اگر آپ سندھ میں بستے ہیں اور آپ کا بچہ روز صبح پڑھنے جاتا ہے، تو یہ سوچ کر خوش نہ ہوں کہ وہ اسکول ہی جاتا ہے، دراصل اب تک ہماری پیاری صوبائی حکومت نے یہ طے ہی نہیں کیا تھا کہ اسکول کس چُڑیا کا نام ہے۔
’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ایک خبر انکشاف کرتی ہے کہ حکومت سندھ کے محکمۂ تعلیم کے ایک اجلاس میں، جو صوبائی وزیرتعلیم سید سردار علی شاہ کی زیرصدارت منعقد ہوا، محکموں کے مختلف شعبوں کی تشکیل نو اور اساتذہ کی تربیت کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ پہلی مرتبہ تعلیمی پالیسی میں لفظ اسکول کی تعریف بھی متعین کی جائے گی، تاکہ متعلقہ بجٹ سمیت تمام وسائل کا اس تعین کے مطابق استعمال کیا جاسکے۔
ہمیں افسوس ہے کہ اب تک حکومت سندھ کو اسکولوں کی زبوں حالی کے معاملے میں خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سندھ کے بھولے بھالے حکم رانوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ اسکول کس بلا کا نام ہے، تو پھر اسکول بنانا، چلانا، بحال کرنا ان کے لیے کیسے ممکن تھا۔ کسی سیانے نے کہہ دیا ’’اسکول وہ ہوتا ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے‘‘، اب کون سا گھر ہے جس میں کچھ نہ کچھ تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ طبعیات کا یہ طے شدہ اصول بتانا بھی تو تعلیم ہی ہے کہ میاں مُنے! تمھیں پتا ہے، بھٹو زندہ ہے۔ ریاضی میں اوزان کا یہ تسلیم شدہ قاعدہ سمجھانا بھی تدریس ہے کہ ’’اک زرداری سب پر بھاری۔‘‘ جب یہ تعریف طے پاگئی تو اسکول کے نام پر جاری ہونے والی رقوم کا گھروں پر خرچ ہونا ان کا صحیح مصرف قرار پایا۔ ظاہر ہے اتنا زر تو ہے نہیں کہ ہر گھر فیض یاب ہوسکے، نہ ہی زر، بھٹو ہے جو بلاامتیاز ہر گھر سے نکلے، لہٰذا کچھ گھر ہی اسکول کی تعریف پر پورے اُترے۔
یوں تو ہم جیسے طلبہ کاپی پر انڈے اور ہاتھوں پر ڈنڈے جن کا نصیب رہا ہو، اور جو اتنی بار مُرغے بنے ہوں کہ انھیں لڑکیوں کے بہ جائے مرغیاں بھانے لگی ہوں اور وہ دنیا کو اُلٹا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہوں، ہرگز اسکول کی تعریف پر آمادہ نہ ہوں گے، لیکن ہمارا معاملہ ذرا الگ ہے، ہم قومی مفاد کی راہ میں ذاتی تجربات کو حائل نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے صوبائی حکومت کا وقت بچانے کی خاطر ہم اسکول کی مختصر سی تعریف پیش کیے دیتے ہیں۔ سرکار! اسکول اُس چار دیواری کا نام ہے جہاں مقررہ اوقات میں بچے پڑھتے اور اساتذہ انھیں پڑھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غریب کے بچے بھی انسان کے بچے ہوتے ہیں، چاہے دشمن ہی کے بچے کیوں نہ ہوں جنھیں پڑھانا لازمی ہے، کیوں کہ یہ انسان کے بچے ہیں چناں چہ ان کے لیے اسکول میں پینے کے صاف پانی اور بیت الخلاء کا انتظام ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ کرسی میزیں، بلیک بورڈ، چاک اور دیگر کئی اشیاء اسکول کے لوازمات میں شامل ہیں۔
یہ تعریف ہم نے اس لیے بھی پیش کی کہ ڈر ہے کسی اور قسم کی تعریف متعین نہ کرلی جائے جیسے:
کسی خالی زمین پر اسکول کا زنگ آلودہ بورڈ لگا ہو تو وہ بھی اسکول ہے، کیوں کہ اس پلاٹ کو دیکھ کر بچوں کو پتا چلتا ہے کہ خالی زمین کیسی ہوتی ہے، یوں ان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بورڈ پر لگا اسکول کا نام پڑھ لے تو سمجھو پڑھانے کا مقصد پورا ہوا۔
کوئی ویران، اُجڑی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی عمارت بھی اسکول سمجھی جائے گی، کیوں کہ اسے دیکھ کر بچوں کیا بڑوں کو بھی عبرت ہوگی کہ بابا! ہر چیز فانی ہے۔ عبرت میں تعلیم بھی آجاتی ہے اور تربیت بھی۔
عمارت کے باہر اسکول کا بورڈ لگا ہو اور اندر پوری عمارت کسی وڈیرے کی اوطاق بنی ہو تو اسے بھی اسکول قرار دیا جائے۔ اوطاق میں ہونے والی باتوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اسکول میں بنی اوطاق اور اوطاق میں ہونے والے فیصلے انھیں یہ سبق پڑھانے کے لیے کافی ہیں کہ پڑھائی میں کچھ نہیں رکھا، طاقت اور پیسہ ہی سب کچھ ہے۔
اسکول کے نام پر بنائی جانے والی کسی عمارت میں گائے، بھینسیں اور بکریاں بندھی ہوں تو اس عمارت کو اسکول سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان مویشیوں کو دیکھ کر غریب بچے ان کے بارے میں جانیں گے اور ان میں اُمنگ پیدا ہوگی کہ ترقی کرکے کم ازکم کسی وڈیرے کے مویشی کا درجہ پالیں۔ دوسرے اس طرح انھیں انسانیت کا سبق ملے گا اور ان میں قربانی کا جذبہ بیدار ہوگا، کیوں کہ وہ سوچیں گے انسانیت کی معراج یہی ہے کہ جانوروں کے آرام پر بچوں کی تعلیم قربان کردی جائے۔
اگرچہ ہم نے اسکول کی تعریف متعین کردی ہے، لیکن کوئی ہرج نہیں اگر دی گئی ان دیگر تعریفوں کو ملاکر اسکول کی ’’تعریفات‘‘ طے کرلی جائیں، اس طرح دستاویزات میں اسکولوں کی تعداد بڑھانے میں مدد ملے گی اور صوبے میں تعلیم فروغ پاتی صاف نظر آئے گی۔
usman.jamai@express.com.pk
The post ’اسکول‘ کس بلا کا نام ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.