انسانی ذہن اللہ تعالیٰ کی ایک لاجواب اور منفرد تخلیق ہے۔ یہ دماغ ہی ہے جو انسانوں کو دیگر حیوانات سے ممتاز بناتا ہے۔ اسی ذہن رسا کی بدولت انسان نے ترقی و ارتقاء کی وہ منازل طے کیں کہ ناصرف پاتال کی خبر نکال لایا، اس کرہ ارض پر موجود جمادات، معدنیات اور حیوانات کو زیر نگین کرتے ہوئے اپنے استعمال میں لایا بلکہ آسمان کی وسعتوں کو کھنگالتے ہوئے اور کائنات کے اسراروں پر غور و فکر کرتے ہوئے لایخل گھتیوں کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے اور ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔
ان محیر العقول کارناموں کے باوجود بعض اوقات انسانی ذہن کی چند گرہیں ایسی ہیں جو دلچسپ اور حیرت انگیز کہی جاسکتی ہیں اور عقل رکھنے والی مخلوق ہونے کے باوصف صرف انسانوں ہی سے منسوب ہیں۔ مثلاً ’’نسٹالجیا‘‘ کی کیفیت جس میں انسان ماضی کی یادوں میں کھویا رہتا ہے یا ’’شجوفرینیا‘‘ جس میں انسان کو غیبی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور ایسے ہیولے دکھائی دیتے ہیں جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات ان ذہنی کیفیات کو دماغی بیماریوں میں شمار کرتے ہیں اور بالکل اسی طرح ان کا علاج کیا جاتا ہے جیسے کسی بھی جسمانی بیماری کا۔ تاہم ان نفسیاتی کج رویوں کے علاج کا طریقہ کار عام جسمانی بیماری کے علاج سے مختلف ہوتا ہے۔ مضمون ہذا میں میں علاج معالجے کی بحث سے قطع نظر نفسیاتی بیماریوں کی ایک قسم یعنی مختلف چیزوں کے ڈرو خوف کے حوالے سے بعض نفسیاتی بگاڑوں جو ’’فوبیا‘‘ کہلاتے ہیں کی معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔
-1 ایکروفوبیا (Acrophobia)
کسی بھی جگہ کی اونچائی اور بلندی سے خوف محسوس کرنے والے، اس فوبیا کے مریض گردانے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اونچی اور بلند جگہوں جیسے بلند و بالا عمارتوں اور اونچی چٹانوں پر جانے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں ایک خوف جکڑ لیتا ہے کہ کہیں وہ گر نہ پڑیں۔ اگر وہ کسی اونچی جگہ پر جائیں تو انہیں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور وہ محفوظ طریقے سے نیچے اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر دو سے پانچ فیصد لوگوں میں یہ فوبیا پایا جاتا ہے اور مردوں کی نسبت خواتین میں یہ شرح دگنی ہے۔ اس فوبیا کا شکار افراد اپنے ماضی میں عموماً کسی بلند جگہ سے خود یا کسی اور کے گر جانے کی ناخوشگوار یاد کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ کسی اونچی یا بلند جگہ پر گئے تو وہ پھر گرجائیں گے۔ اگر خدانخواستہ کسی میں یہ مرض شدت اختیار کرجائے تو وہ سیڑھیاں چڑھنے یہاں تک کہ کرسی پر کھڑے ہونے میں بھی خوف محسوس کرتا ہے۔ ایسے فرد کو چکر آنے اور توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی شکایت ہوتی ہے۔
-2 ایروفوبیا (Aerophobia)
ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر یا ایسی کسی بھی اڑنے والی چیز میں سفر کرنے میں خوف محسوس کرنے کو ’’ایروفوبیا‘‘ یا ’’ابویوفوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس فوبیا کے شکار افراد جب بھی ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر اڑنے کا تصور کرتے ہیں تو شدید ڈر اور ذہنی دباؤ کا احساس انہیں بے کل کردیتا ہے اور وہ حتی المکان کوشش کرتے ہیں کہ انہیں فضائی سفر نہ کرنا پڑے۔ خوف کی اس کیفیت کی وجہ سے ان کی روزمرہ کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ افراد جن میں یہ فوبیا اپنے ابتدائی درجے میں ہو، وہ ہوائی سفر کرنے کا رسک تو لے لیتے ہیں لیکن جہاز کے ٹیک آف کے وقت یا کسی فضائی پاکٹ میں پھنسنے کے دوران لگنے والے ہچکولوں کے دوران ان کی حالت بھی قابل رحم ہوجاتی ہے اور ذہنی دباؤ کے باعث متلی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
اس فوبیا کے مریض ساٹھ فیصد لوگوں کو دیگر نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اس فوبیا کی وجوہات کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ عام طور پر ہوائی سفر کے اس خوف کو بند جگہوں پر محسوس ہونے والے خوف (جس کا ذکر آگے آئے گا) سے ملایا جاتا ہے مگر واضح رہے کہ یہ دو الگ الگ فوبیا ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص بیک وقت ان دونوں ’فوبیاز‘ کا شکار ہو۔ اڑھائی سے چالیس فیصد افراد کسی نہ کسی درجے میں اس خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ایک برطانوی ڈاکٹر نے پہلی بار اپنے ریسرچ پیپر میں اس فوبیا کے بارے میں بحث کی، جب اس نے جنگی جہازوں کے پائلٹوں اور عملے کے دوسرے ارکاکین میں اس فوبیا کی علامات کو نوٹ کیا۔ 1950ء کی دہائی میں اس فوبیا کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن 1970ء کی دہائی میں کمرشل فضائی سفر کے عام ہوجانے کے بعد اسے باقاعدہ ایک نفسیاتی مرض تسلیم کرلیا گیا۔ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر نائن الیون کے حملوں کے بعد لوگوں نے فضائی سفر کے مقابلے میں زمینی سفر کو ترجیح دینی شروع کردی حالانکہ اس کی وجہ سے ٹریفک میں اضافہ ہونے کے باعث ہونے والے ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
-3 ایماتھو فوبیا (Amathophobia)
گردوغبار سے خوف محسوس کرنے کو ’’ایماتھوفوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ گردوغبار سے ہونے والی الرجی سے مختلف چیز ہے گو اس فوبیا میں مبتلا لوگوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ گردوغبار بذات خود کوئی نقصان پہچانے والی چیز نہیں۔ پھر بھی وہ گردوغبار کے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ جب کبھی موسم گرما میں گرد کا طوفان یا آندھی آئے تو ایسے لوگوں کی حالت دیدنی ہوتی ہے اور وہ گھروں کے اندر گھس کر بیٹھ جاتے ہیں۔ شومئی قسمت اگر وہ گھر سے باہر ہوں تو اپنی گاڑیوں یا دیگر مقامات پر پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ آندھی یا گرد کا طوفان تھم جاتا ہے تو ان کی جان میں جان آتی ہے۔ لفظ ’’ایماتھ‘‘ کا منبع یونانی ہے جس کا مطلب ’ریت یا گرد‘ ہوتا ہے۔ اس فوبیا میں مبتلا افراد بہت صفائی پسند ہوتے ہیں اور اپنے اردگرد مٹی یا گرد کا ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کرتے۔ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ مٹی میں جراثیم پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ اس فوبیا کی علامات میں دل کی دھڑکن تیز ہوجانا، تنگیء تنفس، ذہنی دباؤ اور چہرے کا رنگ پیلا پڑجانا اور منہ خشک ہوجانا اور خوف کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔
-4 ایریکنو فوبیا (Arachnophobia)
مکڑیوں اور بچھوؤں کا خوف ’’ایریکنو فوبیا‘‘ کہلاتا ہے۔ اس ڈر کے شکار افراد ایسی جگہوں پر بے آرامی اور بے چینی محسوس کرتے ہیں، جہاں انہیں یقین ہوکہ مکڑیاں پائی جاتی ہیں یا جہاں ان کے پائے جانے کے واضح اشارے موجود ہوں، جیسے کہ مکڑیوں کے جالے وغیرہ۔ اس فوبیا میں مبتلا افراد ایسی جگہوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ مکڑیاں نظر آنے پر ایسے لوگ چیخنا چلانا یا رونا شروع کردیتے ہیں یا جذباتی طور پر انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، پسینہ بہہ نکلتا ہے، دل اچھلنے لگتا ہے اور چہرے کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے۔ کچھ کیسز میں تو صرف مکڑیوں کی تصاویر یا پینٹنگز دیکھ کر بھی ان کی یہی کیفیت ہوجاتی ہے۔ اس فوبیا کی وجوہات میں انسان کے ابتدائی غاروں کے دور کا کوئی چھپا ہوا خوف یا کراہت کا عنصر شامل ہوسکتا ہے۔ مگر یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ اس خوف کی اصل وجوہات بھی ابھی تک معلوم نہیں ہوسکیں۔ کیونکہ مکڑیاں بہرحال اتنی بڑی نہیں ہوتیں کہ انسان ان کے حجم کی وجہ سے ان سے خوف کھائے جیسا کہ دیگر بڑے بڑے جانوروں سے ڈر محسوس ہونے میں ان کی جسامت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاید اس خوف کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عام لوگ نہیں جانتے کہ کون سی مکڑی زہریلی ہے اور کون سی نہیں۔ اسی وجہ سے اس فوبیا میں مبتلا لوگوں کے ذہن میں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس مکڑی کے کاٹنے سے وہ مر نہ جائیں۔ اسی لیے ایسے لوگوں کی نسبت جو اس فوبیا کا شکار نہیں ہیں، وہ لوگ زیادہ محفوظ ہیںجو مکڑیوں سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات یقینی بناتے ہیں کہ ان کے اردگرد کے ماحول میں مکڑیاں موجود نہ ہوں۔
2001ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق لوگ پھولوں کی تصویروں کے بیچ چھپی مکڑیوں کی تصاویر کو فوراً شناخت کرلیتے ہیں بانسبت مکڑیوں کی تصویروں میں چھپی ہوئی پھولوں کی تصاویر کے، غالباً یہ ان کے ذہنوں میں موجود مکڑیوں کے خوف ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ مکڑیاں فوراً ان کی مرکز نگاہ بن کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری اس دنیا کے کچھ معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں مکڑیاں لوگوں کی مرغوب غذا ہیں۔ ان ممالک میں ’’پاپوانیوگیونی‘‘ (Papua New Guinea) ’’کمبوڈیا اور براعظم جنوبی امریکہ کے ممالک (چلی، کولمبیا، برازیل، یورا گوئے، ارجنٹائن اور بولیویا کو چھوڑ کر) شامل ہیں۔ اس فوبیا کا شکار افراد کی تعداد ساڑھے تین تا چھ عشاریہ ایک فیصد تک ہے۔
-5 اسٹراپو فوبیا (Astrapophobia)
آسمانی بجلی اور گرج چمک سب ہی کے دل دہلا دیتی ہے۔ مگر اس سے بے انتہا خوف کھانے کو ’’اسٹراپوفوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے مریض بارش یا طوفان کے دوران بہت زیادہ چوکنے رہتے ہیں چاہے انہیں یہ یقین بھی ہو کہ آسمانی بجلی گرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس فوبیا کی علامات بھی تقریباً دیگر فوبیاز جیسی ہیں۔ مثلاً کانپنا، رونا، پسینہ پسینہ ہوجانا، ذہنی دباؤ، اچانک رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہونا، معدہ اچھل کر حلق میں آجانا، خوف، دل کی دھڑکن تیز ہوجانا اور انگلیاں کانوں میں ٹھونس لینا وغیرہ۔ لیکن اس فوبیا کی چند علامات دوسروں سے مختلف بھی ہیں۔ جیسے اگر اس فوبیا کا شکار فرد اکیلا ہو تو یہ علامات شدید ہوجاتی ہیں جبکہ اگر دوسرے لوگ بھی وہاں موجود ہوں اور وہ اسے تسلی تشفی دیں تو مریض افاقہ محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کھلے آسمان کی نسبت چھتی ہوئی جگہوں پر زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
ایسے کچھ لوگ تہہ خانوں، تنگ جگہوں یہاں تک کہ پلنگ کے نیچے اور الماریوں میں خود کو محفوظ اور مامون تصور کرتے ہیں۔ گرج چمک کی آوازیں ان کے خوف کو مہیمز کردیتی ہیں۔ اس لیے اگر ایسے موقع پر کھڑکیاں بند کردی جائیں اور ان کے کانوں میں روئی وغیرہ گھسا کر ان کو ان آوازوں سے دور کردیا جائے تو مریض پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچے اس فوبیا سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس لیے اگر ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کرکے انہیں اس خوف سے بچپن میں ہی نجات دلا دی جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بچے اپنے بڑوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اس لیے گرج چمک کے وقت گھر کے بڑے بہادری کا ثبوت دیں اور بارش سے انٹرٹینمنٹ کے طور پر محظوظ ہوں تو بچے اس فوبیا سے جلد چھٹکارا پاجاتے ہیں۔
-6 کلاؤسٹرو فوبیا (Claustrophobia)
یہ وہ فوبیا ہے جس میں مریض چھوٹی چھوٹی اور تنگ جگہوں میں پھنس جانے کے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے جہاں سے وہ باہر نہ نکل سکے۔ کچھا کھچ بھری ہوئی لفٹ، بغیر کھڑکیوں کے کمرے، ہوٹلوں کے کمروں کے بند دروازے اور ’سیلڈ‘ کھڑکیاں، چھوٹی کاریں اور یہاں تک کہ تنگ گلے والے کپڑے بھی اس فوبیا کے مرض کو ابھارنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا پانچ سے سات فیصد حصہ اس فوبیا کا شکار ہے۔ اس فوبیا کی دو مرکزی وجوہات ہیں۔ ایک پابند ہوجانے کا خوف اوردوسرے گھٹن ہونے کا ڈر۔ ایسے افراد زندگی میں کم از کم ایک بار کمرے میں تالہ بند ہوجانے، سرنگوں میں پھنس جانے، کان کن اور زیر سمندر غاروں میں مقید ہوجانے کے ڈر میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے حساسیات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ قطار میں کھڑے ہونے اور یہاں تک کہ بال کٹوانے کے لیے گردن کے گرد کپڑا لپیٹ کہ کرسی پر بیٹھنے تک سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد اگر خدانا خواستہ کسی تنگ جگہ میں پھنس جائیں تو انہیں گھٹن کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔
-7 ایمیٹو فوبیا (Emetophobia)
یہ وہ فوبیا ہے جو بے تماشا ذہنی دباؤ اور متلی کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس کا مریض اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ لوگوں کے ہجوم میں متلی ہوجائے گی یا وہ کسی کو متلی کرتے ہوئے دیکھ لے گا یا پھر اس کے متلی کردینے پر لوگ کیا کہیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اس فوبیا کے شکار افراد اپنے اس خوف سے بچنے کے لیے انتہائی کم خوراک کھاتے ہیں تاکہ انہیں متلی نہ ہوں اور اسی وجہ سے عموماً کمزور صحت اور کم وزن کے حامل ہوتے ہیں۔ اس فوبیا پر آج تک بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ یہ مرض عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتا ہے۔ ایسے مریض خود کو اوپر اچھالے جانے یا کسی دوسرے کو اچھالے جانے پر بھی متلی کی کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی ہنڈولے میں بیٹھ جائیں تو بھی جھولے کے اوپر نیچے جانے پر ان کے پیٹ میں اینٹھن ہونے لگتی ہے۔
ایسے لوگ کسی بیمار شخص کو دیکھ کر رونے اور چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ اس فوبیا کی وجوہات میں بچپن میں کسی بیماری کے دوران الٹیاں لگ جانے یا پھر خواتین میں دوران حمل قے کرنے پر مذاق کا نشانہ بننے جیسے نفسیاتی عوامل شامل ہیں۔ اس فوبیا کے مریضوں میں بند اور تنگ جگہوں کے فوبیا اور فضائی سفر کے فوبیا میں مبتلا ہوجانے کا بھی اندیشہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ ایسے لوگ تنہائی پسند ہوکر دوسری بہت سی نفسیاتی الجھنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین ماں بننے سے بھی کترانے لگتی ہیں۔
-8 ایروتھو فوبیا (Eruthophobia)
اس خوف کو ہم شرمانے کا فوبیا کہہ سکتے ہیں۔ اس میں مبتلا فرد کو یہ ڈر رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے جانے پر عدم اعتماد کے باعث جب اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہوجائے گا تو وہ کیا سوچیں گے؟ کیوں کہ ان کے نزدیک چہرہ سرخ ہوجانا کسی خطرے کو دیکھنے کی علامت ہے۔ ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ ان کے چہرے کو سرخ ہوتے دیکھ کر دوسرے لوگ سمجھیں گے کہ وہاں کوئی خطرہ موجود ہے اور جب ایسا نہیں ہوگا تو لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے۔ اس فوبیا کے مارے لوگ عدم اعتماد اور کم ہمتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا لوگوں کو سرخ رنگ سے ہی ڈر لگنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ سرخ گلاب، سگنل کی سرخ بتی اور خون دیکھ کربھی ان کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ اس فوبیا کی بنیادی وجوہات بھی ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکیں ہیں۔ تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے فوبیاز کی طرح اس کے ڈانڈے بھی انسان کے بچپن میں ہوگزرے کسی حادثے یا واقعہ سے جاملتے ہیں یا پھر یہ مرض کسی کو ورثے میں بھی مل سکتا ہے۔ اس فوبیا کے دورے کی علامات میں بھی بے ربط جملوں کا بولنا، پسینہ آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا اور منہ خشک ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر مجمع کے سامنے تقریر کرنے پر ہوٹنگ کا خوف بھی اس مرض کا شاخسانہ ہوتا ہے۔
-9 کیراؤنو فوبیا (Keraunophobia)
طوفان بادو باراں کا خوف ’’کیراؤنو فوبیا‘‘ کہلاتا ہے۔ یونانی زبان میں ’’کیراؤنو‘‘ کا مطلب طوفان یا آسمانی بجلی اور ’’فوبیا‘‘ کا مطلب خوف یا ڈر ہے۔ اس سے ملتے جلتے فوبیا کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ فوبیا کسی عام سے خوف یا ڈر کو نہیں کہتے بلکہ یہ کسی بھی حوالے سے انتہائی درجے کے ڈر اور خوف کو کہتے ہیں جو ایک ذہنی و نفسیاتی مرض کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔
کیراؤنو فوبیا کے شکار فرد کے اندر خوف کی علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب وہ طوفان بادوباراں کے دوران باہر کھلے آسمان تلے موجود ہو۔ اس وقت اس فرد میں بھی بیشتر وہی علامات ظہور پذیر ہوتی ہیں جن کا ذکر بار بار ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یعنی ڈر خوف محسوس کرنا، منہ خشک ہوجانا، دل کی دھڑکن تیز ہوجانا اور مرجانے کا خوف وغیرہ۔ یہ فوبیا بھی عمر کے کسی حصے میں لاحق ہوسکتا ہے مگر زیادہ تر بچپن میں ہونے کے چانسز ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو بچپن میں ویسے ہی بچے ایسی چیزوں سے خوف محسوس کرتے ہیں، دوسرے ایسی کہانیاں پڑھنے یا فلمیں دیکھنے سے جن میں طوفان کا ذکر خوفناک انداز میں کیا گیا ہو تو یہ باتیں بچوں کے کچے ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہیں اور تادیر اپنے اثرات دکھاتی رہتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے یہ ترغیب دی جائے کہ وہ طوفان یا بارش کے دوران دبک کر گھر کے کسی کونے میں بیٹھنے کی بجائے گھر کے اندر ہی ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جائیں اور اندر ہی گھومیں پھریں۔ نیز انہیں طوفان آنے کی سائنسی وجوہات سے آگاہی دینا بھی سود مند ثابت ہوسکتا ہے تاکہ وہ اس کو ایک فطری چیز گردانتے ہوئے اس سے خوف زدہ نہ ہوں۔
-10 مائیکرو فوبیا (Micro Phobia)
اکثر لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ ہر وقت ہاتھ دھوتے رہتے ہیں یا بے جا صفائی ستھرائی کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمہ وقت یہی خیال ستاتا رہتا ہے کہ ان کے ہاتھوں یا جسم پر گندگی یا جراثیم لگ گئے ہیں۔ یہ حالت ’’مائیکرو فوبیا‘‘کہلاتی ہے۔ عموماً اس فوبیا کے مریض یہ جانتے بھی ہیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ منطقی طور پر درست نہیں لیکن وہ اپنے خوف کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ مرض اس فوبیا کے شکار دوسرے لوگوں کو دیکھ کر بھی لگ سکتا ہے۔ جتنا زیادہ وہ دوسرے لوگ ایسے کسی فرد کے نزدیک بہت احترام کے حامل اور قابل اعتماد ہوں گے اتنا ہی اس بات کا خدشہ ہوگا کہ ان لوگوں کی معیت میں رہ کر ان پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی اس عمل کی تقلید کرنے لگے اور آہستہ آہستہ اس کا عادی ہوجائے۔ اس کے علاوہ یہ فوبیا وراثتی بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے جاندار جن کو دیکھ کر کراہت کا احساس بیدار ہوتا ہے جیسے چوہے یا کاکروچ وغیرہ۔ وہ بھی اس فوبیا کے لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس فوبیا سے نجات کے لیے قوت ارادی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
-11 نائکٹو فوبیا (Nycto Phobia)
اندھیرے سے تو سب کو ہی خوف محسوس ہوتا ہے۔ کون ہے جس کی رات کو آنکھ کھلے اور اندھیرے میں اسے ہیولے اور عجیب و غریب بھیانک شکلیں نظر نہ آتی ہوں۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ فوبیا کسی عام ڈر یا خوف کو نہیں بلکہ اس کی مریضانہ صورت کو کہتے ہیں جو انتہائی درجہ پر جاچکی ہو۔ ایسے ہی اندھیرے سے خوف کو ’’ناٹکٹو فوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ 1960ء کے عشرے میں یہ نظریہ مقبول تھا کہ اندھیرے سے ڈر لگنے کا سبب وہ جاندار ہیں جن کا تعلق اندھیرے سے ہے یا جو عام طور پر رات کو نظر آتے ہیں جیسے چوہے اور الّو وغیرہ۔ ان جانداروں سے جڑی جادوئی یا خوفناک کہانیوں نے بھی اس نظریے کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یونانی زبان میں ’’نائکٹوس‘‘ رات کو کہتے ہیں اور یوں یہ فوبیا اندھیرے کے خوف سے موسوم ہوگیا۔
-12 اوکلو فوبیا (Ochlophobia)
کئی لوگ مجمعوں اور ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں۔ اس فوبیا کے متاثرین کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں وہ ہجوم میں پھنس کر روندے نہ جائیں یا مجمعے میں گم نہ ہوجائیں۔ ایسے لوگوں دوسروں سے کسی بیماری کے جراثیم لگ جانے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے اور وہ پرہجوم جگہوں پر بے چینی اور بے اطمینانی محسوس کرتے ہیں۔ اس فوبیا کے حاملین شرمیلے ہوتے ہیں اور پارٹیوں، تقریبات، شاپنگ مالز میں جانے، سینما دیکھنے اور اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ وغیرہ دیکھنے جیسے معاملات سے گھبراتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
-13 اورنیتھو فوبیا (Ornitho Phobia)
پرندے کتنے معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں۔ انواع و اقسام کے رنگ برنگے اور حسین پرندے دیکھ کر انسان قدرت کی صنائی پر دنگ رہ کر عش عش کر اٹھتا ہے اور ان کے قریب جانے اور انہیں چھونے کی خواہش دل میں انگڑائی لیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ان کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ لوگ پرندوں سے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔ ’اوریتھو‘ کا مطلب یونانی زبان میں ’پرندوں سے مطابق‘ ہوتا ہے جبکہ فوبیا خوف کو کہتے ہیں۔ اس فوبیا کا شکار کچھ لوگ تو صرف شکاری یا بڑے پرندوں جیسے گدھ اور عقاب اور چیل وغیرہ سے خوف کھاتے ہیں لیکن اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو معصوم سے عام گھریلو پرندوں سے بھی ڈر محسوس کرتے ہیں۔
ایسے افراد اپنے اردگرد پرندے دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ انہیں نقصان نہ پہنچائیں یا ان سے انہیں کوئی بیماری نہ لگ جائے۔ اس خوف کے پیچھے بھی یقینا ماضی کا کوئی واقعہ یا مشاہدہ ہوسکتا ہے۔ اس خوف کو پیدا کرنے میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ 1963ء میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم ’’دی برڈ‘‘ میں پرندوں کو انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اسی طرح ٹی وی اور اخبارات میں پرندوں کے کسی پر حملہ کرنے کی خبریں بھی اس ضمن میں کردار ادا کرتی ہیں۔ کچھ توہمات جیسے الو کا جادو ٹونے میں استعمال وغیرہ بھی اس کا ایک بنیادی سبب ہیں۔
-14 پاتھو فوبیا (Patho Phobia)
بیماریوں کا خوف بھی ایک عام فہم فوبیا ہے۔ ہمارے قارئین میں سے جو 1980ء کی دہائی کے آخر میں انٹرمیڈیٹ کے تعلیمی دور کا حصہ تھے۔ انہیں انگریزی مضمون ’’اے مین ہو واز اے ہوسپٹل‘‘ (A Man Who Was A Hospital) یاد ہی ہوگا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ کیسے ایک آدمی مختلف بیماریوں کی علامات کتاب میں پڑھ پڑھ کر یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ساری بیماریاں اس کو لاحق ہوچکی تھیں۔
-15 نائگو فوبیا (Pnigo Phobia)
دم گھٹنے کے خوف کو ’’نائگو فوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ امریکہ کی سائیکالوجیوکل ایسوسی ایشن محض 100 فوبیاز کو تسلیم کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں پانچ سو سے زائد فوبیا پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک ’’نائگو فوبیا‘‘ بھی ہے۔ یہ کوئی عام سا فوبیا نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے کہ اس سے متاثرہ فرد کی زندگی منتشر ہوکر رہ جاتی ہے۔ اگر کبھی کسی ایسے فرد نے اس فوبیا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ہو تو وہی بتاسکتا ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ اکثر و بیشتر تو بے چارے متاثرین اس عذاب کے ساتھ ہی ساری زندگی گزار دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے نفسیاتی مریضوں کا جینا یوں بھی دوبھر ہوجاتا ہے کہ کھانا کھانے یا پانی پیتے ہوئے بھی انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ کھانا یا پانی ان کے گلے میں اٹک جائے گا اور ان کا سانس بند ہوجائے گا۔ ایسے مریضوں کی بے چارگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ انہیں روز کھاتے پیتے ہوئے اس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔
-16 ٹرانو فوبیا (Pterono Phobia)
پرندوں کے نرم و نازک ’پر‘ ناصرف جنگلوں میں رہنے والے قبائلیوں بلکہ جدید تہذیب سے تعلق رکھنے والے انسانوں، خاص طور پر خواتین کی آرائش و زیبائش میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ پر تکیوں میں بھر کر انہیں نرم و ملائم بنانے اور پرسکون نیند کا ذریعہ بھی ہیں۔ مگر آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ان نرم و نازک پروں سے بھی ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں۔ اس ڈر و خوف کو ’’ٹرانو فوبیا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دراصل انہیں ان پروں سے پیدا ہونے والی گدگدی سے خوف آتا ہے۔ ان کے لیے یہ گدگدی یا اس کا تصور ہی خوفزدہ کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ان کی طبیعت کی حساسیت اس بے ضرر سے عمل کو برداشت کرنے کی متحمل بھی نہیں ہوتی۔
-17 پائرو فوبیا (Pyro Phobia)
زمانے قدیم ہی سے آگ انسانی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کی دریافت، پہیے کی ایجاد کی طرح ایک اہم سنگ میل سمجھی جاتی ہے۔ آگ نے نہ صرف انسان کو غذا کے نئے اور لذیز ذائقے سے روشناس کروایا بلکہ اسے سرد موسم کی سختیوں اور وحشی درندوں سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مذہبی نقطۂ نظر سے بھی گناہ گاروں کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا گیا ہے۔ غرض آگ اس دنیا اور دوسری دنیا میں انسانوں کی زندگیوں میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جیسے ہر چیز کا مثبت استعمال مفید اور منفی استعمال ضرر رساں ہوتا ہے۔ ایسے ہی آگ بھی بیک وقت فائدہ مند اور نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ گو آگ سے ڈرنا کوئی اتنی حیرت انگیز بات نہیں مگر کچھ لوگوں میں یہ ڈر حد سے بڑھ جاتا اور ایک فوبیا کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
اس کی عام سی وجہ جلتی ہوئی آگ میں گھر جانے کا خطرہ، گھر کو آگ لگ جانا یا پھر جنگل کی آگ کی وجہ سے درختوں سے محرومی اور ہر دو صورتوں میں ماحول کو درپیش ہونے والے خطرات اور ان کے مابعد اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس فوبیا میں مبتلا افراد اس چھوٹی سی آگ کے قریب بھی نہیں جاسکتے جس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہو۔ جیسے چولہا یا آتش دان۔ یہاں تک کہ آگ کا الاؤ یا موم بتی کا شعلہ بھی ان کے لیے سوہاں روح ہوتا ہے۔ اس فوبیا کی علامات میں بھی منہ خشک ہوجانا، معدہ حلق کو آنا اور گھبراہٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس فوبیا کے علاج کی تھراپی کے طور پر مریض کو تھوڑی آگ جیسے سلگتا ہوا سگار دکھانا اور پھر بتدریج چولہے کی آگ سے اس کا ڈر نکالنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ نیز اس کے ساتھ بات چیت کے سیشنز کے ذریعے اس کا خوف کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
-18 ٹرسکائڈ کا فوبیا (Triskaedeka Phobia)
دنیا بھر میں انسانوں کے مختلف معاشروں میں عجیب و غریب قسم کے توہمات رائج ہیں۔ جن پر لوگ اندھا یقین و اعتقاد رکھتے ہیں۔ جیسے کالی بلی کا راستہ کاٹ جانا اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح اکثر تہذیبوں میں 13کا ہندسہ منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک کی کوئی قید نہیں۔ امریکہ جیسے تعلیم یافتہ معاشرے میں بھی ایسا ہی ہے اور وہاں کثیر المنزلہ عمارتوں میں تیرھویں منزل نہیں ہوتی، ہوٹلوں میں تیرہ نمبر کا کمرہ نہیں ہوتا اور شہروں میں تیرہ نمبر کی گلی نہیں ہوتی۔ ’ٹرسکائیڈ کا‘ کی یہ اصطلاح پہلے پہل ایک امریکی سائکراٹسٹ ’’ایساڈور کوریٹ‘‘ (Isador Coriat) نے 1910ء میں استعمال کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس لفظ کا منبع ایک یونانی دیوی کا نام ہے۔
موجودہ دور میں اس کی وجہ شہرت 1890ء میں سامنے آئی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری کھانے (Last Supper) میں شریک غدار حواری ’’جوڈاس‘‘ (Judas) کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ وہ اس کھانے کی میز پر تیرھیوں نمبر پر بیٹھا تھا اور یوں ’’بدقسمت تیرہ‘‘ (Un Lucky Thirteen) کی اصطلاح وضع ہوئی حالانکہ انجیل مقدس میں اس بات کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے کہ اس میز پر بیٹھنے والا تیرھواں حواری کون تھا۔ تیرھویں ہندسے کی نحوست کے بارے میں اولین اشارہ عراق کی قدیم و معروف ’بابلی تہذیب‘ میں ملتا ہے۔ جس کے قانون میں بارہ نمبر کی شق کے بعد والی شق کو تیرھواں نمبر نہیں دیا گیا تھا۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح تیرہ نمبر سے تھا۔ جیسے اپالو گیارہ نامی خلائی جہاز کا آکسیجن سیلنڈر 13 اپریل 1970ء کو خلا میں پھٹ گیا۔ یہ خلائی جہاز 11 اپریل 1970ء کو تیرہ بج کر تیرہ منٹ (ایک بجکر تیرہ منٹ) پر اپنے خلائی سفر پر روانہ ہوا تھا۔ اٹلی کا کروز بحری جہاز ’’کوسٹا کونکورڈیا‘‘ (Cost Concordai) زیر سمندر چٹان سے ٹکرا کر 13 جنوری 2012ء کو الٹ گیا۔ 13 نومبر2015 ء کو فرانس کے دارالحکومت پیرس کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ 13 اکتوبر 1307 کو فرانس کے بادشاہ فلپ IV کے حکم سے ’’نائٹ‘‘ کا خطاب رکھنے والے جنگجو ’’ٹیمپلر‘‘ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایسے ہی دیگر کئی واقعات کی بنا پر تیرہ کے ہندسے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ محض اتفاق ہے ورنہ دنیا کے کئی حصوں میں تیرہ کے ہندسے کو مبارک بھی سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہانگ کانگ اور مکاؤ میں تیرہ مبارک ہندسہ ہے۔ کولگیٹ یونیورسٹی کو تیرہ افراد نے تیرہ ڈالر کے سرمائے سے شروع کیا تھا اس لیے ان کے بھی نزدیک تیرہ کا ہندسہ مبارک ہے۔
-19 ژینو فوبیا (Xeno Phobia)
اجنبیوں سے ڈر اور خوف محسوس کرنے کا نام ’ژینو فوبیا‘ ہے۔ اس فوبیا کے شکار افراد کو غیر ملکیوں اور اجنبیوں سے انجانا خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات میں اپنی شناخت کھونے، اجنبیوں کی سرگرمیوں پر شکوک و شبہات اور ان سے نجات کا جذبہ تاکہ خالص قوم پرستی کا قیام عمل میں لایا جاسکے، جیسے عوامل شامل ہیں۔ یہ درحقیقت ایک طبی سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی فوبیا ہے۔ دوسری تہذیبوں کے تمدن کا غلبہ حاصل کرلینے کا خوف بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کی شروعات یونانیوں کے مفتوحہ مقبوضات پر اپنی تہذیب کو برتر سمجھتے ہوئے اسے محکوموں پر نافذ کرنے سے ہوئی۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی نو آبادیاتی نظام مسلط ہوا وہاں وہاں یہ ڈر اور خوف پھیلتا چلا گیا۔ جدید دور میں بھی ہم ’’تہذیبوں کے درمیان متصادم‘‘ جیسی کتب کے ذریعے اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
-20 زو فوبیا (Zoo Phobia)
حیوانات یا یوں کہیئے کہ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات سے ڈرنے یا خوف کھانے کو ’’زو فوبیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس فوبیا کے ذیلی فوبیاز بھی ہیں۔ جیسا کہ حشرات الارض سے ڈرنا ’’اینٹومو فوبیا‘‘ کہلاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کا خوف ’’ایپی فوبیا‘‘ جبکہ سانپوں کا ڈر ’’اوفیڈیو فوبیا‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ فوبیا وحشی جانوروں کی درندگی کے خطرے کے باعث پیدا ہونے والا خوف نہیں بلکہ اس میں فرق یہ ہے کہ اس فوبیا کا متاثرہ فرد کسی بھی حیوان یا جانور کی موجودگی میں بے اطمینانی اور بے چینی محسوس کرتا ہے۔
آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ گو خوف اور ڈر انسان کی جبلت کا حصہ ہیں اور بچپن میں گھر کے بڑے مختلف چیزوں یہاں تک کہ ’ہاؤ‘ سے بھی ڈرا کر بچوں کے ننھے ذہنوں میں ڈر بٹھا دیتے ہیں جو آئندہ زندگی تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے، لیکن ماہرین کی خدمات، مضبوط قوت ارادی اور دواؤں کے استعمال سے انسان ان مشکلات پر قابو پاکر اپنی زندگی آسان بناسکتا ہے۔
The post فوبیا؛ دماغی الجھنوں کا عجیب و غریب اظہار appeared first on ایکسپریس اردو.