کرکٹ ہو یا ہاکی اور فٹ ہال‘ ان کھیلوں کے میدانوں میں صرف کھیل ہی نہیں ہوتا بلکہ دلچسپ و عجیب حادثات اور واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔
کبھی دوستی جنم لیتی ہے اور کبھی دشمنی!آپس میں رشتے جڑتے ہیں‘ تو ٹوٹتے بھی ہیں۔ غرض جب میدان میں حریف ٹیموں کے پُرجوش کھلاڑی پوری قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں‘ تو کئی کرشمے بھی جنم لیتے ہیں۔ ایک ایسا ہی کرشمہ مشہور آسٹریلوی کرکٹر، آئن چیپل اور پاکستانی لیجنڈری کھلاڑی جاوید میاں داد کی دوستی بھی ہے۔آئن چیپل نے دسمبر 1964ء میں اپنا پہلا ٹیسٹ پاکستان کے خلاف کھیلا تھا۔ وہ ایک جارحانہ اور جنگجو مزاج رکھنے والے کھلاڑی تھے۔
1970ء تا1975ء آسٹریلوی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اسی دوران ان کی زیر قیادت آسٹریلوی ٹیم میں ’’سلیجنگ‘‘ (Sledging)کے رجحان نے جنم لیا۔جب ایک کھلاڑی تنہا یا دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر بیٹنگ کرتے حریف پر طنزیہ جملے کسے‘ اسے اشتعال دلانے کی کوشش کرے تاکہ وہ غلطی کر کے آؤٹ ہو جائے‘ تو یہ سرگرمی ’سلیجنگ‘‘ کہلاتی ہے۔ بحیثیت کپتان آئن چیپل نے اس سرگرمی کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم میں پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے ‘ کئی مواقع پر ان کی مخالف کھلاڑیوں سے تو تکار اور منہ ماری بھی ہوئی۔ چناںچہ آئن چیپل لڑاکا کھلاڑی کے طور پر مشہورہو گئے۔
آئن چیپل اور جاوید میاں داد کا پہلا ٹاکرا دسمبر 1976ء میں ہوا جب پاکستانی ٹیم تین ٹیسٹ کھیلنے آسٹریلیا پہنچی۔ اسی سیریز کے دوران دنیائے کرکٹ کے دو عظیم کھلاڑی ایک دوسرے سے آشنا ہوئے۔ قربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں جارحانہ مزاج رکھتے اور شرارتیں کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ چند سال قبل آئن چیپل نے اپنے ایک مضمون میں لیجنڈری پاکستانی کرکٹر سے اپنے تعلقات پہ بڑے دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی تھی۔ یہ مضمون مشہور رسالے’’ دی کرکٹ منتھلی‘‘میں شائع ہوا تھا۔ اسی مضمون سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
اگر جاوید میاں داد آپ کی ٹیم میں شامل ہیں‘ تو انہیں روایتی ہیرو سمجھئے جو جیت کی خاطر جان بھی دے سکتا ہے۔ اگر مخالف ٹیم میں ہیں‘ تو میں انہیں ناپسندیدہ ہی کہوں گا۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ د وسروں کو اشتعال انگیز اذیت دینے والے چھوٹے سے شیطان تھے۔میں بچپن میں اپنی والدہ کو بہت تنگ کرتا اور ان کے صبر کا امتحان لیتا تھا۔ شرارتوں سے ان کی ناک میں دم کر دیتا۔ ایک بار پریشان ہو کر انہوںنے مجھے ’’aggrannoying little devil‘‘ کا خطاب دیا۔ یہ اصطلاح دو انگریزی حروف aggravating (اشتعال انگیزی) اور annoying(اذیت ناک) کے ملاپ سے وجود میں آئی۔ اگر آپ جاوید کے حریف ہوں‘ تو یہی قرار دیں گے کہ یہ اصطلاح ان پر فٹ بیٹھتی ہے۔
1978ء میں پہلی بار آسٹریلیا میں کیری پیکر سیریز منعقد ہوئی تب جاوید بھی عالمی الیون کی ٹیم کا حصہ بنے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میدان میں ان سے دو دو ہاتھ ہوئے۔ جب بھی میں چوکا یا چھکا مارتا‘ تو ہ بڑی مایوسی سے فضا میں ہاتھ بلند کر لیتے جیسے انہیں بڑا افسوس ہو۔ یہ رویّہ مجھے ناگوار گذرتا اور میں کچھ طیش میں آ جاتا۔جب جاوید بیٹنگ کرنے آئے‘ تو تب بھی اپنی حرکتوں سے حریف کھلاڑیوں کو اشتعال دلانے لگے۔ ان کا خاص ہتھیار کریز سے نکل کر باہر آنا تھا۔ اس طرح وہ فلیڈر کو اکساتے تھے کہ وہ گینڈ وکٹوں پر دے مارے۔ جب نشانہ چوکتا‘ تو جاوید تیزی سے نیا رن لے لیتے ۔جب گیند فیلڈر کے ہاتھ میں آ جاتی تب بھی وہ کریز سے باہر کھڑے رہتے۔ اس وقت ان کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ مچل رہی ہوتی۔تب وہ ایک شرارتی اور چنچل لڑکے دکھائی دیتے۔
میں نے شروع میں یہ سوچ کر جاوید کی نٹ کھٹ حرکتیں نظر انداز کر دیں کہ یہ میدان میں نیا آیا شیخی خورا ہے۔ جلد ہی تیز رفتار بالر اس کی ساری شیخی نکال دیں گے۔ لیکن ایک واقعے نے میرا زاویہ نظر تبدیل کر ڈالا۔ہوا یہ کہ میں ایک میچ میں بیٹنگ کر رہا تھا۔ جاوید میرے نو فٹ پیچھے اسکوائر لیگ پر کھڑے تھے۔ میںنے گیند روکی اور رن لینے بھاگ کھڑا ہوا۔ مجھے علم تھا کہ جاوید خاصی دور ہیں اور وہ جلد گیند تک نہیں پہنچ سکتے ۔ مگر وہ تو چیتے کی سی تیری سے گیند کی سمت جھپٹے۔ یہ دیکھ کر میرا ساتھی چیخ اٹھا اور مجھے واپس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ہانپتا کانپتا کریز پر پہنچنے میں کامیاب رہا ورنہ جاوید نے مجھے آؤٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
اس سبق آموز واقعے نے مجھے احساس دلایا کہ جاوید کراچی کا بانکا نہیں بلکہ لڑاکا حریف ہے۔ یہ بظاہر لا ابالی سا نوجوان درحقیقت سوچ بچار کرنے والا کھلاڑی ہے۔ وہ ہر لمحے بلے باز کو آؤٹ کرنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے۔ اس احساس کے بعد میرے لیے جاوید ایک نٹ کھٹ، بے وقوف سا نوجوان نہیں بلکہ ذہین وفطین کھلاڑی بن گیا… ایسا کھلاڑی جو میدان میں اور باہر بھی اپنی شوخ باتوں اور شرارتوں سے سبھی کو محظوظ کرتا تھا۔
پاکستانی ٹیم نے مارچ اور اپریل 1979ء کے مہینے آسٹریلیا میں گزارے ۔ تب بھی جاوید نے اپنے چٹکلوں سے آسٹریلوی ٹیم کا ناک میں دم کیے رکھا۔ دوسرا ٹیسٹ میلبورن میں کھیلا گیا۔ دوران میچ ہمارے بلے باز‘ روڈنی ہوگ نے ایک شاٹ کھیلی۔ گیند پوائنٹ پر کھڑے جاوید کی طرف گئی اور ان سے چند قدم دور رک گئی۔روڈنی یہی سمجھا کہ گیند ’ڈیڈ‘‘ ہو چکی ۔ چنانچہ وہ کریز سے نکل کر پچ پر آئی مٹی بلے سے صاف کرنے لگا۔ اُدھر جاوید نے اچانک گیند اٹھائی‘ لپک کر وکٹوں کے قریب پہنچا‘ بیلز اڑائیں اور رن آؤٹ کی اپیل کر دی۔ امپائرنے اپیل پر روڈنی کو آؤٹ دے دیا۔ وہ بہت جھنجھلایا۔ اسے اتنا غصّہ آیا کہ ٹھوکر مار کر وکٹیں گرا دیں۔
مشتاق محمد پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ انہوں نے روڈنی ہوگ کو شدید غصے میں دیکھا‘ تو اس کے قریب آئے اور اسے دوبارہ کھیلنے کی دعوت دی۔ مگر امپائر مک ہاروے اپنے کیرئر کے پہلے ٹیسٹ کی امپائرنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ چناںچہ روڈنی کو پویلین واپس جانا پڑا۔اس واقعے کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی یہی سمجھنے لگے کہ جاوید میں اسپورٹس مین شپ کم ہی پائی جاتی ہے۔ تاہم کئی برس بعد مجھے عمران خان کی آپ بیتی’’ All round view ‘‘پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کے مطالعے سے مجھ پر منکشف ہوا کہ جاوید میاں داد کی چالوں اور شرارتوں کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا۔ عمران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’جب میرے ساتھی میدان میں غیر روایتی طریقوں کی مدد سے مخالف کھلاڑی کو آؤٹ کر تے تو میں لطف اٹھاتا۔ دراصل جاوید سمیت بہت سے پاکستانی کھلاڑی گلیوں میں کھیلی جانے والی کرکٹ کی پیداوار ہیں۔ اس ’’اسٹریٹ کرکٹ‘ میں مخالف کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کی خاطر ہر ممکن حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً فیلڈر بلے بازسے کہتا ہے کہ اس کی جیب سے کوئی چیز گری ہے۔ وہ جب پچ پر وہ چیز اٹھانے جائے تو پیچھے سے اس کی بیلز اڑا دی جاتی ہیں۔‘‘
یہ بات پڑھ کر میں بھی بہت محظوظ ہوا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جاوید کے علاوہ بھی کراچی میں بہت سے ”aggrannoying” ننھے شیطان پائے جاتے ہیں۔
1981ء میں آسٹریلوی قوم کے نزدیک جاوید میاں داد سے ’’جرم‘‘ سرزد ہوگیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے آسٹریلویوں کے گھر ہی میں ان کے ایسے دیوتا سے پنگا لے لیا جسے وہ دیوانہ وار پوجتے تھے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نومبر 1981ء میں تین ٹیسٹ کھیلنے آسٹریلیا پہنچی۔ اس کے کپتان جاوید میاں داد بن چکے تھے۔ پہلا ٹیسٹ 13 تا 17 نومبر پرتھ میں کھیلا گیا۔ دوسری اننگ میں جب جاوید کھیلنے آئے، تو میچ میں آسٹریلیا کا پلہ بھاری تھا۔ 99 رن پر پاکستان کی چار وکٹیں گرچکی تھیں۔ آسٹریلوی تیز رفتار بالر، ڈینس للی، جیف تھامس اور یارڈلے نہایت برق رفتاری سے گیندیں پھینک رہے تھے۔
اس وقت خاص طور پر ڈینس للی کا پورے آسٹریلیا میں طوطی بول رہا تھا۔ وہ اپنی جازب نظر شخصیت اور تیز رفتار بالنگ کے باعث آسٹریلوی عوام کے راج دلارے بن چکے تھے۔ جاوید نے اسی راجا کا دنگا کرادیا۔ہوا یہ کہ جاوید میدان میں آئے، تو للی پوری قوت سے انہیں گیندیں کرانے لگے۔ مقصد یہی تھاکہ پاکستانی کپتان آئوٹ ہوجائے۔ لیکن جاوید چٹان کی طرح کریز پر جمے رہے۔ انہوں نے آسٹریلوی بالر کی ہر کوشش ناکام بنادی۔ ناکامی کے پسینے نے للی کو تائو دلایا۔ اس نے جاوید کو آئوٹ کرنا اپنی انا کا مسئلہ بنالیا۔
ایک بار للی جاوید کے سامنے آگیا اور ان کا راستہ روک لیا۔ یوں وہ جاوید کو طیش دلانا چاہتا تھا۔ للی اپنے پلان میں کامیاب رہا اور جاوید غصّے میں آگئے۔ انہوں نے بلا اٹھا کر للی کو مارنا چاہا تو وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گیا۔ دونوں کھلاڑیوں کے اس مقابلے کو بہرحال دنیا بھر میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔امپائر ٹونی کارٹر دونوں غصیلے کھلاڑیوں کے درمیان آگئے اور ان کا بیچ بچائو کرادیا۔ اس واقعے کے بعد سبھی پر افشا ہوا کہ جاوید میاں داد ان کھلاڑیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے جو میدان میں حریفوں سے پنگے لینے کے شوقین ہوں۔جاوید کی دلیری اور بے خوفی 1987ء میں بھی نمایاں ہوئی۔ اسی سال عالمی کرکٹ کونسل نے یہ نیا قانون بنا یا کہ جو شارٹ پچ بال بلے باز کے کاندھوں سے اوپر ہوئی، اسے نو بار قرار دیا جائے گا۔ جاوید اس قانون کے ناقد بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون فاسٹ بالروں کی موت ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ جاوید ایسے حالات میں درج بالا قانون کے مخالف بنے جب عمران خان، کپیل دیو، کورٹنی والش، پیٹرک پیٹرسن، روی رتنا نئکے، وسیم اکرم، راجر بنی، ڈیرک پرنگل اور کریگ مکڈرموٹ جیسے تیز رفتار بالر موجود تھے۔ دراصل جاوید کو شارٹ پچ گیندیں کھیلنے ہی میں مزہ آتا تھا۔جاوید نے اپنی شرارتوں سے بھارتی لیجنڈ، سنیل گواسکر کو بھی نہیں بخشا۔ گواسکر جب پاکستان کے خلاف کھیلتے، تو ان کی ایک عادت اکثر دیکھنے کو ملتی۔ وہ یہ کہ بلے بازی کرتے ہوئے جب گیند ان کے قریب رکتی، تو وہ جھکتے، کریز کے اردگرد سے کچھ اٹھاتے اور پھر پھینک دیتے۔کئی سال بعد ایک بار میں نے گواسکر سے پوچھا کہ وہ کریز پر سے کیا اٹھاتے تھے؟ وہ کہنے لگے’’میں کریز کے قریب اگی گھاس اکھیڑتا تھا اور پھر وہیں ڈال دیتا۔‘‘ یوں شاید وہ پاکستانی فاسٹ بالروں کی برق رفتار گیندوں کا اثر کم کرنا چاہتے تھے۔
گواسکر کی عادت مگر شرارتی جاوید کی نگاہوں میں آگئی۔ چناچہ جب بھی وہ بیٹنگ کرتے اور کبھی گیند ان کے قریب رک جاتی تو جاوید آواز لگاتے ’’چلو، چلو، گیند اٹھائو بڈھے۔‘‘
میرے ممدوح کی شرارتوں اور شریر جملوں سے بعض حریف کھلاڑی لطف اٹھاتے، تو کچھ برا بھی مناتے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ جاوید نے اپنی خدا داد صلاحیتوں، محنت اور مستقل مزاجی سے ثابت کردیا کہ وہ دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک ہے۔جاوید کے سفید دامن پر مگر ایک دھبہ بھی ہے، یہ کہ وہ بہ حیثیت کپتان ٹیم کو متحد نہیں رکھ سکے۔ کبھی کھلاڑیوں نے ان کے زیر قیادت کھیلنے سے انکار کیا۔ کبھی کرکٹ بورڈ نے انہیں فارغ کر ڈالا۔ کبھی وہ خود مستعفی ہوگئے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کھلاڑی کے طور پر جاوید ہمیشہ جیت کی خاطر جان لڑا دیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں ایک جارحانہ حریف ہوں اور فخر مند پاکستانی۔‘‘
ایک روزہ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم نے جاوید میاں داد کی قیادت میں بہرحال کئی یادگار مقابلے جیتے۔جاوید کی سعی ہوتی تھی کہ وہ دشمن کے جبڑوں سے جیت کوکھینچ لائیں۔جب پاکستان کا بار کندھوں پر نہ ہوتا تو جاوید پھر اپنے آپ اور دوسروں کو محظوظ کرنے کے لیے پھلجھڑیاں چھوڑنے لگتے۔ 1992ء کا عالمی کپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا۔ تب پاکستان اور بھارت بھی ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ دوران میچ بھارتی وکٹ کیپر، کرن مورے اچھل اچھل کر جاوید کے خلاف اپیلیں کرتا رہا۔ آخر جاوید سے رہا نہ گیا، انہوں نے پھر جس مزاحیہ انداز میں اچھل کے کرن مورے کی نقل اتاری اسے دیکھتے ہوئے آج بھی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
عالمی کپ 1996ء کا کوارٹر فائنل پاکستان اور بھارت کے مابین بنگلور میں کھیلا گیا۔ جب تک جاوید آئوٹ نہیں ہوئے، سبھی بھارتی شہریوں کے سانس سینے میں اٹکے رہے۔ دراصل دس سال قبل جاوید نے نہایت غیر معمولی انداز میں چھکا لگا کر بھارت کو یقینی جیت سے محروم کردیا تھا۔ اسی لیے بھارتی عوام کو خطرہ تھا کہ وہ پھر کوئی کرشمہ نہ دکھا دیں۔جاوید دیر تک مقابلہ کرتے رہے مگر پاکستان کو جتوا نہیں سکے اور وہ عالمی کپ سے باہر ہوگیا۔ لاہور میں فائنل سے قبل کوریج کے لیے دنیا بھر سے آئے لوگوں کو انھوں نے ایک دعوت دی۔ اس میں انہوں نے بھارتی مارک مسکرہناس (Mark Mascarenhas) کو خراج تحسین پیش کیا جس نے ٹیلی ویژن کے ذریعے بھارت میں کرکٹ کو مقبول ترین کھیل بنادیا تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ جاوید یقیناً فخر مند پاکستانی ہے مگر وہ دل کھول کر لوگوں کی تعریف کرتا ہے، چاہے وہ بھارتی ہی ہوں۔
رفتہ رفتہ مجھ پر یہ بھی افشا ہوا کہ جاوید نہ صرف ایک بہترین کھلاڑی ہے بلکہ اس کے ساتھ وقت بھی پُر لطف گزرتا ہے۔ وہ بااعتماد دوست ہے… اس aggrannoying چھوٹے شیطان کے تاثر سے بالکل مختلف جو ان سے پہلی بار مل کر مجھے محسوس ہوا تھا۔
The post ’جاوید میاں داد‘ کبھی رقیب، کبھی دلدار appeared first on ایکسپریس اردو.