قسط نمبر 23
بابا! آپ نے بتایا نہیں کہ آپ ان کتّوں سے کیا کہہ رہے تھے، وہ تو بالکل خاموش تھے، ان کی آواز مجھے تو سنائی نہیں دے رہی تھی، میں نے بابا سے پھر دریافت کیا۔ جی بیٹا! تمہیں ان کا جواب سنائی نہیں دیا، دیکھو پہلے زبان سیکھنا پڑتی ہے ناں، اب تمہیں کوئی زبان نہ آتی ہو، تو تم کیسے اس زبان کو سمجھ سکتے ہو؟ پہلے تو زبان سیکھنا پڑتی ہے۔ بابا نے شاید مجھے خاموش کرانا چاہا۔ لیکن بابا! انسان کو کوئی زبان سمجھ میں نہ بھی آئے تو آواز تو آتی ہی ہے ناں، لیکن وہ سب تو خاموش تھے۔ میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔ ہاں یہ تو تم درست کہہ رہے ہو، لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ خاموشی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔
کیا مطلب بابا؟ میں نے پوچھا۔ یہی کہ پہلے خاموشی کی زبان سیکھو اور پھر سمجھو تو تمہیں بھی خاموشی کی زبان سمجھ میں آنے لگے گی، پھر کوئی خاموش بھی رہے تو تم اس کی بات سمجھ جاؤ گے۔ شاید بابا نے پھر مجھے ٹالنا چاہا۔ لیکن کیسے بابا۔۔۔۔؟ وہ خاموش تھے کہ اچانک مجھے اپنی ایک رضائی ماں یاد آئی۔ یہ مائیں بھی ہر جگہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں، ہر جگہ موجود، بس تعلق ضروری ہے، وہ ہر جگہ آپ کا ہاتھ تھامے رہیں گی۔ ہاں نظر نہ بھی آئیں تب بھی۔ اس لیے کہ دیکھنے کے لیے آنکھوں سے زیادہ بینائی کی ضرورت ہے ناں، مجھے بہت مشکل ہوگی لیکن میں آپ کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کیسی تھیں۔
میں ایک دیہاتی ہوں۔ آباواجداد بھی دیہاتی تھے، تھے کیا اب بھی ہیں۔ یہ دوسری بات کہ پڑھ لکھ گئے ہیں، نئی نسل کے لوگ تو بیرون ملک جاکر بھی پڑھ آئے، شہروں میں بھی آبسے ہیں، کچھ لوگ جدید طرز زندگی بھی گزارنے لگے ہیں، لیکن اندر سے وہی دیہاتی، اور دیہاتی بھی ایسے ویسے نہیں، کوہستانی۔ بلند و بالا کوہساروں کا سینہ چِِیر کر اپنا راستہ نکالنے والے۔ میں نے بہت درخت اُگتے ہوئے دیکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے میری رضاعی ماں نے گاؤں میں اخروٹ کے کچھ درخت لگائے تھے۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا، وہ ہم سب سے زیادہ ان اخروٹ کے درختوں سے پیار کرتی تھیں۔ میں کئی مرتبہ ان کے ساتھ ان درختوں سے ملنے گیا ہوں۔ صبح سویرے اس وقت بھی جب پہاڑوں نے برف کی سفید چادر اوڑھی ہوئی ہوتی تھی، بدن میں لہو کو جما دینے والی سردی میں بھی وہ درختوں سے ملنے جاتی تھیں۔ ان کا دن درختوں سے ملاقات سے شروع ہوکر مغرب سے ذرا پہلے انہیں الوداع کہنے پر ختم ہوتا تھا۔ میں دیکھتا تھا، وہ کس محبت سے ان کے تنوں پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ انھیں پانی دیتی تھیں، اور تو اور میں نے انھیں ان بے زبان درختوں سے باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ وہ جب پشتو میں ان سے کہا کرتیں: ’’ میں آگئی ہوں۔ رات کیسی گزری؟ اوہو، بہت سردی تھی ناں۔ ہاں ہاں پھر کیا کِیا تم نے۔ اچھا! چلو بہت اچھا کیا۔ ابھی تم چھوٹے ہو۔ جب بڑے ہوجاؤ گے تب یہ سردی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ میں ہوں ناں میرے بچو! میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘
پھر وہ مجھے آواز دیتیں: زمَا گُلا ( میرے پُھول) جلدی کرو۔ پانی کی بالٹی لاؤ، انھیں پیاس لگی ہے۔ میں پانی سے بھری بالٹی ان کے قریب رکھ دیتا اور پھر وہ اپنے ہاتھوں کا پیالہ بناکر انھیں پانی دیتیں۔ وہ انھیں ڈانٹتی بھی تھیں، تم بہت نکمّے ہو، دیکھو تمہارا بھائی کتنا صحت مند ہے اور تم! کیا کروگے آگے! اپنا خیال رکھا کرو، نہیں تو میں تمہیں ٹھیک کردوں گی۔
انھیں پانی پلا کر ان کے گرے ہوئی سوکھے پتے جھاڑو سے صاف کرکے پھر وہ انھیں کہتیں: ’’ میں اب جارہی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ دوپہر میں آؤں گی۔ خدائے پہ امان۔ (خدا کی حفاظت میں رہو)
ایک دن واپس گھر لوٹتے ہوئے جب میں نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہی نہیں ایک توانائی بھی ملتی تھی، سچ کہوں تو اب بھی ملتی ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ ہمیشہ رہے گی، تو میں نے پوچھا: ماں، آپ ان سے کیوں باتیں کرتی ہیں، یہ سنتے ہیں کیا۔۔۔۔ ؟
وہ بہت ہنسیں اور بولیں: کیوں، تمہیں ان کی آواز نہیں سنائی دیتی ۔۔۔۔ ؟
میں نے کہا: نہیں تو، مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیتا۔
وہ پھر ہنسیں اور کہنے لگیں: تمہارے دل کے کان بند ہیں ناں، اس لیے تمہیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔کیا دل کے کان بھی ہوتے ہیں ماں ؟ میں نے ان سے دریافت کیا۔
وہ پھر ہنسیں اور بولیں: ہاں، کیوں نہیں ہوتے گُلا، دل کی تو آنکھیں بھی ہوتی ہیں، دل تو بات بھی کرتا ہے۔ اور پھر مجھے ان کا غصہ یاد آجاتا، میں بہت زیادہ شرارتی تھا، تھا کیا اس عمر میں بھی ہوں، شرارتی، تو میں خود کو رعایت دے رہا ہوں، خیر جب میں ان کی بات نہیں سنتا تھا تو وہ کہتیں: میری یہ بات دل کے کانوں سے سن لے۔
ماں دل کی بات کیسے سن سکتے ہیں ۔۔۔۔ ؟
تب وہ بہت سنجیدہ ہوجاتیں اور پھر میں سنتا: ’’ ہاں یہ تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ وابستگی سے پیدا ہوتی ہے، جس سے تمہارا تعلق جتنا گہرا ہوگا اس کی ہر بات بغیر کہے بھی تم تک پہنچے گی۔ اسے زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح میرا ان درختوں سے تعلق ہے۔ گُلا تجھے پتا ہے میں انھیں اپنے بچوں کی طرح چاہتی ہوں، جیسے تمہیں۔ میں ان کا خیال اسی طرح رکھتی ہوں جس طرح اپنے بچوں کا رکھتی ہوں بل کہ ان سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ بچے تو گھر میں ہوتے ہیں اور یہ بے چارے سردی میں، گرمی میں، دھوپ میں باہر کھڑے رہتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، ورنہ میں انھیں کپڑے بھی بناکر دوں، یہ میرے بیٹے ہیں اور بیٹے کسے پیارے نہیں ہوتے۔ یہ بے زبان نہیں ہیں، یہ بے حس نہیں ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں، بُرا مانتے ہیں۔ روٹھ جاتے ہیں۔ تُونے دیکھا نہیں، کتنے ہی درخت ایسے ہوتے ہیں اگر تم ان کی دیکھ بھال نہ کرو تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ درخت کا سوکھنا ان کا روٹھنا ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بہت لاڈ پیار مانگتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈلے بچے کی طرح۔‘‘
اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا، آیا تو خیر اب بھی کچھ نہیں ہے، سوچتا تھا میری ماں پاگل ہے، بھولی ہے، سادہ ہے۔ میں مسکراتا، ایسی عورت جس نے کبھی کسی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی، کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ ایک دیہاتی عورت۔ پتا نہیں کیسی کیسی باتیں کرتی تھیں۔ کیسے بتاؤں کیا تھیں وہ، میں پرلے درجے کا بے وقوف، احمق گاؤدی اور جاہل انہیں بس ایک دیہاتی سمجھتا تھا، یہ تو کرم ہوا کہ پھر مجھ پر کھلا کہ کیا ہیں وہ، سرخ و سفید بڑی سی کالی چادر میں لپٹی ہوئیں، بڑی بڑی روشن آنکھیں، میں نے اپنی ماؤں سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا، اور میری وہ ماں تو ایسی تھی کہ جنّت کی حوریں انہیں دیکھتی ہوں گی اور اپنے آپ پر شرمندہ ہوتی ہوں گی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ایسا ہی ہے۔ مجھے وہ دن بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب میں نے ماں سے ضد کی تھی کہ مجھے بھی ان کی آواز سننا ہے، تب ماں نے کہا تھا، گُلا ابھی تم بہت چھوٹے ہو، جب وقت آئے گا تب تم بھی ان کی بولی سمجھنے لگو گے۔
میں عُجلت کا مارا ضد کرنے لگا تو انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا حکم دیا تھا، ماں کے حکم کے بعد کیا کِیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نادان اب تک اپنے بھیتر کی بات نہیں سن سکا اور اگر سن سکا تو سمجھ نہیں سکا اور اگر سمجھ سکا تو ۔۔۔۔۔۔۔ بس دھاک کے تین پات، وہی اثر کرے نہ کرے سُن تو لے میری فریاد، رہنے دیتے ہیں اسے، بس یہی کافی ہے کہ وہ میری ماں اور میں اپنی تمام شرارتوں اور احمقانہ حرکتوں کے باوجود ان کا سب سے زیادہ چہیتا بیٹا ہوں، اتنا کہ صرف میری تصویر ان کے کمرے میں اب تک موجود ہے، جس پر وہ ہر روز سرخ گلاب کے پُھولوں کا ہار خود پُرو کر ڈالا کرتی تھیں، دنیا سے رخصتی کے بعد وہ پھول اب تک اسی طرح مجھ پاگل کی تصویر اور میرے عیوب کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔ رب سائیں نے انہیں بہت اعلی مقام عطا فرمایا تھا، یقینا وہ میری ماں سے بہت خوش تھا، کیوں نہ ہوتا کہ وہ ان کا مصوّر اور خالق تھا۔ میری ماں وہاں منتقل ضرور ہوگئیں جہاں ہم سب نے منتقل ہوجانا ہے، لیکن وہ امر تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ چلیے واپس ہولیں کہ بس نام رہے گا اﷲ کا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے، کسی پل بھی میں اسے نہیں بھولتا، کیسے بُھول جاؤں جب مجھے اطلاع ملی، ماں بیمار ہوگئی ہے، بہت بیمار۔ میں گاؤں پہنچا اور سیدھا ماں کی چارپائی پر جاکر دم لیا۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں: تُو آگیا، اتنی سردی میں!
نہیں ماں، کوئی سردی نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کو کیا ہوا۔۔۔۔ ؟۔ کچھ بھی نہیں، بس ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے۔
میرے رضائی بھائی اکا خان نے مداخلت کی: اتنی برف باری میں بھی یہ اتنی دور اخروٹ کے درختوں کے پاس جاتی ہیں۔ لاکھ سمجھایا پَر نہیں سمجھتیں، تم ہی انھیں سمجھاؤ۔ تم سے بہت محبت کرتی ہیں، ہم سب سے زیادہ۔ تم ضد کروگے تو مان جائیں گی۔
میں نے ماں کو دیکھا۔ میری آنکھیں برس پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھیں: کیا ہوا تجھے مجھے بتا۔ کچھ نہیں ماں! کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی۔ پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا جیسے ماں کی روانگی ہے۔ میں خاموش تھا۔ آدمی چُپ بھی رہے تو آنکھیں بول پڑتی ہیں۔ گاؤں آئے ہوئے وہ میرا پانچواں دن تھا۔ اتنی بیماری میں بھی میں انھیں درختوں کے پاس لے کر جاتا رہا۔ میں نے انھیں منع نہیں کیا۔ ایک دن اکا خان کہنے لگا: پہلے اکیلی تھیں، اب دونوں ہیں، کوئی انھیں نہیں سمجھا سکتا، بالکل پاگل ہیں یہ۔ سنو خانے تم اپنا خیال بھی رکھنا، یہ شہر نہیں ہے، برف باری میں بیمار ہوجاؤ گے۔
آخر وہ الم ناک گھڑی آپہنچی۔ علی الصبح جب میں اور ماں درختوں سے مل کر واپس آرہے تھے، میں ماں کو سہارا دے کر لارہا تھا، ان کا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا۔ نقاہت سے ان کا چلنا دُوبھر ہوگیا تو وہ بولیں: گُلا تھوڑی دیر آرام کرلیں پھر چلتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں، ہاں، کیوں نہیں ماں، بالکل۔ہم دونوں ایک بڑی سی چٹان پر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا ان کی نگاہیں انہی اخروٹ کے درختوں کی سمت لگی ہوئی تھیں۔
ایک بات کہوں، وہ بولیں۔
ہاں ماں! بالکل کہو، کیا بات ہے۔دیکھ، لگتا ہے وقتِ آخر آگیا ہے۔
ماں، یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔ ؟ میں تڑپ اٹھا، کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟
کچھ نہیں گُلا۔ بس دانہ پانی پورا ہوگیا۔ لیکن سُن، میں مر جاؤں تو ان درختوں کے درمیان مجھے دفن کردینا۔
میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میں گم صم بیٹھا رہا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ مجھ سے تو یہ ساری بات لکھی بھی نہیں جاتی۔ دوپہر تک ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی پھر آخری بات انھوں نے کی: میرے بے زبان بچوں کا خیال رکھنا، ورنہ قیامت میں تم سب کے گریبان پکڑلوں گی، سمجھے۔
ایک پٹھان عورت کی آخری دھمکی۔ ہاں ماں، ضرور رکھیں گے۔
اور مجھے ان درختوں کے درمیان قبر چاہیے۔
اکا خان بولا: ماں کیوں۔۔۔۔ ؟
اس لیے کہ بیٹوں کے درمیان ماں محفوظ ہوتی ہے۔
اخروٹ کے وہ درخت ان کی زندگی ہی میں پھل دینے لگے تھے۔ میرے حصے کے پھل کراچی پہنچتے تھے، اب بھی پہنچتے ہیں۔ میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں، سب سے پہلے وہیں جاتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جب تک درخت زندہ ہیں میری ماں زندہ رہے گی۔ میں نے کئی مرتبہ ان کی آواز سنی ہے جیسے کہہ رہی ہوں، دیکھو زندگی میں تم نے خدمت کی۔ یہ مرنے کے بعد بھی میری خدمت کررہے ہیں۔ کبھی اکیلا نہیں رہنے دیتے۔
میں اور بابا خاموشی سے چلتے رہے۔ جب اندر سکوت ہو تو باہر کا شور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہاں شہنائی بھی اور بہت کچھ بھی۔ میں سکوت کہہ رہا ہوں، ویرانی نہیں۔ اوپر اﷲ جی اور نیچے ہم دونوں اور خاموش۔ شاید رات کا نصف پہر بیت چکا تھا اور ہم رواں تھے، بابا کا حال تو وہ جانیں، میں بالکل خالی الذہن ہوگیا تھا، کچھ سوچ بھی نہیں رہا تھا بس ان کے سنگ سحرزدہ چلا جارہا تھا، ایسے جیسے انہوں نے مجھ پر کوئی منتر پھونک دیا ہو اور میری آواز بند ہوگئی ہو۔
پھر میں نے بابا کو ایک جنگلی جھاڑی کے پاس رکتے دیکھا۔ وہ اس جھاڑی سے کہہ رہے تھے: اﷲ نے تمہیں اتنا نافع بنایا ہے، اس پہر میں آپ کے سکوت میں مداخلت کی معافی چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو آپ کے دو پتّے لے سکتا ہوں۔۔۔۔۔ ؟ میں نے یہ سنا لیکن خاموشی اختیار کی، کچھ دیر کے بعد انہوں نے شکریہ کہتے ہوئے اس کے دو پتے توڑ لیے۔ ایک پتّا تو انہوں نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور کہنے لگے لو بیٹا منہ کھولو میں ایسا ہی کیا تو انہوں نے دوسرا میرے منہ میں ڈال دیا، دیکھو اسے چبانا نہیں، یہ خود ہی گُھل جائے گا۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ میں نے عجیب سی خوشی محسوس کی، ایسا لگ رہا تھا جیسے سب میرے سنگ جھوم رہے ہیں، گا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، اور پھر میں خود بھی رقص کرنے لگا، بہت دیر ہوگئی تھی اور بابا مجھے دیکھ رہے تھے، پھر شاید میں گر گیا تھا، لیکن تھکن نہیں تھی ایک توانائی مجھ میں بھر گئی تھی۔
لیکن میں خلاف توقع خاموش تھا، نہ جانے کیوں۔ ہم پھر سے چلنے لگے اور ایک جگہ ایک چھوٹی سے چہار دیواری نظر آئی، تھوڑی دیر تک بابا میرا ہاتھ تھامے رہے اور پھر اس میں داخل ہوگئے۔ اندر چار لوگوں کے بیچ میں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے، میں ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لیے کہ انہوں نے کالی چادروں سے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا۔ بابا نے بلند آواز سے انہیں سلام کیا، ان میں سے ایک نے جواب دیا اور ساتھ ہی میں نے سنا۔ اسے بھی ساتھ لائے ہو۔۔۔۔۔ ؟ جی اس کی اجازت لے لی تھی، بابا نے جواب دیا۔ پھر ہم ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے، لیکن وہی خاموشی۔ کچھ دیر بعد پھر انہی کی آواز گونجی، ہاں اجازت ہے۔ اور بابا میرا ہاتھ پکڑے الٹے قدموں اس چہار دیواری سے باہر نکل آئے۔ دیکھو بیٹا اب ہمیں تیزی سے چلنا ہوگا اس لیے کہ فجر تک ہمیں گھر پہنچنا ہے ناں۔ ہم دونوں تیزی سے چلنے لگے۔ تم بالکل ہی خاموش ہوگئے کچھ بول ہی نہیں رہے، اچانک بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔
کیا بولوں بابا، جب بولتا ہوں تو ڈانٹ پڑتی ہے، کوئی سوال کروں تو جواب نہیں ملتا تو بس اب خاموش رہوں گا، میں نے کہا۔ اچھا تو تم جلد سیکھ گئے خاموش رہنا، مجھے تو ایسا نہیں لگتا، تم سوچ تو رہے ہو لیکن بول نہیں رہے، بابا کی اس بات سے میں چونکا۔ تو کیا سوچ رہا ہوں میں، بابا کے سامنے میرا سوال تھا۔ دیکھا میں سچ کہہ رہا تھا ناں کہ تم کچھ سوچ رہے ہو۔ پتا نہیں بابا، مجھے الجھن ہونے لگی تھی۔ پھر بابا نے کہا: جب تک تم اپنے اندر خاموش رہنے، سہنے اور سہارنے کی خوبی پیدا نہیں کرلیتے، کچھ نہیں سمجھ سکتے، کچھ نہیں سیکھ سکتے، بہت ضروری ہے خاموشی، اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہے تو خود سے دریافت کرو، اپنے سوال کا جواب اپنے اندر سے لینے کی کوشش کرو، خاموشی سے غور کرنا سیکھو، رونا بھی ہو خاموشی اختیار کرو۔ بابا مجھے سمجھا رہے تھے اور میں خاموشی سے سُن رہا تھا۔ اب کچھ تو بولو بیٹا، اتنی خاموشی کا بھی نہیں کہا میں نے۔ کچھ سمجھ نہیں سکتا میں بابا، ایسے ہی رہوں گا میں، صبر ہے مجھ میں نہ سکت۔ خاموشی طویل ہوگئی تھی لیکن پھر اچانک مجھ پر کھلا، دیکھیے شاید آپ سمجھ سکیں۔
اگر ہو گفت گُو کرنے کی خواہش
مزا دیتا ہے سنّاٹا بھی کیسا
The post جب اندر سکوت ہو تو باہر کا شور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا appeared first on ایکسپریس اردو.