قسط نمبر44
abdul.latif@express.com.pk
میں راستے بھر اُسی نوجوان کے متعلق سوچتا رہا۔ اس کا ہجر تو وصل میں بدلنے والا تھا، لیکن پھر یہ درمیان میں کیسی گھڑی آگئی تھی جس نے اسے برسات بنا ڈالا تھا۔ نہ جانے کس حالت میں ہوگا وہ، میں نے سوچا۔ میں کُڑھ ہی سکتا تھا اور کیا تھا مجھ جیسے بے بس کے بس میں۔ کیسا ہے انسان بھی ناں، عجیب بہت عجیب، ہوسکتا ہے وہ ایسے سوچ رہا ہو!
کیا عجب ہے کہ ہمیں جس کی ضرورت بھی نہ تھی
بیچ کر خود کو وہ سامان خریدا ہم نے
بند ہونے کو دُکاں ہے تو خیال آیا ہے
فائدہ چھوڑ کے نقصان خریدا ہم نے
بابا میری کیفیت جان چکے تھے، میں بہت بولتا ہوں، بولتا چلا جاتا ہوں اور اگر میں کبھی خاموش ہوجاؤں تو عجیب بات ہے کہ پھر اکثر کو میری خاموشی ڈسنے لگتی ہے۔ بابا نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: بیٹا! پالن ہار سب کچھ بِن مانگے عطا فرماتا ہے، لیکن اپنی خاص عنایت بن مانگے نہیں عطا فرماتا۔ میں نے پوچھا وہ کیا بابا! تو بتایا تھا: انسان کو رزق بن مانگے مل سکتا ہے اور ملتا ہے، اس کی ضرورت کا سارا رزق۔ نادان انسان تو بس کھانے پینے کوہی رزق سمجھتا ہے ناں لیکن اگر وہ ذرا سا غور کرے اور سوچے تو معلوم ہوگا کہ رزق تو ہر شے ہے۔
سونا، جاگنا، سننا، بولنا، چلنا، پھرنا، دیکھنا سب کچھ رزق ہی تو ہے اور انسان کے لیے رب تعالی نے ہر شے رزق بنائی ہے، اس سے آگے غور کرو تو تم جان پاؤ گے کہ انسان کے لیے اس خالق و باری نے اپنی ہر مخلوق کو پیدا کیا اور اس سے اسے نفع پہنچایا، سمندر کی مخلوق سے لے کر زمینی مخلوق اور پھر آسمانی سب کچھ خدا نے انسان کے رزق کے لیے ہی بنائی ہے، سمندر میں مچھلیاں ہی نہیں نہ جانے اور کتنی ہی نعمتیں اس میں پوشیدہ ہیں، یہ اتنے بڑے پہاڑ جیسے بحری جہاز دیکھا نہیں کیسے اس سمندر کے سینے پر تیرتے ہیں، یہ بھی تو رزق کی فراہمی کا ذریعہ ہیں ناں، بس ذرا سا غور کرو تو تم پر یہ اسرار کُھلتا چلا جائے گا، اور پھر یہ بھی کہ اس نے سب کچھ پیدا کیا اور عام کیا، تم اس سے نہ بھی مانگو تب بھی وہ دیتا ہے، اس پر ہم کبھی تفصیل سے تمہیں سمجھائیں گے۔
لیکن بیٹا! ایک نعمت اس کی اتنی عظیم ہے کہ اسے بن مانگے وہ نہیں دیتا، اسے بار بار مانگنا پڑتا ہے، رت جگے کرنا پڑتے ہیں، آہ و زاری کرنا پڑتی ہے، اس کے لیے دل سوزی چاہیے، طلب چاہیے اور خالص، اس کے لیے تڑپنا پڑتا ہے، اس کے سامنے عاجزی سے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اور جب وہ بہ فضل تعالٰی مل بھی جائے تب بھی اسے مانگنا پڑتا ہے اور مسلسل، اور تم جانتے ہو وہ کیا ہے؟ وہ ہے ہدایت! ہدایت اسے ملتی ہے جو اسے اخلاص سے طلب کرے، یہ کوئی معمولی نعمت نہیں، نعمت عظمٰی کہنا چاہیے اسے اور کہنا کیا یہ ہے نعمت عظمی۔ نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں ناں ہمیں راہ مستقیم دکھا، ان لوگوں کے رستے کا مسافر بنا جو تجھے محبوب رہے ہیں اور ہیں، ہمیں ہدایت پر رکھنا، ہر رکعت میں مانگتے ہیں ہدایت۔ سب کچھ بن مانگے مل جاتا ہے اور مل سکتا ہے لیکن ہدایت بن مانگے نہیں ملتی، نہیں جی نہیں ملتی۔ تو بس اس نے جو طلب کیا تھا۔
جس کی تمنا کی تھی اسے مل گئی ہے اور اس نادان کو وہ بن مانگے بھی مل جاتی لیکن بد بختی اور کسے کہتے ہیں جو بن مانگے ملتا ہے انسان اسے ہلکان ہوکر طلب کرتا رہتا ہے اور جس کے لیے ہلکان ہونا چاہیے کہ طلب کے بنا نہیں مل سکتی اسے طلب کرنا تو دُور کی بات کبھی سنجیدگی سے اس کے متعلق سوچتا بھی نہیں۔ تو بیٹا! سب کچھ بن مانگے مل سکتا ہے جو رب تعالٰی نے مقدر کر دیا لیکن ہدایت طلب کرنا پڑتی ہے تو بس دانائی یہ ہے کہ جو بن مانگے مل سکتا ہے ہاں اس کے لیے بھی سعی کرنا فرض ہے لیکن جو بن مانگے نہیں ملتی تو اس کی طلب میں ہلکان ہونا چاہیے ناں کہ زندگی تو بس اسی کا نام ہے، راہ راست اور ان محبوب لوگوں کا راستہ جن پر اس رب کائنات نے فضل کیا انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمایا ہے۔
اور اب یہ کیا یاد آگیا ہے
کسی بازار میں ملتی ہے جنوں نام کی شے
حوصلے عشق کے تیّار کہیں ملتے ہیں
تم سے ملنا بھی ہے، ملنا بھی نہیں ہے تم سے
آؤ تم سے سرِ بازار کہیں ملتے ہیں
جی بالکل ایسا ہی ہے جیسا بابا جی نے بتایا تھا۔
فقیر کی زند گی میں ایسے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں اور پھر اس نادان و بے عقل و فہم نے ان گنت ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ وہ ایسی تعیشات میں اپنا جیون گزاریں گے، انہوں نے تو اپنے گاؤں، گوٹھوں اور دور دراز علاقوں سے بس مٹھی بھر اناج کی تلاش میں شہروں کا رخ کیا تھا اور پھر ایسا چمتکار ہوا کہ وہ خود بھی ساری زندگی حیران رہے۔ فقیر آپ کو ایک ایسے ہی بچہ مزدور کی بپتا سناتا ہے۔
عجیب انسان تھے وہ۔ بہت ہم درد، مخلص اور ایثار کیش، پڑھے لکھے نہیں تھے، بس کسی سے دست خط کرنا سیکھ گئے تھے۔ ان کی کتھا بھی اتنی ہی عجیب ہے جتنے وہ خود تھے۔ جہلم کے ایک گاؤں سے روزی رزق کی تلاش میں کراچی آگئے تھے اور اس وقت صرف بارہ برس کے تھے۔ خاندان کے باقی لوگ بھی اپنی زمینوں پر بس معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے، لیکن ان کے والد کے پاس تو وہ بھی نہیں تھی۔ بارہ سال کا بچہ کیا کام کرتا، ان کے ایک عزیز نے ہوٹل پر لگا دیا تھا ، جہاں وہ برتن دھویا کرتے تھے، وہاں سے انہیں دو وقت کھانے اور ناشتے کے ساتھ تیس روپے ماہانہ بھی ملتے تھے اور رہائش بھی۔ بہت معصوم سے، کم گو، محنتی، بس کام سے کام رکھنے والے۔ چار سال تک وہ یہی کام کرتے رہے۔
ہوٹل کا مالک ان کے کام سے خوش تھا اور اس نے ان کی تن خواہ ستّر روپے ماہانہ کردی تھی۔ وہ اپنی ساری تن خواہ اپنے والدین کو بھیج دیا کرتے تھے۔ کراچی میں اس وقت غیرملکی سیاح بلاخوف و خطر گھوما پھرا کرتے تھے۔ امن تھا، امان تھی، بھائی چارہ تھا، یگانگت تھی، بس یوں سمجھیے کہ زندگی تھی۔ وہ اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتے تھے، لیکن مجھ سے ان کا نہ جانے کیسا رشتہ تھا، جب بھی ان سے کچھ پوچھا، کبھی انکار نہیں کیا۔ میں انہیں بھائی جان کہتا تھا، میں نے ان کا جیون کھوجنے کی کوشش کی۔ پہلے تو وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے اور سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتارتے رہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی شاید وہ نمی تھی، شاید غلط کہہ گیا ہوں یقیناً، پھر وہ سنبھلے اور رواں ہوئے، نہ جانے کیا کیا پوچھتا رہتا ہے تُو۔
ایک دن میں ہوٹل کے باہر بیٹھا برتن دھو رہا تھا۔ دسمبر تھا اور سخت سردی۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہوا تھی کہ جسم میں لہو جم رہا تھا۔ یخ پانی کی وجہ سے میرے ہاتھ شل ہو رہے تھے۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میرا جسم بُری طرح سے کانپ رہا تھا، لیکن کام تو کرنا ہی تھا۔ نوکری، مزدوری میں نخرا کیا کرنا۔ اتنے میں ایک کار آکر رکی جسے ایک گورا چلا رہا تھا۔ وہ اترا اور بازار میں غائب ہوگیا۔ لیکن کار میں ایک خاتون بیٹھی رہی، بعد میں پتا چلا کہ وہ اس گورے کی بیوی تھی، میں اپنا کام کر رہا تھا، لیکن وہ خاتون مسلسل مجھے دیکھے جارہی تھی، تھوڑی دیر تو وہ مجھے دیکھتی رہی، اور پھر اتر کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ میں بہت پریشان ہوا، پھر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا، لیکن میں کچھ نہیں سمجھ پایا، اسے میرے پاس بیٹھے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی اور ہوٹل کے سارے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے نہ جانے کیا معلوم کرنا چاہ رہی تھی اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، لیکن اس وقت مجھے اپنی ماں بہت یاد آرہی تھی۔
اس خاتون میں مجھے نہ جانے کیوں اپنی ماں دکھائی دے رہی تھی۔ پھر عجیب ماجرا ہوا۔ وہ رونے لگی۔ اتنے میں اس کا شوہر آگیا۔ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’کیا تم میرے ساتھ کام کروگے؟‘‘ میں تو بوکھلا گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں، میں خا موش رہا۔ وہ گورا میرے مالک کے پاس گیا اور کچھ باتیں کیں اور پھر ہوٹل کا ما لک مجھ سے آکر کہنے لگا: جاؤ پیارے! تیری تو قسمت کُھل گئی۔ ماں باپ کی دعائیں تیرے کام آگئیں۔ یہ جرمن ہے اور یہاں ایک ٹیکسٹائل مل چلاتا ہے۔ یہ تمہیں کا م سکھائے گا اور اپنے ساتھ رکھے گا۔ اگر تمہارا وہاں دل نہ لگے تو واپس آجانا۔ میں تیار ہوگیا۔ میرے پاس تھا ہی کیا صرف دو جوڑے کپڑے تھے۔ وہ لیے اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ قائداعظم کے مزار کے پاس ایک کوٹھی کے اندر کار رکی اور ہم نیچے اترے۔ میں خوش تو تھا اور حیران بھی، لیکن مجھ سے زیادہ وہ خا تون خوش تھی۔ میرے کپڑے میلے تھے، اس کے باوجود اس نے مجھے بہت پیار کیا۔ وہ خاصی بڑی کوٹھی تھی۔
انہوں نے مجھے نہانے کا کہا، گرم پانی سے نہانے کا مزا مجھے اس دن آیا۔ میں نے صاف کپڑے پہنے اور ان سے باتیں کیں اس شخص کو اردو آتی تھی، بس اس طرح کی باتیں کہ کہاں کے ہو، ماں باپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتا دیا کہ اماں ابا بہت بوڑھے ہیں اور غریب بھی، اس لیے میں مزدوری کرنے نکلا ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے ایک کمرا دے دیا، جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا اور اک الماری تھی۔ دوسرے دن وہ مجھے صدر لے گئے۔ اس وقت صدر ہی کراچی کا واحد کاروباری مرکز تھا، جہاں ضروریات زندگی کا سب سامان مل جاتا تھا اور ارزاں بھی۔ وہاں سے انہوں نے مجھے بہت ساری پینٹ شرٹس اور قمیص شلوار لے کردیے، دوپہر تک ہم خریداری کرتے رہے پھر اک بہت بڑے ہوٹل میں ہم نے کھانا کھایا۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور خواب تھا۔ اس کے بعد ہم گھر آگئے وہ جرمن خاتون میرے لیے ماں جیسی تھی۔ ہم گھر پہنچ کر سوگئے۔ شام کی چائے پر کچھ دیر باتیں ہوئیں اور میں نے انہیں ان کی فرمائش پر ممی اور ڈیڈی کہنا شروع کردیا۔ ان لفظوں کا مطلب بھی انہوں نے ہی مجھے سمجھایا تھا اور بعد کی زندگی میں انہوں نے اور میں نے یہ رشتہ نبھایا بھی۔ داستان بہت طویل ہے۔ ڈیڈی ایک ٹیکسٹائل مل میں پرنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے نگراں تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ پرنٹنگ مشینیں بھی جرمنی کی بنی ہوئی ہیں۔
وہ پرنٹنگ میں جو کیمیکل اور رنگ استعمال ہوتے ہیں ان کے ماہر تھے۔ وہ پہلا دن مجھے یاد ہے، جب میں ان کے ساتھ کار میں کام پر گیا، اتنی بڑی مشینیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ اب تم دل لگاکر اور آنکھیں کھول کر کام سیکھو، سب سے پہلے احتیاط سیکھو، ہمارا کام بہت خطرناک ہے بس یہ سمجھو ہمارے آس پاس زہر بکھرا ہوا ہے اور ہمیں اسی زہر کو اپنے کام میں لانا ہے۔ اپنی آنکھیں بہت بچا کر رکھنا اور منہ پر کپڑا باندھ کر رکھنا اور جب تک کام کرو اپنا چشمہ مت اتارنا۔ اب بس تم مجھے غور سے دیکھا کرو میں کیا کرتا ہوں۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں ڈرم رکھے ہوئے تھے، شیشے کے مرتبان تھے، مختلف پیمانے تھے، شیشے کی ٹیوبس تھیں، ترازو تھے اور ہر طرح کے رنگ۔ انہوں نے ہال میں داخل ہوکر اس کا دروازہ بند کردیا اور پھر اپنا کام کرنے لگے، وہ بہت سارے رنگوں اور کیمیکل کو مختلف مقدار میں لے کر ملا رہے تھے۔
میں انہیں بہت غور سے دیکھ رہا تھا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ دو گھنٹے ہوگئے تھے پھر انہوں نے جو محلول بنایا تھا اسے ایک کین میں انڈیلا اور ہاتھ منہ دھو کر دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کسی کو فون کیا اور دو مزدور وہ کین اٹھا کر لے گئے۔ باہر نکل کر انہوں نے اس ہال کا دروازہ بند کر کے تالا لگادیا اور اپنے دفتر میں آکر بیٹھ گئے۔ پھر چائے آگئی، ہم نے پی۔ کچھ دیر وہ ایک رجسٹر دیکھتے رہے اور پھر گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں انہوں نے مجھ سے کہا: ’’تم کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا بس یہ بتائیں کہ آپ نے ہال کو اندر سے بند کیوں کیا تھا؟ وہ مسکرائے اور گُڈ کہا اور پھر بتایا: ’’دیکھو! ہر کام کے کچھ راز ہوتے ہیں اور یہی راز انسان کو اہم بناتے ہیں، اگر یہ عام ہو جائیں تو ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کاروباری راز ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہنر ہے۔ ہم جو رنگ بنا تے ہیں ان کا فارمولا اگر سب کو معلوم ہوجائے تو سب بنالیں گے اور ہماری اہمیت ختم ہوجائے گی، بس ہر کام رازداری سے کرنا۔ اپنے فارمولے کسی بھی قیمت پر کسی کو بھی مت بتانا۔ جب تک تم راز کو راز رکھو گے بادشاہ رہو گے اگر بتا دیا تو گداگر!
ابتدا میں مجھے بہت پریشانی ہوئی، اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، اس لیے مجھے سب فارمولے زبانی یاد رکھنے پڑتے تھے، لیکن پھر مجھے اس کی مشق ہوگئی اور سچ تو یہ ہے کہ والدین کی دعاؤں سے اﷲ نے میرا دماغ کھول دیا، مجھے آج بھی سارے فارمولے زبانی یاد ہیں۔ ڈیڈی میرے کام سے بہت خوش تھے۔ وہ میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور ممی تو بہت ہی خوش تھیں۔ میں اس وقت جب ہزار روپے بہت زیادہ تن خواہ سمجھی جاتی تھی بیس ہزار روپے ماہانہ اپنے والدین کو بھیجتا تھا۔
میری کمائی سے ابا نے شان دار گھر بنایا تھا اور زرعی زمین بھی لے لی تھی۔ دو سال بعد میں نے ڈیڈی سے کہا کہ میں کچھ دن کے لیے گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے جب شام کو ہم گھر جا رہے تھے تو وہ راستے میں ایک دفتر میں گئے اور پھر آکر ایک لفافہ مجھے دیا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تم گاؤں جا رہے ہو تو یہ جہاز کا ٹکٹ ہے۔ اس وقت جتنی خوشی مجھے ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک ہفتے تک میں نے خریداری کی اور پھر ممی اور ڈیڈی مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔ ممی نے مجھے گلے لگایا وہ رو رہی تھیں اور پھر کہا: بس ایک ہفتے میں واپس آجانا۔
میں وہ منظر نہیں بُھول سکتا۔
The post تم سے ملنا بھی ہے، ملنا بھی نہیں ہے تم سے! appeared first on ایکسپریس اردو.