بریگو ریلوے برج (انگلینڈ) سے گزرتے ہوئے مال گاڑی کی رفتار کم ہونے لگتی ہے اور ایک مقام پر گاڑی رک جاتی ہے۔ انجن کے ڈرائیور کو سگنل ملا تھا۔ اس مال گاڑی میں شاہی خاندان کی ڈاک، قیمتی سامان کے علاوہ خطیر رقم موجود ہے جسے دیگر علاقوں کے ڈاک خانوں تک منتقل کیا جانا ہے۔ سامان کی حفاظت کے لیے سیکیوریٹی گارڈز اور ڈاک کی دیگر اسٹیشنوں پر منتقلی کے لیے پوسٹل عملہ بھی موجود ہے۔ 8 اگست 1963 کو ریلوے برج پر رکنے والی یہی مال گاڑی برطانیہ میں تہلکہ خیز خبر بن گئی۔
یہ مال گاڑی 7 اگست کو گلاسگو اسٹیشن سے روانہ ہوئی تھی۔ اس کا انجن 12 بوگیوں کو کھینچ رہا تھا، جن میں متعلقہ محکموں کے 72 افراد بھی سوار تھے۔ یہ لوگ مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر وہاں کی ڈاک متعلقہ اہل کاروں کے سپرد کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ انجن کے پیچھے لگی ہوئی بوگی میں قیمتی سامان اور کرنسی موجود تھی۔ اس روز سگنل پر گاڑی رکنے کے چند سیکنڈ بعد ہی انجن ڈرائیور جیک ملز کے سَر پر کسی دھاتی ٹکڑے سے ضرب لگتی ہے اور وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ ادھر بوگیوں میں موجود عملے کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا تھا۔ ٹرین پر لٹیروں نے دھاوا بول دیا تھا۔ وہ چند منٹوں میں لوٹ مار کر کے فرار بھی ہو گئے۔ اطلاع ملتے ہی پولیس نے ڈاکوؤں کی تلاش شروع کردی۔ خیال تھا کہ وہ جلد ان تک پہنچ جائے گی۔ ادھر شاہی رقم لوٹے جانے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ اسے انگلینڈ کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کہا جاتا ہے۔
اس واردات کے اصل منصوبہ ساز بروس رینالڈز اور رونی بگز بتائے جاتے ہیں۔ تاہم تحقیقات اور لٹیروں سے گرفتاری کے بعد کئی مراحل میں تفتیش کے باوجود بہت سی باتیں آج تک راز ہیں۔ اس واردات کے حوالے دو ایسے کردار بھی سامنے آئے جنھیں آج تک شناخت نہیں کیا جاسکا۔ خیال ہے کہ انھوں نے ہی ڈکیتوں کو شاہی ڈاک اور اس ریل سے متعلق معلومات فراہم کی تھیں اور ان سے اپنا حصّہ بھی وصول کیا، مگر خود لٹیرے بھی ان کی اصل شناخت نہیں جانتے تھے۔
رینالڈز اور اس کے ساتھی شاہی ریل سے 2.6 ملین پاؤنڈ (26 لاکھ) لوٹنے کے بعد منصوبے کے مطابق خریدے گئے ایک فارم ہاؤس میں روپوش ہوگئے۔ یہ پندرہ لٹیرے تھے جن میں گورڈن گوڈی، بسٹر ایڈورڈ، چارلی ولسن، رائے جیمس، جان ڈیلے، جمی وہائٹ، جم ہیسے، بوب ویلچ اور دیگر شامل ہیں جو بعد میں گرفتار ہوئے۔ تاہم پولیس لوٹی گئی رقم کا بڑا حصّہ برآمد نہیں کرسکی۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ٹرین کو جعلی سگنل سے رکنے کا اشارہ دیا گیا تھا۔ اس واردات میں کسی قسم کا آتشیں اسلحہ استعمال نہیں ہوا اور راہ زن عملے پر قابو پانے میں کام یاب رہے۔ ٹرین میں 120 مہر بند بیگ موجود تھے جن سے خطیر رقم نکال لی گئی تھی۔ چند دنوں میں فنگر پرنٹس کی مدد سے 13 لٹیروں کو گرفتار کرلیا گیا۔
یہ واردات کئی دنوں کی منصوبہ بندی اور سوچ بچار کا نتیجہ تھی۔ پولیس کے مطابق بروس رینالڈز اور رونی بگز کے ساتھ گورڈن اور ایڈورڈ سمیت اکثر ملزمان کا تعلق جرم کی دنیا سے تھا اور وہ پولیس ریکارڈ میں مشکوک یا سزا یافتہ تھے۔ تاہم ان میں سے کسی کو ٹرین لوٹنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے لیے انھوں نے لندن کے بدنام زمانہ ڈکیت گروہ ساؤتھ کوسٹ رائڈرز کے تین اراکین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ یہ بوب ویلچ اور جم ہیسے تھے جو پہلے بھی ٹرین لوٹ چکے تھے جب کہ راجر کورڈرے ریلوے سگنل میں گڑبڑ کرنا جانتا تھا۔
مال گاڑی کے انجن کا ڈرائیور نہیں جان سکا کہ اسے جعلی سگنل دے کر رکنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ گاڑی رکنے پر اس کا معاون چھبیس سالہ ڈیوڈ انجن سے باہر نکلا تاکہ ٹریک کے ساتھ نصب ٹیلیفون بوتھ سے متعلقہ اسٹیشن پر رابطہ کرکے اس کی وجہ معلوم کرے، لیکن کسی نے اسے پیچھے سے دبوچ کر بے بس کردیا اور باقی عملے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ چند منٹوں میں لٹیرے ریلوے ٹریک کے ساتھ کھڑے اپنے ٹرک میں مسروقہ مال بھر کے فرار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ رونی بگز نے ایک ریٹائرڈ ریلوے ڈرائیور سے اس ٹرین کی بابت معلومات اکٹھا کی تھیں اور اپنے ساتھی بروس رونالڈز کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ اس ریلوے ڈرائیور کا نام پیٹر بتایا جاتا ہے۔ تاہم لٹیروں میں سے کوئی بھی اس آدمی کا اتا پتا اور شناخت نہیں بتاسکا۔ پولیس کا خیال ہے کہ وہ ایک فرضی کردار تھا جس کی مزید کھوج وقت کا ضیاع تھی۔
اس واردات کے بعد اخبارات میں یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ تین برس قبل یعنی 1960 میں پوسٹ آفس کے تحقیقاتی شعبے نے ڈاک ریل کی اسپیشل بوگیوں (یہ ایچ وی پی کہلاتی تھیں) میں الارم لگانے کی تجویز دی تھی، تاکہ کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس کرنے پر دروازوں، کھڑکیوں کے اطراف لگائے گئے خفیہ بٹن دبا کر پولیس اور ریلوے انتظامیہ کو مطلع کیا جاسکے۔ اس تجویز پر اگلے برس عمل تو کیا گیا مگر تمام بوگیوں میں یہ الارم نصب نہیں کیے گئے تھے۔ 1963 ہی میں صرف تین ایچ وی پی بوگیوں میں یہ الارم نصب کیے گئے تھے۔ ڈکیتوں کی خوش قسمتی کہہ لیں کہ جس روز ڈکیتی کی یہ واردات ہوئی الارم سروس کام نہیں کررہی تھی اور وہ آسانی سے اپنا کام کرگئے۔ واردات کے بعد اس بوگی کو پولیس نے تحقیقات کے لیے سات برس تک محفوظ رکھا اور تفتیش کرتے رہے، مگر پھر اسے اسکریپ تصور کر کے انتظامیہ کی منظوری کے بعد آگ لگا دی گئی۔ اس موقع پر پولیس اور پوسٹ آفس کا عملہ بھی موجود تھا۔
اس روز شاہی ٹرین کی اسپیشل بوگی میں انچارج فرینک کے علاوہ ڈاک کا تین رکنی عملہ اور ریلوے پولیس کا انسپکٹر تھامس کیٹ بھی موجود تھا جو زیادہ مزاحمت نہ کرسکے اور کارروائی کے بعد لٹیرے اس مقام سے 43 کلومیٹر دور واقع فارم ہاؤس میں جاکر چھپ گئے۔ پولیس نے جائے وقوع پر مقامی لوگوں سے آنکھوں دیکھا حال جانا تو کچھ اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ کسی نے بتایا کہ ایک ڈکیت نے ٹرین اہل کار کو خبردار کیا تھا کہ آدھے گھنٹے تک یہاں سے ہلنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے پولیس کو ان کی نقل و حرکت سے متعلق اندازہ لگانے میں مدد ملی۔ ادھر ڈکیتوں نے فارم ہاؤس پہنچ کر لوٹے ہوا مال برابر برابر تقسیم کر لیا اور ٹرک کو آگ لگا دی۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے فارم ہاؤس سے نکلنا شروع کیا۔
پانچ روز بعد پولیس اس فارم ہاؤس تک پہنچ گئی، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ پولیس نے ٹرک کے ملبے اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء کے ڈبوں سے فنگرپرنٹس اور دیگر شواہد جمع کر کے تحقیقات شروع کردیں اور یوں سب سے پہلے راجر کورڈرے گرفتار ہوا اور جلد ہی دیگر ملزمان بھی حوالات میں تھے۔ 16 اگست کو مقامی شہری نے پولیس کو اطلاع دی کہ اسے رقم سے بھرے ہوئے دو تھیلے ملے ہیں۔ یہ وہی تھیلے تھے جن میں لوٹی ہوئی شاہی رقم بھری گئی تھی۔ اسی مقام سے پولیس نے مزید شواہد اکٹھے کیے جن کی بنیاد پر اگلے چند روز میں آٹھ ڈکیت سلاخوں کے پیچھے تھے۔ ان میں سے چارلس ولسن اور رونی بگز فرار ہونے میں کام یاب رہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ رونی بگز جو ایک لٹیرا اور مجرم تھا، اِس کیس کے حوالے سے شہرت سمیٹنے کے ساتھ لندن کے باغی کی حیثیت سے بھی جانا گیا اور اسے بہت اہمیت دی گئی۔ لندن کی تاریخ کے اس ’بد عنوان‘ کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔
رونی بگز 1929 میں انگلینڈ کے ایک قصبے میں پیدا ہوا۔ وہ 18 سال کا تھا جب ایئر فورس میں ملازمت اختیار کی، مگر دو سال بعد ہی ماحول سے بیزار ہوگیا اور نوکری چھوڑ دی۔ اس کے ایک برس بعد کار چوری کرنے کے الزام میں رونی کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ رہائی کے بعد اس نے ڈکیتی کی ایک اور ناکام کوشش کی اور دوبارہ پکڑا گیا۔ قید کے دوران اس کی ملاقات بروس رینالڈز سے ہوئی جو پیشہ ور مجرم تھا۔ اس بار رہائی کے بعد رونی بگز نے فیصلہ کیا کہ چوری چکاری نہیں کرے گا اور راستی کی زندگی گزارے گا۔
اپنے اسی ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے بڑھئی کا کام سیکھا اور اسے معاش کا وسیلہ بنا لیا۔ 1960میں اس نے ایک پرائمری اسکول ٹیچر کی بیٹی سے شادی کرلی۔ اس جوڑے کے ہاں تین بیٹوں کی پیدائش ہوئی اور یوں گھریلو اخراجات اور رونی بگز کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک گھر خریدنا چاہتا تھا، مگر اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ انہی دنوں رونی بگز کی ملاقات ایک ٹرین ڈرائیور سے ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص تھا جس نے رونی بگز کو شاہی ریل کے بارے میں معلومات دی تھیں۔ اسے کا نام پیٹر بتایا جاتا ہے۔ تاہم پولیس کا خیال ہے کہ یہ ایک فرضی نام ہے اور اس کے بارے میں مجرم سے کھوج کے باوجود کوئی اہم بات معلوم نہیں ہوسکی۔ رونی نے بعد میں یہ معلومات بروس رینالڈز سے شیئر کیں اور مل کر ڈکیتی کا منصوبہ بنایا۔
فارم ہاؤس پر چھاپے میں پولیس نے کیچپ کی بوتل پر رونی بگز کی انگلیوں کے نشانات پائے اور تین ہفتوں بعد اسے گرفتار کرلیا۔ تاہم اگلے برس رونی بگز فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا اور پیرس پہنچ گیا۔ اس نے کسی طرح اپنی بیوی کو بھی پیرس بلا لیا اور پلاسٹک سرجری کروانے کے بعد نئے شناختی کاغذات کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کی۔ 1966 میں وہ آسٹریلیا چلا گیا جہاں چند ماہ قیام کے بعد معلوم ہوا کہ پولیس نے اس کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا اور وہ اس کے نئے ٹھکانے سے بھی واقف ہیں۔ 1967 میں رونی اپنے خاندان کے ساتھ میلبورن منتقل ہوگیا جہاں معاش کی غرض سے متعدد ملازمتیں کیں اور 1970ء میں برازیل چلا گیا۔
اس ڈکیتی اور جیل سے فرار کے بعد لندن میں ہر طرف اس کا نام سنا جارہا تھا اور دوسری طرف برطانوی سرکار کا یہ مجرم برازیل میں ایک گلوکار اور رائٹر کے طور پر پہنچان بنا رہا تھا۔ اخبارات میں پولیس کی کارکردگی پر تنقید کی جارہی تھی اور یہ کیس حکومت کی بدنامی کا باعث تھا۔ برازیل میں رونی بگز کی شہرت کی تفصیل بھی بہت دل چسپ ہے۔ ہوا یہ کہ 1974 میں برازیل کے ایک اخباری رپورٹر کو کسی طرح رونی بگز کی اصلیت معلوم ہوگئی اور اس نے اپنی معلومات کو اسٹوری کی صورت اخبار میں شایع کردیا۔ یوں لندن میں اس کا چرچا نئے انداز سے ہوا۔ اس پر لندن نے برازیل سے رونی بگز کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔ تاہم اس وقت دونوں ملکوں کے مابین ملزمان کی تحویل کا کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا جس نے رونی بگز کو بچا لیا۔ ادھر برازیل میں لوگوں پر اس کی اصلیت کُھل چکی تھی۔ تاہم ان کے نزدیک یہ بات اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ رونی ایک ڈکیت اور مفرور شخص ہے۔
1978 میں رونی بگز کی آواز میں دو گانے ریکارڈ کیے گئے جنھیں ملک بھر میں پسند کیا گیا۔ کئی برس بعد 1991میں بھی رونی کی آواز میں مزید تین گانے ریکارڈ ہوئے، مگر اسے زیادہ شہرت 1981ء میں اپنے اغوا کی ایک کوشش کے بعد ملی۔ برطانوی آرمی کے سابق اراکین کے ایک گروہ نے اسے برازیلی سمندری حدود سے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی جسے برازیلی بحریہ نے ناکام بنا دیا تھا۔ یہ گروہ رونی بگز کو لندن پولیس کے حوالے کر کے انعام کی رقم حاصل کرنا چاہتا تھا، مگر ان کا خواب ادھورا رہ گیا۔ 1988ء میں اس ڈکیت اور اس کے اغوا کی کوشش پر برازیل میں فلم بھی بنائی گئی جس کا شریک رائٹر بھی رونی بگز تھا۔ برازیلی صحافی کی رپورٹ، گلوکاری، اغوا اور اس حوالے سے فلم بندی کے علاوہ وہ ایک ایسے شخص کے طور پر مشہور ہو رہا تھا جسے برازیلی حکومت کی جانب سے لندن سے تحفظ فراہم کیا جارہا تھا۔
اس شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رونی بگز کی فیملی نے اپنے گھر پر ڈنر پارٹیز کا سلسلہ شروع کردیا جس سے معاشی حالت بہتر ہونے لگی۔ ڈنر پر آنے والوں کی بڑی تعداد دراصل اس شخص سے ملنا چاہتی تھی جو لندن کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی میں ملوث تھا۔ لوگ رونی بگز سے ڈکیتی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں سوالات کرتے اور وہ انھیں ساری کہانی سناتا جاتا۔ وہ اس کا معقول معاوضہ وصول کرتا۔ فلم، کھیل اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ شخصیات بھی اس کے گھر آنے لگی تھیں۔ انہی میں ایک انگلش فٹبالر اسٹینلے میتھیو بھی تھا جس کی رونی بگز سے ملاقات نے عجیب جادو دکھایا۔ رونی بگز کو برازیل کے عوام نے سَر آنکھوں پر بٹھالیا۔ اس کی تصویر کافی کے مگوں اور ٹی شرٹس پر نظر آنے لگی۔ وہ اسے مجرم نہیں بلکہ ایک باغی تصور کرتے تھے۔1997 میں برازیل اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی تحویل کا معاہدہ طے پاتے ہی لندن کی جانب سے بگز کی حوالگی کے لیے درخواست دے دی گئی۔
تاہم برازیلی عدالت نے اسے مسترد کردیا اور رونی بگز کو تاحیات برازیل میں رہنے کی اجازت دی۔ اس طرح قانونی پیچیدگی کی وجہ سے رونی بگز پھر لندن کی گرفت سے بچ گیا تھا، مگر 2001 میں سن رسیدہ اور امراض کے شکار رونی بگز نے علاج کی غرض سے خود برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا جہاں لندن ایئرپورٹ پر گرفتاری کے بعد وہ دوبارہ سلاخوں کے پیچھے تھا۔ 2009 میں اسے نمونیا ہوگیا اور انسانی ہم دردی کی بنیاد پر اس کی رہائی عمل میں آئی۔ رہائی کے بعد میڈیا کے سوالات پر رونی بگز نے اعتراف کیا کہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ جیل کے بجائے آزاد فضا میں زندگی کی آخری سانس لینا اور اپنے خاندان کے ساتھ دن گزارنا چاہتا ہے۔
رونی بگز نے کہا کہ برازیل میں اگرچہ اسے بہت پزیرائی ملی، مگر وہاں گزارے ہوئے دن اس کے لیے ایک قسم کی قید ہی تھے۔ اس نے اپنے جرم پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگی۔ 18 دسمبر 2013 کو رونی بگز ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلا گیا۔ برطانوی مصنف کرسٹوفر پیکارڈ نے رونی بگز کی سوانح حیات لکھی اور اس دوران ان کے مابین گہری دوستی ہوگئی۔ کرسٹوفر کے مطابق رونی بگز پچھلے 50 سال کے دوران شہرت پانے والی چند شخصیات میں سے ایک ہیں۔ مصنف نے لندن کی حکومت کے اس مجرم کو ایک مہربان، فیاض اور اچھی حسِ مزاح کا مالک بھی قرار دیا۔
The post جب شاہی ڈاک ٹرین میں لٹیرے گُھسے appeared first on ایکسپریس اردو.