ہماری سیاست میں علمیت وقابلیت، شائستگی، عاجزی اور انکساری جیسی خصوصیات اب ذرا خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ لیکن اگر کسی شخصیت میں آپ کو یہ سارے خواص یک جا محسوس ہوں، تو کم سے کم اُس لمحے آپ خود کو خوش نصیب سمجھنے میں حق بہ جانب ہیں۔۔۔اور آج کی ملاقات کچھ اسی کا بیان ہے۔۔۔
آج کل اُن کے منظر عام سے ذرا دور رہنے کے سبب اُن تک رسائی میں ہمیں کافی کھوج لگانا پڑی، لیکن اُن کا پتا معلوم ہوتے ہی یہ رسائی سہل تر ہوئی۔۔۔ اور ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے، جب ہم اُن کی رہایش کے قریب کچھ بھٹکے، تو وہ شان بے نیازی سے خود ہی اپنی گاڑی دوڑائے آن موجود ہوئے۔۔۔ جب ہم اُن کے دولت کدے پہنچے تو یہ بھی نہیں تھا کہ کوئی ڈرائیور یا مددگار موجود نہ ہو۔۔۔ لیکن یہ اُن کی ادائے مہمان نوازی تھی۔۔۔ چند لمحوں میں ہم اُن کی ’مہمان گاہ‘ میں تھے، جہاں کی دیواریں مختلف دستاویزات اور تصاویر کے ذریعے تاریخ کہتی محسوس ہوتی تھیں۔۔۔ لیکن ہم نے یہ کتھا اپنے میزبان کی زبانی سننا تھی۔۔۔ یہ بیرسٹر کمال اظفر ہیں۔۔۔
’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔‘ رسمی کلمات کے بعد گفتگو جب ماضی کے واقعات کو منظر کرنے لگی۔۔۔ تو اسے اپنے دیگر سوالات تلے روندنے کا جبر ہم سے تو بہت دیر تک نہ ہوسکا۔۔۔ چناں چہ ہم گاہے بگاہے ٹکڑے لگا کر اپنی تشنگی دور کرتے رہے۔۔۔ یہ گفتار گنگا جمنا اور تاریخ و تہذیب، سیاست اور برصغیر کے بٹوارے جیسے موڑ کاٹتے ہوئے آگے تک چلی آئی، اور پھر اس میں باقاعدہ ذکر ہوا ذوالفقار علی بھٹو کا۔۔۔
وہ بولے کہ سب سے پہلے 3 مارچ 1947ء کو کانگریس نے پنجاب کی تقسیم کی قرارداد پیش کی۔ موہن داس گاندھی تقسیم کے سخت خلاف تھے، جب کہ نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے بٹوارے کی حمایت کی۔ اس اجلاس میں ابوالکلام آزاد اور گاندھی غیرحاضر تھے۔ گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے نہرو اور پٹیل کو خط لکھا کہ آپ نے ایسی فرقہ ورانہ تقسیم کی قرار داد سے تو خود پاکستان کی بنیاد رکھ دی! پٹیل نے انہیں جواب دیا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ ’’پاکستان باقی رہے گا۔۔۔!‘‘ کمال اظفر کہتے ہیںکہ نہرو کی نظریں دریائے ستلج اور بیاس پر تھی، اسی لیے 1949ء میں ہی انہوں نے ستلج پر بھاکرا نگر ڈیم بنا دیا۔
بیرسٹر کمال پاکستان بچانے میں ذوالفقار بھٹو کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جان دے دی، جوہری توانائی کا حصول اُن کی وجہ قتل بنا۔ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے انہیں دھمکی دی تھی۔‘
’’تو ہمارا اتنا بڑا ادارہ اس سازش میں ملوث ہوگیا؟‘‘ ہماری یہ حیرانی بے ساختہ تھی۔ وہ بولے 1964ء میں منیر احمد خان ’انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی‘ (ویانا) میں تھے، بطور وزیر خارجہ بھٹو وہاں گئے، تو منیر احمد خان سے ملے، انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں جوہری توانائی کا انسٹی ٹیوٹ بن گیا ہے اور وہ 10 سال میں ایٹم بم بنا سکیں گے، بھٹو نے جنرل ایوب خان کو اس پر کام کا مشورہ دیا، جو انہوں نے ’منہگا‘ کہہ کر رد کردیا۔ جب انہیں اقتدار ملا، تو انہوں نے منیر کو براہ راست ملتان کے جلسے میں بلایا اور اعلان کیا کہ ’ہمیں گھاس بھی کھانا پڑی تو کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے اور میں منیر احمد خان کو ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کا چیئرمین مقرر کر رہا ہوں۔۔۔!‘ جلسے کے بعد بات ہوئی کہ آپ نے بنا کچھ کہے سنے جلسے میں اعلان کردیا؟ تو بھٹو نے منیر احمد خان سے کہا ’مجھے پتا ہے کہ آپ کی بیوی آسٹرین ہے، اگر میں پہلے کہتا تو ہوسکتا ہے، آپ کہتے میں اپنی بیگم سے پوچھ لوں۔۔۔ اب آپ جواب دیں پاکستان کے عوام کو۔۔۔!‘ خیر پھر ہنری کسنجر نے ہمارا ری پراسسنگ پلانٹ منسوخ کیا، لیکن ہم نے دوسرا کہوٹہ والا شروع کر دیا۔ منیر احمد خان کہتے ہیں کہ میرے سامنے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ہم تمہیں خوف ناک مثال بنادیں گے (Make an horrible example of you) کمال اظفر کہتے ہیں کہ اس سازش میں ضیا الحق ملوث تھے، انہوں نے اردن میں فلسطینیوں کو مارا، پھر ان کی افغان حکمت عملی کے ثمرات ہم اب تک بھگت رہے۔ ہم نے تو کراچی میں ’کلاشنکوف‘ کا نام ہی نہیں سنا تھا۔ یہاں روسی سفیر ’کے جی بی‘ کا تھا، اس نے الٰہی بخش سومرو سے کہا تھا کہ ہم یہاں اتنے ہتھیار چھوڑ کر جا رہے ہیں، کہ آپ 50 سال تک امن سے نہیں رہ سکیں گے، پھر امریکی اسلحہ اس کے علاوہ تھا۔
جنرل ایوب خان کی کابینہ کے حوالے سے کمال اظفر بتاتے ہیں کہ اس میں دوگروپ تھے، ایک وزیرخزانہ محمد شعیب کا، جو 1965ء کی جنگ کا مخالف تھا، دوسرا بھٹو کا، جو جنگ کا حامی تھا۔ 1966ء میں جب ذوالفقار بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفا دیا، توکمال اظفر کے والد نے انہیں چائے پر بلایا اور کہا کہ آپ کا بہت مستقبل ہے۔
کمال اظفر بتاتے ہیں کہ وہ 1969ء میں جب آئوٹ لک اخبار میں لکھ رہے تھے، تب حفیظ پیرزادہ کے ہم راہ پہلی بار ذوالفقار بھٹو سے ملے، انہوں نے دوبارہ ملاقات کی خواہش کی۔ جس کے لیے بعد میں وہ حفیظ پیرزادہ سے کہتے رہے، لیکن حفیظ ٹالتے رہے، کمال اظفر کا خیال ہے کہ حفیظ کی تعلیم اُن سے کم تھی اور وہ اُن سے حسد رکھتے تھے، کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے حلقے میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ہی نہ دیا تاکہ میں نہ جیت سکوں، شاہ راہ قائدین پر میرے انتخابی جلسے میں بھی انہوں نے بھٹو کو روکنے کی کوشش کی کہ نہ جائیں، خطرہ ہے۔
خاندانی مراسم کے سبب کمال اظفر چند ماہ ’مسلم لیگ‘ (کونسل) میں بھی رہے، جس کے صدر ممتاز دولتانہ نے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا تو وہ بہت متفکر ہوئے کیوں کہ وہ خود کو بائیں بازو کا سوشلسٹ کہتے ہیں۔ اسی عرصے میں لاہور سے آتے ہوئے جہاز پر ذوالفقار بھٹو دوبارہ ملے، انہوں نے کہا ’تم تو لیفٹسٹ ہو، وہاں کیا کر رہے ہو؟‘ ساتھ ہی ملاقات نہ ہونے کا شکوہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ حفیظ کبھی لے کر نہیں آئے، پھر انہوں نے یونس سعید کو میرے پاس بھیجا۔ یوں کمال اظفر 1970ء میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
ذوالفقار بھٹو کے ساتھ ایک سال بطور ’نجی معتمد اعزازی‘ کے طور پر کام کرنے کو وہ اپنی سب سے بڑی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’1970ء کے انتخابات کی فتح سے منتقلی اقتدار تک ساری خط وکتابت میرے سپرد رہی، پھر وزیر اور دو دفعہ سینیٹر اور ایک مرتبہ گورنر رہا، لیکن وہ سب سے زیادہ قیمتی دور تھا۔‘
کمال اظفر کہتے ہیں کہ میں انتخابات نہیں لڑنا چاہتا تھا، لیکن بھٹو صاحب نے بنا درخواست دیے، مجھے ٹکٹ دینے کی ہدایت کی اور پوچھا کہ کہاں سے انتخاب لڑیں گے، تو انہوں نے اپنی رہائش (امیر خسرو روڈ، کراچی) کا حلقہ چُنا، جو برنس روڈ تک دراز تھا، یہاں کے سابق رکن اسمبلی حسن شیخ (مسلم لیگ) بھی چنائو کے دن جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ مولانا ظفر انصاری کے حق میں بیٹھ گئے، یوں وہ فتح یاب نہ ہو سکے۔
سوشلسٹ ہونے کے تعلق سے گفتگو میں ذکر ہوا کہ بائیں بازو والے تو جلد ہی پیپلزپارٹی کو چھوڑ گئے؟ تو وہ بولے کہ ’میں میں کمیونسٹ نہیں، سوئیڈن میں رہا ہوں، تو مجھ پر وہاں کی سماجی جمہوریت کا اثر ہے، وہاں پیدائش سے موت تک ریاست بنیادی ضروریات کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہ ادارے قومیاتے نہیں، بلکہ اپنے ارب پتیوں پر 50 فی صد ٹیکس عائد کرتے ہیں، وہ دولت کے بہ جائے آمدن تقسیم کرتے ہیں۔ 80 فی صد کاروبار نجی ہیں۔ یہ ’سوشل ڈیموکریسی‘ دراصل ’اسکینڈے نیوین سوشلزم‘ ہے۔‘
مشہور بیورو کریٹ الطاف گوہر کے حوالے سے بیرسٹر کمال بتاتے ہیں کہ اُن کے لیے یہ مشہور تھا کہ ان سے زیادہ چالاک ہو تو وہ پاگل ہوتا ہے! جب جنرل یحییٰ نے الطاف گوہر کو نکالا تو وہ ’ڈان‘ اخبار کے مدیر بن گئے۔ بھٹو نے جب تقریر میں کہا کہ ہمالیہ روئے گا، تو الطاف گوہر نے اداریہ لکھا کہ ’پہاڑ نہیں روتے!‘ جس پر بھٹو نے انہیں جیل میں ڈال دیا، ان کی کسی بنگالی محبوبہ کے خطوط ہائی کورٹ میں دکھائے گئے، پھر معافی ہوگئی، تو ان کے بھائی تجمل حسین کو ملائیشیا میں سفیر بنایا اور الطاف کو روٹی پلانٹ دے دیا۔
بھٹو کے زوال میں ہنری کسنجر کی دھمکی کے ساتھ قومیائے جانے کی شدید حکمت عملی کو قرار دیتے ہوئے کمال اظفر کہتے ہیں کہ کاٹن، چاول اور گندم کی ہزاروں صنعتیں اس متوسط طبقے کی بھی تھیں، جنہوں نے جاگیرداروں کے خلاف پیپلزپارٹی کی حمایت کی، وہ جہاں رہتے تھے وہیں چکی بھی لگی ہوئی تھی، اسے قومیانے سے وہ بہت پریشان ہوئے۔ پنجاب فلور مل کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اُن کے پاس جو پیسے رہ گئے تھے، وہ انہوں نے حکومت مخالف اتحاد ’پی این اے‘ کو دے کر کہا کہ بھٹو کو نکالو۔ وہ ڈر گئے کہ کل ہماری سائیکل لے لیں اور ہمارا پلاٹ کینسل کر دیں گے، جب کہ پیپلزپارٹی کے منشور میں بڑی فیکٹریوں کو قومیانے کا ذکر تھا، نچلے درجے تک ادارے قومیانے کی تجویز الطاف گوہر نے دی۔۔۔!
اس معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے بیرسٹر کمال اظفر نے کہا جلیل صاحب نے تیل کمپنی ’شیل‘ کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے ’پی ایس او‘ بنائی، وہ قومیالی گئی۔ انہیں پرنسپل سیکریٹری نے بتایا تھا کہ قومیائے جانے کی یہ پالیسی الطاف گوہر نے دی، پھر جلیل صاحب نے الطاف گوہر سے بھی پوچھا، انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو کہا ’آپ نے کیسے اتنی احمقانہ تجویز دے دی؟ تو الطاف گوہر بولے کہ انہیں (بھٹو) باہر کرنے کے لیے یہی ایک راستہ تھا (That was the Only way to get him out)
یہاں پہنچ کر کمال اظفر تاسف سے ٹھیر جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ’17 جولائی 1976ء کو یہ ہوتا ہے اور صرف ایک سال میں وہ باہر ہو جاتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو ہم بہت مضبوط تھے۔‘
بیرسٹر کمال اظفر ذوالفقار بھٹو کے مقدمے میں پیروی کرنے والے وکلا میں بھی شامل رہے، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’بھٹو کی پہلی ضمانت بھی ہم نے کرائی۔۔۔ اس میں حفیظ پیرزادہ اور یحییٰ بختیار نہیں تھے۔‘ پیپلزپارٹی سے دوریوں کے باب میں کمال اظفر نے بتایا کہ ایک معتدل گروپ مصطفیٰ جتوئی اور ایک جارح گروپ حفیظ پیرزادہ کا تھا۔ وہ معتدل گروہ میں تھے، جو کہتا تھا کہ حالات ایسے نہیں کہ فوج کو جا کر دھمکی دی جائے۔
کمال اظفر نے انکشاف کیا کہ کراچی میں انہیں یاسرعرفات کی فلسطینی آزادی کی تنظیم (پی ایل او) نے پیغام دیا کہ ہم انہیں ملک سے باہر نکلوانے کا انتظام کر سکتے ہیں، لیکن طریقۂ کار نہیں بتایا۔ انہوں نے یہ بات بھٹو صاحب تک پہنچائی، جس پر انہوں نے کہا کہ I am prepared to listen to that voice to leave the country
کمال اظفر کہتے ہیں کہ ’جلاوطنی میں جانا کوئی بری بات نہیں ہے، لینن بھی تو بہت بڑا آدمی تھا، وہ فروری 1917ء میں واپس آئے، تو انہیں کہا گیا کہ آپ خطرے میں ہیں، تو وہ فن لینڈ چلے گئے، پھر جب اکتوبر میں دوسرا انقلاب آیا تو وہ وطن واپس آئے، اسی طرح خمینی بھی پہلے ملک چھوڑ کر گئے۔‘
وہ تصادم کی حکمت عملی کو غیرعقل مندانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے نظیر نے تب ہی مجھے واپس بلایا۔ ہم نے براہ راست پوچھا کہ ’آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھٹو کو بھی جلاوطن ہو جانا چاہیے تھا؟‘ تو وہ بولے:
’’بالکل۔۔۔! آج اُن کی عمر 90 سال ہوتی اور ان کا سایہ ہم پر اور ملک پر ہوتا۔‘‘
’اس کے بعد آپ ’نیشنل پیپلزپارٹی‘ میں چلے گئے؟‘ ہم نے اُن کی سیاسی وابستگی کو ٹٹولا۔ وہ بولے کہ ’ہم مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ نکالے گئے، معطل ہوئے کہ ہم جتوئی کے ساتھ مل کر ضیا الحق سے ذوالفقار بھٹو کے لیے محفوظ راستے کی بات کر رہے تھے، پھر جتوئی صاحب نے ’’ناراض پی پی‘‘ بنائی تو ہم اس میں چلے گئے۔
’بھٹو صاحب نے ہی معطل کیا آپ کو؟‘ ہم نے انہیں کھوجا۔ وہ بولے ’انہوں نے نہیں، بیگم بھٹو سے حفیظ پیرزادہ نے معطل کرایا، کوئی نوٹس نہیں دیا۔ ہم نے ’نیشنل پیپلز پارٹی‘ بنائی، پھر 1990ء میں بے نظیر نے مجھے واپس بلایا اور ’پالیسی پلاننگ کمیٹی‘ کی سربراہی دی، پھر ہم نے پیپلزپارٹی کے دو منشور لکھے۔ 1993ء کا منشور ’نیو سوشل کانٹریکٹ‘ جس میں ضلعی حکومت کا نظام تھا اور پھر 2007ء میں ’تھری ای‘ Education, Energy & Employment (تعلیم، توانائی اور روزگار) وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھ سے بی بی نے کہا کہ روٹی کپڑا مکان تو ہماری منزل ہے، لیکن یہ کس طرح حاصل ہوگا۔ جس پر میں نے سوچ بچار کر کے یہ راستہ بتایا۔‘‘
بیرسٹر کمال اظفر نے اس امر کی تصدیق کی کہ پرویزمشرف نے 2001ء میں انہی کا مرتب کیا گیا ضلعی نظام لاگو کیا۔ عطیہ عنایت اللہ نے اُن سے باقاعدہ وہ مسودہ لیا، لیکن اس میں سے انہوں نے ’ڈی سی‘ کو حذف کردیا۔
’’پھر تو بڑی عجیب سی بات ہے، کہ پیپلزپارٹی نے ہی وہ نظام نافذ نہیں کیا؟‘‘ ہم نے اپنے تعجب کا اظہار کیا، تو وہ بولے کہ پرویزمشرف نے بھی اسے مستقل طور پر نافذ نہیں کیا اور پیپلزپارٹی تو اب تو وفاق کی جماعت ہی نہیں۔ یہ پیپلزپارٹی زرداری والی۔۔۔ یہ تو کرپشن ہے۔۔۔ میں نے تو کبھی ان کے ساتھ چائے نہیں پی۔‘‘
ان کے لہجے میں تلخی گھل گئی، ہم نے یاد دلایا کہ ’’آپ وکیل نہیں رہے ان کے۔۔۔؟‘‘ وہ بولے کہ ’’این آر او میں ان کی جانب سے پیش ہوا، تو اس کی انہوں نے مجھے فیس ادا کی۔ انہوں نے فیس دی، تو میں ان کے لیے گیا۔‘‘
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے عہد میں بیرسٹر کمال کے بیان ’جی ایچ کیو پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں دیکھنا چاہتا‘ کا ذکر ہوا کہ پھر وہ واپس لے لیا گیا؟ وہ بولے ’میرا بیان تو صحیح تھا، وہ آفیشل کہا گیا تھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نہیں۔‘
’’لیکن آپ یوسف گیلانی کے مشیر بھی تو رہے؟‘‘ ہم نے انہیں ٹٹولا۔ وہ بولے کہ ’’مشیر تو صرف سیلاب کے وقت محدود دورانیے کے لیے رہا، پھر اس کے بعد فوراً مستعفی ہو گیا۔‘‘
’’گویا بے نظیر کے بعد آپ پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں ہیں؟‘‘ ہم نے منطقی انداز میں ایک سوال ان کی جانب سرکایا، تو یہ انہیں کچھ ناگوار سا گزرا، بولے کہ ’’کیا مطلب ہے حصہ نہیں ہوں۔۔۔! اصلی پیپلزپارٹی تو ہم ہیں، ہم کسی اور جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ اور آپ لکھ سکتے ہیں کہ جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ضیا الحق نہیں کرسکا، وہ آصف زرداری نے کر دیا۔ پارٹی تباہ کر دی!‘‘
ہم نے پوچھا کہ ’آپ نے یا انہوں نے کبھی قریب ہونے کی کوشش بھی نہیں کی؟‘ وہ بولے کہ ’’وہ جانتے ہیں، میری آفیشل رپورٹ موجود ہے، مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بارے میں کہ یہ ملوث ہیں۔۔۔!‘‘
’مرتضیٰ بھٹو کا قتل تو آپ کی عہد گورنری میں ہوا؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’’ہاں میں جانتا تھا، تب ہی میں نے استعفا دے دیا تھا، جسے بے نظیر نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ ’نہیں آپ کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔‘ پھر تو اسکینڈل ہو جاتا ناں۔‘‘
’’آپ کی یہ بات ’آن دی ریکارڈ‘ ہے؟‘‘ ہم نے تصدیق چاہی تو وہ بولے ’’ بالکل، اسی وجہ سے میں نے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ کو برطرف کیا، کیوں کہ وہ اس میں فریق تھے۔ اسی دن یہ تین لوگ ملے تھے، زرداری، عبداللہ شاہ اور واجد درانی۔‘‘
’’کراچی میں ایک ماہ میں ساڑھے تین، چار سو افراد قتل ہوجاتے تھے؟‘‘ ہمارے خیال میں 1995ء کا شورش زدہ شہر گھوم گیا۔۔۔ وہ بولے کہ ’’یہاں حالات دگرگوں تھے، این ڈی خان وغیرہ سے ایم کیو ایم کی بات چیت چل رہی تھیں، ایم کیو ایم کے اجمل دہلوی اور قاضی خالد وغیرہ میرے پاس آئے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مفاہمت ہوجائے۔ میں نے بے نظیر کو بتایا، تو انہوں نے تائید کی، لیکن وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ نے اس کی مخالفت کی، انہوں نے تو ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی کو جیل میں ڈالا ہوا تھا۔ ہماری عبداللہ شاہ کے اس طور سے شدید اختلاف تھا۔‘‘
اس دور میں نصیر اللہ باہر نے بھی تو ’’مقابلوں‘‘ میں قتل کیے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ وہ تو وفاقی وزیرداخلہ تھے۔ ’’الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کو تو عبداللہ شاہ نے مروایا، کیوں کہ ان کے بھائی مارے گئے تھے۔‘‘
بیرسٹر کمال اظفر کے سسر ایس ایس جعفری ان بیوروکریٹس میں شامل تھے، جو جنرل یحییٰ خان کے عتاب کا شکار ہوئے، پھر بیرسٹر صاحب کی شادی کی تقاریب بھی بہت چرچا میں رہیں، ہم نے اس حوالے سے بھی کچھ گفتگو چاہی، تو وہ ٹال گئے بولے کہ ’فقیری میں ہماری زندگی گزری، کوئی بیرونی اکائونٹ اور بینک بیلنس نہیں۔‘ وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ سے بہت زیادتی کی تھی، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ ہے، بالکل درست ہے۔
دادا ڈپٹی انسپکٹر اسکولز اور والد ’انڈین سول سروس‘ میں رہے
’’یوپی کا نام ہمالیہ سے نشیب میں ہونے کے سبب ’اترپردیش‘ رکھا گیا، پہلے اس کا نام ’یونائیٹڈ پرونسز آف آگرہ اینڈ اودھ‘ تھا۔۔۔ آگرہ سے جمنا گزرتا ہے اور الہ آباد میں جمنا، دریائے گنگا سے مل جاتا ہے۔‘‘
یہ بیرسٹر کمال اظفر گزرے دنوں پر ایک سماں سا باندھ رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ نہرو خاندان کا تعلق الہ آباد سے تھا، یہیں صوبے کی سب سے بڑی ہائی کورٹ ہے۔ 1921ء میں یوپی کا دارالحکومت الہ آباد سے لکھنئو منتقل ہوگیا، وہاں الہ آباد کے برعکس تعلق دار تھے، جیسے راجا محمود آباد اور راجا جہاں گیر آباد وغیرہ۔ قائد لکھنئو میں راجا محمودآباد کے ہاں ٹھیرتے تھے۔ والد نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا، مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوئے۔ الہ آباد یونیورسٹی یوپی کی پہلی جامعہ تھی، علی گڑھ کا الحاق بھی یہیں سے تھا۔
بیرسٹر کمال اظفر نے بتایا کہ وہ 29 فروری 1940ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے مغل سرائے (یوپی، ضلع چنڈولی) میں پیدا ہوئے، اُن کے دیگر بھائیوں کی پیدائش (ننھیال) لکھنئو کی ہے۔ دادا الہ آباد کے تھے، وہ یوپی کے ڈپٹی انسپکٹر اسکولز رہے، ان کا عرصہ ملازمت 1890ء تا 1921ء رہا۔ وہ روحانی سلسلے چشتیہ سے ہیں، ہم تینوں بھائیوں کی پیشی بھی اجمیر کی ہے۔
والد ’انڈین سول سروس‘ (آئی سی ایس) میں تھے۔ اس وقت آئی سی ایس میں زیادہ تر ہندوستانی مسلمان الہ آباد یونیورسٹی سے ہی آئے، جن میں غفران فاروقی، کریم فضلی، سعید جعفری، ابو الحسن قریشی، ایک مسلمان بورڈنگ ہائوس تھا۔ انگریز ’انڈین سول سروس‘ میں آنے والوں کو دوسرے صوبوں میں تعینات کرتے تھے، پنجاب کے عزیز احمد کو مدراس، این ایم خان کو پنجاب سے بنگال میں، ہاشم رضا کی پوسٹنگ سندھ میں کی گئی، کیوں کہ 1934ء میں سندھ کو صوبہ بنایا جا رہا تھا اور یہاں کوئی ’آئی سی ایس‘ نہ تھا۔ ژوب گیا تو وہاں دیکھا اے جی (ایجنٹ آف گورنر جنرل) کے ناموں میں کوئی ’مینن‘ تھا، پتا چلا وہ بھارتی سفارت کار شیو شنکر مینن کے والد ہیں، انہیں مدراس سے بلوچستان میں تعین کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے والد کو سنبھل پور (اڑیسہ) میں تعینات کیا گیا، پھر ہم وہیں رہے، صرف شادی اور تہواروں پر یوپی جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سرکاری افسران کو ہندوستان یا پاکستان کا اختیار تھا، والد کو ترقی کی پیش کش ہوئی کہ نہ جائیں، لیکن ہمارے ہاں تحریک پاکستان کا اثر تھا، اس لیے ہم یہاں آئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں ادارت بھی کی اور صدارت بھی!
بیرسٹر کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ یہاں ’ری ہیبلیٹیشن کمیشنر‘ ہاشم رضا کالج میں میرے والد محمد اظفر سے جونیئر تھے۔ انہوں نے ابا جان سے ’دعویٰ‘ (Claim) داخل کرنے کے لیے کہا تو والد نے منع کر دیا کہ ہم اس لیے تو نہیں آئے تھے۔۔۔ والد یہاں ڈپٹی سیکریٹری فنانس بن کے آئے، پھر چیف سیکریٹری اور الیکشن کمیشن کے سیکریٹری رہے۔ ہم کافی عرصے لاہور میں رہے، تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور کی ہے، پھر ڈھاکا اور راول پنڈی میں بھی رہے۔ گذشتہ 50 سال سے ہم کراچی میں ہیں۔ کراچی میں کمال اظفر سینٹ پیٹرکس اسکول میں تھے، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں رہے، کہتے ہیں کہ یہاں ایک ’رول آف آنر‘ ہوتا ہے۔ یہ میں نے ریکارڈ چار حاصل کیے۔ تینوں مضامین فلسفہ، انگریزی اور معاشیات میں اول آیا۔ ’راوی‘ میگزین کا مدیر بھی رہا، اور اس کے بعد طلبہ یونین کے صدر کا چنائو بھی جیتا۔ 18 سال کی عمر میں باہر چلا گیا، آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا، بیرسٹری کی، دو سال سوئیڈن میں قیام رہا۔ 1963ء میں وطن لوٹا، اسی برس والد محمد اظفر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔
’انڈس ویلی‘ اردو اور صوفیانہ سلسلہ۔۔۔
بیرسٹر کمال اظفر نے بتایا کہ اِن دنوں وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جس میں اُن کا مقالہ ہے کہ پاکستان کو جوڑنے والے تین عناصر کلیدی ہیں: انڈس ویلی، اردو اور صوفیانہ سلسلہ! اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’انڈس ویلی تہذیب ‘ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر آئی ایچ قریشی نے ’شارٹ ہسٹری آف پاکستان‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ پہلے ’ست سندھ‘ (سات سندھ) کہلاتے تھے، یہ پانچ نہیں سات دریا ہیں، جو چاروں صوبوں کو جوڑتے ہیں۔ پنجاب تو دریائے سندھ کے مشرقی دریائوں پر ہے، دوسری طرف دریائے سندھ کے مغرب میں بھی تو دریائے کابل اور ژوب گومل دریا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نظام آب پاشی ہے۔
اردو زبان کے حوالے سے کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہمارے ٹی وی نے اردو کو بہت فروغ دیا۔ ایک مرتبہ ہم نیپال گئے، وہاں سب خواتین ساڑھیاں پہنی ہوئی تھیں، دوسری بار گئے تو نصف خواتین کو شلوار قمیص میں پایا، پتا چلا کہ وہاں پاکستان کا ٹی وی بہت مقبول ہے، اس لیے وہ ہمارے ڈراموں سے متاثر ہیں۔ بیسویں صدی میں اردو کے دونوں بڑے شاعر اقبال اور فیض لاہور کے ہیں۔ یہ صورت حال 1857ء سے شروع ہو گئی تھی، جب دلی میں بہت قتل عام ہوا۔۔۔ وہاں مولوی باقر کو انگریزوں نے پھانسی دی، جس کے بعد ان کے بیٹے محمد حسین آزاد گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو پڑھاتے تھے، اقبال بھی اس زمانے میں وہاں زیر تعلیم رہے، ممکن ہے اقبال کو انہوں نے بھی پڑھایا ہو۔‘‘
جب کمال اظفر اردو کو ’متحدہ عنصر‘ کہہ رہے تھے تو ہمارا ذہن مشرقی پاکستان کی طرف گیا، جس پر وہ بولے: ’جناح ماڈل مین تھے، وہ بھٹو جیسی اردو بول لیتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ قوم کی بنیاد زبان پر ہوتی ہے، مشرقی پاکستان اسی بنیاد پر الگ ہوا، جب وہاں اردو کا اعلان کیا گیا، تو احتجاج ہوا، لیکن سامنے جناح تھے، اس لیے وہ پی گئے۔‘
کمال اظفر کا خیال ہے کہ پاکستان بننے سے مشرقی بنگال کا فائدہ ہوا، ورنہ انگریز تو انہیں کبھی الگ نہیں کرتے۔ وہاں شروع سے ہی اردو کی مخالفت ہوئی، لیکن جناح صاحب کی بات بھی ٹھیک تھی کہ اگر ایک رہنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ایک زبان رکھنا پڑے گی۔ جمیل جالبی صاحب کی کتاب پڑھیے، یہاں مسلمانوں کی زبان تو تھی ہی اردو، دکن، گجرات اور ڈھاکے میں ہر جگہ اردو تھی۔ ڈھاکا نواب فیملی میں بھی سب اردو میں بات کرتے تھے۔ شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تو یہ تک کہا کہ ’یہ منحوس زبان (بنگالی) ہمارے ہاں تو نہیں بولی جاتی۔‘
صوفیانہ سلسلے کو تیسرا ’متحدہ عنصر‘ قرار دیتے ہوئے بیرسٹر کمال کہتے ہیں کہ اس پر ڈاکٹر ایس ایم اکرام کی تین کتابیں ہیں، آپ برا نہ مانیں، ہمارے ہاں اسلام (سوائے سندھ کے) براستہ وسطی ایشیا آیا۔ پنجاب میں اقبال اور سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی رومی سے متاثر ہیں، وارث شاہ پر بھی وہی اثر ہے۔ آج کل ہم دوبارہ مثنوی مولانا روم پڑھ رہے ہیں، جس میں انسانیت کا درس ہے۔ رومی کی کتب اس وقت مغرب میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔
بیرسٹر کمال اظفر کا خیال ہے کہ اقبال کو لوگ سمجھتے نہیں، آج انہیں اسٹیبلشمنٹ نے اپنا لیا ہے، وہ دراصل شاعر نہیں، انقلابی تھے۔ اُن کے جناح کے نام خطوط ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بڑے مسائل غربت اور بھوک کے ہیں، جناح نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ صوفیانہ سلسلے کی ہمارے ہاں ثقافتی اہمیت ہے۔ ’والی آف سوات‘ اخوند نقش بندی سلسلے کے تھے، داتا صاحب بھی اسی سلسلے کے تھے۔
’’چچا! ہمیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔۔۔‘‘
بیرسٹر کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہم کراچی کو اپنا گھر محسوس کرتے ہیں، یہاں جو اپنائیت محسوس کرتے ہیں وہ ہندوستان میں نہیں! اردو کو جو مقام پاکستان میں ملا ہے، تحریک پاکستان میں اس کا بہت بڑا کردار تھا، بقول جمیل جالبی کے، کہ برصغیر میں اردو اسلام کی علامت تھی۔ آج ہمارے کزنز کے بچے وہاں اردو پڑھنا نہیں جانتے! بڑے ابا (تایا) کی بیٹی کی شادی جامع مسجد سے 200 گز کے فاصلے پر غالب کے محلے مٹیا محل میں ہوئی۔ ایک مرتبہ وہاں ملنے گئے، وہاں غالب کے شعر کا ذکر نکلا، دیوان منگایا گیا، میرے پاس چشمہ نہ تھا اس لیے ان سے کہا کہ آپ پڑھ دیں، تو انہوں نے کہا ’’چچا ہمیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔۔۔!‘‘
ہم نے پوچھا کہ آپ نے ہندوستان میں جو اجنبیت محسوس کی، کیا یہ احساس بٹوارے سے پہلے بھی تھا؟ تو وہ بولے کہ اس وقت ایسا نہیں تھا، مجھے یاد ہے، وہاں انگریزی میڈیم اسکول تھا، ہم اردو تو پڑھتے تھے، لیکن ہندی لازمی تھی۔ اسی طرح جب ہم یوپی جاتے، تو وہاں 1937ء میں کانگریس نے ہندی لازمی کرائی ہوئی تھی تو وہاں سب کو ہندی سیکھنا پڑی۔
کمال اظفر نے بتایا کہ اُن کے والد محمد اظفر ریٹائرمنٹ کے بعد ’اردو لغت بورڈ‘ کے صدر بھی رہے۔ ایک مرتبہ جمیل الدین عالی کے گھر پر عصمت چغتائی مدعو تھیں، انہوں نے اختر حسین رائے پوری سے کہا کہ آپ تو ترقی پسند تحریک میں تھے، تو پھر کیوں الگ ہوئے، تو انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ 1936ء میں کانگریس نے یہ قرار داد پاس کی کہ ہندی دیو ناگری رسم الخط میں ہندوستان کی قومی زبان ہوگی! سینیٹ میں اردو کا ذکر کرتے ہوئے کمال اظفر کہتے ہیں کہ 1975ء میں جب وہ پہلی بار رکن بنے تو وہاں تین چوتھائی تقاریر انگریزی میں ہوتی تھیں، مولانا شاہ احمد نورانی اور قائد حزب اختلاف خواجہ سرور (خواجہ آصف کے والد) کے سوا کوئی اردو میں بات نہیں کرتا تھا، لیکن 1995ء میں یہ صورت حال بالکل الٹ دیکھی کہ صرف معاشی یا خارجہ امور پر اظہار خیال ہو تو انگریزی اختیار کی جاتی۔
اردو میں عدالتی فیصلوں میں وقت لگے گا
کمال اظفر کہتے ہیں کہ یہاں 190سال انگریزوں کی حکومت رہی، ہمارا قانونی ڈھانچا انگریزی میں ہے، لیکن عدالتوں میں بحث ساری اردو میں ہوتی ہے، لیکن فیصلہ انگریزی میں لکھوایا جاتا ہے، بس حفیظ پیرزادہ، خالد انور وغیرہ اور کسی حد تک ہم بھی انگریزی میں بات کرتے، لیکن جب آپ کو کوئی نکتہ مل جائے تو پھر اردو میں آجاتے ہیں۔‘ اردو میں فیصلوں کے حوالے سے کمال اظفر کہتے ہیں کہ اس میں ابھی وقت لگے گا۔ اردو اور انگریزی میں کوئی تکرار نہیں۔ یہ ہماری سیاست، پارلیمان اور عدالتوں کی زبان تو ہے۔ جمیل جالبی کے بقول اردو کا جنم پنجاب میں ہوا، وہاں ڈسٹرکٹ کورٹ تک دعویٰ جواب دعویٰ اور ایف آئی آر تک سب اردو میں ہے۔ اس سے پہلے یہاں عدالتوں سمیت ہندوستان بھر میں فارسی زبان رائج تھی۔ شروع میں انگریزوں نے بھی فارسی میں خط وکتابت کی۔ میں نے خود بلوچ سرداروں کے نام انگریزوں کے فارسی خطوط دیکھے۔ یہاں انگریزی نے کسی حد تک فارسی کی جگہ لی ہے۔ اب انگریز سلطنت میں نہ سہی، لیکن انگریزی زبان پر سورج غروب نہیں ہوتا! اطالوی اور فرانسیسی کی طرح اردو کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے۔ آج بلوچستان میں پشتون اور بروہی آپس میں اردو میں ہی بات کرتا ہے۔
1972ء میں لیاقت آباد میں فائرنگ ہوئی تو صوبائی وزارت سے مستعفی ہوگیا
بیرسٹر کمال اظفر کے خاندان میں سیاست کا سلسلہ بڑے ابا (تایا) محمد اطہر ایڈووکیٹ سے شروع ہوا، وہ 1937ء میں مسلم لیگ سے یوپی اسمبلی کے رکن بنے۔ ’جناح پیپرز‘ میں ان کے خطوط بھی شامل ہیں، لیکن وہ پاکستان نہیں آئے! ہم نے پوچھا اس کی وجہ؟ تو وہ بولے کہ ’’میں نے پوچھا تھا اُن سے کہ آپ کو کیا فائدہ ہوا، بولے کہ ہم نے اپنے لیے تو نہیں کیا تھا، ہم نے سوچا ہماری تہذیب تو باقی رہ جائے گی۔۔۔!‘‘
’’یہاں تہذیب رہ جائے گی! لیکن یہاں آنے والوں کو تو یہیں کے رنگ ڈھنگ اپنانے کے لیے کہا جاتا ہے؟‘‘ ہم نے سوال کیا، تو وہ بولے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہم اگر سندھی زبان کا احترام کریں گے، تو وہ اردو کا زیادہ احترام کریں گے۔ ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، اردو شناخت ہے، ٹھیک ہے، لیکن سندھی ایک مکمل زبان ہے، اس میں 10، 12 اخبار ہیں، پنجابی، پشتو اور بلوچی کا کائی اخبار نہیں۔ چینلوں اور فلموں کی زبان سے ریونیو ریکارڈ سے ایف آئی آر تک سندھی میں ہیں۔ سندھی لینگویج آف لٹریسی رہی ہے، باقی زبانیں کبھی نہیں رہیں۔
جب ممتاز بھٹو سے میرا اختلاف ہوا تو میں مستعفی ہوگیا، کیوں کہ آئین میں لکھا ہے کہ صوبائی زبان اضافی طور پر بنائی جا سکتی ہے اور مدنی صاحب نے کہا اگر یہ تشریح ہے تو ہمیں اس لینگویج بل پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ممتاز بھٹو نہ مانے۔ میں نے ذوالفقار بھٹو سے کہا کہ دیکھیے ایسا نہ کریں، ورنہ آگ لگ جائے گی۔
جب بیرسٹر کمال نے ’زبان کے بل‘ کا ذکر کیا تو ہم نے پوچھا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ 1972ء کا یہ ’بل‘ آپ نے لکھا تھا؟ تو وہ بولے کہ میں نے تو اس کے مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اردو کے ساتھ۔۔۔‘ کہ یہ آئین میں بھی ہے اور یہ منوا بھی لیا تھا، لیکن بعد میں ممتاز بھٹو نے رفیع رضا سے کہہ کر یہ نکلوا دیا۔ رئیس امروہی، جمیل الدین عالی وغیرہ مجھ سے ملنے بھی آئے اور کہا کہ مسئلہ ہو جائے گا۔ پھر انہوں نے قطعہ ’’اردو کا جنازہ‘‘ بھی لکھ دیا۔
کمال اظفر کہتے ہیں کہ پی پی کی پارلیمانی میٹنگ میں سید سعید حسن نے بھی اعتراض کیا، میری اسمبلی کی تقریر ریکارڈ پر ہے۔ جب 1972ء میں لیاقت آباد میں فائرنگ ہوئی، تو میں نے استعفا دے دیا۔ بھٹو نے کہا اب تو تمہاری ضرورت ہے، ممتاز بھٹو نے میرا صوبائی وزارت سے استعفا منظور کر لیا۔ پھر بھٹو صاحب نے کمیٹی بنائی، جس میں آئی ایچ قریشی اور معراج خالد بھی تھے، اور پھر وہی باتیں تسلیم کیں جو ہم پہلے کہہ رہے تھے کہ اردو اور سندھی دونوں زبانیں ہوں گی۔
میں نے بھٹو سے کہا کہ لوگوں کو مہاجر ہونے کا احساس اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے پیروں کے نیچے زمین اپنی نہیں، اب بھی ایسی کالونیاں ہیں، جنہیں وہاں رہنے کا حق نہیں، آپ انہیں احساس ملکیت دلائیں۔ انہوں نے کہا رپورٹ بنائو، پھر ہماری رپورٹ پر چھے سے نو روپے گز کے حساب سے ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی)، ملیر، گلبہار (گولی مار)، اورنگی ٹائون، بلدیہ ٹائون، دہلی کالونی، محمود آباد، لانڈھی، اعظم بستی، منظور کالونی، وغیرہ لیز کرائیں اور انہیں پانی اور بجلی کی سہولتیں دلائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس بھٹو کا دستخط شدہ تحریر ’’وی مسٹ وِن اوور دی مہاجرز!‘‘ آج بھی موجود ہے۔
کمال اظفر کے بقول صوبائی وزارت کے بعد بھٹو نے ہمیں پیپلزپارٹی کراچی کا صدر بنایا، پھر انہوں نے شہر بھر میں پیپلزپارٹی کو مضبوط کیا، کہتے ہیں ’اگر 1979ء میں ضیا الحق نے خانم گوہر اعجاز اور دیگر کو گرفتار نہ کرایا ہوتا تو ہمارے عبدالخالق اللہ والا میئر کراچی بن جاتے۔‘ کمال اظفر سمجھتے ہیں کہ زبان کے مسئلے کی بنا پر پیپلزپارٹی کے کراچی مخالف جماعت ہونے کا تاثر بن گیا، ورنہ کراچی میں جتنی ترقی بھٹو کے دور میں ہوئی وہ کسی اور کے دور میں نہیں ہوئی۔
The post پیپلزپارٹی کے ساتھ جو ضیا الحق نہ کر سکا، وہ آصف زرداری نے کر دیا، بیرسٹر کمال اظفر appeared first on ایکسپریس اردو.