Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

سانحہ 9/11 نے دنیا کا منظر نامہ بدل ڈالا

$
0
0

(قسط نمبر 13)

1991 میں خلیجی جنگ کے بعد عرب دنیا میں امریکی، اسرائیلی مخالفت میں بہت اضافہ ہو گیا تھا، اور دنیا کے مختلف ملکوں میں القاعدہ کی جانب سے 1991 سے 1998 تک نئے انداز کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں امریکی اطلاعات سامنے آرہی تھیں اس سلسلے میں دہشت گردی کی بڑی کاروائی 7 اگست 1998 کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والے بم دھماکے تھے جن میں 12 امریکیوں سمیت 224 افراد جاں بحق اور 4000 کے قریب زخمی ہوئے تھے اور اس کے جواب میں امریکی صدر بل کلنٹن کے حکم پر Preemptive Strik یعنی حفظِ ماتقدم کے تحت 20 اگست1998 کو خرطوم سوڈان اور افغانستان پر سمندر سے امریکی نیوی نے کروز میزائلوں سے حملے کئے گئے۔

امریکہ کے سوڈان خرطوم میں قائم الشفا فارما سوٹیکل فیکٹری کے بارے میں یہ الزامات تھے کہ یہاں اسامہ بن لادن کے القاعدہ گروپ کے اراکین XV merve gas سے اعصاب شکن کیمیکل ہتھیار تیار کر رہے ہیں اس لیے اس فیکٹری پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دیا گیا، جبکہ افغانستان میں خوست کے مقام پر امریکہ کا دعویٰ تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن کے القاعدہ گروپ کا ٹریننگ سنٹر ہے، اور اس لیے یہاں بحیرہ عرب کے قریب سمندر سے امریکی نیوی نے کروز میزائل فائر کئے تھے۔ امریکی نیوی نے اِن حملوں کا جنگی نام Operation Infinite Reach رکھا تھا۔

سوڈان میں امریکہ کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن افغانستان آگیا، جہاں اُس وقت افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد 1996ء سے طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تھی جس کو پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم بھی کیا ہوا تھا، اور شروع میں یہ بھی نظرآ رہا تھا کہ امریکہ بھی جلد طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارت اور پاکستان امریکہ کے حلیف رہے ہیں اور ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے کہ عالمی نوعیت کے ایسے معاملات میں امریکہ کی مرضی کے بغیر یہ ممالک کوئی پالیسی نہیں اپناتے،لیکن 1999 ء تک امریکہ نے افغانستان میں طالبان حکومت کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اس حکومت کی مخالفت میںسرگرم ہوگیا۔

وہاں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اگر چہ کارگل کی جنگ کے بعد بھارتی پو زیشن کچھ بہترہوئی تھی لیکن کشمیری مجاہد ین متحرک تھے کہ 24 دسمبر1999 کو حرکت المجاہد نامی تنظیم کے 5 ہائی جیکروں نے نیپال کے شہر کھٹمنڈو سے دہلی جانے والے انڈین ائر لائن فلائٹ 814 ائر بس A300 کو کھٹمنڈو اور دہلی کے درمیان اغوا کر لیا پھر اس جہاز کو امرتسر، لاہور اور دبئی لینڈنگ کرنے اور تیل بھرانے کے بعد آخر افغانستان کے شہر قندھار میں اتارا گیا اور بھارتی حکومت کے سامنے ہائی جیکروں نے بھارتی جیل میں قید مشتاق زرگر، احمد عمر سعید شیخ اور مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے مطالبات رکھ دیئے اور 31 دسمبر 1999 تک صورتحال بہت ہی بحرانی رہی، اس دوران ایک مسا فر جان بحق اور 17 زخمی ہوئے اور پھر ہائی جیکروں کے مطالبات مان لیے گئے۔

یہاں13 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف اقتدار میں آگئے تھے، اگر چہ مارشل نافذ نہیں کیا گیا تھا مگر وہ چیف ایگزیکٹو اور بعد میں صدر کے ساتھ ساتھ اقتدار سے مستعفٰی ہونے سے ایک سال قبل تک آرمی چیف بھی رہے،ان دنوں یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے تعلقات جن میں شروع سے علاقے میں طاقت کے توازن کو امریکہ مدنظر رکھا کرتا تھا اب امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی جانب تھا اور یہ سب امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں ہوا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت دنیا میں سابق سوویت یونین اور امریکہ کے لحاظ سے دو طاقتی نظام ختم ہو گیا تھا جو دو مختلف اقتصادی نظریات پر قائم تھا اس لیے نئے تناظر میںاب ایک تو امریکہ کو کسی اشتراکی نظام سے خطرہ نہیں تھا تو دوسری جانب سرد جنگ کے اختتام پر دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد دنیا میں واقعی امن قائم ہو جاتا،کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کے پرانے تنازعات اقوام متحدہ کی جانب سے ا نصاف کے مطابق حل کروا دئے جاتے تو پھر پوری دنیا ہی امریکہ کی طرح پُر امن اور محفوظ ہو جاتی اور دنیا بھر کی قوموں اور ملکوں کو عالمی سطح کے پُر امن اور انصاف پر مبنی فضا میں ترقی اور خوشحالی کے برابر مواقع ہوتے اور جہاں تک تعلق دنیا کے منظم معاشروں کا ہے تو دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کا منظم معاشرہ مذہبی لسانی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور اپنے مخصوص سیاسی نظام کی بنیاد پر صنعت و تجارت کی بنیاد پر سب سے زیادہ اور تیز رفتار ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ اس کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا ملک بھارت مذہبی، لسانی، تہذیبی، تمدنی ثقافتی گروہوں میں تقسیم ایک ایسا معاشرہ ہے جس کو سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر پنڈت جواہر لال نہرو نے کسی حد تک منظم رکھا تھا، اب امریکہ اور یورپ اگر چین کو کسی لحاظ سے روکنے کی کوشش کریں تو اُن کے سامنے واحد راستہ یہی ہے کہ بھارت کو چین کے مد مقابل کھڑا کردیا جائے، پھر دوسرا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں امن قائم ہو جائے تو امریکہ کی وہ حیثیت جو پہلی جنگ عظیم سے قائم ہے جس کے سبب دنیا کے سرمایہ دار اور ذہین و فطین ماہرین سائنس دان سبھی امریکہ کا رخ کرتے ہیں وہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے پہلے سابق سوویت یونین کے وجود کی وجہ سے دنیا کی35 فیصد آبادی اشتراکی نظام کے زیر اثر تھی اور اُسے زندگی کی بنیادی ضرورتیں مہیا تھیں اور اس کے بعد جو پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک تھے اُن کو امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یا فتہ ممالک امداد اور گرانٹ اس لیے دیتے تھے کہ سرد جنگ کے دور میں اِن ملکوں میں بھوک و افلاس اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ اشتراکیت کے لیے معاشرے میں راستہ بالکل ہموار ہو جائے۔

1980 کی دہائی ہی سے چین نے ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی اپنا کر پیداوار اور آبادی کی بڑھوتی میں بہتر ین توازن قائم کر لیا جو آج بہت ہی مستحکم ہو چکا ہے اور یہاں رفتہ رفتہ کیمنو ازم کی جگہ سو شلزم آیا اور وہ بھی اب آہستہ آہستہ معیار زندگی کے لحاظ سے مغربی دنیا کی سطح پر آرہا ہے، جب کہ دوسری جانب امریکہ اور مغربی یورپ جہاں آزاد معیشت تھی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں مکمل آزاد نہیں رہا، اب یہ نعرہ بھی ہے کہ امریکہ امریکیوں کے لیے اور ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ جس تیزی سے اور یک طاقتی عالمی طور پر آچکی ہے دنیا میں سرمایہ ایک مقام یا ایک جگہ ارتکازِ کی وجہ سے جمع ہو رہا ہے، یہ مسئلہ عنقریب دنیا میںکسی نئے اقتصادی مالیاتی نظام کا تقاضا کر ے گا۔

اگرچہ اہل مغرب سمیت ہمارے ماہرین معاشیات بھی اس سے انکار کریں گے مگر دنیا میں تقریبا ساڑھے چودہ سو سال سے ایک اسلامی اقتصادی نظام موجود ہے جو اگرچہ ابھی تک غیر فعال ہے مگر یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ وہ عالمی سطح پر ارتکازِ کو روک کر مالیا تی اور اقتصادی نظام کو توازن میں لا سکتا ہے یا نہیں ۔

بل کلنٹن کے آٹھ سالہ دورمیں جو تبدیلی سامنے آئی تھی اِ س کو اتفاق کہا جائے کہ اُن کے جانے کے سات مہینے بیس دن بعد 11 ستمبر2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر، پینٹاگان اور واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کو مسا فر بردار طیاروں کو اغوا کر نے کے بعد خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا، کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو نشانہ بنانے سے قبل ہی طیارے کو گرا دیا گیا، جب کہ دو طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر ٹوئن ٹاور کو نشانہ بنایا اور اسی طرح ایک طیارے نے پینٹاگان کو نشانہ بنایا۔ 2996 افراد جان بحق اور 6000 ہزار سے زیادہ زخمی ہو ئے، یوں جس طرح یہ حملے ڈیزائن کئے گئے تھے اِس لحاظ سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکی اقتصادیات کی علامت ہے۔ پنٹا گان فوجی عسکری قوت کا مرکز ہے اور وائٹ ہاوس امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔

اگرچہ آج دہشت گردی کے اس حملے کو ہوئے پورے 18 سال گزر چکے ہیں اور اب اس پر بہت سے سوالات سامنے آچکے ہیں جن میں سے بہت سے سوالات کے جوابات امریکہ کے پاس نہیںہیں، باقی تمام سوالات اپنی جگہ صرف یہ سوال ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا امریکہ کی سکیورٹی اتنی ہی کمزور ہے کہ دنیا میں ہائی جیک کا انتہا ئی خطرناک واقعہ یہاں پیش آیا کہ بیک وقت نہ صرف چار طیارے اغوا ہوئے بلکہ تین نے مکمل طور پر اپنے اہداف کو پورا کیا یعنی 75% کامیابی حاصل کی دنیا میں اگر چہ ہائی جیک کے واقعات ہوئے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اکھٹے چار جہاز اغوا ہوئے ہوں اور وہ بھی بہت ہی بڑے پیمانے کی دہشت گردی کے لیے کامیابی سے استعمال بھی ہو گئے ہوں، یوں اگر امریکہ اس کا فوری اور بھرپو ر جواب نہ دیتا تو پھر اس کا وہ مقام جس کے بارے میں دنیا کے سرمایہ دار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اور اُن کا سرمایہ اگر دنیا میں کہیں محفوظ ہے تو یہ امریکہ ہی ہے اور یہی خیال دنیا کے ذہین و فطین ماہرین اور سائنسدانوں کا ہے۔

اب امریکہ دنیا کے سامنے اس کا کیا جواب دیتا، یوں اس کے فوراً بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان کی طالبان حکومت کو کہا کہ دہشت گردی کے یہ حملے القاعدہ کی جانب سے کئے گئے ہیں اس لیے فوری طور پر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے، اب اگرچہ یہ واقعہ دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا بہت ہی بڑا واقعہ تھا لیکن ایک جانب تو اسامہ بن لادن نے اس سانحہ سے انکار کیا، دوئم افغانستان کی حکومت نے یہ کہا کہ اگر اسامہ بن لادن واقعی اس واقعہ میں ملوث ہیں تو پھر اِن پر کھلی عدالت میں مقدمہ افغانستان میں چلایا جائے گا جو بالکل غیر جانبدارنہ ہو گا پھر کہا گیا کہ اگر امریکہ اس پر متفق نہیں تو کسی تیسر ے اور غیر جانبدار ملک میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے مگر امریکہ اس بات پر مصر تھا کہ اسامہ بن لادن کو فوراً امریکہ کے حوالے کیا جائے۔

ابھی یہ اندازہ کیا جا رہا تھا کہ شائد امریکہ کسی ایک بات پر راضی ہو جائے اور افغانستان پر حملہ نہ ہو مگر جو لوگ حالیہ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ امریکہ پر کسی بھی انداز کے حملے کا جواب ہمیشہ کہیں زیادہ شدت سے آیا ہے اور ہمیشہ آئے گا، تا آنکہ مقابل امریکہ کے برابر کی قوت نہ بن جائے۔

دفاع یا سکیورٹی پر امریکہ کبھی بھی مفاہمت نہیں کر سکتا کیونکہ طاقت کو برقرار رکھنے کا ہمیشہ سے یہی اصول رہا ہے، بقول میکا ولی اور چانکیہ اگر یہ اصول نہیں اپنایا جاتا تو طاقت برقرار نہیں رہتی، جس طرح دوسری جنگِ عظیم میں پرل ہاربر پر جاپانی حملے نے دنیا کی نئی تشکیل کی اور تشکیل ہونے کی رفتار میں اہم کر دار ادا کیا تھا اُسی طرح نائن الیون کا واقعہ تھا، یہ واقعہ دنیا میں نئے ہزاریے کے پہلے سال کے نویں مہینے کی گیارہ تاریخ کو پیش آیا اگرچہ اس میں 2996 افراد جان بحق اور 6000 زخمی ہوئے تھے اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا تھا جو کسی ایک واقعہ کے لحاظ سے اتنا زیادہ نہیں تھا مگر یہ علامتی اعتبار سے کہیں زیادہ اہم تھا۔

دنیا کی حالیہ ایک سو سالہ تاریخ میں اب تک چار بڑی جنگیں ہوئیں ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم میں عسکری انداز یا طریقہ کار ایک جیسا تھا وہی توپیں، ٹینک، طیارے، بحری جہاز اور بحری بیڑے ہاں البتہ دوسری جنگ عظیم کا اختتام دو ایٹم بموں جیسے تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال پر ہوا،اس کے بعد ایک جانب امریکہ کے ساتھ نیٹو اتحادی اور دوسری جانب سابقہ سوویت یونین اور وارسا پیکٹ گروپ کے ساتھ اس کے اتحادی تھے، اور اس دوران دنیا میں اِن کے میدان جنگ یا محاذ پر ترقی  پذیر اور پسماندہ ممالک تھے۔

اس جنگ میں غیر اعلانیہ طور پر کچھ اصول وضوابط اور قوانین کا لحاظ کیا جاتا رہا یعنی جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پانچ ملکوں میں سے چار کو ماضی قریب  کے نو آبادیاتی نظام کے اعتبار سے ویٹو پاور دیا گیا اور چین کی جگہ چین کی نمائندگی غیر جمہوری انداز میں تائیوان کو دی گئی اور پھر 1971 کے بعد چین کو حقیقی انداز میں تسلیم کرتے ہوئے ویٹو پاور دے گئی تو اگرچہ سوویت یونین اور چین اشتراکی نظریاتی ممالک تھے اور دنیا میں اشتراکی نظریات کے پھیلانے میں اہم کردار سوویت یونین ہی کا تھا تو دراصل یہ سرد جنگ خصوصاً کوریا اور ویتنام کے جنگوں کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے بلاکوں کے درمیان رہی اور چین کافی حد تک غیر جانبدار ہو گیا اور اسی دوران چین نے اپنے مسائل حل کرتے ہوئے نہایت تیزرفتاری سے ترقی کی۔ اس سرد جنگ میں اگرچہ افغانستان کی حیثیت برٹش انڈیا اور پہلے سلطنتِ زارِ روس اور پھر کیمونسٹ سوویت یونین کے درمیان حائلی ریاست یعنی بفر اسٹیٹ کی رہی اور بعد میں جب 1947 کو بھارت اور پاکستان جب آزاد ہو گئے تو بھی درپردہ افغانستان کی حیثیت حائلی ریاست ہی کی رہی۔

ہاں یہ ضرور تھا کہ برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں دوسری اینگلو افغان جنگ 1878 کے بعد سے 1919ء تک افغانستان کو سالانہ سبسڈی دے کر دفاع اور خارجہ کے امور اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور اس دوران پہلے زار شاہی روس نے اور پھر اشتراکی سوویت یونین نے اس کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کر رکھا تھا کہ پاکستان میں سے ملحقہ آبادیوں اور سرحد کے تناظر میںاس کے انتظامی امور میں بہت حد تک بر طانوی عمل دخل رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے 1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ کے بعد زار روس نے سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں کے نزدیکی علا قوں میں اپنی عملداری قائم کی۔ 1919 میں جب افغانستان کے روشن خیال ترقی پسند بادشاہ غازی امان اللہ خان نے تیسری اینگلو افغان جنگ میں اپنی خارجہ اور دفاع کی پالیسی کو آزاد کر لیا تو فوری طور پر جنگ کے بعد برطانیہ نے یہ سب کچھ تسلیم کر لیا تھا مگر تھوڑے عرصے بعد ہی امان اللہ خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا یوں تقریباً وہی سلسلہ جو امان اللہ سے پہلے تھا کچھ کمی بیشی کے ساتھ پہلے برطانوی تعلقات اور پھر بر طانوی امریکی تعلقات کے ساتھ بحال ہو گیا اور غیر اعلانیہ طور پر اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد بھی جاری رہا۔

اس کو قوت کی بنیاد پر 1979 میں افغانستان میں سابق سوویت یونین نے تبدیل کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ اُس وقت ایران اور پاکستان میں حکومتی سطحوں پر مذہبی رجحانات کو اپنایا گیا تو سوویت یونین کو خوف محسوس ہوا کہ یہ سلسلہ افغانستان سے ہوتا ہوا سنٹرل ایشیا کی سوویت ریاستوں میں بھی آجائے گا جو سوویت یونین کی تباہی کا سبب ہو گا اور سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں اسی چنگاری کو شعلہ جوالا بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کے ذریعے استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی بلکہ سوویت یونین ہی بکھر گئی۔

افغانستان کے اس جہاد میں افغانیوں کے شانہ بشانہ عرب مجاہدین کی بھی ایک بڑی تعدا د نے سوویت یونین کی فوج کے خلاف حصہ لیا جس میں تاریخی کردار کی حامل شخصیت اسامہ بن لادن کی تھی، وہ 1979 سے 1989 تک افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مصروفِ جنگ رہے اور پھر واپس سعودی عرب چلے گئے۔ 1991-1992 میں خلیجی جنگ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی جس پر اُن کا خاص نظریہ اور موقف تھا اور وہ سوڈان چلے گئے جہاں پر امریکہ کی جانب سے جب سوڈان پر حملہ ہوا تو 1996 وہ افغانستان آگئے۔

اب جب افغانستان کی حکومت نے اسامہ بن لا دن کی حوالگی کے لیے دو تجاویز سامنے رکھیں تو امریکہ کی جانب سے یہ دونوں تجاویز رد کردی گئیں، دوسری جانب امریکہ جو سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد واحد سپر پاور ہونے کا اعلان کر چکا تھا اور دنیا کی تیز رفتار تشکیل ِنو کا تخلیق کار بھی تسلیم کیا رہا تھا اُس کے فیصلوں سے انحراف کرنا اُس وقت کسی ملک کے لیے ممکن نہیں تھا، اس لیے جب نائن الیون کے سانحے کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو اس پر فوری طور پر اور کہیں زیادہ شدت سے توجہ دی گئی پھر یہ بھی تھا کہ ٹریڈ سنٹر جہاں دہشت گردی کی اس کاروائی سے سب سے زیادہ جانی مالی نقصان ہوا تھا وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت سے پیدل پندرہ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔

اس لیے نفسیاتی طور پر بھی اقوام متحدہ کے لوگوں نے اس واقعہ کی شدت کو دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ یوں جتنی تیز رفتاری سے نائن الیون کے دہشت گردی کے حملوں کے خلا ف اقوا م متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کاروائی کی اس کی مثال اقوام متحدہ کی تاریخ میں نہیں ملتی، اُس وقت سکیورٹی کونسل کے مستقل پانچ اراکین، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ غیر مستقل ممبران میں بنگلہ دیش،کولمبیا،آئرلینڈ، جمیکا،مالی، موریطانیہ، ناروے، سنگا پور، تیونس اور یوکرائن شامل تھے۔

اس سکیورٹی کونسل نے واقعہ کے 17 دن بعد 28 ستمبر2001 کو قرار داد نمبر 1373 متفقہ طور پر صرف تین منٹ میں منظور کر لی، اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بعض ایسے نکا ت جو اس قرارداد کی وجہ سے مجروح ہو سکتے تھے اِس حوالے سے ابہام کو بھی دور نہیں کیا گیا، اور اس سے قبل اگر ایسی کوئی قرار داد سکیو رٹی کونسل منظور کیا کرتی تھی تو ہوتا یہ تھا کہ بہت سے ممالک اُس کو قبول کرنے کے بعد اُس پر دستخط کر نے کے باوجود غفلت برتتے تھے لیکن اس قرارداد کا متن اور لہجہ ایسا تھا کہ اس پر پوری دنیا میں فوری طور پر اور مکمل انداز میں عملدرآمد کرنا ہر ملک کا فرض اولین قرار پایا اور یہی وجہ تھی کہ جب یہ قرارداد منظور ہوگئی تو جنرل پرویز مشرف کے پاس دوسرا کو ئی راستہ نہیں تھا کیو نکہ امریکہ نے بڑے درشت لہجے میں کہا تھا کہ پاکستا ن یہ بتائے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہے یا نہیں اور یوں اُس وقت سے یوٹرن کی اصطلاح سامنے آئی تھی اور اس پر اسی عجلت میں عملدرآمد ہوا جتنی عجلت اس سے متعلق قرارداد نمبر 1373 میں متفقہ طور پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں منظور کی گئی تھی۔

اُس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ انصاف سے متعلق یہ اصطلاحات خود اہل مغرب کی ہیں کہ ’’انصا ف میں جلدی یا عجلت انصاف کو دفن کر دینے کے مترادف ہے، اسی طرح انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ‘‘ اور یہ تلخ حقیقت آج بھی دنیا کے سامنے ہے، اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1373 تین منٹ میں سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اوردس غیرمستقل ممبران نے متفقہ طور پر منظور کر لی، اور خود اقوام متحدہ کی جانب سے واضح کردہ انسانی حقوق یہاں بری طرح پامال ہو ئے اور افغانستان میں بے گناہ افراد زیادہ تعداد میں جان بحق ہوئے جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں، قرارداد 1373 کی منظوری کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے انٹرنیشنل سکیورٹی فورس کی تشکیل کا اعلان کیا۔

دس دن بعد امریکہ نے اپنے روائتی اتحادی برطانیہ کے ساتھ مل کر 7 اکتوبر2001 کوOperation Enduring Freedom آپریشن انڈورنگ فریڈم شروع کیا۔دسمبر2001 میں حامد کرزئی سربراہ ِحکومت بنادیئے گئے۔ 2002 میں لوئی جرگہ ہوا، اگست 2003 سے نیٹو افواج بھی جنگ میں شامل ہوئیں اُس وقت کسی جانب سے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھی۔ 2003 میں اقوام متحد ہ ہی نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں انسانی حقوق ، مہاجرین کے قوانین اور انسانیت کے قوانین کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے قرارداد 1456 منظور کی، پھر طالبان اور القاعدہ کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے قرارداد نمبر1566 پاس ہوئی، یہ دور پاکستان کے استحکام کے لحاظ سے بہت ہی بحرانی تھا۔

اب افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کی معاونت اور امداد کر رہا تھا، یوں افغانستان میں جب بے تحاشہ بمباری کی گئی تو پھر ایک بار افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں پا کستان آگئے مگر اب کی بار اِن کے لیے بیرونی دنیا سے وہ مہربانیاں اور مراعات نہیں تھیں، اور ساتھ ہی عام افغانی کے لیے یہ بدلتی ہوئی صورتحال ناقا بلِ فہم اور ناقابلِ تسلیم تھی،کہاں چند برس پہلے یہی افغانی دنیا کی دوسری بڑی قوت کے خلاف جب لڑے رہے تھے توامریکہ، یورپ سمیت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام اُن کے ساتھ تھے اور پا کستان فرنٹ لائن کے ملک کی حیثیت سے سب آگے تھا اور واقعی یہ بالکل الٹ ہوا یعنی پوری دنیا ہی کا یہ یوٹرن تھا۔

اس لیے افغانیوں کا غم وغصہ زیادہ تھا اور اس فضا میں پاکستان کو اس غم وغصے کا یوں سامنا کر نا پڑا کہ پاکستان اور افغانستان کی سر حد کے دونوں اطراف کے بہت سے علاقوں میں مذہبی، لسانی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی، نسلی اعتبار سے صدیوں کے تاریخی پس منظر کے ساتھ یکساں قومیں آباد ہیں اور باوجود سرحد کے اِن کے آپس میں رشتے ناطے ہوتے ہیں پھر افغانستان میں ساحل نہیں یوں قانونی اور غیرقانونی دونوں انداز کی تجارتی سرگرمیاں پاکستا ن ہی سے ہوتی ہیں، اس لیے جب افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کی شدید کاروائیوں کو چار پا نچ برس کا عر صہ گزر گیا تو اِس کا ردعمل دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں شہری آبادیوں بازاروں اور مارکیٹوں میں بم دھماکوں، مخالفین کے ٹھکانوں پر خود کش حملوں کی صورت میں روز بروز بڑھنے لگا۔

اس کی کی پیش بندی کے لیے غالباً فور سز کی جانب سے اُس وقت توجہ اِس لیے بھی نہیں دی گئی کہ جب سکیورٹی کونسل کی جانب سے قرار داد نمبر1373 منظور کر نے کے بعد جس شدت سے افغانستان میں کاروائی کی گئی تھی اور ساری دنیا امریکہ اور نیٹو کی پشت پر مکمل طور پر کھڑی تھی اُس سے پوری دنیا کو یہ اندازہ تھا کہ اب افغانستان میں عوامی سطح پر کہیں اسلحہ برداروں اور کہیں اسلحہ کو نہیں چھوڑا جائے گا اور تھوڑے عرصے میں افغانستان اسلحہ سے پاک ملک بن جائے گا، مگر افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی پوری طاقت کیسا تھ کاروائیوں کے باوجود صرف تین چار سال بعد یہ اندازہ ہوا کہ اب یہاں ایک نئی طرز کی جنگ شروع ہو گئی ہے جس کا رخ اب نیٹو اور امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے ۔

اسی دور میں پاکستان کے ایٹمی پر وگرام کے بارے میں بھارت اور مغربی دنیا نے پروپیگنڈہ کیا اور یہاں تک کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے بارے میں ایسے علاقائی نقشے عالمی سطح پر شائع ہوئے جن میں پا کستا ن موجود نہیں تھا اور ساتھ پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ 2010 تک دنیا میں پاکستان کے نام کا کوئی ملک نقشے پر نہیں ہو گا، یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان1999 میں وہ ملک تھا جس نے اعلانیہ ایٹمی ملک بننے کے بعد کارگل پر قبضہ کر کے بھارت اور امریکہ دونوں کو پریشان کر دیا تھا۔

اس دور میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات بہتر سے بہتر ہونے لگے اور پاکستان بہت ہی احتیاط سے اِن مسائل کا سامنا کر رہا تھا، پھر مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک بھی نہ صرف سیاسی بحران اور جنگوں کا شکار ہونے لگے بلکہ مالیاتی اعتبار سے بھی ان کے مسائل کی وجہ سے ہمارے اقتصادی معاملات بھی متاثر ہوئے، بیرون ملک پاکستانیوں کا نہ صرف دوسرے ملکوں میں جانا بند ہو گیا بلکہ لاکھوں پاکستانی جو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں یا یورپ، امریکہ،کینیڈا اور دیگر مغربی ملکوں میں کام کر رہے تھے وہ بھی پاکستان پر دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی وجہ سے گھبرائے اور بیرون ملک ایسے پاکستانی جو عارضی بنیادوں پر وہاں کے قانون کو صرفِ نظر کرتے ہوئے بیرون ملک کام کر رہے تھے نکالے گئے اور جو نہیں نکالے گئے اُن کی آمدنیوں میں خصوصاً عرب ملکوں میں کمی کردی گئی۔

مشرق وسطیٰ میں حالات کی وجہ سے پہلے پاکستانیوں کا بڑا انخلا کویت سے ہوا تھا، اس کے بعد عراق سے ہوا، 2003-04 کے بعد جب افغانستان میں امریکی اور نیٹو کاروائیوں کو تین چار سال ہو گئے تو یوں معلوم ہوا کہ اب افغانستان میں دہشت گردی کے خلا ف شروع کی گئی، عالمی جنگ، عالمی سطح کی پروکسی وار میں تبدیل ہو چکی ہے جس پر بظاہر دنیا کے بہت سے ممالک اقوام متحدہ کی سکیو رٹی کونسل کی قرارداد نمبر1373 کے تحت یکساں موقف رکھتے ہیں اور اُن قوانین کا احترام کرتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے لیے اقوام متحدہ نے خصوصی طور پر واضح کئے ہیں، مگر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہ صرف افغانستان میں قابو میں نہ آسکی بلکہ یہ جنگ بعد کے دنوں میں عراق، شام، لیبیا کو مکمل طور پر تباہ کرتے ہوئے تیونس، سوڈان،ایران، سعودی عرب، یمن تک کو متاثر کرنے لگی۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان جو بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی 1982-83 کی قراردادوں کے سحر میں آکر اُس وقت جب افغانستان سوویت یونین جارحیت کا شکار تھا فرنٹ لائن کا ملک بن کر سوویت یونین کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا تھا حالانکہ اُس وقت بھی اُس کی پشت پر بھارت متواتر وار کرتا رہا تھا اور یہاں تک کہ سیا چن کا علاقہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، پھر28 ستمبر2001 کی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کے بعد اب پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان اور افغانیوں کے خلاف پوزیشن لینی پڑی اور یہ پوزیشن امریکہ اور نیٹو کے حق میں تھی اور یہ سابق سوویت یونین کے خلاف اور افغانستان کے حق میں اپنائی جانے والی پوزیشن کے بالکل برعکس پوزیشن تھی یعنی پورا یوٹرن تھا ، اس لیے پا کستا ن کو اس دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان برداشت کر نا پڑا، یہ نقصان کئی پہلوں سے ہوا ہے مثلاً مالی اعتبار سے دیکھیں تو پاکستان کو معاشی، اقتصادی ، مالیاتی طور پر کم از کم 500 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُس نے امریکہ اور خصوصاً نیٹو ممالک کو سوویت یونین کے خلاف تیسری عالمی جنگ جو سرد جنگ کے نام سے 1990 تک جاری رہی، جیت کر دی مگر اس کے انعام کی بجائے پاکستان کو اس کی شدید سزا ملی، وہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں مجاہدین کا محسن تھا اور سوویت یونین کے ٹوٹنے اور شکست کھانے کے چند سال بعد اُسے بالکل ہی متضاد کردارادا کرنا پڑا، یہ ایک ایسے سماج میں یک لخت ہوا تھا جس کا تاریخی پس منظر بھائی چارے ، اخوت کے حوالے سے صدیوں پرانا رہا ہے مگر اب روایت اور اقدار کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے سامنے قربان کرنا پڑا، اگر چہ پاکستان اور افغانستان کی سماجی بنت سابق سوویت یونین کی فوجوں کے افغانستان میں آنے کے بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی مگر یہ امید تھی کہ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد وہاں امریکہ و یورپ کی امداد سے تیز رفتار انداز سے تعمیر نو کا عمل شروع ہو گا جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور مارشل پلان کے تحت جاپان میں ہوا تھا اور پھر 35 لاکھ افغان مہاجرین جو سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے وہ واپس ہو جائیں گے تو چند سال بعد جسم کی جلد کے کسی زخم کی طرح یہ ادھڑی سماجی بنت بھی منہدم ہو جائے گی۔

البتہ اس کے داغ تاریخی واقعہ کی طرح رہ جائیں جو یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان نے سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف فرنٹ لائن کے ملک کی حیثیت سے افغان بھائیوں کا بڑی جرات اور استقا مت سے ساتھ دیا تھا لیکن یہاں تو تازہ زخم پر ہی گہر ے گھاؤ لگائے گئے ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں سرحدوں کی دونوں جانب سینکڑوں کلومیٹر تک ایک ہی ثقافت، تہذیب،تمدن مذہب، زبان اور قومیت کے حامل کروڑوں افراد آباد ہوتے ہیں اِن ترقی پذیر ملکوں میں ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود حکومتوں کی بعض پالیسیاں عموماً متضاد ہوتی ہیں جو دونوں ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والوں کے لیے عوامی سطح پر مشترکہ سماجی رشتوں کے لحاظ سے اکثر اوقات جذباتی طور پر خصوصاً دکھ درد اور سانحوں کے اعتبار سے ایک یا یکساں محسوس کی جاتی ہیں۔

یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی سطح پر کہیں درست سمجھی گئی مگر یہ حقیقت ہے پاک افغان سرحدوں کے دونوںا طراف کے عوامی سطح کے دکھ درد مشترک تھے، مگر پاکستان اور افغانستان میں خصوصاً طالبان کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کی پالیسیاں کتنی ہی مجبوری کے تحت کیوں نہ اپنائی گئیں وہ مجو عی طور پر عوامی سطح پر پسند نہیںکی گئیں اور یہی وہ وجوہات تھیں، جن کی بنیاد پر ایک جانب امریکہ اور اُس کی اتحادی فوجوں کو نائن الیون کے برسوں گزر جانے کے بعد بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو دوسری طرف پا کستان کو کئی طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، یہ ایسی فضا تھی کہ جس میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے نام سے شروع ہونے والی جنگ اب ایک نئی طرز کی پروکسی وار یا جنگ کی شکل میں 2003 یا 2004 سے شروع ہو چکی ہے۔

یہ 1945 سے1990 تک عالمی سرد جنگ سے یوں مختلف ہے کہ اس میں جنگ کا بڑا حصہ شہروں میں لڑا جا رہا ہے جہاں تک تعلق امریکہ یا نیٹو افواج کا ہے تو وہ یا تو افغانستان عراق یا دوسرے ملکوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں یا پھر ساحلوں کے نزدیک سمندروں میں اپنے بحری بیڑوں، طیارہ بردار بحری جہاز وں یا میزائلوں سے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، جب کہ دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں جو گروہ آپس میں بر سرِپیکار ہیں، اس پراکسی وار کا ایسا حصہ ہیں جو زیر زمین رہ کر دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصرفِ عمل ہیں، پاکستان کو اس طرز کی جنگ کا سامنا تقریباً گذشتہ اٹھارہ برسوں سے سامنا ہے اور ساتھ ہی اُسے اپنے سے کم از کم چار گنا زیادہ قوت کے روایتی دشمن بھارت کا مقابلہ بھی کر نا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی اس دوران مشرق وسطیٰ میں اس پراکسی وار کی وجہ سے کئی مرتبہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران نے بھی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے پہلو یا زاویئے بدلے ہیں اور اس سے بھی پاکستان کو بعض مواقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اگر جنگوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستا ن کو آزادی کے فوراً بعد ہی سے ہمیشہ جنگ جیسے حالات کا سامنا رہا ہے، 1999 میں جب ایک سال قبل ہی پاکستان اور بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکے تھے تو کارگل کی ایسی جنگ ہوئی جو لڑائی سے کچھ زیادہ اور مکمل جنگ سے قدرے کم تھی اور اس میں خصوصاً جب وزیر اعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کرکے 4 جولائی 1999کوامریکہ کے یوم آزادی پر طویل ملاقات کی اور پھر ون آن ملا قات کی تو اس کے بعد انہو ں نے کارگل سے فوجوں کی واپسی کے احکامات دئیے۔

یوں یہ جنگ لائن آٖف کنٹرول تک ہی محدود رہی ورنہ یہ جنگ سندھ اور پنجاب کی پاکستان اور بھارت کی انٹرنیشنل سرحدوں پر بھی بھرپور انداز سے لڑی جاتی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ فیصلہ کن ثابت ہوتی، جب کہ سوویت یونین کے 1979 میں افغانستان میں آنے کے بعد سے اور اس بعد کی تما م تر بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو کسی نہ کسی انداز میں جنگوں کا حصہ بننا پڑا، یوں یہ تو تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو بڑے جانی مالی بلکہ ناقابل تلافی نقصانات کو برداشت کرنا پڑے پھر معاشرتی سماجی طور پر صدیوں کی تہذیبی سماجی بنت کے اُدھڑنے سے جو سماجی اجتماعی یا اژدھامی انداز کے نفسیاتی مسائل پیدا ہوئے، ہمارے ہاں نوے لاکھ سے زیادہ افراد منشیات کے عادی ہوگئے، کلاشنکوف کلچر نے ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان، قتل وغارت کی وارداتوں میںکئی گنا اضافہ کر دیا۔

نصف آبادی غربت و افلاس کی بھینٹ چڑھ گئی اسی دوارن یعنی افغان پاکستان سرحد وں اور پھر ہمارے شہروں میں یہ دہشت گردی کے واقعا ت جو پراکسی وار کی صورت میں رونما ہوئے اور شروع میں کئی مرتبہ ہمیں پسپائی بھی ہوئی، مگر اس دوران پاکستان کی فوج دنیا میں امریکہ کی فوج کے بعد مسلسل جنگوں سے گزرنے والی دوسری فوج بن گئی اور امریکی فوج کے مقابلے میں اِسے زمینی جنگ کا تجربہ اس لیے بھی زیادہ رہا کہ ہمارے سپاہی اور افسران چھوٹے ہتھیاروں سے محاذوں پر لڑتے رہے ، اگرچہ ہمارے سپاہی اور سویلین دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اور لڑائیوں تقریباً 80000 کے قریب شہید ہوئے جو امریکیوںکے مقابلے تقریباً بیس گنا زیادہ ہیں لیکن دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کی فوج کو جتنا تجربہ ہے اتنا دنیا کی کسی اور فوج کو نہیں اور آج پاکستان کی فوج اس جنگ کو اپنے ملک سے 90 فیصد سے زیادہ باہر دھکیل چکی ہے جو 9 ستمبر 2001 کے بعد سے اب تک دنیاکی کوئی اور فوج نہیں کر سکی ہے۔   (جاری ہے)

The post سانحہ 9/11 نے دنیا کا منظر نامہ بدل ڈالا appeared first on ایکسپریس اردو.


پابندی کے ساتھ وقت کی خلاف ورزی کرتے پاکستانی

$
0
0

اردو شاعری کا محبوب ہو، جلسے میں آنے والا راہ نما یا سرکاری ملازم، کبھی دیے گئے وقت پر نہیں آتے۔ ہمارے شاعروں کے روایتی محبوب کا تو خیر کہنا ہی کیا۔ اس کا تو یہ حال ہے کہ

آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم

جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم

کبھی کبھی تو محبوب کے آنے کے وعدے پر ساری رات شب انتظار بن کر گزرتی ہے۔ صبح اخبار والا آجاتا ہے، دودھ والا آجاتا ہے، کوڑا اٹھانے والا آجاتا ہے، مگر محبوب نہیں آتا۔ ہمیں نہیں پتا کہ جاپان کا محبوب بھی وقت اور وعدے کے معاملے میں ایسا ہی ہے، مگر جاپانی عوام و خواص بہرحال وقت کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے وزیرِِاولمپکس یوشی تاکا ساکورادا نے ایک پارلیمانی اجلاس میں صرف 3 منٹ تاخیر سے پہنچنے پر معافی مانگ لی، مگر حزبِ اختلاف نے ان کی معذرت قبول نہیں کی اور 3 منٹ کی تاخیر پر 5 گھنٹے تک احتجاج کیا۔ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ وزیر موصوف کے دیر سے آنے سے پارلیمان کا وقار مجروح ہوا ہے۔

کوئی جاپانی حزبِ اختلاف کو سمجھائے کہ 3 منٹ کی تاخیر بھی کوئی تاخیر ہوئی؟ 3 منٹ تو ’یوشی تاکا ساکورادا‘ صاحب کو اپنا نام لیتے ہوئے لگ جاتے ہوں گے۔ یوشی صاحب پر تنقید کرنے والے کبھی پاکستان آئیں تو ان کو پتا چلے کہ دیر سے آنے کا مطلب کیا ہے۔ یہاں لوگ وقت کو بھی قانون سمجھتے ہیں، اس لیے جتنا ممکن ہو اس کی پابندی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں دیے گئے وقت کی خلاف ورزی پابندی سے کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے آپ کو صبح 11 بجے ملنے کا وقت دیا ہے تو آپ کو یقین ہوگا کہ وہ 12 سے پہلے نہیں آئے گا اور اس یقین کے سہارے وہ کم از کم ایک بجے آئے گا۔

شادی کارڈ پر لکھا گیا وقت اس وعدے کی طرح ہوتا ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا، ’جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں‘۔ مہمان کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ کارڈ پر درج وقت کے مطابق پہنچ گیا تو اسے خالی ہال میں میزبان کا استقبال کرنا ہوگا اور پھر کئی گھنٹے بیٹھے رہنا ہوگا ’تصورِ کھانا‘ کیے ہوئے۔ دوسری طرف میزبان بھی جانتا ہے کہ شادی سمیت کسی بھی تقریب کے لیے دیا گیا وقت ایسا وعدہ اور ارادہ ہوتا ہے جس سے پھرنا یوٹرن کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔

وقت کے معاملے میں ہماری جیسی فراخ دل قوم شاید ہی کوئی ہو۔ ہمارے ہاں کا ’منٹ‘ شب فراق، شیطان کی آنت، آمرانہ حکومت، محبوب کی زلفوں اور بھارتی ٹی وی ڈراموں سے بھی طویل ہوسکتا ہے، چناںچہ ’بس 5 منٹ میں آیا‘، ’آپ سے 2 منٹ بات کرنی ہے‘، ’یہ کام بس 10 منٹ میں ہوجائے گا‘ جیسے جملوں میں استعمال کیے گئے منٹ دنیا بھر میں عام استعمال ہونے والی گھڑیوں سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ یہ ہم پاکستانیوں کے دماغوں میں فِٹ خاص پاکستانی گھڑی کے ہوتے ہیں، جس میں منٹ کی سوئی حسبِ ضرورت ہندسوں کو دھکیلتے ہوئے آگے چلتی ہے، یوں اس پاکستانی منٹ کا معاملہ یہ ہے کہ

ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے

نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے

یعنی کُل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت کی بابت ہمارا طرزِ عمل بے یقینی پر مبنی ہے۔ ہم تقریب سے لے کر تقریر تک اور رسومات سے لے کر انتخابات تک ہر تاریخ اور وقت کے بارے میں غیریقینی کیفیت اور شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے شاعر غالب ایک جگہ کہتے ہیں

موت کا ایک دن مْعیّن ہے

اور کہیں شکوہ کرتے نظر آتے ہیں

مرتا کوئی دن اور

ہمارے ہاں وقت کی اپنی ہی تقسیم ہے، جو اس طرح ہے بعد ازوقت، قبل از وقت اور بے وقت۔ ہمارے اکثر کام بعد از وقت ہوتے ہیں، جیسے گلی کی بانو کی منگنی کے لڈو کھا کر یاد آتا ہے ’ارے ہمیں تو اس سے محبت تھی‘۔ پھر بعدازوقت واویلے کا سلسلہ ’بانو‘ کی رخصتی تک جاری رہتا ہے۔

قبل از وقت دانش وروں سے آپ کو سوشل میڈیا پر روز ہی واسطہ پڑتا ہوگا۔ یہ دراصل آپ کا بُرا وقت ہوتا ہے۔ یہ وہ خواتین حضرات ہیں جو چاہے زیرِتعلیم ہوں مگر خود کو بلاتکلف بطور علامہ اور دانش ور پیش کردیتے ہیں۔ یہ مذہب، فلسفہ، معیشت، عالمی سیاست، دفاع سمیت ہر موضوع پر صرف رائے ہی نہیں دیتے بلکہ فتوے بھی دیتے ہیں اور پورے یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔‘

یوں تو ’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘ مگر ہمارے یہ ’قبل از وقت دانش ور‘ وہ حادثے ہیں جنہیں دانشور ہونے کی اتنی جلدی تھی کہ ان کی پرورش کا موقع وقت کو ملا نہ والدین کو، یہ ایک دَم ہوئے اور اب سب کی ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ انہیں دیکھتے ہوئے ہماری دعا ہے کہ خدا ’قبل از وقت‘ جیسا وقت دشمن پر بھی نہ لائے۔

The post پابندی کے ساتھ وقت کی خلاف ورزی کرتے پاکستانی appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت نے کشمیریوں کو کھودینے کا اقدام کیا ہے

$
0
0

محترمہ نعیمہ احمد مہجور جموں و کشمیر کی ایک معروف صحافی، ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سروس سے وابستہ رہیں، پھر دو دہائیوں تک لندن میں بی بی سی ورلڈ سروس میں نیوز ایڈیٹر (اردو) کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ وہ جموں وکشمیر عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔

عوامی مسائل، بالخصوص خواتین کو درپیش بڑے ایشوز پر جنوبی ایشیا سے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک کا سفر کرچکی ہیں۔ ان کے شوہر بھی آل انڈیا ریڈیو سروس سے وابستہ رہے، وہ بھی ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

نعیمہ احمد مہجور منفرد انداز سے کہانی لکھنے کے باعث ادبی حلقوں میں شہرت رکھتی ہیں۔ کشمیر کے حالات پر ان کا ناول ’’دہشت زادی‘‘ چند سال قبل ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی تصانیف ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں ’Lost in terror‘ بھی لکھی جو ایک کشمیری خاتون کی کہانی ہے جو دہشت اور خون خرابے کے درمیان پلی بڑھی۔ دراصل یہ ان کی اپنی ہی داستان ہے۔

نعیمہ احمد مہجور تین سال تک جموں و کشمیر میں ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن رہی ہیں۔ آج کل ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔ وہ محض ایک صحافی یا ادیبہ ہی نہیں ہیں، بلکہ کشمیری قوم کی ایک جرأت مندانہ آواز بھی ہیں۔ اپنے تجزیوں اور کالموں میں وہ اپنی قوم کا مقدمہ پوری دلیری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔

گذشتہ دنوں ان سے مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ اس دوران ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں کیا حالات ہیں، اور ہندوستان کے اس اقدام کے کشمیر اور ہندوستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ مزاحمتی تحریک اب کیا صورت اختیار کرے گی اور مسئلہ کشمیر اب کیسے حل ہوگا؟

نعیمہ احمد مہجور کہتی ہیں:

پانچ اگست کو جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس سے کچھ روز قبل حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے خفیہ سرکلر سامنے آ گئے تھے جن پر مقامی انتظامیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ کشمیر میں چھ ماہ کے لیے راشن کا سٹاک رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ کشمیر میں ہندوؤں کی یاترا کو جولائی کے آخر میں ختم کرنے کے احکامات دیے گئے حالانکہ عام طور پر یاترا 20 اگست تک رہتی ہے۔ مرکزی حکومت کے ان اقدامات سے محسوس ہوتا تھا کہ حکومت کچھ بڑا کرنے والی ہے۔

اس کے ساتھ بعض عناصر کے ذریعے یہ بات پھیلائی گئی کہ پاکستان کی طرف سے عسکریت پسند بھیجے گئے ہیں اور حملہ ہونے والا ہے۔ اس دوران سونامرگ کی طرف فورسز کی بڑی تعداد بھی بھیجی گئی۔ پھر اچانک چار اگست کی رات کو اچانک کریک ڈاؤن کرکے تمام سیاسی قیادت اور بااثر شخصیات کو گرفتار کیا گیا، جن کی تعداد تقریباً چھ ہزار تھی۔

پانچ اگست کی صبح جب ہم اٹھے تو موبائل سروس، انٹرنیٹ اور چند ٹی وی چینلز کے علاوہ کیبل بھی بند تھی۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کیا ہو رہا ہے، لوگ سوچ رہے تھے شاید جنگ شروع ہو گئی ہے۔ ابھی تذبذب کا عالم ہی تھا کہ اچانک پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کر رہے ہیں۔ یہ اعلان کشمیریوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا اور بے تحاشا فورسز ہونے کے باعث گھروں میں محصور کشمیری اس صدمے کا اظہار بھی نہیں کر پائے۔ حالت یہ تھی پڑوسی دوسرے کے گھر نہیں جا سکتے تھے تاکہ وہ آپس میں یہ دکھ بانٹ سکیں۔ پوری ریاست سکتے کے عالم میں تھی اور صدمہ ایسا تھا جیسے کوئی مر گیا ہو اور لوگ گھروں میں ماتم کر رہے تھے‘‘۔

اگر سرکاری چینلز نہ ہوتے تو؟

کشمیر کا مقامی میڈیا پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے اور مقامی الیکٹرانک میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں حکومت نے دو تین چینل چلا رکھے تھے جن پر بتایا جا رہا تھا کہ وزیرداخلہ امیت شاہ گیارہ بجے کشمیر کے حوالے سے خصوصی اعلان کریں گے اور لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے۔

پھر جب اعلان کیا گیا تو لوگوں کو ان حکومتی چینلز سے علم ہوا کہ کشمیر کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ اگر حکومتی چینلز بھی نہ ہوتے تو لوگوں کو نہیں پتا چلنا تھا کہ کس وجہ سے لاک ڈاؤن ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران کیا ہوتا رہا؟

کشمیر میں عموماً ہر گھر میں دس پندرہ دن کا راشن موجود ہوتا ہے۔ لوگ سردی کے باعث سردیوں سے قبل ایک ماہ کا راشن اسٹاک کر لیتے ہیں کیوںکہ سردی زیادہ ہوتی ہے اور ایسا ہمیشہ ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا راشن ہوتا ہے۔ تین چار ماہ کا راشن کوئی نہیں رکھتا اور ایسا اکتوبر میں ہوتا ہے۔ اگست میں ایسا نہیں ہوتا، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک عام کشمیری کے پاس ایک دو ہفتے کا راشن موجود تھا۔ اس میں بھی دالیں اور چاول وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے پاس سبزیوں کے چھوٹے باغات ہیں جن کے باعث لوگ گزارا کر لیتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران راشن سے زیادہ مسئلہ ادویات کا تھا

اور بالخصوص لائف سیونگ ڈرگز اور بچوں کے دودھ کا سب سے زیادہ مسئلہ دیکھنے کو ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا زیادہ سٹاک موجود نہیں ہوتا اور وہ باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں مریضوں کا ہسپتال جانا بھی ایک بڑا مسئلہ تھا، باہر کرفیو کی صورت حال میں ٹرانسپورٹ تک دست یاب نہیں تھی۔ ہفتہ دس دن بعد راشن کی قلت بھی شروع ہوگئی تھی۔ تاہم مقامی انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے راشن ڈپو کھولے ہیں جس کے باعث راشن کی قلت پر قابو پایا گیا لیکن کس طرح ہوا یہ سمجھ نہیں آئی۔

اس صورت حال میں لوگوں نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی جن کے پاس زیادہ راشن تھا انہوں نے پڑوسیوں کی مدد کی۔ کشمیر میں یہ روایات موجود ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں راشن نہیں ہے تو وہ ہمسائے سے لے لیتا ہے اور بعد میں واپس کردیتا ہے۔ پھر تین چار ہفتے بعد ایسا ہوا کہ چھوٹی چھوٹی دکانیں کھلنے لگیں جو دو گھنٹے کے لیے کھلی رہتیں اور پھر بند ہوجاتیں۔ دو ماہ تک شدید قلت رہی اس کے بعد تھوڑی تھوڑی کر کے قلت ختم ہوئی۔ اس دوران گاؤں سے سبزیاں اور چاول بڑی تعداد میں آئے جس کے باعث کشمیری اب تک زندہ ہیں۔

مجھے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

نعیمہ احمد مہجور بتاتی ہیں کہ میں جموں کشمیر ویمن کمیشن کی چیئرپرسن تھی اور پھر میں نے19 جون کو اس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں سیاست سے بہت کتراتی تھی بلکہ میں نے پی ڈی پی کو بہت پہلے کہا تھا کہ سیاست نہیں کرسکتی کیوںکہ میں سیاست میں فٹ نہیں ہوں۔ میں ویمن کمیشن سے بھی بہت پہلے استعفیٰ دینا چاہتی تھی لیکن حکومت چاہ رہی تھی کہ میں تین سال مکمل کروں۔

ویمن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے جہاں عورتوں اور انسانوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے لیکن وہاں کے حالات میں کام کرنا بہت مشکل ہے کیوںکہ وہاں سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس ماحول میں آزادانہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے بارہا چھوڑنے کی خواہش کی لیکن کہا گیا کہ آگے بہتری آئے گی، اس کے ساتھ جب میں وہاں عورتوں کی حالت دیکھتی تو سوچتی کہ ان عورتوں کے لیے ہی کچھ کر لوں۔ بالآخر 19 جون کو میں نے استعفیٰ دیا، سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ سے صحافت میں آ گئی۔ شاید اسی بنیاد پر مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔ ہمارے علاقے میں فوج اور پولیس زیادہ نہیں ہوتی تھی لیکن ان دنوں بہت زیادہ فورسز تھیں، ایک مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید حکومت میں رہنے کی وجہ سے مجھے گرفتار کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

لاک ڈاؤن کے بعد کشمیری پاکستانسے کیا چاہتے تھے؟

کشمیریوں کو پتا ہے کہ دنیا میں کشمیر کی بات کرنے والا صرف پاکستان ہی ہے اور وہی ان کی تحریک کی حمایت بھی کرتا ہے۔ ایک بات پھیلائی گئی کہ کشمیری چاہتے ہیں کہ پاکستان حملہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ عام لوگ ایسا نہیں سوچتے کیوںکہ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مضبوط ہو اور پہلے خود کو بہتر انداز میں سنبھالے اور کشمیریوں کی حمایت کرے۔ عمران خان کی تقریر کے بعد کچھ امید پیدا ہوئی کہ پاکستان نے کشمیر پر کھل کر بات کی۔ میری رائے ہے کہ پاکستان کو کشمیر کی پرامن تحریک کی حمایت کرنے چاہیے اور ایک عام کشمیری بھی پاکستان سے یہی امید رکھتا ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا آسمانی حروف نہیں تھے

’’ہندوستان کی سول سوسائٹی میں بہت سارے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ سول سوسائٹی کے کئی ممبران سے میری بات چیت ہوئی جو سمجھ رہے تھے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے منشور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا بائبل کے حروف نہیں تھے کہ جن پر عمل کرنا ضروری تھا۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی کا ماننا ہے کہ 370 ختم کرنے کے نعرے کو الیکشن اسٹنٹ تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ کشمیریوں کوان کی مرضی کے مطابق رہنے دینا چاہیے اور ان کی منشا کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور دہلی حکومت کو کشمیر کے دل جیتنے چاہییں تاہم کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کا یہ طریقہ درست نہیں تھا۔

کشمیر کے معاملے میںبھارتی میڈیا کاکردار

ہندوستان کا میڈیا چوںکہ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اس پر ہندوستان کے مذہبی طبقے (دائیں بازو) کا کنٹرول زیادہ ہے، ایسے میں میڈیا نے اس مسئلے کو درست انداز میں اور حقائق کے مطابق پیش نہیں کیا بلکہ حکومت کے اس فیصلے پر تالیاں بجائیں اور خوشی منائی۔ اس وجہ سے کشمیریوں میں بھی میڈیا کے حوالے سے بہت غم و غصہ ہے۔ میڈیا تو واچ ڈاگ ہوتا ہے جو عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے لیکن جہاں کشمیر کی بات آتی ہے وہاں میڈیا آر ایس ایس کی زبان استعمال کرتا ہے اور بی جے پی کے ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم میڈیا اور سول سوسائٹی کو ملا نہیں سکتے، میڈیا الگ زبان بول رہا ہے جب کہ سول سوسائٹی کی سوچ مختلف ہے۔

بین الاقوامی میڈیا نے پہلی مرتبہ کشمیر کو قریب سے دیکھا

پانچ اگست کے بعد انٹرنیشنل میڈیا نے پہلی مرتبہ اس مسئلے کو بہترین انداز میں اٹھایا۔ دنیا کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکا سمیت تمام بڑے اداروں کے رپورٹر وہاں موجود ہیں۔ انہوں نے تمام صورت حال کو خود دیکھا اور رپورٹ کیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے دیکھا کہ کیسے ایک فیصلہ مسلط کرکے پورے علاقے کو جیل میں تبدیل کیا گیا۔ عوامی رائے کا خون کیا گیا اور سیاست دانوں کو نظرانداز کرکے اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا، کسی کو خاطر میں نہیں لایا اور مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اسی بنیاد پر بین الاقوامی میڈیا نے اس معاملے کو بہت ہائی لائٹ کیا اور پھر برطانوی ممبران پارلیمنٹ اور یورپ کے دیگر ممالک کے پارلیمنٹریرینز نے جس طرح الارم کیا کہ کشمیر میں صورت حال بہت خطرناک ہے۔ یہ سب میڈیا کی بدولت ہی ممکن ہوسکا اور دنیا کو معلوم ہوا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔

کشمیریوں کو کیا کرناچاہیے؟

بین الاقوامی سطح پر دنیا کو معلوم ہے کہ آزاد کشمیر میں بھی علیحدگی کی تحریک موجود ہے جہاں لوگ پاکستان کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں وہیں پاکستان سے الگ (آزادی پسند) رہنے کی سوچ کے حامل لوگ بھی موجود ہیں۔ اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھی علیحدگی پسند بھی ہیں اور لوگ ہندوستان کے آئین کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور اسے قبول بھی کیا۔

آزاد کشمیر کے عوام نے لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ کیا، وہ لائن آف کنٹرول عبور کرنا چاہتے تھے۔ ہم ان کی قدر کرتے ہیں کہ ان کی کشمیریوں کے لیے ہم دردی ہے اور وہ کشمیریوں کا درد بانٹنا چاہتے ہیں لیکن یہ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے موزوں وقت نہیں تھا۔ اس عمل سے ہو سکتا ہے کہ کچھ عناصر ہلا گلا کرنا اور بارڈر پر نیا محاذ کھلوانا چاہتے ہوں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ دونوں طرف لینڈ مائنز بچھی ہیں اور دونوں طرف سے گولی بھی چلتی ہے۔ اس طرح پہلے ہی کشمیری مر رہے ہیں تو اور کتنے لوگوں کو اس طرح سے مارنا ہے؟

ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ پرامن جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، ہمیں اس تحریک کو جذبات کے بجائے دماغ سے لڑنا چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جب ہم سے بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہی کہا جاتا ہے کہ کشمیری اس جنگ کو جذبات سے لڑ رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ جنگ دماغ سے لڑنی چاہیے۔

پاکستان کی کشمیرپالیسی،بڑی طاقتیں کیا سوچتی ہیں؟

اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ دنیا پر بھارتی اثرورسوخ موجود ہے کیوںکہ ہندوستان دنیا کو سوا ارب کی مارکیٹ کا چسکا دے کر بہلاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کو کبھی لابنگ کرنا نہیں آئی اور مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ کبھی آئے گی کیوںکہ پاکستان کی پالیسیوں میں کبھی تسلسل برقرار نہیں رہا۔ پاکستان کے ہر حکم راں کی جانب سے کشمیر پر الگ پالیسی سامنے آئی اور حکم رانوں کی طرف سے نت نئے حل پیش کیے گئے۔ دوسری طرف ہندوستان کو دیکھیں تو کشمیر کے معاملے پر ان کی پالیسی میں کبھی لچک نہیں آئی۔ ہندوستان میں بھی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن 1947 سے اب تک ان کی کشمیر پالیسی ایک ہی رہی اس میں تبدیلی نہیں آئی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی فورمز کے ساتھ ساتھ امریکا اور برطانیہ وغیرہ بھی یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کی مثال کے لیے ہم دیکھیں تو شملہ معاہدے سے مشرف کے چار نکاتی فارمولے تک پاکستان کی کشمیر پالیسی کا پتا دیتے ہیں۔

شملہ میں پہلے کشمیر کو پہلے دو ملکی تنازع بنایا گیا پھر کہا کہ اقوام متحدہ میں جائیں گے۔ پھر اعلان لاہور میں شملہ اعلامیے کی توثیق کی گئی۔ اس کے بعد مشرف چار نکاتی فارمولا لائے اس کے بعد پھر کہا اقوام متحدہ میں جائیں گے تو ایسے میں بین الاقوامی برادری کو سب نظر آتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ ہندوستان تو ہر چیز کی اسٹڈی کے بعد فیصلہ لیتا ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی شفٹنگ اور ہندوستانی لابی کے فعال ہونے کے باعث بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی طرف جھکاؤ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

کشمیر کی ہندنواز سیاسی قیادت کا مستقبل کیا ہوگا؟

کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا مستقبل بہت تاریک ہے۔ 1947ء میں شیخ عبداللہ نے جو کیا کشمیری سات دہائیوں سے اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب محبوبہ مفتی اور باقی لیڈر شپ کو کئی لوگوں نے کہا کہ آپ جو ہندوستان پر اس قدر تکیہ کر چکے ہیں وہ ایسے اقدامات کرے گا کہ آپ کو لگ پتا جائے گا۔ جب آرٹیکل 370 کو ہندوستان کے آئین میں شامل کیا گیا تو اس کے بعد اسے ہمیشہ کم زور ہی کیا جاتا رہا اور اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات موجود تھی کہ ہندوستان اتنا مخلص نہیں ہے جتنا مخلص ہو کر کشمیری قیادت نے ہندوستان کی گود میں جا گری تھی۔

اب اگر محبوبہ مفتی یا کوئی بھی ہندوستان کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں نظر آئے گا، کیوںکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے مسجدیں بند رکھیں، نماز نہیں پڑھنے دی، پیلٹ گنز چلائیں۔ وہ اب ایسی غلطیاں تسلیم کر کے خود کو ہر چیز سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ جہاں تک ان کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو ان سے جو حلف نامے لکھوائے جا رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کی پالیسی کو مانیں گے اور آرٹیکل 370 پر بات نہیں کریں گے، تو ایسے حلف نامے دینے کے بعد اگر وہ عوام میں آنے کی کوشش کریں گے تو عوام انھیںکشمیر میں بھی نہیں رہنے دیں گے۔

مزاحمتی قیادت کس حال میں ہے؟

جہاں تک مزاحمتی قیادت کا سوال ہے کہ وہ کہاں ہیں تو سید علی گیلانی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایک خط لکھا۔ گیلانی صاحب کو ان کے رشتہ داروں سے ملنے نہیں دیا جا رہا، فون تک نہیں کرنے دیا جاتا تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔ شبیر شاہ کی جائیدادیں ضبط کرلیں اور وہ قید ہیں۔ اسی طرح یٰسین ملک کو برسوں پرانے مقدمے میں گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں مزاحمتی قیادت کیا کر سکتی ہے۔

کیا یٰسین ملک کو پھانسی دی جائے گی؟

بھارتی جنتا پارٹی نے جس طرح پرانے مقدمات کھولے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی یٰسین ملک کو بھی پھانسی دے سکتی ہے۔ گو کہ کارروائی عدالت میں چل رہی ہے لیکن اب عدالتوں سے بھی اعتبار اٹھ رہا ہے۔ اللہ کرے یٰسین ملک کو انصاف ملے، تاہم اگر ہندوستان کو یہی کرنا ہے توکشمیری ایک قوم ہیں وہ اس قوم ہی کو سزائے موت دے دیں۔

کیا اب مزاحمتی تحریک ختم ہوجائے گی؟

ہندوستان کا خیال ہے کہ اب کشمیر سے مزاحمت ختم ہو جائے گی لیکن حقیقتاً یہ ہندوستان کا وہم ہے کہ کشمیر میں تحریک ختم ہوجائے گی۔ پنڈت کلہن نے راج ترنگنی میں لکھا تھا کہ ’’کشمیری قوم کو پیار سے جیتا جا سکتا ہے ان پر جبر کیا جائے تو وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔‘‘ کشمیر کو سمجھنے کے لیے انڈیا کو کلہن کی راج ترنگنی پڑھنی چاہیے۔ ویسے بھی تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں چاہے دو لوگ ہی کیوں نہ رہیں، جب تک قوم اپنا مقصد حاصل نہ کر لے تحریک باقی رہتی ہے۔ اس وقت ہندوستان نے جو کیا وہ کشمیر کو کھو دینے کا اقدام کیا۔ آرٹیکل 370 کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ایک پل تھا جو انہوں نے ختم کر دیا۔ اب وقت فیصلہ کرے گا کہ ہندوستان کا یہ اقدام کشمیر کا انضمام ثابت ہوگا یا ہندوستان کی بربادی؟ ہمیں اس کا انتظار کرنا ہو گا۔

کیا ریاست کی وحدت بحال ہوسکتی ہے؟

ایسا بالکل ممکن ہے کہ ریاست کی وحدت بحال ہوجائے۔ ہندوستان نے جو کیا وہ کوئی آسمانی وحی نہیں ہے جسے بدلا نہ جا سکے بلکہ امیت شاہ نے کہا بھی ہے کہ حالات نارمل ہوتے ہی ریاست کی حیثیت بحال کردی جائے گی۔ اگر کشمیری یہ چاہییں کہ ریاست ایک ہو اور 1953ء کی پوزیشن بحال ہو اور اس کے لیے جدوجہد کریں تو ہندوستان بھی مان سکتا ہے کہ ریاست کی وحدت بحال ہو۔ تاہم یہاں ایک سوال اہم ہے کہ کیا کشمیری اب ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہیں گے؟ اب یہ دیکھنا ہے کہ کشمیری 1947 سے پہلے والی حالت میں رہنا چاہیں گے یا 1947 کے بعد والی حالت میں۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ مین اسٹریم (ہند نواز) قیادت کبھی یہ چاہتی تھی کہ اندرونی خودمختاری کے ساتھ وہ ہندوستان کے ساتھ ہی رہیں اور اسی بنیاد پر وہ ووٹ لیتے تھے تاہم 5 اگست کے بعد اب وہ حلقہ بھی نہیں رہا کیوںکہ اب وہ خود بھی کہتے ہیں کہ 47 ء میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا ایک غلطی تھی۔

امریکی کونسلیٹ کا کردار

ہندوستانی حکومت کے حالیہ اقدام کے بعد جہاں ڈوگروں سمیت دیگر اقلیتوں کو عدم تحفظ محسوس ہو رہا ہے وہیں جموں کو الگ ریاست بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ مطالبہ ہندوستان کے کہنے پر کیا جا رہا ہو۔ بھاجپا نے ہندوازم کو فروغ دیا اور اس بنیاد پر ریاست کو فرقہ وارانہ تقسیم کی ہوا ملی۔ اس کے ساتھ امریکی کونسلیٹ نے بھی کہا ہے کہ اسرائیلی طرز کی کالونیاں بنائی جائیںاگر ایسا ہوا توریاست مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی چلی جائے گی۔

ہندوستان کو کیسے جھکایا جاسکتا ہے؟

کشمیری جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں اسے دیکھ کر میں یہ کہہ رہی ہوں کہ یہ ایسی باہمت قوم ہے جو ایسے مظالم سات دہائیوں سے جھیل رہی ہے ورنہ ہندوستان نے کوئی ایسا حربہ نہیں چھوڑا جو ان پر نہ آزمایا گیا ہو۔ موجودہ سانحے میں ایک بات ہے کہ ابھی تک جو کشمیریوں کا رویہ ہے اور جس پُرامن اور پُروقار طریقے سے وہ چل رہے ہیں اور جس بردباری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کیوںکہ اگر وہ باہر نکلتے اور احتجاج کرتے تو خون خرابہ ہوتا۔ انھیں مستقبل میں بھی اپنی جنگ پرامن طریقے سے لڑنے ہوگی جس میں کسی کی جان نہ جائے۔ اس قوم کو اب ایک متحد قیادت کی ضرورت ہے جو تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ جب یہ قیادت جیل سے باہر آتی ہے تو کون سا رخ اختیار کرتی ہے، کیا وہ آزادی پسندوں سے ملے گی یا پہلے والی سیاست ہی کرے گی؟

معیشت کی تباہی کے مزاحمتی تحریک پر اثرات مرتب ہوں گے؟

میرا خیال ہے کہ کشمیر کی تحریک کبھی کاروبار کے استحکام کی محتاج نہیں رہی کیوںکہ جن لوگوں نے یہ تحریک چلائی ان کے گھروں میں بعض اوقات دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں تھا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ معیشت تباہ ہونے سے تحریک ختم ہوجائے گی

ایک خام خیالی ہے۔ موجودہ صورت حال میں کشمیریوں کی معیشت کو دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ کشمیر کی معیشت کو تباہ کرکے ہندوستان نے کشمیریوں کو اجتماعی سزا دی کیوںکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ کشمیری ہندوستان کی بات ماننے پر مجبور ہوجائیں اور اپنے حق آزادی سے دستبردار ہوجائیں۔

2014 میں جب کشمیر میں سیلاب آیا تھا تو اس وقت بھی کشمیر کی معیشت مکمل تباہ ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد کشمیری پھر سے اٹھے، کاروبار دوبارہ چلائے، مکان بنائے اور سب نارمل ہوا۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے مجھے لگ رہا ہے کہ کشمیری ایک مرتبہ پھر خود کو سنبھالیں گے اور اپنی معیشت کو مضبوط کریں گے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں کئی مرتبہ کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مزاحمت برقرار رہی۔

امریکا ، برطانیہ اور مسئلہ کشمیر

برطانیہ میں الیکشن ہیں اور بریگزٹ کا مسئلہ بہت گہرا ہے اور گذشتہ تین سال سے لوگوں کے ذہنوں پر بریگزٹ چھایا ہوا ہے، پھر بارہ دسمبر کو انتخابات بھی ہو رہے ہیں تو ایسے میں ان کے لیے دوسرے مسائل سے زیادہ اپنا مسئلہ اہم ہے۔ امریکا میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ امیگریشن اور دوسرے مسائل پر پھنسے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے کشمیر امریکا کی زیادہ توجہ حاصل نہ ہو سکا، حالانکہ سب کو علم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں اور اگر خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو اس کا اثر نہ صرف برصغیر پر پڑے گا بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی لیکن وہ اپنے مسائل کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں دے پارہے ہیں۔

برطانیہ، لیبرپارٹی جیت گئیتو کیا ہوگا؟

برطانیہ کی لیبر پارٹی کی پالیسی میں کشمیری اور پاکستانی ڈایسپورہ کافی اثرو رسوخ رکھتا ہے اور یہاں 17 لاکھ پاکستانی اور کشمیری رہتے ہیں جب کہ ہندوستانیوں کی تعداد 14 لاکھ ہے جس میں چالیس فیصد ہندو ہیں اور ان میں بھی سب آر ایس ایس یا بی جے پی کے حامی نہیں ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو کشمیرکے مسئلے کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور کشمیریوں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ موجودہ برطانوی حکومت نے بھی کشمیر کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ایسا بھی محسوس ہو رہا ہے کہ برطانیہ پس پردہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس بحران کا حل نکالا جا سکے۔

اس وقت برطانیہ کے انتخابات کی مہم جاری ہے اور کشمیری ڈایسپورہ انتخابی مہم کے سلسلے میں جہاں بھی جاتے ہیں کشمیر کی بات کرتے ہیں۔ اسی مہم کے دوران جرمن کوربن نے کہا کہ اگر لیبر پارٹی جیتتی ہے تو فلسطین کو آزاد مملکت کے طور پر قبول کرے گی۔ اسی طرح انہوں نے پہلے بھی کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں ملکوں سے بات چیت کے لیے کہیں گے اور مجھے لگتا ہے کہ اگر لیبرپارٹی آئی تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیے لیے کردار ادا کرنے کے لیے بھی کوشش کرے گی۔

برطانیہ میں پاکستان نواز اور ہندوستان نواز مظاہرین کے احتجاج پر پابندی کی اصل وجہ؟

برطانیہ میں کوئی بھی پرامن طریقے سے اپنے حق کے لیے احتجاج کرسکتا ہے ۔ 15 اگست کو انڈین ہائی کمیشن کے سامنے بھارتی اور کشمیری کمیونٹی الگ الگ احتجاج کر رہی تھیں۔ اس دوران بدمزگی پیدا ہوئی اور مظاہرین نے انڈین ہائی کمیشن پر انڈے پھینکے حالانکہ انہیں پرامن احتجاج کرنا چاہیے تھا اور بدمزگی نہیں پھیلانی چاہیے تھی۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس نے دونوں گروپوں کے احتجاج کرنے پر پابندی عائد کردی کیوںکہ ان کی نظر میں دونوں ہی برابر تھے۔ اس لیے جہاں رہا جاتا ہے وہاں کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے کیوںکہ تشدد یا ہلڑبازی ہمیشہ منفی تاثر پیدا کرتی ہے۔

اسے کسی کی سفارتی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر جگہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے تشدد کی راہ پر جانا ہوتا ہے اور اصل مقصد سے ہٹانا ہوتا ہے۔ ہم اس بات پر بحث کرسکتے ہیں کہ جو لوگ ہندوستان کے حق میں احتجاج کررہے تھے وہ درست تھے یا غلط لیکن برطانیہ میں سب کو احتجاج کا حق دیا جاتا ہے اور انہوں نے دونوں کو اجازت دے رکھی تھی اور اب دونوں کو ہی اجازت نہیں ملتی کیوںکہ یہاں ہلڑبازی اور تشدد کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

مشرف کا چار نکاتی فارمولا ہندوستان اور پاکستان کے لیے فیس سیونگ ہوسکتا ہے؟

کشمیر کے مستقل حل کے لیے پاکستان اور ہندوستان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان کو اپنی انا چھوڑنی ہوگی اور یہ سوچنا ہوگا کہ کشمیری جو دونوں اطراف سے شدید متاثر ہو رہے ہیں انھیں کس طرح راحت دی جاسکتی ہے۔

یہاں پر ہندوستان اور پاکستان کے لیےwin win  سچویشن ہے، یعنی مشرف کا چار نکاتی فارمولا چل سکتا ہے، بارڈر کھولیں، کشمیریوں کو آزاد کریں اور یہی دونوں ممالک کے لیے فیس سیونگ بھی ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں ملک اس کے لیے سوچیں گے؟ اس سچویشن تک لانے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی کا دباؤ ضروری ہے، کیوںکہ اس کے بغیر یہ ممالک اس طرف نہیں جائیں گے۔ اس کے لیے خصوصاً امریکا اور برطانیہ کو کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کشمیری زندہ رہ سکیں۔ اس کے علاوہ اگر ان دونوں ملکوں (ہندوستان اور پاکستان) کے سیاست دانوں کو عقل آئے اور انھیں سمجھ آجائے کہ کتنا بڑا اسٹیک لگا ہے تو وہ سوچیں گے اور سمجھیں گے، تب کشمیریوں کو سانس لینے دیں گے۔

کیا چین واقعی کشمیریوں کے حق خودارادیت کا حامی ہے؟

اب ریاست جموں کشمیر کی جیو پولیٹیکل سچویشن دنیا کے لیے انتہائی اہم ہے ایسے میں چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر 1947ء والے پوزیشن پر واپس جائے کیوںکہ اس وقت گلگت بلتستان ریاست کے حصے تھے۔ اور اس بنیاد پر وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھی مخالفت کرے گا۔ ہاں! اگر امریکا کی دل چسپی ہے تو وہ ریفرنڈم کروائے۔ پوری ریاست میں ریفرنڈم ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مختلف خطوں کی دل چسپیوں کا علم ہوجائے گا اور شاید اس طرح1947ء والی پوزیشن بحال ہو سکے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا سخت رویہ کیوں؟

کشمیر ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے اور وہ آبادیاتی تناسب تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ سخت ہے۔ اس طرح ان کے عزائم بھی واضح ہیں۔ کشمیر کی صورت حال دیکھ کر شمال مشرقی ریاستوں میں عدم تحفظ اور خصوصی اختیارات کے کھونے کا ڈر پیدا ہوا ہے جس کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ کشمیر کے لیے بی جے پی کا 1947 سے ایجنڈا یہی تھا کہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا ہے اور مسئلہ ختم کرنا ہے۔ اب جب کہ انہوں نے اس ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو اس سے اور یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کا رویہ سخت ہوا اور مزید ہورہا ہے۔

کیا پاکستان نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے؟

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں جو ہوا اس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کی مرضی شامل تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہے کیوںکہ اگر کچھ بیک ڈور ہوتا تو پہلے کشمیر کے حالات نارمل کیے جاتے پھر کرتارپور یا کسی اور طرف جانے کی کوشش کی جاتی۔ کرتارپور کھولنا پاکستان کا بہترین اقدام ہے اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان سیکولرازم کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہندوستان ہندوازم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب صورت حال ہے کہ پہلے ہندوستان سیکولر اسٹیٹ تھا اور پاکستان مذہبی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا تاہم اب الٹ ہو رہا ہے۔ جو خوب صورتی سیکولرازم کی ہے وہ مذہبی انتہا پسندی میں نہیں ہے۔ کرتارپور کوریڈور کھولنا اچھا اقدام ہے لیکن دونوں ملکوں کو سمجھنا چاہیے کہ کشمیر کے بھی منقسم خاندان ہیں ان کو بھی ملنے دینا چاہیے۔ جہاں تک یہ افواہ ہے کہ کرتارپور کھلا ہے اور کشمیر کا سودا ہوا ہے تو اس بات کو میں نہیں مانتی ہوں۔

ہندوستانی معیشت کیوں تباہیکی طرف گامزن؟

اس وقت ہندوستان کا جی ڈی پی 4.2 پر پہنچا ہے جو کہ 2015 میں 7 تھا۔ ہندوستان میں معیشت کے گرنے کی دو وجوہات ہیں:

ایک تو نوٹ بندی کے باعث معیشت کمزور ہوئی اور دوسرا جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی وجہ سے سمال سکیل اور مڈل اسکیل بزنس متاثر ہوئیں۔ کئی انڈسٹریز بند ہوچکی ہیں اور سب سے زیادہ نقصان آٹو موبائل انڈسٹری کو ہوا جو تقریباً بند ہونے کو ہے۔

2014 سے2019 کے تمام ضمنی انتخابات ہارنے کے بعد بی جے پی جنرل الیکشن کیسے جیتی؟

بی جے پی الیکشن کے دوران ہمیشہ جذبات ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لیے انہیں کشمیر کا معاملہ ڈسکس کرنا ہو یا پاکستان کے خلاف بات کرنی پڑے وہ ہر طرح کی حد پار کرجاتے ہیں اور جذبات ابھار کر ووٹر کو متاثر کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ووٹرز کے بارے میں گاندھی نے بھی کہا تھا کہ ’’ووٹر ایک کراؤڈ ہے اس کراؤڈ کو سمجھ لیں تو یہ ایک ہی رو میں بہہ جاتے ہیں۔‘‘ اس وقت بی جے پی اس کراؤڈ کو ہندو مذہب کی روٹی کھلا رہی ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ معیشت کمزور ہو رہی ہے، ملازمتیں نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ’’ہندو، ہندو‘‘ کہہ کر جیت جاتے ہیں، لیکن اب عام ووٹر سمجھ رہا ہے کہ اور مزید ہندو روٹی نہیں سینکی جا سکے گی۔ اب شعور آ رہا ہے آئندہ بی جے پی کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی یا پھر یہ اقتدار سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔

The post بھارت نے کشمیریوں کو کھودینے کا اقدام کیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

گلگت کے درختوں حسین مقامات ابھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں

$
0
0

(قسط نمبر 14)

گلگت بلتستان کا ضلع غذر جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم محل و وقوع رکھتا ہے۔یہ مغرب میں خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے منسلک ہے۔

غذر کا بیشتر علاقہ 1895؁ء تک ریاست چترال کا حصہ تھا۔ انگریزوں نے مہتر چترال( چترال کے فرمانروا ) کا اثر رسوخ طاقت اور خوشحالی کا زور توڑنے کے لئے 1895؁ ء میں غذر کی وادی اشکومن، پونیال،گوپس اور پھنڈر کو گلگت ایجنسی میں شامل کر لیا تھا۔ شمال میں اس کی وادی اشکومن درہ قرومبر کے ذریعے چین ،اور درہ درکوت کے ذریعے تاجکستان کے ساتھ ملحق ہے۔گلگت سے ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس ضلع کا صدر مقام گاہکوچ ہے۔

اس کی حسین وادیوں میں پونیال، اشکومن،گلاپور،گوپس، یاسین، پھنڈر اوردرکوت بہت معروف ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان کی سیر کو آنے والوں کی اکثریت گلگت پہنچنے کے بعد ہنزہ اور زیادہ سے زیادہ خنجراب تک جانے اورواپس لوٹنے کی فکر میں ہوتی ہے۔جو لوگ سکردو کا رخ کرتے ہیں وہ شنگریلا اور ست پارہ یا زیادہ سے زیادہ دیوسائی سے آگے کی نہیں سوچتے۔وہ نہیں جانتے کہ ہنزہ اور خنجراب ، شنگریلا اور ست پارہ کے علاوہ گلگت بلتستان میں درجنوں وادیاں،جھیلیں، گلیشئر،چراگاہیں، جنگل اور آبادیاں ایسی بھی ہیں جہاں انسان پہنچ کر اپنے دُکھ اور غم ’کچھ وقت کے لئے ہی سہی‘ فراموش کر دیتا ہے۔

وادی یاسین کی وجہ شہرت یوں تو خوبصورتی اور زرخیزی بھی ہے لیکن یہاں کے ایک مرکزی گائوں ہندور میں کارگل کی جنگ کے ایک ہیرو حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کا مزار بھی ہے۔ حوالدار لالک جان ہندور کا رہنے والا تھا۔اُس نے کارگل کی جنگ کے دوران میں بھارتی فوجیوں کے گھیرے میں آجانے اور اپنے تمام ساتھیوں کے شہید ہوجانے کے باوجودچار روز تک جس جرات،بہادری،بے خوفی اور ایمانی جذبہ کے ساتھ اپنے مورچے سے فائرنگ جاری رکھی اور شہید ہونے تک بھارتی فوج کو اپنے مورچے کے قریب نہیں آنے دیا اس کی مثال جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔

ٹائیگر ہل کارگل پر سات جولائی 1999؁ء کو جام شہادت نوش کرنے والے حوالدار لالک جان کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔ لالک جان شہید کے لئے نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا گیا جو گلگت بلتستان کے اُن ہزاروں افسروں اور جوانوں کے لئے بھی ایک اعزاز ہے جو ناردرن لائٹ انفنٹری میں وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے شدید ترین موسم میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پہ رکھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لالک جان شہید کی میت کو وادی یاسین کے گاواں ہندور لاکر اُس کی اپنی آبائی زمین کے ایک حصے میں سپرد خاک کیا گیا۔

ریڈیو پاکستان گلگت کے ایک سینئر پروڈیوسر واجد علی کا تعلق غذر کی وادی یاسین سے ہے۔ ہر سال چھ ستمبر کو لالک جان شہید کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے اور ناردرن لائٹ انفنٹری کے کمانڈر ہندور آکر حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کے لئے فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ ستمبر دور تھا اس لئے میں نے ہفتہ چار اپریل کو وادی یاسین جانے ا ور وہاں پروگرام ریڈیو میلہ ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی الصبح جب ہم ہندور جانے کے لئے ریڈیو پاکستان گلگت سے روانہ ہوئے تو وا جد علی سینئر پروڈیوسر،سرتاج اعظم براڈ کاسٹ انجینئر اور ڈرائیور امتیاز حسین میرے ہمراہ تھے۔ وادی یاسین جانے کے لئے پہلے گوپس پہنچنا پڑتا ہے۔ اُس روز گلگت میں بارش ہو رہی تھی۔

لیکن غذر کی طرف آسمان صاف نظر آرہا تھا۔گلگت شہر سے نکل کر جب ہم گاہکوچ جانے والی سڑک پر آگے بڑھے تو گلگت کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعمیرات و مواصلات گلگت بلتستان کی نااہلی اس بین الصوبائی شاہراہ کی خستہ حالت، تنگی اور اس کے عین کناروں پر ہونے والی بے ہنگم تعمیرات کی صورت میں سامنے آگئی۔ چونکہ گلگت بلتستان اور چترال میں پچانوے فیصد رقبہ پہاڑوں، گلیشئرز،دریائوں، ندی نالوں،چشموں،جھیلوں اور جنگلات پر مشتمل ہے اس لئے کھیتی باڑی اور انسانی بود و باش کے لئے دستیاب زمین نہایت قلیل اور مہنگی ہے۔

لوگ اپنے حصے کی زمین کا ایک انچ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر کے اپنے قوانین ہیں جن کے تحت سڑک کی اہمیت کی مناسبت سے اس کے دونوں اطراف میں بیس،پچاس اور سو فٹ تک جبکہ موٹر ویز کی صورت میں دو سو بیس فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں اس سڑک پر تعمیرات کی اس قدر بھرمار تھی گویا ہم کسی گائوں کی تنگ و تاریک گلی سے گذر رہے تھے۔گلگت شہرسے نکلتے ہی پہلی بستی بسین کی آتی ہے۔ بسین سے کچھ دور چلیںتو آگے وادی گلگت ختم ہو جاتی ہے اور ایک درے سے گذر کر سڑک ایک نئی وادی میں داخل ہو کر ہینزل گائوں کی طرف بڑھتی ہے جہاں سترہ میگا واٹ کا ایک پن بجلی گھر بنانے کا منصوبہ گذشتہ دو دہائیوں سے وفاقی حکومت کی طرف سے گرانٹ ملنے کا منتظر ہے۔

ہینزل میں بدھ مت دور کے آثار قدیمہ بھی مختلف چٹانوں پر کندہ ہیں۔ ہینزل گائوں میں سڑک کے کنارے چند ہوٹل ہیں جہاں آلو کے چپس، مچھلی اور دیگر کھانے دستیاب ہیں ۔ دریا کے کنارے گھاس کے قطعات پر لگی کرسیوں پر بیٹھ کر دریائے غذر کے بہنے کی مدہم سروں کی آوازسنتے ہوئے ،سرسراتی ہوا میںبکھرتی ہوئی جنگلی پھولوں کی خوشبو اور نیلے آسمان پر مست آوارہ بادلوں کی ٹکڑیوں سے بھرپور منظر میں گرم گرم چائے کے ساتھ چپس اور تلی ہوئی مچھلی کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ہینزل کی اصل وجہ شہرت اس کے چشموں کا ٹھنڈا میٹھا پانی ہے جو گلگت قیام کے دوران میں ہر ہفتہ میں اپنے پینے کے لئے منگواتا تھا۔

یوں تو آپ گلگت بلتستان میں جس علاقے کا رخ کریں کہیں بھی جائیں کوئی نہ کوئی دریا، ندی، نالہ یا چشمہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے لیکن کہیں اس کے بہتے پانی کی گہرائی چند سو فٹ اور کہیں ہزاروں فٹ ہوتی ہے۔آپ چاہتے ہوئے بھی پانی کے قریب نہیں جا سکتے۔اس میں پیر ڈال کر نہیں بیٹھ سکتے۔اس کے پانی کو اپنے ہاتھوں سے چھو نہیں سکتے ۔لیکن دریائے گلگت جو کہ اصل میں دریائے غذر ہے، غذر جانے والی سڑک کے اس قدر قریب ہوکر بہتا ہے کہ آپ جب چاہیں گاڑی روک کر اس پانی کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔اس میں پائوں ڈال کر بیٹھ سکتے ہیں۔اسے پی سکتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ یہ دریا اپنے تمام تر حسن ،تیزی ،خوبصورتی،ٹھنڈے پانی اور سبک خرامی کے ساتھ سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے۔

دریائے غذر گلگت بلتستان میں خودکشی کرنے والی نوجوان لڑکیوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ دریا ہے۔ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ شرح تعلیم میں اولیت رکھنے والے ضلع غذر کی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بوجوہ اس قدر مایوسی پھیلی ہوئی ہے کہ 2004؁ ء اور 2017؁ء کے درمیان 203 لڑکیوں نے دریائے غذر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور اپنے ماں باپ کو ساری عمر کے لئے دکھ،پچھتاوے اور افسوس کی ایک ایسی دنیا کے حوالے کر دیا جس کا خاتمہ اُ ن کی اپنی موت پر ہی ممکن ہوتا ہے۔

خودکشی کی کوشش کرنے والے مردوں اورخواتین کی تعدا د دنیا سے رخصت ہو جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں شادی شدہ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔گلگت اور چترال میں اپنے چاربرس کے قیام کے دوران میں علاقے کے سماجی،معاشرتی ،اقتصادی اور تعلیمی ماحول کا بغور جائزہ لینے اور وہاں کے تقریباً تمام علاقوںکے لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چترال،ہنزہ،گلگت اور غذر کی نوجوان آبادی خصوصاً تعلیم یافتہ لڑکیوں میںخودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بڑی وجہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی سے وابستہ تواقعات اور ارمانوں کا پورا نہ پانا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی لڑکیوں کی غالب اکثریت تعلیم کے اعلی مدارج طے کر لیتی ہیں اس کے مقابلے میں لڑکوں کی ایک بڑی تعداد اپنے معاشی حالات،گھریلو مجبوریوں، تعلیم سے بے رغبتی،آوارہ گردی،خراب صحبت،نشہ کی لت میں مبتلا ہونے اور کوئی رہنمائی نہ ملنے کے باعث وقت ضائع کرتی اور جاہل رہ جا تی ہے۔

یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کا تناسب دیکھ لیجئے آپ کو میری اس بات پر یقین آجائے گا۔ جب یہ لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کر کے یونیورسٹیوں سے نکلتی ہیں تو ان کے لئے ہم پلہ تعلیم یافتہ لڑکوں کے رشتے دستیاب نہیں ہوتے۔ تعلیم حاصل کرلینے والے لڑکوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اپنے ان پڑھ جاہل گنوار اور نکھٹو ررشتہ دار لڑکوں سے شادی کرنا پڑتی ہے۔بہت سی لڑکیاں قسمت کے اس مذاق کو قبول کر لیتی ہیں اور اپنی عمر گائوں کی دیگر بڑی بوڑھیوں کی طرح

 

کھیتوں میں کام کرتے،جانوروں کو سنبھالتے،بچے پالتے گذار دیتی ہیں۔ جنہیں ملازمت مل جاتی ہے ۔وہ اکثر اپنے شوہروں کی افتاد طبع کے باعث ملازمت جاری نہیں رکھ پاتیں۔ جولڑکیاں اپنی قسمت کے اس مذاق کو قبول نہیں کر پاتیں نہ ہی وہ اپنے ماں باپ کو اس بے جوڑ رشتے سے روک سکتی ہیں تووہ دریائے غذر کا رخ کرلیتی ہیں۔

ہینزل سے آگے تھینگی،شروٹ، شیکیوٹ اور بیئرچی کے دیہات ایک دوسرے سے دو دو چار چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس سارے علاقے سے گذرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ کسی ہرے بھرے باغ سے گذر رہے ہوں۔ ہر گائوں میںسڑک کے دونوں طرف کھیت ہیں کھیتوں کے کنارے انار، انگور، ناشپاتی، سیب، خوبانی اور اخروٹ کے درخت ہیں اور ان درختوں کی گھنی چھائوں سڑک کو ایک خوبصورت سرنگ کی صورت پیش کرتی ہے۔

گلاپور ضلع غذر کا پہلا بڑا گائوں ہے۔اس گائوں میں محکمہ جنگلات،تعمیرات اور زراعت کے ریسٹ ہاوسز بھی ہیں۔اس گائوں کی خوبصورتی اور آبادی کی وسعت کے باعث میں نے گاڑی رکوا لی اوراپنا پہلا پروگرام ریکارڈ کرنے کے لئے گائوں کے ایف جی ہائی سکول کا رخ کیا۔ سکول کے ہیڈماسٹر اور یہاں پڑھانے والے تمام اساتذہ گلاپور اور قریبی دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔گلاپور انگور،سیب اور خوبانی کی پیداوار اور اقسام کے حوالے سے بہت شہرت رکھتا ہے لیکن محکمہ زراعت کے عملے کی غفلت کے باعث یہاں کے سیب کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ پکنے سے پہلے کیڑا لگنے کے باعث گل سڑ جاتا ہے۔ جو پھل پک جاتا ہے وہ صحیح پیکنگ نہ ہونے کے باعث گلگت اور ملک کی دیگر منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتا۔

یوں باغبان اپنی محنت کا خاطر خواہ معاوضہ حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ خراب ہونے والے سیب، ناشپاتی، بہی اور خوبانی جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد قدوس خان کا کہنا تھا کہ مئی میں پھل پکنا شروع ہوجاتے ہیں اور اگست ستمبر تک یہ سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ پھلوں کی اقسام اور پیداوار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ پھل کوڑیوں کے مول بکنے لگتے ہیں۔ پھر ان پھلوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث انہیں جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔

گلاپور سے آگے دلناٹی،گوہرآباد،گیچ،سینگل،گلمتی،بوبراور گورنجر سے ہوتے ہوئے جب گاڑی ضلع غذر کے صدرمقام گاہکوچ پہنچتی ہے تو وادی اچانک کُھل جاتی ہے۔ سرسبز و شاداب درختوں اور برف پوش پہاڑوں سے گھرا ہوا گاہکوچ خاصا بڑا شہر ہے جس کی آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ شہر کے وسطی حصے میں بازار ہے جس میں درجنوں مارکیٹیں ہیں۔ تاجروں کی اکثریت کا تعلق اپرکوہستان،لوئر کوہستان،دیر،باجوڑ اور مہمند کے علاقوں سے ہے۔یہ لوگ سبزیوں اور پھلوں کی چھابڑی سے لے کر پرانے کپڑوں جوتوں تک اورپرچون فروشی سے لے کر ہر قسم کی اشیاء کے تھوک کاروبار تک ہر طرح کی تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔

گاہکوچ شہر کے اردگرد برفپوش پہاڑوں ،دریا کے کنارے باغات اور ہرے بھرے کھیتوں کی وجہ سے یہاں کے مناظر بہت دلکش ہیں اتفاق سے جس روز ہم گاہکوچ سے ہوتے ہوئے وادی یاسین کی طرف جار ہے تھے، اسی روز گاہکوچ کے ڈپٹی کمشنر رائے منظور حسین کو استور تبدیل کیا گیا تھا اور وہ گاہکوچ سے استور کے لئے روانہ ہوچکے تھے اس لئے اُ ن سے ملاقات نہ ہوسکی۔رائے منظور حسین نے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے گاہکوچ میں صرف آٹھ ماہ کام کیا تھا۔چونکہ انہوں نے سرکاری اداروں کی گاڑیوں کے بے جا استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی اور ترقیاتی منصوبوں کی کڑی نگرانی کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہا تھا کہ سرکاری فنڈز کا ضیاع نہ ہونے پائے اس لئے ضلع بھر کے مختلف محکموں کے راشی افسر،نچلے ملازمین اور ٹھیکیداراُن کے تبادلے کے لئے کئی مہینوں سے کوشاں تھے۔ جو بالآخر کامیاب بھی ہوگئے تھے۔سرکاری محکموں کے ملازمین اور افسروں کی بدعنوانیوں،رشوت خوریوں اور مال حرام سے بنائی گئی جائیدادوں اور املاک کی فراوانی دیکھنی ہو تو گاہکوچ شہر اور اس کے اردگرد سابق آمر جنرل مشرف کے دور میں ہونے والی تعمیرات اس کے لئے کافی ثبوت ہیں۔ بازار کے دونوں اطراف میں وسیع و عریض مارکیٹیں،ہوٹل اور شاپنگ سنٹر تعمیر کئے گئے ہیں۔

اس بازار میں بڑی بڑی دکانیں پانچ سے آٹھ ہزار روپے کرایہ پر دستیاب تھیں۔کئی مارکیٹیں اور شاپنگ پلازے تقریباً خالی تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ مشرف دور میں ہر سال اربوں روپے گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے مہیا کئے گئے۔ یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے سے بہت پہلے کیپٹن کی حیثیت سے گلگت میں تعینات رہ چکے تھے۔انہوں نے اپنے دور آمریت میں گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے بے تحاشہ فنڈز مہیا کئے ۔ بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں 2008؁ء سے 2013؁ء کے دوران گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پربہتر ارب روپے وفاقی حکومت نے مہیا کئے۔

گویا 2000؁ء سے 2013؁ء تک سینکڑوں ارب روپے گلگت بلتستان حکومت کے حوالے کئے گئے۔تعمیرات ومواصلات سے متعلق اداروں کے افسروں اور اہلکاروں نے اپنے بھائیوں بھتیجوں اور رشتہ داروں کو ٹھیکیدار بنایا اور سرکاری خزانہ کی اس قدر لوٹ مار کی کہ دنوں اور ہفتوں میں وہ کروڑوں کی املاک کے مالک بن گئے۔ جبکہ گلگت بلتستان کے عام لوگ اسی طرح سے مفلوک الحال،فاقہ مست رہے اور غربت کی چکی میں بدستور پس رہے ہیں۔ جب بھی رائے منظور حسین کی طرح کا کوئی دیانت دار افسر ایمان داری سے کام کرنے اور اپنے ماتحت اداروں سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے تو مقامی اخبارات کے کارٹل کے ذریعے جھوٹی خبریں شائع کروا کے اور اپنے چیلے چانٹوں کی مدد سے جلسے جلوس نکال کر واویلا مچایا جاتا ہے کہ ہمارے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ حکومت کے کارپرداز دبائو میں آکر بدعنوان عناصر کی مرضی کی پوسٹنگ ٹرانسفر کردیتے ہیں اور پھر بدعنوانی کا راوی چین کی بانسری بجانے لگتا ہے۔

یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں مالی سال جولائی سے جون تک کا ہوتا ہے۔ہر سال کا وفاقی بجٹ جون میں پیش کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں بحث اور منظوری کے بعد یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہونے پر یہ بجٹ نافذ کردیا جاتا ہے۔ صوبوں میں بھی سالانہ بجٹ وفاقی بجٹ کے فوراً بعد پیش اور منظور کیا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقوم وفاق سے صوبوں تک اور ہر ضلع تک منتقل ہوتے ہوتے ستمبر اکتوبرکے مہینے آ جاتے ہیں جب ترقیاتی منصوبوں کے لئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوتے اور ٹینڈر جاری ہوتے ہیں تو اس عمل میں مزید ایک آدھ ماہ صرف ہو جاتا ہے۔گویا جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی صورت نومبر تک ممکن ہوتی ہے۔

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب گلگت بلتستان اور چترال جیسے دور افتادہ علاقوں میں سردی اپنی شدت پر ہوتی ہے۔ کسی بھی منصوبہ پر عملی کام کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔مالی سال کی تیسری سہ ماہی مارچ میں ختم ہوتی ہے۔ٹھیکیدار حضرات کاغذات میں منصوبے مکمل کرکے دکھاتے اور ٹھیکوں کی رقم وصول کر رہے ہوتے ہیں۔متعلقہ عملہ اس لوٹ مار میں پوری طرح ملوث ہوتا ہے۔ جب مالی سال کی آخری سہ ماہی ختم ہونے کو ہوتی ہے تو متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران ٹھیکیداروں پر زور دیتے ہیں کہ منصوبہ پر اتنا کام تو کرا دو کہ وزیر موصوف آکر منصوبہ کا افتتاح کر سکے ۔

اس پر ٹھیکیدار تھوڑی بہت لیپا پوتی کرکے تختی کی نقاب کشائی کی تیاری کر لیتے ہیں وقت مقررہ پر وزیر صاحب فیتہ کاٹ کر عوام کو یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ اتنے کروڑ کے اس منصوبہ سے فلاں فلاں آبادی مستفید ہوگی۔یوں مالی سال ختم پیسہ ہضم اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔

میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ خیبر پختونخوا میں چترال ،سوات ، کوہستان ،شانگلہ،جنوبی اور شمالی وزیرستان، پارہ چنار،اورکزئی اورہنگو بلوچستان میں ژوب،کوئٹہ،زیارت ا ور پورے گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بجٹ کی فراہمی جنوری سے دسمبر تک کے لئے کی جائے تاکہ موسم کی شدت کے باعث اکتوبر سے دسمبر تک کا عرصہ منصوبہ بندی،جنوری سے مارچ تک کا درمیانی عرصہ ٹینڈر مشتہر کرنے اور ٹھیکیدار کا انتخاب کرنے میں صرف ہو۔جب مارچ کے آخر میںموسم کی شدت کم ہونے لگے تو ٹھیکیدار کے پاس کام شروع اور مکمل کرانے کے لئے سات آٹھ ماہ کا وقت موجود ہو۔اس طرح ان علاقوں میں سرکاری رقوم کا ضیاع کسی حد تک رک سکے گا۔

تیرہ برس میںضلع گاہکوچ کے لئے مختص اربوں روپے کا محض دس فیصد منصوبوں پر خرچ ہوا اور باقی ماندہ رقم گاہکوچ بازار میں مارکیٹس، ہوٹلز اور شاپنگ پلازوں کی صورت میںتعمیرات کی طرح گلگت بلتستان کے ہر علاقہ میں اپنے بدعنوان سرکاری عملہ کی لوٹ مار کی داستان بن کر بکھری ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر گاہکوچ کے دفتر سے میں نے تحصیل گوپس کے اسسٹنٹ کمشنر رانا محمد وقاص کو ٹیلی فون کر کے اُن سے انٹرویو کے لئے شام چھ بجے کا وقت طے کیا اور پھرسرکٹ ہائوس گاہکوچ کا رخ کیا جہاں مقامی پریس کلب کے صدر نے ہماری درخواست پر پروگرام ریڈیومیلہ ریکارڈ کرنے کا انتظام کیا ہوا تھا۔سرکٹ ہائوس کے حسین سبزہ زار پر پچاس ساٹھ لوگ جمع تھے۔اُن سب کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ریڈیوپاکستان گلگت کا عملہ اُن کے مسائل کے بارے میں ریکارڈنگ کرنے گاہکوچ آیا ہے۔

ان لوگوں سے ریکارڈنگ شروع کی تو ان کی مشکلات،تکالیف،مسائل، مصائب اور پریشانیوں کی تفصیلات سن کر اور سرکاری حکام کی بے حسی،بدعنوانیوں،چیرہ دستیوں،کٹھورپن اور اپنے فرائض منصبی سے غفلت کے واقعات کے بارے میں جان کر بہت اذیت ہوئی۔معلوم نہیں ہمارے اس خوبصورت ملک کو کس آسیب نے ڈس لیا ہے کہ ریڑھی بان سے لے کر اعلی مناصب پر فائض لوگوں تک کسی کے بھی دل میں ذرا بھر اللہ رب العالمین کا خوف نہیں ہے۔ہر ایک موقعہ ملنے کی تلاش میں ہے۔ہر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ہرکسی کو حلال حرام کاخیال رکھے بغیر اپنا گھر بھرنے اور بچوں کے لئے کچھ اندوختہ چھوڑ کر جانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ قبر کی اندھیری روز قیامت تک کی طویل رات میں کوئی بھی کام نہیں آئے گا محض اپنے اعمال کی بنیاد پر ہماری ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہوگا۔

خیر کس کس چیز کا رونا روئیں،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔قدم قدم پر گاہکوچ جیسی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔گاہکوچ میں اس ریکارڈنگ سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ایک ہوٹل میں گلگت سے اپنے ہمراہ لایا ہوا کھانا گرم کروایا۔تنور سے تازہ روٹیاں لیں۔ کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر ہم نے گوپس کی راہ لی۔جو گاہکوچ سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان ہو یا کوئی اور پہاڑی علاقہ۔یہاں فاصلے کلومیٹروں میں نہیں بلکہ سفر میں صرف ہونے والے وقت کے حساب سے ناپے جاتے ہیں۔گاہکوچ شہر سے کچھ فاصلہ پرداماس کے مقام پر غذر ڈسٹرکٹ جیل ہے۔

جہاں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے ملزموں اور مجرموں کو قید رکھا جاتا ہے۔مجھے معلوم تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق گورنر اور میر آف ہنزہ غضنفر علی خان کے مقابلہ میں انتخابات میں حصہ لینے والا نوجوان باباجان غذر جیل میں قید ہے۔باباجان نے 2010؁ء میں عطا آباد کے مقام پر پہاڑ کا ایک حصہ گرنے کی وجہ سے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کو خاطر خواہ امداد نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا۔وہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کا بھی مطالبہ کرتے تھے۔

اُن کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں گرفتار کرکے غذر جیل بھیج دیا گیا تھا۔اسی جیل میں ریڈیوپاکستان کا ایک ملازم اپنے کسی نجی تنازعہ کی وجہ سے قید تھا۔میں نے گاڑی رکوا کر جیل کے صدر دروازے پر دستک دی اور ریڈیو پاکستان کے ساتھی کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جیل حکام نے ملاقات کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود میری درخواست پر ملاقات کی اجازت دے دی۔اپنے ساتھی ملازم سے ملاقات کے بعد میں نے باباجان کا پوچھا۔تو جیل کے عملہ نے اُس کے سیل کی طرف رہنمائی کی۔وہ اپنے چھوٹے سے پختہ سیل میں نیم دراز تھا۔مجھے دیکھتے ہی وہ کسی پرانے دوست کی طرح گرم جوشی سے ملا۔باباجان تیس بتیس برس عمرکا گٹھے ہوئے بدن کا جوان رعنا ہے۔جس کا تعلق ہنزہ کے مردم خیز علاقہ سے ہے۔

اُس نے دنیا کے حریت پسند رہنمائوں کے بارے میں خاصہ مطالعہ کررکھا ہے۔وہ اپنے خیالات اور مطالبات کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔اگر انتخابات میں نادیدہ مداخلت نہ کی جاتی تو باباجان کو اُس کے اپنے علاقہ میں شکست دینا دشوار ہوتا۔بہرحال باباجان جیسے باشعور افراد اگر منتخب ہوکر اسمبلی پہنچیں تو یقینناً علاقہ کے عوام کے لئے یہ ایک خوش آئند بات ہوگی۔غذر جیل سے نکلے اور کہیں رکے بغیر گوپس پہنچے۔جو ایک تنگ درے کی صورت میں دریائے غذر کے کنارے آباد ہے۔گوپس یاسین کے نام کی تحصیل کا صدرمقام گوپس ایک تاریخی قصبہ ہے۔

جہاں چشم فلک نے کئی خاندانوں کے مابین اقتدار کی جنگیں ہوتی دیکھیں۔بازار کے آغاز ہی میں انتظامیہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ساتھ ہی سرکاری ریسٹ ہائوس بھی ہے جہاں شب بسری کے لئے بکنگ ہم نے گلگت سے روانہ ہونے سے پہلے کرا لی تھی۔گوپس پہنچے تو عصر کا وقت ہو چلا تھا۔ریسٹ ہائوس پہنچ کر منہ ہاتھ دھوئے وضو کیا اور بازار کی ایک مسجد میں نمازعصر ادا کی۔نماز کے بعد میری خواہش تھی کہ بازار جا کر لوگوں سے بات چیت کی جائے اور اُن کے مسائل کے حوالے سے پروگرام ریکارڈ کیا جائے۔بازار کے دکان داروں سے ملاقات کی تو ان میں پچانوے فیصد تاجر باجوڑ،کوہستان اور دیر کے تھے۔ان کی اکثریت اپنے اہل خانہ کے بغیر یہاں مقیم تھی اُنہیں علاقہ کی مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔

اتنے میں اسسٹنٹ کمشنر رانا محمد وقاص سے ملاقات کا وقت ہوچلا تھا۔وہ اپنے گھر کے خوبصورت چمن میں ہمارے منتظر تھے۔انٹرویو کی ریکارڈنگ سے پہلے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والا یہ خوبصورت نوجوان پاک بحریہ میں الیکٹریکل انجینئر تھا۔اور ایک آبدوز پر تعینات تھا۔رانا محمد وقاص نے فوج کے لئے سی ایس ایس کی مختص نشستوں پر امتحان میں کامیابی حاصل کی۔پھر سول سروسز اکیڈمی والٹن میں تربیت پانے کے بعد گلگت بلتستان بھیج دیا گیا۔اور گوپس میں اُن کی پہلی تعیناتی تھی۔

جہاں وہ ایک سال سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔ فوج کے جو کیڈٹ امتحانات کے ایک طویل سلسلے سے گذر کر دو اور چار برس کے لئے کاکول،رسالپور اور کراچی میں باالترتیب بری فوج،فضائیہ اور بحریہ میں خدمات سرانجام دینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔اُنہیں سول سروس میں شامل کرنا مستحسن عمل نہیں۔اسی طرح سے جو لوگ ڈاکٹر بننے کے لئے میڑک ایف ایس سی اور پھر ایم بی بی ایس کے لئے آٹھ برس پڑھائی کرتے اور میڈیکل کالجز میں محنت کرتے ہیں۔اُنہیں بھی سی ایس ایس کرنے کی اجازت دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔

رانا محمد وقاص نے ضلع غذر اور خاص طور پر گوپس یاسین میںسرکاری نرخوں پر گندم کی فراہمی اور دیگر سرکاری اُمور پر سیر حاصل گفتگو کی۔اور بتایا کہ گوپس میں تیس بستروں کا ایک سرکاری ہسپتال ہے جس میں ہمیشہ عملہ کی کمی کا درپیش رہتاتھا۔اب وہ ہسپتال آغا خان فائونڈیشن کے سپرد کردیا گیا ہے۔تاکہ وہ سہولیات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہسپتال چلانے کے لئے ضروری عملہ کی موجودی کو بھی یقینی بنائیں۔میرے خیال میں یہ محکمہ صحت گلگت بلتستان کی شدید نااہلی،غفلت اور اپنے فرائض سے پہلو تہی کی سنگین مثال ہے۔

سرکاری ہسپتال میں عملہ کی کمی کے بہانے ہسپتال کو ایک غیر سرکاری تنظیم کے حوالے کرنا کسی بھی طرح مستحسن عمل نہیں کہلایا جا سکتا۔ جس ملک میں تعلیم اور صحت کو کاروبار بنا لیا جائے۔(جیسا کہ ہمارے ملک میں ہو چکا ہے) وہاں کسی بھی دیگر سرکاری ادارے یا عوام سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔آغا خان فائونڈیشن ہر اُس جگہ پہ اسماعیلی برادری کو تعلیم اور صحت کی بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ جہاں اسماعیلی برادری کی تھوڑی بہت آبادی موجود ہے۔لیکن اس فائونڈیشن کی خدمات کا دائرہ بہرحال ایک خاص مکتبہ فکر تک محدود ہے جبکہ گلگت بلتستان اور چترال میں دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی بستے ہیں۔جو یقینناً اتنے منظم اور یکسو نہیںہیں۔جس قدر اسماعیلی برادری کے لوگ ہیں۔رانا محمد وقاص نے بتایا کہ شندور پولو ٹورنامنٹ کے موقعہ پر گلگت بلتستان کے راستے شندور جانے والے سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے انتظامات کئے جارہے ہیں۔

انٹرویو کے دوران میں رانا محمد وقاص کے گھر سے چائے معہ لوازمات آئی۔جس کی شدید طلب ہورہی تھی۔کیونکہ موسم سرد ہوچلاتھا اور ہم نے دوپہر کے وقت گاہکوچ میں کھانا کھانے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تھا۔چائے کے بعد میں نے واجد علی کو مقامی لوگوں سے انٹرویو کرنے کے لئے بھیجا تاکہ اُن کا موقف بھی معلوم ہو سکے۔

The post گلگت کے درختوں حسین مقامات ابھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کو استعمال کر کے ایک بار پھر بھارت کو اہمیت دی گئی

$
0
0

(قسط نمبر 14)

پاکستان اور امریکہ تعلقات کا  ہنی مون پریڈ 1980 سے 1987-88 تک رہا بلکہ 1988 میں ہی جب امریکہ اپنے مفادات حاصل کر چکا تھا، سوویت یونین کے بکھر رہا تھا اور کیمونزم دنیا سے رخصت ہو رہا تھا تو ساتھ ہی نئی عالمی سیاسی ،اقتصادی، معاشی بساط بچھائی جارہی تھی ،جس کے اندیشوں کو پاکستان کے سیاسی عسکری دانشوروں نے محسو س کر لیا تھا۔

کارگل کے معرکے پر عملدرآمد دونوں شعبوں میں اتفاقِ رائے ہی سے ترتیب پا یا تھا ،مگر جب بھارت کی چیخ و پکار پر امریکہ نے دباؤ ڈالا تو 4 جولائی 1999 کو ہی صدر کلنٹن نے نواز شریف سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا کہ کارگل سے فوج واپس بلائی جائے گی۔

جنرل پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا تو امریکہ اور پا کستان کے تعلقات کافی حد تک کشید ہ رہے اور اسی دور میں جب صدر بل کلنٹن نے 20 مار چ تا25 مارچ 2000 بھارت ،بنگلہ دیش اور پا کستان کا دورہ کیا تو وہ پانچ روزہ دورے میں تقریباً چار دن انہوں نے بھارت میں قیام کیا اور واضح انداز میں بھارت کو زیادہ اہمیت دی اور پھر چند گھنٹے بنگلہ دیش اور پا کستان میں گذارے مگر نائن الیون کے فوراً بعد جب پہلے امریکہ اور برطانیہ اور پھر امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں کارو ئیاں شروع کیں تو امریکہ پاکستان تعلقات ایک بار پھر بہت اچھے دکھائی دئیے۔

یہاں پاکستان میں کراچی کی بندر گاہ سے امریکی فوج اور نیٹو افواج کے لیے جو اسلحہ ،اور دیگر سامان آتا ہے وہ تمام پاکستان ہی کی شاہراہوں سے ہو تا ہوا افغانستان جا تا ہے۔ اُس دور میں پاکستان نے القاعد ہ کے خلاف کاروائیاں شروع کیں، جو اباً 2001 ہی سے پا کستان میں بھی دشت گردی کی کاروائیاں شروع ہو گئیں۔2001 میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات میں20 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہو ئے۔ 2006 میں دہشت گردی کے صورتحال نہایت خطر ناک ہو نا شروع ہو گئی۔ اس سال ملک میں دہشت گردی کے 657 واقعات ہو ئے جن میں سے 41 واقعات فرقہ وارنہ نو عیت کے تھے۔

اِن واقعات میں 907 افراد جاں بحق اور1543 زخمی ہو ئے۔ اسی دوران خود صدر جنرل پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے ہو ئے۔ بل کلنٹن کے دورے کے ٹھیک چھ سال بعد امریکہ صدر جارج ڈبلیو بش نے ،افغانستان ،بھارت اور پاکستان کا چھ روزہ دورہ کیا۔ وہ یکم مارچ کو کابل پہنچے،  نئے امریکی سفارت خانے کا افتتاح کیا، افغانستان میں امریکی فو جیو ں سے خطاب کیا۔

اسی روز وہ بھارت پہنچے جہاں وہ 3 مار چ تک رہے، امریکہ بھارت سول نیوکلیئر ایگریمنٹ پر دستخط کئے۔ ابھی وہ بھارت سے پاکستان کے دورے پر روانہ نہیں ہو ئے تھے کہ کراچی میں 2 مارچ کو    امریکی کو نصلیٹ پر خود کش کار بم دھماکے میں ایک امریکی سفارتی اہلکار سمیت چار افراد جاںبحق ہو گئے۔

جب دوسرے دن 3 مارچ کو امریکی صدر اسلام آباد پہنچے تو صدر پر ویز مشروف سمیت تمام حکومتی عہدیداران نفسیاتی دباوء کا شکار تھے۔ دو امریکی صدور کے دوروں کے درمیان ان چھ بر سوں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا اور بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا۔

جنگ جو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1373 کے تحت شروع ہو ئی تھی اب دنیا کے لیے ایک نئی طرز کی جنگ تھی جس میں اب نہ تو محاذ جنگ پربڑی تعداد میں فوجیں آمنے سامنے تھیں، نہ ہی سرحدیں تھی اور نہ کسی کو یہ معلوم پڑتا تھا کہ کون کس کو ، کس کے لیے قتل کر ہا ہے۔ پھر یہ جنگ دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات پر مشتمل تھی۔ مذہبی طور پر ایک عجیب ابہام تھا۔ مسلمان ہی مسلمان کے مقابل تھے اور انہیں مدد غیر مسلموں کی حاصل تھی۔ صدر پر ویز مشرف جو عوامی سطح پر کارگل کے ہیرو تھے اب شہرت کے لحاظ سے زیرو ہو رہے تھے۔

اگرچہ اُنہوں نے اِن چھ برسوں میں ملکی معیشت کو مستحکم کر دیا تھا ،مگر اب دہشت گردی کے بڑھتے ہو ئے واقعات سے ملک میں سرمایہ کاری اور صنعت و تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ماحول آلودہ ہوتا جا رہا تھا۔ دوسری جانب اگرچہ امریکی صدر کی آمد سے ایک روز پہلے امریکی کونصلیٹ جنرل کی عمارت پر حملہ اور ایک امریکی کا جاںبحق ہو جانا بھی پاکستا ن کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا مگر اس سے بڑی پریشانی بھارت کے ساتھ امریکہ کا ایٹمی معاہد ہ تھا۔ امریکی صدر کے دورے سے پانچ مہینے قبل 8 اکتوبر 2005 کو آزادکشمیر اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں تاریخ کا ہولناک اور تباہ کن زلزلہ آیا تھا اس زلزلے میں چالیس ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ہزاروں کلومیٹر سڑکیں ،پل، ہزاروں مکانات سرکاری عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں اور تقریباً ایک لاکھ افراد جاںبحق ہو ئے تھے۔

اس موقع پر سب سے زیادہ مالی اور تکنیکی امداد فراہم کر نے والے ملکوں میں امریکہ اور سعودی عرب شامل تھے۔ اسلام آباد میں صدر جارج ڈبیلو بش کے اعزار میں منعقد کی گئی تقریب میں صدرپرویز مشرف نے امریکی صدر کے کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔ تعریفی جملوں کی ادائیگی کے بعد امریکہ کی جانب سے زلزلے کے موقع پر امداد اورتعاون کا شکریہ ادا کیا اور کراچی میں امریکی کونصلیٹ کے دفتر پر دہشت گردی کے حملے اور ایک امریکی کے جاںبحق ہو نے پر افسوس کا اظہار کیا۔

اس کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی تقریر میں صدر پرویز مشرف کی تعریف کرتے ہو ئے کہا انہوں نے اپنے عوام کے حق میں دہشت گری کے خلا ف جنگ میں حصہ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا امریکی عوامی اس پراُنہیں خراج تحسین پیش کر تے ہیں۔ صدرجارج ڈبلیو بش نے کہا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے حامی ہیں۔ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کہا کہ 2000-2001 گذر گیا اب پاکستان اور بھارت کے پاس تاریخی موقع ہے کہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے  کوشش کریں۔

پر ویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی آگرہ مذاکرات میں کشمیر سمیت تمام مسائل پر گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر بدقسمتی سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کا اعلانیہ آگر ہ میں ہوتے ہوتے رہ گیاتھا۔ اگر چہ صدر جارج ڈبلیوبش اور صدر مشرف کی تقاریر بہت اچھی تھیں لیکن یہی وہ موڑ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے پھر فرنٹ لائن کا ملک بن جا نے کے باوجود پاکستان نظر انداز ہوا تھا اور امریکہ نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر اگریمنٹ پر دستخط کر دیئے تھے جب کہ دوسری جانب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا۔

اب صدر پر ویز مشرف کو امریکہ کی جانب سے ملک میں 2007 کے عام انتخابات کرانے پر اِن کی حوصلہ افزائی کے ساتھ یہ اشار ہ بھی دیدیا گیا تھا کہ جمہوریت کی بحالی ملک میں ضروری ہے۔ دوسری جانب صدر جارج ڈبلیو بش کے دورے کے صرف دو مہینے دس دن بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی چیرپرسن بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر ’جودونوں ملک سے باہر تھے‘ لندن میں اِن کے درمیان میثاقِ جمہورت کے نام سے معاہد طے پا یا۔

اس معاہد سے قبل ایک اجلاس میں پیپلزپارٹی کے رہنما سابق ڈائر یکٹر ایف آئی اے ،رحمان ملک کے گھر پر پی پی پی اور  مسلم لیگ کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف ،اقبال ظفر جھگڑا ،چوہدری نثار علی خان،اور غوث علی شاہ  نے اور پی پی پی کی بینظیر بھٹو کے ساتھ مخدوم امین فہیم،رضا ربانی،سید خور شید شاہ،اعتزازاحسن اور راجہ پر ویز اشرف نے مذاکرات میں حصہ لیا۔ میثاق جمہوریت کی اہم ایک شق میں ایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو1996 کے بعد سے فوج کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ہٹانے اورکارگل جیسے واقعات کی تحقیقات کرئے گا اور اس سے متعلق ذمہ داری کا تعین کرئے گا۔ اس میثاقِ جمہوریت میں 1973 کے آئین کو اس شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیاجس شکل میں اسے صدر جنرل پر ویز مشرف نے 11 اکتوبر1999 کو معطل کیا تھا۔

میثاق جمہوریت میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں آنیدہ کسی فوجی حکومت میں شامل نہیں ہو نگی اور نہ ہی حکومت میں آنے کے بعد منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حما یت طلب کر یں گی۔ اگر چہ جولائی 2007 میں ہی جب نواز لیگ کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں میں صدر کی وردی کے معاملے پر استفعٰی دینے کی بات پر اختلا فات سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کو نظر انداز کر کے نواز شریف نے اے ڈی ایم بنالی۔ یوں ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو نے والا معاہد ہ صفر ہوگیا۔ مگر جب 14 مئی 2006 کو لندن میںبینظیر بھٹو اورنواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر دئیے تھے تو یہ پرویز مشرف کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔

اب پاکستان میں صورتحالِ سماجی، سیاسی اوردفاعی ، لحاظ سے شدید بحرانی ہو رہی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان الجھا ہوا تھا جوروز بروز شدت اختیار کررہی تھی جس کے نتیجے میں عوام میں مایوسی اور خوف تھا۔ یہ نئی طرز کی جنگ تھی جس میںآزاد میڈیا کا بھی اہم کردار تھا اور پر ویز مشرف ہی کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز آئے انہی کے دور میں مو بائل فون اور انٹرنٹ کی سہو لتوں تک عام آدمی کی رسائی ہو ئی تھی۔

اب سرحدوں کی بجائے شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے تحت یہ جنگ پاکستان کومتواتر نقصان پہنچا رہی تھی۔ دوسری جانب  نوازشر یف اور بینظیر دنوں ہی پرویز مشرف کے خلاف اپنے اختلافات پسِ پشت ڈال کر کم از کم وقتی طور پر ایک ہو گئے تھے اور بینظیر بھٹو نے الیکشن میں حصہ لینے اور پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

صدر جنرل پرویز مشرف جن پر دو سے زیادہ مرتبہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی جانب سے قاتلانہ حملے ہو چکے تھے ،انہوں نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ وہ اِس وقت وطن واپس نہ آئیں کیونکہ اُن کی جان کو خطرہ ہے مگر انہوں نے اِس انتباہ کو نظر انداز کر دیا اسی طرح بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے سیکو رٹی یقین دہا نی برطانیہ او ر امریکہ سے بھی چاہی مگر وہاں سے بھی یقین دہانی نہ ہو سکی مگر پھر بھی بینظیر بھٹو اپنے فیصلے پر قائم تھیں۔ اس کی ایک فوری اور بنیاد ی وجہ یہ بھی تھی کہ میثاق جمہوریت کے بعد پاکستان میں حالات پر ویزمشرف کے خلاف ہوتے جارہے تھے۔

میثاقِ جمہوریت کے دس ماہ بعد ہی 9 مارچ 2007 کوپرویز مشرف نے سپریم کور ٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غیر فعال کرد یا جس پر وکلا سمیت شدید عوامی رد عمل سامنے آیا۔ بدلتی ہو ئی فضا میںپیپلز پارٹی کے الیکشن میں جیتنے کے امکانات روشن تھے۔ اکتوبر 2007 میں بینظیر بھٹو پا کستان واپس آگئیں۔ ی

ہاں آتے ہی کچھ دن بعد 18 اکتوبرکارساز کراچی میں اُن کے بڑے جلوس پر دہشت گرد حملہ ہوا جس میں 180 افراد جاںبحق اور 500 کے قریب زخمی ہو ئے۔ اگر چہ وہ اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہیں لیکن دھماکوں کی وجہ سے اُن کے کانوں سے خون رسنا شروع ہوگیااور یہ زخم اُن کی موت تک منہدم نہیں ہو ئے تھے۔

بینظیر بھٹو پر یہ خطرناک ترین قاتلانہ حملہ تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ اب بینظیر بھٹو اپنی عوامی رابطہ مہم محدود کردیں گی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کارساز کراچی کے واقعے کے دو ماہ نو دن بعد ہی وہ راولپنڈی کے لیاقت پارک میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد جب واپس ہو رہی تھیں تو قاتلانہ حملے میں جاںبحق ہو گئیں جس کے نتیجے میںملک بھر پُر تشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔  موقع پربینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زردای نے پاکستان کھپے ،پا کستان زندہ باد کا نعرہ لگا یا جس کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد یقینی ہوا اور پا کستان کو استحکام حاصل ہوا۔

لیکن دہشت گردی کے واقعات میں تیز ی سے اضافہ ہو رہا تھا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ اب افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو چکی تھی اور تجزیہ نگار اِن اندیشوں میں مبتلا تھے کہ کہیں پا کستان کی صورتحال عراق جیسی نہ ہو جائے۔2007 میں پاکستان میں دہشت گردی کے 1515 واقعات ہو ئے جن میں 3448 افراد جاں بحق اور 5353 زخمی ہوئے۔

2007 سے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ بھارت امریکہ تعلقات جو صدر جارج ڈبلیو بش کے دورے کے موقع پر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہوگئے تھے اب بھارت اِن تعلقات کے ساتھ پاکستان پر بھاری پڑ رہاتھا۔ پر ویز مشرف نے چین پاکستان تعاون سے گوادر سی پورٹ پروجیکٹ شروع کیا تھا بھارت کو گوارا نہ تھا۔ یوں اُس نے پاکستان پر ایک خفیہ ھنگ مسلط کر رکھی تھی۔ پاکستان کو اپنے شہروں میں دہشت گردی کی صورت میں ایک ایسی جنگ کا سامنا تھا جس میں دشمن اَن دیکھا تھا۔

اِن حملوں میں بہت سے حملے فرقہ وارانہ بنیادوںہونے کی وجہ سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچا یا جا رہا تھا۔ میڈیا کی آزادی کے نام پر  بیرونی نشریاتی ادارے اس فتھ جنریشن وار میں عوامی سطح پر  بے یقینی اور خوف کی فضاء بنا رہے تھے۔

2008 میں عام انتخابات کروائے گئے۔ اِ ن انتخابات میں ٹرن آوٹ 44.10 فیصد رہا پاکستان پیپلز پارٹی نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے10666548 ووٹ یعنی 30.79 ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی میں اس کی 91 جنرل 23 خواتین اور 4 اقلیتی نشستوں کے ساتھ 341 کے ایوان میں کل 118 نشستیں حاصل کر لیں۔ الیکشن میں اگر چہ کل ووٹوںکے لحاظ سے مسلم لیگ ق کے ووٹ مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے زیادہ تھے یعنی ق لیگ نے 8007218 ووٹ حاصل کئے جو 23.12% تھے ان کو قومی اسمبلی کی 38 جنرل 10 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل 50 نشستیں ملیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے کل ووٹ 6805324 تھے جو ق لیگ کے مقابلے میں کم تھے مگر اِن کی نشستیںزیادہ تھیں۔ مسلم لیگ ن نے69 جنرل 17 خوتین اور3 اقلیتی نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں کل 89 نشستیں حاصل کیں۔

ایم کیو ایم نے 7.43% ووٹوں کے ساتھ19 جنرل5 خواتین اور ایک اقلیتی نشست کے ساتھ کل 25 نشستیں حاصل کیں اور متحدہ مجلس عمل 2.21 فیصدووٹوں کے ساتھ7 جنرل ایک خواتین نشست کے ساتھ قومی اسمبلی کی کل 8 نشستیں حاصل کر سکی۔  اگرچہ پیپلز پاٹی نے قومی اسمبلی کی مناسب نشستیں حاصل کیں اور سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں رہی مگر پنجاب میں پی پی پی دوسرے نمبر پر رہی۔

حکومت سازی کے بعد 18 اگست 2008 میں صدر پر ویز مشرف کے رخصت ہونے کے بعد آصف علی زرداری صدر مملکت منتخب ہو ئے میاں محمد نواز شریف ملک میں واپس آگئے۔ آصف زرداری نے 22 مارچ2009 کو مسلم لیگ ن کے دباؤ پر وکلا کی تحریک کے مطالبات کے مطابق افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ بحال کر دیا۔

جو دسمبر 2013 کو ریٹائر ہوئے۔ اِن کے دور میںعدلیہ بہت متحرک رہی۔ یہ ایک عجیب موڑ  تھا کہ جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پہلے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کا حصو ل چا ہا کرتی تھیں اب عالمی سطح انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کرنے لگیں۔ اگر چہ یہ رابطے کُھل کر حکومتی سطح پر اعلانیہ نہیں تھے، مگردر پردہ کوششیں ہو ئیں۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس طرح کی کوششیں زیادہ ہو ئیں۔ دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے حالات بہت بحرانی ہو نے لگے۔ 2008 میں پا کستان دہشت گردی کے 2148 واقعات ہو ئے جن میں2267 افراد جاںبحق اور 4558 زخمی ہوئے۔  کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات بہت ہی خطرناک نوعیت کے تھے۔

اس سال کے آخر میں پاکستا ن پر بھارت امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ اس وقت بہت بڑھ گیا جب 26 نومبر 2008 سے29 نومبر2008 بھارت کے شہر ممبئی کے تاج محل پیلس ہو ٹل میںدس دہشت گردوں نے وہاں قیام پذیر سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور اہم افراد کو قتل کیا۔ اس واقعے میں خو د کش حملوں فائرنگ کی وجہ سے 166 افراد جاںبحق ہوئے 9 دہشت گرد ہلاک ہو ئے اور ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھارت نے الزام عائد کیا کہ یہ دہشت گردی پا کستان میں موجو د تنظیم لشکرِ طیبہ کی جانب سے پلان کی گئی تھی۔

باوجود اس کے کہ 18 فروری2007 کو دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکپریس ٹرین میںآتشزدگی بم دھماکے بھارتی علاقے میں ہندو انتہا پسندوں نے کئے تھے ، مگر ہماری سفارتی کمزوری کہ ہم اِس واقعہ کو اُس کی شدت ساتھ دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے تو دوسری جانب دنیا کی بے حسی بھی قابلِ دید تھی کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی وجہ سے امریکہ سمیت دیگر ممالک کا دباؤ پاکستان پر بڑھ گیا۔ بد قسمتی سے پارلیمنٹ اور حکو متی اراکین اس کا موثر جواب نہ دے سکے بلکہ بعض حلقوں نے خود اپنا امیج خراب کیا۔

وہ صورتحال جو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں عدم توازن کا شکار ہو رہی تھی اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک جانب امریکہ اور نیٹو    افواج کو افغانستان میں شدید مسائل کا سامنا تھا اور یہ وہاں امن بحال کر نے میں ناکام ہو رہی تھیں تو اِس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالاجا رہا تھا۔ ایک بات جو پاکستان کے سامنے واضح ہوگئی تھی وہ یہ تھی کہ بھارت جس کے ہاں 2006 میں غربت کی شرح 70% سے80%  تھی وہ بڑی تیزی سے صنعتی ،اقتصادی ترقی کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی دفاعی شعبے میں وہ دنیا میں اسلحہ کا بڑا خریدار بن گیا تھا۔

یہاں 2002 سے2006 تک اقتصادی اور مالیاتی شعبے میں جو استحکام آیا تھا وہ بہت تیزی کیساتھ انحطاط کا شکار تھا ،اندورنی انتشار اور امن وامان کی صورت خراب ہو نے کی وجوہات کی بنیاد پر پا کستان ،یران تعلقات اگرچہ بظاہر خراب نہیں تھے مگر اب دونوں جانب سے وسوسوں اندیشوں اور کچھ امکانات پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر مبصرین کے بعض چونکا دینے والے تجزیے سامنے آنے لگے تھے۔  2009 میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 3021 افراد جاںبحق ہو ئے ،2010 میں دہشت گردی کے 127 بڑے واقعات میں 1815 افراد جاںبحق ہوئے۔2011 میں دہشت گردی کے 70  واقعات میں641 جاںبحق اور 169 زخمی ہوئے۔2012 میں دہشت گردی کے 203 واقعات میں 978 جاںبحق اور1123 زخمی ہوئے۔

2013 پیپلز پارٹی کی حکومت کا آخری سال تھا اور اس سال انتخا بات بھی ہو ئے اور دہشت گردی کے 92 واقعات میں887 جاںبحق اور 1529 زخمی ہو ئے ۔2006 میں پاکستان کو یہ واضح انداز میں معلوم ہو گیا تھا کہ عالمی بے رحم سیاست جس کے تحت سرد جنگ ہی کے زمانے میں بڑی قوتیں اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھ کرہی ترقی پذ یر ملکوں سے اپنے تعلقات استوار کرتی تھیں اب سابق سویت یونین کے بکھر جانے اور دنیا سے اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد یک قطبی نظام ، گلو بل ولیج کی اصطلاح اور نیو ورلڈ آڈرکے ساتھ  خطے میں حیلے بہانوں سے پاکستان کی مخالفت اور بھارت کی حمایت کرر ہی ہیں تاکہ بھارت خطے میں چین کا مقابلہ کرئے۔ ’ففتھ جنریشن وار فیئرز‘ کے معاملات سمجھنا پاکستان بھارت بنگلہ دیش اورافغانستان جیسے ممالک کے عوام کے لیے بہت ہی پیچیدہ ،گنجلک اور ابہام زدہ ہے۔

اس لئے عوامی سطح پر اس حوالے سے شعور کی شدید کمی ہے۔  تقسیم ہند کے ساتھ ہی بھارت ،پاکستان ، بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعات کی بنیاد پر کشیدگی پیدا کر دی گئی تھی اور اس کشیدگی سے خصوصاً پا ک ،بھارت کشیدہ تعلقات کی بنیاد پر بڑی قوتوں نے اپنے مفادات حاصل کئے۔ امریکہ 1990 کے بعد سے اور پھر خصوصاً نائن الیون کے بعد سے پورے خطے میں بھارت کو بنیادی کردار دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ سرد جنگ کے دور میں ’جب پا ک امریکہ تعلقا ت اپنے عروج پر تھے ، خصوصاً 1951 سے 1971 دسمبر تک‘ تب بھی امریکہ بھارت کو غیر کیمونسٹ ملک کے طور پر پاکستان کے برابر بلکہ بعض موقعوں پر پاکستان سے زیادہ اہمیت دیا کرتا تھا۔

نائین الیون کے بعد 2006 تک پاکستان نے افغان پاکستان سرحد کے ثقافتی ،تہذیبی،مذہبی ،قومی لسانی اجتماعی سماجی مزاج کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے امریکہ اور نیٹو افواج کا ساتھ دیا۔ یہاں اس کی ایک بنیادی وجہ مکمل جمہوری حکومت کا نہ ہونا بھی تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف 2007 تک تو صدر جنرل ضیا الحق کی طرح باوردی صدر رہے ،اور آئین میں ترمیم کروانے کے بعد فوجی اور سویلین دونوں اختیارت استعمال کر تے رہے اور جب عدلیہ کی جانب سے اس میں رکاوٹ ہوئی تو بھی اُنہوں نے طاقت کو اپنا یا ،یوں جب 2008 کے انتخابات کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ہو گئی تو یہ صورتحال جنرل پرویز مشرف کے ر خصت ہونے کے بعد خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ یا ففتھ جنریشن وار افیئر کے لحاظ سے عجیب سی ہوگئی۔

میڈیا جسے آزادی اور ترقی صدر پر ویز مشرف کے دور میں ملی تھی اب خود اپنے وضح کردہ ضابطہِ اخلا ق سے بھی انحراف کرنے لگا تھا۔ 2001 صورت یہ تھی کہ پاکستان ایک طرف تو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی قرارداد 1373 کے تحت اور امریکی دباؤ کی وجہ سے امریکہ اور نٹیو افواج کو لاجسٹک سپورٹ دے رہا تھا اور انٹیجنس میں بھی شراکت داری تھی تو دوسری جانب اسی کے ردعمل میں دہشت گردی کے واقعات ملک بھر میں روزبروز شدت اختیار کرنے لگے جو 2009 اور 2010 تک اپنی انتہا کو پہنچے۔

براؤن یو نیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل اینڈ پبلک افیئر کی ایک ریسرچ کے مطابق 2000 سے2010 تک8832فوجی ،نیم فوج اور پولیس اہلکار اور 23372 سویلین دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں جاںبحق ہو ئے۔ اب یہ ہونے لگا کہ امریکی حکام کبھی پا کستان کے تعاون کے بارے میں مثبت بیانات دیتے اور کبھی اپنی ناکامی کا سار ملبہ الزامات کی صور ت پا کستان پر ڈال دیتے یا پھر افغان حکومت کی جانب سے ایسے الزامات عائد کئے جاتے۔ اس سے شہ پا کر بھارت کا انداز بھی جارحانہ ہوا اور وہاں سے بھی دھمکیاں آنے لگیں کہ بھارت بھی اپنے دفاع میں امریکہ کی طرح حفظِ ماتقدم میں کاروائی کر سکتا ہے اور ساتھ ہی افغانستان سے تعلقات کو بڑھاتے ہو ئے پاکستان میں مداخلت کرنے لگا۔

جارج ڈبلیو بش اپنے مدت صدارت ختم ہو نے سے 36 دن پہلے دو روزہ دورے پر 15 دسمبر  2008 کو وہ افغانستان آئے۔ صدر بش جونیئر کے اقتدار میں آنے کے تقریباً آٹھ مہینے بعد ہی نائن الیون کاسانحہ ہوا تھا اور انہوں نے اُس پر نہایت شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے دہشت گردوں کے خلا ف صلیبی جنگ تک قرار دے دیا تھا۔

اب وہ سات سالہ جنگ کے نتائج دیکھ کر رخصت ہو رہے تھے۔ جب نائن الیون کے فوراً بعد امریکی فوج نے افغانستان میں تباہ کن بمباری کی اور اس کے کچھ عرصے بعد زمینی فوج افغانستان میں داخل ہو ئی تو اُس وقت صدر بش نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ سے تباہ ہو نے والے افغانستان کی دوبارہ تعمیرکریں گے مگرصدر بش نے اپنے دور کے اختتام تک صرف 38 ارب ڈالر دیئے جو جنگ کے مزید جاری رہنے اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے فائدہ مند ثابت نہ ہو سکے۔ 2008 میں جب صدر بش نے افغانستان کا الودعی دورہ کیا تواس سال  39 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات تھے یعنی بش کے دور میں کل فوجی اخرجا ت 188 ارب تھے۔ یاد رہے کہ عراق پر حملہ خطرناک کیمیکلز رکھنے اور دنیا میں دہشت گردی کے اندیشے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے کیا گیا تھا۔

یہ جنگ عراق کی مکمل تباہی کے ساتھ ایک مہینہ 21 دن میں ختم ہو گئی۔ افغانستان کے مقابلے میں عراق ایک خوشحال دولت مند اور فوجی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط ملک تھا جس کی فوجی قوت کو پورے خطے میں اہم تصور کیا جا تا تھا جبکہ افغانستان میں 1979 سے سویت یونین کی مداخلت کے بعد حکومتی کنٹرول ختم ہو نے لگا اور 1989 سے یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا پھر طالبان حکومت اگرچہ بر سرِاقتدار آئی مگر اسے بھی پاکستا ن اور سعودی عرب کے علاوہ کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا ،یہاں یہ ذکر اس لیے ضروری ہے کہ کہا جا تا ہے کہ جب امریکہ 2003 میں عراق پر حملہ کر رہا تھا تو یقینی تباہی اور بر بادی کے پیش نظر عراق کی فوجی قیادت نے پیشکش کی تھی کہ صدام حسین کی حوالگی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون کے لئے تیار ہیں مگر اس کے باوجود انتہائی  سختی سے کاروائی ہو ئی۔ امریکی اتحادی فوج کے صرف 238 کے مقابلے میں اس ایک ماہ اکیس دن کی جنگ میں تین لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ کے قریب عراقی جاںبحق ہو ئے اور تلاشِ بسیار کے باوجود یہاں سے کو ئی کیمیکلز ہتھیار نہیں ملے۔

اس بہانے مشرق وسطیٰ میں عراق کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا اور پھر یہاں سے ہی بد امنی اور جنگ کے شعلے دوسرے عرب اور ہمسایہ ملکوں میں پھیلنے لگے حالانکہ اگر امریکہ اور برطانیہ عراقی فوج سے ہتھیار ڈلوا لیتے تو یہی فوج یہاں امن اور استحکام لے آتی اور امریکہ اور بر طانیہ کی معاون ثابت ہو تی۔

مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہی تیر ا لاکھ فوج بکھر کر باغی اور گوریلا لڑاکا گروپوں میں تبدیل ہو گئی جس سے عراق اور علاقے کے دیگر ملکوں میں جب خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو ئی تو پھر یہاں بھی امریکی یا نیٹو افواج کے رکھنے کا جواز پیدا ہو گیا۔ یوں یہ بات بالکل درست ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر ملک کی فوج ہو تی ہے، جو ملک کے دفاع اور امن وامان کی ضامن ہو تی ہے اور اگر خدانخواستہ کسی ملک کی اپنی فوج نہ رہے توپھر کسی دوسرے ملک کی فوج اُس ملک میں آجاتی ہے،آج افغانستان ،عراق ،شام ، لیبا جیسے ملکوں میں دوسرے ملکوں کی فوجیں ہیں اور اَن ملکوں میں کسی نہ کسی سطح کی خانہ جنگی جا ری ہے۔

پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر1999 کو اقتدار میں آئے تھے اور 18 اگست2008 جارج بش سے پانچ ماہ قبل صدر کے عہدے سے سبکدوش ہو ئے۔٭ ،اس دوارن یعنی 2001 سے2008 تک پوری دنیا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے متحد ہو ئی تھی کسی قدر کنفوژن میں مبتلا تھی کیونکہ دنیا کے یہی ممالک تھے یہی قومیں اور قوتیں تھیں مگر جنگ شہر وں میں بدلتے گروہوں کی شکلوں میں بظاہر فرقہ وارنہ ،مذہبی ،لیسانی،قومی، تعصابات کی بنیادوں پر دہشت گردی روپ دھارے ملکوں ملکوں پھیلتی جارہی تھی اور اس کے خلاف امریکہ برطانیہ ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک جد ید ترین اسلحہ سے لیس ہو کر اکثرعراق ، افغانستان اور بعد میں شام اور لیبیا کی طرح کاروائیاں کرتے ہیں اور پھر بد قسمتی سے ایسے ملکوں میں امن بھی قائم نہیں ہو تا اور مستقل خانہ جنگی کی سی صورت رہتی ہے ،پاکستان کے بارے میں بھی 2001 سے یہی کہا جارہا تھا کہ یہ ملک بھی ایسی ہی بد امنی اور خانہ جنگی کا شکا رہو جائے گا اور اس کے لیے بھارت اورچند اور ملکوں کی جانب سے پر وپگنڈہ جاری تھا۔

2008 سے 2013 تک پا کستا ن پیپلز پارٹی کی حکو مت تھی اس دور میں فوج اس جنگ کی صورتحال سے واقف ہو چکی تھی اور اپنے بچاؤ کے لیے سخت جد وجہد میں مصروف تھی ،اور غالباً دشمن قوتیں اس لحاظ سے خود بھی محتا ط تھیں کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پا کستان ایک ایٹمی قوت ہے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پاکستان کو اقتصادی معاشی اور کسی قدر سیاسی بحرانوں کا سامنا کر نا پڑا یہ نائن الیو ن کے بعد شروع ہونے والی عالمی سطح کی جنگ کا پا کستان کے لحاظ سے دوسرا اور اہم مر حلہ جو دو حصوں میں تھا۔

جس کا پہلا حصہ پی پی پی کی پانچ سالہ حکومت تھی جس میں ملک میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہو ئے،افغانستان میں انتخا بات کے بعد حکومت تو قائم ہو ئی مگر استحکا م نہیں آ سکا اور حکومت پر افغانستان حکومت ،امریکہ اور بھارت کی جانب سے مسلسل دباؤ رہا اس دوران بعض موقعوں پر فوج اور حکومت کے درمیان کچھ مسائل پر اختلافِ رائے بھی پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کی مسلم لیگ ن کی سیکنڈ لائن لیڈروشپ کی جانب سے آیا،ملک میں امن وامن کے لیے اخراجات میں اضا فہ ہو ا لیکن یہ کامیابی رہی کہ ملک میں فرقہ واریت اور نسلی و قومی بنیادوںپر خانہ جنگی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا مگر عالمی طور پر خارجہ پا لیسی کے اعتبار سے

پاکستان کو زیادہ کامیابیاں حاصل نہ ہو سکیں،پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں کے لیے ڈالے گئے کل 433884041 ووٹوں میں سے 14874104 ووٹ یعنی کل ڈالے گئے ووٹوں کا 32.77%  لیکر قومی اسمبلی کی126 جنرل نشستیں حاصل کیں پی پی پی نے 6911218 یعنی15.23% ووٹ لیکر33 جنرل نشستیں حاصل کیں جب کہ تحریک ِ انصاف نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے پیپلز پارٹی سے زیادہ یعنی 7679954 یعنی16.92% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں ایم کیو ایم 2456153

یعنی 5.41%  ووٹ لے کر 19 نشستیں حاصل کیں اور جمعیت علما اسلام نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 3.22% ووٹ یعنی کل 1461371 ووٹ لیکر قومی اسمبلی کی 11 نشستیں حاصل کیںاور5 جون 2013 کو نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو ئے اس وقت ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے نواز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہو نے کے صرف 25 دن بعد جب وہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیو د کیمرون سے سیکورٹی کے مسائل پر لندن میں بات چیت کر رہے تھے تو پا کستان میں دہشت گردی کے ایک وقعہ میں 52 افراد جانجق اور 100 کے قریب زخمی ہو ئے    ( جاری ہے )

The post پاکستان کو استعمال کر کے ایک بار پھر بھارت کو اہمیت دی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

’’افغانستان پیپرز‘‘ کی ان کہی کہانی

$
0
0

’’میں اس لیے پریشان نہیں کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اب میں کبھی تم پر اعتماد نہیں کرسکتا۔‘‘ (جرمن فلسفی نطشے)

یہ 2016ء کے موسم بہار کی بات ہے، ممتاز امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ سے منسلک انویسٹی گیٹیو رپورٹر، کریگ وٹلوک کو ایک ذریعے سے اطلاع ملی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل فلین نے افغان جنگ کے متعلق انٹرویو دیا ہے۔ جنرل فلین ایک سال تک افغانستان میں اتحادی فوج کا ڈائریکٹر انٹیلی جنس رہا تھا۔

پھر اس زمانے میں بڑھ چڑھ کر امریکی صدارتی الیکشن میں قوم پرست امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کررہا تھا۔ کریگ کو احساس ہوا کہ جنرل فلین نے یقیناً انٹرویو میں افغان جنگ سے متعلق اہم معلومات افشا کی ہوں گی۔امریکی صحافی نے چھان بین کی تو پتا چلا کہ جنرل  نے امریکی سرکاری ادارے’’اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ کے ایک اہل کار کو انٹرویو دیا ہے۔

یہ ادارہ 2008ء میں امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے تشکیل دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت افغانستان میں جاری جنگ پر جو اخراجات کررہی ہے، اس پہ نظر رکھی جاسکے۔ معلوم ہوسکے کہ ڈالر درست طور پر خرچ ہورہے ہیں اور کسی بھی جگہ کوئی کرپشن تو نہیں ہو رہی۔

امریکا نے اواخر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کوگرفتار کرکے وہاں سے القاعدہ کا وجود مٹایا جاسکے۔ لیکن امریکی حکمرانوں کی چھیڑی یہ جنگ تاحال جاری ہے۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی اور اب بھی اس کا انت دکھائی نہیں دیتا۔

اس جنگ پر امریکا ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) خرچ کرچکا جبکہ غیر جنگی اخراجات بھی ایک ٹریلین ڈالر کی حد پھلانگ چکے۔اسی جنگ نے 2,419 امریکی فوجی ہلاک کر ڈالے جبکہ مقتولین کی مجموعی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہو چکی۔ اس تعداد میں چالیس ہزار شہری بھی شامل ہیں۔

درخواست مسترد ہوئی

کریگ وٹلوک نے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کے دفتر میں درخواست دی کہ جنرل (ر)مائیکل فلین کا انٹرویو درکار ہے۔ امریکی صحافی کا استدلال تھا: ’’افغان جنگ ہماری تاریخ کی طویل ترین لڑائی بن چکی۔ لہٰذا امریکی عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ایک اہم سابق جرنیل نے اس جنگ کی بابت کیا کہا۔‘‘ یہ درخواست امریکی قانون، فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت 24 اگست 2016ء کو دائر کی گئی۔شروع میں متعلقہ عملے نے کریگ  سے وعدہ کیا کہ عنقریب اسے جنرل کے انٹرویو کا متن اور ریکارڈنگ بھی مل جائے گی۔

عملے ہی سے کریگ کو آگاہی ملی کہ ادارے نے ایک خفیہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘ (Lessons Learned) شروع کررکھا ہے۔ جنرل نے اسی کلاسیفائیڈ منصوبے کے لیے انٹرویو دیا تھا۔ یہ منصوبہ 2014ء سے جاری تھا۔ اس کے تحت افغان جنگ سے منسلک کئی سابق فوجی افسروں، اعلیٰ سول افسروں اور سفارت کاروں سے انٹرویو ہوچکے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ افغان جنگ کے دوران امریکی فوج اور حکومت، دونوں سے جو غلطیاں ہوئی ہیں، وہ سامنے آسکیں اور پھر غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ ان سے بچا جائے۔

عملہ جنرل کا انٹرویو ریلیز کرنے کی تیاری میں تھا کہ 8 نومبر 2016ء کو ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ جلد ہی یہ خبر گردش کرنے لگی کہ نئے صدر جنرل (ر) فلین کو اپنا مشیر قومی سلامتی بنانا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کے بعد سرکاری ادارے کے عملے نے کریگ کی ای میلوں حتیٰ کہ ٹیلی فون کالوںکا جواب دینا چھوڑ دیا۔ ادارے کی ایک ترجمان، جینفر جارج نے  صحافی کو بذریعہ ای میل بتایا ’’مجھے افسوس ہے، میں آپ کی فرمائش پوری نہیں کرسکتی۔ دراصل ہمارے وکیل ہمیں کچھ نہیں بتارہے۔

بس یوں سمجھیے میں دیوار سے ٹکریں مار رہی ہوں۔‘‘24 جنوری 2017ء کے دن صدر ٹرمپ نے جنرل (ر) فلین کو مشیر قومی سلامتی مقرر کردیا۔ اگلے ہی روز کریگ کو اسپیشل انسپکٹر کے دفتر سے یہ ای میل موصول ہوئی کہ اسے مطلوبہ انٹرویو فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ ادارے نے ایک مجہول سے قانون کی بنیاد پر انکار کیا تھا۔ اب کریگ کو یقین ہوگیا کہ جنرل (ر) فلین کے انٹرویو میں یقیناً تہلکہ خیز انکشافات پوشیدہ ہوں گے۔

عدالتی جنگ کا آغاز

کریگ وٹلوک نے پھر اپنے سینئر ایڈیٹروں سے رابطہ کیا اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ انہیں بھی  احساس ہوا کہ اسپیشل انسپکٹر کا جاری خفیہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘ اہم سرکاری دستاویز ہے۔ لہٰذا امریکی عوام اس منصوبے سے حاصل شدہ سبق اور معلومات جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ اس بار اسپیشل انسپکٹرکے دفتر یہ درخواست دائر کی گئی کہ ’’جو سبق ملے‘‘ منصوبے میں شامل تمام انٹرویوز کے متن اور ریکارڈنگ عوام کی دسترس میں دے دی جائیں۔

عملے نے دوبارہ آغاز میں وعدہ کیا کہ انٹرویوز کی تفصیل واشنگٹن پوسٹ کو مل جائیں گی مگر وہ پھر لیت و لعل سے کام لینے لگا۔ مختلف حیلے بہانوں سے کریگ اور دیگر رپورٹروں کو ٹرخادیا۔ آخر انہیں احساس ہوگیا کہ سرکاری ادارہ اپنے منصوبے کی کوئی تفصیل عیاں کرنے کے موڈ میں نہیں۔ یہ یقینی تھا کہ منصوبے کے طشت ازبام ہونے سے افغان جنگ میں امریکی حکمران طبقے کی کوتاہیاں اور غلطیاں عوام کے سامنے آسکتی تھیں۔ اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے خفیہ منصوبہ عوام میں مشتہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

امریکی اخبار کے ایڈیٹر سمجھتے تھے کہ صحافت کی بنیادی ذمے داری سچ عیاں کرنا ہے۔ اس باعث طے پایا کہ فیڈرل کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اب وہ عدالت کی مدد چاہتے تھے تاکہ قانونی فیصلہ انسپکٹر جنرل کے ادارے کو اپنا خفیہ منصوبہ عوام کے سامنے عیاں کرنے پر مجبور کردے۔ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا کہ ماضی میں امریکی سپریم کورٹ حکومت اور پریس کی ایک اور زبردست عدالتی جنگ کے دوران صحافت کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا۔اس تاریخی فیصلے کی تفصیل یہ ہے کہ 17 جون 1967ء کو امریکی وزیر دفاع، رابرٹ میکنمارا نے ’’ویت نام اسٹڈی ٹاسک فورس‘‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا۔ منصوبے سے منسلک تاریخ دانوں کو ویت نام جنگ کی تاریخ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مورخین میں عسکری و سول افراد شامل تھے۔

پینٹاگون پیپرز کی تاریخ

خفیہ منصوبہ جاری کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت اور فوج سے ویت نام جنگ کے دوران جو غلطیاں ہوئی ہیں، وہ نمایاں ہوجائیں۔ مستقبل کے حکمران پھر اپنی جنگیں چھیڑتے ہوئے ان غلطیوں سے بچ سکتے تھے۔خفیہ منصوبہ 1968ء کے اواخر میں ختم ہوا۔ منصوبے کے تحت دستاویز کی 47 جلدیں تیار ہوئیں۔ ان ضخیم جلدوںکے تین ہزار صفحات جنگ کے تاریخی تجزیوں سے متعلق تھے۔ چار ہزار صفحات میں سرکاری دستاویزات کا تذکرہ تھا۔ اس دستاویز کو ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ اور ’’حساس‘‘ (Sensitive) قرار دیا گیا۔ دستاویز کی 15 کاپیاں تیار ہوئیں جن میں سے دو مشہور امریکی تھنک ٹینک تنظیم، رینڈ کارپوریشن کو فراہم کی گئیں۔ امریکی حکومت کے تین اعلیٰ افسروں کی ضمانت کے بعد ہی کوئی ان کاپیوں کا مطالعہ کرسکتا تھا۔

ویت نام اسٹڈی ٹاسک فورس منصوبے کی تحقیق کا نمایاں ترین نکتہ یہ دھماکا خیز انکشاف تھا کہ امریکی حکمران طبقہ عوام سے ویت نام جنگ کے متعلق نہایت منظم طریقے سے جھوٹ بولتا رہا۔ حتیٰ کہ کانگریس سے بھی دغا بازی کی گئی۔ اس ساری دھوکے بازی کا مقصد یہ سچائی چھپانا تھا کہ امریکی فوج ویت نام میں فتح حاصل نہیں کرسکتی۔ لیکن پے در پے جھوٹ بول کر عوام اور کانگریس، دونوں کو یہی بتانے کی کوشش ہوئی کہ امریکی فوج جنگ جیت رہی ہے اور یہ کہ امریکا قانونی اور اخلاقی طور پر جنگ لڑنے میں حق بجانب ہے۔

رینڈ کارپوریشن میں ایک جنگ مخالف دانشور، دانیال ایلس برگ نے ان کا مطالعہ کیا۔اس نے بعدازاں ممتاز امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کی صحافی، نیل شیہان کو دستاویز کے متعلق بتایا۔ ایلس برگ  نے نیل کو فوٹو کاپیاں بھی فراہم کردیں۔ مطالعے سے صحافیوں پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کوتاہیاں منظر عام پر آگئیں۔

چناں چہ اخبار جون 1971ء سے دستاویز کے انکشافات قسط وار شائع کرنے لگا۔ اس دستاویز کو ’’پینٹاگون پیپرز‘‘ کا نام ملا۔ امریکی حکومت نے جلد ہی اخبار کو انکشافات شائع کرنے سے روک دیا۔ اخبار نے پابندی کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا۔ آخر عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ میڈیا حکومت کی ایسی خفیہ معلومات شائع کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو اور وہ حکومتی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوجائیں۔ یوں سپریم کورٹ میں امریکی حکومت کو شکست ہوئی۔

محنت رنگ لائی

درج بالا مثال کے پیش نظر اس بار واشنگٹن پوسٹ عدالتوں میں پہنچ گیا۔ دنیا میں ہر حکومت اپنی غلطیاں اور گناہ پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتی ہے۔ اسی واسطے ہر ملک میں ان غلطیوں کو پا کر انہیں عوام کے سامنے اجاگر کرنا صحافیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر صحافی سچ کا کھوج لگاتے ہوئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔

امریکا میں صحافیوں اور عام لوگوں کو بھی حکومت کے خفیہ ریکارڈ تک رسائی دینے کی خاطر 1967ء میں ایک قانون، فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ متعارف کرایا گیا۔ اب امریکی میڈیا اسی قانون کی مدد سے اپنے حکمرانوں کے کالے کرتوت عیاں کرتا ہے۔

امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی مگر چالاک و عیار ہے۔ اس نے درج بالا قانون کا توڑ یہ دریافت کیا کہ مطلوبہ معلومات دینے میں کئی سال لگا دیتی ہے۔ سرخ فیتہ بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ معلومات لینے والا تنگ آکر خاموش ہوجائے۔

مگر کریگ وٹلوک بڑے صبر اور مستقل مزاجی سے عدالتوں میں اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کے عملے کا تعاقب کرتا رہا۔ اس کی محنت مشقت رنگ لائی اور نومبر 2019ء میں فیڈرل کورٹ نے اسپیشل انسپکٹر کے دفتر کو حکم دیا کہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘  سے متعلق مواد واشنگٹن پوسٹ کو فراہم کرجائے۔ یوں بالآخر سچ ہی کی جیت ہوئی اور طاقتور امریکی سرکار کو شکست! امریکا میں صحافت کو دوبارہ ایک اہم مقدمے میں فتح مل گئی۔یہ منصوبہ 2014ء تا 2018ء جاری رہا تھا۔

اس دوران چھ سو ممتاز شخصیات سے انٹرویو کیے گئے۔ ان ملاقاتوں کی بنیاد پر دو ہزار صفحات پر محیط مواد تیار ہوا۔ اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان  کے دفتر نے چھ سو میں سے 428 انٹرویو کا مواد واشنگٹن پوسٹ کو فراہم کردیا۔ اخبار نے قانون کے تحت بش دور حکومت کے بدنام زمانہ وزیر دفاع، ڈونالڈ رمزفیلڈ کے نوٹ (ممیو) بھی حاصل کرلیے تھے۔ اس پورے مواد کی چھان بین کے بعد اخبار نے افغان جنگ سے متعلق ایک بھرپور مضمون اوائل دسمبر شائع کر دیا۔ ’’پینٹاگون پیپرز‘‘ کی مناسب سے منصوبہ’’جو سبق ملے‘‘ کے انکشافات کو ’’افغانستان پیپرز‘‘ کا نام دیا جاچکا۔

 دو اہم انکشافات

افغانستان پیپرز امریکی حکمران طبقے کے بارے میں دو اہم انکشافات دنیا بھر میں عوام و خواص کے سامنے لائے۔ پہلا انکشاف یہ ہے کہ امریکی حکومت شروع ہی سے افغان جنگ سے متعلق حقائق توڑ مروڑ اور مسخ کرکے پیش کرنے لگی۔ مدعا یہ تھا کہ امریکی عوام کودکھایا جاسکے، امریکا افغانستان میں جنگ جیت رہا ہے۔

حقیقت اس کے برعکس تھی۔منصوبے میں  انٹرویو دینے والے جرنیل اور سفارت کار بھی بار بار کہتے ہیں کہ شروع دن سے افغان جنگ کی سمت متعین نہیں تھی۔بعد میں بھی امریکی حکومت اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی۔یاد رہے، امریکا کی افغان جنگ نے پاکستانی معاشرے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے اور پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ دے ڈالا۔

دوسرا اہم انکشاف یہ ہے کہ جب امداد میں ملے ڈالروں کی ریل پیل شروع ہوئی تو اول دن سے افغان حکومت میں کرپشن شروع ہوگئی۔ معمولی سرکاری ٹھیکوں میں بھی کک بیکس اور کمیشن لیا جانے لگا۔ افغان حکومت میں شامل وار لارڈز اور ان کے چیلے چانٹے چند برس میں کروڑ پتی بن گئے لیکن افغان عوام بدستور غربت و افلاس کے شکنجے میں پھنسے رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ امریکی حکام افغان اسٹیبلشمنٹ کی بے محابا کرپشن سے آگاہ تھے۔ مگر انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں۔ کرپٹ افغان وزیروں مشیروں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے، وہ شیر ہوکر کرپشن کرنے لگے۔ اسی کرپشن نے بھی افغانستان کو تباہ حال جنگ زدہ بنائے رکھا۔

امریکا سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ترین اسلحے کی بنیاد پر سپرپاور بنا۔ آج بھی وہ دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں سے ایک ہے۔ لیکن پچھلے ستر اسی سال میں امریکی حکمران طبقہ نت نئی جنگیں چھیڑ کر اپنے اجلے دامن پر کئی سیاہ دھبے لگوا چکا۔ اب ’’افغانستان پیپرز‘‘ نے بھی دنیا بھر میں امریکی حکمرانوں کی بھد اڑا دی۔ یہ عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ امریکا کے بانیوں کی نصیحتیں فراموش کرچکا۔ تین سو سال قبل امریکی بانیوں میں شامل اور دوسرے صدر، جان آدمز نے کہا تھا:

’’حکومت عوام کی حفاظت، انہیں ترقی دینے، خوشحال کرنے اور خوشیاں دینے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ کسی شخص، خاندان یا گروہ کومالی فائدہ پہنچ جائے یا انہیں جھوٹی عزت اور شان حاصل ہوسکے۔‘‘دور جدید کا امریکی حکمران طبقہ اس قول کے بالکل الٹ عمل کرتا محسوس ہوتا ہے۔

The post ’’افغانستان پیپرز‘‘ کی ان کہی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

بِل گیٹس کا دوسرا چہرہ

$
0
0

بل گیٹس۔۔۔دولت کا استعارہ، بڑھتے گھٹتے ذاتی زر کے انبار کی دنیا میں ان لمحوں کے دوران جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں وہ دنیا کے امیرترین شخص ہیں، اور اقوام عالم کے دس دولت مند ترین افراد کی فہرست میں تو وہ 1987میں شامل ہونے کے بعد اس کا حصہ بن چکے ہیں۔

بل گیٹس کی ایک اور پہچان ان کی انسان دوستی ہے۔ خیرات، غریبوں کی فلاح، مفلسوں کا درد۔۔۔دیوتا سمان۔ ہمارے ہاں بھی اِس ’’دیوتا‘‘ اور اس جیسے مقامی دیوتاؤں کی غریب پروری اور ’’دسترخوانوں‘‘ کے بڑے چرچے ہیں۔ بل گیٹس اور ان جیسے دیگر دیوتاؤں کے نام کی مالا جپنے والے یہ سوچنا اور کہنا بھول جاتے ہیں کہ دیوتا بھینٹ بھی لیتا ہے۔

جہاں تک بل گیٹس کا تعلق ہے تو ان کے زر کی چمک سے روشن چہرے کو دکھی انسانیت کی خدمات مزید منور کررہی ہیں۔ لیکن اس دمکتے چہرے کے پیچھے اور ایک چہرہ بھی چھپا ہے، بہت تاریک، بڑا خوف آئیے، پردہ اٹھا کے دیکھتے ہیں۔

برطانیہ کی یونی ورسٹی آف ایسیکس میں سماجیات کی استاد اور عالمی ادارۂ صحت کی سابق مشیر لنزی مگوائے (Linsey McGoey) کی کتاب ’’ No Such Thing as a Free Gift‘‘ بلین ٹریلین پتی افراد کی جانب سے خیرات اور عطیات کو اپنے مالی مفادات اور اختیارات کے لیے بہ طور آلہ استعمال کرنے کا حربہ قرار دیتی ہے۔ یہ کتاب راک فیلر کی ’’انسان دوستی‘‘ سے بل گیٹس کی ’’غریب پروری‘‘ تک سرمایہ داروں کی دریا دلی کے پیچھے چھپی سنگ دلی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، تاہم اس تصنیف کا بڑا حصہ بل گیٹس کی فلاحی سرگرمیوں کے پیچھے چُھپی حقیقت سامنے لاتا ہے۔

اس کتاب سے باہر بھی مائیکروسوفٹ کے شریک بانی کی بدی کو فروغ دیتی تجارتی سرگرمیوں اور سماجی خدمات کے نام پر کیے جانے والے بیوپار کے حقائق سامنے آتے رہے ہیں، مگر عالمی میڈیا بل گیٹس کی سنہری تصویر میں کوئی سیاہ نکتہ بھی شامل کرنے کو تیار نہیں، سو یہ حقائق چھپا لیے جاتے ہیں، مگر میڈیا کے مرکزی دھارے سے پَرے بہت سی سچائیاں اور ان کہی کہانیاں سامنے لاتے ذرائع ابلاغ ڈھول کا پول کھول ہی دیتے ہیں۔

بل گیٹس کی انسان دوستی ان کا روشن ترین حوالہ ہے۔ وہ نیک مقاصد کے لیے بھاری چندے دینے والے دیالو کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی ’’بِل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلینڈا نے یہ ادارہ 2000 میں مالیت چالیس بلین ڈالر کی مالیت پر مبنی اثاثوں کے ساتھ قائم کیا تھا۔

اس ادارے کے مرکزی ٹرسٹیوں میں اس جوڑے کے ساتھ ایک اور امریکی سرمایہ دار وارن بفے (Warren Buffett) ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کے بنیادی مقاصد میں عالمی سطح پر غربت میں کمی اور حفظان صحت کے لیے اقدامات شامل ہیں، جب کہ امریکا میں تعلیم کے مواقع اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک غریب نوجوانوں کی رسائی بھی اس ادارے کا ہدف تھا۔ یہ فاؤنڈیشن جن اہم اداروں کو مالی عطیات دیتی رہی ہے ان میں GAVI Alliance,WHO, The Global Fund to Fight AIDS,TB and Malaria,PATH, UNICEF AGRA,United Nations Foundation.  شامل ہیں۔

بل گیٹس اس قدر دولت مند ہیں کہ وہ اپنی دولت کا 37 فی صد حصہ بھی دان کردیں تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوجائے، مگر انھوں نے براہ راست بھوک اور افلاس مٹانے پر رقم خرچ کرنے کے بہ جائے ایسی کارپوریشنوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

جن میں سے بہت سی صحت کے وہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں جنھیں سے نبردآزما ہونے کے بل گیٹس دعوے دار ہیں۔ بل گیٹس کا سرمایہ ایسی 69 کمپنیوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے جو امریکا اور کینیڈا میں آلودگی بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔ ان میں ڈاؤ کیمیکل (Dow Chemical) بھی شامل ہے۔ یہ کمپنی اُن ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار میں حصہ دار ہے جن کی ایڈز کے لیے بنی دوائیں اپنی گراں قیمت کے باعث دنیا بھر کے غریب ایڈززدگان کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔

بِل اینڈ میلینڈاگیٹس فاؤنڈیشن (BMG F) نے 400  ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ان مشہور زمانہ آئل فرمز میں کر رکھی ہے جو فضائی آلودگی بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کمپنیوں کو مقامی آبادی میں سانس کے امراض بڑھنے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ عالمی میڈیا بل گیٹس کا صرف روشن چہرہ ہی سامنے لاتا ہے، مگر کبھی کبھی کہیں کہیں ان سے جُڑے دیگر حقائق کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ جیسے برطانوی اخبار گارڈین کی ویب سائٹ پر 19مارچ 2015 کو شایع ہونے والی رپورٹ میں مائیکروسوفٹ کے بانی کی طرف سے آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔

اب آتے ہیں بل گیٹس اور ان کی فاؤنڈیشن سے جُڑے حساس ترین معاملے کی طرف یعنی پولیو ویکسینیشن۔ بی ایم جی ایف بھارت اور پاکستان میں بچوں کو پولیو ویکسین کی بڑے پیمانے پر جاری مہم کو بھرپور مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور فاؤنڈیشن ان دونوں ملکوں سے پولیو کے مکمل خاتمے کو اپنا مقصد باور کراتی ہے۔ اس مہم میں بچوں کو پولیو ویکسین کی دو قسموں میں سے ایک ’’او پی وی‘‘ (Oral Polio vaccine) دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گیٹس فاؤنڈیشن کی کی پولیو ویکسینیشن مہم کے باعث ہزاروں کی تعداد میں ’’اے ایف پی‘‘ (Acute Flaccid paralysis) کے کیسز سامنے آئے۔ اے ایف پی کا مرض جسم میں قوت مدافعت گھٹانے اور معذوری کا سبب بنتا ہے۔

گیٹس فاؤنڈیشن کی طرف سے ڈائن کارپ (DynCorp) میں دو اعشاریہ پانچ ملین ($2.5) ملین کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ عسکری سازوسامان اور خدمات فراہم کرنے والی اس کمپنی کو دھوکادہی، بدانتظامی کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں لوگوں کو غلام بنا کر رکھنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ ڈائن کارپ میں عراق کی جنگ میں بھی امریکا کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ اس کمپنی پر انسانی حقوق پامال کرنے اور افغانستان میں کم عمر لڑکوں کو نسوانی لباس پہنواکر رقص کروانے جیسے مکروہ افعال کے بھی الزامات ہیں۔ اسے بوسنیا میں جنسی غلامی کے دھندے میں بھی ملوث گردنا جاتا ہے۔ بوسنیا میں اس کمپنی کے ملازمین پر ایک بارہ سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کے الزام میں فردجُرم عاید کی گئی تھی۔

’’گولڈن رائس‘‘ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے یا مصنوعی طریقے سے پیدا کیا جانے والا چاول ہے، جسے مصنوعی زرعی اجناس کا کاروبار کرنے والی کارپوریشنز، جیسے Monsanto، فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں، جس کا مقصد مصنوعی طریقے سے پیدا کی جانے والی اجناس کو تیزی سے قابل قبول بنانا ہے۔ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے اُگائی جانے والی فصلیں کسانوں میں بھوک بانٹ رہی ہیں۔ ان کے باعث افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کسانوں کی بہت بڑی تعداد افلاس سے تنگ آکر خودکشی کر چکی ہے۔

بل گیٹس کے Monsanto میں پانچ لاکھ حصص ہیں، جن کی مالیت 23 ملین ڈالر ہے۔ افریقہ میں بھوک کے خاتمے کی آڑ میں وہاں یہ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے اگایا جانا والا چاول درحقیقت وہ آلہ ہے جس کی مدد سے امریکی کی زرعی کمپنیوں کے لیے افریقی منڈیاؓں حاصل کی جارہی ہیں۔ قبضے کی اس مہم میں، جس کا پہلا شکار کسان ہورہے ہیں، بل گیٹس امریکا کی زرعی کمپنیوں کے مددگار ہیں۔ افریقی ملک گھانا میں مقبول ترین خبررساں ویب سائٹ ’’نیوزگھانا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گیٹس فاؤنڈیشن نے گھانا سمیت افریقہ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں اگانے کے منصوبے کے حق میں مہم چلانے کے لیے 400 سائنس دانوں اور صحافیوں کی معاوضے پر خدمات حاصل کی ہیں۔

جی اے وی آئی (Global Alliance for Vaccines and Immunization) اور بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن، یونیسیف کے ماتحت تیسری دنیا کے ممالک میں چلنے والی ویکسینیشن کی مہم کو مالی اعانت فراہم کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں آزمائشی مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ ب

ھارتی ریاستوں آندھرا پردیش اور گجرات میں قدیم قبائل کے تیس ہزار بچوں پر ایچ پی وی ویکسین (human papillomavirus vaccine) آزمائی گئی، جن میں سے بہت سے بچے بیمار ہوگئے، اور 2010میں ان میں سے سات کی موت واقع ہوگئی، جب کہ متاثرہ بچے بانجھ پن کا شکار بھی ہوگئے۔ کیا بچوں کی یہ حالت محض اتفاق تھا؟ جی نہیں۔بل گیٹس ان لوگوں میں شامل ہیں جو دنیا کی آبادی ’’بہ ہر طور‘‘ گھٹانے کے لیے بڑے پُرجوش ہیں۔

2010 میں امریکا کی میڈیا تنظیم ٹی ای ڈی (ٹیکنالوجی، انٹرٹینمینٹ، ڈیزائن) کے زیراہتمام کیلیفورنیا میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بل گیٹس نے دنیا کی آبادی گھٹانے کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار یوں کیا،’’دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے، جو تقریباً 9 بلین ہونے کی طرف گام زن ہے۔ اب اگر ہم نئی ویکسین، حفظان صحت اور تولیدی صحت، کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم اسے (آبادی) شاید 10سے 15 فی صد تک گھٹا سکتے ہیں۔‘‘ بل گیٹس کے یہ الفاظ وکی پیڈیا کی ذیلی ویب سائٹ وکی میڈیا سمیت کئی سائٹس پر موجود ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ویکسین، حفظان صحت کے شعبے اور تولیدی صحت کے ساتھ ایسا کیا کیا کرنے کا ارادہ ہے یا کیا جارہا ہے جس سے آبادی کم ہوجائے گی؟

عالمی سازشوں پر کئی کتابوں کے مصنف F. William Engdahl، جن کا تعلق امریکا سے ہے، اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’Bill Gates talks about ‘vaccines to reduce population’‘‘ کی ابتدا بل گیٹس کے آبادی گھٹانے سے متعلق مذکورہ الفاظ سے کرتے ہوئے بڑی تفصیل سے عالمی اُمرا کے کلب اور کارپوریشنوں کی جانب سے افریقہ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسی فصلیں متعارف کرانے پر روشنی ڈالتے ہیں جو انسانوں اور مویشیوں کے لیے مضر ہیں۔ اس منصوبے کو بل میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بھرپور مالی اعانت حاصل ہے۔

اب آتے ہیں بل گیٹس کی پہچان مائیکرو سوفٹ کی طرف۔ اگرچہ بل گیٹس اس کمپنی کی سربراہی سے سبک دوش ہوچکے ہیں مگر اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن، پانچ بڑے حصص داروں میں شامل اور تیکنیکی مشیر کے طور پر اور شریک بانی کی حیثیت سے اس کمپنی میں نمایاں ترین حیثیت اور اثرورسوخ رکھتے ہیں، اور مائیکروسوفٹ فلسطینیوں کو کچلنے میں اسرائیل کے ساجھے دار بن چکی ہے۔

اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینی اپنے چہروں کو ڈھانپ کر سڑکوں پر نکلتے اور اسرائیلی ظلم وجبر کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ ان کی پہچان کے لیے اسرائیل اب تک روایتی طریقے استعمال کرتا رہا، اور اب مائیکروسوفٹ کی معاونت نے صہیونی ریاست کا کام آسان کردیا ہے۔

امریکی نیوزنیٹ ورک این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مائیکروسوفٹ نے اسرائیلی فرم AnyVision میں 78 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ فرم مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی خفیہ طور پر چہرہ شناسی (Facial Recognition ) کا کام کرتی ہے۔ AnyVision نے نہایت جدید سوفٹ ویئرسسٹم بنایا ہے جس کی مدد سے لائیو کیمرے اور اسمارٹ فون سے کھینچی جانے والے تصاویر میں نظر آنے والے شخص یا شئے کی بہ آسانی شناخت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اسے ڈھونڈنا اور ہدف بنانا مشکل نہیں رہتا۔

بل گیٹس کی انسانیت دشمن سرگرمیوں میں مصروف کمپنیوں میں حصہ داریاں، سیاہ منصوبوں کی مالی اعانت اور ویکسین کے ذریعے آبادی گھٹانے کا تصور سب محض الزامات ہوسکتے ہیں، لیکن نریندرمودی جیسے مسلمانوں کے قاتل، مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی تاریخ رقم کرنے والے اور بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے سرگرم حکم راں کو بل میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی طرف سے ایوارڈ ملنے کو کیا نام دیا جائے؟ مودی کو رواں سال بھارت میں بیت الخلاء تعمیر کرنے کے منصوبے پر یہ اعزاز عطا کیا گیا ہے۔

اس ایک اقدام ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بل گیٹس انسانی فلاح کے امور میں دست گیری اور خلق خدا پر ظلم اور اس کے استحصال میں ہاتھ بٹانے کا کام ایک ساتھ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، دیش میں غریبوں کے لیے بیت الخلاء بناتے اور بھارت کی فضاء کو نفرت کی بدبو سے بھرتے نریندرمودی کی طرح۔

The post بِل گیٹس کا دوسرا چہرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ آنے کا کوئی امکان نہیں؟

$
0
0

مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پورے پانچ سال اقتدار میں گزار کر رخصت ہوئی تاہم اس نے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء نہیں کیا اور وہ پیپلزپارٹی دور کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو ہی توسیع پہ توسیع دیتے ہوئے کام چلاتی رہی تاہم جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب یہ حکومت ضرور جلد ہی آٹھواں این ایف سی ایوارڈ جاری کرے گی جس سے صوبوں کا قومی وسائل میں حصہ بڑھ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور تحریک انصاف نے اپنا ایک سال پیپلزپارٹی دور ہی کے ایوارڈ کے ساتھ گزار دیا ہے۔

خود پی ٹی آئی والوں نے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ جاری سال کے دوران دسمبر تک نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کے حوالے سے معاملات پر اتفاق ہوجائے گا اور مالی سال 2020-21ء کے لیے اگلا این ایف سی ایوارڈ جاری کیا جائے گا اور نئے ایوارڈ کے تحت ہی سال 2020-21 ء کے لیے مرکز اور صوبوں کے مابین قومی وسائل کی تقسیم کی جائے گی۔

لیکن اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے تاہم نئی صورت حال کا جائزہ لینے سے قبل ذرا ماضی میں جھانکتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قومی مالیاتی ایوارڈز کے حوالے سے اب تک کیا صورت حال رہی، ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ2009-10ء میں اس وقت جاری کیا گیا تھا جب ابھی اٹھارویں آئینی ترمیم، آئین پاکستان کا حصہ نہیں بنی تھی تاہم اس اٹھارویں آئینی ترمیم کے آئین کا حصہ بننے کے ساتھ ہی مرکز سے کم ازکم اٹھارہ وزارتیں اور ڈویژنز ختم ہوکر صوبوں کومنتقل ہوگئے۔

وہ تمام امور جو یہ وزارتیں سرانجام دیا کرتی تھیں وہ صوبوں کے پاس آگئے اور ساتھ ہی وہ ملازمین بھی جو ان وزارتوں میں خدمات انجام دے رہے تھے، اس وقت یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ جب تک آٹھواں این ایف سی ایوارڈ جاری نہیں ہوتا تب تک مرکز ہی ان وزارتوں اور ڈویژنز کا بوجھ اٹھائے گا اور آٹھویں ایوارڈ میں مرکز کا حصہ کم اور صوبوں کا زیادہ کردیا جائے گا تاکہ صوبے یہ اضافی بوجھ سہولت سے اٹھاسکیں۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ جس کا اجراء18مارچ2010ء کو ہوا جس میں صوبوں کا حصہ49 فیصد سے بڑھاکر56 فیصد اور مرکز کا51فیصد سے کم کرتے ہوئے 44فیصد کردیا گیا تاہم صوبوں کا56فیصد حصہ صرف پہلے مالی سال یعنی 2010-11ء کے تھا جبکہ دیگر4سالوں کے لیے یہ حصہ مزید بڑھاتے ہوئے57.5فیصد کردیا گیا جبکہ اس سے مرکز کا حصہ مزید کم ہوکر42.5 فیصد رہ گیا۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت پہلی مرتبہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے افقی (Horizontal) فارمولے کو بھی تبدیل کیا گیا، روایتی طور پر اس تقسیم پر آبادی کا عنصر چھایا رہتا تھا تاہم ساتویں ایوارڈ میں اس فارمولے کو کثیرالجہتی بنایا گیا اور 82 فیصد وسائل آبادی،10.3فیصد غربت اور پسماندگی، 5 فیصد ریونیوجنریشن، 2.7 فیصد آبادی کی شرح میں اضافہ کی بنیاد پر تقسیم پر اتفاق کیا گیا، جب کہ خیبرپختون خوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مجموعی قومی وسائل کا ایک فیصد دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی آئینی مدت30جون2015ء کو پوری ہوچکی اس لیے اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ اس سے پہلے ہی آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء ہوتا تاکہ مالی سال 2015-16ء کے بجٹ کے لیے مرکز اور صوبوں اور پھر صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم نئے ایوارڈ کے تحت کی جاتی تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے ساتویں ایوارڈ کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے ایک سال کی توسیع دے دی گئی۔

مرکز نے ایسا تو کرلیا لیکن اس کے بعد یہ امید تھی کہ سال 2015-16ء کے دوران مرکز آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کو جاری کرے گی اور سال 2016-17ء کے لیے آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ جاری کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ایک اور صدارتی حکم نامہ آگیا جس کے تحت جاری مالی سال کے لیے بھی ساتویں ایوارڈ کو ہی برقرار رکھا گیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور ہر مالی سال کے شروع ہونے سے قبل ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کو صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے توسیع دے دی جاتی ہے۔

آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مردم شماری کا نہ ہونا تھا۔ مردم شماری کرانے کے حوالے سے بھی مرکز کی جانب سے لیت ولعل سے کام لیا جارہا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت مردم شماری کا عمل بھی مکمل کیا جاچکا ہے جب کہ دوسری جانب مرکز کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات یعنی کہ فاٹا کو بھی خیبرپختون خوا میں ضم کردیا گیا ہے۔

جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم کا پورا فارمولا ہی تبدیل ہوجاتا ہے لیکن ان اہم ترین تبدیلیوں کے باوجود مرکز ٹس سے مس نہیں ہورہا جس کا واضح مطلب ہے کہ مرکز نیا ایوارڈ جاری کرتے ہوئے مزید وسائل صوبوں کی جھولی میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ صوبوں کے حصے سے کٹوتی کرتے ہوئے اپنے وسائل میں اضافہ کرے۔ تاہم ایسا کرنے سے چوںکہ پنڈورا بکس کھلنے کا امکان ہے اور سندھ سمیت سارے ہی صوبے اس کی مخالفت کریں گے۔ اس لیے نئے ایوارڈ کا راگ چھیڑا ہی نہیں جارہا۔

آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ کب جاری ہوتا ہے؟ اور اس حوالے سے کیا صورت حال بنتی ہے؟ اس بارے میں بھی بات کرتے ہیں لیکن پہلے قومی وسائل کی تقسیم کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ اس کے تحت کیا کیا جاتا ہے؟ اور اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ یہ تمام سوالات قومی مالیاتی ایوارڈ یا این ایف سی ایوارڈ سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ان سوالات کے جوابات کا کھوج لگانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ جانا جائے کہ مجموعی قومی وسائل کی تقسیم کا آغاز کب ہوا اور کیوں کر اس کی ضرورت پیش آئی؟

قومی مالیاتی ایوارڈز کے ڈانڈے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور کے معاشی پروگرام سے جاملتے ہیں، جنہوں نے 1951ء میں یہ معاشی پروگرام دیا اور وسائل کی تقسیم کا یہ پروگرام ’’Raisman Award Program‘‘ کہلایا، جسے سرکاری طور پر ’’Raisman Award of 1951‘‘ کہا گیا اور یکم اپریل1952ء کو اس کا باقاعدہ طور پر اعلامیہ جاری کیا گیا۔

اس ریزمین پروگرام کے تحت ٹیکسوں پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے آمدنی کا50 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل کیا گیا۔1951ء کے بعد اسی ریزمین پروگرام کے تحت مزید تین مالیاتی ایوارڈز جاری کیے گئے جو1961ء، 1964ء اور1970ء میں جاری ہوئے، تاہم یہ تینوں ایوارڈز غیرمعمولی صورت حال اور حالات کے تحت دیے گئے۔

جس کے باعث یہ تینوں ایوارڈز نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے، ریزمین پروگرام کے تحت یہ ایوارڈز اس وقت تشکیل دیے گئے جب ون یونٹ تھا یعنی کہ پورا پاکستان ایک صوبہ یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ان ایوارڈز کے تحت مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان وسائل کی تقسیم مساوی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ 1970ء میں ریزمین پروگرام کے تحت تیسرا ایوارڈ دیا گیا جب ملک میں مارشل لائی سیٹ اپ تھا اور یہ ایوارڈ اس وقت دیا گیا جب ابھی مشرقی پاکستان الگ ملک نہیں بنا تھا۔ تاہم اس کے بعد بننے والے حالات، وسائل کی تقسیم پر اختلافات اور1971ء میں مشرقی پاکستان کے الگ ملک بن جانے کے باعث صورت حال ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوگئی۔

1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلادیش کے نام سے الگ ملک کے طور پر قائم ہونے کے بعد سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جب چیف جسٹس حمودالرحمٰن کی سربراہی میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تو اس کمیشن کی جانب سے بھی جہاں دیگر بہت سے عوامل کی جانب نشاندہی کی گئی وہیں مالی وسائل کی تقسیم میں مسائل کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب1973ء کا آئین بنایا گیا تو اس میں مالی وسائل کی تقسیم، معاشی مساوات اور معاشی انصاف پر فوکس رہا اور اس کے لیے آئین میں ایک الگ باب درج کیا گیا جو آئین کے آرٹیکل160کے تحت آتا ہے اور یہی قومی مالیاتی کمیشن کی بنیاد ثابت ہوا۔

پہلا قومی مالیاتی کمیشن9فروری 1974ء کو تشکیل پایا جبکہ پہلے این ایف سی ایوارڈ کا اطلاق یکم جولائی 1975ء سے ہوا۔ اس وقت کے صدر پاکستان چوہدری فضل الہٰی کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق مذکورہ پہلے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ 80 فیصد مقرر کیا گیا اور مرکز کا20 فیصد جبکہ صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے بنائے گئے فارمولے کے مطابق پنجاب کا حصہ 60.25 فیصد، سندھ22.50 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ (اس وقت) کا 13.39فیصد اور بلوچستان کا حصہ 3.86 فیصد مقرر ہوا ہے، جبکہ بلوچستان کے لیے سالانہ 5 کروڑ اور این ڈبلیو ایف پی کے لیے 10کروڑ روپے الگ سے بطور گرانٹ ان ایڈ دینے کی بھی منظوری دی گئی۔

دوسرا این ایف سی کمیشن11فروری1979ء کو تشکیل دیا گیا لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا جبکہ یہی صورت حال تیسرے این ایف سی کمیشن کے ساتھ بھی رہی، جو25جولائی 1985ء کو تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم اس دوران 1983ء میں اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے مارشل لاء کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے وسائل کی تقسیم کے لیے صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کا نفاذ یکم جولائی 1983ء سے کیا گیا۔ مذکورہ حکم نامے کے ذریعے بھی مرکز کا حصہ 20 اور صوبوں کا80 فیصد ہی رکھا گیا۔ تاہم صوبوں کے حصہ میں ردوبدل کیا گیا۔ مذکورہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے صوبوں کے لیے جو حصہ مقرر کیا گیا اس میں پنجاب57.97 فیصد، سندھ23.34 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.39فیصد جبکہ بلوچستان کا حصہ 5.30 فیصد مقرر کیا گیا۔

چوتھا قومی مالیاتی ایوارڈ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس ایوارڈ کے ساتھ دو دیگر اہم امور بھی انجام دیے گئے۔ ایک پہلی مرتبہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے خیبرپختون خوا کا حق تسلیم کرتے ہوئے اسے بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا، اے جی این قاضی فارمولا سامنے آیا جس کے نتیجے میں صوبہ کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں سالانہ بنیادوں پر6ارب کی ادائیگی شروع کی گئی، جبکہ ساتھ ہی صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا جو ’’Water Accord‘‘1991ء کہلاتا ہے اور چاروں صوبوں کے مابین یہ طے پاگیا کہ کس صوبہ کا کتنے پانی پر حق ہے۔

چوتھا قومی مالیاتی ایوارڈ جو20 اپریل1991ء کو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے دستخطوں سے جاری ہوا کے لیے کمیشن کی تشکیل 23 جولائی 1990ء کو کی گئی تھی۔ مذکورہ چوتھے قومی مالیاتی ایوارڈ میں بھی صوبوں اور مرکز کے مابین وسائل کی تقسیم 80:20بنیاد پر کی گئی، پنجاب کا حصہ57.88فیصد، سندھ23.28 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.54فیصد اور بلوچستان کا حصہ 5.30 فیصد مقرر کیا گیا جبکہ پہلی مرتبہ صوبوں کی جانب سے تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار پر بھی رائلٹی کی صورت میں ان کا حصہ مقرر کیا گیا۔ اس چوتھے قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ادائیگی پر بھی اتفاق کیا گیا جو پنجاب کے لیے تین سالوں میں ایک ارب، سندھ کو پانچ سالوں میں 70کروڑ، شمال مغربی سرحدی صوبہ تین سالوں میں 20کروڑ جبکہ بلوچستان کے لیے تین سالوں میں10کروڑ کی ادائیگی پر اتفاق کیا گیا۔

پانچواں قومی مالیاتی کمیشن دسمبر1996ء میں تشکیل پایا اور اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے دستخطوں سے جاری شدہ پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا نفاذ یکم جولائی 1997ء سے کیا گیا، مذکورہ پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ صوبوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کیوںکہ چوتھے اور اسے قبل جاری شدہ مالیاتی ایوارڈز جن میں صوبوں کا حصہ 80 فیصد رہا، ان کے برعکس اس پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں تباہ کن حد تک کمی کی گئی اور صوبوں کا حصہ 37.5 فیصد پر آگیا جبکہ دوسری جانب مرکز کا حصہ 62.5 فیصد کردیا گیا اور افقی طور پر وسائل کی تقسیم میں صوبوں کا وہی حصہ برقرار رکھا گیا جو چوتھے مالیاتی ایوارڈ میں مقرر کیا گیا تھا۔

گرانٹ ان ایڈ چاروں کی بجائے صرف دو صوبوں کے لیے مقرر کی گئی جن میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 5 سالوں میں 3ارب31 کروڑ جبکہ بلوچستان کو 5 سالوں میں 4 ارب 8 کروڑ کی فراہمی کی بات کی گئی۔ تاہم سالانہ بنیادوں پر گرانٹ ان ایڈ میں11فیصد اضافہ کی بھی بات کی گئی جبکہ صوبوں کو یہ ہدف بھی دیا گیا کہ اگر وہ ٹیکسوں میں اضافہ اور اپنے اخراجات میں کمی کے حوالے سے 14.2فیصد اضافہ کی شرح حاصل کرلیں تو انہیں میچنگ گرانٹ کی صورت میں الگ سے ادائیگی کی جائے گی جو پنجاب اور سندھ کے لیے50،50کروڑ جبکہ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے لیے 10،10کروڑ روپے مقرر کی گئی۔

چھٹا قومی مالیاتی ایوارڈ آنے میں9 سال لگ گئے۔2001ء سے چھٹے قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے سلسلے میں نوٹیفکیشنز کا اجراء ہوتا رہا، تاہم چھٹا مالیاتی کمیشن بالاخر ستمبر2005ء میں ہی تشکیل پاسکا، مذکورہ کمیشن کی تشکیل کے بعد اس کے اجلاس مرکز اور چاروں صوبوں میں منعقد ہوئے لیکن بدقسمتی سے صوبے وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

کیوںکہ چاروں میں سے ہر ایک صوبہ کا اپنا موقف تھا اور ہر صوبہ اپنے موقف پر اس شدت کے ساتھ ڈٹا رہا کہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائی نہیں دے رہی تھی، جس کے باعث صوبے متفقہ طور پر ایوارڈ نہ دے سکے اور اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے صدارتی حکم نامہ کے ذریعے چھٹے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء کیا۔ یہ ایوارڈ اگرچہ کسی جمہوری طور پر منتخب صدر کی جانب سے نہیں دیا گیا تھا اور ایک باوردی صدر نے جاری کیا۔ تاہم اس میں ایک مرتبہ پھر صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا اور یہی ایوارڈ وہ بنیاد ہے کہ جس پر ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی عمارت کی تعمیر ہوئی اور صوبوں کا حصہ قومی وسائل میں پچاس فیصد سے بڑھ گیا۔

چھٹے قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں اور مرکز کا جو حصہ مقرر کیا گیا وہ ہر سال کے لیے الگ اورسالانہ بنیادوں پر صوبوں کے حصے میں اضافہ اور مرکز کے حصہ میں کمی تھی۔ مالی سال 2006-07ء کے لیے صوبوں اور مرکز کے حصہ 41.50 اور 58.50 فیصد، سال2007-08ء کے لیے 42.50 اور 57.50 فیصد، سال2008-09ء کے لیے43.75 اور56.25 فیصد، سال 2009-10ء کے لیے45 اور55 فیصد جبکہ سال2010-11ء کے لیے46.25 فیصد اور53.75 فیصد حصہ مقرر ہوا۔

صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے حوالے سے فارمولے میں قدرے ردوبدل کی گئی جس کے تحت پنجاب57.36 فیصد، سندھ23.71 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.82فیصد اور بلوچستان کے لیے 5.11 فیصد حصہ مقرر کیا گیا۔ صوبوں کے لیے گرانٹ ان ایڈ کی مد میں جو حصہ مقرر کیا گیا اس میں پنجاب11فیصد، سندھ21 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ35 فیصد اور بلوچستان کے لیے33 فیصد حصہ مقرر کیا گیا۔

ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ اس لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے جاری کیا گیا اور اس ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ مزید بڑھا تاہم اس ایوارڈ کے حوالے سے یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو وزارتیں اور ڈویژنز ملازمین اور وسائل ومسائل سمیت صوبوں کو منتقل ہورہے ہیں ان کے حصہ کا بوجھ آئندہ این ایف سی ایوارڈ کے اجراء تک مرکز ہی اٹھائے گا اور اگلے ایوارڈ میں یہ حصہ صوبوں کو آئینی طور پر منتقل کردیا جائے گا۔

مذکورہ ایوارڈ کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ایوارڈ کے اجراء سے قبل خیبرپختون خوا نے بجلی کے منافع کے بقایاجات کا مسئلہ حل کروایا۔ جسٹس (ر) اجمل میاں کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن 2005ء میں تشکیل دیا گیا اس نے مرکز، واپڈا اور خیبرپختون خوا کا موقف سننے کے بعد خیبرپختون خوا کا بجلی کے منافع کے 110ارب کے بقایاجات پر حق تسلیم کرلیا۔ تاہم اس کی ادائیگی نہیں ہوپارہی تھی، لیکن جب ساتویں قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاسوں کا انعقاد شروع ہوا تو خیبرپختون خوا اَڑ گیا کہ مذکورہ بقایاجات کی ادائیگی بھی کی جائے اور صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبوں نے استعمال کیا ہے اس کی رقم کی صورت میں ادائیگی بھی کی جائے۔

جس پر مرکز نے بجلی کے منافع کے بقایاجات کی مد میں صوبہ کو 110ارب میں سے فوری طور پر10ارب کی ادائیگی کی جو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے پشاور میں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا امیر حیدر ہوتی کو چیک کی صورت میں کی جبکہ بقایا100ارب، پچیس، پچیس ارب کی چار اقساط میں ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

صوبے کے حصے کے پانی کے حوالے سے 48 ارب کے دعوے کو تسلیم کرلیا گیا اور مرکز نے یقین دہانی کرائی کہ اس رقم کے بدلے صوبہ کو ایک بڑا منصوبہ دیا جائے گا جو چشمہ رائٹ بنک کنال کی صورت میں ملنا تھا، تاہم یہ حق صوبہ کو آج تک نہ مل سکا۔ ساتواں قومی مالیاتی کمیشن 24جولائی2009ء کو تشکیل دیا گیا اور ایوارڈ کا اجراء10مئی2010ء کو کیا گیا جس کا نفاذ یکم جولائی 2010ء سے کیا گیا، مذکورہ ایوارڈ کے تحت صوبوں کو پہلے سال یعنی2010-11ء کے لیے56 فیصد اور مرکز کو44 فیصد جبکہ مالی سال 2011-12ء سے 2014-15ء تک کے چار سالوں کے لیے صوبوں کو57.5 فیصد اور مرکز کو42.5 فیصد کی ادائیگی کا فیصلہ ہوا، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ مالیاتی ایوارڈز میں صوبوں کا حصہ کم نہیں کیا جاسکے گا اور ردوبدل کی صورت میں صوبوں کا حصہ مزید بڑھایا اور مرکز کا کم کیا جائے گا۔

مذکورہ ایوارڈ میں صوبوں کے مابین وسائل کی افقی تقسیم کے حوالے سے بھی فارمولے کو تبدیل کیا گیا اور ایک کثیرالجہت فارمولا ترتیب دیا گیا جس کے تحت صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم 82 فیصد آبادی،10.3فیصد غربت وپسماندگی،5فیصد ریونیو اکھٹے وپیدا کرنے اور2.7فیصد آبادی کی کثافت کی بنیاد پر ہوگی، مذکورہ فارمولے کے تحت صوبوں کو جو حصہ دیا جارہا ہے وہ پنجاب51.74 فیصد، سندھ24.55 فیصد، خیبرپختون خوا 14.62فیصد اور بلوچستان کو9.09 فیصد مقرر ہے۔ اس ایوارڈ میں خیبرپختون خوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مجموعی قومی وسائل کا ایک فیصد دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ30جون2015ء کو اپنی آئینی مدت پوری کرچکا ہے اور یکم جولائی 2015ء سے آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا نفاذ ہونا چاہیے تھا تاہم مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے دور میں نیا ایوارڈ نہ لاسکی اور صدارتی حکم ناموں کے ذریعے ساتویں ایوارڈ ہی کو جاری رکھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبوں کا حصہ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہو پارہا اور اب یہی صورت حال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی جاری ہے اور پہلا سال گزرنے کے بعد دوسرے سال میں بھی قومی مالیاتی ایوارڈ کے آنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

اسی بنیاد پر خیبرپختون خوا کے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے بڑی ہی مناسب تجویز دی ہے کہ مردم شماری کے ذریعے آبادی اور دیگر تمام امور کے بارے میں ڈیٹا آچکا ہے اس لیے اسے بنیاد بناتے ہوئے اگلے مالی سال 2020-21ء کے لیے قومی وسائل میں صوبوں کا حصہ بڑھایا جائے جبکہ قبائلی اضلاع کے لیے خیبرپختون خوا کو ان کے وسائل بھی منتقل کیے جائیں جس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر مرکز ایسا نہیں کرتا تو پھر قبائلی اضلاع کے لیے وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مرکز ہی کی ہوگی۔ تیمور سلیم جھگڑا کی یہ دونوں تجاویز انتہائی مناسب ہیں تاہم اگر مرکز ان پر کان نہیں دھرتا تو اس کے نتیجے میں صوبوں اور مرکز کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوگا اور دوسروں کے ساتھ اپنے بھی عمران خان حکومت کے مخالف ہوسکتے ہیں۔

The post آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ آنے کا کوئی امکان نہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


’متنازع شہریت بل‘ پر مسلمان طلبہ نے ماحول گرما دیا!

$
0
0

15 دسمبر کو ہندوستان کی راج دہانی نئی دہلی میں واقع تاریخی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بے چین سی فضا میں رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔۔۔

برقی رو سے روشن ملگجی روشنی اندرونی راستوں کو اجالا کرنے کی اپنی سی کوشش میں تھی۔۔۔ شام ڈھلنے کے بعد احتجاج کرنے والے طلبہ اپنے گھروں اور ہاسٹلوں میں جا چکے تھے۔۔۔ کبھی رات کے کسی پرندے کی آواز اور کبھی کسی موٹر کی سمع خراشی سکوت میں رخنہ ڈالتی اور پھر دوبارہ ایک خاموشی چھا جاتی۔۔۔

سرد ہوا بھی اس ماحول میں ایک عجب طرح کی اداسی بکھیر رہی تھی۔۔۔ عمارتوں میں طلبہ کی موجودگی وہاں زندگی کی کچھ خبر دیتی تھی، لیکن جامعہ کے اندرونی راستوں پر مجموعی طور پر سناٹا تھا۔۔۔ شام ڈھلے ہر جامعہ کی طرح جامعہ ملیہ بھی ایسے ہی شانت تھی۔۔۔ یکایک جامعہ کی بتیاں گُل کر دی جاتی ہیں اور باوردی اہل کار جامعہ کے محافظوں کو دھکیلتے ہوئے یوں اندر چلے آتے ہیں جیسے انہوں نے اس مادر علمی کو فتح کر لیا ہو۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی دلی پولیس کے ان اہل کاروں نے مبینہ طور پر فائرنگ کی، آنسو گیس کی شیلنگ کی آوازوں میں طلبہ کی چیخ پکار بھی شامل ہوگئی، بلاگر محمد علم اللہ کہتے ہیں کہ اندھیرا کرکے اہل کاروں نے کیمرے سے بچنے کی کوشش کی، اندر آتے کے ساتھ ہی وہ طلبہ پر بھوکے شکاری کی طرح ٹوٹ پڑے، منٹوں میں جامعہ ملیہ کی فضا جنگ کے کسی محاذ کا منظر پیش کرنے لگی۔

سہمے ہوئے طلبہ وطالبات کو لائبریری سے لے کر مسجد حتیٰ کہ ’بیت الخلا کے احاطے تک میں کہیں پناہ نہ ملی۔۔۔ آنسو گیس کے وحشیانہ استعمال کے سبب طلبہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، بہت سوں کی حالت غیر تھی۔۔۔ حیوانی طریقے سے لاٹھیوں کی برسات سے زخمی طلبہ کے خون کے قطرے جامعہ کے فرش پر جا بہ جا پھیل گئے۔۔۔ جان بچاتے دوڑتے ان طلبہ نے شاید فلموں یا ٹی وی میں ایسے مناظر دیکھے ہوں گے، لیکن آج وہ اپنے سامنے موت کا رقص دیکھ رہے تھے۔

انہیں لگ رہا تھا کہ شاید اب وہ بچ نہ پائیں، یہ دہشت گردوں کے حملے سے کسی طرح مختلف نہ تھا۔ قصور ان طلبہ کا یہ تھا کہ وہ مودی سرکار کے متنازع ’شہریت ترمیمی بل‘ کے خلاف تھے، جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے ہندو، سیکھ، عیسائی اور پارسیوں کو شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی، اور مسلمانوں کو دانستہ اس سے محروم رکھا گیا تھا، اس قانون کے اگلے مرحلے میں تمام شہریوں کو ہندوستان میں اپنے آباواجداد کے پرانے دستاویزی ثبوت دکھانے ہوں گے۔۔۔ یعنی ہندوستان بھر کے 20 کروڑ مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑے ہوکر ’ہندوستانیت‘ ثابت کرنا پڑے گی!

دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ پر دھاوا بول کے شمال سے جنوب تک ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور طلبہ میں بیداری کے عمل کو اور تیز کردیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے لے کر پنجاب یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما وغیرہ تک سیکڑوں جامعات کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ بے شمار سکھ، عیسائی اور نچلی ذاتوں کے ہندوئوں سمیت بائیں بازو کے حلقے ان کے ساتھ ہیں۔۔۔ اور دہائی دے رہے ہیں کہ آج تو یہ مظاہرین اپنے آئین کو مانتے ہیں اور اس دیس کی ایکتا پر یقین رکھتے ہوئے بھارتی ترنگے ہاتھ میں لیے أرہے ہیں، کل کو ایسا نہ ہو کہ یہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

پارلیمان سے اس متنازع قانون کی منظوری کے بعد 13 دسمبر 2019ء کو جمعے کی نماز کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں تیزی آئی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی امن کی اپیل کرنا پڑی۔ بھارت کے بے باک صحافی روی شنکر کہتے ہیں کہ مودی یہی اپیل اپنے راہ نمائوں سے کیوں نہیں کر رہے، جو یہ کہتے ہیں کہ یہ 1947ء نہیں، بلکہ 2019ء کا بھارت ہے!

جامعہ ملیہ سے لے کر کیرالہ اور پنجاب سے لے کر مغربی بنگال اور آسام تک کے احتجاج اور مظاہروں کو ذرایع اِبلاغ پر اس طرح جگہ نہیں دی جا رہی، جس طرح دی جانا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ کی گمبھیر صورت حال کا اصل اندازہ موبائل کیمرے سے بنائی گئی مختلف ویڈیوز سے ہوتا ہے۔

بہت سی ویڈیو دل دہلا دینے والی ہیں۔۔۔ ’ہند نیوز‘ سے وابستہ صحافی رُبا انصاری پولیس ایکشن کے بعد کسی طرح جامعہ ملیہ پہنچیں، تو اپنی موبائل ویڈیو میں بتایا کہ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کیا ہے، لیکن انہوں نے وہاں جو احوال سنا ہے، اسے بتاتے ہوئے ان کی روح کانپ رہی ہے، جب دہلی جیسے شہر میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو پھر دیگر علاقوں کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیا حالت ہوگی۔

پولیس بدترین لاٹھی چارج کی ایک ویڈیو میں ڈھال بن کر اپنے طالب علم ساتھی شاہین کو بچانے والی کیرالہ کی 22 سالہ جی دار طالبات لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رینا سے ممتاز صحافی برکھا دت نے جب یہ پوچھا کہ آپ کو لاٹھیاں برساتی پولیس کے سامنے خوف محسوس نہیں ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ کس بات کا خوف ہم تو ’ہندوتوا‘ کے عظیم خوف سے لڑ رہے ہیں۔

اور ہمیں صرف اللہ کا خوف ہے۔ ہندوستانی دانش ور ہرش مندر نے جامعہ کے طلبہ سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوؤں کے پاس تو سوائے ہندوستان کے کوئی راستہ نہ تھا، جب کہ ہندوستانی مسلمان تو ’اختیاراً‘ یہاں کے شہری ہیں، وہ چاہتے تو پاکستان بھی جا سکتے تھے، انہوں نے حکمراں جماعت ’بی جے پی‘ پر ’بھارتیہ جناح پارٹی‘ کا بھپتی کسی اور کہا کہ یہ تو جناح کہتے تھے کہ مسلم کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان۔ ایودھیا اور کشمیر کے معاملے میں ہم عدالتوں کو دیکھ چکے اب یہ لڑائی عدالت میں نہیں لڑی جائے گی۔ اب یہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔

تحریک اب تک قیادت سے محروم ہے!

بھارت کے متنازع شہریت بل کے خلاف ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ اور ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ سے برپا ہونے والی تحریک جنگل میں آگ کی طرح ہندوستان بھر میں پھیل گئی، اگرچہ اس میں واضح طور پر مسلمان طلبہ اور طالبات دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن بے شمار سکھ اور ہندو کارکنان بھی اس تحریک میں ہم آواز ہو رہے ہیں۔۔۔ بہت سے حلقوں کی یہ خواہش ہے کہ اس تحریک کو مکمل مذہبی رنگ دے دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر ’ہندوؤں کی قبر کھدے گی!‘ کے نعروں کی خبریں آئیں، جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ دراصل ’ہندو توا کی قبر کھدے گی۔

کے نعرے لگائے گئے تھے۔ تحریک چلانے والے طلبہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہندوستان بھر کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ اعتدال پسند ہندو بھی ان کا ساتھ دیں، ان کا ماننا ہے کہ ہوش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ آئین کا ’غیر مذہبی‘ روپ برقرار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی جامعات سے غیر مسلم طلبہ بھی بڑی تعداد میں اس نئے قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے، اس تمام تر صورت حال کے باوجود سب سے اہم امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تحریک ابھی تک کسی بھی سطح کے راہ بر یا قائد سے محروم ہے۔۔۔ بہ الفاظ دیگر مسلمانوں میں بالائی سطح پر اب بھی اس احتجاج کے حوالے سے جھجھک اور مصلحت برقرار ہے، جس کی وجہ سے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر وہاں کے علما کا حلقہ مسلمانوں کی شدید تنقید کی زد میں ہیں، کیوں کہ وہ خود آگے آنا تو درکنار بلکہ اپنے طلبہ کو احتجاج اور مظاہروں سے باز رہنے کی صلاح دے رہے ہیں۔

ہم عہد 1947ء میں زندہ ہیں!

برصغیر کی تقسیم کو 72 برس بیت گئے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تقسیم سے پھوٹنے والے مسائل کی پرچھائیاں گہری تر ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ خطے کے ’ہندو مسلم مسئلے کے حل‘ کے درمیان ایک طرف ریاست جموں کشمیر میں ظلم کی سیاہ رات تاریک تر ہے، تو دوسری طرف 1971ء سے سابقہ مشرقی پاکستان کے کیمپوں میں پڑے ہوئے شہری پاکستانی پرچم لہرائے ہوئے ہیں، لیکن اُن کی ریاست انہیں واپس لینے کے لیے آمادہ نہیں۔۔۔ اِدھر کراچی کی ایک بوڑھی ماں کا گریہ بھی دیکھا، جس کا شناختی کارڈ دستاویز پوری نہ ہونے کے سبب بلاک کر دیا گیا، وہ چلاتی رہی کہ اس کے اسکول جانے والے پوتے، پوتیوں کے مستقبل کا سوال ہے۔۔۔ میں اب وہ دستاویز کہاں سے لاؤں؟

ایسے ہی بے شمار بنگالی بھی کراچی میں شناختی کارڈ بنوانے سے محروم ہیں، کیوں کہ وہ یہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ 1971ء سے پہلے سے یہاں ہیں۔۔۔ پھر روہنگیا کے مسلمان تو ہر طرف سے ٹھکرائے جا رہے ہیں۔ دراصل مودی سرکار کا حالیہ شہریت ترمیمی بل آسام میں بسنے والے پانچ لاکھ چالیس ہزار بنگالی ہندوؤں کے لیے ہی ہے، کیوں کہ آسام میں غیرمقامی افراد کو نکالے جانے کی مضبوط تحریک موجود ہے، ابتداً یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ سارے غیر مقامی بنگلادیشی مسلمان ہیں، اس لیے سب ہی ہاں میں ہاں ملاتے رہے، لیکن جب ان میں ایک بڑی تعداد ہندوؤں کی نکل آئی، تو پھر شاطر ذہنیت نے گھما پھرا کے اس کا راستہ یہ نکالا کہ تارکین وطن کو ایک دروازے سے باہر کیا اور دوسرے دروازے سے ’بنگلادیشی اقلیت‘ کے قانون کے تحت دوبارہ بلا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آسام میں اس قانون کے خلاف احتجاج روکنے کے لیے کرفیو بھی نافذ کیا گیا۔

 امیت شاہ کیا کہتے ہیں؟

بھارتی وزیرداخلہ اور وزارت عظمیٰ کے لیے ’بی جے پی‘ کے آیندہ امیدوار کہے جانے والے امیت شاہ اس بل کی منظوری کے لیے پارلیمان میں بے شمار عذر تراشتے نظر آئے اور بولے کہ اس بل میں ہم پر مذہبی تفریق کا الزام لگانے والی کانگریس نے بھی تو جناح کی مذہبی تقسیم تسلیم کی، موہن داس گاندھی نے بھی پارلیمان میں پاکستان میں مشکل کا شکار ہندو اور سکھ کو یہاں آنے کی پیش کش کی، تب کچھ کیوں نہیں کہا گیا، اس بل میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہاں مسلمان مشکل میں نہیں، جو اقلیتیں وہاں مشکل میں ہیں۔

ہم انہیں شہریت دے رہے ہیں، پھر پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش کا ذکر ہونے کا استدلال کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی وقت کی ضرورت دیکھتے ہوئے صراحت کے ساتھ اس قانون میں ترمیم کی گئی، جیسے تامل مسئلے پر جب ضرورت تھی تو ہم نے صرف سری لنکا کا ہی ذکر کیا تھا اور پھر  20لاکھ لوگوں کو شہریت دی گئی، روہنگیا کے لوگوں کو اس لیے نہیں لیا، کیوں کہ وہ ہمارے دیس میں نہیں آتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دلی میں 21 ہزار افغان سکھ رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے آنے والے نچلی ذات کے ہندو کہتے ہیں کہ یہاں انہیں اپنی ’پاکستانی‘ شناخت چھپانا پڑتی تھی، وہ کہتے ہیں کہ اب ہم سر اٹھا کر خود کو پاکستانی کہیں گے، ہم نے ان دلت بھائیوں کو عزت دینے کے لیے یہ قانون بنایا۔

The post ’متنازع شہریت بل‘ پر مسلمان طلبہ نے ماحول گرما دیا! appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

گھر میں تنہا
مدثر حسن بخاری، اسلام آباد
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میرے گھر والے سب کہیں گئے ہوئے ہیں اور میں گھر اکیلا ہوں ۔ دور دور تک بہت اندھیرا ہے اور ہمارا گھر بھی شدید ترین اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت پریشان ہوتا ہوں اور گھبرا کے ٹیرس پہ آتا ہوں ، وہاں میری نظر گھر کے گیٹ پر پڑتی ہے جو کہ بالکل چوپٹ کھلا ہوتا ہے۔

اس کو دیکھ کر میں مزید گھبرا جاتا ہوں اور پریشانی کی وجہ سے میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔
تعبیر: اس خواب سے اندازہ ہوتا ھے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بیماری یا تعلیمی سلسے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔

کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں۔

۔۔۔
پیسے گننا
فرحان علی، لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا پیسے گن رہا ہوں مگر گننے کے بعد میں بہت اداس ہو جاتا ہوں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں کہیں کسی کے پیسے اٹھا لوں کیونکہ میرا دل کرتا ہے کہ میرے پاس بہت زیادہ پیسے ہوں ۔
تعبیر: یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا دماغ بہت زیادہ دنیا داری میں لگا ہوا ہے۔ اور زیادہ تر وقت پیسوں اور دنیا کے متعلق سوچتے ہوئے گزرتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس دنیا داری کو ذہن سے نکال کر اللہ کی طرف دھیان لگائیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

۔۔۔
پیسے گم ہو جانا
نواز علی، گوجرانوالہ
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں بہت پریشانی کے عالم میں ہوں ۔ کیونکہ میرے گھر میں حفاظت سے رکھے پیسے کہیں گم ہو گئے ہیں ۔ اور وہ جن کو دینے ہیں وہ سب لوگ مجھ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وقت پہ ان کی ادائیگی کروں۔ میں بہت پریشانی میں ہر جگہ چھان رہا ہوں کہ آخر پیسے کدھر گئے۔
تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

۔۔۔
شیر سے خوفزدہ ہونا
سلمہ رضوان، لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ جیسے کوئی پہاڑی علاقہ ہے اور ادھر ایک شیر ہے جو میرے پیچھے ہے اور میں اس سے خوفزدہ ہوں اور بچنے کے لئے بھاگ رہی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔
تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے۔ جس کی وجہ سے گھریلو، کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

۔۔۔
جوتا پھٹا ہوا
فرحان، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں بہت پریشانی کے عالم میں ہوں اور ایک جگہ خاموشی سے بیٹھا ہوں۔ میرا جوتا بہت زیادہ کٹا پھٹا ہے اور میں اسی سوچ میں ہوں کہ کیسے چلوں یا کسی کو دکھاوں ۔ اس کے بعد مجھے خواب یاد نہیں مگر اپنی پریشانی اور کٹا پھٹا جوتا یاد ہے ۔
تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے ۔گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان کن ہو سکتا ہے۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے آپ یاحی یا قیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔

۔۔۔
سورہ کی تلاوت سنانا
احمد رضوان خان ، لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوست کے ابو کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا ہوں اور ان کو سورہ قلم کی تلاوت کر کے سنا رہا ہوں۔ جیسے وہ میرا امتحان لے رہے ہوں۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذہن میں بزرگی آئے گی ۔گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

۔۔۔
کتا کاٹ لیتا ہے
سلیم قریشی، رحیم یار خان
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں بازار میں پھر رہا ہوں اور کہیں سے ایک کتا دوڑتا ہوا آتا ہے اور میری طرف لپکتا ہے۔ میں تیزی سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ بہت تیزی سے میری طرف بڑھتا ہے اور میری ٹانگ پہ کاٹ لیتا ہے۔ میں چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے جس کی وجہ سے گھریلو کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

۔۔۔
نماز پڑھنا
ثریا کوثر، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کے لئے جائے نماز بچھاتی ہوں اور جائے نماز دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں کہ واہ کتنی پیاری ہے۔ نماز کے بعد میں کتنی دیر ادھر بیٹھی ذکر اذکار کرتی رہتی ہوں پھر اس کو لپیٹ کر رکھ دیتی ہوں۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے گھر میں عافیت ہو گی اور دل اللہ کی یاد میں مشغول رہے گا جس سے ہر چیز میں برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور ہر روز سورہ بقرہ کی تلاوت کیا کریں۔

۔۔۔
پیسے جیب سے گرنا
مطلوب علی، گوجرانوالہ
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کچھ سودا سلف لینے گھر سے نکلا ہوں اور جب ادائیگی کی باری آتی ہے تو میری جیب سے پیسے نکلتے ہی نہیں۔ شائد کہیں راستے میں گر گئے ہوں، یہ سوچ کر میں واپس جاتا ہوں مگر مجھے پیسے کہیں نہیں ملتے۔
تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی، غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے۔کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

آپا

$
0
0

جب کبھی بیٹھے بٹھائے مجھے آپا یاد آتی ہے تو میری آنکھوں کے آگے ایک چھوٹا سا بلوری دیا آ جاتا ہے جو مدھم لو سے جل رہا ہو۔

مجھے یاد ہے ایک رات ہم سب چپ چاپ باورچی خانے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ، آپا اور امی جان کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آیا۔ ان دنوں بدو یہی چھ سات سال کا ہو گا۔ کہنے لگا۔ امی جان میں بھی باہ کروں گا۔

’’اوہ… ابھی سے۔ ‘‘ اماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگیں۔ ’’اچھا بدو تمہارا بیاہ آپا سے کر دیں؟‘‘

’’اونہوں …‘‘ بدو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

اماں کہنے لگیں۔ ’’کیوں آپا کو کیا ہے؟‘‘

’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔ ‘‘

اماں نے آپا کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگی۔ ’’کیوں … دیکھو تو آپا کیسی اچھی ہیں…!‘‘

’’میں بتاؤں کیسی ہے؟‘‘ وہ چلایا۔

’’ہاں بتاؤ تو بھلا۔ ‘‘ اماں نے پوچھا۔ بدو نے آنکھیں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس کی نگاہ چولہے پر آ رکی۔ چولہے میں اپلے کا ایک جلا ہوا ٹکڑا پڑا تھا۔ بدو نے اس کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ’’ایسی۔ ‘‘ پھر بجلی کے روشن بلب کی طرف انگلی اٹھا کر چیخنے لگا۔ ’’اور چھاجو باجی ایسی۔‘‘ اس بات پر ہم سب دیر تک ہنستے رہے۔

اتنے میں تصدق بھائی آ گئے۔ اماں کہنے لگی۔ ’’تصدق بدو سے پوچھنا کہ آپا کیسی ہیں۔‘‘ آپا نے تصدق بھائی کو آتے ہوئے دیکھا تو منہ موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے ہنڈیاں پکانے میں منہمک ہو۔

’’ہاں تو کیسی ہے آپا بدو؟‘‘ وہ بولے۔ ’’بتاؤں ‘‘ بدو چلایا اور اس نے اپلے کا ٹکڑا اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں لے کر ہمیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انگلی ہلاتے ہوئے بولی۔ ’’اونہہ‘‘ بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگی۔ ’’پگلے اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے۔ اس میں چنگاری ہے۔‘‘

’’وہ تو جلا ہوا ہے اماں!‘‘ بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔

اماں بولیں۔ ’’میرے لال یہی تمہیں معلوم نہیں۔ اس کے اندر آگ ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔‘‘

بدو نے بھولے پن سے پوچھا۔ ’’کیوں آپا! اس میں آگ ہے کیا؟‘‘

اس وقت آپا کے منہ پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ ’’میں کیا جانوں۔‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھونکیں مارنے لگیں۔

اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی۔ مگر میں کہا کرتی تھی۔ ’’آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔‘‘ اور وہ مسکرا کر کہتی۔ ’’پگلی‘‘ اور اپنے کام میں لگ جاتی۔ ویسے تو وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔

ہر کوئی اسے کسی نہ کسی کام کے لئے کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔ ادھر بدو چیختا ’’آپا میرا دلیا۔‘‘ ادھر ابا گھورتے۔ ’’سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟‘‘ بیچ میں اماں بول اٹھتی۔ ’’بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے۔‘‘ اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔

یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اس کے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا وہ اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر سے ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔

اس کے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا۔ زیادہ سے زیادہ مسکرا دیا کرتی تھی اور بس۔ البتہ وہ اکثر مسکرایا کرتی۔ جب وہ مسکراتی تو اس کے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ہاں تو میں سمجھتی تھی کہ آپا بیٹھی ہی رہتی ہے۔ ذرا نہیں ہنستی اور بن چلے لڑھک کر یہاں سے وہاں پہنچ جاتی ہے۔

جیسے کسی نے اسے دھکیل دیا ہو۔ اس کے برعکس ساحرہ کتنے مزے میں چلتی تھی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو اور اپنی خالہ زاد بہن ساجو باجی کو چلتے دیکھ کر میں کبھی نہ اکتائی۔ جی چاہتا تھا کہ باجی ہمیشہ میرے پاس رہے اور چلتی چلتی اسی طرح گردن موڑ کر پنچم آواز میں کہے۔ ’’ہیں جی… کیوں جی؟‘‘ اور اس کی کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگیں۔ باجی کی بات بات مجھے کتنی پیاری لگتی تھی۔

ساحرہ اور ثریا ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ دن بھر ان کا مکان ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ بس میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں کے گھر میں جا رہوں۔ ہمارے گھر میں رکھا ہی کیا تھا۔ ایک بیٹھ رہنے والی آپا، ایک ’’یہ کرو، وہ کرو‘‘ والی اماں اور دن بھر حقے پر گڑگڑانے والے ابا۔

اس روز جب میں نے ابا کو امی سے کہتے سنا، سچ تو یہ ہے کہ مجھے بے حد غصہ آیا۔ ابا کہنے لگے۔ ’’سجادہ کی ماں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساحرہ کے گھر میں بہت سے برتن ہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اماں پوچھنے لگی۔

کہنے لگے۔ ’’بس تمام برتن بجتے رہتے ہیں … اور یا قہقہے لگتے ہیں جیسے میلہ لگا ہو۔‘‘

اماں تنک کر بولی۔ ’’مجھے کیا معلوم۔ آپ تو بس لوگوں کے گھر کی طرف کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘

ابا کہنے لگے۔ ’’افوہ…! میرا تو یہ مطلب ہے کہ جہاں لڑکی جوان ہوئی، برتن بجنے لگے۔ بازار کے موڑ تک لوگوں کو خبر ہو جاتی ہے کہ فلاں گھر میں لڑکی جوان ہو چکی ہے۔ مگر دیکھو نا ہماری سجادہ میں یہ بات نہیں۔ ‘‘ میں نے ان کی بات سنی اور میرا دل کھولنے لگا۔ بڑی آئی ہے سجادہ۔ جی ہاں۔ اپنی بیٹی جو ہوئی۔ اس وقت میرا جی چاہتا تھا کہ جا کے باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی آپا کا منہ چڑاؤں۔ اسی بات پر میں نے دن بھر کھانا نہ کھایا اور دل ہی دل میں کھولتی رہی۔ ابا جانتے ہی کیا ہیں۔ بس حقہ لیا اور گڑگڑ کر لیا یا زیادہ سے زیادہ کتاب کھول کر بیٹھ گئے اور گٹ مٹ، گٹ مٹ کرنے لگے۔ جیسے کوئی بھٹیاری مکئی کے دانے بھون رہا ہو۔ سارے گھر میں لے دے کے صرف تصدق بھائی ہی تھے جو دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھدی آواز میں گایا بھی کرتے تھے۔

چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں، آنکھوں میں نمی سی ہے

نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

آپا انہیں گاتے سن کر کسی نہ کسی بات پر مسکرا دیتی اور کوئی بات نہ ہوتی تو وہ بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی۔ ’’بدو رونا۔ ‘‘ اور پھر آپ ہی بیٹھی مسکراتی رہتی۔

تصدق بھائی میرے پھوپھا کے بیٹے تھے۔ انہیں ہمارے گھر آئے یہی کوئی دو ماہ ہوئے تھے۔ کالج میں پڑھتے تھے۔ پہلے تو وہ بورڈنگ میں رہا کرتے تھے۔ پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ہوئی تھی تو باتوں میں ان کا ذکر چھڑ گیا۔ پھوپھی کہنے لگی، بورڈنگ میں کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں۔ لڑکا آئے دن بیمار رہتا ہے۔ اماں اس بات پر خوب لڑیں۔ کہنے لگیں۔ ’’اپنا گھر موجود ہے تو بورڈنگ میں پڑے رہنے کا مطلب۔ ‘‘ پھر ان دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اماں کی تو عادت ہے کہ اگلی پچھلی بہت سی باتیں لے بیٹھتی ہے۔ غرضیکہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتہ کے بعد تصدق بھائی بورڈنگ کو چھوڑ کر ہمارے ہاں آ ٹھہرے۔

تصدق بھائی مجھ سے اور بدو سے بڑی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ ان کی باتیں بے حد دلچسپ ہوتیں۔ بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے۔ البتہ آپا سے زیادہ باتیں نہ کرتے۔ کرتے بھی کیسے۔ جب کبھی وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹے کا پلو آپ ہی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ بن جاتا اور آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھک جاتیں اور وہ کسی نہ کسی کام میں شدت سے مصروف دکھائی دیتیں۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ آپا ان کی باتیں بڑے غور سے سنا کرتی تھی گو کہتی کچھ نہ تھی۔ بھائی صاحب بھی بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے لیکن صرف اس وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوتے۔ پوچھتے۔ ’’بدو تمہاری آپا کیا کر رہی ہے؟‘‘

’’آپا…‘‘ بدو لاپرواہی سے دہراتا۔ ’’بیٹھی ہے… بلاؤں ؟‘‘

بھائی صاحب گھبرا کر کہتے۔ ’’نہیں نہیں۔ اچھا بدو، آج تمہیں، یہ دیکھو اس طرف تمہیں دکھائیں۔ ‘‘ اور جب بدو کا دھیان ادھر ادھر ہو جاتا تو مدھم سی آواز میں کہتے۔ ’’ارے یار تم تو مفت کا ڈھنڈورا ہو۔ ‘‘بدو چیخ اٹھتا۔ ’’کیا ہوں میں؟‘‘ اس پر وہ میز بجانے لگتے۔ ڈگمگ ڈگمگ… ڈھنڈورا یعنی یہ ڈھنڈورا ہے۔

دیکھا جسے ڈھول بھی کہتے ہیں۔ ڈگمگ ڈگمگ سمجھے اور آپا اکثر چلتے چلتے ان کے دروازے پر رک جاتی اور ان کی باتیں سنتی رہتی اور پھر چولہے کے پاس بیٹھ کر آپ ہی آپ مسکراتی۔ اس وقت اس کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا۔ بالوں کی لٹ پھسل کر گالوں پر آ گرتی اور وہ بھیگی بھیگی آنکھیں چولہے میں ناچتے ہوئے شعلوں کی طرح جھومتیں۔ آپا کے ہونٹ یوں ہلتے، گویا گا رہی ہو۔ مگر الفاظ سنائی نہ دیتے۔ ایسے میں اگر اماں یا ابا باورچی خانے میں آ جاتے تو آپا ٹھٹک کر یوں اپنا دوپٹہ، بال اور آنکھیں سنبھالتی گویا کسی بے تکلف محفل میں کوئی بیگانہ آ گیا ہو۔

ایک دن میں، آپا اور اماں صحن میں تھیں۔ اس وقت بھائی اندر اپنے کمرے میں بدو سے باتیں کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ بھائی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی باتیں سن رہے ہیں۔ بھائی صاحب بدو سے کہہ رہے تھے۔ ’’میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کریں گے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے۔ کتابیں پڑھ سکے۔ شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند بلے سے یوں ڈز،ٹن، ڈز اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزیدار کھانے پکا کر کھلا سکے، سمجھے…؟‘‘

بدو بولا۔ ’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔ ‘‘

’’اونہہ…‘‘ بھائی نے کہا۔

بدو چیخنے لگا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ تم آپا سے بیاہ کرو گے… ہاں۔‘‘

اس وقت اماں نے آپا کی طرف دیکھا مگر آپا اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اس قدر مصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی…آخ تھو۔‘‘

بدو نے کہا۔ ’’ابا جو کہتے ہیں کہ فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہئے۔‘‘

’’تو وہ اپنے ابا کے لئے پکاتی ہے، ہمارے لئے تو نہیں۔ ‘‘

’’میں کہوں آپا سے؟‘‘ بدو چیخا۔

بھائی چلائے۔ ’’اوہ پگلا۔ ڈھنڈورا۔ لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں۔ یہ دیکھو اس طرح… ڈگمگ ڈگمگ۔‘‘ بدو پھر چلانے لگتا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ تم میز بجا رہے ہونا؟ ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔‘‘ بھائی کہہ رہے تھے۔ ’’کشتیوں میں۔ اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے۔ آؤ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوا گاما اور تم بدو پہلوان۔ ذرا ٹھہرو جب میں تین کہوں تب۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز سے کہا۔ ’’ارے یار! تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔‘‘

میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی۔ اس لئے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا۔

میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آ گئے اور کہنے لگے۔ ’’کیا پڑھ رہی ہو جہینا؟‘‘ ان کے منہ سے جہینا سن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔ نورجہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزہ آنے لگتا ہے۔

میں تو نور جہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے کسی تاریخ کی کتاب کے بوسیدہ ورق سے کوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہوئی آ رہی ہوں مگر بھائی صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوار دینے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے منہ سے جیہنا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کرتے تھے۔ مگر وہ تو پرانی بات تھی۔ جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی اسے سجدے نہ کہتے بلکہ اس کا پورا نام لیتے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دیا۔ ’’سکول کا کام کر رہی ہوں۔‘‘ پوچھنے لگے کہ تم نے کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’نہیں‘‘

انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان والی دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاؤس پڑھی ہو گی۔‘‘ وہ کنکھیوں سے آپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔

آپا نے نظریں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم سی آواز میں کہا۔ ’’نہیں۔ ‘‘ اور سویٹر بننے میں لگی رہی۔

بھائی بولے۔ ’’کیا بتاؤں جہینا کہ وہ کیا چیز ہے۔ نشہ ہے نشہ۔ خالص شہد۔ تم اسے ضرور پڑھو۔ بالکل آسان ہے یعنی امتحان کے بعد ضرور پڑھنا۔ میرے پاس پڑی ہے۔ ‘‘

’’میں نے کہا۔ ’’ضرور پڑھوں گی۔ ‘‘

پھر پوچھنے لگے۔ ’’میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

میں نے چڑ کر کہا۔ ’’مجھے کیا معلوم۔ آپ خود ہی پوچھ لیجئے۔‘‘ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ ’’میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی۔

جیسے مطالعے کے بہانے میلہ لگا ہو۔‘‘ مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر بیٹھ رہنے والی ہے۔ کالج جانا نہیں چاہتی۔ بڑی آئی نکتہ چیں۔اس کے علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو خواہ مخواہ چڑ جاتی۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور یہ آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلی فون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا، بیٹھی ہوئی گم صم آپا، بھیگی بلی۔

شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے۔ ’’آج فرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جا رہے ہیں۔ سجادہ… سجادہ بیٹی۔ کیا چینی اتنی سستی ہو گئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘

آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا مگر اس وقت اس کے گال تمتما رہے تھے۔ کہنے لگی۔ ’’شاید زیادہ پڑ گئی ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ ’’شاید۔ کیا خوب۔ شاید۔‘‘

ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے۔ ’’چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں ، فرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘ صحن سے اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں جیسے ان کی عادت ہے۔’’آپ تو ناحق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں۔ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے۔ اس کا تو خیال کرنا چاہئے۔‘‘ ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی کہنے لگے۔ ’’اوہ یہ بات ہے۔ مجھے بتا دیا ہوتا۔ میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں…‘‘ اور وہ دونوں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔

آپا ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا ان سے ملنا تو کیا بات تک کو ناپسند کرتی تھی۔ بلکہ اس کے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیال کیا کہ ضرور کوئی بھید ہے اس بات میں۔ کبھی کبھار ساحرہ دیوار کے ساتھ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چڑھ کر ہماری طرف جھانکتی اور کسی نہ کسی بہانے سلسلہ گفتگو قائم کرنے کی کوشش کرتی تو آپا بڑی بے دلی سے دو ایک باتیں کر کے اسے ٹال دیتی۔ آپ ہی بول اٹھتی۔ ’’ابھی تو اتنا کام پڑا ہے اور میں یہاں کھڑی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر باورچی خانے میں جا بیٹھتی۔ خیر اس وقت تو میں چپ چاپ بیٹھی رہی مگر جب آپا لوٹ آئی تو کچھ عرصے کے بعد چپکے سے میں بھی ساحرہ کے گھر جا پہنچی۔ باتوں ہی باتوں میں، میں نے ذکر چھیڑ دیا۔ ’’آج آپا آئی تھی؟‘‘

ساحرہ نے ناخن پالش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں کوئی کتاب منگوانے کو کہہ گئی ہے۔ نہ جانے کیا نام ہے اس کا… ہارٹ بریک ہاؤس۔‘‘

آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز میں مقفل رکھتی تھی۔ مجھے کیا معلوم نہ تھا کہ رات کو وہ بار بار کبھی میری طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتی رہتی۔ اسے یوں مضطرب دیکھ کر میں دو ایک انگڑائیاں لیتی اور پھر کتاب بند کر کے رضائی میں یوں پڑ جاتی جیسے مدت سے گہری نیند میں ڈوب چکی ہوں۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ میں سو چکی ہوں تو دراز کھول کر کتاب نکال لیتی اور اسے پڑھنا شروع کر دیتی۔ آخر ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھ ہی لیا۔ ’’آپا یہ ’’ہارٹ بریک ہاؤس‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ دل توڑنے والا گھر؟ اس کے کیا معنی ہوئے؟‘‘ آپا پہلے تو ٹھٹک گئی۔ پھر وہ سنبھل کر اٹھی اور بیٹھ گئی۔ مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ میں نے اس کی خاموشی سے جل کر کہا۔

’’اس لحاظ سے تو ہمارا گھر واقعی ہارٹ بریک ہے۔‘‘

کہنے لگی۔ ’’میں کیا جانوں۔‘‘

میں نے اسے جلانے کو کہا۔ ’’ہاں ہماری آپا بھلا کیا جانے؟‘‘ میرا خیال ہے یہ بات اسے ضرور بری لگی۔ کیونکہ اس نے کتاب رکھ دی اور بتی بجھا کر سو گئی۔

ایک دن یوں ہی پھرتے پھراتے میں بھائی جان کے کمرے میں جا نکلی۔ پہلے تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر پوچھنے لگے۔ ’’جیہنا اچھا یہ بتاؤ کیا تمہاری آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں کیا جانوں جا کر آپا سے پوچھ لیجئے۔‘‘ ہنس کر کہنے لگے۔ ’’آج کیا کسی سے لڑ کر آئی ہو؟‘‘ میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا۔ پھر بولے۔ ’’َہیں۔ ابھی تو لڑکی ہو۔ شاید کسی دن لڑاکا بن جاؤ۔‘‘ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگے۔ ’’دیکھو جیہنا مجھے لڑنا بے حد پسند ہے۔ میں تو ایسی لڑکی سے بیاہ کروں گا جو باقاعدہ صبح سے شام تک مجھ سے لڑ سکے اور نہ اکتائے۔‘‘ میں شرما گئی اور بات بدلنے کی خاطر پوچھا۔ ’’فروٹ سلاد کیا ہوتا ہے بھائی جان؟‘‘

بولے۔ ’’وہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ سفید سفید، لال لال، کالا کالا، نیلا نیلا سا۔‘‘ میں ان کی بات سن کر بہت ہنسی۔ پھر کہنے لگے۔’’وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ یہاں تو جہینا ہم فرنی کھا کر اکتا گئے۔‘‘ میرا خیال ہے یہ بات آپا نے ضرور سن لی ہو گی کیونکہ اسی شام کو وہ باورچی خانے میں بیٹھی ’’نعمت خانہ‘‘ پڑھ رہی تھی۔ اس دن کے بعد روز بلاناغہ وہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کی مشق کیا کرتی اور ہم میں سے کوئی اس کے پاس جاتا تو وہ جھٹ فروٹ سلاد کی کشتی چھپا دیتی۔

ایک روز آپا کو چھیڑنے کی خاطر میں نے بدو سے پوچھا۔ ’’بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتی جو آپا کے پیچھے پڑی ہے، اس میں کیا ہے؟‘‘

بدو ہاتھ دھو کر آپا کے پیچھے پڑ گیا۔ حتیٰ کہ آپا کو وہ کشتی بدو کو دینی ہی پڑی۔ پھر میں نے بدو کو اور بھی چمکا دیا۔ میں نے کہا۔ بدو جاؤ بھائی جان سے پوچھو۔ اس کھانے کا کیا نام ہے۔‘‘

بدو بھائی جان کے کمرے کی طرف جانے لگا تو آپا نے اٹھ کر کشتی اس سے چھین لی اور میری طرف گھور کر دیکھا۔ اس روز پہلی مرتبہ آپا نے مجھے غصے سے گھورا تھا۔

اس رات آپا شام ہی سے لیٹ گئی۔ مجھے صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ رضائی میں پڑی رو رہی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی بات پر بہت افسوس ہوا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اٹھ کر آپا کے پاؤں پڑ جاؤں اور اسے خوب پیار کروں مگر ویسے ہی چپ چاپ بیٹھی رہی اور کتاب کا ایک لفظ تک نہ پڑھ سکی۔

انہیں دنوں میری خالہ زاد بہن ساجدہ جسے ہم سب ساجو باجی کہا کرتے تھے۔ میٹرک کا امتحان دینے کے لئے ہمارے گھر آ ٹھہریں۔ ساجو باجی کے آنے پر ہمارے گھر میں رونق ہو گئی۔ ہمارا گھر بھی قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ساحرہ اور ثریا چارپائیوں پر کھڑی ہو کر باجی سے باتیں کرتی رہتیں۔ بدو چھاجو باجی۔ چھاجو باجی چیختا پھرتا اور کہتا۔ ’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔‘‘

باجی کہتی۔ ’’شکل تو دیکھو اپنی۔ پہلے منہ دھو آؤ۔‘‘ پھر وہ بھائی صاحب کی طرف یوں گردن موڑتی کہ کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکراتے اور وہ پنجم تان میں پوچھتی۔ ’’ہے نا بھائی جاآن کیوں جی؟‘‘

باجی کے منہ سے ’’بھئی جاآن ‘‘ کچھ ایسا بھلا سنائی دیتا کہ میں خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ اس کے برعکس جب کبھی آپا ’’بھائی صاحب‘‘ کہتی تو کیسا بھدا معلوم ہوتا ۔ گویا وہ واقعی انہیں بھائی کہہ رہی ہو اور پھر ’’صاحب‘‘ جیسے حلق میں کچھ پھنسا ہوا ہو مگر باجی ’’صاحب‘‘ کی جگہ ’’جاآن‘‘ کہہ کر اس سادے لفظ میں جان ڈال دیتی تھی۔ ’’جاآن‘‘ کی گونج میں بھائی دب جاتا اور یہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ انہیں بھائی کہہ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ’’بھئی جاآن‘‘ کہہ کر وہ اپنی کالی کالی چمکدار آنکھوں سے دیکھتی اورآنکھوں ہی آنکھوںمیں مسکراتی کہ سننے والے کو قطعی یہ گمان نہ ہوتا کہ اسے بھائی کہا گیا ہے۔ آپا کے ’’بھائی صاحب‘‘ اور باجی کے ’’بھائی جاآن‘‘ میں کتنا فرق تھا۔

باجی کے آنے پر آپا کا بیٹھ رہنا بالکل بیٹھ رہنا ہو گیا۔ بدو نے بھائی جان سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ وہ باجی کے گرد طواف کرتا رہتا اور باجی بھائی جان سے کبھی شطرنج اور کبھی کیرم کھیلتی۔

باجی کہتی۔ ’’بھئی جاآن ایک بورڈ لگے گا۔ ‘‘ یا بھائی جان باجی کی موجودگی میں بدو سے کہتے۔ ’’کیوں میاں بدو کوئی ہے جو ہم سے شطرنج میں پٹنا چاہتا ہو؟‘‘ باجی بول اٹھتی۔ ’’آپا سے پوچھئے۔ ‘‘ بھائی کہتے۔ ’’اور تم…‘‘ باجی جھوٹ موٹ کی سوچ میں پڑ جاتی۔ چہرے پر سنجیدگی پیدا کر لیتی۔ بھوئیں سمٹا لیتی اور تیوری چڑھا کر کھڑی ہو جاتی پھر کہتی۔ ’’اونہہ مجھ سے تو آپ پٹ جائیں گے۔‘‘ بھائی جان کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے۔ ’’کل جو پٹی تھیں، بھول گئیں کیا؟‘‘ وہ جواب دیتی۔ ’’میں نے کہا چلو بھئی جاآن کا لحاظ کرو۔ ورنہ دنیا کیا کہے گی کہ مجھ سے ہار گئے۔‘‘ اور پھر یوں ہنستی جیسے گھنگھرو بج رہے ہوں۔

رات کو بھائی جان باورچی خانے میں ہی کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ آپا چپ چاپ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی۔ بدو چھاجو باجی، چھاجو باجی کہتا ہوا باجی کا پلو پکڑے اس کے آس پاس گھوم رہا تھا۔ باجی بھائی جان کو چھیڑ رہی تھی۔ کہتی تھی۔ ’’بھائی جاآن تو صرف ساڑھے چھ پھلکے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرنی کی پلیٹ مل جائے تو قطعی مضائقہ نہیں۔ کریں بھی کیا۔ نہ کھائی تو ممانی ناراض ہو جائیں۔ انہیں جو خوش رکھنا ہوا۔ ہے نا بھئی جاآن۔‘‘ ہم سب اس بات پر خوب ہنسے۔ پھر باجی ادھر ادھر ٹہلنے لگی اور آپا کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ آپا کے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی پڑی تھی۔ باجی نے ڈھکنا سرکا کر دیکھا اور کشتی کو اٹھا لیا۔ پیشتر اس کے آپا کچھ کہہ سکے، باجی وہ کشتی بھائی جان کی طرف لے آئی۔ ’’لیجئے بھائی جاآن!‘‘ اس نے آنکھوں میں ہنستے ہوئے کہا۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ ساجو باجی نے کبھی کچھ کھلایا ہی نہیں۔‘‘

بھائی جان نے دو تین چمچے منہ میں ٹھونس کر کہا۔ ’’خدا کی قسم بہت اچھا بنا ہے۔ کس نے بنایا ہے؟‘‘ باجی نے آپا کی طرف کنکھیوں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ساجو باجی نے اور کس نے بھئی جاآن کے لئے۔‘‘ بدو نے آپا کے منہ کی طرف غور سے دیکھا۔ آپا کا منہ لال ہو رہا تھا۔ بدو چلا اٹھا۔ ’’میں بتاؤں بھائی جان…‘‘ آپا نے بڑھ کر بدو کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے گود میں اٹھا کر باہر چلی گئی۔ باجی کے قہقہوں سے کمرہ گونج اٹھا اور بدو کی بات آئی گئی ہو گئی۔ بھائی جان نے باجی کی طرف دیکھا۔ پھر جانے انہیں کیا ہوا۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں باجی کے چہرے پر گڑ گئیں۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا جیسے کوئی زبردستی مجھے کمرے سے باہر گھسیٹ رہا ہو۔ میں باہر چلی آئی۔ باہر آپا، الگنی کے قریب کھڑی تھی۔ اندر بھائی صاحب نے مدھم آواز میں کچھ کہا۔ آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا دیا۔ پھر باجی کی آواز آئی۔ ’’چھوڑئیے چھوڑئیے‘‘ اور پھر خاموشی چھا گئی۔

اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اس وقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ بدو بھی کہیں ادھر ادھر ہی کھیل رہا تھا۔ باجی حسب معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی۔ ’’آج ایک دھندناتا بورڈ کر دکھاؤں۔ کیا رائے ہے آپ کی؟‘‘بھائی جان بولے۔ ’’واہ یہاں کک لگاؤں تو جانے کہاں جا پڑو۔‘‘ غالباً انہوں نے باجی کی طرف زور سے پیر چلایا ہو گا۔ وہ بناوٹی غصے میں چلائی۔ ’’واہ آپ تو ہمیشہ پیر ہی سے چھیڑتے ہیں۔‘‘ بھائی جان معاً بول اٹھے۔ ’’تو کیا ہاتھ سے…‘‘، ’’چپ خاموش۔‘‘ باجی چیخی۔ اس کے بھاگنے کی آواز آئی۔ ایک منٹ تک تو پکڑ دھکڑ سنائی دی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

اتنے میں کہیں سے بدو بھاگتا ہوا آیا۔ کہنے لگا۔ ’’آپا اندر بھائی جان باجی سے کشتی لڑ رہے ہیں۔ چلو دکھاؤں تمہیں۔ چلو بھی۔‘‘ وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ آپا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ وہ بت بنی کھڑی تھی۔ بدو نے آپا کو چھوڑ دیا۔ کہنے لگا۔ ’’اماں کہاں ہے؟‘‘ اور وہ ماں کے پاس جانے کے لیے دوڑا۔ آپا نے لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا اور باورچی خانے میں لے گئی۔

اسی شام میں نے اپنی کتابوں کی الماری کھولی تو اس میں آپا کی ’’ہارٹ بریک ہاؤس‘‘ پڑی تھی۔ شاید آپا نے اسے وہاں رکھ دیا ہو۔ میں حیران ہوئی کہ بات کیا ہے۔ مگر آپا باورچی خانے میں چپ چاپ بیٹھی تھی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس کے پیچھے فروٹ سلاد والی کشتی خالی پڑی تھی۔ البتہ آپا کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔

بھائی تصدق اور باجی کی شادی کے دو سال بعد ہمیں پہلی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اب باجی وہ باجی نہ تھی۔ اس کے قہقہے بھی نہ تھے۔ اس کا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر شکن چڑھی تھی۔ بھائی جان بھی چپ چپ رہتے تھے۔ ایک شام اماں کے سوا ہم سب باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ بھائی کہنے لگے۔ ’’بدو ساجو باجی سے بیاہ کرو گے؟‘‘

’’اونہہ۔ ‘‘ بدو نے کہا۔ ’’ہم باہ کریں گے ہی نہیں۔‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’بھائی جان یاد ہے جب بدو کہا کر تا تھا۔ ہم تو چھاجو باجی سے باہ کریں گے۔‘‘ اماں نے پوچھا ’’آپا سے کیوں نہیں؟‘‘ تو کہنے لگا ’’بتاؤں آپا کیسی ہے؟‘‘ پھر چولھے میں جلے ہوئے اوپلے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ ’’ایسی!‘‘ اور چھاجو باجی؟ میں نے بدو کی طرح بجلی کے روشن بلب کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔’’ایسی!‘‘ عین اسی وقت بجلی بجھ گئی اور کمرے میں انگاروں کی روشنی کے سوا اندھیرا چھا گیا۔ ’’ہاں یاد ہے!‘‘ بھائی جان نے کہا۔ پھر جب باجی کسی کام کے لئے باہر چلی گئی تو بھائی کہنے لگے۔ ’’نہ جانے اب بجلی کو کیا ہو گیا۔

جلتی بجھتی رہتی ہے۔‘‘ آپا چپ چاپ بیٹھی چولھے میں راکھ سے دبی ہوئی چنگاریوں کو کرید رہی تھی۔ بھائی جان نے مغموم سی آواز میں کہا ’’اف کتنی سردی ہے۔‘‘ پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور ان سلگتے ہوئے اوپلوں سے آگ سینکنے لگے۔ بولے۔ ’’ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جھلسے ہوئے اوپلوں میں آگ دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ کیوں سجدے؟‘‘ آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔ بھائی جان منت بھری آواز میں کہنے لگے۔ ’’اب اس چنگاری کو تو نہ بجھاؤ سجدے، دیکھو تو کتنی ٹھنڈ ہے۔‘‘

The post آپا appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے نیٹ میں فیک نیوزکی بھارتی فیکٹریاں

$
0
0

 بھارت کی مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں مسلم دشمن شہریت کا قانون منظور کرا کر انسانی حقوق پیروں تلے روند ڈالے۔بھارتی حکمران طبقہ نہتے کشمیریوں پر لرزہ خیز ظلم وستم کر رہا ہے۔

اس نے بھارتی مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ عالمی سطح پر بھارت کے بجائے پاکستان کو فسادی ودہشت گرد ملک سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی حکومت کو بین الاقومی فورموں میں صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں جبکہ بھارت ترقی کرتا روشن خیال ملک قرار پاتا ہے۔

یا الہی، یہ ماجرا کیا ہے؟دور جدید میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے میں دنیائے نیٹ میں گردش کرتی جھوٹی خبریں یعنی فیک نیوز بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔درحقیقت یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘کا کاری ہتھیار بن چکیں ۔دور جدید کے اس طریق جنگ میں ہر ممکن طریقے سے ایک مملکت کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچایا جاتا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جاسکے۔ مثلاً بھارتی حکومت ٹویٹر پر مسلمانوں والے ناموں کے جعلی اکاؤنٹ بنا کر شہریت بل کے حق میں ٹویٹ کرتی رہی۔

چال بازی دنیا والوں پر آشکارا

یورپی یونین کی تنظیموں نے چند ماہ قبل یہ حیرت انگیز سچائی افشا کی کہ بھارت نے دنیا کے65 ممالک میںجعلی و جھوٹی خبریں تخلیق کرنے والی 265 نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ ان  سے مسلسل پاکستان کے خلاف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر  ’’فیک‘‘ خبریں پھیلائی جارہی تھیں تاکہ مملکت پاک کو عالمی سطح پر بدنام کیا جاسکے۔

یوں عیار و مکار بھارتی حکمران طبقے کی ایک اور چال بازی دنیا والوں پر آشکارا ہوگئی۔ اردو میں اسی طبقے کے متعلق یہ مثل بجا طور پر تخلیق ہوئی: ’’بغل میں چھری، منہ پر رام رام۔‘‘ بھارتی حکمران بظاہر دیانت دار اور معاملات میں کھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن اندرون خانہ وہ عیاری و مکاری کا مثالی نمونہ ہیں۔

دور جدید میں دنیائے انٹرنیٹ تازہ ترین خبروں اور معلومات کی فراہمی اور باہمی رابطے کاایک بڑا ذریعہ بن چکی۔ آج صرف پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد مردوزن نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ نیٹ پر خبریں بہم پہنچانے والی ہزارہا نیوز ویب سائٹس وجود میں آچکیں۔ سوشل میڈیا کی سائٹس بھی تازہ خبریں اور معلومات فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ چناں چہ اب نیٹ کاطاقتورمیڈیا بھی بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا اور مختلف رجحانات کی سمت متعین کرتا ہے۔

نیٹ کی بڑھتی مقبولیت نے ہی مگر اسے حکومتوں کی توجہ کا بھی مرکز بنا دیا۔ یہ حکومتیں اب دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی خاطر جعلی و جھوٹی خبریں اور معلومات کا سہارا لے رہی ہیں۔ یہ خبریں حکومتی ویب سائٹوں کے علاوہ ایسی نیوز سائٹس سے بھی دنیائے نیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں جو بظاہر کسی حکومت سے تعلق نہیں رکھتیں۔

بھارت کی شاطر مودی حکومت نے دنیا بھر میں ایسی ہی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک قائم کررکھا تھا۔ ان کے ذریعے پاکستان کے خلاف جعلی خبریں اور مضمون نیٹ میں پھینکے جارہے تھے تاکہ خصوصاً یورپی ممالک اور امریکا و کینیڈا میں پاکستانی حکومت کی ساکھ متاثر کی جاسکے۔ ان ملکوں کے عوام و خواص میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کے خلاف منفی و نفرت انگیزجذبات و خیالات جنم لے سکیں۔گویا بھارتی نفرت کی نفسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔ان سبھی سائٹس نے فیس بک اور ٹوٹیر پر بھی اپنے اکاؤنٹ کھول رکھے تھے۔

ایک غلطی مہنگی پڑی

چانکیہ فلسفے کی پیروکار مودی حکومت کا پاکستان کے خلاف مکروہ اور گھناؤنا منصوبہ اتفاق سے پکڑا گیا۔ کہتے ہیں کہ شاطر ترین مجرم بھی جرم انجام دیتے ہوئے، کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کرجاتا ہے کہ اس کے ذریعے قانون کے ہاتھ مجرموں کی گردن تک پہنچ سکیں۔

جعلی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتیوں سے بھی بے پناہ احتیاط کے باوجود ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ہوا یہ کہ بھارتی نیٹ ورک کے کرتا دھرتا اپنی ایک ویب سائٹ eptoday.com پر روس کے نیوز چینل، آرٹی کام اور امریکی نیوز ادارے، وائس آف امریکا کی رپورٹس کثیر تعداد میں دینے لگے۔ کسی نے یورپی یونین کے ادارے، ایسٹ سٹارٹ کام ٹاسک فورس(East StratCom Task Force) کو شکایت کردی۔ یہ ادارہ یورپی ممالک میں جعلی خبریں و معلومات دینے والی نیوز سائٹس پر نظر رکھتا اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے۔

اوائل اکتوبر میں ادارے نے یہ خبر دی کہ eptoday.com مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہے۔یہ خبر برسلز (بیلجیئم) میں متحرک ایک غیر سرکاری تنظیم، ای یوڈس انفولیب(EU DisinfoLab) کے کارپردازوں کی نظر سے بھی گزری۔ اس غیر سرکاری تنظیم سے منسلک افراد بھی یورپی یونین میں جعلی نیوز ویب سائٹس کی کھوج میں رہتے اور ان کی اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ اب eptoday.com سے متعلق خبر نے ان کے کان کھڑے کردیئے۔ وہ فوراً اس نیوز ویب سائٹ پر پہنچے اور اس کے مواد کی جانچ پڑتال کرنے لگے۔

ای پی ٹوڈے ویب سائٹ نے دعویٰ کررکھا تھا کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور سے متعلق مضامین و خبریں شائع کرنے والا ایک رسالہ شائع کرتی ہے۔ لیکن جب ای یوڈس انفولیب کے ماہرین نے ویب سائٹ پر موجود مواد کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ مضامین کی اکثریت کا تعلق پاکستانی اقلیتوں کے بے بنیاد مسائل، بلوچستان میں جاری نام نہاد بغاوت اور دیگر بھارتی امور سے ہے۔

گویا مضامین میں یورپی ممالک نہیں پاکستان اور بھارت کے امور زیر بحث تھے۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ سبھی مضامین پاکستان کے خلاف تھے۔ ہر مضمون میں پاکستانی حکومت پر کوئی نہ کوئی الزام دھرا گیا اور پاکستان نشانہ بنا تھا۔

ای یو ڈس انفولیب میں یہ بندوبست موجود ہے کہ دیکھا جاسکے، کوئی بھی نیوز ویب سائٹ کہاں سے لانچ کی گئی، اس کا سرور کہاں واقع ہے اور کون اسے چلا رہا ہے۔ یہ معلومات مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئرز اور افرادی قوت کے ملاپ سے اکٹھی کی جاتی ہے۔ چناں چہ تنظیم کے ماہرین یہ جاننے کی خاطر سرگرم ہوگئے کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ کے پیچھے کون لوگ کارفرما ہیں۔ اس نیوز ویب سائٹ کی ماہیت نے انہیں چوکنا کردیا تھا۔ بظاہر وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور کی سائٹ تھی لیکن اس کے مضامین بھارتی حکومت کے جغرافیائی سیاسی (جیوپولیٹیکل)مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ اسی بات نے جعلی خبروں پر نگاہ رکھنے والی یورپی غیر سرکاری تنظیم کے ماہروں کو ہوشیار کردیا۔

مالک بھارتی نکل آئے

تحقیق شروع ہوئی تو آئی پی ایڈریسوں، سروروں، روٹروں اور ویب سائٹس کے دیگر متعلقہ آلات اور سافٹ ویئرز کی مدد سے ماہرین نے آخر کار پتا چلا لیا کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ نئی دہلی کی ایک کمپنی نے کھول رکھی ہے۔ گویا اس ویب سائٹ کے مالکان بھارتی نکل آئے۔ یہ کمپنی ایک بھارتی کاروباری گروپ، سری واستو گروپ کی ملکیت تھی۔جب تحقیق کا دائرہ کار پھیلا، تو یہ نیا انکشاف ہوا کہ سری واستو گروپ سے منسلک دیگر کمپنیوں اور تھنک ٹینکس نے بھی مختلف ممالک میں نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہے۔ گویا وہ بھارتی افراد کی ملکیت تھیں… لیکن نیوز ویب سائٹس کے ناموں سے عیاں نہیں تھا کہ وہ بھارتی باشندوں نے کھولی ہوئی  ہیں۔

ان ویب سائٹس کے نام ملاحظہ فرمائیں: ٹائمز آف جنیوا ، دی امریکن ویکلی، ٹائمز آف بلغاریہ، ٹائمز آف سائپرس، دی دہلی ٹائمز، ٹائمز آف لاس اینجلس، نیویارک مارننگ ٹیلی گراف، ٹائمز آف پیاننگ،فور نیوز ایجنسی اور اسی قسم کے دیگر نام۔ان سے عیاں ہے کہ جعلی ویب سائٹوں کے نام مشہور اخبارات کے ناموں سے ملتے جلتے رکھے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ ان ویب سائٹس پر آنے والے لوگ انہیں معیاری اور مصدقہ تسلیم کرلیں۔ اس طرح عام لوگوں کو چکمہ دینے اور ان کی نفسیات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی سعی ہوئی کہ ویب سائٹوں پر قابل اعتماد مواد موجود ہے حالانکہ وہ سراسر بوگس اور جھوٹا تھا۔

سائٹس کھولنے والوں کے لمبے ہاتھ

ای یو ڈس انفولیب کی انقلابی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ دہلی میں واقع ایک بھارتی تھنک ٹینک، دی انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائینڈ اسٹڈیز ( the International Institute for Non-Aligned Studies) بھی سری واستو گروپ کی ملکیت ہے۔

اسی تھنک ٹینک نے ماہ نومبر میں انتہا پسند اور قوم پرست یورپی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بائیس ارکان پارلیمنٹ کو بھارت بلاکر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تھا۔ مدعا دنیا والوں کو یہ دکھانا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں امن و امان ہے۔

حد یہ ہے کہ یورپ میں جن تنظیموں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ انہیں پاکستانی حکومت کے مخالف پاکستانی ہی چلا رہے ہیں، وہ بھی بھارتیوں کی تخلیق کردہ نکلیں۔ ای یو ڈیس انفولیب کی تحقیق نے یہ زبردست انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا میں متحرک دو تنظیموں … یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائنیٹریز (European Organisation for Pakistani Minorities) اور پاکستانی وومنز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن(Pakistani Women’s Human Rights Organisation) کی ویب سائٹس بھارتی افراد کی ملکیت ہیں۔

یاد رہے، جب بھی یورپی پارلیمنٹ کا اجلاس  یا کوئی عالمی تقریب کسی یورپی ملک میں منعقد ہو، تو اس موقع پر درج بالا تنظیمیں پاکستانی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اب ای یو ڈس انفولیب نے انکشاف کیا ہے کہ ان پاکستان دشمن تنظیموں کے کرتا دھرتا ایسے بھارتی ہیں جنہیں شاید مودی حکومت سے بھاری فنڈز ملتے ہیں۔ یہ فنڈز پھر دنیائے نیٹ میں پاکستان کو بدنام کرنے والی جعلی نیوز ویب سائٹس چلانے میں کام آتے ہیں جو نفرت انگیز جھوٹی خبریں خصوصاً سوشل میڈیا میں پھیلاتی ہیں۔

کمزور کے ساتھی

ای یو ڈس انفولیب کے ماہرین  ایک انوکھی وجہ سے بھی بھارتیوں کی ملکیت فیک نیوز پیدا کرنے والی 265 نیوز سائٹس پکڑنے میں کامیاب رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سبھی سائٹس میں ایک جیسا مواد بکثرت موجود تھا۔ جب کسی ویب سائٹس سے نئی پاکستان مخالف خبر چلتی، تو وہ جلد ہی تمام جعلی نیوز سائٹس پر چلا دی جاتی۔

بھارتیوں نے یہ ویب سائٹس آسٹریلیا سے لے کر دنیا کے ہر براعظم میں واقع ممالک میں قائم کررکھی تھیں تاکہ پاکستان کو بدنام کرنے کی بھر پور مہم چلائی جاسکے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ابھی دنیا میں ای ڈس انفولیب جیسے غیر جانب دار ادارے اور انہیں چلانے والے حق گو موجود ہیں جو ظلم کرنے میں طاقتوروں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ کمزور کا ساتھی بن کر اس کی حمایت کرتے اور علی الاعلان سچائی سامنے لاتے ہیں۔ ان جیسے اداروں اور افراد کے ذریعے تمام تر شر اور برائی کے باوجود آج بھی دنیا میں آخر کار خیر اور اچھائی کا بول بالا ہی ہوتا ہے۔ای یو ڈس انفولیب کے چشم کشا انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق   جعلی نیوز سائٹس میں سے اکثر بند کرچکے۔

ای یو ڈس انفولیب کی تحقیق پاکستان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئی۔ اس کے ذریعے مغربی ممالک میں آباد کروڑوں مغربیوں کو علم ہوا کہ بھارت کیونکر دنیائے انٹرنیٹ میں پاکستان کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلارہا ہے تاکہ پاکستانی حکمران طبقے اور عوام کو برا ثابت کیا جاسکے۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ دنیا کے عامی میڈیا نے بھارت کی جعلی 265 نیوز سائٹس کی خبر نشر نہیں کی۔ بی بی سی، سی این این این، آر ٹی کام، فارن پالیسی وغیرہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد معلومات والے مضامین اکثر چھاپتے ہیں۔ مگر جب پاکستان کے حق میں کوئی خبر جنم لے تو عموماً اس سے چشم پوشی برتی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا کو یہ منافقانہ پالیسی بدل لینی چاہیے۔

چوکنا رہنے کی ضرورت

ای یو ڈس انفولیب کا چشم کشا انکشاف اہل پاکستان کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ نیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہر خبر ،ہر معلومات پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار نہ کریں بلکہ پہلے اسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں۔پاکستانی قوم کو سوشل میڈیا پہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جھوٹی اور سچی خبروں کے مابین تمیز کر سکے۔یہ عیاں ہے کہ دشمنوں نے نیٹ پر فیک نیوز پھیلانے کی خاطر سیکڑوں ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔

ان کا طریق واردات یہ ہے کہ کسی تنازع پر ہزارہا پوسٹس تخیلق کی جاتی ہیں تاکہ پڑھنے والا ان کا جھوٹ سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔مثال کے طور پر بھارت کی جعلی نیوز سائٹس ہزارہا فیک خبریں اور مضامین نیٹ و سوشل میڈیا میں پھیلا کر لاکھوں کروڑوں مردوزن میں یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ بین الاقوامی برداری مقبوضہ کشمیر،بابری مسجد کیس،گاؤکشی اور آسامی مسلمانوں سے وابستہ نہایت حساس تنازعات میں بھارت کی حمایت کرتی ہے۔نازی پروپیگنڈہ وزیر، جوزف گوئبلز کا یہ قول ہمیں یاد رکھنا چاہیے:’’جھوٹ ایک بار بولا جائے تو وہ جھوٹ ہی رہتا ہے۔لیکن جو جھوٹ ہزار بار بولا جائے،وہ سچ بن جاتا ہے۔‘‘اسی طرح برطانوی ادیب جارج برنارڈ شا کا قول ہے:’’گمراہ کن خبروں اور معلومات سے خبردار رہیے۔ یہ جہالت سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں۔‘‘

The post دنیائے نیٹ میں فیک نیوزکی بھارتی فیکٹریاں appeared first on ایکسپریس اردو.

ہائے وہ سُرخ یادیں

$
0
0

میکسم گورکی کا شاہ کار ’’ماں‘‘ پڑھیے، پھر جارج آرویل کے ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کا مطالعہ کیجیے، پہلی کتاب پڑھ کر آپ کو پتا چلے گا کہ روس میں کمیونسٹ انقلاب کیوں آیا اور دوسری بتائے گی کہ کیوں گیا۔ یہ تخلیقات ہمیں ’’جب لال لال لہرائے گا، تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘‘ کے فضا میں لہراتے نعرے سُن کر یاد آئیں۔

روس وہ پہلا ملک تھا جہاں لال لال لہرایا تھا، پھر ہوش ٹھکانے آیا تھا۔ ابھی کوئی دو سال قبل روس میں برپا ہونے والے انقلاب کو سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ادھر یہ انقلاب اَڑا اَڑا دھم ہوا، ادھر اس کی ڈوریوں سے بندھی ریاست سوویت یونین نئی نویلی بیوہ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹ بکھری۔ اس انقلاب کی یاد کیا آئی ساتھ یادوں کی برأت چلی آئی۔

پہلی یاد سرخ سویرے کی تھی، جس کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ جب بھی پوپھٹے ہی آنکھیں مچ مچا کر آسمان کی طرف دیکھا، وہی داغ داغ سویرا اور شب گزیدہ سحر کا منظر تھا۔ ناامید ہوگئے، اور پچھلی گلی میں جاکر اطلاع کردی کہ کچھ دن اور مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سرخ سویرا آیا کہ آیا، انتظار میں جاگتی آنکھیں جاگ جاگ کر سرخ انگارہ ہوگئیں، سرخ سویرے کو آنا تھا نہ آیا۔ ویسے ہمارے ایک زاہدِ شب بیدار دوست بتاتے ہیں، ’’میاں! سرخ سویرا کئی بار آیا۔

ہم نے خود دیکھا ایمان سے اور دیکھ کر ایسے ڈرے کہ دروازے پر لگی نام کی تختی سے حاجی کا سابقہ کھرچ کر کامریڈ لکھ دیا۔ سوچ لیا کہ داڑھی کی تراش خراش چھوڑ دیں گے اور پھر ہماری ریش مبارک جو شکل اختیار کرے گی اسے مارکس کی محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔

ابھی ہم خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ دیکھا سرخ سویرا الٹے پاؤں واپس جارہا ہے۔ پوچھا بھیے! کیا ہوا، کہاں چلے؟ جواب ملا، ارے جاؤں نہ تو کیا کروں، جو میرے انتظار میں تھے، جنھیں میرا استقبال کرنا تھا، ان میں سے زیادہ تر رات سرخی میں ڈوب کر اس کا خمار لیے سو رہے ہیں۔ ‘‘

اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ سرخ سویرا بددل ہوکر نہیں آیا۔

سرخ سویرے کی طرح ایک سرخ سلام بھی ہوا کرتا تھا۔ سلام اگرچہ سبز ہے، یعنی اسلامی رواج ہے اور سلام کرتے ہوئے دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے، لیکن بائیں بازو کے ہتھے چڑھ کے اس کی رنگت بدل گئی۔ ایک سلام کیا، حضرت غلام احمد پرویز نے تو پورا سرخ اسلام پیش کردیا تھا۔

بہ ہر حال، ایک زمانے میں سرخ سلام سے دیواریں رنگی ہوتی تھیں۔ اب کراچی کی دیواروں پر تو یہ نعرے کالے جادو کے اشتہارات اور مردانہ کم زوری کے شرطیہ علاج کی تحریروں کے پیچھے کہیں کھوچکے ہیں، باقی شہروں کی خبر نہیں۔

ہمارے کمیونسٹوں کے پاس جس طرح ’’ریڈسلیوٹ‘‘ کا نعم البدل نہیں تھا اور انھیں ’’رجعت پسندوں‘‘ کا سلام اچک لینا پڑا، اسی طرح ان کے پاس اپنے مقتولوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی اصطلاح نہ تھی، سو اسلامی روایت سے شہادت اور شہید پر ہاتھ صاف کیے گئے۔ یوں تو شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن لیکن جن دنوں کا ذکر ہے ان دنوں مومنوں کی شہادت پر پابندی تھی اور ایک مذہبی جماعت کے بانی پھانسی سے بال بال بچے تھے، اس جماعت کے بال بچے بھی خیریت سے تھے۔ شہادت انھیں مطلوب ہوگئی جنہیں جنت کی آس بھی نہیں تھی۔ چناں چہ حسن ناصر اور نذیر عباسی کو حراست میں لے کر منزل مقصود تک پہنچا دیا گیا، اور جام ساقی جیسے کتنے ہی سرخے برسوں کال کوٹھریوں کے اندھیرے میں سرخ سویرا ڈھونڈتے رہے۔

خیر ہوئی کہ اس وقت تک ہمارے سرخوں نے دیگر اسلامی اصطلاحات کا رخ نہیں کیا تھا، ورنہ افغانستان پر سوویت یلغار جہاد قرار پاتی، نکسل باڑی مجاہدین کہے جاتے، پارٹی کا چیئرمین امیرالمزدور کا خطاب لیے مسند نشیں ہوتا، اور اگر پاکستان میں سرخ انقلاب آجاتا تو ملک کا سربراہ خلیفۃ المحنت کشاں کہلاتا۔ یہ اصطلاحات سرخوں سے تو بچ گئیں، لیکن امریکی سیاہ کاریوں کے کام آگئیں۔

ارے امریکی سے یاد آیا، ایک امریکی سام راج بھی ہوا کرتا تھا۔ بہت دنوں سے اس کا ذکر نہیں سنا، جانے کہاں گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب جماعت اسلامی سمیت پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو امریکا پر غصہ نہیں آیا تھا، نہ جمعہ وار امریکا مخالف بے ضرر اور معصوم سے مظاہرے تھے، نہ ا اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ امریکی پرچم جلنے کے نظارے۔ دراصل اس زمانے میں شہادت کی طرح امریکا کی مخالفت اور مذمت بھی کمیونسٹوں، بائیں بازو یا ترقی پسندوں (جنھیں اس وقت ترقی پسند نہیں تھی، بعد میں انھوں نے بہت ترقی کی) کا فریضہ قرار پائی تھی۔ یہ مخالفت مملکت خداداد پر حملہ تصور کی جاتی تھی، اور کیوں نہ کی جاتی کہ ایک طرف یو ایس ایڈ تھی اور دوسری طرف غریب ریڈ کامریڈ۔

کامریڈ امریکی سام راج کی مختلف ملکوں میں مداخلت کے خلاف احتجاج کرنا فرض عین سمجھتے تھے (مگر اب کوئی ایسا کرے تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توکا قوم پرستانہ مشورہ دیا جاتا ہے)، مداخلت کا مطلب صرف امریکی مداخلت تھی، سوویت یونین کی افغانستان سمیت کسی بھی ملک میں دخل اندازی پر نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی کامریڈ پسند نہیں کرتے تھے۔ وہی بات، شہادت کے لفظ کی طرح مسلمانی کلیہ اپناتے ہوئے قرار دے دیا گیا تھا کہ۔۔۔ ’’سرخے‘‘ ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا۔

سوویت یونین کے زوال کے ساتھ ہی اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے کے مصداق امریکی سام راج بھی شاید نہ رہا کہ اس کے خلاف نعرے معدوم ہوگئے، بل کہ ہوا یوں کہ جیسے کوئی کھلونا ایک بچے کے کھیلنے کے بعد دوسرے کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح یہ نعرے بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو کے ہاتھ پر رکھ دیے گئے، کہ ببلو کھیل چکا، لو منے! اب تم کھیلو، پھر یہ کھیل منے نے کھیلا، بس سام کی جگہ دشمن اسلام کی لفظی تبدیلی کے ساتھ۔ اس دوران ایک روز اکثر کمیونسٹوں کو اچانک پتا چلا کہ ارے ہم تو لبرل ہیں، پھر تو یہ پہچاننا مشکل ہوگیا کہ امریکی بیانیہ پیش کرتا یہ ماضی کا سرخ نوجوان ہے یا وہائٹ ہاؤس کا بزرگ ترجمان۔

اُس وقت کمیونسٹ کا مطلب ملحد، تخریب کار اور غدار لیا جاتا تھا اور طبقاتی تقسیم کا ذکر نظریہ پاکستان پر حملہ ہوا کرتا تھا، جس کا جواب ضرب لگا کر دیا جاتا تھا۔ ایسا کرنے سے امریکی سردار خوش ہوتا تھا اور شاباشی دیتا تھا۔

پاکستان کی خوش نصیبی کہ یہاں کمیونزم اور سوشلزم لانے کا بیڑا سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں نے اٹھایا، انھوں نے سوچا کہ مزدوروں اور کسانوں کے ناتواں کاندھے کہاں یہ بوجھ اٹھا پائیں گے، سو جھٹ آگے بڑھ کے سرخ پرچم تھام لیا۔ پھر کسی نے دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ کا نعرہ لگاتے کمیونزم کو علاقائی قوم پرستی میں ضم کردیا تو کوئی سوشلزم کو اسلام کا سابقہ لگا کے کھاگیا۔

ایسے میں جب نظریاتی بحثوں میں سر دھنتے اور ماسکونوازی اور پیکنگ نوازی میں سے کسی کو چُنتے کَھرے سرخوں نے ہوش میں آکے نظر اٹھائی تو سر پر سوویت یونین تو کیا ٹریڈ یونین کا سایہ بھی نہیں تھا، سرخ پرچم لال چنری بنا ہوا میں اڑ چکا تھا، امریکا مخالف نعرے مذہبی جماعتوں نے ہتھیا لیے تھے، سورگ باشی سوویت یونین کی ہمارے ہاں موجود آخری نشانیوں میں سے کلاشنکوف بچی تھی یا پاکستان اسٹیل ملز، اسٹیل مل مر رہی تھی اور کلاشنکوف مار رہی تھی۔ اس مایوس کن صورت حال میں کسی سرخے نے این جی او کی نوکری پکڑی، تو کسی نے ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ ‘‘ جیسی کتابیں تھامیں اور مسجد کی راہ لی۔ باقی بچنے والے وہ تھے جو رکھے رکھے دانش ور بن چکے تھے، اب وہ کمیونسٹ لٹریچر سے فال نکال کر مختلف ممالک میں سرخ انقلاب آوے ہی آوے کی پیش گوئیاں کرتے اور خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔

ہائے وہ بھی کیا دن تھے، لوگ سام راج، کام (ریڈ) راج اور شیخ الاسلام راج کی بحثوں میں الجھے رہتے تھے اور ان کی الجھنیں اور معاملات سلجھانے یونیفارم راج آجاتا تھا۔ سرخے اور سبزے اس حقیقت سے بے خبر ہی رہے کہ اس دیس پر بس یونیفارم راج رہے گا، اور اس سچ سے آشنا نہ ہوسکتے کہ پاکستان سرخ ہے نہ سبز، یہ تو خاکی ہے اور علامہ اقبال فرما ہی چکے ہیں کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔

 

The post ہائے وہ سُرخ یادیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 72

حنیف بھائی برسات کا طوفان بنے ہوئے تھے، اُن کی آنکھوں سے رنج و غم و ملال ساون کی جھڑی کی طرح بہہ رہے تھے۔ انہیں آہ و زاری روا تھی کہ بابا جی حضور نے انہیں انتہائی لاڈ پیار سے پالا تھا، ان کی ہر خواہش پوری کی تھی، وہ انہیں دوبارہ زندگی کی طرف لائے تھے، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے ان کی تلخ نوائی کو برداشت کیا تھا اور ہمیشہ ان کی گستاخی کو بھی درگزر کیا اور انہیں معصوم بچہ سمجھتے ہوئے معاف کیا تھا۔ وہ خود تو ان کی ہر تلخ بات کو خندہ جبیں سے سہتے تھے لیکن اگر کوئی حنیف بھائی سے گستاخی کا سوچتا بھی تو اسے بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔

فقیر کو تو اس کا تجربہ بھی تھا کہ جب اُس نے حنیف بھائی سے بدتمیزی کی تو اسے پابندِ زنجیر کیا گیا۔ فقیر اس کا بھی عینی شاہد ہے کہ بابا جی حضور اپنے اس دعوے میں کامل صادق تھے کہ انہوں نے حنیف بھائی کو ماں کی طرح پالا پوسا ہے، اور پھر حنیف بھائی کی زندگی کے سب سے بڑے خواب اُس ماہ وش سے جیون بندھن میں بندھنے کو بھی شرمندۂ تعبیر کیا تھا اور یہ سارے امور بہ حُسن و خوبی و اہتمام سر انجام دینے کے بعد بابا جی اس دنیائے ناپائیدار سے رخصت ہوئے تھے۔ اور بابا جی حضور نے ان کے لیے کیا کِیا تھا! فقیر آپ کو آگے بتائے گا۔

حنیف بھائی کا سنبھلنا مشکل ہوگیا تھا اور ان کی حالت دیکھ کر وہ ماہ وش بھی انتہائی آزردہ تھی۔ آخر لوہار بابا نے انہیں فقیر سے علاحدہ کیا اور پھر خود ان کا سہارا بنے۔ انہیں کچھ قرار آیا اور وہ گفت گُو کے قابل ہوئے تو فقیر سے بابا جی حضور کی رخصتی کی تفصیل معلوم کی، جو فقیر نے مختصر اُن کے گوش گزار کی۔

ان کا سب سے بڑا شکوہ کہ انہیں فقیر نے بروقت اطلاع کیوں نہیں دی تو فقیر نے بابا جی حضور کا خط انہیں دیتے ہوئے بتایا کہ یہ بھی بابا جی کا حکم تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع نہیں دی جائے اور بس یہ خط آپ تک پہنچا دیا جائے سو فقیر یہ آپ کے حوالے کر رہا ہے۔ حنیف بھائی کے ہاتھ سے وہ خط اس ماہ وش نے اچک لیا تھا اور پھر تو منظر ہی بدل گیا۔ چوں کہ وہ خط بابا جی نے فقیر سے ہی رقم کرایا تھا تو فقیر اس کے مندرجات سے آگاہ تھا۔

بابا جی حضور نے انہیں نیک زندگی گزارنے اور اپنے سسرال سے انتہائی ادب و احترام کا درس دیتے ہوئے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ کسی بھی حالت میں اپنی ساس سسر کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے، ان کی تلخ نوائی کو بھی برداشت کریں گے اور انہیں حقیقی ماں باپ سمجھتے ہوئے ان کے سامنے اُف بھی نہیں کہیں گے۔

بابا جی حضور نے انہیں اس ماہ وش سے انتہائی حسنِ سلوک کی تلقین کی تھی اور تنبہہ بھی کہ اگر انہوں نے ان کی حکم عدولی کی تو وہ روزِ قیامت ان کا گریبان پکڑیں گے، اس کے ساتھ انہوں نے حنیف بھائی کے لیے خطیر رقم بھی ایک صاحب کے پاس امانتاً رکھوائی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان سے یہ خط دکھا کر وصول کرلیں، کسی پر بار نہ بنیں اور اس رقم سے ایمان داری سے اپنا کاروبار کریں تو رب تعالٰی برکت عطا فرمائے گا اور انہیں کسی کا بھی محتاج نہیں رکھے گا۔

انہوں نے انہیں انتہائی تلقین کی تھی کہ وہ اپنی آمدن کا ایک حصہ روزانہ کی بنیاد پر نادار خلقِ خدا کے لیے رکھیں۔ دیگر باتیں فقیر آپ کو بتانے سے قاصر ہے۔ بابا جی حضور کا خط جو وہ ماہ وش بہ آواز بلند پڑھ رہی تھی، سُن کر حنیف بھائی پر پھر دورہ پڑا جو پہلے سے زیادہ اذیّت ناک تھا، لوہار بابا کے ساتھ فقیر اور وہ ماہ وش بھی انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے حال سے باہر ہی نہیں آرہے تھے، آخر لوہار بابا نے فقیر اور اس ماہ وش کو کمرے سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں باہر آگئے۔

اندر کیا ہوا فقیر نہیں جانتا۔ باہر نکل کر اس ماہ وش نے مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا: بابا جی تو رہے نہیں، اب تم بھی ہمارے ساتھ چلو، یہاں کیا کروگے ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے اس کی جانب دیکھا اور کہا: مجھے بابا جی حضور ہی لوہار بابا کے پاس چھوڑ گئے ہیں، اب وہی میرے سرپرست ہیں، انہیں چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ فقیر کی باتیں اس کے لیے ویسے ہی اجنبی تھیں اب تو حیرت بھی اس میں شامل تھی۔

خاصی دیر ہوچکی تھی کہ لوہار بابا نے ہمیں اندر بلایا، حنیف بھائی سنبھل چکے تھے۔ ماہ وش کو پیاس لگی تو اس نے فقیر سے پانی مانگا، فقیر نے گھڑے سے پیتل کے گلاس میں پانی نکال کر اسے دیا، اس نے ابھی اسے لب سے لگایا ہی تھا کہ وہ بولی: کیا پانی میں عرق گلاب ملایا ہوا ہے! اس سے پہلے کہ فقیر کچھ کہتا لوہار بابا بول پڑے: بیٹا کچھ ملایا ولایا نہیں ہے بس یہ آپ لوگوں کے آنے کی برکت ہے جو خُوش بُودار ہوگیا ہے، بس پی لو اسے اور شکر ربّی ادا کرو۔ اس نے بابا جی کی جانب دیکھا اور پانی پینے کے بعد تو وہ بابا جی سے بہ ضد تھی کہ اسے بتایا جائے کہ اس پانی میں کیا ملایا گیا ہے جو اتنا فرحت بخش ہے لیکن بابا جی مسکراتے ہوئے اپنی پہلی کہی بات ہی دہراتے رہے۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔ !

حنیف بھائی نے لوہار بابا سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ بابا جی حضور کی لحد پر فاتحہ خوانی کے لیے چلیں اور بابا جی نے ان کی بات مان لی تھی۔ کار وہ ماہ وش چلا رہی تھی ، حنیف بھائی نے بے حد اصرار کیا کہ بابا جی آگے بیٹھیں لیکن انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ ہم سب خاموشی سے بابا جی حضور کی جائے آرام کی جانب رواں تھے۔ مخبر صادق و امین، راحت عاشقین، رحمۃ اللعالمینؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ قبر کو صرف مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، یہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔‘‘ پھر ہم سب جنّت کے باغ میں پہنچے سامنے کچی قبر میں بابا جی حضور محو آرام تھے۔

رنگ و خوش بُو کے، حُسن و خوبی کے

تم سے تھے، جتنے استعارے تھے

اب فقیر کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ تھے نہیں جناب ! بہ فضلِ ربّی اب تک ہیں اور رہیں گے۔ حنیف بھائی پھر سے برسات بنے اور بابا جی حضور کی قبر اطہر سے لپٹ گئے، تھوڑی دیر بعد اس کے پہلو میں وہ سو چکے تھے۔ فقیر، بابا جی اور ماہ وش خاموش بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے چاروں اُور قبریں تھیں، کچھ تازہ بنی ہوئیں جن پر گلاب کی پتّیاں مرجھائی ہوئی پڑی تھیں اور زیادہ تر کے آثار ہی رہ گئے تھے۔

انسان کا انجام دیکھنا ہو تو قبرستان سے بہتر جگہ کوئی ہے ہی نہیں، وہ جو خلق خدا پر قہر بنے ہوئے تھے اب ان کی قبروں پر آوارہ کتّے لوٹتے رہتے ہیں اور فقیر کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ بعض کی تو ہڈیاں بھی بھنبھوڑتے ہیں اور کچھ ایسی بھی قبریں ہوتی ہیں جن کے قریب بھی نہیں بھٹکتے جی! آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرتا ہے، دیکھیے! کیا یاد آیا

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!

تُونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

لیکن کہنے دیجیے ناں کہ اُس سے کیا پوچھنا کہ انسان کو خود جاننا چاہیے ناں۔ کچھ قبریں تو زندہ بھی ہوتی ہیں جی، اب اس پر کیا بات کریں، جائیے قبرستان اور خود مشاہدہ کیجیے ناں۔

موت اُس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

حنیف بھائی کو بابا جی حضور کی قبرِ راحت سے لپٹے سوئے ہوئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ ماہ وش کو تشویش ہوئی تو اس نے بابا جی سے پوچھا، بابا جی مسکرائے اور اسے تسلی دی، لیکن زبانی تسلی سے کیا ہوتا ہے جی۔ حنیف ٹھیک تو ہیں ناں! اس مرتبہ اس نے فقیر سے پوچھا تھا۔ ہوں گے ٹھیک پتا نہیں، سنتے ہی وہ بے قرار ہوگئی۔

بابا جی نے اسے پھر تسلی دی اور صبر سے انتظار کا کہا، پھر شاید اس نے خود پر قابو پالیا تھا۔ حنیف بھائی جاگ گئے تھے تو اُسے کچھ سکون ملا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے مُسکراتے ہوئے، کبھی دیکھے ہیں ایسے نین کہ نم ہوں اور مسکراتے ہوں جی! ہمارے قریب آکر بیٹھ گئے تھے کہ فقیر نے ان سے پوچھا: ہاں جی! حنیف بھائی تو بابا جی حضور بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ؟ وہ مجھ سے لپٹ گئے تھے، میں غلط سمجھا تھا میرے بھائی وہ ہمارے ساتھ ہی ہیں، بس وہ اتنا ہی کہہ سکے تھے۔

یہ سن کر اس ماہ وش کو تسلی تو ہوئی تھی لیکن اس کی حیرانی میں اضافہ بھی ہوا تھا۔ پھر بابا جی نے انہیں تسلی دیتے ہوئے واپس اپنے گھر جانے کا کہا تھا لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر بہ ضد تھے۔ بابا جی نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ وہ آئندہ اس طرح کی ضد نہیں کریں گے اور اگر انہوں نے اور جب مناسب سمجھا مجھے ان کے گھر صرف ملاقات کے لیے ضرور بھیجیں گے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ٹھکانے تک چھوڑنے کی پیش کش بھی کی تھی، بابا جی نے اسے بھی رد کرتے ہوئے انہیں اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔

فقیر نے آپ کو بتایا تو تھا ناں کہ ایک درویش کی کرامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تسلیم کا پیکر ہوتا ہے، اندیشہ ہائے گوناں گوں سے ناآشنا، رب کی ساری زمین اس کا گھر ہے جی! ہم پہلے تو قبرستان میں گھومتے رہے اور پھر باہر نکل آئے۔ بابا جی میرے سوالوں کو سُلجھاتے اور کبھی اور الجھاتے چلے جارہے تھے۔ ایک بستی سے گزرتے ہوئے ہمیں دور ایک جگہ کچھ لوگ نظر آئے۔ خالی میدان تھا وہ اور اس میں ایک بڑے پختہ کمرے کے باہر مرد و زن کا ہجوم۔ فقیر نے بابا جی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بابا جی نے فرمایا: جلدی کیا ہے چل کے دیکھ لیتے ہیں بیٹا۔ تین لوگ مالائیں پہنے کھڑے تھے، کمرے میں کون تھا یہ نظر نہیں آرہا تھا۔

ان تین لوگوں میں سے ایک کو فقیر پہچان گیا تھا وہ ہماری بستی میں ہی رہتا تھا، میں نے بابا جی سے اس کا بتایا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا، بابا جی اور پابند زنجیر گیسو دراز فقیر کو دیکھ کر ہجوم ہماری طرف متوجہ ہوا، اس سے پہلے کہ بابا جی ان سے بات کرتے پانچ لوگ ہمارے سامنے آن کھڑے ہوئے، ان میں سے ایک تنومند ادھیڑ عمر جو ان کا بڑا تھا، نے پہلے تو بابا جی اور پھر میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا، فقیر تو ہے ہی بے صبرا جی! اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کچھ کہتا میں اس سے مخاطب تھا: کیا دیکھ رہا ہے تُو، پہچانتا نہیں کیا فقیر کو، یہ کیا پاکھنڈ مچایا ہوا ہے تُونے، کیوں باز نہیں آجاتا اپنی خصلت سے، کیوں معصوموں کو گم راہ کرتا اور ان کے خون پسینے کی کمائی بھی لُوٹ رہا ہے، چل اب سیدھی طرح سے اپنی راہ لے۔

فقیر نہ جانے کس رو میں یہ سب کہتا رہا، بابا کھڑے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس نے فقیر کو تو نظر انداز کیا اور بابا جی سے بولا: سرکار ہم بھی مرشد والے ہیں، آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ بابا جی نے اسے خاموشی سے ایک نظر دیکھا، اس سے پہلے کہ بابا جی کچھ کہتے ان میں جو ہماری بستی کا رہنے والا تھا آگے بڑھا اور بابا جی کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا، مجھے معاف کردیں سرکار! میں نے اسے بتا دیا تھا کہ آپ کے سامنے نہ آئے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور آپ کے سامنے آگیا، اس سے جو سلوک کرنا ہو کریں، بس مجھے معاف کردیں، میں آئندہ اس کے پاس بھی نہیں آؤں گا۔

آس پاس کے لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے، بابا جی ان لوگوں سے مخاطب ہوئے: کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو، کیا تم لوگ خدا کو بھول بیٹھے ہو، وہی ہے بس سب کا مددگار، وہی ہے کارساز و نگہہ بان، وہی ہے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے والا، وہی ہے جو ہر شے اور کام پر قادر ہے، اس کی مرضی کے بنا تو پتّا بھی نہیں ہل سکتا، وہ کبھی سوتا نہیں، ہر وقت ہر جگہ اپنی ہر مخلوق کو دیکھتا اور ان کی ہر بات سنتا ہے، وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے، بس اس سے لو لگاؤ، اسی سے مدد مانگو، اسی کے سامنے اپنا سر جھکاؤ، کوئی انسان کسی کو کیا دے گا، وہ تو خود محتاج و بے بس ہے، بس آج اور ابھی مجھ سے وعدہ کرو کہ صرف رب تعالٰی کے سامنے اپنی ہر مراد رکھو گے اور جلدی نہیں مچاؤ گے، صبر سے رہو گے اور اپنی جائز اور روا خواہش کے پورے ہونے کے لیے بس اس ذات باری تعالٰی پر یقین رکھو گے اور میں لوہار تم سب کو اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ تم سب کی حاجات پوری ہوں گی انشاء اﷲ۔

مجمع میں سکوت تھا، پھر ان میں سے بعض نے بابا جی کے پاؤں چُھونے کی کوشش کی تو بابا جی نے سختی سے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی تم جیسا ہی ہوں، بے بس و بے کس و محتاج، میں بھی انسان ہوں، بس اپنے پالن ہار سے لو لگاؤ، بس اسے ہی اپنا کارساز سمجھو۔ لوگ منتشر ہوگئے تھے بس اکّا دکّا ہی رہ گئے تب بابا جی اس نوسرباز سے مخاطب ہوئے: اب بتاؤ تم کون سے مرشد والے ہو ؟ کیا اُس نے ہی یہ سکھایا ہے کہ خلق خدا کو گم راہ کرو، ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کھیسے کو بھرو، حرام کھاؤ اور حرام کاری کرو، یہی سکھایا ہے تمہیں تمہارے مرشد نے، بولو۔ بابا جی کا لہجہ دوٹوک تھا، وہ اپنے ساتھیوں سمیت زمین پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا۔

اس کا کوئی جواب نہ سن کر بابا جی نے اسے اپنا فیصلہ سنادیا: تمہارے پاس سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے، اپنا سامان اٹھاؤ اور جاؤ اور سنو کسی اور جگہ پھر سے یہ مکروہ دھندا شروع کرنے کا سوچنا بھی مت، کام کاج کرو اور اپنا پیٹ رزق حلال سے بھرو، اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو اپنے نقصان کے خود ذمّے دار ہوگے۔ بابا جی نے فقیر کا ہاتھ پکڑا اور ہم اپنی راہ لگ گئے۔ فقیر نے دور جاکر مڑ کر ان سب کو دیکھا تھا جو بُت بنے وہیں کھڑے ہمیں جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ راستے میں بابا جی نے فقیر کو چھیڑا: بیٹا جی! تم سے میں بہت خائف ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کیوں بابا جی، تو ہنس کر بولے تم جس لہجے میں اس سے بات کر رہے تھے تو لگا تھا کہ اب تو کسی کی خیر نہیں ہے۔ پتا نہیں کیسے اور کیوں بلا سوچے سمجھے بس بولتا چلا گیا میں بابا جی۔

وہ پورا دن حنیف بھائی کی نذر ہوگیا تھا اور وقت عصر کی ابتدا ہوچکی تھی کہ بابا جی نے فقیر سے کہا: تم گھر جاؤ میں کچھ دیر بعد آؤں گا۔ فقیر نے پہلی مرتبہ ان سے پوچھ لیا کہاں جاتے ہیں آپ روزانہ ؟ جواب تو کوئی نہیں دیا بس اتنا فرمایا: ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا! کہتے ہوئے بابا جی اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

مہران کا موتی سکھر

$
0
0

ضلع گھوٹکی، کشمور-کندھ کوٹ، شکار پور اور سانگھڑ کے درمیان واقع ”سکھر” نہ صرف سندھ دھرتی کا تیسرا بڑا شہر ہے بلکہ یہ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ دریائے سندھ، ضلع سکھر کی شمالی و غربی سمت میں بہتا ہے، جہاں اس کا پاٹ کافی چوڑا ہے اور اس میں کئی چھوٹے بڑے جزیرے موجود ہیں۔

5165 مربع کلومیٹر پر مُحیط ضلع سکھر کی آبادی 15لاکھ کے قریب ہے جس میں نیو سکھر، سکھر سٹی، صالح پٹ، روہڑی اور پنوں عاقل کی تحصیلیں شامل ہیں۔ سکھر، نہ صرف صوبہ سندھ کے مرکزی شہروں میں سے ایک ہے بلکہ یہ وادیٔ مہران کے تمام قدیم و مشہور آثارِقدیمہ کا نُقطہ آغاز بھی ہے۔

سکھر عربی زبان کے لفظ ”سقر ”سے نکلا ہے جس کا مطلب سخت یا شدید کے ہیں۔ 10 ویں صدی عیسوی میں عربوں نے سندھ فتح کیا تو سکھر میں انہوں نے شدید گرم و سرد موسم کا سامنا کیا جس پر اسے سقر کا نام دیا گیا اور یہی لفظ مقامی زبان میں بگڑ کر سکھر بن گیا۔ سکھر کو ’’دریا ڈنو‘‘ یا دریا کا تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔1901 میں بنایا گیا ضلع سکھر ایک وسیع و عریض ضلع تھا جس سے 1977 میں شکارپور اور 1993 میں گھوٹکی کو کاٹ کر علیحدہ ضلع بنایا گیا۔ضلع کا صدر مقام سکھر شہر ہے، جو بالائی سندھ میں سب سے بڑی شہری آبادی کا حامل شہر ہے۔

یہاں کا سکھر بیراج سندھ کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ یہاں کا صنعتی علاقہ بالائی سندھ کی صنعتی ضروریات پوری کرتا ہے۔

پنو عاقل میں ملک کی بڑی عسکری چھاؤنیوں میں سے ایک واقع ہے اور یہ شہر اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ صالح پٹ زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ان 5 تحصیلوں میں سے بہ لحاظ آبادی و رقبہ روہڑی سب سے چھوٹی تحصیل ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے اور اہم ریلوے جنکشن کے باعث اس کی اہمیت زیادہ ہے۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے اس ضلع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک صحرائی اور دوسرا میدانی۔

ضلع کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں پاکستان کا سب سے بڑا ریگستان ”تھر” واقع ہے، جسے مقامی افراد ”نارا” بھی کہتے ہیں۔ یہ صحرا بھارت کی ریاست راجستھان تک پھیلا ہوا ہے اور ایشیا کے بڑے ریگستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ مغربی اور شمالی حصوں میں زیریں سندھ کا زرخیز میدان واقع ہے، جسے گڈو اور سکھر بیراج سے نکلنے والی کئی نہریں سیراب کرتی ہیں۔ ضلع کے جنوبی کونے میں ”چونے کے پتھر” کی 25 میل لمبی اور 10 میل چوڑی ایک پٹی ہے جسے ”روہڑی ہلز” کہا جاتا ہے۔

اِن پہاڑیوں میں وادیٔ مہران کے چند تاریخی آثارِقدیمہ واقع ہیں۔ دریائے سندھ سکھر اور روہڑی کے شہروں کے درمیان سے گزرتا ہے جہاں اس پر سکھر بیراج تعمیر کر کے اس سے کل 5 بڑی نہریں نکالی گئی ہیں۔بھارتی شہر جیسلمیر کی طرح سکھر بھی ایک دِل کش نخلستانی شہر ہے جو کسی حد تک اپنے ثقافتی ورثے، طرزِتعمیر اور اسٹائل میں جیسلمیر کی مشابہت رکھتا ہے لیکن بلاشبہہ سکھر میں موجود پرانے زمانے کی خوب صورت عمارتیں اور حویلیاں اپنے شوخ رنگوں اور نقش و نگار کی بدولت ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔یہ شہر دیکھنے والوں کے لیے انتہائی کشش کا حامل ہے اور کسی بھی اچھے سیاح کو بالکل بھی مایوس نہیں کرتا۔ یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جُڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ آئیے اس شہر کے ورثے کو کھنگالتے ہیں۔

1۔ لینس ڈاؤن برج:
لینس ڈاؤن انیسویں صدی میں ”دریائے سندھ” پر بنایا گیا لوہے کا عالیشان پُل ہے جو سکھر کو روہڑی سے مِلاتا ہے۔ اس کا نام برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ لینس ڈاؤن کے نام پر رکھا گیا اور یہ 25 مارچ 1889ء میں تعمیر ہوا۔ اس زمانے میں یورپی طرز کی بھاری وردیاں سکھر کی شدید گرمی میں انتہائی تکلیف دہ لگتی تھیں، اس لیے پُل کی افتتاحی تقریب صبح سویرے رکھی گئی۔

اپنی تعمیر کے وقت یہ دنیا کا سب سے لمبا ”معلق آہنی پُل” تھا جو ریلوے کے زیرِانتظام تھا۔ تقریباً 3300 ٹن وزنی اس کا ڈھانچا لندن سے بن کہ آیا جسے ”الیگزینڈر میڈوز” نامی انجنیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں 6 انسانی زندگیاں کام آئیں۔

پھر جب 6 مئی 1962ء میں ایوب پل تعمیر ہوا تو اس پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک نئے پل پر منتقل کردیا گیا۔ اب یہ پل صرف گاڑیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس پل سے متعلق ایک نہایت مزے دار قصہ آپ کو سناتا ہوں۔ سِندھ میں خوشی کی اکثر تقاریب کا آغاز اور اِختتام مشہور لوک گیت ”ہو جمالو” پر ہوتا ہے۔ اس گیت کی تخلیق کا سبب بھی سکھر کا یہ لینس ڈاؤن پُل ہے۔

1932 میں جب ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ پر لوہے کا یہ پُل تعمیر ہو چکا تب ریلوے کا کوئی بھی ڈرائیور اس پل پر ریل گاڑی چلانے کو آمادہ نہیں ہوا کیوںکہ یہ پُل بغیر کسی ”کھمبے” یا ستون کے تھا۔ اس مسئلے کا حل انگریز انتظامیہ نے ایسے نکالا کہ سکھر جیل میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو ٹرین چلانے کی تربیت دی جائے اور ان سے ٹرین چلوائی جائے۔ سکھر جیل کے ایک قیدی ”جمالے” کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ وہ اس پل پر سے ریل گاڑی چلا کر لے جائے گا تو اس کی سزا معاف کردی جائے گی۔

پُل کے ٹرائل کی تقریب ہوئی اور جمالا ریل گاڑی کو پُل پر سے کام یابی سے گزار کر، سکھر سے روہڑی کی طرف لے گیا۔ اس کی سزا معاف کر دی گئی۔ بڑا میلا لگا اور جشن منایا گیا اور اس جشن میں جمالے کی بیوی نے یہ گیت گایا:

ہو منجھو کھٹی آیا خیر ساں
ہو جمالو
ہو جیکو روہڑی واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو جیکو سکھر واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو منجھو جمالو جتن ساں
ہو جمالو
ترجمہ: میرا وہ جیت کے آیا خیر سے، ہو جمالو۔
وہ جو روہڑی والے پل سے، ہوجمالو۔
وہ جو سکھر والے پل سے، ہو جمالو۔
میرا جمالو جیت کے آیا، ہو جمالو
اور اب ہو جمالو کا یہ گیت سندھی ثقافت کی روح اور سندھ میں خوشی کی پہچان بن گیا ہے۔

2۔ ایوب برِج :
ایوب خان کے دور میں سندھو ندی کو دوبارہ تسخیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اِس بار ایک کمان دار اور خوب صورت محرابی پل سندھ دھرتی کے جڑواں شہروں، سکھر اور روہڑی کو ملا رہا تھا۔ اس پل کا نام پاکستان کے سابق صدر جرنل ایوب خان کے نام پر ایوب برِج رکھا گیا۔ اس کا سنگ بنیاد 9 دسمبر 1960ء کو رکھا گیا اور اس کا افتتاح 6 مئی 1962ء کو اس وقت کے صدر جرنل ایوب خان نے کیا۔ سِلور گرے رنگ کا چمچماتا یہ پل فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا پڑا محرابی پل تھا اور دنیا کا پہلا ریلوے پل ہے جو فولادی رسیوں سے لٹکا ہوا ہے۔ اس پل کو بنانے والی کمپنی وہی ہے جس نے آسٹریلیا کا مشہورِزمانہ ’’ سڈنی ہاربر برج‘‘ تعمیر کیا ہے۔

ایوب پل کی تعمیر سے پہلے ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے لینس ڈاؤن پل استعمال ہوتا تھا لیکن اس پل کی تعمیر کے بعد پرانے پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک کو ایوب پل پر منتقل کر دیا گیا۔ سو فٹ کے فاصلے پر بنے یہ دونوں شاہ کار دور سے دیکھنے پر ایک ہی دیوہیکل پُل لگتے ہیں۔

3۔ ستین جو آستان:
ہمارا اگلا شاہ کار روہڑی میں سندھو ندی کے بائیں کِنارے واقع سات سہیلیوں کا مزار ہے جسے عرفِ عام میں ”ستین جو آستان” کہا جاتا ہے۔ یہ اُن سات بہنوں یا سہیلیوں کی آخری آرام گاہ ہے جن کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کون سی کہانی حقیقت سے قریب ہے۔

پہلی روایت ہے کہ محمد بِن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد یہ سات سہیلیاں اس مقام پر رہائش پذیر ہوئیں۔

یہ ساتوں کی ساتوں نہایت نیک اور باپردہ خواتین تھیں جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجا داہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اس کی بُری نظروں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ ’’اے اللہ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔‘‘ ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔

اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔

اِس کے برعکس تاریخ نویسوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔

ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیا گیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ موجود ہے اور اس کی اکثر تعمیرات میں بھی یہ چیز نظر آتی ہے۔

4۔سکھر/لائیڈبیراج:
تقسیمِ ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمینِ سندھ کو سرسبزوشاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا، جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔

جنوری 1932ء کو بمبئی کے گورنر لارڈ لائیڈ نے سکھر کے نزدیک ایک بیراج کا افتتاح کیا، جس کا نام ان کے نام پر لائیڈ بیراج رکھا گیا۔ لائیڈ بیراج دنیا کے چند بڑے بیراجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی کا نظام ہے۔ اس بیراج کی تعمیر 1923ء میں شروع ہوئی تھی اور آٹھ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ بیراج زردپتھر اور فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 4725 فٹ ہے اور اس کے 46 دروازے ہیں۔

یہ بیراج دنیا میں اپنی نوعیت کا آب پاشی کا سب سے بڑا بیراج ہے۔ اس سے سات نہریں نکالی گئی ہیں (جن میں دادو کینال، رائس کینال، شمال مغربی کینال، خیرپور ویسٹ کینال، روہڑی کینال، نارا کینال اور خیرپور ایسٹ کینال شامل ہیں) جو سندھ کے دوردراز کے اضلاع (بشمول ڈیرہ مراد جمالی، بلوچستان) تک کو سیراب کرتی ہیں۔ ان نہروں کی مجموعی لمبائی تقریباً 5 ہزار میل ہے اور ان میں سے ایک نہر روہڑی نہر کی چوڑائی نہر سوئز اور نہرپانامہ سے بھی زیادہ ہے۔ ان نہروں سے تقریباً 75لاکھ ایکڑ رقبہ پر سیراب ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس بیراج کا نام تبدیل کرکے سکھر بیراج رکھ دیا گیا اور آج کل یہ اسی نام سے معروف ہے۔

بیراج کے بالکل پاس اس قدیم بیراج کی تعمیر سے متعلق ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، پرانی تصاویر، بیراج کے ماڈل اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔

5۔ سادھو بیلو کا مندر:
’’سادھو بیلو‘‘ سندھی زبان کے الفاظ ہیں، سادھ کے معنی سادھو اور بیلو کے معنی جنگل ہیں۔ اردو میں اسے سادھو بیلا کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں درختوں کے جھنڈ بھی ہیں اور پتھریلی چٹانیں بھی، جن پر مندروں اور سمادھیوں کی تعمیر کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں یہاں صرف چٹانیں اور درخت ہی تھے جنہیں بعد میں تعمیر ہونے والی عمارتوں نے اپنے اندر چھپا لیا۔ اس کے باوجود اب بھی پیپل، نیم اور کئی دوسرے صدیوں پرانے درخت ان عمارتوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔

جزیرے میں داخل ہونے کے لے ایک کشتی ہر وقت تیار رہتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ 1823ء میں ایک سادھو ”مہاراج بان کھنڈی” سکھر شہر سے دور دریائے سندھ کے بیچ میں واقع اس ویران جزیرے پر آئے اور ایک کٹیا میں رہنے لگے، لوگوں کا بھی ان کے پاس آنا جانا شروع ہو گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اداسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے سکھ ’’سادھو بیلو‘‘ کو انتہائی قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، کیوںکہ اس فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مطابق بابا بان کھنڈی مہاراج سری چند مہاراج کی تعلیمات سے کافی متاثر تھے۔

تاریخی شواہد کے مطابق بابا بان کھنڈی نے 40 سال تک سادھو بیلا میں قیام کیا، ان کا انتقال1863 میں 100 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ’’سادھو بیلا‘‘ میں ان کے آٹھ جانشین آئے، 9ویں جانشین کا نام بابا ہرنام داس تھا، جو تقسیم ہند کے بعد سادھو بیلا کو بند کر کے آنکھوں کے علاج کے سلسلے میں انڈیا کے شہر گوجرہ چلے گئے اور واپس نہ آئے۔ بعد میں انہوں نے یہاں کی چابی ایک دوسرے آدمی کے ہاتھوں بھجوا دی۔ انڈیا میں سادھو بیلا کے نام سے ہردوار، ممبئی اور دہلی میں تین دھرم شالے بنوائے، مگر ان کا مقابلہ پاکستان کے سادھو بیلا سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ایک تو یہ تاریخی جگہ ہے، دوسرا دریا کہ بیچ میں ایک جزیرے پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کا محل وقوع بہت خوب صورت اور قدرتی ہے۔ پہلے اس جزیرے پر 100 مور بھی پائے جاتے تھے، جنہیں یہاں آنے والے یاتری دانہ دنکا کھلاتے تھے، مگر بعد میں دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ مر گئے۔

6۔ اروڑ:
اروڑ یا الور سندھ کا ایک قدیم شہر ہے جو روہڑی شہر کے پاس ہی واقع ہے۔ یہ شہر سندھ کے برہمن خاندان اور بعدازاں محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے بعد سندھ میں عرب حکومت کا دارالحکومت رہا۔ اس شہر کے آثار موجودہ روہڑی سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر جنوب مشرق کی جانب موجود ہیں۔ تمام عمارتیں تقریباً ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں سوائے” کالکن دیوی” کے ایک مندر کے جو آج بھی مقامی ہندوؤں کے زیرِاستعمال ہے۔

7- گھنٹہ گھر سکھر:
برطانوی دورِحکومت میں برِصغیر کے کئی چہروں کے عین وسط میں عوام کی سہولت کے لیے ”گھنٹہ گھر” بنائے گئے۔ پاکستان میں سیالکوٹ، ملتان، گجرانوالہ، پشاور، فیصل آباد اور سکھر جیسے بڑے شہروں میں آج بھی یہ گھنٹہ گھر موجود ہیں۔ اگرچہ سکھر کا کلاک ٹاور ایک ہندو سیٹھ وادھومل منجھاری نے برطانیہ کے کنگ جارج پنجم کی سلور جوبلی کی خوشی میں بنوایا تھا جس کا افتتاح سکھر کے اس وقت کے کلکٹر مسٹر مرچندانی نے 1937 میں کیا۔ وکٹوریہ مارکیٹ اور مہران مرکز جیسے مصروف کاروباری مراکز سے گھرا سکھر کا گھنٹہ گھر ہمارے شان دار ماضی کی زندہ لاش لگتا ہے جو انتظامیہ کی بے توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

8- معصوم شاہ مینارہ:
گھنٹہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سکھر کی ایک اور تاریخی جگہ معصوم شاہ مینارہ موجود ہے جہاں بزرگوں کی قبریں موجود ہیں۔ اس گول مینار پر چڑھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ جتنا مشکل اس مینار پر چڑھنا ہے اتنا ہی مشکل اس پر سے واپس اترنا ہے۔معصوم شاہ مینار سے سکھر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ یہاں بھی چلے جائیں تو اچھا ہے مگر ایک بات کا خیال رکھیں اگر آپ کو جوڑوں کی تکلیف ہے تو اس جگہ نہ جائیں اور اگر آپ بہت موٹے ہیں تب بھی نہ جائیں کیوںکہ اس مینارہ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بہت چکنے پتھر کی ہیں جن سے پاؤں پھسلتا ہے دوسرا ان کی چوڑائی صرف دوفٹ ہے اور اتنی چوڑائی میں سے ایک انسان بہ مشکل دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر اوپر پہنچتا ہے۔ 1003ھ میں میر محمد معصوم بکھری صاحب نے سکھر والے معصومی مینارہ کی تعمیر کا کام شروع کرایا جسے میر صاحب کے انتقال کے بعد ان کے فرزند میر بزرگ نے 1027ھ میں مکمل کرایا۔ یہ مینارہ پہاڑی پر واقع ہے۔ اس مینارہ میں پکی اینٹیں اور چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ یہ مینارہ بنیاد سے 84 فٹ چوڑا ہے، لمبائی بھی 84 فٹ ہے اور گولائی میں سیڑھی کے قدموں کی تعداد بھی 84 ہے۔ مینارہ کی چوٹی گنبد نما ہے۔

ان کے علاوہ بکھر جزیرہ، دیو سماج اسکول، مکرانی مسجد، مہادیو مندر اور شاہی مسجد سکھر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اب چلتے ہیں سکھر کی معاشی و معاشرتی زندگی کی جانب۔ سکھر کی معیشت کا تمام تر انحصار زراعت پر اور زراعت کا تمام تر انحصار دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہروں پر ہے۔ دریائے سندھ سکھر سے گزرنے والا واحد دریا ہے۔

اس ضلع میں کاشت کی جانے والی اہم فصلوں میں چاول، باجرہ، کپاس، گندم اور چنا شامل ہیں جب کہ آم، کھجور اور امرود کے باغات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی آب و ہوا گرم، خشک لیکن خوش گوار ہے۔ مجموعی طور پر 88 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔

سکھر بلوچستان اور افغانستان کے خشک میوہ جات کے لیے تجارتی مرکز مانا جاتا ہے اور یہ شہر بسکٹ اور اچار کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کی بڑی صنعتوں میں کپاس کی صنعت، سیمنٹ، چمڑا، تمباکو، سگریٹ، رنگ، دوائیں، زرعی اوزار، نلکوں و تالوں کی صنعت، چینی، بسکٹ بنانے کی صنعت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

دوسری چھوٹی صنعتوں میں دھاگا، برتن اور دیگر صنعتیں شامل ہیں۔ صنعتوں کی زیادہ تعداد تحصیل سکھر میں ہے جب کہ سیمنٹ فیکٹری پنو عاقل میں ہے۔ ان کے علاوہ چھوٹی صنعتیں ضلع کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں، جن میں پرنٹنگ، کشتی سازی، مچھلی کی ڈور اور پلاسٹک وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین گھروں میں خوب صورت کھیس اور دریاں بناتی ہیں۔

یہ ضلع معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ نمک اور پتھر یہاں پائی جانے والی دو معدنیات ہیں۔ سکھر اور روہڑی میں پتھر کی بھٹیاں لگائی گئی ہیں ان سے حاصل ہونے والا پتھر سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔

اس ضلع کی دھرتی نے سیاست میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی مشہور سیاسی شخصیات میں عبد الستار پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون) ، حفیظ پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون)، اسلام الدین شیخ ( سابق وفاقی وزیر تعلیم) اور خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر، راہنما پاکستان پیپلز پارٹی) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میر محمد معصوم (ادیب) اور ہیمو کالانی (انقلابی راہ نما) بھی اس ضلع کی اہم شخصیات ہیں۔

The post مہران کا موتی سکھر appeared first on ایکسپریس اردو.


فراعنۂ مصر ؛ ایک تاریخی پس منظر

$
0
0

ایک روایت کے مطابق حضرت یعقوبؑ 1888 ق م اور دوسری ایک روایت کے مطابق 1706 ق م اپنے چہیتے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی دعوت پر اپنے70اہل خانہ کے ہمراہ کنعان (عراق) سے مصر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ عزیزمصر کے منصب پر فائز تھے۔

موجودہ دستور کے مطابق یہ منصب یا عہدہ آج کے وزیر مال یا وزیر خزانہ کے ہم پلہ تھا۔ اس دور میں مصر پر فراعین مصر حکم راں تھے۔ یہ لفظ فراعنہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو فرعون کی جمع ہے۔ لغت میں اس کے معنی شریر، سرکش لکھے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں جو فرعون حکم راں تھا وہ خصائل کے اعتبار سے انتہائی شریف اور نیک حکم راں کے طور پر جانا پہچانا جاتا تھا۔

توریت کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کی رہائش کی خاطر جشن یا جاشان کا علاقہ اس سے مانگا جس پر فرعون نے کہا ’’تیرا باپ اور تیرے بھائی تیرے پاس آگئے ہیں مصر کا ملک تیرے آگے پڑا ہے، یہاں کے اچھے سے اچھے علاقے میں اپنے باپ اور بھائیوں کو بسا دے، یعنی جشن کے ہی علاقہ میں انہیں رہنے دے۔‘‘ (توریت پیدائش باب 47آیات5-6) یہ بہترین زمین یا علاقہ رعمیس کا تھا۔ (آیت11)

حضرت یعقوب ؑ کا لقب اسرائیل تھا۔ اسرائیل ایک عبرانی لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے۔ یعنی اسرا +ایل ۔ اسرا کے معنی عبد اور ایل کے معنی اللہ۔ گویا اسرائیل کے معنی عبداللہ ہوئے۔ اگلے وقتوں میں خاندان کے سربراہ کے نام یا لقب سے نسل چلا کرتی تھی اور اسی طرح علاقے یا خطے کا نام بھی سربراہ کے نام سے رکھا جاتا تھا یا اس کے لقب سے، جیسے قوم نو ح قوم صالح قوم ہود قوم لوط قوم شعیب اور قوم بنی اسرائیل۔ اسی طرح علاقوں میں کنعان اور رعمیس وغیرہ کے علاقے ہیں جو شخصیات کے ناموں سے مشہور ہیں۔ یہ شخصیات اپنی اپنی الگ شناخت اور تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی پاکستان کے ہر صوبے کے نواحی اور قبائلی علاقہ جات میں مثال بنا ہوا ہے۔

بنی اسرائیل کو عرف عام میں قوم یہود بھی کہا جاتا ہے ۔ یہودا حضرت یعقوب ؑ کے ایک بیٹے کا نام تھا بعض مؤرخین یہودی قوم کو اسی کی نسل بتاتے ہیں جو اصلاً اور نسلاً حضرت ابراہیم ؑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا شجرۂ نسب یوں ہے یوسف ؑ بن یعقوبؑ بن اسحاقؑ بن ابراہیم ؑ۔

حضرت یوسف ؑ نے جا شان کا علاقہ فرعون سے رہائش کے لیے اس لیے مانگا تھا کہ بودوباش کے اعتبار سے ان کا خاندان بدویانہ زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ دوم یہ کہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد سے توحید پر قائم رہنے کا وعدہ لے لیا تھا جس کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان کیا ہے۔

ترجمہ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت تھا جب کہ اس نے اپنی اولاد سے کہا میرے بعد کس کی پرستش (عبادت) کروگے تو انہوں نے جواب دیا ہم اسی ایک خدا کی پرستش کریں گے جو تیرا اور تیر ے باپ دادا ابراہیم ، اسمٰعیل اور اسحق کا خدا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ (سورہ البقرہ آیات132-133)

حضرت ابراہیم ؑ کی نبوت سے لے کر حضرت یعقوب ؑ کے دنیا سے پردہ فرمانے تک قوم یہود یا آل ابراہیم ؑ میں شرک وبت پر ستی نہ تھی۔ اگرچہ دیگر قبائل اس میں مبتلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کے لیے مصر میں ایک الگ جگہ کا مطالبہ فرمایا تاکہ مصریوں کے ساتھ رہ کر ان کے عقائد میں مشرکانہ تبدیلی رونمانہ ہوجائے۔

اس کے علاوہ اس وقت مصریوں میں کئی ایک بد اخلاقیاں بھی تھیں جیسے وہ لوگ چرواہوں، کاشتکاروں اور بدوؤں کو اپنے سے کمتر اور نجس جانتے تھے اور ان سے اختلاط کو معیوب گردانتے تھے حضرت یعقوب ؑ کی نسل میں یہ بیک وقت یہ تینوں چیزیں یکجا تھیں۔ مشاہدات عالم میں یہ ایک بات بڑی حیرت سے دیکھی گئی ہے کہ پیغمبر ان کرام کی اکثریت نے بکریاں چرائی ہیں۔

آل ابراہیم ؑ حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑ کے درمیانی عرصے میں مصر میں آباد ہوئے تھے جو بعد میں حضرت موسٰی ؑ کے ساتھ مصر سے ہجرت کر کے انبیاء کی سرزمین چلے گئے۔ یہ سر زمین مذہبی کتب تاریخ میں جبرون ، مکفیلہ اور نابلس کے نام سے ہے جب کہ توریت میں یہ جگہ ارض فرائیم لکھی ہے جسے قدیم زمانہ میں شکیم کہتے تھے یہ تمام اراضی فلسطین ہی میں واقع ہیں۔

حضرت موسٰی ؑ کی پیدائش کے وقت کون سا فرعون سلطنت مصر پر حاکم تھا اس کے بارے میں دورجدید اور قدیم میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے کہ فرعون کسی بھی مخصوص بادشاہ یا حکم راں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مصر پر حکم رانی کرنے والوں کا لقب ہے جیسا کہ عصرحاضر میں ہم سربراہ مملکت کو شاہ، صدر، چانسلر اور ہیل سلاسی کے منصب سے پکارتے ہیں۔

تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر اعظم تک فراعنہ کے اکتیس 31 خاندان مصر پر حکم رانی کر چکے ہیں سب سے آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا جو 332ق م سکندر کے ہاتھوں مفتوح ہوگیا تھا ان میں سے حضرت یوسف ؑ کے وقت کا فرعون ہیکسوس (مصعب بن ریان) عمالقہ کے خاندان سے تھا جو دراصل عرب ہی کی ایک شاخ ہے عام مؤرخین عرب اور مفسرین اس کو بھی عمالقہ ہی کے خاندان کا، فرد لکھتے ہیں کوئی اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان کوئی معصب بن ریان کہتا ہے ، جب کہ ایک روایت میں اس کا نام پتا من جب کہ دوسری روایت میں قابوش بن مصعب بن ریا ن آیا ہے۔

ارباب تحقیق نے اس کا نام ریان ابا بتایا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق جو پتھر کے کتبے ماہرین کھدائی یا ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیے ہیں اس کے مطابق موسٰی کے زمانے کا فرعون رعمیس دوم کا بیٹا منفتاح (منفطہ) ہے جس کا دورحکومت 1292ق م سے شروع ہوکر 1225ق م ختم ہوتا ہے (قصص القرآن)

ایک اور محقق احمد یوسف آفندی جو مصری دارلآثار کے مصور ہیں اور عصری حجری تحقیق کے بہت بڑے عالم ہیں ان کے ایک مستقل مضمون کا خلاصہ عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے ترجمہ’’یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ یوسف ؑ جب مصر میں داخل ہوئے تو یہ فراعنہ کے سولہویں خاندان کا زمانہ تھا اور اس فرعون کا نام ابابی الاوّل تھا۔ میں نے اس کی شہادت اس پتھر کے کتبے سے حاصل کی جو عزیزمصر فوطیفار کے مقبرے میں پایا۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف ؑ سے تقریباً 27 سال بعد مصر میں داخل ہوئے جس کا ذکر قرآن حکیم اور توریت میں کیا گیا ہے۔‘‘

توریت میں مذکور ہے کہ ’’جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو سخت مصائب میں مبتلا رکھا اس نے بنی اسرائیل سے دو شہروں رعمیس اور فیثوم کی تعمیر کی خدمت لی اور انہیں مزدور بھی بنایا۔‘‘ اب ان پرانے کھنڈرات کی کھدائی سے ان دونوں شہروں کا پتا لگ چکا ہے اور ایک کے کتبے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا نام پر توم یا فیثوم ہے جس کا ترجمہ ہے ’’خدائے توم کا گھر‘‘ اور دوسرے کا نام بر رعمیس ہے جس کا ترجمہ قصر رعمیس ہوتا ہے۔

شہر کی چاردیواری کے جو کھنڈر معلوم ہوئے ہیں وہ بلاشبہہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعہ تھے، جس فرعون نے بنی اسرائیل کو مصائب میں مبتلا کیا وہ اغلب گمان کے مطابق یہی رعمیس دوم ہوسکتا ہے یہ مصر کے حکم رانوں کا انیسویں (19) خاندان تھا۔ حضرت موسٰی اسی کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسی کی آغوش میں پرورش پائی۔ اسویہ قبائل جو مصر کے اطراف آباد تھے ان کے اور فرعون کے اس خاندان کے درمیان نو سال تک سخت جنگ و پیکار رہی جس کے بارے میں یہ بھی قیاس ہے کہ رعمیس دوم نے اس خوف سے کہیں بنی اسرائیل کا یہ عظیم الشان قبیلہ جو لاکھوں نفوس پر مشتمل تھا اندرونی بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے بنی اسرائیل کو ان مصائب میں مبتلا کرنا ضروری سمجھا۔

عصرحاضر کے ایک مفسر ڈاکٹر غلام مرتضی ملک نے اپنی کتاب ’’وجود باری تعالیٰ اور توحید‘‘ میں ڈاکٹرغلام جیلانی برق اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے درمیان اس موضوع پر خط و کتابت کا حوالہ دیا ہے۔

ڈاکٹرغلام جیلانی برق اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں ’’عہد رسالت میں عرب اقوام عالم کی تاریخ، تہذیب، تمدن ان کے آثار اور علوم و فنون سے قطعاًناآشنا تھے۔ انہیں یہ قطعاً معلوم نہ تھا کہ فرعون کتنے تھے اور وہ کب سے مصر پر حکومت کر رہے تھے۔ رہی کھدائیاں تو مصر میں ان کا آغاز پچھلی صدی یعنی انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا اور فرعون (حضرت موسٰی ؑ کے وقت) کی لاش 1907ء؁ میں ایک انگریز سر گرافٹن اسمتھ کی کوششوں سے بر آمد ہوئی۔‘‘

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ڈاکٹر برق کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں ’’برٹا نیکا کے مضمون میں ممی کا ذکر ہے کہ 1906ء؁ میں ایک انگریز ماہر علم و تشریح سر گرافٹن ایلیٹ اسمتھ نے ممیوں کو کھول کھول کر دیکھا اور ان کے حنوط کی تحقیق شروع کی اور چوالس (44) ممیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ گولڈنگ لکھتا ہے کہ 1907ء؁ میں استمھ کو منفطہ کی لاش ملی تھی یہ منفطہ وہی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کے زمانے میں غرق ہوا تھا۔ جب اس کی پٹیاں کھولی گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

اس کے جسم پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی جو کسی اور ممی کے جسم پر نہیں تھی۔ گولڈنگ یہ بات بھی بیان کرتا ہے کہ فرعون، بحیرات مرّہ میں غرق ہوا تھا جو اس زمانے میں بحیرۂ احمر سے ملی ہوئی تھی وہ آگے چل کر لکھتا ہے کہ جزیرہ نما سینا کے مغربی ساحل پر ایک پہاڑی ہے جسے مقامی لوگ جبل فرعون کہتے ہیں۔ اس پہاڑی کے نیچے ایک غار میں نہایت گرم پانی کا ایک چشمہ ہے جسے لوگ حمام فرعون کہتے ہیں اور سینہ بہ سینہ روایت کی بنا یہ کہتے ہیں کہ اسی جگہ فرعون کی لاش ملی تھی۔

قرآن حکیم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس واقعے کے بارے میں بتلا دیا تھا جس کی تائیدوتوثیق آج کا ہر محقق کررہا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (اللہ نے جواب دیا) اب ایمان لاتا ہے اور پہلے سر کشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔

سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس آیات 90 تا 92) فرعون کا ذکر قرآن حکیم میں 7مقامات پر آیا ہے۔ سورہ یونس آیات 83، 88 تا92 سورہ ہود آیات 96 تا 99 سورہ القصص آیات1تا 9 اور 38 تا40 سورہ المومن آیات36-37 سورہ النازعات آیات 15تا 26 مزید معجزات انبیاء میں ملاحظہ فرمائیں۔

جب فرعون غرق ہوگیا تو لوگوں کو اس کی موت کا یقین نہ آیا تب اللہ نے سمندر کو حکم دیا اس نے اس کی لاش کو خشکی پر پھینک دیا پھر سب نے اس کی لاش کا مشاہدہ کیا۔ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

The post فراعنۂ مصر ؛ ایک تاریخی پس منظر appeared first on ایکسپریس اردو.

برطانوی انتخابات: کشمیر کا مسئلہ چھایا رہا

$
0
0

برطانوی انتخابات نے ثابت کردیا کہ یورپ ابھی تک خوف اور نفرت کی سیاست کی زد میں ہے۔

2015ء سے مغرب کی سیاست مہاجر ین کے مسئلے کے گرد گھومتی رہی ہے۔نصف صدی کی کوششوں سے بننے والی یورپین یونین کی تشکیل کے ڈیڑھ عشرے کے اندر ہی اس کی شکست و ریخت کی باتیں ہونے لگیں۔ تفصیلات کے مطابق انتخابات میں بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کے مسئلہ کو استعمال کرکے کنزرویٹو پارٹی اپنی حریف لیبر پارٹی کو اس کے گڑھ میں پچھاڑتے ہوئے365 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ1980ء کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی فتح ہے۔ کنزرویٹوز نے یہ انتخاب بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپین یونین سے علیحدگی کے وعدے پر لڑا اور کامیاب ہوگئی۔ دوسری طرف ان کی حریف لیبر پارٹی صرف 203 نشستیں لینے میں کامیاب ہوسکی۔ لیبر نے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 59 نشستیں کھو دی ہیں جبکہ کنزرویٹو کی سیٹوں میں48کا اضافہ ہواہے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی سب سے بڑی شکست ہے۔ انتخابات میں کچھ دوسری جماعتوں نے بھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں جن میں اسکاٹ لینڈ میں کامیابی حاصل کرنے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی ایس این پی اور لبرل ڈیموکریٹ ایل ڈی نمایاں ہیں۔ انھوں نے بالترتیب 48 اور گیارہ سیٹس حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنزرویٹو ووٹ میں صرف ایک اعشاریہ دو فیصد اضافہ جبکہ لبرل ووٹ شئیر میں سات اعشاریہ نو فیصد کم ہوئی ہے لیکن یہ تبدیلی سیٹوں میں بڑی تبدیلی کا باعث بن گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگلی دہائی بورس جانسن اور کنزرویٹو پارٹی کی دہائی ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتنے بڑے مینڈیٹ کے بعد بریکزٹ جیسے پیچیدہ ایشو سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ادھر آئر لینڈ میں اکثریتی سیٹیں لینے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی کی لیڈر نکولا آسٹرجین نے بیان دیا ہے کہ یو کے اسکاٹ لینڈ کو اس کی مرضی کے بغیر برطانیہ میں شامل نہیں رکھ سکتا اور 2014ء کا اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا ریفرنڈم کوئی حتمی فیصلہ نہیں۔ ان کی بات سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ علیحدگی تو نہیں چاہتیں لیکن علیحدگی کارڈ کو مسلسل استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

سن2016 ء سے قبل برطانوی انتخابی سیاست ہیلتھ سسٹم، جرائم کی روک تھام اور امیگریشن کے گرد گھومتی رہتی تھی لیکن اس الیکشن میں برطانیہ کے شہریوں نے واضح کردیا کہ یورپین یونین سے علیحدگی سب سے بڑا ایشو ہے اور وہ اس اتحاد کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں۔

یورپ کے دوسرے حصوں سے بھی اس اتحاد کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن ان آوازوں کو وہاں وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی جو برطانیہ میں ہوئی ورنہ بریکزٹ کے فوراً بعد بعض رجاعیت پسند Frexit (فرانس کی علیحدگی)، Grexit یعنی یونان کی علیحدگی، Hrexit یعنی ہنگری کی علیحدگی اور DREXIT یعنی جرمنی کی علیحدگی کے بارے میں بات کرنے لگے تھے۔

برطانیہ میں یوروپی اتحاد کے بارے میں عوام الناس کی آراء شروع سے متقسم رہی ہے۔ اس کی حمایت کرنے والے یورو فائل جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے یا اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ’یوروسکیپٹک‘ کہلاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ مغربی یورپ کی واحد یوروپی طاقت تھی جسے ہٹلر زیر نہیں کرسکا تھا۔

برطانیہ بھی اپنے آپ کو باقی یوروپی طاقتوں سے افضل سمجھتا رہا۔ اسی لئے جب سرد جنگ کے آغاز پر کمیونزم کے نظریے کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانس میں امریکی سر پرستی میں یوروپی اتحاد کے خواب دیکھنے شروع کئے گئے تو برطانیہ نے ابتدا میں اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں اس معاشی اتحاد کی کامیابی کے اثرات دیکھنے کے بعد برطانیہ نے اس میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی تو فرانس کے صدر ڈیگال نے اسے تین دفعہ ویٹو کیا کیونکہ برطانیہ کی شمولیت سے اس اتحاد پرفرانس کا غلبہ متاثر ہو سکتا تھا۔

یاد رہے امریکا کے مارشل پلان کے زیر سایہ، اس اتحاد کے لئے کوششیں دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئیں اورمختلف مراحل سے گزر کر یہ آدھی صدی بعد سن 2000ء کے بعد اس سیاسی اور معاشی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچا کہ یورپ کے بڑے حصے میں ممالک کے درمیان ویزا کی پابندی ختم ہوگئی، ایک کرنسی اور اس اتحاد سے باہر دنیا سے اجتماعی معاشی ڈیلز کا طریقہ اپنایا گیا یعنی اس اتحاد کے اندر موجود ملکوں کا واحد معاشی اور کسی حد تک سیاسی بلاک وجود میں آیا ۔

لیکن روس کے ٹوٹنے کے بعد 2003ء میں مشرقی یورپ کی ریاستیں بڑی تعداد میں اس اتحاد میں شریک ہوئیں تو یوروپی یونین کے قانون کے مطابق یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ کو بھی اپنی سرحدیں مشرقی یورپ کی آبادی کے لئے کھولنا پڑیں۔ برطانیہ کا شمار چونکہ یورپ کی مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے۔

اس لئے یہاں مہاجرین کی بڑے پیمانے پر منتقلی ہوئی جس سے مقامی آبادی کو اپنا روزگار اور معاشی مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے اور یوں برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی۔ شامی مہاجرین کی یوروپی یونین کے ممالک میں آمد بریکزٹ کے مخالفین کے لئے دوسرا بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ برطانوی شہریوں کوخوف ہے کہ مشرق وسطیٰ سے مہاجرین جو اس وقت جرمنی اور مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہیں، بڑی تعداد میں برطانیہ میں داخل ہوںگے۔ انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ2016ء کے ریفرنڈم کے مقابلے یہ خوف اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

اسلامو فوبیا اور برطانوی مسلمان
دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی جمہوریت اکثریت کے استبداد کا شکار ہو رہی ہے جس میں اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت، امریکا اور اب برطانیہ میں یہ عفریت پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ اکثریتی ووٹ لینے کے لئے نسل پرست سیاست دان اقلیتوں کے خوف اور نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

اس کے لئے جعلی خبروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ برطانوی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا یعنی مسلمانوں کا خوف اور نفرت برطانیہ میں مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے۔ یہ باتیں مختلف ذرائع سے پھیلائی جاتی ہیں کہ مسلمان برطانیہ پر قبضہ کرنے والے ہیں اور شریعت نافذ کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت میں مسلمان کسی بھی مسلم اکثریتی ملک میں شریعت نافذ نہیں کرسکے۔

دنیا کی ایک تہائی آبادی خود برطانیہ کے قانون کے تحت زندگی بسر کر رہی ہے جسے عرف عام میں کامن لاء کہا جاتا ہے لیکن نفرت پھیلانے والوں کو ایسی باتیں پھیلانے سے کون روک سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دو دہائیوں میں مغرب میں مقیم مسلمان اور جرمی کوربین جیسے بائیں بازو کے سیاست دان ایک مضبوط متبادل بیانیہ سامنے لیکر آئے ہیں۔ مغربی انتخابات میں نفرت اور خوف کی سیاست میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دہشت گرد حملے ہیں اور اس کا فائدہ عموماً کنزرویٹوز اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہوتا رہا ہے۔

بورس جانسن کون ہیں؟

جیتنے والے بورس جانسن لندن اسکول آف اکنامکس اور آکسفورڈ کے تحصیل یافتہ ہیں۔ انہوں نے صحافت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہی نہیں بورس کے بارے میں سب سے دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ سلطنت عثمانیہ کے ایک وزیر اور صحافی علی کمال کے پڑپوتے بھی ہیں۔ ان کے پردادا کے مسلم نام سے کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ راقم کے نزدیک علی کمال نامی صحافی جو1909ء میں سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے وجود میں آنے والی ’ینگ ترک‘ کی حکومت کے وزیر تھے کا تعلق دونمے فرقے سے ہونا قریب از امکان ہے کیونکہ ’ینگ ترک‘ تنظیم کے بیشتر کرتا دھرتا اصل میں دونما تھے۔

ہم ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کے لئے اپنے ایک سابق مضمون میں دونما فرقے کے بارے میں تفصیل سے معلومات دے چکے ہیں۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دونما در اصل یہود کے ایک خفیہ فرقے کا نام ہے جو بظاہر سترھویں صدی میں عثمانوی بادشاہ کی سزا سے بچنے کے لئے مسلمان ہوگیا تھا لیکن چھپ کریہودی مذہبی روایات کی پریکٹس کرتے رہے۔ یہ موجودہ یونان کے شہر سلونیکا جسے تھیسا لونیکا کہا جاتا ہے اور جو بیسویں صدی کے آغاز تک یونان کے ساتھ عثمانوی کنٹرول میں تھا، میں رہائش رکھتے تھے۔

انہوں نے اپنی مسجدیں الگ بنائیں، اپنے تعلیمی ادارے بنائے، یہ حج پر بھی جاتے اور اپنے بچوں کو قران بھی پڑھاتے، یہود کے برعکس ہفتے کے دن کاروبار اور کام بھی کرتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے خفیہ طور پر یہودی مذہبی روایات پر عمل بھی جاری رکھا۔ یہ تعلیم یافتہ بھی تھے اور انہیں ٹیکسٹائل کے شعبے میں سلطنت عثمانیہ نے بہت سی مراعات بھی دیں۔

بعد ازاں انیسوی صدی میں یہیں فری میسن لاجز کا قیام عمل میں آیا اور ینگ ترک تنظیم کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا جس نے آئینی اصلاحات اور جمہوریت کے نام پر سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے سلطنت کی گدی پر ایک کٹھ پتلی حکمران بٹھایا۔ بورس جانسن کے پردادا ینگ ترک کی اس حکومت میں وزیر رہے۔ بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ آرمینیائی جینو سائیڈ جس کا الزام سلطنت عثمانیہ پر لگایا جاتا ہے وہ بھی انہی کے ادوار میں ہوئی۔ احمد کمال کے پوتے اور بورس جانسن کے والد کولمبیا کے فارغ التحصیل ہیں اور ورلڈ بینک اور یورپین یونین سے وابستہ رہے۔ بورس انگلش کے ساتھ ساتھ فرنچ اور یونان سے بھی وابستہ رہے۔ بچپن سے ہی ان کی سرگرمیاں انٹلیکچوئل تھیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انہوں نے صحافت سے کیا۔

پاکستان میں ہارنے والے پارٹی جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام یا خلائی مخلوق کی سر پرستی کا الزام لگاتی ہیں، پاکستانی سیاست دانوں کے برعکس جیریمی کوربین اور مک ڈونالڈ نے اپنی شکست کی ذمہ داری باوقار طریقے سے قبول کی۔ دومین اسٹریم اخبارات میں کالموں کے ذریعے جیریمی نے اعلان کیا کہ وہ اس ڈیزاسٹر یعنی آفت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے منشور اور اپنی اصولی الیکشن کیمپین پر فخر ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے مستقبل میں آنے والی انتخابی مہمات کی سمت کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے تاہم وہ اپنا منشور عوام تک بہتر طور پر پہنچانے میں ناکام رہے۔

پاکستان کے برعکس پارٹی قیادت کی تبدیلی بھی ایک قدرتی عمل ہے جس کے لئے امید وار پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ ہارنے والی پارٹی کی قیادت کرنے والے دونوں قائدین نے ایک سے دو مہینے میں قیادت کی تبدیلی کے امکان کی بات کی ہے۔ ہماری موروثی اور شخصیت پسندانہ سیاست کے پس منظر میں، اس میں بھی ہمارے لئے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے کہ برطانیہ میں ہارنے کے بعد بھی پارٹی قیادت میں جمے رہنے کی روایت موجود نہیں۔

جیریمی کوربین پچھلے چند برسوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بہت اصولی اور جرات مندانہ موقف کے اظہار کے لئے مشہور رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس الیکشن مہم میں کشمیر پر ان کے بیان نے ان کی انتخابی مہم کو بہت نقصان پہنچایا۔

جس سے انڈیا کا پرو مودی ووٹر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس طرح کشمیر کے ایشو نے بھی لیبر پارٹی کی شکست میں خاطر خواہ کردار ادا کیا۔ اس سے یہ بات بھی ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ بر صغیر ہندو پاک کا ڈیاسپورا یعنی امیگرینٹس کا برطانوی سیاست میں وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل لندن کے میئر کے انتخابات میں اس ڈیاسپورا کی طاقت کھل کر سامنے آئی تھی جب پاکستانی نژاد صادق خان کے مخالف امیدوار نے اپنا انتخابی ترانہ اردو، ہندی، پنجابی، بنگالی، چینی زبان میں تقسیم کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ صادق خان کے مخالف امیدوار عمران خان کے سابق برادر نسبتی اور جمائما کے بھائی تھے جنھیں مودی کی حمایت بھی حاصل تھی اور جنہوں نے مسلمان پاکستانی نژاد امیدوار کے خلاف نسل پرستی کا کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی۔2016ء میں اس کارڈ کو عوام نے مسترد کردیا تھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس دوران نفرت اور خوف کی سیاست بڑھتی چلی گئی ہے۔ ایسے میں انسان دوستی کا اصولی موقف رکھنے والے جیریمی جیسے سیاست دانوں کو مسترد کردینا ایک قدرتی امر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیریمی کوربین جیسے سیاست دانوں کی شکست بد قسمتی ہے۔ انسان دوستی پرمبنی ایسے اصولی موقف رکھنے والوں کی برطانیہ کو ہی نہیں دنیا کو بھی ضرورت ہے۔

The post برطانوی انتخابات: کشمیر کا مسئلہ چھایا رہا appeared first on ایکسپریس اردو.

بابائے قوم اور پاکستان

$
0
0

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح دنیا کی تاریخ میں ایک ایسے مدبّر اور سیاسی راہنما ہیں جنہوں نے نہ صرف ایک علیٰحدہ ملک بنایا بلکہ انہوں نے اس ملک کی ترقی، خوش حالی اور استحکام کے لیے ایسے اُصول بھی متعین کیے جو آج بھی پاکستان کے عوام اور حکم رانوں سے اپنے نفاذ و اطلاق کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قائداعظم کی تقاریر اور بیانات کی اپنے اندر تفہیم پیدا کریں تاکہ پاکستان کی نظریاتی اساس ہر مرحلے پر ہمارے پیشِ نظر رہے۔ اُصولی اور تاریخی طور پر ’’قائدِاعظم اور پاکستان کی نظریاتی اساس‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جو اپنی وسعت اور معنویت میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اپنی وضاحت میں پاکستان کی نظریاتی حیثیت کو بھی ظاہر اور متعین کرتا ہے۔

اس عنوان کے دو حصّے ہیں، پہلا حصّہ قائدِاعظم محمد علی جناح کی جدّوجہد، دُوراندیشی، حکمتِ عملی اور فراست و بصیرت سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا حصّہ پاکستان کی نظریاتی اساس سے متعلق ہے۔ اور یہ دونوں حصّے باہم لازم و ملزوم ہیں۔

جب تک آپ ایک حصّے کا تاریخی طور پر فہم پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک دوسرے حصّے کی حقیقت و معنویت آپ پر منکشف نہیں ہوسکے گی۔ یقیناً ایسی صورت میں میرا یہ فرض ہے کہ میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے پہلے قائدِاعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کو واضح کروں اور اُس کے بعد قائدِاعظم کی تقاریر کے اقتباسات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح کروں۔

بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا شمار عہدِجدید کی تاریخ کی اُن عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی حیات وخدمات کی روشنی میں تاریخ کا ایک ایسا باب بن جاتی ہیں کہ آنے والی صدیاں اُن کے تذکرے سے گونجتی رہتی ہیں۔ قائدِاعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے تقریباً چوالیس سال ہندوستان کے عوام خصوصاً مسلمانوں کی ترقّی، خوشحالی، سیاسی بالادستی، ثقافتی تحفظات اور حصول آزادی کے لیے جدّوجہد کے حوالے سے بسر کیے۔

اس عرصے میں آپ کو اگرچہ بعض مراحل پر اپنوں اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر آپ کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی بصیرت نے بالآخر یہ بات طے کردی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے آپ ہی بلاشرکتِ غیرے ’قائدِاعظم‘ ہیں۔ قائدِاعظم کی اسی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے جون 1937 میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے قائدِاعظم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اُس میں صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے مسلمان قوم محفوظ راہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔‘‘

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی وحدت نہ صرف انتشار کا شکار ہوگئی تھی بلکہ اُن کی نمائندہ سیاسی جماعت ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، لہٰذا تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔

قائدِاعظم محمد علی جناح نے تدبّر، فراست، غیرمتزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایسے متحد و منظم کردیا کہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں نہ صرف ایک علیٰحدہ مسلم وطن کی قرارداد منظور ہوگئی بلکہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

برّصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو ہندوستان کے مسلمان دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ 14 اگست 1947 کو شرمندہ تعبیر ہوا اور بلاشبہ اس خواب کی تعبیر ایک فرد کی چشم کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی۔ اور وہ فردِواحد تھے۔ قائدِاعظم محمد علی جناح… جو اپنی سیاسی زندگی کے اوّلین عشرہ میں ہی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے۔ یعنی 1916 میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب ملتے ہی اُن کی ذات دو قومی نظریے کی علامت بن گئی تھی اور یہ اُصول طے ہوگیا تھا کہ مستقبل کے ہندوستان کی سیاسی اور دستوری صورتِ حال اسی اُصول کے تحت پروان چڑھے گی جیسا کہ بعد میں حالات اور وقت نے ثابت کردیا۔

قائدِاعظم کی سیاسی زندگی کے آخری پندرہ سال مسلم ہندوستان کی آئینی اور سیاسی بالادستی کے حصول کے حوالے سے بسر ہوئے۔ انہی پندرہ سال کے دوران جہاں انہوں نے مسلمانوں کے منتشر ہجوم کو ایک قوم کی صورت میں متشکل کیا وہاں اُن کو یہ بھی باور کرایا کہ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ایک عظیم تاریخی ورثے کے ہی مالک نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار بھی ہیں جو ایک مکمّل ضابطہ حیات ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قائدِاعظم نے اپنی تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے جہاں دو قومی نظریے کی وضاحت کی وہاں مطالبہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حقانیت کا بھی اعلان کیا۔

قائدِاعظم کی تقاریر، بیانات اور خطوط ایسی بنیادی سچائیاں ہیں جن کی تفہیم اور تفتیش سے ہم نہ صرف قائدِاعظم کے تصوّر پاکستان، قائدِاعظم کی حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت سے آشنا ہوسکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی ترقّی و خوشحالی اور استحکام کے لیے ایک حتمی لائحہ عمل تک رسائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

جب تک ہم ان تقاریر، بیانات اور خطوط کا مطالعہ نہیں کریں گے اور اپنے اندر ان کا فہم پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک نظریاتی تحفظ اور قومی وحدت کے حوالے سے بہت سے سوالات ہمیں ہمارے قومی مستقبل کے حوالے سے ڈراتے رہیں گے۔

جہاں تک 1949 میں منظور ہونے والی ’قراردادِ مقاصد‘ کا تعلق ہے تو مَیں قائدِاعظم کی تقاریر و بیانات کے آئینے میں اس قرارداد کو پاکستان کے آئین کی تشکیل کی جانب پہلا قدم تصوّر کرتا ہوں۔ ایک ایسا قدم جس میں وہ وعدے اور دعوے پورتے ہوتے دکھائی دے رہے تھے جو قائدِاعظم اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے تحریکِ پاکستان کے دوران متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں اور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے عوام سے کیے تھے۔ قائدِاعظم نے جہاں اپنی تقاریر سے مسلمانوں کے اندر اُن کے جذبہ قومیت کو فروغ دیا، وہاں متعدد بار اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنّت کے مطابق ہوگا۔

اور ہم پاکستان کو حقیقی معنی میں ایک اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے مطالبہ پاکستان کو مسلمانوں کی ملی و فکری بیداری کی تحریک قرار دیا اور 2 مارچ 1941 کو لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ’’مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔‘‘ یہ فخر تاریخی شعور اور ملّی احساسِ وراثت کی دلیل تھا جس کا قائدِاعظم بار بار اعلان کیا کرتے تھے۔ 30 ستمبر 1943 کو ایک پیغام میں انہوں نے فرمایا، ’’ہم ایک عظیم الشّان تاریخ اور درخشاں ماضی کے وارث ہیں۔ ہمیں خود کو اسلام کی حقیقی نشاۃ الثانیہ کے لیے وقف کردینا چاہیے۔‘‘

اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جب آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہوگا؟ تو آپ نے جواب میں کہا، ’’مَیں کون ہوتا ہوں آپ کو آئین دینے والا! ہمارا آئین ہمیں آج سے تیرہ سوسال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرؐ نے دے دیا تھا۔‘‘ ہمیںتو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظام حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان کا مقصد ہے۔‘‘

30 اکتوبر 1947 کو لاہور سے ایک نشری تقریر میں قوم سے فرمایا، ’’اسلام کی تاریخ جواں مردی اور عزم و حوصلہ کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے… ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب و تاریخ ہے، کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

ایک اور مرحلے پر انہوں نے فرمایا، ’’تم میں ایک اعلیٰ قوم کی نشانیاں موجود ہیں جو دُنیا کی کسی قوم میں نہیں۔ بس اپنی تاریخ کے سائے میں سانس لیتے رہو اور عظمت کے ایک نئے دور کا آغاز کرو۔‘‘ 8 نومبر 1947 کو مسلم افواج کے حفاظتی دستوں اور راولپنڈی کے عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایا، ’’ہم کو خطرات درپیش ہیں لیکن آپ سب کامل اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کا وقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے ان خطرات کے درمیاں سے کام یابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔‘‘

اس کے علاوہ قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد 25 جنوری 1948 کو ان الزامات اور شکوک و شبہات کی جن کے تحت بعض حلقوں کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا اور بعض حلقے یہ کہتے تھے کہ پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست ہوگی، براہِ راست اور واضح طور پر تردید کرتے ہوئے کہا، ’’مَیں ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اُصول آج بھی اسی طرح قابلِ نفاذ ہیں۔

جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم و روایات کا مجموعہ یا روحانی ضابطہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے زندگی کا ایک ضابطہ بھی ہے، جو سیاست، معیشت اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں اس کے رویّے کو منضبط کرتا ہے… مَیں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں، بلکہ غیرمسلموں کو بھی کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ کسی کو ایسی جمہوریت سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ کے اُصولوں پر قائم کی گئی ہو۔‘‘ ’’ان کو کہہ لینے دیجیے۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دُنیا کو دکھائیں گے یہ رہا ایک اعلیٰ آئینی نمونہ۔‘‘

فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری خطاب میں فرمایا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے آئین کی حتمی صورت کیا ہوگی۔ البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے تمام ضروری اور بنیادی اْصولوں پر مبنی ہوگا۔‘‘ 19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشری خطاب میں فرمایا، ’’پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ ؐکی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اُس اسلامی ملّت اور برادری کے رکن ہیں جس میں حقوق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے، پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہوگا۔ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دیگر عقائد کو گوارا کریں۔‘‘

قائدِاعظم کی تقاریر سے یہ اقتباسات درج کرنے کی مجھے ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جہاں قائدِاعظم کی اُس فکر تک رسائی ممکن ہوسکے جو اپنی معنویت میں اسلام دوستی پر مبنی تھی وہاں یہ بھی معلوم ہوسکے کہ وہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے کیا عزائم رکھتے تھے۔ یہاں مَیں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ 14 اگست 1947 کو انتقالِ اقتدار کی تقریب میں جب ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان میں آباد اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی مثال دی تو قائدِاعظم نے مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی جوابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ اکبراعظم نے تمام غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔

اس کی ابتدا تو آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐنے کردی تھی۔ آپؐ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ اُن کے ساتھ رواداری برتی اور اُن کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے ایسے ہی رہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اُصولوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِن اُصولوں کی ہم سب کو تقلید کرنا چاہیے۔‘‘

قائدِاعظم کی تقاریر کی سب سے اہم فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ مختصر فقروں میں اپنا مافی الضمیر بیان کردیتے ہیں۔ تقاریر کے اِن اقتباسات میں ایک عقیدہ بھی موجود ہے اور ایک لائحہ عمل بھی۔ ایسا لائحہ عمل جو ہندوستان میں مسلم قوم کے مسلّمہ کردار کی بازیابی کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائدِاعظم نے 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طالب علموں کو باور کرایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ جہاں دیگر مذہبی اور ثقافتی وجوہات رہی ہیں وہاں اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ مطالبہ جداگانہ قومیت کی بنیاد پر اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔‘‘

14 فروری 1948 کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انہی سنہری قوانیں کی پابندی کرنے میں ہے جو ہمارے شارح اعظم پیغمبر اسلامؐ نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصوّرات اور اُصولوں پر استوار کریں۔‘‘ 12 اپریل 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور کے ایک استقبالیہ میں فرمایا، ’’ہم ایک ایسی مملکت تعمیر کررہے ہیں جو پورے عالم اسلام کی تقدیر سازی میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔‘‘

مَیں نے ابھی تک قائدِاعظم محمد علی جناح کی اُس تقریر کا حوالہ نہیں دیا جو قائدِاعظم کے تصوّر پاکستان کے حوالے سے نہ صرف معروف ہے بلکہ جس کو ایک مخصوص مکتبہ فکر ذاتی تاویلوں اور عذر بے جا کے ذریعے متنازع بنا دینے کی دانستہ کوششوں میں مصروف ہے۔ میری مراد ہے 11 اگست 1947 کی وہ تقریر ہے جو قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل کراچی میں مجلسِ دستور ساز کے افتتاح کے موقع پر کی تھی۔ اور جو واضح طور پر 1949 میں مجلسِ دستور ساز میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کو استناد فراہم کرتی ہے۔

مَیں یقیناً اس تقریر کو من وعن یہاں نقل نہیں کررہا ہوں لیکن جزوی طور پر اس کے مفہوم کو پیرا وائز (Parawise) ضرور بیان کروں گا:

1۔پاکستان کے لیے دستور مرتّب کرنا۔

2۔وفاقی قانون ساز ادارے کو کامل خودمختار ادارے کی شکل دینا۔

3۔امن و امان کو برقرار رکھنا تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور اُن کے مذہبی عقائد کو مکمّل طور پر تحفظ دے سکے۔

4۔رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ۔ یہ ایک زہر ہے، اس کا سختی سے قلع قمع کرنا پڑے گا۔

5۔غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت کی چور بازاری اور گرانی کا خاتمہ۔

6۔اقربا پروری، احباب نوازی اور ذاتی مفادات کے حصول کی لعنت کا خاتمہ۔

7۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔

8۔اپنی عبادت گاہوں میں جانے کا آزادانہ حق۔

9۔پاکستان کو خوشحال بنانے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود پر توجّہ۔ عوام سے میری مراد عام الناس اور غریب عوام ہیں۔

10۔ذات پات کے نظام اور صوبائی عصبیتوں کا خاتمہ۔ (یہاں مَیں یہ بات پوچھنے میں شاید حق بجانب ہوں گا کہ اِن دس نکات میں سے ہم نے کس پر اور کہاں تک عمل کیا؟)

قائدِاعظم نے اِن نکات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا، ’’اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘

آخر میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا، نہ مسلمان مسلمان … مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘

یہی دو پیراگراف ہیں جن کی بنیاد پر کچھ لوگ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ تصوّر کرنے کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ یہ دونوں پیراگراف میثاقِ مدینہ میں بھی موجود ہیں۔ یہ پیراگراف اقلیتوں سے معاملات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ تحقیق قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق پروفیسر شریف المجاہد کی ہے اور جسے گذشتہ ہے کہ ایک ایسا لفظ قائدِاعظم کے نظریات سے بیس سال کے دوران کسی جانب سے بھی رد نہیں کیا گیا۔

اسی نوعیت کی ایک تحقیق معروف قانون دان اور محقق سیّد شریف الدین پیرزادہ نے بھی اپنے ایک مضمون میں درج کی تھی۔ پروفیسرشریف المجاہد اور سیّد شریف الدین پیرزادہ کے مضامین روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہاں مَیں یہ عرض کرتا چلوں کہ قائدِاعظم محمدعلی جناح نے تحریکِ پاکستان کے دوران یا قیامِ پاکستان کے بعد اپنی تقاریر میں کبھی نظریاتی حوالے سے سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ افسوس یہ کیسا غیراخلاقی رویّہ منسوب کیا جاتا ہے جو کبھی آپ نے لادینی معانی میں اپنی زبان سے ادا ہی نہیں کیا۔

مجھے طوالت کا احساس ہے، لیکن یہ موضوع ہی ایسا ہے جس سے سرسری طور پر گزرا نہیں جاسکتا۔ قائدِاعظم کے کسی بیان یا نکتہ نظر سے سیاسی روایت کے پیش نظر یا آزادی اظہار کی تائید میں اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن اُس کی حقیقی معنویت کو تاویلات میں اُلجھا کر یا اُس میں اپنے نکتہ نظر کی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش ایک واضح بددیانتی ہے۔ ایک مخصوص مکتبہ فکر قائدِاعظم کے خیالات کو اپنے نظریات کے آئینے میں پیش کرتا ہے جو یقینا بابائے قوم قائدِاعظم کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ شاید اسی لیے یہ مخصوص طبقہ قرارداد مقاصد کو بھی مطعون کرتا رہتا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکاری ہے، جب کہ قراردادِ مقاصد اپنے متن میں قائدِاعظم کی حقیقی فکر کی ترجمان ہے۔

قراردادِ مقاصد قائدِاعظم کے انتقال کے تقریباً چھ ماہ بعد یعنی 12 مارچ 1949 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں ’قراردادِ مقاصد‘ ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف قوم کے مخصوص تاریخی ورثے کی عکاسی کی گئی ہے بلکہ اس میں قائدِاعظم محمد علی جناح کے افکار و خیالات کی روشنی میں قومی نصب العین کا تعیّن بھی کیا گیا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اُن اُصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی بنیادوں پر مستقبل میں پاکستان کا آئین مرتّب کیا جانا تھا۔ اسی لیے اس قرار داد کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کرکے پاکستان کے مجوزہ آئین کے دیباچے کی حیثیت دے دی۔ پاکستان کے تمام آئین اسی قرارداد کی روشنی میں مرتّب کیے گئے ہیں۔

یہاں اس قرارداد کے نکات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ قرارداد منظور نہ کی جاتی تو پاکستان کے آئین کو قرآن و سنّت اور قائدِاعظم کے افکار کے مطابق خطوط میسّر نہ آتے، اور وہ طبقہ جو انگریزوں اور ہندوؤں کے زیرِاثر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں تھا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتا اور ہم تحریکِ پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے حقیقی مقاصد سے روگردانی کے مرتکب ہوجاتے۔ اس قرارداد نے پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعیّن کیا اور ہم کو اپنی نومولود ریاست کو ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کہنے کا اعزاز بخشا۔ اور یہ سب کچھ بانی پاکستان کی دْور اندیشی، بصیرت اور اپنے مقاصد سے گہری اور ناقابلِ شکست وابستگی کے نتیجے میں ہوا۔ اور ہم اس پر فخر مند ہیں کہ یہی قرارداد قائدِاعظم کے افکار و خیالات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔

The post بابائے قوم اور پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

فالج کی وجوہات اور احتیاطیں

$
0
0

فالج ایک ایسی بیماری سمجھی جاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ دماغ کی شریانوں میں رکاوٹ آجانا جس کی وجہ سے دماغ کو خون کی سپلائی کا متاثر ہونا فالج کہلاتا ہے۔ شوگر، بلڈپریشر، موٹاپا، سگریٹ نوشی، تمباکو، شراب نوشی، دل کے والوو کی خرابی، ایسی بیماری کے رسک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی شرح 40فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔10لاکھ لوگ تقریباً فالج کی وجہ سے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

فالج دو قسم ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس میں دماغ خون کی شریانوں کا پھٹ جانا، دوسرا دماغ کی خون کی شریانوں میں کسی رکاوٹ کا آجانا۔ دل میں خرابی، دل کے والوو میں خرابی، گردن کی شریانوں میں چربی کا جم جانا، فالج کے خاصے اہم اسباب ہوتے ہیں۔

فالج کی علامات

اچانک منہ ٹیڑھا ہوجانا یا کسی بھی ایک طرف کا ہاتھ، پاؤں کاکام نہ کرنا، آواز کا متاثر ہونا۔ اس مرض کی تشخیص کے لئے دماغ کا ایم آر آئی یا سی ٹی سکین کرانا ہوتا ہے جس سے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ دماغ کا کون سا حصہ فالج کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔

جیسا کہ سابقہ سطور میں عرض کیا جاچکا ہے کہ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی شرح40فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔آئندہ برسوں میں فالج پاکستان کی چوتھی بڑی بیماری بن جائے گی۔ پاکستان میں فالج کے مسئلے سے دوچار کم ازکم 22فیصد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر معذور ہوجاتے ہیں۔ حاملہ عورتوں میں فالج کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

جس کوCVSTکہاجاتا ہے اور اس میں MRVکے ذریعے اس مرض کی تشخص کی جاتی ہے۔بچوں میں فالج کی وجہ دماغ کا انفیکشن، دل کے والوو کا مسئلہ، خون کی خرابیاں ہوتی ہیں۔ دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد کو کبھی بھی زندگی میں فالج ہوسکتا ہے اور اس سے بچاؤ ممکن ہے۔

فالج سے کیسے محفوظ رہاجاسکتاہے؟

اپنے بلڈپریشر کو کنٹرول میں رکھنا اور باقاعدگی سے بلڈپریشر کی دوائیاںلینا۔

شوگر کو کنٹرول میں رکھنا اور باقاعدگی سے اس کی دوائیاں استعمال کرنا۔

روزانہ کم ازکم15سے20منٹ کی چہل قدمی(واک) کریں۔

سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا۔

افسردگی اور دباؤ سے بچنا کیونکہ ہر چھ میں سے ایک فرد کے فالج کی وجہ ذہنی تناؤ  ہے۔

غصے کو کنٹرول کریں اور کولیسٹرول کو کم کریں۔

متوازن غذا ضرور کھائیں یعنی فروٹ اور سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔

اپنے وزن کو کنٹرول میں رکھیں، ہر پانچ میں سے ایک فالج موٹاپا کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اگر کسی کو فالج ہوجائے تو دوائیوں کے ساتھ ساتھ فزیوتھراپی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگرفالج کی علامات میں کوئی بھی علامت کسی بھی مریض میںملتی ہے تو فوراً دماغ کے ڈاکٹر یعنی نیورولوجسٹ سے رابطہ کریں اور فالج سے نہ ہونے والی پیچیدگیوں سے بچیں۔ فالج کے بعد سینے کا انفیکشن، پیشاب کا انفیکشن، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، ڈپریشن ، جسم میں درد وغیرہ جیسی پیچیدگیاں عام ہیں۔ یاد رکھیں کہ صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر آپ فالج اور فالج سے ہونے والی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔

The post فالج کی وجوہات اور احتیاطیں appeared first on ایکسپریس اردو.

فاقہ کشی حفظان صحت کے اُصولوں کے خلاف

$
0
0

توند نکل آئی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ موٹاپے سے تنگ ہوں کوئی دوا بتاؤ۔ فلاں کی سمارٹنیس کا راز کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے سوالات سوشل میڈیا پر بھی ہر وقت نظر آتے ہیں۔ اور مختلف رسائل و اخبارات میں بھی اس حوالے سے مضامین مل جاتے ہیں۔ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے ہر نسخہ یا دوا بلا سوچے سمجھے مت استعمال کریں۔ کوشش کریں کسی ماہرِ غذائیات سے مشورہ کرکے اپنے کھانے پینے کا چارٹ تیار کروائیں اور اس پر عمل کرکے اپنا وزن کنٹرول کریں۔

میں سندیافتہ ماہرِ غذائیات نہیں ہوں مگر دو سال شعبہ غذائیات میں کام کرنے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے جن عادتوں کو اپنا کر خود کو موٹاپے سے بچایا ہوا ہے وہ چیدہ چیدہ آپ کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔ اس میں اکثر ایسی چیزیں ہیں جو ہر شخص بلاجھجھک اپنا سکتا ہے۔

زندہ رہنے کے لیے کھایا کریں، کھانے کو ہی زندگی نہ سمجھ لیں۔

امریکہ میں دلیہ روزمرہ کا ناشتہ کا اہم جزو ہے، جو کا دلیہ غذائیت سے بھرپور، چکنائی سے مبرا، اور معدہ کو پُر کرنے والی غذا ہے۔ خصوصاً جسمانی کام کرنے والے لوگ دلیہ باقاعدہ استعمال کریں اس سے معدہ بھی بھر جاتا ہے، طاقت بحال رہتی ہے اور دیگر غذاؤں کی طرح چکناہٹ بھی جسم کا حصہ نہیں بنتی۔

جو کی روٹی یا مکئی کی روٹی یا جو کی ڈبل روٹی یا خالص گندم سے تیار ڈبل روٹی ناشتے میں استعمال کریں۔ میدے سے بنی ڈبل روٹی، پراٹھے اور تلی ہوئی اشیاء ناشتے میں استعمال نہ کریں۔ ہفتے میں ایک دن صرف موسمی تازہ پھل کھائیں۔اگر جیب اجازت دے تو ہفتے میں ایک بار مچھلی ضرور کھائیں۔ میٹھی اشیاء کا استعمال کم کریں اور چائے اور قہوہ یا کافی میں چینی کے بجائے شکر استعمال کریں۔

کئی ممالک میں چقندر اور ناریل سے اخذ کی گئی چینی دستیاب ہے جو شکر کا بہترین متبادل ہے۔ پانی بکثرت پیا کریں اور پانی کے جگ یا بوتل میں لیموں کی ایک قاش ڈال لیا کریں اور اس میں مزید پانی ڈالتے رہیں۔ اگر تھوڑا تردد کریں تو گھر میں ایک کولر میں صبح پانی بھریں اور اس میں لیموں، کھیرا، مالٹا، انناس، سٹرابری جو بھی پھل میسر ہو وہ کاٹ کر ڈال دیں، شام تک تمام اہل خانہ وہی پانی استعمال کریں۔

اب میں اپنی ذاتی روٹین بتاتا ہوں کہ میں روزانہ کیا کھاتا ہوں۔

میں مہینے میں کبھی ایک یا دو بار پراٹھا کھالیتا ہوں اس سے زیادہ نہیں۔ میں سموسے پکوڑے صرف ماہِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار بار کھاتا ہوں یعنی تقریباً نہ ہونے کے برابر۔

عام طور پر آپ پانچ یا چھے افراد کے کھانے کے لیے جتنا تیل ایک بار استعمال کرتے ہیں اتنا تیل میں پانچ بار کے کھانے میں استعمال کرتا ہوں۔ کھانے کے تیل کا جتنا استعمال پاک و ہند میں ہوتا ہے اتنا شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ میں ناشتے میں گندم کی ڈبل روٹی یا دلیہ استعمال کرتا ہوں، پراٹھے پوریاں یا تلی ہوئی دیگر اشیاء نہیں کھاتا۔

دن کے کھانے میں سبزی یا سلاد یا پھل کھاتا ہوں مگر عموماً دن کا کھانا ناغہ کرتا ہوں۔ رات کو غذائیت والا بھاری بھرکم کھانا جس میں سبزی اور گوشت یا مچھلی استعمال کرتا ہوں۔ میں کھانا سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کھاتا ہوں۔ دو وقت کا اچھا طاقت آمیز کھانا آپ کے لیے کافی ہے اگر زندگی کا مقصد صرف کھانا نہ ہو تو۔

سوڈا مشروبات سے مکمل اجتناب کریں، ان میں چینی کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ آپ کی سب احتیاط پر پانی پھر جاتا ہے۔ گرمیوں میں بھی تازہ پانی پینے کی عادت بنائیں ٹھنڈے پانی سے دور رہیں۔ کچھ وقت لگتا ہے پھر عادت ہوجاتی ہے، میں گرمیوں میں پانی نارمل درجہ حرارت والا پیتا ہوں برف والا یا ٹھنڈا پانی نہیں پیتا۔ میں کبھی کبھار رات کو بھاری کھانا کھانے کے بجائے صرف خشک میوہ جات کی مناسب مقدار استعمال کرلیتا ہوں، بظاہر آپ کو لگے گا کہ پیٹ نہیں بھرا مگر حقیقتا آپ کے جسم کی طاقت اس سے بحال رہتی ہے۔

ایک اور غلط فہمی عموماً پائی جاتی ہے کہ فاقہ کشی سے وزن کم ہوتا ہے، یہ بات صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ آپ جتنا زیادہ فاقہ کرتے ہیں اتنا ہی آپ اپنے جسم کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کرکے امراض کو دعوت دے رہے۔ کھانا پینا ترتیب سے نہ ہو تو ذیابیطس ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہ تو کچھ کھانے پینے کی احتیاط ہوگئی اس کے ساتھ آپ کو جسمانی ورزش کی بھی ضرورت ہے، روزانہ کم از کم تین چار میل پیدل چلیں، جاگنگ کریں، بازار جانا ہو تو کوشش کریں پیدل جائیں سامان زیادہ نہ ہو تو خود اٹھاکر لائیں۔ جم جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف پیدل چلنے کی عادت بنالیں کسی جم ٹرینر کی ضرورت نہیں۔

دفتر اور بازار میں کثیر المنزلہ عمارات میں سیڑھیاں استعمال کریں لفٹ کا استعمال چھوڑ دیں۔ جیب اجازت دیتی ہے تو سائیکل خرید لیں اور گاڑی یا بس کے بجائے دس بارہ میل کا سفر سائیکل پر کریں۔ رات کے کھانے کے بعد کم از کم بیس پچیس منٹ گھر کے اندر ہی واک کرلیں، یا گھر کی چھت پر واک کریں۔ یاد رہے آپ جتنی مرضی ڈائیٹ کریں اور ٹوٹکے کرلیں اگر آپ روزانہ پیدل چلنے کی عادت نہیں بناتے تو آپ کی سب محنت فضول ہے۔

اچھا کھائیں اور تازہ غذا استعمال کریں، جتنا پیسہ آپ ہسپتال میں بیماری پر لگاتے ہیں وہی پیسہ اپنے کھانے پہ لگائیں، پرسکون اچھی زندگی بسر ہوگی۔

The post فاقہ کشی حفظان صحت کے اُصولوں کے خلاف appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>