غزل
میں چاہتا ہوں محبت میں معجزہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں مگر کوئی مسئلہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں خدا پر یقین ہو میرا
میں چاہتا ہوں زمیں پر کوئی خدا بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو
میں چاہتا ہوں کہانی میں کچھ نیا بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں قبیلے میں نام ہو میرا
میں چاہتا ہوں قبیلے سے واسطہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں جدائی کا موڑ آجائے
میں چاہتا ہوں محبت میں راستہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص ٹوٹ کر آئے
میں چاہتا ہوں مرے پاس مشورہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں تمھیں بات بات پر ٹوکوں
میں چاہتا ہوں تمھاری کوئی سزا بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں مری جان بھی چلی جائے
میں چاہتا ہوں مرے ساتھ حادثہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں ترے نام ایک نظم کہوں
میں چاہتا ہوں ترا اس میں تذکرہ بھی نہ ہو
میں چاہتا ہوں کہ شہزادؔ آ ملے مجھ سے
میں چاہتا ہوں وہ لڑکا بجھا بجھا بھی نہ ہو
(شہزاد مہدی، اسکردو، گلگت بلتستان)
غزل
آنکھوں میں کیا چبھتا ہے یہ
مجھ کو آنسو لگتا ہے یہ
تکیے پر اک کانچ کا ٹکڑا
شاید ٹوٹا سپنا ہے یہ
کیسی دستک دروازے پر
تیز ہوا کا جھونکا ہے یہ
اس نے دل پر ہاتھ رکھا تھا
اس دن ہی سے بہکا ہے یہ
مجھ کو تم ہو جان سے پیارے
اب وہ کس کو لکھتا ہے یہ
(ہاشم امن، لاہور)
غزل
سو میں نے اس کو بھی چوما ہوا ہے
جو پتھر عرش سے آیا ہوا ہے
ذرا ڈھلکا ہوا لگتا تھا پہلے
شجر جڑ سے مگر اکھڑا ہوا ہے
خوشی سے ہجر جس نے کاٹنا تھا
اُسی نے نبض کو کاٹا ہوا ہے
چُھپا کر درد بنیادوں میں ہم نے
مکان اُس پر ہی اُٹھوایا ہوا ہے
اگرچہ قصبے ویراں ہو رہے ہیں
مگر کیوں شہر گھبرایا ہوا ہے
(عرفان حاشر، لاہور)
’’محبت‘‘
وہ کہتا ہے۔۔۔
محبت بس ہے خاموشی
میں کہتی ہوں
محبت اب بھی میرے کان میں کرتی ہے سرگوشی
وہ کہتا ہے
محبت دل میں ہونا ہی ضروری ہے
میں کہتی ہوں
نہیں اظہار کرنا بھی ضروری ہے
وہ کہتا ہے
محبت میں جدائی ہی مقدر ہے
میں کہتی ہوں
مقدر خود بنائے جو وہی ہوتا سکندر ہے
وہ کہتا ہے
محبت ازل سے کارِ اذیت ہے
میں کہتی ہوں
کہ سب پہ مہرباں ہونا محبت کی طبیعت ہے
وہ کہتا ہے
محبت آنکھ سے بہتا ہوا غم ہے
میں کہتی ہوں
محبت ہر طرف کھلتی ہوئی کلیوں کا موسم ہے
وہ کہتا ہے
محبت تو ہمیشہ درد دیتی ہے
میں کہتی ہوں
محبت جھولیاں بَھر بَھر دعائیں بھی تو لیتی ہے!!!
(علیزے راجپوت، منڈی بہاؤ الدین)
غزل
گلی سے گزروں تو اس پر بھی دھیان پڑتا ہے
وہ جس کا گھر مرے رستے میں آن پڑتا ہے
اب اس سے آگے کوئی شخص بھی نہیں رہتا
اب اس سے آگے تو خالی مکان پڑتا ہے
میں روز شب کا اکیلے عذاب سہتا ہوں
بدن پہ روز ہی تازہ نشان پڑتا ہے
ہماری راہ میں دیوار اب نہیں پڑتی
ہماری راہ میں اب آسمان پڑتا ہے
اس آئنے میں ترا عکس مستقل ہے حیاتؔ
وہ آئنہ جو مرے درمیان پڑتا ہے
(دانش حیات، کراچی)
’’آواز‘‘
اے مرے رقص کے تکمیلی مراحل کی وجہ
اے مرے اذنِ اسیری کے تکلف کے سبب
غیر کو کس لیے آواز دیے جاتے ہو؟
یہ بھی تو بات مری ذات کی تقسیم کی ہے
یہ بھی ہے ظرف مرا، روز بلانے والا
ایک جانب جو مسلسل سکوت چھایا ہے
یہ مری ادھ جلی شمع کی بدولت ہی ہے
یہ مرا نام، تری ’’نہ‘‘ کی بدولت ہی ہے
نقص تو ہو گا، میں اندر سے تو خالی ہی ہوں
یہ جو جلوے تری نسبت سے سجا رکھے ہیں
تو نے پھیرا ہے مجھے، میں تو سوالی ہی ہوں
ہاں جو خالی ہے مرا کاسہ، تری خاص عطا
تیرے کاسے میں کوئی ایک بھی سِکہ دے تو
یہ بھی ممکن ہے تگ و دو مری مدھم ہو لے
یہ بھی ممکن ہے مری چاہ کی آتش کم ہو
یہ مری چاہ تری ’’نہ‘‘ کی بدولت ہی ہے
میں تو چوکھٹ سے لگا ہوں، سو یہیں رہنا ہے
میں نے اِک پَل بھی ترے پاس سے جانا ہی نہیں
غیر نے مجھ سے زیادہ تو نبھانا بھی نہیں
اے مرے رقص کے تکمیلی مراحل کی وجہ
غیر کو کس لیے آواز دیے جاتے ہو؟؟؟
(وجاہت باقی، اسلام آباد)
غزل
عشق اپنا شعار تھا، نہ رہا
خود پہ جو اختیار تھا، نہ رہا
گفتگو آپ سے میں کیا کرتا
جو کبھی اعتبار تھا ، نہ رہا
ہجر کی رات کٹ گئی یارو!
دل مرا سو گوار تھا، نہ رہا
اس لیے مے کی اب ضرورت ہے
پیار کا جو خمار تھا، نہ رہا
اپنے رستے جدا ہوئے جب سے
وہ جو دل میں قرار تھا، نہ رہا
عادتاً اب شراب پیتا ہوں
جو غموں کا شمار تھا، نہ رہا
آج غم کی گرفت میں ہے شفیؔ
ایک دل غمگسار تھا ، نہ رہا
(ملک شفقت اللہ شفی، جھنگ)
غزل
یاد کے آنے تک سناٹا ہوتا ہے۔۔۔
آ جائے تو خوب تماشا ہوتا ہے
رستے سارے ایک طرف ہی جاتے ہیں
ایک طرف ہی سارا پہرا ہوتا ہے
ایک طرف ہی آنکھیں تکتی رہتی ہیں
ایک طرف ہی منظر اچھا ہوتا ہے
نیم کی چھاؤں دھوپ میں کیسی ہوتی ہے؟
ٹھنڈا چشمہ پیاس میں کیسا ہوتا ہے؟
صحرا میں خاموشی بین نہیں کرتی
شہروں میں آواز کا پرسا ہوتا ہے
میں جب چھت پر بادل دیکھنے آتا ہوں
ایک پرندہ دھوپ میں بیٹھا ہوتا ہے
ہم نے تو بچپن سے بس یہ بات سنی
دریا سے نیزے کا رشتہ ہوتا ہے
(کامران نفیس، کراچی)
غزل
اتنا ہے مجھے یاد کہ ساون کی جھڑی تھی
اک شوخ سے جس وقت مری آنکھ لڑی تھی
کیا پوچھتے ہو پہلی ملاقات کا موسم
وہ پہلی ملاقات قیامت کی گھڑی تھی
تپتی ہوئی آنکھوں میں سلگتے رہے آنسو
پیروں میں ترے ہجر کی زنجیر پڑی تھی
تنہائی کے عالم میں تڑپ کر جو گیا مر
مخلوقِ خدا اس کے جنازے میں بڑی تھی
اک عمر سے جس شکل کو میں ڈھونڈ رہا ہوں
وہ شکل مری ذات کی گم گشتہ کڑی تھی
تھا اوج پہ ذاکرؔ کے مقدر کا ستارہ
جب سامنے آنکھوں کو جھکائے وہ کھڑی تھی
(ذاکر حسین خان، شور کوٹ، جھنگ)
غزل
جامِ خم دار کا مزہ لیں گے
لب و رخسار کا مزہ لیں گے
پھول رخسار پر ہے آ کے لگا
مخملیں مار کا مزہ لیں گے
کچھ نہیں ہم خریدنے والے
حسنِ بازار کا مزہ لیں گے
دردِ تنہائی ہے حویلی میں
در و دیوار کا مزہ لیں گے
اک ملاقات اور خدا حافظ
آخری بار کا مزہ لیں گے
(مکرم حسین زمزم، گوجرانوالہ)
غزل
آج سیرِ گلشن میں ساتھ ایسا ہم دَم ہے
پھول جس پہ نازاں ہیں اور نثار شبنم ہے
دے رہے ہو قطرہ تم تشنگی بجھانے کو
جب کہ اک سمندر بھی لمس کا مجھے کم ہے
وہ بدن ہے گویا چاند اور گل کا آمیزہ
دونوں ہیں نمایاں پر اک میں دوسرا ضم ہے
آج پھر سہولت ہے مجھ کو دیدِ جاناں کی
اور مرے دماغ و دل میں وہی تصادم ہے
اک حسیں کی یادوں کے ابر رات بھر برسے
کشتِ دل ذرا دیکھو آج پھر ہوئی نم ہے
کس قدر مقدر کی یہ ستم ظریفی ہے
میں یہاں کراچی اور جان میری جہلم ہے
(قمر آسی، کراچی)
غزل
ہماری بانہوں میں آنے والا تو مَر گیا تھا
یہ بات سنتے ہی شہر سارا تو ڈر گیا تھا
وہ جانتا تھا میں قسمیں کھانے کے ہوں مخالف
اسی لیے تو وہ قسمیں کھا کے مُکر گیا تھا
وہ جس بشر کو فقیر دیتا تھا بددعائیں
وہ شخص میں تھا جو ریزہ ریزہ بکھر گیا تھا
کچھ اس لیے بھی اکیلے ملنے میں مسئلہ تھا
میں اپنے اندر ہوس کی گونجوں سے بھر گیا تھا
اداس کھڑکی قریبی کمرے سے لگ کے رو دی
کہ اس کے مالک کا سایہ کمرے میں مَر گیا تھا
ہوس، کفن، درد، وحشتیں سب پتا تھا لیکن
وہ عشق جیسی قضا سے ملنے مگر گیا تھا
(فراز حیدر نین، ڈیرہ غازی خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.