ارے واہ، ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہم جس کراچی میں رہتے ہیں وہ دنیا کا چَھٹا سستا ترین شہر ہے۔
برطانوی ادارے ’’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘‘ کے سروے نے یہ انکشاف کرکے ہمیں خوشی سے نہال کردیا ورنہ ہم منہگائی کے غم میں نڈھال تھے۔ یہ خبر ہمارے لیے بے حد فرحت اور راحت کا باعث ہے کہ ہم جس شہر میں برسوں سے پڑے سستا رہے ہیں وہ کتنا سستا شہر ہے۔ چلیے جی اچھا ہوا ہم پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں بستے کراچی میں رہ کر سستے چھوٹ گئے۔
ہمیں کراچی کے سستا ہونے پر شک تو ایک مُدت سے تھا لیکن اب ایک مغربی ادارے نے ہمارے گمان کی تصدیق کی تو یقین آیا۔ کراچی میں ایک عرصے تک زندگی بہت سستی رہی۔ یہاں زندگی کی پوری قیمت چند روپے کی گولی اور ایک بوری ہُوا کرتی تھی۔
ایسا لگتا تھا کہ مشہورِزمانہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کندھے پر بوری رکھ کر گھوم رہے ہیں، جہاں ذرا بور ہوئے کسی کو بھی مار کر بوریت مٹالی۔ ان نامعلوم افراد کے بارے میں اگرچہ سب کو معلوم تھا لیکن جہاں ان کا تذکرہ آتا عام شہریوں سے میڈیا اور پولیس تک سب کندھے اُچکا کر کہتے ’’تجھ کو معلوم نہیں، مجھ کو بھلا کیا معلوم۔‘‘ ہر قتل کے بعد لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ۔۔۔ہم کو معلوم ہے ’’مرڈر‘‘ کی حقیقت لیکن۔۔۔۔اس ’’لیکن‘‘ کا مطلب ہوتا تھا کہ مرڈر کی حقیقت بیان کرنے کے معنی ہوئے کہ ۔۔۔خود کو مروانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
اس دور میں زندگی کے بعد دوسری سستی ترین چیز تھی شہرت۔ لوگ نام بناکر مشہور ہوتے ہیں، اس شہر میں نام بگاڑ کر شہرت حاصل کی گئی، اور لنگڑا، کانا، اندھا، ٹُنٹا، نفسیاتی جیسی عرفیتیں ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کی تشریح کرتی نظر آئیں۔ یہ سستا دور کراچی والوں کو بہت منہگا پڑا، مگر خیر گزر گیا۔
یہ سروے صرف شہروں کے سستے ہونے سے متعلق تھا اس لیے کراچی چھٹے نمبر پر آیا، ہمیں یقین ہے کہ اگر معاملہ ’’مُفتے‘‘ کا ہوتا تو ہمارا شہر فہرست میں پہلے نمبر پر جگہ پاتا۔
یہاں جو کچھ مفت دست یاب ہے کسی دوسرے شہر میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہر محلے میں عوام کی سہولت کے لیے اشیائے ضروریہ کے ڈھیر لگائے گئے ہیں، جنھیں عرفِ عام میں کوڑے کے ڈھیر کہا جاتا ہے۔ ان ڈھیروں سے مفلوک الحال افراد مفت کا کھانا تو حاصل کر ہی لیتے ہیں، لیکن جو اچھے حال میں ہیں انھیں بھی ان ڈھیروں سے پلاسٹک کی تھیلیاں، کاغذ، بوتلیں اور مختلف قسم کا دیگر سامان بہ آسانی مل سکتا ہے، بشرطے کہ وہ اپنی نفاست پسندی قربان کریں اور سونگھنے کی حِس کو سندھ کی صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کی طرح بے حس کرلیں۔
اگر ایسا کرکے انھوں نے ایک بار ان کوڑے کے پہاڑوں کو سر کرنا شروع کردیا تو اتنا کچھ ملے گا کہ کوڑے کے ڈھیروں سے صوبائی حکومت اور بلدیہ کراچی کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے واپس ہوں گے۔
مصنوعات اور خدمات کے اشتہارات کی مد میں لاکھوں کروڑوں روپے سرف ہوجاتے ہیں، لیکن سنگ دل محبوب کو چپل کی طرح آپ کے قدموں میں لا رکھنے والے جادو گر سے تمام پیچیدہ، پوشیدہ اور بے ہودہ امراض کا علاج کرتے نادیدہ اسناد والے حکیموں اور ڈاکٹروں تک کے لیے کراچی کی دیواریں بلاقیمت دست یاب ہیں۔
دوسری شہروں میں لوگ تفریح گاہوں میں جاکر جسم میں سنسنی دوڑاتے اور خوف سے دل کی دھڑکنیں روک دینے والے جھولوں میں پیسے دے کر بیٹھتے اور محظوظ ہوتے ہیں، کراچی میں یہ سہولت چنگچی رکشے کسی معاوضے کے بغیر فراہم کر رہے ہیں۔ صرف کرایہ دیں اور پورے راستے جان جوکھم میں ڈالتے، حادثے کا خوف پالتے اور دیگر تمام اعضاء کے ساتھ دل پیٹ سے حلق تک اچھالتے سفر کا لطف اُٹھائیں۔ اس سفر میں خدا سے قربت، موت کا ڈر اور نیکی کی رغبت کا پیدا ہونا مفت حاصل ہونے والے اضافی فائدے ہیں۔
اور تو اور کراچی کے تو بہت سے سیاست دانوں نے زندگی ہی چندے کی صورت اور اس سے بھی بُری صورتوں میں آنے والی کمائی پر بسر کی، یوں اُن کو اپنی زندگی اور سیاست مفت کی پڑی۔ اسی باعث بعض لوگ ان کی جماعت کو ’’مفتا قومی موومنٹ‘‘ کہنے لگے تھے۔
اتنی مفت خوری کرانے والا شہر دنیا میں اور کون سا ہوگا۔ ارے ہاں، اس معاملے میں سب سے بڑھ کر تو کراچی کی زمینیں ہیں، جنھیں کسی بھی پروجیکٹ کا نام دیا جائے ان کا مشترکہ عنوان ایک ہی ہے۔۔۔’’مالِ مفت، دلِ بے رحم۔‘‘
محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk
The post ’کراچی‘ سستا سے مُفتا تک appeared first on ایکسپریس اردو.