شوکت تھانوی کا کمال
سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور کنہیالال کپور کافی ہاؤس میں بیٹھے کافی پی رہے تھے کہ ایک مشہورناشر ان کی میز کے قریب آیا، علیک سلیک کے بعد اُس نے تینوں سے درخواست کی:’’ہمیں بھی کبھی خدمت کا موقع دیجئے۔‘‘ منٹو نے طنزیہ اندازمیں جواب دیا: ’’بس! آپ شوکت تھانوی کی کتابیں ہی چھاپاکیجئے‘‘۔کرشن اور کنہیالال نے منٹو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا:’’ منٹوصاحب ٹھیک فرما رہے ہیں‘‘۔ ایک لحظہ کے لئے ناشر دم بخود ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے تینوں کومخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ گستاخی معاف، ایک بات عرض کرسکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں ہاں بڑے شوق سے‘‘
’’آپ اپنے کو عظیم ادیب سمجھتے ہیں اور شاید عوام کے علمبردار بھی، لیکن معاف کیجئے گا کہ آپ کی تصنیفات عوام نہیں خریدتے، کالج کے چھوکرے اور چھوکریاں خریدتی ہیں لیکن وہ تو عوام میں سے نہیں ہیں۔ اِدھر شوکت تھانوی کی تخلیقات کا یہ حال ہے کہ ہم صرف اس کی نئی کتاب کے نام کا اعلان کرتے ہیں کہ پانچ ہزار جلدیں بُک ہو جاتی ہیں، حالاں کہ آپ کی کسی کتاب کا ایڈیشن ایک ہزار سے تجاوز نہیں کرتا‘‘۔ یہ واقعہ بذات خود کنہیالال کپور نے لکھا ہے۔
فیض احمد فیض نے شوکت تھانوی کی یاد میں لکھا: ’’ان کی ذہین اور بوقلموں شخصیت نے جولانی طبع کے لئے جو بھی میدان منتخب کیا اس میں یکساں جوہر دکھائے۔ نظم، نثر، تمثیل، افسانہ، شخصیت نگاری، نامہ نویسی، ریڈیو، صحافت، بذلہ سنجی، بدیہہ گوئی ان کی طبع زبان اور قلم یکساں، ہرمیدان میں یکساں طراری سے رواں رہتے۔ ان کی ظرافت میں تکلف اور آورد کو دخل نہ تھا۔ بے تکلف اور بے تکان، جیسے بولتے ویسے لکھتے‘‘۔ اس جامع الصفات شخصیت نے اتناکچھ لکھا کہ پورا کتب خانہ بھرجاتا ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد 70 کے قریب ہے۔ عبدالماجددریا بادی کہتے ہیں: ’’انشا کے لئے مشہور ہے کہ جب بادشاہ نے حکم دیا کہ ایک لطیفہ روز نیا سنایا کرو تو ہمت جواب دے گئی اور پسینہ آنے لگا ۔
یہ فرمائش اگرشوکت سے کی جاتی تو بے تکلف تیارہوجاتے اور عمر چاہے سوسال کی ہو جاتی یہ ہر روز بلاناغہ نئی ہی سناتے رہتے‘‘۔ قدرت اللہ شہاب نے دعا کی :’’ اللہ تعالیٰ اس کی روح کو جنت میں اسی طرح ہنستا رکھے جس طرح اس دنیا میں اس نے لاکھوں ہزاروں انسانوں کو اپنی شگفتہ تحریروں اور تقریروں سے ہنسایا ۔آمین‘‘، قرۃ العین حیدر کا کہنا ہے کہ ایک اچھے ظرافت نگار کی خوبی یہ ہے کہ وہ روزمرہ کے معمولی واقعات میں، زندگی کے بے تکے پن اور بدصورتی اور المیے میں صورت حالات کی شدید نامعقولیت میں لغویت کا رخ دیکھ لے اور اس پر ہنس اور ہنسا سکے۔
اچھا مزاح نگار زور سے قہقہہ نہیں لگاتا، صرف مسکراتا رہتا ہے۔ وہ پھکڑ اور سوقیانہ باتوں یا محض ضلع جگت یا چند بندھے ٹکے جملوں یا چند سٹاک مسخرے کرداروں کی تکرار سے مزاح پیدا نہیں کرتا۔ یہ فرحت بخش ظرافت نکتہ سنجی، خوش طبعی، ذہین زندہ دلی، پرمذاق اور لطیف فقروں اور الفاظ کے نفیس اور مہذب استعمال سے پیدا ہوتی ہے اور شوکت تھانوی ہمیشہ ایک مہذب ظرافت نگار رہے‘‘۔ حفیظ جالندھری نے لکھا :’’ شوکت کی ظرافت زندہ دلی تھی، یہ دل لگی ہوتی تھی دل کی لگی نہیں، لگاؤ تھا لاگ نہ تھی، اس لئے جس پر وہ فقرہ کستا تھا، وہ روتے روتے قہقہے لگا کر ہنستا تھا‘‘۔ شوکت تھانوی نے اپنے بارے میں کیا لکھا، ان کی آپ بیتی ’کچا چٹھا‘ پڑھ لیجئے۔
ان کے لکھے خاکوں کے دومجموعے’شیش محل‘ اور’ قاعدہ بے قاعدہ‘ کو بے حد شہرت ملی، ان میں تمام ترخاکے تعارفی ہیں اور ہر خاکے کا رنگ الگ ہے۔ تمام شخصیات کا تعلق ادب ہی سے ہے، مشاہیر بھی ہیں اور گمنام بھی، ان میں مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں شوکت تھانوی کبھی نہ کبھی،کسی نہ کسی صورت میں ملے تھے۔ تمام کے چہرے دلچسپ ہیں اور دلکش بھی اور یہی شوکت تھانوی کا کمال ہے۔ یہ سارے خاکے’شوکت تھانوی کے شاہکار خاکے‘ کی صورت میںایک ہی جگہ جمع کردئیے گئے ہیں۔ شوکت تھانوی اردو کے ایسے منفرد مزاح نگار تھے جن کا ایک ایک فقرہ اپنی جگہ دل نشین اور خوبصورت ہوتا ہے۔
’لکھنو سے لاہور‘ ان کے شاہکارمزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے جنھیں انھوں نے فرمائشی، فہمائشی،نمائشی، معاشی اور پیدائشی مضامین کی اقسام میں تقسیم کیا اورپھر خود ہی ان اقسام کی تشریح بھی کردی۔ فرمائشی مضامین سے مراد ان مضامین سے ہے جو کبھی عنوان دے کر، کبھی عنوان کے ساتھ موضوع بھی دے کر اور بعض اوقات مضمون کا نہایت تفصیلی خاکہ دے کر لکھوائے گئے کہ اس طرح اور اس قسم کا لکھ دیجئے، نمائشی مضامین جو رسائل اور اخبارات کے نمائشی نمبروں کے لئے لکھنا پڑتے ہیں۔ معاشی مضامین کو درزی کا ٹھیکہ کہنا چاہئے۔
زیر نظر تینوں کتابیں حکیم اعجازحسین چانڈیو نے مرتب کی ہیں، انھیں ’بک کارنر جہلم‘ نے اس قدر اہتمام اور خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے کہ جی عش عش کر اٹھتا ہے۔’کچا چٹھا‘ کی قیمت 640 روپے جبکہ ’شوکت تھانوی کے شاہکار خاکے‘480 روپے اور’لکھنو سے لاہور‘ بھی 480 روپے کی ہے۔
۔۔۔
کلیات میر ریحان
شاعر: میر ریحان۔قیمت: 600 روپے۔صفحات:304
ناشر:ادبستان، دربار مارکیٹ، نزد داتا دربار،لاہور
اپنے دل کی بات بغیر کسی لگے لپٹے بے تکلفی سے کہہ دینا بہت بڑا فن ہے اور اگر یہ بات شعر میں کی گئی ہو تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے کیونکہ شاعری اپنے دل کی بات کہنے کا بہت حسین انداز ہے اس سے عام سی بات میں بھی ترنم اور نغمگی آ جاتی ہے ۔ میر ریحان کو اس میں کمال کا ملکہ حاصل ہے وہ اتنی خوبصورتی ، بے تکلفی، سادگی اور پرکاری سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں کہ انسان واہ واہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ گو انھوں نے شاعری میں ہر بات کی ہے مگر محبت کا عنصر ان کے ہر شعر میں غالب نظر آتا ہے ، ان کے اندر کی کسک قاری کو بے چین کر دیتی ہے ، جیسے کہتے ہیں
کیسے نہ حادثات جہاںکا شکار ہو
تقدیر کا لکھا ہے یہ ناچیز خوار ہو
زاہد ہو شیخ ہو کوئی دشمن ہزار ہو
میری طرح نہ پھر بھی کوئی دلفگار ہو
ایک دوسری غزل میں کچھ اس انداز سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں
جو وفا کے غلام ہوتے ہیں
زخم خوردہ تمام ہوتے ہیں
ہوتے ہیں سخت سنگدل یہ بت
بڑی مشکل سے رام ہوتے ہیں
ان کا یہ برجستہ اور بے تکلفی کا انداز انھیں شاعری کے اعلیٰ مقام تک لے جاتا ہے۔ جمیل یوسف کہتے ہیں’’ ریحان نے اساتذہ کے کلام کا مطالعہ اور ان کی خوشہ چینی سے اپنی شعر گوئی کو آگے نہیں بڑھایا بلکہ جو جذبہ یا احساس ان کے دل میں پیدا ہوا ہے اسے بے محابا اور بے تکلف لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔‘‘شاعری سے وابستگی رکھنے والے ضرور مطالعہ فرمائیں۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.