Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

دعوت میں شرکت
صائمہ اکرم، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کہیں دعوت پہ آئی ہوئی ہوں اور ان چہروں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتی مگر بہت مطمئن انداز میں ایسے گھوم رہی ہوں جیسے میرے گھر کی دعوت ہے۔گھر کچھ کچھ میری نانی کے پرانے گھر سے ملتا ہے۔ مگر کافی بڑا ہوتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ ادھر بہت انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے ہیں اور بیرے انتہائی خوشبودار کھانے لئے ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور لوگوں کی پلیٹوں میں ان کی پسند کا کھانا ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ میں بھی کچھ کھیر نما چیز ڈالتی ہوں جو کہ انتہائی لذیذ ہوتی ہے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

ہاتھی کا حملہ
حماد شاکر، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کہیں بھاگتا جا رہا ہوں اور ایک بہت بڑا کالا سیاہ ہاتھی میرے پیچھے پڑا ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے ببت تیزی سے بھاگ رہا ہوں ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

بدمزہ کھانا
سائرہ مبشر، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کسی دعوت کی تیاری میں ہوں اور بہت جلدی جلدی کھانا پکا رہی ہوں تا کہ مہمانوں کے آنے سے پہلے ہی فارغ ہو جاوں ۔ جب میں مہمانوں کی آمد کے بعد کھانا میز پر لگاتی ہوں اور سب کھانا شروع کرتے ہیں تو کوئی بھی نہیںکھا پاتا ۔کیونکہ وہ انتہائی بدمزہ اور بدبو دار ہوتا ہے۔ میں یہ دیکھ کر انتہائی پریشان ہو جاتی ہوں کہ اب کیا کروں اورکہاں سے کچھ اور لاوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

قرآن کی تلاوت کرنا
منزہ ارسلان بیگ، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کالج کے آڈیٹوریم میں بیٹھی مقابلہ قرات میں حصہ لینے والی لڑکیوں کو دیکھ رہی ہوں۔ اپنی دوستوں سے کہہ کے میں بھی ٹیچر کے پاس چلی جاتی ہوں کہ مجھے بھی شامل کر لیں ۔ پھر میں خود کو اونچی آواز میں سورہ الم نشرح کی تلاوت کرتے دیکھتی ہوں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں ۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

پکوان تیار کرنا
صبا اسفندیار، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر کسی دعوت کی تیاری میں مشغول ہوں اور بہت تیزی سے کچن میں کام نبٹا رہی ہوں ۔ اسی دوران پک جانے والے گوشت کو نکال کے تیار کرتی ہوں اور پھر گوشت کے انتہائی دیدہ زیب پارچے کسی ٹرے میں لگا رہی ہوں جو کہ بھنے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت سوندھی سوندھی خوشبو آ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت خوش ہوتی ہوں

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پر بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

فوت افراد کی شادی میں شرکت
سعدیہ محمود ،اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی رشتے دار کی شادی پہ ہوں، جہاں باقی سارے رشتے دار بھی زرق برق لباس میں ملبوس مٹھائی کے ڈبے ہاتھ میں لئے گھوم رہے ہیں۔ اگلی صبح جب میں اس خواب کے بارے میں سوچ رہی تھی تو اچانک مجھے خیال آیا کہ رات خواب میں ساری خواتین تو وہی تھیں جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ تب سے میرے ذھن میں برے برے وہم آ رہے ہیں ۔

تعبیر : آپکا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

بزرگ کی مدد کرنا
ذیشان منصور، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں بس میں سوار اپنے شہر جا رہا ہوں، وہاں میری اگلی سیٹ پر کوئی بزرگ آتے ہیں جن کے ساتھ بہت سامان ہوتا ہے۔ میں ان کی مدد کے خیال سے اوپر بنے کمپارٹمنٹ میں رکھ دیتا ہوں ۔ جس پر وہ مجھے بہت دعائیں دیتے ہیں ۔ پھر اذان ہونے پہ وہ زبردستی مجھے اپنے کھانے سے کچھ چیزیں افطار کے لئے پیش کرتے ہیں جو میں ہچکچاہٹ کے باوجود قبول کر لیتا ہوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

بیمار ہونا
نسیم افتخار، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ سسرال گاوں آئی ہوئی ہوں اور یہاں ہم سب بہت بیمار ہو گئے ہیں ۔ یعنی گھر کے سب افراد بیمار ہیں اور کوئی بھی چل پھر نہیں سکتا ۔ سب بستر پر ہیں۔ یہ دیکھ کر میں خود پریشان ہوتی ہوں کہ ہم سب کو یہ کیا ہو گیا ہے۔ کیونکہ گھر میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جو ٹھیک ہو اور باقی لوگوں کی دیکھ بھال کر سکے۔ یہ خواب مجھے بہت پریشان کن لگا ۔ مہربانی فرما کے اس کی تعبیر بتا دیجئے ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوھر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں۔

کپڑوں پر گندگی
خرم چوہان، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہا ہوں، جب الماری سے کپڑے نکالتا ہوں تو ان پہ غلاظت لگی ہوتی ہے۔ میں یہ دیکھ کر کافی پریشان ہوتا ہوں، پھر ان کو باہر نکال کر دوسرے نکالتا ہوں تو ان پہ بھی اسی طرح بہت گندگی لگی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت پریشان ہوتا ہوں کہ یہ گندگی کپڑوں کو کہان سے لگ گئی۔

تعبیر: یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی آ سکتی ہے۔کسی کی طرف سے کوئی الزام بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جس سے آپ کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے ۔کاروبار میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ اور اس سے مال و وسائل میں کمی آنے کا خدشہ ہو سکتا ہے ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔کچھ صدقہ و خیرات بھی ممکن ہو تو کیا کریں۔

پانی میں ڈوبنا
منیب علی، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میرے گاوں میں سیلاب آ چکا ہے اور ہر طرف پریشانی کا عالم ہے۔ میں جلدی جلدی سامان سمیٹ کے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں مگر پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں کوشش کے باوجود خود کو بچا نہیں پاتا اور اس میں ڈوب جاتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔

تعبیر : یہ خواب پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ جو سیلاب کی تباہ کاریاں آپ نے دیکھیں، ان کے اثرات ابھی تک ذھن میں نقش ہیں ۔ سونے کے بعد لاشعور حرکت میں آ جاتا ہے اور کیفیت خواب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

کھیتوں میں فصل کٹوانا
غلام حسین، گوجرانوالہ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کھیتوں میں فصل کٹوا رہا ہوں اور بہت زیادہ خوش ہو رہا ہوں کیونکہ اللہ کے فضل سے اس مرتبہ بہت اچھی فصل اتری ہے۔ اس کے ساتھ دل میں منصوبے بنا رہا ہوتا ہوں کہ کیسے میں اس دفعہ ان پیسوں کو خرچ کروں گا ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کو رزق حلال ملے گا ۔ حلال کھانے والے کو ذھنی سکون ملتا ہے۔ آپ کے کاروبار میں انشاء اللہ برکت ہو گی جس سے مال و وسائل میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں ۔

آڑو کھانا
ندیم حسین، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرا ایک ساتھی سب کے لئے آڑو لے کر آتا ہے۔ وہ بہت ہیی لذیذ ہوتے ہیں اور ہم سب ساتھی بہت مزے سے کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی فرزند کی نعمت سے نوازیں۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

کپڑوں سے بدبو آنا
مریم نسیم، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں امتحانوں کے بعد اپنی الماری ٹھیک کرنے کی غرض سے کھولتی ہوں اور حیران ہوتی ہوں کہ سب کپڑوں سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔

تعبیر : یہ خواب اللہ نہ کرے کسی پریشانی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ کاروباری بھی ہو سکتی ہے اور تعلیمی یا گھریلو بھی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے استغفار کیا کریں، محفل مراقبہ میں بھی آپ کے لئے دعا کرا دی جائے گی۔

سفر کی تیاری
مقصود رحمان، اسلام آباد

خواب : مین نے خواب دیکھا کہ میں کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہا ہوں اور اسی دوران میرے والد کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور مججے کچھ نصیحتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں پھر وہ مجھے گلے لگا کر پیار کرتے ہیں ۔ براہ کرم اس کی تعبیر بتا دیجئے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر طرح کی پریشانی دور ہو گی۔ آپکے کاروبار اور وسائل میں برکت ہو گی۔ حالات کی بہتری کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا اللہ کا ورد کیا کریں ۔

تنگ جوتا
نواز کریم، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی فنکشن میں جانے کے لئے تیار ہو رہا ہوں اور ساری فیملی میرا انتظار کر رہی ہے۔ میں تیزی سے تیار ہو کر باہر کی جانب جاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا جوتا بہت زیادہ تنگ ہے اور مجھے کاٹ رہا ہے جس کی وجہ سے مجھ سے چلنا پھرنا مشکل لگ رہا ہے۔ مگر میں نظر انداز کر کے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں۔ شادی ہال پہنچ کے مجھ سے دو قدم بھی نہیں چلا جاتا اور میں وہیں پارکنگ سے واپس گھر چل پڑتا ہوں کہ بدل کے آئوں گا ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر: یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے۔گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان کن ہو سکتا ہے۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ آپ یاحی یا قیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔

بس میں مفید گفتگو
احمد فواد رضا، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر جانے کے لئے بس میں سوار ہوتا ہوں ۔ میرے ساتھ سفر میں کوئی مولانا صاحب ہوتے ہیں جو کہ بہت اچھی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ میں اور میرے آس پاس کے مسافر ان کی گفتگو بہت غور اور دلچسپی سے سن رہے ہوتے ہیں۔ بس سے اتر کر میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ کتنی اچھی گفتگو رہی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا ۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذھن میں بزرگی آئے گی ۔گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

شادی ہوتے دیکھنا
نمرہ بخاری، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی ہو رہی ہے۔ سارے گھر میں خوب رونق لگی ہے اور سارے رشتے دار جمع ہیں۔ میرے ابو مولوی صاحب کے ساتھ نکاح کیلئے اندر آتے ہیں ۔ میں خود کو بہت خوش محسوس کر رہی ہوتی ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بیماری یا تعلیمی سلسے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں۔

گندے پانی میں کشتی
 اقراء سعدیہ،لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کہیں جا رہی ہوں، نہر کے کنارے دیکھتی ہوں کہ نہر میں گندا پانی ہوتا ھے۔ یعنی مٹی نما پانی گدلا سا۔ میری کزن مجھے کہتی ہے کہ آو اس میں کشتی چلائیں تو میں حیران ہو کر پوچھتی ہوں کہ بھلا اس میں کوئی کیسے کشتی چلا سکتا ھے ، مگر وہ مانتی نہیں۔کشتی میں بیٹھنے کے بعد میں بہت خوفزدہ ہوتی ہوں اور گھبراہٹ کے مارے سانس روک کے بیٹھی رہتی ہوں۔

تعبیر: خواب مختلف عادات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں تا کہ آپ خود میں تبدیلی لے کر آئیں ۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا دماغ بہت زیادہ دنیا داری میں لگا ہوا ہے۔ اور زیادہ تر وقت پیسوں اور دنیا کے متعلق سوچتے ہوئے گزرتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس دنیا داری کو ذہن سے نکال کر اللہ کی طرف دھیان لگائیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

 

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


بُک شیلف

$
0
0

صفرنامہ ناپرسان۔۔۔۔۔ عالی شان
 مصنف: سعد اللہ جان برق

ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔۔۔۔ فون نمبر:8422518۔۔۔۔ قیمت درج نہیں

جناب سعد اللہ جان برق وطن عزیز کے ممتاز لکھاری ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا مگر بطور پیشہ دیگر فنون میں بھی قسمت آزمائی۔ کھیتی باڑی کی اور ہومیو پیتھی سیکھی۔ آخر کار لکھنے پڑھنے کو کل وقتی کام بنالیا۔ پشتو اور اردو کے علاوہ ہندی سے شناسائی رکھتے ہیں۔ شاعری، افسانہ، کالم اور طنز و مزاح پر کئی کتب شائع ہوچکیں۔ قارئین ایکسپریس ان کے طنزیہ و مزاحیہ کالموں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب ہمارے ممدوح کی تازہ تخلیق ہے۔ اس میں انہوں نے ایک تصوراتی سیاح، ابن بے طوطا کا روپ دھار کر ایک خیالی مملکت، ناپرسان کا سفرنامہ لکھا ہے۔ یہ خیالی مملکت پاک سرزمین ہی ہے جس کے مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل برق صاحب نے بڑے مزاحیہ انداز میں اجاگر کیے ہیں۔

ایک مسئلے کو طنزیہ طور پر بیان کرنا بڑا کٹھن فن ہے۔ یہ کام تجربے کار اور گرم و سرد چنیدہ لکھاری ہی انجام دے سکتے ہیں۔ سعداللہ جان برق کامیابی سے یہ مشکل منزل سر کرنے میں کامیاب رہے۔ منفرد اوردلچسپ افسانوی سفرنامے سے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔مملکت اللہ داد، ناپرسان کی راج دھانی، انعام آباد اکرام آباد خاص الخاص انتظامات کے تحت وجود میں آئی ہے۔

اس کی تعمیر میں سب سے زیادہ گدھوں کا حصہ تھا کیونکہ اس زمانے میں جدید تعمیراتی مشینیں نہیں تھیں اور یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ کسی میں سوگن نہ ہوںتب بھی ایک گن اپنی ماں کا ضرور ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں کی مٹی میں بھی گوشت پوست کی اس مشینری کی خوبروہی بسی ہے۔ گویا اس کی تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خر۔۔۔ اس لیے یہاں سے سارے انعامات و اکرامات اسی ’’خزانہ‘‘ کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ نقد کو ’’انعام‘‘ اور عہدوں کو ’’اکرام‘‘ کہا جاتا ہے۔ ملک بھر سے ’’چنے ہوئے‘‘ یہاں جوق در جوق آتے ہیں اوہر حسب لیاقت انعامات اکرامات پاتے ہیں۔ (صفحہ 16)

انسان اور انسانی جمگھٹے، ملک، مذہب، عقیدے اور معاشرے کے لیے دوست اتنا ضروری نہیں جتنا دشمن ضروری ہوتا ہے۔ مملکت ناپرساں اور ناگماں، دونوں اسی درستی و دشمنی کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ کمال کی بات دشمن دوستانوی نے یہ لکھی ہے کہ تمام واقعات، حادثات، نظریات، انقلابات اور خرافات کے ساتھ تمام علوم و فنون فلسفہ، منطق اور نفسیات، سب سے ثابت ہوچکا کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی دشمنی ابتدا سے چلی آرہی ہے اور وہ ہے: اشرافیہ اور عوام کی صدیوں پرانی دشمنی۔ چناں چہ ہر ملک و قوم میں اشرافیہ صرف اپنی عوامیہ کی دشمن ہوتی ہے۔ لیکن دشمن ملک کی اشرافیہ کی دوست ہوتی ہے۔ دونوں اشرافی بظاہر دشمن دکھا کر اپنی اپنی عوامیہ کو لوٹنے کا بندوبست کیے رکھتی ہیں۔ دونوں اپنی دکھاوے کی دشمنی کا ’’ہوا‘‘ دکھا کر اپنی عوامیہ کو لوٹتی ہیں۔ (صفحہ 43)

اس منفرد تصوراتی سفرنامے کے ہر صفحے پر ابن بے طوطا اسی طرح قاری کے ضمیر کے کچو کے لیتا اور اسے بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ یہ سفرنامہ بظاہر طنزیہ و مزاحیہ ہے لیکن اس کے ذریعے برق صاحب نے اپنے بے شعور عوام کو شعور دینے کی سنجیدہ سعی کی ہے۔

وہ عوام پاکستان کو حقوق و فرائض سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی آگاہی و شعور پاکر اپنی پھوٹی قسمت تبدیل کرسکیں۔ ایک لکھاری کا اولیں فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تحریر سے قارئین کے خیالات، جذبات اور احساسات میں مثبت تبدیلی لے آئے۔ طنز و مزاح سے بھرپور زیر تبصرہ کتاب لکھ کر گویا برق صاحب نے یہ حق ادا کردیا۔یہ کتاب نفیس کاغذ پر خوبصورت انداز میں طبع ہوئی ہے۔ سرورق کا اپنا حسن و دلکشی ہے۔ اس کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنائیے۔ یہ حال کے علاوہ مستقبل میں بھی آپ کی سوچوں کے در ہمیشہ وا رکھے گی۔

مادر فطرت
مصنف: ایم سلیم، ناشر: ڈاکٹر عبدالکریم پوسٹ گریجویٹ ریسرچ لائبریری، الملک، سول لائنز، لیڈیز کلب روڈ، پاکپورہ، سیالکوٹ
 قیمت: 4000 روپے

اردو میں سائنسی کتب کی بے اتنہا کمی ہے۔ اس باعث پاکستانی عوام سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت بھی کم شعور رکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہر مسلمان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ علم حاصل کرے تاکہ دین و دنیا میں سرخرو ہوسکے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جناب ایم سلیم نے سائنسی معلومات کو کتاب کا روپ دینے کی سعی و جستجو کی ہے۔

جناب ایم سلیم ایک استاد ہیں۔ سائنسی موضوعات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی زیر تبصرہ کتاب علم کونیات (کوسمولوجی) کے اسرار و روموز سموئے ہوئے ہے۔ اس علم میں کائنات کے بارے میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ایم سلیم صاحب نے اسی علم کے جدید ترین نظریات پر قلم اٹھایا ہے۔ بعض اہم موضوعات یہ ہیں: کیا کائنات انسان کی خاطر تخلیق کی گئی؟ روشنی اور خلا میں بنیادی فرق، مادہ، وقت اور ارتقا، کائنات کی عمر اور کہکشائوں کا ایک دوسرے سے دور ہٹنے کا نظریہ۔سائنسی موضوعات پر لکھتے ہوئے مصنف نے کئی فکر انگیز نکات اٹھائے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ قیمتی معلومات بھی قارئین کو فراہم کرتے ہیں۔

مثلاً وہ صفحہ 70 پر لکھتے ہیں ’’آج کل انسان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرکے چولہے، گیزر، موٹر کار اور ہوائی جہاز تک چلا رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خود انسان کا جسم بھی شمسی توانائی کے ذریعے ہی کام کرتا ہے۔ بقیہ جان داروں حتیٰ کہ پھل، سبزیوں اور اناج میں بھی سورج کی توانائی کارفرما ہوتی ہے۔

سائنس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا کوئی نظریہ حتمی نہیں ہوتا۔ اگر وہ تجربہ کی کسوٹی پر پورا نہ اترے، تو اسے رد کردیا جاتا ہے۔ سائنس کے نت نئے انکشافات کی وجہ سے ہی نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے بھی مختلف سائنسی نظریے پیش کیے ہیں۔ انہیں اپنے تجربے کی روشنی میں پرکھیے اور جاننے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔کتاب عمدہ کاغذ پر صفائی ستھرائی سے طبع ہوئی ہے۔ نشر رواں اور شستہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مطالعے سے وقت ضائع ہونے کا احساس قریب نہیں بھٹکتا۔ یہ کتاب ضرور خریدیے اور اپنے علم و معلومات میں گراں قدر اضافہ کیجئے۔

 روحانی مراقبہ
مولف: صوفی شوکت رضا
قیمت: 200  روپے۔۔۔۔۔صفحات:128

روحانیت کی دنیا بہت وسیع ہے، مادیت کے مارے ہوئے جو لوگ روحانیت کو نہیں مانتے وہ بھی اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے، جیسے مغربی ممالک بظاہر ان دیکھی دنیائوں سے انکار کرتے ہیں مگر ان کی فلمیں اور ڈرامے اکثر انھی ماورائی مخلوقات اور پراسرار طاقتوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، روحانیت کے اس عالم میں داخل ہونے کی پہلی سیڑھی مراقبہ ہے، یعنی استغراق سے ہم اپنے قلب و نظر کو اس قابل کرتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے  اس کے پار دیکھ سکیں۔

ایک عجیب بات ہے کہ روحانی دنیا میں داخل ہونے والے کو مثبت اور منفی دونوں طرح کی طاقتوں سے پالا پڑتا ہے، حالانکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ روحانیت مثبت ہوتی ہے، اس حوالے سے صوفی شوکت رضا نے بڑی خوبصورت تشریح فرمائی ہے’’لازم نہیں ہر مراقبہ کرنے والے کا گمان حق کی طرف ہی ہواور یہ بھی لازم نہیں کہ مراقبہ کرنے والا انسان کامل ہو جائے، کامل ہونے کے لیے کامل لوگوں کی خدمت درکار ہے،اور خدمت کرنے والے ہی انسانوں میں سے سب سے عظیم ہوتے ہیں‘‘۔ راہ سلوک پر چلنے والوں کو اس راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ شیطان انھیں گمراہ کرتا ہے ایسے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، صوفی صاحب کی کتاب اس سلسلے میں بہت اہم ہے انھوں نے بہت باریک نکات بیان کئے ہیں اور بڑے خوبصورت انداز میں تشریح فرمائی ہے، ہرخاص و عام کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

Straight Talk

انسانی تہذیب کے ارتقاء میں سب سے بنیادی کردار انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر تجربات اور ان سے حاصل شدہ نتائج کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی شعوری کوشش نے ادا کیا ہے۔ اقوام عالم میں مادی اور اخلاقی اعتبارات سے آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کے ثمرات بھی قومی سطح پر اپنے تجربات کو سنجیدہ نقد و نظر کے مراحل سے گزار کر اگلی نسلوںکو منتقل کرنے کے مربوط نظام کی مرہون منت ہوتا ہے۔

مجھے یہ معلوم کرکے انتہائی حیرت ہوئی کہ آج سے ساڑھے تین سو برس قبل بھی برطانیہ میں ہر ڈاکٹر اپنے مریضوں کی علامات ان کے علاج اور علاج کے نتائج کی تفصیلات ایک رجسٹر میں درج کیا کرتے تھے۔ یہ رجسٹر آج بھی طبی تحقیق کے لیے میسر ہیں اور ان کی تفصیلات کو محفوظ بھی کیا گیا۔ یقینا سینکڑوں برس تک جاری رہنے والی اس سرگرمی نے طبی تحقیق و جستجو کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے کلیدی نوعیت کی مدد فراہم کی ہے۔

انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، زندگی کے تجربات مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اس طرح کسی شخصیت کو جس قدر اہم حیثیتوں میں زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے، جتنی اہم ذمہ داریوں اور چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا پڑتا ہے اسی قدر اس کے تجربات اور تجزیئے اپنی اثر پذیری میں وسعت اختیار کرجاتے ہیں اور زندہ معاشروں میں ان تجربات اور ان کی روشنی میں اخذ کیے جانے والے تجزیے اور رہنمائی سے آشنا ہونے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب Straight Talk بھی ایسی ہی ایک تصنیف ہے جو اپنے اندر غیر معمولی دلچسپی اور رہنمائی کا سامان رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ذوالفقار احمد چیمہ سابق آئی جی پولیس ہیں۔

اپنی سرکاری نوکری کے دوران انہوں نے ویسی ہی نیک نامی کمائی جو قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں بیشتر سرکاری اہلکاروں کے حصے آیا کرتی تھی۔ہمارے ملک میں گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں سرکاری ملازموں کو ریاست کی وفاداری ترک کرکے حکمرانوں کی وفاداری کی جانب مائل کرنے کی کامیاب مہم چلائی گئی جس نے ہر سطح پر نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا لیکن ذوالفقار چیمہ کے بارے میں ہر طرف سے یہی گواہی ملتی ہے کہ وہ اصول کے حق میں کسی کو بھی انکار کردینے کی جرأت رکھتے ہیں۔

ہمارے ملک کی سیاست میں جو نیا رواج عام ہے وہ یہ ہے کہ حکمران چاہتے ہیں کہ سزا اورجزا کا تعلق کسی ادارے سے نہیں بلد ان کے گھر کی دہلیز سے وابستہ ہونا چاہیے اور وہ اس مقصد میں بڑی تک کامیاب بھی ہوگئے لیکن ذوالفقار چیمہ ان گنتی کے افسران میں شامل رہے۔ جنہوں نے نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر انتہائی دلیری کے ساتھ ہمیشہ اپنے ضمیر، قانون، آئین اور اصول کو فوقیت دی۔ اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے نوجوانوں کی رہنمائی اور کالم نگاری کے میدانوں کا رخ کیا اور یہاں بھی اپنی بے غرض دیانت اور حب الوطنی کی داد پائی۔

آج کل سینئر کالم نگار کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا حصہ ہیں۔ زیر نظر کتاب دراصل زیادہ تر ان کی اردو تحریروں کے انگریزی تراجم پر مشتمل ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے بتایا کہ بہت سے نوجوان، پاکستانی لڑکے، لڑکیوں نے ان سے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے اس لیے ان کے کالموں اور گزشتہ کالموں پر مشتمل کتاب ’’دوٹوک باتیں‘‘ سے مستفید نہیں ہوپاتے۔ لہٰذا انگریزی زبان میں بھی ایک کتاب مفید ثابت ہوگی۔

اس بات کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور کسی قلم کار کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کراتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات الگ سے لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ایسے تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہیں جو اپنی قومی زبان کو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس کتاب میں شامل تحریریں متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں جن میں بالخصوص قانون کی حکمرانی، بدعنوانی، کرپشن، احتساب، جمہوری رویے، اداروں کا ٹکرائو، معیار حکمرانی، تعلیم اور پولیس اصلاحات سمیت دلچسپ ذاتی تجربات اور سیاحتی تاثرات شامل ہیں۔ عالمگیر شہرت کے حامل چینی فلسفی اور دانشور کنفیوشنس کا ایک قول ہے کہ ’’جب یہ بات صاف ہوجائے کہ مقاصد کا حصول ممکن نہیں رہا تو مقاصد میں ردو بدل کے بجائے اپنی حکمت عملی اور طرز عمل میں تبدیلیاں کرو‘‘۔

مصنف کی اپنی زندگی کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اسی لیے انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں شاندار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ اس مجلد کتاب کی پیش کش کا معیار شاندار ہے۔ جسے ماورا پبلشرز، 60 شاہراہ قائداعظم لاہور نے شائع کیا ہے۔ قیمت 700/- روپے ہے۔                                                              (تبصرہ نگار: غلام محی الدین)

نوادرات فیض

عظیم شخصیات اپنی زندگی میں ملکی یا عالمی سطح پر شہرت اور توجہ کا مرکز بنے رہتی ہیں لیکن اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی شہرت اور ہر دلعزیزی کے ایک دوسرے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ان شخصیات کے چلے جانے کے بعد ان سے تعلق رکھنے والی ہر شے تحریریں، خطوط، تصاویر اور ان سے منسلک واقعات اور شخصیات توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اور ان سے محبت کرنے والے لوگ ان چیزوں سے ان کی شخصیت کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔

بلاشبہ فیض احمدفیضؔ کا شمار پاکستان کی ان شاندار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں اور بعدازاں انتقال کے بعد بھی ملکی اور عالمی سطح پر بے پناہ محبتیں سمیٹیں، شاعر، ادیب، صحافی اور ٹریڈ یونین رہنما فیض احمد فیض برصغیر کی تاریخ میں بائیں بازو کی تحریک کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ادب کے شعبہ میں نوبل پرائز کیلئے نامزد ہوئے لینن امن پرائز حاصل کیا، دوسری عالمگیر جنگ میں نازی فاشٹ جارحیت کے خلاف برطانوی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں خدمات انجام دیں اور انہیں ایم بی ای میڈل عطا کیا گیا۔

1990ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز عطا کیا، زیر نظر کتاب ’’نوادرات فیض‘‘ فیض صاحب کے قلم سے نکلی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ان کی زندگی میں تو توجہ کا مرکز نہ بن پائیں لیکن آج فیض کے چاہنے والوں کے لیے واقعی نوادرات سے کم نہیں۔ ان تحریروں کا تعلق فیض کے زمانہ طالب علمی سے لے کر وفات تک سے ہے۔ ان میں خطوط، اشعار، کتابوں کے پیش لفظ، کسی تخلیقی کام پر رائے زنی، شخصیات کے بارے میں تاثرات، کسی جریدے کے خاص نمبر پر پیغام، اجازت نامے، پیغامات سمیت بڑی تعداد میں تحریریں شامل ہیں۔

ان میں زیادہ تر تحریریں غیر مطبوعہ اور غیر مدّون تھیں جنہیں کتاب کے مرتب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے غیر معمولی محنت اور جدوجہد سے جمع کرکے قابل اشاعت بنایا۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں فیض صاحب کی نادر تصاویر بھی جمع کی گئیں۔ اس کتاب کو کل پانچ حصوں  میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں غیر مطبوعہ خطوط ہیں۔ اس حصے میں فیض صاحب کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناح، محمد طفیل (مدیر نقوش) ایلس فیض، گلوکارہ فریدہ خانم، قتیل شفائی (شاعر) ڈاکٹر وحید قریشی، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، جیلانی بانو اور محسن بھوپالی سمیت اہم شخصیات کو لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔

دوسرے حصے کو شعری باقیات کا نام دیا گیا ہے جس میں تین غزلیں، 22 نظمیں، 10 گیت اور متفرق کلام یعنی ایک دو اشعار شامل ہیں۔ تیسرا حصہ کتابوں کے دیباچوں، فلیپس اور آرا پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے کو کمیاب نگارشات کے نام سے شامل کیا گیا ہے جو پیغامات پر مشتمل ہے۔

اسی حصے میں کمیاب خطوط، دیباچوں اور نگارشات کے اصل عکس بھی شامل ہیں اور پانچواں حصہ تصاویر پر مشتمل ہے۔کتاب کا دیباچہ ممتاز شاعر اور ادیب افتخار عارف نے تحریر کیا ہے جس میں لکھتے ہیں ’’نوادرات فیض‘‘ مطالعات فیض کے ضمن میں ایسا بیش بہا اضافہ ہے جو تفہیم فیض کے ضمن میں نیا مواد فراہم کرتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر سلیچ کے اسلوب تحقیق سے آشنا قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ مواد کی نری جمع آوری پر یقین نہیں رکھتے بلکہ حسن ترتیب و تدوین سے اس طور منظم کرتے ہیں کہ پڑھنے والا صحیح معنی میں اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔

کتاب کی پیش کش کا انداز شاندار ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل بینک اسٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ نے شائع کیا ہے۔ قیمت 1200/- روپے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا کی پراسرار گڑیاں

$
0
0

علم و آگہی کے سفر کے دوران انسان نے غاروں سے خلا تک اپنی جدوجہد میں کئی اسرار کھولے، کئی بھید پائے اور اس کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا۔ اپنے حواس کی طاقت سے اشیاء کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور کوئی نتیجہ قائم کیا جو بعد کے زمانوں میں مزید غورو فکر اور تحقیق سے نکھرا اور ایسے نتائج آج کسی شعبے میں کسی نہ کسی حوالے سے اصول اور طریقے کے طور پر رائج ہیں۔ لیکن اس ٹھوس (فزیکل) دنیا سے بہت آگے کی ایک دنیا میٹا فزیکل کی بھی ہے جہاں یہ سارا علم، ٹیکنالوجی اور عقل و فہم دھرا رہ جاتا ہے۔

یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں نہ ہماری وجدانی صلاحیتیں کام آتی ہیں اور نہ ہی عقل کی کسوٹی پر ان واقعات کو پرکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔ ماورائے عقل واقعات انسان کو حیرت اور خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی اثرات بھی ایک انسان سے دوسرے انسان پر مختلف ہوتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں بھی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس دنیا کے اسرار یا کچھ خاص چیزوں کو کسی سائنسی کلیے یا سائنسی تجربہ گاہ میں بیٹھ کر سمجھنا اور آلات کے ذریعے ان کی اصل جاننا شاید ناممکن ہے۔

اس وسیع تر کائنات کے دبیز اسرار میں پھیلی ہوئی ماورائے عقل دنیا اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تو ہے، مگر اس کی وضاحت کسی سائنسی اصول یا نظریے کی بدولت ممکن نہیں ہے۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ بھیانک اور خوف میں مبتلا کرنے والی کوئی پکچر دیکھے یا کہیں بدصورت اور خوف ناک گڑیا… اس پر پہلی نظر پڑتے ہی اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس کرتا ہے اور اس خوف کو نہ تو کوئی نام دے سکتا ہے اور نہ ہی اکثر اسے محض وہم اور نظر کا دھوکا کہہ کر ٹال سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اکثر ایک دم اندھیرا ہو جانے سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ رات میں قبرستان سے گزرتے ہوئے ایک عجب پراسراریت محسوس کرتے ہیں اور اپنے سامنے کسی مسخرے کو دیکھ کر ان کا دل دہل جاتا ہے۔

ان سب میں ایک چیز ایسی ہے جس سے اک عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے، اور وہ ہے ہم سب کا پسندیدہ، روایتی کھلونا گڑیا… جن کی بے جان، گھورتی ہوئی آنکھیں، مومی مسکراہٹ، چہرے کے مصنوعی تاثرات، ساکت پلکیں، اور بسا اوقات مخصوص طریقے سے حرکت دینے پر یا بیٹری کی وجہ سے بار بار جھپکتی آنکھیں، فطری طور پر عجیب سی نظر آتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ ہمارے پلے ٹائم میں بہترین دوست کے طور پر شامل رہتی ہے۔

لیکن ہم جس گڑیا کی بات کر رہے ہیں وہ ایسی ہے جس سے کھیلنا تو دور کی بات ان کو اپنے گھر بھی کوئی نہیں رکھنا چاہے گا۔ جب آپ کو معلوم ہو کہ دراصل یہ گڑیا آسیب زدہ اور شیطانی قوتوں کے زیراثر ہیں اور ان کے دائرۂ کار میں مداخلت کرنے والے کسی بھی انسان کا قتل ہو سکتا ہے، تو کیا آپ یا کوئی بھی ذی فہم ان سے لگاؤ رکھ سکتا ہے یا وہ خود اور اپنے بچوں کو اس سے کھیلنے دے گا؟

انسان فطری طور پر تجسس پسند ہے۔ وہ ایسی پراسرار چیزوں کو کھوجنا، ان کے بارے میں جاننا بھی چاہتا ہے، مگر ان سے خوف زدہ بھی رہتا ہے۔ ایسی ہی خوف اور دہشت کی علامت بننے والی گڑیائیں میوزیم یا مندر میں شیشے کے کیس میں مخصوص منتر اور مقدس پانی کے چھینٹے دے کر مستقل طور پر بند کر دی گئی ہیں تاکہ ان کی پراسرار شیطانی طاقتیں انسانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

آج کے دور میں بھی یہ ڈولز دنیا میں پائی جانے والی سب سے زیادہ آسیب زدہ چیزوں میں سر فہرست سمجھی جاتی ہیں اور ان میں جو گڑیا سب سے زیادہ خوف کی علامت سمجھی جاتی ہے، اس کا نام رابرٹ گڑیا ہے۔ یہ ایک میوزیم میں محفوظ ہے لیکن یہاں پہنچنے سے پہلے وہ ’اوٹو‘ کی محبوب ساتھی تھی جسے بچپن میں اس کے دادا نے بطور تحفہ دیا تھا، لیکن اس کے بعد ان کے گھر جا بہ جا پراسرار واقعات ہونے لگے، رکھے ہوئے گل دان اکثر ٹوٹ جاتے، کمروں میں توڑ پھوڑ معمول بن گیا۔ چیزیں اپنی جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے لگی تھیں۔

یہ سب خود ہی ہو رہا تھا۔ گھر کا کوئی بھی فرد اس کی ذمہ داری قبول نہیں کررہا تھا۔ سب حیران اور خوف زدہ تھے۔ ایک دن ’اوٹو‘ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس گھر کو جس شخص نے خریدا اس میں یہ گڑیا بھی اس کے حصّے میں آئی۔ اس نے اس گڑیا کو اکثر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتا ہوا مشاہدہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی تباہی، کار حادثہ، پے در پے ہونے والے نقصانات نے مالک مکان کو چونکا دیا۔ گھر آئے ہوئے مہمانوں نے بھی ایک پراسرار ہنسی اور قدموں کی آواز سنی اور وہ خوف زدہ ہو گئے۔

تب اس کے مکان کے مالک نے اس پراسرار گڑیا کو فلوریڈا کے میوزم کے حوالے کردیا۔ 1994 میں یہ گڑیا میوزیم میں پہنچ گئی۔

لیکن میوزیم میں آنے کے بعد کئی پراسرار واقعات رپورٹ ہوئے۔ بعد میں تسلیم کیا گیا کہ یہ گڑیا نہ صرف اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہے بلکہ یہ چہرے کے تاثرات اور گردن بھی گھماسکتی ہے۔ فلوریڈا کے اس میوزیم کا نام East Martello Museum ہے جہاں یہ گڑیا رابرٹ ڈول کے نام سے رکھی ہوئی ہے۔ اس کا مالک ایک مصور اور لکھاری تھا جس کا نام Robert Eugene Otto بتایا جاتا ہے ۔ میوزیم میں اس گڑیا کی آمد کے بعد کئی واقعات پیش آئے جن میں الیکٹرانک آلات کا بار بار جلنا یا خراب ہو جانا یا پھر سیاح بغیر اجازت اس گڑیا کی تصویر بنانے پر مشکلات کا سامنا کرتے اور بعض ایسے حادثات بھی رونما ہوئے جن میں جانیں بھی گئیں۔

رابرٹ کے بعد ہیرالڈ نامی گڑیا بھی خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہ ای بے پر فروخت ہونے والی پہلی گڑیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ ایک چھوٹے بچے کی ملکیت تھی جس کی موت کے بعد اہلِ خانہ نے گڑیا کی پراسرار حرکتوں کا مشاہدہ کیا۔ اکثر آدھی رات کو یہ چیخ کر رونے لگتی یا پھر دوڑنے لگتی۔ اس پر جب پادریوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے تصدیق کی کہ اس گڑیا میں کچھ جادوئی طاقتیں موجود ہیں اور یہ سب اسی طرح ہوتا رہے گا۔

اس پر مرحوم بچے کے خاندان نے خوف زدہ ہو کر یہ گڑیا فلوریڈا میں کوائنٹ ٹاؤن کی مارکیٹ میں فروخت کردی۔ یکے بعد دیگرے اسے کئی لوگوں نے خریدا مگر سبھی کا کہنا تھاکہ اس گڑیا کو خریدنے کے بعد کئی پراسرار واقعات سامنے آئے جیسے ہلکی آوازیں سنائی دینا، مسلسل دھیمی حرکت، اور دیکھتے ہی دیکھتے ا س کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی ۔ یہ سب کسی بھی عام انسان کو خوف میں مبتلا کر دینے کے لیے کافی تھا۔

اس کے علاوہ یہ جس کمرے میں موجود ہوتی وہاں جاتے ہی سردرد، کمر درد محسوس ہوتا جب کہ گھر کے افراد کو جسم پر غیر واضح زخم بھی لگے۔ اس سے خوف زدہ ہو کر ہر بار ہر مالک نے گڑیا کو بیچ دیا۔ یہ گڑیا مختلف لوگوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی انتھونی تک پہنچی جس کا کام ہی مافوق الفطرت اجسام ، آسیب اور جادووغیرہ سے الجھنا ہے۔ یہ گڑیا فی الوقت اسی کی ملکیت ہے۔

چینی مٹی سے بنائی گئی گڑیا مینڈی کو بھی دنیا میں دہشت کی علامت مانا جاتا ہے ۔ یہ گڑیا 1991 میں برٹش کولمبیا کے کونسل میوزیم کو عطیہ کی گئی تھی۔ اس گڑیا کے آنے کے بعد متعلقہ عملے نے مشاہدہ کیا کہ میوزیم میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غور کرنے پر یہ کھلا کہ اگر مینڈی کو کسی دوسری گڑیا یا کھلونے کے کیس کے ساتھ رکھا جائے تو وہ اس کے شیشے پر مسلسل دستک دیتی رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی بار عملے کا کھانا غائب ہوجاتا، لائٹیں بار بار بند ہو جاتیں، لیکن جب اسے الگ ڈسپلے کیس میں رکھا گیا تو ایسا نہیں ہوا۔ مشہور ہے کہ اس گڑیا کی تصویر کھینچنے پر اکثر سیاح کے کیمرے ناکام ہوجاتے ہیں۔

اس گڑیا کی مالک ایک خاتون تھی جس کے مطابق اسے کونسل میوزیم کو عطیہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ گڑیا اچانک رات کو رونے لگتی تھی۔ یہ اس عورت کے لیے ایک نہایت خوف ناک اور ڈرا دینے والی بات تھی ۔ اس نے گڑیا کو میوزیم کے حوالے کرنے میں ہی عافیت جانی۔ یوں آج بھی یہ گڑیا اس میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ شمالی امریکا میں بھی پراسرار قوتوں کی حامل اور دہشت پھیلاتی ایک گڑیا نہیں بلکہ کہتے ہیں پورا ایک جزیرہ موجود ہے ۔ یہ میکسیکو کے جنوب کی طرف نہری نظام میں گڑیا کے جزیرے کے طور پر مشہور ہے۔

یہاں جابجا درختوں سے لٹکنے والی سربریدہ بدن، ہاتھ پیر کٹی ہوئی یا پھر آنکھوں سے محروم سیکڑوں بوسیدہ گڑیا موجود ہیں جو اس جزیرے کو خوف ناک بناتی اور انسانوں کو دہشت زدہ کردیتی ہیں۔ اس کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ یہاں ایک تالاب میں ایک ننھی بچی پراسرار طور پر ڈوب کر مر گئی۔ مختلف قصوں اور روایات کے مطابق اس جزیرے کے مالک کو ایک پرانی تیرتی ہوئی گڑیا ملی جسے اس نے بچی کی روح کو خوش کرنے کے لیے درخت سے لٹکا دیا۔ کچھ دنوں کے بعد لوگوں نے محسوس کیا یہ گڑیا انھیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتی ہے یا منہ سے کچھ کہتی ہے اور یہ بات پھیلتی ہی چلی گئی۔

ہر کوئی خوف زدہ ہو گیا اور یوں یہ جزیرہ پراسرار حیثیت اختیار کرتا چلا گیا۔ دوسری طرف جزیرے کے مالک ڈان کو محسوس ہوا کہ کوئی ماورائی طاقت اسے مزید گڑیا لانے کا کہہ رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں گڑیا لا کر لٹکاتا چلا گیا گیا۔ ممکن ہے یہ سب ڈان کا رچایا ہوا ڈراما ہو یا اس کی ذہنی حالت ہی خراب ہو چکی ہو اور وہ سب سے جھوٹ بول کر اپنی تسکین کے لیے گڑیا لاکر یہاں رکھتا ہو مگر عجیب اور نہایت پراسرار بات یہ ہے کہ 2001 میں ڈان بھی اسی جگہ فوت ہوا جہاں وہ بچی ڈوب کر مری تھی۔

اس واقعے نے جیسے بچی کی موت اور گڑیا کی کہانی میں جان ہی ڈال دی۔ اور اس جزیرے کو مزید پراسرار بنا ڈالا۔ اب یہاں آنے والے اکثر ان گڑیاؤں کی سرگوشی سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف باہمت سیاح ہی خشکی کے اس ٹکڑے پر قدم رکھ سکتے ہیں۔

اوکیکو بھی پراسرار طاقتوں کی حامل آسیب زدہ گڑیا ہے جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ اس پر کسی لڑکی کی روح کا سایہ ہے۔

اسے جاپانی لڑکے نے اپنی تین سالہ بہن کیکو کو کے لیے خریدا یہ گڑیا ہمہ وقت اس کے ساتھ ہوتی اور اس کی موت کے وقت بھی یہ اس کے سینے پر رکھی ہوئی تھی۔ لیکن اس موت کے بعد عجیب و غریب واقعات گھر میں ہونے لگے۔ سب کو حیرت زدہ کر دینے والا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اس گڑیا کے بال بڑھے ہوئے مشاہدے میں آئے۔ یہ بات کافی خوف ناک تھی۔ چناںچہ 1938 میں گھر والوں نے اسے معبد کے راہبوں کو دے دیا گیا اور یہ اس وقت سے اب تک جاپان کے ہوکانڈو کے ماننجی مندر میں رہتی ہے۔

سیاح یہاں آتے ہیں لیکن انہیں تصویر بنانے کی اجازت نہیں۔ جب اوکیکو کے بال اس کی کہنیوں تک آنے لگتے ہیں تو راہب اس گڑیا کے بال کاٹ دیتے ہیں۔ راہبوں کے مطابق انہیں بال کاٹنے کا اشارہ خود یہ گڑیا خواب میں دیتی ہے۔

اگر آپ گوگل پر جائیں گے اور ان گڑیاؤں کے نام لکھیں گے تو نہ صرف ان کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر آپ خوف زدہ نہیں اور کسی ایسے آسیبی چکر سے نہیں گھبراتے یا عجیب وغریب اور ماورائی طاقتوں سے ڈر نہیں لگتا تو یہ ضرور کیجیے گا۔

The post دنیا کی پراسرار گڑیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


دوستی، دشمنی بہانے ہیں
کچھ تعلق ہیں جو نبھانے ہیں
آئینے کو یہ ہم نے بتلایا
ہم فلانے نہیں ، فلانے ہیں
بھانپ لیتے ہیں تنگ دستی کو
میرے بچے بڑے سیانے ہیں
عدل اندھا ہے ، عقل بہری ہے
جھوٹ بھی سچ کے شاخسانے ہیں
لوگ ہیں مستقل حراست میں
شہر کے شہر جیل خانے ہیں
عقل بھی عشق بن کے جاتی ہے
یہ فقیروں کے آستانے ہیں
از وعیدِ قضا و قدر امر
تیرے اشعار تازیانے ہیں
(امر روحانی۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


فقط تمہیں ہی نہیں دیر سے دکھایا گیا
میں اپنے آپ سے بھی دیر تک چھپایا گیا
مجھے دکھائے گئے بارہا بہشت کے خواب
عدم سے مجھ کو یہاں ورغلا کے لایا گیا
میں ایک عمر تلک نوریوں میں شامل تھا
بدن سے سایہ بہت بعد میں لگایا گیا
کسی بھی چیز سے بجھتی نہیں تھی پیاس مری
ہزار بار تو پانی بھی آزمایا گیا
الف، نکال کے’ی‘ رکھ دیا تھا یاروں نے
یوں آستاں کو مرے آستیں بنایا گیا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


اس کی محفل میں گیا ٹھیک سے دیکھا اس کو
یہ بھی کیا کم ہے کہ نزدیک سے دیکھا اس کو
دیر تک اس کی نظر تھی میرے دروازے پر
دیر تک روزنِ باریک سے دیکھا اس کو
سامنے جا کے میں نے آنکھ پہ کاپی رکھ لی
اور پھر اک نئی تکنیک سے دیکھا اس کو
شہر والے نے محبت میں جو ٹھکرائی تھی
گاؤں والوں نے بھی تضحیک سے دیکھا اس کو
(قمر عباس۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


لٹائے بیٹھا ہوں رختِ سفر محبت میں
لگائے بیٹھا ہوں میں گھر کا گھر محبت میں
قدم قدم پہ زمانہ حریف ہوتا ہے
قدم قدم پہ بچھڑنے کا ڈر محبت میں
کٹورے خون کے بھر بھر کے دینا پڑتے ہیں
تو جا کے آتا ہے کچھ کچھ اثر محبت میں
حواس باختہ پھرتا ہوں ایک مدت سے
کہ اب تو جائے گا شاید یہ سر محبت میں
ابھی تو پوہ کی راتوں میں سرد ہونا ہے
مرے وجود! ابھی سے نہ مر محبت میں
یہ آنکھ دیدۂ بینا نہیں بنا کرتی
لہو کی بوند نہ ٹپکے اگر محبت میں
(فیصل امام رضوی۔ مظفر گڑھ )

۔۔۔
غزل


پرانے زخموں پہ رکھ کے مرہم، نیا ہی منظر دکھارہی ہیں
بہاریں ہم کو نجانے کیوں کر چمن میں پھر سے بلا رہی ہیں
اسی چمن کی عنایتوں سے ہوا تھا چھلنی یہ سینہ میرا
کتابِ ماضی کی تلخ یادیں لہو کے آنسو رُلا رہی ہیں
یہ سِحر کیسا ہوا ہے مجھ پر کہ چل پڑا ہوں میں اس نگر پھر
کہ جس کی گلیاں بھی خوں سے میرے قدم قدم پر نہا رہی ہیں
جنابِ منصف کا امتحاں ہے کہ حق میں کس کے وہ فیصلہ دے
یہ بلبلیں تو سب ایک گُل پر جو حق کو اپنے جتارہی ہیں
فقط ہمی ہیں جو تشنہ لب ہیں وگرنہ محفل کا یہ ہے عالم
نگاہیں ان کی ہر ایک طالب کو جامِ الفت پلا رہی ہیں
میں ایک مدت سے لطف و راحت کے نام کو بھی ترس رہا تھا
سفید جوڑے میں لپٹی یادیں اب آکے مجھ کو سلا رہی ہیں
نہاں ہے چہروں پہ اشک سب کے، بچھی ہے ماتم کی صف یہاں پر
مری یہ نظمیں، یہ میری غزلیں، فسانہ غم کا سنا رہی ہیں
ترانے غیروں کے جاری لب پر ہیں دیکھو ان کا تماشا دائم
نئی یہ نسلیں تو اپنے آبا کی شہرتوں کو بھلا رہی ہیں
(ندیم دائم۔ ہری پور)

۔۔۔
غزل
وفورِ رحمتِ پروردگار ہوتا تھا
کہ سب کا پہلا عقیدہ ہی پیار ہوتا تھا
درخت جھومتے رہتے دعاکے دھاگوں سے
گلی گلی کوئی منّت گزار ہوتا تھا
بس ایک وعدے پہ عمریں گزار دی جاتیں
بچھڑنے والوں پہ یوں اعتبار ہوتا تھا
نہ جھوٹے خواب دکھاتے تھے ایک دوجے کو
نہ ہاتھ چھوڑ کے کوئی فرار ہوتا تھا
جو ماں ہے پہلے سہیلی تھی اپنی بیٹی کی
تو باپ بیٹے کا تب پہرے دار ہوتا تھا
(حنا عنبرین۔ لیہ)

۔۔۔
غزل


دل پریشان ہونے والا نہیں
باغ ویران ہونے والا نہیں
گریہ کرتے رہو مگر تم پر
کوئی قربان ہونے والا نہیں
پیڑ مایوس ہو کے چیختا ہے
کیا تو حیران ہونے والا نہیں
آنکھ اس واسطے نہیں جھپکی
عشق آسان ہونے والا نہیں
شمعیں ساری بجھا کے دیکھ لو تم
شہر سنسان ہونے والا نہیں
(نعیم رضا بھٹی۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
اک تسلسل سے ایک اذیت کو جانبِ دل اچھالتا ہے کوئی
ایک مشکل سے نیم جاں ہو کر خود کو کیسے سنبھالتا ہے کوئی
بجھتی پلکوں سے تاکتی وحشت،شکر کر ہم تجھے میسر ہیں
ہمیں جو روگ ہو گئے لاحق ،دیکھ وہ بھی اجالتا ہے کوئی
امتحاں میں پڑے ہوئے یہ لوگ ، اک تاسف سے دیکھتا ہے جہاں
ہائے، ایسے خراب حالوں کے کہاں شجرے کھنگالتا ہے کوئی !
گردِ راہِ سفر ہی ہیں ہم لوگ، عین ممکن ہے، بھول جاؤ ہمیں
جس طرح گھر کا فالتو ساماں، بے دلی سے نکالتا ہے کوئی !
بعد میرے بھی، کتنے لوگ آئے، تم کو اچھے لگے، تمہارے ہوئے !
کیا کبھی چپ کی ساعتوں میں تمھیں، مری طرح سنبھالتا ہے کوئی ؟
(آئلہ طاہر۔خانیوال)

۔۔۔
غزل


ان کی تھکن بھی بے ثمر جن پہ سفر کُھلا نہیں
سائے میں بھی ہیں بے قرار جن پہ شجر کھلا نہیں
لے تو گیا جنوں مرا اس کے درِ حصار تک
دستکیں بھی تو دیں بہت دَروہ مگر کھلا نہیں
اس کے جمال کی جھلک لکھتے جو رہتے ہوش میں
خامہ کہیں اٹک گیا دستِ ہنر کھلا نہیں
اب کہ ہوائے شہر نے لکھ دیا بام و در پہ کیا
ایسا فسونِ حرف تھا معنی کا در کُھلا نہیں
لو َکی انی کو تیز رکھ، اے مرے درد کے چراغ
شب کے جگر کو کاٹ ابھی رنگِ سحر کھلا نہیں
سارے پڑائو اور سفر اک ہی تو رہ گزر پہ تھے
میرا وہ ہم سفر تو تھا مجھ پہ مگر کھلا نہیں
(جاوید احمد۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


ٹوٹا حصارِ جاں تو مداوا نہ کر سکا
لاچار جسم روح کا پیچھا نہ کر سکا
خواہش تھی گھومتا مرے خالی مدار میں
اس چاند سے مگر میں تقاضا نہ کر سکا
شیشے کی چھت بنائی نظاروں کے شوق میں
لیکن میں گھر کے فرش پہ سایہ نہ کر سکا
پھرتا رہا وہ بھیڑ میں آنکھوں کے سامنے
میں چاہتے ہوئے بھی اشارہ نہ کر سکا
اِکسیر تھی سبھی کو محبت، مگر مجھے
یہ مستند علاج بھی اچھا نہ کر سکا
عارض وہ خواب دل میں تراشوں گا، جس کو میں
آنکھوں کی بانجھ کوکھ میں پیدا نہ کر سکا
(فرحان عارض۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


عشق میں معتبر نہیں لگتا
تو مرا چارہ گر نہیں لگتا
جانتا ہے مری کہانی بھی
اتنا بھی بے خبر نہیں لگتا
جب تلک میری ماں نہیں ہوتی
میرا گھر میرا گھر نہیں لگتا
مٹی کو نرم ہونا پڑتا ہے
اس میں یونہی شجر نہیں لگتا
میرے مولا کرم نہ ہو تیرا
زیر پر پھر زبر نہیں لگتا
وہ مرے ساتھ رہتا ہے صابر
میرا اپنا مگر نہیں لگتا
(اسلم صابر۔ کلور عیسیٰ خیل)

۔۔۔
غزل


تیری چاہت نے جو دیوانہ بنا رکھا ہے
تیری یادوں کو سدا دل سے لگا رکھا ہے
جلوہ افروز ہوئے غیر کی محفل میں جو تم
ہم نے بھی دید کی شمع کو بجھا رکھا ہے
مے سے، مے خانے سے اب ہم کو سروکار نہیں
تیری آنکھوں نے ہی مستانہ بنا رکھا ہے
تو کہ جاتے ہوئے جلووں کو یہاں چھوڑ گیا
تیری صورت کو نگاہوں میں بسا رکھا ہے
داد آہوں، کبھی اشکوں، کبھی شعروں سے نمو پاتی ہے
میں نے حسرت کو جو سینے میں دبا رکھا ہے
(داد بلوچ۔ فورٹ منرو)

۔۔۔
غزل


راس تھیں دل کو پستیاں اپنی
سو مٹا دی ہیں ہستیاں اپنی
سب ہیں سورج پرست پھر کیسے
رب کو پوجیں گی بستیاں اپنی
پیار میں موت ہو یا رسوائی
اب جلا دی ہیں کشتیاں اپنی
یہ جو ظالم کے ڈر سے لکھتی ہیں
کاٹ لوں کیوں نہ انگلیاں اپنی
عشق سے پیچ کیا لڑایا ہے
سب بھلا دی ہیں مستیاں اپنی
(عامر معان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل


رقیبوں کے دل کو جلاؤ تو جانیں
ہمیں اپنا کہہ کر بلاؤ تو جانیں
نگاہیں ملا کر نگاہوں سے جاناں
شرابِ محبت پلاؤ تو جانیں
بنے پھر رہے ہو طبیبِ زمانہ
مرا روگِ دل بھی مٹاؤ تو جانیں
ملیں گے زمانے میں یوں تو ہزاروں
جو ہم سا کہیں ڈھونڈ پاؤ تو جانیں
مٹا کر دلوں سے یہ نفرت اسد تم
محبت کا نغمہ سناؤ تو جانیں
(زین اسد ساغر۔ شیخو پورہ)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ اشیاء جنہیں فریج میں رکھنا بے کار ہے

$
0
0

انسان اشرف المخلوقات ہے اس کی دلیل صانع کی جانب سے اس کو عقل و شعور کی عطا ہے۔ اپنے ذہن کو استعمال میں لا کر انسان نے ہر شعبہ زندگی میں عقل کو دنگ کردنے والی ایجادات کیں۔

ٹیکنالوجی نے جوں جوں ترقی کی اس کے ساتھ کئی ایجادات نے جنم لیا۔ انسان نے اپنی آسانی کے لئے ایسی اشیاء تیارکیں جو اس کے لئے سہولت کا باعث بنیں۔ ریفریجریٹر بھی اس کی ایک مثال ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ ہر چیز کو فریج میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔بلکہ اب تو خواتین کو فریج کی اس قدر عادت ہوچکی ہے کے بچوں کے سیرپ سے لے کر اپنی جیولری تک کے لئے وہ اسے قابل اعتماد سمجھتی ہیں۔یہ جانے بغیر کے ہر چیز خصوصاً اشیاء خوردونوش کے لئے فریج ہی مناسب جگہ نہیں بلکہ بعض معاملات میںیہ نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔

بلاشبہ فریج ایک کارآمد چیزہے جس کا استعمال سودمند ہے،مگر ضروری نہیں کہ ہر چیز کے لئے فریج ہی بہترین جگہ ہے۔ بعض لوگوں کو فریج میں رکھی چیزیں اور محفوظ کردہ کھانے نوش کرنے کی عادت ہسپتال کے بستر تک لے جاتی ہے،جس سے بچائوکا بہترین طریقہ تازہ خوراک کا استعمال ہے۔خاص طور پہ اگر پھلوں اور سبزیوں کی بات کی جائے تو انھیں استعمال کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کے تازہ ہوں۔  پیش کردہ مضمون میں ہم آپ کو ان اشیاء کے متعلق آگاہی فراہم کرنے جا رہے ہیں جن کو فریج میں رکھنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

1۔  آلو:مزے دار چپس اور ہر سبزی کا مزہ دوبالا کرنے والے آلو کو شاید ہی کوئی ناپسند کرتا ہو۔ آلو ان چند سبزیوںمیں سے ایک ہے جو ہر موسم میں پائی جاتی ہیں۔آلو میں نشاستےStarch) (پائے جاتے ہیں جو کہ جسم کو انرجی فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔یہ فائبر، کیلشیم،آئرن اور وٹامن پہ مشتمل ہوتے ہیں۔سرد درجہ حرارت آلو میں موجودنشاتے کو شکر میں تبدیل ہونے سے روکتا ہے۔جس سے آلو کا قدرتی ذائقہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ فریج میں عموماً درجہ حرارت 35 ڈگری سے 38 ڈگری تک ہوتا ہے جبکہ آلو کو محفوظ کرنے کے لئے 45ڈگری بہترین درجہ حرارت ہے۔ سورج کی روشنی آلو کو خراب کرسکتی ہے، اس لئے انھیں نسبتاً ٹھنڈی، تاریک جگہ پہ دھوئے بنا محفوظ کرنا چاہئے۔ ممکن ہو تو انھیں کسی بوری یا کاغذکے تھیلے میں رکھیں جہاں سے بوقت ضرورت استعمال میں لایا جاسکے۔

2۔  کافی:کافی میں ارد گرد کی اشیاء کی مہک اپنی اندر جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، جبکہ فریج میں رکھنے سے اسکے اندر نمی اور بُو پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف فریج کا دروازہ باربار کھولنے سے اسکا درجہ حرارت گھٹتا بڑھتا رہتا ہے جس کے باعث کافی میں نمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ کافی کو ائیر ٹائٹ جار(ایسا جار جس میں ہوا داخل نہ ہوسکے) میں کمرے کے درجہ حرارت پہ رکھا جائے۔

3۔  پیاز:کھانوں میں تڑکے اور سالاد کی زینت بننے والی پیازغذائیت سے بھر پور ہوتی ہے۔ اسکے اندر بھی نشاتے موجود ہوتے ہیںجن کو لمبے عرصے تک کار آمد رہنے کے لئے تاریک اورٹھنڈے درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔اب اس سے آپ کے ذہن میں فوراً فریج کا خیال آیا ہوگا مگر ایسا کرنے سے پیاز میںنمی پیدا ہوتی ہے جس سے وہ جلد خراب ہو جاتی ہے۔ اسی لئے پیاز کو تاریک ہوادار جگہ پہ رکھنا چاہئے۔ یادرہے کہ پیاز اور آلو دونوں کو اکٹھا مت رکھیں کیونکہ پیاز گیس اور نمی چھوڑتی ہے جس سے آلو خراب ہو سکتے ہیں۔

4۔  شہد:اگر آپ کے گھر میں قدرت کے خاص تحفے شہد کا استعمال کیا جاتا ہے تو آپ کا گھرانہ خوش قسمت ہے۔ مگر خیال رہے کے شہد کو ہمیشہ کمرے کے درجہ حرارت پہ رکھنا چاہئے، اس ضمن میں بہترین انتخاب الماری ہوسکتا ہے، کیونکہ فریج میں رکھنے سے شہد میں موجود پانی جم جاتا ہے جس سے اس کو ڈٖبل روٹی پہ پھیلانے یا کسی بھی چیز کے ساتھ استعمال کرنے میں دقت ہوتی ہے۔

5۔  لہسن: ویسے تو لہسن ایک سبزی ہے مگر اسے کھانوں میں مصالحہ جات کی صورت استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی دلفریب مہک اور منفرد ذائقے کی وجہ سے یہ سب کو بھاتا ہے مگر اسے فریج میں رکھنا مناسب نہیں کیوں؟ وہ اس لئے کہ فریج میں رکھنے سے لہسن میں قدرتی طور پائے جانے والی نمی اس کے گلنے سڑنے کا باعث بنتی ہے۔ لہسن کو کھلی ہوادار‘ ٹھنڈی اور تاریک جگہ پر رکھنا بہترین ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ناصرف لہسن خراب ہونے سے بچ جائے گا بلکہ آپ اسے لمبے عرصے تک استعمال کر سکیں گے۔ لہسن کے جوؤں کو الگ کر کے رکھنا بھی ان کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔

6۔  ہاٹ ساس:اگر آپ اپنے فریج میں ہاٹ ساس کو رکھ کر اضافی جگہ لے رہے ہیں تو ایسا مت کریں کیونکہ ہاٹ ساس میں پہلے سے ہی سرکہ موجود ہوتا ہے جو کہ اسے خراب ہونے اور اس کے اندر بیکٹیریا کو جنم لینے سے روکتا ہے ۔ فریج میں رکھنے سے ہاٹ ساس میں موجود مرچی کا تیکھا پن بھی متاثر ہوتا ہے جس سے یقینا کھانے والے کو مزہ نہیں آتا۔

7۔  تربوز:اپنے فریج میں بنا کٹا تربوز رکھ کر آپ صرف اپنے فریج میں جگہ گھیر رہے ہیں بلکہ اپنے فریج کی نازک گرلز پر ظلم بھی کر رہے ہیں یہ پھل آپ کے پاس روم ٹمپریچر پر رکھ سکتے ہیں لیکن جب آپ اسے کاٹ لیں تو بھی اسے ڈھک کر فریج میں رکھ لیں۔

8۔  ڈبل روٹی:ناشتے میں بچوں کی پسندیدہ جیم سیلائس میں استعمال ہونے والی ڈبل روٹی ایسی چیز ہے جو کہ عموماً دو دن میں ہی استعمال ہو جاتی ہے۔ اسی صورت میں ڈبل روٹی کو فریج میں رکھنا حماقت ہے۔ فریج میں رکھنے سے ڈبل روٹی جہاں سخت ہوتی ہے وہیں یہ بدذائقہ بھی ہو جاتی ہے۔ ڈبل روٹی کو اچھے سے بند کر کے روم ٹمپریچر پر رکھنا ہی بہترین طریقہ کار ہے اور اگر آپ ڈبل روٹی کو دو ہفتوں سے زائد عرصے کے لئے محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اسے فریزر میں رکھیئے فریز شدہ ڈبل روٹی کو تل کر یا روسٹ کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

9۔  خشک میوہ جات:اینٹی ایکسیڈنٹ فائبر سے بھرپور ڈرائی فروٹ خوش ذائقہ اور غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ بعض لوگ انہیں فریج میں رکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب ڈرائی فروٹس زیادہ محفوظ ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے فریج کا ٹمپریچر چیزوں میں نمی پیدا کر دیتا ہے اور بالکل ایسا ڈرائی فروٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ڈرائی فروٹس کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں خشک ایئر ٹائیٹ جار میں رکھا جائے اور اس کے لئے موزوں جگہ آپ کے کچن کی الماری ہے۔ اگر ا نہیں ٹھیک طرح سے رکھا جائے تو ایک تحقیق کے مطابق ڈرائی فروٹس کو چھ ماہ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔

10۔  سویا ساس:چائنز اور کونٹی نینٹل کھانوں میں استعمال ہونے والی سویا ساس ایک مزید دار ذائقہ دیتی ہے۔ آپ نے اکثر بازار سے خریدنے والی سویا ساس کے اوپر لگے لیبل پر پڑھا ہو گا کہ اسے ریفریجرٹر میں رکھیں لیکن اگر آپ بڑے ریسٹورانٹس میں جا کر دیکھیں تو اس کی بوتلیں سارا دن ٹیبل یہ پڑی رہتی ہیں۔ آپ کو یقینا یہ جان کر حیرانی ہو رہی ہو گی مگر حقیقت یہی ہے۔ سویا ساس میں اعلیٰ قسم کے نمک کی زیادہ مقدار سے خراب ہونے سے محفوظ رکھتی ہے یہاں تک کہ یہ چھ ماہ کے لئے کمرے کے درجہ حرارت پہ قابل استعمال رہ سکتا ہے۔

11۔  آڑو:کبھی بھی تازہ آڑو کو فریج میں رکھنے کی جلدی مت کریں، کیونکہ کچے آڑو کو پکنے کے لئے نارمل درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جبکہ فریج میںٹھنڈ کی وجہ سے وہ کچے رہ جاتے ہیں اور یوں ان کے خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آڑو کو ہمیشہ اپنے کچن کاونٹر پہ کسی ٹوکری میں ڈال کر رکھیں اگر انہیں ٹھنڈا کھانا پسند کرتے ہیں تو کھانے سے کچھ دیر قبل فریج میں رکھ دیں۔

12۔  زیتون کا تیل:تیل کو فریج میں رکھنا اسے جما دیتا ہے صرف یہی ن ہیں بلکہ اس کا رنگ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ تیل کو ہمیشہ کمرے کے درجہ حرارت پر رکھنا چاہئے تاکہ وہ اپنا رنگ اور جوہر برقرار رکھ سکے۔ زیتون کے تیل کو الماری میں رکھنا اپنے کچن کی شلف پہ رکھنے سے قدرے بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں اسے زیادہ تاریکی ارو ٹھنڈک میسر آتی ہے۔

13۔  کھیرے:سلاد میں استعمال ہونے والے کھیرے اپنے کھلے کھلے رنگ اور ذائقے کی وجہ سے منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ اور ڈائٹ کے شوقین حضرات تو د ل و جان سے کھیرے کے شیدائی ہوتے ہیں۔ کھیرے کو فریج میں رکھنا بڑی غلطی کے مترادف ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور پانی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ان پر کھڑدرا پن بھی آجاتا ہے۔ کھیروں کو سبزی کے ٹوکرے میں رکھنا زیادہ مناسب عمل ہے۔

14۔  شملہ مرچیں: شملہ مرچ کو اگر فریج میں رکھا جائے تو یہ اپنی تازگی کھو دیتی ہے اور ڈھیلی بے ذائقہ شملہ مرچ کھانا کوئی بھی پسند نہیں کرتا سو شملہ مرچ کا قدرتی مزہ برقرار رہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انہیں فریج سے دور رکھا جائے۔

15۔  اچار:جس دستر خوان پر اچار ہو وہاں دعوت کو چار چاند لگ ہی جاتے ہیں۔ اچار کی مہک دل خوش کرنے کے ساتھ اس کا ذائقہ کھانے والے کو بھی سیر کر دیتا ہے۔ مگر کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اچار اس وقت تک خراب نہیں ہوتا جب تک آپ اس میں گندا چمچ استعمال نہیں کرتے۔ جی ہاں! اچار میں موجود پریزویٹوز (Preservatives)  اسے خراب ہونے سے بچاتے ہیں چاہے وہ کمرے کے درجہ حرارت میں ہی کیوں نہ رکھا ہو۔ اس لئے آپ اچار کو فریج میں رکھ کر صرف جگہ بھرنے کی ہی کوشش کر سکتے ہیں۔ اچار کو زائد المیعاد ہونے پہ استعمال مت کیجئے۔ بوتل یا جار کے ڈھکن کو اچھے سے بند کیجئے بوتل یا جار کے ڈھکن کو اچھے سے بند کیجئے تاکہ ہوا داخل ہو کر اسے خراب نہ کرے۔

16۔چاکلیٹ:فریج چاکلیٹ رکھنے کے لئے بدترین جگہ ہے کیونکہ اس کا درجہ حرارت ناصرف اس کی سخت‘ رنگ بلکہ ذائقے کو بھی بدل دیتا ہے چاکلیٹ خصوصاً ایسی چاکلیٹ جن میں کوکا بٹر شامل ہو وہ فریج میں موجود دوسری چیزوں کی خوشبو بھی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے سو انہیں بودار چیزوں سے ا لگ رکھنا ہی ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر آپ ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں کسی ایئر ٹائٹ جار میں رکھیں۔

17۔  بینگن: بینگن سے بنی کوئی اور ڈش آپ نے سنی ہو یا نہیں بینگن کے بھرتے کے بارے میں آپ نے ضرور سن رکھا ہو گا۔ بینگن کو استعمال کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے جلد از جلد تازہ استعمال کیا جائے اور اسے اپنے کچن میں ہی رکھا جائے۔ فریج میں رکھنا اس لئے نقصان دہ ہے کہ یہ بینگن میں موجود قدرتی ذائقہ چھین لینا ہے۔ جس سے کھانے میں لذت ناپید ہو جاتی ہے۔

18۔  انڈے : آپ یہاں انڈوں کا ذکر دیکھ کر حیران ہوں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ انڈوں کو نارمل روم ٹمپریچر پر رکھنا بے حد مفید ہے اگر ہم امریکہ یا دوسرے مغربی ممالک کی بات کریں تو وہاں انڈوں کو فریج میں رکھنا مجبوری ہے کیونکہ انہیں جراثیم سے پاک کرنے کے لئے ایسے محلول میں ڈالا جاتا ہے جس سے ان کو کمرے کے درجہ حرارت میں رکھنے پہ بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں حالات مختلف ہیں تو یہاں انڈوں کو فریج میں محفوظ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا شیل ہی ان کابہترین محافظ ہے۔

19۔  مکھن:فریج میں رکھے مکھن کو استعمال میں لانا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ ایک دو دن میں لانا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ ایک دو دن میں استعمال کے لئے تو اسے کسی ڈش میں ڈھانپ کر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جس سے آپ کو اسے پھیلانے کے لئے گرم کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ مگر گرمیوں میں معمولات  ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ اگر آپ زیادہ عرصے کے لئے مکھن کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو فریج  غلط  انتخاب نہ ہو گا۔

20۔ کچے آم:کچے آموں کو پکنے کے لئے معمولی درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جس میںوہ پک سکیں مگر فریج میں رکھنے سے یہ عمل سست ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ آم پک جائیں تو انہیں فریج میں رکھا جا سکتا ہے مگر اس سے پہلے ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔

21۔ کیک:چائے ہو برٹھ ڈے پارٹی یا کوئی بھی دعوت اس میں کیک سے مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ کیک کو عموماً لوگ فریج میں رکھ دیتے ہیں مگر یہ درست امر نہیں۔ فریج کی نمی جہاں کیک کو خراب کرتی ہے وہیں فریج میں موجود دوسری چیزوں کی باس اس میں رچ بس جاتی ہے۔ کیک کو تازہ رکھنے کے لئے اسے کمے کے درجہ حرارت پہ کسی ایئر ٹائٹ کنٹینر میں رکھیں۔ ایسا کرنے سے تین سے سات دن تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں جب کیک کے اوپر کریم یا آئس کریم لگی ہو تو اسے ریفریجریٹر میں رکھنا ہی موزوں ہے۔

22۔ کیلے:کیلوں کو پکنے کے لئے59-68Fدرجہ حرارت درکار ہوتاہے اور یہ عمل فریج میں رکھنے سے متاثر ہوتا ہے۔کیلوں کی جلد عموماً کالی ہونے لگتی ہے اور فریج کا ٹمپریچر پھل کی سیل وال کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے کیلا خراب ہو جاتا ہے۔ کیلوں کو ہوا دار جگہ پر پھل والی ٹوکری میں رکھنا موزوں ہے۔

23۔ خشک مصالحہ جات:فریج خشک مصالحہ جات کا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ اس میں رکھنے سے مصالحہ جات کے اندر نمی پیدا ہو جاتی ہے ا گر آپ اپنے خشک مصالحوں کو ایک سال سے زائد عرصے تک محفوظ رکھنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں اپنے کچن میں نارمل درجہ حرارت میں ایسی جگہ رکھیں جہاں خشکی اور اندھیرا ہو۔ زیادہ گرمی بھی نہ ہو۔ تاکہ ان کا ذائقہ اور حجم متاثر نہ ہو سکے۔

24۔ جام:پھلوں کا جام عموماً بریڈ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جام بازار سے جس بوتل میں ملتا ہے وہ خاص طرز پر بنا ہوتا ہے جو اندر سے سیل ہوتا ہے جس کا مقصد اس میں ہوا کو جانے سے روکنا ہوتا ہے۔ اسی بوتل میں موجود جام دو سال تک روم ٹمپریچر پر قابل استعمال رہ سکتا ہے اس کو فریج میں رکھنا بے کار ہے۔ البتہ ہر مرتبہ جام کے لیبل کو پڑھ کر آپ کو مزید معلومات مل سکتی ہیں۔

25۔کیچپ:گھر کے اس بات پہ بہت بحث کی جاتی ہے کہ کیچپ کو فریج میں رکھنا چاہئے یا الماری میں مگر ایک بات واضح ہے کہ آج سے سالوں قبل جب ریفریجرٹر نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ بوتلوں میں موجود کیچپ کو استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ دراصل کیچپ میں سرکے چینی اور نمک کی موجوگی اس بات کی شاہد ہے کہ وہ کمرے کے درجہ حرارت میں بھی خراب نہیں ہوتی۔

26۔ نیوٹیلا/ پینٹ بٹر:کے نام سے بازار میں ملنے والی سپرڈ فریج میں رکھنے سے سخت اور بھاری ہو جاتی ہے جس سے اسے ٹوسٹ پہ پھیلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ اسے فریج میں رکھنے سے اس میں موجود مونگ پھلی کا تیل الگ ہو جاتاہے اور باقی حصہ سخت ہو جاتا ہے۔ باہر نکال کر استعمال کرنے سے بھی دونوںدوبارہ اصلی حالت میں نہیں آتے۔ جس سے ناصرف آپ کی انرجی برباد ہوتی ہے بلکہ پیسے کا بھی ضائع ہو تا ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے روم ٹمپریچر میں رکھ کر آپ 6سے 9 ماہ کے درمیان استعمال کر سکتے ہیں۔

27۔ ٹماٹر  :ٹماٹر ویسے تو ایک پھل ہے مگر ہمارے ہاں اسے ایک سبزی کے طور پر جانا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ فریج میں رکھنے سے ٹماٹر کے اندر پائے جانے والی ممبرین متاثر ہوتی ہے جس سے ٹماٹر ڈھیلے ہو کر پانی چھوڑنے لگتے ہیں۔ بلکہ ان کا ذائقہ بھی خراب ہو جاتا ہے۔

ٹماٹروں کو محفوظ کرنے کے لئے بہترین جگہ آپ کے کچن کا کاؤنٹر ہے۔ اگر آپ زیادہ دن کے لئے ٹماٹروں کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روسٹ کر کے فریز کر لیں۔

The post وہ اشیاء جنہیں فریج میں رکھنا بے کار ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاحوں کی کثرت نے فیری میڈوز کے جنگل اُجا ڑ دئیے ہیں

$
0
0

(قسط نمبر 12)

گلگت  بلتستان کا ذکر ہو اور فیری میڈوز کا تذکرہ نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ جب سے میں گلگت آیا تھا فیری میڈوز کے حسن، راستے کی دشواریوں، لوگوں کی سادگی اور رائے کوٹ پل کے بارے میں سنتے سنتے شوق دید اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔

2015؁ء کے دوران میں مجھے گلگت کے علاوہ، نلتر، ہوپر غذر، گاہکوچ، گو پس، یاسین، پھنڈر،،راما استور ،چلم،دیوسائی، منی مرگ، ہنزہ، گلمت، سوست، خنجراب،ہوپر نگر، چھلت اور جگلوٹ سٹی جانے کے مواقع ملے۔ ریڈیو پاکستان گلگت کے ایک پروڈیوسر خورشید احمد خان کا تعلق رائے کوٹ ضلع دیامر سے ہے۔فیری میڈوز اور قاتل پہاڑ نانگا پربت بھی ضلع دیامر کا حصہ ہیں۔گلگت سے پچھتر کلو میٹر پہلے یہی وہ مقام ہے جہاں فیری میڈوز جانے کے خواہشمند شاہراہ قراقرم سے اُتر کر فیری میڈوز جانے والی روایتی جیپوں پر سوار ہوتے اور اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ فیری میڈوز جانے کا بہترین وقت مئی سے ستمبر کے آخر تک کا ہوتا ہے۔ لیکن یار لوگ دسمبر کی ہڈیوں کو منجمد کردینے والی سردی میں بھی وہاں جانے سے باز نہیں آتے۔

فیری میڈوز جانے کے حوالے سے جب بھی خورشید سے بات کی تو اُس نے یہی بتایا کہ ابھی راستہ ٹھیک نہیں ہے، ابھی پل ٹوٹ گیا ہے، ابھی جیپوں کا راستہ بند ہوگیا ہے، لوگ پیدل جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب ان باتوں سے یہ سمجھنا ناممکن تھا کہ فیری میڈوز کو جانے والا راستہ درحقیقت کیسا ہے؟اور فیری میڈوز پہنچنے کے لئے کون کون سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔فیری میڈوز کے راستے کی مشکلات کے بارے میںخورشید کی باتیں سُن سُن کر اُس کے ساتھی پروڈیوسروں نے فیری میڈوز جانے کو اُس کی چڑ بنا لیا، اُس کا مذاق اُڑایا جانے لگا کہ وہ ہمیں وہاں لے جانے سے گریزاں ہے اس لئے بہانے بناتا ہے۔

اُس کی جھجک کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ آتی تھی کہ فیری میڈوز میں اُس کے ماموں اور سسر کا ہوٹل بھی ہے۔ رائے کوٹ سرائے نامی یہ ہوٹل بہت ہی مناسب مقام پر اُن کی آبائی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔اس ہوٹل میں ٹھہرنے کے لئے پہلے سے بکنگ کرنا پڑتی ہے۔2015؁ء کا سارا سال اسی اُدھیڑ بن میں گذرگیا۔2016؁ء آیا تو گرمیوں کی چھٹیوں میںمیرے دوست قاضی آصف الدین نے گلگت آنے کی خواہش ظاہر کی۔ قاضی آصف ریڈیو پاکستان کے نیوز اینڈکرنٹ افیئرز چینل میں میرے ساتھ سنیئر پروڈیوسر تھے۔

جب 2003-4 میں اُنہیں ایک غیر ملکی سفارت خانے سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے ریڈیوپاکستان کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن انہوں نے ریڈیو پاکستان میں اپنے دوستوں کے ساتھ روابط استوار رکھے۔ قاضی صاحب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گلگت پہنچے تو میں نے اُن کے لئے اپنا وہ گھر خالی کردیا۔ جس میں وہ سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے دو برس تک مقیم رہے تھے۔ انہی دنوں میرا بڑا بیٹا عمر عبدالعزیز بھی گلگت آیا ہوا تھا۔عمر 2015؁ٗ؁ء میں اپنے دیگر بھائیوں کے ہمراہ گلگت آیا تھا۔وہ فیری میڈوز جانا چاہتا تھا۔ قاضی صاحب کی بھی خواہش تھی کہ وہ فیری میڈوز جا ئیں۔ میں نے سوچا کہ قاضی صاحب کو فیری میڈوز دیکھنے کا شوق پندرہ برس بعد گلگت لے آیا۔ تو چلو اب میں بھی وہاں سے ہو آئوں ۔ خورشید سے بات کی تو اُس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

رائے کوٹ پل سے اوپر تاتو تک تو جیپیں ویسے بھی چلتی ہیں۔بس تاتو سے تھوڑا پہلے پل کا ایک پشتہ ٹوٹ چکا ہے ۔وہاں تک جیپیں جاتی ہیں۔اُس سے آگے پیدل جانا ہوگا اور تھوڑا سا راستہ ہے۔ اب یہ وضاحت خورشید نے نہیں کی ۔کہ یہ تھوڑا سا راستہ تاتو تک کا ہے یا فیری میڈوز تک کا، بہرحال میں نے اپنی روایتی سادگی کی وجہ سے یہی سمجھا کہ ٹوٹے پل سے تاتو تک تھوڑا سا فا صلہ ہوگا۔ اور بھر پریوں کی آماجگاہ ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی۔ خورشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ ہمیں پیدل بھی چلنا ہے اس لئے سامان کم سے کم رکھا جائے۔

یہی بات میں نے قاضی آصف سے بھی کہہ دی۔خیر صبح سویرے ناشتہ کرکے ہم اپنی جیپ میں گلگت سے روانہ ہوئے۔اور تقریباً دو گھنٹے میں رائے کوٹ پل پر پہنچ گئے۔ یہاں بھی رائے کوٹ سرائے کے نام سے خورشید کے سسر کا ایک ہوٹل ہے۔

اس ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لئے رکے تاکہ چائے پی کر آگے روانہ ہوا جا سکے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رائے کوٹ پل سے تاتو تک سترہ کلومیڑ کا فاصلہ ہے اور تاتو کے لئے جانے کے ہر خواہشمند کو اس جگہ سے جیپ کرایہ پر لینا پڑتی ہے۔ سات ہزار روپے فی جیپ کرایہ وصول کیاجاتا ہے۔اگر سواریاں پوری ہوں۔یعنی ایک خاندان کے چھ سات افراد ہوں یا اتنی ہی تعداد دوستوں کی ہو تو جیپ پوری لینا ہوتی ہے بصورت دیگر جیپ والے سواریاں پوری کرکے باری باری روانہ ہوتے ہیں۔

اس روٹ پر انہی ڈرائیوروں کی اجارہ داری ہے۔وہ نہ تو اس سڑک کو پختہ ہونے دیتے ہیں۔اور نہ ہی کوئی اور شخص یہاں اپنی جیپ پر آسکتا ہے۔ویسے بھی اس پگڈنڈی کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ ذرا سی بارش ہو تو لینڈسلائیڈنگ ہوتی ہے جس سے پگڈنڈی کے کنارے منہدم ہو جاتے ہیں اور جیپوں کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ رائے کوٹ سے تاتو تک کی یہ کچی سڑک حکومت نے نہیں بلکہ ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان مرحوم کے بھائی بریگیڈئر ریٹائرڈ اسلم خان  نے اپنے ذاتی خرچ سے بنوائی تھی  تاکہ سکردو میں کچورہ کے مقام پر بنائے جانے والے ہوٹل کی طرز پر فیری میڈوز میں بھی ہوٹل تعمیر کیا جا سکے۔ یہ ہوٹل تادم تحریر تعمیر نہیں ہو پایا ہے۔

البتہ اس کے لئے خاصی بڑی جگہ خریدی جا چکی ہے۔ قاضی آصف الدین کے اہل خانہ سمیت ہم کل سات افراد تھے۔ اس لئے ہمیں پوری جیپ کرایہ پر لینا تھی۔ سات ہزارروپے کرایہ طے کرکے جب ہم جیپ میں سوار ہوئے۔اور جیپ ڈرائیور نے شاہراہ قراقرم سے اوپر فیری میڈوز جانے والی پتلی سی پگڈنڈی پر گاڑی موڑ کر چڑھائی تو اُس وقت تک مجھے یہ اندازہ ہر گز نہ تھا کہ اب میں سفر کے حوالے سے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ خوف ناک تجربے سے دوچار ہونے والا ہوں۔

کچھ دیر کی مسلسل چڑھائی اور چند ایک موڑوں کے بعد جب میں نے نیچے دیکھا تو شاہراہ قراقرم ایک باریک سی لکیر کی صورت نظر آرہی تھی۔رائے کوٹ پل اور اس سے آگے گلگت کی طرف جانے والی سڑک معدوم سی ہو رہی تھی۔اتنے میںپتھروں اور گڑھوں سے بھرپور پگڈنڈی کا اصل حصہ شروع ہوا جو مسلسل موڑوں ، چڑھائی اور جیپ کے بے تحاشہ اچھلنے کودنے کا باعث بن رہا تھا۔ویسے بھی جیپ کوئی آرام دہ سواری نہیں، اور جب آپ فیری میڈوز والے راستے جیسی پگڈنڈی پر جیپ میں جارہے ہوں تو پھرہچکولوں،اور اردگرد پھیلے ہوئے ڈنڈوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ایک ایسی جدوجہد ہے جس میں ہاتھ، بازو،سراور گردن شل ہوجاتے ہیں۔کمر پھوڑے کی مانند دکھنے لگتی ہے اور منہ سے بے اختیار ہائے وائے کی صورت میں فریادیں برآمد ہوتی ہیں۔

ہمارے ساتھ چونکہ ایک خاتون بھی تھیں اس لئے ان فریادوں کا آہنگ کم رکھنے کی کوشش ایک الگ داستان غم تھی۔اس پگڈنڈی پر زندگی موت کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی ہے۔بہت سی جگہوں پر تو موت بالکل سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔اتنی قریب کہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگتی ہے۔کئی بار تو موڑ مڑتے ہوئے جیپ کا ایک ٹائر ہوا میں معلق ہوا لیکن ڈرائیور صاحب تھے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے۔ بہرحال تقریباً آدھے گھنٹے کی اس تکلیف دہ مشقت کے بعد یہ پگڈنڈی کسی حد تک ہموار ہوگئی کیونکہ ہم اب ایسی جگہ پہنچ چکے تھے کہ شاہراہ قراقرم کہیں نظر نہیں آرہی تھی اور نیچے دیکھنے پر ہول اُٹھتے تھے کیونکہ نانگا پربت سے نکلنے والے رائے کوٹ گلیشئر سے رسنے والے پانی نے جس نالے کی صورت اختیار کر لی تھی وہ کم و بیش پانچ ہزار فٹ گہرائی میں بہہ رہا تھا۔

اور اس کی رفتار اور آواز اس قدر خوف ناک تھی کہ نیچے دیکھتے ہوئے دل دہلتا تھا۔یہ درست ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے، اور جو شب قبر کی تاریکی میں بسر ہونی ہے، وہ روئے زمین کی سطح پر ہر گز نہیں گذرے گی لیکن جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔تو فیری میڈوز جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ اس پگڈنڈی پر آنے جانے والی جیپوں میں سے جب بھی کوئی جیپ کسی حادثے کا شکار ہوکر نیچے گری ہے تو اس کی سواریوں میں سے کسی کی میت کو نہیں نکالا جا سکا۔

راستے میں جب کوئی جیپ مخالف سمت سے آتی دکھائی دیتی تو ہر دو میں سے جس ڈرائیور کے قریب راستے میں گنجائش ہوتی ۔وہ گاڑی کو ایک طرف کرکے دوسرے کو گذرنے کا موقع دیتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات گاڑی کو پہاڑ پر بھی چڑھانا پڑتا ہے۔ ہماری جیپ کے ڈرائیور نے بھی ایک دو بار ایسا کیا۔تو بے اختیارسب کی چیخیں نکل گئیں۔

لیکن فیری میڈوز کے راستے پر چلنے والے ڈرائیور ان چیخوں اور فریادوں کو سنتے سنتے اس قدر  بے حس ہوچکے ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔  کم و بیش سوا ڈیڑھ گھنٹہ کے اس ناقابل بیان تکلیف دہ سفر کے بعد اچانک ایک موڑ پر ڈرائیور نے جیپ روک دی اور کہا کہ اب اس سے آگے آپ لوگ پیدل جائیں گے۔کیونکہ اس پگڈنڈی کے راستے میں آنے والے ایک پہاڑی نالے پر بنا ہوا لکڑی کا پُل ایک طرف سے پشتہ بیٹھ جانے کی وجہ سے جیپوں کا بوجھ سہنے سے قاصر ہوچکا تھا۔

یہاں درجنوں جیپیں کھڑی تھیں اور لوگ پیدل اُتر کر’’اپنی جنت گم گشتہ‘‘ فیری میڈوز کی طرف کشاں کشاں جا رہے تھے۔ ڈرائیور نے اگلے روز ہمیں اسی جگہ سے دوبارہ اپنے ہمراہ رائے کوٹ پُل تک پہنچانا تھا۔ بہر حال بدقت تمام اپنے پھوڑے کی طرح دکھتے جسم کی رہی سہی طاقت مجتمع کی اور جیپ سے اُترے۔سستانے کے لئے کوئی بیٹھنے کی جگہ میسر نہ تھی، نہ ہی سستانے کا موقع تھا۔ اس لئے بادل نخواستہ تاتو کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے فیری میڈوز کا ٹریک شروع ہوتا ہے۔ چند موڑ مڑنے کے بعد سرسبز گھنے درختوں میں گھرا تاتو گائوں نظر آیا۔ اب پگڈنڈی سے نیچے اُتر کر نالہ پار کرنے اور سامنے بنے ہوئے ہوٹل تک پہنچنے کا مرحلہ باقی تھا۔ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہم سب پتلی سی  پگڈنڈی پر سے اُترے۔

نالے پر پڑے جھولتے ہوئے لکڑی کے تختے کو پار کیا اور کھلی جگہ پر آکر قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ یہاں ایک ہوٹل موجود ہے جس میں قیام کے لئے لکڑی سے بنے دو کمرے، باتھ رومز اور ایک بڑا کھانے کا کمرہ ہے۔ کھانے کے کمرے میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں نے خورشید احمد خان کو آگے کیا اُس نے اپنا تعارف کرایا تو کچھ انتظار کے بعد ہوٹل والوں نے رہائشی کمرہ کھول دیا۔ ہم سب نے وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کی۔کھانے میں دال چاول ہی تھے۔اس کے علاوہ کسی اور شے کے پکانے کی شاید گنجائش بھی نہیں تھی۔ علی الصبح گلگت میں ناشتہ کرنے اور پھر رائے کوٹ میں چائے کی ایک پیالی کے سوا ایک کھیل بھی اُڑ کر منہ میں نہیں گئی تھی۔اس پہ مستزاد جیپ کا خوفناک سفر، ہماری آنتیں توکب سے قل ہواللہ پڑھ رہی تھیں۔

لیکن سفر کے دوران میں ہمیںاپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی۔کھانے کی فکر کس کافر کو تھی۔ اب جب نماز پڑھ لی تھی اور پھوڑے کی طرح دکھتے بدن کو قدرے آرام ملا تو بھوک چمک اُٹھی۔اُبلے ہوئے سفید چاولوں کے ساتھ دھلی ہوئی مسور کی دال کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ اس مزے میں بھوک کے ساتھ ساتھ ماحول کا بھی اثر تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے خورشید سے پوچھا کہ فیری میڈوز تک جانے کے لئے کیا کرنا ہوگا۔اُس نے اپنی روایتی بے نیازی سے جواب دیا کہ سر جی چار پانچ کلو میٹر کا فاصلہ ہے زیادہ تر لوگ پیدل جاتے ہیں۔ ہم بھی پیدل جائیں گے۔ دو تین گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وہ خود کم و بیش پندرہ برس بعدفیری میڈوز جا رہا تھا۔جو لوگ پیدل نہیں جاتے، وہ گھوڑوں پر سفر کرتے ہیں۔

گھنے درختوں کے جنگل میں گھرے اس ہوٹل کے اردگرد کئی گھوڑے بندھے تھے۔ خورشید بتا چکا تھا کہ ہم نے جس راستے پر پیدل چل کر فیری میڈوز پہنچنا ہے وہ پانچ کلو میٹر کے لگ بھگ دو سے تین فٹ چوڑی ایک پگڈنڈی ہے لیکن مجھے ہوٹل سے نکلتے وقت یہ اندازہ ہر گز نہ تھا کہ یہ پگڈنڈی میری زندگی کا سب سے بڑا متحان ثابت ہو گی۔

خیر لکڑی کے پھاٹک سے گذر کر جب ہم نے فیری میڈوز کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو گھوڑوں والے اپنے اپنے گھوڑے لے کر آگئے۔ یہ سب بے فکرے بارہ سے پچیس برس عمر کے مقامی لڑکے اورنوجوان تھے۔ان میں سے زیادہ تر سگریٹ بھی پی رہے تھے۔  فیری میڈوز پہنچنے کا کرایہ پوچھا تو حیرت ہونے لگی کیونکہ پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع فیری میڈوز تک پہنچانے اور پھر اگلے روز واپس لانے کے لئے اڑھائی ہزار روپے فی نفر کرایہ طلب کیا جا رہا تھا اور  وہ ایک دھیلہ بھی رعایت کرنے پر آمادہ نہ تھے۔وہ سب یک آواز ہو کر بو ل رہے تھے۔

اس لئے ہم سب نے کہا کہ پیدل اوپر چلتے ہیں۔ میں نے ایک بار پھر خورشید سے پوچھا کہ راستہ ہموار تو ہے۔خورشید نے تکلفاً زور دے کر کہا کہ سر جی تھوڑی بہت چڑھائی تو ہے لیکن زیادہ تر ہموار ہی ہے۔قاضی صاحب کے بچے یعنی عائشہ اور حافظ عمر اور میرا بیٹا عمرعبدالعزیز تینوں فیری میڈوز پہنچنے کی خوشی سے مغلوب ہو کر ہم سے آگے آگے چل رہے تھے۔

خورشید اُن کے ساتھ تھا جبکہ میں ،قاضی صاحب اور اُن کی اہلیہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے ۔کم و بیش پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد غیر محسوس انداز میں راستہ بلند ہوتا گیا اور ساتھ ہی ہمارے سانس بھی پھولتے گئے۔پسینہ اس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا کہ ہمارے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ پیاس کی شدت میں میری پانی کی بوتل ختم ہو چکی تھی۔پگڈنڈی گھنے جنگل سے نکل کر چلچلاتی دھوپ میں آچکی تھی۔

تاتو کی بلندی پر نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی چبھتی شعاعوں کو جھیلتے ہوئے پیدل چلنے کا ایک ایک قدم من من بھر کا لگ رہا تھا۔گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ جب بلندی بھی بڑھنے لگی تودھو نکنی کی طرح چلتے سانسوں نے احساس دلایا کہ علی الصبح کے جاگے ہوئے، رائے کوٹ تک پہنچنے اور پھر جیپ کے اچھلتے کودتے سفر کے بعد اب مزید پانچ کلو میٹر کی چڑھائی پیدل چڑھنا پچپن برس پرانے بدن کے بس کی بات نہیں ہے۔ جب یہ طے کر لیا تو دیکھا کہ جن گھوڑوں کے مالکان سے ہماری بات نہیں بن پائی تھی وہ اپنے اپنے گھوڑے لئے راستے میں کھڑے ہیں۔

دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری طرح فیری میڈوز پیدل پہنچنے کی خواہش رکھنے والوں کو اپنی بے بسی رک جانے پر مجبور کردیتی ہے۔ چنانچہ بغیر کسی مول تول کے ہم نے تین گھوڑے کرایے پر لئے۔بچے خورشید کے ہمراہ پیدل چلنے پر نہ صرف آمادہ تھے بلکہ خاصے آگے بھی جا چکے تھے۔ میرا کسی بھی گھوڑے پر بیٹھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔گھوڑے کی پشت پر بندھی ہوئی کاٹھی پر آگے کی طرف لوہے کا ایک کڑا تھا ۔جو چوکور سریے سے بنایا گیا تھا۔

گھوڑے کے مالک نے کہا کہ اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔میں نے اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑنے کے بعد خود کو سنبھالا۔گھوڑے کا مالک  لگام تھامے بڑی بے نیازی سے چل رہا تھا۔اب یہ پگڈنڈی عام پگڈنڈیوں کی طرح ہموار نہیں تھی بلکہ فیری میڈوز کی طرف بڑھنے والی چڑھائی تھی۔جس پر اوپر سے گرنے والے پتھر،گڑھے، موڑ، پھسلن،گرے ہوئے درختوں کی شاخیں اور ٹہنیاں، آتے جاتے لوگ، گھوڑے غرض ساری رکاوٹیں ایسی تھیں کہ ہر قدم پر گمان ہوتا تھا کہ گھوڑا اب پھسلا کہ تب پھسلا،  اگرچہ گھوڑا پورے راستے کے دوران میں تو نہیں پھسلا لیکن مجھے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے جسم کے ہر حصے خاص طور پر انگلیوں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔

اب سہارے والے کڑے کو چھوڑتا ہوں تو گرنے کا خطرہ ہے اور نہیں چھوڑتا تو درد ناقابل برداشت ہے۔راستہ شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ واپس آنے والے جتنے بھی لوگ پیدل آرہے تھے اُن میںسے جتنے لوگوں سے پوچھا کہ فیری میڈوز کتنی دور ہے تو وہ یہی کہتے تھے کہ اگلے موڑ کے بعد فیری میڈوز آجائے گا۔ لیکن یہ اگلا موڑ آنے کا نام ہی نہیںلے رہا تھا۔ شاید وہ تمام لوگ لاہور سے تعلق رکھتے تھے یا لاہوریوں سے متا ثر تھے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ کراچی سے لاہور آکر داتا دربارکا راستہ پوچھنے والا شخص واپس کراچی پہنچ گیا لیکن وہ داتا دربار نہیں پہنچ پایا۔

اب یہ وقت عصر کے قضاء ہونے کا تھا۔صاف نیلا آسمان پر چمکتا ہوا سورج اب گہرے بادلوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔ تیز ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔پسینہ خشک ہوچکا تھا۔اور سرد ہوائوں کی وجہ سے کپکپاہٹ شروع ہو گئی تھی۔اتنے میں وہ موڑ بالآخر آہی گیا۔ جس کا پوچھتے پوچھتے دم پھولنے لگا تھا۔ موڑ سے اوپر عمودی بلندی پر فیری میڈوز کے ہوٹلوں کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔لیکن ہمارے اردگرد گہرا اندھیراچھا چکا تھا۔یہاں پہنچ کر بادلوں نے جو برسنا شروع کیا تو سردی کی شدت اور تاریکی کے باعث خون ہڈیوں میں جمنے لگا۔

خوف بھی آرہا تھا کہ اندھیرے میں گھوڑا کیا اپنا توازن برقرار رکھ پائے گا۔دانت سردی سے بج رہے تھے اور بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔  خدا خدا کرکے گھوڑے کا رخ فیری میڈوز کی آخری چڑھائی کی طرف ہوا تو اوپر بنے ہوئے ہوٹلوں کی روشنیاں اور لوگوں کی آوازیں ہمیں تسلی دینے لگیں کہ اب منزل دور نہیں۔ قاضی صاحب کی اہلیہ مجھ سے پہلے پہنچ چکی تھیں۔گھوڑوں کے مالکان کو ہم یہ بتا چکے تھے کہ ہم نے رائے کوٹ سرائے ہوٹل میں جانا ہے۔

موسلا دھار بارش کی وجہ سے شرابور کپڑوں میں جب میں رائے کوٹ سرائے ہوٹل فیری میڈوز میں گھوڑے سے اُترا تو کچھ دیر تک تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ رات کی تاریکی میں پہاڑ کی چوٹی پر برستی بارش میں جب میں اوپر پہنچا تووہ اپنے بچوں اور قاضی صاحب کے لئے سراپا انتظار تھیں۔تھوڑی دیر میں خورشید احمد خان کا چہرہ نمودار ہوا۔اُسکے پیچھے عمر عبدالعزیز اور عائشہ تھے۔قاضی صاحب کا بیٹا حافظ عمر اوپر پہنچنے تک تو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھا لیکن چونکہ اوپر آنے والی پگڈنڈی چوٹی پر پہنچ کر کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور رائے کوٹ سرائے ہوٹل بالکل شروع میں ہے۔

اس لئے حافظ عمرکچھ آگے چلاگیا اور ایک دوسرے ہوٹل جا پہنچا لیکن یہ بات ہمارے علم میں نہ تھی۔اتنے میں گھوڑے پر سوار قاضی صاحب بھی پہنچ گئے۔خورشید نے بہتیرا کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، عمر ابھی آجائے گا لیکن اُس کی والدہ فکر اور پریشانی میں رونے لگیں۔ میں نے خورشید کو دوڑایا کہ جاکر فوری طور پر عمر کا پتہ کرو۔ وہ دس بارہ منٹ میں عمر کے ہمراہ آگیا اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔عمر نے بتایا کہ وہ اوپر پہنچ کر رائے کوٹ سرائے ہوٹل رکنے کے بجائے آگے چلا گیا تھا اور ہوٹلوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔

عمر کے ملنے کے بعد ایک اور مسئلہ آنکھڑا ہوا، اور وہ یہ تھا کہ میں نے قاضی صاحب سے کہا تھا کہ سامان کم سے کم رکھیں۔ انہوں نے بچوں کو سختی سے منع کیا کہ وہ کوئی فالتو سامان نہ لیں، بچے اُن سے بھی زیادہ سیدھے نکلے اور انہوں  نے پہنے ہوئے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ لیا۔

اب ہم سب کے کپڑے بھیگ چکے تھے لیکن خورشید،حافظ عمر ،عائشہ اور عمر عبدالعزیز تو شرابور تھے،کیونکہ وہ پیدل آئے تھے ۔اُنہیں فوری طور پر کپڑے بدلنے کی ضرورت تھی۔عمر عبدالعزیز تو اپنے ہمراہ ایک پینٹ،شرٹ اور شلوار قمیض لایا تھا۔ میں بھی ایک جوڑا کپڑے الگ سے لے آیا تھا۔ میرے پاس ایک گرم چادر بھی تھی ۔سردی سے ہم سب کے دانت بج رہے تھے۔ چونکہ سیاحوں کا بے تحاشہ ہجوم تھا۔ تمام کمرے پہلے سے بک ہوچکے تھے اس لئے خورشید کے ماموں نے ہمارے قیام کے لئے دو خیمے مختص کئے۔گھاس کے فرش پر دری بچھی ہوئی تھی اور سلیپنگ بیگز مہیا کردیئے گئے۔ دونوںخٰیمے اس قدر وسیع تھے کہ آٹھ آٹھ افراد با آسانی ان میں سما سکتے تھے۔ میں خورشید اور عمر کے ہمراہ ایک خیمے میں ٹک گیا جبکہ دوسرے خیمے میں قاضی صاحب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ٹھہرگئے۔

سردی سے بچائو کے لئے لکڑی کا الائو جلانے کی تیاری کی گئی۔ کیونکہ اس کے سوا سردی کا مقابلہ کرنے کی کوئی اور صورت نہ تھی۔خورشید کے ماموں  نے ’جن کا نام محمود غزنوی تھا‘ کٹی ہوئی لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا ایک ڈھیر لگا کر الائو روشن کیا تو ہمارے دیگر سیاح بھی آگ تاپنے پہنچ گئے۔ الائو کے اردگرد بیٹھنے کے لئے لکڑی کے بنچ موجود تھے۔اتنے میں بادل چھٹ گئے اور اُن کی اوٹ سے گیارھویں کا چاند جھانکنے لگا۔ فیری میڈوز کا حسن چاندنی کی روشنی میں کچھ اس طرح سے دمکنے لگا کہ ہم سب اپنی تھکن،بھیگے ہوئے کپڑے اورکپکپا دینے والی سردی کوبھول کر اردگرد پھیلے ہوئے منظر میں کھو گئے۔

ایک طرف نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں تھیں تو دوسری طرف گھنا جنگل، پھر ترائی کی طرف پھیلتا ہوا گلیشئر ایک سیاہ اژدھے کی صورت پہاڑ سے لپٹا ہوا تھا جس کی تہوں سے بہنے والے پانی کی آواز میں ایک مہیب گھن گرج تھی۔ کچھ وقت آگ تاپنے میں گذارنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے لئے کھانا لگ گیا ہے۔

ہوٹل کے ڈائننگ روم میں نانگا پربت کو سر کرنے کے لئے آنے والے تمام معروف کوہ پیمائوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔جن میں سے کچھ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور کئی ایک جان کی بازی ہار کر نانگا پربت کی ’’قاتل پہاڑ ‘‘والی شہرت میں مزید اضافے کا باعث بن کر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھوا چکے تھے۔ کھانے میں چکن کڑاہی اورپلائو تھا۔ بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی۔اس لئے سب نے سیر ہوکر کھایا۔کھانے کے بعد قہوہ کا دور چلا۔یہ ہوٹل روایتی ہوٹلوں سے بہت مختلف اس لئے بھی تھا کہ ایک تو یہ فیری میڈوز میں ہے دوسرا یہ کہ اس کی تمام تر تعمیر لکڑی سے کی گئی ہے۔ڈائننگ روم،مہمانوں کو ٹھہرانے کے کمرے،باتھ رومزبرآمدہ ،سیڑھیاں غرض ہر شے لکڑی سے تیار کردہ تھی۔فیری میڈوز میں اس وقت تقریباً دو درجن ہوٹل ہیں۔جن میں آٹھ دس سے لے کر پچاس تک کمرے ہیں۔

تمام ہوٹل والوں نے کمروں کے علاوہ زائد مہمان آجانے کی صورت میں خیموں کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔سچ پوچھیں تو خیمے میں شب بسری کازیادہ لطف آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں گھنے جنگل ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جب سے رائے کوٹ برج سے تاتو تک جانے والی جیپ روڈ بنی ہے اُس وقت سے سیاحوں کی کثرت سے آمد شروع ہوئی ۔اور اب یہ حال ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار سو سیاح فیری میڈوز آتے ہیں۔ان کے علاوہ یہاں ایک دن سے زیادہ قیام کرنے والے سیاح بھی خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔اس قدر بڑی تعداد کو رہنے،کھانے پینے،باتھ رومز اور بون فائر کی سہولیات بہم پہنچانے میں سب سے پہلے جنگل کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

شدیدتھکن کی وجہ سے نیند جلد آگئی۔ لیکن رات کو دو بار نالے کے شور کی وجہ سے آنکھ کھلی۔دونوں بار میں خیمے سے باہر آیا اور فیری میڈوز کے مسحورکن ماحول میں چاند تاروں کی چھائوں تلے چہل قدمی کا لطف اُٹھایا اور اللہ رب العزت کی صناعی پر سر دھنتا رہا۔ صبح اُٹھ کرواپسی کے لئے تیاری کی اور ناشتے کے لئے ایک بار پھر ہوٹل کے طعام خانے کی طرف گئے۔ گرما گرم پراٹھے،آملیٹ اور چائے کا ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے رائے کوٹ ہوٹل کے اردگرد کے دیگر ہوٹلوں اور سبزہ زاروں کا رخ کیا تاکہ کچھ تصویر کشی کی جا سکے۔

تاتو کی طرف واپس روانہ ہونے سے پہلے ہم نے خورشید کے ماموں زاد بھائی سے بل کا پوچھا تاکہ ا دائی کی جا سکے تو اُس نے ایک شرمیلی سی مسکراہٹ سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم تاتو پہنچ گئے۔وہاں کے ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا۔اس ہوٹل میں درجنوں سیاح جو رائے کوٹ سے فیری میڈوز جانے کے لئے پہنچے تھے موجود تھے ۔

میرا خیال ہے کہ فیری میڈوز کے راستے کی دشواری کے پیش نظر بارہ تیرہ سال سے کم عمر بچوں اور ساٹھ پینسٹھ برس سے زائد عمر کے افراد کو یہاں نہیں آنا چاہیئے۔پچاس سال سے زائد عمر کے وہ افراد بھی جنہیں دل،ذیابیطیس،دمہ،بلندیا پست فشار خون جیسے امراض ہوں وہ ہر گز یہاں کا رخ نہ کریں،کیونکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں قریب ترین طبی امداد تک پہنچنے میں گھنٹوں کی طویل مشقت درکار ہے۔دوسری صورت میں انسان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس قدر بے بس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کر پاتا۔   (جاری ہے)

The post سیاحوں کی کثرت نے فیری میڈوز کے جنگل اُجا ڑ دئیے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

رہتے تھے وہ جہاں پہ

$
0
0

پیر علی محمد راشدی راوی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد انجمن ترقی اردو کے دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس عہد کے بڑے شاعر ہادی مچھلی شہری کے نواسے نے کہا ’’نانا حضور۔ ہندوستان میں جتنے بڑے لوگوں کے نام سنتے تھے انھیں کراچی میں دیکھ لیا‘‘ہادی فرمانے لگے بیٹا! پورا ہندوستان اجڑا ہے تو کراچی بسی ہے۔ رئیس امروہوی نے سید سلمان ندوی کی وفات پر قطعہ تحریر کیا تھا:

مدفون ہوئے آخر‘ آغوش کراچی میں

ملت کے بزرگان ذی حشم و فلک پایہ

تو کچھ بھی نہ تھا پہلے‘ اب تجھ میں سبھی کچھ ہے

اے شہر تہی دامن‘ اے خاک گراں مایہ

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، عروس البلاد یا اقتصادی و معاشی حب۔ ایک زمانے میں یہ حزب اختلاف کا شہر کہلاتا تھا ہر تحریک کی ابتدا یہاں سے ہوتی، ٹریڈ یونین یہاں مستحکم، طلبا تحریکیں یہاں مضبوط، سیاسی جماعتیں یہاں طاقتور اور علم و ادب کا کیا کہنا کہ گلی گلی مشاعرے، مباحثے معمول تھے، آنہ لائبریریاں قائم تھیں جہاں سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے پھر کوئی بلیک ہول اس سارے منظر نامے کو اپنے اندر نگل گیا اور اب کراچی کچراچی کہلاتا ہے۔

جب نام ترا لیجیے‘ تب چشم بھر آوے

کیسے کیسے گوہر نایاب اور جوہر کم یاب اس شہر کے مکیں تھے جن کے دم سے رونقیں تھیں اور محفلیں، مجلسیں تھیں، جو اب خیال و خواب ہو چکی ہیں بلکہ اب تو وہ لوگ بھی اور ان کے نام بھی ذہن سے محو ہوتے جا رہے ہیں، بقول عزیز حامد مدنی:

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

قیام پاکستان سے قبل کراچی کی سیاست ہاشم گزدر، کامریڈ میر محمد بلوچ، حاتم علوی، جمشید مہتا، عبداللہ ہارون، اللہ بخش گبول کے ارد گرد گھومتی تھی، اس شہر کی سیاسی قسمت کے فیصلے یہ شخصیات سیاسی شطرنج کی بساط پر مہرے آگے پیچھے کرکے کیا کرتے تھے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کا تذکرہ سائیں جی ایم سید کی تصنیف جنب گزریم جن سین‘ پیر علی محمد راشدی کی تحریروں کے مجموعے روداد چمن، گرو گرداس وادھوانی کے مطبوعہ کالموں سمیت اس عہد پر لکھی گئی کتب میں ملتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد یہاں ہجرت کرکے آنے والی شخصیات نے جو اپنے اپنے علاقوں میں نامور تھیں رہائش اختیار کی تو اس شہر کی شان اور بڑھ گئی، ماضی میں گارڈن ایسٹ میں سردار واحد بخش بھٹو کی کوٹھی جو سر شاہ نواز بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی، نشتر پارک کی شمالی سمت حیدر منزل جہاں سائیں جی ایم سید جلوہ افروز تھے۔ کراچی چڑیا گھر کے عقبی روڈ پر اسلامی کلب سے ملحقہ پیر آف لواری پیر گل حسن کا گھر اور بمبئی لیجسلیٹیو کونسل و سندھ اسمبلی کو اپنی تقریروں سے گرمانے والے محمد ہاشم گزدر کی اقامت گاہ قصر ناز واقع تھی۔

تحریک خلافت، مسلم لیگ سمیت متعدد تنظیموں سے وابستہ حاجی عبداللہ ہارون کی وکٹوریہ روڈ پر رہائش گاہ ’’نصرت‘‘ اور اللہ بخش گبول کا ایک گھر لیاری کلاکوٹ اور دوسرا سولجر بازار سے ملحق تھا، ہمہ وقت آباد رہا کرتا تھا۔ کیسے کیسے فیصلے ان مقامات پر ہوئے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، مسجد منزل گاہ کا مناقشہ، آزادی کی تحریک میں صوبائی اسمبلی سے قیام پاکستان کے حق میں قرارداد کی منظوری، ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد، حروں کی بغاوت اور ان کے پیر سورہیہ بادشاہ کی سعید منزل پر خدا بخش تالپور کی رہائش گاہ میں نظر بندی، خالق دینا ہال کا مقدمہ بغاوت جس میں مولانا نثار کانپوری، شری شنکر اچاریہ، مولانا محمد علی جوہر، پیر غلام مجدد سرہندی، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر ماخوذ تھے لیکن اب ان عمارات میں سے محض چند ہی باقی ہیں۔ امتداد زمانہ اور ورثا یا پسماندگان کی بے اعتنائی کے باعث یہاں کثیر المنزلہ عمارات کھڑی ہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کو اس مقام کی تاریخی اہمیت تک کا پتا نہیں۔ کامریڈ میر محمد بلوچ کی رہائش گاہ گارڈن ایسٹ میں پاکولا مسجد کے قریب تھی۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کی سیاست پر چھائے چوہدری خلیق الزماں کی رہائش موجودہ چیف منسٹر ہاؤس کے قریب ڈاکٹر ضیا الدین روڈ پر تھی جو ان دنوں کچہری روڈ کہلاتا تھا اسی طرح 70 کی قومی اسمبلی کے رکن مولانا ظفر احمد انصاری سعید منزل پر ماما پارسی اسکول کے مدمقابل ایم اے جناح روڈ پر قیام پذیر تھے اور یہیں کہیں وہ بنگلہ بھی تھا جس میں سورہیہ بادشاہ پیر صبغت اللہ شاہ ثانی کے اہلخانہ کو نظر بند رکھا گیا تھا۔

اسی سڑک پر لائٹ ہاؤس کی سمت چلیں تو برنس روڈ کی سابقہ فریم مارکیٹ سے متصل بابائے کراچی ایم ایم بشیر کی کپڑے کی دکان تھی جو بقول طاہر آزاد ہمہ وقت سیاسی بیٹھک کا کام دیتی تھی خود طاہر آزاد کے والد ابوالبیان آزاد جناح مسجد والی گلی کی فلیٹ سائٹ میں گراؤنڈ فلور پر رہائش پذیر تھے اور برنس روڈ کی سیاسی محافل کا اہم حصہ تھے۔ ٹاور کی سمت جاتے ہوئے حسن علی آفندی روڈ ہے جسے پیپر مارکیٹ بھی کہتے ہیں یہاں متروکہ املاک کی ایک عمارت میں مولانا عبدالقدوس بہاری کی رہائش تھی۔

برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا نام سید حسین امام موجودہ عبداللہ ہارون روڈ اور ماضی کے وکٹوریہ روڈ پر جبیس ہوٹل کے قریب رہا کرتے تھے کراچی کے ایک روزنامے سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے والے حاجی احمد مجاہد نے ان کا تفصیلی انٹرویو کئی نشستوں میں اسی اقامت گاہ میں لیا تھا وہ ان کی سادگی، سیاسی تدبر اور مملکت پاکستان سے والہانہ محبت کے واقعات بتاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد کراچی کی مذہبی محفلوں کی جان اور سیاسی طور پر مسلم لیگ کی جدوجہد کا اہم حصہ مولانا ظہور الحسن درس صدر کراچی کے علاقے میں سمرسٹ اسٹریٹ پر رہائش پذیر تھے۔ اب یہ سڑک راجا غضنفر علی اسٹریٹ کہلاتی ہے۔ کراچی پولیس میں اہم عہدے سے ریٹائر ہونے والے جاوید مغل کے والد عنایت اللہ مغل قیام پاکستان سے قبل بندر روڈ مسلم لیگ کے صدر تھے۔

ان کی روایت ہے کہ 40 کی دہائی میں اس علاقے میں مسلمانوں کی رہائش خال خال تھی کاروبار پر بھی ہندو چھائے تھے وہ بتاتے تھے کہ پاکستان چوک پوش ہندو آبادی تھی، یہاں عبداللہ ہارون کے صاحبزادے یوسف ہارون اقامت پذیر تھے۔ کراچی کے قدیمی علاقے کھڈہ کے مولوی محمد صادق کا مدرسہ ریشمی رومال تحریک اور جمعیت علمائے ہند کا مرکز تھا۔

کراچی کی سیاسی، مذہبی، ادبی تاریخ پر سینئر صحافی نعمت اللہ بخاری کی گہری نگاہ ہے وہ بتانے لگے کہ لسبیلہ چوک پر مسجد نعمان کے مدمقابل جام آف لسبیلہ کی کوٹھی تھی سائیں جی ایم سید نے اپنی تصنیف جنب گزاریم جن سین میں ان کی ملی خدمات کا احاطہ کیا ہے اسی سڑک پر حسینی یتیم خانہ بھی ہے جسے دادا بھائی فیملی نے قائم کیا تھا اور ایک زمانے میں یہ شہر کے بڑے یتیم خانوں میں شامل تھا ایسا ہی ایک یتیم خانہ گرومندر چوک پر مسجد کنزالایمان کے سامنے انجمن حیات الاسلام کے حامد علی قریشی نے قائم کیا تھا۔

وہ دہلی میں بھی یہ تنظیم اور ادارہ چلاتے تھے۔ پاکستان چوک پر مولانا دین محمد وفائی کے اخبار کا دفتر اور رہائش تھی، آج بھی یہ عمارت اپنے مکینوں کی یاد دلاتی ہے سامنے ٹریفک چوکی والی سڑک پر جسے ماضی میں اسٹریچن روڈ کہتے تھے اور اب یہ دین محمد وفائی روڈ معروف ہے پر قیام پاکستان کے وقت کراچی کے میئر حکیم محمد احسن کا گھر تھا۔ اسی سڑک پر این ای ڈی یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس، برنس گارڈن، ڈی جے کالج، ایس ایم آرٹس کالج، قومی عجائب گھر، آرٹس کونسل، اسکاؤٹس ہیڈ کوارٹر، فری میسن ہال، نواب آف ماناودر کی کوٹھی اور ملحقہ سڑک پر کراچی پریس کلب بھی واقع ہے۔

حکیم محمد احسن کی رہائش گاہ سے چند قدم پر انجمن پٹھانان گوڑیانی کے مرحوم صدر حاجی ظہور احمد خان کی اقامت گاہ اور دھاگہ سازی کا کارخانہ تھا جہاں انجمن مسلمانان پنجاب سمیت متعدد تنظیموں کے رہنماؤں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل گارڈن ایسٹ میں جسٹس فیروز نانا بھی، جن کی صاحبزادی محترمہ انیتا غلام علی صوبائی وزیر، انگریزی نیوز کاسٹر اور ماہر تعلیم تھیں رہا کرتے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی پھیلا تو سیاسی بیٹھکیں بھی شہر بھر میں ہونے لگیں، ورنہ تو مختصر سے کراچی میں لیاری، کھارادر، نیپیئر روڈ، پاکستان چوک، صدر، گزری اور عامل کالونی، آرام باغ، برنس روڈ، لارنس روڈ ہی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھے۔ سینئر صحافی نادر شاہ عادل، لیاری پر کئی کتب کے مصنف رمضان بلوچ، شبیر ارمان و دیگر کی تحریریں پڑھیں تو لیاری کی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں سے آگہی ہوتی ہے کراچی کا تذکرہ لیاری کے بغیر نامکمل ہے۔

پروفیسر علی محمد شاہین جیسی علم دوست شخصیت اسی بستی کی شناخت ہے جن سے ہزاروں نے اکتساب فیض کیا۔ گرومندر سے جہانگیر روڈ پر چلیں تو شروع ہی میں لکھم ہاؤس واقع تھا جہاں برصغیر کی ممتاز علی شخصیت سر شاہ محمد سلیمان کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان رہائش پذیر تھیں۔ حسین شہید سہروردی سے قرابت داری کے سبب یہاں نوابزادہ نصر اللہ خان سے لے کر جانے کتنے بڑے لوگ یہاں قیام پذیر رہے اور سیاسی فیصلے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش کلفٹن کے موہٹہ پیلس میں تھی تو بھوپال کی ولی عہد بیگم عابدہ سلطان جنھیں بھوپالی باشندے بڑی بیّا پکارتے تھے۔

ملیر میں رہائش پذیر تھیں۔ اسی ملیر میں قیام پاکستان سے قبل نواب آف بھاولپور کی کوٹھی تھی اور سعود آباد کے علاقے میں ایک چھوٹے سے کوارٹر S99 میں تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کا بسیرا تھا۔ کثیر العیال شخصیت نے تمام زندگی یہیں گزاری۔ جناح مسلم لیگ کے سربراہ مجاہد ملت علامہ عبدالحامد بدایونی کے جواں سالی میں سیکریٹری اور لاتعداد کتب کے مصنف آزاد بن حیدر کی رہائش لیاری کے علاقے میں تھی ۔ شیر کراچی سید سعید حسن کوئنز روڈ ولیکا ہاؤس کے قریب رہا کرتے تھے یہ سڑک اب مولوی تمیز الدین خان روڈ کہلاتی ہے جب کہ تحریک استقلال کے مرکزی رہنما مشیر احمد پیش امام ڈیفنس سوسائٹی میں رہتے تھے اور ڈیفنس ہی میں سن سیٹ بلیوارڈ پر سردار شیر باز مزاری کا بنگلہ ہے۔ این ڈی پی کے سربراہ، علم دوست شخصیت رشتے میں مرحوم نواب اکبر بگٹی کے بہنوئی اور سابق نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کے حقیقی بھائی ہیں۔

مولانا ظہور الحسن درس مرحوم کے صاحبزادگان مولانا اکبر درس، مولانا اصغر درس، اولیائے کراچی پر کئی کتب کے مصنف خواجہ عبدالرشید دلبر شاہ وارثی اور برنس روڈ کے عوامی لیگی رہنما شیخ ممتاز پہلوان مرحوم سے ایک زمانے میں طویل نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ برنس روڈ، ریگل، لیاقت آباد، گولی مار، کھارادر کے متعدد ہوٹل رات بھر کھلے رہا کرتے تھے جہاں سیاسی مباحثے ہوتے تھے۔ 50 کی دہائی میں کراچی سے رات کا اخبار ’’شبینہ‘‘ بھی شایع ہوتا تھا جس میں شام ڈھلے تک کی خبریں ہوتی تھیں۔

اخبار کے ایڈیٹر سینئر صحافی شہزاد بیگ چغتائی کے والد مرحوم ارشاد بیگ چغتائی تھے۔ کراچی کے پہلے مسلمان میئر قاضی خدابخش مورائی سے برنس روڈ پر ایک سڑک جناح مسجد والی موسوم ہے۔ اب وہ پتھر بھی ٹوٹ پھوٹ گیا نیا لگوانے کی میئر بلدیہ وسیم اختر کو فرصت نہیں۔ قاضی خدا بخش مرحوم کے بیٹے جسٹس قاضی محمد اکبر کی رہائش گلشن اقبال میں بیت المکرم مسجد کے عقبی بلاک میں تھی، ان کے چچا عبدالخالق خلیق مورائی تحریک خلافت کے اہم لیڈر اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا ایک ناول جو محمد بن قاسم کے گرد گھومتا تھا سندھ یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ تھا۔ پھر قوم پرستی نے زور پکڑا تو خارج ٹھہرا اور اب تو شاید اس کی ایک کاپی راقم کے پاس ہی محفوظ ہے۔ قاضی اکبر بتایا کرتے تھے کہ نیپیئر روڈ پر آل انڈیا مسلم لیگ کا دفتر تھا انھوں نے ہی کراچی کے متعدد گم شدہ کرداروں کے حالات زندگی بتائے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک تاریخ ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔

موجودہ کراچی کی تاریخ کنگری ہاؤس اور نائن زیرو کے بغیر شاید ہی مکمل ہو۔ مرحوم پیر پگارا شاہ مردان شاہ ثانی اور الطاف حسین سے ملنے کون نہیں آیا۔ گورنر، وزرائے اعلیٰ ایک طرف، سفارتکار، قونصلیٹ، صدور مملکت، وزرائے اعظم، اپوزیشن لیڈر اور برسر اقتدار طبقات تمام ہی خوشنودی کے طالب ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ایک کی رونقیں ماند ہیں اور دوسرا مقفل۔ جماعت اسلامی کا ادارہ نور حق پیپلز پارٹی کا پیپلز سیکریٹریٹ، متحدہ قومی موومنٹ کا بہادر آباد مرکز اور فاروق ستار کا پیر کالونی رابطہ آفس قریب قریب واقع ہیں اور کراچی کے حبس زدہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

اسی علاقے میں پیپلز سیکریٹریٹ سے ملحقہ دادا بھائی نوروجی روڈ پر میر علی احمد تالپور کی کوٹھی اور عقبی شکارپور کالونی میں حکیم محمد سعید شہید کی رہائش گاہ تھی۔ ذرا آگے چلیں تو کشمیر روڈ سے ملحقہ الفلاح مسجد والی اسٹریٹ میں شہید ظہور الحسن بھوپالی کا گھر 57 این پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں واقع تھا۔ اسی میں ان کی سیاسی تنظیم استحکام پاکستان کونسل اور ہفت روزہ افق کا دفتر بھی تھا۔ کراچی کی سیاسی شخصیات کا یہاں ہمہ وقت جمگھٹا لگا رہتا تھا۔

کم عمری ہی میں وہ ایک شقی القلب کی گولی کا نشانہ بنے اور یہ سانحہ نہ ہوتا تو کراچی پر لسانی، علاقائی، نسلی عصبیت کے سائے شاید کبھی نہ لہراتے کہ وہ سندھ کے قدیمی اور نئے باشندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے تھے۔ یہی ان کا مشن تھا جس کی انھیں سزا ملی۔ پی ای سی ایچ ایس میں ہی پنجابی پختون اتحاد کے ملک سرور اعوان کی رہائش تھی ابتداً وہ خیام سینما نرسری کے قریب پھر محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی اور آخری دنوں میں چنیسر پھاٹک سے ملحقہ بلاک 6 میں قیام پذیر رہے اور ان کے گھر پر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔

مہاجر قومی موومنٹ سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد لانڈھی میں بیت الحمزہ اور مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حیدر کی رہائش گاہ راشد منہاس روڈ گلستان جوہر بھی سیاسی طور پر معروف ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ رہنے والے پیر الٰہی بخش نے کراچی سینٹرل جیل سے ملحقہ علاقے میں کوآپریٹیو سوسائٹی قائم کی ان کے نام سے منسوب اس کالونی میں علامہ عبدالحامد بدایونی کی بھی رہائش تھی۔ جن سے منسوب اسٹیڈیم کا عبدالستار افغانی کی میئر شپ کے دور میں نام تبدیل کرکے پی آئی بی اسٹیڈیم کر دیا گیا جبکہ ان کی جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے وسیع و عریض رقبے پر واقع عبدالحامد بدایونی ڈگری کالج قصبہ موڑ کو گورنمنٹ ڈگری کالج اورنگی ٹاؤن کا نام دے دیا گیا۔

جسے قائد اعظم نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں بے مثال خدمات پر فاتح سرحد کا خطاب دیا تھا اب اس سے موسوم کوئی یادگار اس شہر میں موجود نہیں۔ کراچی سے تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے حاجی محمد حنیف طیب کی آج کل فلاحی سرگرمیاں زیادہ ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ شو مارکیٹ کی ڈاکخانہ اسٹریٹ پر رہائش پذیر تھے پھر شرف آباد، بریٹو روڈ اور اب پارسی کالونی کے زہرہ اپارٹمنٹ میں قیام پذیر ہیں جہاں سیاسی و سماجی شخصیات کی آمد و رفت رہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ الخدمت کے سربراہ اور سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان بھی سماجی شعبے کا بڑا نام ہیں۔

نارتھ ناظم آباد میں ان کی رہائش ہے اسی علاقے میں جماعت اسلامی کے کئی مرتبہ ایم این اے اور متحدہ جمہوری محاذ و پاکستان قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی رہائش پذیر تھے جو کئی کتب کے مصنف اور سیاسی طور پر بڑا مقام رکھتے تھے۔ کراچی شہری حکومت کے مجوز اور مقدمہ بغاوت کا سامنا کرنے والے مرزا جواد بیگ نے زندگی کے آخری دن نارتھ ناظم آباد میں گزارے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ نشتر پارک سے ملحقہ پارسی کالونی میں آباد ہوئے تھے۔

اسی علاقے کی ممتاز سماجی شخصیت محمد افضل علاقے کی سیاسی و سماجی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہیں تو خوبصورت منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ نشتر پارک، سولجر بازار کے دوسری سمت ایم اے جناح روڈ پار کریں تو جیکب لائنز کا علاقہ ہے جسے حکومت نے یہاں مدفون شہید ظہور بھوپالی کی نسبت سے گلشن ظہور کا نام دیا ہے لیکن یہ لائنز ایریا کہلاتا ہے کہ یہاں جیکب، جٹ، بی ہائنڈ، ٹیونیشیا، اے بی سینیا سے منسوب لائنز موجود ہیں۔ لائنز ایریا میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی رہائش تھی ان کی مسجد آج بھی شہر کی مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے ان کے صاحبزادے تنویر الحق سینیٹر اور احترام الحق پی پی ون لیگ کے رہنما رہے ہیں۔

لائنز ایریا سے ملحقہ علاقے خداداد کالونی میں سندھ اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر سید باری جیلانی کی رہائش ہے یہیں شاہراہ قائدین کشمیر روڈ کراسنگ پر جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کی رکن بیگم محمودہ سلطانہ اور ان کے شوہر مسلم لیگ کے رہنما شیخ لیاقت حسین کی رہائش تھی ان کے صاحبزادے عامر لیاقت ان دنوں تحریک انصاف کے اسی علاقے سے ایم این اے ہیں۔ یہ علاقہ خداداد گبول کی ملکیت تھا اسی مناسبت سے خداداد کالونی کہلاتا ہے۔ باتھ آئی لینڈ میں کلفٹن برج سے ملحقہ راجہ صاحب محمود آباد کا قیام پاکستان سے قبل خرید کردہ بنگلہ ’’محمود آباد ہاؤس‘‘ کہلاتا تھا اور ہمارے دوست ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد اسلم اور سینئر صحافی خالد مرزا بتاتے ہیں کہ انھوں نے صاحبان علم، اصحاب سیاست اور جانے کتنے ہی مشاہیر کو یہاں آتے جاتے دیکھا۔ سندھ کے سابق گورنر اور سابق صدر مملکت ممنون حسین ایم اے جناح روڈ پر جامع کلاتھ مارکیٹ کی عقبی گلی میں رہتے تھے ان کی سیاسی محافل یہاں جمتی تھیں پھر وہ ڈیفنس منتقل ہوگئے۔

قیام پاکستان سے قبل کراچی کا پوش علاقہ گارڈن ایسٹ بھی تھا جہاں اس زمانے کی اشرافیہ رہتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں متمول افراد کو جو ہندوستان سے آئے تھے یہ کوٹھیاں الاٹ ہوئیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل مرحوم محمود الحق عثمانی، آدم جی سائنس کالج کے قریب اسی علاقے میں رہتے تھے بعد میں وہ کشمیر روڈ کی عقبی گلی میں محفل مرتضیٰ امام بارگاہ کے قریب منتقل ہوئے۔ گارڈن ایسٹ ہی میں رئیس امروہوی ان کے بھائی سید محمد تقی، جون ایلیا اور سید محمد عباس 129 الف مانک جی اسٹریٹ میں رہا کرتے تھے۔

جس کا نام انھوں نے ’’نرجس‘‘ اپنی عزیزہ کے نام پر رکھا تھا۔ قریب ہی پروفیسر کرار حسین کی اپنے صاحبزادوں تاج حیدر، جوہر حسین و دیگر کے ساتھ 74 گارڈن ایسٹ میں رہائش تھی۔ رئیس امروہوی کی پراسرار موت، سید تقی کی رحلت کے بعد جون ایلیا نے ودیگر پسماندگان نے حویلی فروخت کردی۔ اب اس کے نصف حصے پر مسجد ہے۔ لیاقت آباد میں سپر مارکیٹ سے ملحقہ عباس مارکیٹ کے ساتھ بیرسٹرسید علی کوثر کی رہائش تھی جو کنونشن مسلم لیگ کے رہنما تھے۔ تین ہٹی پل سے لیاقت آباد کی سمت اتریں تو الٹے ہاتھ پر جئے سندھ کا سرخ جھنڈا لہراتا نظر آتا تھا۔ یہ اپنے دور کے معروف طالب علم لیڈر علی مختار رضوی کا گھر تھا جو حلقہ احباب میں علامہ مشہور تھے۔

ویسے شاہراہ فیصل پر مہران ہوٹل کے مقابل کمال کلینک سے ملحقہ زرداری ہاؤس میں حاکم علی زرداری کی رہائش تھی جو اب منہدم ہوکر ہائی رائز بلڈنگ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ کیونکہ ان کے صاحبزادے سابق صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس تعمیر کرا لیا تھا ماضی قریب تک پی ای سی ایچ سوسائٹی کا مرزا ہاؤس مرحوم مشتاق مرزا کی دعوت حلیم اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی قیام گاہ کے حوالے سے مشہور تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی رہائش سمرسٹ اسٹریٹ پر میمن مسجد سے ملحقہ ماسٹر ہاؤس میں تھی یہاں بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم فیصلے ہوئے۔ ویسے جمعیت علمائے پاکستان کا دفتر برنس روڈ کے فریسکو چوک پر تھا، نچلی منزل پر جے یو پی اور بالائی منزل پر تحریک استقلال کے پرچم لہراتے تھے۔

قریب کی گلیوں میں کراچی کے سابق ڈپٹی میئر عبدالخالق اللہ والا، رکن سندھ اسمبلی ملک حنیف پاکستان والا کی رہائش تھی۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں کمیونسٹ لیڈر سوبھوگیان چندانی کا فلیٹ بھی تھا۔ اسی سڑک پر ٹاور کی سمت چلیں تو کراچی چیمبر ہے جس کا افتتاح گاندھی جی نے کیا تھا۔ اس کی دیوار پر سنگی تختی مدتوں تک نصب رہی تھی، یہیں تاریخی آرام باغ واقع ہے جسے ماضی میں رام باغ کہا جاتا تھا۔ ہندو عقیدہ کے مطابق رام جی نے ہنگلاج بلوچستان جاتے ہوئے اس مقام پر قیام کیا تھا، پاکستان بننے کے بعد جب دلی کے آرام باغ کو رام باغ کا نام دیا گیا تو یہاں مقیم دلی والوں نے اسے آرام باغ پکارنا شروع کردیا اور اب کسی کو اس کا پرانا نام یاد نہیں۔ یہیں آرام باغ روڈ پر جسے اب ڈاکٹر محمد ہاشم خان غوری روڈ پکارا جاتا ہے حکیم محمد سعید کو شہید کیا گیا تھا جہاں ان کا مطب واقع ہے۔

پرانے سیاست داں ملک عدم کوچ کرگئے۔ نئی سیاست نگری آباد ہوئی تو کراچی سیاست کا نباض نہ رہا۔ اب یہاں چار درجن سے زائد ارکان اسمبلی، سینیٹر اور کتنے ہی سیاستدان آباد لیکن وہ رونق میلہ نہیں گوکہ نیو ایم اے جناح روڈ پر جماعت اسلامی کا ادارہ نورحق، اسی سڑک پر پیپلز پارٹی کا پیپلز سیکریٹریٹ، بہادر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کا رابطہ آفس، فریسکو چوک پر جمعیت علمائے پاکستان کا دفتر، ڈیفنس میں اے این پی کے صوبائی سربراہ شاہی سید کا مردان ہاؤس، پیر پگارا کا ڈیفنس میں راجا ہاؤس، مہاجر قومی موومنٹ کا لانڈھی میں عارضی بیت الحمزہ، شاہراہ فیصل پر تحریک انصاف کا مرکزی دفتر، محمد علی سوسائٹی میں مسلم لیگ ہاؤس، جمعیت علمائے اسلام کے قاری عثمان کی فعال شخصیت ڈیفنس سوسائٹی میں خیابان شمشیر پر مرحوم غلام مصطفی جتوئی کا جتوئی ہاؤس، پیپلز مسلم لیگ کے سربراہ ارباب رحیم کا کینٹ عسکری میں بنگلہ سیاسی جمود میں تحرک کی علامت ہیں۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔

The post رہتے تھے وہ جہاں پہ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

حنیف بھائی کو تو قرار آگیا تھا کہ جس ماہ وش کو دیکھا اسے بہ فضل خدا اپنا جیون ساتھی بنانے میں کام یاب ہوئے اور بہ آسانی، بس رب تعالٰی ہی ہے۔

جس کی چاہے اس کی دلی مراد کو آسودہ اور مجسّم فرمادے کہ وہی ہے جو دلوں کو پھیر سکتا ہے اور مشکلات کو آسانی میں بدل سکتا ہے کہ بس وہی ہے قادر مطلق۔ حنیف بھائی کی کتھا ادھوری رہ گئی لیکن خاطر جمع رکھیے کہ فقیر آپ کے گوش گزار کرے گا وہ بھی۔ لیکن اس وقت ایک اور نوجوان فقیر کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے، حنیف بھائی کو تو رب تعالٰی نے وجیہہ بنایا تھا جی! لیکن اس نوجوان کو آزمائش میں پیدا فرمایا کہ بس وہی ہے جو اپنے راز خود ہی جانتا ہے تو اس پر فقیر کی جسارت نہیں کہ کوئی کلام کرے کہ اسے سکھایا گیا ہے کہ کوئی چوں چرا نہیں بس تسلیم اور تسلیم جی! تو حمد ہے اسی رب کی جو سزاوارِ بندگی و اطاعت و توصیف و ثناء ہے۔

وہ نوجوان فقیر کو کہیں ملا تھا کیسا ہے وہ ۔۔۔۔ ؟ چلیے ملتے ہیں اس سے۔ ایسا ویسا نہیں جی، بے کار و بے مصرف تو بس فقیر ہے جی، احمق و ناداں، غبی و حیراں۔ اس نوجوان کو دیکھ کر تو ہمت رقص کرتی، گنگناتی، مُسکراتی ہے۔ حوصلہ اس پر نازاں ہے جی۔ اس نے ناامیدی کو پائے حقارت تلے روند ڈالا ہے۔ وہ رب تعالٰی کا بندۂ تسلیم و رضا ہے ناں، اسی لیے مایوسی سے اجنبی ہے۔ اس نے اتنی سی عمر میں زمانے کے سفّاک رویے دیکھے ہیں، عجیب سی نظروں کو سہا ہے، سرد گرم جھیلے ہیں، لیکن وہ سربلند رہا ہے، سرخ رُو رہنا وہ جانتا ہے۔

اس نے کسی باب رعایت کا انتخاب نہیں کیا، اپنی جواں مردی سے اپنے لیے راستہ بنایا ہے اور پھر اس پر حوصلے اور ثابت قدمی سے روانہ ہوا ہے اس راہ پر، لیکن آسانی سے نہیں۔ بے شمار مشکلات سے گزرا ہے وہ، لیکن کوئی اس کی راہ کھوٹی نہیں کرسکا۔ اس کی ہمت، پُرعزم چہرہ اور روشن آنکھیں صاف بتاتی ہیں کہ وہ ضرور اپنی منزل پر پہنچ کر دم لے گا۔ یہ ایاز خان ہے۔ بہ ظاہر معذور اور ناتواں نظر آنے والا یہ جوان، صرف جواں ہی نہیں، جواں ہمت اور عالی حوصلہ بھی ہے۔

اس نے معذوری کو روگ نہیں اپنی طاقت بنالیا ہے۔ اپنی دُھن میں مگن ایاز خان عزم و ہمت کی چلتی پھرتی مثال اور ہم سب کے لیے روشن مینار ہے۔ ایاز خان نے 1987 میں رئیس احمد کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں مخالف سمت میں مُڑے ہوئے اور توانائی سے محروم ہیں۔ سنیے ناں اس کی کتھا اور اسی کی زبانی ۔۔۔ !

’’میں معذور پیدا ہوا ہوں، بس اﷲ تعالیٰ کی مصلحت ہے، وہ جو چاہے کرے، وہ بے نیاز ہے۔ میرے سارے بہن بھائی تن درست ہیں، میری پیدائش پر جہاں سب خوش ہوئے، وہیں انہیں اداسی و پریشانی نے بھی گھیر لیا۔ میری والدہ بتاتی ہیں یہ سب کچھ۔ میرے والد چھوٹا موٹا تعمیرات کا کام کرتے تھے، بہت پریشان ہوئے وہ، ظاہر ہے وہ اپنی اولاد کو اس حالت میں دیکھ کر افسردہ ہی ہوتے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو میں بھی پریشان ہوا، لیکن کیا ہوتا ہے پریشان ہونے سے ؟ مصیبت تو نہیں ٹل جاتی ناں۔ پھر میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب جو ہے سو ہے، میں اپنی اس معذوری کا مقابلہ کروں گا۔

لیکن اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنا مُشکل ہوگا جیون۔ سب گھر والے میرا بے حد خیال رکھتے تھے، لیکن اصل زندگی تو باہر کی ہے۔ جب انسان گھر سے باہر قدم رکھے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کٹھن ہے جیون۔ مرد بچہ ہوں باہر تو نکلنا تھا، زمانے کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔

سو میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ سب بچے اسکول جاتے ہیں، میں نے بھی پڑھنے کا فیصلہ کیا اور پھر مجھے اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ پہلے تو داخلہ ہی اتنی مشکل سے ملا کہ ہم اسے کیسے سنبھالیں گے، باقی بچے اس کی وجہ سے پریشان ہوں گے، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ داخلہ تو مل گیا، لیکن مجھے وہ اسکول چھوڑنا پڑا۔ وجوہات وہی کہ سب پریشان ہوتے ہیں۔

پھر میں نے معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ قریب ہی الشفاء اسکول ہے، جس میں معذور بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے اس اسکول میں داخلہ لے لیا۔ بہت اچھے، بہت ملن سار اور مخلص لوگ تھے وہ۔ سارے اساتذہ بہت شفیق اور مددگار، ہر وقت بچوں کی تربیت اور مد د کے لیے تیار۔ میں معذور تو تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے مجھے بہت اچھے ذہن سے نوازا ہے۔ کہتے ہیں ناں اور بالکل سچ کہتے ہیں کہ اگر اﷲ تعالیٰ کوئی کمی کرتا ہے، اور ظاہر ہے وہ سب کچھ بہتر جانتا ہے، تو اس کمی کو دوسری اعلیٰ صلاحیت سے نوازتے ہوئے پورا کردیتا ہے۔

وہ رحیم و کریم ہے ناں۔ اس ربّ العالمین نے مجھے بہترین ذہن سے نوازا ہے۔ میری قوت مشاہدہ بہت اچھی ہے۔ میں بہت جلد سیکھتا ہوں، بس آپ مجھے شروع کرادیں، تھوڑا سا بتادیں، باقی اسے انتہاء پر میں خود پہنچا سکتا ہوں۔ یہ سب صلاحیتیں دیکھتے ہوئے الشفاء اسکول نے مجھے ابتداء ہی میں تیسری جماعت میں داخل کرلیا۔ 1997کا دور ہے جب میں نے باقاعدہ اسکول جانا شروع کیا۔

اسکول کے اساتذہ بہت محبت کرتے تھے مجھ سے۔ وہ تو سب کا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے سنا ہے ناں! جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہے یارو! میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے پیارو۔ سو فی صد صحیح بات ہے اور اب تو میرا یہ تجربہ بھی ہے۔ میں نے اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد الشفاء اسکول ہمارے علاقے سے ایئرپورٹ کے قریب منتقل ہوگیا۔ اب مجھے نیا مرحلہ درپیش تھا۔ بات ان کی بھی درست تھی کہ اس علاقے میں، میں واحد طالب علم تھا جو یہاں زیر تعلیم تھا اور باقی بچے دوسری جگہوں سے آیا کرتے تھے۔

اسکول انتظامیہ نے جب اسکول منتقل کیا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے آمد و رفت کی سہولت فراہم کردیں، لیکن شاید یہ ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس طرح میرا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اسکول جو ہمارے علاقے میں تھا داخلہ لیا اور 2006 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مجھے ابتداء سے ہی کمپیوٹر پر کام کرنے کا شوق تھا اور میرا بیشتر وقت کمپیوٹر پر گزرتا تھا۔ اس دوران گھر والوں کو کسی نے مشورہ دیا کہ سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ مجھے کسی بہت اچھے ماہر ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ گھر والوں نے ایک ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور میرا علاج شروع ہوا۔

علاج کیا تھا، اک عذاب تھا۔ وہ مجھے الیکٹرک شاک لگاتے تھے۔ اس سے مجھے اور زیادہ تکلیف ہونے لگی، پھر آپریشن کا کہا گیا اور ہم نے وہ آپریشن کرایا بھی، بہت زیادہ پیسے خرچ ہوگئے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا بل کہ میں روز بہ روز کم زور ہوتا چلا گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ مجھے وہ علاج نہیں کرانا چاہیے تھا، لیکن اب تو یہ ہوچکا تھا۔

خیر پھر فزیو تھراپی کراتا رہا اور نتیجہ صفر۔ کسی اور نے مشورہ دیا کہ خاص قسم کے جوتے بنائے جاتے ہیں، جس سے پاؤں صحیح ہوجاتا ہے۔ ہم نے بھی بنوائے اور جب میں نے وہ جوتے استعمال کرنا شروع کیے تو اپنی تکلیف بیان نہیں کرسکتا، بہت تکلیفیں برداشت کیں میں نے۔ آخر تنگ آکر میں نے وہ جوتے بھی پہننا چھوڑ دیے۔ ناقابل برداشت تکلیف ہوتی تھی انہیں پہن کے۔ بس میں نے بیساکھیاں لیں اور میدان عمل میں نکل پڑا۔ کوئی کب تک آپ کا ساتھ نبھا سکتا ہے؟ زندگی بھر کا ساتھ نبھانا تو ممکن نہیں ہے ناں، میں نے خود اپنا ہر کام کرنا شروع کیا حالاں کہ میرے سارے گھر والے بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔ میں اپنے کپڑے دھوتا، انہیں استری کرتا، اپنے سارے کام خود کرتا تھا، پھر باورچی خانے میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتا تھا۔ مجھے روٹی اور سالن بنانا بھی آتا ہے۔

پھر گھر والوں نے سوچا کہ اب میرے کام کا کوئی انتظام کریں تو اس طرح میں نے اپنے محلے ہی میں پرچون کی دکان کھول لی، کام چلنے لگا، معاشی حالات سب کے خراب ہیں تو لوگوں نے ادھار لینا شروع کردیا۔ میں نے بھی سوچا کہ چلو دے دیں گے لیکن ادھار لے کر لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے۔ اب میں معذور بندہ کس کس کے پیچھے بھاگتا پھرتا۔ قصہ مختصر کہ نقصان ہوگیا اور نقصان بھی تھوڑا نہیں، اچھا خاصا تقریباً ڈھائی تین لاکھ کا نقصان۔ دکان بند کرنا پڑی۔ اب کیا کِیا جائے پھر سوچا اور گرہ اس پر بندھی کہ موبائل فون کی دکان کھولی جائے۔ تو میں نے موبائل فون کی دکان کھول لی۔

کچھ عرصے میں دکان چلنے لگی، میں نے بھی نئے موبائل سے دکان بھرلی تھی اور شُکر مالک کا اچھی چل رہی تھی۔ پھر ایک مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ ایک دن میں دکان میں تھا کہ تین لڑکے دکان میں داخل ہوئے، ایک نے میرے سر پر پستول رکھ دیا اور باقی دونوں نے سارے موبائل فون سمیٹنا شروع کردیے۔ میرے پاس جو پیسے تھے وہ بھی چھین لیے۔ لو جی پھر سے نقصان، اس بار تو زیادہ نقصان ہوا اور پھر دکان بند کرنا پڑی۔ ٹھیک ہے میرے تجربات تلخ تھے۔ نقصان بھی ہوا۔ لیکن زندگی تو گزارنی تھی، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ میں نے بہت سوچا اور ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کردیا۔ وہاں بہت اچھے ٹیچر مل گئے، ایک ماہ میں جو لوگ سیکھتے تھے میں نے ایک ہفتے ہی میں مکمل کرلیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اس طرح میں نے ایم ایس آفس، گرافکس ڈیزائننگ، کمپیوٹر لینگویج اور دیگر کورس مکمل کیے۔ میرا سب سے زیادہ پسندیدہ شعبہ گرافکس ڈیزائننگ ہے۔ جب میں یہ سیکھ گیا تو میں نے سوچا سرکاری ملازمت کرلیتا ہوں۔

میں نے نہ جانے کہاں کہاں درخواستیں دیں، نتیجہ صفر۔ یہ جو کہتے ہیں کہ حکومت نے معذوروں کا مخصوص کوٹا رکھا ہے۔ نہ جانے وہ کہاں رکھا ہے؟ کبھی سوچتا ہوں وہ کوٹا رکھ کر بھول گئے ہیں، ہنسی آتی ہے مجھے۔ نہ جانے کن معذوروں کو ملتی ہیں وہ ملازمتیں۔ اس دوران مجھے ایک صاحب ملے اور کہنے لگے دو لاکھ روپے کا انتظام کرلو تمہیں سرکاری ملازمت دلادوں گا۔ میں نے انکار کردیا۔ میں نے طے کیا ہے کہ میرٹ پر ملازمت ملی تو ضرور کروں گا، رشوت تو میں کسی صورت بھی نہیں دوں گا۔

پھر اﷲ کا کرنا یہ ہوا کہ میرا بھائی ایک کمپنی میں کام کرتا ہے۔ اس نے وہاں بات کی، میں نے انٹرویو دیا اور مجھے منتخب کرلیا گیا۔ اب میں یہاں کمپیوٹر آپریٹر ہوں، اکاؤنٹس کے شعبے میں اور میرے کام سے سب لوگ بہت خوش ہیں۔ میں محنت سے کام کرتا ہوں اور محنت کا پھل اﷲ ضرور دیتا ہے۔ جب میں برسر روزگار ہوا تو میری والدہ کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ ہر والدہ کو اپنا ہی بیٹا اچھا لگتا ہے ناں۔ زیادہ فکر اس لیے ہوگئی کہ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی ہوگئی اور اس سے چھوٹے کی منگنی۔ امی نے سوچا کہ میں افسردہ رہوں گا اور نہ جانے کیا سوچتا رہوں۔

وہ میری اداسی برداشت نہیں کرسکتی تھیں تو اس طرح میرے لیے لڑکی کی تلاش شروع کی گئی۔ قصہ طویل ہوجائے گا، بہت لوگوں نے رضامندی ظاہر کی اور پھر انکار کردیا۔ بالآخر ایک لڑکی نے حامی بھرلی۔ میں نے اسے سب کچھ صاف لفظوں میں بتادیا کہ جو کچھ ہوں تمہارے سامنے ہوں۔ اس نے اور اس کے گھر والوں نے کہا کہ جو قسمت نصیب میں ہوگا دیکھا جائے گا اور اس طرح میری منگنی ہوگئی۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ میں تو بہت زیادہ خوش تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ ہم اکثر ملتے تھے، باتیں کرتے تھے اور وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی اور میں بھی اس کا۔ ہم ملتے اس لیے تھے کہ وہ مجھے اچھی طرح سے سمجھ لے اور مطمئن ہوجائے۔ ہم بہت گھومے پھرے، بہت اچھا وقت گزرا۔ آٹھ ماہ پلک جھپکتے میں گزر گئے، کہتے ہیں ناں کہ سہانا وقت جلد ہی خواب بن جاتا ہے، بس یہی ہُوا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہماری محبّت کو اور وہ روٹھ گئی اور وجہ بھی نہیں بتائی۔ اتنی کوشش کی کہ وجہ تو بتادو تو اس نے رابطہ ہی منقطع کرلیا۔

اس کے گھر والوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے لڑکی سے خود ہی پوچھو۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اصولاً تو انہیں بتانا چاہیے تھا، کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، تو بات چیت کے ذریعے رفع ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی بات ہی نہ کرنا چاہے تو کتنی اذیّت ہوتی ہے۔ کسی کی محبّت کا مذاق اڑانا کتنا بڑا اور سنگین گناہ ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا، لیکن دلوں کا حال اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اب بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ میری زندگی میں خوشی بن کر آئے اور وہ ہمیشہ خوشی بن کر رہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کا دل صاف کردے، اس سے بات نہیں ہوتی تو میں اپنی اذیّت بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے پورے اخلاص سے محبّت سے اسے اپنایا ہے۔ کیسے بھول سکتا ہوں اسے؟ آپ بھی دعا کریں ناں میرے لیے۔ اتنا اداس تو میں زندگی بھر نہیں رہا، جتنا ان چند دنوں میں ہوگیا ہوں۔

یہ کچھ دن تو میرے لیے صدیاں بن گئے ہیں۔ میں اپنے کام خود کرتا ہوں، میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں، اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے برسر روزگار ہوں۔ ہمارے پاس اﷲ کی ہر نعمت ہے، روزگار ہے، گھر ہے، گاڑی ہے۔ اب میں معذور ہوں تو کیا ہوا، خدا کی مرضی ہے یہ تو۔ میں گاڑی بھی چلا سکتا ہوں، گھومتا پھرتا ہوں۔ اچھے لوگ بھی ہیں دنیا میں، کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میں اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا، تو لوگوں نے آکر مجھے پیسے دینے کی کوشش کی، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ میں کام کرتا ہوں۔

آپ کا بہت شکریہ! کچھ نے تو بہت اصرار بھی کیا کہ تم ہمارے بھائی ہو، ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں، لیکن میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور محبت سے ٹال دیا۔ مجھے جہاں تلخ تجربات ہوئے ہیں وہیں بہت خوب صورت لمحات بھی دیکھے ہیں۔ دنیا اسی کا نام ہے، مستقبل میں گرافکس ڈیزائنر بن کر ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں، انشاء اﷲ کروں گا۔ میں ایک مثال بن کر دکھاؤں گا، میں فارغ وقت میں کمپیوٹر کی کلاسز لیتا ہوں اور اپنی استعداد بڑھاتا ہوں۔ گھومتا پھرتا ہوں، گھر والوں کا ہاتھ بٹاتا ہوں، خوش رہتا ہوں، خوش رکھتا ہوں۔ اگر آپ کو خوش رہنا ہے تو دوسروں کی خوشی کا ضرور خیال رکھیے۔ بس آپ دعا کریں کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں قبول کرلے۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا۔ اس سے زیادہ میں آپ کو اپنی کہانی کیا سناؤں؟ آپ سدا خوش رہیں۔‘‘

فقیر نے اسے سینے سے لگایا، ہاں میں ضرور دعا کروں گا کہ وہ تمہارے جیون میں خوشیوں کی بہار اور گُلوں کا نکھار بن کر آئے، میں چلتا ہوں، ہاں وہ ضرور آئے گی۔

سن لی آپ نے اس کی کتھا، کرم آپ کا جی، مہربانی جی، عنایت! آپ افسردہ ہوئے، بہت اچھے جو ہیں آپ، انسان کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اس کی آنکھ خلق خدا کے غم میں نم ہوکہ بتایا گیا ہے کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو جی۔

اپنی افسردہ طبیعت کا بُرا ہو کہ فراز

حادثہ کوئی بھی ہو، آنکھ کو نم ہونا ہے

چلیے! اب آپ خوشی سے جھومیے کہ فقیر آپ کو یہ خوش خبری سناتا ہے کہ ایاز خان کے جیون میں ایک اور پیکر اخلاص پَری رُو آگئی ہے جو ایاز خان کا جیون بہار کیے ہوئے ہے، دونوں اپنے گھر کو جنّت بنائے ہوئے ہیں۔ واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد

کوئی دل کے بھی سمندر کا کنارہ ہوگا

یہ خیال آیا سمندر کے کنارے دل میں

مُدّتوں اپنا پتا پوچھتے پھرتے رہے ہم

پھر کسی نے یہ بتایا کہ تمہارے دل میں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


سَر اٹھاتی فنا کی بے چینی
اف یہ خلقِ خدا کی بے چینی
لحظہ لحظہ دہل رہی ہے بقا
بڑھ رہی ہے قضا کی بے چینی
چین پاتی نہیں کسی لمحے
اس دلِ مبتلا کی بے چینی
کوئی طوفان آنے والا ہے
کہہ رہی ہے فضا کی بے چینی
تھرتھراتی لویں چراغوں کی
اس پہ اندھی ہوا کی بے چینی
میری پوروں میں آگ بھرتی ہے
تیرے بند قبا کی بے چینی
پائے درویش سے لپٹتی ہوئی
دیکھ حیرت سرا کی بے چینی
بارہا لب سے آ کے لپٹی ہے
ایک حرف صدا کی بے چینی
ابتدائے سفر میں بھی آزر
ساتھ ہے انتہا کی بے چینی
( جنید آزر۔ اسلام آباد)


غزل


پیرہن وہ جو کسی طور معطر ہی نہیں
کاغذی پھول ترا حاصلِ مصدر ہی نہیں
پوچھ مت کتنی خراشیں تھیں مرے ماتھے پر
جب یہ معلوم ہوا عشق یقیں پر ہی نہیں
آپ تصویر بناتے ہوئے تھک جائیں گے
میرے چہرے کے کئی رنگ میسر ہی نہیں
دکھ مجھے گھورتے رہتے ہیں اٹھا کر آنکھیں
جس طرح میرا مقدر تو مقدر ہی نہیں
ڈگریاں باپ کو مقروض بنا دیتی ہیں
آج کے دور کی تعلیم تو زیور ہی نہیں
اتنے نقصان اٹھا رکھے میں نے ساجد
اب مجھے رنج اٹھانے کا کوئی ڈر ہی نہیں
(لطیف ساجد، حافظ آباد)


غزل


چبھتی ہو جو سینے میں محبت، نہیں کرتے
ہم دل پہ کوئی ایسی عنایت نہیں کرتے
یہ جنس ہمیں ملتی ہے اس وقت کہ جب ہم
محسوس محبت کی ضرورت نہیں کرتے
مقتل سے صدا دے، یا کوئی دل کے نگر سے
ہم وعدہ وفا کرتے ہیں غفلت نہیں کرتے
اس عہدِ عداوت میں بھی ہم امن کے داعی
بچوں کی امانت میں خیانت نہیں کرتے
ویسے تو طلب رہتی ہے منزل کی انہیں بھی
کچھ لوگ سفر کرنے کی زحمت نہیں کرتے
احساں نہیں لیتے کبھی ہم تازہ ہوا کا
دَم گھٹنے سے مر جاتے ہیں منت نہیں کرتے
جو لکھا گیا ہے وہ ہمیں مل کے رہے گا
ہم رزق کی خاطر کبھی عجلت نہیں کرتے
حیرت ہے کہ ہر ظلم سہے جاتے ہیں لیکن
دھرتی کے خداؤں سے بغاوت نہیں کرتے
منزل کبھی رہتی ہے فرح ہم سے گریزاں
یا ہم کبھی منزل پہ عنایت نہیں کرتے
(فرح خان۔ بورے والا)


غزل
ظلمتِ دہر کا احسان اتارا جائے
چاند سے کوئی فلک زاد پکارا جائے
چوم کر ماں کے قدم، اور دعائیں لے کر
گھر سے نکلوں تو مرے ساتھ ستارا جائے
فرقت و ہجر ہے کیا، دشتِ جدائی کیا ہے
تم کو معلوم ہو جب کوئی تمہارا جائے
پھر کہیں بیٹھ کے پی جائے اکٹھے چائے
پھر کوئی دن تو کہیں ساتھ گزارا جائے
تم پہ مرتا ہے کوئی شخص تمہارے جیسا
کیوں نہ اس شخص کی خاطر تمہیں ہارا جائے
کیسے تنکے کے سہارے کو سہارا سمجھوں
اس سہارے سے تو اچھا ہے سہارا جائے
یہ چراغوں کو بجھانے کی گھڑی ہے ایماں
جس نے اب چھوڑ کے جانا ہے خدارا جائے


غزل


اس لیے جان مری جان میں آئی ہوئی تھی
وہ پری جو مرے دالان میں آئی ہوئی تھی
جیسے اردو میں کہیں شعر سنا جا رہا ہو
ایسی شیرینی مرے کان میں آئی ہوئی تھی
راولاکوٹ کو گاڑی یونہی گھومی نہیں خود
اس سمے کوئی مرے دھیان میں آئی ہوئی تھی
کیسے ہچکولے نہ لیتی وہ بدن کی کشتی
وصل بے آب کے طوفان میں آئی ہوئی تھی
(تیمور رشید ۔راولاکوٹ ،کشمیر)


غزل


خواب کے ڈول کھینچتے ہوئے ہم
نیند تک آئے ڈولتے ہوئے ہم
یوں تھے خالی کہیں دھرے ہوئے ہم
لگ رہے تھے اسے بھرے ہوئے ہم
نظم ہوتے رہے کئی دن تک
اک غزل پر نظر کیے ہوئے ہم
عمر کی آخری ضرورت ہے
زندگی کو جییں مرے ہوئے ہم
آپ نے دل کی اَن سنی کر دی
دل کی آواز تھے بنے ہوئے ہم
دیکھ درویش ہوگئے آخر
ایک دیوانگی لیے ہوئے ہم
(امجد عادس۔راولاکوٹ ، آزاد کشمیر )


غزل
فتنۂ عشق کی تعزیر بتانے کے لیے
رو بہ رو آ، مری تقصیر بتانے کے لیے
شیشۂ چشم پہ اک عکس اتر آتا ہے
خواہشِ خواب کی تفسیر بتانے کے لیے
خون رکتا ہے رگوں میں تو چٹختی ہیں رگیں
لذتِ درد کی تاثیر بتانے کے لیے
اس نے بھیجا مجھے تحفے میں سیہ فام گلاب
جذبۂ شوق کی تقدیر بتانے کے لیے
رنگ کیسا ہے صدائے دلِ آشفتہ کا
آئینہ ہو گیا تصویر ،بتانے کے لیے
ان کہے راز کہے دیتی تھیں آنکھیں اس کی
اس کے پیمان کی تزویر بتانے کے لیے
خواب نے در جو طلسمات کے کھولے انجم
شب اتر آئی ہے تعبیر بتانے کے لیے
(انجم عثمان۔ کراچی)


غزل


لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے
جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے
تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی
اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے
آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں
کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے
زلف ایسی کہ سیاہ ریشمی جنگل کوئی
نین اس شخص کے ہیں سرمئی ،مرمر ایسے
کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا
بات تھی بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے
کس نے سوچا تھاکہ کمروں میں فقط چپ ہوگی
کس نے سوچا تھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے
ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر
ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے
(ازبر سفیر ۔ پھلروان، سرگودھا)


غزل


یہ وقتِ انفصال سے آگے کی بات ہے
اک غم ہر اک ملال سے آگے کی بات ہے
وحشت سرائے عشق میں راتوں کو جاگنا
یہ لذتِ وصال سے آگے کی بات ہے
اس مہرِ نیم روز کی آنکھوں میں جھانکنا
ہر چشمِ ذی کمال سے آگے کی بات ہے
اس ذہنِ نا رسا سے کیا جنت کو سوچنا
وہ خواب اور خیال سے آگے کی بات ہے
(محب وفا۔ مہاراشٹر، ہندوستان)


غزل


توسنِ افلاکِ اِلّا رقص کر
آسماں کی خاک اڑاتا رقص کر
اے جمالِ شام، اے شامِ جمال
کائناتِ صبح میں آ، رقص کر
اے فلک لاہوت کے نغمات گا
اے زمیں مدہوش ہوجا رقص کر
سن سماعت کا تصوّر جھوم جا
دیکھ آوازِ تجلّا رقص کر
جو دھنیں لاتی ہیں خوشبوئے چمن
اُن دھنوں پر بے تحاشا رقص کر
مچھلیوں کو شاد رکھنے کے لیے
بار بار اے موجِ دریا رقص کر
لالہ و گل کی حضوری میں اسد
باغباں کا ہے تقاضا رقص کر
(سید اسد اللہ قادری۔ کراچی)


غزل


گرتے ہوئے مکان کے ملبے کا دکھ سمجھ
جاں سے گزرتے اپنے پرائے کا دکھ سمجھ
دھتکارنا ہے خیر ہے دھتکار لے مجھے
لیکن تو میرے ہاتھ میں کاسے کا دکھ سمجھ
کس نے کہا ہے تجھ سے کہ رو لے مرے حضور
کس نے کہا ہے تو مرے نوحے کا دکھ سمجھ
تجھ کو کسی سے پیار ہوا یا نہیں ہوا
لیکن تو میرے شعر کے مصرعے کا دکھ سمجھ
تجھ پر عیاں نہیں ہوا اچھا نہیں ہوا
لیکن گماں نہ کر تو خرابے کا دکھ سمجھ
(زاہد خان ۔ پہاڑ پور، ڈی آئی خان)


غزل


ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا
میں جب ابھرا تھا، چمک دار نہیں ہوتا تھا
میری نظریں نہیں ہوتی تھیں بدن پر اس کے
چھو بھی لیتا تو گنہگار نہیں ہوتا تھا
ایسے شیطانی جزیرے پہ رہے ہیں ہم لوگ
سو کے اٹھتے تھے تو گھر بار نہیں ہوتا تھا
میں تو دو روز میں ہی بھول گیا ہوں تجھ کو
یہ ترے زخم کا معیار نہیں ہوتا تھا
اتنی نفرت تھی کہ پستول لیے پھرتے تھے سب
کوئی پھولوں کا خریدار نہیں ہوتا تھا
رنج ہوتا تھا اسے سامنے آ کر میرے
میں ان آنکھوں کا گرفتار نہیں ہوتا تھا
(نادر عریض۔ بہاولپور)


غزل


سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے
خیر! اب چپ بھی کہاں مجھ کو بھلی لگتی ہے
دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو
زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے
ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں
میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے
وہ حویلی ہوں جو آباد نہیں ہو پاتی
گرچہ ہر سمت ہی سے کوئی گلی لگتی ہے
دیکھتا ہوں اُسے پھر مڑ کے کہیں دیکھتا ہوں
وہ مرے پاس ہے اوردور کھڑی لگتی ہے
جانے یہ بوجھ ہے کیسا کہ ذرا دم لوں تو
دفعتاً پیٹھ پہ نادیدہ چھڑی لگتی ہے
اب کُھلا مجھ پہ کہ خود مصرعِ بے وزن ہوں مَیں
اور مجھے دوسرے مصرع میں کمی لگتی ہے
یہ بھی کیا طرفہ اذیت ہے کہ اب آنکھوں کو
وہی مرجھائی کلی کھِلتی ہوئی لگتی ہے
مَیں اکیلا اسی زندان میں خوش رہ لیتا
تجھ کو دیکھوں تو سزا اور کڑی لگتی ہے
میرے اندر ہیں دراڑیں ہی دراڑیں شارق
پینٹ ہو جانے سے دیوار نئی لگتی ہے
(سعید شارق۔ اسلام آباد)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 71

بابا حضور کی جائے آرام کو رب تعالٰی نعمتوں، راحتوں اور نُور سے بھر رکھے، فقیر کو یقین نہیں کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہے، کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد فقیر کی بے کلی تو ضرور بڑھ گئی تھی اور بے چینی بھی، اور کوئی ایسی ویسی بھلا، لیکن سکھایا گیا ہے، بتایا گیا ہے۔

سمجھایا گیا ہے کہ بس رب کی رضا میں راضی رہو، بس تیری رضا میری تسلیم جپو۔ فقیر اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اب تک بھی بس کورا ہی ہے، بس ٹنڈ منڈ شجر کی موافق، لیکن نہیں یہ مثال بھی عبث اور اپنے لیے رعایت کے مترادف ہے، وہ ٹنڈ منڈ شجر بھی کام کا ہوتا ہے جی، اس کی لکڑی تو کام کی ہوتی اور کسی کا چولہا چلانے کے کام تو آسکتی ہے ناں، لیکن فقیر! بس رہنے دیجیے، بے کار و بے مصرف، مجسم شر و فساد، نرا ڈھول، چرب زباں و ناقص بیاں، پناہ۔ رب تعالٰی فقیر کے کرتوتوں، شر اور حماقتوں سے آپ سب کو محفوظ و مامون فرمائے رکھے اور فقیر کے عیوب بے شمار کی ستّاری فرمائے رکھے اور بس درگزر فرماتا رہے۔ آمین

ایک درویش کی جمع پونجی ہوتی ہی کیا! بس مسافر کہ جس کا سامان زیست انتہائی مختصر جسے وہ بہ آسانی اپنے کاندھے پر پوٹلی بنائے اٹھائے رب کی زمین پر گھومتا پھرتا ہے، چوری کا ڈر نہ راہ زنی کا، اﷲ دے اور بندہ لے، مولائی مست، اندیشہ ہائے سُود و زیاں سے یک سر مامون، وہ لمحۂ موجود میں جیتا ہے جی، کل کس نے دیکھی ہے جی! اگلے لمحے، اگلے دَم کا کیا بھروسا اور کیسا اعتبار، آئے، نہ آئے، اس کا ہاتھ تو رب کا ہوتا ہے جی! کار کُشا و کارساز، وہ اپنی ظاہری نظر سے دیکھتا ہی کب ہے جی، وہ تو خدا کے نُور سے دیکھتا ہے جناب! اسی لیے کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔ بابا جی حضور خُلد مکانی ایسے ہی تھے۔

خاص بندۂ خدائے کریم و رحیم و ستّار و لطیف و خبیر۔ نہ جانے کیا کہے جارہا ہے فقیر! لیکن ذرا سا دم لیجیے ناں، آپ درویش خُدا مست کو قلاش سمجھ بیٹھے ہیں کیا! اس کے پاس ظاہری مال و اسباب جو نہیں ہوتا، اس لیے؟ دانش ور تو آپ ہیں ہی، اس میں کیا کلام جی! لیکن پیشگی معذرت جی، طبع نازک پر گراں بار اور سماعت کو ناگوار گزریں گے فقیر کے لفظ، لیکن بہ صد احترام عرض ہے کہ گم راہ ہو چلے ہیں آپ، نہیں نہیں بالکل بھی نہیں ایسا جناب! درویش خدا مست جیسا دھنی اور کون ہوگا جی، وہ تو رب تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں پر شُکر گزار ہوتا ہے۔

جی اپنی ذات کے لیے تو وہ قانع ہوتا ہے، لیکن مخلوق خدا کے لیے اس جیسا کشادہ دل سخی اور کون ہوگا، مانگتا رب سے ہے وہ اور وہ بھی اپنے لیے نہیں جی، خلق خدا میں تقسیم کرنے کے لیے، ہر پل ہر لمحہ دست بہ دعا، جس کی آنکھیں مخلوق خدا کے دُکھوں پر آزردہ اور قلب بے چین رہتا ہے، وہ ان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے، خود تو وہ چادر صبر میں لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بس رب کی مرضی میں مُجسّم تسلیم۔

فقیر لوہار بابا کے ساتھ رہنے لگا کہ یہی بابا جی حضور کا حکم تھا۔ وہ کسانوں اور مزدوروں کی چھوٹی سی بستی تھی، تن افلاس و خستہ پر لباس کی تہمت لیے مدقوق ڈھانچے، بے خواب اور ویران آنکھیں، جیون کو ترستے ہوئے، کسی مسیحا کی راہ تکتے ہوئے، ایام عذاب کو جھیلتے ہوئے کسان اور مزدور، ٹھیک ہے ان میں چند جوانوں کی جسمانی حالت کچھ بہتر تھی لیکن وہ بھی اسی راہ کے مسافر تھے جنہیں آخر اپنے بوڑھوں کی جگہ سنبھال لینا تھی۔

یہ وہ کسان اور مزدور تھے جو کسی بڑے جاگیردار جو ان پر فرعون کی طرح مسلط تھے، کی کُلّی ملکیت تھے اور ان سے منسوب ہر چیز، جی انسان بھی، ان کی جوان بچیاں اور ازواج بھی کہ جاگیردار کے سامنے وہ سر جھکائے رہتے اور بس اس کی خوش نُودی کے لیے ہر وقت اور کچھ بھی کرنے کو تیار، اغواء سے قتل تک بھی، اس لیے کہ وہ نادان و مجبور و بے بس و مقہور اسی کو اپنا پالن ہار سمجھتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ایسا نہیں بھی سمجھتا تھا تب بھی وہ بس کڑھتا رہتا خاک ہوجاتا یا پھر دوسروں جیسا۔ کچے بے ترتیب مکانات کی بستی جس کی گلیوں سے گندا پانی بہتا ہوا کھیتوں کی راہ لیتا تھا، کبھی سوچیے ان کے گھروں کا غلیظ پانی جس سے ہم سب بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھی ان جاگیرداروں کے کھیت سیراب کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ننگ دھڑنک بالک جو عجیب سے کھیل کھیلنے میں مگن رہتے۔ سورج کسی اور طرٖف جا نکلتا تو تاریکی چھا جاتی اور بستی کے مکانات لالٹین کی روشنی میں یرقان ذرہ ہوجاتے، نوجوانوں اور بوڑھوں کی ٹولیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی ایک دوجے کی غیبت اور ناگفتنی حرکات کی تشہیر کرتیں اور پھر آہستہ آہستہ سب اپنے مکانات میں قید ہوجاتے، صبح سویرے منہ اندھیرے پھر سے وہی معمولات شروع ہوتے۔ ہاں فصل کٹنے پر ضرور جشن کا سماں ہوتا جس میں سے ان کی محنت سے بارآور فصل کا بڑا حصہ تو زمین دار لے اڑتا اور حصے میں ان کے آتے چند دانے۔ عجب زندگی ہے ان کی، نہ جانے کب بدلیں گے ان کے حالات، نہ جانے کب۔ چھوڑیے! فقیر پھر کسی اور جانب نکل رہا ہے ان کا جیون نزع کی اذیّت جیسا تھا، نہ جانے کب وہ سُکھ اور اپنی محنت کا جائز اجر پائیں گے اور انسان سمجھے جائیں گے۔

ایسی بستی میں لوہار بابا ان کے اوزار بناتے تھے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا کمرا اور اس کے آگے سرکنڈوں اور گھاس پھوس کے چھپّر کے نیچے ایک بھٹّی جسے دھونکنے کے لیے چرمی مشک اور سان ہتھوڑے اور ان سے کھیلتے ہوئے ہمارے لوہار بابا اور میں۔ ان کے ہاتھ میں جادُو تھا کسی بھی آہنی پٹّی یا سلاخ کو بھٹی میں سرخ کرتے اور پھر ان کے ہتھوڑے کی چند ضربوں سے وہ خام کندن بن کر کسی اوزار کا روپ دھار لیتی اور کسی مزدور یا کسان کو روزی کمانے میں اس کا ساتھ نبھاتی اور جب ناکارہ ہوجاتی تو پھر سے بابا کے دست شفا سے کارآمد بن جاتی۔

واہ جی! کیا نظام قدرت ہے ناں گر ہم سوچیں تب ہم پر کُھلے بھی۔ یہ جو اصل بابا لوگ ہیں ناں کسی بھی انسان کو کندن بناتے ہیں، بس بتاتے نہیں ہیں، کوئی دعویٰ نہیں کرتے، اسے جیون بھٹی میں سرخ کرتے ہیں اور پھر اسے چند ضربوں سے تقسیم کار بنا دیتے ہیں، پھر وہ خلق خدا کو اس کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان میں آسانیاں، سُکھ، امید، حوصلہ اور عزم تقسیم کرتے ہیں اور ان سے دُکھ، ناامیدی، کم ہمتی اور مایوسی کو جھاڑتے رہتے ہیں، ہاتھ ہے اﷲ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ دن بھر کسان اور مزدور آتے رہتے، کسی کا ہل مرمت کرنا ہے، کسی کا پھاوڑا، کسی کا کُھرپا اور کسی کا کھدال اور ایسے ہی نہ جانے کتنے ہی اوزار۔ بابا کبھی کسی سے معاوضہ طے نہیں کرتے تھے، کسی نے دیا لے لیا، نہیں دیا تو بس خیر ہے۔

کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ لوگ بھی ان سے زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے، بس خاموشی۔ فقیر کو ان کے پاس آئے ہوئے تھوڑے دن ہی ہوئے تھے، میں سارا دن ان کا ہاتھ بٹاتا اور بس۔ وہ عصر تک کام کرتے اور پھر مجھے وہیں چھوڑ کر کہیں چلے جاتے اور غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد واپس آتے تو کھانا ساتھ لاتے تھے اور فرماتے تھے: تمہاری مہمان نوازی کر رہا ہوں پھر خود بنائیں گے کھانا، اس کے لیے تیار رہنا۔ فقیر کہتا: بابا میں تو ہر پل تیار ہوں آپ حکم کیجیے تو مسکراتے بس۔ چھوٹا سا کمرا تھا جس میں ایک موٹی دری بجھی ہوئی تھی بس وہی ہمارا بستر تھی۔ بابا بھی شب بیدار تھے، نصف شب کو جاگ جاتے اور پھر وہی مناجات۔ واہ جی واہ! بابا عصر میں کہیں چلے جاتے تو فقیر بستی میں جا نکلتا اور کھیت کھلیان دیکھتا۔ کسی نے فقیر سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی، ہاں ایک مرتبہ گزرتے ہوئے نوجوانوں کی ٹولی میں سے ایک نے پابرہنہ، پابند زنجیر فقیر کو دراز گیسو اور سیاہ لباس میں دیکھ کر آوازہ کسا ہی تھا اور فقیر نے اسے دیکھا ہی تھا کہ ان میں ایک نے غضب ناک ہوکر اسے کہا: کیا کر رہے ہو! جانتے نہیں یہ بابا کا بچہ ہے۔ اتنا سن کر وہ نوجوان فقیر کے پاس دوڑتا ہوا آیا تھا اور پھر اس نے فقط اتنا کہا: جی مجھ سے بے دھیانی میں غلطی ہوگئی مجھے معاف کریں۔

تب فقیر نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے فقط اتنا کہا تھا: کوئی بات نہیں، ہم انسان ہیں خطا تو ہم سے ہوتی ہی ہے۔ اب اس سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ فقیر بہت اعلٰی ظرف ہے، نہیں جناب ایسا ہوتا تو کیا بات تھی، فقیر اس قبیلے سے ہے جہاں بلا سوچے سمجھے مارنا یا مِٹ جانا تو غیرت کہلاتا ہے، فقیر نے تو اپنے بابا کی تقلید میں ایسا کہا تھا۔ فقیر نے بابا کو اس واقعے کا کچھ نہیں بتایا تھا، ہاں خورشید ڈھلے جب وہ آئے تھے تو انہوں نے بس اتنا کہا تھا: اچھا کیا تم نے بیٹا انسان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جی اس دن کے بعد بستی میں کسی نے فقیر سے کوئی نازیبا کلام نہیں کیا تھا۔

لیکن فقیر اس وقت یہ راز نہیں جان پایا تھا کہ وہ بابا سے بے تکلّف کیوں نہیں ہیں، جب کہ ہمارے گاؤں دیہات میں تو بابا ایسے ہنرمندوں کو لوگ بس سرسری سا لیتے ہیں بل کہ ان کے پیشے کو بھی حقارت سے دیکھتے اور انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ پھر ایک دن راز کھل گیا تھا کہ کیوں وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔ وہ دن فقیر کو یاد ہے جب کوئی جاگیردار بستی میں داخل ہوا تھا اور ہمارے سامنے والے کھیت میں آکر کھڑا ہوگیا تھا، اس کے بندوق بردار اس کے آس پاس چوکس تھے اور کسان دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ رہے تھے، پھر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائی تھیں اور چلتا ہوا ہمارے سامنے آکھڑا ہوا تھا، بابا بہ دستور اپنے کام میں منہمک تھے لیکن فقیر اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی آواز سنائی دی: میں آیا ہوں دیکھا نہیں کیا مجھے۔ وہ بابا سے مخاطب تھا لیکن بابا نے ان سنی کردی تو اس کا غضب بڑھا تھا: تم سُن نہیں رہے؟ اس کا بس اتنا کہنا تھا کہ بابا حضور نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا: میں دیکھ بھی رہا ہوں اور سُن بھی رہا ہوں اور اگر میں کھڑا ہوگیا تو تم کھڑے نہیں رہ سکو گے۔

اپنی راہ لو، ہم فقیروں کا تم جیسوں سے کیا کام، جاؤ۔ بابا کی آوازِ بلند سب نے سنی تھی لیکن وہ تو غصّے سے کانپ رہا تھا اور اس کے بندوق بردار اس کے حکم کا انتظار کر رہے تھے کہ بابا کھڑے ہوئے، اس کا ہاتھ پکڑا اور کچھ دور لے گئے، جی میں بابا کے ساتھ تھا جب انہوں نے اسے کہا: جا اپنی راہ لگ کیوں اپنا مذاق بنا رہا ہے تُو، حرام سے پلا ہوا انسان کسی فقیر کو زیر کرلے گا، نہیں تیری بُھول ہے یہ، ہاں اگر حلال کا لقمہ تُو کھاتا تو فقیر کو اپنے سامنے بچھا ہوا پاتا، تیرے پاس زیادہ وقت نہیں، اس لیے جا اپنی راہ لگ جا، اور اگر اجازت دے تو ساری بستی کے سامنے تیرے کرتوت بیان کروں۔ اتنا کہہ کر بابا اسے وہیں چھوڑ کر واپس آکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے۔ جی فقیر نے اسے دیکھا تھا بل کہ ساری بستی نے کہ وہ واپس آیا اور کسی سے کوئی بات کیے واپس چلا گیا تھا۔ فقیر نے تو یہ واقعہ ہی دیکھا تھا، بستی والوں نے نہ جانے اور کیا کچھ واقعات دیکھے ہوں گے کہ وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔

بعد میں تو فقیر نے بھی بابا کے عجیب اور انوکھے رنگ و روپ دیکھے۔ چلیے ایک بتائے دیتا ہے فقیر! ایک دن بابا نے جاتے ہوئے اسے کہا کہ وہ رات کو نہیں آئیں گے تو فقیر نے جی اچھا کہا۔ پہلے تو میں بستی میں گھوما پھرا کھیت کھلیان دیکھے، چرند پرند سے گپ شپ کی اور پھر فقیر سونے کی تیاری کرنے لگا لیکن پھر بے کلی ہونے لگی تو کمرے سے باہر نکل آیا، کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم پھر کر واپس پہنچا اور کمرے میں داخل ہوا اور سونے کی کوشش کرنے لگا، ابھی فقیر نے چادر اوڑھی ہی تھی کہ سرسراہٹ سنائی دی میں نے نظر انداز کیا لیکن وہ بڑھتی ہی جارہی تھی، جب میں نے چادر منہ سے ہٹائی تو بابا جی جہاں سوتے تھے وہاں سانپ لیٹے ہوئے تھے، جی ایک دو نہیں کئی سانپ، سچ پوچھیے تو مجھے اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا، میں ابھی انہیں خوف زدہ ہوکر دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بابا کی آواز سنائی دی: بیٹا! تم آرام سے سو جاؤ، یہ بھی رب تعالٰی کی مخلوق ہے، اپنے ہی بچے ہیں، مہمان ہیں۔

میں سمجھا بابا جی آگئے ہیں لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا، میں نے پوری ہمت جمع کی اور اسلام علیکم کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، سانپوں کی سرسراہٹ ختم ہوگئی تھی اور وہ اک دوجے سے لپٹے ہوئے خوابیدہ تھے، میں باہر نکلا کہ کہیں بابا جی باہر کھڑے ہوں گے لیکن نہیں جناب وہ کہیں مجھے دکھائی نہیں دیے، میں واپس آکر اپنی جگہ سو گیا تھا۔ رات کا آخری پہر تھا کہ میں جاگ اٹھا تو سانپ غائب تھے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا میں نے خواب دیکھا ہے یا حقیقت میں ایسا تھا، اسی کش مکش میں باہر نکلا اور وضو کرکے جب واپس آیا تو وہ وہاں موجود تھے۔ یہ تو ایک واقعہ سنایا ہے جی! رب تعالٰی نے چاہا تو اور بھی بیان کرے گا فقیر۔ پھر وہ سورج بھی طلوع ہوا جب فقیر کی مہمان داری ختم ہوگئی تھی، کھانا بنانے کی ذمے داری اسے سونپ دی گئی اور پھر تو چل سو چل۔ فقیر پر بابا جی کُھلتے چلے جارہے تھے، مسکراتے، بات کرتے تو راز ہائے کائنات کھولتے، خوش بُو پھیلی رہتی ان کی، فقیر ان سے بلا تکلّفہر بات کرسکتا تھا، ہم رات کو اکثر باہر گھومتے اور نہ جانے کہاں کہاں نکل جاتے، فقیر حیران ہوتا تو وہ اور حیران کرتے، پہلے کسی الجھن میں خود ڈالتے اور پھر اس کی سلجھن بتاتے، عجب رنگ و روپ تھا بابا جی کا۔ وہ رب تعالٰی کی کائنات کے اسرار کو جانتے تھے اور خدا کے عطا کیے ہوئے نُور سے دیکھتے تھے۔ فقیر کبھی کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے: ابھی اسی وقت چاہیے یا تم مجھے کچھ وقت دے سکتے ہو، اور میں ناہنجار اکثر انہیں امتحان میں ڈال دیتا تھا اور پھر جب وہ پوری ہوجاتی تو حیرانی میرے سامنے ناچتی کہ اس وقت یہ کیسے ممکن ہوا، لیکن جی ہوا ایسا اور کئی بار۔

ایک دن ہمارے سامنے ایک کار آکر رک گئی اور اس میں سے حنیف بھائی اور وہ ماہ وش نکلے۔ حنیف بھائی ماتم کرتے ہوئے فقیر سے لپٹ گئے، بس یہ کہتے جاتے تھے، چھوڑ گئے ناں وہ بھی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ !

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

براستہ سڑک گلگت سے پنڈی آنا کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں

$
0
0

(قسط نمبر 13)

میں نے گلگت سے راولپنڈی واپس آنے کے لئے پی آئی اے پر ۶۲ فروری کی بکنگ کرا رکھی تھی۔بیس فروری سے موسم خراب ہونا شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ گلگت سے راولپنڈی آنے والی پرواز سردیوں میں صبح سوا سات بجے اور پندرہ مارچ کے بعد صبح چھ بجے روانہ ہوتی ہے۔گلگت سکردو اور چترال جیسے مقامات پر ملازمت کے لئے آنے والے لوگوں نے چھٹی پر گھرواپس نہ بھی جانا ہو تو اُن کی نظریں ہر صبح آسمان کا طواف کرتی ہیں۔کہ موسم کیسا ہے؟

پرواز ہو سکے گی یا نہیں؟کیونکہ یہ تینوں شہر سربفلک پہاڑوں میں اس طرح سے گھرے ہوئے ہیں کہ فضا سے پیالے کی مانند نظر آتے ہیں۔اگر ان کے اوپر بادل چھائے ہوئے ہوں تو پائلٹ کو اُترنے میں دقت ہوتی ہے اور کوئی بھی ائرلائن اپنے مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالتی اس لئے پرواز منسوخ ہوجاتی ہے۔

منسوخی سے پہلے علی الصبح آپ کو ایک پیغام کے ذریعے مطلع کیاجاتا ہے۔ اب صبح سوا سات بجے کی پرواز میں سفر کرنے کے لئے آپ کو لازمی طور پر صبح چار بجے اُٹھنا ہوگا۔ تیار ہو کر جب آپ ائرپورٹ پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خراب موسم کی وجہ سے پروازمنسوخ ہوچکی ہے۔

صبح چار بجے اُٹھ کر تیار ہونے سے لے کر یہ اعلان سننے تک کی بھاگ دوڑ ایک ایسی تھکن بن کر آپ پر سوار ہو جاتی ہے جو بیزاری،اُکتاہٹ،جھلاہٹ، بے بسی،جھنجھلاہٹ، ان سب کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سٹیلائٹ کے اس دور میں موسم کی کیفیت اور صورت حال مہینہ بھر پہلے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی آئی اے کے پائلٹس کی مرضی پر بھی پرواز کے ہونے نہ ہونے کا انحصار ہو تا ہے۔

اگر اُن کا مزاج اچھا ہے۔بیوی سے منہ ماری نہیں ہوئی ہے۔کوئی اور پریشانی بھی تنگ نہیں کر رہی تو پھر اچھے بھلے گھنے سیاہ بادلوں میں سے بھی جہاز کو نکال کر وادی میں لے آتے ہیں۔مزاج درست نہ ہو یا دوران پرواز بھی موڈ خراب ہوجائے تو ائرپورٹ کے اوپر سے چکر لگا کر اُتارے بغیر جہاز کو واپس موڑ لیتے ہیں کہ رن وے کیVisibilityٹھیک نہیں تھی۔ جب فروری کے آخری ہفتے کے دوران میں گلگت لگاتار بارش اور پہاڑوں پر برف باری شروع ہوئی توایک طرف موسم مزید سرد ہوگیا تو دوسری طرف پروازیں پے در پے منسوخ ہونا شروع ہوگئیں۔۳۲ سے ۶۲ فروری تک کوئی پرواز نہ ہو سکی۔نتیجہ یہ نکلا کہ میری بکنگ آگے چلتی گئی۔۶۲ فروری کو پی آئی اے کے مقامی دفتر نے بتایا کہ آپ کا ٹکٹ کنفرم نہیں ہو سکے گا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک عرصہ سے گلگت  بلتستان اور چترال کی پروازوں کے لئے ٹکٹ کی کنفرمیشن کراچی سے ہوتی ہے اور یہاں ایک جملہ معترضہ کی گنجائش نکلتی ہے، وہ یہ کہ اگر آپ کو کسی ہنگامی وجہ سے اگلے روز کی پرواز کاکنفرم ٹکٹ درکار ہے، بھلے اس سے پہلے دس روز تک پرواز نہ ہوئی ہو اور ٹکٹ ملنے یا کنفرم ہونے کا کوئی امکان موجود نہ ہو، پھر بھی آپ کنفرم ٹکٹ لے کر سفر کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ آپ کو پی آئی اے کے دفتر(گلگت، سکردو،چترال)اسلام آباد اور پشاور میں اُن اہلکاروں کا پتہ ہونا چاہیئے جو دو ،تین ہزار روپے زائد لے کر آپ کی نشست کنفرم کر دیتے ہیں۔

اس رقم میں سے کچھ حصہ کراچی صدر دفتر میں بیٹھے ہوئے رشوت خوروں کی جیب میں بھی جاتا ہے۔ جو لوگ پندرہ بیس گھنٹے کا سفر کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور جنہیں فوری ضرورت پڑ جاتی ہے وہ زائد رقم ادا کرکے اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ بہرحال چونکہ پروازیں سرے سے ہو ہی نہیں رہی تھیں اس لئے موسم میں بہتری کے آثار نہ پاتے ہوئے میں نے سڑک کے راستے راولپنڈی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے دفتر کے سیلز سیکشن کے انچارج اکبر حسین سے اس کا انتظام کر نے کو کہا کیونکہ وہ ریڈیوپاکستان میں ملازمت کے ساتھ ساتھ گلگت راولپنڈی کے درمیان کار سروس بھی چلاتا ہے۔

اب سڑک کے راستے گلگت سے روالپنڈی جانے میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ گذشتہ دو تین برسوں کے دوران میں چلاس سے آگے بشام تک کے علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے کچھ ایسے اندوہ ناک واقعات پیش آئے تھے جن کی وجہ سے انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ گلگت سے راولپنڈی کے لئے مسافر گاڑیاں صبح چھ بجے سے دس بجے کے درمیان چلا کریں گی۔

اس کے بعد کسی گاڑی کو راولپنڈی کے لئے روانہ ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔دیر سے روانہ ہونے والی کاروں کو کسی حد تک استشنا حاصل تھا کہ لوگ چیک پوسٹوں پر جھوٹ بولتے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں چلاس تک جانا ہے تو انہیں آگے جانے دیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ چلاس گلگت  بلتستان کے ضلع دیامرکا ضلعی صدر مقام ہے اور اس کے آگے صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع اپر کوہستان شروع ہو جاتا ہے۔ ضلع اپر کوہستان میں داخل ہونے کے بعد کسی گاڑی کو آگے جانے سے نہیں روکا جاتا۔ بہرحال اکبر حسین نے ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا کہ ایک کار گھنٹہ بھر میں راولپنڈی کے لئے روانہ ہوگی، اس میں دو سواریوں کی گنجائش ہے۔

میں نے اگلی سیٹ بک کرا لی۔ اگلی سیٹ کے لئے ساڑھے چار ہزار روپے جبکہ پیچھے بیٹھنے والی تین سواریوں سے چار ہزار روپے کرایہ وصول کیاجا تا ہے۔(یہ ذکر 2015؁ء کا ہے۔) گلگت اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی کار سروس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ راولپنڈی ہو یا گلگت، ہر دو جگہوں پر سواریوں کو اُن کے گھروں یا ہوٹلوں سے لیاجاتا ہے، اس لئے گھنٹہ بھر بعد چلنے والی کار کو گلگت کی مختلف آبادیوں سے سواریاںاُٹھاتے اُٹھاتے ساڑھے بارہ بج گئے۔میرا دفتر ریڈیو پاکستان گلگت شہر سے چھاؤنی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جوٹیال کے علاقے میں واقع ہے۔

اس لئے کار جب مجھے لینے آئی تو معلوم ہوا کہ ابھی ایک مسافر نے دنیور سے بیٹھنا ہے۔گاڑی میں موجود مسافروں میں سے ایک میجر صاحب تھے جو گلگت کے رہنے والے تھے اور کھاریاں اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ دینور سے سواری اُٹھانے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر میجر صاحب کو بٹھا دیا گیا تاکہ اُن کی وجہ سے راستے کی چیک پوسٹوں پرآگے جانے میں آسانی رہے۔ میں نے راستے کے لئے درجن بھر کینو خرید رکھے تھے تاکہ بھوک پیاس کی صورت میں پریشانی نہ ہو۔

یاد رہے کہ گلگت میں ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سبزیاں اور پھل دوگنا قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ خیر ہم ٹھیک ایک بجے دوپہر روانہ ہوئے۔ گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد جگلوٹ پہنچے تو میں نے گاڑی رکوا لی تاکہ ظہر کی نماز ادا کی جاسکے۔ نماز ادا کرکے واپس آیا تو میجر صاحب کسی شخص سے محو گفتگو تھے، اُس شخص کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔میجر صاحب نے مجھ سے پوچھنے کا تکلف بھی نہ کیا اوررخصت کرتے وقت کینوؤں کا لفافہ اٹھا کر بچے کے حوالے کر دیا۔ میں حیرت سے اُن کا منہ دیکھتا رہ گیا۔اب راستے میں کسی جگہ اچھے کینو ملنے کی اُمید بھی نہ تھی۔

جگلوٹ سے آگے بونجی کی بستی آئی جہاں ناردرن لائٹ انفنٹری کا سنٹر ہے۔بونجی ضلع استور میں شامل ہے۔یہاں حکومت نے 4500میگاواٹ کا ایک پن بجلی گھر تعمیر کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن اس کی تعمیر کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔بونجی سے کچھ آگے تھلیچی ہے جہاں سے استور کے لئے سڑک مڑ جاتی ہے اور شاہراہ قراقرم راولپنڈی کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔تھیلچی سے کچھ آگے عالم برج ہے جہاں سکردو سے آنے والی سڑک شاہراہ قراقرم سے ملتی ہے۔یہیں وہ منفرد مقام ہے جہاں دنیا کے تین بڑے سلسلہ ہائے کوہ یعنی ہمالیہ،ہندوکش اور قراقرم ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں۔یہیں دریائے سندھ اور دریائے گلگت بھی آپس میں یکجا ہوتے ہیں۔

اس مقام سے پچیس تیس کلو میٹر کے فاصلے پررائے کوٹ برج ہے۔گلگت بلکہ خنجراب سے رائے کوٹ برج تک شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں اسم بامسمیٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ گاڑی ہوا میں تیر رہی ہے۔رائے کوٹ پل پار کرنے کے بعد جب ہم آگے بڑھے تو یہی شاہراہ ریشم شکیب جلالی کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی   ۔

؎ انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔

اُن دنوں پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ گلگت  بلتستان میں بھی بارشیں ہورہی تھیں۔پہاڑوں پر برف باری جاری تھی۔اس لئے جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ ہوچکی تھی۔ سڑک کی بہ حالت کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ انتہائی سست ہوچکا تھا۔ ضلع دیامر کے صدرمقام چلاس سے کم و بیش چالیس کلو میٹر آگے مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ آجاتی ہے۔یہاں دریا ایک تنگ گھاٹی سے گذرتا ہے۔ڈیم کی جگہ کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور جو علاقے ڈیم کی تعمیر کے بعد جھیل میں شامل ہوں گے اُن کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے اور زمینوں کے مالکان کو معاوضے ادا کئے جا چکے ہیں۔

جھیل کا حصہ بننے والے علاقہ میں چلاس شہر کے قریب سے گذرنے والی شاہراہ قراقرم اور اس سے ملحقہ بستیاں اور بنجر زمینیں شامل ہیں۔ داسو ڈیم بھی تعمیر ہونے والے منصوبوں میں شامل ہے اس لئے چلاس سے داسو تک شاہراہ قراقرم کی ازسرنو تعمیرکا کام موجودہ سڑک سے کافی اونچائی پر شروع کیا جا چکا ہے۔دونوں ڈیموں کی زد میں آنے والی سڑک کم و بیش دو سو کلو میٹر طویل ہوگی۔دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ پر پنجاب رینجرز کی ایک چیک پوسٹ بنی ہوئی ہے۔رینجرز کے جوان دریائے سندھ پر رسوں کے ذریعے چرخی کی مدد سے چلنے والے آہنی پنجرے میں بیٹھ کر دریا کے آر پار آتے جاتے اور اس اہم مقام کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

( اسی چیک پوسٹ کو مارچ 2015؁ء کے دوسرے ہفتے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اور رینجرز کے پانچ جوان شدید زخمی ہوئے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی منتقل کیا گیاتھا۔)گلگت سے رائے کوٹ تک شاہراہ ریشم دریائے سندھ کے دائیں کنارے آگے بڑھتی ہے۔رائے کوٹ پُل کے بعد داسو تک دریا اس شاہراہ کے دائیں کنارے ہوجاتا ہے۔رائے کوٹ پُل سے ہی قاتل کہلائے جانے والے پہاڑ نانگا پربت کے دامن میں پریوں کے مسکن فیری میڈوز کو جانے والی کچی سڑک کا آغاز ہوتا ہے جو تاتو گاؤں تک جاتی ہے۔

چلاس اور داسو کے درمیان شاہراہ ریشم ایک جگہ خاصی اونچائی پر جا کر پھر نیچے اُتر آتی ہے۔اس حوالے میرے چچا ائر کموڈور (ریٹائرڈ)نبی بخش پراچہ مرحوم کے خسر فقیر احمد پراچہ نے (جو سکریٹری محکمہ تعمیرات و مواصلات صوبہ خیبر پختونخواکے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے) بتایا کہ اس علاقہ میں جب شاہراہ ریشم تعمیر ہورہی تھی۔

(1966-78) تو اس دوران لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کیپٹن کو ’جو کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں یہاں اس منصوبے سے منسلک اور تعینات تھے‘ پہاڑ پر اوپر آباد گاؤں کی ایک دوشیزہ اچھی لگی جو اپنی بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے آتے جاتے کہیں اس کیپٹن کے سامنے آگئی تھی دل کے ہاتھوں مجبور کیپٹن نے جب رشتہ مانگا تو اُس لڑکی کے والدین نے گاؤں والوں کے مشورے سے ایک شرط عائد کی کہ زیر تعمیر شاہراہ ہمارے گاؤں سے گذار دیں اور رشتہ لے لیں۔ کیپٹن صاحب کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ طے شدہ نقشے سے انحراف کرکے سڑک کا رُخ اپنی محبوبہ کے گاؤں کی طرف موڑ دیتے۔ لیکن خوش قسمتی سے اُس کیپٹن کی یونٹ کے بٹالین کمانڈر بھی دل والے تھے جنہیں اس ساری روداد کا علم ہو چکاتھا۔ بٹالین کمانڈر نے منظور شدہ نقشہ بیسویں صدی کے اس فرہاد کے لئے تبدیل کیا۔ سڑک کو کافی اونچائی پر لے جاکر اپنے کپتان کی ہونے والی دلہن کے گاؤں تک پہنچایا اور یوں ایک کوہستانی چرواہے کی بیٹی لاہور والوں کی بہو بن گئی۔

خراب سڑک کا یہ سلسلہ داسو تک چلتا ہے۔اب رائے کوٹ برج سے داسو تک یہ فاصلہ تواڑھائی پونے تین سو کلو میٹر بنتا ہے لیکن اسے طے کرتے کرتے مسافروں کا صبر جواب دے جاتا ہے۔کمر کے مہرے ہل جاتے ہیںاوروہ تختہ ہوجاتی ہے،گھٹنوں میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ پیٹ میں چوہے دوڑنے لگتے ہیں،پیاس سے حلق میں کانٹے اُگ آتے ہیں اور نظریں کالے پتھروں اور چٹانوں کو دیکھتے دیکھتے پتھرا جاتی ہیں۔ داسو شہر سے پہلے ثمر نالہ پر کچھ ہوٹل بنے ہوئے ہیں جہاں مسافروں کے لئے کھانا پینا دستیاب ہے۔

ان ہوٹلوں کو منور کرنے کے لئے اسی نالے پر بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن لگے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم عصر کی نماز پڑھنے اور کھانا کھانے کے لئے رک گئے۔ گلیشئر سے نکلنے والے نالے کے کنارے ہوٹل کے تنور کے اردگرد لگی نشست گاہ میں بیٹھ کر کھانے کا جو لطف آیا وہ شاید بڑے شہروں کے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانوں میں بھی نہ ہو۔ ثمر نالہ سے روانہ ہوئے تو داسو پہنچنے سے پہلے ہماری گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔ فاضل ٹائر لگانے کے بعد ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ چونکہ رات سر پہ ہے اور سفر طویل ہے اس لئے قریب ترین آبادی آنے پر پنکچر لگوا لینا۔داسو پہنچے تو شام گہری ہوچکی تھی ۔عشا ء کا وقت ہوچلا تھا۔لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ باوجود اس قدر اہم شاہراہ پر واقع ہونے کے داسو کے تمام پنکچر لگانے والے اپنی دکانیں بند کر چکے تھے۔

داسو شہر سے پہلے دریا پر بنا ہوا پُل سڑک کو دریا کے دائیں کنارے لے آتا ہے۔ داسوسے آگے ایک پیٹرول پمپ کے قریب سڑک کے کنارے ایک کھوکھا بنا ہوا تھا جس کے باہر پنکچر لگانے والوں کا عالمی ٹریڈ مارک یعنی پرانے ٹائر رکھے ہوئے تھے۔ کھوکھا اندر سے بند تھا۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص نے باہر جھانک کر دیکھا کہ کون اُس کے آرام میں مخل ہوا ہے۔ڈرائیور نے اُس سے درخواست کی کہ وہ ٹیوب لیس ٹائر میں پنکچر لگا دے۔موصوف نے بادل نخواستہ پنکچر لگانے کی حامی بھری۔ جب اس نے ٹائر دیکھا اور اسے ہوا بھر کے چیک کیا  تواُس نے کہا کہ جس جگہ پنکچر ہوا ہے وہاں پنکچر لگانا ممکن نہیں ہے البتہ آپ چاہیں توایک نئی ٹیوب اسی میں ڈال کر اپنا گذارہ چلا سکتے ہیں۔

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ڈرائیورنے وہ ٹیوب خرید لی۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹیوب کا سائز دیکھا نہیں جا سکا۔ ساڑھے تین سو روپے کی ٹیوب آٹھ سو روپے میں خرید کر فاضل ٹائر اُتار کر اس کی جگہ نئی ٹیوب والا ٹائر لگا کر جب ہم داسو سے روانہ ہوئے تو گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد وہی ٹائر دوبارہ پنکچر ہوگیا۔ ٹائر تبدیل کرنے کی مشقت جھیلنے کے بعد ڈرائیور نے پتن آکر دم لیا جو ضلع لوئر کوہستان کا صدر مقام ہے۔ یہاں ایک پنکچر والے کی دکان کھلی تھی۔

اُس نے بتایا کہ آپ کی گاڑی کا ٹائر 13سائز کا ہے اور اس میں لگی ہوئی ٹیوب12سائز کی ہے اور اس کی کوالٹی بھی انتہائی ناقص ہے۔پتن والی دکان میں نئی یا پرانی ٹیوب نہیں تھی اس لئے مجبوراً ناقص ٹیوب ہی میں پنکچر لگوا کر ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ اب اس ٹائر کو فاضل سمجھ کر کار کی ڈگی میں رکھ لو اور اللہ کا نام لے کر آگے چلو۔ پٹن سے بشام تک کا فاصلہ 65 کلو میٹر ہے اور سڑک نئی اور بہتر بن چکی ہے۔ ضلع اپر کوہستان شروع ہوتے ہی جگہ جگہ کٹی ہوئی عمارتی لکڑی کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔

یہ سلسلہ بشام تک جاری رہتا ہے۔لاکھوں مکعب فٹ قیمتی عمارتی لکڑی جس کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے بارشوں اور دھوپ کی نذر ہو رہی ہے۔بشام صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کا ایک معروف قصبہ ہے۔جس کا نام پہلی بار1973؁ء میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے مشہور ہوا تھا۔بعد میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر مکمل ہوئی تو گلگت  بلتستان اور چین کا سفر اختیار کرنے والے سیاحوں اور تاجروں کے لئے آتے جاتے ہوئے بشام میں رکنا ایک مجبوری بن گیا کیونکہ یہ قصبہ راولپنڈی اورگلگت کے درمیان واقع ہے۔

ایندھن بھروانے،مسافروں کے کھانے پینے اور نماز کی ادائی کے لئے رکی ہوئی گاڑیوں کی طویل قطاریں بشام میں ہر وقت دیکھی جا سکتی ہیں۔کسی دور میں بشام سمگل شدہ اشیاء کا بہت بڑا مرکز تھا۔افغانستان کے نام پر دنیا بھر سے آنے والاسامان تعیش باڑہ اور لنڈی کوتل کی طرح بشام میں بھی دستیاب تھا۔اسی طرح چین سے آنے والے برتن،کپڑا اور دیگر اشیاء بھی ملتی تھیں۔اب توسابق اور موجودہ حکمرانوں کے طفیل پورا ملک ہی باڑہ مارکیٹ بن چکا ہے۔بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں بسنے والے ہم بیس بائیس کروڑ لوگ تمام کے تمام غیرملکی اشیاء کے صارفین میں تبدیل ہو چکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

ہمارے اپنے ملک کے کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ پالش کی ڈبیا سے لے کر گاڑیوں اور طیاروں تک ہر شے ہمیں غیر ممالک سے چاہیئے۔جوتے بنانے والے معروف کارخانے اب لاہور اور گجرات میں اپنے کارخانے بند کرکے اپنا مال چین سے بنوا کراپنی مہریں لگا کر بیچ رہے ہیں۔ کچومر عوام کا نکل رہا ہے۔جو نئے جوتوں کو تین سے چھ ماہ کے عرصے میں ٹوٹتا اور بکھرتا دیکھ کرپھر نئے جوتے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی حالت اونی کپڑوں کی ہے۔بنوں وولن ملز،لارنس پور اور اسی نوعیت کی دیگر ملوں کا گرم کپڑا تین سے چار ہزار روپے جوڑا ملتا ہے۔اسی طرح کا اونی کپڑا چین سے آکر بازاروں میں ہزار بارہ سو روپے فی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔

سوتی اور مکس کپڑوں میں بھی چین سے آنے والا کپڑا سستا اور ہر جگہ دستیاب ہے۔سلائی مشینوں۔سایئکلوں،موٹر سایئکلوں سے لے کر بجلی سے چلنے والی مختلف اشیاء جبکہ ، کھانے پینے کی چیزوں میں سبزیوں،پھلوں،دالوں اور مصالحہ جات تک بلکہ جس چیز کا ذکر کریں یا نام لیں وہ آپ کو چین کی بنی ہوئی،چین میں پیدا کی ہوئی کم قیمت میں دستیاب ہوگی اور ملک کی اپنی صنعت،تجارت،زراعت ،مقامی تاجر،کاشتکار،کسان اورباغبان تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔

اگر برسراقتدار لوگ ملک کے سارے علاقوںکو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتے۔ ترقیاتی منصوبوں، نئی صنعتوں کے قیام، جدید ذرائع آمدورفت کی تعمیر اور بحالی ، موٹر ویزکی تعمیر، قومی و بین الصوبائی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت، نئی صنعتی بستیوں کے قیام، روایتی اور فنی تعلیمی سہولیات کی فراہمی،ریلوے نیٹ ورک کی بحالی یا اسی نوعیت کا کوئی بھی کام، ہر سرگرمی ایک ہی خطے سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجائے تو پھر ایسی ترقی کے ثمرات ملک بھر کے لئے نہیں ہوتے۔نہ ہی وہ حکومتیں پنپ پاتی ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سی پیک کے مختلف منصوبوں میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو جس طرح سے نظر انداز کیا اُس کا ذکر کرنا اب لاحاصل ہے۔ جب چین کی حکومت نے جغرافیائی حقائق اور فاصلوں کی طرف توجہ مبذول کرائی اور عوامی حلقوں کی طرف سے احتجاج کی آوازیں زیادہ پُرشور ہونے لگیں تو بادل نخواستہ نواز حکومت نے مغربی روٹ پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا اور یہاں بھی ڈنڈی ماری اور خیبرپختونخوا کے ایک بڑے علاقے کو سی پیک کے ثمرات سے محروم رکھ کر اپنا خبث باطن عیاں کیا۔اور حویلیاں سے آنے والی موٹر وے کو پشاور موٹر وے سے منسلک کرنے کے بجائے ہکلہ سے یرک 465کلومیٹر تک کا طویل فاصلہ صوبہ پنجاب کے اضلاع اٹک اور میانوالی سے گذار کر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچانے کا کام شروع کیا۔

جس پر تادم تحریر کام مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پنجاب میں ترقی دیکھنی ہو تو لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، ساہیوال، اوکاڑہ ،فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی اور جہلم میں دیکھی جا سکتی ہے۔

میانوالی، اٹک، بھکر، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لودھراں، لیہ، بہاولنگر، مظفر گڑھ، ملتان، رحیم یار خان اوربہاولپور کے عوام ترقی کے اُن ثمرات سے اُسی طرح محروم ہیں جس طرح سے صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع کوہاٹ، ہنگو،کرک،لکی مروت،بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان ، لوئر دیر،اپر دیر،چترال،لوئر کوہستان،اپر کوہستان اور شانگلہ صوبائی دارالحکومت پشاور،مردان،چارسدہ،سوات ،ایبٹ آباد،ہری پوراورصوابی کے مقابلے میں ہمیشہ سے نظرانداز کئے جاتے رہے ہیں۔ایک خاص ذہنیت آسیب کی طرح پاکستان پر چھائی ہوئی ہے۔جس کے مطابق مختلف علاقوں کے قدرتی وسائل تو سارے ملک کے لئے ہیں لیکن جب نئی شاہراہوں، تعلیم،صحت،روزگار کے مواقع،رسل و رسائل،توانائی کے نئے منصوبوں کی بات ہو تو ہر صوبے میں مخصوص علاقوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور پہلے سے محرومیوں کے شکار علاقے اور اُن میں بسنے والے عوام نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔

عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کا سلسلہ تو ایک عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اس میں شدت انتخابات سے کم وبیش ایک برس پہلے آجاتی ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ نظر انداز کئے جانے والے علاقوں میں کئے گئے انتخابی جلسوں کے دوران میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔مثال کے طور پر اکتوبر 2016؁ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کوہاٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کوہاٹ راولپنڈی ریلوے سروس کی بحالی کا اعلان کیا تھا جو گذشتہ چار برس سے بند پڑی تھی۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں صرف کوہاٹ ہی ہے جس کا رابطہ راولپنڈی کے ساتھ سڑک اور ریل دونوں ذرائع سے ہے۔کوہاٹ راولپنڈی ریل کار اور ٹرین سروس انتہائی کامیابی سے چلتی رہی۔ لیکن غنڈہ گرد،قبضہ گیراور سینہ زور ٹرانسپورٹ مافیا اور ر یلوے کے بدعنوان عناصر کی ملی بھگت سے اس ٹرین سروس کو خسارے کی نذر کرکے بند کرا دیا گیا اور یوں جنوبی اضلاع کے لاکھوں عوام خاص طور پر کوہاٹ شہر اور گردونواح کی آبادی اور یہاں پاک فوج اور پاک فضائیہ میں تعینات عملے کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے اعلان کو سال بھر سے زائد ہوچلا ہے۔لیکن یہ ٹرین سروس بحال نہیں ہو پائی ہے۔(یہ ٹرین مسلم لیگ (ن)کی حکومت ختم ہونے کے بعد بحال ہوئی۔لیکن پاکستان ریلوے کے ارباب اختیار پورے پشاور ڈویژن میں سب سے زیادہ منافع بخش راولپنڈی ۔کوہاٹ ٹرین سروس کے درپے ہیں۔اس وقت کوہاٹ جانے والی ٹرین کے ساتھ لگنے والی سات بوگیوں میں سے چھ زمانہ قدیم کی بوگیاں لگائی جاتی ہیں۔جبکہ ایک بوگی نسبتاً نئی ہوتی ہے۔

ذکر ہورہا تھا بشام کا جہاں سے تھاکوٹ تک کی سڑک بھی نئی بنی ہوئی ہے اس لئے وقت گذرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ تھاکوٹ میں دریائے سندھ پر بنے ہوئے پُل کو پار کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم اور دریائے سندھ کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ پھر ہزارہ ڈویژن کا ضلع بٹگرام اور اس کی بستیاں  بٹل ، شنکیاری وغیرہ یکے بعد دیگرے تیزی سے گذرنے لگتی ہیں۔ پہاڑی موڑوں اور گھنے جنگلوں میں سے گذرتے ہوئے ہماری گاڑی جب مانسہرہ پہنچی تو رات کے دو بج رہے تھے۔ یاد رہے کہ ہم گلگت سے دوپہر ایک بجے روانہ ہوئے تھے۔

گویا تیرہ گھنٹے مسلسل سفر کرنے کے باوجود ہم ابھی راولپنڈی سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر تھے۔ بہرحال دوپہر کا کھانا شام پانچ بجے کے لگ بھگ ثمر نالہ کے مقام پر کھانے کے بعداب کسی ہوٹل پر رکنا لازم تھا۔ ڈرائیور اور تین مسافروں نے رات دو بجے باقاعدہ کھانا کھایا جبکہ میں نے اپنی عادت کے مطابق تنور سے تازہ روٹی لگوا کر چائے کے ساتھ کھائی۔

مانسہرہ میں آدھا گھنٹہ رکنے کے بعد ہم راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئے ۔ اگر یہ دن کا وقت ہوتا تو بٹگرام، شنکیاری،مانسہرہ،ایبٹ آباد،حویلیاں ہری پور،حسن ابدال،واہ کینٹ اور ٹیکسلا سے گذرنے میں ہمیںآٹھ گھنٹے لگ جاتے۔کیونکہ ان شہروں میں گاڑیوں اور لوگوں کے ہجوم کے باعث ٹریفک کی رفتار انتہائی سست ہو جاتی ہے۔

اب ہزارہ موٹر وے مکمل ہوجانے کے بعد برہان انٹر چینج سے مانسہرہ تک پہلے سے آدھے وقت میں پہنچا جا سکتاہے۔لیکن اب موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ موٹر وے عوام کے لئے کھول تو دی گئی ہے لیکن ابھی سروس ایریاز،حفاظتی باڑ،اور راستے کی پوری پوری نشاندہی جیسے کام زیر تکمیل ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کے ایک ہفتے کے اندر اندر درجن بھر گاڑیوں کے جان لیوا حادثات صرف اس لئے رونما ہوئے کہ گاڑیاں چلانے والوں نے تیزرفتاری سے کام لیا تھا۔ بہرحال مانسہرہ سے روانہ ہونے کے تقریباً اڑھائی گھنٹے بعد جب میں اپنے گھر راولپنڈی پہنچا تو تھکن کے مارے سیدھا کھڑا ہونا محال ہو رہا تھا۔ جیسے تیسے کرکے بیگ گاڑی سے اُتارا اورگیراج کا تالہ کھول کر اندر آیا تاکہ سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو۔

گلگت اور راولپنڈی کا فاصلہ 625 کلومیٹر ہے۔ اگر ان دونوں شہروں کے درمیان سیدھی لکیر کھنچی جائے تو یہ فاصلہ275کلومیٹر رہ جاتا ہے۔لیکن قراقرم ،ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوںکی گہری گھاٹیوں، ترائیوں، دروں اور پیچ در پیچ موڑوں سے گذرتے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے یہ شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔جب راولپنڈی تک پہنچتی ہے تو یہ فاصلہ 625کلومیٹر پر پھیل جاتا ہے۔

The post براستہ سڑک گلگت سے پنڈی آنا کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

 سیدناعلیؓ

مولف:ڈاکٹرعلی محمد الصلابی

ناشر: دارالسلام، 36لوئرمال، سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور، 04237324034

خلفائے راشدین کی سیرت امت کے لئے ایک عظیم خزانہ ہے۔ اس میں بڑے لوگوں کے تجربات ہیں، مشاہدات ہیں، خبریں ہیں، امت کے عروج اور غلبے کی تاریخ ہے۔ اس کے مطالعہ سے ہمیں دیکھنے کا موقع ملتاہے کہ کن کن مواقع پر اہل حق کو عروج و ترقی ملی، اس کے اسباب کو جاننے اور جانچنے کا موقع ملتاہے۔

اور پھر جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں تصویر کا دوسرا رخ  بھی نظرآتا ہے اور یہ جاننے کا موقع ملتاہے کہ کب کب امت مسلمہ پستی ، زوال اور تنزل کا شکار ہوئی، کب اسے سیاسی، سماجی اور معاشی میدانوں میں پسپا ہونا پڑا۔اس پستی اور ذلت کے اسباب کو جاننے کا موقع ملتاہے۔

زیرنظرکتاب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؓ کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ ان کے اسم گرامی، حسب و نسب، لقب، ولادت، خاندان، قبیلہ، اسلام اور مکہ میں آپ کے اہم کارناموں اور ہجرت کا تذکرہ۔ قرآن کے سائے میں آپ کا زندگی بسر کرنا اور زندگی پر اس کے اثرات۔ آپؓ کے بارے میں قرآن مجید میں کیا نازل ہوا؟ حضرت علیؓ کا قرآن کریم سے شرعی احکام کے استنباط اور اس کے معانی کے فہم کا اسلوب کیا ہے؟ یہ سب کچھ اس کتاب کا حصہ ہے۔

حضرت علی المرتضیٰؓ  سے متعلق متعدد موضوعات بہت سی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن زیرنظرکتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ایسا بہت کچھ  ہے جو دوسری کتب میں کم ہی نظرآتاہے۔ نبی کریم ﷺ کی مصاحبت اور دوسرے اصحاب کرامؓ سے تعلقات کا بھی ذکر ہے۔  اس میں ایک جرنیل، ایک قاضی اور ایک حکمران کے طور پر آپ کی حیات مبارکہ کا تذکرہ ہے۔

حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت اور پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی شہادت پر بھی مفصل ابواب تحریر کئے گئے ہیں۔ پوری کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوتاہے کہ واقعتا یہ داماد رسول، فاتح خیبر، خلیفہ راشد سیدناعلی بن  ابی طالب ؓ کی تابناک سیرت کا مستند تذکرہ ہے۔آپ کے پاس یہ کتاب ہے تو پھر اس عظیم خلیفہ راشدؓ کی حیات مبارکہ کو جاننے کے لئے کسی دوسری کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

خطبات جمعہ و عیدین

مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد۔۔۔۔۔قیمت: 220 روپے

ناشر: مکتبہ جمال، حسن مارکیٹ، اردو بازار ،لاہور،فون:03008834610

ہرقوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خوشی مناتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جشن منانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس لئے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں جن کے ہاں تہوار اور جشن کے کچھ دن مخصوص نہ ہوں۔اسلام عیدین اور جمعہ کے ایام کو خوشی کے ایام قراردیتاہے لیکن انھیں بھی بے مقصد نہیں رکھتا۔ وہ  اپنے پیروکاروں کو ان ایام کو بھی اصلاح معاشرہ کے لئے استعمال کرنا سکھاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین، صحابہ کرام سمیت امت کے تمام قائدین نے ان مواقع پر ایسے خطبات ارشاد کئے جن سے لوگ اپنی اصلاح کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔

زیرنظرکتاب مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاًعیدالفطر، عیدالاضحی اور جمعتہ المبارک کے مواقع پر ارشاد فرمائے۔ مولانا آزاد عیدین اور جمعۃ المبارک کے خطبات کو معاشرتی اصلاح کا وسیلہ  سمجھتے تھے ان کے نزدیک جمعہ ایک وعظ ہے جس کے لئے خطیب کو مکمل قابلیت کے ساتھ موضوع پر عمیق دسترس ہونی چاہئے۔

یہ خطبات جہاں خطبات کی اصل روح کو اجاگرکرتے ہیں وہاں خطباء، واعظین اور طلبہ کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب ہمارے خطبائے کرام فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر ایسے قصے کہانیاں ہی بیان کرتے رہتے ہیں جو سال کے بارہ مہینوں میں بار بار بیان کی جاتی ہیں۔

ایک عام مسلمان کو بالعموم اور علمائے کرام کو بالخصوص اسلام کا ایسا داعی ہوناچاہئے کہ جو لوگوں کو صرف اور صرف اللہ اور اس کی رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے لئے مائل اور قائل کرتا رہے، جس کی بات میں اس قدر تاثیر ہو کہ لوگوں کے دل ودماغ مسخر ہوجائیں۔ بہرحال خطبائے کرامکو مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطبات سے روشنی حاصل کرنی چاہئے۔

 آیات الٰہی کا نگہبان

مصنف: محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ۔۔۔۔قیمت:600 روپے

ناشر:مکتبہ فروغ اقبال،970، نظام بلاک، اقبال ٹاؤن، لاہور

زیرنظرکتاب کے پیش لفظ میں مصنف نے لکھا:’’ اِس وقت مسلمان علم کے دور بدویت سے گزر رہاہے، اس دور کو ہم صحرائی دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ دُور دُور تک سراب ہی نظرآتے ہیں۔ جو عالم ہے وہ حکیم نہیں، اگرحکیم ہے تو اس کے پاس کوئی منزل ، نہ نشان منزل۔ صحرائے علم پر چھائی کالی رات میں دو چار جگنو اپنی چمک دکھارہے ہیں، جو چلنا چاہتے ہیں انھیں بھی راستہ نہیں مل رہا، اقبال ایسی زوردار بارش سے بھی پیاسی زمین روئیدگی نہیں پکڑسکی۔ رگ تاس میں رس نہیں بھرسکا، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کوشش کو ترک کردیاجائے۔

علم کے اس صحرا میں کھلے ہوئے بے شمار گل لالہ ہیں‘‘۔ اس کے بعد جناب محمد الیاس کھوکھر نے مختلف گل ہائے لالہ کے نام لئے ہیں، تاہم میں اس میں مصنف کا نام بھی شامل کروں گا، جن کے پاس دلِ مضطر ہے، جسے کسی طور بھی چین نہیں۔ وہ فکر اقبال کی شمع لئے مسلسل متحرک ہیں۔’بوستانِ اقبال‘،’ اقبال کا ایوانِ دل‘ اور اب’ آیات الٰہی کا نگہبان‘ کے عنوان سے کتابوں کی صورت میں اس قوم کو راستہ دکھا رہے ہیں۔

یہ کتابیں آج کل لکھی یا مرتب کی جانے والی کتابوں جیسی ہرگز نہیں ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے نیند آتی ہے، بلکہ یہ کتابیں نیندیں اڑا دینے والی ہیں۔ مثلاً اسی کتاب  کو دیکھ لیجئے جس کے نو ابواب ہیں۔’مئے غفلت کا سرمت‘،’ مسلم ناداں‘،’ دیروحرم‘،’ عندلیبِ باغِ حجاز‘،’ اسیرِ حلقہ دام‘،’ اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ‘،’ حاصل کشتِ عمر‘،’ مسلمان۔ خداحافظ‘ اور’اقبال۔فکر اسلام کا ترجمان‘۔کتاب کا دیباچہ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کی ایک تحریر’انسان کی تباہی کا اصل سبب‘ کی صورت میں ہے جبکہ خود مصنف نے پیش لفظ ’علامہ اقبال کیسے تھے؟‘ کے عنوان سے لکھاہے۔

یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ایک شاندار تحفہ ہے جو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں انقلاب برپاکرناچاہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں گے۔

 150مشاہیرِ ادب

مولف: ملک مقبول احمد۔۔۔۔قیمت: ایک ہزار روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور03000515101/03008422518

بھلے وقتوں میں ناشران کتب، محض کتابیں ہی نہیں چھاپتے تھے، کاروبار ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے ادب دوست ہواکرتے تھے جو اپنا تن من دھن اس دوستی کی خاطر قربان کردیتے تھے۔ اسی میں وہ خود بھی بڑے ادیب بن جاتے تھے، وہ ادیبوں کی خدمت اپنے اوپر لازم قراردیتے تھے۔

ملک مقبول احمد اسی اچھے دور کی ایک یادگار ہیں۔ ویسے تو ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں اکثرلوگوں کو اپنے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا جبکہ اچھے لوگ دوسروں کو دیکھتے ہیں، اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ان سے متعارف کراتے ہیں۔ ملک صاحب نے بھی یہ کام کیا،انھوں نے 1954ء میں لاہور میں ایک ا کیڈمی قائم کی جس نے  بہترین کتابوں کو شانداراندازمیں شائع کیا اور اردو ادب کی خوب آبیاری کی۔

اس دوران میں ملک مقبول احمد کا جن مشاہیر ادب سے تعلق رہا، انہی کے خاکے  لکھتے رہے اور  روز انھیں جمع کردیا جو زیرنظرکتاب کی صورت میں سامنے آچکے ہیں۔ ان میں معروف ادیب، ناول نگار،افسانہ نگار،ڈرامہ نگار، شاعر،نعت نگار، نعت خواں، علما، سفرنامہ نگار، صحافی، کالم نگار، دانشور، گلوکار،آرٹسٹ، معلمین، ججز، مترجمین، نقاد، ماہرین تعلیم،مزاح نگار، مورخین، اطباء، محققین، خاکہ نویس اور قانون دان، غرضیکہ زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے رجالِ عظیم  شامل ہیں۔

اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہرفرد ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتاہے جب وہ ڈیڑھ سو روشن ستاروں کو ملک مقبول احمد کی نظر سے دیکھتاہے جبکہ ان میں سے ہرستارہ ایک روشن جہان کی مانند ہے۔یہ کتاب ایک حوالے اور ریفرنس کا کام دے گی اور ادب کے طلبا اس سے مستفید ہوں گے۔ ملک صاحب نے نہایت عرق ریزی، محنت، توجہ اور لگن کے ساتھ ان روشن ستاروں کے بارے میں نہ صرف مستند معلومات جمع کیں بلکہ ان جلیل القدر شخصیات کا دلکش اور دل آویز مرقع پیش کردیا ہے جسے یقینی طور پر دل چسپی سے پڑھاجائے گا۔

نام: پنجر(ناول)

مصنفہ: امرتاپریتم۔۔۔۔قیمت:500روپے

ناشر: بک کارنر، جہلم ، واٹس ایپ: 03215440882

امرتا پریتم کا یہ ناول 1947ء  میں ہونے والی تقسیم برصغیرپاک وہند کے تناظر میں لکھاگیا ہے۔ یہ ایک بے بس عورت کی کہانی ہے جو انتقام کا شکار ہوئی، جو اپنے بطن کے بیٹے کو بھی ماں کا پیار نہ دے سکی، جو تاعمر اپنے گھر ، اپنے کنبے اور اپنے منگیتر کو نہ بھلاسکی، جس نے تقسیم کی خوں ریزی میں خود کو خطرے میں ڈالا اور دوسری عورتوں کی عصمت وعفت کی حفاظت کی لیکن خود… موقع نہ ملنے پر بھی اپنے بیٹے کی خاطر واپس نہ جاسکی… اپنے کنبہ میں، اپنے عزت کے گہوارے میں۔ یہ عورت کون تھی، آپ کو ناول پڑھنے سے بخوبی معلوم ہوگا۔

امرتاپریتم نے اس عورت کے دکھ ، بے بسی کو عین اسی طرح بیان کیا جیسا کہ بیان کرنے کا حق تھا۔ ایک ایک حرف درد اور دکھ سے بھرا ہوا، ایک ایک لفظ انسانوں کو آئینہ دکھاتاہے۔ آپ اس ناول کو ایک نوحہ بھی کہہ سکتے ہیں اور چند لمحے ان مظلوموں کے لئے آنسو بہاسکتے ہیں جو اس داستانِ خونچکاں کا شکار ہوئے۔کہانی کا ایک کردار پارو ہے جو عجیب وغریب مخمصے میں گرفتار ہوتی ہے، ایک کردار رشید کا ہوتاہے جو ایک نیک فطرت انسان ایک لازوال کردار نبھاتاہے۔

ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ ناول پہلے ہی سے پڑھ رکھاہو، ممکن ہے کہ اس ناول پر بننے والی فلم کو دیکھنے والوں میں سے بھی کچھ لوگ زندہ ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد نے دکھ اور درد کی یہ کہانی پڑھی نہ دیکھی۔ انھیں یہ کہانی ضرور پڑھنی چاہئے جو ایک سرمئی دن سے شروع ہوتی ہے جب بوری کے ایک ٹکڑے کو پاؤں کے نیچے دبائے ہوئے پارو مٹر کے دانے نکال رہی ہوتی ہے اور اس کا اختتام بھی پارو کی اس بات پر ہوتاہے جو اس نے اپنے سابقہ منگیتر رام چند سے کہی تھی:

’’ چاہے کوئی ہندو لڑکی ہو، چاہے مسلمان جو بھی لڑکی ٹھکانے پر واپس پہنچ رہی ہے، سمجھو کہ اسی کے ساتھ پارو کی روح بھی ٹھکانے پر پہنچ رہی ہے۔‘‘ پھر پارو کی لاری خالی سڑک پر گرد اڑاتے چل پڑتی ہے۔ اس آغاز اور اختتام کے درمیان میں کیاہے، اسے جاننے اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

 ہچکی لیتا سورج

شاعرہ: گل افشاں رانا۔۔۔۔قیمت:250 روپے

ناشر:دست خط، لائل پور ٹی ہاؤس، فیصل آباد،فون:03346648790

محترمہ گل افشاں رانا ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو وہیل چیئر پر بیٹھ کر آسمان کو ہاتھ لگاتی ہیں، کم ازکم ان کی شاعری اور ان کا فکشن پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوتاہے۔ ان کی شاعری زیرنظرمجموعہ کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے جبکہ ان کے ناول، ناولٹ، کہانیاں اکثر ڈائجسٹوں کی دنیا میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ان کی نثرعمدہ ہے یا غزل اور نظم، یہ فیصلہ کرنا ، مشکل کام ثابت ہورہاہے۔ اگرآپ کی ملاقات اِس بلند ہمت شاعرہ اور ناول نگار سے ہو تو آپ کو ان میں سٹیفن ہاکنگ کا بلندعزم نظر آئے گا، آپ کو وہ’ ہیلن کیلر‘ نظر آئیں گی، آپ ان کی غزل پڑھیں تو وہاں موضوعاتی تنوع ملے گا، تغزل کا خاص نسوانی رنگ نظر آئے گا۔ مثلاً وہ کہتی ہیں:

کبھی ہاتھوں کے بل کھسکو، کبھی کرسی پہ پہیوں سے

تقاضا ہے کہ منزل کی طرف پیہم چلا جائے

٭٭٭

ندی، چاند، تارے ہوں، تم ساتھ ہو

کبھی تم سے یوں بھی ملاقات ہو

بجے سانس کے ساز، ہم چپ رہیں

نظر ہی نظر میں ہراک بات ہو

٭٭٭

کیا کہیں عشق میں جو خسارا ہوا

سب ہوئے پر نہیں وہ ہمارا ہوا

غم کی شب چشمِ نم پھرستم پر ستم

بے کسی بے بسی میں گزارا ہوا

ایک نثری نظم میں انھوں نے ’منافقت‘ کو اِس اندازمیں بیان کیا کہ پڑھنے والا انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ اسی طرح ’بھرم‘ کے عنوان سے ایک نظم میں انھوں نے عورت کی بہادری اور ہمت کو اس خوبی سے بیان کیاہے کہ پڑھنے والا جھوم جھوم اٹھتاہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان کی شاعری اور اس کے پیچھے خیال میں، آپ کو اوریجنیلیٹی ہی نظر آئے گی۔ وہیل چئیر پر بیٹھی شاعرہ کی شاعری کا پہلا پہلا مجموعہ اس قدر زور آور ہوگا، پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ دورحاضر میں ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

تبصرہ نگار: عمرعبدالرحمن جنجوعہ

 پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے

تحقیق وتدوین: فیصل عرفان۔۔۔۔قیمت:400روپے

ناشر: فیصل عرفان، ڈاک خانہ بھنگالی گوجر، تحصیل گوجرخان، فون: 03009835428

معروف صحافی و شاعر انوار فطرت لکھتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے۔ ہماری مشینی زندگی میں جہاں کتابوں کی جگہ موبائل اور کمپیوٹر نے لے رکھی ہے، وہاں ہم لٹریچر خصوصاً علاقائی لٹریچر سے کوسوں دور ہوگئے‘‘۔

میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے فیصل عرفان کی کتاب  ’’پوٹھوہاری اکھانڑتے محاورے‘‘ موصول ہوئی۔ آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو علاقائی زبان پوٹھوہاری سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کتاب کے سرورق سے آخر تک حرف بہ حرف آپ کو پوٹھوہار کی میٹھی زبان اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

زبان کا رشتہ کسی کلچر یا تہذیب سے وابستہ ہوتا ہے، زبان علاقائی ہو، قومی ہو  یا عالمی ، غرضیکہ زبان کوئی بھی ہو اس کے اپنے روز مرہ محاورے اور ضرب الامثال ہی اس کی انفرادی خصوصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے برجستہ اور برمحل استعمال سے جملے اور شعر دونوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ زیرنظرکتاب کی صورت میں جناب فیصل عرفان نے انتہائی مشکل کام ، انتہائی قلیل مدت میں مکمل کیا۔ اس حوالے سے بھی وہ داد کے مستحق ہیں۔

’’پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں محاوروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، سونے پر سہاگہ جو محاورے ہمارے بزرگوں کے ساتھ ہی دفن ہوتے جا رہے تھے، انہیں کتاب میں محفوظ کردیاگیاہے۔ اب خطہ پوٹھوہار کے باسیوں کا فرض ہے کہ وہ ان محاوروں اور ضرب الامثال کو اپنے روزمرہ استعمال میں لائیں۔ صرف اسی صورت میں زبانیں زندہ رہتی ہیں، دولت مند ہوتی ہیں اور بڑی زبان کا درجہ حاصل کرتی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ  زیرنظرکتاب خطہ پوٹھوار سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ایک قیمتی دولت کی حیثیت رکھتی ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

بموں نے اُگایا باغ

$
0
0

یہ 20 ستمبر1940 کی بات ہے کہ ہٹلر کی فوج نے چھے سالہ جنگ کے بعد پولینڈ پر یلغار کردی تو اس کے بعد ایک جرمن طیارے نے جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن کے اوپر پہنچ کر اس شہر پر بم گرادیا اور یہ فضائی حملہ بھی اسی یلغار کا ہی ایک حصہ تھا جس کا مقصد لندن میں تباہی و بربادی پھیلانا اور اس شہر کو دنیا کے نقشے سے نیست و نابود کرنا تھا۔

اصل میں اس جرمن لڑاکا طیارے کا ہدف تو ویسٹ منسٹر کیتھیڈرل یا چرچ تھا، مگر اس موقع پر غالباً لندن والوں کی خوش قسمتی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا، کیوں کہ وہ بم تو اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکا، بلکہ اس طیارے کا پائلٹ trajectory کے حساب کتاب میں گڑبڑ کرگیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فضا سے زمین پر پھینکا گیا وہ بم اس چرچ پر تو نہ گرسکا اور نہ ہی اسے نشانہ بناسکا، بلکہ یہ کیتھیڈرل اور مارفیٹ ٹیرس کے درمیان میں ایک choir کے درمیان اس جگہ میں جاگرا جہاں خاصی جگہ خالی تھی، اور اس بم کے پھینکے جانے کے نتیجے میں اس قدر زور دار دھماکا ہوا کہ وہاں ایک بہت بڑا گڑھا پڑگیا اور بعد میں نشان کے طور پر اس کا بھی صرف دہانہ باقی رہ گیا۔

اب ہم بات کرتے ہیں اس crater یعنی اس دہانے کی جو وہاں نمودار ہوا تھا، وہ دہانہ اس جگہ پر آنے والے موسم بہار تک ایسے ہی برقرار رہا، یعنی اس میں نہ کوئی تبدیلی ہوسکی اور نہ ہی مزید کوئی رد و بدل ہوسکا، پھر اس کے بعد اس چرچ کے کیئر ٹیکر مسٹر ہیز نے وہاں ایک باغ یعنی سرسبز و شاداب گارڈن بنانے کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کردیا اور اس بارے میں باقاعدہ غور و خوض بھی شروع ہوا کہ آیا اس جگہ ممکنہ طور پر کوئی باغ بن سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ کیا اس باغ کو مقامی لوگ پسند بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ یہ باغ مقامی لوگوں کی پسند پر پورا نہ اترسکے۔ پھر یہ بحث چلتی رہی، مگر اس کا کوئی فوری نتیجہ نہ نکل سکا۔

٭دی ویسٹ منسٹر کیتھیڈرل کریٹر گارڈن:

ہماری اس دنیا نے اب تک جو بھی تباہ کن اور عظیم جنگیں دیکھی ہیں، وہ اس دنیا کے لیے بڑی تباہی اور بربادی لے کر آئی تھیں اور ان جنگوں کی وجہ سے ہماری دنیا تباہی کے بعد ترقی کی دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے رہ گئی تھی، بلکہ وہ دوسرے ملکوں کی طرح خود بھی تباہی کا شکار ہوئی تھی۔ بالکل ایسا ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ہوا تھا، یہ جنگ بھی پہلی جنگ عظیم کی طرح ساری دنیا کے لیے خوراک وغذا، ملبوسات اور دیگر چیزوں کی قلت لے کر آئی تھی اور اس کمی کے پوری دنیا پر اور اس میں رہنے والے لوگوں پر نہایت سنگین قسم کے اور مضر اثرات مرتب ہورہے تھے۔

لوگ بے چین اور پریشان تھے، ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان چیلنجز سے نمنٹنے کے لیے کیا کریں، وہ کون سی حکومت عملی اختیار کریں تاکہ ان کی جان ان مسائل سے چھٹ سکے اور وہ بھی اطمینان و سکون کا سانس لیتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ ان کی زندگیوں سے امن، سکون اور چین ختم ہوچکا تھا، اور متعدد گھرانے ایسے تھے جن کی حکومت ان کی مدد کرتی اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی، انہیں اپنی خوراک اور سبزیاں اگانے میں ان کا ساتھ دیتی تھی جس کے لیے مذکورہ حکومتوں نے ان لوگوں کو زمین کے چھوٹے چھوٹے پلاٹس بھی دیے تھے جن کے عقبی حصوں میں وہ سبزیاں وغیرہ اگالیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے قریبی کھیلوں کے میدانوں میں اور یہاں تک کہ عوامی پارکس تک میں ان کی سبزیاں کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔

ان تمام باغات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور انہیں عوام الناس نے ’’وکٹری گارڈنز‘‘ کہہ کر پکارا، یہ ایسی ٹرم تھی جس کو سب سے پہلے جارج واشنگٹن کارور نے متعارف کرایا تھا، جارج واشنگٹن کارور ایک امریکی زرعی سائنس داں تھا اور اپنے کام میں بڑا ماہر بھی تھا۔ ان وکٹری گارڈنز کے ذریعے اس وقت کی حکومت نے بلاواسطہ جنگ سے متاثر ہونے والوں کی ہر طرح سے مدد کی، انہوںنے انہیں مالی امداد بھی دی اور مادی امداد بھی فراہم کی، یہ وکٹری گارڈنز صرف باغات نہیں تھے۔

بلکہ یہ تو مایوس اور دل شکستہ انسانوں کو مایوسی اور دل شکستگی سے بچاتے تھے اور ان کے اندر نیا حوصلہ، نیا جذبہ اور نیا ولولہ پیدا کرتے تھے۔ انہیں مایوسی کے گرداب سے باہر نکالتے تھے اور ایک نئے اور انوکھے جہان کی سیر کراتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب یہ مالی اور گارڈنرز اپنے باغوںمیں خود محنت کرتے، اپنا پسینہ بہاتے تو ان کے اندر بھی عجیب سا احساس جلوہ گر ہوتا تھا اور وہ خود کو پہلے سے زیادہ متحرک، چوکس اور توانا محسوس کرتے تھے، کیوں کہ اس سارے کام میں ان کی اپنی محنت بھی شامل ہوجاتی تھی اور بعد میں ان کی اسی محنت کا انعام انہیں اس پیداوار کی شکل میں ملتا تھا جو بعد میں ان کے سامنے ان کے اپنے کھیتوں سے لاکر رکھی گئی ہوتی تھی۔

پھر ایک تحریک چلی جس کا عنوان تھا:“Dig for Victory”

اس تحریک نے رفتہ رفتہ اسپیڈ پکڑی اور اس کے نتیجے میں یہ تحریک یعنی “Dig for Victory”پورے یورپ اور امریکا بھر میں پھیل گئی جس کے نتیجے میں برطانیہ میں بہت سی غیراستعمال شدہ زمین جو عام طور سے ریلوے لائنوں کے ساتھ ساتھ واقع تھی یا دوسرے آرائشی باغات اور لانز بھی فارم لینڈ میں بدلتے چلے گئے۔ ان کے علاوہ کھیلوں کے میدان اور گالف کورسز کے بارے میں بھی معلومات جمع کیں، مگر انہیں کھودنے یا ان میں کھدائی کرنے کے بجائے، انہیں بھیڑ بکریوں کی چراگاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں لان کا ایک سیکشن ایسا بھی تھا جس میں ہل چلایا گیا اور پھر اس میں مختلف سبزیاں بودی گئیں، جب کہ البرٹ میموریل کے شیڈ میں پیاز اگائی گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بکنگھم پیلیس اور ونڈسر کیسل میں سبزیوں کے گارڈن ہیں۔

٭ dig for victory:

صرف مسٹر ہیز ہی وہ واحد انسان نہیں تھے جنہوں نے تباہی و بربادی کے ایک عمل کے دوران ایک ایسا موقع تلاش کیا تھا جب وہ بہت کچھ کرسکتے تھے۔

ایک دوسرے صاحب مغربی لندن کے رہنے والے تھے جن کا گھر اس بم سے بال بال بچا تھا۔ اس کے نتیجے میں بننے والے دہانے نے وہاں ایک باغ کی راہ ہموار کی تھی جہاں انہوں نے پھول بھی اگائے اور سبزیاں بھی۔ ایسے ہی اچھے تعلقات اور معاملات ویت نامیوں کے درمیان اس وقت بھی قائم ہوئے جب ان کے درمیان تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

ویت نام جنگ کے دوران جو لگ بھگ دو دہائیوں تک جاری رہی، ریاست ہائے متحدہ امریکا نے ویت نام، لاؤس اور کمبوڈیا پر (مشترکہ طور پر)7ملین ٹن بم گرائے، جو اس سے لگ بھگ تین گنا سے بھی زیادہ ہیں جو امریکا نے یورپ اور ایشیا پر تمام جنگ عظیم دوم کے دوران گرائے تھے۔ ان ملکوں میں اس بمباری کے باعث پڑنے والے گڑھوں اور دہانوں میں یہاں کے دیہی افراد نے پانی کے تالاب بنالیے جن میں مچھلیاں پالنے لگے۔ اس طرح جرمن بمباری نے ایک طرف تو متاثرہ ملکوںکو باغات کے تحفے دیے اور دوسری جانب مچھلی کے فارم بھی فراہم کردیے، گویا یہ بمباری متاثرہ ملکوں کے لیے نیک فال ثابت ہوئی اور بجائے اس کے کہ وہ اس کا کوئی منفی اثر لیتے، بلکہ انہوں نے اس کا مثبت اثر لیا اور اس کی مدد سے ترقیاتی امور انجام دیے اور پھر آگے بڑھتے چلے گئے۔

The post بموں نے اُگایا باغ appeared first on ایکسپریس اردو.

بچھو بوٹی کے حیران کن فوائد

$
0
0

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’فطرت کے حسن و جمال کی پہچان کا راستہ جنگل سے ہو کر گزرتا ہے‘‘۔ بلاشبہ جنگلات قدرت کی بہترین صناعی کا مظہرہیں۔ تا حد نگاہ سر سبز و شاداب پودے‘ درخت‘ پتے دیکھنے والے کو اپنے سحر میں گرفتار کر لینے کا ہنر رکھتے ہیں۔

اسے مقامات جہاں سبزہ ہو ا پنے اندر ایک عجیب سا سکون سموئے ملتے ہیں جنہیں کھوجنے والے ہر گز تہی داماں نہیں رہتے بلکہ جب بھی وہاں سے اٹھتے ہیں ذہنی و قلبی سکون کو ہمدم پاتے ہیں۔ پودوں اور سبزے کو دیکھ کر جہاں ایک فرحت بخش احساس ہوتا ہے وہی ان پودوں میں چھپی جڑی بوٹیاں اپنے اندر بے شمار فائدے سمیٹے ہوتی ہیں۔

قدرت کی تخلیق کردہ ہر شے میں حکمت کافرما ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ خود ساختہ طور پر پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں بے کار ہوتی ہیں اور لوگ انہیں فالتو تصور کر کے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ عام سمجھی جانے والی ان جڑی بوٹیوں میں بے پناہ افادیت چھپی ہے ،کہ اشیاء ضرورت کی تیاری سے امراض کے علاج تک استعمال ہوتی ہیں۔

قدیم وقتوں میں علاج جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا تھا۔ خطرناک سے خطرناک مرض کا علاج طبیب جڑی بوٹیوں کی مدد سے کرتے ۔ وقت گزرتا گیا اور جڑی بوٹیوں کے استعمال کی جگہ باقاعدہ مغربی طرز علاج نے لے لی۔ لیکن قدرتی اجزاء سے تیار کردہ دواؤں کی حیثیت مسلمہ ہے۔ بھلا خالص اور مصنوعی برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ آج کے دور میں اگر دوائی کو جانچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جہاں فائدہ دیتی ہیں وہیں ان کے نقصانات کی فہرست بھی لمبی ہے مگر قدرتی اجزا  سے تیار کردہ ادویات کے فوائد،نقصانات پہ سبقت لے جاتے ہیں۔ ہر موسم میں میسر بچھو بوٹی اپنے اندر بے پناہ افادیت رکھتی ہے۔

یورپ‘ ایشیا‘ افریقہ اور امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ اس کی لمبائی عموماً 3 فٹ سے 7فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں کلاں اور خورد دونوں کا تعلق پودوں کے ایک ہی خاندان Urticaceae سے ہے۔ اس کے پتوں اور تنے پہ کانٹے نما چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں جو انسانی جسم کو چھو لیں تو شدید قسم کی خارش لگ سکتی ہے جس کا دورانیہ ایک روز سے بڑھ کر کئی روز پر محیط ہو سکتا ہے۔ بچھو بوٹی صدیوں سے دیسی ادویات‘ کھانے‘ چائے اور صنعتی خام مال کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔

ادویات میں استعمال

بچھو بوٹی کو سوزش اور ورم کے علاج کے لئے انتہائی مفید سمجھا جاتا ہے تو وہیں اسے موسمی الرجی کے علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دسویں صدی میں اسے شیر افزا (دودھ میں اضافہ کرنے والی) دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

کیونکہ اس میں موجود Galactagogue نامی مادے انسان اور جانوروں کے جسم میں دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسی لئے جن خواتین کی چھاتی میں کم دودھ ہوتاہے انہیں بچھو بوٹی استعمال کرائی جاتی اور دودھ دینے والے جانوروں کے چارے میں اسے شامل کیا جاتا۔ میڈیکل نیوز ٹوڈے (Madical News Today) میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں محقیق ارون کا نڈولہ کہتے ہیں کہ ویسے تو بچھو بوٹی کے بے شمار استعمالات ہیں اور اسے مقفی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ خدشات بھی وابستہ ہیں۔

اس کی افادیت کو سند بخشنے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ قدیم تہذیبوں میں اسے مختلف امراض کے علاج کا ذریعہ تصور کیا جاتا تھا جیسے کہ مصر میں ورم جلد کے لئے شافی سمجھا جاتا۔ ویسے تو اس ضمن میں دو سو سے زائد جلدی بیماریاں آتی ہیں لیکن ان سب کو جلدی امراض کا نام دیا جاتاہے جس میں جلد پہ سوزش‘ خارش‘ ورم‘ سرخی اور درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچھو بوٹی میں ایسے اجزاء موجود ہیں جو کہ درد کو کم کرنے اور جلد پہ ورم کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ یہ جلدی امراض رفع کرنے اور رفع درد میں معاون ہے۔ تحقیق میں جلدی امراض سے متاثرہ افراد کے ایک گروہ سے جب تین ماہ بعد نتائج حاصل کئے گئے تو وہ حیرت  انگیز تھے۔ کیسے؟ جن افراد کو بچھو بوٹی سے تیار کردہ دوا استعمال کروائی گئی ان میں جلدی امراض کی شدت میں کمی آئی بانسبت ان کے جو دوسری ادویات استعمال کر رہے تھے۔

سن 2016ء میں ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچھو بوٹی سے تیار کردہ مرہم درد کش دوا ہونے کے ساتھ ورم کو ختم کرنے میں مدد گار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچھو بوٹی سے تیار کردہ ادویات اور کریمیں اسے ضمن میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ ورم کے علاوہ بھی دوسرے جلدی امراض کے لئے بچھو بوٹی سے علاج کرنے میں مہارت حاصل کر سکیں۔

Benign Prostatic Hyperplasia کا علاج

مردوں میں پروسٹیٹ گلینڈ کا بڑھ جانا ایک خطرناک اور تکلیف دہ مرض ہے جس کے باعث پیشاب کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اور خصوصاً رات کے وقت بار بار اس کی حاجت محسوس ہوتی ہے اس بیماری کو طبی زبان میں BPHیعنی Benign Prostatic Hyperplasia کا نام دیا گیا جس سے متاثر ہونے والے افراد کی عمر عموماً 40برس سے زائد ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کینسر کی ہی ایک شکل ہے مگر ایسا بالکل بھی نہیں۔ اس مرض میں پیشاب کی نالی تنگ ہونے کی وجہ کوئی رسولی نہیں بلکہ گلینڈز کا بڑھ جانا ہے۔

جو کہ عموماً ورم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس مرض کے علاج کے لئے بچھو بوٹی کا استعمال کروایا تو مریضوں میں واضع تبدیلی محسوس ہوئی اور انہیں BPHکی علامات کو کم کرنے میں مدد ملی۔ البتہ اس حوالے سے کوئی بھی علاج بذات خود کرنا درست نہیں بلکہ اپنے معالج کے مشورے سے بچھو بوٹی استعمال کی جا سکتی ہے۔

شوگر کا توڑ

آج کے دور میں کوئی شخص ہی ایسا ملے گا جو کہ شوگر کا شکار نہ ہو۔ بلڈ شوگر کے مریضوں کی تمام عمر دوائیاں لینے اور انسولین لگاتے گزر جاتی ہے۔2013ء میں شوگر ٹائپ2کے مریضوں پر تحقیق کی گئی جس میں تین ماہ تک انہیں دوا کے ساتھ بچھو بوٹی سے تیار کردہ کیپسول بھی کھلائے گئے اور نتیجتاً ان کا بلڈ شوگر لیول مثبت درجہ پہ رہا اس کے علاوہ بھی تحقیقات نے ثابت کیا کہ بچھو بوٹی شوگر کے مریضوں میں بلڈ شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مدد گار ہے۔

یوں تو بچھو بوٹی کو روایتی دوا کے طور پر بہت سے امراض جیسے جلد‘ معدہ‘ دل‘ نکسیر‘ نزلہ زکام‘ دمہ اور گلہڑ کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر اس سلسلے میں معالج یا ماہرین کی رائے کے بغیر استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس لئے اپنے طبی معالج کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس کا استعمال کرنا چاہئے۔

کھانوں اور مشروبات میں استعمال

بچھو بوٹی کے ننھے پتوں کو جہاں کھانوں میں شامل کیا جاتا ہے وہیں یہ مشروبات میں بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے Balkan Style Creamy Nettle ایران‘ مشرقی یورپ‘ البنیا اور سکنڈویا میں بے حد مقبول ہے۔ اسی طرح اٹلی میں اسے روایتی کھانوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

جیسے (Risotto)  رسو تو میں اسے چاول اور گوشت کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے اور Firittata میں اسے انڈوں‘ پیار اور چیز کے ساتھ ملا کر آملیٹ نما ڈش تیار کی جاتی ہے ۔جبکہ Ravioli بچھو بوٹی اور ایگ پاستا کے امتزاج سے بنائی جاتی  ہے جسے بچے بڑے سب بے حد پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں Stinging Butter log کو کھانوں میں اہمیت دی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی بچھو بوٹی کو قہوے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں پودینے کے پتوں کو ملا کر اس کی افادیت اور ذائقے کو بڑھا دیا جاتاہے۔

ٹیکسٹائل:

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو آج سے قریباً 3000سال قبل بچھو بوٹی کو کپڑے بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں کپاس ناپید ہونے کی وجہ سے فوجیوں نے بچھو بوٹی سے تیار کردہ وردیاں استعمال ہوکیں۔ حال ہی میں آسٹریا‘ جرمنی اور اٹلی نے ٹیکسٹائل کے شعبہ میں تجارتی مقاصد کے لئے بچھو بوٹی کی پیداوار کے مراکز قائم کئے ہیں۔ گرمیوں اور سردیوں میں خواتین کی پسندیدہ لینین بھی بچھو بوٹی سے حاصل کردہ ریشوں سے تیار کیا جاتی ہے۔

بچھو بوٹی کی حقیقت کیا؟
ماہرین کی رائے جانے بنا کسی بھی قسم کی معلومات کو مستند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی ضمن میں ہم نے حکیم نیاز احمد اڈیال سے بچھو بوٹی کی بابت دریافت کیا کہ کیا واقعی بچھو بوٹی ایک جادوئی دوا ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ بچھو بوٹی میں اللہ تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے۔ مختلف امراض کے علاج میں یہ شافی ہے جیسے جوڑوں کا درد، السر،پر وسٹیٹ کا ورم، پولن الرجی اور گردے میں پتھر کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکیم نیاز کے مطابق پولن الرجی سے آج کل سب پریشان دکھائی دیتے ہیں مگر اس بوٹی میں اللہ تعالیٰ نے اس مرض کے لیے شفاء رکھ چھوڑی ہے۔

جب ہم نے گردوں میں پتھر کے لیے اس کے استعمال کی وجہ جاننا چاہی تو حکیم نیاز کا کہنا تھا کہ گردوں اور پروسٹیٹ کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے تو جیسے اس کے استعمال سے پیشاب کی نالی کا ورم کم ہوتا ہے اور تنگی دور ہوتی ہے اس سے عموماً گردے میں موجود چھوٹی پتھریوں کو نکلنے میں مدد ملتی ہے۔ بالکل اسی طرح اعصابی درد، ہڈیوں کا ورم، جگر کی چربی اور کولیسٹرول میں بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے۔

ہڈیوں کے ورم کی صورت میں اسے تیل میں جلا کر اس تیل سے مالش کرنا مفید ہے جبکہ کولیسٹرول اور جگہ کی چربی کو کم کرنے کے لیے اس کا بہترین استعمال قہوے کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قہوے کے لیے اس کی نرم کونپلیں اور پتیاں موزوں ہیں انہیں ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر دو منٹ ڈھکن دے کر پکانے سے سارا اثر نکل آتا ہے۔ یا پھر خشک کرکے سفوف بناکر اسے لیا جاسکتا ہے۔ روزانہ ایک چائے کا چمچ سفوف لینے یا پھر خشک پتوں کی پون چائے کا چمچ بہترین مقدار ہے۔

جب حکیم نیاز سے بچھو بوٹی کو چھونے پر الرجی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا اس کو توڑتے ہوئے داستانوں کا استعمال کرنا چاہیے اور اسے ہمیشہ خشک کرکے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر الرجی ہوجائے تو ایسی صورت میں سرسوں کے تیل میں کافور ڈال کر اسے خراش والی جگہ پر لگانا چاہیے اور حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں خراش نہ کریں اس سے الرجی مزید پھیلتی ہے۔ ایکسپریس نیوز کو سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچھو بوٹی کو بالکل کھانوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور پکانے پر اس کے اندر پائے جانے والے وٹامن A,B اور C محفوظ رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایکسپریس نیوز نے حکیم نیاز کو اپنا قیمتی وقت دے کر اپنی آراء سے آگاہ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

The post بچھو بوٹی کے حیران کن فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.

مٹھی بھر صہیونی ارض ِفلسطین پر کیسے قابض ہوئے؟

$
0
0

یہ مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر کا مشہور محلہ ہے۔ محلے کی دیوار پر پینٹ سے جلی حروف میں ’’فلسطین زندہ باد‘‘ لکھا ہے۔ سامنے کی دیوار پر ’’غزہ کو آزاد کرو‘‘ کے الفاظ لکھے دکھائی دیتے اور پڑھنے والوں کا لہو گرماتے ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمان پہلے بیت خدا‘ مسجد الاقصی کی وجہ سے فلسطین کو مقدس سرزمین سمجھتے ہیں۔ مگر اہل کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں میں ایک اور قدر مشترک ہے… دونوں پچھلے کئی عشروں سے غاصب قوتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جمو ں و کشمیر کے مسلمان بے جگری سے اسرائیلی اور بھارتی سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن دشمن کی عسکری طاقت اور عیارانہ سازشوں کے باعث ان کی جدوجہد آزادی اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔پچھلے ماہ نیویارک کے بھارتی قونصل جنرل نے بیان دیا کہ بھارت بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بیان پر حکومت پاکستان اور اہل کشمیر نے سخت احتجاج کیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن نے یہ بیان کیوں دیا؟ وجہ یہ کہ صہیونیوں نے ارض فلسطین میں یہودی بستیاں بسا کر ہی اس پر قبضہ جمایا۔ یہ وہ بنیادی ہتھیار ہے جسے اپنا کر انھوں نے فلسطین ہڑپ کیا اور لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔

صہیونی آج بھی اسی شاطرانہ چال کے ذریعے مغربی کنارے کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں جہاں مستقبل میں آزاد ریاست فلسطین کے قیام کی نوید سنائی جاتی ہے۔فلسطین پر صہیونی قبضے کی داستان حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ یہ عیا ں کرتی ہے کہ مسلم اشرافیہ کے بعض ارکان نے بھی انجانے میں یا جانتے بوجھتے صہیونیوں کو فلسطین ہڑپ کرنے میںمدد دی۔ پیسے کی کشش نے انہیں اندھا کر دیا اور وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ صہیونی اپنی دولت کے بل بوتے پر فلسطینی زمینوں پہ قبضہ جما مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے‘ صہیونی وہ یہودی ہیں جنہوںنے انیسویں صدی میں قیام اسرائیل کی خاطر ایک مذہبی ‘ سیاسی و عسکری تحریک کا آغاز کیا۔

اسلامی ممالک میں پناہ ملی

یہود عظیم پیغمبروں کے پیروکار ہیں جن پر مسلمان بھی ایمان رکھتے ہیں۔ مگر یہود وقتاً فوقتاً خدائی احکامات ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارسی فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوںنے فلسطین پر قبضہ کیا تو انہوں  نے یہود کو بیت المقدس ہی سے نکال باہر کیا۔

یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوںنے بھی ان سے برا سلوک کیا۔پانچ سو سال بعد جب حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلم لشکر نے فلسطین فتح کیا‘تب یہود کو بیت المقدس آنے کی اجازت ملی۔خلیفہ دوم نے انہیں ارض فلسطین پر آباد ہونے کی بھی اجازت دے دی۔مغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔ ان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس لیے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ‘ شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔

یہودی امرا کا ظہور

سہولہویں صدی میں یورپ میں یہودی بینکار و سرمایہ کار خاندانوں کا ظہور ہوا جو یورپی حکومتوں اور تنظیموں کو سود پر قرضے دینے لگے۔ اب حکومتوں سے لے کر اداروں تک ہر کوئی مالی طور پر ان کا محتاج ہو گیا۔ اس تبدیلی نے یہودی بینکار خاندانوں کا دنیائے مغرب میں اثر و رسوخ بڑھا دیا۔ انسیویں صدی تک روتھ شیلڈ (یورپ) مونٹے فیورے‘ سمیوئل مونٹیگو اور ارنسٹ کاسل (برطانیہ) جیکب شیف‘ فلپ لیہمان اور مارکس گولڈ مین (امریکا) مغربی دنیا میں امیر کبیر یہودی خاندان بن چکے تھے۔ یہ سرمایہ کاری‘ بینکاری اور کاروبار سے منسلک تھے۔

انیسویں صدی میں درج بالا خاندان ہی مالی طور پر ان یہودی لیڈروں کی مدد کرنے لگے جو فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ یہود ہی ارض فلسطین کے اصل مالک ہیں لہٰذا انہیں وہاں اپنی ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان یہود ہی کو ’’صہیونی ‘‘ کہا گیا۔ ان صیہونیوں کو برطانیہ و امریکا میں بعض عیسائی مذہبی لیڈر بھی بطور سرپرست مل گئے۔پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ مذہبی لیڈر سمجھتے تھے کہ جب بیت المقدس میں یہود اپنا ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیں گے تبھی حضرت عیسیٰؑ بھی دوبارہ زمین پر آئیں گے۔ اسی لیے لیڈر صہیونیوں کی ہر ممکن مدد کرنے لگے تاکہ وہ بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں نیا ہیکل تعمیر کر سکیں۔ صیہونیوں کے حمایتی یہ لیڈر اب ’’صہیونی عیسائی‘ کہلاتے ہیں۔

پہلی یہودی بستی کی تعمیر

صہیونی رہنما کسی ایسے طریق کار کی تلاش میں تھے جس کے ذریعے فلسطین مسلمانوں سے چھینا جا سکے۔ باہمی مشاورت سے یہ طریقہ واردات دریافت ہوا کہ فلسطین میں مسلمانوں سے زمین خرید کر وہاں یہودی بستیاں قائم کر دی جائیں۔ یوںان بستیوں کی بدولت رفتہ رفتہ فلسطین میں یہود کے قصبے اور پھر شہر وجود میں آ جاتے۔

مستقبل میں انہی قصبات اور شہروں کی بنیاد پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں آ سکتا تھا۔ ان یہودی بستیوں میں دنیا بھر سے یہود لا کر بسائے جانے تھے۔ یورپ و شمالی امریکا کے بعض یہودی امرا کو یہ منصوبہ قابل عمل نہیں لگا تاہم اسے روتھ شیلڈ خاندان کے ایک اہم رکن‘ ایڈمنڈ جیمز (متوفی 1934ء) کی حمایت حاصل ہو گئی۔ وہ فرانس کا یہودی بینکار تھا۔

ایڈمنڈ جیمز نے  پھر صیہونی لیڈروں کو منہ مانگا سرمایہ فراہم کیا جس سے فلسطین کے ساحلی علاقے میں’’12ہزار ایکڑ‘‘ زمین خریدی گئی۔ اسی زمین پر صہیونیوں نے 1883ء میں فلسطین میں پہلی یہودی بستی بسائی جو ’’پتاح تکفا‘‘(Petah Tikva ) کہلاتی ہے۔ آج یہ بستی ایک شہر کا روپ دھار چکی۔ یہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے دس کلو میٹر دور واقع ہے۔ عملی طور پر تل ابیب ہی کا حصہ بن چکا۔ پتاح تکفا کے قیام سے ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کے پلان کا آغاز ہو گیا۔صہیونیوں نے 1878ء میں پتاح تکفا کی زمین خریدی تھی۔ تب فلسطین عثمانی ترک سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔

ترک عثمانی حکمران کبھی یہود پر مہربان ہوجاتے تھے اور کبھی نامہربان۔ بہرحال ان کے دور حکومت میں یہود امن و امان سے زندگی گزارتے رہے۔ ان کی اکثریت بیت المقدس میں آباد تھی۔ عثمانی ترکوں کی سرکاری پالیسی یہ تھی کہ کوئی غیر ملکی فلسطین میں زمین نہیں خرید سکتا۔ 1858ء میں عثمانی ترک حکومت نے ایک نیا قانون، لینڈ کوڈ متعارف کرایا۔ مقصد یہ تھا کہ سلطنت میں جو زمینیں نجی ملکیت میں ہیں، ان کے مالکان کا ایک رجسٹر بنایا جاسکے۔

جاگیرداروں نے فائدہ اٹھایا

فلسطین میں امیر کبیر جاگیردار اور زمین دار خاندان بیشتر زمینوں کے مالک تھے۔ ان خاندانوں کی اکثریت شہروں مثلاً دمشق، بیروت، بیت المقدس، یافہ وغیرہ میں آباد تھی۔ ان کی زمینوں پر مسلمان کسان کاشتکاری کرتے تھے۔ کئی کسان خاندان صدیوں سے زمینوں پر آباد تھے۔

عملی طور پر وہی ان زمینوں کے مالک بن چکے تھے لیکن اپنی ناخواندگی کے سبب وہ زمینوں کی ملکیت کے حق سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہوا یہ کہ مسلم کاشتکار لینڈ کوڈ کی اہمیت سے ناواقف تھے۔ ان کی ناواقفیت سے شہروں میں آباد جاگیردار گھرانوں نے فائدہ اٹھایا اور فلسطین میں بیشتر زمین اپنے نام کروالی۔یوں زیادہ فلسطینی زمینیں مٹھی بھر جاگیردارخاندانوں کی ملکیت ہوگئیں۔ اس تبدیلی سے صہیونی لیڈروں کو بہت فائدہ پہنچا کیونکہ وہ چند جاگیرداروں کو اپنے جال میں پھانس کر ان سے ہزارہا ایکڑ زمین حاصل کرسکتے تھے۔ عام مسلمان کسان انہیں کبھی اپنی زمینیں فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔

پتاح تکفا سے قبل وہاں مسلمانوں کا ایک گاؤں، ملبس واقع تھا۔ گاؤں اور قرب و جوار میں کھیتوں کی زمین یافہ کے دو عیسائی جاگیرداروں، انطون بشاراتیان اور سلیم قصار کی ملکیت تھی۔ صہیونی لیڈروں نے انہی سے زمینیں خریدیں اور مسلم کاشکاروں کو نکال کر اپنی بستی تعمیر کرلی۔ یہ عین ممکن ہے کہ عثمانی ترک حکومت کے متعلقہ اہل کاروں نے صہیونی لیڈروں سے بھاری رشوت لے کر انہیں ملبس میں بارہ ہزار ایکڑ خریدنے کی اجازت دی ہو۔ فلسطین میں یہود کو اتنی بڑی زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین کا بیشتر رقبہ دلدلی تھا۔ اسی لیے حکومت نے یہود کے خریدنے پر اعتراض نہیں کیا۔

تنظیموں کا قیام

ایک یہودی بستی کامیابی سے تعمیر کرنے پر صہیونی لیڈروں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے امیر کبیر یہودی حکمرانوں سے بھاری چندہ لیا اور اسی پیسے سے دو تنظیمیں ’’جیوش نیشنل فنڈ‘‘ (Jewish National Fund) اور ’’فلسطین جیوش کولوئزیشن ایسوسی ایشن‘‘ (Palestine Jewish Colonization Association) قائم کرلیں۔ ان تنظیموں کی واحد ذمے داری فلسطین میں زیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنا تھا۔1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ تب تک برطانوی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ منظور کرچکی تھی۔

اسی لیے صہیونیوں کو فلسطین میں زمینیں خریدنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔صیہونی لیڈر جب بھی کوئی یہودی بستی بساتے تو وہاں یورپ، افریقا اور ایشیا سے یہودی خاندان بلوا کر آباد کردیتے۔ اس باعث فلسطین میں یہود کی آبادی بھی بڑھتی چلی گئی۔ ترک عثمانی حکومت کے اعددو شمار بتاتے ہیں کہ 1900ء میں فلسطین میں چھ لاکھ افراد بستے تھے۔ ان میں 94 فیصد مسلمان، 5 فیصد عیسائی اور صرف1 فیصد یہودی تھے۔ گویا ان کی تعداد تقریباً چھ سے دس ہزار کے مابین تھی۔ لیکن اگلے پچاس برس میں یہودی بستیوں کی مسلسل تعمیر کے باعث چھ لاکھ سے زائد یہودی فلسطین میں آباد ہوگئے۔

کئی علاقوں میں صیہونیوں نے مسلمان کاشت کاروں کو بے دخل کردیا۔ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ جب یورپ میں یہود مصائب و مشکلات کا مقابلہ کررہے تھے، تو اسلامی حکومتوں ہی نے انہیں پناہ دی۔ یہود نے مگر احسان کا بدلہ یہ چکایا کہ بڑی مکاری سے مسلمان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔

مسلمانوں کو بہت دیر بعد احساس ہوا کہ صہیونی لیڈر ان کے ساتھ کیسی چال چل گئے۔ انہوں نے پھر صیہونی تنظیموں کو زمین فروخت کرنا بند کردیں مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔ صہیونی لیڈر ان علاقوں میں وسیع زمینیں خرید چکے تھے جہاں آج اسرائیل قائم ہے۔ زیادہ زمینوں کا مالک ہونے کی وجہ سے ہی1947ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کا علاقہ تقسیم کیا تو اس کا 56 فیصد حصہ صہیونیوں کو دے دیا۔ مسلمانوں نے اسی بنیادی وجہ سے اقوام متحدہ کا پارٹیشن پلان تسلیم کرنے سے انکار کیا۔

قانون کا دن دیہاڑے مذاق

1967ء میں اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے علاقوں، مغربی کنارے بشمول مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضہ کرلیا۔ صہیونی لیڈروں نے ان علاقوں پر قبضہ جمانے کی خاطر وہی پرانا حربہ اختیار کیا اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے لگے۔ اب تو انھوں نے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کی زحمت بھی نہ کی ۔ہزارہا مسلم خاندان زبردستی ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کردیئے گئے جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ زمینوں کے ساتھ مسلمانوں کی سہانی یادیں اور دلکش خواب وابستہ تھے۔

ظالم صہیونیوں نے ان کے سارے لطیف جذبات ملیامیٹ کردیئے جبکہ عالمی قوتیں تماشائی بنی رہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کا ظلم روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔نتیجہ یہ ہے کہ آج اسرائیلی حکومت مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ڈیڑھ سو یہودی بستیاں تعمیر کرچکی۔ ان میں چھ لاکھ یہودی ناجائز اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف سمیت دنیا کی تمام عدالتیں ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے چکیں مگر اسرائیلی حکومت مسلسل ان کے فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ یہی نہیں وہ آئے دن مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کرتی ہے۔ عالمی طاقتوں کا انصاف اسرائیل کے سامنے غلام بن جاتا ہے۔

بین الاقوامی ضمیر کو اسرائیل کی طاقت کے سامنے سرنگوں دیکھ کر بھارت کی مودی حکومت کا حوصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی اب مغربی کشمیر میں ہندو بستیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادی کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندو بسا کر وہاں مسلم آبادی کا تناسب کم کیا جاسکے۔

اس طرح مستقبل میں جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی اضلاع پر مشتمل آزاد کشمیری ریاست کا قیام بھی کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ امریکا اب یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی نہیں سمجھتا۔اس طرح اسرائیل اور بھارت،دونوں کو سپرپاور کی شہ مل گئی کہ وہ اپنی لاقانونیت دھڑلے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔عالمی سطح پر بھارت ایسا ملک بن چکا جہاں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔عوام کو اس آفت سے بچانے کے بجائے بھارتی حکمران وادی کشمیر پر قبضے کے خواب دیکھتے ہیں۔دلیر کشمیری مگر کبھی ان کا یہ گھناؤنا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔

The post مٹھی بھر صہیونی ارض ِفلسطین پر کیسے قابض ہوئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


مسجد اقصیٰ کا آخری محافظ ، ’’کارپورل حسن‘‘

$
0
0

خودغرضی، مفادات، ایمان فروشی اور حرص وہوس کی کالی کتھائیں ہر طرف پھیلی ہیں، ہمارے باطن میں اپنا اندھیرا بھر رہی ہیں اور ناگن کی طرح ہمارے کردار کو ڈس رہی ہیِں، مگر ہمارے ماضی وحال میں ایسی کہانیاں بھی دمک رہی ہیں جن کے تابندہ لفظ دل میں اُجالا اور روح کو اُجلا کردیتے ہیں۔

’’کارپورل حسن‘‘ کا قصہ بھی ان ہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ایمان، خلوص، محبت کی روشنی سے لکھی کہانی۔ یہ محض ایک فرد نہیں ایک روایت کی حکایت ہے۔

یہ 1972کا ذکر ہے۔ دہکتے مئی کے دن تھے۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے صحافی اِلہان بردکچی (Ilhan Bardakci) جو اب دنیا میں نہیں رہے، اس وقت نوجوان تھے۔ وہ اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کی سنگت میں اسرائیل کا دورہ کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ تُرک فوج اور مقتدرہ کی ’’وطن دوست‘‘ مگر دین بیزار سوچ اور حکمت عملی کے باعث ترکی کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ تُرک سیاست دانوں اور تاجروں کا ایک وفد اسرائیل کا دورۂ خیرسگالی کر رہا تھا اور الہان اور ان کے ساتھی صحافی اس دورے کی کوریج کے لیے ہم سفر بنے تھے۔

یہ اس دورے کا چوتھا روز تھا جب اسرائیلی میزبان ترک وفد کو تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر کرانے لے گیا۔ انھیں مسجد اقصیٰ بھی لے جایا گیا۔ الہان کہتے ہیں،’’اس مقدس مسجد کی اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرے جسم میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔

اوپر کی منزل کے وسیع وعریض احاطے کو وفد کے اسرائیلی میزبان ’بار ہزار فانوسوں والا صحن‘ کے نام سے متعارف کرا رہے تھے۔ دراصل عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول کے دور میں اس احاطے میں بارہ ہزار فانوسوں میں شمعیں فروزاں کرکے روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ القدس میں تعینات عثمانی فوج ان شمعوں کی روشنی میں نماز عشاء ادا کرتی تھی۔‘‘

یکایک الہان بردکچی کی نذر احاطے میں موجود ایک شخص پر پڑی۔ صہیونیوں کی مقبوضہ مسجد اقصیٰ کی اوپری منزل پر وہ تنہا شخص بڑا پُراسرار لگ رہا تھا، عمر کی نوے دہائیاں دیکھ لینے والا بوڑھا۔ الہان اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس کے جسم پر فوجی وردی تھی، مگر یہ اسرائیلی فوج کی وردی نہیں تھی۔

ملبوس بھی پہنے والے کی طرح اپنی قدامت کا پتا دے رہا تھا۔ وردی پر جا بہ جا پیوند لگے تھے۔ یہاں تک کہ جگہ جگہ لگے یہ پیوند بتارہے تھے کہ انھیں بھی باربار سیا گیا ہے۔ صاف لگتا تھا کہ وہ جسم پر وردی سجائے رکھنے پر مُصر ہے۔ اِلہان کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارے سامنے کوئی صدیوں پُرانا پیڑ ہو۔ وہ شخص اپنے طور پر سرحد پر پہرہ دیتے سپاہی کی طرح تن کر کھڑا تھا، مگر پیٹھ پر نکلا کُب پورے قد سے کھڑا ہونے میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ خمیدہ کمر کے باوجود وہ قدآور بوڑھا بارعب اور بردبار شخصیت کا مالک تھا۔

مقصد اقصیٰ کی دھوپ سے بھرے صحن میں ستون کی طرح ایستادہ اس بوڑھے کے قریب سے گزرتے ہوئے الہان نے اپنے گائڈ سے پوچھا، ’’یہ شخص اس حِدت میں کیوں کھڑا ہے؟‘‘ جواب ملا،’’جہاں تک میں یاد کرسکتا ہوں یہ شخص یہاں (روز) آتا ہے۔ غروب آفتاب تک یہیں رہتا ہے۔ نہ کسی سے بولتا ہے نہ کسی کی بات سُنتا ہے۔ یہ بس انتظار کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تھوڑا پاگل ہے۔‘‘

الہان حیران تھے کہ دور تک پھیلے ماہ وسال کی گرد اس بوڑھے کی سفید داڑھی کا کچھ نہ بگاڑ سکی تھی، جو دھوپ میں دمک رہی تھی، اور سر پر جمی تُرکوں کی مخصوص ٹوپی ’’کالپیک‘‘ اس کی شان بڑھا رہی تھی۔

الہان جھجک رہے تھے کہ اس سے بات کریں یا نہیں۔ بوڑھے نے جان لیا تھا کہ الہان اس کے قریب ہورہے ہیں، مگر وہ اپنی جگہ قدم جمائے چوکس کھڑا رہا، ذرا سی جنبش کے بغیر۔

آخر الہان نے ہمت کرکے اسے ترکی میں مخاطب کیا،’’السلام وعلیکم بابا!‘‘

اس نے اپنا سر ذرا سا گھما کر الہان کی طرف موڑا اور جواب دیا،’’وعلیکم السلام بیٹا۔‘‘

’’آپ کون ہیں؟ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ استفسار کرتے ہوئے الہان کی آواز مرتعش تھی، شاید یہ بوڑھے کی پراسراریت اور اس کے رعب کا اثر تھا۔

’’میں کارپورل حسن ہوں، 20 ویں کور، 36ویں بٹالین، 8 ویں اسکواڈرن ہیوی مشین گن ٹیم سے۔‘‘

اس کی بوڑھی آواز میں ذرا بھی لرزش نہیں تھی۔ وہ یوں بول رہا تھا جیسے اپنے کسی افسر کو زبانی رپورٹ دے رہا ہو۔ واضح رہے کہ ’’کارپورل‘‘ عثمانی فوج میں حوالدار کی سطح کا عہدہ تھا۔

’’میرا تعلق اناطولیہ (ترکی) کے علاقے اگدر سے ہے۔‘‘

اس نے سلسلۂ کلام جوڑا، اُسی رپورٹ دیتے لب ولہجے میں۔

’’جنگ عظیم (اول، 1914تا 1918) کے دوران ہمارے فوجیوں نے نہرِسوئز کے محاذ پر برطانوی فوج پر حملہ کیا۔ ہماری شان دار فوج کو شکست ہوئی۔ اب (علاقے سے) دست بردار ہونا ناگزیر تھا۔ اجداد سے ورثے میں ملی زمینیں ایک ایک کرکے ہمارے ہاتھ سے نکلنے والی تھیں۔ اور پھر برطانوی فوجی القدس کے دروازوں تک آ پہچنے، انھوں نے شہر فتح کرلیا۔ ہم قدس کی حفاظت پر مامور سپاہیوں کے طور پر یہاں متعین کردیے گئے۔‘‘

یہ پہلی جنگ عظیم کا قصہ ہے، جب برطانیہ نے ارض فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے چھین لیا تھا، بعدازاں انگریزوں نے اس مقدس سرزمین پر صہیونی اڈا قائم کردیا، تب سے آج تک بیت المقدس سمیت فلسطین صہیونیوں کے قبضے میں ہے۔

انگریز فوج سے شکست کھانے کے بعد عثمانی عسکر نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ فوجی وہیں چھوڑ دیے تھے، تاکہ انگریز فوج کے داخلے تک یہ قابل احترام مقام، شہر کی غیرمسلم آبادی کی ممکنہ لوٹ مار اور بے حرمتی سے محفوظ رہے۔ ماضی کی جنگوں میں یہ روایت رہی ہے کہ جب ایک ریاست پسپائی کے بعد کوئی شہر دشمن کے حوالے کرتی تھی تو اس شہر میں حفاظتی اور نظم کے امور انجام دینے والے شکست خوردہ فوج کے سپاہیوں سے فاتح فوج اسیروں والا برتاؤ نہیں کرتی تھی۔

برطانوی چاہتے تھے کہ عثمانی فوج کے سپاہیوں کی ایک قلیل تعداد مقبوضہ شہر میں رہے، تاکہ جب انگریز فوج القدس میں بہ طور فاتح داخل ہو تو اسے عوامی ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغرب کا یہ پُرانا حربہ ہے کہ وہ مسلم سپاہ کو اپنے اور مسلمان عوام کے درمیان دیوار بنا لیتا ہے!

’’ ہم محافظوں میں سے تریپن سپاہی تھے۔ ‘‘

اس نے اپنی کہانی جاری رکھی۔

’’ہم نے خبر سُنی کہ معاہدے (خلافت عثمانیہ اور اتحادی ممالک کے درمیان ہونے والا سمجھوتا) کے بعد ترک فوج (فلسطین کی سرزمین سے) سبک دوش ہوگئی ہے۔ ہماری قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ نے کہا، میرے شیرو! ہمارا ملک ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ وہ ہماری عالی شان فوج کو پس پا کروا رہے ہیں، اور مجھے استنبول بُلا لیا گیا ہے۔ مجھے جانا ہوگا۔ اگر میں ایسا نہیں کرتا تو حکم عدولی کا مرتکب ہوں گا۔‘‘

اس کے بعد لیفٹیننٹ نے جو کچھ کہا، اور اُس کی سُن کر تُرک سپاہیوں نے جو کچھ کیا، وہ ایمان اور اخلاص کی لازوال نظیر ہے۔

’’اگر تم میں سے کوئی وطن واپس جانا چاہے تو جاسکتا ہے، لیکن اگر میری بات مانو تو میں تم سے ایک درخواست کرتا ہوں۔ القدس سلطان سلیم (سلطان سلیم اول، جن کے دور میں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی) کا تاریخی ورثہ ہے۔ چناں چہ تم اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہو۔ لوگوں کو یہ سوچ کر پریشان نہ ہونے دو کہ عثمانی ہمیں چھوڑ گئے۔ اگر عثمانی اپنے پیارے نبی ﷺ کا قبلہ اول (بے یار ومددگار) چھوڑ گئے تو اہل مغرب خوشی سے بغلیں بجائیں گے۔ اسلام کی عزت اور عثمانیوں کی شان پامال نہیں ہونے دینا۔‘‘

لیفٹیننٹ نے اپنے سپاہیوں کو وطن واپسی کی اجازت بھی دی تھی اور ان سے اسلام کی حُرمت اور خلافت عثمانیہ کے وقار کی خاطر وطن سے کوسوں دور القدس کی حفاظت کرتے رہنے کی استدعا بھی کی تھی۔ وطن کی محبت، گھر کی راحت اور بیوی بچوں ماں باپ بہن بھائیوں دوست احباب کی چاہت پر دین اور خلافت کی آبرو کا خیال بازی لے گیا۔

’’ہمارے سپاہی قدس میں رک گئے۔ سال گزرتے گئے، اور میرے بھائی (ساتھی سپاہی) ایک ایک کرکے زندگی کی بازی ہارتے گئے۔ ہم دشمن کے ہاتھوں زیر نہیں ہوئے، ہاں گزرتے برسوں سے شکست کھا گئے۔ بس اب صرف میں یہاں رہ گیا ہوں۔ صرف میں، القدس میں تنہا کارپورل حسن۔‘‘

الہان کہتے ہیں کہ کاپورل حسن نے جب اپنی بات ختم کی تو اس کی پیشانی سے بہتا پسینہ آنسوؤں کے ساتھ اس کے جُھرّیوں بھر چہرے پر بہہ رہا تھا۔

وہ بولتا رہا:

’’بیٹا! میں تم پر اعتماد کرتے ہوئے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ جو میں نے برسوں سے چُھپا رکھا ہے۔ کیا تم اسے وہاں پہنچا دو گے جہاں اسے پہنچنا چاہیے؟‘‘

’’بالکل‘‘

الہان کا جواب تھا۔

’’جب تم ترکی پہنچو، اور اگر توکت (ترکی کا ایک شہر) سے گزرو، تو براہ مہربانی وہاں رُک کر لیفٹیننٹ مصطفی سے ملنا، یہ وہی کمان دار ہے جس نے مجھے مسجدِاقصیٰ کی حفاظت پر مامور کیا تھا اور ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے مجھ پر اعتماد کیا تھا۔ میری طرف سے اس کے ہاتھ چومنا، اور اسے بتانا، صوبہ اگدر کا 11ویں مشین گن ٹیم سے تعلق رکھنے والا کارپورل حسن اب تک القدس میں ہے جہاں تم اسے تعینات کرگئے تھے، اس نے اپنا فریضہ تَرک نہیں کیا، اور وہ تمھارے لیے رحمت کا خواہش مند ہے۔‘‘

الہان نے حسن سے اس کا پیغام پہنچانے کا وعدہ کرلیا۔ وہ کہتے ہیں،’’اس نے جو کہا میں وہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اپنے آنسو چُھپا رہا تھا۔ میں نے اس کے سخت ہاتھوں کو تھام کر انھیں بار بار چوما اور کہا۔۔۔الوداع بابا!‘‘

اس نے جواب دیا،’’شکریہ بیٹا! ممکن نہیں کہ اب ان سرزمینوں (ترکی) کو دیکھ پاؤں، وہاں سب کو میری نیک تمنائیں پہنچا دینا۔‘‘

الہان کہتے ہیں کہ واپس ہوتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے کتابوں میں پڑھی ہوئی ساری تاریخ سامنے آ کھڑی ہوئی ہو۔ انھوں نے اپنے گائیڈ کو کارپورل حسن کی کہانی سُنائی، وہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھا۔ الہان نے اسے اپنا پتا دیتے ہوئے درخواست کی،’’برائے مہربانی، کچھ بھی ہو اس سے مجھے آگاہ کرنا۔‘‘ ان کا اشارہ کارپورل حسن کی زندگی کی طرف تھا، جس کی عمر کی نقدی بس ختم ہونے کو تھی۔

الہان وطن واپس پہنچ گئے۔ وہ حسن کے بتائے ہوئے شہر توکت گئے اور وہاں کمان دار مصطفیٰ آفندی کی تلاش کے لیے فوجی ریکارڈ کھنگالا۔ وہ کئی سال پہلے دنیا سے جاچکا تھا۔ ’’میں اپنا وعدہ پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔‘‘ الہان بڑے دکھ کے ساتھ کہتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا۔ 1982آپہنچا۔ ایک روز الہان کو اطلاع ملی کہ جس ادارے میں وہ کام کرتے تھے وہاں ان کے لیے ایک تار آیا ہے۔

تار صرف ایک سطر پر مشتمل تھا،’’مسجد اقصیٰ میں انتظار کرتا آخری محافظ آج وفات پاگیا۔‘‘

2017 میں ترکی کی انسانی فلاح کے لیے سرگرم ایک این جی او ’’آئی ایچ ایچ‘‘ نے غزہ کے علاقے ’’تل الھوا‘‘ میں کارپورل حسن سے منسوب ایک مسجد ’’اونباسی حسن مسجد‘‘ تعمیر کی ہے۔ جب اسرائیل القدس کی سرزمین پر اذانوں کی آواز بند کرنے کے لیے کوشاں تھا تو ’’اونباسی حسن مسجد‘‘ صہیونی تسلط کا شکار علاقوں کی وہ پہلی مسجد تھی جس کے میناروں سے گونجتی اذان صہیونیوں کے سینوں میں پیوست ہوئی۔

The post مسجد اقصیٰ کا آخری محافظ ، ’’کارپورل حسن‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’عالمی سیاست میں انصاف نہیں طاقت کا راج ہے‘‘

$
0
0

دنیا کے معمر ترین وزیراعظم، 94 سالہ مہاتیر محمد عالم اسلام کو درپیش مسائل پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔ پچھلے دنوںانھوں نے ایک فکر انگیز مذاکرے ’’اسلامو فوبیا کی تشریح‘‘ (Demystifying Islamophobia: Towards a Deeper Understanding of Islam) سے خطاب کیا۔

یہ مذاکرہ ملائشیا کی ایک اسلامی تنظیم،انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک انڈرسٹیڈنگ  نے منعقد کیا تھا۔ مذاکرے میں مہاتیر محمد سے سوال جواب بھی ہوئے جو عالم اسلام میں ’’گرینڈ اولڈمین‘‘ کہلاتے اور مغربی حکومتوں کی استعماری پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔چیدہ جوابات کا انتخاب قارئین ایکسپریس کے لیے پیش خدمت ہیں۔

٭٭

سوال: ایک بھارتی سفارت کار نے بیان دیا کہ جیسے فلسطین میں اسرائیل نے بستیاں بنائی ہیں،اسی طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں  ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: اسرائیل مسلسل بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادیں پیروں تلے روند رہا ہے۔اس دوران عالمی قوتوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، اسی لیے اس کی ہمت بڑھ گئی۔اب بھارت بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی مقبوضہ کشمیر میں نو آبادیاں قائم کرسکتا ہے۔

ہمارے فلسطینی اور کشمیری بھائی بہت مشکل میں ہیں مگر عالمی برادری ان کی کوئی مدد نہیں کررہی۔اسرائیل کے چلن نے اس عالمی اصول کو جنم دے ڈالاکہ طاقتور ملک نہتے لوگوں پر ظلم و ستم بھی کرے تو جائز ہے۔مگر کمزور ملک اپنا دفاع بھی کرے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ قرار پاتا ہے۔اسرائیل کے نقش قدم پر اب دوسرے ممالک بھی گامزن ہوچکے۔اگر دنیا کو امن پسند اور پیار و محبت کی جگہ بنانا ہے تو ہمیں طاقتور کا ظلم و جبر روکنا ہوگا۔

سوال: آپ کا دعویٰ ہے کہ عالم اسلام میں کئی مسائل کو مغربی استعمار نے جنم دیا۔اس کی وضاحت کیجیے۔

جواب: مسئلہ کشمیر ہی کو لیجیے۔ یہ برطانوی راج کی نشانی ہے۔دراصل دوسری جنگ عظیم میں کامیابی نے مغربی طاقتوں کو مزید طاقتور بنا دیا۔ وہ پھر اپنی مرضی کے فیصلے دوسروں پر تھوپنے لگیں۔اسی طرز فکر نے ان کا سویت یونین سے تصادم کرایا اور سرد جنگ نے جنم لیا۔آج بھی مغربی استعمار کی سوچ یہی ہے کہ چونکہ وہ ہر لحاظ سے طاقت ور ہے لہٰذا وہ جو فیصلہ کرلے، باقی دنیا والوں کو بھی اسے تسلیم کرنا چاہیے ۔جو فیصلہ نہیں مانتا، وہ اس کی نظر میں دشمن قرار پاتا ہے۔

مغرب نہ صرف مطلق العانینت سے فیصلے کرتا بلکہ  عموماً کمزور اقوام کو نقصان پہنچاتا ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر میں مغربی استعمار پر تنقید کرتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا بین الاقوامی سیاسی نظام غیر منصفانہ اور استبدادانہ ہے۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل غیر جمہوری ادارہ ہے۔ وہاں پانچ ملک بیٹھے دوسرے ملکوں کی تقدیر کے من مانے فیصلے کرتے ہیں۔ بظاہر عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی بلند و بالا باتیں ہوتی ہیں لیکن عالمی سیاسی نظام میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ طاقتور ممالک جو چاہے کر ڈالتے ہیں۔ کمزور ملکوں کو ناچار ان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔

سوال: عالمی میڈیااسلام اور دہشت گردی کا تعلق جوڑنے کی سعی کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: عالم اسلام میں سامنے آنے والی شدت پسندی مغربی استعمار کے مظالم کا ردعمل ہے۔مغربی میڈیا اس ردعمل کی وجوہ بہت کم بیان کرتا ہے۔جبکہ مسلمانوں کی جنگجوئی بہت نمایاں کی جاتی ہے۔مثلاً کچھ عرصہ قبل لندن میں ایک شدت پسند نے دو لوگ مار ڈالے۔یہ خلاف اسلام فعل تھا۔اس خبر کو مغربی میڈیا کی ویب سائٹس نے کئی گھنٹوں تک شہ سرخی بنائے رکھا۔

لیکن پچھلے ایک ہفتے سے فلسطین اور کشمیر میں اسرائیلی وبھارتی فوجیوں نے کئی فلسطینی اور کشمیری مار ڈالے تھے مگر ان کی خبروں کامغربی میڈیا میں نشان نہ تھا۔مغربی میڈیا بہت جانب دار اورمتعصب ہے۔وہ مخصوص زاویہ نظر کی خبریں نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگجویانہ ردعمل سے بعض اسلامی ممالک کو بہت نقصان پہنچا۔ خانہ جنگیوں نے ان کی معیشت تباہ کردی۔ وہاں کے باشندوں کی اکثریت عسرت زدہ زندگی بسر کررہی ہے۔ گویا طویل المیعاد لحاظ سے شدت پسندی اور جنگجوئی مسلم معاشروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔

سوال: ناروے میں توہین قران کا سانحہ کیا پیغام دے گیا؟

جواب: یہ واقعہ کئی پہلو نمایاں کرتا ہے۔مثلاً  مغرب میں بڑھتا اسلاموفوبیا، وہاں انتہا پسند لیڈروں کی نمو، یہ پہلو کہ عام مسلمان قرآن سے شدید لگاؤ رکھتے ہیں مگر بیشتر اسلامی حکمران قرآنی تعلیمات سے دور ہوچکے۔ میرے نزدیک دور جدید میں امت کے پست ہونے کی بنیادی وجہ ہی قرآن پاک سے کٹ جانا ہے۔ اس خرابی سے اول مسلمان اخلاقیات کھو بیٹھے، دوم علم و حکمت (سائنس و ٹیکالوجی) پر بھی ان کے دسترس نہیں رہی۔ ماضی میں بہترین اخلاقیات اور علم و حکمت کے سہارے ہی مسلمان سپرپاور بنے تھے۔

یہ اہم ترین خوبیاں قرآنی تعلیمات کی دین تھیں۔ آج کے بیشتر مسلمان قرآن نہیں مخصوص لیڈروں کی پیروی کرتے ہیں مگر یہ لیڈر اسلام یا مسلم عوام کی کوئی خدمت انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔دنیا کے بعض ممالک (سرائیل، بھارت، امریکا وغیرہ) عالم اسلام میں جنگ و فساد کا باعث بنے مگر کئی اسلامی ملکوں (شام، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا، صومالیہ) میں مسلم لیڈروں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ہی تباہی و بربادی نے جنم لیا۔حضور اکرمﷺؐ کے دور میں فرقہ وارانہ یا مذہبی اختلافات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیونکہ سبھی مسلمان متحد تھے۔دشمنوں کی چالیس اور سازشیں اپنی جگہ مگر مسلم حکمرانوں اور لیڈروں کو اپنی خامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جو قوم اپنی خرابیوں و خامیوں پر قابو پالے، وہی ترقی کرتی ہے۔

قرآن و سنت کی رو سے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔لیکن دور جدید کے ہمارے لیڈروں نے اسی بنیادی اسلامی اصول پر عمل نہیں کیا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے غیر مسلموں ہی نہیں مسلمان شہریوں کو بھی نشانہ  بنانے لگے۔ ان کے قتل و غارت نے دنیا میں اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا۔اس عجوبے سے اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ وہ اب عالم اسلام میں مسلم فرقوں کے مابین مذہبی، سیاسی و معاشی اختلافات کی آگ بڑھکانے کی بھرپور سعی کررہی ہیں تاکہ اپنے مفادات پورے کرسکیں۔

اسلامی حکومتوں کے درمیان غلط فہمیاں جنم دینے کی خاطر وسیع پیمانے پر جھوٹی (فیک) خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عالم اسلام مسلسل خانہ جنگیوں کی آگ میں جلتا رہے اور وہاں امن وامان جنم نہ لے۔ ایک مملکت میں ترقی و خوشحالی لانے کے لیے امن و امان ہونا شرط اولیّں ہے۔ مگر اسلامی ممالک میں خانہ جنگیوں نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں تباہ کرڈالیں اور انہیں دربدر کردیا۔آپ یہ دیکھیے کہ جن اسلامی ممالک میں مغربی استعمار کے مخالف حکمران حکومت کررہے تھے، وہ اب خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ وہ باہمی جنگوں کے سبب کھنڈر بن چکے۔

غرض لیڈروں کی خود غرضی، ذات مفادات اور نااہلی کے سبب کئی اسلامی ملک تباہ ہوگئے۔ستم ظریفی ہے کہ اس تباہی سے عالم اسلام کے نئے لیڈروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی نااتفاقی و انتشار پھیلانے والی باتیں و عمل کرتے ہیں۔ یوں تو امت مسلمہ کبھی پستی و زوال سے نہیں نکل سکتی۔قرآن پاک میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو فرقوں میں تقسیم نہ کرو۔ لیکن قرآنی تعلیمات سے دوری کے باعث ہم کئی گروہوں میں بٹ چکے اور مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا۔ اس نااتفاقی سے اسلام دشمن قوتوں کو اصل فائدہ ہوتا ہے۔

اس وقت یہ امر سب سے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی جنم لے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے لیڈر اور حکمران دوبارہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں۔ عالم اسلام کی تمام خرابیوں کی جڑ یہ معاملہ ہے۔قرآن سے دوری نے مسلمان کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ۔ کبھی وہ سادگی، قناعت اور ایمان داری کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ آج وہ مغربی اقتدار کے زیر اثر دنیاوی خواہشات کا اسیر ہوچکا۔ حتیٰ کہ حرام و حلال کی تمیز بھی کھو بیٹھا۔

سوال: مغرب میں بڑھتے اسلاموفوبیا پر قابو پانے کی خاطر امت مسلمہ کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟

جواب: پچھلے ساٹھ ستر سال کی  تاریخ عیاں کرتی ہے کہ اسلامی لیڈر جنگجوئی سے  اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے۔ فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر ممالک میں مسلمان بدستور ظلم کا شکار ہیں۔ اب ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم امن کا راستہ اختیار کریں۔

اس طرح پوری دنیا کو پتا چلے گا کہ ظلم و جنگجوئی کے  مرتکب کون ہیں۔تب مسلمانوں کو دنیا بھر میں عام لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوں گی۔ پھر اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے جو تعلق جوڑا جاتا ہے،یہ تاثر بھی بتدریج ختم ہوگا۔ اس تاثر نے ہماری مسلح کارروائیوں کے باعث ہی جنم لیا۔ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل ہونے کے بعد سفارت کاری، گفت و شنید اور دیگر پُر امن طریقوں سے عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنا آسان ہوسکتا ہے۔

سوال: عالم اسلام میں ترقی و خوشحالی لانے کا بہترین طریق کار کیا ہے؟

جواب: عوام و خواص تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچائی جائیں۔ اسلام فساد اور شر  پسند نہیں کرتا۔ دور حاضر کے مسلمان اسلامی تعلیمات فراموش کرچکے، اسی لیے وہ ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہیں۔

سوال:آپ پہلے سرمایہ داری اور عالمگیریت (گلوبلائزیشن)  کے خلاف تھے۔ مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انہی دونوں نے ملائشیا کو ترقی دینے اور خوشحال بنانے میں بھی کردار ادا کیا۔ ایسا کیونکر ہوا؟

جواب:دراصل ہماری حکومت نے سرمایہ داری اور عالمگیریت، دونوں کو اصول و قوانین کے تابع بنادیا اور انہیں آپے سے باہر نہیںہونے دیا۔ اسی لیے وہ ہمارے لیے مفید اور فائدہ مند عمل بن گئے۔ ہم نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا۔ وہ آئے، فیکٹریاں لگائیں، اپنا مال باہر بھجوایا، ہمارے لوگوں کو ملازمتیں دیں اور ہماری معیشت ترقی کرنے لگی۔ اس قسم کی سرمایہ داری اور عالمگیریت یقیناً خوش آئند ہے جو قانون کے مطابق چلے اور ملکی کاروبار و صنعت و تجارت کو نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن انھیں کسی ملک کی معیشت تباہ یا قبضہ کرنے کا ہتھیار بنالیا جائے، تو انہیں اپنانے سے توبہ ہی بھلی۔

سوال: دور جدید کی  عالمی سیاست میں تجارت بھی ایک ہتھیار  بن چکی۔اس بابت آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔جب میں1981ء میں وزیراعظم بنا، تو چند ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ ایک تجارتی وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ انہوں نے ہم پر بہت زور ڈالا کہ  امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے بینک بہت چھوٹے جبکہ امریکی بینک دیو کے مانند ہیں۔اگر وہ یہاں کام کرنے لگے تو مقامی بینکوں کو کھا جائیں گے۔

یہ ہر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مقامی اداروں، کمپنیوں، کاروبار اور صنعت و حرفت کو تحفظ دے، خاص طور پر جب وہ کمزور ہوں۔اگر وہ مالیاتی لحاظ سے مضبوط ہوجائیں، تب بے شک غیر ملکی اداروں کو ملک میں کام کرنے دیا جائے۔ اسی طرح صحت مند مسابقت جنم لیتی ہے اور یوں عوام کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن ملکی ادارے کمزور ہوں، تو عموماً غیر ملکی طاقتور ادارے انہیں تباہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ عمل قومی معیشت کے لیے مفید نہیں، اسی لیے میں نے امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ہماری حکومت پر کافی دباؤ تھا۔ مغربی استعمار چھوٹے ممالک کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایسا حربہ بھی اختیار کرتا ہے۔

سوال: لیکن عالمی تجارت کے فوائد بھی ہیں۔اسی کے ذریعے ملائشیا بھی ربڑ بنانے والے غریب ملک سے دنیا کی 25 ویں بڑی معاشی قوت بن گیا۔

جواب:آپ نے درست کہا مگر اس کامیابی کے پیچھے ہماری محنت و ذہانت پوشیدہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے دیکھا کہ مغربی اقوام سامان تیار کرکے عالمی منڈیوں میں فروخت کرتی ہیں۔ ہم نے بھی یہی طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم نے اپنے لوگوں کو مختلف اشیا بنانے کا ہنر سکھایا۔ پھر ہم وہ اشیا تیار کرنے لگے۔

ہمارے ہاں افرادی قوت سستی تھی۔ پھر ہم نے منافع کا تناسب کم رکھا لہٰذا عالمی منڈیوں میں وہ سستی ہوگئیں۔ ان کا معیار بھی مغربی اشیا کے ہم پلّہ تھا۔ اسی لیے صارفین ہماری اشیا خریدنے لگے اور مغربی سامان کی فروخت کم ہوگئی۔ اس کمی کی اہم وجہ یہ ہے کہ لالچی مغربی کمپنیاں اپنا منافع زیادہ رکھتی تھیں، اسی لیے اشیا مہنگی بھی ہوجاتیں۔ ہمارے معاشی طریق کار کو کئی ممالک نے اپنایا۔ مثلاً جاپان نے عالمی منڈیوں میں سستے داموں معیاری گاڑیاں فراہم کیں تو جلد ہی وہاں سے مغربی گاڑیوں کا صفایا ہوگیا۔ حتیٰ کہ امریکا اور برطانیہ میں عام لوگ جاپانی گاڑیوں کو ترجیح دینے لگے۔

غرض ہماری حکمت عملی کامیاب رہی اور ہم نے کئی عالمی منڈیاں مغربی ممالک سے چھین لیں۔صنعتی دور شروع ہونے سے قبل ملائشیا زرعی ملک تھا۔ مگر کھیت ہماری بڑھتی آبادی کو روزگار دینے سے قاصر تھے۔ مثلاً ایک ایکڑ رقبے کا کھیت بہ مشکل کسان کی ضرورتیں پوری کرتا تھا لیکن اسی ایکڑ پر فیکٹری لگی، تو ایک سو لوگوں کو روزگار میسر آگیا۔ چناں چہ ہماری حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ صنعت و حرفت و تجارت کو ترقی دی جائے تاکہ لاکھوں بے روزگاروں کو ملازمت مل سکے۔ یہ پالیسی بہت کامیاب رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ملک میں افرادی قوت دستیاب نہ رہی، اب ہم بیرون ممالک سے افراد بلاتے اور انہیں ملازمتیں دیتے ہیں۔

سوال: 1998ء میں ملائشیا کرنسی کے بحران میں مبتلا تھا تو آپ کی حکومت آئی ایم ایف سے مدد لینے کا سوچنے لگی۔ لیکن پھر یہ خیال ترک کردیا گیا۔ کیا وجہ تھی؟

جواب: ایک ملک معاشی بحران کا شکار ہو تو آئی ایم ایف اسے تندرست کرنے کے لیے’’ڈالروں کی دوا‘‘ دیتا ہے۔ لیکن یہ دوا خصوصاً عوام پر کئی سنگین ضمنی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف کی ہدایت پر مقروض حکومت کو ٹیکس اور ایندھن کی قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں۔ اس طرح مہنگائی بڑھ کر عوام کے لیے مالی مشکلات پیدا کرتی ہے۔

اسی لیے ہم نے آئی ایم ایف سے ’’دوا‘‘ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ہم یہ بھی جانتے تھے کہ جو ملک اس مالیاتی ادارے سے قرضہ لے، وہ مزید مقروض ہوجاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک ملک معاشی مسائل میں مبتلا ہے، تو حکومت کو گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے کہ کن وجوہ کی بنا پر قومی معیشت زوال پذیر ہے۔ محض کرپشن اور بدانتظامی (بیڈگورنس) کو الزام دینا بچکانہ بات ہے۔ مغرب کے کئی ممالک بھی ان دو مسائل میں گرفتار ہیں مگر ان کی معیشت ترقی کررہی ہے۔ معاشی زوال کی معین وجوہ سامنے آنے پر انہیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ تبھی ایک حکومت اپنے ملک کو معاشی مسائل سے نجات دلوا سکے گی۔

سوال: دنیا میں بعض ممالک امیر ہیں اور بعض غریب۔ اس کی  وجہ کیا ہے؟

جواب:ایک اہم وجہ سوچ کا انداز ہے۔ مثلاً ایشیا اور افریقہ میں کئی ممالک قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن وہاں کے لیڈر اور عوام بھی ان وسائل سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ اکثر ممالک میں لوگ یہی نہیں جانتے کہ وسائل کی مددسے کیونکر ترقی کی جائے، ان سے کیے دولت کمائی جائے لہٰذا وہ بدستور غریب رہتے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ حکمران طبقے کی ذمے داری ہے کہ وہ باشعور و فرض شناس ہو اور بخوبی جانتا ہو کہ کاروبار مملکت کیونکر چلانا ہے تاکہ ملک ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکے۔معیشت کو ترقی دینے کی بنیادی اور اولیّں ضرورت یہ ہے کہ ملک میں امن و امان ہو۔ اگر کوئی ملک مسلسل لڑائی جھگڑوں اور تنازعات میں الجھا رہے، تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ایک ملک میں امن ہے، تو وہ باہر سے خام مال درآمد کرکے بھی ملکی معیشت کو ترقی دے اور کارآمد بنا سکتا ہے۔

سوال: آپ مغرب مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: میں وہاں کے لوگوں نہیں بلکہ مغرب سے آنے والے منفی اور گمراہ کن نظریات اور مغربی حکومتوں کی بداعمالیوں کا مخالف ہوں۔ اگر مغرب سے کوئی اچھا نظریہ آیا، تو میں نے ہمیشہ اس کی حمایت کی اور اسے سراہا۔ میں سمجھتا ہوں، اہل مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی طرف سے آنے والا ہر نظریہ عمدہ اور خیر پر مبنی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان کی حکومتیں بھی ہمیشہ اچھے کام نہیں کرتیں بلکہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر شرانگیز سرگرمیوں میں بھی ملوث رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کامل (پرفیکٹ) نہیں ہوتا، ہرکسی میں کوئی تہ کوئی خامی مل جاتی ہے۔

سوال: کیا آج کی دنیا میں کوئی ملک دوسرے ممالک سے کٹ کر رہ سکتا ہے؟ جیسا کہ بعض اسلامی ملکوں میں شدت پسند لیڈر مغربی ممالک سے کسی قسم کے تعلقات نہیں چاہتے۔

جواب: اب ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک ملک کے عوام مغربی ممالک سے آنے والے نظریات ضرور رد کردیں مگر اس کی حکومت دیگر ملکوں سے معاشی تعلقات منقطع نہیں کرسکتی۔ کٹ کررہنے سے اس ملک کے عوام ہی کو نقصان پہنچے گا اور وہ غربت کے جال میں جکڑے رہیں گے۔ قومی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بیرون ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا لازمی ہیں۔

سوال: سننے میں آچکا کہ چینی حکومت نے مشرقی ترکستان میں ایغوروں کو محبوس کررکھا ہے۔اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: ہم نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایغوروں کو مملکت کا شہری سمجھے، کسی مختلف مذہب کا پیروکار نہیں۔ اس طرح ایغوروں کو انصاف مل سکے گا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بعض ایغور گروہوں نے جنگجوئی شروع کررکھی ہے، اسی لیے حکومت کو ردعمل دکھانا پڑا۔ بات پھر وہی ہے کہ جنگ جوئی اور لڑائی سے منزل تک پہنچنا مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔ مذاکرات اور پُرامن احتجاج زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔

سوال: حکومت چین پر الزام ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو قرضے دے کر انہیں اپنے جال میں پھانس رہی ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟

جواب: چینی حکومت کے پاس وافر سرمایہ موجود ہے۔ وہ یہ سرمایہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں لگارہی ہے۔ چینی فطرتاً اچھے کاروباری ہیں۔ وہ جہاں ترقی کے مواقع دیکھیں، سرمایہ لگانے کو تیار رہتے ہیں۔ ماضی میں یورپی استعمار بھی تجارت کے بہانے تیسری دنیا میں آیا تھا۔ لیکن اس نے ہمیں غلام بنالیا اور ہمارے وسائل جی بھر کر لوٹے ۔ چین کبھی استعماری طاقت نہیں رہا۔ لہٰذا ہمیں امید ہے کہ چینی حکمران نو آبادیاتی طاقت بننے کی حماقت کبھی نہیں کریں گے۔ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ چین ایک بڑی معاشی و عسکری قوت ہے۔

لہٰذا ہمیں ایسی پالیسیاں اور حکمت عملی بنانی چاہیے کہ چین سے فوائد حاصل کرسکیں۔ چین کی مخالفت کرنے سے الٹا ہمیں نقصان ہوگا۔ تاہم ہر ملک کی قیادت یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ چین سے دوستی کس حد تک کی جائے۔ ظاہر ہے، ہر شے کی زیادتی بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔اپنی ضروریات مدنظر رکھ کر ہی چین سے دوستی رکھنا چاہیے۔ اسی لیے حکومت سنبھال کر جب میں نے دیکھا کہ چینی سرمائے سے وجود میں آنے والے سرکاری منصوبے خسارے کا سودا ہیں، تو انہیں میں نے منسوخ کردیا۔

سوال: آپ بنیادی طور پر ڈاکٹر تھے۔ پھر میدان سیاست میں کیونکر آنا ہوا؟

جواب: جب میں پیدا ہو تو ملایا پر انگریز نے قبضہ کررکھا تھا۔ پھر جاپانی آگئے، وہ جاتے ہوئے ہمیں تھائی قوم کے حوالے کرگئے۔ گویا ہم ملائی باشندے انسان نہیں فٹ بال بن بیٹھے کہ جو آتا، ہمیں ٹھوکر مار دیتا۔ ہماری کوئی عزت ہی نہیں رہی۔ تب میں نے سوچا کہ قوم کو عزت و احترام دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت میں پہنچ کر کام کیے جائیں تاکہ ملک ترقی کرے اور خوشحال ہوسکے۔

سوال: آپ پر الزام لگتا ہے کہ اپنے دور حکمرانی میں آپ ڈکٹیٹر بنے رہے۔ یہ بتائیے کیا ایک طاقت ور حکمران ہی اپنے ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ مملکت میں بدل سکتا ہے؟

جواب: میں کبھی ڈکٹیٹر نہیں رہا۔ مجھے عوام نے پانچ مرتبہ منتخب کیا اور پھر کوئی ڈکٹیٹر ازخود اقتدار کو خیرباد نہیں کہتا۔ دراصل بعض اوقات کام کرانے کے لیے قوت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے مخالفین نے مجھ پر آمر ہونے کا ٹھپہ لگادیا۔ ایک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے طاقت نہیں ذہانت، محنت اور اہلیت درکار ہوتی ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ وہی فیصلے کروں جو ملک و قوم کے لیے مفید ہوں اور انہیں فائدہ پہنچائیں۔ دیانت داری سے اپنا فرض انجام دینے پر انسان کو جو اطمینان و سکون ملتا ہے، وہ پیسا کبھی نہیں دے سکتا۔

طویل عمر کا راز

ہمارے ہاں ساٹھ سال کا ہوتے ہی بیشتر مرد و زن ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگتے  ہیں مگر مہاتیر محمد 94 سال کے ہوکر تین کروڑ باشندوں کا پورا ملک چلا رہے ہیں۔ آخر ان کی زبردست تندرستی اور طویل عمری کا راز کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں ’’میری عمدہ صحت کوئی راز نہیں رکھتی۔ بس میں ہر معاملے میں اعتدال پسندی اپناتا ہوں۔ کم کھاتا اور سادہ زندگی گزارتا ہوں۔ ورزش بھی کرتا اور سائیکل چلاتا ہوں۔ سب سے بڑھ کر اپنے دماغ کو متحرک رکھتا ہوں۔ میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتا ،بحث و مباحثے میں حصہ لیتا اور خوب سوچتا ہوں۔ انسان اپنے دماغ کو متحرک نہ رکھے تو اس کے جسمانی و روحانی قوی کو زنگ لگ جاتا ہے۔ یہی خرابی بڑھاپا چمٹنے کا سبب بنتی ہے۔‘‘

ایک لیڈر کی خوبیاں

دنیا کے معمر ترین اور دلیر حکمران ایک لیڈر کی خوبیاں یوں بیان کرتے ہیں :’’اکثر حکمران لیڈر شپ کی ایک اہم خوبی نظر انداز کردیتے ہیں… وہ ہے عوام کے دکھ درد کا احساس! اگر حکمران شاہی خاندان یا طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھے، تو وہ عموماً عوام کی مشکلات سے ناواقف ہوتا ہے۔ لیکن نچلے طبقے کے کئی حکمران اقتدار میں پہنچیںتو وہ بھی عوامی مسائل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ خرابی بے حسی اور غرور کی بدولت جنم لیتی ہے۔ میں زمانہ طالب علمی میں پھل بیچتا رہا ہوں تاکہ اپنی فیس کا بندوبست کرسکوں۔

جب میں نے حکومت سنبھال لی، تو مجھے احساس ہوا کہ کئی غریب لوگ سخت محنت کے باوجود غربت سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔ وجہ یہ کہ وہ ترقی کے مواقع تلاش نہ کرپاتے۔ ایسے موقع پر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کرے تاکہ غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔

میں غریبوں کو مچھلی کھلانے نہیں بلکہ انھیں شکار کی تربیت دینے پر یقین رکھتا ہوں۔دوم لیڈر کو نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں میرے والد بہت سخت تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بھی ڈسپلن سکھایا ۔اسی خوبی سے مجھے وقت کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ اگر ایک حکمران دوسرے سے محنت کرانا چاہتا ہے تو اسے بھی کم از کم اتنی ہی محنت کرنا ہو گی۔ اسی طرح وہ سب کام وقت پر کرانے کا خواہش مند ہے تو اسے بھی پابندی وقت کرنا ہوگی۔نئی نسل کے لیے میرا پیغام ہے کہ اپنے آپ کو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا ماہر بنائیں۔ اس وقت کاروبار سے لے کر قومی سلامتی کے امور تک، ہر شعبے میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ایک قوم ترقی کی معراج پاسکتی ہے۔ کامیابی و کامرانی کا زینہ جدید علوم وفنون کی بنیادوں پر ہی استوار ہے۔ اسی کے ذریعے ایک قوم اپنی آزادی و عزت برقرار رکھ سکے گی۔

باتھ روم میں مطالعہ

1947ء میں جب بائیس سالہ مہاتیر محمد کا داخلہ سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں ہوا تو وہیں ان کی ملاقات اکیس سالہ حازمہ بنت علی سے ہوئی۔وہ کالج میں ملایا سے آئیں اکلوتی طالبہ تھیں۔جبکہ ملایا کے سات طلبہ میں مہاتیر ہی سب سے زیادہ ذہین وقابل تھے۔یہی وجہ ہے،دونوں جلد قریب آ گئے۔یہ قربت اس وقت بڑھی جب مہاتیر اپنی ہم جماعت کو انگریزی کی ٹیوشن دینے لگے۔حازمہ کو ان کی حسِ مزاح اور دیانت داری پسند آئی۔مہاتیر کو حازمہ کا مضبوط کردار بھا گیا۔

وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔اپنی محنت کے بل بوتے پر انھوں نے ترقی کی اور اب ڈاکٹر بن رہی تھیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1956ء میں دونوں نے شادی کر لی۔پچھلے تریسٹھ برس   سے یہ مثالی جوڑا خوش وخرم زندگی گذار رہا ہے۔ڈاکٹر حازمہ طویل عرصہ سرکاری ملازمت کرتی رہیں۔اس دوران انھوں نے تعلیم وصحت کے اہم شعبوں میں سماجی خدمات بھی انجام دیں۔تاہم سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔یہ مہاتیر محمد کے اصولوں کے منافی تھا کہ بیگم کو سیاسی سرگرمیوں میں لے آتے۔انھوں نے بچوں کو بھی اپنے اعلی سیاسی مقا م سے کوئی فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔بچوں نے اپنے زور بازو سے دنیا میں نام و مال کمایا۔

حازمہ گانے بجانے کی شوقین ہیں۔آج بھی پیانو بجاتی اور مشہور گانے گنگنا لیتی ہیں۔میاں بیوی گاہے بگاہے فلم دیکھتے اور یوں ’’ڈیٹ‘‘پر جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے ’’ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز برداشت اور دوسرے کو احترام دینے میں پوشیدہ ہے۔ہم نے ایک دوسرے کو تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا۔ہم جھگڑتے بھی ہیں مگر لڑائی تین دن سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔‘‘دونوں سات بیٹے بیٹیوں کے فخرمند والدین ہیں۔حازمہ بتاتی ہیں:’’نوجوانی میں میرے شوہر کافی شرمیلے تھے۔رفتہ رفتہ میں نے ان میں تین خوبیاں پائیں۔پہلی یہ کہ وہ ہر حال میں پُرسکون رہتے ہیں،گھبراتے نہیں۔

دوسری یہ کہ بہت ذہین ہیں۔دوسروں کو ذہانت ہی ان کی جانب کھینچتی ہے۔تیسرے وہ معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔وجہ یہ کہ بہت پڑھاکو ہیں۔میرے گھر میں آپ کو ہر جگہ کتابیں رسالے نظر آئیں گے۔حتی کہ وہ باتھ روم میں بھی مطالعہ کرتے ہیں۔مطالعے کی عادت کے باعث ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔‘‘ مہاتیر محمد کے طرز ِزندگی کی بابت کہتی ہیں:’’جوانی میں وہ 8 تا  5 کام کرتے تھے۔آج کل کام زیادہ ہے ،اسی لیے 8.30 تا  6مصروف رہتے ہیں۔شام کو گھر آ کر ٹی وی دیکھتے ہیں۔الجزیرہ ان کا پسندیدہ چینل ہے۔ایک گھنٹے بعد غسل کر کے نماز پڑھتے ہیں۔رات ساڑھے نو بجے ہم کھانا کھاتے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔‘‘

The post ’’عالمی سیاست میں انصاف نہیں طاقت کا راج ہے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

اور پھر تاریخ بدل گئی

$
0
0

دنیا ہمارے تصور اورخیال سے بھی زیادہ نازک ہے۔ ہم کب اور کیا سوچتے ہیں، کب کب اپنے فیصلے بدلتے ہیں اور وہ بدلے ہوئے فیصلے کس طرح انسانی زندگیوں میں ہلچل مچادیتے ہیں۔

خاص طور آخری لمحات میں بدلے ہوئے یہ فیصلے غیرمتوقع نتائج بھی دیتے ہیں چاہے وہ بڑے نتائج ہوں یا چھوٹے۔ ذیل میں تاریخ کے چند واقعات پیش کیے جارہے ہیں جن میں آخری لمحات میں بدلے گئے فیصلوں نے تاریخ کو ہی بدل ڈالا اور بڑے عجیب و غریب نتائج پیش کیے جنہوں نے تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ناگاساکی پر ایٹمی بم باری سے پہلے اور بعد میں۔۔۔نہ ناگاساکی پر حملے کا کوئی پروگرام تھا اور نہ اسے تباہ کرنا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ کسی دوسرے شہر پر حملے میں تاخیر اور آؒخری منٹ میں کیا جانے والا وہ فیصلہ جس نے ایک شہر کو بچالیا اور دوسرے شہر کو تباہی سے دوچار کردیا۔ بات تو عجیب ہے، لیکن ہے بہت حیران کن:

ہیروشیما پر ایٹمی بمباری کے تین روز بعد رات کے 3:49پر اور 9 اگست 1945 کی علی الصبح B-29 Bockscar طیارہ جسے امریکی فضائیہ کا میجر چارلس ڈبلیو Sweeney اڑا رہا تھا، پیسیفک کے Tinian island سے بلند ہوا۔ اس کی منزل جاپانی شہر Kokura تھا۔ اسے اس شہر کو تباہ کرنا تھا، مگر عین موقع پر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ پوری کہانی ہی بدل گئی۔ یہ شہر تو تباہ نہیں ہوا البتہ جاپان کا دوسرا شہر ناگاساکی تاریخ کی اس تباہی سے دوچار ہوا کہ اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔

چند روز پہلے ہی ہیروشیما پر یورینیم سے تیار کردہ ہتھیار، یہ ہتھیار Bockscar کا سب سے زیادہ مہلک ہتھیار تھا۔ یہ اس تباہ کن مشن پر روانہ ہوا۔ پھر رات کی کالی چادر طلوع آفتاب میں بدلی اور صبح کی سپیدی نمودار ہوئی۔

اس کے ساتھ ہی جاپانی شہر Kokura میں زندگی نے انگڑائی لی اور پورا شہر سنہری دھوپ میں ڈوب گیا، مگر وہاں کے لوگ اس خطرے سے بے خبر تھے جو بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس سے پہلے موسمی خبریں لانے والے طیاروں نے Kokura پر صاف موسم کی اطلاعات دی تھیں اور اسی لیے Bockscar اپنے ہدف کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا جہاں اسے ایک Big Stink ایک B-29 کے ساتھ فلم بندی بھی کرنی تھی اور حملہ بھی کرنا تھا۔

٭ناگاساکی کی تباہی:

تاہم Big Stink پورے آسمان میں کہیں دکھائی نہیں دیا، اس لیے Bockscar نے فضا کا پورا چکر لگایا، وہ فلم بنانے والے جہاز کا انتظار کررہا تھا جس کے ساتھ اسے آگے کا کام کرنا تھا، وہ انتظار میں تھا کہ وہ طیارہ نظر آجائے، مگر اسے مایوسی ملی اور طیارہ دکھائی نہ دیا۔

لگ بھگ 40 منٹ کی پرواز کے بعد Sweeney Kokura کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس وقت تک حالاں کہ بادل چھائے ہوئے اور قریبی شہر پر ہونے والے حملے کا دھواں بھی چھایا ہوا تھا جس سے ایک نیا فضائی منظر وجود میں آچکا تھا۔ اگلے پچاس منٹ میں Bockscar نے آسمانوں میں ہی اپنے اہدافی شہر کے اوپر وہ فاصلہ عبور کرلیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔ نیچے Kokurans یعنی Kokura کے باسی اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے، انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ ان کے سروں پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔

ادھر Sweeney اپنی کوشش میں لگا رہا، آخرکار مسلسل تین ناکام کوششوں کے بعد Sweeney نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور اس کی جگہ دوسرا متبادل ٹاسک انجام دینے کا ارادہ کرتے ہوئے ایک نئے ہدف کی طرف بڑھ گیا۔ اب اس کا رخ ناگاساکی کی طرف تھا جو جاپان کا وہ شہر تھا جو تباہ ہونے والا تھا۔ یہ آخری لمحات میں کیا جانے والا وہ فیصلہ تھا جس نے جاپان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی تاریخ ہی بدل ڈالی اور دنیا کے عظیم شہر ناگاساکی کی تباہی اور بربادی کی نئی تاریخ رقم ہوگئی جس کے زخم آج تک تازہ ہیں۔

٭وہ تقریر جس نے ٹیڈی روز ویلٹ کی جان بچالی:

یہ 1912 کی بات ہے جب ٹیڈی روز ویلٹ نے 1908میں اپنے صدارت سے دست بردار ہونے کے فیصلے پر دکھ اور پچھتاوے کا اظہار کیا تھا، چناں چہ وہ واپس اپنی صدارتی مہم جوئی کی طرف لوٹ آیا جس میں وہ بل موس پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار تھے۔ اسی سال کی 14 اکتوبر کو وہ حاضرین سے خطاب کرنے کے لیے Milwaukee Auditorium میں روسٹرم پر پہنچے اور خطاب کرتے ہوئے کہا:’’دوستو!میں آپ سب سے گذارش کروں گا کہ جتنا ممکن ہو خاموشی اختیار کریں۔‘‘، اس کے بعد انہوں نے نہایت فکر انگیز خطاب کیا، یہ ایسے الفاظ تھے جو سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل تھے۔

’’مجھے نہیں معلوم کہ آپ پوری طرح یہ جانتے ہیں یا نہیں کہ مجھے مار دیا گیا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی تمام پریشان حاضرین کے منہ سے آہیں نکل گئیں۔ اس کے بعد ٹیڈی روزویلٹ نے اپنی ویسٹ کے بٹن کھولے تاکہ وہ اس کے نیچے موجود خون آلود قمیص کو دکھاسکیں۔ اس کے بعد سابق صدر نے اپنے سابقہ الفاظ میں مزید یادگار الفاظ کا اضافہ کرتے ہوئے کہا:’’کسی بل موز کو مارنے سے زیادہ اس کام میں وقت لگتا ہے۔ میں کسی ہلاکت کی افواہ کی پروا نہیں کرتا۔‘‘

اس کے بعد روزویلٹ نے اپنے کوٹ کی جیب سے پچاس صفحات پر مشتمل اپنی تقریر کا مسودہ نکالا جو گولی لگنے سے پھٹ چکی تھی اور پھر حاضرین سے کہا:’’یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری تقریر کا مسودہ میرے پاس تھا جس کی وجہ سے میں آج آپ سب کے سامنے موجود ہوں ، جب کہ اس میں لگنے والی گولی نے میری جان بچالی۔ اگر میری تقریر میری جیب میں نہ ہوتی تو یہ گولی سیدھی میرے دل میں گھس جاتی۔ گولی اب بھی میرے جسم میں ہے، اس لیے میں لمبی تقریر تو نہیں کرسکوں گا، لیکن میں پوری کوشش کروں گا۔‘‘

یہ سن کر آڈی ٹوریم میں ہلچل مچ گئی، لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اس کے بعد ٹیڈی روزویلٹ نے 90منٹ تک دھواں دھار اور پرجوش تقریر کی اور تاریخ میں غیرمعمولی نام پیدا کرکے سبھی لوگوں کو حیران کردیا۔

٭جب تقریر نے قتل کی سازش ناکام بنادی:

قتل کی وہ کوشش 8 PM کو کی گئی جب روزویلٹ اپنے ہوٹل سے باہر ایک کھلی کار میں بیٹھنے لگے اور انہوں نے اپنا ہیٹ لوگوں کی طرف دیکھ کر ہلایا۔ اسی وقت اندھیرے میں ایک اعشاریہ 38 کے کولٹ ریوالور کی روشنی کا جھماکا ہوا اور ٹیڈی روز ویلٹ کو گولی ماردی گئی۔ ایک ایڈی کانگ نے ممکنہ قاتل کو بڑی مشکل اور مہارت سے قابو کرلیا اور اسے دوسرا وار کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے بعد لوگوں کے ہجوم نے اسے گھیرلیا۔ مجرم ایک پاگل اور مخبوط الحواس avarian immigrant تھا جس کا نام جان فلیمنگ شرینک بتایا گیا، پبلک اس کو وہیں مارڈالتی اگر بیچ میں روزویلٹ نے مداخلت نہ کی ہوتی۔ انہوں نے کہا تھا:’’اسے مت مارو، بلکہ اسے میرے پاس لے آؤ۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد روزویلٹ نے شرینک سے پوچھا:’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

جواب میں شرینک کے حلق سے آواز بھی نہ نکلی تو ٹیڈی روزویلٹ نے ہجوم سے کہا:’’اسے پولیس کے حوالے کردو۔‘‘

پھر روزویلٹ نے اپنی قمیص کے اندر ہاتھ ڈالا اور محسوس کیا کہ اس میں سکے کے سائز کا سوراخ بن گیا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے ایڈی کانگ سے کہا:’’اس نے مجھے گولی ماردی ہے۔‘‘ سابق صدر نے اپنے ہاتھ میں دو تین بار کھانس کر دیکھا اور جب خون کا کوئی قطرہ دکھائی نہ دیا تو وہ مطمئن ہوگئے کہ ان کے پھیپڑے محفوظ ہیں۔

پھر انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ انہیں Milwaukee Auditorium لے جایا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے لیے منتظر حاضرین سے خطاب کرسکیں۔

روزویلٹ کو شوٹ کرنے والے شرینک کی حالت ایسی تھی جیسے وہ حالت خواب میں ہو یا نشے میں ہو۔ شرینک کو بعد میں پاگل قرار دے دیا گیا اور 1943 تک یعنی اپنی موت تک وہ وہیں رہا۔

٭مارٹن لوتھر کنگ:

جب مارٹن لوتھر کنگ نے برجستہ کہا:’’میں نے ایک خواب ناک تقریر کی ہے۔‘‘

’’میں نے ایک خواب ناک تقریر کی ہے۔‘‘ یہ فقرہ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے مشہور و معروف کلمات میں سے ہے جو کبھی کسی امریکی نے اپنی زبان سے ادا کیے تھے۔ یہ ایک بے مثال اور اثر انگیز تقریر کے یادگار الفاظ تھے جو انہوں نے لنکن میوریل میں 28 اگست1963کو ادا کیے تھے۔ یہ فقرہ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ لیا گیا۔ بلاشبہہ یہ جملے مارٹن لوتھر کنگ کی زبان سے ہی ادا ہوسکتے تھے۔ انہوں نے انسانی حقوق کے لیے جس طرح جدوجہد کی، اس کا گواہ پورا امریکا تھا۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ اس دن مارٹن لوتھر کنگ جونیر جس طرح روسٹرم پر چل کر پہنچے تھے، اس روز انہیں ایک لکھی ہوئی تیار تقریر ہی پڑھنی تھی جس کی نقول پریس کے پہلے سے موجود لوگوں میں تقسیم بھی کردی گئی تھیں، جن میں خواب کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم اس تقریر کا ساتواں پیرا پڑھتے ہوئے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سانس لینے کے لیے رکے، اس مختصر سے وقفے میں مارٹن لوتھر کنگ کے دوست معروف سنگرMahalia Jackson نے چیخ کر کہا:’’انہیں اس خواب کے بارے میں بتاؤ۔‘‘

مارٹن لوتھر کنگ نے اس تقریر کے مسودے کو ایک طرف کیا، اپنا انداز بدلا اور پھر ایک نئے انداز میں بات شروع کی:’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔‘‘

٭اتحادیوں کا روز قیامت کا تذبذب:

یہ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے جب اتحادیوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر بہت بڑا اور قیامت خیز معرکہ شروع کیا۔ اس عظیم آپریشن میں چار ہزار سے زیادہ بحری جہاز اور 11,000 جنگی طیارے شامل تھے، مصنوعی بندرگاہیں انگلش چینل کے پار پانی میں گھسیٹ کرلائی گئی تھیں اور لاکھوں افراد کسی نہ کسی صورت میں اس آپریشن کا حصہ تھے۔

اس حملے کے پہلے دن 150,000 سے زیادہ افراد کی کام یاب اور محفوظ لینڈنگ کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔ اگر یہ لوگ ہٹلر کے دفاعی قلعے یورپ کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور فرانس میں قدم رکھنے میں بھی کامیاب ہوجاتے تو ان حملہ آوروں کے پیچھے پیچھے سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں اضافی اتحادی فوجی نازیوں کے پنجوں سے یورپ کو آزاد کرا لیتے۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا، پورے وقت، مکمل کوشش اور برسوں کی تیاریوں کے بعد بھی ایسا نہ ہوسکا۔ حالاں کہ انہوں نے برسوں کی محنت کے بعد یہ عظیم پلان تیار کیا تھا، لیکن پھر بھی انہیں اس پر عمل کرتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا اور کام یابی کی کوئی امید یا ضمانت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

انہیں دوسری طرف سے سخت مزاحمت کی امید تھی اور زمین پر کسی بھی طرح کی معمولی سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہر لحاظ سے تیار تھے۔ انہیں موسم کا بھی خیال تھا اور حساب کتاب میں گڑ بڑ کی بھی توقع تھی۔ یہ ذرا بھی غلطی سارے پلان کو تباہ کرسکتی تھی۔ کوئی بھی فرد General Dwight D. Eisenhower سے زیادہ پریشان نہیں تھا کیوں کہ اسے بہت سے تلخ حقائق کا علم تھا اور سپریم ہیڈکوارٹرز الائیڈ ایکسپیڈیشنری فورس کا کمانڈر تھا۔

٭موسم کی دھوکے بازی:

لیکن ان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جنرل آئزن ہاور اور اتحادی کمانڈرز کو ایک چیز پر بالکل کوئی کنٹرول نہیں تھا، مگر یہ وہ چیز تھی جو ہر طرح کی احتیاط کے ساتھ تیار کیے گئے پورے پلان کو تباہ کرسکتی تھی اور وہ تھا موسم۔۔۔ ڈومز ڈے کی کامیابی کے لیے اس سارے کام میں کچھ کنڈیشنز یا موسمی کیفیات کے کمبی نیشن کی ضرورت تھی جن میں اس دن کے ایک خاص وقت میں سمندری مدوجذر اور اس کی کیفیات درکار تھیں۔

ایک پورا اور مکمل چان آپریشن سے پہلے ان ساحلوں پر رات کو پیراشوٹ لینڈنگ میں بڑا مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ ساحلوں پر پہلا لینڈنگ کرافٹ اپنے فوجیوں کو اس طرح اتارتا کہ وہ ہائی اور لو یعنی بلند اور نچلے مدوجذر کے درمیان ہوئے جس کے ساتھ آنے والا مدوجذر آ بھی جاتا۔ تاہم ان تمام کیفیات کے ہونے کے باوجود موسم کے تعاون کی اشد ضرورت تھی، آئزن ہاور نے 5جون کے حملے کا شیڈول اس طرح بنایا تھا کہ اس میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن پھر بھی موسم نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

٭ مشن میں تاخیر:

4جون  1944کو یعنی حملے سے ایک روز پہلے ایک موسمی محاذ کھل گیا۔ زیریں بادل چھاگئے جن کی وجہ سے طیاروں کے لیے اپنے اہداف تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ ساتھ ہی بپھرے ہوئے سمندر اور طوفانی ہواؤں نے لینڈنگ کرافٹس کی لانچنگ اور لینڈنگ دونوں ہی مشکل بنادیں۔ چناں چہ 5جون کی لینڈنگ منسوخ کردی گئی لیکن اس وقت تک فوجی پہلے سے ہی اپنے بحری جہازوں پر متعین ہوچکے تھے اور دور دراز مقامات سے تمام بحری جہاز پہلے ہی نارمنڈی کی طرف چل پڑے تھے۔

ان جہازوں کو بیچ میں روکنا اور ساتھ ہی امید رکھنا کہ وہ جرمن انہیں نہیں دیکھ سکیں گے، بہت مشکل کام بن چکا تھا۔ چناں چہ اس حملے کی تاریخ میں ایک روز کی مزید تاخیر کردی گئی اور یہ6 جون مقرر کی گئی، لیکن شرط یہ تھی کہ اس روز موسم بہتر ہوجائے۔ ورنہ اس حملے کی تاریخ کئی ہفتوں بعد رکھی جاسکتی تھی اور اس کے لیے موسم اور چاند کے ساتھ سمندری طغیانی کو بھی پیش نظر رکھا جانا تھا۔ پھر یہ کیفیات 18 سے20 جون تک آرہی تھیں یا پھر اگلا پورا مہینہ صحیح طغیانی اور چاند کی کیفیات کے مطابق آرہا تھا۔

٭آئزن ہاور کا ڈومز ڈے جوا:

6جون کو حملہ نہ کرنے فیصلے میں تبدیلی کا مطلب یہ تھا کہ ہزاروں بحری جہازوں کو واپس بلالیا جاتا اور ان تمام فوجیوں کو بھی واپس طلب کرلیا جاتا جو پہلے ہی بحری جہازوں پر سوار تھے۔ زیادہ بہتر صورت یہ تھی کہ اس مشن کو کینسل کردیا جائے اور اگلے ماہ پر رکھ لیا جائے۔ تاہم  4جون کی شام کو رائل ایئر فورس میٹیرولوجسٹ جیمس اسٹیگ نے آئزن ہاور سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اپنی پیش گوئی شیئر کی کہ 6 کو خراب موسم میں وقفہ ہوگا اور اس روز حملہ ممکن ہوسکے گا۔ پوری کی پوری کمانڈ کا بوجھ آئزن ہاور کے کندھوں پر تھا اور وہ اس کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے فکرمند تھے کہ یا تو وہ 6 کو حملہ کردیں یا کینسل کردیں یا پھر اگلے چند ہفتوں تک بہتر موسم کا انتظار کریں۔

اپنے ماتحتوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد آئزن ہاور نے ماہرین موسمیات پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا اور 6 کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ بعد میں حالات و واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ آئزن ہاور کا یہ موسمی جوا متعدد حوالوں سے صحیح ثابت ہوا، کیوں کہ اگر حملے کی تاریخ مزید پیچھے کی جاتی تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑجاتا۔19 سے22 جون تک نارمنڈی کے ساحل سے ایک بہت بڑا طوفان ٹکرایا جس کی وجہ سے وہاں لینڈنگ ناممکن ہوجاتی یا پھر فوجی بھی باقی سب سے الگ ہوجاتے۔ تاہم اتحادی ابھی تک جنگل سے باہر نہیں تھے اور نہ وہ صحیح موسم میں تھے۔ یہ ساری کی ساری مہم جوئی اب بھی ناکامی کا شکار ہوسکتی تھی۔

ایک کمانڈر کی حیثیت سے آئزن ہاور کا فرض تھا کہ وہ اپنے ملک کے قیمتی فوجیوں کی جانیں بھی بچائیں اور انہیں خواہ مخواہ ضائع نہ ہونے دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے جوانوں سے اپنے خطاب میں کہا تھا:’’تم پر ایک اہم جنگ مسلط ہوچکی ہے، جس کے پیچھے ہم گذشتہ کئی ماہ سے لگے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کی نگاہیں تم پر ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں فتح سے کم اور کچھ نہیں چاہیے۔ جاؤ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ آپریشن ایک فتح کے طور پر پلان کیا گیا ہے اور تمہیں جیت حاصل کرنی ہے۔ ہم اپنی فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والے ہر رکاوٹ کو دور کردیں گے اور اس کامیابی کو حاصل کرکے رہیں گے۔‘‘

تاہم حملے سے ایک روز پہلے انہوں نے ایک اور پیغام بھی تیار کیا جو دوسری صورت میں دیا جانا تھا۔ وہ پیغام یہ تھا: Cherbourg-Havre ایریا میں ہماری لینڈنگز ایک تسلی بخش کام یابی حاصل کرنے کے لیے ناکام ہوئی ہیں۔

میں نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹالیا ہے، اس وقت حملہ کرنے کا میرا فیصلہ اور جگہ دونوں مجھے فراہم کی گئی بہترین معلومات کی صورت میں تھا۔ پیدل فوج، فضائیہ اور بحریہ سبھی نے بہادری اور وطن سے اپنی لگن کی بہترین مثالیں قائم کی ہیں۔ اگر اس میں کوئی ناکامی ہوئی تو اس کا تنہا ذمے دار میں ہوں۔

پھر یہ ہوا کہ اتحادیوں کو بڑی تعداد میں نقصان اٹھانا پڑا، ڈومز ڈے پر 10,000افراد زخمی ہوئے اور لگ بھگ 4500 لقمۂ اجل بنے۔ تاہم یہ تمام نقصانات آئرن ہاور اور ان کے کمانڈرز کے اندازوں سے کہیں کم تھا۔

6 جون کے اختتام تک 156,000 فوجی لینڈ کرگئے تھے اور ایک ساحل کو بھی حاصل کرلیا گیا تھا۔

٭آخری لمحات کا برتھ ڈے سرپرائز جس نے اتحادیوں کی ڈومز ڈے پر مدد کی تھی:

آئزن ہاور نے نارمنڈی لینڈنگز میں آخری لمحات پر اپنے فیصلے بدل کر جس طرح ساری دنیا کو حیران کیا تھا، اسی طرح بدلتے موسم نے بھی اس صورت حال میں اہم کردار ادا کیا تھا، آخر اسی جگہ پر اتحادیوں کو ایک غیر متوقع تحفہ بھی دیا گیا۔

1944 تک جرمن کمانڈر جسے مغربی اتحادی بہت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اس کا نام تھا ارون رومیل، یعنی ڈیزرٹ فوکس جس نے انہیں شمالی افریقہ میں تگنی کا ناچ نچا دیا تھا، ہٹلر نے اسی کو شمالی فرانس کے دفاع کا انچارج بنادیا تھا۔ اتحادیوں کو توقع بھی تھی اور خوف بھی کہ اس کی وجہ سے انہیں ڈومز ڈے پر بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈومز ڈے پر رومیل نارمنڈی سے دور تھا۔ خراب موسم جس نے آئزن ہاور کے لیے اپنے فیصلے پر عمل کرنا آسان بنادیا تھا، اس نے ڈیزرٹ فوکس کو یہ سمجھنے پر مجبور کردیا کہ ان حالات میں اتحادی کبھی حملہ نہیں کریں گے۔

اس لیے رومیل نے ایک خبط میں آکر یہ فیصلہ کیا کہ اس نے اپنی کمانڈ سے دوری اختیار کرتے ہوئے جرمنی واپسی کا فیصلہ کیا تاکہ اپنی بیوی کو اس کی سال گرہ کے موقع پر پہنچ کر حیران کردے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ 6جون 1944 کو تھا ۔ بعد میں اس کے ماتحتوں نے اسے فون پر بتایا کہ اس کی غیر حاضری میں وہاں کیا ہوا ہے۔

رومیل 7 جون تک نارمنڈی واپس نہ پہنچ سکا۔ اس وقت تک حملہ پہلے ہی کامیاب ہوچکا تھا اور اتحادی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرچکے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے دشمن کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کام یابی حاصل کرلی تھی۔ نہ وہ اپنی بیوی کی سال گرہ کے موقع پر اسے مبارک باد دینے گھر جاتا اور نہ ہی یہاں اتحادیوں کو یہ ساری کامیابی ملتی۔

The post اور پھر تاریخ بدل گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

نوازشریف کارگل آپریشن کی اجازت دے کر بعد میں ُمکر گئے

$
0
0

(قسط نمبر 12)

سابق وزیرا عظم محمد نواز شریف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کے دو ایسے اہم کر دار ہیں، جن کی قسمت میں طویل اقتدار، شہرت،دولت کے ساتھ قید وبند، جلا وطنی، مقدمات، بیماریاں اور بدنامی بھی ساتھ ساتھ رہیں ۔ 3 نومبر2019 کو جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو یہ دونوں شخصیات  شدید بیماری کی حالت میں ہیں۔

محمد نواز شریف کو تین چار روز  جیل سے بوجہ بیماری سزا کی معطلی کے ساتھ  ضمانت پر دو ماہ کی رہائی ملی ہے جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت کی جانب سے مفرور اور ویسے بھی شدید بیمار اور جلا وطنی میں ہیں، یہ دونوں ہی مہم جو،غصیلے، ضدی اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔

البتہ اب عمر کے ڈھلنے اور بیماریوں کی وجہ سے چہروں سے کمزور دکھا ئی دیتے ہیں، اِن دونوں میں اگر تضاد ہے تو وہ یہ کہ نواز شریف صدر جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ سیاست میں متعا رف ہو کر اُن کی انتہا ئی مہربانی اور کرم نوازی سے اقتدار میں آئے، اور جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور بطور وزیرِ ا عظم اُنہوں نے اپنے اقتدار کے تین مراحل میں فوج سے اور خصوصاً آرمی چیف کے ساتھ مفاہمت کی بجائے مخاصمت کا رویہ رکھا۔

جب کہ پرویز مشروف فوجی جنرل کے طور پر ایک کامیاب اور مہم جو سپہ سالار کے طور پر سامنے آئے اور اپنے جوہر دکھانے اور وقت کی نزاکت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر مہم جوئی کی کوشش کی اور پھر اقتدار میں آئے اور آغاز میں اصولوں کو اپنائے رکھا مگر بعد میں اقتدار کے لالچ میں بہت سے اصولوں سے انحراف کیا، بد قسمتی سے اِن کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے واقعات ہوئے، اور خصوصاً 11 ستمبر2001 کے سانحے کے بعد اُنہوں نے جو کردار ادا کیا اُس پر اب تک منفی اور مثبت دو انداز سے مباحثے جاری ہیں۔

ایک موقف یہ ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کے ساتھ مل کر کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا اور اگر مشرف یوٹرن نہ لیتے تو اُس وقت پاکستان کو بہت ہی شدید نقصان سے گزرنا پڑتا اور پاکستان کا ایٹمی پر وگرام جو1998 میں اعلانیہ بھارت کے مقابلے میں سامنے آیا تھا اُسے تین سال بعد ہی رول بیک کر دینا پڑتا پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا تو امریکہ کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرویز مشرف حکومت نے وہ تعاون نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھے اور پھر آنے والے دنوں میں امریکہ متواتر پاکستان سے ڈومور کا تقاضا کر تا رہا۔

دوسرے نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والوں کا خیال ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعدامریکہ کا ساتھ دے کر پا کستان نے شدید غلطی اور بہت زیاد ہ نقصان اٹھایا، اسی طرح نواز شریف پر یہ تنقید رہے گی کہ نواز شریف کو ئی نظریاتی سیاست دان نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح خارجی،داخلی یا اقتصادی طور پر پاکستان کو دنیا میں کوئی مقام دلایا البتہ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور باوجود اقتدار کے جانے کے اور یہاں تک کہ معاہدہ کر کے جلا وطن ہونے کے برسوں بعد دوبارہ اقتدار بھی پارٹی پر اپنی گرفت کی وجہ سے حاصل کیا۔

دونوں شخصیات نے بڑے مسائل کا سامنا بھی کیا اور اسی طرح اپنے دور اقتدار میں اختیارات اور قوت کے ساتھ حکمرانی بھی کی، 1984 میں بھارت نے سیا چن پر قبضہ کیا تھا اور پھر 1987 اور1989 میںسیا چن کے محاذ پر لڑائیاں ہوئیں،آپریشن میگا ڈوٹ Operation Meghdoot جو انڈیا کی جانب سے سیا چن میں 1984 میں کیا گیا تھا اس میں پرویز مشرف لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبرکے ساتھ بطور بریگیڈیئر شریک تھے اور کار گل کی جنگ کا آئیڈیا پاکستانی فوجی اعلیٰ کمانڈ نے تیار کیا تھا اور 1986 کے بعد اِس منصوبے پر سربراہان سے بات چیت بھی ہوتی رہی۔

مسلم لیگ ن نے 1997 کے انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں کا 45.9% لے کر قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں میں سے 137 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے21.8% ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں حاصل کر سکی۔ 17 فروری1997 کو نوازشریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے اور پھر ان کو181 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا۔ 2 دسمبرکو صدر فاروق لغاری نے استعفٰی دیا، 3 دسمبر1997 کو جسٹس سجاد طویل رخصت پر چلے گئے،17 اکتوبر 1998 کو نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف سے آرمی چیف کا حلف لیا کیونکہ جنرل جہانگیر کرامت جنہوں نے 9 جنوری1999 کو ریٹائر ہونا تھا انہوںنے پہلے ہی استعفٰی دے دیا تھا۔

نواز شریف پورے اختیارات کے ساتھ تیزی سے اہم عہدوں اور اداروں میں ردوبدل کر رہے تھے، وہ آئینی طور پر 58-B2 کا خاتمہ کر چکے تھے، جنرل پرویز مشروف کے آرمی چیف بننے کے تقریباً ساڑھے چھ مہینے بعد 3مئی 1999 ء میں کارگل کی لڑائی ہوئی جس کے بارے میں پہلے یہی کہا گیا کہ یہ کاروائی کشمیری حریت پسندوں نے کی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ پشت پناہی پاکستانی فوج نے کی تھی۔ اُس وقت بھارت میں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے جو فروری 1999 میں لاہور آکر اعلان لاہور پر دستخط کر چکے تھے۔

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ودیہ پر کاش مالک تھے اور کارگل کی جنگ میں کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل چندرا شیکر ٖفضائیہ کے سربراہ انیل یسونت تھے۔ بھارتی فوج کی تعداد 30000 تھی، بھارت کے مطابق جنگ میں 527 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور 1363 زخمی ہوئے بھارت کے دو طیارے اور ایک ہیلی کوپٹر تباہ کیا گیا۔ پاکستان میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف تھے۔ کمانڈ پر لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان تھے۔

فضائیہ کے سربراہ ایر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی تھے۔ کارگل جنگ میں 453 پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور 357 زخمی ہوئے۔ تقسیم ہند اور آزادی سے قبل کارگل لداخ کی ایک تحصیل تھا، لداخ کا یہ علاقہ جو اب گلگت  بلتستان کہلاتا ہے1947-48 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سے یہ علاقہ پا کستان کا ہے، 1972 کے شملہ معاہدے کے بعد سے کارگل مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کا ایک ٹاؤن ہے جو لائن آف کنٹرول سے پاکستانی علاقے سکردو سے 170 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہاں سے ایک سڑک کار گل کو سکردو سے ملاتی ہے جسے 1949 کے بعد بند کر دیا گیا جب کہ شمال میں بھارت کی ا ین ایچ ون یعنی نیشنل ہائی وے ون ہے جس کی لمبائی 205 کلومیٹر ہے جو کارگل کو سری نگر سے ملاتی ہے۔

یہ سڑک سطح سمندر سے اوسطاً 16000 ہزار فٹ بلند ہے اور بعض مقامات پر اس کی بلندی18000 فٹ ہو جاتی ہے۔ یہ پوراعلاقہ ہمالیائی پہاڑی علاقہ ہے جہاں سیا چن سمیت دنیا کے بڑے بڑے گلیشئیر موجود ہیں، سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی48 درجے تک گر جاتا ہے۔

1972 ء سے1982ء تک یہاں کسی قسم کی فوجی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیں لیکن اس کے بعد بھارت نے آپریشن میگھ ڈوٹ Operation Maghdoot کے بعد ہی یہاں پر بھارت نے نہ صرف شاہراہ بنائی بلکہ یہاں سے ہی سیاچن میں  فوجیوں کو تمام سامان اور خوراک کی سپلائی کی جاتی ہے۔ کارگل جنگ میں بھارت نے اپنی کاروائی کے دوران آپریشن کا کوڈ نیم  Safed Sagar Operation ،آپریشن سفید ساگر رکھا تھا، یہ سیا چن کی جنگ کے بعد اسی مقام پر حالیہ دنوں میں دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ رہا۔

جنگ کی صورتحال 3 مئی 1999 سے29 جولائی1999 یوں رہی، 3 مئی کو بھارت کو مقامی ذرائع سے کارگل میں پاکستانی فوج اورکشمیری مجاہدین کے قبضے کی خبر ملی 5 مئی کو یہاں پیٹرولنگ کرنے والے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا، 9 مئی پاکستان نے شیلنگ کر کے کارگل میں واقع اسلحہ گولہ بارود کا بھارتی ذخیرہ تباہ کر دیا، 10 مئی کو پہلی لڑائی دراس کارگل اور مشکومیں ہوئی، 11 مئی کو بھارت نے بھاری تعداد میں مزید فوج سری نگر سے پہنچا دی، 26 مئی کو بھارتی فضائیہ نے یہاں فضائی حملے شروع کر دئیے، 27 مئی کو بھارت کے لڑاکا طیارے مگ 21 اور مگ 27 کو زمین سے نشانہ لے کر تباہ کردیا گیا، 28 مئی کو بھارت کا ایک جدید جنگی ہیلی کوپٹر گرا دیا گیا اور چار فوجی افسران کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

یکم جون کو شدید گولہ ہاری کر کے نیشنل ہائی وے ون جو سری نگر کو کارگل سے ملاتی ہے اُسے بہت سے مقامات پر بالکل تباہ کردیا گیا، 5 جون کو بھارت نے اپنے طور پر پاکستانی فوج کے جنگ میں ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت دنیا کے سامنے پیش کر دیئے، بھارتی فوج نے کار گل میں بہت بڑا حملہ کیا مگر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں نا کام رہا،11 جون کو جب جنرل پرویز مشرف چین کے دورے پر تھے تو اِن کی بات چیت ٹیلی فون لائن پر راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز سے کارگل کی جنگ کے حوالے سے ہوئی۔

بھارت نے دعویٰ کیا کہ اُس نے یہ گفتگو ریکارڈ کی ہے اب بھارت نے پانچ ہزار فوج کے مقابلے میںاپنی تیس ہزار فوج اور درجنوں طیاروں سے دن رات حملے شروع کر دئیے، 15 جون کو امریکی صدر بل کلنٹن کا وزیر اعظم نواز شریف کو فون آیا اور کہا گیا کہ فوراً کارگل سے فوجیں واپس بلوا لو،اس کے بعد غالباً جنرل پرویز مشرف اور نوازشریف کے  درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور 29 جون تک محاذ کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آئی اور پھر خبریں بھارتی دعووں کی یوں تھیں، 29 جون بھارتی فوج نے پوائنٹ 5060  پوائنٹ 5100 پر دو اہم چوکیاں دوبارہ حاصل کر لیں، 2 جولائی بھارتی فوج نے کارگل پر تین حملے کئے، 4 جولائی بھارتی فوج نے گیارہ گھنٹوں کی لڑائی کے بعد علاقہ میں ٹائیگر ہلز کا علاقہ واپس لے لیا، 5 جولائی کو بھارت نے دارس کا علاقہ واپس لے لیا۔

اسی دوران امریکی صدر نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور اُنہوں نے کارگل سے فوجوں کو واپس بلوانے کا اعلان کر دیا۔ 14 جولائی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واچپائی نے آپریشن ویجے کی کامیابی کا اعلان کر دیا اور پاکستان سے بات چیت کے لیے شرائط رکھ دیں، 29 جولائی 1999 ء کو کارگل کی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

بھارتی فوج دوبارہ اُس علاقے میں آگئی جہاں 3 مئی سے جولائی12 تک کشمیری مجاہدین اور پاکستانی فوج کا قبضہ تھا۔کارگل میں کشمیری مجاہدین اور اِن کے پیچھے رہ کر سپورٹ پاکستانی فوج نے دی اور جب 3 مئی کو کارگل میں قبضہ ہو گیا تو یہ بھارت کے لیے اتنا ہی حیران کن تھا جتنا ہمارے لیے ،1984 میں بھارت کی جانب سے سیاچن پر قبضہ کیا گیا اُس وقت پا کستان افغان محاذ پر مصروف تھا اور اُسے بھارت کی خصوصی برفانی یا موٹین ڈویژن کی تیاریوں کے بارے میں دیر سے خبر ہوئی تھی لیکن یہاں تو بھارت کی فوج برسوںسے موجود تھی۔

اِس مقام پر قبضہ بہرحال ایک کارنامہ تھا اور یہ مقام اسٹرٹیجک اعتبار سے بہت اہم ہے اس سے سری نگر اور کار گل تک راستہ بھارتی فوج کے لئے کٹ گیا تھا اگر چہ سیاچن پر بھارتی فوجو ں کی سپلائی ہوائی جہاز وں سے ہوتی ہے مگر یہاں سے اِن ہوائی جہازوںکو بھی نشانے پر لیا جا سکتا تھا، بھارت نے کارگل پر 30000 فوج بھیجی جب کہ یہاں پر اس کے مقابلے میں تعداد  صرف پانچ ہزار تھی، اس جنگ میں بھارتی فوج کے مطابق اُس کے دو لڑاکا جنگی طیارے تباہ کئے گئے اور ایک ہیلی کاپٹر گرایا گیا۔

جس میں سوار چار بھارتی فوجی افسر گرفتار کر لیے گئے، یوں جب کارگل کی جنگ میں فتح کی خبریں عوام تک پہنچیں تو اُن کی جذباتی وابستگی والہانہ انداز میں افواج پاکستا ن کے ساتھ مزید بڑھ گئی،28 مئی 1998 کو پاکستان بھارت کے مقابلے میں فوراً ہی ایٹمی قوت بن گیا تھا اور اب ایک سال سے بھی کم مدت میں پاکستان نے بھارت کو ایک چیلنج دے دیا تھا۔

پاکستان فاتح تھا، دونوں ملک ایٹمی قوت تھے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں قراردادیں موجود ہیں جن میں بھارت نے یہ تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی مرضی سے کیا جائے ۔گا، لیکن امریکی صدر کی جانب سے فون آنے اور پھر 4 جولائی 1999 کو واشنگٹن جا کر صدر سے ملا قات کر نے کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کار گل سے بغیر کسی مطالبے اور شرائط کے فوجیں واپس بلوا نے کا اعلان کردیا اور یہاں سے فوجیں واپس ہو گئیں اور وزیر اعظم کے اس اقدام کو عوام نے سخت ناپسند کیا،

جب نواز شریف نے فوجوں کی کارگل میں موجودگی کو تسلیم کرلیا اور پھر واپسی کا حکم دے دیا تو اس کے بعد نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ کارگل آپریشن اُن کے علم میں لائے بغیر کیا گیا پھر کہا کہ آپریشن سے پہلے اور بعد میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اس پر اُن کو بتایا گیا کہ اُنہیں جنوری سے مئی 1999 تک تین مرتبہ بریفنگ دی گئی، 29 جنوری1999 کو نوازشریف کو بتایا گیا کہ بھارتی فوجیں لائن آف کنٹرول کے ساتھ سکردو کے بالکل قریب بھاری تعداد میں آگئی ہیں اور کارگل کے بارے میں بتایا گیا، پھر 5 فروری1999 کو فوج نے کارگل کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

اور 12 مارچ کو فوج نے راولپنڈی میں کارگل کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا اور فائنل 17 مئی کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں کارگل سے متعلق بتایا گیا تھا،جون کے اختتام پر ڈی سی سی میٹینگ میں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے کہا تمیں شروع ہی میں مجھے بتانا چاہیے تھا اس کے جواب میں انہوںنے جیب سے اپنی نوٹ بک نکالی اور اپنی ذاتی میٹنگیں جن تاریخوں میں اور جن عنوانات کے تحت کارگل جنگ کے سلسلے میں ہوئی تھیں اُن کی پو ری تفصیلات کے ساتھ اُن کے سامنے رکھ دیں۔

اس ریکارڈ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے نواز شریف نے اس آپریشن اور اس کی کامیابی کو اپنی شہرت اور نیک نامی کے انداز میں بہتر سمجھا اور جب اُن پر دباؤ آیا تو انہوں نے شروع میں کارگل آپریشن کی حمایت کی اور یہ نہیں کہا کہ یہ آپریشن اُن کے علم میں لائے بغیر کیا گیا مگر بعد میں اُنہوں نے انحراف کیا تو جنرل پرویز مشرف اور دیگر اعلیٰ فوجی افسران نے ثبوت سامنے رکھ دئے مگر پھر بھی نواز شریف نے مختلف مواقع پر فوجوں کی واپسی کے بعد یہ کہا کہ بریفنگ تو دی گئی مگر آپریشن کے بارے میں نہیں بتایا، لیکن یہ نواز شریف کی ایک کمزوری تھی جو تاریخ میں نہ صرف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق بلکہ امریکہ کے حکومتی ریکارڈ میں بھی زندہ ہے، نوازشریف اگر کارگل پر اسٹینڈ لے لیتے تو پاکستان کی تاریخ میں اُن کا نام فاتح کی حیثیت سے لکھا جاتا۔

بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا جنگ دسمبر 1971 سے چند دن قبل تھا جب بھارت نے پاکستان پر پوری شدت سے حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور فوجیں تیار تھیں تو اُس وقت کے امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو فون کر کے کہا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہ کریں اور اندرا گاندھی نے صدر نکسن کو یقین دلایا کہ بھارت ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔ پھر نہ صرف پوری شدت سے بھارت نے حملہ کیا بلکہ جب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے اور جب تک اُن کے آرمی چیف نے نہیں کہا،اندرا نے امریکی صد ر سے کوئی بات نہیں کی، یہ موقع تھا پھر جب 1984 میں سیا چن گلیشئر پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو اُس وقت امریکہ یا برطانیہ کس نے بھارت کو روک لیا تھا ؟ یہاں تو پا کستان کا موقف بھی درست تھا۔

اگر نوازشریف کارگل کے آپریشن پر فوج کے ساتھ ہوتے تو 28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کے اعزاز کی طرح یہ افتخار اور اعزاز بھی نواز شریف کے حصے میں آتا مگر شائد نواز شریف کی طبیعت ایسی ذمہ داری اُٹھانے کے قابل نہ تھی وہ خصوصاً صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے بعد گھبرا گئے تھے۔

نیویارک ٹائم نے کارگل جنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ کو آخری بار 24 جولائی2014 کو کارگل جنگ کے خاتمے کے پندرہ برس پورے ہونے پر ایک بار پھر شائع کیا یہ وائٹ ہاوس کے ریکارڈ کے مطابق اندر کی کہا نی ہے جس میں صدر بل کلنٹن کے ایک پرانے دوست لکھاری اور مورخ Taylor Branch کی کتاب کاحوالہ دیا گیا ہے، اس کتاب یا تاریخی نوعیت کے مسودے کا نام ،،A President’s Secert Diary (Simon and Schuster 2009 )  ) ہے۔

ٹائلر برانچ کا تعارف یوں ہے وہ کلنٹن کے دوست اور مورخ ہیں اور اُن کی دو چاردن یا ہفتے بعد صدر سے ملاقاتیں متواتر ہوتی رہتی تھیں اور اُن سے وہ سرکاری نوعیت کے معاملات اور کاروائیوں سے متعلق باتیں کرتے، اقدامات یا فیصلے جو صدر کی جانب سے کئے جاتے اُن کی تفصیلات معلوم کرتے تھے جو امریکہ اور دنیا کے لیے اہم ہوتے ہیں اور خصوصاً دنیا کے آزاد ملکوں کے سربراہان سے ملاقاتیں جو امریکہ کی عالمی سیاست اور خارجہ امور کے حوالے سے اہم ہوتی ہیں، یوں صدر بل کلنٹن ٹائلر برانچ کو یہ باتیں بتاتے ہیں اور وہ اِن ٹیپوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر اِن واقعات اور شخصیات سے ملاقاتوں اور امور کو تحریر کرتے ہیں اور یہ تمام ریکارڈ جیسے صدر نے بتایا بالکل اسی حالت میں مرتب کر دیا گیا تاکہ یہ تاریخ کا حصہ رہے اور آنے والے مورخین کے کام آتارہے۔

مورخ کی کتاب کے صفحات نمبر 560 اور561 کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹر لکھتا ہے کہ اُن دنوں صدر بل کلنٹن صدارت کے دوسرے دور میں مونیکا نامی خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کے اسکینڈل کی وجہ سے امریکی ناقدین اور کانگریس کے زیر عتاب تھے اور اُ ن کے مواخذے کی باتیں ہو رہی   تھیں اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ کارگل کا واقعہ رونما ہوا جس میں حریت پسند کشمیری اور پاکستانی فوجی پاکستانی علاقے سکردو کے قریب کنٹرول لائن کے پار بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کارگل پر قبصہ کر بیٹھے تھے اور برسوں کے حریف ملک بھارت اور پا کستان میں ایک بڑی جنگ کے اندیشے بہت بڑھ گئے تھے، صدر بل کلنٹن، ٹائلر برانچ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اُنہوں نے اس موقع پر واشنگٹن آنے کی دعوت نہیں دی۔

انہوں نے اپنے طور پر واشنگٹن آنے کی دعوت خود ہی لی، باوجود اس کے کہ صدر بل کلنٹن نے انہیں منع کیا کہ وہ امریکہ نہ آئیں مگر جب وہ پاکستان سے امریکہ کے لیے طیارے سے روانہ ہوگئے، تو 4 جولائی 1999 ء کو جو امریکہ کا یوم آزادی ہے اور امریکہ میں اس روز سرکاری سطح پر عام تعطیل ہو تی ہے اور خصوصاً امریکی صدر کی اس لحاظ سے اہم قومی نوعیت کی مصروفیات ہو تی ہیں، صدر کلنٹن نے اُن کو پسِ پشت ڈالا اور یوم آزادی کی بیشتر مصروفیات کو چھوڑ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کریں۔

نواز شریف کے آنے پر انہوں نے 4 جولائی یومِ آزادی کی وجہ سے وائٹ ہاوس میں اُن کا استقبال نہیں کیا بلکہ اپنے  اس گھر  کے سامنے اسٹریٹ کے پار، بیلر ہاوس لائبریری میں ملاقات کی کلنٹن، ٹائلربرابچ کو بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے نواز شریف کو بلا جھجک کہا کہ تماری فوج یہاں پر غلط ہے اور اس بحران میں کلنٹن کشمیر پر ثالثی نہیں کر سکتا کیونکہ ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں یعنی پاکستان اور بھارت اس پر راضی ہوں اور بھارت نے ثالثی سے انکار کیا ہے۔

اُن کا موقف یہ ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور اس پر ثالثی کی ضرورت نہیں۔ یوں صدر کلنٹن نے اپنی پوزیشن واضح کردی اورکہا اگر تم کارگل سے اپنی فوجیں واپس بلواتے ہو تو امریکہ تمارا ممنون ہوئے بغیر اِس پر اطمینان محسوس کرے گا اور اگر نواز شریف اس سے انکار کر دے گا تو امریکہ جس کے پاکستان سے اتحادی کی حیثیت سے تاریخی نوعیت کے تعلقات ہیں اِن تعلقات کو برسر عام ترک کردے گا، اور بھارت کی طرف رخ کرے گا، اس پر نوازشریف کے ہمراہ آتے ہوئے وفد اور کلنٹن کی ٹیم کے درمیان کئی گھنٹے گرما گرم بحث ہوئی، پاکستانی ماہرین جو نوازشریف کے ہمراہ تھے اُن کاکہنا تھا کہ وہاں کشمیری مجاہدین ہیں جو بھارت سے نبرد آزما ہیںاور اس وقت ضرور ت ہے کہ امریکی صدر پاکستان پر کسی طرح عنایت کرے۔

آخر طویل اور گرما گرما بحث کے بعد صدر بل کلنٹن نے پاکستان کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ آئے ہوئے اراکین کو اور اپنی ٹیم کے ممبران کو کہا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور مجھے اور نوازشریف کو آپس میں اکیلے بات چیت کرنے دیں،اس کے بعد صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ کارگل کی لڑائی کوئی معمولی سرحدی تنازعہ کی بات نہیں ہے یہ لڑائی ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

صدر نے کہا کہ جب 1962 میں امریکہ اور سوویت یونین کیوبن میزائل بحران سے گزر رہے تھے اور ایٹمی جنگ کے خطرات تھے تو اُس وقت امریکہ اور سوویت یونین دونوں ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایک دوسرے کی ایٹمی صلاحیتوں سے واقف تھے مگر ابھی اِس وقت بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے،انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ تم اس ایٹمی جنگ کو روک سکتے ہو، امریکی صدر کے سامنے نوازشریف بے بس ہو گئے اور بولے یہ اُن کے لیے بہت برا ہو گا،کلنٹن نے کہا کہ وہ محب ِ وطن بن کر ایٹمی جنگ کے احکامات جاری کریں یا اس رسک کو دیکھیں کہ جنرل پرویز مشرف اُن کا تخت الٹ دیں گے،اُ ن کا خیال تھا کہ کارگل کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کا تیار کردہ ہے۔

نواز شریف کاکہنا تھا کہ اُن کی گردن پرویز مشرف کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے، صدر نے کہا کہ بطور سربراہ حکومت فوجوں کو واپس بلوانا آپ کی ذمہ داری ہے اور پھر یہ آپ ہی نے دیکھنا ہے کہ کس طرح آپ خود کو محفوظ رکھتے ہیں،آخر میں کلنٹن کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 4 جولائی کو یوم آزادی کا پورا دن اس بحث میں گزاردیا مگر یہ سیاسی اعتبار سے ایک کامیاب مقابلہ تھا جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں جانب کے ہزاروں لوگوں کی جانیں بچ گئیں،یہ رپورٹ یا تحریر کارگل جنگ کے واقعات کے تضاد ات خود سامنے لاتی ہے۔

سب سے پہلے یہ کہ اس میں صدر کلنٹن یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے 15 جون کو کیوں وزیر اعظم نوازشریف کو فون کیا تھا؟ اور کار گل میں جنگ روکنے اور فوجوں کو واپس بلوانے کے لیے کیوں کہا تھا اور یہ بھی نہیں بتاتے ہیں کہ 15 جون کو نواز شریف نے کیا جواب دیا تھا؟ اس ملاقات میں صدر بل کلنٹن 1962 میں کیوبا میں سوویت یونین کی جانب سے نصب کئے جانے والے ایٹمی میزائلوں کے شدید بحران کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر کیا یہ سوال نہیںاٹھتا کہ اس بحران کے حل میں امریکہ کیوبا میں کیمونسٹ حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنے کی ضمانت سوویت یونین کو دیتا ہے۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں نصف صدی سے زیادہ تو فیڈل کاسترو کی حکومت رہی اور اب بھی اُسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے اور اب بھی امریکہ اُس عہد نامے پر قائم ہے، پھر جو بھی شخص بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے سربراہ کا امریکی صدر سے ملنا پھر بغیر شیڈول کے، منع کرنے کے باوجود واشنگٹن پہنچ جانا یہ ہو ہی نہیں سکتا۔

پھر بل کلنٹن بطور صدر امریکہ کے یومِ آزادی کی مصروفیات کوچھوڑ کر کئی گھنٹے نوازشریف کے ساتھ اپنی ٹیم کے اور نواز شریف کے ساتھ آئے ہوئے ماہر ین کے ہمراہ خاصی گر ما گرم بحث کے بعد آخر یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور وہ تنہا بات کریں گے اور وہ جو باتیں کی گئیں وہ بھی صدر کلنٹن ہی نے برانچ کو بتائیں اور یہ سب کچھ بھی عرصے بعد سامنے آیا اور اپنے خاص انداز سے سامنے آیا ، یہ سب تقریباً ناممکن ہے، ساتھ ہی رپورٹر مصنف کے حوالے سے یہ بھی بتاتا ہے کہ نہ صرف امریکی صدر مونیکا اسکینڈل کی وجہ سے پریشان تھے بلکہ اُس دن 4 جولائی کی تاریخ ہے جو کہ امریکہ کا یوم آزادی ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ امریکی سینٹ اور اسٹیلشمنٹ کی جانب سے پوری صورتحال اور تفصیلا ت کی فراہمی اور صدر کے لیے تعین کردہ فیصلے اور متبادلات کے بغیر ایسے مواقع پر امریکی صدر کسی ملک کے سربراہ سے ایمر جنسی میں بات نہیںکرتا ہے۔

یوں یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو کارگل پر قبضے سے بہت زیادہ پریشانی تھی اور یہ وہ دور ہے جب صدر ضیا الحق کو دنیا سے گزرے گیارہ برس ہو گئے تھے، سوویت یونین بکھرچکا تھا نیو ورلڈ آرڈر کے چرچے شروع ہوگئے تھے اور پاکستان کے مقابلے میں امریکہ بھارت اس لیے قریب آچکے تھے کہ امریکہ نے چین کے مقابلے میں بھارت کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور یہاں پرانا لداخ جس کا ایک بڑا حصہ گلگت  بلتستان کی صورت میں پاکستان کے پاس ہے ایک حصہ اکسائی چن کے ساتھ چین کے پاس ہے اور لداخ کا ایک حصہ بھارت کے پاس مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہے۔

یہ اُس وقت ہی سے اسٹرٹیجک ا عتبار سے اہمیت رکھتا ہے اور اب اس کی اہمیت کہیں زیادہ نمایاںہو کر سامنے آرہی ہے، نواز شریف کی واپسی پر یہ حقیقت ہے کہ عوام کے ساتھ فوج نواز شریف کے اس فیصلے سے ناخوش تھی، مگر نوازشریف کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل تھی، آئین سے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کے اختیارات بھی ختم کر دئیے گئے تھے اور صدر بھی اب مسلم لیگ کے رفیق تارڑ تھے، اسی طرح اقتدار میں آتے ہی مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے مقدمات قائم کرتے ہوئے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جیل میں ڈالا، فوج اورنوازشریف حکومت کھچاؤ کا شکار تھی اور مسلم لیگ ن میں سے ہی بہت سے اہم لیڈر نواز شریف کے اقدامات سے نالاں تھے۔

اکتوبر 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کی فوج کی 50 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے اور اُن کی واپسی 13 اکتوبر کی شام کو ہو رہی تھی کہ اِن کی عدم موجودگی میں وزیراعظم نواز شریف نے اُن کو آرمی چیف کے عہد ے سے برطرف کرنے کے احکامات کے ساتھ جنرل ضیاء الدین خواجہ کو نیا آرمی چیف بنا دیا اور وزیراعظم ہاوس میں اِن کو آرمی چیف بنانے کے لیے بازار سے بیجز منگوائے گئے، یہاں جب جنرل پر ویز مشروف پی آئی اے کے جس طیارے میں کراچی آرہے تھے تو اُن کے طیارے کو کراچی ائرپورٹ ٹاور سے حکم دیا گیا کہ طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر اترنے کی بجائے ایمرجنسی میں بھارت میں لینڈ کرے، مگر اسی دوران جب طیارہ فضا میں کراچی کے اُوپر چکر لگا رہا تھا راولپنڈی سے فوج حرکت میں آئی۔

وزیر اعظم ہاوس میں ہی نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا اور ریڈیو، ٹی وی کو کنٹرول میں لینے کے بعد نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے اعلانات ہوئے، کراچی میں فوج نے ائرپورٹ ٹاو ر کو کنٹرول میں لے لیا اور پرویز مشروف کا طیارہ جس میں تیل ختم ہو رہا تھا ایمرجنسی میں کراچی ائر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔

پھر نواز شریف کو گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا، اور پھر نومبر 1999 کو انہیں ڈیالہ جیل بھیج دیا گیا، یہ وہی جیل ہے جہاں سابق وزیر اعظم ذوالفقا رعلی بھٹو کو رکھا گیا تھا،اِن پر باقاعدہ گرفتاری کے بعد ارادہ قتل اور طیارے کے اغوا کے مقد مات درج ہوئے، مارچ 2000 میں مقدمے کا آغاز ہوا اور انسداد دہشت گردی کی سرسری سماعت کی خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی، اسی دوران کراچی میں اُن کے وکیل اقبال راؤ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور اُن کے وکلا نے اِس قتل کا الزام حکو مت پر عائد کیا، اُس زمانے میں یہ افواہیں عام گردش کر رہی تھیں کہ نواز شریف کو بھی سابق وزیراعظم بھٹو کی طرح جلد سزائے موت دے دی جائے گی۔

یوں عالمی سطح پر اور خصوصاً امریکہ اور سعودی حکومت کی جانب سے نواز شریف کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ بہت بڑھ گیا، یوں 2000 میں نواز شریف نے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے اور عالمی سطح پر اہم شخصیات کی ضمانت پر سعودی عرب جلا وطن ہو گئے، جنرل پرویز مشرف 13اکتوبر 1999 کو وہ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد چیف ایگزیکٹو بن گئے اور پھر عدلیہ کی جانب سے اُنہیں دو سال کی مدت میں ملک کے بحران کو دور کرکے انتخابات کروا کر ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے حکمرانی کا اختیار دیا گیا، وہ 13اکتوبر1999 سے 20 جون 2002 تک چیف ایگزیکٹو رہے اس کے بعد 20 جون2001 سے18 اگست 2008 صدر مملکت رہے، نواز شریف کا تخت الٹنے کے بعد پہلے دو سال اُن کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے ملک کے معاملات میں بہتری آئی۔

نوازشریف کو دباؤ کے تحت سعودی عرب بھیجنے اور پھر اپنے اقتدار کو طو ل دینے اور خصوصاً 11 ستمبر 2001 کے بعد امریکہ سے تعاون کر نے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان میں بہت سی شخصیات اور سیاسی گروہوں سے مفاہمت کرنے کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھوتے گئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل، نواب اکبر بگٹی کی وفات، لال مسجد اسلام آباد واقعہ سے اور پھر سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کیخلا ف کاروائی ایسے اقدامات کی وجہ سے آخر کار وہ 18 اگست 2008 میں صدارت سے فارغ ہو گئے، اوراُن کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری صدر ہوئے، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں سومرو نگران وزیر اعظم اور میر ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز وزیر اعظم رہے۔ (جاری ہے)

The post نوازشریف کارگل آپریشن کی اجازت دے کر بعد میں ُمکر گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹی وی ضرور دیکھیں، مگر اعتدال کے ساتھ

$
0
0

موثرابلاغ کی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک ٹریننگ جاری تھی۔ شرکاء کچھ تھکے تھکے سے محسوس ہوئے تو ٹرینر نے کہا ’’آپ سب کھڑے ہو جائیں اور بازوں کو اپنے سینے سے آگے کی جانب سیدھا متوازی اٹھا لیں‘‘۔ سب شرکاء نے ایسا کر لیا تو ٹرینر نے یہ کہتے ہوئے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں بازو کی کہنی پکڑ لی کہ آپ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بائیاں گُھٹنا پکڑ لیں۔

کسی نے بھی اُن کی اس بات پر دھیان نہ دیا کہ زبان سے کیا الفاظ ادا ہوئے ہیں اور تقریباً سب ہی نے گھٹنے کے بجائے اپنی کہنی پکڑ لی۔ ٹرینر نے جب شرکاء سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بائیاں گھٹنا پکڑ لیا ہے؟ تو تب شرکاء کو احساس ہوا کہ وہ تو گھٹنے کے بجائے ٹرینر کی طرح اپنی کہنی پکڑے ہوئے ہیں۔ اس ایکسرسائز کی مدد سے شرکاء کو یہ بتایا گیا کہ جب ہم ذہنی طور پر حاضر نہ ہوں تو ہم جو دیکھتے ہیں اُس کی کتنی جلدی پیروی کرتے ہیں بہ نسبت اس کے جوہم سنتے یا پڑھتے ہیں۔

یہ وہ عملی مظاہرہ تھا جو ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے کہ جب ہم اپنے سامنے ہونے والے اس معمولی سے عمل کی مکمل پیروی کر رہے ہیں تو ٹی وی پر روزانہ دیکھنے والے انگنت مناظر اور چیزوں کو شعوری اور لاشعوری طور پر کس قدر اپنا رہے ہوں گے؟۔

ٹیلی ویژن بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد ہے اور یہ عالمی سطح پر سب سے بڑے ابلاغی میڈیم کے طور پر اُبھرا ہے۔ اس کی موجودگی اور اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ایک بہت طاقتور چینج ایجنٹ ہے۔ ہم جو ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہ ہمارے عقائد ،رویہ اور طرزعمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔آج ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ٹیلی ویژن سیٹ ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اسے دیکھتے ہیں۔

وہ ایساکیوں کرتے ہیں؟ یعنی اگر لوگ ٹی وی دیکھنے میں اتنا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کیا یہ ان کے لیے اچھا ہے؟یہ دونوں سوالات ٹی وی کے انسان کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

میڈیا اسٹڈیز میں اگرچہ کئی ایک تھیوریز ان سوالات کے جواب دیتیں ہیں لیکن دو تھیوریز اس حوالے سے زیادہ وضاحت کرتی ہیں۔ اول  uses and gratifications نامی تھیوری پہلے سوال کا یوں جواب دیتی ہے کہ لوگ میڈیا کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس کا استعمال مخصوص تسکین حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ لہذا وہ میڈیم تب زیادہ استعما ل کیا جائے گا جب اس کے استعمال سے زیادہ اطمینان یا تسکین حاصل ہو۔ دوم Cultivation theory  یہ تھیوری ٹی وی کے طویل المدتی اثرات کی چانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ٹی وی کی دنیا میں لوگ جتنا زیادہ وقت گزارتے ہیں، اُتنا ہی زیادہ اس بات کا امکان ہو تا ہے کہ جو چیز ٹی وی پر پیش کی جارہی ہو وہ اُسے سماجی حقیقت کے طور پر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

دنیا میں ایک ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے ؟

٭        یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ کے مطابق دنیامیںاوسطً فی ناظر 2 گھنٹے 55 منٹ روازانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میںتقریباً ڈیڑھ مہینہ متواتر کسی وقفے کے بغیر ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔

٭  دنیامیں فی ناظر روزانہ اوسطاً175 منٹس ٹی وی دیکھتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1225 منٹ ، ایک مہینے میں5250 منٹ اور ایک سال میں 63875 منٹ۔ اگرروزانہ کے 1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 19.4 فیصد ٹائم ٹی وی دیکھنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں لوگ اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 19 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔

٭       دنیا میں ایک ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے55 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 1064 گھنٹے اور 35 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً  76650گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میںپونے نو سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتا ہے۔

ایک پاکستانی ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟

٭       گیلپ پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق ملک میںاوسطً فی ناظر 117 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یعنی ایک مہینے میں تقریباًاڑھائی دن اور ایک سال میں تقریباً ایک مہینہ متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔

اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس( 9 گھنٹے) نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 13فیصد ٹائم ہم ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک پاکستانی ناظراپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 13 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتا ہے۔

٭        ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً ایک گھنٹہ 57 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 711گھنٹے اور 45 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 47687 گھنٹے 15 منٹ ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔

ٹی وی کے انسانی ذ ہنی صحت پر اثرات

پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول جو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں شعبہ ذہنی صحت کے سربراہ اور پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں ٹی وی کے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’ ٹیلی ویژن دیکھنا تفریح ہے۔اس سے آپ کو معلومات، اطلاعات ،تعلیمی مندرجات اور دوسرے کلچرز سے آگاہی ہوتی ہے اس لیے اس سے انکار ممکن نہیں۔درحقیقت یہ آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ٹی وی کے ایسے پروگرام جو پرسکون، متاثر کن ،مزاحیہ ہوتے ہیں انھیں دیکھنے سے عارضی طور پردباؤ (سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن یہ خیال رکھنا نہایت ہی ضروری ہے کے ٹی وی کتنا دیکھا جائے اور اس پرکیا دیکھا جائے؟ کیونکہ ہمارے ارد گرد ٹی وی نشریات کا ایک سیلاب ہے۔ مثبت اور منفی ہر طرح کا content ٹی وی اسکرین پر موجود ہے۔ اب تو اکثر گھروں میں یہ تمام دن چلتا رہتا ہے چاہے کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے۔اس لیے اگر ہم نے کیا دیکھنا اور کتنا دیکھنا ہے جیسے پہلوؤں کا خیال نہیں رکھیں گے تو تحقیق یہ کہتی ہے کہ زیادہ ٹی وی دیکھنا قبل از وقت موت کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ آپ کو کئی طرح کے جسمانی عوارض میں مبتلا کر سکتا ہے۔

آپ کی ذہانت کی سطح کو کم کر سکتا ہے۔یاداشت میں کمی کا محرک ہو سکتا ہے۔ توجہ دینے اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرسکتا ہے ۔ آپ کے تجزیہ کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے ۔یہ آپ کو معاشرتی زندگی سے کاٹ دیتا ہے۔یہ دباؤ(سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ بچوں کی دماغی صحت پر تو اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کا بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا اُن کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے مطابق امریکن اکیڈمی برائے اطفال یہ مشورہ دیتی ہے کہ دو سال سے کم عمر کے بچے کو بالکل بھی ٹیلی ویژن نہ دکھائیں۔جبکہ دو سال سے زیادہ عمر کے بچے دن میںایک سے دو گھنٹے سے زائد ٹی وی نہ دیکھیں اور وہ بھی وقفوں سے۔ بڑے اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھنے دیں۔

کیونکہ ابتدائی بچپن کے سال دماغ کی نشوونما کے لئے اہم ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے اسے پروگرامز کا انتخاب کیا جائے جو انھیں دماغی طور پر متحرک رکھیں۔ کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بچوں کے قدرتی طور پر سیکھنے کی سرگرمیوں جیسے کہ چیزوں کو دریافت کرنا ،کھیلنا ، لوگوں سے میل ملاپ اور ماحول سے سیکھنا رک سکتا ہے اور اُن کا بولنا سیکھنا بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ان کی یاداشت میں کمی واقع ہو سکتی ہے اورپڑھنے کی صلاحیت بھی کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے فلموں اور ڈراموں سے سیکھتے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کرداروں کی نقل کرتے ہیں۔

لہذا ٹی وی زیادہ دیکھنا اور کسی بھی قسم کے منفی پیغامات حاصل کرنا خصوصاً پُر تشدد مناظرانھیں جارح بناسکتے ہیں ۔جو اُن کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔  ڈاکٹر غلام رسول نے ٹی وی کے ذہنی صحت پر اثرات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی ہم ٹی وی دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارا دماغ سیکنڈوں کے اندر Hypnotic State کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ جس سیانسانی لاشعور تک آسانی سے رسائی فراہم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیلیویژن دیکھنے کے دوران سو جانا آسان ہے۔

hypnoticاثر بڑی حد تک اسکرین کی ٹمٹماہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے جو آپ کی دماغی لہروں کو متاثر کرتے ہوئے اسے الفا کیفیت میں لے جاتا ہے۔یہ دماغ کی وہ کیفیت ہے جس کا تعلق عام طور پر محو خیال یا گہرے آرام و سکون کی حالت سے ہے ۔زیادہ تر ایسے لوگوں جو بہت کم یا پھر کبھی کبھار ٹی وی دیکھتے ہیں اس کیفیت کا شکار 30 سیکنڈ یا تین منٹ کے اندر ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ ٹیلی ویژن تنقیدی انداز میں سوچنے کی آپ کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔

جب آپ ٹی وی دیکھتے ہیں تودماغ کی سرگرمی آپ کے دماغ کے بائیں حصہ ( جو کہ منطقی سوچ اور تنقیدی تجزیہ کے لئے ذمہ دار ہوتی) سے دائیں جانب سوئچ کر جاتی ہے۔ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ دماغ کا دائیں طرف کا حصہ آنے والی معلومات کا تنقیدی تجزیہ نہیں کرتا ۔ اس کے بجائے یہ جذباتی ردعمل کا استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں معلومات کا بہت کم یا کوئی تجزیہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس طرح ہے جیسے کوئی آپ کو کچھ بتائے اور آپ اس پر یقین کرلیں بغیر خود کوئی تحقیق کئے ہوئے۔ اس لیے جو لوگ بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔

ان کا حقیقت کے بارے میں بہت ہی غلط اور غیر حقیقت پسندانہ نظریہ ہوتا ہے۔یعنی ٹی وی دیکھنے میں بنیادی پریشانی یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں آنے والی چیزوں پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب ایک اور پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی وی جسمانی اور نفسیاتی لت پیدا کرسکتا ہے۔کیونکہ ٹی وی دیکھنے سے جسم ایسا کیمیکلز خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا آپ کو اچھا محسوس ہوتا ہے۔

یہ endorphins ہیں جو قدرتی طور پرہیروئن کی طرح کی خصوصیات کا حامل ہوتے ہیں۔ لہذا ٹی وی کا جسمانی طور پر عادی ہوجانا عین ممکن ہے۔ یہ روزانہ ٹی وی دیکھنے کو یقینی بناتے ہیں اور ذہن کواس حوالے سے پروگرام کرنے کے لئے ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جو شخص اپنے من پسند ٹیلی ویژن پروگرام کو دیکھنے سے قاصر رہے تو وہ بعض ایسی علامات کا اظہار کرتا ہے جو کسی نشے کے عادی کو نشہ نہ ملنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یعنی وہ ناراض اوربے چین ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ جب آپ سو رہے ہوں تو آپ کا دماغ اس وقت زیادہ فعال ہوتا ہے با نسبت جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں۔ چونکہ آپ کے دماغ کی صحت کا بڑی حد تک دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ اُسے کتنا فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہذا بہت زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا آپ کے دماغ کی صحت کے لیے اس طرح بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ٹیلیویژن دیکھتے وقت دماغ کم سرگرم رہتا ہے کیونکہ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس جب آپ پڑھتے ہیںتو آپ کا دماغ مختلف طرح کی اشکال بناتا ہے جس کے لیے خصوصی دماغی طاقت کی ضرورت ہے۔

لہذا جب آپ پڑھ رہے ہو تے ہیں تو آپ کا دماغ موثر انداز میں ورزش کرر ہا ہوتا ہے ۔توکیا پھر ہم ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں؟ اس سوال کے جواب میں اُنھوں نے فوراً کہا کہ میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ٹی وی تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہے آپ اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔میں خود ٹی وی پر خبریں، فلمیں ،ڈرامے ، ٹاک شوز دیکھتا ہوں لیکن اعتدال کے ساتھ کیونکہ جب تک آپ اعتدال پسندی کرتے ہو تو ٹی وی دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔تو پھر ٹی وی دیکھنے اور ذہنی صحت کو اکٹھے کیسے برقرار رکھا جا ئے؟ اس بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو ایک بہترین کام آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر دن کم از کم 30سے60 منٹ تک پڑھیں۔

پڑھنا دماغ کے لئے ورزش ہے۔ اسی طرح جیسے دوڑنا جسم کے لئے ورزش ہے۔کوئی دوسری زبان سیکھنا بھی دماغ کو سرگرم رکھنے کے لیے بہترین ہے۔اس کے علاوہ آپ ہفتے میں ایک یا دو دن ٹی وی دیکھنے کے دورانیہ کو محدود کریں اور اپنا باقی وقت ایسی سرگرمیوں میں مشغول کریں جو آپ کی زندگی کو طویل المدتی فائدہ پہنچائے جیسے اپنے ذاتی اہداف کا حصول کے سلسلے میں کوشش وغیرہ۔

ٹی وی کے انسانی نفسیات پر اثرات

پروفیسر ڈاکٹر امجد طفیل ماہر نفسیات ہیں ۔اسلامیہ کالج ، ریلوے روڈلاہور میں شعبہ نفسیات کے سربراہ ہیں۔ دس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٹی وی انسانی رویوں اور طرز عمل پر کس طرح اور کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں۔ ’’ کہ علم نفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا کردار سیکھنے سے بنتا ہے۔ سیکھنے کے بہت سے طریقے ہیں۔اس حوالے سے جس طرز کو ہم سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اُسے Imitation کہا جاتا ہے ۔جسے تقلید/ نقل کرنا بھی کہتے ہیں۔

اسے Observation learning  کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔ اُسی کو ہم سیکھتے ہیں۔ اُسی کو ہم دوہراتے ہیں۔ اُسی سے ہمارا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر نفسیات Albert Bandura  نے بہت بنیادی قسم کا کام کیا ہے۔

اُنھوں نے اُس طریقے کو سمجھنے کی کوشش کی جس سے مشاہدہ ہمارے سیکھنے کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔اُن کے مطابق جس طرح کے حالات لوگوں کے سامنے رکھے جائیں ۔ جس طرح کے مناظر لوگ دیکھیں گے ۔ اُسی طرح کا اُن کا کردار تعمیر ہوتا چلا جائے گا۔ اس حوالے سے اُنھوں نے بچوں پر تحقیق کی اور اُنھیں مختلف طرح کے کارٹون وٹی وی پروگرامز دکھائے گئے ۔اس تحقیق میں Albert Bandura نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ جو جارحیت ہے ۔تشدد ہے ۔کیا یہ بھی کوئی سیکھا ہوا کردار ہے؟تو ایسے بچے جن کو تشدد پر مبنی کارٹونز دیکھا ئے گئے تھے۔

اُنھیں نے اسی طرح کے کردار کا زیادہ اظہار کیا بانسبت ان بچوں کے جنہیں مثبت باتوں پر مشتمل کارٹونز دکھائے گئے۔ اس تحقیق سے اُنھوں نے یہ ثابت کیا کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ہمارا کردار اُس کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔

یہ بالکل درست بات ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی اُس پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چھوٹے بچوں خصوصاً Teen agers  جسے عہد شباب بھی کہا جاتا ہے ان پر Imitation بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کا کہنا ہے کہ جب ہم ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں تو ٹی وی کی اسکرین پر جو کچھ چل رہا ہوتا ہے وہ ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔

اور لوگ اسے اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ہو یا کوئی اور میڈیا نفسیات میں ہم ان کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ یہ Behavioral modification  (رویوں میں ردوبدل)کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق انسانی ذہن لفظوں میں نہیں سوچتا بلکہ Images میںسوچتا ہے۔ اور جو کچھ آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ بنیادی طور Image ہوتا ہے اور جو Images ہیں وہ انسانی دماغ کو زیادہ اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔

اسی طرح جب ہم اپنی ایک حس (Sense)کو استعمال کر رہے ہوں تو اس کا اثر کم ہوتا ہے۔لیکن ایک ہی Process میں اگر زیادہ حسوں کا استعمال ہو تو اس کا اثر انسانی ذہن/ دماغ پر بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً ٹی وی ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جو اپنی زندگی میں 95 فیصد تک جن دو بڑی حسوں یعنی دیکھنے اور سننے کا استعمال کر تا ہے۔ ٹی وی دیکھتے یہ دونوں استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس مطالعہ میں دیکھنے اور ریڈیو میں سننے کی حس استعمال ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ اور ریڈیو سننے سے جو اثرات آتے ہیں ان دونوں کا مجموعہ ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے آتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں جو ٹی وی کا میڈیم ہے اس کے اپنی ویورشپ پر اثرات بہت دیر پاء اور گہرے ہوتے ہیں اس لیے ٹی وی پروگرامز کو بناتے ہوئے ان کو چلانے سے پہلے ان کا بہت محتاط تجزیہ کرنا ضروری ہے ‘‘۔

 ٹی وی کے جسمانی صحت پر اثرات

ڈاکٹر وقاص اشرف جو ہڈیو ں اور درد شقیقہ (Consultant Interventional Orthopaedic & Pain Management) کے ماہر ہیں ۔ ٹی وی کے انسان کی جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات اور ان اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہو ئے انھوں نے کہا کہ ۔’’ٹی وی دیکھنے میں قطعاً کو ئی مضائقہ نہیں ہاں مسئلہ ہے تو ضرورت سے زیادہ ٹی وی دیکھنے میں۔کیونکہ آپ جتنی زیادہ دیر تک ٹی وی کے آگے بیٹھے رہیں گے تو زیادہ طویل وقت کے لیے ایک ہی جگہ پر بیٹھنے سے آپ کے جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے خاص کر ٹانگوں کو خون کی موزوں سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ اور جب آپ اٹھتے ہیں تو ٹانگیں سن ہوئی محسوس ہوتی ہیں یا پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھٹنے آپس میں جڑ گئے ہیں اور اس کیفیت میں آپ سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتے اور یہ حالت کچھ دیر لیتی ہے درست ہونے میں۔ اس کے علاوہ زیادہ عرصہ تک ایک جگہ بیٹھنے سے آپ کی ٹانگوں میں blood clot بھی بن سکتے ہیں ۔اور طویل بیٹھنا آپ کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کھینچنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

بعض لوگ ایسے بیٹھتے ہیں کہ اُنکی ریڈھ کی ہڈی انگلش کے حرف C کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور اس صورت میں طویل عرصہ تک بیٹھنا پیٹ اور پیٹھ کے دبے اور کچھے ہوئے پٹھوںمیں اکڑن اور درد کا باعث بنتا ہے۔ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے چونکہ آپ کاجسم زیادہ وقت کے لیے غیر متحرک ہو جاتا ہے۔اس وجہ سے آپ موٹاپے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور دل کے امراض کے شکنجے میں بھی پھنس سکتے ہیں۔ایک امریکی تحقیق کے مطابق روزانہ دو گھنٹے مسلسل ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے آپ میں موٹاپے کے امکان میں 23 فیصد اور ذیابیطس کے امکان میں 14 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے آپ کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔

آپ کے سننے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔ پٹھوں کی کمزوری اور کھچاؤ کی شکایت ہوتی ہے۔اور اگر ٹی وی دیکھتے ہوئے آپ کا جسم درست حالت میں نہیں تو آپ کو گردن اور کمر کے مہروں کے علاوہ کولہے کی ہڈی کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔آپ نیند کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ جو مندرجات ا ٓ پ ٹی وی پر دیکھتے ہیں ان میں سے کچھ آپ کو بلڈ پریشر میںاضافہ کا بھی محرک بنتے ہیں۔اور ایسے شخص کو جو بہت کم یا بالکل ورزش نہ کرے اور بہت زیادہ ٹی وی دیکھے اُسے مغرب میںCouch Potato(نشستی آلو) کہا جاتا ہے۔

لہذا ٹی وی دیکھیں لیکن اعتدال اور احتیاط کے ساتھ۔ یعنی ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے اپنی روز کی ایک حد مقرر کرلیں ۔ٹی وی کو مسلسل طویل دورانیہ کی بجائے چھوٹے چھوٹے پیریڈز میں دیکھیں۔ اور جب آپ کے پسندیدہ پروگرام میں وقفہ آجائے تو اس دوران اپنی جگہ سے اٹھیں اور اپنا کوئی اور کام کر لیں۔ اور اگر بریک نہیں ہے تو کچھ وقت کے لیے کھڑے ہوکر بھی ٹی وی دیکھ لیں۔

30  منٹ کی نشست کے بعد جسم کو ضرور حرکت دیں ۔ٹی وی اپنی فیملی کے ساتھ مل کر دیکھیں اور ایک دوسرے سے گفتگو کریں ۔ ٹی وی اسکرین اور جہاں سے آپ ٹی وی دیکھنا چاہتے ہیں ان دونوں کے مابین مناسب فاصلہ رکھیں۔

ٹی وی کو روشی میں دیکھیں۔ ٹی وی دیکھنے کے دوران اپنی body posture کو درست انداز میں رکھیں۔ لیٹ کر تو ٹی وی بالکل بھی نا دیکھیں۔ کوشش کریں کے ہمیشہ ٹی وی کو سیدھی گردن رکھ کر دیں سامنے کی جانب سے دیکھیں گردن موڑ کر نا دیکھیں۔ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے اجتناب کریں کیونکہ اکثر جنک فوڈ کا استعمال ٹی وی دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ٹی وی دیکھنے میں لوگ اتنا محو ہوجاتے ہیں کہ اُنھیں اندازہ نہیں رہتا کہ وہ کتنا کھانا کھاچکے ہیں۔

ٹی وی دیکھنے کے لیے کرسی پر بیٹھتے وقت اپنی پیٹھ کے پیچھے تکیہ رکھ کر بیٹھیں ایسا کرنے سے آپ کے پھیپھڑے کھل جائیں گے اور سانس لینے میں آسانی ہوگی۔سونے سے چند گھنٹے قبل یا کم از کم ایک دو گھنٹے قبل ٹی وی نہ دیکھیں ۔ بچوں کے لیے ٹی وی دیکھنا ایک سرگرمی بنائیں نا کہ عادت اور اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھائیں۔ بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے مواقع پیدا کریں‘‘۔

ٹی وی کیسے دیکھیں؟

ٹی وی چونکہ بصری میڈیم ہے اور ہمارے جسم کے جس عضو کا اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ آنکھیں ہیں۔ہم جس انداز سے اور جتنا زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں اس سے ہماری آنکھوں کے متاثر ہونے کا قوی امکان رہتا ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد سعید جو کہ ماہر امراضِ چشم ہیں جب اُن کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ ہمیں ٹی وی کیسے دیکھنا چاہئے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ماہرین ٹی وی دیکھتے وقت اس سے کم از کم آٹھ سے دس فٹ دور بیٹھنا تجویز کرتے ہیں۔

اس حوالے سے دنیا بھر میں جو ایک اسٹینڈرڈ اصول موجود ہے وہ یہ کہ آپ کے گھر میں موجود ٹی وی کی اسکرین جتنی بڑی ہے آپ اُس سائز کے پانچ گنا فاصلہ پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھیں۔ مثال کے طور پراگر آپ کے ٹی وی کی اسکرین32 انچ کی ہے تو اسے دیکھنے کا فاصلہ 150 انچ یا تقریباً 13 فٹ ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ آنکھوں کے عمودی پٹھوں کو زیادہ تھکاوٹ سے بچانے کے لئے ٹی وی کو آنکھوں کی سطح کے متوازی یا اس سے کم پر رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرے میں مناسب لائٹنگ ہو۔

اندھیرے میں ٹی وی دیکھنے سے آپ کی آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آنکھوں کے ماہرین ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے 20,20,20 کا ایک قاعدہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر 20 منٹ ٹی وی دیکھنے کے بعد 20 سیکنڈ تک 20 فٹ دور کسی چیز کو غور سے دیکھا جائے۔اس سے آپ کی آنکھ کو نزدیک اور دور کی چیزیں فوکس کرنے میں دشواری نہیں ہو گی اور اُس کی ورزش ہوتی رہے گی اور آنکھوں کو وقفہ بھی ملے گا۔اس کے علاوہ باقاعدگی سے پلک جھپکانا یاد رکھیں۔

اوسطا ًایک عام فرد ہر 5 سیکنڈ میں پلک جھپکتا ہے۔ جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں یا آپ کمپیوٹرکے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں تو 12 سیکنڈ میں ایک بار پلک جھپکنے تک یہ وقت چلا جاتا ہے ۔ پلک جھپکانے کے عمل کو باقاعدگی سے دہرانے سے آپ کی آنکھیں ٹی وی دیکھتے وقت خشک ہونے سے بچیں گی۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ آرہا ہے تو آنکھ کی آہستہ سے مالش کریں یا کپڑے کو گرم پانی سے گیلا کرنے کے بعد اسے نچوڑیں اور آنکھوں پر لگا کر ہلکی ٹکور کریں۔ اٹھ کر گھوم پھریں اور آنکھوں کو اسکرین فری وقت دیں۔ ایسا کرنا آپ کے جسم کو خارش اور کمر کی پریشانیوں سے بھی بچاتا ہے۔

اپنی آنکھوں کو آرام دینے اور ٹی وی دیکھنے کے بعددوبارہ نارمل کرنے کے لیے رات میں کم ازکم 8 گھنٹے کی نیند حاصل کریں۔اس کے علاوہ اپنے روایتی ٹی وی کو ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی میں اپ گریڈ کریں جو کم چکاچوند دیتا ہے۔ اسی طرح بڑی سکرین والے ٹی وی کا انتخاب بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس پر آپ کی آنکھوں کو توجہ دینے کے لئے زیادہ زور نہیں دینا پڑتا ہے۔

آخری اور سب سے اہم بات جو ڈاکٹر شہزاد سعید نے بتائی وہ یہ ہے کہ ٹی وی اور کمپیوٹر دیکھتے وقت زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں۔ایسا کرنے سے آپ کو بار بار ٹوائلٹ جانا پڑے گا جس سے آپ کی آنکھوں کو بھی وقفہ ملے گا اور جسم کو حرکت بھی۔

The post ٹی وی ضرور دیکھیں، مگر اعتدال کے ساتھ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>