Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

اب شروع کرو ۔۔۔’’خبروں سے پاک شوز‘‘

$
0
0

میں وئی کؤں کہ بھیے! اتنے اچھے، دیانت دار، باصلاحیت، لاجواب حکم راں، گویا ’’چُنے‘‘ ہوئے دانے۔۔۔کوئی مانے یا نہ مانے، جس طرح ’’شبیر تو دیکھے گا‘‘ اسی طرح عثمان تو مانے گا، پھر بھی سب کیا کچھ بھی ٹھیک کیوں نہیں ہوریا۔

چچاآس امیدیقینی سے اس مشکل سوال کا جواب جاننا چاہا۔ چچا کے بارے میں یہ بتادیں کہ موجودہ حکومت سے ان کی محبت اور محبت سے بڑھ کر امید اس درجے کی ہے کہ اکثر کچھ کھٹا کھاتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے سوال کے جواب میں پہلے تو انھوں نے کچھ ’’صابرشاکر‘‘ اور حکومت پر ’’نثار‘‘ صحافیوں کو چھوڑ کر پورے میڈیا کے لَتّے لیے، پھر پچھلی حکومتوں کی خبر لی، آخر میں ففتھ جنریشن وار اور اندورنی بیرونی سازشوں سے پردہ اٹھانے کے بعد (جو پردہ اٹھا کر بھی انھیں ہی نظر آئیں) کہنے لگے’’میاں! ایک بات اور بھی ہے، تم نے وہ شعر تو سُنا ہوگا۔۔۔پہلے پہل کا عشق عجب ہوتا ہے فراز۔۔۔دل خود ہی چاہتا ہے کہ رسوائیاں بھی ہوں۔ تو ان کی بھی پہلے پہل کی حکومت ہے، ان کا بھی یہی دل چاہ رہا ہے‘‘

ہم نے حیرت سے پوچھا،’’چچا! سب صحیح، مگر کوئی حکومت اپنی رسوائی، بلکہ اتنی روسیاہی کیوں چاہے گی۔‘‘

بولے،’’ارے میاں تم روحانیت کے راز کیا سمجھو، تصوف کے فرقۂ ملامتیہ کو کیا جانو۔ یاد رکھو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ، سکون صرف قبر میں ہی ملنا ہے پیارے۔ یہ حکومت لوگوں کو تصوف کی طرف مائل کر رہی ہے۔‘‘

ہم نے سر جھکا کر عرض کیا،’’اچھا، اسی لیے اتنا گھائل اور اچھے اچھوں کو سائل کر رہی ہے۔‘‘

چچا آس امیدی یقینی ہی کی بات سُن کر ہم خاصے مطمئن ہوگئے تھے کہ اب وزیراعظم عمران خان نے بتادیا کہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے، بس اتنا کرنا ہوگا کہ لوگ اخبار پڑھنا اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ دیں۔ خان صاحب کے فرمائے ہوئے اصل الفاظ ہیں،’’حکومت کو گذشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے، اس لیے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اخبار نہ پڑھیں اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز ہرگز نہ دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں تو تبدیلی آگئی مگر میڈیا میں نہیں آئی۔ ہوا یوں کہ ساری کی ساری تبدیلی ملک میں آگئی، میڈیا کے لیے تھوڑی سی بھی نہیں بچی، چناں چہ یہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے پہلے بھی حکومت پر تنقید کرتا تھا اور اب بھی کر رہا ہے۔۔۔مگر وہ تو نوازحکومت تھی، انصاف کا تقاضا کچھ بھی ہو لیکن تحریک انصاف کا تقاضا ہے کہ اب میڈیا کو ’’حکومت نواز‘‘ ہوجانا چاہیے اور وزیروں کے سُر کے ساتھ ساز بجانا چاہیے۔ ہم وزیراعظم کے بیان کی مکمل تائید کرتے ہیں، سارے فساد کی جَڑ ٹاک شوز ہی ہیں۔

ان کی وجہ سے خواتین ڈرامے دیکھ نہیں پاتیں اور حکومتی ڈرامے چل نہیں پاتے۔ یوں بھی پیٹرول نہایت سستا ہونے اور تمام اشیاء انتہائی کم قیمت ہونے کے باعث لوگ پورا پورا دن سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے اور جگہ جگہ خریداری کرتے رہتے ہیں، تھکے ہارے گھر پہنچ کر ٹی وی کھولتے ہیں تو سامنے منہگائی کا رونا روتے ٹاک شوز ہوتے ہیں، جو تھکن دور کرنے کے بجائے بڑھا دیتے ہیں، ٹی وی چینلوں کو چاہیے کہ کو ٹاک شوز ختم کرکے ’’خبروں سے پاک شوز‘‘، ’’حقائق پر ڈالو خاک شوز‘‘ اور ’’سرکار کی دھاک شوز‘‘ شروع کریں۔ خیال رہے کہ قافیہ پیمائی کے چکر میں کوئی چینل ’’ٹِک ٹاک شو‘‘ شروع نہ کردے! ’’سب ٹھیک ہونے‘‘ تک لوگوں کو زمین کے معاملات سے بے گانہ رکھنے کے لیے ’’افلاک شوز‘‘ کی شروعات بھی کی جاسکتی ہے اور حکومت کی ناک کٹنے سے بچائے رکھنے کے لیے ’’ناک شوز‘‘ کا آغاز بھی کیا جاسکتا ہے۔

پنجابی فلم ’’جٹ دا کھڑاک‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کے کارناموں پر مشتمل ’’حکومت دا کھڑاک شوز‘‘ کا آئیڈیا بھی بُرا نہیں۔ ہول ناک اور خوف ناک شوز پیش کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جن کے موضوعات ہوں مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ قبر میں بھی ’’سکون‘‘ نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟ اور قبر کے بِچھو وغیرہ۔ کیا اچھا ہو کہ ٹاک شوز کی جگہ ’’ٹاک شُوز (shoes) یعنی ’’بولتے جوتے‘‘ کا سلسلہ شروع ہوجائے، لو جی مسئلہ ہی حل ہوا۔ ایک وفاقی وزیر ٹاک شو میں جوتا لاکر دراصل یہ تصور پیش کرچکے ہیں۔ بس جوتے بھاری ہونا چاہییں، تاکہ آواز آئے۔

چینل کچھ بھی کریں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کا روئے سُخن عوام کی طرف ہے، چناں چہ عوام کو ان کی ہدایت مانتے ہوئے ٹاک شوز دیکھنا ترک کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان شوز کے دورانیے میں لوگ دیکھیں تو کیا دیکھیں۔ فکر نہ کریں دیکھنے کو بہت کچھ ہے، کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ، جب یہ سب دیکھ کر پتا چل جائے کہ کہیں تبدیلی نہیں آئی تو لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھیں، اور پھر ایک دوسرے سے کہیں ’’دیکھتا کیا ہے مِرے منہ کی طرف۔۔۔قائداعظم کا پاکستان دیکھ‘‘، بجلی اور گیس کے بِل دیکھیں، جس کے لیے بڑی ہمت چاہیے، لہٰذا لوگ بل ہاتھ میں تھام کر کہہ اُٹھیں گے ’’یہ کاغذی‘‘ ہے، مگر دیکھنے کی تاب نہیں۔۔۔اور منہ موڑ کر ایک طرف رکھ دیں گے، (منہ نہیں بِل)

چلیے سب ٹھیک ہونے کے لیے ٹاک شوز سے جان چُھڑانے کا مسئلہ تو حل ہوا، اب آتے ہیں اخبارات کی طرف۔ اگرچہ خان صاحب نے سِرے سے اخبار پڑھنے کی ممانعت کی ہے، لیکن اگر سِری استعمال کی جائے تو دراصل ان کا اشارہ صرف خبروں کی طرف ہے۔ اخبارات میں پڑھنے کو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی واسطہ نہیں، جیسے موسم کا حال، پرنٹ لائن، ضرورت رشتہ کے اشتہارات، ان میں سے بھی طلاق یافتگان کے اشتہار پڑھنے سے گریز کریں کہیں آپ کا ذہن بھٹک کر کسی اور طرف نہ چلا جائے۔ ایسے کالم بھی قطعی ضرررساں نہیں جو حالات حاضرہ پر ہونے کے بجائے محض حاضری لگانے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ ان میں حالات حاضرہ کی جگہ ماضی کا ماجرا، کسی امیر کی غربت سے امارت تک کے لیے کی جانے والی ’’ریاضت‘‘ کا تذکرہ یا اپنی محنت، تعلقات اور صلاحیت کا احوال فاخرہ ہوتا ہے۔ بس اتنا پڑھنا کافی ہے، باقی سب اضافی ہے، اس کے بعد اخبار کا دسترخوان بنائیں، الماری کے تختے پر بچھائیں یا اسے ٹشوپیپر کے طور پر آزمائیں آپ کی مرضی۔

اخبارات کا بھی فرض ہے کہ وہ ’’سب ٹھیک‘‘ کرنے کی مہم میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اگر خبریں اور حالات حاضرہ سے متعلق کالم ومضامین شایع نہ ہوں تو کون سی قیامت آجائے گی! عوام کو ہنسانے کے لیے لطیفے چھاپیں، وزیراعظم کی تقاریر سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے، ٹوٹکے شایع کریں، ’’کئی دن سے مجھے بھولے ہوئے ہو۔۔۔۔اے میرے پھول کیا پھولے ہوئے ہو‘‘ جیسے رومانوی اشعار چھاپ کر نئے نویلے عاشقوں کا بھلا کریں۔

یہ سب کرنے کے بعد جب سب ٹھیک ہوجائے پھر چاہے چینل ’’سب ٹھیک ٹھاک شوز‘‘ چلائیں یا اخبارات ٹھوک بجاکر ٹھیک ٹھیک خبریں لگائیں، ہمیں اعتراض ہوگا نہ وزیراعظم کو۔

The post اب شروع کرو ۔۔۔’’خبروں سے پاک شوز‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


تھر کا سحر

$
0
0

اچانک فون کی آواز سے میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا، دوسری طرف میرحسین تھا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ بول اٹھا:
“ارے یار شبیر! جلدی سے پیکنگ کرلو۔ فوری”
“کیوں ؟ کیا دشمن ملک نے حملہ کردیا ہے یا کوئی زلزلہ آنے والا ہے؟”

“ارے نہیں یار! ایسا کچھ نہیں ہے، بات یہ ہے کہ ہمیں فوری تھرپارکر چلنا ہے۔” اس نے ہنس کر جواب دیا اور پھر کہا کہ “بات یہ ہے کہ پورے سندھ میں بارشیں ہوئی ہیں اور ایسے میں صحرائے تھر کی خوب صورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے ہمیں فوراً تھر چلنا ہے، میں نے مقصود سے کہہ دیا ہے، وہ بھی تیار ہورہا ہے۔”
“تو۔۔۔ تو کیا ابھی چلنا ہے؟؟” میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
“نہیں، ایک ماہ بعد۔ ارے بھائی، اس وقت صبح کے نو بجے ہیں، ہم لوگ بارہ بجے تک نکل چلیں گے۔”
“ٹھیک ہے، ابھی تیار ہوتا ہوں۔” اس نے مزید کچھ باتیں کیں اور فون بند کردیا۔ میں چھلانگ لگا کر بستر سے نکلا، ناشتہ کیا اور سامان پیک کرلیا، پیک کیا کرنا۔ میرا سفری سامان ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ہم تینوں دوستوں یعنی میرے علاوہ میرحسین اور

مقصود کو جنون کی حد تک سیاحت کا شوق ہے۔ میں تیار ہوکر ٹیلی ویژن پر تازہ ترین نیوز بلیٹن اور نیوزاپ ڈیٹ دیکھنے لگا۔ پورے سندھ میں دھواں دھار بارشوں نے تباہی مچا دی تھی۔ ایسے میں سفر بہت سنسنی خیز اور کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتا۔ میں صورت حال سے پریشان ہونے کے بجائے لطف اندوز ہورہا تھا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میرحسین اور مقصود آگئے، میں سامان لے کر فوراً باہر نکلا۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اگرچہ ہم لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، لیکن جب بھی اس قسم کے سفر کے لیے نکلتے ہیں، خوشی سے دیوانے ہورہے ہوتے ہیں۔ میں نے کار میں اپنا سامان رکھتے ہوئے کہا کہ آؤ، چائے پی لو، پھر چلتے ہیں۔”نہیں یار ۔ سپر ہائی وے پر چوہدری کے ہوٹل پر چائے پییں گے۔ مزا آجائے گا، دیکھ تو سہی، موسم کتنا سہانا، بلکہ عاشقانہ ہے۔” مقصود نے جواب دیا۔
اچھا چلو، چلتے ہیں ، یہ کہہ کر میں پچھلی نشست پر بیٹھ گیا اور پھر مقصود کو مخاطب کرکے کہا کہ “موسم عاشقانہ لگ رہا ہے۔”، “ہوں، کیا بات ہے ؟ کہیں کوئی چکر وکر تو نہیں چلا لیا یا ایسے موسم میں کسی کو دل تو نہیں دے بیٹھے؟ ” مقصود نے برجستہ جواب دیا۔

“ارے ۔ ایسا کچھ نہیں ہے، تمہیں پتا ہے ناں کہ ہم تینوں بس سیاحت کو دل دے بیٹھے ہیں۔”
“ہاں یہ بات تو ہے، ہماری محبوبہ تو سیاحت ہے۔ دل چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے اور ہم گھومتے ہی رہیں۔” میر حسین بولے۔
اس کے بعد گپ شپ جاری رہی۔
موسم واقعی بڑا سہانا تھا، اگست کا مہینہ تھا، گہرا ابر چھایا ہوا تھا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ میر حسین نے اپنے سی ڈی پلیئر پر بارش کی مناسبت سے سہانے گیت لگا دیے۔ کچھ دیر ہم تینوں سُر میں سُر ملا کر گاتے بھی رہے۔

ٹول پلازہ کراس کرنے کے نصف گھنٹے بعد نوری آباد سے پہلے ایک ڈھابا ہوٹل تھا، جس کا نام تو کچھ اور تھا، مگر ہم لوگوں نے اس کا نام چوہدری کا ہوٹل رکھ دیا تھا۔ اس کی چائے بڑی مزے دار ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی گرما گرم دودھ پتی چائے اور مزے دار پراٹھے آگئے۔ اس دوران ہم لوگوں کی جملے بازیاں اور گپ شپ جاری رہی۔

چائے سے لطف اندوز ہوکر ہم چل پڑے۔ ہمارا سفر مزے دار گپ شپ کے ساتھ جاری رہا۔ جامشورو سے آگے ہم نے سٹرک کے کنارے کھڑے پھل والوں سے کینو اور امرود خریدے۔ امرود بہت مزے دار تھے۔

ہم نے حیدرآباد میں لنچ کیا، شہر کے اندر نہیں گئے، بلکہ قومی شاہراہ پر ایک ریستوراں میں لنچ کرلیا۔ شام تک ہم میرپورخاص سے آگے نکل چکے تھے۔ راستے میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سفر بہت پُرلطف تھا۔ میرپورخاص سے آگے بڑھے تو میر حسین نے بیلاڑو (قصبے ) پر گاڑی روک دی، تھادل کی ایک مشہور دکان پر۔ اس کے تھادل کا پورے سندھ میں جواب نہیں، اس کی خاص بات اس کے جگ کے برابر بڑے بڑے گلاس ہیں۔ بھلے سے میں گھر میں ایک چھوٹے سے گلاس میں پانی پیوں، مگر بیلاڑو کے دیوہیکل گلاس میں پتا نہیں چلتا کہ کب تھادل ختم ہوا۔ جب تک دوسرا گلا س نہیں پیو، دل نہیں بھرتا۔ تھادل سندھ کا مشہور زمانہ مشروب ہے۔

اس وقت تک شام کے دھندلے سائے رات کی تاریکی میں تبدیل ہوچکے تھے اور ہر منظر کو گہرے اندھیرے نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ آسمان پرستار ے چمکنے لگے تھے۔ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں ستارے زیادہ چمکیلے ہوتے ہیں، کیوںکہ مطلع بہت صاف ہوتا ہے۔

ہم نے رات بیلاڑو کے قریب اسحٰق گبول کے اوطاق (زرعی اراضی میں سندھ کے وڈیروں کے خوب صورت بنگلے) میں گزاری۔ وہ ہمارے اسکول کے زمانے کے دوست غلام محمد گبول کے بھائی ہیں۔

اگلی صبح سویرے ناشتے سے فارغ ہوکر ہم لوگ نکل کھڑے ہوئے۔ اسحٰق گبول نے سندھ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اجرک کا تحفہ دیا اور کئی تحائف کے ساتھ رخصت کیا۔ وہاں سے ڈگری، نوکوٹ اور دیگر قصبوں سے گزرتے ہوئے ہم عظیم صحرائے تھر میں داخل ہوئے۔

بارش کی وجہ سے صحرا میں ہر طرف ہریالی پھیل گئی تھی اور گہرے ابر کی وجہ سے موسم بہت سہانا لگ رہا تھا۔ تھر ویسے تو عام صحراؤں کی طرح ریتیلا ہے، مگر بارشوں میں سرسبز وشاداب ہوجاتا ہے۔

صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے ۔ ملک کا یہ سب سے بڑا صحرا اپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت، کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ، جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا ہے اور کہیں تاریخی مقامات، مندر و مساجد ہیں۔ حدِنگاہ تک صحرا اور اس میں ایسے انوکھے درخت، جو بہت پراسرار نظر آتے ہیں۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس اور سروں پر مٹکے اٹھائے تھری خواتین۔ غرض یہ کہ قدرت کے دل کش مناظر کا شاہ کار صحرا فطری حسن سے پوری طرح مزین ہے۔ یہ ملک کا وہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ صحرائے تھر بنیادی طور پر ہندوؤں، مسلمانوں، اور سکھوں سے آباد ہے۔ پاکستانی حصے میں سندھی اور کولہی آباد ہیں، جب کہ بھارتی ریاست راجستھان کی تقریباً 40 فی صد آبادی صحرائے تھر میں رہتی ہے۔ لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت اور گلہ بانی ہے۔ تھر کا بڑا حصہ صحرا پر مبنی ہے، یہاں کوئلہ، گیس، مٹی اور گرینائیٹ جیسی معدنیات موجود ہیں۔ پاکستانی علاقے میں اس صحرا کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد ہے۔ علاقے میں غربت، بے روزگاری اور پس ماندگی بہت ہے، حکومتیں بدلتی رہیں، مگر تھر کی حالت نہیں بدلی۔

تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر سے استفادے کے بڑے بڑے پروجیکٹ بنائے گئے، جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوئے، البتہ اس سے وابستہ ذمہ داران کروڑ پتی ضرور بن گئے۔

تھر کا موسم شدید ہوتا ہے، گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ، جب کہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اُگلتا ہے۔ تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے، صحرا کی خنک ہوائیں موسم کو خوش گوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیز ہوتی ہیں کہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہیں۔

صحرائے تھر کراچی سے چار سو کلومیٹر سے دور واقع ہے۔ وہاں جانے کے دو راستے ہیں، ایک کراچی سے ٹھٹھہ اور بدین سے گزرتا ہوا جاتا ہے اور دوسرا کراچی سے حیدرآباد ، میرپورخاص اور نوکوٹ سے تھر پہنچتا ہے۔ اس کا ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی ہے۔ اگر آپ تھر جانا چاہتے ہیں تو بسوں پر بھی جاسکتے ہیں اور اگر استطاعت ہے تو اپنی جیپ پر بھی۔ اس کے علاوہ کراچی کی بہت سی ٹریول ایجنسیاں بھی سیاحوں کو تھر لے کر جاتی ہیں۔ تھر میں گھومنے پھرنے کے بہت سے مقامات ہیں اور کھانے بھی مزے دار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کی دست کاری بھی اپنی مثال آپ ہے۔

تھر میں آبادیاں طویل فاصلوں پر قائم ہیں۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ کئی میل کی مسافت پر ہے۔ زیادہ تر گاؤں بھٹوں کے دامن میں، کہیں صحرائی درختوں کے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں۔

مٹھی کے اطراف کے علاقوں میں صحرا کا حسن پوری طرح جلوہ گر ہے، جب کہ نگرپارکر میں سرسبز زرعی زمین اور گرینائیٹ کے پہاڑ دل کو اپنی طر ف کھینچتے ہیں۔ نگرپارکر کے قریب پہاڑی پر ہندؤوں کے قدیم مندر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ تھر میں جگہ جگہ مور ا س ماحول کو مزید خوب صورت بنادیتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز پروڈیوسر اور رپورٹر کی حیثیت سے میرا کئی دفعہ تھرپارکر جانا ہوا۔ اس کی داستانیں پھر کبھی بیان کروں گا، لیکن میر حسین اور مقصود نے پہلی دفعہ صحرائے تھر میں قدم رکھے تھے۔ وہ اطراف کے مناظر میں کھو کر رہ گئے تھے، میں نے کہا کہ کیا ہوا یارو! کہاں کھو گئے ؟ “کہیں نہیں یار، عجیب سرزمین ہے، ہم تو حیران ہیں کہ نہ یہاں سوات، مری یا گلگت بلتستان کی طرح برف پوش پہاڑ یا لمبے لمبے درخت ہیں اور نہ کچھ اور، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عجب پراسراریت ہے، اس پورے ماحول میں ایسا حسن ہے کہ ہماری تو بولتی بند ہوگئی ہے۔” میر حسین نے کہا۔

“ارے یار! وہ دیکھو، پانی کے گھڑے اٹھائے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھری عورتیں، ان کو ہم نے مختلف ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ کتنی اچھی لگ رہی ہیں، انہوں نے ماحول کو بہت رنگین بنا دیا ہے۔”مقصود بولے جارہا تھا۔

میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ “ارے ارے، کہیں اس رنگینی میں کھو مت جانا، اپنا سفر چھوڑ کر کہیں یہیں آباد مت ہوجانا۔”

“ہا ہا ہا، ارے یار ایسی کوئی بات نہیں، میں اور یہ۔۔۔۔ ہاہاہا۔ میں تو اس ماحول میں کھو گیا ہوں۔”

راستے کے خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم مٹھی پہنچ گئے، وہاںپریس کلب جاکر اپنے دوست اور پاکستان ٹیلی ویژن کے تھرپارکر میں متعین رپورٹر نند لال سے ملے، جو پہلے سے ہمارا منتظر تھا۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں مٹھی کے پریس کلب میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

اس نے ہمارے قیام کا انتظام ایک خوب صورت سے ریسٹ ہاؤس میں کرایا۔ ہماری منزل نگرپارکر تھی، جو خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

نند لال نے بتایا کہ خاندان میں شادی کے باعث وہ ہمارے ساتھ نگرپارکر نہیں جاسکتا، لیکن اس نے ہماری ملاقات کرشن شرما سے کرادی، جن کا تعلق مشہور شخصیت اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی سماجی تنظیم بانہہ بیلی سے ہے اور وہ بھی اسی دن نگرپارکر جارہے تھے۔ لنچ کے بعد ہم تقریباً ساڑھے تین بجے نگر پاکر روانہ ہوئے۔

کرشن شرما وجیہہ شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ بہت بااخلاق اور یارباش قسم کی شخصیت ہیں۔ ہم تینوں تھوڑی ہی دیر میں ان کے دوست بن گئے، خاص طور پر مقصود نے ان سے بہت ہنسی مذاق شروع کردیا۔ کرشن بہت اچھے گلوکار بھی ہیں، میڈیا پر تو نہیں، وہ نجی محفلوں میں گاتے اور خو ب گاتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے، ان کی گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رواں تھی۔

سفر شروع ہوا تو میری فرمائش پر انہوں نے گیت شروع کردیے، کشور کمار کے انداز میں وہ اتنی خوب صورتی سے گارہے تھے کہ ہم تینوں دوست جھوم اٹھے۔ ایک تو موسم سہانا اور دوسرے کرشن شرما کی مدھر آواز۔

مٹھی سے باہر صحرائی علاقہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود تھا۔ یوں لگتا تھا کہ کرشن کے گیتوں پر پورا ماحول رقص کررہا ہو۔ تھوڑی دیر بعد مقصود اور میرحسین نے بھی ان کے ساتھ مل کر گانا شروع کردیا۔ لیکن اپنی بے سری آواز پر شرمندہ ہوکر تھوڑی دیر بعد خود ہی خاموش ہوگئے۔

اسلام کوٹ میں چائے کا دور چلا، اسی دوران پروگرام بنا کہ کوئلے کے ذخائر بھی دیکھے جائیں۔ کرشن فوراً تیار ہوگئے۔ چناںچہ ہم “تھارے جو تڑ” کے علاتے میں پہنچے، وہاں موجود پروجیکٹ انجینئرز نے ہمیں منصوبے کے بارے میں بتایا۔ جب شام

کے سائے گہرے ہونے لگے تو ہم اس علاقے سے روانہ ہوئے۔

ہم رات آٹھ بجے نگرپارکر پہنچے جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ وہاں کرشن شرما ہمیں بانہہ بیلی کے ریسٹ ہائوس لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ تنظیم کا دفتر تھوڑے فاصلے پر ہے جب کہ یہ ریسٹ ہائوس ہے۔ ریسٹ ہائوس ایک بڑے رقبے پر تھا مگر اس کی عمارت Hut اسٹائل میں تھی۔ وہاں ہمارے لیے کھانا پکایا جارہا تھا۔

مقصود ڈرائیونگ سے تھک گیا تھا، اس لیے آرام کرنے لگا، لیکن میرحسین نے کہا کہ آئیں باہر واک کریں تھوڑی سی بھوک مٹائیں۔ ہم نے باہر مٹھائی کی دکان سے دال سیو لیے اور واک کرتے ہوئے کھاتے رہے۔ نگرپارکر میں ہندئووں کی اکثریت ہے۔

وہاں جگہ جگہ پرانے انڈین گانے بج رہے تھے، یوں لگا کہ جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں ہوں۔ واک سے فارغ ہوکر ہم ریسٹ ہائوس پہنچے اور ٹی وی دیکھنے لگے۔ وہاں کیبل لگا تھا اور ہمارے علاوہ چار پانچ افراد اور تھے۔ وہ کوئی انڈین فلم

دیکھ رہے تھے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پروین شاکر مرحومہ کے شعری مجموعے کا مطالعہ شروع کردیا، اس کے بعد کھانا لگایا گیا اور ہم نے ان کے سادہ سے کھانے کو مزے لے لے کر کھایا، کیوںکہ اس میں خلوص کی چاشنی تھی۔ کھانے

سے فارغ ہوکر کچھ دیر گپ شپ اور پھر کل کے لیے پلاننگ ہوئی۔ اس کے بعد ہم سونے کے لیے لیٹے، ایک کمرے میں پانچ چھ چارپائیوں پر بستر لگائے گئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی ہم نیند کی وادیوں میں تھے۔

اگلی صبح سورج نکلنے سے بہت پہلے میں اپنی عادت کے مطابق بیدار ہوگیا، کیوںکہ میں سحر خیز ہوں۔ اپنے معمولات اور مزے دار ناشتے سے فارغ ہوئے۔ ہم نے اپنی کار وہیں چھوڑ دی اور کرشن شرما کے مشورے پر ان کی ہائی ایس وین میں روانہ ہوئے۔ چند منٹ بعد ہی ہماری ہائی ایس وین کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں تھی۔

اُس علاقے میں قدرتی حسن بکھر ا پڑا تھا۔ پتھریلے پہاڑ جن میں جگہ جگہ گرینائیٹ کی چٹانیں بھی ہیں۔ یہ وہی گرینائیٹ ہے جس کے پتھر سے تیار ہونے والے ٹائلز شہروں کی عمارتوں کو حسن بخشتے ہیں۔ اُس پہاڑی سلسلے میں ایک جگہ ہماری وین رک گئی آگے گاڑی کے جانے کا راستہ نہ تھا۔ ہم لوگ گاڑی کو معہ ڈرائیور چھوڑ کر پیدل آگے بڑھے۔ راستہ ہموار تھا البتہ دو یا تین مقامات پر چڑھائی تھی۔ ڈیڑھ دو کلومیٹر چلنے کے بعد ہم ساردھرو پہنچ گئے، جہاں ہندئووں کے مندر اور مقدس تالاب تھا۔ میر حسین مندر میں جانے کے بجائے اس کے اوپر پہاڑی پر چلے گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہاں صدیوں پرانے درخت تھے اور منظر بہت اچھا تھا، اس سحرانگیز فطری ماحول نے ہمیں جکڑ لیا تھا۔ ہمیں اندازہ نہیں ہوسکا کہ کب مقصود اور کرشن بھی وہاں آگئے۔

وہاں سے اتر کر ہم کرشن کے پیچھے ایک تنگ راستے پر چلتے ہوئے ایک دروازے سے گزرے، جس سے نکلنے کے بعد پتھریلی چٹانوں میں ہندئووں کا مقدس تالاب تھا۔ وہاں بلندی پر ایک چٹان پر چند مور بیٹھے تھے جو ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گئے۔ اس کے بعد ہم مندر میں آئے۔ جہاں مندر کے سامنے پجاری کی رہائش کے کمرے اور بہت بڑا کچن اور وسیع دالان تھا۔ وہاں بہت آرا م سے بیٹھ گئے۔ انہوں نے ہمیں چائے کے لیے روکا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ دو پجاری اور ان کے چار خدمت گار! اِن لوگوں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہوگی؟ ایک پجاری نے بتایا کہ یہاں سال میں دو مذہبی تہوار ہوتے ہیں جن میں شرکت کے لیے پاکستان کے علاوہ بھارت سے سے سیکڑوں ہندو یاتری آتے ہیں۔ یعنی آنے والے مندروں میں چڑھاوے بھی چڑھاتے ہوں گے، جن سے اِن لوگوں کی نہ صرف یہ کہ گزر بسر ہوتی ہے، بلکہ مندروں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔

وہاں سے فارغ ہوکر اپنی وین تک چلے۔ وین پر بیٹھنے جاہی رہے تھے کہ ایک دس گیارہ سال کا لڑکا ملا جس نے کہا کہ میں صرف چھ منٹ کے اندر سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر واپس آسکتا ہوں۔ میرے ہاں کہنے پر وہ واقعی کسی بندر کی طرح بھاگتا اور چھلانگیں مارتا ہوا پہاڑی پر گیا اوپر جاکر ہاتھ ہلایا اور پھر بھاگتا ہوا واپس آگیا اور وہ بھی چھ منٹ کے اندر۔ پھر مجھ سے پیسے مانگنے لگا میں نے اس کوسو روپے دیے اور اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایسی چمک دیکھی جو مجھے اب بھی یاد ہے۔

تیسرے پہر نگرپارکر کے ریسٹ ہائوس میں، جہاں ہم مقیم تھے، کھانا کھاکر کاسبو روانہ ہوئے۔ بھارت کی سرحد سے ملحق اُس قصبے میں سیکڑوں مور پائے جاتے ہیں۔ ہماری راہ نمائی کے لیے ڈاکٹر شنکر لال ساتھ تھے۔ ان کی رہائش گاہ بھی کاسبو میں ہے۔

کاسبو پہنچے تو عجیب منظر دیکھا کہ سارے گھر چونرے کی صورت میں ہیں۔ چونرا تھر کے خاص قسم کے جھونپڑے کو کہتے ہیں۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے دائرے میں گندم کے بھوسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گول دیوار کے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے، اور پھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بنا کر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔

کاسبو سے باہر نکلنے کے بعد ایک اور گائوں کے قریب مندر میں گئے، جس کے احاطے میں موروں کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ڈاکٹر شنکر لال ہمیں قریب ہی واقع ایک اور مندر میں لے گئے جہاں پجاری نے بتایا کہ شام کو یہاں سیکڑوں مور آتے ہیں۔ شام ہورہی تھی اور ہم نے دیکھا کہ اس مندر کے احاطے میں درجنوں مور ہیں۔ اسی دوران پجاری نے ہمارے لیے چائے کا انتظام کردیا۔ اُس احاطے میں جہاں ایک طرف مور رقص کررہے تھے چائے پینے میں بہت ہی مزا آیا۔ اسی دوران مقامی لوک گلوکار یوسف مل گیا جس نے ضد کرکے مندر کے احاطے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے پاس ہارمونیم اور طبلہ بھی تھا اور اس کے دو ساتھی بھی۔ اُن کی وجہ سے پورے ماحول میں جان پڑگئی۔

جب ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ ہم کاسبو میں آئے تو ڈاکٹر شنکر لال اپنے گھر لے گئے اور چونرے (تھر کے روایتی جھونپڑے) کے باہر کرسیاں بچھا کر ہمیں بٹھایا اور جلدی جلدی چائے کا انتظام کیا۔ چائے سے فارغ ہوکر ہم باہر نکلے تو سورج غروب ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہر طرف اندھیرے کا راج ہوگیا اور کچھ فاصلے پر ایک طویل لائن میں لائٹس روشن ہوگئیں۔ ہمارے ڈرائیور نے بتایا کہ یہ انڈین بارڈر ہے جسے دیکھ کر بہت عجیب سا احساس ہوا۔ اندھیرا ہونے کے بعد نگرپارکر میں اپنے ریسٹ ہائوس پہنچے۔ سارا دن کام اور سفر کرکر کے تھک گئے تھے، کھانے کا انتظار کیا اور کھانے کے بعد ہی سوگئے۔

اگلے روز سورج طلوع ہونے سے بہت پہلے میری آنکھ کھل گئی۔ ناشتے کے بعد ہم نے دکھی دل کے ساتھ نگرپارکر کے خوب صورت علاقے کو الوداع کہا ۔ ہم واپس مٹھی جارہے تھے ۔

“یار اتنے خوب صورت علاقے کراچی کے قریب ہیں اور پھر بھی لوگ تفریح مری اور سوات کا طویل سفر کرتے ہیں۔”مقصود بولا

“صاف بات ہے، سرکار کی توجہ اس طرف نہیں، ورنہ اگر ان سیاحتی مقامات پر کام کیا جائے تو کراچی کیا، پورے ملک اور بیرون ملک سے سیاح بھی ان علاقوں میں آئیں۔ ” میر حسین نے جواب دیا۔ کرشن نے بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور تجزیہ پیش

کیا۔

راستے میں نگرپارکر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بوڈیسر کی تاریخی مسجد تھی جس کی ہم نے زیارت کی۔ وہاں سے ہم گوڑی گائوں گئے اور سیکڑوں سال پرانے گوڑی کا مندر دیکھا۔ وہاں سے ہم لوک داستانوں کے مشہور کردار ماروی کے گائوں گئے۔ میرحسین نے کنوئیں میں اپنا سر ڈال دیا۔ “اے بھائی، کیا ماروی کو تلاش کررہے ہو؟ وہ ملنے والی نہیں، یار۔” مقصود نے فقرہ چست کیا، میر نے حسب عادت کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ کنویں سے سر نکال کر مسکرا کر ہمیں دیکھنے لگا۔ ہمارے میزبان کرشن شرما ہماری راہ نمائی کررہے تھے۔

پھر ہم اسلام کوٹ روانہ ہوئے، جہاں پہنچتے پہنچتے دوپہر بھی ڈھل چلی تھی اور پیٹ میں واقعی چوہے دوڑ رہے تھے۔ لیکن وہاں ڈھنگ کا کوئی ہوٹل نہ تھا۔ مقصود میاں اور کرشن کا خیال تھا کہ ہم کھانے کے بجائے کچھ ہلکی پھلکی چیزیں کھاکر چائے پی لیں۔ چناںچہ ہم نے یہی کیا۔

اس کے بعد ہمارا رخ مٹھی کی جانب تھا، راستے میں سوائے کرشن کے چند مدھر نغموں کے ہم سب چپ چاپ بیٹھے رہے۔

مٹھی پہنچ کر ہم پریس کلب گئے جہاں نندلال ہمارا منتظر تھا۔ اس نے کہا کہ ہماری رہائش کا انتظام سرکٹ ہائوس کے بجائے ڈیزرٹ ریسٹ ہائوس میں ہوا ہے۔ وہ ہمیں ریسٹ ہائوس لایا، جو مٹھی کے مین بازار کے درمیان ہی واقع ہے۔ اچھا خاصا صاف ستھرا ریسٹ ہائوس تھا اور ا س کے کمرے بھی اچھے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ہم گہری نیند سو گئے۔

اگلی صبح ایک بہت عمدہ ریستوراں “ڈان “کے نام سے بن گیا ہے جو ماضی میں نہ تھا، وہاں ناشتہ کیا، بہت مزے دار ناشتہ تھا۔ اس کے بعد ہم نے مٹھی کے روایتی بازار کی سیر کی اور وہاں سے ملبوسات، دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ شہد بھی خریدا۔ پھر کرشن شرما سے الوداعی ملاقات کرنے بانہہ بیلی کے دفتر گئے۔ انہوں نے زبردستی چائے پلائی۔ بارہ بجے مٹھی سے نکلے اور متبادل راستے سے سفر کرتے ہوئے بدین پہنچے، جہاں اپنے عزیز دوست ملک الیاس کو فون کیا، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بدین سے گزر رہا ہوں تو وہ بضد ہوگئے کہ لنچ کے بغیر یہاں سے چلے گئے تو زندگی بھر تمہاری منحوس صورت نہیں دیکھوں گا تو میری ہنسی نکل گئی۔

میرے کہنے پر میر نے گاڑی کا رخ ملک الیاس کے پیٹرول پمپ کی طرف کردیا، جہاں اس نے پیٹرول پمپ کے آفس کے اوپر دو آرام دہ کمرے بنارکھے تھے۔ وہاں ہم تازہ دم ہوئے

اور لنچ کیا۔ اس وقت چکن کڑاہی اور میٹھے پانی کی فرائی مچھلی اتنی مزے دار لگی کہ بیان نہیں کرسکتے۔

بدین سے روانہ ہوئے تو راستے میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی، مقصود تو کار کے عقبی حصے میں جاکر سوگیا۔ میر حسین ڈرائیونگ کرتا رہا اور میں اس سے گپ شپ۔ ہم کراچی پہنچے تو رات کے نو بج چکے تھے۔ میں نے اس یادگار سفر کی فوٹوز اور ویڈیوز بنائی تھیں۔ بعد میں ایڈٹ کرکے یوٹیوب پر اپنے چینل پر اپ لوڈ کردیں۔ زندگی میں سفر تو بہت کیے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، لیکن صحرائے تھر کا وہ سفر اب بھی یاد کرتا ہوں تو اس کے سحرانگیز مناظر بہت لطف دیتے ہیں۔

The post تھر کا سحر appeared first on ایکسپریس اردو.

کیسے ہوں گے اگلے 10 سال۔۔۔۔!

$
0
0

بلاشبہہ 2020 ایک نئے سال کی شروعات کے ساتھ ایک نئی دہائی کا نقطہ آغاز بھی ہے۔

گذشتہ دہائی میں ہم نے ستارہ مریخ کی جانب مختلف ملکوں کو تیزی سے اپنے قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا، بغیر ڈرائیور کی خودکار گاڑیوں کے سڑکوں پر دوڑنے کی باتیں سنیں اور بلیک ہول کی کیمرے سے کھینچی گئی پہلی حقیقی تصویر بھی ملاحظہ فرمائی۔ لیکن اگلی دہائی میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے بطن سے مزید کیا کچھ برآمد ہونے والا ہے، یقیناً اس سے متعلق ابھی تک آپ کو کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا ہوگا، مگر بے فکر ہوجائیں کیوں کہ اگلے دس سال میں رونما ہونے والے محیرالعقول واقعات کا احاطہ زیرِنظر مضمون میں کردیا گیا ہے۔

اگلی دہائی سے متعلق یہ پیش گوئیاں محض خیالی و افسانوی باتیں کرنے والے لوگوں یاوہ گوئی نہیں ہیں بلکہ یہ پیش گوئیاں دنیا کے بہترین سائنس دانوں اور ماہرینِ معاشیات کی متفقہ آراء کا دل چسپ ومحققانہ مجموعہ ہے۔ اِن پیش گوئیوں میں اُن ایجادات، نظریات اور سائنسی منصوبوں پر اجمالی سی نظر دوڑائی گئی ہے کہ جو ابھی تکمیل کے ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن اگلے دس برسوں میں میں ان اختراعات و نظریات کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی قوی اُمید ہے۔ شاید اِسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگلی دہائی سے متعلق یہ تمام کی تمام سائنسی پیش گوئیاں فقط مستقبلیات کی حیران کن جھلکیاں ہی نہیں ہیں بلکہ اگلے دس برسوں میں حضرتِ انسان کو ملنے والے منفرد سائنسی تحائف کی تاریخ ساز ’’بریکنگ نیوز ‘‘ بھی ہیں۔

 2021 میں خودکارگاڑیاں عام ہوجائیں گی

بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کی جاچکی ہیں مگر فی الحال اِن خود کار گاڑیوں کو خرید پانا صرف اُس شخص کے لیے ہی ممکن ہے جو کروڑوں ڈالر اپنے بینک اکاؤنٹ میں رکھتا ہو، جب کہ ابھی تک یہ خود کار گاڑیاں بہت تھوڑی تعداد میں ہی بنائی جاسکی ہیں، لیکن ماہرین کا دعویٰ ہے 2021 میں بغیر ڈرائیور کی یہ خودکار گاڑیاں اتنی زیادہ تعداد میں بننا شروع ہوجائیں گی کہ دنیا میں رہنے والا ہر وہ شخص جو متوسط مالی وسائل بھی رکھتا ہوگا بہ آسانی ایک اچھی سی خودکار گاڑی خرید سکے گا۔

معروف چینی ٹیک کمپنی بیدو(Baidu) نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں برس کے اختتام تک بیجنگ اور شنگھائی میں وسیع پیمانے پر بغیر ڈرائیور کی خودکار گاڑیاں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اگر یہ منصوبہ کام یابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے تو پھر یہ ہی بیدو کمپنی ہزاروں کی تعداد میں بغیر ڈرائیور کی خودکار گاڑیاں یورپی ممالک میں فروخت کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کررہی ہے۔ اگر چینی حکومت نے اِس ضمن میں کیے گئے وعدے کے مطابق بیدو کو متوقع سرکاری سہولیات اور مراعات فراہم کردیں تو بیدو انتظامیہ کے مطابق وہ 2021 میں دنیا کے بے شمار شہروں کو ’’ڈرائیور لیس سٹی‘‘ بنادیں گے۔

 2022 میں شمسی توانائی سے چلنے والے مسافر بردار طیارے پرواز کریں گے

سال 2022 میں ایوی ایشن انڈسٹری نے شمسی توانائی سے آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے والا دنیا کا پہلا مکمل ترین برقی مسافر طیارہ متعارف کروانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ کوئی سائنسی مفروضہ نہیں ہے بلکہ ایوی ایشن انڈسٹری میں پہلے ہی سے دنیا کے مختلف مقامات پر شمسی توانائی سے چلنے والے چھوٹے برقی طیارے بڑی کام یابی کے ساتھ آزمائشی طور پر فضا میں اُڑائے جارہے ہیں۔

شاید یہ وجہ ہے کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں اِس پروجیکٹ پر کام کرنے والے ماہرین انتہائی پُراُمید دکھائی دیتے ہیں کہ وہ 2022 تک بغیر فیول کے مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی کمرشل فلائیٹ کا باقاعدہ آغاز کردیں گے، جب کہ 2022 تک فضا میں اُڑنے والے تقریباً ہر مسافر بردار طیارے کو کم ازکم اِس قابل ضرور بنا دیا جائے گا کہ وہ فیول کے ساتھ ساتھ اپنے سفر کا کچھ حصہ شمسی توانائی کی مدد سے بھی مکمل کر سکے۔ نیز ناروے کی حکومت نے تو باقاعدہ سرکاری طور پر اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ 2023 تک اپنے ملک کی ایئر لائینز سے فیول سے چلنے والے طیاروں کا مکمل خاتمہ کرکے اُنہیں شمسی توانائی سے چلنے والے برقی طیاروں سے بدل دے گا، جب کہ 2025 تک وہ اپنے تمام ایئرپورٹس کو بھی شمسی توانائی پر لے آئے گا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کمرشل ایئرلائنز کے طیارے اگر شمسی توانائی کا استعمال شروع کردیں گے تو فضائی سفر کے مہنگے ترین کرائے ناقابلِ یقین حد تک ارزاں اور سستے ہوجائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اِس وقت 100 میل کے ہوائی سفر پر 400 ڈالر کا فیول خرچ ہوتا ہے تو شمسی توانائی سے چلنے والے مسافر بردار طیارے یہ ہی فضائی سفر فقط 8 ڈالر کے مختصر سے خرچ میں مکمل کرلیں گے۔ اَب آپ کیلکولیٹر نکال کر خود ہی حساب کتاب لگا لیں کہ شمسی توانائی سے چلنے والی کمرشل فلائیٹس چلنے کے بعد فضائی سفر کے مہنگے کرایوں میں کس حد تک کمی آجائے گی۔

 2023 عالمی کساد بازاری کا سال ہوگا

خوش قسمتی سے اِس وقت دنیا کے تمام بڑے ترقی یافتہ ممالک تاریخ کی بہترین معاشی شرح نمو دکھارہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’اچھا وقت ہمیشہ نہیں رہتا۔‘‘ پس گلوبل بزنس پالیسی کونسل کے ماہرین کے مطابق معاشی ترقی کا یہ سفر 2023 میں اختتام پذیر ہوجائے گا اور عالمی معیشت جدید معاشی تاریخ کی بدترین عالمی کساد بازاری کا شکار ہوجائے گی۔ یہ پیش گوئی فرمانے والے معاشی ماہرین دلیل کے طور پر بیشتر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کی طرف سے اختیار کی گئی تازہ ترین سیاسی و معاشی پالیسیوں کو پیش کررہے ہیں۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ یہ پالیسیاں رفتہ رفتہ دنیا بھر میں تجارتی مسابقت، امن و امان کی ابتری، غیرمتوقع جنگی حالات جیسی معیشت کش صورت حال پیدا کریں گی، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی ترقی کے سفر کو بریکیں لگ جائیں گی اور معاشی شرح نمو آہستہ آہستہ سست ہونا شروع ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ 2023 میں پوری دنیا ہی سخت معاشی ابتری اور کسادبازاری کا شکار ہوجائے گی، جب کہ جو ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک اِس معاشی بحران کا سب سے زیادہ نشانہ بن سکتے ہیں اُن میں امریکا، برطانیہ، جاپان، بھارت، فرانس اور چین سرفہرست ہوں گے۔

 2024 میں پہلا انسان مریخ پر پہنچ جائے گا

جی ہاں! سال 2024 میں اولین انسانی مشن کو مریخ پر بھیجنے کی تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور Elon Musk’s Space X  پروگرام کے تحت پہلا راکٹ مریخ کی جانب بھیجنے کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ حالاںکہ ابھی بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا زمین اور مریخ کے درمیان دُوری کو دیکھتے ہوئے واقعی 2024 میں بھیجا جانے والا راکٹ، اسی برس مریخ پر اپنا مشن مکمل کرلے گا؟ اور کیا اِس پروگرام کی راہ میں مریخ پر بسنے والی مخلوق جسے ہالی وڈ فلموں میں اکثر ایلین کے روپ میں دکھایا جاتاہے، رکاوٹ تو نہیں بنے گی؟ بہرکیف اِس بارے میں Space X  کو منتظمین و ماہرین کو اپنے اِس دعوے کی بابت ذرا برابر بھی ابہام نہیں ہے کہ وہ انسان کے قدم 2024 میں مریخ پر پہنچانے میں کام یاب ہوجائیں گے اور اگر کوئی ایلین جیسی مخلوق مریخ پر موجود بھی ہوئی تو وہ اُن سے بھی بخوبی نمٹ لیں گے۔

یاد رہے کہ مریخ کی جانب بھیجے جانے والا یہ پہلا خلائی جہاز ہوگا، جو مکمل طور پر ایک نجی کمپنی کی ملکیت ہے، جب کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے بھی 2024 میں سیاحت کے لیے چاند پر لوگوں کو بھیجنے کے لیے ایک خصوصی خلائی مشن کا اعلان کیا ہے، جس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ایڈوانس بکنگ زورشور سے جاری ہے۔ اس طرح کی خبروں کا سادہ سا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ 2024 میں مختلف ممالک کی حکومتوں ہی نہیں بلکہ نجی ٹیک کمپنیوں کے مابین بھی خلا پر قبضے کی جنگ اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ اَب اِس خلائی جنگ میں فاتح کون ہوگا؟ اِس کے لیے 2024 تک انتظار کرنا ضروری ہے۔

 2025 میں انسانی دماغ کو مکمل طور پر درست کردیا جائے گا

آپ نے سرِراہ یونہی کبھی چلتے چلتے اکثر وبیشتر یہ جملہ تو ضرور سُنا ہی ہوگا کہ ’’ اگر مجھے زیادہ غصہ دلایا تو میں تمہارا دماغ درست کردوں گا۔‘‘ خبر یہ ہے کہ اَب یہ محاورہ بھی مجازی معنی و مفہوم کے پردے کو چاک کرکے حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے اور 2024 میں ہم مغرور انسانوں کے دماغ کو درست کرنے والی کمپنیاں چند سکوں کے عوض باقاعدہ طور پر اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کردیں گی۔ انسانی دماغ کے نقائص دُور کرنے کے اِس منصوبہ کا آغاز 2013 میں امریکی حکومت نے BRAIN Initiative  کے نام سے کیا تھا ۔

اِس پروگرام کو شروع کرنے کا بنیادی مقصد انسانی دماغ کے تمام وظائف اور اعمال کا تفصیلی مطالعہ کرنا تھا۔ منصوبے کے منتظمین کے مطابق اِس پروگرام کو 2025 تک بہرصورت مکمل کرلیا جائے گا اور اسی سال سائنس دانوں کی جانب سے دماغ کے تمام نقائص کو دریافت کرکے انہیں درست کرنے کے لیے ایسی جدید طبی مشین بھی ایجاد کرلی جائیں گی، جن کی مدد سے کسی بھی انسانی دماغ میں سے ڈپریشن، مالیخولیا، چڑچڑا پن یا دیگر دماغی نقائص کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر نا فقط چند لمحوں کا کام بن کر رہ جائے گا، جب کہ اِن جدید طبی مشینوں سے نشے کی لت سمیت دیگر بُری عادتوں کو بھی کسی بھی انسانی دماغ سے مٹا نا ممکن ہوگا۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ سب کچھ بغیر کسی دوا کے استعمال کیے جانے کی نوید سُنائی جارہی ہے۔

 2026 میں دل کے جملہ معاملات بھی نمٹا دیے جائیں گے

کارڈیو ویسکولر دل کی ایسی بیماری ہے ، جس میں ہمارا دل آہستہ آہستہ ضعیفی کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اِس بیماری کی وجہ سے امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں انسانوں کی اچانک و ناگہانی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے، جب کہ دل کے جرمِ ضعیفی کے باعث پیدا ہونے والے اور بھی بے شمار ایسی مہلک اور جان لیوا بیماریاں ہیں، جن کا بروقت علاج ابھی تک میڈیکل سائنس دریافت نہیں کرسکی ہے، مگر شاید 2026 ایک ایسا سال ہو گا۔ جب انسان دل کی بیماریوں سے مکمل طور پر نجات حاصل کر لے گا۔ ہارورڈ اسٹیم سیل انسٹیٹیوٹ کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے انسانی دل کو ضعیفی سے بچانے کے کلینکل تجربات کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیے ہیں، جس کے مطابق جب انہوں نے اپنا دریافت شدہ پروٹین چوہوں کے جسم میں داخل کیا تو اُن کے دل کی دیواروں کی موٹائی کم ہونا شروع ہوگئی اور دل میں شکست و ریخت کا عمل مکمل طور پر رُک گیا۔

شنید یہ ہے کہ اَب یہ ادارہ بہت جلد انسانی دل پر بھی اِس طرح کے عملی تجربات شروع کرنے والا ہے اور ادارے کے منتظمین کو اُمید ہے کہ وہ 2026 سے قبل اُن کے یہ تجربات مکمل ہوجائیں گے۔ اگر یہ تجربات اُن کی توقع کے عین مطابق انسانی دل پر بھی کام یاب ہوجاتے ہیں تو پھر 2026 میں انسانی دل کو تمام امراض سے کلیتاً پاک کردیا جائے گا، جن کی وجہ سے انسان کم از کم دل کی کسی مہلک بیماری کے باعث ناگہانی موت کا شکار ہونے سے بچ سکے گا، جب کہ ممتاز ماہرمستقبلیات رے کرزویل کا بھی اِس خبر سے متعلق کہنا ہے کہ ’’ جس طرح میڈیکل سائنس سال بہ سال ترقی کررہی ہے، اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ انسان 2029 تک تمام جسمانی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائے گا۔‘‘ بہرحال طبی میدان میں کی جانے والی پیش گوئیاں کا سچ ثابت بنی نوع انسان کے لیے ازحد مفید اور خوش آئند خبر ہوگی۔

 2027 میں ترقی پذیر ممالک امریکی معیشت پر غلبہ پاجائیں گے

اِس وقت دنیا معاشی میدان میں زبردست انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور دنیا کی جدید معاشی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب ترقی پذیر ممالک، ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں خطرناک حد تک مثبت معاشی شرح نمو کے اشاریے پیش کررہے ہیں۔ اِن معاشی اشاریوں کے باعث سیاسی طاقت کا عالمی توازن کسی گھڑیال کے پنڈولیم کی طرح اِدھر سے اُدھر ڈانواں ڈول ہورہا ہے۔ معروف معاشی تجزیاتی ادارے Goldman Sachs کے مطابق اگر سب کچھ آئندہ بھی ایسے ہی جاری رہا تو 2027 میں ترقی پذیر ممالک معاشی میدان میں امریکا سے بھی بہت آگے نکل جائیں گے، جب کہ چین کی معیشت 2026 کے اختتام تک امریکی معیشت کو پچھاڑ کر 2027 میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننے کا اعزاز اپنے نام کرلے گی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا سے معاشی میدان میں آگے نکلنے کی دوڑ میں فقط چین ہی اکیلا نہیں ہوگا بلکہ اِس کے ساتھ کئی دیگر ترقی پذیر ممالک بھی ہوں گے، جیسے برکس ممالک برازیل، روس وغیرہ۔ پیش گوئی کرنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 2027 میں اِن درج بالا ممالک کا جی ڈی پی، حالیہ وقت کے سب سے بڑے معاشی طاقت کے گروپ جی 7 ممالک مثلاً کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا کے مشترکہ جی ڈی پی سے بھی کئی گنا زیادہ ہوجائے گا۔ اگر یہ پیش گوئی من و عن درست ثابت ہوجاتی ہے تو پھر حالیہ برسوں میں طے کیے گئے عالمی طاقت بننے کے تمام پیمانے و نظریات مستقبل میں مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ جائیں گے۔

 2028 معدوم حیاتیات کی واپسی کا سال ہوگا

شاید اَب بہت زیادہ عرصے تک جراسک پارک سائنس فکشن صرف تصور نہیں رہنے والا، کیوںکہ سائنس دانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ 2028 میں دنیا سے معدوم ہوجانے والی اکثر حیاتیات کی ازسرِنو پیدائش کو یقینی بنا لیا جائے گا۔ بظاہر یہ بات کسی دیوانے کی بڑ جیسی محسوس ہوتی ہے لیکن کلوننگ اور جینیٹک انجنیئرنگ کے شعبے میں ہونے والے انقلابی ایجادات اور دریافتوں نے عام لوگوں کو بھی اِس پہلو پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ شاید ڈائنوسار جیسے معدوم ہونے والے جانوروں کی فارمنگ کے لیے جراسک پارک جیسے فلمی قسم کے تصورات کو عملی جامہ پہنانا عین ممکن ہوجائے جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سائنس داں اِس حوالے سے اپنے ابتدائی کام کا آغاز بھی کرچکے ہیں اور وہ زمین پر موجود حیات سے قریبی تعلق رکھنے والے مختلف حیاتیات کے عنقریب معدوم ہونے والے ڈی این اے کو حاصل کرکے اُن کے کلون بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

فی الحال ڈائنوسار تو نہیں لیکن ڈو ڈو اور تسمانین ٹائیگر ز نامی عنقریب دنیا سے معدوم والی حیات کے کلون کے ذریعے ازسرِ نو پیدائش کے تجربات خفیہ جگہ پر قائم ایک سائنیفک زو میں جاری ہیں۔ یاد رہے کہ سائنس دانوں کا ایک عقل مند گروہ اِس طرح کے سائنسی تجربات کرنے کی شدیدترین مخالفت بھی کر رہا ہے۔ ان سائنس دانوں کا موقف ہے کہ ’’جراسک پارک جیسے سائنس فکشن تصورات کا حقیقی روپ میں ڈھل جانا ہم انسانوں کی بقا کے لیے کسی بھی صورت میں نیک شگون قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

 2029 بڑھتی ہوئی عالمی آبادی بڑے بحران کا سبب بن جائے گی

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2029 کے اختتام تک دنیا میں انسانوں کی کُل تعداد 8.5 بلین تک پہنچ جائے گی، جس کے بعد بنی نوع انسان کو پرانے بحرانوں کا بالکل نئے انداز میں سامنا کرنا ہوگا۔ چند سائنس دانوں کو تو پختہ یقین ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کی وجہ سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا اختتام تقاضا کرے گا کہ حضرتِ انسان دنیا کے مسائل کے حل کے لیے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے، کیوں کہ 2029 میں ہماری دنیا کو اِس وقت دست یاب خوراک سے 50 فی صد زائد خوراک، 60 فی صد زائد توانائی اور 30 فی صد زائد صاف پینے کا پانی لازمی چاہیے ہوگا۔ انسانی بقاء کے لیے درکار اِن انسانی ضروریات میں تھوڑی سی بھی کمی انسانی بقا کے لیے ایک بڑے حیاتیاتی بحران کا پیش خیمہ ثابت سکتی ہے۔

خاص طور پر جس طرح سے انسان زمین پر موجود قدرتی وسائل کا ضیاع کررہا ہے اُس سے تو یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی 2029 میں دنیا بھر کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن جائے گی۔ معروف برطانوی سائنٹیفک ایڈوائزر جان بیڈڈنگٹن کا کہنا ہے کہ ’’اگر بڑھتی آبادی اور اُس کے لیے درکار وسائل کے درمیان پیدا ہونے والے عدم توازن کے سدباب کے لیے عالمی برادری نے ابھی سے ہی کوئی بندوبست نہیں کیا تو پھر اِن مسائل پر قابو پانا 2029 میں ناممکن ہوجائے گا اور پھر یہ مسائل اُس وقت کی طاقت ور اقوام اور ممالک کو مجبور کردیں گے کہ وہ اپنے سے کم زور ممالک کے وسائل پر جنگوں کے ذریعے قابض ہوجائیں۔ یعنی اگر انسان اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اپنے آپ کو وسائل پر قبضے کی جنگ کے بھیانک دور سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے تو پھر اُسے ابھی سے زمین پر موجود قدرتی وسائل کی حفاظت اور انہیں بڑھانے کا کوئی قابلِ عمل راستہ نکالنا ہوگا۔ ورنہ بقول شاعر۔۔۔ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔

 2030 میں 6 جی ٹیکنالوجی متعارف کروادی جائے گی

اِس وقت دنیا بھر میں 5 جی سیلولر ٹیکنالوجی کا تذکرہ خوب زورشور کے ساتھ جاری ہے حالانکہ دنیا میں بسنے والے بیشتر لوگوں نے 5 جی رفتار سے چلنے والے انٹرنیٹ کا تجربہ بھی اپنے اسمارٹ فون پر نہیں کیا ہے، کیوںکہ فی الحال 5 جی سیلولر ٹیکنالوجی کا آغاز دنیا کے چند مخصوص علاقوں میں کیا جاسکا ہے۔ بہرکیف 5 جی ہمارے، آپ کے اسمارٹ فونز میں جب دست یاب ہوگی تب دیکھا جائے گا، لیکن 2030 میں سکس جنریشن یعنی 6 جی رفتار سے چلنے والی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے آنے کی پیش گوئی ابھی سے فرمادی گئی ہے۔

6 جی سیلولر ٹیکنالوجی سے موبائل فریکونسی 100 گیگا ہرٹز سے 1 ٹیرا بائیٹ ہرٹز کے تیزرفتار انقلابی دور میں داخل ہوجائے گی، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ صارف جو اِس وقت چند سو کلو بائٹس کی رفتار سے اپنے اسمارٹ فون پر انٹرنیٹ چلاتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سماتا، 2030 میں یہی صارف 6 جی نیٹ ورک کی بدولت ٹیرا بائیٹس فی سیکنڈ یا اُس سے بھی زیادہ رفتار سے انٹرنیٹ چلانے کے قابل ہوجائے گا۔

6جی انٹرنیٹ کتنا برق رفتار ہوگا فی الحال اُس کی مثال پیش کرنا بھی ہم جیسے سست رفتار انٹرنیٹ سروس استعمال کرنے والوں کے لیے قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ 6 جی ٹیکنالوجی ابھی تحقیق و تدوین کے ابتدائی مراحل میں ہے، لہٰذا 6 جی ٹیکنالوجی کی اصل ہیئت ترکیبی کیا ہوگی یا اس کے لیے کس قسم کے جدید اسمارٹ فونز، ایپلی کیشنز یا سیلولر نیٹ ورک کا نیا نظام درکار ہوگا؟ اس بابت رائے زنی کرنے میں ماہرین بھی حد درجہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ گو کہ 6 جی ٹیکنالوجی کے خدوخال آنے والے برسوں میں واضح ہوں گے اس کے باوجود ماہرین اپنی اس سائنسی پیش گوئی پر پوری طرح سے قائم ہیں کہ 2030 کے وسط تک 6 جی ٹیکنالوجی کا عام استعمال دنیا بھر میں شروع کردیا جائے گا

The post کیسے ہوں گے اگلے 10 سال۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

’اُجڑے دیار‘ والوں کی نگری پھر اجڑنے کو ہے۔۔۔؟

$
0
0

آپ ایک ’پیالے‘ میں مسلسل پانی ڈالتے رہیے۔۔۔ اور جب وہ چَھلک جائے، تو اس کے گرد ایک اونچے ’کنارے‘ کا تھال رکھ دیجیے، اور پھر پیالے سے چَھلکنے والا پانی اِس بڑے تھال کا حصہ بننے لگے۔۔۔ حتیٰ کہ بڑھتے بڑھتے اِس پانی کی سطح پیالے سے بلند ہو کر تھال کی وسعتوں کو چھونے لگے۔۔۔ لیکن پھر یہ کہا جانے لگے کہ بس تھال کے اندر صرف ’پیالے‘ میں جو پانی ہے، وہی ’جائز‘ ہے، اس کے گرد رکھے گئے بڑے تھال کا سارا پانی تو ’خلافِ قانون‘ ہے، لہٰذا فوری طور پر تھال سے سارا پانی باہر نکال دیا جائے۔۔۔! جب کہ بہ حیثیت ذمہ دار آپ نے پیالا چَھلکنے سے پہلے اس کی جگہ نہ کوئی بڑا پیالا بنا کر دیا، اور نہ ہی اِس محدود پیالے کو چھلکنے سے روکنے کے لیے اس میں مزید پانی کو آنے سے روکا۔۔۔!

یہ ’پیالا‘ اس ملک کی معیشت کا پہیا چلانے والا معاشی دارالحکومت کراچی ہے۔۔۔ جس کی طرف بہنے والا ’پانی‘ اس شہر کی طرف 70 برسوں سے مسلسل جاری رہنے والی نقل مکانی ہے۔۔۔ حکومتوں نے مجموعی طور پر یہاں شہریوں کی آباد کاری کی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں دی، پھر جب خلق خدا کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سرکاری عملے کی مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت سے جائز اور ناجائز تعمیرات ہوچکیں، اور لاکھوں لوگ انہیں اپنا مسکن بنا چکے، تو اب اُسے مسمار کرنے کے احکامات جاری ہونے لگے ہیں، جس سے عمر بھر کی پونجی لگا کر سر پر چھت حاصل کرنے والے شہریوں میں شدید خوف وہراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔

پچھلے تین برسوں سے شہرِقائد میں ’تجاوزات‘ کے خلاف جاری کارروائیوں میں جہاں بڑے پیمانے پر دکانوں کے آگے بڑھے ہوئے حصے منہدم کیے گئے، وہاں بہت سی پوری پوری مارکیٹوں کا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا، جن میں جامع کلاتھ اور ٹاور کے علاوہ ایمپریس مارکیٹ وغیرہ قابل ذکر ہے اور اب ’لی مارکیٹ‘ پر ’طبلِ مسماری‘ بج رہا ہے۔

وہیں قائداعظم کالونی میں قائم گھروں کو بھی توڑا گیا، جس کے مکین اپنے گھر کے ملبے پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔۔۔! اس کے علاوہ پاکستان کوارٹر اور مارٹن کوارٹر وغیرہ کی اراضی خالی کرانے کا معاملہ بھی گرم ہے، جب کہ اب لائنزایریا کی آبادیوں کو بھی ہٹانے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ساتھ ہی گلشن اقبال اور گلستان جوہر کی متعدد عمارتوں کے ساتھ اب بات قیام پاکستان کے وقت سے قائم ’دہلی کالونی‘ (کلفٹن) اور اس سے ملحقہ پنجاب کالونی اور پی اینڈ ٹی کالونی وغیرہ تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 25 ہزار فلیٹوں کی مسماری کا خدشہ ہے، کیوں کہ سات فروری 2020ء کو عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ یہاں پہلی منزل سے اوپر کی جانے والی ساری اضافی تعمیرات منہدم کر دی جائے۔۔۔

’دہلی کالونی‘ کی صورت حال یہ ہے کہ اب یہاں چند ہی پلاٹ ایسے باقی بچے ہیں، جو اس کی زَد میں نہیں آئیں گے، باقی پورے محلے میں مکمل طور پر پانچ، چھے منزلہ عمارتیں آباد ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق اِن فلیٹوں میں مجموعی طور پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ خلاف ضابطہ قرار دی جانے والی عمارتوں کو مسمار کیے جانے کے فیصلے کے حوالے سے دہلی کالونی کی معروف سماجی شخصیت شیخ شمیم فاروق نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’20 برس قبل ’کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ‘ نے علاقے میں تعمیر فلیٹوں کو ریگولائز کرنے کے لیے 900 روپے گز زمین اور فلیٹوں پرپانچ روپے اسکوائر فٹ کے حساب سے ایک پالیسی منظور کر کے اپنے ہیڈ کوارٹر بھیجی تھی، جو بدقسمتی سے وہاں مسترد کر دی گئی۔۔۔ دوسری طرف مرکز شہر سے قریب ہونے اور کراچی میں بے امنی کے باعث اس علاقے میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے آباد ہونا شروع کیا، جن کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔۔۔ لیکن اب اچانک اِن عمارتوں کے مکینوں پر بے گھری کی تلوار لٹک گئی ہے، میری روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے توسط سے چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد سے پرزور گزارش ہے کہ وہ ملک کے ابتر ہوتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں کراچی شہر کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظرثانی فرمائیں، بہ صورت دیگر لوگ تنگ آکر سڑکوں پر نکلیں گے، اور پھر خودکُشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔۔۔!‘‘

صاحب ثروت لوگوں کے مسکن کلفٹن اور ڈیفنس کے درمیان شہر کے متوسط طبقے کو اپنی آغوش میں لی ہوئی دہلی کالونی کا جائزہ لیں، تو گذشتہ چند برسوں میں اس کالونی کی چوہدری خلیق الزماں روڈ کے کنارے والی پٹی پر ہی بہت بڑے پیمانے پر کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جن کی بلندی 20 منزلوں سے بھی زائد ہے۔۔۔ ظاہر ہے یہ تعمیرات راتوں رات تو نہیں ہوئیں، اور سب کے سامنے ہوئیں۔ اگر یہ غیر قانونی ہیں، تو اس کی تعمیر کے دوران کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی، یہی صورت حال اندرونی گلیوں کی ہے، وہاں بھی کسی نہ کسی طرح تعمیرات جاری رہیں اور آج بھی بہت سی عمارتیں زیرتعمیر ہیں، لیکن حکومت متعلقہ محکمے کے ذمہ داران اور اِن تعمیرات کے مرتکب افراد کو کٹہرے میں لانے کے بہ جائے، ان غریب اور متوسط طبقے کے مکینوں کے گھروں پر کدال چلانا چاہتی ہے، جنہوں نے باقاعدہ پیسے دے کر یہ فلیٹ خریدے۔

متاثرہ علاقوں کے مکینوں نے متبادل رہائشی جگہ دیے جانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوسری، تیسری نسل سے یہاں رہائش پذیر ہیں، وہ کسی بھی دور دراز علاقے میں متبادل رہائش کسی طور پر بھی قبول نہیں کریں گے، اس لیے اُن کا مطالبہ ہے انہی فلیٹوں کو فی الفور ریگولائز کیا جائے، آخر کراچی جیسے گنجان آباد علاقے میں یہ کیسا قانون ہے کہ عمارتیں نہ بنیں۔ جب حکومت نے نئے شہر بسانے پر توجہ ہی نہیں دی، نتیجتاً اب یہاں عمارتیں بن گئی ہیں، تو جیسے ’قومی مفاد‘ میں اسمبلی سے نئے قانون بنوائے جاتے ہیں، ایسے ہی ہمارے گھروں کے لیے بھی اِس قانون میں ترمیم کی جائے! یہ تو ریاست کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی چار دیواری کا بندوبست کرے، لیکن یہاں تو سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے عوام کے تن سے لباس بھی نوچنے کے سامان دکھائی دیتے ہیں۔

مجموعی طور پر کراچی کا جائزہ لیا جائے، تو اس وقت شہر کے طول وارض میں تعمیرات کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے، کوئی اِس سوال کا جواب لینے کو تیار نہیں کہ اگر یہ تعمیرات جائز بھی ہیں، تب بھی شہر میں یہاں کے مکینوں کے لیے اضافی سہولتیں کہاں سے آئیں گی۔۔۔؟ بہت سے ’پلازے‘ بجلی اور گیس میں خود کفالت کے دعوے دار ہیں، لیکن وہ آمدورفت کے لیے تو اسی شہر کی سڑکیں استعمال کریں گے، پھر ان کے لیے اسکول، اسپتال اور قبرستان کہاں سے لائیں گے۔۔۔؟ کسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وہ کس پر انحصار کریں گے۔۔۔؟ اس کے علاوہ مبینہ طور پر شہر سے باہر آباد ایک مشہور معروف رہائشی ’ٹاؤن‘ کو بھی کراچی کا پانی دیے جانے کی اطلاعات زیرگردش ہیں، نیز بہت سے رہائشی علاقوں کا پانی بڑی بڑی صنعتوں کو دیے جانے کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ممتاز صدا کار رضوان زیدی لکھتے ہیں کہ ’64 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ناظم آباد نمبر ایک، مسلم لیگ سوسائٹی میں آٹھ روز پانی نہیں آیا۔‘ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ملکی معیشت میں 70 فی صد حصہ ڈالنے والا کراچی اس وقت کس قدر اذیت سے دوچار ہو رہا ہے۔۔۔!

پہلے شہرِقائد بند ہوتا تھا تو اقتدار کے ایوان چیخ اٹھتے تھے کہ ایک دن کراچی بند ہونے سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن اب صاف پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، سڑک اور صاف ہوا جیسی بنیادی سہولتوں کی گزارے کے لائق بھی فراہمی سے محروم کراچی سسک رہا، لیکن اس حوالے سے نہ یہاں کے بلدیاتی نمائندوں میں کوئی ’زندگی‘ دکھائی دیتی ہے اور نہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنا وجود ثابت کر پا رہے ہیں۔ اس پر مستزاد پہلے سے بسی بسائی بستیوں کو ’قانون شکنی‘ کا مرتکب قرار دے کر اجاڑا جا رہا ہے، اس صورت حال پر اہل دل کو بہت زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔!

٭ ’’ہم اجڑ رہے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں۔۔۔!‘‘

’’ایکسپریس‘‘ سے اپنی لاچارگی کا رونا روتے ہوئے دہلی کالونی کے مکینوں نے کہا کہ سارے ٹیکس دینے کے باوجود ڈیڑھ سال پہلے ہمارے علاقے کے پانی کی مرکزی لائن کاٹ کر ہمیں پانی کو ترسایا گیا، ہم پرامن احتجاجی مظاہرے کرکر کے تھک گئے، لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی، اب ہمیں ’عدالتی‘ ہتھوڑے سے برباد کیا جا رہا ہے اور کوئی آواز اٹھانے والا بھی نہیں۔۔۔! یہاں سے صدر ڈاکٹر عارف علوی دو بار رکن قومی اسمبلی بنے، گورنر سندھ عمران اسمعٰیل بھی یہیں سے 2018ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ماضی میں مولانا ظفر انصاری، عبدالستار افغانی اور خو ش بخت شجاعت رکن اسمبلی رہ چکیں، جب کہ بیرسٹر کمال اظفر، ممنون حسین، نعمت اللہ خان، فاروق ستار، نسرین جلیل اور اداکار سید کمال بھی یہاں سے انتخابی دنگل میں اتر چکے۔

مکین کہتے ہیں کہ یہاں سے منتخب تحریک انصاف کے رکن قومی وصوبائی اسمبلی کا کوئی رابطہ دفتر تک نہیں۔ کونسلر کا تعلق ’ایم کیو ایم‘ سے ہے، لیکن اس مسئلے پر ’ایم کیو ایم‘ بھی ’لاپتا‘ ہے اور جس علاقے میں تیسرے نمبر پر آنے والے کونسلر کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوجاتی ہے، وہاں اب پاکستان پیپلز پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور مسلم لیگ (فنکشنل) بھی بھرپور سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہیں، لیکن لوگوں کو بے گھری کے خطرے پر کوئی کردار ادا نہیں کر رہیں، جماعت اسلامی نے ماضی قریب میں مہم چلا کر یہاں کے فلیٹوں کے لیے ’کے الیکٹرک‘ کے میٹر تو ضرور دلوائے، تاہم اب اتنے بڑے بحران پر وہ بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دہلی کالونی کے ایک رہائشی محمد عبداللہ کا کہنا تھا کہ شہر بھر کی توڑ پھوڑ اب ہماری دہلیز تک پہنچ چکی ہے، کیا ہمیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ گھروں اور دکانوں کو گرانے کے اس سلسلے کا آغاز دراصل ایک سیاسی جماعت کے دفاتر گرانے سے شروع ہوا۔۔۔ یہ آخر ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ ہم یہاں دو، دو کمروں کے فلیٹوں میں گزر بسر کر رہے ہیں، ہماری ریاست ہم شہریوں کو روزی روٹی تو دے نہیں سکتی، اب کم سے کم ہماری محنت سے کمائی گئی چاردیواری تو نہ چھینے!n

٭ ’بستی‘ بسنا کھیل نہیں۔۔۔ بستے بستے بستی ہے۔۔۔!

’دہلی کالونی‘ کراچی کی ایک تاریخی اہمیت کی حامل بستی ہے۔ یہ 1947ء کے بعد شہرِقائد میں بسائی جانے والی اولین کالونی ہے۔۔۔ اس سے قبل 1946ء میں صوبہ ’بہار‘ کے فسادات کے متاثرین آئے، تو لیاری میں ’بہار کالونی‘ بسائی گئی تھی، تاہم بٹوارے کے بعد شہر کے ایک سرے پر ’مرکزی جیل‘ کے ساتھ ’پیر الٰہی بخش کالونی‘ آباد ہوئی تو وہیں کینٹ ریلوے اسٹیشن سے آگے پرانے ریس کورس کے پار ’دہلی کالونی‘ نے جنم لیا۔۔۔ یہ صرف تاریخی اعتبار سے ہی ’پیر الٰہی بخش کالونی‘ کی ’جڑواں‘ نہیں، بلکہ ’پیر کالونی‘ کی طرح دہلی کالونی کے قیام میں بھی سندھ کی ممتاز شخصیت پیر الٰہی بخش کا اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی طور پر اِسے ’پیر الٰہی بخش کالونی نمبر ایک‘ اور جیل روڈ کے ساتھ موجودہ ’پیر کالونی‘ کو ’پیر الٰہی بخش کالونی نمبر2‘ قرار دیا گیا، لیکن پھر دلی کے مہاجرین کی اکثریت کے سبب یہ ’دہلی کالونی‘ کے نام سے موسوم ہوگئی۔۔۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ 1947ء میں اجڑی ہوئی دلی کے مکینوں نے جب سات گلیوں پر مشتمل اس بستی میں دوبارہ زندگی شروع کی، تو دھیرے دھیرے یہاں ’پرانی دلی‘ کی خو بو دکھائی دینے لگی۔۔۔ دو مسجدیں بنیں، تو انہیں ’بڑی مسجد‘ اور ’چھوٹی مسجد‘ کے روایتی نام دیے۔۔۔ بڑے بڑے روشن دانوں اور انگنائیوں والے اِن گھروں کی وضع قطع میں بھی پرانی جھلک تھی۔

اِس کی گلی کوچوں میں دلی کی روایتی اور کرخنداری اردو سماعتوں میں رس گھولتی۔۔۔ دہلی کالونی کو یہ اعزاز بھی ہے کہ یہاں بی بی سی (لندن) کے شفیع نقی جامعی اور ممتاز ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی بھی پیدا ہوئے۔ کراچی میں اس کا محل وقوع دیکھیے، تو یہ برطانوی زمانے کے ’کلفٹن برج‘ سے لگ بھگ ڈیڑھ کلو میٹر آگے واقع ہے اور کلفٹن برج ساحل سمندر تک جانے کے لیے ریل کی پٹریوں کے اوپر بنایا گیا پُل تھا، جس کے پار ریت اڑا کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے زندگی آسان ہوتی گئی۔ بہت سی دکانیں قائم ہوئیں، پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب شہر بھر کی بے شمار مہاجر بستیوں کو لیز دی گئی، تو اس میں ’دہلی کالونی‘ بھی شامل ہوئی۔ پھر ضیا دور میں دہلی کالونی سے متصل کراچی کے پہلے عسکری اپارٹمنٹ کی تعمیر اور پھر نزدیک ہی ’ڈیفنس‘ سوسائٹی کے قیام نے بھی اس علاقے کی اہمیت میں اضافہ کیا۔ پھر جہاں شہر سے دور ہونے کے سبب کوئی رکشے ٹیکسی والا وہاں سواری لے جانے کو تیار نہ ہوتا تھا، اس کی رونقیں ’کراچی سوتا نہیں ہے‘ کی عملی نظیر دکھائی دیں اور وہاں کی راتیں جاگنے لگیں۔۔۔

The post ’اُجڑے دیار‘ والوں کی نگری پھر اجڑنے کو ہے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

طور سینین

$
0
0

حضرت موسٰی ؑ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدین سے اپنے آبائی علاقے مصر کی جانب رواں دواں تھے کہ راستے میں وادی ٔ سینا پڑی سخت سردی کا موسم تھا تو آپؑ نے رک کر اپنی اہلیہ صفورہ (Safurah) سے فرمایا تم لوگ یہاں رکو میں سردی سے بچاؤ کا کوئی بندوبست کرتا ہوں قریب ہی پہاڑ کے دامن سے ایک درخت میں سے آگ چھن کر دکھا ئی دے رہی تھی جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے، (ترجمہ) ’’جب موسٰی نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو‘‘۔ (سورہ القصص آیت29)۔

مشاہدے میں یہ ایک بات آئی ہے کہ کراچی میں واقع گلشن اقبال میں ہندو سپیروں کی ایک بستی ہے جس کا نام صفورہ گوٹھ پڑ گیا ہے جو ان کی مادری زبان اردو نہ ہونے کے سبب ’’سپیرا‘‘ یا سپورا سے بگڑ کر صفورہ ہوگیا۔ ارباب حل و عقد اس جانب اپنی توجہ ضرور مرکوز فرمائیں اور علاقے میں جا بجا اس کے صحیح نام کی تختیاں لگواکر اس مقدس نام کو مزید بے حرمتی سے بچا کر امت مسلمہ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔

قرآن حکیم میں ایک مستقل سورہ کا نام ’’والطور‘‘ ہے جس کی پہلی آیت میں اللہ نے اس کی قسم کھائی ہے ترجمہ ’’قسم ہے طور کی۔‘‘ اس پہاڑ کو ضرور کوئی شرف حاصل رہا ہوگا تب ہی تو خالق کائنات نے اس کی قسم کھائی ہے جب ہم آیات قرآنی پر غور کرتے ہیں اور دیگر مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہی ایک واحد حقیقت نظر آتی ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی ؑ کو پیغمبری سے نوازا گیا خود قرآن حکیم اسکی گواہی دے رہا ہے ترجمہ ’’اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا۔‘‘ (سورہ مریم آیت52) آیت کے سیاق و سباق سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اسی مقام پر اللہ نے موسٰی ؑ سے کلام کیا جس کی بناء پر موسٰی کا لقب کلیم اللہ پڑگیا۔

طور خالصتاً عربی لفظ ہے جس کے معنی سرسبز پہاڑ کے ہیں اس پہاڑ پر سبزے کی موجودگی کا پتا حضرت موسٰی ؑکے قدم رکھنے سے پہلے ہی ملتا ہے کہ آپؑ نے دیکھا کہ درخت میں آگ چھن چھن کر نکل رہی ہے جس کا انگارہ تاپنے کے لیے آپ لینے گئے تھے اور اسی دوران آپؑ پیغمبری کے منصب پر فائز ہوگئے۔ توریت میں بھی اسی قسم کی ایک روایت موجود ہے۔ ’’وہ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتا ہوا ان کو بیابان کی پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک لے آیا اور خداوند کافرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا۔ اس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ پر وہ جھاڑی بھسم نہیں ہوتی۔ جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا کر آرہا ہے تو خدا نے اسے جھاڑ میں سے پکارا، اے موسٰی! اے موسٰی! اس نے کہا میں حاضر ہوں ‘‘۔ (خروج باب 3آیات1تا5)

اس کے سرسبز ہونے کی ایک اور دلیل قرآن حکیم سے ترجمہ ’’اوروہ درخت بھی (ہم نے پیدا کیا ) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے یعنی (زیتون کا درخت) کہ کھانے کے لیے روغن اور سالن لیے ہوئے اگتا ہے۔‘‘ (سورہ المومنون آیت 20)

یہ مقدس پہاڑ وادیٔ ایمن میں ہے جو آج کی جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے ملک شام میں ہے۔ اسے طور سینا اور طور سینین بھی کہا جاتا ہے۔ یہیں حضرت موسٰی ؑ کو تجلی ہوئی۔ اس کے مقابل ایک اور لفظ عربی میں جبل استعمال ہوتا ہے جس کی جمع جبال ہے جو قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر آیا ہے، جب کہ ’’طور ‘‘ دس مقامات پر آیا ہے۔ جبل عربی میں خشک پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پس دونوں الفاظ یعنی جبل اور طور میں یہی نمایاں فرق ہے برصغیر اور جنوبی ایشیا کے متعدد علماء اور مفسرین نے اپنی تحاریرو تقاریر میں اس کے مقابل ایک اور لفظ ’’کوہ ‘‘ استعمال کیا ہے جو ہندی اور اردو دونوں میں مستعمل ہے۔

قرآن حکیم نے اس مقدس پہاڑ کو طور سینین کہہ کر پکارا اور ایک مرتبہ پھر اس کی قسم بھی کھائی ’’قسم ہے انجیر کی، زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی۔ ‘‘ (سورہ والتین آیات1تا3) ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیۂ مبارکہ میں تین مقامات کی قسم کھائی ہے جن میں ہر ایک جگہ ایک جلیل القدر اور صاحب شریعت پیغمبر مبعوث کیا۔

انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں اس کی پیداوار ہے اور وہ جگہ ہے بیت المقدس جہاں حضرت عیسٰی ؑ پیغمبر بن کر مبعوث ہوئے۔ طور سینین کے مقام پر حضرت موسٰی ؑ کو نبوت کے ساتھ توریت عطا فرماکر صاحب شریعت پیغمبر بنایا اور مکہ مکرمہ میں ہمارے پیارے اور کائنات کے لیے آخری نبی کے بہ طور حضرت محمد ؐ کو بھیجا گیا اور جس طرح حضرت عیسٰی ؑ کو انجیل عطا کی گئی آپ ؐ کو قرآن حکیم عطا کیا گیا جو رہتی دنیا تک کے لیے آخری شریعت ہے۔

قرآن حکیم کا بیان ہے ترجمہ ’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کو ہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا اور (حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کود ی ہے کہ اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو اس میں (لکھا ) ہے اسے یاد رکھو تاکہ عذاب سے محفوظ رہو۔ ‘‘ (سورہ البقرہ63) یہ آیت قرآنی حضرت موسٰی ؑ کو نبوت اور شریعت ملنے کی بھرپور تائید کر رہی ہے اور شریعت محمدیؐ ہونے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان تمام انبیاء اور آسمانی کتابوں پر غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں۔ اگرچہ آج کے دور میں وہ صحائف ناپید ہیں جب کہ شرائع تحریف شدہ ہیں۔ توریت میں جبل طور کو جہاں حضرت موسٰی ؑ کو تجلی ہوئی تھی حورب کہا گیا ہے۔ (گنتی باب 3آیت1) عیسائیوں میں اس کی وجہ تقدس یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ اپنے حواریوں پر اسی مقام پر ظہور فرما ہوئے تھے۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق الطور (نابلس) پر تین ہزار فٹ بلندی پر سامریوں کی ایک مقدس پہاڑی ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ تشریف لے گئے تھے۔

ابن فارسی کے مطابق اس مادے کے بنیادی معنی کسی چیز کے لمبا ہونے یا بڑھنے کے ہیں خواہ وہ لمبائی مکان سے تعلق رکھتی ہو یا زمان سے اور پہاڑ کو طور اس کے طول، عرض اور بلندی میں پھیلنے اور بڑھنے کی وجہ سے کہتے ہیں۔ مفسر علامہ مجاہد صحیح بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ طور سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہاڑ ہیں۔ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ نبطی زبان کا لفظ ہے اور نہ صرف نبطی اور سریانی بلکہ بہت سی قدیم زبانوں میں بھی طور پہاڑی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

قرآن میں جس طور (سینا یا سینین) کا ذکر ہے وہ حضرت موسٰی ؑ پر تجلی الٰہی کی وجہ سے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں معروف ہے۔

طور دراصل ایک سلسلۂ کوہ کا نام ہے جو خلیج سوئز اور خلیج عقبہ کے درمیان ایک تکون سی بناتا ہے۔ مغرب کی طرف خلیج سوئز کے ذریعے یہ مصر اور مشرق کی طرف خلیج عقبہ کے ذریعے بلاد عرب سے الگ کرتا ہے۔ اس کے اضلاع ایک سو چالیس میل لمبے ہیں۔ شمال کی جانب اس کی اونچائی بہت کم ہے اور جگہ جگہ ریت کے تودے ہیں لیکن جنوبی سمت اس کی چوٹیاں نو ہزار فٹ تک بلند ہیں اور یہ حصہ سرسبز اور شاداب ہے طورسینین سے فلسطین کی حدود تک تیہ کا میدان ہے۔ اس پہاڑ پر جو بحیرۂ قلزم سے زیادہ دور نہیں ہے الامن یا ایلیم کے مقام سے لوگ چڑھا کرتے تھے۔

یہاں ایک بار بنی اسرائیل نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس کے قریب وادیٔ طوٰی ہے جہاں حضرت موسٰی ؑ فرعون کے پاس جانے سے قبل اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرچکے تھے۔ اسی مناسبت سے اب یہ پہاڑ جبل موسٰی بھی کہلاتا ہے۔ اس کے شمال کی جانب ایک وادی ہے جس کا نام وادیٔ شعیب ہے۔ اس جگہ 5000 فٹ بلندی پر خانقاہ کیتھائن واقع ہے جسے غالباً جسٹن اول نے 550ء؁ کے لگ بھگ طور سینا کے راہبوں کی حفاظت کے لیے تعمیر کروایا تھا (شاہ کار انسائیکلو پیڈیا)۔ ایک روایت میں ہے کہ ان راہبوں کے پاس آنحضور ؐ کا ایک خط موجود تھا جس میں ان راہبوں کو امان دی گئی تھی۔ الطور نام سے یہاں ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے جو جبل موسٰی کے جنوب مغرب میں خلیج سوئز کے کنارے راس محمد سے پچاس میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ اس کے مضافات میں کھجور کے بڑے بڑے نخلستان ہیں۔ یہ جزیرہ نمائے سینا کی اہم بندرگاہ تھی مگر جب پرتگالیوں نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کرلیا تو اس علاقے کی اہمیت بتدریج کم ہوتی گئی اور اب یہ صرف ماہی گیروں کا علاقہ جانا جاتا ہے ۔

کتب تواریخ میں اس پہاڑ سے متعلق کئی حقائق موجود ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں اس پہاڑی کی چوٹی پر موجود قلعہ پر صلاح الدین ایوبی نے قبضہ کرلیا تھا جسے ملک العادل نے1217ء؁ میں ازسرنو تعمیر کروایا صلیبیوں نے اسی سال اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے پھر ہیبرس نے عکاس پر حملہ کرنے کے لئے اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس مقدس پہاڑ کا نام آتے ہی بہت سے تاریخی اور مذہبی حقائق ازخود اذہان میں ابھرتے ہیں مثلاً یہ وسیع و عریض بلند پہاڑ ہے، یہاں موسٰی ؑ اللہ سے ہم کلام ہوئے، 40 راتوں کا اعتکاف کیا، منصب نبوت پر فائز ہوئے، توریت عطا ہوئی، اللہ نے قرآن حکیم میں اس کی قسمیں کھائیں۔ یہیں پر حضرت عیسٰی ؑ نے حواریوں پر ظہور فرمایا۔ صلیبی جنگوں کا حصہ رہا۔ اتنی خصوصیات کا حامل اور کوئی پہاڑ نہ رہا جبھی تو دنیا کی3 بڑی اقوام یہودی، عیسائی اور مسلمانوں میں یہ یکساں طور پر مقدس ہے۔

The post طور سینین appeared first on ایکسپریس اردو.

نہرِسوئزایک انوکھا شاہ کار

$
0
0

  ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہزاروں پتھرفضا میں اچھلے اور مٹی نے فِضا کو دھندلا دیا۔ اسی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم اور بحیرۂ قلزم (بحیرۂ احمر) کے پانیوں کا مِلاپ ہوا۔ یہ بات ہے نومبر 1869 کی جب مصر میں دنیا کی سب سے بڑی آبی گزرگاہ ‘نہر سویز’ کی تعمیر مکمل ہوئی۔

کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نپولین نے بھی ایک ایسے راستے کی تجویز دی تھی جو بحیرۂ روم اور قلزم کو مِلا سکے۔ اور اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ لیکن ان پر عمل انیسویں صدی کے وسط میں جا کر ہوا جب فرانس کے ایک انجنیئر موسو فرڈینینڈ ڈیسپ نے مصر کے محمد سعید پاشا (جو آپس میں گہرے دوست تھے) سے نہر کے لیے ایک کمپنی بنانے کی تجویز منظور کروا لی، جس میں نصف حِصص پاشا اور باقی ڈیسپ کے تھے۔

اپریل 1859 میں نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ نہر کی تعمیر سے پہلے، بحیرۂ روم کی بندرگاہ ”بندر سعید” پہ سامان اُتارا جاتا تھا اور سڑک کے ذریعے بحیرۂ قلزم پر ”سویز” نامی شہر تک بذریعہ سڑک لایا جاتا۔ اس نہر کی کھدائی دس برس میں مکمل ہوئی اور اس پر تقریباً تین کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوئی۔ نومبر 1869 میں اسکا افتتاح ہوا۔ نہر کی لمبائی تقریباً 201 میل، چوڑائی تقریبا 200 فٹ اور گہرائی 42 فٹ کے لگ بھگ ہے۔ کسی قسم کا کوئی ”لاک سسٹم” نہ ہونے کی بدولت ، بحیرۂ روم اور قلزم کا پانی بغیر کسی روک ٹوک کہ آپس میں ملا ہوا ہے۔

نہرسویز میں ایک وقت میں ایک ہی بڑا جہاز گزر سکتا ہے۔ اس نہر کی بدولت بحری جہاز برِاعظم افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان براہِ راست آمدورفت کرسکتے ہیں۔ اس نہر کے کُھلنے سے، برطانیہ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ 4000 میل تک کم ہوگیا ہے۔

برطانیہ نے اپنے مشرقی مقبوضات کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے اس بحری گزرگاہ میں بے حد دل چسپی لینی شروع کر دی اور آخرکار وزیر اعظم ڈسرائیلی نے 1875ء میں خدیو مصر کے بہت سے حصص برطانیہ کے لیے خرید لیے۔ اس طرح برطانیہ کو بھی نہر پر اقتدار حاصل ہو گیا اور خدیو مصر کا تعلق اس نہر سے بہت کم رہ گیا۔ 1888ء کے بین الاقوامی معاہدے کی رو سے اس نہر کو بین الاقوامی حیثیت دے دی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں ہر ملک اور قوم کے جہاز اس نہر میں سے بلامزاحمت گزر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس بین الاقوامی معاہدے کی رو سے نہر کی حفاظت کے لیے برطانیہ کو مصر میں اپنی افواج رکھنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا اور اسی کے ساتھ ہی مصر کی نئی غلامی کا دور شروع ہو گیا۔

سنہ 1956 میں صدر جمال عبدالناصر نے ”اسوان ڈیم” کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لینے پر، ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے برطانیہ اور فرانس سے لے کر اسے قومیا لیا اور ”نہر سویز اتھارٹی” کے حوالے کردیا تاکہ اس نہر کی آمدنی سے ڈیم کا کام مکمل کیا جا سکے۔ مصر کے اس اقدام کے جواب میں ان دونوں ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا، جس کے جواب میں مصری حکومت نے نہر میں کئی جہاز ڈبو کر اسے بند کر دیا۔

اس جنگ کو روکنے کے لیے کینیڈا کے اسٹیٹ سیکریٹری برائے خارجہ امور، مسٹر لیسٹر بی پیرسن نے یہ تجویز دی کہ اسرائیلی افواج ”صحرائے سینائی” کے علاقے کو خالی کر دیں اور نہر میں تمام اقوام کے بحری جہازوں کی آمدورفت کو یقینی بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امن افواج کے دستے تب تک تعینات کیے جائیں جب تک کہ دونوں ممالک جنگ بندی پر راضی نہیں ہوجاتے۔ ان کی اس تجویز کو نہ صرف بھاری ووٹوں سے منظور کیا گیا بلکہ اس پر انہیں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ جنگ سے ہونے والے نقصان اور نہر کی صفائی کے لیے اسے اپریل 1957 تک بند رکھا گیا۔

مئی 1967 میں صدر جبال عبدالناصر نے اقوامِ متحدہ کے دستوں کو نہر سویز اور صحرائے سینائی خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا اور ”آبنائے تیران”(یہ جزیرہ نما سینائی اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تنگ سمندری گزرگاہیں ہیں جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر سے جدا کرتی ہیں، اسرائیل کے لیے تیل لانے والے جہاز یہیں سے گزرتے ہیں) کو اسرائیلی جہازوں کے لیے بند کر دیا جس پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل نے مِصر پہ حملہ کر دیا اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ ساتھ نہر کے مشرقی کِنارے پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1967 کی چھے روزہ عرب اِسرائیل جنگ کے بعد مصر نے 1975 کے وسط تک نہر سویز کو بند کر دیا جس کے نتیجے میں 41کارگو بحری جہاز آٹھ سال تک نہر میں پھنسے رہے۔

1973 کی ”یوم کپور جنگ” میں بھی نہرِ سویز مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک سرگرم محاذ بنی رہی۔ آخر کار اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے انور سادات کے دور میں نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا۔

2014 میں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے نہر کو چوڑا کرنے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 6اگست 2015 کو توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب نہر سویز کے کنارے واقع شہر اسماعیلیہ میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسو اولاند، اردن کے شاہ عبداللہ دوم، بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ، فلسطینی صدر محمود عباس، امیرکویت شیخ صباح الاحمد الصباح اور یونانی وزیراعظم الیکسیس سیپراس سمیت متعدد غیرملکی شخصیات شریک تھیں۔ اس توسیعی منصوبے کے تحت ایک سو ترانوے کلومیٹر طویل نہر سویز کے بہتّر کلومیٹر حصے کو گہرا کیا گیا ہے اور اس کے وسط میں ایک متوازی آبی گذرگاہ بنا دی گئی ہے۔ اس سے دورویہ آبی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔ نہر سویز کی گہرائی چوبیس میٹر (اناسی فٹ ) ہوجانے کے بعد اب چھیاسٹھ فٹ گہرائی والے بحری جہاز بیک وقت دو آبی راستوں میں سفر کرسکیں گے۔

دیکھا جائے تو مصر میں شاید چند ہی چیزوں کی قومی افتخار اور معاشی استحکام کے طور پر علامتی حیثیت نہرِ سویز سے زیادہ ہو۔ اور اس کی اہمیت ہونی بھی چاہیے کہ اس آبی گزرگاہ کے ذریعے دنیا کا سات فی صد سامانِ تجارت گزرتا ہے اور یہ مصر کے لیے نہ صرف زرمبادلہ کمانے بلکہ سیاحت کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔

The post نہرِسوئزایک انوکھا شاہ کار appeared first on ایکسپریس اردو.

شاہین باغ کا انقلابی احتجاج

$
0
0

یہ 30 مئی 2015ء کی بات ہے۔ساٹھ سالہ عبدالغفار قریشی گوشت کی اپنی دکان میں بیٹھے تھے۔وہ بھارتی ریاست راجھستان کے بیرلوکا نامی گاؤں میں رہتے تھے۔اچانک لاٹھیوں اور فولادی سریوں سے لیس آرایس ایس کے غنڈوں نے ان پہ حملہ کر دیا۔انھوں نے بوڑھے مسلم کو اتنی شدت سے پیٹا کہ وہ وہیں شہید ہو گئے۔

آر ایس ایس کے لیڈر،نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد یہ پہلا واقعہ تھا کہ گؤ رکھشوں نے ایک مسلمان کو بے دردی سے شہید کر دیا۔اس کے بعد تو سنگھ پریوار(شدت پسند ہندو جماعتوں) کے موالیوں کو مسلمانوں پہ حملے کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔کبھی گائے لے جانے اور کبھی اسلامی لباس پہننے پر تشدد کیا جانے لگا۔ان لرزہ خیز کارروائیوں سے بھارتی مسلمانوںمیں خوف وہراس پھیل گیا۔

چونکہ وہ غیر منظم تھے،اس لیے مودی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے گھبراتے رہے۔انھیں یہ بھی خطرہ تھا کہ حکومت زیادہ فسادی ہو جائے گی۔بھارتی مسلمانوں کو اپنے خول میں سمٹتا دیکھ کر مودی حکومت کے حوصلے بڑھ گئے۔اس نے پھر اقلیت کے خلاف پے درپے اقدامات کیے۔ریاست کشمیر پہ قبضہ کر لیا۔12 دسمبر 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ میںقانون شہریت میں ترمیم کرڈالی۔ اصل مقصد بھارت سے مسلمانوں کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر انہیں بنگلہ دیش یا پاکستان جلاوطن کرنا تھا۔ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کی مہم چلانے پر بھی باتیں ہونے لگیں۔ یہ مسلمانان ہند کے خلاف زیادہ سخت حکومتی کارروائی تھی۔

یہ صورتحال دیکھ کر بھارتی مسلمانوں کو احساس ہوا کہ پانی سر کے اوپر گزر چکا۔ اب بھی انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف احتجاج نہیں کیا، تو اکثریت انہیں کھا جائے گی۔یہی وجہ ہے پورے بھارت میں سب سے پہلے مسلم طلبہ و طالبات تعلیم گاہوں میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔

ایک احتجاجی مظاہرہ جامعہ ملیہ میں بھی منعقد ہوا۔ وہاں مودی حکومت کے احکامات پر پولیس نے طلبہ و طالبات پر دیوانہ وار تشدد کیا اور انہیں یوں مارا پیٹا جیسے وہ بھارتی شہری نہیں دہشت گرد اور فسادی ہوں۔ اس مار پیٹ نے مقامی علاقے،اوکھلا کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ خاص طور پر جن بچے بچیوں کو بے دردی سے مارا گیا تھا، ان کی مائیں دکھ و طیش سے بے حال ہوگئیں۔ پُر امن فاختہ کے بچوں کو شیرنی بھی کچھ کہے تو مادرانہ محبت اسے اپنے سے کہیں بڑے دشمن سے بھڑنے کا جذبہ و طاقت عطا کردیتی ہے۔بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوب میں اوکھلا نامی وسیع و عریض علاقہ واقع ہے۔

اسی علاقے میں مسلمانوں کی عظیم درس گاہ، جامہ ملیہ اسلامیہ تزک واحتشام سے استادہ ہے جس کی بنیاد شیخ الہندؒ اور جوہر ملتؒ جیسے نامی اکابرین نے رکھی تھی۔ اوکھلا کے جنوب میں شاہین باغ نامی بستی آباد ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بیشتر مسلمان متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں اسی غیر معروف اور چھوٹی سی بستی کی خواتین نے اپنی دلیری و بہادری سے شاہین باغ کو بین الاقوامی سطح پر مشہور کر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بستی کا نام علامہ اقبالؒ کی مشہور زمانہ نظم ’’حال و مقام‘‘ (بال جبرئیل) کے درج ذیل شعر سے لیا گیا:

پرواز ہے دونوں کی اُسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور

شاعر مشرقؒ کی شاعری میں شاہین کا تصّور بڑا اہم ہے۔ اقبالؒؒ کے نزدیک یہ پرندہ دلیری، قوت، تیزی، وسعت نظر، دور بینی اور بلند پروازی کے ساتھ ساتھ عزت، درویشی، خودداری اور بے نیازی کا بھی استعارہ ہے۔ بعید نہیں کہ یہ نام کا اثر ہی ہو جس نے شاہین باغ کی کمزور اور وسائل سے محروم مسلمان خواتین کو ہمت و طاقت دے کر فرعونِ وقت، نریندر مودی کے سامنے کھڑا کردیا۔ نشہِ طاقت نے مودی، امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈروں کو زمینی خدا بنا دیا تھا مگر شاہین باغ کی دلیر خواتین کا زبردست احتجاج انہیں عرش سے فرش پر لے آیا۔ اس طرح شاہین باغ ظالم و جابروں کے خلاف بے بس و کمزوروں کے احتجاج کا یادگار نشان بن گیا۔

اب کئی بھارتی شہروں میں شاہین باغ کی طرح خواتین و مردوں کے حکومت مخالف مظاہرے جنم لے چکے۔شاہین باغ میں مقیم فرزانہ نصیب ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں۔ پولیس والوں نے ان کی بچی کو بھی نشانہ بنایا جو جامعہ ملیہ میں پڑھتی ہے۔ انہوں نے محلے کی دیگر خواتین سے صلاح مشورے کے بعد طے کیا کہ مودی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات پر احتجاج کیا جائے۔ چناں چہ 14 دسمبر کی سہ پہر فرزانہ صاحبہ کی زیر قیادت برقع میں ملبوس تین خواتین اور دو مرد نوئیڈا کالندی کنج روڈ پر بیٹھ گئے۔ یہ دہلی کی ایک معروف سڑک ہے جو مضافاتی بستی،نوئیڈا کو دہلی سے ملاتی ہے۔ اس پانچ رکنی دستے کا مطالبہ تھا کہ مودی حکومت قانون شہریت میں ترمیم واپس لے نیز این آر سی مہم ختم کرنے کا اعلان کرے۔

خواتین و مرد نے اپنے مطالبات پوسٹروں پر تحریر کررکھے تھے۔ آنے جانے والوں نے دلچسپی و تجسّس سے اس ننھے منے احتجاج کو دیکھا۔ یہ چھوٹا سا احتجاج مگر بقول اسمعیل میرٹھی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔سڑک پر بیٹھی برقع میں ملبوس احتجاجی خواتین کو دیکھ کر اردگرد کی بستیوں میں آباد مسلم عورتوں کو بھی حوصلہ ملا۔ وہ بھی برقع پہن کر اس احتجاجی جلسے میں شامل ہونے لگیں۔

14 دسمبر کی رات ہی یہ عارضی احتجاج رات دن جاری رہنے والے دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔خواتین کی بھرپور شرکت سے حوصلہ افزائی پاکر فرزانہ نصیب اور دیگر نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی بچوں کو گود میں اٹھائے مائیں، بیٹیاں اور بہنیں دھرنے کا حصہ بن گئیں۔یوں شاہین باغ کا تاریخی احتجاج وجود میں آیا۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ احتجاج نے  کسی رہنما یا لیڈر کے بغیر جنم لیا۔ مودی حکومت کے ظلم و جبر سے عاجز آئی مسلم خواتین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ ازخود گھروں سے نکل کر اس کے خلاف احتجاج کرنے لگیں۔ نمایاں لیڈروں کے بغیر کرپٹ حکمرانوں کے خلاف ایسے عوامی احتجاج کا نمونہ دور جدید کی پیداوار ہے جسے ہم کئی ممالک مثلاً لبنان، چلی، ایتھوپیا، تیونس وغیرہ میں دیکھ چکے۔

دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں نئی دہلی شدید سردی سے ٹھٹھر رہا ہوتا ہے۔ اس سخت ٹھنڈ میں بھی چوبیس گھنٹے جاری رہنے والا دھرنا منفرد واقعہ بن گیا۔ حتیٰ کہ اسّی نوّے سالہ خواتین بھی دھرنے میں شریک ہوئیں اور اپنی باتوں سے شرکا کا ہمت و حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ احتجاجی مظاہرے کی ایک اور منفرد بات یہ ہے کہ جلد ہی دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے مسلم و غیر مسلم طالبان علم نے اس کا انتظام سنبھال لیا۔ طلبہ و طالبات مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروپ ایک معین کام انجام دینے لگا۔ایک گروہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ نئی آنے والی خواتین و مردوں کو مناسب جگہ بٹھائیں۔ دوسرا گروپ دریوں اور ٹینٹوں کا بندوبست کرنے لگا۔

تیسرے نے رقم جمع کی تاکہ پوسٹر اور بینر دھرنے کی جگہ لگائے جاسکیں۔ لڑکیوں کے ایک گروپ نے کھانا پکانے کا انتظام سنبھال لیا تاکہ دھرنے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ غرض اپنی مدد آپ کے تحت مودی حکومت کے خلاف یہ منفرد عوامی احتجاج دن بہ دن پھیل گیا۔ حتیٰ کہ اس نے ایک میلے جیسی حیثیت اختیار کرلی جس کے سبھی شرکا آپس میں گھل مل گئے۔ ان کا واحد مقصد غرور و تکبر میں مبتلا حکمرانوں کا جھوٹا زعم ِخدائی خاک میں ملانا تھا۔

اسی دوران دہلی کے ریاستی الیکشن آپہنچے۔ بی جے پی کے لیڈر انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے لگے۔ انہوں نے شاہین باغ کے پُر امن مظاہرین گالیوں اور الزامات کی بھرمار کردی۔ دعویٰ کیا گیا کہ مسلمان عورتیں کانگریس سے پانچ پانچ سو روپے لے کر دھرنے میں بیٹھ رہی ہیں۔ شرکائے دھرنا غدار قرار پائے۔ وزیر مملکت برائے فنانس، انوراگ ٹھاکرنے انتخابی جلسے میں یہ نعرہ لگوایا ’’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘‘۔ بی جے پی کارکن ریاستی اسمبلی، پرویش شرما تو دوسرے لیڈروں سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا۔

اس نے دھمکی دی کہ دہلی الیکشن جیتنے کے بعد شاہین باغ کی خواتین بے حرمتی کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ غرض ہندو شدت پسند لیڈروں نے اخلاق و قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ ان کی اشتعال انگیز تقریروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہندو نوجوان نے شاہین باغ کے مظاہرین پر گولیاں چلادیں۔ خوش قسمتی سے اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے ہندو نوجوان نے جامعہ ملیہ میں گولیاں چلا کر ایک مسلمان طالب علم زخمی کرڈالا۔ یہ پے در پے حملے بھی شاہین باغ کی خواتین کو خوفزدہ نہیں کرسکے۔ انہوں نے بدستور مودی حکومت کے خلاف اپنا دھرنا جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ وہ نفرت و دشمنی پر مبنی اپنی پالیسیاں ترک کردے۔

دھرنے میں 56 سالہ گھریلو خاتون محمدی بیگم بھی شریک تھیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا ’’حکومت نے بالکل غلط فیصلہ کرتے ہوئے بابری مسجد کی زمین اکثریتی فرقے کو دے دی۔ ہم نے یہ صدمہ سہہ لیا۔ پھر حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کردی۔ یہ وار بھی ہم نے برداشت کیا اور کوئی ردعمل نہ دکھایا۔ گاؤ رکھشا کرنے والوں نے ہمارے بھائی خوفناک تشدد سے مار ڈالے، ہم پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ لیکن حکومت اب سی اے اے اور این آر سی کے ذریعے ہمارا جینا حرام کرنا چاہتی ہے۔ اس موقع پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔‘‘شاہین باغ بستی کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ اس بستی کے سبھی مکینوں نے دھرنے کو کامیاب بنانے کی خاطر دامے درمے سخنے مدد کی۔ خواتین خانہ گھروں سے کھانا پکا کر لے آئیں تاکہ دھرنے میں بیٹھی بھوکی عورتیں پیٹ بھر سکیں۔ حتیٰ کہ پڑوسی خواتین ان کے گھر کام کاج بھی کرنے لگیں۔ غرض خصوصاً خواتین نے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے دھرنے کو کامیاب بنایا جاسکے۔

اس طرح معمولی قطرے مل جل کر تندوتیز طوفان بن گئے ۔اور جب دہلی الیکشن ہوئے تو یہ طوفان بی جے پی کی نفرت انگیز پالیسیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا  لے گیا۔ کامیابی کے بلند و بالا دعویٰ کرنے والی یہ جماعت ریاستی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے صرف 8 ہی جیت سکی۔ اوکھلا کے علاقے سے عآپ نے ایک مسلمان امیدوار، امان اللہ خان کو کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے ایک لاکھ تیس ہزار ووٹ لیے۔ یہ ووٹوں کی چوتھی بڑی تعداد ثابت ہوئی۔ان کا مد مقابل، بی جے پی کا امیدوار، بہرام سنگھ صرف اٹھاون ہزار ووٹ لے سکا۔یہ یقینی ہے کہ عآپ کی زبردست جیت میں شاہین باغ کے کمزور نہتے مکینوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

پہلے تو وہ بے سروسامانی کے عالم میں اس معمولی بستی کی خواتین، مرد، بچے بوڑھے سڑک پر بیٹھ کر فرعون وقت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ انہوں نے پھر دھرنے کو عوامی قوت میں بدل ڈالا۔ اسی عوامی قوت نے نہ صرف بی جے پی کی نفرت پر مبنی پالیسیوں کو بھارتی عوام پر افشا کیا بلکہ اسے بیچ چوراہے میں ننگا کردیا۔ بھارتی عوام کو اب احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی ہر الیکشن میں ووٹروں کو بھارتی مسلمان اور پاکستان کے خلاف مشتعل کرنے کی خاطر اشتعال انگیز کارروائیاں کرتی ہے۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہندو ووٹروں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ اس طرح مودی حکومت ووٹروں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دیتی ہے۔ مثلاً معاشی زوال، اشیائے خورونوش کی بڑھتی قیمتیں، بیروزگاری اور اشرافیہ کی کرپشن۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے الیکشنوں میں کیا بی جے پی بدستور بھارتی عوام کو بے وقوف بناتی رہے گی یا ان پہ سنگھ پریوار کا طریق واردات آشکارا ہوچکا۔

سکھ کسانوں کا لنگر

شاہین باغ کے مظاہرین کو انسان دوست اور باشعور ہندو و سکھوں کی حمایت حاصل رہی۔مظاہرے شروع ہونے کے بعد پنجاب سے پانچ بسوں پر سوار سکھ کسان وہاں پہنچ گئے۔ وہ اپنے ساتھ لنگر کا سامان لائے تھے۔ انھوں نے قریب ہی ایک جگہ شامیانہ لگایا اور لنگر پکا کر مظاہرین میں تقسیم کرنے لگے۔

مودی سرکار کو سکھوں کا یہ فیاضانہ رویہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ چنانچہ پولیس کے شدید دباؤ پر شامیانے کے مالک نے اپنا سازو سامان واپس منگوا لیا۔جب ٹھکانے کی جگہ نہیں رہی تو سکھوں کو مجبوراً چندی گڑھ واپس جانا پڑا۔چند دن بعد نئی دہلی کے سکھوں نے دوسرا لنگر خانہ کھول لیا۔ان کی قیادت مقامی سکھ وکیل،ڈی ایس بندرا کر رہے تھے۔انھوں نے لنگر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر اپنا ایک فلیٹ فروخت کر ڈالا۔ان سکھوں کا کہنا تھا’’شاہین باغ کی خواتین ومرد اپنے حقوق پانے کیلئے بڑی بہادری و ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ہم انھیں شیرنیاں سمجھتے ہیں۔ہم ان کی مدد کرنے یہاں آئے تاکہ وہ اپنی منزل پا سکیں۔‘‘سکھ برادری کی فیاضی ودوستی کے مظاہرے نے سبھی مسلمانوں کے دل جیت لیے۔

The post شاہین باغ کا انقلابی احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

سَید فخرالدین بَلّے
ادب کی ہنگامہ خیز شخصیت
جاویداحمد قریشی

سَید فخرالدین بَِلّے میرے دوست بھی تھے اور رفیق کار بھی۔ ہماری رفاقت نصف صدی کا قصہ ہے۔ وہ کوئٹہ، قلات اور خضدار گئے، تو وہاں بھی ادبی ہنگامہ خیزیاں جاری رکھیں۔ سرگودھا، ملتان اور بہاول پور میں بھی ان کے جنوں نے انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا۔ لاہور اور راولپنڈی میں بھی ادبی اور ثقافتی ہلچل مچائے رکھی۔ وہ ماحول کواپنے رنگ میں رنگنا جانتے تھے۔ اب دنیا میں نہیں رہے، لیکن اپنے احباب کے دلوں میں تابندہ ہیں۔ ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کم کم ہی ہوتی ہیں۔

تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اس شخصیت میں دست ِ قدرت نے بہت سی شخصیات کو یک جا کر دیا تھا۔

ادیب، شاعر، دانش وَر، مقرر اور ماہرتعلقات عامہ ہی نہیں، وہ بہت کچھ تھے۔ وسیع العلمی اور قادرالکلامی ان کا طرہّ امتیاز۔ جس رستے پر چلے، اپنی ذہانت اور علمیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ انسانیت ان کے انگ انگ میں تھی۔ مٹی کا قرض چکانااپنا فرض سمجھتے تھے۔

سَیّد فخرالدین بَلے کے ہاں مزاحمت کا رنگ بھی ہے اور تصوف کا رنگ بھی۔ دراصل ان کی شاعری کے کئی ادوار ہیں، ہر دور میں سوچنے کے انداز مختلف ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی۔ اسی لیے ہمیں ان کی شاعری میں بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے آپ ارتقائی سفر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

وہ قادرالکلام شاعر تھے۔ نظم اور غزل دونوں میں کمالات دکھائے۔ خود نمائی سے بچتے رہے۔ اخبارات و جرائد میں بھی ان کی نگارشات ان کے نام سے بہت کم چھپیں۔ البتہ اکابرین ِادب کی نظر میں وہ ایک دراز قامت علمی شخصیت تھے، اسی لیے وہ ان کی تخلیقی اور فکری توانائیوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے سید فخر الدین بَلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ ان کے زیرسایہ بہت سے پودے پروان چڑھے اور ہم نے انہیں تن آور پیڑ بنتے دیکھا۔ ساری زندگی سر اٹھاکر جینے کی کوشش کی اور سراٹھا کے ہمیشہ جئے بھی۔ ان کا اپنا ایک شعر اس حوالے سے میرے تاثرات کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔

سر اٹھاکر زمیں پہ چلتا ہوں
سرچھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

چند حکم رانوں کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات رہے، لیکن انہوں نے اس کا کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے نوازنے کی پیش کش بھی کی تو انہوں نے اسے قبول نہ کیا، کیوں کہ یہ تو سر اٹھاکر جینے والوں میں سے تھے۔ ذاتی منفعت اٹھاتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ وہ ذوالفقار بھٹو کے وزارت خارجہ کے دور میں وفد کے ساتھ نئی دہلی گئے تھے، وہاں ان کی ’پی آر‘ دیکھ کر بھٹو صاحب نے ’ایکسیلنٹ‘ کہا۔

اشفاق احمد زندگی میں آسانیاں بانٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ یہی چلن ساری زندگی سید فخرالدین بلے کا رہا۔ وہ اپنے رفقائے کار کی غلطیوں کواپنے سر لے کر انہیں بچا لیا کرتے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا۔ دوسروں کے کام آکر دلی خوشی محسوس کرتے۔ اپنے اثرورسوخ کو کام میں لاکر بہت سے قلم کاروں کو پلاٹ بھی دلوائے، مگر اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی۔ اسی لیے وہ بڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے۔ انکساری کے ساتھ خودداری بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ عزت سے پیش آتے اور اہل ِ علم وادب ہی نہیں بیوروکریٹس بھی انہیں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنے حلقۂ یاراں میں مقبول اور ہردل عزیز تھے۔

انہوں نے صدور، وزرائے اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ سمیت مقتدر شخصیات کے لیے ہزاروں تقریریں لکھیں، بیسیوں بروشرز، سووینئیرز، کتابیں اور کتاب چے شایع کرائے۔ لاہور میں ادبی تنظیم قافلہ بنائی، جس کے تحت بڑی خوب صورت محفلیں سجایا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان کے قافلے کی بہت سی محفلوں میں پڑاؤ ڈالنے کا اعزاز ملا۔ ان محفلوں کی رپورٹوں کو یک جا کر دیا جائے، تولاہور کی ادبی تاریخ کے بہت سے اوراق ہم محفوظ کرسکتے ہیں۔ راولپنڈی آرٹس کونسل اور ملتا ن آرٹس کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ان دونوں ثقافتی اداروں کو نئی زندگی بخشی۔ ڈوبتے ہوئے اداروں کو بچانا نئے ادارے بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے، لیکن ان کے لیے یہ سب کچھ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسی لیے تو انہوں نے بہ آسانی یہ معرکہ سر کرلیا۔

اسلام اور فنون ِ لطیفہ کے حوالے سے بھی انہوں نے قرآن واحادیث کی روشنی میں بڑا تحقیقی کام کیا، اس کا مسودہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ واقعی قابل ِ ستائش کارنامہ ہے۔ سَید فخرالدین بَلّے کو اپنی زندگی میں جو میدان ملا، وہ اس سے باہر نکل کر بھی بڑی کام یابی کے ساتھ کھیلتے نظر آئے۔

یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے سرکاری دورے پر ساہی وال آئے تو وارث شاہ کی یادگار ملکہ ہانس کی خستہ حالی دیکھ کر سیدھے میرے دفتر پہنچ گئے۔ میں ان دنوں ساہی وال میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ کہنے لگے آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے ضلع میں یہ سب ہورہا ہے، یقین نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگے بات بتانے کی نہیں، دکھانے کی ہے۔ وہ مجھے ملکہ ہانس لے آئے، اس کی خستہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ انہی کی تحریک پر ملکہ ہانس کی تزئین ِ نو کا اہتمام کیا گیا۔

انہوں نے اس موقع پر ایک خوب صورت بروشر بھی شایع کیا تھا۔ ان کا اپنا شعر اس کے سرِ ورق کی زینت تھا۔ ہر مشکل وقت میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت وطن ِ عزیز کے کام آئی۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کا چہرہ تھے۔ ان کی عظمت یہ بھی ہے کہ اس محکمے میں ان کے ساتھ بہت سی ناانصافیاں بھی ہوئیں مگر انہوں نے اپنے کام سے ہمیشہ انصاف کیا۔ کام کو ہمیشہ عبادت سمجھا۔ لوگ ساری زندگی دولت سمیٹتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، لیکن سَید فخرالدین بِلّے نے صرف عزت اور نیک نامی کمائی اور دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔

۔۔۔

آن لائن سفری سروس کے ’’زخم‘‘

پرویز بلگرامی

میں پابندی سے تینوں آن لائن سروس استعمال کرتا ہوں، اس لیے میرے پاس ’’زخم‘‘ زیادہ ہیں۔ ’اُوبر‘ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ آپ براہ راست ڈرائیور سے بات نہیں کر سکتے، کمپنی کا عطا کردہ نمبر ہوتا ہے، جیسے ہی سفر پورا ہوا یا ’کیپٹن‘ نے منسوخ کیا وہ نمبر بند ہو جاتا ہے۔ ایک بار اُوبر میں ہمارے صاحب زادے کی ’اسٹک‘ رہ گئی۔ اتفاقاً اس نے بیٹے کو ایک نمبر دے دیا تھا۔ کال کی گئی تو اس نے کہا کہ ’اسٹک‘ کل پہنچا دوں گا۔ بیٹے نے کہا ’’میں اسی کے سہارے چلتا ہوں۔ یہاں آنے کا کرایہ بھی دوں گا۔

آپ لے آئیں۔‘‘ پھر بھی تین دن بعد ملی، لیکن اسٹک کے ربڑ غائب تھے! اس کی دوسری خرابی یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کال کرتے ہیں، ڈرائیور پوچھتا ہے کہاں جانا ہے۔ اگر ادھر جانے کی مرضی نہیں ہے، تو وہ ’رائیڈ‘ آگے بڑھا دیتا ہے۔ اس چکر میں ایک دن مجھے 45 منٹ کا عذاب بھگتنا پڑا، ہر تھوڑی دیر بعد ایک نیا نمبر آجاتا ہے۔ اب اگر ہم رائیڈ کینسل کرتے ہیں تو جرمانہ عائد ہوتا ہے، اس آن لائن سروس سے رابطے کا کوئی نمبر نہیں ہے۔ ان کے ’فیس بک‘ پیج پر پیغام بھیجنے کی سہولت میسر نہیں۔ ای میل بھی بند، فون نمبر بھی کوئی نہیں۔ یعنی کوئی بھی راستہ نہیں کہ آپ ڈرائیور کی بدسلوکی یا غلطی کی شکایت کر سکیں۔ (دیگر سروس میں یہ موجود ہے) بفرزون سے ڈیفنس فیز 2 کا کرایہ بائیک سروس سے 120 سے 140 تک بنتا ہے، لیکن ایک دن 350 روپے بن گیا۔ اس وقت تو دے دیا، مگر میں ان کے دفتر پہنچ کر ان کے بڑوں سے ملا تو راز کھلا کہ موصوف نے کال ریسیو کرتے ہی ’سفر‘ جاری کر دیا تھا۔

ایک بار ’رائیڈ‘ بک کی تو رائیڈر نے جواب دیا کہ سر میں ناشتا کر رہا ہوں۔ تھوڑا سا ٹھیر جائیں۔ میں پان کی دکان پر کھڑا گپیں لگانے لگا۔ کافی دیر بعد فون کیا، تو موصوف بولے کہ سر پنکچر لگوا رہا ہوں۔ میں پھر باتیں کرنے لگا۔ دکان دار کے توجہ دلانے پر فون کیا، تو جواب ملا کہ بس آرہا ہوں۔ پھر انتظار کرنے لگا۔ تیسری بار جب فون کے لیے پیج کھولا تو حیران رہ گیا۔

بائیک شو مارکیٹ، گارڈن میں نظر آئی۔ فون کیا، تو جواب ملا کہ گوگل کا نقشہ غلط ہوگا۔ آٓپ دوسری ’رائیڈ‘ منگوا لیں۔ میں تو پنکچر لگوا رہا ہوں۔ میں نے ’کریم‘ کی بائیک منگوا لی اور دفتر پہنچ کر میل چک کیا تو پتا چلا کہ مائنس میں 370روپے لگ کر آئے ہوئے ہیں۔ اگلی ’رائیڈ‘ لیتے ہی وہ رقم ادا کرنی پڑے گی۔ میں ان کے دفتر پہنچ گیا۔ میرا وزیٹنگ کارڈ دیکھ کر ’سی ای او‘ سے ملاقات کرا دی گئی۔ چیک کیا گیا، تو پتا چلا پہلے بھی کئی لوگوں کو اس طرح بل بھیجا گیا۔ ’سی ای او‘ نے بتایا کہ ہر ’رائیڈر‘ دو دو کمپنی میں رجسٹر ہے۔ فون دو ہیں۔ ایک پر اس نے مجھے رائیڈ دی اور دوسرے پر کسی اور کو لے کر چلا گیا۔ دونوں کا بل بنتا گیا۔۔۔!

ایک بار ’کریم‘ کی گاڑی میں صفورا گوٹھ سے بچوں کو اس میں بھیج دیا۔ خود بائیک سے رات ایک بجے واپس آیا، تو بیگم نے بتایا کہ بل 15 سو روپے کا بنا۔ میں نے اپنے موبائل سے ’رُوٹ‘ دیکھا، تو پتا چلا کہ موصوف صفورا گوٹھ سے ائیر پورٹ گئے، پھر وہاں سے ’اسٹار گیٹ‘ اور پھر واپس ’جوہر موڑ‘ آئے اور گھر تک پہنچایا۔ ’کریم‘ کا دفتر میرے دفتر سے قریب ہے۔ میں نے جاتے ہی ’سی ای او‘ سے ملاقات کی اور روٹ دکھا کر کہا کہ میں ایف آئی آر کٹواؤں گا۔ میرے بچوں کو اغوا کی کوشش کی گئی تھی کیوں کہ ایئر پورٹ، ڈرگ روڈ جانے کی وجہ کیا تھی؟ ان لوگوں نے مجھ سے تعاون کیا اور کرایہ واپس کیا، پھر بتایا کہ ایئر پورٹ کے حدود میں جاتے ہی، ٹول ٹیکس لگ جاتا ہے، پھر رُوٹ بھی لمبا ہو جاتا ہے۔ یہی سوچ کر ڈرائیور نے اس راستے کو اپنایا۔

میں نے تو ’فیس بُک‘ پر کئی بار پوسٹ لگائی۔ ان کے دفتر جا کر شکایت کی کہ بھائی کم سے کم ’فیس بُک‘ کھول دیں کہ اس پر عوام اپنی شکایت درج کراسکیں۔ ان کے ایک بڑے افسر نے جواب دیا کہ اگر ایسا کر دیا تو لوگ پورا ’فیس بک پیج‘ بھر دیں گے، گویا یہ اشارہ ہے کہ غلطیاں ہیں اور ہم نہیں سدھریں گے۔۔۔ جو کرنا ہے کر لو! آج ہی صبح اُوبر بُک کی، فوراً جواب آ گیا کہ رائیڈر قریب ہی ایک سواری اتار کر آ رہا ہے۔ انتظار شروع۔۔۔ کچھ دیر بعد پیغام موصول ہوا ’کہاں جانا ہے؟‘ جواب دیا ڈیفنس! بائیک نمبر تبدیل ہو گیا، یعنی رائیڈر نے چار منٹ بعد رائیڈ دوسرے کو دے دی۔ دو ڈھائی منٹ بعد وہ نمبر غائب ایک تیسرا نمبر آنے لگا۔ یعنی اس نے بھی رائیڈ آگے بڑھا دی۔ پورے 32 منٹ بعد رائیڈ آئی، دور کی رائیڈ میں اُوبر والے یہی کرتے ہیں۔ اب شکایت کی جائے تو کس سے اور کس ذریعہ سے؟

۔۔۔

جادو کیسے پھیلا اس پتھر کی دنیا میں

احفاظ الرحمٰن

گُل باری کے ساتھ تما۱شے خوشبو کے اپنی چوپال سجاتے ہیں
میٹھے میٹھے ہاتھ خوشی سے تال لگاتے ہیں

تن، من، تن، تھنن تھنن، تھیا تھیا کی دھن پر ٹھمکے حسیں لگاتے ہیں
پھول ہونٹوں سے جھڑتے ہیں، ساتھ کھڑکیاں ہنستی ہیں
دروازے ہنستے ہیں، ہوا نشے میں جھومتی ہے
ویراں راستے پل بھر میں روشن ہو جاتے ہیں
شرمائی، شرمائی ہر اک سانول گوری کی آنکھوں سے رنگوں کی بارش
ہوتی ہے
اس کا ساتھی شرماتا شرماتا اس کے گرد
ناچنے لگتا ہے
تا تا تھیاتا تا تھیا، پوری دنیا وجد میں آ کر جھومتی ہے
نیلا ایک پرندہ اڑتا اڑتا پلٹ کر آتا ہے
’’ارے یہاں سے گزرو تو ہر سمت اداسی گھومتی تھی
بھوت نگر کے کالے چہرے اپنے جال بچھاتے تھے
چھپکلیاں چھت سے گر گر کر پاؤں سے لپٹی جاتی تھیں
سانپوں کی پھنکاروں سے نیلا زہر ٹپکتا تھا
ہر ذرے میں آگ کا دریا
ہر آہٹ پر خوف کا پہرا
کون ہے جس نے پلٹ دیا ساری دنیا کو
جادوگر وہ کون ہے جو پھولوں کی بارش کرتا ہے
سانول گوری شرماتی ہے، شرمیلے لڑکے کا چہرہ اور دمک اٹھتا ہے

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


خواجہ غلام فرید ؛ جنھیں سرائیکی زبان کا رومی کہا جاتا ہے

$
0
0

برصغیر کے نام ور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 25نومبر 1845کو (بمطابق 5ربیع الثانی) چاچڑاں شریف ریاست بہاولپور میں خواجہ خدا بخش عرف محبوب الٰہی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ آپ کے خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے کوٹ مٹھن کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا اور آپ کے اجداد سے پہلے وہاں سکونت اختیار کی پھر چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے۔ آپ کی پیدائش بھی وہیں پر ہوئی۔

آپ صرف8 برس کے تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کی وفات کے بعد آپ چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کی سرپرستی میں رہے اور پھر 13سال کی عمر میں چاچڑاں شریف واپس جا کر اپنے بڑے بھائی فخرجہاں کے ہاتھ پر بیعت کی جو کہ ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھے۔ آپ نے ان کو اپنا مرشد قرار دیا اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا، جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں ان الفاظ میں کیا:

فخر جہاں قبول کیتو سے

واقف کل اسرار تھیو سے

27 سال کی عمر میں آپ کے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا اور پھر آپ خود مسند نشیں ہو گئے اور والدین سے ملنے والے روحانی فیض کو جاری رکھا۔ آپ نے مسندنشیں ہوتے ہی روزانہ کی بنیاد پر لنگر خانے کا اہتمام کیا اور روزانہ سیکڑوں لوگ آپ کے لنگر خانے سے مستفید ہوتے تھے۔ آپ بہت سخی دل اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ دیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے گزر بسر کرتے تھے۔

آپ نے اپنے روحانی تجربات کو شاعری کے ذریعے عام لوگوں تک اور اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ”کافی ”آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں صنف ہے، جس کو سرائیکی ادب کا بہت بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی ہے اور آپ نے اپنے لطیف جذبات و احساسات کو بہت خوب صورت انداز میں اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ آپ کی شاعری میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے اور آپ کا کلام تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے۔

خواجہ صاحب کے کلام میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا سراغ ملتا ہے لیکن عشق حقیقی کا رنگ آپ کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور غالب ہے۔ آپ کا نظریہ ہمہ اوست تھا اور آپ وحدت الوجود کے قائل تے۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب عموماً حالت وجد میں شعر کہتے تھے اور جب آپ پر الہامی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپ بڑی بڑی کافیاں وجد کی حالت میں کہہ جاتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہر وقت ”فکر سخن ”میں رہنا ان کا معمول تھا۔

علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں ”جس قوم میں خواجہ فرید جیسے صوفی شاعر اور ان کی شاعری موجود ہو تو اس قوم میں عشق و محبت کا نہ ہونا تعجب کا باعث ہے۔ ”اس لیے آپ کی شاعری میں حسن و عشق کا چرچا بھی ملتا ہے، جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

پیلوں پکیاں نی آچڑوں رِِل یار

پھر ایک جگہ اور فرماتے ہیں

میڈی آجکل اکھ پھڑکاندی ہے

کوئی خبروصال آندی ہے

آپ کی شاعری کے بارے میں مولانا کوثرنیازی کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب سرائیکی زبان بولنے والوں اور سرائیکی علاقے کے لوگوں کے روحانی بادشاہ ہیں اور آپ کی شاعری لاکھوں دلوں پر راج کرتی ہے۔

خواجہ صاحب کا کلام اپنی شاعرانہ لطافت کے باعث سرائیکی خطے کے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہے، کیوں کہ آپ کے کلام میں زندگی کی امید کا پیغام ملتا ہے مثلا آپ لکھتے ہیں کہ

تھی فرید شاد ول

ڈکھڑیں کوںنہ کر یاد ول

ریاست بہاولپور کے نواب خاندان کے تمام افراد آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے مریدین میں شامل تھے۔ 1879میں نواب رحیم یارخان کے بیٹے نواب جندوڈا خان کی تاج پوشی کے لیے نور محل بہاولپور دربار لگایا گیا اور تاج پوشی کی اس محفل میں نواب صاحب کو خاص طور پر دعوت دی گئی۔

تاج پوشی کی اس تقریب میں انگریز سرکار کے نمائندے بھی شریک تھے جن میں گورنر رابرٹ ایجرٹن خاص طور پر مدعو تھے۔ تقریب کے اختتام پر ایک شان دار محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں خواجہ غلام فرید نے انگریز کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری بیان کرتے ہوئے فرمایا

اپنڑی نگری آپ وساتوں

پٹ انگریزی تھا نڑے

آپ کی اس انقلابی شاعری نے عوام کے اندر انگریز کے سام راجی نظام کے خلاف ایک نئی سوچ پیدا کی اور لوگوں کو انگریز کے استحصالی نظام کے خلاف سوچنے پر مجبور کردیا۔ مذہب کا نام لے کر لوگوں کو ورغلانے والے ملاؤں کے خلاف بھی آپ نے آواز بلند کی اور نام نہاد علماء کے اوپر تنقید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا

ملاں نہیں کار دے

شیوے نہ جاتن یار دے

بجھن ناں بھیت اسرار دے

غرض آپ کے کلام کے ہر رنگ میں ایک مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے جو کہ سرائیکی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف سرائیکی خطے کی ثقافت کو اجاگر کیا ہے بلکہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس بھی دیا ہے۔

آپ نے 24جولائی 1901کو 56 سال کی عمر میں وصال پایا اور سرائیکی وسیب ایک عظیم شاعر سے محروم ہو گیا۔ آپ کی اولاد میں ایک بیٹا خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی آپ کے پس ماندگان میں سے تھے۔ ہر سال 5ربیع الثانی کو آپ کا عرس مبارک کوٹ مٹھن شریف میں انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے اور ضلعی سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔

خواجہ صاحب نے اپنا ذریعہ اظہار زیادہ تر سرائیکی زبان کو بنایا اور روہی رت رنگیلڑی کے تمام خوب صورت پہلوؤں کو اجا گر کیا۔ روہی کی خوب صورت ثقافت اور وہاں کے لوگوں کے مسائل کو جس طرح خواجہ صاحب نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے شاید ہی کوئی بیان کر سکے۔ انہوں نے اپنے دل آفریں کلام کے ذریعے روہی کے لوگوں کی محرومیوں کو بھی اجاگر کیا اور خوشی کے لمحات کو بھی منفرد انداز میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے تصوف اور معرفت کے موضوعات پر بھی بہت لکھا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ کی دو سو سے زیادہ کافیاں مطبوعہ ہیں اور دیوان فرید میں شامل ہیں۔

دیوان فرید کا پہلا مجموعہ آپ کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا، جس میں کافیاں اور ڈوہڑے بھی شامل تھیں۔ ڈوہڑا سرائیکی شاعری کی بہت معروف صنف ہے جس کو سرائیکی ادب میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے سرائیکی ڈوہڑے بھی اسی خوب صورتی سے لکھے ہیں جس خوب صورتی سے آپ نے کافیاں لکھی ہیں۔ اسی بنا پر لاکھوں دلوں پر آپ کی شاعری کی لطافتوں کا قبضہ ہے۔ ماہرین فریدیات آپ کو سرائیکی زبان کی شاعری کا رومی قرار دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح رومی اپنے انقلابی پیغام کے ذریعے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب بھی اپنی آفاقی شاعری کی بنا پر وسیب کے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرائیکی وسیب کے اس رومی کے محبت اور اخوت کے اس پیغام کو سمجھا جائے اور آپ کے اعلٰی کردار اور اخلاق کی ترویج کی جائے، تاکہ نوجوان نسل آپ کے عظیم پیغام کو سمجھ سکے اور اس کو اپنے لیے مشعل راہ بنا سکے۔

The post خواجہ غلام فرید ؛ جنھیں سرائیکی زبان کا رومی کہا جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

دور حاضر کا ایک انوکھا سوال جدید انسان کیا مزید ذہین نہیں ہو گا؟

$
0
0

انسان پچھلی ڈیرھ دو صدیوں میں اپنی دماغی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر شعبے میں محیرالعقول ترقی کرکے دنیا کا حکمران بن چکا۔یہ لگ بات کہ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے اب زمین کا فطری ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی دماغی قوت مذید طاقتور ہو گی یا نہیں؟یعنی کیا انسان اپنی ذہانت کے دور ِعروج پر پہنچ چکا۔رب کریم کی عظیم ترین نعمتوں میں انسانی دماغ بھی شامل ہے۔

یہ دماغ ہی ہے جس نے ناخواندہ اور معمولی انسان کو علم و معلومات کے خزانے عطا کیے، اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچایا اور آج وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ دماغ مختلف قسم کی قوتیں رکھتا ہے۔ مثلاً سوچنے یا تصور کرنے کی قدرت‘ حواس کی قوت‘ حافظے کی قوت ۔ ذہانت بھی دماغ کی ایک اہم طاقت ہے۔ذہانت کی مدد سے دماغ ماحول سے معلومات کشید کر کے اسے محفوظ کرتا ہے۔ پھر مسائل حل کرنے میں اسی معلومات سے مدد لیتا ہے۔ ذہانت کے لغوی معنی ہیں: دماغ (یا ذہن) کی تیزی۔

فرق کو سمجھئے
عام لوگ ’’عقل و دانش ‘‘(Wisdom) اور ’’ذہانت‘‘ (Intelligence)کو ایک شے سمجھتے ہیں مگر ان کے مابین فرق ہے۔ ذہین آدمی ذہانت کو شر انگیز سرگرمیوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن عاقل انسان خود کو منفی کاموں سے حتیٰ الامکان محفوظ رکھتا ہے۔ گویا عقل انسان کو نیکی اور بدی کے مابین تمیز کرنا سکھاتی ہے۔

عاقل اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک رکھتا ہے چاہے وہ غیر معمولی طور پہ ذہین نہ ہو۔ جبکہ ایک ذہین انسان عاقل نہ ہو تو اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے میں اسے مشکل پیش آ سکتی ہے۔ذہانت بہر حال انسانی دماغ کی عظیم ترین قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔اہل فکر و دانش گو اس کی منفی خصوصیت کے سبب مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مشہور سائنس داں آئن سٹائن کا خیال تھا کہ ذہین انسان وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ علم (نالج) نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے (تصّور کرنے) کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ ممتازیونانی فلسفی سقراط کا قول ہے: ’’میں جانتا ہوں کہ ذہین ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے، میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ اسی طرح ایک عبرانی کہاوت ہے: ’’آپ کو خوش قسمت بننے کے لیے ذہانت کی ضرورت نہیں مگر ذہین ہونے کی خاطر آپ کو خوش قسمت ہونا چاہیے۔‘‘

انسان اب کند ذہن بن رہا ہے؟
متنازع دماغی قوت ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ذہانت نے انسان کو ترقی یافتہ بنانے اور خوشحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دور جدید کے فلسفیوں اور دانش وروں کا تو کہناہے کہ انسان اپنی ذہانت کے زریّں ترین دور سے گذر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات آپ کو عجیب لگے مگر یہ وزن ضرور رکھتی ہے۔’’آئی کیو‘‘(intelligence quotient)ٹیسٹ ایک انسان کی ذہانت جانچنے کا مشہور پیمانہ ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ پہلا آئی کیوٹیسٹ 1904ء میں وضع کیا گیا۔ اس میں ایک انسان جتنے زیادہ نمبر لے‘ وہ اتنا ہی زیادہ ذہین مانا جاتا ہے۔ پچھلے 119سال کے د وران یہ نمبر مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

مطلب یہ کہ اگر 1904ء کا کوئی نامی گرامی جینئس بھی 2019ء میں آ جائے تو وہ ایک عام بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جدید دور کا ایک بچہ بھی اس سے زیادہ معلومات رکھتا ہے اور وہ ذہانت کی قوت بھی زیادہ رکھے گا۔ ماہرین اس اعجوبے کو ’’فلائنن اثر‘‘(Flynn effect) کے نام سے پکارتے ہیں۔بعض ماہرین مگر اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ انسانی ذہانت اپنی معراج تک پہنچ چکی یعنی انسان اب مزید ذہین نہیں ہو سکتا۔ اس نے ذہانت کا جو اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا تھا‘ وہ اسے پا چکا ۔ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی ذہانت کا معکوس سفر شروع ہو چکا… یعنی دور جدید کا انسان اب کند ذہن بن رہا ہے۔ یا کم از کم اس کے مزید ذہین ہونے کا عمل انتہائی سست رفتار ہو چکا۔دور حاضر کا یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا انسان جتنا زیادہ ذہین ہو سکتا تھا‘ اس مقام پر پہنچ چکا؟ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نیا اعجوبہ انسان کے مستقبل پر کس قسم کے اثرات مرتب کرے گا؟

دماغ کا سائز
آگے بڑھنے سے پیشتر آیئے انسانی ذہانت کے ارتقا کا جائزہ لے لیں۔ سائنس اور تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان ارتقائی مراحل سے گذر کر موجود مقام تک پہنچا ۔ تاہم سائنس اور مذاہب ان مراحل کی نوعیت پر اختلاف رکھتے ہیں۔سائنس دانوں کی رو سے ارتقائے انسان کے اہم ترین مراحل میں سے ایک مرحلہ تین لاکھ سال پہلے آیا جب وہ کھڑے ہو کر چلنے لگا۔

ماہرین نے ان نیم انسانوں کو ’’آسٹرلوپیتھکس‘‘ (Australopithecus) کا خطاب دیا۔آسٹرلو پیتھکس کی ہڈیاں ‘ کھوپڑیاں اور ڈھانچے (رکاز) مختلف براعظموں سے دریافت ہو چکے ۔ کھوپڑیوں کے معائنے سے معلوم ہوا کہ یہ قدیم انسان چھوٹا دماغ رکھتے تھے۔ اس دماغ کا سائز 300 سے 400سینٹی میٹر کے مابین تھا۔ جبکہ دور جدید کے انسان میںدماغ کم و بیش 1350 سینٹی میٹر سائز رکھتا ہے۔

یہ یاد رہے کہ ماہرین کے نزدیک دماغ کے سائز یا جسامت اور ذہانت میں تعلق ہے۔ بالعموم جس جاندار کا دماغ اس کے وزن کے لحاظ سے جتنابڑا ہو‘ وہ اتنا زیادہ ذہین ہوتا ہے۔اور جسمانی وزن کے لحاظ سے تمام جانداروں میں انسانی دماغ ہی سب سے بڑا ہے۔اسی لیے وہ ذہین ترین اور اشرف المخلوقات بھی کہلایا۔دماغ کا سائز وزن اور حجم (Volume)، دو اعتبار سے جانچا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کا سائز عموماً حجم میں سینٹی میٹر یا ملی میٹرمیں لکھا جاتا ہے۔ اصطلاح میں اسے ’’کرینئل کیپیسٹی‘‘(Cranial Capacity) کہتے ہیں۔ بہ لحاظ وزن جدید انسان کا دماغ 1300سے 1400گرام وزنی ہے۔دنیا کا سب سے چھوٹا دماغ ریگ وارم(ragworm)نامی کیڑے کا ہے۔یہ برسات میں نکلنے والے کیچوے کا رشتے دار ہے۔اس کا دماغ انسانی بال جتنا حجم (17سے180 مائکرومیٹر)رکھتا ہے۔جبکہ سپرم وہیل 7,800گرام وزنی دماغ رکھتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ دماغ نے روزمرہ زندگی میں کام انجام دیتے ہوئے قدیم انسانوں کو کئی فوائد پہنچائے ‘ اسی لیے یہ عضو مسلسل بڑھتا رہا۔ تاہم انسان کو بڑا دماغ پانے کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ آج ہمارا جسم خوراک جذب کر کے اس سے جتنی توانائی پیدا کرے‘ اس کا ’’20فیصد ‘‘ حصّہ دماغ استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے جسم میں وزن کے اعتبار سے دماغ کا حصہ محض 2فیصد ہے۔

معاشرے کی بنیاد پڑی
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے فوائد اور عوامل ہیں جن کی بنا پر انسانی دماغ جسامت میں بڑھتا چلا گیا؟ جدید سائنس نے بڑی باریک بینی سے ان عوامل پر تحقیق کی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ایک اہم تبدیلی اس وقت آئی جب قدیم انسان مل جل کر گروہ کی صورت رہنے لگے۔آسٹرلوپیتھکس ہی وہ قدیم انسان ہیں جنہوں نے میدانی علاقوں میں گروہ کی صورت میں زندگی گزارنے کا آغاز کیا۔ان سے قبل انسان بیشتر وقت درختوں پہ گذارتے تھے اور خاندان کی شکل میں رہتے۔ اس کے بعد گروہوں کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور یوں گاؤں‘ قصبے‘شہر وجود میں آ ئے۔ ماہرین کے نزدیک گروہ تشکیل دینے کی اولیّں وجہ یہ تھی کہ انسانی و حیوانی دشمنوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ ظاہر ہے‘ جب انسان درخت سے اتر کر زمین پر سونے لگا تو دشمنوں کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا۔

گروہ بنانے سے قدیم انسانوں کو نئے فوائد حاصل ہوئے۔ مثلاً وہ مل جل کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ انہیں موقع ملا کہ وہ اپنے وسائل جمع کر کے ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ بچوں کی حفاظت اور پرورش کا کٹھن مرحلہ بھی آسان ہو گیا کہ اب زیادہ انسان دستیاب تھے۔آج کا انسان اہل خانہ ‘ دوست احباب یا دیگر شہریوں سے دوستانہ تعلقات نہ رکھ سکے تو زیادہ سے زیادہ جذباتی پریشانی میں مبتلا ہوتاہے۔ لیکن ڈھائی لاکھ سال قبل کوئی قدیم انسان اپنے گروہ سے مطابقت نہ کر پاتا تو یہ اس کے لیے زندگی یاموت کا مسئلہ بن جاتا تھا۔ گویا تب انسان کے واسطے معاشرتی زندگی آج کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔اہل خانہ اور دوست احباب سے میل ملاپ رکھتے ہوئے آپ یہ تجربہ رکھتے ہوں گے کہ معاشرتی زندگی گزارنا اور تعلقات نبھانا خاصا کٹھن کام ہے۔ مثلاًضروری ہے کہ آپ والدین، بہنوں بھائیوں، دوستوں اور دفتری ساتھیوں… ہر فرد کی ذاتی پسند نا پسند اور دلچسپیوں سے آگاہ ہوں تاکہ انہی کے مطابق اس سے برتائو ہوسکے۔جیسے بعض بااعتماد دوست راز کی باتیں خود تک محدود رکھتے مگر کچھ بات کا بتنگڑ بناکر باتیں پھیلاتے ہیں۔

اگر آپ کسی گروہ کے ساتھ ہیں، تو ضروری ہے کہ ہر فرد کی سرگرمی سے واقف ہوں۔ تبھی آپ اپنی سرگرمیاں ان سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔ ارکان گروہ کے مابین ہم آہنگی جنم نہ لے، تو آسان کام بھی کٹھن بن جاتے ہیں۔ لہٰذا گروہ تشکیل دینا اور آپس میں ہم آہنگ ہونا قدیم انسانوں کے لیے بہت بڑی ارتقائی تبدیلیاں تھیں۔گروہ بنانے سے انہیں ایک بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ قدیم انسان ایک دوسرے سے خیالات، تصورات اور نظریات شیئر کرنے لگے۔ اس طرح مل جل کر روزمرہ کام آسان بنانے والی ایجادات سامنے لانے میں کامیاب رہے۔ مثلاً ایسے ہتھیار بن گئے جن سے جانوروں کا شکار آسان ہوا۔ دوسروں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی خاطر ذہانت درکار تھی۔ اسی لیے انسانی دماغ بتدریج بڑا ہونے لگا کہ مطلوبہ ذہانت کا معیار پاسکے۔

جدید انسانوں کے جدامجد
سات لاکھ سے تین لاکھ سال پہلے تک افریقہ اور یورپ میں قدیم انسانوں کی ایک نسل ’’ہومو ہائیڈلبر گیجیز‘‘ (Homo heidelbergensis) آباد رہی ۔ ان کی کھوپڑیاں افشا کرتی ہیں کہ چار سال لاکھ سال پہلے ان قدیم انسانوں کے دماغ کا سائز 1200 سینٹی میٹر تک پہنچ چکا تھا۔ گویا یہ دماغ جدید انسان کے انسان سے محض ڈیڑھ سو سینٹی میٹر چھوٹا تھا۔دماغ بڑے ہونے کا ارتقائی مرحلہ جاری رہا۔ یہی وجہ ہے، جب ستر ہزار سال پہلے جدید انسانوں کے جدامجد افریقہ سے نکلے تو وہ اتنے ذہین اور سمارٹ ہوچکے تھے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچ کر وہاں کے ماحول سے مطابقت اختیار کرلیں۔

انہی انسانوں نے مختلف غاروں میں اولیں تصاویر اور نقش و نگار بنائے۔ تصاویر سے عیاں ہے کہ ہمارے جدامجد پیچیدہ کائناتی سوالات پر غور و فکر کرنے لگے تھے۔ مثلاً یہ کہ انسان کہاں سے آیا، دنیا کس نے بنائی، نظام کائنات کون چلا رہا ہے؟غرض لاکھوں برس ارتقا کے بعد صرف چار پانچ ہزار سال قبل ہی انسانی دماغ اس قابل ہوا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات دکھانے لگے۔ سائنسی، ٹیکنالوجی، معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بیک وقت ترقی کرنے کے سبب انسان نے کرہ ارض پر اشرف المخلوقات کا روپ دھار لیا۔ اس محیر العقول ترقی میں ذہانت نے اہم کردار ادا کیا۔

’’فلائنن اثر‘‘
1904ء میں آئی کیو ٹیسٹ ایجاد کیے گئے تاکہ دیکھا جاسکے، مختلف انسان ذہانت کا کیسا معیار رکھتے ہیں۔ یہ انسانی ذہانت جانچنے کا قطعی پیمانہ نہیں مگر آئی کیو ٹیسٹوں کی بدولت خاصی حد تک معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ یا بالغ کتنا ذہین ہے۔ وہ ریاضی کے سوال حل کرلیتا ہے یا نہیں؟ کسی مشکل میں پھنس کر اس سے نکلنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے؟ آئی کیو ٹیسٹ میں کل 100 نمبر ہوتے ہیں۔ جو انسان جتنے زیادہ نمبر حاصل کرے، اتنا ہی ذہین تصور ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اواخر میں نیوزی لینڈ کے ایک دانشور، جیمز فلائنن نے آئی کیو ٹیسٹوں کی تاریخ کا جائزہ لیا۔تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ہر عشرے میں انسان آئی کیو ٹیسٹوں میں تین چار نمبر زیادہ لیتا رہا۔ یہ علامت تھی کہ انسانی ذہانت کا معیار بلند ہورہا ہے۔ اسی اعجوبے کو ’’فلائنن اثر‘‘ کا نام دیا گیا۔

ذہانت کو بڑھاوا دینے والے عمل
انسانی ذہانت میں اضافے نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔پچھلی ایک صدی میں انسان کو پیٹ بھر کر خوراک ملنے لگی۔ بیماریوں پر قابو پالیا گیا۔ انسانوں کو علم و معلومات سے بھرپور کتابیں میسر آگئیں۔ سیکھنے سکھانے کے نئے طریقے وجود میں آئے۔ غرض کئی عوامل نے مل کر انسانی ذہانت کو بڑھاوا دیا۔ مگر یہ ترقی دیگر چیزوں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ بیسویں صدی میں انسان کا قد پچھلے انسانوں کے مقابلے میں 5 انچ زیادہ بڑھ گیا۔ تبدیلی کی وجہ یہی کہ انسان کی مجموعی صحت بہتر ہوگئی۔ترقی یافتہ ممالک میں خصوصاً پابندیوں سے آزاد نظام تعلیم رائج ہونے سے بھی انسانی ذہانت میں اضافہ ہوا۔ اس نظام تعلیم میں بچوں کو غورو فکر کرنے پر اکسایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں جانور ممالیہ ہے یا خزندہ۔ اس قسم کے آزادانہ ماحول میں پرورش پانے سے انسانی ذہانت ان خصوصیات سے متصف ہوئی جو آئی کیو ٹیسٹوں میں کامیابیاں دلواتی ہیں۔ اسی لیے ٹیسٹوں کے نمبر ہر عشرے بعد بڑھتے چلے گئے۔

معیار گرنے لگا
اکیسویں صدی میں مگر آئی کیو ٹیسٹوں میں ٹھہرائو آچکا بلکہ کئی ممالک میں بچے پہلے کی نسبت ان امتحانوں میں کم نمبر لے رہے ہیں۔ ان ملکوں میں فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے سرفہرست ہیں۔ ماضی میں ان ممالک کے بچے آئی کیو ٹیسٹوں میں سب سے زیادہ نمبر لیتے تھے۔اب سکول و کالج جانے والے طلبہ کم نمبر لے رہے ہیں۔ذہانت کا معیار گرنے کی بھی مختلف وجوہ ہیں۔ مثلاً اب پوری دنیا میں بچے کیلکولیٹر یا سمارٹ فون سے ریاضی کے سوال حل کرتے ہیں۔ طبیعات یا کیمیا کے کسی سوال کا جواب لکھنا ہو، تو حل شدہ جوابات یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ غرض مشینی و ڈیجیٹل مدد گار انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں کند کررہے ہیں۔

رٹا لگانے یا معلومات کو ذہن نشین کرنے کے عمل نے بھی آزادانہ سوچ پر پہرے بٹھا دیئے اور یوں انسانی ذہانت کا ارتقا رک گیا۔اب ایک پانچ سالہ بچہ بھی کی بورڈ اور کمپیوٹر چلانا مشق سے سیکھ لے، تو یہ جدید ترین مشین چلا سکتا ہے۔ اسی طرح روزمرہ زندگی میں وہ مشق سے کئی کاموں کی ماہیت اور طریق کار سمجھ جائے، تو انہیں بھی انجام دے لیتا ہے۔ جب ایک بچہ رٹے اور مشق کے ماحول میں پرورش پائے، تو اس کی ذہانت خود بخود ایسی صلاحیتیں حاصل کرلیتی ہے جو آئی کیو ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے لیے ضروری ہوں۔

انسانی زندگی میں مشینوں کا بڑھتا عمل دخل ہماری ذہانت بتدریج کند کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ماہرین نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ انسانی ذہانت 1990ء کے بعد سے زوال پذیر ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب کمپیوٹر کے دور کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد موبائل فون اور سمارٹ فون انسانی زندگی میں چلے آئے بلکہ چھاگئے۔ حتیٰ کہ شعبہ تعلیم میں بھی مشینوں کا عمل دخل بڑھ گیا۔ یہی وجہ ہے، تعلیم اب انسانی ذہانت بڑھانے کے لیے تحرک نہیں رہی۔ یعنی جدید تعلیم انسان کو کچھ نیا سوچنے پر نہیں ابھارتی۔ طالب علم مشینوں کی مدد سے لگی بندھی ڈگر پر چلنے لگا ہے اور وہ کوئی نیا پن نہیں دکھا پاتا۔

ترقی سے ہمیں کیا ملا؟
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہمارا جدید طرز زندگی ہماری ذہانت میں عجیب و غریب تبدیلیاں لارہا ہے۔ چند سال قبل امریکی ماہر عمرانیات، ایلسی بولڈنگ نے اعلان کیا تھا کہ جدید انسانی معاشرہ عارضی تھکن و کمزوری کا شکار ہوچکا۔ وجہ یہ کہ اگر ہر انسان حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ہانپنے لگے تو پھر مستقبل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس میں توانائی نہیں رہتی۔آج دنیا بھر میں ماہرین اور سائنس داں یہ جاننے کی خاطر تحقیق و تجربات کررہے ہیں کہ انسانی ذہانت کا ارتقا کیوں جامد ہوچکا؟ ساتھ ساتھ بعض ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پچھلے ایک سو برس میں انسانی ذہانت کی زبردست ترقی سے بنی نوع انسان اور ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر کیا فائدہ پہنچا؟ اس ضمن میں امریکی کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات، پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا کہنا ہے:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بہ آسانی پیچیدہ مشینیں چلا لیتا ہے۔ سو سال پہلے کا انسان یہ صلاحیتیں نہیں رکھتا تھا۔سوال یہ ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسانیت کو کیا فوائد ملے؟ نظر تو یہی آتا ہے کہ ذہانت میں اضافہ کوئی انقلاب نہیں لاسکا۔ آج بھی انسان ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں غربت کا دور دورہ ہے۔ انسان اپنی سرگرمیوں سے ماحول تباہ کررہا ہے۔ حسین فطری مقامات آلودگی سے لتھڑ چکے۔ انسانی ذہانت میں ترقی سے ہمیں کیا ملا؟‘‘

مجموعی صلاحیت پر کامل اثر
پروفیسر رابرٹ اسٹرن برگ کا درج بالا بیان خاصا قنوطی ہے۔ انسانی ذہانت میں اضافے سے بنی نوع انسان کو فوائد بھی حاصل ہوئے۔ مثلاً نت نئی ادویہ ایجاد ہوئیں جن کی مدد سے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائی جاچکیں۔ پھر ان گنت ایجادات سے انسان کی زندگی ماضی کے مقابلے میں زیادہ سہل انداز سے بسر ہونے لگی۔ غربت ختم تو نہیں ہوسکی مگر اس میں کمی ضرور آئی۔ غرض انسانی ذہانت کی ترقی سے انسانیت کو کئی فائدے بھی ملے۔تاہم پروفیسر رابرٹ کی طرح بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی ذہانت میں اضافے سے انسان کی مجموعی شخصیت کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا۔ اس ضمن میں جیمز فلائنن نے بھی یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی ذہانت میں اضافہ انسان کے دماغ کی بعض مہارتوں (Skills) ہی کو تیز و عمدہ بنا سکا ہے۔

یہ نظریہ اس مثال سے سمجھیے کہ انسان اپنے ہر عضوِ جسم کو صحت مند رکھنے کی خاطر مختلف ورزشیں کرتا ہے۔ ہر ورزش ایک ہی عضو مثلاً پیٹ، گردن یا ٹانگ کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر انسان صرف ایک دو ورزشیں کرے، تو متعلقہ عضو تو عمدہ ہوجائے گا مگر اس کی مجموعی تندرستی پر خاص مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ انسان نے فکرو سوچ کی بعض ورزشیں کرکے اپنی کچھ ذہنی صلاحیتیں ضرور بڑھالیں، مگر ان سے ہماری ذہانت کی مجموعی صلاحیت پر کامل اثر نہیں پڑا۔ گویا اب انسان کے لیے لازم ہے کہ انسانی دماغ کی جو صلاحیتیں اور مہارتیں ترقی نہیں کرسکیں، وہ انہیں ترقی دے تاکہ مستقبل کے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کرسکے۔

تخلیقی سوچ جامد رہی
مثال کے طور پر انسان کی تخلیقی صلاحیت یا مہارت ہی کو لیجیے۔ جب ماہرین اس کا ذکر کریں، تو محض یہ مراد نہیں ہوتی کہ انسان تصویر بنالے، افسانہ لکھ لے یا اداکاری کرے بلکہ دیگر مہارتیں بھی تخلیقیت کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ کتنی آسانی سے مسائل حل کرلیتے ہیں؟ پھر آپ کی ’’کائونٹر فیکچوئل سوچ‘‘ کتنی عمدہ ہے؟ انسان اسی سوچ کے سہارے ایسے پسندیدہ یا ناخوشگوار حالات و واقعات کا تصور کرتا ہے جو ابھی ظہور پذیر نہیں ہوئے۔درست کہ ذہانت بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران آئی کیو بڑھنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیت میں نمایاں بہتری نہیں آئی۔ گویا انسان کا آئی کیو جن وجوہ سے بھی بڑھا، انہوں نے ہماری تخلیقی صلاحیت بہتر نہیں بنائی۔ اسی لیے انسان نت نئے طریقوں سے سوچنے کے قابل نہ ہوسکا۔ اس کی تخلیقی سوچ جامد ہی رہی۔

قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ
انسان کی ’’قوت فیصلہ‘‘ کو بھی لیجیے۔ اسی قوت کے ذریعے ہم بہترین فیصلے کرتے ہیں۔ ثبوت کو تولتے، بیکار باتوں سے پیچھا چھڑاتے اور کسی معاملے کا مبنی برعقل فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ یقیناً خیال کریں گے کہ انسان جتنا زیادہ ذہین ہو، اس کی قوت فیصلہ بھی اتنی زیادہ بہترین ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ وجہ یہ کہ قوت فیصلہ ہماری دیگر دماغی صلاحیتوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ اسی لیے بعض اوقات کوئی فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔آپ نے شاپنگ سینٹر میں گھومتے پھرتے دو اقسام کے دودھ دیکھے۔ دودھ کے ایک پر لکھا ہے: 95 فیصد چکنائی سے پاک۔ دوسرے ڈبے پر درج ہے: 5 فیصد چکنائی ہے۔

مردوزن کی اکثریت ’’95 فیصد چکنائی سے پاک‘‘ والا دودھ خریدے گی، حالانکہ 5 فیصد چکنائی والا دودھ بھی اس جیسا ہی ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں یہ عجوبہ ’’فریمنگ بائس ‘‘(Framing Bias) کہلاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ذہین ترین مردوزن بھی اس قسم کے تناقص سے نہیں بچ پاتے اور قیمتوں کے گورکھ دھندے میں پھنس جاتے ہیں۔

ماہرین نے تحقیق و تجربات سے دریافت کیا کہ ذہین انسان ایک اور خلا ’’سنک کوسٹ بائس‘‘(sunk cost bias) کے پھندے میں بھی پھنستے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے جب انسان خسارے میں جاتے کاروبار میں بھی پیسہ لگاتا رہتا ہے حالانکہ اسے اپنا ہاتھ روک لینا چاہیے۔ کاروباری دنیا میں یہ بائس اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ حکومتیں بھی اس کے جال میں گرفتار رہتی ہے۔ مثلاً برطانوی اور فرانسیسی حکومتیں مسلسل کونکورڈ طیارے کے منصوبے کی فنڈنگ کرتی رہیں حالانکہ عرصہ پہلے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ منصوبہ تجارتی لحاظ سے سود مند نہیں۔انتہائی ذہین انسان ’’عارضی ڈس کائونٹنگ‘‘ کے امتحان میں بھی فیل ہوجاتے ہیں۔

اس فیصلے سے انسان وقتی فائدے چھوڑ کر طویل المدتی فائدوں کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ اگر مستقبل میں آرام و سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے۔اسی طرح اپنے کلام و عمل کا تنقیدی جائزہ لینا بھی انسانی ذہانت کی اہم ذمے داری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دور جدید کی تعلیم ذہانت کے اس شعبے میں خاص بہتری نہیں لاسکی۔ یہی وجہ ہے، آج کے بیشتر طالب علم تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ مثلاً یہ کہ اپنے نظریات اور کاموں میں خامیاں تلاش کی جائیں اور دیکھا جائے کہ انہیں کس طرح دور کیا جائے۔

حاصل ِکلام
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ذہانت کے بڑھتے معیار نے انسان کی تمام دماغی صلاحیتوں پر یکساں اثر نہیں ڈالے۔ پچھلی ایک صدی میں انسان کی ذہانت ضرور بڑھ گئی مگر یہ بڑھوتری تصوراتی(abstract) شعبے میں زیادہ آئی۔ دیگر دماغی صلاحیتوں مثلاً قوت فیصلہ اور تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے آج بھی دھوکا کھا جانا عام ہے۔ عام زندگی اور کاروباری دنیا میں ہر سال ہزارہا لوگ فراڈ کی بنا پر کروڑوں روپے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جعلی ادویہ خریدتے یا جعلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر ڈالتے ہیں۔

انسانی دماغ کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اسی کی ارتقائی ترقی کے باعث انسان پیچیدہ معاشرے میں رہنے کے قابل ہوا۔ خصوصاً پچھلی ایک صدی میں اس کی ذہانت بھی عروج پاچکی۔ لیکن انسان اپنی تمام دماغی صلاحیتوں کو کامل و مکمل نہیں کرسکا۔ اسی باعث آج بھی انسان سے خطرناک و خوفناک غلطیاں ہوتی ہیں۔ انسان نے مل جل کر، امن سے رہنا نہیں سیکھا اور لڑائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ وہ جعلی و جھوٹی خبروں پر بھی اعتبار کرلیتا ہے جو معاشروں میں تصادم و فساد بڑھاتی ہیں۔علم اور تعلیم کی ترقی نے ہمیں تصور کرنا تو سکھا دیا مگر وہ ہمارے خلاف عقل اور بے تکے رجحانات دور نہیں کرسکی۔

ہم سوچتے ہیں کہ ذہین و فطین لوگ روزمرہ زندگی میں درست فیصلے کرتے ہیں…مگر واقعات و حالات سے عیاں ہے کہ یہ بات درست نہیں۔گویا اب انسان کو دماغ استعمال کرنے کے طریقے بدلنے ہوں گے۔ اسے ایسا عملی نظام تخلیق کرنا ہوگا جو دماغ کی تمام صلاحیتوں مثلاً ذہانت، عقل، تدبر، دانش، قوت فیصلہ، تنقیدی جائزے کی صلاحیت وغیرہ کو ترقی دے سکے۔ اسی تبدیلی کے بعد انسان دور جدید کی خامیاں، مسائل اور خرابیاں دور کرسکے گا جنھوں نے بنی نوع انسان کو تقسیم کررکھا ہے۔

ذہانت اور دانش کا فرق
مختلف فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے اقوال سے ذہانت اور دانش کے مابین فرق واضح کیا ہے:
٭…عقل ودانش ہمیشہ سچائی تک پہنچاتی ہے جبکہ ذہانت کو دھوکے بازی کرتے ہوئے کام میں لانا ممکن ہے۔
٭…علم یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھ لیں۔دانش یہ ہے کہ آپ روزانہ کچھ نہ کچھ چیزوں کو خیرباد کہتے رہیں۔
٭…علم وذہانت سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔عقل ودانش انسان زندگی گذارتے ہوئے پاتا ہے۔
٭…ایک ذہین انسان آپ کو ذہانت بھرے جواب دے گا۔مگر ایک عاقل آدمی آپ سے ذہانت بھرے سوال پوچھے گا۔
٭…دانش کے بغیر ذہانت ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔
٭…ایک ذہین آدمی آپ کا ذہن،ایک خوبصورت انسان آپ کی آنکھیں اور ایک نیک و شریف آدمی آپ کا دل کھول دیتا ہے۔

The post دور حاضر کا ایک انوکھا سوال جدید انسان کیا مزید ذہین نہیں ہو گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ارے ہم بھی ہراساں ہیں

$
0
0

ن م راشد نے نہ جانے کیوں حیرت سے پوچھا تھا ’’آدمی سے ڈرتے ہو، آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں۔‘‘ بھئی کیسا سوال اور کاہے کا تعجب، عمر کے ایک خاص حصے تک ہر آدمی کو بعض ایسے آدمیوں سے ڈرنا پڑتا ہے جو بڑے مختلف معنوں میں یقین رکھتے ہیں کہ ’’آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے‘‘ یا ’’آدمی ہوں آدمی سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ یہ وہ آدمی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔‘‘ ایک یہی معاملہ نہیں، بھیا! گولی چلارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی، دھوکا جو دے رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی، سازش جو کر رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی۔۔۔ تو آدمی آدمی سے کیوں نہ ڈرے؟ اور اگر کوئی ہم جیسا ڈرپوک ہو تو کیا اکلوتا آدمی اور کیا پوری آرمی! کوئی آدم زاد ذرا سا بھی ڈرا دے ہمارا دَم نکل جاتا ہے، آدم زاد تو کیا ہم آدم زادیوں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں، اور جب سے ہراساں کرنے کے الزامات کا سلسلہ چلا ہے ہمارا ڈر اور بھی بڑھ چلا ہے۔ ہر وقت یہ اندیشہ دل کی دھڑکن بڑھائے اور چہرے کو پیلا کیے رکھتا ہے کہ کہیں کوئی بی بی ہم پر یہ الزام نہ لگادیں۔ یہ داغ تو ایک بار لگے گا، لیکن بیگم پھر ساری زندگی دھلائی کرتی رہیں گی مگر نہیں دُھلے گا۔ اب بیگم کو کون سمجھائے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں، انھیں تو بس یہ یاد رہے گا کہ ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، اور پورا امکان ہے کہ کہانی کا اختتام وہ اپنی ہاتھوں سے لکھیں، اور ہمارا قصہ ہی ختم ہوجائے۔

ان اندیشوں میں گھرے ہم سوچ رہے ہیں کہ ان تمام خواتین کے شکوک و شبہات دور کردیں جنھیں کبھی ذرا سا بھی لگا ہو کہ ہم نے انھیں ہراساں کیا ہے اور برسوں بعد یاد آنے پر وہ ہمیں ملزم بلکہ مجرم بنادیں سو ہم آج ایسی کچھ خواتین کو نام بہ نام مخاطب کرکے اپنی صفائی پیش کر رہے ہیں۔ صفائی اس لیے بھی پیش کر رہے ہیں کہ ہم صفائی پر یقین رکھتے ہیں، وہ کپڑوں کی صفائی ہو یا ہاتھوں کی، یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی بولتے ہیں صاف جھوٹ بولتے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری صفائی قبول کی جائے اور ہم صاف بچ جائیں۔ تو اب ہم شروع کرتے ہیں صفائی مہم۔

بی بی بشیراں:

قسم اﷲ پاک کی اُس دن جو گلی میں ہمارا شانہ آپ کے شانے سے بِھڑ گیا تھا، وہ اگرچہ عورتوں کو شانہ بہ شانہ چلانے کے فلسفہ کے تحت کیا جانے والا شعوری عمل نہیں تھا، لیکن اس میں ہماری بدنیتی کا بھی دخل نہیں تھا۔ دراصل ایک کُتا جو بہت ہی کُتا تھا، ہمارے پیچھے منہہ کھول کے لپکا تھا، اور ہم سہم کر بے ساختہ آپ سے بِھڑ گئے تھے۔ یقین مانیے اس لمحے ہماری سہمی ہوئی آنکھوں میں کُتے کے لیے پیغام تھا،’’میرے پاس ماں ہے۔‘‘ آپ کے سفید سر اور ستر سال کا احوال سُناتی چہرے کی جُھریوں کو دیکھ کر کُتے کو ہماری بات پر یقین آگیا تھا اور وہ دُم ہلاتا چلا گیا تھا، لیکن آپ نے ہماری نیت پر یقین نہ کیا اور پوپلے منہہ سے وہ سنائیں کہ ہمارے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ بہ ہر حال اب ہماری صفائی قبول کیجیے، عین نوازش ہوگی۔

بانو فسادن:

فسادن کہنے پر معذرت۔ کیا کریں محلے میں کوئی آٹھ دس بانو تھیں، سو برائے امتیاز آپ کی عرفیت لگانا پڑی۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کا فتنے فساد سے کیا لینا دینا، آپ تو امن کی پیام بر ہیں، آپ نے اپنے خاندان اور محلے میں جتنی طلاقیں کرائیں اس نیک نیتی سے کرائیں کہ دونوں فریق آپس میں لڑنے کے بہ جائے الگ الگ امن سے رہیں۔ خیر عرض یہ کرنا تھا کہ بڑی پُرانی بات ہے، جب آتش کا پتا نہیں، لیکن ہم جوان تھے۔ ہم آپ کے عین پیچھے پیچھے دودھ والے کی دکان سے گلی کے نکڑ تک آئے تھے، جہاں مُڑتے ہوئے آپ نے مُڑ کر ہمیں دیکھا تھا اور مسکرائی تھیں، بس ہم وہیں رُکے اور مُڑ گئے تھے۔ اُس کے بعد آپ نے ہمیں کبھی نہ دیکھا تو اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم آپ کو دیکھ کر چُھپ جایا کرتے تھے۔ آج اس راز سے پردہ اُٹھا دیں کہ ہم آپ کو آپ ہی کی صاحب زادی سمجھے تھے۔ ساتھ یہ بھی بتادیں کہ ’’بیٹی کے کپڑے تمھارے فٹ آتے ہیں تو ہمارا کیا قصور خالہ، ہمارا ٹائم کیوں خراب کرتی ہو۔‘‘ کی تحریر والا پرچہ ہم نے ہی آپ کے صحن میں پھینکا تھا۔ صفائی قبول کرنے کے ساتھ غصے میں کی جانے والی اس خطا کی معافی بھی قبول کیجیے۔

پھول خاتون:

ہم نے گذشتہ دنوں آپ کو فیس بک پر ’’ہائے‘‘،’’کیسی ہو‘‘، ’’کہاں ہو‘‘،’’کچھ تو بولو‘‘،’’جواب تو دو‘‘ جیسے جو میسیج اور ایس ایم ایس کیے دراصل وہ ہم نے نہیں کیے۔ ہوا یوں کہ ہمارا فیس بُک اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا، اور موبائل فون چِِھن گیا تھا، ایمان سے ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارا ایف بی اکاؤنٹ اور موبائل فون کسی اور کے پاس ہے۔ اتنے بھولے بھالے ہیں ہم۔ اس بے خبری ہی سے آپ اپنے بھائی کی معصومیت کا اندازہ لگاسکتی ہیں۔ ہمیں جھوٹا مت سمجھے گا بہن، ہمارا دل ٹوٹ جائے گا۔ ویسے ’’اُس تصویر‘‘ والے میسیج کے جواب میں آپ نے کون سی گالی لکھی تھی؟

ناز پروین:

ہمیں اعتراف ہے کہ جب سے آپ نے ہمارے دفتر میں ملازمت کی ہے تب سے چند روز پہلے تک، یعنی کُل ملا کے کوئی تین مہینے ہم آپ کو مسلسل گھورتے رہے ہیں۔ لیکن اس گھورنے کا نقصان سراسر ہمیں ہی ہوا ہے، دو بار دیوار سے ٹکرائے، تین بار کھمبے سے، ایک بار کمپنی کے مالک سے ٹکرا کر اپنی نوکری گنواتے گنواتے رہ گئے۔ صدق دل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کسی بُری غرض سے نہیں دیکھا۔ دراصل آپ کی شکل ہماری مرحومہ پھوپھی سے بہت ملتی ہے، اور اتنی ملتی ہے کہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے رنڈوے پھوپھا آپ سے نہیں ملے، ورنہ وہ صرف گھورنے پر اکتفا نہ کرتے۔ امید ہے پھوپھی کو ترسے ہوئے اس بھتیجے کے غم کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ہمارا گھورنا معاف فرمائیں گی اور شکایت سے تھپڑ تک کچھ نہیں لگائیں گی۔

ہم دیگر تمام ایسی خواتین کے سامنے بھی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں جن کے نام ہمیں یاد نہیں۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ہمارے ٹکرانے کو بدمعاشی اور بدقماشی نہ سمجھیں اسے ہماری بدحواسی سے تعبیر کریں، اسی طرح ہمارے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کو اس بچے کی حیرت پر محمول کریں جو ہر اس شئے کو حیرت سے دیکھتا ہے جس پر پہلی بار نظر پڑتی ہے۔ اب ہم کیا کریں جب بھی دیکھا لگا پہلی بار دیکھ رہے ہیں یا آخری بار، ہر بار آپ کا میک اپ جو نیا تھا۔ بہ ہر حال یہ بچہ حال ہی میں اچانک بڑا ہوگیا ہے اور اس کی حیرت دور ہوگئی ہے۔

The post ارے ہم بھی ہراساں ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک دُھتکارا ہوا جیون

$
0
0

زندگی مُشکلات میں گھری ہوئی ہے، سُکون نہ قرار، بس ہر پَل اذیّت سے بھرا ہوا۔ جیون ہے کیا ہے یہ۔۔۔۔۔ ؟ ایک مُشکل سے بہ صد کوشش نکلتے ہیں تو دوسری سامنے کھڑی منہ چڑھا رہی ہوتی ہے، کچھ نہیں بچا، بس دُکھ ہی دُکھ ہیں، کَرب سے بھری ہوئی زندگی، کوئی کسی کا نہیں جی، ہر ایک اپنے پسینے میں ڈوبا ہُوا کرّاہ رہا ہے، اور کسے کہتے ہیں نفسانفسی، عسرت بھری زندگی۔ کسی کو دھن گننے کی فرصت نہیں اور کوئی عسرت و مفلسی کا مارا دھیلے کوڑی کو ترس گیا ہے، کیا ہے یہ سب کچھ، اور جب بالکل ہی مایوس ہوجاتے ہیں تو اس کا حل یہ نکالتے ہیں کہ اس سے تو موت ہی بھلی، لیکن پھر کوئی سوال اٹھاتا ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔۔۔۔۔ ؟ تو دانتوں تلے انگلی داب سوچ کے ساگر میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو عیش و عشرت بھری زندگی گزارنے والے بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں، ہاں ان کے الفاظ ضرور مختلف ہوں گے لیکن رونا ان کا بھی یہی ہے۔ لیکن کیا یہ جیون آج کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔؟

نہیں معلوم، آپ سلجھائیے اس گتھی کو، اور بُوجھیے یہ جیون پہیلی۔ فقیر تو کچھ نہیں جانتا جی، بس اتنا ہی!

گلہ نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا

یہی جو ہے، یہی ہوگا، یہی رہا ہوگا

ایک دن فقیر اور اس کے سنگی ساتھیوں نے اپنے بابا جی حضور کے سامنے یہی پہیلی رکھی تھی تو یاد ہے، بہت اچھی طرح سے کہ مسکرائے اور خاموشی اختیار کی۔ سب تو صابر تھے اور شانت کہ نوازے گئے تھے اس نعمت سے لیکن فقیر عجلت کا مارا، بے صبرا، بے علم و بے عمل، احمق و نادان اصرار کرتا رہا کہ خاموش کیوں ہیں، بتائیے ۔۔۔۔ ؟

اور جب ان کی خاموشی طویل ہوگئی تو فقیر کمّی کمین بول پڑا تھا، نہیں معلوم تو یہی کہہ دیجیے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ خاموشی عالم کا وقار اور جاہل کا پردہ رکھتی ہے، لیکن فقیر جیسے کو کیا کہا جائے کہ بس بے سر و پا بلاتکان بولتا چلا جاتا ہے، سچ یہ ہے کہ جو اندر سے خالی ہو ناں تو وہ فقیر کی طرح بلا سوچے سمجھے بولتا رہتا ہے اور اس فریب میں مبتلا کہ اس کی چرب زبانی علم ہے، آگہی ہے، رب تعالٰی رحم و کرم فرمائے۔

وہ دن تو گزر گیا اور بابا جی حضور خاموش رہے لیکن دوسرے دن خود ہی فقیر سے ہم کلام ہوئے اور پوچھا: تم جیون پہیلی کو بُوجھ سکے ۔۔۔۔ ؟ نہیں تو بابا جی! کچھ سمجھ نہیں آیا۔ یہ سن کر انہوں نے فقیر کے کاندھے پر پیار بھرا ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک ایسا ہی رہے گا تُو پگلے! اتنی آسان جیون پہیلی بھی نہیں بُوجھ پایا، دیکھ اگر جیون سے مُشکلات نکال دیں تو کچھ باقی نہیں بچے گا، یہ مُشکل ہی تو جیون پر اُکساتی ہے، یہ دُکھ ہی تو سُکھ کو جنم دیتا ہے۔

بے قراری سکون کو جنم دیتی ہے، یہ مشکلات، دُکھ، کرب، بے قراری سب کچھ جیون کو جیون بناتے اور اسے آگے کی سمت رواں رکھتے ہیں، یہ نہ ہوں تو سمجھ لو کہ زندگی بھی نہ ہو، یہ سب کچھ زندگی کے لوازمات ہیں، اگر کوئی یہ چاہے اور وہ کتنا بڑا رئیس ہی کیوں نہ ہو کہ اس کی زندگی سے یہ سارے روگ نکل جائیں تب بھی نہیں نکلتے۔ تو پگلے بس یہی ہے پوری اور بھرپور زندگی جس میں یہ سب کچھ ہو، ورنہ تو جیون کچھ بھی نہیں، موت ہے اور مرے ہوؤں کی جگہ دنیا نہیں قبرستان ہے۔

جی بہت طویل تھی وہ نشست، چلیے سِرا تو آپ کو فقیر نے پکڑا دیا ہے، اب آپ اس ڈور کو خود سلجھائیے اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ جیون پہیلی کو بُوجھ لیں گے اور یقین جانیے، چاہے کچھ ہوجائے مسکرائیں گے۔

آج کل انڈیا میں مودی جیسے فاشسٹ لوگوں کا گروہ حکم راں ہے، کہنے کو تو وہاں جمہوریت ہے لیکن ہے کیا ۔۔۔۔ ؟ سبھی جانتے ہیں یہ جُھوٹ تو۔ مودی سرکار نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے، اس سے پہلے ننگ انسانیت مودی ٹولے نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تمام اصولوں، قاعدے قوانین، اقوام متحدہ، اور کیسی اقوام متحدہ کہ وہ تو اوّل دن سے عالمی ساہوکاروں کی زرخرید لونڈی بنی ہوئی ہے، لیکن چلیے اسے بھی رہنے دیجیے، کی قراردادوں کو بھی کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور عالمی احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے تمام تر حقوق کو جبراً غصب کرتے ہوئے پورے کشمیر کو کال کوٹھری میں بدل دیا ہے جو کئی ماہ ہوئے جاتے ہیں ہنوز ایک بدترین جیل ہے اور اس کے نہتّے اور مظلوم مسلمان قیدی بنا لیے گئے ہیں۔

ایسے قیدی جن کا اس دور جدید میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے کہ وہاں آخر وہ کس حال میں ہیں۔ مودی ٹولے نے اسی پر بس نہیں کی اور پھر اچانک ہی وہ وہاں شہریت کا کالا قانون لے کر آگئے ہیں جو سراسر مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنے یا پھر انہیں دیس نکالا دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کالے قانون کے خلاف پورے انڈیا میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں لیکن مسلم خواتین بازی لے گئی ہیں اور وہ اس تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ دلّی کا شاہین باغ ان کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لیکن دیکھیے اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں رب کی دھرتی پر، اچھے اور بھلے لوگوں سے دنیا خالی نہیں رہی کبھی بھی نہیں کہ وہاں کے انسان دوست ہندو، سکھ، مسیحی، جین، بدھ اور تو اور دہریے بھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور ان کا ساتھ نبھا رہے ہیں کہ ہم ایسے کالے قانون کو کبھی نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ آپ تو باخبر ہیں جانتے ہی ہوں گے، آج کی برق رفتار دنیا میں بھلا کیا بات چھپی رہ گئی ہے۔ لیکن ہم تو جیون کتھا جی مشکلات بھری زندگی پر بات کر رہے تھے ناں تو اسی پر رہتے ہیں۔ یہ جو انڈیا کا ذکر بیچ میں آگیا تو اس کا جواز بھی بتائے گا فقیر۔

وہ بھی ایک بھارتی ہی تھا جو 14 اپریل 1891ء کو مہار ذات کے ایک غریب خاندان میں مہاؤ، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوا۔ اس لڑکے کے والد کا نام رام جی اور والدہ کا نام بھیما بائی تھا۔ عجیب جیون تھا اس بچے کا اور اسی کا کیا اس ذات کے تمام لوگوں کا ہی کہ جن کا جیون صرف اذیّت تھا اور اذیّت بھی کوئی ایسی ویسی۔ نہیں جی ان کی تکالیف، دکھوں، مسائل اور مجبوریوں کو بیان کرنے کے لیے موجودہ الفاظ اور جملے کفالت نہیں کرتے، ان کے لیے الگ سے کوئی لغت ترتیب دینا ہوگی۔ اونچ نیچ، چھوت چھات کا شاہ کار سماج، جسے سماج کہنا اس کی بدترین توہین ہے، لیکن کیا کریں، دھرتی رب کی ہے کہ وہی خالق ہے سب کا، وہی مالک ہے سب کا، وہی رب ہے سب کا۔ لیکن ان فرعون صفت انسان صورت شیاطین کا کیا کیجیے کہ وہ زمین پر خدا بن کر بیٹھ گئے اور مظلوم انسانوں کی زندگی اجیرن کر بیٹھے ہیں۔

اُس لڑکے کے من میں سمائی کہ وہ پڑھے گا، لیکن کہاں ۔۔۔۔ ؟ یہی اصل سوال تھا جس کا جواب ندارد۔ لیکن دُھن کے پکے اس لڑکے نے آخر اپنے باپ کو قائل کر ہی لیا تھا کہ وہ اسے کسی مکتب میں داخل کرائیں۔ مفلس اور دُھتکارے ہوئے انسان اس کے والد نے اپنی سی پوری کوشش کی لیکن کوئی اسے داخلہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ انسان کوشش جاری رکھے تو کچھ امید پیدا ہو ہی جاتی ہے تو ایک دن ایک اسکول کے ماسٹر صاحب نے کچھ شرائط کے ساتھ داخلے کی حامی بھرلی۔ اور وہ شرائط کیا تھیں، وہ اپنا ٹاٹ خود لائے گا، سب بچوں سے الگ ہوکر دُور بیٹھے گا، انہیں بہ راست نہیں دیکھے گا اور ان سے بات تو بالکل بھی نہیں کرے گا اور خاموشی کو بچھونا بنائے رکھے گا اور اس جیسی کئی شرائط۔ مجبور باپ نے ہر شرط مان لی تھی اور یوں وہ مکتب جانے لگا جہاں اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسکول میں نل سے پانی پینے کی اسے اجازت نہ تھی اور گاؤں کے کنویں سے بھی پانی پینا ممنوع تھا۔

پانی پینے کے لیے اسے دو میل پیدل جانا پڑتا تھا۔ اونچی ذات کے دوسرے لڑکے اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس کا ہر پَل تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ اسے زدوکوب کیا جاتا اور اسے احتجاج تو دُور رونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ عجیب جیون تھا اس کا کہ جب کسی گلی سے گزرتا تو گلے میں گھنٹی باندھ لیتا تاکہ اونچی ذات کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیں اور وہ گزر سکے۔ کوئی حجام اس کے بال تراشنے کو تیار نہ تھا، یہ سب کام وہ خود یا اس کی بہنیں کردیا کرتی تھیں۔

ایک دن وہ ایک حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے پہنچا، اس سے اتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا تھا کہ پھر کیا تھا حجّام سمیت ہجوم نے اسے گھیر لیا اور اسے حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے کی جرات کی سزا دی گئی اور اسے لہولہان کردیا۔ مکتب میں بھی ایک دن ماسٹر صاحب نے ایک امتحان لیا جس میں اونچی ذات کے بچے ناکام ہوگئے تھے اور بس وہی کام یاب ہوا تھا، مکتب میں چھٹی کے بعد اسے لڑکوں نے گھیر لیا اور پھر وہ تشدد کیا کہ وہ اپنی کٹیا تک پہنچنے سے بھی قاصر تھا۔ جتنا ظلم بڑھتا گیا اس لڑکے کا صبر اور عزم و ہمّت بھی بڑھنے لگی اور ان تمام مظالم کا سامنا کرتا رہا۔ ا

ن بدترین حالات میں بھی وہ ہر جماعت میں نمایاں اور امتیازی کام یابی حاصل کرتا چلا گیا۔ اس ذلّت بھرے مشکل جیون کے باوجود وہ کالج جا پہنچا تھا اور پھر وہ اپنی محنت و لگن سے الفنسٹن کالج کا سب سے پہلا دلت گریجویٹ بنا۔ اس نے حالات کے قدموں میں گرنا نہیں سیکھا تھا اور اس نے اپنی راہ خود نکالی تھی۔ مشکلات کا ہر سنگ میل اسے سفر کرنے سے نہیں روک سکا تھا اور ایک دن وہ اسکالر شپ ملنے پر وہ وکالت پڑھنے لندن پہنچ گیا۔ اس کا سفر جاری رہا اور وہ لندن سے امریکا کی کولمبیا یونی ورسٹی چلا گیا جہاں سے اس نے اقتصادیات میں ماسٹر اور 1923 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اس کے بعد وہ پھر لندن جا پہنچا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی دوبارہ کیا۔ اس کے بعد اس نے انڈیا کا رخ کیا اور ممبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ اپنے مؤکلوں کو ہمیشہ کہتا تھا اپنے جھگڑے عدالت سے کراؤ گے تو بہت خرچ آئے گا اگر خود اپنے جھگڑے نپٹاؤ گے تو مفت میں کام ہو جائے گا۔ اس کا کہنا تھا اگر آپ کسی معاشرے کو ترقی پذیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو عام کرنا ہوگا، تعلیم امتیازات و افتراق کا استحصال کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں استحصال کم سے کم ہوتا جاتا ہے ان بالا دست طبقات کی بالادستی خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے، جو بے علم عوام کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔

اس نے اپنا جیون سدھانے کے بہ جائے اپنے جیسے مظلوم انسانوں کو ذلت کے جہنم سے نکالنے اور ان کی آواز بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے مراٹھی زبان میں ایک ہفت روزہ اخبار نکالا اور اس کا نام ’’لوک نایک‘‘ (گونگے لوگوں کا لیڈر) رکھا۔ اس نے اپنے جیسے مظلوموں کی فلاح و بہبود اور ان کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے ’’جنتا‘‘ نامی اخبار بھی نکالا۔ پسے ہوئے دلت جن کا حق چھین لیا گیا تھا، کے لیے کئی ایسے اسکول کھولے جس میں ان کی اقامت بھی تھی، جن کا تمام خرچ وہ اٹھاتا تھا۔ اس نے سیاسی جنگ لڑنے کے لیے ایک نئی پارٹی بنائی۔

1930ء میں دلتوں کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے خلاف غیرمتشددانہ مزاحمت کے ذریعے سماجی اور سیاسی اصلاح کی تحریک برپا کی۔ وہ چھوت چھات  اور تحقیر سے اتنا بددل ہوگیا تھا کہ اس نے ہُندو مت سے بغاوت کی اور مہاتما گوتم بدھ کا پیروکار بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے لاکھوں پیروکار بھی بدھ مت میں داخل ہوئے۔ وہ ان سب کا نجات دہندہ تھا۔

وہ گورنمنٹ لاء کالج میں پروفیسر رہا۔ 1926 سے 1937ء تک وہ مہاراشٹر اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور دلتوں کے نمائندے کے لیے حیثیت سے ’’ آزاد لیبر پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 1942 میں شیڈیولڈ کاسٹ کی فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ 1942 سے 1946ء تک وہ اس کا کرتا دھرتا اور سرگرم قائد رہا۔ برصغیر پاک و ہند کی برطانوی استعمار سے آزادی میں وہ پیش پیش تھا۔

موہن داس گاندھی کی قیادت میں انڈیا کی آزادی کے بعد نئے ملک کا آئین بنانا مشکل ترین کام تھا جو موہن داس گاندھی نے اسے سونپ دیا اور اس نے انتہائی سوچ بچار اور گفت شنید کے بعد انڈیا کا آئین تیار کیا جو آئین ساز اسمبلی سے 26 جنوری 1950 کو منظور کرلیا گیا۔ اس طرح وہ انڈین آئین کا معمار بنا۔ آئین منظور ہونے سے ایک دن پہلے اس نے آئین ساز اسمبلی میں کم زور طبقوں، دلتوں اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بے کس اور بے سہارا لوگوں کے لیے بھیک نہیں برابری چاہیے۔ ہمیں خیرات نہیں چاہیے۔‘‘ ہال تالیوں سے گونج اٹھا، تو ایک ممبر نے بہ آواز بلند کہا تھا: ’’ جب آنے والی نسل ان الفاظ کو دہرائے گی تو انہیں وہ یاد آئیں گے، جنہوں نے ایک روندے ہوئے طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ تہذیب کو ایک عنوان دیا، خودداری کے جذبے پیدا کیا، دلتوں کو عزت سے نہ صرف جینا سکھایا بل کہ مرنا بھی۔‘‘

بھارت کا آئین بنا کر اس نے اپنی ایسی ذمے داری نبھائی کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے انڈین آئین کی رُو سے اچھوت کا لفظ ہی لغت سے نکال دیا آج اس لفظ کا استعمال غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔ اسی آئین کی دفعہ 45 کے تحت چھے سے چودہ سال کے بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’ملک کی دولت بینکوں اور لاکروں میں نہیں بل کہ پرائمری اسکولوں میں ہے۔‘‘

وہ ایک روشن خیال، بلند ہمت، عالی ظرف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے پس ماندہ طبقات کا مفکّر اور قائد تھا، جس نے دنیا سے کہا تھا: ’’معاشرتی اتحاد کے بغیر سیاسی اتحاد ایک مُشکل عمل ہے، اگر یہ حاصل بھی ہوجائے تو اس میں استقلال کا ہونا اس طرح غیر یقینی ہے جس طرح ہوا کے تیز جھونکوں سے کسی بھی لمحے موسم گرما کے پودوں کا جڑ سے اکھڑ جانے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ صرف سیاسی اتحاد ہی سے ہندوستان ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔ لیکن ملک ہونا قوم ہونا نہیں ہوتا اور ایک ایسا ملک جو قومیت کا حامل نہیں ہوتا اسے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘

وہ بھارت رتن تھا۔ اس کی گراں قدر خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے اسے وزیر قانون بناکر اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا، اس طرح اسے انڈیا کا پہلا وزیر قانون بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسے ’’معمار آئین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نے 63 کتب تحریر کیں۔ 1990ء میں اسے اپنے ملک کے سب سے بڑے قومی اعزاز ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا۔ یہ باکمال شخص 6 دسمبر 1956ء کو دہلی میں لاکھوں مظلوموں کو روتا چھوڑ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ وہ ایک ایسی شخص تھا جو صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتا ہیں۔ وہ عظیم شخص اس دنیا سے تو رخصت ہوگیا مگر دنیا بھر کے انسان دوست اسے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے اور اس کے اصول مشعل راہ بنے رہیں گے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو کشمیر پر لشکر کشی اور ان کے حقوق غضب کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو مودی سرکار کبھی بھی شہریت کا کالا قانون نہیں بنا سکتی تھی۔ لیکن اس عظیم انسان نے جن لوگوں تربیت کی اور انہیں فکر و شعور سے نوازا اس کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور رکھیں گے اور ایک دن ہندتوا کے سرخیل مودی اور آر ایس ایس رسوائی کی دھول اپنے چہرے پر ملے نابود ہوجائیں گے۔

اس عظیم شخص کو آج ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک بے مثل ماہر قانون، سیاست داں، ماہر تعلیم، اور معاشیات سب سے بڑھ کر مظلوموں کے حقوق کے علم بردار اور انسانی حقوق کے پاس دار تھے۔ لوگ انہیں عقیدت و احترام سے ’’ بابا صاحب امبیڈکر‘‘ اور ’’رام جی‘‘ پکارتے ہیں۔

مت سہل ہمیں جانو پِھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

 

The post ایک دُھتکارا ہوا جیون appeared first on ایکسپریس اردو.

Acanthosis Nigricans

$
0
0

Acanthosis Nigricans ایک جلدی بیماری ہے، جس کا اثر جسم کے مختلف حصوں بالخصوص گردن، بغل، کہنی، ٹخنوں اور گھٹنوں پر ہوتا ہے۔ اس بیماری میں ان حصوں کی جلد سخت، کھردری اور سیاہی مائل ہوجاتی ہے۔ بعض افراد کی ہتھیلیاں، رانیں اور ہونٹ بھی Acanthosis Nigricans (اے این) سے متأثر ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری سے متأثرہ حصّوں کو دیکھنے پر لگتا ہے کہ ان پر میل کی تہ جمی ہوئی ہے۔ جلد کے سیاہ یا میلے نظر آنے والے حصّوں کو پانی سے دھونے اور رگڑنے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان حصّوں کی جلد سیاہ ہوتی جاتی ہے۔

طبی ماہرینِ کے مطابق یہ مسئلہ افریقا اور اسپین کے رہنے والوں میں زیادہ عام ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس بیماری کا مخصوص علاقے اور رہن سہن سے کوئی تعلق ہے بلکہ کوئی بھی فرد کسی بھی عمر میں اس سے متأثر ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جلد کی رنگت میں نمایاں تبدیلی تک اس بیماری کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ جلدی امراض کے ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ زیادہ تر کسی دوسری بیماری کی نشان دہی کرتا ہے۔

تاہم فربہ افراد کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اسے موروثی بیماری بھی بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض ادویہ، جیسے مانع حمل یا ہارمون پر اثر ڈالنے والی دوائوں کا استعمال بھی اس بیماری کا سبب بنتا ہے۔ ذیابیطس (ٹائپ ٹو) کا شکار افراد میں بھی جلد کا یہ مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ جلد کے سخت اور سیاہی مائل ہونے پر ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کوئی فرد اے این کا شکار ہے یا کسی اور مرض میں مبتلا ہے۔

ماہرینِ صحّت کے مطابق یہ خطرناک یا متعدی مرض نہیں ہے، لیکن جلد کی رنگت میں ایسی کسی تبدیلی کی صورت میں ڈاکٹر سے ضرور رجوع کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ طبی جانچ کے مختلف طریقے اپنا کر اس کی اصل وجہ جان سکتے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر ایسے فرد کا معائنہ کرتے ہوئے ذیابیطس کے خطرے کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اے این کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ سے مدد لیتے ہیں۔ اگر طبی جانچ کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ این اے کا تعلق کسی اور مرض یا کیفیت سے نہیں ہے تو پھر اس کا علاج کروانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مسئلہ ازخود ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس میں چند برس بھی لگ سکتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر اس جلدی مرض کو آپ کے لیے کسی وجہ سے تکلیف دہ سمجھے تو اس سے نجات دلانے کے لیے کوئی کریم یا لوشن بھی استعمال کروا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ نومولود میں جلدی مسائل بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں جن میں مختلف نشانات والدین کو پریشان کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ کسی بیماری کی علامت یا اس کی ابتدا نہیں ہوتے بلکہ جلد پر نمودار ہونے والے نشانات چند ہفتوں میں خود ہی ختم ہو تے ہیں۔

پیدائش کے بعد بچوں کی جلد پر مختلف قسم کے نشانات یا زخم دیکھے جاسکتے ہیں، جو عموماً چند ہفتوں کے دوران ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ کسی قسم کی جسمانی پیچیدگی کا باعث نہیں بنتے اور ان کے علاج کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ان نشانات، چھالوں اور معمولی نوعیت کے زخموں کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پیدائش کے ابتدائی دنوں میں بچوں کی جلد پر عام طور پر یہ تبدیلیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ نوزائدہ بچوں کو کچھ جلدی امراض لاحق ہوسکتے ہیں، جن کی علامات دیکھ کر فوری طور پر کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ وہ امراض یہ ہیں:

Erythema Toxicum

نومولود بچّے کی ہتھیلی اور تلووں کے سِوا جسم کے کسی بھی حصّے پر پیلے اور سفید رنگ کے زخم پیدا ہوسکتے ہیں، جن کے گرد لال دھبے بھی نظر آئیں گے۔ یہ ایک عام مسئلہ ہے اور پیدائش کے پہلے یا دوسرے ہفتے تک بچے کی جلد کو ان سے نجات مل جاتی ہے۔

Cradle Cap

یہ پیدائشی طور پر بچے کے سَر کی جلد کا چِھلنا ہے۔ سَر کے مخصوص حصّے میں کریڈل کیپ کی صورت میں معدنی تیل یا پھر پیٹرولیم جیلی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد نومولود کے سَر کو بچوں کے لیے مخصوص شیمپو سے دھو لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اگر پورے سَر کی جلد چھلی ہوئی نظر آئے تو والدین کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر آپ کو بچے کے سَر پر کوئی خاص تیل یا مرہم لگانے کی ہدایت دے سکتا ہے، جس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

Milia

نومولود بچوں کے ماتھے، گالوں اور ناک پر سفید دھبے نمودار ہوسکتے ہیں، لیکن یہ پریشان کُن بات نہیں ہے۔ پیدائش کے پہلے دو ہفتوں کے اندر بچے کے جسم میں چکنائی کی غدود کی کارکردگی اور جلد کی نشوونما کے عمل کے ساتھ یہ دھبے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ دراصل نرم چھالے ہوتے ہیں، جو نومولود بچے کی جلد میں چکنائی کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ان سے نجات کے لیے کسی قسم کا تیل یا مرہم لگانے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں قدرتی طریقے سے ہی دور ہونے دینا چاہیے۔

Sweat Rash

بچے کے جسم میں پسینہ بننے کے دوران مخصوص غدود کے متحرک ہونے کی وجہ سے جلد پر بعض اوقات چھالے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان باریک چھالوں میں جلد سے خارج ہونے والی رطوبت موجود ہوتی ہے۔ یہ بھی چند دنوں میں خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

 Neonatal Urticaria

یہ کیل مہاسوں کی ایک قسم ہے، جو پیدائش کے بعد بچّے کی جلد پر نمودار ہوسکتے ہیں۔ یہ دھبوں کی شکل میں نظر آتے ہیں اور ان کی درمیانی رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بچے کی جلد کے خلیوں کی کارکردگی صحیح نہ ہونا ہے۔ جلد پر ان کی موجودگی سے محسوس ہوتا ہے کہ بچہ کسی انفیکشن کا شکار ہو گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ان کا علاج کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ خودبخود غائب ہو جاتے ہیں۔

Pustular Melanosis

پیدائش کے بعد بچے کی جلد پر چھوٹے چھوٹے چھالے دیکھے جاسکتے ہیں، جو بعد میں خشک ہو کر جھڑ جاتے ہیں اور ان کی جگہ کالے رنگ کے دھبے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ دھبے بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ شکایت زیادہ تر اُن نومولود بچوں کو ہوتی ہے، جن کی رنگت کالی ہو۔ پیدائش کے ابتدائی چند سال میں بھی بچوں کی جلد پر ایسے نشانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جو چند ماہ اور بعض اوقات چند برس تک برقرار رہتے ہیں اور خود ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر کسی جسمانی تکلیف کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ قدرتی طور پر جلد کے ٹشوز میں تبدیلیوں کی وجہ سے نمودار ہوتے ہیں۔ البتہ جلد پر غیرمعمولی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے پر ماہر ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔

The post Acanthosis Nigricans appeared first on ایکسپریس اردو.

قائد اعظم کشمیر میں جنگ بند کرنے کے خلاف تھے

$
0
0

( قسط نمبر 3)

اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ہی 24 اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا، اور پھر اس کے تین ماہ نو دن بعد 2 فروری 1946 کو اس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سیکرٹری جنرل ناروے کے ٹریگولی Traygve Lie منتخب ہوئے جو اس عہدے پر 10 نومبر 1952 تک فائز رہے، اِن کے دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملد ر آمد شروع ہوا اور بتدریج غلام یعنی نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ملک سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہو کر اقوام متحددہ کے رکن بھی بننے لگے۔

یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی، 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا، جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورا یورپ اور ایشیا میں جاپان، ہانگ کانگ، برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیں بڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئی تھیں، اب ایک جانب خصوصاً مغربی یورپ اور جاپان کی تعمیرنو کا عمل تھا جس کو نہایت تیزرفتاری سے اور مختصر عرصے یعنی دو تین برسوں میں مکمل کرنا تھا تاکہ اِن ملکوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور پوری دنیا کو یہ یقین بھی دلانا تھا کہ اقوام متحد ہ کا ادارہ واقعی دنیا میں امن قائم کر دے گا اور اب دنیا میں کوئی عالمی جنگ نہیں ہو گی۔

یہ پوری دنیا کی سیاست، اقتصادیات، معاشیات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لیے ایسا تھا جیسے کسی   پرانی عمارت کو گرا کر وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے تمام اندیشوں اور امکانات کو مدِنظر رکھ کر نئی مضبوط اور پختہ عمارت تعمیر کے مرحلے میں ہو چونکہ اُسی وقت نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر اِن غلام ملکوں کو آزاد کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا، یورپ کی تقریباً 90% اور باقی دنیا کی تقریباً 30% آبادی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دوسری جنگ عظیم سے متا ثر ہوئی تھی، یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری عالمی صورتحال میں پوری دنیا کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی حیثیت ایک ری ہیبلی ٹیشن سنٹر یعنی بحالی و آباد کاری کے مرکز کی سی تھی جس طرح قدرتی آفات کی تباہی اور بربادی کے ساتھ ساتھ اِن قدرتی آفات کے بعد اس کے کچھ یا قدرے مثبت پہلو یا امکانات بھی ہوتے ہیں جیسے سیلاب سے کسی ملک میں تباہی تو آتی ہے مگر سیلاب زمینو ں پر مٹی کی نئی تہہ بچھا کر زیادہ زرخیز کر دیتے ہیں۔

جھیلوں، ندی نالوں کو صاف کر دیتے ہیں جیسے زلزلے ، طوفان، قحط، وبائی امراض تباہی مچاتے ہیں تو ماہرینِ علمِ آبادیات بڑی آبادیوں کے لیے اِن قدرتی آفات کو پازیٹو چیک بھی کہتے ہیں کہ اِن قدرتی آفات کے بعد کسی خطے اور اس پر قائم معاشرے میں آبادی کے اچانک کم ہونے سے بچ جانے والی آبادی اور وسائل میں بہتر توازن قائم ہو جاتا ہے اور یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ ایسے متاثرہ خطے اور اس پر قائم معاشرے میں اصلاحات اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر نو کی جائے۔ یوں جنگ ، خانہ جنگیاں اور انقلابات بھی انسانی آبادیوں کے لیے غیر قدرتی آفات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں بے پناہ تباہی و بربادی ہوتی ہے وہاں ساتھ ہی یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوںاور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ اور تباہی سے بچ جانے والی آبادیوںکا حوصلہ بھی بحال کیا جائے اور اِن میں حب الوطنی کے جوش وجذبے کے سا تھ آ گے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عزم پیدا کیا جائے۔

ایسی ہی صورت پہلی عالمی جنگ سے لیکر 21 سال بعد ہونے والی چھ سالہ نہایت تباہ کن دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی تھی، یوں اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات جتنی بڑی اور جتنی زیادہ تعداد میں اُ س وقت دنیا بھر کے ملکوں اور قوموں میں بطور لیڈر پیدا ہوئیں، اُتنے بڑے اہم لیڈر اتنی بڑی تعداد میں دنیا کی تاریخ کے کسی ایک دور میں کبھی نہیں ملتے۔ یوں یہ تمام لیڈر بھی اہم تھے توساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اُس وقت دنیا کے

حالات بھی ایسے تھے کہ جس کی وجہ سے دنیا میں یہ بڑی شخصیات اور لیڈر بیک وقت اور بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، اِن میں جہاں امریکہ کے روز ویلٹ، برطانیہ کے چرچل، روس کے اسٹالن، فرانس کے ڈیگال اہم تھے وہیں نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے غلام ملکوں کے لیڈر بھی کہیں زیادہ اہم تھے جن میں مارشل ٹیٹو، بن بلا، سیکارنو، قائد اعظم محمد علی جناح ،مون داس کرم چند گاندھی، پنڈت جواہرلال نہرو،غازی امان اللہ خان، ماؤزے تنگ،چواین لائی،جمال عبدالناصر وغیرہ شامل ہیں۔ ان رہنماؤں نے اپنی غیر معمولی فہم و فراست، جذبہ حُب الوطنی اور انتھک محنت کی بدولت اپنی اقوام کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لیے مثالی جدوجہد کی۔

ان کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ انہیں ذہنی طور پر پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قوموں کو جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ اس میں کسی لیڈر کو پوری کامیابی حاصل ہوئی تو کسی کو پچاس فیصد سے اسی فیصد کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آزادی حاصل کرنے میں جب یہ لیڈر شپ کامیاب ہو گئی تو اِن ملکوں اور قوموںکو اِن کے فوراً آنے والی لیڈر شپ اس معیار اور وقار کی نہیں ملی جو ملک و قوم کو ملنے والی آزادی کو مستحکم اور مضبوط کر سکتی کہیں تو یہ صورت خود ہی موجود تھی اور کہیں آزادی حاصل کرنے والی لیڈر شپ کو قتل کروا دیا گیا اور اس کے بعد نو آزاد ترقی پزیر ملکوں کو اپنے اقتصادی معاشی جال میں گرفتار کر کے اقتصادی نو آبایاتی نظام میں جکڑ لیا گیا۔ ہمارے ہاں اس صورتحال کو آزادی کے وقت کے نو جوان شاعرمحسن بھوپالی نے یوں بیان کیا تھا۔

نیرنگیِ سیاستِ دوران تو دیکھئے

منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

اُس وقت اگرچہ بڑی قوتوں نے اپنی کامیاب کوشش کی اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو نے والے ملکوں کو اپنے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی مضبوط کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا تو چین ، پاکستان ، بھارت، مصر،انڈو نیشیا،ملائشیا، شام ،  عراق، ایران ، سوڈان ، سعودی عرب، تیونس ، یمن ، ایسے ملک تھے کہ اگر یہاں کے عوام باشعور ہوتے، شرح خواندگی زیادہ ہوتی اور قیادت تسلسل کے ساتھ بہتر انداز کی میسر آتی تو صورت بہتر ہوتی۔

اِن ملکوں میں پہلے نمبر پر مکمل آزادی ، خودمختاری اور خود انحصاری کے لحاظ سے چین اہم رہا اور اُس نے جلد ہی دنیا بھر میں اپنے آپ کو مکمل آزاد،خود مختار اور خود انحصار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر وا لیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور قدرے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ایک ایسا بڑا ملک رہا جس کے مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک اگر ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کر لے گا تو نہ صرف دنیا کااہم ملک بن جائے گا بلکہ وہ علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِن ملکوں کے بلاک کی بنیاد پر اس دنیا میں عالمی سطح کی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔

حکمت و دانائی کے لحاظ سے برصغیر کی اس اہمیت کو 1916 ہی میں قائداعظم نے سمجھ لیا تھا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو آل انڈ یا کانگریس اور خصوصاً پنڈت موتی لال نہرو نے بہت نقصان پہنچایا، اور پھر 14 اور15 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت  آزاد ملک کہلائے اور اس سے تقر یباً دو سال قبل اقوام ِ متحدہ کا ادارہ تشکیل پا چکا تھا۔

1946 تک تو اقوام متحدہ نے ابتدائی کام شروع کیا لیکن ساتھ ہی پہلے پہلے آزاد ہونے والے بڑے اور اہم ملک جو برطانیہ کی نوآبادیات تھے اِن کی آزادی کے مراحل ہی میں قتل و غارت گری، خانہ جنگی اور پھر جنگوں کی صورتحال پیدا ہو گئی، برطانوی نوآبادیات میں برطانیہ کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا برصغیر جس کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے۔

یہاں انگریزوں نے 1945-46 کے موسم سرما میں گیارہ صوبائی اسمبلیوں اور ساتھ ہی مرکزی یا سنٹرل اسمبلی کے لیے جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کروائے جن میں صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90% اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اِن انتخابات کی بنیاد پر آزادی سے قبل مشترکہ ہندوستان میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کے وزیر اعظم آل انڈیا کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو ہوئے اور باقی کابینہ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے وزرا شامل تھے جن میں مسلم لیگ کی طرف سے اہم وزیر یعنی وزیر ِ خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے اور کانگریس کی جانب سے اہم وزیر ِ داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے۔

برصغیرکی مجموعی آبادی آزادی سے قبل چالیس کروڑ سے کچھ زیادہ تھی، 1914 ء میں جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو برصغیر میں انگریز مقامی آبادی کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھے اور اِن کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تھی اور برصغیر میں اِن انگریزوں نے بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود جس حکمت و دانائی سے چالیس کروڑ کی آبادی پر حکومت کی اس میں دو چیزیں اہم تھیں، ایک مقامی چالیس کروڑ آبادی کو تقسیم کرو، لڑاؤاور حکومت کرو، دوسرا برصغیر کا جاگیردارانہ نظام تھا جو بہت مستحکم انداز میں انگریزوں کو مغلوں کی حکومت ہی سے ملا تھا اور اس جاگیردارانہ نظام کو انگریزوں نے اپنے طور پر اپنے حق میں زیادہ بہتر انداز میں تبدیل بھی کیا تھا، افغان، ترک اور مغل جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے برصغیر آئے تو اِن حملہ آور بادشاہوں کی اپنی با قاعدہ فوج سے کہیں زیادہ قبائلی لشکر اِن کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔

یوں جب یہ بادشاہ ہندوستان کو فتح کر لیتے تھے تو اِن کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بڑی فوج تو مرکز یعنی دارالسلطنت میں رہتی تھی اور کچھ دستے ہر صوبے میں صوبائی گورنرکی ماتحتی میں ہوا کرتے تھے، جب کہ باقی قبائلی لشکر کی صورت یوں ہوتی تھی کہ اِن کے سرداروں کو اِن کے قبائلی لشکرکی تعداد کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل علاقے جاگیر کی صورت میں الاٹ کر دئیے جاتے تھے اور یہ قبائلی سردار یہاں ان ریاستوں کے نوابین، راجے، مہاراجے، اور خوانین کہلاتے تھے، جہاں تک صوبوں کے گورنروں کا تعلق ہوتا تھا تو وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوا کرتے تھے، یوں شہزادے یا بادشاہ کے بھائی، چچا وغیرہ کو گورنر بنایا جاتا تھا، جاگیرداروں کی جاگیریں بنیادی طور پر بادشاہ کی جانب سے الاٹ کی جاتی تھیں اور ریاستوں کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہوا کرتی تھیں یعنی مغلوں کے دور ِ حکومت تک زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا بلکہ زمین مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھی اور بادشاہ کے پاس یہ اختیار ہوا کرتا تھا کہ وہ جب چاہے جاگیردار نواب یا راجہ، مہاراجہ سے ریاست واپس لے کر اُسے بے دخل کر دے اور ایسا عموماً اُس صورت میں ہوا کرتا تھا جب کسی جاگیردار کی وفاداری پر شبہ ہوتا یا کوئی ریاستی حکمران بادشاہ کے خلاف بغاوت کرتا، یوں اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو وہ بادشاہ بھی بن سکتا تھا۔

جیسے بنگال کی ایک جا گیر سراسرم کے جاگیر دار کا بیٹا شیر شاہ سوری مغل بادشاہ ہمایوں کا تخت و تاج لینے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر جب تک جاگیردار باد شاہ کا وفادار رہتا جاگیر اُس کے پا س رہتی اور اُس کے وفات پا جانے کی صورت میں اُس کے بڑے بیٹے یعنی ولی عہد کو مل جاتی۔ مغلوں کے عہد  میں کچھ جاگیردار نواب تو وہی تھے جو بابر کے ساتھ ہندوستان کی فتح میں شریک تھے پھر کچھ ہند و راجے، مہاراجے تھے جو اپنی مقامی قوت کے اعتبار سے اہم تھے اور کچھ ہندو مسلمان اہم مذہبی شخصیات تھیں جن کو مقامی آبادی پر اِن کے اثر اور قوت کی وجہ سے جاگیریں الاٹ کی گئی تھیں اور اِن سب کے لیے بنیادی شرط بادشاہ سے وفاداری تھی۔

مغلیہ دورِ حکومت میں یہ جاگیردار اپنے لشکر کی بنیاد پر اپنی جاگیر میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے تھے، وہ وہاں رعا یاسے زرعی پیداوار پر بادشاہ کے حکم سے لگان اور صنعت و تجارت پر ٹیکس وصول کرتے، اس کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت یعنی بادشاہ کو بھیجا جاتا، ایک حصہ ریاست کا نواب یا راجہ اپنی مقامی فوج کی تنخواہوں ٹرینگ اور ہتھیاروں پر خرچ کرتا اور خود اور اس کا خاندان بادشاہ کے علاقائی نائب کی حیثیت سے شاہانہ انداز سے خرچ کرتا تھا اور جب کبھی بادشاہ کو اس کی فوج کی ضرورت ہوتی تو وہ با دشاہ کے وفادار مقامی حکمران کی حیثیت سے اپنی مقامی فوج کو اپنی کمانڈ میں لے کر پہنچ جاتا۔

انگریز ہندوستان میں1757ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اُس کے غدار وزیر میرجعفر کی مدد سے شکست دیکر بنگال میں اپنی حکمرانی کی بنیاد قائم کر چکا تھا تو وہاں لارڈ کلائیوکی نگرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوئی تھی جو تاجِ برطانیہ کی تابعدار اور وفادار تھی اُس وقت بھی مرکزی مغلیہ حکومت کمزور ہو چکی تھی اور جاگیر دار اس مرکزی حکومت کو صرف علامتی طور پر ہی ہندوستان کی شہنشاہیت کے طور پر تسلیم کرتے تھے اور کوئی نواب یا راجہ اگر خود چاہتا تو از خود کچھ رقم بادشاہ کی نذرکردیا کرتا تھا، یوں بنگال، میسور اور حیدر آباد سمیت کئی ایسی ریاستیں تھیں جن کے راجہ خودمختار تھے ہندوستان میں ہندو پہلی بڑی اکثریت اور مسلمان دوسری اکثریت تھے اور مجموعی طور پر ہندوستان کی آبادی میں ہند وآبادی کا تناسب 70% اور مسلمان آبادی 30 فیصد تھی مگر صدیوں کی مسلم حکومتوں کے دور اقتدار میں ہندو مسلم برداشت اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔

انگر یز چونکہ اُس وقت ہند وستان میں آیا تھا جب علم و تحقیق کی بنیاد پر اہل مغرب اور خصوصاً انگریز دنیا میں بہت آ گے نکل چکے تھے اس لیے اِن کے حکومتی اور انتظامی امور بھی ٹیکنالوجی اور سائنسی برتری کے تابع تھے، یوں انگریزوں نے ہندوستان میں آتے ہی اس ملک کے سماج، تہذیب،آبادی کے لسانی، مذہبی خدوخال اور سیاسی انداز کا تحقیقی بنیادوں پر مطالعہ کیا اور پھر یہاں معاشرتی تضادات کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارتے ہوئے یہاں کے جاگیردارانہ نظام کواپنی ضروریات کے مطابق تبدیل کر کے استعمال کیا۔ برطانیہ جس کی نوآبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہاں برطانیہ میں تو جمہوریت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا بلکہ 1857 تک جب ہندوستان میں علامتی مغلیہ بادشاہت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تھا تو برطانیہ میں روایتی طور پر عوام میں بادشاہت کی عزت اور شان شوکت کسی طرح کم نہیں تھی۔

دوسری جانب اُس وقت برطانیہ کی جمہوریت دنیا کے لیے مثالی تھی اور جہاں تک تعلق برطانیہ کی نوآبادیات کا تھا تو ہر غلام ملک میں انگر یز سربراہ جو گورنر جنرل اور وائسرائے کہلاتا تھا اکثر و بیشتر برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کا فرد ہوتا تھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد کی تربیت کی جاتی ہے، یہاں تک کہ آج بھی اِن کے ولی عہد اور شہزادے اعزازی طور پر اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہیں اور اہم مواقع پر فوجی یونیفارم پہنتے ہیں ، شاہی خاندان کے اہم افراد ہاوس آف لارڈ کے رکن ہوتے ہیں، یوں مقبوضہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِحکومت میں جہاں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں وہاں آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تک گیارہ صوبے بھی تھے،  صوبائی اور مرکزی حکومت پر برطانوی حاکمیت کے لحاظ سے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت گو رنر جنرل کہلاتی تھی اور یہی شخصیت ریاستوں کے لیے وائسرائے یعنی برطانوی شہنشاہت کی جانب سے بادشاہ کا نائب یا نائب بادشاہ ہوا کرتا تھا۔

انگریزوں کی کل تعداد یہاں ایک لاکھ تھی یوں یہاں نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ صنعتی و تجارتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظام چلانا تھا اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں تعلیم و تکنیک کی بنیاد پر یہاں افرادی قوت تیار کی گئی ، اگر چہ اعلیٰ سطح پر انگریز ہی بیوروکریسی کے لحاظ سے فائز تھے مگر جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد انگریز فوج اور سویلین افسران کی سطح پر انگریز افرادی قوت کمی کا شکار ہوئے تو ہندوستانی افسران کی کچھ تعداد بھی اس نظام میں شامل ہو گئی۔ انگریروں کی جانب سے متعارف کردہ عدالتی نظام میں بھی بطور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر ہندوستانیوں کی خاصی تعداد تھی جو انگریز وکلا سے زیادہ تھی اور یہ وکلا برطانوی قوانین، اِن کے پارلیمانی نظام اور آئین کو بہتر طور پر سمجھتے تھے جب کہ 1885 ء میں آل انڈ یا کانگریس اور پھر 1906 ء میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان کے خصوصاً غیر ریاستی علاقوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے جنگ عظیم اوّل کے دوران یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز چاہے یہ جنگ جیتے یا ہارے ہر دوصورتوں میں تاج برطانیہ کی حکمرانی جو دنیا کی چوتھائی آبادی اور رقبے پر قائم ہے اِس پر اس کی گرفت کمزور ہو جائے گی اور اگر ہندوستان میں حقیقی اور منطقی ہندو مسلم اتحاد آئینی ضمانت پر قائم ہو جاتا ہے تو انگر یز کو ہندوستان سے نکالا جا سکتا ہے۔

یوں قائد اعظم کی کوششوں سے 1916 ء میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے اور اس میں دونوں جماعتوں کے درمیان لکھنو پیکٹ ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے پایا۔ اس معاہدے میں مسلم لیگ کے جداگانہ طریقہ انتخاب اور مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ سمیت مسلم آبادی کے تناسب کی بنیاد پر معاشی و اقتصادی فارمولے کو بھی قبول کر لیا گیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کانگریس اس معاہد ے پر قائم رہتی تو ہندوستان مشترکہ طور پر اور بہت پہلے آزاد ہو جاتا لیکن کانگریس نے یہ معاہدہ یک طرفہ طورپر 1928 ء میں تو ڑ دیا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے 1929 میں چودہ نکا ت پیش کر کے ایکبار پھر اس معاہد ے اور ہندو مسلم اتحاد کو بچانے کی کو شش کی مگر نا کام رہے اور پھر انہوں نے علامہ اقبال کی بات کو سمجھتے ہوئے قیام ِ پاکستان کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔

پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک عالمی سیاسی ،اقتصادی،صورتحال میں کا فی تبدیلی آچکی تھی جس کے پیش ِ نظر انگریز ہندوستان میں احتیاط سے معاملات کو آگے بڑھا رہا تھا، اُسے ہندوستان کی ہندو اکثریت کے دباؤ کا بھی سامنا تھا اور مسلم اکثریت کا بھی خوف تھا کیونکہ یہ بھی کل آباد ی کا 30 فیصد تھی اور یہ اکثریت برصغیر میں افغانستا ن ، ایران، چین اور برما کی سرحدوں کے نزدیک تھی، یوں انگریز نے پہلی کوشش یہ کی کہ کسی طرح برصغیر کی تقسیم سے قائد اعظم کو باز رکھا جائے اور جب برطانوی سرکار کو یہ یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کسی صورت اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے برصغیر کے بارے میں اس کی تقسیم کی بنیاد پر اپنے منصوبے کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق جلد از جلد طے کر نے کی حکمت عملی بنائی اور واقعات اور حالات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور انگر یز نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم اتنی جلدی اور ایسی کی جائے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے ابھرنے والا پاکستان ناکام ہو جائے۔

مارچ 1947 ء کو ہندوستان سے لارڈ ویول رخصت ہوا تو اُس کی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن آخری گورنر  جنرل اور وائسرائے بن کر ہندوستان آیا اور 3 جون 1947 ء کو تقسیم ہند اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے منصوبے کا اعلان کردیا، جب کہ اِس منصوبے کی تفصیلات کی حتمی اور قانونی شکل 18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ میںقانون آزادیِ ہند کے عنوان سے پاس ہونے والا قانون تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں آئینی حیثیت کا حامل قانون ہند 1935 ء بھی برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ اس قانون کے ساتھ ہی قانون آزادی ہند کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کے تمام امور طے کئے گئے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کو 14 اور15 اگست 1947 کو دو الگ ملکوں کی حیثیت دے دی جائے گی اور پہلے سال ان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی ہو گی اور قانون ہند 1935 ہی نافذالعمل رہے گا۔

اُس وقت بطور نئی اور الگ الگ ریاست کے قانون ِآزادی ہند کی روشنی میں 1935 کے قانون ہند میں ضروری ترمیم کر لیں مگر یہ ترمیم بھارت یا پاکستان کی پارلیمنٹ ایک سال تک نہیں کر سکے گی، اُس وقت تک اگر کوئی ترمیم کر نی ہوئی تو وہ صرف گورنر جنرل کرے گا۔ واضح رہے کہ بھارت کا گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن ہی تھا اور پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ 1956 تک جب ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا، برطانیہ کا بادشاہ ہمارا آئینی سربراہ تھا اور اس کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ ہماری آئینی سربراہ اور ملکہ ہو گئی۔ البتہ بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد اپنا آئین بنا لیا تھا۔

ہندوستان کی 540 سے زیادہ ریاستوں کے حوالے سے 18 جولٗائی1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اِن کے حکمران اپنی ریاستوں کی سرحد ی قربت اور عوام کی اکثریت کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے، اسی طرح ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ تھا، بلوچستان کے لیے کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین اور شاہی جرگہ کے اراکین نے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا جب کہ مشرق پاکستان میں سلہٹ ضلع میں اور کے پی کے میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ یہ علاقے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں اور سندھ کے لیے یہ طے پایا تھا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی۔

قائد اعظم اپنے وژن کی بنیاد پر یہ جان گئے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے لیکن اُن کے پاس وقت بہت کم تھا اُن کے معالج ڈاکٹر پاٹیل نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ ٹی بی کی بیماری اُن کے پھیپھڑوں کو تباہ کر چکی اور موت نزدیک ہے، اس راز سے صرف ڈاکٹر پاٹیل، فاطمہ جناح اور خود قائد اعظم واقف تھے، قائد اعظم کو ادراک تھا کہ اُن کے بعد پاکستان کو آزاد کرانا مشکل ہو جائے گا، وہ اس کے لیے اپنی اسٹرٹیجی طے کر چکے تھے کہ اللہ اُنہیں اتنی زندگی ضرور دے گا کہ وہ اپنی زندگی یہ تاریخی فریضہ ضرور ادا کریں گے، 1941 کی مردم شماری کے مطابق مشترکہ پنجاب کی کل آبادی 28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 16217242 تھی، یوں مجموعی طور پر پنجاب کی 57% آبادی مسلمان تھی اور بنگال کی کل آبادی 60306525 تھی جس میں مسلمانوں کی  آبادی33005434 تھی اور یہاں بھی مسلمان آبادی 54.73 فیصد تھی لیکن مشرق پنجاب میں سکھ اورہندو  قدرے اکثریت میں تھے۔

جب اِ ن دونوں صوبوں کی تقسیم آبادی کی اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ ہوا تو قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ 1946 جنوری تک ہو نے والے مشترکہ ہند وستان کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ قومی حکومت تشکیل پائی ہے اُس میں وزارت ِداخلہ کانگریس کے نہایت متعصب ہندو لیڈر ولب بھائی پاٹیل کو دی گئی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی، یوں قائد اعظم نے یہ تجویز دی کہ یہ تقسیم اقوام ِمتحدہ کے تحت کرائی جائے اور جب اس تجویز کو رد کیا گیا تو قائد نے یہ کہا کہ پنجاب کی تقسیم لندن کی پریوری کونسل کرے مگر اس کے لیے ریڈ کلف کو برطانوی حکومت نے تعینات کیا اور پھر اس تقسیم میں سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے گورداسپور، فیروزپور اور زیرہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے اور سردار ولب بھائی پاٹیل نے سکھوں اور ہندوںکے جتھوں کے ذریعے فوراً ہی یہاں فسادات کرائے اور مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کروایا کہ یہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر پاکستانی پنجاب میں دھکیل دیا جائے۔

یہ اس لیے بھی کیا گیا کہ یہاں پانی کی تقسیم کے مادھوپور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس پر قبضے سے پاکستان کو جانے والے دریائی پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک اور اہم وجہ تھی کہ کشمیر کو بیرونی دنیا کو ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں، یہاں مشرقی پنجاب میں اِن مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے پٹھان کوٹ سے ایک نیا اور مصنوعی راستہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا، اور اس کے بعد جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے تو کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت  ہے یہاں مسلمانوں نے تحریک چلائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے، اس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ پر دباؤ ڈال کر ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کروا دیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 جولائی1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی تقسیم کروانے والے لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے بطور بھارت کے پہلے گورنر جنرل اس معاہدے پر دستخط کر دئیے، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھی بعد میں اس مسئلے پر کشمیر یوں کی مرضی معلوم کر نے کے لیے رائے شماری کی تجویز دی تھی لیکن اصول اور قانون کے مطابق لارڈماوئنٹ بیٹن نے غلط کیا تھا کیونکہ قانون آزادی ِہند واضح تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ اپنے عوام کی مرضی اور ریاست کی سرحد ی قربت کو مدِنظر رکھ کر ہی حکمران یہ فیصلہ کر یں گے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے کیا  جائے۔

بھارت نے ریاست حیدر آباد، بھوپال اور جوناگڑھ کے نوابین کے خلاف اسی بنیاد پر فوجی کار وائی کر کے اِن ریاستوں کو بھارت میں شامل کر لیا تھا کہ اِن کی آبادیوں کی اکثریت ہندو تھی اور سرحدی قربت بھی بھارت سے تھی مگر کشمیر کے اعتبار سے انگریز گورنر جنرل اور بھارت کا معیار دہرا تھا، بہرحال  جہاں تک انگریز دورِ حکومت میں ریاستوں کا تعلق تھا تو کشمیر کی حیثیت بھی تاریخی لحاظ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے مختلف تھی کہ یہ علاقہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں سے جنگ میں فتح پانے کے بعد تاوان جنگ رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گلاب سنگھ کو 75 ہزار نانک شاہی کرنسی کے عوض فروخت کیا تھا ا س لیے یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان 1947 کے مطابق اُس زمانے کی رقم کی قدر کی بنیاد پر ادائیگی کر کے مسلم اکثریت کا یہ علاقہ حاصل کر لیتا، بہرحال یہ مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری1949 کو دونوں نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی۔

پاک فوج کے انگریز جنرل کمانڈر ان چیف جنرل سرڈ گلس ڈیوڈ گریسی ’جو اس جنگ کے خلاف تھے‘  تو قائد اعظم کے حکم پر میجر جنرل خورشیدانور ، کرنل شیر،کرنل اکبر خان کے علاوہ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر نے شرکت کی اورآزادکشمیر،گلگت  بلتستان کے علاقے آزاد کر وا لیئے، جولائی 1948 ء کے آغاز پر قائد اعظم کی ٹی بی نہ صرف شدت اختیار کر گئی تھی بلکہ اب یہ بیماری راز بھی نہیں رہی تھی اور قائداعظم کو دارالحکومت کراچی سے دور بلوچستان کے سرد پہاڑی علاقے زیارت منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر اسی دوران پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ یہ جنگ روک دی جائے اور کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم اس بات کو کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔

غالباً وہ یہ جانتے تھے کہ جغرافیائی نقشے بدلنے والی تاریخی جدوجہد جب عزم و حوصلے کے ساتھ حتمی فتح کے قریب ہو تو کبھی بھی ایسی تحریک کو نہیں روکنا چاہیے کہ پرُجوش قومی اتحاد تسلسل کے ساتھ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے مصلحت کی بنیاد پر روک دیا جائے تو پھر اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے نکلنے والے ناکام کوہ پیماؤںکی طرح پستی کی ڈھلانوں میں دفن ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، قائد اعظم کو خواہش کے برعکس ان کی وفات کے تین مہینے پچیس دن بعد 5 جنوری 1949کو پاکستان نے اقوام متحد ہ کے کہنے پر یہ جنگ روک دی۔ اس جنگ کو رکوانے کے لیے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود کوشش کی تھی وہ کسی طرح مہلت چاہتے تھے اور بڑی قوتیں بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کی جانب سے مزید پیش قدمی ہو کیونکہ اس طرح اس علاقے میں اسٹرٹیجک برتری بھارت کے ہاتھوں سے نکلنے والی تھی۔

اس کے بعد 27 جولائی 1949 کو پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ کراچی میں ہوا جس میں ضامن اقوام متحدہ تھا جو ثالثی کا کردار اس لیے ادا کر رہا تھا کہ اس کے لیے کمیشن، یو این فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے لیے بھارت نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اصولی طور پر اقوام متحدہ کا کردار اُس وقت جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا شفاف تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے میجر جنرل ڈبلیو جے کاوتھون اور بھارت کی جانب سے لیفٹینٹ جنرل شیر ینگیش نے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دو نمائندوں ہیرنانڈوسامپر اور ایم ، ڈیلوئی نے دستخط کئے تھے۔

یہ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کا سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ تھا، اور اس کا حل اس لیے آسان تھا کہ اس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کے اس حل پر متفق تھے کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کی مقامی آبادی اپنی مرضی سے ووٹ کی بنیاد پر اقوام متحد ہ کی نگرانی میں کرے گی۔  معاہدہ کراچی میں بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے جنگ بندی لائن کو تسلیم کر لیا تھا اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں اُن میں پا کستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کروانے کے لیے تیار ہے، پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اپنے قیام کے ایک ماہ سولہ دن کے بعد اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا اور اُس وقت اقوام متحدہ کو قائم ہوئے ایک سال گیارہ مہینے چھ دن ہوئے تھے۔

بھارت جو انڈیا کے نام سے1919 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشن ’’اقوامِ عالم ‘‘ میں برطانوی نوآبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا رکن بنا تھا اس کی اسی رکنیت کے تحت 30 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام کے چھ دن بعد رکن بن گیا تھا، اور اِن دونوں رکن ملکوں کے درمیان کراچی معاہدے کی ثالثی اقوام متحدہ نے کرائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور ہوئیں اُس وقت اُن قرار دادوںکی حمایت سکیورٹی کونسل کے تمام ویٹو اراکین نے کی تھی اور اصول و ضوابط کے مطابق اُن قراردادوں پر عملد آمد ہونا چاہیے اور پا کستان کا موقف آج بھی یہی ہے کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی اُنہی قراردادوں کے مطابق ہو، جب کہ بھارت پہلے حیلوں بہانوں سے اِن قراردادوں پر عملدر آمد کو ٹالتا رہا اور پھر رفتہ رفتہ اِن سے منحرف ہونے لگا اور اب یہ صورت ہے کہ وہ اِن قرار دادوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور چین کے علاوہ سکیورٹی کونسل کے چاروں اراکین یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی انداز سے کشمیر کے مسئلے پر سکیورٹی کونسل میں بھارت کی ناجائز حمایت کرتے رہے ہیں۔

آخری بار اس مسئلے پر 2019 میں فرانس نے بھارتی مفاد کے حق میں فیصلہ دیا، اقوام متحدہ کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پرانا مسئلہ ہے جو سیاست کے لحاظ سے منفی اور مفاد پرستانہ عالمی رویوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوقِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، یہ عالمی ادارہ دنیا کے ممالک اور عوام کی حکومتوں پر مشتمل ہے اور اس نے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس کے ڈکلیریشن میں دنیا  بھرمیں ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کی شدت سے ممانعت کر رکھی ہے، اسی طرح دنیا بھر میں انسانوں کی مرضی کے خلاف ظلم و جبر کی بنیاد پر حکومت کے خلاف کاروائی کا حق اس کے چارٹر میں شامل ہے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کر پایا ہے اور اب 2020 میں اس کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر بہرحال اقوام متحدہ کو اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔

The post قائد اعظم کشمیر میں جنگ بند کرنے کے خلاف تھے appeared first on ایکسپریس اردو.

کیسا گزرا خلاء میں وقت!

$
0
0

کرسٹینا نے نہایت خوشی خوشی ساتھی خلابازوں کے ساتھ اپنا سامان باندھااور اپنے اسٹیشن کے چیمبر کی صفائی وغیرہ کرنے کے بعد وہ واپسی کے لیے بالکل تیار تھی۔

اپنے گھر، زمین پر واپسی کے لیے ایک نہایت خوش گوار احساس جو دنیا میں رہنے والے ہر انسان، مرد عورت اور بچے کو اپنے گھر کو لوٹتے وقت مسرت دیتا ہے، اور پھر وہتو ایک طویل جدوجہد اور تھکادینے والی زندگی سے واپس ہورہی تھی۔ زمین پرا پنے گھروںمیں گرم اور آرام دہ بستر پر سونے والے ہم لوگ اس خلاء میں معلق زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس کا کہ احساس ایک خلاباز ہیبخوبی جانتا ہے۔

اس نے اپنی 41 سالہ زندگی کا تقریباً ایک سال خلاء میں بسر کرلیا تھا۔ جمعرات کے دن وہ 9:30(سویرے ) مشرقی وقت کے مطابق سوئیز MS-13پر سوار ہوچکی تھی۔ 5 فروری 2020 ء سے ایکسپیڈیشن۔61 اور 62 کے کمانڈ ر کی تبدیلی ہوچکی ہے اب خلائی اسٹیشن کی کمانڈر روسی خلاباز اَولیِگ اِسکریپوچکا کے ہاتھوں میں آگئی ہے، کیوںکہ اٹالین خلاباز پاری میتانو خلائی اسٹیشن سے کرسٹینا کوچ اور روس کے الیگیذینڈر کے ساتھ ہی زمین پر واپس لوٹے ہیں ان خلابازوں کو خلائی جہاز سوئیز ایم۔ ایس 13 سے الوداع کیا گیا۔ یہ خلاباز مدت سے خلائی اسٹیشن میں قیام پذیر تھے ان کی لینڈنگ مشرقی وقت کے مطابق 3:18 پر قازقستان کے خلائی مرکزDzhezkaza” ” میں ہوئی تھی۔

اب تک خواتین کو صرف خلائی مہمات میں مردوں کے ساتھ شریک کار بنایا جاتا رہا ہے جب کہ انہوں نے خلاء کی سرگرمیوں (EVA) ، میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیا تھا۔ سنہ1984 ء سے خاتون خلاباز یوتلانہ کی اولین خلائی چہل سے اب تک 15 خواتین خلائی چہل قدمیاں کرچکی ہیں۔ ان میں سوائے ایک کے تمام خواتین امریکی ہیں۔

اب تک سب سے زیادہ خلاء میں وقت گزارنے والی خاتون کرسٹینا کوَچ بن چکی ہیں جو کہ پورے گیارہ ماہ ISS پر رہائش رکھ چکی ہیں۔2019 ء میں امریکی خاتون خلابازوں کی طرف سے خلاء میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جو 18 اکتوبر کو دو خاتون خلابازوں نے تمام عورتوں پر مشتمل عملے کے ساتھ خلاء میں ایک ساتھ خلائی چہل کرکے بنایا تھا بلکہ انہوں نے خلائی سرگرمیاں بھی انجام دے کر خلاء کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ ان میں کرسٹینا بھی شامل تھی۔ یہ چہل قدمی اور اس سے متعلق سرگرمی EVA کئی عشروں کی محنت کا نچوڑ ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی خاتون خلاباز کا امریکا کی جانب سے طویل عرصے تک لگاتار خلاء میں رہنے کا ریکارڈ بھی قائم ہوچکا ہے۔ یہ ریکارڈ کرسٹینا کوَچ نے مسلسل خلاء میں 328 دن رہتے ہوئے قائم کیا ہے اور 6 فروری کو وہ اپنے ساتھی خلابازوں کے ہمراہ زمین پر واپسی لوٹ آئی ہیں۔

خلائی سفر کے دوران خلابازوں کو خلاء کے ماحول کا جائزہ لینے کے لیے اپنے خلائی جہاز یا اسٹیشن سے باہر نکلنا پڑتا ہے، یہ بڑا ہی نازک وقت ہوتا ہے جس میں اپنی حفاظت کے لیے خلابازوں کو مخصوص قسم کا خلائی لباس پہنا لازمی ہوجاتا ہے تاکہ ان کا جسم خلاء کے زبردست دباؤ کو برداشت کرسکے۔ خلاء میں اس طرح باہر نکلنا اسپیس واک یا ’’خلائی چہل قدمی‘‘ کہلاتا ہے۔ انہیں خلاء کے جائزے کے علاوہ اپنے اسٹیشن کی بھی دیکھ بھال کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ خلاء میں کی جانے والی اس طرح کیسرگرمیوں کو ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹی (EVA) کہتے ہیں ناسا کے حکام نے خواتین خلابازوں کی پرفارمینس کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلاء میں مردوں کی طرح یکسوئی سے کام کرتی ہیں۔

زمینی مدار میں خلائی گھر (اسٹیشن) ایک عارضی انسانی رہائش گاہ ہوتی ہے۔ بنیاد طور پر یہ ایک مصنوعی سیارچہ (سیٹیلائٹ) ہی ہوتا ہے جو خلاء میں گردش پذیر رہتا ہے۔ اس کا مقصد خلاء میں ایک ایسا پلیٹ فارم یا اڈا تعمیر کرنا ہوتا ہے جہاں خلائی سفر کے دوران مسافر اور خلاء میں کام کرنے والے ورکرز رہ سکیں۔ خلائی اسٹیشن ISS کے باہر نصب بیٹریاں بجلی مہیا کرتی ہیں جو کہ اسٹیشن پر لگے بڑے بڑے سولر پینلوں (Arrays) سے خارج ہونے والی بجلی سے چارج ہوتی رہتی ہیں اور بجلی جمع کرتی ہیں۔ حالیہ کرسٹینا کوچ اور جسیکا میر کا مشن اسی یونٹ کی بیٹریوں کو دست یاب نئی بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے کیا گیا جس سے بجلی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ خلاء میں زیادہ سے زیادہ رہنے کا مقصد یہ ہے کہ خلاء کی کشش ثقل میں رہنے کا انسان کو عادی بنایا جائے تاکہ طویل خلائی سفر جیسے چاند اور سیّارہ مریخ کی طرف پیش قدمی کو ممکن بنایا جائے اور ان کی صحت کا خیال بہتر طریقے سے رکھا جاسکے۔

خلاء میں کشش ثقل نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے یہاں صنعتی لحاظ سے نئے مادے بنائے جاسکتے ہیں، ایسی دھاتوں کو ملاکر نئی مرکبات بنائے جاسکتے ہیں جوکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث یکجا نہیں ہوپاتیں اور میڈیسن کے حوالے سے بھی بیماریوں کے خلاف جان بچانے والی ادویات کو کم خرچ اور موثر طریقے سے بنایا اور ترقی دی جاسکتی ہے۔ ان ہی مقاصد کے لیے خلائی اسٹیشن پر ایک لیب قائم ہے جس میں یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کے گیارہ ممالک اور جاپان تعاون کررہے ہیں۔ حالیہ مشن ایکپیڈیشن 61 اور 62 میں اس لیبارٹری کی تحقیق کی بڑی اہمیت ہے جس پر متواتر کئی سالوں سے تحقیقاتی کام کیا جارہا ہے۔

امریکا قومی خلائی ایجنسی ناسا کی دونوں خلاباز خواتین جسیکا اور کرسٹینا آپس میں بہترین دوست بھی ہیں جنہوں نے تاریخ میں پہلی بار سو فی صد خواتین عملے پر مشتمل مشن میں ایک ساتھ یادگاری پر فارم کیا ہے۔ ایک ساتھ خلائی سفر کے خواب دیکھنے، ساتھ جدوجہد کرنے والی یہ دونوں سہیلیوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ خلاء کی تاریخ میں ایک ساتھ کوئی ریکارڈ بھی بنائیں گیں۔ دونوں دوستوں نے ناسا ایک ساتھ جوائن کیا تھا۔ خلابازوں کی کلاس میں انکا نک نیم “Eight Balls” ہے۔ 1 4سالہ کرسٹینا کَوچ الیکٹریکل انجنیئر ہیں جب کہ ان کی ہم عمر جسیکامیر ایک میرین بائیلوجی ڈاکٹر ہیں۔ گرانڈ ریپڈز، مشی گن، امریکا میں 1979 ء میں پیدا ہونے والی کرسٹینا(Christina Hammock Koch) ناسا کے 2013 ء کے گروپ کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے الیکٹریکل انجنیئرنگ اور فزکس میں گریجویٹ کرنے کے بعد نارتھ کیرولینا۔ اسٹیٹ یونیورسٹی سے ’’ماسٹر آف سائنس‘‘بھی الیکٹریکل انجنیئرنگ میں کیا ہے۔

کوچ خلائی اسٹیشن پر14 مارچ 2019 ء کو پہنچی تھیں اور یہ اب تک 43 ویں اورISS کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے 22ویں خلائی چہل قدمی تھی جس میں مکمل طور پر خواتین عملہ شامل تھا۔ پہلی تاریخی جڑواں خواتین کی چہل قدمی اپنے شیڈول کے مطابق 5 گھنٹے اور 32 منٹ تک جاری رہی اور ہدف کو پور ا کیا گیا۔ کرسٹینا نے گاڈرڈ(Goddard)خلائی مرکزرہتے ہوئے سائنسی آلات کا استعمال کیا اور کاسمولوجی (کائنات) اور آسٹروفزکس (فلکیاتی طبیعات) کا مطالعہ کیا ہے جب کہ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر نے ناسا کی صفر کشش ثقل پر انسانی جسم کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے اور سخت ماحولیاتی حالات پر جانوروں کی فزیالوجی (جسمانی ساخت) پر کام کرچکی ہیں۔ جسیکا میر 19 ستمبر سے آئی ایس ایس پر ہیں۔ امریکا بھر کے طول وعرض میں اس مشن کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور اسے خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک تقلیدی مثال سمجھا گیا ہے۔

حالیہ کام یاب مشن پانچ خلائی چہل قدمیوں کے پروگرام تھا اور اُس خلائی مشن کاحصہّ تھا جس کا نام “Expedition” ہے، جس میں چھ بین الاقوامی خلابازوں پر مشتمل ٹیم شامل تھی۔ خلائی اسٹیشن کو وجود میں آئے ہوئے 20 سال مکمل ہوگئے ہیں اور 19 سالوں میں اس پر60 تجربات کیے جاچکے ہیں۔

پچھلے سال شروع ہونے والا یہ 61 واں تجرباتی مشن تھا جسے ایکسپیڈیشن 61 کا نام دیا گیا اور اب ایکس۔ 62 مشن شروع جاری ہے۔ اس میں چہل قدمیوں اور خلائی سرگرمیوں کے ساتھ لیب میں سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس ٹیم میں اب جیسکا کے علاوہ ناسا کے خلاباز اینڈیو مورگن، روس انٹر کاسموس اَولیِگ اِسکریپوچکا(Oleg Skripochka) شامل ہیں جو کہ اب اس تجرباتی مشن ایکس۔ 62 کے کمانڈر بن چکے ہیں۔ خلائی اسٹیشن پر ExP-62 کے حوالے سے جو سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں ان میں پرواز سے پہلے اور پرواز کے بعد صفر کشش ثقل پر بائیولوجیکل صحت کے اثرات کا جائزہ، خون دماغ پر کیسا ردعمل رکھتا ہے، کینسر تھراپی (علاج)، انسانی وجود کے بنیادی مادے DNA کی سیکوئنس اور خلائی زراعت اور روبوٹکس ٹیکنالوجی پر تحقیقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس مشن میں کینیڈ ا کے روبوٹکس بازو Canadarm2 نے بھی خدمات انجام دیں۔

کرسٹینا کوچ نے ایکسپیڈیشن 59-60 کے ساتھ یہ مشن14 مارچ کو جوائن کیا تھا جس کے عملے میں خاتون نِک ہیوج (Nick Hugue) اور روسی خلانورد الیکسی (Alexy Ovchinin) زمینی کے مدار میں محو گردش تھے۔ ایکسپیڈیشن۔62 کی سرکاری طور پر شروعات اسی وقت ہوئی جب ان کے ساتھی خلاباز ان سے جدا ہوئے تھے۔ اب خلائی اسٹیشن پر تین خلاباز بدستو رہائش پذیر ہیں جب کہ ان خلابازوں کی زمین پر واپسی اپریل 2020 ء تک متوقع ہے۔

کرسٹینا نے خلاء میں رہتے ہوئے کسی اکیلی خاتون کا سب سے طویلریکارڈ بنایا ہے۔ اب تک خلاء میں سب سے زیادہ مجموعی وقت گزارنے والی امریکا ہی کی خاتون پیگی وٹسن ہیں جنہوں نیسب سے زیادہ 665 دن خلاء میں رہ کر نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر امریکی خلاباز جیمز ولیمز  (534)اور اسکاٹ (520) تیسری پوزیشن پر آگئے ہیں۔ اس طرح کوچ بھی اسکاٹ کیلی کے بعد دوسری دنیا کی سب سے زیادہ خلاء میں زندگی گزارنے والی امریکی خلاباز بن چکی ہیں۔

خلائی اسٹیشن آئی ایس ایس پر رہتے ہوئے کرسٹینا نے اپنے قیام کے دوران 6 خلائی چہل قدمیوں میں حصّہ لیا جن میں 42 گھنٹے، 15 منٹ صرف ہوئے تھے جب کہ 15 اور 20 جنوری 2020 ء کو دوبارہ اسی سلسلے کے ایک اور آپریشن کیا گیا ہے۔ یہ مہمات پچھلے سال 2019 ء میں شروع ہوئی تھیں۔ کسی اکیلی خاتون کا خلاء میں لگاتار یہ طویل ترین سفر ہے جو کہ 5 فروری کو 328 دنوں کے اختتام پذیر ہوا۔ کرسٹینا کوچ نے خلائی اسٹیشن میں رہتے ہوئے زمینی مدار کے 5,248 چکر لگائے اور 139 ملین میل کی مسافت طے کی ہے جب کہ خلائی اسٹیشن زمین کے مدار میں ایک چکر 90 منٹ میں پورا کرتا ہے، جہاں 16 مرتبہ سورج کے طلوع و غروب کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

 

کرسٹینا کے زمینی مداری چکروں (5248 ) کا مجموعی فاصلہ چاند پر 291 چکروں (ٹرپس) کے مساوی بنتا ہے، یعنی چاند پر پہنچنا اور پھر واپس لوٹنا۔ دو درجن سے زائد سوئیز خلائی کارگو جہازوں کی رسد (سپلائی) امریکا، جاپان و روس کی جانب سے بھجوائی گئی خاتون خلاباز کا سب سے لمبا ریکارڈ اب تک کسی اکیلے مرد خلاباز کے340 دنوں کے ریکارڈ سے محض 12 دن کی دوری پر تھا۔ مرد خلاباز کا یہ دورانیہ امریکی خلاباز کیلی اسکاٹ کے ذریعے 2015-16 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح کرسٹینا اب امریکی خلابازوں میں ساتویں پوزیشن پر آگئی ہے اور دنیا کے خلابازوں کی رینکنگ میں ان کا نمبر 50 واں ہوچکا ہے۔

مشن کے دوران انہوں نے 210 سے زائد تحقیقاتی کاموں میں ہاتھ بٹایا جو کہ ناسا کے ’’آرتھیمس مشن‘‘ پروگرام کے تحت کیے جارہے ہیں جن کا مقصد چاند پر انسانوں کو دوبارہ بھیجنا اور واپس لانا، مریخ پر زندگی کی تلاش اور انسانی وجود کے عمل دخل کے اہداف کا حصول ہے۔ انسانی جسم کا بے وزنی اور تاب کاری (ریڈی ایشن) اور دباؤ (اسٹریس) میں ردِعمل اور طویل عرصے کی خلائی پروازوں میں وہ خود کو کیسے ایڈجسٹ کرتا ہے؟، بے وزنی میں متاثرہونے والی ہڈیاں، ریڑھ کی ہڈی اور پٹھوں میں کمی اور ان کے ٹوٹنے کا مشاہدہ ان اہداف میں شامل ہے، کیوںکہ لمبے عرصے میں انسانی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت متاثر ہوتی ہے اور پٹھوں میں تنزلی ہوجاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹنے کا احتمال رہتا ہے، اسے ورزشی مشینوں کے ذریعے قائم رکھا جاتا ہے۔

خوابوں سے گزر کر حقیقت کو پالینے تک کرسٹینا کوچ کی اسپرٹ قابل تحسینرہی ہے۔ انہوں نے گیارہ ماہ تک ایک ایسی تنگ جگہ پر گزارے ہیں جہاں اٹھنے بیٹھنے، سونے، جاگنے کے معمول ہماری روزمرہ زندگی سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کوچ کے عزم و حوصلے میں ذرا کمی نہیں آئی بلکہ مزید پالینے کی جستجو موجود ہے۔ ان کا شوق اور جنون بجائے نیچے آنے کے مزید بڑھ گیا ہے۔

خلاء میں رہتے ہوئے ان کی کیا سوچ رہی تھی اور اب واپس گھر پہنچنے کے بعد وہ اَن دنوں کو کیسے یاد کر رہی ہیں اور اب اپنے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے؟ زمین پر واپسی پر اس باہمت خاتون کو کچھ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ طویل عرصے خلاء میں رہائش کے بعد خلابازوں کو کشش ثقل کے زبردست دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور ان کو اپنا وزن کئی گنا بھاری لگتا ہے، جب کہ کوچ کے بقول مجھے زمین پر دوبارہ معمول پر آنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہورہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو زمینی کشش ثقل سے ہم آہنگ کررہی ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوش ہیں اور پالتو کتے LBD کے ساتھ کھیلتی ہیں۔

ان کے کچن میں خلاء سے لائے ہوئے کھانے جن میں سالسا اور چپس شامل ہیں وافر مقدار میں رکھے ہیں، جو کہ انہیں خلاء میں کھانے کے لیے دیے جاتے تھے اور ان میں سے چپس تو ان کا پسندیدہ کھانا رہا ہے۔ جانسن خلائی مرکز پر اخباری رپورٹروں کو بیان دیتے ہوئے کرسٹینا نے اپنے جذبات کی کھل کر ترجمانی کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو واقعی ایک خوش قسمت عورت سمجھتی ہوں جسے زمین پر لینڈنگ کے وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے توازن کو عادی ہونے میں تھوڑا ہی وقت لگا ہے جب کہ ابھی اپنے پٹھوں میں کچھ زخم محسوس کررہی ہوں مجھے اپنے سر کو تھام کر محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ بہت آسان منتقلی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ خلائی اسٹیشن سے زمین پر آنے کے دو منٹ بعد ہی انہوں نے بہت سارے لوگوں کے چہرے کوئی سال کے بعد ایک ساتھ ایک جگہ دیکھے ہیں، تو وہ لمحات نہایت دل چسپ تھے۔ تب ان سے بات چیت اور بھی لطف انگیز رہی۔ ہم زمین پر زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حقیقت میں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور یہی وہ خاص چیزیں ہیں جن کے لیے مجھے اپنے گھرواپس لوٹنا ہی تھا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے سے براؤن کتّے سے ملنے کے بارے میں کہا کہ یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں کون زیادہ جوش سے ایک دوسرے سے ملا۔ سونے کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ خلاء کی نیند میں میں نے آج تک کا سب سے زیادہ سکون پایا ہے۔ خلاء نہ زیادہ گرم ہے نہ زیادہ سرد ہے۔ نہ سوتے وقت کروٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ خلائی بستر (بیگ) میں اپنے آپ کو بس تیرتا ہوا محسوس کرتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی شے نہ تھی جسے خوش گوار کہا جاسکے۔ اسٹیشن کی ’’لیب‘‘کی مہک یا وزرش کی جگہ (جم)، وہ ایسا چھوٹا مکان ہے جس میں چھ افراد بمشکل سماسکتے ہیں۔ یہاں خوشبو والے صابن، لوشنز، سب کا ہی استعمال ممنوع ہوتا ہے کیوںکہ یہ کیمیکل سے بنے ہیں جو ہمارے اسٹیشن کی فضاء (ہوا) کو صاف رکھنے والے نظام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں، جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہاں آگ کا خیال بھی بُرا ہے، اسی لییوہاں موم بتیاں بھی نہیں ہوتیں۔ اس جگہ کی انوکھی بو ہے جسے خوشبو کہہ سکتے ہیں جب ہم اسٹیشن کی کھڑکی کھولتے ہیں تو وہاں ایک مخصوص بو کی موجودگی ظاہر ہوتی ہے۔ میرے خیالمیں یہ زنگ آلود دھات جیسی مہک ہے۔ یہ بو آنے والے کئی سالوں تک میری یادوں کو تازہ کرتی رہے گی۔ میرے نزدیک اچھی خوشبو کی تعریف ہے کہ جیسے تازہ کٹی گھاس، ہوا میں نمکین پانی، ناریل، لیونڈر (خوشبو دار جھاڑی) اور موم بتیاں۔ یہ بہت آسان تشکیل نو ہونا چاہیے۔

نہانے دھونے اور کپڑیبدلنے کے بارے میں کرسٹینا نے بتایا کہ خلاء میں نہانے کے لیے ایک تولیے کو دوبارہ ہائیڈریٹ کیا جاتا ہے جس میں صابن نہیں ہوتا۔ ہم اس تولیے کو ایک ہفتے میں دو دن استعمال کرتے ہیں، یعنی دو شاور، دو تولیے۔ اسی تولیے میں خود کو خشک کرتے ہیں اور یہ ایک ہفتے چلتا ہے۔ وہاں بنا شیمپو کے ہی بالوں کو دھونا ہوتا ہے، پانی جلد سے ٹکراتا ہے اور وہیں بیٹھ رہتا ہے۔ انگلیوں پر پانی کے بہنے کا احساس بھلانا پڑتا ہے جوکہ ہماری اصل زندگی میں عام ہوتا ہے۔ یہاں اسٹیشن پر کپڑے ہم اس وقت تک پہنتے ہیں جب تک کہ انہیں پھینک دینے کی ضرورت نہ پڑجائے۔

انڈرویئر دو دن، پتلون ایک ماہ تک، ہم ان استعمال شدہ چیزوں کو اسٹیشن سے منسلک کوڑے دان کی نذر کردیتے ہیں جو کہ کارگو گاڑی پر بندھا رہتا ہے اور نئی رسد کی آمد پر ڈسپوز کیا جاتا ہے۔ میں وہاں سوچتی تھی کہ مجھے گھر واپس جاکر دوبارہ سے کپڑوں کے انتخاب کی الجھن کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ خلاء میں نہایت محدود رہا ہے۔ میں نے اسٹیشن پر ان لمحات کا انتظار بے چینی سے کیا ہے جیسے کہ، اپنے چہرے پر چلنے والی آندھی کی ہوا، بارش کا احساس، اپنے پیروں پر ساحلی ریت کا لمس اور سمندر پر سرفنگ کرتے ہوئیآنے والی آوازیں (خلاء میں ریڈیو فریکوئنسی کی مدد کے بغیر آوازیں نہیں سنی جاسکتیں) اب گیارہ ماہ بعد میں اپنے اصل گرم شاور میں نہانے اور انگلیوں پر پانی کے بہنے کے لمبس کی پھر سے منتظر تھی۔

اپنے ریکارڈ کے بارے میں کوچ کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ خواب دیکھنے والوں کے لیے کرسٹینا کوچ کا پیغام ہے کہ ’’آپ جو بھی خواب دیکھتے ہیں، ان کی پیروی کریں! اپنے آپ سے سچّے اور مخلص بنیں، اپنی پسند اور زندگی کے بارے میں بات کریں جس کا کہ آپ تصور کرتے ہیں!‘‘

فروری میں نارتھ روپ کا ’’سائی جینئس‘‘ کارگو طیارہ لاؤنچ کیا جارہا ہے جس سے خلائی اسٹیشن میں سامان کی ترسیل ہوسکے گی۔ اب مورگن اور میر دونوں اپنے آپ کو اس نئے مشن کے لیے تیار کررہے ہیں جس میں اسٹیشن اور ان کے لیے رسد پہنچنے والی ہے۔ اس کے کارگو میں کئی ٹن وزنی سائنسی تجرباتی آلات اور پرزے اور عملے کے لیے سپلائی رکھی گئی ہے جس کی مالیت کا اندازہ8,000 ہزار پاؤنڈ ہے۔

The post کیسا گزرا خلاء میں وقت! appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 80

رنگا رنگ دنیا ہے یہ جی! دکھائی دیتا ہے تو دیکھیے اور اگر نہیں تو دعا کیجیے کہ بینا آنکھ عطا ہو جی! جس طرف دیکھیے ہمہ رنگ انسان اور یہ کہنے کی اجازت ملے کہ کیسے کیسے لعل ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جی! جیتے جی مرگئے ہیں جی !تو ہم ان کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ہم مکّاری کا رونا ہے جی! ہمیں دُور کے ڈھول بھلے لگتے اور ہمیشہ پُراسرار واقعات کھوجنے کی جستجو میں رہتے ہیں ہم۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے، اسے تو نظرانداز کیے ہوئے ہیں ہم۔ فقیر کو کہنے کی اجازت ملے کہ ہم چیزوں کی قدر کرتے اور انسانوں کی! بس رہنے دیجیے کہ آئینہ وہی دکھائے گا جیسے وہ دیکھے گا۔

بابا جی فرماتے تھے کہ چیزیں انسان کے لیے بنی یا بنائی گئی ہیں، انسان تو چیزوں کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا۔ ہم نے چیزوں کو اہم اور انسان کو مسترد کردیا ہے۔ فقیر کو اجازت ملے تو کہے کہ ہم نے انسانوں کے بہ جائے چیزوں کو اتنی اہمیت دے دی ہے کہ اب انسان چیزیں و آلات نہیں، چیزیں اور آلات انسان کو استعمال کر رہے ہیں۔ عجب ہے ناں! دھیان دیجیے فقیر کی بَک بَک پر اور آزردہ و رنجیدہ نہ ہوں جی! یہ تو فقیر خود سے ہم کلام ہے جی!

وہ بھی ایک ایسا ہی لعل ہے، گُدڑی کا لعل، لیکن ہماری بے حسی کا شکار۔ یاد ہے جب فقیر، شہباز سے بات کرنے اس کے کیبن پہنچا تو اُس کے انکار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُس کا کہا بجا تھا کہ آخر کیا ہوگا مجھ سے کلام کرکے۔ وہ مجھ فقیر سے اپنا دُکھ آخر کیوں بیان کرے، کیوں۔۔۔۔ ؟ وہ کسی شے کا طالب نہیں ہے۔ لیکن صاحبو! وہ فقیر ہی کیا جو کسی کی دُھتکار سے ٹل جائے، جی مشکل تو بہت ہوئی لیکن پھر وہ فقیر کے سامنے اپنا سینہ کھول کر دل دکھانے پر راضی ہو ہی گیا۔ کیا آپ جیسے بینا نے درد کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟

اس کا جواب فقیر کے دشمن جاں اجمل سراج نے ایک دن دیا تھا۔ کہنے لگا تُو درد کو دیکھنے کی ضد کر رہا ہے احمق آدمی! یہاں تو زخم کسی کو نظر نہیں آرہا۔

درد تو خیر کس نے دیکھا ہے

زخم بھی کیا نظر نہیں آتا

چلیے وہ تو ہے ہی پاگل اور کوئی ایسا ویسا نہیں جی! لیکن وہ مستی میں بھی ہوشیار ہے، اور وہ جو چھپا بیٹھا ہے ناں تو اسے بھی کسی دن عریاں کرے گا فقیر، خاطر جمع رکھیے۔ ہاں تو فقیر کہتا ہے کہ درد کو دیکھنے والی آنکھ طلب کیجیے اور پھر دیکھیے، لیکن جب تک وہ نہیں ہے تو درد کو مجسّم ہی دیکھ لیجیے اور درد کو دیکھنا ہے اور چلتا پھرتا دیکھنا ہے تو شہباز سے یا اس جیسوں سے ضرور ملیے۔ وہ درد کی تصویر تو ہے لیکن عزم و حوصلے کا شاہ کار بھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں بیتے ہوئے ماہ و سال کے دُکھ ہی نہیں اچھے دنوں کے خواب بھی ہیں۔ ہمت بھی، عزم بھی اور حوصلہ بھی۔ کچھ کر گزرنے کا سودا اس کے دماغ میں نہیں دل میں سمایا ہوا ہے۔ چشم بینا ہو تو دیکھیے، ہاں اگر چشم بینا ہو تب۔ رواں لہجہ اور عزم ہمت سے لبالب۔ اُسے ہم سب سے ویسے تو کوئی گلہ نہیں ہے۔ لیکن فقیر کو ایسا لگا جیسے بہ زبان حال ہم سب سے مخاطب ہو:

بہت اداس ہو دیوار و دَر کے جلنے سے

مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جَلا تو میں بھی ہوں

ہاں وہ واقعی شہباز اور بلند ہمت و بلند پرواز ہے۔ آئیے! فقیر آپ کو چلتا پھرتا درد دکھاتا ہے۔

میں 1988ء میں بہاول پور میں پیدا ہوا۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والد عمارتیں بنانے والے ٹھیکے دار کے پاس دیہاڑی دار مزدور تھے اور یہاں مزدور کا جو حال ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اس کا حال اس چادر کی طرح ہے جس سے سر چھپاؤ تو پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں۔ بس ٹھیکے دار کے رحم و کرم پر ہوتی ہے مزدور کی زندگی۔ لیکن روکھی سوکھی مل ہی جاتی تھی۔ میری ماں بھی کھیتوں میں کام کرنے جاتی تھی۔ وہ بھی مزدور ہی تھی اور اب تک ہے۔ سو، دو سو روپے اسے بھی مل ہی جاتے تھے۔

جب مصیبت اور دکھ آتا ہے، تو بتا کر نہیں آتا اور جب آجائے تو جانے کا نام نہیں لیتا اور گھر میں بسیرا کر لیتا ہے۔ میں تین سال کا تھا کہ مجھے پولیو ہوگیا۔ پہلے میری ایک ٹانگ متاثر تھی۔ ایک دن بخار ہوا تو میرے والدین مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس وقت تو میں چھوٹا تھا، یاد تو نہیں ہے لیکن ماں ہی بتاتی ہے یہ سب۔ اس ڈاکٹر نے مجھے نہلا کر پنکھے کے نیچے لٹا دیا۔ انجکشن بھی لگایا اور دوا بھی دی۔ ابّا اما ں تو ان پڑھ ہیں جو ڈاکٹر نے کہا مانتے چلے گئے۔ ماں بتاتی ہے کہ صبح ہوئی تو میری دوسری ٹانگ بھی بے جان ہوچکی تھی۔

انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا تو اس نے کہا بس یہی تھی خدا کی مرضی۔ تمہارا بیٹا مستقل معذور ہوگیا ہے۔ صبر شکر کرکے رو دھو کے ماں باپ گھر لے آئے مجھے۔ یہ تو بہت عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ اتائی تھا۔ یہ جعلی ڈاکٹر معصوم لوگوں کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔ انہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی۔ اب کیا بتاؤں مزدور ماں باپ کا معذور بچہ، جینا عذاب ہوگیا، زندگی اندھیر ہوگئی۔ مت پوچھیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے علاج میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ کیا نہیں کیا میرے ماں باپ نے غربت کی حالت میں بھی، خود بھوکے رہے۔ جو کچھ اور تھا بھی کیا… سب بیچ کر انہوں نے جو ان کی بساط میں تھا، جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ پھر میں بڑا ہوگیا تھا، لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میری ماں مجھے اٹھا کر لے کر جاتی تھی ہر جگہ، یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہے ناں!

اس کے آنسو پہلے تو چمکنے لگے اور پھر موسلا دھار برسات۔ یہی ہے زندگی، تم تو بہت بہادر ہو۔ فقیر نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی، لیکن وہ تو سیلاب کی طرح بہہ نکلا تھا۔ تھوڑی تک وہ بادوباراں کی طرح برسا۔ پھر سنبھل گیا۔ کب تک رو سکتا ہے انسان۔ رونے کے بعد سنبھل ہی جاتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔ پھر کیا ہوا شہباز…؟ فقیر نے پھر سے ایک کنکر اس کی ساکت جھیل میں پھینک دیا اور پھر دائرے بنتے چلے گئے۔

پھر وہی جو ایک معذور کے ساتھ ہوتا ہے یہاں۔ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، لیکن میری ماں نہیں ہاری تھی۔ پندرہ سال تک وہ مجھے اٹھا کر لے جاتی تھی۔ خود کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی، آج بھی کرتی ہے۔ اس نے مجھے اسکول میں بھی داخل کرایا۔ لیکن بچے تو شرارتی ہوتے ہیں۔ ہر کوئی میرا مذاق اڑاتا تھا۔

آخر میں نے فیصلہ کیا کہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر پیسے ہوتے، کسی بڑے گھر کا ہوتا تو پڑھتا بھی۔ یہاں تو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ میرے والد نے بھی ایک دن کہا کہ تجھے زندگی گزارنے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اور پھر میں نے درزی کا کام سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹیلر ماسٹر سے بات کی اور کام سیکھنے کے لیے جانے لگا۔ گاؤں دیہات میں اتنا کام تو ہوتا نہیں ہے۔ انہوں نے بھی میرے صبر کا پورا امتحان لیا۔ لیکن چار سال میں کام سیکھ گیا تھا۔ دیہات میں کام ہی نہیں تھا۔ میرا چچا زاد کراچی میں ٹیلر تھا۔ میں نے اس سے بات کی اور اپنے چچا کے ساتھ کراچی آگیا۔ یہاں پہنچ کر دنیا ہی بدل گئی۔ اچھا ہی ہوا میں یہاں آگیا۔ میں اپنے چچا زاد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہاں سارا کام میں کرتا تھا اور مزدوری بھی بہت کم ملتی تھی اور وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔ انہیں تو مفت کا نوکر ہاتھ آگیا تھا، لیکن میں کام کرتا رہا، صبر و شکر کے ساتھ۔ پھر چچا زاد نے وہ دکان ہی بند کر دی اب میں فٹ پاتھ پر تھا۔

وہ پھر برسنے گا اور فقیر کے سامنے ایک شعر ناچنے لگا۔

ہے یہ اندیشہ کہ بہہ جائے نہ اب اشکوں میں

دوست! مجھ کو دل غم خوار سے ڈر لگتا ہے

فقیر اسے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبایا۔ وہ اسے شعلہ دکھانے ہی والا تھا کہ فقیر پوچھ بیٹھا: تم سگریٹ بھی پیتے ہو؟ میں سگریٹ پیتا ہوں تو آپ خفا ہو رہے ہیں۔ لوگ تو خون پی رہے ہیں آپ انہیں کچھ نہیں کہتے۔ وہ جان دار اور بلند قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ بھولے لوگ سمجھتے ہیں رشتے دار دکھ درد میں کام آتے ہیں۔ یہ سب باتیں ہیں جی۔ دکھ درد میں تو رشتے دار بھاگ جاتے ہیں کہ یہ کہیں کچھ مانگ نہ لے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بہت بیمار تھا۔ میری ماں اور باپ نے کچھ پیسے جمع کیے۔

بس سو روپے کم تھے۔ مرے ابا اپنے ایک بھائی سے سو روپے مانگنے گئے تو انہوں نے کہا میرے پاس نہیں ہیں سو روپے، اپنے معذور بیٹے کو کسی چوراہے پر بٹھا دو، بہت سے پیسے ملیں گے بھیک میں، یہ ہے رشتے داری ۔۔۔۔۔ چچا زاد کی دکان بند ہوگئی، تو مجھے ان کے گھر سے بھی نکلنا پڑا۔ پہلی رات فٹ پاتھ پر، بھوکا پیاسا اوپر آسمان اور نیچے میں معذور! کچھ لوگوں نے پیسے دینے کی کوشش کی تو میں نے انہیں کہا میں بھکاری نہیں ہوں۔ رات تو جیسے تیسے کٹ ہی گئی، صبح ہوئی تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، یہاں تو چنگے بھلے بندے کو کام نہیں ملتا۔ مجھے کون دیتا۔ میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے، چائے پیو گے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور پھر مجھ سے بولے کام کروگے؟ میں نے کہا کیسا کام؟ تو کہنے لگے ایسا کام کہ عیش کرو گے؟ پولیس بھی تمہیں نہیں پکڑے گی۔

میں نے کہا پولیس کیوں پکڑنے لگی مجھے۔ تو کہنے لگے تم معذور ہو۔ کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ تم چرس، ہیروئن بیچو ہم لاکر دیں گے۔ بہت عیش کرو گے۔ میں نے صاف انکار کر دیا، میرا ضمیر زندہ ہے، میں نے ان سے کہا۔ انہوں نے کہا ضمیر زندہ مردہ چھوڑو ہمارے لیے کام کرو۔ میں نہیں مانا تو انہوں نے اتنا مارا کہ بتا نہیں سکتا۔ ایک آدمی نے انھیں روکا، تو اسے بھی مارنے لگے وہ خود نشے میں دُھت تھے۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ رات تک سوچ لینا۔ رات کو وہ پھر آگئے اور پھر سے بہت مارا۔ میں خاموشی سے مار کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں۔ وہ مجھے پھر سوچنے کا کہہ کر چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد میں وہاں سے گھسٹتا ہوا چل پڑا تھا۔ صبح تک میں اسی طرح رینگتا ہوا بہت دُور نکل گیا۔ بہت تھک گیا تھا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میرے آنسو بہہ نکلے اور میں نے دعا کی: ’’یا اﷲ! میرا کوئی آسرا بنا دے۔‘‘ بہت تھک گیا تھا تو مجھے نیند آگئی۔ سورج نکل آیا تھا تو میں جاگ گیا۔ میری دعا خدا نے سن لی تھی۔ وہ مسکرانے لگا۔

واقعی! تمہاری دعا خدا نے سن لی تھی فقیر نے پوچھا۔ ہاں بس پھر زندگی بدل گئی زندگی کے بھی نہ جانے کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ کیسے بدل گئی زندگی تمہاری، فقیر سننا چاہتا ہے تو وہ پھر سے رواں ہوا۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا ، سامنے کی دکان میں میری طرح کا ایک معذور آدمی بیٹھا ہوا ٹیوب کے پنکچر لگا رہا تھا۔ میں اس کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ پھر اسے کہا استاد مہربانی کرو گے مجھ پر۔ وہ بولا کیا مہربانی؟ میں نے کہا مجھے بھی یہ کام سکھا دو، تو وہ ہنس کر کہنے لگا تم بھی معذور ہو اور میں بھی معذور۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں پھر تمہارا بھی اُڑائیں گے۔

اگر تم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دل لگا کر کام کرو تو میں تمہیں ایک مہینے میں یہ کام سکھا سکتا ہوں۔ میں نے کہا منظور ہے۔ اور بس زندگی بدل گئی میری ایک مہینے میں۔ میں کام سیکھ گیا۔ فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ وہیں ایک اور مزدور سے ملاقات ہوئی اور ہم دوست بن گئے۔ وہی میرا دوست ہے، بھائی ہے، باپ ہے بہت مدد کی اس نے میری۔ کچھ پیسے دیے اور میں نے سامان خریدا اور یہ کام کرنے لگا۔ بس اﷲ روزی دیتا ہے اور عزت کی دیتا ہے۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ وہ خاموش ہوا تو فقیر نے کہا: شہباز کہانی تو ادھوری رہ گئی ہے، کہاں رہتے ہو، کھاتے پیتے کیسے ہو، آتے جاتے کیسے ہو ۔۔۔۔۔ ؟

وہ مسکرایا اور بتانے لگا: انسان کی کہانی تو اس کی موت تک جاری رہتی ہے جی! آنکھیں جب تک دیکھ رہی ہیں۔ کہانی بھی چل رہی ہے۔ آنکھیں بند ہوجائیں گی تو کہانی بھی مُک جائے گی۔ ہاں تو اس کے بعد میں نے یہ کیبن لیا اور کام شروع کیا۔ رہنے کا مسئلہ تھا تو ایک کوارٹر لیا۔ تین ہزار روپے کرایہ ہے اس کا۔ پہلے تو میں سڑک پر گھسٹ گھسٹ کر جایا کرتا تھا۔ اکثر لوگ مجھے بھکاری سمجھتے تھے اور پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا، بھائی میں بھکاری نہیں ہوں مزدور ہوں، پھر یہ سائیکل گاڑی بنائی۔ اب کچھ سہولت ہوگئی ہے، لیکن سڑکوں کی حالت تباہ ہے، بہت مشکل سے آتا جاتا ہوں۔ ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ پانے کے لیے کھونا تو پڑتا ہے۔ خوش ہوں کہ اپنے بہن بھائیوں ماں باپ کا سہارا ہوں، جو کچھ ہوتا ہے کرتا ہوں۔

اب تو تمہیں بہت خوشی ہوتی ہوگی کہ جو تم نے چاہا کر دکھایا۔ فقیر نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو وہ کہنے لگا: کیا کر دیا جی میں نے، اب تک تو کچھ بھی نہیں کرسکا، لیکن کوشش ہے اور تمنا بھی کہ کچھ کر سکوں اب ہیلپر بھی رکھ لیا ہے۔ اس سے بہت آسانی ہوگئی ہے۔ دو سو روپے اسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ گزارہ ہو رہا ہے۔ گھر والوں کو بھی تھوڑے بہت پیسے بھیج دیتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں اﷲ روزی دیتا ہے۔ سب کچھ خود کرتا ہوں۔ اتنے پیسے کہاں ہیں کہ دھوبی کو دوں۔ طبیعت خراب ہوتی ہے اور جب بہت مجبوری ہو تو ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہوں۔

چھوٹی موٹی بیماریوں میں میڈیکل اسٹور سے دوا لے لیتا ہوں۔ بس میرے سر پر ایک ہی بات سوار ہے۔ مجھے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ میری تمنا ہے کہ اپنی والدہ ، والد کو بہن بھائیوں کو سکھ چین کی زندگی دے سکوں۔ مجھے تو بہت سے کام کرنے ہیں اﷲ نے چاہا تو ضرور کروں گا۔ میں اپنے گھر والوں کو خوشیاں دینا چاہتا ہوں۔ انھیں راحت پہنچانا چاہتا ہوں۔

میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں معذور سہی، لیکن ان کے لیے سب کچھ کروں گا۔ بہنوں کی شادی کراؤں گا، بھائیوں کو کسی قابل بناؤں گا۔ جو نصیب میں ہوگا مل جائے گا، بس نیّت اچھی ہونی چاہیے، اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ زندہ رہنا ہے تو کان منہ بند کرلینے چاہییں۔ بس کام سے کا م، دور بہت نازک ہے۔ غربت میں انسان اکثر غلط سوچتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر غلط کام کرنے لگتا ہے اور پھر عمر بھر پچھتاتا ہے۔ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ میں خوش ہوں کہ اﷲ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور پکڑے رہے گا۔ انسان کا کام ہے محنت کرنا۔ اﷲ کسی کی محنت ضایع نہیں کرتا۔ میں معذور ضرور ہوں، لیکن بے ضمیر نہیں ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک معذور نے ہی مجھے جینا سکھایا۔

چلیے فقیر کے لیے بھی چشم بینا کی دعا کیجیے اور اجازت دیجیے کہ فقیر رخصت ہوا۔

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی ذرایع اِبلاغ آج سے پہلے کبھی اتنے پست نہیں ہوئے۔۔۔!

$
0
0

نئی دہلی: کئی مرتبہ آپ کسی سنجیدہ موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے اور یوں آپ اس موضوع پر بھی اظہارِخیال سے قاصر رہ جاتے ہیں اور مستقبل میں کبھی ایسے معاملوں پر رائے زنی کی خواہش کے ساتھ قلم روک لیتے ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر 2019 کی شام کو رونما ہونے والے ناخوش گوار سانحہ کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت رہی جس میں ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کی بربریت دیکھی گئی۔ لائبریری میں پولیس کے داخلے اور لاٹھی چارج کے کوئی دو ماہ بعد جب 16 فروری 2020ء کو جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی تو ’گودی میڈیا‘ نے اس مسئلے پر اپنا ’ٹرائل‘ شروع کر دیا اور ایک ایسے سچ کو جو بالکل واضح ہے، چھپانے کی کوشش شروع ہو گئی۔

اس دن تو پولیس کی بر بریت کا میں بھی شکار ہوا اور سب واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کرب ناک حادثے کے بعد طلبہ کی جانب سے کچھ چیزیں ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے منظر عام پر آئیں، مگر میڈیا میں انہیں مطلوب مقام نہیں مل سکا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دل دوز ہے، جس میں ’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ نے تحقیق کے دوران کمروں اور ہاسٹلوں کی راہ داریوں میں کٹی ہوئی انگلیاں اور بستروں پر پولیس کا استعمال کیا گیا گولا بارود پائے جانے کا انکشاف کیا۔ ’یوپی‘ میں انٹرنیٹ بند کر دیے جانے اور میڈیا کے غیر حقیقت پسندانہ نظریے کے سبب بہت سی چیزیں سامنے نہیں آ سکیں، جب کہ حقائق کو مسخ کرنے کے لیے پولیس نے ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کو توڑا اور کئی جگہوں سے کیمروں کے چِپ نکال کر لے گئی۔

جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کا گواہ بننے والی فوٹیج جب سامنے آگئی، تو ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ’گودی میڈیا‘ کی جانب سے جس قسم کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا، ہاتھ میں نظر آنے والے ’پرس‘ کو جس طرح ’پتھر‘ قرار دیا گیا اور رومال سے چہرہ ڈھانکنے والے طالب علم کو جس انداز میں ’مشکوک فسادی‘ کہا گیا، وہ بہ جائے خود میڈیا کے اُس طبقے کی مریض ذہنیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے، جو پروپیگنڈوں کے ذریعے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں یقین رکھتے ہیں، حالاں کہ جامعہ کے تعلق سے جاری ہونے والے ویڈیوز کا تجزیہ کئی چھوٹے مگر قابل اعتماد میڈیا اداروں نے کیا ہے اور اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔ بطورخاص ’آلٹ نیوز‘، دی کوئنٹ‘ اور ’دی وائر‘ (ہندی) وغیرہ نے تحقیق کے ساتھ جو مواد جاری کیا ہے، وہ قابل توجہ ہے۔

بعض ویب سائٹوں نے تو تصویر کو زوم کر کے دکھا دیا کہ وہ ’پرس‘ تھا۔ اسی طرح چہرہ ڈھانکنے کی بھی اصلیت سامنے آ گئی ہے کہ اس دن پولیس نے کیمپس کے اندر اس قدر آنسو گیس کے گولے داغے تھے کہ سانس لینا بھی دشوار تھا، ایسے میں اگر کچھ طالب علم ناک یا چہرہ ڈھکے ہوئے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہے وہ فسادی تھے، وہ بھی تب جب کہ جامعہ میں داخل ہونے والے پولیس کے بعض کارندوں کے بھی ’منہ چھپانے‘ اور رومال سے چہرہ ڈھاکنے کی تصویر دیکھنے میں آرہی ہو۔ بالفرض اگر منہ کو رومال سے ڈھاکنے والے طلبہ ’فسادی‘ تھے، تو پولیس کو انہیں پکڑنا چاہیے تھا نہ کہ بلا امتیاز معصوم طلبہ پر لاٹھیاں برسانی تھیں۔ اگر ’سوشل میڈیا‘ نہ ہوتا تو شاید اس طرح کا ظلم و تشدد اور حکومتی سرپرستی میں ہونے والی ’غنڈاگردی‘ کے بارے میں دنیا کو پتا بھی نہ چلتا۔

اس پورے واقعے میں اگر میں صرف جامعہ کی ہی بات کروں تو پولیس کی دہشت زدہ کردینے والی کارروائی میں سیکڑوں طلبہ زخمی ہوئے، ایک طالب علم کی آنکھ ضائع ہو گئی اور کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ 17 فروری 2020ء کو ’ہندوستان ٹائمز‘ کے اداریے کے مطابق اس ظالمانہ کارروائی میں 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے، لیکن اس کے باوجود اب تک اس پورے واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس کی بربریت کے شواہد جب سی سی ٹی وی فوٹیج کی شکل میں سامنے آئے تو پولیس جو پہلے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئی۔

اسے الگ رنگ دیتی نظر آئی۔ جامعہ کے طلبہ پر پولیس کے مظالم کی جو تصویر اب تک سامنے آئی ہے، اس کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب پولیس کا کردار سوالوں کی زَد پر ہو تو ایسے میں طلبہ کو انصاف تبھی مل سکے گا، جب واقعے کی اعلیٰ سطح پر جانچ ہوگی، خواہ یہ تفتیش ایس آئی ٹی سے کرائی جائے یا معاملہ کی ’عدالتی تحقیق‘ ہو، بصورت دیگر یہ ممکن ہی نہیں کہ مظلومین کو انصاف مل سکے، کیوں کہ پولیس اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے پر آمادہ ہے اور میڈیا کے کچھ گھرانے اس کی ہر ممکن مدد میں مصروف ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ ایسے سنگین حالات میں جب حقیقت آشکار ہوتی ہے اور شواہد سامنے آتے ہیں، تو سرکار، پولیس اور ذرایع اِبلاغ سبھی ایک رنگ میں کیسے رنگ جاتے ہیں اور حقائق کو ہر ممکن جھٹلانے کی کوشش کس کس انداز میں کی جاتی ہے۔ کچھ خبری چینلوں نے جن میں ’نیوز نیشن، ’آج تک‘ اور ’ری پبلک‘ ٹی وی شامل ہیں، نے صحافتی اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کر لیا اور انہوں نے خود ہی جج کا کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ کو ظالم دکھانے کی کوشش کی، مجھ جیسے صحافت کے ایک طالب علم کے لیے میڈیا کا یہ رویہ کافی تشویش ناک ہے۔

کئی مرتبہ عدلیہ ازخود ایسے غیرمعمولی معاملوں میں نوٹس لیتی ہے، مگر جامعہ ملیہ میں پولیس ایکشن اور عام طلبہ پر پولیس کی پُرتشدد کارروائی کو دو ماہ گزر جا نے کے باوجود سرکار کا نظریہ اور عدالت کا موقف کیا ہے، یہ ہر کسی کو پتا ہے۔ مظلوم طلبہ کی جانب سے عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا گیا، مگر عدلیہ کی جانب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، جس سے جامعہ کے دہشت زدہ طلبہ یہ محسوس کر سکیں کہ اُن پر ڈھائے گئے مظالم کی روداد سننے والا کوئی تو ہے، کوئی تو ہے جو نوٹس لے رہا ہے، لیکن اس کے برخلاف ’تاریخ پہ تاریخ‘ والی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔

’گودی میڈیا‘ گذشتہ دو تین ماہ سے ’سی اے اے‘، ’این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ کے معاملے پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے، اسے کسی بھی طرح سے صحافتی اقدار اور اصول و ضوابط پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا اور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔

اس سلسلے میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہیں، جس میں 6 اپریل 1994ء کو افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ادارت کردہ کتاب ’دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینوسائڈ‘ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک ’ہوتو‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسری ’ٹوٹسی‘ جو اقلیت میں تھے۔

روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں ’کاکروچ‘ کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ ’کپڑوں‘ سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ ’غدار‘ کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے، تو کچھ ’بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالوں کو!‘ جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں، یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دُہرائی جاتی ہیں۔

تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہمارے میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور ’ٹوٹسیوں‘ کو ’لال بیگ‘ کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے ’ہوتو‘ میں ڈنڈے تقسیم کیے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ ’غدار‘ کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقوؤں سے قتل کیا۔ صلح جو ’ہوتو‘ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول، لاٹھی، ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔

روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کار فرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا، جیسے 2002ء میں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔

اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور ’ٹوٹسی‘ افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں ’ٹوٹسی‘ لڑکیوں کو جنسی غلام بنا یا گیا۔ یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان ’کیڑے مکوڑوں‘ کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کے لیے پناہ لینے کی کوشش کی۔

اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کی تفصیلات دیکھیے۔ دلی کی جامعہ ملیہ اور ’شاہین باغ‘ میں گولی چلائے جانے کے واقعات کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنائے میں ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کے حوالے سے ہونے والے پر امن احتجاج، اور اس پر میڈیا اور پولیس کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ ’سی اے اے‘ کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامے اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجیے۔

ہندوستانی میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمرجینسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھی ہے۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔

گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا اس زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کر کے دانستہ لوگوں کو گُم راہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئی وارداتیں ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ ’گؤ ہتیا‘ کے نام پر لوگوں کی ’لنچنگ‘ کی جا رہی ہے۔

نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملے کر رہے ہیں، پولیس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے، مگر بہ جائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرتا، سوالات کھڑے کرتا، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انہیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہو گیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے، بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورت حال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدام نہ کیے گئے تو ہمیں تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟

The post بھارتی ذرایع اِبلاغ آج سے پہلے کبھی اتنے پست نہیں ہوئے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اچھا کھانا کھائیں یا بچوں کو پڑھائیں؟‘‘

$
0
0

بھارتی شہر،ممبئی کی باسی تیس سالہ ترپتی کملا پچھلے چھ ماہ سے بہت پریشان ہے۔ وہ ہر دم اس گومگو میں رہتی ہے کہ آخر کس راستے کا انتخاب کرے؟ اپنے چاند سے بیٹے کو اچھی تعلیم دلوائے یا پھر اس کو اچھا کھانا کھلائے؟

ہمارے پڑوس بھارت میں صرف ترپتی ہی نہیں لاکھوں والدین اس مخمصے کا شکار ہیں۔ وجہ یہ کہ پچھلے نو دس ماہ سے بھارت میں خصوصاً اشیائے خورونوش بہت مہنگی ہوچکیں۔وطن عزیز میں ہر طرف یہ شور برپا ہے کہ مہنگائی آسمانوں پر پہنچ چکی اور اس بات میں صداقت بھی ہے ۔مگر ہم وطنوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مہنگائی کا عجوبہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ،اس نے بھارت اور ہمارے دیگر پڑوسیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذا اپنے حکمران طبقے کو سارا الزام دینے سے قبل اردگرد بھی نظر ڈال لیجیے تاکہ تصویر کا دوسرا رخ آپ دیکھ سکیں۔

اب بیچاری ترپتی کملا ہی کو لیجیے۔ وہ ایک گھر میں ملازم ہے۔ دن بھر کام کاج کرکے بارہ ہزار کماتی ہے۔ اس کا شوہر ایک نجی کمپنی سے بطور کلرک وابستہ ہے۔ وہ دس ہزار روپے کمالیتا ہے۔ دونوں میاں بیوی مل جل کر گھریلو اخراجات چلاتے ہیں۔ ان کا ایک چھ سالہ پیارا سا بیٹا ہے۔ دس ماہ قبل تک ترپتی اپنی آدھی تنخواہ بچالیتی تھی۔ اس نے سوچ رکھا ہے کہ وہ بیٹے کو اچھے سکول کالج میں پڑھائے گی تاکہ وہ ان سے زیادہ خوشحال اور پرآسائش زندگی گزارسکے۔ لیکن بڑھتی مہنگائی نے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی بھارتی خاتون کے سارے سہانے سپنے آئینے کی طرح چکنا چور کردیئے۔

اس سال کملا نے طے کررکھا تھا کہ وہ منے کو ممبئی کے ایک بڑے انگریزی میڈیم سکول میں داخل کرائے گی۔ اس نے محنت کی کمائی سے پیسے بچا بچا کر بھاری ایڈمیشن فیس جمع کرلی تھی۔ مگر جب اسے علم ہوا کہ سکول کی ماہانہ فیس آٹھ ہزار روپے ہے تو وہ مرجھا کر رہ گئی۔ چھ ہزار روپے تو وہ کسی نہ کسی طرح بچالیتی تھی مگر آٹھ ہزار؟ دو ہزار کہاں سے لائے؟ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ خوراک کی بڑھتی قیمتیں کوڑا بن کر اس پر برسنے لگیں اور کملا کو ہکا بکا کرگئیں۔

بھارت میں پچھلے ماہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں چھ سال کے دوران سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئیں۔ اس زیادتی نے مگر بھارت کے لاکھوں غریب گھرانوں کو نئی مصیبت میں گرفتار کرا دیا۔ وجہ یہ کہ ان گھرانوں میں بیشتر آمدن کھانے پینے کے معاملات پر ہی خرچ ہوتی ہے۔ جب کھانا پینا ہی مہنگا ہوجائے، تو پھر محدود آمدن رکھنے والوں کے پاس دیگر اخراجات کی خاطر پیسہ نہیں بچتا۔ قدرتاً یہ امر انہیں پریشانی میں مبتلا کر ڈالتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھارت میں پیاز دو سو روپے بک رہا تھا۔ اب بھی ستر، اسّی روپے میں دستیاب ہے۔ دیگر سبزیاں بھی دگنی تگنی مہنگی ہوچکیں۔ دالوں، مسالوں اور پھلوں کے ریٹ بھی بڑھ چکے۔ ایک سال قبل کملا میں دو دن مچھلی پکالیتی تھی۔ مگر یہ مچھلی اب سو کے بجائے دو سو روپے کلو ہوچکی ہے۔کملا کہتی ہے ’’میرا منا نشوونما پارہا ہے۔ ہم میاں بیوی اسے اچھی خوراک کھلانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند نوجوان بن سکے۔‘‘ لیکن دونوں اسی الجھن کا شکار ہیں کہ وہ منے کو اچھا کھانا کھلائیں یا اچھی تعلیم دلوائیں؟ ان کی آمدن اتنی نہیں کہ وہ منے کو یہ دونوں سہولتیں فراہم کرسکیں۔

دہلی کی رہائشی چالیس سالہ سویتا کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ ایک بس اڈے میں اخبارات و رسائل فروخت کرنے کا چھوٹا سا سٹال چلاتی ہے۔ اس کے دو بچے ہیں۔ لڑکا کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے۔ بیٹی فیشن ڈیزائننگ کا کورس کررہی ہے۔ سویتا کہتی ہے:’’ہم میاں بیوی اپنے بچوں کی تعلیم داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ بے شک دیگر اخراجات پورے نہ ہوں، اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ ضرور کرنا ہے۔ اب ہم مچھلی و چکن نہیں کھاتے۔ نئے کپڑے نہیں خریدتے۔ جوتی ٹوٹ جائے تو مرمت کراکے کام چلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کی خاطر ہم کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔‘‘

سویتا کا شوہر بسوں، چوکوں اور ریلوں میں موزے، رومال اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا گھوم پھر کر بیچتا ہے۔ روزانہ دو تین سو روپے کمالیتا ہے۔ زندگی کی پرمشقت گاڑی چلاتے ہوئے پہلے میاں بیوی ہر ماہ تین ہزار بچالیتے تھے۔ سوچتے تھے کہ پس انداز رقم برے وقت میں کام آئے گی۔ مگر بڑھتی مہنگائی کا جن ان کی یہ بچت بھی نگل گیا۔

بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اشیائے خورونوش بعض وجوہ کی بنا پر مہنگی ہوئیں۔ پہلی وجہ یہ کہ پچھلے ایک سال کے دوران بارشوں کا سلسلہ غیر معمولی رہا۔ کبھی زیادہ بارشوں نے فصلیں خراب کردیں، کبھی بے موسمی بارشوں کے باعث بوائی نہیں ہوسکی۔ اس لیے سبزیاں وقت پر نہ بوئی جاسکیں اور ان کی قلت نے جنم لیا۔ چونکہ مانگ تو وہی رہی لہٰذا سبزیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے نے بھی مجموعی مہنگائی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اشیائے خورونوش مہنگی ہونے سے بھارت میں سبزی و پھل کے دکانداروں اور ریڑھی والوں کا کاروبار کافی متاثر ہوا۔ راہول مشرا ممبئی میں اپنے چھکڑے پر سبزی و پھل بیچتا ہے۔ کہتا ہے ’’آج کل میرے گاہک بہت کم سبزی خریدتے ہیں۔ جو پہلے ایک دو کلو سبزی خریدتا تھا اب وہ ایک پاؤ خریدنے پر اکتفا کرتا ہے۔ بعض گاہکوں نے تو لہسن، پیاز، ٹماٹر خریدنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘

رنجیت سونکر پھلوں کی دکان کا مالک ہے۔ وہ بتاتا ہے ’’پچھلے چھ ماہ سے پھلوں کی بکری بہت کم ہے۔ دراصل عام لوگ اسی وقت پھل خریدتے ہیں جب آٹا، چینی اور سبزی خریدنے کے بعد چار پیسے بچ جائیں۔ اب کھانے پینے کی عام اشیاء کافی مہنگی ہوچکیں اور کئی لوگ پیسے نہیں بچا پاتے۔ اس لیے لوگ پھل کم ہی خریدتے ہیں۔‘‘

57 سالہ اتم کمبلے نئی دہلی  موچی کا کام کرتا ہے۔ پھل اس کے لیے لگژری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہر ماہ آٹھ دس ہزار روپے کماتا ہے۔ گھر میں بیوی، بیوہ بیٹی اور اس کے تین بچوں کا وہی اکلوتا سہارا ہے۔ وہ افسردگی سے کہتا ہے ’’جوتیاں مرمت کرنے کے پیشے میں زیادہ پیسا نہیں۔ مگر مجھے کوئی اور کام بھی تو نہیں آتا۔ پھر حکومت بھی کوئی مدد نہیں کرتی۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ میں ساری زندگی موچی بنے گزار دوں۔‘‘

اشیائے خورونوش کی مہنگائی اتم کمبلے پر بم بن کر گری۔ وہ بتاتا ہے ’’اب ہم سبزی بہت کم کھاتے ہیں۔ سبزی میں پیاز نہیں ڈالتے اور نہ ہی ٹماٹر و لہسن۔ مسالے بھی مہنگے ہوچکے لہٰذا ان کا استعمال بھی کم کردیا ہے۔ عام طور پر ابلی چیز کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔ اب ہمارے کھانے میں کوئی ذائقہ نہیں رہا۔ مگر خالی جیب لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘

کشمیر میں زمینیں برائے فروخت

اپنی عسکری و معاشی قوت کے زعم و تکبر میں مبتلا مودی حکومت نے پہلے ریاست جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا۔ اب وہ اپنے حقیقی عزائم بتدریج سامنے لارہی ہے۔ اس کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ خصوصاً وادی کشمیر میں لاکھوں ہندو بسا دیئے جائیں تاکہ وہاں مسلم اکثریت ختم ہوسکے۔ یوں سنگھ پریوار مستقبل میں اس خطرے کا خاتمہ چاہتا ہے کہ کہیں وادی کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوجائے۔مودی حکومت نے ماہ مارچ میں سری نگر میں ’’جموں و کشمیر گلوبل انویسٹرز سمٹ 2020ء ‘‘ کرانے کا اعلان کیا ہے۔

اس موقع پر ریاست کی ’’چھ ہزار ایکڑ‘‘ زمین فروخت کے لیے پیش ہوگی۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار شرکت کریں گے۔ زمین خرید کر کوئی بھی وہاں ہر قسم کا کاروبار شروع کرسکتا ہے۔ یہ وادی کشمیر پر مستقبل قبضے کا پہلا قدم ہے۔آنے والے دنوں میں وادی کی مذید زمینیں بھارتی سرمایہ کاروں کو فروخت کی جائیں گی تاکہ وہاں وسیع وعریض ہاوئسنگ کالونیاں بن سکیں۔جیسے اسرائیلی مغربی کنارے پر یہودی بستیاں بسا کر اسرائیل آہستہ آہستہ قبضہ کر رہا ہے،بعینہٖ اسی طرح بھارت بھی وادی کشمیر میں ہندو بستیاں بنا کر اس پہ قابض ہونا چاہے گا۔

مودی حکومت کا جنگی جنون

پچھلے دنوں مودی حکومت نے رواں سال کا دفاعی بجٹ پیش کیا۔ اس کی کل مالیت 4.71 لاکھ کروڑ روپے ہے جو امریکی کرنسی میں 73.65 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کے حساب سے یہ رقم گیارہ ہزار تین سو ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ بھارتی دفاعی بجٹ کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کا کل قومی بجٹ ساڑھے چھ ہزار ارب روپے ہے۔بھارت کے دفاعی بجٹ میں 1.13 لاکھ کروڑ سابق فوجیوں کے پنشن کے لیے مخصوص ہیں۔ حاضر فوجیں کی تنخواہوں کے لیے 1.1 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

واضح رہے، پاکستان کا کل دفاعی بجٹ تقریباً ایک لاکھ کروڑ بھارتی روپے کے برابر ہے۔ بھارتی دفاعی بجٹ میں بقیہ رقم جاری اخراجات اور نیا اسلحہ خریدنے کے لیے رکھی گئی ہے۔اب یہ خوفناک تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف تو بھارت میں لاکھوں ترپتی کملا، سویتا اور اتم کمبلے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاسکتے اور دوسری سمت بھارتی حکمران گیارہ ہزار تین سو ارب روپے اپنے مفادات کی تکمیل اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے خرچ کر ڈالتے ہیں۔

نریندر مودی کی زیر قیادت سنگھ پریوار کا طبقہ بھارت کو بین الاقوامی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ جدید ترین اسلحہ خریدنے پر اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں اپنی آمریت قائم کرسکے۔بھارت میں متوسط و نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتی عوام سالانہ کئی ہزار ارب روپے کے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس اپنی حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ رقم بھارتی شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ مثلاً حکومت ترپتی کملا کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنے چہیتے منے کو اچھی تعلیم دلواسکے۔ سویتا اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے فکر مند نہ رہے۔ کمبلے بھی سبزی اور اچھا کھانا کھاسکے۔ لیکن مودی حکومت ان غریبوں کو تو کیڑے مکوڑے سمجھتی جبکہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو وہ دنیا میں سپرپاور بناچاہتی ہے۔ یہ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا کھلا تضاد ہے۔

مودی حکومت آنے والے برسوں میں ’’130 ارب ڈالر‘‘ کا جدید اسلحہ خریدنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے، روس و امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک بھارتی حکومت کے سامنے بچھے چلے جارہے ہیں تاکہ اسے رام کر سکیں اور وہ ان سے اسلحہ خرید لے۔ مالی مفاد کی خاطر ہی مغربی حکمرانوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ہوتے بھارتی حکومت کے ظلم و جبر سے آنکھیں پھیر لیں۔ ملائشیا کے وزیراعظم، مہاتیر محمد کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دور جدید کے بین الاقوامی معاملات میں انصاف و سچائی کا کوئی وجود نہیں،صرف اپنے مفادات دیکھے جاتے ہیں۔

بھارت کا حکمران طبقہ علاقے کی مہا طاقت بننے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اسی پاگل پن نے جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کا آغاز کردیا۔ حکومت پاکستان کو بھی اربوں روپے دفاعی اخراجات کے لیے مختص کرنا پڑتے ہیں تاکہ اپنا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بناسکے۔ یہ حقیقت ہے، جب تک بھارت میں امن و محبت کا متلاشی حکمران طبقہ برسراقتدار نہیں آتا، جنوبی اشیا میں جنگ کے خوفناک سائے منڈلاتے رہیں گے۔

The post ’’اچھا کھانا کھائیں یا بچوں کو پڑھائیں؟‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

بے تُکی جنگیں!

$
0
0

کہا جاتا ہے کہ جنگ وہ آخری آپشن ہوا کرتا ہے جسے کوئی بھی قوم، دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے بہت سوچ و بچار اور انتہائی مجبوری کے عالم میں استعمال کرتی ہے ورنہ عمومی حالات میں غاصب سے غاصب ملک کی بھی یہ ہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اندرونی سازشوں، سفارتی ریشہ دوانیوں، سیاسی انارکی اور نسلی ولسانی اختلافات جیسے مذموم ہتھ کنڈوں سے ہی کام چلاتے ہوئے دوسرے ملک کو اپنا زیرِدست یا زیرِنگیں بنالے، کیوںکہ جنگ وہ مہلک ہتھیار ہے جو صرف مفتوح ملک کے عوام کو ہی نہیں بلکہ فاتح کہلانے بننے والی قوم کو بھی ٹھیک ٹھاک مالی و جانی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

اِس کے باوجود تاریخ میں جابہ جا ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب ذرا سی بات پر یا چھوٹی سی غلطی یا کسی فردِ واحد کی بے وقوفی کے باعث دو پڑوسی ملک، دو دوست اقوام یا دو دشمن ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد آن کی آن میں متاثر ہو کر اپنی قیمتی جان اور املاک سے محروم ہوگئے۔ تاریخ کے اوراق میں اِن جنگوں کو Foolish Wars  یعنی ’بے وقوفانہ جنگیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ زیرِنظر مضمون میں کچھ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے یا بلاوجہ قسم کے تنازعات کے باعث لڑی جانے والی بے تکی جنگوں کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

٭کیک اور پیسٹریوں پر ہونے والی جنگ

1821 میں میکسیکو نے اسپین کے تسلط سے آزادی حاصل کی اور بدقسمتی سے آزادی کے فوراً بعد میکسیکو شدید سیاسی انارکی کا شکار ہوگیا۔ میکسیکو میں قائم ہونے والی اولین حکومت کے خلاف باغیوں کے ایک گروہ نے بغاوت کا اعلان کردیا۔ باغیوں اور حکومت کے درمیان شروع ہونے والی داخلی کشمکش نے میکسیکن عوام کی املاک کو زبردست نقصان پہنچا۔

میکسیکو شہر کے نزدیک ایک فرانسیسی بیکر کی بیکری بھی تھی جو کہ اِن فسادات کی زد میں آگئی اور احتجاج کرنے والے اُس کی بیکری میں موجود دو درجن سے زائد کیک اور دیگر کھانے پینے کا سامان لوٹ کر لے گئے۔ چوںکہ اس فرانسیسی کی بیکر ی کا سامان لوٹ کر لے جانے والے تمام کے تمام میکسیکو کے شہری تھے، لہٰذا بیکری کے فرانسیسی مالک نے میکسیکو کی حکومت سے اپنے ہونے والے نقصان یعنی دو درجن کیک، ایک درجن پیسٹریوں اور 8 عدد پیٹیز کا ہرجانہ ادا کرنے کا دعویٰ کردیا۔ میکسیکو کی حکومت جو پہلے ہی خانہ جنگی کی کیفیت میں تھی اُس نے فرانسیسی بیکر کی اِس درخواست کو ایک مذاق سمجھ کر یکسر نظرانداز کردیا۔

جب فرانسیسی بیکر نے دیکھا کہ اُس کے نقصان کو میکسیکو کی حکومت سنجیدگی سے نہیں لے رہی تو اُس نے بغیر ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر فرانس کے بادشاہ سے تحریری درخواست کردی کہ ’’چوںکہ وہ فرانسیسی شہریت رکھتا ہے، اِس لیے اُس کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری فرانس کی بادشاہ پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا فرانسیسی حکومت، میکسیکو میں ہونے والی زیادتی پر اُس کی مدد و اعانت کی پابند ہے۔‘‘

فرانس کے بادشاہ نے فرانسیسی بیکر کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے، میکسیکو کی حکومت سے سرکاری سطح پر مطالبہ کردیا کہ وہ میکسیکو میں کاروبار کرنے والے فرانسیسی شہری کے نقصان کا فی الفور ازالہ کردے بہ صورت دیگر میکسیکو اپنے نقصان کا خود ذمے دار ہوگا۔ میکسیکو کی حکومت نے فرانس کے بادشاہ کی درخواست کو رد کردیا، جس کے جواب میں 1838 میں فرانسیسی بحریہ نے میکسیکو کی بحری حدود ہر قسم کی آمدورفت کے لیے مکمل طور پر بند کردیں۔

کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بحری ناکہ بندی کے بعد بھی جب فرانس کو حسبِ توقع نتائج نہ مل سکے تو انہوں نے میکسیکو کی بحری تنصیبات پر ہلکی پھلکی بم باری کرنا شروع کردی تاکہ میکسیکو پر دباؤ ڈال اُس سے اپنا مطالبہ منوایا جاسکے۔ لیکن میکسیکو نے فرانس کے دباؤ میں آنے کے بجائے اُس کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کردیا۔

بہرحال فرانس عسکری لحاظ سے میکسیکو کے مقابلے میں کافی طاقت ور تھا، لہٰذا چند ہی دنوں میں فرانس نے میکسیکو کی تمام بحری افواج کو اپنے قبضے میں لے کر میکسیکو میں باقاعدہ زمینی جنگ کے لیے اپنی فوجوں کو اُتار دیا۔

فرانس اور میکسیکو کے درمیان کیک اور پیسٹریوں کے لیے لڑی جانے والی یہ جنگ کم و بیش 4 ماہ تک جاری رہی۔ آخر میں میکسیکو کی حکومت نے اپنی شکست تسلیم کرکے فرانس کے اِس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کہ وہ فرانسیسی بیکر کے ہونے والے نقصان کا تمام ہرجانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے، جس کے بعد فرانس نے بھی میکسیکو کی سرزمین سے اپنی افواج کو واپس بلالیا اور فرانسیسی فوجی کیک کھاتے ہوئے، فتح کا جشن مناتے فرانس میں بڑی شان سے داخل ہوئے۔

٭کرسی پر بیٹھنے کی خواہش سے شروع ہونے والی جنگ

ہم ابتدا میں ہی وضاحت کیے دیتے ہیں کہ یہ کرسی پر ہونے والی وہ محاوراتی جنگ نہیں ہے جس کا تذکرہ اکثر وبیشتر ہماری ملکی سیاست میں سننے کو ملتا رہتا ہے بلکہ یہ اصلی کرسی پر ہونے والی بالکل اصلی جنگ کا سچا تذکرہ ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ آشانتی مملکت جو آج کل افریقی ملک گھانا کا ایک حصہ ہے، یہ کبھی برطانوی راج کی ایک طفیلی ریاست ہوا کرتی تھی۔ آشانتی مملکت میں طاقت کی علامت ایک سنہری کرسی تھی، جس کے بارے میں آشانتی عوام کا ماننا تھا کہ یہ کرسی آسمانوں سے آشانتی کے پہلے بادشاہ اور ملکہ کے لیے زمین پر اُتاری گئی تھی اور اِس سنہری کرسی میں آشانتی قوم کی روح بستی ہے۔ یہ سنہری کرسی خالص سونے سے بنی ہوئی تھی، جس کی اونچائی 18، انچ اور لمبائی 24 ، انچ تھی۔

اِس سنہری کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی کیوںکہ اِسے آشانتی تہذیب کی خاص علامت سمجھا جاتا تھا۔ سنہری کرسی کی یہ شہرت برطانوی گورنر فریڈرک ہوڈسن تک پہنچی تو انہیں اِس کرسی پر بیٹھنے کا شوق چَرایا۔ چوںکہ اُن دنوں مملکت آشانتی برطانیہ کے زیرتسلط ہوا کرتی تھی، لہٰذا برطانوی گورنر نے مملکتِ آشانتی کے بادشاہ پریمف سے مطالبہ کردیا کہ وہ بطور گورنر اِس کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ سنہری کرسی پر بیٹھنے والی بات مملکت آشانتی کے بادشاہ اور عوام کو اتنی بُری لگی کہ انہوں نے برطانوی راج کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور مارچ 1900 میں برطانوی افواج اور مملکت آشانتی کے عوام کے درمیان شروع ہونے والی جنگ پورے 6 مہینے تک جاری رہی۔

صرف ایک کرسی پر بیٹھنے کے لیے ہونے والی اِس جنگ میں 2000 آشانتی کےمعصوم عوام اور 1000 سے زائد برطانوی فوجی مارے گئے۔ آخر کار برطانوی افواج نے آشانتی کے بادشاہ اور سنہری کرسی کے نگہبان کو حراست میں لے کر سنہری کرسی کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے برطانوی گورنر فریڈرک ہوڈسن نے اِس سنہری کرسی پر ایک بار بیٹھنے کے بعد اِسے کسی خفیہ جگہ چھپا دیا تھا اور مرتے دم تک یہ راز برطانوی حکومت پر بھی افشاء نہ کیا، کیوںکہ اُسے ڈر تھا کہ اگر یہ سنہری کرسی برطانوی حکومت کے ہاتھ لگ گئی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اِسے آشانتی عوام کا دل جیتنے کے لیے دوبارہ مملکتِ آشانتی کے حوالے کردے۔

بہرکیف 1921 میں سڑک پر کام کرنے والے چند افریقی مزدوروں کو یہ سنہری کرسی مل ہی گئی، جو آج بھی آسانتے رائل پیلس، کماشی، گھانا میں محفوظ ہے۔

٭پالتو کُتے کی ہلاکت اور جنگ

یونان اور بلغاریہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف رہے ہیں۔ 1920 میں اِن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی سخت عروج پر تھی اور دونوںممالک کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے عوام بھی جب چاہتے سرحد عبور کرکے اپنے دشمن ملک کے شہریوں کی قیمتی املاک مثلاً گھوڑا، گائے، بھیڑ وغیرہ چُرا لیا کرتے تھے، چوںکہ اِس طرح کے انفرادی واقعات کی ذمے داری کسی ایک فریق پر ڈالنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اِس لیے چوری چکاری کی وارداتیں کسی بڑے سانحے کا سبب نہیں بنتی تھیں۔

لیکن اکتوبر 1925 میں ایک پالتو کتے کی ہلاکت نے یونان اور بلغاریہ کو باقاعدہ جنگ لڑنے پر مجبور کردیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک یونانی سپاہی کا کتا بلغاریہ کی حدود میں داخل ہوگیا جہاں بلغاریہ کے سپاہی نے اُسے ایک آوارہ کتا سمجھتے ہوئے گولی ماردی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ کتے کو گولی لگنے کا منظر یونانی سپاہی برداشت نہ کرسکا اور اس نے بھی بلغاریہ کی سرحد کی طرف جوابی فائرنگ کرنا شروع کردی۔

اس سے پہلے کہ دونوں طرف سے فائرنگ کا یہ سلسلہ کسی بڑے جانی نقصان پر منتج ہوتا ایک یونانی آفیسر نے سفید پرچم لہراکر اشارہ دیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لہذا دونوں طرف سے فوری طور پر سیز فائر ہوگیا۔

سرحد پر ہونے والی کشیدگی کی خبر جب یونان میں نئی نئی حکومت بنانے والے ڈکٹیٹر تک پہنچ تو اُس نے اسے اپنی توہین سمجھا اور بلغاریہ کو یونانی کتے کو مارنے والی سپاہی کی حوالگی کے لیے 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے دی۔ بلغاریہ نے 48 گھنٹے سے پہلے اپنی فوجوں کو یونان کی جانب پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیا۔

یونانی افواج، بلغاریہ کی طرف سے ہونے والی اچانک یلغار کا مقابلہ نہ کرسکیں اور اپنے کئی سرحدی علاقے گنوا بیٹھیں، جس پر یونان نے اپنے اتحادی سربیا کو بلغاریہ کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کی دعوت دے دی، جس کے بعد سربیا کی فوجوں نے بلغاریہ کی طرف پیش قدمی شروع کردی، جب کہ بلغاریہ جنگ بندی کے لیے لیگ آف نیشنز میں چلاگیا، لیکن جب تک لیگ آف نیشنز مداخلت کرتی دونوں ملکوں کے درمیان شروع ہونے والی جنگ میں 50 سے زائد افراد مارے جاچکے تھے۔

لیگ آف نیشن نے اِس جنگ میں یونان کو جارح قرار دے کر اُسے بلغاریہ کو ہرجانہ ادا کرنے کا پابند کیا اور یونان کے ڈکٹیٹر کو جنگی مجرم قرار دے کر حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔ یہ تمام واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی بات بڑھتے بڑھتے دو ملکوں کو ایک مکمل جنگ کے دہانے تک لے آتی ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے اپنا پالتو جانور خاص طور اپنے پالتو کتوں کو ہمیشہ باندھ کر رکھیں۔

٭فٹ بال میچ کے بعد جنگ کا کھیل

مشہورِ زمانہ ’’فٹ بال کی جنگ‘‘ 1969ء میں ایل سلواڈور اور ہنڈوراس کے درمیان لڑی گئی، جس میں 2000 سپاہی و شہری لقمہ اجل بنے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے کہ دونوں ٹیمیں1970 کے فٹبال ورلڈکپ میں اپنی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے سان سلواڈور میں کوالیفائنگ میچ میں ایک دوسرے کے مدمقابل آگئیں۔

میچ سنسنی خیز رہا اور اختتام تک بغیر کسی گول کے برابر بھی۔ فیفا قوانین کے مطابق میچ کو فیصلہ کن بنانے کے لیے دونوں ٹیموں کو کھیلنے کے لیے اضافی وقت دیا گیا، جس میں جلد ہی ایل سلواڈور کی ٹیم نے دو کے مقابلے میں تین گول کی برتری حاصل کرلی۔

جیسے جیسے میچ اپنے اختتامی لمحات کی جانب بڑھنے لگا ویسے ویسے تماشائی ایک دوسرے پر فقرے کسنے لگے۔ یہاں تک کہ میچ کے دوران ہی تماشائی آپس میں جھگڑنے لگے۔ ہاتھاپائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کھیل کا میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ میچ کے منتظمین نے میچ نامکمل ہونے کی وجہ سے بغیر ہارجیت کے ختم کردیا، جس پر پورے ایل سلوا ڈور میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، کیوںکہ ایل سلواڈور کے عوام کا ماننا تھا کہ آخری اسکور کے مطابق وہ فاتح تھے۔

ایل سلواڈور نے ہنڈوراس سے فٹ بال میچ میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنی فوج کو ہنڈوراس پر حملہ کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ ایل سلواڈور کی فوج نے14 جولائی کو ہنڈوراس پر چڑھائی کردی اور اپنی ایئرفورس سے ہنڈوراس پر زبردست قسم کی بم باری کی، جس کے جواب میں ہنڈوراس نے بھی بھرپور انداز میں فضائی کارروائیاں کیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان فٹبال میچ کے بعد شروع ہونے والا یہ جنگی کھیل چار روز تک جاری رہا، جس میں دو ہزار سے زاید معصوم جانیں ضایع ہوئیں اور تین لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے، جب کہ دونوں ممالک کو دنیا کے دیگر ممالک کی مداخلت پر جنگ بھی فٹ بال میچ کی طرح بغیر کسی کی ہار جیت کے برابر، برابر نقصان کی بنیاد پر ختم کرنا پڑی۔

٭چند آلوؤں پر شروع ہونے والی جنگ

برطانیہ اور امریکا کے درمیان 1846 میں اوریگن ٹریٹی کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں سان جوآن نامی جزیرہ کو مساوی طور پر دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت قرار دیا گیا تھا۔ معاہدے کے بعد برطانوی اور امریکی شہری انتہائی پرامن طور پر اِس جزیرے پر گزر بسر کررہے تھے کہ 1859 میں ایک روز ایک امریکی کا پالتو سور ایک برطانو ی کے کھیت میں داخل ہوگیا اور کاشت کی گئی آلوؤں کی تیار فصل سے تازہ تازہ لذیذ آلوکھانے لگا کہ اچانک کھیت کے مالک کی نظر سور پر پڑی اور اُس نے سور کو شاٹ گن سے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

سور کے مالک نے جزیرے کے حکام سے انصاف کا مطالبہ کردیا۔ برطانوی کسان نے سور کے مالک کو دس ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ لیکن سور کا مالک اِس جرمانہ پر راضی نہ ہوا اور برطانوی کسان کے خلاف ’’سور کے قتل‘‘ کا مقدمہ درج کرکے اُسے حوالہ زنداں کروادیا، جس پر جزیرے پر رہنے والے برطانوی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے کسان کی رہائی کے ساتھ ساتھ آلوؤں کی فصل کے ہونے والے نقصان کی بھرپائی پر سخت احتجاج شروع کردیا۔

یہ احتجاج اتنا بڑھا کہ برطانوی شہریوں نے امریکی شہریوں پر حملے کرنا شروع کردیئے جس پر امریکیوں نے امریکن آرمی سے مدد کی درخواست کی جس پر امریکی فوج نویں انفنٹری بٹالین جزیرے پر بھیج دی گئی، جس کے جواب میں برطانیہ نے بھی اپنی افواج جزیرے پر اُتار دی ۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان جنگی جھڑپیں ہونے لگی جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہی، جس میں جزیرے پر زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ آخر کار ایک ماہ تک ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونے کے بعد ایڈمرل رابرٹ نے اپنے اعلیٰ حکام کو احساس دلایا کہ دو عظیم ملکوں کی فوجیں کس حد تک عقل و شعور سے عاری ہوچکی ہیں کہ چند آلوؤں اور ایک سور کے لیے باقاعدہ جنگ کررہی ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا لیکن اُس وقت تک جزیرے میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوچکا تھا۔

The post بے تُکی جنگیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

سی آئی اے کا ’’آپریشن روبیکون‘‘

$
0
0

گیارہ فروری کو ممتاز امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک انوکھا انکشاف کیا۔ یہ کہ 1970ء سے لے کر 2018ء تک سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی، کرپٹو اے جی (Crypto AG)کی اصل مالک امریکا کی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے تھی۔

کرپٹو اے جی پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی جدید ترین مشینیں بناتی تھی۔اس کا شمار اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی حکومتیں کمپنی کی گاہک  تھیں۔ وہ مسلسل اڑتالیس سال تک کرپٹو اے جی سے سرکاری پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی مشینیں خریدتی رہیں۔مگر ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپنے جن  پیغامات کو وہ خفیہ اور محفوظ سمجھ رہی ہیں،حقیقتاً سبھی امریکی سی آئی اے کی دسترس میں ہیں۔

دراصل سی آئی اے کے ماہرین کرپٹو اے جی کی مشینوں میں ایسے ’’ٹروجن ہارس‘‘ رکھ دیتے تھے کہ بعدازاں ان کی مدد سے حکومتوں کی خفیہ پیغام رسانی تک رسائی حاصل ہوسکے۔اب اس فعل کو ہر کوئی اپنی عینک ہی سے دیکھے گا۔ عام امریکی تو کہہ رہے ہیں کہ سی آئی اے کے کارپردازان نے ذہانت و ہوشیاری کی اعلیٰ مثال قائم کردی۔ انہوں نے مخالفین کی جاسوسی کرنے کے لیے ایسا زبردست طریق کار دریافت کیا کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔سی آئی اے ایک سو بیس ملکوں کی حکومتوں کو بے وقوف بناکر ان کے اہم راز امریکی حکومت تک پہنچاتی رہی۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ کرپٹو اے جی کی خراب شدہ مشینوں سے سی آئی اے دوست ممالک کی پیغام رسانی بھی پڑھتی، جانتی رہی۔ ان ملکوں میں پاکستان، وٹیکن سٹی، اٹلی، آئرلینڈ، ترکی، اسپین، مصر، اردن، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات حتیٰ کہ جاپان اور جنوبی کوریا تک شامل ہیں۔ ان ممالک نے تو کرپٹو اے جی کی مشینیں اسی لیے خریدیں کہ اپنی اہم نوعیت کی پیغام رسانی  خفیہ رکھ سکیں۔ شاید وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ دراصل ایک فراڈ ہے… زبردست دھوکا جو سی آئی اے نے انہیں دیا۔

انسانی اقدار و روایات پامال

اس زاوئیے سے دیکھا جائے تو سی آئی اے اور اس کی شریک کار یورپی خفیہ ایجنسیاں مجرم قرار پاتی ہیں کیونکہ انہوں نے جانتے بوجھتے دوست ممالک کو ناقص مشینیں مہیا کیں اور چوری چھپے، غیر اخلاقی طور پر ان کی خفیہ پیغام رسانی کا معائنہ کرتی رہیں۔ اسی طرح امریکی حکمران طبقہ جھوٹا، فراڈیا اور دھوکے باز ثابت ہوگیا۔ البتہ بہت سے امریکی کہہ سکتے ہیں کہ قومی سلامتی اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ان کی حکومت نے جائز اقدام کیا۔ دوسروں کی جاسوسی کرنے کے لیے امریکی حکومت پر جائز اور ناجائز اقدامات اختیار کرسکتی ہے۔ اسی نظریے کے باعث امریکی حکمران طبقہ پچھلے ایک سو برس سے کئی انسانی اقدار و روایات پامال کرتا چلا آرہا ہے۔ بہت سے مواقع پر اس نے قانون و اخلاقیات کو پیروں تلے روند ڈالا اور نام نہاد قوم پرستی کی وجہ سے اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا۔

ماضی ایک نظر میں

کرپٹو اے جی کی بنیاد 1920ء میں سویڈن کے شہر، اسٹاک ہوم میں سویڈش انجینئر ،ارود جیئرہارڈ  نے رکھی تھی۔ ارود جیئرہارڈ پیغام خفیہ رکھنے والی مشینیں بنانے کا ماہر تھا۔ اس کمپنی میں کارل ولیم ہیگلین نے بھی سرمایہ کاری کی۔ 1925ء میں کارل کا بیٹا، بورس ہیگلین کمپنی کا جنرل میجر بن گیا۔ 1927ء میں ارود جیئر ہارڈ چل بسا تو حصے داروں نے بورس کو کمپنی کا چیف ایگزٹیو آفیسر بنا دیا۔کاروبار پھیلانے کے لیے بورس نے امریکا کے کئی دورے کیے۔ وہ چاہتا تھا کہ امریکی افواج کمپنی کی مشنیں خرید لے۔ امریکا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی، این ایس اے، سی آئی اے اور امریکی افواج کے کئی افسر اس کے دوست بن گئے۔ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑگئی۔ اس جنگ کے دوران وہ امریکی افواج کو کمپنی کی ایک لاکھ چالیس ہزار مشینیں فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔

1948ء میں بورس ہیگلین نے کمپنی کو سویڈن سے سوئٹزرلینڈ میں منتقل کردیا۔ تب اس کا نام بھی اے بی کرپٹو ٹیکنک سے بدل کر کرپٹو اے جی رکھ دیا گیا۔ بورس بھی میکینکل انجینئر تھا۔ اس نے بھی پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی جدید مشینوں کی ایجاد میں حصہ لیا۔ خاص بات یہ کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اشتراک سے اپنی مشینیں بیرون ممالک فروخت کرنے لگا۔ اگرچہ یہ اشتراک بہت خفیہ تھا اور کئی سال بعد اس وقت ہی افشا ہوا جب میڈیا اسے سامنے لانے میں کامیاب رہا۔ مزید براں یہ اشتراک صرف اس امر تک محدود تھا کہ کرپٹو اے جی کن ممالک کو مشینیں فروخت کرے اور کون سے ملکوں کو انکار کردے۔ بعض اوقات امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ہدایت پر بعض ممالک کو کم جدید مشینیں بھی فروخت کی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے، امریکی حکمران طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ ان ممالک میں پیغام رسانی خفیہ رکھنے کا نظام مضبوط و موثر ہوسکے۔

1970ء میں بورس ہیگلین ریٹائر ہوگیا۔ اسی سال سی آئی اے نے جرمن خفیہ ایجنسی، بی این ڈی کے اشتراک سے کرپٹو اے جی خریدلی۔ یہ خریداری انتہائی خفیہ رکھی گئی۔ دونوں خفیہ ایجنسیوں نے اس ضمن میں ستاون لاکھ پچاس ہزار ڈالر ادا کیے۔ اب کمپنی میں دونوں خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین کی نگرانی میں ایسی مشینیں بننے لگیں جن میں پوشیدہ طور پر کوڈورڈ رکھ دیئے جاتے۔ جب یہ مشینیں مختلف حکومتیں خریدتیں تو چھپائے گئے کوڈورڈز کے ذریعے سی آئی اے ان کی خفیہ پیغام رسانی افشا کرلیتی۔ یوں امریکا اور جرمنی کی خفیہ ایجنسیاں جان جاتیں کہ فلاں حکومت میں کسی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

ایک سو بیس ممالک کی خفیہ پیغام رسانی پڑھنے و جاننے کے اس خفیہ امریکن و جرمن آپریشن کا پہلا نام ’’تھیسارس‘‘(Thesaurus) تھا۔ پھر اس انتہائی چالاکی سے بنائے گئے منصوبے کو ’’آپریشن روبیکون‘‘(Operation Rubicon) کا نام دیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ دونوں خفیہ ایجنسیوں کو ممالک کی پیغام رسانی پڑھنے سے جو معلومات حاصل ہوتیں، وہ چار پانچ دیگر ممالک سے شیئر کی جاتیں۔ ان میں برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل شامل ہوسکتے ہیں۔

بھٹو سے مشرف دور تک

پاکستانی حکومتیں بھی وقتاً فوقتاً کرپٹو اے جی کی تیار کردہ مشینیں خریدتی رہی ہیں۔ امریکی اخبارکی رپورٹ میں درج نہیں کہ پاکستانی حکومت کی خفیہ پیغام رسانی سے سی آئی اے کو کس قسم کا اور کتنا فائدہ پہنچا۔ لیکن یہ عیاں ہے کہ اپنی تخلیق کردہ رمزی مشینوں کی مدد سے امریکی خفیہ ایجنسی پاکستان کے کئی اہم قومی راز جاننے میں کامیاب رہی ہوگی… ایسے راز جو خاص طور پر پاکستانی ایٹمی پروگرام اور اسلام آباد میں جاری سیاسی چپقلشوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

1970ء سے لے کر 2018ء تک پاکستان میں بعض اہم اور انقلاب انگیز واقعات جنم لے چکے۔ حیرتناک بات یہ کہ اکثر میں امریکا کا کردار واضح نظر آتا ہے۔ مثال کے طور ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ 1975ء میں بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکا کو اس فیصلے کی خبر مل گئی۔ چناں چہ امریکیوں نے بھٹو صاحب پر زبردست دباؤ ڈالا کہ وہ ایٹمی منصوبہ شروع نہ کریں۔ بھٹو صاحب کے انکار پر انہیں راہ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے درج بالا فیصلے کی سن گن امریکیوں کو کرپٹو اے جی کی فراہم کردہ مشینوں سے ہوئی پیغام رسانی کے ذریعے بھی ملی ہو۔ان مشینوں کا ثبوت ناقابل تردید تھا۔

اسی طرح 1987ء میں امریکا اچانک افغانستان میں سویت فوج کے خلاف جاری افغانوں کے جہاد سے لاتعلق ہوگیا اور پاکستانی صدر، ضیاء الحق نے اپنے آپ کو یکا و تنہا پایا۔ اس زمانے کے پاکستانی سفارتکاروں کی یادداشتوں اور آپ بیتیوں میں لکھا ہے کہ صدر ضیاء الحق امریکی حکمران طبقے سے بہت ناراض تھے۔ حتیٰ کہ وہ محفلوں میں کہنے لگے ’’امریکی (حکمران)سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ان کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ امریکی حکومت یاد رکھے کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ اگر ہم سویت یونین کو شکست دے سکتے ہیں تو امریکا کا مقابلہ کرنا بھی ممکن ہے۔‘‘ امریکی حکمران طبقے کا مخالف بن جانے کے بعد جلد ہی پاکستانی صدر ہوائی جہاز کے پُراسرار حادثے میں شہید ہوگئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کرپٹو اے جی کی مشینوں کے ذریعے سی آئی اے کو اطلاعات مل رہی ہوں کہ صدر ضیاء الحق اب امریکی مفادات کے خلاف سرگرم ہوچکے۔ اسی لیے انہیں راہ سے ہٹا دیا گیا۔

ستمبر 2001ء میں پُراسرار ہائی جیکروں نے امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جہاز ٹکرا کر گرا ڈالا۔ حیرت انگیز امر یہ کہ محض ایک گھنٹے بعد پورا امریکی میڈیا یہ اعلان کرنے لگا کہ ہائی جیکروں کو اسامہ بن لادن نے بھجوایا تھا۔ ممکن ہے کہ سعودی اور پاکستانی حکومتوں کی خفیہ پیغام رسانی کا جائزہ لینے کے بعد امریکی حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ حملہ القاعدہ نے کرایا ہے۔ حملے کے فوراً بعد امریکی حکمرانوں نے ایک طرح سے پاکستانی حکومت پر چڑھائی کردی۔اس وقت پرویز مشرف پاکستانی صدر تھے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ امریکا کی طرف داری کریں یا طالبان کے حمایتی بن کر اس کے دشمن کہلائیں۔ سفارتکاروں کی یادداشتوں سے عیاں ہے، امریکیوں نے پاکستانی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکا سے تعاون نہ کیا، تو پاکستان بھی امریکی جنگ کا نشانہ بن جائے گا۔یہ دوسری بات ہے کہ امریکا کا ساتھی بن کر بھی پاکستان اگلے سترہ اٹھارہ سال تک دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔

غیر جانب دار ملک کا فائدہ

یہ عیاں ہے،پچھلے تیس چالیس سال کے دوران  پاکستانی حکمران طبقہ تعجب وحیرت سے سوچتا ہوگا کہ ان کی خفیہ باتیں امریکی حکومت کو کیسے پتا چل جاتی ہیں؟ اب یہ سچ سامنے آیا کہ یہ کرپٹو اے جی کی ناقص مشینیوں کا کمال تھا۔ یہ مشینیں بظاہر ایک غیر جانب دار ملک، سوئٹزر لینڈ کی ساختہ تھیں، مگر حقیقتاً سی آئی اے نے انہیں اپنا مشینی جاسوس بنا دیا تھا۔ یوں سوئٹزر لینڈ کی غیر جانبدارانہ حیثیت سے امریکی خفیہ ایجنسی نے فائدہ اٹھایا اور کئی ممالک کے اہم قومی راز چوری کرنے میں کامیاب رہی۔

امریکا میں میڈیا خاصی حد تک امریکی حکومت کے تابع ہوچکا۔ خاص طور پر وہ قومی سلامتی سے متعلق حساس موضوعات پر کچھ دینے سے قبل بڑی احتیاط برتتا ہے۔ حیرت ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے کیونکر امریکی حکمران طبقے کا یہ اہم راز افشا کردیا کہ سی آئی اے کرپٹو اے جی کی مشینوں کے ذریعے سینکڑوں ممالک کی جاسوسی کرتی رہی؟ اس انکشاف سے بہرحال امریکا کی جاسوس کمیونٹی کو نقصان پہنچا۔ اب ہر حکومت امریکا یا یورپی ممالک کی ایسی مشینیں خریدنے سے قبل ہزارہا بار سوچیں گی جو خفیہ پیغام رسانی اور قومی نوعیت کی پوشیدہ سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

یہ انکشاف بہرحال یہ پہلو بھی رکھتا ہے کہ امریکی و جرمن خفیہ ایجنسیوں کے کار پرداز بڑے ذہین، چالاک اور سمجھدار ہیں۔ انہوں نے بڑی ذہانت سے کئی ممالک کو اپنی مشینیں بیچ کر انہیں چکمہ دیا اور ان کے اہم نوعیت والے راز حاصل کرتے رہے۔ ممکن ہے، سی آئی اے کی عظمت و رفعت ثابت کرنے کی خاطر امریکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ کرپٹو اے جی کی اصلیت افشا کردی جائے۔ یہ کمپنی 2018ء میں کام بند کرچکی۔ لہٰذا اب یہ خطرہ بھی نہیں رہا تھا کہ اس کا کاروبار متاثر ہوگا۔

حکمران طبقے کی تبدیلی ِمعکوس

آج کل امریکا اور اس کے ہمنوا یورپی ممالک نے چین کی کمپنی، ہواوے کے خلاف زبردست مہم چلا رکھی ہے۔ چینی کمپنی مواصلات سے متعلق آلات، مشینیں اور 4 و 5ٹیکنالوجی بناتی ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ چینی کمپنی اپنی مشینوں میں ایسے رمزی کوڈ چھپاتی ہے جن کی مدد سے وہ بعدازاں پیغامات پڑھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ ہواوے کئی بار اعلان کرچکی کہ یہ محض الزام ہے۔ وہ اپنی مشینوں، آلات اور ٹیکنالوجی میں کسی قسم کے فراڈی سافٹ ویئر پوشیدہ نہیں رکھتی۔ دنیا بھر کے ماہرین حیران تھے کہ آخر امریکی حکمرانوںکو  چینی کمپنی پر شک کیوں ہے؟ اب یہ سچائی سامنے آئی ہے کہ امریکی حکمران ٹیلی کمیونیکیشن کی مشینوں اور آلات میں جاسوسی کے کوڈ ورڈز چھپاتے رہے ہیں۔ ان کے دل میں چور ہے، اسی لیے وہ دوسروں کو بھی دھوکے باز اور فراڈی سمجھتے ہیں۔

امریکا کے حکمران طبقے کی تبدیلی ِمعکوس حیران کن اور سبق آموز  ہے۔ اوائل میں یہ طبقہ بنجمن فرینکلن، جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، جیمز میڈیسن، ابراہام لنکن جیسے مدبروں اور دانشوروں پر مشتمل تھا۔ یہ رہنما جمہوریت، انسانی حقوق اور عدل و انصاف پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی میں امریکی حکمران طبقہ مادہ پرستی اور زر، زن، زمین کے چنگل میں پھنس گیا۔ تبھی سے وہ اپنا اقتدار اور طاقت برقرار رکھنے کی خاطر ہر قسم کی بدی اپنانے  سے بھی گریز نہیں کرتا۔آپریشن روبیکون اس سچائی کا بین ثبوت ہے۔

The post سی آئی اے کا ’’آپریشن روبیکون‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>