے۔ دراصل گھروں میں انہیں عام افراد جیسی اہمیت نہیں دی جاتی۔
اس حوالے سے بھی لوگوں میں بہت زیادہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں نظر انداز کرنے کے بہ جائے ان کی نشوونما اور تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دی جاسکے۔ چھوٹے قدر کے افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے شہر میں بہ یک وقت ان کی کئی انجمنیں بھی قائم ہیں، بدقسمتی سے ان کے درمیان ہم آہنگی نہیں۔ ڈاکٹر نسرین اسلم ان کے اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، کہتی ہیں کہ ہماری کوشش ہے کہ انہیں قائل کیا جائے کہ وہ اپنی رنجشیں اور اختلافات دور کر کے ایک تنظیم پر متحد ہوں۔ عہدے کچھ نہیں ہوتے، دراصل لوگ اپنے کام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہر سال 25 اکتوبر کو شعبہ ’سماجی بہبود‘ کے تحت ان کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ ان کی مختلف ٹیموں کو جامعہ کراچی میں کرکٹ وغیرہ کھیلنے کے لیے بھی باقاعدہ اجازت دلوائی گئی ہے۔ جامعہ کراچی کی دوسری ’ٹک شاپ‘ کے مالک فیصل اِن دنوں علالت کے سبب نہیں آرہے، یوں ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔
ہم جب عادل کی ’منچی کرنچی‘ پہنچے تو انہوں نے اس چھوٹی سی ’آمدن نگری‘ میں بہت پرجوش انداز میں ہمارا سواگت کیا، چھوٹے سے پنکھے کا رخ اپنی طرف سے ہماری سمت کیا، اور اکلوتا اسٹول ہماری طرف سرکا کر کھڑے ہوگئے۔۔۔ ہم نے شکریے کے ساتھ یہ سہولتیں انہیں واپس کیں۔۔۔ عادل نے ہمیں بتایا کہ وہ یہاں اپنے کام سے بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ یہاں کوئی انہیں برے القاب سے نہیں پکارتا، سب بہت اچھی طرح پیش آتے ہیِں اور بہت عزت دیتے ہیں۔ بالخصوص اپنی مرضی اور سہولت سے آنے جانے کی آسانی انہیں بہت زیادہ شاداں کرتی ہے اور انہیں اپنی نوکریوں کے تلخ تجربات یاد آجاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کمپنیوں میں نوکری کرتے ہوئے، آنے جانے کے حوالے سے ان کی پریشانی کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا، اور کافی زیادہ تنگ کیا جاتا تھا۔ عادل چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدین اور سب بہن بھائی نارمل ہیں، صرف ان کا قد چھوٹا ہے۔
ہم نے پوچھا کہ اگر وہ اپنی آمدنی سے متعلق کچھ بتانا چاہیں تو وہ بولے کہ ’یہاں یومیہ 300 روپے تک بچا لیتا ہوں۔‘
ہم نے ان کی ازدواجی حیثیت جان کر ان سے شادی کا سوال کر ڈالا، وہ مسکراتے ہوئے بولے،’’ابھی تو صرف اپنے خرچے نکال پاتا ہوں، ذرا کام تھوڑا اور اچھا ہو جائے، تو پھر شادی بھی کر لوں گا۔‘
یوں تو سماجی مسائل حل کرنے کو لاتعداد غیرسرکاری تنظیمیں موجود ہیں، جو کسی نہ کسی میدان میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں، لیکن اس میدان میں ہماری جامعات کا وہ کردار دکھائی نہیں دیتا، جس کی توقع کی جاتی ہے۔ عموماً کہا یہ جاتا ہے کہ یہ جامعات تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ریاستی اداروں اور جامعات میں کوئی ربط نہیں ہے کہ یہ خبر دی جا سکے کہ ہمیں کس شعبے کے لیے مزید کتنے افراد کی ضرورت ہے، تاکہ اس حساب سے ماہرین تیار کیے جا سکیں۔
اسی طرح جامعات میں سماجی علوم یا سوشل سائنسز کی تحقیق کے حوالے سے بھی یہ تاثر عام ہے کہ ان کے موضوعات اکثر لایعنی ہوتے ہیں، یا پھر ان کی تحقیق قابل عمل نہیں ہوتی، فقط الماریوں میں بند کر کے رکھ دی جاتی ہیں، اس تحقیق کی روشنی میں سماجی مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔۔۔ کسی بھی سماج میں جامعات کے حوالے سے ایسی رائے قائم ہونا نہایت فکر انگیز امر ہے، لیکن ’منچی کرنچی‘ جیسے منصوبوں کے ذریعے اس عام خیال کی نفی ہوتی ہے اور ہمیں پتا چلتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر جامعات میں سماجی مسائل کے حوالے سے نہ صرف قابل عمل حل پیش کیے جا رہے ہیں، بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے، کہ ہر شعبے میں ایسے منصوبوں کو باقاعدہ شکل دی جائے، تاکہ معاشرے کی بہتری کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا کام منظم ہو کر سامنے آسکے۔
The post قصہ انوکھی دکانوں کا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.