حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی، آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ یہ وڈیو آسٹریلیا کے سینیٹر فریسر ایننگ کے انڈا کھانے کی ہے۔
اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں کہ انھوں نے انڈا کھایا، اگر یہی انڈا انھیں ناشتے میں بوائلڈ، فرائیڈ یا آملیٹ کی شکل میں پیش کیا جاتا اور رواج کے عین مطابق وہ اِسے منہہ سے کھاتے تو یہ روزمرہ کا ایک نہایت عام سا معاملہ ہوتا، جس کی وڈیو قطعاً نہ بنتی، اس انڈے کی خصوصیت یہ ٹھہری کہ یہ منہہ سے خاصی اوپر سر پر کھلایا گیا، بلکہ دے مارا گیا۔
نسل پرست اور مسلمان مخالف سینیٹر فریسر ایننگ انڈا کو غیرمتوقع اور غیرمناسب مقام پر اس لیے کھانا پڑا کیوں کہ انھوں نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کا ذمے دار پناہ گزینوں کو قرار دیا تھا، جس پر ایک سفیدفام نوجوان نے غصے میں آکر بطور احتجاج ان کے سر پر انڈا دے مارا۔
نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں ہونے والے حملوں میں 49 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد سینیٹر فریسر نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں انھوں نے متاثرین سے ہم دردی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا، اسلام کو اشتعال انگیز مذہب کہا اور فاشزم سے تشبیہہ دی۔
اس قسم کے خیالات کا اظہار کسی بھی مذہب اور اہل مذہب کے بارے میں کیا جائے اور کوئی بھی کرے وہ اپنے مذہبی گروہ، معاشرے اور ملک کا گندا انڈا کہلانے کا مستحق ہے۔ یوں ’’انڈا زنی‘‘ کا واقعہ دراصل دو
انڈوں کی باہمی سر پھٹول تھا، جس طرح ایک پُرانے بھارتی فلمی گانے کے بول ہیں ’’شیشہ شیشے سے ٹکرایا، شیشہ ٹوٹ گیا‘‘ اسی طرح اس چند لمحوں کی فلم میں ’’انڈا انڈے سے ٹکرایا، انڈا ٹوٹ گیا۔‘‘ اکثر دیکھا گیا
ہے کہ جب دو انڈے باہم ٹکراتے ہیں تو دونوں ہی ٹوٹتے ہیں، مگر اس معاملے میں یہ سائنسی حقیقت بھی سامنے آئی اگر دو انڈے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جائیں تو دونوں اچھے انڈے ہیں، لیکن اگر اس ٹکراؤ میں دونوں میں سے صرف ایک ٹوٹے تو بچ جانے والا گندا انڈا ہے۔
ویسے تو انڈے اور ٹماٹر مارنے کا فیشن پُرانا ہوچکا ہے، اب تو جوتے مارنے کا رواج ہے، لیکن یہ مارنے والے کو منہگا پڑتا ہے، اور اگر جسے مارا جائے اُسے نہ پڑے تو اور بھی بھاری پڑتا ہے۔ انڈا مارنے والے نوجوان کی نظر میں موصوف اس لائق نہیں ہوں گے کہ ان پر جوتا ضائع کیا جائے، ممکن ہے اس نے پنجابی کا یہ محاورہ سُن رکھا ہو ’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ چناں چہ اُس نے عزت افزائی کے لیے انڈے کا انتخاب کیا۔
ایک زمانے میں مشاعروں میں ناکام شاعروں پر انڈے برسائے جاتے تھے، اگر فریسر صاحب بھی کوئی بھلے مانس شاعر ہوتے تو انڈا کھا کر زردی سفیدی سے سَنا سَر جھکاکر گہری سوچ میں ڈوب جاتے پھر سَر اُٹھا کر کہتے۔۔۔ایک ’’انڈا‘‘ اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں۔۔۔۔میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے، لیکن وہ نہ شاعر نہ بھلے مانس، اس لیے سر پر انڈا ٹوٹتے ہی بن مانس کی طرح نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ ویسے جس طرح ’’انڈابار‘‘ نوجوان موصوف کے نہایت قریب آگیا تھا اُس سے لگتا تو یہی ہے کہ وہ اُن کا شناسا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ’’بڑا یارانہ لگتا ہے۔‘‘ شناسا نہیں بھی تھا تو ’’مانوس اجنبی‘‘ ضرور تھا، سو موصوف دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے:
عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کرگیا وہ
فریسر صاحب کو اس بات کا بھی افسوس ہوگا کہ انھیں انڈا مارنے والا کوئی مسلمان، ایشیائی یا سیاہ فام نہیں ان کا ہم نسل سفیدفام تھا، اور پھر انڈا بھی تو سفید ہونے کے باعث اپنا ہی تھا ناں۔ یعنی۔۔۔دیکھا جو ’’انڈا‘‘ کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔۔۔اپنے ’’سفیدیے‘‘ سے ملاقات ہوگئی۔ دوسری طرف موصوف کی دریدہ دہنی اور اشتعال انگیزی سے تنگ آجانے والے لوگ انڈاپھینکو نوجوان سے شکوہ کُناں ہوں گے۔۔۔تو ہی ناداں ’’ایک انڈے‘‘ پر قناعت کرگیا۔
فریسر صاحب کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ نفرت انگیزبیانات دینے اور پھر دھڑلے سے لوگوں کے درمیان پہنچ جانے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ۔۔۔اپنے ہی گِراتے ہیں نشیمن پہ ’’زردیاں۔‘‘
محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk
The post ایک ’’انڈا‘‘ ؛ اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.