Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

کوئی تعلق سی ’لاتعلقی‘ ہے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

عام طور پر سردمہری کی اگلی شکل کو ’لاتعلقی‘ کہا جاتا ہے۔ جو تعلق اعلانیہ نہ ہو، تو اکثر اس سے ’لاتعلقی‘ بھی غیراعلانیہ ہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اعلان ’لاتعلقی‘ سننے والے حیران ہوتے ہیں، اچھا یہ ’تعلق‘ بھی تھا یا یہ کہ فریقین کے درمیان جو آج سے پہلے تک تھا وہ ’تعلق‘ تھا۔۔۔!

عام زندگی کے بعد سب سے زیادہ لاتعلقی کا ’کھیل‘ میدان سیاست میں کھیلا جاتا ہے، اگر چہ ہجر اور وصل کے مختلف ذائقے لیے ہوئے اس پر ہمارے شعر ونثر میں بہتیرا مواد ہے، بقول ساحر لدھیانوی ؎

تعارف روگ بن جائے، تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے، تو اس کو توڑنا بہتر

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فریق کی جانب سے ’تعلق‘ کا دعویٰ کیا جانے لگتا ہے، دوسرا فریق چلّاتا پھرتا ہے کہ ’’یہ ہم نہیں۔۔۔!‘‘ اور دیکھنے والے صحیح غلط اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں۔ ابھی 28 فروری 2019ء کو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ٹیپو سلطان کی مدح کرتے ہوئے ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے ’لاتعلقی‘ کا اظہار کر ڈالا اور کہا ’بہادر شاہ ظفر نے غلامی کا انتخاب کیا اور ٹیپو سلطان نے آزادی کے لیے لڑنے کو ترجیح دی، اس ملک کا ہیرو بہادر شاہ نہیں، بلکہ ٹیپو سلطان ہے۔۔۔!‘

بھئی یہ درست ہے کہ انگریز آقا کے سامنے دونوں راہ نماؤں کے طریقۂ کار میں بہت فرق تھا، لیکن انگریز نے تو دونوں کو ہی دشمن تصور کیا، اُس نے ٹیپو کو شہید کیا، تو بہادر شاہ کو بڑھاپے میں اذیت ناک موت کے لیے رنگون میں قید کیا۔۔۔ شاید ’جناب‘ کے مصاحبین نے بہادر شاہ ظفر کا تعلق آج کی ’حزب اختلاف‘ سے بتا دیا ہو، جس پر چارو ناچار ’اعلان لاتعلقی‘ کرنا پڑا۔

جس طرح ’باپ‘ اپنی نافرمان اولاد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کرتا ہے، اسی طرح سیاست میں (سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی) بہت سے ’’باپ‘‘ اپنی کردہ اور ناکردہ ’’چیزوں‘‘ سے بہ امر مجبوری یا کبھی تنگ آکر ’لاتعلقی‘ کی منادی کرا دیتے ہیں، اس کے بعد وہ ’بچے‘ کبھی باپ کے مقابل بھی آن کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو، جس نے کبھی نہ کبھی ’لاتعلقی‘ سے استفادہ نہ کیا ہو۔۔۔ لیکن جس طرح ’متحدہ قومی موومنٹ‘ نے 23 اگست 2016ء کو اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اُس کی مثال جدید سیاسی تاریخ میں بہت مشکل سے ہی ملے گی۔۔۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہی قائد پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ’گرفت‘ میں آجانے والے اپنے ’بندوں‘ سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان کر دیتے تھے، اب یہ دن بھی آیا کہ یہاں موجود ان کی پوری جماعت نے اپنے قائد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کر دیا۔۔۔!

آخر میں بہ عنوان ’لاتعلقی‘ ایک ’رواں نثر‘ پیش خدمت ہے، جسے ’نثری نظم‘ کہنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، البتہ ہم ایسا سمجھنے والوں سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان بھی نہیں کرتے، بلکہ مَن ہی مَن میں اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ’پھر سے کہو۔۔۔ کہتے رہو۔۔۔!‘ :

میں مسلسل بہتے اِن آنسوؤں سے

لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔۔۔!

میں جھومتا ہوا بدن ہوں

میرا دھڑکنوں سے کوئی تعلق نہیں!

میں مسکراتا ہوا چہرہ ہوں۔۔۔

میرا اشکوں سے کوئی تعلق نہیں!

وہ گئے وقتوں کے خواب تھے۔۔۔

جو کھلی آنکھوں نے دیکھے۔۔۔

سو یہ دیتی رہیں اس ’دیکھے‘ کا خراج۔۔۔

میرا اب سپنوں سے کوئی تعلق نہیں!

یہ نم آنکھیں تھک رہی ہیں۔۔۔

میں روح ہوں۔۔۔

میرا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ہولی

رضوان طاہر مبین
لال، نیلے، ہرے، پیلے اور گلابی رنگوں نے ’خانہ بدوش‘ کے چہرے اورکپڑوں کو رنگ برنگا کیا ہوا تھا۔۔۔
اس کے لباس اور جلد کی رنگت میں اب کوئی فرق نہ تھا۔
’’کیا تم ہندو ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک نظر اپنی قمیص پر ڈالی اور جواب دیا: ’’نہیں صاحب۔۔۔!‘‘
’’پھر یہ ہولی کے رنگ۔۔۔؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا۔
’’اچھا لگ رہا ہے صاحب۔۔۔!
اتنے سارے رنگوں سے ہمارے کپڑے بھی آج ’بابو لوگ‘ کے موافق کتنے اُجلے لگ رہے ہیں ناں۔۔۔!‘‘
وہ ہاتھ پر لگے ہوئے ایک داغ پر رنگ لگاتے ہوئے بولا۔

۔۔۔

ماں کی ممتا پہ
سوال۔۔۔
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ گھر کی دیوار میں ایک کھڑکی ہے، جس میں سے اکثر اوقات بچوں کے کھیلنے کودنے اور رونے دھونے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ ایک سہ پہر میں کام میں مصروف تھا کہ ایک بچی کی آواز سنائی دی، وہ اپنے بھائی سے کہہ رہی تھی ’’احمد، چلو ہم کھیلتے ہیں۔ میں آپ کی مما بن جاتی ہوں اور آپ میرے بے بی!‘‘ یہ جملے اس بچی کے منہ سے نکلے، جسے ابھی اسکول کا پتا تک نہیں، لیکن اس کے یہ الفاظ سیدھے میرے دل و دماغ پر آ لگے تھے۔

اس کے جملے سن کر میرا خدا کی ربویت پر ایمان مزید پختہ ہوگیا کہ اس نے کتنی خوب صورتی سے ایک چھوٹی سی بچی کے دل میں ممتا کا احساس جگایا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ 24 فروری 2019ء کو جس ماں نے گھریلو اور شوہر کے جھگڑے سے تنگ آکر اپنی سات اور تین سال کی دو بیٹیوں کو نہربرد کر دیا وہ کون سی ماں تھی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کم سن بچی ممتا کے احساس سے آشنا ہے، لیکن ایک حقیقی ماں ایسے کس موڑ پر جاپہنچی کہ اس نے اپنی دو کلیوں کے ساتھ ایسا قبیح فعل کیا، یقیناً یہ کسی بھی سماج کے لیے بہت انتباہی صورت حال ہے کہ ایک ماں اپنی بیٹیوں کی جان کے درپے ہو جائے۔

وہ ماں جس کے لیے رب کی بندوں سے محبت کی مثال دی جاتی ہے کہ رب العزت ایک ماں سے 70 گنا زیادہ اپنے بندوں کو چاہتا ہے۔ ماہرین سماجیات کو ان محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔

پانی گدلا کیوں۔۔؟
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب
’’اس شاہ راہ پر آگے دور تک کوئی اور پنکچر والا نہیں۔ اس لیے پنکچر والے نے لکھا ہوا تھا ’آگے جانے سے پہلے احتیاطاً اپنی ٹائرٹیوب چیک کروا لیجیے، تاکہ کسی زحمت سے بچ سکیں‘ عجیب بات تھی کہ معائنے کے دوران ہر ٹیوب میں ’پنکچر‘ برآمد ہوجاتا۔۔۔ اور لوگ مطمئن ہوتے کہ چلو آگے ویرانے میں گاڑی پنکچر ہونے کی زحمت سے بچ گئے۔ بہت سے لوگ اسے درویش تک کہنے لگے۔ مجھے یہ ماجرا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

ایک دن میں اُس پنکچر والے کے پاس جا پہنچا، اس نے ٹیوب چیک کرنے کے لیے برتن میں گدلا پانی ڈالا ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا صاحب، گدلے پانی میں پنکچر جلد ’نظر‘ آتا ہے، میں حیران ہوا، جب وہ دکان سے باہر نکلا میں نے پنکچر چیک کرنے والا برتن انڈیل دیا۔ دیکھا تو اس برتن کے پیندے میں ایک عدد سوئی لگی ہوئی ہے، جب بھی کوئی پنکچر لگوانے آتا تو وہ گدلے پانی میں ٹیوب ڈبوکر سوئی چبھو کر اس میں پنکچر کردیتا۔ گدلے پانی کی وجہ سے سوئی نظر نہ آتی تھی، یہی وجہ ہے، وہ صاف پانی برتن میں نہیں ڈالتا تھا۔

دسترخوان کا جزو ’’ثقل دان‘‘ کیا تھا؟
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کوشش کی جاتی ہے کہ دسترخوان خوب صورت اور جاذب نظر انداز میں لگایا جائے۔ اس صورت خال کا منطقی تقاضا یہ بھی ہے کہ کھانے کے دوران منہ سے نکالی جانے والی فاضل، گراں بار، اور ناپسندیدہ اشیا، مثلاً گرم مسالے کے اجزا، ہڈی، ٹماٹر کے چھلکے، دھنیہ یا کسی قسم کی ادھ چبی اشیا، جو بعض اوقات ناگوار ذائقے کی بنا پر منہ سے نکالنا پڑ جاتی ہیں، انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی معقول اور نفیس انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی اشیا کے لیے کھلے برتن، طشتری یا رکابی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔

وہ بھی صرف بہت شائستہ قسم کے لوگوں میں، ورنہ اکثر و بیش تر دسترخوان پر ہی اس کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے، جو ہمارے خیال میں انتہا درجے کی بدذوقی ہے۔ برصغیر پاک و ہند جہاں ریاستوں کے نوابوں، مہاراجوں کے ہاں قسم قسم کے دسترخوان بچھانے اور سجانے کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے، ان معاشروں میں بھی ایسے کسی خاص برتن کا سراغ نہیں ملتا، جس میں کھانے کے دوران نکالی جانے والی ناگوار اور گراں بار اشیا رکھی جاسکیں۔

اس کے لیے دلی کے داستان گو میر باقر علی پر لکھے گئے ایک خاکے سے لفظ ’ثقل دان‘ دریافت ہوا۔ قدیم دلی میں ہر دسترخوان پر ’ثقل دان‘ رکھا جاتا تھا اور یہ مثل مرتبان کے ہوتا تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی ادھ چبی اور ناگوار اشیا اسی ’ثقل دان‘ کے تہہ نشیں ہوجائیں، دسترخوان پر کھانے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ کاش اس لفظ کو عام کر کے لوگوں کو ایسے برتن کے استعمال پر راغب کیا جائے، تاکہ ہم مکمل آداب دسترخوان اور شائستگی کے ساتھ کھانا تناول کر سکیں۔

’’آم‘‘آدمی۔۔۔
محمد فراز
بابو اپنی عمر کے 39 سال تک ایک عام آدمی تھا ایک ’’عام‘‘ آدمی جسے لکھا ’’ع‘‘ سے جاتا ہے مگر برتا ’’آ‘‘ سے جاتا ہے۔ بابو بھی 39 سال سے اس تماشے کا حصہ تھا اور پُرامید تھا کہ جب 39 سال گزار دیے، تو اگلے 20، 25 سال بھی گزر ہی جائیں گے اس عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب وہاں جنت میں تو بچوں کے پوتروں کا خرچہ نہیں کرنا پڑے گا، نہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی فکر اور نہ ہی کسی سیٹھ کی غلامی، کتنا سکون ہو گا نا وہاں، جنت میں رہنے کا کوئی کرایہ بھی نہیں دینا پڑے گا، نہ بجلی کا بل اور نہ لوڈ شیڈنگ، اسے پورا یقین تھا کہ جنت میں یہ سب کچھ ہوگا، مگر وہ جنت میں جائے گا یا نہیں اس بات کا یقین ڈگمگاتا رہتا۔ بابو کو اپنے سارے کرتوتوں کا علم جو تھا، مگر وہ یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر تا کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا اور اللہ تو توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بابو اتنا غریب تھا نہ جاہل۔۔۔ انٹر تک پڑھا تھا، مگر اس نے آرٹس لی تھی، اس لیے ملنے ملانے والے اس کے ’انٹر‘ کو کسی خاطر میں نہ لاتے۔۔۔ اب ظاہر ہے انٹر آرٹس کی کیا ’ویلیو‘۔

اب بابو نے یہ بات گرہ سے باندھ لی کہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں ڈلوا دوں گا، مگر آرٹس نہیں پڑھائوں گا۔ وہ اپنی پرچون کی دکان پر اکثر ادھار پر ادھار سودا لے جانے والے استاد سے اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھتا اور وہ اسے ہمیشہ ’اوکے‘ کی ہی رپورٹ دیتا۔ ایک دن جب بابو کو یہ پتا چلا کہ وہ ٹیچر ہی اسکول کے پرچے آئوٹ کرا کے بچوں کو پاس کراتا ہے، تو اسے بہت غصہ آیا، مگر پھر وہ بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنے غصے کو پی گیا۔

غصہ وہ واحد حرام چیز تھی، جسے وہ برسوں سے پی رہا تھا۔ اب تو اگر اسے کسی دن الٹی ہوتی تو جانے کون کون اس ’سیلاب‘ میں ’بہہ‘ جاتا۔۔۔! ہر شریف آدمی کی طرح اسے بھی یہ مان تھا کہ شریف آدمی جب غصے میں آتا ہے، تو اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے، اس لیے اس نے کبھی اپنی شرافت کا بند ٹوٹنے نہ دیا! محلے میں اس کے اخلاق کی قسمیں کھانے والوں کی کمی نہ تھی، مگر گھر والے ’بے قدر‘ تھے۔ وہ تُنک کر کہتا کہ جب میں نہیں رہوں گا ناں، تب تم لوگوں کو میری قدر ہوگی، جس پر بیوی چڑ کر کہہ دیتی کہ ہاں ہاںِ تب ہی ہوگی۔

بابو زیادہ بحث نہیں کرتا تھا، کبھی کسی ’’سنجیدہ مسئلے‘‘ پر غور کرنا ہو تو وہ علاقے کے چند ایسے چیمپیئن لوگوں کے بیچ چلا جاتا، جو سارے جہاں کے بارے میں سب ’’جانتے‘‘ تھے۔۔۔ وہ اسے زندگی کے ’’مفید مشورے‘‘ بھی دیتے، جیسا کہ بیوی کو قابو میں کیسے رکھیں، سسرالیوں میں عزت کیسے بنائیں، بچوں پر نظر کیسے رکھیں وغیرہ۔ وہ ان کے ساتھ تاش کھیلتے، ایک داڑھ میں پان دبائے، آدھے منہ سے چائے پیتے ہوئے گھنٹوں اس ’سیر حاصل گفتگو‘ کا حصہ بنا رہتا۔ گھر آتا تو بیوی نیند سے جاگ کر دروازہ کھولتی جس پر وہ ناراض ہوتا کہ وہ اتنی بے فکر ہے کہ اس کے آنے سے پہلے ہی سوگئی۔

بات یہ تھی کہ 39 سال تک وہ ایک عام آدمی رہا اور اس کی کہانی میں کچھ بھی نئی بات نہ ہوئی۔ 39 واں سال اس کی زندگی کا سب سے اہم سال ثابت ہوا۔ سب ہی ملنے ملانے والے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنے لگے، لوگ اس کے قرضے لوٹانے لگے، یہی نہیں اس کے گھر کھانے پکا پکا کر بھیجنے لگے، اس کی بیوی کو تو چولھا جلانے کی ضرورت بھی نہ پڑتی، اس کے گھر کی صفائی کی ذمہ داری بھی رشتہ داروں نے لے لی، اس کے اہل خانہ کے تو ٹھاٹ ہی اور ہوگئے، کسی شاہی خاندان کی طرح ان کی دل جوئی کی جانے لگی، اور پھر۔۔۔

پھر سوگ کے تین دن پورے ہوگئے۔۔۔ پھر وہی ہوا اس کے بیوی بچوں کے دلوں میں بابو کی قدر جاگ گئی!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>