واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری کے بحرِ ناپیداکنار میں اقبال کی مثال ایک جزیرے کی سی ہے۔ وہ اس بحر کا حصہ ہے، لیکن اس میں گم نہیں، بلکہ اس سے الگ اپنی ایک قائم بالذات شناخت رکھتا ہے۔ اس بحر میں سربرآوردہ موجیں امڈتی رہی ہیں، لیکن یہ جزیرہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ اس کے رنگ اور موسم سب اس کے اپنے ہیں اور الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔
سمندر کی موجوں کا اپنا اپنا خروش اور اپنی اپنی گونج ہے اور اس جزیرے کی ہواؤں کا اپنا ایک آہنگ۔ سمندر کی لہروں کے دامن میں ہیرے موتی ہیں تو اس جزیرے کی مٹی میں اپنے پوشیدہ خزانے۔ یوں تو یہ دونوں باہم مربوط ہیں، لیکن دونوں کی الگ ہستی ہے اور جداگانہ شناخت۔
اہم بات یہ ہے کہ ہماری تنقید نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن زاویہ ہائے نگاہ، جیسے موضوعات اور جن تناظرات میں کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا گیا ہے، بلاشبہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کا نہیں ہوا۔ یقینا اس کا سبب اقبال کے حرفِ سخن اور اس کے معجزۂ فن کی نمود ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود آج بھی اگر کوئی اک ذرا توجہ سے شعروفکرِ اقبال پر نگاہ ڈالے تو اُسے کچھ ایسے نکات بہرحال فراہم ہوجاتے ہیں جو اس کی تفہیم کے نئے پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ اس میں کہیں عصرِحاضر کے افکار و نظریات سیاق فراہم کرتے ہیں تو کہیں تہذیب و تمدن کے تصورات۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری اور افکار آج بھی اپنے مطالعے کا جواز رکھتے ہیں۔
یوں تو اسے سخنِ اقبال کی بلند اقبالی ہی کہا جائے گا کہ مختلف الخیال افراد اپنے اپنے زاویہ ہائے نگاہ سے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد نہ صرف شاد کام رہتے ہیں، بلکہ اپنے فکروخیال کے ذیل میں انھیں یہاں سے حوالے اور مثالیں بھی میسر آجاتی ہیں۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں، وہ اہلِ مذہب ہوں یا انقلابی، قوم پرست ہوں یا سماجی و معاشی مساوات کے داعی، تہذیب کے خوگر ہوں یا آزادیِ انساں کا نعرہ لگانے والے، فطرت پسند ہوں یا خودی کے پرستار، فلسفہ و حکمت کے جویا ہوں یا لطفِ زبان و بیاں کے رسیا— اقبال کے یہاں سبھی کو تسکین و طمانیت کا سامان حسبِ مراد میسر آجاتا ہے۔
تاہم اگر شمس الرحمن فاروقی اس صورتِ حال سے نالاں ہیں کہ اس طرح اقبال کو افکار کے سانچوں میں بانٹ کر پڑھنا زیادتی ہے تو ٹھیک ہے، وہ اقبال کا لفظیاتی اور عروضی نظام پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنا شوق پورا کرلیں۔ آزاد ذہن کے ساتھ ادب پڑھنے والے لوگ آخر نقادوں یا اُن کی تنقید کی انگلی پکڑ کر چلنے کے پابند تو نہیں ہوسکتے۔ ویسے تو اقبال کو اُن کے افکار کے تناظر میں پڑھنے کی شکایت سلیم احمد نے بھی کی تھی اور کہا تھا کہ افکار کی اہمیت کو اس درجہ بڑھا دیا گیا ہے کہ شاعر (یعنی اُن کے بہ قول اصل) اقبال کہیں دب کر رہ گیا ہے۔
ناقدینِ اقبال پر سلیم احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے اعتراضات اپنی جگہ۔ ظاہر ہے، یہ اعتراضات ان سب لوگوں کے مقالات و تجزیات اور ان سے حاصل شدہ تأثرات اور نتائج کے حوالے سے کیے گئے ہیں جو غیرضروری طور پر اقبال کے افکار پر مرکوز ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف و محض اقبال کے یہاں سے فلسفہ برآمد کرنے یا اُس سے فلسفے کے نکات اور دلائل و براہین اخذ کرنے کو اصل کام سمجھ لیتے ہیں۔
حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ کسی بھی بڑے شاعر کا متوازن اور جامع مطالعہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس کے افکار و خیالات کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کے ساتھ اُس کی طرزِاحساس، تشبیہاتی و استعاراتی علائم، فنی اوصاف اور جمالیاتی خواص کو بھی تہ بہ تہ کھولنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام ذرا دقت طلب ہے اور اُس وقت ہوسکتا ہے جب نقاد اُس مرکز و محور تک پہنچنے کی جستجو کرے جہاں سے زیرِمطالعہ شاعر کا نظامِ فکر و احساس تحریک حاصل کرتا اور نمو پاتا ہے۔
دِقّت اپنی جگہ، لیکن کسی فن کار کے بنیادی داعیے اور مرکزی مسئلے کو اس کے فن کارانہ اظہار کی اعلیٰ ترین سطح پر سمجھنے کے لیے یہی طریقہ سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ فکر و احساس کا مرکز ہی اصل میں وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر فلسفے کے دقیق مسائل بھی جمالیاتی پیرائے میں اس طرح بیان ہوتے ہیں کہ فکرِ محسوس کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ کام دقت طلب اس لیے ہوتا ہے کہ اِس میں فن کار کی کلّیتِ کار کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔
بڑے فن کار کا تخلیقی عمل یا فنی نگارخانہ اصل میں ایک طلسم کدے جیسا ہوتا ہے اور اس کی کلید یا اسمِ اعظم اُس کا مرکزی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس طلسم کدے میں داخل تو کہیں سے بھی ہوسکتے ہیں، فکر و فلسفے کے راستے، طرزِاحساس یا اسلوب کی راہ سے، تشبیہات، استعارات یا علامات کے دروازے سے، اور اگر ایک بار داخل ہوجائیں تو اِس کے بعد سیرِگلگشتِ مصلیٰ کا لطف بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ فن کار کا فکری اور جمالیاتی طلسم پوری طرح کھلتا انھی لوگوں پر ہے جنھیں اس کا اسمِ اعظم حاصل ہوجائے۔
اب مثال کے طور پر اقبال ہی کو سامنے رکھ لیجیے۔ یہاں نظریات ہیں، افکار ہیں، زمان و مکاں، تہذیب و تمدن، بقا و ارتقا، انہدام و زوال کے تصورات ہیں، تشبیہات و استعارات کا ایک وسیع نگارخانہ ہے، اسلوبیات اور لفظیات کا نظام ہے، لہجہ ہے، انداز ہے، تیور ہیں— غرضے کہ وہ سب کچھ ہے جو ایک بڑے شاعر کے یہاں ملتا ہے یا اس کی اثرآفرینی اور فسوں کاری کو قائم کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں مختلف پڑھنے والوں پر اپنے اپنے انداز اور تناسب سے اثر کرتی ہیں۔
کوئی فکر و فلسفہ کی داد دیتا ہے تو کوئی زبان و بیاں کی، کوئی لہجے کا قتیل ہوتا ہے تو کوئی گھن گرج پر فریفتہ۔ تاہم اگر آپ نتیجہ مجموعی صورت میں دیکھنا چاہیں تو بس وہ یہ نکلتا ہے کہ پڑھنے یا سننے والا اقبال کا قائل ہے۔ چناںچہ اقبال کی شاعری کا سب سے نمایاں وصف یہ نکلا کہ وہ قائل کرلیتی ہے، یا چلیے یوں کہہ لیجیے کہ اپنے اثر میں لے آتی ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں اقبال پوری اردو شاعری میں سب سے آگے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ میرؔ اور غالبؔ سے بھی۔
اب اگر بات اقبال کا قائل یا قتیل ہونے پر ہی ختم ہوجاتی ہے تو یہ الگ معاملہ ہے، لیکن اگر کوئی ان کے افکار و تصورات، اسلوب و آہنگ اور مزاج و احساس کو اس طرح سمجھنا چاہتا ہے کہ اُن کے تخلیقی عمل کی کنہ تک پہنچے اور اُن کے فکری نظام اور جمالیاتی تجربے کو تہ در تہ کھول کر دیکھ سکے تو اسے لامحالہ اُس مرکز تک پہنچنا ہوگا جہاں سے یہ اکھوا پھوٹتا اور سخنِ اقبال میں رنگ و نور کی شعاعوں کی صورت ظہور کرتا ہے۔
اقبال کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہوئے اُن کے فکر و فن کی ایک جہت قدرے اختصاص کے ساتھ روشن نظر آتی ہے، اور وہ ہے اُن کی نعت گوئی۔ چوںکہ بیشتر ناقدینِ اقبال اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن کے افکار و خیالات کے دوسرے نکات کو موضوعِ گفتگو بناتے رہے ہیں، اس لیے اقبال کے شاعرانہ مقام و مرتبے کے تعین میں اس جہت پر عام طور سے توجہ ہی نہیں دی گئی۔ یہی سبب ہے کہ اگر کچھ ناقدین نے اس حوالے سے کلامِ اقبال پر نگاہ ڈالی اور جائزہ لیا تو ان میں بھی زیادہ تر لوگ وہ ہیں جنھوں نے اسے اُن کے عشقِ رسول ا کا حاصل گردانا اور عقیدتِ محض کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اقبال کی شاعری میں راہ پانے اور بیان ہونے والے افکار و تصورات کو نعت کے فکری اور اسلوبیاتی زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
معدودے چند اہلِ نظر نے اقبال کے یہاں نعت کو صنفی سطح پر اور فنی خصوصیات کے ساتھ دیکھا ہے، اور اُس کے جمالیاتی پہلوؤں اور ادبی محاسن کے بارے میں اظہارِخیال کیا ہے۔ ویسے اقبال کے بہت سے ناقدین جن میں بڑے بڑے ثقہ لوگ بھی شامل ہیں، کلامِ اقبال کی اس جہت کو درخورِاعتنا ہی نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ افکارِاقبال کی تعبیر و تشریح کے باب میں آپ کو مشرق و مغرب کے کتنے ہی فلسفیوں، تاریخ دانوں اور سماجی مفکرین کے حوالے قدم قدم پر ملتے ہیں، لیکن اگر نہیں ملتا تو اِس نکتے پر غور و خوض کا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ سخنِ اقبال میں راہ پانے والے افکار و تصورات اجزا کی صورت میں یہاں وہاں سے ماخوذ ہیں یا کوئی ایک منبع ہے جس کی کرنوں نے اقبال کے افکار و آثار کی عمارت کے ہر گوشے کو منور کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اگر مختلف افراد کے تصورات و خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا ایک نظامِ افکار ترتیب دیا ہے تو بھی یہ اپنی جگہ ایک بڑی بات ہے، لیکن اگر یہ ساری روشنی ایک ہی مرکز سے حاصل کی گئی ہے جس سے اس کا پورا ایوانِ فکر جگمگا اٹھا ہے تو یہ اُس سے بھی کہیں بڑا اور اہم کام ہے۔ اس صورت میں اقبال کی جامع تفہیم کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس منبع و ماخذ کو دیکھا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اقبال کے یہاں یہ تجلی کس طرح ظہور کرتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا، بالعموم فکرِاقبال کا مطالعہ جن اساسی نکات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اُن میں نعت گوئی شامل ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، اِس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ مطالعۂ اقبال کے لیے یہ قرینہ توجہ طلب محسوس نہیں کیا ہوگا، ورنہ اتنے بڑے اور اہم ناقدین و شارحینِ کلامِ اقبال اپنے موضوع کی اس جہت سے بھلا کیوں کر صرفِ نظر کرسکتے تھے۔ تاہم اس امر کا فیصلہ بہتر طور سے اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم براہِ راست شعرِ اقبال سے رجوع کریں اور دیکھیں کہ وہ اس باب میں کس نوع کی شہادتیں پیش کرتا ہے۔
ہماری یہ طالب علمانہ تفتیش کسی گہری چھان پھٹک اور بہت باریک بینی کا مطالبہ بھی نہیں کرتی۔ محض ایک طائرانہ نگاہ ہمیں اس معاملے کو سمجھنے کا موقع فراہم کردیتی ہے، اور ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کے افکار و تصورات کی تشکیل و تعمیر میں جس جوہر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہ رسالت مآب ا کی سیرت و کردار ہے۔ اقبال نے فکر و احساس کی ہر سطح پر اس کا نہایت گہرا اثر قبول کیا ہے۔ چناں چہ اقبال کے فکر و فن کا مرکزی دھارا اسی اثر کی قوت سے متعین ہوتا ہے۔
تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال کے فکری سانچے میں برقی رو کی طرح دوڑنے والے اس احساس نے ان کے یہاں مجرد تصور کے طور پر راہ نہیں پائی۔ اس کے برعکس یہ اُن کے یہاں ایک زندہ تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے اس تجربے کو ایک طرف تو اس کی تاریخی، تہذیبی اور سماجی جہت سے دیکھا اور دوسری طرف ایک ایسے مابعدالطبیعیاتی تناظر میں جہاں کونیاتی امور ظہور کرتے ہیں اور کائناتی سطح پر تغیر و تبدل کا نقشہ ترتیب پاتا ہے۔
اقبال کے یہاں اس کا اظہار اُن کے اوّلین مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ سے ہی سامنے آنے لگتا ہے۔ ویسے تو اِس مجموعے میں ہمیں کم و بیش اُن سارے افکار و تصورات کے نقوش مل جاتے ہیں جو بعد ازاں فکرِاقبال کے نام سے موسوم ہوئے، لیکن یہ افکار و تصورات پہلے مجموعے میں محض ابتدائی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں بھی اقبال کے یہاں عشقِ رسولؐ اور آپؐ کی سیرت و کردار کے اثر کا اظہار جس پختگی اور وارفتگی سے اور جس درجہ بلند فکری سطح پر ہوتا ہے، اس میں حقیقتِ محمدیہ کا شعور بھی کارفرما ہے، اور یہ شعور اپنے کونیاتی مضمرات کے ساتھ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا ایک شعر دیکھ لیجیے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے
اس نظم کے مطالعے کے دوران آپ غور کیجیے تو وہاں نعت کا ماحول ہے اور نہ ہی وہ فضا ملتی ہے جس میں آپ ا کی سیرت کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہو، بس ایک شعر آتا ہے، اور اس کے بعد موضوع یا سلسلۂ فکر و خیال یکسر بدل جاتا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ ہم آنحضرتؐ سے ایک مسلمان کے حقیقی رشتے کی نوعیت اور اُس کے ذاتی و اجتماعی زندگی پر اثرات کا وہ منظرنامہ ابھرتا ہوا دیکھتے ہیں جو دراصل ایک یگانۂ روزگار تہذیب کے نقوش روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ اقبال کے یہاں رسمی نعت کا کوئی قرینہ ہمیں نہیں ملتا، لیکن نظم کے مسلسل چار بند اسی موضوع سے تعلق رکھتے ہیں، اور پھر اس شعر پر یہ نظم پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شعر اپنے معنی کی وسعت اور گہرائی کا اظہار جس سیاق میں کرتا ہے، اس کو مابعد الطبیعیاتی رموز و علائم کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ خیر، اس موضوع پر آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں ہمارے سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ کم و بیش وہ سب اہم فکری عناصر جو کلامِ اقبال کی جداگانہ شناخت قائم کرتے ہیں اور ان کے خیالات و تصورات کی صورت گری کرتے ہیں، وہ اپنے بلیغ ترین بیانیے کے کسی نہ کسی مرحلے پر یا تو نعتِ رسولِ کریم ا کا کوئی پیرایہ اختیار کرلیتے ہیں یا پھر وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر یا نعت کا کوئی شعر آکر اس حقیقت کو واضح کردیتا ہے کہ فکرِاقبال کا یہ منظرنامہ کس ماخذ سے رنگ و نور اخذ کررہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے دوسرے شعرا جو اپنا ایک فکری تناظر رکھتے ہیں، ان کے برخلاف اقبال کے یہاں مابعدالطبیعیاتی افکار کا دائرہ بھی نعتیہ اسلوب کی وجہ سے مجرد نہیں رہتا، محسوس بن جاتا ہے۔
(جاری ہے)
The post اقبال؛ حرفِ نعت اور تشکیلِ افکار appeared first on ایکسپریس اردو.