Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

طبِ نبویﷺ میں تلبینہ (جو کا دلیہ) کی اہمیت

$
0
0

اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو قیامت تک آنے والے آخری انسان کی تمام جسمانی اور روحانی ضروریات کا سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے۔ جو شخص بھی محمد عربی ﷺ کو طبیب اعظم تسلیم کرلیتا ہے، ان کی ہدایات پر عمل کرتا ہے ، وہ اپنی دینی زندگی بہتر کرتے ہوئے اپنی دنیاوی زندگی سنوار کر بے شمار کامیابیاں حاصل کرلیتا ہے۔

اگر ہم حضرت محمد ﷺ کے سکھائے ہوئے صرف ’نسخہ تلبینہ‘ کو اپنی روزانہ کی خوراک کا حصہ بنالیں تو بے شمار جسمانی و روحانی فوائد سے مالا مال ہوکر نہ صرف صحت مند زندگی گزار کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے مثالی نمونہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں بشرطیکہ سورۃ آل عمران کی آیۃ نمبر 31 کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمل کریں۔

تلبینہ سے متعلق چند مبارک احادیث مقدسہ اور ساتھ ہی ساتھ اس پر ہونے والی سائنسی تحقیقات پیش خدمت ہیں:

تلبینہ سے متعلق احادیث مبارکہ

1۔ رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لئے جو کا دلیہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر اس سے غلاظت اتار دیتا ہے۔ (ابن ماجہ)

2۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیمار کیلئے تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن یہ اس کیلئے ازحد مفید ہے۔ (ابن ماجہ)

3۔ اسی مسئلہ پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  کی ایک روایت میں اس واقعہ میں اضافہ یہ ہوا کہ جب بیمار کے لئے دلیہ پکایا جاتا تھا تو دلیہ کی ہنڈیا اس وقت تک چولہے پر چڑھی رہتی تھی جب تک کہ وہ یا تو تندرست ہوجائے یا فوت ہوجائے۔اس سے معلوم ہوا کہ گرم گرم دلیہ مریض کو مسلسل اور بار بار دینا اس کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور اس کے جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔

پریشانی (Tension) اور تھکن (Fatigue) دور کرنے کے لئے بھی تلبینہ کا ارشاد ملتا ہے:

4۔  جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  کے گھرانے میں کوئی وفات ہوتی تو دن بھر افسوس کرنے والی عورتیں آتی رہتی تھیں۔ جب باہر کے لوگ چلے جاتے اور گھر کے افراد اور خاص خاص لوگ رہ جاتے تو وہ تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیتیں، پھر ثرید تیار کیا جاتا۔ تلبینہ کی ہنڈیا کو ثرید کے اوپر ڈال دیتیں اور کہا کرتی تھیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ مریض کے دل کے جملہ امراض کا علاج ہے اور دل سے غم کو دور کرتا ہے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، احمد)

5۔ حضرت عائشہ صدیقہ ﷺ کی ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی نبی ﷺ سے بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ ﷺ اسے تلبینہ کھانے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے معدوں سے غلاظت کو اس طرح صاف کردیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر صاف کرلیتا ہے۔

6۔ نبی ﷺ کو ثرید کھانا سب سے زیادہ پسند تھا۔ مریض کے لئے انہیں اس کے بعد تلبینہ سے بہتر کوئی چیز پسند نہ تھی۔ اس میں جو کے فوائد کے ساتھ ساتھ شہد کی افادیت بھی شامل ہوجاتی تھی۔ مگر وہ اسے گرم گرم کھانے، بار بار کھانے اور خالی پیٹ کھانے کو زیادہ پسند فرماتے تھے۔

7۔ تلبینہ دل کے تمام مسائل کا مکمل علاج ہے۔ (بخاری و مسلم)

8۔ تلبینہ مریض کے دل کو سکون دیتا ہے اور وحشت کو دور کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ رقم الحدیث 4080)

9۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا کہ: جبرئیل میں بہت تھک جاتا ہوں۔ حضرت جبرئیل ؑ نے جواب میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ تلیبنہ استعمال کریں۔

٭تلبینہ کے طبی فوائد (Medical Benefits)

1۔ غم (Depression)کو دور کرتا ہے۔

2۔ مایوسی (Anxiety) کا علاج ہے۔

3۔ کمر درد کا بہترین علاج ہے۔

4۔ خون میں ہیموگلوبن کی شدید کمی کو پورا کرتا ہے۔

5۔ حافظہ کی کمی کو فوری دور کرتا ہے۔

6۔ بھوک کی کمی ختم کرتا ہے۔

7۔ وزن کی کمی پوری ہوجاتی ہے۔

8۔ کولیسٹرول کی زیادتی ختم کردیتا ہے۔

9۔ ذیابیطس کے مریضوں کی بلڈ شوگر لیول کنٹرول کرتا ہے۔

10۔ دل کے مریضوں کی شفایابی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

11۔ قبض کا بہترین علاج ہے۔

12۔ آنتوں کی تکالیف کا ازالہ کرتا ہے۔

13۔ معدہ کے ورم کو دور کرتا ہے۔

14۔ السر کے مریضوں کے لئے آسمانی علاج ہے۔

15۔ کینسر کو ختم کرنے میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

16۔ قوت مدافعت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔

17۔ ہر قسم کی جسمانی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔

18۔ ذہنی اور دماغی امراض میں فائدہ دیتا ہے۔

19۔ جگر کے امراض میں بہت مفید ثابت ہوا ہے۔

20۔ اعصابی امراض کا بہترین علاج ہے۔

21۔ وساوس دور کرنے میں لاجواب ہے۔

22۔ ہر قسم کی تشویش (Anxiety) کو ختم کرتا ہے۔

٭تلبینہ سے متعلق سائنسی انکشافات

تلبینہ تین اجزاء پر مشتمل ایک قوت بخش غذائی مرکب کا نام ہے۔ جس میں جزو اعظم جو (Barley) ہے اور بقیہ دو اجزاء دودھ اور شہد ہیں جو کوٹ کر دودھ میں پکائے جاتے ہیں اور شہد کو مٹھاس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جدید سائنس بھی اس مرکب کو انسانی جسم کے لئے بہت مفید قرار دیتی ہے۔ امریکا کے ماہرین غذائیات کی تحقیق کے مطابق یہ غذا خون میں شکر اور چربی کی مقدار کو متوازن اور منظم رکھتی ہے۔ جو میں چیپ دار ریشے ہوتے ہیں جو خون میں کولیسٹرول اور شکر کی مقدار کو گھٹا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر جیمس اینڈرسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جو کا ریشہ جب قولون میں پہنچتا ہے تو اس میں ان جراثیم کے عمل سے شحمی تیزابات پیدا ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں خمیری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ تیزابات خون میں جذب ہوکر جسم میں نشاستے کی پیدائش بند کردیتے ہیں۔ جس سے خون میں شکر کی مقدار کم اور مستحکم ہوجاتی ہے اور یہ بات ذیابیطس کے مریضوں کے لئے خاص طور پر مفید ہے۔

اسی طرح دودھ خود ایک مکمل خوراک ہے (بشرطیکہ ہر طرح کی ملاوٹ خصوصاً دور حاضر میں جانوروں کو دودھ کی مقدار بڑھانے اور فوری نکالنے کے لالچ کی وجہ سے Bostan Injection اور Oxeytosin Injection نہ لگایا گیا ہو یا پھر کپڑے دھونے والے کیمیکل سے تیار نہ کیا گیا ہو یا پھر پانی ملانے یا ٹھنڈا کرنے کے نام پر برف ملائے بغیر حاصل کیا گیا ہو) جو جسم کی نشوونما کرتی ہے۔ زود ہضم اور ہر عمر کے انسان کیلئے موزوں ہے جبکہ شہد ایک مفید اور جامع غذا ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار طبی خصوصیات کی حامل دوا بھی ہے بشرطیکہ (Organic Honey) ہو۔

چنانچہ جو، دودھ اور شہد کی باہمی آمیزش سے جو مرکب تیار ہوتا ہے وہ نہ صرف ایک مفید غذا ہے بلکہ بہت سے امراض کا شافی علاج بھی ہے۔ مثلاً دل کی دھڑکن اور بلند فشار خون، خون میں چربی کی زیادتی اور گاڑھا پن، دل کے والو کی پیچیدگیاں، معدے کی خشکی اور گرمی، معدے کی تیزابیت، نگاہ کی کمزوری، بھوک کی کمی، بیماری کے بعد کی کمزوری، دائمی قبض، حاملہ خواتین کی کمزوری، وساوس اور وحشت قلب، پیشاب کے امراض خاص طر پر جلن، گردے کا انفیکشن اور پتھری کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ اس کے مستقل استعمال سے پتھری بننے کی رفتار میں بہت کمی آجاتی ہے۔

اس کے علاوہ تلبینہ بوڑھوں، بچوں اور ہر عمر کے لوگوں کیلئے ایک مفید ٹانک بھی ہے:

تلبینہ بنانے کے مختلف طریقے:

طریقہ نمبر 1۔ ایک پاؤ دودھ میں تین کھانے والے چمچے جو کا دلیہ ڈال کر 45 منٹ تک دھیمی آنچ پر پکائیں اور وقفہ وقفہ سے چمچہ ہلاتے رہیں یہاں تک کہ کھیر جیسی بن جائے پھر چولہے سے اتار کر ٹھنڈا کرلیں اور حسب ذائقہ خالص شہد ملالیں۔ اگر شہد موجود نہ ہو تو تین عدد کھجوریں شامل کرلیں بس آپ کیلئے تلیبنہ تیار ہے۔

تنبیہ: یہ بات ذہن میں لازمی رہنی چاہئے کہ ایلومینم کا برتن ہرگز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ معدہ اور آنتوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔

ایک مومن کی پہلی ترجیح مٹی کا برتن ہونا چاہئے اگر کسی وجہ سے وہ نہ دستیاب ہوسکے تو تانبہ کا برتن مگر شرط یہ ہے کہ قلعی کیا ہوا ہو یا پھر انتہائی مجبوری کے درجہ میں اسٹیل کا برتن بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وضاحت: تلبینہ عام طور پر نہار منہ صبح اشراق کی نماز کے فوراً بعد ناشتہ کے طور پر کھانا ہی بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے مگر اسے کھانے کے بعد کم از کم 3 گھنٹہ کا وقفہ ضرور دینا چاہئے تاکہ اس کے مکمل فوائد اور اثرات ظاہر ہوسکیں۔ عام طور پر ایک پیالہ (Bowl) جو کے دلیئے تلبینہ میں اوسطاً 106 کیلوریز پائی جاتی ہیں جو ایک صحت مند انسان کی صبح سے شام تک ضرورت کے لئے کافی و شافی ہوتی ہیں۔

طریقہ نمبر2:تین چمچ ثابت جو لیکر تھرماس میں ڈال دیں اور پھر اسے گرم پانی سے بھر کر بند کردیں اور کم از کم 8 گھنٹہ کیلئے رات یا پھر دن میں چھوڑ دیں۔ 8 گھنٹے گزرنے کے بعد پانی چھان لیں یہ جو کا بہترین پانی حاصل ہوگیا ہے جو بہت سارے امراض میں شفایابی کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس پانی کو خالی پیٹ کم از کم 40دن پابندی سے پی کر اس کے فوائد کا ازخود مشاہدہ کریں۔ پانی چھان کر جو جو حاصل ہو اسے گرم دودھ میں تھوڑی دیر اْبال دیں۔ لیجئے آپ کا ایک اور قسم کا تلبینہ صرف چند منٹوں میں تیار ہوگیا ہے پھر اس میں شامل کردیں یا پھر کھجوریں شامل کردیں۔

طریقہ نمبر3: ایک کلو جو کا دلیہ یا ثابت جو کو 2 لیٹر پانی میں یا 2 لیٹر دودھ میں دھیمی آنچ پر 2 گھنٹہ پکالیں جب یہ گل جائے تو اسے اْتار کر ٹھنڈا کرکے فریج میں رکھ لیں۔ پھر روزانہ حسب ِ ضرورت دودھ میں شامل کرکے شہد، کھجوریں، خشک میوہ جات، کیلے، چاکلیٹ وغیرہ ملا کر عمدہ قسم کا تلبینہ ملک شیک بنالیا جائے۔ یہ شیک نہ صرف انتہائی طاقتور غذائیت سے بھرپور عمدہ قسم کا ناشتہ ہے جسے صبح کم سے کم وقت میں پینا بہت ہی آسان ہے بلکہ اسکول جانے والے بچوں کیلئے اور دفتر جانے والے افراد کیلئے تو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یاد رہے 2 گلاس یہ تلبینہ شیک پی کر کم از کم 3گھنٹہ بعد شدید بھوک کا تقاضا اٹھے گا اس وقت آپ کا (Brunch) آپ کے پاس ہونا بہت ضروری ہے ورنہ آپ سے کوئی بھی کام صحیح طرح نہ ہوسکے گا۔

طریقہ نمبر4: یہ جو کے آٹے کا پتلا پانی ہے جو دودھ جیسا سیال ہوتا ہے، ہرویؒ فرماتے ہیں کہ اس کو تلبینہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ’’لبن‘‘ یعنی دودھ سے سفیدی اور پتلے پن میں مشابہت رکھتا ہے۔ یہ غذا بیمار کے لئے ازحد مفید ہے جبکہ پتلا ہو اور پکا ہوا ہو ناکہ گاڑھا اور کچا ہو۔ تلبینہ کی خوبی معلوم کرنی ہو تو جو کے پانی کی خوبیاں معلوم کرلیجئے، بلکہ یہ تلبینہ تو عربوں کے لئے جو کے پانی کا قائم مقام ہے کیونکہ تلبینہ جو کہ آٹے سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جو کے پانی اور تلبینہ میں فرق یہ ہے کہ جو کا پانی جو کے ثابت دانوں کو پکا کر حاصل کیا جاتا ہے جبکہ تلبینہ جو کہ آٹے سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔ تلبینہ جو کے پانی کے مقابلہ میں زیادہ مفید ہے اس لئے کہ پسنے کی وجہ سے جو کی خاصیت نمایاں ہوجاتی ہے۔

دوا اور غذا کے پوری طرح اثر کرنے میں عادات کو بڑا دخل ہے لہٰذا بعض قوموں میں یہ عادت رہی ہے کہ وہ جو کا پانی بنانے میں جو کے ثابت دانے کے بجائے جو کے آٹے کے پانی میں گھول کر اْسے ابالنے کے بعد استعمال کرتے ہیں۔ جس سے بھرپور غذائیت حاصل ہوتی ہے اور چہرے کی رونق بحال ہوجاتی ہے۔شہری معالجین اس کو ثابت دانوں کے ساتھ استعمال کراتے ہیں تاکہ اس سے تیار ہونے والا پانی پتلا اور زود ہضم ہو اور اس سے مریض کی طبیعت پر گرانی نہ ہو۔ یہ شہریوں کی نازک مزاجی کے مطابق ہوتی ہے۔ کیونکہ پسے ہوئے جو کا پانی ان کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ بہرحال ثابت جو کا پکایا ہوا پانی زود ہضم ہوتا ہے۔ اگر گرم گرم پیا جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور یہ طبعی اور فطری حرارت کو بڑھاتا ہے۔

تلبینہ کا فائدہ حدیث شریف میں یہ آیا ہے کہ یہ غم کا ازالہ کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غم اور فکر سے انسانی جسم کی حرارت طبعی کو نقصان پہنچتا ہے، اور اس سے دل بھی بہت کمزور ہوجاتا ہے تلبینہ بدن کی حرارت کو بڑھا کر دل کو فرحت بخشتا ہے، کیونکہ اس میں مفرح غذائی اجزاء شامل ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مغموم کے قویٰ، اعضاء پر خشکی غالب ہونے کی وجہ سے کمزور پڑجاتے ہیں۔ خاص طور پر معدے میں غذا کی کمی کی وجہ سے خشکی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس تلبینہ سے ان اعضاء کو طراوت، تقویت اور غذائیت سب ہی چیزیں پہنچتی ہیں اور یہی سب اثرات دل پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ تلبینہ سے معدے کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر جس مریض کو جو کی روٹی کھانے کی عادت ہو۔ اہل مدینہ کی غذا بھی جو کی روٹی ہی تھی گندم تو اہل مدینہ کے ہاں نایاب تھی۔

تلبینہ جو یمن میں بنایا جاتا ہے اس کا عملی نسخہ یہ ہے:

کھانے کا ایک بڑا چمچہ بھر کر جو کا آٹا لے کر ایک لیٹر پانی میں گھول لیں اس میں تین بڑے چمچے خالص دیسی شہد (Organic Honey) ڈال کر ابال لیں۔ ابالنے کے بعد، تین چار منٹ ہلکی آنچ پر پکالیں۔ جب ٹھنڈا ہوجائے تو ایک کپ دودھ ڈال لیں۔ مریض بقدر ضرورت استعمال کرے۔ جسے جو کا آٹا موافق نہ ہو تو وہ گندم کا آٹا بھی استعمال کرسکتا ہے۔ تلبینہ صحت مند افراد بھی استعمال کرسکتے ہیں اور ان کے لئے بھی مفید ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں (Ensure) قسم کی مہنگی چیزیں مریض کے غذا کے لئے استعمال کی جاتی ہیں حالانکہ نبوی نسخہ ان سب سے بہت بہتر اور سستا ہے۔

شوگر کے مریض افراد کو چاہئے کہ کسی بھی طریقہ سے تلبینہ بنائیں لیکن شہد بیری کا عمدہ اور معیاری ہی استعمال کریں تاکہ ان کی شوگر اعتدال پر رہے۔

آخر میں اپنے تاجر بھائیوں سے یہ عرض کروںگا کہ تلبینہ میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں انتہائی قیمتی ہیں اگر یہ خالص اور قدرتی باآسانی دستیاب ہوجائیں۔ لہٰذا تاجر حضرات کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے بغیر انجکشن لگا ہوا، بغیر پانی یا برف ملایا ہوا دودھ خصوصاً گائے کا دودھ عوام تک پہنچانے کا انتظام کریں اور یہی سنت کو گھر گھر پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں تاکہ حلال روزگار کے مواقع بھی بے روزگاروں کو میسر آئیں اور خالص اور قدرتی چیزیں لوگوں کو آسانی سے ملنا شروع ہوجائیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آسکے اور لوگ حقیقی صحت مند زندگی گزارنے کا مزہ لے سکیں اور زندگی کے ایام بیماریوں میں اور ہسپتالوں کے چکر لگانے اور ڈاکٹروں کی منت اور خوشامد کرنے سے محفوظ رہ کر اپنی قیمتی زندگی دنیا و آخرت کی خیر و برکات سمیٹنے میں گزار دیں۔

The post طبِ نبویﷺ میں تلبینہ (جو کا دلیہ) کی اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.


محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار

$
0
0

محترمہ بے نظیر بھٹو کی 30 سالہ سیاسی جدوجہد جو 1977 میں شروع ہوئی، عزم، ہمت اور ویژن کی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم اس سفر میں ایک حوالہ ان کا بے مثل پارلیمانی کردار ہے۔ محترمہ کا پارلیمانی کردار 1988 سے لے کر 1999 تک کم و بیش 11 سالوں پر محیط ہے۔

اس عرصہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو دنیا کی کم عمر ترین، عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کا تاریخی اعزاز نصیب ہوا۔ اس عرصہ میں محترمہ کو دو بار قائد ایوان اور دو بار قائد حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بے مثال پارلیمانی کردار پر تحقیق کی جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، ان کی پارلیمان میں کی گئی تقاریر پر ایک الگ کتاب مکمل ہو سکتی ہے۔

1988 کا الیکشن جیت کر محترمہ بے نظیر بھٹو اسی سال 30 نومبر کو پہلی بار قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے آئیں۔ حلف برداری کے بعد پارلیمانی روایت ہے کہ معزز اراکین ’’رول آف ممبر‘‘ پر دستخط کرتے ہیں۔ 1988 کے اسمبلی کے رول آف ممبر پر سب سے پہلے دستخط محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود کیے۔ 3 دسمبر 1988 کو جب ملک معراج خالف اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو محترمہ نے اسمبلی کے فلور سے اپنے پہلے پارلیمانی کلمات ادا کیے۔

اس موقع پر محترمہ کے تاریخی الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کا جمہوری ویژن کیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’یہ آپ کی کامیابی نہیں ہے، یہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔ ہم اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ اسپیکر کا جو کردار ہے وہ خالی ایک پارٹی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ پورے ہاؤس کے لیے ہوتا ہے۔‘‘

’’آج ہم نے آپ کو جمہوریت میں پیش کردیا۔ آج سے آپ خالی ہمارے نہیں ہیں، آپ پورے گھر کے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ نے کبھی جانب داری ماضی میں بھی نہیں کی اور ابھی بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ جو بھی رولز ہوں، جو بھی ریگولیشنز ہوں آپ ان کے مطابق چلیں اور اگر آپ ہمارے خلاف بھی فیصلہ دیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے اندر برداشت کی قوت ہے۔ آپ قانون کی حفاظت کریں اور آئین کی بالادستی۔‘‘

بے مثال جدوجہد کے بعد پارلیمانی اداروں اور آئین کی حرمت کا مشن محترمہ کے ان تاریخی کلمات سے عیاں ہوتا ہے۔

12 دسمبر 1988 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 237 اراکین کے ایوان میں انہیں 148 ووٹ ملے۔ اس موقع پر ایک مذہبی جماعت کے دو اراکین نے ’’ اسلام میں عورت کی حکمرانی‘‘ کا سوال اٹھا کر تھوڑی دیر کے لیے تلخی پیدا کی۔ تاہم محترمہ نے اپنے خطاب میں صرف اتنا جواب دیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح مذہبی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار ہو سکتی تھیں تو آج یہ مسئلہ کیوں؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارلیمانی تقاریر ادب، تاریخ اور مستقبل کے بارے میں دستوری رستے پر کے ترغیبی محاورے سے عبارت ہوتی تھیں۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے اپنی جیت کو عوام کی جدوجہد کی جیت اور خود کو وفاق پاکستان کی وزیراعظم قرار دیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے دستوری اور جمہوری ڈھانچے میں پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھیں۔ وہ نہ صرف اجلاسوں میں باقاعدگی سے حاضر ہوتی تھیں بلکہ ملکی حالات، خارجہ امور، معاشی حالات اور انسانی حقوق ایسے موضوعات پر کھل کر بات کرتی تھیں۔

1988 کی اسمبلی میں حزب اختلاف ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی جو کہ ناکام ہوئی۔ اس موقع پر بھی محترمہ کی گفتگو میں ذاتی دکھ نہ تھے بلکہ پاکستان کی پارلیمانی راستوں پر چل کر عوام کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت نمایاں رہی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارشل لا ریگولیشن 60 کا خاتمہ کر کے اسٹوڈنٹس یونین بحال کیں۔ 6 اگست 1990 کو جب 58(2) بی کا اژدہا عوام کی منتخب اسمبلی کھا گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی سیاست پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا۔

1990 کے انتخابات کی کہانی سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کے بعد اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 1990-93 کی اسمبلی میں محترمہ نے قائد حزب اختلاف کے طور پر انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ اسی دور میں وہ خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن بنیں جو کہ تلخیوں کے باوجود مل کر پارلیمانی کردار نبھانے کے کلچر کی ابتدا تھی۔ 1993 میں اسمبلی کی تحلیل اور سپریم کورٹ کے ذریعہ بحالی کے بعد بھی محترمہ کا پارلیمانی کردار قابل فخر رہا۔

15 اکتوبر 1993 کو محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر کامیاب رہنما کے طور پر قومی اسمبلی میں پہنچیں۔ 19 اکتوبر 1993 کو جب وہ 217 کے ایوان میں 121 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئیں تو مذہبی جماعتیں ایک بار پھر عورت کی حکمرانی کا سوال اٹھا رہی تھیں۔ اس عرصہ کے دوران قومی اسمبلی کی عمارت میں حادثاتی ا?گ لگ گئی اور اسمبلی کے اجلاس اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں ہوئے جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین بنایا تھا۔ اس طرح اس تاریخی ہال میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی آواز گونجی۔

اپنے عہد اقتدار میں محترمہ نے عوامی مقامات پر کوڑے مارنے کے قانون کا خاتمہ کیا اور انسانی حقوق کی وزارت قائم کی۔

1997 کے انتخابات کے بعد محترمہ نے ایک بار پھر قائد حزب اختلاف کا کردار نبھایا۔ جب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسمبلیوں کو ہڑپ کر جانے والے آرٹیکل 52(2) بی کے خاتمے کا عزم کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے غیرمشروط حمایت کی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالم اسلام کی خواتین پارلیمنٹیرین کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں خطاب کے دوران جمہوری ممالک کی انجمن بنانے کا تصور پیش کیا۔ آپ اگر آج پارلیمنٹ ہاؤس جائیں تو وہاں قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر کا پورا متن آویزاں ہے۔ یہ فیصلہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔

آج دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر پارلیمنٹ کو اس کی آئینی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے دو ہی حوالے ہیں۔ اول یہ کہ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو دستور کی چھاؤں میں پارلیمانی راستے ہی منزلوں تک جائیں گے۔

دوئم یہ کہ حزب اختلاف ذاتی دشمن نہیں ہوتی بلکہ ایک متبادل نقطہ نظر کا نام ہے اور پارلیمنٹ میں مل کر کام کرنا ہی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ اس لیے مکالمے کا دروازہ بند نہیں رکھا جا سکتا۔

(ظفراللہ خان پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات کے سربراہ رہے ہیں اور پارلیمانی تاریخ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ )

The post محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک مثالی ماں

$
0
0

ڈاکٹر نسرین نمل یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کی پروفیسر ہیں، ایک سرکاری میٹنگ جب ملتوی ہوئی تو ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ دوران گفتگو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر نسرین محترمہ بینظیر بھٹو کے بچوں بلاول اور بختاور کو قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم پر مامور رہی ہیں۔

ان دنوں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں اور بحثیت ماں، بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکرمند بھی رہتی تھیں۔ قرآن مجید کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو وزیراعظم ہاؤس کے امام مسجد کا انتخاب کیا گیا لیکن محترمہ نے کہا کہ ان کے بچوں کے لیے عربی زبان و ادب کی خاتون پروفیسر کا انتخاب کیا جائے کیوںکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ ان کے بچوں کی عربی زبان و تجوید کسی عربی زبان کی ماہر پروفیسر کی نگرانی میں مکمل ہو سکے۔ لہٰذا نمل یونیورسٹی سے رابطہ کیا گیا اور یوں ڈاکٹر نسرین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔

ڈاکٹر نسرین کے مطابق جب وہ بلاول اور بختاور کو قرآن کی تعلیم دے رہی ہوتی تھیں تو محترمہ بینظیر بھٹو اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کمرہ میں تھوڑی دیر کے لیے داخل ہوتیں، کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ نا صرف سر کو دوپٹے سے ڈھانپ لیتیں بلکہ قرآن مجید کے تقدس کے پیش نظر جوتے بھی اتار دیتی تھی۔

ڈاکٹر نسرین کے لیے یہ مناظر بڑے حیرت انگیز تھے کیونکہ ان کا محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں تاثر میڈیا سے ماخوذ تھا جس کا ایک بڑا حصہ انہیں اسلام اور پاکستان کے لیے خطرہ قرار دینے پر تلا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاستدان ذاتی زندگی میں اپنے عوامی تاثر کے برعکس کتنے مختلف ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر نسرین کے بقول چند ہی روز میں محترمہ ان کی کارگردگی سے مطمئن دکھائی دینے لگیں تو انہوں نے ڈاکٹر نسرین سے درخواست کی کہ وہ اپنی نگرانی میں بلاول اور بختاور کو نماز سکھائیں اور پڑھائیں، اس پر ڈاکٹر نسرین نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بتایا کہ آپ نے مجھ سے میرا مسلک نہیں پوچھا، میرا مسلک دیوبندی ہے جو کہ آپ کے مذہبی مسلک سے مختلف ہے۔ اس پر محترمہ بینظیر بھٹو نے جواب دیا کہ میرے لیے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے مسلکی اختلاف اہمیت نہیں رکھتے لہٰذا میں اپنے بچوں کو صرف اور صرف اچھا مسلمان بنانا چاہتی ہوں اگر میرے لیے یہ بات اہمیت کی حاملِ ہوتی تو میں خود آپ سے آپ کا مسلک دریافت کرلیتی۔ سیاسیات کے طالبِ علم کی حیثیت سے محترمہ بینظیر بھٹو کے دور کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کی تصویر ذہن میں ابھر آئی۔

محترمہ بینظیر بھٹو جب سیاست میں وارد ہوئیں تو اطلاعات اور سیاستدانوں کی ذاتی زندگی تک رسائی کا ذریعہ صرف چند اخبارات اور رسائل تھے، صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جس پر نو بجے کا خبر نامہ نشر ہوتا، ان کی پاکستان واپسی پر فقید الامثال استقبال سے جنرل ضیاء آمریت کا خوف دور ہوا، طاقتور حلقوں نے ان کے خلاف کردار کشی پر مبنی میڑیا مہم شروع کردی۔

جنرل ضیاء اگرچہ ۱۹۸۸ میں طیارہ حادثہ میں ہلاک ہوگئے، بعد میں آنے والی آئی جے آئی کی حکومت نے بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف کردار کشی کی مہم جاری رکھی۔ لیکن تاریخ کے سفر میں پراپیگنڈا کی عمر قلیل ہوتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو تاریخ میں ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔

The post ایک مثالی ماں appeared first on ایکسپریس اردو.

بے نظیر بھٹو، ایک جنگجو شہزادی

$
0
0

تضاد غالباً تمام ہی لوگوں کی میراث ہوتی ہے۔ یہ انہیں تمام عمر اسی طرح مصروف اور گھیرے بھی رکھتی ہے۔ باپ کے بعد بیٹے کی ذمہ داریوں میں بھی یہ دھوپ چھاؤں نمایاں رہی۔ ایسی زیست کو آپ معمول کے مطابق منظم کبھی نہیں کر پاتے۔

تاریخ میں سانحات ہمیشہ عظیم کامیابیوں کے درپے رہے ہیں۔ بے نظیر کی موت نے جہاں اسے انمٹ کر دیا وہیں اس کا قتل تاعمر ہمارے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔ اس کی موت کا لمحہ اب ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

وہ بظاہر نہایت مضبوط اور سخت گیر مگر باطن میں نہایت حساس اور اپنی سب سے بڑی نقاد تھی۔ اس کی حیثیت اور مرتبے کو اسے پہنچنے والے صدمات نے ہمیشہ جلا بخشی۔ وہ ایک پختہ ارادہ و پُراعتماد سیاستدان تھی تاہم اس کے باپ کے مقدمے اور صدمے نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی افسردگی اور تکلیف نے اسے غریب عوام سے مزید گہری وابستگی عطا کی۔ بے نظیر کبھی ہمہ جہت نہیں تھی۔ وہ موروثی طور پر بس منفرد تھی۔ وہ میڈونا سے لے کر معیشت تک بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ گفتگو کر لیا کرتی تھی۔ خود کو حاصل خاندانی تفاخر کے باوجود اپنی ترجیحات کی خوب چھان پھٹک کرنے کی عادی تھی۔ کائنات کی ہر شے اس کے لیے پرکشش تھی۔

خطے کی محرومیوں کا ادراک رکھنے والوں سے فوری ہم آہنگی اس کی حیرت انگیز صفت تھی۔ باپ کی طرح وطن کی مہک اس کے خمیر میں تھی۔ باپ ہی کی طرح وہ محرومیوں سے جُڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے وہ ملکہ عالیہ تھی۔

آج بھی ماحول پر اس کی نڈر اور لافانی روح کی گرفت اس کا ورثہ اور اس کی علامت سہی لیکن عام آدمی سے وابستگی ایک خودساختہ ذمہ داری کے طور پر ہے۔ وہ خود بھی خالصتاً عوامی شخصیت تھی۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ لامحدود وقت گزارتی بلکہ وہ ان لمحوں میں بھی ان سے الگ نہ ہوتی جب وہ دیگر فرائض سرانجام دے رہی ہوتی۔ اس نے تمام شکست و ریخت میں اپنے بچوں، خاوند، خاندان حتیٰ کہ دوستوں تک کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔

اس کی ہنسی بھی اس کی گرمجوشی ہی کی طرح دل کی گہرائیوں تک سرایت کر جانے والی تھی۔ دوشیزاؤں جیسی کھلکھلاہٹ، ماتھے پر فکرمندی کی شکنوں کے ساتھ ہمدردی، کچھ کر گزرنے کی خواہش اور اس پر ہر وقت کمربستہ رہنا اس کا کمال تھا۔ حقائق کی تلخیوں کے باوجود وہ خوابوں ہی میں زندہ رہی۔ اس نے خواب دیکھنے کبھی ترک نہیں کیے۔ دراصل وہ انتہائی منفرد اور حیرت انگیز انسان تھی۔

بے نظیر عوام ہی کی طرح دانشوروں اور اعلیٰ شخصیات کے درمیان تو نہایت مطمئن اور پراعتماد ہوتی البتہ باتونی اور سماجی متمول طبقات میں آنے پر حیرت انگیز طور پر خود کو غیرمحفوظ اور نہایت غیرمطمئن محسوس کرتی۔ اسے ہمیشہ گمان رہا یہ طبقہ ایک تو فرد کو غیرضروری گہرائی تک دیکھنے کا آرزومند ہے، دوسرے یہ کسی کے بارے میں فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کرتا۔

وہ اس بات سے باخبر تھی کہ اس کی زندگی جراثیم نما عادی کہانی کاروں کے نرغے میں ہے۔ وہ سچائی کی دھول اس طرح اڑانے کے ماہر ہیں جس سے خود سچائی ریزہ ریزہ ہو جائے۔ بھٹو خاندان کی کہانی قومی سطح پر کس قدر اہم قرار دی جاتی ہے یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔

بے نظیر ایک دانشور تھی، جس کی ایک جلد میں کئی ابواب اور ہر باب میں کئی کئی نظریے تھے۔ وہ تکالیف سے گزرتی ہوئی ڈان کوئیکزوٹ کی طلسماتی کہانی کا کردار تھی جو اپنے سفر کے دوران تن تنہا کئی اژدہے مار سکتا ہے۔ بے نظیر کی زندگی ہوائی چکی کے پنکھوں کی طرح گھومتے گھومتے ہی گزری جبکہ اس کی زندگی میں موجود اڑدہے بھی اصلی تھے۔

2007 کے گرما میں رات کے کھانے پر ہمارے درمیان کتابوں اور نظموں پر گفتگو شروع ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا ’’تم نے روسی شاعرہ اینا ایخماتوف کو پڑھا ہے، اسٹالن کے دور میں جسے اپنے بیٹے اور خاوند کے ساتھ انتہائی خوفناک الزامات سے گزرنا پڑا۔‘‘

میں نے کتاب نہیں پڑھی تھی، بہرحال میں نے اسے خریدنے کا ارادہ فوراً کر لیا گو اس کے قتل کر مجھے اسے کھولنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر جب میں ایک روز محض اس کے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا ذیل کے پیرے نے ششدر کردیا:

’’اس کا جسم کس خوفناک حد تک بدل گیا تھا

چہرہ تو گویا گل سڑ گیا تھا

میں تو اس طرح کی موت نہیں چاہتی

اس کی تاریخ طے کرنا میرے تو بس میں نہیں

لیکن مجھے دکھایا گیا ہے کہ بادل بادلوں کے ساتھ ٹکرائیں گے

بجلی کڑکے گی

اور فرشتے میری طرف بھیجے جائیں گے‘‘

کیا یہ اس کی موت کے حوالے سے کی گئی کوئی پیش گوئی تھی؟

اس نے وطن واپسی کا ارادہ کر لیا تھا، اب ہمارا احتجاج یا درخواستیں بے معنی تھیں۔ خطرات سے آگاہ ہوتے ہوئے وہ واپس آچکی تھی۔ وہ امکانات کی ان دیکھی کامیابیوں میں جھوم رہی تھی۔ 18 اکتوبر کو جلاوطنی سے واپسی پر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ٹرک میں اس کے ساتھ تھا۔ ہجوم کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ میری جانب مڑی اور کہنے لگی ’’کتنا دلکش تصور ہے میں ان لوگوں کے جذبوں کو محسوس کر سکتی ہوں۔‘‘ ایک وقفے کے بعد پھر گویا ہوئی ’’میں انہیں کبھی مایوس نہیں کروں گی۔‘‘ منشور میں تبدیلی کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔

چند لمحوں بعد بم دھماکے نے قومی روح کے پرخچے اڑا دیے۔ لمحہ پہلے جہاں انسانیت جھوم رہی تھی، تالیوں اور نعروں کا طوفان برپا تھا پلک جھپکنے میں وہاں جلن، ایندھن جلتے گوشت کی بو اور سیاہ لاشیں تھیں۔ چاہتوں کے نغمے آہوں اور سسکیوں میں دم توڑ گئے تھے، گویا دہشت گرد اس وقت اپنا نفرتوں بھرا گیت ہمیں سنا رہے تھے۔

یہ وقت تھا جب اسے سب چھوڑ چھاڑ کر نکل جانا چاہیے تھا۔ وہ لوٹ جانے پر آمادہ ہوتی تو اس کے لیے تمام دروازے کھلے تھے مگر بزدلی تو اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ اسے صرف کھڑے رہنا اور لڑنا تھا، لڑنا بھی اپنی آخری سانسوں تک!

ان دنوں جب بلاول ہاؤس میں محض مخصوص افراد رات دیر گئے آنے والے دنوں کے خدشات و امکانات پر اس سے بات کیا کرتے وہ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتی۔ اس کے سامنے تصویر واضح ہوتی۔ اس کی آنکھیں، اس کی دھڑکن اور اس کی روح سے نکلتا نغمہ ایک مکمل مختلف پیغام دے رہا ہوتا۔

اس نے یہاں پہنچنے کا طویل سفر ایک مثبت جذبے سے کیا تھا۔ سفر کے دوران اس میں اب ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ وہ معاملات زندگی کے وسیع تر پہلوؤں پر اپنے اعتقادات اور تصورات کا ازسرنو جائزہ لینے لگی تھی۔ ان دنوں کا جائزہ لینے پر میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ واقعات کی روشنی میں ہم سے الوداعی ملاقاتیں کر رہی تھی۔

وہ جان گئی تھی کہ عالمی قوتوں اور جرنیلوں کے ساتھ ایک معاہدے کے برعکس اس کے کراچی اترتے ساتھ ہی اندرون ملک اقتدار میں موجود سیاسی قوتوں کا توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ اسے اپنے نام لکھے والد کے اس معروف خط کے الفاظ یاد آنے لگے ’’عملیت پسندی حقیقت سہی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔‘‘ اسے فضا میں بددیانتی کی بو آنے لگی تھی مگر کمان تیر سے نکل چکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی وقت کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

اس کے بعد ایک دن وہ راولپنڈی لیاقت باغ کے لیے نکلی، جہاں سے وہ جگہ کوئی زیادہ دور نہیں تھی جس جگہ 28 برس پہلے اس کے والد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس نے پرجوش مجمع کی جانب مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ فاتح ملکہ دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ سازشی ماحول کے اندر قتل کی صورت میں ایک سانحہ پہلے موجود تھا۔

اس روز بینظیر نے وہ اسٹیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جسے وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ بے نظیر کو دراصل حالات نے ایسی گندی اور آلودہ سیاست میں دھکیلا جہاں اسے پاکستانی سیاست کے محلات اور گٹروں میں بیک وقت پلنے والے بدقماشوں کا سامنا رہا۔ اسے بادشاہوں اور ملکاؤں کے ساتھ میل ملاقاتوں سے اقتدار اور ایوانوں تک میں چلنے کا سلیقہ دیا گیا۔ تقدیر دیکھیے اس کی زندگی اسے ایسی ناپسندیدہ دنیا میں لے گئی جہاں اسے مہم جوؤں اور موقع پرستوں کے ساتھ چلنا پڑا۔ اسے مجبور کیا گیا وہ ان کے اسلوب سیکھے اور ان سے ہم آہنگی پیدا کرے جو اس کی روح کے منافی تھا۔

یہ اس کی فطرت سے متصادم تھا اس نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ اس نے ایذارساں ’’بزرگوں‘‘، آستین کے سانپوں اور ریاستی تحفظ کے چار اطراف پھیلے ہوئے ذمہ داروں کا بیک وقت مقابلہ کیا۔ اس نے اپنی ایذا رساں مسافت میں ان سب کو باری باری بے نقاب کر کے کیفرکردار تک پہنچایا ہی مگر اس سے پہلے کہ ان ان اعتماد فروشوں کے خلاف فتح کا آخری نقارہ بجتا وہ اس جنگ میں بہادری سے لڑتی ہوئی شہید ہوگئی۔

اس کے قتل سے اس کی توقعات کے پورے ہونے میں کس قدر تیزی واقع ہوتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو مگر اس کے خون نے اس وطن کی مٹی کو جس طرح سینچا ہے اسے اس نے اپنی اس لیجنڈ ’’ماروی‘‘ سے زیادہ طاقتور کر دیا ہے جس کا تذکرہ اس نے اپنی 50ویں سالگرہ پر کہی گئی ایک نظم میں اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔

وہ کس طرح یاد کیا جانا پسند کرتی تھی، ایک جنگجو شہزادی جو آمروں کے ساتھ لڑی اور فاتح ہوئی، بہترین اصلاح پسند اور نجات دہندہ، مسیحا، ایسی شاعرہ جس نے دل دہلا دینے والی شاعری کی ہو، ایسی جون آف آرک جس نے استحصال کے خلاف جماعت کو علامت بنا دیا، پھول جس کی مہک کبھی کم پڑنے والی نہ ہو۔

بے نظیر دراصل یہ سب ہی کچھ تھی لیکن سب سے اہم جو اسے ہونا چاہیے تھا وہ تھا اس کا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونا اور یہ اس نے ثابت کیا۔ ہم سب کے لیے اور خود اپنے کنبے کے لیے وہ ایک ایسا گھنا سایہ دار درخت تھی جس سے اب ہمیں محروم کر دیا گیا ہے۔ وقت کی لہر جب کنارے نمایاں کرے گی تو لوگ اسے اس کی مہربانیوں اور محبتوں سے یاد کریں گے۔ وہ وقت سے پہلے ہی ہم سے جدا ہو گئی، ایک ادھ گایا نغمہ، ایک نامکمل نظم، ایک ناکمل زندگی، ایک ایسی زندگی جو مکمل بیان ہی نہ کی جا سکی۔

یہی پاکستان کی شہزادی بے نظیر کی کہانی ہے۔

The post بے نظیر بھٹو، ایک جنگجو شہزادی appeared first on ایکسپریس اردو.

سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا ہوتا رہا سال بھر؟

$
0
0

سائنس و ٹیکنالوجی کی رفتار آج بے انتہا تیز ہوچکی ہے۔ روزانہ سیکڑوں ایجادات و اختراعات ہورہی ہیں۔ نئے نئے نظریات پیش کیے جارہے ہیں۔ نت نئی دریافتیں ہورہی ہیں جواس بات کا اشارہ ہیں کہ تمام تر ترقی کے باوجود انسان کے جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔

گزرے برسوں کی طرح 2019 ء میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ارتقائی عمل جاری رہا جس کا اجمالی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔

ٔ٭ نئے سیاروں کی دریافت: سائنس داں برادری اس بات پر ایمان کامل رکھتی ہے کہ کھربوں سیاروں، ستاروں اور ان گنت کہکشاؤں پر مشتمل اس وسیع و عریض کائنات میں زندگی کا وجود صرف ہمارے سیارے تک محدود نہیں بلکہ حیات کسی نہ کسی شکل میں خلائے بسیط میں کہیں نہ کہیں ضرور پائی جاتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ان کا خاص ہدف زمین سے ملتے جلتے سیارے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی صرف انھی دنیاؤں میں پنپ سکتی ہے جن کے طبعی خواص دنیا سے مشابہ ہوں۔ یعنی وہاں پانی اور آکسیجن موجود ہو۔2019 ء میں بہ طور مجموعی چار سو کے لگ بھگ سیارے دریافت ہوئے جن میں سے کئی جسامت اور طبعی خواص کے اعتبار سے زمین سے قریب تر تھے۔ ماہرین فلکیات نے امید ظاہر کی کہ ان پر حالات زندگی کے لیے موافق ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔

٭ مریخ:  سیارہ مریخ کئی عشروں سے سائنس دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے کیوں کہ انھیں ’ سرخ سیارے‘ پر زندگی کی دریافت کی قوی امید ہے۔ ان برسوں کے دوران مریخ کی جانب کئی خلائی جہاز اور خلائی تحقیقی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔ اس وقت بھی مریخ کی سر زمین پر 14 خلائی تحقیقی گاڑیاں ’دندنا‘ رہی ہیں۔

ان میں سے ایک ’اپورچونیٹی‘ پندرہ سال قبل مریخ کی سرزمین پر اتری تھی۔ 2019 ء میں اس کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ فروری میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اپورچونیٹی سے رابطہ منقطع ہوجانے کا حتمی اعلان کیا۔ اپورچونیٹی کے ساتھ ’اسپرٹ‘بھی مریخ کی سرزمین پر اتری تھی، تاہم اس خلائی تحقیقی گاڑی سے 2010ء میں رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ان دونوں مشن نے ناسا کو مریخ کی بے شمار تصاویر اور دیگر ڈیٹا ارسال کیا جن کے تجزیے سے سرخ سیارے کی سطح اور اس کی ہیئت ارضی کے بارے میں بے حد قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔

٭ تھری ڈی پرنٹنگ:  2019ء میں جن ٹیکنالوجیز کا چرچا رہا ان میں تھری ڈی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ بے شمار چیزیں اب تھری ڈی پرنٹرز سے پرنٹ کی جارہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے طبی میدان میں بھی کام لیا جارہا ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار کردہ کچھ مصنوعی اعضا کی پیوندکاری بھی کی جارہی ہے۔ ماہرین طب چاہتے ہیںکہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی دل پرنٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی جائے تو امراض قلب میں مبتلا بہت سے انسانوں کی جان بچائی جاسکتی ہے جنھیں دل کی پیوندکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس ضمن میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین نے کولیجن سے نسیجی ڈھانچا تھری ڈی پرنٹ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ کولیجن انسانی جسم کا اہم ساختی جزو ہے۔ اس پیش رفت کے بعد سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ وہ تھری ڈی دل تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب مشی گن یونی ورسٹی سے وابستہ ماہرین روشنی کی مدد سے تھری ڈی پرنٹنگ پروسیس کی رفتار سو گنا تیز کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کامیابی تھری ڈی پرنٹنگ کی ترقی میں انقلابی ثابت ہوگی۔

٭  گلوبل وارمنگ : کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت کئی عشروں سے سنگین ماحولیاتی مسئلہ بنا ہوا ہے جو سائنس دانوں کے بقول، بالآخر اس سیارے کو لے ڈوبے گا۔ ماہرین کے مطابق قدرتی ماحولیاتی نظام میں گلوبل وارمنگ کے باعث پیدا ہونے والا بگاڑ حیاتی چکر کو متأثر کرے گا جس کے سبھی جانداروں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

گلوبل وارمنگ پر تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ برسٹول یونی ورسٹی کی ایک بین الاقوامی تحقیق میں کہا گیا کہ گرین لینڈ آئس شیٹ سے سالانہ ہزاروں ٹن میتھین خارج ہورہی ہے جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ چالیس برس قبل کے مقابلے میں براعظم انٹارکٹیکا اب چھے گنا تیزی سے برف سے محروم ہورہا ہے۔ ایک اور تحقیق میں پاکستان، بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ممالک کو مستقبل میں درپیش خطرے کی نشان دہی کی گئی کہ ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں موجود ایک تہائی گلیشیئرز برف پگھل جانے کے باعث ختم ہوجائیں گے جس سے دو ارب نفوس کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی، کیوں کہ گلیشیئرز ختم ہونے سے کئی بڑے دریا بھی قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔

٭ طب: 2019ء میں شعبہ طب میں متعدد پیش رفتیں ہوئیں۔ اسرائیل کی تل ابیب یونی ورسٹی کے محققین نے لبلبے کے سرطان کے علاج میں اہم کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ لبلبے کا سرطان لاعلاج ہے۔ صہیونی سائنس دانوں کی دریافت کردہ تیکنیک میں صرف ایک مالیکیول سرطانی خلیات کو ازخود تباہ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔

چوہوں پر کیے گئے تجربات میں کامیابی کی شرح 90 فیصد رہی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے لبلبے کے سرطان کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔ ایک اور تحقیق میں مایو کلینک کے محققین نے انسانی جسم سے عمررسیدگی کا سبب بننے والے خلیات خارج کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ عمررسیدگی کے خلیات کئی دیگر امراض میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ امراض قلب کے علاج میں ایک اور اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب محققین پہلی بار اسٹیم سیلز کو دل کے عضلات میں براہ راست پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

یہ کارنامہ برسٹول یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا۔ اسی برس امریکا میں سرطان کے مریضوں پر ’کرسپر جین ایڈیٹنگ‘ کی تیکنیک آزمائی گئی۔ سرطان کے تمام رائج طریقہ ہائے علاج ناکام ہونے پر مریضوں نے خود کو کرسپر کے تجربے کے لیے پیش کیا۔ ماہرین نے امید ظاہر کی کہ یہ ٹیکنالوجی سرطانی خلیات کے خاتمے میں کارگر ثابت ہوگی۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوجاتا ہے تو پھر سرطان کے علاج میں انقلابی پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح برطانیہ میں عمررسیدگی سے جڑے نابیناپن کا جینیاتی طریقے سے کامیاب علاج کیا گیا۔ اوکسفرڈ آئی ہاسپیٹل میں جینیٹ اوبسورن نامی خاتون کی آنکھ کے پردے میں مصنوعی جین داخل کرکے نابینا پن کا تدارک کیا گیا۔

٭ توانائی : حصول توانائی کے غیرروایتی ذرائع پر کئی عشروں سے توجہ دی جارہی ہے۔ اسی کے نتیجے میں بایوفیول، ونڈ انرجی اور سولرپینلز سے توانائی حاصل کرنے پر توجہ دی جانے لگی۔ گذشتہ برس بھی اس شعبے میں تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی تحقیق میں سائنس دانوں نے سولرپینلز کی کارکردگی موجودہ سے کئی گنا بڑھانے کے کامیاب تجربات کیے۔ اسی طرح نئے مادّوں سے آزمائشی طور پر سولر پینلز بنائے گئے جو کارکردگی میں موجودہ سولرپینلز سے کہیں زیادہ تھی۔

ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ بہت جلد یہ سولر پینلزعام دستیاب ہوں گے۔ امریکا کی نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے حرارت سے بجلی حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں مقناطیسی ذرات کی مدد سے حرارتی توانائی سے کہیں زیادہ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ اسی طرح برطانیہ میں امریکیئم نامی عنصر سے توانائی حاصل کرلی گئی۔ یہ عنصر قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا بلکہ پلوٹونیئم کی فرسودگی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اس عنصر کا استعمال خلائی بیٹریوں میں کیا جائے گا۔ کام یاب آزمائش کے بعد اس کا استعمال عام ہوجائے گا اور یہ تیکنیک توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔

٭ چاند: 2019ء میں زمین کا چاند بھی ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں کی توجہ کا محور رہا۔ سال کے آغاز میں چین کا روانہ کردہ مشن چاند کے بعید ترین حصے پر اترگیا۔ چانگ فور روبوٹ خلائی جہاز چاند کے جنوبی قطب میں اترا۔ قبل ازیں ارض قمر کا یہ حصہ کسی بھی بیرونی مداخلت سے ناآشنا تھا۔ اسی لیے خلائی کھوج کے سلسلے میں چانگ فور کی کامیاب لینڈنگ کو ماہرین فلکیات نے اہم سنگ میل قرار دیا۔ چانگ فور جدید آلات سے لیس ہے اور اس کا مقصد چاند کے اس حصے کی ارضیاتی ساخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تجربات کرنا ہے۔

چین کے برعکس اسرائیل کی چاند پر خلائی مشن اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ صہیونی ریاست نے اپریل میں چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا تھا تاہم چاند کے مدار کے قریب پہنچتے ہی خلائی جہاز کے مرکزی انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا نتیجتاً جہاز ارض قمر سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ بھارت نے بھی چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا۔ چندریان ٹو نامی خلائی جہاز قمری مدار میں پہنچنے کے بعد چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہوگیا جس کا ملبہ ناسا کے مصنوعی سیارے نے تلاش کرلیا۔

٭ پلاسٹک کی آلودگی: 2019ء میں سائنسی افق پر پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی اور اس کے نقصانات بھی چھائے رہے۔ متعدد تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں اور اس مادّے سے بنی ہوئی دوسری اشیاء بالخصوص سمندری حیات کے لیے زہرقاتل ثابت ہورہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ساتھ مُردہ آبی جانوروں کی تصاویر بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں جو پلاسٹک کی تھیلی میں پھنس کر یا پلاسٹک کے ریشوں میں الجھ کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔

مُردہ وھیل اور دیگر بڑی مچھلیوں کے چاک پیٹوں میں موجود پلاسٹک کی مختلف اشیاء کی تصاویر بھی شیئر کی جاتی رہیں۔ دوسری جانب پلاسٹک کی آلودگی سے سمندروں کو صاف کرنے کے طریقوں پر بھی تحقیق ہوتی رہی۔ محدود پیمانے پر اگرچہ مختلف طریقے اختیار کیے جارہے ہیں تاہم ماہرین ابھی تک کوئی ایسا طریقہ وضع کرنے یا کوئی ایسی تیکنیک دریافت کرنے میں ناکام ہیں جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کیا جاسکے۔

٭ کمپیوٹنگ: کمپیوٹر پروسیسرز کی رفتار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی نہ ختم ہونے والے طلب کے پیش نظر 2019ء میں بھی اس شعبے میں تحقیق و اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ مائیکروچپس بنانے والے معروف ادارے انٹیل نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) ٹیکنالوجی سے لیس مائیکروچپس متعارف کرائی جو ایک ہزار گنا زیادہ تیزی سے ڈیٹا پروسیس کرسکتی ہے۔

اسی طرح آئی بی ایم اور دیگر کمپنیوں نے بھی تیز ترین کمپیوٹرز متعارف کروائے۔ تیزرفتار پروسیسر کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے گنجائش کی حامل فلیش ڈرائیوز ، ہارڈ ڈسک بھی متعارف کرائی گئیں۔ لیکسر نامی کمپنی نے ایک ٹیرابائٹ (ایک ہزار گیگابائٹ) گنجائش کا حامل ایس ڈی کارڈ پیش کیا۔ اسی طرح دیگر کمپنیوں کی جانب سے زیادہ گنجائش رکھنے والی ڈرائیوز پیش کی جاتی رہیں۔

٭ ڈرون ٹیکنالوجی: ڈرون سائنس و ٹیکنالوجی کی ان شاخوں میں شامل ہے جس نے گذشتہ چند برسوں کے دوران تیزی سے ارتقائی منازل طے کیں۔ ڈرون طیاروں ( کواڈکوپٹر) کا استعمال کئی برس سے کیا جارہا ہے مگر 2019ء میں اس ٹیکنالوجی نے اڑن کاروں، اڑن موٹرسائیکلوں کی صورت میں نئی جہت اختیار کرلی۔ اسی طرح ڈرون طیاروں کا استعمال بھی متنوع ہوتا چلا گیا اور مختلف استعمالات کی غرض سے نئے کواڈ کوپٹر اور ملٹی کوپٹر بھی سامنے آئے۔

٭ بلیک ہول:  2019ء میں بھی سائنس داں بلیک ہولز سے جوجھتے رہے مگر ماضی کی طرح اس برس بھی وہ ان پراسرار مظاہر قدرت کے بارے میں کوئی قابل ذکر بات نہ جان سکے تاہم ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ انھوں نے پہلی بار ایک بلیک ہول کی شبیہہ حاصل کرلی۔ یہ کارنامہ دو سو ماہرین فلکیات کی ٹیم نے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کی مدد سے انجام دیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ بلیک ہول زمین سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ نوری سال کی دوری پر ہے اور اس کی کمیت سورج سے ساڑھے چھے ارب گنا زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے انھیں بلیک ہولز کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔

The post سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا ہوتا رہا سال بھر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

2020 سے متعلق نوسٹراڈیمس کی خوفناک پیش گوئیاں

$
0
0

ہمارے ایک پڑوسی کافی توہم پرست ہیں۔ بلّی کی خرخراہٹ‘ پہیوں کی چرچراہٹ‘موزہ الٹا ہونے اور کتا بھونکنے سے اندازہ لگاتے ہیں کہ مستقبل میں کوئی آفت آنے والی ہے یا خوش خبری۔

حالیہ دسمبر کے آخری ہفتے ان سے ملاقات ہوئی تو گھبرائے سے لگے۔ بولے ’’میاں ‘ نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ خدا خیر کرے۔‘‘ چونک کر پوچھا ’’انکل کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟‘‘

کہنے لگے: ’’لو تمہیں کچھ پتا ہی نہیں۔ ارے نوسٹراڈیمس کی خوفناک پیشن گوئی پڑھو۔ 2020ء جنگ و تباہی کا سال ہے۔ اسی برس تیسری جنگ عظیم شروع ہو گی۔ میں تو جنگ کے لیے تیار ہوں۔ تم اپنی خیر مناؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے اور ہمیں حیران پریشان چھوڑ گئے۔

ماضی میں معلومات کاسب سے بڑا ماخذ کتابیں تھیں تو اب نیٹ بھی بڑا ذریعہ بن چکا۔ مارے تجسس کے ہم نے گوگل پر نوسٹراڈیمس لکھا تاکہ جان سکیں، اس مغربی نجومی نے آخر سال رواں کے متعلق کیا پیش گوئیاں فرمائی ہیں۔ آخر ہر انسان مستقبل کی پنہائیوں میں جھانکنے کا شوق رکھتا ہے۔ لیجیے  میاں گوگل واقعی 2020ء کے بارے میں نوسٹرا ڈیمس کی خوفناک پیش گوئیاں سامنے لے آئے۔ انہیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ خدانخواستہ سال رواں ہماری زندگی کا آخری برس ہو سکتا ہے۔ ہائے‘ ابھی تو ہم صحیح طرح دنیا کی بہاروں سے بھی لطف اندوز نہیں ہوئے!

جعلی ڈاکٹر

رواں برس اپنی قسمت اور اپنے ستاروں کی چال جاننے سے قبل نوسٹراڈیمس کے بارے میں جان لیجیے۔ وہ دسمبر 1503ء میں فرانس میں پیدا ہوا۔ باپ یہودی تھا مگر بعدازاں کیتھولک عیسائی بن گیا ۔  غلے کا تاجر اور بنیا تھا۔ سود پر رقم دیتا۔ نوسٹراڈیمس چودہ سال کا تھا کہ تعلیم کی خاطر یونیورسٹی اوینیون میں داخلہ لیا۔ مگر طاعون کے حملے نے ایک سال بعد ہی درسگاہ کو بند کر ڈالا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ پھر گھر جانے کے بجائے دیہات میں گھومنے پھرنے لگا۔ موصوف نے اپنی تحریروں میں دعوی کیا ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرتا تھا۔اس نے پھر جڑی بوٹیوں سے ادویہ بنائیں اور گھوم پھر کر انھیں فروخت کرنے لگا۔

1529ء میں نوسٹراڈیمس نے ڈاکٹر بننے کے لیے یونیورسٹی مونٹی پلر میں داخلہ لیا۔ تاہم جلد اساتذہ کو پتا چل گیا کہ وہ دوا فروش رہا ہے۔تب دوا فروش یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔ اسی بنا پر اسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ وہ پھر دوا فروشی کر کے گزر بسر کرنے لگا۔ دور جدید میں اس کے معتقد مگر اسے’’ڈاکٹر‘‘ ہی کہتے ہیں۔

اس جعلی ڈاکٹر نے گلاب کی پتیوں سے طاعون کا علاج کرنے کے لیے ایک گولی بنائی تھی۔ مگر وہ 1534ء میں اپنی بیگم اور دو بچوں کو طاعون سے محفوظ نہ رکھ سکا۔اہل خانہ کی موت نے اسے دل شکستہ کر دیا۔ وہ پھر اٹلی چلا گیا اور وہاں دس گیارہ سال مقیم رہا۔ اٹلی میں قیام کے دوران ہی نوسٹراڈیمس شاید اپنا غم غلط کرنے کے لیے روحانیت اور پراسرار علوم میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ نجومیوں‘ کاہنوں‘ دست شناسوں ‘ پیروں وغیرہ کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور خود بھی ’’روحانی عالم‘‘ بن بیٹھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے خوابوں میں مستقبل کے حالات اور واقعات دکھائی دینے لگے۔1574ء میں نوسٹراڈیمس نے ایک امیر بیوہ سے شادی کر لی۔ فکر معاش سے آزاد ہو کر اب اس کا بیشتر  وقت روحانی دنیا میں گزرنے لگا۔

نام نہاد روحانی عالم

اس زمانے میں توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔لوگ نجومیوں سے مشورے کر کے اہم منصوبے بناتے تھے۔ اس لیے نوسٹراڈیمس کو کئی پیروکار مل گئے۔ وہ اس سے اپنی قسمت یا مستقبل کا حال پوچھنے آتے۔ چند بار اتفاقیہ طور پر اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہو گئیں۔ بس پھر کیا تھا‘ وہ ایک ماہر نجوم کی حیثیت سے مشہور ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اسے احساس ہوا کہ اپنی شہرت سے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ 1550ء سے ایک سالانہ کتاب (المانک ) شائع کرنے لگا۔اس میں زائچوں ‘ آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں‘ موسمی حالات وغیرہ کے علاوہ مستقبل کی پیش گوئیاں کا بھی ذکر موجود ہوتا۔

اس دور میں جادوگری کو کفر سمجھا جاتا تھا۔ کیتھولک کلیسا جادوگروں کو واجب القتل قرار دے چکا تھا۔ ٹوسٹراڈیمس کو خطرہ تھا کہ پیش گوئیاں کرنے پر کہیں اسے بھی جادوگر نہ سمجھ لیا جائے۔ اس واسطے اس نے شاعرانہ انداز اپنایا اور رباعی میں ایک پیش گوئی بیان کرنے لگا۔ ہر رباعی میں فرانسیسی کے علاوہ لاطینی‘ یونانی اور مقامی بولیوں کے الفاظ بھی شامل  ہوئے۔ تلمیحیں ‘ استعارے اور اصطلاحیں بھی برتی گئیں۔ دیومالا اور تاریخی واقعات کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ اس ساری چکر بازی کا مقصد یہ تھا کہ کلیسا کی مذہبی پولیس رباعیوں میں پوشیدہ پیش گوئیوں کو آسانی سے دریافت نہیں کر سکے۔یوں وہ جادوگر قرار نہ پاتا۔

فرانس میں نوسٹراڈیمس کی مرتب کردہ سالانہ کتب کو کافی پذیرائی ملی ا ور وہ اس کی موت تک شائع ہوتی رہیں ۔ ماہرین کی رو سے ان کتب میں کم ازکم 6338پیش گوئیاں محفوظ ہیں۔ 1555ء میں اس نے پیش گوئیوں کی باقاعدہ کتاب شائع کرائی جس کا نام ’’لے پروفیٹی‘‘(Les Propheties) ہے۔

یہ 942 رباعیوں پر مشتمل ہے۔اس کی تمام کتب میں اسی کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ 1555ء ہی میں فرانس کی ملکہ کیتھرائن نے اس سے اپنا اور اپنے بچوں کازائچہ بنوایا۔ شاہی دربار تک رسائی نے اسے مزید مشہور بنا دیا۔وہ جولائی 1566ء میں چل بسا۔ کہا جاتا ہے، اس نے اپنے ڈاکٹر کو موت سے ایک دن قبل ہی بتا دیا تھا کہ وہ اگلے روز کا سورج نہیں دیکھے گا۔اس کی پیش گوئیوں کا ’’گیرائی و گہرائی‘‘ سے مطالعہ کرنے والے مغربی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس کی یہ پیش گوئیاں عملی جامہ پہن چکیں:۔فرانسیسی بادشاہ ہنری کی موت‘ لندن کی عظیم آگ‘ فرانسیسی انقلاب‘ نپولین بونا پارٹ کا عروج‘ ہٹلر کی آمد‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم‘ جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرانا‘ چاند پر اپالو کا اترنا‘ شہزادی ڈائنا کی موت اور حادثہ نائن الیون۔

توہم پرستی کا شاخسانہ

دلچسپ بات یہ کہ نوسٹراڈیمس کو بطور غیب داں اور نجومی مشہور کرنے والے مغربی ماہرین کا وتیرہ یہ ہے کہ وہ پہلے اس کی رباعیوں میں کسی واقعے کے اشارے ڈھونڈتے ہیں۔ جب ایسی رباعی مل جائے تو اعلان کر دیتے ہیں کہ اس نے پہلے ہی واقعے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ یہ سارا فراڈ بلکہ کھڑاگ اسی لیے اپنایا گیا تاکہ اس کی پیش گوئیوں پر مبنی کتب دنیا بھر میں فروخت ہو سکیں۔

دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کا دور عروج پر ہے۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں بظاہر تعلیم یافتہ لاکھوں لوگ اس کی پیش گوئیوں پر مبنی کتب خریدتے اور ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ سچ ہے‘ تو ہم پرستی مرتے دم تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

درج بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ کلیسا کی پولیس سے بچنے کے لیے نوسٹرا ڈیمس رباعیوں کی شکل میں اور الفاظ کے ہیرپھیر سے اپنی پیش گوئیاں بیان کرتا رہا۔ وہ عموماً ماضی کے واقعات کو مستقبل پر منطبق کردیتا۔ لیکن لاکھوں سادہ لوح اس کی پیش گوئیوں کو سچ جان کر ان پر اعتبار کرنے لگے۔

اپنے اعتقاد کے باعث وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کی کسی پیش گوئی کا پورا ہوجانا محض اتفاق ہے۔ حقیقت میں اس فرانسیسی نجومی نے انسان کی وہم پرستی سے فائدہ اٹھایا اور نام نہاد پیش گوئیوں کی کتابیں بیچ کر دولت، شہرت اور عزت پانے میں کامیاب رہا۔مضحکہ خیز بات یہ کہ اب دنیائے نیٹ میں اس کی جعلی پیش گوئیاں بھی زیر گردش ہیںمگر ہمارے پڑوسی انکل جیسے توہم پرست انھیں سچ مان کر خود پریشان ہوتے اور دوسروں کا سکون بھی برباد کرتے ہیں۔اب ’’عظیم‘‘غیب داں کی سال رواں میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جانے کی پیش گوئی ہی کو دیکھئے جو دنیائے نیٹ میں بہت مشہور ہے۔ انگریزی میں وہ کچھ یوں ہے:

“In the city of God, there will be a great thunder

Two brothers torn apart by Chaos while the fortress endures

The great leader will succumb

The third big war will begin when the big city is burning.”

(ترجمہ: خدا کے شہر میں زبردست کڑک پیدا ہوگی

انتشار دو بھائیوں کو جدا کردے گا جب قلعہ حملہ سہے گا

عظیم لیڈر شکست کھائے گا

جب بڑا شہر جلے گا تو تیسری بڑی جنگ شروع ہوگی۔)

اسی پیش گوئی کی بنیاد پر بہت سے توہم پرست پاکستانی سمجھتے ہیں کہ سال 2020ء میں تیسری عالمگیر جنگ چھڑسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ درج بالا پیش گوئی نوسٹرا ڈیمس نے لکھی ہی نہیں، یہ تو بیسویں صدی کے ایک نوجوان طالب علم، نیل مارشل کی تخلیق ہے۔ یہ کینیڈا کی بروک یونیورسٹی کا طالب علم تھا، انسانوں کی توہم پرستی پر بہت کڑھتا تھا۔ خصوصاً اسے یہ دیکھ کر تاؤ آتا کہ لوگ نوسٹرا ڈیمس اور دیگر نجومیوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرلیتے ہیں۔

1997ء میں نیل مارشل نے نوسٹراڈیمس پر ایک تنقیدی مضمون قلمبند کیا۔ اس میں نیل نے لکھا کہ کوئی بھی شخص نوسٹراڈیمس جیسی پیش گوئی لکھ سکتا ہے۔ توہم پرست رباعی کو نوسٹراڈیمس کی تخلیق ہی سمجھے گا۔تبھی اس نے درج بالا پیش گوئی لکھ ڈالی۔ نیل کا خیال تین سال بعد درست ثابت ہوا۔ ستمبر 2001ء میں نائن الیون حادثہ پیش آیا۔ جلد ہی دنیائے نیٹ میں نیل مارشل کی تخلیق کردہ رباعی نوسٹرا ڈیمس کی پیش گوئی بن کر مشہور ہوگئی۔ یہ کہا جانے لگا کہ ممتاز فرانسیسی نجومی نے پہلے ہی حادثہ نائن الیون کی پیش گوئی کردی تھی۔

ہٹلر کا عروج

مزے دار بات یہ کہ نیل مارشل کی رباعی میں آخری سطر نہیں تھی۔بعد میں کسی انٹرنیٹئے نے رباعی میں شامل کردی۔ بس تب سے یہ رباعی تیسری جنگ عظیم کی آمد کا اعلان بن چکی۔ جب بھی نیا سال شروع ہو، تو نیٹ پر اس کا چرچا ہوتا ہے۔ چناں چہ ہمارے پڑوسی انکل کی طرح دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں توہم پرست سمجھتے ہیں کہ نئے برس میں تیسری جنگ عظیم دنیا تباہ کرسکتی ہے۔ کسی سیانے نے درست کہا ہے کہ سوجھ بوجھ اور عقل کی سب سے بڑی دشمن توہم پرستی ہے۔اسی طرح مشہور ہے کہ نوسٹراڈیمس نے درج ذیل رباعی میں جرمنی کے ایڈلف ہٹلر کے عروج کی پیش گوئی کی ہے۔

” The major battle shall be close by the Hister

He shall cause the great one

in an iron cage to be dragged

while the Germans shall be looking at the infant Rhine.”

اس پیش گوئی میں جرمنی، جنگ اور ہسٹر کا ذکر ہے جو ہٹلر سے ملتا جلتا نام ہے۔ مگر یہ کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ فرانسیسی میں دریائے ڈینوب کا ایک حصہ ہسٹر کہلاتا ہے۔ لیکن نوسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں سے بیسویں صدی میں مالی فوائد حاصل کرنے والے جعلی دانش وروں نے اسے ہٹلر سے تشبیہ دے دی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کی ایک بھی ایسی پیش گوئی نہیں جس کی بنیاد کوئی دانشور یہ اعلان کرسکے کہ مستقبل میں اس میں بیان کردہ واقعہ ظہور پذیر ہو گا۔ جیسا کہ بتایا گیا، جب کوئی نمایاں واقعہ جنم لے، تو نوسٹرا ڈیمس کی پیش گوئیوں سے منسلک دانشور کسی پیش گوئی کو اس سے جوڑ دیتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ پیش گوئی کی تشریح کرتے ہوئے دور کی کوڑی لاتے اور بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔

میاں نوسٹراڈیمس کیا کم تھے کہ بیسویں صدی میں توہم پرستوں نے ایک نابینا نجومی خاتون ،بابا ونگا ایجاد کرلی۔ بلغاریہ کی یہ خاتون 1911ء میں پیدا ہوئی اور 1996ء میں چل بسی۔ بلغاروی زبان میں ’’گرینڈ مدر‘‘ کو بابا کہا جاتا ہے۔ اسی لیے وہ بابا ونگا کے عرف سے مشہور ہوئی۔

اس کا اصل نام وینگیلیا پاندیف دیمتیروا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مستقبل میں جھانکنے کی قدرت رکھتی تھی اور اس کی بعض پیش گوئیاں درست ثابت ہوچکیں۔ مثلاً سویت یونین کا ٹوٹنا، سانحہ چرنوبل، سٹالن کی موت، واقعہ نائن الیون وغیرہ۔دلچسپ بات یہ کہ بابا ونگا نے بھی تیسری جنگ عظیم چھیڑنے کی پیش گوئی کررکھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ 2010ء سے شروع ہوکر 2014ء تک جاری رہے گی۔ تاہم یہ پیش گوئی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ بابا ونگا سے منسوب جھوٹی پیش گوئی تھی۔بہرحال دنیا کے حالات خراب ہیں مگر اتنے نہیں کہ عالمی جنگ چھڑ جائے۔

قرآن پاک میں آیا کہ غیب کی باتوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ان کے بارے میں کوئی انسان کچھ نہیں جانتا۔ (سورہ نمل آیت 65)۔اسی طرح نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے: ’’جو کسی نجومی کے پاس گیا اور اس سے کچھ پوچھا، تو اس کی نماز چالیس دن رات تک قبول نہیں ہوگی۔‘‘ (مسلم شریف) شریعت سے عیاں ہے کہ کسی انسان سے مستقبل کی پیش گوئیاں پوچھنا گناہ کے مانند ہے۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں جابجا ایسے نام نہاد نجومی اور کالے جادو کے ماہر پائے جاتے ہیں جو مستقبل میں جھانکنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ فراڈیئے سادہ لوح شہریوں سے مال اینٹھ کر اپنا الو سیدھا کرنے میں ماہر ہیں۔ ان سے دور رہیے اور توہم پرستی کے بجائے عمل صالح کی راہ اپنائیے۔ اسی میں سکون و سلامتی ہے۔

The post 2020 سے متعلق نوسٹراڈیمس کی خوفناک پیش گوئیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بڑا معرکہ اور سیاسی بحران

$
0
0

(قسط نمبر 15)

2013 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ہی عمران خان کوئی اٹھارہ فٹ بلند اسٹیج سے نیچے گر پڑے تھے جس کی وجہ سے اُن کی کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی، اُن کی پارٹی لیڈر شپ اور لند ن میں اُن کے بیٹوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ عمران خان لند ن علاج کے لیے آئیں مگر اُنہوں نے شوکت خانم ہسپتال سے علاج کروایا اور حیرت انگیز طور پر بہت جلد اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے بلکہ زیادہ متحرک انداز میں سامنے آئے۔

2008 سے 2013 کے انتخابات تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت باوجود میثاق جمہوریت ایک دوسرے پر کرپشن کے شدید الزامات عائد کرتے ہوئے کوئی کسی کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لُوٹی ہوئی دولت نکالنے کی بڑھک مارتا رہا توکوئی پنجاب کے منصوبوں میں کمیشن لینے کے دعویٰ کرتا رہا، جب کہ پرانے مقدمات جو قائم کئے گئے تھے اُن پر بھی ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد ہوتے رہے  اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ویسے ہی دو نوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر روز اوّل ہی سے عائد کرتی رہی ہیں۔

2013 کے انتخابات کے دوران ہی اِن سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے تھے ا ب جہاں تک تعلق پی ٹی آئی کا تھا تو اس ماحول اور دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر الزامات دھر رہے تھے تو تحریک ِ انصاف کرپشن کے خلاف نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئی جس کی قیادت عمران خان جیسی عالمی شہرت کی حامل شخصیت کر رہی تھی۔

یہ تمام عوامل تھے کہ 2013 کے عام انتخابات میں جہاں مسلم لیگ ن نے یعنی کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے32.17% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں، پیپلز پارٹی نے 15.23% ووٹ حاصل کر کے 33 جنرل نشستیں حاصل کیں،اور تحریک ِ انصاف نے مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ یعنی 16.92% ووٹ لیے مگر اُس کی قومی اسمبلی میں 28 جنرل نشستیں تھیں، یوں انتخابات 2013 کے نتائج کی بنیاد پر پاکستان کے عوام میں مقبولیت کے اعتبار سے اب تحریک انصاف اِن ووٹوں کے تناسب سے دوسرے نمبرکی قومی جماعت تھی۔

جب کہ پی ٹی آئی نے فوراً ہی انتخابات میں خصوصاً پنجاب میں دھاندلی کروانے کے الزامات ن لیگ پر عائد کر دئیے اور پہلے چار انتخابی حلقے کھولنے کامطالبہ کر دیا۔ پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی اب مقبولیت کے اعتبار سے ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی جس نے فوراً ہی نمبر ون پر آنے والی مسلم لیگ ن کو چیلنج کر دیا، اگرچہ جب بھی مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی اُسے سیاسی میدان میں حزب اختلاف کی پیپلزپارٹی کا سامنا رہا۔

جس سے ن لیگ نے ہمیشہ اختلافات دشمنی کی حد تک بڑھائے، پھر نواز شریف کی مہم جُو طبیعت ایسی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی اُن کے معاملات بطو ر وزیر اعظم ہمیشہ ہی بہتر نہیں رہے لیکن اس بار اُسے حزب اختلاف میں پیپلزپارٹی سے زیادہ مخالفت کا سامنا تحریک انصاف سے تھا جس نے ن لیگ اور پی پی پی دونوں کو ایک ساتھ چیلنج کر دیا تھا، یہ نئی جماعت تھی اس لیے اس کا احتجاج اور مخالفت شدید اور سیاسی اقدار سے قدرے ہٹی ہوئی تھی، پھر بطور نئی سیاسی جماعت یہ اقتدار میں بھی پہلے نہیں آئی تھی۔

اِس لیے جب پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی پر کرپشن کے الزامات عائد کئے تو عوام کی زیادہ توجہ بھی حاصل کی اور اس کے جواب میں مخالف دونوں بڑی جماعتیں کرپشن کاکوئی الزام پی ٹی آئی پر عائد نہ کر سکتی تھیں، یوں 2013 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو ایک ایسی نئی طرز کی مخالفت کا سامنا تھا جو اس سے پہلے ن لیگ نے نہیں دیکھی تھی۔

سیاسی فہم اور تجر بے کی بنیاد پر اس بدلتی ہوئی صورتحال نے پی پی پی جو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں تھی اُسے اور مسلم لیگ ن کو ایک کر دیا، جس کے منفی اثرات پی پی پی اور مسلم ن کے خصوصاً نوجوان ووٹ بنک پر مرتب ہونے لگے جس کا اندازہ اِن جماعتوں کواگرچہ تھا لیکن اُس وقت نیب کے مقدمات کے اعتبار سے یہ مفاہمت اِن دونوں پارٹیوں کی قیادت کے حق میں تھی۔

مسلم لیگ ن کی بڑی سیاسی غلطی یہ بھی تھی کہ جب پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کے صرف چار انتخابی حلقے کھولنے یعنی اِن پر تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا تو مسلم لیگ کے سعد رفیق سیمت کچھ رہنماؤں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ ن لیگ کی قومی اسمبلی میں 126 جنرل نشستیں ہیں اس لیے جن چار حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے اِس پر کامیاب ہو نے والے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے چاروں ارکان استعفٰی دے کر دو بار ہ انتخابات لڑتے ہیں یوں پی ٹی آئی کا اعتراض ختم ہو جائے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

جس کے سبب مسلم لیگ ن سیاسی طور پر بڑے خسارے میں رہی، بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس بار ایک تو1999 کے بعد تقریباً پندرہ سال بعد نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تھے اس لیے وہ شاید اسٹیبشلمنٹ سے مفاہمت کا رویہ رکھیں گے مگر ایسا نہیں ہوا، اُنہوں نے اگرچہ روایتی انداز میں وزارت داخلہ تو چوہدری نثار علی خان کو ہی دی مگر وزارت خزانہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو دی اور وزات خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا اور اِن دونوں شعبوں میں بعض اہم ترین نوعیت کے فیصلے اُنہوں نے ازخود کئے اور اِن فیصلوں کے اثرات سامنے آنے پر حیرت ہوئی۔

پا ک بھارت تعلقا ت کے لحاظ سے بھی اور دہشت گردی کے اعتبار سے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی، جہاں تک تعلق دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکی تعلق کا تھا تو نوازشریف کے اقتدار میں آنے سے دو سال قبل 2 مئی 2011 کو امریکی سی آئی اے اسپیشل ایکٹو فورس نے ایبٹ آباد میں آپریشن نیپچون اسیپرے میں اسامہ بن لادن سمیت 54 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں سے اسامہ بن لادن کی بیوی سمیت 33 عرب باشندے شامل تھے۔

اس کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کی امداد بھی روک لی گئی تھی، 20 تا 23 اکتوبر 2014 میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس اورامریکہ میں قیام کے دورران انہوں نے صدر اوبامہ سے ملاقات کی اور وائس آف امریکہ کے مطابق 2011 کے واقعہ کے بعد روکی گئی 1.6 بلین ڈالر کی امداد پاکستان کے لیے بحال کردی گئی اور پاکستان کی درخواست پر عارضی طور پر پاک افغان سرحد پر پاکستانی علاقوں میں ڈراؤن حملوں کو بھی روکنے کا یقین دلایا۔

نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد 26 مئی 2014 میں نریندر مودی کی جانب سے بطور بھارتی وزیر اعظم اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جس پر نوازشریف نے دہلی جا کر اس تقریب میں شرکت کی اور یوں وہ پہلے پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے ایسی بھارتی تقریب میں شرکت کی تھی اور پھر جب وہ اور مودی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک تھے تو خود نوازشریف نریندر مودی کی نشست کے قریب چل کر گئے اور سرگوشی کے انداز میں مختصر سی گفتگو کی جس کے دوران نریندر مودی نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا کہ کوئی لپ ریڈنگ نہ کر سکے۔

یہاں عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات جو اگر چہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی تھے مگر پی ٹی آئی نے14 اگست سے مارچ اور پھر اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا جس سے نواز شریف حکومت کی مقبولیت میں بھی کمی آئی اور پی ٹی آئی کے موقف کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی، لیکن ن لیگ کے مطابق اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو ساڑھے چا رسو ارب روپے کا نقصان پہنچا اور اسی کی وجہ سے چینی صدر کا دور ملتوی ہوا جس سے سی پیک کے منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے،بھارتی خفیہ اداروں کی آشیر باد سے 2013 کے آخر تک دہشت گردی کے 92 بڑے واقعات میں 877 افراد جان بحق اور1529 زخمی یا معذور ہو ئے تھے مگر 2014 میں پھر دہشت گردی بڑھی اور دہشت گردی کے 2099 واقعات میں 5308 افراد جان بحق اور 4569 زخمی اور معذور ہوئے۔

16 دسمبر2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کا ایک بڑا اور دلخراش حملہ ہوا، جس میں دہشت گردوں نے پاک بھارت جنگ دسمبر 1971 پر ہتھیار ڈالنے کے دن کی مناسبت کو بھی مد نظر رکھا تھا۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں سات دہشت گرد ہلاک ہوئے جب کہ149 معصوم طالب علم اور اِن کے اساتذہ شہید  ہوئے، یہ سانحہ تھا کہ جس کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ دشمن کی جانب سے ملک کے اندر جاری اس دہشت گردی کے خلاف مکمل فتح تک جنگ لڑی جائے گی اور پاکستان اس راستے میں کسی ملک یا طاقت کی پرواہ نہیںکر ے گا۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ قومی سطح پر یہ مطالبہ ہوا کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔

جس کے لیے ملک میں اندرونی سیکورٹی تحفظ کے لیے ایک جامع پالیسی اور گائیڈلائن تیار کی جائے جس کے تحت دہشت گردی کے انسداد کے لیے تمام محکموں اور اداروں میں اصلاحات کی جائیں، یوں وزارتِ داخلہ نے تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کے بعد 24 دسمبر2014 کو ایک نیشنل ایکشن پلان منظور کیا، وزیر اعظم نے وزارتِ داخلہ کو ہدایت دی کہ نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی اور اس پر عملد ر آمد کا پورا نظام بنایا جائے، یوں یہ  20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تریب پایا جس کے نکات یوں ہیں۔

نمبر1۔ دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سزائے موت ہو گی۔

نمبر 2 ۔ خصوصی عدالتوں کا قیام، یہ خصوصی عدالتیں فوج کی نگرانی میں ہونگی اور اِن کا دورانیہ دو سال کا ہو گا۔

نمبر 3 ۔ مسلح افراد اور گروپوں کو ملک میں کام نہیں کر نے دیا جائے گا۔

نمبر4 ۔ NACTA دی اینٹی ٹیررازم انسٹی ٹیوٹ وانسداد دہشت گردی کے اداروں کو مستحکم کیا جائے گا۔

نمبر5 ۔ایسے لٹریچر،اخبارات، رسائل جو نفرت،انتہا پسندی، فرقہ  واریت اور عدم برداشت کو فروغ دیں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔

نمبر6 ۔دہشت گردوںکو خار دار تاروں کی باڑ اور دیگر طریقوں سے روکا جائے گا۔

نمبر7 ۔اس کی یقین دہانی کرائی جائے گی کہ جن تنظیموں کو ختم کیا گیا ہے وہ دوبارہ وجود میں نہ آئیں۔

نمبر 8 ۔انسداد دہشت گردی کی فورس بنائی جائے گی جواپنے فرائض نہایت خلوص جذبہ اور وفاداری سے انجام دینے والے اہلکا روں پر مشتمل ہو گی اور اِن کو جہاں ضرورت ہو گی تعینات کیا جائے گا۔

نمبر 9 ۔ مذہبی تنگ نظری کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے۔

نمبر10  ۔مذہبی مجالس کی رجسٹریشن ہو گی ۔

نمبر11 ۔ پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کو پُرجوش دکھانے کی پابندی ہو گی۔

نمبر12 ۔فاٹا کے علا قے میں ا نتظامی اصلاحات کے ساتھ علاقے کو ترقی دی جائے گی اور اندرون ملک بے گھر ہو نے والوں کی بحالی اور آباد کاری کی جائے گی۔

نمبر 13۔دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے گا۔

نمبر14۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ایسے استعمال کو روکنے کے اقد امات کئے جائیں گے جن سے دہشت گردی کو فروغ ملے ۔

نمبر15۔ پنجاب میں مسلح کاروائیوں کو قطعی برادشت نہیں کیا جائے گا۔

نمبر16۔کراچی میں جاری آپر یشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

نمبر17۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو پورے اختیارات حاصل ہو نگے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے پوری ذمہ داری سے سیاسی مفاہمت کرے۔

نمبر 18۔ فرقہ واریت سے متعلق دہشت گردی سے قواعد و ضواط کے مطابق نبٹاجائے گا۔

نمبر 19۔ افغان مہاجرین کے ساتھ معاملا ت طے کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنائی جا رہی ہے جس کا آغاز تمام مہاجرین کی رجسٹریشن سے کیا جا رہا ہے۔

نمبر 20۔ جرائم کے عدالتی نظام کرئمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحا ت کی جائیں گی  اور اِس کو دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔

اگرچہ نواز شریف کی حکومت نے فوراً اس نیشنل ایکشن کمیشن کی حمایت کی لیکن بعد میں خصوصاً اس کی ایکسٹینشن پر سندھ کی صوبائی حکومت کو اور پھر پارلیمنٹ میں بھی اس پر اعتراضات ہو تے رہے، پھر 2015 کا سال بھی دہشت گردی کے اعتبار سے بہتر نہیں رہا، اس سال ملک میں دہشت گردی کے 1097 واقعات ہوئے جن میں3503 افراد جان بحق اور 2617 زخمی ہوئے۔

اِس دوران ایک جانب تو نواز شریف بھارت کے ساتھ اپنے طور پر تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششیں کرتے رہے تو دوسری جانب بہت سے حلقو ں میں فکر مندی تھی کہ ملک حالت جنگ میں ہے نیشنل ایکشن پلان بھی آچکا تھا تو ایسی صورت میں خارجہ پالیسی کے تمام امور پر بھی مشاورت اور خفیہ اطلاعات پر توجہ کی ضرورت تھی جارج بش امریکہ کے آخری صدر تھے جنہوں نے مارچ 2006 میں جب بھارت اور  افغانستان کا دورہ کیا تو پاکستا ن بھی آئے تھے، 2009 میں باراک اوبامہ صدر ہوئے تو 2010 سے 2015 تک افغانستان کے تین دورے کئے اور بھارت کے دو دورے کئے مگر پاکستا ن کا کو ئی دورہ نہیں کیا۔

نواز شریف کے دورِ اقتدار میں 25 اور 26 جولائی 2014 ء کو صدر اوبامہ نے افغانستا ن کا دو روزہ دورہ کیا، حامد کرزئی سے ملاقات کی، طویل المدت اسٹرٹیجک تعاون اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بات چیت ہوئی، افغانستان میں مو جود امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں،25 سے 27 جنوری 2015 کو صدر اوبامہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا، وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے بھات کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اسی عرصے میں نوازشریف کی کوشش رہی کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے، اگرچہ اکتوبر2014 میں کنٹرول لائن پر فوجوں کی فائرنگ گولہ باری 20 سویلین کے جان بحق ہو نے کی وجہ سے تلخی پیدا ہوئی تھی اور نواز شریف حکومت نے اس کا الزام بھارت پر عائد کیا تھا مگر اب  بھارت سے تعلقات بہت بہتر ہو رہے تھے اور اس کے لیے نوازشریف، وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہے تھے، 2015 میں ہارٹ آف ایشیا کانفرس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے آغاز کی بات چیت ہوئی، 2015 ہی میںایک صحافی نے انہی دنوں انکشاف کیا کہ سارک کانفرنس 2015 کے دوران مودی نوازشریف خفیہ ملا قات ہوئی۔

اور پھر 25 دسمبر2015 ہی کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روس اور افغانستان کے دورے سے واپسی پر اچانک پاکستان کا دورہ کیا اور نجی حیثیت میں نوازشریف کے خاندان کی لاہور جاتی امرا میں شادی کی تقریب میںشرکت کی۔ اُنہوں اس موقع پر نواز شریف کو سالگرہ کی مبار ک باد بھی دی حالانکہ یہی دن پاکستان میں قومی سطح پر سرکاری تعطیل کے ساتھ بھر پور انداز میں منایا جاتا ہے اور نہ صرف کراچی میں عموماً وزیر اعلیٰ گورنر مزار ِ قائد پر حاضر ہوتے ہیں، اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاوس ایوان صدر میں بھی تقریبات ہوتی ہیں، پورے ملک میں ہر کوئی قائد اعظم سے تجدیدوفا کرتا ہے مگر اُس روز نواز شریف اور مودی کی جاتی امرا کی اچانک اور حیران کن ملاقات اتنی اہمیت اختیار کر گئی کہ قومی اور بین الا قوامی میڈیا میں یہی خبر گرم رہی واضح رہے کہ اس ملاقات کے بارے میں نواز شریف کی براہ راست مودی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی جس میں نواز شریف نے اُنہیں خاندان میں ہو نے والی شادی میں شرکت کی دعوت دی تھی ،اور اس بے تکلف دعوت اور دوستی کا نریندر مودی نے بعض جگوں پر ذکر بھی کیا۔

دوسری جانب سے یہ خفیہ اطلاعات بھی تھیں کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے اور افغانستان اور ایران کی سر زمین بھی استعمال کی جا رہی ہے، یوں اگر نواز شریف پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر یا کم سے کم کابینہ سے منظوری کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کے اعتبار سے معاملات طے کرتے تو شائد اُن کے حوالے سے بدگمانیاں جنم نہ لیتیں اور اپوزیشن کی جانب سے شدید نوعیت کے الزمات عائد نہ کئے جاتے پھر ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ بلوچستان سے بھارتی نیوی کا اعلیٰ افسر جاسوس کلبھوشن یادیو 25 مارچ2016 کو گرفتار کر لیا گیا،اس کے چار دن بعد29 مارچ کو کلبھوشن یادیو کی اعترافِ جرم کی چھ منٹ دورانیے کی ویڈیو فلم پوری دنیا کے میڈیا نے دکھا دی۔

بھارت کی جانب سے متواتر دھمکیاں دی جاتی رہیں تو ساتھ ہی پاکستان نے ایک جانب پاک افغان سرحد پر باڑ لگا نے کا کام تیز رفتاری سے شروع کر دیا تو دوسری جانب امریکہ کی مدد کی تاکہ وہ افغانستان میں مذاکرات کی بنیا دوں پر امن قائم کر سکے اور اپنی خواہش کے مطابق یہاں سے فوجیں نکال لے، یہی وہ دور ہے جب آپر یشن ضربِ عضب شروع کیا گیا، اگر چہ محمد نواز شریف کو وزیر اعظم بنتے ہی مسائل کا سامنا تھا اور اُنھیںاور مسلم لیگ ن کو پہلی بارکرپشن کے الزامات پر نہ صرف شدید تنقید اور احتجاج کا سامنا تھا بلکہ اس کے نتیجے میں اُن کی مقبولیت میں بھی کمی  آرہی تھی جس کو ن لیگ کے ماہر ین قدرے کامیابی سے میڈیا مہم کے ذریعے روک بھی رہے تھے مگر شومئیِ قسمت کہ 3 اپریل 2016 کوجرمن اخبارSudeutsche Zeitung نے پانامہ لیک کی دستاویزات کا انکشاف کر دیا۔

اس میں1970 سے لیکر تاحال دنیا کے تقریباً200 ملکوں کے لیڈران اور اہم لوگوں کی ناجائر دولت کی تفصیلات سے متعلق  214000 کاغذات اور فائلیں تھیں اور شریف خاندان کا ذکر بھی تھا، اِس کے منظر عام پر آتے ہی کرپشن کے وہ الزامات جو پہلے ہی پی ٹی آئی کی جانب سے عائد کئے جا رہے تھے اِن پر عوام کی جانب سے یقین اتنا بڑھ گیا کہ اب 95% عام لوگ ہی نہیں بلکہ ن لیگ کے حامیوں نے عام سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ٹھیک ہے اُنہوں نے اگر کھایا ہے تو کھلایا بھی ہے۔

اسی دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی جانب سے جاری تحریک بھی زور پکڑ گئی اور 8 جولائی2016 کو نوجوان کشمیر ی حریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اتنا شدید احتجاج ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کے تمام دس اضلاع میں بھارتی فوج نے کر فیو نافذ کر دیا اور یہاں بھارتی فوجیوں کے ٹھکانوں پر حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 18 بھارتی فو جی  ہلاک ہوئے، لیکن اس کا تمام تر الزام بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر عائد کیا۔

22 ستمبر2016 کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ا قوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور کشمیر میں بھارت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پا مالی کی مذمت کی اور اقوام متحدہ سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحقیقات کے لیے فیکٹ فائینڈنگ مشن بھیجنے کا مطالبہ کیا مگر اُنہوں نے پاکستان میں گرفتار بھارتی دہشت گرد اور جاسوس کلبھو شن یادیو کا نام نہیں لیا جس کی اُن سے توقع کی جا رہی تھی اور اس انداز پر ملک میں اُن پر شدید تنقید ہوئی مگر ایک حقیقت جو بہت واضح تھی وہ یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن پر قیادت کے اعتبار سے اُن کی گرفت بہت مضبوط رہی اور شائد پاکستان کی پوری تا ریخ میں نوازشریف کے مقابلے میں کسی بھی لیڈر کی اپنی پارٹی پر اتنی مضبو ط گرفت نہیں رہی۔

ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے مقبول ترین لیڈر رہے ہیں مگر دنیا نے دیکھا کہ اُن کی پھانسی کے بعد جب لوگوں نے خود سوزی بھی کی تھی تو اِن کی جماعت کے کئی بڑے لیڈر اُن کی پالیسیوں اور قیادت سے منحرف ہو گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے پھر پارٹی لیڈر شپ سے انکلز یا اولڈ گارڈز سے جان چھڑائی ، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب میاں نواز شریف پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے حوالے مقدمات قائم ہوئے تو بطور وزیر اعظم اُنہوںقومی اسمبلی کے فلور پر اپنی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں جو بتایا یا ریڈیو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں آمدنیوں اور اثاثوں سے متعلق جو بیان کیا یاکسی اور فورم پر اس سے متعلق جو کہا اُسے عدالت میں ثابت نہ کر سکے، اور صرف قطر کے ایک شہزادے کا خط پیش کیا جو اُن کے موقف کو درست ثابت نہ کر سکا۔

اسکے بعد وہ عدالت کی طرف 28 جولائی 2017 ء سے وزیر اعظم نہیں رہے، اور پھر اُن کا رویہ کافی جارحانہ ہو گیا، 12 مئی کو ایک اور لیک ایک مشہور انگریزی اخبار کے حوالے سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ایک انٹرویو کی صورت سامنے آئی جس میں پا کستان کے بارے میں کہا گیا کہ 2008 کے ممبئی کے دہشت گردی کے واقعہ میں پاکستان ملوث تھا بعد میں مسلم لیگ ن کے ترجمان نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کو توڑ مڑو کر پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد بھی جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہو گئے تو جون 2018 تک مسلم لیگ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات زیادہ بہتر دکھائی نہیں دئیے، 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے یہ متواتر کو شش رہی کہ ن لیگ حکومت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خوشگوار ہوں کیونکہ ملک کو چاروں جانب سے  سلامتی کے خطرات لا حق ہیں، پارٹی لیڈر شپ میں انہیں نواز شریف کی بیٹی کی طرف سے سینئر اراکین سے بھی زیادہ اہمیت دینے پر بھی اعتراضات رہے جن کا وہ بہت سے مواقع پر اظہار بھی کرتے رہے۔

یوں الیکشن 2018 سے قبل یہ صورتحال تھی جس میں پی پی پی نے تحریکِ انصاف کی جانب سے دھرنے کے دوران اور بھی بہت سے مواقع پر ن لیگ کو سپورٹ کیا جس کی وجہ سے پنجاب میں پی پی پی کے ووٹ بنک کو اور بھی نقصان پہنچا مگر پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ن لیگ کی حکومت کو جمہوریت کے اصولوں کے مطابق اپنی حکومت کی پانچ سالہ مد ت پوری کر نی چاہیے۔ نواز شریف کے دورحکومت میں ہی نیشنل ایکشن پلان کے تحت افواجِ پاکستان نے وفاقی اور چاروں صوبوں کے اداروں کے محکموں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلا ف پہلے آپریشن ضربِ عضب اور پھر آپریشن ردِالفساد کیا اور دہشت گردی پر 95% تک کنٹرول کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔

اور پا کستان اس پوزیشن میں آگیا کہ اُس نے دعویٰ کر دیا کہ دنیا کہ وہ ممالک بشمول افغانستان، عراق، شام ،لیبیا، پاکستا ن وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کو اپنے ہاں شکست دی ہے، اگرچہ 27 نومبر2019 کو جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ جا ری رہا جو چند دنوں میں پو را ہو جائے گا اور فوج کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ اس کے بعد پاک ایران سرحد پر باڑلگائی جا ئے گی، یوں پاک بھارت سرحد پر عرصے سے باڑ ہے۔

یہی صورت ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول کی ہے اب پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ مکمل ہو رہی ہے اور اس کے فوراً بعد پاک، ایران سرحد پر جب باڑ مکمل ہو جائے گی تو پھر بہتر نگرانی کے عمل سے یہ یقینی ہو گا کہ نہ تو کوئی دہشت گرد، ان تینوں ملکوں سے پاکستان میں داخل ہو سکے گا اور نہ ہی پاکستان پر اِن ملکوں کی جانب سے الزام دیا جا سکے گا کہ یہاں سے کو ئی سرحد پارکر کے گیا۔

جہاں تک تعلق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے نقصان کا ہے تو پا کستان اکنامک سروے 2016-17 کے مطابق اورنو ماہی مدت کے اعداد وشمار کی بنیاد پر جو نقصان براہ راست پہنچا ہے اُس کا تخمینہ 123.13 بلین امریکی ڈالر اور پاکستانی کرنسی میں 10373.93 ارب روپے ہے۔

اس ماحول میں جولائی 2018 میں عام انتخابات ہوئے ان انتخابات میں ووٹ  ٹرن آوٹ 51.6% رہا، پاکستان تحریک انصاف نے کل ڈالے گئے  ووٹوں میں سے 31.82% تناسب کے اعتبار 16903702 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 116جنرل نشستیں حاصل کیں، یوں پی ٹی آئی کے ووٹ بنک میں 14.90% کا اضافہ ہوا اورگذشتہ انتخابات کے مقابلے میں 114 نشستیں زیادہ حاصل کیں۔

مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 64 نشستیں حاصل کیں یعنی پہلے کے مقابلے میں 84 نشستیں کم ملیں، اسی طرح کل ڈالے گئے ووٹوں  32.77% کے مقابلے 24.35% ووٹ ملے، یوں مقبولیت میں ووٹ کے تناسب کے اعتبار سے 8.42% کی کمی واقع ہوئی اور مسلم لیگ ن کواِن انتخابات میں کل 12934589 ووٹ ملے۔ پی پی پی نے الیکشن 2018 میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 6924356 یعنی 12.94% ووٹ حاصل کئے جو گذشتہ انتخا بات کے مقابلے میں2.29% کم تھے لیکن پی پی پی نے اس بار قومی اسمبلی کی12 نشستیں زیادہ حاصل کیں اور اِن کی کل جنرل نشستیں 54 تھیں عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی اور ساتھ ہی انتخابات میں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات بنانے کا پروگرام بھی دیا تھا۔

اقتدار میں آنے کے لیے عمران خان کے پاس مطلوبہ اکثریت سے ذرا کم نشستیں تھیں یو ں آزاد امیدواروں و دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل کیا اور الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبل کو بھی پارٹی ٹکٹ دے کر بہرحال اکثریت حاصل کی اور جب کڑے احتسا ب کا عمل شروع کیا تو اس کے مقابلے میں اپوزشن خصوصاً مسلم لیگ ن اور پی پی پی کھڑی ہو گئیں کیونکہ تحریکِ انصاف پہلی مرتبہ حکومت میں آئی اس لیے بہت سی پالیسیوں میں ناتجربہ کار ہی ہے پھر بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی اور کرپشن زدہ معاشرتی رویوں اور رجحانات کی وجہ سے بھی پارٹی کے منشوری وعدوں کو نقصان پہنچا ہے۔

اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اکھٹا ہو گئیں، اگرچہ عمران خان نے بطور لیڈر خارجی محاذ پر مثالی کامیابیاں حاصل کیں اور خصوصاً ستمبر 2019 میں اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اُنہوں نے کشمیریوں کے حق آزادی کے لیے عالمی برادری کا جس طرح ضمیر جھنجھوڑا اور جس طرح ناموسِ رسالت ؐ پر  بے باک انداز میں خطاب کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے مگر ساتھ ہی بھارت نے پاکستان دشمنی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مالی سال 2018-19 کا بجٹ مسلم لیگ ن نے اپنے پانچ سالہ دور میں چھٹا قومی بجٹ دیا تھا۔

ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا حالانکہ اس پر پی ٹی آئی نے اعتراض کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ جون 2018 میں مسلم لیگ آئندہ تین مہینوں کا عبوری بجٹ دے اور الیکشن کے بعد اگست میں نئی حکومت اپنا نیا بجٹ دے مگر ایسا نہیں ہوا اور ایک الیکشن دوست بجٹ دیا گیا جس کو 30 جون 2019 تک پاکستان تحریک انصاف کی حکو مت نے بھگتا اور پھر بھاری قرضوں میں جکڑی ہوئی صورتحال میں قومی بجٹ 2019-20 دیا گیا تو اس میں بھی آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا، چند ٹیکنوکریٹ لیے گئے لیکن مہنگائی اور معیشت کے استحکام کے لیے گئے سخت فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت میںقدرے کمی واقع ہوئی ہے ۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان اور نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے مودی نے رد کر دیا، واضح رہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 1989 کے بعد سے آزادی کشمیر کی تحریک کچھ سست ہو گئی تھی مگر 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اس تحریک میں ایک نئی روح آگئی اور مقبوضہ کشمیرمیں اب تک ہزاروں کشمیری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں اور ہزاروں بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، اس جبر وتشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ 14 فروری2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں سری نگر نیشنل ہائی وے پر بھارتی سنٹرل ریزرو پولیس کے ایک ٹرک پر لیتھ پورا ضلع پلوامہ پر ایک کشمیری خودکش نوجوان نے حملہ کر دیا۔

جس کے نتیجے میں 46 سپاہی ہلاک ہو گئے، بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور کہا کہ وہ پاکستا ن پر سرجیکل اٹیک کرے گا، 26 فروری 2019 کو بھارت نے ایک ڈارمہ کیا اور بالاکورٹ کے مقا م پر بھارتی طیاروں نے مصنوعی کاروائی میں دو تین درختوں کو نقصان پہنچایا اور پر وپیگنڈا کیا کہ اُس نے یہاں قائم دہشت گردوں کا کیمپ تباہ کر دیا جس پر  پاکستان نے عالمی میڈیا کے صحافیوں کو علاقے میں دورہ کروا کر پول کھول دیا اور یہ انتباہ کر دیا کہ اب بھارت پاکستان کے جواب کا انتظار کرے۔ اور پھر 27 فروری کو پاک فضائیہ کے طیاروں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ٹھکانوں کے قرب  و جوار کو نشانہ بنایا جس کا مقصد یہ یاد کروانا تھا کہ فوجی ٹھکانے بھی ہماری زد میں تھے لیکن انہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس حملے کے جواب میں بھارتی جیٹ پاکستانی ہملہ آور طیاروں کو مار گرانے کے لئے میدان میں آئے لیکن خود پاک فضائیہ کا نشانہ بن گئے۔پاک فضائیہ نے بھارت کا ایک مگ21-اور ایک ایس یو 30- طیارہ مار گرایا، جبکہ بھارتی دفائی نظام اس قدر دباؤ میں آگیا کہ انہوں نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر خود ہی مار گرایا۔ ایک طیارہ جو پاکستانی علاقے میں گرا، اس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتارکر لیا اور دو روز بعد اُسے بھارت کے حوالے کر دیا، جب کہ ایک طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر بھارتی علاقے میں گرا، یہاں تک بھی کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارتی آرمی چیف اور سینئر فوجی جنرل موجود تھے وہاں پہلے پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے نشانہ طے کیا۔

اطلاع کی اور اس مقام سے کوئی چند میٹر دور خالی جگہ پر نشانہ لگائے اور بتایا کہ آپ ہمارے نشانے پر تھے اور اگر ہم چاہتے تو آپ کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ واضح رہے کہ 1971 کے بعد بھارت نے پہلی مرتبہ پاکستان کی سرزمین پر فضائی حملہ کیا تھا۔ پھر بھارت نے اقوم متحدہ کی تمام قراردادوں اور خود بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی دھجیاں اڑادیں اور ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے 5 اگست 2019 سے پور ے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ جس کو چار ماہ ہونے والے ہیں۔

جب کہ پاکستان میں 27 اکتوبر سے پہلے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور پھر اسلام آباد کا دھرنا، عمران خان کے استعفٰی اور فوری نئے الیکشن کے مطالبات کئے جا رہے تھے ، اور بقول مولانا فضل الرحمن اسلام آباد سے یہ دھرنا اس یقین دہانی پر ختم کیا گیا ہے کہ اس مطالبے یا اس کے برابر کے وزن پر چند روز میں فیصلہ کیا جائے گا، اور ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پہلے شاہراہوں کو بند کرنے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، اب اے پی سی کی میٹنگ کے بعد پھر اپوزیشن کے احتجاج کا نیا مرحلہ شروع ہوگا ملکی سیاست کچھ بھی ہو، اپوزیشن نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر پوری قوم کے ساتھ یکساں موقف اختیار کیا ہوا ہے ۔

اس تمام تر تناظر میں دیکھیں تویہ دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے مسلسل جنگوں یا جنگ کے ماحول میں رہا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد 1947-48 میں کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے جنگ کرنا پڑی کیونکہ بھارت نے قانون آزدی ِہند 18 جولائی 1947 کا لحا ظ کئے بغیر مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر جس کے تمام چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔

اس پر راجہ ہری سنگھ کو دباؤ میں لا کر اس کا غیرقانونی الحاق بھارت  سے کروایا تھا جس کے نتیجے میں یہ جنگ ہوئی اور پاکستان نے تقریباً آدھا کشمیر جنگ کی بنیاد پر لڑ کر آزاد کروایا اور جنگ بندی بھی بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں قرارداد کی منظوری سے کروائی کہ ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کروائی جائے،اور عوام اپنی مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کے حق میں ووٹ دیں گے۔

لیکن پھر بھارت نے عیاری سے کام لیا، اور اس کے بعد پاکستان سرد جنگ کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ کا اتحادی رہا اور سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں میں شامل رہا اور اِن ڈائریکٹ اس سرد جنگ میں شامل رہا، البتہ 1972 سے 1977 تک پاکستان غیرجانبدار ملک رہا اور اس کی خارجہ پالیسی متوازن رہی، اس کے بعد جلد ہی پاکستان کو افغانستان میںسوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد فرنٹ لائن کا ملک بننا پڑا پھر  افغانستان کی خانہ جنگی کی وجہ سے بھی پاکستا ن کوایک جنگ زدہ ماحول کا سامنا رہا اور نائن الیون کے بعد سے پہلے 2007-8 تک یوٹرن لے کر جنگ کی تباہی اور بربادی برداشت کی اور پھر دہشت گردی کا شدید شکار ہوا۔

ساتھ ہی ساتھ بھارت کی جانب سے سیاچن کی جنگ اور پھر کارگل کی لڑائی اور پھر 16 دسمبر1914 کے سانحہ کے بعد پاکستان نے فیصلہ کن انداز میں ہر طرح سے اور ہر طرف سے بہت کامیاب طریقوں سے جنگ کی جس کو محاورۃً چومکھی لڑائی یا جنگ کہتے ہیںاور پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ ابہام زدہ ،غیر اعلانیہ ، اور فتھ جرنیشن وار فیئرکی حامل جنگ اپنے ملک کے دفاعی محاذ پر 90 فیصد سے زیادہ جیت چکا ہے، اور جو 10 فیصد بقیہ حصہ ہے وہ فتح کے استحکام کا ہے۔

جس کو ہم نے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنا ہے، یہ جنگ اپنی نوعیت کی الگ اور دنیا کے ذہین و فطین ماہرین کی جانب سے ترتیب دی گئی جنگ ہے اور عالمی جنگ ہے، پاکستان جو بدقستمی سے اس جنگ کے آغاز پر ہی اس کا شکار ہوا اب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اس جنگ میں کسی کا اتحادی نہیں بنے گا اور صرف اپنے ملک اور اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔اب جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو 2017 میں عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکہ2.4 کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے، افغانستان میں جنگ پر امریکہ نے 2008 تک 188 ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔

2009 سے 2019 تک دس برسوں میں مزید 787 ارب ڈالر خرچ کئے، یوں 2001 سے 2019 تک امریکہ افغانستان میں جنگ پر کل 975 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور تقریباً 2400 امریکی یہاں مارے جا چکے ہیں، لیکن امریکہ امریکہ ہے، اردو کی ایک ضرب المثل ہے کہ’’ مرغی کو تکلے کا گھاؤ کافی ‘‘ تکلا چرخہ کاتنے والی کے پاس ہوتا ہے، یہ ایک پتلی ڈنڈی کے سرے پر شیونگ بلیڈ کا ٹکڑا بندھا ہوتا ہے جس سے دھاگہ کاتنے والی دھاگے کا سرا کاٹتی ہے، اقتصادی مالیاتی  اعتبار سے پاکستان کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔

ا ب پاکستان کا بڑا مسئلہ اس عجیب اور ابہام زدہ  جنگ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ معاشی اقتصادی استحکام کو حاصل کرنا اور دہشت گردی کی وجہ سے جن شعبوں میں پاکستان کوشدید نقصان پہنچا ہے اُس کو جلد پورا کرنا ہے۔

The post دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بڑا معرکہ اور سیاسی بحران appeared first on ایکسپریس اردو.

Hotel de Sal Playa بولیویا کا نمک سے تیار کردہ ہوٹل

$
0
0

وہ دونوں سیاح تھے اور اپنے چہرے مہرے سے بہت خوش باش دکھائی دے رہے تھے۔ اس وقت وہ جنوبی امریکہ کے علاقے بولیویا کے خطے میں مٹرگشت کررہے تھے، وہ دونوں ہی یہاں کسی سرنگ پر تحقیق کرنے آئے تھے اور دل و جان سے اس کام میں لگے ہوئے تھے۔

کافی دیر تک کام کرنے کے بعد جب وہ تھک گئے اور ان کے چہروں سے تھکن اور نڈھال کیفیت ظاہر ہونے لگی تو انہوں نے تھوڑی دیر قیام کے لیے اسی خطے کے ایک ہوٹل میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ آرام کرنے کے بعد ایک بار پھر تازہ دم ہوکر دوبارہ اپنے کام کا آغاز کرسکیں۔ کافی دیر تک انہوں نے پرسکون انداز سے وقت گزارا اور اب وہ کسی حد تک مطمئن بھی ہوگئے تھے۔

چناں چہ وہ دونوں ہی اس ہوٹل کے ایک کمرے میں دیوار سے سر لگاکر بیٹھ گئے اور ان حالات و واقعات کے بارے میں سوچنے لگے جن سے بھی تک ان کا واسطہ پڑا تھا۔ بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا ہوا کہ ان دونوں ساتھیوں اور دوستوں میں سے ایک نے یکایک اپنا منہ کھولا اور اپنی زبان باہر نکال کر اس کی دیواروں کو چاٹنے لگا، یہ دیکھ کر اس کے دوسرے ساتھی نے بھی یہی کیا مگر اس کا ایک حیرت انگیز نتیجہ یہ نکلا کہ ان دونوں پر چھائی ہوئی مایوسی، تھکن اور بیزاری یکایک چھٹ گئی اور وہ ایک دم تروتازہ دکھائی دیے۔

دونوں نے اس تبدیلی کو محسوس کیا اور اپنی اس تبدیلی پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔ اصل میں انہوں نے جس دیوار کو چاٹا تھا، وہ دیوار پوری کی پوری نمک سے بنائی گئی تھی اور ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی کیفیت اسے چاٹنے سے بڑی تیزی سے ختم ہوگئی۔ جی ہاں ہم جس ہوٹل کی بات کررہے ہیں، یہ جنوبی امریکا کے ملک بولیویا میں واقع ہے اور پورا کا پورا ہی ہوٹل تازہ اور خالص نمک سے بنایا گیا ہے۔ اس ہوٹل کی تعمیر اور کنسٹرکشن کی بنیادی وجہ جو بھی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس میں شامل نمک کی بڑی مقدار انہیں ایک دم دوسری دنیا میں پہنچادیتی ہے اور وہ ہر طرح کی بیزاری، اکتاہٹ اور ڈیپریشن سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آئیے ہم آپ کو دنیا کے اس انوکھے اور حیرت انگیز ہوٹل کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ کب ، کیسے اور کیوں تعمیر کیا گیا تھا۔

اس تاریخی اور انوکھے ہوٹل کا نام ہے Hotel de Sal Playa اور یہ بولیویا کا نمک سے تیار کردہ وہ ہوٹل ہے جس کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں اور ذہنی فائدے بھی۔ بولیویا کے جنوب مغربی حصے میں Salar de Uyuni کے بالکل بیچوں بیچ نمک کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور انہی کے درمیان میں یہ نمکین ہوٹل Hotel de Sal Playa بڑے فخر اور شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے جو پورا کا پورا نمک سے تیار کیا گیا ہے۔

نمک کا یہ ہوٹل اس طرح اور اس انداز یہاں کب اور کیسے بنایا گیا، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میں نمک کی موجودگی قدرتی طور پر ہے اور چوں کہ یہاں نمک کے علاوہ کوئی دوسری چیز یا معدنیات نہیں پائی جاتی، اس لیے یہاں کے لوگوں نے نمک سے ہی اس ہوٹل کو بنا ڈالا اور اس خطے کا تازہ اور خالص نمک ان لوگوں کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔

٭: نمک کے ہوٹل کی تاریخ:

جب ہم بولیویا کے اس تاریخی نمکین ہوٹل کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ نمک سے تیار کردہ یہ ہوٹل 1993 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے نمک کے ایک ہنرمند یا دست کار نے تعمیر کیا تھا۔ دراصل یہ ہنر مند کافی عرصے سے دیکھ رہا تھا کہ جب اس خطے میں کسی کان کا وزٹ کرنے کے لیے بہت سے عالمی سیاح یہاں کے دورے پر آتے ہیں تو ان کے ساتھ ٹھہرنے اور قیام کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے یعنی انہیں رات میں رکنے کے لیے کوئی جگہ آسانی سے نہیں ملتی، چناں چہ نمک کے اسی ہنرمند کارگر نے یہاں ایک ایسا ہوٹل بنانے اور تعمیر کرنے کا ارادہ کیا  جہاں یہ سیاح آرام سے ٹھہر بھی سکیں اور وہ لوگ یہاں کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کرکے اس ملک کو عالمی سطح پر روشناس بھی کراسکیں۔

ظاہر ہے یہاں آنے والے سیاحوں کو رات میں قیام کے لیے کسی نہ کسی جگہ کی ضرورت تو تھی ناں، جہاں بیٹھ کر وہ اپنی رپورٹ بھی بناسکتے تھے اور مذکورہ بالا ہوٹل کے حوالے سے معلوماتی نوٹس بھی لے سکتے تھے جسے بعد میں وہ اپنی تحقیقی رپورٹ میں شامل کرسکتے تھے، اس لیے یہاں کسی سرائے یا ہوٹل کی موجودگی یا اس کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت تھی۔

٭ نمک کی کان:

واضح رہے کہ یہاں کی جس کان کا دورہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے سیاح یہاں بڑے ذوق و شوق سے آتے ہیں، وہ کان بھی اپنے حساب سے دنیا کی سب سے منفرد کان تھی جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کان ہے۔

٭ نمک کا یہ ہوٹل کیسے بنا؟

نمک کا یہ ہوٹل اس طرح تعمیر ہوا کہ اس کی دیواروں پر نمک سے تیار کردہ بلاکس لالاکر ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیے گئے اور ان میں درمیان میں سیمینٹ جیسا ایک مادہ بھی لگادیا گیا جو پانی اور نمک پر مشتمل ہوتا تھا۔ چلیے جناب یہ کام تو ہوگیا مگر ابھی ایک اور مسئلہ بھی سر پر کھڑا تھا، اور وہ یہ تھا کہ جب اس خطے میں بارشوں کا موسم آتا تو اس ہوٹل کی دیواروں کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے نئے بلاک لگائے جاتے تھے۔

کیوں کہ بارش کے موسم میں یہاں کے مالکان اپنے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں سے کہتے بلکہ ان سے درخواست کرتے کہ وہ دیوار کو چاٹنے سے پرہیز کریں، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس موسم میں اس ہوٹل میں قیام کرنے والے سیاح کم زوری اور نقاہت سے بچنے کے لیے اپنی نمک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوٹل کی نمکین دیواروں کو چاٹتے تھے، تاکہ وہ وقتی طور پر کم زوری سے نجات پاکر ایک بار پھر چاق چوبند ہوجائیں۔

اس ہوٹل کی تیاری میں نمک کا کتنا اور کس قدر استعمال کیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کا پورا کا پورا فرنیچر جن میں بستر بھی شامل تھے اور ٹوائلٹس بھی، یہاں تک کہ لائٹنگ بھی شامل تھی اور بلیئرڈ کھیلنے والی بڑی اور شان دار میز بھی، یہ سب چیزیں نمک کے بلاکس سے بنائی گئی تھیں۔

نمک سے تیار کردہ دنیا کا یہ انوکھا ہوٹل ایک بڑی لاج کی شکل کا ہے جس میں کم و بیش15بیڈروم یا خواب گاہیں ہیں، ایک ڈائننگ روم ہے، ایک لونگ روم ہے اور ایک بار بھی ہے۔ اس میں کوئی شک یا شبہہ نہیں کہ یہ جگہ seasoned travellers یا موسمی مسافروں یا سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے اور جنوبی امریکا کے اس ہوٹل کی تمام دیواریں مکمل طور پر نمک سے بنائی گئی ہیں۔

اس ہوٹل میں قیام کرنے والے مسافروں اور سیاحوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں اس ہوٹل کی تعمیر میں جو مقامی مٹیریل استعمال کیا گیا، وہ بعد میں سب کٹ پھٹ کر ضائع ہوگیا۔ بولیویا میں اس نمکین میدان پر بننے والا یہ انوکھا ہوٹل دنیا بھر میں ایک انوکھی اور منفرد مثال ہے۔

اپنے سفید رنگ کی وجہ سے یہ نمک کا ہوٹل بے مثال ہے، کیوں کہ بہت عرصہ پہلے یہاں آنے اور اس جگہ بیٹھ کر غور و فکر کرنے والے افراد نے اس تصور پر پہلے غور کیا اور پھر بہت کھل کر بات بھی کی تھی۔ یہاں کی پوری کی پوری پراپرٹی مکمل طور پر نمک سے تیار کی گئی ہے۔ لگ بھگ ایک ملین 35 سینٹی میٹر والے بلاک اور کمپریسڈ شدہ اناج کے دانے بھی اس ہوٹل کی تخلیق میں استعمال کیے گئے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس ہوٹل کو بس ایسے ہی بناکر کھڑا کردیا گیا، بلکہ اسے باقاعدہ لگژری ہوٹل کی شکل دی گئی جہاں ایک گولف کورس بھی ہے اور دنیا کے ہر بڑے اور شان دار ہوٹل کی طرح تمام ضروری اور لازمی سہولیات بھی میسر ہیں، یہاں تک کہ اس بولیوین ہوٹل میں ایک dry sauna اور اسٹیم روم بھی ہے، ورل پول بھی ہے اور حیرت انگیز طور پر نمکین پانی سے نہانے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نمک کے ہوٹل میں قیام کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس پر کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں، مگر اپنی بیماریوں سے عاجز آئے ہوئے افراد کے لیے یہ پیسہ یا یہ اخراجات بہت معمولی ہیں اور وہ انہیں ہنسی خوشی برداشت کرلیتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس نمکین ہوٹل یعنی  Hotel de Sal Playa کو بولیویا کا ایسا طبی ہوٹل کہہ سکتے ہیں جہاں رہنا نہ تو کسی بھی طرح نقصان دہ ہے اور نہ ہی یہ مہنگا ہے، بلکہ یہ ہوٹل بیماروں اور کم زور افراد کے لیے کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔

The post Hotel de Sal Playa بولیویا کا نمک سے تیار کردہ ہوٹل appeared first on ایکسپریس اردو.


بے چارہ مستقبل کا مؤرخ

$
0
0

جس معاشرے میں سچ پر خوف طاری ہو، حقائق بیان کرتے صحافی پر سنگ باری ہو اور صاف گو دانش ور پر وار کاری ہو، اُس سماج میں سچائی جاننے کے لیے ساری انحصاری مستقبل کے مؤرخ پر ہوتی ہے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم جن دو حضرات کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان میں ایک تو ہے ’’کوئی مسیحا‘‘ اور دوسرا ہے ’’مستقبل کا مؤرخ۔‘‘

ہمیں مستقبل کے مؤرخ پر بڑا ترس آتا ہے، کیوں کہ اس بے چارے سے لوگوں نے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ وہ ان بندھی امیدوں کو دیکھ کر کہیں آتے ہی جانے کے لیے بستر نہ باندھ لے۔

اتنا ہی نہیں، لوگ تو یہ بھی طے کر چکے ہیں کہ مستقبل کا مورٔخ کیا لکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ مستقبل کا مؤرخ ہی کیوں لکھے، آخر حال کا مؤرخ کیا کر رہا ہے؟ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ کہ کوئی مؤرخ حال بلکہ اس قوم کے حال کی تاریخ لکھے اور ہم کہہ اُٹھیں

’’مؤرخ‘‘ مرحبا بروقت بولا

تِری آواز مَکّے اور مدینے

ہمارے ہی اس سوال کا جواب ہمارے ہی خیال میں یہ ہے کہ حال کا مؤرخ حالات حاضرہ ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہے کہ اگر حال میں رہتے ہوئے حال پر لکھا تو حال سے بے حال کردیا جائے گا، اور تاریخ لکھنے کے کچھ دنوں بعد ہی اس کے چالیسویں کی تاریخ کا اعلان ہورہا گا یا پھر اس کے لاپتا ہونے کے مقدمے میں تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہوگی۔ اس صورت حال میں ہمارا مؤرخ تاریخ طبری کے بہ جائے تاریخ ۔۔۔جبری ہی لکھ کر سکون سے رہ سکتا ہے۔

رہا مستقبل کا مؤرخ تو اس سے امید رکھنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بات یہ نہیں کہ مورٔخ تاریخ لکھنے کی کوشش نہیں کرے گا، کرے گا اور پوری نیک نیتی اور دل جمعی سے کرے گا، لیکن کام یاب نہیں ہوپائے گا۔ ہوگا یوں کہ وہ بے چارہ تحریری مواد کھنگالنے کے لیے کسی کُتب خانے میں بیٹھا ہوگا کہ اس کے اسمارٹ فون پر بیوی کا پیغام آئے گا،’’کہاں ہیں؟‘‘ ماضی کے اوراق میں گُم مورٔخ دھیان نہیں دے گا، کچھ دیر بعد بیوی کا دوسرا پیغام آئے گا،’’جواب تو دیں‘‘، وہ فون کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، پھر تواتر سے آنے والے پیغامات میں شوہر کی بے گانگی، بے حسی، بے پروائی، سنگ دلی کی تاریخ درج ہوگی۔

جس کے آخری باب کا عنوان ہوگا،’’ضرور کسی کَل موہی کے ساتھ ہیں۔‘‘ پھر واٹس ایپ پر کال آئے گی اور مؤرخ کا سارا استغراق یہ تقریر سُن کر درہم برہم کرجائے گا کہ ’’آج مہینے کی دس تاریخ ہوگئی ہے لیکن آپ نے میرے ہاتھ پر کچھ نہیں رکھا، اب تک مُنے کی فیس نہیں گئی ہے، ٹماٹر خریدنے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی اس کی قسط نہیں بھر پائی ہوں، بانوآپا سے دو چلغوزے ادھار لیے تھے، وہ واپسی کا تقاضا کر رہی ہیں، یہاں حال خراب ہے اور آپ کو تاریخ کی پڑی ہے۔‘‘ یہ سب سُن کر مستقبل کا مؤرخ ماضی کی دستاویزات ایک طرف پٹخے گا اور یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لے گا،’’چھڈو جی، دفع کرو، کوئی ہور کَم کریے۔‘‘ کچھ دنوں بعد وہ ڈرائی کلینر کی دکان کھولے رسیدوں پر دھلے ہوئے کپڑون کی واپسی کی تاریخ ڈال رہا ہوگا یا ہومیوپیتھ بن کر کسی مریض کے مرض کی ہسٹری جان رہا ہوگا۔

یہ امکان بھی ہے کہ کسی طبی پیچیدگی کی وجہ سے کل کا مورٔخ کسی صنعت کار، جاگیردار یا سیاست میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگانے اور سیاسی جماعت کے نام پر اپنی جاگیر بنانے والے سیاست داں کے گھر جنم لے، یعنی وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو اور چمچے میں چلغوزے رکھے ہوں۔ اس صورت میں وہ بچوں کی فیس، کمیٹی اور مکان کے کرائے جیسی فکروں سے آزاد ہوگا، لیکن اس کے مسائل دوسرے ہوں گے۔

وہ سوچے گا تاریخ کی تحقیق میں کئی سال لگانے میں کہیں میں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جاؤں، چناں چہ فوری نام وری کے لیے کسی اخبار میں کالم لکھنے لگے گا، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں ماہرِتاریخ کی حیثیت سے جائے گا، جہاں حکم راں جماعت کے کسی راہ نما سے اس بحث میں وقت گنوائے گا کہ جسے وزیراعظم خلیل جبران کے سر منڈھ چکے ہیں وہ ٹیگور کا قول ہے۔ اس سب سے جو وقت بچے کا اس میں مستقبل کا مؤرخ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے افکار عالیہ پوسٹ اور ٹوئٹ کرنے کے بعد اتنا تھک چکا ہوگا کہ تاریخی واقعات کی تحقیق، جائزے اور تجزیے کے بہ جائے تاریخ بگاڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھارتی فلم جیسے ’’پدماوتی‘‘ دیکھے گا اور گانا ’’نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ‘‘ سُن کر خراٹے چھلکاتا ہوا سوجائے گا۔

چلیے مستقبل کے مورٔخ نے اگر ساری مصروفیات تج اور مجبوریوں سے بے نیاز ہوکر تاریخ لکھنے کی ٹھان ہی لی تو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی نعروں، سرکاری بیانات اور میڈیا کے رجحانات سے کنفیوز ہو کر خود بھی الجھے گا اور تاریخ کو بھی الجھا دے گا۔ مثال کے طور پر وہ ’’شیرشاہ سوری ثانی‘‘ کی کارکردگی دیکھ کر یہی سمجھے اور لکھے گا کہ اصل شیرشاہ سوری کسی بادشاہ کا نام زد کردہ ہندوستان کا وزیراعلیٰ تھا، جو بس بادشاہ سے تبادلۂ خیال اور افسران کے تبادلے کرتا تھا۔

اور یہ بھی اس کا خیال ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ سے تبادلۂ خیال کررہا ہے، اس تبادلے میں ایک طرف حکم ہوتا تھا اور دوسری طرف سرِتسلیم خم۔ اسی طرح ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کے خطاب سے اسے مغالطہ ہوسکتا ہے کہ اصلی وسیم اکرم کو کوچ گود میں اٹھا کر پچ پر لاتا ہوگا، اور وسیم اکرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گھماتا اور باؤلنگ کرواتا ہوگا۔ پھر چھکا لگنے پر وسیم اکرم کی کمر ٹھونک کر کہتا ہوگا ’’یہ وسیم اکرم کی بول کا کمال تھا کہ صرف چھکا لگا، ورنہ تو اَٹّھا یا دَسّا لگتا۔‘‘

مستقبل کا مورٔخ برسوں یہ عقدہ حل کرنے میں الجھا رہے گا کہ جب بھٹو کو پھانسی ہوگئی تو پھر وہ زندہ کیسے رہا؟ مؤرخ کو یہ پریشانی بھی لاحق رہے گی کہ ’’کیوں نکالا‘‘ کا شکوہ ن لیگ والوں نے نوازشریف کے اقتدار سے ہٹائے جانے پر کیا تھا یا میاں صاحب کے جیل سے لندن جانے پر تحریک انصاف والوں نے؟ آخر اکتا کر یہ طے کرلے گا کہ ’’کیوں نکالا‘‘ کے معاملے پر دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔

جماعت اسلامی نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی ممکن ہے مورٔخ سراج الحق کی طرح ضیاء الحق کو بھی امیرجماعت اسلامی سمجھ بیٹھے۔ اس الجھن میں تو مورٔخ تاعمر مبتلا رہے گا کہ پُرانا پاکستان کہاں ختم اور نیا کہاں سے شروع ہوتا ہے، آخر جھنجھلاکر یوں تاریخ رقم کرے گا،’’پُرانے اور نئے پاکستان کو ملاکر ڈیجیٹل پاکستان بنالیا گیا تھا، جو گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر پر قائم ہوا تھا۔‘‘

The post بے چارہ مستقبل کا مؤرخ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


لفظ ترتیب سے رکھتا ہوں میں تمثیل کے ساتھ
کون کرتا ہے بیاں فلسفہ تفصیل کے ساتھ
اشک پیدا ہوا آنکھوں کی زمیں سے یک دم
آئنہ ٹوٹ گیا ہجر کی تکمیل کے ساتھ
میری آواز بہت دور تلک جائے گی
آیتِ ہجر سناؤں گا میں ترتیل کے ساتھ
میرے اشعار میں پیغام تھا دنیا کے لیے
میرا دیوان بھی رکھا گیا انجیل کے ساتھ
دن نکلتے ہی اترتا ہے کھلے پانی میں
جانے کیا ربط ہے سورج کا میری جھیل کے ساتھ
میری جانب بھی تو کچھ تشنہ دہاں آئے گے
میرا دریا بھی تو بہتا ہے ترے نیل کے ساتھ
روشنی زخم چھپائے بھی تو کیسے آخر
میں نے سورج کو شکستہ کیا قندیل کے ساتھ
ان کی پرواز پہ افلاک فدا ہوتا ہے
اب تو شاہین بھی اڑتے ہیں ابابیل کے ساتھ
(نوید فدا ستی۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل
سبب اس کی پریشانی کا میں ہوں
نمک کی فصل وہ، پانی کا میں ہوں
یہ جنگل مجھ کو راس آنا نہیں ہے
پرندہ دشتِ امکانی کا میں ہوں
مجھے دنیا لٹا دے گی کوئی دن
اثاثہ عالمِ فانی کا میں ہوں
مری مشکل، مری مشکل نہیں ہے
وسیلہ تیری آسانی کا میں ہوں
وہیں مجھ کو سپردِ خاک کرنا
کہ جس خاکِ بیابانی کا میں ہوں
ابھی ساحل مرا رستہ نہ دیکھے
ابھی دریا کی طغیانی کا میں ہوں
فقیرانہ طبیعت کا ہوں ورنہ
طلب حق دار سلطانی کا میں ہوں
(خورشید طلب۔ بوکارو سیٹی، جھارکھنڈ، ہندوستان)

۔۔۔
غزل


تمہارے حسن کی خوش بو جدھر جدھر جائے
وہاں کا پودا بھی پیڑوں سا کام کر جائے
میں چاہتا ہوں جدائی نہ سہہ سکے میری
میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے بچھڑ کے مر جائے
گھروں سے نکلے ہووں کو ٹھکانا ملتا ہے
جو تیرے دل سے نکل جائے وہ کدھر جائے
مجھے پتا ہے کوئی ختم کیسے ہوتا ہے
مجھے خبر ہے کوئی کس طرح بکھر جائے
بلندیوں کی علامت ہیں یہ اٹھے سَر بھی
جھکائے جانے سے بہتر یہی ہے سَر جائے
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے
ہمارے آگے کوئی کس طرح مکر جائے
(محسن ظفر ستی۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


کوئی جگنو، کوئی لایا ہے چراغ
میں نے تو خود ہی بنایا ہے چراغ
وہ اندھیروں کی نگاہوں میں ہے
جس کے ہاتھوں میں پرایا ہے چراغ
اپنے یاروں کی سہولت کے لیے
آج کوفے میں بجھایا ہے چراغ
اے خدا ! وہ کہیں منصف نہ بنے
جس نے کاغذ سے مٹایا ہے چراغ
اس کے سینے میں اجالا ہے بہت
جس نے ہاتھوں میں اٹھایا ہے چراغ
زندگی بھر ہمیں جلنا ہے نوید
اس نے تو صرف دکھایا ہے چراغ
(نوید ملک۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


مے کدے میں حیا لٹ گئی آپ کی
لے کے آئی کہاں کج روی آپ کی
میرا دل کیا، میری زندگی آپ کی
کرگئی کام جلوہ گری آپ کی
یہ جہاں، اس کی ہر چیز بھی آپ کی
روز و شب، ماہ و سال و صدی آپ کی
نام کیا دوں میں اس ناز و انداز کو
بے رخی ہے کہ ہے بے خودی آپ کی
ساتھ کیا دیں گے جام و سبو آپ کا
ساتھ دے گی تو تشنہ لبی آپ کی
ضد ہے زہرِ ہلاہل خرد کے لیے
ہوش لے جائے گی خود سری آپ کی
آپ کے دم سے عارف غزل خواں ہوا
شاعری کا سبب دل کشی آپ کی
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


اگر مجھ کو محبت کا ذرا ادراک بھی ہوتا
تو نفرت سے، عداوت سے میر دل پاک بھی ہوتا
جو بنتے ایک دوجے کا سہارا ہم زمانے میں
یقیناً تذکرہ اپنا سرِ افلاک بھی ہوتا
اگر اپنائے رہتے سادگی کو زندگانی میں
تو اپنا گھر بناوٹ سے ہمیشہ پاک بھی ہوتا
اگر رکھتے حیا کے دائرے میں بے حجابی کو
تو تیرا دیکھ لینا ہی تری پوشاک بھی ہوتا
جو اختر تھام لیتی یہ خوشی بڑھ کر مرا دامن
تو غم سے دل ہمارا پھر نہ یہ نم ناک بھی ہوتا
(محمد اختر سعید۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
زندگانی کا فلسفہ کیا ہے
ایک پانی کا بلبلا کیا ہے
ساتھ رہتی ہے روح جسموں کے
سانس لینے کا سلسلہ کیا ہے
چھوڑ جاتے ہیں چھوڑنے والے
کیسا پچھتاوا ہے، گلہ کیا ہے
جی کے مرنا ہے، مرکے جینا ہے
جینے مرنے کا معاملہ کیا ہے
خود ہی پہنچوں گا اپنی منزل پر
کارواں کیا ہے قافلہ کیا ہے
بے وفا سے میں پیار تو کرلوں
لیکن انجام کیا، صلہ کیا ہے
تیرا جانا تو اک قیامت ہے
حادثہ کیا ہے، سانحہ کیا ہے
تیری راہیں جدا جدا دیکھیں
تجھ سے ملنے کا راستہ کیا ہے
بھول سکتا نہیں اُسے بزمیؔ
بھول جانے کا حوصلہ کیا ہے
(شبیر بزمی۔لاہور)

۔۔۔
غزل


پرانا زخم ہے لیکن نشان تازہ ہے
ابھی ابھی وہ گیا ہے زیان تازہ ہے
نظر نظر سے ملی یوں حواس کھو بیٹھے
اْتر نہیں رہی میری تھکان تازہ ہے
میں اس کے بارے ابھی کچھ بھی کہہ نہیں سکتا
میں کیا کہوں کہ یقین و گمان تازہ ہے
مری وفا پہ یہ اک روز حرف آنا تھا
مری وفا پہ یہ اس کا بیان تازہ ہے
لٹا چکا ہوں میں گھر بار عشق میں لیکن
کیوں ایسا لگتا ہے میرا لگان تازہ ہے
قدم قدم پہ نیا ہے سفر محبت کا
قدم قدم پہ ہر اک امتحان تازہ ہے
میں مطمئن ہوں مرے کل سے نسلِ نو ناصر
کہے گی سن کے مری داستان تازہ ہے
(ناصر دائروی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


مری ہر گفتگو توحید کی ہے
سو میں نے عشق کی تائید کی ہے
کبھی گزرے ہو کیا تم کربلا سے
کبھی شبیر کی تقلید کی ہے
یہاں جو روشنی ہے چار جانب
سناں پر بولتے خورشید کی ہے
لہو کا رنگ ڈالا ہے غزل میں
دروں کے سوز کی تجدید کی ہے
حسد سے زنگ لگتا ہے دلوں کو
یہی اک دوست نے تاکید کی ہے
جسے مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
اسی نے خیر سے تردید کی ہے
خزاں کا درد سینے سے لگا کر
بہارِ نو کی پھر امید کی ہے
صہیب ایسی خبر نے آ لیا ہے
کہ میں نے نظم میں تجرید کی ہے
(سید صہیب ہاشمی۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
وہ دل جو ہو نہ پایا کبھی آشنائے عشق
کھلتے نہیں ہیں اس پہ کبھی راز ہائے عشق
نغماتِ خواہشات میں کھویا ہوا ہے جو
وہ کیا سمجھ سکے گا کہ کیا ہے صدائے عشق
پہلا سبق وفا کا ہے دستور عشق میں
کچھ لوگ جانتے ہی نہیں مدعائے عشق
اس کے لیے دعائیں اترتی ہیں عرش سے
پھیلا رہا ہے جو بھی زمیں پر فضائے عشق
سارے جہاں میں مجھ سا تونگر نہیں کوئی
قسمت سے مِل گئی ہے جو مجھ کو متاعِ عشق
یہ قول صوفیوں کا ہے کس درجہ معتبر
ہے اِبتدا تو اِس میں، نہیں انتہائے عشق
جب تک ہے سانس تن میں نبھاؤں گی گْل اِسے
اک بار مجھ سے ہو جو گئی ہے خطائے عشق
(گل رابیل۔ وہاڑی)

۔۔۔
غزل


ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا
میں جب ابھرا تھا چمک دار نہیں ہوتا تھا
ایسے شیطانی جزیرے پہ رہے ہیں ہم لوگ
سو کے اٹھتے تھے تو گھر بار نہیں ہوتا تھا
میں تو دو روز میں ہی بھول گیا ہوں تجھ کو
یہ ترے زخم کا معیار نہیں ہوتا تھا
اتنی نفرت تھی کہ پستول لیے پھرتے تھے سب
کوئی پھولوں کا خریدار نہیں ہوتا تھا
رنج ہوتا تھا اسے سامنے آ کر میرے
میں ان آنکھوں کا گرفتار نہیں ہوتا تھا
(نادر عریض۔ بہاولپور)

۔۔۔
غزل
اسی لیے تو جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہے
وہ پیڑ ہے اور غلط جگہ پر لگا ہوا ہے
تم اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہو سو یہ بتاؤ
وہ کتنا خالی ہے اور کتنا بھرا ہوا ہے
کسی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے یہ سوچا
یہ کس کا حصہ تھا اور کس کو عطا ہوا ہے
میں اس علاقے میں رہ نہ پاؤں گا سوچتا تھا
پر اب یہ پنڈی مر ی رگوں میں بسا ہوا ہے
(محمد طلال۔ باغ آزاد کشمیر)

۔۔۔
’’بھیک‘‘
سالوں جاگی آنکھیں ہیں
ممکن ہے کہ وقت سے مل کر
کچھ لمحوں کی بھیک ملے
چند لمحوں کو آنکھ میں رکھ کر
کچھ لمحوں کو سو لوں گا
ان لمحوں میں
نیند کو سارے خواب دکھا کر
جاگ کے تنہا رو لوں گا
رو لوں گا کہ چند لمحوں میں
پچھلے سارے سالوں کے
سارے خواب کہاں آتے ہیں
اور تو اور، اتنے سارے سالوں کی
موت کا ماتم رہتا ہے
جانے کتنی صدیوں سے
آنے والے سالوں نے
پچھلے سارے سالوں کا خون کیا ہے
اپنی جاگی آنکھوں کو
چند لمحوں کی نیند ملے تو
تیرے سارے خوابوں میں
پچھلے سارے سالوں کے
قتل کا قصہ چھیڑوں گا
چند لمحوں کی بھیک ملے تو
آنے والے سال کو پہلے
خواب میں تنہا مل لوں گا
اس کو میں سمجھاؤں گا
جانے والے کب رُکتے ہیں
جانے والے لوگوں کا
جانے والے لمحوں کا
قتل مناسب بات نہیں
(عامر شہزاد صابری ۔لاہور)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر73

’’ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا!‘‘ بابا جی نے درست فرمایا تھا۔ فقیر اب تک ’’وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہے‘‘ سُدھرے گا یا سدا کا غبی رہے گا، نہیں معلوم۔ فقیر نے ہمیشہ کی طرح پھر غلط کہہ دیا جی! ڈھاک تو بہت کارآمد شجر ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کے درخت میں صرف تین پات ہوتے ہیں، بہت ہوتے ہیں لیکن تین پتّے ایک ساتھ پیوست ہوتے ہیں، اس میں پُھول بھی کِھلتا ہے جسے ٹیسو کہتے ہیں جو ادویات میں استعمال ہوتا اور خلق خدا کے کام آتا ہے۔ بہت بھلا ہے جی ڈھاک تو۔ دیکھیے یہ کیا یاد آگیا!

جھوٹی تو ہوتی نہیں کبھی بھی سانچی بات

جیسے ٹہنی ڈھاک ماں لاگے نہ چوتھا پات

چلیے! فقیر ڈھاک سے خود کو تشبیہ دینے پر اس سے معذرت چاہتا ہے جی! لیکن ایسا نہیں ہے کہ فقیر نے کبھی سوچا ہی نہ ہو، سوچا بہت پَر پلّے کچھ نہیں پڑا، افسوس۔ اب اس میں کسی کا کیا دوش! تو ہاں بابا جی نے درست فرمایا تھا ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چھپا ہے، فقیر بھی دیکھے گا آپ بھی سوچیں۔ فقیر نے خانہ بہ دوشوں کے متعلق آپ کو بتایا تھا کہ انہیں کہیں قرار نہیں کہ پاؤں میں گردش بندھی ہوتی ہے ان کے تو، اور اگر وہ کہیں ٹھہر جائیں تو بس سمجھیے گئے کام سے۔ وہ خانہ بہ دوش بھی مجھے یہیں کراچی میں ملے تھے۔

شہر آزردہ کو جلتا سورج کالی چادر پہنا کر دوسری سمت جا نکلا تھا۔ کالی رات اور گہری ہوچکی تھی۔ فقیر ایک سنسان شاہ راہ پر رواں تھا، جو بہ ظاہر خوب صورت مگر بھیانک بستی کو دو حصوں میں بانٹ رہی تھی۔ مشینی جانوروں جیسی لیکن پُرآسائش گاڑیاں تیزی سے گزرتی اور دُور چلے جانے پر نقطہ بن کر تحلیل ہوجاتیں۔ دونوں اطراف کے پُرتعیش محلات کے آہنی دروازوں پر ’’کُتّوں سے ہوشیار‘‘ کے کتبے آویزاں تھے اور مسلح محافظ چوکس کھڑے تھے۔

ان محلات کو دیکھتے ہوئے بے کس و بے بس خلق خدا کو اپنی محرومیوں کا شدّت سے احساس ہوتا ہے لیکن وہ کچھ بھی تو نہیں کر پاتے۔ انہی محلات میں بینکوں کے کروڑوں روپے ہضم کر جانے والے مگر مچھ رہتے ہیں، وہ ’’معزز‘‘ بھی ہیں اور ’’اہم‘‘ بھی، اور عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں بل کہ ان سے بھی بدتر۔ فقیر اپنے اندر کے طوفان سے برسرِپیکار اپنی دھن میں اُن کے قریب سے گزر چکا تھا، لیکن مجھے واپس پلٹنا پڑا اور پھر میں اُن کے سامنے تھا۔

لمبا سا بوسیدہ کوٹ پہنے، اپنے قد کے برابر لاٹھی کے سہارے وہ سڑک کے کنارے بہ مشکل چل رہے تھے۔ پھر مکالمہ شروع ہوا: میرا نام شیر محمد ولد میر محمد ہے۔ میں سبّی بلوچستان میں پیدا ہوا۔ سچّا آدمی ہوں، ہم بہت غریب لوگ ہیں، ہماری زمین ہے نہ مکان، ہم تو خانہ بہ دوش تھے۔ آج یہاں کل وہاں، اﷲ سائیں کی ساری دھرتی اپنی جو ہے۔ ہم تین بھائی تھے، بہن نہیں تھی، دو بھائیوں کا انتقال ہوگیا اور میں اکیلا بچ گیا، اچھا تھا کہ میں بھی مرجاتا۔ خیر چھوڑو! میرے والد بہت غیرت مند انسان تھے اور تمہیں معلوم ہے وہ کام کیا کرتے تھے؟ وہ ریچھ پالتے تھے۔ ہاں جسے آپ لوگ مداری کہتے ہیں۔ وہ بھکاری نہیں بل کہ غیرت مند تھے۔

تماشا دکھایا، ایک ڈبہ ہوتا تھا زمین پر رکھا ہوا، لوگ خود اس میں پیسے ڈال دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ آپ سرکس کے بازی گر کو بھکاری تو نہیں کہہ سکتے، اسے فنکار کہتے ہو، تو میرے والد بھی بھکاری نہیں فنکار تھے، اور تمہیں معلوم ہے فنکار کی زندگی کیا ہے؟

ایک وقت کھانا دوسرے وقت فاقہ۔ بس یہی تھی ہماری زندگی۔ چھوٹی سی جھونپڑی تھی اور ہماری ہی کیا وہاں تو سب کی جھونپڑیاں تھیں، کوئی پکے مکان نہ تھے پھر وہاں چھوٹے شہر ہیں، ہر شہر میں کچھ دن بسیرا کرنا اور اگلے شہر کوچ کرجانا ہماری زندگی تھی اور بھلی تھی، اس طرح ہم نے ہر گھاٹ کا پانی پیا۔ مجھے پڑھنے کا شوق تو تھا لیکن میرے والد نے کہا ہم خانہ بہ دوش ہیں بیٹا شیر محمد چھوڑو، ہماری قسمت میں ہی پڑھائی نہیں ہے، چلو میرے ساتھ یہ کام سیکھو۔ اس طرح میں بچہ جمورا بن گیا، یہ جو میں اتنی اچھی باتیں کررہا ہوں یہ میں نے وہیں سے سیکھیں۔ میں پڑھے لکھوں سے اچھی زبان جانتا ہوں حالاں کہ دیہاتی، گنوار، جاہل اور ان پڑھ ہوں۔

ہم نگری نگر گھومتے بس یہی تھی ہماری زندگی، لوگوں کو ہنسانا اور ریچھ کو نچانا۔ ریچھ ہی اچھا ہے کہ خود ناچتا اور انسان کا پیٹ بھرتا ہے۔ پھر ایک بہت بڑا حادثہ ہوگیا، ہاں میں اپنی ماں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ بیمار ہوگئی۔ ہمارے جیسوں کے پاس کہاں اچھی خوراک ہے؟ میری ماں بہت صابر تھی، بیمار رہی اور ہمیں تنگ بھی نہیں کیا اور چُپ چَاپ اﷲ سائیں کے پاس چلی گئی۔

آخر وہ کب تک غربت کا چرخا کاتتی۔ وہ انسان تھی ہم نے اسے دفن کیا، دو چار دن رونا پیٹنا اور پھر وہی پیٹ کا دوزخ بھرنے لگے۔ میں نے اپنی ماں اور باپ کو کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔ ان میں مثالی محبّت تھی۔ میرا باپ جب رات کو گھر واپس آتا تو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خود دھوئے ہوں، میری ماں اس کے ہاتھ دھلاتی، اسے کھانا دیتی اور خود آخر میں کھاتی وہ واقعی ماں تھی۔ اُن کی وفات کے بعد ابّا کا دل نہیں لگتا تھا، تماشا دکھاتے دکھاتے وہ نہ جانے کدھر گم ہوجاتا تھا اور مجھے بتانا پڑتا تھا کہ ابّا ہم کھیل دکھا رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ ابّا کی یہ عادت بن گئی اور ہمیں لوگوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑا۔ ایک دن میں نے سوچا کب تک خانہ بہ دوش رہوں گا، سوچا بلوچستان سے نکلو کہیں اور چلو۔ میں جوان تھا اور باپ کا سہارا بننا چاہتا تھا۔ بہت دن سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کراچی چلتے ہیں۔

کچھ رقم جمع کی اور والد کو لے کر کراچی آگیا۔ اس وقت اس کلفٹن کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا یہ ویران سنسان جنگل تھا، ہم نے یہاں آکر جھونپڑی بنائی، باپ کو گھر چھوڑا اور ریچھ لے کر لوگوں کو تماشا دکھانے لگا۔ اجنبی شہر تھا لیکن رفتہ رفتہ میں یہاں کا رنگ سمجھ گیا، ہم نے جہاں جھونپڑی بنائی تھی وہاں اور جھونپڑیاں بھی تھیں، ہمارے برابر والی جھونپڑی میں ایک آدمی رہتا تھا، بہت بھلا آدمی اس کی دو بیٹیاں تھیں، میں گھر پر نہیں رہتا تو اس کی بیٹیاں میرے والد کی دیکھ بھال کرتیں۔ میں صبح تماشا دکھانے نکلا اور وہ مٹھائی بیچنے۔ یہ وہ والی مٹھائی نہیں جو دکانوں پر بکتی ہے بل کہ اس کے پاس ایک موٹا سا بانس تھا۔

اس پر لیس دار مٹھائی بناکر لپیٹ دیتا تھا جو بچے خریدتے تھے۔ شام کو ہم دونوں واپس گھر پہنچتے اس طرح ہم میں قربت پیدا ہوگئی۔ ایک دن میرے والد نے مجھے کہا کہ تم شادی کرلو میں نے پوچھا کس سے؟ انہوں نے بتایا تو میں نے حامی بھرلی اور میرے والد نے ان سے رشتہ مانگ لیا۔ وہ مجھے جانتے تھے، مان گئے اور پھر میری شادی ہوگئی۔ تم اسے حادثاتی شادی کہہ سکتے ہو۔

میری بیوی بھی بہت اچھی ہے، اس نے میرے والد کی بہت خدمت کی۔ ایک دن ابّا کی طبیعت خراب ہوگئی اور اُن کا انتقال ہوگیا تو رب کی امانت دھرتی کے حوالے کردی۔ میرے سسر نے مجھے ایک دن کہا کہ تم مداری کا کام چھوڑو اور میرا والا کام سیکھ لو۔ میں نے اپنے ریچھ فروخت کردیے۔ سچ پوچھو تو مجھے اپنا آبائی پیشہ چھوڑتے ہوئے بہت دُکھ تھا لیکن اب کون دیکھتا ہے مداری کا تماشا اس لیے میں آمادہ ہوگیا اور پھر وہی مٹھائی بیچنے لگا۔

اﷲ نے میری مدد کی اس نے مجھے چار بچوں سے نواز سب سے بڑی بیٹی اور پھر تین چھوٹے بیٹے پھر شہر ترقی کرکے بلند بالا عمارتوں اور فلیٹوں میں بدلنا شروع ہوگیا۔ اس شہر نے آسمان کو چُھوتی عمارتیں بنانے میں ہی ترقی کی۔ ورنہ تو یہاں انسانیت نے جو ستم دیکھے ہیں وہ کسی اور شہر نے نہیں دیکھے ہوں گے۔

یہاں انسان نے انسان کا گلا کاٹا، بارود برسا کر معصوم لوگوں کو خون میں نہلایا گیا، میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے … سارے ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں، اﷲ وہ دن کبھی نہ دکھائے۔ پھر یہ ہوا کہ جہاں ہماری جھونپڑی تھی وہاں فلیٹ بن گئے اور میں نے یہاں قریب ہی ایک چھوٹا سا کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرایا اور خود بہت محنت کی، اﷲ نے مدد بھی کی، بچے پڑھنے لگے۔ دن گزرتے رہے، ایک دن میں ایک اسکول کے سامنے مٹھائی بیچ رہا تھا کہ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور پھر میں بے ہوش ہوگیا، جب ہوش میں آیا تو لوگ جمع تھے۔

یہ میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہوا تھا، میں گھر پہنچا تو بیوی کو بتایا، اس نے کہا کم زوری کی وجہ سے تم بے ہوش ہوگئے ہوگے۔ لیکن ایک دن پھر یہی ہوا کہ میں سڑک پر کھڑا تھا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں بے ہوش ہوگیا، ہوش میں آیا اور ڈاکٹر کو دکھایا اس نے دوائیں دیں۔

میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کیا ہوگیا ہے اس نے ٹال دیا۔ شروع میں دو تین ماہ بعد بے ہوش ہوجاتا تھا لیکن پھر ہر ماہ پندرہ دن میں ایسا ہونے لگا، ہم نے کچھ پیسے جمع کیے تھے میری بیوی کا کہنا تھا آپ صحت مند ہوں گے تو پھر جمع کرلیں گے اور اگر آپ ہی بیمار ہوگے تو ان پیسوں سے کب تک گزارا ہوگا؟ بات اس کی بھی درست تھی۔ میں نے علاج کرانا شروع کیا بہت ٹیسٹ کرائے پورے بیس ہزار روپے علاج پر خرچ ہوگئے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ مجھے ’’مرگی‘‘ ہوگئی ہے۔ یہ کیسے ہوگئی؟ مجھے نہیں معلوم، میں بہت حوصلے والا آدمی ہوں لیکن میرے پاس قارون کا خزانہ تو نہیں ہے کہ آرام سے بیٹھ کر کھاتا۔ کام دھندا ختم ہوگیا، رقم بھی ختم ہوگئی اور پھر ایک دن بچوں کی فیس ادا نہ کرنے پر اسکول سے ان کا نام خارج کردیا گیا۔ مجھے میرے باپ کی بات یاد آگئی کہ شیر محمد اپنی قسمت میں ہی پڑھائی نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول سے نجات مل گئی اور اس کے ساتھ ہی میرے خواب ٹُوٹ گئے۔

میں نے سوچا تھا اپنے بچوں کو پڑھاؤں گا، اچھا انسان بناؤں گا لیکن سب کچھ ادھورا نہیں ختم ہی سمجھو۔ بہت دن تک تو میں نے بہت خودداری دکھائی۔ بہت انا تھی مجھ میں لیکن بیٹا! جب بچے بھوکے ہوں تو پھر خودداری، انا اور غیرت سب مر جاتی ہے۔ اب سچ بتاؤں تو میری بھی غیرت مرگئی، خود داری ختم مرگئی، سمجھو میں جیتے جی مرگیا۔ تم کسی زندہ انسان سے نہیں ایک مُردے سے ہم کلام ہو۔

ایک دن بچے بہت بھوکے تھے، میں عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر پہنچا اور لنگر سے خیرات لے کر گھر آگیا۔ بیوی بچوں نے بہت رونا دھونا کیا لیکن میں نے کہا میں نے بھیک نہیں مانگی، وہاں سب کھاتے ہیں تو میں بھی لے آیا، بچے تو معصوم ہوتے ہیں مان گئے اور یوں میرے گھر میں پہلی مرتبہ خیرات میں ملا ہوا رزق کھایا گیا۔ میری کیفیت کیا تھی ؟ یہ تم مت پوچھو، ایک غیرت مند اور خوددار آدمی جب بے غیرت بن رہا ہو تو کیسا محسوس کرتا ہے اور ایسا غیرت مند جس نے کبھی اس ذلّت کا سوچا بھی نہ ہو اور اچانک اس پر افتاد آپڑی ہو! بیوی بچے سب پریشان ہوگئے اور پھر میری بیوی نے کمر ہمت باندھی اور قریب ہی ایک بنگلے میں کام کرنے لگی، اس طرح کچھ آسانی ہوگئی۔

وہ صبح سویرے جاتی اور رات گئے واپس آتی اس کے باوجود اسے مالکن کی جھڑکیاں سننے کو ملتیں اور پھر وہ اتنے کام کی عادی نہیں تھی۔ ایک دن اسے بخار ہوگیا اور اتنا کہ اسے ہوش ہی نہیں رہا اس طرح دو دن ناغہ ہوگیا، تیسرے دن جب وہ کام پر گئی تو وہاں نئی ملازمہ آگئی تھی، مالکن نے اس کا حساب بے باق کیا اور چھٹی کردی۔ مالکن کا کہنا تھا کہ تمہارے بخار، بیماری سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہمیں تو کام سے مطلب ہے، تمہاری بیماری سے ہمارا کام تو نہیں رک سکتا، اس طرح بیوی بے روزگار ہوگئی۔ بچے بہت چھوٹے ہیں، کام نہیں کرسکتے اب یہاں سے میری ذلّت کا نیا دور شروع ہوا۔ میں نے چھوٹے موٹے کام شروع کیے مگر ناکام رہا۔

آخر تنگ آکر میں ایک سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا، میں نے تہیہ کرلیا کہ خود نہیں مانگوں گا کسی نے کچھ دے دیا تو انکار نہیں کروں گا۔ جس دن پہلی مرتبہ بھیک مانگنے کے لیے کھڑا ہوا وہ دن میری زندگی کا آخری دن تھا، اب جو میں زندہ نظر آرہا ہوں وہ ظاہری زندہ ہوں مر تو میں اسی دن گیا تھا۔ اپنی کیفیت تمہیں بتا نہیں سکتا، زخم دیکھنے سے اس کی دکھن اور جلن کا اندازہ نہیں ہوسکتا، وہ تو جس کو لگ چکا ہو، ناسور بن کر رس رہا ہو، وہی اس کا درد کرب جان سکتا ہے۔

اب میں اپنی صفائی پیش بھی کروں تو لاحاصل ہے، کیا فائدہ ہے تم سمجھو میں ایک بھکاری ہوں، منگتا ہوں اور بھک منگا اپنی صفائی میں کیا پیش کرسکتا ہے؟ جگہ جگہ بھکاری کھڑے ہیں اور انہوں نے کہانیاں گڑھ رکھی ہیں تم سمجھو گے میں نے کوئی کہانی بنالی ہے لیکن میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ کہہ رہا ہوں کہ میں بھیک مانگنا ذلّت سمجھتا ہوں اور کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہوں، تم میرے بچوں سے مل لو، میری بیوی سے مل لو اور خود اندازہ لگالو، اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں، بہت دن تک تو میں نے گھر والوں کو جاکر یہ بتایا کہ مزدوری کررہا ہوں اور یہ رقم مل گئی ہے۔

انہوں نے اعتبار کرلیا لیکن ایک دن ہمارے محلے کے ایک آدمی نے مجھے دیکھ لیا، پھر کیا تھا میرے پہنچنے سے پہلے یہ خبر عام ہوگئی تھی، گھر پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا، بیوی بچے رو رہے تھے، انہوں نے مجھ سے کام کا پوچھا تو میں نے جھوٹ بول دیا کہ مزدوری کرتا ہوں اور جب انہوں نے اس آدمی کی شہادت پیش کردی تو میں کیا کہتا، میں دوسری مرتبہ مرا۔ بس میری زندگی مرنا جینا، مرنا جینا ہے اور یونہی کٹ رہی ہے۔

میں نے محلہ چھوڑنے کا سوچا اور پھر یہ ارادہ ترک کردیا اس لیے کہ یہاں تو یہ مشہور ہو ہی گیا تھا، دوسری جگہ بھی مشہور ہوجاتا، گھر برباد ہوگیا، عزّت خاک میں مل گئی، بیوی بچے خاموش ہوگئے ہیں، بس زندگی کی گاڑی ہے سرک رہی ہے آگے کیا ہوگا؟ مجھے نہیں معلوم، کھانا چاول مزار سے مل جاتے ہیں، مجھے کبھی ساٹھ ستّر روپے مل جاتے ہیں۔

ایک جگہ سر جھکائے کھڑا ہوجاتا ہوں، کچھ مل جاتا ہے تو لے لیتا ہوں، مانگتا نہیں ہوں، طبیعت اب بھی ویسی ہے۔ سوچتا ہوں خانہ بہ دوش ہی رہتا جو میرے خون میں تھی، میں نے اپنے خون سے بے وفائی کی اور اس کی سزا پائی، اچھا نہیں کیا کہ خانہ بہ دوشی چھوڑی اور کہیں کا بھی نہیں رہا، اچھا نہیں کیا میں نے۔ تم پہلے آدمی ہو جس نے اتنی دیر بات کی، حال دل پوچھا، یہاں تو سب کو جلدی ہے کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ میں ان کے اس حسن ظن پر شرمندہ تھا اس لیے کہ میں بھی جلدی میں تھا اور انہیں دیکھ کر آگے نکل گیا تھا۔

’’ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا!‘‘ بابا جی نے درست فرمایا تھا۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا کا ساتواں عجوبہ؛ گرینڈ کینین نیشنل پارک

$
0
0

امریکی ریاست ایریزونا میں واقع عظیم الشان وادی Grand Canyon کو دنیا کے سات قدرتی عجوبوں Seven natural wonders of the world میں شمار کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں اور قدرت کے اس عظیم شاہ کار کو دیکھتے ہیں۔

گذشتہ سال 2018 میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 60 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جن میں ایک بڑی تعداد امریکی شہریوں کی تھی۔ دنیا کے مختلف حصوں اور ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں اور یہاں کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قدرت کا یہ شاہ کار در اصل زمین کے اندر پڑنے والی ایک دراڑ ہے جس نے زمین کے سینے کو چیر کر رکھ دیا۔ یہ دراڑ ڈیڑھ کلو میٹر گہرائی تک چلی گئی۔

اس کی تہہ میں امریکا کا بڑا دریا دریائے کولو راڈو (Colorado River) بہتا ہے۔ ماہرین ارضیات کے اندازے کے مطابق زمین پھٹنے کا یہ واقعہ 60 لاکھ سال پہلے رونما ہوا۔ یہ دراڑ پڑتے ہی دریا نے اپنا راستہ اس کے اندر سے بنالیا۔ دریائے کولوراڈو کا امریکی معیشت میں اہم کردار ہے کیوںکہ یہ امریکا کے بڑے حصے کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ریاست کیلیفورنیا سے ایریزونا میں داخل ہوتے ہوئے یہ دریا بذریعہ پل عبور کرنا پڑتا ہے۔

2012-13ء میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی میں قیام کے دوران مجھے امریکا کی22 ریاستیں دیکھنے کا موقع ملا، نیویارک اور واشنگٹن DC سے لے کر لاس اینجلس تک اور بحر اوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل تک کے پانیوں کو چھونے کا موقع ملا۔ گرینڈ کینین نیشنل پارک دیکھنے کی خواہش تو عرصہ دراز سے تھی لیکن موقع نہیں مل رہا تھا۔ جولائی2013 ء میں کیلی فورنیا میں مقیم ماموں ڈاکٹر احسان الحق قاضی نے مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا۔ اگرچہ امریکا میں یہ میرے قیام کے آخری ایام تھے لیکن اس پُرکشش دعوت کو قبول کیا اور ان کی فیملی کے ہمراہ ریاست کیلی فورنیا سے ریاست ایریزونا کی طرف روانہ ہوئے۔

اگرچہ یہ سفر صبح سویرے شروع ہوا لیکن گرینڈ کینین پہنچتے ہوئے شام ہوچکی تھی۔ تاحدنظر پھیلے وسیع و عریض امریکی ریگستانوں سے گزرنے کا تجربہ بہت دل کش تھا۔ ہوٹل میں مختصر قیام کے بعد ہم اصل منزل کی طرف گام زن ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قدرت کا یہ عظیم الشان شاہ کار ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ڈھلتے سورج کی شعاعیں اور حرکت کرتے ہوئے سائے رنگ برنگی چٹانوں پر پڑ کر ان کی دل کشی میں اور بھی اضافہ کر رہے تھے۔

دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں سیاح قدرت کا یہ کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ 26فروری 1919ء کو اس علاقے کو امریکا کے نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہوا جس کے بعد امریکی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے کر سیاحوں کے لیے بہت سی سہولیات کا اہتمام کیا۔ یہاں پر وسیع و عریض پارکنگ، ریستورانوں کے علاوہ رہائشی ہوٹل موجود ہیں۔ عظیم الشان وادی کے قدرتی مناظر دیکھنے کے لیے بہت سے ویو پوائنٹ بنائے گئے ہیں جہاں سے سیاح اس خوب صورت وادی کے مناظر کا نظارہ کرتے ہیں۔

بعض مقامات سے بہتا ہوا دریا بھی نظر آتا ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ کوہ پیمائی کے شوقین بہت سے لوگ پیدل راستوں کے ذریعے پہنچ جاتے ہیں اور پھر شام تک واپس آجاتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اوپر سے ہی قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ سطح زمین سے دریا کی گہرائی تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے۔ رنگ برنگی چٹانیں زمین کے اندر کا خوب صورت منظر پیش کرتی ہیں۔ کسی نے زمین کے اندر کا منظر دیکھنا ہو تو یہ بہترین جگہ ہے۔

دونوں طرف چٹانوں کے اندر بے شمار چھوٹی بڑی غاریں ہیں جن میں بہت سے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ علاقہ امریکا کے قدیم ریڈ انڈین قبائل کی آماج گاہ رہا ہے۔ ان قبیلوں کی نسل آج بھی موجود ہے اور انہیں قانونی طور پر بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ پورے امریکا میں جوا خانوں (Casinos) کا کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ امریکی سرزمین کے اصل مالک وہ ہیں۔ بہت سی فلموں میں پرانے زمانے کے ریڈانڈین قبیلوں کے بودوباش کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ قبیلے گرینڈ کینین کی غاروں میں رہتے تھے۔ نایاب جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بہت سی نسلیں آج بھی اس دل کش وادی کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ ہزاروں قسم کے نایاب پودے اور درخت بھی ان وادیوں میں موجود ہیں۔

ماہرین ارضیات کے لیے گرینڈ کینین خصوصی دل چسپی کی جگہ ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق پھٹی ہوئی زمین میں سب سے نیچے کی تہہ زیادہ تر معدنیات بالخصوص گرینائیٹ پر مشتمل ہے جو آج سے اڑھائی کھرب سال (2.5 billion years) پہلے وجود میں آئیں۔ اس کے اوپر کی تہیں لائم سٹون (Limestone) کی ہیں جن کی عمر540 ملین سال ہے۔ سب سے اوپر والی تہیں آج سے تین سو ملین سال پہلے وجود میں آئیں اور یہ بھی زیادہ تر لائم سٹون پر مشتمل ہیں۔ گرینڈ کینین کی چٹانوں کی تہیں ارضیاتی تاریخ کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ آج بھی ہزاروں جیالوجسٹ یہاں پر اپنی تحقیق کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔

بعض مقامات پر گذشتہ ایک ہزار سال میں نکلنے والے سیاہ رنگ کے لاوے کی تہیں بھی موجود ہیں۔ زمین پھٹنے کا واقعہ آج سے چھ ملین سال پہلے رونما ہوا جس کے نتیجے میں دنیا کا یہ قدرتی عجوبہ معرض وجود میں آیا۔ اس کی کل لمبائی450کلو میٹر ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ چوڑائی 29کلو میٹر ہے۔ کم سے کم چوڑائی چھ کلو میٹر ہے۔ یہاں پر دونوں موسم اپنی شدت کے ساتھ آتے ہیں۔ موسم سرما میں برف پڑتی ہے اور درجۂ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں کا درجۂ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ ہرن (Deer)اور نیل گائے یہاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ہر قسم کا شکار منع ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بڑی شاہراہوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے ہیں اور سیاحوں کو تصویریں بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔

گرینڈ کینین کی چٹانیں بہت سے رنگوں پر مشتمل ہونے کی بدولت دل کش منظر پیش کرتی ہیں۔ زیادہ تر چٹانیں گہرے سرخ رنگ کی مٹی اور پتھروں پر مشتمل ہیں۔ اپنے قدرتی حسن اور دل کشی کے باعث یہ وادی ہالی وُڈ کے فلم سازوں کے لیے خصوصی توجہ کا باعث رہی ہے۔ بہت سی موویز کے مناظر یہاں فلم بند کیے گئے جس کی بدولت یہ قدرتی عجوبہ دنیا بھر میں مقبول ہوا اور لاکھوں سیاح یہاں آنا شروع ہوئے۔

بعض فضائی کمپنیوں نے گرینڈ کینین کی فضائی سیر کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر وادی کے اندر سے گزرتے ہیں اور ان پر بیٹھے سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں پر رہائش اور کھانے پینے کے بہت سے ہوٹلز اور ریستوراں موجود ہیں۔ کمرشلائزیشن کا ہر طرف راج ہے۔ انٹری فیس اور پارکنگ فیس سے لے کر بہت سے دوسرے اخراجات بھی سیاحوں کو کرنا پڑتے ہیں۔

غروب آفتاب کا منظر یہاں پر بہت ہی دل کش ہوتا ہے جب سورج کی کرنوں کے ساتھ حرکت کرتے سائے چٹانوں کی رنگت میں نور بھر دیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے ہزاروں سیاح اپنے گلوں میں کیمرے لٹکائے کافی دیر پہلے ہی بیٹھ جاتے ہیں اور پھر غروب آفتاب کا سارا منظر اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے ہیں۔

شام کے سائے ڈھلنے لگے اور میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ایک چٹان کے ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ قدرت کا یہ حسین و جمیل شاہ کار میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ایک خوب صورت پرندہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے لمبی اڑان لی اور چہکتا ہوا گہری نیلگوں وادیوں میں گم ہوگیا۔ مجھے اس پرندے کی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ پھر اچانک سورج کی روشنی مدھم پڑنے لگی۔

میں سوچ رہا تھا قدرت کا یہ شاہ کار کتنا عظیم ہے تو اس کا بنانے والا کتنا بڑا ہوگا۔ وہ کتنا عظیم اور برتر ہوگا جس نے یہ ساری کائنات بنائی، زمین، آسمان، چاند، ستارے اور سیارے بنائے۔ کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جو صناّع کی صناّعی تو دیکھنے آتے ہیں لیکن صناّع کے بارے میں نہیں سوچتے۔ خدا پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان یہاں آکر اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے کیوںکہ یہ ان کا ایمان ہے کہ یہ سب ان کے رب نے بنایا ہے قدرت کا یہ حسین و جمیل نمونہ دراصل رب کی کبریائی ظاہر کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ زمین و آسمان کے خالق و مالک نے اپنی زمین کا تھوڑا سا حصہ چیر کر نسل انسانی کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

گرینڈ کینین کوہ پیماؤں کے لیے اِنتہائی پُرکشش مقام ہے۔ اگرچہ بہت سے صاحب حیثیت سیاح ہیلی کاپٹر یا چھوٹے جہاز کے ذریعے پہاڑ کے اندر کے مناظر دیکھتے ہیں لیکن کوہ پیمائی کے شوقین خواتین و حضرات اِنتہائی پُرخطر راستوں سے گزر کر نیچے بہتے ہوئے دریا تک جاتے ہیں اور پانی کو ہاتھ لگا کر واپس آتے ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں میں قدیم امریکی باشندوں کے بنائے ہوئے غار بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

امریکا کی دریافت سے پہلے یہ پورا علاقہ قدیم قبائلی باشندوں کی ملکیت تھا جنہیں انڈین کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی انڈین قبیلوں کا ہمارے پڑوسی ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قدیم امریکی باشندے جنگلی جانوروں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا شکار کرکے کھاتے تھے اور اِنتہائی وحشیانہ زندگی گزارتے تھے۔

1556ء میں سپین سے امریکا جانے والے تین فوجیوں نے پہلی بار یہ جگہ دیکھی تو حیران رہ گئے۔ اپنے ملک واپس جا کر اپنی رپورٹ میں اُنہوں نے اس جگہ کا ذکر کیا۔ یوں دنیا کو اس قدرتی عجوبے کے وجود سے آگاہی ہوئی۔ سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے اور بہت سے ہالی وڈ والے یہاں فلمیں بنانے آجاتے ہیں۔

امریکا کے سابق صدر روز ویلٹ کو اس جگہ سے عشق تھا۔ وہ کئی بار یہاں شکار کرنے آئے۔ ان کے دور میں گرینڈ کینین کو امریکا کے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ پارک کے مشرقی حصے میں ایک بہت بڑا واچ ٹاور ہے، جہاں سیڑھیوں سے چڑھ کر لوگ بلندی سے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قدیم امریکی قبائلی باشندوں کا ایک گاؤں بھی اس علاقے میں موجود ہے۔ برائے نام سے لباس میں ملبوس یہ قبائلی لوگ سیاحوں کا راستہ دیکھتے ہیں، اِنہیں خوش آمدید کہتے ہیں، اِنہیں خچروں پر بٹھا کر پہاڑوں کی سیر کراتے ہیں اور بالآخر ان کی جیب خالی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھ تصویر بنانے والوں سے بھی پیسے وصول کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان قاضی نے ہمیں بتایا کہ وہ عالم شباب میں گرینڈ کینین کی کوہ پیمائی کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ قدرت کا یہ شاہ کار دیکھنے کے لیے ہم دوروز گرینڈ کینین ہوٹل میں مقیم رہے کئی بار جنگلی جانوروں سے آمنا سامنا ہوا، جن میں زیادہ تر ہرن اور بارہ سنگھے جیسے جانور تھے۔

ہماری اگلی منزل ریاست اریزونا اور یوٹا کی سرحد پر واقع عجائبات کی وادی (monument Valley) تھی۔ گہری سرخ مٹی اور پتھروں سے بنے قدرتی شاہ کار اس پارک کی خصوصیت ہیں۔ ہالی وڈ کی بہت سی فلموں کے علاوہ اشتہاروں اور کیلنڈروں پر ان قدرتی شاہ کاروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ یہ پارک قدیم امریکی باشندوں کے قبیلے ’’نواہو‘‘ کی ملکیت ہے اور اس کی تمام آمدن بھی اسی قبیلے کو جاتی ہے۔

پارک کے اندر تقریباً 27 کلومیٹر کا سفر سرخ مٹی سے بنے کچے راستے پر طے کرنا پڑتا ہے۔ نواہو قبیلے کے لوگ اس وادی کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق مقدس وادی قرار دیتے ہیں کیوںکہ ان کے آباؤ اجداد ان قدرتی شاہ کاروں کو دیوتا سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ قبیلے کی موجودہ نسل بھی کم و بیش اسی طرح کے خیالات رکھتی ہے۔ عجائبات کی اس وادی میں 27 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے دو گھنٹے میں طے کیا۔ شدید گرد کے باعث ہماری گاڑی اپنا رنگ تبدیل کر چکی تھی۔ ہم نے قریب جا کر عجیب و غریب شکلوں کے حامل مٹی کے ان تو دوں کا مشاہدہ کیا جو لاکھوں سال پہلے معرض وجود میں آئے اور زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ان کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی رہیں۔

نواہو پارک کے دورے سے فارغ ہوئے تو شدید تھکاوٹ ہوچکی تھی لہٰذا واپسی کا ارادہ کیا۔ ریاست نیومیکسیکو پہنچ کر ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اس روز اتفاق سے چارجولائی کا دن تھا جو امریکا کا یوم آزادی ہے۔ امریکی لوگ ہر شہر اور قصبے میں آتش بازی کے ذریعے اپنے ملک سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔

اس روز جہاں سے بھی گزر ہوا رات کی تاریکی میں امریکی لوگوں کو جشن مناتے دیکھا۔ اگلے روز کا سفر بھی اِنتہائی طویل تھا۔ ایک بار پھر ریاست نیو میکسیکو سے ریاست اریزونا میں داخل ہوئے ہماری اگلی منزل پیٹریفائیڈ فارسٹ نیشنل پارک تھا۔ وسیع رقبے پر پھیلالق ووق صحرا ظہور انسانیت سے کروڑوں سال پہلے جنگل ہوا کرتا تھا، پھر کسی زلزلے یا ارضیاتی تبدیلی کے نتیجے میں یہ جنگل زمین کے اندر دھنس گیا۔

380 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا یہ نیشنل پارک اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں درختوں کے فوسلز عقل انسانی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ کروڑوں سال پہلے زمین کے سینے میں دفن ہو جانے والے انتہائی لمبے اور موٹے درختوں کے تنے فوسل بن کر پتھروں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ فوسل پورے پارک میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔

ہر سال لاکھوں سیاح یہاں آتے ہیں اور قدرت کی صناعی کے یہ عظیم الشان نمونے شوق سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگ تو چھوٹے چھوٹے پتھر چرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پارک کے گیٹ پر موجود سیکیوریٹی سسٹم اس چوری کو پکڑ لیتا ہے اور پھر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ پارک کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی موجود ہے جہاں فوسلز کے نمونوں کے علاوہ ڈائنو سارز کے ڈھانچے اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ پانچ سے10 فٹ قطر پر محیط انتہائی جسیم درختوں کے تنے پتھر سے بھی زیادہ سخت بن چکے ہیں۔ کروڑوں سال زمین کے سینے میں مدفون رہنے والے یہ درخت دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کئے ہوئے ہیں۔

پتھریلے درختوں کے اس جنگل میں انواع و اقسام کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔ قریب ہی واقع صحرا کو پینٹڈ ڈیزرٹ یعنی رنگ شدہ صحرا کہا جاتا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے اس صحرا کی چٹانوں کو رنگ برنگے روغن سے نہلا دیا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ چٹانیں قدرتی طور پر مختلف رنگوں کی حامل ہیں۔ ان کی مختلف تہیں سرخ، سفید، سیاہ اور بادامی رنگوں کی مٹی اور پتھروں کی وجہ سے ایسا دل کش منظر پیش کرتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کائنات کے خالق نے کتنی خوب صورت کائنات بنائی ہے اس کا ایک ایک ذرہ اپنے خالق کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔

پینٹڈ ڈیزرٹ سے گزرتے ہوئے ہماری گاڑی ایک اور بڑی شاہراہ پر گام زن تھی جو تفریحی علاقے سیڈونا جا رہی تھی۔ یہ ریاست اریزونا کا پہاڑی علاقہ ہے جو قدرتی خوب صورتی اور گہرے سرخ رنگ کی مٹی کی وجہ سے مشہور ہے۔ دور دور تک سرخ مٹی کے بڑے بڑے تودے سیڈونا کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

The post دنیا کا ساتواں عجوبہ؛ گرینڈ کینین نیشنل پارک appeared first on ایکسپریس اردو.

 قدیم دور میں مارخور کے سینگوں سے پہاڑی نہریں کھودی جاتی تھیں

$
0
0

(قسط نمبر 15)

گلگت بلتستان کے طول وعرض میں درجنوں چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔ان سب میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سبھی بہت تند و تیر دریا ہیں۔ ہر سال گرمیوں میں جب  پہاڑوں پربرفیں پگھلتی ہیں تو ان دریاؤں کا پاٹ چوڑا ہوکر کناروں کی زمین کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

تمام دریا پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان اس قدر نشیب میں بہتے ہیں کہ ان سے آبپاشی کا کام لینا ممکن نہیں ہوتا۔اس مقصد کے لئے ہر آبادی کے لوگ جمع ہوکر اپنے گاؤں سے قدرے بلندی پر پہاڑ ی نہر کھودتے ہیں جسے کوہل کہا جاتا ہے۔ پھر ندی یا دریا کے کچھ پانی کا رخ اس کوہل کی طرف موڑ کر پانی کو ایسے طریقے سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے کہ آبپاشی اور پینے کے لئے گاؤں کی ساری آبادی اس پانی سے مستفید ہوسکے۔اس وقت بھی گلگت  بلتستان ،چترال، سوات، کوہستان اور شانگلہ کے طول وعرض میں سینکڑوں کوہل ہیں جو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے ہیں۔

ان کوہلوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے اب بھی گاؤں کی سطح پر لوگ اکٹھے ہوکر کام کرتے ہیں۔ لیکن نئی پہاڑی کھالوں کی تعمیراور پرانی کی مرمت اور بحالی کے لئے اب حکومت کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ پہاڑی نہریں مارخور کے سینگوں کی مدد سے پہاڑ کاٹ کر بنائی جاتی تھیں۔ بعد میں جب آمد ورفت کے راستے کھلے اور لوہے سے بنے ہوئے اوزار دستیاب ہوئے تو سنگلاخ پہاڑوں کے سینے چیرنے کا کام قدرے آسان ہوا۔

دریائے سندھ تبت کی جھیل مانسروور سے نکلتا ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا طویل ترین دریا جس کی کل لمبائی انیس سومیل (3057کلو میٹر) ہے۔ تبت سے یہ بلتستان کا رُخ کرتا ہے۔ضلع گانچھے میں جب یہ پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار ایک ندی جتنی ہوتی ہے لیکن جوں جوں یہ آگے بڑھتا ہے تو راستے کے دیگر پہاڑی ندی نالے اور دریا اس میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔

بلتستان میں لداخ سے شروع ہونے والادریائے شیوک کریس  کے مقام پراور چو غولنگمہ، بیافو اور بلتورو گلیشیرز سے نکلنے والا دریائے شگر سکردو کے قریب اس کا حصہ بنتے ہیں۔ جب یہ بلتستان میں ایک طویل سفر طے کرکے دنیا کے تین عظیم سلسلہ ہائے کوہ یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے مقام اتصال پر وادی گلگت میں داخل ہوتا ہے تو دریائے خنجراب، جسے بعد میں دریائے ہنزہ بھی کہتے ہیں اور دریائے نگر جو دریائے گلگت میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں۔

دریائے سندھ کے وسیع سینے میں سما جاتے ہیں۔اسی مقام پر دریائے سندھ کا رخ جنوب کی طرف مڑ جاتا ہے۔شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جب یہ دریا تھاکوٹ پہنچتا ہے تو اس سفر میں بلا مبالغہ سینکڑوں چھوٹے بڑے ندی نالے اور دریا شامل ہو چکے ہوتے ہیں۔ گدائی کے ہمالیائی نالے ُجو درہ برزل اور قمری کے برف زاروں کے شفاف پانیوں سے جنم لیتے ہیں‘ گوری کوٹ پہنچ کر دریائے استور کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔یہ دریا بونجی کے جنوب میں تھیلچی کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ دریائے اشکومن قرمبرگلیشیر سے نکل کر سلپی کے مقام پر دریائے پونیال میں مل جاتا ہے۔ اسی کو دریائے غذر بھی کہتے ہیں۔

تانگیر کی برفوں سے نکلنے والا دریائے تانگیر شتیال کے مقام پر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ شندور جھیل اور اس سے ملحقہ پہاڑوں سے نکلنے والادریائے گوپس معاون ندی نالوں کو ساتھ ملاتا ہوا دریائے یاسین کے ساتھ آملتا ہے اور پھر جب یہ وادی گلگت میں داخل ہوتا ہے تو اس کا نام دریائے گلگت ہو جاتا ہے۔یہ خونی دریا کے نام سے معروف ہے کیونکہ ہر سال کئی افراد ’جن میں زیادہ خواتین شامل ہوتی ہیں‘ اس دریا میں کُود کر خود کشی کر لیتے ہیں اور اُن کی لاشیں اُن کے اپنے گاؤں اور آبادیوں سے میلوں دور گلگت کے قریب ’جب دریا کا پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے‘ تو پانی میں نمودار ہوتی ہیں۔

ہنزہ اور نگر اب اگرچہ دو اضلاع کے نام ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے یہ دو الگ الگ ریاستوںکے نام ہیں۔جن کے باشندے اپنی گفتگو،حرکات سکنات اور ملنے جلنے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کاوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہنزہ میں قدرتی خوبصورتی اس قدر نہیں جس قدر اُسے دیومالائی شہرت مل چکی ہے۔

اس کے مقابلہ میں نگر کے علاقہ میں قدرتی خوبصورتی،برفپوش پہاڑوں،گلیشیروں،چشموں،چراگاہوں اور پھلوں کے باغات کی صورت میں بہت زیادہ ہے لیکن نگر کے لوگ فطری طور پر سادہ ہونے کے باعث اپنے علاقے کی خوبصورتی کی صحیح مارکیٹنگ نہیں کر پائے۔ جس کی وجہ سے نگر کی خوبصورت وادیاں ہنزہ ہی کے نام سے ہی پیش کی جاتی ہیں۔ نگر خاص، ہوپر اور ہسپر گلیشیر جیسے علاقے سیاحوں کے لئے بے تحاشہ کشش کے حامل ہیں لیکن چونکہ نگر خاص اور آگے کی خوبصورت وادیوں یا جھیلوں تک جانے کے لئے سیاحوں کو علی آباد اور گینش سے گذر کر جانا پڑتا ہے اس لئے ہنزہ کے لوگ ان علاقوں کو اَپرہنزہ کہہ کر پیش کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ نگر کے اندرونی علاقوں میں جانے والی سڑکیں بہت خستہ حالت میں ہیں۔ ہوٹلوں اور طعام گاہوں کا بھی فقدان ہے اس لئے مقامی ہوں یا غیر ملکی، سیاح نگر خاص ہوپر یا ہسپر تک جا کر اُسی روز علی آباد واپس آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نگر خاص گینش سے چودہ کلومیٹر جبکہ ہوپر گلیشیر انیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر گینش سے تھوڑی دور جاکر دریائے ہنزہ پر ایک پل بنا ہوا ہے۔ اسی پُل سے ایک راستہ دائیں جانب نگر خاص کو جاتا ہے۔

یہ خستہ حال سڑک دریائے نگر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔لینڈ سلائنڈنگ اور گرمیوں میں دریا کے تند و تیز پانی کی زد میں رہنے والی یہ پگڈنڈی نما سڑک بہت کٹی پھٹی ہوئی ہے۔ یہ دریا چونکہ ہوپر اور ہسپر گلیشیروں سے نکلنے والے نالوں کا مجموعہ ہے اس لئے اس کا پانی سیاہ رنگ کا ہے جو دریائے ہنزہ میں مل کر اُس کے صاف شفاف برف جیسے پانی کو بھی سیاہ کردیتا ہے۔ چار پانچ کلو میٹرتک سڑک اور دریا ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔اس کے بعدایک پُل پار کرکے یہ سڑک دریا سے اونچائی کی طرف نگر خاص کی آبادیوں کا رخ کر لیتی ہے۔ نگر خاص کی پہاڑی ڈھلان پر بلندی کی جانب چڑھنے والی سڑک کے دونوں طرف کھیت ہیں اور کھیتوں کے کنارے اخروٹ،خوبانی،سیب اور ناشپاتی کے درخت اس طرح سے کھڑے ہیں کہ پورا راستہ جنت کا ٹکڑا لگتا ہے۔ بعض جگہوں پر پھل دار درختوں کی جگہ سفیدے کے بلند و بالا درخت ماحول کی خوبصورتی میں اور زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔

میں پہلی بار جولائی 2015ء میںاپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہنزہ کی سیر کے بعد نگر کی طرف گیا کیونکہ اُس وقت تک عطا آباد جھیل میں ڈوبنے والی شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور راستہ میں بننے والی پانچ سرنگیں مکمل نہیں ہوئی تھیں اور میں اپنے اہل خانہ کو عطا آباد جھیل میں کشتی کے سفر سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ بہر حال نگر خاص کی طر ف بڑھتے ہوئے راستہ میں سڑک کے کنارے لگے خوبانی کے درختوں پر پھل پک چکا تھا۔اور پکی ہوئی خوبانیوں کے بوجھ سے شاخیں سڑک کی جانب جھکی ہوئی تھیں۔ میرے ہمراہ علی حسن ڈرائیورتھا جو نگر کا رہنے والاتھا۔اُس نے ایک ایسی جگہ گاڑی روک لی جہاں خوبانی کے گھنے درختوں کے جھنڈ پکی ہوئی خوبانیوں سے لدے کھڑے تھے اورقریب ہی ایک چھوٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا۔ علی حسن نے بہت سی خوبانیاں درختوں سے اُتاریں اور دھو کر ہمیں دیں۔ سفید اور گہرے پیلے رنگ کی یہ خوبانیاں نہایت شیرین تھیں۔ ہوپر پہنچنے تک ہم سب خوبانیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

نگر خاص کم و بیش بیس دیہات پر مشتمل ہے قدیم زمانے کی ریاست نگر کا یہ صدر مقام نگر کے راجہ کی قیام گاہ بھی تھا، جو گرمیوں میں چھلت منتقل ہو جاتا تھا۔ ساری آبادی رعایا ہونے کے ناطے غلام کی حیثیت رکھتی تھی۔پڑھنے لکھنے،علاج معالجے کی سہولیات عنقا تھیں۔ ظلم و جبر سے نجات پانے کے لئے بہت سے لوگ چوری چھپے ریاست سے نکلنے اور گلگت پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ قدیم شاہراہ ریشم پر چھلت ہی کے مقام پر ایک پھاٹک لگا ہوا تھا۔جو کوئی اس پھاٹک کو عبور کرکے گلگت کی طرف جانے کی کوشش کرتا تھا۔اُسے راجہ کی طرف سے مقررکردہ سپاہی گرفتار کرکے واپس نگر پہنچا دیتے تھے۔ ریاست سے نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو سزا کے طور پر سخت ترین بیگار کرنا پڑتی تھی۔

نگر خاص کے مرکز میں ایک چھوٹا سا بازار ہے۔ یہیں سے ایک راستہ ہوپر گاؤں اور گلیشیر کے لئے جبکہ دوسرا راستہ ہسپر گلیشیر کی طرف مڑتا ہے۔ ہوپر اور نگر کا درمیانی فاصلہ محض پانچ کلو میٹر ہے لیکن سڑک کچی ہونے کے باعث یہ فاصلہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے۔ ہوپر پہنچ کر وادی کی وسعت، خوبصورتی اور سر سبز وشاداب نظارے دیکھ کرساری تھکن دور جاتی ہے۔گاؤں کی آبادی کے ساتھ ہی اونچائی پر وہ مقام ہے جہاں سے نیچے لیٹے ہوئے سیاہ اژدھے کی طرح ہوپر گلیشیرکا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔اس گلیشیرکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ سرعت سے چلنے والا گلیشیر ہے۔گاؤں کی خواتین اپنے گھروں میں جلانے کی لکڑی اسی گلیشیر میں بہہ کر آنے والے درختوں کی شاخوں کو چن کر حاصل کرتی ہیں۔عصر اور شام کے درمیانی وقت میں علاقہ کی خواتین ایک طویل قطار میں لکڑیوں کے بھاری گٹھر اُٹھائے دیکھی جا سکتی ہیں۔

ا س گلیشیر سے چھ سات گھنٹے کی مسافت پر رش جھیل واقع ہے جس کی سیر کے لئے ہوپر پہنچنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاح علی الصبح نکلتے ہیں اور جھیل یاترا کرکے شام تک واپس ہوپر پہنچ جاتے ہیں۔ اگلے ماہ ایک بار پھر ہوپر آنا ہوا کیونکہ یہاں ایک ثقافتی میلے کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس میلے میں علاقائی رقص پیش کئے گئے۔

دستکاریاں، قدیم زمانے کے برتن،لباس اور روایتی کھانے پینے کے سٹال خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔اس میلے کی اختتامی تقریب کی کوریج کے لئے میں محمد اسماعیل پروڈیوسر کے ہمراہ ایک روز پہلے پہنچا۔ یہاں تین چار ہوٹل اور پی ڈبلیو ڈی کا ایک ریسٹ ہاؤس ہے جس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ رات کے کھانے پر میری ملاقات پاکستان زرعی ترقیاتی کونسل کے کچھ ماہرین سے ہوئی جو گلگت  بلتستان  کے طول و عرض میں پھلوں ، سبزیوں اور دیگر  زرعی اجناس  کی پیداواربڑھانے کے لئے مقامی کاشتکاروں کے لئے تربیتی ورکشاپس منعقد کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں ہوپر آئے ہوئے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ یہاں مخصوص موسمی حالات، آب وہو  اور مٹی کی خصوصیات کی وجہ سے سبزیاں کاشت کرنا بہت مفید ہے۔گلگت اور چترال میں زیادہ تر سیب ایک خاص قسم کی مکھی کے ڈسنے کی وجہ سے پکنے سے پہلے ہی گل سڑ کر درختوں سے گر جاتا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق یہ مکھی اصل میں امرود پر حملہ آور ہوتی ہے۔

میدانی علاقوں سے آنے والے امرود کے ساتھ یہ مکھی گلگت بلتستان پہنچ کر سیبوں کی فصل اُجاڑ دیتی ہے۔اب محکمہ زراعت نے اس مکھی کے نر کو پکڑنے کے لئے ایک خاص ڈبہ تیار کرایا ہے جو باغات میں لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس ڈبے میںنر مکھیوں کو راغب کرنے کے لئے اُن کی خوراک اور ایک مادہ مکھی رکھی جاتی ہے۔نر مکھیوں کے ڈبہ میں بند ہوجانے کی وجہ سے ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے۔ میں نے ان ماہرین کا ایک پینل بنا کر اُن سے تفصیلی انٹرویو کیا تاکہ اپنے زرعی پروگرام میں نشر کر سکوں۔

اگلے روز منعقد ہونے والی اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر تعمیرات و توانائی ڈاکٹر محمد اقبال تھے۔روایتی  رقص، رسہ کشی اورتلواروں کے ساتھ رقص کے بعد جب مہمانوں کو خطاب کی دعوت دی گئی تو اچانک موسم اس قدر خراب ہوگیا اور طوفانی ہوا چلنے لگی کہ شامیانے اُلٹ گئے اور سامعین اور مہمانوں کو ریسٹ ہاؤس کے کمروں میں پناہ لینا پڑی۔آدھے گھنٹے کے بعد جب طوفان کی شدت کم ہوئی تو تقریب شروع کی گئی۔ جس کے اختتام پر ایک قریبی ہوٹل میں نگر کے روایتی کھانوںسے مزین ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میںگندم، مکئی اور باجرے کی روٹیوں کے ساتھ دیسی گھی،مکھن،لسی،اُبلا ہوا خستہ گوشت، بھنا گوشت،خوبانی کا شربت،ساگ اور سالن موجود تھے۔ان روایتی کھانوں کے علاوہ دیگر مہمانوں کے لئے پلاؤ بھی تیار کیا گیا تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم نے روانہ ہونے میں تاخیر نہیں کی کیونکہ ہوپر سے گینش تک سڑک کچی ہے۔اگر ہم دیگر مہمانوں کی گاڑیوں سے پیچھے رہ جاتے تو گرد و غبار سے ہمارا حلیہ بگڑ جاتا۔ہوپر فیسٹول کا ذکر ہو رہا ہے تو لگے ہاتھوں خنجراب کے مقام پر منعقد ہونے والے فیسٹول کی روداد بھی آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر کردوں۔

خنجراب گلگت سے 268کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع سطح سمندر سے 4693 میٹر بلند ہے جو چودہ ہزار فٹ کے قریب بنتا ہے۔ گلگت اور ہنزہ کی سیر کے لئے آنے والے تقریباً تمام ملکی اورغیر ملکی سیاح خنجراب دیکھنے ضرور آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ کے لئے صوبائی حکومت نے جن میلوں کا اہتمام کیا اُن میں ایک میلہ خنجراب کے مقام پر بھی منعقد ہوا۔ جس میں چین کی طرف سے بھیجے گئے ایک ثقافتی طائفہ نے بھی شرکت کی۔اس پروگرام کی کوریج کے لئے میں گلگت سے ایک دن پہلے روانہ ہوا ۔ تاکہ صبح سویرے شروع ہونے والے اس میلے کی خاطر خواہ کوریج کے لئے ہم بروقت پہنچ سکیں۔ یاد  رہے کہ خنجراب میں قیام کرنے یا کھانے پینے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ خنجراب کی سیر کے زیادہ تر خواہش مند سوست میں رات قیام کرتے ہیں۔ جو اس راستہ پر  پاکستان کی آخری آبادی ہے۔

یہاں پی ٹی ڈی سی کا ایک موٹل اور کئی ہوٹل ہیں۔کسٹمز کی چیک پوسٹ ہو نے کے باعث یہاں مال بردار گاڑیوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے۔جو لوگ پاکستان کے دیگر علاقوں سے خنجراب اپنی گا ڑیوں پر آتے ہیں اُنہیںسوست سے خنجراب جاتے ہوئے اور آتے ہوئے ہر مرتبہ اپنی گاڑیوں میں پورا ایندھن ڈلوا لینا چاہیئے۔دوسری صورت میں جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔

ہم گلگت سے روانہ ہوکر دوپہر بارہ بجے عطا آباد جھیل پہنچ گئے تھے۔ تاکہ اپنی گاڑی کشتی پر لاد کر جھیل کے اُس پار جا سکیں۔ میرے ہمراہ ڈاکٹر شیردل خان پروڈیوسر، اکبر حسین سیلز انچارج، علی حسن ڈرائیور اور سید مبارک شاہ ائر پورٹ منیجر گلگت بھی تھے۔ جنہیں خنجراب فیسٹول دیکھنے کا شوق ہمارے ساتھ لے آیا تھا۔عطا آباد جھیل کے کنارے اپنی گاڑی کو کشتی میں سوار کرانے کے لئے ہمارا نمبر دو بجے آنا تھا۔ میں نے جھیل کے یخ بستہ پانی سے وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے ایک چھپر ہوٹل سے باہر پڑے ایک بڑے پتھر کو اپنی سجدہ گاہ بنایا۔بھوک چمک رہی تھی لیکن عطا آباد جھیل کے کنارے بنے ہوئے ٹرک ہوٹلوں کے کھانوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اس لئے ہم نے راستہ میں تھول کے مقام پر خریدی ہوئی ناشپاتیوں پر اکتفا کیا اورسب کو ایک ایک بڑی ناشپاتی دے دی۔ سرد موسم میں علی الصح ناشتہ کرنے کے بعد سات آٹھ گھنٹے گذر چکے تھے۔اور یہ بھوک پھلوں سے مٹنے والی نہیں تھی پھر بھی صبر کے گھونٹ بھر کے ہم اپنی کشی میں سوار ہوگئے۔ ہماری پجارو جیپ ایک دوسری کشی میں تھی۔کشتی والے نے اپنے ٹیپ ریکارڈر پر پنجابی ،پشتو اورہندکو کے لوک گیت لگائے ہوئے تھے۔یہ گانے سنتے سنتے سیدمبارک شاہ کو عطا آباد جھیل کے نظارے اس قدر بھائے کہ وہ اپنی خوشی اور سرمستی میں کشی کے عرشہ پر محو رقص ہو گئے۔ پینتالیس منٹ میں عطا آباد جھیل کے دوسرے کنارے پہنچنے پر گاڑی کو کشتی سے اُتارنے میں مزید آدھا گھنٹہ صرف ہو گیا۔

اتنے میں سید مبارک شاہ کو کراچی سے فون آیا اور انہیں ایک اہم دستاویز کو کراچی بھیجنے کی ہدایت کی گئی۔اس پرسید مبارک شاہ رقص بھول کر واپس عطا آباد جانے والی ایک کشتی میں سوار ہوگئے تاکہ واپس گلگت پہنچ کر اپنی ذمہ داری پوری کر سکیں۔ہم سب اُن کی اچانک واپسی پر سخت اداس تھے کیونکہ مبارک شاہ جیسے لوگ کسی بھی محفل اور ماحول کو خوشگوار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ششکت سے روانہ ہوکر جب ہم گلمت پہنچے تو عصر کا وقت ہوچلا تھا۔اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا۔گلمت کے ایک ہوٹل کا رخ کیا جو میر آف ہنزہ کے ایک قریبی عزیز کا ہے۔اپنے قدیم گھر کو ہوٹل کی شکل دینے والے سابق حکمرانوں نے جلدی جلدی کھانا تیار کرایا۔جب مزید پینتالیس منٹ کے بعد کھانا ہمارے سامنے پروسا گیاتو حقیقی معنوں میں لطف آگیا کیونکہ یہ کھانا تازہ ،صاف ستھرااور صحت بخش تھا۔گلمت سے روانہ ہوکر ہم جب سوست پہنچے تو رات چھا چکی تھی۔ سوست کی رونقیں چین کے ساتھ تجارت اور سیاحوں کی آمد ورفت کی مرہون منت ہیں۔2010؁ء سے 2015؁ء کے دوران میں جبکہ عطا آباد سانحہ کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کا ایک بڑا حصہ جھیل کی نذر ہوگیا تھا اور چین کے ساتھ ہونے والی تجارت کاحجم بہت سکڑ گیا تھا تو سوست میں بھی ویرانی تھی۔اس فیسٹول کا ایک مقصد گوجال کے علاقہ میں تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی تھا۔ہماے لئے ایک ہوٹل میں کمرے بک ہو چکے تھے۔اسی ہوٹل میں گلگت سے آئے ہوئے دیگر صحافی حضرات بھی تھے جن سے رات کے کھانے کے موقعہ پر ملاقات ہوئی۔ہم سب اس فیسٹول کی کوریج کے لئے صوبائی محکمہ سیاحت کے مہمان تھے۔

اگلی صبح ہم نماز فجراورناشتہ سے فارغ ہوکر خنجراب کی طرف روانہ ہوئے۔سوست سے آگے خنجراب تک کا علاقہ خنجراب نیشنل پارک کا حصہ ہے۔یہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔اکا دکا خوش گاؤیعنی یاک کے ریوڑ چرتے نظر آتے ہیں۔یا کہیں کہیں آئی بیکس اورمارخور دوربین سے دیکھے جا سکتے ہیں۔کچھ جگہوں پر چرواہوں کی عارضی قیام گاہیں بنی ہوئی ہیں۔سوست سے کافی آگے خیبر نامی ایک بستی ہے ۔جہاں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی چیک پوسٹ ہے ۔ہم کچھ دیر کے لئے یہاں رکے۔اس چیک پوسٹ پر ایک کمرے جتنے بڑے پنجرے میں برفانی شیر (سنولیپرڈ) کا ایک بچہ بند تھا۔جسے محکمہ کے اہلکاروں نے زخمی حالت میں پکڑا تھا۔یہ بچہ برفانی طوفان کی زد میں اپنے والدین سے بچھڑ اور زخمی ہوگیا تھا۔اگر اس چیک پوست کے عملہ کی نظر اس بچے پر نہ پڑتی تو یہ سردی بھوک اور زخموں کی وجہ سے مر جاتا۔یہاں اس کے زخم مندمل ہو چکے تھے۔اور خنجراب فیسٹول کے لئے جانے والے تمام سیاح برفانی شیر کو قریب سے دیکھنے کے لئے یہاں رک رہے تھے۔

اپنے قدرتی ماحول سے دور قید میں ہونے کی وجہ کمزور لگ رہا تھا۔اس کو خوراک میں فارمی مرغیاں اور بچھڑے کا گوشت دیا جاتا تھا۔خنجراب نیشنل پارک 1975؁ء میں قائم کیا گیا تھا تاکہ مارکوپولو شیپ جسے نیلی بھیڑ بھی کہا جاتا ہے،آئی بیکس جسے کیل کہا جاتا ہے اور مارخور کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو تحفظ دیا جا سکے۔ریاستی دور میں کسی قاعدے قانون کی پاسداری نہیں کی جا تی تھی۔حکمران خاندان  کے لوگ ہوں یا انگریز پولیٹکل ایجنٹ اور فوجی افسر،جب بھی کوئی شکار کے لئے نکلتا تو درجنوں جانور بے دریغ مار دیئے جاتے۔رفتہ رفتہ یہ تمام منفرد جاندار معدومی کے خطرے سے دوچار ہوتے گئے۔

جو رہے سہے تھے وہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران میں چینی تعمیراتی کمپنیوں اور ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کی خوراک بننے لگے۔جب صورت حال انتہائی سنگین ہوگئی تو حکومت نے 1975؁ء میں خنجراب نیشنل پارک قائم کیا۔معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کے لئے پانچ گیم سینکچوریز اور نو گیم ریزرو ایریاز بنائے۔وائلڈ لائف ایکٹ بنایا گیا۔لیکن 1977؁ء میں جمہوری حکومت کی جبری رخصتی کے بعد آمرانہ دور میں غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہی بنائے قوانین پس پشت ڈال کر شکار کرائے گئے۔اب ان میں اپنی قدرتی عمر کو پہنچ جانے والے جانوروں کے شکار کے لئے ہر سال لائسنس نیلام کیا جاتا ہے۔اور ہونے والی آمدنی میں سے اسی فیصد رقم علاقہ کی ترقی اور اجتماعی کاموں پر صرف کی جاتی ہے اور باقی بیس فیصد حکومت لیتی ہے۔یہ نیلامی ایک لاکھ ڈالر اور اس سے زائد رقم کی ہوتی ہے۔سال رواں میں چترال ،استور اور ہنزہ میں ٹرافی ہنٹنگ کے سلسلہ میں تین امریکی شکاریوں سے تقریباً چار لاکھ ڈالر وصول کئے گئے۔

سوست سے روانہ ہونے اور خیبر میں کچھ دیر رکنے کے بعد تقریباسوا گھنٹہ میں ہم خنجراب پہنچ گئے۔پاکستان اور چین کی سرحد کے نقطہ ا تصال پر ایک خوبصورت دروازہ چین نے تعمیر کیا ہے۔اس کی برجیوں میں چین کے سرحدی سپاہی تعینات ہیں۔اس دروازے سے کچھ دور ایک بڑے میدان میں پنڈال سجایا گیا تھا۔جس میں گوجال کے ہر علاقہ کے علاوہ گلگت سے آئے ہوئے لوگوں نے اپنے اپنے سٹال لگائے ہوئے تھے۔جن پر زرعی اجناس، سبزیاں، خشک اور تازہ پھل، دستکاریاں، قیمتی پتھر، جڑی بوٹیاںاور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کے لئے  رکھی گئی تھیں۔کریم آباد، علی آباد، نگر، گینش، چپورسن، خیبر، گلمت، ششکت، شمشال، حسینی،پسواور گوجال کی دیگر آبادیوں سے عورتیں،بچے،بوڑھے اور جوان آئے ہوئے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر اپنے روایتی ملبوسات پہنے ہوئے تھے۔فروخت کے لئے رکھا گیا سارا سامان خواہ وہ مقامی طور پر پیدا ہو نے والے پھل اور سبزیاں ہی کیوں نہ ہوں،انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جا رہا تھا۔بکریوں کے بالوں سے بنے ہوئے نمدے بہت ہی خوبصورت تھے لیکن اُن کی قیمت سُن کر پیچھے ہٹنا پڑا۔کیونکہ ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے دس ہزار روپے طلب کئے جارہے تھے۔(بعد میںیہ نمدہ لینے کی خواہش اللہ رب العزت نے اس طرح پوری کی کہ گلگت سے اسلام آباد تبادلہ کے وقت واجد علی سینئر پروڈیوسر نے اپنے والد بزرگوار کے ہاتھوں سے بُنا ہوا ایک نمدہ مجھے تحفہ میں دے دیا۔

واجد علی آپ کا بہت شکریہ ) اس نمائش گاہ سے کچھ دور ایک اور پنڈال بھی بنایا گیا تھا۔جس کے درمیان میںتماشہ گاہ تھی۔اردگرد مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔چین سے آئے ہوئے طائفہ نے اسی جگہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔اس پنڈال سے متصل ایک پہاڑی ڈھلوان پر مقامی لوگوں کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ دوسرے رخ پر کرسیاں ،صوفے اور میز رکھے گئے تھے۔چین سے آئے ہوئے ثقافتی طائفے کی سربراہی کاشغر کے ڈپٹی کمشنر محمد امین بقری کررہے تھے۔جبکہ پاکستان کی نمائندگی کے لئے ہنزہ کے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ چند صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔دو اڑھائی گھنٹہ جاری رہنے والے اس ثقافتی شو میں مقامی فنکاروں نے بھی رقص اور گیت پیش کئے اور رسہ کشی کامقابلہ کیا۔چین کا طائفہ بارہ مردوں اور اتنی ہی خواتین پر مشتمل تھا۔

تقریب ختم ہوتے ہی ہم واپس روانہ ہوگئے۔ سوست پہنچتے پہنچتے ہم تھکن اور بھوک سے بے حال ہوچکے تھے۔فوری طور پر ہوٹل جاکر تھوڑا بہت کھانا کھایا اور آرام کیا ۔دو گھنٹے کے آرام کے بعد ہم ایک دوسرے سے بات کرنے اور کچھ کہنے سننے کے قابل ہوئے۔چین کے ثقافتی طائفہ کے لئے سوست اورگلمت میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔سوست کے ہائی سکول میں منعقدہ تقریب کی ریکارڈنگ کرنے کے بعد اگلے روز ہم گلگت واپس پہنچے۔

خنجراب میں ایک عام صحت مند انسان دو گھنٹے سے زائد وقت نہیںگذار سکتا ہے۔ جس کو شوگر،بلڈپریشر ،دمہ ،سانس کی تکلیف یا دل کا مرض ہو اُس کے لئے خنجراب نہ جانا بہتر ہے ۔میرا ایک دوست محمد اشرف بیس بائیس برس کی عمر میں چین جانے کے لئے کوہاٹ سے گلگت اور پھر خنجراب گیا تھا۔ وہ ذیابیطس کا مریض تھا۔راستہ میں خنجراب کے قریب اُس کی حالت خراب ہوئی اور امداد کے ملنے سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کرگیا تھا۔بلندی پر جی متلانے کا بہترین حل خشک خوبانی ہے جسے ایسے مقامات پر ساتھ رکھنا چاہیے۔

(جاری ہے)

The post  قدیم دور میں مارخور کے سینگوں سے پہاڑی نہریں کھودی جاتی تھیں appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ جو دھرتی ماں کی گود میں جا سوئے

$
0
0

زندگی سے بے پناہ محبت کے باوجود موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے کسی مذہب، فرقے یا معاشرے کا فرد انحراف نہیں کر سکتا اور اگر یہ نہ ہوتی تو شائد زندگی کو وہ اہمیت بھی نہ ملتی، جس کی یہ حق دار ہے، لیکن دنیاوی اعتبار سے قابل غور امر یہ ہے کہ زندگی کا حق کیا ہے اور وہ کون سا پیمانہ ہے، جس سے ناپ کر یہ بتایا جا سکے کہ حق ادا ہوا یا نہیں؟ تو اس کی ایک کسوٹی موت ہے، جس کے بعد ساری زندگی کی گواہی معاشرے سے ملتی ہے۔

زندگی میں کچھ کر گزرنے اور اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی سے محبت کرنے والے ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں جبکہ خودغرضی، سستی اور جہالت کے مارے شائد قبر کی مٹی خشک ہونے سے قبل ہی یاداشت سے مٹ جاتے ہیں۔اپنی ذات، ملک، قوم اور دنیا کی بہتری کے لئے کچھ کر گزرنے والے ایسی ہی متعدد شخصیات کو 2019ء اپنے ساتھ لے گیا، جن کا ذکر کچھ یوں ہے۔
پاکستان میں ہونے والی اموات
جنوری
-1سید ذوالفقار بخاری
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین، سفیر اور سیاست دان سید ذوالفقار علی بخاری 4 جنوری کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے، وہ 1995ء سے 1998ء تک قومی کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہے۔ ایچی سن کالج سے تعلیم یافتہ ذوالفقار بخاری سپین کے لئے پاکستان کے سفیر اور 2 بار قومی اسمبلی کے ممبر بھی بنے۔

-2ملک حاکمین خان
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار بھٹو کے قریبی ساتھی اور سابق صوبائی وزیر ملک حاکمین خان بھی 4 جنوری کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ اپنی آخری سانس تک پیپلزپارٹی کے ساتھ جڑے رہنے والے سینئر سیاست دان کے عزم کو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء بھی ڈگمگا نہ سکا۔

-3خالدہ حسین
18 جولائی 1937ء میں لاہور میں پیدا ہونے والی معروف اردو ناول و افسانہ نگار خالدہ حسین کا انتقال 11 جنوری کو ہوا۔ خالدہ حسین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے افسانہ نگاری میں نئی جدتوں کو متعارف کروایا، انہیں انتظار حسین کے بعد پاکستان کی بہترین افسانہ نگار کہا جاتا ہے۔ 23 مارچ 2006ء میں انہیں ادبی خدمات پر صدر پاکستان کی طرف سے تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

-4ملک مظہر عباس راں
حالیہ عام انتخابات 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی بننے والے ملک مظہر عباس راں 16 جنوری کو 65 برس کی عمر میں عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے۔ مدینۃ الاولیاء سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی گورنمنٹ ایمرسن کالج کے گریجوایٹ تھے۔

-5گلاب چانڈیو
پاکستانی ڈرامہ و فلم انڈسٹری کا جانا پہچانا چہرہ گلاب چانڈیو 18 جنوری کو کراچی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھپ گیا۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے دوران انہوں نے 3 سو سے زائد اردو اور سندھ ڈراموں جبکہ 6 فلموں میں کام کیا۔ ضلع نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے چانڈیو نے محکمہ فوڈ میں بطور کلرک اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر 80ء کی دہائی میں وہ شوبز سے وابستہ ہو گئے، جہاں ان کے کام کو ہر سطح پر سراہا گیا جبکہ 2016ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیا گیا۔

-6حسین محمد جعفری
معروف تاریخ دان سید حسین محمد جعفری 1938ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور 20 جنوری 2019ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔

-7فاطمہ علی
بحیثیت شیف عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے والی فاطمہ علی 8 اگست 1989ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کی بیٹی 18 برس کی عمر میں امریکا چلی گئیں، جہاں انہوں نے ایک امریکی کوکنگ شو میں کام کیا۔ امریکا میں انہوں نے کوکنگ کے حوالے سے مختلف مقابلوں میں شرکت کی۔ اپریل 2019ء میں انہیں جیمز بیئرڈ ایوارڈ آف ایکسیلینس سے نوازا گیا، لیکن زندگی کی ان کامیابیوں اور شہرت سے وہ زیادہ دیر لطف اندوز نہ ہو سکیں اور 25 جنوری کو صرف 29 برس کی عمر میں وہ کیلیفورنیا میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔

-8روحی بانو
ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ماہر استاد اللہ رکھا قریشی کی بیٹی اور اپنے دور کی مقبول ترین اداکارہ و ماڈل روحی بانو 10 اگست 1951ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہیں 1981ء میں صدرِ پاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا، اس کے علاوہ روحی نے نگار، گریجوایٹ اور لکس لائف ٹائم جیسے متعدد ایوارڈز حاصل کئے۔ 2005ء میں ان کا 20 سالہ بیٹا قتل ہو گیا، جس کے رنج میں وہ ذہنی بیماری کا شکار ہو گئیں اور 25 جنوری کو استنبول میں روحی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

-9محمد ارشد خان لودھی
6 بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے محمد ارشد لودھی ہارٹ اٹیک کے باعث 29 جنوری کو انتقال کر گئے۔

فروری
-10احسان الحق پراچہ
یکم فروری کو پاکستانی سیاست کا وہ ستارہ ڈوب گیا، جو عوام کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاست دان نہ صرف وفاقی وزیر رہے بلکہ انہیں سینیٹ کا رکن رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

-11باقر نقوی
عالمی سطح پر بحیثیت شاعر، نثر نگار اور مترجم اپنی شناخت بنانے والے باقر نجفی 83 برس کی عمر میں 13 فروری کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

-12امیر گلستان جنجوعہ
جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی بریگیڈیئر (ر) امیر گلستان جنجوعہ 1988ء سے 1993ء تک صوبہ سرحد (موجود خیبرپختونخوا) کے گورنر رہے۔ 19 فروری کو راولپنڈی میں انتقال کرنے والے جنجوعہ چوآسیدن شاہ (ضلع چکوال) میں 1924ء میں پیدا ہوئے۔

-13محمد تجمل حسین
2002ء سے 2018ء تک مسلسل رکن صوبائی اسمبلی رانا محمد تجمل حسین یکم جنوری 1966ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور 23 فروری 2019ء کو سفر زیست مکمل کرگئے۔

مارچ
-14جان پیرمل
ایک دہائی تک پاکستان کے تیز ترین انسان (Sprinter) کی امتیازی حیثیت سے زندہ رہنے والے جان پیرمل کینسر کے باعث 27 مارچ کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

اپریل
-15سردار فتح محمد خان بزدار
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاست دان اور سابق رکن اسمبلی سردار فتح محمد خان بزدار یکم اپریل کو تونسہ شریف میں انتقال کر گئے۔

-16جمیل جلیبی
معروف ماہر لسانیات، ناقد، لکھاری اور لکھاری محمد جمیل خان المعروف جمیل جلیبی نے 18اپریل کو کراچی میں وفات پائی۔ ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے اعزازت پانے والے جمیل جلیبی علی گڑھ کے ایک یوسف زئی قبیلہ میں پیدا ہوئے۔
مئی

-17اجمل خان
جامعہ کراچی کے 17ویں وائس چانسلر اور ماہر نباتات محمد اجمل خان 4 مئی کو کراچی میں چل بسے،

-18جمیل نقش
معروف پاکستانی نژاد برطانوی مصور جمیل نقش کا 16مئی کو لندن میں انتقال ہوا۔

-19سردار علی محمد خان مہر
صوبہ سندھ کے 25 ویں وزیراعلی سردار علی محمد خان مہر ہارٹ اٹیک کے باعث 21 مئی کو جہان فانی سے رخصت ہوئے۔

جون
-20انور سجاد
مئی 1935ء میں لاہور میں پیدا ہونے والے انور سجاد ایک شخصیت نہیں بلکہ اپنی ذات کے اندر وہ ادارہ تھے، جہاں مصوری، نثر، ناول، کالم نگاری، اداکاری، ڈانسنگ سمیت کئی شعبہ جان کو جگہ ملی۔ تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازے گئے انور کا 84سال کی عمر 6جون کو انتقال ہوا۔

جولائی
-21زہین طاہرہ
پاکستانی ڈارمہ انڈسٹری کا قیمتی اثاثہ زہین طاہرہ 9 جولائی کو کرایچ میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

ستمبر
-22عابد علی
لیجنڈ اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر عابد علی 5ستمبر کو 67 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ 29مارچ 1952 کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے معروف اداکار نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا، جس کے بعد وہ پہلے لاہور اور پھر کراچی شفٹ ہو گئے۔

-23عبدالقادر خان
لیگ سپن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور گگلی ماسٹر عبدالقادر 6 ستمبر کو لاکھوں شائقین کو روتا چھوڑ گئے۔

-24رانا افضل خان
سابق وفاقی وزیر و آرمی آفیسر رانا افضل خان 27 ستمبر کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔ رانا افضل خان سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، جس کا ثبوت ان کی وہ وفاداری تھی، جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک ن لیگ کا حصہ رہے۔

دسمبر
-25زینب نوید
سابق مس پاکستان ورلڈ(2012) زینب نوید یکم دسمبر کو امریکی ریاست میری لینڈ میں ایک کار حادثے کے دوران انتقال کر گئیں، نیویارک کی پیس یونیورسٹی سے گریجوایٹ زینب اپریل 1987ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔

-26ظفر احمد چودھری
پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر چیف مارشل (ر) 18دسمبر کو حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئے۔ وہ 3مارچ 1972ء سے 15اپریل 1974ء تک پاکستان ائیرفورس کے سربراہ رہے۔
دنیا بھر میں ہونے والی اموات

جنوری
-1ایوگریگروک (IVO Gregurevic)
معروف کروشین فلم، سٹیج اور ٹی وی اداکار Ivo Gregurevic 2 جنوری 2019ء کو انتقال کرگئے۔ تقریباً تمام کروشین فلموں میں کام کرنے والے معروف اداکار نے فلم Madonna، Fine Dead Girls اور What Iva Recorded میں اپنی شاندار کارکردگی سے جہاں شائقین کے دل لوٹ لیے وہیں گولڈن ایرینا ایوارڈز اپنے نام کیے۔ انہیں کروشین فلموں میں بہترین کارکردگی پر 2015ء میں Life Time Achievement Award سے بھی نوازا گیا۔

-2سیلیویا چیز(Sylvia Chase)
اپنے وقت کی بہترین امریکی انوسٹی گیٹو رپورٹر Sylvia Chase 3 جنوری 2019ء کو 80 برس کی عمر میں دماغ کے کینسر سے لڑتے ہوئے زندگی کی جنگ ہار گئیں۔ انہوں نے 1979ء، 1983ء اور 1994ء میں National Head Liner Award اپنے نام کیا۔

فروری
-3گورڈن بنکس Gordon Banks
برطانوی فٹ بالر اور ورلڈ چیمپئن گورڈن بنکس 12 فروری 2019ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ بطور گول کیپر شہرت پانے والے بنکس نے اپنے 20 سالہ پروفیشنل کیریئر میں 73 کیپس اپنے نام کیں۔ وہ آج بھی انگلینڈ کے بہترین گول کیپر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

-4رابندا پرشاد ادھے کاری
نیپالی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے ثقافت، سیاحت و شہری ہوا بازی (Minister for Culture, Tourism and Civil Eviation) رابند پرشاد ادھیکاری 27 فروری 2019ء کو ایک فضائی حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔ اپنی سیاسی زندگی میں وہ ایک سرگرم سیاستدان کے طور پر پہچانے جاتے تھے ۔انھوں نے Constituent Assemblyاور Democracy and Re-Strueturing جیسی کتابیں لکھیں۔

مارچ
-5امون کیون روچی (Emmon Kevin Roche)
آئرش نژاد امریکی آرکیٹکٹ امون کیون روچی یکم مارچ 2019ء کو 96 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہیں امریکہ اور بیرون ممالک میں 200 سے زائد بڑے پروجیکٹس جن میں 8 میوزیم، 38 کارپورٹ ہیڈکوارٹرز، 7 ریسرچ سینٹرز، پرفامنگ آرٹ سینٹرز، تھیٹرز اور 6 یونیورسٹیوں کے کیمپس بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ دنیا کے بہترین آرکیٹیکٹس کا Pritzker prize جتنے کے علاوہ بے شمار ایوارڈز کے حق دار ٹھہرے۔

-6زوہرس الفرو) (Zhores Alferov
عظیم ماہر طبیعات و ماہر تعلیم زوہرس الفرو کا تعلق روس سے تھا۔ جدید ہڑوسکچر فزکس اور Electronics کی ترویج میں ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں 2000ء میں طبیعات کے شعبہ میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے پر نوبل پرائز برائے فزکس Nobel Prize for Physics سے نوازا گیا۔ بعدازاں انہوں نے سیاسی میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی تحقیقی، تدریسی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں دیئے جانے والے اعزازات کی فہرست طویل ہے جس میں ناصرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر دیئے جانے والے ایوارڈز بھی شامل ہیں۔ وہ یکم مارچ 2019ء کو بلند فشار خون کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

-7کیلی کیٹلن (Kelly Catlin)
تیس سالہ امریکی سائیکلسٹ والڈ چیمپین اور اولمپکس میڈلسٹ کیلی کیٹلن نے نامعلوم وجوہات کے باعث 7 مارچ 2019ء کو خودکشی کر لی۔ متعدد بار گولڈ، سلور اور برونز میڈلز جیتنے والی کیلی ایک آرٹسٹ اور وائلن بجانے کی شوقین تھیں۔کیلی کی پراسرار موت کا معمہ تاحال حل نہ ہوسکا۔

-8انٹونیو والسن ویرا ہونیو(Antonio Wilson Vieira Honorio)
والڈ چیمپئن برازیلی فٹ بالر انٹو نیووالسن 11 مارچ 2019ء کو 75 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔ وہ 1962ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی برازیلی قومی ٹیم کا حصہ تھے۔

اپریل
-9پائول گرین گارڈ Paul Green Gard-
نوبل انعام یافتہ امریکی نیوروسائنٹسٹ پاول گرین گارڈ 13 اپریل 2019ء کو 93 برس کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی اعلیٰ تحقیقی خدمات کے اعزاز میں 2002ء میں انہیں نوبل پرائز برائے فزیالوجی (Nobel Prize for Physiology for Medicine) سے نوازا گیا۔

جون
-10افتخار الحسن ابن رئوف الحسن کھنڈالوی
معروف بھارتی اسلامی سکالر افتخار الحسن کھنڈالوی 2 جون 2019ء کو 97 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ادب کی دنیا کا درخشندہ ستارہ کئی عشروں تک جگمگاتا رہا۔ ان کی مشہور کتابوں میں آخرت کی یاد، اعمال رمضان، علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ شامل ہیں۔

-11محمد مرسی
مصر کے مشہور ترین عوام دوست سیاست دان اور پانچویں صدر محمد مرسی 17جون2019ء کو پولیس کی حراست میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔ وہ ایک بہترین انجینئر بھی تھے۔ قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری کے بعد انہوں نے 3 برس کیلیفورنیا یونیورسٹی جبکہ NASA اور پھر 1985ء کے بعد زگازگ یونیورسٹی (Zagazig University) میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔

Maria Giuseppa Robucci-12
116 سالہ ماریہ18 جون 2019ء کو انتقال کرگئیں۔ ان کا تعلق اٹلی سے تھا جبکہ وہ دنیا میں اس وقت معمر ترین افراد میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ عمر کے آخری حصہ میں بھی تندرست تھیں اور لکڑیاں کاٹنے کا کام بڑی آسانی سے کرسکتی تھیں۔انھوںنے اپنی طویل عمری کی وجہ مثبت اندازِفکر، خالص خوراک، خدا پہ یقین اور شراب سے دوری کو ٹھہرایا۔

اگست
-13ودھیا سنہا (Vidya Sinha)
مس بمبئی کا خطاب پانے والی انڈین فلم سٹار ودیا سنہا 15 اگست 2019ء کو دل اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔ ان کی مشہور فلموں میں رجنی گندہ، چھوٹی سی بات اور پتی پتنی اور وہ شامل ہیں۔ انھوں نے مشہور فلم باڈی گارڈ میں مسز رانا کا کردار ادا کیا۔

-14محمد ظہور خیام
چار دہائیوں تک شوبز انڈسٹری پر راج کرنے والے مصروف انڈین میوزک ڈائریکٹر کمپوزر محمد ظہور خیام 18 فروری 1927ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز مشہور پنجابی موسیقار بابا چستی کی نگرانی میں کیا۔ انہیں بہترین موسیقاری پر تین فلم فیئر ایوارڈز سے نوازہ گیا جن میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ شامل ہیں۔ انہوں نے فلم انڈسٹری کو جو لازوال کمپوزیشن دیں ان میں امرائو جان، کبھی کبھی، رضیہ سلطانہ، دل نادان درد اور تھوڑی سی بے وفائی شامل ہیں۔بڑھتی عمر کے اثرات کہ زیرِاثر انکی گرتی صحت نے مزید ساتھ نہ دیا اور وہ 19اگست2019ء کو دل کے دورے کے باعث جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔

ستمبر
-15مسرور جہاں
بھارتی اردو ناولسٹ و شاٹ سٹوری رائٹر بیگم مسرور جہاں 22 ستمبر 2019ء کو لکھنو میں جاں بحق ہوئیں۔ اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں 2010 اور 2015 میں دو مرتبہ اردو اکیڈمی ایوارڈ جبکہ 2017 میں ہندوستان ٹائمز وومن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اکتوبر
-16رابرٹ فورسٹر Robert Froster
معروف امریکی ایکٹر رابرٹ فورسٹر 13 جولائی 1941ء کو ریاست نیویارک کے شہر روچیسٹر میں پیدا ہوئے۔ فورسٹر کو جہاں اپنی مردانہ وجاہت کی بنا پر مقبولیت حاصل ہوئی ونہی ان کے انگریزی آئریش اور اٹالین اکینسٹ نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے۔ فلم Haskell Wexler’s Medium Cool میں john Cassellis Delta Force میں ٹررسٹ عبدالرفع، Quentin Tarantions میں میکس چیری کے کردار ادا کرنے پر انہیں اکیڈمی ایوارڈ برائے بہترین سپورٹنگ ایکٹر کے لیے نامزد کیا گیا۔ سو سے زائد فلموں میں کام کرنے والے رابرٹ فورسٹر دماغ کے کینسر سے جنگ لڑتے لڑتے 78 برس کی عمر میں 11 اکتوبر 2019 ء کو اپنی فلمEl Camino: Breaking Bad Movie کے ریلیز ہونے کے دن لاس اینجلس میں انتقال کرگئے۔ انہیں Quention Tarantino’s میں بہترین کارکردگی پر آسکر Oscar کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔

-17سولی (Sulli)
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی معروف گلوکارہ ماڈل و ایکٹریس سولی 29 مارچ 2014ء کو بوسان میں پیدا ہوئی۔ سولی کا خاندانی نام چوئی جن ری Choi-Jin-ri تھا۔ عوام میں مقبول ڈراموں جیسے تاریخی ڈرامہ Ballad of Seodong, Dramacity, Loves Needs Mircale اور فلم Vacations میں بہترین کردار ادا کرنے والی سولی کی لاش 14 اکتوبر 2019ء کو ان کے گھر میں لٹکی ہوئی پائی گئی۔ خودکشی کے وقت سولی کی عمر صرف 25 برس تھی۔

نومبر
-18ارچی سکارٹ) (Archie Scott
سکارٹ لینڈ کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے ارچی سکارٹ کا دس دہائیوں پر محیط سفر حیات یکم نومبر 2019ء کو 101 برس کی عمر میں ہوا۔ وہ اب تک برطانیہ کے معمر ترین کرکٹر کی حیثیت رکھتے تھے۔
-19برنکو لسٹنگ (Branko Lusting)
10 جون 1932 کو یوگو سلواکیہ میں پیدا ہونے والے برنکو لسٹنگ مشہور فلم ساز تھے۔ انہیں بہترین کروشین فلمیں بنانے پر دو مرتبہ Academy Awards for Best Picture سے نوازا گیا۔ مشہور رزمیہ فلم Gladitor کے لیے انہیں 2001ء میں آسکر دیا گیا وہ 14 نومبر 2019ء کو 87 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

-20ڈی۔ایم۔جے آراتنی(D.M Jayaradtne)
سابق سری لنکن وزیراعظم ڈی۔ایم۔جے آراتنی 4 جون 1931ء کو سری لنکا کے شہر کولمبو میں پیدا ہوئے۔ وہ سری لنکا فری ڈم پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ جے اپنی سیاسی زندگی میں اہم انتظامی عہدوں پر رہے۔ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد انہوں نے وزارتِ بدم ازم اور مذہبی امور کا سنگ بنیاد رکھا۔ وہ 19 نومبر 2019 ء کو 88 برس کی عمر میں جہاںِفانی سے کوچ کرگئے۔

-21شوکت کیفی
فلم امراوجان میں ’خانم جان‘ کا بہترین کردار ادا کرنے والی شوکت کیفی نے 21 اکتوبر 1926ء کو ریاست حیدر آباد کے ایک مہاجر گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ اور ان کے شوہر کیفی ازمی مشہور شاعر ادیب اورانڈین پیپل تھیٹر ایسوسی ایشن، پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے سرگرم رکن رہے۔ شوکت نے انڈین فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں ساتھیا، سلام بومبئی، بازار اور ہیر رانجھا شامل ہیں۔ 22 نومبر 2019ء کو 93 برس کی عمر میں شوکت کیفی ممبئی میں انتقال کرگئیں۔ ان کے دونوں بچے شبانہ اعظمی اور بابا اعظمی شوبز سے وابستہ ہیں۔

-22یاشئیو ناکاسن(Yasuhiro Nakason)
ممتاز سیاسی رہنما اور سابق جاپانی وزیرِاعظم یاشئیو ناکاسن27مئی1918ء کو تاکاساکی میں پیدا ہوئے۔ وہ جاپان میں قومیت کو فروغ دینے والے لیڈر تھے ۔ وزاتِ اعظمی کا قلمدان سمبھالنے کے بعد انھوں نے تمام اداروں کو ملکی دھارے میں لانے کے لئے پرائیویٹیزشن کو ختم کردیا۔ ناکاسن 29 نومبر 2019ء کو ٹوکیو میں وفات پاگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 101 برس تھی جبکہ وہ جاپان کے معمر ترین وزیرِاعظم تھے۔

The post وہ جو دھرتی ماں کی گود میں جا سوئے appeared first on ایکسپریس اردو.

یہاں تحریر کسی تبدیلی کا باعث کیوں نہیں بنتی؟

$
0
0

پاکستان بننے کے بعد جہاں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی واضح سمِت کا تعین نہ کیا جا سکا ، وہاں پاکستانی ادب کی سمِت کا بھی تعین نہیں ہو سکا، مختلف ادَوار میں ’’ ادب برائے مقصد‘ ’’ادب برائے زندگی‘ ’’ ترقی پسند ادب ‘ ’’ رجعت پسند ادب اور ادب برائے تہذیب ‘‘ کی بحث جاری رہی، قہوہ خانوں، چائے خانوں اور ادبی محافل میں بھی ہمیشہ اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا کہ پاکستانی ادب کی کوئی خاص سمِت متعین کیوں نہیں ہو سکی؟

نامور ادیبوں نے بھی دبے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستانی ادب جمود کا شکار ہے، اس کا الزام ایک دوسرے پر لگایا گیا۔ یہاں کی شاعری کا محور محبوب، اسکی زلفیں اور محبوب کی بے وفائی رہا، تقریباً ہر شاعر محبوب کی توقعات پر پورا اُترنے کی بجائے اس بات پر مصُر رہا کہ محبوب اس کی ساری توقعات، خواہشات اور تمناؤں پر پورا اُترے، شاعر نے اپنے آپ کو ایک ایسا دیوتا خیال کیا کہ جس کے گرِد ’’ ناریاں‘‘ رقص کرتے ہوئے ’’ بھجن‘‘ گائیں، اسکی آرتی اُتاریں، ان ’’ناریوں ‘‘ کی عقیدت و محبت یک طرفہ ہو، یہ ناریاں شاعر سے کسی بھی صِلے یا بدلے کی اُمید نہ رکھیں، نہ ہی شاعر کی بے اعتنائی یا بے رُ خی کا گِلہ کریں، نہ ہی اسکے روّیے کی شکایت کریں، اگر صنِف نازک نے غزل پر طبع آزمائی کی تو یہ ساری اُمیدیں انھوں نے اپنے محبوب سے وابستہ رکھیں۔

فیض احمد فیض ‘ میراجی ‘ ن م راشد سمیت بہت کم شعراء نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے عام انسانوں کی بات کی، عام انسانوں کے جذبات اور محسوسات کو اہمیت دینے پر زور دیا۔ لیکن انھوں نے بھی اپنی شاعری میں پاکستانی آئیڈیا لوجی کو اپنی تحریر کا مرکز خیال نہیں بنایا، فکری انحطاط کے دورَ میں یہ بات بھی بہت بڑی سمجھی گئی کہ انفرادی روّیوں کی بجائے اجتماعی روّیوں کی بات کی جائے ’’ ہجر اور وصال ‘‘ کی لذتوں کے علاوہ دوسرے پہلوؤں پر بھی توجہ دی جائے دوسرے دکھوں کو بھی محسوس کیا جائے۔ پھر بھی فیض احمد فیض کی مخصوص فکرو سوچ نے ہر دور کی نوجوان نسل کے ذہنوں کو بہت حد تک متاثر کیا۔

کچھ نامور ادیبوں نے شہری اور دیہاتی زندگی کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا، یہاں بھی روّیوں کو تو زیر بحث لایا گیا مگر عوام میں پائی جانے والی عام برائیوں کو زیر بحث لانے اور انھیں سُدھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عرصہ دراز سے اس امّر کی خاص ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستانی ادب کی خاص سمت متعین ہو ۔ اسلامی نظریاتی، فلاحی ریاست کا تصور تحریر کی بنیاد ہونا چاہیے۔ اس کے بعد زندگی کے روزمرہ کے عام مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔ جیسا کہ پاکستان میں اس بات کا تواتر سے ذکر کیا جا رہا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح گِرتی جا رہی ہے، آئندہ سالوں میں پاکستان پانی کے بحران سے دوچار ہونے والا ہے مگر اس کے باوجود پانی کا ضیاع پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔

پورا نلکا چلا کر شیو کی جاتی ہے تقریباً دس پندرہ منٹ صاف پانی ضائع ہوتا رہتا ہے، گھروں میں خواتین نلکا کھلا چھوڑ کر کپڑے اور برتن دھوتی ہیں، نہاتے ہوئے بھی پانی ضائع کیا جاتا ہے، پانی کی قلت کے باوجود ہر طریقے سے پانی ضائع ہوتا رہتا ہے، اس معاملے میں حکومت کی طرف سے پانی ضائع نہ کرنے کے اشتہارات شائع کروانے کا بھی کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہوتا کہ عوام کی بے حِسی میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی شاعر، ادیب نے پانی ضائع کرنا انسانیت کے خلاف جّرم قرار نہیں دیا، کسی نے اپنے افسانوں، کہانیوں اور شاعری میں اسے ایک اخلاقی جّرم نہیں کہا، اس قسم کے درجن مسائل موجود ہیں۔

بے ترتیب و بے ہنگم قومی زندگی،’’ دائروں‘‘ میں مقید لوگ کہ ہر فرد ایک خاص دائرے میں مقید ہے، کوئی چھوٹے دائرے میںکوئی بڑے دائرے میں، کوئی تیز چل رہا ہے کوئی آ ہستہ، سب کا سفر ایک ہی جگہ، ایک ہی دائرے میں، کوئی بھی آگے بڑھ ہی نہیں رہا مگر سب اس گمان میں مبتلا کہ وہ تیزی سے ’’ سفر ‘‘ کر رہے ہیں ۔

بے ہنگم اور بے تر تیب عمارتیں،’’ چور اُچکے چودہری اور غنڈی رن پردھان‘‘ ،’’ مستعار سائنسی ترقی ‘‘ جنگلات کی کمی، بڑھتی ہوئی خواہشات ، ’’ ادھار کی آسودگی ‘‘ درجنوں قومی اور اجتماعی مسائل ایسے ہیں کہ جنہیں تحریر میں لانا اور اس کا حل تلاش کرنا ضروری تھا اور ہے، مگر ان معاملات کو حِس لطیف کے اصولوں سے متضاد قرار دیا گیا ہے۔

سڑکوں پر جا بجا گڑھے پڑے ہوتے ہیں ان گڑھوں کو شہری خود بھی پُر کر سکتے ہیں مگر یہ کا م صرف حکومت پر چھوڑ دیا گیا ہے، دِلوں کو توڑنا، احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا ایک ایسا ’’ انسانی المیہ‘‘ قرار دیا گیا ہے کہ اسے تحریر کے دائرے میں لانا ہی ادب کہلاتا ہے مگر چھوٹی چھوٹی لاپرواہیوں اور غفلت کی وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں، انسانی جا نیں ضائع ہونے سے ان کے لواحقین پرکیا گزرتی ہے اسے ادب کا حصہ نہیں بنایا گیا کہ حادثات، نقصانات، قتل و غارت، ظلم واستحصال اور سیاست کو جمالیاتی حِس کی ضِد قرار دیا گیا ہے۔ صرف عشق کے معاملات اور واردات قلبی کو تحریر کے احاطے میں لانا ہی ذوق ِلطیف کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد ’’ ترقی پسند مصنفین‘‘ نے ایک تحریک بھی قائم کی جس میں نامور قلمکار ، ادیب اور شاعر شامل ہوئے مگر ان میں زیادہ تر سوشلِزم اورکیمونزم سے متاثر تھے وہ دین کو استحصال کا ذریعہ گردانتے تھے، ان ادیبوں اور شعراء میں کئی ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اسلام کا بڑی گہرائی اور عمیق نظروں سے جائزہ لیا تھا مگر انھیں بھی انسانیت کی بقاء سوشلِزم اور کیمونزم میں ہی نظر آئی ۔ ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے نئے لکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، اگرچہ ترقی پسندی کی یہ تحریک ایک مخصوص وقت کے بعد کمزور پڑتی گئی مگر اس کا کچھ نہ کچھ اثر و نفوذ قائم رہا شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ اس تحریک میں فنی لحاظ سے قدآور شخصیا ت شامل تھیں ۔

یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ پاکستانی ادب کی ’’ لائن آف ڈائرکشن ‘‘ (سمت) وہ نہیں ہے جو یہاں کے مخصوص حالات، ثقافت، روایات اور روّیوں کی وجہ سے ہونی چاہیے تھی، ان ادیبوں کی تحریر اپنا مقام یا جگہ نہیں بنا پائی کہ جنہوں نے مذاہب، روایات ، ثقافت، انسانی و سماجی روّیوں، قومی اور اجتماعی حالات و واقعات میں سے ایک پہلو سے بھی صرف نظر کیا، کیونکہ ایک پہلو کو چھوڑنے سے قاری شدت سے تشنگی محسوس کرتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اچھی اور متاثر کُن تحریر انسانی روّیوں اور سماج میںایک انقلاب برپا کر دیتی ہے ، جو تحریر صرف چند ذہنوں کو متاثر کرے اور اُن میں محصوص سوچ و فکر پیدا کرے اسکی افادیت قائم نہیں رہتی مگر جو تحریر انفرادی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے اجتماعی سوچ فکر کے قالب میں ڈھال دے، اُسے جاندار تحریر قرار دیا جاتا ہے، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں اخلاقی اقدار کے پروان چڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں کا لٹریچر ہے،کہا جاتا ہے کہ انگلش لٹر یچر بہت جاندار ہے۔

پڑھے لِکھے معاشرے میں ہیادب تبدیلی لاتا ہے

پاکستانی ادب کی سمت کا تعین نہ ہونے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، اس سوال کا جوب دیتے ہوئے نئی نسل کی نوجوان شاعرہ مہ جبین ملک نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگلش لٹر یچر ( انگریزی ادب) ہر لحاظ سے مالا مال ہے، انگریزی ادب جمود کا شکار نہیں ہے، زندگی کے پہلو پر انگریزی ادب میں متاثر کُن انداز میں لِکھا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایم اے انگلش کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر پر خاص تحقیق کی، میں اب بھی بطور انگلش ٹیچر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہوں ایک بات بطور خاص محسوس کی کہ اُسی معاشرے میں ادبی سفر جاری رہتا ہے کہ جہاں تعلیم و تحقیق پر توجہ دی گئی ہو، پڑھے لِکھے معاشرے میں صحت مند معیاری اور مقصدی ادب تخلیق ہوتا ہے، پڑھے لِکھے معاشرے میں لوگوں کے ذہین بھی کُھلے ہوتے ہیں۔

ان کی سوچ و فکر تنگ نہیں ہوتی ،وہ ہر نئی سوچ اور جدت کو فوراً قبول کرتے ہیں، وہ لوگ ادب تخلیق کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی پسند یا نا پسند کا خیال نہیں رکھتے، وہ ایک خاص فکر و سوچ کو تحریر کا محور بناتے ہیں، ادیب کو جو ٹھیک لگتا ہے وہ اس کا اظہار کرتا ہے، تحریر کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس کے لئے معاشرے کا تعلیم یا فتہ اور باشعور ہونا بہت ضروری ہے۔ مہ جبین ملک نے کہا ! کہ یہاں میں خود بھی لِکھنے میں آزادی محسوس نہیں کرتی۔ لکھتے ہوئے لاتعداد زنجیریں سامنے آتی ہیں جب سوچ و فکر کو ہی روانی حاصل نہیں ہوگی، ’’ اظہار میں جا بجا رکاوٹیں سامنے آئیں گی تو اچھا ادب کیسے تخلیق ہوگا؟ ہمارا معاشرہ تنگ نظری کا شکار ہے اگر عورت انسانی فِطرت اور انسانی جذبوں کے متعلق لکھتی ہے توہمارے معاشرے میں اُسے ’’بے حیا‘‘ بے شرم اور ہوس پرست کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شاعر ادیب سماج اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے غلط روّیوں کو سامنے لاتا ہے تو اس پر بِنا سوچے سمجھے کُفر کے دعویٰ کر دئیے جاتے ہیں اُسے سماج کا دشمن قرار دیا جاتا ہے، اگر ادب ڈر کر تخلیق کیا جائے گا تو اس کی خاص سمِت متعین نہیں ہو سکے گی، ادب کے ذریعے تبدیلی کا خواب نہیں دیکھا جا سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ ادب سے تبدیلی صرف وہاں آسکتی ہے کہ جہاں با شعور معاشرہ موجود ہو۔ اَن پڑھ یا نیم خواندہ بندے کو ادب کی سمجھ کیا آئے گی کہ ’’ مرد نادان پہ کلام نرم و نازک بے اثر ‘‘ مہ جبین ملک نے کہا کہ ادب میں صرف فنی معراج کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی، فکر و سوچ کا پُختہ ہونا اور انسانی فِطرت کا مکمل مطالعہ ہونا بھی بہت ضروری ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بعض سینئر قلمکار اور اساتذہ اپنے فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں مگر وہ اپنی تحریروں میں اپنے آپ کو ہی کائنات ادب کا محور گردانتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل کی بیزاری میں اضافہ ہو رہاہے ، ایک اچھا قلمکار جب تک اپنی ذات کی نفی کر کے صرف افراد ، معاشرے اور قوم کی بات نہیں کرے گا لوگ اس کی تحریر کو کبھی بھی اہمیت نہیں دیں گے۔ پاکستانی اُردو ادب اور انگلش ادب میں یہ نکتہ بنیادی فرق ہے۔

انھوں کہا کہ کسی بھی معاشرے میں فِکری انقلاب ہی زمینی انقلاب لاتا ہے۔ فکرو سوچ کو تبدیل کرنے میں اُستاد اور ادیب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، قلمکار پر بہت بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اُستاد قلمکار کو مادہ پرست نہیں ہونا چاہیے، مادہ پرستی انسان کو اپنے مقصد سے بہت دُور لے جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں افراد اُستاد اور ادیب کے کردار کا بہت غور سے جائزہ لیتے ہیں اگر وہ اس کے عمل اور سوچ میں تضاد نہیں پاتے تو ان کے ذہن کی’’ فریکونسی ‘‘ اسکے خیالات کی ’’ لہریں ‘‘ قبول کرنا شروع کر دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی تحریر اور کالموں میں اُن شخصیات کا بطور خاص ذکر کیا ہے کہ جنکے ’’ قول و فعل ‘‘ میں تضاد نہیں تھا اور وہ بڑی حد تک افراد کی سوچ پر اثر انداز ہوئے۔

 لَوٹ جاتی ہے نظر اِدھر بھی

صدراتی ایوارڈ یا فتہ عالمی سیاح اور مصنف مقصود احمد چغتائی نے اظہار ِخیال کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار وہ ہوتا ہے کہ جِسے اللہ تعالیٰ نے خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے، فن کی باریکیوں کو سمجھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس میں خصوصی علِم و شعور دیا ہوتا ہے۔ ہر دور میں ادیب و شاعر ہی معاشرے میں اثر انداز ہوا ہے، ادیب فکری انقلاب لاتا ہے، میں نے لاتعد اد ممالک کی سیاحت کی، وہاں کے افرادکو مِلا، ہر ملک کے نظم ونسق اور لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کی، ترقی یافتہ ممالک میں ، میں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ وہاں کے لوگ اپنے ملک کو ہی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں وہ اپنے ملک کو ایسا گھر سمجھتے ہیں جہاں امن و سکون اور انصاف ہو، انکی تحریروں سے قومیت جھلکتی ہے مگر ہمارے یہاں اس بات کا فقدان ہے، میں نے یہ بھی دیکھا کہ سفر نامے لِکھنے والے ان ممالک کی تعریف مبالغہ آرائی کی حد تک کرتے ہیں، حالانکہ سفر ناموںمیں اپنے ملک کی اچھائیوں ، اخلاقی اقدار ، روایات اور رسم ورواج اور اُن ممالک میں موجود برائیوں کا موازانہ کرنا چاہیے۔

سفر نامہ لکھنے والے کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس بات کو اُجاگر کرے کہ اُن ترقی یافتہ ممالک میں ہر چیز میں خصوصی پن جھلکتا ہے وہاں کی محبتوں میں پائیداری نہیں ہے۔ نظام مستحکم نہیں ہے، لوگوں کے اخلاق بناوٹی ہیں ، وہاں کی ریاستیں جب تک اپنے عوام کو ’’ ڈلیور‘‘ کر رہی ہیں انکی حُب الوطنی مکمل طور پر قائم ہے، مگر وہاں انفرادی سوچ ہے ، ہر شخص صرف اپنے لئے جدوجہد کر رہا ہے یا زندگی گذار رہا ہے جبکہ یہاں مشترکہ خاندانی نظام اور اخلاقی روایات بہت مضبوط ہیں، جب سیاح اپنی تحریروں میں ترقی یافتہ ممالک کے مصنوعی سیاحتی مقامات کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ملک کے قدرتی حُسن، قدرتی مقامات، موسموں، رسم و رواج اور لو گوں کی محبتوں کا ذکر اس انداز میں کریں کہ لوگ اپنے ملک پر فخر کریں، وہاں کی جدت اور سائنسی ترقی اپنی جگہ مگر ہمارے وطن کی اپنی ہی زندگی اپنا ہی حُسن ہے جنہیں تحریروں میں لانا اشد ضروری ہے، وہاں کی رعنائیاں اپنی جگہ مگر کیا کیجئے کہ’’ لوَٹ جاتی ہے نظر اِدھر بھی‘‘۔

قدآور ادبی شخصیات کو بند دروازے کھول دینے چاہئیں

نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر شہزاد تابش کے دوشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جبکہ چار مجموعے زیر طبع ہیں، انھوں نے اظہار خیال کرتے ہو ئے کہا کہ پاکستان میں یہ بات شدِت سے محسوس کی جاتی ہے کہ یہاں ہر میدان میں اجارہ داروں نے صرف اپنی اجارہ داریوں کو مضبوط کرنے میں دلچسپی لی ہے، نئے آنے والوں کیلئے دروازے کھلے نہیں چھوڑے وہ صرف انہی کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں جن سے وہ کسی قسم کا خوف و خطرہ محسوس نہیں کرتے، سیاسی میدان میں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمتوں کے معاملے میں بھی یہی روّیہ اُجاگر ہوتا ہے۔

فکرو سُخن کے معاملے میں تو یہ بات بہت ہی شدت سے محسوس کی جاتی ہے، سینئرز ہمیشہ اُستاد اور اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں، اُن پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نئے ٹیلنٹ، نئی فکر و سوچ کیلئے دروازے کُھلے رکھیں، باصلاحیت اور جدید سوچ کے حامل افراد کی مناسب تربیت اور راہنمائی کریں مگر یہاں بالکل ہی اُلٹ ہے جِسے بھی قسمت سے کوئی اہم مقام مِل گیا ہے وہ ’’ چمٹ ‘‘ کر بیٹھ گیا ہے، ہر بدلتے لمحے کے ساتھ سوچ و فکر میں تبدیلی آ رہی ہے، نوجوان نسل کے ادیبوں اور شاعروں کو بدلتے وقت کے تقاضوں کا احساس شدت سے ہے وہ اپنی تحریروں کے ذریعے نئے مسا ئل نئی ضروریات اور اخلاقی اقدارکی سر بلندی کے معاملات کو سامنے لانا چاہتے ہیں مگر قدآور ادبی شخصیات ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انھیں دل برداشتہ کر دیتی ہیں ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے نوجوان نسل کی سوچ و فکر کو ہی غلط قرار دیا جاتا ہے۔

اس وقت نوجوان نسل کو سیکھنے کیلئے قدآور ادبی و فنی شخصیات کی راہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب سینئرادیب اور شاعر ’’ برگد کے وہ درخت ‘‘ نہیں رہے جن کی چھاؤں سے ہزاروں لوگ مستفید ہوئے تھے، شہزاد تابش نے کہا کہ ادیب اور شاعر ہوتا ہی وہ ہے جو متضاد انسانی روّیوں اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتا ہے مگر بعض اوقات وہ اپنی بات کو زیادہ موثر انداز میں نہیں کہہ پاتا اگر سینئر ان کی راہنمائی کریں گے تو فکر وسوچ کے نئے سَوتے کھل جائیں گے، انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جب تک جذبہ، تجربہ اور نئی سوچ ہم آہنگ نہیں ہونگے، فکری جمود طاری رہے گا ۔ اب فکروسوچ کا سفر جاری ہونا چاہیے مگر اس کی زیادہ ذمہ داری قدآور ادبی شخصیات پر عائد ہوتی ہے وہ نوجوان لکھاریوں کی کس طرح راہنمائی کرتے ہیں۔

The post یہاں تحریر کسی تبدیلی کا باعث کیوں نہیں بنتی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


جنوبی کوریا کے چاند گاؤں

$
0
0

کوریا  میں جب 1953 ء میں طویل جنگ کا اختتام ہوگیا تو وہاں کے پریشان حال اور ہر طرح کی سہولت سے محروم لوگوں اور مہاجرین نے اس مشکل حالت سے نکل کر بڑی تیزی سے ترقی پذیر اور شہری مراکز کی طرف بڑھنا شروع کردیا، تاکہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ کر خود بھی رہ سکیں اور اپنے بال بچوں کے لیے بھی کوئی ٹھکانا تلاش کرسکیں۔

ان مہاجرین نے خاص طور سے پہاڑی ڈھلوانوں کو پسند کیا اور ان کی طرف نقل مکانی شروع کردی اور ان مقامات پر اپنے لیے رہنے کی جگہ پسند کرکے وہاں آباد ہوتے چلے گئے۔ یہ بے چارے پس ماندہ اور معاشرے کے ہر سہولت سے محروم افراد جہاں جہاں جاکر آباد ہوئے، ان مقامات کو “moon villages”  یا چاند گاؤں کہہ کر پکارا گیا۔

کوریائی زبان میں ان دیہات کو daldongnae کہا جاتا تھا جس کا مطلب تھا: ’’بلندی پر آباد لوگ!‘‘ یہ لوگ اتنی زیادہ بلندی پر جاکر آباد ہوگئے تھے جہاں سے وہ خود کو چاند کے زیادہ قریب محسوس کرتے تھے اور چاند کا زیادہ تفصیل کے ساتھ مشاہدہ بھی کرلیا کرتے تھے، شاید اسی وجہ سے ان سب بستیوں کو “moon villages”  یا چاند گاؤں کہہ کر پکارا گیا، کیوں کہ وہ سب کے سب چاند سے بہت قریب تھے۔

ان تمام“moon villages”  یا چاند گاؤں کو اگر ایک نظر دیکھا جائے تو ان میں پلاننگ یا منصوبہ بندی کی بڑی کمی دکھائی دیتی ہے، یہ بے ترتیب اور بے ہنگم انداز سے بسائے گئے گاؤں ہیں، جن میں سبھی افراد عمودی ڈھلوانوں پر بنائے گئے مکانوں میں رہتے ہیں اور تمام گھر بڑے بے ہنگم طریقے سے بنائے گئے ہیں۔

مکانوں اور بستیوں کے درمیان گلیاں بھی بہت تنگ ہیں اور گھومتی ہوئی ہیں جن میں سے گزرنے اور چلنے کے لیے بہت مختصر جگہیں بنائی گئی ہیں، بعض اوقات تو ان میں سے دو افراد کا ایک ساتھ گزرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور سے جب ان کے ہاتھوں میں سامان ہو یا یہ اپنے ساتھ کچھ لے جارہے ہوں تو یہ جگہ ان کے لیے کسی پل صراط سے کم نہیں ہوتی، مگر چاند گاؤں میں رہنے والے لوگ یہ سب برداشت کرتے ہیں اور ان گاؤں کی تمام مشکلات کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ وہ ان “moon villages”  میں بڑی خوشی کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی قسمت پر صابر اور شاکر ہیں اور اسے اپنی قسمت اور نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں۔

یہاں تک کو ہم نے ان “moon villages”  کے ابتدائی دور کی بات کی جب یہاں جنگ ختم ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں پریشان حال افراد نے نئی زندگی کی تلاش میں بھاگ دوڑ شروع کردی تھی۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور ان کے ساتھ ساتھ حالات میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی۔

پھر 1980 کی دہائی آئی تو یہاں کے بسنے والے لوگوں میں کچھ شعور اور کچھ آگاہی بیدار ہوئی جس کے نتیجے میں اس عشرے سے لے کر اب تک moon villagesتیزی سے ترقی کے مدارج طے کرنے لگے۔ یہاں دور قدیم کے بنے ہوئے پرانے اور قدیم گھر توڑ ڈالے گئے اور ان کی جگہ نئی، جدید اور فلک بوس بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوگئیں۔ یہ تمام عمارتیں دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی تھیں اور ان میں ہر طرح کی سہولت اور آسانی کا خیال بھی رکھا گیا تھا۔ یہ تمام بلند و بالا عمارتیں ملکی قوانین کے مطابق تعمیر کی گئی تھیں۔

Moon villages کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب بستیاں اور ان میں بنائے گئے گھر، مکان اور اپارٹمنٹ ہاؤس اسٹریٹ آرٹسٹوں اور muralists کا خصوصی ہدف بن گئے جنھوں نے ان پر اپنی فن کاری کے جوہر دکھائے اور دنیا سے خوب داد سمیٹی۔ ان کی رنگارنگ مہارت نے ان سبھی گھروں کو ایسا سجایا کہ دیکھنے والے بھی حیران رہ گئے۔

اگر آپ کا کبھی جنوبی کوریا جانا ہو اور آپ کا گزر ان Moon villages سے ہو تو آپ کو نہ صرف ان کی رنگین اور آرائشی دیواریں حیران کردیں گی، بلکہ ان کے اطراف لگائے گئے فولادی جنگلے بھی انگشت بدانداں کردیں گے۔ یہ سمجھ لیں کہ کبھی کا غربت کے ہاتھوں ستایا گیا یہ ایریا اس وقت غیرملکی سیاحوں کے لیے خصوصی دل چسپی کا مرکز بن چکا ہے اور یہاں آنے والے غیرملکی مہمان اس کی خوب صورتی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی اسی قسم کے چاند گاؤں جنوبی کوریا کے دیگر حصوں میں بھی آباد ہیں جن میں سے ایک کا نام ہے:

Gamcheon Culture Village

Gamcheon  کلچرل ولیج بھی جنوبی کوریا کا ایک ایسا ثقافتی گاؤں ہے جو بوسن کے نواح میں واقع ہے۔ اس جگہ کے تمام گھر بہت ہی خوب صورتی کے ساتھ اور چمک دار رنگوں سے آراستہ و پیراستہ کیے گئے ہیں۔ یہ سب گھر مختلف رنگوں میں تو اپنی خوب صورتی کی اور بھی بہار دکھاتے ہیں اور دیکھنے والے بار بار مڑ کر انہیں دیکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ The Ihwa Mural Village بھی سیؤل میں Naksan Park کے قریب واقع ہے، اس کو 2006  ء میں لگ بھگ 70 آرٹسٹوں نے پینٹنگز میں بھی بدلا تھا اور ایک آرٹ انسٹالیشن کا حصہ بھی بنایا تھا۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ یہ مقامی اور غیرملکی دونوں قسم کے سیاحوں کے لیے سب سے مقبول اور پسندیدہ مقام ہے۔

ایک اور اسی قسم کا پراجیکٹ سیؤل میں واقع ہے جس کا نام ہے :Gaemi Maeul یعنی چیونٹیوں کا گاؤں۔ یہ سیؤل کے شمال میں واقع Inwangsan ضلع کا حصہ ہے اور اس کے علاوہ دو مزید گاؤں بھی ہیں جن کے نام ہیں:

Haenggungdong Mural Village اور Jidong Mural Village  n

The post جنوبی کوریا کے چاند گاؤں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اٹھایا لطف تمہارے وطن کے لوگوں نے
کیا اِدھر کا نظارہ اُدھر کے لوگوں نے
منایا جشن سبھی نے مرے اجڑنے پر
دیا نہ کوئی دلاسا ٹھہر کے لوگوں نے
ہماری خاک ہی بکھری ہوئی نظر آئی
جہاں جہاں سے بھی دیکھا گزر کے لوگوں نے
ہوئے چراغ سبھی گل کیوں تیرے آتے ہی
نہ دیکھنے دیا کیوں آنکھ بھر کے لوگوں نے
ارادے ترک کیے اور سکوں سے بیٹھ گئے
سنے جو قصے ہمارے سفر کے، لوگوں نے
دیے ہیں مشورے سب نے شناوری کے بہت
کبھی نہ دیکھا بھنور میں اتر کے لوگوں نے
گلہ کریں بھی تو کیا ہم جہان والوں سے
لگائی آگ سدا گھر کو گھر کے لوگوں نے
مرے وطن میں سدا مفلسی کا راج رہا
فہیم زیست گزاری ہے مر کے لوگوں نے
(محمد فہیم۔ ریڈچ، برطانیہ)

۔۔۔
غزل


کسی کی کال آگئی کسی کی بات رہ گئی
دو طاقچوں میں جل جلا کے پوری رات رہ گئی
کسی کو فلم دیکھ کر بہت قرار آگیا
کسی کی آنکھ میں ملن کی واردات رہ گئی
بلیک کار میں کسی کے ساتھ وہ چلی گئی
کسی کے دل میں کار بن کے ایک مات رہ گئی
کسی نے ریل سے فقط تھا ہاتھ ہی ہلا دیا
کسی کے عشق واسطے تھی یہ زکات رہ گئی
جو بھاپ چائے سے اٹھی کسی کی سمت لے گئی
کسی کی سمت جانے کو ہاں! چائے ساتھ رہ گئی
(ابو لویزا علی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


عارضی کیا ہے دائمی کیا ہے
اس میں جھگڑے کی بات ہی کیا ہے
میری آنکھوں میں آ گئے تھے اشک
اس نے پوچھا تھا جب خوشی کیا ہے
سال پچپن گزارنے کے بعد
سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے
اپنی مرضی سے ہل نہیں سکتا
ایک پُتلا ہے آدمی کیا ہے
کھیل ہے صرف چار سانسوں کا
دلبری کیا ہے دل لگی کیا ہے
روشنی کے سفیر ہو لیکن
یہ تو بتلاؤ آگہی کیا ہے
جو بھی، جیسا بھی، سامنے ہے امین
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
(امین اوڈیرائی۔ اڈیرو لال، سندھ)

۔۔۔
غزل


ضبط کی انتہا ہے آج کی شام
اک قیامت بپا ہے آج کی شام
آج کی رات کیسے گزرے گی
کیا سے کیا ہو گیا ہے آج کی شام
روح کو جسم کو قرار نہیں
جام خالی پڑا ہے آج کی شام
ہاتھ پھر کیوں اُٹھے دعا کے لیے
جانے کیا التجا ہے آج کی شام
عمر بھر ساتھ تھا شفیق مراد
وہ کہاں کھو گیا ہے آج کی شام
(شفیق مراد۔ جرمنی)

۔۔۔
غزل


جسے کائناتی جریدے میں لکھا گیا، مسئلہ ہے
تو کیا اب خدا کو بتانا پڑے گا، وہ کیا مسئلہ ہے
اداسی فقط مشرقی لڑکیوں کے لیے ہی نہیں ہے
بتاتے ہیں مغرب میں بھی ان دنوں یہ بڑا مسئلہ ہے
وگرنہ میں رونے کی اچھی طرح سے اداکاری کرتا
مجھے کیا خبر تھی مرا مسکرانا ترا مسئلہ ہے
ہمیں تو سبھی عشق اچھے لگے ہیں سو کرتے رہے ہیں
کسی کے لیے دوسرا عشق بھی دوسرا مسئلہ ہے
یہاں منظروں کی کمی ہے نہ آنکھوں کی تعداد کم ہے
یہاں دور بینوں کے ہوتے ہوئے دیکھنا مسئلہ ہے
کوئی روٹھ جائے تو میں بھی اسے اب مناتا نہیں ہوں
کہ یہ مسئلہ تو محبت میں ہر ایک کا مسئلہ ہے
جنہوں نے روایت کو پکڑا ہوا ہے گلے سے ابھی تک
مرا تو یہی ماننا ہے انہیں سانس کا مسئلہ ہے
(عباس مرزا ۔ گجرات)

۔۔۔
غزل


نیندوں میں چھپی ہوئی اداسی
ہر صبح ملی نئی اداسی
مصروف کوئی نہیں خوشی میں
یہ دیکھ کے کھل اٹھی اداسی
کمرے میں گلاب کے علاوہ
اک میں تھا تو دوسری اداسی
دریا سے سوال کر رہی تھی
کشتی میں وہ ڈولتی اداسی
کچھ اور ہی تیز تھیں وہ لہریں
دل تک میں سما گئی اداسی
آنگن میں گرا ہوا تھا گملا
بکھری تھی کلی کلی اداسی
مٹی کے بدن ہیں اصل میں سب
اور روح ہے بھربھری اداسی
(کامران نفیس۔ کراچی )

۔۔۔
غزل


نجانے کس کی دعا ہے کہ کام چل رہا ہے
کوئی نظام نہیں اور نظام چل رہا ہے
رہِ وفا میں بچھے ہیں جفا کے انگارے
جو چل رہا ہے وہ دو چار گام چل رہا ہے
کئی ادیبوں کے نامرد ہو چکے ہیں قلَم
کئی برس سے فقط ان کا نام چل رہا ہے
خبر ملی ہے کہ آقا پرست بستی میں
کسی کے پیچھے کسی کا غلام چل رہا ہے
ہے ثبت مہرِ سفارش حَسین جسموں پر
ادَب کی منڈی میں مالِ حرام چل رہا ہے
تجھے خبر نہیں واصف بدن کے سکّے کی
اے میرے دوست! یہ سکّہ تو عام چل رہا ہے
(جبار واصف۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں
یہ دن تو سنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں
تا عمر گوارا ہیں یہ مخمل سے اندھیرے
آنکھوں سے ترے ہاتھ ہٹانے کے نہیں ہیں
طائف ہو کہ ڈیرہ ہو یا ملتان کہ روہی
ہم خانہ بدوش ایک ٹھکانے کے نہیں ہیں
کٹ جائیں نہ ان سے کہیں ماؤں کے کلیجے
یہ اشک چھپانے ہیں، دکھانے کے نہیں ہیں
جس دشت میں کھویا تھا مرا سرخ کجاوہ
اس دشت میں ہم لوٹ کے جانے کے نہیں ہیں
جو شعر ترے غم کی ریاضت سے ملے ہیں
وہ شعر زمانے کو سنانے کے نہیں ہیں
( ایمان قیصرانی۔ ڈی جی خان)

۔۔۔


خستگی

جو ناخنوں سے کھرچ رہی ہے
سفید بالوں سے خستگی کو
وہ جس کے چہرے پہ بل پڑا ہے
شباب مغرب کو چل پڑا ہے
ہماری بستی کی وہ ضعیفہ
ادھیڑ عمری سے ٹھیک پہلے
حسین و دل کش پری نما تھی
مگر یہ حسن و شباب اس کا
ادھیڑ عمری میں ڈھل چکا ہے
تو بات کچھ اس طرح ہے مالک
ہمارے دل میں بھی اک حسینہ
حسین و دل کش پری نما ہے
تُو اس سے آنکھیں نہ پھیر مالک
شبابِ جاناں کی خیر مالک
بڑا تماشا بنا ہوا ہے!!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


ذرا ذرا سے یہ افسانے تھوڑی ہوتے ہیں
ہیں رازِ عشق جو بتلانے تھوڑی ہوتے ہیں
زمانہ بھول گئے ہیں تمہاری الفت میں
تمہاری یاد سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
رکھیں جو جسم کی چاہت تو ایسے لوگ فقط
ہوس پرست ہیں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
چلو یہ مان لیا کہ ہماری غلطی تھی
ذرا سی بات پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں
سوال کرتے نہیں تجھ سے سیف دکھ کا مگر
تمہارے حال سے انجانے تھوڑی ہوتے ہیں
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن)

۔۔۔
غزل


خشک دریا کی یہ نشانی ہے
دشت میں جل پری کہانی ہے
تیری تصویر پھر بناؤں گا
چاند سے تھوڑی مٹی لانی ہے
کال کو دیر سے اٹھانے کی
اس کی عادت بہت پرانی ہے
نظم کہنا بہت ہی آساں ہے
ایک سگرٹ ہی تو جلانی ہے
اس لیے دوستی نبھا رہا ہوں
چار دن کی یہ زندگانی ہے
میری مٹی کے اپنے آنسو ہیں
تیری بارش تو آسمانی ہے
(نزیر حجازی۔ نوشکی، بلوچستان)

۔۔۔
غزل


جو بھی کہتا ہے کہ اونچائی سے ڈر لگتا ہے
درحقیقت اسے گہرائی سے ڈر لگتا ہے
آپ رکھیے گا سلام و دعا رسمی سی ہی
اب مجھے یار، شناسائی سے ڈر لگتا ہے
آپ بس دوست نہیں، آپ مِرے بھائی ہیں
ایسے شیرین زباں بھائی سے ڈر لگتا ہے
کوئی بھی کمرے میں آجائے تو چونک اٹھتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ تنہائی سے ڈر لگتا ہے
چھوڑ بیٹھے ہیں یہاں لوگ خدا سے ڈرنا
اب بھی لیکن انہیں رسوائی سے ڈر لگتا ہے
(سالِم احسان۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
تجھ کو رہنا ہی پڑے گا اب ہماری خاک پر
ہم نے کندہ کر دیا دل کو تری پوشاک پر
یہ بدن کا بوجھ اترے تو سفر بھی تیز ہو
اک قدم دھرتی پہ رکھیں، دوسرا افلاک پر
ہو سکے تو دیکھ اپنا چہرہ، اپنے خال وخد
سنگ کیوں لے کے کھڑا ہے آئنہ بے باک پر
اس کی گردش بھی سنوارے کیسی کیسی صورتیں
کیسے کیسے نقش بنتے ہیں، زمیں کے چاک پر
دسترس جب سے کسی کے آسمانوں پر ہوئی
نیلمی آنکھیں اتر آئیں مرے پیچاک پر
دفعتاً گل کر دیا کس نے یہ سورج کا چراغ
کس نے مل دی ہے سیاہی کاسۂ لولاک پر
ایک سورج سے یہ آنسو خشک کیا ہوں گے مہر
آتشِ جان چاہیے ہم کو دل نم ناک پر
(اُم فاطمہ۔ کراچی)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ادب میری رگوں میں دوڑتا ہے،میرے رائٹر ہونے میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں، خلیل الرحمان قمر

$
0
0

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بہترین ڈراموں کا تحفہ دینے والے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمرکا تعلق لاہور سے ہے۔کم عمری سے لکھنے کا شوق رکھنے کے باعث ان کی تحریریں بچپن میں بھی بے حد مقبول رہیں۔

خلیل الرحمان قمر نہ صرف ایک ڈرامہ نگار ہیں بلکہ فلم رائٹر اورڈائریکٹر بھی ہیں۔ان کے لکھے ڈراموں میں بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، دستک اور دروازہ، چاند پور کا چندو،لنڈابازار، دل ہے کہ دیا،تم یہی کہنا، اس پار ، من جلی،بیوپار، تمہیںکچھ یاد ہے جاناں، میں مر گئی شوکت علی، بنٹی آئی لو یو،پیارے افضل، میاں بیوی مائینس لو، ان کی حقیقی کہانی پہ مبنی ڈرامہ صدقے تمھارے، میرا نام یوسف ہے،ان سنی، زرہ یادکر، محبت تم سے نفرت ہے، تودل کا کیا ہوا،لال عشق اور مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑتا ڈرامہ میرے پاس تم ہو شامل ہیں۔لالی ووڈمیں انکی دی فلموں میں قرض، کوئی تجھ سا کہاں، چناں سچی مچی، پنجاب نہیں جاؤں گئی اورکاف کنگنا شامل ہیں۔روزنامہ ایکسپریس سے ان کی نشست کا احوال کچھ یوں ہے؛

ایکسپریس: اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ کہاں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔

خلیل الرحمان قمر: میں لاہور کے علاقے شاد باغ میںبسنے والے ایک متوسط گھرانے میں پیداہوا۔ ننھیال سیالکوٹ میں واقعہ ہونے کے ناطے گاؤں دل میں بستہ ہے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایم سی پرائمری سکول شاد باغ گرلز ماڈل سکول شاد باغ، اسلام معاشرہ میں چار پانچ ماہ، گورنمنٹ ہائی سکول شاد باغ، اسلامیہ کالج سول لائن، جناح اسلامیہ کالج آف کامرس اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔

ایکسپریس:  بچپن کیسا گزرا، کیا ایک شراتی بچے تھے یا بچپن میں بھی اتنے ہی سنجیدہ مزاج تھے؟

خلیل الرحمان قمر: ہمیشہ سے ہی سنجیدہ تھا۔ شرارتی اور غصیلہ تھا، جس پہ گھر سے بہت مار پڑی مگر کبھی باہر سے مار کھا کر نہیں آیا الٹا باہر لوگوں کو مار کر آتا تھا۔ایک وقت میں ایک ہی کام کرتا ہوں۔ میں سمجھتاہوںFocus کا لفظ خلیل الرحمان کے لیے بہت چھوٹا ہے۔

ایکسپریس : کالج اور یونیورسٹی کی زندگی رنگیوں سے بھر پور ہوتی ہے، کیا اس دور میںآپ کی لائف بھی رنگین رہی؟

خلیل الرحمان قمر:اس دور میں زندگی ایک سیدھی ڈگر پہ چلنے کے سوا کچھ نہ تھی،Book Warm ذہن میں ایسی ویسی کوئی بات نہ تھی۔ صبح جانا، پڑھا اور واپس آنا ہی میری کل زندگی تھا۔ایک غریب بچہ تھا مگر فطری طور پر غریب نہ تھا۔اپنی فیملی کے لیے محنت کرتا گیا اور اللہ مجھ کو میری اوقات سے زیادہ نوازتا گیا۔B.Com بیس بائیں برس کی عمر میں کیا کیونکہ بیچ کے دو ڈھائی برس ابا کے ساتھ کام کیا۔ پڑھنے کے لیے پیسے نہ تھے۔ میں نے بہت کام کیا جناح باغ کو روغن کیا۔ وہاں کی بارہ دری کے باہر لگا جنگلہ میرے ہاتھ کا ویلڈ ہوا ہے۔ محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبرایا کیونکہ میرے نبیؐ بھی محنت کرتے تو میری کیا اوقات۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ محنت پر کامیابی کی کنجی ہے۔

ایکسپریس : کیسے سٹوڈنٹ تھے آپ؟اساتذہ کے ساتھ تعلق کیسا رہا؟

خلیل الرحمان قمر: میں ایک شاندارسٹوڈنٹ تھا،چنداساتذہ سے مثالی تعلق رہاوہ معصوم عزیز، علی حسین شاہ، ڈاکٹر اعزاز نقوی ہیں۔ ان کے علاوہ اگرکسی کو اپنا استاد مانتاہوںتووہ میرے والد کے سواء کوئی نہیں۔

ایکسپریس: والد کے ساتھ کیسا تعلق رہا؟

خلیل الرحمان قمر: وہ میں بہترین دوست تھے۔والد کے ساتھ بہترین تعلق کا اندازہ جماعت اول میں ہوا۔ علم تھا کہ میرے پاس اللہ کی عطا کردہ ایسی دولت ہے جیسے کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا۔ گھر میں اپنی چھوٹی بہنوں سے بہت قریب تھا اور سب سے بڑا ہونے کے ناطے ان کے ساتھ ماں والا سلوک کرتا، والدہ کی وفات کے بعد اپنی بہنوں اور بھائی کو ماں کی طرح ٹریٹ کیاجن کی اس وقت عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔

ایکسپریس : ادب سے دلچسپی کب اور کیسے پیدا ہوئی؟پہلی بار کب لکھا؟

خلیل الرحمان قمر: جب سے پیدا ہوا تو وقت سے پہلے ہی جوان تھا۔ پہلی مرتبہ قلم ہاتھ میں لیا تو مجھے یہ آگاہی ملی کے میں ایک لکھاری ہوں۔ 7 برس کی عمر میںسب سے پہلا شعر لکھا۔

خوش نہ رہ سکا جہاں ویرانیاں تو رہ گئیں

تم چلے گئے تو کیا کہانیاں تو رہ گئیں

میرے لکھے گانے تیری آنکھوں کے دریا کا بکھرنا بھی ضروری تھا کہ ابتدائی اشعارنویں جماعت میں لکھے تھے جوکہ کچھ یوں ہیں۔

لفظ کتنے ہی تیری پیروں سے لپٹے ہوں گے

تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا

تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے

دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا

مجھے لگتا ہے قارئین کو یہ جان کر خوش ہونا چاہیے کیونکہ اللہ جب عطا کرتا ہے تو وہ عمریں اور اوقات کہاں دیکھتا ہے۔ ادب کے لیے دلچسپی کو ایک چھوٹا لفظ گرانتا ہوں۔ ادب میری رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ادب سے لگاؤ تھا مگرادب سے متعلقہ کوئی کتاب نہیں پڑھی، مقامی اور زیادہ تر پنجابی ادب پڑھا۔میاں محمد بخش، وارث شاہ، خواجہ فرید، بلھے شاہ کو پڑھا۔اللہ کی کچھ ایسی عطاء رہی کہ کسی شاعر کی ایک غزل سن لیتا تو چار سال بعد اس کا دیوان اٹھا لائے کوئی اور پوچھ لے میں بتا دیتا کہ کس کی غزل ہے۔ لوگ اس پر اعتراز کرتے ہیں۔ مجھے اللہ کی عطاء پر بات کرنے والی یہ عادت پسند نہیں۔میرے رائٹر ہونے میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں، مجھے دے کر بھیجا گیا اور وہی لکھ رہا ہوں۔

ایکسپریس : زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ؟

خلیل الرحمان قمر: مسکرا کر کہنے لگے، ’’میری ساری زندگی ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے‘‘۔ اپنے پاس اردو کی کتاب نہیں رکھتا تھا یہ میری انا کا مسئلہ تھا۔ اللہ مجھے اس بات پر معاف کردے۔ سکول میں اس پر بہت مار پڑی۔ کالج گیا تو وہاں کچھ آزادی تھی۔ پہلے دن اردو کی کلاس تھی، ڈاکٹر اعزاز نقوی اردو کے استاد تھے۔ لکھنؤ سے پی ایچ ڈی کررکھی تھی اور جب مسکراتے تو ان کا سونے کا ایک دانت پیارا لگتا۔پہلے روز سب کا تعارف کروانے کے بعد چلے گئے۔

دوسرے روز حاضری لگانے کے بعد پوچھا کون صاحب ہیں جن کے پاس اردو کی کتاب نہیں۔ کل 20 بیس لڑکے کھڑے ہوئے اور میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ مسکرائے بولے تشریف لے جائیے یہ روزانہ کا معمول تھا۔ روز میں کھڑا ہوتا اورپھر ان کا جملہ تبدیل ہوگیا باہر تشریف لے جائیے۔ عام طور پر تو میں ایسی باتوں پر غصہ ہوتا مگر مجھے تعارف والے دن سے ہی ان کے لب لعن سے عشق ہوگیا تھا۔ جب انہوں نے میرتقی میر کی ایک غزل سنائی تھی۔جسکا مصرعہ کچھ یوں ہے؛

’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

ناز کی ان کے لب کی کیا کہیے

پنکھری اک گلاب کی سی ہے۔‘‘

تو میں ان پر مرمٹا اور دانستہ روزانہ ان کے ہاتھوں زلیل ہونے جاتا۔انکے خیال میں تو میں کلاس کا انتہائی ڈفر ٹرین لڑکا تھا۔ میرا کزن خالد بشیر ساتھ پڑتا تھا وہ مجھے کہنیاں مار کرکہتا کہ بتادو کہ تم لکھتے ہو مگر میں نے کہا وقت آئے گا اور اللہ کی دین ہے وہ خود دن لائے گا۔دو ماہ گزر گئے فری پریڈ میں والی بال کھیلتےہوئے میری کلاس کے ایک لڑکے نے کہا کہ رول نمبر 99 ایک فیور کردے کہ میری والدہ کا اپنڈیکس کا آپریشن ہے۔ میں آجاؤں گا تم میری کتابیں رکھ لو۔ میں نے بنچ پر رکھی کتابیں اٹھائیں تو ان میں اردو کی بھی کتاب تھی۔

اس روز میں کلاس میں گیا تو نقوی صاحب نے حاضری لگانے کے بعد میری جانب دیکھتے کہا ’’کون صاحب ہیں جن کے پاس اردو کی کتاب نہیں؟‘‘ میں بیٹھا رہا۔ تو انہوں نے جو جملے کہے وہ کچھ یوں تھے۔’’ارے میاں آپ کے پاس ہے کتاب! وہ کیونکر؟‘‘ میں نے سارا واقعہ سنا ڈالا تو کہنے لگے ’’سبحان اللہ، سبحان اللہ! تو حضور آج اس خوشی میں کچھ پڑھیں گے نہیں بلکہ کچھ لکھیں گے۔ آپ کے پاس چالیس (40) منٹ ہیں۔ ان میں آپ سب ایک ناقابل فراموش واقعہ تحریرکریں گے۔ اس کے بعد پیریڈ خالی ہے۔ اس میں آپ ہمیںسنائیں گے۔‘‘ میں نے اپنے کزن کی جانب دیکھ کر کہا دیکھا گا۔خالدالرشید آج وہ دن آگیا۔ مجھے اچھے سے یاد ہے جب میں نے لکھنا شروع کیا تو وہ تواتر سے میری جانب مسکراتی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھیں ظاہر کررہی تھیں کہ جب یہ لکھے گا پھر پڑھا جائے گا تو اس کا ایک ٹھٹھہ اٹھایا جائے گا اس سے لطف اٹھایا جائے گا۔

ٹھیک چالیس منٹ بعد لکھ چکا تو انہوں نے پوچھا،’’ بھئی آپ لکھ چکے؟‘‘ میں نے کہا’’ جی ہاں! ‘‘وہ کہنے لگے، ’’بھئی شرم کیجئے اب تو یہ بھی لکھ چکے‘‘۔ ’’چونکہ آپ نے سب سے پہلے لکھا تھا تو آپ ہی سنائیں‘‘ ابھی تک ان کے جملے میں طنز تھا۔ میں نے سنانا شروع کیا تو کہیں کہیں میری نظریں ان کے چہرے کی جانب اٹھتی،ان کے چہرے کی مسکراہٹ رفتہ رفتہ غائب ہوگئی۔ پھر اس کی جگہ متانت نے لے لی۔ پھر سرخ ہوگئے۔ اس وقت تک میں درمیان میں پہنچ چکا تھا۔ مجھے کہنے لگے ’’رک جاؤ‘‘ میں رکا۔ چل کر میرے پاس آئے قد میں مجھ سے چھوٹے تھے کہنے لگے،’’ میاں سر نیچے کرو‘‘ میںنے سر نیچے کیا تو میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہنے لگے ’’میاں آج سے تم کتاب کی قید سے آزاد ہو۔‘‘

مگر اردو کی کتاب پھر بھی اپنے پاس نہیں رکھی اب اس پر اللہ ہی مجھے معاف کرے۔

ایکسپریس : کیا کبھی محبت ہوئی؟ اور اگر ہوئی تو اسے حاصل کرپائے؟

خلیل الرحمان قمر: ہمارے ہاں ایک بڑا غلط نظریہ ہے لوگ سوچنے لگتے ہیں نہ ملنے سے محبت نہیں ملتی۔ سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہا، محبت جب ہوتی ہے تو اپنی پوری تکمیل کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس میں کھو دینے کا کوئی جواز نہیں ہوتا، کسی کے نہ ملنے سے محبت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محبت کے بغیر تو دو ٹکے کے ہیں ہم۔ جس کو محبت نہیں ہوئی اسے تو کسی جنگل میں جاکر جینا چاہیے۔ محبت ایک ولایت ہے جو خوش نصیبوں پر اترتی ہے وہ کن پر اتری اس کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ الحمد اللہ مجھ پر بھی اتری اور وہ خلیل الرحمان قمر کو خلیل رحمان قمر بناگئی۔ محبت کو ایک طاقت کے طور پر لیا۔ کبھی لگتا ہی نہیں تھا کہ محبت نہیں ملے گی۔ لڑکی تو نہ ملی محبت مل گئی۔ اس کے نہ ملنے کے پیچھے جو گھناؤنا واقعہ تھا اسے میں نے صدقے تمہارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ محبت تو انسان کے اندر ازل سے ہوتی ہے بس کس سے ہوتی ہے یہ پتہ چلنے میں دیر لگ جاتی ہے۔ ایک شبیہ سی بنتی ہے اور اس سے ملتا جلتا کوئی شخص آپ کے سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے محبت ہوئی۔

ایکسپریس: کوئی تشنہ آرزو؟

خلیل الرحمان قمر: مرنے سے پہلے دو خواہشات پوری کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ڈاکٹر اعزاز نقوی جیسی اردو بول کہ جاؤں اور ایک شانو جیسی کسی لڑکی سے ملوں۔ آج تک اس جیسی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔ شانو سے محبت کی بابت دریافت کیا تو کہنے لگے شانو بس ایک ہی تھی۔ وہ تین سال کی عمر سے جانتا تھا کہ میری شادی کس سے ہونی ہے۔شانو کی ایک سہیلی نے مجھے خط لکھ دیا جس پر وہ جان چھڑکی تھی۔ میں چونکہ اپنے زور بازو پر شانو سے روز سیالکوٹ ملنے جاتا تھا تو اس روز شانو سیڑھیوں سے اتر کر میرے پاس سے گزری۔ (ڈرامے میں اس کا نام حمیرا رکھا تھا)۔ اوپر گیا اور خط پڑھایا تو مسکردی۔ کہا تمہیں شرم نہیں آئی، آئندہ تم اس سے نہیں ملو گی۔ وہ کہنے لگی خلیل صاحب اگر کوئی آپ سے نفرت کرے گا تو اسے نفرت کروں گی کوئی آپ سے محبت کرے گا تو اس سے محبت کروں گی۔ بعد میں لڑکی نے معافی مانگ لی۔

ایکسپریس:  شادی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ خود لیا یا والدین کی مرضی سے؟اپنے بچوں کے حوالے سے کچھ بتائیے؟

خلیل الرحمان قمر: شادی اپنی مرضی سے کی اس وقت جب B.Com ون میں تھا۔ شادی اور محبت کے بارے میں کہنے لگے محبت بچپن کی باتیں تھیں۔ ماشاء اللہ میرے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اب ماشاء اللہ سے بڑے ہوگئے ہیں اور بالکل میرے دوستوںکی طرح ہیں۔ نانا کا لفظ بالکل پسند نہیں، میری نواسیوں کو یہ کہنا منع ہے بلکہ وہ کہتی ہیں کہ میری چھوٹی بہنیں ہیں۔ میں کہتا ہوں اتنی سی عمر میں مجھے نانا بنادیا۔ ابھی صرف نانا کے رتبے پر فائز ہوں۔ اپنی بیوی کو کھانا بنانا بھی میں نے سکھایا، اسے انڈہ تک ابالنا نہیں آتا تھا۔ اعتماد کرتا ہوں ہر شخص پر اس کے دغا دینے تک۔ الحمد اللہ اچھی ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں۔ مرد پہ بے تحاشہ شک اسے دور کردیتا ہے اور نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

ایکسپریس :  زندگی سے کیا سیکھا؟

خلیل الرحمان قمر: زندگی سے کچھ نہیں سیکھا زندگی کو سیکھا کر جاؤں گا۔ کیونکہ مجھے علم ہے زندگی موت کی طرف جانے والے راستے کے سوا کچھ نہیں۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ میرا جسم مرے گا مگر میرا نام زندہ رہے گا، میرا کام زندہ رہے گا۔

ایکسپریس : کیا آپ کے خیال میںتخلیق کار کی زندگی میں برا وقت آتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: تخلیق کار کی زندگی میں برا وقت آتا ہے۔ دراصل ان کے میرٹ ڈسیزن برے ہوتے ہیں۔ ان کو وہ لوگ نہیں مل پاتے جو ان کی بات سمجھ سکیں۔ جن سے وہ بات کرسکیں۔ تو ایک لاشعوری پیاس رہ جاتی ہے جو ہر جگہ مارتی ہے لیکن غم ہونا بھی آپ کے ہونے کی نشانی ہے۔ میں آئیڈیل پرست نہیں۔

ایکسپریس: نثر نگاری کے علاوہ کسی اور شعبہ میں اظہار کی کوشش کی۔

خلیل الرحمان قمر: 1986ء سے 1999ء تک بینکر رہا۔ وائس پریزیڈنٹ بینک آف پنجاب رہا۔ چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ اماں کا انتقال ہوچکا تھا اور ابا کا کنٹرول نہیں رہا تھا۔ اس لیے اپنے شوق لکھنے کو ہی اپنایا۔ ایک مشہور بنکر رہا۔ ایک بہترین بینکر کے ساتھ بہترین فیصلہ ساز تھا۔ ایک مزے کا واقعہ ہے۔ایک مرتبہ چیئرمین کا فون آیا کہ 10 کروڑ کا لان چاہیے ایک پارٹی فیصل آباد سے آئی ہے۔ انہوں نے 36 کروڑ لگا رکھے تھے اور بار بار کہتے تھے ’’سارے پیسے اسی آپے لائے نے‘‘ میں نے انہیں چائے کا کپ پیلایا، میں ایسا ہی تھا ایک چائے کے کپ پر لون دے دیتا تھا یا نہیں دیتا تھا اور ایک مرتبہ اگر انکار کردیتا تو پھرکسی کی سفارش پر بھی لون نہیں دیتا تھا۔ میں نے کہا حاجی صاحب آپ کو لون نہیں دوں گا وجہ پوچھی تو میں نے کہا آپ ڈیزرو نہیں کرتے جب وہاں پوچھا جائے گا تو بتادوں گا۔ وہ اچھا جی کہ ’’کر کرلینے آں کج‘‘کہہ کر چل دئے، عاصم جمشید صاحب پندرہ منٹ بعد آکر کہنے لگے آج میں آپ سے ایک نئی چیز سیکھوں گا۔ میں نے کہا ضرور اور آپ کو اپنے استاد کا نام بھی بتاؤں گا۔ اور وجہ اتنی سالڈ ہوگی کہ آپ بھی کہیں گے لون نہ دیں۔

میرا کیریئر نیشنل بینک سے شروع ہوا تھا اور آزد کشمیر میں پوسٹنگ تھی۔ جب دینہ سے لاہور آنے کے لیے پشاور سے چلنے والی خرکار بسیں ہوتی تو وہ ٹائم کو میچ کرکے چلتی اور ایک منٹ کی دیر سے بھی بس چھوٹ جاتی، اس دن میں اکیلا وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا چونکہ بس چھوٹ چکی تھی تو ساتھ پھل کی دکان تھی جہاں دو لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے تھے اور میرے کان ان کی باتوں پر لگے تھے۔ ایک آدمی کسی دوسرے کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ فلاں نے فلاں فلاں سے دو تین تین ہزار لے کر کام شروع کیا۔ بڑا گھٹیا ا ٓدمی ہے وہ۔ تو پھل والے نے کہا یہ تم اس کی تعریف کررہے ہو یا بدتعریفی؟ پوچھا کیسے؟کہنے لگا تعریف یوں کہ وہ اتنا قابل اعتبار ہے کہ لوگ اسے ادھار دے رہے۔ میں نے کہا حاجی صاحب پیسے آپ کو اس لیے نہیں دے رہا کہ سارے پیسے آپ نے خود لگائے ہیں۔ کسی نے آپ کو نہیں دیئے۔ آپ قابل اعتماد نہیں۔ حاجی صاحب سمجھ گئے۔

ایکسپریس:ایک وہ دور تھا جب پرائم ٹائم پر بازار گلیاں سنسان ملتے تھے۔ہمارے ڈرامہ انڈسٹری کے زوال کی وجہ کیا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: پرانے دور کے ڈرامے کا مقابلہ آج کے دور میں ڈراموں سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس وقت صرف ایک ڈرامہ ہوا کرتا تھا اور ہم تو ٹی وی اس ڈبے کو مبہوت ہوکر دیکھا کرتے تھے کہ آخر کیا ہے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹری اپنے Subjects کی وجہ تھوڑی مار کھائی ہے اور یہ انٹرنیشنل Conspirency ہے کہ ہمیں ہمارے اصل موضوعات سے ہٹادیاگیا ہے۔ ورنہ ڈرامہ انڈسٹری میرے نزدیک اپنی پیک پر ہے۔

ایکسپریس:ہماری فلموں اور ڈرامواں مین عورت کو مظلوم دکھانا ایک عمومی رحجان بن چکا ہے۔اس کے برعکس تصورات کو عکس بند کرنے پہ پروفیشنل سطح پر اور عمومی سطح پہ کیسے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا؟

خلیل الرحمان قمر: ہمارے ڈراموں میں ساس اور نند کو ڈائن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ جب لکھنے والی ایسا لکھ رہی ہوتی ہے وہ خود نند، ساس یا کسی کی بہو ہوتی ہے۔میرے ڈراموں میں ساس کا کردار کبھی ایسا نہیں دیکھایا گیا۔ اگر ماں کے ساتھ کمپرومائز کرسکتی ہیں تو ساس کے ساتھ کیوں نہیں جو یاد بھی رکھے گی۔ ہماری لڑکیوں کے دماغوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ وہ ڈائن سے ملنے جارہی ہیں تو ان کے پلان بھی ایسے ہوتے، بجائے یہ سوچنے کے دوسری ماں اور سہیلی سے ملنے جارہی ہیں وہ غلط سوچ لے کر جاتی ہیں۔ تو ان کے پلان بھی اس کے حساب سے ہوتے ہیں۔

ایکسپریس : کسی کہانی کی تخلیق کے دوران اولیت تفریح کو حاصل ہوتی ہے یا مقصدیت کو؟

خلیل الرحمان قمر:میں نے آج تک جتنے بھی پلے لکھے وہ مقصدیت پہ مبنی تھے اور میرے پاس تم ہو اس میں سب سے بڑا پلے ہے۔ میرے پاس تم ہو بھی معاشرے کا Burning ایشو ہے۔ میں ہمیشہ سے جو دیکھتا آرہا تھا اسے ڈیفائن کیا۔

ایکسپریس :کیا معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح میں ہمارے میڈیا خصوصاً ڈراموں کا بڑا ہاتھ ہے؟

خلیل الرحمان قمر: معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کے حوالے سے جب میڈیا کے کردار کا سوال کیا گیا تو خلیل الرحمان کا ردعمل کچھ یوں تھا۔ آپ جب مرد سے آزدی مانگنے نکلیں گی تو طلاق کی شرح بڑھے گی۔ اگر میں اتنا کماتا ہوں تو مجھے بیوی رکھنے کی کیا ضرورت، مجھے تو وہ عورتیں سستی پڑتی ہیں جن کا اپنا جسم اپنی مرضی ہے۔ یہ عورت کی حیا اور وفا ہوتی ہے جو مرد کو شادی کے بندھن کو چلانے کا محرک بنتی ہے۔ میں چالیس برس سے سوچ رہا تھا کہ مرد شادی کیوں کرتا ہے۔

اس کا جواب میں نے اپنے ڈرامے ’’ذرا یاد کر‘‘ میں دیا۔ غلطیاں کہاں ہوئیں، کبھی بازار حسن بستے تھے جہاں میرا جسم میری مرضی والی عورتیں رہا کرتی تھیں۔ انہیں نہ کا جاتا تھا کھانا گرم کرو اور نہ بہت سے گھٹیا Slogans دیکھے وہ آکر شہر میں بس گئی۔ ایسی لاٹ کو بیرونی سپورٹ کے ذریعے ہمارے کلچر کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ رن مرید کا جملہ بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ وہ مرد دراصل رن مرید نہیں ہوتا وہ وفا کرنے والی عورت کی ساری غلطیاں برداشت کرنے والا ہوتا ہے۔ جوتے بھی کھالیتا ہے۔ وہ اسے اس لیے نہیں چھوتا ہے کہ وفادار۔ مرد کے اندر اللہ نے اپنی فطرت ڈال رکھی ہے۔ مرد صرف ایک اپنی طرح کا دیوتا ہے جو اپنی ایک پجارن ڈھونڈتا ہے۔ شوہر اپنی بیوی کے لیے سب کچھ کرتا ہے بچے تو ضمنی میں آتے ہیں۔ پہلا تعلق بیوی سے ہوتا ہے جہاں وہ شرک کرے گی وہاں ایسا ہی ہوگا۔ امریکہ میں آج تک کوئی عورت صدر نہیں آئی۔ ان کی باتیں مان رہے ہو تو بہت بیوفوف ہو دوغلے لوگ ہیںوہ۔

ایکسپریس :لاہور میں کراچی کی نسبت فلم مضبوط کیوں نہیں اور دونوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟

خلیل الرحمان قمر:لاہور میں اب فلم انڈسٹری نہیں رہی۔ وجہ پر میں کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔

ایکسپریس:کسی بھی فلم کی کامیابی میں ڈائلاگز کا کیا کردار ہوتا ہے۔ اور کیا آپ کے خیال میں ایک رائڑ اچھا ڈائریکٹر ہوسکتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: ایک اچھا فلم رائٹر ایک اچھا فلم ڈائریکٹر ہوسکتا ہے اس کی مثال ہماری انڈسٹری میں ریاض شاہد شان کے والد خلیل قیصر ہیں۔ فلم انڈسٹری میں اچھا وقت گزرا۔ آٹھ دس لوگوں کی وجہ سے سب کو برا نہیں کہا جاسکتا۔

ایکسپریس : کیا ایک فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا ہے؟

خلیل الرحمان قمر:فلم کوئی فورمولا نہیں ہوتا۔ وہ ایک کری ایٹو فیکلٹی ہے اسی طرح سے ڈیل کرنا چاہیے۔ ہاں میں فلم میں آئٹم سونگ کے سخت خلاف ہوں۔ ’’کاف کنگنا‘‘ میں بھی جو گانا تھا وہ ترانہ نما تھا۔ وہ آئٹم سونگ نہ تھا۔ جہاں ضرورت پڑے وہاں گانا ضرور دیں مگر فلم کو ننگا نہیں ہونا چاہیے۔ فلم ایسی ہو کہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جاسکے۔ ہماری فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ اپنے معیار پر سمجھوتہ بنی۔

ایکسپریس :فلم پنجاب نہیںجاوں گی میں پزیرائی کے بعد کاف کنگنا سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے پہ کیا کہیں گے؟

خلیل الرحمان قمر:کاف کنگنا سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ اس کو باقاعدہ پلان کی وجہ سے Destroy کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ فی الوقت کچھ نہیں کہوں گا۔

ایکسپریس : قارئین کو کوئی پیغام دینا چاھیں گے؟

خلیل الرحمان قمر: پیغام میں یہی ہوں گا کہ کوئی بھی کام یہ بھول کر کیجئے کس کو کیا مل گیا ہے۔ وہ اللہ ہے جو دینے والا ہے۔ حسد سے بڑی کوئی بیماری نہیں اس سے خدا پر یقین کم ہوجاتا ہے اور مایوسی مقصدر بن جاتی ہے۔

میں رومی کے کردار میں موجود ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پاس تم ہو میں کامیابی اور پذیرائی کے حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں اللہ نے مجھ سے اچھا ڈرامہ لکھوایا اور پھر اچھا ڈائریکٹر ہوا اور اچھے سے کردار نبھائے گئے۔ میرے پاس تم ہو میں تنقید پر سوال کیا تو انہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ مجھ سے بڑا کوئی Feminist ہوگا مگر میں عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھتا۔ دونوں برابر ہو ہی نہیں سکتے۔

عورت جس برابری کی تمنا کررہی ہے وہ اسے نہیں مل سکتی۔ اس بات پر بڑی لے دے ہوئی کہ پانچ عورتیں مل کر کوئی مرد اغوا کریں نا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک برا ایکٹ عورتیں نہیں کریں گی۔ اچھا مرد کبھی اچھا معاشرہ نہیں چلا سکتا، معاشرہ اچھی عورت چلاتی ہے۔ میں بہت لبرل آدمی ہوں مگر Bounding  میں Cheat کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں مرد کو اس سے آزاد قرار نہیں دیتا مگر میں گارنٹی کرتا ہوں مرد جب تک عشق میں نہ ہو غلطی کرنے سے باز نہیں آتا۔عورت میں انکار کرنے کی قابلیت ہے، مرد میں نہیں ہے۔ جب تک عشق میں تھا دوسری دفعہ کسی لڑکی کو دیکھا بھی نہیں کرتا تھا مجھے نہیں یاد کہ میں نے کسی کو انکار کیا ہو۔ جب میں عورت کو اتنے بڑے مرتبے پہ کھڑا کردیتا ہوں اور اگر پھر وہ میری برابری کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے معیار سے نیچے گرنا چاہتی ہے۔ ماں کسی کی بھی ہو ہم غیر مشروط طور پر اس کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارا قد ان کے جوتوں سے اوپر نہیں۔ تو برابری کس چیز کی۔

ایک عورت نے لکھا خلیل الرحمان قمر کبھی نو ماہ اپنے پیٹ میں بچہ اٹھاؤ تو تمہیں پتا چلے۔ بھئی میں کیوں اٹھاؤں جب مجھے اس کے لیے بنایا نہیں گیا۔ کل کو تم کہو کہ دس سال عورت کی آواز میں باتیں کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل اس لیے نہیں مرد کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور پر مضبوط بنایا۔ اب اگر سو ایسے واقعات ہوں تو ان سو کی بنا پر ہم ہزاروں کی کمیونٹی کو جزلائز نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا کوئی برا مرد ہو تو میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوکر اسے برا کہوں گا۔ جس لڑکی کو Shutupcall دینی آتی ہے،مرد اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتا اور اگر پھر بھی کوئی آئے تو وہ کریمنل ہوگا۔ اسے رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔

وہ میری کہی باتوں کو اپنی آزادی کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہیں جب ہی Reaction آتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دلیل سے بات نہیں کی جاتی۔ میرے پاس تم ہو سے بھارت میں سب کی جان نکلی ہوئی ہے۔ کسی کے بنائے ڈرامے یا کام پر تنقید کرنا میرا کام نہیں۔ ان سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اس میں عورت کو ڈیفائن کیا تو کہنے لگے لوگ یہاں غلطی کرتے ہیںکہ میں نے عورت کو ڈیفائن نہیں کیا بلکہ وہ ایک عورت تھی جس نے یہ عمل کیا اور اس کا مقصد صرف یہ سیکھانا تھا کہ ایک مرد جب غلطی کرتا ہے تو وہ ایک خاندان کا نقصان ہوتا ہے اور ایک عورت جب غلطی کرتی ہے تو ایک نسل کا نقصان ہوتا ہے۔

پسند

جو بھی ایکٹر یا ایکٹریس اچھا کام کرے اسے پسند کرتا ہوں آج کل ’’میرے پاس تم ہو‘‘ میں ہمایوں اور عدنان اچھے لگتے ہیں۔پسندیدہ تفریحی مقام لکھنے کی ٹیبل ہے اور اپنے گھر میں بھی سب سے زیادہ اسی جگہ کو ترجیح دی۔ ٹیبلیں تو بدل جاتی ہیں مگر وہ مقام لکھنے کی میز ہے۔ بعد اوقات سارا دن دروازے تک نہیں جاتا۔ نثر نگاری میں سعادت حسن منٹو پسند ہیں۔ ان کے افسانے لو، کھول دو ٹھنڈا گوشت اور شلوار بہت پسند ہے۔ جون ایلیاء میں وہ بات ہے جو کسی میں نہیں۔ خلیل الرحمن قمر ساری شاعری کرے اور ان کے قدموں میں رکھ دے۔ موسیقی سے شغف ہے۔ محمد رفیع، مہدی حسن، لتا منگیشکر، ملکہ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم میرے فیورٹ سنگرز ہی۔

ندیم بیگ، سید نور بہترین ڈائریکٹرز ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’یا خدا‘‘ پسند ہے۔

بہت کرکٹ کھیلی۔ عمران خان بہترین کھلاڑی کے طور پر پسند ہیں۔ فلم اور ڈرامہ دونوں سے عشق ہے۔ بنیادی طور پر تو شاعر ہوں پھر ڈرامہ رائٹر ہوں۔ ناول کبھی نہیں لکھا۔

انتقاماً 15برس اردو نہیں لکھی۔۔۔۔۔۔۔

بچپن میں بہت لکھا اور بہت چھپا اور اس سے بہت پیسہ بھی ملا مگر میرے گھر والے لکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ ان دنوں ادیب کا تاثر معاشرے میں بہت برا تھا۔لکھے پر مار بھی پڑی اور پھر میں نے15برس تک اردو میں کچھ نہیں لکھا۔ آج لگتا ہے کہ میرے گھر والے حق بجانب کیونکر وہ چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر خاندان کی کشتی کو کنارے لگادوں کوئی اچھا بڑا افسر بن جاؤں۔ اور وہ ٹھیک تھے کیونکہ میں ایک پڑھنے والا شاندار بچہ تھا۔ مگر میں نے اس پر انتقام لیا اردو لکھنا چھوڑ دیا اور ریڑھی والے سے بھی انگریزی میں بات کرتا۔ کٹر پنجابی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود جب بھی اردو بولی کبھی اپنے معیار سے کم تر نہ تھی۔

لوگ میرے پہ ہنستے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب بچہ ہونے کے ناطے محلے کی مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتی تھیں۔ تب ایک روز کھلے گٹر کے پاس بیٹھ کر سوچا دنیا کی پرواہ نہیں کرنی بس اپنے اللہ کی پرواہ کرنی ہے۔ والد ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ میں ایک عام سے کنٹریکٹر تھے۔ انگریزی پر محنت کرنا پڑی۔ مگر وہ اردو سے زیادہ مشکل زبان نہیں کیونکہ میں ایک غریب بچہ تھا تو جب انگریزی بولتا لوگ مجھ پر ہنستے۔ ایک صبح میں نے بیٹھ کر خود سے کہا آج جو تم پر ہنستے ہیں کل شرمندہ ہوں گے کیونکہ فطری طور پر پُراعتماد تھا اور پھر بہت زیادہ پڑھنے والا تھا تو بہت پڑھا۔ انگریزی میں کورس کی کتابیں بہت پڑھیں۔ اللہ کی طرف سے الہام تھا کہ مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ ایسی زبان ہے جسے بول کر ہی سیکھا جاسکتا ہے۔

The post ادب میری رگوں میں دوڑتا ہے،میرے رائٹر ہونے میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں، خلیل الرحمان قمر appeared first on ایکسپریس اردو.

تنازع جموں و کشمیرکا حل: ممکنہ آپشنز

$
0
0

رواں ماہ کا پہلا ہفتہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسیوں کے لئے اس اعتبار سے اہم رہا کہ اس میں امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا گیا جس میں بھارت سے مقبوضہ وادی میں مواصلات کی بندش اور نظر بندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی پرمیلا جیپال اور ری پبلکن پارٹی کے اسٹیو واٹکنز کی جانب سے پیش کئے گئے بل میں کہا گیا کہ گزشتہ 30 سال میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بل کے متن میں بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلات کی بندش، نظربندیوں کے خاتمے اور شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بل میں کہا گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں رسائی بھی فراہم کرے۔

اس سے ایک ہفتہ قبل انقرہ میں ترک تھنک ٹینک کے اشتراک سے لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 25 ملکوں کے مندوبین نے شرکت کی۔کانفرنس میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو انسانیت اورعالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قراردیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کیلئے متفکر آوازیں اس پاکستانی مطالبے کی حمایت کیلئے بھی گونجتی جو ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد سامنے آیا تھا، ظاہر ہے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی حالت زار جب عالمی ضمیر پر بوجھ بنتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی الگنی پر ڈال دیا جاتا ہے،حالانکہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ سے مانگنا ایسے ہی ہے جیسے روٹی نہ ملنے کی شکایت کرنے والوں کوکیک کھانے کا مشورہ دینا ۔ سوال یہ ہے کہ 5 اگست کو مودی سرکار نے اپنے اعلان شدہ انتخابی ایجنڈے کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا تو ہمارا ردعمل کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں۔ گویا نہرو سے لے کر مودی تک جموں و کشمیر سے جو بھی کھلواڑ ہوتا رہے ہم نے اقوام متحدہ کا در نہیں چھوڑنا،حالانکہ اقوام متحدہ جانا پنڈت نہرو کا جھانسہ تھا،جسے اقوام متحدہ سے بہتر کون سمجھتا ہو گا، اب تو بی جے پی نے اس جھانسے کے تکلف کو بھی ایک غلطی قرار دے کر جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی سرکار کا خبث باطن ظاہر کر دیا ہے، مودی سرکا ر نے عملی طور پر جتا دیا کہ جہاں جموں و کشمیر کا معاملہ آئے وہاں تکلف نہیں محض دھونس سے کام چلانا ہی عین حکمت عملی ہے۔ ویسے بھی تکلف کی ضرورت تب ہوتی ہے جب آپ ملبوس ہوں، بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیکولر ازم کا لباس اتار کر تکلف برخاست کر دیا، اب یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی بے لباس ہو جائیں مگر یہ تو نہایت ضروری ہے کہ ہندو برہمنوں کی برہنگی دنیا کو دکھانے کیلئے اقوام متحدہ کے گنبد سے نکل آئیں ،جہاں ہم اپنی ہی آواز کی بازگشت سن کر دل بہلاتے رہتے ہیں۔

مدمقابل سے موقع بہ موقع لڑا جاتا ہے، دشمن کا وار دیکھ کر ہتھیارکا انتخاب کرنا ہوتا ہے،یہی مطلب بتایا ہے علما کرام نے’’گھوڑے تیار رکھنے والی‘‘ قرانی آیت کا ۔ ہتھیاروں کے میدان میں تو ہم نے جوہری ہتھیار بنانے تک یہ مقابلہ خوب کیا،لیکن سفارتی میدان میں ہمارے پاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں، وہ بھی رام بھلا کرے پنڈت نہرو کا جو ہمیں یہ ہتھیار دلاسے کے ساتھ تھما گئے کہ اس کے ساتھ کھیلتے رہو ۔

موقع بہ موقع لڑنے کا تقاضا تو یہ تھا کہ مودی سرکار نے جب نہایت نفاست کے ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو کی شامل کردہ آئینی شق 370 کا استعمال کرکے بزعم خود جموں و کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کیلیے ختم کیا تو وہیں ریاست کے خیرخواہوں کو ایک نیا سفارتی ہتھیار بھی فراہم کردیا تھا۔ کیوں کہ مذکورہ شق صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے خاتمے کا راستہ تو مہیا کرتی ہے، مگر براستہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی۔ لوک سبھا کا روٹ تو اختیار کرلیا گیا مگر ریاستی اسمبلی کا سفر غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی ہے۔ مودی ڈاکٹرائن اس سفر کیلیے حالات سازگار بنائے گی اور بالآخر مذکورہ شق کی یہ دوسری شرط بھی پوری کردی جائے گی۔

مودی سرکار کی برہنگی ظاہر کرنے کیلئے ہمیں اس دوسری شرط کو تین ماہ کے اندر پورا کرنے کیلئے شور مچانا چاہیے تھا ، جو ظاہر ہے نہیں مچایا گیا ،غیر روایتی وار کا مقابلہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں کیا جاتا۔ اب یہ لڑائی اسی میدان میں لڑی جائے گی جو نریندر مودی اور امیت شاہ نے سجایا ہے۔ وار کرنے میں ٹائمنگ کلیدی اہمیت کی حامل ہے، مخالف کو اسی کے ہتھیار سے مارنا حقیقی جواں مردی ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ دنیا کو آرٹیکل 370 ازبر کرا دیتے اور بتاتے کہ اسی آرٹیکل کے تحت تین ماہ کے اندر ریاستی اسمبلی سے منظوری بھی ازحد ضروری ہے۔ اس منظوری کی مدت تین ماہ ہے، من مرضی کی مدت نہیں۔ آغاز روس سے کیا جاتا، جس کا ردعمل تھا کہ بھارت نے اپنے آئین کے مطابق اقدام کیا۔

تین ماہ کا عرصہ تو گزر گیا ،لہذا یہ ہتھیارکارگر نہیں رہا، مگر گاہے بہ گاہے اس کی نمائش ضرور کرتے رہنا چاہیے، اب ہمیں کمان میں نیا تیر پروستے ہوئے بھارت کے اندر اٹھنے والی آوازوں کو اپنے ساتھ ملا کر دنیا پر اثرانداز ہونا ہے، ان آوازوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارا یہ مطالبہ ہو کہ ریاست جموں و کشمیر میں گورنر راج ختم کیا جائے۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی ریاستی اسمبلی بحال کی جائے،یہاںیہ امر ملحوظ رہے کہ  مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب کوئی ’کٹھ پتلی‘ نہیں رہا،ہمارے بعض اخبارات بدستور ’’کٹھ پتلی‘‘ کا سابقہ استعمال کر رہے ہیں،اس ’سیاسی بلوغت‘پر ماتم کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمارا سارا برقی و پرنٹ میڈیا آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے بجائے محض آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کہنے اور لکھنے پر اکتفاکرتا ہے،گویا جموں ازخود ہم نے بھارت کے حوالے کر دیا ہے،آج کل ایک اور’سیاسی بدعت‘ سرکاری سطح پر فروغ پا رہی ہے،ہم بھارت کو ہندوستان کہہ کر اس کی سیاسی بالادستی کا پرچار کرتے رہتے ہیں،ہندوستان کبھی ہوتا تھا جو اب نہیں رہا،کس کس کا ماتم کریں گے۔

چلیں ایک اور تیرکمان میں پروستے ہیں۔ ایک سچ کی مدد سے دوسرے سچ کو ثابت کیا جاتا ہے،آزاد جموں و کشمیر ایک سچائی ہے جس کی مدد سے ہمیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جھوٹ کی قلعی کھولنی چاہیے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اب صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں کہتا بسم اللہ۔ آئیں آزاد جموں و کشمیر پر پہلے بات کر لیتے ہیں۔ بات کرنے سے آزاد جموں و کشمیر بھارت کا ہو جاتا؟ بات کرنے میں کیا حرج تھا؟ کیا ہم بات کرنا نہیں جانتے؟ گفتگو کی بنیاد کیا ہوتی؟ بھارت کہتا آزاد جموں و کشمیر ہمارا ہے، آپ نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی تو ہم سننا چاہتے تھے۔ کسی بھی خطہ ارضی کے مقدر کا فیصلہ وہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔

ہمیں پاکستانی کشمیریوں پر اعتماد نہیں؟ یقیناً ہے۔ تو پھر جو ماڈل ہم بھارتی کشمیر پر لاگو کرانا چاہتے ہیں، اسے پاکستانی کشمیر پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو دونوں اطراف کے کشمیری یک زبان اور یک جان ہیں۔ بھارت کو اس شرط کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جاتی کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا۔ کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ بھارت اس گھیرے میں نہ آتا تو ہمیں رضاکارانہ طور پر اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے تھی کہ اپنی نگرانی میں آزاد جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کرائے اور یہاں کے باشندوں کی مرضی معلوم کر لے۔

بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی 70 سالہ پوزیشن تبدیل کی۔ ہماری وزارت داخلہ کو بھی آزاد جموں و کشمیر پر بھارتی دعویٰ ختم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے بعد اکھاڑا سج جائے گا۔ پھر ہماری وزارت خارجہ کی باری آئے گی۔ جو مطالبہ کرے گی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر پاکستانی دعویٰ ختم کرنے کیلیے وہی اقدامات کیے جائیں جو ہم نے آزاد جموں و کشمیر میں کیے ہیں۔ یہیں سے نیا کشمیری بیانیہ جنم لے گا۔اس کے بعد آخری اور فیصلہ کن تیر کی باری آئے گی جو بھارت کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گا۔

ہم اکھاڑے میں بھارت کو للکاریں، دنیا والوں سے کہیں کہ اس کو اکھاڑے میں لاؤ۔ بھارت کبھی نہیں آئے گا، لیکن ایک فضا ضرور بنے گی جس میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات اب ایسے ہوگئے ہیں کہ ہم اس کی مسلح مدد کریں۔ عالمی قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت امریکا نے بوسنیا کی مدد کی تھی۔ امریکا کے اعمال نامہ میں شاید یہ واحد نیکی ہوگی جو اس کی بخشش کا باعث بن جائے۔ مگر ہم نے یہ راستہ اختیار نہ کیا تو یہ یقیناً وہ گناہ ہوگا جو ہماری گرفت کا باعث بنے گا۔ بھارت آخری اور فیصلہ کن لڑائی تک چالاکی کے میدان میں ہمیں مات دیتا رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں اس آخری معرکے کا انتظار کرنا ہے یا تھوڑی سی چالاکی بھی سیکھنی ہے۔ زندگی کے بہاؤ میں پاؤں جمانے کیلیے تھوڑی سی بے وفائی اور تھوری سی خودغرضی کی طرح تھوڑی سی چالاکی بھی ازحد ضروری ہے۔ مخاطب کو اپنا پس منظر بتانا بے کار ہے، جو سامنے والے کو بخوبی نظر آرہا ہوتا ہے، اسے تو یہ بتانا اس کے پاؤں اکھیڑ دیتا ہے کہ اس کے عقب میں کھائی ہے، ذرا محتاط رہے، جوہری طاقت ہمارا پس منظر ہے جو ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا خود تذکرہ کرنا ہمارے بجائے بھارت کو فائدہ دے گا۔ہمیں بھارت کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اسے کس کھائی میں گرا سکتے ہیں، ہمیں برہان وانی کا تذکرہ تازہ رکھنا ہے، بھارتی اقدامات کے نتیجے میں برہان وانی پیدا ہوں گے، جن کی ہم مدد کریں گے، بھارت یہ کڑوی گولی نگل نہیں پائے گا، نہرو کی طرح مودی بھی اقوام متحدہ جاکر سانس بحال کرے گا۔ مضبوط موقف بھی جوہری دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔

The post تنازع جموں و کشمیرکا حل: ممکنہ آپشنز appeared first on ایکسپریس اردو.

اب کوئی بھی زبان ’’غیرملکی‘‘ نہیں رہی

$
0
0

 کسی دو افراد کے مابین با ت چیت یا گفتگو ’’کمیونی کیشن‘‘ کہلاتی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے سے بنا کسی رکاوٹ یا جھجک کے اپنے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

اگر دونوں کو گفتگو کے الفاظ سمجھنے میں کوئی دشواری ہو یا تیکنیکی خلل واقع ہو، جب بات فون وغیرہ سے ہورہی تو کمیونی کیشن نامکمل اور ادھوری رہتی ہے۔ اگر صورت حال کے برعکس آپ کا مخاطب ایک اجنبی زبان بولتا ہے تو پھر تو مشکلات کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں جس کے لیے آپ کو ایک عدد ترجمان درکار ہوتا ہے، جو کہ دونوں زبانیں بخوبی جانتا ہوں، لیکن اس طریقے میں بھی بس مقصد کی بات ہی ہوسکتی ہے۔

یورپ میں ترجمہ کرنے والی الیکٹرانی مشینوں کا تصّور نیا نہیں ہے۔ 60 ء کے عشرے سے وہاں ایک دوسرے ملکوں کی زبانیں میں گفتگو کے لیے کیکیولیٹر کی طرح کی ڈیوائس تھیں جن میں کم ازکم چھ زبانوں کو ترجمہ کے تبادلے کے لیے رکھا گیا تھا۔ فی زمانہ کیوںکہ ’’ٹیلی کمیونیکیشن‘‘ یا مواصلات کا دور ہے اور دنیا اب ایک ’’گلوبل گاؤں‘‘ بن چکی ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اطلاعات کا انقلاب آچکا ہے جہاں انٹرنیٹ پر دنیا بھر کی مختلف الانسل قوموں اور ان کی اجنبی زبانوں سے وابستہ پڑنا عام معمول کی بات ہے۔

اس ضمن میں سب سے پہلے سوفٹ ویئر ’’یونیورسل ٹرانسلیٹر‘‘ متعارف کروایا گیا تھا جو کہ دنیا کی 100 زبانوں میں ترجمہ کرتا ہے اس کے بعد گوگل نے اپنا آن لائن ’’گوگل ٹرانسلیٹ‘‘ لاؤنچ کیا جو کہ فوری ترجمے د نیا کی 90 زبانوں میں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی ویب سرچ انجن نے ’’یانڈیکس ٹرانسلیٹ‘‘ کے نام سے اپنا ترجمان رکھا ہوا ہے۔ کمال مہارت کے یہ ٹرانسلیٹزر تلفظ کی درستی کے لیے بولتے بھی ہیں۔ ان دونوں ترجمانوں کی مدد سے اب دنیا کی کسی بھی غیرملکی زبان کی ویب سائیٹس پر ’’نیوز‘‘ یا ’’مضامین‘‘ کا فوری طور پر ترجمہ کرایا جاسکتا ہے جوکہ درست ترین ہوتا ہے۔ فوری ترجمے کی سہولت انقلابی دریافت تھی لیکن اب بات اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔

حال ہی میں جاپانی ایجاد کاروں نے ترجمان مشینوں کے معاملے میں میں ایک بڑی جست لگائی ہے ترجمہ کرنے والی کمپیوٹرائز مشین کو اب ایک ’’موبائل ٹرانسلیٹر‘‘ میں بدل دیا جو کہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے اور ترجمے کے لیے فوری تیار ہے۔ اس ٹرانسلیٹر میں یورپی زبانوں کے ساتھ ایشیا میں بولی جانے والی تمام بڑی زبانوں کو بھی شال کیا گیا ہے جو کہ جاپانیوں کی بڑی کام یابی ہے۔ یہ ایجاد ایک انقلابی قدم ہے جس نے زبانوں کی رکاوٹوں اور مشکلات کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ جاپانی موجدوں نے دو ڈیوائس مارکیٹ میں متعارف کروائی ہیں۔ ان میں ایک “Elite Translate” اور دوسری “Muama Enence” کے نام سے ہے، جو بہت سرعت کے ساتھ عوام میں پذیرائی حاصل کررہی ہیں۔

تحقیق کاروں کے مطابق دیکھنے میں آیا ہے کہ 86 فی صد زبان سکھانے کے پروگرام غیرمؤثر اور بے سود ہوتے ہیں اور مطلوبہ خواہش وضرورت کے مطابق تقاضوں کو پور ا نہیں کرپاتے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زبان سیکھنے کے کورسز جو طالب علم آن لائن کرتے ہیں ان میں 10 میں سے 9 شاگرد اپنے کورس کی تکمیل کے بعد حاصل نتائج سے ناخوش رہے ہیں جب کہ انہوں نے سیکڑوں نہیں ہزاروں روپے زبان سیکھنے کے کورسوں پر خرچ کیے ہوتے ہیں۔ اسی خامی یا کمی کے ازالے اور خوش اسلوبی سے خواہشات کی تکمیل کے خاطر ہی جاپانی ٹرانسلیٹر MUAMA Enence کو وجود میں لایا گیا ہے جو آپ کو بلاوجہ کے اخراجات اور الجھنوں سے بچاتا ہے اور اس سے اب آزادانہ رابطے کیے جارہے ہیں۔

عام سوچ رہی ہے کہ پردیس کے سفر میں مقامی لوگوں سے آزادانہ کھل کر گفتگو کی جاسکے اور ان سے سماجی و ثقاوتی امور پر بلاتکلف بات چیت کرنا آسان ہو! یقیناً یہ آپ کی بھی آرزو رہی ہوگی؟ اس نئے جاپانی ترجمان نے اب اس خواب کو ممکن کر دکھایا ہے جس کی مدد سے دنیا بھر کی چالیس سے زائد زبانوں کو سنا جاسکتا اور ان کا ترجمہ ممکن ہے، وہ بھی محض دو سوئچز دبانے اور چھوڑنے پر۔ اس میں اب نہ صرف آپ کا کسی غیرملکی زبان سیکھنے کی بور کردینے والی کلاسوں کو جوائن کرنا پڑے گا اور نہ ہی ان کے اخراجات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

وقت اور پیسہ دونوں بچائیں اور سفر میں وہ  لسّانی مشکلات نہیں اور نہ ہی ناہمواریاں جو مسافروں کو شرمندہ کرتی تھیں۔ غیرملکی زبانیں روانی سے بولنے کے لیے اعلیٰ ہنرمندی کی صلاحیت درکار ہوتی ہے جوکہ ہر شخص میں نہیں ہوتی۔ کاروباری نقطہ نظر سے کسٹمرز سے ان کی لوکل زبان میں ہم کلام ہونا بڑا مفید اور کارآمد ہوتا ہے۔ ایسی اسمارٹ ڈیوائسز پہلے سے موجود ہیں جو یورپ کی مخصوص زبانوں میں ترجمے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، ان میں چینی اور جاپانی کو بھی شامل کرلیا گیا ہے، لیکن حالیہ جاپانی ڈیوائس نے دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کی سہولت پیش کردی ہے۔

٭  MUAMA Enence کیسے کام کرتا ہے؟

یہ ٹرانسلیٹر مشین آپ کے الفاظ، فقرے یا طویل جملے ڈیوائس پر ریکارڈ کرتی ہے اور ان تحریروں یا صوتی آوازوں کا ترجمہ کردیتی ہے جو کہ نہایت درست ہوتا ہے۔ اب اس کی مدد سے سوئچ ‘A’ کو دبائیں اور روک کررکھیں: اپنی زبان میں بولیں! اب سوئچ ‘A’ کو چھوڑ دیں: آپ کا ٹرنسلیٹر خود بخود آپ کی بات یا بیان کا ترجمہ غیرملکی زبان میں سناتا ہے اور آپ کا غیرملکی میزبان یا مہمان ترجمہ کی گئی بات کو اپنی بولی میں سن لیتا ہے۔ پھر سوئچ ‘B’ کو دبائیں اور روک کر رکھیں: آپ کے مخاطب دوست یا ملاقاتی کی بات کو ڈیوائس ریکارڈ کرتی ہے، اب سوئچ ‘B’ کو چھوڑنے پر مخاطب کا ترجمہ کرتی ہے اور سنادیتی ہے گویا مواصلات یا کمیونی کیشن مکمل ہوگئی۔ اجنبی اپنی زبان میں گفتگو سن کر حیران رہ جاتے ہیں اور خوشی سے اس کا جواب دیتے ہیں اور مقامی زبان میں جواب دے کر اجنبیت کے احساس کو بھی رفع کررہے ہوتے ہیں۔ چناںچہ ان کے مابین یہ اسمارٹ ڈیوائس ایک ترجمان کی طرح خدمات انجام دیتی ہے۔

سہل، تیز اور درست ترین صوتی آوازوں والی ترجمانی کرتا یہ جیبی ٹرانسلیٹر استعمال کے لیے نہایت موزوں ہے۔ جو زبانیں دوسری زبان سے تبادلے کے لیے اس میں انسٹال کی گئی ہیں وہ کامل ترین ہیں اور دوطرفہ فوری ترجمے کو قابل عمل بناتی ہیں۔ ٹرانسلیٹر بولے یا لکھے گئے پیغام کو سمجھتا ہے، جس کے نتیجے میں ترجمہ کرکے بولتا ہے جس میں غلط کمیونی کیشن کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اسی لیے گرامر یا ہجّے کی وجہ سے سے ہونے والی شرمندگی کا خوف باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ روزمرہ استعمال کی ایک مفید ڈیوائس بن چکی ہے، کیوںکہ اس سے پہلے کبھی اس طرح سے رابطہ نہیںکیا جاسکتا تھا۔ آپ درج ذیل غیرملکی زبانوںکا ترجمہ اپنی زبان میں کرواسکتے ہیں: انگریزی (برطانیہ۔ امریکا۔ آئرلینڈ)، چینی (مینڈرین: روایتی تائیوانی اور چینی مینڈرین ہانگ کانگ)، جاپانی، کوریائی، پرتگالی (برازیلی اور پرتگالی)، ہسپانوی (میکسیکن اور کیٹالین)، عربی، فرانسیسی (فرانس اور کینیڈا)، سوئیڈش، ہنگرین، چیک، پولش، ڈینش، انڈونیشین، تیگالوگ (فلپائنی)، مالی، بلغارین، کروشین، رومانی، نارویجین، یوکرائینی، ترک ، ویت نامی، سلویک، اٹالین، فنش، جرمن، روسی، یونانی، تھائی، ہندی، تامل اور تیلگو (انڈیا)۔ اگر آپ کے پاس اسمارٹ جاپانی ٹرانسلیٹر ہے توا ب کوئی بھی زبان ’’فارن لینگوئج‘‘ نہیں رہی!

عام لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ دوسری اجنبی زبانوں کے کورسسز اور بورنگ کلاسیں اٹینڈ کیے بغیر ان زبانوں کو اعتماد سے بول سکیں۔ جب آپ کہیں سمندر پار سفر پر ہوں دیارغیر میں ہوں تو اس کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور مقامی بولی سے ناوافقیت کے سبب ایک پریشانی بن کر آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ مقامی لوگوں سے تسلی بخش رابطے سے محروم رہتے ہیں۔ اسی لیے زبانوں کی رکاوٹوں سے ہٹ کر آزادانہ تبادلہ خیال مسافروں کا ایک خواب ہی رہا تھا لیکن اب دنیا بدل چکی ہے جاپانی ٹرانسلیٹر نے اس بڑی رکاوٹ کو دور کردیا ہے۔ اب آپ اس ترجمان سے ساری دنیا ہی کی اہم زبانوں میں ان کے بولنے والوں س بات کرسکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔

دنیا میں کہیں بھی اب غیرملکی دوستوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مقامی یا غیرملکی لوگ آپ کے لب ولہجہ اور تلفظ کی وجہ سے آپ کا مذاق اُڑاتے ہیں اور آپ کی نقل کرنے لگتے ہیں جو کہ آپ ان کے نام وغیرہ لیتے ہوئے بولتے وقت ادا کرتے ہیں۔ یقینی طور پر سب ہی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ زبان کا اختلاف دنیا کا بہت بڑا خلیج ہوتا ہے جب کہ آپ سمندرپار سفر میں ہوں۔ آپ نے بھی کبھی پردیس میں براہ راست سفر کے دوران شاپنگ کے وقت یا ٹیکسی کے حصول کے لیے بات کرتے ہوئے شرمندگی کا سامنا کیا ہوگا اور اعتماد کی کمی کے سبب شرمندگی محسوس کی ہوگی؟ تو پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے اس طرح کی صورت حال کا سامنا قریب قریب سب ہی کو ہوتا رہا ہے جو مطالعاتی جائزے سے آشکا ر ہوتا ہے۔

درست زبان نہ بولنے کی شرمندگی ایک فطری احساس ہے لوگوں کی اکثریت کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کا سیاحتی سفر کرتے ہیں یا کیریئر کی تلاش میں ہوتے ہیں، لیکن سیاست داں اور کاروباری حضرات اس مسئلے کے حل کے لیے بہترین انتظام کرتے ہیں۔ وہ یہ ٹرانسلیٹر ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے اسکے برعکس کہ وہ اپنے ساتھ ایک ترجمان یا انٹرپریٹر رکھیں یا اپنا بیش بہا قیمتی وقت اور سرمایہ زبانوں کے سیکھنے پر صرف کردیں۔ آپ کو بھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، بس آپ کا اپنا فوری ترجمان کو کسی مخصوص جگہ نہیں بلکہ اپنی جیب میں رکھ کر گھومیں۔ کسی ترجمان پر رقم ضایع کرنے کی اب چنداں ضرورت نہیں رہی ہے۔

MUAMA Enence موُاِیما اِنینس: جاپان کی ایک ہائی ٹیکنالوجی ایجاد ہے جو آپ کو قریب قریب دنیا کی ساری اہم زبانوں میں گفتگو کرنے کی سہولت فراہم کررہی ہے، جس نے غیر اور بالکل اجنبی زبان بولنے والوں سے ہماری بات چیت کو ممکن بنادیا ہے۔ یہ موبائل جیسا ٹرانسلیٹر ہے جو نہایت کمپیکٹ اور استعمال میں دوستانہ ہے۔ یہ 30 سیکنڈ کے اندر اپنے کام کی انجام دہی کے لیے تیار اور روبہ عمل ہوتا ہے اور اجازت دیتا ہے۔ دنیا کی اہم ترین زبانوں سے ترجمہ کرنے اور بولنے کے ساتھ یہ ان کا ریکارڈ محفوظ بھی رکھتا ہے جس نے کثیرالذبانی مواصلات میں نئی سمتیں مقرر کردی ہیں۔ جاپانی اسٹیٹ آف دی ٹیکنالوجی کا یہ تازہ شاہ کار ہے جو بوقت ضرورت کہیں بھی مختلف زبانیں بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھادیتا ہے۔

چاہے وہ کوئی مرد ہو یا پھر خاتون۔ یہ مختصر سائز اور ذہانت کا نمونہ ہے جس کی کارکردگی جھٹ پٹ مکمل ہوتی ہے۔ یہ پہلے پیغام سنتا ہے اور پھر ریکارڈ کرتا اور اس کا ترجمہ دنیا کی 43 زبانوں میں کرڈالتا ہے۔ اب اس ڈیوائس کی مدد سے سہولت کے ساتھ تیزترین مواصلاتی رابطے کے تصّور کو حقیقت میں بدل دیا گیا ہے۔ چاہے آپ سفر میں یا کاروباری بات چیت میں، ہر ایسی جگہ پر اس کا استعمال نہایت مفید اور موزوں ہے اور آپ کی جیب میں ہے۔ میوایما نے فوری تیز ترین ترجمان کے طور پر رابطے کو بے حد آسان کردیا ہے۔ اگرچہ یہ جدید ٹیکنالوجی سے مزّین ڈیوائس ہے اس کے باوجود اس کا آپریٹ کرنا بہت آسان ہے۔ اس ٹرانسلیٹر میں لکھنے کی سہولت بھی ہے۔ اس کی مقبولیت کا راز ہے بروقت ترجمہ، دوطرفہ عمل کے ذریعے تمام تبادلے والی بڑی زبانیں، استعمال میں نہایت آسان، جیب میں بہ آسانی سماجانے والا، چار دنوں کی بیٹری چارجنگ لائف، 1.5s ری ایکشن ٹائم، اونچی، جان دار آواز اور اعلیٰ کوالٹی والی ریکارڈنگ، وقت کی بچت اور مناسب قیمت جو ہر ایک کی دسترس میں ہے۔

ترجمان ڈیوائسز کو شروع میں مخصوص اشرافیہ کے لیے بنایا گیا تھا جیسے کہ سیاّح اور صحافی وغیرہ جو اکثر بیرونی سفر میں رہتے ہیں۔ اب ان ڈیوائسز ’’میوایما انینس‘‘ اور ’’ایلیٹ ٹرانسلیٹ‘‘ نے بڑی مقبولیت اور پذیرائی حاصل کرلی ہے۔ اب یہ سماجی کارکنوں اور رضاکاروں کی اولین چوائس ہے۔ جاپانی ٹرانسلیٹر مُوایماانینس کی قیمت 178 ڈالرز رکھی گئی ہے جو کہ پاکستانی 27590 روپے ہے جب کہ تعارفی طور پر اس کی قیمت آدھی کی گئی ہے جوکہ 89 ڈالر ہے یعنی 13750 روپے، جب کہ ایک یا ایک سے زائد ڈیوائسز کی خریدار ی پر مزید ڈسکاؤنٹ بھی دیا جارہا ہے۔

The post اب کوئی بھی زبان ’’غیرملکی‘‘ نہیں رہی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>