Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر74

فقیر، لوہار بابا کے سنگ جیون رس پیتا رہا اور جیتا رہا اور ایسا رس کہ اس کا ذائقہ بیان نہیں کیا جاسکتا جی! کیا آپ جیسا دانا عالم فقیر کو آب جو حیات ہے، کا ذائقہ بتا سکتا ہے ۔۔۔۔ ؟ واہ کیا بات تھی ان کی! ایک ہی کام تھا اُن کا کہ سخی تھے اور فرماتے اپنا سب کچھ خلق کا سمجھو، تمہارا کہاں سے آگیا جی، سب کچھ رب تعالٰی کا ہے جی، ہاں یہ جو آپ کے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک غرض پورا جسم ہے، کیا تمہارا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ جی ہمارا ہے تو کیا پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے اور کتنے کا خریدا ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں تمہارا، اصل تو یہ ہے کہ قلاش ہو تم، کچھ نہیں تمہارا، یہ جو بہ قول تمہارے ہاتھ پاؤں آنکھ کان جو ہیں یہ تو تمہارے خلاف رب کے حضور تمہارے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔

نادان سمجھتا ہے یہ سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے۔ تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دور کرو اور اسے سکھ پہنچاؤ۔ اپنی محبّت کو تقسیم کرو، ایثار بانٹو، سکھ پھیلاؤ، اجالا کرو اور کسی سے بھی کوئی توقع مت رکھو، اس کے اعمال سے بھی کہ تم کوئی کوتوال مقرر نہیں کیے گئے، اسے جس نے بنایا ہے وہ وہی اس سے پوچھ سکتا ہے، اسے سزا دے سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔

اس لیے کہ وہی ہے اس کا خالق، اسے ہی زیبا ہے کہ وہ اپنے بندے کے ساتھ کیا برتاؤ کرے، تم کہاں سے آگئے اس سے بازپرس کرنے والے، ہاں ایک عادل نظام میں وہ لوگ اس سے ضرور پوچھ سکتے ہیں جو اس کام پر مقرر کیے گئے ہوں کہ نظام زندگی میں خلل واقع نہ ہو، اور کسی کو تو کوئی اختیار ہی نہیں کہ وہ خود ہی محتسب و منصف بن جائے، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس آسانیاں تقسیم کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ تمہارا کام ہی یہی ہے۔ ہاں پسے ہوئے مقہور، ستم رسیدہ و مفلوک الحال انسانوں کے ساتھ کھڑے رہو، کہ وہ انسان ہوتے ہوئے غلام بنا لیے گئے ہیں، انہیں غلامی و مفلسی سے باہر نکالنے کی جہد کرو کہ یہی ہے شرف انسان، کوئی بڑا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی اعلٰی و ارفع کیسے ہوسکتا ہے، رنگ و نسل ہو یا مال و اسباب کوئی امتیاز نہیں ہے یہ کہ وہ اعلٰی ہے، نہیں وہ اک انسان ہے بس جیسے سب انسان ہیں اور اگر کوئی افتخار ہے تو بس یہ کہ وہ اپنے خالق سے کتنا جُڑا ہوا اور اس کی مخلوق کے لیے کتنا نافع ہے۔ تو بس انسان بنو خدا نہیں کہ وہ تم کبھی بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی بھی نہیں۔

فقیر نے اپنے لوہار بابا کو ایسا ہی پایا کہ خلق خدا کے لیے جیتے اور ان کے دکھ کو سکھ میں بدلنے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ جلال ایسا کہ کوئی جابر و ظالم و استحصالی ان کی تاب ہی نہیں لا سکتا تھا اور ریشم ایسے کہ مفلسین و مقہورین عام انسانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ان کی معصوم بچوں کی طرح نگہہ داشت کرنے والے، ہمارے لوہار بابا۔ کسب حلال رزق کو لقمہ بنائے ہوئے اور اپنے لقمے سے خلق کو کھلانے والے۔ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کو شرف انسانیت کی تحقیر اور خدا کی توہین قرار دینے والے اور کوئی ان کے سامنے دست سوال دراز کرے تو اسے نواز دینے والے۔ دیکھیے کیا یاد آگیا کہ اک راضی بہ رضائے الہی تھے۔

ایک دن وہ اپنے احباب کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر اپنی حاجت بیان کی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، گھر میں جو کچھ تھا اس کے سامنے لا رکھ چھوڑا۔ وہ سوالی جب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا تو اشک بار ہوئے اور ایسے کہ مت پوچھیے۔ احباب نے کہا ایک سوالی نے آکر سوال کیا اور آپ نے اسی وقت کوئی سوال کیے بنا ہی اس کی حاجت کو پورا فرما دیا تو اب کیوں اشک بار ہیں۔ تو فرمایا: اس لیے اشک بار ہوں کہ میں کتنا بے خبر ہوں کہ میری بے خبری نے اسے میرے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت پر مجبور کیا، مجھے اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت روائی کرنا چاہیے تھی، وہ میری کوتاہی سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا اب میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔۔ ؟

کچھ سمجھ میں آیا آپ کو۔ اگر آگیا ہے تو مبارک! اب آپ بھی جیون کے اصل رس کا ذائقہ جان چکے ہیں تو بس اب کوئی آپ سے یہ چھین نہیں سکتا، پیتے چلے جائیے اور جیتے چلے جائیے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اب آپ جوہر ہستی سے آشنا ہوچکے ہیں اور نوید ہو کہ جوہر ہستی کبھی بھی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔

اس کمّی کمین، نااہل، بے علم اور آوارہ فقیر کو رب تعالٰی نے اپنے کیسے کیسے نایاب بندوں کی صحبت سے نوازا، حمد ہے بس اسی کی۔ ایک اور تھے جو مذہباً ہندو تھے، نام تھا ان کا ہَرجی، لیکن فقیر انہیں آج بھی ہَِرجی باپُو پکارتا ہے۔ جانتے ہیں ناں آپ باپُو، باپ کو کہتے ہیں۔ رب تعالٰی نے چاہا تو کسی اور وقت ان کا بھی احوال گوش گزار کرے گا فقیر، سردست تو بس ایک یاد پر اکتفا کیجیے۔

باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ وہ پہلے ایک وکیل کے پاس منشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔

ایک دن فقیر نے پوچھا: باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ ۔۔۔ !

مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا، میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔

کیا جو کھائے پیے اور جیے بس وہ انسان ہوتا ہے؟ فقیر نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔ اور پھر دانش برسنے لگی اور کہنے لگے: دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔

دوسرے کا دُکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سُکھی رہیں۔ دُکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے، سب نہال رہیں۔ انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے! وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔

کیوں ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا۔

اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔

کون سی بات باپُو؟ فقیر نے دریافت کیا۔

وہی دانے اور چونچ والی۔

ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے: ’’جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔‘‘

دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکّل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پَر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے سوال اٹھایا۔

یہ تجھے کیا ہوگیا ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتّا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔ انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، محبت ہی محبت وہ سب کو دیتا ہے۔

لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا ناں۔۔۔۔۔! فقیر نے جاننا چاہا۔

پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ! تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا ؟ باپُو نے پوچھا تو فقیر نے کہا:

رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔

’’ہاں ہاں وہی۔‘‘

باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ’’سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔‘‘

دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبّت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ عام لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔

اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟

نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے!

کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے، دکھتا تو انسان جیسا ہی ہے۔

تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنا چاہیے: ’’اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔‘‘

مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو فقیر کو بھی سمجھائیے۔

سوائے زر نہیں کچھ بھی امیرِ شہر کے پاس

کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہوگا

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


مقبوضہ کشمیرکی صورتحال نے فیصلہ سازوں کو اب ریڈیو کی اہمیت کا احساس دلایا ہے

$
0
0

(آخری قسط)

مقامی محکمہ تعلیم کے اہلکار رانا محمد وقاص نے بتایاکہ ملک بھر کے میڈیکل کالجز،انجینئرنگ یونیورسٹیوں اوردیگر تعلیمی اداروں میں گلگت بلتستان کے طلبہ وطالبات کے لئے نشستیں مختص ہونے کے باعث بہت سے غیر مقامی لوگ بھی یہاں کا ڈومیسائل بنوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس لئے سرکاری طور پر اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر مقامی شخص اپنے بچوں کے لئے گلگت بلتستان کا ڈومیسائل نہ بنوا سکے۔ گلگت بلتستان کے بے شمار لوگ عرصہ دراز سے کراچی،راولپنڈی،لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ان کے بچے زیادہ بہتر تعلیمی اداروں میں پڑھتے اور گلگت بلتستان کے لئے پیشہ ورانہ کالجز میں مختص نشستوں پر داخلہ لے لیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں گلگت بلتستان کے دور افتادہ مقامات پر تعلیمی سہولیات اس قدر نہیں ہوتیں کہ وہ بچے راولپنڈی،لاہور یا کراچی میں پڑھنے والے بچوں سے مقابلہ کر سکیں۔ رانا محمد وقاص سے انٹرویو ریکارڈکرنے کے بعد ہم نے ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا۔

شام گہری ہو چلی تھی اور گوپس میں اپریل میں بھی شدید سردی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد میں ریڈیو پاکستان گلگت کی نشریات سننے کی کوشش کی تو دس کلو واٹ کے چالیس برس پرانے میڈیم ویو ٹرانسمیٹرکے سگنلز بہت کمزور تھے۔ اس جاپانی ٹرانسمیٹرکی اینا لاگ ٹیکنالوجی اب پوری دنیا میں متروک ہوچکی ہے۔ اب ڈیجیٹل ٹرانسمیٹر بنتے ہیں جو کم جگہ گھیرتے اور بہترین نتائج دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ڈیجیٹل ٹرانسسٹر پردوسری فریکینسیز چیک کیں تو ریڈیو تہران،ریڈیو چائنا، ریڈیو کابل، آل انڈیا ریڈیو ، بی بی سی، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی،اور دیگر کئی نامعلوم ریڈیو سٹیشنوں کی نشریات گوپس میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان کا صرف ایک سٹیشن گلگت یہاں سنائی تو دے رہا تھا لیکن اس کے سگنل بھی کمزور تھے۔

ریڈیو نشریات صاف سنائی نہ دے رہی ہوں تو سامعین کو سٹیشن بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کو سمجھ نہیں آتی۔ شہروں میں رہنے والے بیوروکریٹس اور سلامتی سے متعلق ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان اب ایک بے کار ادارہ ہے اور اس پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہو رہی ہے۔دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے گذشتہ چار ماہ سے بلیک آؤٹ کرکے مظالم کا جو نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے بارے میں خبریں اورتاز ہ ترین حالات کے بارے میں پروگرام صرف ریڈیوپاکستان سے نشر ہو رہے ہیں اور اس کی نشریات پورے مقبوضہ کشمیر میں سنی بھی جا رہی ہیں۔ حریت رہنما سید علی گیلانی کے اس بیان کے بعد کہ ’’ہمیں صرف ریڈیو پاکستان اسلام آباد سنائی دے رہا ہے اور اس کے پروگراموں کے ذریعے ہمارا رابطہ بیرونی دنیا سے قائم ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد حکومت کے کار پردازان ریڈیو پاکستان پر چڑھ دوڑے کہ سکردو ،گلگت اور میر پور میں نئے ٹرانسمیٹر کتنے دنوں میں کام شروع کر سکتے ہیں۔

اُنہیں بتا یا گیا کہ ریڈیو پاکستان گلگت اور سکردو کے ٹرانسمیٹر چالیس برس پرانے ہیں، انہیں تبدیل کرنے کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات کو کئی بار لکھا جا چکا ہے لیکن مطلوبہ فنڈز مختص نہ ہونے کے باعث ان پرانے ٹرانسمیٹروں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو بھلا ہو جاپان کی بین الاقوامی امدادی ایجنسی جائیکا کا جس نے حال ہی میں ریڈیوپاکستان اسلام آباد کے لئے پانچ سو کلو واٹ کا ایک نیا ڈیجیٹل ٹرانسمیٹر مہیا کیا ہے اور جس کی نشریات مقبوضہ کشمیر میں سنائی دے رہی ہیں۔ یہاں ایک اور تلخ حقیقت سے قارئین کو آگاہ کرتا چلوں جس سے حکومت کی ریڈیو پاکستان کے حوالے سے ترجیحات کی زیادہ صحیح عکاسی ہو سکتی ہے۔ 8۔ اکتوبر2005؁ء کو آنے والے زلزلے میںریڈیو مظفرآباد کی عمارت اور ملحقہ کالونی مکمل طور پر منہدم ہو گئی تھی۔کالونی میں کئی افراد لقمہ اجل بنے۔

اس ریڈیو اسٹیشن اور کالونی کی تعمیربلا تاخیر کی جانی چاہیئے تھی لیکن منصوبہ بندی کی منظوری اور مطلوبہ رقم کی فراہمی کے ذمہ داراداروں کی غفلت اور چشم پوشی کے باعث ریڈیومظفرآباد کی عمارت کی تعمیر بارہ برس بعد شروع ہو پائی۔ اربوں ڈالر کی بیرونی امداد میں ریڈیو مظفر آباد کی عمارت،کالونی اور نئے ٹرانسمیٹر کے لئے چند لاکھ ڈالر نہیں تھے۔اس سارے عرصہ میں ریڈیو مظفر آباد کنٹینروں میں قائم سٹوڈیوز اور دفاتر میں کام کرتا رہا۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کوئٹہ، لاہور، خیر پور، کراچی، چترال، سکردو، گلگت، ژوب، لورالائی،خضدار،تربت،حیدرآباد اور ایبٹ آباد کے ٹرانسمیٹر پرانے اور فرسودہ ہوجانے کی وجہ سے تبدیل ہونے کے منتظر ہیں۔یہ بات تو طے ہے کہ گوپس اور اسی طرح کے دورافتادہ مقامات پر ریڈیو پاکستان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت وہاں کے لوگ خبروں،تفریح اور پروگراموں کے ذریعے حالات حاضرہ سے آگاہ رہ سکتے ہیں۔

ان علاقوں میں اخبارات کی رسائی ممکن نہیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی دستیابی موجود نہیں۔کہیں بجلی دستیاب نہیں تو کہیں کیبل نہیں ہے۔ایسے حالات میں صرف ریڈیو پاکستان ہی رہ جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کروڑوں لوگوں تک رسائی ہو سکتی ہے۔    دوسرے دن صبح کے معمولات سے فارغ ہو کر ہم نے وادی یاسین کی راہ لی لیکن اس سے پہلے ہم نے گوپس سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع خلتی جھیل کا نظارہ کیا۔جو 2010؁ء میں عطا آباد کے واقعہ ہی کی طرح کے پچاس برس پہلے رونما ہونے والے سانحہ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ خلتی جھیل سردیوں میں منجمد ہو جاتی ہے اور علاقہ کے نوجوان اس کی جمی ہوئی سطح پر کرکٹ اور فٹبال کھیلتے ہیں۔

ہم نے دریائے غذر پار کیا اور وادی یاسین میں داخل ہوگئے۔راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے ہیں جن میں وسیع و عریض کھیت نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی دور میں غذر کی وادیاں اشکومن، یاسین اور پونیال پورے گلگت بلتستان بلکہ چترال کے لئے بھی غلہ فراہم کرتی تھیں۔ ہندور پہنچے تو گاؤں کی آبادی سے دو فرلانگ کے فاصلے پر حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کے مزار پر سب سے پہلے حاضری دی۔ وہاں لالک جان کے چچا سے ملاقات ہوئی، ان کا بھی ایک بیٹا لالک جان کے ساتھ کارگل جنگ میں شہید ہوا تھا۔لالک جان کے مزار کے اردگرد کارگل جنگ کے تقریباً دس شہدا کی قبریں موجود ہیں۔ ان سب کا تعلق ہندور گاؤں سے تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث انتہائی حسین وادی درکوت جانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

گوپس سے واپس گلگت آتے ہوئے جب ہم گاہکوچ سے گیارہ کلومیٹر پہلے واقع ایک مقام ہوپر پہنچے تو واجد علی نے بتایا کہ یہاں ایک مقامی نوجوان نے اپنی آبائی زمین اور گھر کو سیر گاہ میں تبدیل کررکھا ہے۔اُس نے اپنی زمین میں لگے ہوئے اخروٹ کے درختوں کو ریسٹورنٹ کی نشست گاہوں کی شکل دے دی ہے۔ میں نے گاڑی کا رخ ہوپر کی اس سیر گاہ کی طرف موڑا جو سڑک سے قدرے اونچائی پر انگور ،سیب اور انار کے درختوںمیں گھرے ہوئے راستے پر واقع ہے۔اس اوپن ائر ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں پہنچے تو یہ دیکھ کرطبیعت خوش ہوگئی کہ ایک سر سبز پہاڑی ڈھلان پر چشمے بہہ رہے ہیں۔ پانچ درختوں پر لکڑی کی سیڑھیاں ہیں اور درختوں پر زمین سے پندرہ اور بیس فٹ کی اونچائی پر ایسے چبوترے بنے ہوئے ہیں جن پر نہایت آرام و سکون سے بیٹھ کر اردگرد کے نظاروں اور کام ودہن کی تواضع سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔اخروٹ کے ایک بہت بڑے اور گھنے درخت کے نیچے بھی کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے اور مقامی سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔

سڑک سے اس سیرگاہ کے سب سے اونچے مقام تک کم و بیش ڈیڑھ دو سو فٹ کی بلندی تھی۔ ہم نے دوپہر سے عصر تک کا وقت ہوپر کی اس منفرد سیر گاہ میں گذارا۔ کھانا کھایا، چائے پی، اور اُس باصلاحیت نوجوان کا انٹرویو بھی کیا جس نے اپنے اس ریسٹورنٹ کی نچلی منزل پر اپنے صدیوں پرانے قدیم گھر کو اُس کی اپنی حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ تاکہ یہاں آنے والے سیاح یہاں کی پرانی بود وباش کے انداز سے بھی آگاہ ہو سکیں۔ اس پرانے گھر کی چھت کافی نیچی ہے اور ہمیں سر جھکا کر اس میں داخل ہونا پڑا۔ یہ گھر ایک بڑے ہال نما لاؤنج پر مشتمل ہے۔جس کے وسط میں انگیٹھی بنی ہوئی ہے جو بیک وقت کھانا پکانے اور گھر کو گرم رکھنے کے کام آتی ہے۔ اس نوجوان نے گریجویشن کررکھی ہے۔روزگار کے خاطر خواہ مواقع نہ ہونے کے باعث اُس نے اپنی زمین کواوپن ائر ریسٹورنٹ میں تبدیل کرنے کی ٹھانی۔

اپریل  2016؁ء میں یکم دو اور تین تاریخ کو گلگت  بلتستان کے طول وعرض میں بارشیں ہوئیں۔ اس بارش کے نتیجے میں بشام سے لے کر خنجراب تک شاہراہ قراقرم جگہ جگہ سے لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر بند ہوگئی۔گلگت کا رابطہ پورے پاکستان سے کٹ گیا۔ استور، غذر، دیامر، ہنزہ اور نگر جانے والی سڑکیں بھی بند ہو گئیں۔کئی مقامات پر پہاڑی تودے گرنے سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔تین اپریل کو اتوار کا دن تھا۔ نلتر کے اٹھارہ میگاواٹ کے پن بجلی گھر کو پانی مہیا کرنے والی نہر ناقص میٹریل استعمال کرنے کی وجہ سے ذرا بھر بارش یا برف باری کی صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور اب تو بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بجلی گھر بند اور گلگت اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔اس بجلی گھر کے لئے پانی مہیا کرنے والی نہر کی مرمت دوچار روز میں ممکن نہ تھی۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ ریڈیوپاکستان گلگت کی نشریات کو جاری رکھنے کے لئے ہمیں اٹھاسی لیٹر ڈیزل روزانہ کی بنیاد پر درکار تھا۔ کیونکہ ریڈیو پاکستان گلگت کو اُس وقت تک بجلی کا دہرا کنکشن مہیا نہیں کیا گیا تھا اور صدر دفتر  نے اکتوبر2015؁ء سے ڈیزل کی مد میں رقم منظور کرنے اور بھیجنے کا سلسلہ ترک کر رکھا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ تما م قومی پروگرام بشمول قومی خبریں، صدر اور وزیراعظم کے قوم سے خطاب ہمیں ہر حال میں نشر کرنا ہوتے ہیں چاہے اس کے لئے ٹرانسمیشن کو اوقات مقررہ سے زیادہ چلانا پڑے۔ اب جبکہ گلگت میں ہمارے پاس سنگل کنکشن تھا جو کام نہیں کر رہاتھا۔ اب گلگت جیسے حساس علاقے میں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن کیسے بند رکھا جا سکتاہے؟ Standing Operational Procedureیعنی ایس او پی کا تقاضہ ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے ریڈیو اسٹیشن کی ٹرانسمیشن دس منٹ سے زائد وقت کے لئے بند رہے تو صدر دفتر کو فوری طور پر مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ عملی طور پر یہ ہو رہا تھا کہ اسٹیشنوں اور ہائی پاور ٹرانسمیٹرز پر ڈیزل کی عدم دستیابی کی وجہ سے نشریات گھنٹوں بند رہتی ہیں اور صدر دفتر میں کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔

سکردو،گلگت،چترال،ژوب، لورالائی،خضدار،مٹھی،گوادر اور تربت جیسے شہروں میں ریڈیو کے علاوہ اطلاعات کا کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں۔ اگر ان مقامات پر اسٹیشنوں کو چلانے کے لئے بجلی یا جنریٹر چلانے کے لئے ڈیزل موجود نہ ہو تولوگ آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی،ریڈیوکابل، ریڈیوماسکو،اور چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی نشریات پر ہی تکیہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس وقت جبکہ میں یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں تو مقبوضہ کشمیرمیں جاری کرفیو کو پانچ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ٹی وی،کیبل، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی جدید سہولیات بند ہیں۔ وادی کے لوگوں کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ صرف ریڈیو پاکستان کی نشریات کی وساطت سے قائم ہے۔ اس بات کا برملا اظہار حریت راہنماء سید علی گیلانی کئی بار کر چکے ہیں۔ سکردو اور گلگت کے سٹیشنوں کی حالت زار ایسی ہے کہ اُن سے نشر ہونے والے پروگرام اُ ن کے اپنے دائرہ سماعت کے علاقوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ حکومت ریڈیوپاکستان کو مالی وسائل فراہم کرنے میں ہمیشہ سے لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے۔ میرپور او ر مظفر آباد کے اسٹیشن بالترتیب 2005؁ء اور 2019؁ء کے زلزلوں کی زد میں آکر تباہ ہو چکے ہیں۔ مظفرآباد اسٹیشن کی زمین قبضہ گروپوں کی زد میں ہے۔ ٹرانسمیٹروں کی حالت زار بھی پتلی ہے اب ان حالات میں ریڈیو پاکستان کیونکر آل انڈیا ریڈیو کے پنجاب،راجستھان،گجرات اور مقبوضہ کشمیر میں نصب 83 سٹیشنوں اور 105 ٹرانسمیٹروں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔؟ یہ سوال میں وزارت اطلاعات ونشریات، وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے ذمہ داروں پر چھوڑتا ہوں۔ جن کی ساری توجہ ریڈیوپاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے بند کرانے اور اس پرہونے والے خرچ سے جان چھڑانے پر مرکوز ہے۔

جن ممالک کے ریڈیوسٹیشنز گلگت  بلتستان میں سنائی دیتے ہیں وہ اپنے مخصوص مقاصد کے لئے پشتو،اُردو،بلوچی،فارسی، دری،سندھی اور پنجابی زبانوں میں اپنے پروگرام نشر کرتے ہیں۔یہ تمام ممالک اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر یہ پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ پاکستان کو جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے دشوار ترین ہمسایہ ممالک کا سامنا ہے۔ بھارت کھلا دشمن ہے۔افغانستان کو دوسرے ممالک کا آلہ کار بننے میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی،ایران1979؁ء کے بعد سے کھلم کھلا پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اس سے پہلے یہ کام ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتا رہا تھا۔ایسا کیوں ہے ؟ یہ اس تحریر کا موضوع نہیں ہے لیکن بہرحال ریڈیو پاکستان میں عمر عزیز کے تینتیس برس گذارنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تین کھلے اور پوشیدہ دشمن ممالک کی ہمسائیگی رکھنے والے ملک کا دفاع صرف باوردی فوج ہی نہیں بلکہ اس کے ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں۔اس کے ریڈیو اسٹیشن ہر وقت آن ائر رہنے چاہیں۔اور اس کی نشریات اس قدر طاقتور ہوں کہ وہ ہر طرف سرحدوں سے اُس پار پاکستان کا موقف پہنچا سکیں۔ لیکن

’ اے بسا آرزو کہ خاک شد‘

اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے والے سول اور دوسرے حکام کو کون سمجھائے کہ اپنی ملازمت کے دن پورے کرتے رہنا ہی زندگی نہیں۔اس ملک کا باشندہ ہونے اور سرکاری ملازمت کرتے ہوئے اس ملک کے غریب عوام کی محرومیوں کی قیمت پر ہر طرح کی جائز ناجائز مراعات سے لطف اندوز ہونے کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں۔

ویسے تو گلگت  بلتستان میں تمام سرکاری ملازمین کو بشمول ریڈیو پاکستان، اپنی تنخواہوں کا پچیس اور پچاس فیصد بطور ہارڈ ایریا الاؤنس مل رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ الاؤنسز جون2011؁ء کی ابتدائی بنیادی تنخواہ پر منجمد ہیں۔اس انجماد کی وجہ سے یہ دونوں الاؤنسز ملا کر بھی بقدر اشک بلبل ہی بنتے ہیں۔اس لئے وفاقی بیوروکریسی کے افسر گلگت  بلتستان آنے سے کتراتے تھے۔ کیونکہ گلگت  بلتستان میں ایک تو مہنگائی بہت زیادہ ہے دوسرے یہاں کا موسم شدید سرد ہوتا ہے۔ میری طرح کے سر پھرے بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا تبادلہ یہاں کرا کے آتے ہیں۔

اس پر 2009؁ء میں اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گلگت میں ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ وفاق کے غیرمقامی افسران کوگلگت  بلتستان تعیناتی پرتنخواہ کاایک سو فیصد بطورالاؤنس دیا جا ئے گا۔ یہ الاؤنس جاری بنیادی تنخواہ کے برابرملتا ہے یوں یہ رقم کافی بن جاتی ہے اور اب وفاق سے آنے والے افسران یعنی ضلعی اور صوبائی انتظامیہ، پولیس، کسٹمز،انکم ٹیکس اورپوسٹ آفس کے شعبوں سے منسلک افسران ہنسی خوشی گلگت  بلتستان کی پوسٹنگ پر آجاتے ہیں۔

یہ الاؤنس ریڈیو پاکستان کے غیرمقامی ملازمین کو نہیں ملتا۔ میں نے اس حوالے سے پہلے اپنے صدر دفتر اور وہاں سے نفی میں جواب آنے پر وفاقی محتسب کو درخواست دی۔جس پر غیر مقامی ملازمین کے حق میں فیصلہ آیا۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ ریڈیوپاکستان کی انتظامیہ اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے آئندہ اجلاس میں اس امر کی منظوری لے کر وزارت خزانہ کو درکار فنڈز کے لئے لکھے۔اس فیصلہ کو پانچ برس ہونے کو آئے۔میں گلگت میں دو بار تعینات رہنے اور تین برس گذارنے کے بعد واپس اسلام آباد آگیا لیکن آج تک ریڈیو انتظامیہ نے وفاقی محتسب کے اس فیصلہ پر عمل درآمدکے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔

بہرحال ذکر تھا گلگت میں بجلی کی عدم دستیابی کا جس کی بحالی کے امکانات اگلے دو تین ہفتوں تک تو نہیں تھے۔میں نے صدر دفتر میں تعینات کنٹرولر مینٹیننس اینڈ آپریشنز اشفاق گل کو ٹیلیفون پر ساری صورت حال بتائی تو انہوں نے بے بسی ظاہر کی کہ ڈائریکٹر فنانس مہر ممتاز حسین ڈیزل کے لئے کوئی بھی کیس منظور نہیں کر رہے۔آپ اُن سے براہ راست بات کرلیں۔مہر ممتاز حسین مجھ سے بات کرنے سے گریزاں تھے۔شاید انہیں کسی طرح سے بھنک پڑ گئی تھی کہ گلگت کا اسٹیشن ڈائریکٹر کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

بہرحال میں نے کوشش کرکے انہیں گلگت کی ساری صورت حال باالواسطہ طور پر بتا دی اور 1500لیٹر ڈیزل کی منظوری کے لئے ای میل بھی کر دی۔کنٹرولر ایم اینڈ اوکو دوبارہ فون کرکے بتایا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث ٹیلی ویژن کیبل انٹرنیٹ کچھ بھی کام نہیں کر رہا ایسے حالات میں ریڈیو پاکستان کا سٹیشن بند نہیں رکھا جا سکتا۔ پورے علاقہ میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اپنی ٹرانسمشن کا دورانیہ کم کرکے ڈیزل جنریٹر چلائیں۔ تاکہ مکمل بندش سے بچا جا سکے۔میں نے روزانہ نشریات کا دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے کم کرکے نئی کیو شیٹ تیار کرائی اور نشریات جاری رکھیں تاکہ اٹھاسی لیٹر کے بجائے چوالیس لیٹر ڈیزل سے کام چلایا جا سکے۔بجلی کی یہ بندش ایک مہینہ جاری رہی جس کے بعد ہم اپنی نشریات کا دورانیہ بحال کرنے کے قابل ہوسکے۔

تقسیم سے قبل ڈوگرہ راج میںگلگت سے پچاس کلومیٹر دور جگلوٹ کے مقام پرایک سرکاری زرعی فارم قائم کیا گیا تھا جو 1500کنال رقبہ پر محیط تھا۔1948؁ء میں اس علاقہ کے عوام نے جنگ کرکے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور گلگت  بلتستان پاکستان میں شامل ہوا۔تو یہ زرعی فارم وفاقی حکومت کی نگرانی میں آگیا ،حکومتیں بدلتی گئیں اور یہ زرعی فارم الاٹمنٹس اور ناجائز قابضین کی چیرہ دستیوں اور مقامی عملہ کی ملی بھگت سے سکڑتا گیا۔یہاں تک کہ1970؁ء میں 1500کنال کم ہوکر 183کنال رہ گئے۔اس دوران پاکستان زرعی ترقیاتی کونسل بنی تو یہ زرعی فارم اس کی تحویل میں چلا گیا۔بعد میں اسے ماؤنٹین ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر میں تبدیل کردیا گیا۔

پہاڑی علاقوں میں کاشتکاری اور باغبانی کی نوعیت میدانی علاقوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔زمین کی ساخت،پانی کی فراوانی اور موسموں کی شدت اور تغیرکی وجہ سے ان علاقوں میں فصلوں کی نوعیت،پیداوار اور کاشت کے طور طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ جگلوٹ کے تحقیقاتی مرکزپر دستاویزی پروگرام کی تیاری کے لئے میں یہاں پہنچا تو سربفلک برفپوش پہاڑوں کے درمیان میں وسیع قطعہ اراضی پر لہلاتے کھیت باغات اور چراگاہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یہاں اس وقت انگور، سیب، ناشپاتی، خوبانی، اسٹرابیری، چیری،بلیک بیری اور انارکی درجنوں اقسام کے درخت تجرباتی طور پر لگائے گئے ہیں۔ یہاں گندم، مکئی، پیاز وغیرہ کے آزمائشی کھیت بھی ہیں۔

مال مویشیوں میں دنبے، بکرے اور گائیں پالی جا رہی ہیں۔ گائیں سولہ سے اٹھارہ کلو دودھ دیتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم کی ابتدائی تعمیر کے وقت یہ سڑک جگلوٹ کی آبادی سے گذاری گئی تھی۔اس لئے شمالی علاقہ جات کے لئے پاکستان سٹیٹ آئیل کا ڈپو جگلوٹ میں بیس کنال رقبہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔2010؁ء میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کی گئی تو سڑک کو ہموار اور گنجان آبادی سے قدرے دور رکھنے کی حکمت عملی کے طور پرجگلوٹ کے علاقہ میں اسے پرانی سڑک سے کہیں نیچے دریائے سندھ کے کنارے کے قریب سے گذارا گیا۔ یوں جگلوٹ کی آبادی سڑک سے اور قدرے اونچائی پر رہ گئی۔اب آبادی کے عین درمیان میں لاکھوں لیٹرپٹرول اور ڈیزل کا ذخیرہ انسانی جانوں اور املاک کے لئے ایک بہت بڑے خطرے کی صورت میں بدستور موجود ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ یہ ذخیرہ گلگت  بلتستان میں کسی بھی ہنگامی صورت حال کی صورت میں تیل کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔

اپریل 2016؁ء میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے شاہراہ قراقرم  لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی جگہوں پر بند ہوئی۔گلگت اور جگلوٹ کے درمیان پچاس کلو میٹر کا حصہ چھ جگہوں پربھاری پتھر اور تودے گرنے سے بند ہوا۔تودے ہٹانے اور سڑک کو کھولنے کاکام دس روز میں مکمل ہو سکا۔اس دوران میں گلگت اور اس سے اوپر والے تمام علاقوں یعنی غذر، ہنزہ، نگر، گوجال، سکردو، گانچھے، خپلو، شگر میں پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت پید اہوگئی تھی۔ یہ بحران اس قدر شدید تھا کہ چیف اپیلیٹ کورٹ گلگت  بلتستان نے اس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ عدالت میں پی ایس او جگلوٹ کے منیجر نے بیان دیا کہ چونکہ ماؤنٹین ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر والے ہمیں بیس کنال جگہ فراہم کرنے سے گریزاں ہیںاس لئے بالائی علاقوں میں ایندھن کی قلت پیدا ہوئی۔ ہم اپنے ذخیرے کی گنجائش بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ ایم اے آر سی میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ زمین بے کار پڑی ہے اور اس سنٹر کا عملہ ہماری الاٹمنٹ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔میں نے عدالت میں دیئے جانے والے اسی بیان کے پیش نظر جگلوٹ زرعی فارم کا دورہ کیا تھا کہ آیا وہاں واقعی زمین بے کار پڑی ہے یاکوئی مفید کام ہو رہا ہے۔اس دستاویزی پروگرام کو سامعین نے بہت پسند کیا جنہیں اسی پروگرام کی وساطت سے معلوم ہو سکا کہ اُن کے اپنے علاقے میں باغبانی، کاشتکاری اور مال مویشی پالنے میں کس قدر مفید کام کیا جا رہا ہے۔

جگلوٹ ایک بڑی چھاؤنی بھی ہے۔ جہاں آرمی پبلک سکول تعمیر کیا گیا ہے جس کے افتتاح کے لئے دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ظفر اقبال جگلوٹ آئے جبکہ اسی علاقہ سے تعلق رکھنے والے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان کو بھی خصوصی دعوت دے کر بلایا گیا تھا۔یہ سکول پانچ ماہ کی مدت میں مکمل کیا گیا فروری 2016؁ء میں اس کی تعمیرکا آغاز ہوا تھا اور جولائی میں یہ سکول تیار ہوکر بچوں کے داخلے کر رہا تھا۔سکول کے چھ بلاکس کو اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے پانچ شہداء اور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے۔

پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے پانچ ماہ میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے ایک مثال ہے جن کے منصوبوں کی منظوری، فنڈز مختص کرنے، ٹینڈر کال اور منظور کرنے میں سال نکل جاتا ہے۔کام شروع ہونے کا وقت آتا ہے تو برفباری شروع ہوچکی ہوتی ہے اورجب موسم کُھلتا ہے اور کام کرنے کے حالات بنتے ہیں تو مالی سال ختم ہونے کو ہوتا ہے۔ پھر متعلقہ افسروں اور ٹھیکیداروں کی بن آتی ہے۔دونوں کے گھرحرام کی دولت سے ،قبریں آگ سے بھر جاتی ہیں اور عوام محروم کے محروم رہ جاتے ہیں۔ وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے آرمی پبلک سکول جگلوٹ کے افتتاح کے موقعہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ صوبائی حکومت پیپرا رولز تیار کر رہی ہے۔تاکہ منصوبہ منظور ہونے کے بعد ٹینڈر جاری کرنے اور کام شروع کے مکمل کرنے میںغیر ضروری طور وقت کے ضیاع سے بچا جا سکے۔

The post مقبوضہ کشمیرکی صورتحال نے فیصلہ سازوں کو اب ریڈیو کی اہمیت کا احساس دلایا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

فلم اور ہم

$
0
0

نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ فلموں کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ فلمیں ہماری زندگیوں پر اس طرح اثرانداز ہوتی ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا۔

فلمیں ہماری زندگی کا انتہائی اہم اور لازمی جز بن گئی ہیں۔ سنیما اور فلمیں ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوگئی ہیں کہ اب ان کے بغیر گزارہ بڑا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں کی صنعت ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کرتی جارہی ہے اور اب یہ انڈسٹری صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے، جہاں ہر روز کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اربوں ڈالر کا منافع حاصل کیا جاتا ہے۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ کون فلمیں دیکھتا ہے اور کون نہیں، یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر انسان فلمیں دیکھتا ہے چاہے وہ ماہانہ لاکھوں کمانے والا شخص ہو، یا ہوٹل پر چائے بیچنے والا آدمی۔ بڑی عمر کے افراد ہوں یا نوعمر لڑکے۔ گھریلو خواتین ہوں یا ورکنگ وومن یہاں تک کہ کم عمر بچے بھی بڑے شوق سے کارٹون یا اینیمیٹڈ فلمیں دیکھتے ہیں۔

ہر عمر اور جنس کے افراد کی فلموں تک بہ آسانی رسائی ہوتی ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلمی صنعت جدید معاشرے میں سب سے زیادہ متاثر کن شعبے میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود ہمارے ذہنوں اور زندگیوں پر فلموں کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور فلمی کردار ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگ فلم کے کسی کردار سے متاثر ہوکر بالکل ان جیسا نظر آنے کی یا فلم کے کسی سین سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کو اس سین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کس طرح کی فلموں کا اثر انسانی زندگی پر زیادہ گہرا ہوتا ہے، جس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کا مزاج ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے بالکل اسی طرح مختلف موضوعات کی فلمیں ہر انسان پر اپنا الگ اثر چھوڑتی ہیں۔ مثلاً مزاحیہ فلمیں دیکھ کر انسان تھوڑی دیر کے لیے اپنے غم اور مشکلات بھول جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مزاحیہ فلمیں دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن سائیکلوجیکل تھرلر یعنی نفسیاتی اور سنسنی خیز موضوعات پر مبنی فلمیں ہمیں دنیا کو ایک الگ نقطۂ نظر سے دیکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

تاریخ پر مبنی فلموں سے ہمیں تاریخ کے ان اوراق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو ہم سے پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا ہر فلم انسان اور معاشرے پر نہایت گہرا اثر ڈالتی ہے اور بعض صورتوں میں تو ذہن کو تبدیل کرنے اور معاشرے کے سدھار یا بگاڑ میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فلموں کے انسانوں اور معاشرے پر پڑنے والے انہی اثرات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سنیما اور فلمیں بہت ہی طاقت ور میڈیم ہیں جو لوگوں کی سوچ اور ان کی زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں بہت سے لیڈرز اور سیاسی شخصیات نے اپنی مفادات حاصل کرنے کے لیے سنیما کی طاقت کو استعمال کیا اور لوگوں کی سوچ کو تبدیل کیا۔ مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر اور اسٹالن نے فلموں کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا اور کام یاب رہے۔

ایسے متعدد طریقے ہیں جن کے ذریعے فلمیں معاشرے اور ہماری دنیا کو متاثر کرتی ہیں، ان میں سے کچھ منفی ہیں اور کچھ مثبت۔ اچھی فلمیں ہمیشہ لوگوں پر مثبت اثرات چھوڑتی ہیں، جب کہ تشدد اور ماردھاڑ پر مبنی فلمیں معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ سنیما انڈسٹری بہت بڑی ہے اور چوںکہ فلمیں ہماری زندگی کا بہت بڑا حصہ بن چکی ہیں، اس وجہ سے سنیما نے ہمارے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے وہ بہت گہرے ہیں۔

فلموں کے ذریعے تاریخ اور ثقافت کے بارے میں معلومات میں توسیع

تاریخ پر مبنی فلمیں اپنے دیکھنے والوں پر بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہیں اور بعض صورتوں میں تو شائقین کے لیے تاریخ کا وہ سبق ہوتی ہیں جو انہیں کتابوں میں سمجھ نہیں آتا۔ اس کی بہترین مثال 2001 میں ریلیز ہونے والی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’’گلیڈی ایٹر‘‘ (Gladiator) ہے۔ ’’گلیڈی ایٹر‘‘ اپنے وقت کی بہترین فلم مانی جاتی ہے۔ اگرچہ اس فلم کی کہانی کا بہت سارا حصہ افسانوی ہے۔

مثال کے طور پر فلم میں دکھائی گئی محبت اور انتقام کی داستان کو کہانی کے مطابق فلم میں شامل کیا گیا ہے، حالاںکہ اس کا اصل کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ فلم میں رومن امپائر اور سیاسی صورت حال کو اس بہترین انداز میں فلمایا گیا ہے کہ یہ سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ اُس دور میں لوگوں کا رہن سہن کیسا ہوتا ہوگا۔ یہ فلم دیکھ کر نہ صرف رومن ثقافت کے بارے میں وسیع معلومات حاصل ہوتی ہیں، بلکہ سلطنت روم کی ثقافت کو سمجھنے میں بھی بے حد مدد ملتی ہے۔ فلم ’’گلیڈی ایٹر‘‘ آسکر کی7 کیٹگریز کے لیے نام زد ہوئی تھی اور 5 ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی تھی۔

ایک ریسرچ کے مطابق بعض اوقات لوگ فلموں اور ان میں دکھائے جانے والے کرداروں سے اس حد تک متاثر ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل میں اپنے پسندیدہ کرداروں کی طرح نظر آنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے اور لوگ فلموں میں دکھائے گئے کرداروں کی طرح نظر آنے کے لیے نہ صرف ان کی طرح حلیہ بنالیتے ہیں بلکہ ان ہی کی طرح بولتے اور حرکتیں کرتے ہیں۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے پسندیدہ کرداروں کی طرح نظر آئیں گے ان کی طرح بولیں گے، چلیں گے تو جس طرح لوگ فلموں کے کرداروں کو پسند کرتے ہیں اسی طرح انہیں بھی کریں گے۔ اس کی بہترین مثال بولی وڈ اداکار شاہ رخ خان، سلمان خان وغیرہ ہیں۔ لوگ ان اداکاروں سے اتنے زیادہ متاثر ہیں کہ ان کی طرح نظر آنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف اشتہاری کمپنیاں مشہور کرداروں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں کیوںکہ انہیں معلوم ہے کہ لوگ اپنے پسندیدہ کرداروں کے لیے اس حد تک دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کی طرح دکھنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

ہالی وڈ کے مشہور اداکار جانی ڈیپ (Johnny Depp) کے مداح صرف امریکا میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہیں جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ مداح اداکار جانی ڈیپ کی ایک ایک حرکت کو نہ صرف نوٹ کرتے ہیں بلکہ اصل زندگی میں اسے اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں لوگوں کی اس نفسیات سے واقف ہیں اس لیے وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے مشہور اداکاروں کو استعمال کرتی ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ اگر جانی ڈیپ ٹی وی پر آکر ایک مشہور مشروب کا صرف ایک گھونٹ ہی لے لیں تو ان کے کروڑوں مداح ان کی طرح نظر آنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں اس مشروب کا کین خریدیں گے جس سے ان کی مصنوعات کی فروخت بڑھے گی اور کمپنی کو فائدہ ہوگا۔ حالاںکہ جانی ڈیپ اشتہاری فلم میں صرف ایک کردار اداکر رہے ہیں اور اپنے کردار کو نبھانے کے لیے انہوں نے مشروب کا ایک گھونٹ ہی لیا، لیکن لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ جانی ڈیپ اس طرح لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہیں کہ لوگ بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی تقلید کرتے ہیں اور اسی بات کا فائدہ اشتہاری کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔

فلموں میں دکھائی جانے والی ٹیکنالوجی کے لوگوں پر اثرات

فلمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔ لہٰذا مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے فلموں کا استعمال کرتی ہیں اور پروڈکشن ہاؤسز کو پیسے ادا کرتی ہیں تاکہ ان کی پروڈکٹس فلم میں دکھائی جائیں۔ اس کی مثال فلم ’’نرو‘‘ Nerve ہے۔ اس فلم میں اداکار ڈیو فرانکو (Dave Franco) اور ایما رابرٹس (Emma Roerts) نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں جا بجا ایک مشہور کمپنی کے موبائل فون کی تشہیر کی گئی تھی۔ آپ کئی جگہوں پر فلم کے مختلف کرداروں کے ہاتھوں میں مخصوص کمپنی کا موبائل فون دیکھ سکتے ہیں۔

اس فلم کو لاکھوں لوگ سنیما میں دیکھنے گئے ہوں گے جن میں سے بہت سے لوگوں کے دل میں فلم کے کرداروں کو دیکھ کر وہ موبائل فون لینے کی خواہش جاگی ہوگی اور لوگوں نے سوچا ہوگا کہ یہ فون فلم کے کردار کے ہاتھ میں کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ اگر میں یہ فون خریدوں گا تو میرے ہاتھ میں بھی یہ فون اتنا ہی اچھا لگے گا۔

فلموں کے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل پڑنے والے منفی اثرات

فلموں کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے لوگوں پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، خصوصاً نوجوان نسل فلموں میں دکھائے جانے والے تشدد اور منفی کرداروں کا گہرا اثر لیتی ہے اور ان کی طرح نظر آنے کی کوشش میں اکثر اوقات اپنا اور معاشرے کا نقصان کر بیٹھتی ہے۔ 2012 میں امریکی ریاست کولوراڈو (Colorado) کے ڈینور شہر (Denver City) میں اپنی طرز کا انتہائی انوکھا اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب جیمز ہومز (James Holmes) نامی نوجوان نے ایک تھیٹر میں آدھی رات کے وقت فائرنگ کرکے12 لوگوں کو قتل اور 70 لوگوں کو زخمی کردیا۔

تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ جیمز ہومز ’’سپر ہیرو‘‘ فلموں کا بہت بڑا مداح ہے اور اس کا پسندیدہ سپر ہیرو ’’بیٹ مین‘‘ تھا۔ ماہر نفسیات آج تک سمجھ نہیں سکے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے جیمز ہومز کو اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کا قتل کرنے اور انہیں زخمی کرنے کے لیے اکسایا۔ اس کیس کے حوالے سے کئی نظریات (تھیوریز) پیش کی گئیں۔ ایک تھیوری کے مطابق جیمز ہومز فلم ’’دی ڈارک نائٹ رائزز‘‘ کو بنائے جانے پر شدید غصہ تھا اور اس کا ماننا تھا کہ اس فلم نے اس کی پسندیدہ کامک بک (comic book) کو ناپاک کردیا ہے۔ ایک اور تھیوری کے مطابق اس نے فلم کے ولن جوکر سے متاثر ہوکر لوگوں کا قتل کیا جو تشدد کے ذریعے انتشار اور دہشت پھیلانا چاہتا تھا۔ فلم کے مطابق جوکر عام لوگوں کو حقیقی انسان نہیں سمجھتا تھا اور جیمز ہولمیس نے بھی تحقیقات کے دوران بالکل یہی الفاظ کہے تھے کہ جن لوگوں کو میں نے مارا ’’وہ حقیقی انسان نہیں تھے۔‘‘

اگرچہ یہ مبالغہ آرائی پر مبنی مثال ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا بھر میں نوجوانوں میں فلموں میں دکھائے جانے والے تشدد کا بہت ہی گہرا اثر ہوتا ہے اور یہی چیز ان میں تشدد کو ابھارتی ہے۔ 1971 میں فلم ’’اے کلاک ورک اورنج‘‘(A clockwork Orange) ریلیز ہوئی تھی اور اسی سال امریکا میں جرائم کی شرح میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

اس فلم میں چار نوجوان لڑکوں پر مشتمل ایک گینگ کو دکھایا گیا ہے جو اپنے مزے کے لیے لوگوں پر تشدد کرتے ہیں ، انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں، چوری اور لوٹ مار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اس گینگ کا سربراہ الیکس ڈی لارج (Alex DeLarge) ایک خاتون کا قتل تک کردیتا ہے۔ یہ اپنے وقت کی تشدد اور جرائم سے بھرپور فلم تھی جس نے لوگوں پر کافی گہرے اثرات چھوڑے۔

اسی طرح بہت سے نوجوان فلمیں دیکھ کر سگریٹ نوشی کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بڑے اسٹوڈیوز کی تمباکو نوشی کے حوالے سے پالیسیز نافذ ہوتی ہیں جس کے مطابق فلموں میں تمباکو اور سگریٹ نوشی کا استعمال نہیں دکھایا جائے گا، کیوںکہ فلموں میں دکھائی جانے والی سگریٹ نوشی نوجوانوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ فلموں میں کرداروں کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھ کر سوچتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کرنا ٹھیک ہے۔

سنیما ایک آرٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سنیما دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثر کن شعبہ ہے۔ بہت سارے لوگ خوب صورت عمارتوں اور مجسمہ سازی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن فلمیں ہر جگہ موجود ہیں بہت سارے لوگ فلمیں دیکھتے اور انہیں پسند کرتے ہیں۔ فلمیں ہمارے معاشرے پر مثبت اور منفی دونوں طرح سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ نہ صرف معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور دنیا بھر کی ثقافت اور رہن سہن کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ دوسری جانب فلمیں تشدد اور بری عادتوں کو ابھارتی ہیں، لوگوں کی لالچ کو جگاتی ہیں اور لوگوں تک ایک برا پیغام پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔

سنیما میں بیٹھے لوگ اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ پردے پر دکھائی جانے والی یہ دنیا ہماری حقیقی دنیا سے بالکل مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ فلموں کا اثر لیتے ہیں اور عملی طور پر اپنی زندگی کو فلموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا جہاں لوگوں کو فلم اور حقیقی زندگی میں امتیاز کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں فلم ساز اور پروڈکشن ہاؤسز کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی فلمیں بنائیں جو لوگوں تک مثبت پیغام پہنچائیں نہ کہ لوگوں میں بے چینی اور تشدد کو ابھاریں اور معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنیں۔

The post فلم اور ہم appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

عالمی صہیونیت کے فتنہ خیز منصوبے اور خطرات
مصنف: کموڈور(ر) طارق مجید
قیمت:1500روپے
ناشر:قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، لاہورکینٹ، رابطہ:03000515101

مصنف نے ایک طویل عرصہ پاک بحریہ میں بطور افسر گزارا۔ وہ اپنی فکری صلاحیتوں کی بنیاد سرزمین پاکستان کے ساتھ اپنے لگاؤ کو قراردیتے ہیں جبکہ قومی وبین الاقوامی امور میں تحقیق و تجزیے میں دسترس کا زیادہ کریڈٹ پاک بحریہ کو دیتے ہیں۔ بحریہ میں رہتے ہوئے وہ قلمی نام سے مضامین لکھتے رہے جو جرمن، برطانوی اور امریکی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔

کموڈور(ر) طارق مجید 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے علاوہ متعدد دوسرے غیرمعمولی واقعات  کے تجربے سے گزرے۔1962ء میں انھوں نے ایک چھوٹے جنگی جہاز کی کمانڈ کرتے ہوئے بحرالکاہل میں جہاز رانی کی ، جب وہ انڈونیشیا  کے علاقے مغربی ایریان (ڈچ نیوگنی) میں پاکستان کی امن فوج میں بحریہ کے دستے میں شامل تھے۔

1981ء میں اپنی شناخت چھپا کر سویت افغان جنگ کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کے لئے ننگرہار افغانستان میں گئے۔ پاکستان اور ملت اسلامیہ کے سنگین مسائل پر تحقیق اور غوروفکر کرتے ہوئے طارق مجید کو طاغوتی صہیونیت کا کھوج ملا کہ خدا اور انسان کی دشمن صہیونی ٹولی طویل منصوبہ بندی اور فریبی چالوں کے ذریعے ’’حکومتِ دنیائے واحدہ‘ قائم کررہی ہے اور یہ کہ اس کا بڑا ہدف اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دیگرمسلم ممالک ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاںکے حکام، عوام اور خواص اس ٹولی کے وجود  اور عزائم سے بے خبر ہیں۔

زیرنظرکتاب ایسے ہی عزائم ، منصوبوں کی مکمل اور تفصیلی خبر دیتی ہے۔ آٹھ ابواب پر مشتمل کتاب میں مصنف نے عالمی صہیونی فتنہ گروں اور دہشت گردوں کے چہرے سے پردہ ہٹایاہے۔ ڈینیل پرل کیس کا اسی خاص تناظر میں جائزہ لیاہے۔ نائن الیون کی واردات کی قلعی کھولی ہے، عالمی صہیونی منصوبہ کے تحت اگلی پاک بھارت جنگ کی خبر دی ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ اس میں پاکستان فتح مند ہوگا لیکن کیسے؟ انھوں نے اس دوران ہونے والی صہیونی امریکی چالوں سے بھی خبردار کیاہے۔ کتاب میں اس سوال کا جائزہ بھی پوری تفصیل سے لیاگیاہے کہ پاکستان صہیونی ریاست اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرسکتا جبکہ آخر میں انھوں نے بتایاہے کہ اب پاکستانی قوم کے کرنے کے کیاکام ہیں؟

۔۔۔

کیرئیرپلاننگ گائیڈ
مصنف: یوسف الماس۔۔۔۔۔قیمت: 250 روپے
ناشر: ایجوویژن، اسلام آباد، رابطہ: 03335766716

یہ حقیقت تو ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں 70فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں لیکن اب تک یہ نہیں پتہ چل سکا کہ پاکستان میں کتنے لوگ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے لئے مستقبل میں کون سا میدان بہتر رہے گا۔

جب بچوں کو شروع ہی سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق اصل راستے پر گامزن نہیں کیاجائے گا تو ان کا مستقبل تباہ وبرباد ہی ہوگا، نتیجتاً ہمارا معاشرہ ایک بھیڑچال کا شکار رہے گا کہ ایک دور میں پوری قوم اپنے بچوں کو ڈاکٹرزبنانے کے چکر میں پڑجاتی ہے، جب انجینئرنگ کا غلغہ ہوتا ہے تو ساری نوجوان نسل انجینئر بننے کی طرف بھاگ اٹھتی ہے، کبھی پوری قوم اپنے بچوں کو اکنامکس کے میدان میں بھیجنے کے بخار میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ا

س کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کبھی ڈاکٹرز ضرورت سے زیادہ پیدا ہوجاتے ہیں اور کبھی انجینئرز اور کبھی ایم بی اے کی ڈگریاں لینے والے۔ جب والدین اپنے بچوں کی کیرئیرپلاننگ کرانے سے قاصر ہوں تو یہ ذمہ داری سرکاری سطح پر سرانجام دی جانی چاہئے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں اپنی ہرذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کون اس قوم کے بچوں کی کیرئیرپلاننگ کرائے گا؟

جناب یوسف الماس ایک طویل عرصہ سے کیرئیر کونسلنگ، ایجوکیشنل ایڈوائزری کے شعبوں میں کام کررہے ہیں، معاشرے میں ایسے لوگوں کا دم غنیمت ہے۔  انھوں نے زیرنظرکتاب کی صورت میں طلبہ وطالبات کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے میں رہنمائی  فراہم کی۔ نیچرل سائنسز، ایگریکلچرل سائنسز، مینجمنٹ سائنسز، میڈیکل اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز، سوشل سائنسز، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیکنیکل اور ووکیشنل کے شعبوں کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ رہنمائی فراہم کی ہے کہ ان کا سکوپ کیاہے، ان میدانوں میں جانے کے لئے کس قسم کی صلاحیت وقابلیت کی ضرورت ہوتی ہے اور کیسے اور کہاں کہاں داخلہ لیاجاسکتاہے۔ کتاب میں ان شعبوں کا بھی تفصیل سے ذکرکیاگیاہے جو طالبات کے لئے نہایت موزوں ہیں۔

یہ کتاب سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔اس میں450کیرئیرز کا تعارف کرایاگیاہے جبکہ مجموعی طور پر 780تعلیمی شعبوں کا ذکرکیاگیا ہے۔ اس قدر کم قیمت میں، اس قدرجامع اور مفصل کتاب کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

۔۔۔

 دیوان سلام وکلام انیس
شاعر: میر ببر علی انیس۔۔۔۔قیمت:1200روپے
ناشر:بک کارنر ، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

مشہور جرمن  شاعرگوئٹے نے کہاتھا:’’ ادب میں کوئی صنف اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جب تک کہ اس کا موضوع عظیم نہ ہو‘‘۔

میرانیس نے جس صنفِ شاعری مرثیہ کا انتخاب کیا، اس کا موضوع عظیم ترین ہے یعنی ’شہادت امام حسینؑ‘۔ انھوں نے اس موضوع پر اظہار کا حق ادا کردیا۔ میر انیس اردوشعروادب کے بعض تذکروں میں ’خدائے سخن‘ کہلائے جانے والے دو شعرائے کرام میں سے ایک ہیں۔ ان کا خاندان مدح شبیرؑ پر مامورتھا، ایک مصرعے میں انھوں نے بتایا کہ وہ اس فرض کو ادا کرنے والی پانچویں پشت سے ہیں۔ اس خاندان نے تقریباً تین صدیوں میں پہلے فارسی اور پھر اردو زبان کی ایسی خدمت کی کہ اس خاندان کی زبان مستند ، لب و لہجہ معتبر اور اس کا مقام شعر وادب کا گہوارہ بن گیا۔

الطاف حسین حالی نے کہاتھا:’’ الفاظ کو خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کرنے کو اگر معیارِکمال قراردیاجائے تو بھی میر انیس کو اردوشعرا میں سب سے بالاتر ماننا پڑے گا۔ میر انیس کے ہرنقطہ اور ہرمحاورہ کے آگے اہل زبان کو سرجھکانا پڑتاہے۔ اگرانیس چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا ، وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہ رہتے‘‘۔

زیرنظرکتاب ممتاز شاعر، محقق اور نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مختلف مضامین پر مشتمل ہے۔ ’حیات ، فن اور شخصیت میر انیس‘، ’انیس مشاہیرشعروادب کی نظر‘ ، ’میرانیس کے سلاموں کا تجزیہ‘، ’سلام‘، ’نوحے‘، ’انیس کے مناجاتی اشعار اور شاہکار مناجات‘، ’مناجات‘، ’منقبت حضرت علیؑ‘، ’مخمس درمنقبت حضرت علیؑ ابن ابی طالب‘، ’میر انیس کی تضمینات‘، ’تضمینات‘، ’انیس کے متفرقات‘، ’مصحف خطوطِ انیس‘۔ آپ ان عنوانات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتاب کس قدر اہم ہے طالبان علم کے لئے اور محبان سیدنا شبیرؑ کے لئے۔’بک کارنر‘ نے نہایت اہتمام سے یہ کتاب شائع کی ہے۔ یقینا اسے آپ کے کتب خانے کا حصہ ہوناچاہئے۔

۔۔۔

غیرملکی سیاحوں کی سیاحت کشمیر
مصنف: سیدسلیم گردیزی۔۔۔۔قیمت:500روپے
ناشر: مکتبہ جمال،اردوبازار، لاہور، رابطہ:03224786128

اس کتاب کا عنوان ہی اس کتاب کا مکمل تعارف ہے۔ مصنف آزادجموں وکشمیر حکومت میں ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے مصنف اور محقق بھی ہیں۔کشمیر ان کی تحقیق وجستجو کا خاص میدان ہے، اس خطے کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ کشمیر کے حالات وواقعات پر ان کی ہرتصنیف کشمیر کے لئے ان کی محبت  اور دل سوزی کی سچی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ایک محب وطن کشمیری کی حیثیت سے قلم کا فرض ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ زیرنظرکتاب اسی فرض کی ادائیگی ہے۔ یہ کتاب کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ مرحوم احمدندیم قاسمی کی ان سطور سے بخوبی ہوتاہے جو انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھیں:

’’ سلیم صاحب نے اس کتاب میں کشمیر کی تاریخ و تہذیب کے قریب قریب سبھی نقوش سمیٹ لئے ہیں۔ انھوں نے اس سلسے میں جس ژرف نگاہی کا ثبوت دیاہے وہ بہت کم محققین کو حاصل ہے۔ کشمیر کو پوری دنیا نے ’فردوس برروئے زمیں‘ قراردیا ہے مگر ہر دور میں اور بطور خاص بیسویں صدی اور اوائل اکیسویں صدی میں اس فردوس پر جن دوزخوں کے در کھولے گئے ہیں۔

وہ تاریخ کشمیر کے ہولناک اور عبرت ناک ابواب ہیں اور سلیم صاحب نے ہر صورت حالات کو کمال دیانت اور صداقت کے ساتھ بیان کردیاہے۔ زبان پر انھیں پوری قدرت حاصل ہے چنانچہ ان کی پوری تحریر دریا کی طرح رواں دواں ہے۔ میری رائے میں سلیم صاحب کا یہ کارنامہ ’’کشمیریات‘‘ میں ایک یادگار اور غیرفانی اضافہ ہے‘‘۔

سلیم گردیزی صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایاہے، یہ ایسا شعبہ ہے، آزادوجموں کشمیر کی حکومتیں اس پر توجہ دیتیں تو دنیا بھر کی توجہ اس خوبصورت خطہ کی طرف مبذول ہوتی، اور یہ خطہ ہمہ پہلو فوائد حاصل کرتا۔ افسوس کہ اس کا ادراک کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے یا عمل میں سستی کی گئی۔ بہرحال جناب سلیم گردیزی صاحب نے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر مزید لکھے جانے اور اس شعبہ کو انڈسٹری بنانے کی اشدضرورت ہے۔

۔۔۔

 جنون سے عشق تک(ناول)
ناول نگار: سمیراشریف طور۔۔۔۔قیمت:1000روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، اردوبازار لاہور ،فون:042-37652546

ڈائجسٹوں کی دنیا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے سمیراشریف طور کا نام ہرگزنیانہیں ہے۔ انھوں نے جب بھی قلم اٹھایا، قارئین کی بے پناہ دادوتحسین سمیٹی۔سبب یہ ہے کہ ان کی تحریریں حقیقی زندگی کی ترجمانی کرتی ہیں۔ وہ کردار نگاری کریں یا منظرنگاری ، واقعات بیان کریں یا جذبات واحساسات کی تصویر پیش کریں، ان کا انداز ہرجگہ سادہ اور رواں ہوتاہے۔ وہ بھاری بھرکم الفاظ اور پیچیدہ عبارت سے گریز کرتی ہیں اور اپنی علمیت کے اظہار کے لئے ایسے مشکل الفاظ کا انتخاب نہیں کرتیں جو پڑھنے والوں پر گراں گزریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں خاص وعام میں یکساں مقبول ہیں۔

زیرنظر ناول’’ جنون سے عشق تک‘‘ ان ہی اوصاف سے مزین ہے۔ اس میں عشق کی جنوں خیزی بھی ہے اور ہجر کی الم سامانی بھی۔  مصنفہ نے زندگی کے مسائل کو ہلکے پھلکے اندازمیں بیان کیا ہے۔ اس میں سماجی مسائل بھی ہیں اور الفت ومحبت کے جذبات بھی لیکن یہ محبت مشرقی اقداروروایات کی پاسدار ہے اور کہیں بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتی نظر نہیں آتی۔

اس ناول کے کردار ماورائی دنیا سے بھی تعلق نہیں رکھتے بلکہ انہی حالات وواقعات سے دوچار ہوتے ہیں جن کا سامنا ایک عام آدمی کو کرناپڑتاہے۔پڑھنے والا ابتداء ہی سے کہانی کے سحر میں ایسا گرفتار ہوتاہے کہ کہانی کی آخری سطر تک اس سحر سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ اچھی کہانی کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو مدتوں یاد رہتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہانی بہت اچھی ہے۔’القریش پبلی کیشنز‘ بھی قابل تحسین ہے کہ  ایسے اداروں کی بدولت اردو فکشن نہ صرف زندہ ہے بلکہ توانا ہے۔

۔۔۔

 خوشحال خان خٹک سے خوشحال بابا
مصنفہ: رفاقت جاوید۔۔۔۔قیمت:500روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، لاہور۔ فون:042-37652546

رفاقت جاوید معروف ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ اب تک دو درجن کے قریب ناول، افسانوں کے مجموعے اور تحقیقی کتابیں لکھ چکی ہیں۔انھوں نے کہانیاں بچپن ہی سے لکھنا شروع کردی تھیں، جوان ہوئیں تو شاعری اور افسانہ نگاری کے میدان میں کامیابی کے عَلَم لہرائے، اس دوران میں بھی بچوں  کے لئے بے شمار کہانیاں لکھیں۔ ان کی ہرکتاب بتاتی ہے کہ اسے لکھنے والی کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے اور انھیں لکھنے کا کس قدر ملکہ حاصل ہے۔

زیرنظرکتاب اُس خوشحال خان خٹک کے بارے میں لکھی جو اس پورے خطے میں بسنی والی اقوام بالخصوص پشتون قوم کے سروں کا تاج ہے، ایک دلیرسپہ سالار، عظیم دانشور اور شاعرِ بے بدل۔ وہ خوشحال خان خٹک جو اپنے دیوان کو ایک جوہری کی دکان قراردیتے تھے جہاں ہرقسم کے لعل، موتی، یاقوت اور الماس موجود ہوں۔ اپنے شعروں میں وہ کہتے تھے: ’’دانت نکل گئے ہیں اور داڑھی سفید ہوگئی، اس کے باوجود باز ہاتھ میں لئے پہاڑوں میں پھرتارہتاہوں۔

میں نے پشتو شعر میں سلیقہ پیدا کیا ورنہ پشتو شعر تو کسی کا مقابلہ نہیں کرسکتاتھا۔ مجھے جو یہ شاعری میں گویا کیا تو شاید خداوند پاک پشتونوں کو سمجھاناچاہتاتھا۔ میرے بعد جو لوگ شعربازی کریں گے تو وہ مجھ سے بہترہوجائیں گے‘‘ (اردوترجمہ)۔زیرنظرکتاب کا نصف حصہ خوشحال خان خٹک کا تذکرہ حیات ہے جبکہ باقی ماندہ نصف ان کی شاعری کے انتخاب(جس کا اردوترجمہ دیاگیاہے)  پر مشتمل ہے، یہ ترجمہ  پروفیسر پریشان خان خٹک نے کیا۔

مصنفہ نے ایک ایسے وقت میں یہ قابل قدر کام کیا ہے جب عام لوگ بالخصوص نوجوان نسل اپنے ہیروز کو بھولتی جارہی ہے اور پڑھنے والوں کا دائرہ بھی تنگ سے تنگ تر ہورہاہے۔ایسے میں موجودہ پڑھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس تنگ ہوتے دائرے کو وسعت دیں، زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس طرف راغب کریں، انھیں مطالعہ کتب کے لطف سے آشنا کریں۔ رہی بات اس کتاب کی، یہ تاریخ کے طلبہ وطالبات کے لئے شاندار تحفہ ہے۔

۔۔۔

 نئی اردوقواعد
مصنف: عصمت جاوید۔۔۔۔۔قیمت:600روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

ایک عرصہ سے اردو میں ایک ایسی توضیحی قواعد لکھے جانے کی ضرورت تھی جس میں اردوزبان کی توضیح لسانیات کی روشنی میں کی گئی ہو۔ دیگرعلوم کی طرح قواعد کی ایجاد کا سہرا بھی یونان کے سر ہے۔ ابتدا میں قواعد ’علم زبان‘(فلالوجی) کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے فنِ خطابت، مطالعہ ادبیات اور فلسفہ و منطق کی ایک شاخ تھی لیکن لسانیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ اسی کا حصہ بنتی گئی اور آج وہ لسانیات کا ایک جزولاینفک ہے۔ یورپ میں ساختی قواعد اور تبادلی قواعد نے فن قواعدنویسی میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور آج قواعد ’ آرٹ‘ کے دائرے سے نکل کر’ سائنس‘ میں قدم رکھ چکی ہے۔

ہمارے یہاں اردوقواعد پر درسی کتابوں کی کمی نہیں لیکن ان میں اکثرعربی قواعد کے نمونے پر لکھی گئی ہیں اور ان میں اکثر ایسی قواعدی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو عربی قواعد کے لئے موزوں ہیں۔ تاہم زیرنظرکتاب اس پہلو کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، صوت، صرف، نحو ، مشتقات ومرکبات اور فہرست اصطلاحات۔ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں آپ کو اردو میں پہلی بار نئے مباحث ملیں گے۔اس میں لسانی اصطلاحات کے اردو ترجمے کے سلسلے میں ترقی اردوبورڈ کی مجوزہ اصطلاحات کو پیش نظر رکھاگیاہے اور ان اصطلاحات کی اردو انگریزی اور انگریزی اردو فرہنگیں بھی مرتب کرکے کتاب کے آخر میں شامل کردی گئی ہیں۔کتاب اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک شاندار تحفہ ہے۔

۔۔۔

نا م:سلطان محمد تغلق، تاریخ کے آئینے میں
مصنف: پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
قیمت:800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

سلطان محمد بن تغلق ایک ایسا فرمانروا تھا جو ازمنہ  وسطیٰ کا قابل ترین شخص تھا۔ وہ سمندرجتنا علم رکھتا تھا، اس زمانے کے تمام علوم وفنون کا ماہر۔ بلا کا حافظہ اور یادداشت رکھتا تھا، نہ صرف قرآن مجید کا حافظ تھا بلکہ صحاح ستہ اور ہدایہ کا بھی۔ نغزگوشاعر، فنون لطیفہ کا دلدادہ، تصوف، فلسفہ، طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، خطاطی اور انشاپردازی میں یدطولیٰ رکھنے والا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اس کے سامنے آنے سے جھجھکتے تھے۔

علم طب سے بھی خاص شغف تھا، مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے علاج سے شفا پائی۔ اپنی قوت گویائی، جدت طبع اور شائستگی کی وجہ سے ’’نادرہ روزگار‘‘ کہلایا۔ اب ذرا ٹھہریے اور جائزہ لیجئے کہ آج یا ماضی قریب کے کس حکمران میں اس قدر خصوصیات پائی گئیں۔ ماضی کے قریباً تمام حکمران اسی طرح زندگی کی مختلف شعبوں میں خوب علم وفضل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام روشن ہے۔

سلطان محمد بن تغلق مذہب کا بڑا پابند مگر متعصب بالکل نہیں تھا۔ انصاف میں کسی کی رُو رعایت نہ کرتا تھا، اپنے فکروشعور کے لحاظ سے وہ اپنے زمانے سے بہت آگے تھا۔ سلطنت دہلی کے کسی بادشاہ کے متعلق مورخین میں اس قدر اختلاف رائے نہیں جتنا کہ اس کے بارے میں ہے۔ کچھ مورخین اس کو پاگل اور خونی لکھتے رہے مگر ان کی یہ رائے غلط ہے۔ اس کے منصوبوں اور مہمات کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ تاہم عہد جدید کی تاریخی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ نہ وہ دیوانہ تھا اور نہ اس کی مہمات دورازکار اور ہوشمندی کے منافی تھیں۔

زیرنظرکتاب کے سترہ ابواب میں سلطان محمد بن تغلق کے مکمل حالات زندگی اور اس کی تمام تر مہمات کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ  کتاب آج کے چھوٹے ، بڑے تمام حکمرانوں اور منتظمین  کو ضرور پڑھنی چاہئے، اس میں بہت سے سبق ہیں سیکھنے کے لئے۔

۔۔۔

نا م:تاشقند سے استنبول(سفرنامہ)
مصنف: الطاف احمد عامر
قیمت:700روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

ایک انسان دوسرے انسان سے سیکھتاہے ، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ وہ دوسرے کے اچھے پہلوؤں پر رشک کرتا ہے اور بُرے پہلوؤں سے عبرت پکڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ  اسی اندازمیں ارتقا کا سفر طے ہوتاہے۔ اس دنیا میں جن اقوام کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح دوسروں سے سیکھ کر ہی ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کی، آج کی غیرترقی یافتہ اقوام بھی انہی ترقی یافتہ اقوام سے سیکھ کر اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔

تاشقند، بخارا، سمرقند، قونیہ اور استنبول، ان تمام علاقوں پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی اور یہ تمام شہر صدیوں تک علم وادب، سائنس، فلسفہ اور آرٹ کے مراکز رہے۔ یہاں ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے علم وفضل، دانش و تصوف اور فلسفہ وفن سے دنیا بھر کو متاثرکیا۔ یہیں سے علوم دینیہ کی بڑی بڑی ہستیاں خدمت اسلام کے لئے اٹھیں جن کے افکار سے آج بھی قلوب واذہان میں روشنی ہوتی ہے۔

مصنف جو اپنا شمار تاریخ کے طلبا میں کرتے ہیں، کو کچھ عرصہ پہلے مذکورہ بالا تاریخی اور خوبصورت علاقوں کی سیر کا موقع ملا۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتے ہیں کہ اس سفر میں ان کے ساتھ قاسم علی شاہ تھے جن کی گفتگوؤں سے وہ بہت متاثر ہیں۔ اسی اعتبار سے انھوں نے زیرنظرکتاب کا عنوان متعین کیا:’’ تاشقند سے استنبول، سیاحت کے رنگ قاسم علی شاہ کے سنگ‘‘۔

کتاب اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے تاشقند سے استنبول تک ، کے باسیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔  انھوں نے ازبک لوگوں کے رہن سہن کا تذکرہ کیا، ان کی ترقی کی بات کی، استنبول کے باسیوں کی خوبصورت زندگی کو باریک بینی سے دیکھا اور تفصیل سے بیان کیا۔  ازبک اور ترک، دونوں اقوام کی انسانی ترقی، تعلیمی پیش رفت، وقت کی پابندی، نظافت، نفاست اور رواداری جیسے اوصاف سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ اس سلسلہ کی پہلی شرط  زیرنظرکتاب کامطالعہ ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

سمیرہ موسیٰ شہید۔۔۔ مسلمان خاتون جوہری سائنس داں

$
0
0

سَمِیرہ موسیٰ ۔۔۔۔یہ نام آپ نے سُنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے۔۔۔وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر۔۔۔جن کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے۔۔۔جوہری سائنس داں۔۔۔حادثے میں موت۔۔۔موساد۔

امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سُرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلم نوجوانوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے فریضے کی تکمیل کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ’’خطرہ‘‘ تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تاب کاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃکو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونی ورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تاب کاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔‘‘ ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

سمیرہ موسیٰ نے ’’جوہری توانائی برائے امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ’’جوہر برائے امن‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کرکے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فُل برائٹ (Fulbright) اسکالرشپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونی ورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،’’میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جاگِری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہوگئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کار کے گرنے سے عین پہلے چھلانگ لگاکر بچ گیا۔۔۔۔لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

اس سانحے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

مصر کے آن لائن اخبار ’’ایجپٹ انڈیپنڈینٹ‘‘ پر دست یاب عرب امارات کی ویب سائٹ البیان سے لے کر شایع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق سمیرہ کے قتل کی سازش میں نمایاں ترین کردار مصری اداکارہ راقیہ (یا راکیہ) ابراہیم لیوی کا تھا۔

مصر سے تعلق رکھنے والی یہودی اداکارہ راقیہ کا مصری ہونا اسے اسرائیل کے ساتھ وفاداری سے باز نہ رکھ سکا۔ یعنی وطن پر مذہب، نسل اور نظریہ بازی لے گیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد وہ مصر کے یہودیوں کو اکساتی تھی کہ ترک وطن کرکے صہیونی ریاست میں جابسیں۔ اگرچہ اس نے شادی ایک مصری مسلمان انجنیئر مصطفیٰ والی سے کی، مگر یہ رشتہ عربوں اور مصریوں سے محبت اور وفا کا تعلق نہ بن سکا۔ اسرائیل اور صہیونیت سے وابستگی میں وہ اتنی کٹر اور بے باک تھی کہ اس نے ایک فلم میں ایک ایسی بَدّو عورت کا کردار ادا کرنے سے انکار کردیا تھا جسے فلسطین کی جنگ میں مصری فوج کے لیے لڑتے دکھایا گیا تھا۔ راقیہ ابراہیم کے تعصب اور انتہاپسندی کا یہ عالم تھا کہ اس نے مشہورزمانہ کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کرنے سے اس بنا پر انکار کر دیا تھا کہ وہ یہودی ہے۔

شوہر سے علیحدگی کے بعد 1954میں راقیہ مصر چھوڑ کر امریکا جابسی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمیرہ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی راقیہ ابراہیم تھی، جو موساد کی آلۂ کار کے طور پر اس سازش کا حصہ بنی۔ اس ضمن میں سب سے اہم شہادت راقیہ کی پوتی ریٹا ڈیوڈ ٹامز کی ہے، جو راقیہ کے امریکی شہریت کے حامل یہودی شوہر کے تعلق سے راقیہ کی پوتی ہیں، جنھوں نے 2012 میں پہلی بار اس موضوع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمیرہ موسیٰ کو قتل کیے جانے کا مزید ثبوت فراہم کردیا۔ راقیہ کی پوتی کا کہنا ہے کہ اس کی دادی کی ڈائریوں میں، جو کیلیفورنیا میں واقع راقیہ کی رہائش گاہ کی لائبریری میں چھپائی گئی تھیں، سمیرہ موسیٰ کے قاہرہ میں واقع گھر کی مختلف مواقع کی تصاویر ملی ہیں۔

اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ راقیہ نے سمیرہ کے گھر کی چابی کا نقش صابن کی بَٹی پر اُتار لیا تھا، جو اس نے مصر میں موجود موساد کے ایک ایجنٹ کے حوالے کردیا۔ اس کارروائی کے کچھ عرصے بعد راقیہ، سمیرہ کو اپنے ساتھ قاہرہ میں ایک اوپیرا دکھانے کے بہانے لے گئی۔ سمیرہ کی غیرموجودگی میں موساد کے ایجنٹ اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کے تحقیقی مواد کی تصاویر اُتار کر لے گئے۔ صاف لگتا ہے کہ راقیہ نے موساد کے دیے گئے مشن ہی کے تحت سمیرہ سے دوستی گانٹھی تھی۔ یہ دوستی اس وقت اختتام پذیر ہوگئی جب راقیہ نے امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کار کا کردار ادا کرتے ہوئے سمیرہ کو امریکی شہریت اور امریکا میں رہ کر کام کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سمیرہ کے انکار پر اس نے دھمکی دی کہ ’’اس کا نتیجہ قبر ہوگی۔‘‘

جب سمیرہ امریکا کے دورے پر پہنچیں تو راقیہ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان کا تعاقب اور ان کی تمام سرگرمیوں کی بابت معلومات حاصل کرتی رہی۔ ان ہی معلومات کی مدد سے موساد سمیرہ کو اپنے جال میں پھنسانے اور انھیں قتل کرنے میں کام یاب ہوئی۔

یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ راقیہ ابراہیم کے بطن سے مصر کے معروف سیاست داں، سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز رہنے والے امر موسیٰ (عمرو موسیٰ) نے جنم لیا! جو اس رشتے سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر یہ حقیقت ایک اسرائیلی اخبار Haaretz بھی سامنے لاچکا ہے۔

اسرائیل کو سمیرہ سے کیا دشمنی تھی؟ یہ سامنے کی بات ہے۔ اماراتی ویب سائٹ البیان کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو خدشہ تھا کہ سمیرہ کی اہلیت کے باعث مصر جوہری بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔ چناں چہ پہلے راقیہ کے ذریعے سمیرہ کو امریکا منتقل ہونے اور امریکا کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاکہ وہ مصر یا مسلم دنیا کے کام نہ آسکیں، جب اس مقصد میں کام یابی حاصل نہ ہوئی تو ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔

سمیرہ موسیٰ جیسی نابغہ روزگار مسلم سائنس داں کی شہادت ایک سانحہ ہے، مزید المیہ یہ کہ اس عظیم نقصان کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا۔ اتنا ہی نہیں، ان کا تحقیقی کام بھی اس بہانے کے ساتھ دبا لیا گیا ہے کہ وہ تمام عربی میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا تحقیقی کام سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ دوسرا سوال یہ کہ مصر کی سلامتی کے ادارے اتنے بے خبر کیوں تھے کہ ان کی ایک عظیم سائنس داں تک ایک ایسی خاتون کی رسائی ہوگئی جس کی اسرائیل دوستی بالکل واضح تھی اور سمیرہ موسیٰ کی حفاظت کے لیے اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ اپنی اس غفلت کے ہاتھوں مصر نے نہ صرف اپنا جوہرنایاب کھو دیا بلکہ مسلم دنیا کو بھی ایک قابل فخر سائنس داں کی صلاحیتوں کو صحیح معنی میں بروئے کار آنے سے پہلے ہی محروم کردیا۔

یہ بھی سُن لیجیے کہ مصریوں نے اپنی جس محبوب اداکارہ راقیہ ابراہیم کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور جسے کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کا اعزاز عطا کرنے کی کوشش کی تھی، امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے امریکا کے لیے اسرائیل کی خیرسگالی کی سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ سمیرہ موسیٰ کے قتل میں معاونت کا صلہ تھا۔

The post سمیرہ موسیٰ شہید۔۔۔ مسلمان خاتون جوہری سائنس داں appeared first on ایکسپریس اردو.

سیالکوٹ؛ جنوبی ایشیا کے امیرترین شہروں میں سے ایک

$
0
0

جنوبی ایشیا کے چند امیر ترین شہروں میں سے ایک سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کے شمال مشرقی کونے میں واقع ایک گنجان آباد ضلع ہے جس کے مشرق میں ضلع نارووال، مغرب میں ضلع گجرات اور گوجرانوالہ، جنوب میں ضلع گوجرانوالہ اور ضلع شیخوپورہ جب کہ شمال میں مقبوضہ جموں کشمیر واقع ہے۔

”ورکنگ باؤنڈری” اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔ 3016مربع کلومیٹر پر محیط ضلع سیالکوٹ ”رچنا دوآب” کا ایک اہم اور زرخیز علاقہ ہے۔ کشمیر ہلز کی آغوش میں آباد اس ضلع کو ایک جانب سے ”نالہ ڈیک” اور دوسری جانب ”دریائے چناب” نے گھیر رکھا ہے۔ ضلع سیالکوٹ کی کُل آبادی 3893?672 نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں 7 ٹاؤنز اور2،348 دیہات شامل ہیں۔

کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا، کر وادی کے گلزاروں سے مہکتی ہوئی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب سیالکوٹ پہنچتی ہیں تو یہاں کا ہر ایک شجر جھوم جھوم کر فضا کو خمار آلود کر دیتا ہے۔ یہ روح پرور ماحول بڑے بڑے عارفوں اور درویشوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو مہاتماؤں کی سرزمین کے نام سے بھی بھی یاد کیا جاتا ہے۔

راجا سل نے یہ شہر آباد کر کے اسکا نام ”سل کوٹ” رکھا جو بدلتے بدلتے سیالکوٹ بن گیا۔ بوسیدہ کھنڈر، سلاطین کے مقبرے، مسمار قلعے، قدیم گلیاں، نوآبادیاتی دور کے چرچ، چپے چپے پر پُرانے ادوار کے نقش و نگار اس کی گذشتہ بڑائی کے افسانے دہراتے ہیں۔ جس قدر پہ در پہ انقلابات اور زمانے کی نیرنگیاں سیالکوٹ کے حصے میں آئی ہیں شاید ہی کوئی اور شہر (ماسوائے ملتان کے) ان کا متحمل ہوسکا ہو۔

اس علاقے کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ سکھوں، فارسیوں، افغانیوں، ترکوں اور مغلوں نے بھی اس علاقے کی طرف ہجرت کی ہے۔ سیالکوٹ کی قدیم و زرخیزتاریخ کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور قدیم شہر ”ساگالہ” کا ہے۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار ملے ہیں جن میں یونانی سِکّے اور اسٹوپے شامل ہیں۔

قدیم یونانی کتابوں میں اس شہر کا ذکر ”ساگالہ” کے نام سے ملتا ہے جو انڈو- یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ضلع کی مختلف جگہوں پر کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہندو راجا سل کا دور آیا جس نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ راجا سلبان/سالبان نے اسے کشمیر کا حصہ بنا کر یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور اسے اس شہر کے نام پر ”سیالکوٹ قلعہ” کا نام دیا۔ دوسرا دور”مسلم سلطنت” کا دور ہے جو شہاب الدین محمد غوری کی حکومت کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ غوری لاہور تو فتح نہ کر سکا لیکن اس نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی-

1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ، ”رچنا بار سرکار” کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔ پھر شاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکم راں رہا۔ 18 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ نے 40 سال تک اس علاقہ پہ اپنا قبضہ برقرار رکھا۔

1849 کی جنگ سے سیالکوٹ کی تاریخ کے تیسرے دور (نوآبادیاتی دور) کا آغاز ہوتا ہے جب انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو ہرا کر سیالکوٹ سمیت پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں سیالکوٹ میں تعینات رجمنٹ نے بغاوت کردی اور مقامی افراد نے بھی انگریز سرکار کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے۔ بہت سے لوگوں نے سیالکوٹ کے قلعے میں پناہ لی اور اپنی جان بچائی تاہم انگریز سرکار نے اس بغاوت کو کچل دیا۔ سیالکوٹ شہر کی بھرپور ترقی بھی اسی نوآبادیاتی دور میں ہوئی۔ 1889 میں ”مرے کالج” کی بنیاد رکھی گئی۔ 1980 میں وزیرآباد – سیالکوٹ ریلوے ٹریک کو جموں تک توسیع دی گئی جب کہ ”سیالکوٹ تا نارووال’ ریلوے لائن 1915 میں کھول دی گئی۔ اسی دور میں سیالکوٹ دھاتی اشیاء کے حوالے سے اُبھر کر آیا۔

سیالکوٹ کی ”سرجیکل صنعت” کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ انگریز دور میں یہاں کے ”مشن اسپتال” کے تمام تر آپریشنوں کے لیے اوزار شہر میں مرمت کیے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ ان کو بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ 1920 تک سیالکوٹ کے آلاتِ جراحی پورے برِصغیر میں استعمال ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کی بدولت یہ صنعت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب تاجِ برطانیہ نے اپنی سرجیکل اوزاروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں نت نئی تکنیکیں متعارف کروائیں۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد، سیالکوٹ امرتسر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی شہر قرار پایا۔ شہر کی بھرپور ترقی کو دیکھتے ہوئے ریاست کشمیر کے لاتعداد لوگ بھی ضلع سیالکوٹ میں آن بسے۔ بڑی تعداد میں بسنے والی عوام کے ٹیکسوں سے شہر کا ڈھانچا کھڑا کیا گیا۔ یہاں تک کہ سیالکوٹ کا شمار برِصغیر کے ان چند شہروں میں ہونے لگا کہ جن کا اپنا ذاتی بجلی فراہم کرنے کا ادارہ تھا۔

آزادی کی تحریک شروع ہونے کے کافی عرصے بعد بھی سیالکوٹ پُرامن رہا جب کہ اس کے قرب و جوار میں لاہور، امرتسر اور لُدھیانہ فسادات میں جلتے رہے۔ تحریک پاکستان میں اس شہر کا ایک اہم کردار تھا۔ پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اسی دھرتی کے سسپوت تھے، جب کہ 1994 کا تاریخی ”سیالکوٹ کنونشن” بھی یہاں منعقد ہوا جس میں قائدِاعظم سمیت مسلم لیگ کے بڑے بڑے راہ نماؤں نے شرکت کی اور آخر کار1947 میں تقسیمِ پاکستان کے وقت اسے پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔

سیالکوٹ کا چوتھا اور آخری دور اس کی موجودہ تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد بہت سے مسلمان مہاجرین یہاں آ بسے۔ آزادی کے بعد سیالکوٹ میں بہت کم صنعتیں رہ گئی تھیں۔ سیالکوٹ کی صنعت کر یہاں ہجرت کرکے آنے والوں نے نئے جوش وجذبے کے ساتھ دوبارہ پروان چڑھایا اور حکومتِ پاکستان نے بھی ان کی بھرپور مدد کی۔ 1960 کے دوران ضلع بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور سیالکوٹ کو جی ٹی روڈ سے ملادیا گیا۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے جموں کی طرف سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج نے کام یابی سے شہر کا دفاع کیا اور سیالکوٹیوں نے بے جگری سے اپنی فوج کا ساتھ دیا۔

غیور شہری بھارتی ٹینکوں کے سامنے بم باندھ کر لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں جنگِ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ اہلِ سیالکوٹ کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1966 میں سیالکوٹ کے باسیوں کو ”ہلالِ استقلال” سے نوازا (اہلیانِ لاہور اور سرگودھا کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے)۔ 1971 کی جنگ میں بھی سیالکوٹ کا بھرپور دفاع کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی علاقے ”چھمب سیکٹر” پر پاک فوج کا قبضہ ہو گیا۔

1991 میں ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو الگ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ ضلع سیالکوٹ میں پسرور، سمبڑیال، ڈسکہ اور سیالکوٹ کی تحصیلیں شامل ہیں۔

3016 مربع کلومیٹر رقبے کے حامل ضلع سیالکوٹ کی آبادی لگ بھگ اڑتیس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو بہتر نفوس پر مشتمل ہے۔ طبعی خدوخال کے لحاظ سے سیالکوٹ کی زمین ہموار اور زرخیز ہے۔ ضلع کے شمال مغرب میں ”بجوات” کا جنگلی حفاظتی علاقہ ہے جو دریائے چناب اور اس کے معاون توی دریا کے درمیان ہے۔

دریائے چناب ضلع سیالکوٹ اور گجرات کی سرحد پر بہتا ہے۔ جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار “چندربھاگ” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سرحد کے اِس پار اِسے “چناب” کا نام دیا گیا ہے۔ چناب کا نام ‘چن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے، یہ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔

بالائی علاقوں میں اس کو ”چندرابھاگا” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا بذریعہ کوہِ پیر پنجال ضِلع سیالکوٹ کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ مرالا کے مقام پر اِس کے سینے پہ بندھ باندھا گیا ہے جِسے “مرالا ہیڈورکس” کہا جاتا ہے۔ یہاں سے دو بڑی نہریں “مرالا راوی لِنک کینال” اور “اَپر چناب کینال” کے نام سے نِکالی گئی ہیں۔ 1968میں بنایا گیا یہ بند ضلع کا ایک مشہور تفریحی مقام ہے۔

نالہ ڈیک سیالکوٹ کے مغرب میں بہتا ہے۔ یہ ایک برساتی نالہ ہے جو مقبوضہ جموں کشمیر سے سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے جس کے ایک طرف تحصیل پسرور جب کہ دوسری جانب ضلع نارووال کا علاقہ ہے۔ سیالکوٹ کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ سردیوں میں کم سے کم 2- ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کا شمار پنجاب کے ان چند اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ سالانہ بارش کی اوسط 980 ملی لیٹر ہے۔ ضلع کا بیشتر رقبہ زرخیز ہے جس پہ چاول، گندم، گنا، مکئی، جوار، آلو، لہسن اور دالیں کاشت کی جاتی ہیں جب کہ کئی مقامات پر امرود، جامن اور انار کے باغات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ضلع کا 6401ایکڑ رقبہ جنگلات نے گھیر رکھا ہے۔

سیالکوٹ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے جس کی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان بنانے، آلاتِ جراحی، چمڑے کی مصنوعات، کیمیکل بنانے، کوکنگ آئل اور ویجیٹیبل گھی، ٹائر اور ربڑ کی مصنوعات، ادویات بنانے، سٹیل کے برتن بنانے، آٹا پیسنے، دستانے بنانے، موسیقی کے آلات بنانے اور چاول چھڑنے کے کارخانے شامل ہیں۔ پاکستان کے امیر ترین شہروں میں سے ایک، سیال کوٹ کی سب سے بڑی صنعت کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ہے۔ 100 سال سے بھی زیادہ پرانی یہ صنعت شروع میں کرکٹ، ہاکی اور پولو کا سامان بناتی تھی۔ 1918 میں فٹبال بھی ان میں شامل ہو گئی جو سنگاپور میں مقیم برطانوی فوج کے لیے بنائی جاتی تھی۔

آج کھیلوں کی دنیا کی تمام مشہور کمپنیاں اس شہر سے پوری دنیا میں سامان برآمد کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر فٹبال کی 60 سے 70 فی صد طلب سیالکوٹ سے پوری کی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کی تقریباً تمام مصنوعات برآمد کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر پاکستان کی کل برآمدات میں 9 فی صد حصہ رکھتا ہے۔ یہ برآمدات ”سیالکوٹ ڈرائی پورٹ” کے علاوہ لاہور اور کراچی سے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ – لاہور موٹروے بھی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے جو اس شہر کی ترقی کو ساتویں آسمان تک لے جائے گی۔ اقبال کے شاہینوں کی محنت اور لگن سے پاکستان کے نقشے پر ایک اور ایئرپورٹ ”سیالکوٹ ایئرپورٹ” کے نام سے ابھر کہ سامنے آیا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ”نجی انٹرنیشنل ایئرپورٹ” ہے جہاں سے اندرونی پروازوں کے علاوہ خلیجی ممالک کو بھی پروازیں جاتی ہیں۔

اب ذکر ہو جائے شہرِ اقبال کی تاریخی و سیاحتی جگہوں کا۔

٭ اقبال منزل؛

اقبال کے دیس کی سب سے بڑی پہچان خود شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ہیں۔ سیالکوٹ کے پرانے حصے میں واقع ان کے گھر ”اقبال منزل” کو دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ یہ گھر علامہ اقبال کی جائے پیدائش ضرور ہے مگر یہ مکان اُن کے بھائی شیخ عطا محمد کے حصے میں آیا تھا جب کہ سیالکوٹ ہی میں علامہ اقبال کے والد کا ایک اور مکان تھا جو علامہ کے حصے میں آیا تھا۔

1971میں حکومت نے پاکستان کے قومی شاعر کی جائے پیدائش کو قومی یادگار قرار دے کر یہ مکان شیخ عطا محمد کی اولاد سے خریدا تھا مگر نو مرلے کے اس تین منزلہ مکان کی حالت بہت بوسیدہ تھی۔ اب اس عمارت کو حکومتِ پاکستان نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور نئے سرے سے اس کی تزئین و آرائش کروا کر اسکے کچھ حصوں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔

٭ شوالہ تیجا سنگھ ٹیمپل؛

مہاراجا رنجیت سنگھ نے ہندوستان اور خصوصاً سرزمینِ پنجاب پے گہرے اثرات چھوڑے ہیں، چاہے وہ تاریخ ہو، ثقافت ہو، فنِ تعمیر ہو یا رسم و رِواج۔

رنجیت سنگھ کے دورِحکومت میں پنجاب کے طول و عرض میں کئی مندِر اور عبادت گاہیں بنائی گئیں۔ سیالکوٹ شہر کا شوالا تیجا سنگھ مندِر بھی اُنھی میں سے ایک ہے جو کہ تیجا سنگھ نامی ہندو نے بنوایا تھا۔ یہ آج بھی سیالکوٹ کی بلند ترین عمارات میں سے ایک ہے۔

1857 کی جنگ آزادی جس کو انگریز غدر کا نام دیتے تھے، میں سیالکوٹ میں ہوئی بغاوت میں انگریزوں نے اس شوالے میں پناہ لی۔ بہت سے انگریز اس دوران مارے گئے، لاہور سے آنے والی انگریز فوج نے ان کو یہاں سے نکالا۔

شہر کے پرانے حِصے میں اِقبال منزِل سے کچھ آگے جائیں تو ایک راستہ اوپر کی طرف اِس مندِر کی طرف لے جاتا ہے۔ شوالا ہندو دیوتا شیو کے مندر کو کہا جاتا ہے جہاں خاص طور پر شیو کی پوجا کی جاتی ہے۔ ساتھ میں شیو کی بیوی پاربتی کی بھی پوجا ہوتی ہے اور شیو کے بیل نندی کی مورتی یا تصویر بھی موجود ہوتی ہے۔

مقامی افراد کے مُطابق 200سال قدیم (اور “تاریخِ سیالکوٹ” کے مُصنف راشِد نیاز مرحوم کے مطابِق ایک ہزار سال قدیم یہ مندِر تقریباً سو فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔

1992 کے بابری مسجِد فسادات کے جواب میں ایک مشتعِل گروہ نے اِسے نقصان پہنچایا تھا۔ اس دن کے بعد سے مقامی ہندوؤں نے یہاں عِبادت کرنا بند کر دیا۔ سیالکوٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہاں ایک پارک بنا دیا ہے جہاں آس پاس کے گھروں کے بچے کھیلنے آتے ہیں۔ ہماری قومی بے حِسی کے عین مطابق تاریخ کے اس یادگار دور کو ہم نے اِس عِمارت کی طرح فراموش کر دیا تھا لیکن حکومت وقت نے حال ہی میں اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کروا کر اسے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔

٭ گھنٹہ گھر سیالکوٹ؛

سیالکوٹ کا گھنٹہ گھر، کینٹ میں صدر بازار کے بیچوں بیچ ایستادہ ہے جسے اقبال اسکوائر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد شیخ غلام قادر اور سیٹھ رائے بہادر نے رکھا تھا۔ ایک صدی سے بھی قدیم اس گھنٹہ گھر نے تاریخ کے کئی عروج و زوال دیکھ رکھے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کئی بار مرمت کی گئی ہے لیکن بنیادی ڈھانچا وہی ہے۔ پانچ منزلہ اس ٹاور کی اوپری منزل پر بڑی سائز کی گھڑیاں لگی ہیں جو رومن ہندسوں میں وقت بتاتی ہیں۔ برطانوی دور میں برصغیر کے کئی شہروں میں گھنٹہ گھر بنائے گئے تھے جن میں سے سیالکوٹ بھی ایک تھا۔

٭سیالکوٹ کیتھیڈرل؛

1852 میں بنایا گیا ہولی ٹرینٹی چرچ سیالکوٹ، کینٹ میں واقع ایک قدیم اور خوب صورت چرچ ہے جس کی سفید اور لال، گوتھک طرز تعمیر کی حامل عمارت واقعی ایک شاہ کار ہے۔ اس کے خوب صورت مینار کو آپ دور سے ہی دیکھ سکتے ہیں، جب کہ اس کی محرابیں اور لمبی کھڑکیاں اس کی دل کشی میں اور اضافہ کرتی ہیں۔ یہاں لگی ایک تختی کے مطابق اسے بنگال انجنیئرز کے ہارٹلے میکسویل نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا جب کہ 1 مارچ 1852 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ 30 جنوری 1857 کو اسے کلکتہ کے بشپ ڈینیئل ولسن کی طرف سے مقدس ترین قرار دے کر مذہبی کاموں کے لیے وقف کر دیا گیا تھا۔

یہ کینٹ میں واقع دو چرچوں میں سے بڑا اور سیالکوٹ شہر کا مرکزی چرچ ہے جسے برطانوی راج میں انگریز سرکار نے کینٹ میں رہائش پزیر فوجیوں کی سہولت کے لیے بنوایا تھا اور اب اس کی دیکھ بھال حکومتِ پاکستان بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس پر سالانہ بنیادوں پر رنگ روغن کیا جاتا ہے اور کرسمس کی مرکزی تقریبات بھی یہیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یقیناً یہ ہمارے زرخیز تاریخی ورثے کا امین ہے۔

اس کے نزدیک ہی گلابی رنگ کا ایک اور چرچ واقع ہے جو بہت زیادہ مشہور نہیں ہے لیکن اس کی عمارت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ سینٹ جیمز کیتھولک چرچ ہے۔

٭ہیڈ مرالہ؛

دریائے چناب کے پاکستان میں قدم رکھتے ہی جو پہلا بند اس کے سینے پر باندھا گیا ہے، وہ ہیڈ مرالہ ہے۔ اس بیراج کو 1968 میں دریائے چناب کا پانی کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو اب ایک بہت بڑا تفریحی مقام بن چکا ہے۔ مرالہ ہیڈ ورکس تقریباً 7 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ مرالہ راوی لنک کینال اور نہر اپر چناب یہاں سے نکالی گئی مشہور نہریں ہیں۔ ہر ہفتے یہاں کئی لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔

سیالکوٹ جانے والے شوقین مزاج یہاں مچھلی کھانے لازمی جاتے ہیں۔

٭ قلعہ سیالکوٹ؛

سیالکوٹ قلعہ پاکستان کے قدیم ترین اور تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ قلعہ دوسری صدی میں ہندو بادشاہ راجا سلوان نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پٹھوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔ ایک سیاح کے لیے اس شہر میں بہت کچھ ہے۔ سیالکوٹ پنجاب کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔

اس کے علاوہ سیالکوٹ میں جگّن ناتھ ٹیمپل، مرے کالج، پورن بھگت، درگاہ امام الحق، سینٹ جیمس کیتھیڈرل اور سیالکوٹ کینٹ مشہور و معروف جگہیں ہیں۔

اب آتے ہیں اس ضلع کی مشہور اور قدآور شخصیات کی طرف۔ سیالکوٹ نے بڑے بڑے سیاست داں، شاعر، فلسفی، لیڈر، ناول نگار، قلم کار، اداکار و موسیقار، کھلاڑی، صحافی، مصنف اور بزنس مین پیدا کیے ہیں جن پہ بلاشبہ پورے ملک کو فخر ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل شخصیات قابلِ ذکر ہیں:

1۔ شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور عظیم فلسفہ داں، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال۔

2۔ مسلم اسکالر و مشہور لیڈر، مولانا عبید اللہ سندھی۔

3۔ پاکستان کے پہلے وزیرِخارجہ، سرظفر اللہ خان۔

4۔ عظیم انقلابی شاعر، فیض احمد فیض۔

5۔ گلزاری لال نندا، بھارتی وزیرِاعظم و سیاست داں۔

6۔ پہلے پاکستانی ایئر چیف، ایئرمارشل ظفر چوہدری۔

7۔ بھارتی جرنلسٹ، کلدیپ نائر۔

8۔ اردو شاعر اور مصنف، امجد اسلام امجد۔

9۔ متحدہ پنجاب کے راہ نما، سر فضل حسین۔

10- مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی۔

11۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو، وحید مراد۔

12۔ مشہور مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار، عمیرہ احمد۔

13۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی، شعیب ملک۔

14۔ بھارتی اداکار، راجندر کمار۔

15۔ برِصغیر کے نامور غزل گائیک، محمد علی۔

16۔ صحافی و کالم نگار، حامد میر۔

17۔ بھارتی فلم اسٹار، دیو آنند (شکرگڑھ میں پیدا ہوئے جو اس زمانے میں سیالکوٹ کا حصہ تھا)

18۔ پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس۔

19۔ صوفی رائٹر، بابا محمد یحییٰ خان۔

20۔ سابق قائم مقام صدرِ پاکستان، خواجہ محمد صفدر۔

21۔ چاچا کرکٹ، چوہدری عبدالمجید۔

22۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی، چوہدری امیر حسین۔

23۔ سیاست داں و موجودہ سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات، فردوس عاشق اعوان صاحبہ۔

24۔ سابق پاکستانی وزیرِخارجہ، خواجہ محمد آصف۔

The post سیالکوٹ؛ جنوبی ایشیا کے امیرترین شہروں میں سے ایک appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر آپ بیمار نہیں ہونا چاہتے

$
0
0

نت نئی ایجادات اور دریافتوں کے حوالے سے تو بہت سے لوگ واقف ہوں گے۔

اخبارات، جرائد اور رسالوں میں بیماریوں کے علاج پر بھی عمیق نگاہ رکھتے ہوں گے جس کا محرک کہیں نہ کہیں انسان کے لاشعور میں بیٹھا وہ ڈر ہے کہ کبھی اسے خود یا اس کے کسی پیارے کو وہ بیماری لاحق ہوجائے تو علاج کرواسکے۔ ماہرین کو بھی عموماً بیماریوں کے پیدا ہونے کی وجودہات اور ان کے علاج کے لیے سرگرم دیکھا گیا۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر حضرات کم ہی دیکھنے سننے کو ملے جو کہ آپ کو آگاہ کرتے دکھائی دیں گے کہ بیمار ہونے سے بچا کیسے جاسکتا ہے۔

یہ بات تو عقل مند حضرات اچھے سے جانتے ہوں گے کہ ایک مرتبہ انسان کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو مشکل سے ہی جان چھوٹتی ہے اور اگر بیماری موذی ہو تو جان لیے بنا ٹلنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ افسوسناک حقائق یہ ہیں کہ دور حاضر میں مادیت اور کمرشلائزیشن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مسیحا بجائے بیماریوں سے بچاؤ کی آگاہی پر توجہ دینے کے بیماریوں کے علاج اور دواؤں پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ معمولی نزلہ زکام کی دروائیں بھی چار سے چھ گولیوں سے کم نہیں ہوتی جن کی قیمت خرید بھی عام آدمی کی بساط سے باہر ہے اور ڈاکٹروں کی فیسوں تو الاماں الحفظ! مگر ہائے رہے ہوس زد! انسان سے انسانیت اور ہمدردی کے عظیم جذبات ہی چھن گئے۔

کس طرح مسیحاؤں کو ”Incentives” دے کر دوا ساز کمپنیاں انہیں معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن فی الوقت ہم آپ کو یہ بتانے جارہے ہیں کہ وہ کونسے معمولی اقدامات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر آپ بیمار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں اگر کچھ چیزیں شامل کرلی جائیں تو ہماری عادات میں ایک تبدیلی آئے گی جس کا اثر یقینا صحت پر بھی پڑے گا اور قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوگا تو یہ سنہری ہدایات ان تمام لوگوں کے لیے پیش خدمت ہیں جو اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے متحرک رہنا چاہتے ہیں۔

-1 پانی زیادہ پئیں!

پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، یہ جملہ تو سب نے اکثر و بیشتر سن رکھا ہوگا۔ شاید کسی ملحد (جو اللہ کو نہیں مانتے) کے لیے یہ بات قابل یقین نہ ہو۔ لیکن جدید سائنس بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پانی سے بڑی کوئی نعمت انسان کو قدرت کی طرف سے عطا نہیں کی گئی۔ اگر یہ کہیں کہ پانی سے زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ انسان کی زندگی کی ابتداء بھی پانی کی ایک بوند جسے قرآن نے نطفہ کہہ کر بیان کیا (سورۂ یٰسین آیت نمبر 77 میں)، سے ہوئی۔ جب انسان میں پانی کی مقدار مناسب درجے پر موجود ہوتی ہے تو وہ صحت مند رہتا ہے کیونکہ اسے اندر سے جراثیم اور زہریلے مادے خارج ہوجاتے ہیں۔ امریکی ادارہ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق کسی شخص کو ایک دن میں کتنا پانی پینا چاہیے۔ اس کا بہترین پیمانہ یہ ہے کہ اپنے وزن کو پاؤنڈز Pounds میں دیکھیں پھر اسے آدھا کردیں اور ان آدھے پاؤنڈز کے جتنا پانی اونس کے حساب سے پئیں۔ جیسے کسی شخص کا وزن 150 پاؤنڈ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ 75 اونس پانی روزانہ پیئے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے 2 لیٹر پانی روزانہ پینا چاہیے۔

-2 پورینیند لیجئے!

نیند تو کانٹوں پر بھی آجاتی ہے یہ جملہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا مگر آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ نرم گرم بستروں پر بھی نیند نہیں آتی، جس کی ایک بڑی وجہ رات دیر تک موبائل فون کا استعمال ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ رات کی نیند پوری نہیں لیتے ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور نتیجتاً وہ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیند سب سے اہم ہے کیوں؟ اس لیے کہ سونے کے دوران آپ کا جسم اپنے اندر بیماریوں کے خلاف مذمت کرنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے اور اس سلسلے میں نیند کا وقت اہمیت رکھتا ہے۔ قدرت نے ہمارے جسم کے اندر ایک آلارم کلاک لگا چھوڑا ہے جوکہ ہمیں مختلف چیزوں کے متعلق بتاتا ہے۔ جیسے ہی رات ہوتی ہے ہمیں نیند کا غلبہ محسوس ہوتا ہے مگر کیونکہ ہمیں رات دیر تک جاگ کر خود کو الوں سے مشابہہ قرار دینے کا بہت شوق ہوتا ہے جبھی اس وقت کو اہمیت نہیں دیتے۔ یوں رات گئے سونے اور دن ڈھلے اٹھنے کو فیشن کے طور پر اپنا چلن بنانے والے اندرونی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق روزانہ 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ہر شخص کے لیے بے حد ضروری ہے مگر یاد رہے کہ اس کا مناسب وقت رات 9 سے 10 کے درمیان سے شروع ہوجاتا ہے۔

-3 جراثیم سے پاک رکھیے!

اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ آپ کے جسم میں انفیکشنز کی ترسیل کا سب سے اہم ذریعہ آپ کے سمارٹ فونز اور چابیاں ہیں تو یقینا آپ کو حیرانی ہوگی۔ تو جی بھر کے حیران ہوں۔ آپ کے موبائل فون کی سکرین آپ کی سوچ سے کئی زیادہ گندی ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر جگہ سے اپنے ساتھ جراثیم کا ایک جم غفیر لے کر آتی ہے۔ جب وہ جراثیم اسے چھونے سے انگلیوں میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ ہاتھ، آنکھوں، منہ، ناک اورکان کے ذریعے جسم میں جاکر وائرس اور انفکشن کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہی حال گاڑی، بائیک اور گھر کی چابیوں کا ہے جنہیں صاف کرنے کی نوبت شازونادر ہی آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ اپنے موبائل فون اور چابیوں کو وائپ سے ضرور صاف کریں اور گھر میں کوئی بیمار ہے تو اس احتیاط کو مزید بڑھا دیجئے۔

-4 ویکسنیشن کروائیے!

اگر آپ پالتو جانور پالنے کے شوقین ہیں تو خبردار رہئیے کیونکہ جانوروں کے جسم سے آپ کو بہت سی بیماریاں منتقل ہوسکتی ہیں خواہ آپ انہیں روزانہ غسل دیتے ہوں اور صفائی کا کتنا ہی اچھا نظام رکھا ہے۔ یہ حقائق بہرحال تلخ ہیں کہ جانور اور انسان مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب دونوں کا باہم اختلاط ہوتا ہے اور وہ آپ کے استعمال کی چیز سے ٹچ کرتے ہیں تو تمام چیزوں میں ان کے جسم سے جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو نزلہ، زکام کی ویکسینیشن بھی کرائی جاتی ہے جوکہ کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

-5 یوگا یا مراقبہ کیجئے!

آج کے دور میں پریشانیاں بے حد بڑھ چکی ہیں۔ مسائل لامحدود اور وسائل محدود ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی شخص ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ نیو جرسی کی رہائشی کا سیا بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر عموماً بیمار رہتا ہے اور اس کی وجہ ذہنی دباؤ ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرا شخص ذہنی دباؤ کے اثر میں ہے۔ جس سے بہت سے دوسرے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے لوگ اپنے سٹریس کو مینج کرنا سیکھیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر میرندا کا کہنا ہے کہ روزانہ کچھ وقت نکال کر مراقبہ یا یوگا کریں۔ جس میں لمبے لمبے سانس لیں اور خود کو پرسکون محسوس کریں۔ اگر یہ حد سے بڑھ جائے تو اس ضمن میں کسی ماہر نفسیات سے کونسلنگ میں مدد لیں۔ اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ پاگل ہیں بلکہ یہ آپ کو پاگل پن سے بچانے میں مدد گارہوگا۔

-6 باہر نکلیں!

کیا آپ کے خیال میں اپنے بستر میں گھسے رہنا اور سارا وقت اپنے موبائل، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس میں مصروف رہنا آپ کی صحت کے لیے درست امر ہے۔ اگر اس کا جواب آپ کے نزدیک ہاں ہے تو تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو سہل پسندی کی طرف دھکیلا تو ساتھ ہی ساتھ اسے معاشرتی میل جول اور روابط سے دور کر ڈالا۔ باہر نکل کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کی صناعی کتنی حسین ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ صحت مند رہیں تو ضروری ہے کہ باہر نکلیں، کھلی تازہ ہوا میں سانس لے کر دیکھیں آپ خود کو چست و تندرست محسوس کریں گے۔ اپنی روزانہ کی روٹین سیٹ کر لیجئے کہ کم از کم ایک گھنٹہ آپ نے واک کرنی ہے۔

ایک صحت مند طرز زندگی قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ سارا وقت گھر میں ٹیکنالوجی کے ساتھ مصروف رہیں۔ بلکہ باہر نکلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جس سے آپ ایک قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوسکیں۔ دھوپ ہی کی مثال لے لیجئے۔ وٹامن D حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور سستا ذریعہ دھوپ ہے۔ کوشش کریں کہ روزانہ 15 سے 20 منٹ دھوپ میں ضرور بیٹھیں اس سے ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور اگر صبح کی سیر ہری ہری گھاس پر ننگے پیر کریں گے تو قدرت سے بے شمار فائدے ملیں گے۔

-7 گرم پانی پئیں!

ہمارے ہاں گرم پانی تو غراروں (گلے خرابی کی صورت میں) کے لیے یا پھر سردیوں میں نہانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر شاید اکثریت ان حقائق سے نابلد ہے کہ گرم پانی پینا کس قدر فائدہ مند ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاں گرم پانی پینے سے بلغم کو سانس کی نالیوں سے گزرنے میں مدد ملتی ہے ونہی یہ ناک میں اندرونی سوزش کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ڈاکٹر نندی کے مطابق گرم پانی میں شہد، لیموں اور ایک ٹکڑا دار چینی ملا کر پینا صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔

-8 اپنی ناک صاف رکھیے!

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ناک میں موجود رطوبتیں بہت سی صورتوں میں انفیکشن سے بچاتی ہیں کیونکہ جراثیم ہوا کے راستے ناک میں داخل ہوکر اپنا بسیرا کرتے ہیں اور ناک میں موجود رطوبتیں انہیں ختم کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس سے بہتر انداز میں دفاع کے لیے ناک کو نمکین واش (Saline Wash) سے دھونا مفید ہے۔ یہ کہنا ہے میڈیکل ہربلسٹ تامی برونسٹلین کا۔ ناک کے اندرونی حصہ میں سپرے کرنا زکام پیدا ہونے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔ سو اس سے زکام کے خلاف مذمت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال وضو ہے جس کوئی شخص دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتا ہے تو ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنے سے سارا معاملہ آسان ہوجاتا ہے اوہر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔

-9 نباتاتی تیل استعمال کیجئے!

بعض اوقات تھکاوٹ اور اینتھن سے جسم ٹوٹنے لگتا ہے اور یہ احساس اعصاب پر سوار ہوجاتا ہے۔ اسی صورت حال بعض اوقات بہت پریشان کن اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ اسے میں بجائے پریشان ہونے اور ڈاکٹر کے ہاں جانے کے بجائے نباتاتی تیل کا استعمال کیجئے، جوکہ کرشماتی نتائج دیتا ہے۔ جب بھی تھکاوٹ محسوس ہو چند قطرے ہتھیلیوں پر ڈالیں اور متعلقہ جسم کے حصے کی ہلکے ہاتھوں سے مالش کیجئے۔ خاص طور پر کام کرنے والے مرد و خواتین جن کو آٹھ سے زائد گھنٹے اکڑوں بیٹھنا پڑتا ہے اور ان کے پیر جوتوں میں بند رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ضرور اپنے پیروں اور ریڑھ کی ہڈی پر ہلکا مساج کریں۔ ماہرین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نباتاتی تیل میں سے خصوصاً ’’نیازبو‘‘ کے تیل میں ایسے اینٹی باڈیز موجود ہوتے ہیں جو تھکان کو دور بھگاتے ہیں۔ مزید براں تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نباتاتی تیل میں جراثیم کش مواد قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں مچھروں سے بچاؤ کے لیے لوگ اپنے جسم پر تیل کا استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا نباتاتی تیل کا استعمال بے حد فائدہ مند ہے۔

-10 خوشگوار ازدواجی زندگی گزارئیے!

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوکہ خوشگوار ازدواجی زندگی بہترین صحت کی ضمانت ہے۔ بہت سی تحقیقات یہ ثابت کرچکی ہیں کہ جو لوگ پرسکون ازدواجی زندگی گزارتے ہیں وہ بہت سی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ان میں قوت مدافعت کا بڑھ جانا ہے کیونکہ ان کے اندر ذہنی تناؤ پیدا نہیںہوتا اس لیے ان میں بیماریوں سے لڑنے کی زبردست طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔

-11 جراثیم سے اتنا مت گھبرائیں!

اگر آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جوکہ صابن کو بھی اس لیے استعمال نہ کریں کہ اس میں جراثیم لگے ہوں گے تو آپ جلد بیمار ہوسکتے ہیں ۔کیونکہ آپ صفائی کے معاملے میں حد سے زیادہ متفکر رہتے ہیں۔ بے شک آپ کو کوئی بھی کام کرنے کے بعد ضرور ہاتھ دھونے چاہئیں مگر ہر وقت ہاتھ ہی دھوتے رہنا پاگل پن کی علامت ہے۔ ڈاکٹر لپمین کا کہنا ہے کہ ’’جدید سائنٹفک ریسرچ بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ کچھ اچھے جراثیم ہوتے ہیں جوکہ صحت مند رکھنے اور ہمارے اندر قوت مدافعت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرے والدین جو مجھے کچھ وقت کیلئے میلا رہنے دیتے تھے وہ مجھے مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔‘‘

آج کل کی ہی مثال لے لیجئے جرمز کے نام پر جو فوبیا ماڈرن ماؤں کو لاحق ہے وہ بچوں کو ہر وقت صاف رکھتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کے بچے پہلے کی نسبت زیادہ اور جلد بیمار ہوجاتے ہیں تو وجہ ان کو ایک آرٹیفیشل ماحول میں رکھ کر ان میں قوت مدافعت کی کمزوری کو پروان چڑھانا ہے۔ ماہرین کا بھی یہ خیال ہے کہ جو بچے مٹی میں کھیل کھود کر بڑے ہوتے ہیں وہ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ مٹی میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جوکہ انسانی جسم کو تقویت بخشتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر قسم کا بیکٹریا ہمیں بیمار کرے، اچھے بیکٹریا ہمیں بیماری سے بچانے کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔

12۔ جم جائیے!

لوگ اکثر اسی وقت جم جاتے ہیں جب وہ اپنا وزن کم کرنے کے درپے ہوں۔ بہرحال یہ بات تو نئی نہیں کہ ورزش صحت کے لیے اچھی چیز ہے۔ مگر یہ بات شاید آپ کو پہلے سے معلوم نہ ہوکہ ورزش جسم میں انفیکشنز  کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہے۔ جب اس حوالے سے ایک سروے کیا گیا تو ورزش کرنے والے افراد کا موقف یہ تھا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی وجہ سے وہ بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ورزش کرنے والے افراد نزلہ زکام کا شکار کم بنتے ہیں۔

-13 تولیہ بدلتے رہیں!

اپنے باتھ ٹاول (نہانے والے تولیے) کو تو آپ یقینا تین سے چار دن بعد دھو ڈالتے ہوں گے لیکن ہاتھوں کو صاف کرنے والے تولیے کی صفائی پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جراثیم پھیلانے کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہیں ٹھیک سے صاف نہ کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ اسے روزانہ دھوئیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ کچن میں رکھے ہاتھ صاف کرنے والے تولیے 89 فیصد بیکٹریا کے حامل ہوتے ہیں جوکہ گھر بھر کے افراد کو بیمار کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

-14 گرین ٹی پئیں!

گرین ٹی (سبز چائے) پینے کے بہت سے فوائد ہیں لیکن ان میں سب سے اہم فائدہ ہے کہ یہ ہمارے مدافعتی نظام کو فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ناصرف وائرس کا شکار ہونے سے بچاتی ہے بلکہ وائرس کے دورانیے کو کم کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ سبز چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس صحت مند خلیوں میں جاکر انفیکشن کے حملوں سے بچاؤ میں مدد دینے کے ساتھ وائرس کے دورانیے خصوصاً نزلہ زکام اور بخار کو کم کرنے میں بھی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اوریگانوسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق میں اس کی وجہ گرین ٹی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ Polyphenols ہے جو کہ جسم میں موجود ٹی۔ سیل (T-Cell) پر اثر انداز ہوتا ہے اور جسمانی مدافعتی نظام کی فعالیت بہتر بناتا ہے۔

-15 دوستوں کے ساتھ مل بیٹھیں!

کہا جاتا ہے کہ مسکراہٹ ایسی دوا ہے جو ہر درد دور کردیتی ہے۔ کسی کو بغیر صلے کی تمنا کیے دیئے جانے والی خوشی آپ کے لیے ذہنی و روحانی آسودگی کا باعث بن سکتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انسانی جسم جیسے ماحول میں رہتا ہے وہ اپنے آپ کو ویسے ہی ڈھال لیتا ہے۔ اگر آپ منفی قسم کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں تو آپ کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات نمایاں ہونے لگیں ہے۔ ڈاکٹر مندرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب ہمارا جسم مثبت ماحول، اچھے لوگوں (گھر والے اور دوست) میں رہتا ہے تو اس طرح ہم ہنسی خوشی اپنا وقت گزارتے ہیں اور ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوپاتے۔ نتیجتاً ہم بیماریوں سے بچے رہتے ہیں اور ہماری صحت پر برے اثرات نہیں پڑتے۔ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کچھ وقت ضرور گزاریں اس سے آپ خود کو تروتازہ محسوس کریں گے۔ ریسرچ کے مطابق معاشرتی زندگی میں اچھے لوگوں سے میل جول آپ کو اچھی خوشگوار اور لمبی زندگی جینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

-16 دہی کھائیے!

دہی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ دہی میں ایسے بیکٹریاز موجود ہوتے ہیں جوکہ ناصرف صحت کے لیے بہت افادیت رکھتے ہیں بلکہ بیمار ہونے سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دہی میں اچھے اور برے دونوں بیکٹریا موجود ہوتے ہیں۔ خمیرزدہ کھانوں، چیز (پینر) اور دہی انسانی جسم میں آنتوں کی فعالیت کو بہتربنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دہی سرفہرست ہے کیونکہ یہ آنتوں کے انفیکشن سے بچاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دہی کھانے سے سانس کی نالیوں میں پیدا ہونے والے انفیکشنز کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔

اس میں موجود وٹامنز، زنک اور منرلز قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ نزلہ زکان سے بھی بچاتے ہیں۔

-17 غرارے کیجئے!

قدیم زمانے میں روزانہ غرارے کرنا گلا خرابی سے بچاؤ کا مستند نسخہ سمجھا جاتا تھا۔ جاپان میں کی گئی ایک تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ روزانہ غزارے کرنے سے سانس کی نالی میں انفیکشن نہیں ہوتا۔ البتہ اس پر ناقدین کا یہ خیال ہے کہ ضروری نہیں ہر بار نتائج ایسے ہی حاصل ہوں۔ بہرحال غرارے کرنے سے گلے کو سکون ملتا ہے اور گلینڈز کو تراوٹ کے ساتھ تقویت بھی ملتی ہے۔ تو بے شک آپ روزانہ غرارے مت کریں مگر ہفتے میں دو سے تین مرتبہ ایسا کرنا آپ کو فائدہ دے سکتا ہے۔

-18 سیب کا سرکہ استعمال کیجئے!

سیب کا سرکہ بہت سے معلامات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ خصوصاً ناک اور گلے کے انفیکشنز کی صورت میں کیونکہ اس میں جراثیم کے خلاف لڑنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مزید براں یہ کہ اس میں موجود پوٹاشیم بلغم کو پتلا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ گوکہ اس حوالے سے کوئی جدید طبی شواہد موجود نہیں اور یہ گمان بھی قوی نہیں کہ یہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مگر بہرحال یہ ایک دیسی نسخہ کے طور پر استعمال ضرور ہوتا رہا ہے۔ آٹھ اونس پانی میں ایک چھوٹا چائے کا چمچہ سیب کا سرکہ ملا کر استعمال کرنے سے آپ کو وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، مگر دھیان رکھیے اس میں کافی مقدار میں پائے جانے والے ایسڈ دانتوں کے خول کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ سو پہلے اپنے طبی معالج سے مشورہ ضرور کرلیجئے۔ اسے سلاد پر چھڑک کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

-19 مثبت انداز فکر اپنائیے!

آپ کا ذہن اور جسم دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہیں۔ آپ جو سوچتے ہیں اس کا اثر ہر صورت آپ کے جسم پر ہوتا ہے جو لوگ مثبت انداز فکر کو اپنا شعار بناتے ہیں وہ زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ منفی سوچیں ذہن اور جسم پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں جن سے انسان ذہنی ہیجان کا شکار ہوکر بیمار پڑجاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً خواتین میں یہ مسائل زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ منفی انداز فکر اپنا کر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹینشن لیتی ہیں جس کا نتیجہ بیماریوں کی صورت واضح ہوتا ہے۔ یہ بات تحقیق سے واضع ہوچکی ہے کہ مثبت اور منفی انداز فکر انسانی صحت اور عمر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

The post اگر آپ بیمار نہیں ہونا چاہتے appeared first on ایکسپریس اردو.

پَرنانا جی کی نگری تک ۔۔۔ ، تم یہ ورقے لے کر ایک مرتبہ پرانی دلّی ضرور جانا۔۔۔!

$
0
0

دنیا کا دستور ہے، یہاں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔ مستقبل حال کے راستے سے گزر کر ماضی کے ’دفینے‘ میں دبتا چلا جاتا ہے۔۔۔

گزرے وقت کی بازگشت بس ایک دو پیڑھیوں تک ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔ پھر جیسے جیسے وقت بڑھتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے اس پرانے ماضی سے تعلق کم زور پڑتا چلا جاتا ہے، پھر برائے نام رہ جاتا ہے اور کبھی تو وہ بھی نہیں رہتا۔۔۔ 1947ء میں حاصل کی گئی آزادی بھی کچھ ایسا ہی واقعہ تھی کہ برصغیر کے نقشے پر دو الگ الگ ملک پاکستان اور ہندوستان کے نام سے وجود میں آئے اور لوگوں نے دونوں جانب سے ایک بہت بڑی ہجرت کی، جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نہ سہی لیکن کچھ بہت بڑی ہجرتوں میں ضرور شمار کی جا سکتی ہے۔

آج 1947ء کے ہنگام کو آٹھویں دہائی لگ چکی ہے۔۔۔ یعنی سرحد کی دونوں جانب اس واقعے کو جھیلنے والے افراد کی بہت تھوڑی تعداد بقید حیات رہ گئی ہے۔۔۔ 72 برس کوئی تھوڑی مدت تو نہیں ہوتے۔۔۔ اب تو اس بٹوارے کے بعد آنکھ کھولنے والے بھی بوڑھے ہوگئے ہیں۔۔۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل اس خطے کی وہ آخری پیڑھی ہوگی، جس نے ہجرت کرنے والوں کو اپنے نانا، نانی، دادا، دادی یا کسی اور بزرگ کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ اور ان سے اس واقعے کے تلخ وترش حالات براہ راست سن کر اسے محسوس کرنے کی کوشش کی۔

زیر نظر مکتوب ایسے ہی ایک نوجوان کی جانب سے سرحد کے اُس پار ’فیس بکـ‘ پر بننے والے ایک دوست کو لکھا گیا ہے، جہاں اب اس کا کوئی بھی قریبی رشتہ دار زندگی نہیں کرتا، لیکن پھر بھی ایک تعلق ہے جو اُسے پرکھوں کی دھرتی سے جوڑے ہوئے ہے۔۔۔

پیارے دوست۔۔۔ السلام علیکم

یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے یہ چِٹھی لکھنے کے لیے وقت 23 مارچ کو ہی مل سکا۔۔۔ وہ چِٹھی جسے 1947ء میں کھینچی جانے والی سرحد کے پار جانا ہے، وہی سیما، جس کے عقب میں ہم اپنا شجرہ چھوڑ آئے۔۔۔ اپنی وہ زمین چھوڑ آئے، جہاں ہمارے بزرگوں نے ایک زمانے تک اپنی زندگی کی۔۔۔ میرا تعلق یوں تو خطے کی اس نسل سے ہے، جو ہندوستان سے یہاں ہجرت کرنے والوں کی اولاد کی اولاد ہے، یعنی ہمارے والدین بھی ہماری طرح سرحد کے اِس طرف پیدا ہوئے، البتہ ان کے بڑے وہیں جنمے، جہاں آج تم زندگی کرتے ہو۔۔۔

سو بس اپنے ہاتھ سے کاغذ قلم لے کر بیٹھنے کی وجہ یہی جذباتی وابستگی تھی کہ ہم نہ سہی، ہمارے ہاتھ سے رقم ہوئے لفظ ہی اپنی مجسم طبعی صورت میں اُس نگری پہنچ جائیں، جہاں سے ہمارے دادا، دادی اور نانا، نانی آئے تھے۔۔۔ پھر جدید اور برق رفتار روابط کے دور میں یہ روایتی طرز تخاطب جسے بے رحمی یا حقیقت پسندی کی زبان میں دقیانوسی بھی کہتے ہیں، پر لکھنے کا ایک سبب یہ بھی تھا دوست، کہ سچے لفظ لکھتے ہوئے آنکھیں جو گواہی دینے لگتی ہیں، میں انہیں بھی اس کاغذ کے سینے میں چُھپاتا جاؤں، تاکہ یہ ہجر کے اشک بھی بنا ویزے کے سرحد کے پار اس دلّی جا پہنچیں، جہاں سے نکلنے کے بعد میری دادی اور نانی کو وہاں پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔۔۔

وہ دونوں سگی بہنیں تھیں، اس اعتبار سے میرے پر نانا عبدالوہاب صاحب ہوئے۔۔۔ درجن بھر کے قریب بچوں کے پریوار کے مُکھیا کو اس کے قریبی دوراندیش رفقا نے بتا دیا تھا کہ دلّی میں بڑی خوں ریزی ہونے والی ہے۔۔۔ جانے انہوں نے کیا سوچا ہوگا، مگر اَجل نے بٹوارے سے کچھ ہی پہلے ان کی روح اور جسم کا بٹوارا کر ڈالا۔۔۔ تو بس جب 1947میں دلّی سلگنا شروع ہوئی اور لوگ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود گھر چھوڑ چھوڑ کر ’پرانے قلعے‘ میں محصور ہونے لگے، تب میری پرنانی جان اپنی بیوگی کے چار ماہ دس دن کاٹ رہی تھیں۔۔۔ مجھے نہیں پتا انہوں نے ان لمحوں کا کشٹ کیسے اٹھایا، لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے میں یا تم اتنی آسانی سے سمجھ نہیں سکتے۔۔۔ ’پرانے قلعے‘ میں آن پڑنے کے بعد جو بیتی ہوگی سوبیتی ہوگی، مگر تقسیم کرنے والوں نے لکیر کچھ اس طرح کھینچی تھی کہ ان کی ایک بیٹی کلکتہ بیاہ کر گئی تھی، جب کہ دوسری بیٹی کراچی کی مکین ہوئی۔ اب یہ دونوں الگ الگ دیشوں کی نگریاں بن گئی تھیں، قصہ مختصر یہ کہ کراچی میں بیاہ کر آنے والی میری دادی تھیں، کیوں کہ دادا کراچی میں کاروبار کے سلسلے میں مصروف رہتے تھے۔۔۔ بہرحال پرنانی جی کو وہاں سے نکلنا پڑا۔

میں نے پرنانی جی کو صرف تصویر میں دیکھا۔۔۔ دادی جی بھی میرے جنم سے کچھ قبل کوچ کر گئی تھیں۔۔۔ البتہ نانی جنہیں میں ’امّاں‘ پکارتا تھا۔۔۔ انہیں میں نے نوجوانی کے اوائل تک اپنے درمیان پایا۔۔۔ وہ بھی اپنی بڑی بہن اور میری دادی کی طرح پھر کبھی دلّی نہ جا سکی تھیں۔۔۔ لیکن نوجوانی میں ہجرت کا سفر انہیں خوب ازبر تھا۔۔۔ جب کبھی ذکر نکلتا، تو کتنی ہی دیر تک میں ان کے تخت سے لگا اُن سے اُن کی جنم بھومی کے قصے سنتا تھا۔۔۔ جھریوں زدہ چہرے کی بھوری مائل آنکھیں گویا خالی جگہ کو دیکھتے ہوئے پرانی دلی کی گلیوں میں بھٹکنے لگتی تھیں۔۔۔

میں نے دلّی کبھی نہیں دیکھی مگر ’اماں‘ کی آنکھوں میں اس کی پرچھائیں ضرور محسوس کی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ دلّی مجھ سے نہیں نکلتی۔۔۔ (اسی لمحے میرے دو آنسو ضبط کی توہین کر کے اس کاغذ پر گر گئے ہیں۔۔۔) شاید مجھ میں حلول کردہ بڑی ماں (امّاں) گریہ کرتی ہیں۔۔۔ مگر میں تمہیں یہ بھی بتاؤں کہ دلی کی اتنی اتنی باتیں کرنے اور اسے یاد کرنے کے باوجود وہ آہیں ضرور بھرتی تھیں، لیکن کبھی ایک لفظ پچھتاوے کا یا پاکستان کے خلاف انہوں نے ادا نہیں کیا۔۔۔ (اوپر دو جگہ جہاں خالی جگہ چھُوٹی ہے، وہاں آنکھوں کی گواہی ثبت ہوئی) یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنے ارد گرد تنگ نظری دیکھی۔۔۔ طعنے دیکھے۔۔۔ دُہرے معیار اور الزامات سمیٹے۔۔۔ خیر یہ اس کا موقع نہیں۔۔۔ بس اتنا ضرور کہوں گا کہ آج دوپہر ہی کچھ ذکر ہوا تو امی کہہ رہی تھیں کہ دلّی میں اتنا بڑا گھر بتاتی تھیں ’امّاں‘۔۔۔، جو چھوڑ آئے۔۔۔ نہیں معلوم بیچا یا یوں ہی چھوڑا۔۔۔ مگر یہاں کوئی دعویٰ (کلیم) داخل نہ کیا اور رہے بھی اتنے بڑے گھر میں، جتنی دلی کے گھر کی ڈیوڑھی تھی۔۔۔ یہ شکوہ ہے اور نہ احسان، بس آگاہی ہے!

ہاں تو میں امّاں کا ذکر کر رہا تھا، جن سے اکثر 14 اگست یا کسی بھی موقع پر بات نکل آتی، تو وہ پرانی دلّی پر گفتگو کیے ہی چلی جاتیں اور میں گھنٹوں اس میں محو ہوا رہتا۔۔۔ انہوں نے ہمیں یہ تک بتایا کہ دل کے جو کوّے ہوتے تھے، وہ پورے کالے ہوتے تھے، یہاں کے کوّؤں کی طرح گردن سے سفید نہیں ہوتے تھے۔۔۔ انہیں بہت قلق تھا دلی چُھوٹنے کا۔۔۔ پھر وہ بٹوارے کے 60 برس بعد کراچی کی مٹی میں ہی جا سوئیں۔۔۔ مگر شاید وہ مجھ میں کہیں بستی ہیں، تب ہی آج میں ان پر گزرے تلخ لمحوں کو قلم بند کرنے بیٹھا ہوں، وہ لفظ جو یہاں سے میرے ہاتھوں کا لمس اور قلم کی حرکت کے ساتھ میرے آنسو لیے بھی تمہاری طرف آئیں گے۔۔۔‘

سنو دوست! تم یہ ورقے لے کر ایک مرتبہ پرانی دلی ضرور جانا۔۔۔ وہیں کہیں میری نانی اور پرنانی نے زندگی کی ہوگی، ایک مرتبہ اسے اس کوچے کی ہوا میں لہرا دینا۔۔۔ ہوا سے کہنا تیری بیٹی تو یاد کرتے کرتے وہیں سوگئی۔ آج اس کا نواسا اپنے اندر بڑی ماں کا درد لے کر آیا ہے۔۔۔ بلکہ خود بھی کہاں آیا ہے، یہ کاغذ کے صفحے ہیں اور ان میں چُھپے لفظ اور جذب آنسو ہیں۔۔۔ ان سے دلی بچھڑ گئی اور ہم اُن سے بچھڑ گئے۔۔۔ اب شاید وہ مجھ میں بولتی ہیں۔۔۔ کبھی کبھی میرے قلم میں لکھتی ہیں۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔۔۔!

اور ہاں وہیں پرانی دلی کے ’پنجابی کٹرے‘ میں میری دادی کلکتہ جا بسنے والی ’خالہ امّاں‘ کے ساتھ کھیلی ہیں۔۔۔ کہنے کو وہ بٹوارے سے پہلے الگ الگ دشاؤں میں رہ گئیں، مگر 1947ء میں جو اِن دو بہنوں پر بیتی ہے، وہ صرف اللہ جانے ہے یا وہ دونوں! تو وہیں کہیں گلیوں میں دو چھوٹی بچیوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر تم یہ سمجھ لینا 1930ء کی دہائی میں میری دادی اور ’خالہ امّاں‘ ہیں۔۔۔!

سنتے ہیں دلی بہت بدل گئی ہے۔۔۔ بدلنے کو کیا کچھ نہیں بدلا۔۔۔ دھرتی تو وہی آکاش تو وہی ہے۔۔۔ مگر ہم نے تو دلّی کو سنا ہے، ہمیں کیا خبر تب کیسی اور اب کیسی۔۔۔ ہمارے دلوں میں تو کل بھی دلی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے۔۔۔ تم ایک کام اور کرنا، میرے یہ ورقے لے کر پرانی دلی کے علاوہ وہاں کے کسی پرانے قبرستان بھی چلے جانا۔۔۔ 70 برس بیت گئے، کتبہ لکھا بھی گیا ہوگا، تو امکان نہیں کہ ایسا ہو کہ اب ’کتبہ‘ معلوم بھی ہو۔۔۔ وہیں کہیں میرے پرنانا جی آسودۂ خاک ہیں۔۔۔ وہی عبدالوہاب صاحب، جن کی اولادیں دو سرحدوں میں بٹ گئیں۔۔۔ بڑے نانا جی کو ان کے اس ’نجیب الطرفین‘ پَر نواسے کی طرف سے سلام کہنا۔۔۔ بتانا کہ یہ آپ کے نواسے اور نواسی کا بیٹا ہے۔۔۔ آپ کے لیے دعائے مغفرت ہے اور بہت ساری یادیں ہیں۔۔۔ جیسے ہمارے پردادا جی کی آخری آرام گاہ سرحد کے دوسری طرف رہ گئی ایسے آپ (پرنانا) بھی وہیں رہ گئے۔۔۔ جانے زمین کے اوپر ان کی کوئی نشانی (قبر) رہ بھی گئی ہو یا نہیں۔۔۔ اس لیے میں تمہیں ان کی قبر ڈھونڈنے کے لیے نہیں کہوں گا۔۔۔ اب تو اِدھر بھی ان کی کوئی اولاد حیات نہیں رہی، جسے پتا ہو کہ پرنانا کس جگہ آسودۂ خاک ہوئے۔۔۔

بس تم پرانی دلی کے قبرستان کو پالو تو وہاں یہ خط لے جاکر چند لمحے کھڑے ہولینا یا پھر وہیں یہ تصور کرلیناکہ وہیں کہیں وہ خاک کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔۔۔ اور بس!

میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے بڑوں نے اپنی جنم بھومی چھوڑ کر نئی نگری کو اپنا مسکن کیا، بلکہ اس نئے ملک کے لیے ایسی مثالی عقیدت پیش کی کہ دلی کو یاد ضرور کیا، مگر کبھی پاکستان کے بارے میں کوئی غلط لفظ نہ کہا، بلکہ ہم تو ’ہندوستان دشمنی‘ لے کر بڑے ہوئے۔۔۔ ہمارے بڑے اگر زمین پر شاستری کے پتلے بنا کر اظہار نفرت کرتے تھے، تو ہم اخبارات میں چھپنے والے ’بھارتی چہروں‘ پر اپنا غصہ نکالتے تھے۔۔۔ اس کے باوجود بھی ہمیں بار بار احساس ہوتا ہے کہ ہم ’بے زمین‘ ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر چُپ ہو لینا ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ ذرا جذبات کا اظہار کرو تو الٹا ہم ہی تعصب کے پرچارک کہے جانے لگتے ہیں۔۔۔ یہ المیہ ہے اور بہت بڑا المیہ ہے!

اس کے باوجود میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ تھا، اس کے حل کی ایک راہ یہ بٹوارا تھی۔۔۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کیا اور کس طرح ہونا چاہیے تھا، لیکن شاید ہم جیسوں جو آج ’مہاجر‘ کہلاتے ہیں، ان کے نصیب میں تو طعنے تشنے تھے ہی۔۔۔ وہ اس لیے کہ آج ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو ’باہر سے آیا ہوا‘ کہہ دیا جاتا ہے۔۔۔ ظاہر ہے مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں۔۔۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ برصغیر کا مسلمان تین جگہ بٹ گیا۔۔۔ خیر گفتگو کہیں اور جا رہی ہے، بس کبھی کبھی ’مہاجر قوم‘ کی صورت یہ معلوم ہونے لگتی ہے کہ ’خدا ہی ملا نہ وصال صنم/نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے!

چوتھا صفحہ دم اخیر پہ آنے لگا ہے۔۔۔ بات مکمل کرتا ہوں اور ہاں پرانی دلی میں بھی جانا اور پرانے قلعے بھی ہو آنا یہ ورقے لے کر، کہنا کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس چشم تصور سے محسوس کرلینا 1947ء کی دلی کو۔۔۔ باقی باتیں تو یہ لفظ، یہ میری انگلیوں کے لمس زدہ لفظ اور خون سے کشید وہ ’نمکین پانی‘ جو اس میں کئی جگہ جذب ہوا ہے، وہ اپنے آپ کر لے گا۔۔۔! اگر تمہیں یہ شکایت ہو کہ میں نے پورے خط میں تمہیں نہیں پوچھا تو تم سے کلام تو بہتیرے وسیلوں سے ہو جاتا ہے، آج درد کا اور ہجر کا بیان تھا، سو اپنے تئیں وہی کیا۔

والسلام

ایک دلّی والا۔۔۔ (جو کبھی دلی نہ آسکا!)

 

The post پَرنانا جی کی نگری تک ۔۔۔ ، تم یہ ورقے لے کر ایک مرتبہ پرانی دلّی ضرور جانا۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.


پینگولِن۔۔۔ایک حیرت انگیز جانور

$
0
0

دنیا بھر میں فروری کے تیسرے ہفتہ کے دن کو عالمی یوم پینگولن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اِس حیرت انگیز جانور کی اہمیت وافادیت کے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

پینگولن جسے چیونٹی خور بھی کہا جاتا ہے بڑا مفید جانور ہے جو اپنے ماحولیاتی کردار پیسٹ کنٹرولر کی بدولت انتہا ئی اہم گردانا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر کیڑوں مکوڑوں کو چٹ کر کے فصلوں اور انسان کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے اور زمین کی زرخیزی بڑھانے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ یہ فولی ڈونا خاندان کا ایک چھوٹا ممالیہ جانور ہے۔ دُنیا میں کم وبیش اس کی آٹھ اقسام پائی جاتی ہیں جن میں چار افریقہ اور چار ایشیا کے استوائی خطوں میں پائی جاتی ہیں۔

پینگولن جسمانی لحاظ سے ایک بڑے نیولے کی طرح کا جانور ہے جس کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے ہوتے ہیں۔ یہ چھلکے ایک مادے کیراٹن سے بنے ہوتے ہیں اور یہ چھلکے بے وجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب یہ کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس کرے تو یہ اپنے جسم کو ایک گولے کی مانند لپیٹ لیتا ہے اور ماسوائے چھلکوں کے اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ چھلکے انتہائی تیزدھار ہوتے ہیں اور جب اسے کسی گوشت خور جانور (درندے) سے خطرہ درپیش ہو تو یہ فوراً اپنے آپ کو لپیٹ کر اُس سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے اگلے پاؤ ں خاصے لمبے ہوتے ہیں جب کہ پچھلے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں۔ چلنے کے لیے یہ زیادہ تر پچھلے پاؤں استعمال کرتا ہے۔ اس کے پنجوں کے ناخن بھی تیزدھار ہوتے ہیں اور یہ انہی ناخنوں کی مدد سے زمین کھود کر کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں تلاش کرکے کھاتا ہے۔ اس کی زبان لمبی اور پتلی ہوتی ہے جو اس کے پیٹ میں معدے تک جاتی ہے اور یہ 16انچ تک اپنی زبان کو منہ سے آگے کی طرف نکال سکتا ہے۔ اس کی زبان لبریکیٹ ہوتی ہے اور جونہی یہ دُور سے کیڑے مکوڑے چٹ کر نے کے لیے اپنی زبان نکالتا ہے تو کیڑے مکوڑے اس کی زبان لبریکیٹ ہونے کی وجہ سے اُس سے چپک جاتے ہیں۔ یہ حشرات کے بِلوں میں اپنی زبان ڈال کر اُنہیں اچک لیتا ہے۔ اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے اور یہ زمین میں خرگوش کی طرح سرنگیںکھود کر رہنا پسند کرتا ہے۔

اس کی کچھ اقسام کھوکھلے درختوں میں بھی رہتی ہیں۔ درختوں پر رہنے والے پینگولن کی دُم بہت مضبوط اور لچک دار ہوتی ہے جو اسے درختوں پر لٹکنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جانے کے لیے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے ساتھ دُم بھی استعمال کرتا ہے یہ درختوں کے سوراخوں میں موجود کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک بناتا ہے۔

پینگولن ایک ڈرپوک اور ٖغیرجارح جانور ہے جو عموماً رات کو اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔ یہ سوراخوں میں رہائش اختیار کرتا ہے اور اکثر کسی سوراخ پر بڑا پتھر گرنے کے بعد اُس میں رہتا ہے اور ہمیشہ سوراخوں کی کالونیاں تلاش کرتا ہے۔ یہ دیمک، کیڑے اور ان کے انڈے وغیرہ بھی کھاتا ہے اور یہ سونگھ کر اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔

یہ آہستہ چلنے والا جانور ہے جس کی وجہ سے یہ سڑکوں پر انتہائی خطرے سے دو چار رہتا ہے اور خطرے کے وقت بڑی خفیف اور کم زور سی آواز نکالتا ہے۔ تاہم خطرہ بھانپنے کی صورت میں جب یہ اپنا جسم لپیٹ کر گیند کی مانند ہوجاتا ہے تو کوئی طاقتور آدمی بھی اِس کی دُم باہر نہیں نکال سکتا۔ پینگولن اپنی مادہ کے ساتھ بہت کم ملاپ رکھتا ہے اور اس سے محض ایک وقت میں ایک ہی بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔

کرۂ ارض پر ایک سال میں70ملین کیڑوں مکوڑوں کو چٹ کرجانے والے اس عجیب الخلقت جانور کو آج اپنی بقاء کے خطرات لاحق ہیں کیوںکہ ایک اندازے کے مطابق سال 2000 سے کم وبیش 10لاکھ پینگولن کی عالمی سطح پر غیرقانونی تجارت ہوئی اور آج دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا ممالیہ پینگولن ہی ہے۔ آئی یو سی این (انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر) کے مطابق دنیا میں پائی جانے والی پینگولن کی آٹھوں انواع آج انتہائی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں جن میں ایشیا میں پائی جانے والی چاروں انواع بھی شامل ہیں اور اسی کے پیشِ نظر ہی پینگولن کی تمام انواع کو کنونشن آن انٹر نیشنل ٹریڈآف انڈینجر ڈسپیشز کے اپنڈکس ون میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی تجارت قطعی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اس کے باوجود یہ غیرقانونی تجارت بدستور جاری ہے۔ چین، ویت نام اور لاؤس اس تجارت کی بڑی منڈیاں ہیں جہاں پر ایک پینگولن ہزاروں ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے ۔

پینگولن کا گوشت، چھلکے اور خون خوراک، ادویات اور مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں غیرقانونی شکار، مساکن کی تباہی، زمین پر برقی تاروں اور باڑوں کے بچھائے جانے کی وجہ سے اور سڑکوں پر آہستہ چلنے کی وجہ سے حادثات کی صورت میں اموات سے بھی پینگولن کی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے پوٹھوہار اور سالٹ رینج کے اضلاع جہلم، چکوال اور راولپنڈی جب کہ خیبرپختونخواہ کے اضلاع کوہاٹ، مردان اور پشاور کے علاقوں میں یہ جانور پایا جاتا ہے جہاں پر ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ تاہم چند ہزار روپے کے لالچ میں مقامی لوگ اِسے پکڑکر اس کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے عناصر کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں اور اکثر پکڑے بھی جاتے ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات وپارکس پنجاب نے صوبے میں وائلڈلائف کرائمز پر کڑی نگرانی اور ان کی موثر روک تھام کے لیے ایک پیشہ ور ویجیلنس اسکواڈ تشکیل دے رکھا ہے جو نایاب اور قیمتی جنگلی حیات کی بذریعہ ہوائی سفر غیرقانونی اسمگلنگ، درآمد وبرآمد پر ہمہ وقت نظر رکھے ہوئے ہے جنہوں نے انتہائی چابک دستی سے گزشتہ سال کے دوران جنگلی حیات کی غیرقانونی اسمگلنگ کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا اور لاکھوں روپے کے بھاری جرمانے وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروائے۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران وائلڈ لائف اسٹاف اٹک اور راولپنڈی کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں پینگولن کے ایک ڈیلر کو اٹک سے گرفتار کر کے بھاری جرمانہ عائد کیا گیا اور پینگولن کو خیری مورت نیشنل پارک اٹک میں اُس کے قدرتی ماحول میں آزاد کردیا گیا۔

محکمہ جنگلی حیات پنجاب پینگولن کی آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے دست یاب وسائل ہر ممکن بروئے کار لا رہا ہے اور ایسے تمام علاقوں کی بذریعہ پروٹیکشن فورس خصوصی نظر رکھی جارہی ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جملہ مساعی سے تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی پینگولن کی اِس نایاب نسل کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

The post پینگولِن۔۔۔ایک حیرت انگیز جانور appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کی بدنیتی پورے خطے کو تباہی سے دوچار کر سکتی ہے

$
0
0

(آخری قسط)

ہمارے ہاں25 سا ل مکمل ہونے پر سلورجوبلی، 50 سال مکمل ہونے پرگولڈن جوبلی، 75 سال مکمل ہو نے پر ڈائمنڈ جوبلی اور 100 سال مکمل ہونے پر پلاٹینیم جوبلی منائی جاتی ہے۔ آج پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے 72 برس ہو چکے ہیں اور تین برس بعد پاکستان اور بھارت آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منائیں گے۔ بنگلہ دیش کو قائم ہوئے 48 سال ہو چکے ہیں اور دو سال بعد بنگلہ دیش اپنے قیام کی گو لڈن جوبلی   منائے گا اور  2019 میں افغانستان نے آزادی کی پلاٹینیم جوبلی منائی ۔

اِن چاروں ملکوں کا ذکر اس حوالے سے ایک ساتھ ضروری ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ چاروں ملک ایک خطے اور ملک کے طور پر مختلف سلطنتوں کے تحت رہے ہیں، کوہ ہمالیہ ، ساگر ماتا، سے بحیرہ ِعرب ،خلیج فارس، خلیج بنگال اور بحرِہند سے اس پورے خطے کے ماحولیاتی نظام مربوط ہیں اور اس فطرتی ماحولیاتی فضا نے تاریخی ارتقائی عمل کے ساتھ نسلی، لسانی، ثقافتی، تمدنی اور مذہبی اعتبار سے اس خطے میں ٹکراؤ بھی پیدا کئے اور بناؤ بھی پیدا کئے۔ یہاں رشید احمد صدیقی کے مشہور جملے کا حوالہ ضروری ہے کہ ، مغلیہ عہد نے ہندوستان کو تین چیزیں دیںاردو زبان، تاج محل اور غالب، بس یہاں اضافہ یہ ضروری ہے کہ وقت کے سمندر نے یہ تینوں چیزیں اگرچہ گوہر ِنایاب کی طرح اپنی موجوں سے مغلیہ دور میں ساحل پر اچھال دیں لیکن ان کی پرورش بلوچستان کی دس ہزار سالہ قدیم تہذیب مہرگڑھ، پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیبوں موہنجوداڑو ہڑپہ اور پھر ٹیکسلا اوراشوک اعظم سے ہوتی ہوئی اکبر اعظم ، شاہجہان اور غالب تک پہنچی۔

اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں کی آمد کے بعد جدید نظام ِ تعلیم سمیت صنعت، تجارت،دفاع، پارلیمانی سیاست اور طرزِ حکومت سمیت تمام شعبوں میں انگریزوں نے بھی اس خطے پرگہر ے اثرات مرتب کئے، یہ اثرات مثبت انداز کے بھی ہیں اور منفی انداز کے بھی، جہاں تک تعلق مثبت انداز کا ہے تو انگریز کی وجہ سے یہاں ریلوے لائنوں کا جال بچھایا گیا نہر ی نظام کو ڈیمز اور بیراج بنا کر جدید اور دنیا کا سب بڑا نہری نظام بنایا گیا، بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج غرض جدید زمانے سے ہندوستان کو ہم آہنگ کیا گیا اور منفی اثرات یہ کہ نہ صرف سیاسی نوآبادیاتی زمانے میں ہندوستان کو دونوں ہا تھوں سے لُوٹا گیا بلکہ اب تک اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے تحت اِن پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان چاروں ملکوں سے سر مایہ مغرب منتقل ہوتا ہے اور بڑی قوتوں کے مفادات کا یہاں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے تناظر میں ٹکر اؤ جاری ہے۔

10 دسمبر 2019 کو پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کو شائع کیا ہے جس میں افغان جنگ میں امریکہ کے جھوٹ کو خفیہ دستاویزات کے ملنے پر سامنے لا یا گیا ہے، اس جنگ سے متعلق غلط ڈیٹا اور اطلاعات پھیلائی گئیں، جنرل ڈگلس لیوٹ کے حوالے سے یہاں تک کہا گیا کہ وہ افغانستان کی بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے، جنگجووں کے پے رول پر ہو نے کے انکشافات بھی کئے گئے، واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 28 نومبر 2019 کو خفیہ دورے پر افغانستان پہنچے اور اس کے بار ے میں اُس وقت پتہ چلا جب وہ یہاں تقریباً اٹھارہ گھنٹے قیام کے بعد روانہ ہو رہے تھے تو وائٹ ہاوس کے پریس سیکرٹری اسٹیفن   Stephanie نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا خفیہ دورہ ِ افغانستان Thanks giving تھینکس گیونگ کے دن کے موقع پر افغانستان میں متعین فوجیوں کو سپورٹ کر نے کے لیے تھا،انہوں نے طالبان سے بحالی امن کے مذاکرات بارے میں کہا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے لیکن پھر تین چار دن بعد ہی مثبت اشارے بھی ملے، تھینکس گیون ڈے کو منانے کا سلسلہ صدر جارج واشنگٹن نے شروع کیا تھا، جو فصلوں کی کٹائی اور ریڈ انڈین کو اپنانے کے اعتبار سے بھی اہم قرار دیا جاتا ہے۔

یہ دن ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو منایا جاتا ہے اور صدر ٹرمپ بظاہر اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خفیہ طور پر افغانستان پہنچے اور پھر اُن سے خطاب کیا اِس موقع پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی خطاب کیا۔ دوسرے روز سوشل میڈیا پر اشرف غنی کی وہ تصویر عام تھی جس میں وہ جب صدر ٹرمپ سے ملا قات کے لیے بڈگرام پہنچے ہیں تو اپنے ہی وطن میں امریکی فوجیوں کو جامہ تلاشی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی آپریشن کو 18 سال ہو چکے ہیں جو امریکہ کی جانب سے کسی ملک میں کیا جانے والا طویل ترین آپریشن ہے اور اب امریکی عوام کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن ویتنام جیسی صورتحال ابھی تک نہیں ہے اس کی ایک بنیادی وجہ امریکہ کی سپر ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں کم ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکی فوجی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہیں اور یہاں اِن کی خودکشیوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے اخراجات میں اربوں ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں اب 1919 سے 2019 سو سال پورے ہو نے پرافغانستان کی پلاٹینیم جوبلی کے وقت امریکہ کے صدر نے افغانستان کا دورہ کیا ہے تو وہ افغانستان کی پلا ٹینیم جوبلی منانے نہیں آئے بلکہ امریکی فوجیوںکے ساتھ تھینکس گیونگ منانے آئے تھے، لیکن اللہ کرے کہ اب اگر کوئی امریکی صدر افغانستان کا دورہ کرے تو اُسے وہاں اپنے فوجیوں سے خطاب نہ کرنا پڑے، افغان صدر اُسے خوش آمدید کہے اور دونوں صدور کو اپنی جان کا خطرہ نہ ہو اور افغان امن کے ساتھ اپنے ملک کے مالک ہوں اور کوئی ملک اِن کے ملک میں مداخلت نہ کرے۔

جہاں تک تعلق پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا ہے تو یہ تینوں ملک 14،15 اگست 1947 تک ایک تھے اور اگر کانگریس 1916 کے قائد اعظم کے فارمولے کے تحت ہونے والے میثاق ِ لکھنو کو1928کی نہرورپورٹ سے یک طرفہ طور پر مسترد نہ کرتی تو مشترکہ ہند وستان ہندو مسلم اوّ ل اور دوئم اکثریت کی بنیاد پر اپنے مخصوص سیاسی سماجی ثقافتی تمدنی مذہبی حقائق کے تسلیم شدہ اصولوں کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی صورت میں شائد دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہی آزاد ہو چکا ہوتا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی ہندو قیادت نے اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کی دوسری اکثریت یعنی مسلمانوں کو مغلوب رکھ کر اُن کی مذہبی ، تہذیبی ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ مسلمان ہندوستان کے جن علاقوں میں اکثریت میں تھے اُن پر مشتمل نئے اور آزاد ملک پاکستان کے لیے جدوجہد کر یں۔

آج جب بھارت اپنے آئین سے 370 آرٹیکل اور 35 کی دفعہ کو حدف کر چکا ہے اور کشمیر میں 150 دن سے زیادہ عرصے سے کرفیو نافذ ہے اور 10دسمبر 2019 کو بھارت میں شہریت کے حقوق کے اعتبار سے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سے صرف مسلمانوں کے لیے پابند ی عائد کی ہے تو قائد اعظم کی بات بالکل سچی ثابت ہو گئی ہے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ آج قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے اپنی ساریعمر ہندؤں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے گزریں گی۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی پر Freedom at midnight آزادی ء نیم شب کے نام سے فرانسیسی نژاد مصنفین لاری کلنز اور ڈومنک لایپرے کی نہایت مشہور کتاب ہے جس کے کئی زبانوں میں سینکڑوں ایڈ یشن شائع ہو چکے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ جناح کو مطالبہ پاکستان سے روکنے کی کوشش کرتے ہو ئے وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کچھ کہا توقائد اعظم نے جواب دیا کہ اب ہندوستان کا مسئلہ مفاہمت سے بہت دور جا چکا ہے اب مسئلے کا حل ایک بار آپریشن ہے، وائسرائے پھر بولے کہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بہت خونریزی ہو گی تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ ایک بار آپریشن ہو جائے گا تو پھر ساری تکلیف دور ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ اس تقسیم کے وقت لارڈ ماوئنٹ بیٹن کی ریاست کشمیر کے بھارت سے الحاق پر دستخط کرنے کی جانبداری اور ریڈکلف کی بد دیانتی سے مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دینے کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ کے قریب افراد جان سے گئے تھے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں دونوں جانب سے ایک کروڑ افراد سے زیادہ نے ہجرت کی تھی۔ اُس وقت برصغیر یعنی بنگلہ دیش، پاکستان ، بھارت تینوں ملکوں کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی، اور اگر آج جب پاک بھارت ڈائمنڈ جوبلی اور بنگلہ دیش گولڈن جوبلی کے نزدیک ہے توآبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت ہے، پانچویں نمبر پر پاکستان ہے اور آٹھویں نمبر بنگلہ دیش ہے اور اِن تینوں کی مجموعی آبادی،ایک ارب 75 کروڑ ہے جس میں سے تقریباً 58 کروڑ مسلمان ہیں، اور اس وقت بھارت میں سیکولر مزاج کانگریس کی حکومت بھی نہیں تو جو صورتحال اس وقت بھارت میں ہے وہ پورے برصغیر میں ہوتی اور اگر آج تقسیم ہند ہوتی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنی خونریزی ہوتی اور اِن 72 برسوں میں مسلمانوں کا کیا حال ہو گیا ہوتا۔

1971 میں بنگلہ دیش بن گیا تو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا ’’ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے‘‘ لیکن یہی سب سے بڑا تضاد ہے،کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام اور سیاسی پارٹی کی بنیاد پر دوقومی نظریے کی جد وجہد بنگال ہی سے شروع ہوئی تھی جب 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو بڑی آباد ی اور بڑے رقبے کا صوبہ قرار دیتے ہوئے یہاں انتظامی معاملات بہتر کرنے کی غرض سے مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا تھا جس پر 1885 میں قائم ہو نے والی آل انڈیا کانگریس نے ملک گیر احتجاج شروع کیا۔ مشرقی بنگال 1947 تا1971 تک کا مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش ہے۔

اُس وقت مشرقی بنگال کے قیام سے مسلمانوں کو فائدہ تھا یوں ہندو تنگ نظری کے ردعمل میں ڈھاکہ میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی جانب سے شکو ے اور شکایات میں ہماری سیاسی اقتصادی غلطیاں تھیں اور 1970میں ہونے والے عام انتخابات تو ہماری پارلیمانی جمہورت کے پہلے انتخابات تھے جس میں جس عجلت سے بھارت نے فوجی مداخلت کی اُس کی نظیر دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک نہیں ملتی، جہاں تک سوال مشرقی پاکستان کے بننے کا ہے تو حسین شہید سہروردی سمیت کئی بنگالی لیڈر 1947 میں یہ چاہتے تھے کہ بنگال تقسیم نہ ہو لیکن1941 کی مردم شماری میں مشترکہ بنگال کی کل آبادی 60306525 میں سے مسلمانوں کی آبادی 33005434 یعنی 54.73% تھی اور 1937 سے 1947 تک مشترکہ بنگال کے صوبائی وزراء اعظم الملٰی بنگالی ہی رہے تھے لیکن بنگال کو تقسیم کیا گیا۔

اُس وقت خود گاندھی اور نہرو نے اپنے سیکولر نظریات سے انحراف کرتے ہوئے ہندوازم کو مدنظر رکھا تھا اور بنگالی مسلم اور ہندو قوم پرستوں اور اشتراکی نظریات رکھنے والوں کے سامنے ہندو ازم کو ترجیح دی تھی۔ یہ  1905 کے بعد کانگریس کے نظریات کی تبدیلی تھی یا ہندو تنگ نظری ؟ اب جہاں تک دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں پھینکنے کی بات ہے تو نریندر مودی نے گذشتہ سال ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استقبالیہ خطاب کے بعد بڑے فخر سے ’’فرمایا‘‘ تھا کہ اگر بھارتی فوج دسمبر1971 میں پوری قوت سے پاکستان پر حملہ نہ کرتی تو بنگلہ دیش آزاد نہ ہوتا، انہوں نے مکتی باہنی کو ٹرینڈ کر نے کا بھی اعتراف کیا، پھر دسمبر1971 میں پاکستان کا بھارت سے کوئی تنازعہ بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ 1965 کی جنگ میں مقبوضہ کشمیر اور پنجاب اور سند ھ سرحد کے نزدیک بھارتی علاقے جن پر پا کستان نے قبضہ کیا تھا وہ بھی تاشقند کے معاہدے میں پاکستان نے واپس کر دیئے تھے اس کے باوجود 1971 میں جب پا کستان انتہا ئی سیاسی بحران کا شکار تھا تو بھارت نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ مغربی پا کستان پر بھی پوری قوت سے حملہ کیا تھا۔

یہاں دوقومی نظریے کے خلاف اگر اندرا گاندھی نے بات کی تو کیا بھارتی مغربی بنگال سے بنگالی نیشنل ازم کی کوئی تحریک اُٹھی جو بنگال کے دونوں حصوں کو مشترک کر کے ایک بنگلہ دیش بنا سکتی جو بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت کو دینِ اسلام چھوڑ کر بنگالی نیشنل ازم کی جانب راغب کر دیا اور اسلامی تشخیص کا یہی خوف ہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد 80، 80 سال کے بوڑھوں کو 1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی کی سزا دے چکی ہے، وہ بھی بنگالی تھے ۔

یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کے حقوق کے اعتبار سے غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیںاور بھارت نے بہت مکاری اور عیاری سے اُس موقع سے فائد ہ اٹھایا اور اس کے بعد پاکستا ن کو بھی کئی ایسے مواقع ملے مگر پاکستان کے رہنما ایسے مواقع سے جرات مندانہ انداز میں فا ئد ہ نہ اٹھا سکے۔ اب جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان ہی تھا جس نے بنگلہ دیش کو فوراً اس لیے تسلیم کیا کہ پاکستان اگر ایسا نہ کرتا تو بھارت اسے اپنی نو آبادی بنا کر استعمال کرتا۔ واضح رہے کہ اُس وقت تک اس مسئلے پر چین کی ویٹو پاور پا کستان کے ساتھ تھی۔

بنگلہ دیش 16 دسمبر2021 میں اپنے قیام کے 50 سال پو رے ہو نے پر گولڈن جوبلی منائے گا، وہ اپنے آئین کے مطابق جمہوریہ بنگلہ دیش ہے۔ مسلم اکثریت کی ایک سیکولر اسٹیٹ ایک ایسی ریاست جس نے 1906 میں مسلم لیگ کی بنیاد اس لیے رکھی تھی کہ بنگال کی تقسیم سے مسلم اکثریت کو جو سیاسی اقتصادی فا ئدہ پہنچ رہا تھا ہندو اکثریت اُس کے خلاف تھی اور اب اُسی ملک میں ہندو انتہا پسند حکومت نہ صرف کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت پر ظلم کے پہاڑ تو ڑ رہی ہے بلکہ 10 دسمبر 2019 کو بھارت نے بھارتی شہریت کے حصول کے لیے دنیا کے تمام ملکوں سے آنے والوں پر اگر شرط عائد کی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ مسلمان نہ ہو ں۔ بنگلہ دیش سے بھارت کے تعلقات شیخ حسینہ واجد کے دور میں بہت مثالی رہے ہیں مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب بھارت سے سرحدی تنازعات رہے اور اب بھی اگر چہ حسینہ واجد کی وجہ سے بنگلہ دیش حکومت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ بھارت سے تعلقات بہت خو شگوار رہیں۔ اکتوبر 2019 کے آغاز میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے دہلی کا دور ہ کیا تھا مگر بھارت جو علاقے میں اپنی چوہدراہٹ کا ہمیشہ کھلم کھلا مظاہرہ کرتا ہے اس دورے کے فوراً بعد پھر بھارت نے ایسا ہی کیا۔

رائٹر کے نمائندے روما پال سوبراتا ناگ چوہدری کی 17 اکتوبر2019 کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی باڈر سکیورٹی فورس نے ایک بھارتی سپاہی کو ہلاک کر دیا، تنازعہ بھارتی مچھیروں کی وجہ سے ہوا تھا اور بنگلہ دیش کے مطابق بھارتی سرحدی فورس کے لوگ بنگلہ دیش کے اندر گھس آئے تھے تاکہ بنگلہ دیشی سرحد کے پار بنگلہ دیشی علاقے میں پکڑے گئے بھارتی مچھیروں کو چھڑا کر واپس لے جائیں۔ یہاں دریائے پدما پر بنگلہ دیش نے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش میں ایک خاموش ناراضگی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ طویل مدت بعد بنگلہ دیش نے پا کستان سے خود تجارتی مراسم بحال کئے ہیں اور 30 نومبر 2019 کو پاکستان سے0 300 ٹن پیاز خریدا ہے اس واقعہ کے بعد بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کو وزیر داخلہ نے بتایا کہ گذشتہ دس برسوں میں بنگلہ دیش بھارتی سرحد پر 294 بنگلہ دیشی ہلاک ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی مختلف واقعات کی تفصیلات بھی بیان کیں۔

اخبارات کے مطابق یہ ہلاکتیں بنگلہ دیش میں ایک جذباتی مسئلہ بن گیا ہے اور اس پر وہاں ہیومن رائٹس نے بھی تنقید کی ہے۔  وزیراعظم حسینہ نے بھی اس مسئلے کو تشویشناک کہا ہے۔ بنگلہ دیش کی بھارت سے سرحد 4000 کلومیٹر طویل ہے، 1971 کے بعد سے یہ سرحد بہت ہی کمزور رہی ہے، اس سرحد پر 190 مقامات ایسے ہیں جہاں سے سرحد عبور کر کے ایک دوسرے ملک میں داخل ہوا جاتا ہے، بھارت اور بنگلہ دیش میں سرحدی جھڑپ 16 سے20 اپریل 2001 میں ہوئی تھی جس میں 17 بھارتی اور دو بنگلہ دیشی ہلاک ہوئے تھے، سرحدی دیہات پادوا، پیردیوا وہ مقامات ہیں۔

جہاں 1971 میں بھارت نے مکتی باہنی کے لیے ٹریننگ سنٹرز قائم کیے تھے اور یہاں بنگلہ دیشیوں کی جانب سے علاقے کو متنازعہ کہا جاتا ہے، بھارت بنگلہ دیش سرحد سے مویشیوں کی سرحد ی تجارت پر بھی بھارت کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہے، بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات خراب نہیں ہیں اور اگر بھارت کی جانب سے دباؤ بڑھا بھی تو امکان یہی ہے کہ شیخ حسینہ واجد اِن تعلقات کو بگڑنے نہیں دیں گی اور بھارت کے دباؤ کو غالباً قبول بھی کر لیں گی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بنگلہ دیش کے قیام کو 48 برس بیت چکے ہیں 1989-90 میں میر ے دوست نجم الثاقب جو اس وقت برازیل میں پا کستان کے سفیر ہیں اُس وقت نئے نئے سی ایس ایس کر کے بطور جونیئر سفارت کار ڈھاکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہوئے تھے تو اُنہوں نے بتایا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے جس مقام پر لاکھوں افراد کے قتل کا پر وپیگنڈہ کیا تھا وہاں اتنے افراد بیک وقت کھڑے بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔

اب جہاںاس کا امکان ہے کہ بنگلہ دیش جب اپنی 50 سالہ گولڈن جوبلی منائے گا تو اُس وقت بھارت اور بنگلہ دیش کا بھرپور پر وپیگنڈہ پا کستان کے خلا ف ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی پچاس برس گزرنے کے بعد اور بھارت کی جانب سے مسلم دشمنی اور تعصب کا جس شدت سے اظہار کیا جا رہا ہے وہ بنگلہ دیش کی نئی نسل کے سامنے ہے اور بنگلہ دیش کی کل آبادی میں سے 75% آبادی اِسی نسل کی ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس دنیا میں آئی اور بہت سا پروپیگنڈہ اب سب کے سامنے کھل کر آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب بھارت میں مسلمانوں کی جس انداز سے تذلیل ہوتی ہے وہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے سامنے ہے اور اس میں مغربی بنگال میں اگرچہ صورتحال کیمونسٹ پارٹی کے اثر کی وجہ سے قدرے مختلف ہے مگر اب یہاں کی ہندو بنگالی آبادی دو انتہا ؤں کے اعتبار سے تقسیم ہو رہی ہے جب کہ 2018 میں محتاط اندازوں کے مطابق بھارتی مغربی بنگال کی کل آبادی 98785114  تھی اور اس آبادی میں سے 27165906 مسلمان آبادی ہے یعنی یہاں مسلمان بنگالیوں کا تناسب اب بھی 27.5% ہے۔

اسی طرح اس کے ساتھ واقع صوبہ آسام ہے  جس کا رقبہ 240118 مربع کلومیٹر ہے جہاں ایک تو نسلی لحاظ سے بڑی آبادی بنگالی ہے پھر آسام کی کل آبادی 32652579 ہے جس میں سے 11173719 آبادی مسلمان ہے جو تناسب کے لحاظ سے کل آبادی کا  34.22%  ہے اس کے باوجود یہ کہ یہاں تقسیمِ ہند کے وقت آسام کے ضلع سلہٹ میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ریفرنڈم کروایا گیا اور اکثریت نے مشرقی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دئیے، یہاں سماج پر مسلم اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسام میں 1946 میں وزیراعلیٰ سر سید محمد سعاد اللہ رہے،  15 اگست 1947 تک گورنر سید صالح حیدری تھے، سعاد اللہ 1938 میںبھی وزیر اعلیٰ رہے اور جب 1941-42 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں منی پور اور ناگا لینڈ کی ریا ستوں کے کچھ علاقوں پر جاپانی فوجوں نے قبضہ کر لیا تھا اور بھارت کے مشہور ہندو انقلا بی، حریت پسند لیڈر سباس چندر بوس جاپا نیوں سے جا ملے تھے تاکہ ہندو ستان کو جاپانیوں کی مدد سے مسلح جدو جہد کے ذریعے آزاد کروایا جائے اُس وقت بھی سعاد اللہ نے آسام کے دفاع میں سماجی سطح پر اہم کر دار ادا کیا تھا، اب جب دسمبر2019  میں بھارت نے بھارتی سٹیزن شپ کی نئی پالیسی میں کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو آسام میں 2000000 لوگوں کی دستاویزات کو مشکوک قرار دے کر اِن کی شہریت منسوخ کرنے کی بات کی ہے اور جب سٹیزن شپ کی پالیسی آئی تو سب سے زیادہ احتجاج آسام میں ہوا ہے پھر یہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک بھی عرصے سے جاری ہے۔

یوں بھارتی مسلم مخالف پالیسیوں کے اثرات جذباتی انداز میں بنگلہ دیش کے سماج پر مرتب ہو رہے ہیں ، اسی طرح بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ بھارتی صوبہ بہار ہے جس کا رقبہ 94163 مربع کلومیٹر ہے جہاں سے تقسیم ہند اور قیام ِ پاکستان کے وقت بہاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مشرقی پا کستان ہجرت کی تھی اور جب دسمبر1971 میں بنگلہ دیش قائم ہوا تھا تو کچھ بہاری تو مغربی پاکستان آگئے تھے اور30 لاکھ طویل عرصے تک وہاں کیمپوں میں اذیت کی زندگی گذار تے رہے، اس وقت بھارت کے صوبے بہار کی کل آبادی 121741714 ہے جس میں کل مسلمان آبادی  20574354 ہے یعنی16.9 فیصد ہے۔ آسام کی طر ح بہار بھی انگریزوں کے دور میں بنگال کا حصہ رہا۔

یہ دونوں بھارتی صوبے، منی پور اور ناگا لینڈ کے علاقے بھارت کے شمال میں چین اور تبت کے ہمالیائی خطے میں واقع ہیں جہاں ہماچل پردیش سمیت کچھ علاقوں پر چین بھارتی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا یہاں سکم ، بھوٹان، نیپال پر بھارتی اثرات کو چین ریلوے لائن اور شاہراہ کی تعمیر کے بعد سے بے اثرکر رہا ہے، بنگلہ دیش کے قریب ہی بھارتی ریاست ناگالینڈ ہے جس کا رقبہ 16579 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 2063533 ہے جس میں49515 مسلمان ہیں یعنی مسلم آبادی کا تناسب 2.5%  ہے، یہ علاقہ بھی بھارت سے الگ ہونا چاہتا ہے۔

یہ بھارت کے شمال مشرق میں سرحدی علاقے میں آسام ، ارونچل پردیش کے ساتھ اور بنگلہ دیش اور برما ’ میانمار ،کے قریب ہے،  یہاں 16 قبائل اپنی خاص ثقافتی پہچان کے ساتھ رہتے ہیں، انگریزوں کے دور میں 1826-32 یہ برما’’ میانمار‘‘ کا ضلع رہا، یہاں کی اکثریت عیسائی ہے اور بھارت کی تین ریا ستوںکی طرح ناگالینڈ میں سرکاری اور تعلیمی زبان انگریزی ہے۔ بنگلہ دیش کے قریب ہی بھارت کی شمالی سرحد کے ساتھ بھارتی ریاست منی پور واقع ہے، یہ بھی قبائلی علاقہ ہے جو بھارت سے علیحدگی چاہتا ہے، اِ س کا رقبہ 22327 مربع کلومیٹر اور آبادی2933784 ہے جس میں مسلم آبادی 246438 یعنی کل آبادی کا 9.25% ہے، یہ 1917 سے برما کی بجائے بھارت کا حصہ رہی، یہاں کی 53% آبادی منی پوری 24 فیصد، ناگا لینڈ قبائل اور16 فیصد کوکوز قبائل پر مشتمل ہے ،1947 میں یہاں کے راجہ بڈھا چندرا نے عوام کی اکثریت کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ریاست کا الحاق بھارت سے کردیا تو آ بادی کی اکثریت اس فیصلے کے خلاف ہو گئی اور یہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک جاری ہے، اس پوری جغرافیا ئی سیاسی صورتحال میں اب جب بھارت نے مسلم کش پالیسیاں اپنائی ہیں تو بنگلہ دیش کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور عوام مذہبی جذبات کے ساتھ خود کو آنے والے دور میں محفوظ تصور نہیں کر رہے۔

اَن کے سامنے میانمار’’برما‘‘ میں فوجیوں نے روہنگیا مسلمانوں کا جب قتل عام کیا تو لاکھوں برمی مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی، بنگلہ دیش نے گزشتہ بیس برسوں سے اپنی فوجی طاقت میں بھی بہت کمی کردی تھی کیونکہ بھارت کے ساتھ اُس نے امن اور دوستی کی پالیسی کو فروغ دیا تھا اور پھر اپنی سیکو لر پالیسی اور ہندو دوستی کے ثبوت کے لیے وہاں جماعت ِ اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو مقدمات چلا کر سزائے موت دی، جہاں تک بنگلہ دیشی معیشت کا تعلق ہے تو 1989-90 میں اُس کی معیشت بھی خراب تھی تو اس وقت بنگلہ 20 ٹکے کا ایک پاکستانی روپیہ تھا اور پاکستان میں ڈالر کی قیمت 21.70 روپے تھی مگر اب بنگلہ دیش میں اُن کی کر نسی 84.85  ٹکے کا ایک امریکی ڈالر ہے، 2017 میں بنگلہ دیش کی برآمدات 40905 ملین ڈالر تھیں اور دنیا میں وہ 51 ویں درجے پر تھا۔

اکتوبر 2019 میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 32438ملین ڈالر تھے، عالمی سطح پر درجہ بندی میں 39 ویں نمبر کے ساتھ بنگلہ دیش کاجی ڈی پی317465 ملین ڈالر ہے اور بنگلہ دیش پر بیرونی قرضے 45 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، مگر دنیا کے 54  تندرست آبادی والے ملکوں میں بھارت اور پاکستان کی طرح بنگلہ دیش بھی نہیں ہے اور اگرچہ یہاں غربت میںکمی واقع ہوئی ہے کہ 2010 میں یہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب 73.50 تھا جو 2016 میں 14.8% ہو گیا لیکن غربت کا خاتمہ نہیں ہوا اور شرح خواندگی79.9% ہے، بنگلہ دیش کی فوج کی تعداد ایک لاکھ 55 ہزار ہے۔

بنگلہ دیش کی گذشتہ دس برسوں کی ترقی کی رفتار ایسی ہے جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ 2023 میں بنگلہ دیش سے غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا، مگر اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کو تین طرح کے مسائل مستقبل قریب میں پیش ہونگے جو اس کی اقتصادی ترقی کو اسی طرح متاثر کر سکتے ہیں جس طرح پاکستان کو کرپشن اور دہشت گردی کے مسائل نے متاثر کیا،

1۔ کلائمیٹ چینج جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا دس سے پندرہ فیصد رقبہ بھی مالدیپ کی طرح سمندر برد ہو سکتا ہے، بنگلہ دیش کی 70 فیصد آبادی قدرتی آفات کی زد میں رہتی ہے، اس کا زیادہ تر رقبہ ڈیلٹائی ہے یہاں تین بڑے دریا گنگا، برہما پتراور میگھنا کے علاوہ 310 چھوٹے دریا اور ندیاں خلیج بنگال میں گرتی ہیں یہاںمون سون کی تباہ کن بارشوں اور سمندری طوفانوں کا زور رہتا ہے اور اب دنیا میں درجہ حرارت کے متواتر بڑھنے کی وجہ سے سمندر کا کھارا پا نی ساحلوں پر بڑھ رہا ہے یہاں مجموعی طور پر اِن مسائل سے نبٹنے کے لیے 2013 سے عالمی بنک نے ساڑھے بارہ سو ملین ڈالر کے چار پروجیکٹ شروع کئے ہیں، یوں رقبہ اگر سمندر برد ہوتا ہے تو آبادی میں سالانہ تقربیاً اٹھارہ لاکھ کا اضافہ ہو گا۔

2 ۔ ایک حد تک شرح میں ترقی کے بعد بنگلہ دیش کے لیے عالمی مارکیٹ میں خصوصاً بھارت کی مرضی کے ساتھ آگے بڑھنا قدرے مشکل ہو جائے گا ۔

3 ۔ بھارت نے ملک میں جو مسلمان دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں خصوصاً مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کا قانون نافذ کیا ہے تو اس کے خلاف مغربی بنگال، چھتیس گڑھ سمیت پانچ بھارتی ریاستوں نے عملدرآمد سے انکار کر دیا ہے، 14 دسمبر 2019 کو بھارت میں اس پر احتجاج کرنے پر تین افراد ہلاک کر دئیے گئے، پھر نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام میں بھارت کے مسلم دشمن رویے کے خلاف غم وغصہ بڑھ رہا ہے بلکہ بھارت کی جانب سے ہندو تعصب کی وجہ سے اگر مغربی بنگال، بہار ، اڑیسہ،آسام ، منی پور اور ناگالینڈ میں برما کی طرح صورتحال ہوتی ہے تو بھارت کے مقابلے میں نہایت کم فوج رکھنے والا بنگلہ دیش تاریخ کے ایسے بحران کا شکار ہو سکتا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 13 دسمبر2019 کو بھارت میں رونما ہو نے والے ہنگاموں کی وجہ سے بنگلہ دیش کے وزیر ِخارجہ کو اپنا دورہ ِ بھارت منسوخ کرنا پڑا۔

اب بھارت کا ذکر کرتے ہیں، 1981 کے مقابلے میں آج بھارت جو دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، 2019 میں گلوبل جی ڈی پی میں بھارت، امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی کے بعد پانچویں نمبر پر ہے مگر حصے یا تناسب کے لحاظ سے اِن چاروں ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے ، دنیا میں زرمبادلہ کے ذخائر اگرچہ چین کے مقابلے میں ساڑھے سات گنا کم مگر دوسرے نمبر پر ہے اور بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 45178 ملین ڈالر ہیں۔ 2017 میں بھارت کی درآمدات 426800 ملین ڈالر تھیں اور برآمدات دنیا میں 19 ویں نمبر کے ساتھ 303400 ملین ڈالر تھیں بھارتی روپے کی قیمت بھی 72 روپے کا ایک امریکی ڈالر ہے مگر یہاں بھارت کی فوجی قوت اور اس کے اخراجات کے ساتھ امریکہ نوازی بہت اہمیت اور خدشات کی حامل ہے۔ بھارت کو 1990 سے عالمی منڈی میں رسائی زیادہ ہو گئی ہے، مگر بھارت کی آبادی 1366417754 ہے جس میں سالانہ اضافہ ایک کروڑ40 لاکھ ہے۔

بھارت میں بھوک کی شرح 2.83 ہے یعنی اِن کو پوری خوراک نہیں ملتی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 17 کروڑ ہیں، شرح خواندگی 71.2% ہے، نائجیریا، پاکستان ،اور بنگلہ دیش،انڈونیشیا کو بڑھتی ہوئی آبادی کے شدید مسائل درپیش ہیں لیکن آبادی کی بڑھوتری کے سب سے زیادہ مسائل سے بھارت دوچار ہے،کہا جا رہا ہے کہ 2050 میں یعنی آج سے صرف31 سال بعد اِس دنیا کی آبادی10 ارب ہو جائے اور ساتھ ہی دنیا کی دو تہائی آبادی شہروں میں آباد ہو گی اُس وقت بھارت کی مجموعی آبادی ایک ارب نوے کروڑ کے قریب ہو گی اور اس آبادی کا بیشتر حصہ شہروں میں آباد ہو گا۔

اس وقت تین بھارتی شہر دہلی، ممبئی اور کولکتہ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے ٹاپ ٹن شہروں میں شمار ہوتے ہیں جب کہ دنیا کے ٹاپ ٹوینٹی آلودہ شہروں میں نمبر ایک سے سات تک اور مجموعی طور پر بھارت کے 13 شہر دنیا کے 20آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں پھر دنیا بھر میں آلودگی پھیلانے میں امریکہ 15% چین 30% اور تیسرے نمبر پر بھارت 7% آلودگی کا حصے دار ہے اور ساتھ ہی دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک بھی ہے اس کے علاوہ بھارت کا اب سب سے بڑا مسئلہ مسلمان آبادی بن رہی ہے جس کو نریندر مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کے لیے ایک ٹائم بم قرار دیا جا سکتا ہے پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ 1951 سے بھارت میں مسلم آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ہندو آبادی کا تناسب اس کے مقابلے میں کم ہو رہا ہے، 1951 میں بھارت کی کل آبادی میں ہندو آبادی کا تناسب 84.1% تھا اور مسلمان آبادی کا تناسب 9.8% تھا، 2011 میں ہندو آبادی کا تناسب کم ہو کر 79.80% ہو گیا اور مسلمان آبادی کا تناسب بڑھ کر 14.23% ہو گیا یعنی 5.15% کا اضافہ 68 برسوں میں ہوا ہے۔

بھارت جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کے بارے میں یہ انداز ہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اب جب 2021 میں بھارت کی آٹھویںمردم شماری ہو گی تو امکان یہ ہے کہ چین کی بجائے بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک ہو گا اور مسلم آبادی کے تناسب میں مزید دو فیصد تک کا اضافہ ہو جا ئے گا، پھر بھارت علاقے کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ متنوع آبادی والا ملک ہے جو اس اعتبار سے دنیا میں سب سے منفرد ملک بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور پہلے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے بہت فخریہ انداز میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی سیکولر پالیسیوں کو اپنایا اور ماضی میں اس معاشرتی تنوع کو تضادات اور تنازعات میں تبدیل کرنے کی تاریخی تباہیوںکو تقسیم ہندکے وقت کی خونریزی کے بعد کبھی نہ استعمال کرنے کا ثبوت دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان کو مذہبِ اسلام کی بنیاد پر دو قومی نظریہ متحد رکھ سکتا ہے تو بھارت کو اس کا سیکولر اور پارلیمانی جمہوری نظام ہی ٹوٹنے اور تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔

پھر مودی حکومت نے نائن الیون کے بعد جب وہ اقتدار میں آئے تو یہ سمجھا کہ جس انداز سے امریکہ کو دہشت گردی کے خلا ف ایکشن کر نے کا کلنگ لائسنس مل گیا ہے بھارت بھی اسی طرح پاکستان کے خلاف کاروائیا ں کر ے گا اور پھر اُنہوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان سے ہمارے ہاں مداخلت بھی شروع کر دی پھر حماقت یہ کی کہ بھارت میں بھی جہاں اب مسلمانوں کی تعداد 22 کروڑ تک پہنچ گئی ہے وہاں ہندو تنگ نظری اور تعصب کے تحت خطرناک انداز کی پالیسیاں اپنائیں تو اُن کو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ اگر بھارت کے سامنے 22 کروڑ مسلمان آبادی کا ملک پاکستان ہے تو بھارت کے اندر بھی 22 کروڑ مسلمان ہیں جو بھارت کے ساتھ پُرخلوص بھارتی اس لیے ہیں کہ وہ بھارتی سیکولر ازم اور پارلیمانی جمہوریت پر اعتبار کرتے ہیں۔

یوں پاکستان نے نائن الیون کے بعد بہت مشکل اور سخت وقت گزارا اور اپنی 72 سالہ تاریخ میں گذشتہ 12 برسوں میں اُس نے امریکہ ، روس ، چین اور بھارت سمیت سب کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی سالمیت اور خود مختاری کے لیے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑے گا، یوںاب اَن گذشتہ بارہ برسوں میں پا کستان بہت حد تک اپنی خارجہ پالیسی کو غیر جانبدار اور آزاد بنا چکا ہے اور ملک کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں پر 90 فیصد تک قابو پا چکا ہے اور انشااللہ 14 اگست 2022 کو جب پا کستان اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا ہو گا تو دنیا اور خصوصاً مسلم دنیا میں پاکستان ایک بہت مضبوط مستحکم اور خوشحال ملک ہو گا۔

اب ایک جائزہ ہمسایہ ملک چین کا جو پاکستا ن ایک اہم دوست ہے، اس کے بارے میں گذشتہ صفحات میں بہت کچھ لکھا ہے کہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہو نے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے منظم معاشرہ بھی ہے، اتنا منظم کہ سوا ارب انسانوں نے حکومتی عزم اور ملک کے استحکام کی خاطر بنیادی جبلت پر قابو پایا اور ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کو تقریباً تیس سال مستقل مزاجی سے اپنائے رکھا، چین نے اپنے ہاں قدرتی آفات کو بڑے کمال اور مثالی طریقوں سے کنٹرول کیا ہے، مثلاً تاریخی دیوارِ چین کے بعد اِس زمانے میں اُس نے سحرائے گوبی کی صحرایت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مسلسل محنت کرتے ہوئے گریٹ گرین چائنا وال، چین کی عظیم سبز دیوار قائم کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

نپو لین بونا پاٹ کے زمانے میں جب چینی افیون کے عادی تھے تو نپولین جو چین کی تاریخ سے واقف تھا اُس سے کسی نے چینی قوم کے بارے میں پوچھا تو نپولین نے کہا تھا چین اور چینی قوم سویا ہوا ایک اژدھا ہے اسے سویا رہنے دو یہ جاگ گیا تو دنیا کو کھا جائے گا۔ نپو لین کی اس سے مراد غالباً اس قوم کا منظم ہونا ہی تھا یوں آج امریکہ اور یورپ کو اقتصادی، صنعتی میدان میں اگر کسی کا خوف ہے تو وہ چین ہی ہے اور بد قسمتی سے بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کر نے کو شش کی جا رہی جو خود اپنے معاشرتی تنوع کو تنازعات میں بدل رہا ہے۔

15 دسمبر 2019 کو جب یہ سطور اختتام کو پہنچ رہی تھیں تو بھارتی مغربی  بنگال،آسام ، چھتیس گڑھ اور دیگر ریاستوں میں ہنگامے انتہا کو پہنچ چکے تھے اور بھارت کے بعض حلقے الزامات بنگلہ دیش پر عائد کر رہے تھے، بھارت اگرچہ روز اوّل سے پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہا مگر جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار آئی ہے تو بھارت پاکستان دشمنی کے ساتھ اسلام دشمنی کی پالیسیوں کو اپنا رہا ہے اور یہ بھارت اُس وقت کر رہا ہے جب پوری دنیا میں اقتصادی ، معاشی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہ پیش گو ئیاں کی جا رہی ہیں کہ اب عالمی معیشت میں صدیوں بعد پھر ایشیا کی حکمرانی  ہو گی۔

اگر حقائق پر نظر رکھیں تو اس علاقے میں اگر بھارت امریکہ اور یورپ کی بجائے چین پاکستان، بنگلہ دیش ،سری لنکا ، افغانستان ،ایران ، سنٹرل ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اقتصادی تجارتی روابط کو فروغ دے، سی پیک پر تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کرے تو اس سے پورے علاقے کی معاشی اقتصادی آزادی اور خودمختاری کو استحکام ملے گا اور یہاں پا ئیدار خوشحالی آئے گی لیکن اگر ایک دوسرے ملک کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ تلخ حقائق ہیں کہ بھارت،پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران اور علاقے کے دیگر ملکوں میں جو لسانی ، قومی ، نسلی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ تنوع موجود ہے اس کو اس نئی طرز کی جنگ میں اگر متواتر اسی طرح استعمال کیا گیا تو نقصان آخر کار سب کی مکمل تباہی ہو گا اور جہاں تک امریکہ، چین اور دیگر بڑی قوتوں کا تعلق ہے تو غالباً اِن کو زیادہ نقصا ن نہیں ہو گا اور جہاں تک تعلق سرحدی اور علاقائی تنا زعات کا ہے تو یہ ایک دوسرے کے تحفظات کو مد نظر رکھ کر دور کئے جا سکتے ہیں، اس کے لیے سب سے پہلے نیتوں کا صاف ہونا ضروری ہے اور علاقائی اعتبار سے یہ حقیقت ہے کہ بھارت کو اپنی نیت پہلے صاف کرنی ہو گی۔

The post بھارت کی بدنیتی پورے خطے کو تباہی سے دوچار کر سکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

مریخ ! ہم آرہے ہیں

$
0
0

مریخ……سیارۂ ارض کا سرخی مائل ہم سایہ جس نے عشروں سے سائنس داں برادری کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ مریخ سے اس قدر ’ محبت ‘ کا سبب خلائی مخلوق تک پہنچنے کی جستجو ہے۔ نہ جانے کیوں حضرت انسان کو یقین ہے کہ لامحدود وسعت کی حامل اس کائنات میں زندگی صرف ایک سیارۂ زمین تک محدود نہیں ہوسکتی۔

کرۂ ارض سے باہر بھی کہیں نہ کہیں حیات ضرور وجود رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ تصور زبانی قصے کہانیوں تک محدود رہا۔ پھر ذرائع ابلاغ وجود میں آئے تو خلائی مخلوق کا وجود کہانیوں، ناولوں، رسائل و جرائد، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پردۂ سیمیں کی زینت بن گیا۔ گذشتہ برس میں سائنس اور ٹیکنالوجی تدریجی مراحل طے کرتے ہوئے اس درجے پر پہنچی کہ انسان خلائی مخلوق کو کھوجنے کے لیے عملی طور پر کوششیں کرسکتا۔ چناں چہ طاقتور خلائی دوربینیں، جدید آلات سے مزین رصدگاہیں، مصنوعی سیارے، خلائی و تحقیقی جہاز وجود پاگئے۔

اگرچہ سائنس داں خلائے بسیط کی مختلف سمتوں میں زندگی کا کھوج لگارہے ہیں مگر اس ضمن میں مریخ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کے خیال میں زمین سے قربت کے باعث سرخ سیارے پر طبعی حالات زندگی کی نمو کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ عشروں کے دوران مریخ کی جانب متعدد خلائی مشن روانہ کیے گئے۔ کچھ خلائی مشن اس سیارے کی سطح پر اتر کر زندگی کو کھوجنے لگے اور کچھ اس کے مدار میں محوگردش رہ کر معلومات کے حصول میں مصروف ہوگئے۔

ان کاوشوں کے نتیجے میں مریخ پر برف دریافت ہوئی۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ کسی دور میں اس سیارے پر دریا اور سمندر پائے جاتے تھے۔ تاہم ہنوز حیات کا سراغ لگانے میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ تاہم سائنس داں شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ 2020 میں بھی مریخ کی جانب کئی خلائی مشن روانہ کیے جائیں گے۔ مریخ کے علاوہ ماہرین فلکیات اسرار کائنات سے پردہ اٹھانے کے لیے دیگر سمتوں میں بھی تحقیق وجستجو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی میں سورج، زہرہ ، مشتری اور کئی دوسرے سیاروں اور سیارچوں کے بارے میں جاننے کے لیے مشن بھیجے جاچکے ہیں۔ رواں برس بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ذیل کی سطور میں موجودہ سال مریخ کی جانب روانہ کیے جانے والے اور دیگر مشنوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

٭  ناسا مارس روور 2020

رواں برس جولائی تک فلکیاتی منظرنامے پر مریخ چھایا رہے گا کیوں کہ یورپ، امریکا، چین، روس اور متحدہ عرب امارات سرخ سیارے کی جانب خلائی تحقیقی مشن روانہ کریں گے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی تحقیقی خلائی گاڑی کیپ کارنیوال ایئرفورس بیس سے جولائی یا اگست میں روانہ کی جائے گی۔ جدید آلات سے لیس یہ روبوٹک خلائی تحقیقی گاڑی یونائیٹڈ لانچ الائنس کے اٹلس V-541 راکٹ پر سوار ہوکر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگی۔ دو ہفتے قبل روور نے ’ڈرائیونگ ٹیسٹ‘ پاس کرلیا تھا۔ اب یہ فروری 2021 کے وسط میں مریخ کی سطح پر اترنے تک متحرک نہیں ہوگی۔

یہ نیم خودکار تحقیقی گاڑی مریخ پر Jezero نامی وسیع و عریض گڑھے میں خردبینی جاندار تلاشنے کی کوشش کرے گی۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق یہ گڑھا کسی دور میں جھیل ہوا کرتا تھا جو نامعلوم وجوہ کے سبب بعدازاں خشک ہوگئی۔ مشن کے دوران مارس روور یومیہ 650فٹ فاصلے طے کرے گی۔ اس دوران یہ گڑھے میں سے پتھروں اور مٹی کے نمونے ٹیوبوں میں بھر کر وہیں چھوڑتی جائے گی۔ پھر ایک ہی بار یہ تمام نمونے اکٹھا کرے گی۔

٭  روزلینڈ فرینکلن رووور

یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) اور روسی خلائی ایجنسی(روس کوس موس) مریخ کی جانب سے مشن روانہ کرنے کے لیے مل کر کام کررہی ہیں۔ اس مشن کے ذریعے روسی خلائی ایجنسی کے کازاچوک لینڈر کے ذریعے تحقیقی خلائی گاڑی ’ روزالینڈ فرینکلن روور‘ سرخ سیارے کی جانب بھیجی جائے گی۔ روزالینڈ فرینکلن روور کو قبل ازیں ایگزو مارس روور کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں یہ مشن معروف انگریز کیمیاداں روزالینڈ فرینکلن سے منسوب کردیا گیا جس نے ڈی این اے، آر این اے ، وائرس، کوئلہ اور گریفائٹ کی مالیکیولی ساخت کی تفہیم میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

ناسا کے مارس روور 2020 کے مانند روزالینڈ فرینکلن روور کا بنیادی ہدف بھی یہ جاننا ہے کہ آیا سرخ سیارے پر کبھی زندگی وجود رکھتی تھی یا نہیں۔ برطانوی ماہرین کی تیارکردہ خلائی گاڑی مریخ کی سرزمین پر آٹھ مہینوں تک فعال رہے گی۔ اس دوران یہ یومیہ 330 فٹ کا فاصلے طے کرتے ہوئے تحقیق کا عمل جاری رکھے گی۔ مریخ کے مدار میں اکتوبر 2016 سے موجود ٹریس گیس آربیٹر اس مشن کے لیے ریلے اسٹیشن کے طور پر کام کرے گا۔

٭ مارس گلوبل ریموٹ سینسنگ آربیٹر، لینڈر اور اسمال روور مشن

چین بھی مریخ کو کھوجنے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ پہلی بار اپنی ڈلیوری وہیکل کے ذریعے سرخ سیارے کی جانب مشن روانہ کرے گا جسے ’مارس گلوبل ریموٹ سینسنگ آربیٹر، لینڈر اینڈ اسمال روور مشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مشن جولائی 2020 میں لانگ مارچ 5 نامی ہیوی لفٹ راکٹ کے ذریعے روانہ کیا جائے گا۔ اس مشن کے اہداف میں مریخ پر ماضی میں رواں رہنے والی زندگی کے آثار کھوجنا اور سیارے کے ماحول کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شامل ہیں۔ 27 دسمبر 2019 کو چین نے ایک آزمائشی مصنوعی سیارہ ارضی مدار میں بھیج کر لانگ مارچ 5 کی کامیاب آزمائش کرلی تھی۔ شمسی توانائی سے چلنے والا روور سطح ارض کی گہرائی میں ’ جھانکنے‘ والا راڈار، ملٹی اسپکٹرل کیمرا، لیزر انڈیوسڈ بریک ڈاؤن اسپیکٹرواسکوپی انسٹرومنٹ اور سیارے کے مقناطیسی ماحول اور آب و ہوا کو جانچے کی صلاحیت کے حامل جدید آلات سے لیس ہوگا۔

٭ ہوپ مارس مشن

متحدہ عرب امارات بھی خلائی تحقیق اور خلائی مخلوق کو کھوجنے کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔ رواں برس وہ بھی مریخ کی جانب مشن روانہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ عرب امارات نے مریخ کے لیے اپنے اولین مشن کو ’ ہوپ مارس مشن‘ کا نام دیا ہے اور یہ جولائی میں جاپانی راکٹ پر سوار ہوکر اپنے ہدف کی جانب روانہ ہوگا۔ اس مشن کی روانگی کے ساتھ ہی یو اے ای کسی سیارے کی جانب خلائی مشن روانہ کرنے والا پہلا عرب اسلامی ملک بن جائے گا۔

ہوپ مارس مشن اپنے متعین مقام پر پہنچ کر موسمی چکروں (seasonal cycles ) کے ذریعے ہر لمحہ سرخ سیارے کے طبعی اور موسمی حالات کا مطالعہ کرے گا۔ یہ مشن 2021 میں عرب امارات کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر مریخ کے مدار میں پہنچے گا۔ہوپ مارس مشن کولوراڈو بولڈ یونی ورسٹی، کیلے فونیا برکلے اور ایریزونا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے اشتراک سے تیار کیا گیا ہے۔

مریخ کی طرف بھیجے جانے والے چاروں مشن فروری 2021 میں سرخ سیارے کے مدار میں پہنچے یا اس کی سطح پر اتریں گے۔

٭ سولر آربیٹر

فروری 2020 میں یورپی خلائی ایجنسی ’سولر آربیٹر‘ مشن خلا میں روانہ کرے گی۔ یہ تحقیقی خلائی جہاز کیپ کارنیوال سے اٹلس V راکٹ کے ذریعے خلا میں پہنچے گا۔ اس مشن کا مقصد ماہرین فلکیات کو یہ سمجھنے میں مدد دینا ہے کہ ستارے پلازما کا وہ بُلبلہ (plasma bubble) کیسے تخلیق اور کنٹرول کرتے ہیں جو پورے نظام شمسی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔یورپی خلائی ایجنسی نے اس مشن کے لیے ناسا سے اشتراک کیا ہے۔ دونوں بڑے خلائی اداروں کا یہ مشترکہ مشن اس امر کا کھوج لگائے گا کہ یہ دیوہیکل پلازما ببل اندر موجود سیاروں پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔

خلاء میں پہنچنے کے بعد سولر آربیٹر زمین اور زہرہ کی کشش ثقل سے مدد لیتے ہوئے اپنے مدار کو سورج کے قطبین سے بالا لے جانے کی کوشش کرے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس عمل سے سورج کے نئے پہلو آشکارا ہوں گے اور پہلی بار سورج کے قطبی علاقوں کی شبیہہ بھی حاصل ہوسکے گی۔

٭  اورین لونر اسپیس کرافٹ

چاند کی جانب خلائی جہاز ’اورین‘ بھی پہلی بار رواں برس بھیجا جائے گا۔ یہ خلائی جہاز ناسا کے اسپیس لانچ سسٹم (ایس ایل ایس) راکٹ کے ذریعے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگا۔ ایس ایل ایس اب تک تخلیق کیا جانے والا سب سے بڑا راکٹ ہے جو Artemis مشن کے ذریعے خلانوردوں کو چاند پر لے جانے، لونر گیٹ وے اسپیس اسٹیشن کے پرزوں کی خلا میں ترسیل، اور مستقبل میں عالمی خلائی اسٹیشن کی جانب تجارتی مشنوں کی لانچ کے لیے استعمال ہوگا۔

Artemis 1 مشن کے تحت اورین اسپیس کرافٹ تین ہفتے خلا میں گزارے گا۔ یہ اورین اسپیس کرافٹ کی خلانوردوں کے بغیر اور آزمائشی لانچ ہوگی۔

٭ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب خلانوردوں کی روانگی

رواں برس خلانوردوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچانے کے لیے کئی مشن روانہ کیے جائیں گے۔ پہلے دو مشن روس کے  Soyuz اسپیس کرافٹ کے ذریعے روانہ ہوں گے۔ ناسا کے کمرشل پروگرام کے تحت مئی میں ’’Expedition 64‘‘ اور 65 کے ذریعے دو امریکی اور ایک جاپانی خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچیں گے۔ نومبر 2009 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب روسی  Soyuz اسپیس کرافٹ کے علاوہ کوئی اسپیس کرافٹ لوگوں کو عالمی خلائی اسٹیشن تک لے کر جائے گا۔ بعدازاں دسمبر میں بوئنگ اسٹارلائنر سی ایس ٹی 100  دو چکروں میں دو امریکی، ایک یورپی اور ایک روسی کو عالمی خلائی اسٹیشن کی سیر کرائے گا۔

٭  چینی Tianhe-1 خلائی اسٹیشن کی لانچ

چینی خلائی اسٹیشن کے پہلے حصے کے پہلے ماڈیول کی لانچ رواں برس متوقع ہے۔ یہ ماڈیول بھی لانگ مارچ 5 راکٹ کے ذریعے ارضی مدار میں پہنچایا جائے گا۔ مرحلہ وار تمام حصے خلا میں پہنچ جانے کے بعد انھیں جوڑ کر خلائی اسٹیشن کی شکل دی جائے گی۔ چینی خلائی اسٹیشن ، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پانچ گنا چھوٹا ہوگا۔ اس کی تکمیل 2023 میں متوقع ہے۔

The post مریخ ! ہم آرہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 75

زندگی سہل نہیں کہ بس آسانیاں ہی ہوں اور کوئی سیدھی ہم وار سڑک بھی نہیں کہ جس پر بلا کسی رکاوٹ کے گام زن رہا جائے، اس میں لاکھوں موڑ آتے ہیں، پگڈنڈیاں ہیں، گڑھے ہیں، کھائیاں ہیں اور نشیب کے ساتھ فراز بھی کہ سُکھ دُکھ کا میل ہے یہ زندگی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ بس سیدھی سڑک پر بہ آسانی چلتے چلے جاؤ، نہیں ایسی نہیں ہے زندگی۔ جی! ہوسکتی ہے آسان اور سہل اور ایسی کہ بس جیون رس پیتے جاؤ اور جیتے جاؤ، لیکن اس کے لیے شرط ہے بس ایک کہ راضی بہ رضائے الہی رہو، خود کو خالق کے سپرد کردو اور بس ایک ہی گیت گاؤ اور دل سے کہ تیری رضا میری تسلیم، اب جو کچھ بھی ہوگا تو بس تیری جانب سے ہوگا اور میں تیری رضا پر سر ہی نہیں پورے جسم کو جھکائے رہوں گا اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ بس تُو ہی ہے لائق عبادت اور تسلیم بندگی۔ جی! پھر جب کوئی تسلیم کی راہ پر ہو تو اس سے زیادہ سہل راستہ کوئی ہے ہی نہیں، چلتے چلے جاؤ اور بس چلتے چلے جاؤ بغیر کسی خدشے، خوف اور ڈر کے اور منزل پر پہنچ جاؤ کہ انسان کی دنیاوی منزل گورستان ہی تو ہے ناں، موت کا استقبال کرنا ہی تو ساعت مسرّت ہے اور سنیے جی! یہ جو قبر ہے ناں پھر بن جاتی ہے گوشۂ مسرّت۔ نہ جانے کیا کہہ رہا ہے فقیر اور کیا سمجھ رہے ہیں آپ۔ تو بس آسانی کا ایک ہی ورد وظیفہ ہے جی! تیری رضا میری تسلیم، تیری رضا میری تسلیم۔

کتنا مشکل ہے ناں جیون، جی بہت مشکل ہے جی، ہر انسان ایک کہانی ہے جیون کتاب کی، کبھی فرصت ہو تو سنیے کہ ایسی کہانیاں جنہیں لکھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، ہاتھ کانپنے لگیں، آنکھیں بھیگ جائیں، دل بند ہونے لگے اور ذہن ساتھ چھوڑ دے۔ ہر قدم پر حرص، طمع اور لالچ کی کہانیاں، رشتے ناتوں کی ناپائیداری کی داستانیں اور دل سوز حکایتیں۔

یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو فقیر آپ کے گوش گزار کر رہا ہے۔ اس سماج کی کہانی جہاں انسان کی قدروقیمت زر و زمین کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ جہاں خونیں رشتے بھی اپنی قدر و قیمت کھو دیں اور حقارت سے ٹھکرا دیے جاتے ہیں۔ بے حسی، خودغرضی، سفاکی اور فرعونیت کا شاہ کار سماج۔ پناہ! میں اسے جانتا ضرور تھا اور بہت عرصے سے، کبھی کبھار اس سے بات بھی ہوجاتی تھی۔ اس دن میں اس کی بیمار بوڑھی ماں سے ملنے اسپتال پہنچا۔ وہ آزردہ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور پھر اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا: ’’بھائی جان میں بہت تھک گئی ہوں۔‘‘

میرے کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟ کے جواب میں اس نے اپنے عذاب دنوں اور سلگتی راتوں کا ذکر چھیڑا۔ جو کچھ مجھ پر بیتی وہ رہنے دیجیے۔ بہت سارے حقائق پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے مگر جب سب کردار آنکھوں کے سامنے جیتے جاگتے موجود ہوں تو پھر ان کی تکذیب نہیں کی جاسکتی۔ اس نے بزدلوں کی طرح نہیں، جواں مردوں کی طرح زندگی کا سامنا کیا۔ اس نے جن طوفانوں، آندھیوں اور رویّوں کا مقابلہ کیا ہے ان کے سامنے بڑے بڑے جَری ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اس میں کمال کا ضبط اور صبر ہے۔ اتنے دکھ سہہ کر بھی وہ مسکراتی رہی ہے۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ناک ضرور ہوئیں، اس کی آواز ضرور رندھ گئی مگر اس نے انہیں برسنے اور بے ترتیب نہیں ہونے دیا۔فقیر کو سعود عثمانی یاد آئے۔

غم وہ کہ لہو کر دیں اندر سے ہمارا دل

ہم وہ کہ پگھل کر بھی آنسو نہ نکلنے دیں

گر وقت کے مرہم کا درماں نہ ملے کوئی

کچھ حادثے انسان کو برسوں نہ سنبھلنے دیں

آئیے! شمائلہ سے ملیے: میں پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔ ہم چار بہنیں اور اکلوتا بھائی ہے۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ کچھ بڑی ہوئی تو اسکول میں داخل کردیا گیا۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر میرے والد نے سب کی مخالفت مول لے کر ہمیں پڑھایا۔ دن اچھے گزر رہے تھے۔ ہم سارے لوگ چچا، تایا وغیرہ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ میں کچھ بڑی ہوئی تو معلوم ہوا کہ میرے والد نے اپنے خاندان سے باہر شادی کی ہے یعنی میری والدہ غیروں میں سے تھیں۔ اسی لیے چچاؤں اور تایا کے ساتھ ان کے اہل خانہ کا رویّہ بھی میری والدہ کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ انہیں ہر وقت یہ سننے کو ملتا کہ وہ غیر خاندان کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں خاندانی امور کے فیصلوں کے وقت الگ رکھا جاتا تھا۔ خیر! پھر بھی وقت اچھا گزر رہا تھا۔ میں آٹھویں میں تھی کہ اچانک میرے والد کا انتقال ہوگیا۔

ہم پر تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ہم ذہنی طور پر اتنے بڑے حادثے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ خیر سہارا تھا کہ ہمارے چچا ہیں، تایا ہیں، ہم بے سہارا نہیں ہیں۔ اور کچھ دن تو ہمیں ایسا محسوس بھی ہوا۔ لیکن یہ خواب جلد ہی بکھر گیا اور آہستہ آہستہ ہمارے نصیب سونے لگے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم اور ہماری والدہ اُس جگہ ایسے رہنے لگے جیسے کوئی ہمیں جانتا ہی نہ ہو۔ سب بیگانے ہوگئے، رشتے ناتے ختم اور آنکھوں کا پانی جاتا رہا۔ ہمیں ہر وقت جھڑکیاں ملتیں، طعنے ملتے، اسکول جانا بند کردیا گیا۔ سب کچھ ہوتے ہوئے ہمیں محروم کردیا گیا۔ ایک دن تنگ آکر میری والدہ نے میرے تایا سے کہا کہ ہمیں علیحدہ کردیں اور ہمارے حصے کی جائیداد ہمیں دے دیں تاکہ ہم سکون سے رہ سکیں۔ پھر کیا تھا، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا اور پھر جو تشدّد ہم پر شروع ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن اُس دن تو ہم پر سورج سوا نیزے پر آگیا جب ہمیں گاؤں کے ایک شخص نے آکر بتایا کہ ہمارے اکلوتے بھائی کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے اس لیے ہمیں کہیں اور چلے جانا چاہیے۔

ہمارا بھائی اس وقت بی ایس سی کرچکا تھا اور کئی مرتبہ چچاؤں کے تشدّد کا شکار ہوا تھا۔ میری والدہ نے تایا سے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس ہمیں یہاں سے جانے دیا جائے۔ انہوں نے کاغذات بنوائے، ہم سب سے دست خط لیے اور ہم ہنستے بستے لوگ اجڑ گئے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب ہم نے گاڑی میں اپنے چند اٹیچی کیس رکھے اور پورا بَھرا پُرا گھر چھوڑ کر راول پنڈی پہنچے۔ ہمیں ہمارے اپنوں نے ہجرت پر مجبور کردیا۔ راول پنڈی میں میرے بھائی کے ایک دوست رہتے تھے اور امی کے ایک رشتے دار بھی۔ امی کے رشتے داروں نے کچھ ساتھ دیا اور کچھ کا خیال تھا کہ غیروں میں شادی کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ہم کراچی آگئے۔ راول پنڈی تو چھوٹا سا شہر ہے۔ روزگار بھی کم تھا۔ ہمیں تو زندگی کی ابتدا کرنا تھی، جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔

اب رونے دھونے سے کیا حاصل تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی چلنا چاہیے۔ اب مسئلہ تھا کہ کیسے انتظام کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے اپنے نئے کپڑے، پلنگ کی چادریں اور اپنا زیور بیچ دیا اور یوں ہم کراچی پہنچ سکے۔ سب سے زیادہ تو ہمارا بھائی ہمارے لیے مسئلہ بن گیا۔ ہر وقت اس کے سر پر غصّہ سوار رہتا۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، وہ اپنے خرچ کے لیے پیسے مانگتا رہتا۔ ہم کہتے جاکر کہیں نوکری کرلو تو کہتا تم بہنیں کس لیے ہو۔ تمہاری وجہ سے تو یہ سارا عذاب آیا ہے۔

ہمارے پاس پیسے نہ ہوتے تو وہ ہمیں کمرے میں بند کرکے مارنا شروع کرتا۔ اس کی ایک رٹ ہوتی: ’’مجھے تمہاری وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔‘‘ ہم کراچی پہنچے تو یہاں امی کے ایک دور کے رشتے دار تھے، انہوں نے میزبانی کی اور کرائے کا گھر لے دیا۔ ہمارے سامنے والے گھر میں ایک بہت اچھی خاتون رہتی تھیں۔ انہیں جب ہمارے گھر کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے ایک سلائی مشین ہمیں دے دی اور ہم نے محلے والوں کے کپڑے سینا شروع کردیے۔ میری والدہ کو سینا پرونا آتا تھا۔ انہوں نے ہمیں بھی سکھایا اور یوں زندگی کی گاڑی چلنا شروع ہوئی۔ بھائی کا رویّہ اتنا خراب تھا کہ ہم رات کو بھی ڈر کے مارے نہیں سو سکتے تھے۔ وہ ایک نفسیاتی مریض بن گیا تھا اور ہمارے بس سے باہر تھا۔

ہم اتنی محنت کرتے وہ اچھے اچھے کپڑے پہن کر گھومتا۔ اس نے دوست بنالیے تھے ان میں اس کا وقت گزرتا، رات گھر لوٹتا تو دن بھر کی جمع پونجی پر قبضہ کرلیتا۔ ہم نے اپنے بھائی سے بڑا ظالم نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ سے ہمارے رشتے نہ ہوسکے۔ آس پاس کی خواتین تین چار مرتبہ رشتہ لے کر آئیں تو اس نے انہیں بھی بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا۔ اس کا کہنا تھا یہ ساری عمر کمائیں گی اور میں کھاؤں گا۔ آپ نے کبھی ایسا بھائی بھی دیکھا ہے؟ اسی دوران ہماری سب سے چھوٹی بہن کا رشتہ آگیا اور ہم نے اس کی جیسے تیسے شادی کردی۔ اب ہم دو بہنیں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ سلائی کا کام تو امی سے سیکھا اور پھر ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام شروع کیا۔ جب مجھے سلائی اچھی طرح آگئی تو میں نے لیدر کی جیکٹ سینا شروع کیں۔ ہم پیس ریٹ پر یہ کام کرتے تھے۔

اس پر بھی بھائی نے اعتراض کیا کہ یہ رات گئے تک آتی ہیں۔ اب تو ہم فیکٹری میں ملازم تھیں اور اوور ٹائم بھی کرنا پڑتا تھا۔ رات گئے تک رکنا بھی پڑتا تھا۔ مگر ہمارا بھائی عذاب بن گیا تھا، کیا کرتے، آخر تھک ہار کر گھر میں بچوں کو قرآن شریف اور ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ اس میں اتنی آمدنی نہیں تھی۔ بھائی نے اس پر بھی پھر ہنگامہ کھڑا کیا کہ پیسے کم ہیں، خرچ پورا نہیں ہوتا تو میں نے پھر سے گارمنٹس فیکٹری کا کام شروع کیا اور بڑی بہن نے دواؤں کی کمپنی میں پیکنگ شروع کی۔ تفصیل بہت لمبی ہے، بہت سے کام کیے۔ لیکن اﷲ کا بہت احسان ہے، لوگ اچھے ملے۔ پھر ایک دن ہمارا بھائی گھر کی جمع پونجی لے کر غائب ہوگیا۔ ہمارے اس منافق معاشرے میں بغیر مرد کے رہنا بہت مشکل ہے۔ مگر سچ پوچھیں تو ہم اس اکیلے پن کے عادی ہوگئے ہیں، کم از کم ہم پر تشدّد تو نہیں ہوتا۔ لوگ اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی۔ ہم انہیں ٹھیک تو نہیں کرسکتے اور نہ انہیں اپنی بات پر قائل کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے خود سے عہد ضرور کر رکھا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہم نے دیکھا ہے، اگر آپ ہمت کرلیں تو خدا آپ کی ضرور مدد کرتا ہے۔ ہمیں تو اپنا بھائی بہت یاد آتا ہے۔ کچھ بھی تھا، وہ ہمارا بھائی ہے۔ وہ جہاں رہے خوش رہے۔ میری امی اس کی یاد میں سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہیں لیکن وہ بہت باہمت ہیں۔

انہوں نے سب لوگوں کے طعنے سنے، ستم جھیلے مگر ہمت نہیں ہاری، اب بھی ہم تینوں ماں بیٹیاں بیٹھ کر اسے یاد کرتے ہیں۔ کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بنکاک میں ہے اور کوئی کام کرتا ہے۔ اس نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ان حالات میں انسان مایوس ہوجاتا ہے، اس کا ہر شے پر سے اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔ وہ ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں کسی سے گفت گْو نہیں کرتی، صرف کام کی حد تک رہتی ہوں۔ ہر وقت بے چینی رہتی ہے۔ میں کسی پر اعتبار نہیں کرتی۔ کسی سے توقعات نہیں باندھتی۔ لیکن اس کے ساتھ مجھ میں ہمت بھی پیدا ہوئی۔ میں خاموش ضرور رہتی ہوں مگر حالات سے نہیں گھبراتی۔ اور یہ سوچتی ہوں کہ یہی زندگی ہے۔

ہم سے جس قدر بھی ہوسکے اسے خوش گوار بنانا چاہیے، میں کسی کی تکلیف پر بہت زیادہ دکھی ہوجاتی ہوں۔ بس عجیب و غریب ہوگئی ہوں۔ بیٹھے بٹھائے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ لیکن خدا کو یاد کرتی ہوں اور پھر اسے اﷲ کی رضا سمجھ کر مطمئن ہوجاتی ہوں۔ مجھے غصہ نہیں آتا۔ دیکھیے انسان غصہ اس وقت کرتا ہے جب اسے کوئی منانے والا ہو۔ آپ اگر خفا ہوجائیں تو کوئی تو منانے والا ہوگا ناں! ہمارا کون ہے؟ اس لیے نہ ہی ناراض ہوتی ہوں اور نہ ہی غصہ کرتی ہوں۔ ماں اور ہم بہنوں میں بہت اچھے اور مضبوط رشتے ہیں۔ ہمارا دکھ سانجھا ہے اور جب دکھ مشترک ہو تو محبت بہت پائیدار ہوتی ہے۔ ہم نے یہیں پر رشتے ناتے، تعلقات اور دنیا کی ناپائیداری دیکھی ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی محرومی دیکھی ہے۔ ہم نے خون سفید ہوتے دیکھا ہے۔ اب ہم اور کیا دیکھیں گے ہم تو زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔

ایسے میں بھی لڑیں جھگڑیں تو زندگی مزید عذاب ہوجائے گی۔ مستقبل کے بارے میں سوچتی ہوں۔ پچھلے دنوں ایک رشتہ بھی آیا ہے۔ اﷲ نے چاہا تو بات بھی ہوجائے گی۔ آج کل یہ سوچتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا ؟ تیاری کیسے ہوگی ؟ امی اور بڑی بہن کا سوچتی ہوں کہ ان کا کیا ہوگا ؟ ہم نے کچھ رقم جمع کی تھی کہ اچانک والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا اور یوں وہ رقم ان کی بیماری کی نذر ہوگئی ہے۔ میں ایک فیکٹری میں کام کرتی ہوں، وہاں پر کام بند ہوگیا ہے اور یوں میں بے روزگار ہوگئی ہوں۔ صرف بڑی بہن ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔

اس سے کچھ گزارا ہو رہا ہے۔ مجھ سے بڑی بہن کا رشتہ نہیں آیا۔ ان کی عمر بھی اتنی زیادہ ہوگئی تو ان کے لیے بہت فکرمند ہوں کہ وہ کیا سوچتی ہوں گی؟ اب میری شادی کی بات چل رہی ہے اور ہم نے انہیں اپنی مالی حیثیت کے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے مگر سفید پوشی بھی بہت مصیبت ہے۔ آدمی کچھ کہہ سکتا ہے اور نہ ہی برداشت کرسکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا ہوگا۔ اﷲ پر بھروسا ہے، وہی سب کچھ بہتر کرے گا، جس نے اتنے کٹھن حالات میں پالا ہے، سہارا دیا ہے ہمت دی ہے، اب بھی وہی ہے اور اس کا سہارا ہی حقیقی سہارا ہے۔ انسان اچھے خواب دیکھتا ہے۔ میں اب بھی اچھے خواب دیکھتی ہوں۔ اچھے دنوں کے خواب۔ اﷲ ضرور یہ دن پھیرے گا۔ ہمیشہ تکالیف اور دکھ تو نہیں رہیں گے، اس سے مایوس ہونا تو کفر ہے۔ سب سے بڑا اور مضبوط سہارا تو خدا کا ہے۔ جب مشکلات آئیں تو گھبرائیے نہیں، ہمت کیجیے۔ جو لوگ ہمت سے، محنت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں وہ انہیں مایوس نہیں کرتا۔ صرف خدا پر بھروسا کیجیے۔

سن لی آپ نے جیون کتھا! ہاں یہ ہے اس کے کئی ہزار رنگوں میں سے ایک رنگ۔ اب آگے کی بپتا فقیر آپ کو سنائے دیتا ہے۔ فقیر کو رب تعالٰی نے سعادت دی کہ بس وہی ہے توفیق دینے عنایت کرنے والا، بندہ بشر تو مکار و عیار ہے۔ فقیر اس کی والدہ کے ساتھ اسپتال میں رہنے لگا اور جو کچھ درکار تھا رب تعالٰی نے مہیا فرمایا کہ وہی ہے دینے والا۔ لیکن مرض تو ایک بہانا ہے جی موت کا، موت کا لمحہ مقرر ہے تو بس وہ آکر رہا اور اس کی والدہ جسے فقیر ماں جی کہتا تھا، اپنی منزل پر پہنچ گئیں، گورستان میں ایک نئی گور کا اضافہ ہوگیا۔ رب تعالٰی ان کی حسنات کو قبول فرمائے، آمین۔ شمائلہ کی شادی بھی بہ شُکر خدا ہوگئی، بہت خوش تھی وہ اور فقیر کو اکثر کہتی رب تعالی نے کرم کردیا بھائی جان۔ اور پھر ایک سال بھی نہیں جی پائی اور راہی ملک عدم ہوئی، کیسے؟ چلیے شانت رہیے کسی اور وقت رکھیے ناں اس قصے کو۔ فقیر نے رب کی امانت دھرتی کے حوالے کردی، ماں کی گور کے ساتھ اک نئی گور۔

تیری رضا میری تسلیم۔ جی! پھر جب کوئی تسلیم کی راہ پر ہو تو اس سے زیادہ سہل راستہ کوئی ہے ہی نہیں، موت کا استقبال کرنا ہی تو ساعت مسرّت ہے اور سنیے جی! یہ جو قبر ہے ناں پھر بن جاتی ہے گوشۂ مسرّت۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

مضر صحت غذاؤں کے نقصانات سے کیسے محفوظ رہیں؟

$
0
0

انسان غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگرغذا خالص استعمال نہ کی جائے تو اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد غذا کے انفرادی اجزاء جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مختلف اعضاء کو ان کی غذا پہنچاتے ہیں۔

کسی زمانے میں صرف شیور مرغیاں، کیمیائی دودھ وغیرہ کے استعمال سے ہی منع کیا جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں مصنوعی اشیاء کی تعداد میں اضافے کے علاوہ  جینیاتی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں جو ان اشیاء کو تادیر سڑنے سے روکنے میں معاونت کرتی ہیں، مگر اب ان اشیاء کی نہ وہ صحت ہی رہی کہ جراثیم ، پھپھوندی وغیرہ اسے چھوئے نہ وہ مزاج رہا کہ معالج اسے تجویز کرسکے۔

شیور مرغی پید ا کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے کہ انڈے کو ایک خاص حد تک حرارت مہیا کی جائے تاکہ جلدی چوزا پیدا ہو۔ ایسی مرغی میں نہ  چُستی ہوتی ہے نہ پُھرتی کیونکہ وہ  پیدائش کے مراحل فطری انداز میں طے نہیںکر پاتی لہذا جب انسان اسے کھاتے ہیں تو ان کی اپنی حرارتِ بدنی کمزور ہوجاتی ہے۔

ایسی مرغی کی تاثیر انسانی بدن کی حرارت کی نسبت کمزور ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغی کھانے والے کو حرارت کا تحفہ بخشتی ہے۔ اس امر میں غذا کی جینیات بھی بہت اثر رکھتی ہیں۔ بڑے جانوروں مثلاً بَیل، گائے، بکرے وغیرہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں مختلف اغراض سے انجکشن لگائے جاتے ہیں جن میں ’پینی سیلین،  ٹیٹرا سائیکلین  وغیرہ شامل ہیں، انھیںخاص قسم کا چارہ جس میں جینیاتی تبدیلی ہوتی ہے، استعمال کرایا جاتا ہے، ایسے چارے میں اسٹیرائیڈز ہوتے ہیں تا کہ ان کی نشو و نما جلد  ہوسکے یعنی یہ جانور بھی ایک قسم کے شیور ہی کہلاتے ہیں۔

بغیر ضرورت ’اینٹی بائیوٹک‘ بھرے گوشت کے استعمال سے ان ادویہ کے خلاف مزاحمت (اینٹی بائیوٹک رزسٹنس) پیدا ہوتی ہے، انسانوں میں بھی اینٹی بائیوٹک رزسٹنس بڑھتی جا رہی ہے۔ مویشی پالنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ اگر ہم مویشیوں کو اسٹیرائیڈز  والا چارہ نہ کھلائیں تو جانور بیمار ہوکر مرجائیں گے مگر ایسا کرنے سے انسانی صحت متاثر ہورہی ہے اس لیے جانوروں کو صاف غذا فراہم کی جائے اور آلودگی سے پاک ماحول میں پالا جائے۔

یہ  جانور اور انسان دونوں کی صحت کے لئے بہتر ہے لہذا جب انسانوں کو اپنی بیماری کے دوران میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسہال، پیچش اور خون کی کمی ہی ہوتی ہے اور کوئی فائدہ  نہیں ہوتا۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کس اینٹی بائیوٹک سے رزسٹینٹ ہوچکے ہیں۔ جراثیم کی خاص مدّت پوری ہونے کے بعد مرض بھی ٹھیک ہونے لگتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک سے فائدہ ہوا ہے۔ دوسری طرف جانوروں کو دیے جانے والے اسٹیرائیڈز انسانوں کو جَلد جوان کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے چہرے اور دیگر بال جلداُگ آتے ہیں، آواز خاص عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کوتاہ قد وقامت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اگر گائے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاگل گائے (میڈ کاؤ) کے لئے کوئی ٹیکہ نہیں ہوتا۔ مویشی پالنے والے اشخاص ایسی گائے کو جَلد ذبح کرکے اس کا گوشت فروخت کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک خاص پروٹین ’پریون‘  انسان میں داخل ہوجاتا ہے جو دماغ میں پہنچ کر دماغ کو پگھلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ٹانگیں بیکار ہوتی ہیں، پھر رفتہ رفتہ نزلہ شدت اختیار کرتاہے حتیٰ کہ انسان کا دماغ ضائع ہوجاتا ہے۔ جو بھی غذا انسان استعمال کرتا ہے اس کا اثر اس کی عادات، خیالات اور ساخت پر پڑتا ہے۔

مثلاََ بھینس کا گوشت زیادہ استعمال کرنے سے سُستی، کُند ذہنی، موٹاپا ہوتا ہے۔ بکرے کا گوشت کھانے والے  چُست، ذہین اور دُبلے نظر آتے ہیں۔ خوف کی حالت میں زیادہ شیور مرغی کھانے والوںکی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ ان میں سُستی اور نیند زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغ کھانے والے اشخاص نسبتاً چُست ہوتے ہیں۔ مچھلی زیادہ کھانے والے لوگوں کے جسم پُھول جاتے ہیں اور وہ زیادہ سوتے ہیں۔ سبزی اور میوہ جات کی جن اعضاء سے  مشابہت ہوتی ہے انہیں قوت پہنچاتی ہیں مثلاً مولی ہڈی سے مشابہ ہے ، ہاضم ہوتی ہے، کیلشیم کا منبع ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح اخروٹ دماغ سے مشابہ ہے ، وہ  دماغ کو مضبوط بھی کرتا ہے۔

70 فیصد سے زیادہ سبزیوں اور غذاؤں میں جینیاتی تبدیلی کی جا چکی ہے۔ اگر سبزیوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں ایسی جینیات متعارف کی گئی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ  پھپھوندی اور دیگر حشرات الارض سے بچاتے ہیں۔ وٹامنز جو پہلے ان میں نہیں پائے جاتے تھے اب پائے جاتے ہیںاس کے علاوہ گلوکوز جو پہلے کم مقدار میں پھلوں میں پایا جاتا تھا اور ذیابیطس کے مریض انھیں استعمال کرسکتے تھے، اب ان میں گلوکوز  وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پھلوں کو جلد پکانے کی غرض سے’ایسی ٹائلین‘ استعمال کیاجاتا ہے۔

یاد رہے کہ اس کی زیادہ مقدار انسان کا سانس روک دیتی ہے، یہ سردرد، دل کی تیز دھڑکن، متلی کا موجب بھی ہے۔ جن پھلوںکا ذائقہ ناگوار ہوتا تھا یا جن کا وزن کم ہوتا تھا، انہیں کبھی نمکین اور کبھی میٹھے پانی میں کافی دیر تک  رکھا جاتا ہے۔ باہر سے گاڑھا پانی پھل میں داخل ہوکر اس کے ذائقے اور دیگر خصوصیات اور سائز کو بدل دیتا ہے۔ اب ایسے پھلوں کے استعمال سے شوگر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ مریض کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس قدر اضافہ کیوں ہوا۔ علاوہ ازیں ان میں ایسی جین پیدا کی گئی ہے جو جسم میں داخل ہونے کے بعد شکر کی وافر مقدار پیدا کرتی ہے۔

شکر اشیاء کو جلدی سڑنے سے بچاتی ہے جبکہ اس سے زیادہ موزوں چیز شہد ہے۔ چینی کی مختلف اقسام ہیں مثلاََ براؤن شوگر، سٹیویا سے ماخذ شکر وغیرہ۔ اس لیے مصری کو پیس کر استعمال کرنا بہتر ہے۔ نیز جین کے ہمراہ اسٹیرائیڈز نما مواد بھی متعارف کرایا جاتا ہے تا کہ جین ایکٹو ہو۔ جب یہ اسٹیرائیڈز جین کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو شَکر کی مقدار اس طاقت سے بڑھتی ہے کہ لبلبہ اس مقدار کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ آلو کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک خاص ترکیب سے  ’امائینو ایسڈ ایسپیراجین‘   کو بیکار کیا جاتا ہے جو جسم میں حرارت بڑھانے کا کام کرتی ہے، جسم میں گوشت کی مقدار بڑھاتی ہے، دماغ اور اعصاب کے میٹابولزم کو قابو کرتی ہے۔ اس کی بجائے شکر کی مقدار بڑھانے والی جین کو ایکٹو کیا جاتا ہے تاکہ کسی حد تک شکر اس امائینو ایسڈ کی قائم مقام بن جائے۔

دوسرا بہت زیادہ استعمال کیے جانے والی غذا  ’چاول‘  میں جینی اضافات کچھ اس طرح کیے گئے ہیں کہ اس سے’بیٹا کیروٹین‘ کی وافر مقدار جسم میںپیدا ہوتی ہے جو قدرتی چاول سے نہیں ہوتی۔ یہ جزو آنکھ کے لئے بہت مفید ہے مگر ہر شخص چاول ضرور کھاتا ہے۔ چاول بطور آنکھ کی دوا کوئی استعمال نہیں کرتا، لہذا گر  ’بیٹا کیروٹین‘ کی مقدار ایک حد سے تجاوز کرجائے تو ہاضمہ خراب،جِلد کا رنگ ہلکا اور جوڑوں کا درد لاحق ہوجاتا ہے۔

مصنوعی دودھ جس کا آج کل ایک بڑا طبقہ دیوانہ ہے، اسے پانی، خشک صابن، نمک، یوریا اور ان کے اثرات معتدل کرنے والے کیمیکلز سے تیار کیا جاتا ہے(بحوالہ ریسرچ گیٹ)۔1773ء میں یوریا پیشاب سے الگ کیا گیا تھا (بحوالہ بریٹینیکا)۔ اب جو اشیاء مصنوعی دودھ سے تیار کی جاتی ہیں، ان میں کیک، پیسٹری سرِفہرست ہیں۔ ان میں ’بیکرز امونیا‘ ڈالا جاتا ہے جو دخانی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) پیدا کرتا ہے اور بیکری اشیاء کو ہلکا اور پھولا ہوا بناتا ہے۔ مزید ان میں خمیرہ (پھپھوندی کی قِسم)، نشاستہ، شَکر، سوڈا، ایسڈ اور الکلی ڈالی جاتی ہے اس لیے معالجین خارش کے مریضوں کو ان سے پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔ اکثر لوگ فیشن ایبل غذا سمجھتے ہوئے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کے کھانے استعمال کرتے ہیں۔ برگرز، تلی ہوئی شیور مرغی اور ان کے ٹکڑے، چپس، پیزا، سینڈوچ، رقیق پیسٹری جو یہ گلاس میں دیتے ہیں، مشہور فاسٹ فوڈز ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان سے موٹاپا، قبض، شوگر، نیند کی خرابی اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔

پانی کی بھی بہت سی اقسام بن چکی ہیں۔ جو پانی بوتلوں میں دستیاب ہے ان میں ’سوڈیم  اور کیلشیم‘ کی مقدار کم و بیش پائی جاتی ہیں۔ بعض پانیوں میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو بعض میں کیلشیم کی مقدار  یا پھر اس کے برعکس بعض میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جو پانی گھروں میں مہیا کیا جاتا ہے اس کے اجزاء کا انحصار اس نالی (پائپ) پر ہوتا ہے جن میں سے وہ گزر کر آتا ہے۔ اکثر اس میں دھاتوں کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے جن کی وافر مقدار پانی ابالتے وقت برتن کی تہہ میں جم جاتی ہے۔ بورنگ والے پانی میں وائرس، بیکٹیریا، اور دیگر اجزاء ملے ہوتے ہیں جو پاکستان میں 2.5  ملین اموات کا ذمہ دار ہے (بحوالہ این سی بی آئی ریسرچ، ہنداروی)۔

ہر پانی کو ضرور ابالنا چاہئیے۔ جس پانی میں نمکین ذائقہ محسوس ہو،  وہ پینے کے لئے استعمال نہ کریں۔آج کل لوگ بغیر ابالے اور بغیر فلٹر کئے پانی پیتے ہیں، چنانچہ یہ اجزاء گردہ (جسم کے فلٹر) کی ساخت میں اسی طرح تہہ نشین ہوتے ہیں جس طرح برتن کی تہہ میں جم جاتے ہیں۔ یہ گردے کی باریک نالیوں میں پھنس کر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا پانی ہرایک پیتا ہے۔عرض ہے کہ ہر ایک کے جسم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے، جس طرح ہر شخص کے معدے کی حالت، شکل اور قد یکساں نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو چیز ایک شخص کو طاقت فراہم کرے، ضروری نہیں وہ دوسرے شخص کو بھی ویسی ہی قوت مہیا کرے۔ اس لیے دل، بلڈ پریشر  اور گردے کے مریضوں کو ہر قسم کا پانی اُبال کر پینا چاہئیے۔

غلط غذاؤں سے پیدا ہونے والے خطرات سے کیسے نمٹا جائے؟

1۔ بچہ جانور خریدیں، اس کے چارے کا انتظام خود کریں یعنی اپنے سامنے اُگا ہوا چارا کھلائیں۔

2۔  موسمی تبدیلی کے وقت جانور کا خاص خیال رکھیں۔

3۔ جانور کو بغیرضرورت انجکشن نہ لگوائیں، کیونکہ جیسا خون ہو گا ویسا ہی اس کا دودھ ہو گا۔

4۔ ہفتے میں ایک بار اصل جانور کا گوشت ضرور استعمال کرنا چاہئیے تا کہ لحمیات (پروٹین) کی مقدار معتدل رہے۔

5۔ سبزیاں کھانے کے بعد ہفتے میں ایک بار رات کو سوتے وقت ہاضم دواء یا قہوہ ضرور لینا چاہیے یہاں تک کہ معدہ صاف ہوجائے۔

6۔ قبض کسی صورت نہ ہونے دیں۔

7۔  پھل جب بھی کھائیں، اس پر’کالی مرچ کا سفوف‘  چھڑکیں تا کہ اس کے مضر اثرات سے دور رہیں اور معدہ بھی صاف رہے۔ یاد رہے کہ جینیاتی تبدیلی کے حامل پھل گیس پیدا کرتے اور ہاضمہ ناقص کرتے ہیں۔

8۔  آلو ، مولی، شلجم کا استعمال ایسے شوربے میں کریں جس میں ہلکا گرم مصالحہ ہو تا کہ ہضم ہوکر جلد معدے سے خارج ہو جائیں۔ جتنا دیر یہ معدے میں ٹھہرے گی ان میں ڈالی گئی جین بھی ٹھہرے گی اور جس جزو کو پیدا کرنے کی غرض سے ڈالی گئی ہے وہ جزو دیر تک پیدا کرے گی۔ مثلاً آلو میں شکر کی مقدار بڑھانے والی جین تا دیر شکر کی مقدار بڑھائے گی اور شوگر کے مریضوں کے لئے مشکل کاباعث بنے گی۔

9۔  دودھ کا استعمال گرم حالت میںکریں۔

10۔  شیور والی غذا کھانے کے بعد اس کے جلد ہضم کی تدبیر کریں۔

نوٹ:  بیج کاسنی اور دار چینی کا قہوہ مفید ہے مگر طلوعِ آفتاب کے وقت  ’یوگا ‘  ورزش کا اہتمام زیادہ بہتر ترکیب  ہے۔ اس میں سانس اندر، باہر کرنے کی خاص ترکیب ہوتی ہے ورنہ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ورزش کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے قوت مدبرہ بدن میں ایکٹو ہوتی ہے  جو جسم کے تمام غیر ضروری مواد کی اصلاح کرتی ہے۔ یوں ورزش ایک موثر ڈی ٹاکس ہے۔

The post مضر صحت غذاؤں کے نقصانات سے کیسے محفوظ رہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

غیبت اور بابوٹینشن کا قول

$
0
0

ایک خبر ہمارا دل افسردہ کیے ہوئے ہے۔ خبر کے مطابق فلپائن کے ایک قصبے بائنالونن کے میئر نے افواہیں پھیلانے اور کُھسرپھسر کرنے کو خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔

قصبے کے نئے قانون کے تحت افواہیں پھیلانے والے کو جُرمانہ دینا ہوگا اور تین گھنٹے تک سڑک کی صفائی کرنی ہوگی۔ اگرچہ افواہ کی تعریف نہیں بتائی گئی ہے، تاہم قصبے کے میئر رامون گائکو کا کہنا ہے کہ قصبے کے رہائشیوں کے باہمی تعلقات یا ان کے مالی معاملات کے حوالے سے غیبت کرنا یا افواہ پھیلانا قابل تعزیر جرم تصور کیا جائے گا۔

بھلا بتاؤ، یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آدمی غیبت بھی نہ کرے، پھر فارغ وقت میں آخر کرے تو کیا کرے۔ یوں بھی غیبت تو ایک دوسرے کو یاد رکھنے کا بہانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے دوست اور کورنگی ڈھائی نمبر کے معروف دانش ور، فلسفی اور مفکر بابوٹینشن کا کا قول ہے،’’سُن بے، اگر دنیا میں نام بنانا اور یاد رہنا ہے پیارے! تو لوگوں کے ساتھ اتنی بُری کر کہ کوئی تجھے بھول نہ پائے۔‘‘ موصوف خود اپنے ہی قول کی عملی تفسیر ہیں۔ کبھی کسی سے قرض لے کر واپس نہیں کیا، سو متاثرین کے گھروں میں ہر روز ان کا نام لیا جاتا ہے، مگر کچھ غیرانسانی ناموں کے ساتھ اور بڑے مقدس رشتوں اور نہایت ’’نجس‘‘ افعال کو جوڑ کر، جسے عرف عام میں گالی کہا جاتا ہے۔

بابوٹینشن کا قول زریں تو یاد رہنے کا گُر بتاتا ہے، مگر دوسروں کو یاد رکھنے کے لیے اکثر غیبت ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب کسی محفل میں ایسی باتوں میں کب تک دل چسپی رہ سکتی ہے ’’لُڈن میاں بہت شریف ہیں، کسی خاتون کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے، جب بھی دیکھتے ہیں کَن انکھیوں سے دیکھتے ہیں‘‘،’’کلن میاں کا بہت دنوں سے کوئی افیئر نہیں چلا، ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔‘‘ بات یہ ہے کہ اگر دو آدمی بیٹھ کر تیسرے کی تعریف کر رہے ہوں تو وہ موجود ہے یا مرحوم ہے، تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی کی غیرموجودگی میں اس کی تعریف کردی جائے تو صاحب تعریف کی وفات کی افواہ پھیل جاتی ہے، یہ غیبت ہی بتاتی ہے کہ موضوع گفتگو بننے والے صاحب یا خاتون زندہ ہیں اور خیریت سے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا سے سیاست اور فارغ لوگوں کی فراغت تک سب کو غیبت اور افواہوں ہی کا سہارا ہے۔ چناںچہ ’’محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘ کے بجائے کہنا چاہیے ’’جوغیبت‘‘ نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ غیبت کرنے والا ہر ڈیڑھ دو گھنٹے کی جانے والی غیبت کے آخری دو سیکنڈ میں ’’خیر ہمیں کیا‘‘ کا ٹکڑا لگا کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ یہ غیبت اس نے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کی بلکہ مفادِعامہ کی خاطر یہ فریضہ انجام دیا ہے، جب کہ بعدازغیبت ’’کسی کو بتانا نہیں‘‘ کی ہدایت اور جواب میں ’’ارے مجھے کیا پڑی‘‘ ہے کہہ کر اس ممانعت کی تکمیل کا ارادہ، دراصل ’’جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھاسکتے نہیں‘‘ جیسے یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ہمیں قصبے بائنالونن کے باسیوں کی مشکل کا پورا احساس ہے۔ چلو افواہ پھیلائے بغیر تو وہ پھر گزارہ کرلیں گے، لیکن غیبت کیے بنا تو یوں جییں گے ’’جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں۔‘‘ ہم انھیں ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول زباں اب بھی تیری ہے جو غیبت کرنا ہے کرلے، بَک دے، جو بَکنا ہے بَک دے، پولس کے آجانے سے پہلے‘‘ کا مشورہ دے کر مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ اُن کے لیے ہماری تجویز ہے کہ وہ اب غیبت نہ کریں بلکہ ہر ایک کے ’’باہمی تعلقات‘‘ اور ’’مالی معاملات‘‘ کا تذکرہ یوں کریں کہ وہ کسی زاویے سے بھی غیبت نہ لگے۔ مثال کے طور پر تعلقات کا ذکر یوں ہوسکتا ہے:’’مسٹرفلانے رات دو بجے مسز چمکی کے گھر سے نکلتے دیکھتے گئے، یقیناً وہ اپنی امی کو ڈھونڈنے وہاں گئے ہوں گے اور جاتے ہی پوچھا ہوگا، چمکی باجی! ہماری امی کہاں ہیں؟ مسز چمکی نے تلاش میں مدد دینے کے لیے انھیں اندر بلالیا ہوگا، جہاں وہ اپنی والدہ کو خاصی دیر تلاش کرتے رہے، اور جب یاد آیا کہ ان کا تو پچھلے سال انتقال ہوگیا ہے، تو گھر کی راہ لی۔‘‘

اسی طرح کسی کے مالی معاملات یوں زیربحث آسکتے ہیں،’’مسٹرڈِھماکے نے پچھلے دو سال میں جو زمینیں خریدیں اور مکان بنائے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یقیناً ایک وقت ایسا آیا تھا کہ زمینیں اتنی سستی ہوگئی تھیں کہ بس ایک دن سگریٹ نہ پیو پیسے بچاکے زمین خرید لو، دوسروں کو اس ارزانی کی بھنک بھی نہ مل پائی، مسٹرڈھماکے کی قسمت اچھی تھی جو انھوں نے دھڑادھڑ زمینیں خرید لیں اور امیر ہوگئے۔۔۔ان کی ایمان داری پر کوئی شک۔۔۔۔بالکل نہیں۔‘‘

رہی بات افواہ کی تو بہ قول شاعر:

بس تِرے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار، اچھے ہوگئے

یعنی داغوں کی طرح افواہیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ کم ازکم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں، جیسے یہ افواہیں کہ نوکریاں برسنے والی ہیں، اربوں پیڑ لگ گئے ہیں اور لاکھوں مکانات بننے کو ہیں، بھٹو زندہ ہے، دیکھو دیکھو شیر آیا، انقلاب آئے گا، اب راج کرے گی خلقِ خُدا، تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے وغیرہ۔ ان افواہوں کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے سے لوگوں کی آس بندھی رہتی ہے، آس کا بندھا رہنا ہی اچھا ہے ورنہ کُھل گئی تو افواہ سے زیادہ خود پھیل جائے گی اور کٹ کھنے بیل کی طرح ٹکریں مار مار کر افواہیں پھیلانے والوں کا یوں حلیہ بگاڑے گی کہ وہ افواہ کے ساتھ ہاتھ پھیلانے کے قابل رہیں گے نہ گند پھیلانے کے۔

The post غیبت اور بابوٹینشن کا قول appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

سائنس ،(تلاش حق)
مصنف: ڈاکٹر حامد سلیم۔۔۔۔۔۔قیمت: 900 روپے
صفحات: 223۔۔۔۔۔ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

سائنس کا میدان بڑا وسیع ہے اس کی کسی بھی شاخ پر تحقیق کی جائے نئے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے۔ تاہم ہر کس و ناکس کی اس سے دلچسپی نہیں ہوتی جس کی وجہ اس کی معروضیت اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات ہیں، اور سب سے اہم بات انسانی فہم ہے جو اس کا ادراک رکھتا ہو وہی اس طرف راغب ہوتا ہے، عام انسان کو سائنس سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی ضرور ہے مگر کیوں ، کیسے ، کب جیسے سوالات کے جواب ڈھونڈے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ تاہم آسان انداز میں بات سمجھائی جائے تو ضرور توجہ حاصل کر پاتی ہے۔

ڈاکٹر حامد سلیم صاحب علم شخصیت ہیں، ان کی کاوش یہی ہے کہ سائنس کی ایسی وضاحت پیش کی جائے کہ ہر فرد اسے آسانی سے سمجھ سکے، ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ادب ہے، وہ شاعر بھی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، ان کی تحریر میں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے کہ مصنف صرف سائنس دان ہی نہیں بلکہ چاشنی سے بھرپور تحریر تخلیق کرنے کا بھی پورا ملکہ رکھتے ہیں۔ یہی خوبی قاری کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے، اور وہ سائنس جیسے بظاہر خشک موضوع کو بھی بڑے شوق سے پڑھتا چلا جاتا ہے ، انھوں نے اس کتاب کے ذریعے بہت سے ابہام دور کئے ہیں، سائنس اور شاعری کے عنوان سے ایک باب شامل کیا گیا ہے جو کہ خاصے کی چیز ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام افراد کو بھی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

گریزاں
شاعر: نجیب احمد۔۔۔۔۔۔قیمت:600 روپے
صفحات:208۔۔۔۔۔۔ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور

سادگی میں پرکاری بہت بڑا فن ہے، اب کوئی سادگی میں پرکاری کو سیکھ کر اختیار کرے تو بناوٹی ہونے کا احساس پیدا ہو سکتا ہے، اگر یہ خدا داد ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ شعر کے ذریعے سادگی سے اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا دینا خدا داد ملکہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ شاعری اختیاری نہیں بلکہ عطا ہے اور اس معاملے میں بھی جو بناوٹ سے کام لیتا ہے فوراً پکڑا جاتا ہے، نجیب احمد بڑی سادگی سے اپنے دل کی بات بڑی کامیابی سے قاری تک پہنچا رہے ہیں۔

حسنین سحر کہتے ہیں’’ نجیب احمد نے اپنے فن کی آبیاری میں بہت محنت صرف کی ہے اور مظاہر فن کے باب میں سہل ممتنع، تغزل اور تمثال کاری کی خوب خوب امثال قائم کی ہیں۔ آئن سٹائن کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بات دوسروں کو سادہ الفاظ میں نہیں سمجھا سکتا تو آپ ہی اپنی بات سے بے بہرہ ہے۔ اسی تناظر میں سہل ممتنع نجیب احمد کا طرہ امتیاز ہے۔ علم جھاڑنے اور علم رکھنے میں واضح فرق ہے۔ بلند آہنگ اور پرشکوہ الفاظ کا محض استعمال کسی خیال کو چھوٹا یا بڑا نہیں کر سکتا۔ میر کو اردو کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے جن کی شاعری سہل ممتنع سے مملو ہے‘‘۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

پہنو چاند کلائی میں
شاعر: عامر سہیل۔۔۔۔۔۔قیمت:1000 روپے
صفحات:256۔۔۔۔۔۔ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور

فنون لطیفہ میں دوسروں سے الگ ہونا بہتوں کو پسند آتا ہے اور بہت سے اسے اچھا خیال نہیں کرتے، حالانکہ منفرد ہونا خامی نہیں صفت ہے جوکہ اس فرد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہوتی ہے جسے چمکا کر وہ دوسروں سے نمایاں ہو جاتا ہے، عامر سہیل متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا انداز عام شاعری سے ہٹ کر ہے جو قاری کو فوری متوجہ کر لیتا ہے۔ ممتاز ادیب ظفر اقبال کہتے ہیں’’شاعری میں دوسروں سے مختلف ہونا ضروری ہے ہی، اس میں اپنی الگ فضا بنانا اس سے بھی آگے کی بات ہے تاکہ بعد میں آنے والے اس میں کھل کے سانس لے سکیں۔

شاعری کو ایک طرف کھلی ہوا کی ضرورت ہے تو ایک طرف وہ تازہ ہوا خود بھی بناتی ہے، نامانوس الفاظ کو مانوس بنا دینے سے بڑھ کر شاعری کی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے جو سید عامر سہیل کی متعدد صفتوں میں سے ایک ہے‘‘۔ اسی طرح ممتاز ادیب اصغر ندیم سید کہتے ہیں’’ عامر سہیل نے اساطیر کے ساتھ ساتھ داستانوی مزاج کو بھی کئی جگہ استعمال کیا ہے جس سے استعارے کی گہرائی پیدا ہو گئی ہے، محبت کے معاملات میں مختلف کیفیات کو ڈرامائی انداز سے بیان کرنے کے نئے پہلو تلاش کئے گئے ہیں۔ میں عامر سہیل کو ابھی اور نئی جدلیات سے جڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

سلطان محمد تغلق، تاریخ کے آئینے میں
مصنف: پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
قیمت:800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

سلطان محمد بن تغلق ایک ایسا فرمانروا تھا جو ازمنہ وسطیٰ کا قابل ترین شخص تھا۔ وہ سمندرجتنا علم رکھتا تھا، اس زمانے کے تمام علوم وفنون کا ماہر۔ بلا کا حافظہ اور یادداشت رکھتا تھا، نہ صرف قرآن مجید کا حافظ تھا بلکہ صحاح ستہ اور ہدایہ کا بھی۔ نغزگوشاعر، فنون لطیفہ کا دلدادہ، تصوف، فلسفہ، طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، خطاطی اور انشاپردازی میں یدطولیٰ رکھنے والا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اس کے سامنے آنے سے جھجکتے تھے۔

علم طب سے بھی خاص شغف تھا، مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے علاج سے شفا پائی۔ اپنی قوت گویائی، جدت طبع اور شائستگی کی وجہ سے ’’نابغۂ روزگار‘‘ کہلایا۔ اب ذرا ٹھہریئے اور جائزہ لیجئے کہ آج یا ماضی قریب کے کس حکمران میں اس قدر خصوصیات پائی گئیں۔ ماضی کے قریباً تمام حکمران اسی طرح زندگی کی مختلف شعبوں میں خوب علم وفضل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام روشن ہے۔سلطان محمد بن تغلق مذہب کا بڑا پابند مگر متعصب بالکل نہیں تھا۔ انصاف میں کسی کی رُو رعایت نہ کرتا تھا، اپنے فکروشعور کے لحاظ سے وہ اپنے زمانے سے بہت آگے تھا۔

سلطنت دہلی کے کسی بادشاہ کے متعلق مورخین میں اس قدر اختلاف رائے نہیں جتنا کہ اس کے بارے میں ہے۔ کچھ مورخین اس کو پاگل اور خونی لکھتے رہے مگر ان کی یہ رائے غلط ہے۔ اس کے منصوبوں اور مہمات کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ تاہم عہد جدید کی تاریخی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ نہ وہ دیوانہ تھا اور نہ اس کی مہمات دورازکار اور ہوشمندی کے منافی تھیں۔

زیرنظرکتاب کے سترہ ابواب میں سلطان محمد بن تغلق کے مکمل حالات زندگی اور اس کی تمام تر مہمات کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ کتاب آج کے چھوٹے ، بڑے تمام حکمرانوں اور منتظمین کو ضرور پڑھنی چاہئے، اس میں بہت سے سبق ہیں سیکھنے کے لئے۔

تاشقند سے استنبول (سفرنامہ)
مصنف: الطاف احمد عامر۔۔۔۔۔۔قیمت:700روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

ایک انسان دوسرے انسان سے سیکھتاہے ، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ وہ دوسرے کے اچھے پہلوؤں پر رشک کرتا ہے اور بُرے پہلوؤں سے عبرت پکڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی اندازمیں ارتقا کا سفر طے ہوتاہے۔ اس دنیا میں جن اقوام کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح دوسروں سے سیکھ کر ہی ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کی، آج کی غیرترقی یافتہ اقوام بھی انہی ترقی یافتہ اقوام سے سیکھ کر اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔تاشقند، بخارا، سمرقند، قونیہ اور استنبول، ان تمام علاقوں پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی اور یہ تمام شہر صدیوں تک علم وادب، سائنس، فلسفہ اور آرٹ کے مراکز رہے۔ یہاں ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے علم وفضل، دانش و تصوف اور فلسفہ وفن سے دنیا بھر کو متاثرکیا۔ یہیں سے علوم دینیہ کی بڑی بڑی ہستیاں خدمت اسلام کے لئے اٹھیں جن کے افکار سے آج بھی قلوب واذہان میں روشنی ہوتی ہے۔

مصنف جو اپنا شمار تاریخ کے طلبا میں کرتے ہیں، کو کچھ عرصہ پہلے مذکورہ بالا تاریخی اور خوبصورت علاقوں کی سیر کا موقع ملا۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتے ہیں کہ اس سفر میں ان کے ساتھ قاسم علی شاہ تھے جن کی گفتگوؤں سے وہ بہت متاثر ہیں۔ اسی اعتبار سے انھوں نے زیرنظرکتاب کا عنوان متعین کیا:’’ تاشقند سے استنبول، سیاحت کے رنگ قاسم علی شاہ کے سنگ‘‘۔

کتاب اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے تاشقند سے استنبول تک ، کے باسیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ انھوں نے ازبک لوگوں کے رہن سہن کا تذکرہ کیا، ان کی ترقی کی بات کی، استنبول کے باسیوں کی خوبصورت زندگی کو باریک بینی سے دیکھا اور تفصیل سے بیان کیا۔ ازبک اور ترک، دونوں اقوام کی انسانی ترقی، تعلیمی پیش رفت، وقت کی پابندی، نظافت، نفاست اور رواداری جیسے اوصاف سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ اس سلسلہ کی پہلی شرط زیرنظرکتاب کامطالعہ ہے۔

 معترضین ِ اقبال اور ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی
 مصنف : پروفیسر ریاض احمد
 صفحات: 246۔۔۔۔۔۔  قیمت : 3500 روپے
ناشر: قلم فاونڈیشن، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ

بیسویں صدی میں جن اکابرین نے مسلم امہّ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں اور سیاست، علم اور ادب کے میدان میں ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ان میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ سمندر پار سے آنے والے انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ان کے لیے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوچکے تھے۔پوری قوم بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ایسے میں علامہ اقبال کی نگہ بصیرت نے اپنی قوم کی حالت کا ادراک کرتے ہوئے اسے خواب ِ غفلت سے جگانے اور دنیا کی اقوام میں سر اٹھا کر چلنے کا حوصلہ دیا۔ علامہ محمد اقبال ؒ جتنے پر مفکر، مدبر اور فلاسفر تھے ان کو چاہنے اور پسند کرنے والے بھی اسی قدر زیادہ تھے چنانچہ ان کی ہر دلعزیزی کا یہ منطقی نتیجہ تھا کہ ان سے حسد اور بغض رکھنے والے بھی پیدا ہوگئے۔

ان منفی سوچ رکھنے والوں نے علامہ اقبالؒ کی شخصیت، ان کے فکرو فلسفہ اور فن پر اعتراضات اٹھائے ۔ لیکن خدائے بزرگ و برتر نے بھی ڈاکٹر ایوب صابر کی شکل میں ایک ایسے ادیبِ شہیر اور مجاہدِ قلم و قرطاس کو میدان میں اتارا ۔ جنہوں نے نہ صرف معترضین ِ اقبال کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا بلکہ ان اعتراضات کے بودے پن کو ظاہر کرکے انہیں اوندھے منہ گرا دیا۔

اقبال فہمی کے حوالے سے ڈاکٹر ایوب صابر کی خدمات بلاشبہ سنہری حروف کے ساتھ لکھے جانے کے قابل ہیں ۔

لارنس کالج ، گھوڑی گلی ، مری کے استاد پروفیسر ریاض احمد نے اس نابغہ شخصیت کی خدمات کا بجا طورپر اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایک مقالے کی صورت میں بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے۔کتاب پر علامہ اقبال کے ایک اور مداح ، نامور ادیب و نقاد اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید تبسم سمیت دیگر اہل ِ علم نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے صاحب کتاب کی مساعی کو سراہا ہے۔ قلم فاونڈیشن نے اس مقالے کو اپنے روائتی معیار اور حسن کے ساتھ شائع کرکے کتاب وعلم دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔

 افکارِ فرخ
 مصنف: فرخ محمود۔۔۔۔۔۔ صفحات: 128
 قیمت :400 روپے۔۔۔۔۔۔ ناشر : ایان پبلی کیشنز، لاہور

فرخ محمود پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور مقامی کالج میں علم و دانش کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے اجلے افکار کا مجموعہ ہے جو علم ، تجربہ ، مشاہدہ و مطالعہ کی بھٹی میں سے کندن بن کر صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہیں۔ فرخ محمود نے اعلیٰ ذوق پایا ہے۔ ان کی تحریر ( وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر میں ) اپنے اندر ایک تاثیر رکھتی ہے۔اس کی وجہ شائد یہی ہے کہ وہ دل کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر لکھی جاتی ہے اور ظاہر ہے

ع    بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے

شگفتگی اور بے ساختہ پن ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔کتاب میں کم وبیش پانچ سو اقوال شامل ہیں جو ظاہر ہے فرخ محمود کے اقوال ِ زریں کہلائے جا سکتے ہیں۔ چونکہ یہ اقوال خود انہی کے ذہن ِ رسا کی حاصل ا ور ثمر ہیں اس لیے انہیں ’’ افکار ِ فرخ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو ان کا ( جائز طور پر ) استحقاق بھی ہے۔ نمونے کے طورپر چند اقوال دیے جا رہے ہیں جو ان کی رفعت ِ فکر پر دال ہیں۔’’ کوئلہ غصہ سے جل کر راکھ ہو جاتا ہے، لیکن تحمل سے برداشت کرکے ہیرا بن جاتا ہے ‘‘۔ طاقت کے کھو جانے کا خوف طاقتور کا سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ بخیل امیر کی موت کے لیے غریب کی زندگی جیتا ہے ۔

اسی نوع کی کتاب انہوںنے انگریزی میں بھی لکھی ہے جو ’’اسپیکنگ پرلز ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

   پارچے
  مصنف : مرزا یٰسین بیگ ۔۔۔۔۔۔ قیمت:300 روپے       
  صفحات: 235۔۔۔۔۔۔ ناشر : بیگ پبلشرز ، کینیڈا

مرزا یٰسین بیگ ایک صحافی ہیں اور ان کی حِس ِ مشاہدہ بھی بہت زبردست ہے۔ لفظوں کے ساتھ کھیلنا اور ان سے مزاح کشید کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ان کے مضامین مزاح کے خوب صورت شہ پارے ہیں۔ ان کی تحریر کا حسن یہ ہے کہ وو نہ تو اس قدر طویل ہوتی ہے کہ اس سے پڑھنے والے بوریت محسوس کرنے لگیں اور نہ اس قدر مختصر کہ لطف اندوز ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے ۔’’ پارچے ‘‘ ان کی دوسری کتاب ہے اس سے پہلے ’’ دیسی لائف اِن کینیڈا ‘‘ کے زیر عنوان ان کی کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر ہر دیسی اور بدیسی اہلِ قلم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے ۔

’’ پارچے ‘‘ میں ہر نوع کے مضامین موجود ہیں جومزاح کی چاشنی سے لبریز ہیں ۔کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل نے ان مضامین کو ’’ طنز و مزاح کی قوس ِقزح ‘‘ قراردیا ہے ۔کتاب پر حسینہ معین ، سرور سکھیرا، شکیلہ رفیق ، گوہر تاج ، مسعود قمراور طہور ندیم کے علاوہ میرے صحافی دوست بدر منیر چوہدری نے بھی خوش گوار تبصرے کیے ہیں۔ اور ان تمام صاحبانِ علم و فن نے مرزا یٰسین بیگ کی زبان دانی اور ان کی مزاح نگاری کی تحسین کی ہے۔ بلاشبہ آج جو مزاح نگار ہمارے سامنے ہیں ان میں مرز ا یٰسین بیگ کا نام بھی نمایاں طورپر لیا جاسکتاہے ۔

ہمسفر
مصنفہ: زہرا منظور الٰہی۔۔۔۔۔۔قیمت:1200 روپے
صفحات:208۔۔۔۔۔۔ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

زندگی ایک عجیب داستان ہے، عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں تجربات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں یادوں کے سرمائے بھی بڑھ جاتے ہیں، انھیں محفوظ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ضبط تحریر میں لانا ہے، زندگی کا طویل سفر طے کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ کبھی آنکھوں میں نمی پھیلتی محسوس ہوتی ہے تو کبھی ہونٹوں پر تبسم ۔ خصوصاً اپنی داستان حیات کو صفحات پر رقم کرنا ایک دلچسپ عمل ہے۔ بہت کم لوگ اپنی داستان حیات کو قلم بند کرتے ہوئے انصاف کر پاتے ہیں ۔ ’ ہمسفر‘ زہرا منظور الٰہی کی خود نوشت ہے جس میں ماضی سے حال تک سفر کو دلکش پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے تحریر میں ماضی کے جھروکوں کا ذکر کیا ہے، وہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں، قاری کا ہاتھ تھام کر اسے من چاہے دیس کی سیر کرانا ہی مصنف کا اصل کمال ہوتا ہے۔

 

کتاب میں موجود تحریریں ماضی کی تہذیب و روایات کا عکس ہیں۔ مصنفہ نے اپنے قریبی رشتوں کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار اور ان سے جڑے واقعات کو پیش کرتے ہوئے کئی تاریخی ادوار کا نقشہ کھینچا ہے، مثلاً وہ ایک جگہ زمانہ جنگ میں ہسپتالوں میں مریضوں کی دگرگوں حالت کا ذکر ایسے کرتی ہیں کہ پڑھنے والا خود کو وہاں کھڑا محسوس کرتا ہے۔ غرض کتاب عہد رفتہ سے وابستگی رکھنے والوں کے لئے بیش قیمت تحفہ ہے، مزید برآں آخر میں ادبی دنیا کے روشن ستارے مشتاق احمد یوسفی کی جانب سے مصنفہ کے شریک حیات کو لکھے گئے خطوط قاری کے لئے ایک دلچسپ تحفہ ہیں، یادگار رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


ٹینا کانڈیلاکی

$
0
0

کہا جاتا ہے کہ خوب صورتی دیکھنے والے کی آنکھوں میں سمائی ہوتی ہے لیکن ایک خوب صورتی وہ بھی ہے جو کہ سر چڑھ کر بولتی ہے۔ روس کی مایہ ناز ماڈل ٹینا کانڈیلاکی ایسی ہی ایک خوب رو خاتون ہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر وہ ایسی ذہانت سے لبریز ’’جینئس بیوٹی‘‘ کی حامل ہیں جو کہ مقابلہ حسن کی ایک شرط ہوتی ہے، لہٰذا مقابلے کی شریک امیدواروں کی اکثریت جسمانی اور چہرے کی خوب صورتی رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی شعبہ ہائے زندگی میں اپنے آپ کو منوانے کی جستجو بھی کررہی ہوتی ہے، کیوںکہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ کشش و خوب صورتی ایک روز ساتھ چھوڑ جائے گی لیکن ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت زندگی بھر ہم سفر رہے گی۔

روس اور دنیا کی پہلی خاتون خلاء باز ویلنٹینا اور پہلی خلائی چہل قدمی کرنے والی ’’سوتیسکایا‘‘ دونوں خواتین نے ساری دنیا کے لوگوں کو باور کرادیا تھا کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر مشکل کام کرسکتی ہیں۔ آج خواتین کو بااختیار بنانے کی مثالیں روس میں عام دیکھی جاسکتی ہیں جہاں مردوں کی بیساکھیوں کے بغیر خواتین نے معاشرے میں بلندمقام حاصل کیا ہے۔ ٹینا بھی ایسی ہی خاتون ہیں جنہوں نے محض اپنی ظاہری خوب صورتی کو اپنا ہتھیار نہیں بنایا بلکہ اپنی تعلیمی قابلیت، ہنرمندی اور ذہانت سے اپنا کیریئر بنایا ہے۔

وہ ایک بہترین فٹنس کی ماہر، سُپرماڈل، ٹی وی اینکر اور پروڈیوسر اور کاروباری خاتون ہیں جو کہ جادوئی شخصیت رکھتی ہے۔ پُراعتماد، اعلیٰ ذوق، پرُغذائیت کھانے تیار کرنی کی ماہر اور خوش لباس ٹینا کانڈیلاکی صرف 35 سال کی عمر میں ملک کا پہلا جدید تعلیمی پروجیکٹ دے چکی ہیں۔ اس خاتون میڈیا شخصیت کے بارے میں آگاہی قارئین اور خاص طور پر خواتین کے لیے نہایت دل چسپی کا باعث ہوگی۔

10نومبر 1975 ء کو روس کی ریاست جارجیا کے علاقے ’’تبلیسی‘‘ (Tbilisi) میں آنکھ کھولنے والی ٹیناکانڈیلاکی کا پورانام ’’تینا تِن جیونیا کاندیلا کی ‘‘ ہے۔ خیال رہے کہ روسی اور یورپی زبانوں میں ٹی کے بجائے ’’ت‘‘ کی آواز استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح عربی کے تلفظ میں بھی ت ہی بولا جاتا ہے، لہٰذا تینا کو انگریزی کی طرح ’’ٹینا ‘‘ پکارا جاتا ہے۔ یہ خوب رو 44 سالہ خاتون صحافی ہونے کے ساتھ پبلک فیگر، ٹی وی میزبان اور پروڈیوسر بھی ہیں۔ ٹینا روس کی ایک جانی پہچانی اور مانی ہوئی میڈیا شخصیت ہیں ٹی وی اینکر اور پروڈیوسر کے طور پر ان کا نام روس کی نمایاں ترین اور کام یاب خواتین میں سرفہرست ہے۔

ٹینا اپنے بلاگ سے بھی زبردست شہرت اور پذیرائی رکھتی ہیں جن کے بلاگ کے صارفین کی تعداد 50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جو روس میں ان کی پسندیدگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ وہ اکثر ٹیوئٹس اور فیس بک پوسٹنگ کے ذریعے اپنے تجربات کی روشنی میں ماہرانہ اظہارخیال کرتی رہتی ہیں جو کہ ملک کے تعلیمی نظام، ٹرانسپورٹ انفرااسٹریکچرا، سماجی مسائل، صحت اور خواتین کے بناؤ سنگھار سے متعلق ہوتا ہے، جس کے لیے وہ قیمتی مشورے بھی دیتی ہیں۔

ٹینا ایک ماہرفٹنس بھی ہیں اور اپنی صحت کا بہت خیال رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ 40 سال سے اوپر ہونے کے باوجود انہیں درمیانی عمر کے حامل افراد کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ اسی لیے وہ دو عشروں سے زائد ٹاپ پوزیشن پر ہیں۔ جو ٹینا کی اصل شخصیت سے ناآشنا ہیں وہ ان کی فزیکل فٹنس کی تصاویر دیکھ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس خاتون کی وجہ شہرت محض ٹینا کا باطنی حسن او ر پرکشش ہونا ہی ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کانڈیلاکی کی اصل وجہ شہرت ان کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت، ذہانت اور علمی وفنّی مہارت ہے۔ جسمانی فٹنس کے ساتھ وہ روس کے کھیلوں کے چینل میچ “MACH” کی عمومی پروڈیوسر ہیں۔ وہ تین بار نیشنل ٹی وی ایوارڈ جیت چکی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

ٹینا کے والد جی وی کانڈیلاکی (1942-2009) جارجیا کے ایک ماہرمعاشیات تھے اور سبزیوں کے ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر تعینات تھے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ماسکو آگئے۔ وہ قابل احترام خاندان “Kandelakis” سے تعلق رکھتے تھے جو جارجیا کی ’’کیشیا۔ یونانی‘‘ نسل ہے جوکہ ابتدائی اعلیٰ خاندان “Mediveal” کی شاخ ہے، جب کہ ٹینا کی والدہ اَ لوِیرا کینڈیلاکی ایک نیرولوجسٹ ہیں اور آرمینین نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ٹینا نے مقامی تبلیسی ہائی اسکول سے گریجویٹ کیا۔ 1993 ء میں انہوں نے مقامی تبلیسی یونیورسٹی کے میڈیکل کے شعبے میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک صحافی کے طور پر خود کو منواسکتی ہیں، لہٰذا انہوں نے میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر ’’صحافت‘‘ کے شعبے میں تبادلہ کروالیا۔ اُنہیں روس کی اسٹیٹ یورنیورسٹی آف ہیمونیٹکس کے ڈیپارٹمنٹ ’’فارن افیئرز‘‘ سے ڈگری عطا کی گئی۔

کیریئر کی شروعات: ٹیناکانڈیلاکی کے کیریئر کی ابتداء مقامی ’’ریڈیو اسٹیشن 105 ‘‘ سے ہوئی تھی۔ 1995 ء میں والد کی ملازمت پوری ہونے کے بعد آبائی شہر چھوڑ کر والد کے ساتھ ماسکو میں مقیم ہونا پڑا۔ ماسکو آکر اس ذہین اور حسین خاتون کے لیے ترقی وکام رانیوں کے سارے دروازے کھلتے چلے گئے اور اس نے ماسکو میں متعدد ریڈیو و ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر کام کیا، جن میں M-Radio،RDV ،Silver Rain Radio ، 2×2 ،Biz-Tv،Muz Tv ،Vremechko اور TV6 شامل ہیں۔ ستمبر2002 ء سے وہ ٹاک شوز کی میزبانی کرنے لگیں یہ STS چینل تھا جہاں مقبول روسی شخصیات ان کی مہمان بنتیں تھیں۔

فروری 2003 ء میں ٹینا نے پروگرام “The Smartest Choice” کی میزبانی شروع کی جسے برطانیہ کے مقبول عام ٹی وی پروگرام “Britain’s Brairlist Kid” سے اخذ کیا گیا تھا جو کہ ایک ذہنی آزمائش کے مقابلوں کا شو ہے۔ 2004 ء میں انہوں نے اپنا پہلا قومی ایوارڈ TEFIبطور بہترین میزبان ’’ٹاک شو‘‘ کے لیے وصول کرلیا تھا۔

ان شوز کی میزبانی پر ٹینا کو دو مزید نیشنل ٹی و ی آرٹس ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 2008 ء میں ٹینا نے Sergery Dorenko کے ساتھ پیشہ ورانہ سیاسی گفتگو کا پروگرام “Eco of Moscow”  پیش کیا۔ یہ روسی ریڈیو کے لیے ہوا کرتا تھا 2009ء میں NTV سے پیش کیے جانے والے شو  Politics” “Unrread کی میزبانی ٹینا کانڈیلاکی کے ہنرمند ہاتھوں میں آگئی۔

دراصل یہ پروجیکٹ آن لائن ٹی وی پروگرامنگ کی آزمائشی نشریات کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ جلد ہی ’’اَن رِیڈ پولیٹکس‘‘ روس کا ایک بہت مقبول عام ٹاک شو بن گیا جس میں سیاست، کاروبار، انٹرٹینٹمنٹ سے معروف شخصیات شرکت کرتی تھیں۔ اسی سال ٹینا کو دو اور شوز کی آفر ہوگئیں اور وہ ’’چینل ون‘‘ کا “Two Stars” اور “Informania” ہے جو کہ چینل ’’ایس ٹی ایس‘‘ کے لیے تھا اس کی پروڈیوسر بھی ٹینا تھیں۔ ’’انفارمینیا‘‘ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام تھا جس میں غیرمعمولی سوچ و خیالات رکھنے والے سامعین کے لیے تھا جس نے پسندیدگی کے ریکارڈز بنائے۔ 2010 ء میں ٹینا نے چینل KVNکے لیے ٹی وی گیم شو ’’ٹاپ لیگ‘‘ کیا۔ اسی سالSTS  چینل کے پروگرام کی وہ جیوری ممبر بنیں اس کا نام “Perect Man” تھا۔ یہ شو Bolshaya Raznitsa کا پیروڈی شو تھا جس کی میزبان Odessa تھیں اسے روسی چینل ’’رشین ون‘‘ پر دکھایا گیا۔

دل چسپی اور رجحانات : انکے پسندیدہ موضوعات ٹیکنالوجی، ایجادات، مستقبلیات، میڈیسن، سنیما، میوزک اور کتابیں ہیں، پسندیدہ موسیقی  “Bi 2″, “Elsa’s Ocean” کی رہی ہے جب کہ پسندیدہ موسیقاروں میں Tengiz Abuladze نمایاں ہیں۔ فلموں کے حوالے اسے ان کے فیورٹ ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ، Nikita Mikalkov ،Darren ،Aronofsky ، Woody Allen اور اولیور اسٹون ہیں۔ ان کے چاہنے والے لکھاری جین پال ساترے اور Gabiel Garcia Murgvoz ،Dimitry Bykov ، Victor Pelevin،Tatyana Tolskaya اور Lyudmila Ulitkayer جیسے مصنف ہیں جو ان کے مطالعہ کا حصہ رہے ہیں۔ ٹینا کا پسندیدہ اقتباس ہے، “Changing The World Around You is  Naver Too Late”! (اپنے اطراف کی دنیا کو بدلیں کہ کہیں دیر نہ ہوجائے!) ٹینا سفر کی دل دادہ ہیں اور تن تنہا ہی چھٹیوں پر ٹریولنگ کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ وہ سنیما دیکھنے کی اتنی شوقین ہیں کہ بیک وقت دو، دو شوز دیکھ لیتی ہیں اور پھر ان پر ماہرانہ تجزیہ بھی اپنے دوستوں اور فینز سے کرتی ہیں۔

سیاسی وسماجی خدمات: نومبر 2007 ء میں کینڈیلاکی نے جارجیا کے صدر Mikheil Saakashvili کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرڈالی۔ اکتوبر 2009 ء میں وہ”  چیمبرزآف دی رشین فیڈریشن‘‘ کی ممبر برائے ’’تعلیمی کمیٹی‘‘ بن چکی تھیں جوکہ چیمبر کی طرف سے منظم کی گئی ہے۔

انہیں روسی صدر Dmitry Medvedev نے اس کمیٹی کا رکن بننے کی دعوت دی تھی۔ ٹینا کو غیرمعمولی اور زبردست صلاحیتوں کے حامل بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے چنا گیا تھا تاکہ وہ ان کے رجحانات کو پروان چڑاسکیں۔ ٹینا نے یہاں اپنی بہترین علمی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عمدہ کارکردگی دکھائی اور اعلیٰ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے روسی اسکولوں میں جدید ٹیکنالوجیز اور نئے رجحانات کو نہ صرف متعارف کراوایا، فروغ د لایا اور ترقی سے ہم کنار بھی کروایا جو کہ ان کے پختہ عزم و ارادے کی دلیل ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ٹینا نے گول میز کانفرنسز کی سیریز بلائی۔ کانفرنسوں کے اس سلسلے کا موضوع تھا “The Internet as an instrument of revealing weak spots of society” and “How would the Russian education system change under the pressure of demographic problems?” ۔ ان کانفرنسوں میں روسی علاقوں میں ان کے نمائندے، فیڈرل اسٹیٹ اتھاریٹیز اور بااثر کاروباری و معروف بلاگرز شامل تھے۔

28 فروری 2012 ء کو ٹینا نے ایک اور گول میز کانفرنس منظم کی۔ اس بار اس کا انعقاد صدارتی الیکشن کے موقع پر کیا گیا جس میں تمام صدارتی امیدواروں کو ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع تھا ،”The Future of Russian Education:How to Aviod A Catastrophic?۔ (روسی تعلیمی نظام کا مستقبل!: کیسے ایک تباہی سے دور رہیں؟) 26 اگست 2011 ء کو ہوٹل Baltschug Kempinsi” ” ماسکو میں ٹینا نے روس کا پہلا قومی تعلیمی پروجیکٹ لاؤنچ کیا۔ اس کا عنوان “Smart School” ہے۔ 25 فروری 2012 ء میں وہ مانیٹرنگ گروپ کے عوامی کونسل”Clean Elections” کی سربراہ بن چکی تھیں۔ اس کوآرڈینیشن کونسل کو نوجوان وکلاء کی ایسوسی ایشن نے منظم کیا تھا۔ اسی سال مارچ 2012 ء کی شام کونسل کی جانب سے ٹینا نے اپنے لائیو جرنل میں یہ اعلان کردیا ’’ایڈووکیٹ وکلاء کے مطابق ولادی میر پیوتن الیکشن کے پہلے مرحلے میں کام یاب ہوچکے ہیں!‘‘

کیریر بطور سپُرماڈل: روس میں اس قابل تحسین حسینہ کا چہرہ نہایت تیزرفتاری سے ملک کا نمایاں ترین اور بین الاقوامی برانڈ کا چہر ہ بن گیا۔ اس میں پروکٹر اینڈ گیمبل(Procter & Gamble) ، آؤڈی(AUDI) ، Diane von Furstenberg جیسی کمپنیوں شامل ہیں جنہوں نے اسے کاسٹ کرنا شروع کردیا اور یہی وجہ بنی 2012 ء میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ پانے والی ’’روسی اسٹار‘‘ قرار پائی جب اس نے “Oriflame” کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ کئی سالوں سے روسی ’’جینئس اسٹار‘‘ اپنے ملک کی امیر ترین ستاروں کی ریٹنگ میں شامل رہی ہیں، ’’فوربس میگزین‘‘ متعدد بار اپنے میگزین کو ٹینا کے چہرے سے زینت بنا چکا ہے اس کے مطابق وہ کئی سالوں سے وہ روسی خواتین میں سب سے زیادہ امیر اور بااثر خاتون کی فہرست میں شامل رہی ہیں۔

وہ روس کے مقبول عام جریدوں “ELLE” اور “Glamour Russia” کے سرخ کی زینت بنتی رہی ہیں اور ان کی اشاعت میں فیشن گرل کے طور پر پیش ہوتی رہتی ہیں۔ 20 جنوری 2012 ء کو ٹینا نے ایک نیا سیاسی ٹاک شو لاؤنچ کردیا جس کی معاونت معروف وڈیو بلاگر Dmitry Kamikadze  نے کی تھی۔ اس کا عنوان تھا “A flight with Kamikadze”۔ ٹینا کے مشہور کاسمیٹکس کمپنی” Oriflame ” سے معاہدے کی رو سے انہیں کمپنی پروڈکٹس کے لیے دوسال تک پرفارمینس دینی تھی، جس میں روس اور وسطی خودمختار ریاستوں (CIS) میں کمپنی کے کاسمیٹکس کی فروخت کے پروگراموں کو پیش کرنا تھا۔ اگرچہ یہ کوئی آفیشلی معلومات نہیں ہیں پھر بھی خو دٹینا کانڈیلاکی کے آشکار کردہ ڈیٹا کے مطابق اس کنٹریکٹ کی مالیت کا اندازہ 2,000,000 یا دوملین ڈالر بتایا گیا ہے۔

ایوارڈ اور اعزازات: 2006ء: روسی اسٹائل اور فیشن کا ایوارڈ “Astra” برائے سب سے زیادہ اسٹائلش ٹی وی اینکر خاتون جیتا۔ 2006 ء :گلیمر میگزین ایوارڈ “Form and content” جیتا۔ ٹینا کی سب سے زیادہ کسی روسی پُرکشش خاتون “Top 10 Sexy”ـ کے لیے دس بار نام زدگی ووٹنگ کے ذریعے ہوچکی ہے۔ وہ روسی آرٹس اینڈ ٹیلی ویژن کا اعزاز TEFI تین بار جیت چکی ہیں۔ (2009،2006،2003) ٹینا نے 2012ء میں اپنے یونیک تعلیمی پروجیکٹ ’’دی اسمارٹ اسکول‘‘ کے لیے قومی ’رُونِٹ‘ (Runet)ایوارڈ بھی حاصل کرلیا۔ یہ ایوارڈ روسی حکومت کی طرف سے ’’سائنس اور ایجوکیشن‘‘ کی کٹیگری میں غیرمعمولی کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ 3 جون 2011 ء کو ٹینا نے سال کا روسی قومی ریسٹورنٹ ایوارڈ “Best Ethnic Cuisine”  بھی اپنے نام کیا تھا۔ وہ ماسکو میں اپنا ریسٹورنٹ “Tinatin” بھی چلارہی ہیں۔

ٹینا کی پہلی شادی 1998 ء میں ایندری کوندراکن ( Andrey Kondrakhin ) سے ہوئی تھی جو کہ ایک آرٹسٹ اور ’’ایکسون ہیلتھ کلینک‘‘ کے مشترکہ پارٹنر ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ شادی 2010 ء میں ختم ہوگئی تھی۔ ایندری سے ٹینا کی دو اولادیں ہیں، 19 سالہ بیٹی میلانیا Kondrakhin) (Melaniya اور بیٹا 17 سالہ لیونتی کوندراکن(Leontiy Kondrakhin)، جب کہ ٹینا نے دوسری شادی 2015 ء میں 32 سالہ وَیسیلی برُوکو (Vasiliy Brovko) سے کی ہے جو کہ خود بھی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماسکو کے تاجر اور بزنس مین ہیں اور سینٹرآف اسٹریجکٹ کمیونی کیشن “Aposle” کے بانی بھی ہیں۔ ٹینا کانڈیلا کی جادوئی اور اثرانگیز شخصیت روس بلکہ دنیا بھر کی خواتین کے لیے قابل قدر مثال اور ایک رول ماڈل ہے، انہوں نے دکھادیا ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں کیسے ان کے شانہ بشانہ پرُوقار انداز میں جیا جاسکتا ہے۔

The post ٹینا کانڈیلاکی appeared first on ایکسپریس اردو.

موٹاپا ایک وبال: اسے آنے سے پہلے روکیں

$
0
0

بڑھتا ہوا ویٹ اور پیٹ دونوں بلائے جانے سے کم نہیں۔وزن ایک مرتبہ بڑھ جاے اسے کم کرنا محال ہے اور جب وزن بڑھتا ہے تو ممکن ہی نہیں کے پیٹ نہ بڑھے۔ مگر بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ وزن تو نہیں بڑھتا لیکن پیٹ بڑھ جاتا ہے اور بڑھا ہوا پیٹ انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔

مردوں میں جہاں یہ نامناسب معلوم ہوتا ہے وہیں خواتین میں پورے کا پورا فگر برباد کر ڈالتا ہے۔ بڑا ہوا پیٹ بڑھے ہوئے وزن سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے جس کے باعث مرد ہو یا عورت شخصیت ماند پڑجاتی ہے اور جب اس کو واپس لانے کا خیال آتا ہے تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بڑھتے پیٹ اور وزن کی وجوہات یا علامات پر تو بہت بحث ہوتی ہے مگر اس سے بچا کیسے جاسکتا ہے۔ یہ لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے، ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ اگر اس رہنما اصول کو اپنی زندگی میں اپنا لیا جائے تو بہت سی تکلیفوں اور بیماریوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم آپ کو ان اقدامات سے آگاہ کریں گے جن پر عمل پیرا ہوکر آپ بڑھتے وزن اور پیٹ کے مسائل سے بچ سکتے ہیں اور اگر اس کا شکار ہوجائیں تو چھٹکارا پانا بھی ممکن نہ رہے گا۔

-1 نشاستہ دار غذائوں سے پرہیز
نشاستہ دار غذا دراصل ایسی غذا کو کہا جاتا ہے جس میں کاربوہائیڈریٹس موجود ہوں (Carbohydrates) ۔جوکہ انرجی بہم پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ عموماً پھلوں، سبزیوں، ڈبل روٹی یا پاستا اور بازاری اشیاء میں پائے جاتے ہیں۔ اب یہاں آپ کو یقینا حیرانی ہوگی کہ بھلا نشاستہ دار غذائیں جو جسم کو طاقت و حرارت پہنچانے کا سبب ہیں، کیسے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں؟ تو اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ تمام غذائیں جیسے بری نہیں ہوتی ویسے ہی تمام غذائوں کی زائد مقدار اچھی نہیں ہوتی کچھ نشائستہ دار اجزاء جیسے کہ شکر قندی، برائون رائس اور حلوہ کدو میں نشاستے وافقر مقدار میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال کیا جائے تو موٹاپے کا کوئی ڈر نہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عام نشاستہ دار غذائیں جیسے کہ چھنا ہوا آٹا، میدے والی ڈبل روٹی اور سفید چاول کا استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر روم ماہر غذا اور غذائیت کا اس حوالے سے خیال ہے کہ پیچیدہ نشاستوں والی غذائیں جسم میں بلڈ شوگر کو ایک متوسط درجے تک رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں جبکہ عام نشاستہ دار غذائیں جسم میں شوگر کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کو متحرک کردیتی ہیں جس سے شوگر لیول متعدل رہنے کے بجائے اوپر نیچے ہوتا ہے۔ ایسی غذائیں باقاعدگی سے کھانا ایک نا ایک روز موٹاپے، انسولین کی مزاحمت اور سوجن کا باعث بنتی ہیں۔ وہ غذائیں جن سے اس ضمن میں پرہیز کرنی چاہیے ان میں سنگین، سفید چاول، پاستا، ڈونٹ اور مفین شامل ہیں۔

-2 غیر متوازن چربی سے پرہیز کریں
ہماری روزمرہ خوراک میں فیٹس کی ایسی تین اقسام موجود ہوتی ہیں جوکہ موٹاپے، سوزش اور پیٹ بڑھنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں سے سے خطرناک فیٹس ٹرانس فیٹس ”Trans Fats” ہوتی ہیں جوکہ غیر سیرشدہ چربی کو تادیر قابل استعمال بنانے کے لیے ہائیڈروجن شامل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ عمومی طور پر بازاری اشیاء جیسے کہ نمکین بسکٹس، بیکڈ اشیاء مفنیز اورپیکٹ میں دستیاب چپس میں پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد قابل استعمال ہونے کی مدت کو بڑھانا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک اسے استعمال کیا جاسکے۔

آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہوکہ فورڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن Food & Drug Administration کے قوانین میں ٹرانس فیٹس کو بین کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جوکہ توسیع پاچکا ہے۔ اس کے پیچھے کی کہانی ایسی خوراک تیار کرنے والوں کی جانب سے FDA کو دائر کردہ پٹیشن ہے جس کے نتیجے میں 2021ء تک ٹرانس فیٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جہاں کچھ پروڈکٹس پر O ٹرانس درج ہوتا ہے تو ”O Trans Fats” کا مطلب آدھا گرام فیٹس کی موجودگی ہوتا ہے۔

یہاں ان ٹرانس فیٹس کا مسئلہ بڑھتے ہوئے پیٹ سے کچھ بڑھ کر ہے۔ جی ہاں کیونکہ اس سے نہ صرف موٹاپا پروان چڑھ رہا ہے بلکہ شوگر، دل اور دیگر جسمانی امراض بھی پیدا ہورہے ہیں۔ بندروں پر کی جانے والی ایک آٹھ برس کی تحقیق میں انہیں روزانہ 8 فیصد Trans Fats کھلائے گئے جس سے ان کی پیٹ کی چربی 33 فیصد تک اضافہ ہوا۔

کیونکہ ٹرانس فیٹس پگھل کر جسم کا حصہ نہیں بنتے اور جس جگہ رکتے ہیں ونہی پڑائو ڈال لیتے ہیں اس لیے یہ انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صحت بخش فیٹس کے حصول کے لیے زیتون کا تیل، خوبانی کا تیل اور نباتاتی تیل استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ ٹرانس فیٹس جسمانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں جوکہ پکیجڈو فورڈز (Packeged Foods) ، پروسیڈ میٹ (Processed meat)، فل فیٹ ڈیری (Full Fat dairy)، کچھ ٹافیوں، کنولا تیل، انگور کے بیجوں کے تیل، سویا بین کے تیل، زعفران سوچ مکئی اور اومیگا میں پائے جاتے ہیں۔

-3بازاری چپس
مہنگے داموں فروخت ہونے والے ہوا سے بھرے شاپروں میں چند چپس کے دانے ہم بڑے شوق سے خریدتے اور کھاتے ہیں مگر ان کے نقصانات جانے بنا، پیٹ کی چربی بڑھانے میں سب سے بڑا ہاتھ نمک کا ہے جس سے جسم سے نمکیات کا اخراج نہیں ہوپاتا اور پانی جسم میں موجود رہنے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سے افراد کو اپھارے کی بھی بھی شکایت ہوتی ہے۔

سن 2019ء میں امریکی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گیس کی ایک بہت بڑی شکل اپھارہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ 412 افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ جسم میں سوڈیم کی زیادہ مقدار سے اپھارہ کی شکایت ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فائبر کی زیادہ مقدار بھی اپھارہ کا باعث بنتی ہے مگر سوڈیم (نمک) کی کم مقدار اس ضمن میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔

بازاری چپسوں میں بڑی مقدار میں نمک موجود ہوتا ہے اور پروسیڈ شدہ ٹرانس آئل فیٹس بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے پیٹ کی چربی بڑھتی اور موٹاپا آتا ہے۔

-4چربی سے پاک خوراک کی حقیقت
اگر آپ کے ذہن میں خیال آرہا ہے کہ چربی سے پاک ”FatFree” کا لیبل رکھنے والی خوراک درحقیقت چربی سے پاک نہیں ہوتی تو آپ صحیح سمجھے ہیں۔ لوگ ایسی اشیاء یہ سمجھ کر خریدتے ہیں کہ اس سے وہ واقعی چربی سے پاک خوراک استعمال کررہے ہیں لیکن کھانے کے بعد بھی یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ ان میں ”Fats” موجود تھے۔ فورڈ سائنس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر روم کا کہنا ہے کہ فیٹس کے حوالے سے سب سے بہترین زیتون کا تیل اور آڑو کا تیل ہے جوکہ جسم کو اتنی ہی انرجی پہنچاتا ہے۔ جتنی درکار ہوتی ہے لیکن لوگ غیر معیاری فیٹس کی مقدار لیتے ہیں جس کی وجہ سے موٹاپا جنم لے رہا ہے۔ فیٹس کے حوالے سے سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس سے پیٹ بھرا رہتا ہے اور اتنی ہی انرجی ملتی ہے جتنی چاہیے ہو۔ لیکن فیٹ فری فورڈ کے حوالے سے یہ سوچنا چھوڑ دیں کے وہ آپ کے پیٹ پر رحم کرے گی۔

-5سوفٹ ڈرنکس اتنی بھی سوفٹ نہیں
ہم میں سے بہت سے لوگ سوفٹ ڈرنکس بڑے شوق سے پیتے ہیں مگر شاید اس کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں۔ سوفٹ ڈرنکس نام کی حد تک ہی سافٹ ہیں۔ اگر ان کی تیاری کے مراحل کو دیکھا جائے یا ان کے کیمیائی اجزاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجود سوڈا جسم کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر معدے پر پڑتا ہے جس سے جلن، معدے کی تکلیف اور السر جنم لیتا ہے۔ مزید یہ کہ ان سوفٹ ڈرنکس میں شکر کی کافی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جوکہ وزن میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔

-6زیادہ سونا مناسب امر نہیں
کچھ لوگوں کے خیال میں زیادہ دیر تک سونا اور آرام کرنا صحت کے لیے مفید ہے مگر یہ تاثر انتہائی غلط ہے۔ آپ نے وہ محاورا تو سن رکھا ہوگا ’’جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے‘‘ تو جناب خاطر جمع رکھیے زیادہ سونے والا انسان صرف اپنی صحت کو ہی نہیں کھوتا بلکہ اپنے قیمتی وقت کا بھی ضیاع کرتا ہے۔ بہت سی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ سونے سے وزن بڑھنے کے ساتھ پیٹ بھی بڑھتا ہے۔ 68,000 خواتین پر 16 برس میں کی گئی ایک طویل ریسرچ سے یہ حقائق سامنے آئی کہ وہ خواتین جو 5 گھنٹوں سے کم سوتی ہیں ان میں 7 گھنٹوں تک سونے والی خواتین کی نسبت 32 فیصد وزن میں اضافہ ہوا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف زیادہ سونا ہی نہیں بلکہ کم سونا اور وقت پر نہ سونا بھی وزن میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ نیند میں خلل کا مرض بھی وزن میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے جس سے پیٹ کی چربی بڑھ سکتی ہے۔

-7ذہنی دبائو سے بچیں!
انسان کا ذہن زندگی کی علامت ہے۔ زندگی کا کوئی بھی میدان ہو اس میں ذہنی استعداد اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ذہن دبائو کا شکار ہوگا تو اس کے اثرات تمام جسم پر ہی نہیں بلکہ باقی معاملات پر بھی پڑیں گے۔ انسانی جسم میں دبائو یعنی ”Stress” کو کنٹرول کرنے والا ایک ہارمون پایا جاتا ہے جیسے کوریٹیول کہتے ہیں جس کا بنیادی مقصد جسم میں تنائو کو قابو کرنا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ہارمون جہاں Stress کو کنٹرول کرتا ہے ونہی اس عمل کے دوران کیلوریز کو جسم میں قید کرتا ہے۔ جس کا مرکز پیٹ ہوتا ہے۔ وہ خواتین جن کمر کولہوں سے بھاری ہوتی ہے وہ دبائو کے وقت یہ ہامون عام خواتین کی نسبت زیادہ خارج کرتی ہیں۔ اس لیے ذہنی دبائو سے چھٹکارا پانا موٹاپے کو دور بھگانے کا آسان ترین حل ہے۔

-8کیک پیسٹری سے پرہیز
برتھ ڈے ہو یا کوئی بھی ڈے اب اسے منانے کے لیے کیک ایک لازمی جزو بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کیک اور پیسٹریاں بھی ایک قسم کی پروسیڈ شدہ خوراک ہیں جن کو کچھ عرصے اور معیار کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور ان کی تیاری میں جو اجزاء درکار ہیں وہ بھی غذائیت سے بھرپور نہیں۔ سفید آٹا بیکنگ سوڈا جوکہ جسم میں انرجی لیول کو متحرک نہیں کرتے۔ نتیجتاً اس سے موٹاپہ اور صحت کے امراض جنم لیتے ہیں۔ حتیٰ الامکان کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیک اور پیٹسری کم سے کم کھائیں۔

-9تلی ہوئی اشیاء
مزیدار تلی ہوئی چیزوں کا خیال آتے ہی منہ میں پانی آتا فطری سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان کی کثرت سے ناصرف موٹاپا آتا ہے بلکہ بڑھے پیٹ کے تحفے کے ساتھ سینے کی جلن کا گفٹ بھی ملتا ہے۔ تلی ہوئی اشیاء جیسے کہ آلو کے چپس، سموسے، پکوڑے، نگٹس اور نجانے کیا کیا سب بالکل اسی طرح پیٹ میں ڈیرہ ڈالتے ہیں جیسے پروسیڈ گوشٹ، ایسی خوراک کو جسم میں حل ہونے میں بہت وقت لگتا ہے جس کا باعث ان میں موجود بھاری فیٹس ہوتے ہیں جوکہ پیٹ کی چربی میں اضافہ کرتے ہیں تو بہترین حل یہ ہے کہ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو تلی ہوئی اشیاء کو ہم چھوڑ نہیں سکتے مگر انہیں کم سے کم استعمال کرسکتے ہیں۔

-10پروسیس شدہ گوشت
گوشت اور گوشت سے بنی اشیاء سب شوق سے کھاتے ہیں۔ گو پروسیس شدہ گوشت ذائقے میں لذیز ہوتا ہے مگر اس میں موجود کیلوریز کی وافر مقدار صحت اور وزن دونوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پروسیس شدہ گوشت ہے کیا؟ تو یہ ایسا گوشت ہوتا ہے جیسے مختلف طریقوں سے زیادہ وقت کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے جیسے کے نمک لگا کر، ٹین میں رکھ کر، خشک یا سکھا کر یا پھر جلا کر لمبے عرصے تک محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ ناصرف معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ امراض قلب اور فالج کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے گوشت کو ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ آنتوں میں جاکر ٹھہر جاتا ہے اور جسم میں حل ہونے میں وقت درکا ہوتا ہے۔ اس کی مثال پکے ہوئے گوشت کے ٹھنڈے کئے ہوئے ٹکڑے، فریز، قیمہ اور خاص طور پر فروزن میٹ ہے جو کہ ڈبوں میں رکھ کر بیچا جاتا ہے۔ ان میں کوئی بھی فائبر نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں ہضم کرنے میں وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

-11ورزش اور واک کو معمول بنائیں
صحت عطیہ خداوندی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیـں۔ اور صحت مند رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے۔ورزش صحت کے لئے بہت ضروری ہے، اس سے نا صرف جسم تندرست و توانا رہتا ہے بلکہ اضافی چربی بھی گھل جاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ روزانہ ایک گھنٹہ واک انسان کی صحت کو متاثر کرنے والے امراض سے بچاتی ہے۔ اور وزن کو بڑھنے سے روکتی ہے۔

-12میٹھے پھلوں کو کم استعمال کریں
میٹھے میٹھے پھلوں کی لذت سب ہی کو مزہ دیتی ہے۔ مگر ان پھلوں میں پایا جانے والا شکر موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے۔کچھ پھلوں جیسے کے سیب،آم، تربوز میں اس کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کے ان پھلوں کو استعمال نہ کیا جائے بلکہ اعتدال سے استعمال کرنا بہترین عمل ہے۔

-13پھلیاںاور خشک میوہ جات
پھلیاں اور خشک میوہ جات دل کے لئے افادیت بخش ہیں۔لیکن یہ گیس کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق پھلیوں میں گیس پیدا کرنے کی اتنی ہی صلاحیت ہوتی ہے جتنی گوبھی اور براکلی میں ہوتی ہے جو کہ نتیجتاً موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ اور گیس کی وجہ بیکٹیریا کہ جسم میں حل نہ ہونا ہے۔پھلیوں اور میوہ جات کو اکٹھا کھانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

-14سلاد کھائیں
سلاد افادیت سے بھرپور غذا ہے۔ مگر دھیان رکھئے بازار سے ملنے والا سلاد بذاتِ خود پیٹ پہ چربی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ خاص طور پہ سلاد کی مائونیئز اور مختلف سوسز سے ہوئی ڈریسنگ اسے بھاری بناتی ہے۔ سلاد کی بہترین ڈریسنگ زیتون کا تیل ،سرکا اور مصالحہ جات ہیں۔ماہرین کے خیال میں سرخ مرچ، کالی مرچ، روز میری، لہسن پائوڈریا لیموں کا رس ہے جو سلاد کو منفرد ذائقہ بخشتے ہیں۔

The post موٹاپا ایک وبال: اسے آنے سے پہلے روکیں appeared first on ایکسپریس اردو.

شدید سردی کی سائنس

$
0
0

پچھلے چند ہفتوں کے دوران یونان سے لے کر چین تک کئی ممالک شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔

مصر میں ایک صدی بعد برف باری ہوئی جبکہ پاکستان سمیت دیگر ملکوں میں شدید سردی کے بہت سے کئی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں زبردست برف باری کی وجہ سے کئی گھر ڈھے گئے۔

ان کی زد میں آ کر ایک سو سے زائد افراد چل بسے۔ نیز شدید سردی نے بھی کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے لوگوں کی جان لے لی۔غرض ٹھنڈ کی شدید لہر کے باعث اہل پاکستان کو کافی جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔پاکستان ہی نہیں کئی ملکوں کے کروڑوں باشندے حیران پریشان ہیں کہ اتنی شدید سردی کہاں سے ٹپک پڑی جس نے رگ و پے میں سنسنی پھیلا دی۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایسا سخت موسم سرما جنم لینے کی اہم وجہ انسانی سرگرمیاں بھی بن رہی ہیں۔زمین پر قطب شمالی اور قطب جنوبی ایسے علاقے ہیں، جہاں سارا سال برف جمی رہتی تھی۔

ان دونوں قطبین میں ہوا بھی بہت سرد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مگر یہ بندوبست فرما دیا کہ دونوں قطبین کی ہوا اسی علاقے میں چکر لگاتی رہتی ہے۔ اس چکر کھانے والی ہوا کے مختلف نام ہیں جیسے ’’پولر وورٹیکس‘‘ (polar vortex) یا قطبی گرد باد، کم دباؤ والا علاقہ اور سائیکلون۔ دونوں قطبین ایک ایک ایسا ہوائی علاقہ رکھتے ہیں۔

یہ ہوا سطح زمین سے 20 میل اوپر چکر کھاتی ہے اور اس کا قطر ایک ہزار کلو میٹر (620 میل) تک پھیلا ہوتا ہے۔ ہوا کے اس علاقے میں زبردست سردی ہوتی ہے اور اکثر درجہ حرارت منفی 130 درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا  ہے۔ ہوا کا چکر کھاتا یہ گرد باد یا سائیکلون بنی نوع انسان کے لیے خدائی تحفہ ہے۔یہ وورٹیکس دونوں جگہ چلتی زبردست ٹھنڈی ہوائیں اسی علاقے تک محدود رکھتے ہیں۔

سرد قطبی ہواؤں کو محدود کرنے کی خاطر قدرت الہی نے ایک اور بندوبست فرمایا۔ہواؤں کی ایک اور قسم ’’قطبی جیٹ ہوا‘‘ (Jet stream)بھی پولر وورٹیکس کو اپنی جگہ مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ قطبی جیٹ ہوائیں قطب شمالی اور قطب جنوبی، دونوں جگہ پائی جاتی ہیں۔ یہ خط استوا کی گرمی اور قطبین کی سردی کے ردعمل اور زمین کی گردش کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔زمین سے نو تا بارہ کلو میٹر کی بلندی پر دنیا کے گرد چکر لگاتی ہیں۔

قطبی جیٹ ہوائیں پولر ووٹیکس کو قطبین سے باہر نہیں آنے دیتیں۔ لیکن عالمی گرماؤ نے ان ہواؤں کی قدرتی ذمے داری میں بھی بگاڑ پیدا کر ڈالا ۔مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سو برس میں رکازی ایندھن (پٹرول، کوئلہ، گیس) بے حساب جلنے سے زمین کی فضا میں سبزمکانی گیسیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور ان کی بڑھوتری کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہ گیسیں سورج کی شعاعیں جذب کرکے انہیں زمین کی فضا میں قید کردیتی ہیں۔ زمینی فضا میں انہی شمسی شعاعوں کی کثرت کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ اس تبدیلی نے قطب جنوبی کی نسبت قطب شمالی پر زیادہ انقلابی  اثرات مرتب کیے ہیں اور انہی نے پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں کا قدرتی عمل بھی متاثر کر دیا۔

کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماؤ نے قطب شمالی پر پہلا بُرا اثر یہ ڈالا کہ وہاں صدیوں سے جمی برف پگھلنے لگی۔ اب یہ حال ہے کہ موسم گرما میں قطب شمالی کی بیشتر برف پگھل جاتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی گرماؤ میں اضافہ جاری رہا، تو 2030ء تک قطب شمالی میں موسم گرما کے دوران کوئی برف نظر نہیں آئے گی۔ یہ ایک بہت بڑا المّیہ ہوگا کیونکہ قطب شمالی میں بہت سے حیوانوں مثلاً ریچھ کی بقا کا دارومدار برف پر ہے۔ برف کی عدم موجودگی سے ان کے معدوم ہونے کا خطرہ جنم لے چکا۔

قطب شمالی سے برف پگھلنے کا عمل ایک اور بڑا نقصان رکھتا ہے۔ دراصل برف شمسی شعاعیں جذب نہیں کرتی بلکہ انہیں منعکس کرکے دوبارہ خلا میں بھیج دیتی ہے۔ یوں وہ زمین کا درجہ حرارت اعتدال پر رکھتی ہے۔ جبکہ سمندر شمسی شعاعیں جذب کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا قطبین اور پہاڑوں پر جمی برف پگھلنے سے زمین پر عالمی گرماؤ کا عمل تیز ہوجائے گا جو ایک خطرناک بات ہے۔

قطب شمالی میں برف پگھلنے اور درجہ حرارت بڑھنے کے اعجوبے ہی نے اپنے پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں  پر بھی منفی اثرات مرتب کر ڈالے۔ہوتا یہ ہے کہ جب  پولر وورٹیکس  اور قطبی جیٹ ہواؤں کے مابین قدرتی درجہ حرارت نہ رہے تو پولر وورٹیکس کبھی موسم سرما اور کبھی موسم گرما میں کمزور پڑجاتا ہے۔ یعنی اس کا قطر مختلف مقامات پر کئی گنا پھیل جاتا ہے۔ چناں چہ پولر وورٹیکس  پھیل کر جن ممالک تک پہنچے، وہاں قطب شمالی کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ یہ عجوبہ پھر ان ملکوں میں ایسی زبردست سردی پیدا کر ڈالتا ہے جو وہاں کے باشندوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوتی۔

عالمی گرماؤ کے بطن سے جنم لینے والے ایک اور اعجوبے نے قطب شمالی میں پولر وورٹیکس پھیلنے کے غیر قدرتی عمل کا اثر دو آتشہ بنا ڈالا۔ وہ اعجوبہ یہ ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے اب فضا میں نمی بھی بڑھ رہی ہے۔ جب پولر وورٹیکس پھیل کر افغانستان، پاکستان، مصر، چین وغیرہ تک پہنچے تو وہاں وہ ان ملکوں کی فضا میں موجود نمی منجمند کر ڈالتا ہے۔ یہ نمی پھر برف بن کر نیچے گرتی ہے۔ جن ملک کی فضا میں جتنی زیادہ نمی ہوگی، وہاں اتنی ہی زیادہ برف باری بھی ہوگی۔ اس عجوبے کی بدولت سمجھا جاسکتا ہے کہ حالیہ موسم سرما میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ برف باری کیوں ہوئی ۔

یہ عیاں ہے کہ حالیہ موسم میں قطبی جیٹ ہوائیں کمزور پڑگئیں۔ ممکن ہے کہ خط استوا پر گرمی کی شدت کم ہو لہٰذا اس کمی نے انہیں کمزور کر ڈالا۔ چناں چہ قطب شمالی کے پولر وورٹیکس نے پھیل کر مصر سے لے کر چین تک وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چونکہ مصر کی فضا میں خاصی نمی موجود تھی لہٰذا وہاں کئی عشروں بعد برف باری کے عجوبے نے جنم لیا۔ یہ پولر وورٹیکس متحدہ عرب امارات تک پہنچتے پہنچتے زیادہ سرد نہیں رہا تھا۔ مگر اس نے وہاں کی نمی کو بادلوں میں ضرور بدل ڈالا۔ اسی لیے دبئی اور امارات کے دیگر علاقوں میں ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں اور پانی نے سارا علاقہ جل تھل ایک کردیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قطبین میں درجہ حرارت دگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ درجہ حرارت کا جو توازن پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں کو مستحکم اور اپنی اپنی جگہ رکھتا ہے، وہ بتدریج ختم ہورہا ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان سمیت کئی ایشیائی علاقوں میں موسم سرما کے آغاز پر پولر وورٹیکس کے حملے سے زبردست سردی جنم لے سکتی ہے۔

یہ شدید سردی کئی انسانی سرگرمیوں میں انقلابی تبدیلیاں لے آئے گی۔ مثال کے طور پر فصلوں کی بیجائی اور پرادخت موسم دیکھ کر کی جاتی ہے۔ اگر دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں صوبہ پنجاب میں شدید سردی پڑنے لگی تو فصلوں اور پھلوں کی بیجائی و دیکھ بھال کا نظام متاثر ہوسکتا ہے۔ پھر ان مہینوں میں تعلیمی اداروں کی چھٹیاں بھی بڑھانی پڑیں گی تاکہ خصوصاً چھوٹے بچے شدید سردی کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں۔

یہ عیاں ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت، پھیلتی آلودگی اور درختوںکی مسلسل کٹائی سے آب و ہوا (climate) ہی نہیں موسم (weather) بھی بہ سرعت بدل رہے ہیں۔ اسی لیے پوری دنیا میں شدید موسمی اثرات پیدا ہونے لگے ہیں۔ کہیں طوفانی بارشیں نظام زندگی درہم برہم کردیتی ہیں تو کہیں شدید قحط کسی ذی حس کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا اور امریکا کے کئی خطے گزشتہ پانچ چھ برس سے قحط کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر انسان نے اپنا غیر فطری چلن برقرار رکھا، تو مستقبل میں موسموں کی شدت ہی نہیں تباہ کاریاں بھی بڑھ سکتی ہیں۔

سیانے کہہ گئے ہیں کہ زمین ہر انسان کی ضروریات پوری کرسکتی ہے لیکن وہ لالچی کی خواہشات پوری نہیںکرپاتی۔ انسان کو لالچ و خود غرضانہ تمناؤں سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایک ریڈانڈین کہاوت ہے ’’زمین ہمیں اپنے پرکھوں سے وراثت میں نہیں ملتی، اسے ہم اپنے بچوں سے بطور قرض لیتے ہیں۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد خوشگوار اور پاک صاف ماحول میں زندگی گزارے، تو آج ہی فطرت کو اپنا دوست بنالیجیے۔

دس سال میں زمین بچالیں ورنہ…

اقوام متحدہ کے ادارے، یو این کونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی (UN Convention on Biological Diversity) نے کرۂ ارض پر آباد سبھی انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوش میں آجائیں۔ غیر فطری طرز زندگی کو خیرباد کہہ کر دوبارہ فطرت کی آغوش اختیار کرلیں ورنہ دوسری صورت میں بنی نوع انسان کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔دراصل پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران جنگلات کی بے دریغ کٹائی، درجہ حرارت میں مسلسل اضافے، بے حساب آلودگی بڑھنے اور انسانی آبادی بہت بڑھ جانے کے باعث زمین کا نقشہ بدل گیا ہے۔ ان جنم لیتی وجوہ کی بنا پر جانوروں اور پودوں کی کئی اقسام مٹ چکی جبکہ خدشہ ہے کہ حیوانیات اور نباتیات کی آٹھ لاکھ اقسام میں سے ایک تا دو لاکھ اگلے دس برس میں ناپید ہوجائیں گی۔

عام انسان کو اندازہ نہیں کہ اس کی بقا نباتات اور حیوانیات کی بقا سے ہی جڑی ہے۔ خصوصاً رنگ برنگ پودے، درخت اور جڑی بوٹیاں دنیا سے ختم ہوگئیں تو بڑھتی آلودگی سانس لینا دوبھر کردے گی۔ یہ نباتات ہی آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ابھی سے ہمارے بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی وغیرہ میں یہ عالم ہوچکا کہ تروتازہ ہوا باغات میں بھی میّسر نہیں۔ باغ میں بھی کچرے یا دھوئیں کی بدبو آکسیجن میں مل کر اسے گندا کر ڈالتی ہے۔یہ شہر حقیقتاً آلودگی کے مرکز بن چکے۔وہاں آباد کروڑوں انسان فضائی آلودگی کے باعث رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ان میں سے بعض امراض جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔

یو این کونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کی بنیاد 1992ء میں پڑی تھی۔ یہ ادارہ رکن ممالک کی مدد سے ایسے اقدامات کرتا ہے جن کے ذریعے کرۂ ارض پر زندگی کی تمام اقسام کو تحفظ مل سکے۔ تاہم اس کی بھرپور سعی کے باوجود وہ عوامل ختم نہیں ہوسکے جن کے باعث کرۂ ارض کا قدرتی ماحول مسلسل تباہ ہورہا ہے۔ماضی میں زلزلے، آتش فشاں پھٹنے، قحط اور دیگر قدرتی آفات ارضی زندگی پر زبردست حملے کرتی رہی ہیں۔ بعض اوقات تو زندگی معدوم ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ مگر پھر وہ جی اٹھی اور کرۂ ارض پر زندگی کی متفرق اشکال پھیل گئیں۔ مگر اب انسانی سرگرمیاں ارضی زندگی کی دشمن بن چکیں اور یہ دماغ چکر دینے والی سچائی ہے کیونکہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہا ہے۔

بڑھتی آبادی پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایک بڑا مسئلہ بن چکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وسائل آبادی کے لحاظ سے نہیں بڑھ رہے۔ مثلاً آٹے ہی کو لیجیے، ہر سال کروڑوں منہ پیدا ہوجاتے ہیں مگر گندم کی فصل میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے، پاکستان اور دیگر ممالک میں آٹے، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ خوراک کی مانگ زیادہ ہے جبکہ پیداوار کم۔ یہ عمل خود بخود مانگ والی اشیا کی قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔غرض بڑھتی آبادی خصوصاً شعبہ زراعت کے لیے خطرہ بن چکی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی آنے والے عشروں میں بھی بڑھنے گی۔ فی الوقت کرۂ ارض پر 7 ارب 60 کروڑ افراد آباد ہیں۔ 2030ء میں انسانی آبادی 8 ارب 60 کروڑ ہوگی جبکہ 2050ء میں دنیا میں 9 ارب 80 کروڑ انسان موجود ہوں گے۔ اب سوچ لیجیے کہ تمام وسائل بشمول خوراک، انفراسٹرکچر اور زمینی استعمال پر کتنا زبردست بوجھ پڑ جائے گا۔

The post شدید سردی کی سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.

’سوات‘ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ

$
0
0

ان دنوں سرد موسم اور برف باری کی وجہ سے ملک کے شمالی علاقوں نے سفید چادر اوڑھ لی ہے، بعض علاقوں میں تو درجۂ حرارت منفی بارہ سے بھی نیچے گرگیا ہے۔

بہت سے علاقوں میں راستے بند ہیں، مقامی افراد اپنے گھر وں میں محصور ہوگئے ہیں اور منچلے سیاح راستوں میں پھنس گئے ہیں۔ کم و بیش یہی حالت ملک کے جنوب میں واقع بلوچستان کے بعض علاقوں کی بھی ہے۔

کراچی میں بھی بہت سردی ہے، سوئیٹر، مفلر، جیکٹ اور شالیں نکل آئی ہیں، لوگ گلی محلوں میں آگ جلاکر ہاتھ تاپتے، چائے کافی پیتے نظر آتے ہیں اور بعض منچلے سرد موسم میں آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

ایسے سرد موسم میں ذہن کے دریچوں میں سوات کی یادوں کے البم کھل جاتے ہیں اور دل تڑپنے لگتا ہے، جس کی پرکشش وادیوں، خوب صورت پہاڑوں، دل کش اور حسین فطری مناظر، دل فریب آبشاروں، بل کھاتے اور شور مچاتے دریاؤں اور بے شمار پرکشش تفریحی مقامات نے دیگر سیاحوں کی طرح مجھے ہمیشہ اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ اسی خوب صورتی کی وجہ سے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔

سوات کئی مرتبہ جانا ہوا اور ہر مرتبہ یہی حسرت لے کر واپس لوٹے کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے، کیوںکہ اس کو جتنا دیکھو، دل ہی نہیں بھرتا اور دل سے یہی صدا آتی ہے کہ کچھ دن اور ان فطری مناظر کو دیکھ لیں، کچھ دن اور اس جنت نظیر خطے میں گزار لیں۔ اپنے ربّ کی صناعی اور بہترین تخلیق کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اور کبھی سجدۂ شکر بجالا تا ہے۔

مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، وہ لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور محنتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ ہے۔

سوات صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہے اور یہ سابق ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی ۔ پوری وادی پانچ ہزار 337 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ اور مغرب میں ضلع دیر واقع ہیں۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بالائی سوات، زیریں سوات اور کوہستان۔

سوات وسط ایشیا کی تاریخ میں علم بشریات اور آثارقدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہر ت حاصل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد سے 254 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے 170کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ضلعی صدر مقام سیدوشریف میں ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ ہے، فضائی راستے کے علاوہ سڑک کے راستے بھی لوگ سوات جاتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو سٹرک کے راستے سفر کرنے کا اپنا مزا ہے۔ پنڈی میں پیرودھائی کے بس اڈے سے سوات جانے والی بس میں بیٹھیں تو واہ کینٹ، ایبٹ آباد اور مردان سے ہوتی ہوئی مالاکنڈ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور پھر سوات کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جہاں مینگورہ پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آگے جانا ہوتو دوسری بس میں سفر کرنا ہوگا۔ چوںکہ تھکن بہت تھی، اس لیے مینگورہ کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مینگورہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں فضاگیٹ پارک اپنی مثال آپ ہے۔

ہم لوگ مینگورہ سے نکل کر مالم جبہ پہنچے، جہاں کے نظارے ہی منفرد اور دل کش تھے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں بھی گئے، جہاں سیم سن اسکی ریزورٹ سردیوں میں آباد ہوتا ہے۔ بہت سے متوالے اسکی انگ کرنے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور غیرملکی سیاح بھی۔ وہاں کئی اعلیٰ اور آرام دہ ہوٹل ہیں، اس کے علاوہ چیئرلفٹ بھی ہیں، جن میں بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

سوات میں مجھے بحرین پسندآیا، جہاں دریا کا بلند آہنگ شور بہت مزا دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا، جو بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کا نام بحرین اس لیے ہے کہ یہ دریائے سوات اور دریائے درال کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں درخت اور سبزہ زار دیکھنے والوں پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ سوات میںکون سا مقام سب سے زیادہ خوب صورت ہے۔

ایک صبح ہمارا رخ کالام کی طرف تھا، دریا کے کنارے پر واقع یہ دل کش قصبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف دریا، اس کے اطراف سبزہ زار اور تھوڑے ہی سے فاصلے پر کئی آبشار۔ دریائے سوات کے کنارے پر ایک جھونپڑا ہوٹل پر بیٹھے اور چائے کاآڈر دیا، سخت سردی اور دہکتے ہوئے کوئلوں کا دھواں اور چائے کی کیتلی سے بلند ہوتی ہوئی بھاپ ایک عجب سماں پیدا کررہی تھی۔ کالام میں پہلے پی ٹی ڈی سی کا موٹیل تھا، لیکن اب ایک خوب صورت فائیو اسٹار ہوٹل اور دوسرے بہت سے ہوٹل بھی ہیں، لیکن دریا کنارے واقع چھوٹے ہوٹلوں میں قیام سے سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اگلی دوپہر کالام میں ٹراؤٹ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا، ٹراؤٹ اُس علاقے کی خاص سوغات ہے، جس کا سوندھا مزا اور لذت برسوں یاد رہتی ہے۔ کالام ہی میں سیف اللہ جھیل ہے، ایک جانب تو اس کا فطری حسن سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے اور دوسری جانب اسی جھیل میںمزے دار ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔

کالام سے گیارہ کلومیٹر آگے کی طرف سفر کریں تو مٹلتان کا علاقہ آتا ہے۔ جو اپنے گھنے جنگلوں، برفپوش پہاڑی چوٹیوں اور بڑے بڑے گلیشیئرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کالام ہی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر”  اپر اوشو” کی وادی میں مہوڈنڈ جھیل واقع ہے، جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال ہے۔ کالام سے انیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور خوب صورت جھیل ہے، جسے کنڈول کہتے ہیں، جب کہ کالام میں گھنے اور بے پناہ خوب صورت جنگلات بھی ہیں۔ یہ جنگلات فطرت کو دریافت کرنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور وہاں مہم جوئی کے شوق بھی پوری ہوجاتے ہیں۔

یہ علاقے تو بہت سے سیاحوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراگاہوں، خوب صورت جھیلوں اور پہاڑی راستوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اسپن خوار جھیل، اترور وادی کے مشر ق میں پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔ کھپیرو جھیل نیلے پانی کی دل کش جھیل ہے اور سطح سمندر سے تیرہ ہزار چار سو فٹ بلند ہے۔ اسی طرح سوات کی سعید گئی جھیل بھی اپنے حسن میں لاجواب ہے۔ سوات ہی میں کوہ ہندوکش کا خوب صورت سلسلہ سیاحوں کو ہائیکنگ اور مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے۔

سفید محل سیدوشریف سے تیرہ کلومیٹر دور مرغزار کے چھوٹے سے قصبے میں سفید محل واقع ہے، جسے 1940میں تعمیر کیا گیا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مانکیال گاؤں، میدیان، کالاکوٹ اور دیگر گاؤں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

مینگورہ کے شمال میں بیس کلومیٹر کا سفر طے کریں تو شنگرائی کی خوب صورت آبشار آتی ہے۔ سوات کے شاہی باغ کے کیا کہنے، جس کا سبزہ زار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مینگورہ سے 56کلومیٹر دور میاندم کا حسین قصبہ ہے۔ سطح سمند ر سے ایک ہزار آٹھ سو میٹر بلند ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی سخت سردی پڑتی ہے۔ سوات کی جروگو آبشار ملک کی بلندترین آبشار ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گبرال بھی ہے، جو بے پناہ حسین فطری نظاروں سے بھرپور ہے۔

بہر حال سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، بل کھاتا شور مچاتا دریائے سوات، دل کش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں اور لمبے لمبے درخت، آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والا سبزہ زار، شفاف پانی کے چشمے اور سردیوں میں برف باری اور برف سے ڈھکے علاقوں کی خوب صورتی دیکھنے کے لیے آپ کو سوات جانا ہوگا۔

The post ’سوات‘ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا کا خطرناک ترین میزائل

$
0
0

ماہ جنوری کے اوائل میں میزائلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا رہا۔

پہلے 3 جنوری کو امریکا نے میزائل مار کر ایرانی جرنیل، قاسم سلیمانی کی جان لے لی۔ پھر 8 جنوری کو ایران نے کئی بلاسٹک میزائل عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر دے مارے۔ اسی دن یوکرائن ایئرلائن کا ایک بدقسمت ہوائی جہاز ایرانی میزائل کا نشانہ بن گیا۔

اس حادثے میں 176 افراد مارے گئے جن میں 130 ایرانی تھے۔دور جدید کی جنگوں میں میزائل ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے کیونکہ اس کی بدولت ایک ملک اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے دشمن کو بھاری نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی لیے تمام عالمی قوتیں جدید ترین میزائل بنانے کے لیے کثیر رقم خرچ کررہی ہیں تاکہ عسکری لحاظ سے غلبہ حاصل کرسکیں۔

حال ہی میں روس نے جدید ترین میزائل متعارف کراکے امریکا و یورپی ممالک میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ میزائل کے شعبے میں روس کی زبردست ترقی سے امریکی افواج میں خاصی ہلچل ہے۔ امریکی جرنیل اسے خطرناک پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ اس خطرے کی بنیادیں تاریخ میں پیوست ہیں۔

پہیہ الٹا چل پڑا
یہ 1983ء کی بات ہے، امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اعلان کیا کہ سویت یونین کے ایٹمی بلاسٹک میزائلوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا میزائل ڈیفنس سسٹم تشکیل دے گا۔ اس سسٹم یا نظام کو انہوں نے’’اسٹرٹیجک ڈیفنس انشیٹیو‘‘ کا نام دیا۔ یہ منصوبہ عرف عام میں ’’سٹار وارز‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر صدر ریگن نے 1984ء میں ایک تنظیم، اسٹرٹیجک ڈیفنس انشیٹیو آرگنائزیشن قائم کردی۔ تنظیم سے متعلق سائنسداں اور انجینئر میزائل ڈیفنس سسٹم بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کرنے لگے۔

مثلاً خلا میں ایسے منصوعی سیاروں کو بھیجنا جو لیزر مار کر دشمن کے حملہ آور بلاسٹک یا کروز میزائل تباہ کردیں۔سویت حکومت نے قدرتاً یہ محسوس کیا کہ امریکا میزائل ڈیفنس سسٹم تشکیل دے کر اس کے میزائلوں کو ناکارہ بنانا چاہتا ہے۔ اس طرح جاری سرد جنگ میں اس کا پلہ بھاری ہوجائے گا۔ چناں چہ سویت حکمران مجبور ہوگئے کہ وہ زیادہ بہتر بلاسٹک میزائل بنانے کے لیے بھاری رقم مختص کردیں۔ جدید ترین روسی بلاسٹک میزائل ہی امریکیوں کے میزائل ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بناکر طاقت کا توازن اپنے حق میں کرسکتے تھے۔

مسئلہ یہ تھا کہ سویت حکومت معاشی بحران میں مبتلا تھی۔ اب اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہوئی، تو اس نے حکومت پر مالی دبائو بڑھا دیا۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ اس مالی دبائو نے بھی آگے چل کر سوویت یونین کی تحلیل میں اہم کردار ادا کیا۔

یوں امریکا کے ’’سٹار وارز پروگرام‘‘ نے بھی سویت یونین کی بربادی میں حصہ لیا۔ لیکن وقت اب الٹی چال چل رہا ہے۔ اب روس کے نت نئے عسکری منصوبوں نے امریکی حکمران طبقے کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ جدید ترین روسی اسلحے کا توڑ کیونکر بنایا جائے؟ دراصل پچھلے بیس برس میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر امریکا نے خود کو 23 ٹرلین ڈالر کا مقروض کرلیا ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ایک ٹریلین ڈالر ایک ہزار ارب ڈالر پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پورے پاکستان کا سالانہ بجٹ 52 ارب ڈالر ہے۔

امریکا کے پبلک یا مجموعی قرضے میں ہر سیکنڈ بارہ ہزار ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس بھاری بھرکم قرضے کے ہوتے ہوئے امریکی حکومت نے نئے عسکری منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے، تو وہ قرضوں کی دلدل میں مزید دھنس جائے گی۔ اس حقیقت سے آشکارا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کی تمنا امریکی حکمران طبقے کو رفتہ رفتہ گور کنارے لے جارہی ہے۔

تیز ترین اڑتا ہتھیار
روس ’’ایس۔ 400‘‘ (S-400 missile system)کے ذریعے دنیا کا سب سے مؤثر اور بہترین میزائل ڈیفنس سسٹم بناچکا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن نے بصد مسرت اعلان کیا کہ افواج روس کو ’’اونگارد‘‘ (Avangard) میزائل بھی مل گیا۔ یہ دنیا کا تیز ترین میزائل ہے جو 27 ماک یا ماخ کی رفتار بھی پاسکتا ہے۔ گویا وہ فی گھنٹہ 33 ہزار کلو میٹر کی رفتار سے اڑنے کے قابل ہے۔ یہ تیزی روسی اونگارد میزائل کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں چھوٹے پَر لگے ہیں۔وہ اڑتے ہوئے اسے دائیں بائیں حرکت بھی دے سکتے ہیں۔

دوران پرواز یہی حرکت اس جدید ترین روسی ہتھیار کی دوسری خاصیت ہے۔ اس قسم کا میزائل اصطلاح میں ’’ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل‘‘ یا ’’بوسٹ گلائیڈ ‘‘ کہلاتا ہے۔ انتہائی تیزی اور حرکت پذیری کی دو صلاحیتوں کے باعث اس وقت دنیا کا کوئی میزائل ڈیفنس سسٹم اونگارد کو نشانے پر گرنے سے نہیں روک سکتا۔ اسی لیے یہ فی الوقت دنیا کا خطرناک ترین بم بن چکا ہے۔

اونگاردکو سب سے پہلے بلاسٹک میزائل کے ذریعے فضا میں بھیجا جاتا ہے۔ تقریباً ایک سو کلو میٹر بلندی پہ پہنچ کر اونگارد بلاسٹک میزائل سے الگ ہوتا ہے۔ وہ پھر 20 تا 27 ماخ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے نیچے آنے لگتا ہے۔ اس دوران وہ کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی دائیں کبھی بائیں ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اونگارد کی یہ نقل و حرکت اس میں نصب حساس آلات کا کرشمہ ہے۔ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اڑن بم میں گائیڈنس سسٹم نصب ہے جسے زمینی ریڈاروں اور فضائی منصوعی سیاروں کی مدد سے چلایا جائے گا۔
بہرحال انتہائی تیزی اور

مسلسل حرکت پذیری کے باعث زمین سے چھوڑے گئے کسی بھی میزائل کے لیے اونگارد کو نشانہ بنانا بہت مسئلہ بن جائیگا۔ ظاہر ہے، اسے ایسا میزائل ہی پکڑ سکے گا جوکم از کم 30 تا 35 ماخ کی رفتار رکھتا ہو۔ مگر سائنس داں ابھی تک زمین سے بلند ہونے والے ایسے میزائل ہی بنا پائے ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ رفتار چار پانچ ماخ ہے۔اونگارد کی رفتار اس لیے زیادہ ہے کہ وہ فضا سے نیچے گرتا ہے۔ اسی لیے بے پناہ تیزی کا حامل بن جاتا ہے۔

واضح رہے، بلاسٹک میزائل اور اونگارد ہائپرسونک گائیڈڈ وہیکل میں ایک بنیادی فرق ہے۔ بلاسٹک میزائل سو کلو میٹر بلند ہوکر نیچے کا سفر کرے تو اس کا راستہ معین ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ اس میں حرکت پذیری جنم دینے والے نظام نصب نہیں ہوتے۔ اگرچہ گرتے ہوئے اس کی رفتار بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ یہی تیزی بلاسٹک میزائل کو خظرناک ہتھیار بناتی ہے۔ مگر ہائپر سونک گائیڈ وہیکل یا اڑن بم اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہتھیار ہے۔ وجہ یہی کہ وہ ہیبت ناک تیزی کے علاوہ حرکت پذیری کی خاصیت بھی رکھتا ہے۔

انہی دو خصوصیات کی بدولت اونگارد کسی بھی میزائل ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنانے کی جادوئی قدرت رکھتا ہے۔
اونگارد کی لمبائی تقریباً اٹھارہ فٹ اور وزن دو ٹن ہے۔ اس میں روایتی بارود کے علاوہ ایٹم بم بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایٹم بم دو میگا ٹن ٹی این ٹی کی طاقت رکھتا ہے۔ واضح رہے، ہیروشیما پر گرایا گیا امریکا کا ایٹم بم صرف پندرہ کلو ٹن طاقت رکھتا ہے۔ ایک میگاٹن ایک ہزار کلو ٹن کے برابر ہے۔ گویا آوانگاد جاپانی شہر تباہ کرنے والے امریکی ایٹم بم سے دو ہزار گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم لے جانے کے قابل ہے۔
نئی سرد جنگ
10 مارچ 2018ء کو روسی صدر، ولادیمیر پیوٹن نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ مژدہ سنایا تھا کہ روس کے سائنس داں و انجینئر نت نئے روایتی و ایٹمی ہتھیار ایجاد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہی میں سے ایک اونگارد بھی تھا جو اب عملی جامہ پہن چکا۔ روسی ماہرین ایٹمی میزائل اور ایٹمی ہتھیار لے جانے والا تارپیڈو (زیر آب سفر کرنے والا میزائل) بھی بنانے کے لیے تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔ مزید براں پچھلے آٹھ برس سے روسی افواج کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوچکا۔ روس کا جنگی بجٹ بھی بڑھ رہا ہے۔

یہ سارا اہتمام اسی لیے ہے کہ روس کو ازسرنو سپرپاور بنایا جاسکے۔دنیا میں چھٹی صدی سے سترہویں صدی تک مسلم ریاستیں سپرپاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایک بنیادی وجہ یہ رہی کہ مسلم افواج کے ہتھیار جدید تھے۔ مسلمان سائنس داں اور انجینئر نت نیا اسلحہ بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرتے رہتے۔ مگر جب مسلم حکمران اور عوام بھی عیش و عشرت میں پڑگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تاجدار دنیا کا اعزاز چھین لیا۔ مسلم سپرپاور کا زوال ستمبر 1683ء سے شروع ہوا جب ترک فوج کو ویانا (آسٹریا) کے مقام پر شکست ہوئی۔ اس کے بعد مغربی افواج نے ایک ایک کرکے بہت سے اسلامی ممالک پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اب مغربی سائنس داں جدید ترین ہتھیار تیار کرنے لگے تھے۔ یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔

روس اور مغرب کے مابین کئی تاریخی، مذہبی، تہذیبی معاشی اور ثقافتی اختلافات موجود ہیں۔ اسی لیے روس اور مغربی ممالک کا تصادم جاری ہے۔ اب روس دوبارہ عسکری طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ گویا بیسویں صدی کی طرح اکیسویں صدی میں بھی روس اور مغربی ممالک خصوصاً امریکا ،برطانیہ کے مابین دوسری سرد جنگ جنم لے چکی ہے۔ نئی سرد جنگ میں روس اور چین حلیف بن سکتے ہیں۔ یاد رہے، عسکریات کی سائنس و ٹیکنالوجی میں روس چین سے آگے ہے۔ تاہم چینی حکومت بھی اب عسکری سائنس و ٹیکنالوجی پر کثیر رقم خرچ کررہی ہے۔ مدعا یہی ہے کہ جدید ترین اسلحہ ایجاد کیا جاسکے۔

یہ نئی سرد جنگ مگر دنیا کا امن خطرے میں ڈال دے گی۔ جنگ کے حلیف پروکسی بن کر مختلف ممالک میں ایک دوسرے کے مفادات پر حملے کریں گے۔ ایسے میں اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نئی سرد جنگ میں کھل کر روس یا امریکا و برطانیہ کے حلیف نہ بنیں۔ دوسری صورت میں جنگ کی آگ انہیں بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دور حاضر میں افغانستان، شام، یمن، عراق، صومالیہ، فلسطین، لیبیا، ایتھوپیا اور برکینا فاسو کے اسلامی ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں نے عالمی سپرپاور کی سازشوں کے باعث ہی جنم لیا۔

امن ہماری ضرورت ہے
پاکستان بھی روز اول سے عالمی طاقتوں کے مفاداتی کھیل کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس سازشی کھیل سے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست کو نقصان پہنچا۔ اب پاکستانی حکومت کی مقتدر قوتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سپرپاورز کی سازشوں اور جوڑ توڑ کے کھیل کا سرگرم حصہ نہ بن پائیں۔ پچھلے ایک سو برس میں یہ حقیقت نمایاں ہوچکی کہ جس ملک میں امن وامان رہے، وہ معاشی ترقی کرتا اور خوشحال مملکت بن جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کی بھی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پاک وطن میں امن وا مان جنم لے تاکہ معاشی سرگرمیوں کو پنپنے اور بڑھنے کا موقع ملے۔ معیشت کی ترقی سے ہی پاکستان قوم کو غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نجات مل سکے گی۔

چند سال سے پاکستانی حکومت روس کے قریب ہونے کی خاطر مختلف اقدامات کرچکی ہے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔ لیکن ہمارے مقتدر اداروں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ روس اب بھی ہمارے دشمن، بھارت کا اہم عسکری ساتھی ہے۔ اس سال بھارتی افواج کو روسی ساختہ ایس 400- میزائل مل جائیں گے۔ یہ میزائل ڈیفنس سسٹم برصغیر میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔ روس اور بھارت مل کر براہموس کروز میزائل بھی بنا رہے ہیں۔ بھارت کا طیارہ بردار بحری جہاز وکرم ادیتیہ روس ہی میں مرمت و اپ گریڈنگ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ نیز مستقبل میں روس بھارت کو اپنے دیگر خطرناک ہتھیار بھی فراہم کرسکتا ہے۔ غرض روس اور بھارت کی قربت و دوستی دیکھتے ہوئے عیاں ہے کہ ہمیں روسی حکمران طبقے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہیں۔

پاکستان نے چین کے تعاون سے حال ہی میں دو نشستی جے ایف تھنڈر طیارہ تیار کیا ہے جو بہت بڑی خوش خبری ہے۔ اس مثال سے آشکارا ہے کہ پاکستان کو چین کے ساتھ شراکت داری کرنی چاہیے تاکہ اسے جدید عسکری سائنس و ٹیکنالوجی حاصل ہوسکے۔ یقین ہے کہ پاکستانی سائنس داں اور انجینئر جلد ہی ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم کا بھی شافی توڑ ایجاد کرلیں گے۔

The post دنیا کا خطرناک ترین میزائل appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>