عذابِ آگہی
مصنف… میاں افتخاراحمد
قیمت…500 روپے
ناشر:المجاہد پبلیشرز، ایم بلاک ٹرسٹ پلازہ ، جی ٹی روڈ گوجرانوالہ
زیرنظرکتاب مصنف کی یادداشتیں ہیں، وہ پاکستان ناروے کلچرل فورم کے تاحیات صدر ہیں، بچپن پھالیہ منڈی بہاؤالدین میں گزرا، بعدازاں راولپنڈی منتقل ہوئے، زیادہ تر یادداشتوں کا تعلق انہی علاقوں سے ہے۔ ان کے دوستوں، کلاس فیلوز کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں اہم ترین مناصب پر فائز رہی۔ بعض فوجی جرنیل بنے، بعض وائس چانسلر، بعض ججز، بعض نامور سیاست دان۔ ان دوستوں کی دوستی پر انھیں بہت فخر محسوس ہوتاہے۔ مصنف نے اپنی یادداشتوں میں انہی دوستوں کا دل کھول کر تذکرہ کیا۔ مثلاً سابق وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید کے بارے میں لکھتے ہیں:’ پرویزرشید سے میری بہت گہری ہم آہنگی رہی، میں ہمیشہ سے جنرل ایوب خان صدرپاکستان کا حامی تھا اور پرویزرشید ذوالفقارعلی بھٹو کا حامی تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی جوائن کرلوں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھ پر دوسرا دباؤ کرنل حبیب کے بیٹے اقبال حبیب کاتھا کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو راولپنڈی میں ہمیشہ کرنل حبیب کے گھر میں قیام کیاکرتے تھے۔ اقبال حبیب بھی روزمیرے گھر پہنچ جاتے تھے کہ میں بھٹو کی پارٹی جوائن کرلوں۔ ان دو قریبی دوستوں اور ساتھیوں کے بے حد اصرار کے باوجود میں نے جنرل ایوب کی پارٹی نہیں چھوڑی‘۔کتاب میں جابجا مصنف نے اپنی ماضی کی تصاویر شائع کی ہیں جبکہ اپنے دوستوں کی تصاویر شامل کرکے بھی ان پر فخر کیاہے۔
سرگزشتِ جامعہ عثمانیہ
مصنف…بدر شکیب
قیمت…500
ناشر… مظہر شکیب، امین ہائٹس، 147،
سی پی برار سوسائٹی، کراچی
دکن کے آخری حکم راں میر عثمان علی خاں کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جو اپنے دور میں دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ میر عثمان علی خاں کو تعلیم سے خاص دل چسپی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور میں بجٹ کا 11 فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا تھا اور علمی و تحقیقی کاموں میں علما اور اساتذہ کو نظام کی خصوصی توجہ اور مالی اعانت حاصل ہوتی تھی۔
اسی ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ علم و ادب اور تعلیم کے شعبوں کے ساتھ خاص طور پر اردو زبان کے فروغ اور تحقیقی کاموں کے لیے1917ء میں نظامِ دکن نے اس جامعہ کے قیام کا فرمان جاری کیا جس میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کا نام جامعہ عثمانیہ قرار پایا جس کے قیام کا ایک مقصد اردو کی ترویج اور فروغ کے ساتھ طلبا کے اخلاق کی درستی اور مختلف علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام تھا۔ ہر درجہ میں انگریزی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی تاکہ طلبا جدید علوم سے بھی بہرہ مند ہوسکیں۔ جامعہ میں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ قائم کرنے کے بعد نصابِ تعلیم مرتب کیا گیا اور تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ اس دور میں ہندوستان کی پہلی عظیم الشان درس گاہ تھی جس کے سائے تلے اردو زبان نے ترقی کا سفر اور طلبا نے تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، مگر سقوط کے بعد ہندوستانی حکومت نے سب کچھ برباد کر دیا۔
قارئین، پیشِ نظر کتاب نئی نہیں بلکہ یہ بدر شکیب(مرحوم) کی علمی اور تحقیقی کاوش کا نیا ایڈیشن ہے۔ یہ کتاب ایک اہم اور مستند دستاویز کے طور پر آنے والی نسلوں کو اپنے سنہری ماضی اور خصوصاً جامعہ عثمانیہ اور نظامِ دکن کے اردو کو ذریعۂ تعلیم بناتے ہوئے علم و تحقیق کے میدان میں شان دار کارناموں کی یاد دلاتی رہے گی۔ بدر شکیب حیدرآباد دکن کے چند معروف قلم کاروں میں سے ایک ہیں اور جامعہ ان کی مادرِ علمی رہی ہے۔ اس کتاب کے مختلف ابواب پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ نہایت وقیع اور بیش قیمت مخزن ہے جس کا مواد نہایت عرق ریزی اور محنت کا متقاضی تھا اور مصنف کے عزم و استقلال نے اسے سرگزشت کی صورت ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ ایڈیشن مرحوم مصنف کے صاحب زادے مظہر شکیب کی خواہش و کوشش کا نتیجہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی
کچھ یادیں، کچھ باتیں
مرتب… امرشاہد
قیمت…1500 روپے
ناشر… بک کارنر، جہلم
جناب مشتاق احمد یوسفی عصرحاضر کے عظیم ترین قلم کار، مزاح ہی کے نہیں اردونثر کے بھی بڑے آدمی اور اردو ادب کے لئے باعث امتیاز ہیں، بقول افتخارعارف’’ ایک ایسے زمانے میں جب پطرس بخاری، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، ابن انشا اور محمد خالداختر جیسے بڑے مزاحیہ نگار موجود ہوں، اپنا قد وقامت نکالنا بہت مشکل ہے‘‘ لیکن جناب یوسفی کھڑے ہوئے اور پورے قد سے کھڑے ہوئے حتیٰ کہ ایک پورا عہد ترتیب دیا جو ایک سمندرہے،آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ انہی کے بارے میں ابن انشا نے کہاتھا:’’ اگرمزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کانام ہے‘‘، چنانچہ ڈاکٹرظہیر فتح پوری نے کہا کہ ہم اردومزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ اور شفیق الرحمن نے کہا: ’’ یہ کہنے کو جی چاہتاہے کہ ہم سب بڑے باکمال ہیں لیکن مشتاق احمد یوسفی کی طرح کوئی نہیں لکھ سکتا‘‘۔
جناب امرشاہد نے زیرنظرکتاب کی صورت میں اس پورے عہد کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں:
’’مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف شدہ کتابوں اور خود ان کی تحریروں کے دوران ان کی شخصیت کی جو تصویر فکروذہن کے پردے پر ابھری تو لگا کہ ان بکھری یادوں، خاکوں اور باتوں کو ایک کوزے میں بند کردیاجائے۔ اس دوران یوسفی صاحب کے ایسے گوشے سامنے آئے جنھوں نے عقیدت کے جذبات کو شدت سے ابھارا، ہمت اور استقلال کو تقویت بخشی، کئی اعتبار سے یوسفی صاحب کو ہرچھوٹی بڑی محفل میں بے تحاشہ سراہا گیا۔ اس مجموعے کی ترتیب کا کام آج سے کئی سال پہلے اس تحریک کے ساتھ کہ ’’ہمیں اپنے ہیروز کی قدر ان کی زندگی میں ہی کرنا چاہئے‘‘ شروع کردیاگیاتھا مگرتکمیل وفات کے بعد ہوگی، اس کا قطعی اندازہ نہ تھا لہذا پھر اس کام کی رفتار کو بڑھاتے ہوئے ایک ہفتے میں کتاب کو سمیٹ دیاگیا‘‘۔
’’اس مجموعہ میں یوسفی صاحب کے ارادت مندوں ، رفقائے کار اور برصغیر کے ممتاز اہل قلم کے مضامین شامل ہیں۔پہلا حصہ زندگی نامہ پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹراشفاق احمد ورک نے کمال مہارت سے یوسفی صاحب کی اپنی کتابوں سے خودنوشت کو مرتب کیاہے جبکہ پہلی جامع سوانح حیات لکھنے کا اعزاز طارق حبیب کے سر ہے جو اسی باب کا حصہ ہے۔دوسرے حصے میں یوسفی صاحب کی زندگی میں لکھے گئے خاکے ومضامین شامل کئے گئے ہیں۔ تیسرا حصہ اہل قلم کے لکھے گئے تعزیتی ریفرنس، یادیں اور منظوم خراج عقیدت پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے میں مشتاق احمد یوسفی کی جملہ تصنیفات پر عظیم ادبا کے تاثرات سمیٹے گئے ہیں۔ پانچویں حصے میں یوسفی صاحب کی پانچوں کتابوں کا انتہائی دشوار انتخاب کیاگیا ہے جو کہ کسی طور پر بھی مکمل کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتا۔ آخری اور چھٹے حصے میں ملاقاتیوں کی گفتگواور انٹرویوز کو تلاشِِ بِسیار سے حاصل کیاگیاجبکہ بعض کو ٹرانسکرائب کرنے کی بھی نوبت آئی‘‘۔
جس طرح مبشرعلی زیدی نے کہا :’ بڑے ادیب مرتے نہیں، بس لکھنا چھوڑ دیتے ہیں‘، ہم بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جناب مشتاق احمد یوسفی کے عہد کا یہ دوسرا دور شروع ہواہے، اور جناب امرشاہد کی یہ بھاری بھرکم کتاب اس نئے دور کا ابتدائیہ ہے۔ ’بک کارنر‘ نے پونے چھ سو صفحات کی کتاب کو جس قدرخوبصورت اندازمیں شائع کیا، لائق صدتحسین ہے۔ تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.