قدرت نے ملکِ پاکستان کو بیش بہا نعمتوں، قدرتی وسائل اور خوب صورتی سے نوازا ہے۔ لیکن ہم ایک قوم کے طور پر بہت بے قدرے ثابت ہوئے ہیں کہ اِن نعمتوں کی قدر نہ کر سکے۔ بجائے اس کے، کہ ان سے فائدہ اْٹھائیں ہم ہمیشہ انہیں ضائع کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں حیاتیاتی تنوع کے باعث ہزارہا اقسام کے درخت، جنگلی جانور، آبی حیات، پرندے اور پودے پائے جاتے ہیں۔ یہاں چوںکہ برفانی، صحرائی، میدانی، پہاڑی، جنگلی، خشک اور سطح مرتفع، غرض ہر قسم کا حیاتیاتی نظام پایا جاتا ہے، اس لیے ان کی حفاظت اور افزائش اور بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ اس غرض سے پاکستان کے طول وعرض میں جنگلی حیات، نباتات اور وسائل کے تحفظ کے لیے چند محفوظ علاقے یعنی ”نیشنل پارکس” بنائے گئے ہیں۔ یہ وہ بچوں کے پارک نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ جانوروں کے پارک ہیں۔
نیشنل پارک یا قومی باغ، کسی بھی ملک میں وہ مضافاتی علاقہ ہوتا ہے جسے حکومت ایک محفوظ مقام قرار دے کر وہاں ہر قسم کی ماحول دشمن کارروائیاں ممنوع قرار دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ محفوظ علاقہ (جنگلی، پہاڑی، برفانی یا صحرائی) ہوتا ہے جہاں ہم حیاتی تنوع کے خزانے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر نہ صرف ہر قسم کے جانوروں کا شکار کرنا اور نباتات کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا ممنوع ہوتا ہے بلکہ یہاں کم یاب اور معدوم ہونے والے جانوروں کو قدرتی ماحول میں رکھ کر ان کی افزائش بھی کی جاتی ہے۔ یوں یہ ”قومی باغ” کسی بھی قوم کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کُل 29 نیشنل پارک (20 حکومتی جب کہ 9 نجی تحویل میں ہیں) ہیں جن میں 10 بڑے اور 19 چھوٹے پارک شامل ہیں جو کُل رقبے کا تقریباً 3 فی صد ہیں۔ ان میں 7 پارک آزاد جموں و کشمیر میں، 6 گلگت بلتستان، 6 خیبر پختونخواہ، 6 پنجاب، 2 بلوچستان اور ایک ایک سندھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے۔ عوامی سطح پر جنگلی حیات کے تحفظ کی آگاہی میں اضافے کے سبب 10 نیشنل پارکس 1993 سے 2005 کے درمیان میں قائم کیے گئے۔ کسی بھی نیشنل پارک کے لیے کم سے کم علاقہ 4 کلومیٹر تک ہونا ضروری ہوتا ہے اور 4 کلومیٹر رقبے کا ایک ایسا پارک ہمارے پاکستان میں بھی ہے، یہ آزاد کشمیر میں واقع تولی پیر نیشنل پارک ہے۔
چلیں پاکستان کے مختلف قومی باغات/پارکس کے بارے میں جانتے ہیں۔
1۔ خُنجراب نیشنل پارک:
گلگت بلتستان کی وادیٔ ہنزہ میں واقع خُنجراب نیشنل پارک پاکستان کا 3 بڑا اور دنیا کے چند بلند ترین پارکس میں سے ایک ہے۔ یہ نیشنل پارک گلگت سے 269 کلومیٹر شمال مشرق میں دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو تیرہ 226913 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے جس میں وادیٔ خنجراب اور شِمشال شامل ہیں۔ اس علاقے کو اپریل 1979ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ”مارکو پولو شیپ” کی حفاظت کے لیے نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ یہ پورا نیشنل پارک چوںکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند (3200 میٹر سے لے کر 600 میٹر تک ) ہے، اس لیے سال کے بیشتر مہینوں میں پورا پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پورا علاقہ وسیع وعریض گلیشئرز اور برفانی جھیلوں سے اٹا پڑا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک کے علاقے میں سبزہ بہت کم ہے۔
اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دینے کا بنیاد ی مقصد یہ تھا کہ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانوروں، بالخصوص بھیڑوں کی ایک نایاب نسل ”مارکو پولو شیپ” کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے، کیوںکہ یہ جانور پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ مارکو پولو شیپ کے علاوہ یہاں برفانی تیندوے، لومڑی، سُنہری عقاب، چکور، بھورا بگلا، اُلو، بھیڑیے، برفانی ریچھ، ہمالیائی بکروں، بھورے ریچھوں اور سنہرے چوہوں کی بھی متعدد اقسام موجود ہیں۔ شاہراہِ قراقرم کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاحوں کی یہاں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ شکار پر پابندی کی وجہ سے آپ کو بہت سے جانور قراقرم ہائی وے پر چلتے پھرتے بھی نظر آئیں گے۔
2۔ ہِنگول نیشنل پارک:
ساحلِ مکران کے ساتھ پھیلا ہِنگول نیشنل پارک بلوچستان اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو چھے لاکھ انیس ہزار تینتالیس (619043) ہیکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک اس وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کا ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔ اس پارک کو چلانے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1Marine Range
2 Aghor Range
3 Inland Range
یہ پارک طبعی طور پر چٹانوں، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ میدانوں وغیرہ میں بٹا ہوا ہے۔ ہنگول ندی، نیشنل پاک سے ہوکر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدو جزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور ہزاروں دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔اس پارک کے جنگلی حیوانات میں پہاڑی بکرا، اڑیال، چنکارہ، جنگلی بلی، بِجّو، لمبے کان والا خارپُشت، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا اور نیولا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، باز، چیل، مرغابی، سنہری شِکرا، کرگس، ترن، چہا، شاہین وغیرہ شامل ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگرمچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ کے علاوہ کئی اور سمندری حیوانات جیسے کچھوا اور انواع و اقسام کی مچھلیاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیزیپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہنگول نیشنل پارک وہ واحد پارک ہے جہاں گیس اور مٹی خارج کرتے دلدلی آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقامات ”ساحلِ کْند ملیر” اور ”اُمید کی شہزادی” بھی یہاں واقع ہیں۔ دل کش چٹانوں کا مرکز یہ پارک واقعی ایک خوب صورت جگہ ہے جسے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
3۔ لال سوہانرا نیشنل پارک:
ضلع بہاولپور میں واقع لال سوہانرا نیشنل پارک جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1972 سے قائم شُدہ پنجاب کے اِس سب سے بڑے پارک کو اقوامِ متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسکو نے ایک ”حیاتی محفوظ ذخیرہ” قرار دیا ہے۔ اس پارک کی سب سے بڑی خصوصیت یہاں کے مختلف ماحولیاتی نظام ہیں جن میں جنگلی، صحرائی اور دلدلی نظام شامل ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم پارک ہے۔
بہاولپور سے 37 کلومیٹر مشرق میں واقع یہ جگہ صحرائی اور جنگلی حیاتی نظام کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ کُل 51،368 ہیکٹر رقبے میں سے 20،974 ہیکٹرز پر چراگاہیں اور سبزہ، 40،942 ہیکٹرز پر صحرا جب کہ 4،780 ایکڑ رقبہ جھیلوں اور تالابوں پر مشتمل ہے۔ ڈیزرٹ برانچ کینال اس پارک کے بیچوں بیچ گزرتی ہے۔ اسی پارک میں قدیم دریائے ہاکڑہ کی خُشک گزرگاہ بھی ملتی ہے۔ لال سوہانرہ پارک میں پائی جانے والی جنگلی حیات میں جنگلی بلی، چیتے، شیر، خرگوش، ہرن، تلور، بارہ سنگھا، مانیٹرچھپکلی، وائپرسانپ، کوبرا، چوہے اور خارپشت شامل ہیں۔ پرندوں میں مرغابی، کونج، عقاب، مصری گِدھ، شِکرا، اُلو اور طوطے پائے جاتے ہیں۔ پارک کے بیچ موجود ”جھیل پتیسر” پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے جہاں ہر سال سردیوں میں 10 سے 30 ہزار بطخیں پائی جاتی ہیں۔ پارک کی سب سے بڑی کَشِش یہاں موجود جنگلی گینڈوں کی جوڑی ہے جو نیپال نے پاکستان کو تحفے میں دی تھی۔ حکومتِ پنجاب اس پارک کو بین الاقوامی طرز کے سفاری پارک میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔
4۔ چِترال گول نیشنل پارک:
خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال کے علاقوں کیلاش اور وادیٔ گول پر مشتمل یہ پارک 1984 میں دریائے چترال کے قریب بنایا گیا۔ اس کا کُل رقبہ 7750 ہیکٹر ہے۔ یہ چترال سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں کئی برفانی گلیشیئر موجود ہیں۔ ہندوکش کی چوٹیوں میں گھرا یہ پارک مارخور بکروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سائیبیرین بکرا، اود بلاؤ، بھیڑیے، لال لومڑ، ابابیل، کالے ریچھ اور لداخی اڑیال (شاپو) بھی پائے جاتے ہیں۔
اس پارک کی زمین حکومتِ پاکستان اور مہترِ چترال کے وارثوں کے بیچ ابھی تک متنازعہ ہے۔ یہ پارک پاکستان کے سرد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔
5۔ کیرتھر نیشنل پارک:
پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک صوبہ سندھ میں واقع واحد پارک ہے، جو تقریباً 3000 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہے۔ سندھ و بلوچستان کی سرحد پر واقع کوہِ کیرتھر اور صوبہ سندھ کے جنوب مغربی اضلاع جامشورو اور کراچی تک پھیلا یہ پارک 1974 میں قائم کیا گیا۔ یہ پاکستان کا وہ پہلا پارک تھا جسے اقوامِ متحدہ نے اپنی نیشنل پارک لسٹ میں شامل کیا۔
کیرتھر نیشنل پارک پاکستان میں تیندوؤں کا بڑا مسکن ہے۔ یہاں گیدڑ، لومڑی، جنگلی بلی، پہاڑی بکرا، بارہ سنگھا، خارپُشت، پہاڑی چھپکلی، مورخور اور چنکارا سمیت کئی پرندوں کی بھی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔
حَب ڈیم، کوہِ تراش، تونگ کے قدیم مقبرے اور رانی کوٹ کا مشہور قلعہ اسی پارک کی حدود میں واقع ہیں۔
6۔ دیوسائی نیشنل پارک:
دنیا کی بلند ترین سطحِ مرتفع اور نایاب بھورے ریچھوں کے مسکن، دیوسائی میں واقع دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13،500 فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔ 1993 میں قائم ہونے والا یہ پارک بلتستان کی وادیٔ استور، خرمنگ اور اسکردو کے درمیان میں واقع ہے اور 3000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
اس پارک کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں۔ اس نوع کے ریچھ دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ اس خطے کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کُل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گزرتے۔
بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان میں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے، کیوں کہ ایک روایت کے مطابق ”دیوسایہ نامی” ایک دیو کا یہ مسکن ہے اسی نسبت سے اسے دیوسائی کہتے ہیں، جب کہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے”بھئیر سر” یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوب صورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور (گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کردیا۔ یہ ریچھ سال کے چھے مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے، اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ باہر پہاڑوں پر جب برف پگھلتی ہے تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل کا جانور) تبتی بھیڑیا، لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، یاک، ہمالیائی مشک ہرن، برفانی مرغ، لداخی اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں سُنہری باز، گِدھ، داڑھی والا عقاب اور شِکرا قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 جڑی بوٹیاں مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے۔ کالاپانی اور شیوسر جھیل یہاں کی مشہور جگہیں ہیں۔ یہ پارک دنیا کی خوب صورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے جس پر کئی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔
7۔ چِلتن ہزارگنجی نیشنل پارک:
ہزار گنجی نیشنل پارک بلوچستان کے ضلع مستونگ میں کوئٹہ سے 20 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک انتہائی خوب صورت پارک ہے۔ اس کا رقبہ 32,500ایکڑ ہے اور سطح سمندر سے 2021 سے 3264 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ اسے 1980ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا۔ یہ پارک قدرتی پہاڑی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں مغرب میں چلتن اور مشرق میں ہزار گنجی کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس پارک میں ایک بہترین عجائب گھر دیکھنے کے لائق ہے۔
ہزار گنجی کا مطلب ”ہزار خزانوں والی جگہ” ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں پہاڑوں کی تہہ میں ہزاروں خزانے دفن ہیں، اس تاثر کی وجہ اس کا مختلف تاریخی افواج اور بلوچ قبائل کی گزرگاہ ہونا ہے۔ ابتدا میں اس پارک کے قیام کا مقصد چلتن جنگلی بکری اور مارخور کی نسل کو بچانا تھا جو 1200 سے کم ہو کر 1970ء میں صرف 200 رہ گئے تھے۔ اب ان کی تعداد دوبارہ 800 سے تجاوز کرچکی ہے۔ سلیمان مارخور یہاں کا خاص جانور ہے جو کوہِ سلیمان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندوستانی بھیڑیا، تیندوا، جنگلی بلی، لومڑی، صحرائی خرگوش، سانپ، چھپکلیاں، تلور، چکچکی، اُلو، گِدھ، کوئل، ہدہد، چکور، نَحل خور، نَوا اور مختلف قسم کے دوسرے پرندے پائے جاتے ہیں۔
8۔ مچھیارہ نیشنل پارک:
مچھیارہ نیشنل پارک آزاد کشمیر کی دل کش وادیٔ نیلم میں واقع ہے، جسے 1996 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ یہ پارک ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں کبک یا دراج (ایشیائی تیتر کی نسل) کی افزائشِ کی جاتی ہے۔ یہاں پایا جانے والا سُرخ گردن اور سیاہ و سفید پروں کا مالک، ”مغربی دراج” دنیا میں پائے جانے والے تیتروں کی شان دار نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نسل آج کل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس پارک میں صنوبر کے درختوں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جو یہاں کے پرندوں کی آماج گاہ ہے۔
یہ پارک آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 35 کلومیٹر دور دریائے نیلم کے دائیں کنارے واقع ہے۔ اس کی دوسری جانب خیبرپختونخواہ کی وادیٔ کاغان ہے۔ مچھیارہ نیشنل پارک کا کُل رقبہ 13،532 ہیکٹر ہے۔ یہ نیشنل پارک مغربی ہمالیائی جنگلات پر مشتمل ہے، جو 200 عالمی ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے۔ یہاں سالانہ اوسطاً 6۔327 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔
9۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک:
کوہِ ہمالیہ کی جنوبی پہاڑیوں کے دامن میں واقع مارگلہ ہل نیشنل پارک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس پارک میں شکر پڑیاں پارک، دامنِ کوہ، پیر سوہاوہ اور راول جھیل جیسے سیاحتی مقامات بھی شامل ہیں۔ 1980 میں بنایا جانے والا یہ پارک قریباً 17،386 ہیکٹر رقبے پر واقع ہے۔ مارگلہ ہل نیشنل پارک چینی اور ہمالیائی جانوروں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ پارک چیتوں، ہرنوں، جنگلی سور، سنہری گیدڑ، مور خور، لومڑی، تلور، بندر، سانپ، چمگادڑوں اور پرندوں کے لیے ایک محفوظ علاقہ ہے۔
10۔ لولوسردودی پتسراور سیف الملوک نیشنل پارک:
خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ کی وادی کاغان میں واقع اس پارک کو 2003 میں قائم کیا گیا۔ وادیٔ کاغان کی مشہورِ زمانہ جھیلیں دودی پت سر اور لُولُوسر اسی پارک کا حِصہ ہیں۔ اس کے قریب ہی سیف الملوک نیشنل پارک واقع ہے۔ مشترکہ طور پر دونوں پارک 88،000 ہیکٹر رقبے پر محیط ہیں۔ برفانی تیندوے، کالا ریچھ، برفانی تلور اور مارموٹ یہاں کی اہم جنگلی حیات ہیں۔
11۔ تولی پیر نیشنل پارک:
آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل راولا کوٹ میں واقع تولی پیر نیشنل پارک، پارک کم اور ہِل اسٹیشن زیادہ لگتا ہے جس کی بلندی 8800 فٹ ہے۔تولی پیر ایک ہل اسٹیشن ہے جس کا نام ایک بزرگ کے نام پر ہے، جن کے مزار کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ تحصیل راولاکوٹ کا بلند ترین مقام ہے اور تین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے۔ یہاں سے عباس پور، باغ اور دریائے پونچھ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
12۔ ایوبیہ نیشنل پارک:
ایوبیہ نیشنل پارک مَری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں واقع ہے۔ سابق صدرِ پاکستان ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور ایوبیہ کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔ اس کا پرانا نام گھوڑا ڈھاکہ ہے اور یہ پارک 3312 ہیکٹر پر مشتمل ہے۔ایوبیہ نیشنل پارک، پاکستان میں معتدل اور مرطوب ہمالیائی جنگلات کے نایاب ذخیرے کا ایک بڑا مسکن ہے۔ پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر واقع صنوبر کے درخت دل کش منظر پیش کرتے ہیں۔ پارک میں کئی اقسام کے پرندے جیسا کہ سنہری عقاب، جنگلی کبوتر، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں جب کہ جانوروں میں کالا ریچھ، لال گلہری، مشک بلاؤ، جنگلی کشمیری لومڑی اور لگڑبگڑ پائے جاتے ہیں۔ یہاں آپ سیکڑوں کی تعداد میں بندروں کو اچھل کود کرتا بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میرنجانی پہاڑ اور ٹھنڈیانی جیسی سیرگاہوں اور سرسبز علاقوں کہ علاوہ یہاں ایک چیر لفٹ بھی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ پاکستان میں یہ اپنی طرز کی پہلی تفریحی سرگرمی تھی۔
13۔ وسطی قراقرم نیشنل پارک:
وسطی قراقرم نیشنل پارک پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں واقع رقبے کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا حفاظتی علاقہ (کچھ اسے سب سے بڑا نیشنل پارک بھی کہتے ہیں) ہے جو 10،557 مربع کلومیٹر پر مُحیط ہے۔ ابھی تک اس کی مکمل اور باقاعدہ حدود کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ یہ دنیا کا سب سے بلند نیشنل پارک بھی ہے۔ اس پاک میں قطبین کے بعد گلیشیئرز کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں جب کہ انواع و اقسام کے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔1993 میں بنایا جانے والا یہ پارک اپنے اندر بالتورو، بیافو اور ہسپار جیسے عظیم الشان گلیشیئرز سنبھالے ہوئے ہے، جب کہ دنیا کی عظیم چوٹیاں کے ٹو، گیشربروم 1، گیشربروم 2 اور براڈ پیک بھی اسی پارک کا حصہ ہیں۔ اس پارک کے دو حصے ہیں۔ ایک میں گلیشیئر اور بلند چوٹیاں شامل ہیں جہاں عام لوگوں کی رسائی بہت مشکل ہے۔ دوسرے حِصے میں انسانی آبادیاں اور نسبتاً کم بلند علاقے شامل ہیں۔ وسطی قراقرم نیشنل پارک کی جنگلی حیات میں مارخور، پہاڑی بکرا، اُڑیال، مارکوپولو، جنگلی خرگوش، پہاڑی نیولا، مارٹن، بھورا ریچھ، ترکستانی سیاہ گوش۔ کالا ریچھ، لومڑی، تبتی بھیڑیا اور برفانی چیتا شامل ہیں۔ پرندوں میں سُنہری چڑیا، پہاڑی طوطے، گدھ اور متفرق کم یاب پرندے شامل ہیں۔
14۔ چِنجی نیشنل پارک:
1986 میں بنایا جانے والا چِنجی نیشنل پارک چکوال کی تحصیل تلہ گنگ میں واقع ہے۔ پوٹھوہار کے علاقہ میں واقع یہ پارک 6،095 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ اسلام آباد سے 130 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ پارک ”کوہِ نمک” کے قریب واقع ہے۔ سنگ ریگ، آتشی مٹی اور نمک کی چٹانوں پر مشتمل اس علاقے کو دریائے سوآں سیراب کرتا ہے۔ چنجی نیشنل پارک کی آب و ہوا خشک ہے اور یہاں اْڑیال کی نایاب نسل پائی جاتی ہے۔ یہ ان خوش قسمت پارکوں میں سے ہے جو مشہور ادارے ”بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظِ قدرت” کے کنٹرول میں ہیں۔
15۔ بروغِل نیشنل پارک:
پاک افغان سرحد کے انتہائی قریب واقع بروغل نیشنل پارک خیبرپختونخواہ کے ضلع چترال میں واقع ہے۔ 2010 میں بنایا گیا یہ پارک تقریباً 124،964 ہیکٹرز پر پھیلا ہے۔ وادیٔ بروغل پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہے جس سے آگے واخان کی پٹی شروع ہوجاتی ہے۔ تمام خِطہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے جو سردیوں میں برف سے منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہاں انسانی آبادی بہت کم ہے۔ پاکستان کی دوسری بُلند، دل کش اور حسین کرومبر جھیل اسی علاقے میں واقع ہے جو کیمپنگ کے لیے شان دار جگہ ہے۔ یہاں آپ کو یاکس اور اڑٰال کثرت سے نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ کوہِ پامیر اور سائبیریا سے آنے والے پرندوں کا مسکن بھی ہے۔
16۔ شندور ہندروپ نیشنل پارک:
گلگت بلتستان کے ضلع غزر میں واقع شندور ہندروپ نیشنل پارک 2012 میں گلگت بلتستان و خیبر پختونخواہ کی سرحد پر بنایا گیا۔ 3،132 ہیکٹرز پر پھیلا یہ پارک ہر سال پاکستان کے مشہور تہوار ”شندور پولو فیسٹیول” کی میزبانی بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ درہ شندور بھی یہیں واقع ہے۔
17۔ کالا چٹا نیشنل پارک:
ضلع اٹک میں مشہور کالا چٹا کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے 2009 میں نیشنل پارک قرار دے دیا گیا۔ یہ اسلام آباد سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ کالا چٹا کی پہاڑیاں سطحِ مرتفع پوٹھوہار کا حصہ ہیں جو ضلع اٹک کے شمال میں واقع ہیں۔ شمالی پہاڑیوں کو ”چِٹا پتھر” جب کہ جنوبی حصوں کو ”کالا پتھر” کہا جاتا ہے۔ یہاں کی جنگلی حیات میں تیندوے، چنکارے، ہرن، تیتر اور خارپشت شامل ہیں۔
18۔ پنجال مستان نیشنل پارک:
پنجال مستان نیشنل پارک آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سطح سمندر سے 8500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 300 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے اپریل تک یہ پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پنجال مستان نیشنل پارک، کوہِ پیرپنجال کے منفرد حیاتیاتی نظام کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔ بندر، تیندوے، جنگلی سؤر، لومڑی اور مختلف اقسام کے پرندے یہاں پائے جاتے ہیں۔
19۔ گوریز(مشک ڈیئر) نیشنل پارک:
بالائی وادیٔ نیلم میں واقع گوریز نیشنل پارک 2009 میں قائم ہوا۔ 52،815 ہیکٹر پر محیط یہ پارک تاؤبٹ سے آگے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ واقع ہے۔ان کے علاوہ شیخ بودین نیشنل پارک (ڈیرہ اسمٰعیل خان) ، گھاموٹ نیشنل پارک (وادء نیلم)، کرومبرنیشنل پارک (غزر)، پونچھ مہاسیرنیشنل پارک (کوٹلی، میرپور، پونچھ)، مری کوٹلی ستیاں، کہوٹہ نیشنل پارک (راولپنڈی)، دیوا وٹالا نیشنل پارک (بھمبر آزاد کشمیر)، کے ٹونیشنل پارک (گلگت بلتستان) اور ایوب نیشنل پارک (راولپنڈی) شامل ہیں۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان پارکس میں سے چند ایک ہی ہیں جو عالمی ادارے ”بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظِ قدرت” کی فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں جنگلات اور جنگلی حیات معدومی کا شکار ہیں۔ ان کی حفاظت ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے جس میں حکومت کے ساتھ عوام کو بھی برابر حِصہ ڈالنا ہو گا۔
The post پاکستان کے قومی پارکس appeared first on ایکسپریس اردو.