Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند

$
0
0

 اسلام آباد: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔

انسداد دہشتگردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں مزید دو گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔ گواہ محمد اکبر نے ویڈیو لنک کے ذریعے  بیان دیا کہ ملزم معظم نے مجھے ای میل کی کہ وہ اپنی تین بیٹوں کے ہمراہ میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے، میں  نے چھوٹے مکان میں رہنے کی باعث ان کو ساتھ رہنے سے منع کردیا تاہم میں  نے ایک دوست کے ذریعے ان کو رہائش دلوائی میں  نے معظم کو ہیتھرو ائیرپورٹ سے پک کیا میں  معظم کو اپنے ایک دوست شہزاد کے ذریعے جانتا تھا۔

گواہ محمد اکبر نے بتایا کہ میرے کراچی کے ایک اچھے دوست اکبر نے درخواست کی کہ معظم کی دیکھ بال کرے، معظم پہلی بار لندن الطاف حسین کی شادی میں آئے، مجھے معظم کی پہلی بار لندن آنے کے سال کا نہیں پتہ تاہم وہ الطاف حسین کی شادی پر آئے تھے، پہلی بار لندن آنے کے بعد معظم تین چار مرتبہ پھر لندن آئے میں  نے بھی پاکستان کے اس دوران دو چکر لگا ئے۔

گواہ محمد اکبر سے وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا آپ ان سے پاکستان میں ملے؟ اور کس طرح ملے؟ جس پر گواہ محمد اکبر نے جواب دیا کہ پاکستان کے پہلے دورے پر معظم مجھے لینے کراچی ائیرپورٹ پر آئے، دوسری مرتبہ میں  پاکستان  2012 میں آیا، معظم نے میرے دوست اکبر سے درخواست کی کہ مجھے ان کی جگہ پر لے آئیں۔

وکیل صفائی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں معظم نے آپ کو آنے کا کہا جس پر گواہ محمد اکبر نے کہا وہ جگہ شاید نائن زیرو تھی جب میں معظم سے ملنے وہاں گیا تو مجھ پر خوف طاری ہوگیا، اس جگہ پر چیک پوسٹ تھی اور بہت سے لوگوں کے پاس بندوقیں تھیں، یہ میرا ان کے پاس آخری دورہ تھا، میں  نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں ان کی طرح کا بندہ نہیں ہوں، مجھے یاد نہیں کہ آخری بار میں  نے معظم کو کب ائیرپورٹ سے پک کیا، میں  بہت خوفزدہ ہوں اور سوچتا ہوں کہ اس کیس کی بنا پر مستقبل میں  کبھی پاکستان نہ جا پاؤں گا، میں  لاہور میں  پیدا ہوا، اپنے تین بیٹوں کیساتھ لندن میں رہتا ہوں۔

وکیل صفائی نے پوچھا کہ آپ نے معظم کی لندن میں آپ کے ساتھ رہائش کا کوئی ثبوت نہیں دیا جس پر گواہ محمد اکبر نے کہا معظم میرے ساتھ کھیل رہا تھا، میں  کیسے ثبوت دیتا۔

دوسرے گواہ معین الدین شیخ نے بیان دیا کہ 2013 میں اس کیس سے متعلق پولیس کو بیان دیا تھا، محسن علی سید 2010 میں میرے گھر رہے،  محسن علی سید اسی دکان پر کام کررہے تھے جہاں میں بھی ملازم تھا، محسن رہائش کیلیے کمرہ کی تلاش میں تھا، میں  نے اس کو اپنے گھر میں  کمرہ دیا، محسن نے مجھے پاسپورٹ کی کاپی اور اسٹوڈنٹ کارڈ کی کاپی دی، میں محسن سے 40 پاؤنڈ فی ہفتہ کرایہ لیتا تھا۔

گواہ شیخ معین الدین نے کہا محسن سے کامران نامی شخص ملنے آیا اس کے کچھ عرصے بعد محسن منظر سے غائب ہوگیا، محسن ستمبر 2010 میں غائب ہوگیا، کالج فون کیا تاہم کالج والوں نے بتایا کہ وہ کئی دن سے کالج نہیں آیا، پولیس کو اس حوالے سے اطلاع دی، پولیس کو کامران کا حلیہ بتایا۔

گواہ شیخ معین الدین نے بیان دیا کہ خاتون پولیس اہلکار نے مجھے بتایا کہ محسن کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے، مجھے تاریخ یاد نہیں  کہ آخری بار محسن کو کب دیکھا، عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

The post عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند appeared first on ایکسپریس اردو.


مذاق یا جہالت ۔۔۔۔۔ ؟

$
0
0

بیہودہ مذاق ایک معاشرتی ناسور بنتا جارہا ہے، جسے ہم جاننے کے باوجود نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ بیہودہ مذاق کے نتیجے میں ہم ایک اچّھے تعلق سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہنسنا، ہنسانا انسانی فطرت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ انسان جب کسی کو ہنسائے یا کسی سے ہنسی مزاح کرے تو اس کے الفاظ، انداز اور اس کا موقع محل بھی انتہائی شائستہ ہونا چاہیے۔

بیہودہ مذاق میں ہم کسی کی عزّت، ذات، شخصیت یا اس کے مذہب، قوم اور احساسات پر طنز کرتے ہیں جس سے اس کے احساسات، جذبات، ذات اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہم اسے نیچا دکھانے کے لیے اس کی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے اس گھٹیا پن کو مزاح سمجھتے ہیں۔ جب کہ مزاح تو وہ ہوتا ہے جو ہم بنا کسی کی عزّت نفس مجروح کیے ہنسنے کا سامان تیار کر لیتے ہیں، جس میں کسی بے عزتی، توہین اور ہتک شامل نہیں ہوتی۔ بے ہودہ مذاق کو جہالت کا نام دیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہ عمل پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کا نہیں بل کہ جاہلوں کا عمل ہے۔ اس دور پُرفتن میں ٹک ٹاک اور فنی وڈیوز اس جہالت کی جدید اور بہت بھیانک شکل ہیں۔

ہم دین اسلام کے پیروکار ہیں جو ہمیں کسی کی بھی دل آزاری سے سختی سے منع فرماتا اور آپس میں بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کے محبّت کے ساتھ رہنا سکھاتا ہے۔ جب کہ شیطان کو یہ بات قطعی پسند نہیں۔ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ ہم محبّت اور پیار سے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہیں، لہٰذا وہ ہم سے اس طرح کی حرکات اور فضولیات کرواتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کو توڑنے کی ایک بڑی وجہ یہی بے ہودہ مذاق ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ اے ایمان والو! تم میں سے کوئی بھی، کسی کا بھی تمسخر نہ اڑائے، کیا خبر جس کا تمسخر اڑا رہے ہو وہ تم سے زیادہ بہتر ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے ناتے اﷲ کے حکم اور اس کے آخری رسول اکرم ﷺ کے حکم کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور اپنی معاشرتی طرز زندگی کو بہتر کریں اور یہ ثابت کریں کہ ہمارا شمار دین اسلام کے پیروکاروں میں ہے ناکہ جاہلوں میں۔

The post مذاق یا جہالت ۔۔۔۔۔ ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بیٹیوں کے ساتھ ہمارا سماجی رویّہ

$
0
0

اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت و بادشاہت صرف اﷲ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لیے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرما دیتا ہے۔

لڑکیاں اور لڑکے دونوں اﷲ کی نعمت اور ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں اور مرد عورتوں کا محتاج ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اﷲ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بہت آرزو اور تمنّا کی جاتی ہے۔ جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، بل کہ بچی کی پیدائش پر شوہر یا گھر کے دیگر افراد عورت سے خفا ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اﷲ کی عطا ہے، کسی کو ذرّہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانۂ جاہلیت میں کٖفار کا عمل تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں ، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے۔ لہٰذا بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی ہمیں خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائی کے سلسلے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی بہ دولت اس کو جنّت میں داخل فرمائیں گے۔‘‘ (ترمذی) اسی مضمون کی حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپؐ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لیے بھی جنّت ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داری ہو اور وہ اس کو صبر و تحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنّم سے آڑ بن جائیں گی۔‘‘ (ترمذی)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنّت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔‘‘ (ترمذی)

حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں۔ اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا۔ وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی۔ اس اﷲ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور انہیں دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ خود کچھ نہیں کھایا۔ حالاں کہ خود اسے بھی ضرورت تھی۔ اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرمؐ تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنّم سے بچانے کے لیے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت کے مطابق تعلیم و تربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں حاصل ہوں گی: جہنم سے چھٹکارا، جنّت میں داخلہ اور حضور اکرمؐ کے ساتھ جنّت میں ہم راہی۔

قرآن کی آیات و دیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شریعت کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت وہی کرسکتا ہے جو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔ حضور اکرمؐ کا طرزِ عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضور اکرمؐ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے بہت ہی شفقت اور محبّت فرمایا کرتے تھے۔

The post بیٹیوں کے ساتھ ہمارا سماجی رویّہ appeared first on ایکسپریس اردو.

والدین کی خدمت و فرماں برداری

$
0
0

اسلام کو جو صفات مطلوب ہیں ان میں والدین کی اطاعت بھی شامل ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت ایسے کام ہیں کہ اﷲ رب العزت بھی اس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی تزکیۂ نفس ہے۔ آپ کتنے ہی بڑے آدمی بن جائیں‘ والدین کے لیے آپ وہی ہیں جو کبھی چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ آپ کی ہر ایک ادا سے والدین خوش ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو کس طرح پالا پوسا‘ یہ وہی جانتی ہے۔ وہ رات کو جاگ کر بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ ذرا سا بیمار ہوئے وہ ساری رات کرب میں گزارتی ہے۔ اب تم بڑے ہوگئے ہو‘ سکول سے کالج اور پھر جامعہ پہنچ گئے، ڈگری مل گئی پھر اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئے اور اب والدین بیٹے پر فخر کر رہے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے والدین کے حوالے سے کچھ آداب اور اصول بتا دیے کہ جس طرح صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی عبادت کی جائے گی‘ اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کیا جائے گا۔ اگر دونوں میں سے ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہیں کہنا، نہ ہی انہیں جھڑکنا ہے۔ ان کے ساتھ بڑی نرمی سے گفت گُو کرنا ہے۔ والدین کے سامنے محبت سے جھک کر ان کے لیے دعائیں کرنا ہیں کہ اے میرے رب ان پر رحم کر‘ جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا اور میری تربیت کی ہے۔ایک شخص نے اﷲ کے رسولؐ سے دریافت کیا: اﷲ کے رسولؐ! بتائیے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ تو ارشاد ہوا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا: اﷲ کے رسولؐ! اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے پھر ارشاد فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ چوتھی مرتبہ ارشاد ہوا: ’’تیرا باپ‘‘

والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار واقعات ہیں مگر ایک مؤثر واقعہ میرے سامنے ہے۔ ایک بوڑھا باپ اپنے پچیس سالہ بیٹے کے ساتھ گھر میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ نوجوان اٹھا‘ دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی شخص نظر آیا۔ اس کے چہرے پر کرختگی اور ناراضی کے آثار تھے۔ سلام نہ دعا‘ وہ سیدھا اندر چلا آیا۔ نوجوان کے والد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس آدمی نے آتے ہی اس بوڑھے سے کرخت لہجے میں کہا: ’’ میرا قرض واپس کرو۔ اگر تم نے فی الفور قرض واپس نہ کیا تو تمہارے لیے بہت بُرا ہوگا۔‘‘نوجوان نے اپنے والد کے پریشان چہرے کو دیکھا تو اسے بڑا دُکھ ہوا۔ اجنبی شخص اب بدتمیزی پر اتر آیا تھا۔ نوجوان نے تھوڑا سا صبر کیا پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ اپنے والد کی توہین برداشت نہ کرسکا۔ اس نے پوچھا: بتاؤ میرے والد نے تمہارا کتنا قرض ادا کرنا ہے۔ اس نے کہا: تمہارے والد نے میرے نوّے ہزار ریال دینے ہیں۔ نوجوان کہنے لگا: اب تم نے میرے والد کو کچھ نہیں کہنا، بس اب یہ قرض میرے ذمے رہا، تم کوئی فکر نہ کرو۔ بیٹا اپنے کمرے میں گیا۔ وہ کافی عرصے سے اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کررہا تھا۔ اس کی ہونے والی دلہن اس کا انتظار کررہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے ستّائیس ہزار ریال جمع کیے تھے۔

بس تھوڑی سی رقم مزید باقی تھی اور پھر اس نے اپنی دلہن کو گھر لے آنا تھا۔ میں اپنے والد کی توہین برداشت نہیں کرسکتا‘ شادی پھر بھی ہوسکتی ہے‘ اس نے سوچا اور ستّائیس ہزار ریال لاکر اس شخص کی جھولی میں ڈال دیے۔ فی الحال یہ ستّائیس ہزار ریال پکڑو۔ باقی رقم کے بارے میں فکر نہ کرو‘ جلد ہی تمہیں مل جائے گی۔ اس دوران نوجوان کا والد رونے لگا۔ یہ خوشی کے آنسو تھے کہ میرا بیٹا اتنا فرماں بردار ہے۔ باپ قرض خواہ سے کہنے لگا: یہ ستّائیس ہزار میرے بیٹے کو واپس کردو۔ اس نے بڑی محنت سے اپنی شادی کے لیے یہ رقم جمع کی ہے۔ اس کا میرے قرض سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ اب نوجوان کی باری تھی۔ اس نے قرض خواہ سے کہا: یہ رقم اپنے پاس رکھو‘ میں باقی قرض بھی ان شاء اﷲ جلد ہی تمہیں دے دوں گا۔ پھر نوجوان اٹھا اور اپنے والد کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگا: بابا آپ کی عزت‘ آبرو‘ مرتبہ اور مقام اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ فکر نہ کریں‘ ہر چیز کا وقت مقرر ہے‘ میں بہت جلد اس کا قرض واپس کردوں گا۔

بوڑھے نے فرط مسرت سے اپنے فرماں بردار بیٹے کو گلے لگایا اور روتے ہوئے دعائیں دینے لگا: میرے بیٹے اﷲ تم سے راضی ہو جائے‘ تمہیں عزت، رفعت اور کام یابیاں عطا فرمائے۔ اس نے اپنے ہاتھ آسمانوں کی طرف اٹھا دیے اور رو رو کر اﷲ کے حضور اپنے بیٹے کے لیے بہت ساری دعائیں کیں۔ بیٹا بڑا ہی متّقی، پرہیزگار اور فرماں بردار تھا۔ اﷲ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ متّقی انسان کو بہترین بدلہ عطا فرماتے اور وہاں سے رزق عطا فرماتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ایک یا دو دن کی بات ہے کہ نوجوان اپنی ملازمت پر گیا‘ وہ اپنے کام میں مشغول تھا کہ اس کا ایک پرانا دوست ملنے کے لیے آگیا۔ سلام دعا کے بعد اس کا دوست کہنے لگا: میں کل شہر کے بڑے تاجر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ اس بڑے منصوبے کے لیے اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو نیک اور ایمان دار ہو، اعلیٰ اخلاق والا‘ اﷲ کا خوف رکھنے والا ہو اور اس کے ساتھ اس کام کو بھی خوب سمجھتا ہو۔ اس نے مجھ سے کہا: مجھے اس منصوبے کے لیے مذکورہ صفات کا حامل شخص درکار ہے۔ میرے ذہن میں فوراً تمہارا خیال آگیا۔

میں تمہیں ایک مدت سے جانتا ہوں۔ میں نے اس تاجر کے سامنے تمہارا ذکر کیا اور کہا: تمہارے اندر یہ ساری صفات موجود ہیں تو اس نے کہا ہے کہ میری اس سے ملاقات کراؤ۔ لہذا تمہیں لینے آیا ہوں تاکہ تم اس تاجر سے ملاقات کرلو۔ ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے لیے رزق کثیر کے دروازے کھول دے۔ نوجوان کا چہرہ خوشی سے کِھل اٹھا اور کہنے لگا: کل میرے والد نے میرے لیے ڈھیروں دعائیں کی تھیں‘ لگتا ہے اﷲ تعالیٰ نے میرے والد کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے: ’’باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد دونوں دوست اس تاجر کے دفتر میں جا پہنچے۔ تاجر نے اس نوجوان کا انٹرویو لیا۔ اس نے دیکھا کہ یہ نوجوان اس منصب کے لیے مناسب ترین ہے۔ اس کی تعلیم اور تجربہ بھی کام کے مطابق ہے۔ وہ اس نوجوان سے ملاقات کرکے بہت مطمئن ہوا۔ اس نے پوچھا: ’’تمہاری اس وقت تن خواہ کتنی ہے؟ نوجوان نے سچ بتا دیا کہ میری حالیہ تن خواہ اتنے ریال ہے۔

وہ تاجر کہنے لگا: تم کل سے ابتداء کرسکتے ہو، تمہاری تن خواہ پندرہ ہزار ریال مقرر کی جاتی ہے، اس کے علاوہ تمہیں سیل پر کمیشن بھی ملے گا جو حسن کارگردگی کی بنا پر دس فی صد تک جاسکتا ہے، ‘ مکان کا کرایہ‘ نئے ماڈل کی گاڑی اور چھے ماہ کی پیشگی تن خواہ بھی تمہیں مل جائے گی تاکہ تم اپنے گھریلو حالات درست کر سکو۔ بولو کیا تمہیں منظور ہے۔ اس نوجوان نے یہ ساری پیش کش سنی تو بے اختیار رونے لگا اور بار بار کہنے لگا: ’’اے میرے والد گرامی آپ کو مبارک ہو۔‘‘ تاجر اسے دیکھ رہا تھا‘ اس نے سوال کیا کہ تمہارے رونے کی وجہ کیا ہے؟ تب نوجوان نے دو دن پہلے ہونے والا سارا واقعہ بیان کیا کہ میرا والد مقروض تھا، قرض خواہ والد کو تنگ کر رہا تھا، کس طرح اس نے ستّائیس ہزار ریال قرض واپس کیا اور بقیہ کا وعدہ کیا۔ تاجر اس نوجوان کی اپنے والد کے ساتھ محبت‘ ایثار اور قربانی سے اتنا متاثر اور خوش ہوا کہ کہنے لگا کہ تم نے ستائیس ہزار ریال اپنے والد کے قرض کے طور پر ادا کیے ہیں‘ اب باقی قرض میں ادا کروں گا۔بہ ظاہر تو یہ واقعہ بڑا محیر العقل ہے مگر اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اس لیے کہ نیکوکار فرماں بردار بندوں کے لیے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جہاں سے انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

جاہم بن عباسؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں: اﷲ کے رسولؐ غزوہ میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپؐ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اﷲ کے رسولؐ نے دریافت فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے۔ جاہمؓ عرض کرتے ہیں کہ ہاں وہ زندہ ہیں۔ کائنات کے امامؐ نے ارشاد فرمایا: جاؤ اپنی والدہ کی خدمت کرو کہ جنّت اس کے قدموں تلے ہے۔والدین کی خدمت اور دعائیں انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا باعث بنتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں اور ان کی دعائیں لیں تاکہ دنیا و آخرت میں کام یاب ہوسکیں۔

The post والدین کی خدمت و فرماں برداری appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں ہندو اکثریت کا دعویٰ! ایک بڑا فراڈ

$
0
0

25 اگست2015ء منگل کے روز  شام 5 بجکر38 منٹ پر بھارت کا پریس انفارمیشن بیورو اپنی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایک مفصل پریس ریلیز جاری کرتا ہے۔ جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آج رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر انڈیا نے 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے اُن نتائج کا اعلان کردیا ہے جو ملک کی چھ مذہبی کمیونٹیز یعنی ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین مذاہب سے تعلق رکھنے والی آبادی سے متعلق ہیں۔

پریس ریلیز کے مطابق ’’2011 میں بھارت کی کل آبادی ایک ارب 21 کروڑ 9 لاکھ تھی۔ جس کا 79.8 فیصد ہندوں، 14.2 فیصد مسلمانوں، 2.3 فیصد عیسائیوں ، 1.7 فیصد سکھوں، صفر عشاریہ سات (0.7) فیصد بدھ مت ،صفر عشاریہ چار (0.4) فیصدجین مذہب، صفر عشاریہ سات(0.7)فیصد، دیگر مذاہب کو ماننے والوں اور جنھوں نے اپنا کوئی مذہب ظاہر نہیں کیا تھا وہ بھارت کی کل آبادی کا صفر عشاریہ دو (0.2) فیصد پر مشتمل تھے‘‘۔ پریس ریلیز میں مختلف مذاہب کے حوالے سے اس صدی کے پہلے عشرے کے دوران آبادی کے تناسب میں اضافہ اور کمی کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق’’ 2001 اور2010 میں ہونے والی مردم شماریوں کے دوران بھارت میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ سات (0.7 ) فیصد پوائینٹ(Percentage Point) کمی واقع ہوئی ۔

سکھوں کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ دو (0.2 ) فیصد پوائینٹ اور بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ ایک (0.1 ) فیصد پوائینٹ کمی آئی ہے۔جبکہ مسلمانوںکی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ آٹھ (0.8 ) فیصد پوائینٹ (Percentage Point)اضافہ ہوا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ پریس ریلیز میں ایک اور پہلو کو بھی شامل کیا گیا جو 2001 سے2011 کے دوران مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی آبادی میںمجموعی فیصد اضافہ پر مشتمل تھا۔ اسکے مطابق ’’اِن دس سالوں کے دوران بھارت کی آبادی میں 17.7 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ ہندوں کی آبادی میں یہ اضافہ 16.8 فیصدہوا۔ جبکہ عیسائیوں کی آبادی میں15.5 فیصد، سکھوں کی آبادی میں 8.4 فیصد ، بدھ مت کے ماننے والوں کی آبادی میں 6.1 فیصد اور جین مذہب کے پیروکاروں کی تعداد میں 5.4 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 24.6 فیصدمجموعی اضافہ ہوا۔ ‘‘

یہ پریس ریلیزدرحقیقت کسی خبر کے طور پر جاری نہیں کیا گیا تھا  بلکہ اس سے کچھ عزائم حاصل کرنا مقصود تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے ہمیں پریس ریلیز کو دو پہلوؤں سے دیکھنا ہوگا۔ اول مردم شماری 2011 میں ہوتی ہے اور مذہبی وابستگی کے حوالے سے آبادی کے اعدادوشمار چار سال بعد کیوں جاری کیے جاتے ہیں؟ دوم اس زاویہ کو کیوں پریس ریلیز میں نمایاں کیا گیا کہ ہندوں کی آبادی میں کمی اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور ایسا ثابت کرنے کے لیے ایک نہیں بلکہ دو پیمانے استعمال کیے گئے؟

پہلے پہلو کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ بھارت کی سولہویں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات 7 اپریل سے 12 مئی2014 تک 9 فیزز میں ہوئے اور نتائج کا اعلان الیکشن کمشن آف انڈیا نے16 مئی 2014 کو کیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے543 میں سے 282 نشستیں حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی نے انڈیا کے 14 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے26 مئی 2014 کو اپنے عہدہ کا حلف اُٹھایا۔ کامیاب ہونے والی یہ جماعت جہاں بھارت میں اقلیت مخالف خصوصاً مسلمان مخالف پالیسیوں کے بنانے اور اُن کے اطلاق کے حوالے سے بہت جارحانہ رویہ کی حامل ہے وہیںاس کے انتہا پسند اور شدت پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں سے بھی بہت گہرے مراسم ہیں۔جبکہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ تو گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے ہی رنگے ہوئے ہیں۔جب سے یہ جماعت برسر اقتدارآئی ہے ان کے پیش نظر دو بنیادی کام ہیں۔ ایک تو اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا جائے دوسرا ہندوتوا کے اپنے نظریہ کو عملی جامعہ پہنایا جائے۔

اب اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پریس ریلیز کے جاری ہونے کا وقت اور اُ س کے مندرجات کودیکھا جائے تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ مذہبی وابستگی پر مبنی اعداوشماراور اُنھیں ایک خاص زویہ سے اجاگر بھارتی جنتا پارٹی نے اپنے اقتدار میں آنے کے سال بعد 2015 میں ایک سیاسی اور مذہبی کارڈ کی شکل میںسرکاری طور پر کیا تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط اور دوام دیا جاسکے اور ہندوتوا کے نظریہ پر عمل درآمد کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے۔ اس کے لیے بی جی پی نے اس پریس ریلیز کے ذریعے انڈین میڈیا کے توسط سے ملک میں یہ نام نہاد خوف پیدا کیا کے ہندوں کی آبادی کم ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔

جبکہ درحقیقت مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی رفتار میں نمایاںکمی آئی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 1991 سے2001 تک انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر29.52 فیصد اضافہ ہوا تھا جو 2001 سے2011 کے دوران کم ہوکر24.60 فیصدرہا۔ یعنی آبادی کے تناسب میں کمی یا اضافہ کا جو پیمانہ(Percentage Point) پریس ریلیز میں استعمال کیا گیا ہے اگر ہم اُس کا اطلاق ان اعداوشمار پر کریں تو 1991 سے 2011 تک انڈین مسلمانوں کی آبادی کے مجموعی اضافہ میں 4.92 فیصد پوائنٹ(Percentage Point) کمی واقع ہوئی۔

اس نام نہاد خوف کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ بی جی پی نے 17 ویں لوک سبھا انتخابات منعقدہ 11 اپریل تا19 مئی 2019 میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے 543 کے ایوان میں 303 نشستیں حاصل کر لیں ۔ دوم پورے ملک میں ایسے قوانین اور اقدامات کے اطلاق کا جواز پیدا کر لیا گیا جس کے تحت بھارت کی انتہا پسند اور شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کے دیرینہ خواب ہندوتوا کی تکمیل ہوسکے۔ اس کے لیے سب سے اہم جو قدم اٹھایا گیا وہ ملک میں ہندو آبادی کے اعدادو شمار کو بڑھانا، برقرار کھنا اور منظم کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت کی مردم شماری رپورٹ یہ بتا رہی ہے کہ ملک کی 79.8 فیصد آبادی ہندو ہے اور اقلیتوں کی آبادی کا تناسب 20.2 فیصد ہے تو پھر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ ۔اس سوال کا جواب وضاحت طلب ہے۔جس کے لیے مختلف پس مناظر کوملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آغاز بھارت کے اُس بنیادی دعویٰ سے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی فروری 2017 میں جاری شدہ رپورٹ ’’ Constitutional and Legal Challenges Faced by Religious Minorities in India‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ ’’بھارت خود کو ایک “سیکولر” ملک قرار دیتا ہے۔ تاہم اس کی اس اصطلاح کا تصور امریکی نظریہ سیکولرازم سے بالکل مختلف ہے۔ جسکے مطابق چرچ اور ریاست کو مکمل طور پر الگ کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح فرانسیسی ماڈل لاکیٹی (laïcité) سے بھی یہ مختلف ہے جو مذہبی عقائد کے تئیں ریاست کی غیرجانبداری اور مذہبی اور عوامی شعبوں کی مکمل علیحدگی کی ضمانت دیتا ہے۔بھارتی آئین ایک مذہبی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ریاست کو کسی خاص مذہب کے ساتھ اپنی شناخت ، یا دوسری صورت میں اس کی حمایت کرنے سے روکتا ہے۔

مزید برآںآئین میں متعددایسی دفعات شامل ہیں جو اپنے شہریوں کے مذہب اور مسلک سے قطع نظر مکمل قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں اور ان کے مابین کسی بھی قسم کے مذہب پر مبنی امتیازات کی ممانعت کرتی ہیں۔ لیکن نہ ہی قوانین میں اور نہ ہی عملی طور پر مذہب اور ریاست کے مابین کوئی علیحدگی موجود ہے ‘‘۔ رپورٹ کے اس اقتباس اورموجودہ بھارتی حکومت کے ہندوتوا کے عزائم نے انڈیا کے سیکولر ملک ہونے کے نام نہاد بھرم کو بالکل ختم کردیا ہے۔کیونکہ بھارت کی حکومت فعال طریقے سے نہ صرف مندرں کو چلا رہی ہے بلکہ ہندو مذہب کے فروغ کے بارے میں فیصلے بھی کر رہی ہے۔

دوسرا پس منظر بھارتی آئین میں موجود تضادات کو مدنظر رکھنے پر مبنی ہے۔ آئین کی دفعہ 25 کی ذیلی شق 1 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ’’ تمام افراد ضمیر کی آزادی کے مساوی حقوق،مذہب کے اقرار ،عمل اور تبلیغ کے آزادانہ حق کے مستحق ہیں‘‘ ۔ تاہم اس کی ذیلی شق 2 (بی) کی وضاحت اس آئینی حق کی خود ہی نفی کر رہی ہے جس کے مطابق ’’سکھ ، جین یا بدھ مذہب کے بارے میں دعویٰ کرنے والے افرادکو ہندو ہی سمجھا جائے گا ــ‘‘۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ 2017 میںکہا ہے کہ ’’اس کے نتیجے میں اِن عقائد کے ماننے والے ہندو ذاتی حیثیت کے قوانین(پرسنل اسٹیٹس لا) کے تحت ہیں۔ اور انھیں دوسری اقلیتوں کو حاصل سماجی خدمات، روزگاراور تعلیمی ترجیحات تک رسائی حاصل نہیں۔

اب ایک اور نفی ملاحظہ ہو کہ انڈین آئین کے آرٹیکل 29 ، 30 ، 350 اے ، اور 350 بی میں لفظ “اقلیت” اور اس کی جمع اشکال کا استعمال کیا گیا ہے ، لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ مزید آئینی نفی یہ بھی ہے کہ آئین جہاں واضح طور پر سکھ، جین اور بدھ مذہب کو ہندو اقرار دیتا ہے وہیں وزارت اقلیتی امورجو حکومت ہند کی ایک وزارت ہے جس کا قیام 2006 میںعمل میں لایا گیا۔ یہ بھارت میں مذہبی اقلیتی کمیونٹیز کے لئے مرکزی حکومت کے ریگولیٹری اور ترقیاتی پروگراموں کے لئے ایک اعلی ادارہ ہے اس نے مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، بدھ مت ، زرتشتی (پارسیوں) اور جینوں کومذہبی اقلیتوںکی حیثیت سے بھارتی حکومت کے جانب سے قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ1992 کے سیکشن 2 (سی) کے تحت دی گزٹ آف انڈیا میں27 جنوری 2014 کونوٹیفائیڈکیا ہے۔اس کے علاوہ 2011بھارتی مردم شماری میں بھی اُن چھ مذہبی اقلیتوں کے علیحدہ علیحدہ اعدادوشمار  جاری کیئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ بھارتی آئینی آرڈر 1950 کے تحت جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی ۔ ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھ مت کو منانے والوں پر ہی مشتمل ہوگی۔

تیسرا پس منظربھارتی آئین میں مو جوداورپروٹیکٹڈ بھارت کی آبادی کے تین بڑے گروہ شیڈول قبائل (جنہیں آدی واسی بھی کہتے ہیں) ، شیڈول کاسٹس   ( جنہیں دلت ، اچھوت اور Untouchables بھی کہتے ہیں) اور او بی سیز Other backward classes  کی آبادیوں کا حجم بھارت کے اس دعویٰ کی قلعی کھول دیتا ہے کہ بھارت ہندو اکثریت کا حامل ملک ہے۔کیونکہ 2011 کی بھارتی مردم شماری  کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت شیڈول قبائل کی آبادی دس کروڑ 45 لاکھ45 ہزار سے زائد تھی جو ملکی آبادی کا 8.63 فیصد تھی۔اسی طرح شیڈول کاسٹس کی آبادی بھارت کی آبادی کا 16.63 فیصدیعنی 20 کروڑ 13 لاکھ 78 ہزار تھی۔اس کے علاوہ گورنمنٹ آف انڈیا کی منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ کی ستمبر2018 میں جاری شدہ رپورٹ’’ ہینڈ بک آن سوشل ویلفیئر اسٹیٹسٹکس ـ‘‘ کے مطابق 2011-12 کے دوران Other backward classes  ملک کی 44 فیصد آبادی پر مشتمل تھی۔جبکہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی کا تناسب ملکی آبادی کا 20.2 فیصد تھا۔

اس تمام پس منظر میں بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہندو انتہا پسند سوچ کی حامل قوتوں کی زیادہ اکثریت آئین میں اپنے مطلب کی ترامیم اور اُس کا نام نہاد سیکولر تشخص کو ختم کرکے اسے ایک ہندو ریاست کی حیثیت دینے کے لیے ضروری ہے۔ جس کے لیے آئین میں کچھ باتوں کی مزید شمولیت، کچھ کی اپنی پسند کی وضاحت اور کچھ کو حذف کرنا ضروری ہے۔ اس کی واضح مثال شیڈول قبائل کے حوالے سے ہی لے لیں۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی نظام کے تحت ہونے والی تقریباً تمام مردم شماریوں میں شیڈول قبائل کو کبھی بھی ہندو مذہب میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ علیحدہ شناخت کے تحت اُن کی آبادی پر مبنی اعدادوشمار کو علیحدہ کالم میں پیش کیا جاتا تھا۔ 1941 ء کی مردم شماری کے نتائج ویب سائٹ پر آسانی سے دستیاب ہیں جس میں امر کو باخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اب یو ایس آئی آر ایف کی 2016 کے لئے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق ’’وزارت قبائلی امور سرکاری طور پر ذات پات کے نظام سے باہر 104 ملین سے زیادہ افراد کو شیڈول قبائل  indigenous groups  کو طور پرتسلیم کرتی ہے۔ جو اکثر animism مذہب اوردیگر آبائی مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں۔لیکن حکومتی اعدادوشمار میںانھیں ہندو قرار دیا گیا ہے‘‘۔جس کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ شیڈول قبائل کی 80.39 فیصد آبادی کو 2011 میں مردم شماری میںہندو، 9.92 فیصد کو عیسائی اور1.79 فیصد کو مسلمان ظاہر کیا گیا اس کے علاوہ سکھ، بدھ مت، جین مذہب کو ماننے والوں کا تناسب بھی شیڈول قبائل میں موجود ہے لیکن اُن کے اپنے پرانے animism مذہب کا  واضح طور پرذکر تک موجود نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام شیڈول قبائل کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت اپنے آباواجداد کے مذہب کو چھوڑ کر ہندو ہوگئی؟ جو کہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔

چلیںایک لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ ایسا ہو بھی گیاہے توانڈیا کی 29 ریاستوں میں سے سات ، گجرات (2003) ، ارناچل پردیش (1978) ، راجستھان (2006) ، مدھیہ پردیش (1968) ، ہماچل پردیش (2006) ، اڑیسہ (1967) ، اور چھتیس گڑھ (1968)نے مذہب کی آزادی کا ایک قانون اپنایا ہے جسے عام طور پر مذہب کی تبدیلی کی روک تھام کے قانون کے طور پر جانا جاتا ہے۔جس کے تحت یہ قوانین عام طور پر جھوٹ / غلط بیانی، طاقت ، لالچ یا کسی بھی جعل سازی کے ذریعہ مذہبی تبدیلی پرپابندی عائد کرتے ہیں۔ اورکسی کو بھی شخص کے اس طرح تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔تو پھران شیڈول قبائل کے اپنے آبائی مذہب کی تبدیلی ان قوانین کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟اورہندو آبادی کی جعلی عددی برتری کو ظاہر کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر ہونے والی مذہب کی تبدیلی کے اس گھپلے کی کیا آئینی حیثیت ہے؟

اب تبدیلی مذہب کا ایک اور رخ ملاحظہ ہو۔ آئینی آرڈر 1950 کے مطابق’ جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی‘  ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندؤں، سکھوں اور بدھ مت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوں گے۔اور آئین کے آرٹیکل 341 کے تحت 26 اکتوبر 2017 تک ملک میں شیڈول ذاتوں کی تعداد1284 بتائی گئی۔ان ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے بچانے کے لیے جو نام نہاد مراعات کا لالچ انڈین قانون فراہم کرتا ہے ( شیڈول کاسٹس کو سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا 15 فیصد کوٹہ دیا گیا ہے)اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں تو وہ ان تمام مراعات (کوٹہ)سے مستفید نہیں ہو سکتے اور اگر وہ تبدیلی مذہب کے بعد دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیتے ہیں تو وہ دوبارہ سے اُن نام نہاد مراعات کے حق دار ہوں گے۔ یہاں نام نہاد مراعات کی اصطلاح کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ وہ معاشرہ جو دلت ہونے کی وجہ سے کسی انسان کو انسان ماننے کو ہی تیار نہ ہو ،جس کے نزدیک وہ ناپاک ہیں اورذات پات کے شکنجے میں جکڑے ہندوں کا دھرم دلتوں سے میل ملاپ، اُنکو چھونے اور اُن کے استعمال شدہ کسی چیز کو استعمال کرنے سے بھرشٹ ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر کسی مخصوص جگہ پر کسی دلت کا آنا جانا چاہے وہ ہندوں کے نزدیک کتنی ہی پاکیزہ حتیٰ کے مندرہی کیوں نہ ہو ناپاک ہو جاتی ہے۔

ایسے میںوہ کیونکر اُنھیں وہ مراعاتی حقوق دیں گے۔ ذات پات کا مو جودہ نظام ہندؤں کو چار درجات برہمن، کشتریوں، ویش اور شودر میں تقسیم کرتا ہے۔ جو 3 ہزاراہم ذاتوں کو مزید25 ہزار ذیلی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے۔لیکن ہندو ذات پات کے باہر دلت اچھوت ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات کے 1655 دیہاتوںکے 98 ہزار دلتوں سے کئے جانے والے اپنی نوعیت کے پہلے وسیع مطالعہ کے مطابق ’’ 97 فیصد جواب دہندگان نے اس بات کا اظہار کیا کہ اُنھیں اپنے دیہہ میں ایسی مخصوص جگہوں’ جن میں مندر یا کوئی ا یسی جگہ جہاں کوئی مذہبی تقریب ہورہی ہو‘ وہاں داخلہ کی اجازت نہیں‘‘۔ یعنی دلتوں کو مذہبی مقامات پر اچھوت پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ زمینی حقیقت ہے۔امتیازی سلوک، غربت اور پُر تشدد حملوں نے اُن کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔

امریکہ کے کمشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر ہفتے 13 دلتوں کو قتل کیا جاتا ہے اور پانچ دلت گھر تباہ کردیئے جاتے ہیں۔ ہر دن تین دلت خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور گیارہ دلتوں پر ہر روز حملہ کیا جاتا ہے۔ ہر اٹھارہ منٹ پر دلت کے خلاف جرم کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں دلت آبادی بڑی تعداد میں اپنے مذہب کو تبدیل کر رہی ہے۔

مذہبی تبدیلی اقلیتوں کے مخالف جذبات میں نمایاں کردار ادا کرتی رہتی ہے اور اسے مذہبی اقلیتیں اپنے خلاف امتیازی قانون سازی اور تشدد کے خلاف ایک ڈھال کے طورپر استعمال کرتی ہیں۔بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہندو دلتوں کا دوسرے مذاہب میں تبدیل ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دلت ایک عرصے سے اسلام، عیسائیت اور کبیر پنتھ جیسے دوسرے برہمن مخالف فرقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔اور انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے مطابق بھارت میںمسلمان دلتوں کی تعداد کا اندازہ 10کروڑ سے زائدہے۔ تبدیلی کی تحریکوں کی تاریخ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ دلت صرف اس لئے دوسرے مذاہب میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں کہ وہ ایک مختلف عقیدہ کے نظام پر عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔بلکہ وہ مذہب اس لیے تبدیل کرتے ہیں کیونکہ وہ ہندو مذہب کومکمل طور پرمسترد کرتے ہیں۔ ہندو مت کو مسترد کرنے کا خیال ہندو قوم پرستوں کے “ہندو راشٹر” کے خواب کے خلاف ہے ، جو بنیادی طور پر اعلی ذات کی بالادستی پر مبنی ایک تصور ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو ہندو قوم پرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں سے قریبی نظریاتی اور تنظیمی روابط رکھنے والی دائیں بازو کی جماعت ہے ۔دلتوں کے مذہب تبدیلی کو روکنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اگرچہ انڈین آئین بھارتی شہریوں کے کسی بھی مذہب کے انتخاب اور اس پر عمل کرنے کے حق کی حفاظت کرتا ہے ۔لیکن بی جے پی نے مختلف ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون نافذ کیا ہے کیونکہ بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی قوتوں کے لیے کسی بھی فرد کا ہندو مذہب کوچھوڑنا اخلاقی اور سیاسی طور پر ناقابل قبول ہے ۔2013 میں گجرات کے جوناگڑھ میں جب60 ہزار کے قریب دلت اور دیگر نچلی ذات کے ممبروں نے بدھ مذہب اختیار کیاتوگجرات کی بی جے پی حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا اور مقامی دلت بدھ مت رہنماؤں کو گرفتار کیا۔

جبکہ آئین بدھ مت کو بھی دلت کے مذہب کے طور پر مانتا ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش میں 2014 میں جب ذات پات اور جبر کی وجہ سے چار دلتوں نے اسلام قبول کیاتو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔دلت مذاہب کی تبدیلی کو ناانصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر کسی دوسرے مذہب میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر جولائی 2016 میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ تمل ناڈو میں سینکڑوں دلت دیہاتی ذات پات کے نظام کا سہارا لینے والے ہندوؤں کی جانب سے مقامی مندروں تک رسائی نہ دینے کے بعد اسلام قبول کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ جس پر دائیں بازو کے کارکنوں نے مقامی مسلمانوں پر اس رحجان کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ 2015 ء کے اوائل میںاسی طرح ایک مقامی مندر سے خارج کیے جانے کے بعد والمیکی کمیونٹی کے ایک فرد نے اسلام قبول کرلیا جسے پولیس نے “امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تہہ و بالا کرنے” کے الزام میں مبینہ طور پر گرفتار کرلیا۔ عیسائیوں پر بھی دلتوں کے زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات اکثر لگائے جاتے رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپریل 2017 میں اتر پردیش میں پولیس نے دائیں بازو کے ہندو یووا واہینی (right-wing Hindu Yuva Vahini) سے مبینہ طور پر  مذہب کی تبدیلی کی اطلاعات موصول ہونے پر ایک چرچ میںعیسائیوں کو عبادت سے روک دیا۔

انڈیا کے معاشرتی ڈھانچے کا بغور مطالعہ ہمیں دلتوں کی مذہبی تنظیم کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے پہیے کے اندر پہیے کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جہاں ہر ذات سماجی ، مذہبی اور دیگر ذمہ داریوں سے منسلک ہے۔ تحقیقی مطالعات اور تحریروں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ایک عقیدہ نظام کی حیثیت سے دلت مذہبی روایت مرکزی دھارے کے ہندومت سے بہت مختلف ہے۔ ہندو مذہب کے اندر مذہبی اخراج اور معمولی جگہ نے بیشتر دلتوں کو متبادل مذہبی شناختوں کو تلاش کرنے پر مجبور کیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی ، وشو ہندو پریشد ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ، بھارت سادھو سماج وغیرہ جیسی ہندو سیاسی اورانتہا پسند تنظیمیں دلت آبادی کو ہندو طبقے میں رکھنے کی خواہاں ہیں کیونکہ اِن کے عددی وزن کی وجہ سے ہندو برادری میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن جب تک ہندو مذہبیات ، عبادت کے طریقوں اور پجاری کی نوعیت میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہیں لائی جاتیںدلتوں کے لئے ہندو مذہب کے اندر اپنے انسانی وقار کو بحال کرنا ناممکن ہے۔

اگرچہ قوانین مذہبی اقلیتوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے سے بچاتے ہیں۔لیکن بھارت میں مذہب کی آزادی کے اصولوں کو عام طور پر “مذہب کی تبدیلی کی روک تھام کے قوانین” کے نام سے جانا جاتا ہے اور حکمران پارٹی بی جے پی کی طرف سے ملک بھر میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔

برطانوی حکومت کے انڈیپنڈنٹ ایڈوائزری گروپ آن کنٹری انفارمیشن کی ’’کنٹری پالیسی اینڈ انفارمیشن نوٹ انڈیا: ریلیجیس مینارٹیز‘‘ نامی  رپورٹ کے مطابق ’’یہ یکطرفہ ہیںجو صرف ہندو مذہب کو ترک کر کے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے والوں کے بارے میں فکر مند ہیں لیکن ہندومذہب میں شامل ہونے والوں سے نہیں۔بی جے پی کے صدر امِت شاہ مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون سازی کی قومی سطح پر موجودگی کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ اپریل 2015 میںبی جے پی کے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی نام نہاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے قومی سطح پرتبدیلی مذہب کے انسداد قانون کا مطالبہ کیا تھا۔  جسے نقادوں نے بنیادی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ قوانین جو شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبائل کو امتیازی سلوک اور مظالم سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں انہیں کبھی بھی کامیاب قانون سازی نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ بے گناہ افراد کے خلاف ایکٹ کی دفعات کے غلط استعمال کی روش موجود ہے جس کا اقرار بھارتی سپریم کورٹ خود کرچکی ہے کہ ’’ ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ ’ بلیک میلنگ‘ کا ایک ذریعہ بن گیا ہے اور اسے کچھ لوگوں نے انتقام لینے اور ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے‘‘۔

اسی طرح لو جہاد(love jihad ) منصوبے کے نام پر مسلمان مردوں اور ہندوں لڑکیوں کی شادی کو روکا جا رہا ہے۔اور جو شادیاں ہو چکی ہیں ان میں علیحدگی طاقت اورعدالت دونوں ذرائع سے کرائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں عدالتوں میں خصوصی طور پر اُن افراد کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں جو انتہا پسند ہندوں کو ایسی شادیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ ہندو قوم پرست گروہوں خاص طور پر آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) یہ پروپگینڈا کر رہے ہیں کہ مسلمان مرد ایک حکمت عملی کے تحت ہندو خواتین کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اُنھیں اپنے مذہب میں شامل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کی عددی تعداد کو بڑھایا اور ہندوں کی تعداد کو کم کیا جاسکے۔اس کے مقابلے میں اُنھوں نے ’’ بیٹی بچائو۔۔بہو لائو‘‘ تحریک کا آغاز کیا ہے جس کے تحت مسلمان مرد سے کسی ہندو لڑکی کی شادی کی مکمل حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور اس کے برعکس ہندو مردوں کو یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے شادی کر کے انھیںہندو مذہب میں شامل کریں۔

اگلا پس منظربھارت کی44 فیصد آبادی پرمشتمل دیگر پسماندہ طبقات ( Other backward classes) ہیں ۔ان طبقات کومنڈال کمشن1991 کی سفارشات کے تحت اعلیٰ تعلیمی اداروںاور سرکای ملازمتوں میں 27 فیصد کوٹہ حاصل ہے۔اور اس کوٹہ پر او بی سیز کے علاوہ کوئی اور بھرتی یا داخلہ حاصل نہیں کر سکتا۔ دیگر پسماندہ طبقات کی یہ اصطلاح ان ذاتوں کے لیے مخصوص ہے جوسماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ ہندو ذات پات کے نظام کی سب سے نچلی سطح شودر کی زیادہ ترآبادی اس میں شامل ہے (دلت ہندو ذات پات کے نظام کاحصہ نہیں ہیں)۔اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی کل ہندو آبادی کا 42.8 فیصد، عیسائیوں کی مجموعی آبادی کا41.3 فیصد اور مسلمانوں کی تمام آبادی کا 39.2 فیصد اور زرتشت کی ساری آبادی کا 13.7 فیصد او بی سیز پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ دیگر مذاہب کی بھی کچھ آبادی دیگر پسماندہ طبقات یعنی او بی سیز میں شامل ہیں۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔

ایک تو یہ کہ کوٹہ تمام او بی سیز کے لیے ہے ناکہ مذہبی اقلیتوں کو اس کوٹہ میں سے کوئی کوٹہ حاصل ہے۔ اس لیے کوٹہ کوہندومت کو اپنائے رکھنے کی ترغیب اور دیگر او بی سی کو ہندو مت میں شامل ہونے کی لالچ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری بات ان طبقات کی بنیادی تعریف ہی سماجی اور تعلیمی پسماندگی ہے۔ ایسی صورت میں لالچ، دھونس دھمکی اور کئی ایک دیگر ہتھکنڈے جس میں سے ایک سیاسی حکمت عملی جوہندو کہلانے یا ہندو مت میں شامل ہونے کے لیے نمایاں کام کرتی شامل ہے۔ مثلاً ہندو وقوم پرست و بنیاد پرست پارٹیوں آر ایس ایس اور وی ایچ پیِ ، او بی سیز کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی ایک واضح حکمت عملی پرعمل پیرا ہے جس کے تحت اوبی سی کی زیر قیادت بجرنگ دل کی حکمت عملی ہے ، جس کے تحت مقامی سطح پرہندو توا کے گھنائونے کاموں کے لیے بے گھر اور بے وسیلہ گروہوں کو بھرتی اوران کی جسمانی طاقت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بی جی پی پارٹی جو اب اقتدار میں اکثریتی جماعت ہے اُس نے بڑی کامیابی کے ساتھ او بی سی کو اپنی قیادت کی صفوں میں شامل کیا۔ جس کی واضح مثال بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔

اب ایک اور رخ بھی دیکھ لیجیے جو ہندو مذہب سے جداگانہ حیثیت دیئے جانے کے مطالبہ پر مبنی ہے۔بھارت میں ایک کمیونٹی آباد ہے لنگایت، جسے شیڈول قبائل کی طرح برطانوی راج میں کبھی بھی ہندوں میں شامل نہیں کیا گیا لیکن آزادی کے بعدسے اسے بھی سرکاری دستاویزات میں ہندو مت کی ایک شاخ کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ انڈیا کے اخبار دی اکنامک ٹائمزمیں 19 مارچ 2018 کو چھپنے والی ایک خبر کے مطابق’’ کرناٹک کی حکومت نے بھارت میں ایک اور مذہبی اقلیت یعنی لنگایت کو تسلیم کرنے کے حق میں فیصلہ کیا ہے ۔

اس سلسلے میں ریاستی اقلیتی کمشن ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کے تحت ناگا موہن کمیٹی کی تجاویز کو قبول کرلیا ہے ۔اب اس تجویز کو حتمی منظوری کے لیے مرکز کو بھیجا جائے گا‘‘۔پھرانڈیا ٹو ڈے میں 12 دسمبر 2018 کو یہ خبرچھپی کہ ’’مرکز نے لنگایت کو علیحدہ مذہبی اقلیت ماننے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔اس کمیونٹی کی بھارتی اسٹیٹ کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کی 224 نشستوں میں سے100 نشستیںہوتی ہیں۔خالی کرناٹکا کی17 سے20 فیصد آبادی لنگایت پر مشتمل ہے۔ جبکہ یہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی آباد ہیں۔ دی ٹائمز آف انڈیا کی 10 اکتوبر2013 کی ایک اسٹوری کے مطابق جس میں مہاسبھا کے سنیئر نائب صدر اور کرناٹک یونٹ کے سربراہ این تھپپناکے مطابق پورے انڈیا میں لنگایت کی آبادی4 کروڑ ہے (جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا 3.3 فیصد بنتی تھی )ہے۔ اس طرح بھارت کے طول و عرض میں موجود دیگرکئی کمیونٹیز اپنے زبردستی کے ہندو تشخص سے نالاں ہیں اور اپنا علیحدہ مذہبی اقلیتی تشخص چاہتے ہیں ۔ اسی طرح1881 میں کبیرپنتی اور ستنامی (Kabirpanthi and Satnami )کو ہندو مذہب سے الگ مذہب کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ بعد میں اُنھیںبھی ہندوؤں کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔

اب ایک نظر اس جانب بھی ہو کہ بھارت میںہر مذہبی اقلیت کی آبادی میں 2001 سے2011 تک کے دوران ہونے والے انفرادی مجموعی اضافہ کو پیمانہ بناتے ہوئے 2021 میں ہونے والی بھارتی مردم شماری میں مذہبی اکثریت اور اقلیتوں کی آبادی کا جوممکنہ منظر نامہ بن سکتا ہے وہ کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ 2021 میں بھارت کی 21.3 فیصد آبادی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہوگی۔

جو2001 میں20.2 فیصد تھی۔یعنی مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے تناسب میں اس عرصہ کے دوران 1.1 فیصد پوائینٹ (پیرسنٹیج پوائینٹ)اضافہ ہو جائے گا۔ 2021 میں صورتحال کچھ یوں ہو گی کہ ملک کی 79.2 فیصد آبادی کا تعلق ہندو مذہب سے ہو گا۔مسلمان15.1 فیصد اور عیسائیوں کی آبادی 2.3 فیصد ہوگی۔ 2011 میں یہ تناسب بالترتیب 79.8 فیصد ، 14.2 فیصداور 2.3 فیصد تھا۔اسی طرح 2001 سے2011 کے دوران شیڈول کاسٹ کی آبادی میں 20.8 اور شیڈول قبائل کے باسیوں کی تعداد میں24 فیصد اضافہ ہوا ۔

اگر اس اضافہ کو پیمانہ مان لیاجائے تو 2021 کی مردم شماری کے وقت بھارت میں شیڈول کاسٹ کی آبادی 24 کروڑ 33 لاکھ64 ہزار اور شیڈول قبائل کی 12 کروڑ 96 لاکھ 13 ہزار ہوجائے گی۔ جو اُس وقت ملک کی مجموعی آبادی کا بالترتیب17.1 اور9.1 فیصد ہوگا۔ جو 2011 میں اول الذکر 16.6 فیصد اور بعدالذکر8.6 فیصد تھا۔ یعنی شیدول کاسٹ کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ پانچ(0.5) اور شیڈول قبائل کی آبادی کے تناسب میں بھی صفر عشاریہ پانچ(0.5) فیصد پوائینٹ (پیرسنٹیج پوائینٹ) اضافہ ہوگا۔ ماضی میں اور مستقبل میں ہندو آبادی کے تناسب میں کمی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے تناسب میں اضافہ کی دو بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان دونوں اقلیتوں کی آبادی میں قدرتی اضافہ ہے اور دوسری بڑی اور نمایاں وجہ بھارت کے ذات پات کے نظام میں پسے ہوئے طبقات کی ہندو مذہب کو خیر باد کہنا ہے۔ ان دونوں وجوہات کو روکنے کے حوالے سے کام کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔

1951 میں آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ این آر سی تمام رجسٹرڈ ہندوستانی شہریوں کا سراغ لگانے کا ایک طریقہ تھا ۔ کیونکہ آسام ایک سرحدی ریاست ہے جس میں تارکین وطن کی نمایاںآبادی ہے۔ 2015 میں پہلی بار NRC کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے ایک عمل شروع ہوا۔جس کے تحت 24 مارچ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کوبھارتی شہریت کی دستاویزات فراہم کرنا پڑیں۔ جولائی 2018 میںانڈین حکومت نے این آر سی کے تحت تقریبا 40 لاکھ افراد کو اس طرح کی دستاویزات فراہم کرنے میں مبینہ طور پر ناکامی کی وجہ سے رجسٹر سے خارج کردیا ۔اب یہ تعداد31 اگست 2019 کو جاری ہونے والی فائنل لسٹ کے مطابق19 لاکھ ہے۔

اور کہا یہ جارہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو این آر سی کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے وہ 120 دن کے اندر غیر ملکیوں کے ٹربیونلز کے سامنے اپیل دائر کرسکتا ہے۔ آسام حکومت کے مطابق جب تک غیر ملکی ٹریبونلز نے انہیں غیر ملکی قرار نہ دیا اس وقت تک این آر سی سے باہر رہنے والوں کو کسی بھی حالت میں حراست میں نہیں لیا جائے گا۔اگر کوئی غیر ملکیوں کے ٹربیونل کے فیصلے سے ناخوش ہے تو وہ گوہاٹی ہائی کورٹ اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرسکتا ہے۔دریں اثنا جن کو غیر ملکی ٹربیونلز کے ذریعہ غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جاتا ہے۔اور اُن کی ملک بدری تک انہیں حراستی کیمپوں میں بند کردیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ حراستی کیمپ غیر انسانی زندگی کے حالات کے لئے بدنام ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فہرست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکن اس کو ریاست کی بنگالی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھ رہے ہیںجن میں سے ایک بڑا حصہ مسلمان ہیں۔تاہم بنگالی بولنے والے ہندوؤں کی کافی تعداد کو بھی شہریت کی فہرست سے ہٹادیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے چار اسپیشل رپورٹرزجن میں مذہب یا عقیدے کے بارے میںآزادی کا خصوصی نمائندہ بھی شامل ہے ۔انھوں نے جون 2018 کو اپنے ایک مشترکہ خط میںاس امر کا اظہار کیا ہے کہ’’ شہریت کی رجسٹری نے آسام میں بنگالی مسلم اقلیت میں تشویش اور خدشات کو جنم دیا ہے۔ جو طویل عرصے سے شہریت کی ضروری دستاویزات ہونے کے باوجود غیر ملکی سمجھے جاتے ہیں‘‘۔

آسام بھارت کی ایک کثیر النسل ریاست ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی پانچویں بڑی اکثریت آسام میں رہائش پذیر ہے۔اس کے علاوہ اس کے باشندوں میں بنگالی اور آسامی زبان بولنے والے ہندو اور قبائلی بھی شامل ہیں۔آسام میں جن کے نام این آر سی میں ظاہر نہیں ہوتے ہیں ثبوت کا بوجھ ان پر ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ شہری ہیں۔ لیکن بہت سے باشندوں کے پاس خصوصاً دیہی افراد کے پاس پیدائشی سند یا دیگر کاغذات نہیں ہیںچونکہ اُن کی نمایاں تعداد اَن پڑھ ہے ۔ یہ بات مد نظر رہے کہ بھارت میں کم شرح خواندگی کے حوالے تمام ریاستوں میں آسام 10 ویں نمبر پر ہے۔ اور ریاست کی ایک چوتھائی آبادی ناخواندہ ہے ۔

ایسی صورتحال میں بے شک اُن کے آبائو اجداد تقسیم سے قبل یا بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی کیوں نہ نقل مکانی کر کے آسام آئے ہوں۔اپنی جہالت اور غربت کی وجہ سے وہ رہائشی دستاویز کی اہمیت سے بے خبری کے باعث اُن کے لیے اب اپنی شہریت ثابت کرنا بہت مشکل ہوگی ہے۔ان 19 لاکھ کو عدالت کے ذریعے اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع اگرچہ دیا گیا ہے جو فارن ٹریبونلز سے سپریم کورٹ تک ہے۔ لیکن غربت کے مارے یہ بیچارے عدالتی جنگ کو کس حد تک لڑ پائیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ نتیجتاً اکثریت کا مستقبل کا ٹھکانہ حراستی مراکز (detention centres) ہیں۔

جہاں اُنھیں دنیا سے الگ تھلگ رکھا جائے گا ۔انڈین پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ امورنے انکشاف کیا ہے کہ 28 نومبر 2019 تک آسام میں چھ آپریشنل حراستی مراکز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہلی، گوا،راجھستان اور پنجاب میں بھی یہ ہیں۔ یعنی انڈیا میں اس وقت 10 ایسے مراکز فعال ہیں۔ اس کے علاوہ مزید تین کی بھارت کے مختلف مقامات پر تعمیر کی منظوری دی جاچکی ہے اور تین کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ آسام گولپارہ ضلع میںایک بڑا نظربند مرکز جس میں تین ہزار افراد رہائش پزیرہوسکتے ہیں 2.5 ہیکٹر رقبے پر تعمیر کیا جارہا ہے ، جس کا سائز تقریبا سات فٹ بال کے میدانوں کے برابر ہے۔

آسام میں کی جانے والی این آر سی کی سرگرمی سے متاثرہ افراد جن کے بارے میں کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ۔بس اُن کے بارے میں زیادہ تر اتنا ہی کہا جارہا ہے کہ اُن کی واپسی کے لیے اُنکے ملک سے کہا جائے گا۔ تو کیا بنگلہ دیش ان 19 لاکھ افراد کو واپس لے لے گا؟ پڑوسی بنگلہ دیش پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اِن کو نہیں لے گا۔ تو اِن بے ریاست افراد کا کیا مستقبل ہوگا جو شہریت ہی نہیں قومیت اور ریاست سے بھی محروم ہو جائیں گے؟۔مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کہا ہے کہ وہ NRC کے عمل کو پورے ملک میں بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ نے راجیہ سبھا کو 20 نومبر2019 ء کو بتایا تھا کہ’’ ملک بھر میں شہریوں کی قومی رجسٹری (این آر سی)نافذ کی جائے گی‘‘۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور جو کام شروع ہونے جا رہا ہے وہ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (NPR ) کو اپ ڈیٹ کرناہے۔ رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر کے دفتر کی ویب سائٹ کے مطابق آسام کے سوا تمام ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں این پی آر کی مشق اپریل سے ستمبر 2020 تک کی جائے گی۔این پی آر کا بنیادی مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش اور اُن کی غیر ملکی شہریوں کے طور پر شناخت کرنا ہے۔ این پی آر میں ہر وہ غیر ملکی شامل گا جو چھ ماہ یا اُس سے زیادہ عرصے سے کسی علاقے میں رہ رہا ہو یا رہنا چاہتا ہو۔ این پی آر کی یہ حالیہ مشق مردم شماری 2021 سے منسلک ہے ۔

نیشنل پاپولیشن رجسٹر یو آئی ڈی اے آئی(Unique Identification Authority of India ) سے بائیو میٹرک تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ لیکن اپنی 15 ڈیموگرافک معلومات سب کو فراہم کرنا ہوں گی۔(بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق اب ان کی تعداد بڑھا کر21 کر دی گئی ہے) یہ بات برملا پورے بھارت میں کہی جارہی ہے کہ این پی آر ملک گیر این آر سی کی جانب پہلا قدم ہے۔اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ایک بار جب این پی آر مکمل اور شائع ہوجائے گی تو یہ آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی طرز پر بھارتی شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر آئی سی) کی تیاری کی بنیاد ہوگی۔

علاوہ ازیں شہریت ترمیم ایکٹ 2019 بھی میدانِ عمل میں آچکا ہے۔ جس کی مخالفت میں انڈیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ مذہب) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔ ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے انہیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔

اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل نے بی بی سی اردوکو اپنے ایک انٹرویو میں بتایاکہ مودی کے پہلے دور حکومت میں پاسپورٹ کے قانون میں ترمیم کی گئی اور پھر اسی سال انھوں نے فارنرز ایکٹ میں ترمیم کی۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ سی اے اے میں جن چھ مذہبی اقلیتوں کا ذکر ہے اُنھیں ہی پاسپورٹ قانون میں تبدیلی لاکر پہلے انڈیا میں داخلے کی سطح پر چھوٹ فراہم کی گئی کہ وہ بغیر درست دستاویزات یا پاسپورٹ کے انڈیا میں داخل ہو سکتے ہیں اور اگر وہ ویزا کی مدت کے بعد بھی چاہیں تو رک سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فارنرز قانون میں ترمیم کرکے یہ سہولت فراہم کی گئی کہ آپ انھیں حراست میں نہیں لے سکتے گرفتار نہیں کر سکتے اور اب وہ ایک قدم آگے آگئے ہیں کہ یہ لوگ اب شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

اب اس تمام پس منظر اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کا جائزہ لیںتوتمام چیزیں ایک دوسرے سے کڑیوں کی صورت میں واضح طور پر ملی ہوئیں نظر آتی ہیں۔لیکن ممکنہ امکانی پیش منظر کو بیان کرنے سے پہلے بھارت حکومت کا وہی مقصد قابل توجہ ر ہناچاہئے کہ ہندو توا کے نظریہ کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں ہندو مذہب کی واضح منظم عددی برتری کو قائم کیا جائے ۔بی جے پی کی حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ شہریت کے بل کے ذریعے خصوصاً ملکی اور غیر ملکی ہندوؤں کو شہریت دے سکے گی۔

اور دیگر بھارتی ہندو مذہب کے نام پرشہریت پانے والے ہندوں کو قبول کرلیں گے۔جس سے اُن کی عددی برتری میں اضافہ اور ملک میں ہندو اکثریت کی آبادی کے اعدادوشمار منظم ہوں گے (لیکن بھارت کی کئی ایک ریاستوں میں ہندوئوں کی جانب سے بھی اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی ہندو اقلیت میں اور باہر کے ہندو اکثریت میں ہو جائیں گے اور اُس سے مقامی ہندوئوں کے حقوق متاثر ہوں گے) ۔ اس کے ساتھ ممکنہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن قرار پانے والے لاکھوں مسلمانوں کو وہ شہریت سے ہی نہیں بلکہ تمام بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دے گی۔جس سے وہ (نعوذباللہ) دوبارہ ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی یہ سب بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی (Mass Conversion)کے لیے سوانگ رچایا جارہا ہے۔

اس کے لیے بھارتی حکومت کی حکمت عملی کیا ہے اس کے چند واضح اشارہ بی جے پی کے صدر امِت شاہ کے بیانات سے ملتے ہیں۔ مثلاً 22اپریل2019 کو اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ پہلے ہم شہریت ترمیمی بل لائیں گے اور ہمسایہ ممالک کے مذہبی اقلیتوں ، ہندو ، بدھ ، سکھ ، جین اور عیسائی مہاجرین کو شہریت دیں گے۔تب ہم اپنے ملک سے دراندازوں کو نکالنے کے لئے این آر سی نافذ کریں گیــ‘‘۔ کچھ عرصہ قبل بنگال میں منعقد ہوئی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ’’آسام کے غیر قانونی بنگالی ہندو تارکین وطن کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی۔ انہیں شہریت دی جائے گی‘‘۔اب ان اعلانات کی روشنی میں صورتحال کو یوں دیکھیں کہ پورے انڈیا میںشہریت ترمیمی بل اور این آر سی کولاگو کر دیا جائے تو کیا شیڈول قبائل، شیڈول کاسٹ اور او بی سی جو کہ ملک کی آبادی کا70 فیصد ہے کیا ان کی اکثریت کے پاس بھارت کی شہریت کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہوں گے؟۔ جس کا معروضی جواب نہیں میں ہے ۔تو کیا پھر بھارت اپنی اتنی بڑی آبادی کو شہریت سے محروم کر دے گا؟ نہیں کبھی نہیں۔ تو پھر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟

ایسا اس لیے کیا جارہا ہے کہ شیڈول قبائل باقاعدہ ہندو آبادی میں شامل ہی نہیںکیونکہ برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی نظام کے تحت ہونے والی تقریباً تمام مردم شماریوں میں شیڈول قبائل کو کبھی بھی ہندو مذہب میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ علیحدہ شناخت کے تحت اُن کی آبادی پر مبنی اعدادوشمار کو علیحدہ کالم میں پیش کیا جاتا تھا۔لیکن اب حکومتی اعدادوشمار میںانھیں ہندو قرار دیا گیا ہے۔ این آر سی کے تحت اُن کی اکثریت کو دستاویزی ثبوت کی عدم فراہمی کی بنیاد پر پہلے شہریت سے بے دخل کیا جائے گا اور بعد میںانھیں بطور ہندوبھارتی شہریت آفر کی جائے گی۔ اسی طرح او بی سی جو ہے ہی تعلیمی اور سماجی طور پرپسماندہ طبقات پر مشتمل کمیونٹی ان کے پاس شہریت کے دستاویزی ثبوت کی قلت اکثریت کے اخراج کا باعث بنے گی۔ لیکن ان پسماندہ طبقات میں سے اُن کو تو دوبارہ شہریت دے دی جائے گی جو اپنے آپ کو ہندو مذہب کے پیروکار بتائیں گے۔

اورباقی اخراج شدگان کی بھی اکثریت جو ہندو نہیں ہیں اپنی جہالت اور پسماندگی کی وجہ سے اس ناگہانی مصیبت سے بچنے کے لیے ہندو مت کے ماننے والے بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذات پات کے شکنجے میں جکڑی شیڈول کاسٹ(دلت) جسے ہندو مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ہی حاصل نہیںجو تیزی سے مذہب تبدیل کر رہی ہے۔

دستاویزی ثبوت کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کی بھی بڑی کثیر تعداد بھارتی شہریت سے نکال دی جائے گی۔ جن دلتوں نے ابھی اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا انھیں NRC کے خوف میں جکڑ کر باندھ لیا جائے گا اور جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے اِنھیں گھر واپسی پروگرام کے تحت واپس ہندو مت کو اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اسی طرح لنگایت اور اِن کی طرح دوسری کمیونٹیز جنہیں زبردستی ہندو شمار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے جدگانہ مذہبی تشخص کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں اور آواز بلند کررہے ہیں۔ اُنھیں بھی این آر سی کے تحت گھیرا جائے گا اور شہریت ترمیمی بل کے ذریعے جس میں اُن کی کمیونٹی کو شہریت ہندو مت سے علیحدہ شناخت کے طور پر دینے کی کوئی صورت ہی موجود نہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو مذہب کو اپنی مذہبی شناخت کے طور پر تسلیم کر لیں گے۔ اور اُن کی عددی قوت کو توڑ دیا جائے گا۔

اب بات کرتے ہیں اس پوری مشق کے اصل ہدف مسلمانوں کی۔جن کے لئے بھارت میںعرصہ حیات کو تنگ کیا جارہا ہے اور ان کی واضح اقلیتی عددی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہریت کے دستاویزی ثبوت ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کو مختلف حیلوں بہانوں سے شہریت سے محروم کر کے حراستی مراکز (detention centres) میں مقید کردیا جائے گا۔کیونکہ دی نیو انڈین ایکسپریس کی 21 دسمبر 2019 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اعلی سرکاری عہدیداروں نے واضح کیا ہے کہ آدھار(شناختی نمبر) ، ووٹر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ شہریت کے دستاویزات نہیں ہیں۔

امِت شاہ نے بھی17 دسمبر2019 کو Times Now کو اپنے ایک انٹرویو میں یہی کہا تھا۔پھر مسلمان کیسے ثابت کریں گے اپنی بھارتی شہریت؟۔ تو بھارت سرکار پھر کس ملک سے بات کرے گی کہ یہ قید شدہ مسلمان اُن کے شہری ہیں اور وہ اُنھیں واپس لے لے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ انڈیا ہی کے شہری ہیں اُن کے آبائو اجدادکی قبریں تک وہاں موجود ہیں۔ہاں ان میں سے کچھ جو بنگالی مسلمان یا میانمار کے مسلمان ہیں اورعرصہ دراز سے انڈیا میں آباد ہیں ان کی حکومتیں تو اُن کو واپس لینے پر تیار نہیں ہوںگی۔ توپھر اِن سب مسلمانوں کا کیا ہوگا؟۔جن حراستی مراکز میںاُنھیں رکھا جائے گا۔ اُس میں اُن پر زندگی کو اتنا تنگ کر دیا جائے گا کہ وہ اُس سے متنفر ہوجائیں گے ۔پھر اُنھیں گھر واپسی پروگرام کے ذریعہ ہندو مذہب اختیار کرنے کی دھمکی ،ترغیب اور لالچ دیا جائے گا۔ یوں یہ (Mass Conversion) پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔

اس کے علاوہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوںکی آبادی میں کمی کے لیے جبری طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس مطالبے سے تنازعہ کھڑا کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے شیو سینا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوںکے لئے لازمی خاندانی منصوبہ بندی جیسے اقدامات کے ذریعہ ملک میں ان کی آبادی کی نمو کو روکیں۔یہ بات مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حلیف پارٹی شیو سیناکے ترجمان ’’سامانا‘‘ کے ایک اداریے میں کہی گئی۔

اداریہ میں مزید لکھا گیا کہ ’’صرف آبادی میں اضافہ کرکے کوئی بھی شخص ملک کو پاکستان میں تبدیل کرسکنے کی کوشش کر سکتا ہے‘‘۔ اسی طرح آل انڈیا ہندو مہا سبھاکے نائب صدر سدھوی دیوا ٹھاکر (Sadhvi Deva Thakur) نے ایک اور ایمرجنسی کا مطابہ کیا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائی کمیونٹی پر نس بندی کو لاگو کیا جائے اور ہندو آبادی کو بڑھانے کے لیے مہم چلائی جائے۔اس کے علاوہ بھارت کی مسلم آبادی کے حجم کے بارے میں نہ صرف انتہائی بیان بازی بلکہ نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیںاور یہ تک کہا جاتا ہے کہ مسلمان بھارت چھوڑ دیں۔یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ 2017 کے مطابق بی جے پی کے ممبران جن کے ہندو قوم پرست گروہوں کے ساتھ معروف تعلقات ہیں اُنھوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مذہبی تناؤ میں اضافہ کیا ہے کہ مسلم آبادی میں اضافہ ہندو اکثریت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

2016 میں یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے اعلی اراکین پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین کا مطالبہ کیا تھا۔ اپریل2016 میں یوگی آدتیہ ناتھ نے عوام الناس کے سامنے مسلمانوں کوبھارت چھوڑنے کی تاکید کی اورکہا کہ وہ وہاں چلے جائیںجہاں شریعت کے قانون پر عمل کیا جاتا ہے۔بات صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں عیسائی بھی اس کی زد میں ہیں۔ شدت پسند ہندوجماعتوں اور تنظیموںکے ممبر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائی امریکہ کے جاسوس ہیں اور مغربی سامراجی ہیں جو جبری تبدیلی مذہب کے ذریعہ ہندو مت کو ختم کرنے اورانڈیا کو ایک عیسائی ملک بنانے کی کوشش کرتے ہیںیہ کہنا ہے یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ 2017کا۔اسی طرح کنٹری پالیسی اینڈ انفارمیشن نوٹ انڈیا: ریلیجیس منارٹیز نامی رپورٹ کہتی ہے کہ فروری 2016 میں آر ایس ایس نے مبینہ طور پر پورے بھارت میں ٹرین اسٹیشنوں پرپوسٹرز چسپاں کروائے جس میں کہا گیاتھا کہ عیسائی بھارت چھوڑدیں یا ہندو مذہب اختیار کرلیں نہیں تو2021 تک مارے جائیں گے۔

اب بھارتی حکومت اور اُس کے اتحادی جماعتوں اور تنظیموں کی ان تمام تر کارگزاریوںکے پس منظر میں موجوداُس خوف کی حقیقت کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ جس کاانڈیا کے بعض حلقے اب اظہار کر رہے ہیں کہ اُن کی مملکت میں ہندو اکثریت میں نہیں ہیں۔بھارت کی 2011 میں اب تک ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ملک کی20.2 فیصد آبادی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ 8.6 فیصد آبادی شیڈول قبائل پر مشتمل تھی جو ہندو نہیںبلکہ حکومت انھیں زبردستی سرکاری اعدادوشمار میں ہندو ظاہر کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ 16.6 فیصد پر مشتمل دلت آبادی کو عملاً ہندو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اُنھیں مندروں میںجانے کی اجازت نہیں، مذہبی تقریبات میں شرکت کرنے نہیں دی جاتی، جن کے چھونے سے بقول ہندو اشرفیہ چیزیں ناپاک ہوجاتی ہیں۔ جن سے ہر وقت ہر طرح کا سماجی قطع تعلق روا رکھا جاتا ہے۔تو پھر کوئی انھیں کس طرح ہندو مانے یا کہے۔یہ تو ہندو معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر موجود ذات پات کے نظام کا پسا ہوا حصہ ہیں اور اس نظام کے باغی ہیں۔ہندو مذہب سے بغاوت کرنے والی ایک اور کمیونٹی لنگایت کی ہے جو اپنی علیحدہ مذہبی شناخت کی خواں ہے۔

ملکی آبادی کے 3.3 فیصد پر مشتمل ہیں۔ان سب تناسب کو اگر جمع کر لیا جائے تو یہ مجموعی طور پر 48.7 فیصد بنتا ہے۔ اب اگر اس میں دیگر پسماندہ طبقات (OBC ) کی آبادی کے اُس تناسب کو بھی شامل کر لیا جائے جنہیں مردم شماری کا عملہ اپنی جادوگری سے ہندو مذہب کے خانے میں منتقل کردیتا ہے ۔

اگر یہ اعدادوشمار بھی سامنے آجائیں تو صورتحال وہی ہوگی جو بی جے پی اور اُس کے حواریوں کے لیے ڈرائونی حقیقت ہے۔ مردم شماری کا عملہ ایسا کیسے کرتا ہے؟ جب بھی کوئی فرد کسی بھی تسلیم شدہ مذہب کی رکنیت کی تردید کرتا ہے تو مزید تفتیش کیے بغیر مردم شماری کا عملہ اُسے ہندو مذہب میں شامل کردیتا ہے۔ اور جب یہ سوال کسی او بی سی یا شیڈول قبائل یا کاسٹ کے ممبر سے کیا جاتا ہے توجو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس سرزمین کو ہندستان کہا جاتا ہے اور یہ ہندوؤں کا ملک ہے۔اور اس میں رہنے والے سبھی کو ہندو ہونا چاہئے۔ یہ ترغیبی دھمکی اکثر کام کر جاتی ہے اور لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ہندو شمار کروادیتے ہیں۔

اور ایسا کرنے کا عملہ کو با قاعدہ سرکاری طور پرحکم دیا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کے اندراج کے حوالے سے بعض معاملات میں کچھ گنتی کرنے والے انہیں راضی کرتے ہیںکہ وہ خود کو اس طرح درج کریں۔ اور بعض صورتوں میں کچھ گنتی کرنے والے رائے دہندگان کو اُن کی مرضی کے مطابق درج تو کرلیتے ہیں لیکن درج کرانے والے ان باتوں سے لاعلم رہتے ہیں کہ اُن کے بارے میں کیا لکھا گیا ہے اور کس چیز(قلم یا پینسل)سے لکھا گیا ہے۔

انڈیا کے کئی ایک سینئر صحافی بی جے پی کے ان تمام اقدامات کو پورے ملک میں انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ آسام کے ایک سینئر صحافی نوا ٹھاکریا کہتے ہیں کہ ’’انڈیا کے 60 فیصد ہندو اب ووٹ بینک بن گئے ہیں۔ پہلے دلت ووٹ بینک ہوتا تھا، مسلم ووٹ بینک ہوتا تھا۔ لیکن اب ہندو بھی ووٹ بینک بن چکے ہیں۔ یہ پوری سیاست ملک کے باقی حصوں میں ووٹ بینک مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے‘‘۔جب کہ بین لاقوامی اداروں کی رپورٹس اس حوالے سے کیا کہتی ہیںایک جائزہ ان کا بھی ۔امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس (سی آر ایس) جو قانون سازوں کو باخبر فیصلہ لینے کے لئے وقتاً فوقتاًملکی اور عالمی اہمیت کے امور پر رپورٹس تیار کرتی ہے۔اس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ نریندر مودی کی حکومت کے بنائے گئے شہریت کے ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی) ہندوستان میں مسلم اقلیت کی حیثیت کو متاثر کرسکتا ہے‘‘۔اقوام متحدہ ، ہیومن رائٹس واچ اور بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن ان سب نے

متنبہ کیا ہے کہ یہ صورتحال جلد ہی خوفناک انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دریں اثنا انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموںاور بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن نے کہا کہ’’ ہندوستان غلط سمت میں ایک خطرناک موڑلے رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس بل کو قانون کی شکل دی جاتی ہے تو امریکہ کو بھارت کے خلاف پابندیوںعائد کرنی چاہیئے‘‘۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے حال ہی میں بھارت میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیاہے۔کیونکہ انڈیا بھر کی متعدد مذہبی اقلیتوں کو دھمکیوں ، نفرت انگیز جرائم ، معاشرتی بائیکاٹ ، عبادت گاہوں کی بے حرمتی ، حملوں اور بنیاد پرست ہندو قوم پرست تحریکوں کے نتیجے میں جبری مذہبی تبدیلیوں میں بی جے پی کی حکومت میںڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے۔بی جے پی(حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی) ، آر ایس ایس ، سنگھ پریوار ، اور وی ایچ پی نے ہندوتوا کے نظریہ کے تحت بھارت کو ہندو مذہب اور ہندو اقدار پر مبنی ریاست بنانا چاتے ہیں۔

جس کے لیے وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد ، امتیازی سلوک اور مذہبی عقائد کے خلاف بیان بازی کا استعمال کرتے ہیں ۔خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور غیر ہندوؤں کو یہ محسوس کراتے ہیں کہ وہ ملک میں ناپسندیدہ ہیں۔امریکہ کے انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم کے حوالے سے قائم کمشن کی’’ کانسٹیٹیوشنل اینڈ لیگل چیلنجز فیسڈ بائے ریلجیس منارٹیز اِن انڈیا‘‘ نامی رپورٹ کے مطابق ’’ قومی اور ریاستی دونوں سطح پربھارتی حکومت اکثر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے آئینی وعدوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ قومی اور ریاستی قوانین اقلیتی طبقات کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے لئے استعمال ہوتے ہیں‘‘۔

اس سب کا حاصل یہ ہوا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی جمہوریت پر عالمی اداروں کا اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس 2019 میں بھارت 10 درجے کی کمی کے ساتھ 165 ممالک میں 51 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ “امتیازی شہریت (ترمیم) ایکٹ” جموں و کشمیر کی صورتحال اور متنازعہ این آر سی (شہریوں کا قومی رجسٹر) پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اکنامسٹ نے بھارت کو”شہری آزادیوں کے خاتمے” کے تناظر میں10 میں سے6.9 اسکور دینے کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ یہ اسکور 2006 میں جب انڈکس پہلی بار شائع کیا گیا تھاسے اب تک بھارت کا سب سے کم اسکور ہے۔

جموں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھی ہندو توا نظریہ کی ایک اہم کڑی ہے مسلمان اگرچہ پورے بھارت میں آباد ہیں لیکن جموں و کشمیر وہ واحد ریاست ہے جہاں آبادی کا68 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرے نمبر پر آسام کی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے اور اس ریاست میں NRC کے ذریعے مسلم کش کھیل کھیلا جارہا ہے جبکہ مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب27 فیصد ہے وہاں بھی بساط بچھائی جارہی ہے۔اس کے علاوہ نگا لینڈوہ ریاست ہے جہاں آبادی کی اکثریت یعنی88 فیصد عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ بھارت میں عیسائی اقلیت کی دوسری بڑی آبادی میزورام (MIZORAM)ریاست میں ہے جہاں کی کل آبادی کا 87 فیصد ان پر مشتمل ہے۔تیسرے نمبر پر MEGHALAYA ریاست ہے جہاں کی آبادی کا 75 فیصد عیسائی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ سکھوں کی پنجاب میں آبادی کا تناسب 58 فیصد اور چندی گڑھ میں 13 فیصد ہے۔

سکم (SIKKIM)کی آبادی کا 27 فیصد بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی حکومت کے لیے جو سب سے تکلیف دہ حقیقت وہ یہ ہے کہ بھارت کی 8 اسٹیٹس میں(اُن کی اپنی مردم شماری کے مطابق) ہندواقلیت میں ہیں۔ جہاں اُن کی آبادی زیادہ سے زیادہ 41 فیصد سے لیکر کم سے کم 2.7 فیصد ہے۔ سکم اور کیرالا میں اُن کی آبادی کا تناسب آدھے سے کچھ زائد یعنی 58 اور55 فیصد بالترتیب ہے۔ان ریاستوں میں سے چند ایک میں تو بی جے پی ہندو اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کے گھنائونے منصوبوں کا آغازکرچکی ہے اور باقی میں عنقریب شروع ہوجائے گا ۔ لہٰذا مستقبل کا بھارت زور زبردستی اور اقلیتوں کی جبری مذہب تبدیلی کی بنیاد پر بنائی گئی ہندوتوا کی تصویر تو شایدپیش کرے لیکن اس کے نتیجے میں سیکولر بھارت کی موت اس کے وجود کو یقینا پارا پارا کر دے گی۔

نیشنل رجسٹرآف سٹیزن (این آر سی)
این آر سی ایک تصدیق شدہ ڈیجیٹل رجسٹر ہے جس میں ڈیجیٹل شکل میں تمام ہندوستانی شہریوں کے بارے میں نام اور بنیادی آبادیاتی معلومات موجود ہیں۔ ایک شخص جوبھارت میں پیدا ہوا ہے یا جس کے بھارتی والدین ہیں یا کم از کم 11 سالسے بھارت میں مقیم ہے۔وہ بھارتی شہریت کا اہل ہے۔ یہ رجسٹر سب سے پہلے بھارت کی 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار کیا گیا تھا ۔ جسے اب حال ہی میں شمال مشرقی بھارتی ریاست آسام میں اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ NRC بھارت کے شہریوں کا پہلا ڈیٹا بیس ہوگا۔جس سے بقال حکومت کے وہ اُن غیر ملکیوں کی شناخت کر سکے گی جو غیر قانونی طور پربھارت میں مقیم ہیں ۔تاکہ انھیں حراست میںلیکر جلاوطن کیا جاسکے جہاں سے وہ آئے ہیں۔اس رجسٹر کی بنیاد پر ایسے افراد کی فہرست بنائی جاتی ہے جن کا بھارت کی شہریت کے حامل ہونے پر کوئی شک ہو۔جن افراد کا نام اس فہرست میں آجائے اُنھیں اپنی شہریت کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا ہوتا ہے۔

این آر سی کے عمل کی شفافیت کے حوالے سے بھارت بھر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اور اس کے بارے میں ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ انڈیا میں رہنے والی اقلیتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

ہندوتوا
ہندوتوا ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ یعنی یہ ہندو قومیت کی بالادستی کا متشدد نظریہ ہے۔ ونائیک دمودر سورکر (Vinayak Damodar Savarkar) نے 1923 ء میں اس اصطلاح کا استعمال کیا تھا۔جبکہ قوم پرست ہندو تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو بام عروج پر پہنچایا۔ آسان الفاظ میں ہندوتوا کے نظریے کے تین کلیدی اصول ہیں(1) ہندو ہندوستان کے حق پرست حکمران ہیںجو ایک ہندو قوم ہے۔ (2) عیسائی اور خاص طور پر مسلم اقلیتوں کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کی مذہبی وفاداری ہندوستان میں دیسی نہیں ہے (اس طرح جیسے کہ سکھوں ، بودھوں اور جینوںکی ہے) (3) ذات پات کی تقسیم ہندو اتحاد کو مجروح کرتی ہے۔

آدھار
آدھار ایک 12 ہندسوں کا منفرد شناختی نمبر ہے جوبھارتی باشندوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا سے منسلک ہے۔ اس کا مقصدانڈین شہریوں کی شناخت اوردیگر امور میں مدد کرنا ہے۔جس کوبھارتی رہائشیوں کو منفرد شناختی اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) جاری کرتا ہے۔

این پی آر اور این سی آر میں فرق
نیشنل پاپولیشن رجسٹر بھارت میں رہنے والے تمام لوگوں کاچاہے وہ انڈین شہریت کے حامل ہیں یا نہیںاُن کا ڈیٹا بیس ہے۔ لیکن نیشنل رجسٹر آف سٹیزن صرف بھارتی شہریت کے حامل افراد کا ڈیٹا بیس ہے۔ این آر سی کا عمل مدعا علیہ سے شہریت کا ثبوت مانگتا ہے۔ جو لوگ ثبو ت مہیا نہیں کر پاتے وہ طویل عرصے تک نظربند یا ملک بدر ہوسکتے ہیں۔

حراستی مرکز (Detention Centre )
غیر قانونی تارکین وطن ، پناہ گزینوں ، مقدمے کی سماعت یا سزا کے منتظر افرادیا نوجوان مجرموں کی قلیل مدتی نظربندی کا مرکز۔ پورے بھارت میں اس وقت فعال ایسے مراکز کی تعداد 10 ہے جبکہ مزید 3 کی تعمیر جاری ہے اور3 کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔

بہو لائو ۔۔۔بیٹی بچائو
انتہا پسند ہندوئوں نے یہ تحریک نام نہاد لو جہاد کے ردعمل میں شروع کی ہے ۔ جس میں نوجوان ہندو مردوں کو غیر ہندو لڑکیوں سے شادی اورلڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہندو گھرانوں کی لڑکیوں کو غیر ہندو مذاہب میں شادی سے روکا جاتا ہے۔

دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی)
دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی(جو انگریزی کےClasses Backward Other کا اختصار ہے) اجتماعی اصطلاح ہے جسے بھارت حکومت اُن ذاتوں کے لیے مخصوص کر چکی ہے جو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ دیگر پسماندہ طبقات کی سینٹرل لسٹ میںدرج ذاتوں کی تعداد 31 مارچ2018 تک 2479 تھی۔

لو جہاد (Love Jihad)
لو جہاد بھارت میں رائج ایک اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کو ہندو انتہا پسندوں نے ایجاد کیا۔ انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انہیں مسلمان کرکے شادیاں کر رہے ہیں جس کا مقصد بھارت میں ہندوؤں کی آبادی کو ختم کرنا ہے۔لیکن بار بار پولیس کی تفتیش مذہب کی تبدیلی کے کسی ایسے منظم منصوبے کا ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لوجہاد کے نام پرتمام مسلمان مردوں کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے جو ہندو خواتین سے زبردستی شادی کرلیتے ہیں۔

شیڈول قبائل
شیڈول قبائل بھارت کے دیسی یا اصل باشندے ہیں ۔ان قبائل کے لئے یہ سرکاری طور پرانڈین آئینی اصطلاح ہے۔ انھیں “آدیواسی” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ اکثر غربت اور امتیازی سلوک کا شکار رہتے ہیں۔ بہت ساری آدیواسی برادریوں کو حکومت نے شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کے نام سے درج کیا ہے ،یہ اصطلاح گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے شروع ہوئی اور ایس ٹی کی اب بھی نوآبادیاتی دور سے شروع ہونے والے اپنے منفرد معیار کی بنیاد پر تعریف کی جاتی ہے(1) قدیم خصلتوں کامظاہرہ (2) مخصوص ثقافت (3) جغرافیائی تنہائی (4) وسیع پیمانے پر کمیونٹی سے روابط میں ہچکچاہٹ (5) پسماندگی۔سینٹرل لسٹ میںدرج شیڈول قبائل کی تعداد 31 دسمبر2017 تک 747 تھی۔

شیڈول کاسٹ (دلت، اچھوت، untouchable)
شیڈول ذاتیں وہ رسمی اصطلاح ہے جوبھارت کے آئین میں ان لوگوں کے لئے پائی جاتی ہیں جو ذات پات کے نظام سے باہر ہیں۔آئینی آرڈر 1950 کے تحت جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی اس کے مطابق ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندئوں، سکھوں اور بدھ مت کو منانے والوں پر مشتمل ہوں گے۔دلت سے مراد “پسے ہوئے” یا “مظلوم” اور کم ترمعاشرتی طبقہ ہے ۔یہ اصطلاح نوآبادیاتی حکومت ہند کے قانون 1935کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ان کے بہت سارے لوگوں کو امتیازی سلوک ، غربت اور پرتشدد حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بہت سی دلت ذاتوں کو حکومت نے باضابطہ طور پر درج فہرست ذات (ایس سی) کے نام سے درج کیا ہے۔بھارت کے آرٹیکل341 کے تحت شیڈول ذاتوں کی تعداد 26 اکتوبر2017 تک1284 تھی۔

گھر واپسی
یہ اصطلاح بھارت میں اکیسویں صدی میں ایجاد کردہہے جو نام نہاد طور پر تبدیلی مذہب کی کوششوں اور ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ بھارت میں کئی ہندو تنظیمیں گھر واپسی کے نعرے کو عام کرنے میں لگی ہیں۔ ان میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بجرنگ دل اور ایسی کئی تنظیمیں شامل ہیں۔اس نام نہاد ’’ گھر واپسی‘‘ کے نام سے جبراً ہندو مذہب اختیارکرانے کایہ جواز پیش کیا جارہا ہے کہ بھارت میںخصوصاًاسلام اور عیسائیت کے ماننے والوں کے آبائو اجدادچونکہ ہندو تھے اور اِن مذاہب نے زبردستی اُنھیں ہندو مذہب چھوڑ نے پر مجبور کیا تھالہذا اب بھارت میں رہنے والی مسلمانوں اور عیسائیوں وغیرہ کو دوبارہ اپنے آبائو اجداد کے مذہب کی طرف واپس آجانا چاہیے۔

شہریت ترمیم ایکٹ2019ء
یہ بھارت کی پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایک ایکٹ ہے۔اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میںبنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔ ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے انہیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔

نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر)
نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) ملک کے معمول کے باشندوں کا ایک رجسٹر ہے جو مقامی (گاؤں / سب ٹاؤن) ، تحصیل ، ضلع ، ریاست اور قومی سطح پر شہریت ایکٹ 1995 اور شہریت کی دفعات2003 ( شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی نمبرکے اجراء کے قواعد)کے تحت تیار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہر معمول کے باشندے کے لئے لازمی ہے کہ وہ این پی آر میں اندراج کریں۔ این پی آر کے تحت معمول کے باشندے کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جاتی ہے جو پچھلے چھ مہینوں یا اس سے زیادہ عرصے سے کسی مقامی علاقے میں مقیم ہے یا کوئی ایسا شخص جو رہائش کا ارادہ رکھتا ہواگلے چھ مہینوں یا اس سے زیادہ عرصے کا اُس علاقے میں رہنے کا۔بقول حکومت این پی آر کا مقصد ملک میں ہر معمول کے رہائشی کا شناختی جامع ڈیٹا بیس بنانا ہے۔

ڈیٹا بیس میں بائیو میٹرک کی تفصیلات یعنی آدھار ، موبائل نمبر ، پین ، ڈرائیونگ لائسنس ، ووٹر شناختی تفصیلات اور بھارتی پاسپورٹ نمبرکے ساتھ ساتھ ڈیموگرافک تفصیلات شامل ہیں۔یعنی(1) فرد کا نام (2) گھر کے سربراہ سے تعلقات (3) والد کا نام (4) ماں کا نام (4) شریک حیات کا نام (اگر شادی شدہ ہے) (5) جنس ( 6) تاریخ پیدائش (7) ازدواجی حیثیت (8) مقام پیدائش (9) شہریت (جیسا کہ اعلان کیا گیا) (10) معمول کی رہائش کا موجودہ پتہ (11) موجودہ پتے پر قیام کی مدت (12) مستقل (13) رہائشی پتہ (14) پیشہ / سرگرمی (15) تعلیمی قابلیت۔بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اب ان سوالات کی تعداد 15 سے بڑھا کر 21 کردی گئی ہے اور جن 6 سوالات کا اس میں اضافہ کیا گیا ہے وہ پریشان کن ہیں۔

لنگایت کون، ہندو یا غیر ہندو؟
لنگایت 12 ویں صدی کے سنت فلسفیانہ بساوانا کی پیروی کرتے ہیں جنھوں نے رسم و رواج کی عبادت اور ویدوں کی اہمیت کو مسترد کردیا تھا۔لنگایت سکالر اور کرناٹاک یونیورسٹی میں فلسفہ کے ریٹائرڈ پروفیسر این جی مہادیوپا کے مطابق’’ لنگایت مذہب ہندو مذہب سے الگ ہے‘‘۔ ایس ایم جمدارجوکرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیںاور اس مقصد کے سب سے زیادہ مضبوط حامی ہیںوہ کہتے ہیںکہ’’ یہ واحد مذہب ہے جو بت پرستی اور ان رسومات کو کھلے عام مسترد کرتا ہے جو ہندو مذہب سے وابستہ ہیں‘‘۔ ’’انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن آف ایتھکس‘‘ جو 1951 میں شائع ہوا اُس کے صفحہ 69 سے75 تک لنگایت سے متعلق معلومات موجود ہیں۔ مصنف R.E. Enthovan لکھتے ہیں کہ’’ لنگایات ہندو نہیں ہے‘‘۔’’ ہندو مینرز،کسٹمز اینڈ سیرمنیز‘‘ نامی کتاب جو 1821 میں شائع ہوئی اُس کے مصنف J.A. Dubois جو ایک فرانسیسی مشنری کے لئے کام کرنے والے ایک ماہر بشریات تھے۔

اپنی تصنیف میں رقم طراز ہیں کہ لنگایت کا فلسفہ ہندوؤں سے مختلف ہے۔ لارڈ ساؤتھ بورو کی سربراہی میں ایک برطانوی سروے کمیٹی( جس نے انتخاب کے لیے رائے دہندگان کی عمر کی حد طے کرنا تھی) نے 1919 میں لنگایات کو ایک علیحدہ کمیونٹی کے طور پر درج کیا تھا۔سرکاری ریکارڈ میں لنگائیت کو مذہب کے طور پر قرار دینے کا سال 1871 کا ہے جب برصغیر میں پہلی مرتبہ مردم شماری کی گئی تھی۔ دراصل ریاست میسور کی 1871 کی مردم شماری نے لنگایت کو ہندو مذہب سے بالکل مختلف مذہب کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

مہاراجہ نے 1891 میں لنگایات کے لئے ایک الگ کوڈ جاری کیا۔1941 میں کمیونٹی رہنماؤں کی ایک میٹنگ میں اس کمیونٹی کے مہاسبھا کی حیثیت سے آل انڈیا لنگائیات مہاسبھا کی شناخت کرنے اور لنگایت کو ایک الگ مذہب قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔1979میںبرادری نے پہلی بار الگ مذہبی ضابطہ اخلاق کا مطالبہ اٹھایا۔1999 میںوفد نے لال کرشن اڈوانی (این ڈی اے حکومت) سے الگ مذہبی حیثیت اور علیحدہ ضابطہ کی درخواست کے ساتھ ملاقات کی۔

اڈوانی اس مطالبے کا ساتھ نہیں دیا۔2009 اور 2013میںکمیونٹی نے علیحدہ اقلیت کے درجہ اور مردم شماری میں علیحدہ کوڈ اور مذہب کے لیے اپیلیں کیں۔بھارت میں لنگایات 8 ریاستوںگجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، کیرالا، تامل ناڈو، اندھرا پردیش اور تلنگانہ میں آباد ہیں۔ کمیونٹی کی زیادہ تر آبادی کرناٹک میں رہائش پذیر ہیں جن کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے ۔ جبکہ پورے ملک میں ان کی آبادی مختلف ذرائع نے مختلف بیان کی ہے۔ جو 4 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔

The post بھارت میں ہندو اکثریت کا دعویٰ! ایک بڑا فراڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں ہے کہ حیرت کدہ دنیا کے کچھ بے حد دلچسپ حقائق

$
0
0

دنیا بھر میں دو سو ممالک اور سات اعشاریہ پانچ ارب سے زائد کی آبادی دل چسپ، حیران کُن اور متاثر کُن افراد ، جگہوں اور چیزوں سے بھری ہوئی ہے اور جس طرح روز بروز آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا میں کئی نئے حقائق سامنے آرہے ہیں۔

٭شمالی کوریا اور کیوبا وہ واحد جگہیں ہیں جہاں امریکا میں تیار ہونے والی کولڈڈرنک نہیں خرید سکتے:

امریکا میں تیار ہونے والی ایک معروف کولڈڈرنک تقریباً دنیا بھر میں ہر جگہ بہ آسانی دست یاب ہوتی ہے اورکولڈ ڈرنک پینے کے شائقین اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن شمالی کوریا اور کیوبا میں یہ دست یاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک امریکا سے طویل مدتی تجارتی پابندی کے ماتحت ہیں۔ البتہ وہ افراد جو شدید کوشش کے بعد یہ کولڈڈرنک حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں لیکن اس کی قیمت عام طور پر دستیاب کولڈڈرنک کے مقابلے میں خاصی مہنگی ہوتی ہے کیوںکہ اس کو غالباً پڑوسی ممالک میکسیکو یا چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔

٭ پوری دنیا کی آبادی لاس اینجلس میں سماسکتی ہے:

دنیا کی کُل آبادی سات اعشاریہ پانچ ارب سے زائد افراد پر مشتمل ہے جو ایک کثیر تعداد ہے۔ لیکن نیشنل جیوگرافک کے مطابق کرۂ ارض پر بسنے والے تمام افراد ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوجائیں تو تمام افراد لاس اینجلس کے پانچ سو مربع میل کے رقبے میں سما سکتے ہیں۔

٭ ماضی کے مقابلے میں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ:

عام طور پر یہ دیکھاگیا ہے کہ جڑواں بچوں کا تناسب خاصا کم ہے حالاں کہ دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ ہورہا ہے  Alexis C.Madrigalنے اپنی ایک تحریر میں جو اعداد و شمار تحریر کیے ہیں اس کے مطابق 1915ء سے1980ء تک جو شماریاتی ریکارڈ مرتب کیاگیا ہے۔ اس کے مطابق ہر پچاس بچوں میں سے ایک بچہ جڑواں پیدا ہوتا تھا یعنی شرح دو فیصد تھی پھر 1995ء میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا اور یہ دو اعشاریہ پانچ فیصد تک پہنچ گئی۔ 2001ء میں یہ تین فیصد ہوگئی اور 2010ء میں یہ شرح تین اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر تیس بچوں میں سے ایک جڑواں بچہ پیدا ہوتا تھا۔ اس ضمن میں سائنس دانوں کی یہ رائے ہے کہ ڈھلتی عمر میں خاندان کا آغاز کرنے والی خواتین کے اکثر جڑواں بچے ہوتے ہیں جس کا ایک سبب حصول اولاد کے لیے کرائے جانے والے جدید طریقۂ علاج کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔

٭ سیاحوں کی اکثریت دیگر ممالک کے مقابلے میں فرانس کی سیر کو ترجیح دیتے ہیں:

فرانس ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس کا ملکوتی حُسن سیاحوں کو سحر زدہ کردیتا ہے۔ وہاں کا پنیر کھانے میں بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ لہٰذا سیاحوں کی اکثریت دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں فرانس جانا پسند کرتے ہیں۔ 2017ء میں اس یورپی ملک نے 86.9 ملین سیاحت کے لیے آنے والے افراد کو خوش آمدید کہا۔ مقبولیت کے لحاظ سے اسپین دوسرے نمبر پر ہے جہاں 81.8 ملین افراد سیاحت کے لیے گئے۔ اس کے بعد امریکا 76.9ملین افراد، چین 60.7 ملین افراد اور اٹلی58.3 ملین افراد کی سیاحت کا پسندیدہ مقام قرار پایا۔

٭دنیا کا گنجان آباد جزیرہ جس کا رقبہ دو فٹ بال کے میدان کے برابر ہے:

کولمبیا کے ساحل کے قریب واقع Archipelago of san Bernardo میں Santa Cruz del Islote نامی جزیرہ جس کا کُل رقبہ تقریباً دو ایکڑ یا دو فٹ بال کے میدان کے برابر ہے۔ لیکن اس مصنوعی جزیرے میں چار مرکزی شاہراہیں ہیں۔ اس جزیرے پر پانچ سو افراد ایک سو پچپن مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لہٰذا چھوٹی اور کم جگہ میں کافی زیادہ افراد گزارا کرتے ہیں۔ اس لیے یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد جزیرہ ہے۔

٭انڈونیشیا میں چھوٹے قد کے حامل افراد کی اکثریت ہے:

دنیا میں ہر جگہ پستہ قامت و لمبے قد کے افراد پائے جاتے ہیں البتہ 2017ء میں کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق انڈونیشیا میں چھوٹے قد کے افراد کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ بلاتفریق مردوزن جب تناسب نکالا گیا تو ایک فرد کی اوسط قد و قامت پانچ فٹ ایک اعشاریہ آٹھ انچ ہے، جو کہ اوسطاً دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ گو کہ Bolivia جو کہ جنوبی امریکا کا ایک ملک ہے کے باشندے بھی قد و قامت کے لحاظ سے چھوٹے قد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن وہاں ایک شخص کا اوسط قد پانچ فٹ دو اعشاریہ چار انچ ہے۔ لمبے قد کے لحاظ سے نیدر لینڈ Netherlands کا ذکر خصوصاً کیا جاتا ہے۔ جہاں اوسطاً چھ فٹ قد کے حامل افراد پائے جاتے ہیں۔ نیدر لینڈ کے باشندوں کا اوسط قد چھ فٹ ہوتا ہے۔

٭ موسمی تبدیلی کے متعلق معاہدے پر ایک ہی دن میں کثیر تعداد میں ممالک نے دستخط کیے:

2016ء میں نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں Earth day پر174 ممالک کے راہ نماؤں نے Paris Agreement پر دستخط کیے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ ایک کثیر تعداد ہے کہ ایک ہی دن میں اتنے زیادہ ممالک کا ایک ساتھ کسی معاہدے پر دستخط کرنا اس کی شاذونادر ہی کوئی مثال ملے۔ اس معاہدے کا مقصد عالمی سطح پر ہونے والی موسمی تغیرات سے نمٹنے کے لیے مربوط عوامل اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ سرمایہ کاری کی جائے۔

٭ دنیا کا پُرسکون یا خاموش ترین کمرہ واشنگٹن میں مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کوارٹر میں واقع ہے:

’’ایک چُپ سو سکُھ‘‘ ’’خاموشی سونے جیسی قیمتی ہے‘‘ یہ کہاوتیں تو آپ نے سنی ہوں گیں۔ غالباً دنیا کا پُرسکون ترین کمرہ بنانے والوں کے ذہن میں بھی ایسی ہی سوچ ہوگی کیوں کہ ان کا ابتدائی مقصد خاموش ترین کمرہ بنانا تھا۔ اس طرح یہ کمرہ معرض وجود میں آیا۔ جو واشنگٹن میں واقع مائیکروسافٹ کے ہیڈ کوارٹر میں ہے۔ لیب روم میں پس منظر کے شور کو جب ناپا گیا تو وہ انسانی سماعت کی حد سے بھی کم ہے اور اس طرح کرۂ ارض پر پُرسکون ترین جگہوں کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔قوتِ گویائی و سماعت کے سائنس داں Hundraj Gopal کا کہنا ہے کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی فوراً ایک عجیب اور منفرد احساس ہوتا ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ اس قدر خاموشی سے اکثر افراد کو بہرے پن کا احساس ہوتا ہے۔اس پُرسکون کمرے میں بہت دھیمی آوازیں بھی واضح سنائی دیتی ہیں۔ جب آپ اپنا سر گُھماتے ہیں تو اس حرکت کی آواز سُن سکتے ہیں۔ اپنی سانسوں کی آواز نہ صرف سُن سکتے ہیں بلکہ نسبتاً تیز آواز میں سُنائی دیتی ہیں۔‘‘

٭ دنیا میں صرف تین ممالک میٹرک سسٹم استعمال نہیں کرتے:

دنیا بھر کے دو سو سے زائد ممالک میں کسی بھی شے کی طوالت یا مقدار کو ناپنے کے لیے میٹرک سسٹم Metric System استعمال کیا جاتا ہے۔ سوائے تین ممالک کے جن میں Liberia، میانمارا اور امریکا شامل ہیں۔ جلد ہی یہ تعداد دو ہوجائے گی کیوں کہ Liberia کے صنعت و تجارت کے وزیر نے 2018ء میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ حکومت میٹرک سسٹم کو اپنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس طرح شفاف تجارتی معاملات کو فروغ ملے گا۔

٭ پچاسی حروف پر مشتمل کرۂ ارض پر واقع کسی جگہ کا طویل ترین نام:

آسٹریلیا میں Mamungkukumpurangkuntjunya Hillکے افراد کو اپنے ہی آبائی قصبے کا نام یاد کرنے میں خاصی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن برطانوی ریاست Massachusetts کی جھیل

Chargoggagoggmanchauggagoggchaubuna

gungamaugg اور جنوبی افریقہ میں واقع

Tweebuffelsmeteenskootmorsdoodgeskie-

tfonteinکے باشندوں کو بھی اپنا پتا سمجھانے میں اتنی دقت پیش نہیں آتی ہوتی ہوگی۔ جتنی نیوزی لینڈ میں واقع

Taumatawhakatangihangakoauauotamatea-

turipukakapikimaungahoronukupokaiwh-

enuakitanatahuکے باشندوں کو پیش آتی ہوگی کیوںکہ اس جگہ کا نام پچاسی حروف پر مشتمل دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کا طویل ترین نام ہے۔

٭ہر سیکنڈ میں چار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے:

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا بھر میں ہر سیکنڈ میں چار نومولود بچوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ گویا کہ ہر منٹ میں دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کا تناسب تقریباً ڈھائی سو اور ہر گھنٹے میں دنیا بھر میں تقریباً پندرہ ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا روزانہ ہماری دنیا میں تین لاکھ ساٹھ ہزار بچے جنم لیتے ہیں۔

٭ کرۂ ارض پر سرد ترین درجۂ حرارت -144 ڈگری فارن ہائیٹ ریکارڈ کیاگیا:

یخ بستہ ہوائیں چلنے لگیں اور سردی کی شدت بڑھ جائے تو عموماً لوگ سردی کی شدت سے کانپنے لگتے ہیں لیکن سرد ترین دن بھی کرۂ ارض پر ریکارڈ کیے گیے ۔ سرد ترین دن کے آگے کچھ نہیں۔ جس کا درجۂ حرارت منفی ایک سو چوالیس ڈگری فارن ہائیٹ تھا ۔ یہ2014ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں انٹارکٹیکا میں تحقیق کے دوران ریکارڈ کیاگیا۔ اس درجۂ حرارت میں فضا میں چند سانسیں لینا بھی انسانی موت کا سبب بن سکتا تھا۔

٭ جاپان دنیا بھر میں سب سے زیادہ زلزلے کا شکار ہونے والا ملک ہے:

دنیا کے کسی بھی ملک میں زلزلے سے تباہی آتی ہے۔ زلزلے سے عمارتیں و مکانات گرکر تباہ ہونے کے ساتھ آبادیاں نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔ لیکن زلزلے کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک مثلاً چین، انڈونیشیا، ایران ، ترکی وغیرہ کے باشندوں کی زندگی میں یہ ناگزیر حالات بارہا پیش آتے ہیں۔ U.S Geological Survey کے مطابق کرۂ ارض پر جاپان وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے ریکارڈ کیے گیے ہیں۔

٭ محمد دنیا کا سب سے زیادہ مقبول نام قرار پایا ہے:

پیغمبرآخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے نام کی نسبت سے دنیا بھر کے مسلمان اپنے بیٹوں کے نام محمد رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اکثریت کے نام سے پہلے محمد رکھا جاتا ہے۔ اس طرح محمد نام کا اولین حصّہ قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول نام قرار پایا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دنیا بھر میں ایک سو پچاس ملین لڑکے اور مردوں کا نام محمد ہے۔ مغربی دنیا نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے مشہور ناموں جان، جیمز ، میری اور جین سے زیادہ مقبول نام ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا نام محمد ہے۔

٭صرف دو ممالک کے قومی جھنڈوں میں ارغوانی/ جامنی رنگ استعمال ہوا ہے:

نکارا گوا Nicaragua کے جھنڈے کے درمیان میں قوس و قزح بنی ہے جس میں جامنی رنگ استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ڈومینیکا Dominica کے جھنڈے پر Sisserou Parrot کی تصویر بنی ہے یعنی ایک پرندہ جس کے پر جامنی رنگ کے ہیں۔ جامنی رنگ کا قومی جھنڈے میں استعمال ان دونوں ممالک کو منفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔

٭دنیا کی نوے فیصد دیہی آبادی افریقہ اور ایشیا میں مقیم ہے:

وقت گزرنے کے ساتھ عمومی تاثر یہ ہے کہ شہروں میں آبادی کی اکثریت رہائش پذیر ہے ۔ لیکن اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔ آبادی کی اکثریت آج بھی دیہات میں زندگی گزار رہی ہے اور بے شمار افراد آج بھی شہر کی دوڑتی بھاگتی زندگی کے مقابلے میں دیہات کی پرسکون زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں کثیر تعداد میں افراد دیہی علاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ تقریباً 893 ملین افراد بھارت میں دیہی علاقوں میں زندگی بسرکرتے ہیں۔ چین میں بھی آبادی کا بڑا حصّہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔ جس کی تعداد تقریباً 578 ملین کے قریب ہے۔

٭2018ء کے Winter Olympics میں 92 ممالک نے حصّہ لیا:

ہر چار سال بعد اولمپک گیمز میں دنیا بھر سے کھلاڑی حصّہ لیتے ہیں اور کھیلوں کے مقابلے میں جیت حاصل کرنے کے لیے بھرپورمقابلہ کرتے ہیں۔2014ء میں 88ممالک کے 2800 کھلاڑیوں نے حصّہ لیا جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔ لیکن 2018ء میں pyeongchang Winter Games میں 92 ممالک کے 2,952 کھلاڑیوں نے حصّہ لیا اور سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔

٭جنوبی سوڈان دنیا کا سب سے کم عرصے یعنی کچھ سال قبل معرض وجود میں آنے والا ملک ہے:

دنیا میںکچھ ممالک صدیوں قبل معرض وجود میں آئے تھے ۔ اسی طرح کچھ ممالک کی اقوام کی تاریخ ہزاروں برس قبل کی ہے لیکن شمالی افریقہ میں واقع جنوبی سوڈان نے سوڈان سے2011ء میں آزادی حاصل کی۔ اس طرح تقریباً نو برس کا عرصہ ہوا ہے۔ لہٰذا یہ دنیا کا سب سے کم عمر یعنی تھوڑے عرصے قبل معرض وجود میں آنے والا ملک قرار پایا ہے۔

٭دنیا کا سب سے مہنگا سکہ جو سات ملین ڈالر سے زائد میں فروخت ہوا:

1933ء میں Double Eagle نامی سکہ جو سونے کی دھات سے بنا تھا اور اس کی مالیت بیس امریکی ڈالر تھی۔ کچھ سکے بنائے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر کو ضائع کردیا گیا تھا۔ کچھ سکے محفوظ کرلیے گیے تھے۔ جو بعد میں چوری ہوگیے تھے۔ کچھ سالوں بعد یہ سکے جب منظر عام پر آئے تو کچھ معزز افراد کے ہاتھوں میں آئے جن میں شہنشاہ مصر بھی شامل تھے۔2002ء میں ان میں سے ایک سکہ نیلام کیا گیا جو 7,590,020ڈالر میں نیلام ہوا۔ اس طرح یہ نیلامی میں فروخت ہونے والا سب سے مہنگا ترین سکہ قرار پایا۔

٭دنیا کی باون فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے:

2012ء میں جمع کیے گیے اعداد و شمار کے مطابق یونیسکو کے مطابق دنیا کی 50.5 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ تقریباً 89.7 فیصد یہ جوان افراد مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ جیسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

٭ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے افراد عالمی آبادی کا 12.3 فی صد حصہ ہیں:

دنیا بھر میں آبادی کی کثیر تعداد کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ لیکن دنیا میں معمر افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ درحقیقت دنیا میں ساٹھ برس یا اس سے زائد عمر کے افراد آبادی کا بارہ اعشاریہ تین فی صد ہیں۔ 2050 تک ان کی تعداد بائیس فی صد تک متوقع ہے۔

٭دنیا کی نصف آبادی نے 2010 اور 2014 کے فیفا ورلڈ کپ گیمز دیکھے:

فٹبال دنیا بھر میں مقبول کھیل ہے۔ اسی لیے 2010 اور 2014 میں جب فیفا ورلڈ کپ گیمز کا انعقاد کیا گیا تو ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کی نصف آبادی یعنی تقریباً تین اعشاریہ دو بلین افراد ٹی وی پر یہ دیکھنے کے منتظر تھے کہ کون جیتے گا۔

٭دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سوئیڈن میں کثیر تعداد میں جزائر:

ایک اندازے کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ براعظم یورپ کے ملک سوئیڈن میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ جزائر موجود ہیں۔ 221,800 جزائر سوئیڈن میں موجود ہیں، جن میں سے تقریباً ایک ہزار جزائر آباد ہیں۔

٭ 43 ممالک میں شاہی خاندانوں کی حکومت :

گو کہ برطانوی شاہی خاندان کو دنیا بھر میں بے حد مقبولیت حاصل ہے، لیکن درحقیقت اس کے علاوہ بھی بہت سے شاہی خاندان موجود ہیں۔ دنیا کے 43 ممالک پر 28 شاہی خاندان حکومت کرتے ہیں۔ ان ممالک میں جاپان، اسپین، سوئٹزرلینڈ، بھوٹان، تھائی لینڈ، مناکو، سوئیڈن اور نیدرلینڈ بھی شامل ہیں۔

٭کیلیفورنیا میں Artichoke کی کثیر تعداد میں پیداوار:

Artichoke ایک منفرد پودا ہے جو کیلیفورنیا کے دیہی قصبے Castroville میں کثیر تعداد میں اگتا ہے۔ اس ملک میں سال بھر جو موسم رہتا ہے وہ اس پودے کے لیے بہترین موسم ہے۔ لہٰذا تجارتی مقاصد کے لیے اگائے جانے والے Artichoke کا 99.9 فیصد حصہ یہاں اگتا ہے۔ اسی لیے اس علاقے کو دنیا میں Artichoke کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔

٭کرۂ ارض پر موجود نو فی صد جنگلات کینیڈا میں:

دنیا بھر میں جنگلات مختلف ممالک میں موجود ہیں، مگر ان کی سب سے کثیر تعداد کینیڈا میں واقع ہے، جہاں دنیا بھر کے نو فی صد جنگلات موجود ہیں۔

٭’’سب سے زیادہ عام آدمی‘‘ کی تعریف:

2011 میں نیشنل جیوگرافک کی کی گئی تحقیق کے مطابق دائیں ہاتھ سے لکھنے والا شخص جس کی سالانہ آمدنی بارہ ہزار امریکی ڈالر سے کم ہو جس کے پاس ایک موبائل فون ہو اور جس کا کوئی بینک اکاؤنٹ ہو وہ دنیا کا سب سے زیادہ عام آدمی شمار ہوگا۔

٭Red-Billed Quelea دنیا میں سب سے زیادہ پایا جانا والا پرندہ:

Red-Billed Quelea افریقی چڑیا کی ایک قسم ہے۔ ہو سکتا ہے آپ نے اس پرندے کو نہ دیکھا ہو۔ ان چڑیوں کا تعلق افریقہ سے ہے۔ ان کی تعداد ایک سے دس بلین کے درمیان ہے۔ گوکہ ان کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے کسی بھی دوسرے پرندے کے مقابلے میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

٭ایک ویب سائٹ جو دنیا کی آبادی کا پتا دیتی ہے:

گذشتہ برس ایک اندازے کے مطابق عالمی آبادی 7.7 بلین افراد سے زائد تھی۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا ہے تو “World Population Clock” پر جاکر اعدادوشمار کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر دنیا بھر میں ہونے والی شرح پیدائش اور شرح اموات کے مطابق اعداد و شمار دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سائٹ کے ذریعے آپ دنیا کے مختلف ممالک میں حالیہ آبادی کی تعداد بھی جان سکتے ہیں۔

٭Mandarin Chinese دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان:

Mandarin Chineseتقریباً 950 ملین لوگوں کی مادری زبان ہے، جب کہ دو سو ملین دیگر افراد Mandarin Chinese کو بطور دوسری زبان بولتے ہیں۔ لہٰذا یہ دنیا بھر میں مقبول ترین اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

٭کوپن ہیگن سائیکل سواروں کا شہر:

کوپن ہیگن میں سائیکل کو بطور سواری استعمال کرنے کے لحاظ سے سائیکل سواروں کے لیے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے دنیا کے کئی ممالک میں یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ عوام کو سائیکل بطور سواری استعمال کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔ اس لحاظ سے کوپن ہیگن ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔ یہ دنیا کا ایک ایسا شہر قرار پایا ہے جس کو “Most Bike Friendly City” کا درجہ دیا گیا ہے۔

٭ 41 ممالک میں اشاروں کی بھاشا سرکاری زبان تسلیم :

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 72ملین سماعت سے محروم افراد ہیں۔ اسی لیے تقریباً تین سو مختلف اشاروں کی زبانیں ہیں، جن میں امریکی اشاروں کی زبان اور عالمی اشاروں کی زبان بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے 41 ممالک نے اشاروں کی زبان کو کو بطور سرکاری زبان بھی تسلیم کرلیا ہے۔

٭عالمی سطح پر شرح خواندگی تقریباً 86 فی صد: یونیسکو کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا دنیا کی آبادی میں چھیاسی فی صد بالغ افراد خواندہ ہیں۔ یعنی وہ اپنی پسندیدہ کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ یونیسکو نے اعدادوشمار کے حوالے سے واضح کیا کہ بنا کسی صنفی امتیاز کے نوجوانوں میں مطالعہ کرنے اور تحریر کرنے کے حوالے سے قابل ذکر بہتری سامنے آئی ہے۔ پچاس برس قبل یہ شرح خاصی کم تھی۔

٭فیس بُک استعمال کرنے والوں کی تعداد امریکا، چین اور برازیل کی کل آبادی سے زیادہ:

کیا آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ عالمی آبادی کے اس طبقے میں شامل ہیں جس کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ درحقیقت دو بلین افراد کے اس سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ موجود ہیں جوکہ امریکا، چین اور برازیل کی کل آبادی سے زیادہ ہیں۔ فیس بک کے CEO مارک زکربرگ کے مطابق فیس بک دنیا سے رابطے قائم کرنے میں کام یابی کے بعد افراد کو نزدیک لانے میں کوشاں ہے۔

٭صرف دو ممالک کے نام کا آغاز “The” سے ہوتا ہے:

اکثر افراد بہت سے ممالک یا جگہوں کے نام کے ساتھ “The” لکھتے اور کہتے ہیں، لیکن درحقیقت صرف The Gambia اور The Bahamas وہ ممالک ہیں جو باقاعدہ طور پر اپنی قوم کے نام کے ساتھ The شامل کرتے ہیں۔

٭تمام چیونٹیوں کا وزن انسانوں کے برابر :

کرۂ ارض پر بسنے والے افراد کی تعداد 8 بلین کے قریب ہے، جب کہ ہمارے اردگرد رینگنے والی چیونٹیوں کی تعداد 10,000,000,000,000,000 ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق اگر ان تمام چیونٹیوں کو جمع کرکے وزن کیا جائے تو ہم انسانوں کے مساوی ہوگا۔ البتہ یونیورسٹی کے پروفیسر Francis Ratnieks اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ حقیقت ماضی میں شاید درست ہو لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح موٹاپا بڑھ رہا ہے لہٰذا میرا خیال ہے کہ ہم نے چیونٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘

٭سمندروں میں تقریباً دو لاکھ مختلف اقسام کے وائرس:

اگر آپ سمندر کے نیلے شفاف پانی میں تیراکی کے شوقین ہیں تو شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی اور ممکن ہیں آپ خوف زدہ بھی ہوجائیں کہ سمندری پانی میں دو لاکھ مختلف اقسام کے وائرس پائے جاتے ہیں۔ مائیکرو بائیولوجسٹ کوشاں ہیں کہ ان وائرسوں کا پتا لگایا جائے۔ اس طرح ہم قدرت کے اس حسین شاہ کار سمندر کی آبی دنیا کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔

٭نیوزی لینڈ میں پالتو جانوروں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ:

نیوزی لینڈ میں بسنے والے جانوروں سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 68 فی صد گھرانوں میں پالتو جانور ہیں۔ یہ تعداد دنیا کی کسی بھی دوسری قوم کے پالتو جانوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ امریکی قوم بھی جانوروں سے محبت کرتی ہے۔ اسی لیے نصف سے زائد امریکی گھرانوں میں کتا یا بلی یا دونوں جانور پالے جاتے ہیں۔

٭ٹوکیو دنیا کا سب سے بڑا شہر :

دنیا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو دنیا کا سب سے بڑا شہر قرار پایا ہے، جہاں 37 ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے اس کے بعد دہلی، بھارت کا نام آتا ہے جس کی آبادی 29 ملین افراد ہے۔

٭انٹرپول کیسے بنی؟:

انٹر پول کا آغاز 1914 میں ہوا جب 24 ممالک کے قانونی ماہرین نے مل کر مفرور مجرموں کو گرفتار کرنے کے متعلق گفتگو کی۔ حالیہ دنوں میں انٹر پول یا International Criminal Police Organization بے حد مقبول ہے۔ قانون کی بالادستی کے نفاذ اور مفرور مجرموں کو گرفتار کرنے میں اس کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔ اس کا آغاز 1914 میں موناکو میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ہوا۔ جہاں 24 ممالک کے پولیس اور عدلیہ کے نمایندے موجود تھے۔ اس اجلاس کا مقصد مختلف ممالک کی پولیس کے درمیان روابط کو بہتر بنانا تھا۔

٭ہر سیکنڈ میں تقریباً دو افراد کی موت واقع ہوتی ہے:

جہاں اس کرۂ ارض پر ہر سیکنڈ میں چار بچے جنم لیتے ہیں وہیں ایک اندازے کے مطابق ہر سیکنڈ میں دو اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر منٹ میں ایک سو پانچ افراد اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر گھنٹے میں 6,316افراد اور ہر روز 151,600 افراد اور ہر سال 55.3 ملین افراد اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔

The post جہاں ہے کہ حیرت کدہ دنیا کے کچھ بے حد دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

’جن‘ انسان سے قدیم مخلوق

$
0
0

ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین انداز پر بنایا ہے ‘‘(سورہ والتین آیت4) حضور اکرم ؐ کا ارشاد مبارک ہے انسان اپنی خلقت میں سب سے اشرف ہے، خوب صورتی اور وضع قطع میں دنیا کی کوئی چیز اس کے مد مقابل نہیں ہے۔ (اسلام کا نظام حیات)

جن اللہ کی مخلوق ہیں جنہیں انسان کی پیدائش سے بھی قبل پیدا کیا گیا تھا۔ اس مخلوق کے وجود کے تمام قائل ہیں۔ شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیوںکہ جنات کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حد تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں جس کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے، جس کو عوام بھی جانتے ہیں اور خواص بھی۔ جاہل فلسفیوں کی معمولی جماعت کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ اسلامی عقائد میں جن کا وجود متفقہ تسلیم کیا گیا ہے۔

جن کے معنی چھپے ہوئے، پوشیدہ، دیو بھوت ہیں (نقاد اللغات) جس لفظ میں ج اور ن ایک ساتھ آتے ہیں اگرچہ ان پر تشدید بھی لگی ہو تو اس میں پوشیدگی کا مادہ کارفرما ہوتا ہے مثلاً جنت، جنین (وہ بچہ جو رحمِ مادر میں ہو) اسی طرح ایک اور لفظ جنون ہے جس کے معنی عقل پرپر دہ ڈالنا ہے۔ جنان کا اطلاق دل پر اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود پسلیوں کے پیچھے پوشیدہ اور اس کے اندر آتے ہوئے خیال چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔

اسی طرح جنہ ڈھال کو کہتے ہیں جو ایک حربی ہتھیار ہے جسے سامنے کرکے سپاہی اپنے مخالف کے وار سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور اس طرح وہ کاری وار سے بچ جاتا ہے۔ چناںچہ اسے جن کا نام اسی لیے دیا گیا کہ یہ لطافت مادہ کے سبب ہماری حس بصیر (دیکھنے کی صلاحیت و قوت) سے پوشیدہ ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ ایک غیرمرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم میں 8 سورتوں کی 12اور سورہ الجن کی 15آیات میں موجود ہے۔ سورہ الانعام آیت 112اور 128الحجر 27-26 بنی اسرائیل 88النمل 39السبا 12تا14۔ الذاریات 56۔ الرحمٰن 33اور15سورہ الاحقاف آیت29۔

جنوں کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی۔ بعض محققین اور تاریخ داں لکھتے ہیں کہ جنات کو آدم ؑ کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے ترجمہ ’’اور ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا۔‘‘ (سورہ الحجر آیات 27-26 ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے ترجمہ ’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پید ا کیا۔‘‘ (سورۂ رحمن آیات 14-15) ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صلصال خشک مٹی اور جس میں آواز ہو فخّار۔ آگ میں پکی ہوئی مٹی کو ٹھیکری کہتے ہیں۔ مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابوالجن کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کو ابوالآدم کہا جاتا ہے۔ یہاں مراد جنوں کا باپ یا جن بطور جنس کے لیے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا ہے۔ لغت میں مارج آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)

تفہیم القرآن میں سید مودودی رقم طراز ہیں کہ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفے سے چلی۔ اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض ایک تودۂ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتشیں نہیں ہیں۔‘‘ (تفسیر سورہ الرحمن آیت 15)

ایک روایت میں آیا ہے کہ جنوں کو جمعرات کو تخلیق کیا گیا تھا۔

جنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تھا جس کی تصدیق قرآن حکیم نے ان الفاظ سے کی ہے ترجمہ ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (سورہ الذاریات آیت 56) اس آیۂ مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ انسان ایک مخلوق ہے جسے اللہ نے عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح جنات بھی ایک مخلوق ہیں انہیں بھی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور قرآن حکیم ان دونوں مخلوقات کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔

اہل عرب دورِجاہلیت میں بڑے تو ہم پرست تھے 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ الگ بت ہوا کرتا تھا کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا۔ چناںچہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے تو راستے میں کوئی وادی یا خوف ناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ ادا کرکے گزرتے ’’میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ان کے خیال سے بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ماتحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سرکشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے اور اپنے مادے کی خاصیت کی بنا پر ایسا ہونا بھی چاہیے، کیوںکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے۔

جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور بدنفس بھی۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک جن کا نام ابلیس ہے جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ترجمہ:’’جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح  پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ چناںچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس! اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ غرور میں آگیا ہے یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔

اس نے جو اب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن (قیامت ) تک کی مہلت دے ۔ فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘ (سورہ ص ٓ آیات 72تا85)

یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم پر عمل کرسکتے ہیں۔ آسمان دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کی ٹوہ میں جائیں گے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے اور وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ:’’یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجادیا ہے اور اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگتا ہے۔‘‘ (سورہ الحجر آیات 16تا18) اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں۔

رجیم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے صحیح بخاری وتفسیر سورہ الحجر دیکھیے) ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات میں وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جن و شیاطین کو سبق سکھانے کے لیے گرز کا کام بھی دیتے ہیں۔

جنات میں جہاں بدطینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ قسم کے گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال آنحضور ؐ کے دورنبوت کی ہے جب ایک مرتبہ ان جنات نے آنحضور ؐ سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ ترجمہ ’’آپ کہہ د یں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایما ن لاچکے ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ناں اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں  خلاف حق باتیں کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگائیں۔

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سر کشی میں بڑھ گئے اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکی داروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان پر جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے اور یہ کہ ہم نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں اور ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لاچکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماںبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔‘‘ (سورۂ الجن آیات1تا15)

یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جِنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کے لیے پھیل گئیں۔ انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ) مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب) جہاں یہ وقوعہ پیش آیا وہاں اب مسجدِجن بنا دی گئی ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر) جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہے۔

The post ’جن‘ انسان سے قدیم مخلوق appeared first on ایکسپریس اردو.

چولستان جیپ ریلی

$
0
0

چولستان جیپ ریلی کو اس وقت پاکستان کے بڑے سپورٹس ایونٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ریلی موٹر سپورٹس کے شائقین و پیشہ ور افراد کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت تو رکھتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ مقامی لوگوں میں ایک تہوار کی پہچان بنا چکی ہے۔ ریلی کے دوران چولستان کی ثقافت، رہن سہن اور کھانے باہر سے آنے والے سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔

چولستان جیپ ریلی کا آغاز 2005 ء  میں ہوا جو کہ اب ایک بین الاقوامی سطح کی سرگرمی بن چکی ہے، جس میں نامور ملکی و غیرملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ اب خواتین ڈرائیورز بھی حصہ لیتی ہیں۔ تین سے چار روز پر مشتمل یہ کھیل نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ ریاست بہاولپور کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثہ کوبھی اجاگر کرنے کا باعث ہے اور جنوبی پنجاب میں موسم سرما کی سیاحت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس ریلی کی بدولت شائقین سفر کے منفرد تجربہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ چولستان کے تاریخی مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر مقامی فنکاروں کے پروگرام ،آتش بازی، صحرا میں لگائے گئے محفوظ کیمپوں میں شب بسری ، اونٹ اور جیپ پر شکارکرنا تقریب کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے۔

بہاولپور، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوب میں واقع ہے، عباسی خاندان نے 200 سال تک (1748ء سے 1954ء) اس ریاست پر حکومت کی ہے۔سرائیکی یہاں کی مقامی زبان ہے لیکن اردو ،پنجابی اور انگلش بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بہاولپور کا علاقہ 300 میل تک دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے ساتھ واقع ہے۔ شائقین، نوابوں کے شہر بہاولپور میں منفرد جگہوں اور میوزیم کے ساتھ صحرا کے بڑے بڑے حصوں، دین گڑھ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

بہاولپور میں سیاحتی دلچسپی کے مراکزکی طویل فہرست موجود ہے جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا صحرا چولستان تقریباً 25000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ چولستان کو مقامی طور پر روہی کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے رہائشی افراد کو روہیلا کہا جاتا ہے، چولستان لفظ چولنے سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جگہ تبدیل کرنا یا حرکت کرنا کیوں کہ چولستان میں ریت کے ٹیلے ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنا رخ تبدیل کر لیتے ہیں۔ چولستان کو اہم جغرافیائی حیثیت حاصل ہے، جو سندھ کے صحرائے تھر تک اور مشرق میں بھارت کے صحرائے راجھستان تک پھیلا ہوا ہے۔ چولستان خالص صحرا  تقریباً 483 کلو میٹر لمبا اور64  سے 290 کلو میٹر چوڑا ہے۔

خالص صحرا 16000  مربع کلو میٹر ہے۔ 1000 سال پہلے چولستان دریائے ہاکڑا کے پانی سے بھرا ہوا  سرسبز علاقہ تھا اور یہ علاقہ دوسری سے چوتھی صدیوں میں بہت مشہور تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے قدیم دریا کے 500 کلو میٹر کے ساتھ اب تک   400 آبادیوں کودریافت کیا ہے۔ سندھ وادی کی تہذیب میں صحرا کے درمیان میں سب سے بہترین آبادی ڈیراور قلعہ کی تھی جو امیر بہاولپور کی آبائی رہائش گاہ تھی۔ قلعہ کی بڑی دیواریں چالیس (ہر ایک سائیڈ پر دس) بڑے پشتوں پر مشتمل ہے، جو طلوع سحرکے وقت ایسے نظر آتے ہیں جیسے ریت سے باہر نکل رہے ہوں۔ قریب ہی ایک سنگ  مرمر سے بنی خوبصورت مسجد ہے، جو دہلی میں موجود سرخ قلعہ میں موجود موتی مسجد کی مکمل کاپی ہے۔

یہ وہ جگہ ہے، جہاںچودھویںکا چاند ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ اس کو سمجھیں آ پ کو اس منظر سے محبت ہو جائے گی۔ چولستان کے علاقے میں کئی قلعے ہیں، جن میںڈیراور قلعہ،دین گڑھ قلعہ،میر گڑھ قلعہ،جام گڑھ قلعہ،موج گڑھ قلعہ،مروٹ قلعہ،فلورا  قلعہ،خان گڑھ قلعہ،خیر گڑھ قلعہ،نوا نکوٹ قلعہ،بجنوٹ قلعہ شامل ہیں۔ قلعہ ڈیر اوراس کے جنوب میں 45 کلومیٹر کے فاصلے پر چنن پیر (چنن کامطلب چاند کی طرح) کا مزار ہے جوکہ مقامی طور پر چنڑ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ایک بہت اہم زیارت کا مرکز ہے اور تہوار میں یہ صحرا کو زندہ کر دیتا ہے۔ یہ صحرا سالانہ  جیپ ریلی کی میزبانی بھی کرتا ہے جس کو چولستان جیپ ریلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں موٹر کار کی کھیلوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔

جیپ ریلی ضلع بہاولپورمیں قلعہ ڈیراور کے قریب سے شروع ہوتی ہے، جس میںتقریباً 100 سے زیادہ ڈرائیور زاور ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے سے زائد لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ جیپ ریلی میں جیپ کا لفظ کسی خاص کمپنی کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ریلی صرف جیپ گاڑیوں پر مشتمل ہے یا جیپ گاڑیوں کو ترقی دینے کے لیے ہے۔ پاکستان میں اس کا مطلب ہے وہ گاڑی جو صحرا میں دوڑ سکے یا پختہ روڈ کے بغیر غیر ہموار راستوں پر چل سکے۔ صحرا کے دل میں اس تقریب کا مقصد باہر کی دنیا کو  چولستان کی تاریخی اہمیت اور ثقافت سے متعارف کروانا ہے اور موسم سرمامیںسیاحتی مقام کو اجاگر کرنا ہے۔

پہلی تین روزہ چولستان جیپ ریلی 9 فروری سے 11 فروری 2005ء کو منعقد ہوئی۔دوسری چولستان جیپ ریلی  10 سے 12 مارچ 2006ء کو منعقد ہوئی، جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 1 لاکھ، 75 ہزار اور 50  ہزارکا انعام دیا۔ تیسری  چولستان جیپ ریلی  9 سے 11 مارچ 2007ء کومنعقد ہوئی، جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے  ڈرائیورز کو  بالترتیب  1 لاکھ 50 ہزار ،1 لاکھ  اور75  ہزارکا انعام دیا۔چوتھی چولستان جیپ ریلی  8 سے 10 مارچ 2008ء کومنعقد ہوئی۔پانچویں چولستان جیپ ریلی  26 فروری سے 1 مارچ 2009ء کومنعقد ہوئی۔

نادر مگسی  پانچویں جیپ ریلی کے چیمپین تھے۔ وقت اور فاصلے کی صحیح پیمائش کے لیے اس سال گاڑیوں میں ٹریکنگ سسٹم بھی متعارف کروایا گیا اور گاڑیوں کو  چار حصوں(Catagories) میں تقسیم کیا گیا۔ چھٹی چولستان جیب ریلی2010ء میں19 سے 21فروری کو منعقد ہوئی۔2011ء میں جیپ ریلی منعقد نہیں ہوئی۔ ساتویں چولستان جیپ ریلی 17 فروری سے 19 فروری 2012ء کو منعقد ہوئی۔ نادر مگسی ساتویںجیپ ریلی کے چیمپین تھے۔ آٹھویں چولستان جیپ ریلی 15سے17 فروری 2013ء میں منعقد ہوئی، نویں چولستان جیپ ریلی  14 سے 16 فروری 2014ء کو منعقد ہوئی۔ دسویں چولستان جیپ ریلی 13 سے 15 فروری 2015ء کو منعقد ہوئی، جس میں رونی پاٹیل چیمپین تھے۔عورتوں میں رونی پاٹیل کی بیوی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بارویں چولستان جیپ ریلی 12سے14فروری  2016ء کومنعقد ہوئی، جس میں صاحب زادہ سلطان نے پہلی اور رونی پاٹیل نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس ریلی کے بعد پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو  بالترتیب  3 لاکھ ،2 لاکھ  اور1لاکھ کا انعام دیا گیا۔

بارہویں  چولستان جیپ ریلی  9سے12 فروری 2017ء  کومنعقد ہوئی جس میںنادر مگسی نے پہلی، رونی پاٹیل نے دوسری اور انس خاکوانی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 13 ویںچولستان جیپ ریلی 15 فروری سے 18فروری 2018ء کو پنجاب کے تین اضلاع رحیم یار خان، بہاولپور اور بہاولنگر میں منعقد کروائی گئی، نادر مگسی نے چولستان جیپ ریلی میں مسلسل دوسری مرتبہ پہلی پوزیشن حاصل کی، جس میںانھوں نے اپنا راستہ 4  گھنٹے 36منٹ اور 9  سیکنڈ میں طے کیا۔دوسری پوزیشن صاحب زادہ سلطان نے 4گھنٹے 37منٹ اور 36  سیکنڈ میں اور تیسر ی پوزیشن جعفر مگسی نے  وہی فاصلہ  4گھنٹے 39منٹ اور 21  سیکنڈ میںطے کرکے حاصل کی۔دوسری کلاس میں ممتاز ڈرائیور جونی لیور کی بیوی تشنہ پٹیل نے 90 کلومیٹر کا  ٹریک 2گھنٹے 41 منٹ میں مکمل کرکے پہلی  پوزیشن،  عاصمہ نے دوسری اور مومل خان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 14ویں چولستان جیپ ریلی14 سے 17 فروری2019ء  میںبہت کامیابی سے منعقد کی گئی، جس میںنادر مگسی نے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی۔

چولستان جیپ ریلی میں عموماًگاڑیاں کو چار حصوں اے،بی،سی اور ڈی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جن کو پٹرول ،ڈیزل ،انجن کی طاقت اور برانڈ کے حساب سے گاڑیوں کے تقسیم کیا جاتا ہے۔

پندرویں چولستان جیپ ریلی2020 جو450 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر محیط ہے ان کو دو ٹریک (Track1&Track2)ٹریک 1 اور ٹریک 2 میں تقسیم کی گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

اس سال چولستان جیپ ریلی کا راستہ 500تقریباً کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا ہے، جو ضلع بہاولپو،رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہے۔ دین گڑھ قلعہ،مروٹ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی اسی راستے میں شامل ہیں جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔اس ریلی کا پہلا ٹریک 220 کلومیٹر کا ہے اور دوسرا ٹریک 246 کلومیٹر پر محیط ہے۔ریلی کوکامیاب بنانے کے لیے سرکاری، غیر سرکاری ادارے جن میں پاکستان آرمی،پاکستان رینجرز،ضلعی ومقامی حکومتیں بہاولپورڈویژن،پنجاب پولیس، پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122،چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی،پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ،محکمہ صحت، محکمہ زراعت سمیت متعدد ادارے و تنظیمیں خدمات سرانجام دیں گی۔

چولستان جیپ ریلی کو9   کیٹیگریز میں ریلی کو تقسیم کیا جاتا ہے جس میں آٹھ اقسام اوپر بیان کی گئی ہیں اور نویں قسم میں صرف خواتین شامل ہوں گی۔ریلی میں گاڑی کا انجن تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی نہ ہی انجن کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے والے کو ریس میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ 2800cc گاڑی جو 10سال پرانی ہو اسے صرف  ـ”C”  یا  “S3″  میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ گاڑی کے کاغذات کی کاپی بھی ریس سے پہلے جمع کروانا لازمی ہے۔کسی بھی گاڑی کو کاغذات کی چیکنگ کے بغیر ریلی میں حصہ لینے کی اجازت نہیںہوتی ہے۔حفاظتی نقطہ نظر سے تمام حصہ لینے والے ڈرائیورز کو اپنی گاڑی کی چیکنگ کروانی ہوتی ہے۔ رول بار اور آگ بجھانے والا آلہ گاڑی میں ہونا ضروری ہے، حفاظتی لباس میںہونا لازمی جزو ہے، اس کے بغیر ریلی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

اس مرتبہ چولستان جیپ ریلی کو مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے ڈرٹ بائیک ریلی کاانعقاد خصوصی طور پر کیا جارہا ہے جس میںرائیڈرکی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے ان قواعد وضوابط پر عمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔مثلاً

٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے اور اس کے پاس صحیح ڈرائیونگ لائسنس ہونا ضروری ہے۔

٭تمام رائیڈرز رجسٹریشن فارم اپنے والدین / سرپرست کے دستخط کے ساتھ جمع کروائیںگے، ڈرٹ بائیک ریلی کے راستے پر مقابلہ کرتے ہوئے ہیلمٹ اور حفاظتی لباس کو ہر وقت پہننا لازمی ہے۔

٭ ڈرٹ بائیک رائیڈرزکودوران ریس ڈرٹ بائیک خراب ہونے کی صورت میں مرمت و تکنیکی خرابی کو دور کرنے کی اجازت ہوگی تاہم شرکاء کو یقینی بنانا ہوگا کہ ریلی کے راستے میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ ہو۔

٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کے لیے حفاظتی لباس لازمی ہے، ڈرٹ بائیک رائیڈرزکو تمام ڈھیلی اشیاء کو ہٹا دینا چاہیے۔ ڈرٹ بائیک پر چلنے والی کسی بھی چیز کو بولٹ یا محفوظ طریقے سے باندھنا چاہیے۔

٭ٹائر اچھی حالت اور محفوظ طریقے سے لگے ہونے چاہیں، جس میں بولٹ نظر نہیں آنے چاہیں اور نہ ہی ٹائر کی سائیڈ وال میں دراڑیں نظر آرہی ہوں۔

٭تھروٹل ریٹرن ایکشن محفوظ اور مثبت ہونا چاہیے۔ جب انجن چل رہا ہو تو کوئی بھی اینڈھن، تیل، یا بریک آئل لیک دکھائی نہیں دینا چاہیے۔

٭ فورجد ویل میں کسی بھی دراڑ کی اجازت نہیں ہوگی۔ بریک کے پاس ایک مناسب پیڈل، ماسٹر شلنڈر میں معقول تیل اوراس کے  ساتھ کسی قسم کا رساؤ نہیں ہونا چاہیے۔

٭وہیل بیرنگ، شاکس اور ہینڈل اچھی حالت میں ہونے چاہئیں۔ تکنیکی خرابی کی وجہ سے دیریا ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی غلطی یاکوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں کسی قسم کا عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔کسی بھی حادثے کی اطلاع فوری طور پر قریبی ریلی کے عہدیداریاچیک پوائنٹ پر دینی ہوگی۔

٭منتظمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت راستے یا واقعہ کے ضوابط کے کسی بھی حصے کو حذف ،شامل یا تبدیل کر سکتے ہیں۔

٭ریلی ٹائم منیجمنٹ کے لیے 24 گھنٹے والا وقت فارمیٹ استعمال کرے گی۔آرگنائزر ڈرٹ بائیکر کے راستے میں آنے والی مداخلتوں پر قابوں پانے کے لیے کوشاں رہے گا، تاہم راستے میں کسی رکاوٹ کی وجہ سے کسی تاخیر کا ازالہ نہیں کیا جائے گا۔

ایونٹ کے پہلے اور دوسرے دن 215 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس متوقع ہے، جس پر مختلف جگہوں پر 7 چیک پوسٹ موجود ہوں گی اور تیسرے دن 246 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس متوقع ہے، جس پر 11 چیک پوسٹ موجود ہوں گی۔ مجموعی طور پر 461 کلومیٹر کے طے کردہ فاصلے کے وقت کا حساب لگایا جائے گا، جس کے بعد ریس کے فاتح کا اعلان کیا جائے گا  اور یہ تمام مرحلے مختلف کیٹیگریز کی گاڑیوں کے لیے الگ الگ ہوں گے۔

اس وقت سیاحت دنیا میں چھٹی بڑی صنعت بن چکی ہے جوکسی بھی ملک کی معیشت میں حیرت انگیز تبدیلی لاسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسے جغرافیائی خطے میں واقع ہے، جہاں قدرت نے اسے پُرفضا سیاحتی مقامات سے نوازا ہے جوکہ پوری دنیا کے لیے کشش رکھتے ہیں اور ان میںجنوبی پنجاب قابل ذکر ہے، جس کا تاریخی ،ثقافتی و جغرافیائی ورثہ حکومت وقت کی توجہ کا طالب ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں سیاحت کے فروغ کے لیے ملکی وغیر ملکی سیاحوں کے لیے دلچسپی پیدا کرنے والے مواقعوں پر توجہ مرکوزکریں جس سے ناصرف لوگوں کو روزگار میسر ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت و دوررست اثرات مرتب ہوں گے۔

The post چولستان جیپ ریلی appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 78

dildagah62@gmail.com

 

آپ تو زیرک و دانا ہیں، باعلم و باعمل ہیں، تجربہ و تجزیہ کار ہیں، زندگی کو خُوب جانتے ہیں اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا جی اس زندگی کو۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ فقیر کو بولنے اور بس بولتے چلے جانے کا مہلک مرض جو لاحق ہے، جب کہ منع کیا گیا ہے اسے کہ کم گوئی کو بچھونا بنائے لیکن ۔۔۔۔۔۔ ! بس افسوس۔

تو فقیر آپ کو زندگی کے ہزار نہیں لاکھ رنگ اور رُوپ دکھانے پر تُلا ہوا ہے، خدا آپ کو فقیر کے شَر سے پناہ میں رکھے۔ لیکن فقیر آپ کی اعلٰی ظرف کا برملا اعتراف کرتا ہے کہ آپ اُس کی بے سروپا اور لایعنی گفت گُو کو بھی کشادہ دلی سے شرف سماعت بخشتے ہیں تو بس یہ فقیر بے نوا آپ سب کے لیے دعاگو ہے کہ آپ سبھی عیشں بھرا جیون جییں، رب تعالٰی آپ سب کو اپنی کسی بھی مخلوق کا محتاج و دست نگر نہ بنائے اور بس خود ہی کافی ہوجائے۔

ہاں تو فقیر آپ کو جیون بھید سُجھا رہا تھا اور جب بات چل ہی نکلی ہے تو چلنے دیجیے۔ فقیر سے آپ اس کے ایک ندیم باصفا دادُو کا نام سُن چکے ہیں۔ وہی دادُو جو کہتا ہے: ’’ جس نے چونچ دیا ہے، وہ دانہ بھی دیں گاں نی، ورنہ اپنا چونچ بھی واپس لے لیں گا۔‘‘ جی! وہی دادُو جو گدھا گاڑی چلاتا اور رزق حلال سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا شکم پُر کرتا ہے، وہ محنت کش ہے اس لیے اُسے رب تعالٰی کے دوست ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ہاں یہ تو بُھول ہی گیا کہ اتنی عُسرت میں بھی حاتم جیسا سخی ہے، اس کے گھر سے شاید ہی کوئی خالی ہاتھ واپس لوٹا ہو۔

جی چاہتا ہے کہ اس پر کوئی ضخیم کتاب لکھی جائے کہ وہ ہے ہی ایسا، چلیے دیکھیے کب ملتا ہے اس فقیر کو یہ اعزاز اور سعادت۔ اب وہ فقیر کا دوست ہے تو یہ بتانے میں کیسا تکلّف کہ عجیب بے تُکا انسان ہے وہ۔ لوگ مارے مارے پِھر رہے ہیں، اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنی زندگی آپ جی رہا ہے۔ پاگل انسان …

فقیر تو نرا غبی، شاطر، مکّار و دنیادار ہے جی! اور وہ ہے باصفا و بااخلاق، باکردار و باادب و بانصیب۔ اب کیا کیجیے فقیر کو رب تعالٰی نے وہ عطا فرمایا ہے، شُکر واجب ہے فقیر پر۔ وہ میرا دوست ہے اور بہت عزیز دوست۔ لیکن فقیر اس سے تنگ بھی بہت ہے اور فقیر کو اُس کی کئی عادات سے چِِڑ ہے۔ ہم سب اتنی آسودگی میں بھی ہلکان ہیں اور وہ پریشانی میں بھی مطمئن ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی بہت بڑا طرّم خان ہے۔ ارے بھئی! وہ بہت معمولی سا انسان ہے۔ لیاری میں دو کمروں کے گھر میں وہ یوں رہتا ہے جیسے کسی بہت بڑے راحت کدے محل میں رہتا ہو۔ پانی، فون نہ فریج اور تو اور اس کے گھر کی چھت بھی شیٹوں کی ہے۔ گرمی، سردی ہر موسم خدا کی پناہ۔ اور جب کبھی فقیر اس سے ملنے جاتا ہے، اسے مطمئن پاتا ہے۔ چلو اتنی سی بات بھی ہوتی کہ وہ اپنے حال میں مست ہے تب بھی فقیر کو اتنی تکلیف نہ ہوتی، وہ گاؤدی تو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے حالات بدلنے پر اکساتا رہتا ہے، اور پکارتا رہتا ہے کہ رب سچے پر بھروسا رکھو کہ اس نے محنت کرنے کا حکم دیا ہے، اُس سے جُڑے رہو اور اپنی قسمت آپ بناؤ، محنت کرو اور اپنی محنت کا صحیح اجر طلب کرو، کوئی تم پر ظلم کرے تو حسینی بن کر اس کے سامنے ڈٹ جاؤ، سر نہ جھکاؤ، مظلوم کی کوئی ذات، قوم اور مذہب نہیں ہوتا جو بھی مظلوم ہو اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، ظلم پر احتجاج کرو، سرمایہ پرستی ایک لعنت ہے اور اس کے پیروکار جہنّمی ہیں اور نہ جانے ایسی کتنی ہی بکواس۔

اگر کوئی اس کے سامنے کہے کہ حالات بدل جائیں گے تو وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے، کیسے بدلیں گے اگر انہیں بدلا نہ جائے، پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر سناتا ہے۔

آسمانوں سے پکارے جائیں گے

ہم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے

آج کل تو سردیاں ہیں، فقیر شدید گرمیوں میں اس کے گھر گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا: ’’اڑے آگیا تم ۔۔۔۔۔۔ آج کدھر سے نازل ہوگیا ؟ بیٹھو بیٹھو‘‘ کہہ کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی: ’’اڑے صاحب لوگ آگیا نیک بخت، پانی وانی پلاؤ اس کو۔‘‘

’’بھائی سلام‘‘ کے ساتھ ہی پیتل کے وزنی گلاس میں پانی میرے سامنے تھا۔

اور بہن تم کیسی ہو ۔۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا۔

’’ شُکر ہے بھائی، بچہ لوگ کیسا ہے آپ کا ۔۔۔۔۔ ؟‘‘

فقیر نے اسے سب کی خیریت سے آگاہ کیا۔ پانی کا گھونٹ لیتے ہی فقیر پھٹ پڑا: دادو، اتنا گرم پانی! اس میں روپے دو روپے کا برف ہی ڈال دیا کر۔ اس نے مسکرا کر فقیر کی طرف دیکھا اور بولا: ’’ہاں صحیح بولتا ہے تم۔ باپ کا برف خانہ ہے نا ادھر، اڑے پیتا ہے تو پیو، نہیں پیتا ہے تو پیاسا مرو، اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو۔‘‘

فقیر نے گلاس پانی پیے بغیر نیچے رکھ دیا جسے وہ اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا اور پوچھنے لگا: ’’اور بولو، خوار کیا کرتا پڑا ہے آج کل تم ۔۔۔۔۔‘‘

یار! بس وہی لکھنا پڑھنا اور کیا کروں، بہت پریشان ہوں گرمی سے۔ فقیر کی بات سُن کر وہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا: ’’اڑے کدھر ہے گرمی؟ تمہارا گاڑی میں اے سی، گھر میں اے سی، دفتر میں اے سی، پھر کدھر ہے گرمی؟ ناشُکرا لوگ، تم لوگ کا رونا ختم نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایسا ہی رو رو کر تم لوگ مرجائے گا، تم لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنے میں بھی اے سی فٹ کرالو۔ اڑے تم لوگ ایک کام کرو۔ اپنا قبر میں بھی اے سی لگانا۔ صحیح ہے ناں۔۔۔۔ !!‘‘

اس کی ایسی ہی بکواس سے فقیر تنگ ہے۔ فقیر نے اس سے پوچھا: اور سناؤ تم کیسی گزر رہی ہے؟

’’اڑے بس بہت مزے سے گزر رہا ہے، ہم بہت خوش ہے۔‘‘ اس کی بات سُن کر فقیر نے کہا: کیا خوش ہے؟ کیا ہے بے تیرے پاس، خاک؟ پانی میں برف ڈالتا نہیں ہے اور بولتا ہے خوش ہے۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور باہر نکل گیا۔ واپسی میں اس کے ہاتھ میں گنے کے رس سے بھرا ہوا گلاس تھا۔

’’چلو بابو لوگ یہ پیو، ٹھنڈا ہے۔‘‘

فقیر نے پوچھا: یہ کہاں سے لے آیا ۔۔۔۔ ؟ ’’اڑے باہر خان صاحب بیچتا ہے۔‘‘ فقیر نے دریافت کیا: گلاس دھویا تھا یا ویسے ہی لے آیا گندے گلاس میں ۔۔۔۔ ؟ یہ سنتے ہی وہ بولا: ’’اڑے پیو زیادہ نخرا بند کرو۔ ادھر ہر چیز تم کو گندا لگتا ہے، گلاس گندا، پانی گندا، ماحول گندا، ہر چیز میں تم لوگ کیڑا نکالتا ہے۔ تم لوگ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ خود کو دیکھو۔ تم بڑا صاف ہے۔ کوئی صاف کپڑا پہن کر صاف نہیں ہوجاتا۔ صاف کرنا ہے تو اپنا دل کو صاف کرو، تم لوگ کوئی آسمانی مخلوق ہے کیا، یہاں ہر طرف گند ہے جب تک اسے صاف نہیں کریں گا یہ سب اسی طرح رہیں گا، کوئی ایک چیز صاف کرنے سے کچھ نہیں ہونے کا ، صاف کرنا ہے تو سب کچھ صاف کرنا ہوئیں گا۔۔۔۔۔‘‘

اس نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی بکواس جاری رکھی: ’’تم تو بڑا چیمپئن بنتا ہے غریب لوگ کا۔ کبھی کسی غریب کا خبر گیری کیا ہے تم نے؟ بس ٹھنڈا دفتر میں بیٹھ کر غریب غریب کا راگ گاتا ہے۔ تم لوگ سب غریب کا دشمن ہے، غریب کا عزت بیچ کر کھانے والا۔ تم لوگ کو کیا خبر، کیا ہوتا ہے غربت، کیا ہوتا ہے غریب۔ تم سب سیٹھ لوگ کا ایجنٹ ہے، کبھی صحیح بات نہیں لکھتا، تم لوگ دولت کا پجاری ہے، کوئی شیطان بھی تم لوگ کو پیسا دیوے تو تم اس کو فرشتہ لکھتا ہے، تم لوگ کی وجہ سے ہمارا معصوم لوگ کا زندگی برباد ہوگیا ہے، وہ مر رہا ہے، کبھی تو اپنا ضمیر کا آواز سنو، لیکن جب تم لوگ کا ضمیر ہی مرگیا ہے تو اور کیا کرے گا، بس اخبار میں لکھتا رہتا ہے۔ ایسا کرو، ویسا کرو۔ خالی خولی اپنا بھاشن۔ اندر سے سب خالی، کچھ نہیں ہے تم لوگ میں، مردُود لوگ، مُردار خور۔‘‘

اچھا اچھا اپنا بھاشن بند کر تُو بھی، فقیر اس سے الجھ گیا۔ لیکن وہ بھی کوئی کم ہے کیا، پھر سے شروع ہوگیا: ’’ہاں تم لوگ کو ہم جیسا کوئی شیشہ دکھاوے تو بہت تکلیف ہوتا ہے نی۔ اڑے یہی ہے تم لوگ کا شکل، شیشے میں دیکھو، اوپر سے اچھا، اندر سے کالا۔‘‘

اور تم؟ فقیر نے طنز کیا لیکن وہ تُرکی بہ تُرکی تھا: ’’اڑے ہمارا کیا بات کرتا ہے، ہم اندر سے باہر سے کالا ہے۔ ہمارا سب کچھ کالا ہے۔ ہم کوئی لیکچر بازی تو نہیں کرتا ہے ناں۔ بس جیسا ہے ویسا ہے۔ تم لوگ اندر کچھ باہر کچھ۔‘‘

اچھا اچھا بند کر اپنی بکواس۔ اب میں چلتا ہوں۔ فقیر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ غضب ناک ہوکر بولا: ’’کدھر چلتا ہوں۔ ابھی بیٹھو، دو نوالہ روٹی کھاؤ، پھر جدھر غرق ہونا ہے غرق ہوجاؤ۔‘‘

اس نے فقیر کے موڈ کا جنازہ نکال دیا تھا۔ فقیر خاموش رہا تو وہ بولا: ’’اچھا یار یہ تو بولونی کہ تم کیسے آیا تھا، ابھی ادھر لیاری میں تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم لوگ کو تو سارا ملک میں ایک منصوبے کے تحت بدنام کیا ہوا ہے، اور مزے کا سنو یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا۔۔۔ ؟‘‘

بس ویسے ہی تجھ سے ملنے کو جی چاہا تو آگیا، فقیر کی بات سن کر اس نے نعرہ لگایا:

’’اڑے آفرین ہے تم پر، کوئی کام وام نہیں تھا ؟‘‘

نہیں کوئی کام نہیں تھا، بس ویسے ہی آگیا، فقیر نے کہا۔ لیکن سچ یہ ہے تھا کہ فقیر اُس سے ملنے نہیں گیا تھا، جس سے ملنے گیا تھا وہ گھر پر نہیں تھا۔ فقیر نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے پہنچ گیا، وہ اکثر سب کے کام آتا ہے۔ وہ بچپن سے ایسا ہی ہے۔ مطمئن، آسودہ، پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا تھا، بہت مشکل سے میٹرک کیا اور پھر اپنے کام میں جُت گیا اس کے والد کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ ایک ٹرانسپورٹر ہیں، مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اسے کہو انسان بن جائے میرے کام میں میرا ہاتھ بٹائے۔ دنیا کی ہر نعمت ہے ہمارے پاس، اور وہ مانتا ہی نہیں ہے۔ میں نے بہت دفعہ اس سے کہا کہ ابّا کا کہنا مان لے۔ کیوں ا پنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے لیکن وہ نہیں مانا۔ ایک دن میں نے اسے بہت پریشان کیا تو کہنے لگا: ’’تم میرے کو لکھ کر دیو کہ ہمارا باپ کا سارا کمائی حلال ہے پھر ہم سوچیں گا۔‘‘ فقیر یہ کیسے لکھ کر دے سکتا تھا! تُو یہ کیسے کہتا ہے کہ باپ نے پیسا حرام سے جمع کیا ہے؟ فقیر نے پوچھا تو کہنے لگا: ’’اڑے وہ میرا باپ ہے، ہم اس کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ سب الٹا سیدھا دھندے سے پیسا جمع کیا ہے۔ ابھی ہر سال حج کرتا ہے اور کام سارا غلط۔‘‘

فقیر نے اس سے کہنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ صبح سویرے اپنی گدھا گاڑی لے کر روزی رزق کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے، مطمئن اور آسودہ، کہیں کوئی احتجاج ہو رہا ہو تو وہ اس میں جا کھڑا ہوتا ہے، رات کو اپنے جیسے دوستوں کو اپنے حالات بدلنے کے طریقے بتاتا اور انہیں اپنی قسمت و تقدیر بدلنے کی تدبیریں سکھاتا ہے، حالات سے باخبر رہتا اور کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہے۔

ایک دن شام پانچ بجے تھے اور فقیر لی مارکیٹ سے گزر رہا تھا کہ اسے گھر جاتے دیکھ لیا۔ اسے آئینہ دکھانے کا موقع اچھا تھا تو فقیر نے اسے آواز دی: دادُو، حرام خور، کام چور، اتنی جلدی گھر جارہا ہے۔ اس نے اپنی گدھا گاڑی روکی، نیچے اتر کر مجھ سے بغل گیر ہوکر بولا: ’’اڑے چائے پیے گا خوار ۔۔۔۔ ‘‘

لیکن فقیر نے ٹھان لی تھی کہ آج اسے بہت ذلیل کرے گا، بالآخر وہ بتانے لگا: ’’ یار ایسا بات نہیں ہے، آج جلدی اس لیے گھر جارہا ہوں کہ وہ میرا جوڑی دار ہے ناں مُراد، ہم دونوں ایک ہی جگہ گدھا گاڑی کھڑا کرتے ہیں اور وہیں سے اپنے کام سے نکل جاتے ہیں۔ صبح سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے کام نہیں ملا۔ مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ آج کا گزارا ہو جائے گا ، لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔ بس میں نے گھر جانے کا سوچا اور چلا آیا۔ اب کم از کم وہ وہاں اکیلا ہے، کوئی دو چار روپیا کما ہی لے گا۔‘‘

فقیر کی آنکھیں اس دن بہت زور سے برسی تھیں۔ گھر پہنچتے پہنچتے طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ ہے فقیر کا داد محمد بلوچ جسے ہم سب لاڈ سے کہتے ہیں دادُو۔ یہ ہے واقعی اصل کھرا انسان جو اپنے منہ کا نوالا بھی دوسروں کو دے رہا ہے اور ہم دوسروں کے منہ کا نوالا بھی چھین رہے ہیں۔ تُف ہے۔

دیکھیے بابے اقبال آئے، جنہیں ہم حکیمُ الامّت کہتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں۔

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں

یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں

تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے!

دیکھیں گے تجھے دُور سے گردوں کے ستارے!

ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے!

پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے!

تعمیرِ خُودی کر، اثرِ آہِ رسا دیکھ!

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

اتحادیوں سے مثالی تعلقات ہیں، کوئی اختلاف ہے، نہ شکایت، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار

$
0
0

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پنج دریاؤں سے منسوب نام پنجاب کی حکمرانی ہر دور میں ہر طاقت ور کی خواہش رہی، کیوں کہ نہایت اہمیت کے حامل جغرافیہ محل وقوع کے ساتھ پنجاب کی زرخیز مٹی وافر پانی اور چاروں موسموں کی وجہ سے فصل نہیں سونا اگلتی ہے، لیکن پنجاب کے باسیوں کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہاں حق حکمرانی ہمیشہ طاقت ور خاندانوں یا قبیلوں کے پاس رہا۔

سکندراعظم، بدھوؤں، منگولوں، مغلوں، افغانیوں، مرہٹوں، سکھوں اور برطانوی سامراج نے یہاں کی سونا اگلتی دھرتی اور باسیوں کے ذرخیز دماغوں سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بدلے انہیں محرومیوں اور پسماندگی کے سوا کچھ نہ دیا۔

تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستان کے حصے میں آنے والا پنجاب آج بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک سے بڑا ہے، لیکن افسوس مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل وطن عزیز معرض وجود میں تو آ گیا، لیکن حکمرانی کی ڈگر نہ بدلی۔ پنجاب کے اعلی ترین عہدوں پر بڑے خاندانوں کے افراد ہی براجمان رہے، لیکن 70سال بعد آج پنجاب کے باشندوں کو ایک ایسا حکمران نصیب ہوا ہے، جو انہیں میں سے ہے۔

جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصل تونسہ شریف کے ایک چھوٹے سے علاقے ’’بارتھی‘‘ سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان احمد خان بزدار آج پنجاب کے سب سے بڑے عہدے یعنی وزارت اعلی پر فائز ہوئے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے والد مرحوم فتح محمد خان بزدار ایک علم دوست انسان تھے، جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا۔ وہ 1981ء میں وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن، 1985ء، 2002ء اور 2008ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔

مئی 1969ء میں سردار فتح محمد خان بزدار کے گھر میں جنم لینے والے عثمان بزدار شرافت، ملنساری، عجزوانکساری جیسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ عثمان بزدار نے پرائمری تعلیم آبائی علاقے بارتھی سے حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے اولیاء کی دھرتی یعنی ملتان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجوایشن کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے ماسٹر اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ قانون کی ڈگری کے توسط سے وہ ہائی کورٹ بار کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 2001ء عملی سیاست کا آغاز تونسہ شریف کی تحصیل نظامت سے کیا۔ وہ ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔

نظامت کے ذریعے علاقہ کی خدمت کرنے پر انہیں وہاں کے باسیوں میں خوب پذیرائی ملی اور 2018ء میں تحصیل تونسہ اور کوہ سلیمان کے عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں صوبائی اسمبلی میں پہنچا دیا، جہاں انہیں قدرت نے وہ عزت عطا فرمائی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وزارت اعلی کی کوئی خواہش تھی نہ کبھی اس دوڑ میں شامل ہوا۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد بیان کرنے سے قبل یہاں یہ ذکر کرنا ’’ایکسپریس‘‘ کے لئے ایک اعزاز ہے کہ کسی بھی سنڈے میگزین کے لئے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا یہ پہلا انٹرویو ہے۔

ایکسپریس: وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے لوگ آپ کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، کیا آپ ہمارے قارئین کے لئے اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟ خاص طور پر بزدار قبیلے کے بارے میں ضرور بتائیے۔

وزیراعلی پنجاب: سب سے پہلے تو میں ’’ایکسپریس‘‘ کی ٹیم کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں، بلاشبہ روزنامہ ایکسپریس بہت عمدہ اور باوقار صحافت کا علمبردار ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج مجھے آپ کے ذریعے ’’ایکسپریس‘‘ کے قارئین تک ابلاغ کا موقع مل رہا ہے۔ اچھا اب میں آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب تو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچ قبائل آباد ہیں، جن میں بزدار سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ بلوچ قبائل کے جد امجد میر چاکر خان رند تھے۔ آپ جانتے ہیں قبائلی نظام میں قبیلے کے سردار کو نہ صرف انتظامی بلکہ دیگر اختیارات بھی ہیں تو آپ کے لئے یہ بات نہایت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ عام عوامی تاثر کے برعکس قبائلی علاقے پرامن اور پرسکون ہیں۔ وہاں جرائم کی شرح ناقابل یقین حد تک کم ہے کیوں کہ قبائل میں سردار کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، اس حوالے سے آپ کے احساسات کیا ہیں؟

وزیراعلی پنجاب: پسماندگی کا لفظ کوہ سلیمان کے خشک اور بیابان علاقے میں آباد لوگو ںکی محرومیوں کا احاطہ کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ لاہور اور ملتان سے چند گھنٹے کی مسافت پر واقع صوبہ پنجاب کا یہ علاقہ جدید دور کی سہولتوں سے کیسے آشنا ہو سکتا تھا، جہاں قیام پاکستان کے 71 سال گزرنے کے بعد آج بجلی آئی ہو۔ کوہ سلیمان کے جفاکش باسیوں کیلئے زندگی محض جہد مسلسل ہے جس میں سہولت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور آسائش کا تو تصور کرنا بھی محال ہے۔ شیشے کے خنک کمروں میں بیٹھ کر کوہ سلیمان کی قبائلی زندگی کے بارے میں سوچنا محال ہے۔ وہاں آج بھی کھیتی باڑی کے لئے بیل اور سواری کے لئے اونٹ اور گدھے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے قبیلے میںبھیڑ بکریاں پالنے کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔

ایکسپریس: وزیراعظم عمران خان نے آپ کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس بندے کے گھر میں تو بجلی تک نہیں ۔ آپ کی فیملی عرصہ دراز سے کار حکومت میں شامل رہی تو اس کے باوجود ان علاقوں کا سہولیات سے محروم ہونا کیا آپ کی ناکامی نہیں تصور کیا جائے گا؟

وزیراعلی پنجاب: اس ضمن میں، میں عرض کروں کہ علاقہ میں پہلا سکول میرے دادا محترم اور پہلی سڑک میرے والد نے بنوائی، جس کے بعد وہ مسلسل اس علاقے کی ترقی کے لئے تگ و دو کرتے رہے اور آج میں اس مشن کو لے کر آگے چل رہا ہوں۔

ایکسپریس: بارتھی جیسے علاقوں کے بارے میں پنجاب کے عام لوگ نہیں جانتے، آپ کچھ بتانا پسند کریںگے؟

وزیراعلی پنجاب: میں بارتھی کے چپے چپے سے واقف اور وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا خود گواہ ہوں۔ میں نے صحت کی سہولتیں اور آمد و رفت کیلئے راستے ناپید ہونے کی وجہ سے مریضوں کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا۔ کوہ سلیمان کے خشک خاکستری پہاڑوں کے مکین سہولتوں کے نام سے ہی ناآشنا تھے۔ شہروں کے مکین ان باتوں کو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے تو جا کر دیکھے جب بارتھی کے پہاڑوں کی اوٹ میں ڈھلتے سورج کے ساتھ زندگی زندگی آنکھیں موند لیتی ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ کو وزرات اعلیٰ ملنے کے بعد ان لوگوں کے مقدر میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے؟

وزیراعلی پنجاب: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تبدیلی نہ صرف آ رہی ہے بلکہ دکھائی بھی دے رہی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کے لگ بھگ چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل بتانے کا یہاں وقت نہیں، تاہم یہ بتانا چاہوں گا کہ 71 سال کے بعد بارتھی کے لوگ بجلی سے آشنا ہوئے، کوہ سلیمان سے 7 کلب روڈ کا سفر اسی تبدیلی کا نقیب ہے، جس کا برسوں انتظار رہا۔

ایکسپریس:ملکی سیاست میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس منصب پر کام کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں؟

وزیراعلی پنجاب: وزیراعظم ملک کا چیف ایگز یکٹو ہے اورآئینی سربراہ ہے ،پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی وزارت اعلیٰ کا منصب کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی توقعات کا معیار بہت بلند ہے۔ سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس: بلاشبہ آپ باوقار اورشریف النفس شخصیت کے حامل ہیں لیکن بسا اوقات آپ کے بارے میں ناگفتنی پھیلا دی جاتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟

وزیراعلی پنجاب:دیکھئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ۔نہ مجھے اور نہ میرے خاندان کو کسی قسم کی کوئی خواہش یا لالچ ہے۔ ہاں میڈیا کے کچھ دوست اپنے خیالات کو خبر کی شکل دیتے ہیں تو ان کے بارے میں ہدایت کی دعا کے سواکیا کرسکتا ہوں۔

ایکسپریس: جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ درست مگر سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کے علاقائی تعصب کے بارے میں آپ کیا کہیںگے۔ ن لیگ نے لاہور کو بنایا ،پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے ملتان کو بنایا۔اسی طرح اب آپ ڈی جی خان میں آئے روز کسی نہ کسی ترقیاتی پروگرام کا افتتاح کررہے ہوتے ہیں۔

وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! میں نے روز اول سے یہ واضح کردیا تھا کہ ہم صوبے کے ہر شہر اور ہر حصے کی یکساں ترقی کے ویژن پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ترقی ہر شہر کا حق ہے چاہے وہ لاہور ہو ملتان یا ڈیرہ غازی خان۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے ایسے لائے جائیں جو عوام کی ضرورت کے مطابق ہوں اوران کی تکمیل پر عوام ریلیف محسوس کریں ۔میں آپ کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ گزشتہ حکومت لاہور سمیت صوبے کے متعدد منصوبے ادھورے چھوڑگئی اور متعدد منصوبے ایسے تھے جن کی ادائیگیاں ہمیں آکر کرنا پڑیں، لیکن ہم نے کسی تعصب کا اظہار کیے بغیر عوامی فلاح کے ہر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ اس کی ایک مثال ہے جسے انشاء اللہ جلد فنکشنل کردیا جائے گا۔

ایکسپریس: جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام پر اب تک کیا پیش رفت کی جاچکی ہے ؟

وزیراعلی پنجاب: اس حوالے سے پی ٹی آئی کی پالیسی واضح ہے ،جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے قیام کا منصوبہ تیار ہے اوراس ضمن میں فنڈز بھی مختص کیے جاچکے ہیں ۔انشاء اللہ اس پر جلد پیش رفت ہوگی۔ جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ جلد قائم کیا جائے گا۔

ایکسپریس: کبھی (ق) لیگ کبھی( ن) لیگ پھر اچانک تحریک انصاف کیا کامیاب سیاستدان کیلئے یہ سب کچھ کرنا ٹھیک ہے ۔

وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! قائداعظم نے اصولوں کی سیاست کی ایک قابل تقلید مثال قائم کی، لیکن آپ جانتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیااوربعدازاں پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔اس بات کا انحصار آپ کی کمٹمنٹ اور آپ کی نیت پر ہے کہ آپ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا آپ کے ذاتی اغراض و مقاصد ہیں۔

ایکسپریس: موجودہ بلدیاتی نظام تاحال بہتری کی منتظر ہے،آپ اس کے بارے میںکیا فرمائیں گے حالانکہ آپ نے بھی بلدیاتی نظام سے ہی اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا؟

وزیراعلی پنجاب: بلدیاتی اداروں سے متعلق پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ ،پنجاب پنچایت نیبرہڈ ایکٹ منظورہوچکاہے،بلدیاتی اداروں کو جلدازجلد فنکشنل کرنے سے متعلق ضروری اقدامات کیے جاچکے ہیں ۔

ایکسپریس: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ مضبو ط اپوزیشن تو کبھی اتحادیوں کے روزبروز بڑھتے ہوئے مطالبات پر حکومت چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کیا اتحادی حکومت پنجاب کے ساتھ کمفرٹ ایبل ہیں؟

وزیراعلی پنجاب: (ہنستے ہوئے) یہ تو اتحادی بتا سکتے ہیں لیکن ہم کمفرٹ ایبل ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میرا کسی سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ کوئی شکایت۔ ہمارے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں۔ مخالفین کی خواہشات کے برعکس حکومت پنجاب قائم ہے اورانشاء اللہ قائم رہے گی۔

ایکسپریس: وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اپنے اندر کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں ؟

وزیراعلی پنجاب: کچھ زیادہ تو نہیں البتہ مجھے یہ لگتا ہے کہ میرے اندر صبر اور برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایکسپریس: غربت اور بے روزگاری نے عوام کا سانس لینا محال کردیا،حالات کی بہتری کب تک متوقع ہے؟

وزیراعلی پنجاب: حالات میں بہتری کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے اور انشاء اللہ بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پنجاب میں سپیشل اکنامک زونز ،انڈسٹریل اسٹیٹس ،علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی وغیرہ کے قیام سے نہ صرف انڈسٹری پھلے پھولے گی بلکہ روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوںگے۔

ایکسپریس: بیوروکریسی اور حکومتی عہدوں میں بڑے پیمانے پرمسلسل تبدیلیاں حکومت کی کارکردگی پر کیامنفی اثرات نہیں ڈالتیں؟

وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! تبادلے وغیرہ کاروبار حکومت کا حصہ ہیں، اسے کسی اور رنگ میں نہیں لینا چاہیے ، جب تبادلے اور تبدیلیاں کرنے کا مقصد ہی بہتری لانا ہو تو ان کے منفی اثرات کیسے ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس: سانحہ ساہیوال جیسے واقعات تھانہ کلچر میں تبدیلی اور اداروں کو عوامی خدمت گزار بنانے کے دعوے کی نفی کررہے ہیں، کیا اداروں کی بہتری کے لئے کوئی میکنزم تشکیل دیا گیا ہے؟

وزیراعلی پنجاب: نئے آئی جی پروفیشنل افسر ہیں، ان کی آمد سے پولیس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اسی طرح چیف سیکرٹری بھی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، مجھے توقع ہے کہ ادارے اور اداروں میں کام کرنے والے تبدیل ہوںگے اور یہ تبدیلی آپ جلد دیکھ سکیں گے۔ اگر آپ تھانہ کلچر کی بات کرتے ہیں تو میں بتانا چاہوں گا کہ پنجاب میں پولیس امور میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہر ضلع میں 2 ماڈل تھانے قائم کئے گئے ہیں۔ آپ ان تھانوں میں جا کر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوگا کیسی عمدہ تبدیلی آئی ہے۔ پولیس کی خراب گاڑیوں کو نیلام کرکے نئی گاڑیاں دی جا رہی ہیں۔ پولیس میں 5 ہزار بھرتیاں اور ٹریفک وارڈن کی 1600 بھرتیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی سیف سٹی کے جدید کمانڈ سینٹر قائم کئے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس: تعلیم پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے میں نمایاں ہے۔ کیا آپ شعبہ تعلیم میں بہتری اور ترقی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟

وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! ہم نے پنجاب بھر کے سکولوں میں ضروری سہولتوں کی فراہمی کیلئے فوری طور پر خطیر رقم جاری کی ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری کیلئے ٹیچر لائسنسنگ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ نصاب کو اردو میڈیم میں ڈھالا جا رہا ہے۔ لاہور میں شرح خواندگی میں اضافے کیلئے 35 کروڑ روپے کی لاگت سے 100 سکول کھولے جا رہے ہیں۔نئی یونیورسٹیاں اور فنی تعلیم کے ادارے بنائے جا رہے ہیں۔ ہم نے 5 ہزار سی ٹی آئی بھرتی کئے ہیں اور ان کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھا کر 45 ہزار کردی ہے۔ پہلی مرتبہ 14 وائس چانسلرز میرٹ پر بھرتی کئے گئے ہیں اور میرٹ پر تعلیمی بورڈز کے سربراہ لگائے گئے ہیں۔ لاہور میں بین الاقوامی ادارو ںکے تعاون سے نئی یونیورسٹی قائم کریں گے۔

ایکسپریس: یہ بات ہمارے لئے خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ آپ نے تعلیم کے شعبہ میں اقدامات کا اتنی روانی سے ذکر کیا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ شعبہ تعلیم میں یقینا تبدیلی رونما ہوگی۔ ایکسپریس کے قارئین صحت کے معاملات میں بہتری کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟

وزیراعلی پنجاب: پنجاب میں شعبہ ہیلتھ کے فروغ کیلئے اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جا رہے ہیں جس میں بہت اعلیٰ معیار کے ہسپتال قائم کئے جائیں گے اور فائیو سٹار ہوٹل بھی بنائے جائیں گے تاکہ لوگ باہر سے آ کر علاج کرا سکیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پنجاب میں 9 نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ نشتر ٹو اور شیخ زید ہسپتال ٹو کے منصوبے بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔ ہم نے شعبہ صحت میں 25 ہزار بھرتیاں کی ہیں اور ان میں سے 10 ہزار ڈاکٹر ہیں۔ انتھیسزیا کے ماہرین کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو چھوٹے ہسپتالوں میں لے جانے کیلئے اے سی وین سروس شروع کی گئی ہے۔ چلڈرن ہسپتال کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ لاہور میں دوسرا کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ اور 500 بیڈز پر مشتمل بلڈ ٹرانسفیوژن انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے گا اور اسی طرح پی کے ایل آئی کو بھی موثر طور پر فعال کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس: گزشتہ 3برس سے ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا، جو ہورہے ہیں ،وہ پہلے سے منظور شدہ ہیں اوران کا بجٹ بھی منظور ہوچکا تھا،آپ کی حکومت کب اس طرف آئے گی؟

وزیراعلی پنجاب: یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہم کام کررہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کام کو میڈیا اس طرح سامنے نہیں لے کر آرہا، جیسے لانا چاہیے۔ ہمیں سب سے پہلے تو آتے ہی پہلے والوں کے قرضے اتارنے پڑے جوہمارے لئے چھوڑ گئے تھے، لیکن اس کے باوجود پنجاب کے ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر شہر میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ شروع ہے اور اس سلسلے میں پہلی مرتبہ عوامی نمائندگان کو بھی شریک کیا گیا۔ پھر آپ دیکھیں کہ پنجاب میںترقیاتی بجٹ کے استعمال کا تناسب ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہے اور میں سمجھتا ہوں پنجاب میں ترقی کا عمل رکا نہیں بلکہ تیزی سے جاری ہے۔ جو لوگ اس بات پر تنقید کرتے ہیں انہیں حقیقی اعداد و شمار کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔

اگر آپ مجھے تھوڑا وقت دیں تو میں سارا کچھ تو نہیں کچھ اہم باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ ہماری کوششوں سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح 91فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ میانوالی، لیہ ، اٹک، بہاولنگر اور راجن پور میں دو دو سو بستروں پر مشتمل ماں اور بچے کے لئے ہسپتال قائم کردیئے گئے ہیں۔ صوبے کے 36 اضلاع میں ہسپتالوں کا کچرا درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسکولوں میں ماڈل ہیلتھ رومز بنائے جا رہے ہیں۔ صحت کارڈ کا دائرہ صوبے کے 20 اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ دور دراز کے پسماندہ اضلاع کے 10,800 اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کیا جارہا ہے۔

اساتذہ کی تقرری اور تبادلے کے نظام کو شفاف بنانے کے لئے آن لائن ای ٹرانسفر نظام متعارف کرا دیا گیا ہے اور محض ایک مہینے میں 16,753 اساتذہ کے تبادلے اسی نظام کے ذریعے عمل میں آئے۔ تعلیم میں اصلاحات کے پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں22 اضلاع کے 719 اسکولوں میں دوپہر کی کلاسیں شروع ہو گئی ہیں جہاں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 52.5 فیصد ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی تعلیمی پالیسی ہم نے متعارف کرائی ہے۔ خواتیں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ویمن ہوسٹل بنائے جارہے ہیں۔ ماحول دشمن سرگرمیں کی روک تھام کے لیے 213 روایتی بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ 26 ہزار دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ۔

46 بڑے صنعتی یونٹوں میں ائیر پلوش نظام کی تنصیف ہوئی۔ ایک برس کے دوران 1780 بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کیا گیا جبکہ 2ارب روپے مالیت کی سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادیں قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے تین بنچ بیرون ملک پاکستانیوں کے مقدمات کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ یہ جو کچھ میں بتا رہا ہوں ہماری حکومت کے تمام اقدامات میں سے محض تھوڑی سی باتیں ہیں۔ حکومت پنجاب دکھاوے کے بجائے بنیاد نوعیت کے کاموں پر توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کی روز مرہ زندگی پر جلد مثبت اثرات سامنے آنے لگیں گے۔

ایکسپریس: میٹروبس جیسے عوامی اہمیت کے منصوبے میں کرپشن کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس سے شہریو ں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے تو کیا آپ بھی کوئی ایسا منصوبہ لا رہے ہیں؟

وزیراعلی پنجاب: ہم بہت کچھ لائیں گے اور بہت کچھ لا چکے ہیں،تفصیل گنوانے بیٹھوں تو بہت سے صفحے اور بہت سا وقت درکارہوگا، خاطر جمع رکھیں، پنجاب بدل رہاہے، پنجاب میں ہم تبدیلی لائیں گے۔

ایکسپریس: کفایت شعاری وزیراعظم عمران خان صاحب کا وژن ہے، حکومت پنجاب اس ضمن میں کیا اقدامات کر رہی ہے؟

وزیراعلی پنجاب: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کفایت شعاری اور بچت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سب سے پہلے اس کا آغاز میں نے اپنی ذات سے کیا ہے۔ وزیراعلیٰ آفس کے اخراجات کو کم از کم کی سطح پرلایا جا رہا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ صرف پٹرول کی مد میں 35 لاکھ روپے کی بچت کی جا رہی ہے۔ سکیورٹی اور سٹاف کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔

ایکسپریس: آپ نے اقتدار سنبھالا تو لوگوں نے آپ کا موازنہ شہبازشریف کے ساتھ کیا۔ کیا یہ مناسب موازنہ ہے؟

وزیراعلی پنجاب: میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم نہ صرف شہبازشریف سے بہتر کام کرکے دکھا رہے ہیں بلکہ میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ ہمارے ابتدائی 15 ماہ کا ن لیگ کے ابتدائی 15 ماہ کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس مختصر عرصے میں ہم نے اتنے کام کئے ہیں جو شاید وہ 5 سال پورے کرنے کے باوجود بھی نہ کر پائے ہوں۔

’’تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے‘‘
بلاشبہ شاعری انسانی جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ ہے، مجھے بھی شاعری سے بہت لگاؤ ہے، لیکن سننے اور پڑھنے کی حد تک۔ اچھی شاعری دل کو چھولیتی ہے۔ کالج کے زمانے میں میں نے لائبریری میں موجود شاعری کی ہر کتاب پڑھی، شاید آج بھی ان کتابوں پر میرے دستخط موجود ہوں۔ شاعری میں صرف اردو شاعری نہیں بلکہ سرائیکی میں بھی بڑی معیاری اورعمدہ شاعری کی گئی ہے۔ بعض سرائیکی اشعار تو اب ضرب المثل بن چکے ہیں، جیسے!

توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے

دیسی کھانے، ہر قسم کی موسیقی، والد کا طرز سیاست پسند، کتاب سے گہری دوستی، عبدالستار ایدھی سے متاثر ہوں
کھانے میں ہر وہ چیز جو اچھی بنی ہو مجھے پسند ہے اورمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے کھاتا اور اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں جبکہ بہت سے لوگ ان سے محروم ہوں گے، اسی احساس سے پناہ گاہ کے تصور نے جنم لیا اور میں اکثر لاہور میں مختلف پناہ گاہوں کا دورہ کر کے خود کھانے پینے اوردیگر سہولتوں کا جائزہ لیتا ہوں۔

ویسے مجھے سادہ اور دیسی کھانے بہت پسند ہیں۔ موسیقی سننا اچھا لگتا ہے اور مجھے تقریباً ہر قسم کی موسیقی پسند ہے لیکن اب سچ بات تو یہ ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا، موسیقی سننا تو درکنار اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ کتاب سے بڑی گہری دوستی ہے، طالب علمی کے دور میں میرا زیادہ وقت لائبریری میں ہی گزرتا تھا ۔ پسندیدہ سیاست دان کی بات کرتے ہیں تو میں عرض کرچکا ہوں کہ مجھے والد صاحب کے طرز سیاست نے ہمیشہ متاثرکیا۔عمران خان صاحب آج کے دور کے ویژنری لیڈر ہیں ایسے لوگ کسی قوم کے لئے اللہ تعالیٰ کا انعا م ہوتے ہیں، وہ انتہائی حد تک ایماندار اور مخلص ہیں، شاید ایسا لیڈرپاکستان کو پھر نہ ملے۔

ہر انسان کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے، لیکن بحیثیت مسلمان حضرت محمد ؐ میرے آئیڈیل ہیں، سیرت النبیؐ ایسے متاثر کن واقعات سے بھری پڑی ہے کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ فرصت کے اوقات میں، میںاکثر سیرت النبیؐ کے بارے میں کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ نبی کریم ؐ کی زندگی کا ہر پہلو بے مثال ہے۔ خواہش ہے کہ زندگی انہی کی اطاعت میں گزرے۔ دنیاوی اعتبار سے پسندیدگی کی بات کی جائے تو میں پاکستان کی نامور شخصیت عبدالستار ایدھی صاحب سے بھی بہت متاثر ہوں۔ انہوں نے بلاامتیاز انسانوں کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ دور حاضر کے عظیم انسان ہیں۔ میں بھی عبدالستار ایدھی سے متاثر ہو کر اپنے لوگوں، خاص طور پر غریب اور محرومی کا شکار طبقات کی بھرپور خدمت کرنا چاہتا ہوں اور کر رہا ہوں۔

The post اتحادیوں سے مثالی تعلقات ہیں، کوئی اختلاف ہے، نہ شکایت، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار appeared first on ایکسپریس اردو.

تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اورحفیظ تائبؒ جنہیں توصیف مصطفی ؐ کے لیے چُن لیا گیا

$
0
0

کسے خبر تھی کہ 14 فروری 1931ء کو سرزمین وطن عزیز پر، سالکِ بادیہ تجرید، بندۂ بے ریا، درویش خُدا مست حضرت مولانا الحاج چراغ دین قادری سروری کے ہاں عبدالحفیظ (جو بعد میں دبستانِ ادب میں حفیظ تائب کے نام سے جلوہ گر ہوئے) کے نام سے ایک ایسا پُھول کھلے گا جس کی خوش بُو سے نہ صرف گوجرانوالا بل کہ پورے پاکستان کی چہار جوانب معطر ہوجائیں گی۔

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ابتداء سے ہی یہ معصوم کلی نجیب الطرفین کہلائی۔ لڑکپن میں ہی عجز و مسکنت، حلیمی و بُردباری، فیاضی طبع و ثروت اخلاق و مروت، محبّت و شفقت، مہر و وفا چہرے بشر سے ہویدا تھی اور یہ ادائے معصومیت ایک مخصوص بانکپن کے ساتھ دم آخر تک جبین نیاز سے جھلکتی رہی۔ آپ کے والد گرامی مولانا چراغ دین قادری بھی علمی و ادبی محاسن سے پوری طرح بہرہ ور تھے۔ تحفۃ الحرمین، چراغ معرفت اور چراغ حیات انہی کی دل پذیر تخلیقات ہیں۔ جناب حفیظ تائب نے اسی صوفی باصفا کے ہاں جنم لیا۔ آپ پیدا تو اپنے ننھیال کے ہاں پشاور میں ہوئے لیکن آپؒ کا آبائی گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالا ہے۔

مدح ممدوح یزداں ﷺ کرتے ہوئے آپ نے ایک احساس اشتیاق و تفاخر کے ساتھ نعتیہ مطلع میں اس کا اظہار کیا ہے۔ چوں کہ حضور سید المرسلین ﷺ کا ایک اسم گرامی ازروئے قرآن، احمد بھی ہے اسی تقدس مآب نسبت کے ساتھ آپ نے ایک معروف کے ساتھ عجیب آمیختہ تیار کیا۔

خُوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے

مجھ پر نظر ازل سے شہہ بحر و بر کی ہے

فطرت و مشیت ایزدی کے عین مطابق یہ سعادتیں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتیں، نگاہ کرم جن دلوں کو اس انعام کے لیے چن لیتی ہیں وہی اس سے بہرہ یاب ہوتے ہیں۔ غزل ہو یا نظم، قصیدہ ہو یا مرثیہ نگاری، رباعیات ہوں یا آزاد نظم، یہ تمام اصناف اپنا الگ مقام رکھتی ہیں اور قریب قریب حدود و قیود کے ضوابط سے مستثنٰی ہوتی ہیں، ان میں اخلاقیات و معاشرتی زاویوں کی اتنی پروا نہیں کی جاتی۔ نہ کسی حدِ ادب کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اہل مجاز کے لب و رخسار اور خدوخال کی عکاسی کرتے ہوئے اہل سخن غلو اور مبالغے کا بے باکانہ مظاہرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مگر صنف نعت گوئی لازماً اور حتماً تقاضائے ادب و احترام کی اسیر ہوتی ہے۔

یہاں ہر اک لفظ میزان میں تُل کر نکلنا چاہیے۔ عبد و معبود میں حد فاصل قائم رکھتے ہوئے میدان نعت میں طبع آزمائی کرنا تلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عظیم شناسائے رموز اصناف نظم و نثر نعت گوئی کے لیے قلم ہاتھ میں لیتے ہوئے کانپ اٹھتے ہیں کہ اگر ایک لفظ بھی آداب محبت ممدوح خدا سے فروتر نکل گیا تو کہیں کارکنان قضا و قدر اٹھا کر دارالبوار میں نہ پھینک دیں۔ میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ مبداء فیاض نے مولانا الحاج چراغ دین قادریؒ کے فرزند ارجمند اور بندہ بے ریا جناب عبدالمجید منہاس کے برادر اکبر حضرت حفیظ تائب کو ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے حبیب مکرمؐ کی مدح و توصیف کے لیے چُن لیا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عاشق صادق کی کلک گہر بار کو سارے کا سارا احساس تقدس و تحرم بھی مرحمت فرما دیا جو فن نعت گوئی کا یک بیش قیمت اثاثہ ہوتا ہے۔ حضرت حفیظ تائب عطائے رب ذوالمنن پر کتنے شاداں و فرحاں ہیں ذرا اس شعر پر غور فرمائیے۔

کتنا بڑا کرم ہے کہ تائب سا بے ہنر

توصیف مصطفیؐ کے لیے چُن لیا گیا

اور پھر مزید یہ کہ خدائے عزوجل نے جناب تائبؒ کے قلم کو یہ محاسن اتنے لامحدود اور فراوانی سے عطا کیے ہیں کہ صفحۂ قرطاس پر قلم جنبش میں آتے ہی دل نشیں تشبیہات و استعارات اور تلمیہات و کنایات کا ایک مینا بازار سجتا ہوا نظر آتا ہے۔ الفاظ و معانی کا ایک سمندر اور ذوق و جستجو کا بحر بے کراں موج زن ہوتا ہے جس کی تلاطم خیز موجیں فدایان سرزمین بطحا اور جاں سپاران مصطفیٰ ﷺ کو چشم تخیل میں طواف بیت اﷲ اور طواف روضۂ خیرالبشر ﷺ میں مصروف و محو کردیتی ہے۔ جناب حفیظ تائب ایک ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں ایک عاشق مسکین ایک طرف تجلیات جلال کی لمعہ افشانیوں کا ایک نظارہ کرتا ہے اور دوسری طرف جلوہ ہائے جمال کی بے کرانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور نعت گوئی میں یہ نادرالوجود کمال ہر کسی کے حصے میں نہیں آسکتا۔ اپنے ان فنی محاسن کا جناب تائب کو بھی خوب احساس تھا لیکن اس میں احساس برتری کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ عجز و انکسار کی ایک ایسی لہر ہے جو ان کے وجود کا ناگزیر حصہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

تھی ہزار تیرگی فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن

مری کائناتِ خیال پر نظر شہۂ عربیؐ رہی

جناب حفیظ تائب کا ذوق نعت گوئی جس دور میں پروان چڑھتا رہا اور پھر بہ حمد اﷲ ارتفاع ارتقاء کے کمال پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دور میں لینن ازم اور مارکس ازم کے پرستار بھی اپنے نظریات کا ڈھول پیٹنے میں مصروف تھے۔ وہ اہل پاکستان کو روحانیت سے دُور لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس مقصد کی کام یابی کے لیے اس گروہ کو غیر ملکی آقاؤں کی امداد بھی حاصل تھی۔ ان لوگوں کا واضح مقصد یہ تھا کہ اہل وطن کے قلوب و اذہان سے اصناف نظم کے توسل سے محبت خدا اور رسول ﷺ محو کردی جائے اور آہستہ آہستہ لینن اور فرائڈ کے نظریات کو راسخ کیا جائے۔ مگر خدا بھلا کرے عاشق رسولؐ حضرت حفیظ تائبؒ کا کہ آپ نے فن نعت گوئی کو اس جولانی طبع اور زوردار طریقے سے رواج دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں تطہیر و تقدیس و حرمت توصیف مصطفیٰ کا ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ انقلاب اتنا کیف آفریں اور وجد آگیں تھا کہ قصر مارکس ازم میں زلزلہ آگیا۔

نوبت بہ ایں جا رسید کہ تبدیلی کے خواہش مند قافلہ سالاروں کی نوک قلم کا رخ بھی نعت گوئی کی طرف پھر گیا۔ اور وہ لوگ اس عہد کے نام ور نعت گو کہلائے۔ یہ سب فدا کار مصطفیٰ حضرت حفیظ تائبؒ کی دل نواز شخصیت اور ان کے قلم کا اعجاز تھا۔ وہ دور اور یقیناً آج کا دور بھی جناب حفیظ تائبؒ کا دور کہلاتا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک بڑے بڑے صاحبان فن اسلوب نعت گوئی کے اس امام کے تتبع میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی محفل آپ کے ذکر خیر کے بعد مکمل نہیں ہوتی اور اس میں شامل ہر دانا و بینا اور صاحب فراست نعت خواں کلام حفیظ تائب کی خوش بُو سے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں۔ جناب تائبؒ کے کلام میں مقصدیت و معنویت بہ درجہ اتم ہویدا نظر آتی ہے۔

ہر شعر جذبہ عشق رسول ﷺ سے مزین سرشار و سیراب معلوم ہوتا ہے۔ حضور سید دو عالمؐ کی سیرت طیبہ کی لہک نسیم صبح کے روح افزاء جھونکوں کی طرح ہر رگ جاں میں سما جاتی ہے اور پھر نعت کا یہ جگ مگاتا ہوا چراغ قاری و سامع کے دل و دماغ کو منور کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ جناب تائب کا کلام امت مسلمہ کے ارباب دانش کو دعوت فکر بھی دیتا ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس حقیقت کی طرف غور کیا ہے کہ ہم ہیروں اور جواہرات کے امین ہونے کے باوجود کیوں کنکروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہم عصائے موسوی کے حامل ہونے کے باوجود کیوں رسیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اغیار کی دریوزہ گری پر کیوں مجبور ہیں۔ اس کا بڑا شافی جواب حفیظ تائب نے دیا ہے اور یہ شعر بار بار پڑھنے سے انسان کے دیدہ دل کے دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے

حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یانبیؐ

اے نوید مسیحا! تیری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہُوا

اس کے کم زور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبیؐ

اگر زندگی نے وفا کی تو میرا مصمم ارادہ ہے کہ جناب حفیظ تائبؒ کے کلام میں مقصدیت سے معمور جو دُرہائے آب دار لعل و جواہر کی طرح بکھرے پڑے ہیں، ان کی توضیحات و تشریحات پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی جائے۔ جو اہل فکر فن کے لیے چراغ راہ تائب ہو اور میرے لیے بھی توشۂ آخرت بن جائے۔ آپ کے برادر اصغر جناب عبدالمجید خصوصی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے برادر محتشم کی یاد میں ہمہ وقت کسی نہ کسی محفل کا اہتمام کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ اﷲ رب العزت انہیں صحت کاملہ سے نوازے اور مزاج شناس نعت حضرت تائبؒ کی لحد کو بقعۂ نور بنادے جس نے ملک پاکستان کو جذبۂ عشق رسول ﷺ کی تابانیت سے منور کردیا ہے۔

یوں تو حضورؐ کے لاکھوں ہیں مداح خواں

تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اور

The post تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اورحفیظ تائبؒ جنہیں توصیف مصطفی ؐ کے لیے چُن لیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈرامے’’آ دھاڑیں مار کے روئیں‘‘ کا اسکرپٹ برائے فروخت

$
0
0

پاکستان کے انٹرٹینمینٹ چینلز متوجہ ہوں۔ ہم نے ایک عدد ڈرامے کا اسکرپٹ بہ قلم خود لکھا ہے، جو ٹی وی چینلز کی ضروریات اور ان کی ناظرین کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔

ڈرامے کا نام ہے ’’آ دھاڑیں مار کے روئیں۔‘‘ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اتنا روتا دھوتا اسکرپٹ آپ نے کبھی نہیں پڑھا ہوگا نہ اتنا دکھ سے بھرپور ڈراما کبھی آن ایئر گیا ہوگا، جس کے نشر ہوتے ہی اور تو اور ٹی وی اسکرینیں بھی گیلی ہوجایا کریں گی۔ یہ ڈراما لکھتے ہوئے ہرہر سطر پر ہماری آنکھیں نم ہوجاتی تھیں اور ہر صفحے پر ہم بلک بلک کر رودیا کرتے تھے، اکثر ایسا ہوا کہ رومال پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے آنسو اور ان کی سنگت میں بہہ آنے والی ناک اسکرپٹ کے صفحوں ہی سے صاف کی، اسی لیے یہ اسکرپٹ کئی مہینوں میں مکمل کرپائے۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر کام میں خدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے، تو غلیظ کاغذوں کا انبار کمرے میں لگا دیکھ کر بیگم سے ہم نے جو ڈانٹ سُنی اور جو ذلت اٹھائی اس کے باعث دل مزید غم گین ہوگیا اور اس غم میں ڈوب کر لکھا تو اسکرپٹ خوف ناک حد تک دردناک ہوگیا۔ یہ بھی بتادیں کہ بیگم کو شک تھا کہ ہم اسکرپٹ نہیں کسی حسینہ کو کمینہ سا خط لکھ رہے ہیں۔

ہمارے آنسوؤں اور ناک نے صفحات پر لکھی تحریر کی وہ گت بنائی تھی کہ انھیں اپنے حق میں بہ طور ثبوت بھی پیش نہیں کرسکتے تھے۔ غضب تو تب ہوا جب ہم نے آنکھوں اور ناک کی صفائی سے پیدا ہونے والے شک کو ختم کرنے کے لیے اپنی صفائی یوں پیش کی،’’ارے بیگم! تم بھی کتنی بھولی ہو۔۔۔۔ ہی ہی ہی، اس دور میں ایسی باتیں خط میں کون لکھتا ہے، میں تو یہ سب ہمیشہ ایس ایم ایس کرتا ہوں پگلی۔‘‘ بس پھر کیا تھا، ہم پر تو خیر جو گزری سو گزری، لیکن ہمارے ساتھ ہونے والے سلوک نے اسکرپٹ میں غم اتنا بھردیا کہ چھلکا پڑ رہا ہے۔

ہم شرطیہ کہتے ہیں کہ یہ ڈراما خوش باش ترین خواتین کو بھی غم زدہ اور فرسٹریٹ کرکے چھوڑے گا، بعض مناظر اور قسطیں انھیں امراض قلب یہاں تک کے تپ دق کا شکار بھی کر سکتی ہیں۔ مستقل ٹینشن، مسلسل صدمات اور متواتر رونے پر مشتمل یہ کہانی صرف رلائے گی نہیں جوڑوں میں باہمی شکوک وشبہات پیدا کرکے گھروں کو جہنم بنائے اور طلاقیں بھی کروائے گی۔ اس کے علاوہ یہ ڈراما دیکھ کر ہر ساس بہو کو جان کا دشمن نہ سمجھ لے، ہر بہو کو ساس میں پوری کی پوری ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ نہ نظر آنے لگے، نند، بھاوج کے پکائے کھانے کا پہلا نوالہ کُتّے کو کھلا کر زہر ہونے کا شک دور نہ کرے اور بھاوج بیڈ کے نیچے اور الماری کے پیچھے امکانی طور پر نند کی طرف سے رکھا ہوا کالے علم کا تعویز نہ ڈھونڈتی پھرے تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔ واضح کردیں کہ ہم عام چور کی بات کر رہے ہیں، اُن خاص چوروں کی نہیں جن پر چلنے والے مقدمات چلتے چلتے تھک کر چُور ہوکر آخر ختم ہوجاتے ہیں۔ چلیے بہت ہوگئی، اب آپ ڈرامے کی کہانی کا خاکہ پڑھیے اور یہ بتائیے کہ کتنے میں لیں گے۔

ڈرامے کی کہانی:

یہ جمیلہ خاتون اور ان کی تین بیٹیوں شکیلہ، عدیلہ اور راحیلہ کی کہانی ہے، شکیلہ کو غلام حسین سے محبت تھی، مگر غلام حسین کی شادی عدیلہ سے ہوگئی، راحیلہ کے شوہر بابو کو شکیلہ سے محبت تھی مگر اسے راحیلہ سے شادی کرنا پڑی، رہی عدیلہ تو اسے اپنے شوہر بشیر سے محبت نہیں تھی، چناں چہ اسے پڑوس کے خادم حسین سے محبت کرنا پڑی، خادم حسین فطرتاً باؤلے ہیں، اس لیے وہ عدیلہ کی محبت کو سمجھ نہیں پائے اور ایک دن اسے باجی عدیلہ کہہ بیٹھے، یہ سنتے ہی عدیلہ کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ اب رہی گئیں جمیلہ خاتون، رائٹر نے انھیں بھی خالی نہیں رہنے دیا، انھیں اپنی بیٹی شکیلہ کے سسر نورالدین عرف چچا چھچھورے سے محبت تھی، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر انھیں اپنی محبت قربان کرنی پڑی۔ ڈرامے کی ہر قسط میں یہ خواتین اپنی ناکام محبتوں پر روتی دھوتی نظر آئیں گی۔ ان پر بدقسمتی ہی مہربان رہے گی، یہ جس دن بیوہ ہوں گی تو عدت ختم سے پہلے ان کا محبوب انتقال فرما جائے گا، اس دکھی ڈرامے کی آخری قسط آدھی اسپتال اور آدھی قبرستان میں ریکارڈ کی جائے گی۔

عموماً ٹی وی ڈراموں کا ہر منظر کسی اُداس چہرے اور اس پر بہتے آنسوؤں اور برستی پھٹکار سے شروع ہوتا ہے، لیکن ہمارا تحریر کردہ ڈراما رونے دھونے اور نحوست کے سارے ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس ڈرامے کا ہر منظر ایک چیخ سے شروع ہوگا۔ بہ طور مثال کچھ مناظر پیش کیے دیتے ہیں۔

کیمرا جمیلہ خاتون کا بڑا سا منہہ دکھاتا ہے اور ساتھ ہی دل ہلادینے والی چیخ سُناتا ہے۔۔۔’’نہیں ںںںںںں، یہ کیا ہوگیااااا میرے چھچھورے ے ے ے ے‘‘، ظاہر ہے یہ چیخ جمیلہ بیگم کے منہہ سے برآمد ہوئی ہے، جو پورا کُھلا ہوا ہے۔ بعد میں انکشاف ہوتا ہے کہ پڑوس کی زینت عرف بی بی سی نے انھیں اطلاع دی تھی کہ ’’اے لو، تمھاری لمڈیا نے نورالدین چچا چھچھورے کے لمڈے غفور سے بیاہ کرلیا۔‘‘

عدیلہ کانوں پر دونوں ہاتھ رکھے دھاڑتی ہے، کیمرا گھر کا دروازہ دکھاتا ہے، جس کے عقب سے دھاڑ دروازہ پھاڑ کر باہر آرہی ہے، کیمرا دھاڑ کے تعاقب میں اندر کی طرف جیسے جیسے پڑھتا ہے، دھاڑ کا والیوم تیز ہوتا جاتا ہے، آخر عدیلہ کے منہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ عدیلہ دھاڑتے ہوئے کہہ رہی ہے،’’اُف میں یہ سننے سے پہلے مر کیوں نہ گئی، تو نے یہ کیا کہہ دیا رے باؤلے۔‘‘ پھر کیمرا خادم حسین کو دکھاتا ہے جو ڈرے سہمے کھڑے ہیں، منہہ حیرت سے کُھلا ہے، جس سے پیک نکل کر باچھوں پر بہہ رہی ہے۔ فلیش بیک میں دکھایا جاتا ہے کہ غلام حسین عدیلہ سے کہہ رہے ہیں،’’عدیلہ باجی وہ امی کہہ رہی ہیں تھوڑی سی چینی دے دو، چینی نہیں ہے تو آٹا دے دو۔‘‘

ایک منظر راحیلہ کے کئی فٹ اُچھل کر کمرے سے بھاگ جانے سے شروع ہوتا ہے، وہ اچھلتے ہوئے چِلا رہی ہے،’’امی ی ی ی ی ی۔‘‘ اس منظر پر قسط ختم ہوجاتی ہے۔ اگلی قسط میں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی سانحہ پیش نہیں آیا، بس راحیلہ نے دیوار پر چُھپکلی دیکھ لی تھی۔

چینلز اس صدمات سے بھرپور ڈرامے کی کہانی کے لیے اس کے تخلیق کار غم فروش دکھیارے سے فوری رجوع کریں۔

The post ڈرامے’’آ دھاڑیں مار کے روئیں‘‘ کا اسکرپٹ برائے فروخت appeared first on ایکسپریس اردو.

بریگزٹ ہوچکا، اب۔۔۔!

$
0
0

بالآخر بریگزٹ بل پر ملکہ برطانیہ نے دستخط سبت کردیے ہیں اور اب یہ قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ساڑھے تین برسوں کے بعد برطانوی شہریوں نے قدرے سُکھ کا سانس لیا جب بریگزٹ پر عمل درآمد شروع ہوا ہے۔

اس سارے عرصے میں ملک میں ایک ہیجان اور بے یقینی کی فضاء قائم رہی اور سیاسی لحاظ سے بھی ہلچل رہی جس نے قومی راہ نماؤں کو تقسیم کرکے رکھ دیا تھا۔ اس دوران اظہاررائے کے حوالے سے برطانیہ دو حصّوں میں منقسم رہا، کچھ کا خیال تھا کہ یہ عمل جلدازجلد مکمل ہو جب کہ کچھ سمجھتے تھے کہ یورپ سے انخلاء کے معاملے پر نیا ریفرنڈم کروایا جائے اور کچھ کا اصرار تھا کہ اسے منسوخ کردیا جائے۔ ابھی بریگزٹ کی رسمی کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی شاہی خاندان میں دراڑیں پڑچکی ہیں جسے اچھا شگون نہیں سمجھا جارہا۔ شہزادہ ہیری اور ان کی امریکی شریک حیات دونوں نے شاہی محل چھوڑدیا ہے۔

برمنگھم پیلس کے اعلامیے کے مطابق وہ شاہی خدمت سے دست بردار ہوگئے ہیں اور ان سے HRH کے القابات بھی واپس لے لیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے معاملے پر نئے وزیراعظم بورس جانسن بضد تھے کہ پچھلے سال اکتوبر کے اختتام تک یورپ سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور پھر بات قبل از الیکشن کی طرف چلی گئی۔ اس طرح پہلے لگ رہا تھا کہ تیسرے وزیراعظم بھی بریگزٹ کی وجہ سے گھر چلے جائیں گے اور بریگزٹ شاید جلد ممکن نہ ہو، لیکن حالیہ انتخابات نے پانسہ یکسر پلٹ دیا ہے۔ حکم راں جماعت کو توقع کے برخلاف تاریخی فتح ملی اور جانسن سرخ رو ہوگئے ہیں کہ انہیں بریگزٹ پر زبردست حمایت مل چکی ہے۔

آنے والے وقتوں میں بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی اتحاد سے کنارہ کشی کے بعد برطانیہ کے بارے میں تشویش لاحق ہے کہ اسے کئی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جن میں شمالی آئرلینڈ کی سرحدوں کے تعین کا معاملہ، اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ سے جڑے رہنے، جزیرہ جبرالٹر پر حق ملکیت کا فتنہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی درس گاہوں میں پڑھنے والے غیرملکی طالب علموں اور کام کرنے والے یورپی ورکروں کے لیے بھی پیچیدہ مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ بریگزٹ کی ابتدائی تاریخ 29 مارچ رکھی گئی تھی جسے 31 اکتوبر 2019 تک توسیع دی گئی اور آخر کار نئے سال جنوری 2020 کا آخری دن بریگزٹ پورا ہونے کا دن قرار پایا۔

یورپ سے طلاق یعنی ’’بریگزٹ‘‘ حاصل کرنے کی کہانی شروع ہوتی ہے 2016 ء سے جب کہ مقابلتاً اکثریتی رائے عامہ یورپ سے نکلنے کی حامی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون نہایت پُرجوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے لیکن ریفرنڈم کے نتائج نے انہیں مایوس کردیا اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ چناںچہ وہ اسے اپنی اخلاقی شکست سمجھتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ یاد رہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کی حمایت میں 53 فی صد اور اس کی مخالفت میں 47 فی صد ووٹ ڈالے گئے جو یورپ میں رہنے کے حامی تھے۔ مئی 2016 ء میں نئی وزیراعظم کے آنے کے بعد ان کے اقتدار کا سارے کا سارا وقت بریگزٹ کے دفاع میں گزرا اور صورت حال نے انہیں پریشان کیے رکھا، جن کی پارٹی کے 21 ارکان اپوزیشن سے جاملے تھے۔ وزیراعظم تھریسا مے کو پارلیمان میں متواتر تین بار زبردست شکست و حزیمت کا سامنا کرنا پڑاتب وہ بریگزٹ کا دفاع نہ کرسکیں اور عہدے سے استعفیٰ دے گئی تھیں۔

اگلے وزیراعظم بورس جانسن نے آتے ہی بریگزٹ پر جارحانہ انداز اپنایا اور انہوں نے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن (31 اکتوبر ) کے لیے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا کہ وہ یورپی یونین سے کوئی معاہد ہ یا ڈیل ہوئے بنا اس مقررہ تاریخ کو یورپ سے نکل جائیں گے۔ اپنے پلان کو کام یاب بنانے کے لیے یک طرفہ طور پر ملکہ کے حکم سے پارلیمنٹ کو پانچ ہفتوں کے لیے تالا لگوادیا تھا جو کہ سراسر غیرآئینی اقدام تھا جسکا مقصد محض یہ تھا کہ بریگزٹ پر کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ کوئی بحث و مباحثہ ممکن ہوسکے لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے اس اقدام کالعدم قرار دے دیا اور پارلیمنٹ تین روز بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دی گئی۔ اپوزیشن کی سخت مزاحمت کو دیکھتے ہوئے آخرکار معاملہ نئے انتخابات پر ختم ہوا۔

بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ وزیراعظم بورس جانسن بھی اقتدار چھوڑ دیں گے لیکن اس کے برخلاف موجود حکم راں پارٹی کنزرویٹو نے بھاری اکثریت سے میدان مار لیا اور بریگزٹ کے لیے راستہ ہم وار ہوگیا۔ دوتہائی اکثریت کے بعد اب بریگزٹ پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں عام انتخابات کا سال 2022 ء تھا لیکن ’’بریگزٹ‘‘ کے معاملہ سے نمٹنے کے لیے پارلیمنٹ میں اتفاق رائے احسن طریقے سے انجام پاگیا۔

اپنی کام یابی کے فوری بعد بورس جانسن نے کہہ دیا تھا کہ انہیں ’’بریگزٹ‘‘ کے لے بڑا مینڈیٹ مل چکا ہے۔ لیبر پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے جس کے باعث پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن صدارت چھوڑچکے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی یہ بدترین شکست تھی۔

اسے وہاں سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے جہاں 2016 ء کے بریگزٹ منصوبے پر ہونے والے ریفرنڈم میں زیادہ حمایت سامنے آئی تھی جن میں شمالی انگلینڈ، مڈلینڈر اور ویلز کے علاقے شامل ہیں۔ لیبر پارٹی کے ووٹوں میں 8 فی صد کمی آئی ہے۔ اس کے برخلاف اسکاٹ لینڈ کی قومی جماعت SNP کی زبردست جیت ہوئی ہے جس نے اسکاٹ لینڈ کی 59 سیٹوں میں سے 48 پر سبقت حاصل کی۔ یہ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 35 کے مقابلہ پر 13 سیٹیں زیادہ ہیں ۔ان نتائج کے فوراً بعد ہی اسکاٹش قومی پارٹی کی سربراہ نکولا اسٹرجن نے کہہ دیا ہے کہ ’’ہماری جیت دوسرے ریفرنڈم کا واضح پیغام ہے!‘‘ انہوں نے کنزرویٹو سے یہ گلہ بھی کردیا ہے کہ ہم نے 2016 ء میں بریگزٹ پر ریفرنڈم میں یورپی اتحاد سے جُڑے رہنے کے لیے ووٹ دیے تھے! خیال رہے کہ اسکاٹ لینڈ بھی یورپی یونین کا ایک اہم رکن ہے اور برطانیہ کے یونین چھوڑنے کے نتیجے میں اسے بھی یورپی اتحاد سے الگ ہونا پڑے گا اور دوبارہ سے یورپی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے آزادانہ حیثیت تسلیم کروانی ہوگی۔

لہٰذا اب صورت حال اسکاٹ لینڈ والوں کے لیے نئے ریفرنڈم کی طرف جارہی ہے اور جب ہی فیصلہ ہوپائے گا کہ وہ سلطنت برطانیہ کا جز رہنا چاہے گا یا پھر یورپی یونین کی گود میں پناہ لے گا۔ اسکاٹ لینڈ کی قومی جماعت نے موجودہ الیکشن میں ڈالے گئے اسکاٹش ووٹوں کا 45 فی صد حاصل کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اور یہ پچھلے انتخابی نتائج سے8  فی صد بڑھ چکا ہے۔ برطانیہ میں اس الیکشن نے اچھے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاؤنڈ کی حد ڈالر کے مقابلے میں 1.35 بڑھی ہے لیکن یورو کے مقابلے میں قدر تین سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بورس کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ بریگزٹ کے بعد اب برطانیہ اور امریکا نئے تجارتی معاہدوں کے لیے آزاد ہوں گے۔

فروری کے مہینے میں یورپ سے ایک سفیر لندن بھیجا جارہا ہے۔31 جنوری کی نصف شب کے بعد سے برطانیہ اب یورپ کے لے اجنبی ملک ہوچکا ہے۔ اگرچہ پڑوسی کے طور پر اس کی اہمیت رہے گی۔ یورپی پارلیمنٹ میں برطانیہ کے 29 نمائندے اپنا سامان باندھ چکے ہیں اور اب ملک کے وزیراعظم جانسن بھی یورپی سربراہان ممالک کی کونسل میں نہیں جاسکیں گے جب کہ ان سے بریگزٹ معاملات پر بات چیت جاری رہے گی۔ یورپی یونین کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مشیل بارنیئر نے کہا ہے کہ ’’ ہم متاثر نہیں ہوںگے!‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی انتظار کرنا ہوگا! یکم فروری سے ہی منتقلی کی میعاد شروع ہوچکی ہے اور یہ وقت ہی بتاسکے گا کہ برطانیہ و یورپ کے مابین نیا تعلق کیسا ہوگا؟ فوری طور پر کچھ بھی نہیں بدلا جانا ہے۔

لندن اور برسلز کے مابین یورپ سے دست برداری کا معاہد ہ  550طویل صفحات پر مشتمل دستاویز ہے جو کہ علیحدگی کے انتظامات کرنے والا واحد آفیشل ڈاکومنٹ ہے، اس کی بنا تھریسامے اور بورس جانسن سے بات چیت نہایت مشکل عمل تھا۔ اس کے متن میں یورپی یونین میں برطانوی شہریوں کے حقوق جن میں معاشرتی تحفظات اور ریٹائرمنٹ وغیرہ کے بارے میں طے کیا گیا ہے جس میں ان کی ساری زندگی کی ضمانت دی گئی۔ اس پر پیچھے ہٹنے والا کوئی قانون لاگو نہیں ہوگا۔ دوسری طرف ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خود کو رجسٹرڈ کروانے کے لیے کاروائی مکمل کریں۔

اس طرح کا جو بھی تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے اس کے لیے ایک آزاد اتھارٹی تشکیل دی جارہی ہے۔ سیّاحتی لحاظ سے 2021 ء تک یورپ یا برطانیہ سے دوطرفہ ٹریفک کی صورت حال جوں کی توں رہے گی جب کہ ملک میں داخلے کے وقت اصلی شناخت درکار ہوگی۔ یورپی یونین اور یورپی کمیشن کے سربراہان نے بھی انخلاء کے اس معاہدے ’بریگزٹ‘ پر دستخط کردیے ہیں۔ اگلی باری یورپی پارلیمنٹرین کی ہے۔ اس وقت یورپی قائدین کے لیے مذاکراتی مینڈیٹ کا فیصلہ کرنا ہوگا جس کا اختیار مشیل بارنئیر کو دیا گیا ہے۔ مذاکرات جاری ہیں اور خیال ہے کہ یہ 25 فروری تک جاری رہیں ۔

امیگریشن اور تجارتی ڈیل: بریگزٹ کے فوری صدمے کے اثرات سے نمٹنے کے لیے گیارہ ماہ کا وقفہ دیا جارہا ہے۔ اسے عبوری دور Period) (Transition کہتے ہیں۔ اس عبوری وقت میں برطانیہ کے ساتھ یورپی تعلقات کے حوالے سے برطانیہ سے سختی سے بات چیت کی جائے گی جو علیحدگی کے ابتدائی اثرات میں سے ایک ہے۔ تجارتی ڈیل جسے ’’سیاسی اعلامیہ‘‘ کہا جارہا ہے، یہ ایک خاکہ ہے جسے یورپ سے نکلنے کے ساتھ ہی شائع کیا جائے گا۔ اگر سب ہی کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے جیسے کہ بریگزٹ کے بعد تجارت کیسے ہوگی؟ تو ان تفصیلات کو اس عبوری مدت کے دوران جاری کیا جائے گا۔ اس ڈیل کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ باقاعدہ یورپ سے برطانوی انخلاء سے پیدا ہونے والا خلاء کو کسی حد تک پرُ کیا جاسکے اور ایک نئے تعلق کی شروعات ہوسکے۔

یورپی یونین سے علیحدگی کا ایگزٹ بل جسے Withrawal Agreemnet” ” کہا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں 358 کے مقابلے میں  234 ووٹوں سے پاس ہوا تھا۔ ایگزٹ ڈیل 27 صفحات پر مشتمل ہے جس کا ٹائٹل ہے،  “Political Declaration Setting out of The Framework for the Future Relation between Europian.Union and The United Kingdom”. ۔ برطانوی عوام جاننا چاہتے ہیں کہ یونین سے تجارت جاری رہے گی جس میں مال کے محصولات کے لیے درآمدی اشیاء کی ادائیگی یا مخصوص برقرار کوٹا رہے گا؟ پچھلے سال برطانیہ کی کُل تجارت (اشیاء و خدمات) 1.3 ٹریلین پاؤنڈ تھی۔ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ برطانوی کابینہ نے متفقہ طور پر قومیت کے بجائے مہارتوں کی بنیاد پر ایک نظام کی حمایت کی ہے جب کہ پچھلی وزیراعظم تھریسامے متعدد بار دہرا چکی ہیں کہ ’’بریگزٹ کے بعد یورپ سے لامحدود امیگریشن ختم ہوجائے گی!‘‘ ایک اصولی اتفاق بھی زیرغور ہے کہ کام کی رسائی کے لیے تعصب کو ہوا نہ دی جائے جب کہ ایک ممکنہ عمل یہ ہے کہ یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ’’ہلکا ٹچ مائیگریشن‘‘ کا قانون بریگزٹ ڈیل کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

جزیرہ جبرالٹر کا جھگڑا: جب سے بریگزٹ شروع ہوا ہے اس جزیرے جبرالٹر کا تنازعہ بھی سر اٹھانے لگا ہے۔ یہاں 711 ء سے 1462 ء تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی تھی۔ اسپین کی جنوبی حدود میں یہ پہاڑی علاقہ جو چونے کے پتھر ’’راک آف جزائر‘‘ کی وجہ سے شہر ت رکھتا ہے مسلمانوں کے بعد اسپین کے پاس چلا گیا جس کے بعد اینگلو ولندیزی فوج نے اسے اسپین سے چھین لیا تھا۔ لیکن 1713ء سے یہ برطانوی علاقہ ہے۔ یہ نہایت اہم محل وقوع کا حامل فوجی دفاعی علاقہ ہے جہاں فوجی اڈا، بندرگاہ اور جہازوں کے اُڑنے اور اترنے کے لیے فضائی پٹی بھی ہے۔ یہ تجارتی جہازرانی، تیل کی ترسیل اور فوج سے متعلق سازوسامان کی منتقلی کے لیے اہم جگہ ہے۔ اگرچہ یورپی یونین کا حصّہ ہونے کے باوجود جبرالٹر باہر سے درآمدات پر اپنے ٹیرف خود مقرر کرتا ہے، تاہم اسپین اور برطانیہ دونوں اس پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں اور اپنے دعوے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔

32000 ہزار افراد پر مشتمل آبادی کے اس جزیرے کو حق خوداردیت حاصل ہے لیکن اسپین اسے نہیں مانتا۔ 2002 ء میں جبرالٹر کے رہنے والے 99 فی صد رہائشیوں نے اسے مسترد کردیا تھا کہ جبرالٹر کی خودمختاری مشترکہ طور پر برطانیہ اور اسپین کے پاس رہے۔ اسپین کو تشویش ہے کہ جزیرے کی سرحد کا ناجائز استعمال ہورہا ہے اور اس کے وسائل کو نقصان ہورہا ہے۔ بریگزٹ معاملے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے سے مستقبل میں برطانیہ کے ساتھ جو معاہدہ طے ہوگا وہ اسپین کی مرضی کے بغیر جبرالٹر پر لاگو نہیں ہوگا۔ یہاں کے انگریز باشندوں نے بریگزٹ کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ اس وقت کے برطانیہ کے وزیرخارجہ اور موجودہ وزیراعظم جانسن نے کہا تھا کہ جبرالٹر کی خودمختاری میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی۔ لیکن اسپین والے اس صورت حال سے نالاں ہیں۔

اب یورپ سے کیا انگریزی بھی رخصت ہوجائے گی؟ بریگزٹ کی کہانی کے ساتھ ہی یورپین یونین کی اپنی زبانوں سے وابستگی اور قومیت پرستی بھی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ یونین کے 28 ممالک کی 24 سرکاری زبانیں ہیں۔ یہاں زبان کی مساوات کو اولیت حاصل ہے۔ 2016 ء میں ممبر یورپی پارلیمنٹ اور چیئر آف دی پارلیمنٹ برائے آئینی معاملات محترمہ ڈینوتا ہنبر (Danuta Hunber) نے کہہ دیا تھا کہ “if we don’t have the UK, we don’t have English! “۔ یعنی اگر ہم برطانیہ کو نہیں رکھیں گے تو ہم انگریزی کو بھی نہیں رکھیں گے۔ یہ محترمہ اس معاملے پر بہت سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یونین کی سرکاری زبانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہیں کہ ’’بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی مرضی چلنے والی نہیں ہے!‘‘ جب کہ یورپی پارلیمنٹ کے سنیئر ارکان کا مطالبہ ہے کہ یونین سے اخراج کے بعد انگلش زبان بھی زیادہ دیر تک یونین کی سرکاری زبان کے طور پر نہیں رہ سکے گی۔

اسے بھی یونین سے فارغ کردیا جائے گا۔ یورپی ماہرینِ لسانیات کہتے ہیں کہ انگریزی ایک حکم رانی کرنے والی (dominate) زبان ہے۔ یورپ میں انگریزی نہ بولنے والے دوسروں کے مقابلے میں پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔ لسّانی طور پر یہاں یونین کی ہر ریاست کو مساوی حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی زبان کو سرکاری طور پر استعمال کرے۔ فرانسیسی سیاسی راہ نما جین لوس میلنجان نے بھی بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’انگریزی یورپی پارلیمنٹ کی ورکنگ زبان کی حیثیت سے زیادہ دیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی!‘‘

اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ممبر یورپی پارلیمنٹ نے انگریزی پر اپنا غصہ اتارتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم آخر اب تک کیوں اس لغو زبان کو برداشت کیے ہوئے تھے !‘‘ یورپ میں ایک مشترکہ زبان کے طور پر ’’اسپرانتو یورپی یونین‘‘ کئی سالوں سے سرگرِم عمل ہے۔ اسپرانتو کے حامیوں ان کا کہنا ہے کہ یورپ کی تمام سرکاری زبانوں کے ساتھ بنیادی اصول اور ثقاوتوں کے ساتھ مساوات کا احترام مشکل ہے۔ انگریزی مرکزی یونین بینک کی واحد ورکنگ زبان ہے جو کہ تعصب کا شکار ہوچکی ہے اس لیے سیکھنے میں آسان اور منصفانہ زبان اسپرانتو کا انتخاب کیا جائے۔

The post بریگزٹ ہوچکا، اب۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

برف کے دیس میں

$
0
0

جوائس کیرول اوٹس
ترجمہ: تنویر رؤف

تیس سالہ سسٹر ائرین ایک بلند قامت۔ متین اور قابل خاتون تھیں۔ ان کے خدوخال دیکھنے والے کو مبہوت کردیتے تھے۔ ستواں ناک جھیل جیسی گہری آنکھیں۔ سنجیدہ دانش سے مزین چہرہ۔ وہ ہر زاویہ اور ہر طرح سے ایک پر کشش خاتون تھیں۔ سسٹر ائرین اپنی جوانی میں جب ایک استانی تھیں تو زیادہ جاذب نظر اور ذہین نظر آتی تھیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ وہ شگفتگی۔ توانائی اور جاذبیت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اس بات سے باخبر تھیں کہ یونیورسٹی میں ان کو بالکل آخری لمحات میں اس لیے منتخب کیا گیا کہ جو شخص اس آسامی پر آنے والا تھا وہ صاحب کردار اور قابل اعتبار نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ سسٹر ائرین کو ان کی زیادہ عمر کی وجہ سے کم تنخواہ پر رکھا گیا تھا سب سے زیادہ یہ ماحول سسٹر ائرین کے کے لیے نامانوس تھا۔

وہ اب یہ دعا مانگتی تھیں کہ یہ دو سیمسٹر بخوبی مکمل کرواسکیں حالاںکہ وہ جب بھی کلاس میں ہوتیں تو قطعا بھول جاتیں کہ وہ کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کے اندر وہی جوش و ولولہ بھر جاتا اور وہ ہمیشہ کی طرح اپنا علم شاگردوں میں منتقل کرنا چاہتیں۔ جیسے ہمیشہ کرتی آئیں تھیں لیکن کلاس سے باہر وہ اپنا اعتماد بحال نہیں رکھ پاتیں۔ الجھن محسوس کرتیں۔ لوگوں کی چبھتی نگاہوں سے ان کو لگتا کہ جیسے وہ نن ہیں تو ان کا وجود بے مقصد ہے۔ وہ اپنے دکھ کا اظہار اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں کرتی تھیں جو ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ سسٹر ائرین کو یہ محسوس ہوتا کہ ان کو وقتی طور پر رکھ لیا گیا ہے۔ یہ احساس ان کو مزید کم زور کر دیتا۔ مگر پھر وہ اپنے خدشات کو اپنا وہم سمجھ کر دماغ سے جھٹک دیتیں۔

البتہ کلاس میں وہ ایک زندہ دل اور کامل ماہر استاد ہوتیں۔ سمسٹر کے شروع ہونے کے تقریباً دو ہفتے گزرنے کے بعد سسٹر ائرین کو کلاس میں ایک نیا طالب علم نظر آیا۔ وہ ایک دبلا پتلا سا لڑکا تھا جس کے بال ہلکے بھورے رنگ کے تھے۔ اور چہرہ بالکل سپاٹ اور جذبات سے عاری تھا۔ یہ علامات حادثاتی نہیں تھیں بلکہ خود ساختہ تھیں وہ جب سسٹر ائرین کو دیکھ رہا تھا تو سسٹر ذہنی طور پر اس کے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار تھیں۔ اور یہی ہوا۔ جیسے ہی اس نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو سسٹر نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں جھٹکا سا لگا جیسے اس کو اپنے ہاتھ پر قابو نہ ہو۔ سسٹر نے اشارے سے ظاہر کیا کہ وہ سن رہی ہیں۔ تو وہ بولا “شیکسپیئر۔ ہیلمٹ ڈرامے میں اس نظریے سے کیسے متفق ہو سکتا ہے؟ ایک آدمی کے دماغ میں بیک وقت دو مختلف نظریے کیسے آسکتے ہیں؟ اس کا سوال بہت ہی عجیب اور بے معنی سا تھا۔ کلاس کے دوسرے طلبہ بھی حیرت سے اس کو دیکھنے لگے کہ اس نے کیسا بے تکا سوال کیا ہے۔

وہ لڑکا بھی عجیب قنوطی اور مخبوط الحواس سا لگ رہا تھا۔ سسٹر ائرین نے جواب دیا کہ ” شیکسپیئر کے کسی بھی ڈرامے میں کہانی، ماحول اور کردار کے مطابق خیال اور مکالمہ ہوتا ہے۔” لیکن وہ لڑکا اس بات پر مُصر تھا کہ ہر مکالمہ اور کردار میں ایک جیسا سبق ہونا چاہیے۔ دیانت اور اخلاق کا سبق۔ سسٹر ائرین کو اس پر غصہ اور جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے چہرے کے تاثرات سخت کرتے ہوئے کہا،” ڈراما کہانی کی عکاسی کرتا ہے اور اسی کے مطابق مکالمے ہوتے ہیں۔” سسٹر ائرین نے اس سے کلاس کے بعد ملنے کا کہا۔

کلاس ختم ہوتے ہی وہ سسٹر ائرین کے پاس آگیا اور آتے ہی بولا “سسٹر میری بات کا برا نہیں منائیں اور آج میرے اچانک آنے کا بھی۔ میں نے کچھ دل چسپ باتیں سنی ہیں۔” یہ کہہ کر وہ سسٹر ائرین کو بغور دیکھنے لگا اور سسٹر ائرین کے چہرے پر کچھ ایسا عجیب سا تھا کہ وہ مسکرا نے لگا۔ اور بولا۔

“کیا ہم آپ کے آفس میں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔” پھر وہ دونوں چلتے ہوئے سسٹر ائرین کے آفس پہنچ گئے۔ سسٹر ائرین اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں اور لڑکا ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ ” شاید آپ جانتی ہوں کہ میں یہودی ہوں۔ ”

سسٹر ائرین نے بغور اس کو دیکھتے ہوئے کہا،” ہاں میں جانتی ہوں۔”

پھر وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ” پھر آپ یہ جاننا چاہتی ہوں گی کہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔ یہ تو عیسائیوں کی درس گاہ ہے۔”

سسٹر ائرین نے اس کی بات کو جیسے کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے چہرہ سے بھی یہی ظاہر کیا۔

وہ کرسی کے بالکل کنارے پر بیٹھا تھا۔ اگرچہ وہ جوان تھا مگر سسٹر کو وہ جوان نظر نہیں آ رہا تھا۔

اس کا چہرہ سخت گیر تھا۔ لگتا تھا اس نے اپنی جوانی کو اچھی طرح سے نہیں گزارا۔ اس کی جلد سسٹر ائرین ہی کی طرح بدرنگ اور پیلی تھی اور اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں کسی ایک جگہ پر مرکوز نہیں تھیں۔ وہ سسٹر ائرین کو اور ان کے اردگرد اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے ایکسرے لے رہا ہو۔ کبھی کبھی اس کی آواز سیٹی کی طرح تیز ہوجاتی،” سنو! سسٹر میں نے اچھا کیا کہ آج تمھاری کلاس میں آگیا۔ تم ایک اچھی ٹیچر ہو۔ یہاں لوگ جانتے ہیں کہ اچھی ٹیچر کیسی ہوتی ہے؟ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ واقعی تم ایک اچھی ٹیچر ہو۔” سسٹر ائرین نے اپنی بھنوئیں سکیڑتے ہوئے کہا، “میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ہٹو تم کیا بات لے کر بیٹھ گئے ہو۔”

لڑکے نے سسٹر ائرین سے بے تکلفانہ انداز میں کہا، ” میں نے کولمبیا یو نیورسٹی سے بی اے کیا ہے اور پھر آگیا پڑھنے کے لیے اس بے کار شہر میں جان بوجھ کر آگیا۔”

” میں یہاں کسی مقصد کے کے لیے آیا ہوں۔ میں 300 ڈالر کے عوض یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ ” یہ کہہ کر وہ سسٹر ائرین کو دیکھنے لگا۔ جیسے چیک کر رہا ہو کہ وہ کتنی مرعوب ہوئی ہیں۔

” آپ جانتی ہیں کہ میں اتنی رقم کے ساتھ کہیں بھی فیلوشپ کرسکتا تھا مگر میں یہاں آیا۔ میرا گھر یہاں اسی شہر میں ہے۔ اس لیے یہاں داخلہ لیا ہے۔ میں گذشتہ سال آیا تھا۔ اب یہ میرا دوسرا سال ہے۔ میں اپنی ماسٹرز کا تھیسس مکمل کر رہا ہوں۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کی کلاس میں مجھے داخلہ مل سکتا ہے؟ حالانکہ میں لیٹ ہوچکا ہوں۔ کلاسز شروع ہوچکی ہیں۔ کیا مجھے اس کے لیے خاص اجازت نامہ لینا ہوگا؟

گو کہ سسٹر ائرین کو اس کی باتوں سے الجھن ہورہی تھی۔ مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ لڑکا بہت ہی معصوم اور اچھا بن کر بات کر رہا تھا جیسے وہ بہت ہی شریف اور پڑھاکو ہے۔

سسٹر کی توجہ بٹانے کے لیے بولا” کیا آپ انگلش پڑھاتی ہیں؟”

کہنے لگا “میں تاریخ کا طالب علم تھا۔” کہتے ہوئے اس کا چہرہ سخت ہوگیا۔ سلوٹیں گہری ہوگئیں اور چہرہ ظاہری مسکراہٹ کے ساتھ عجیب سے تاثرات دینے لگا۔” انھوں نے مجھے نکال دیا۔” پھر اس نے پہلو بدلا اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سسٹر ائرین کو پیش کیا مگر انھوں نے سر ہلاکر منع کردیا۔ سسٹر ائرین اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں جو بچوں کی طرح تھے چھوٹے چھوٹے 10 سال کے بچہ کے ہاتھوں جیسے۔ اور ناخن عجیب سے جامنی رنگ کے۔ ” آپ کیا سمجھتی ہیں اس بات سے؟”

” ارے میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تم کیا بتا رہے ہو۔ ”

وہ بولا ” میری ماسٹرز کی پڑھائی بہت اچھی طرح جاری تھی کہ یہ منحوس آگیا۔ معاف کرنا پروفیسر ائرین مگر اس ٹیچر نے میرے ساتھ بہت برا کیا۔”

اس کے بعد وہ ٹیچر کے بارے میں بے حد فضول گوئی کرتا رہا۔ مزید بتاتے ہوئے وہ آگے کو جھکا اور نفرت انگیز لہجہ میں بولا کہ میری اور ٹیچر کی کافی منہ ماری ہوئی۔ اس کے بعد اس سے برداشت نہیں ہوا تو مجھے کلاس سے نکال دیا۔ اس لیے اب میں انگلش پڑھنا چاہتا ہوں۔ ادب تاریخ سے بہتر ہے۔ یورپ کی تاریخ تو یک دم کچرا ہے۔ آسمان و زمین کے قلابے۔ بس جنگ و جدل اور لاشیں۔ ہے نہ صحیح بات؟ ارسطو کہتا ہے کہ شاعری تاریخ سے زیادہ معتبر ہے۔ ٹھیک کہتا ہے وہ۔ آج تمھاری کلاس میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ انگلش ہی میرے لیے بہتر ہے۔ شیکسپیئر اور بس شیکسپیئر ” سسٹر ائرین نے سوچا کہ اب وہ کہے گا کہ شیکسپیئر اور وہ کتنے ہم خیال ہیں۔

سسٹر ائرین کی نظروں میں آج اس کا کلاس میں آنا، اس کا ہاتھ اٹھا کر پوچھنا۔ اٹھے ہوئے ہاتھ کو جھٹکا لگنا۔ ماتھے پر بل۔ سوچتی گہری آنکھیں سب نظروں میں گھوم گیا۔” آپ کی کلاس میں طلبہ ایسے ہی ہیں۔ غیرسنجیدہ۔ میں سب جانتا ہوں کہ آپ یہاں نئی ہیں اور میں ایک سال سے یہاں ہوں۔ میرا کورس تو ختم ہو جاتا مگر میرے والد بیمار ہوگئے۔ اور اسپتال میں رہے۔ میری پڑھائی متاثر ہوئی اور امتحان میں اچھا نتیجہ نہیں آیا۔ مگر اب میں انگلش پڑھوں گا۔ میں انگلش کے 6 کورس لے لوں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اچھی کارکردگی دکھاؤں گا۔ جب کوئی بات ٹھان لوں تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔”مسلسل بولنے سے وہ ہانپنے لگا۔ جب سسٹر ائرین مسکرانے لگیں تو بولا کہ ” میں آپ کی کلاس میں آسکتا ہوں ناں؟”

سسٹر ائرین اتنی دیر سے بیٹھی اس کی باتیں سنتے سنتے تھک چکی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ کورس کا سلیبس دے دیں گی۔ سلیبس دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔ اور سسٹر سوچنے لگیں کہ کہیں انھوں نے اس کو اپنی کلاس میں لے کر غلطی تو نہیں کردی۔ وہ اٹھا اور خوشی سے کچھ بولتا ہوا چلا گیا۔ سسٹر ائرین ا یک بہت ہی شفیق استاد تھیں انھوں نے اس کا نام بھی معلوم کرلیا تھا۔

” ایلن ویسٹین”

اگلے دن جب سسٹر ائرین شیکسپیئر پڑھانے کلاس میں گئیں تو ایلن ویسٹین موجود تھا اور وہ سب سے قابل طالب علم ثابت ہوا۔ مگر ایک ہی ہفتے میں اس کے بدلتے ہوئے غیرسنجیدہ انداز اور منتشر خیالات سے کلاس کے دیگر طلبہ بھی متاثر ہونے لگے کیوںکہ وہ کلاس کے عین وسط میں بیٹھتا تھا۔ مگر ہجوم میں بھی وہ تنہا لگتا۔ اپنی ہی دنیا میں گم رہتا اور ایسے ایسے موضوعات پر بولتا کہ دوسرے طلبہ منہ جھکا کر ہنستے۔ سسٹر ائرین۔ ایلن ویسٹین کے حق میں بولنا چاہتیں مگر پھر خاموش ہوجاتیں، کیوںکہ اس کی باتوں اور دلائل میں کہیں نہ کہیں بدتہذیبی کا عنصر ہوتا وہ اپنے دلائل Goethe اور Freud کے بارے میں ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتا۔ تو سسٹر ائرین اس موضوع کو وہیں ختم کردیتیں۔ سسٹر ائرین تنہائی میں اکثر اس کے بارے میں سوچتیں اور جب وہ جونیئر نن سسٹر کارلوٹا سے اس کا ذکر کرتیں تو اس کی شخصیت کا بہت خراب تاثر ابھرتا۔ اس کے باوجود سسٹر ائرین اس کو پسند کرتی تھیں اور کہتیں کہ وہ بہت ذہین لڑکا ہے۔ سسٹر کارلوٹا اگرچہ انگریزی کی استاد تھیں مگر گذشتہ 4 سال سے چھوٹی کلاسوں کو حساب پڑھا رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔

پیپر شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ سب اپنی اپنی سیٹ پر موجود تھے اور سسٹر ائرین فکرمند تھیں کہ ایلن ویسٹین نظر نہیں آرہا تھا۔ ان کے کان دروازے پر لگے تھے کہ ابھی وہ دھڑ سے دروازہ کھول کر اندر آئے گا اور دھم سے اپنی کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ اور شرمندہ سی مسکراہٹ سسٹر ائرین کو دے گا۔ مگر وقت گزر رہا تھا اور اس کا کچھ پتا نہیں تھا۔

سسٹر ائرین نے اپنا لیکچر بھی طویل کردیا کہ شاید وہ آجائے مگر وہ نہ آیا۔ اگلے دن سسٹر ائرین کو خود پر بھی پچھتاوا تھا کہ اس کو اجازت کیوں دی۔ مگر وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ آخر وہ کوئی عام عورت نہیں تھیں۔ ایک استاد تھیں اور ان کا ایک مقام اور وقار تھا، جس کو اس نے مجروح کیا تھا۔ وہ اسی سوچ بچار میں تھیںکہ انھوں نے اس کو لبرل آرٹس کی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھا دیکھا۔

سسٹر ائرین کو لگا کہ جیسے پیچھے سے کوئی آواز دے رہا تھا۔ مڑ کر دیکھا تو ایلن ویسٹین تھا جو ہانپتا ہوا ان کی طرف دوڑتا ہوا آرہا تھا۔ وہ گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھا۔ گلے میں ٹائی بندھی ہوئی تھی۔ اور دیکھنے میں وہ ایک چھوٹا سا آدمی لگ رہا تھا۔ وہ قریب آکر پھولے سانسوں کے درمیان بولا۔

“سسٹر ائرین میں آپ سے کل نہ آنے کی معافی چاہتا ہوں۔ میرا پہلا پرچا تو اب نہیں ہو گا میں یہاں کے قانون جانتا ہوں۔ اچھی بات ہے ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ میں بھی جب ٹیچر بنوں گا ایسا ہی کروں گا۔ مگر سسٹر میرے گھریلو حالات اور مسائل۔۔۔” وہ ہکلاتے ہوئے اور تھوک نگلتے ہوئے بولا ” شاید آپ نہیں سمجھ سکتیں میرے مسائل اور پریشانیوں کو۔” سسٹر ائرین اس کو گہری نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور اس وقت ان کو بالکل عجیب مگر سچا لڑکا لگ رہا تھا۔ حالانکہ اس کی حرکتیں غیرمانوس اور اور عجیب ہوتی تھیں۔

سسٹر ائرین کو اس کی بات میں کوئی دل چسپی نہیں تھی بس ایک انسانیت کا رشتہ تھا۔ وہ اس کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ سسٹر ائرین کو اپنے لڑکپن کا دور یاد آرہا تھا۔ جب وہ بھی اپنی بات کی پکی تھیں۔ ان کے والدین بھی غریب تھے۔ مگر سسٹر ائرین جن کا اصلی نام Yvonne تھا۔

ان کے والدین کے آنسو اثر نہیں کرسکے تھے۔ اور انھوں نے بھی جو چاہا وہ کیا۔ سسٹر ائرین نے اس سے کہا ” تم اگر چاہو تو آج اپنا پیپر دے سکتے ہو۔” یہ سن کر وہ مسکرایا ” سسٹر ائرین آپ واقعی ایک بہترین استاد ہیں۔” پھر وہ اپنے بریف کیس میں پیپر ڈھونڈتا رہا۔ سسٹر کو یقین تھا کہ وہ ایسے ہی ڈھونڈ رہا ہے اس کو پیپر نہیں ملے گا۔ اور پھر سے وہ جھوٹے سچے بہانے تراشے گا۔

بلآخر اس کو پیپر مل گیا اور وہ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے بولا، “سسٹر میں نے کل ہی 300 صفحات لکھ لیے تھے، جب کہ جواب 15 صفحہ کا تھا۔” یہ کہتے ہوئے وہ بہت خوش تھا اور خوشی سے اس کے گال گلابی اور آنکھیں چمک رہی تھیں۔ کہنے لگا” شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر میرے پاس کتاب ہے۔ آپ دیکھ سکتی ہیں کہ میں نے صحیح جواب لکھا ہے۔”

سسٹر ائرین کو تعجب ہو رہا تھا۔ اور اس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ان کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کو دلاسا دیں۔” کیا میں آپ سے یہاں بات کر سکتا ہوں؟ دراصل اس وقت میری وہ کلاس ہے جس سے مجھے سخت چڑ ہے۔ لیکن میں برداشت کرلوں گا۔”

سسٹر ائرین کچھ گھبرائی ہوئی تھیں۔ انھوں نے اس کے پیپر پر مضمون کا عنوان دیکھا۔

‘‘Erotic Melodies in Romeo and Juliet’ Allen Weinstein, Jr.’’

” کیا میں آپ سے یہاں بات کر سکتا ہوں۔ ” وہ سمجھ رہا تھا کہ سسٹر ائرین کچھ الجھن کا شکار تھیں۔ سسٹر ائرین اس کو گھورتی رہیں تو وہ بولا ” اچھا چلیں ہم یہاں پر ٹہلتے ہوئے بات کر لیتے ہیں۔” آپ نے جو کچھ کلاس میں بتایا تھا میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں۔” سسٹر ائرین کچھ متذبذب تھیں مگر اس نے کوئی پرواہ نہیں کی اور ساتھ چلتا رہا۔ دونوں کافی دور آگئے۔ راستہ بھر وہ بولتا رہا۔ سسٹر ائرین کو اس کی بے تکی باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کیوںکہ وہ کلاس کے کسی مباحثے پر بات کر رہا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ” انسانیت کو مذہبی لوگ نکال دیتے ہیں اور خود کو یہودی سے بہتر سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ مذہبی لوگ صرف مذہب سے منسلک رہتے ہیں انسانیت سے نہیں، جب کہ نازیوں کے بعد یہودی انسانیت پر توجہ دیتا ہے اور پوری انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ اور یہودی یہ ثابت بھی کرے گا۔ میں آپ کے اندر ایک مذہبی کے ساتھ انسان بھی دیکھتا ہوں۔” وہ سسٹر کو دیکھے بغیر بات کر رہا تھا۔ جیسے وہ سسٹر ائرین سے مخاطب نہ ہو، بلکہ اپنا نظریہ بیان کر رہا ہو۔

“سسٹر یہ ، پڑھیں میں نے رات کو یہ لکھا تھا۔” وہ ایک طویل اور آزاد نظم تھی جو ٹائپ رائٹر پر ٹائپ ہوئی تھی، جس کا ربن بھی گھس چکا تھا۔

” میرے والد کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ بے حد نفیس اور شان دار انسان ہیں، مگر آہ، ان کی صحت روز بروز گر رہی ہے۔ اب میں بڑا ہوچکا ہوں۔ وہ کم زور ہو رہے ہیں اور صحت بھی خراب ہو رہی ہے۔ مجھے ان کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے میں اسکول نہیں آیا تھا۔” اس کے جملے سے اس کے درد کا اندازہ ہو رہا تھا۔ زندگی، موت، مایوسی کا ذکر تھا۔

ویسٹین نے سسٹر ائرین سے اپنی نظم کے بارے میں پوچھا تو سسٹر نے کہا” بہت عمدہ، بہت اچھی۔ ” یہ سن کہ وہ بہت خوش ہوا اور ان کے ہاتھ سے اپنی نظم لے لی۔ ” یہاں میں بہت کم لوگوں سے بات کرتا ہوں۔”

اندھیرے میں سسٹر ائرین محسوس کر سکتی تھیں کہ ویسٹین ان کو بغور دیکھ رہا ہے اور گھبرارہی تھیں کہ اب وہ کیا کہنے والا ہے۔

“ویسٹین! تم نے پیپر دیا اس کا شکریہ۔”

یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ اگلے دن وہ اسکول 10 منٹ دیر سے آیا تو غصے میں تھا۔ سسٹر ائرین جب چرچ گئیں تو کچھ اپ سیٹ تھیں۔ ان کو اس بات کا پچھتاوا تھا کہ انھوں نے اتنا وقت ضائع کیا اور اپنی تنہائی کا جواز ویسٹین کی صحبت میں ڈھونڈا وہ شرمندہ تھیں کہ اس کے بارے میں اتنا سوچتی رہیں۔ سسٹر ائرین کو ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار کر گیا تھا، جس میں رقص و سرور تھا۔ تنہائی تھی۔ دکھ تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ اس کو پناہ دیں۔ اس کی دیکھ بھال کریں۔

جب یونیورسٹی کے ڈین نے کلاس میں ویسٹین کی کارکردگی کے بارے میں سسٹر ائرین سے پوچھا تو انھوں نے اس کی بہت تعریف کی جب کہ وہ جانتی تھیں کہ ڈین اس کی تعریف سننا پسند نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔

سسٹر ائرین ایک نن تھیں جن کا بظاہر اس دنیا اور اس کے جھمیلوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔وہ اپنی عبادت اور دعاؤں میں شرمندگی محسوس کر رہی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ ویسٹین کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ بھی رکھتی تھیں۔ سسٹر ائرین کو اس کے ساتھ ہم دردی تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ اس کے دکھ دور ہوجائیں۔ وہ اس دنیا کی باسی نہیں تھیں اور ان کو سب منع تھا کہ وہ کسی میں دل چسپی لیں۔ ان کو صرف اپنی رہبانیت سے جُڑا رہنا تھا۔ وہ خوف زدہ تھیں کہ وہ لڑکا ان کو زندگی کی طرف مائل کر رہا تھا۔ ایک عام انسان جس کی خواہشات ہوتی ہیں لیکن بطور ایک راہبہ ان کے لیے یہ سب سختی سے منع تھا۔ ان کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ بہت دن تک وہ مضطرب رہیں۔ ویسٹین کا پیپر کافی دنوں تک ان کے پاس رکھا رہا۔

سسٹر ائرین اس کو چیک کر کے اے گریڈ دے چکی تھیں۔

ویسٹین جب کافی دنوں تک نہیں آیا۔ نہ پیپر لینے نہ کلاس میں تو سسٹر نے آفس میں جاکر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بتانے آیا تھا کہ اس کے والد بہت بیمار ہیں۔ اس لیے وہ کچھ عرصہ کلاس لینے نہیں آئے گا۔

آفس سکریٹری نے بتایا کہ گذشتہ برس بھی اس نے اپنی پڑھائی کا بہت نقصان کیا تھا۔ اور امتحان بھی نہیں دیا تھا۔ اور اس کا یہی معمول تھا کہ کبھی آیا کبھی غائب۔ سسٹر ائرین نے بھی اس کا انتظار کرنا اور اس کی آنے کی توقع چھوڑ دی تھی کہ وہ واپس آئے گا۔ مگر ایک دن سسٹر کو اپنی ڈاک میں اس کا خط ملا، جو بہت کالی سیاہی میں لکھا ہوا تھا تاکہ صاف پڑھا جاسکے اور جلی حروف میں اپنا پتا بھی لکھا تھا، جیسے سسٹر ائرین پر حق جتا رہا ہو اور ان کی توجہ چاہتا ہو۔ اس کا پتا تھا

Birch crest Manor

شہر کے شمالی حصے میں

اس نے خط میں لکھا تھا۔

پیاری سسٹر ائرین!

میں ٹھیک ہوں اور یہاں بہت خوش ہوں۔ میرا ڈاکٹر بہت اچھا اور قابل ڈاکٹر ہے جو مجھے سمجھتا ہے مگر میرے والد میرے لیے پریشان رہتے ہیں۔ میں ان کو سمجھاتا ہوں مگر وہ نہیں سمجھتے۔ آپ کو جب بھی فرصت ہو۔ آپ یہاں میرے والد کی طرف آسکتی ہیں۔ آپ کو وہ لڑکا یاد ہے۔ MEASURE FOR MEASURE، جس کی بہن جب جیل میں اس سے ملنے آتی تھی تو وہ کہتا تھا۔ اس دنیا سے تو اچھا ہے اُس دنیا میں چلا جاؤں۔ آپ میرے والد کو سمجھا سکتی ہیں کہ وہ میری اتنی پروا ہ نہ کیا کریں۔ خط کے آخر میں اس نے اپنے والد کا نام لکھا تھا۔

سسٹر ائرین راہ داری میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ویسٹین کا خط پڑھ رہی تھیں۔ وہ خوف زدہ تھیں اور ویسٹین کے لیے پریشان تھیں۔ اور چلتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ خدا نے اس کو اتنے دکھ دیے۔ وہ جانتی تھیں کہ ویسٹین نے ان کو خط کیوں لکھا؟ اور وہ ان سے کیا چاہتا ہے؟ ایسی کیفیت سسٹر ائرین کی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کو کلاؤڈو کی وہ تقریر یاد آرہی تھی کہ ’’meaure is for measure‘‘ یعنی “جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔”

اے ہے۔ بس مرنا ہی ہے۔

اور جانا کہاں ہے

کس کو خبر ہے

ٹھنڈ میں، ایک قید میں سڑنے کو

یہ زندہ جیتی جاگتی جان

ایک مٹی کے ڈھیر میں بدلنے کو ہے

اور آزاد پُرسکون روح

یہ آگ کے شعلوں میں ناچتے ہوئے

یہ برف کی دبیز تہہ میں دبے ہوئے

یہ نادیدہ ہواؤں میں مقید

بھٹکتے بھنور میں چکراتے ہوئے

اس معلق دنیا میں جکڑے ہوئے

تباہی سے مزید تباہی کی جانب

شور و ہنگامہ خیزی سے بھرپور

غربت، افلاس، ظالم وقت اور قید

کیا یہ سب وہی جنت ہے؟

جس کے لیے ہم موت سے ڈرتے ہیں؟

سسٹر ائرین نے اس کے والد کے گھر فون ملایا تو ایک عورت کی آواز آئی۔” جی یہ Allen Weinstein کا گھر ہے آپ کس سے بات کرنا چاہیں گی؟”

” میں ویسٹین صاحب سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے بیٹے کے بارے میں بہت ضروری ہے یہ۔”

کچھ دیر خاموشی کے بعد آواز آئی۔

” آپ شاید ان کی والدہ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔”

” جی جی والدہ سے۔ بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ” سسٹر ائرین نے کہا۔

دوسری طرف کافی دیر خاموشی رہی۔ سسٹر ائرین نے پھر کہا تو ادھر سے آواز آئی جی Allen نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ سسٹر ائرین پریشان اور الجھن کا شکار ہوگئی تھیں کہ دوسری طرف فون پر کون ہے اور آخر کیا بات ہے؟

انھوں نے سسٹر کارلوٹا کو اپنے ساتھ لیا اور شام کے دھندلکے میں کار میں چل پڑیں۔ سسٹر کارلوٹا بھی پریشان تھیں کہ آخر سسٹر ائرین کو کیا ہوا ہے اور وہ اتنی متفکر کیوں ہیں؟ ان کی آنکھیں اور چہرہ بے حد متفکر تھا۔ وہ شہر کے ہجوم میں کار چلاتی ہوئی گلیوں، چوراہوں سے گزرتی ہوئی شہر سے باہر کھیتوں کھلیانوں کو پار کرتی چلی جا رہی تھیں۔ راستے میں ڈھیروں درخت کٹے پڑے تھے۔ شام ہوتی جارہی تھی۔ عجیب پراسرار سا ماحول تھا۔ سسٹر ائرین ایک جہاںدیدہ اور ذہین پروفیسر تھیں۔ انھوں نے کچھ تو سوچا ہو گا۔ کافی فاصلہ طے کرکے جب وہ ایک جگہ پہنچیں اور وہاں سے وہ پھر ایک سڑک پر مڑ گئیں جو ایلن کے گھر کی طرف جارہی تھی۔ وہ کچھ ڈری گھبرائی سی بھی تھیں کہ گھر ملے یا نہ ملے۔ ایک عجیب ان کہی کیفیت سے دوچار تھیں۔ جیسے ہی ان کی کار ایلن کے گھر کے قریب آئی تو وہ حیران رہ گئیں۔ بے حد شان دار و وسیع عمارت۔ بہت وسیع و عریض باغ مگر خشک گھاس اور سوکھے پتے بھی ادھر ادھر۔ اس علاقے میں سب گھر ایسے ہی شان دار بنے ہوئے تھے۔ وہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ رؤسا کا علاقہ تھا۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز۔ سنگ مر مر کے بنے بڑے عالی شان گھر، شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں اور چاروں اطراف میں سرو کے درخت جیسے جنت میں آگئے ہوں۔

سسٹر ائرین تو اپنے کپڑوں سے شرمندہ سی تھیں کہ ایسے عالی شان گھر میں معمولی کپڑوں میں کیسے جائیں گی۔ ونسٹن کا گھر تو سب سے ہی الگ لگ رہا تھا جیسے V کو الٹا کردیا جائے اس شکل کا صدر دروازہ تھا۔ کالی چھت والی راہ داری سے سسٹر ائرین کی کار جب دروازے تک پہنچی تو ائرین نے سسٹر کارلوٹا سے کہا کہ وہ جلد واپس آجائیں گی۔ دروازے پر ایلن کی مان ملیں۔ بالکل ایلن کی طرح چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی۔ وہ ائرین کو اندر لے گئیں اپنی جوانی میں وہ بہت خوب صورت رہی ہوں گی۔ مگر اب سفید بالوں کا اونچا سا جوڑا بنائے ہوئے تھیں۔ اور اب ان کے چہرے میں کوئی دل کشی نہیں تھی۔ وہ ائرن سے بولیں کہ ایلن ابھی آتا ہے۔ انھوں نے آواز دی کہ مہمان آئے ہیں۔ پھر وہ بیٹھک میں لے گئیں جہاں ایک کونے میں پیانو رکھا تھا اور دوسرے کونے میں بھی موسیقی کا آلہ رکھا تھا اور درمیان میں سفید قالین اور بے حد قیمتی فرنیچر۔

سسٹر ائرین پر کپکپی طاری تھی ایلن کی ماں نے ائرین سے کہا؛

“پروفیسر ائرین جب آپ کا فون بجا تو میں۔۔۔۔کیا میں آپ کو پروفیسر کہہ سکتی ہوں؟ میں نہیں جانتی تھی کہ آپ سے کیسے بات کروں۔ اصل میں ایلن کرسچین اسکول جانا چاہتا تھا۔ میں نے اس کے والد کو سمجھایا کہ اس کو جانے دیں۔ آج کل بچوں کے مزاج اور خیالات بدل رہے ہیں۔ نیویارک میں وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکا اور واپس یہاں گھر آگیا۔ کیا میں آپ کو پروفیسر کہہ سکتی ہوں؟ سسٹر نے کہا کہ وہ ان کو سسٹر ائرین کہہ سکتی ہیں۔ ایلن کی ماں حیران ہی ہو رہی تھیں کہ اتنے میں ایلن کے والد کمرے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے گہرے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ عمر میں لگ بھگ 50 کے ہوں گے۔ وہ بہت تیزی اور روانی میں تھے۔ اپنے کندھے پکڑے ہوئے تھے۔ ہینڈ سم آدمی، اچھی جسامت چہرے سے بہت تیز لگ رہے تھے۔ سسٹر ائرین کی طرف کرسی آگے کی طرف گھسیٹی، جس کی وجہ سے سفید غالیچے کا کونا بھی الٹ گیا، مگر انھوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور بیوی کو ایک طرف کرتے ہوئے سسٹر سے بولے،” آج میں جلدی گھر آگیا مجھے لائیبی (بیوی) نے فون کردیا تھا۔ سسٹر! آپ کو ایلن کا خط ملا ہو گا؟ کیا میں وہ خط دیکھ سکتا ہوں؟

لائبی پیچھے سے سسٹر ائرین کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ان کا شوہر بہت زور سے بولتا ہے اور کنفیوز کر دیتا ہے۔ سسٹر ائرین نے وہ خط ان کو دے دیا۔

لڑکے کے باپ نے اتنی تیزی سے خط پڑھا اور سسٹر ائرین کو دیکھا کہ وہ سمجھیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ اتنا پڑھا لکھا قابل ہے کہ پڑھنے میں اتنی روانی ہے۔ پھر وہ بولے، ” اچھا تو وہ وہاں خوش ہے، مگر ہم سے وہ کوئی بات نہیں کرتا۔”

” لیکن وہ آپ کو لکھتا ہے کہ وہ خوش ہے اس کا کیا مطلب؟ یہ سب کیا بکواس ہے؟ وہ خوش نہیں ہے وہ گھر واپس آنا چاہتا ہے۔”

سسٹر ائرین کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔ ان کو ڈر تھا کہ ایلن کی طرح اس کا باپ بھی چیخنا شروع نہ کردے۔ وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ خط ڈاک میں بھیجنے سے پہلے کسی کو پڑھ لینا چاہیے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ اس کا باپ مزید چراغ پا ہو گیا۔ “سسٹر وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اسپتال میں ہونا چاہیے۔”وہ زور زور سے اپنا سر ہلا رہا تھا اور ایلن کی ماں رو رہی تھی۔ سسٹر ائرین کا دم گھٹ رہا تھا۔” معاف کرنا سسٹر مجھے روز اس پر بہت خرچہ کرنا پڑتا ہے ایلن کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ مجھے پروا نہیں کہ وہ خوش ہے یا ناخوش ہے۔ تم چاہتی ہو کہ میں اس کو نکال لوں؟ میں نے 2 گھنٹے تو بحث کی ہے داخل کرنے کے لیے۔ دیکھو اس کو خود پر قابو نہیں ہے۔ وہ یہاں توڑ پھوڑ مچا رہا تھا۔ اس خط میں اس نے کیا لکھا ہے، ہم سے بات نہیں کرتا۔” غصے سے ان کا رنگ سیاہی مال ہو رہا تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔” وہ مجھے برے برے ناموں سے پکارتا ہے۔ گالیاں دیتا ہے۔ لائیبی تم جاؤکچن میں ان کو لے کر اور دونوں ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر رو لو۔ میں اس کمینے کو ٹھیک کر دوں گا۔” سسٹر وہ آپ کو اچھا پیپر دیتا ہے نمبر بھی اچھے لیتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں شاید آپ کی طرح اور لوگ نہیں ہوں گے جو اتنی فکرکریں۔” کونوینٹ واپس جاتے ہوئے سسٹر ائرین کے دماغ میں ساری باتیں گونج رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ویسٹین کسی کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ ریا ہو گا سن رہا ہو گا۔

ایک ماہ بعد ویسٹین خود آگیا۔ اس نے وہی سوٹ پہنا ہوا اور ٹائی لگائی ہوئی تھی جو پہلی دفعہ سسٹر نے دیکھی تھی۔ وہ سیدھا سسٹر کے آفس میں آگیا جیسے کوئی کشش اس کو کھینچ کر لائی ہو اس نے آتے ہی سسٹر سے ہاتھ ملایا۔ سسٹر کا خوف ان کی آنکھوں میں اس نے دیکھ لیا ہوگا۔

طنزیہ مسکراتے ہوئے بولا ” سسٹر دیکھیں مجھے آزادی مل گئی میں اس خول سے باہر آگیا۔ کیا میں بیٹھ سکتا ہوں۔”

سسٹر ائرین کی سانس تیز تیز چل رہی تھی، بالکل ایسے جیسے سامنے دشمن بیٹھا ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ دشمن ہے۔” میں جانتا ہوں کہ آپ آئی تھیں اور آپ ہی آسکتی ہیں ورنہ کسی کو کیا پروا۔ آپ ایک انسان دوست اور ہم درد مذہبی خاتون ہیں۔ آپ کو معلوم ہے انھوں نے مجھے کمرے میں بند کردیا تھا۔ مجھے الیکٹرک شاک دیتے تھے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں اتنے قیمتی ساز و سامان اور عالی شان بلڈنگ پر جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ 50 ڈالر ان کے لیے مجھ سے زیادہ قیمتی ہیں۔ جہاں ظلم اور تشدد ہوتا ہے مجھے ایک سیٹی مل گئی تھی جب مجھے شاک دیتے تھے تو میں انگلی سیٹی پر رکھ دیتا تھا اور اتنی زور سے بجتی تھی کہ ان لوگوں نے مجھے تنگ آکر فٹ قرار دے کر باہر نکال دیا۔ اب میں سڑکوں پر پھرتا ہوں آپ جیسے نارمل لوگوں کی طرح مٹی، دھول اور دھوئیں میں سانس لیتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

سسٹرکا دل چاہ رہا تھا کسی طرح اس کو سکون فراہم کر دیں۔

” مسٹر ویسٹین ”

” مجھے Allen پکاریں ” اس نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔

“مجھے بہت افسوس ہے میرے والدین نے میرے ساتھ ایسا کیا اور آپ کی بھی تضحیک ہوئی۔”

وہاں جو ڈاکٹر ہے وہ بھی یہودیوں سے نفرت کرتا ہے اور ہمارے لوگ یہ بات جانتے ہیں۔ اس کی تو مجھ سے بڑی ناک ہے بابا۔ وہ سب ایسے ہیں غیرانسانی سلوک کرنے والے ظالم لوگ۔ مجھے آپ سے مدد چاہیے۔ میں کینیڈا جانا چاہتا ہوں۔ یہاں سے دور بہت دور۔ وہاں مجھے نوکری مل جائے گی یا میں خود کو ختم کرلوں گا۔ مگر یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے پاس رقم نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے کچھ۔۔۔؟ ”

سسٹر نے کہا ” رقم؟ کیا تمھارے پاس نہیں ہیں پیسے؟ تمھارے پاس ہیں۔ جاؤ کہیں سے لے لو۔ کسی سے بھی۔ بہتر ہے تم واپس چلے جاؤ۔”

” میرے دوست ایک نمبر کے منافق ہیں۔ کل ایک دوست کو میں نے بہت آوازیں دیں مگر وہ انجان بن گیا جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو۔ مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ایک رحم دل خاتون ہیں، ایک شعر کی طرح جو بہت حساس ہوتا ہے۔ صرف آپ ہی مجھے سمجھتی ہیں۔ کیا آپ مجھے 10 ڈالر دے سکتی ہیں؟ میرے بینک اکاؤنٹ میں 3000 ڈالر موجود ہیں مگر والدین نے مجھے بھکاری بنا ڈیا ہے۔ میں اپنے پیسے نہیں نکال سکتا۔ مجھے جانور کی طرح سمجھتے ہیں۔ میں آپ کو واپس کردوں گا۔ آپ میری مدد کردیں پلیز۔ آپ میرا ہاتھ تھام لیں۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ” وہ سسٹر کا ہاتھ تھامنے آگے بڑ ھا، مگر سسٹر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

The post برف کے دیس میں appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

دی گریٹ لیڈر ( جلد اول)
مصنف: منیر احمد منیر۔۔۔۔۔قیمت:700 روپے۔۔۔۔صفحات:348
ناشر:ماہنامہ آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاون لاہور(03334332920)

ہمارے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں کسی نے ان کی شخصیت کے سیاسی پہلو کو موضوع بنایا ہے تو کسی نے ذاتی زندگی کو، مگر منیر احمد منیر صاحب کی کتاب ’ دی گریٹ لیڈر‘ ان سب سے ہٹ کر ہے وہ اس لئے کہ اس میں ان افراد کے انٹرویوز شامل کئے گئے ہیں جو قائد اعظم کی گورنر شپ کے زمانے میں ان سے وابستہ رہے، انھوں نے جو بیان کیا وہ خود دیکھا یا پھر ان کے ساتھ بیتا، یوں قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں جاننے کے لئے ایک رنگا رنگ گلدستہ تیار کیا گیا ہے جس میں ان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ بہت سے ایسے پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے جو پہلے سامنے نہیں لائے گئے ۔

قائد اعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا نے انکشاف کیا کہ پاکستان کو وجود میں آئے دو روز ہی ہوئے تھے کہ رات گئے دو مسلح ہندو گورنر جنرل ہاؤس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ سپاہی نے دیکھ لیا۔ اس کے ساتھ کشمکش کے باعث وہ قائد اعظم تک نہ پہنچ سکے اور بھاگ گئے۔

قائد اعظم اس وقت کام میں مصروف تھے انھوں نے اس واقعہ کا قطعاً نوٹس نہ لیا۔دراصل وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے، انھیں جب بھی سکیورٹی کا کوئی سپاہی نظر آتا، کہتے ’’ اگر میری موت کا وقت آن پہنچا تو ایک ہزار سپاہی بھی میری جان نہیں بچا سکیں گے۔‘‘ سابق وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ نے اعتراف کیا کہ یہ ٹھیک بات ہے کہ انھوں نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔اگر پڑھتا تو اعتراض ہوتا کہ یہ منافق ہے۔ اسی طرح اے ڈی سی کیپٹن( جو بعد میں جنرل بنے) گل حسن نے بتایا ’’ جب قائد اعظم کا بھائی ان سے ملنے آیا تو انھوں نے بغیر اپوائنمنٹ ملنے سے انکار کر دیا اور اس کے وزٹنگ کارڈ پر ’’ قائد اعظم کا بھائی‘‘ کے الفاظ کاٹتے ہوئے کہا ، اسے کہو اس پر صرف اپنا نام لکھے۔ نئی نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

جرم سیاست
مصنف: میاں منظور احمد وٹو۔۔۔۔قیمت: 2000 روپے
صفحات:416۔۔۔۔ناشر: احمد پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور

اگر عوام کی خدمت کرنا ہو تو اس کے لئے سیاست کا شعبہ بہترین ہے کیونکہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد آپ کو لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے مسائل سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور پھر منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل حل کرنے یا کرانے کے اختیارات بھی مل جاتے ہیں ۔ تاہم سیاست کے خارزار میں آبلہ پائی بھی کرنا پڑتی ہے کیونکہ مخالفین ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آتے اور بدنامی کا طوق بھی مقدر ٹھہرتا ہے۔

میاں منظور احمد وٹو پاکستان کے ممتاز سیاستدان ہیں، 1964ء میں ممبر بنیادی جمہوریت سے سیاست کی ابتدا کی۔ پھر یونین کونسل کا الیکشن لڑتے رہے، 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل اوکاڑہ ، 1985ء میں ممبر صوبائی اسمبلی و سپیکر صوبائی اسمبلی، 1988ء میں ممبر صوبائی اسمبلی و سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب،1990ء میں ممبر قومی اسمبلی ، 1993ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب، 2008ء میں ممبر قومی اسمبلی و وزیر صنعت و پیداوار منتخب ہوئے ۔

1999 تا 2002ء پابند سلاسل رہے۔انھوں نے یہ کتاب اسیری کے دنوں میں ہی لکھی، یہ اس کا تیسرا ایڈیشن ہے جس میں اضافے کئے گئے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اس وقت اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’دنیا بھر کے اہل سیاست کی روایت ہے کہ نازک سیاسی موضوعات پر وہ خود قلم اٹھاتے ہیں اور اپنے سیاسی کیریئر کے کارناموں اور غلطیوں کی تحریر کے ذریعے سے وضاحت کرتے ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کی کتاب ’ جرم سیاست‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ منظور وٹو صاحب نے اپنی خود نوشت میں پاکستان کے حالیہ سیاسی واقعات کے کئی خفیہ گوشوں کو بے نقات کر کے تاریخی فریضہ سر انجام دیا ہے۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

افکار قائد اعظمؒ
مصنف: شاہد رشید۔۔۔۔قیمت: درج نہیں۔۔۔۔صفحات:407
ناشر:نظریہ پاکستان ٹرسٹ، شاہراہ قائداعظم،لاہور(042 99233521)

ہمارے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جتنی بھی تعریف کی کم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے ہی اوصاف سے متصف کیا تھا، زندگی کے جس بھی شعبے میں بھی قدم رکھا کامرانیاں ان کے قدم چومتی رہیں، بیرسٹر بن کر عملی زندگی میں قدم رکھا تو برصغیر کے ممتاز قانون دانوں میں شمار ہونے لگے، سیاست میں قدم رکھا تو تھوڑے ہی عرصہ میں سیاست کے ایوانوں میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ ان کی کامیابیوں کی بڑی وجہ ذہانت اور بصیرت کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں مطابقت تھی جو وہ کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔ اصول پرستی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے قائد اعظم کے فرمودات جمع کر کے کمال کر دیا ہے کیونکہ قائد کے فرمودات کو زندگی کے ہر شعبہ کے حوالے سے پیش کر دیا گیا ہے اور یہی حیران کن بات ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف کو تحقیق کے لئے کتنی محنت کرنا پڑی ہو گی۔

ابواب کے عنوانات جیسے آزادی،آئین، اقلیتیں، اللہ کی حاکمیت بحیثیت گورنر جنرل، پیغمبر اسلام ﷺ ، تعلیمات قرآن، خواتین، زبان، صنعت و معاشیات، مسلم اور ہندو ، کشمیر اور دیگر ریاستیں ، سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ قائد اعظم نے زندگی کے کسی بھی شعبے کو رہنمائی کے اصول فراہم کرنے سے خالی نہی چھوڑا، یہ تو مصنف کا کمال ہے کہ انھوں نے قائد کے افکار عالیہ ایک جگہ یکجا کئے ہیں ۔ یہ کتاب ہمارے قومی رہنماؤں کو بالخصوص رہنمائی کا درس دیتی ہے، انھیں ہر شعبہ زندگی کے لئے رہنمائی ملے گی، اگر وہ رہنمائی حاصل کرنا چاہیں تو، ورنہ ہمارے رہنماؤں کی اکثریت کا اس وقت جو حال ہے اس پراللہ کی پناہ مانگنا پڑتی ہے۔ نوجوان نسل کو بھی اس کا ضرور معالعہ کرنا چاہیے۔

اچھل ندیاں تارو ہوئیاں
مصنف: عذرا وقار۔۔۔۔قیمت:350 روپے۔۔۔۔صفحات:258
ناشر: سچیت کتاب گھر، گنگارام چوک، لاہور ((042 36308255)

زندگی سمے کا دھارا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے وقت کو کیسے بیتائے، مگر زندگی میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب زندگی پر انسان کا اختیار نہیں رہتا اور وقت کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے، ایسے ہی لمحوں کی وجہ سے تقدیر پر یقین کرنا پڑتا ہے جس کے آگے انسان بے اختیار ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کی کہانی دوسروں کے آگے رکھنا ذرا مشکل تجربہ ہے کیونکہ زندگی میں آنے والے نشیب فراز کو بے کم و کاست بیان کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔عذرا وقار نے بھی اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے، ان کا انداز بہت بے تکلّفانہ ہے، تحریر چاشنی سے بھرپور ہے ۔

قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ وہ معمولی تجربات کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے اس سے ایک تو انھیں سیکھنے کا موقع ملے گا دوسرے وہ اس دور کی تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کریں گے۔

خواب سے آگے
شاعر:امداد آکاش۔۔۔۔قیمت:   600 روپے۔۔۔۔صفحات:144
ناشر:بک ہوم، مزنگ سٹریٹ، لاہور(042 37231518)

غزل شاعری کی خوبصورت ترین صنف ہے، جس میں شاعر اپنے دل کی بات یا محسوسات کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کرتا ہے، جس سے قاری خواب وخیال کے عالم میں کھو جاتا ہے، امداد آکاش نے بھی اپنے محسوسات غزل کی صورت میں پیش کئے ہیں، ان کا انداز بڑا دلفریب ہے، جیسے کہتے ہیں،

تشنہ لب، خاک بہ سر، آبلا پا بیٹھا ہے

خشک دریا میری دہلیز پہ آ بیٹھا ہے

اے میری خواہش بیتاب مجھے تھام کے رکھ

مے کا ساگر ہوا پایاب مجھے تھام کے رکھ

آخری اوراق پر نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں، ان میں بھی انداز بہت خوبصورت ہے۔ ان کی کتاب شاعری میں اچھا اضافہ ہے۔ مجلد کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

A Soul That Ran Wild
شاعرہ : ماہین رسول۔۔۔۔قیمت: 1000روپے۔۔۔۔صفحات:312
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور(04237245072)

اپنی بات کہہ دینا بڑی بات ہے اور ببانگ دہل کہنا اس سے بڑی بات ہے، ماہین رسول نے اپنے خیالات ، جذبات اور محسوسات کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان میں مشاہدے اور محسوسات کا مادہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے، اور وہ ان پر بند باندھنے کی بجائے انھیں آگے بڑھنے کا راستہ دیتی ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے بپھرے ہوئے دریا پر بند باندھا جائے تو وہ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے مگر دریا کو کھلے میدان میں بہنے کا موقع ملے تو وہ دھیرے دھیرے شانت ہو جاتا ہے، شاعرہ نے اپنے خیالات کے بپھرے ہوئے دریا کو رخ دیدیا ہے اب یہ کچھ بہا کر لے جانے کی بجائے شانت ہو جائے گا، تاہم زمانے کی قید اپنی جگہ ہے جس کا بڑا ہتھیار وقت ہے اور یہی آہستہ آہستہ مرہم بنتا ہے۔ انھیں آگے بڑھتے رہنا ہو گا ۔ زیر تبصرہ کتاب انگریزی ادب میں خوبصورت اضافہ ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

۔۔۔

لاہور: شہر پُرکمال

کہتے ہیں، شہر بھی لوگوں کی طرح شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی حدود میں داخل ہونے والوں پراپنی شخصیت کے متنوع بھید وا کرتے ہیں۔ یہ کسی زندہ شہر اور اس میںوارد ہونے والے مسافر پر منحصر ہے کہ اُن میں باہمی محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا پھر نفرت کا۔۔۔۔ اُن میں دوستی پروان چھڑے گی یا عداوت شہر جسے اپنا لے اُسے اوج کمال نصیب ہو اور جسے رد کردے اُسے برباد کرکے رکھ دے۔ صرف مسافت ہی ہمیں بتا سکتی ہے کہ ہم کس شہر کے ہم مزاج ہیں۔ کون شہر ہمیں سینے سے لگائے گا اور کون دھتکار دے گا۔

تاریخ انسانی میں عظیم شہروں کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ ایسا بارہا ہوا کہ کوئی پورا عہد ایک شہر کی عظمت اور چکا چوند سے ممتاز ہوا۔ لاہور بھی دنیا کے اُن شہروں میں شمار ہوتا ہے جو کسی خطہ عرض یا کسی ملک کی حددود میں سمانے کے باعث نامور نہیں، بلکہ ملک اور خطے کو اپنی ہمہ جہت شخصیت کے سحر سے پُرکشش بناتا ہے۔ بے مثال گلوکار مہدی حسن نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے بزرگوں نے نصیحت کی تھی کہ لاہور میں بیٹھ کر ریاضت کرو کیونکہ معیار فن میں اس شہر کا مزاج اتنا کڑا ہے کہ فنکار کو تلوار کی دھار پر چلنے کے قابل بنا دیتا ہے۔

زیر نظر کتاب ’’لاہور: شہر پرکمال‘‘ ایک ایسے شخص کی کاوش ہے جو خود لاہور کے عشق میں گرفتار ہے۔ محمود الحسن کی لاہور سے محبت کا سب سے موثر حوالہ ادب اور ادیبوں کے ساتھ اُس کی مثالی رفاقت ہے اور لاہور وہ شہر ہے، کہ اس کا نام اُردو ادب کے سفر میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب دراصل صاحب کتاب کے اُن تین تفصیلی مضامین پرمشتمل ہے جن میں اُردو ادب کی تین نامور شخصیات کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیال لال کپور کی اِس شہر کے ساتھ شیفتگی کا حال بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضامین اس لیے نہیں لکھے گئے تھے کہ کتاب بنیں گے بلکہ ایف سی کالج کے پروگرام میں پڑھنے کے لیے کرشن چندرپر مضمون لکھا (کرشن چندر ایف سی کالج سے فارغ التحصیل تھے) تو دو ایسی شخصیات راجندر سنگھ بیدی اور کنھیال لال کپور بھی سامنے آگئیں کہ لاہور سے جن کی انسیت کرشن چندر ہی کی طرح مثالی تھی اور وہ بھی تقسیم کے بعد لاہور کے ہجر میں تڑپتے رہے۔

لہٰذا محمودالحسن نے ان پر بھی اسی طرز کے مضامین قلم بند کیے جو شائع ہوئے ۔ پھر یہ ممکن ہوگیا کہ انہیں ایک کتاب کی شکل دی جاسکتی ہے۔ دیباچہ شمس الرحمن فاروقی جیسے عالم بے بدل کے قلم سے ہے جو اس کتاب کو مزید معتبر بناتا ہے۔ ان تینوں ادیبوں کے لاہور کے بارے میں احساسات آج کے دور میں ایک نایاب اثاثہ ہیں کیونکہ جس لاہور نے یہ احساسات پیدا کیے وہ اب ناپید ہے اور جو کچھ بچ رہا ہے وہ بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ پیرس، لندن اور سینٹ پیٹرس برگ جیسے شہروں کے باسیوں نے تو قدیم زمانے کی ایک ایک اینٹ کو اصل حالت میں سلامت رکھنے کے لیے جان لڑائی ہے لیکن ہم نے ماضی کی ان یادگاروں کو مٹنے دیا ہے۔ لاہور کی حقیقی روح کی پرچھائیں اب ہمیں ایسی کتابوں کے صفحات پر ہی ملیں گی۔ کتاب کی پیش کش کا انداز انتہائی شاندار ہے۔اس کتاب کو قوسین پبلشرز نے شائع کیا ہے جو ریڈنگز (گلبرگ) اور کتاب سرائے غزنی سٹریٹ اردو بازار ، لاہور (03009401474) سے حاصل کی جاسکتی ہے۔قیمت 500روپے ہے۔

۔۔۔

زنگار نامہ

اُردو کالم نگاری میں کتنے ہی معرکے کیوں نہ سر ہوئے ہوں، اس کی تعریف کا چوکٹھا ابتداء میں بہت غیر لچکدار ہوا کرتا تھا اور ماضی میں اردو دان طبقے کے نزدیک یہ ایک سنجیدہ بحث ہوا کرتی تھی کہ کسی تحریر کو کالم قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ جس طرح مغرب میں زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ علمی و فکری کام ہوا اور پھر عملی سطح پر اس کے ایسے ہوشربا مظاہر سامنے آئے کہ کوئی ان کے اثرات سے الگ تھلگ نہیں رہ پایا۔ علم و ہنر کے میدانوں میں ارتقاء کی لگامیں جس کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اس کا فکر و فلسفہ پوری دنیا کے معاشروں کی صورت گری پر لازماً اثر انداز ہوتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ جیسے اردو ادب مغربی ادب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تو کالم نگاری کا ہنر کیونکر نئے رجحانات سے الگ تھلگ رہ سکتا تھا۔ لہٰذا ہماری کالم نگاری نے بھی تنوع کی نئی وسعتیں دریافت کیں۔

عامر ہاشم خاکوانی ہمارے ملک کے ان تھوڑے سے کالم نگاروں میں شامل ہیں جو نہ تو حادثاتی طور پر اس میدان میں آئے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے شعبے میں پہلے سے موجود اپنی شہرت کی طاقت کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس رزم گاہ میں اترے ہیں۔ جس طرح نوجوان انجینئر، ڈاکٹر اور پائلٹ بننے کا سپنا دیکھا کرتے ہیں۔ عامر نے اپنی نوجوانی میں خود کو ایک کالم نگار کی حیثیت سے آئیڈیلائز کیا تھا، اس حیثیت کو پانے کے خواب دیکھے اور پھر اس کے لیے جان بھی ماری۔ کالم نگاری میں ان کی حقیقی اننگز کے آغاز اور بڑھت کے جاں گسل مراحل سے مجھ سے بڑھ کر کوئی واقف نہیں کیونکہ میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔

روزنامہ ایکسپریس کے دور میں ان کا شاید ہی کوئی کالم ایسا ہو جو چھپنے سے پہلے میں نے نہ پڑھا ہو اور اس کالم کی تعمیر کے لیے صاحب کالم جو ڈھیروں صفحات کھنگالا کرتے تھے وہ سب سرگرمی میری بغل والی میز پر ہوا کرتی تھی۔ عامر خاکوانی کی کالم نگاری کا جو سب سے نمایاں وصف ہے وہ کسی تجزیے سے نتائج اخذ کرنے کے عمل میں معاملے کے تمام فریقوں سے برابری اور توازن کے ساتھ رجوع کرنا ہے۔ انہوں نے ملکی سیاست و دیگر متنازع معاملات پر رائے زنی کرتے ہوئے کبھی اپنی ذاتی پسند ناپسند کو غالب نہیں آنے دیا۔

اگر کسی شخصیت یا جماعت کی کھل کر حمایت کی تو کسی مایوس کن رویے یا عمل کی گوشمالی میں بھی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ انہیں معاشرتی معمولات میں بگاڑ، علم سے دوری، تعلیمی سرگرمیوں سے تربیت کے رخصت ہوجانے اور اپنی روایات اور فنون سے دوری جیسے رویوں پر شدید دکھ کا احساس ہے اور ان کے کالموں میں ان موضوعات کا ذکر جابجا ملے گا۔

زیر نظر کتاب ان کے کالموں کا دوسرا مجموعہ ہے جو گزشتہ 8 برسوں میں چھپنے والے کالموں میں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ اس انتخاب میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے صرف وہی تحریریں شامل ہوں جن کا اثر وقتی نہیں بلکہ دائمی ہوتا ہے اور پڑھنے والے کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ کل 90 تحریروں کو موٹیویشنل کالم، عمل خیر، کتابوں کی دنیا، زندگی، نقطئہ نظر، معلومات/ شخصیات اور خاندان/ تربیت کے عنوانات کے تحت منظم کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ’’سبق جو کالم نگاری کے سفر میں سیکھے‘‘ کے عنوان سے انتہائی مفید تحریر شامل ہے جس میں ان تمام سوالوں کا جواب موجود ہے جو نو آموز کالم نگاروں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے جسے نئی سوچ پبلشرز، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور (قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن) نے شائع کیا ہے۔اس نمبر

(03404235023) پر گھر بیٹھے بھی منگوائی جاسکتی ہے۔

416 صفحات کی کتاب کی قیمت700روپے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

مجھے میرے ’’رائیڈر‘‘ سے بچاؤ۔۔۔!
ر۔ ط۔ م

آج کل آمدورفت کی جدید ترین سہولت بہ ذریعہ موبائل فون منگائی جانے والی سواریاں ہیں۔ یعنی اب ہم رکشے اور ٹیکسی کے ساتھ اسکوٹر بھی گھر بیٹھے منگا سکتے ہیں۔۔۔ اسکوٹر کا سفر سستا پڑنے کے ساتھ بعض اوقات شدید ٹریفک میں سہولت کا باعث بھی بنتا ہے۔۔۔ سو گذشتہ دنوں ہم نے بھی ایک اسکوٹر بُک کرائی۔۔۔

کہتے ہیں کہ پہلے رکشے ٹیکسی والے کو یہ بتانا پڑتا تھا کہ جانا کہاں ہے اور اب یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ اُسے آنا کہاں ہے! اب اس میں ایک اور ’بیماری‘ بھی سرایت کرگئی ہے کہ پوچھا جاتا ہے کہ کرایہ نقد دیں گے یا کارڈ سے؟ اس کے بعد ہم انتظار کرتے رہیں، پتا چلتا ہے کہ وہ صاحب کہیں گپیں ہانکنے میں مصروف ہیں، اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ گاڑیوں کے ازدحام سے نکلنے کی جستجو میں ہیں، یکایک ہم موبائل میں دکھائے گئے نقشے میں دیکھتے ہیں کہ موصوف تو کہیں اور چلتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ ہم نے انہیں کئی ’پیغام‘ لکھ بھیجے سرکار کہاں چلے؟ مگر جواب ندارد۔۔۔ لیجیے اب 10، 15 منٹ آپ کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر موصوف بکنگ ’منسوخ‘ کر کے رفوچکر ہو چکے ہیں اور اب ایک نیا ’چہرہ‘ موبائل پر آکر ہماری بے بسی کو منہ چڑا رہا ہے کہ اب نزدیک ترین ’صاحب‘ یہ ہیں۔ یعنی اب آپ کے سفر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔۔۔ بس ’پانچ‘ منٹ میں آپ کے روبرو ہوں گے۔ پھر دوبارہ سے وہی جواب سوال۔۔۔ قسمت اچھی ہوئی اور ان کا دل چاہا تو وہ آجائیں گے، نہیں تو وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ آخر ابھی آپ اتنے بڑے تو نہیں ہوئے کہ آپ کے وقت کی بھی کوئی قیمت ہو!

یہ تو ہوگئی معمول کی مشق۔۔۔۔ اب اصل ماجرا سنیے، اس تمام کارروائی سے گزرنے کے بعد ہم منتظر رہے کہ ہماری سواری اب آتی ہے کہ تب آتی ہے۔۔۔ خدا خدا کر کے کہیں موبائل کے نقشے میں ان کی بالکل نزدیک ’موجودگی‘ ظاہر ہوئی، لیکن ہم اِدھر اُدھر دیکھا کیے، کہ ان کی کوئی خبر تو ملے۔ یہ بالکل ’قبل از موبائل فون‘ زمانے کی معشوق سے پہلی ملاقات جیسا ہے، جس میں بتایا جاتا تھا کہ میں فلاں رنگ کے کپڑے پہنے، فلاں جگہ پر کھڑی ہوئی چیونگم چبا رہی ہوں۔۔۔ مگر یہاں تو گاڑی کی بتائی گئی نمبر پلیٹ بھی اکثر غلط نکلتی ہے، کبھی تو بندہ بھی کوئی اور ہوتا ہے، اور ہم کھڑے ہکا بکا ہی رہ جاتے ہیں کہ خدایا یہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا۔۔۔ آنا زاہد کو تھا اور آ شاہد گیا۔۔۔ اب یہ معاملہ بھی یہاں تک ہوتا تو ہم چپ ہوکر اِسے عادت بنانے کی کوشش کرتے، لیکن بات کچھ ایسی تھی کہ آپ نے بھی شاید ہی کبھی سنی ہو۔ ابھی ہم ان سے پوچھ ہی رہے تھے کہ ’سرکار، بتلائیے تو سہی آپ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کہ اچانک ہمارے فون نے ’خبر‘ کی کہ ہمارا تو سفر بھی شروع ہو چکا ہے۔۔۔!

’لو بھئی، یہ کیا مذاق ہے۔۔۔؟‘ ہم نے بارہا اپنی آنکھیں ملیں کہ کہیں واقعی ہم محو سفر تو نہیں۔۔۔ لیکن صاحب ہم خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتے ہیں کہ ہم وہیں بقید ہوش وحواس کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ ایک طرف ہمیں تاخیر ہو رہی ہے، تو دوسری طرف یہ ناگہانی افتاد آن پڑی۔۔۔ انہیں فون کیے، میسج کیے، کوئی جواب نہیں۔ آخر کو ہار کر چاہا کہ ہم اپنا یہ ’سفر‘ منسوخ ہی کر ڈالیں، کیوں کہ ہم تو اس سفر میں مسافر ہی نہیں، یہ سفر تو ہمارے نام پر کوئی اور کر رہا ہے!  گویا؎

’’رائیڈ‘‘ میری تھی مگر اس پر سفر اُس نے کیا!

لاکھ جتن کرلیے کہ کسی طرح یہ سفر منسوخ بھی نہ ہوا، منطقی اعتبار سے تو بات درست تھی کہ جب سفر ہو ہی نہیں رہا تو منسوخ کیا ہو۔۔۔! لیکن موبائل فون پر دکھائی دینے والا نقشہ برابر یہ بتا رہا تھا کہ اب ہم فلاں جگہ سے گزر رہے ہیں۔۔۔! عجیب تماشا تھا، ہم نے دل پر جبر کر لیا، مگر جب تک ’ہماری‘ سواری پر ’نامعلوم‘ مسافر کا سفر جاری رہا، تب تک ہم اور کوئی دوسری سواری منگوانے سے بھی تو قاصر تھے۔۔۔ یہ واقعی بہت بڑی مشکل تھی، آخر کو اس ’سُوپر‘ سروس پر چار حرف بھیجے اور دیسی طریقے سے رکشا پکڑ کر منزل کی راہ لی۔

کہاں تو یہ آن لائن ٹیکسی کی اتنی بڑی سروس کہ جس نے کراچی جیسے شہر میں لوگوں کے دل موہ لیے تھے اور اتنی ’اُوپر‘ ہوئی کہ اپنی اُس ہم عصر کمپنی کو بھی خرید لیا، وہی کمپنی جس نے اپنی بائیک سواری کے متنازع اشتہار سے ’شہرت‘ حاصل کی تھی جس میں دلہن کو بتایا گیا کہ اگر شادی سے بھاگنا ہو تو ’سلیم‘ کرو!‘ مانا کہ نہ ہم شادی سے فرار ہورہے تھے اور نہ ہی ہم نے ’سلیم‘ کی تھی، لیکن اصولی طور پر ’سلیم‘ اب انہی کے کھاتے میں ہے، تو کیا یہ برق رفتاری صرف دلہن کو شادی سے بھگانے کے لیے ہے؟

ہمارے پاس اُس رائیڈر کا نام اور بائیک کا نمبر بھی محفوظ ہے، ہم نے اس گھناؤنی حرکت کی باقاعدہ شکایت درج کرائی، لیکن کوئی جواب تک نہیں دیا گیا۔۔۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے باقاعدہ مسافر سے بھی منظوری لی جائے، جس سے یہ تصدیق بھی ہو جائے کہ آیا سواری لے کر بھی جائی جا رہی ہے یا نہیں۔۔۔!

۔۔۔

محبت سے میرا اعتبار کبھی ختم نہیں ہوتا!

مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر

آج سورج نے ساڑھے پانچ بجے رخت سفر باندھا تو احساس ہوا کہ دن کی طوالت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے اور ہوا شدت سے نہ چلے تو دن میں براہ راست دھوپ کے مزاج میں خاصی تیزی محسوس ہوتی ہے۔ موسم نے برف کے بستر پر سبک کروٹیں لینا شروع کر دی ہیں اور میری نگاہیں نادانستگی میں ڈینڈلائن کے ننھے چمک دار سورج ڈھونڈتی ہیں، مگر ان کی نیند ابھی نہیں ٹوٹی۔ نم دار جگہوں پر گھاس کی پتیاں ہری ہیں اور ننھے جامنی پھول بھی سفاک جاڑے سے مقدور بھر مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

صبح آنکھ کھلتے ہی میرا رخ پرندوں کے دسترخوان کی جانب ہوتا ہے اور جب انہیں خالی برتن کے کناروں پر منتظر بیٹھا پاتی ہوں تو ان کی محبت اور بھروسا میرے کاسۂ دل کو خوشی کے سنہری سکوں سے لبالب بھر دیتے ہیں۔ میرے ننھے دوست! ان انتظار کرنے والوں میں ایک ’لنڈورا پنچھی‘ بھی شامل ہے۔ اس کی دُم شاید کسی بلی کے حملے میں کام آ گئی، مگر خوش قسمتی سے جان بچ گئی تو اب وہ اچھلتا ہوا سب سے پہلے کھانا کھانے آتا ہے۔

خوش گلو بلبلیں، ہمالیہ کے مہمان اور سر تا پا سیاہ رنگ اوڑھے چمک دار پروں والے کوے! سبھی موجود ہوتے ہیں اور ان کی میزبانی کا سلسلہ شام ڈھلے تک جاری رہتا ہے۔

میں زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوتی اور محبت سے میرا اعتبار کبھی ختم نہیں ہوتا کیوں کہ زندگی میں اس کی آمد ہر سمت سے ہوتی ہے۔ اگر ہماری محبتوں کا کچھ حصہ حملہ آوروں کے باعث کھو بھی جائے، تو سر گھٹنوں میں دبائے زندگی کے خاتمے کا ماتم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اچھلتے ہوئے پرندے کی مانند دوبارہ لوٹ آنے والی محبت کا انتظار کرنا چاہیے، جو اپنی دم کے لمبے اور شان دار پروں کے پھر سے اگ آنے کا عرصہ اپنی زندگی کی حفاظت میں گزار رہا ہے۔

اگر آج بارش ہے تو کل چمکیلا سورج بھی آئے گا۔ ابھی سخت جاڑا اپنے رنگ دکھا رہا ہے۔ تو وہ دن بھی آئیں گے، جب سحاب (بادل) بہار زمین اور اہل زمین کو وہ انوکھی بارشیں عطا کریں گے، جن میں سیپ میں موتی پڑتا ہے، گائے کے سینگوں میں گلوچن بنتی ہے اور بانس میں بنسلوچن (مخصوص رس) کا جنم ہوتا ہے۔کٹھن دنوں میں زندگی خوشی اور محبت کی امیدوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور یہی یقین ہمیں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جانے سے بچائے رکھتا ہے۔

اگر آپ اپنے گرد تتلیاں دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پھول کھلانے ہوں گے اور اگر خوشی، سکون اور راحت درکار ہو تو غیر مشروط، بلاجواز اور مسلسل محبت کرنی ہو گی کہ کائنات میں حیات کا جوہر فقط محبت ہے۔۔۔!

۔۔۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا اپنے قارئین کے نام خط

ابو سلمان شاہ جہاں پوری

ستمبر 1913 میں ’’الہلال‘‘ سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی تھی۔ جو نومبر 1914 میں ضبط کرلی گئی، اس زمانے میں عام طریقہ یہ تھا کہ دو ہزار کی ضمانت ضبط کر لینے کے بعد 10 ہزار کی ضمانت مانگی جاتی تھی، چناں چہ ’’الہلال‘‘ سے بھی مانگی گئی، یہ ضمانت بھی شاید داخل کر دی جاتی، مگر چوں کہ اس کے بھی ضبط ہو جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے ضمانت داخل کرنے کے بہ جائے ’’الہلال‘‘ بند کر کے دوسرا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ نیا اخبار ’’البلاغ‘‘ کے نام سے جاری ہوا جس کا پہلا نمبر 12 نومبر 1915 کو شایع ہوا۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کی خدمات کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دیے ہیں اور انہیں مقبول و محبوب بنا دیا ہے۔ اگر ’’الہلال‘‘ نے اپنی زندگی کے لیے دستِ سوال پھیلانا جائز سمجھا ہوتا تو 10، 20 ہزار کی فراہمی میں دو چار دن سے زیادہ مدت نہ لگتی، لیکن اس نے اسے پسند نہ کیا اور یہ تمام امر تمام بزرگوں پر روشن ہے۔

’’الہلال‘‘ کے دوبارہ جاری کرنے کے لیے اب تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور صرف روپے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے، اس لیے صرف اتنی تکلیف خریدارانِ ’’الہلال‘‘ کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ چھے ماہ کی قیمت پیشگی مرحمت فرمائیں۔ جو دفتر ’’الہلال‘‘ کے ذمے ان کا قرض حسنہ ہوگا اور جسے خریداری کے حساب میں مجرا کیا جائے گا۔ ’’الہلال‘‘ کی شش ماہی قیمت اصل چھے روپے بارہ آنے ہے، لیکن وہ صرف چھے روپے بھیج دیں۔

بعض خریداروں کی قیمت ختم ہونے کے قریب ہے، بعضوں کا سال شروع ہوا ہے، لیکن یہ درخواست تمام خریداروں سے ہے۔ انہیں اپنے حساب کا خیال نہ کرنا چاہیے، جس وقت ان کی پچھلی قیمت ختم ہو جائے گی، اس کے بعد ہی اس رقم کو ان کے حساب میں جمع کر لیا جائے گا، قیمت انہیں بہر حال آیندہ دینی ہی ہے۔ ’’الہلال‘‘ صرف اتنی ہی اعانت اپنے وسیع حلقۂ معاونین سے چاہتا ہے، اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس موقعے پر دفتر کو روپے کی دقت کا سامنا نہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے مشکلات رہا ہے۔ اگر اس تحریر کو دیکھتے ہی روپیا آپ نے روانہ کردیا تو ہفتے کے اندر ’’الہلال‘‘ شایع ہو جائے گا۔

دوسری درخواست نئے خریداروں سے پیشگی قیمت بھجوانے کی ہے، جس سے بہتر، جائز طریقہ پریس کی اعانت کا اور کوئی نہیں۔

فقیرابوالکلام

14۔میکلوڈ اسٹریٹ۔کلکتہ

(مکاتیب ابوالکلام آزاد، جلد اول سے لیا گیا)

۔۔۔

جاڑے کی سوگواری

محمد علم اللہ، نئی دلی

سردیاں ابھی اپنے جوبن پر نہیں آئی تھیں، لیکن شامیں سوگوار سردی کی چادر اوڑھنے لگی تھیں۔ جامعہ میں ’ہائی جینک کیفے‘ کے ایک دم سامنے کا پارک رات پڑتے ہی اداسی کے دیوان سے کوئی غزل نکال کر پڑھنے لگتا تھا۔ ذرا بہت سی رونق نماز شروع اور ختم ہوتے وقت ہوتی جب اللہ کے بندے پارک کے سامنے واقع مسجد میں آتے اور جاتے دکھائی دیتے۔

ہائی جینک کیفے جو دن میں حسین چہروں، زلفوں اور شوق نگاہوں سے گھرا رہتا تھا وہ بھی سرد شام کی اس اداسی میں ویرانے کی پراسرار کٹیا معلوم ہوتا۔ کیفے میں کام کرنے والا وہ لڑکا جس کے ابا پچھلے برس مر گئے تھے پرانی جرسی میں مڑا تڑا سا بیٹھا رہتا۔ اسے وقت مقررہ تک کیفے کھولے رکھنا تھا کہ یہی اس کی ذمہ داری تھی اب بھلے سے کوئی آئے یا نہ آئے۔ اداس سرد شام میں وہ کاؤنٹر کے پیچھے سے سامنے کی نیم تاریک سڑک کو یوں گھورا کرتا تھا، جیسے کسی کا منتظر ہو یا کسی کے چپکے سے گزر جانے کا دھڑکا لگا ہو۔ میں ایک شام ادھر سے نکلا تو اس لڑکے کی اداس آنکھیں میرے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ میں نے کاؤنٹر کی جالی کے قریب جاکر اس سے پوچھا۔

’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں اس کی دکان کا مستقل گاہک تھا اس لیے ذرا بے تکلفی سی تھی۔ کہنے لگا ’ابا آج ہی کے دن دنیا سے گئے تھے، بہت یاد آ رہی ہے ان کی۔‘ بات ختم کرتے کرتے اس کی آواز رندھ گئی، تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے جذبات کے ستار پر چڑھے نازک ترین تار چھیڑ دیے ہیں۔ میں نے جلدی سے موضوع بدلا اور پوچھا ’’آج اشتر آیا تھا؟‘‘

اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں بس بولتا چلا گیا۔ آج امی کا فون آیا تھا۔ بول رہی تھیں لحاف بھروانے ہیں کچھ پیسے ہوں تو بھیج دینا۔ میں نے بولا ہے بھیج دوں گا۔ امی کو سردیوں میں دمے کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ وہ تو لحاف میں بھی ٹھٹرتی ہیں۔ پتا نہیں ان دنوں کیسے گزارہ کر رہی ہوں گی؟

میں اس کے مونولاگ کا سلسلہ توڑنا چاہتا تھا، لیکن جیسے مجھے اس کی بات کاٹنے کو لفظ ہی نہ مل رہے ہوں اور وہ تھا کہ اپنی کہے جا رہا تھا۔

ہمارے گھر میں ابا کے لائے ہوئے دو لحاف تھے لیکن ابا کے بعد جب بہن کی شادی کی تو امی نے انہیں لحافوں کی روئی سے اس کے جہیز کے لحاف کیے۔ اب ہمارے گھر میں لحاف نہیں ہیں۔ وہ لحاف کے خول ہیں۔ امی کے لیے لحاف ضروری ہیں۔ کل کہیں سے پیسوں کا انتظام کر کے بھجواؤں گا ورنہ امی سردی سے اکڑ جائیں گی!

میں اس کی باتیں بت کی طرح کھڑا سنتا رہا۔ پھر وہ جیسے خود ہی چونکا۔ اوہ میں نے بھی آپ کو کن باتوں میں لگا لیا۔ بند کرنے کا وقت ہو رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر پر سجے مشروبات سمیٹنے لگا۔ کیفے کی بتیاں کب بند ہوئیں اور کب شٹر گرا مجھے کچھ خبر نہ ہوئی۔ میں دیر تک اُس اداس جاڑے کی سوگواری بنا بیٹھا رہا۔۔۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

مایوسی اور ڈپریشن

$
0
0

حکم ربانی:

ترجمہ: لوگوں کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور اگر ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ )الروم (36:30

ترجمہ: انسان اپنے لیے بھلائی مانگنتے نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔)حَمٓ السجدہ (49:41

فرمان نبوی ﷺ :

ترجمہ: اللہ تعالی اس شخص (کی نادانی) پر ہنستے ہیں جو اس سے مایوس ہوکر غیر سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

ترجمہ: دو صحابی کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے۔ آپؐ اس وقت گھر کا کچھ کام کر رہے تھے، ہم نے آپؐ کا ہاتھ بٹایا۔ آپؐ نے فرمایا رزق کے معاملے میں کبھی اللہ سے مایوس نہ ہونا خواہ تمہاری حالت کتنی ہی کمزور ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کتنا کمزور اور عاجز ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا انتظام کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)

مایوسی سے کیا مراد ہے؟

کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ نکلنے سے بعض لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو ان سے وہ عمل بھی ترک کروا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو مایوسی کہتے ہیں۔ مایوسی کی کئی قسمیں اور کئی اسباب ہیں تاہم ترک عمل اس کا بنیادی خاصہ ہے۔ مایوس آدمی ترک عمل کے ساتھ ساتھ بعض حالات میں اللہ سے شاکی بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صورت ہے جو دینی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔

 مایوسی کے اسباب

مایوسی کے چند بڑے اسباب و محرکات یہ ہیں:

-1 ارادے کا پورا نہ ہوسکنا: مثلاً ایک آدمی نماز پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور تھوڑی بہت کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ یہ ناکامی اسے مایوسی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور وہ یہ سوچ کر اپنی کوششیں چھوڑ دیتا ہے کہ میں کچھ بھی کرلوں نمازی نہیں بن سکتا۔

-2 کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ برآمد ہونا: مثلاً نماز پڑھنا مگر خشوع حاصل نہ ہونا، ذکر کرنا لیکن لیکن اطمینان قلب سے محروم رہنا، رزق حلال کا اہتمام رکھنا مگر افلاس سے نجات نہ پانا۔ قرآن پڑھنا مگر طبیعت پر اس کا اثر نہ ہونا، کوئی پسندیدہ دینی منصوبہ بنانا مگر اسے روبہ عمل لانے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا، کسی چیز کے لیے دعائیں کرنا مگر وہ چیز حاصل نہ ہونا وغیرہ۔

-3 دنیاوی زندگی کا غلط تصور یعنی دنیاوی مسائل اور مشکلات کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ دین پر چلنے کا دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ خیال رفتہ رفتہ آدمی میں مایوسی کا مستقل حال پیدا کردیتا ہے۔

-4 انسانی کمزوریوں اور خرابیوں کا شدید تاثر: یعنی ایک شخص کو اتفاق سے زیادہ تر ایسے لوگ ملتے ہیں جو بددیانت، وعدہ خلاف، ظالم …. وغیرہ ہوتے ہیں۔ مسلسل پیش آنے والے اس تجربے سے بھی مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے گرم جوشی کے ساتھ دین سے وابستہ نہیں رہنے دیتی۔

-5 غمگین طبیعت اور قنوطی ذہنیت: یہ نفسیاتی عوارض ہیں جن میں مبتلا ہوکر آدمی مستقبل کی ہر صورت اور اپنے پورے حال سے مایوس رہتا ہے۔

 مایوسی کے نقصانات

اس کے چند بڑے نقصانات یہ ہیں:

-1 مایوسی کا کم سے کم نقصان بھی بندگی میں ضعف پیدا کرتا ہے اور انتہائی نقصان یہ ہے کہ آدمی کفر تک جاپہنچتا ہے۔ گویا مایوسی کی ہر سطح پر ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس سے اللہ کے ساتھ تعلق کمزور پڑجاتا ہے۔

-2 اللہ کی رحمت، نعمت اور قدرت کا عدم استحضار: مایوسی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مایوسی کے سبب کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ یہ خیال اتنا غالب آجاتا ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ اللہ اس پر قادر ہے یا اس کی مہربانی عام ہے یا اس کی نعمتوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ اس حالت کی دو پہچانیں ہیں۔ اس میں مبتلا شخص دعا کرنے کے تصور ہی سے بیزاری محسوس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کا اعلان کرتا پھرتا ہے مثلاً (نعوذ باللہ) اللہ نے میرے ساتھ بڑا ظلم کیا،

’’کیا امتحان کے لیے میں ہی رہ گیا تھا؟‘‘، ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ نے مجھے پیدا کیوں کیا؟، … وغیرہ وغیرہ۔

-3 ناشکری یعنی اللہ کی بے شمار نعمتوں کا احساس نہ رہنا۔

-4 خود غرضی: ایسا آدمی ہمیشہ اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے اور دوسروں کے کام آنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

-5 سنگ دلی اور بے حسی: جو لوگ معاشرے وغیرہ کی طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ طبعاً سنگ دلی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مایوسی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس خرابی میں بھی زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے اردگرد کی خرابیاں تو گنوا دیتے ہیں مگر انہیں دور کرنے میں خود جوکردار ادا کرسکتے ہیں نہیں کرتے۔

-6 خودکشی کا میلان: یہ نفسیاتی مایوسی کا لازمی اثر ہے۔

-7 منشیات کا استعمال: مایوس آدمی تسکین کے ایسے ذرائع ڈھونڈتا ہے جنہیں اخلاق اور معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ اس لیے اس حالت میں مبتلا لوگوں کی اکثریت منشیات کی طرف چلی جاتی ہے۔

-8 انتقام پسندی: مایوسی کی اکثر قسمیں آدمی کے اندر انتقام اور تخریب کے جذبات پیدا کردیتی ہیں۔

-9 انسانوں خصوصاً والدین اور بھائی بہنوں سے نفرت:مایوسی آدمی کی ایک نفسیات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں سے چڑنے لگتاہے جو اس کے قریب ہوں اور اس کی دسترس میں ہوں۔ اس لیے ایسا شخص سب سے پہلے ان لوگوں کو نشانہ نفرت و تحقیر بناتا ہے جو اس کے ہمدرد اور خیر خواہ ہوں اور اس سے محبت کرنا جن کی مجبوری ہو۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ والدین، بھائی بہن، بیوی بچے یا قریبی دوست ہی ہوسکتے ہیں۔

-10 بے عملی

-11 ہر چیز کومنفی انداز میں دیکھنا۔

-12 پاگل پن: مایوسی اپنی جگہ ایک ایسا مرض ہے جو ذہنی خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے یہ خرابی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ مکمل دیوانگی کی نوبت آجاتی ہے۔

سوال: مایوسی کے بعض اسباب حقیقی اور واقعی ہوتے ہیں کیا اس صورت میں بھی مایوسی گناہ ہے؟

جواب: بلاشبہ مایوسی کا سبب زیادہ تر حقیقی ہوتا ہے لیکن اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں ہے۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ مایوسی کا محرک نارمل اور حقیقی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور ہر آدمی جانتا ہے کہ بعض خرابیوں یا محرومیوں کا ازالہ ضروری ہونے کے باوجود ناممکن ہے لیکن یہ احساس چند لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے جب کہ باقی لوگ کام میں لگے رہتے ہیں یا تنگ آکر متعلقہ کوشش کو چھوڑ کر کوئی اور ہدف تلاش کرلیتے ہیں یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرکے اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ تینوں ردعمل بالکل نارمل ہیں اور آدمی کو اس کی معیاری سطح پر قائم رکھتے ہیں جبکہ وہ شخص جو مایوس ہوگیا، مایوسی کا مضبوط سبب تو یقیناً رکھتا ہے لیکن  اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس سبب نے اسے امید کے بیشمار اسباب سے منقطع کیوں کردیا۔ اس کا اصلی جواب یہ ہے کہ مایوسی کا غلبہ عام طور پر ایسے لوگوں پر ہوتا ہے جو انسانیت، انسانی ذمہ داری اور زندگی کا نہایت محدود بلکہ غلط تصور رکھتے ہیں۔ امید سے خالی ہوجانا کسی بھی دلیل اور سبب سے انسانی حال نہیں ہے، خاص طور پر مسلمان کے لیے تو یہ اس کا دینی فریضہ ہے کہ مسلسل ناکامیاں بھی اسے کم از کم ناامید نہ ہونے دیں، چاہے کامیابی کی لگن اور اس کے لیے درکار کوشش کمزور ہی کیوں نہ پڑ جائے۔

مختصر یہ کہ مایوسی سمجھ میں آنے والے اسباب کے باجود ذہن اور طبیعت کے ردعمل کی وہ قسم ہے جو آدمی کو اپنی فطرت پر استوار نہیں رہنے دیتی۔ یہاں فطرت سے مراد انسان کے وہ مجموعی حدود ہیں جن سے تجاوز کرنا انسانی فعل یا حال نہیں کہلائے گا۔ اپنی استعداد پر نظر کرکے کسی مطلوب کام کے نہ ہوسکنے کا یقین مایوسی نہیں ہے، البتہ یہی یقین جب اہمیت اختیار کرجائے اور معاملہ اپنی استعداد اور صلاحیت سے بڑھ کر اللہ کی قدرت و انصاف وغیرہ تک پہنچ جائے تو اس سے جو شکایت آمیز حالت پیدا ہوتی ہے وہ کسی بھی دلیل سے بندگی کی حالت نہیں کہلاسکتی۔ گویا مایوسی بندگی کے لازمی احوال اور شعور کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس کا تسلط اول تو آدمی کو ضروری عمل کے قابل ہی نہیں چھوڑتا اور اگر تھوڑے بہت عمل کی صورت پیدا بھی ہوجائے تو اس سے وہ ضروری تعلق باقی نہیں رہتا جو بندے اور اس کے اعمال کے درمیان ہونا لازمی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو مایوسی صرف عمل ہی نہیں بلکہ اس کی نیت اور اس کے شعور کو بھی مسخ کر دیتی ہے۔ عمل کی نیت اور شعور ہمیں اس کی نتیجہ خیزی کا یقین دلاتا ہے۔ یہ یقین ہی نہ رہے تو عمل کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔

مایوسی کے انہی انقصانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بار بار فرمایا ہے کہ انسان کوکسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اسے انسان کی تھڑ دلی قرار دیا ہے کہ وہ ذرا تکلیف آئے تو اللہ کی ساری نعمتوں کو بھلا کرمایوس ہونے لگتا ہے اور انسان کو بار بار یہ یقین دلانے کے بعد کہ اللہ ہر وقت انسان کی مدد کرنے پر قادر ہے اور وہ اپنی طرف لوٹنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے۔ یہ انذاز بھی کیا ہے کہ اس کے باوجود جو مایوس ہوکر اللہ سے منہ موڑتے ہیں وہ گمراہ اور کافر ہیں اور دنیا میں ذلت و نامرادی کے علاوہ آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔

سوال: مایوسی کے بارے میں کافی سخت باتیں ہوگئیں۔ تجربے میں آیا ہے کہ مایوسی کی کئی قسمیں ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے ان قسموں کو بیان کردیا جائے تاکہ تشخیص اور علاج میں آسانی رہے؟

جواب: اصولی طور پر مایوسی کی دوہی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ترک عمل تک پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسری میں عمل کی صورت بدل جاتی ہے۔ وہ مایوسی جو بے عملی کا سبب بنتی ہے مضر ہے جب کہ دوسری قسم بعض شرائط کے ساتھ تو مضر ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس کا کوئی دینی ضرر نہیں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ضروری دینی عمل سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی صورت میں ایک آدمی خود اس عمل کی افادیت اور اہمیت کا منکر ہوجاتا ہے اور اسے چھوڑ بیٹتھا ہے جبکہ دوسرا آدمی اسی صورت حال میں اس عمل کی کسی دوسری افادیت کو اپنا ہدف بنالیتا ہے اور اس عمل پر قائم رہتا ہے۔ وہ شرائط جن کی موجودگی اس دوسرے آدمی کے لیے مضر ہے، ان میں بنیادی طور پر ایک چیز پائی جاتی ہے اور وہ ہے اس عمل کے درجے کو نہ ماننا، یعنی ایک آدمی نماز کے مطلوبہ اثرات سے محروم ہوکر نماز تو پڑھتا رہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ تصور بھی رکھتا ہے کہ نماز تو بس ایک عادت ہے ورنہ اس میں کچھ رکھا نہیں۔ یہ وہ خرابی ہے جو ایمان کے خاتمے تک لے جاسکتی ہے اور اس کے سامنے مایوسی کی پہلی قسم قدرے کم خطرناک ہے۔ شکایت بہرحال نفاق یا انکار سے کم مضر ہوتی ہے۔

اب ہم دونوں صورتوں کی ٹھوس مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص کی نماز طویل کوشش کے باوجود اچھی نہیں ہو رہی اور نماز کے جو نتائج زندگی میں نکلنے چاہئیں وہ نہیں نکل رہے تو اس صورت میں اس شخص کے اندر کئی طرح کے ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً

-1 وہ یہ کہہ کر نماز چھوڑ سکتا ہے کہ نماز میرے بس کی بات نہیں۔

-2 وہ نماز تو نہیں چھوڑتا لیکن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ نماز کی خوبی اور تاثیر کے بارے میں مبالغہ کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں عملاً قابل حصول نہیں ہیں۔

-3 یہ آدمی نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اور نماز کے حکم کا بھی انکار کردیتا ہے۔

یہ مایوسی کے وہ نمونے ہیں جو شرعاً خطرناک ہیں اور آدمی کو کسی ہولناک انجام تک لے جاسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثال اور بھی ہے جو کم مضر ہونے کی وجہ سے ہم نے اوپر نقل نہیں کی، وہ یہ کہ ایسا آدمی یہ تصور کرکے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز سے خوش نہیں ہے، نماز کو چھوڑ کر کسی اور نیک کام مثلاً خدمت خلق وغیرہ میں لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجائے گا۔ اس فیصلے کی غلطی واضح ہے تاہم ایک بات یقینی ہے کہ یہ آدمی اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اجمالاً کہا جائے تو شرعی نقطۂ نظر سے مایوسی ایک بڑا نقص ہے جو شدید کفر و نفاق میں بدل سکتا ہے ورنہ اپنی معمولی حالت میں بھی یہ بندگی کی کسی نہ کسی مضبوط بنیاد کو کمزور ضرور کردیتا ہے۔

 مایوسی کا علاج

مندرجہ ذیل امور مایوسی کو ختم یا کم کر سکتے ہیں:۔

-1 صرف عمل کے ہو جانے کو کافی سمجھنا اور اس کی کوالٹی کو وقتی طور پر فراموش کردینا۔کوالٹی ظاہر بھی ہوسکتی ہے یعنی حسن ادائی کی صورت میں اور باطن میں بھی ہوسکتی ہے یعنی کیفیت۔

-2 اس یقین کو ایک مانوس پیرائے میں پختہ کرنے کی کوشش کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب بندہ اپنی شرائط پر اصرار کرنے لگے۔

-3 اس یقین کا بار بار اعادہ کہ میری بہتری کی حتمی صورت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ میرے لیے جو کچھ کرتا ہے اچھا کرتا ہے خواہ یہ اچھائی اس زندگی میں تکلیف دہ صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔

-4 دنیا محض دارالعمل ہے۔ نتائج آخرت میں سامنے آئیں گے۔ عمل اپنی روح میں مشقت، امتحان، اطاعت اور تسلیم کا نام ہے۔ اس سے عافیت، راحت، تسکین وغیرہ کا مطالبہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ تمام چیزیں نتائج کے اوصاف ہیں جو عمل سے فارغ ہوکر میسر آئیں گے۔

-5 قرآن سے ایسا تعلق پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کہ اس کا ذوق غالب آجائے اور اللہ کا کلام نہ صرف یہ کہ عمدہ اور محفوظ طریقے سے سمجھ میں آنے لگے بلکہ دل پر اثر بھی کرے۔ اس کے بغیر وہ دینی احوال نہیں پیدا ہوسکتے جن سے محروم ہوکر مسلمان ہونے کا کوئی حقیقی مطلب نہیں ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ دین سے دور لے جانے والے احوال پر اگر کوئی چیز حاوی آسکتی ہے تو وہ تعلق بالقرآن اور حبّ رسول اللہﷺ ہے۔

-6 رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ بلکہ یہ بندگی کی تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے اور اس سے مناسبت پیدا کرکے انسانی طبیعت اپنے اندر واقع ہونے والی ہر خرابی پر غالب آسکتی ہے۔

-7 ایسے لوگوں کی سرگزشت کا مطالعہ جو پے درپے ناکامیاں اور مصائب جھیل کر بالکل نیچے سے اوپر آئے اور انسانی تاریخ کو ایک فیصلہ کن موڑ دینے والے کی حیثیت سے اپنا نام منوا گئے مثلاً حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، سیدنا بلال حبشیؓ، تیمور لنگ، ظہیر الدین بابر، سٹیفن ہاکنگز وغیرہ۔

-8 تفریح خصوصاً ایسے کھیل کود جو جسم کو تھکاتے ہیں۔ ان کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی مشقت اور اس کے اچھے نتیجے کے تصور سے عملاً مانوس ہوجاتا ہے۔

-9 خدمت خلق یعنی لوگوں کے مسائل حل کرنا۔ اس کے نتیجے میں اس خود مرکزیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو مایوسی وغیرہ کی ماں ہے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی تگ و دو کرنے والا اپنی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہیں نکال سکتا۔ مایوس آدمی کو یہ چیز شدت سے درکار ہوتی ہے۔

-10 اگر کوئی نفسیاتی عدم توازن ہو تو ماہر نفسیات کے پاس ضرور جانا چاہیے۔

(از کتاب ’’ترک رذائل‘‘۔)

The post مایوسی اور ڈپریشن appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ بھارتی قوم پر تاریخ کے نام پر جھوٹ مسلط ہوچکے‘‘

$
0
0

اٹھاسی سالہ پروفیسر عرفان حبیب کا شمار بھارت کے ممتاز ترین تاریخ دانوں میں ہوتا ہے۔والد بھی منفرد دانشور تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے علم تاریخ میں ڈی لٹ کی ڈگری لی۔ کئی برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے منسلک رہے۔ آج بھی پیرانہ سالی میں بطور پروفیسر ایمرطیس طالبان علم کی علمی پیاس بجھارہے ہیں۔2005 ء میں بھارتی حکومت نے  پدما شری اعزاز سے نوازا۔تاریخ،تحریک آزادی ہند اور عمرانیات کے موضوعات پر گیارہ کتب شائع ہو چکیں۔ ترقی پسند، معتدل مزاج اور دلیر دانش ور ہیں۔ بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی کو کڑے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔تقریروں،مضامین اور گفتگوؤں سے کشید کردہ آپ کے علمی و سیاسی افکار و خیالات کا انتخاب  نذر قارئین ہے۔

 جموں و کشمیر میں کیا ہوا؟

سب سے پہلے تو یہ سمجھیے، موجودہ شدت پسند بھارتی حکمران طبقے کا طریق واردات یہ ہے کہ وہ تاریخ کے نام پر جھوٹ بول کر اپنے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے علم تاریخ کو بھی اپنا آلہ کار بنا چکے۔ ریاست جموں و کشمیر ہی کو لیجیے۔سنگھ پریوار(آر ایس ایس ، بی جے پی وغیرہ) کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ ماضی میں ہندو بادشاہ ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کرتے رہے ۔ اسی لیے یہ ریاست ہندو راشٹریہ کا ضرور حصہ بنے گی۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ان لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہندوؤں نے ریاست میں بستیاں بسائیں۔حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سال قبل وسطی ایشا سے آنے والے قبائل نے کشمیر میں اولیّں انسانی قائم کیں۔ یہ قبائل مظاہر پرست تھے اور بت پرست بھی۔ دو ہزار سال قبل بدھ مت کے نام لیوا بادشاہ کشمیر پر حکمرانی کرنے لگے۔ پھر شیوا دیوتا کے پیروکاروں نے وہاں حکمرانی قائم کرلی۔ بارہویں صدی کے بعد ریاست پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران یونانی اور افغان بھی کشمیر میں آتے جاتے رہے۔

غرض کشمیر کا علاقہ پچھلے تین ہزار سال سے مختلف اقوام اور مذاہب کی آماج گاہ رہا ہے۔ اسے ہندو شدت پسندوں کی جاگیر قرار دینا بالکل غلط ہے۔ مگر وہ اب طاقت کے بل بوتے پر تاریخی حقائق  جھٹلا کر اپنے جھوٹوں پہ مبنی تاریخ بھارتی عوام پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ان کا خاص نشانہ مسلم اقلیت ہے کیونکہ وہ ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرچکی۔ نیز بھارت میں مذہبی، تہذیبی، عمرانی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر مسلمانوں کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ہندو شدت پسند تاریخ  مسخ کرکے جدید بھارت سے انہی اثرات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جب ان کا یہ طریق واردات سمجھ میں آجائے تو یہ بات سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ آخر وہ مسلم اقلیت کے درپے کیوں ہیں؟اسے ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

ریاست جموں و کشمیر بھارت کی واحد نمایاں مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ وہ ہندو راشٹریہ کے منصوبے میں رکاوٹ بن گئی۔ اسی لیے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرکے اسے وفاقی علاقہ بنادیا گیا۔ درحقیقت آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مودی حکومت  ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرچکی۔ اب کشمیری کوئی حقوق نہیں رکھتے اور نہ آزاد ہیں۔ وہ مودی حکومت کے محکوم بن چکے۔اب جلد یا بدیر کشمیر میں مسلم اکثریت ختم ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوری اور عوام دوست نہیں، فاشسٹ حکمران حکمرانی کررہے ہیں۔بھارتی آئین نے دیگر ریاستوں کو بھی خودمختاری دے رکھی ہے مگر انھیں نہ چھیڑا گیا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں۔

دہلی الیکشن

بھارتی دارالحکومت کے حالیہ الیکشن میں سنگھ پریوار کے لیڈروں کی سرتوڑ سعی رہی کہ ہندو ووٹر اپنے پلیٹ فارم پہ جمع ہو جائیں مگر وہ ناکام رہے۔دہلی کے روادار اور باشعور شہریوں نے ان کی شرانگیز مہم مسترد کر دی۔اسی جماعت کو ووٹ دیا جو مذہب کو آلہ کار نہیں بناتی بلکہ مسائل حل کرنے پہ توجہ دیتی ہے۔اس بار بھی بی جے پی نے نفرت انگیز انتخابی مہم میں تاریخ کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔وزیراعلی یوپی،یوگی ادتیہ ناتھ نے اسلامی ثقافت کی نشانی’’بریانی‘‘ کو گالی کا مترادف بنا ڈالا۔بعض لیڈروں نے الیکشن کو بھارت اور پاکستان کے مابین معرکہ قرار دیا۔ایک لیڈر جلسے میں چلائے،شاہین باغ کے غداروں کو گولی مار دو۔چناں چہ وہاں گولیاں چلانے کے واقعات پیش بھی آئے۔امیت شاہ ووٹروں سے بولے،اتنی زور سے ووٹ کا بٹن دبانا کہ شاہین باغ میں زلزلہ آ جائے۔ذرا سوچیے،کیا قومی مقام ومرتبے کے لیڈروں کو ایسی پوچ باتیں کرنا زیب دیتا ہے؟پچھلے دنوں میں شاہین باغ گیا تھا۔وہاں ایک خاتون نے کہا’’ہم غریب ہیں مگر انسان بھی ہیں۔ہم الیکشن میں مودی کو ایسا جھٹکا دیں گے کہ وہ اپنی ساری نفرتیں بھول جائے گا۔‘‘

 نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کی مہم

یہ مہم بھی بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہے تاکہ انھیں معاشرے میں عضو ِمعطل بنا دیا جائے۔ اس نے بجا طور پہ مسلمانان بھارت کو خوف و پریشانی میں مبتلا کردیا۔انھیںذلت اور بے بسی کا احساس بھی ہوا۔ یہ مہم بیٹھے بٹھائے لاکھوں بھارتی مسلمانوں پر ’’غیر قانونی‘‘ ہونے کا ٹھپہ لگاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے مسلمانوں کی کثیر تعداد مہم کے خلاف احتجاج کرنے لگی۔باشعور غیرمسلموں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔زبردست احتجاج  سے مودی حکومت پسپا پونے پر مجبور ہو گئی۔اسے یہ بھی احساس ہوا کہ بھارتی مسلمانوں کے احتجاجی مظاہروں سے عرب حکومتوں کو بڑا غلط پیغام جا رہا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مودی حکومت کی پسپائی عارضی ہے۔

وہ موقع پا کر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کی مہم شروع کرا دے گی۔آغاز ان ریاستوں سے ہوگا جہاں بی جے پی حکمران ہے۔ بی جے پی مسلم مخالف ایجنڈے پہ عمل کر کے ہی بھارتی عوام میں مقبولیت پاتی ہے۔ اس کی ہندو شاونیت کے مظاہرے بیرون بھارت میں بھی جنم لے چکے۔ مثلاً برطانیہ کے حالیہ الیکشن میں بھارتی نژاد ووٹروں نے لیبر پارٹی کو ووٹ نہیں دیئے کیونکہ اس کے سربراہ، جیرمی کاربن نے کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے معاملے میں نریندر مودی حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔

بی جے پی کا (سابق) صدر، امیت شاہ اور مودی کہتے ہیں کہ نیشنل رجسٹر کی مہم سے مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ان سے کیوں خوفزدہ نہ ہوں؟ امیت شاہ انہیں ’’دیمک‘‘ کہہ کر پکار چکا۔ پھر انہی دونوں لیڈروں کی موجودگی میں گجرات میں مسلمانوں کا خوفناک قتل عام ہوا ۔یہ دونوں اتنے زیادہ مسلم مخالف ہیں کہ ہندوستانی تاریخ سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔ٹیپو سلطان،اورنگ زیب عالمگیر، محمد علی جناح اور دیگر مسلم رہنما ان کے خاص ٹارگٹ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر نیشنل رجسٹر کی مہم شروع ہوئی تو خصوصاً کروڑوں بھارتی مسلمانوں پر عذاب نازل ہوگا۔

ان میں سے بیشتر غریب ہیں۔ ان بیچاروں پر آفت ٹوٹ پڑے گی۔ اپنی شہریت ثابت کرنے کی خاطر انہیں ایک سے دوسری جگہ دھکے کھانے پڑیں گے۔نیز وسیع پیمانے پر کرپشن کا آغاز ہو گا۔اپنی شہریت بچانے کی خاطر مسلمان اپنی جمع پونجی کرپٹ سرکاری افسروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوں گے جو کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو بلیک میل کر کے ان کی بے بسی سے فائدہ اٹھائیں گے۔گویا اس مہم سے مختلف فرقوں کے مابین نفرت بڑھے گی اور بے چینی بھی۔ بی جے پی نے پہلے مذہب کو ہتھیار بناکر اقتدار پایا۔ اب وہ علم تاریخ کے نئے ہتھیار سے بھی معاشرے میں نفرت و دشمنی ابھار کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتی ہے۔ انسان دوست سیاسی جماعتوں نے اتحاد نہیں کیا، تو بی جے پی کا نفرت پر مبنی فلسفہ بھارتی معاشرے کو تباہ کرسکتا ہے۔

 نصاب تعلیم  میں تبدیلی

مودی حکومت کے دور میں خطرناک ترین بات یہ ہے کہ وہ اسکول کالجوں میں نیا نصاب تعلیم رائج کر رہی ہے۔اس  نئے نصاب تعلیم میں تاریخ کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے جا چکے۔ ایک انسان ماضی کی بابت کچھ نہیں جانتا تو یہ تشویشناک امر نہیں۔ لیکن اسے تاریخ کا نام دے کر جھوٹ اور غلط باتیں پڑھائی جائیں، تو اس میں منفی ذہنیت جنم لیتی ہے۔ وہ پھر کسی نہ کسی وجہ سے دیگر مذہبی و نسلی فرقوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ بی جے پی کا طریق واردات بھی یہی ہے کہ ہندو عوام کو اقلیتی فرقوں کے خلاف ابھار دیا جائے۔مطالعہ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں ہندوستان کے کئی بادشاہ اعتدال پسند، روادار اور انسان دوست گزرے ہیں۔ مثلاً اشوک اعظم ہرگز متعصب حکمران نہ تھا۔ مگر بی جے پی کے دور حکومت میں یہ خوبی خامی بن چکی، اسی لیے نصاب تعلیم سے اشوک اعظم کا تذکرہ نکال کر ان بت پرست بادشاہوں کے حالات دے دئیے گئے جنہوں نے بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں کا قتل عام کیا تھا اور وہ ہندوستان میں برہمن مت (المعروف یہ ہندومت) کی حکمران چاہتے تھے۔

  مسلم دشمن قانون شہریت

مودی حکومت نے قانون شہریت میں بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خاطر ترمیم کی۔اب پڑوسی ممالک کا کوئی مسلمان بھارتی شہری نہیں بن سکتا۔ البتہ وہاں مقیم ہر غیر مسلم کو بھارتی شہری بننے کی اجازت ہے۔ اپنی اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے 2 اپریل 1950ء کو وزیراعظم بھارت، پنڈت نہرو اور وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے ایک معاہدہ کیا تھا۔ ترمیم نے اس معاہدے کو بھی بے اثر بنا دیا۔ تاہم اس ترمیم کا اصل نشانہ بنگلہ دیش ہے۔ مودی حکومت بھارت میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمد ہر قیمت پر روکنا چاہتی ہے تاہم بنگلہ دیش کے ہندو بھارتی شہری بن سکتے ہیں۔قانون شہریت کی ترمیم سے یہ بھی عیاں ہے کہ مودی حکومت متعصب بن چکی۔  اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں ہندوؤں پر ظلم ہورہا ہے۔ اسی لیے انہیں بھارت میں داخلے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ مگر برما بھی بھارت کا ہمسایہ ہے جہاں روہنگیا مسلمان اکثریتی فرقے کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ لیکن روہنگیا بھارتی شہری نہیں بن سکتے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

مذہبی بنیاد پر تقسیم

بی جے پی کے رہنما کانگریس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان مذہبی بنیاد پر تقسیم ہوا ۔یہ دعویٰ  بالکل غلط ہے۔حقیقت میں یہ ہندو انتہا پسند لیڈر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستانی قوم کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا۔ انہوں نے ہی مختلف مذہبی گروہوں کے مابین نفرت و دشمنی کی آگ بھڑکائی تاکہ اپنے مفادات پورے کرسکیں۔ہندو انتہا پسندی کا اہم رہنما، دمودر ساورکر 1937ء میں یہ نظریہ پیش کرچکا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ آر ایس ایس کے سربراہ، گوالکر نے انہی دنوں یہ اشتعال انگیز بیان دیا کہ مستقبل کی ہندو ریاست میں مسلمان شہری بن کر نہیں رہ سکتے۔غرض یہ شدت پسند ہندو ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستانی عوام کو مذہبی جنگ کے الاؤ میں دھکیل دیا۔

 بھارتی عدلیہ آر ایس ایس کے زیر اثر

بھارت کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ہندو انتہا پسند حکومتی ڈھانچے سے دور رہے، اکا دکا فرقہ وارانہ فساد  چھوڑ کر بھارتی معاشرے میں بالعموم رواداری اور برداشت موجود تھی۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ۔1980ء کے بعد مگر ہندو انتہا پسندی نے تیزی سے فروغ پایا تو یہ ملک مذہبی دنگے فساد کا مرکز بن گیا۔بیسویں صدی کے اواخر میں بی جے پی نے حکومت سنبھال لی۔ تب سے پوری سرکاری مشینری یعنی فوج،انتظامیہ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں انتہا پسندانہ ہندو نظریات سے متاثر مرد و زن اہم عہدوں پر تعینات ہوچکے۔

یہ لوگ علی الاعلان یا چوری چھپے بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ انہی میں عدالتوں کے جج اور وکیل بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے، 2014ء میں انتہا پسندوں کو دوبارہ اقتدار ملا تو عدلیہ ان کی مرضی کے فیصلے سنانے لگی۔ مثلاً مساجد میں بم دھماکے کرنے والے ہندو انتہا پسند رہا کردیئے گئے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر کی مہم چلانے کا حکم دیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کر ڈالا حتیٰ کہ بھارت سپریم کورٹ کشمیر میں حکومتی ظلم و ستم روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔ سچ یہ ہے کہ عدالتیں بھی انتہا پسندوں کے سامنے سرنگوں ہوچکیں۔

بابری مسجد اور عدالتی فیصلہ

سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949ء میں بابری مسجد پر قبضہ ناجائز تھا۔ اسی طرح 1992ء میں مسجد غیر قانونی طور پر ڈھادی گئی۔ اس کے باوجود اسے ازسرنو تعمیر کرنے کا حکم نہیں دیاگیا۔یہ سراسر غلط اور نامنصفانہ فیصلہ تھا جس نے مسلمانوں ہی نہیں پوری بھارتی قوم کو نقصان پہنچایا۔ بابری مسجد 1528ء میں تعمیر ہوئی۔

وہ شرقی مغل فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ تھی۔ یہ مسجد کسی اور ملک میں ہوتی، تو حکومت بڑے اہتمام سے اس کی حفاظت کرتی۔ اسے تحفظ دینے کے لیے خاص اقدامات کیے جائے۔ مگر بھارت میں مذہبی جنونیوں نے دیوانہ وار اسے ڈھا دیا۔ ڈھانے کا عمل پورے دو دن جاری رہا اور بھارتی فوجی بھی غنڈوں کو نہ روک سکے۔بابری مسجد شہید کرنے کا عمل کھلی غنڈہ گردی تھی۔ اگر سپریم کورٹ کے جج انصاف پسند اور باضمیر ہوتے، تو اس انہدام کو غیر قانونی قرار دے کر مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتے۔ مسجد کے نیچے سے کسی قدیم عمارت کی بنیادیں نکل بھی آئیں، تو یہ غیر متعلقہ معاملہ تھا۔ کیونکہ بابری مسجد شہید نہ ہوتی، تو یہ بنیادیں بھی برآمد نہیں ہو پاتیں۔ بھارت شاید دنیا کا اکلوتا ملک ہے جہاں پوری حکومتی مشنیری نے غنڈوں اور بلوائیوں کے سامنے گھنٹے ٹیک دئیے اور ان کی مانگیں قبول کرلیں۔

 فیصلہ علمی نقطہ نگاہ سے

سپریم کورٹ کے حج تاریخ داں نہیں ہوتے۔ اور بابری مسجد کیس کے فیصلے سے عیاں ہے کہ وہ علم تاریخ پر بہت کم دسترس رکھتے ہیں۔فیصلے نے  تاریخ اور آثار قدیمہ  کے علوم سے انصاف نہیں کیا۔ نجانے کیوں ان کی نگاہوں سے یہ سچ اوجھل رہا کہ مغل دور حکومت ایودھیا علاقہ اودھ کا صدر مقام بن گیا تھا۔ اور اس علاقے یا صوبے میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ اسی لیے انہوں نے نہ صرف ایودھیا میں مساجد تعمیر کیس بلکہ قریب ہی ایک نئے شہر (فیض آباد) کی بنیاد رکھی۔ لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ مغل دور حکومت میں مسلمان بابری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔

یہ محض ایک خیالی بات ‘ ہوائی ہے جو ججوں نے اڑائی۔ ان ججوں نے پھر محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین سے بھی تفتیش نہیں کی۔ ان ماہرین کی مہارت و علم کا یہ عالم تھا کہ وہ بابری مسجد کو بطور مسجد نہیں پہچان سکے اور پورے کیس میں اسے ’’متنازع عمارت‘‘ کہتے رہے۔ انہی سرکاری مورخین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ماضی میں بابری مسجد کے نیچے پچاس ستونوں والا (رام ) مندر کھڑا تھا۔ حیرت انگیز طور پر وہ کسی ستون کی بنیاد بطور ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ بس مٹی کی ڈھیریاں دکھا کر انہیں بنیادیں بنا دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بابری مسجد پر مسلمانوں کا حق اس اس لیے مسترد کر دیا کہ مسلمان یہ ثابت نہیں کر سکے‘ 1857ء سے قبل وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ جبکہ بابری مسجد (کے صحن) میں ہندو طویل عرصے سے رام کی پوجا کر رہے تھے۔یہ بات بطور  ثبوت تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ دے ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ثبوت کی بنیاد پر ماضی میں تعمیر کردہ مذہبی عمارات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن ہے؟سپریم کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ لکھتے ہوئے لکھا: ’’ہندوؤں کا دھرم ہے‘ جس جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی وہاں شری رام نے جنم لیا تھا۔‘‘ گویا جج صاحبان نے فیصلہ سناتے ہوئے دیومالا کو حقائق پر ترجیح دی۔ جبکہ جادوگروں کی طرح ماضی کے واقعات بطور سچ بیان کیے جاتے رہے۔ کیا اب عدالتی فیصلے اسی انداز میں ہوں گے؟تب تو بھارتی عدلیہ کا خدا ہی حافظ ہے۔

سچ یہ ہے کہ یہ محض خیالی بات ہے‘بابری مسجد کی جگہ شری رام نے جنم لیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ایودھیا کو رام کی جنم گاہ قرار دینا کوئی پرانا نظریہ نہیں۔ یہ دعویٰ سب سے پہلے اسکند پران میں ملتا ہے۔ پروفیسر ٹی  پی ورما‘ پروفیسر نارائن جہا اور دیگر ماہرین تاریخ تسلیم کر چکے کہ اسکند پران سولہویں صدی میں لکھا گیا۔

گویا تب تک بابری مسجد تعمیر ہو چکی تھی۔ مگر اسکندر پران میں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ رام جی کے جنم استھان پر مسجد بنائی جا چکی۔ اس میں صرف یہ درج ہے کہ شری رام ایودھیا میں پیدا ہوئے۔ یہ درج نہیں کہ ان کا جنم استھان بابری مسجد کے مقام پر واقع ہے۔دور جدید کے شدت پسند ہندو لیڈروں نے مسلسل پروپیگنڈے سے اپنے ناخواندہ عوم کے ذہنوں میں یہ نظریہ جما دیا کہ بابری مسجد ہی رام جنم استھان ہے۔ یہ نظریہ اتنا راسخ ہو چکا کہ سپریم کورٹ کے جج بھی اسے رد نہ کر سکے۔ علم آثار قدیمہ میں ریڈیائی کاربن اور دیگر سائنسی طریقوں سے جانا جاتا ہے کہ ایک شے کتنی پرانی ہے۔ مگر اب محض دیومالا کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے تو کوئی سچا و کھرا ماہر آثار قدیمہ عدالت کا رخ نہیں کرے گا۔ وہاں جھوٹ بولنا اس کے نزدیک علمی بددیانتی ہو گی۔

 تاریخ  اور دیومالائی جھوٹ

علم تاریخ میں اثریاتی حقائق سامنے رکھ کر دلائل دیئے جاتے ہیں۔ اگر یہ بہت تھوڑے ہوں، تو تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن دیانت دار مورخ کبھی اثریاتی حقائق کے برخلاف نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر آر سی موجمدار  مشہور تاریخ داں گزرے ہیں۔ یہ فرقہ پرست دانشور تھے۔ (موصوف ہی یہ نظریہ سامنے لائے کہ ہندوستان میں مسلمان اجنبی تھے۔ اسی لیے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کبھی ہم آہنگی اور دوستی پیدا نہیں ہوسکی)۔1970ء میں آر ایس ایس نے آر سی موجمدار پر دباؤ ڈالا کہ وہ تنظیم کے ترجمان رسالے، آرگنائزر میں ایک خصوصی مضمون تحریر کریں۔

مضمون میں دعویٰ کیا جائے کہ بھارت میں جو آثار اور عمارتیں مغل بادشاہوں سے منسوب ہیں، وہ ان کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ انہیں ہندو حکمرانوں نے تعمیر کرایا تھا۔ آر سی موجمدار نے یہ مضمون لکھنے سے انکار کردیا۔ آر ایس ایس کے شدت پسند لیڈر بہت جزبز ہوئے مگر موجمدار کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ کرنا علمی بددیانتی ہوگی جسے وہ کبھی نہیں اپنا سکتے۔ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتیں جھوٹ اور افسانوی قصوں کو ’’تاریخی حقائق‘‘ کا نام دے کر بھارتی قوم پر ٹھوس رہی ہیں۔ مثلاً دریائے سرسوتی کا قصہ ہی لیجیے۔ ممکن ہے کہ اس قسم کا وسیع و عریض دریا پچاس لاکھ سال قبل بہتا ہو۔ مگر یہ کہنا کہ صحرائے تھر میں محض پانچ ہزار سال پہلے سرسوتی بہہ رہا تھا، یہ سراسر دیومالائی قصہ اور تصّوراتی بات ہے۔

 دریائے سرسوتی کا  عجوبہ

ہندو شدت پسند دریائے سرسوتی کی موجودگی ثابت کرنے پر بضد ہیں تاکہ اپنے نظریہ تاریخ کو درست ثابت کرسکیں… یہ نظریہ کہ ہندوؤں خصوصاً برہمنوں کا نہایت شاندار ماضی رہا ہے۔ انہوں نے زبردست ایجادات کیں حتیٰ کہ پلاسٹک سرجری کا تحفہ بنی نوع انسان کو عطا کر ڈالا۔ دراصل قدیم زمانے میں شمالی ہندوستان میں پہلے پہل بڑی انسانی بستیوں کی بنیاد پڑی۔ ان بستیوں کی تاریخ آج ’’وادی سندھ کی تہذیب‘‘ یا ’’ہڑپہ تہذیب‘‘ کہلاتی ہے۔ مگر شدت پسند ہندو لیڈروں کو یہ نام پسند نہیں کیونکہ دریائے سندھ پاکستان میں بہتا ہے۔ اسی طرح ہڑپہ بھی پاکستان میں واقع ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کو ’’سرسوتی تہذیب‘‘ کا نام دیا جائے۔ ان لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ سندھ نہیں سرسوتی اس تہذیب کا مرکزی دریا تھا۔آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جب بی جے پی نے پہلی بار (1999ء میں) حکومت سنبھالی تو شدت پسندوں نے محکمہ آثار قدیمہ سے ایک کتاب شائع کرائی۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ دریائے سرسوتی پاکستان میں داخل نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ راجھستان میں ہی بہتا چلا جاتا۔ یہ ہے تاریخ مسخ کرنے کی عملی کوشش!

 مہا بھارت اور رامائن کی داستانیں

بھارت میں مہا بھارت اور رامائن کی داستانیں آج بہت مشہور ہیں لیکن علم تاریخ کے لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ محض دیومالا ہیں، خیالی قصے کہانیاں۔ ڈی سی سرکار مشہور بھارتی مورخ گزرے ہیں۔ وہ قدیم الواح پر نقش پڑھنے کے ماہر تھے۔ ان کی تحقیق کا خلاصا یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں رام چندر دیوتا نہیں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا تھا۔ سنسکرت اور دیگر مقامی زبانوں میں بطور دیوتا رام چندر کا بہت کم ذکر ملتا ہے۔تبدیلی اس وقت آئی جب نویں صدی کے بعد رامائن اور مہا بھارت عوام میں مقبول ہونا شروع ہوئیں۔ ان کتب نے ہندوستانی عوام کو مذہبی طور پر یکجا کردیا۔ تبھی ان داستانوں کے کردار دیوی دیوتاؤں کا درجہ قرار پاگئے۔ لیکن درحقیقت مہا بھارت اور رامائن میں جو بھی کردار اور واقعات بیان ہوئے ہیں، ان کی کوئی اثریاتی شہادت موجود نہیں۔

کوئی نامی گرامی لیڈر نہیں

بی جے پی کے بانیوں میں شیام پرشاد مکرجی اور دین دیال اپادھیائے شامل ہیں۔ جب بھی بی جے پی برسراقتدار آئے، تو ان دونوں رہنماؤں کی سالگرہ اور برسیاں سرکاری طور پر تزک و اختشام سے منائی جاتی ہیں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ تحریک آزادی ہندوستان میں دونوں رہنماؤں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود بی جے پی انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔یہ دونوں رہنما شدید متعصب اور فرقہ پرست تھے۔1941ء میں شیام پرشاد نے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’جو مسلمان ہندوستان میں نہیں رہنا چاہتے، وہ اپنا سامان اٹھائیں اور پاکستان چلے جائیں۔‘‘ اس قسم کے لیڈروں نے آر ایس ایس کی نفرت انگیز پالیسی اور نظریات اپنا کر سیاسی پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد رکھی۔ چونکہ بی جے پی کے پاس کوئی اور لیڈر نہیں، اسی لیے انہی دونوں کو اپنے اعلیٰ رہنما تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔

ہندتوا (ہندوشدت پسندی) کا نظریہ

یہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے۔ جب کسی ملک میں کوئی گروہ یا جماعت عوام میں مقبول ہونے کی خاطر قوم پسندی، نسل پرستی یا انتہا پسندانہ مذہبی نظریات کا سہارا لے، تو اسے فاشسٹ کہا جائے گا۔ آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں فاشزم کے نظریات پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں بھارت کے ایسے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی بھی حمایت حاصل ہے جو فاشسٹ نظریوں پر یقین رکھتے ہیں۔ انہی کی حمایت پاکر بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

مقامات کا نام تبدیل

فاشسٹ جماعتیں عوام میں مذہبی، نسلی، معاشی اور معاشرتی اختلافات پیدا کرکے پلتی بڑھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، بی جے پی نے حکومت سنبھالی تو وہ مختلف مقامات اور شہروں کے نام تبدیل کرنے لگی۔ جتنے بھی مسلم نام تھے، انہیں ہٹا کر جگہوں کو ہندوانہ نام دے دیئے گئے۔ یہ پالیسی  اسی لیے اپنائی گئی تاکہ عوام میں مذہبی اختلافات ابھار کر اپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں۔نام تبدیل کرنے کی مہم ایک اور جہت بھی رکھتی ہے۔ اس طرح بھارت سے مسلمانوں کے دور حکومت کی نشانیاں ختم کرنا مقصود ہے۔ مدعا یہ ہے کہ آنے والی بھارتی نسلیں مسلم دور حکمرانی سے یکسر بے خبر ہوں۔ ورنہ مقامات کے نام تبدیل کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ سبھی سرکاری کاغذات میں نئے نام لکھنے پڑتے ہیں۔ یوں عوام کا پیسہ ہی ضائع ہوتا ہے۔

ہندومت کیا ہے؟

ماضی کے ہندوستان میں مختلف بت پرست گروہ آباد تھے۔ ان کے اپنے اپنے مخصوص دیوی دیوتا اور مذہبی رسم و رواج تھے۔ کوئی شیوا کا سرستار تھا تو کوئی بدھا کو پوجنے والا۔ بہت سے ہندوستانی بیک وقت دو تین مذاہب کی پیروی کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد نے مقامی باشندوں کا طرز فکر بدل ڈالا۔بت پرستوں نے دیکھا کہ مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی اصول بھی معین و متعین ہیں۔ چناں چہ بت پرستوں کے بعض لیڈروں میں اس خواہش نے جنم لیا کہ سبھی مقامی باشندوں کو بھی ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کردیا جائے۔ اس طرح ہندومت کی بنیاد پڑی۔ گویا نئے مذہب کی تخلیق میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن آج ہندومت شدت پسند رہنما اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہیں۔ یہ سراسر احسان نافراموشی ہے۔

سیکولرازم کی مخالفت

آر ایس ایس طرز فکر سے منسلک تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ سیکولرازم ہندوستان میں ایک اجنبی و غیر متعلق نظریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جدید بھارت میں کیا چیز مقامی ہے؟ ہمارا آئین مغربی، پورا حکومتی ڈھانچا مغربی، صحافت مغربی، عدلیہ مغربی، حتیٰ کہ ہمارے ملبوسات بھی مغربی ہوچکے۔ لہٰذا سیکولرازم کو اجنبی قرار دینا بودی دلیل ہے۔برصغیر میں عوام سیکولرازم کی اصطلاح کو سمجھ نہیں سکے۔یہ نظریہ مذہب کا مخالف نہیں،  بس مطالبہ کرتا ہے کہ حکومتی معاملات میں اسے داخل نہ کیا جائے۔مقصد یہ ہے کہ حکومت کسی ایک مذہب کو ترجیح نہ دے بلکہ تمام معاملات میرٹ کے مطابق حل کرے۔ لیکن بھارت کے دوسرے صدر، رادھا کرشن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مذہب اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا رفتہ رفتہ بھارتی حکومت کے معاملات میں مذہب دخیل ہوتا گیا۔ اس چلن سے آر ایس ایس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخر کار اپنی مذہبی حکومت قائم کرلی جو مسلمانوں کی دشمن ہے۔

ہندو تہذیب کی قدامت

آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ہندومت دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے۔ وہ قدیم ترین تہذیب و ثقافت بھی رکھتا ہے۔ یہ تنظیمیں اس دعویٰ سے فخر و غرور کا اظہار کرتی ہیں لیکن تاریخی حقائق ان کا دعویٰ ثابت نہیں کرتے۔ ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ ہے۔ مناجات کی یہ کتاب 1500 ق م سے 1000 ق م کے مابین وجود میں آئی ،گویا تین تا ساڑھے تین ہزار سال پہلے جبکہ رگ وید کا قدیم ترین مخطوطہ 1464ء میں لکھا گیا تھا۔ماہرین کو قرآن مجید کے ایسے مخطوطے مل چکے جو 650ء میں لکھے گئے تھے۔ اگر ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اتنی ہی ترقی یافتہ تھی، تو وہ اپنی مذہبی کتابیں کیوں محفوظ نہ رکھ سکی؟ ہندومت کی تمام مذہبی کتب کے مخطوطے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سال پرانے ہیں۔

The post ’’ بھارتی قوم پر تاریخ کے نام پر جھوٹ مسلط ہوچکے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر79

فقیر آپ کو اپنے آس پاس کی جیون کتھائیں سنائے جارہا ہے، کیوں ۔۔۔۔۔۔ ! نہ جانے کیوں! شاید اس لیے کہ یہ جیون کتھائیں بھی کیا انوکھی داستاں ہیں، ایسی کہ بندہ بشر دنگ رہ جائے۔ صرف اپنے ہی نہیں بل کہ اپنے آس پاس کے انسانوں کے حالات دیکھے اور اگر اسے سوچ بچار کے کچھ لمحات غنیمت ہوں تب پھر اس پر کُھلتا ہے کہ کیسے دل سوز سچ اور کیسے اولوالعزم کردار ہمارے اردگِرر بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں ہماری کور چشمی دیکھ نہیں پاتی، سوچنا تو رہی دُور کی بات۔ اس انسان سے تو چرند پرند اچھے ہیں جو اپنے جیسوں کے حالات پر فکرمند رہتے اور ان کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تُلے رہتے ہیں۔

دیکھ لیجیے ہاتھی، بھیڑیے جیسے کئی اور قوی الجثہ جانوروں کو اور کوّے، چڑیا جیسی مخلوق کو، خود مشاہدہ کیجیے اور اگر فرصت نہ ہو ان کے متعلق پڑھ ہی لیجیے کہ وہ کیسے اپنے جیسوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اک ہم ہیں، کیا بات کریں، صرف اپنا رونا ہی روتے ہیں، کسی اور اشک بار کو تو دیکھتے ہی نہیں تو سوچیں کیسے بھلا، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کا سوچتے ہی نہیں بل کہ ان کے بھی حالات بدلنے کی تگ و دو کرتے ہیں، بس وہی ہیں اصیل اور انسان کہلانے لائق۔ چلیے کیا بات کریں کہ یہ تو کبھی کامل نہیں ہوگی۔ تو بس اپنی آنکھیں اور کان کُھلے رکھیے کہ دیکھ اور سُن سکیں۔

زندگی ریشم و کمخواب ہی نہیں اے دوست! زندگی کوئی بھی موڑ مڑتے تلخ ہوسکتی ناں جی۔ لیکن سنیے ناں! صرف اندھیرا ہی نہیں روشنی بھی ہے جیون، جیون کی تاریک سرنگ سے آپ آزردہ گزرتے رہیے لیکن حوصلے کے ساتھ تو پھر دیکھیے کہ اچانک ہی سرنگ ختم ہوئی اور تاریکی بھی اور آپ روشنی میں آن کھڑے ہوئے، پھر کچھ دیر سوچتے ہیں کہ ہیں یہ کیا دُکھ درد دُور ہوئے، اندھیرا ہُوا رسوا اور ہم تو روشنی میں آگئے ہیں جی، جیون کی مرجھائی شاخ سبز ہوگئی، واہ جی واہ! ہاں پھر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ہماری چشم برس جاتی ہیں، نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا ہے فقیر اور نہ جانے کیا سمجھ رہے ہیں آپ زیرک و دانا۔ رہے نام اﷲ کا!

بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیر کو بہت عرصے تک اُس کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ جفاکش، محنتی، سادہ لوح اور خُود دار نذیر ملک کا انتظار۔ وہ سمندر کا سینہ چِیر کر اپنا رزق نکالتا ہے، اپنا ہی نہیں اپنے جیسے دوسروں کا بھی، جی ہم جیسوں کا بھی۔ اس کی زندگی سمندر کے سنگ بسر ہو رہی ہے۔ اس پُرخطر، مشکل و دشوار جیون نے اس کے چہرے پر اپنی خراشیں یوں کندہ کر ڈالی ہیں جیسے کوئی مصوّر اپنا شاہ کار کینوس پر اتار دیتا ہے اور پھر وہ کسی گیلری میں لٹکا دیکھنے والوں کی نظروں اور تبصروں کو سہتا رہتا ہے۔

اُسے بھی سمندر نے مصوّر کرکے جیون گیلری میں لٹکا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے دیکھنے والوں سے داد اور تحقیر دونوں وصولتا رہتا ہے۔ جفاکش، صابر، شاکر و ایثار کیش نذیر ملک، اس کی ساری زندگی سخت محنت و مشکلات میں گزر رہی ہے اور دُور تک بھی بہ ظاہر تو اس کے آثار نظر نہیں آرہے کہ وہ کبھی سُکھی بھی ہوگا، لیکن وہ یقین کامل سے کہتا ہے کہ وہ دن آئیں گے اور ضرور وہ یہ دن دیکھے گا۔ اس کی عمر صرف بتّیس برس ہی ہے مگر وہ جب بھی بات کرتا ہے تو یہی کہتا ہے میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ اس کے اندر بَلا کا تحمّل ہے، صبر، بُرد باری، ایثار، جفاکشی، خلوص و وفا کی خوش بُو میں رچا بسا نذیر ملک، اس سے مل کرکے خوشی ہی نہیں سُکون بھی ملتا ہے۔ منافق رویّوں، جُھوٹ اور عیّار، مکّار اور بناوٹی دنیا سے لاکھوں کوس پَرے سخت کوش نذیر ملک۔ وہ روایتی، برساتی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے دانش وروں کی طرح آدھا ادھورا نہیں پُورا سچ بیان کرتا ہے، خود پر بیتی دُہراتا ہے، اس لیے نہیں کہ اس پر ترس کھایا جائے، بل کہ اس لیے کہ آپ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر آپ اس سے ہم دردی جتانے لگیں، اس پر ترس کھانے لگیں تو اس شعر کی مجسم تصویر بن جاتا ہے

مرے صبر پر کوئی اجَر کیا، مری دوپہر پہ یہ ابَر کیوں

مجھے اوڑھنے دے اذیّتیں، مری عادتیں نہ خراب کر

مجھے پڑھنے کا شوق ہی نہیں تھا، کیسے ہوتا اتنے افلاس میں جب انسان کا پیٹ ہی خالی ہو تو کیا پڑھے گا کوئی۔ رُلتے کُھلتے بارہ سال کا ہوگیا تھا میں، تو مزدوری کرنے لگا۔ ایک شیٹرنگ کے ٹھیکے دار کے ساتھ میں ہیلپر بن گیا۔ بس یہی چھوٹا موٹا کام کرتا تھا، چائے لا دیتا تھا، پانی پلا دیتا تھا، سیمنٹ کی خالی تھیلیاں جو ہوتی ہیں انھیں جمع کردیتا تھا، بس یہی چھوٹے موٹے کام۔ میں جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں بہت سارے لوگ مچھیرے ہیں، وہ لانچوں پر ہی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوگیا کہ میں بھی یہی کام کروں گا۔ میری عمر سولہ برس تھی جب میں نے مچھلی پکڑنے والوں کے ساتھ لانچ پر کام کرنا شروع کیا۔ وہاں بھی ابتداء میں بس چھوٹے موٹے کام تھے، برتن دھونا، پانی پلانا، جال صحیح کرنا پھر آہستہ آہستہ میں بھی دوسرے مچھیروں کی طرح کام میں ماہر ہوگیا، بس سمجھو میری نوکری پکّی ہوگئی۔ اب بھی مزدوری ہی ہے بل کہ کام بڑھ گیا ہے۔

جال ڈالنا، نکالنا، لانچ آہستہ آہستہ چلتی ہے تو ہم جال ڈال دیتے ہیں، پھر جال لانچ کے ساتھ باندھ کر سوجاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر جال نکالتے ہیں اور مچھلی اسٹور کرتے ہیں، بعض مچھلیوں کو نمک لگا کر رکھتے ہیں۔ مچھلی کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں انہیں علاحدہ بھی کرنا پڑتا ہے، کوئی برف میں صحیح رہتی ہے، کوئی نمک کے ذریعے محفوظ رہتی ہے۔ ہم لانچ میں صبح چار بجے جاگ جاتے ہیں اور شام چھے بجے تک کام کرتے ہیں، بہت سے کام ہوتے ہیں اکثر جال پھٹ جاتا ہے تو اسے بھی سینا پڑتا ہے، جال پر سے کوئی جہاز یا لانچ گزر جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے بس مجبوری ہے تو کرنا پڑتا ہے، کوئی اور نوکری ملتی نہیں ہے، اسے چھوڑ کر کیا کروں گا۔

میں تو بہت تنگ ہوں اس کام سے، غصہ بہت آتا ہے عجیب زندگی ہے آدم بے زار لیکن اس کے ساتھ مجھ میں صبر بھی پیدا ہُوا ہے کیوں کہ یہ بہت صبر آزما کام ہے، ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ ہم تو لانچ پر رات آٹھ بجے سوجاتے ہیں کیوں کہ صبح چار بجے پھر اٹھنا پڑتا ہے۔ بس کام کرو، جان ماری کرو، مچھلی پکڑو اور سوجاؤ، کوئی سہولت نہیں ہے، زندگی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ مچھلیوں سے بھرا ہوا سمندر جس میں دھوتر، سارم، گور، سرمئی، سووا، سولی، شارک، ڈاون، دوڑ، چونگ، گھوڑا مچھلی۔ اگر قسمت اچھی ہو، شکار لگ جائے اور ہم اپنا اسٹور بھرلیں تو 15،20 دن تک لگ جاتے ہیں۔ اگر قسمت میں خواری ہو تو پھر دو مہینے بھی لگ جاتے ہیں اور بہت مایوسی ہوتی ہے۔

ایسے میں بیوی بچے یاد آتے ہیں، بہت یاد آتے ہیں۔ انہیں کون بُھول سکتا ہے انہی کے لیے تو اتنی جان ماری کر رہے ہیں ورنہ اگر اکیلا پیٹ ہو تو پھر یہ خوار کام کیوں کریں۔ یہ سب محنت انہی کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ دنیا میں جھوٹ، دھوکا، فریب سب کچھ بیوی، بچوں اور گھر والوں کے لیے تو دیتے ہیں۔ وہاں وہ یاد بھی بہت آتے ہیں، لیکن بس صبر شُکر کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اور اداس ہوجائیں اور وہ تو ہوتے ہی ہیں تو سب لوگ آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں، کوئی گانا سناتا ہے، کوئی کچھ سناتا ہے، بس جس کو جو یاد آتا ہے وہ سناتا ہے اس طرح وقت پاس ہوجاتا ہے۔

کبھی لانچ اپنی حدود چھوڑ کر دوسروں کی حدود میں چلی جاتی ہے اس کی بھی وجہ ہوتی ہے۔ کبھی لانچ کا انجن خراب ہوجاتا ہے، لنگر انداز صحیح طریقے سے نہیں ہوتی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے دوسروں کی حدود میں نکل جاتی ہے، اور پھر زندگی ہی بدل جاتی ہے کہ کسی اور کی قید میں چلے جاتے ہیں اور پھر دُور تک تاریکی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اک آس امید کا دیا بھی جلتا رہتا ہے، ہمارے کئی مچھیرے انڈیا کی قید میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں اور ان سے زیادہ ان کے گھر والے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہاں شکار نہیں لگا تو دوسروں کی حدود میں چلے گئے لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی اطلاع نہیں مل سکتی اور نہ ہی ہم اپنی اطلاع کسی کو دے سکتے ہیں۔

یہ بہت بڑی خرابی ہے لیکن میں نے کہا ناں کہ یہ بہت مجبوری کا کام ہے۔ ہمارا ہر دن وہی پرانا گزرا ہوا دن ہے بل کہ اس سے بھی زیادہ اذیّت ناک، عید کیا، تہوار کیا وہ بھی ہمارے لیے ایک عام دن ہی ہیں۔ اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے اور آمدن بہت ہی کم۔ اگر شکار لگ جائے تو گزر بسر ہوجاتی ہیں اور اگر شکار نہ لگے تو بہت مشکل ہوتی ہے جناب! اکثر ادھار لینا پڑتا ہے اور آپ کو پتا ہے آج کل کون دیتا ہے ادھار۔ ہر آدمی اپنے غم اور مسائل میں ڈوبا ہوا ہے ہم تو بہت مشکل میں ہیں، اگر ہم کام کریں تو معاوضہ کم ہے اور نہ کریں تو بچے بھوکے رہیں گے۔ نہ اب ہم اس کام کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی خوشی سے کرسکتے ہیں۔ بچوں کو بھی پتا ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی چُپ ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کیا ہے اور انہیں بھی یہی کہتا ہوں کہ پڑھو، تمہارے کام آئے گا، وہ محنت بھی کرتے ہیں اور میری خواہش بھی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں، تاکہ زندگی کچھ تو آسان ہوجائے۔ صاحب! بڑا آدمی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس پیسا ہو، نوٹ ہوں، ابھی کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کی جیب بھری ہوئی ہو، میری تو جیب خالی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی جیب بھری رہے۔

ادھر اگر پیسے نہ ہوں تو انسان کو جانور بھی نہیں سمجھتے۔ پیسے ہیں تو جاہل کو بھی بہت عزت دیتے اور اس کی بکواس کو بھی دھیان سے سنتے ہیں۔ مجھے خود پر بہت افسوس ہوتا ہے، بہت دُکھ پہنچتا ہے، پَر وقت ہاتھ سے مچھلی کی طرح پھسل گیا ہے، اب افسوس کرنے سے کیا ہوتا ہے، بس اب خواہش ہے کہ بچے پڑھ جائیں۔ لوگوں کو سمندر اچھا لگتا ہے لیکن ہم جیسوں کو تو زہر لگتا ہے، لیکن ہمیں سمندر سے محبّت بھی بہت ہے، اسی لیے ہم سمندر کو سمندر بادشاہ کہتے ہیں، اس سے ہم کو روزی ملتی ہے۔ اگر ہمیں ناخدا کہے کہ آج ہی چلنا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک دو دن اور ٹھہر جائیں لیکن پھر جانا ہی پڑتا ہے۔ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارا آخری وقت آگیا ہے، ہماری لانچ جھولا بن جاتی ہے اور ہم اسے وہیں لنگرانداز کردیتے ہیں اور طوفان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

طوفان میں ہَوا بہت تیزی چلنے لگتی ہے، اس کی وجہ سے لہریں بڑی اور وحشی ہوجاتی ہیں، پورا سمندر غصے میں بھر جاتا ہے جیسے آدمی کو غصہ آجائے تو قابو میں نہیں رہتا اسی طرح سمندر کو بھی غصہ آجاتا ہے۔ ادھر سمندر میں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں۔ بڑی مچھلی، چھوٹی کو کھا جاتی ہے ابھی جیسے انسان بھی ایسا ہی ہوگیا ہے کہ اپنے سے چھوٹے کو کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر بڑا چھوٹے کا حق دبا کر بیٹھ گیا ہے، اس لیے کہ اس کے پاس دولت ہے، اور دولت سے تو آدمی انسانوں کو بھی خرید لیتا ہے، ہمارے تمہارے جیسا ان کے سامنے کیا بیچتا ہے۔ وہ تو قانون و انصاف کو کھلے عام منہ مانگے دام خرید لیتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف ابھی آواز کیا اٹھائیں، پیٹ میں روٹی نہیں ہو، بچے بھوکے ہوں تو آواز بھی ختم ہوجاتی ہے، کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے لیے وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، وہ بھی اس کو پاگل کہتے ہیں، جن کے لیے اس نے آواز اٹھائی ہو، پھر جس بڑے کے خلاف آواز اٹھاؤ وہ دوسرے دن اس کو غائب کرا دیتا ہے اور دوسرے اس کا انجام دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔

میں کیا بولوں ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو، ہر غلط آدمی کی عزت ہے جو لوگوں کو لڑائے وہ عزت دار، فن کار کہلاتا ہے اور جو واقعی عزت والے ہیں ان کی لوگ بے عزتی کرتے ہیں۔ ہم ادھر لانچ پر سب مل جل کر رہتے ہیں مگر سب اتحاد سے رہتے ہیں اور لانچ کا حفاظت کرتے ہیں۔ ابھی دیکھو اپنا ملک بھی لانچ ہے سب اس میں رہتے ہیں اگر کوئی سوراخ کرتا ہے تو اس کو منع کرنا چاہیے کیوں کہ اگر سوراخ ہوگیا تو ہم سب ڈوب جائیں گے۔

فقیر اس کا دکھ بھرا جیون اور اس کی دانش بھری باتوں کو دھیان سے دیکھ اور سُن رہا تھا۔ وہ خاموش ہُوا تو سامنے یہ روشن ہُوا

زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ

اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

لیکن کیا کیجیے کہ

یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرّت

یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ

خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھیے، خود جیون رس ضرور پیجیے لیکن دوسروں کو بھی اس میں سے پلائیے، خود سُکھی رہیے اور دوسروں میں بھی سُکھ بانٹیے۔ فقیر کی حاضری قبول اب رخصت۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

غریب انگریز کا دفاع کرنے والا رحمدل پاکستانی

$
0
0

یہ وسط اکتوبر کی بات ہے، تیس سالہ پاکستانی نوجوان، سجاد کاہلوں کچھ کھانے پینے ایک کافی ہاؤس پہنچا۔ اس نے کافی وسنیکس خریدے اور باہر بچھی کرسی و میز پر بیٹھ گیا۔

دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ادھرکئی یورپی مردوزن بیٹھے اس سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ سماں خوشگوار اور پُر امن تھا۔سجاد کاہلوں گوجرہ کا رہائشی تھا۔2013ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ چلا آیا۔ وہاں اس نے ساؤتھ اینڈ کے علاقے میں ریسٹورنٹ کھول لیا۔

ساؤتھ اینڈ لندن سے چالیس میل دور واقع ایک ساحلی شہر ہے۔ 12 اکتوبر کی صبح اس کا کافی پینے کو دل چاہا تو سٹاربکس کے کافی ہاؤس چلا آیا۔وہ مشروب سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ وہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک انگریز آپہنچا۔ وہ بے روزگار اور بے گھر معلوم ہوتا تھا۔ نجانے اس پر کیا افتاد آن پڑی تھی۔ پہلے تو اس نے میزوں پر نگاہ دوڑائی کہ شاید بچا کچھا کھانا مل جائے۔ نہ پایا تو بیٹھے گاہکوں سے کچھ کھلانے کی منت کرنے لگا۔ کسی نے اس پر توجہ نہ دی اور ہاتھ ہلا کر جانے کا کہتے رہے۔سجاد کاہلوں کو اس مصیبت زدہ گورے پر بہت ترس آیا۔ اس نے آدمی کو سینڈوچ اور کیک خرید دیا۔ قدرتاً وہ مفلس سجاد کا ممنون ہوا۔ پھر وہ وہیں ایک کرسی پر بیٹھ سینڈوچ کھانے لگا۔ اس کے انداز سے عیاں تھا کہ وہ بہت بھوکا ہے۔

اسی دوران کافی ہاؤس کا ایک ملازم خاتون گارڈ کو لیے اس گورے کے پاس پہنچا۔ کہنے لگا ’’تم نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ کپڑوں سے بو بھی آرہی ہے۔ چلو اٹھو، یہاں سے رفوچکر ہوجاؤ۔‘‘ وہ کافی تلخ لہجے میں بات کررہا تھا۔ سجاد سے انسانیت کی توہین برداشت نہیں ہوئی۔ اٹھ کر ملازم کے پاس پہنچا اور کہا:’’جناب! میں نے نو پونڈ خرچ کر اس آدمی کے لیے کھانا خریدا ہے۔ یہ آپ کا گاہک ہے اور اسے یہاں بیٹھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ کیا آپ اسے انسان نہیں سمجھتے؟‘‘ملازم مگر اصرار کرتا رہا کہ وہ بیچارا اٹھ کر چلا جائے۔ وہ شاید گھمنڈی اور ظاہری شان وشوکت کا پرستار تھا۔ اب سجاد کو کچھ غصّہ چڑھ گیا۔ اس نے موبائل نکالا اور سارا واقعہ اور گفتگو ریکارڈ کرلی۔

سجاد نے سوشل میڈیا سائٹس پر اکاؤنٹ کھول رکھے تھے مگر وہ کبھی کبھار ہی بیٹھتا تھا۔ اس دن وہ گھر پہنچا، تو سجاد نے واقعے کی ویڈیو اپنے اکاؤنٹس میں اپ لوڈ کردی۔ چند ہی گھنٹوں میں وہ وائرل ہوگئی اور اسے دنیا بھر میں لوگ دیکھنے لگے۔ برطانیہ کے مشہور اخبارات دی انڈیپینڈنٹ، ڈیلی میل اور دی سن نے واقعے کے متعلق خبریں شائع کریں۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، ڈنمارک اور دیگر ممالک کی مشہور ویب سائٹس نے بھی وہ ویڈیو جاری کردی۔وہ کافی ہاؤس امریکا کی مشہور کمپنی، سٹاربکس کی ملکیت تھا۔ اب دنیا بھر میں لوگ کمپنی کی پالیسی پر تنقید کرنے لگے۔ انہوں نے سجاد کاہلوں کو بہت سراہا اور اس کی تعریفیں کیں کہ رحم دل پاکستانی نوجوان نے نہ صرف ایک بھوکے کو کھانا کھلایا بلکہ جب وہ ایک گھمنڈی کے حملے کی زد میں آیا تو اس کا دفاع بھی کیا۔ لوگوں نے سجاد کو انسانیت کا ہیرو قرار دیا۔شدید تنقید کے بعد عالمی کافی ہاؤس کمپنی کو ہوش آیا۔ اس نے بیان دیا کہ ساؤتھ اینڈ کے کافی ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ کمپنی پالیسی نہیں۔کمپنی اپنے کافی ہاؤس میں آنے والے ہر گاہک کو عزت و احترام دیتی ہے۔

سجاد کاہلوں کی ویڈیو کو اب تک دنیا بھر سے ایک کروڑ لوگ دیکھ چکے۔ اسے عالمی شہرت ملنے پر اسے حیرانی ہوئی۔ اس نے اخباری نمائندوں کو بتایا ’’میں نے کسی صلے کی تمنا کیے بغیر اس غریب کی مدد کی۔ مگر جب دیکھا کہ ایک مغرور اس کی عزت نفس اور خودداری پر حملہ کررہا ہے، تو میں خاموش نہیں رہ سکا۔ یہ ہمارے پاکستانی کلچر کا حصہ ہے کہ ہم دکھ و مصیبت میں مبتلا پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔‘‘قابل ذکر بات یہ کہ سجاد کے لیے معاملہ معمولی مدد تک ختم نہیں ہوا۔ اس نے قلاش انگریز کو ملازمت بھی دلوائی اور یوں اسے اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ سجاد کاہلوں کے رحم دلانہ اور دکھی انسان سے محبت آمیز سلوک نے سبھی پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیئے۔

آج کل بدی و شر پر مبنی خبریں ہی زیادہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ بہرحال لوگوں میں مایوسی و ناامیدی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔ تاہم وقتاً فوقتاً نیکی و خیر کے واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔ ان کے باعث اندھیرے میں روشنی کی کرنیں جھلملاتی ہیں اور انسانیت پر معدوم ہوتا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے۔ سجاد کاہلوں اُمید کا صرف ایک ستارہ ہے۔ ان جیسے کئی ستارے ہمارے معاشرے میں طلوع ہو کر ہمت و حوصلہ بڑھاتے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ بقول ظہیر کاشمیری

ممکن ہے نکل آئے یہاں کوئی مسافر

صحرا میں لگاتے چلو دو چار شجر اور

جیکٹیں نہ چھینو:

اوائل دسمبر میں سردی شروع ہوئی تو ظاہر خان نے جیکٹیں فروخت کرنے کی ریڑھی راولپنڈی کے معروف چاندنی چوک پر لگالی۔وہ غریب آدمی تھا۔جمع پونجی خرچ کرکے جیکٹس خریدیں تاکہ بیچ کر منافع کماسکے۔ سہ پہر کو ریڑھی پر کھڑا تھا کہ ٹریفک پولیس کے دو سپاہی وہاں پہنچے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ انہوں نے پھر ظاہر خان سے چودہ پندرہ جیکٹس چھینیں اور نو دو گیارہ ہوئے۔ بیچارا ظاہر چیختا چلاتا رہ گیا۔ سپاہیوں کو علم نہ تھا کہ ان کے ناروا اقدام کی ویڈیو ایک راہ چلتے آدمی نے بنالی تھی۔ اس نے وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔سوشل میڈیا کی خامیاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ ظلم و ناانصافی اجاگر کرنے والا اہم ہتھیار بن چکا۔ جلد ہی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی اور ہزارہا پاکستانیوں نے اسے دیکھ کر سپاہیوں پر لعنت ملامت بھیجی جو غریب ریڑھی بان سے زبردستی جیکٹس لے گئے تھے۔

اتفاق سے راولپنڈی پولیس کے ناظم، محمد حسن یونس کی نظروں سے بھی یہ ویڈیو گزری۔ انہوں نے فوراً واقعے کی تفتیش کا حکم دے دیا۔ جلد ہی وہ لالچی اور خود غرض ٹریفک سپاہی پکڑے گئے جنہوں نے غریب ظاہر سے جیکٹس چھینی تھیں۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔اگلے دن محمد حسن چاندنی چوک پہنچے، ریڑھی بان کو جیکٹس واپس کی، اسے گلے سے لگایا اور تسلی دی کہ آئندہ کوئی سپاہی اسے بے جا تنگ نہیں کرے گا۔سی پی او محمد حسن یونس کی رحم دلی اور غریب پروری نے سبھی پاکستانیوں کو ازحد متاثر کیا۔ پولیس اہلکاروں نے قانون کی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ اگر ریڑھی بان نے کوئی غیر قانونی حرکت کی تھی تو وہ انسانی پہلو مدنظر رکھ کر اسے محض سرزنش بھی کرسکتے تھے۔ مگر وہ اس بیچارے کی روزی روٹی پر لات مار کر چلے گئے۔ خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔ اب وہ مکافات عمل کا نشانہ بنے معطل ہیں۔ ہمارے ہاں بااثر مجرموں کو پولیس کم ہی چھیڑتی ہے جبکہ غریب کوئی جرم بھی نہ کرے تو اسے دھرلیا جاتا ہے۔ قانون کی یہ دوعملی ختم ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرے میں عدل و انصاف جنم لے سکے۔

ہمدرد پولیس کانسٹیبل:

پولیس میں گندی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، تو اس میں فرض شناس، رحمدل اور ہمدرد افسر و سپاہی بھی ملتے ہیں۔ اسلام آباد ٹریفک پولیس سے منسلک کانسٹیبل عامر بیگ ایک ایسے ہی منفرد سپاہی ہیں۔ اوائل نومبر میں وہ ایک سٹرک پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ اچانک انہوں نے دونوں ٹانگوں سے معذور ایک شخص کو دیکھا جو سڑک پار کرنا چاہتا تھا مگر رش کی وجہ سے نہ کرپایا۔ اس کی پریشانی عامر بیگ سے دیکھی نہیں گئی۔انہوں نے معذور ہم وطن کو گود میں اٹھایا، سڑک پار کرائی اور اسے اپنے راستے پر گامزن کردیا۔ ظاہر ہے، عامر نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پانے اور نیکی کمانے کے لیے ایک معذور کی مدد کی تھی۔ تاہم وہاں کھڑے ایک آدمی نے یہ سارا منظر موبائل پر محفوظ کیا اور پھر ویڈیو میڈیا میں ڈال دی۔ جلد ہی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

اہل پاکستان نے کھلے دل سے عامر کو جذبہ ہمدردی دکھانے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے یہ سچائی بھی عیاں کی کہ عامر جیسے سپاہیوں کے باعث ہی عوام میں پولیس کا مثبت تاثر ابھرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ایک گندی مچھلی سارا تالاب گندہ کردیتی ہے اسی طرح ایک انسان بھی نیکی و خیر کے عمل انجام دے تو اس کی دیکھا دیکھی ہزاروں لاکھوں ہم وطنوں کو اچھے کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔یہ ویڈیو آئی جی اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار کی نظروں سے بھی گزری۔ انہوں نے عامر بیگ کو نہ صرف شاباش دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کے لیے دس ہزار روپے بطور انعام بھی دیئے۔ امید ہے، پاکستان پولیس فورس کے سبھی جوان عامر بیگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہیں گے۔

پی آئی اے کا فرض شناس اہلکار:

یہ دس نومبر 2019ء کی بات ہے، لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی پاکستان جانے کی خاطر ہوائی جہاز پر بیٹھے۔ وہ پچھلے کئی برس سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ اس دوران دیار غیر میں مختلف ملازمتیں کیں اور کافی پونڈ کمائے۔ آمدن سے انہوں نے قومی بچت کے سیونگ سرٹیفکیٹس خرید لیے جن کی مالیت تیس کروڑ روپے تھی۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان جارہے تھے تاکہ زندگی کے بقیہ برس وطن میں آرام و سکون سے گزار سکیں۔نشست پر بیٹھے ان صاحب نے پھر دستی بیگ کی سمت ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے کھول کر اطمینان کرسکیںکہ سیونگ سرٹیفکیٹ اور چار ہزار پونڈ محفوظ ہیں۔ مگر یہ کیا… دستی بیگ تو وہاں موجود نہ تھا۔

انہوں نے چونک کر اِدھر اُدھر، نشست کے نیچے دیکھا مگر بیگ تو غائب تھا۔ ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، سر میں چکر آنے لگے۔یقینا وہ ہیتھرو ہوائی اڈے پر کسی جگہ بیگ بھول آئے تھے۔ ہوائی جہاز کو پرواز کرتے پندرہ منٹ بیت چکے تھے۔ اب اسے واپس ہوائی اڈے بھی لے جانا ناممکن تھا۔ پھر ہیتھرو تو دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ اب تک کوئی نہ کوئی ان کا بیگ اٹھا چکا ہوگا۔وہ اپنی قسمت پر ماتم کرنے لگے۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ کوئی ساتھ ہوتا تو ان کی ڈھارس بندھاتا مگر وہ اہل خانہ کو دو ہفتے قبل پاکستان بھیج چکے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ آخر فیصلہ کیا کہ کراچی پہنچ کر دیکھیں گے ہوگا کہ جمع پونجی پانے کے لیے کیا قدم اٹھایا جائے۔ انہیں جیسے یقین ہوگیا تھا کہ ان کی عمر بھر کی کمائی لٹ چکی۔ انہوں نے تو کسی جگہ سیونگ سرٹیفکیٹس کے نمبر بھی لکھ کر محفوظ نہیں کیے تھے۔

جب ہوائی جہاز میں وہ پاکستانی شدید پریشانی کے عالم میں ہاتھ مل رہے تھے، تو اُدھر ہیتھرو ہوائی اڈے پر محمد نوید قریشی کو اپنی بغلی میز پر ایک بیگ پڑا دکھائی دیا۔ محمد نوید قومی ایئرلائن، پی آئی اے میں ملازم تھے۔ انہیں ہیتھرو پر پی آئی اے کی ڈیسک سنبھالے کچھ ہی ماہ ہوئے تھے۔ پرواز کے سمّے اتنا ہجوم ہوجاتا تھا کہ مصروفیت کی وجہ سے سر کھجانے کو فرصت نہ ملتی۔ پرواز روانہ ہوئی اور محمد نوید فارغ ہوئے تو ان کی نظر بیگ پر پڑی۔ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی بھلکڑ یا ضعیف مسافر اسے بھول گیا۔

اسی دوران ایک ہمدرد فضائی میزبان (ایئرہوسٹس) نے اپنے ہم وطن کو نہایت پریشان دیکھا تو ان کے پاس چلی آئی اور پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ تب انہوں نے سارا ماجرا سنایا کہ ان پر کیسی قیامت ٹوٹ گئی ۔ فضائی میزبان نے فوراً ہیتھرو ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے سٹاف سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ایک پاکستانی مسافر کسی جگہ اپنا دستی بیگ بھول آئے ہیں۔ اس میں تیس کروڑ روپے کے سیونگ سرٹیفکیٹس اور چار ہزار پونڈ موجود ہیں۔یہ اطلاع محمد نوید قریشی کو بھی ملی۔ وہ جان گئے کہ یہ بیگ اسی پاکستانی کا ہے۔ انہوں نے فوراً بیگ اسٹیشن منیجر، ایاز خان کے حوالے کردیا۔

ایاز صاحب نے ہوائی جہاز پر رابطہ کرکے عملے کو بتایا کہ ان صاحب کو خبر دیجیے، بیگ مل گیا ہے۔ اس میں سرٹیفکیٹ اور رقم محفوظ ہے۔ جب یہ خبر پریشان حال پاکستانی کو ملی تو وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ فرط مسرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے ہیتھرو پر تعینات پی آئی اے کے عملے کا بہت شکریہ ادا کیا اور ایمان داری کے مظاہرے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ اگلی پرواز سے ان کا بیگ پاکستان روانہ کردیا گیا جو انھیں مل گیا۔ یوں انہیں اپنا سرمایہ حیات اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور دیانت دار محمد نوید کی فرض شناسی سے واپس مل گیا۔

یہ واضح رہے کہ جب محمد نوید کو بیگ ملا تو وہ تنہا تھے۔ وہ چاہتے تو موقع پا کر بیگ چھپالتے۔ کس نے ان کی تلاشی لینی تھی؟ مگر اللہ تو انہیں دیکھ رہا تھا۔ پھر محمد نوید کا ضمیر بھی زندہ تھا جس نے چوری کرنا گوارا نہیں کیا۔ آج کل خبریں آرہی ہیں کہ پی آئی اے کی پروازوں پر لدے سامان سے عملہ قیمتی اشیا نکال لیتا ہے۔ممکن ہے کہ قومی ایئرلائن میں چور موجود ہوں۔ مگر محمدنوید کی درخشاں مثال سے عیاں ہے کہ پی آئی اے میں ایمان دار اور ہمدرد اہلکار بھی پائے جاتے ہیں۔ انہی نیک انسانوں کے دم قدم سے دنیا کا نظام بھی چل رہا ہے۔بقول شاعر       ؎

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

The post غریب انگریز کا دفاع کرنے والا رحمدل پاکستانی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>