Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

’مورگن فریمین‘ ایک سیاہ فام حجام کا بیٹا ہالی وڈ اسٹار کیسے بنا؟

$
0
0

قدرت نے ہر انسان کو صلاحیتوں سے نوازا ہے، لیکن پھر کیوں ہمارے ارد گرد کچھ لوگ ہمیں بہت زیادہ کامیاب تو کچھ بظاہر ناکام دکھائی دیتے ہیں! تو اس کا جواب یہ ہے کہ ناکام لوگ خود کو کوسنے اور قدرت کو دوش دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے جبکہ جن لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کو پہچانا اور پھر ان کے استعمال کا حق ادا کیا، وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب قرار پائے، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک نام مورگن فریمین بھی ہے، جس نے اپنی صلاحیتوںکو پہچان کر صرف اپنے شہر، علاقے یا ملک ہی نہیں بلکہ دنیا میں ایک امتیازی مقام حاصل کیا۔

سیاہ فام مورگن فریمین نہ صرف ایک تجربہ کار اور بہترین امریکی اداکار بلکہ ایک کامیاب ہدایت کار اور معروف صداکار بھی ہیں۔ زندگی کی 82 بہاریں دیکھنے کے باوجود آج بھی ان کے چہرے، کردار یا پیشہ وارانہ زندگی پر کسی خزاںکا شائبہ تک نہیں۔

یکم جون 1937ء کو امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں پیدا ہونے والے مورگن کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے، ان کے والدین کو دیگر افریقین نژاد امریکن شہریوں کی طرح کام کاج کے لئے شکاگو  جانا پڑتا اور چھوٹا مورگن نانی ماں کو سنبھالنا پڑتا، لیکن پھر فریمین نے اپنی صلاحیتوں اور انتھک محنت کی بدولت اس خاندان کی کایاں ہی بدل ڈالی۔ جہد مسلسل اور انتھک محنت کی بدولت ایک حجام کا بیٹا آج مورگن باکس آفس کی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر براجمان ہیں، ان کی تمام فلموں کا اگر تناسب نکالا جائے تو وہ ایک فلم سے تقریباً 71.5 ملین ڈالر کمائی کرتے ہیں۔

فریمین کا اداکاری کی طرف رجحان بچپن سے ہی ہو چکا تھا، جس کا ثبوت صرف 9 برس کی عمر میں ان کا سکول کے ایک ڈرامہ میں مرکزی کردار ادا کرنا تھا، پھر 12 سال کی عمر میں انہوں نے ایک ڈرامہ مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔

1955ء میں جب وہ براڈ سٹریٹ ہائی سکول سے گریجوایٹ ہوئے تو اس وقت وہ ایک ریڈیو پروگرام کر رہے تھے، جس کے بعد انہیں جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے سکالرشپ دیا گیا۔ گھر کا چولہا جلانے کے لئے مورگن کو ایک بار ایئرفورس کو جوائن کرنا پڑا، لیکن ذہنی میلان سے مطابقت نہ ہونے کے باعث وہ 4 سال بعد ہی فوج چھوڑ کر کیلی فورنیا چلے گئے، جہاں لاس اینجلس سے انہوں نے اداکاری اور سان فرانسیسکو سے ڈانس کی تربیت حاصل کی۔ غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے مورگن نے 60ء کی دہائی کے اوائل میں ورلڈ فیئر 1964ء میں بطور ڈانسر کام کرنے لگے، جس کے بعد اداکاری کا جنون انہیں فلم انڈسٹری میں کھینچ لایا، جہاں پہلے پہل The Pawnbroker جیسی فلموں میں انہیں ایک ایکسٹرا کے طور پر بہت محدود کردار ملا، لیکن پھر انہوں نے ایک سوپ سیریز Another World میں کام شروع کیا تو امریکی میڈیا کی توجہ ان کی طرف مبذول ہونے لگی۔

اس وقت حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مورگن کو بچوں کے ایک شو The Electric Company میں کام کرنا پڑا، لیکن بعدازاں یہی  شو ان کی پہچان کا بہت بڑا ذریعہ بنا، اس ضمن میں معروف امریکی پروڈیوسر جان گنز کونے کہتے ہیں کہ ’’مورگن بچوں کے شو میں کام کرنے سے نفرت تھی، وہ وقت ان کی زندگی کا بڑا کٹھن مرحلہ تھا، لیکن دنیا نے ان کے کام کو سراہا، جس کا اعتراف پھر فریمین نے خود بھی کیا کہ اس شو کا حصہ بننا ان کے لئے خوشی کا باعث تھا‘‘ اپنا کیرئیر بنانے اور خود کو غربت کی لکیر سے نکالنے کے لئے مورگن نے طویل جدوجہد کی، جس دوران انہوں نے نہ صرف فلم بلکہ ٹی وی اور تھیٹر میں بھی بہت کام کیا اور پھر یونہی چلتے چلتے قدرت ان پر مہربان ہو گئی اور وہ ہالی وڈ سٹار بن کر دنیائے شوبز پر راج کرنے لگے۔

اداکاری کے ساتھ قدرت نے مورگن کو جو دوسری صلاحیت عطا کی وہ ان کی آواز ہے، جسے آج ایک برینڈ تسلیم کیا جاتا ہے، ان کی سحرانگیز آواز کا جادو ہر کسی کو اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے، انہوں نے کئی ڈاکیومنٹریز اور فلموں میں بطور صداکار فرائض سرانجام دیئے۔ ان کی آواز کا جادو امریکا میں یوں چلا کہ صرف ڈاکیومنٹری یا فلم ہی نہیں بلکہ نیوز چینل کے لئے بھی ان کی ڈیمانڈ پیدا ہو گئی، 2010ء میں انہوں نے معروف امریکی براڈکاسٹر کی جگہ لیتے ہوئے سی بی ایس ایوننگ نیوز میں صداکار کا فریضہ نبھایا۔ اسی برس سیاہ فام اداکار کو مشہور زمانہ چینل ڈسکوری میں بھی بطور صداکار کام کرنے کی پیشکش کی گئی، جو انہوں نے قبول کر لی۔ اداکاری، صداکاری کے بعد وہ ہدایت کاری میں طبع آزمائی کرنے نکل پڑے اور انہوں نے معروف ڈرامہ Madam Secretary بنا ڈالا، جسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔

معروف سیاہ فام امریکی اداکار نے 30 برس کی عمر میں یعنی 1967ء میں جینیٹی اڈیر براڈشاہ سے شادی کی، لیکن 12 سال بعد ہی ان میں طلاق ہو گئی، جس کے بعد 1984ء میں مورگن نے میرینا کولے لی سے دوسری شادی کی، یہ رشتہ کئی سال تک پھلتا پھولتا رہا لیکن پھر اچانک 2010ء میں یہ بھی کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا۔

اس دوران ادکار اور ان کی اہلیہ میرینا کولے لی نے مورگن کی پہلی بیوی سے بیٹی کی بیٹی یعنی اپنی نواسی ایڈینا ہائینز کو گود لے لیا، لیکن 16 اگست 2015ء کو نیویارک میں ایڈینا ہائینز کا قتل ہو گیا، جس نے مورگن کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ ہالی وڈ سٹار کی زندگی کے انہیں نشیب و فراز میں کچھ تنازعات بھی سامنے آئے جیسے 2018ء میں سی این این نے ایک رپورٹ دی کہ مورگن کام کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے میں ملوث رہے، ان خواتین نے الزام لگایا کہ مورگن انہیں جملے کستے تھے، ان کا رویہ بہت خراب تھا، جس پر ایک بھونچال برپا ہو گیا تو اداکار نے باقاعدہ طور پر ایک معافی نامہ جاری کیا، جس میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگی گئی، جنہیں مورگن کی وجہ سے کوئی بھی دکھ پہنچا ہو۔

اسی طرح نسل پرستی کے حوالے سے وہ اس وقت لوگوں کے نشتروں کا نشانہ بنے، جب انہوں نے  Black History Month(سیاہ فام تاریخ کا مہینہ) کو منانے کے خلاف آواز بلند کی کہ کیا white history month بھی منایا جاتا ہے؟ امریکی ریاست مسیسپی کے پرچم پر تنقید کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے پر ان کو متنازع شخصیت بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ان کی مقبولیت اور کام میں کوئی فرق نہیں آیا، کیوںکہ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ وہ ایک ایسا محنت کش ہے، جس کے دل میں کھوٹ نہیں۔

The post ’مورگن فریمین‘ ایک سیاہ فام حجام کا بیٹا ہالی وڈ اسٹار کیسے بنا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


جب تک اک بار وہ سینے سے مرے آ نہ لگے
کچھ بھی ہوتا ہوا مجھ کو یہاں اچھا نہ لگے
میری خواہش ہے کہ اب کوئی نہ بچھڑے مجھ سے
میری خواہش ہے کہ اب گاؤں میں میلہ نہ لگے
دور مت جا کہ کہیں ایسا نہ ہو دوست تجھے
بھول جانے میں مرا ایک بھی ہفتہ نہ لگے
میری خواہش ہے تجھے صاف دکھائی دوں میں
میری خواہش ہے کہ تجھ کو کبھی چشمہ نہ لگے
پاس بیٹھا ہوا ہوں غور سے دیکھو مجھ کو
تا کہ کل دور سے کوئی مرے جیسا نہ لگے
لاتے لاتے ترا تحفہ میں نے گھر چھوڑ دیا
بس یہی سوچ کے شاید تجھے اچھا نہ لگے
(نورُ الحق نور۔ مانسہرہ)

۔۔۔
غزل


ستارہ وار ترے غم میں جل بجھا ہوں میں
یہ کس طرح کی اذیت میں مبتلا ہوں میں
میں آدھا جملۂ خوش کن تھا آدھا مصرعۂ تر
پر احتیاط سے برتا نہیں گیا ہوں میں
مرے وجود میں رکھی یہ روشنی کیا ہے
یہ کس چراغ کی مانند جل رہا ہوں میں
وہ اپنا عکس مری چشمِ تَر میں دیکھتی تھی
تجھ آئینے سے بہت معتبر رہا ہوں میں
کہ میرے پیروں تلے آ رہے ہیں ماہ و نجوم
یہ کون سمت سفر پر نکل پڑا ہوں میں
میں شاخِ نخلِ شکستہ سہی مگر ذی شان
نجانے کتنے پرندوں کا آسرا ہوں میں
(ذی شان مرتضیٰ۔ ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل


اب ایسے حال میں لُٹنے کا ڈر تو ہے ہی نہیں
کہ خالی ہاتھ ہیں رختِ سفر تو ہے ہی نہیں
یہ منزلیں تو ٹھہرنے کا اک بہانہ ہیں
سفر وہ رات ہے جس کی سحر تو ہے ہی نہیں
اچھالتے ہیں یونہی خواہشوں کے پتھر ہم
سمے کے پیڑ پہ ورنہ ثمر تو ہے ہی نہیں
ہمارے راستے اوروں کے ہیں بنائے ہوئے
کوئی سفر بھی ہمارا سفر تو ہے ہی نہیں
تمھیں بھی شوق ہے راہوں کی خاک ہونے کا
ہمارے پاس بھی رستے ہیں گھر تو ہے ہی نہیں
ترے خیال کی خوش بو نہ آئی تو یہ کھلا
برائے سانس ہوا کا گزر تو ہے ہی نہیں
ظہیر لُوٹنے باہر سے کوئی کیا آتا
فصیلِ شہر کے پہلو میں در تو ہے ہی نہیں
(رانا ظہیر مشتاق۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


جھجک اٹھتا تھا ہر اِک شوخیٔ گفتار سے پہلے
بڑا سنجیدہ تھا یہ دل تمھارے پیار سے پہلے
بہت انمول تھی جب خانۂ غربت میں تھی اپنے
وہی پائل کی چھم چھم کوچہ و بازار سے پہلے
دھڑکتا تھا یہ دل سینے میں تیرا نام لے لے کر
نہ تھا زخمی کبھی اتنا نظر کے وار سے پہلے
سجاؤں کس طرح میں بام و در کو تیری آمد پر
کوئی منظر نہیں بھاتا تیرے دیدار سے پہلے
قیامت دو دفعہ ہوتی ہے برپا دل کی بستی میں
تیرے انکار کرنے پر، ترے اقرار سے پہلے
میں الزامِ جفا کاری رکھوں تو کس پر اے عارف
میرے اپنوں نے لوٹا ہے مجھے اغیار سے پہلے
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
مرجھا گئے گلاب مرے زخم سونگھ کر
کیکر کا پیڑ دیکھ کے مجھ کو مہک گیا
پیچھا کِیا ہے ظلمتِ شب کا سحر تلک
سورج بہت گیا تو یہی شام تک گیا
اک عمر میری آنکھ ہی صحرا رہی فہد
پھر یوں ہوا کہ خون کا آنسو ٹپک گیا
(سردار فہد۔ ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


اچھے وقتوں کے مرے سارے وفادار بھی پُھر
وقت آیا جو کڑا مجھ پہ، مرے یار بھی پُھر
آج آیا ہے نظر کاسہ لیے وہ بھی مجھے
آج اس شہر کا وہ آخری خود دار بھی پُھر
خاک کے ہاتھ میں آنے کی ذرا دیر ہے بس
تیری یہ شان، یہ رتبہ، تری دستار بھی پُھر
آ گیا وقت کے ہر ایک نشانے پہ میاں
اڑ گئی عمر تو رنگ لب و رخسار بھی پھر
اب بتا کون رہا دارِ فنا میں باقی
میرا سَر ہی نہ گیا بس تری تلوار بھی پُھر
(عزم الحسنین عزمی۔ گجرات)

۔۔۔
غزل


میں جو خاموش رہوں، سوز دروں چیختا ہے
پھر بھی خاموش رہوں، اور فزوں چیختا ہے
وہ بھی کیا وقت تھا جب میرا جنوں چیختا تھا
کیا زبوں حالی ہے، اب مجھ پہ زبوں چیختا ہے
مجھ پہ جادو ہے کسی شوخ نگہ والے کا
ہر طرف آج یہی، رنگِ فسوں چیختا ہے
بے حسی دیکھیے، اس قوم پہ طاری ہے سکوت
اور شہیدانِ گلستان کا خوں چیختا ہے
اب حرم میں بھی پرستش ہے کسی اور ہی کی
گرجا و دیر کا محراب و ستوں چیختا ہے
اتنا ہیجان ہے اب زیست میں برپا مصعب
میرے چپ ہونے پہ خود میرا سکوں چیختا ہے
(مصعب شاہین۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل


دھواں بنا کے ہوا کو تھما دیے گئے ہیں
خطوط وقت سے پہلے جلا دیے گئے ہیں
تمہارے واسطے دنیا بنائی ہے اس نے
ہم ایسے لوگ تو یونہی بنا دیے گئے ہیں
کہیں پہ کوئی اندھیرے سے جنگ کرتا ہے
کہیں چراغ خوشی سے بجھا دیے گئے ہیں
بس ایک شخص کی خواہش میں عمر بیت گئی
ہم اس حسین کے صدقے! لٹا دیے گئے ہیں
عذاب توڑنے آئی ہوئی تھی خاموشی
مگر یہ شعر وسیلہ بنا دیے گئے ہیں
ہمارے واسطے دریا نہیں بنا راشد
کسی سراب کے پیچھے لگا دیے گئے ہیں
(راشد علی مرکھیانی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن
نہیں ہے روح پہ کوئی بھی زخم گاہ بدن
ہماری آنکھ سے ظاہر ہو روشنی کیسے
ہمارے سامنے رکھا گیا سیاہ بدن
جو گونگے لوگوں کی بستی میں کوئی نام لیا
سنائی دینے لگے مجھ کو بے پناہ بدن
اسے مرے ہوئے گھنٹے گزر گئے کتنے
اب آگے کیا ہے؟ نہیں ہے اگر تباہ بدن؟
میں اس پہ نقش بناؤں گی اپنی وحشت کے
نئی نکالوں گی تجھ سے میں کوئی راہ بدن
میں اندھے لوگوں میں شامل ہوں ان کے جیسی ہوں
سو ایک شرط ہی رکھی گئی، نباہ بدن
(انعمتا علی۔ جہلم)

۔۔۔
غزل

اترے ہیں میرے شہر میں ایسے عذاب ریت کے
آنکھیں تمام ریت کی، آنکھوں میں خواب ریت کے
چلتی ہے رات بھر یہاں بادِ غبارِِ تشنگی
کھلتے ہیں شاخِ دل پہ بھی اجڑے گلاب ریت کے
صحرا ئے زندگی میں اب سایا نہیں، شجر نہیں
پیروں میں آبلے مرے سَر پہ سحاب ریت کے
کیسے بچاؤں آندھیو تم سے یہ خستہ جسم و جاں
خیمۂ جان ریت کا، اس پہ طناب ریت کے
لہروں کے اضطراب کا شہرہ ہے، شہر و دشت میں
پڑھتا نہیں کوئی یہاں، جلتے نصاب ریت کے
فوزی کو اس مقام پر اپنی بھی کچھ خبر نہیں
کانٹوں پہ کھینچ لے گئے مجھ کو سراب ریت کے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


حوصلہ وہ کہاں سے لاتے ہیں
پیڑ پتوں کو جب گراتے ہیں
فرق پڑتا نہیں کسی کو یہاں
شور ایسے ہی ہم مچاتے ہیں
یہ تو تکمیل کی نشانی ہے
موت یوں ہی نہیں بلاتے ہیں
وہ ہمیں دیکھتا ہی رہتا ہے
اس لیے جان ہم چھڑاتے ہیں
دیکھ توحید بزدلی کی حد
سائے پر گولیاں چلاتے ہیں
(توحید زیب۔ بہاولپور)

۔۔۔
’’محبت‘‘


چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
تمھیں الفت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں
ذرا یہ تو بتاؤ تم
کسی محفل میں کوئی بھی
مرا جب نام لیتا ہے
تو تم کیوں چونک جاتے ہو؟
کہو، کیوں آہ بھرتے ہو؟
گلی میں کوئی بھی بچہ
مری جب بات کرتا ہے
قدم کیوں روک لیتے ہو؟
ذرا چل کر، ذرا رُک کر
مرا وہ تذکرہ سن کر
نظر کیوں بھیگ جاتی ہے؟
کوئی مجھ کو بُرا کہہ کر
کبھی جو مسکراتا ہے
تو تم کیوں منہ بناتے ہو؟
کہو، کیوں روٹھ جاتے ہو؟
مرے دشمن سے تم اکثر
مرے بارے میں لڑتے ہو
مرے احباب سے اکثر
بہت انجان سا بن کر
مرا کیوں ذکر کرتے ہو؟
اکیلے میں مری غزلوں کو تم کیوں گنگناتے ہو؟
زبردستی کیوں آنکھوں کو چھلکنے سے بچاتے ہو؟
اگر یہ کر نہ پاتے ہو تو کیوں آنسو بہاتے ہو؟
تم اکثر چھت پہ جاتے ہو
تو کیوں تاروں کو تکتے ہو؟
اکیلے چاند سے اکثر
مخاطب تم کیوں رہتے ہو؟
سُنا ہے تم یہ کہتے ہو
کہ ’’میں بالکل اکیلا ہوں‘‘
تو کیوں یہ بات کرتے ہو؟
مجھے معلوم ہے اب بھی
کتابِ دل میں اب تک بس مرا ہی نام لکھا ہے!
تمھیں مجھ سے محبت تھی
تمھیں مجھ سے محبت ہے
فقط مجھ سے محبت ہے
چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جیسے پھولوں کی ہو نگہبانی

$
0
0

بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری نہ صر ف والدین اور اساتذہ بلکہ معاشرے پر بھی عائد ہوتی ہے۔

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تصور بچے کی ابتدائی زندگی سے ہی ان کی سرشت میں سرائیت کر جائے تو معاشرہ جنت کا نظارہ پیش کرے اور ہمارا پیارا وطن امن و سکون کے ساتھ دنیاوی ترقی کی منازل طے کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے۔  اس کے لیے ہر عمر کے گروپ کے بچوں کے متعلق درج ذیل گزارشات پیش خدمت ہیں۔

1۔شیرخوارگی (Infancy) :شیرخوارگی کے دوران جب بچہ ایک سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس دوران وہ ماں سے کافی رویے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا بچہ قدم قدم جھومتے ہوئے چلتا ہے۔ دو سال کی عمر میں توتلی زبان میں باتیں کرتا ہے۔ اعضاء کسی حد تک کنٹرول میں آجاتے  ہیں۔ چمچے سے خود کھا لیتا ہے۔ جب بچہ شیرخوارگی کی عمر سے نکل کر تین سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہو جاتا ہے تو اسے قبل از سکول یا Pre-School  کا بچہ (Toddler)  کہا جاتا ہے۔ تین یا ساڑھے تین سال کی عمر میں بچے میں نرگسیت اور خودپسندی پیدا ہو جاتی ہے۔

وہ جہاں شرمانا سیکھتا ہے وہاں اپنی تعریف سننا بھی پسند کرتا ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنے ہم جولیوں کی تلاش میں ہوتا ہے تاکہ گروپ کی شکل میں ان سے کھیل سکے۔ اگر ایک ہی گھر میں یا قریبی ہمسائے میں اس عمر کے دیگر بچے ہوں اور انہیں باہم میل جول کے مواقع مل جائیں تو یہ کسی غنیمت سے کم نہیں۔

2۔ابتدائی سکول (Pre-Schooling) : اسلامی نقطہ نگاہ  اور  ماہرین تعلیم کے مطابق پانچ سال تک والدین خصوصاً ماں کی زیرنگرانی تربیت پانے والے بچے زیادہ با اعتماد اور اچھے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ چوںکہ اب معاشرتی اقدار بدل چکی ہیں۔ ہمسایوں کے بچوں کا ربط بھی ایک دوسرے سے مفقود ہوچکا ہے اس لیے پچھلی چند دہائیوں سے نرسری اسکولوں کا رواج عام ہوچکا ہے اورPre – Schooling کا رجحان بڑھ گیا ہے جن میں ساڑھے تین سال سے پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو داخل کروایا جاتا ہے جو مختلف درجوں یعنی Nursery, Play group and Preparatory Group   تک سیکھنے  کا عمل جاری رکھتے ہیں تاکہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو کر پہلی جماعت میں داخل ہوپائیں۔ عموماً انہیں نرسری اسکول بھی کہا جاتا ہے۔

3۔گھروں میں بچوں کا حادثات سے بچاؤ (Safety Measures) :جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بچے بڑوں کی نقل کرتے ہوئے اُن جیسے کام انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اکیلے گھر کے پچھلے صحن یا کہیں کونے کھدرے میں مختلف سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً وہ ماچس جلانے کی کوشش کریں گے گیزر سے منسلک کم اونچائی والا گرم پانی کا نلکا کھول سکتے ہیں جس میں زیادہ گرم پانی بھی آ سکتا ہے۔ خود کو الماری، فریج  یا کسی کمرے میں بھی بند کر سکتے ہیں۔ بجلی کے ساکٹ میں کوئی تار دے سکتے ہیں جس سے کرنٹ لگنے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

گھروں میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیائی مائع مثلاً بلیچ، تیزاب، مٹی کا تیل، کاسمیٹکس، مچھر مار تیل، بڑوں کی دوائیں، گولیاں یا سیرپ اور اسی طرح کی بے شمار چیزیں بچے کھول کر استعمال کر سکتے ہیں جو کہ انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح چُھری، قینچی، پیچ کس اور ہتھوڑی وغیرہ سے خود کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسی تمام چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ اس عمر میں بچے  کرسی اور اسٹول پر کھڑے ہو کر  کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں اور توازن قائم نہ رکھنے کی وجہ سے گر سکتے ہیں اور چوٹ آ سکتی ہے۔اسکول میں ٹیچر کھیل کے سامان کھلونوں بلاکس وغیرہ  یا چارٹس اور ویڈیو کے ذریعے بہت سی چیزوں کا شعور اجاگر کر سکتی ہیں۔ مثلاً سڑک پار کرنا  اور خطر ناک چیزوں سے دور رہنا وغیرہ وغیرہ۔

4۔نرسری اسکول میں داخل کرانے کی رغبت :چھوٹی عمر کے بچے کی ماں کو چاہیے کہ بچے کو اسکول داخل  کروانے سے چند دن پہلے بچے کو ساتھ لے کر اسکول جائے تاکہ بچہ اسکول بلڈنگ/کلاس روم اور ٹیچرز سے مانوس ہوجائے۔ بچے کا پسندیدہ کھلونا ساتھ لے جائیں تاکہ بچے کے ذہن میں یہ ہو کہ تقریباً اسکول میں اسی طرح ہوتا ہے جس طرح گھر میں وہ کرنے کا عادی ہے۔ جب بچے کو داخل کرائیں تو والدہ کو چند دن اسکول  میں جاکر بیٹھنا چاہیے۔ بعض اسکولوں میں ایسا ہو تا ہے کہ کھڑکی کے شیشوں سے بچے کو ماں نظر آتی رہے۔ اس طرح بچہ تحفظ محسوس کرے گا۔ آہستہ آہستہ کم وقت کے لیے بیٹھے اور بعد میں لینے آئے۔ کچھ دن بعد بچہ اسکول کے ماحول سے مانوس ہوجائے گا۔

5۔نرسری اسکول میں سیکھنے کا عمل:نرسری اسکول میں خودمختاری کے عمل سے ٹیچرز کے زیرِنگرانی مختلف چیزیں کرنا سیکھتا ہے۔ مثلاً بلاک جوڑنا، بلاک  جوڑ کر مختلف چیزیں  بنانا، خوداعتمادی  سے دیگر کئی چیزیں  جو گھر سے سیکھ کر آیا ہے انہیں مزید بہتر کرنا مثلاً واش روم کا استعمال، گروپ کی شکل میں Out Door  اور Indoor Games، کھانا کھانے کے آداب، صفائی ستھرائی اور دیگر صحت مند سرگرمیاں۔ ان کے لیے اسٹاف تربیت یافتہ، باصبر اور نرم مزاج ہو۔ کھیلوں کا سامان   بلحاظ عمر پوری طرح موجود ہونا ضروری ہے۔

ایک کلاس میں 15 سے زائد بچے نہ ہوں۔  چھوٹے بچے رنگین کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں اور ٹیچر کو بھی نت نئے ڈریس میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کو تصویروں میں رنگ بھرنے کی مشق کرائیں۔ لائنوں سے باہر رنگ بھرنے پر سختی نہ کریں۔ اس عمر میں دباؤ سے نتیجہ اخذ کرانا بچے کی ذہنی نشوونما پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور دوسرے بچوں کی نسبت صلاحیتوں میں کمی کاباعث بنتا ہے۔

6۔کھیل کی اہمیت:کھیل سے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اسے حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ اپنے احساسات، غصے یا شائستگی کا زبانی اظہار کرتا ہے مثلاً اگر کوئی بچہ کھیلتے ہوئے گر جائے تو دوسرے اس سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور کسی غلط عمل پر ناراضگی کا اظہار۔ یوں ان کے رویوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ لیڈر شپ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے سماجی ربط کو فروغ ملتا ہے۔ اسکول کی ذمہ داری ہے کہ تمام کھیل اسکول اپنے زیرِانتظام کرائے، جن میں گیندیں، ٹرائی سائیکل، ٹریفک کے کھلونے، بڑے پلاسٹک کے بلاک، سلائیڈ وغیرہ شامل ہیں ان کے استعمال سے بچوں کے پٹھوں میں بہتری آتی ہے بچے کو صاف مٹی میں بھی کچھ دیر کھیلنے دیں یا رنگین چائنا مٹی  کی مدد سے رنگین اشیاء بنانا بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

7۔غذا (Nutrition) :بچے نرم غذا کھانا پسند کرتے ہیں جسے پُرکشش طریقہ سے پیش کیا جائے۔ بعض بچے خوش دلی سے نہیں کھاتے وہ اپنے خیالوں میں ایک دنیا بسائے ہوئے ہوتے ہیں جسے انہوں نے دریافت کرنا ہوتا ہے۔ بعض بچے تھکاوٹ اور بعض کم کھانے والے بڑوں کی نقل سے تھوڑا کھاتے ہیں۔ بچوں کو ایک ہی ٹیبل /دستر خوان پر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا دیا جائے کھانے سے قبل بچے کی دل چسپی کی باتیں کی جائیں اور سنی جائیں تو کھانے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ بچوں  کو مختلف رنگین برتنوں میں کھانا دیں۔ مختلف کھانوں کے ذائقوں سے بتدریج آشنائی دیں تاکہ وہ تمام غذائیں بڑے ہو کر خوشی سے استعمال کر سکیں۔  کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ اور دیگر آداب خود عملی مظاہرہ کر کے سکھائیں۔  خوشگوار ماحول کا اہتمام کریں۔

8۔نیند (Sleep):چھوٹی عمر کے بچوں کو 24 گھنٹوں میں 12 سے 14 گھنٹے نیند پوری کرنی ضروری ہے جس میں ان کی دن کی نیند بھی شامل ہے بعض بچے دن کو سونے پر ضد کرتے ہیں۔ انہیں نیند کے لیے راغب کرنے کے لیے کمرے میں اندھیرا  کردیں اگر وہ اپنا کھلونا ساتھ رکھنا چاہیں تو رکھنے دیں تھپتھپائیں لوری دیں اور باتیں کریں اس طرح وہ سو جائیں گے۔ کچھ دن بعد کھلونا رکھنا بند کر دیں۔ خیال رہے کہ کھلونے میں کوئی نوک دار یا تیز دھار چیز وغیرہ نہ ہو جو زخمی کرنے کا باعث بنے۔ اکثر بچے سوتے میں ڈرتے ہیں کیوںکہ دن کو کسی ناخوش گوار تجربہ سے گزرے ہوتے ہیں یا کسی چیز سے انہیں ڈرایا گیا ہوتا ہے۔ ڈرنے کی صورت میں انہیں حوصلہ دیں اور  مسنون دعائیں اور کلمہ طیبہ کا ورد کریں۔

9۔صحت کے لیے احتیاط (Health Care):بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے حفاظتی ٹیکے/قطرے وغیرہ کے پروگرام کا باقاعدہ حصہ بنیں اور اس سلسلے میں کوتاہی نہ برتیں۔ مزید برآں کم از کم چھ ماہ بعد بچوں کو ہسپتال میں چیک کرائیں تا کہ اُن کے وزن کے مطابق ڈاکٹر اپنی رائے دے سکیں۔ خاص کر شیرخوار  بچے کے دانت نکالنے کے دوران بھی چیک کرائیں۔ اسی طرح اگر آنکھوں میں بار بار خارش کرے تو آنکھوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ اپنی کتاب وغیرہ کو آنکھوں کے بہت قریب کر کے دیکھے تو نظر چیک کرائیں۔ اگر بچے کو کوئی متعدی بیماری مثلاً خسرہ، لاکڑا کاکڑایا کنتڑے (Mumps)  وغیرہ ہوں تو ٹھیک ہونے تک بچے کو اسکول نہ بھیجیں۔

10۔ باقاعدہ (Formal) اسکول : پانچ تا چھ سال کی عمر کا دورانیہ بچے کی تعلیم و تربیت کا انتہائی مناسب دور ہوتا ہے کیوںکہ بچے کے ذہن آنکھ اور ہاتھ کا ربط کافی حد تک مضبوط ہو چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جہاں بچے کی توجہ مرکوز ہونے میں کافی حد تک بہتری آ چکی ہوتی ہے اور وہ سیکھے ہوئے اسباق کو لکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں  جماعت اول میں داخلہ بڑھتے ہوئے بچے کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں بچہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مثبت معاشرتی اقدار کا شعور حاصل کرتا ہے اور مختلف بنیادی مضامین کی شُد بُد حاصل کرتا ہے۔ اس عمر میں بچہ بہت سے کام از خود کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی حرکات و سکنات پر کسی حد تک نظر بھی رکھنی چاہیے۔

11۔ 9 تا 12 سال کے بچے:اس عمر کے بچے تقریباً بتدریج زیادہ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں مثلاً 9 سال کا بچہ اپنی دل چسپی کے کھیل کے ساتھ ٹی وی وغیرہ دیکھنے میں دل چسپی لیتا ہے۔ اگر کتاب بینی /بچوں کی کہانیوں کی طرف راغب کیا جائے تو ان میں دل چسپی لیتا ہے۔ اسی طرح دس سال کا بچہ سماجی روابط بڑھاتا ہے اور سماجی بہبود کے کاموں میں دل چسپی لینا شروع کرتا ہے۔ بچے فٹ بال کرکٹ وغیرہ کھیلتے ہیں جب کہ بچیاں گڑیاں (Dolls)  وغیرہ سے کافی دیر تک کھیلتی ہیں۔ اسی طرح گیارہ اور بارہ سال کی عمر میں لڑکے زیادہ جذبے کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کی پرواہ کیے بغیر خطرناک کام کر جاتے ہیں۔ مثلاً درختوں پر چڑھنا، باڑ وغیرہ پھلانگنا، سائیکلوں کی پُرہجوم سڑک پر ریس لگانا۔ والدین اور اساتذہ کو اس سلسلے میں مناسب ہدایات دینی چاہییں۔ اس عمر کے بچوں کو نماز کی پابندی کروانی چاہیے۔

12۔ صحت کے مسائل اور نفسیاتی عوامل:چھے تا بارہ سال کی عمروں کے بچوں کی صحت کے متعلق خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ روزانہ کی خوراک کے ساتھ اناج میں مکئی، جو وغیرہ بھی شامل کریں تاکہ قد میں اضافہ اور ہڈیاں مضبوط ہوں پاپڑ وغیرہ سے پرہیز کروائیں۔ اس عمر کے گروپ کے بچے بعض نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو سکتے ہیں بعض اوقات مختلف خوف ذہن میں ہونے کی وجہ سے نیند کی کمی، بھوک کم لگنا  یا بھوک ہونے کے باوجود کم کھانا یا بعض بچوں  کا ضرورت سے زیادہ کھانا۔ زیادہ ہوم ورک ملنے کی وجہ سے کام کا رہ رہ جانا حالاںکہ  ترقی یافتہ ممالک میں کتابیں سکول ہی میں رکھی جاتی ہیں اور سارا کام   اور قابلیت   میں اضافہ کی ذمہ داری  اسکول پر عائد ہوتی ہے تاکہ بچے بغیر کسی ذہنی دباؤ (Tension)  کے گھر جائیں اور بھاری بستے اٹھا کر جسمانی ڈھانچہ بھی خراب نہ کریں۔

اگر ضروری ہو تو بچوں کو اتنا ہوم ورک دیا جائے جسے وہ آسانی سے کم وقت میں کر سکیں۔ اسی طرح صبح اسکول جاتے وقت بچے پیٹ یا سر میں درد کی شکایت کریں تو والدین اسے جھوٹ یا بہانہ نہ سمجھیں۔ چوںکہ اکثر یہ تکالیف نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح امتحان وغیرہ سے پہلے بخار، خوف بھی نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ بچوں کو اس سلسلے میں حوصلہ دیں، اساتذہ سے رابطہ کریں اور بچوں کے مسائل کو حل کریں اس سلسلے میں بے پرواہی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

بچوں کو اسکول بھیجتے وقت اچھے طریقے سے خوشی خوشی روانہ کریں اور واپسی پر پُرجوش طریقہ سے استقبال (Welcome) کریں۔ مراد یہ ہے کہ بچوں کو خوش رکھیں کیوںکہ پریشانی کی وجہ سے کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا  اور بچے ذہنی و جسمانی کم زوری  کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، البتہ غلطی کرنے پر ہلکی پھلکی سرزنش ضرور کریں یہ بھی ایک طرح کی شفقت  ہی کا درجہ رکھتی ہے، تاکہ جہاں اچھا عمل سرانجام دینے پر بچے کی تعریف  کی جاتی ہے وہاں غلط کام پر مناسب ڈانٹ ڈپٹ بھی ضروری ہوجاتی ہے تاکہ بچہ شتر بے مہار کی طرح حرکات نہ کرے۔

بعض ماہرین کے مطابق بچے میں ضدی پن رویے کی ابتدا شیرخوارگی یعنی تقریباً ایک ڈیڑھ سال کی عمر ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ بعض بچے بے وقت یا رات گئے دودھ پینے کا مطالبہ کرتے ہیں حالاںکہ پہلے سیر ہوکر پی چکے ہوتے ہیں۔ نہ ملنے پر چیخ و پکار کرنا شروع کردیتے ہیں، والدین کو مجبوراً اُٹھ کر ڈیمانڈ پوری کرنا پڑتی ہے اور یوں یہی رویہ بڑی عمر میں بھی ان میں موجود رہتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ انہیں مقررہ وقت پر دودھ دیں اور بے وقت  ڈیمانڈ کی حوصلہ شکنی کریں تا کہ ضدی پن عادت ثانیہ نہ بن سکے۔

ٹیچرز سے بھی گزارش ہے کہ جب بچے کلاس روم میں اکتاہٹ (Boredom)   محسوس کریں اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کریں تو ان سے انگلیوں سے کچھ دیر کے لیے ڈیسک بجوائیں یا تھوڑی دیر کے لیے زمین پر آہستہ آہستہ قدم پڑوائیں۔

13۔اخلاقی تربیت:چھوٹی عمر کے بچوں کو شروع ہی سے مذہب سے روشناس کرانا والدین کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ

1۔جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھاؤ۔

2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! آگاہ رہو تم میں ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اُس کی رعیت یعنی جن کا وہ نگہبان اور ذمہ دار ہے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور اس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

معاشرتی طور پر عورت کو نگہبانی کا فریضہ تو انجام دینا ہی پڑتا ہے لیکن اگر یہ ذمہ داری اس نیت سے سرانجام دے کہ یہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم ہے تو یہی نگہبانی اور پرورش عبادت کا درجہ حاصل کر لے گی۔

پانچ سال کی عمر سے بچوں کو  قرآنی قاعدہ پڑھائیں اور ساتھ ساتھ روزمرہ کی مختصر دعائیں بھی سکھائی جائیں مثلاً کھانا شروع کرنے سے پہلے اور بعد کی دعائیں۔ تسمیہ و تعوذ۔  واش رو م جانے، سونے اور جاگنے کی دعا  وغیرہ اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ناظرہ قرآن مجید کا اہتمام کیا جائے تا کہ سات سال کی عمر تک بچہ ناظرہ قرآن مجید کی تکمیل صحیح تلفظ  اور تجوید کے ساتھ کر لے۔

علاوہ ازیں بچے کو انگریزی آداب ہی نہ سکھائیں بلکہ پہلے Thank you  کی بجائے جزاک اللہ۔ حال بتانے پر الحمدُللہ کسی غلطی یا دُکھ پر shit  کی بجائے انا للہ و انا الیہ راجعون  اور مواقع کی مناسبت سے دیگر دعائیں سکھائیں کیونکہ اصل تربیت نفس کی ہے جو با برکت ناموں سے زیادہ پاک اور شفاف ہو سکتا ہے۔ بعد میں بے شک فی زمانہ انگریزی کے آداب سکھائیں۔ اسی طرح پانچ سال کے لڑکوں  کو کم از کم  نماز جمعہ میں مسجد ساتھ لے کر جائیں تا کہ اس کے ذہن پر اچھے روحانی اثرات مرتب ہوں اور مسجد کے ماحول سے مانوس ہو۔

بہرحال جہاں والدین کا کردار ان تمام معاملات میں بہت اہمیت کا حامل ہے  وہیں اساتذہ بہترین رول ماڈل ثابت ہو سکتے ہیں۔

کیونکہ بچپن میں اچھی تعلیم و تربیت بہترین کردار سازی اور شخصیت سازی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے تاکہ بچے بڑے ہو کر اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، محنت اور قومی جذبہ سے سر انجام دے کر ملک و ملت کے لیے باعث خیر و برکت ثابت ہوں۔

The post جیسے پھولوں کی ہو نگہبانی appeared first on ایکسپریس اردو.

خواجہ خورشید انور

$
0
0

میانوالی: کمال دین اور جما ل دین تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کرکے لاہور آئے تو اس خاندان میں خواجہ فیروزالدین جیسے انسان نے بھی جنم لیا جو بعدازاں پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر اور مسلم لیگ ک رکن ہونے کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔

وہ موسیقی کے  قدردان بھی تھے تاہم ان کے بیٹے خواجہ خورشید انور کا شمار دنیا کے عظیم و نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے جو 21 مارچ 1912بروز جمعرات شعر و نغمہ کی سرزمین میانوالی کے محلہ بلوخیل میں پیدا ہوئے والد خواجہ فیزوزالدین اس وقت میانوالی میں وکالت کرتے تھے۔

دادا خواجہ رحیم بخش ڈپٹی کمشنر تھے جب کہ نانا شیخ عطا محمد میانوالی میں سرجن تعینات تھے جو قومی شاعر سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے سسر (کریم بی بی کے والد) تھے۔ اس طرح علامہ محمد اقبال ؒ خواجہ خورشید انور کے خالو تھے۔ خواجہ خورشید انور نے 1928میں سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929میں گورنمنٹ کالج کے شعبہ سائنس میں داخلہ لیا۔ تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوگئی جو اس زمانے میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرکے کالج میں داخل ہو ئے تھے۔

دونوں آرٹس کے شعبے میں تھے ان دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا عالم تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہوچکا تھا۔ جلیاں والا باغ کے قتل عام اور خلافت تحریک کے بعد بھگت سنگھ کی تحریک زوروں پر تھی اور نوجوان اس طرف مائل ہو رہے تھے۔

خواجہ خورشید انور بھی اس تحریک کا حصہ ہو گئے اور اس طرح آگے بڑھے کہ کالج کی لیبارٹری میں دیسی ساخت کے بم بناتے ہوئے دیکھ لیے گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم والدین کے تعلقات اور خاندانی اثرورسوخ کی وجہ سے اگرچہ جلد رہا کردیے گئے مگر اس واقعے کے بعد ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور والد خواجہ فیروز الدین کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ سے اپنے ذوق کو تسکین پہچانے لگے۔ جہاں اس بیٹھک میں استاد توکل حسین خان ، استاد عبد الوحید خان، استاد عاشق علی خان اور چھوٹے استاد غلام علی خان آتے تھے میزبانی کے فرائض خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض سرانجام دیتے۔

والد نے خواجہ خورشید انور کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا تو موسیقی سیکھنے کے ساتھ انہوں نے پڑھائی بھی جاری رکھی اور 1935میں پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔ اس موقع پر پنجاب یونی ورسٹی کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد تھا انہیں طلائی تمغہ دیا جانا تھا۔ انگریز چانسلر اس وقت مہمان خصوصی تھے اور حیرت کی بات ہے کہ عین اسی وقت خواجہ صاحب لاہور میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کر رہے تھے جس میں ہندوستان بھر کے ممتاز موسیقار اور کلاکار حصہ لے رہے تھے۔ کمپیئر نے جب طلائی تمغے کے لیے خواجہ صاحب کو بلایا تو وہ تو وہاں موجود نہ تھے۔ اس موقع پر انگریز چانسلر نے کہا کہ جس نے بھی یہ پوزیشن لی ہے وہ صحیح معنوں میں فلسفی ہے۔ دراصل انہیں کسی اور چیز سے زیادہ موسیقی سے شغف تھا اس کے باوجود انہوں نے ایم اے فلاسفی میں ہندوستان میں اول اور آئی سی ایس میں نمایاں ترین پوزیشن حاصل کی۔

خواجہ خورشید انور خان صاحب خواجہ توکل حسین خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد 1939میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہو گئے اور وہاں پر میوزک پروڈیوسر کے طور پر انجام دہی کرنے لگے۔ 1940میں اے آر کاردار ممبئی میں پنجابی فلم کڑھائی بنا رہے تھے تو ان کی نگاہ خواجہ صاحب پر پڑی، ان کو دعوت دی اور یہ پیش کش خواجہ صاحب نے قبول کرکے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ حالاںکہ اس وقت مشہور زمانہ موسیقار آرسی بورال ماسٹر غلام حیدر، شیام سندر، برمن، نوشاد اور فیروز نظامی کا طوطی بول رہا تھا، لیکن خواجہ صاحب کی انفرادیت اور فن پر عبور نے جلد ہی انہیں ایک اہم مقام پر پہنچا دیا “کڑھائی” میں کام یابی کے بعد خواجہ صاحب نے اشارہ ، پرکھ، یتیم، پروانہ، پگڈنڈی، آج اور کل، نگار، نشانہ اور نیلم پری کی موسیقی ترتیب دے کر اپنی آمد کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ پھر 1946اور 1949میں سال کے بہترین موسیقار کا اعزاز حاصل کرکے دنیائے موسیقی میں ہلچل مچا دی۔

انہوں نے ان موسیقاروں کی تربیت بھی کی جنہوں نے بعدازاں خوب نام کمایا۔ ان میں کوسی رام چندرروشن، اوپی نیر اور مختیار قریشی نمایاں ہیں۔ 1950میں جب خواجہ صاحب پاکستان تشریف لائے تو یہاں ماسٹر غلام حیدر، بابا چشتی، فیروزنظامی اور رشید عطرے کا موسیقی میں ڈنکا بج رہا تھا، لیکن پانچ سال بعد فلم “انتظار” میں کہانی اور موسیقی ترتیب دے کر سب کو پیچھے چھوڑ دیا، کیوںکہ 1956میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے باکس آفس پر کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کردییے اور تینوں شعبوں میں سال کے بہترین فلم ، بہترین کہانی اور موسیقی کے صدارتی ایوارڈ بھی”انتظار” ہی نے حاصل کیے اور ان کے گانوں نے بھی پاک و ہند میں مقبولیت حاصل کی جن میں

“جس دن سے پیادل لے گئے”

“او جانے والے رے”

“آ بھی جا ”

وغیرہ شامل تھے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جھومر، ہیررانجھا، گھونگھٹ ، چنگاری، شیریں فرہاد، زہر عشق، ایاز، مرزا جٹ، حویلی، کوئل اور نیلم پری جیسی فلموں میں اتنی اچھی اور معیاری موسیقی ترتیب دی کہ اپنے 40 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے صرف 31 فلموں کی موسیقی ترتیب دے کر 10فلموں میں انہوں نے سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا فلم ہیر رانجھا کا نغمہ

ـ” سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے”

بلاشبہہ خواجہ خورشید انور اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گیتوں میں شاہکار کا درجہ حاصل کر گیا اسی طرح

” مجھ کو آواز دے کہاں ہے چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا دل رم جھم پڑے پھوار، او جانے والے رے ٹھہروذرا رک جاؤ” جیسے گیتوں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔

ماچس کی ڈبیا پر دھنیں تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کی فلم انتظار کو پاکستانی صدر سکندر مرزا ایران کے دورے پر ساتھ لے گئے تو وہاں شہنشاہ ایران نے ان کی موسیقی کی تعریف کی اور انہیں “کنگ آف میلوڈی” کا خطاب دیا۔ انڈیا کے دورے میں بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کشن نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا۔ اسی فلم سے میڈم نورجہان کو ملکہ ترنم کا خطاب ملا۔ اس فلم کو تین ایوارڈ ملے۔

1958میں معرکۃ الآرا فلم زہر عشق ریلیز ہوئی تو خواجہ خورشید انور نے میانوالی سے تعلق رکھنے والے نام ور میوزک ڈائریکٹر ریڈیوپاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کو بطور گلوکارہ متعارف کرایا جن کی جادو بھری آواز نے شائقین کے دلوں کو مسخر کرلیا۔

” چلی رے چلی رے بڑی آس لگا کے چلی رے” اپنے دور کا مشہور گانا ثابت ہوا۔ عظیم موسیقار خواجہ خورشیدانور کو برصغیر کے چوٹی کے موسیقاروں میں شمار کیا جاتا ہے وہ ایک صاحب طرز موسیقار تھے جنہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر فلمی گانے کمپوز کیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ فلم “جھومر” میں ناہید نیازی کے گائے ہوئے گیت” مو ہے پیا ملن کو جانے دے بیر نیا” کے بارے میں موسیقار اعظم نوشاد نے کہا تھا کہ خورشید انور یہ گانا میرے نام کر دیں تو میں اپنے نغمات ان کے نام کرنے کو تیار ہوں۔

خواجہ خورشید انور نے ایک نئے انداز سے موسیقی ترتیب دی اور متعارف کرائی جس میں ردھم کی روانی اور استائی اور انترہ کے مابین سازوں کی خوبصورت مگر مختصر کمپوزیشن یعنی” پیس” بنانے کی شروعات کیں اس طرح ایک نئے رجحان کا آغاز ہوا اور اس نئی روایت کے پیش نظر محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت محمود، آشا بھوسلے، وغیرہ کے لیے راستہ ہموار کیا جس کا سبب یہ ہوا کہ برصغیر کے فلمی موسیقی کا سنہرا دور ثابت ہوا اور خواجہ خورشید انور ہی کی موسیقی کی وجہ سے وہ گیت تیار ہوئے کہ جنہیں صدیوں تک سنا جاتا رہے گا۔ خواجہ صاحب علم موسیقی کے بے کراں سمندر تھے وہ نہ صرف موسیقی کے مختلف پہلوؤں کا عمیق جائزہ لیتے بلکہ گانے والے کی آواز کی کوالٹی بھی ہر طرح سے پرکھتے۔ خواجہ خورشید انور نے لاتعداد انعامات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

1946ء، 1949ء، 1956ء، 1958ء، 1962ء، 1964ء، 1967ء، 1970ء، 1978اور 1982میں انہوں نے پروانہ، سنگھار، انتظار، زہرعشق، گھونگھٹ، ہمراز، چنگاری، ہیر رانجھا، حیدر علی اور مرزاجٹ پر سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کیا جب کہ 1980میں انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ فلمی موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ انہوں نے آہنگ خسروی کے عنوان سے تیس لانگ پلے پر مشتمل البم تیار کی جواب کیسٹس اور سی ڈیز میں دست یاب ہے۔

ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون اور راگ مالا تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کو 1982میں انڈین فلم انڈسٹری کی جانب سے ” فانی انسان لا فانی گیت ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ خواجہ صاحب کو اس کے باوجود اپنی جنم بھومی سے بے حد پیار تھا۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی تو میانوالی ضرور تشریف لاتے۔ بابائے تھل فاروق روکھڑی ( ہم تم ہوں گے بادل ہوگا۔۔۔کے شاعر) سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے۔ ان کے کئی گیتوں کی دھنیں بھی خواجہ خورشید انور نے بنائیں۔ وہ جب بھی میانوالی آتے تو ان کے گھر کندیاں میں ضرور قیام کرتے۔

تنہائی پسند کم گو خوش گفتار، خوش مزاج، باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور نے 40 سالہ طویل فلمی سفر میں 14 سال انڈیامیں گزارے اور 11 فلموں کی موسیقی دی، 26 سال پاکستان میں کیریر جاری رکھا اور20 فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا، یوں انہوں نے کُل 31 فلموں میں موسیقی دینے کے علاوہ 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

برصغیر میں موسیقی کے بے تاج بادشاہ خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30اکتوبر 1984بروز منگل بوقت دو پہر 2 بجے اس جہان فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرگئے۔ انہیں لاہورکے میانی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

موسیقی کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی یا تخلیق کی جائے گی برصغیر کے عظیم و نامور موسیقار خواجہ خورشید انور کے نام کے ساتھ میانوالی میں پیدا ہونے کی وجہ سے میانوالی کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

The post خواجہ خورشید انور appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

یہ جیون مصفّا پانی کا کوئی چشمہ بھی نہیں کہ بس بلا کسی خدشے کے اس سے سیراب ہُوا جائے، کوئی آبشار اور جھرنا بھی نہیں کہ بس اس سے فیض یاب ہُوا جائے، یہ سب اس کا ایک حصہ تو ہوسکتے ہیں، جُز تو ہیں یہ کُل نہیں۔

جیون تو کبھی جوہڑ، جی! تعفن زدہ جوہڑ بھی بن جاتا ہے۔ یہ جیون ہر پل نیا رنگ اور نیا روپ دھارتا ہے۔ روپ بہروپ ہے یہ تو، کبھی آسان کبھی دشوار کبھی دشوارتر۔ کبھی تو یوں لگتا ہے بس بہار ہی بہار ہے اور فریب ایسا کہ جیسے اس بہار کو کبھی خزاں چُھو کر بھی نہیں گزرے گی، خودفریبی میں ڈال دینے والی۔ کبھی تو ایسی روشن کہ کیاکہنے اور کبھی ایسی سیاہ کالی کہ سب کچھ مٹا دے، عجب ہے یہ زندگی۔

فقیر کو تو یہی سمجھایا گیا ہے جی! لیکن مجھ کوڑھ مغز کے پَلے پڑا کچھ نہیں۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں آسائشات اور چکاچوند ترقی۔ واہ جی واہ کیا بات ہے! جس طرف نگاہ اٹھائیے ترقی۔ کبھی ایسا لگتا ہے ناں کہ ترقی کے ساتھ زندگی بھی خودکار ہوگئی ہے۔ اب ہم خود نہیں چلتے ہمیں ترقی چَلاتی ہے۔ کچھ پاگل اس ترقی کو انسانیت کی موت قرار دیتے ہیں، لیکن چلیے وہ تو پاگل ہیں ناں فقیر کی طرح اور اتنا تو سب جانتے ہی ہیں کہ بے وقوفوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے، بالکل بھی نہیں۔

فقیر کے کئی پاگل یار بیلی ہیں، جی رب تعالٰی نے بہت عنایت فرمائی ہیں جی! شُکر مالک کا۔ ہاں تو فقیر نے ایک دن اپنے ایک پاگل لیکن ندیم باصفا کو گھیر لیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ زندگی کے ہر شعبے میں شان دار ترقی ہوئی ہے۔ لیکن وہ مجھ سا ناسمجھ سمجھ کے ہی نہیں دیا بل کہ بحث کرنے لگا۔ جب بات طول پکڑ گئی تو چیخنے لگا: بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا تُو۔ تو فقیر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں غلط کہہ رہا ہوں کیا، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے، دیکھ تو کتنی آسانی ہوگئی ہے، ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ بہ رنگی گاڑیاں۔ رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب ہم کہیں بھی نہیں چُھپ سکتے۔

ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی۔ ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔ کتنے پُرسکون ہوگئے ہم، اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں، نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بِل بورڈز اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ دل کش ہے۔ یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ ۔۔۔۔!

اُس نے چند لمحے تو فقیر کی اتنی دانش بھری باتیں سنیں اور پھر مجھ سے الجھ گیا: بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ بے ہودہ کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیر ہی اندھیر، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ تیری یہ سحر انگیز گفت گُو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

فقیر بھی کوئی ہار ماننے والا کہاں جی! تو اس نادان کو پھر سے سمجھانے لگا: لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیر ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تُو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہرنفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔ تو وہ کہنے لگا: تُو باز نہیں آئے گا ناں۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جان سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔ وہ فقیر کا دوست ہے تو اسے کیسے چھوڑا جاسکتا تھا تو فقیر نے کہا: تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا، قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تُو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس ۔۔۔۔!

لیکن وہ تو نرا گاؤدی ہے جی! بالکل سمجھ کے نہیں دیا اور فقیر سے لڑنے پر اتر آیا اور کہنے لگا: اچھا! اب تُو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تُو ہے ذہنی بیمار۔ تُو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سُن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں۔ کس کے لیے ہے۔۔۔۔؟ انسان کے لیے ناں۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دُکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مُٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے۔۔۔۔ چند سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔ ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس، خود غرض اور مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔

اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر شاطروں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنادیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کردیا، انسان انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔ یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا اور اسے پُرکشش بنایا ہے۔ تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے۔ بس ان کا کام چلتا رہے۔ اصل ترقی انسان کو بام عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے۔ لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے۔۔۔۔ ؟ اسے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ ؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں۔

سب دُکھی ہیں۔ خوشی تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بَلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے سُہانا، جب دنیا کے وسائل پر قابض چند مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا، جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا۔ ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔ فقیر اس کا بے سر و پا بھاشن کب تک سنتا تو کہا: اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں۔ جو اس ترقی کو ترقی نہیں غلامی کہتے ہیں۔ مایا جال کہتے ہیں، فقیر وہاں سے آنے لگا تو وہ کہنے لگا: ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا۔

لیکن فقیر کو لگتا ہے کہ وہ پاگل درست سمجھتا ہے، کیا پتا۔ لیکن چلیے اب ہم ایک منظر دیکھتے ہیں۔ آپ نے بھی وہ منظر دیکھا ہوگا اور ناک پر رومال رکھ کر وہاں سے گزر گئے ہوں گے۔ آخر ان سے ہمارا کیا رشتہ ناتا ؟ ان کا تو یہ کام ٹھیرا۔ آخر وہ اس کا معاوضہ پاتے ہیں، کوئی احسان تو نہیں کرتے ناں۔ اور بس یہی سوچتے ہوئے ہم انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں ہم پڑھتے اور سنتے ہیں کہ وہ گٹر کی صفائی کے لیے اترا اور پھر وہیں کا ہو رہا۔ جب اسے بہ مشکل نکالا گیا تو اس کی لاش پُھول چکی تھی اور ہم نے اپنی جیب سے ایک بار پھر رومال نکال لیا تھا۔ ایک خونیں گٹر ایک زندہ انسان کو نگل گیا۔ کچھ دیر کے لیے شاید ہم جاگ بھی گئے ہوں لیکن پھر آنکھیں موند لیں۔ لیکن آنکھیں مِیچ لینے سے حقائق تو نہیں بدلتے!

ہم سب یک زبان ہوکر چیخ رہے ہیں کہ ہم باوقار ہوکر دور جدید کا سامنا کریں گے۔ ہماری کون سی کَل سیدھی ہے۔ ہم نے آخر کیا ہی کیا ہے جو ہم اس قدر خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ فلک بوس عمارتیں بنا ڈالیں، خوب صورت پلازے کھڑے کرلیے، کنکریٹ کا بے ہنگم جنگل اگا لیا، انڈر پاسز اور فلائی اوور بنالیے، اس لیے؟ اور وہ بھی بغیر کسی منصوبے کے۔ جس سماج میں تکریم انسانیت ختم ہوگئی ہو، اسے آپ معاشرہ کہتے ہیں! ہم مادیت کے اس اندھے اور بے حس غار سے نکلیں تو سوچیں بھی۔ آپ کی دانش وری بجا، آپ ترقی کو رو رہے ہیں۔ فقیر کو کہنے دیجیے ہم تو ابھی تک گٹر کی صفائی کے قابل بھی نہیں ہوسکے۔ ہم زندہ سلامت انسانوں کو ان خونیں گٹروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ وہ مجبور انسان کبھی زہریلی گیس کی نذر ہوجاتا ہے یا پھر اس میں بہہ جاتا ہے۔ ہم نے ان کی صفائی کے لیے کوئی جدید مشینری کیوں نہیں لی اور اگر وہ موجود ہے تو کہاں ہے؟ پھر آپ ان مجبور انسانوں کو قربان کرکے انسانیت کی تذلیل کیوں کررہے ہیں؟

فقیر نے گندگی سے لبالب بھرے گٹر میں ایک زندہ انسان کو کھڑے ہوکر صفائی کرتے دیکھا تو میرے پاؤں شل ہوکر وہیں چپک گئے۔ کچھ دیر فقیر کھڑا رہا تو وہ مسکرا دیا: ’’دیکھو باؤ جی! گندگی تُسی پھیلاتے ہو اور جب ہم اسے صاف کرتے ہیں تو ہم کو بھنگی بولتے ہو اور آپ لوگ صاف۔ فقیر نے اس سے بات کرنا چاہی تو اس نے دھتکار دیا۔ اسے یہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن فقیر نے تہیّہ کرلیا تھا کہ اب بات ہوگی اور ضرور ہوگی۔

آخر موتی میرے کام آیا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے کام آتا ہے۔ اس نے ایک ایسا ہی فرد ڈھونڈ نکالا اور فقیر اس کی نظرانداز کی گئی بستی میں جا نکلا۔ لوگ اپنی تنگ و تاریک، غلیظ اور حبس زدہ کھولیوں کے باہر آڑی ترچھی گلیوں میں چادر بچھائے بیٹھے تھے۔ کچھ تاش کھیل رہے تھے۔ فقیر اندھی گلیوں سے ہوتا ہوا اس کے گھر پہنچا۔ بچوں کا ایک جلوس ہمارے پیچھے تھا۔ جسے موتی کے ایک پتھر اور موٹی سی غلیظ گالی نے منتشر کردیا۔

یہ ہے عنایت مسیح! جس نے ہماری پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنے میں اپنی عمر گزار دی، اور ہم نے اسے کیا دیا۔۔۔؟

میرے والد ہیرا مسیح کسان تھے۔ تم یوں سمجھو کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو انھیں مزدوری کرتے پایا۔ زمین کی مزدوری ہل چلانا ہی ہوتی ہے۔ میں گوجراں والا کے ایک دیہات میں پیدا ہوا۔ پڑھ لکھ نہ سکا اس لیے کہ ہم صرف کام کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور پڑھے لوگ ہمارے اوپر راج کرتے ہیں۔ میں اپنے والد کے ساتھ ہی مزدوری کرتا تھا۔

میری عمر 20 سال کی ہوئی تو میری شادی کردی گئی۔ میری تین لڑکیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ اب وہی بیٹا ہے۔ تینوں لڑکیاں انتقال کرگئیں۔  میں سوہنی زندگی کی تلاش میں کراچی پہنچا، یہاں اپنے ہی لوگوں میں پہنچا۔ وہ یہی کام کرتے تھے۔ مجھے نوکری مل گئی، یہی نوکری کہ گٹر کھولنا میرا کام ٹھیرا۔ مجبوری تھی۔ پیٹ لگا ہوا ہے ناں، ہر کام یہ پیٹ دوزخی کراتا ہے۔ یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں گٹر صاف کروں گا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کپتان بنوں گا، تھانے دار بنوں گا یا پھر اچھی سی نوکری کروں گا۔ لیکن سوچنے سے کیا ہوتا ہے جی! جب بھوک سامنے ناچ رہی ہو، بچے بھوکے ہوں تو انسان ذلیل ترین کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک ہاتھ پھیلانا لعنت ہے۔ انسان گندگی صاف کرلے لیکن بھیک نہ مانگے۔ بس یہ سوچ کر میں نے یہ کام شروع کردیا۔

مجھے وہ پہلا دن آج بھی یاد ہے۔ جب میں گٹر میں اترا تو ہنس رہا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میں اندر سے بہت رویا کہ یہ کام بھی کرنا تھا۔ میرے دوستوں نے پوچھا کہ ہنس کیوں رہا ہے؟ میں نے کہا، محنت کررہا ہوں، خوش ہوں۔ تو میرے ایک دوست نے کہا، ہنس تو تُو ایسے رہا ہے جیسے صاب کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔ بس ایک دو دن مسئلہ رہا۔ پھر میں ایسا ہوگیا جیسے برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ گٹر میں اترو تو اس وقت تو یہی بات سر پر سوار ہوتی ہے کہ جلد از جلد گٹر کھل جائے اور اس عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ وہ کوئی گھر یا باغ تو نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے کہ میں زندہ قبر میں اتر رہا ہوں۔ اندر جگہ تنگ ہوتی ہے، گھٹن ہوتی ہے، گھبراہٹ کی وجہ سے کام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس وقت اور زیادہ مسئلہ ہوتا ہے جب گٹر پورا بھرا ہوا ہو۔ پھر ہمیں اندھوں کی طرح اندازے لگانا پڑتے ہیں۔ کبھی اندازہ درست ہوجاتا ہے، کبھی پورا دن لگ جاتا ہے۔ برسات کا موسم ہمارے لیے خاص کر مصیبت لاتا ہے۔

اتنے حادثات ہوگئے ہیں کہ ڈر تو بہت لگتا ہے لیکن مجبوری ہے۔ کام تو کرنا ہی ہے، ورنہ کھائیں گے کہاں سے، نوکری کرنی ہے تو نخرا کیسا۔ خطرہ تو ہر کام میں ہوتا ہے اگر ڈرائیور کو دیکھیں اس کا بھی ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، جہاز بھی گر جاتا ہے، بس یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتا ہوں۔ آپ خود سوچیں، آپ کے جسم پر اگر چند قطرے بھی گندا پانی لگ جائے تو آپ نہانا شروع کردیتے ہیں، ہمیں دیکھیں اس پانی اور غلاظت میں کھڑے رہ کر کام کرتے ہیں۔ اس سے جلدی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ہزار طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے گلوکوز لگا دیا۔ لال پیلی گولی دے دی، ہم کون سا افسر ہیں جو ہمارا اچھا علاج ہو۔ ہم مرجائیں گے تو اور بہت ہیں، اگر افسر مرجائے تو کہاں سے آئے گا۔ ہمارے ہاں ہر آدمی دوسرے آدمی کے کام کو گھٹیا سمجھتا ہے۔

ہر آدمی صاب ہے یہاں۔ صاب ڈرائیور کو گھٹیا سمجھتا ہے، چھوٹے صاب کو بڑا صاب گھٹیا سمجھتا ہے، اس طرح سے سب ایک دوسرے کو گھٹیا سمجھتے ہیں، ہماری تو گنتی چھوڑو۔ ہمارے ساتھ عام اور خاص لوگوں کا رویہ یک ساں ہے۔ دنیا کے کم تر لوگ ہم ہیں۔ چاہے یہاں کتنی بھی ترقی ہوجائے لوگوں کا رویہ نہیں بدلے گا کیوں کہ ہمارے ہاں پیسا خدا ہے۔ ہر آدمی پیسے کو سلام کرتا ہے اگر میرے پاس دولت آجائے تو جو لوگ ہم سے سیدھی طرح بات نہیں کرتے ہمارے ساتھ مل کر کھانا بھی کھائیں گے۔ دولت ہر عیب چھپا لیتی ہے، ذات چھپا لیتی ہے۔ ہر آدمی ہمیں بھنگی کہتا ہے۔ ہم سب جو نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں ہیں۔ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔ کسی کے پاس زہر کھانے کو نہیں ہے۔ کسی کے پاس پیسے گننے کی فرصت نہیں ہے۔

آئیے! فقیر کے سنگ ترقی کا راگ ضرور الاپیے لیکن ٹھہریے! کتنے انسانوں کی دست رس میں ہیں یہ ساری آسائشات۔۔۔۔۔؟

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

اہل پاکستان کو قیمتی سبق دیتا جاپان

$
0
0

چند دن قبل لاہور کی مرکزی شاہراہ، مال روڈ پر محو خرام تھا۔ میری بائیک سے آگے ایک  کار جارہی تھی۔ اچانک دیکھا کہ کار سے ایک ہاتھ نکلا اور اس نے چپس کا خالی لفافہ باہر پھینک دیا۔ ظاہر ہے، کار میں بیٹھا مسافر صفائی کے اس بنیادی اصول سے بھی نابلد تھا کہ راہ چلتے اپنا کوڑا کرکٹ سڑک پر نہ پھینکو۔ یہ  غیر اخلاقی ہی نہیں غیر قانونی حرکت بھی ہے۔

افسوس کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، کراچی سے خیبر تک شاہراہوں پر سفر کرتے یا محلوں میں گھومتے پھرتے اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ کسی مرد یا عورت نے یوں لاپروائی سے گذرگاہ پر کچرا گرا دیا جیسے یہ معمولی بات ہو۔ بظاہر تعلیم یافتہ نظر آنے والی خواتین و حضرات بھی یہ غیر معقول حرکت کر ڈالتے ہیں۔ ہم وطنوں کی اس دیرینہ عادت بد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان بھر  میں سڑکوں اور محلوں میں کچرے کے انبار  نمودار ہو چکے۔کراچی  اور لاہور میں تو کوڑا کرکٹ یوں بکھرا دکھائی دیتا ہے جیسے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔

پہلی تربیت گاہ

حیرت انگیز بات یہ کہ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس قول کے برعکس عمل کرتی  ہے۔ جبکہ غیر مسلم دنیا میں اس نصیحت پر صدق دل سے عمل ہوتا ہے۔ اس سچائی کی ایک نمایاں مثال جاپانی قوم ہے۔دو سال پہلے فٹ بال عالمی کپ کے میچوں میں جاپانیوں نے صفائی ستھرائی کے اپنے جوہر دکھا کر سبھی لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ جب میچ ختم ہوتا تو جاپانی ٹیم کے ارکان ڈریسنگ روم کی مکمل صفائی کرکے اپنے ہوٹل روانہ ہوتے۔

اسی طرح جاپانی تماشائی اسٹیڈیم میں رک جاتے۔ جب وہ خالی ہوتا تو جاپانی وہاں بکھرا کوڑا جمع کرتے اور ایک جگہ اکٹھا کردیتے۔ان کے اس مثالی عمل کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔  سوال یہ ہے کہ جاپانی قوم صفائی ستھرائی پر اتنا زور کیوں دیتی ہے اور اس نے یہ پسندیدہ عادت کیونکر حاصل کی؟وجہ یہ ہے کہ جاپان کے اسکولوں میں پہلی جماعت سے ہر بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ اپنے آپ اور اپنے ماحول کو کیسے صاف رکھنا ہے۔

یہی نہیں، ہر گھر میں والدین بھی بچوں کو تربیت دیتے ہیں کہ صفائی ستھرائی کس طرح انجام دی جائے۔ نوخیز عمر ہی سے صفائی کا عادی ہوجانے کے باعث پاک صاف رہنے کی عادت ہر جاپانی کی سرشت کا حصہ بن چکی۔جاپان کے تمام اسکولوں میں رواج ہے کہ جب پڑھائی ختم ہو تو اساتذہ تمام طلبہ و طالبات کو مختلف ٹیموں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ایک  جماعتوں کی صفائی کرتی ہے۔ دوسری برآمدے اور میدان صاف کرنے پر مامور ہوتی ہے۔ تیسری غسل خانوں اور جائے حاجت کو پاک صاف کرتی ہے۔ بعض بچے تیسری ٹیم میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ مگر مجبوراً انہیں گندگی صاف کرنا پڑتی ہے کہ دیگر بچے بھی یہ ناگوار کام ذمے داری و تندہی سے انجام دیتے ہیں۔

کوڑا کہاں پھینکتے ہیں؟

میرے والد 1968ء میں نیشنل بک سینٹر کی طرف سے ایک مطالعاتی و تعلیمی دورے پر جاپان گئے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ہم پاکستانی جاپان پہنچے تو اسے اتنا زیادہ صاف ستھرا ملک پایا کہ سبھی حیران رہ گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ انیہں عوامی جگہوں پر بھی کوڑا دان بہت کم نظر آئے۔ وہ حیرت سے سوچتے کہ آخر جاپانی کوڑا کرکٹ کہاں پھینکتے ہیں؟ پھر جمعدار اور صفائی کرنے والے بھی خال خال دکھائی دیتے۔ جب  جاپان میں دو ماہ گزرے، تو مشاہدے سے  معلوم ہوا کہ تمام شہری مل جل کر گھر ہی نہیں اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ گویا جاپان میں شہریوں نے اپنے دیس کو پاک صاف رکھنا اپنا دین و ایمان بنالیا ہے۔وجہ یہی کہ گود میں آتے ہی ہر جاپانی بچے کو صفائی ستھرائی کی تعلیم و تربیت ملنے لگتی ہے۔ بڑے بوڑھے بچوں کو یہ بنیادی سبق دیتے ہیںکہ اپنے آپ اور ماحول کو گندا رکھنا بری بات ہے۔

جب بچہ اسکول میں داخل ہو، تو وہاں اسے صفائی کرنے کی عملی تربیت ملتی ہے۔ تربیت کے باعث بچے صفائی ستھرائی کی اہمیت سے آگاہ ہوتے اور اس کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ان کے لیے پھر اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا وجہ فخر و امتیاز بن جاتی ہے۔ وہ پھر گھر، اسکول یا کسی بھی جگہ کوگندا کرنا کیوں چاہیں گے جیسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا ؟پندرہ سالہ جسیکا ہیاشا ایک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ بتاتا ہے ’’اسکول کی لیٹرین  صاف کرنے سے مجھے الجھن ہوتی تھی۔ لیکن جب صفائی روزمرہ کا معمول بن گئی تو میری الجھن بھی جاتی رہی۔ا ب میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان  اپنے گھر اور ماحول کی صفائی کرے۔ وہ جن جگہوں میں رہتا بستا، اٹھتا بیٹھتا ہے، انہیں پاک صاف رکھنا اس کا فرض ہے۔‘‘

جب  اپنی آنکھیں میلی ہوں

جاپان میں عام رواج ہے کہ ہر جاپانی جوتوں کے دو جوڑے رکھتا ہے۔ ایک جوتے وہ جو باہر چلتے پھرتے پہنے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو گھر یا دفتر کے اندر استعمال ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب کوئی الیکٹریشن یا پلمبر کام کرنے کسی کے گھر  جائے، تو وہ اپنے جوتے ڈیوڑھی میں اتار دیتا ہے۔ وہ پھر موزے یا دی گئی چپل پہنے گھر میں گھومتا پھرتا ہے۔غرض جاپان میں ابتدائی عمر سے شہریوں کو صفائی ستھرائی کا شعور دینے سے نہایت مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ بچے جوں جوں بالغ ہوں، تو ان میں صفائی کا شعور گھر و اسکول سے نکل کر محلے، شہر حتیٰ کہ پورے ملک کا احاطہ کرلیتا ہے۔ جاپانی دانشور، ناکا سونے شاخی کہتی ہیں ’’ہم جاپانی اس بارے میں بہت حساس ہیں کہ دوسرے ہمارے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ دوسرے لوگ ہمیں برا بھلا کہیں اور یہ کہ کیسے جاہل ہیں جنھیں صفائی ستھرائی کی  تعلیم و تربیت ہی نہیں ملی۔‘‘

پاکستان میں کوئی عوامی تقریب منعقد ہو یا میلہ لگے، تو اس کے خاتمے پر کوڑا کرکٹ اتنا زیادہ بکھرا دکھائی دیتا ہے کہ الامان الحفیظ! لگتا ہے کہ وہاں انسان نہیں جانور جمع تھے۔ مگر جاپان میں ایسا دلخراش منظر روح کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ وجہ یہ ہے کہ چھوٹی سی بھی عوامی محفل سجے، تو ہر شہری اپنا کچرا اپنے پاس رکھتا ہے۔ پھر جب موقع ملے، تو ڈسٹ بین میں پھینک دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ مونگ پھلی کھائی تو چھلکے وہیں زمین پر پھیک دیئے۔ مالٹے کھائے تو بیجوں سے گھاس پر چاند ماری کی جارہی ہے۔ ایسے مضحکہ خیز منظر وطن عزیز ہی میں چشم براں ہوتے ہیں۔جاپان میں موسیقی کا پروگرام ہو یا اسٹیڈیم میں میچ ، تمام لوگوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ایش ٹرے ساتھ لائیں۔ نیز ایسی جگہ ہرگز سگریٹ نہ پئیں جہاں دھواں دوسروں کے لیے پریشان کن بن جائے۔

کہتے ہیں، دنیا کو تب ناپاک اور گندا مت کہو جب تمہاری اپنی آنکھوں کے شیشے میلے ہوں۔ تمام جاپانی اس سچائی سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لیے وہ عمل صفائی کو روزمرہ کا معمول بناچکے۔ آپ صبح سویرے جاپانی شہروں کی سڑکوں کا چکر لگائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ دکانوں کے مالک اور دفاتر کے کارکن اپنی جگہیں خود صاف کررہے ہیں۔ اسی طرح ہر محلے میں مہینے میں ایک بار تمام بچے مل جل کر ذوق و شوق سے گلیوں کی صفائی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ  کہ گلیاں پہلے ہی صفاف ستھری ہوتی ہیں پھر بھی انھیں بڑے جذبے سے چمکایا دمکایا جاتا ہے۔ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ بچوں میں صفائی کا جوش و جذبہ اور رجحان پیدا ہوجائے۔

کسی کو تکلیف نہ پہنچے

حد یہ ہے کہ جاپانی بینکوں کے اے ٹی ایم سے کرنسی نوٹ اور سکے صاف ستھری حالت میں اور کڑکڑاتے ہوئے برآمد ہوتے ہیں۔ کرنسی نوٹ اورسکے روزانہ کئی ہاتھوں سے گزرنے کے باعث گندے ہوجاتے ہیں۔ جاپانیوں نے انہیں صاف ستھرا رکھنے کا بھی انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ دکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسیوں اور دیگر عوامی مقامات پر ایک چھوٹی سی ٹرے رکھی ہوئی ہے۔ نوٹ یا سکے دینے والا کرنسی ٹرے میں رکھتا اور لینے والا اسے اٹھا لیتا ہے۔ غیر مرئی جراثیم اور وائرس بھی گندگی و بیماری پھیلاتے ہیں۔ لہٰذا جب کسی جاپانی کو نزلہ، زکام یا کھانسی تو وہ منہ پر ماسک پہنتا ہے تاکہ اس کا مرض دوسرے لوگوں تک منتقل نہ ہو۔ گویا جاپانی یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ ایک آفاقی و اعلیٰ نظریہ ہے۔ہمارے ہاں تو دوسروں  کی موجودگی سے بے خبر ہو کر بلغم راہ پر پھینکنامعمول بن چکا۔

اس نیک عمل کی بنیاد دراصل قدیم جاپانی مذہب، شنتومت کے ایک نظریے میں پوشیدہ ہے۔ شنتو کے معنی ہیں ’’دیوتاؤں کا طریق کار‘‘۔ اس مذہب کا ایک بنیادی نظریہ ’’کیگیر‘‘ (Kegare) کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے ناپاکی ۔اس نظریے کی رو سے اگر کوئی انسان ناپاک ہوجائے، تو پھر وہ اپنے آپ ہی نہیں معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ بن جاتا ہے۔

اسی لیے ضروری ہے کہ ہر پیروکار پاک صاف رہے۔ یوں پورا معاشرہ بھی صاف ستھرا، صحت مند اور توانا رہے گا۔گویا اسلام کی طرح شنتومت کے مطابق بھی پیروکاروں کا صاف ستھرا رہنا مذہبی اصول بلکہ ایمان کا حصّہ ہے۔جاپان میں بدھ مت کی ایک قسم’’زین‘‘( Japanese Zen)کے پیروکار بھی بہ کثرت موجود ہیں۔اس مذہب میں بھی معمول کے کام مثلاً صفائی ستھرائی کرنا اور کھانا پکانا عبادت کے مانند روحانی عمل سمجھے جاتے ہیں۔گویا کوئی پیروکار انھیں انجام دے تو وہ ایک طرح سے عبادت کرتا ہے۔آپ نے شاید نوٹ کیا ہو ،جاپان میں کھانے پینے حتی کہ چائے کے وقت بہت اہتمام ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ جاپانی جائے طعام پر مٹی کا ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کرتے۔جاپان میں مشہور ہے کہ کمرا طعام میں معمولی سا کچرا بھی پایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اہل خانہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں خام اور بے پرواہ ہیں۔

 اچھے کام کرنا  مشکل نہیں

ہمارے ہاں بھی یہ رواج ہے، جب کوئی خدانخواستہ کسی چھوت کی بیماری کا نشانہ بن جائے تو مریض یا اس کے عزیز اقارب اہتمام کرتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ رہے۔مدعایہ ہے کہ اس کی بیماری سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں اور انھیں نقصان نہ پہنچ سکے۔جاپان میںنظریہ ’’کیگیر‘‘ (Kegare)کے باعث یہ طرز ِفکر ہر شعبہ ہائے زندگی میں راسخ ہو چکا۔یہی وجہ ہے،ہر جاپانی اپنا کوڑا خود اٹھاتا اور اپنے ماحول کو حتی الوسع صاف ستھرا رکھتا ہے۔اس عمل کے پس پشت یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ انسان اپنی کسی حرکت سے دوسرے انسانوں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ہم مسلمان رب ِتعالی کے حضور جانے سے قبل وضو کرتے ہیں۔اسی طرح جاپانی بھی اپنے عبادت خانے میں داخل ہونے سے پہلے ہاتھ اور منہ پانی سے دھوتے ہیں۔کئی جاپانی کوئی نئی شے مثلاً گاڑی خریدیں تو وہ اسے پاک ومنزہ کرانے  راہب کے پاس جاتے ہیں۔راہب بڑے سے پَر کے ذریعے گاڑی کو چاروں طرف سے چھو کر اسے پاک صاف کر دیتا ہے۔نیا گھر خرید کر بھی یہی عمل کیا جاتا ہے۔

جاپان میں کوڑے کرکٹ کے سلسلے میں ایک اچھوتا اور مفید رواج جنم لے چکا۔ہم پاکستانی تو گھر یا دفتر کا سارا کچرا ایک شاپر میں جمع کر تے ہیں چاہے وہ جیسا بھی ہو۔جاپانی مگر کوڑے کو دس مختلف اقسام میں تقسیم کر کے ہر قسم الگ شاپر میں رکھتے ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا ایک شاپر میں جاتی ہیں۔پلاسٹک کی ردّی چیزیں وہ دوسرے شاپر میں  رکھتے ہیں۔کاغذ کا کوڑا تیسرے شاپر میںجاتا ہے۔غرض جاپانی مختلف نوعیت کا کوڑا علیحدہ تھیلیوں میں ڈالتے ہیں۔اس طرح ہمہ اقسام کا کوڑا مل جل کر ایک کریہہ المنظر ملغوبہ نہیں بن پاتا۔اس عمدہ عادت کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ پلاسٹک،کاغذ،دھاتوں اور دیگر کوڑے کو قابل استعمال بنا لیا جاتا ہے۔گویا جاپانی کچرا بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ۔انھوں نے اسے بھی ری سائیکل کرنے کا سودمند گُر سیکھ لیا۔

مزے کی بات یہ کہ جو غیرملکی جاپان میں قیام پذیر ہو جائے ،وہ چند ماہ میں جاپانیوں کے طورطریقے سیکھ جاتا ہے۔وہ جھک کر،عاجزی سے شکریہ ادا کرتا ہے۔دوسروں کے منہ پر نہیں چھینکتا اور نہ اپنا کوڑا لاوارث  چھوڑتا ہے۔یوں اس کی جسمانی وروحانی صحت بہتر ہوتی ہے۔جاپان پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ نیکی  پھیلانا اور اچھے کام کرنا چنداں مشکل نہیں،بس اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے اور جسے جاپانی قوم فخر وانبساط سے اپنا چکی۔

The post اہل پاکستان کو قیمتی سبق دیتا جاپان appeared first on ایکسپریس اردو.

فنِ موسیقی زوال کا شکار کیوں؟

$
0
0

 کسی بھی ملک اور معاشرے کی اصل پہچان اس کی ثقافت، تہذیب، رسم ورواج، فنون لطیفہ، علاقائی کھیل اور قدیم ورثہ ہوتا ہے۔

برصغیر میں موسیقی یہاں کے باشندوں کی رگوں میں گردش کرتی ہے، یہاں توموسیقی، قوالی کی شکل میں مذہب سے بھی واستہ ہوچکی ہے، عوام موسیقی کے اثرات فوراً قبول کرتے ہیں مگر پاکستان میں اصل فن موسیقی ناقدری کا شکار ہو رہا ہے، مُدھر تانوں کی جگہ ہیجان انگیز میوزک لے رہا ہے، ثقافتی تبدیلی کی زد میں موسیقی بھی آچکی ہے جس کا خمیازہ بہر حال کبھی بھی بھگتنا پڑے گا۔

آج بھی پرانے گیت،گانے، غزلیں، قوالیاں، کافیاں سُن کر روح پر سُرور طاری ہو جاتا ہے، موسیقی، شاعری اور آواز رگ و پے میں اُترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر چیز اپنے عروج کی جانب جا رہی ہے۔ مگر پاکستان میں شائد یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تقریباً ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے، خصوصاً موسیقی کا شعبہ بّری طرح زوال پذیر ہے۔ آج کا میوزک روح پر سُرور طاری نہیں کرتا بلکہ طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔

جب یورپ میں ’’ پوپ میوزک ‘‘  پاپولر ہو رہا تھا تو میوزک سے تعلق رکھنے والے وہاں کے مستند افراد کا کہنا تھا کہ ’’ پوپ میوزک ‘‘  اور  ’’ بریک ڈانس ‘‘  یورپ کے ’’ فر سٹر یٹڈ ‘‘  نوجوانوں کے اضطراب، فر سٹیشن اور ڈپریشن کو کم کرنے کا باعث بن رہا ہے، مائیکل جیکسن کے گانوں اور بریک ڈانس نے نوجوان نسل کو بہت حد تک متاثر کیا تھا اس سے پہلے مشہور گروپ  ’’بونی ایم ‘‘  بھی اپنے میوزک اور ہلکے پھلکے ’’ بریک ڈانس ‘‘  کی وجہ سے بہت پاپولر ہوا تھا مگر مائیکل جیکسن نے بریک ڈانس کو عروج پہنچایا، یورپین ماہر نفسیات نے ’’ بریک ڈانس ‘‘  کو نوجوانوں کی اضطرابی کیفیت کا علاج قرار دیا۔ مگر ماہرین موسیقی نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس نئے چلن سے موسیقی کی اصل روح مجروح ہورہی ہے۔ آ ہستہ آہستہ پاکستانی موسیقار اور گلوکار بھی جِدت کی اس لہر میں بہہ نِکلے، موسیقی سے موسیقیت رخصت ہوتی گئی، نئے آلات موسیقی کی مدد سے جو موسیقی ترتیب دی گئی، وہ مغربی موسیقی کا چربہ تھی یا اُس موسیقی سے متا ثر ہو کر دُھنیں بنائی گئیں مگر اس جِدت میں اصل موسیقی ہم سے دُور ہوتی گئی۔

نوجوان نسل بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ موسیقی دل کو چھونے والی یا سدا بہار نہیں ہے، کوئی بھی میوزک البم ، گانا، گیت یا قوالی چند دنوں یا چند ماہ کیلئے ’’ ہٹ‘‘ ہوتا ہے،  اس کے بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں کوئی بھی نئی چیز آتے ہی پُرانی چیز بالکل فراموش کردی جاتی ہے، اتنے زیادہ آلات ِ موسیقی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود جدید موسیقی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہے، شائد اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اب ’’ چل چلاؤ‘‘  اور ’’نقل ‘‘  سے کام چلایا جا رہا ہے، آ ج بھی تقریباً ہر پاکستانی کو کچھ نہ کچھ پُرانے گانے، گیت، غزلیں، کافیاں، قوالیاں یا لوگ ضرور یاد ہوتے ہیں۔

ساز اور آواز کسی بھی معاشرے میں بہت اہم مقام اور پہچان رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اچھی شاعری اور موسیقی دل و دماغ اور روح کو سکون اور تازگی بخشتی ہے، فرسٹر یشن اور ڈپریشن کو ختم یا کم کرتی ہے، شعبہ موسیقی کے زوال پذیر ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ’’ مادہ پرستی‘‘  ہے پہلے لوگ اس کام کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔انھوں نے اپنی عمریں اس فن کو سیکھنے اور سکھانے میں گزاردیں، وہ اس کام کو ہر قسم کی ستائش اور صلے سے بے پرواہ ہوکر کرتے تھے، مگر اب پیسہ کمانے کی دوڑ میں سب شامل ہو رہے ہیں تخلیق کی بجائے وہ کام کیا جا رہا ہے کہ جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل ہو سکے۔

میرا ذاتی طور پر فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے لاتعداد افراد سے گہرا تعلق رہا ہے، ان افراد کے ساتھ لاتعداد نشستیںرہی ہیں، غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری جب لاہور آتے تھے تو عموماً انار کلی بازار میں واقع دہلی مسلم ہوٹل میں قیام کرتے تھے، وہ عموماً قوالی کے پروگرامز کے سلسلے میں آتے تھے ان کی ٹیم ( ہمراہی ) بھی ساتھ ہوتی تھی۔ اسی ہوٹل میں کتھک ڈانس کے ماہر مہاراج کتھک( غلام حسین کتھک) بھی مستقل طور پر رہائش پذیر تھے، مہاراج کتھک کے ساتھ میرا دیرینہ تعلق تھا، انکا کمرہ ہوٹل کے فرنٹ والے حصے میں تھا۔

فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے افراد انکے پاس آتے تھے، یہ محفل رات گئے تک جمی رہتی۔  مہاراج کتھک شاعری ، مصوری ، موسیقی اور دوسرے شعبوں میں بھی دسترس رکھتے تھے، جب وہ گفتگو کرنے پر آتے توگھنٹوں بولتے جاتے، جب غلام فرید صابری اور مقبول صابری دہلی مسلم ہوٹل ٹھہرتے تو میری انکی ساتھ ملاقات ضرور رہتی، میں نے یہ بات بطور خاص محسوس کی وہ اپنے فن قوالی، موسیقی اور شاعری پر بہت زیادہ توجہ دیتے بلکہ اُنکا ہر لمحہ اس فن کی خدمت میں صرف ہو رہا تھا۔ وہ فن کی باریکیوں میں کھوئے رہتے تھے، ایک دفعہ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’ فن موسیقی میں شاعری، موسیقی، آواز اور انداز بہت اہمیت رکھتا ہے ایک چیز کی بھی کمی رہ جائے تو متاثر کُن ماحول نہیں بنتا۔‘‘   وہ کہنے لگے کہ ’’ وہ شاعری اور موسیقی پر خاص توجہ دیتے ہیں مگر جب وہ قوالی پیش کرتے ہیں تو وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو کر ’’ عشق مجازی ‘‘اور’’ عشق حقیقی ‘‘ میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ کیفیت سننے والوں کو بھی محسوس ہوتی ہے‘‘ اس نِشست میں انھوں نے بہت ساری باتیں کیں،آخر میں انھوں نے کہا کہ ’’ اگر کوئی فرد بھی یہ چاہتا ہے کہ فن کے حوالے سے اس کا نام امر ہوجائے تو اپنے آپ کو فن کے حوالے کردے، اس میں ڈوب جائے، ستائش و آسائش کی پرواہ نہ کرے۔ فن قسمت والوں کو مِلتا ہے پیسہ ہر کسی کو مِل جاتا تھا۔‘‘

پُرانے گلوکاروں میں ایک وصف مشترک تھا کہ انکی ساری توجہ فن کی جانب مرکوز ہوتی تھی۔ 1980 ء کی دھائی سے میرا ذاتی تعلق فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے لاتعداد فنکاروں سے رہا، ہمارے گھر میں ہونے والے ہر فنکشن میں یہ فنکار ضرور شریک ہوتے تھے۔ ہم لوگ گھنٹوںنجی محفلوں میں گفتگو کرتے، یہ لوگ فن موسیقی سے حقیقی محبت کرتے تھے، پرویز مہدی مرحوم میں بھی عجزو انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میں نے جب بھی ان سے کسی گانے کی فرمائش کی تو انھوں نے بِلا تامل یہ فر مائش پوری کی، وہ کہتے تھے کہ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں سُریلا اسی لئے بنایا ہے کہ ہم دکھی دِلوں کو تازگی دیں۔‘‘  پٹیالہ گھرانے کے اُستاد اختر علی خان اکثر و بیشتر شام کے وقت میرے پاس آ جاتے، انکا کہنا تھا کہ ’’ موسیقی ایک ایسا سمندر ہے کہ جسکی تہہ تک پہنچنا تو دور کی بات ہے سطح آب پر تیرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے‘‘  ایک دفعہ میں نے انھیں کہا کہ ’’ آپ یہ کہتے ہیں کہ موسیقی کی تہہ تک کوئی اُتر ہی نہیں سکتا، دوسری طرف نئے گلوکار اپنے آپ کوموسیقی کی معراج کہتے ہیں ‘‘ یہ سُن کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسے، کہنے لگے! ایسا صرف وہی سوچ سکتا ہے کہ جِسے اس فن کا عِلم ہی نہ ہو۔ ’’ کہنے لگے ’’ سریلا ہونا اور چیز ہے، ہِٹ ہونا بھی اللہ کی طرف سے ہے مگر فن موسیقی کو سمجھنا ایک بالکل الگ چیز ہے۔‘‘

مشہور کامیڈ ین الیبلا مرحوم، نشیلا مرحوم، شوکی خان مرحوم کی وجہ شہرت اگرچہ کامیڈی رہی ہے مگر یہ فنکار بہت سُر یلے بھی تھے، جب یہ اپنی گائیکی کا جادو جگاتے تو سامعین مبہوت رہ جاتے مگر ان کامیڈی فنکاروں نے اپنے آپ کو گلوکار کے طور پر روشناس نہیں کرایا۔ اداکارالبیلا سے میں نے کئی دفعہ کہا کہ وہ اپنی پہچان موسیقی کے حوالے سے بنائیں تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ فن ِ موسیقی ایک سمندر ہے جس میں غوطہ لگانا ماہرین کا ہی کام ہے، مگر یہ فنکار جہاں بھی اپنے فن یعنی کامیڈی کا مظاہرہ کرتے وہاں گاتے بھی تھے، مگر اپنے آپ کو گلوکار نہیں کہلوایا۔ اب تو اس شعبے میں زیادہ تر ایسے لوگ چھا چکے ہیں کہ جو موسیقی کو چھوڑ کر محض شور شرابا اپنا رہے ہیں۔

اصل موسیقی کے زوال کی وجہ

میڈیا بھی ہے:عنایت عابد

معروف گلوکار عنایت عابد کو فن موسیقی سے وابستہ ہوئے تقریباً پچاس برس گزر چکے ہیں انھوںنے موسیقی کی تعلیم اپنے چچا فقیر محمد عابد سے حاصل کی جو ریڈیو پاکستان ملتان میں بطور میوزک ڈائریکٹر خدمات سر انجام دے رہے تھے، جب عنائیت عابد سے یہ سوال کیا گیا کہ اب فن موسیقی زوال پذیر کیوں ہے؟ تو انھوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب اصل موسیقی کو سمجھنے والے اور اصل موسیقی سے محبت کرنے والوں کی کمی ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا موسیقی ایک ایسا فن ہے کہ جسے سمجھنے میں ہی کئی سال لگ جاتے ہیں،پہلی موسیقی اور موجودہ موسیقی میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے اس فن میں موسیقی کو سمجھنے والوں کو عزت اورعروج مِلتا تھا اب تیز میوزک کی مدد سے وقتی ہیجان پیدا کرنے والے وقتی طور پر پاپولر ہوتے ہیں، پہلے زمانے میں گلوکار سب سے پہلے کلاسیکی موسیقی سیکھتے تھے، کیونکہ موسیقی کی بنیاد ہی کلاسیکی موسیقی ہے۔

گائیکی میں سُرکی پہچان بہت ضروری ہے اور سُر کی پہچان مُستند اُستاد سے سیکھنے سے آتی ہے اگر کسی کی آ واز اچھی اور اُسے گانے کا شوق ہو تو اُسے راگ اور راگنیوں سے سیکھنا شروع کرنا چاہیے، راگ اور راگنیاں ’’ٹریک‘‘  ہوتے ہیں کہ آپ نے ان ’’ٹریکس‘‘ پر چلنا ہے، آواز اچھی ہو تو اُستاد راگ بھیروی اور راگ ایمن سے شروع کرواتے ہیں، راگ بھیروی چوبیس گھنٹے کا راگ ہے اسے سدا سہاگن بھی کہتے ہیں اسے ہروقت گایا جا سکتا ہے، اگر راگ اپنے وقت پر گایا جائے تو اسکا صحیح تاثر قائم ہوتا ہے وگرنہ ’’ بے وقت کی راگنی‘‘  کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی، برصغیر کی موسیقی کی انفرادیت یہ ہے کہ اسکا تعلق چاند اور سورج سے ہے۔ ہر راگ اور راگنی کا مخصوص وقت ہے، دن گزرنے اور رات ڈھلنے کے ساتھ راگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

گلوکار عنایت عابد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کلاسیکل گلوکاروں اور غزل گائیگ کا جوڑ پوری دنیا میں نہیں ہے، اُستاد سلامت علی خان، اُستاد نزاکت علی خان، اُستاد امانت علی خان، اُستاد فتح علی خان، ملکہ موسیقی روشن آرابیگم، اُستاد شریف پونچھ والے ستار نواز، اُستاد شوکت حسین طبلہ نواز اور پلے بیک گلوکاروں میں شہنشاہ ِغزل مہدی حسن، سلیم رضا، منیر حسین، احمد رشدی ، مسعود رانا اور کئی نامور گلوکاروں کا جوڑ دنیا میں نہیں ہے، ان اُستادوں نے سُر اور تال کا وہ حسین ملاپ پیدا کیا کہ جس نے برصغیر میں موسیقی کو امّر کردیا۔

خواتین میں ملکہ ترنم نور جہاں، غزل میں فریدہ خانم، اقبال بانو اور عابدہ پروین کا ثانی کہاں مِلتا ہے ؟ موسیقی کے ان درخشاں ستاروں نے فن ِ موسیقی پر عبور حاصل کیا اور فن کو لافانی بنادیا، اب نئے آنے والے گلوکاروں اور موسیقاروں کو فن پر عبور تو کیا ابتدائی تعلیم کا بھی علِم نہیں ہے۔ غلط میوزک اور بے سُرے گلوکاروں کے ’’فن‘‘  کو دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے، دوسرے شعبوں کی طرح موسیقی کا شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہے، ماسٹر خورشید انور، اے حمید، ماسٹرعنائت حسین، رشید عطرے، نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ اور اس طرح کے لوگ اب کہاں ہیں؟ آ ج کے دَور میں ریاضت نظر نہیں آتی، نئے گلوکاروں کی گا ئیکی میں روکھا پن ہے، اُن سے سُر ہی نہیں لگتا، زیادہ تر بے سُرے ہیں ۔ موسیقی کوئی بھی ہوچاہے پوپ میوزک ہی ہو، موسیقی کے بنیادی اُصولوں پر چلنا انتہائی ضروری ہے وگرنہ وہ موسیقی نہیں ڈھول پیٹنا ہے۔ موسیقی الگ ہے ڈھول پیٹنا الگ  چیز ہے۔

گلوکارعنایت عابد کا کہنا ہے کہ موسیقی کے زوال کی بہت بڑی وجہ موجودہ میڈیا بھی ہے وہ اس بات کا خیال رکھے بغیر جنہیں وہ میوزک کے حوالے سے اپنے چینلز میں پیش کر رہے

ہیں انھیں اس فن پر عبور بھی حاصل ہے کہ نہیں یا وہ اس فن کو سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں، میڈیا کی وجہ سے اصل فنکاروں، موسیقاروں اور اُستادوں کی بہت حوصِلہ شکنی ہو رہی ہے، اب کمرشل ازم کا دور ہے، جو چیز چمکتی ہے لوگ اُسی کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں، اُستاد نصرت فتح علی خان نے لوگوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے موسیقی کو نئی جہت دی مگر سُر اور تال کو پکڑ کر کام کیا، یہ ہوتا ہے فن کی جِدت میں بھی آپ اصولوں کے راستوں کو نہ چھوڑیں۔

گلوکارعنایت عابد نے اس تاثر کو بالکل غلط قرار دیا کہ کلاسیکی گائیکی یا کلاسیکل موسیقی بہت مشکل ہے راگ اور راگنیاں مشکل ہیں،کوئی راگ یا راگنی مشکل نہیں ہے صرف شوق، لگن اور محنت کی بات ہے اگر آپ اس فیلڈ میں محنت نہیں کرنا چاہتے تو اس شعبے پر رحم کھائیں کوئی اور کام کرلیں۔ فن موسیقی کا حلیہ یا شکل نہ بگاڑیں۔

گلوکارعنایت عابد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس فن کی مکمل سرپرستی کی جائے وگرنہ اصل فن کا تذکرہ شائد کتابوں میں ہی مِلے گا، ہر شعبے کی طرح دونمبر لوگ اس شعبے میں بھی قابض ہو رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ جو لوگ کلاسیکل موسیقی کو مشکل سمجھتے ہیں میرے پاس آئیں میں انھیں سکھاتا ہوں، اگر رجحان ہے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں، اب صرف’’ آ واز اور شکل ‘‘ کے بل بوتے پر اپنے آ پ کو فنکار کہلانے کا رواج چل نکلا ہے۔

بر صغیر کے عوام اور موسیقی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں

پرائیڈ آف پرفارمنس طبلہ نواز گلوکار

اُستاد شبیر حسین جھاری

برصغیر کے معروف طبلہ نواز شبیر حسین جھاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق موسیقی کے معروف گھرانے سے ہے اُن کے والد گلوکار محمد علی خان صاحب کپور تھلہ گھرانے کے اُستاد ولی محمد خان کے شاگرد تھے، طفیل نیازی مرحوم بھی اُستاد ولی محمد خان کے شاگرد تھے، میرے والد مرحوم کو کلاسیکل گائیکی پر عبور حاصل تھا مگر صوفیا نہ کلام انکی وجہ شہرت بنا، میں نے چار سال کی عمر میں گائیکی سے اپنے فن کا آغاز کیا یعنی سیکھنا شروع کیا، والد صاحب کی وجہ سے میرا رجحان بھی صوفیانہ کلام کی طرف زیادہ تھا، گائیکی کی تعلیم حاصل کرنے کے  دوران اندازہ ہوا کہ طبلہ فن موسیقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ طبلہ بھی سیکھنا شروع کیا،  میرے بھائی  اُستادطاری خاں صاحب بھی طبلہ نوازی کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے، میں نے ابتدائی طور پر طبلہ نوازی کی تعلیم اپنے بڑے بھائی اُستاد طاری خاں سے حاصل کی پھر طبلہ نوازی میں پاکستان کے پہلے پرائیڈآف پرفارمنس اُستاد میاں شوکت حسین خاں صاحب کی شاگردی اختیار کی، خاں صاحب طبلہ نوازی میں ایک سمندر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اُستاد شوکت حسین خاں برصغیر کے لیجنڈ طبلہ نواز میاں قادر بخش صاحب کے شاگرد تھے، ان کے شاگردوں کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے بھی زائد ہے، اُستاد اللہ رکھا (طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین کے والد) اُستاد طافو بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں، میں اور میرے بھائی اُستاد طاری حسین اُستاد شوکت حسین سے طبلہ سیکھتے رہے، اس فن کو سیکھتے ہوئے نجانے کتنے ماہ وسال گزرگئے  چار سال کی عمر میں سیکھنا شروع کیا اب میری عمر تقر یباً ساٹھ سال ہے، اب بھی اپنے آپ کو موسیقی کا ادنیٰ شاگرد خیال کرتا ہوں۔ میں پاکستان کے ہر نمایاں گلوکار کے ساتھ سنگت کرچکا ہوں۔ جن میں استاد مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان، استاد سلامت علی خاں، استاد نزاکت علی خاں، طفیل نیازی، استاد حامد علی خاں، استاد غلام علی خان، استاد فدا حسین، اسد امانت علی خان، استاد اختر علی خان، امتیاز علی خان، ریاض علی خاں کے علاوہ تقر یباً تمام گلوکاروں کے ساتھ سنگت (پرفارم)  کر چکا ہوں ، پاکستان میں فن موسیقی کے اتار چڑھاؤ بہت غور سے دیکھے، ہمارا گھرانہ فن موسیقی سے محبت کرنے والا گھرانہ ہے ہم نے اپنا ہر لمحہ فن کیلئے وقف کیا ہے، موسیقی کا برصغیر کے عوام کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے، موسیقی عوام کی رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سلسلہ چشتیہ کے بزرگانِ دین خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے بھی اس رجحان کو محسوس کیا اور قوالی کے ذریعے عوام کو اسلام کی جانب راغب کیا گیا، سلسلہ چشتیہ کے بزرگانِ دین خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ،حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور حضرت امیر خسرو ؒ ( جنہوں نے کئی راگ اور ساز بھی ایجاد کئے ) نے فن قوالی کو بہت آگے بڑھایا، سازوں کے ساتھ بھجن گانا ہندو مت کی بنیاد ہے۔ موسیقی برصغیر کے عوام کی زندگیوں کا بنیادی جّزو رہا ہے، آپ کچھ بھی کر لیں، موسیقی کو عوام کے خون سے نِکالا ہی نہیں جا سکتا، پھر اسکا حل یہی ہے کہ جو طریقہ بزرگانِ دین نے اختیار کیا کہ عارفانہ کلام کو موسیقی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔

اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی جائے کیونکہ عام لوگ موسیقی کے ساتھ گائے جانے والے عارفانہ کلام کو بہت جلد سمجھ بھی لیتے تھے اور اسکا اثر بھی قبول کرتے تھے، قوالی کے ساتھ کلاسیکل گائیکی اور کلاسیکی موسیقی کا دور بھی شروع ہوا، موسیقی کے قاعدے قانون متعین ہوگئے، راگ اور راگنیاں موسیقی کی بنیاد قرار پائیں یعنی گانے کے’’ ٹریک ‘‘  متعین ہوگئے کہ شاعری کو ان ’’ٹریکس‘‘ کے اندر گایا جائے تو اسکا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہر چیز کا قاعدہ قانون ہی اس کی بنیاد ہوتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ فن موسیقی بھی ترقی کرتا رہا، پاکستان بننے کے بعد فنکار بھی تقسیم ہوگئے، بہت سارے نامور فنکار بھارت میں رہ گئے کہ وہاں اس فن کی پذیرائی زیادہ تھی مالی و معاشی معاملات بھی وہاں بہتر تھے۔ فن کی ترقی کیلئے یہ بات اہم ہے کہ فنکار کو مالی دشواریوں اور دوسری پریشانیوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ ’’ تخلیق‘‘ کیلئے مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر لاتعداد فنکاروں نے پاکستا ن کو ترجیح دی اور یہاں فن کی خدمت کرتے رہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری نے کہا کہ میں نے فن موسیقی کے تمام نشیب و فراز کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے اس فن کی اس طرح سرپرستی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی، ایک بات طے ہے کہ آپ پاکستانی عوام کے رگ وپے سے موسیقی نکال ہی نہیں سکتے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے، اگر آپ پاکستانی فنکاروں کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو ان میں بددلی بڑھ جائے گی، بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ بھارتی موسیقی اور گلوکاری کیلئے میدان خالی کیا جا رہا ہے، حکومت کی طرف سے دیا جانے والا پرائیڈآف پرفارمنس محض ’’لولی پاپ‘‘ ہے۔ اس وقت موسیقی کی جہت تبدیل ہو رہی ہے، کلاسیکل موسیقی اور گائیکی ہمارا قومی اثاثہ و قومی ورثہ ہے،اسکی ترقی ہونی چاہیے، بامقصد شاعری اچھی موسیقی اور خوبصورت آواز کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری کاکہنا ہے کہ عارفانہ کلام کے علاوہ نظریاتی شاعری کے ذریعے بھی قوم کی زندگی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، آج بھی  قومی ترانے ہماری قومی زندگی کا حصہ ہیں،  کیا آپ قومی ترانوں کو اپنی زندگی سے نکال سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آج فن موسیقی کی حکومتی سر پرستی ہونی چاہیے، با قاعدہ ایک راہ متعین ہونی چاہیے، اگر حکومتی سرپرستی ہو تو باقاعدہ ایک لائن آف ڈائریکشن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ میں بے شمارممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکا ہوں، گلوکاروں کے ساتھ بھی اور سولو پرفارمنس کا بھی مظاہرہ کر چکا ہوں، ہر ملک سے بہت پذیرائی ملی، ہماری موسیقی کو پاکستان کی پہچان قرار دیا گیا، ایک سوال کے جواب میں استاد شبیر حسین جھاری نے کہاکہ عوام کی روحانی و ذہنی تربیت کیلئے میں نے اب قوالی کا گروپ بنایا ہے۔

صوفیانہ کلام کے ساتھ اچھا رسپانس ملا ہے بھرپور پذیرائی ملی ہے، مگر آخر میں ایک بات ضرور کہوں گا! کہ اگر حکومتی اداروں اور فن موسیقی کے شیدائیوں نے اس فن کی سرپرستی نہیں کی تو وہ لوگ آگے آجائیں گے کہ جو انٹرنیٹ سے فن موسیقی سیکھ کر عوام میں ہیجان و منفی جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد دین سے دور ہوتے ہیں اپنے فن کے ذریعے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھارتے ہیں، انھوں نے کہا کہ فلمی موسیقی الگ چیز ہے مگر ہمارے تمام آباؤ اجداد  تہجد گزار تھے، اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلتے تھے، قوالی کو تبلیغ کا ذریعہ سمجھتے تھے، عوام کو فلمی کمرشل اور اصل موسیقی کا فرق سمجھنے کی بھی ضرورت ہے، فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے کمرشل فنکاروں اور حقیقی فنکاروں میں فرق روا رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ موسیقی میں وقتی پسندیدگی کے ادوار آتے رہے ہیں مگر دوام اصل موسیقی کو ہی حاصل رہے گا مگر اس وقت حکومتی اداروں اور موسیقی کے دلدادہ افرادکی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری نے کہا کہ برصغیر کی موسیقی میں طبلہ بنیادی ساز ہے۔ اس کے بغیر سنگیت کا تصور نہیں ہے، مگر وطن عزیز میں طبلہ نواز کو اسکا حقیقی مقام حاصل نہیں ہے۔ زیادہ تر طبلہ نواز فاقہ مستی کا شکار ہیں، بظاہر انگلیوں سے تال نکالی جاتی ہے مگر اس میں پورے جسم کا زور لگ جاتا ہے، اوپری جسم کے تمام پٹھے کھنچ جاتے ہیں۔ اگر ساون بھادوں میں بھی طبلہ زیادہ دیر تک بجایا جائے تو جسم میں اتنی زیادہ گرمی پیدا ہوتی ہے کہ طبلہ نواز بیمار ہو سکتا ہے مگر اسے اسکا صلہ نہیں ملتا، انھوں نے کہا کہ میں فن موسیقی کے تمام نامور اُستادوں کے ساتھ عرصہ چالیس سال سے سنگت کر رہا ہوں، ہم اپنی طبلہ نوازی سے انکی گائیکی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

اُستادوں کو طبلے کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا ہے مگر وہ بھی قدر نہیں کرتے۔ موسیقی کو اگر پہلے جیسا عروج نہیں رہا، اسکی بنیادی وجہ وہ اُستاد بھی ہیں جو اپنا فن منتقل نہیں کرنا چاہتے، اگرکوئی شائق سیکھنے کیلئے آ جائے تو اُسے دس دس سال رگڑا دیتے ہیں، میں تو اپنے شاگرد وں کو صرف دس منٹ میں سبق یاد کروا دیتا ہوں، اور تین ماہ میں میوزک کی ابتدائی تعلیم سے مکمل روشناس کرواتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ فن موسیقی کو مزید زوال سے بچانے کیلئے میں نے میوزک اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ اصل موسیقی کو زندہ وجاوید رکھا جائے۔ خوش آواز گلوکاروں کو فن کی بنیاد سے روشناس کروایا جائے۔ سُر، تال اور لے میں ہم آ ہنگی پیدا کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے وہ فن کی خدمت کر رہے ہیں اور آ خری سانس تک کرتے رہیں گے۔

موجودہ دور میں ذاتی تعلقات فنی پختگی پر غالب آچکے ہیں:امانت علی

کلاسیکل گائیک امانت علی کا تعلق بھی استاد گھرانے سے ہے ۔ انکا خاندان صدیوں سے اس فن سے منسلک ہے انھوں نے کہا کہ کلاسیکل موسیقی ہی برصغیر کی موسیقی کی اصل بنیاد ہے مجھے اس فن کو سیکھتے ہوئے اکیس برس گزر چکے ہیں مگر اب بھی لگتا ہے کہ فن موسیقی کے سمندر میں پہلا قدم اُتارا ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے بی کام کیا ہوا ہے، تعلیم حاصل کرنے سے اندازہ ہوا کہ موسیقی بھی ایک مکمل حساب کتاب اور تر تیب ہے، فنانس کی تعلیم کی مانند موسیقی کے بھی بے شمار کلیئے اور اصول ہیں، ان اصولوں سے انخراف کرکے فن موسیقی میں قدم بھی نہیں رکھا جا سکتا، مگر اب اس میدان میں وہ افراد آ چکے ہیں کہ جنہیں فن کی ابجد کا پتہ نہیں مگر ان کی ’’پی آر ‘‘  یعنی میڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں جسکی وجہ سے وہ وقتی طور پر شہرت کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر ان کے فن کی بنیاد اور پائیداری نہیں ہے۔

میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ عام لوگ انکے فن کو فن کے طور پر نہیں بلکہ ہلہ گُلہ کے طور پر لیتے ہیں اور یہ صرف وقتی ’’ انجوائے منٹ ‘‘  یعنی وقتی سُرور ہے، آج بھی اصل موسیقی کی اہمیت اُسی طرح قائم ہے جو لوگ اس فن کو سمجھتے ہیں وہ اصل موسیقی ہی سیکھنے کی کوشش میں ہیں، تیز موسیقی بالکل ڈھول بجانے کے مترادف ہے جسکی بلند آواز اور تھاپ پر بھنگڑا ڈالا جا سکتا ہے، رقص کیا جا سکتا ہے اور دھمال ڈالی جا سکتی ہے مگر اسے موسیقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس فن سے تعلق رکھنے والے اُستادوں کو اہمیت دے اور اسکی سر پرستی کرے۔ ہمارے ملک میں عموماً یہی ہوتا ہے کہ شور شرابا کرنے والے افراد ہی شور مچا مچا کر مفادات حاصل کر لیتے ہیں اور حقیقی افراد خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں موسیقی کے اُستادوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے مگر وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔

اساتذہ نئی نسل کی تربیت اور رہنمائی کریں:اندریاس داؤ تاج

آل پاکستان  میوزک کانفرنس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے گورنمنٹ کالج لا ہور کے طالبعلم گلوکار، طبلہ نواز اور کئی سازوں میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والے اندریاس داؤد تاج کا کہنا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں تقر یباً تمام افراد موسیقی کے دلدادہ ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں کوئی بھی ایسا بندہ نہیں دیکھا کہ جسے موسیقی سے لگاؤ نہ ہو مگر اب اس شعبے میں وہ افراد بھی آ گے بڑھ رہے ہیں، جنہیں اس فن کی بنیاد کا خاص علِم ہی نہیں ہے، اگر مرد کی آواز اچھی ہے تو وہ صرف اُسی خوبی سے نقل کرکے فائدہ اٹھانے کی کو شش کرتا ہے، اور اگر عورت کی شکل اچھی ہے تو لوگ موسیقی سننے نہیں آ تے بلکہ ’’موسیقی دیکھنے ‘‘  آ تے ہیں۔ لیکن اگر کسی کی آ واز اچھی ہے تو اُسے مکمل طور پر فن ِ گائیکی سیکھنا چاہیے ایک خوبی اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، دوسری خوبی خود محنت و ریاضت سے اپنے اندر پیدا کرنی پڑ تی ہے۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے بے شمار اعزازات حاصل کئے، مگر اصل اعزاز وہی ہوتا ہے جو عوام کی پسندیدگی کی وجہ سے آ پ کو محبت وسکون مِلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اس فن کے اُستادوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ اس فن کی معراج کیلئے آپس میں اکٹھے بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کریں۔ نئی نسل کی تربیت اور راہنمائی کریں، اپنے فن موسیقی کے دروازے طالبعلموں کیلئے ہر وقت کھلے رکھیں۔ اگر یہ شکایت ہے کہ نئے فن کاروںکی توجہ سیکھنے کی جانب نہیں ہے مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اُستاد نئی نسل تک اپنا فن منتقل کرنے پر تیار بھی ہیں یا نہیں؟ کیا انھوں نے اپنے فن ِموسیقی کے دروازے نئے آنے والوں کیلئے بند تو نہیں کئے ہوئے ؟ کیا وہ معقول رقم حاصل کئے بغیر کچھ سکھانے کیلئے تیار نہیں ہیں؟ اور بھی ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

اصل موسیقی روح کی غذا اور تیز میوزک روح کو جھنجھوڑنے کا نام ہے:ندیم شیخ

اُستاد شبیر حسین جھاری کے شاگرد گلوکار ندیم شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فن موسیقی کی نئی نئی جہتیں روشناس ہو رہی ہیں، مگر اصل موسیقی کلاسیکل ہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے اُستاد کو اللہ تعالیٰ نے پرائیڈآف پرفارمنس سے نوازا ہے انھیں اس فیلڈ میں پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر وہ آج بھی اپنے آ پ کو موسیقی کا طِفل مکتب سمجھتے ہیں مگر اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ جب موسیقی کی مکمل سوجھ بوجھ والوں کا متکبرانہ انداز دیکھتے ہیں، اور ایک دو گانوں سے ہٹ ہو جانے والے اپنے آ پ کو موسیقی کا ’’ سٹار ‘‘ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہر دور میں شائقین موسیقی کی پسند نا پسند بدلتی رہتی ہے، جب نئی چیزیں سامنے آتی ہیں تو لوگ اس  ’’ تبدیلی ‘‘  کو قبول بھی کرتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں کہ نئی چیزدل کو بھاتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی نئی چیز ہٹ ہوتی ہے تو سب لوگ اس کی نقل کرنا فن سمجھتے ہیں، پھر جب کوئی اور نئی چیز سامنے آ تی ہے تو لوگ پُرانی چیز کو بھول کر اس نئی چیز کی طرف ہو جاتے ہیں، ہر دور میں موسیقی میں جدت ضرور پیدا ہوئی ہے کہ کسی بھی چیز کا سفر جاری رہنا زندگی کی علامت ہے۔ جمود کا نام موت ہوتا ہے مگر یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ وہی گیت اور موسیقی امّر رہتی ہے، جس میں فنی مضبوطی موجود ہو،’’سُر تال اور لے‘‘ کا ملاپ ہی اصل میوزک ہے ؟ اس وقت تیز میوزک کا دور ہے کہ اب زندگی میں وہ پہلے جیسا سکون اور تنوع نہیں رہا مگر تیز میوزک بھی موسیقی کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے، ڈھول بجانے اور موسیقی کی چاشنی میں کچھ فرق روا رکھنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ اصل موسیقی روح کی غذا ہے اور تیز میوزک روح کو جھنجھوڑنے کا نام ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے اُستاد ور سٹائل فنکار ہیں کہ جو موسیقی کی ہر جہت میں طبلہ بجا لیتے ہیں۔‘‘

The post فنِ موسیقی زوال کا شکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کامیاب انسان سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے ، بشریٰ فرخ

$
0
0

بعض لوگ قابل رشک ہوتے ہیں، جو دوسروں کے لیے بطور نمونہ پیش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ انہوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہوتے ہیںکہ دل چاہتا ہے انہی کی تقلید میں زندگی بسر کی جائے اور اگر ایسے گوہر نایاب کا تعلق صنف نازک سے ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک ہمہ جہت شخصیت  بشریٰ فرخ بھی ہیں جو بیک وقت ایک بہترین شاعرہ، مصنفہ، اداکارہ اور کمپیئر ہیں۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی سلیقے سے انجام دیں ،انہوں نے اپنے شوہرنامدارکی رحلت کے بعد نہ صرف شعروسخن کی مشقت جاری رکھی بلکہ اپنے بچوں کی بہترین اندازمیں تعلیم وتربیت کے لیے بہت سی مشکلات اورکھٹنائیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، بقول شاعر:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

معروف شاعرہ، مصنفہ، ادکارہ،کمپیئر اور اناؤنسر بشریٰ فرخ 16 فروری 1957کو پشاور میں شیخ سلطان محمد کے ہاں پیدا ہوئیں جو ایک سرکاری افسر تھے۔ 1979 میں پی ٹی وی پشاور سنٹر کے اس وقت کے معروف اورکہنہ مشق پروڈیوسر فرخ سیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، بڑی خوش گوار اور بھرپور زندگی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک ان سے ان کے مجازی خدا کا سہارا چھن گیا اور وہ ان کو داغ مفارقت دے گئے۔ یہ آج سے بیس سال قبل کی بات ہے، اس وقت ان کی چاروں بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں جن کی پرورش اور بہترتعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری ان کے ناتواں مگر حوصلہ مندکندھوں پر آن پڑی اورانہوں نے یہ کرکے دکھایا بھی۔ چاروں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اوراب خیر سے ان میں تین اپنے گھروں میں خوش وخرم زندگی بسرکررہی ہیں جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی ایک کاروبارکا انتظام بڑی کامیابی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔

چھے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔ بشریٰ فرخ نے ابتدائی تعلیم بیگم شہاب الدین سکول، انٹر فرنٹیئر کالج فار وویمن سے پاس کیا، اسی دوران شادی ہوئی اور باقی تعلیم کاسلسلہ پرائیویٹ طور پر جاری رہا۔ ان کی فنی زندگی کاآغاز تقریباً 14 سال کی عمرمیں ریڈیو پاکستان اورپی ٹی وی سے ہوا۔ اس وقت چکلالہ  سے صوبے کے لیے ایک گھنٹہ کا پروگرام ’’آغوش کوہستان‘‘ ہوا کرتا تھا، جس میں پشتو، اردو اور ہندکو ڈراموں سمیت مختلف قسم کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ بشریٰ فرخ بھی وہاں سے ان تمام پروگراموں کا کسی نہ کسی طریقے سے حصہ ہواکرتی تھیں۔ ان کو پشاور سنٹر سے پہلی اناؤنسمنٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے اور یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا۔ انہوں نے اردو، پشتو اور ہندکو تینوں زبانوں میں جی بھرکے کام کیاکیوں کہ اس وقت شوبزمیں خواتین کی تعداد بہت قلیل تھی جس کے باعث ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع ملا۔

بچپن کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’کوئی  خاص مشغلہ تو نہیں تھا لیکن جہاں سے بھی کوئی کتاب، اخبار یا رسالہ مل جاتا اسے ختم کرکے چھوڑتی، جس سے وقت کٹنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ والدہ نے گھریلوکام کاج خصوصاًسلائی کڑھائی پر خصوصی توجہ دینے کی ہمیشہ ترغیب دی۔ ہاں شرارتیں بھی خوب کیں لیکن اس کے باوجود کلاس میں ہمیشہ پوزیشن بھی لیاکرتی تھی۔‘‘گھر کے ماحول میں فلمیں دیکھنے کا کوئی تصور نہیں تھا البتہ ٹی وی پرکام کے بعد ایک آدھ فلم دیکھنے کا موقع ملا جس میں ’انسانیت‘ اور ’توبہ‘ جیسی سماجی رویوں پر مبنی فلمیں شامل ہیں۔ فن کاروں میں وحید مراد اورزیباکے کام نے متاثرکیا۔

بشریٰ فرخ سمجھتی ہیں کہ آج کل زیادہ تر مائیں پڑھی لکھی ہیں اوروہ اپنے بچوں کی عصری تعلیم پر خصوصی توجہ بھی دے رہی ہیں جس کے باعث بچے اچھی ملازمتیں بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس سب سے ضروری امر بچوں کی اخلاقی تربیت ہے، جس میں اکثر والدین کم زور نظر آتے ہیں یا اس جانب کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی دینی اوراخلاقی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ایک کامیاب انسان سے پہلے اچھے انسان بن سکیں۔گھر کا ماحول ادبی تھا، والد صاحب پڑھنے کے شوقین تھے، والدہ نے چھوٹی چھوٹی باتوں کی بہت اچھی تربیت دی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میری والدہ ان پڑھ تھیں لیکن انہوں نے ہماری تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، انہوں نے ہماری دینی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی۔‘‘

بشریٰ فرخ پاکستان کی چندگنی چنی خواتین شاعرات میں شمار ہوتی ہیں۔ آپ نے ریڈیو پاکستان  اور پاکستان ٹیلی ویژن پر چاردہائیوں میں بطور اناؤنسر، کمپیئر، ڈرامہ آرٹسٹ اورمصنفہ اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا۔ آپ کو خیبرپختون خوا کی واحد آرٹسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جنہوں نے اردو، پشتو، ہندکواورانگریزی زبانوں میں کام کیا۔ آپ کو پی ٹی وی پشاورسنٹر سے اولین کمپیئر اورڈرامہ آرٹسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بشریٰ فرخ نے دو ہزار سے زائد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگراموں اور ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے، ان میں ریڈیو پروگرام ’’قہوہ خانہ‘‘ مسلسل پندرہ سال تک سند قبولیت حاصل کرتا رہا، اسی طرح مسلسل گیارہ سال تک اردوکمرشل  پروگرام کو بھی اپنی میٹھی آواز اور نفیس لب ولہجہ سے مزین کرتی رہیں، جب کہ ان کا ہی ایک اور پروگرام ’’ہماری دنیا‘‘ بھی مسلسل دس سال تک سامعین کے کانوں میں رس گھولتا رہا۔

اس کے علاوہ بشریٰ فرخ 20 سال سے ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ نو کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں سے پانچ کتابوں کو ایوارڈز مل چکے ہیں۔ ان کو خیبرپختون خوا کی پہلی صاحب کتاب نعت گو شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کے نعتیہ مجموعے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کو حکومت پاکستان کی طرف سے قومی سیرۃ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ جانی پہچانی شاعرہ اپنے ملک کے علاوہ متعدد دیگر ممالک میں مشاعروں اور کانفرنسز کے سلسلے میں جاچکی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پرکئی ایوارڈز اورگولڈمیڈلزحاصل کرچکی ہیں، ان کی ادبی اورفنی خدمات کے اعتراف میں پشاوریونی ورسٹی سے ایم اے اورقرطبہ یونی ورسٹی سے ایم فل کی سطح پر مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ خیبرپختون خوا میں خواتین لکھاریوں کی تنظیم ’’کاروان حوالٹریری فورم‘‘ کی چیئرپرسن ہیں اورخواتین لکھاریوں کو آگے لانے کے لیے اپنا کردارادا کر رہی ہیں۔وہ وویمن رائٹرفورم کی جنرل سکرٹری کے عہدے پرخدمات دیتی رہی ہیں جب کہ اس تنظیم کی چیف آرگنائزر بھی رہ چکی ہیں۔

آپ کے پہلے مجموعے ’’ایک قیامت ہے لمحہ موجود‘‘ نے روزن انٹرنیشنل ادبی ایوارڈ بھی جیتا ہے، جب کہ آپ کی پہلی اوردوسری تصنیف کو اباسین آرٹس کونسل کی جانب سے سردار عبدالرب نشتر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ مذکورہ  تصانیف کے اب تک کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ وہ شاعری میں بلیغ علامات اور خوبصورت استعاروں کو شاعری کی روح کا نام دیتی ہیں۔

تمام فنون لطیفہ کو قدرت کی جانب سے ایک مقدس عطیہ قرار دیتی ہیں، ادب  کو ایک سماجی عمل اوراپنے ماحول کا ترجمان گردانتی ہیں۔ ادب اور فن کی دنیا کو پیار و محبت کی خوب صورت دنیا کا نام دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا شعر شوہر کی قبر پر پڑھا، ان کی بہت خوش گوار زندگی گزر رہی تھی لیکن شوہرکی اچانک موت نے انہیں جھنجھوڑ کے رکھ دیا، وہ بہت زیادہ افسردہ رہنے لگیں جس کے باعث باقاعدہ شاعری کی طرف راغب ہوئیں اوراپنا پہلا ہی شعر اپنے شریک حیات کی قبر پر کھڑے ہوکرکہا۔ ویسے تووہ سبھی شعراء جن کاکلام معیاری ہو شوق سے پڑھتی ہیں لیکن پروین شاکر، احمد فراز اور فیض احمد فیض کو کافی دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔

بشریٰ فرخ نے ادبی  تنظیم برائے خواتین کاروانِ حوّاکے بارے میں بتایا، ’’اس کا قیام جنوری 2017  میں عمل میں لایاگیا،جس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ خیبرپختون خوا کے قدامت پسند معاشرے میں عورت کی آواز باوقار انداز میں پیش کرنے کے لیے اس سے قبل ایسی کوئی تنظیم نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ہم نے اس کا بیڑا اٹھایا، قلیل عرصہ میں یہ تنظیم افسانہ نگاروں، ناول نگاروں،کالم نگاروں اور شاعرات کا کارواں لے کر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور خواتین شعراء کو صوبے کی سطح پرایک پلیٹ فارم مل گیا۔ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایسی لکھاری خواتین کو سامنے لایاگیا جو لکھ رہی تھیں اورایسی بھی  جولکھ لکھ کر رکھ  رہی تھیں، اس تنظیم نے ان لکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کرکے ایک پلیٹ فارم مہیاکیا۔‘‘

بشریٰ فرخ کہتی ہیں، ’’کھانے میں جوچیز بھی سامنے آئے اللہ کی نعمت سمجھ کر خوب کھاتی ہوں۔ منافق اورخوشامدی لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہوں، کھرے اور صاف گو لوگ اچھے لگتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ خودکو حسن پرست کہتی ہیں اورسمجھتی ہیں کہ اگر حسن وعشق کی بات کی جائے تو حقیقت میں یہ کوئی طے شدہ فارمولا نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ خیالات و تجربات میں بتدریج تبدیلیاں حسن وعشق کے معیار بھی بدلتی رہتی ہیں۔

جب نیا نیا شعور سنبھالا تو وہ لوگ بہت حسین لگتے جوکھلتے رنگ اور خوبصوت نقش و نگار کے مالک ہوتے۔ پھر زندگی کے معاملات نے ایک دوسرے کے ساتھ ڈوریں اْلجھائیں، پتہ چلا حسن یہ تو نہیں، جن رشتوں نے اونچ نیچ میں سنبھالا، احساس کیا، وہ جو ہر مرحلے پر مضبوط سہاروں کی طرح کھڑے رہے، تو اندر کے حسن سے آگاہی ہوئی، اصل خوبصورتی کا پتہ چلا۔ پھر حسین چہرے اور خوبصورت نقش و نگار پسِ منظر ہوگئے، خوبصورتی کا پیشِ منظر واضح ہوتا چلا گیا۔ یہی عشق کا معاملہ ٹھہرا  مگر یہ ضرور جانا اور سیکھاکہ زندگی میں اگر عشق نہیں تو بے رنگ ہے سب کچھ۔ اپنوں سے، رشتوں سے، کام سے،مقصد سے، منزل سے، ارادے سے، عزم سے، ایمان سے، سچے جذبوں سے، سچے احساس سے، عشق ہے تو زندگی میں زندگی ہے، اور یہ سب نہیں ہے تو انسان  ’’جیسے ہے جہاں ہے‘‘  کی بنیاد پر زندگی گزار کر چلا جاتا ہے۔ وہ جو قلندر اقبال کہہ گئے تھے کہ ’’مجھے عشق کے پر لگا کر اْڑا‘‘  تو جس بھی عمل میں عشق کی سرگرمی نہیں وہاں زندگی نہیں۔ خود سے خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی عشق ہی ہے۔

نظریے کے بغیر ادب کی تخلیق ممکن ہے؟ اس سوال پرکہتی ہیں کہ ’’نظریہ ایک لفظ نہیں، نظریے کی تو بہت سی اقسام ہیں: معاشرتی نظریہ، معاشی نظریہ، سماجی نظریہ، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور ملکی نظریہ۔کسی بھی نظریہ پر مستحکم سوچ جو عملی زندگی کی آئینہ دار ہو، اس کے بغیر تو ادبی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ہم جو بھی لکھتے ہیں ذہن کے پردوں پر کوئی نہ کوئی نظریات چل رہے ہوتے ہیں  اور یہی وجہ تخلیق بنتے ہیں۔ ملکی حالات کے بارے میں بشریٰ فرخ کہتی ہیں، ’’ملکی حالات سے میں توکیاکوئی بھی مطمئن نہیں، اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ ’گھری ہوئی ہے سیاست، تماش بینوں میں۔‘ نئے سیاست دانوں سے جو اْمیدیں باندھی تھیں ابھی تک کوئی امید بر نہیں آئی، جو وعدے عوام سے کیے تھے، وفا نہ ہوئے۔ ہم جیسے لوگ جو ادبی زندگی میں ہی رہتے ہیں، سیاست کی گہرائیوں میں نہیں اْترتے مگر جن  معاملات کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہے اس سے متاثر ضرور ہوتے ہیں، یوٹیلٹی بلزکی بھاری ادائیگی، اشیاء ضرورت پر بے انتہا مہنگائی، تو نا اْمیدی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘

بشریٰ فرخ کے بقول، ’’میں اپنی ذاتی رائے کے حوالے سے بات کروں تو مسائل کا حل ایک دم نہیں ہوا کرتا، آہستہ آہستہ ہی سہی  اچھے نتائج تو آنا شروع ہوں گے۔ اگرتعلیم کے شعبوں میں بہتری پیداکی جائے، بنیادی تعلیم لازمی اور مفت ہو، علاج کی سہولت ہر فرد کے لیے ہو، صاف پانی اورخالص غذا ہر ایک کومیسر ہو، روزگار اوربہتر تنخواہیں ہوں، قابلیت کی بنیاد پر ملازمتیں ملیں، جعلی اور مہنگی ادویات کا خاتمہ ہو، سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے رویوں میں شائستگی ہو، مذہبی اور اخلاقی تعلیم کا فروغ ہو،کرپشن کا خاتمہ زور زبردستی سے نہیں، خوفِ  خدا سے ہو۔ غریبی اوربھوک کفر تک لے جاتی ہے اور اس کے ذمہ دار حکم ران ہیں۔ ریاستِ مدینہ اور خلافتِ  عمرؓکی محض مثالوں سے بات نہیں بنتی،کچھ عملی مظاہرہ ہو تو بات بنتی نظر آئے۔ ہماری پس ماندگی کے جو اسباب نظرآتے ہیں مجھے تو یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں بے بس عوام پستی ہے، حکم رانوں کی پرتعیش  زندگی غریب عوام کا استحصال ہے۔

لوٹی ہوئی دولت واپس آتی ہے نہ محل فروخت ہوتے ہیں بلکہ ان کی تحقیق و تفتیش میں بھی عوام کا ہی پیسہ لگ رہا ہے جو ٹیکسوں کی صورت عوام سے کھینچا جا رہا ہے۔ سب حکم ران ہی ہیں، لیڈرکوئی نہیں، لیڈر تو وہ ہے جو وژن رکھتا ہے، عوام کے لیے درد رکھتا ہے، صرف وعدے نہیں کرتا۔ سیاست تو ہاتھیوں کی جنگ ہے،کبھی پلڑا اس طرف اورکبھی اْس طرف، سادہ عوام تو محض مہرے ہیں، چند سکوں کے عوض استعمال ہوتے ہیں، غربت کے ہاتھوں تنگ آکر کچھ لالچ کے عوض دھرنوں میں استعمال ہو جاتے ہیں۔‘‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس  سے ادب اورکتاب کلچرکو لاحق خطرات کے بارے کہتی ہیں،  ’’میں نہیں سمجھتی کہ اس سے کوئی خطرات ہیں بلکہ یہ توادب کے فروغ کی راہ ہموارکر رہے ہیں، تعلیم کا شعبہ ہو یاکھیل کا، زراعت ہو یا صنعت و تجارت، طب کا شعبہ ہو یا میدان جنگ، لباس،کھانا، سفر، سواری، رہن سہن غرضیکہ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر دوبارہ بستر پر جانے تک انسان ٹیکنالوجی میں گھرا ہوا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو تو بہت آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہماری طرز زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، ہماری سوچ و فکر،گفتگو، تہذیب و ثقافت کو بدل کررکھ دیا ہے، یہ اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔مثبت اثرات کی بات کریں تو مشاہدے میں آ رہا ہے کہ جوتعلیم کا نظام متعارف کروایاگیا ہے، تو جو لوگ کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

دینی تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی نے بہت سہولیات فراہم کی ہیں۔ بہت سی کتب ڈیجیٹل موڈ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جن تک رسائی پہلے عام طالب علم کے لئے نہایت مشکل تھی، بہت سی قیمتی کتب کا ذخیرہ، احادیث اور اہم علماء کے آڈیو، ویڈیو دروس بآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ادبی مواد لامحدود انٹرنیٹ پر دستیاب  ہے، ہر قسم کی کتب، تاریخی، اسلامی، معاشی، سیاسی، ناول، افسانے، کہانیاں  ہماری دسترس میں ہیں تویہ بہت ہی فائدے کی بات ہے کہ ہم ایک کلک پر اپنی مطلوبہ مطبوعات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے تو ادب کے فروغ میں بہت ہی طاقتورکردار ادا کیا ہے۔‘‘

ادب اور سیاست کے بارے میںکہتی ہیں، ’’کوئی بھی تخلیق کار اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا، وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے محسوس کرتا ہے اور پھر لکھ ڈالتا ہے۔ سیاست بھی نگارشات کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ جیسے حبیب جالب نے کھل کر لکھا، اپنے اپنے دورکے صاحبِ کمال مولانا حسرت موہانی اور ان کے ہم عصر، فیض و فراز، ان سب نے سیاست کو موضوعِ سخن بنایا۔ حکومتوں پر تنقیدکی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگرجوکہا ببانگِ  دہل کہا توکوئی بھی تخلیق کار سیاست سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔‘‘

تصانیف اور ایوارڈز

اک قیامت ہے لمحہ موجود (اردوشاعری) ، ادھوری محبت کا پوراسفر (اردوشاعری) ، بہت گہری اداسی ہے (اردوشاعری) ، محبتاں دے مزاج وکھرے (ہندکوشاعری) ، جدائی بھی ضروری ہے (اردوشاعری) ، خمینی کے ایران میں (سفرنامہ) ، ورفعنالک ذکرک (نعتیہ مجموعہ) ، مجھے آواز مت دینا (اردوشاعری) ، توکجا من کجا (نعتیہ مجموعہ)

بشریٰ فرخ کو ملنے والے مختلف ایوارڈز کی تعداد ڈیڑھ سو سے  زائد ہے ۔ چند قابل ذکر ایوارڈز یہ ہیں: سردارعبدالرب نشتر ایوارڈ (گولڈمیڈل) ، ہندکو ورلڈ کانفرنس ایوارڈ، بزم بہارادب سلور جوبلی ایوارڈ، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایوارڈ، فروغ ادب ایوارڈ، روزن انٹرنیشنل لٹریری ایوارڈ، تانگ وسیب ایوارڈ، خیبرکالج آف کامرس شیلڈ، عظیم ویلفیر سوسائٹی ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ (بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ)، اگفاایوارڈ، فرنٹیئر کلچرکلب ایوارڈ، فرنٹیئرآرٹس کونسل ایوارڈ، میر آرٹس سوسائٹی ایوارڈ، پاکستان آرٹسٹ اکویلیٹی ایوارڈ

The post کامیاب انسان سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے ، بشریٰ فرخ appeared first on ایکسپریس اردو.


معیاری ادب کسی بھی زبان میں ہو لوگوں تک پہنچ جاتا ہے

$
0
0

15 برس پہلے ہندوستانی پنجاب سے کینیڈا جانے والی ہرکیرت کور اپنی خواہش کے برخلاف پردیسن تو ہوئیں لیکن اس بدلاؤ نے بطور لکھاری ان کی صلاحیتوں کو متعارف بھی کرایا۔ لکھنے کی صلاحیت شروع سے ان کے اندر موجود تھی، جس کے اظہار کا موقع پردیس میں ملا اور یہ ان کا اپنی دھرتی سے جڑے رہنے کا ایک ذریعہ بھی بنا۔ وہ آج چار کتابوں کی مصنفہ ہیں، جنہیں پنجابی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ گزشتہ دنوں وہ اپنی کتاب ’آدم گرہن‘ (شاہ مکھی ترجمہ: تیجی مخلوق) کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے لاہور آئیں تو ’ایکسپریس‘ کے لیے اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ ان سے درخواست کی گئی کہ اردو میں گفتگو کی جائے تو ہمیں لکھتے ہوئے آسانی ہو گی۔ اس پر بولیں: ’’ہندی میرے کو آتی ہے، ضرورت کے وقت بولتی ہوں، لیکن کافی عرصے بعد آج آپ سے ہندی میں بات کروں گی۔‘‘ یوں ان سے ’ہندی‘ میں بات چیت کا آغاز ہوا۔

ہرکیرت کور کا جنم لدھیانہ ضلع کے ایک گاؤں میں ہوا۔ الیکٹریکل انجینئر والد نے جنوبی افریقہ میں خاصا وقت گزارا، پھر ہندوستان واپس آ کر بزنس کرنے لگے۔ والدہ خاتون خانہ  تھیں۔ ان کے خاندان میں زیادہ تر افراد ڈاکٹر یا انجینئر تھے۔ ایک انگریزی میڈیم سکول میں داخلہ کرایا گیا، لیکن پنجابی نہ ہونے کے کارن سکول تبدیل کر دیا گیا، جہاں پانچویں جماعت سے انہوں نے پنجابی پڑھنے کا آغاز کیا۔ گھر کے بڑوں کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے ماضی کے قصے سننا انہیں اچھا لگتا تھا، دوسرے بچوں کے برعکس مزاج میں سنجیدگی تھی۔ پڑھائی میں بچپن سے بہت اچھی تھیں۔ مضمون (essay) اتنا اچھا لکھتیں کہ استاد پوری جماعت کے سامنے پڑھ کر سناتے۔ وہ لٹریچر پڑھنا چاہتی تھیں، جس کی خاندان میں کسی نے حوصلہ افزائی نہ کی۔ ذہین طالبہ ہونے کی وجہ سے محض ساڑھے تیرہ سال کی عمر میں لدھیانہ کی کھیتی باڑی یونیورسٹی (agriculture university) میں داخلہ مل گیا، جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ فوڈ ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کا آغاز کیا، اس دوران شادی ہو گئی جس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ان کے خاوند ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔

ان دنوں کینیڈا میں ویٹرنری ڈاکٹرز کی مانگ تھی تو انہوں نے بھی درخواست جمع کرا دی۔ خیال تھا کہ کچھ وقت بتانے کے بعد واپس پنجاب آ جائیں گے، جہاں اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ درخواست منظور ہوئی تو دو بچوں کے ساتھ یہ چھوٹی سی فیملی کینیڈا چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان واپسی کا سوچا تو بچے وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوچکے تھے، انہیں بچوں کی تعلیم کے سبب وہاں رکنا پڑا۔ اب میاں بیوی دونوں نے کینیڈا میں اپنے قیام کوسنجیدگی سے لینا شروع کیا اور وہاں سے دوبارہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر کے سرٹیفیکیٹس لیے۔ اس طرح شوہر نے اپنی ویٹرنری ڈاکٹری اور انہوں نے سکول ٹیچر کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کر دیا۔

جنم بھومی سے اپنا اور بچوں کا تعلق قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ایک فیصلہ یہ کیا کہ گھر پر ہمیشہ پنجابی بولی جائے گی۔ ہرکیرت کور نے دوسرا حل یہ نکالا کہ  لکھنا شروع کیا۔ لکھتے ہوئے کئی شبد ایسے آ جاتے، جنہیں استعمال کیے کافی سمے بیت چکا ہوتا، پھر وہ ان الفاظ کو بھی اپنی بول چال میں شامل کر لیتیں تاکہ یہ خوبصورت الفاظ دماغ کی سلیٹ سے مٹ نہ سکیں۔ انہوں نے اپنی والدہ، دادی، نانی، سہیلیوں اور دوسرے کرداروں کے بارے میں اپنی یادداشتیں لکھیں، پھر ان سترہ خاکوں پر مشتمل ان کی پہلی کتاب ’’پریاں سنگ پرواز‘‘ بھارت میں شائع ہوئی۔کتاب کوجہاںعمومی پذیرائی ملی وہاں پنجاب یونیورسٹی، پٹیالہ کے سکالر ڈاکٹر ستیش ورما نے بھی اسے خاص طور پر سراہا، ان کی زبان اور جزئیات نگاری کی تعریف کی۔ انہوں نے کتاب پر ایک مضمون لکھا جس کی بہت سے رسالوں میں چرچا ہوئی۔ایسے اہل علم سے حوصلہ افزائی ملنے پر وہ فکشن نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ان کا ناول ’تیرے باجوں‘  شائع ہوا، اسے بھی انڈیا، کینیڈا اور امریکا میں پسند کیا گیا۔

اب انہوں نے سوچا کہ نئے ناول کا آغاز کرنے سے پہلے کچھ معاصر فکشن نگاروں کو پڑھ لیا جائے، تاکہ ان کے لکھنے کا انداز اور یہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے ایک بڑی کہانی کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو کس طرح بیان کیا ہے۔ تھوڑے بہت مطالعے کے بعد پھر قلم اٹھایا، اس دفعہ تین سو صفحات پر مشتمل ناول ’’تھوراں دے پھل‘‘ سامنے آیا۔ اس کو وہ اپنی سب سے اچھی تصنیف سمجھتی ہیں، جس کا انہیں بہت اچھا فیڈ بیک ملا۔ ان کی چوتھی کتاب ’’آدم گرہن‘‘ خواجہ سراؤں کی دکھ درد پر مبنی زندگیوں کے بارے میں ہے، جس کا آصف رضا نے شاہ مکھی رسم الخط میں ’’تیجی مخلوق‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔  اس کتاب کا ہندی اور انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے، جبکہ آڈیو بک بھی بنی ہے۔ہرکیرت کور کہتی ہیں، ’’جب آپ کوئی کہانی یا کسی بھی موضوع پر لکھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں پہلے سے یہ نہیں ہوتا کہ یہ اتنے صفحات پر مشتمل ہو گا۔ تخلیقی عمل بہتے پانی کی طرح ہے، جو اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ آپ نے پہلے سے طے کر لیا کہ اتنے صفحات لکھنے ہیں تو یہ سب آرٹیفیشل لگے گا۔‘‘

کینیڈین اور ہندوستانی ثقافت میں فرق کے بارے میں ہرکیرت کور بتاتی ہیں، ’’دونوں خطوں کے  کلچر میں بہت فرق ہے، ہم لوگ وہاں جا کے ان کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بن نہیں سکتے، اس طرح دونوں میں سینڈوچ بن کر رہ جاتے ہیں، مشرقی طرز زندگی چھوڑ سکتے ہیں نہ وہ بن سکتے ہیں، ہماری جنریشن نہ ادھر کی رہتی ہے نہ ادھر کی۔ جبکہ ہمارے بچوں کو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ چھوٹی عمر میں گئے اور خود کو وہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ پھر دوسرے فرق ہیں۔یہاں بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات حکومت کی ذمے داری ہے۔

ہندوستان کے برعکس غذا بھی خالص ملتی ہے۔  تو ہمیں انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ جسمانی صحت ہماری ترجیح ہونی چاہیے یا روحانی سکون، یا دونوں۔‘‘ ان کی نئی کتاب ’’میں اینج پردیسن ہوئی‘‘ اسی موضوع سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے اپنی پندرہ سالہ زندگی کا احوال، دیار غیر میں منتقل ہونے والوں کی مشکلات وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اب انڈیا سے کینیڈا میں سٹوڈنٹ بہت آ رہے ہیں، جنہیں پندرہ بیس برس پہلے جانے والے لوگ پسند نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو رہنے کی عقل نہیں ہے، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جس طرح بھارت میں گندگی پھیلاتے ہیں اسی طرح یہاں کرتے ہیں، ان کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی ہو گئی ہے کیونکہ وہ اجازت نامے کے بغیر کام کرتے ہیں۔ تو ہندوستان سے پہلے جو لوگ گئے اور اب جو جا رہے ہیں، ان کے بیچ ایک بہت بڑی دیوار ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے۔ جو بزرگ وہاں گئے، ان کی کہانیاں لکھی ہیں، وہ اولڈ ہومز میں بیٹھے ہیں، بچوں کے پاس ان کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔‘‘

پسندیدہ مصنفوں کے سوال پر وہ ڈاکٹر جسونت سنگھ اور ڈاکٹر دلیپ کور ٹوانہ  کا نام لیتی ہیں۔ ڈاکٹر وریام سنگھ سندھو کی بھی مداح ہیں۔ شاعری کے بجائے نثر شوق سے پڑھتی ہیں۔ اوشو کو بھی پڑھا۔ کہتی ہیں، ’’پڑھنے کے لیے بہت سی کتابیں رکھی ہوئی ہیں، لیکن کینیڈا میں آپ کو گھر کے اور باہر کے سب کام خود کرنے پڑتے ہیں، کھانا بنانا، صفائی اور خریداری وغیرہ۔ کوئی ملازم نہیں ہوتا۔ اس لیے وقت کی کمی کے باعث خواہش کے باوجود زیادہ نہیں پڑھ سکتی۔‘‘ ہرکیرت کور سمجھتی ہیں کہ معیاری ادب کسی بھی زبان میں ہو، وہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ تراجم ہو جاتے ہیں، آڈیو کتابیں بن جاتی ہیں۔ لیکن اپنی زبان میں لکھنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک میٹھی زبان فروغ پاتی ہے۔ایک تخلیق کار کے طور پر ان کا ماننا ہے کہ صرف کتابیں چھپوا لینا اور ان کے تراجم کرا لینا کافی نہیں۔ اگر آپ کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو یہ ساری سرگرمی بیکار ہے۔

ہرکیرت کور کے بقول، ’’یہ دکھ کی بات ہے کہ بھارت میں حکومت کی سطح پر پنجابی کو پروموٹ نہیںکیا جاتا۔ کسی بھی زبان کو سٹیٹس سمبل بنانا غلط ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی یا ہندی کے بجائے پنجابی بولیں گے تو جاہل دکھیں گے، یا ان کو شرم آئے گی۔ اس فضول سوچ سے ہمیں باہر نکلنا ہو گا۔ میری ایسے لوگوں سے تکرار ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں اور اپنی طرف سے اس زبان کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ زبان بہت میٹھی ہے، اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ ‘‘وہ کینیڈا میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈاہاں انٹرنیشنل‘ کی خدمات کی معترف ہیں، جو جینوئن لوگوں کو سامنے لاتی ہے۔ یہ تنظیم پنجابی کا سب سے بڑا سمجھا جانے والا ایوارڈ ’دی ڈاہاں پرائز‘ بھی دیتی ہے، جو اس مرتبہ پاکستانی فکشن نگار مدثر بشیر کو ان کے پنجابی ناولٹ ’کون‘ پر دیا گیا۔ ہرکیرت کور کہتی ہیں، ’’میں ذاتی طور پر ایوارڈز کو اہمیت نہیں دیتی۔ میں چاہتی ہوں ایسا لکھا جائے جو معاشرے پر اثر انداز ہو اور مثبت تبدیلی لائے۔ مجھے جو عزت ملتی ہے، وہی میرے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔‘‘

ہرکیرت کور کو پنجاب کے روایتی کھانے پسند تو ہیں، لیکن زیادہ تر ایسے کھانے کھاتی ہیں جو آسانی  سے تیار ہو جائیں کیونکہ کھانا خود ہی بنانا ہوتا ہے۔ بالی وڈ کی پرانی فلمیں اور آرٹ موویز دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ تینوں ’خانز‘ کی اداکاری پسند ہے۔ موسیقی میں نصرت فتح علی خان کی بہت بڑی مداح ہیں، ہمیشہ ان کو ہی سنتی ہیں۔زمانہ طالب علمی میں ہاکی کی اچھی کھلاڑی تھیں۔ فوک ڈانس ٹیم کی بھی چار سال کیپٹن رہیں، اب بھی مختلف تہواروں میں فوک ڈانس کرنا اچھا لگتا ہے۔

کینیڈا میں تدریس کا تجربہ

جب میں نے پہلا انٹرویو دیا تو پرنسپل برادرعمار تھے، انہوں نے بتایا کہ پانچویں کی بہت شرارتی کلاس ہے، اس لیے پہلے ایک ہفتے کا ٹرائل کر لو، ورنہ چھوڑا تو دو مہینے کی تنخواہ دینا پڑے گی۔ میں نے کہا، نہیں ابھی کنٹریکٹ دیں، میں دستخط کر دیتی ہوں۔ وہاں پر طلبہ کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے، جس کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔ وہ پوچھتے ہیں: تم ہو کون مجھ سے پوچھنے والی، تمھیں میری پروا کیوں ہے، وغیرہ۔ میں پہلے دن کلاس میں گئی تو کچھ بچوں نے شرارت کی کوشش کی۔ میں نے ان کو ڈانٹا اور کہا ہندوستان میں استاد ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں۔ میرے پاس تمھارے ہر سوال کاجواب ہے۔ میں تم کو بتاؤں گی کہ مجھے تمھاری فکر کیوں ہے، میرے پاس تمھارے ہر سوال کا جواب ہے، پھر آپ کو میرے ساتھ بیٹھ کر میری بات سننا ہو گی۔

پڑھائی کا یہ ہے کہ وہاں پر نصاب خود بنانا پڑتا ہے، کتابیں خود سلیکٹ کرنا ہوتی ہیں تاکہ بچوں میں حساب، انگریزی اور دوسرے مضامین کی ایک خاص درجے کی قابلیت پیدا ہو جائے۔میری محنت کا یہ ثمر ملا کہ اسی شرارتی کلاس نے پھر تین برس لگاتار بہترین کلاس کا اعزاز حاصل کیا۔ میرے سٹوڈنٹس دوسری کلاس میں جانے کے بعد بھی مجھے یاد کرتے تھے۔ ٹیچنگ بہت پریکٹیکل ہے وہاں۔ کینیڈا والوں نے مجھے کینیڈین ٹیچر بنانے کی کوشش کی، لیکن میں ہندوستانی بھی رہی۔ کچھ چیزوں کا ہمیں زیادہ اچھا پتا ہے۔ وہ لوگ بھی میری محنت اور کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔

پاکستان آ کر کیسا لگا؟

جیسا میں نے سوچا تھا، میرا یہ دورہ اس سے بھی زیادہ اچھا رہا ہے۔ وہاں سے بھی لوگ محبت کے سندیش بھیجتے ہیں، بلکہ انہوں نے مجھے کہا کہ وہاں جا کر اس طرح اچھا اچھا بولنا۔لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جو لوگوں کا طرز عمل ہے وہ کتنا  خوبصورت ہے، شبدوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جو پیار یہاں مل رہا ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے پاکستانی سیریل پسند ہیں۔ وہاں لوگ پاکستانی سیریل شوق سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی ڈراموں کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے ’’الف اللہ اور انسان‘‘ دیکھا ہے یوٹیوب پر۔ تو لوگوں کی سطح پر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے، ہمیں اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کوئی اچھا کام بھی کرے تو اس کے پیچھے ان کے کوئی مقاصد ہوتے ہیں، اس سیاست میں پڑنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔n

The post معیاری ادب کسی بھی زبان میں ہو لوگوں تک پہنچ جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ملکۂ سبا اوراس کی سورج پرست قوم

$
0
0

ملکۂ سبا جس کا نام بلقیس تھا نہایت خوب صورت اور ذہین تھی۔ اس کے والد کا نام شراجیل بن مالک تھا۔

بعض نے اس کا نام الہد ہاد بن شراجیل بھی لکھا ہے۔ یہ یمن کا بادشاہ تھا۔ سرکاری مذہب یا عقیدہ سورج کی پوجا تھا، جو عوام الناس نے بھی اختیار کیا ہو ا تھا۔ باپ کی موت کے بعد بلقیس نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت سر سبز تھا دائیں اور بائیں جہاں بھی نظر اٹھتی لہلہاتے کھیت اور باغات نظر آتے تھے۔ یہ زمانہ حضرت سلیمان ؑ کی نبوت کا تھا۔

بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیے آیا ہے۔ یہ ذکر اگر چہ بہت مختصر ہے مگر جامع ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ترجمہ’’ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہدہد آموجود ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس (شہر ) سبا سے ایک خبر یقینی لایا ہوں۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور ا س کا ایک بڑا تخت ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کر تے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ راستے پر نہیں آتے ۔

(نہیں جانتے) کہ خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں۔ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (سلیمان نے) کہا ہم دیکھیں گے تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔ یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامۂ گرامی ڈالا گیا ہے، وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے) کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سر کشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ کہنے لگی کہ اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو میں کسی کام کا فیصلہ نہیں کروںگی۔ وہ بولے ہم بڑے زور آور اور جنگجو ہیں اور آپ کو حکم دینے کا اختیار ہے۔

آپ سوچ لیجیے کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں۔ اس نے کہا جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کردیا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کریں گے اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہوگے۔ ان کے پاس واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہوگی اور ان کو وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے۔‘‘ (سورہ النمل آیات 20تا37)

قرآن حکیم میں سبا، قوم سبا یا علاقہ سبا کے نام سے جو اشارات دیے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم یا علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع یا دینی کتب سے فراہم ہوئی ہیں۔

سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا بھی نام تھا جیسے قوم لوط، قوم ثمود، قوم لدّا، قوم نمرود اور فراعنۂ مصر وغیرہ وغیرہ۔ سبا ایک شہر کا بھی نام تھا جو موجودہ مملکت یمن کے دارالحکومت صنعاء سے (اس وقت) تین دن (3) کے فاصلے پر تھا۔ یہ شہر مارب یمن کے نام سے بھی معروف ہے۔ بیت المقدس سے مارب کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل دور ہے (فتح القدیر)

تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد بن جنبلؒؒ، ابن جریر، ابن حاتم، ابن عبدالبر اور ترمذی نے آنحضور ؐ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے یہ قبیلے پیدا ہوئے (۱)کندہ (۲)حمیر(۳) ازدر(۴)اشعرین(۵) مذجج (۶)انمار اسکی دو شاخیں خثعم اوربجیلہ (۷) عاملہ(۸) جذام(۹) لخم اور غسان ان میں سے کچھ اقوام آج بھی مملکت سعودی عرب میں آباد ہیں۔

ملکہ سبا کا یہ قصہ بائبل کے عہد عتیق و جدید اور یہودی روایات میں مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ سلاطین میں لکھا ہے ترجمہ ’’اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے اور وہ بہت بڑے جلو کے ساتھ یروشلم میں آئی جب وہ سلیمان ؑ کے پاس پہنچی تو اس نے ان سب باتوں کے بارے میں جو اس کے دل میں تھیں۔

اس سے گفتگو کی سلیمان ؑ نے ان سب کا جواب دیا اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان ؑ کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خدا وند کے گھر جایا کرتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت (نبوت) کے بارے میں اپنے ملک میں سنی تھی۔ یقین نہ کیا جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا، کیوںکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے ہیں اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس120قنطار سونا اور مصالح کا بہت بڑا انبار دیا اور جواہرات بھی دیے اور جیسے مصالح سبا کی ملکہ نے سلیمانؑ کو دیے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے اور سلیمان ؑ بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشاق ہوئی اور جو کچھ اس نے مانگا دیا پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی۔ (کتاب مقدس باب10آیات 1تا13)

ایک اور مقام پر لکھا ہے: تیما کے قافلے دیکھتے رہے، سبا کے کارواں ان کے انتظار میں رہے (ایوب باب6آیت19) اس سے کیا فائدہ کہ سبا سے لُبان اور دور دور سے (ملک) لوگ میرے حضور لائے جاتے ہیں۔ (یرمیاہ باب6آیت20) سبا اور رعماہ کے سود اگر تیرے ساتھ سوداگری کرتے تھے وہ ہر قسم کے نفیس مسالے اور ہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا تیرے بازاروں میں لاکر خرید و فروخت کرتے تھے۔ حزان اور کنہ اور عدن اور سبا کے سوداگر اور اسکور اور کلمد کے باشندے تیرے ساتھ سود اگری کرتے تھے۔ (حزقی ایل باب 27آیات 23-22) آخر میں زبور کے کلمات دیکھیے:’’وہ فدیہ دے کر ان کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا اور ان کا خون اس کی نظر میں بیش قیمت ہوگا۔ وہ جیتے رہیں گے اور سبا کا سونا اس کو دیا جا ئے گا لوگ برابر اس کے حق میں دعا کریں گے وہ دن بھر اسے دعا دیں گے۔ ‘‘ (زبور باب72آیت14-15)

مؤرخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے۔ یونان اور روم کے تاریخ دانوں نے اور ایک علم جغرافیہ کے ماہر تھیو فراسٹس نے بھی288؁ق م اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ قوم یمن میں آباد تھی اور اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو قبل مسیح ہے۔ اس کا شہرہ حضرت داؤد ؑ کی نبوت کے وقت سے ہی پھیلا ہوا تھا۔ آغاز میں یہ قوم سورج پرست تھی لیکن بعد میں نہ جانے کب سے اس میں بت پرستی کا غلبہ آگیا۔ اگرچہ ان کی ملکہ نے حضرت سلیمان ؑ 965 سے936ق م کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی رعایا کی غالب اکثریت بھی اس کے ساتھ مسلمان ہوگئی تھی۔

آثارقدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تین ہزار کتبات برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں، مثلاً 650 ق م یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنی تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایۂ تخت صرواح تھا جس کے معنی بادشاہ ہیں۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے جاتے ہیں کہ حکومت میں مذہب کے بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آگیا ہے۔ اس وقت کے ملوک نے اپنا دارالحکومت صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا لیا اور اسے ترقی کی اعلیٰ منازل تک پہنچادیا۔ یہ مقام صنعاء سے60 میل کی دوری پر مشرق کی جانب واقع ہے، جو سطح سمندر سے تین ہزار نو سوفٹ بلند ہے۔

115ق م کے بعد سے اس خطے پر حمیر غالب آگئے۔ انہوں نے مارب کو اجاڑ کرریدان کو پایۂ تخت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا کہ یہ اسی قوم کی یادگار ہے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصے کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت یا یمنات کا استعمال ہوا رفتہ رفتہ بعد میں پورا علاقہ یمنت سے یمن ہوگیا۔

300ء؁ کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی تباہی کا دور ہے اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی مداخلت کا زور ہوا جس کی بنا پر ان کی معیشت برباد ہوگئی زراعت نے دم توڑ دیا۔ 340ء؁ سے378ء؁ تک حبشیوں نے یمن کی حالت اور بھی تباہ کردی۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے، ترجمہ ’’آخر کا ر ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔‘‘ (سبا آیت16) لکھا ہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے جو آبادی منتشر ہوگئی تھی وہ پھر آج تک مجتمع نہ ہوسکی۔ آبپاشی اور زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا وہ اب تک بحال نہ ہو سکا۔

523ء؁ میں یمن پر یہودی حکومت قائم ہوگئی۔ یہودی بادشاہ ذوالنواس نے بخران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الاخدود کے نام سے کیا گیا ہے۔ فرمایا ترجمہ’’خندقوں والے ہلاک کئے گئے۔ ‘‘(بروج آیت14) ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ کے بڑے گڑھوں میں یعنی خندقوں میں پھینکا تھا جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ528ء؁ میں پیش آیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد نجاشیوں نے یمن پر حملہ کرکے ذوالنواس اور اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

یمن کے ایک حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبے کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے570ء؁ میں آنحضور ؐ کی پیدائش سے چند روز قبل مکہ معظمہ پر حملہ کردیا۔ ابرہہ کی فوج پر وہ تباہی آئی جس کا ذکرقرآن حکیم میں اصحاب الفیل کے نام سے آیا ہے، ترجمہ ’’کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا، ان کے مکر کو بے کار نہیں کردیا اور ان پر پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیج دیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔‘‘(سورۂ فیل) اس واقعے کی تفصیل سورۂ فیل کی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔

یمن سے شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم ہوتی جا رہی تھیں۔ انہی حدود میں ان کے تجارتی قافلے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک ہزار برس تک یہ قوم مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ان کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم انڈونیشیا اور مالابار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر اور شتر مرغ کے پَر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے، جہاں سے روم اور یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔

خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر اور مشک پیدا ہوتے تھے، غرض ہر خوشبودار شے یہاں کی پیداوار تھی، جسے مصر، شام، روم یونان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ اسٹرابو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے ظروف استعمال کرتے تھے۔ ان کے مکانوں کی چھت اور درودیوار پر ہاتھی کے دانت لگے ہوتے تھے۔ پلینی کہتا ہے کہ ’’روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بَہی جا رہی تھی۔‘‘ یہ لوگ جلانے کی لکڑی کے بجائے صندل اور دار چینی استعمال کرتے تھے۔ یہ اس وقت دنیا کی مال دار ترین قوم تھی، جس کا انجام نہایت ہی درد ناک ہوا۔ روئے زمین پر آج ایک بھی سبائی قوم کا فرد نہیں ملتا۔

The post ملکۂ سبا اوراس کی سورج پرست قوم appeared first on ایکسپریس اردو.

کھوجی کہاں گئے، معدوم ہوتا ہوا فن

$
0
0

واردات قتل کی ہو یا چوری ڈکیتی کی گاؤں دیہات میں آج بھی کھوجی پر انحصار کیا جاتا ہے کہ وہ کُھرا اٹھاکر یا پاؤں کے نشان کی مدد سے اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔

ماضی میں تو ماہر کھوجیوں کو سرکاری سرپرستی بھی میسر ہوا کرتی تھی۔ ہر گاؤں میں نمبردار، تھانیدار کی طرح ایک سے زائد کھوجیوں کا ہونا لازمی تھا لیکن عہدجدید نے جہاں اور دیگر اقدار، ویلیوز اور دیگر ضروری چیزوں کو اذکار رفتہ قرار دیا وہیں کھوجی بھی غیرضروری ٹھہرے۔ شہروں میں پیدا ہونے والی نسل شاید آگاہ نہ ہو کہ محض پاؤں کے نشان کی مدد سے کھوج لگانے والے نہ صرف کھوجی کے تن و توش، معذوری اور دیگر علامات کی نشان دہی بھی کردیا کرتے تھے۔

کہتے ہیں ایک عرب کا اونٹ گم ہوگیا اس نے صحرا میں جانے والے چند لوگوں سے کہا تم نے میرا اونٹ تو نہیں دیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا وہ اونٹ کانا تو نہیں تھا۔ اس نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔ دوسرا بولا اس کے پاؤں میں کوئی زخم یا تکلیف، کہنے لگا ہاں ایک پاؤں میں چوٹ لگی تھی۔ اب تو مالک کو یقین ہوگیا کہ یہ اونٹ کے بارے میں جانتے ہیں۔

کہنے لگا جلدی بتاؤ وہ کہاں ہے انہوں نے کہا بھئی ہمیں کیا پتا۔ اس نے شور مچادیا لوگ جمع ہوئے تو الزام لگادیا کہ میرا اونٹ گم ہوا تمام نشانیاں یہ جانتے ہیں لیکن دینے سے انکار کرتے ہیں۔ لوگوں کے استفسار پر وہ صحرا نشین کہنے لگے بھئی ہم نے دیکھا کہ راستے میں صرف ایک طرف سے جھاڑیوں کو منہ مارا گیا تھا حالاں کہ دوسری سمت بھی جھاڑ جھنکار تھے جس سے محسوس کیا کہ اس کے ایک سمت کی آنکھ خراب ہے۔ رہی بات لنگڑے ہونے کی تو اونٹ کے پاؤں کے تین نشان واضح اور چو تھا علامتی تھا جس سے لگتا تھا کہ وہ زخمی یا پھر معذور ہے اسی طرح دیگر نشانیاں بھی مشاہدے کا نتیجہ ہیں۔ لوگوں نے ان کی ذہانت کو سراہتے ہوئے اونٹ مالک کو اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش کا مشورہ دیا۔

کم و بیش دو دہائی قبل کا قصّہ ہے شاہ پور چاکر، کھڈرو کے درمیان بہنے والی جمڑاؤ کینال کے راستے ہم سندھ کے پہلے عرب دارالحکومت منصورہ کی سمت جارہے تھے جس کے آثار تحصیل سنجھورو میں ہیں کہ راستے میں کچھ افراد کو دیکھا جو فولادی تھال ہاتھ میں لیے ایک آدمی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔

وہ زمین پر بیٹھتا کچھ دیکھتا نشان لگاتا تو وہ تھال یا پرات اس نشان پر ڈھک کر ہاتھ میں موجود عصا سے اشارہ کرتا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ کھوجی ہے جسے سندھی میں ’’ پے ری‘‘ یعنی پاؤں یا پیر کی مدد سے اس کے حامل کی تلاش میں معاونت کرنے والا۔ رات ان گاؤں والوں میں سے کسی ایک کے گھر میں واردات ہوئی تھی اور وہ ملزم کا کھوج لگاتے جمڑاؤ کینال کے گوٹھ لسکی کے قریب سے ہوتے ہوئے کھڈرو کے نواح کی سمت جارہے تھے۔ ملزم ملا یا نہیں لیکن یہ حیرت ہمارے سب ساتھیوں کو تھی کہ کس طرح محض نشان کے بل پر وہ کھوجی آگے بڑھتا جارہا تھا۔ نواب شمس الدین خان آف لوہارو اور فیروزپور جھرکہ نے جب عزت و ناموس پر نگاہ ڈالنے والے انگریز افسر کو قتل کرایا تو اس کے وفادار ملازم نے گھوڑے کو الٹے نعل لگوائے تھے کہ وہ آتے ہوئے جاتا ہوا محسوس ہو، لیکن ماہر کھوجی نے نعل کے ساتھ خون کے قطروں سے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ محض دھوکا دینے کی کوشش ہے ورنہ گھوڑا جا نہیں آرہا تھا۔

برسوں پہلے ایک کھوجی سے سانگھڑ کے ایک ہوٹل پر گفتگو ہوئی۔ آج بھی یاد ہے اس کا کہنا تھا کہ سائیں یہ علم اسکول کالج سے نہیں ملتا۔ اچھے استاد کی صحبت کامل بناتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میرے ایک استاد تھے جن سے میں نے کُھرا اٹھانا سیکھا تھا۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک واردات کے ملزم کا پتا چلاتے چلاتے کئی پرانے ملازموں کی بھی نشان دہی کردیتے تھے۔ دینو نامی وہ شخص بتانے لگا کہ سنجھورو کے اطراف میں مویشی چوری کی ایک واردات کو اندھے قتل کی طرح پولیس نے بھی سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ استاد ایک کھرے کو تلاش کرتے جارہے تھے کہ ایک پاؤں پر رک گئے اور سامنے جاتے شخص کو رکنے کا اشارہ کیا۔

اس کے پاؤں کو ناپا اور جوتے اتروا کر چلایا اور کہا کہ یہ فلاں واردات میں بھی جوتے پہن کر کبھی ننگے پاؤں چل کر ہمیں دھوکا دے گیا تھا لیکن آج پکڑا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ مال مسروقہ اس کے گھر سے برآمد ہوا اور اس شخص نے کئی دیگر وارداتوں کا بھی اعتراف کرلیا۔ دینو ہی کی طرح ایک اور کھوجی لال بخش سے بھی نواب شاہ ریلوے اسٹیشن پر ملاقات ہوئی تھی وہ سرہاری کے کسی گوٹھ کا باشندہ تھا اور کراچی آرہا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنے فن کے کچھ اسرار و رموز بتائے اور کئی عقدے کھولے میرے یہ کہنے پر کہ تمام پاؤں کم و بیش ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ انہیں ہزاروں یا درجنوں میں علیحدہ کیسے شناخت کرلیا جاتا ہے؟ وہ کہنے لگا’’نہ سائیں نہ۔ ہر پاؤں دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

اسکول میں سب بچے ایک جیسے یونیفارم میں ہوتے ہیں لیکن ٹیچر اور چوکی دار انہیں بہ آسانی دور ہی سے پہچان لیتے ہیں اور اگر وہ گھر کے کپڑوں میں ہوں تو واقعی انہیں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ماہر کھوجی اپنے ہدف کو کبھی نہیں بھلاتا۔ ہر شخص کا پاؤں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ آج آپ کی سائنس بتاتی ہے کہ انگلیوں کے نشان، آنکھوں کی پتلیاں اور چہرے کی ساخت مشابہت کے باوجود مختلف ہیں تو یہی حال پیر کے نشان کا ہے۔ لال بخش بتانے لگا کہ کوئی شخص چلتے ہوئے ایڑی پر زور دیتا ہے تو کوئی پنجے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ بعض لوگ پاؤں جماکر چلتے ہیں تو کچھ اسے زمین پر رگڑتے ہوئے گھسیٹے ہیں۔

نشان واضح ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ چور لحیم شحیم ہے، تن و توش بھاری ہے اور اگر کھرا غیرواضح ہو تو یہ چور کے دبلے پتلے اور اکہرے جسم کی علامت ہوگا۔ چور نے لمبے ڈگ بھرکر بھاگنے کی کوشش کی ہو تو ہم اسے خوفزدہ یا بدحواس تصور کرتے ہیں، جو اسی علاقے کا ہے اور شناخت کے خوف سے جلدازجلد دور جانے کا خواہاں ہے۔ ماضی میں راستے کچے ہوتے تھے اور چوروں کی کھوج آسان۔ اب پختہ سڑکوں نے مشکل کردی ہے اس کے باوجود اس فن کے ماہر اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز اور منفرد بناتی ہے۔ زمانہ قدیم کی داستانوں میں بھی کھوجیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ آج کے سراغ رساں کتے اور فضائی اڈوں و بندر گاہوں پر منشیات تلاش کرنے والے ’’آلات‘‘ بھی ان کھوجیوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔

ہمارے ایک محترم پولیس افسر جاوید عنایت اﷲ مغل جو پولیس ایف آئی اے اور ٹریفک پولیس میں ڈی آئی جی رہے بتاتے ہیں کہ ماہر کھوجی سِدھائے ہوئے جاسوس کتوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں وہ محض نشان ہی پر نہیں چلتے وہ دوران تعاقب بہت سی دیگر نشانیوں کو بھی ذہن اور دماغ میں محفوظ کرتے جاتے ہیں اور ان علامتوں کی مدد سے وہ مجرم کو بہ آسانی شناخت کرلیتے ہیں البتہ بعض مرتبہ وہ مجرم کو بچا بھی لیتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے وابستہ سنیئر صحافی الیاس انجم بتانے لگے کہ ایک کھوجی بہرحال اسی سماج میں رہتا ہے۔ اس کی رشتہ داریاں، سماجی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ کوئی اس کا سردار اور زمین دار ہوتا ہے ۔

دباؤ اسے مجبور بھی کردیتا ہے کہ وہ کُھرا گم ہوجانے کا عذر تراش لے لیکن ایسا کبھی کبھار اور اکا دکا واقعات ہی میں ہوتا ہے ورنہ تو کھوجی اپنے فن کی سچائی کے لیے ایسے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے کہ اس سے ان کے فن اور مہارت پر حرف آتا ہے یہی بات ایک بار دوران گفتگو ہمارے دوست شکارپور کے سابق صحافی فرحان مرتضیٰ ابڑو نے بھی کہی تھی کہ اپر سندھ میں جسے اتر اور وہاں رہنے والوں کو اترادی کہا جاتا ہے۔ ایسے ایسے کھوجی یا پیری گزرے ہیں جو پکی سڑک اور برستی بارش میں بھی کھرا اٹھالیتے تھے یعنی مجرم کی شناخت کرلیا کرتے تھے۔ میرے نانا محمد حنیف خان ریلوے پولیس کے ریٹائرڈ تھے۔ برٹش ہندوستان کے بہت سے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔

ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں گوڑیانی ضلع روہتک میں واردات ہوگئی۔ تفتیش کے لیے پولیس دوسرے گاؤں سے آئی کہ گوڑیانی میں تھانہ یا چوکی پٹھانوں نے بننے نہ دی تھی۔ اپنے تنازعات خود حل کیا کرتے تھے۔ بتانے لگے کہ کھوجی نے اصل مجرم کے ساتھ چلنے والے قدموں پر توجہ مرکوز کی اور پھر ان کا کھرا لیا جو قریبی آبادی کی سمت جارہے تھے۔ وہ چند گھر تھے ان میں سے ایک کے دروازے پر نشاندہی کی کہ اس گھر کا آدمی آپ کو چور تک پہنچادے گا اور ہوا بھی یہی کہ کچھ سامان تو اسی کے گھر سے نکلا اور مجرم بھی پکڑاگیا کہ پتھریلے راستے پر مجرم کا کھرا غائب تھا لیکن اس کے معاون کی تلاش آسان نکلی۔ ایک بات انہوں نے اور بتائی تھی کہ کھوجی جتنی جلدی مقام واردات پر پہنچے گا اتنی جلد ہی مجرم کی نشاندہی بہ آسانی ہوسکے گی۔

یہ طے ہے کہ جدید ٹیکنالوجی آجانے، سراغ رساں کتوں کی موجودگی اور دیگر اسباب و آلات کے باوجود کھوجیوں کی اہمیت ختم نہیں ہوئی کیوںکہ کھوجیوں کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے جس طرح پولیس کا شعبہ سراغ رسانی، فنگر پرنٹس کا سہارا لیتا ہے اسی طرح کھوجی باریک بینی سے پیروں کے نشان کو شناخت کرکے غیرمعمولی حد تک درست اندازہ لگالیتے ہیں۔

بہت پہلے پڑھا تھا کہ ایئرپورٹ پر منشیات کی شناخت کے لیے لائے گئے غیرملکی کتے سونگھ کر جب کسی کارٹن، سوٹ کیس کو مشتبہ گردانتے تو کھولنے پر کچھ نہ نکلتا۔ تصور کیا گیا کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث صلاحیت کھوبیٹھے ہیں لیکن بعد میں نشان دہی ہوئی کہ ذہین ملزم ان پر ہیروئن کا پاؤڈر، چرس کے ذرات بکھیردیتے ہیں تاکہ کتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ سکے جس طرح کھوجی ذہین ہوتے ہیں اسی طرح مجرم بھی اپنی فطانت کا استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ سراغ رسانی کے جدید طریقوں نے کھوجیوں کی اہمیت کم کردی ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ فن ختم ہوگیا ہو بلکہ آج بھی چرواہے، کسان اور دیہات کے باشندے اپنے نقصان کی تلافی میں ان کھوجیوں سے ہی مدد لیتے ہیں جو زیادہ نہ سہی کم تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔

ایک ریڈیو پروگرام میں سندھ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر اور اس وقت کراچی یونیورسٹی میں کرمنالوجی کے پروفیسر فتح محمد برفت نے بتایا تھا کہ جس طرح انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان اور چہرے کی ساخت اور آنکھوں کے زاویے سے کسی شخص کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح انسان کی چال، قدموں کے نشان بھی مروجہ تمام طریقوں سے کہیں زیادہ آسان طور اس کی پہچان کرادیتی ہے یہی بات نادرا کے ایک افسر نے بتائی تھی کہ ایک سے زائد ناموں اور ایڈریسز پر بنوائے گئے شناختی کارڈ کمپیوٹر پر فیس ریڈنگ کے دوران منسوخ کیے گئے لیکن جدید ٹیکنالوجی نے یہ کام بہت آسان کردیا ہے۔ دوسری طرف کہیں کہیں تکنیک بھی مات کھاجاتی ہے تو پھر قدیمی طریقے پر انحصار کیا جاتا ہے حب سے سنیئر صحافی اور پریس کلب کے صدر محمد الیاس کمبوہ سے اسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک واردات میں اہل خانہ کا خیال تھا کہ یہ علی الصبح ہوئی ہے لیکن کھوجی نے اسے نصف شب کا واقعہ بتایا کہ قدموں کے نشان پر شبنم پڑی تھی یعنی واردات پہلے ہوئی اور اوس کے قطرے بعد میں گرے یہ مشاہدہ بھی اس مطالعہ کا مرہون منت ہے جو کھوجیوں نے اساتذہ سے سیکھا اور آگے بڑھایا۔

قدموں کے نشان متبرک اور مقدس بھی ہوتے ہیں۔ حیدرآباد، ٹھٹھہ سمیت متعدد شہروں میں حضرت علی ؓ کے پیروں کے نشان ’’قدم گاہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ سری لنکا میں حضرت آدم علیہ السلام کے پیر کا نشان اور نبی محترم ﷺ کے قدوم کو محبت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ برسوں قبل موجودہ سنیئر ڈاکٹر کریم خواجہ نے ٹھٹھہ میں قدم گاہ مولاعلیؓ کی زیارت کرائی تھی اور اس نوع کا ایک تجربہ سنیئر ادیب مولائی ملاح نے محراب پور کے حوالے سے شیئر کیا تھا۔ یہ عقیدت واردات کا ایک الگ موضوع ہے جس پر گفتگو آئندہ سہی۔ فی الوقت تو کھوجیوں کے فن پر اکتفا کیجیے جو آج کل زوال پذیر ہے ممکن ہے آئندہ ان کا تذکرہ کتابوں میں ملے۔

The post کھوجی کہاں گئے، معدوم ہوتا ہوا فن appeared first on ایکسپریس اردو.

لو آگئی میدان میں ’کھاؤ کماؤ پارٹی‘

$
0
0

ہمارے دوست بَنّے بھائی ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ بناتے رہے ہیں۔ نوجوانی میں گلی محلے میں تعلق بناتے تھے، اس بنانے میں دل بھر کے بے وقوف بناتے تھے، کاروبار شروع کیا تو لوگوں کو اْلّو بنانے لگے، بارہا وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنا چکے ہیں، ضرورت پڑنے پر باپ کو ’ماموں‘ بناتے رہے ہیں۔

بس یہی کچھ بناتے رہ گئے اور خود کچھ بن نہ پائے۔ کبھی چپراسی کی نوکری کی، کبھی کسی دکان پر سیلزمین لگ گئے، جب کوئی نوکری گئی تو پان کا کیبن یا پرچون کی دکان کھول کر جمع پونجی گنواں دی۔ عرصے سے بے روزگار تھے اور باتیں ہی بنارہے تھے کہ ایک دن پتا چلا انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنا ڈالی ہے۔ ان کی جماعت کا نام ہے ’کھاؤ کماؤ پارٹی۔‘

ہم نے پوچھا بَنّے بھائی یہ سیاست میں آنے اور پارٹی بنانے کی کیا اور کیوں سوجھی؟ ماچس کی تیلی کان کی گہرائی میں گْھما کر بڑی مشقت سے میل نکالا اور کافی دیر اسے یوں بہ غور دیکھتے رہے جیسے کان سے سونا نکل آنے کا امکان ہو، آخر تیلی پر لگے میل کو مرکزنگاہ بنائے ہوئے گویا ہوئے،’’آپ نے سمجھ کیا رکھا ہے اپنے بھائی کو، آپ کا بھائی دانش ور ہے، فلسفی ہے۔ میرے بھائی، میں پارٹی بناکر صرف میدان میں نہیں آرہا بلکہ ایک پورا سیاسی فلسفہ لارہا ہوں قسم سے‘‘، اور قسم کھا کر انہوں نے جن ناقابلِ اشاعت اور نفیس الطبع حضرات کے لیے ناقابلِ سماعت الفاظ کے ساتھ اپنے عزائم و ارادے ظاہر کیے وہ ہر سیاست داں کی دل کی آواز ہوتے ہیں، لیکن زبان پر کوئی نہیں لاتا۔

ہم نے جب ان کے سیاسی فلسفے کے بارے میں استفسار کیا تو لمبی سانس لی اور بولے، ’بھائی سیدھی سی بات ہے، سیاست دھندا ہے، تو صاف بولو دھندا کرنا ہے، یہ خدمت کی رٹ کاہے کی؟‘ پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بڑا دانش ورانہ منہ بنا کر کہنے لگے،’’آپ کا بھائی سیدھی سی بات کرتا ہے، میری پارٹی کو ووٹ دے کر اپنے بھائی کو حکومت بنانے اور دولت کمانے کا موقع دو۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے بھکاری کہتا ہے امداد کرنا محتاج ہوں صاب۔ یہ اپنا وعدہ ہے کہ سچ بولیں گے، کتنا لگایا کتنا جیب میں گیا پورا حساب دیں گے۔ اسی لیے اپنی پارٹی کا نعرہ ہے ’جو کہیں گے وہ کریں گے، اور جو کریں گے وہی کہیں گے۔‘

اب ہماری سمجھ میں آیا کہ انہوں نے اپنی جماعت کا نام ’کھاؤ کماؤ پارٹی‘ کیوں رکھا ہے۔ ہم نے بَنّے بھائی سے ان کی جماعت کے آئین اور منشور کے نکات معلوم کیے تو دامن اٹھاکر شلوار کے سہارے پیٹ سے چپکا پلندا نکال کر ہمیں یہ کہہ کر تھما دیا،’’لو تم خود ہی پڑھ لو، اپنے پاس وقت کہاں ہے، بڑا بزی چل ریا ہوں آج کل۔‘‘

ہم نے مختلف سائز کے کاغذوں پر مشتمل وہ پلندا، جس کا ہر کاغذ چائے یا پان کی پیک کے داغ سے مزین تھا سطر سطر پڑھ ڈالا۔ اس طومار سے جو کچھ برآمد ہوا، آپ کی خدمت میں پیش ہے:

آئین کی رو سے جماعت کے صدر، بَنّے بھائی ہیں، جنرل سیکریٹری کے عہدے پر بھی بَنّے بھائی فائز ہیں اور فنانس سیکریٹری، سیکریٹری نشر و اشاعت سمیت جماعت کا پورا سیکریٹریٹ بَنّے بھائی ہی کی ذات ہے۔ عہدوں کے تذکرے کے بعد بریکٹ میں لکھا ہے، ’پیارے حیران ہونے کی کیا بات ہے، ہر پارٹی میں سربراہ ہی تو سب کچھ ہوتا ہے، پھر عہدے داروں کی بھیڑ لگانے سے فائدہ؟‘ آئین کی رو سے پارٹی میں باقاعدگی سے الیکشن ہوں گے، جن میں اتنی ہی باقاعدگی سے بَنّے بھائی کو صدر اور دیگر مرکزی عہدوں پر منتخب کیا جائے گا۔ صدر ہر فیصلہ مشاورت سے کرنے کا پابند ہوگا اور پارٹی کے تمام ارکان پر پابندی ہوگی کہ صدر جب بھی کہے مجھے ان الفاظ میں یہ مشورہ دو تو اسے بعینہ الفاظ میں وہی مشورہ دیں۔

اب آتے ہیں منشور کے نکات کی طرف:

٭ ملک کا انتظام

ہماری حکومت دکھا کر اور بتاکر کھائے گی۔ کوئی بھی منصوبہ ہو اس کے بارے میں صاف صاف بتایا جائے گا کہ کتنا کھایا گیا کتنا لگایا گیا۔ وزارتیں ٹھیکے پر دی جائیں گی اور ہر وزیر اپنی کمائی کا 20 فی صد قومی خزانے اور 20 فی صد وزیرِاعظم کی جیب میں ڈالنے کا پابند ہوگا۔

٭ معیشت

’کھاؤ کماؤ پارٹی‘ آزاد معیشت بلکہ مادر پدر آزاد معیشت پر یقین رکھتی ہے، چناںچہ اس کے دورِحکومت میں ہر ایک کو آزادی ہوگی کہ جیسے چاہے کمائے۔ ملک کی مالی ضروریات قرضے لے کر پوری کی جائیں گی اور حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک کے ساتھ ساتھ تنزانیہ، افغانستان، یوگنڈا، روانڈا، ایتھوپیا اور ہیٹی جیسے غریب ممالک سے بھی قرضہ مانگنے سے دریغ نہیں کرے گی، کیوںکہ ہم طبقاتی فرق پر یقین نہیں رکھتے۔ مسلم ممالک سے ہم قرض حَسنہ لیں گے اور مالیاتی اداروں، امریکا اور مغربی ملکوں سے ’قرضِ پھنسنا‘ جسے دے کر وہ ایسے پھنسیں گے کہ تقاضا ہی کرتے رہ جائیں گے۔

٭ صحت

قوم ہم سے ایسی کوئی فضول توقع نہ رکھے کہ ہم اس کی صحت کا خیال رکھیں گے، ہم حکومت ہوں گے امّی جان نہیں کہ قوم کو گود میں بٹھا کر منہ کھول کھول کر دوائیاں پلاتے رہیں۔ بس اتنا کریں گے کہ ملک بھر میں ایک ایک کمرے کے صحت مراکز قائم کردیں گے، جو اندر سے خالی ہوں گے، بس ان کی دیواروں پر بڑا بڑا لکھا ہوگا، ’’اپنی صحت کا خیال خود رکھیے، کیوںکہ وہ آپ کی صحت ہے حکومت کی نہیں، شکریہ۔‘‘

٭ تعلیم

ہمارے نوجوان زیادہ پڑھ لکھ کر ملک چھوڑ جاتے ہیں، اس لیے اعلیٰ تعلیم کو جَڑ سے ختم کردیا جائے گا۔ جب کم پڑھے لکھے لوگ بھی ملک چلاسکتے ہیں تو زیادہ پڑھائی پر قومی دولت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے یونیورسٹیاں بند کرکے ان سب میں 10، 10 یا 15، 15 اسکول کھول دیے جائیں گے۔ اس طرح تعلیم عام ہوجائے گی۔ جامعات کی باقی بچنے والی زمین پر چائنا کٹنگ کردی جائے گی، اس طرح رہائش کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

٭ امن و امان

چُن چُن کر جرائم پیشہ افراد اور شرپسند عناصر پولیس میں بھرتی کرلیے جائیں گے۔ اس طرح جرائم کی شرح گھٹ اور پولیس کی کمائی کی شرح بڑھ جائے گی۔ چناںچہ پولیس کو تنخواہ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، یوں حکومت کو پولیس کی مفت کی نفری ہاتھ آئے گی اور قومی خزانے سے پولیس کی مد میں ہونے والے اخراجات ختم ہوجائیں گے۔

٭ دفاع

جب حکومت میں آئیں گے تو پوچھ لیں گے۔

The post لو آگئی میدان میں ’کھاؤ کماؤ پارٹی‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 77

یہ جو زندگی ہے ناں جی! جسے پُرسکون و پُرراحت بنانے کے لیے ہم سب سَر تا پَا جُتے ہوئے ہیں اور ایسے جُتے ہوئے ہیں کہ اس میں باقی تو شاید سب کچھ ہوگا پَر زندگی نہیں کہ وہ تو کہیں کھو گئی ہے جی ہم سے، ہم سب سے۔ جی! جی بالکل آپ فقیر سے صد ہزار اختلاف کر سکتے ہیں کہ فقیر آپ اور آپ کے اختلاف و خیالات کی قدر کرتا ہے اور جی جان سے کرتا ہے، کشادہ دلی سے کرتا ہے کہ یہ تو آپ کا حق ہے جی۔ لیکن فقیر ایسا ہی سمجھتا ہے کہ اس ترقی یافتہ جسے فقیر نہیں آپ کہتے ہیں ترقی یافتہ دور پُرفتن میں جیون کہیں گم ہوگیا ہے جی۔

ہمیں چلتے جانا ہے، بس مسلسل سفر ہے یہ تو جسے موت کچھ دیر کے لیے روک دیتی ہے، یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر۔ زندگی پر موت کا پہرہ لگایا گیا ہے اور ایسا کہ مت پوچھیے، کوئی نہیں نکل سکتا اس سے، جی کوئی بھی نہیں۔ اور یہ جیون ہے ہی کتنا۔۔۔۔۔۔ ؟ کبھی سوچیے گا حضور! ہمارے سماج میں جب کوئی پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے ہیں، ایسا ہی ہے ناں۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ کس نماز کی اذان و اقامت ہے۔۔۔۔ ؟ آپ ضرور جانتے ہیں لیکن فقیر تو کبھی بھی، کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ اب تک جان پایا تو اسے بتایا گیا ہے کہ یہ وہ اذان و اقامت ہے جو پیدا ہوتے ہی نماز جنازہ کے لیے دی جاتی ہے۔ اور یہ کون نہیں جانتا کہ اقامت اور نماز میں وقفہ ہی کتنا ہوتا ہے، جی بس چند گھڑیاں۔ تو بس یہ ہے حقیقتِ زندگی۔

آتے ہوئے اذاں ہوئی، جاتے ہوئے نماز

اتنے قلیل وقت میں آئے، چلے گئے

لیکن ان چند گھڑیوں کو آپ امَر کرسکتے ہیں جی! کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ بہت آسان ہے اور ذرا سا مُشکل بھی کہ خود کو بُھول جائیے اور خالق اور اس کی خلق کو یاد رکھیے اور بس اُن کی سیوا میں جُتے رہیے کہ یہی ہے راستہ امَر ہونے کا۔ فقیر نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہَرجی باپُو پر بات کریں گے تو چلیے کرتے ہیں کہ وہ تھے ہی ایسے کہ ان کا ذکرِ خیر کیا جائے اور اس سے روشنی لی جائے کہ ایسے تھے وہ کہ جنہوں نے اپنا دل جلا کے سرعام رکھ دیا تھا اور مجسّم پکار تھے کہ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔

جیون ایک کہانی ہے تو ہر انسان کہانی ہے، اگر سننے کا سلیقہ ہو، حوصلہ ہو، ہاں اور فرصت بھی۔ سینے میں بس ڈھرکتا لوتھڑا نہ ہو، جیتا جاگتا حساس دل ہو، اور دیدہ بینا بھی، تو سنی جائے۔ لیکن اپنی ذات سے، اپنی ناک سے آگے، ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اسے کیا کہتے ہیں، فقیر تو باکل بھی نہیں جانتا، آپ بتائیے۔

جسے دیکھو مانگنے میں، شکوے شکایتوں میں ہلکان ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا، مجھے وہ نہیں ملا، زمانے نے ہماری ناقدری کی۔ ہم میرے حقوق، میرے حقوق کے نعرے بلند کیے ہوئے ہیں۔ کبھی نہیں سنا، اور سنا بھی تو بہت کم کہ ہم نے کسی کو یہ دیا، سماج کو یہ دیا۔ ہاں دعوے بہت سنے، بہت کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا، بس زبانی جمع خرچ۔ سچ یہ ہے کہ جب سماج میں بلند قامت نہ رہیں تو بونے خود کو قدآور سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہاں ان کے خوشامدیوں کی بہتات ہے جو انہیں اس فریب میں پختہ تر کرتے چلے جاتے ہیں۔ قحط الرجال ہے یہاں، لیکن کم یاب لوگ جواب نایاب ہو چلے ہیں، خوش نصیبی ہے کہ ملے فقیر کو تو، جن کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔

کبھی نہیں سنا کہ ہمیں یہ نہیں مل سکا، جب بھی بات ہوئی ایک ہی غم میں پایا اور کہتے سنا: ہم نے اس وطن عزیز اور اس کے باسیوں کو کچھ نہیں دیا۔ اس نے تو ہمیں عزت اور توقیر دان کی، پہچان دی، ہم نے کیا دیا اس دھرتی ماں کو؟ یہی غم کھائے جاتا تھا انہیں۔ لیکن جو کچھ انہوں نے اس ملک و قوم کو دیا، وہ سب سے پوشیدہ رہا کہ وہ اس کا چرچا تو رہا ایک طرف، کبھی اشاروں میں بھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ تو فقیر کے ہَرجی باپُو بلند قامت ہی نہیں ایسے لوگوں کی صف اوّل میں تھے۔ ہاں ایسے ہی تھے ہمارے ہَرجی باپُو، دانا، بینا، دل زندہ، محبت، اپنائیت، ہمت، جفاکشی، فہم و فراست اور دُوراندیشی و ایثار کا پیکر مجسّم ہَرجی باپُو۔ ایسے لوگ تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے جو انسانوں کو توڑتے رہتے ہیں، حوصلہ افزائی تو رہی دُور کی بات وہ ان کی تذلیل کرکے راحت پاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہَرجی باپُو انسانوں کو ٹوٹنے سے بچاتے ہی نہیں تھے، وہ تو ٹوٹے ہوؤں کو جوڑتے بھی تھے۔ ہمت اور حوصلہ بندھاتے تھے۔

ان میں خواب سجاتے اور پھر اسے تعبیر پر اُکساتے تھے، وہ دُکھ کا مداوا کرتے زخموں پر مرہم رکھتے، عجب دیالو تھے ہَرجی باپُو، جو ہر پَل بس دینے پر تلا ہوا ہو۔ سخاوت جن کی رگ و پے میں تھی، اپنے وقت سے لے کر مال تک اور اس بھی آگے جان تک۔ روشنی تھے وہ، جن سے سب ہی فیض پاتے تھے، مینارۂ نور تھے وہ۔ سیاسی لیڈر، واعظ نہیں تھے۔ وہ ایسے بے علم و بے فیض و بے حس دانش ور نہیں تھے، جو پنج ستارہ ہوٹلوں میں، مُصفّا و معدنی پانی کی بوتل ہاتھ میں تھامے بس بے روح لفظوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہَرجی باپُو تھے کھرے و باظرف و باکمال و بامروّت دانش ور، جن کا ہاتھ سماج کی نبض پر تھا۔ ہاں وہ آدمی تھے، بس عام سے، لیکن بہت خاص تھے وہ، جن کا باپ موچی تھا جس کا ذکر باپُو بہت چاہ سے کرتے تھے اور وہ خود بھی پرانے ٹائروں کی مرمت کرتے تھے۔ مَرا ہوا ٹائر ان کی مسیحائی سے جی اٹھتا تھا۔ ٹائر ہی نہیں مَرا ہوا انسان بھی جسے سماج نے مار ڈالا ہو۔

باپو 1919 میں رن کچھ کے گاؤں مان کہو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد موچی تھے۔ جب وہ بیس دن کے تھے کہ ان کے والدین ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ اس وقت کراچی بھی ایک چھوٹا سا گاؤں ہی تھا، لیکن کاروبار اور مزدوری کے مواقع زیادہ تھے۔ ان کے والد نے اولڈ کمہار واڑہ میں رہائش اختیار کی اور یہاں بھی اپنا آبائی پیشہ جاری رکھا۔ ان کے معاشی حالات بدلے تو نہیں تھے، لیکن گزارہ اچھا ہو رہا تھا۔ باپُو جب پانچ سال کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں اسکول میں داخل کرادیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ننھا ہَرجی تعلیم حاصل کرکے بڑا آدمی بنے۔ لیکن قدرت کیا چاہتی ہے کوئی نہیں جانتا۔ باپُو نے پرائمری کا امتحان دیا ہی تھا کہ ان کے والد کا دیہانت ہوگیا، جو گھر کے واحد کفیل تھے۔ دس سال کی عمر میں وہ یتیم ہوگئے۔ حالات بہت ابتر ہوگئے تھے، لیکن ان کی ماتا نے باپُو کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا کہا اور خود گھروں میں کام کرنے لگیں۔ لیکن وہ بیمار رہنے لگیں تھیں تو باپُو نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کی ذمّے داریاں بھی سنبھالیں گے۔ باپُو اس وقت ساتویں جماعت پاس کرچکے تھے۔

انہوں نے تلاش معاش کیا، تیرہ سال کے بچے کو کون کام دیتا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک دن وہ سٹی کورٹ کے سامنے عمارت میں جہاں وکلاء کے دفاتر ہیں، کام کی تلاش میں پریشان گھوم رہے تھے کہ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پریشان ہیں، تو باپُو نے انہیں اپنی بپتا سنائی۔ وہ اس وقت کے معروف انکم ٹیکس وکیل سیٹھ نارائن داس جیٹھا تھے۔ باپُو کی بپتا سن کر وہ انہیں ساتھ لے گئے اور پندرہ روپے ماہوار تن خواہ پر اپنا چپراسی رکھ لیا۔ باپُو نے بہت محنت اور دل جمعی سے کام کیا۔ وہ آٹھ سال تک سیٹھ نارائن داس جیٹھا کے چپراسی رہے، لیکن انہوں نے قانونی نکات اور مباحث کو غور سے سنا اور اس میں ماہر ہوگئے۔ اس دوران انہیں ایک پیٹرولیم کمپنی میں ملازمت مل گئی اور انہوں نے یہ ملازمت اس لیے اختیار کی کہ وہاں ان کی تن خواہ 35 روپے ماہ وار تھی۔ وہ مشین آپریٹر بن گئے۔ اس دوران گھر کے حالات کچھ بہتر ہوگئے تھے۔

ماں کے بے حد اصرار پر باپُو شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور قدرت نے انہیں سات بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ باپُو کی پوری کوشش رہی کہ ان کے سارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں چاہے انہیں کتنی بھی محنت کرنا پڑے۔ باپُو کی تن خواہ اس مقصد کے لیے ناکافی تھی۔ اس لیے انہوں نے چھٹی کے بعد کوئی کام کرنے کا سوچا۔ جونا مارکیٹ جہاں سے وہ روزانہ گزرتے تھے ایک صاحب پُرانے ٹائروں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ اس کام میں محنت تو بہت تھی، لیکن محنتانہ معقول مل جاتا تھا۔ باپُو ان صاحب کے پاس پہنچے اور کام سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ نیک دل انسان تھا تو راضی ہوگیا اور یوں باپُو شام کے وقت کام سیکھنے لگے۔ دو سال میں وہ اپنی محنت اور استاد کی توجّہ سے کام سیکھ گئے اور اب یوں انہیں کام کا معاوضہ بھی ملنے لگا۔ اس طرح وہ اپنی آمدن میں اضافہ کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ باپُو صبح سویرے اپنی کمپنی جاتے اور واپسی میں پرانے ٹائروں کی مرمّت کرتے اور رات کو گیارہ بجے واپس گھر پہنچتے۔ لیکن وہ خوش تھے کہ ان کے سارے بچے زیرتعلیم ہیں۔ وہ اکثر اپنے بچوں کو کہتے کہ وہ دل لگاکر تعلیم حاصل کریں اور اخراجات کی کوئی فکر نہ کریں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتادیا تھا کہ ان کی تعلیم باپُو کا خواب ہے جسے تعبیر کرنا اب ان کا فرض ہے۔

باپُو نے اپنی پتنی سے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ بچوں سے کسی بھی قسم کا کام نہ لیں اور انہیں تعلیم کے لیے فارغ رکھیں۔ 1969 میں باپُو ریٹائر ہوگئے۔ اور اس طرح معقول آمدن کا در بند ہوگیا۔ اس وقت ان کے چار بیٹے کالج پہنچ چکے تھے۔ لیکن باپو نے ہمت نہیں ہاری۔ کمپنی سے ملنے والے پیسوں سے انہوں نے چاکی واڑہ میں بر لب سڑک تین کمروں کا گھر خرید لیا، جس میں سے دو کمرے رہائش کے اور ایک کمرے کو دکان بنالیا تھا۔ باپُو کے ہاتھ میں جادُو تھا۔ مرا ہوا ٹائر ان کی مسیحائی سے جی اٹھتا تھا۔ ان کی شہرت پھیل گئی تھی اور اندرون سندھ سے بھی ان کے پاس کام آنے لگا۔ باپُو پر بچوں کو پڑھانے کی دُھن سوار تھی۔

وہ دن باپُو کی زندگی کا خوب صورت ترین دن تھا جب ان کے بڑے بیٹے نے بی کام کرلیا اور اسے فوراً ہی غیرملکی ہوائی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ باپُو کی خوشی دیدنی تھی لیکن وہ مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تمہیں آگے پڑھنا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہے۔ فرماں بردار بیٹے نے باپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا فیصلہ کیا اور ایک دن وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔ بڑے بیٹے نے اپنے چھوٹے بھائیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے میں باپُو کا ہاتھ بٹایا۔ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ جب سارے بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ باپُو نے اپنے سارے بیٹوں کو آزادی دی کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرلیں اور اپنے ٹھکانے بنائیں، انہوں نے اپنے بیٹوں سے کسی بھی قسم کی مدد لینے سے انکار کردیا تھا۔ وہ خود محنت کرتے تھے اور صرف کام ہی نہیں بہت معیاری کام۔ انہوں نے اپنا یہ ہنر لیاری کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کو سکھایا اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔ وہ بستی کے دیگر بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے۔ باپُو بہت محبت سے اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے: مجھے ایشور نے 7 بیٹے، 2 بیٹیاں، 31پوتیاں،10پوتے اور 3 نواسے دیے ہیں اور سب کے سب پڑھے لکھے۔

اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بچہ باہر نہ جائے اور پاکستان کی خدمت کرے۔ فرماں بردار بچوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ بیٹوں نے باپُو کے اصرار پر شادی کے بعد اپنے مکانات میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ انہوں نے باپُو سے بہت اصرار کیا کہ وہ اپنا یہ کام چھوڑ دیں اور آرام کریں، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ باپُو نے خود کو بے سہارا لوگوں کے لیے وقف کردیا تھا اور ہر وقت خدمت انسانیت پر مامور ہوگئے تھے۔ باپُو کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا، جب ان کی پتنی کا دیہانت ہوگیا اور وہ تنہا رہ گئے، لیکن وہ یہ صدمہ صبر اور وقار سے سہہ گئے۔ کچھ دن بعد وہ پھر اپنے معمولات میں لگ گئے۔ ہر وقت ان کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا اور وہ ان میں دانش کے موتی، امید کی شمع روشن کرتے رہتے۔ چھٹی کے دن باپُو کے گھر کے آگے چمکتی ہوئی کاریں کھڑی ہوتیں اور بچے اپنے باپُو سے ملنے آتے۔ چھٹی کا دن باپُو کے لیے عید سے کم نہ تھا۔ وہ مہینے بھر میں جو کماتے لوگوں میں تقسیم کردیتے اور کچھ رقم اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کی چاکلیٹس اور ٹافیوں کے لیے بچا کر رکھتے۔ سارے بچے اپنے باپ سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔

فقیر اکثر مذاق میں کہتا: باپو اتنی منہگی چاکلیٹ لیتے ہوئے آپ کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔ تو مسکرا کر کہتے ہوتا ہے پَر نئی نسل کا کچھ تو خیال رکھنا چاہیے۔ باپُو انتہائی شفیق انسان تھے۔ نو سال کے بچے سے لے کر نوّے سال کے بوڑھے تک سب ان کے دوست تھے۔ خاص کر نوجوان ان کی توجّہ کا مرکز تھے۔ وہ کہا کرتے یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ باپُو کی زبان میں قدرت نے عجیب تاثیر رکھی تھی۔ ان کے پا س لوگ روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان کو اس کی ماں فقیر کی موجودی میں باپُو کے پاس لے کر آئی، وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی باپُو اس نے پھر سے خود کو مارنے کی کوشش کی ہے۔ باپُو نے اس نوجوان سے کہا: دیکھ پیارے تُو سمجھ کہ تُو مرگیا ہے۔

وہ بہت حیران ہوا اور کہا: میں زندہ ہوں بس مرنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی کام کا نہیں سمجھتا، سب مجھے گالیاں دیتے ہیں، بس میں مرنا چاہتا ہوں۔ باپُو نے اسے بہت پیار کیا اور پھر کہا: دیکھ تُو آج سے مرگیا ہے، بس سمجھ لے اور مُردے کسی کی بات نہیں سنتے، وہ غصّہ نہیں کرتے، بس آج سے تُو میرے پاس رہے گا۔ کچھ دن بعد فقیر کا باپُو کے پاس جانا ہوا تو وہ نوجوان صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ان کے پاس بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا۔ فقیر نے کہا: باپُو یہ تو بابُو بن گیا ہے۔ باپُو مسکرائے اور کہا: بابو نہیں یہ اب ساہوکار ہے۔ باپُو نے اسے کریانے کی دکان کرادی تھی۔ وہ ایسے کام کرتے رہتے تھے۔

باپُو پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو ہمیشہ دھرتی ماتا کہتے، یوم آزادی پر مٹھائی تقسیم کرتے اور ان کی آنکھیں فرط جذ بات سے نم رہتیں۔ وہ ہمیشہ کہتے کاش میں دھرتی ماں کے لیے کچھ کر سکتا۔ لیکن باپُو نے اپنی دھرتی ماتا کے لیے اپنی اولاد کو دان کردیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد دیے جنہیں انہوں نے پابند کیا کہ وہ اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کسی بھی صورت میں باہر نہیں جائیں گے اور دھرتی ماں کی خدمت کریں گے، اور ان کے بچوں نے ان کا یہ خواب تعبیر کیا۔ آج باپُو ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی خاموش خدمات کا اعتراف سیکڑوں لوگ کرتے ہیں۔ باپو گم نام ہیرو اور بنیاد کا پتھر تھے۔ ایسے کردار اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔

چلیے حاضری قبول فقیر رخصت! کہ اپنے ہَرجی باپُو کے ساتھ بِتائے امَر لمحات کو یاد کرتے ہوئے آنسوؤں کی برسات میں نہانا بھی ہے۔

حروف کشف کے ہیں اور ظروف مٹی کے

اُجڑ سکی نہ کسی سے یہ خانقاہ مری

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

انفرادیت پسندی

$
0
0

’’انفرادیت یا معاشرے سے علیحدگی خودکشی کے مانند لغو ہے‘‘ دورحاضر میں انفرادیت کا منفی تصور کسی وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔

مندرجہ بالا قول اس صورتحال پر درست صادر ہوتا ہے۔ نفسا نفسی کے اس عالم کو دیکھ کر روز حشر کا گمان گزرتا ہے کہ جہاں ہر شخص اپنی ذات کے حوالے سے فکر مند ہو۔ مگر یہ چھوٹی سی قیامت کیسے آئی اس کی وجوہات کافی طویل ہیں۔ انفرادیت پسندی کا رجحان تیزی سے انسانی معاشرے کی جڑوں میں سرائیت کررہا ہے جس کے نتائج کبھی بے حسی تو کبھی سفاکی کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر ہی کسی مفکر نے کہہ رکھا ہے ’’انفرادیت کبھی کبھی کمزوری بھی بن سکتی ہے‘‘ آج اگر دنیا کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو اس قول کا عملی ثبوت امت مسلمہ کی حالت زار دیکھ کر ملتا ہے۔

جہاں تفرقہ میں پڑ کر سب ایک دوسرے پر سبقت لینے کی جستجو میں بکھر گئے ہیں اور دشمن کے لیے فتح کی امید مخالف کی کمزوری سے بڑھ کر بھلا کیا ہوسکتی ہے۔ معاشرے انفرادیت کے خطوط پر نہیں بلکہ اجتماعیت کی اساس پر استوار کیے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مخلوقات پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گروہوں میں تقسیم شدہ ہیں، مل جل کر رہنے کا نظریہ رائج العام ہے۔ ہاتھی ہوں، زور آور شیر یا ننھی منی چیونٹیاں سب مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اجتماعت کا یہ نظریہ انہیں انفرادیت کے خطرناک نتائج سے بچاتا ہے جو اکیلئے رہ جانے والے لمبے چوڑے ہاتھی کو بھی شیروں کے جھنڈ کا شکار ہونے سے نہیں بچا پاتا۔

بالکل اسی طرح کی مثال انسانی معاشرے کی ہے۔ فطری و اسلامی نقہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان کی جبلت میں گروہوں میں یعنی مل جل کر رہنے کو شامل کردیا گیا۔ اگر اللہ پاک کو انسان کے اندر انفرادیت کا خمیر ہی ڈالنا مقصود ہوتا تو وہ آدم کے لیے ہوا کو نہ بناتا۔ تفرقہ میں پڑنے سے نہ روکتا، جسد واحد کی طرح متحد ہونے کی مثالیں نہ ملتیں۔ صلہ رحمی اور رحم دلی کی اس دنیا  میں کوئی جگہ نہ ہوتی۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ انسان اپنے فطری چلن سے ہٹ کر چلنے کی کوشش میں لگا ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔

ایک فرد کی زندگی سے لے کر پورے معاشرے کی مثالیں چیخ چیخ کر اس کا ثبوت دیتی ہیں۔ بھلا کیسے، وہ ایسے کہ کوئی بھی فرد صرف اور صرف اپنی ہی بھلائی چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس کی ذات ہی کل کا درجہ رکھتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ رشتے جوکہ دنیا میں سب سے زیادہ مخلص تصور کیے جاتے ہیں ان میں بھی گراوٹ آنے لگی ہے جوکہ ایک خطرناک بات ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوجائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ جہاں مادیت پرستی کا ملمع سب پر چڑھ چکا ہو وہاں رشتوں ناطوں کی کوئی اہمیت بھلا کیونکر رہ سکتی ہے۔ پہلے پہل تو مغربی معاشروں کی بات ہوا کرتی تھی مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو انفرادیت پسندی کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس رجحان کو پھیلانے میں جدید ٹیکنالوجی خصوصاً سوشل میڈیا کا استعمال قابل ذکر ہے۔ حال ہی میں چند ایسے انکشافات ہوئے ہیں جن کے بعد یہ جاننا بے انتہا مشکل ہوگیا ہے کہ آخر دنیا کس طرف جارہی ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا۔

اس ضمن میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ تیزی سے خود پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ناصرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سیلفی کا نام تو سب نے سن رکھا ہوگا اور آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے سیلفی نہ لے رکھی ہو۔ سیلفی کا رجحان اس قدر تیزی سے پروان چڑھا مگر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر سیلفی لینے کا مقصد کیا ہے۔ سن 2000ء کے ابتدائی برسوں میں فروغ پانے والے سیلفی رجحان کی داغ بیل 19 ویں صدی کے آخر میں روبرٹ کارنیلس نامی ایک صورت گرد کیمیادان نے ڈالی۔ جب سادہ بلیک اینڈ وائٹ کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اپنی تصویر بنائی۔ سیلفی کے اس رجحان نے لاکھوں جانیں لے لیں مگر لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ اس فضول شوق سے خودنمائی کے پیچھے اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نئی دہلی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ 2011ء سے 2017ء کے درمیان 259 افراد سیلفی کی خاطر موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔

پاکستان میں بیسیوں افراد اس سیلفی کے شوق میں جان کی بازی ہار گئے۔ ایسے خطرناک واقعات یوں تو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ باقی لوگ عبرت حاصل کرنے کے بجائے مزید ایسی حرکات میں مگن رہورہے ہیں۔ ایک وحشت ناک روایت جوکہ مغربی ممالک میں پرون چڑھ رہی ہے اور مستقبل قریب میں باقاعدہ ایک ثقافت کا روپ دھار لینے کی پیشن گوئی بھی کی جارہی ہے وہ ہے ’’سولو کلچر‘‘ (Solo Culture) اکیلے زندگی گزارنا۔ ایک وقت تھا جب تنہا زندگی گزارنے والوں کو ترحم بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی تنہائی پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا اور یہ بھی نہیں کہ وہ تنہا بالکل ہی تنہا زندگی بسر کررہا ہوتا یا ہوتی تھی۔

عموماً وہ کسی نہ کسی رشتے میں بندھے ہوتے یا پھر مشترکہ خاندان کے بجائے الگ گھر میں رہ رہے ہوتے جوکہ ایک رسم بھی رہی مگر اب الگ تنہا رہنے کا یہ رواج خطرناک صورت اختیار کررہا ہے۔ وہ یوں کہ سنگل لوگ اب بناکسی رشتے ناطے کے بالکل تنہا رہنے لگے ہیں۔ جاپان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں Solo Culture تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق جاپان میں تنہا لوگوں کی تعداد تقریباً نصف آبادی پر محیط ہے جوکہ 2030ء تک تا عمر تنہا زندگی بسر کرنے والے افراد کے 25 فیصد اضافے کی پیش گوئی کرتی ہے۔

گزشتہ برس جاپان میں صرف 941,000 بچوں کی پیدائش ہوئی جوکہ 1899ء سے لے کر اب تک کی کم ترین شرح پیدائش کو ظاہر کرتی ہے۔ اس وقت بھی جاپان میں بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ جاپان میں ایسے تنہائی پسند اکیلے افراد کے لیے ایک خاص لفظ ”Ohitorisama” استعمال کیا جاتا ہے اور ”Herbivore men” ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو نہ ہی شادی کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی گرل فرینڈ رکھتے ہیں۔ 41 برس کی می اوکو ان افراد میں سے ہیں جوکہ شادی کی بجائے اکیلا رہنے کو پسند کرتی ہیں اور اکیلے بار میں شراب پینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ بہت سے لوگ یا تو شادی کرتے نہیں اور اگر کرتے ہیں تو تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے جاپان میں ”Ohitorisama” کی مارکیٹ ساؤتھ کوریا کی مارکیٹ سے زیادہ بڑی ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سویڈن کی جانب نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تنہا رہنے والے افراد کی 47 فیصد آبادی اکیلے گھروں میں رہائش پذیر ہے جس کی ایک وجہ لوگوں کا فلاحی ریاست میں بآسانی اکیلے رہنے کا نظام اور صنفی برابری ہے۔ اکیلا رہنے کو مسترد کرنے کے بجائے اسے معاشرتی طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ پنگھوڑے سے قبر تک تنہا رہنے کا دور دور نہیں۔ کینیڈا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔ تقریباً 30 فیصد آبادی اکیلا رہنے کو ترجیح دینے والوں کی ہے۔ زیادہ تر پروفیشنل افراد فیملی کے بجائے تنہا زندگی بسر کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ سوشیالوجی کے ایک پروفیسر کے مطابق لوگ اکیلے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ 60 سے 70 فیصد افراد اسے درست سمجھتے ہیں۔ کینیڈا کے باراور کافی شاپ یہاں تک کے کتب خانوں میں بھی لوگ تنہا رہنا پسندکرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ اپنی تنہا زندگی سے خوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہی حال ساؤتھ کوریا کا بھی ہے، پچھلے دس برسوں میں وہاں تنہا زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ 2020ء میں یہ اپنے عروج پر ہوگا۔ دوسرے ممالک کی طرح یہ رواج اعلیٰ طرز زندگی کی چاہ کے مرہون منت ہے چونکہ زیادہ تر نوجوان اپنی پروفیشنل لائف کو ترجیح دیتے ہیں اور یا تو شادی کرتے ہی نہیں یا کرتے بھی ہیں تو بڑی عمر میں اور بچے پیدا کرنے کا رجحان نہیں رکھتے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہاں آمدن ایک فرد کی ضرویات پوری کرنے کے قابل ہے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ساؤتھ کورین کمپنیوں نے ایک فرد کے لیے اشیاء جیسے کہ فرنیچر، آلات اور دیگر اشیاء ضروریات تیار کرنا شروع کردی ہیں۔

عام طور پر اکیلے لوگ ان جگہوں پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں اچھی نوکری اور رہائش کی جگہ مل سکے۔ مگر اس طرز زندگی کے حوالے سے اہل فکر تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور تمام لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ اکیلے زندگی گزارنے کے اس رواج سے متاثر مت ہوں۔ ان کے مطابق درحقیقت لوگ پیسے اور سیکس کے انتشار کا شکار ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مرد و عورت بالترتیب 30 سے 40 اور 60 سے 70 فیصد غربت کی گورکھ دھندا میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اگر آپ نے برازیل کے حوالے سے یہ بات سن رکھی ہے کہ وہاں اکیلی عورت مرد کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے تو وہ بات اب پرانی ہوگئی ہے۔ آج کے دور میں برازیلن مرد ہوں یا عورت وہ اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وسیع پیمانے پر نظر آنے والی تبدیلی اپنے پیچھے تیزی سے بڑھتی معیشت، شہری آبادیاں اور خواتین میں شادی کا منفی رجحان جیسی اہم وجوہات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ریڈی میڈ کھانوں کو ترجیح دینا بھی اسی کی ایک کڑی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں سیلز پر 1.2 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اسی لیے سنگل افراد کے لیے زیادہ چیزوں کو متعارف کروایا جاتا ہے۔ خاندان کے ساتھ لگاؤ کو اب قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ اب تنہا سفر کرنے اور سیاحت کرنے کے لیے مختلف ٹریول ایجنسیوں نے کام شروع کردیا ہے۔ یہ ساری صورتحال جہاں انفرادیت پسندی کے بڑھتے رجحان کی جانب اشارہ کرتی ہیں وہیں لمحہ فکریہ بھی ہیں۔

حال ہی میں ایک مشہور کھانا آن لائن ڈیلیور کرنے والی ایپ نے سنگل ڈبل کے نام سے آفر متعارف کروائی جسے لوگوں نے بنا کسی تنقیدی نقطہ نظر کے قبول کرلیا مگر بادی النظر دیکھا جائے تو یہ سب خطرناک علامات ہیں جوکہ ہمارے معاشرے میں بھی Solo Culture کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ انفرادیت پسندی اس وقت تک کوئی بری چیز نہیں جب تک وہ معاشرے اور افراد کے لیے خطرے کا باعث نہ ہو۔ مگر دور حاضر کی صورت حال دیکھی جائے تو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوتی ہے کہ کہیں پاکستانی معاشرے کو تنکا تنکا کرنے کی یہ سازش انفرادیت پسندی کی تہذیب کا لبادہ اوڑھے کامیاب نہ ہوجائے۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ معاشرے میں اخوت، بھائی چارے اور صلح رحمی کے جذبات کو فروغ دیا جائے اور انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کے ملی جذبات کو فروغ دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خداناخواستہ ہمیں بھی ایک بے حس معاشرے میں جینا پڑے گا جوکہ کسی صورت انسانی معاشرے کہلانے کے لائق نہ ہوگا۔ چین، جاچان اور دوسرے ممالک اپنے معاشروں میں ایسی خوفناک تبدیلیوں سے آگاہ ہوتے ہوئے زیادہ سے زیادہ امیی گرانٹس Immigrants کو اپنے ممالک میں دعوت دے رہے ہیں مگر سوچنا آپ نے ہے کہ کیا ہمیں ایسے مشینی معاشرے چاہئیں۔

The post انفرادیت پسندی appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کے غیر انسانی ’’ڈیتھ کیمپ‘‘

$
0
0

بائیس سالہ رحمان الیکٹریشن ہے اور بھارتی ریاست آسام کے قصبے متیا کا باسی۔ پچھلے سال اُسے کسی نے بتایا کہ چند میل دور حکومت ایک فیکٹری تعمیر کررہی ہے۔ وہاں الیکٹریشنوں کی ضرورت ہے۔

رحمان اچھی ملازمت کی کھوج میں تھا لہٰذا وہ اس زیر تعمیر فیکٹری میں پہنچ گیا۔ اسے ملازمت مل گئی۔ مگر دو ماہ قبل اسے یہ جان کر دھچکا لگا کہ زیر تعمیر عمارت کوئی فیکٹری نہیں ایک ’’حراستی مرکز ‘‘(detention centre) ہے۔

مودی حکومت یہ حراستی مرکز تعمیر کروارہی تھی تاکہ وہاں غیر قانونی قرار دیے جانے والے آسامی مسلمان نظر بند کیے جاسکیں۔مودی حکومت نے 2014ء برسراقتدار آتے ہی آسام میں ’’این آر سی‘‘ (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن) کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کے ذریعے بظاہر آسامی شہریوں کے شناختی کاغذات کی پڑتال کرنا مقصود تھی۔ حقیقت میں مودی حکومت آسام کو مسلم اکثریتی ریاست بننے سے روکنا چاہتی تھی۔ اسی لیے این آر سی مہم شروع کی گئی تاکہ لاکھوں آسامی مسلمانوں کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر انہیں ملک بدر کیا جاسکے۔

متیا کے نزدیک زیر تعمیر حراستی مرکز بھارت میں سب سے بڑا ہے۔نو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہے۔ وہاں ایک وقت میں تین ہزار انسان زیر حراست رکھے جاسکتے ہیں۔ مرکز میں خواتین اور مرد الگ الگ رہیں گے۔دونوں حصوں کے درمیان خار دار تاریں حائل ہوں گی۔گویا بچوں کو اپنے والدین سے جدا کردیا جائے گا۔ بچوں سے بچپن کی سہانی خوشیاں چھین لینے کا عمل صرف ظالم و سفاک حکومتیں ہی انجام دے سکتی ہیں۔ دور جدید میں مودی حکومت ہی سفاکیت اور ظلم کا نیا روپ بن چکی جو مسلمانان بھارت کو نت نئے طریقوں سے دق کررہی ہے۔ اس نے بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کرکے ان کا مستقبل تشویشناک بلکہ خوفناک بنادیا۔دور جدید میں شاید ہی بھارت جیسا کوئی اور ملک ہو جہاں اکثریت طاقت کے بل پر اقلیت پہ ظلم وستم توڑ رہی ہے۔

آسام میں اسلام تیرہویں صدی میں پہنچا۔ تب یہاں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے بت پرست آباد تھے۔ صوفیائے کرام کی تبلیغ سے خطے میں ہزارہا آسامی مسلمان ہوگئے۔ یوں آسام میں دین حق پھیلنے لگا۔ اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر ہر سال ہزارہا مسلمان ہوجاتے۔ یہی وجہ ہے، علاقے میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔1901ء میں وہاں پانچ لاکھ مسلمان آباد تھے۔

ایک صدی بعد 2000ء میں ان کی آبادی بیاسی لاکھ تک پہنچ گئی۔2011ء کی مردم شماری سے عیاں ہوا کہ آسام میں تین کروڑ گیارہ لاکھ نفوس بستے ہیں۔ ان میں ایک کروڑ سڑسٹھ لاکھ ترانوے ہزار مسلمان تھے۔ گویا وہ ریاست میں سب سے بڑا مذہبی گروہ بن چکے تھے۔ اسی بات نے قوم پرست ہندو لیڈروں کو پریشان کردیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ آسام میں اسلام کی اشاعت جاری رہی، تو بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد دوسری مسلم اکثریتی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔ یوں بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے منصوبے کو دھچکا لگ جاتا۔

اکسارنا دھرم

یہ واضح رہے کہ آسام میں ایک کروڑ سے زائد بت پرست روایتی ہندو نہیں بلکہ وہ ایک مختلف فرقے، اکسارنا دھرم (Ekasarana Dharma) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس فرقے کی بنیاد تیرہویں صدی میں ایک سماجی رہنما، سنکردیو نے رکھی تھی۔ سنکر دیو برہمن فرقے اور ان کی مذہبی کتب (ویدوں) کا سخت مخالف تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ برہمنوں نے ہندوستانی معاشرے میں آمریت قائم کررکھی ہے۔ وہ خود تو آسائش بھری زندگی گزارتے تھے جبکہ ہندوستانی عوام محنت مشقت کے بعد بمشکل پیٹ بھرپاتے۔یہی وجہ ہے، سنکردیو نے برہمن مت سے ہٹ کر نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔ اس نئے فرقے میں کرشن سب سے بڑا دیوتا قرار پایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سنکر دیو کرشن کو سبھی انسانوں سے محبت کرنے والا  امن دوست دیوتا سمجھتا تھا۔

اس نے ایک مذہبی کتاب، بھاگوت تحریر کی۔ اس کتاب میں شودر اور اچھوت ہندوستانیوں پر تنقید نہیں ملتی جو روایتی ہندومت کی کتب کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ برہمنوں کی مذہبی کتاب، بھاگوت پران سے بالکل مختلف ہے۔اکسارنا دھرم میں عبادت گاہ مندر نہیں ’’نام گھر‘‘ کہلاتی ہے۔ اس فرقے کے پیروکاروں کی ہر چھوٹی بڑی بستی میں نام گھر ملتے ہیں۔ نام گھروں میں اکسارنا دھرمی کیرتن گائے اور اپنے بھگوان کی حکایات سنتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ہندومت سے کہیں زیادہ سادہ اور آسان مذہب ہے۔

بھارت میں اکسارنا دھرم کے مانند بت پرستوںکے دیگر فرقے بھی پائے جاتے ہیں۔مثلاً لنگایت دھرم جو برہمنی مت کے خلاف کرناٹک اور دیگر ہندوستانی ریاستوں میں ظہور پذیر ہوا۔اس دھرم کے عقائد ہندوؤں کے مروجہ عقیدوں سے مختلف ہیں۔ اکسارنا دھرم اور لنگایت دھرم کے مانند بھارت میں کئی بت پرست فرقے مخصوص عقائد رکھتے ہیں۔ انہیں ہندومت میں شامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بس ان میں بت پرستی  کے عناصر ملتے ہیں۔نریندر مودی اور ان کی جماعت آر ایس ایس مگر درج بالا سچائی پوشیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ ان کا پورا زور اسی بات پر ہے کہ تمام بت پرست ہندو ہیں۔ مدعا یہی کہ تمام بت پرستوں کو ہندو بنا کر ثابت کر دیا جائے ، بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ یوں بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے ۔ یہ نفرت و دشمنی پر مبنی مذہبی ایجنڈا ہے جس پر نریندر مودی اینڈ کو عمل پیرا ہے۔

نفرت کی مہم

درج بالا مذہبی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی خاطر ہی مودی حکومت نے آسام میں ’’این آر سی‘‘ مہم شروع کی تاکہ ریاست میں اسلام کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی مہاجرین آسام پہنچ کر وہاں بس رہے ہیں۔ یہ غیر قانونی شہری پھر آسامی شہریوںکی ملازمتوں اور دیگر وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں۔یہ محض الزام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلی صدی میں مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش سے چند لاکھ افراد ہی آسام آئے۔ حقیقت میں بنگالیوں کی اکثریت 1971ء سے بہت پہلے روزگار کی تلاش میں آسام آئی تھی۔ پھر یہ بنگالی اور ان کی ا ولادیں آسامی معاشرے میں رچ بس گئیں۔

ہندو انتہا پسند تنظیمیں مگر یہ استدلال ماننے کو تیار نہیں۔1971ء کے بعد آسام میں ہندو انتہا پسند لیڈروں نے ہی سب سے پہلے یہ تنازع کھڑا کیا کہ بنگلہ دیش سے ہزاروں مسلمان آسام آ رہے ہیں۔ ان کے پروپیگنڈے کی وجہ سے آسامی بت پرستوں نے اس جھوٹ کو سچ سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے‘ آسام میں خصوصاً بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلنے لگی۔ انہیں اپنی بیروزگاری اور غربت کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ اس طرح آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں نے آسام میں بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھار دیا۔ مذہب اور معیشت ان کے لیے نفرت و دشمنی پھیلانے کے ہتھیار بن گئے۔

آسام میں نفرت کی جو آگ بھڑکائی گئی، اس نے جلد ہی ہزارہا مسلمانوں کی جانیں لے لیں۔ 18 فروری 1983ء کو ضلع ناگاؤں میں اسلحے سے مسلح ہندوؤں نے مسلمانوں کے دیہات پر حملہ کردیا۔ اس حملہ کے ذریعے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنا مقصود تھا۔ چناں چہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق دس ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تاریخ انسانی کے خوفناک ترین قتل میں سے ایک ہے۔آسام میں مسلم اقلیت کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیموں کی مہم جاری رہی۔ 2014ء تک بھارتی عدلیہ میں بھی ان انتہا پسند تنظیموں کے حامی جج پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ بھارتی سپریم کورٹ نے شدت پسند رہنماؤں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے آسام میں این آر سی مہم شروع کرنے کا حکم دے دیا۔ 2016ء میں بی جے پی ریاست میں برسراقتدار آگئی۔ حکومت سنبھالتے ہی اس نے این آر سی مہم کا آغاز کردیا۔

انتہا پسند ریاستی حکومت نے پھر زیادہ سے زیادہ آسامی مسلمانوں کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے۔ مثال کے طور پر کسی سربراہ خاندان کے پاس شناختی دستاویزات میں سے ایک معمولی کاغذ بھی نہ ہوتا تو پورا گھرانا غیر قانونی بن جاتا۔ کئی بار تو اصلی کاغذات جعلی قرار دیئے گئے۔ ہر مسلمان کو نئے کاغذات بنانے میں بے پناہ مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ دوسری طرف جن غیر مسلم باشندوں کے پاس اہم شناختی کاغذات بھی نہیں تھی، انہیں نئے کاغذات بنوانے کی خاطر ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ یوں آسامی حکومت نے اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر اصول و قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔

ظلم و زیادتی کے باوجود ہندو انتہا پسند اپنے ایجنڈے پر کامیاب نہیں ہوسکے۔ وجہ یہ ہے کہ جب اگست 2019ء میں این آر سی مہم کا نتیجہ سامنے آیا تو انیس لاکھ آسامی غیر قانونی قرار پائے۔ ان میں دس لاکھ مسلمان تھے اور بقیہ غیر مسلم۔ غیر مسلموں کو فہرست میں شامل کرنے پر شدت پسند ہندو حکمران بی جے پی سے ناراض ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں کوئی ہندو غیر قانونی نہیں ہوسکتا۔ انہی ہندوؤں کو قانونی بنانے کے لیے مودی حکومت کو نئے قانون شہریت میں ترمیم کرنا پڑی۔شدت پسندوں کے تخلیق کردہ نئے قانون شہریت کی رو سے مسلمانوں کو چھوڑ کر کوئی بھی غیر مسلم باآسانی بھارت کی شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ یہ واضح طور پر مسلم دشمن قانون ہے، اسی لیے دنیا بھر میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لاکھوں آسامی بھی اس ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ وہ مذہب و نسل سے قطع نظر تمام غیر قانونی مہاجرین کو آسام سے نکالنا چاہتے ہیں۔

مودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ این آر سی یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کی مہم پورے بھارت میں چلائی جائے۔ اس طریقے سے بظاہر وہ غیر قانونی شہریوں کو پکڑنا چاہتی ہے۔ لیکن آسام کی مثال سے عیاں ہے کہ یہ مہم بنیادی طور پر مسلم دشمن ہے۔ اس کے ذریعے لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں نت نئی تکالیف و مصائب میں مبتلا کرنا مقصود ہے۔ آر ایس ایس‘ وشوا ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل وغیرہ شدت پسند ہندو انتہا پسند تنظیموں کے متعصب و تنگ دل لیڈر کسی بھی صورت مسلمانوں کو خوشحال و ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے ہیں کہ مسلمان کئی شعبوں مثلاً صنعت و تجارت‘ فلم انڈسٹری وغیرہ میں چھائے ہوئے ہیں۔

وہ بھارت میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے مسلمانوں کا اثر و رسوخ ختم نہیں تو کم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سبھی شدت پسند ہندو تنظیموں کا بنیادی ایجنڈا ہے۔یہ درست ہے کہ مودی حکومت کو خلاف توقع ا ین آر سی مہم پر زبردست عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی مسلمانوں اور طلبہ نے اس مہم کے خلاف زور دار احتجاجی مظاہرے کیے۔ امن و محبت کے پرستار ہندوؤں نے بھی متعصب مودی حکومت کو تنقید کانشانہ بنایا۔ مگر نریندر مودی کی تاریخ سے عیاں ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کر رہتے ہیں۔ لہٰذا جب عوامی مظاہروں کی شدت کم ہو گئی تو وہ کم از کم ان ریاستوں میں ایس آر سی مہم شروع کرا سکتے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مثلاً ریاست اتر پردیش جہاں بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے۔

حراستی مراکز

مستقبل میں این آر سی مہم شروع ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے ۔وہ یہ کہ مودی حکومت بھارت کے مختلف علاقوں میں حراستی مراکز تعمیر کر رہی ہے۔ آسام میں سات مراکز کام کر رہے ہیں۔ دہلی‘ پنجاب‘ راجستھان اور گوا میں ایک ایک آپریشنل ہے۔ جبکہ پنجاب‘ کرناٹک مہاراشٹر‘ اور مغربی بنگال میں نئے حراستی مراکز کی تعمیر جاری ہے۔ مغربی بنگال میں دو مراکز بنانے کا منصوبہ ہے۔ گویا مودی حکومت بھارت بھر میں خصوصاً بھارتی مسلمانوں کو بڑی تعداد میں غیر قانونی قرار دے کر انہیں گرفتار کرنے کا گھناؤنا منصوبہ بنا چکی ۔ اسی لیے بی جے پی کے رہنما آئے دن دہمکیاں دیتے رہتے ہیں کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو پاکستان بھجوا دیں گے۔ ویسے بھی ظالم حکومت کے ہوتے ہوئے کون بھارتی مسلمان بھارت میں رہنا چاہے گا؟

آسام کے حراستی مراکز میں ایک ہزار سے زائد ’’غیر قانونی‘‘ باشندے زیر حراست ہیں۔ ان میں سے 98فیصد بنگالی نژاد مسلمان ہیں۔ یہ مقام حیرت ہے کہ ایک طرف بھارتی حکومت بنگالی مسلمانوں سے جانوروں جیسا گھٹیا سلوک کر رہے اور دوسری طرف وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد نریندر مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں جھولتی نظر آتی ہیں۔

گویا انہوں نے ذاتی مفاد اور تمناؤں کی قربان گاہ پر اپنی قومی غیرت اور آن کو بھینٹ چڑھا دیا۔ حسینہ واجد نے بس بھارتی حکومت کے خلاف یہ زبانی بیان داغ دیا کہ وہ مناسب قوانین نہیں بنا رہی۔ یوں انہوں نے احتجاج کا اپنا حق ادا کیا اور مودی حکومت کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ مسلمانان بھارت پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کے حراستی مراکز ’’ڈیتھ کیمپ‘‘ بن چکے ۔ وہاں مقید مرد‘ عورتوں اور بچوں کوکئی قسم کی جسمانی و ذہنی تکالیف کا سامنا ہے۔ مقید مسلمان دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جا رہے ہیں…ایسی اذیت ناک موت  کا عذاب جو  صرف خونخوار درندے ہی نازل کرتے ہیں۔ اور بھارتی حکمران طبقہ انہی درندوں کا انسانی روپ بن چکا۔

The post بھارت کے غیر انسانی ’’ڈیتھ کیمپ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


’’کمپیوٹر کی تعلیم ‘‘

$
0
0

موبائل فون پر آنے والی کال وصول کرنے کے لیے جیسے ہی اُسے کان پر لگایا، دوسری طرف سے ایک نسوانی مگر بارعب آواز سماعت سے ٹکرائی:
’’ کیا آپ وہی ہیں جو اخبارات و جرائد میں کمپیوٹر سائنس کے حوالے سے بہت اچھے مضامین لکھتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں! خاکسار بالکل وہی ہے مگر میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔‘‘ اپنی غیرمتوقع تعریف سُن کر میں نے تشکرانہ لہجے میں جواب دیا۔

’’جی بات یہ ہے کہ میری چھوٹی بیٹی نے ابھی حال ہی میں ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ہے اور وہ جلد ہی ایک جامعہ میں اپنی میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کرنے والی ہے لیکن اس دوران اُس کی خواہش ہے کہ وہ کمپیوٹر کا کوئی مختصردورانیہ کا شارٹ کورس یا ڈپلومہ کر لے، جس کے لیے ہمیں آپ کے مشورے اور راہ نمائی کی ضرورت ہے کہ کون سا شارٹ کورس میری بیٹی کے لیے مناسب رہے گا جو مستقبل میں اُس کے شان دارکیریر میں بھی مددگار ثابت ہوسکے۔ مہربانی فرما کر کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ بھی کوئی ایسا بتائیے گا جو فیصل آباد کے قریب ہو کیوںکہ ہمارا خاندان فیصل آباد میں رہتا ہے۔‘‘ خاتون کی تفصیلی گفتگو سُن کر میں نے اُن کی صاحبزادی کے ذہنی و تعلیمی رجحان کو سمجھنے کے لیے ایک دو مزید سوالات کیے اور اُنہیں اپنی دانست میں ایک بہتر شارٹ کورس کے بارے میں بتادیا۔

اس اچانک آنے والی موبائل کال سے دو اہم ترین باتیں میرے علم میں آئیں۔ پہلی تو یہ کہ اخبارات و جرائد میں چھپنے والے مضامین اور اُن کے لکھاریوں کو قارئین انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی کس درجہ سنجیدگی سے لیتے ہیں جو بلاشبہہ اخباری صنعت کو قائم و دائم رکھنے والے کہنہ مشق مدیران کی برسہا برس کی محنت شاقہ کا منہ بولتا ثبوت ہے اور دوسری بات یہ کہ درست کمپیوٹر کورسز کے انتخاب و راہ نمائی کے لیے ایک تفصیلی مضمون لکھنے کا وقت آگیا ہے۔

کمپیوٹر کے اُردو میں لفظی معنی ’’حاسب ‘‘ کے ہیں، جس کا مطلب ہے ’’حساب کنندہ‘‘ یعنی حساب کرنے والی مشین لیکن آج کی جدید دنیا میں کمپیوٹر کی شناخت صرف ایک حسابی مشین کی نہیں رہی ہے کیوںکہ زندگی کے ہر شعبے میں کمپیوٹر پوری طرح دخیل ہوچکا ہے۔ اب چاہے وہ تعلیم ہو، کھیل تفریح ہو، مواصلات یا سفر ہو، حتٰی کہ کوئی صنعت ہو یا ہسپتال ہو۔ کمپیوٹر ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں کی ضروریات بخوبی پوری کرتا نظر آتا ہے۔

کہیں یہ بچوں کو گیمز کے ذریعے تفریح مہیا کررہا ہے، کہیں یہ اسکول، کالجز اور جامعات کے طلباء کی تعلیمی ضروریات کو پورا کررہا ہے تو کہیں یہ بڑے بڑے سائنس دانوں، ڈاکٹرز اور انجینئرز کی مشکلات ان کی تجربہ گاہوں میں حل کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ آج کمپیوٹر نے استاد کی جگہ لے لی ہے اور کمپیوٹر، تدریس کے لیے نہ صرف ناگزیر ہوچکا ہے بلکہ دورِحاضر کے طالب علم کو اْس وقت تک طالب علم کہنا ہی، درست نہ ہوگا جب تک وہ اس نئے استاد یعنی کمپیوٹر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کرے۔

یوں تو ہر ایجاد اپنی جگہ حیران کن ہوتی ہے لیکن کمپیوٹر کی ایجاد سے انسانی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہوگیا ہے۔ پاکستان میں کمپیوٹر سے متعلق پیشوں کا باقاعدہ آغاز1961سے ہوا، جب آئی بی ایم نے ہمارے ملک میں پہلا کمپیوٹر درآمد کر کے نصب کیا۔ کمپیوٹر کی افادیت اور اس کے روزافزوں استعمال کی رفتار کے پیش نظر پاکستان میں کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کا باقاعدہ آغاز70 کے عشرے میں شروع ہوا اور سب سے پہلے قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد میں کمپیوٹر کی ڈگری کلاسوں کا آغاز ہوا۔ اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں سرٹیفکیٹ، ڈپلوما، بیچلر اور ماسٹر ڈگری کے مختلف کورسز، مختلف جامعات اور اداروں میں ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ نجی شعبے میں بھی بے شمار کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ قائم ہیں جہاں کمپیوٹر سے متعلق ایک سال، چھ ماہ اورتین ماہ کے سرٹیفکیٹ کورسز کروائے جاتے ہیں۔ عام طور پرتمام نجی انسٹی ٹیوٹس کا متعلقہ صوبے کے بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے منظور شدہ ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے ہر گلی و محلے میں ایسے انسٹی ٹیوٹ کی بھی بہتات ہے جو کسی بھی مستند ادارے سے منظورشدہ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کمپیوٹر کی تحصیل میں طلباء و طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیز کس طالب علم کے لیے کس قسم کا کمپیوٹر کورس یا ڈپلوما مستقبل میں اُس کے کیریئر کو سنوارنے میں فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے کیوںکہ نجی انسٹی ٹیوٹ زیادہ سے زیادہ فیسیں اینٹھنے کے چکر میں طلباء و طالبات کو ایسے کورسز میں بھی داخلے کی ترغیب دے دیتے ہیں، جن کی طلباء کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ فائن آرٹس کے طلباء کو کمپیوٹر پروگرامنگ اور کمپیوٹر ہارڈویئر کو کورسز کروادیے جاتے ہیں جن کا اِن کے آنے والے کیریئر میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے اگر انہیں گرافکس ڈیزائنگ یا ویب ڈیزائننگ کے کورسز کروائے جائیں تو بلاشبہہ اِن کے کیریئر میں چار چاند لگ سکتے ہیں۔

زیرِنظر مضمون میں کمپیوٹر کی تعلیم سے متعلق طلباء و طالبات اور ان کے والدین کو درپیش چند ایسے ہی مسائل اور اُن کے حل کو زیرِبحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کس کے لیے ضروری ہے؟ کمپیوٹر کے شارٹ کورسز کس طالب علم کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ کمپیوٹر ڈپلوما مختصر دورانیے کا بہتر رہتا ہے یا طویل دورانیے کا؟ یا کمپیوٹر کورسز کرتے ہوئے مضامین کا انتخاب کس بنیاد پر کرنا چاہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

٭کمپیوٹر کی تعلیم میں ’’ڈگری‘‘ اور ’’شارٹ کورس‘‘ کا فرق

سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ کمپیوٹر کی تعلیم میں ایک یونیورسٹی یا جامعہ کی ’’ڈگری‘‘ آپ کو ’’کمپیوٹر کی سمجھ‘‘ دیتی ہے جب کہ کسی انسٹی ٹیوٹ میں کیا گیا کورس ’’ہنر‘‘ پیدا کرتا ہے۔ یعنی کمپیوٹر کے شعبے میں ’’اعلیٰ ڈگری ‘‘ حاصل کرکے آپ کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے لیس کسی بھی ادارے، دفتر یا کمپنی میں وہاں موجود کمپیوٹر کے ایک پورے نظام کو تن تنہا بہ آسانی سنبھال سکتے ہیں جب کہ کمپیوٹر کے کسی مخصوص شعبے میں کیے گئے شارٹ کورس یعنی ’’ہنر‘‘کی بدولت آپ کو کسی بھی جگہ موجود کمپیوٹر کے نظام کے اندر ایک متحرک اور کارآمد کارکن کے طور کام کرنے موقع میسر آسکتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک کال سینٹر میں بیک وقت سینکڑوں ملازمین کام کررہے ہوتے ہیں، یہاں کام کرنے والے عام کارکنان کے لیے یہ ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ چھ ماہ یا سال کا متعلقہ شعبے کی ضرورت کے لحاظ سے ایک مختصر سا شارٹ کورس کرلیں، جب کہ کال سینٹر میں تیکنیکی و انتظامی معاملات سنبھالنے والوں کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ متعلقہ شعبے میں کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ضرور رکھتے ہوں۔ اس مثال سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کمپیوٹر کے میدان سب سے زیادہ ملازمتیں ’’شارٹ کورسز ‘‘ کرنے والوں کے لیے دستیاب ہوتی ہیں، جیسے ڈیٹا انٹری آپریٹر، لوئر ڈویژن کلرک، اپر ڈویژن کلرک، آفس اسسنٹ، اکاؤنٹنٹ، ریسیپشنسٹ، پرسنل سیکریٹری جیسی تمام ملازمتوں کے لیے کمپیوٹر کے ’’شارٹ کورسز ‘‘ پوری طرح اعانت کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ذیل میں چند انتہائی اہم ترین ’’شارٹ کورسز ‘‘ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے، تاکہ طلباء و طالبات کو درست کورس کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوسکے۔

٭شارٹ کورسز یا سرٹیفکیٹ کورسز:

شارٹ کورسز کو آج کل عرف عام میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ بہرحال مراد دونوں سے ایک ہی ہے۔ یہاں اس بات کی صراحت کرنا اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہیں ناموں کے تھوڑے بہت فرق سے ہمارے قارئین کسی مخمصے کا شکار نہ ہوجائیں۔ کراچی، لاہور، راول پنڈی، اسلام آباد، حیدرآباد، پشاور، کوئٹہ سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں کمپیوٹر کی تعلیم کے نجی و نیم سرکاری ادارے مختلف شعبوں میں 3ماہ سے ایک سال تک کی میعاد کے ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘ ‘کی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ ایسے بھی ہیں جن کی مدت تکمیل ایک سے چھ ماہ ہے۔

’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ کی تعلیم کے بھی اتنے ہی فائدے ہوتے ہیں جتنی کے ڈگری سطح کی تعلیم کے، بلکہ کچھ معاملات میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ ڈگری سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، کیوںکہ ڈگری کے لیے آپ کو چار سال میں 40 سے زیادہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جب کہ شارٹ کورسز میں ایک ہی چیز پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے، جس سے کم وقت میں ہنر میں زیادہ نکھار آتا ہے۔ عام طور پر ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ میں داخلے کے لیے بنیادی اہلیت دسویں یا بارہویں جماعت کے امتحان میں کام یابی ہے۔ نیز کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرنے والے بعض معیاری اداروں میں داخلے سے پہلے میلانِ طبع کا امتحان بھی دینا ضروری ہوتا ہے۔

ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ میں داخلے کے لیے صرف ان ہی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے جو آپ کے متعلقہ صوبے کے سرکاری فنی تعلیمی بورڈ سے منظور شدہ ہوں یا جن کے امتحانات حکومت پاکستان سے منظورشدہ فنی تعلیمی بورڈ کی نگرانی میں لیے جاتے ہوں۔

عموماً ایک سرٹیفکیٹ کورس کے اخرجات 3 سے4 ہزار روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں ورچوئل یونیورسٹی ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ سمیت ’’ڈپلوما کورسز‘‘ کے لیے بھی آپ کا ایک بہتر انتخاب ثابت ہوسکتی ہے، کیوںکہ ورچوئل یونیورسٹی نہ صرف ہائر ایجوکیشن سے منظورشدہ ہے بلکہ اس کے کیمپس بھی کثیر تعداد میں پاکستان کے ہر اہم شہر میں موجود ہیں۔ آپ اپنے علاقے سے قریب ترین ورچوئل یونیورسٹی کے کیمپس کو یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائیٹ پر بہ آسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ ویب سائیٹ کا آفیشل لنک یہ ہے: www.vu.edu.pk ۔ ہاں! اگر آپ کو اپنے مطلوبہ کورس کرنے کی سہولت ورچوئل یونیورسٹی میں دستیاب نہ ہو تو پھر اپنے علاقے میں موجود کسی اچھے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اب چند اہم ترین ’’سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ کو اجمالی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔

٭فنڈامینٹل آف کمپیوٹر اینڈ انفارمشن ٹیکنالوجی :

کمپیوٹر کی بنیادی مبادیات میں دسترس حاصل کرنے کے لیے یہ ایک اہم ترین کورس تصور کیا جاتا ہے۔ اس شارٹ کورس کی خاص بات یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شخص اسے بہ آسانی مکمل کرسکتا ہے، جب کہ ہر خاص و عام کے لیے یہ کورس یکساں طور پر مفید بھی ہے۔ اس شارٹ کورس کو کرنے کے بعد طلباء و طالبات کے لیے زیادہ آسان ہوجاتا ہے کہ وہ کمپیوٹر کے میدان میں کسی مخصوص مضمون میں ڈپلوما یا ڈگری حاصل کرسکیں۔ اس کورس میں کمپیوٹر سے متعلق ابتدائی معلومات، ونڈوز انسٹالیشن، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور کمپیوٹر لینگویج کی عملی و نظری آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ سرکاری و نجی اداروں میں آفس اسسٹنٹ یا ڈیٹا انٹری آپریٹر سے مماثل ملازمتوں کے لیے عموماً اسی کورس کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭آفس آٹو میشن:

جیسا اس کورس کے نام سے ہی ظاہر ہے اس کورس میں ایسے سافٹ ویئرز سے متعلق نظری و عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے، جن کا تعلق روزمرہ کے دفتری اُمور سے ہوتا ہے۔ اس کورس میں خاص طور پر مائیکروسافٹ ایکسل، مائیکروسافٹ ورڈ، مائیکروسافٹ ایکسس، فرنٹ پیچ اور آؤٹ لک استعمال کرنے کی تفصیلی تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ تربیت کنندہ دفتری اُمور میں پیش آنے والے ہر قسم کے مسائل سے کماحقہ نمٹنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو سکے۔ یہ شارٹ کورس عموماً چھ ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، مگر بعض انسٹی ٹیوٹ اس شارٹ کورس کا ایڈوانس ورژن ایک سال تک بھی پڑھاتے ہیں جس کے باعث اس کورس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ شارٹ کورس اُن طلباء طالبات کو ہی کرنا چاہیے جن کا مستقبل میں کسی نجی و سرکاری ادارے میں ملازمت کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔

٭ای کامرس:

ای کامرس کے اردو میں معنی الیکٹرونک تجارت ہے، سادہ الفاظ میں آن لائن ویب سائٹ کے ذریعہ اشیاء یا خدمات کی خریدوفروخت کو ای کامرس کہتے ہیں۔ بے شمار فوائد کی وجہ سے یہ تصور دنیا بھر میں بہت تیزی سے عام ہوگیا ہے۔ اگر آپ پہلے سے کوئی کاروبار کر رہے ہیں یا آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے چاہتے ہیں یا آپ کاروباری رجحان رکھتے ہیں تو آپ کو ای کامرس کا سرٹیفکیٹ کورس ضرور کرنا چاہیے۔

ای کامرس کورس مکمل کرنے کے بعد آپ کے لیے فیصلہ سازی آسان ہوجائے گی کہ آپ کو اپنے ای بزنس کی طرف قدم بڑھانا ہے یا نہیں۔ یہ شارٹ کورس ایسے طلباء وطالبات کو بھی ضرور کرنا چاہیے جنہوں نے رسمی تعلیم میں کامرس بطور اختیاری مضمون کے پڑھا ہو۔ اگر آپ کاروباری ذہن کے حامل ہیں تو یہ شارٹ کورس شان دار کیریئر بنانے کے بے پناہ مواقع رکھتا ہے۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کی رسمی تعلیم کے حامل طلباء و طالبات کو اس شارٹ کورس سے ممکنہ حد تک احتراز کرنا چاہیے کیوںکہ اس شارٹ کورس میں پڑھائی جانے والی بنیادی مبادیات اُن کے تعلیمی و ذہنی رجحان سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں۔

٭سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ :

کمپیوٹر یا موبائل فون کے اندر کسی بھی مخصوص کام کو سرانجام دینے کے لیے کمانڈز یا ہدایات کے مجموعے کو سوفٹ ویئر کہتے ہیں۔ چوںکہ کمپیوٹر کی بنیادی زبان مشینی ہے، اس لیے انسان اور مشین کے درمیان رابطے کے لیے ایک ’’ریاضیاتی زبان‘‘ استعمال ہوتی ہے، جس کو پروگرامنگ لینگویج کہتے ہیں۔ اس وقت سوفٹ ویئرز ڈویلپمنٹ کے ’’سرٹیفکیٹ کورس‘‘ کے تحت کئی قسم کی پروگرامنگ اور اسکرپٹنگ لینگویج کی تعلیم دی جارہی ہے، جن میں زیادہ مشہور سی (C)، جاوا (Java)، پائتھن (Python)، روبی (Ruby)، ایچ ٹی ایم ایل (HTML)، ایکس ایم ایل (XML)، پی ایچ پی (PHP)، ڈاٹ نیٹ (Net.)، ڈیلفائی (Delphi) وغیرہ شامل ہیں۔

سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کو بطور کیریئر اختیار کرنے والے کے لیے کام اور مواقع کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر آپ نوجوان ہیں، آپ کا رجحان ’’سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ‘‘ کی طرف ہے ، آپ اس شعبے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں اور آپ کو سوفٹ ویئر کی فیلڈ پسند بھی ہے تو پھر دیر مت کریں۔ پاکستان میں سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کی مختلف سطح پر تعلیم کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ملک بھر کے تمام ہی سرکاری اور نجی کالجز میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اس کے مختلف پروگرامز مثلاً سرٹیفکیٹ کورسز اور ڈپلوما کورسز کیے جا سکتے ہیں، جب کہ اس شعبے میں یونیورسٹی سطح پر اعلیٰ تعلیم یعنی بیچلرز، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی تک کے بہت سے تعلیمی پروگرامز بھی دستیاب ہیں۔

٭ گرافک ڈیزائننگ:

انسان خوب صورتی کو پسند کرتا ہے اور ایک قابل گرافک ڈیزائنر اس بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور سافٹ ویئر کی مدد سے کسی بھی چیز کو اس انداز سے تخلیق کرتا ہے کہ اس میں خوب صورتی، انفرادیت اور نفاست کے پہلو کچھ مزید اُجاگر ہوکر دیکھنے والے کی بھرپور توجہ اپنی جانب سمیٹ لیتے ہیں۔ جب ہم گرافک ڈیزائننگ کی بات کرتے ہیں تو بظاہر یہ آسان سا کام محسوس ہوتا ہے لیکن اب یہ شعبہ اتنا زیادہ وسیع ہوگیا ہے کہ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف طرح کے6 سے7 ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

گرافک ڈیزائننگ کے شعبے کو اختیار کرنے کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کی تعلیم کم ہے یا آپ کو انگریزی زبان پر عبورحاصل نہیں ہے تو بھی آپ اس شعبے میں نمایاں مقام بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ’’سرٹیفیکٹ کورس‘‘ یاہنر ہے جسے سیکھ کر صرف ایک کمپیوٹر کی مدد سے اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، آپ چاہیں تو اس کو پارٹ ٹائم کرلیں اور فل ٹائم کرنا چاہیں تو پھر تو کہنے ہی کیا۔ گرافک ڈیزائننگ کورس مکمل کرنے کے بعد بہ آسانی اپنا ذاتی کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ باقاعدہ آفس بناکر یا گھر بیٹھے بھی انٹر نیٹ پر فری لانس گرافک ڈیزائنر کے طور پر کام کا آغاز کیا جاسکتا یا پھر کسی ایڈورٹائیزنگ ایجنسی یعنی تشہیر ی ادارے، اخبار، ٹی وی چینل یاملٹی نیشنل کمپنی وغیرہ میں گرافک ڈیزائنر کی ملازمت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

٭  ویب سائیٹ ڈویلپمنٹ :

یہ بات تو سب ہی جانتے ہوں گے کہ دنیا بھر میں اس وقت کروڑوں ویب سائٹس کام کر رہی ہیں۔ یہ ویب سائٹس اپنے موضوع اور مقاصد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کاروبار سے متعلق ہیں اور کچھ خبروں، تعلیم، ادب، تفریح، علم، ثقافت اور سیاسی موضوعات پر ہیں۔ ویب سائیٹ بنانے کی تعلیم کو ہی ویب سائیٹ ڈویلپمنٹ یا ویب سائیٹ ڈیزائننگ کہا جاتاہے۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کم ازکم تعلیم میٹرک درکار ہوتی ہے۔ بنیادی کورس تین ماہ کا ہوتا ہے، جس کے بعد مزید چار سے چھ ماہ کے مختلف اعلیٰ کورسز بھی کیے جاسکتے ہیں، جن کے لیے کم ازکم ایف اے کی تعلیم درکار ہوتی ہے۔ پاکستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اور نجی ادارے اس کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں، جن کی فیس پانچ ہزار سے بیس ہزار تک ہے، جب کہ صوبہ پنجاب میں ’’یو کے ایڈ‘‘ کے تعاون سے مختلف ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں مستحق افراد کو نہ صرف مفت تربیت بلکہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لیے یہ ویب سائیٹ وزٹ کریں: https://www.psdf.org.pk/

اس کے علاوہ اکثر بڑی یونیورسٹیاں بھی چھٹیوں میں اس مضمون میں شارٹ کورسز کرواتی ہیں۔ اگر آپ آرٹ یا فن کی جانب رجحان رکھتے ہیں اور گرافکس، رنگوں اور دیگر ڈیجیٹل طریقوں سے اپنے اندر موجود پوشیدہ صلاحیتوں کا اچھا اظہار کر سکتے ہیں تو یہ راستہ آپ کے لیے ترقی اور کام یابی کا راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چوں کہ اس کام کا تعلق آرٹ یا فن سے ہے اس لیے اس کا کوئی فکس فارمولا طے نہیں، لہٰذا اس وقت اچھے ویب سائیٹ ڈویلپرز ایک ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنے کے لیے دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔

اسی طرح آن لائن بیٹھ کر دیگر ممالک کے گاہکوں سے ان کی مرضی کے ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنے کا معاوضہ 200 ڈالر سے 1500 ڈالر تک ہو سکتا ہے، جب کہ اپنے تیارشدہ ٹیمپلیٹ کی قیمت فروخت 50 ڈالر سے 500 ڈالر تک فی کاپی ہوسکتی ہے، مطلب اگر ایک سال میں 100ڈالرز مالیت کی ایک سو کاپیاں فروخت ہوں تو اس شخص کو دس ہزار ڈالر سالانہ آمدنی ہوسکتی ہے۔ یعنی آپ کو ایک دفعہ محنت سے ویب سائیٹ ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنا ہے اور پھر اس ویب سائیٹ ٹیمپلیٹ کی فروخت سے آئندہ کئی سالوں تک آپ کو معاوضہ ملتا رہے گا، ہے ناں چپڑی چپڑی اور وہ بھی دو دو۔ اس کے علاوہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی آرگنائزیشنز، اخبارات، میڈیا ہاؤسز، مالیاتی ادارے، امپورٹ ایکسپورٹ، ای کامرس سے وابستہ اداروں، سوفٹ ویئر ہاؤسز، این جی اوز وغیرہ میں بھی اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

٭  آٹو کیڈ :

ریئل اسٹیٹ جسے عرفِ عام میں پراپرٹی کا کام بھی کہا جاتا ہے۔ واحد ایک ایسا شعبہ ہے جس نے گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں سب سے زیادہ شرح نمو دکھائی ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر اس وقت سب سے زیادہ نفع بخش صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اس صنعت میں کام کرنے والے افراد ترقی کے بیش بہا مواقع رکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس شعبے میں اچھی اور صاف ستھری ملازمت کے خواہش مند ہیں تو پھر آپ کو آٹوکیڈ سرٹیفکیٹ کورس یا آٹوانجنیئرنگ ڈپلوما ضرور کرنا چاہیے۔

اس شارٹ کورس میں آٹوکیڈ سافٹ ویئر میں کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ آٹو کیڈ کورس میں1مرلہ، 10مرلہ،1کنال کے گھروں کے نقشے، مارکیٹ، پلازا، چھوٹے شاپنگ مال کے نقشے بنانا، فلیٹ، ہاؤسنگ سوسائٹی کا نقشہ بنانا جس میں گھر، روڈ سیوریج لائن الیکٹرک پلان بنانا اور فائنل ڈرائینگ Submit کرنا یعنی Submittion بنا کر PDF فائل میں کنورٹ کرنا ٹوٹل سٹیشن سے پوائنٹ آٹو کیڈ میں Draw کرنا، اس کے بعد ایکسل کے پوائنٹ کو آٹو کیڈ میں Drawکرنا یعنی تصوراتی ڈیزائن، ماڈل دستاویزات سول ڈرافٹنگ ہاؤس ماڈل الیکٹریکل ڈرائنگ مکینیکل ڈرائنگ وغیرہ بنانا سکھایا جاتاہے۔

٭  ٹیکسٹائل ڈیزائننگ:

ٹیکسٹائل ڈیزائننگ ایک ایسا فن ہے جس میں کسی پہناوے کے حسن میں اضافہ کے لیے روایتی انداز سے ہٹ کر جدید، ڈیجیٹل اور تخیلی تیکنیکوں کے استعمال سے چیزوں کے قدرتی انداز بدلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سہ جہتی تیکنیکوں کو استعمال کرکے کسی بھی پہناوے کے حسن کو دوبالا کرنے کا جدید فن بھی ہے۔ جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کپڑے پر ڈیزائن سے ہی کپڑا ایک پراڈکٹ بنتا ہے جب کہ ڈیزائن خود کسی تصوراتی ہیئت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا اظہار تصویری خاکوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور یہ تصویری خاکے ایک اچھا ٹیکسٹائل ڈیزائنر ہی بنا سکتا ہے۔

ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی تعلیم بڑی اہمیت اور افادیت کی حامل ہے۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلوماکورس کے لیے طلباء و طالبات کا کم سے کم ہائی اسکول پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلوما ہولڈروں کی اس صنعت سے متعلق مختلف عہدوں، ریڈی میڈ ہوزری اور گارمنٹس کی بڑی بڑی کمپنیوں میں فیشن ڈیزائنر، فیشن کوآرڈینیٹر، سِلک مینیجر، مارکیٹنگ اور کنٹرولر کے عہدوں کے لیے اچھی ملازمت کے علاوہ خود روزگاری کے بھی بہتر امکانات ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ کپڑوں کے فیشن میں روزبروز ہونے والی تبدیلی نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے شعبے میں کیریئر بنانے کے انقلاب آفریں مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ طالبات کے لیے اس سرٹیفکیٹ کورس کا انتخاب زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

٭ ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز ڈیولپمنٹ:

اس سے مراد ایسے سوفٹ ویئرز کی تیاری کی مہارت حاصل کرنا ہے جو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز میں استعمال ہوسکیں، مثلاً کسی کمپنی کا اکاؤنٹ، پے رول سسٹم، اسکول یاکالج مینجمنٹ سسٹم، لائبریری مینجمنٹ سسٹم، وغیرہ۔ آپ اپنے کمپیوٹر میں جو بھی سوفٹ ویئر استعمال کرتے ہیں، مثلاً مائیکروسوفٹ آفس وغیرہ، یہ سب ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کہلاتے ہیں۔

ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز عموماً کسی ایک مخصوص آپریٹنگ سسٹمز کے لیے تیار کی جاتی ہیں، لیکن ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کو کچھ اس طرح بھی تیار کیا جاسکتا ہے کہ ایک سے زیادہ آپریٹنگ سسٹمز پر کام کرسکیں۔ ڈیسک ٹاپ ڈیولپمنٹ کے لیے بہت سی پروگرامنگ لینگویج استعمال ہوتی ہیں جن میں مائیکروسوفٹ کی ڈاٹ نیٹ، ویزول اسٹوڈیو (Visual Studio)، جاوا اور سی (C, #C) لینگویجز کی مارکیٹ میں زیادہ مانگ ہے۔ ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز میں مہارت رکھنے والے افراد ایسے سوفٹ ویئر پروگرام بھی تیار کر سکتے ہیں جو مخصوص مشینوں پر کام کرتے ہوں، مثلاً ٹیلی فون ایکسچینج، فوٹو کاپی مشین یاپرنٹر کے اندر موجود سوفٹ ویئر، جو صرف ایک ہی مخصوص کام کرتے ہیں۔ ایسے سوفٹ ویئرزـ ’’ایمبیڈیڈ سوفٹ ویئر‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس مضمون میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ یا’’ ڈپلوما کورسز‘‘ کرنا یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کورس اُن طلباء وطالبات کے لیے زیادہ سہل ہوتا ہے جو ریاضی کے اچھی طالب علم ہوتے ہیں۔

٭ ویب ایپلی کیشنز ڈیولپمنٹ:

ویب ایپلی کیشنز ڈویلپمنٹ کے سرٹیفکیٹ کورس میں ویب ایپلی کیشنز بنانے کے بارے میں تخصیصی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ ویب ایپلی کیشنز اس قسم کے سوفٹ ویئرز کو کہا جاتا ہے جو براؤزرز پر چلتے ہیں۔ اس طرح کے سوفٹ ویئر کی خوبی یہ ہے کہ یہ تقریباً ہر طرح کی مشین پر استعمال کے قابل ہوتے ہیں، یعنی ڈیسک ٹاپ، ٹیبلٹ، اسمارٹ فون وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ براؤزر بیس ہوتے ہیں۔ جس بھی مشین میں براؤزر انسٹال ہو، یہ ایپلی کیشنز کام کرتی ہے۔ ان کو ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کے مقابلے میں زیادہ بہتر تصور کیا جاتا ہے، کیوںکہ ویب ایپلی کیشنز ہر طرح کے آپریٹنگ سسٹمز اور مشین وغیرہ پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس کی مارکیٹ بہت وسیع ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑی ویب سائٹس، خاص طور پر متحرک ویب سائٹس کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے لیے ویب ایپلی کیشنز تیار کرسکیں یا پہلے سے موجود کسی ویب ایپلی کیشن کو ان کی ضروریات کے مطابق تبدیل کر سکیں۔ ویب ایپلی کیشنز کی ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ تر کام ایچ ٹی ایم ایل، ایکس ایم ایل، پی ایچ پی، سی ایس ایس، جاوا سکرپٹ، اور ایس کیو ایل وغیرہ میں ہوتا ہے۔

٭ موبائل ایپلی کیشن ڈیولپمنٹ:

موبائل فون کے اندر جو مختلف طرح کے فنکشن استعمال کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر اسمارٹ فون میں ہم اپنی ضرورت کی جو ’’ایپس‘‘ استعمال کرتے ہیں، ان کی تیاری کی تعلیم ’’موبائل فون ایپلی کیشن ڈیولپمنٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں گوگل کے ’’اینڈروئیڈ‘‘ آپریٹنگ سسٹم کا راج ہے۔ اس کورس میں ایپ ڈویلپمنٹ کے لیے طلباو طالبات کو ’’جاوا‘‘ یا ’’سی پلس پلس‘‘ میں مہارت ہونی چاہیے، جب کہ اس شعبے میں’’ایپل‘‘ کا آئی او ایس آپریٹنگ سسٹم بھی موجود ہے، جو آئی فون کے بعد اب آئی پیڈ اور ایپل ٹی وی میں بھی استعمال ہو رہا ہے، اس میں کام میں مہارت پیدا کرنے لیے طلباء کو اس سرٹیفکیٹ کورس میں ’’آبجکٹیو۔ سی‘‘ لینگویج پڑھائی جاتی ہے۔ اسمارٹ فونز کے بڑھتے استعمال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کورس کو کرنے والے طلباء وطالبات کا مستقبل کس قدر شان دار ہوسکتا ہے۔

٭ ڈپلوما کورسز:

’’سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ کے تحت جن شارٹ کورسز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اُن تمام کورسز میں کمپیوٹر سائنس میں ایک سال یا دو سال کے ڈپلوما کورسز بھی صوبائی ٹیکنیکل بورڈ سے منظورشدہ اداروں میں کرائے جاتے ہیں۔ ڈپلوما کورسز کی تکمیل کے بعد امیدوار، کمپیوٹر کی مختلف زبانوں اور ان کے استعمال سے واقف ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرام تیار کرسکتا ہے، اپنے ادارے کے لیے موزوں کمپیوٹر کا انتخاب کرسکتا ہے اور مائیکرو کمپیوٹر کو بہ خوبی استعمال کرسکتا ہے۔ کسی بھی ڈپلوما کورس میں داخلے کے لیے امیدوار کو کم از کم بارہویں جماعت میں کام یاب ہونا چاہیے۔ چند اداروں میں داخلے سے پہلے میلان طبع کا امتحان ہوتا ہے اور کام یاب ہونے والے امیدواروں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے۔

٭ بی ایس سی کمپیوٹرسائنس:

یہ کمپیوٹر سائنس میں تین سال کا ڈگری کورس ہے۔ اسے آپ کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم کا نقطہ آغاز بھی قرار دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی جامعات میں یہ ڈگری کورس کیا جاسکتا ہے۔ اس ڈگری پروگرام میں داخلہ لینے کے لیے بنیادی اہلیت انٹرمیڈیٹ (سائنس، آرٹس، کامرس) سیکنڈ ڈویژن، ریاضی میں 45 فی صد یا اس سے زیادہ نمبروں کے ساتھ کام یابی ہے۔ امیدواروں کو داخلے کا امتحان کام یاب کرنا ہوتا ہے۔ اس امتحان میں کام یاب امیدواروں کا انٹرویو ہوتا ہے۔ داخلہ صرف اور صرف اہلیت کی بنیا د پر دیا جاتا ہے۔ تین سالہ ڈگری کورس کے اخراجات 40سے 80 ہزار روپے تک ہیں، لیکن جس امیدوار کو اہلیت کی بنیاد پر منتخب کرلیا جاتا ہے اگر وہ جامعہ کے بھاری اخراجات برداشت نہ کرسکے تو مالی اعانت کی درخواست کرکے اسکالرشپ بھی لے سکتا ہے۔ اسکالرشپ کے لیے منتخب ہونے والے امیدواروں کے تعلیمی اخراجات کے لیے جامعہ کی طرف سے انھیں وظیفہ دیا جاتا ہے۔ یہ سہولت بھی پاکستان کی کم و بیش تمام جامعات میں دستیاب ہے۔

٭ بی ای کمپیوٹر ٹیکنالوجی:

بی ای کمپیوٹر سائنس بھی ایک ڈگری کورس ہے۔ بی ای کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں داخلے کے لیے امیدوار کی بنیادی اہلیت پری انجینئرنگ کے ساتھ سائنس میں بارہویں جماعت کام یاب ہونا ہے۔ داخلہ میرٹ کی بنیاد پر اور مختلف طبقوں کی مخصوص نشستوں پر ہوتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں بی ای کی سند کے حامل نوجوان کمپیوٹر ہارڈ ویئر سے متعلق امور انجام دیتے ہیں جن میں کمپیوٹر کی ڈیزائننگ، آپریشن، دیکھ بھال اور مرمت، تنصیب، خرید وفروخت کے امور شامل ہیں۔ چار سالہ ڈگری کورس کے تعلیمی اخراجات کا اندازہ پچاس ہزار روپے سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے۔ بی ای کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں چار سال کا ڈگری کورس مندرجہ ذیل جامعات سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی

۲۔ مہران یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جام شورو

۳۔ لاہور یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور۴۔ قائد عوام یونیورسٹی انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نواب شاہ

٭ ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس:

ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کا نصاب سافٹ ویئر سے متعلق امور پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں کمپیوٹر کا تعارف، ان کی مختلف اقسام، کمپیوٹر کی زبانیں، ان کے پروگرام اور نظری و عملی مضامین شامل ہیں۔ داخلے کے لیے بنیادی اہلیت کمپیوٹر سائنس، ریاضی، شماریات، طبیعیات میں سے کسی ایک مضمون میں بی ایس سی یا بی اے ہے۔ دیگر مضامین میں بی اے، بی ایس سی کی سند کے حامل طلباء و طالبات کو بھی بعض جامعات اس پروگرام میں داخلہ مل سکتا ہے مگر اس کے لیے اُنہیں داخلہ کا ایک خصوصی امتحان جسے آپ انٹری ٹیسٹ بھی کہہ سکتے ہیں پاس کرنا لازم ہوتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی کا دو سالہ ڈگری پروگرام کروانے والی پاکستان کی چند نامور جامعات مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ جامعہ کراچی ۲۔ جامعہ قائد اعظم، اسلام آباد ۳۔ جامعہ این ای ڈی، کراچی۔ ۴۔ لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی، لاہور۵۔ جامعہ پشاور، پشاور۔

٭ کمپیوٹر کی آن لائن تعلیم:

جی ہاں! کمپیوٹر کی آن لائن تعلیم بھی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے طلباء و طالبات میں دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم تو خود احتسابی ہے کیوںکہ آن لائن کورسز میں آپ اپنے اُستاد خود ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے اُوپر آپ کو خود ہی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ دوسری چیز ہے مستقل مزاجی یعنی روزانہ وقتِ مقررہ پر کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کلاسیں لینا، کیوںکہ آن لائن کلاسیں لینے کے لیے کمپیوٹر آپ کو زبردستی اپنے سامنے تو بٹھا نہیں سکتا۔

اگر یہ دونوں کام آپ بخوبی نبھا سکتے ہیں تو کمپیوٹر کے آن لائن کورس کام یابی کے ساتھ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ آن لائن ویڈیو کورسز کے لیے ایک بڑی مشہور ویب سائٹ lynda.com  ہے جو1995 سے کام کر رہی ہے اور lynda نامی ایک امریکی خاتون نے قائم کر رکھی ہے۔ اس کی کچھ ممبر شپ فیس ہے لیکن اس کے ویڈیو کورسز بہت معیاری ہیں۔ اس کے علاوہ مفت آن لائن کورسز کرنے کے لیے دنیا کی چند بہترین ویب سائیٹس کے لنک بھی ذیل میں درج کیے جارہے ہیں، جہاں سے آپ گھر بیٹھے بہ آسانی کمپیوٹر کے شارٹ کورسز کر سکتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت میں:

http://bit.ly/2DHFjEF
http://bit.ly/2RfvkdF
http://bit.ly/2P67NK6

The post ’’کمپیوٹر کی تعلیم ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

دوست نسوار دیتے ہیں
فرحان، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مارکیٹ میںکچھ کھا پی رہا ہوں۔ اسی دوران ایک پٹھان چیزیں بیچنے آتا ہے تو میرے دوست مذاق میں مجھے نسوار خرید کر دیتے ہیں۔ میں بھی مذاق میں اسے کھا لیتا ہوں مگر اس کا ذائقہ مجھے اس قدر برا لگتا ہے کہ میں فوراً تھوک دیتا ہوں۔

تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے۔گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان ہو سکتا ہے۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ آپ یاحی یا قیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔

خود کو مدینہ شریف میں دیکھنا
اکبر رضوان ، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اور سب گھر والے مدینہ شریف میں ہیں اور بہت خوش ہیں کہ اللہ نے ہم کو اس قابل سمجھا۔ برائے مہربانی مجھے اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذھن میں بزرگی آئے گی ۔گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا۔ اللہ کے گھر کی زیارت بھی ممکن ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

بد مزہ کھانا
مدثرکوثر ، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے گھر والے سب کہیں گئے ہوئے ہیں اور میں اپنی دوست کے ساتھ پیپر کی تیاری کر رہی ہوں۔ بھوک لگنے پہ ہم کچھ کھانے کے لئے کچن میں آتے ہیں اور کھاتے ہیں مگر کھانا اس قدر کڑوا ہوتا ہے کہ ہم ایک لقمے کے بعد کچھ بھی مزید نہیں لے پاتے اور دونوں ہی تھوک دیتے ہیں۔

تعبیر: اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بیماری یا تعلیمی سلسے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔کاروباری معاملات میں کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں۔

دولت کا لالچ
شگفتہ ناز، لاہور

خواب : یہ خواب میرے بھائی نے دیکھا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی چابی ہے جس کو وہ مختلف لوگوں کے گھر لگا لگا کر دیکھ رہے ہیں کہ کسی کے گھر سے پیسے مل جائیں۔ خواب میں بھی وہ خود کو پیسوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا دیکھ رہے ہیں۔ مگر ان کا لالچ ختم نہیں ہو رہا۔

تعبیر : یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا دماغ بہت زیادہ دنیا داری میں لگا ہوا ہے۔ اور زیادہ تر وقت پیسوں اور دنیا کے متعلق سوچتے ہوئے گزرتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس دنیا داری کو ذھن سے نکال کر اللہ کی طرف دھیان لگائیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔ کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

پیسے گم ہونا
یعقوب ارسلان ،گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں آفس کے کام کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا ہوں اور بنک کی چھٹی ہونے کی وجہ سے کلائنٹ سے پیسے خود ہی لے کر واپس پنڈی آ گیا ہوں پھر نہ جانے وہ پیسے کدھر گئے۔ میں سارا گھر تلاش کر رہا ہوں، ساتھ میں سب فیملی بھی ہے مگر کسی کو بھی نہیں مل رہے۔ پریشانی اتنی ہے کہ جب میری آنکھ کھلی تب بھی میرا دل بہت پریشان تھا ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

سانپ حملہ کرتا ہے
سدرہ علی، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے ساتھ کہیں چہل قدمی کر رہی ہوں اور وہاں اچانک ہم کو سانپ نظر آتا ہے۔ ہم دونوں یہ دیکھ کر بہت ڈر جاتے ہیں اور تیزی سے واپس بھاگتے ہیں، وہ بھی اسی تیزی سے ہمارے پیچھے آتا ہے۔ میری ساس جانے کدھر غائب ہو جاتی ہیں اور میں اپنی جان بچانے کے لئے خوفزدہ حالت میں تیزی سے بھاگتی چلی جا رہی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے جس کی وجہ سے گھریلو کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

باغ میں بزرگ سے ملاقات
ہمایوں علی، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی بہت سر سبز باغ میں ہوں اور ٹھنڈی ہوا اور موسم سے لطف اٹھا رہا ہوں ، اسی دوران کوئی بزرگ آتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں کہ یہ باغ ان کا ہے۔ میں ان کے سرسبز باغ کی تعریف کرتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ نماز کی دعوت دیتے ہیں۔ اور میں اندر ان کے باغ کے ساتھ بنی چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کرنے چلا جاتا ہوں ۔

تعبیر: خواب بہت اچھا ہے اور بزرگی کی طرف دلیل کرتا ہے۔ اللہ کے فضل سے آپ کے علم و بزرگی میں اضافہ ہو گا ۔ جس سے زندگی میں سکون و برکت ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو ہر جمعرات کچھ صدقہ و خیرات کر دیا کریں ۔

 عرس پر ڈھول بجانا
خادم حسین ، لاھور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے شہر کے ایک میلے میں شرکت کرتا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کا ہر سال میلہ لگتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہاں ڈھول والوں کا ایک گروہ ڈھول بجا رہا ہوتا ہے ۔ میں بھی ان کے پاس کھڑا ہو کر ان کو بجاتے دیکھتا ہوں توا ن سے لے کر خود بجانے لگتا ہوں۔

تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی راز جو آپ نے ابھی تک پوشیدہ رکھا ہوا ہے وہ فاش ہو جائے گا ۔ مقاصد میں گڑ بڑ ہو سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے ۔کاروبار میں جن لوگوں پر آپ کو اعتماد تھا وہ بھی آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں ۔کاروبار میں عقل سے کام لیں اور منصوبہ بندی کے تحت کاروبار کریں۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

باغ کی سیر
نسیم احمد،لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں ایک باغ میں سیر کرنے جاتا ہوں۔ باغ میں بہت رونق ہوتی ہے۔ بہت زیادہ خواتین و حضرات سیر کرنے آئے ہوتے ہیں۔ میں بھی سیر کے لئے باغ کا چکر لگانا شروع کر دیتا ہوں۔ اس وقت باغ میں بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی ہے۔ اس سے میری طبیعت بہت خوش ہوتی ہے۔ پھر میں ایک جگہ بنچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کو راحت و آرام نصیب ہو گا۔ پریشانیوں سے نجات ملے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خوشخبری ملے ۔ کاروبار میں بھی اضافہ ہو گا جس سے گھر میں آرام و سکون ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

جوتا گم ہونا
تنویر علی، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی خانقاہ پہ آیا ہوں۔ واپسی پہ جب میں جوتا تلاش کرتا ہوں تو مجھے ملتا نہیں البتہ ایک پرانا سا جوتا مل جاتا ہے جس کو پہن کر میں گھر جاتا ہوں مگر دل میں بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے ۔

تعبیر : یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو زندگی میں کوئی مسلہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے گھر میں پریشانی و نا چاقی ہو سکتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور اور ہر نماز کے بعد استغفار کثرت سے کیا کریں ۔ مراقبہ میں بھی دعا کرا دی جائے گی۔

آبشار سے پانی پینا
نائلہ اکرم خان، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے میاں کے ساتھ کہیں پہاڑی مقام پہ ہوں اور کسی آبشار کے پاس کھڑی ہوں۔ ہم اس کے پانی کو پیتے ہیں جو کہ انتہائی میٹھا ہوتا ہے۔ میں اپنے میاں سے کہتی ہوں کہ اس کو بوتل میں بھر کے ساتھ لئے چلتے ہیں اس کے بعد مجھے یاد نہیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے ہر چیز میں برکت ہو گی۔ اگر بیمار ہیں تو شفا ملے گی۔کاروبار میں بھی بہتری ہو گی جس سے مال و وسائل میں بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد جاری رکھیں۔

قید سے نجات
نصرت حمید، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ جیسے کسی جرم کی وجہ سے مجھے قید میں رکھا گیا ہے مگر بعد میں بری کر دیا جاتا ہے۔ باہر آنے کے  بعد مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میرے گھر والے بھی مجھے لینے آتے ہیں اور وہ سب بھی بہت خوش ہیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات ملے گی ۔ اگر خدانخواستہ کسی مقدمے میں پھنسے ہیں تو بھی اللہ تعالی کی مہربانی سے خلاصی ہو گی ۔ آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ آ پ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔

دوستوں کی محفل
خالد اکرم ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گاوں میں ہوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ چوپال میں بیٹھا ہوں ۔ سردی بہت زیادہ ہوتی ہے اور پھر وہاں بیٹھے کچھ لوگ آگ روشن کر کے اس کے گرد بیٹھے ہیں ۔ آگ جلانے کے بعد سب پرسکون ہو جاتے ہیں۔ اور اطمینان سے گفتگو سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیتے ہیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو کاروباری معاملات یا تعلیمی میدان میں کامیابی و ترقی ملے گی ۔ رزق میں بھی اس کی بدولت اضافہ ہو گا جس سے مال و وسائل میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

نانی کے گھر آم کھانا
علی عمران کمبوہ، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنی نانی کے گھر گیا ہوا ہوں اور کھانا کھا رہا ہوں ۔ میرے ماموں اور ممانی میرے لئے آم لے کر آتے ہیں۔ میں کھانے کے بعد بہت خوشی سے ان ٹھنڈے میٹھے آموں کو کھاتا ہوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ آپ کے کارو بار میں برکت ہو گی جس سے آپ کے وسائل میں اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالی غیب سے مدد فرمائیں گے۔ رات کو سونے سے پہلے نبی کریمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا کریں ۔

 ندی پر نہانا
ارشد علی، اوکاڑہ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے شہر کی ندی پہ نہانے کے لئے جاتا ہوں۔ وہاں پہ بے شمار لوگ آئے ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ سارا شہر ندی پہ نہانے آ گیا ہے۔ میں بھی ایک جگہ جہاں پانی کم ہوتا ہے۔کپڑے اتار کے نہانے لگتا ہوں۔ میں کافی دیر تک اس ٹھنڈے پانی سے نہاتا رہتا ہوں۔ پانی کچھ مٹی رنگ کا ہوتا ہے۔ مگر ٹھنڈا بہت ہوتا ہے۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ بیمار ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے شفا ملے گی۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو بھی شفا ملے گی۔ آپ کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کے گھر میں آرام و سکون ملے گا ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

بلند آواز میں ذکر کرنا
خدا بخش، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے محلے کی ایک مسجد میں ہوتا ہوں اور وہاں پر نماز ادا کرتا ہوں اور بعد میں اللہ تعالی سے نہایت عاجزی کے ساتھ توبہ کرتا ہوں ۔ پہلے تو میں آھستہ آھستہ استغفار کرتا ہوں پھر بلند آواز میں شروع کر دیتا ہوں۔ میرے پاس دو تین نمازی بھائی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور وہ بھی خاموشی سے ذکر شروع کر دیتے ہیں۔ میرا بلند آواز میں ذکر کرنا ان کو اچھا نہیں لگتا اور سب مجھے غور سے دیکھتے ہیں جس پہ مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے کوئی دلی مراد پوری ہو گی ۔ آپ کے کاروبار میں اضافہ ہو گا جس سے مال و وسائل میں بہتری ہو گی اور گھر میں بھی سکون ہو گا ۔ آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

فضا میں اڑنا
ڈاکٹر وحید احمد، سرگودھا

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کی چھت پہ لیٹا ہوں اور مجھے نیند آ رہی ہوتی ہے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میں آسمان کی طرف اڑتا جا رہا ہوں ۔کافی اوپر جا کے میرا جسم آہستہ آہستہ زمین کی طرف واپس آنے لگتا ہے اور دوبارہ چھت پہ واپس آ جاتا ہوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے درجات میں ترقی ہو گی ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی ۔ آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا اور اس سے کاروبار میں برکت ہو گی جو کہ مال و وسائل میں بھی برکت کا باعث بنے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

گھر کا خوبصورت داخلی دروازہ
عائشہ جبیں، ملتان

خواب : میں نے دیکھا کہ میرے گھر کا داخلی دروازہ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ اس پہ قدیم زمانے کے نقش و نگار کندہ ہوتے ہیں۔ میں غور سے دیکھتی ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نقش ابھرے ہوئے ہوں ۔کافی دیر تک میں ان کی خوبصورتی کو دیکھتی رہتی ہوں جس سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔گھر میں اور کاروبار میں بہتری ہو گی ۔ بچوں کی طرف سے بھی پیار و خوشی ملے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں ۔

کام سے دوسرے گاؤں جانا
سید احمد شاہ ، آزاد کشمیر

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اہنے گھر سے دوسرے گاوں جا رہا ہوتا ہوں۔ راستے میں ایک بڑا پل ہوتا ہے جس کو کراس کر کے ہم دوسرے گاوں جاتے ہیں۔ میں اس کو کراس کرتا ہوں تو سامنے سے میرا دوست مل جاتا ہے۔ ہم دونوں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ چلتے چلتے میرا مطلوبہ گاوں آ جاتا ہے تو میں اپنے دوست سے اجازت لے کر داخلی راستے کی طرف مڑ جاتا ہوں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔ اگر آپ کسی حکومتی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہاں پہ ترقی ہو گی۔ کاروباری و گھریلو معاملات میں بھی بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

چاند گرہن
نسیم بیگم، جھنگ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوتی ہوں۔ پھر کھڑکی کھولتی ہوں تو میری نظر چاند پہ پڑتی ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ چاند کو گرھن لگا ہوا ہے۔ میں پریشانی میں کھڑکی بند کر دیتی ہوں اور اپنے بستر پہ آ کر لیٹ جاتی ہوں ۔ نجانے پھر مجھے کیا ہو جاتا ہے کہ میں دوبارہ اٹھ کے پردہ ہٹا کر چاند کو دیکھنا شروع کر دیتی ہوں اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی غم یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ اس کا اثر گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات پہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نوکری کرتی ہیں تو اس پہ بھی اثر ہو سکتا ہے۔ مال و وسائل کی کمی سے معاملات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

 

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

کینسر کا علاج دریافت ہو گیا؟

$
0
0

اللہ تعالیٰ نے اگر انسان کا امتحان لینے کی خاطر بیماریاں پیدا فرمائی ہیں تو ان کا توڑ بھی انسان کو عطا کیا گیا۔ یہی وجہ ہے، انسان طبی تحقیق و تجربات سے موذی امراض کے علاج بھی دریافت کرلیتا ہے۔ تاہم کینسر یا سرطان ان گنے چنے امراض میں سرفہرست ہے جن کا شافی توڑ فی الحال سامنے نہیں آسکا۔ مگر اب صورتحال بدل سکتی ہے جو یقیناً کینسر میں مبتلا مریضوں کے لیے سب سے بڑی خوش خبری ہے۔

برطانوی ماہرین طب نے ہر قسم کے کینسر کا علاج کرنے والا طریق کار دریافت کرنے کی نوید سنائی ہے۔ اس علاج کا تعلق ہمارے ٹی خلیوں(T cells) سے ہے۔انسانی جسم کا حفاظتی یا مدافعتی نظام (Immune system)مخصوص خلیے رکھتا ہے۔ جب کسی بیماری کے جراثیم یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہوں تو سب سے پہلے یہی مدافعتی خلیے انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان خلیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ٹی خلیے وہ خصوصی مدافعتی خلیے ہیں جو کینسر کے خلیوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیت انہیں دیگر مدافعتی خلیوں سے ممتاز کردیتی ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی جرثومہ یا وائرس انسانی جسم کے کسی خلیے پر قبضہ کرلے تو متاثرہ خلیہ مخصوص پروٹین کے سالمات (Molecules) خارج کرتا ہے۔ یہی پروٹینی سالمے ٹی خلیوں میں مدافعتی نظام چالو کردیتے ہیں۔ ٹی خلیوں کی سطح پر بھی مخصوص پروٹینی سالمے پائے جاتے ہیں۔ اب جرثومے یا وائرس کی نوعیت و ہیئت کے مطابق ٹی خلیوں کی کوئی قسم متاثرہ خلیوں پر حملہ کردیتی ہے۔ حملہ یوں ہوتا ہے کہ ٹی خلیوں کے پروٹینی سالمات متاثرہ یا بیمار خلیے کی سطح پر چمٹ جاتے ہیں۔ یوں ٹی خلیوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بیمار خلیے کا تیا پانچہ کر ڈالیں۔

کینسر کا وائرس بیماریوں کی دنیا میں سپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے۔اکثر اوقات لاکھوں ٹی خلیے بھی اس وائرس سے متاثرہ خلیوں کو تباہ نہیں کرپاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وائرس کا نظام ان کے حملے بے اثر بنا دیتا ہے۔رفتہ رفتہ مگر تحقیق و تجربات سے عیاں ہوا کہ بعض انسانوں میں کینسر پنپ نہیں پاتا اور وہ شفایاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ان میں کینسر سے نبرد آزما خلیوں میں کوئی خاص بات تھی جس نے کینسر جیسے موذی بیماری کے وائرس کو پلنے بڑھنے نہیں دیا اور آخر مار ڈالا۔ چناں چہ طبی سائنس داں ٹی خلیوں پر تحقیق کرنے لگے۔

ایک عشرہ قبل انکشاف ہوا کہ جس انسان میں ایک پروٹینی مادہ،ایچ ایل اے (human leukocyte antigen) رکھنے والے ٹی خلیے زیادہ ہوں تو وہ خصوصاً خون کے کینسر میں مبتلا نہیں ہوتا۔یہ ایک اہم انکشاف تھا۔ بعدازں جنیاتی (جینیٹک) انجینئرنگ نے اس انکشاف کو علاج کی شکل دے ڈالی۔ یہ علاج CAR-T کہلاتا ہے۔اس علاج میں طریق کار یہ ہے کہ جب کوئی انسان خون کے کینسر میں مبتلا ہو، تو CAR-T اپناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا خون نکالا جاتا ہے۔

جس میں ٹی خلیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ یوں وہ خون کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں محو حرکت رہتے ہیں۔ پھر جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے نکالے گئے خون کے زیادہ سے زیادہ ٹی خلیوں میں ایچ ایل اے پروٹینی مادہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خون پھر مریض کے جسم میں جاپہنچتا ہے۔ یہ عمل کئی بار انجام پاتا ہے۔ اس طرح مریض کے جسم میں ایچ ایل اے رکھنے والے ٹی خلیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ یوں مریض تندرست ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایچ ایل اے پروٹینی مادے کی خامی یہ ہے کہ وہ عموماً کینسری رسولی سے چمٹ نہیں پاتا۔ اسی لیے جس انسان میں کینسر سے رسولی بن جائے، اس میں CAR-T کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم بعض طبی سائنس دانوں کو یقین تھا کہ ممکن ہے، ٹی خلیوں کی دیگر اقسام میں ایسے پروٹینی مادے پائے جاتے ہوں جن کی کثرت کینسری رسولیوں کا بھی خاتمہ کرسکے۔ پچھلے چند برس سے امریکا، برطانیہ اور جاپان کے طبی مراکز میں یہی جاننے کی خاطر تحقیق و تجربے جاری تھے۔ ان میں کارڈف یونیورسٹی کا سکول آف میڈیسن بھی شامل تھا۔

کارڈف یونیورسٹی برطانیہ کی معروف سرکاری درس گاہ ہے۔ کارڈف شہر میں واقع ہے۔ اس کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر اینڈریو سیول اپنی ٹیم کی مدد سے ٹی خلیوں پر تحقیق کررہے تھے۔ پچھلے سال انہوں نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ ٹیم نے کینسری خلیوں کے درمیان مختلف اقسام کے ٹی خلیے چھوڑ دئیے۔ ماہرین دیکھنا چاہتے تھے کہ کس قسم کے ٹی خلیے زیادہ سے زیادہ کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ لیبارٹری میں یہ تجربہ کئی بار کیا گیا۔

درج بالا تحقیق ہی سے کینسر پر حملہ کرنے والا نیا پروٹینی مادہ دریافت ہوگیا جو ایم آر 1  (MR1) کہلاتا ہے۔ یہ مادہ ٹی خلیوں کی مخصوص قسم،MC.7.G5 میں پایا جاتا ہے۔ ایم آر 1 بھی ایچ آر اے کی طرح کینسری خلیے کی سطح سے چمٹ جاتا ہے۔ یوں ٹی خلیہ اس سے جڑ کر اسے تباہ کرنے لگتا ہے۔ایچ آر اے اور ایم آر 1 میں مگر ایک بنیادی فرق ہے۔ جانوروں اور انسانوں میں بھی ہر ذی حس میں ایچ آر اے مختلف ہئیت رکھتا ہے۔ اسی لیے CAR-T طریق علاج میں پہلے ہر انسان کے ایچ آر اے کا مطالعہ کرکے اس کے مطابق بذریعہ جنیاتی انجینئرنگ نقول تیار ہوتی ہیں۔ اسی پیچیدگی کے باعث CAR-T ایک مشکل اور مہنگا علاج ہے۔ مگر ایم آر 1 تمام انسانوں میں ایک ہی صورت شکل رکھتا ہے۔

گویا اسے بطور علاج اپنانا زیادہ آسان اور سستا عمل ہے۔تجربات سے ایم آر 1 کی ایک اور انقلابی خصوصیت سامنے آئی… یہ کہ نیا پروٹینی مادہ کینسر کی رسولیوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ دوران تجربات طبی ماہرین نے پھیپھڑوں، جلد، خون، آنتوں، سینے، ہڈی، پروسٹیٹ، گردوں، بیض دانہ (Ovarian) اور کرولیکل پر حملہ آور کینسر کے خلیے لیے اور ان میں ایم آر1 والے ٹی خلیے چھوڑ دیئے۔ ٹی خلیوں نے کینسر کی درج بالا سبھی اقسام سے متاثر سبھی خلیوں کو مار ڈالا۔ اس بات نے طبی ماہرین کو نہ صرف حیران کر ڈالا بلکہ وہ جوش میں بھی آگئے۔

دراصل انہیں احساس ہوگیا کہ ایم آر 1 کی بدولت اب وہ کینسر کی بیشتر اقسام کا علاج ہوسکتا ہے۔ وجہ یہی کہ اول یہ پروٹینی مادہ تقریباً تمام انسانوں میں یکساں صورت و ہئیت رکھتا ہے۔ دوسرے ایم آر1 کینسری رسولیاں ختم کرنے کی بھی صلاحیت کا حامل ہے۔ گویا پروفیسر اینڈریو سیول کی زیر قیادت کارڈف یونیورسٹی کی ٹیم نے کینسر کا ایک نیا اور موثر طریق علاج دریافت کرلیا جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

پروفیسر اینڈریو کا پروگرام ہے کہ اسی سال یہ نیا طریق کار کینسر کے ان مریضوں پر آزمایا جائے جو مرض کی آخری سٹیج پہ ہیں۔یوں نئے طریقہ علاج کی خوبیاں اور خامیاں واضح طور پر سامنے آ سکیں گی۔نیز یہ بھی پتا چل سکے گا کہ انسانوں میں یہ طریقہ کتنا کارگر ثابت ہو گا۔دلچسپ بات یہ کہ طبی سائنس کی محیر العقول ترقی کے باوجود سائنس داں اب تک نہیں جان سکے، ٹی خلیے حیوانی جسم میں وائرس زدہ خلیوں سے کیونکر چمٹتے ہیں۔ان کے پروٹینی مادے کو وائرس زدہ خلیوں میں ایسا کیا نظر آتا ہے کہ وہ ان سے چمٹ جاتے ہیں، جبکہ بدن کے تندرست خلیوں کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔یہ راز جاننے کی خاطر بہرحال طبی ماہرین تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔اس بابت معلوم ہو جائے تو ٹی خلیوں پہ مبنی علاج زیادہ کارگر ہو جائے گا۔

نیا تباہ کن وبائی وائرس

ایک طرف دنیا بھر میں سائنس داں ناقابل علاج بیماریوں کو شکست دینے کی خاطر نت نئے علاج دریافت کر رہے ہیں تو دوسری سمت وائرس ،جراثیم اور زندگی کو نقصان پہنچانے والے دیگر نامیے بھی بہت سرگرم ہیں۔یہ نئے سے نئے امراض پیدا کر رہے ہیں۔کچھ عرصے سے ایک نئے موزی،کرونا وائرس نے چین کے شہر،ووہان میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔تادم تحریر یہ وائرس 80 انسانوں کو نمونیے میں مبتلا کر ان کی جانیں لے چکا۔ پوری دنیا میں تین ہزار مردوزن اس سے متاثر ہو چکے۔اس  کا کوئی علاج فی الوقت موجود نہیں۔

نوول کرونا وائرس چھوتی (Infectious) وائرسوں اور جراثیم  کے ایک ذیلی گروہ،وبائی(contagious) سے تعلق رکھتا ہے۔  وبائی وائرسوں،جراثیم اور دیگر موذیوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ماحول میں پھیل کر ایک انسان یا جانور سے دوسرے انسانوں اور جانوروں کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ان وبائی وائرسوں اور جراثیم کے بارے میں بعض بنیادی باتیں ہر بچے،جوان اور بوڑھے کو معلوم ہونی چاہیں تاکہ وہ ان سے محفوظ رہ کر تندرست کی دولت پائے رکھیں۔وبائی امراض ’’قابل منتقلی‘‘ (Transmissible) بھی کہلاتے ہیں۔وجہ یہ کہ وہ کسی نہ کسی ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایڈز، کالی کھانسی (Whooping cough)،چھوتی اسہال (Gastroenteritis)،عام بخار(کامن کولڈ)، ہیپاٹائٹس، نمونیہ، دق، انفلوئنزا، ملیریا، ڈینگی بخار، خسرہ، کن پیڑے (mumps) وغیرہ نمایاں وبائی یا چھوتی بیماریاں ہیں۔

یہ بات یاد رکھیے کہ کسی بھی وبائی مرض کا شکار انسان کے جسم سے جو بھی مادہ نکلے، اس میں بیماری کے وائرس اور جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ان مادوں میں تھوک کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔وجہ یہ کہ یہی مادہ بدن سے زیادہ نکلتا ہے۔تاہم مریض کے فضلے اور مادہ حیات میں بھی وائرس اور جراثیم وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب مریض کھانستا، چھینک مارتا، تھوکتا  یا رال ٹپکاتا ہے تو آلودہ تھوک باہر آ جاتی ہے۔ کھانسنے یا چھینکنے سے اس کے منہ سے تھوک آبی بخارات بن کر بھی خارج ہوتی ہے۔یہ آبی بخارات ہوا میں شامل ہو کر تین فٹ دور تک جا سکتے ہیں۔یہ آبی بخارات جب بھی تندرست انسان میں داخل ہوں تو وہ بھی چھوت کا نشانہ بن سکتا ہے۔

ایک سے دوسرے انسان کو وبائی مرض کی منتقلی دو طرح سے ممکن ہے۔اول براہ راست(ڈائرکٹ)۔وہ یوں کہ دونوں افراد بہت قریب رہیں اور اکثر ایک دوسرے کو چھوتے رہیں۔ قربت کے لمحات بھی آ جائیں۔دوم غیر براہ راست (ان ڈائرکٹ)طریقے سے۔اس منتقلی کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کا کتا پہلے کسی وبائی مرض میں گرفتار ہوا۔چونکہ آپ کتے کے قریب رہتے ہیں لہذا جلد یا بدیر وہ آپ کو بھی وبائی بیماری کا وائرس یا جرثومہ منتقل کر دے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ فضا میں مریض کی چھینک سے تھوک کے آبی بخارات پھیل جائیں۔وہ پھر کسی بھی ذی حس کو نشانہ بنا لیں گے۔

بیرونی فضا یا کھلے ماحول میں ہر چھوتی یا وبائی مرض کے وائرس، جراثیم، فنگی(Fungi)اور دیگر مضر صحت نامیے و طفیلیے(Parasites) مختلف عرصہ زندہ رہتے ہیں۔جب کوئی وبا پھیل جائے تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کا وائرس وغیرہ کھلی ہوا میں کتنا عرصہ زندہ رہتا ہے۔اس طرح وبائی بیماری سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ماہرین طب کا کہنا کہ مریض سے نکلے آبی بخارات کچھ دیر ہوا میں گردش کرنے کے بعد بالاآخر کسی جگہ ٹک جاتے ہیں۔اگر اس جگہ تندرست آدمی نے ہاتھ لگا دیا تو وبائی وائرس یا جراثیم انگلیوں سے چمٹ جائیں گے۔اب آدمی نے انگلی ،کان ،ناک یا منہ میں ڈال لی تو تب  وبائی وائرس وغیرہ اس کے جسم میں بھی داخل ہو اسے بیمار کر ڈالیں گے۔

یہ وبائی بیماری پھیلنے کا معروف طریق کار ہے۔بعض اوقات مریض کی جلد سے بھی وبائی وائرس چپکے ہوتے ہیں۔لہذا انھیں چھونے سے بھی وہ چمٹ سکتے ہیں۔تاہم وبائی وائرسوں اور جراثیم وغیرہ کی اکثریت جلد پر دس سے تیس منٹ تک زندہ رہتی ہے۔لیکن یہ موزی سخت اور نم مقام پہ کئی دن زندہ رہ سکتے ہیں۔اسی لیے وہ زیادہ خطرناک بن جاتے ہیںکہ کسی بھی وقت صحت مند انسان سے چمٹ کر اسے بھی بستر سے لگا دیتے ہیں۔

ماہرین کی رو سے فلو کے وائرس گھر کی اندرونی فضا میں سات دن زندہ رہتے ہیں۔مگر ایک دن بعد ان کی قوت میں کمی آنے لگتی ہے۔جتنا زیادہ عرصہ گذرے،وہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔فلو پیدا کرنے والے وائرس بھی سخت جگہ پر ایک دن زندہ پائے گئے۔تاہم ہاتھوں پر پانچ دس منٹ بعد ہی ان کی قوت کم ہو جاتی ہے۔وبائی وائرسوں،جراثیم وغیرہ سے بچنا کافی مشکل ہے لیکن بچاؤ کے طریقے اپنا لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔مثلاً وبا پھیلنے والے علاقے میں منہ ماسک سے ڈھانپ کر رکھیے۔دن میں بار بار ہاتھ منہ دھوئیں تاکہ انگلیوں ،ناک اور منہ پہ کوئی وائرس بسنے نہ پائے۔خاص طور پر پاخانے جانے کے بعد صابن سے ہاتھ ضرور دھویے۔کپڑے اور رہنے بسنے کی جگہ بھی صاف رکھیے۔

The post کینسر کا علاج دریافت ہو گیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

فتنہ ابلاغ
مصنف:ڈاکٹر اے آر خالد
قیمت:1800روپے۔۔۔صفحات: 243
ناشر: قلم فاؤنڈیشن،والٹن روڈ، لاہور کینٹ (03000515101)

صحافت ایک مشن تھا، جب یہ فقرہ نظر سے گزرتا ہے تو ایک کوہ گراں دل پر ٹوٹ پڑتا ہے  کہ یہ ماضی کا قصہ ہے، کیونکہ صحافت تو ہمیشہ رہے گی پھر یہ اس کا لازم و ملزوم حصہ’ مشن‘ ماضی کیوں ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب تجزیہ کار، محقق، کالم کار، مصنف اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں اور وہ بھی شعبہ صحافت کے، انھیں اگر صحافت یعنی میڈیا سے ’مشن‘ کے الگ ہونے کا دکھ نہیں ہو گا تو اور کسے ہو گا، ان کی اپنی ساری زندگی صحافت کے خارزار میں آبلہ پائی کرتے ہوئے گزری اور انھوں نے ہر دور میں قلم کی آبرو کو برقرار رکھا، سیاسی رہنما اور حکمران تو ایک طرف رہے انھوں نے آمروں کے سامنے بھی ہتھیار نہ ڈالے اور اپنے دل کی بات کہتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو نوازتا بھی ہے اور انھیں ایسے مددگار فراہم کر دیتا ہے جو ان کے تحفظ کا باعث بنتے ہیں۔

ابلاغ میں بڑی طاقت ہے، لفظوں کا یہ کھیل بڑے مثبت اور اتنے ہی منفی اثرات بھی رکھتا ہے، اس کے ذریعے اپنی بات کو منوایا جا سکتا ہے چاہے وہ جھوٹ ہو یا سچ، اور اس کا یہی عنصر سب سے خوفناک ہے کیونکہ اگر یہ کسی منفی سوچ کا آلہ بن جائے تو بڑی تباہی مچا سکتا ہے، معاشرے کی بنیادیں ہلا سکتا ہے ۔ ابلاغ فتنہ بن چکا ہے یا پہلے سے فتنہ تھا، یہ جاننے کیلئے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ضرور شامل مطالعہ کریں، یہ آپ کی رہنمائی کے بہت ضروری ہے، کیونکہ آج کا دور ابلاغ کا دور ہے اور اس کے مثبت، منفی پہلوؤں سے آگاہی  آپ کو بچائے رکھے گی۔

گداگری اور پاکستانی  معاشرہ
مصنف: نصراللہ خاں چوہان
قیمت: 800 روپے۔۔۔۔صفحات:272
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور(042 37231518)

بھیک مانگنا بہت ہی مشکل کام ہے مگر اس کے لئے جو اپنے اندر تھوڑی سی خودی اور انا رکھتا ہو کیونکہ بھیک مانگنے کے لئے اپنے آپ کو دوسروں کی نظروں میں کم تر اور حقیر بنا  کر پیش کرنا پڑتا ہے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں افراد نے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہ پال سکنے کی صورت میں خود کشی کر لی مگر بھیک مانگنا گوارا نہ کیا کیونکہ ان کی انا نے انھیں دوسروں کے سامنے خود کو حقیر بنا کر پیش کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ خودکشی خود ایک بہت بڑی لعنت ہے جو حالات سے مقابلہ کرنے کی بجائے فرار کا راستہ ہے اس لئے اس سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے، مثال اس لئے دی گئی کہ بھیک مانگنا کتنی بڑی لعنت ہے کہ بہت سے افراد اس سے بچنے کے لئے خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اسلام نے گداگری کی بہت شدت سے مذمت کی ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے خلاف قوانین بنائے گئے اور سرکاری ادارے اور این جی اوز بھی متحرک رہتی ہیں مگر  گداگری کی لعنت سے چھٹکارہ تو دور کی بات اس میں کمی بھی نہیں ہو سکی ۔ مصنف نے اس معاشرتی برائی کے خلاف قلم اٹھا کر جہاد بالقلم کا حق ادا کیا ہے، انھوں نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گداگری کے اسباب کا جائزہ لیا ہے، حکومتی اداروں اور این جی اوز کی کارکردگی بھی بیان کی ہے،اور پھر اس لعنت کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ بھی بڑی تفصیل سے سپرد قلم کئے گئے ہیں،آخر میں تدارک اور تجاویز دی گئی ہیں، ان کی کاوش انتہائی شاندار ہے، حکومتی زعماء کو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 چشم دید حقیقت
سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء
مصنف : بریگیڈیئر (ر) لیاقت اسرار بخاری
قیمت:600 روپے۔۔۔۔صفحات:104
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور(042 37231518)

سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت سی آراء پائی جاتی ہیں، اس  پر مضامین،  تحقیقی مقالے اور متعدد کتابیں شائع ہوئیں، بہتوں نے اس سانحے کا ذمہ دار فوج کو اور بہتوں نے سیاسی زعماء کو قرار دیا، ایسے بھی ہیں جنھوں نے فوج اور سیاسی مدبرین دونوں کو اس کا ذمہ دارقرار دیا۔ بریگیڈیئر (ر) لیاقت بخاری واحد سکوارڈن کمانڈر ہیں جنھوں نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنے ساتھ 139خواتین و بچے اور زخمی آفیسرز برما کے راستے پاکستان لائے، وہ پہلے ہیلی کاپٹر فلائٹ کمانڈر تھے جنھوں نے 1965ء کی جنگ میں چھمب میں حصہ لیا، اور مشرقی پاکستان میں ان گنت فلائٹ آپریشن کئے اور ستارہ جرات حاصل کیا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے کمانڈر آرمی ایوی ایشن بیس اور ڈائریکٹر ایوی ایشن جی ایچ کیو بھی رہے۔

وہ اس سانحے کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرانے کی بجائے آنکھوں دیکھا اور خود پر بیتا حال بیان کرتے ہیں جس سے قاری خود فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے اصل محرکات کیا تھے، اس کے پیچھے کونسی ملک دشمن طاقتیں کام کر رہی تھیں۔ ان کی یہ کتاب سانحہ مشرقی پاکستان پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، نوجوان نسل کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل حقائق سے روشناس ہو سکیں اور اس حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور دلائل باطل قرار دیئے جا سکیں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

حجرہ حق
مصنف: ابوالخیر حاجی عید محمد
ہدیہ:300 روپے۔۔۔۔صفحات:  95
ناشر:ادبستان، دربار مارکیٹ، لاہور (0300 4140207)

تصوف کیا ہے؟، یوں تو اس بارے میں کتابیں بھری پڑی ہیں مگر آسانی سے اس بات کو سمجھنا ہو تو کہا جائے گا کہ شریعت جسم ہے تو تصوف اس کی روح ہے، اس بات کو مزید آسان کرنا ہو تو  یوں ہو گی، ایک حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ نماز ایسے پڑھو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ تصور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے، کتابی علم رکھنے والا نماز پڑھنے کا طریقہ تو بتا دے گا اور تصور کرنے کی بات کرے گا مگر اللہ کو دیکھنے یا اللہ کے نمازی کو دیکھنے کا تصور کرنے کا طریقہ تصوف کے راستے پر چلنے سے ہی سمجھ میں آتا ہے، اس لئے جس طرح شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے بالکل اسی طرح اللہ سے لو لگانے کے لئے، دل کی آنکھ کھولنے کے لئے کسی صاحب تصوف کی ضرورت ہو گی ۔

’حجرہ حق‘ میں روشنی کے چراغ جلائے گئے ہیں جو طالبوں کو حق کی راہ دکھا رہے ہیں اور طالب ان چراغوں کی روشنی میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے کسی روشن شاہراہ پر چلتا جا رہا ہے، اس کے دل و دماغ میں علم کے نئے دریچے وا ہونے لگتے ہیں، صاحب کتاب کو اللہ تعالٰی نے بصیرت سے نوازا ہے جس کی روشنی میں وہ چراغ پر چراغ جلائے جا رہے ہیں، اللہ انھیں مزید توفیق دے تا کہ کفر و الحاد کے اس دور میں گہری ہوتی جہالت کی تاریکی ختم ہو سکے۔  اور راہ حق کے متلاشیوں کو آسانیاں میسر ہوں۔

مآثر الاجداد
تالیف: منظور الحق صدیقی ایم اے
قیمت:7500 روپے۔۔۔۔صفحات:712
ناشر: قلم  فاؤنڈیشن، والٹن روڈ، لاہور کینٹ

منظور الحق صدیقی مورخین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، انھوں جس تحقیقی انداز میں اپنا کام پایہ تکمیل کو پہنچایا، ہر علمی شخصیت اس کے بلند پایہ کی معترف ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں’’ پروفیسر منظور احمد صدیقی ہماری تاریخ اور تحقیق کی دنیا کا محترم نام ہے، وہ مستند تاریخ نویسی میں یکتا تھے، ان کی سوچ کی گیرائی اور فکر کی بلندی انھیں اپنے عہد کے اہل قلم میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہمیشہ عام کو خاص اور ادنیٰ کو اعلیٰ درجے پر دیکھنے کی متمنی رہے، وہ انتہائی صاحب عزت بھروسے کے اوردیانت دار محقق تھے، زیر نظر کتاب ان کی ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے اس کتاب کی تاریخی اہمیت اورآج تک  اس پہلو پر کچھ نہ لکھے جانے کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔‘‘ معروف صحافی، تجریہ کار الطاف حسن قریشی کہتے ہیں ’’ مآ ثرالاجداد،اس اعتبار سے تاریخ نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے کہ اس میں عوامی زندگی کی عکاسی بھی ہے اور خواتین کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔

سب سے منفرد بات یہ ہے کہ انسان کو انسان کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے یعنی اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا حسب نسب کیا تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان میں کس کس طرح حصہ لیا اور حریت فکر کی کس قدر آبیاری کی ۔ یوں ہمارے ہاتھ ایک گنجینہ معاشی آ گیا ہے۔ ‘‘ اس کتاب میں خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ سے لے کرعصر حاضر تک چودہ صدیوں کی تاریخ شامل ہے ۔ صدیقی خاندان کی تاریخ اس انداز سے بیان کی گئی ہے کہ یہ متحدہ ہندوستان و پاکستان کی معاشرت کے بارے ایک مستند ترین دستاویز بن گئی ہے۔  یہ تاریخ نگاری کا نیا منفرد اور دلچسپ تجربہ ہے۔ کتاب بڑی تقطیع پر عمدہ اور مضبوط جلد کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خاصے کی چیز ہے۔

عمارت کار

آرکیٹکچر، عمارت کاری یعنی عمارتیں ڈیزائین کرنا اور بنانا بہت قدیم فن ہے، جو افراد قدیم، تاریخی اور جدید عمارتیں دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں ان سے پوچھیں کہ اس نظارے میں کیا سحر چھپا ہوا ہے۔ عمارات اپنے اندر اس زمانے کی تاریخ چھپائے ہوئے ہوتی ہیں، ان کی بناوٹ سے اس زمانے کی طرز بودوباش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ بہت سے افراد کے لئے یہ ایک خشک موضوع ہو مگر عمارت کار کے نام پر شائع ہونے والے رسالے میں شامل مضامین ادب کی چاشنی لئے ہوئے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ان عمارات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔

جیسے شاہد برلاس کے مضمون  دوارکا اور سومناتھ کا مندر کو ہی لے لیں ’’ موجودہ دوارکا بھارتی صوبہ گجرات کا ایک قدیم ساحلی شہر ہے۔2011ء میں جس کی آبادی اڑتیس ہزار، آٹھ سو، تہتر نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ بحیرہ عرب میں خلیج کچھ کے دہانے پر جزیرہ نما اوکھا منڈل میں دریائے گومتی کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور ہندو مذہب کے چار متبرک ترین مقامات میں سے ایک اور اس کے سات مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے۔‘‘ اس تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قاری کو کیسے ادبی انداز میں اہم معلومات فراہم کی جا رہی ہیں ۔ رسالے کے مدیر حیات رضوی امروہوی کی کاوش انتہائی شاندار ہے۔ رسالہ بڑے دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں اردو افسانے
( تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
مصنف: ڈاکٹر مبارکہ احمد
قیمت:495 روپے۔۔۔۔صفحات:328
ناشر: ادبستان، دربار مارکیٹ، لاہور (0300 4140207)

تحقیق کی دنیا بڑی وسیع ہے، کیونکہ اس میں محقق ایک سرے کو پکڑ کر آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور وہ جہاں تک پہنچتا ہے وہاں یہ سلسلہ رک نہیں جاتا بلکہ اس سے آگے نئے سلسلے شروع ہوتے ہیں، اس لئے تحقیق کا کوئی آخری کنارہ نہیں، یہ سمندروں کی طرح ہے جو آپس میں ملے ہوئے ہیں اور محقق اس میں مسلسل غوطہ زن رہتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب مصنفہ کا ایم فل کا مقالہ ہے، انھوں  نے موضوع کا حق ادا کرنے کے لئے تحقیق کا پورا حق ادا کیا ہے، ڈاکٹر فردوس انور قاضی کہتی ہیں’’ مبارکہ حمید کا یہ تحقیق کام بلوچستان میں ہونے والے تحقیقی کام کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے ، انھوں نے اپنے تحقیقی کام میں علمی تحقیق کے تقاضوں کے مطابق جائزہ پیش کیا ہے۔

جس میں تحقیق کے ان تمام فنی لوازم کو پیش نظر رکھا گیا ہے جو کسی تحقیق کو معتبر بنانے کے لئے ضروری ہیں ۔‘‘ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کہتے ہیں’’ افسانہ نگاری میں 2001ء تک بلوچستان کی سیاسی سماجی اور اقتصادی زندگی میں جو کچھ ہیں اور اس کے جو اثرات یہاں مرتب ہوئے۔ انسانی زندگی کے اعتبار سے وہ محسوسات اور جذبات آپ 2001ء تک کے افسانوی ادب میں کئی جگہوں پر دکھائی دیں گے اور یقیناً کم از کم دس سے پندرہ افسانے اور کچھ افسانہ نگار آپ کو چونکائیں گے اور اس پہلو کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے واقفیت دلوانے میں محترمہ ڈاکٹر مبارکہ حمید نے اہم کام کیا ہے۔‘‘ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خاصے کی چیز ہے۔

Let’s Get Crazy
While We’re Still Young
مصنف: فیضان اسلم صوفی
قیمت:300 روپے۔۔۔۔صفحات:80
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور        

خیالات کا تانابانا تو ہر دماغ میں بنا جاتا ہے مگر انھیں دوسروں کے سامنے اس صورت میں پیش کرنا کہ دل و دماغ کو چھو سکے ہر کسی کے بس کی بات نہیں اسی لئے تو ہر شخص شاعر یا ادیب نہیں ہوتا ۔ فیضان صوفی نے اپنے تخیل میں رو کی طرح دوڑنے والی سوچ دوسروں تک پہنچانے کے لئے قلم اٹھایا ہے، یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ محسوسات کے سمندر میں گھرے ہوئے ہیں اور دوسروں کی نسبت بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور خواب کی دنیا میں آسمان کی بلندیوں پر اڑنا چاہتے ہیں، ان کی روح آزادی کا مزہ چکھنا چاہتی ہے، ان کی کاوش  بہت خوبصورت ہے۔ انگریزی ادب میں دلکش اضافہ ہے۔

 ضیافت اطفال
شاعر: شبیر ناقد
قیمت: 50 روپے۔۔۔۔صفحات:32
ناشر: اردو سخن، چوک اعظم ، لیہ        

بچے ہمارا مستقبل ہیں، اس لئے اگر مستقبل محفوظ بنانا ہے تو بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ ملک وقوم کی باگ ڈور اچھے طریقے سے سنبھال سکیں اور معاشرے میں مثبت روایات کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار کر سکیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ادب کا بڑا ہاتھ رہا ہے مگر بدقسمتی سے اب اس سلسلے میں بہت کم کام ہو رہا ہے۔ شبیر ناقد جہاں اور موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں وہیں انھوں نے بچوں کے لئے نظمیں لکھ کر ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہے، ان کی کاوش قابل تحسین ہے، دیگر ادباء کو بھی بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

ذرا ایک نظر سیڑھیوں پر بھی۔۔۔

$
0
0

سجا سجایا گھر کسے پسند نہیں ہوتا اور سنورنا اور سنوارنا تو عورت کی فطرت میں شامل ہے، پھرچاہے وہ خود اس کی ذات ہو یا اس کا گھر۔

ہر خاتون اپنے گھر کی سجاوٹ پر خاص دھیان دیتی ہے اور اپنے ذوق و شوق اور بجٹ کے حساب سے اس کو سنوارتی ہے مگر اس کے باوجود گھر کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں، جو یا تو نظر انداز ہوجاتے ہیں یا پھر سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ گھر کے اس حصے کی سجاوٹ کس طرح کی جائے، ان ہی میں سے ایک سیڑھیاں یا زینے ہیں۔ گھر کے اندر موجود زینے گو کہ اوپر نیچے جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مگر اگر بات سجاوٹ کی ہو تو ان کو بھی دیدہ زیب اور دل فریب بنا کر اپنے ملنے جلنے والوں میں باذوق خاتون ہونے کا لقب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہاں آپ کو چند طریقے بتارہے ہیں، آپ دیکھیں کہ آپ کو کون سا بھاتا ہے؟

٭ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ اگر آپ کی سیڑھیاں طویل ہیں، اور ہر منزل کے لیے سیڑھیوں کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے، جیسا کے عمومی طور پر ہوتا ہے، تو ان دونوں سیڑھیوں کی درمیانی دیوار کو آپ خالی نہ چھوڑیے، بلکہ وہاں موجود دیوار پر کوئی ایک بڑا آرٹ ورک ٹانگ دیں یا پھر ایک خوب صورت مناسب سائز کی گول یا چوکور میز رکھ کر اس پر چھوٹے چھوٹے خوب صورت ’شو پیس‘ رکھ دیں۔ اس کے علاوہ آپ اس جگہ ایک بڑا ’اِن ڈور پلانٹ‘ بھی رکھ سکتی ہیں۔

٭ اس کے علاوہ سیڑھیوں کی ’ریلنگ‘ کے ساتھ  قدرتی اور مصنوعی پودے رکھنا کافی عام ہے۔ ایسا عموماً چھت کی جانب جانے والے زینوں کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن ریلنگ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، آپ خوب صورت پلاسٹک کی خوش نما بیل لے کر ریلنگ پر آڑے ترچھے (زگ زیگ( کے انداز میں چڑھا دیں۔ ہمیں امید ہے یہ دیکھنے والا اپ کے ذوق کی داد ضرور دے گا۔ شادی بیاہ، دعوت یا اور کوئی خوشی کا موقع ہو تو رنگین بتیوں یا برقی قمقموں کی بیل اور تازہ پھولوں کی لڑیاں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

٭ زینہ گھر کے اندر موجود ہے تو زینے سے منسلک دیوار پر اپنے اہل خانہ کی تصویریں فریم کر کے لگائی جاسکتی ہیں۔ آپ ایک سیریز کی طرح اپنی بچپن، اسکول، کالج لائف، شادی اور پھر بچوں کی تصاویر لگا سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر آپ آرٹ ورک کی شوقین ہیں تو اپنے ہاتھ سے تیار کردہ پینٹنگ سے بھی دیوار کو آراستہ  کر سکتی ہیں یا کسی ایک موضوع پر جیسے اپنی یا کسی اور علاقے کی ثقافت کے دیدہ زیب مناظر یا کوئی نایاب اور قدیمی چیز آویزاں کرکے دیوار کو چار چاند لگا سکتی ہیں یا پھر اگر بجٹ اجازت دے تو سیڑھیوں سے منسلک دیوار کو بریکٹ، وال پیپر یا ٹائلز کے ایسے ترکیب سے سجا سکتی ہیں، جو گھر کے دوسرے حصوں سے قطعی مختلف ہو۔

٭ سیڑھیوں کی ریلنگ کو اگر عید یا مہمانوں کی آمد پر کم بجٹ میں سجانا چاہیں، تو جالیکا بڑا سا پرانا دوپٹا بھی آڑھا ترچھا کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنچ کی شکل میں بچوں کے نرم کھلونے یا گُل دستہ پن یا سوئی دھاگے کی مدد سے لگایا جا سکتا ہے۔

٭ سیڑھیوں پر پیر رکھنے کی جگہ پر عموماً خاص مواقع پر قالین بچھا دیا جاتا ہے۔ یا تو آپ اس پر مستقل ٹائل لگوالیں۔ بلیک اینڈ وائٹ یا متضاد (کنٹراس) رنگوں میں اِسے خوب صورت بنایا جا سکتا ہے۔

٭ گھر میں موجود زینوں کے نیچے موجود کافی جگہ موجود ہوتی ہے۔ جہاں فالتو سامان اور فرنیچر وغیرہ رکھ دیا جاتا ہے، جو کہ غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ اس حصے کی گنجائش کے مطابق اسے کھانے کی ٹیبل یا رائٹنگ ٹیبل رکھ کر بہتر طریقے سے استعمال کر سکتی ہیں۔ جس سے یہ جگہ کافی بھلی بھی معلوم ہوگی اور کارآمد بھی ہوجائے گی۔  اس کے علاوہ یہاں شیلف بنوا کر کتابیں بھی رکھی جاسکتی ہیں، چھوٹی سی میز یا چھوٹا پلنگ بچھاکر ایک بیٹھک سی بھی بنائی جا سکتی ہے۔

The post ذرا ایک نظر سیڑھیوں پر بھی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>