Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

پھل کھانا
سید نفیس شاہ، ملتان

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کچھ خریدنے بازار جا رہا ہوں۔ وہاں ریڑھی والے سے خوبصورت انار دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کچھ خرید لوں۔ دوکاندار سے قیمت پوچھ کر کچھ انار لے لیتا ہوں ۔گھر آ کر وہ انار بیگم کو دیتا ہوں۔ بچے بھی آ جاتے ہیں اور بیگم چھری سے کاٹ کے ایک پلیٹ میں بھر دیتی ہے۔ اس کے دانے بہت ہی خوشنما اور سرخ ہوتے ہیں۔ ہم سب مل کے اس کو کھاتے ہیں پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے رزق میں برکت ہو گی جس سے کاروباری و گھریلو امور میں بھی بہتری آئے گی۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی اولاد نرینہ کی خوشی عطا کریں ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں ۔

 محفل میلاد میں شرکت
محمد یونس، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے محلہ کے ایک گھر میں ایک محفل میلاد ہو رہی ہے۔ میں اس محفل میں شرکت کے لئے اپنے دوست کے ساتھ جاتا ہوں۔ وہاں بڑے اچھے اچھے نعت خواں تشریف لائے ہوتے ہیں۔ یہ نعت خواں ہمارے نبیﷺ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کلام بہت اچھا ہوتا ہے۔ میں بھی اس محفل کو سننے کے لئے وہاں ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے دین و دنیا میں بھلائی ہو گی۔ آپ کے کاروبار میں ترقی ہو گی جس سے مال و وسائل دونوں میں بہتری آئے گی ۔ دین کے ساتھ وابستگی زیادہ ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں۔ رات کو سونے سے پہلے حضور نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ لازمی کیا کریں۔

باجرے کی روٹی، ساگ اور مکھن
عائشہ رانی، ساہیوال

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنی خالہ کے پاس گاؤں آئی ہوئی ہوں ۔ میری خالہ دوپہر کے کھانے میں باجرہ کی روٹی اور لسی مکھن لاتی ہیں۔ وہ گرم گرم باجرے کی روٹی کے اوپر مکھن کا ایک پیڑا رکھتی ہیں جس سے روٹی نرم ہو جاتی ہے۔ میں ساگ کے ساتھ روٹی کھاتی ہوں تو مجھے بہت مزہ آتا ہے۔ساتھ ساتھ میں خالہ سے باتیں بھی کر رہی ہوتی ہوں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی ۔ اس سے وسائل میں بھی برکت ہو گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی دلی مراد پوری ہو جائے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

چچا شکرقندی لاتے ہیں
چودھری نواز علی، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گاوں میں ہوں اور میرے چچا ہمارے لئے شکر قندی لاتے ہیں۔ ہماری چچی سب کے لئے دودھ میں وہ شکر قندی پکا کے لاتی ہیں ۔ ہم سب لوگ بہت مزے سے اس کو کھاتے ہیں ۔ اس کا ذائقہ بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو رزق حلال میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے کوئی خوشی کی خبر عطا فرمائیں گے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

مرشد کی خانقاہ
نصیر احمد،چیچہ وطنی

خواب : میں نے دیکھا کہ اپنے مرشد کی خانقاہ میں ہوں ۔ وہاں پہ میرے بہت سے پیر بھائی ہوتے ہیں جو صفائی کر رہے ہوتے ہیں ۔کچھ کھانا پکا رہے ہوتے ہیں۔ میں مسجد والے حصے میں جاتا ہوں تو وہاں بھی بہت سے لوگ حلقہ بنا کر بآواز بلند ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرشد کریم کی خانقاہ ہر طرف آباد ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے بزرگوں سے فیض ملے گا۔ اور ان کی خدمت کرنے کی بھی سعادت حاصل ہو گی۔ دین و دنیا دونوں میں کامیابی ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد جاری رکھا کریں۔کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

کالج میں فنکشن
 خالد حسین ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے کالج میں کوئی فنکشن ہے جس میں خوب شور شرابا ہو رہا ہے۔ میرا دوست مجھے بیگ دے کر کسی کام سے جاتا ہے تو میں اس کا بیگ کھول کر اندر سے چیزیں دیکھنے لگتا ہوں پھر کچھ ڈنڈے نما سٹکس نکال کر پاس پڑے ڈرموں کو ڈھول کی طرح بجانے لگتا ھوں ۔ میرے باقی کلاس فیلوز اس پہ نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں مگر میں کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے رکے بنا یہی کرتا چلا جاتا ہوں ۔

تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی راز جو آپ نے ابھی تک پوشیدہ رکھا ہوا ہے وہ فاش ہو جائے گا ۔ مقاصد میں گڑ بڑ ہو سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے ۔کاروبار میں جن لوگوں پر آپ کو اعتماد تھا وہ بھی آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں ۔کاروبار میں عقل سے کام لیں اور منصوبہ بندی کے تحت کاروبار کریں۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

باغ کی سیر
نسیمہ اختر، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں ایک باغ میں سیر کرنے جاتی ہوں ۔ میرے ساتھ میری بیٹی اور بہو بھی ہوتی ہے۔ باغ میں بہت رونق ہوتی ہے۔ بہت زیادہ خواتین و حضرات سیر کرنے آئے ہوتے ہیں ۔ ہم تینوں بھی سیر کے لئے باغ کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پہ میری بہو مجھے کہتی ہے کہ تیز نہ چلیں آپ کے گھٹنے میں مسلہ ہو گا ۔ میں اس کی بات مان کر ا دھر ہی رک جاتی ہوں ۔اس وقت باغ میں بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی ہے۔ اس سے میری طبیعت بہت خوش ہوتی ہے۔ پھر میں ایک جگہ بہنچ کے اوپر بیٹھ جاتی ہوں جبکہ میری بہو اور بیٹی باغ کی سیر کو چل دیتی ہیں اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کو راحت و آرام نصیب ہو گا ۔ پریشانیوں سے نجات ملے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خوشخبری ملے ۔ کاروبار میں بھی اضافہ ہو گا جس سے گھر میں آرام و سکون ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

جوتا گم ہونا
تانیہ مقدس بیگ ، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی ھمسائے کے ساتھ کسی کے گھر میلاد پہ آئی ہوں وہاں سے فارغ ہو کے میں واپسی کے لئے نکلتی ہوں تو مجھے میرے جوتے کہیں نظر نہیں آتے ۔ میں بہت پریشان ہوتی ہوں، میزبان بھی میرے ساتھ مل کے تلاش کرتی ہیں مگر مجھے نہیں ملتے۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر سے ایک جوتا پہننے کے لئے دیتی ہیں، میں پہن تو لیتی ھوں مگر دل میں بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں ۔

تعبیر : یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو زندگی میں کوئی مسلہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے گھر میں پریشانی و نا چاقی ہو سکتی ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار کیا کریں۔ مراقبہ میں بھی دعا کرا دی جائے گی ۔

 گھر میں بزرگوں کی آمد
طیبہ فرقان ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میرے میاں کے بزرگ تشریف لائے ہیں۔ ان کی آمد سے پہلے میں گھر میں صفائی ستھرائی کر کے ہر چیز تیار کر دیتی ہوں۔ مگر اچانک مجھے خیال آتا ہے کہ قلم دان کی بھی ضرورت پڑے گی کیونکہ وہ لازمی میرے میاں کو کچھ نہ کچھ لکھ کر دیتے ہیں۔ یہ سوچ کہ میں مختلف پین نکالتی ہوں اور ان کو اچھی طرح صاف کر کے ان میں سیاہی بھرتی ہوں۔ اور اچھی طرح ہر چیز تیار کر کے رکھ دیتی ہوں۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی خاص طور پر اولاد سے متعلقہ اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پر مستحکم ہوں گے۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں۔

دار چینی کھانا
 محمود نعمان، لاہور

خواب : یہ خواب میرے میاں نے دیکھا کہ وہ گھر میں اکیلے ہیں اور سو رہے ہیں۔ اور خواب دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ کچن میں موجود ہیں ۔ کچھ پکانے کے لئے اور وہاں ایک ڈبے میں کچھ دارچینی کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں جو وہ کھاتے جاتے ہیں۔ اگرچہ ذائقہ بھی ان کو اچھا نہیں لگتا اور نہ ہی ان کو دار چینی پسند ہے، مگر مجبوراً کھا رہے ہوتے ہیں۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

دوستوں کا مذاق کرنا
غلام علی،لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے کالج آیا ہوا ہوں۔ کلاس کے بعد سارے دوستوں کے ساتھ ملتا ہوں مگر سب لوگ مجھے دیکھ کر مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں کیونکہ میری جو ہلکی سی داڑھی ہوتی ہے وہ کم از کم میری ناف کے برابر آ چکی ہوتی ہے۔ اس پر میں خود بھی بہت خوفزدہ ہو جاتا ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری، قرضے کے مسائل یا کسی ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

 امی کے ساتھ شاپنگ کرنا
 مسکان علی، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی امی کے ساتھ شاپنگ کرنے مارکیٹ آئی ہوئی ہوں ۔ میری امی مجھ سے پوچھتی ہیں کہ جو لینا ہے جلدی سے لے لو تا کہ دوبارہ نہ آنا پڑے۔ یہ سن کر میں کتابوں کی دوکان کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھتی ہوں کہ مجھے تو بس قرآن پاک خریدنا ہے تو وہی لوں گی اس کے علاوہ کچھ نھی لینا۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی۔ گھریلو وکاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

بادلوں کو چھونا
صالحہ جواد علی، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کی چھت پہ کھڑی ہوں۔ موسم بہت خوبصورت ہے۔ میں بھی اس کو انجوائے کرنے کے لئے اوپر کھڑی ہوں۔ بادلوں کے ٹکڑے آسمان پہ تیزی سے تیر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کہ مجھے مزہ آ رہا ہوتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ابھی بارش ہو جائے گی۔ بادل مجھے اتنے پیارے لگ رہے ہوتے ہیں کہ میں ہاتھ بڑھاتی ہوں تو آسمان کو چھونے لگ جاتی ہوں۔ جبکہ مجھے اس بات پہ نہ تو کوئی حیرت ہو رہی ہوتی ہے نہ میں کچھ سوچتی ہوں بس ایسے ہی جیسے یہ میری روزمرہ کی عادت ہو ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

کمرے میں بچھو
خانزادی ، اسلام آباد

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں اور جب اپنے کمرے میں بیڈ کے نیچے جھاڑو لگاتی ہوں تو ادھر سے ایک خوفناک بڑے سائز کا بچھو نکل کے میری طرف بھاگتا ہے۔ میں مارے گھبراہٹ کے کمرے سے باہر کی طرف بھاگ جاتی ہوں ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا دشمنی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

 

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک دن کا بادشاہ

$
0
0

چترال: قدرت نے بعض علاقوں اور مقامات کو ہر طرح کی موسمی خوب صورتی اور قدرتی نظاروں سے نوازا ہے، پاکستان میں ملکہ کہسار مری، گلیات، ناردرن ایریاز، سوات، دیر اپنے قدرتی حسن ومناظر کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن چترال کی کالاش وادیوں کی خوب صورتی ہر موسم میں اپنے منفرد کلچر کی وجہ سے ان سب میں یکتا ہے۔

کالاش کی وادی میں اگر ایک طرف پہاڑوں، آبشاروں، قدرتی جنگلات ، پھل دار درختوں ، دودھ کی رنگت جیسا بہتا پانی ، مال مویشی، سبزہ اور ان گنت چیزیں دعوت نظارہ دیتی ہیں تو دوسری جانب ساڑھے چار ہزار سال قدیم تہذیب کے حامل کالاش قبیلے کے لوگوں کی سال بھر نہ ختم ہونے والے اور یکے بعد دیگرے انجام پانے والے تہوار اور رسوم سیاحوں کے لیے انتہائی دل چسپی کا باعث ہیں۔

بہت سارے مقامی وغیرمقامی سیاحوں ا ور لوگوں کا خیال ہے کہ کالاش کی وادیوں کی سردیوں کی خوب صورتی گرمیوں کی نسبت زیادہ دل کش ہوتی ہے اور خود مقامی لوگ بھی سردی کو زیادہ پسند اور اس موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں کیوںکہ سردی کے موسم میں جب وادیاں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں تو کھیتی باڑی اور دیگر کام کاج مکمل طور پر رُک جاتے ہیں اور یہاں باسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے جمع کردہ اشیاء کو کھاتے، موج اُڑاتے، کھیل کود اور دیگر رسوم میں وقت گزارتے ہیں، سردیوں کی ان رسومات میں سے بادشاہ کا انتخاب سب سے دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے۔

دنیا میں اس کی مثال ہو یا نہ ہو لیکن کالاش ویلیز میں ایک دن یا نصف دن کے لیے بادشاہ کے انتخاب کی رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اب تک سینکڑوں افراد بادشاہ (میتار) کا لقب حاصل کر چکے ہیں جب کہ اس دوران ہزاروں مال مویشی ذبح کرکے میتار بننے کی خوشی میں دعوت پر لٹائے جاچکے ہیں۔ میتار بنانے کی یہ رسم آج بھی انتہائی دل چسپی اور جوش و جذبے سے ادا کی جاتی ہے۔ حال ہی میں شدید برف باری کے بعد بمبوریت ویلی میں گاؤں انیڑ کی دو ٹیموں کے مابین کالاش قبیلے کا مشہور ومعروف سرمائی کھیل کریک گاڑ (سنوگاف) کا مقابلہ ہوا، ٹیموں کی شناخت شادی شدہ اور غیرشدہ کے نام سے کی گئی تھی جس میں غیرشادی شدہ کھلاڑیوں کی ٹیم نے مد مقابل شادی شدہ ٹیم کو ٹکنے نہیں دیا اور زبردست کھیل پیش کرکے ایک کے مقابلے میں تین گولوں سے کام یابی حاصل کی۔ اس کام یابی پر منعقد ہونے والا جشن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہر کوئی کام یابی پر مدہوش اور ڈھول کی تھاپ پر محو رقص تھا۔

اس جشن کی رنگینوں میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب گاؤں کے لوگوں نے حسب روایت کالاش نوجوان خوش ولی کو میتار (بادشاہ) چُن لیا۔ بادشاہ کو کندھوں پر اُٹھاکر مخصوص گیت گائے گئے اور ڈھول کی تھاپ پر ناچتے گاتے اُسے گاؤں میں پھرایا گیا۔ خصوصی لباس چپان اور ٹوپی پہنائی گئی۔ گاؤں کے لوگ انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے باری باری میتار سے گلے ملے اور مبارک باد دی جب کہ خواتین نے نئے بننے والے میتار پر اخروٹ اور خشک میوہ جات کی برسات کردی۔ میتار (بادشاہ) کے انتخاب کے موقع پر مقامی لوگوں اور سیاحوں کا ایک جم غفیر موجود تھا اور یہ گمان ہورہا تھا کہ جیسے حقیقی معنوں میں کسی بادشاہ کا انتخاب کیا گیا ہے اور اُس کی تاج پوشی کی جارہی ہے۔

اس موقع پر منتخب شدہ میتار نے گاؤں کے باسیوں اور مہمانوں کے لیے ایک بیل ذبح کرکے اسپیشل ڈش (جوش) کی ضیافت دی۔ حسب روایت دیسی گھی سے تیار ہونے والی اس اسپیشل ڈش پر تقریباً ڈھائی لاکھ روپے صرف ہوئے، کیوںکہ کالاش طریقے کے مطابق گوشت کا الگ حصہ، اسپیشل ڈش (جوش) دیسی گھی کی پیالی اور روٹی ہر ایک میں تقسیم کی گئی۔ رات بھر اس خوشی میں موسیقی کی محفل جمی رہی جس میں نوجوانوں نے خوب جی بھرکر ڈانس کرکے شدید سردی کو مات دے دی۔ اس موقع پر بادشاہ کے احکامات کی بجا آوری کے لیے ایک اور نوجوان نجیب اللہ کالاشی کو بطور وزیر بھی منتخب کیا گیا، جس نے حاضر مہمانوں کے لیے بکرا ذبح کر کے دعوت دی۔

کالاش وادیوں میں شدید برف باری کے دوران زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کھیلوں اور دعوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ گویا مل بیٹھنے اور سردی کا مقابلہ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ بادشاہ کے احکامات پر عمل درآمد کے کئی قصے بھی مشہور ہیں اور جب بادشاہ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی بجاآوری لازمی تصور کی جاتی ہے۔ کئی مرتبہ میتار (بادشاہ) نے گاؤں کے رہائشی دوسرے افراد کو مال مویشی ذبح کرکے دعوت دینے کے احکامات دیے۔ تو پورے گاؤں کے لوگوں نے اپنا حصہ ڈال کر ضیافت کا اہتمام کیا۔ بادشاہ کسی کو کوئی عنایت کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی بجا آوری کی جاتی ہے۔ سیکڑوں افراد میتار کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کے لیے دعوت وضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے کیوں کہ یہی عمل بادشاہ کے لیے کالاش برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے اور فخر کی بات ہوتی ہے۔

برادری میں یہ رسم پُشت در پُشت اور سینہ بسینہ چلی آرہی ہے۔ مذہبی تہواروں اور خاندانی خوشی غمی میں نہایت فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی پیشوا، بیٹان وغیرہ جب اس حوالے سے اپنے مخصوص انداز میں تاریخ بیان کرتے ہیں تو کالاش بزرگ مردو خواتین اُن کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی انہماک سے اْنہیں سنتے ہیں اور اگلی نسل کو منتقل کرنے کے لیے یہ باتیں یاد کرتے ہیں۔ کالاش وادیوں کی یہ ثقافت شاید ہی دنیا میں کہیں پائی جاتی ہو کیوںکہ یہ دنیا کی واحد نسل ہے جو چترال کی تین وادیوں میں آباد ہے۔

گیارہویں صدی عیسوی تک کالاش حکم رانوں کی حکومت افغانستان کے کنڑ صوبہ کے صدر مقام اسد آباد (چغنسرائے) سے چترال کے بالائی علاقہ موڑکہوہ تک پھیلی ہوئی تھی، جس کی باقیات چترال کے کئی مقامات پر آج بھی موجود ہیں۔ بادشاہ بننے کی یہ رسم اصل بادشاہت کو زندہ رکھنے اور اپنی تاریخی حیثیت کو دوام بخشنے کی کوشش ہے اور ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے کالاش قبیلے کے لوگوں کو تہذیب و تمدن سے عاری سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تہذیب و تمدن اور حکومت کے رموز و آداب سے پوری طرح واقف ہیں اور انہوں نے چترال اور افغانستان کی طویل وادی میں صدیوں تک حکومت کی۔

چترال کی کالاش وادیاں جہاں موسم گرما میں تمام سیاحوں کے لیے انتہائی دل چسپی اور کشش کا باعث ہوتی ہیں، وہیں موسم سرما میں مہماتی سیاحوں اور کلچرل سیاحوں کے لیے یہ جنت سے کم نہیں اور وہ یہاں آنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیاحت کو فروغ دینے کے سلسلے میں اقدامات کے بعد ان علاقوں کی رونقیں مزید بڑھ چکی ہیں اور امسال تقریباً دو لاکھ سیاحوں نے چترال اور کالاش کی وادیوں کی سیر کی، جس کے باعث یہاں کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

سرمائی سیاحت میں دل چسپی رکھنے والے سیاحوں خصوصاً فیملی کے ساتھ آنے والے سیاحوں کے لیے یہ بات کسی خوش خبری سے کم نہیں کہ ان وادیوں میں کئی مقامات پر گیسٹ ہاؤسز تعمیر ہو چکے ہیں جن میں اعلیٰ معیار کی سہولیات سیاحوں کو دست یاب ہیں۔ یہ گیسٹ ہاؤسز زیادہ تر کالاش کی تعلیم یافتہ خواتین چلارہی ہیں اور ان میں گھر جیسا ماحول میسر ہے، جب کہ ان میں کالاش تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

اسی طرح ٹی سی کے پی کے زیرانتظام کیمپنگ پاڈ کی تعمیر بھی آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ کالاش کی وادیوں میں اب بھی بڑی تعداد میں سیاح موجود ہیں اورکریک گاڑ (سنوگاف) کے مقابلے بھی جاری ہیں۔ ہر روز ایک گاؤں کا مقابلہ دوسرے گاؤں سے ہوتا ہے جس کے باعث برف پر زندگی سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہے۔ کریک گاڑ کا یہ مقابلہ بمبوریت کے بالائی مقام شیخاندہ میں بھی جاری ہے۔ گذشتہ سال کاتی کلچر آرگنائزیشن کے زیرانتظام سنوگاف ٹورنامنٹ کے فائنل میں گبور ٹیم نے کام یابی حاصل کی تھی اور یہ مقابلے ایک ماہ تک جاری رہے۔ شیخان قبیلہ جسے قریش بھی کہا جاتا ہے، کا دعویٰ ہے کہ کریک گاڑ جسے وہ اپنی زبان شیخانوار میں مچئے کہتے ہیں، اصل میں ان کا کھیل ہے۔

اس حوالے سے علاقے کی ممتاز سیاسی اور سماجی شخصیت سابق ناظم یوسی ایون عبدالمجید قریشی کا کہنا ہے کہ دراصل کریک گاڑ (سنوگاف) نورستان (افغانستان) میں کھیلا جاتا ہے، تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل جب پہلی مرتبہ ان کے آباؤاجداد نورستان سے آکر مہترچترال کی اجازت سے شیخاندہ میں آباد ہوئے، تب سے اس کھیل کو کالاش وادیوں میں فروغ ملا اور کالاش قبیلے کے لوگ بھی یہ کھیل کھیلنے لگے۔

اسی طرح بادشاہ (میتار) کے چناؤ کی رسم بھی ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔ ممتاز سوشل ورکر کالاشی نوجوان لوک رحمت کا کہنا ہے کہ چاہے یہ رسم کہیں سے بھی آئی ہو ہمیں یہ دل وجان سے زیادہ عزیز ہے۔ اسی طرح کریک گاڑ (سنوگاف) کو کالاش قبیلے میں بہت پذیرائی ملی اور اب یہ کھیل وادی میں بسنے والے شیخان، کھو اور کالاش قبیلے سب کا مقبول کھیل بن گیا ہے اور یہاں کے باسی اس میں انتہائی دل چسپی لیتے ہیں۔ اس کھیل کے بعد میتار (بادشاہ ) کے چناؤ کی رسم اس کو مزید دل چسپ بنا دیتی ہے۔

The post ایک دن کا بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

پہل اس نے کی تھی
مصنف: جبار مرزا۔۔۔قیمت: 1200 روپے۔۔۔صفحات: 320
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ کینٹ لاہور،0300 0515101

دل کے تار چھیڑنا، اس محاورے کے معنی کا صحیح  اندازہ جبار مرزا کی آپ بیتی پڑھنے پر ہوتا ہے، آپ بیتی شروع کرتے ہی قاری اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے، تحریر اس کے محسوسات کو اتنے شدید انداز میں چھو لیتی ہے کہ وہ آپ بیتی کے کرداروں پر بیتنے والے جبر اور کرب کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ وہ ان کی خوشی میں خوشی محسوس کرتا ہے اور ان کے غم پر افسردہ ہو جاتا ہے۔

مصنف کو قارئین کے دلوں کو مسخر کرنے کے فن میں مکمل مہارت ہے۔  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں ’’ جبار مرزا کو کبھی کبھی میں ’’ تلوار مرزا‘‘ بھی کہہ جاتا ہوں ، اس لئے نہیں کہ ان کی بڑی بڑی نوکدار مونچھیں ہیں ، بلکہ ان کی تحریر کی کاٹ ہی ایسی ہے کہ وہ قلم کو تلوار کر لیتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری سیاست کا کوئی وڈیرہ یا جاگیردار ان سے بچ نکلا ہو ۔ کتاب کے مرکزی کردار ’’ چوہدرانی صاحبہ‘‘ کے لئے ان کا لہجہ بڑا گداز اور پر تاثیر ہے ۔

وضع داری اور پردہ داری کا خاص اہتمام ہے ۔ کتاب میں کہیں پتہ نہیں چلتا کہ چوہدرانی کون ہے، اس کا اصل نام کیا ہے ، کہاں رہتی ہے، کس کی بیٹی ہے، اسے پڑھنے کہاں بجھوایا گیا تھا ،  جبار مرزا سینتیش برس پہلے جس کا گھر بسانے میں لگے رہے، اس کتاب میں اس کو بچانے میں مصروف ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کہتے ہیں ’’ جبار مرزا ایک جانے پہچانے اور مانے ہوئے قلمکار، محقق کالم نگار ، شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں مگر ان کی یہ کتاب پہلی کسی کتاب سے لگا نہیں کھاتی بلکہ یہ کہنا مبنی برحقیقت ہو گا کہ ان کی یہ کتاب اردو ادب کے خزانے میں موجود ہزاروں لاکھوں کتابوں میں سے کسی بھی کتاب سے لگا نہیں کھاتی کیونکہ یہ ایک مکسچر ہے کئی اصناف کا ، کئی اسالیب کا اور کئی ادبی تکنیکوں کا ۔‘‘چوہدرانی کے ہاتھ سے لکھے خطوط کا عکس بھی شائع کیا گیا، رنگین تصاویر سے کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ کتاب، خود نوشت بھی ہے اور ناول بھی ۔ مجلد کتاب کو آرٹ پیپر پر دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

آئینہ تمثال

انجمن ترقی پسند مصنفین گوجرانوالہ نے معروف ادیب اسلم سراج الدین کی یاد میں انتخاب شائع کیا ہے جس کی ابتدا حمد و نعت کے ساتھ کی گئی ہے، اس کے بعد افسانے، خاکے، مضامین اور شاعری ہے۔ یہ تحریریںانجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں پڑھی گئی ہیں ۔ گوجرانوالہ میں انجمن کے اجلاس حسب معمول ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ اور ان میں سے بہت سے اب مستند نقاد، شاعر اور تخلیق کار کے طور پر معروف ہیں۔

مدیر اعلیٰ سخی رشید اعوان، اسلم سراج الدین کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ وہ ایک ایسے گیانی تھے جو شعور اور لاشعور کی  تہوں کو کھنگالتے اور صفحہ قرطاس پر بو قلموں رنگوں کی صورت بکھیرتے تھے، انھیں’’ عجائب رقم‘‘ کے اسم با مسمیٰ سے یاد کرنا کوئی عجیب بات محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ آئینہ تمثال میں شامل تحریریں معیار پر پورا اترتی ہیں اور ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں۔ انجمن کو یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا چاہیے تاکہ لکھنے والوں کو ادب کی دنیا میں قدم رکھنے میں آسانی میسر رہے۔ انتخاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، قیمت 300 روپے ہے، حصول کے لئے اس پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے، 18علامہ اقبال چیمبرز، ضلع کچہری ، گوجرانوالہ، فون  0304 6994633

کنول کنول کھلا رہے
شاعر: ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح۔۔۔قیمت:500 روپے۔۔۔صفحات:160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز نیوکالج روڈ تونسہ شریف(03326066364)

ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح قادر الکلام شاعر ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، اپنے محسوسات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ، سادگی میں پرکاری نظر آتی ہے، جیسے کہتے ہیں،

جس کو سمجھا ہوں رہ گزر تیری
وہ تری رہ گزر نہیں ہو گی
دل کی گہرائی سے جو نکلے گی
وہ دعا بے اثر نہیں ہو گی
شعر کہتے ہیں اس لئے فاتح
شاعری بے ثمر نہیں ہو گی
اسی طرح ایک اورغزل میں کچھ یوں گویا ہوتے ہیں
کسی کو دکھ یہ الم آ شنا نہیں دیتے
وفا شعار کسی کو دغا نہیں دیتے
کسی سزا سے گریزاں تو ہم نہیں لیکن
ہمارا جرم ہمیں کیوں بتا نہیں دیتے؟
ان کی شاعری دل کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے، ہر غزل میں ان کا یہی انداز ہے۔

غزل کے استعارے
شاعر: انوار ندیم علوی۔۔۔قیمت:400 روپے۔۔۔صفحات: 136
ناشر: زربفت پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور(0303 4060515)

انور ندیم علوی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، وہ اپنے دل کی بات بڑے خوبصورت پیرائے میں قاری تک پہنچاتے ہیں، جیسے کہتے ہیں،

جھوٹ نفرت کبھی نہیں لکھنا
خوب صورت سدا حسیں لکھنا
چاند جھومر ہے اس کے ماتھے کا
مہ جبیں کو ہی مہ جبیں لکھنا

احمد ندیم قاسمی نے ان کی شاعری کے حوالے سے کہا تھا ’’میرے ہم تخلص انور ندیم علوی ایک عمدہ غزل گو ہیں۔ انھوں نے جو تراجم کئے ہیں وہ اتنے معیاری اور سچے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے، میری رائے میں ندیم علوی نے ان تراجم کے ذریعے شعر و ادب کی تاریخ میں اپنی شمولیت کا نہایت جائز جواز پیش کر دیا ہے۔ ان کی اوریجنل غزل بھی جدید اور عصر حاضر کی نمائندہ ہے‘‘۔ محسن بھوپالی نے کہا ’’ انور ندیم علوی نظم میں ایک خاص انداز رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں روایت اور جدت کا امتزاج ملتا ہے۔‘‘  زیر تبصرہ کتاب میں نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ ممتاز شعرا ء کے تراجم بھی شامل کئے گئے ہیں، اور اتنے معیاری ہیں کہ لگتا نہیں یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

فضا اعظمی کی شاعری
( تلمیحات کے آئینے میں)
مصنف: شبیر ناقد ۔۔۔قیمت: 500 روپے۔۔۔صفحات:112
ناشر:اردو سخن، اردو بازار، چوک اعظم، لیہ 0302 7844094

تنقید برائے تنقید کرنا بہت آسان کام ہے کیونکہ اس میں تحقیق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، سنی سنائی پر تبصرہ کر دیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے عام چلن بھی یہی ہے۔ تاہم ادب کی دنیا میں تنقید کرنا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ اس کے لئے تحقیق کے سمندر میں اترنا پڑتا ہے جیسے کسی کھیل کے ایمپائر کو تمام قواعد کا علم ہوتا ہے اسی طرح نقاد کو بھی ادب کے تمام قرینوں کا علم ہونا چاہیے، تب وہ تحقیق کے سمندر میں اترتا ہے۔ شبیر ناقد کو تنقید کے فن میں مکمل مہارت حاصل ہے۔ ابو البیان ظہور احمد فاتح کہتے ہیں’’فضا اعظمی کی شاعری: تلمیحات کے آئینے میں‘ ایک پسندیدہ اور جدید کاوش نقد ہے۔

ہو سکتا ہے کہ قبل ازیں تلمیحات کے حوالے سے کسی سخن ور کے کلام پر اس  نوع کی ناقدانہ جسارت ہوئی ہو، بہرحال یہ کام خود میں ایک یک گونہ ندرت لیے ہوئے ہے۔ جس میں تنقید نگار کے لئے خاصی کٹھنائیاں موجود ہیں‘‘۔ اسی طرح شکیل اختر کہتے ہیں’’ شبیر ناقد کی کتاب’ فضا اعظمی کی شاعری، تلمیحات کے آئینے میں‘ کے مسودے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے جذبہ عشق اور مسلسل محنت و ریاضت سے کام لے کر اسے مکمل کیا ہے۔

اس میں صنعت تلمیح کی تعریف پر ازسر نو نظر ثانی کی گئی ہے جو کسی قدر جامع اور مستند ہے۔ صنعت ہٰذا کا پس منظر، تاریخ، ارتقاء اور اقسام کو غالباً پہلی بار ( کم از کم میرے مطالعہ کے مطابق) کسی مستند کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے، سب سے بڑی اور خوش کن بات یہ ہے کہ استاد شعرا کا گراں قدر تلمیحی اثاثہ بھی بیان کیا گیا ہے جو نوآموز شعراء کے مطالعہ کے لیے خاصا مفید ہو سکتا ہے، اس سے ان کی فکری اور فنی اپچ کو جلا ملے گی ۔‘‘ شبیر ناقد کی یہ کتاب تنقید کے میدان میں شاندار اضافہ ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرہ نگار:شہباز انور خان
تذکار ِ بگویہ ( جلد پنجم )
  ترتیب و تدوین: ڈاکٹر انوار احمد بگوی۔۔۔ صفحات: 608۔۔۔  قیمت: درج نہیں
  ناشر : مکتبہ علمیہ پریس اعظم گڑھ، انڈیا

پنجاب  کے ضلع سرگودھا کے شہر بھیرہ  سے تعلق رکھنے والا خاندان بگویہ برصغیر ( متحدہ ہندوستان ) میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے اس خطے کے مسلمانوں کی علمی، روحانی، سیاسی اور تہذیبی سطح پر کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اس خاندان کی خدمات کا عرصہ مجموعی طور پر کم وبیش چار صدیوں پر محیط ہے۔اسی عظیم الرفعت خانوادے ہی کے ایک چشم و چراغ ڈاکٹر انوار احمد بگوی ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے بزرگوں، اپنے جد امجد کی تاریخی خدمات کو بڑے احسن انداز اور سلیقہ مندی کے ساتھ منضبط کر کے ملک کے اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ عام آدمی تک پہنچانے کا خوش گوار فریضہ انجام دیاہے۔

انہوں نے اس خاندان کی 1650 ء سے 2010ء تک کی تاریخ کو مدون کرنے کے بعد انہیں مختلف جلدوں کی صورت میں یکجا کر کے محفوظ کر لیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تذکار ِ بگویہ‘‘ کی جلد پنجم ہے ۔ (  اس سے قبل اسی عنوان ( تذکارِ بگویہ )  کے تحت  چار جلدیں شائع ہو کر ہر خاص و عام سے تحسین حاصل کر چکی ہیں۔) جلد پنجم دراصل  اس عالیشان خاندان کی قابل ِ فخر شخصیت، تحریک خلافت اور تحریک ِ پاکستان کے سرکردہ رہنما ابوالخیر مولانا ظہور احمد بگوی ؒ کی علمی، مذہبی، ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات کے حوالے سے مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جو انہوں نے 1920 ء سے 1945ء کے عرصہ کے دوران قلمبند کیں اور ماہنامہ ’’ شمس الاسلام ‘‘ بھیرہ میں شائع ہوئیں۔

یہ محض فر د ِ واحد کی تحریریں ہی نہیں ہیں بلکہ اس عہد کے سیاسی، مذہبی، سیاسی اور سماجی احوال اور تاریخ کی عکاس بھی ہیں۔ تاریخ و سیاسیات کے طالب علموں کے لیے یہ کتابیں گرانقدر اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں جن سے تا دیر استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ ڈاکٹر انوار احمد بگوی بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس عظیم اور وقیع کام کا بیڑا اٹھایا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔امید واثق ہے کہ یہ کتاب ہماری تاریخ ، سیاست، ادب، مذہب، سماجیات اور عمرانیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ثابت ہوگی۔

 حاجی صاحب اور دوسری کہانیاں
 مصنف: فیصل اقبال اعوان۔۔۔۔ صفحات: 88۔۔۔۔ قیمت: 200 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب نوجوان ادیب فیصل اقبال اعوان کی پندرہ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں میں پائی جانے والی منافقت اور قول وفعل میں تضاد ان کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے اور مصنف نے اسے خوب نبھایا ہے۔ یہ تمام کہانیاں ہمارے شہری اور دیہاتی ماحول سے جڑی ہوئی ہیں۔کتاب کے مصنف چونکہ قانون دان ہیں اس لیے اس پیشہ سے وابستگی کے باعث ان کا تجربہ و مشاہدہ عام قلم کار کی نسبت بہرحال زیادہ اور وقیع ہے۔ کتاب میں شامل کہانیوں میں جن کرداروں کو پیش کیا گیا ہے وہ اسی سماج میں ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ مکالمے جان دار اور زوردار ہیں تاہم کہیں کہیں خود کلامی کا تاثر بھی ملتا ہے۔

ان کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کی طوالت سے پاک ہیں مختصر ہونے کی بنا پر کسی بھی قسم کی بوریت اور اکتاہٹ کے بغیر قاری کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبورکردیتی ہیں اور یہی اس کتاب کا حسن بھی ہے جو کہانی کار کو دوسرے ہم عصر کہانی کاروں سے ممتا ز کرتا ہے۔کتاب پر فکشن رائٹر عاصم بٹ، مخدوم سلمان ٹیپو، روف طاہر حیدری، سمیر عاصم فاروقی اور شاہد شبیر ایسے اہل قلم کی تعریفی و تہنیتی آراٗ بھی شامل ہے جن کے بعد کتاب کے حق میں مزید کسی گواہی کی حاجت نہیں رہتی۔

 ہوا سے مکالمہ
 شاعرہ : صفیہ حیات۔۔۔ صفحات: 152۔۔۔ قیمت: 400 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زمانہ ء جہالت کی رسوم و رواج اور جبر و استبداد پر مبنی ظالمانہ نظام آج بھی عورت کی زندگی کو اجیران بنائے ہوئے ہے جس کے باعث وہ ’’ آزاد سماج ‘‘ میں بھی غلامانہ طور طریقے اپنانے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ جدید تعلیم، روشن خیالی اور لبرل ازم کی چکا چوند نے عورت کو بہت حد تک ان رسوم و رواج کا باغی بنادیا ہے لیکن شہروں سے دور دیہاتی اور قبائلی سماج میں آج بھی زمانہ جہالت کی خو، بو برقرار ہے جس کے خلاف وقتا ً فوقتا ً کہیں نہ کہیں سے آواز بھی اٹھتی رہتی ہے۔ سو ایک ایسا معاشرہ جہاں پر عورت کی حیثیت ایک باندی یا غلام کی سی ہو، اس معاشرے میں مظلوم و مقہور عورت کے حق میں کسی عورت ہی کی طرف سے پوری توانائی اور بیباکی کے ساتھ آواز بلند کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔

کتاب میں شامل نظمیں بطور عورت سماج کے غیر منصفانہ رویے اور امتیازی سلوک کے خلاف بھرپور احتجاج سے مملو ہیں۔الفاظ کی دو دھاری تلوار سے سماج کے اس بودے پن اور دوغلے کردار کو جس طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ہے اس پر شاعرہ یقینی طور پر داد کی مستحق ہیں۔ جذبات کی شدت ، احساس کی چبھن ، حساسیت اور تیکھے پن نے سارہ شگفتہ اور نسرین انجم بھٹی کی یاد تازہ کردی ہے۔ ہمارے ہاں خواتین شعراٗ جس قسم کی شاعری کر رہی ہیں ان میں صفیہ حیات کا مذکورہ شعری مجموعہ اپنی انفرادیت اور تازہ کاری کی بنا پر الگ سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔کتاب کے آخر میں نو صفحات پر مشتمل ہرویندر سنگھ ڈائریکٹر حکومت پنجاب، چندی گڑھ (انڈیا) کا بزبان ِ انگریزی خوب صورت اور سیر حاصل تبصرہ بھی شامل ہے۔ جس میں ان کی شاعری کو بجا طورپر سراہا گیا ہے۔

تیجی مخلوق
 مصنفہ: ہرکیرت کور چاہل ۔۔۔ ترجمہ: محمد آصف رضا۔۔۔ صفحات: 158
 قیمت: 250 روپے۔۔۔  ناشر : بابا فرید بک فاونڈیشن

اللہ تعالیٰ کی انسانی مخلوق میں کھسرے ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانی معاشرے میں سب سے زیادہ مظلوم ، بے بس اور لاچار تصور کی جاتی ہے۔ اسے عرف عام میں تیسری مخلوق کا نام دیا جاتا ہے۔کیونکہ اس کا شمار نہ تو مردوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی خواتین میں۔ چنانچہ ایسے فرد کو نہ تو معاشرے میں کوئی عزت ملتی ہے اور نہ ہی خاندان میں ہی اس کو کوئی مقام حاصل ہوتا ہے۔ حتی ٰکہ اس کے اپنے گھر میں اس کے بہن بھائی بھی اسے اپنا کہتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔

جب کہ ان کا تیسری مخلوق کی صورت میں وجود میں آنا نہ تو خود ان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور نہ ہی ارادہ ۔ ہر کیرت کور چاہل نے اس تیسری مخلوق کے اندر جھانکنے کی کوشش کی ہے اور ا س کی اس مظلومانہ زندگی کو سمجھ کر اسے عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔انہوں نے ’’تیجی مخلوق‘‘ کے زیر عنوان پنجابی زبان میں ناول لکھ کر اس بدقسمت مخلوق کی بے بسی کی داستان رقم کرتے ہوئے اس کے حقوق اور اس کی سماج میں عزت اور مقام کے لیے آواز بلند کی ہے۔

ہر کیرت کور چاہل کا تعلق چونکہ بھارتی پنجاب سے ہے اس لیے اپنے اسی سماج کی نمائندگی کی ہے جہاں اس مخلوق کی کوئی شناخت نہیں ہے جب کہ ہمارے ملک میں اس صنف کی ایک باقاعدہ تیسری مخلوق ( ٹرانس جینڈر ) کے نام سے شناخت کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے۔ اور اسے اب الگ سے شناخت بھی مل گئی ہے لیکن اس کے باوجود سماج میں جس قسم کے مثبت رویے اور غیر امتیازی سلوک کی ضرورت ہے وہ ابھی اسے نہیں مل سکی۔ہرکیرت کور چاہل کا، یہ ناول گورمکھی رسم الخط میں شائع ہوا تھا جسے محمد آصف رضا نے شاہ مکھی میں ڈھال کر اہل پاکستان کے لیے پیش کیا ہے۔

 

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ زبانیں تو رہ گئیں۔۔۔

$
0
0

اکیس دسمبر کو دنیا نے زبانوں کا عالمی دن منایا، ہم نے بھی منایا کیوں کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، ہماری طرح تمام شوہروں نے یہ دن منایا، وہ اس طرح کہ اس روز وہ سُننے کے ساتھ بولے بھی۔

ہمارے دوست بھائی اچھن نے دن کا آغاز بیگم کو بہ آوازبلند پکار کر کیا، گھر میں اپنی اونچی آواز سُن کر وہ خود ہی ڈر گئے۔ بیگم ’’کیا ہے‘‘ کہتی سامنے آئیں تو بھائی اچھن نے دھیرے سے کہا،’’وہ پوچھنا یہ تھا کہ برتن ابھی دھولوں یا بعد میں؟‘‘ ایک اور دوست جلال بہادر جو شاعر ہیں اور جرأت تخلص کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی خاموشی توڑ کر زبانوں کا دن منانے والوں کا ساتھ دیا۔

ہم نے پوچھا آپ کیا بولے، کہنے لگے ’’بیگم نے کہا۔۔۔شاپنگ کے لیے جانا ہے۔۔۔میں نے کہا اچھا چلو۔‘‘ یہ روایات ہم نے ان دونوں حضرات کے ذاتی منہ سے سُن کر بیان کی ہیں۔ اپنی روایت ہم اس لیے بیان نہیں کر رہے کہ ہم منہ میں زبان کے ساتھ شانوں پر سر بھی رکھتے ہیں اور ہمارے دل میں سر کٹوانے کی لاکھ تمنائیں انگڑائی لے رہی ہوں سر پُھٹوانے کی کوئی آرزو جماہی بھی نہیں لے رہی۔

یہ دن تو ہم نے خیر منالیا، لیکن ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس دن بہت سی زبانوں اور بولیوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور کسی نے ان کا نام تک نہ لیا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ زبانیں اور بولیاں کون سی ہیں:

منہ بولی:

یہ بولی بہت عام ہے، اس کے بولنے والے منہ بولے کہلاتے ہیں، منہ بولے بھائی، منہ بولی بہن، منہ بولے ابا اماں وغیرہ۔ اب تو منہ بولی بیوی اور شوہر بھی ہونے لگے ہیں۔ گدھے کو باپ بنانے کے لیے بھی یہی زبان بولی جاتی ہے۔ اب یہ بولی رشتوں تک محدود نہیں رہی، ہمارے ہاں منہ بولے لیڈر، منہ بولے سیاست داں، منہ بولے حکم راں، منہ بولے وزیراعلیٰ اور منہ بولے ’’بُھٹو‘‘ بھی پائے جاتے ہیں، جو اس زبان میں توسیع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بدن بولی:

کل تک اسے باڈی لینگویج کہا جاتا تھا، پھر کسی نے اس کا ترجمہ بدن بولی کردیا، حالاں کہ ’’بدن بولی‘‘ کی شاعرانہ اور رومانی اصطلاح آنکھوں کے سامنے ایسی تصویریں بلکہ وڈیوز لے آتی ہے کہ آنکھیں جھپکنے کو بھی دل نہیں چاہتا، مگر یہ اصطلاح عام طور پر سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جسمانی حرکات وسکنات کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے آنکھوں میں رقصاں مناظر رقص سے کبڈی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ اس بولی کو صرف بدن بولی کہا جاتا ہے مگر اس بولی کے کئی ’’لہجے‘‘ ہیں جنھیں الگ الگ نام دیا جاسکتا ہے جیسے ’’بدن بکواس‘‘،’’جسمانی گَپّیں‘‘،

’’تن خرافات۔‘‘

یہ بولی بڑے دھوکے دیتی ہے۔ اکڑاکڑ کر چلنے اور شہادت کی انگلی اٹھا اور لہرا کر گفتگو کرنے والے حکم راں اس انداز کی وجہ سے جرأت مند تصور کیے جاتے ہیں، لیکن عملاً وہ صرف مجبور، بے بس، بے کس یعنی کُل ملا کے ضرورت مند نکلتے ہیں۔ بدن بولی دکھاتی ہے کہ ایک ’’صاحب‘‘ یوں بھاری بھرکم دھرنا دیے بیٹھے ہیں کہ ’’توپوں سے یہ جناب اٹھایا نہ جائے گا‘‘، لیکن کچھ دنوں بعد ہی حکومت گرانے کا دعویٰ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور وہ اٹھ کر ’’جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا‘‘ کی تفسیر بنے گھر کو لوٹ آتے ہیں۔

سفارتی زبان:

سفارتی زبان دنیا کی سب سے میٹھی زبان ہے۔ مٹھاس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے سمندر کی کڑواہٹ اور تمام سانپوں کا زہر ڈھیر ساری شیرینی میں لپیٹ کر یوں دیا جاتا ہے کہ کھانے والا ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ کرنے کے بہ جائے سب ایک ساٹھ چبائے بغیر نگل جاتا ہے، بعد میں چاہے اُلٹیاں کرتا اور اُلٹی ہوجانے والی تدبیر کو سیدھا کرتا رہے۔ ایک زمانے تک بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں اسی زبان کا راج تھا، مگر ٹوئٹر آنے کے بعد اس کی جگہ تعلقات بگاڑتی زبان، طعنے مارتی زبان اور ’’ادارتی‘‘ زبان کا چلن عام ہوگیا ہے۔

زبان خلق:

اسے کبھی نقارۂ خدا سمجھا جاتا تھا، اب خدا بندے سے خود پوچھے تو پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے، مگر حکم راں خلق خدا کی سُننے کو تیار نہیں۔ ایک زمانے تک یہ زبان دیواروں پر اور عوامی بیت الخلاؤں میں لکھی ملتی تھی، پھر سوشل میڈیا آگیا، سو اب یہ سماجی ویب سائٹس کی قومی زبان ہے، جس کی زباں بندی کا امکان ہے۔ یہ بڑی آسان زبان ہے، مگر حکم رانوں کی سمجھ میں نہیں آتی، اور اگر سمجھ میں آجائے تو سُن کر اتنی شرم آتی ہے کہ کان بند کرلیتے ہیں۔

زبان خلق کو وجود میں آئے ابھی ایک دو صدیاں ہی گزری ہیں۔ جب یہ نہیں تھی تو بادشاہ بولتے تھے اور خلق حَلَق میں لفظ پھنسائے اور چیخیں دبائے خاموشی سے سُنتی تھی۔ مؤرخین بھی بادشاہوں ہی کی سُنتے تھے، اسی لیے تاریخ بھی ان ہی کی سُناتی رہی ہے۔ چناں چہ تاریخ میں محلات اور درباروں سے باہر اتنا سناٹا دیکھ کر کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بادشاہ حکومت کس پر کرتے تھے؟ آخر زبان خالق کی آمد کے بعد وہ ہاہاکار مچی کے بادشاہ بچارے چُپ ہوتے ہوتے تصویر ہوکر رہ گئے۔

دبی زبان:

یہ ہر دبے ہوئے کی مادری زبان ہے، جسے شوفر سے شوہر تک وہ سب بولتے ہیں جو کسی کے دباؤ میں ہوں۔ یہ زبان ’’جی ہاں۔۔۔لیکن‘‘ اور ’’وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔مگر‘‘ جیسے جملوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ اتنی دبی ہوتی ہے کہ دبے دبے الفاظ کا دَم نکل جاتا ہے یا ان کی دُم نکل آتی ہے جو ہلتی رہتی ہے۔جب کوئی سیاست داں مقدمات تلے دبا ہو تو دبی زبان بڑا کام آتی ہے اور وہ دبے پاؤں ملک سے چلا جاتا ہے۔

لگنے والی بولی:

یہ بولی ہر وقت نہیں بولی جاتی یہ کسی کی بولتی بند کرنے کے لیے بولی جاتی ہے یا کام یابی کا راستہ کھولنے کے لیے بولی جاتی ہے۔ یہ بولی بس اس ایک بول پر مشتمل ہے،’’بول، کتنے لیں گا؟‘‘ یہ بولی انتخابات کے فوری بعد، سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر، روٹھی اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے اور ضرورت سے زیادہ بولتے صحافیوں کو رجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔

The post یہ زبانیں تو رہ گئیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

تحفہ د یجیے۔۔۔ تحفہ لیجیے

$
0
0

محبت اور خلوص کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک عمل تحفہ دینا ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی تحفہ دینے کی روایت کو عام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ خوشی، کام یابی اور ترقی کو سراہنے اور ساتھ دینے کے لیے تحفے کا سہارا لیا جاتا ہے، مگر جب بات آتی ہے کہ کیا تحفہ دیا جائے، تو ساتھ دیگر کئی سوال ذہن میں آدھمکتے ہیں، جیسے کتنی قیمت لگنا چاہیے؟ تحفہ کیسا ہونا چاہیے اور پھر یہ کہ اس کی پیکنگ وغیرہ کیسے کی جانا چاہیے؟ یہ تمام سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ایک قسم کا فن ہے، آئیے آج ہم آپ کو اس فن کے کچھ رموز سکھاتے ہیں۔

تحفے کا انتخاب

تحفوں کے حوالے سے یہ سب سے اہم ترین مرحلہ ہے، کیوں کہ یہ آپ کے ذوق کے ساتھ آپ کی محبت اور خلوص کی عکاسی کرتا ہے، دوسری جانب یہ آپ کی جیب اور موقع محل سے بھی لازمی میل کھانا چاہیے۔ کوئی بھی تحفہ منتخب کرتے وقت بنیادی طور پر تحفہ وصول کرنے والے کی عمر، ذوق اور ضرورت وغیرہ کو بھی ضرور مدنظر رکھیں۔ جیسے بچوں کے لیے اگر آپ سال گرہ کے موقع پر تحفہ دینا چاہتی ہیں، تو ان کے رجحان کے مطابق عمدہ اور پرکشش کتابوں کا چناؤ کیا جا سکتا ہے، اگر وہ کسی خاص کھلونے سے رغبت رکھتے ہیں تو پھر اسی طرز کے کھلونے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کسی امتحان میں پاس ہونے پر اسٹیشنری کی چیزیں بہتر ثابت ہو سکتی ہیں، جیسے مختلف اقسام کے ’کلر‘، رنگ بھرنے کی یا مختلف دل چسپ سرگرمیوں کی حامل کتابیں، لنچ باکس اور تھرماس وغیرہ بہترین انتخاب ہوں گے۔

اسی طرح اگر کسی کو نئے گھر کی خوشی میں کوئی تحفہ پیش کرنا ہے، تو اس موقعے کی مناسبت سے گھریلو استعمال کی اشیا کپڑوں کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہیں گی۔ اسی طرح اپنے تحفے کے رنگوں کے حوالے سے کافی محتاط رہیں، اگر بزرگ کو کپڑوں وغیرہ کا تحفہ دینا ہے، تو ہلکے اور ’سوبر‘ رنگوں کا انتخاب کریں اور اگر بچوں یا کم عمر لڑکیوں کے کپڑے ہیں تو شوخ رنگ منتخب کریں۔ اس میں اگر آپ نے انہیں مشاہدہ کیا ہو تو ان کی پسند کو زیادہ ملحوظ خاطر رکھیے۔

تحفے کی پیش کش

جیسے کھانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ان کو خوب صورتی سے سجایا جائے، تو کھانے سے پہلے ہی یہ دل میں اتر جاتی ہے، بالکل اسی طرح تحفے کو بھی اگر خوب صورت انداز سے سجایا کر پیش کیا جائے گا، تو یہ تحفہ وصول کرنے والے کے دل میں آپ کی عزت اور محبت بڑھا دے گا اور وہ یہ ضرور سوچے گا کہ یہ محنت آپ نے اس کے لیے کی ہے۔۔۔ تحفہ سجانے کے لیے سب سے پہلے تو روایت سے ہٹ کر ’کاغذ‘ منتخب کریں، جیسے یا تو سادہ ہو یا پولکا ڈاٹ والا سلور یا گولڈن اور یا کوئی ایسا جو دیکھتے ہی نئے پن کا تاثر دے۔ آپ اپنے تحفے کو گول، مستطیل، چوکور یا ٹافی کی شکل میں بھی ’باندھ‘ سکتی ہیں۔

اسی طرح مختلف اقسام کی کھانے کی چیزیں یا نومولود بچے کے ملبوسات کا سیٹ وغیرہ، بڑی ٹوکری میں جالی کے کپڑے مصنوعی پھولوں اور ویلوٹ کی شیٹ بچھا کر بڑے سادے شاپر میں پیش کی جا سکتی ہے، اس سے تحفے کی شان نرالی ہو جائے گی۔ مختلف اقسام کے فلاور اور ویشنگ کارڈ بازار میں بہ آسانی دست یاب ہیں۔ ان کارڈ پر دعائیہ کلمات لکھ کر آپ اپنے تحفے کی اہمیت بڑھا سکتی ہیں۔

گرم جوشی کا اظہار

تحفے دینے کے حوالے سے ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ تحفہ دیتے وقت گرم جوشی اور مسرت کا بھرپور اظہار کیجیے۔ اس موقع پر آپ کے چہرے پر سچی مسکراہٹ اور آنکھوں میں خلوص اور محبت بھرے جذبات دکھائی دینا چاہئیں۔ اسی طرح اگر آپ تحفہ وصول کرنے والوں میں سے ہیں، تو تحفے کے عام یا قیمتی ہونے سے قطع نظر تحفہ دینے والے کے جذبات، محبت کو اولین ترجیح دیں۔ اس موقع پر اہم بات یہ ہے کہ تحفہ دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر پیش کیجیے اور وصول کیجیے، یہ تحفے دینے اور لینے کا ادب ہے۔ اکثر تحفے وصول کرنے کے حوالے سے رسمی سا جملہ کہا جانے لگا ہے  کہ بھلا اس کی کیا ضرورت تھی، کوشش کیجیے کہ رسمی اور زبانی کلامی چیزوں سے باہر نکل کر وہ بات کیجیے، جو دل میں ہو اور جس سے اپنائیت اور محبت کا اظہار ہو۔ اسی طرح تحفہ دیتے ہوئے بھی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے غیر روایتی جملوں کا انتخاب کیجیے، جس سے یہ پتا چلے کہ آپ نے دنیا داری نہیں نبھائی بلکہ اس میں آپ کے جذبات بھی کارفرما ہیں۔

The post تحفہ د یجیے۔۔۔ تحفہ لیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنی غذا میں وٹامن شامل رکھیے۔۔۔

$
0
0

صحت اور غذا کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن ہم کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں؟ یہ سوال اکثر ہم سب کے ذہنوں میں گردش کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں، تو یقیناً ہم نہ صرف کئی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں، بلکہ اپنی صحت کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں۔ ہمارا جسم قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے، جس کی نگہداشت کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے جسم کو اپنی قوت مدافعت بحال رکھنے کے لیے خاص اجزاکی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں ایسی غذا استعمال کرنا چاہیے جس سے یہ ضروریات پوری ہو سکیں۔

اگر ہم ناقص اور مضر صحت غذا کا استعمال کریں گے، تو یہ ہمارے جسم کے اندر فاسد مادوں کی مقدار بڑھا سکتی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غذا کے انتخاب میں احتیاط کریں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مختلف غذاؤں کا استعمال کس طریقے سے کریں۔ کتنی مقدار میں اور کن اوقات میں استعمال کریں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جو غذا استعمال کر رہے ہیں، وہ ہمارے جسم پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے، جب کہ بعض حالات میں کون سی غذا ہمارے جسم کے لیے موافق ہے ۔ ہمارا جسم اس صورت میں ہی تن درست و توانا رہے گا، جب ہم اس کی خاص طور پر دیکھ بھال کریں گے۔

اس سلسلے میں وٹامن کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اکثر امراض، غذا میں وٹامن کی کمی کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ ہم جو معدنیات روزمرہ کی غذا میں استعمال کرتے ہیں ان میں کیلشیم، فاسفورس، کلورین، لوہا، سوڈیم، پوٹاشیم، آیوڈین، میگنیشم ، گندھک وغیرہ شامل ہیں۔

وٹامن اے:

اس کی غذا میں روزانہ مناسب مقدار صحت انسانی پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے استعمال سے چہرا تروتازہ اور بارونق رہتا ہے۔ جلد شفاف اور آنکھیں روشن اور چمکیلی رہتی ہیں۔ بچوں کی غذا میں اس کے استعمال سے قوت اور چستی پیدا کرتی ہے، کیوں کہ جسم اور قد کی نشوونما میں اس کا بے حد دخل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں، آنتوں، جلدی بیماریوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ یہ ان امراض سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

وٹامن اے کی کمی سے ہڈیوں کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں۔ رات کو نظر نہ آنے کا عارضہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ وٹامن تمام حیوانی روغنوں میں یعنی دودھ، بالائی، خالص گھی، دہی، پنیر، مکھن، مچھلی، چربی دار گوشت، انڈے کی زردی، مختلف قسم کی سبزیوں یعنی مولی، گاجر، ٹماٹر، پالک، ہرا دھنیا، میتھی، بند گوبھی آلو اور پھلوں مثلاً سنگترہ، لیموں، مالٹا، انناس، آم وغیرہ میں موجود ہوتا ہے۔

وٹامن بی:

وٹامن بی کی کمی سے ہمارے اعصاب اور دل متاثر ہوتا ہے۔ یہ ہمارے اعضا کو مضبوط کرتا ، قوت ہاضمہ کو تقویت پہنچاتا ہے، جس سے بھوک بڑھتی ہے۔ اس کی کمی سے اعصابی درد، جسم کے اندر چبھن ، بے چینی ، پٹھوں میں سوزش اور ورم کی شکایت ہو سکتی ہے۔ وٹامن بی گیہوں، مکئی، دالیں اور ان کے چھلکے، سبزیوں، ترکاریوں، دودھ، دہی، چھاچھ، بادام، پستا، گوشت، انڈے کی زردی، پھلوں وغیرہ میں بکثرت پایا جاتا ہے۔

وٹامن سی:

یہ وٹامن آنکھوں، دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ خون کی کمی کو رفع کرتا ہے۔ جِلدی امراض، فساد خون وغیرہ سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی، نشوونما کا معاون اور بینائی کا محافظ ہوتا ہے۔ ماں بننے والی خواتین اور شیر خوار بچوں کی ماؤں کی غذا میں وٹامن سی کے اجزا معمول سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی کمی ماں اور بچے دونوں کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ وٹامن سی ہر قسم کے ساگ خصوصاً پالک اور پتوں والی سبزیوں، جیسے ہری پیاز، گوبھی، شلجم، لوبیا، چقندر، گاجر، مولی، پپیتا، انناس وغیرہ میں وٹامن سی بہت زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔

وٹامن ڈی:

یہ وٹامن بھی کام کافی حد تک وٹامن اے کی طرح کرتا ہے۔ وٹامن ڈی بعض روغنی غذاؤں سے حاصل ہونے کے علاوہ سورج کی شعاعوں کے اثر سے بھی انسان کی جلد میں خود بخود پیدا ہوتا رہتا ہے اور یہاں سے منتقل ہو کر جگر میں جمع ہوتا ہے۔ بچوں کے اندر سوکھے پن کا مرض اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں مناسب حد تک دھوپ میسر نہیں ہوتی۔ اگر ان کی روزمرہ کی خوراک کے اندر وٹامن ڈی موجود نہ ہو تو وہ سوکھے پن کی بیماری میں لاغر ہو جاتے ہیں۔ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں، ان کی شکل بگڑ جاتی ہے اور نشوونما رک جاتی ہے۔ اس وٹامن کا ماخذ مچھلی کا تیل، دودھ، مکھن، گھی، پنیر، انڈے کی زردی، گاجر، مولی، ٹماٹر، بکری کا دودھ وغیرہ کے اندر ہے۔ یہ وٹامن دانتوں کو مضبوط اور چمکیلا بنانے کے لیے بہترین ہے۔

وٹامن ای:

یہ وٹامن بہت سی اندرونی شکایتوں کو رفع کرتا ہے۔ اس کی کمی سے ہمارے جسم میں فولاد اور دیگر معدنی اجزا کی ضرورت پورا کرتا ہے۔ وٹامن ای گیہوں، باجرا، جو، چنا، ان کے چھلکوں، انڈے کی تازہ زردی، مچھلی، گوشت، دہی، پالک، گاجر، مغزیات، سویابین، پستا، بادام، چلغوزہ، روغن زیتون، روغن ماہی میں عمدہ حالت میں پایا جاتا ہے۔

The post اپنی غذا میں وٹامن شامل رکھیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

کاسمیٹک سرجری کرانا ہے؟

$
0
0

آج کل میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے جس کی وجہ سے خواتین کے لیے بھی خوب صورتی بڑھانے کے نت نئے طریقے متعارف ہو چکے ہیں۔ انہی میں سے ایک کاسمیٹک سرجری بھی ہے جسے ایستھیٹک یا فیشل سرجری بھی کہا جاتا ہے۔ یوں تو کاسمیٹک سرجری کا تعلق صرف خواتین سے نہیں ہے، لیکن  اچھا نظر آنے کی خواہش کے پیش نظر  اسے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی زیادہ تعداد اِسے اپنانے لگی ہے۔کاسمیٹک سرجری چہرے کے مختلف حصوں کے لیے کی جاتی ہے، جیسا کہ آنکھیں، کان، ناک، چہرے کے کسی بھی حصے کی جھریوں کے لیے، گال یا ہونٹوں کے لیے بھی اسی لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن کاسمیٹک سرجری کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ اکثر خواتین اس حوالے سے بہت کم جانتی ہیں کہ آخر چہرے کی کس حصے کی بات کی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے خواتین اس بات کو جان لیں کہ کاسمیٹک سرجری مختلف طرح کی ہوتی ہیں۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ سب سے زیادہ کاسمیٹک سرجری چہرے پر پڑنے والے بڑھاپے کے اثرات کو چُھپانے کے لیے کرائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے آنکھوں کے نیچے پڑنے والی جھریوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے، تاکہ چہرہ خوب صورت لگے اور خواتین کم عمر دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ بھنوؤں کو اوپر کی طرف لے جانے اور ڈھلکنے سے بچانے کے لیے بھی سرجری کرائی جاتی ہے۔ بھنوؤں کو کسی ایک حصے کی طرف سے اوپر اٹھانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ ڈھلکی ہوئی محسوس نہ ہوں اور پھر آنکھ کے اوپر بہ آسانی میک اپ کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ تیسری سب سے زیادہ کرائی جانے والی سرجری ناک کی ہوتی ہے۔ خواتین چاہتی ہیں کہ ان کی ناک پتلی دکھائی دے۔ ایسی خواتین جن کی ناک چپٹی ہوتی ہے، وہ بھی کاسمیٹک سرجری کے ذریعے ناک کی ہڈی کو نمایاں کراتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین فیشل سرجری کو ہی کیوں پسند کرتی ہیں؟

ماہرین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ خواتین اپنی عمر سے کم نظر آنا چا ہتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر چہرے پر کسی حادثے کی وجہ سے کوئی نشان وغیرہ پڑ جائے، تو اسے ختم کرنے کے لیے بھی کاسمیٹک سرجری کا استعمال کیا جا تا ہے۔ خواتین کے ذہنوں میں ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ آخر سرجری کس سے کر ائیں؟ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ پہلے اچھے مستند اور با اعتماد کاسمیٹک سرجن کا معلوم کریں۔

باری باری ان سب سے مشاورت کریں اور پھر سب سے اچھے سرجن کا انتخاب کریں۔ ان کی تمام ہدایا ت کو سنیں اور ان کی جانب سے دیے جانے والے تمام مشوروں پر غور کریں۔ کاسمیٹک سرجری کرانے سے پہلے ان لوگوں سے بھی مشورہ ضرور کریں، جو پہلے س تجربے سے گزر چکے ہوں۔ آج کل کے دور میں کاسمیٹک سرجری کرانا کوئی مشکل نہیں، نہ ہی اس کے لیے مہینوں اسپتال میں رہنا پڑتا ہے۔ البتہ سرجری سے قبل اور بعد میں ڈاکٹرز معائنہ کرتے رہتے ہیں۔ جن پر عمل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، چوں کہ سرجری ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس کا زخم ٹھیک ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔

خواتین کو ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب سرجری کا ارادہ کر لیں، تو اس کے بارے میں صحیح طرح سے جان لیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے وغیرہ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سرجری میں چوں کہ خرچہ بھی بہت زیادہ آتا ہے۔ سرجری سے پہلے اور بعد میں دوائیں چلتی رہتی ہیں اور پھر اس مرحلے کے بعد چہرے میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ذرا سی غلطی کی وجہ سے چہرہ خراب ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر اس کا ارادہ کریں تو جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے ہر ممکن حد تک اعلیٰ درجے کے ماہرین اور ادارے کو منتخب کریں۔

The post کاسمیٹک سرجری کرانا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کو اپنی ہتھیلی کا چھالا نہ سمجھیں !

$
0
0

اکثر مائیں یہ کہتی ہیں کہ ہمارے بچے بہت نازک طبع ہیں۔ ان سے فلاں کام نہیں ہوتا اور ابھی وہ بچے ہیں اگر یہ کریں گے تو تھک جائیں گے یا ان کے لیے مناسب نہیں ہے وغیرہ۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ بچوں کی اچھی پرورش ایک ماں کے لیے سب سے اہم کام ہے، جس میں ذرا سی کوتاہی بچوں کے مستقبل کو خراب کر سکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ایک ماں کو کافی احتیاط کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتے ہیں۔ کچھ مائیں بہت حساس طبیت ہوتی ہیں وہ اپنے بچوں کی مثالی تربیت کے حوالے سے ماہرین کی آرا پر غور و فکر کر نا ضروری سمجھتی ہیں۔ جیسا کہ آج کل بچوں کی نفسیات کے ماہرین اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو مشکلات سے نمٹنا اور پریشانیوں کا سامنا کرنا سکھائیں۔ اس مقصد کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ہر کام میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔

بہت سی جگہوں پر یہ دیکھا گیا ہے کہ والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہو کر خود ہی سمجھ جائیں گے اور سیکھ بھی جائیں گے اور یہی خوش فہمی اس وقت ایسی مائوں کے لیے خطرناک حد تک غلط ثابت ہوتی ہے جب بچوں کو عملی زندگی میں قد م رکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے ہر کام کے لیے کسی نہ کسی کندھے کا سہارا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہوتا اور یہی چیز ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں اور نہیں بچپن سے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نمٹنا سکھائیں۔

اسکول میں ہونے والی سختی سے بچوں کو بچانے کے لیے مائیں پیش پیش ہوتی ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہی مائوں کی پہلی غلطی ہے کیوں کہ اب تو وہ بچوں کو سخت حالات سے بچا لیں گی اور جب وہ بڑے ہوں گے تب وہ کسی طرح کی سختی برادشت کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔

اگر بچے کسی میدان میں ناکام ہو جائیں، چاہے یا وہ کھیل کا ہو یا پڑھائی کا، انہیں حالات کا سامنا کرنے سکھائیں، تاکہ وہ اپنی ناکامی سے سبق سیکھ کر اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں۔ کچھ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ چیز نہ ملنے پر خوب روتے اور چلاتے ہیں اس وقت بچوں کی نفسیات کی جانچ پرکھ رکھنے والی مائیں انہیں پیار سے سمجھاتی ہیں اس طرح بچوں میں ایک تو احساس محرومی پیدا نہیں ہوتا اور دوسرا وہ ضدی نہیں بنتے۔ جو مائیں اسی وقت بچوں کی بے جا فرمائشیں اور خواہشات پوری کر دیتی ہیں، وہ اپنے بچوں کا مستقبل خراب کر رہی ہوتی ہیں۔

بچے ماں کے سامنے کسی دوسرے بچے کی شکایت کریں یا استاد کے رویے پر رونے بیٹھ جائیں تو مائیں اسی وقت اسے دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہی غلط پہلو ہے کیوں کہ اس طرح آپ اپنے بچے کو مزید منفی رویے اپنانے پر اکسا رہی ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ انہیں بتائیں کہ ہر کام ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ ناکامیاں زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہیں اور بچوں کو اس مرحلے میں اپنے قدم مضبوط رکھنے کی تاکید کرتی رہیں۔

بچوں کے جذباتی پن کو وقت پر قابو کرنے میں ایک اچھی اور تربیت یافتہ ماں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے کسی دوست سے لڑائی جھگڑا کریں یا کسی پر الزام تراشی کریں تو سب سے پہلے معاملے کی تحقیق کریں۔ اگر آپ کا بچہ جھوٹ بول رہا ہے تو اسے مارنے یا سختی کرنے کے بہ جائے پیار سے سمجھائیں، تاکہ اس کے دل میں گناہ کا خوف بیٹھے اور نیکی سے لگائو پیدا ہو۔ بچیاں باورچی خانے میں کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو مائیں ان پر برہم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ کو اپنی اس غلطی کا اندازہ اس وقت ہوگا، جب بیٹی کو سسرال میں باتیں سننا پڑیں گی اور بیٹے کو پیشہ ورانہ زندگی میں دشواریاں ہوں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ انہیں شروع سے ہی چھوٹے چھوٹے کاموں کی عادت بھی ڈالیں، تاکہ ان کی دل چسپی بڑھے اور وہ اپنی عملی زندگی پرسکون طریقے سے گزاریں۔

اگر بچوں کا ٹیوٹر انہیں ڈانٹتا ہے یا سزا دیتا ہے تو آپ بچوں کی حمایت نہ کریں اور نہ بے جا مداخلت کریں۔ ایک بات جو سب سے اہم گردانی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مائیں بچپن سے ہی بچوں کی غلطیوں پر پردے ڈالنا شروع کر دیتی ہیں اور انہیں سزا سے بچانے کے لیے خود بھی جھوٹ بولتی ہیں، حالاں کہ بعد میں اس مسئلے کے بہت نقصانات سامنے آتے ہیں۔ بچوں میں ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ خود سری بھی پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ انہیں ہر معاملے میں آزادی ہے وہ جو دل چاہے کر سکتے ہیں کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا۔

ایک بچہ جب اپنے بہن، بھائی سے کوئی چیز چھینتا ہے، تو ایک سمجھ دار ماں کو چاہیے کہ وہ اسے مل جل کر کھیلنے کی تربیت دے اور سمجھائیں کہ بانٹنے سے ایک دوسرے سے محبت بڑھتی ہے نا کہ وہ چیز ایک سے لے کر دوسرے کو دے دی جائے اس طرح بچوں میں منفی جذبات جنم لیں گے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی پر اتر آئیں گے۔ آپ ایک اچھی ماں کے روپ میں خود کو پرکھیں اور اپنے تربیتی عمل کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کریں۔

The post بچوں کو اپنی ہتھیلی کا چھالا نہ سمجھیں ! appeared first on ایکسپریس اردو.


شاہ زادی سے ملکہ تک ۔۔۔

$
0
0

ایک زمانہ تھا، جب ہماری تمام خواتین خانہ گھر کے تمام کام خود کیا کرتی تھیں، جوسر، بلینڈر، چوپر، واشنگ مشین اور ایسی ہی دوسری مشینیں گھروں میں نظر نہیں آتی تھیں۔۔۔ قیمہ پیسنا ہو یا چٹنی۔۔۔۔ سل بٹے کا استعمال کیا جاتا تھا اور مسالا کوٹنے کے لیے ہاون دستا یا ’پَن کْٹّی، بچپن ہی سے روٹی گول بنانی سکھائی جاتی تھی، کپڑے بھی ہاتھ سے ہی دھوئے جاتے تھے سلائی کڑھائی شادی بیاہ اور عام دنوں کے کپڑے سینے سے لے کر سلائی کڑھائی تک، سب اہتمام گھر پر ہی تیار ہوتے تھے اور تو اور دلہنیں بھی گھر پر ہی تیار ہوتی تھیں، پارلر کا تو تصور ہی نہیں تھا۔۔۔ کیا سادہ زمانہ تھا، مگر اس پر بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ عورتوں کو پھر بھی وقت مل جاتا تھا وہ اپنے پانچ، چھے بچوں کو لے کر ایک دوسرے کے گھر آرام سے چلی جاتی تھیں اور کوئی بُرا بھی نہیں مانتا تھا، گھنٹوں بیٹھ کر سبزی بنا رہی ہوتیں، اچار، چٹنیاں، مربے اور نہ جانے کتنی ہی چیزیں گھر پر ہی بنا لی جاتی تھی اور ایک دوسرے کے گھر میں بھی بھیجی جاتی، مگر اچانک ہی عورتوں کو محسوس ہوا کہ ان کے باپ کہتے تھے ’’تم تو میری شاہ زادی ہو۔‘‘

بھائی کہتا  ’’میری سوہنی بہن، میں ہوں نا، تم کو کیا فکر؟‘‘ پھر شادی ہوئی تو شوہر نے کہا ’’ تم اس گھر کی ملکہ ہو !‘‘

بیٹے کہتے ’’اماں آپ تو بس، ملکہ کی طرح حکم چلایا کیجیے!‘‘

اور عورتوں نے اس کے جواب میں مردوں کو آرام دینے کے بہ جائے خود کو واقعی ملکہ اور شاہ زادی  سمجھنا شروع کر دیا۔ پہلے گھر میں مشینیں آئیں اور پھر ماسیاں، پہلے پہل کسی کسی کام کے لیے  بطور مددگار ان کام والیوں کو رکھا گیا۔ مشینوں کو ان کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا تھا، مگر آہستہ آہستہ سارے کام ان کے حوالے ہوتے چلے گئے اور اب کرنے کو کچھ بھی نہیں رہا۔۔۔ سبزی بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک اور کپڑے دھونے اور گھر کی مکمل صفائی سب ماسیوں کے ہاتھ میں آگیا اور پھر بھی ان ملکہ اور شاہ زادیوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی گئی۔ جب گھر کی عورت گھر سے بے پروا ہوگئی تو مردوں نے بھی گھر سے باہر وقت گزارنا شروع کر دیا، جگہ جگہ ریستوران اور چائے خانے بن گئے جہاں رات گئے تک بیٹھکیں رہتی ہیں۔

سب بہت اچھا چل رہا تھا اُدھر تم خوش، اِدھر میں مطمئن، سب اپنے آپ میں مگن، کسی کو دوسرے کی کوئی فکر نہیں،کوئی پڑوسی بھوکا سوئے، کوئی بیمار ہو یا کسی کی موت ہو، کہیں مسلمانوں پر ظلم وستم ہو، بس ’’چچچ‘‘ کے اظہار افسوس یا ’فیس بک‘ پر ایک ’اشک بہاتا چہرا‘ اور زندگی آگے بڑھ گئی،کسی کے پاس وقت نہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں یا ہمارے کہنے سے کیا ہوگا۔

پھر یوں ہوا کہ  اچانک ایک ’’تیز آندھی‘‘ چلی، جس نے چائے خانوں کو اڑا کے رکھ دیا، شہر میںتجاوزات کے نام پر جو ’صفائی‘ ہوئی تو بہت سوں کے جمے جمائے کاروبار تباہ ہوگئے۔ یہ صورت حال سبب بنی مردوں کے گھروں پر ڈیرے ڈالنے کا، ایسے میں جب ماسیاں گاؤں چلی گئیں، تو سب ’ملکہ‘ اور ’شاہ زادیاں‘ اور ’رانیاں‘  ہکا بکا رہ گئیں۔۔۔ اِن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، موبائل کیا چیز ہے۔۔۔گویا

’ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئیں ماں بیٹی، بہو و ساس۔۔۔ نہ ہی ڈراما رہااور نہ فیس بک کا آس‘

جہاں کچھ ’مشترکہ خاندانی نظام‘ تھا، وہاں تو صبر شکر سے ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی، جٹھانی نے مل جل کر کام بانٹ لیے، مگر جو ’شاہ زادیاں‘ اس زعم میں تھیں کہ ان کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہے گی اور وہ الگ گھر لے کر رہ رہی تھی، تو وہ اب پریشان، کہ بچے سنبھالیں یا گھر، کہ گھر اور بچے تو ماسی ہی دیکھتی تھی، ان کو تو بچوں کے کھانے پینے کے بارے میں بھی نہیں معلوم، ان کے پاس وقت ہی کہاں تھا، وہ تو اپنے آپ کو فٹ رکھنے میں اپنی غذا، ملنے ملانے، خریداریوں اور گھومنے پھرنے میں مصروف تھیں، اب وہ کبھی امی کو فون کرتی ہیں کہ آپ نے روٹی بنانی کیوں نہیں سکھائی، تو کبھی بہن سے واشنگ مشین چلانے کے رموز جانتی ہیں۔

دیکھا گیا کہ پھر سے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی ان کی اَمّیاں اپنے ساتھ کام میں لگا کر رکھتی ہیں کہ کام سیکھ لو دوسرے گھر جاکر کیا کرو گی؟ ’موبائل پیکیج‘ دہائی  دے رہے ہیں کہ ارے میں پڑے پڑے ختم ہوا جا رہا ہوں، مگر کوئی ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا۔۔۔ کہاں بے چارے موبائل کو کسی بچے کے پوتڑے (ڈائپر) کی طرح  دیکھنا پڑتا تھا کہ ’کچھ‘ آیا تو نہیں، کسی شیرخوار کی غذا کی طرح اس کی چارجنگ کے لیے ہلکان ہوا جاتا تھا کہ مبادا بجلی چلی گئی تو کہیں اس کی ’سانس‘ رک رک نہ جائے۔

بہت سی ’ماڈرن‘ نانی، دادی بھی وہی پرانی والی روایتی نانی دادی سی بنتی ہوئی دیکھی گئیں، جو دالیں بھی چُنتی ہیں، چاول سے کنکر بھی نکالتی ہیں اور محنت طلب سبزیاں بھی بناتی ہیں۔۔۔ ساتھ ساتھ  پوتے، پوتی اور نواسے، نواسی بھی کھلاتی اور بہلاتی ہیں۔ باورچی خانے میں ہاتھ سے ہانڈی روٹی کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹی اور بہو کو گھر سنبھالنے کے وہ ’گُر‘ بھی یاد کراتی ہیں، جو کچھ دن پہلے تک انہوں نے بھی پس پشت ڈالے ہوئے تھے۔ بچوں کو قصے کہانیاں سنانا بھی انہیں یاد ہوگیا ہے۔۔۔ وہ کہانی سناتی ہیں کہ ’’کچھ عرصے پہلے کا ذکر ہے کہ ایک جگہ ہر گھر کی عورتیں شاہ زادیوں کی طرح رہتی تھیں، ان کے سب کام ان کے نوکر چاکر کرتے تھے، وہ صرف گھومتی پھرتی اور حکم چلایا کرتی تھیں۔۔۔۔ پھر ایک دن۔۔۔۔‘‘ نہ جانے کیوں یہ کہانی سناتے وقت ان کی آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں۔۔۔

The post شاہ زادی سے ملکہ تک ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

آدابِ معاہدہ ؛  سیرتِ طیّبہ ﷺ کی روشنی میں

$
0
0

’’اے ایمان والو! تم اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔‘‘ اس ارشاد باری میں ہر طرح کے معاہدے شامل ہیں۔ اس سے مراد وہ معاہدہ بھی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے سلسلے میں کیا ہے اور وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو دو فرد کریں۔ جیسے شادی بیاہ اور خرید و فروخت کے معاہدے اور ان میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو دو قومیں کرتی ہیں۔ لہٰذا بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی لازم ہوگی۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: خبردار! جس شخص نے ظلم کیا اس پر جس سے معاہدہ ہوچکا یا اس کے حق کو نقصان پہنچایا یا اس کو تکلیف دی اس کی طاقت سے زیادہ یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں اس سے قیامت کے دن جھگڑوں گا۔‘‘ (ابوداؤد)

زمانۂ اسلام سے پہلے بھی لوگ معاہدے کرتے تھے لیکن عموماً معاہدات کی پابندی محکومی کی علامت اور معاہدات کو توڑنا جرأت اور برتری کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رسول اکرمؐ نے جو معاہدات فرمائے وہ تاریخ میں مثالی معاہدے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان معاہدات میں ایک صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کی شرائط میں سے ہر شرط خوب توجّہ کی طالب ہے۔

ایک شرط یہ تھی کہ دس سال تک لڑائی نہیں ہوگی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قریش کا جو شخص بغیر سرپرست کی اجازت کے مدینہ جائے گا وہ واپس کیا جائے گا، اگرچہ وہ مسلمان ہو اور جو شخص مسلمانوں میں سے مکہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ اس سال محمدؐ اور ان کے ساتھی بغیر حج و عمرہ کیے مدینہ واپس جائیں اور آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کرکے واپس ہو جائیں۔ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ ہو اور تلواریں بھی نیام میں ہوں۔ اور یہ بھی شرط تھی کہ قبائل عرب کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کرلیں۔

یہ شرائط بہ ظاہر تو ہر مسلمان کی کم زوری پر دلالت کرتی ہیں، بل کہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا، لیکن اس معاہدے کے بعد پیش آنے والے مفید نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ معاہدہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا اہم واقعہ تھا جو مسلمانوں کی آئندہ کام یابیوں کا پیش خیمہ بنا۔ جب رسول اکرمؐ صلح حدیبیہ سے واپس ہوئے تو راستے میں سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں اس صلح کو فتح مبین کہا گیا۔

اس معاہدے سے بہ طور اسوۂ حسنہ یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کے سربراہ اگر کافروں سے صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا نفع سمجھیں تو صلح کرلینا جائز ہے اور اگر صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو پھر صلح جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ فریضہ جہاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدے سے ایک اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں سے معاہدے کے وقت بلامعاوضہ اور معاوضہ دے کر اور معاوضہ لے کر تینوں طرح معاہدہ جائز ہے۔ معاہدات کے بارے میں اسوۂ حسنہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ معاہدات کو لکھوا لینا چاہیے۔

معاہدات کے بار ے میں اسوۂ حسنہ سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کسی بات پر معاہدہ نہ کیا جائے۔ چناں چہ جب اہل نجران نے معاہدہ کے وقت خلاف اسلام شرائط پیش کیں تو رسول اﷲ ﷺ نے انہیں ماننے سے انکار فرمایا اور معاہدہ نجران میں یہ لکھوایا کہ یہ ان پر پابندی ہوگی کہ یہ سُود نہیں لیں گے اور جو سُود لے گا وہ معاہدے سے خارج ہو جائے گا۔ معاہدات کے بارے میں یہ ادب بھی اسوۂ حسنہ سے معلوم ہوا کہ عہد نامہ کی دو نقول ہونا چاہییں تاکہ ہر فریق کے پاس ایک نقل محفوظ رہے۔ جیسا کہ صلح نامہ حدیبیہ کی ایک نقل رسول اکرمؐ کے پاس اور دوسری سہیل بن عمرو کے پاس رہی۔ معاہدات کے لیے ایک بات یہ بھی رسول اﷲ ﷺ نے سکھائی کہ جب معاہدہ ہو جائے تو دونوں فریقوں کے ذمے دار افراد ان دستاویزات پر دست خط کریں۔

رسول اکرم ﷺ نے جتنے بھی معاہدے فرمائے ان میں یہ بات بہت نمایاں ہے کہ آپؐ نے معاہدات میں انسانی حقوق کا خُوب خیال رکھا۔ ہر علاقے کے شہریوں کو بنیادی اور مذہبی حقوق بھی دیے۔ چناں چہ معاہدات میں عقیدوں کی آزادی رکھی جاتی ہے۔ کسی شہری کو اپنا مذہب چھوڑنے اور اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ عبادت کی آزادی دی گئی اور ثابت کیا کہ اسلام کے زیر سایہ رہنے والے غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہتی ہیں۔ چناں چہ معاہدہ نجران میں یہ بات شامل تھی کہ اہل نجران کی جان و مال، مذہب، عبادت گاہیں اور ان کے راہب محفوظ رہیں گے۔

رسول اکرم ﷺ نے جن لوگوں سے معاہدہ فرمایا ان کے معاشی اور تجارتی حقوق کا بھی خیال رکھا۔ اور پھر معاہدات کی پابندی اور پاسداری کرنے کے بعد رسول اکرمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے ان معاہدات کی پابندی اور پاس داری کا ایک اعلیٰ معیار امّت کے سامنے رکھ دیا۔ اس لیے کہ وہ ذات امین اور صادق ہے جس کے معاہدات بھی دین اسلام کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔

اﷲ رب العزت ہمیں زندگی کے تمام معاہدات میں رسول اکرم ﷺ کے سکھائے ہوئے آداب کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

The post آدابِ معاہدہ ؛  سیرتِ طیّبہ ﷺ کی روشنی میں appeared first on ایکسپریس اردو.

اسلام اور حقوقِ نسواں

$
0
0

جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے، اسے حقوق سے محروم اور قیدی بناکر رکھا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے تو ابھی سو برس پہلے ہی سامنے آئے ہیں۔ جب کہ اسلام نے پندرہ سو برس قبل ہی عورتوں کو مظالم اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی۔ سب سے پہلے اسلام کی رُو سے بہ حیثیت انسان مرد و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دیے ہیں وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہیں دے سکا۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور اس کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ اگر وہ بیوی ہے تو گھر کی ملکہ، بیٹی ہے تو رحمت و نعمت، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنّت کی بشارت ہے اور ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنّت ہے۔ عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصوّر ہے۔ کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟

اسلام نے عورتوں کی تعلیمی، معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ما ں کی گود کو بچے کا پہلا مکتب قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور مہذّب ہونا کتنا ضروری ہے۔ انہیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کا پورا اختیار ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگرچہ ولی کو لڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے، لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی اور اس کی رضامندی لازم اور ضروری ہے۔ اسلام عورت، مرد دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انہیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوش حال اور مامون بن سکتا ہے۔

آج مسلمانوں کی کچھ خواتین یورپ کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر دھوکے کا شکار ہیں۔ جب کہ یورپ کی مظلوم عورتیں بے راہ روی کے بھیانک نتائج کے مشاہدے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہیں۔ یہ آزادی نسواں کا دل فریب نعرہ نرا دھوکا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں ان کی عزت و عفّت سے کھیلا جاتا اور عورت سے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مرتبہ چھینا جا رہا ہے۔ وہ خاتون جو گھر میں شرافت کا مجسم نمونہ بن کر احترام و توقیر کی علامت تھی، اس نعرے کی بہ دولت اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہول ناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنا دیا گیا۔ یہ سب استحصالی ٹولے کی کارستانی ہے کہ آج بنت حوّا کی شرم و حیا اور عفت و عصمت سرِ بازار نیلام کی جارہی ہے۔

دور حاضر میں یورپ و امریکا میں عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف تجارتی اشیاء کی فروخت کے لیے استعمال ہورہی اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کی فروخت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی علامت ہے۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ یہ سلوک بھی عورت کے ساتھ اس وقت تک برتا جاتا ہے جب تک وہ مردوں کے لیے پُرکشش رہتی ہے، اور جب اس کی جاذبیت کم ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت لگنا بھی بند ہوجاتی اور جب اس کی تمام جسمانی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ پھر وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے، اسے مسترد کردیتے ہیں اور پھر وہ تنہا یا کسمپرسی کی حالت میں کسی اولڈ ہوم یا نفسیاتی اسپتال میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔

اگر آپ اس تحریک کے علم برداروں کی تحریریں پڑھیں اور تقریریں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس تحریک کے علم برداروں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا جنسی انارکی کو رواج و فروغ دینا کسی بھی طرح سے آزادی نسواں کہلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ مغربی معاشرے میں اتنی آزادی ہونے کے باوجود عورتیں مردوں کی نسبت 20 فی صد زیادہ کام کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ باہر بھی کام کرتی ہیں اور گھر کے معاملات بھی انہیں نمٹانے پڑتے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام کاموں کا اندازہ لگایا گیا تو پتا چلا کہ ان کاموں کا 66 فی صد عورتوں کے ذمے ہے اور مرد صرف 34 فی صد کام کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان کے بنائے ہوئے ہیں جو عورتوں کی آزادی کے بڑے علم بردار ہیں۔ خواتین اب یہ خود سوچ لیں کہ وہ آزادی حاصل کررہی ہیں یا مزید شکنجوں میں جکڑی جارہی ہیں۔

The post اسلام اور حقوقِ نسواں appeared first on ایکسپریس اردو.

مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والے ﷺ

$
0
0

حلم، ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اسباب محرکہ یعنی برانگیختہ کرنے والے اسباب کی موجودی میں ثابت و برقرار رہے اور تحمّل یعنی بُردباری ایسی حالت کا نام ہے جو مصائب و آلام کے وقت اپنی جان کو روک لے اور ان کو برداشت کرے اور اسی کے ہم معنی صبر ہے۔ اور عفو اس حالت کو کہتے ہیں جو بدلہ لینے کے وقت معاف کردے۔ یہ اوصاف ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے ساتھ نبی ﷺ کو مزیّن فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم: ’’اے محبوبؐ! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو۔‘‘ (سورہ الاعراف) جب یہ آیت حضورؐ پر نازل ہو ئی تو آپؐ نے جبریلؑؑ سے اس کا مطلب دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: میں اﷲ تعالیٰ سے پوچھ کر عرض کروں گا۔ چناں چہ وہ گئے اور آئے، پھر عرض کیا: ’’اے محمدؐ! آپؐ کو اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپؐ اس سے ملیں جو آپؐ کو چھوڑتا ہے اور اس کو عطا فرمائیں جو آپؐ کو محروم رکھتا ہے اور اس کو معاف فرما دیں جو آپؐ پر ظلم کرتا ہے۔ اور یہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ تو تم صبر کرو جیسے ہمّت والے رسولوں نے صبر کیا۔‘‘ (الاحقاف) اور فرمایا، مفہوم: ’’ اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔‘‘ (النور) اور ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمّت کے کام ہیں۔ ‘‘ (الشوری)

حضور ﷺ کا یہ حال ہے کہ کثرت ایذا کے باوجود آپؐ کا صبر ہی بڑھتا اور نافرمانوں کی زیادتیوں پر آپؐ کا حلم ہی زیادہ ہوتا رہتا۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے بالاسناد مروی ہے کہ جب کبھی حضورؐ کو دو باتوں میں سے کسی ایک بات پر اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسان کو پسند فرماتے جب تک گناہ نہ ہو، مگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے لوگوں کی نسبت بہت دُور رہتے۔ آپؐ نے اپنے لیے کبھی انتقام نہ لیا۔ سوائے اس کے کہ وہ حدود الٰہی کی بے حرمتی کرے، تب آپ ﷺ اﷲ کی حدود کے لیے بدلہ لیتے۔ (بخاری)

غزوہ احد میں جب آپ ﷺ کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپؐ کا چہرہ ٔ انور لہولہان ہوگیا۔ یہ بات صحابہ کرامؓ پر سخت گراں گزری۔ سب نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ان پر بددعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میں لعن کرنے والا نہیں بھیجا گیا، لیکن مجھ کو اﷲ کی طرف بلانے والا اور رحمت فرمانے والا بھیجا ہے۔ اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے، وہ مجھ کو نہیں جانتے۔

حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں فرمایا: یارسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے لیے یوں بددعا کی: ’’اے میرے رب! کافروں میں زمین پر کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔‘‘ اگر آپؐ بھی اسی طرح ہم پر بددعا فرماتے تو ہم آخر تک ہلاک ہوجاتے۔ کیوں کہ آپؐ کی کمر دہری کی گئی اور آپؐ کا چہرۂ انور زخمی کیا گیا اور آپؐ کے اگلے چاروں دانت شہید کیے گئے۔ باوجود اس کے آپ ﷺ نے کلمۂ خیر کے سوا بددعا سے انکار ہی فرمایا اور ارشاد فرمایا: اے خدا! میری قوم کو معاف فرما دے، یہ ناسمجھ ہیں۔

قاضی ابوالفضلؒ (عیاض) فرماتے ہیں کہ اس ارشاد پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسن خلق، کرم نفس، غایت صبر اور حلم جمع ہیں۔ کیوں کہ حضور ﷺ نے صرف ان سے سکوت پر ہی اکتفا نہیں کیا بل کہ معاف بھی فرما دیا پھر شفقت و محبّت فرماتے ہوئے ان کے لیے دعا اور سفارش بھی فرمائی۔ پس فرمایا: اے خدا! ان کو بخش دے یا فرمایا کہ ان کو ہدایت دے، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ یہ میری قوم ہے۔ پھر ان کی عذر خواہی کے طور پران کی جہالت کی وجہ میں فرمایا کہ یہ ناسمجھ ہیں۔

جود و کرم اور سخاوت میں بھی حضور ﷺ اپنی مثال آپؐ خود ہی تھے۔ جابر بن عبداﷲؓ سے بالاسناد مروی ہے کہ حضور ﷺ سے جب کبھی کوئی سوال کرتا تو آپؐ، نہیں کبھی نہ فرماتے تھے۔ حضرت انسؓ اور سہل بن سعدؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے اور جب بھی جبریلؑ حاضر بارگاہ ہوتے تو آپؐ تیز ہوا سے زیادہ بھلائی میں سخاوت فرماتے۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپؐ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کے برابر بکریاں عنایت فرما دیں۔ جب وہ اپنی قوم میں گیا تو اس نے کہا: مسلمان ہوجاؤ، بے شک محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ کبھی فاقے کا خوف رہتا ہی نہیں۔ (صحیح مسلم) بہت سے لوگوں کو آپؐ نے سو اونٹ تک دیے، صفوان کو آپؐ نے سو دیے پھر سو دیے۔ (صحیح مسلم) آپؐ کی خدمت میں نوّے ہزار درہم آئے، آپؐ اس کو بورے میں رکھ کر کھڑے ہوگئے اور تقسیم کرنا شروع کردیا۔ آپ ﷺ نے کسی سائل کو نہیں لوٹایا، یہاں تک کہ سب کو تقسیم فرما دیے۔ (مناہل الصفاء للسیوطی) اس وقت ایک سائل نے حاضر ہوکر سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اب میرے پاس کچھ نہیں، لیکن تم میرے نام پر خرید لو، جب میرے پاس آجائیں گے میں ادا کردوں گا۔

معوذ بن عفراءؓ سے مروی ہے کہ میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں ایک طباق کھجور اور ککڑی لایا تو آپؐ نے لَپ بھر کے زیور اور سونا مرحمت فرمایا۔ (سنن ترمذی) حضور ﷺ کل کے لیے کبھی کوئی چیز جمع کرکے نہ رکھتے تھے۔ (سنن ترمذی)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کیا تو اس کو آپؐ نے نصف وسق یعنی تیس صاع عطا فرمائے۔ ایک اور شخص نے آکر تقاضا کیا۔ آپؐ نے اس کوایک وسق یعنی ساٹھ صاع دیے اور فرمایا: نصف تیرے قرض میں اور نصف تم کو بخشش میں۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی مکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

The post مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والے ﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.

کیاعورت کی آزادی اور اعتماد نوکری سے مشروط ہے؟ 

$
0
0

اوائل جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح میں لاہور کی مصروف ترین شاہراہ پر لوکل ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے لوگوں میں راقم کا بھی شمار ہوتا تھا۔ بس کے آنے اور اس میں اترنے چڑھنے کا منظر بالکل ویسا ہی تھا جیسے کہ صور اصرافیل پھونک دیا گیا ہو اور ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں بس اسی فکر کا شکار ہوکہ وہ بس میں سوار ہوجائے، باقی سب کی خیر ہے۔

رش کی وجہ سے بس میں سوار اکثریت کوکھڑا ہونا پڑتا۔ اسی دوران نگاہ جب اپنے دائیاں جانب اٹھی تو ایک چہرے کو دیکھ کر دل مٹھی میں بھرگیا، عمر لگ بھگ 35 برس ہوگی، گمان گزرا کہ شادی شدہ ہو مگر پھر آنکھوں کی ویرانی اور چہرے پر چھائی پژمردگی دیکھ کر بخوبی اندازہ ہونے لگا کہ اول الذکر خیال اس صورت درست ثابت نہیں ہوتا۔ جب اس سے سلام دعا کی تو معلوم ہوا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک سرکاری ہسپتال میں گزشتہ پندرہ برس سے نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ سلسلہ کلام چل نکلا تو اپنا تعارف کرانے کے بعد ان سے سوال کیا کہ عورت کی آزادی اور نوکری کے حوالے سے ان کے کیا خیالات ہیں۔ پہلے پہل تو روایتی انداز میں شبانہ (فرضی نام) نے کہا کہ نوکری سے عورت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

معاشی طور پر خود کفیل ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن جب ان سے نوکری کی بابت سوال کیا گیا کہ آخر انہیں نوکری کیوں کرنا پڑی تو انہوں نے بتایا کہ وہ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی ہیں اور وسائل نہ ہونے کے سبب انہیں چھوٹی عمر سے ہی نوکری کرنا پڑی۔ چھوٹی دو بہنوں کی شادی کرانے کے عد اب تیسری کی باری ہے۔

اس دوران جب ان سے اپنی شادی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ایک پھیکی افسردہ مسکراہٹ کے بعد وہ کہنے لگی رشتے تو بہت آتے ہیں مگر بات آگے نہیں چل پائی۔ جب ایسا محسوس ہوا کہ وہ کھل کر بتا نہیں پارہی تو ان سے ادھر ادھر کے سوال کرتے ہوئے یہ بات معلوم ہوئی کہ دراصل لڑکے والوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ لڑکی زیادہ کمانے والی ہو اور گھر بھرکے جہیز بھی لائے۔

شبانہ کہتی ہے کہ عورت کو پیسہ کمانے والی مشین بناکر لے جانے والوں سے بہتر ہے کہ زندگی تنہا گزارلی جائے۔ عورت کے لیے شادی تحفظ اور تقدس کی علامت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد عورت اپنے گھر میں حکمرانی کرنا چاہتی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ عورت پہلے دس دس گھنٹے آفس میں کام کرے اور گھر آکر بھی ملازمہ بنی رہے۔ ایک مشرقی عورت کی اولین خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پیسوں پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے پرسکون زندگی گزارے۔ بھلے وہ بہت زیادہ نہ ہوں مگر اس کی ضروریات زندگی کو پورا کریں۔ یہی ایک عورت کی اصل آزادی ہے۔‘‘

شبانہ کی اس کہانی نے مزید کہانیوں اور اس سوال کے جواب میں سرگرداں کردیا کہ کیا عورت کی آزادی نوکری سے مشروط ہے؟

فاطمہ (فرضی نام) ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں ان کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک عورت ہونے کے ناطے انہیں ملازمت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں مہنگائی بڑھ چکی ہے وہاں قلیل تنخواہ میں گھر چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا کہ عورت جاب کیوں کرتی ہے تو ان کا جواب تھا مجبوری میں یا شوق سے مگر میرا خیال ہے کہ شوق سے نوکری کرنے والی خواتین 100 میں سے 1 فیصد سے بھی کم ہیں۔ ہم عورتوں کو ہماری مجبوریاں نوکری کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کسی بھی عورت کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں عیش کرے۔

اپنی مرضی سے صبح جاگے۔ اپنی پسند کی خریداری کرے اور شام کو تیار ہوکر اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ وقت گزارے۔ میرے نزدیک عورت کا حق ہے کہ اسے گھر پر اس کی ساری ضروریات اور خواہشات کی تکمیل باہم پہنچائی جائے۔ ہاں مگر بلاوجہ پابندیاں عورت کے حق آزادی کو زک پہنچاتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب پر فاطمہ کا کہنا تھا کہ جاب کرنے والی خواتین کو لوگ کنفیڈنٹ تصور کرتے ہیں کہ وہ سب کو جواب دینا جانتی ہیں مگر دراصل وہ سخت ماحول میں رہ کر غیر محسوس طریقے سے سخت مزاج اور زبان کی کڑوی ہوجاتی ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے نرم احساسات سے محروم ہوجانا اس کی انتہائی صورت ہوتی ہے جیسے لوگ عموماً ان کے پر اعتماد ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر عورت کو گھر میں اعتماد، محبت اور تحفظ دیا جائے وہ نوکری کرنے والی عورتوں سے زیادہ پر اعتماد شخصیت کی حامل ہوگی۔‘‘

ثریا (فرضی نام) پاکستان کے ایک معروف ادارے میں ویب ڈیزائنر ہیں۔ ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کم عمری سے ہی فری لانسر کے طور پر کام شروع کرنے کا محرک یہ تھا کہ میں اپنی تعلیم کے اخراجات خود سے اٹھانا چاہتی تھی۔ تعلیم کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شروع میں جاب کا شوق تھا مگر رفتہ رفتہ یہ میری ضرورت بن گئی۔ اب میری شادی کو دس برس بیت چکے ہیں۔ میں تین بیٹوں کی ماں ہوں۔

شوہر بھی ایک اچھے ادارے میں جاب کرتے ہیں مگر ان کی تنخواہ میں یا تو بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہوسکتے ہیں یا گھر کے۔ اسی لیے میں آٹھ گھنٹے جاب کرنے کے بعد گھر جاکر بھی فری لانسنگ میں کام کرتی ہوں۔ لیکن اس سب میں میرا اپنا آپ کہیں فراموش ہوگیا ہے۔ مجھے یاد بھی نہیں کہ آخری بار میں کب سیلون گئی اور سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ میرے بچے سفر کررہے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی علیحدہ گھر میں رہتے ہیں۔

بچے سکول سے آنے کے بعد ملازمہ اور کمپیوٹر کے سپرد رہتے ہیں۔ گو لوگوں کی نظر میں ایک آزاد و خودمختار عورت ہوں مگر دراصل معاشی مجبوریاں اور نوکری میرے پیروں کی زنجیریں ہیں جن سے میں چاہ کر بھی آزاد نہیں ہوسکتی۔‘‘ جب ان سے کسی خواہش کے متعلق پوچھا گیا تو کہنے لگیں ’’بیٹی کی شدید خواہش ہے مگر ہم میاں بیوی اب چوتھا بچہ افورڈ نہیں کرسکتے۔ پھر یہ بھی سوچتی ہوں کہ بیٹی کی تربیت کے لیے وقت کیسے نکال پاؤں گی۔ سو اس خواہش کو دبا دینا ہی بہتر ہے۔‘‘

رمیشہ ایک ادارے میں ریسپشنسٹ کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ خوش شکل رمیشہ سے نشست کا احوال کچھ یوں ہے ’’میں اس ادارے میں آنے سے قبل ایک آرٹ سکول میں ٹیچر تھی مگر وہاں بہت کام ملتا تھا۔ نوکری کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میں سنگل پیرینٹس چائلڈ ہوں، دو بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں مگر اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔ منگنی کو چھ برس بیت چکے ہیں مگر شادی اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب میرا جہیز تیار ہو۔ یہ جاب بھی اسی لیے کررہی ہوں کہ اپنے لیے کچھ بناسکوں۔

رمیشہ سے جب ان کی جاب کی نوعیت اور کانفیڈنس کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے جذبات کو کچھ اس طرح ظاہر کیا ’’صبح صبح ایک ڈمی کی طرح خود کو سجا کر بیٹھنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ دن بھر مردوں کی نگاہوں میں رہنا، کبھی کبھی الجھن کا شکار کردیتا ہے۔ میرے سسرال والے میری ریسپشنسٹ والی نوکری سے بے خبر ہیں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ بے خبر ہی رہیں۔

اگر بھائی اتنا سپورٹ کرتے تو مجھے گھر سے ہی کیوں نکلنا پڑتا۔ اگر ڈھیٹ ہوکر حالات سے سمجھوتا کرلیا جائے تو یقینا آپ کانفیڈنٹ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ شادی کے بعد جاب کرنے کی بابت دریافت کیا تو رمیشہ کہنے لگیں ’’کبھی بھی نہیں میں بہت Struggle کرلی ہے اب بس میری خواہش ہے کہ میرے شوہر کام کریں اور میں گھر پر آرام۔ میرا خواب ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی دیکھ بھال کروں اور اپنے شوہر کے لیے سجوں۔ میری والدہ ایک ٹیچر تھیں اور میں جانتی ہوں کہ ہم بہن بھائیوں نے کتنا مشکل وقت گزارا۔ گو کہ وہ مجبور تھیں مگر ہمیں جن لمحوں ان کی ضرورت ہوتی وہ ہمارے لیے روٹی کا بندوبست کرنے میں ہلکان ہورہی ہوتیں۔ میرے خیال میں عورت کی آزادی کو نوکری سے تعبیر کرنا سراسر بے وقوفی ہے‘‘

افشاں ایک سرکاری ادارے میں گریڈ 17 کی ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نوکری اپنے شوق اور کسی حد تک خود کو مصروف رکھنے کی خاطر کررہی ہیں۔ ’’میں شروع سے ہی سمجھتی تھی کہ عورت کی آزادی یہ ہے کہ وہ گھر میں دب کر نہ بیٹھے اور ماسی بن کر گھر والوں کے کام نہ کرے بلکہ گھر سے باہر نکلے اپنی تعلیم کا استعمال کرے اور کچھ بن کر دکھائے۔ اکلوتی بیٹی تھی تو والدین نے میری ہر خواہش کا احترام کیا۔ رشتے آتے مگر مجھے کچھ بننا تھا سو سب کو ٹھکرا دیا۔ والد اور والدہ کا انتقال ہوجانے کے بعد میں بالکل اکیلی رہ گئی ہوں۔ اب خود کو مصروف رکھنے کا بہترین حل جاب کرنا ہے اور اس کی بدولت مجھے اپنے اخراجات کے لیے کسی سے پیسے بھی نہیں مانگنے پڑتے۔

عمر کی 40 بہاریں دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ زندگی میں آزادی، تحفظ اور اعتماد آپ کے اپنوں کے دم سے ہوتا ہے۔‘‘

مندرجہ بالا سب کہانیاں اس تحقیقی سفر کے دوران ملیں جس کا محرک یہ جاننا تھا کہ کیا عورت کی آزادی اس کے نوکری کرنے اور برابری کے حقوق کے دعوے کرنے میں پنہاں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی کہانیاں ایسی ملیں جن میں خواتین کی اکثریت معاشی و معاشرتی وجوہات کی بنا پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان سب واقعات کا عمیق جائزہ لینے کے بعد جو نتائج دکھائی دیتے ہیں وہ اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ عورت کی آزادی اور حقوق کے علمبرداروں کو اس پہلو پر بھی نگاہ ڈالنی چاہیے کہ آخر یہ کونسا حق ہے کہ عورت دوہری مشقت کرے۔ درحقیقت حقوق نسواں کا نعرہ بلند کرکے ان کا مزید استحصال یوں کیا جاتا ہے کہ خواتین نوکری کے لیے باہر نکلیں اور پھر مردوں کے شانہ بشانہ ہونے کے چکر میں اپنا وہ حق بھی کھودیں۔ جس میں بنیادی طور پر ان کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بھی نہ اٹھانی پڑے۔

پوری دنیا میں صرف33خواتین سی ای اوز

عالمی سطح پر خواتین کے لیے بہتر ورک پلیس کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش کیٹلسٹ Catalyst کی جانب سے سال 2019ء کے اعدادو شمار کے مطابق خواتین مردوں کی نسبت نوکری کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں نوکری کرنے والی خواتین کی شرح 39.0 فیصد ہے جبکہ 2019ء کے اعدادو شمار کے حساب سے دنیا کے بڑے ممالک میں نوکری کرنے والی خواتین کی شرح امریکہ 46.0 فیصد، یورپی یونین 46.0 فیصد، کینیڈا 47.01 فیصد، جاپان 43.7 جبکہ انڈیا میں 21.8 فیصد ہے۔

اس وقت دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں صرف 33 خواتین CEO کے عہدے پر فائز ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو انتظامی اور اعلیٰ درجے پر پہنچانے کے علمبردار خود خواتین کو اس ضمن میں کیا حیثیت دیتے ہیں۔

The post کیاعورت کی آزادی اور اعتماد نوکری سے مشروط ہے؟  appeared first on ایکسپریس اردو.

عورت ایک مُعمّا، ایک پہیلی یا انسان۔۔۔۔؟

$
0
0

عورت ایک معمّا، ایک پہیلی، یا انسان! یہ بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ ازل سے جاری ہے اور آج بھی اس پر مکالمہ ہورہا ہے، ہوتا رہے گا اور ایسی بحث جو ہر پَل اک نیا موڑ لے لیتی ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ زمانۂ قدیم کی تہذیب اور مذاہب میں عورت کی حیثیت اور مقام کیا تھا۔

٭  یونان:

جسے تاریخ انسانی میں تہذیب، تمدّن، علم اور فن کا منبع سمجھا جاتا ہے، میں عورت کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ یونانیوں کے مطابق عورت ایک ادنٰی مخلوق تھی اور عزت و احترام کے قابل صرف مرد تھا۔ سقراط جیسا فلسفی کہتا تھا: ’’عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں، وہ دفلی کا ایک درخت ہے کہ بہ ظاہر بہت خُوب صورت نظر آتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔‘‘ افلاطون مساوات مرد و زن کا محض زبانی دعوے دار تھا۔ عملی زندگی میں اس کا کوئی کردار نہیں رہا۔ شادی صرف اس لیے کی جاتی تھی کہ طاقت ور سپاہی پیدا کیے جاسکیں۔ اسپارٹا میں یہ قانون تھا کہ جسمانی کم زور شوہروں کو اپنی بیویاں کسی نوجوان کو سونپ دینی چاہییں تاکہ طاقت ور سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق: ’’ قدیم یونانی تہذیب میں عورت کا مقام اور حیثیت صرف بچے پالنے والی لونڈی کی سی تھی۔ وہ گھر میں قید اور تعلیم سے محروم رکھی جاتی تھیں۔ عورت، گھر اور سامان کی حفاظت پر مامور ایک ملازمہ تھی۔ اس کے اور اس کے شوہر کے غلاموں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا ۔ وہ اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور نہ طلاق لے سکتی تھی۔ لیکن اولاد نہ ہو نے کی صورت میں شوہر اسے طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی اور وصیت میں اپنی بیوی کسی کو بھی بہ طور تحفہ دے سکتا تھا۔ عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا۔ یونان میں بھی لڑکی کی ولادت باعث ندامت سمجھا جاتا تھا۔

٭  روم:

رومی معاشرے میں بھی عورت حقوق سے محروم اور احترام کے لائق نہیں سمجھی جاتی تھی۔ وہ مردوں کی سنگ دلی اور ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔ اگر مرد کو اپنی بیوی کے کردار پر ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر قتل کرنے کا حق رکھتا تھا۔ بابل کی تہذیب کے عروج کے دوران بھی عورت کو خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر باپ اپنی بیٹیوں کو فروخت کردیتے تھے۔

٭ یورپ:

انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل وہاں عورت، مرد کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔ کوئی ایسا قانون نہیں تھا جو عورت کو مرد کے ظلم و ستم سے حفاظت فراہم کرتا۔ انگلستان کے قانون کے مطابق شادی کے بعد عورت کی شخصیت مرد کی شخصیت کا ایک جز بن جاتی تھی۔ عورت مرد کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی تھی۔ مرد چاہتا تو عورت کو وراثت سے محروم کردیتا لیکن بیوی کی جائیداد کا وہ جائز حق دار سمجھا جاتا تھا۔John Stuart Mill اپنی کتاب غلامی نسواں میں رقم طراز ہے: ’’انگلستان کے قدیم قوانین میں مرد کو عورت کا مالک تصوّر کیا جاتا تھا۔

بل کہ وہ اس کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ شوہر کے قتل کا اقدام، قانونی اصطلاح میں ادنٰی بغاوت کہلاتا، لیکن اگر عورت اس کا ارتکاب کرے تو اس کی پاداش میں اسے جلا دینے کا حکم تھا۔‘‘رابرٹ بریفالٹ کا کہنا ہے : ’’پانچویں سے دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہ اور زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی۔ اس دور کی وحشت زمانۂ قدیم کی وحشت سے کئی گنا زیادہ تھی، کیوں کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی، جو سڑگئی ہو، اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔‘‘

٭ آریائی تہذیب:

آریائی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، سوائے ایک باندی کے۔ شوہر کو یہ اختیار تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے جس کو بھی چاہے کسی دوسرے بے روزگار شخص کو اس مقصد کے لیے دے کہ وہ اس سے ذریعۂ معاش میں مدد لے۔ اس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں ہوتی تھی۔ عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرّف کا کوئی حق نہیں تھا۔ اولاد، شوہر کی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی۔ آریاؤں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اور اُس کی نظرِبَد کا اثر ہوتا ہے اور خاص طور پر اگر کسی بچے پر اُس کی بَد نظر پڑگئی تو بچے پر کوئی نہ کوئی بدبختی ضروری آئے گی۔ اس لیے بچے کو نظربَد سے بچانا ضروری سمجھا جاتا تھا‘ بالخصوص اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی عورت بچے کے پاس نہ آئے تاکہ اس کی شیطانی ناپاکی بچے کے لیے بدبختی کا باعث نہ ہو۔

معروف چینی سیاح ’’ہیون سانگ‘‘ کا کہنا ہے کہ آریا قانون معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لیے کسی رشتے کا بھی استثناء نہیں تھا۔ جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات متمدن سماج میں ہمیشہ غیرقانونی رہے ہیں، انہیں ان کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ تھا۔ اس شدید شہوانی رجحان کے خلاف ’’مانی‘‘ نے تجرد کی تحریک چلائی تھی اور شادی کو حرام قرار دے دیا تھا۔ پھر مانی کی تحریک کے خلاف ’’مزدک‘‘ نے آواز اٹھائی اور اس نے تمام عورتوں کو سب کے لیے جائز ٹھہرایا۔ اس تحریک کے نتیجے میں وہ سماج جنسی انارکی کے سمندر میں ڈوب گیا تھا۔

٭ قدیم مصر:

قدیم مصری عورت کو تمام حقوق حاصل تھے۔ اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن پھر اس سے اس کا یہ رتبہ بہ تدریج چھین لیا گیا۔ مصر میں بھی کئی ایسی رسمیں رائج تھیں جو عورت کو نہایت پستی میں دھکیل دینے کے لیے کافی تھیں۔ نکاح کے بعد عورت، ناصرف مرد کی ملکیت قرار پاتی تھی بل کہ شادی کے بعد عورت کا سارا مال بھی مرد کے نام ہوجاتا تھا۔ اولاد پر بھی عورت کا حق بالکل نہیں تھا، وہ مرد کی غلام بن کر رہ جاتی تھی۔ لیکن بعض مفکرین کا کہنا کہ قدیم مصر میں عورت کا سماجی مرتبہ بہت بلند تھا۔ ان کے مطابق نکاح نامہ کی سب سے پہلے ایجاد قدیم مصر میں ہوئی تھی۔

٭ عرب:

عرب سماج تو مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ عورت کا مقدر ذلت، رسوائی اور اس کی حیثیت ایک سستی جنس جیسی تھی۔ اسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا، اس لیے کہ وہ باپ کے لیے عار تھی۔ مرد کو تمام حقوق حاصل تھے اور عورت صرف غلام اور سامان تجارت تھی۔

٭ قدیم ہندوستان:

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق: ’’ہندوستان میں محکومی ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی تھی، ’’منو‘‘ کے مطابق عورت رات دن اپنے سرپرستوں کے تحت حالتِ انحصاری میں ہونی چاہیے۔‘‘ کچھ مفکرین کا کہنا ہے کہ ویدک عہد میں عورت کا سماجی رتبہ کافی بلند تھا۔ عورتوں کو مکمل آزادی حاصل تھی، وہ پورے اختیار کے ساتھ اپنے شوہر کے انتخاب میں حصہ لیتی تھیں۔ جیون ساتھی منتخب کرنے کی اس رسم کو ’’سوئمبر‘‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن پھر وہ سماج آخری ویدک دور میں زوال پذیر ہوتا گیا۔ رام شرن شرما کے مطابق: ’’یہ سماج پدری تھا۔ اس لیے لوگوں کی تمنا ہوتی تھی کہ ہر بار بیٹا ہی پیدا ہو۔ لوگ دیوتاؤں سے خاص طور پر التجا کرتے تھے کہ ایسے بہادر بیٹے پیدا ہوں جو جنگیں لڑسکیں۔ رگ وید میں اگرچہ بچوں اور مویشیوں کی افزائش کے لیے جگہ جگہ دعائیں ملتی ہیں‘ مگر کسی ایک جگہ بھی بیٹی کی پیدائش کے لیے دعا نہیں ملتی۔‘‘

ویدک دور کے بعد دھرم شاسترا کے دور میں عورت کی حیثیت نہایت پست تھی۔ کم سنی کی شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بیواؤں کی شادی کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ لڑکیوں کی پیدائش کو اس حد تک منحوس سمجھا جانے لگا کہ بے شمار والدین نومولود لڑکیوں کو قتل کردیا کرتے تھے۔ بیواؤں کا جیون اجیرن تھا اور ستی کی رسم عام تھی۔ رامائن اور مہابھارت کے عہد میں عورت کی حالت مزید ابتر ہوگئی تھی۔ اسے تمام تر برائیوں کا منبع سمجھا جاتا تھا۔ اس عہد میں ’’منو‘‘ کے قوانین لوگوں کے لیے خدائی احکامات سمجھے جاتے تھے۔ منو کے مطابق عورت کو شودر کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ہندو مذہب میں دھرم شاستر کی بنیاد پر کئی سمرتیاں لکھی گئیں، جن میں منوسمرتی سب سے زیادہ مشہور اور اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہندو قانون بنایا گیا ہے۔ منوسمرتی کو ہندو سماج کے معاشرتی و عائلی قوانین کا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔منوسمرتی کے مطابق: ’’عورت کو باپ یا بھائی اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کے حوالے کردے تو اسے زندگی بھر اس کی تابعدار رہنا چاہیے۔ بیوی کو اپنے شوہر کا آدھا بدن قرار دیا گیا ہے چناں چہ عورت کا اپنا کوئی انفرادی وجود نہیں ہے۔‘‘ ہندو دھرم کی مقدس مذہبی کتب میں بھی عورت کو وہ عزت و احترام نہیں دیا گیا جو مردوں کو حاصل تھا۔ مہابھارت، پران اور رامائن جیسی مقدس کتب میں عورت سے متعلق اچھے خیالات نہیں ملتے۔بنجامن والکر نے اپنی کتاب ’’ہندو ورلڈ‘‘ میں رامائن اور مہابھارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ عورتیں ناپاک اور مکروہ ہیں اور مرد کی روحانی نجات میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہی نہیں بل کہ ان میں ساری برائیاں بھری پڑی ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکا، ہوس پرستی، مکر و فریب اور عقل کی کمی۔ غرض دنیا کی ساری برائیوں کا مجموعہ عورتیں ہیں۔‘‘

مقدس پران کے مطابق: ’’شراب کی تین قسمیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ نشہ آور عورت ہے۔ اسی طرح زہر کی سات قسمیں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ مہلک عورت ہے۔‘‘

مختلف مذاہب میں عورت کی حیثیت

٭ یہودیت:

یہودی روایات کے مطابق عورت ناپاک وجود ہے اور اس کائنات میں مصیبت اسی کے سبب ہے۔ ان کے نزدیک مرد نیک سرشت اور حُسن کردار کا حامل اور عورت بدطینت اور مکاّر ہے، کیوں کہ اس نے آدم کو بہلا پھسلا کر پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے خدا نے منع کیا تھا۔ یہودی شریعت میں مرد کا اختیار اور عورت کی محکومیت نمایاں ہے۔ عورت باپ کی رضامندی کے بغیر خدا کو راضی کرنے کے لیے بھی کوئی منّت اور نذر نہیں مانگ سکتی۔ عورت کو دوسری شادی کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ عورت وصیت، گواہی اور وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی۔ یہودی قانون کے مطابق مرد وارث کی موجودی میں عورت وراثت سے محروم ہوجاتی تھی۔

٭ عیسائیت:

عیسائی مذہب کا بنیادی خیال یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے اور جہنم کا دروازہ ہے۔ ’’ترتولیان‘‘ جو مسیحیت کے اولین پیشواؤں میں سے تھا، کا کہنا تھا: ’’ وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر مرد کو غارت کرنے والی ہے۔‘‘ ’’کرائی سوسسٹم‘‘ جو عظیم مسیحی امام شمار کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے: ’’عورت، ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر د ل ربائی اور ایک آراستہ مصیبت ہے۔‘‘ مسیحیت میں تجرد اور صنفی تعلقات سے کنارہ کشی ہی اصل کمال سمجھا جاتا ہے ۔ مسیحی شریعت میں ہر چیز کا مالک مرد تھا۔ طلاق اور خلع کی اجازت نہ تھی۔ مسیحی دنیا کے ملکی قوانین اس بارے میں سخت تھے گویا مسیحی مذہب نے عورت کی تحقیر اور اسے پابندیوں میں جکڑے رکھنے کی پوری کو شش کی۔ مسیحی دنیا میں عورت کی زندگی ایک بے بس مخلوق اور مرد کے ہاتھ میں کھلونے کے سوا کچھ نہیں تھی۔

٭ بدھ مت:

بدھ مذہب جسے جدید مذہب میں شمار کیا جاتا ہے، نے بھی عورتوں کو نجس ہی قرار دیا۔ اس کا ثبوت ہمیں گوتم بدھ کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ گوتم بدھ نے اپنے ماننے والوں سے کہا تھا کہ اگر تم نجات پانا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی عورتوں سے تعلق قطع کرنا چاہیے اور سب سے پہلے خود انہوں نے اپنی عورتوں سے رشتہ توڑ لیا تھا۔ بدھ مت کے نزدیک عورت سے تعلق رکھنے والا کبھی نروان حاصل نہیں کرسکتا۔

٭ جین مت:

جین مت کے نزدیک عورت خیر سے عاری اور تمام برائیوں اور منکرات کی اصل جڑ ہے۔ اس لیے یہ مذہب مردوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوار نہ کریں۔ نہ عورت کی جانب دیکھیں، نہ اس سے گفت گو کریں۔ جین مت میں اگرچہ ہندو مت کے برعکس عورتوں کو مذہبی حقوق حاصل ہیں، لیکن وہ عورتوں اور مردوں کو راہبانہ زندگی کی ترغیب دیتا ہے۔ جین مت بھی بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا۔

٭ اسلام:

مختلف تہذیبوں، اقوام اور مذاہب میں عورتوں کے مقام و مرتبے کے جائزے سے یہ علم ہوتا ہے کہ عورت ظلم، جبر، ذلت، حقارت، بدسلوکی، تنگ نظری اور جہالت کا شکار تھی۔ لیکن جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کی زندگی منور ہوگئی۔ اسلام دین فطرت اور عورت کو بہ حیثیت انسان تمام فطری اور جائز حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کر کے انھیں یک ساں عزت، احترام اور وقار سے ہم کنار کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ اتنا انقلاب آفریں تھا کہ اس کے نتیجے میں فکرونظر کی دنیا ہی بدل گئی۔ رسول اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کبھی موجود نہ تھی اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی ناپید ہے۔ اسلام، خواتین کے حقوق کا پاس دار ہے۔ قرآن و احادیث میں مردوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ عورتوں کے معاملے میں عفو و درگزر اور نرم خوئی سے کام لیں۔ ان کی جذباتیت کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی حساس طبیعت اور نفاست کا خیال رکھیں۔ ان سے اچھا سلوک کریں اور ان کے حق میں بہترین ثابت ہوں۔ اگر وہ غلطیوں کی مرتکب بھی ہوں تو انہیں نرمی سے سمجھایا جائے۔

قرآن حکیم میں اﷲ تعالٰی مردوں کو عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیتا ہے مفہوم:

’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں (تب بھی ان سے نباہ کرو) ہوسکتا ہے کہ جس کو تم ناپسند کرتے ہو‘ اس میں اﷲ تعالیٰ خیرکثیر فرما دے۔‘‘

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’ ایمان کے اعتبار سے کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ سلوک کر نے والے ہوں۔‘‘

اسلام نے خواتین کو کسی بھی صورت میں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔ اگرچہ عورت پر معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا لیکن اسے معاشی سرگرمیوں کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنی عفت کی حفاظت اور گھریلو ذمے داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں ایک فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی ہے۔ صحابیات تجارت، زراعت، گلہ بانی، دست کاری کے شعبے سے وابستہ تھیں اور اپنی آمدن شوہر و بچوں کے علاوہ عوامی فلاح کے امور میں صرف کیا کرتی تھیں۔ صحابیات کی غزوات میں شرکت ، بیماروں اور زخمیوں کی خدمت و تیمارداری کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ اسلام نے عورت کو ایک مکمل قانونی اور اخلاقی تشخص عطا کیا پھر اس کے دائرہ عمل اور میدان کار کا تعین بھی کیا۔

پہلی بار عورت کو باپ اور شوہر کے ورثے میں حق دار قرار دیا گیا۔ اسلام کی رُو سے عورت کا ایک علاحدہ وجود اور اس کے قانونی حقوق ہیں۔ عورت کی اپنی ذاتی ملکیت ہوسکتی ہے اور وہ اپنی اس ملکیت میں تصرف کا کامل اختیار رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کے اعتبار سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام عورت کو ایک محترم اور معتبر وجود مانتا اور کوئی امتیاز نہیں برتتا۔ لیکن عورت کی طبعی فطرت اور اس کی عفت و عصمت کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند حدود کے پاس و لحاظ کو لازم ضرور قرار دیتا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں  urdu research journalسے استفادہ کیا گیا ہے)

The post عورت ایک مُعمّا، ایک پہیلی یا انسان۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

شوہر ساتھ چھوڑدے توقانون سہارا بنتا ہے

$
0
0

طلاق کے بعد جب میں نے عدالت میں بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کیا تو سب نے میری مخالفت کی۔ کم وبیش ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ بے کار اپنا وقت ضایع کرنے جا رہی ہو۔ عدالتوں کا حال بھی تم کو معلوم ہے اور اس راستے پر جو خواری اور ذلت مقدر بنتی ہے اس کو جھیلنا بھی ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں۔ سب کی باتیں سننے کو تو سن لیں لیکن دل میں مصمم ارادہ باندھ چکی تھی کہ میں عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاؤں گی اور دیکھوں گی کہ پاکستان کے نظام عدل میں بہ حیثیت ایک عورت میرے لیے کیا ہے؟ عدالت سے رجوع کرنے والی میری اس سوچ کو مستحکم کرنے والے بہت سارے ایسے واقعات بھی تھے جن میں طلاق کے بعد بچوں سمیت عورت کی زندگی کو مشکل میں ڈال کر مرد وں نے دوسری شادیاں کیں اور پلٹ کر کبھی بچوں کی خبر نہ لی۔ میں اپنی ایک دوست کی زندگی کے حالات بھی قریب سے دیکھ رہی تھی جو طلاق کے بعد اپنے بھائیوں کے در پر بچوں سمیت پھینک دی گئی اور اس کی زندگی سے رہی سہی خوشیاں بھی سب کے بدلتے مزاجوں کی نذر ہوگئیں۔ کسی بھی شکوے کے جواب میں وہ، احسانات کی ایک طویل فہرست گنوا کر زبان بند رکھنے پہ مجبور کی جاتی رہی۔

اب میرے سامنے دو راستے تھے، اپنی عزت، آزادی اور خودمختاری گروی رکھوا کر میکے کی دہلیز پر بچوں سمیت پڑی رہ جاؤں یا پھر قانون سے مدد مانگوں۔ خواری تو دونوں صورت میں ہی اٹھانی تھی لیکن میں نے نسبتاً کم خواری والے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے عدالت کا رخ کیا۔ اور آج میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کا نظام عدل طلاق کے بعد بھی عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ گھر ٹوٹنے کے بعد پھیلنے والے معاشرتی انتشار کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک مرد اور عورت کا طلاق کے بعد معاملات کو قانونی طریقے سے حل نہ کرنا ہے۔ اور اب وہ مرد جس نے بچوں سمیت گھر سے نکالتے ہوئے کہا تھا کہ سکون کی زندگی گزار ے گا، اب کبھی رابطہ ہو تو کہتا ہے کہ تم نے مجھے عدالت کے چکر میں پھنسا کر خوار کرڈالا ہے۔ میں سمجھتی ہوں بچوں کا خرچ اٹھانا اگر خواری ہے تو یہ تو دنیا کے سب والدین ہی اٹھاتے ہیں، پھر طلاق کے بعد کوئی بھی ایک فریق اس سے بری الذمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہوتا بھی ہے تو اسے قانون کی مار مارنا ہی بہترین طریقہ ہے ۔”

سٹی کورٹ میں کیفے کے اندر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی صبا طلاق کے بعد کی قانونی چارہ جوئی کا پورا احوال بتاتے ہوئے اعتماد سے مسکرا رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں پھیلتا سکون دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ پاکستان میں بگڑتے ہوئے خاندانی اور سماجی ڈھانچے کی وجہ سے عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے کا شکار ہے لیکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا دم ہر کسی میں نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے گزرنے والی عورتیں حقیقی سکون اور خوشیاں کھو چکی ہیں۔ اس لیے سوچا کہ کیوں نہ عورتوں کے عالمی دن پر اسی مسئلے اور اس کے حل کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ طلاق یافتہ خواتین کو پورے وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جا سکے، ایسے کہ خود کو اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے وہ کسی کی مقروض ہو نہ احسان مند۔

طلاق کو ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایک ٹیبو کی طرح لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا طلاق کی طرف جا رہا ہو تو پورا خاندان اس طلاق کو، رکوانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ انتہائی ناپسندیدگی کے باوجود جوڑے کو رشتے میں بندھے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ طلاق کوئی قبیح یا حرام فعل نہیں۔ نکاح ایک سماجی بندھن ہے جس میں بندھے رہنے کا بھی انسان کو کامل اختیار دیا گیا ہے اور ختم کرنے کا بھی۔ یہ اختیار مذہب نے عورت اور مرد دونوں کو یکساں طور پر سونپا ہے۔ لیکن طلاق کے نام پر معاشرے میں چڑھنے والی ناک بھوں کی میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ ہی بچوں کی کفالت کے وہ مسائل ہیں جو کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کی پرورش کا احساس دلا کر رشتے کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سب کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ بچے کیسے پلیں گے؟َ

میرے مشاہدے کے مطابق یہ فکر بچوں کی صرف جذباتی نشوونما کی نہیں ہوتی، اگر بات صرف جذباتی تعلق کی ہوتی تو معاشرہ ان مردوں کو بھی ملعون کرتا جو بچوں کی خاطر کمانے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اصل مسئلہ بچوں کے اخراجات کا ہوتا ہے جو طلاق کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کی پرورش کون اور کیسے کرے گا؟ ہمارے معاشرے میں مرد طلاق دے کر عموماً بچوں کی طرف سے یوں بے گانہ اور لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ گویا بیوی کے ساتھ بچوں پر بھی تین لفظ بھیج دیے ہوں۔ ایسے میں عورت اور اس کے بچوں کی ذمہ داری میکے والوں کے سر آجاتی ہے جس کو اٹھانے سے اکثر اوقات بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے طلاق کے لفظ کو کوسنے اور ایسے جوڑوں خصوصاً عورت کو نشانہ ملامت بنانے کا معاشرے میں چلن عام ہے، کیوں کہ مرد تو اپنی زندگی میں خود کمانے کے قابل ہوتا ہی ہے جب کہ عورت عموماً بچوں سمیت کہیں نہ کہیں بوجھ بن رہی ہوتی ہے۔

آئیے اس ضمن میں کچھ بڑے مسائل کی طرف نظر ڈالتے ہیں جو طلاق کے بعد کم و بیش ہر عورت کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے پاکستان کا قانون عورتوں کے لیے کتنی معاونت فراہم کرتا ہے۔

حق مہر کی عدم ادائیگی:

یہ طلاق کے بعد ہر عورت کو پیش آنے والا ایک عام مسئلہ ہے۔ اکثر شوہر طلاق دینے کے بعد حق مہر کی ادائیگی سے مکر جاتے ہیں یا اس بابت ادائیگی کا جھوٹ بول کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہر عورت کا شرعی اور قانونی حق ہے۔ اس کو غصب کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہی نہیں۔ پاکستان کے مسلم فیملی ایکٹ 1964 کے سیکشن 209کے تحت عورت اپنے حق مہر کا دعویٰ کورٹ میں دائر کرنے کا مکمل حق رکھتی ہے اور اس کے دعوے پر عدالت فوری ایکشن لیتے ہوئے سابق شوہر کو طلب کر کے حق مہر کی ادائیگی کا حکم دیتی ہے۔

عدت کے مہینوں کا خرچ :

ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے دورانیے کا خرچہ دینا شوہر پر فرض ہے۔ عملاً چاہے عورت عدت کرے یا نہ کرے، دونوں صورتوں میں وہ اس رقم کی قانونی طور پر حق دار ہے۔ عدالت اس ضمن میں مناسب رقم کی ادائیگی کا حکم جاری کرتی ہے۔ دورانِ عدت مطلقہ عورت سابق شوہر سے خرچہ پانے کی حق دار ہے، جو انکار کی صورت میں عدالت کے ذریعے حاصل کرنا بے حد آسان ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کے تحت عدت کے اس خرچے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

شوہر سے علیحدہ رہنے کی صورت میں نان نفقے کی ادائیگی ــ:

یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بیوی شوہر کے گھر میں ہو تو بھی اس کو نان نفقے کی مد میں کچھ نہیں دیا جاتا اور اگر وہ کسی ناراضگی کی وجہ سے شوہر سے الگ ہوجائے یا میکے میں رہ رہی ہو اس صورت میں تو مرد ہر ذمہ داری سے بالکل ہی آزاد ہو جاتا ہے۔ اور میکے والے بھی اپنی انا کو اہمیت دیتے ہوئے مرد سے بیوی بچوں کے خرچ کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہ مرد کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی بچوں کے نان نفقے کا بندوبست کرے ۔ اگر عورت کسی ناچاقی کی وجہ سے شوہر سے الگ رہ رہی ہے، میکے میں خواہ علیحدہ گھر میں، اور شوہر اس کا نان نفقہ نہ دے تو اس وقت بھی قانون اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور اگر شوہر یہ خرچہ نہیں دیتا اور یہ علیحدگی طلاق میں بدل جاتی ہے تو اب قانون کی رو سے عورت صرف عدت کے خرچ کا ہی دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ پچھلے چھے سال تک کے خرچے کا دعویٰ بھی دائر کرسکتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس 1961کی سیکشن 9 کے تحت عورت شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے بھی نان نفقے کی ادائیگی کا دعویٰ دائر کر نے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

بچوں کی کسٹڈی کا دعویٰ:

طلاق سے جُڑا یہ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ طلاق کے بعد عورت کو تنگ کرنے کی نیت سے شوہر یا سسرال والے بچے اسے نہیں دیتے۔ ایسی صورت حال میں عورت بہ حیثیت ماں تو پریشان ہوتی ہی ہے، ساتھ بچوں کو بھی شدید ذہنی دھچکا لگتا ہے۔ قانون کی رو سے بچوں پر پہلا حق ماں کا ہے، کیوں کہ ماں کے ساتھ ہی بچے زیادہ قریب اور پُراعتماد ہوتے ہیں۔ قانون کی نظر میں بچوں کی کسٹڈی دیتے وقت سب سے اہم بچوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لیکن اگر طلاق کے بعد بچے سسرال والوں نے یا شوہر نے اپنے پاس رکھ لیے تو عورت گارڈین اینڈوارڈ ایکٹ کی دفعہ سترہ اور پچیس کے تحت کسٹڈی آف مائنر کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے اور زیادہ تر یہ فیصلہ عورت کے حق میں ہی دیا جاتا ہے۔

ڈیکلریشن آف گارڈین شپ:

اگر بچے طلاق کے بعد عورت کے پاس ہی ہیں تو اکثر اوقات تو مرد اس سے بچوں کو چھین کر لے جانے کی دھمکیاں دے کر رہا سہا سکون بھی غارت کر دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں عورت کے پاس حق ہے کہ وہ اب عدالت میں بچوں کی کسٹڈی کا نہیں بلکہ ڈکلریشن آف گارڈین شپ کا کیس فائل کرے گی۔ گارڈین شپ ایکٹ سیکشن سیون (ٹین) کے تحت عدالت سے گارڈین سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ بچوں پر ماں کی مستقل کسٹڈی کا ضامن ہے۔ یہ سرٹیفیکیٹ نہ صرف ماں کے لیے ایک طاقت ہے بلکہ بچوں کو مستقبل میں بے شمار مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سرٹیفیکیٹ کے بعد بننے والے” فارم ب ” میں بچے ماں کے نام پر بہ آسانی رجسٹر ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد انہیں اپنے تمام تعلیمی مراحل میں باپ کے شناختی کارڈ یا اس سے متعلقہ کاغذات کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ماں کی دستاویزات پہ تمام مراحل آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس سرٹیفیکیٹ کے بعد عورت بہ حیثیت ماں اپنے بچوں کی فلاح وبہبود کے تمام فیصلے آزادانہ حیثیت میں کرنے کا اختیار حاصل کرلیتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کو اپنے ساتھ ملک سے باہر بھی لے جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ  12 کے تحت عورت پروٹیکشن آرڈر بھی لے سکتی ہے تاکہ کوئی بھی مستقبل میں اس سے بچوں کو چھین نہ سکے۔ اس سرٹیفیکیٹ کو حاصل کر نے کے باوجود بھی بچوں کے بنیادی اور اضافی دونوں قسم کے اخراجات کی ادائیگی قانوناً باپ ہی کی ذمے داری ہے۔

بچوں کا خرچہ:

مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961کی سیکشن نائن کے تحت عورت بچوں کے خرچ کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے۔ کیس شروع ہونے پر عدالت سابق شوہر سے پہلے عارضی خرچ جاری کرواتی ہے پھر کیس مزید آگے بڑھتا ہے اور اس میں مرد کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے فی بچے کے حساب سے عدالت بچوں کا خرچ طے کرتی ہے۔ یہ رقم ہمیشہ طے شدہ نہیں رہتی بلکہ ہر سال دس فی صد کے حساب سے بڑھتی بھی ہے۔ قانون اور شریعت کی رو سے بچوں کی کفالت ہر صورت باپ کی ذمہ داری ہے اور وہ اس سے بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا خواہ اس کی مالی حیثیت کتنی ہی کم زور کیوں نہ ہو۔

دودھ پلانے کا خرچہ:

طلاق اگر اس وقت ہوئی ہے جب عورت بچے کو دودھ پلانے کے مرحلے سے گزر رہی ہو تو ایسے میں وہ شوہر سے دودھ پلانے کے خرچ کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔ اور یہ خرچہ بچے کے خرچے کے علاوہ ہوگا۔ اس کا حکم قرآن سے بھی ثابت ہے اور یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ سابق شوہر کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عورت کے لیے رضاعت کے مہینوں کا کیا خرچ مقرر کرواتی ہے۔ مسلم فیملی آرڈیننس سیکشن9 کے تحت عدالت عورت اور بچوں کے خرچ کے معاملات عورت کے حق میں طے کرواتی ہے۔

برائڈل گفٹ کا قانون:

جہیز اور گفٹ کی مالک عورت ہے جس کا وہ کسی بھی وقت کلیم کر سکتی ہے۔ فیملی مسلم ایکٹ 1976 کے سیکشن ٹو کے تحت دلہن کو جو والدین کی طرف سے ملے گا وہ جہیز ہوگا اور جو سسرال والے دیں گے وہ گفٹ ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کیسز کی بھرمار ہے کہ جب طلاق کے بعد سسرال والے نہ صرف اپنے یہاں کے دیے ہوئے گفٹس بھی قبضے میں لے لیتے ہیں بلکہ جہیز بھی واپس نہیں کرتے، جب کہ دونوں چیزوں پر صرف اور صرف عورت کا حق تسلیم شدہ ہے۔ اس حق کی ادائیگی کے لیے سیکشن 10کے تحت کیس فائل کیا جاتا ہے۔ 1976کا برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ عورت کے جہیز اور تحائف پر اس کی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے۔

 وزیٹیشن رائٹ:

یہ بچوں کی ماں یا باپ سے ملاقات کا قانون ہے۔ اگر بچوں کی بہبود اور بہتر مستقبل کی خاطر ماں کی رضا سے بچے باپ کے حوالے کر بھی دیے جاتے ہیں تو ماں کی بچوں سے ملاقات کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کے لیے کوئی لگا بندھا قانون مقرر نہیں ہے۔ یہ وزیٹیشن رائٹ نان کسٹوڈین پیرنٹ کو دیا جاتا ہے اور ملاقاتوں کی تعداد کا تعین جج کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ ماں یا باپ کو ماہانہ کتنی ملاقاتوں کی اجازت دیتا ہے اور ملاقات کے لیے ماں اور باپ دونوں کی باہمی رضامندی سے کسی جگہ کا تعین بھی کر لیا جاتا ہے ۔ یہ ملاقات طے شدہ وقت پر کورٹ کے احاطے میں بھی ہو سکتی ہے۔

مسلم فیملی ایکٹ 1964کے اسکیجوئل 5میں مکمل وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کون کون سے مقدمات فیملی کورٹ کی حد میں آتے ہیں۔ ان میں گارڈین شپ، خرچہ، نان نفقہ، جہیز، حق مہر، خلع و طلاق کے معاملات شامل ہیں۔ اس ضمن میں مسلم فیملی آرڈیننس1961، مسلم فیملی ایکٹ 1964 ، ڈاوری اینڈ برائیڈل ریسٹرکشن ایکٹ 1976، ڈیزولوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939موجود ہیں۔ تمام فیملی معاملات انہی ایکٹ کے تحت ریگیولیٹ کیے جاتے ہیں۔ بہت سی باتوں سے ہمارے ہاں کی خواتین ناواقف ہیں اور یہ لاعلمی مستقبل میں ان کے لیے ایک بہت بڑی تکلیف اور مصیبت کا باعث بن جاتی ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ تین طلاق کے ساتھ ہی شوہر کی زندگی سے اس کا ہر قسم کا تعلق ختم ہوگیا جب کہ قانون کہتا ہے کہ اگر وہ طلاق کی عدت گزار رہی ہے اور اس دوران سابق شوہر فوت ہوجائے تو بھی وہ اس کی وراثت میں حق دار رہے گی۔ حتی کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی اور اسے ڈائیوورس سرٹیفیکیٹ نہیں دیا تو بھی وہ اس کی جائیداد میں وارث اور حق دار رہے گی۔

کیا عدالت کا راستہ ذہنی وجسمانی تھکن اور کوفت کا باعث بنتا ہے؟ کیا یہاں چلنے والے کیسز کی طوالت سر کا درد بن کر کسی سمجھوتے پر مجبور کر دیتی ہے؟ کیا واقعی انصاف کی فراہمی کے لیے عدالت کا رخ کرنے کے لیے جیب کا نوٹوں سے بھرا ہونا لازمی ہے؟ یہ اور ایسے ہی کتنے سوالات عدالت سے انصاف کے لیے رجوع کرنے کے نام پر عورتوں کے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان کا جواب تلاش کیے بنا ہی اکثر ہار مان لیتی ہیں۔

عورتوں کے حقوق کے عالمی دن پر میں خواتین کے لیے ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کر کے لائی ہوں جن کی طرف سے لاعلمی کے باعث وہ زندگی میں اکثر بدترین سمجھوتے کررہی ہوتی ہیں اور علیحدگی کے بعد اپنے حقوق سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے بہ آسانی ان سے دست بردار ہوجاتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ کا یہی رویہ مردانہ سماج کو مزید غرور عطا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ہماری بے خبری اور لاعلمی نے ہی مردوں کو قانون کی بابت ایسا بے خوف بنا دیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ کوئی جبر اور ظلم کرنے سے ذرا نہیں گھبراتے۔

خواتین کے ذہنوں میں کلبلاتے ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا یقین کرلیں کہ عدالت کی طرف بڑھتے آپ کے قدم خواری کی طرف نہیں بلکہ آسانی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ اگر آپ اپنا حق لینے کا تہیہ کر چکی ہیں تو سب سے پہلی فکر اس خرچے کی ستاتی ہے جو وکیلوں کی فیس کی ادائیگی کے نام پر پہلے ہی دن آپ کی جیب پر پڑنے والا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ کسی ٹرسٹ یا ادارے سے رجوع کریں جو خواتین کے حقوق کی فراہمی میں بلامعاوضہ ہر قسم کا قانونی ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے کئی اداروں کے بڑے نام آئے دن ہماری سماعت سے گزرتے بھی ہیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر آپ کی جیب وکیل کی فیس ادا کرنے کے قابل ہے تو وکیل ہائر کر لیجیے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ وکیل نہ تو آپ سے ہر پیشی پر پیسے وصول کرتے ہیں اور نہ ہی کیس کئی سال کھنچنے کی صورت میں آپ سے بے جا رقم ہتھیاتے ہیں۔ اگر آپ کے اندر شعور ہے اور آپ سارے معاملات اور قانونی طریقوں سے باخبر ہیں تو کوئی آپ کو بے وقوف بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ وکیل مہینے یا پیشیوں کے حساب سے نہیں بلکہ پورے کیس کی فیس طے کرتے ہیں جو کم سے کم بیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک ہوتی ہے۔ اب چاہے آپ کا کیس چھے مہینے چلے یا چھے سال، طے شدہ سے زیادہ رقم نہ کوئی وکیل آپ سے طلب کرے گا اور نہ ہی آپ کیس جلدی آگے بڑھانے کی لالچ میں فراہم کریں گی، کیوں کہ جج کی طرف سے آپ کے کیس کو مہینے میں دو تاریخوں سے زیادہ نہیں دی جائیں گی لہٰذا جلدی کی لالچ میں اپنی جیب پر بار نہ بڑھائیے۔ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔

دوسرا اندیشہ جس کا شکار خواتین اکثر ہوجاتی ہیں وہ ہے خواری۔ بھلا کیسے کیس کی ہر تاریخ پر عدالت جایا جائے گا؟ سارا دن کون کمرۂ عدالت کے باہر کھڑا ہوکر اپنے نام کی پکار پر کان لگائے گا؟ بھلا پیچھے گھر اور بچوں کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ تو جناب اس اندیشے کو میں ، بنا کسی جھجھک کے رد کرتی ہوں۔ آپ کا وکیل چاہے اس کا تعلق کسی سماجی اور فلاحی ادارے سے ہو یا پھر آپ نے فیس دے کر ہائر کیا ہو دونوں صورتوں میں وہی آپ کے کیس کا مکمل ذمہ دار ہے۔ کیس کی ابتدا میں بایو میٹرک کے لیے آپ کو ایک یا دو بار شاید عدالت جانا پڑے، اس کے بعد آپ کا کیس وکیل کا مسئلہ ہے۔ ہاں آپ کا ایک کام ہے اور وہ یہ کہ اپنے کیس کی اگلی تاریخ یاد رکھیے اور اس دن وکیل کو فون کر کے لازمی ہونے والی کارروائی کی بابت معلوم کیجیے۔ اگر آپ کا کیس عدالت میں دو سال بھی چلتا ہے جو کہ ایک عام بات ہے، تو آپ کو اس پورے عرصے میں چار یا چھے سے زیادہ چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔

”بال سفید ہونے سے پہلے انصاف نہیں ملے گا ۔” ہے ناں آپ کے ذہن میں کلبلاتا یہی اگلا اندیشہ۔ ذرا سوچیے کیا یہ ہماری زبان پر چڑھا ایک عام جملہ نہیں کہ دن تو گویا پر لگا کر اڑ رہے ہیں، نیا سال تو یوں ہی چلا آتا ہے گویا بارہ مہینے نہیں بلکہ چند ہفتوں کی دوری پر ہو۔ تو پھر کیس کے معاملے میں یہی گزرتے دن آپ کو پہاڑ کیوں لگنے لگتے ہیں۔ فیملی کورٹ میں دائر کیس زیادہ سے زیادہ دو سے ڈھائی سال کی مدت میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اس مدت کے بعد جو فوائد آپ کے اور آپ کے بچوں کے حصے میں آئیں گے وہ آپ کی ساری تھکن دو ر کرکے آپ کو طمانیت سے بھر دیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدالت شوہر کی مالی حیثیت کے پیشِ نظر بہت سارا ماہانہ خرچ نہ طے کرے لیکن کیا یہی اطمینان کافی نہ ہوگا کہ بچوں کو دنیا میں لانے اور آپ کو طلاق دے کر باہر کرنے والا اب اتنی آزادی سے زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کے پیروں میں آپ نے قانون کی بیڑیاں ڈال دی ہیں جو اسے قدم قدم پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس ضرور دلائیں گی۔

ایک اندیشہ آپ کو اور ستاتا ہوگا کہ کورٹ سے کیس ختم ہونے کے بعد اگر سابق شوہر ان سب کی ادائیگی سے مکر گیا، اس نے خرچہ کسی بھی وقت روک لیا تو کیا پھر میں وکیلوں کے پیچھے بھاگوں گی اور دو سال کیس چلنے کا انتظار کروں گی؟ ارے نہیں، آپ کی یہ سوچ پانی کے بلبلے سے زیادہ اہم نہیں۔ اس بار آپ کی طرف سے جانے والی صرف ایک درخواست پر ہی کورٹ ایکشن لے گی کیوں کہ اب یہ معاملہ آپ سے زیادہ کورٹ کے عزت و وقار کا ہے۔ کورٹ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے معاملے میں کڑا ایکشن لے گی ، لیکن اس کے لیے بس یہ لازمی ہے کہ ایک درخواست کی صورت میں یہ معاملہ عدالت کے نوٹس میں لایا جائے۔

عدالت سے فرار ممکن نہیں۔ پاکستان کا قانون عورتوں کے مکمل حقوق کا ضامن ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جب آپ اس سے رجوع کریں گی۔ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر بند باندھنے کا یہ ایک موثر طریقہ بھی ہے، اگر مرد کو معلوم ہو کہ طلاق کے بعد عدالت میں اسے کھینچا جاسکتا گا اور تمام ذمہ داریوں کو بعد میں بھی اسی کے سر تھوپا جائے گا تو وہ طلاق دینے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ عدالت کے راستے اسے بار بار یہ احساس دلائیں گے کہ طلاق دینا تو آسان تھا لیکن اس کے نتائج بھگتنا بہت مشکل ہے۔ سو طلاق کے نتائج عورت ہونے کے ناتے اکیلی آپ کیوں بھگتیں؟ بچے آپ تنہا کیوں پالیں؟

وجہ کوئی بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ طلاق کی شرح یہاں بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن جس تیزی سے طلاق کے کیسز سامنے آرہے ہیں اس کے مقابلے میں اپنی اور بچوں کی کفالت کے لیے قانون کی مدد لینے والی عورتیں بہت کم ہیں۔ صارم برنی ٹرسٹ میں گذشتہ ایک سال میں مینٹیننس کے ایک سو پندرہ اور جہیز کی حوالگی کے صرف سولہ کیسز آئے۔ چائلڈ ریکوری کے لیے آنے والے کیسوں کی تعداد بارہ رہی، جب کہ اس کا شمار پاکستان کے ایک ایسے ادارے میں کیا جاتا ہے جہاں مفت قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے، اس کے باوجود عورتیں ساری زندگی رونے دھونے اور شکوے شکایتوں میں بتانے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن انصاف کے لیے کسی در پر دستک نہیں دیتیں۔

یاد رکھیے، میاں بیوی کا رشتہ بہت قیمتی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن درست قانونی کارروائی سے بہت جلد آپ ایک عام زندگی کی طرف لوٹ سکتی ہیں ورنہ ساری زندگی طلاق آپ کے دل کا روگ اور ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہی بنی رہے گی ۔ ہم تو بس راستہ دکھا سکتے ہیں ، مشورہ دے سکتے ہیں۔ انتخاب تو آپ کو کرنا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں قانونی باریکیوں پر راہنمائی فراہم کرنے کے لیے میں ایڈووکیٹ شہباز مرتضی انصاری، اسدمشوانی ایڈووکیٹ اور صارم برنی ٹرسٹ کے لیگل ایڈ ڈیپارٹمینٹ کے انچارج بسالت علی خان وکلاء کی شکر گزار ہوں)

The post شوہر ساتھ چھوڑدے توقانون سہارا بنتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


سوشل میڈیا؛ خاندان کے انتشار کا ذمے دار ۔۔۔۔۔۔۔!

$
0
0

اسلام نے خاندانی نظام کو خاص اہمیت دی ہے اور انہیں کچھ قواعد و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔ خاندان کے سبھی افراد کا معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ باہمی میل جول اور تعلقات ہی معاشرے کو مستحکم بناتے ہیں اور معاشرہ ہر رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ اﷲ تعالٰی نے ذمے داریوں کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہر فرد ذمے دار ہے اور اس سے اور اس کے ماتحت اور اہل عیال کے متعلق اس کی ذمے داریوں کی بازپرس ہوگی۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کی پاس داری سماج کے افراد کرتے ہیں اور یہی باہمی ربط کسی بھی سماج کو آگے بڑھاتا ہے۔

صحت مندانہ باہمی میل جول اور روابط کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے کے دور میں قریب رہنے والے رشتے دار و احباب ایک دوسرے سے بہ ذات خود ملاقات کرکے تبادلۂ خیال کرلیتے تھے اور کسی اور شہر یا گاؤں میں رہنے والے خطوط کے ذریعے باہمی ربط میں رہتے تھے۔ پھر دور بدلا اور آگیا ٹیکنالوجی کا دور، جس کے متعلق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:

ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

ان کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی جس کا مشاہدہ اب ہم بہ چشم سر کر رہے ہیں۔

موجودہ دور کو ٹیکنالوجی کا ایرا کہا جاتا ہے، جہاں آلات ہی باہمی روابط کا ذریعہ ہیں اور اسی لیے سوشل میڈیا آج ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ ایک ایسا لازمی حصہ جو کسی بھی قید سے آزاد ہے اور ساتھ ہی ضوابط و قواعد سے بھی، یہ ہر وقت آپ کی دست رس میں ہے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ اس کی افادیت و اہمیت مسلّمہ ہے اور اسی کی بہ دولت پوری دنیا ایک عالم گیر گاؤں بن چکی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایجاد اپنے دامن میں ہزار فتنے بھی لائی ہے، اس سے کوئی ذی ہوش انسان انکار نہیں کرسکتا۔ سوشل ویب سائٹس کے صارفین بڑھتے جا رہے ہیں اسی اعتبار سے اس کے منفی اثرات بھی ہماری زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اخلاقی و سماجی برائیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اس کے مضر اثرات بھی لازمی مرتّب کرتی ہے اور یہ ایک آفاقی اصول ہے، کچھ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ اس کا منفی و مثبت استعمال ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے استعمال کیسے اور کن مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہی اسے مثبت اور منفی بناتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسمارٹ فون کے ساتھ ہم سب بھی کچھ زیادہ ہی اسمارٹ ہوگئے ہیں اور اس کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں دور دراز رہنے والے اجنبی افراد کے قریب تو کردیا ہے لیکن حقیقی رشتوں سے دوری کو بھی جنم دیا ہے۔

سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک ہے، جس نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ اب فیس بک ہمارا ہم راز ہے، بالکل اسی طرح جیسے کبھی کوئی قریبی رشتے دار ہوا کرتا تھا اور دانا بزرگ نصیحت کرتے تھے کہ بہت دیکھ بھال کر کسی کو اپنا ہم راز بنانا چاہیے اور وہ بالکل درست کہتے تھے، اس لیے کہ اگر آپ کسی کو اپنا کوئی راز بتا دیں تو وہ فرد انتہائی قابل اعتماد ہونا چاہیے ورنہ آپ کا راز، راز نہیں تشہیر بنا دیا جائے گا اور آپ اس کے مضر اور بھیانک اثرات بھگتیں گے۔

ہماری نوجوان نسل تو اپنا بیشتر بل کہ غالب وقت اور توانائی سماجی رابطوں کی اس سائٹ کو دان کرچکی ہے۔ فیس بک صارفین کو دوستوں سے رابطہ، تصاویر، ٹیکسٹ، آڈیوز اور ویڈیوز کی ترسیل کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ نوجوان نسل کے دل و دماغ پر فیس بک جنون بن کر سوار ہے۔ طالب علم اپنی پڑھائی اور دیگر کام کے اوقات بھی فیس بک پر صرف کرنے میں مگن ہیں، جس سے ان کی تعلیم و تربیت پر منفی اثراتمرتب ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل، گم راہ اور خوف میں بھی مبتلا کرکے ان کی زندگی اجیرن بنائی جاتی ہے۔

کیا اس سے کوئی بھی ذی شعور انکار کرسکتا ہے کہ مرد حضرات خواتین کے نام سے جعلی اور گم نام آئی ڈیز بنا کر دوستی کے نام پر خواتین کو بے وقوف بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر خواتین بھی دیگر ذمے داریوں کو نظر انداز کرکے اپنا قیمتی وقت فضولیات پر صرف کردیتی ہیں۔ اسی فیس بک کو سماج دشمن عناصر فرقہ وارانہ تصاویر پوسٹ کرنے، بے بنیاد افواہیں پھیلانے، مختلف سیاسی و مذہبی مکاتب فکر میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی غرض سے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ہمارے معاشرے میں خلفشار اور بدامنی کی کیفیت جنم لینے لگتی ہے۔ اسی طرح واٹس اپ، ٹویٹر، انٹرنیٹ بلاگز کی داستان بھی کچھ ملتی جلتی ہے۔ ہر شخص اپنی نمود و نمائش میں لگا ہوا ہے، جس سے نام و نمود کا چلن جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے، اب عام ہے۔ ان سائٹس نے اکثر افراد کو اپنے شکنجے میں اتنا جکڑ لیا ہے کہ اب وہ اپنے والدین، ہم سفر اور اپنی اولاد تک کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل کے ساتھ والدین کی بھی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

پوری دنیا سے رابطہ رکھنے کی لت میں ہم اپنوں سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور نہ جانے کتنے بچوں کا مستقبل اندھیروں میں گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، بل کہ گم ہوچکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا کے بے دام غلام اور اسیر ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا آج تفریحی سرگرمیوں کے فروغ اور وقت کی بربادی کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اس سے ہماری نوجوان نسل مخرب اخلاق اور بے ہودہ حرکتوں میں ملوث ہورہی ہے۔ ہماری زندگی میں ذہنی تناؤ اور رشتوں میں دراڑ آنے لگی ہے، بسے بسائے گھر اجڑنے لگے ہیں، طالب علم تعلیم سے بے نیاز اور بے راہ روی اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی اصلاح کے لیے ہر وقت حاضر رہتے ہیں مگر اپنا محاسبہ کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص سوچ سمجھ کر اور صرف اشد ضرورت کی صورت میں سوشل سائٹس پر اپنا بیش قیمت وقت صرف کرے اور اس سے ہونے والے تقصانات سے بچنے کی پوری کوشش کرے، تبھی ان مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہماری نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سماجی مسائل کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ازدواجی جوڑے جو اپنی زندگی کے معاملات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، ایک ناخوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن جوڑوں نے اپنی ذاتی زندگی کو صحیح معنوں میں ذاتی رکھا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہیں کی، وہ نسبتاً خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ جس طرح سیلفیاں مقبول ہوگئی ہیں، اس نے نفسیاتی و طبی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ اس سے انسان خود نمائی اور خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرنے والے افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق فیس بک کا استعمال لوگوں کو خوشی کو ختم کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ تنہا افراد جو فیس بک کا استعمال کم کرتے تھے وہ شادی کے بعد بھی نسبتاً خوش پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے ازدواجی یا دیگر رشتوں کے بارے میں مستقل سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہنا عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ سماجی و طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل کے جدید دور میں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سے دور رہنا تو ناممکن ہے، لیکن اس کا استعمال کم کرنا خصوصاً اپنی ذاتی زندگی کو اس سے دور رکھنا اپ کو بے شمار سماجی، طبی اور نفسیاتی مسائل سے بچا سکتا ہے۔

کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے محقق اور ماہر نفسیات لیری روزن کی تحقیقات کے مطابق فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کے زیادہ استعمال سے انسان میں خود پرستی، نفسیاتی مشکلات، سماج دشمن رویے اور پُرتشدّد جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیری روزن کے مطابق ان کے استعمال کرنے والے بچے اور بڑے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد بڑھی جا رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ آج خواتین بھی اس دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں۔ آج نہ صرف گھریلو خواتین، بل کہ ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر خواتین کو اپنے شوہروں سے یہ شکایت ہے کہ ان کی شوہروں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنا سارا وقت سوشل ویب سائٹس پہ گزار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خانگی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے شوہروں کی بیگمات نے اعلانیہ اپنے غم اور غصے کا اظہار شروع کر دیا ہے۔

ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے خاوند اس طرح سوشل میڈیا پر دوسری عورتوں کے ساتھ دل لبھاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایسی خواتین نے طلاق لینا شروع کردی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسّی فی صد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل ویب سائٹس کا ہے، جس نے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہیں۔ اس کی وجہ سے خاندان بکھر رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

اس سے ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے اور بچے خودسر ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کا شکار کچھ خواتین سوشل میڈیا نیٹ ورک کے نشے میں مبتلا ہو چکی ہیں اور وہ یہ بھول چکی ہیں کہ ان کا کوئی خاندان بھی ہے، وہ اپنا بیشتر وقت اور اکثر تو رات بھر موبائل نیٹ ورک اور چیٹ روم میں مختلف گروپس میں گفت گو کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔ شادی شدہ مرد نت نئی لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرتے اور اپنی بیویوں سے بے زار رہتے ہیں۔ چناں چہ ایسی خواتین مسلسل تکلیف دہ عمل سے گزر کر ڈیپریشن کا شکار اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہیں اور بے خوابی اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر چڑچڑی ہوتی جارہی ہیں۔ شک و شبے کا شکار ہو نے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا گھر کا سکون بھی بر باد کر دیتا ہے اور بہت سی خواتین تو اس صورت حال میں ہر وقت اپنے شوہر کی جاسوسی میں لگی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر اور بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور یہ بات معاشرے کے لیے بہت نقصان کا باعث ہے۔

ایک زمانہ تھا اور کتنا سہانا تھا جب بچے اپنی نانی، نانا، دادی، دادا سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے تھے، اور خاص کر رات کو سوتے وقت تو کہانی کی فرمائش ضرور کرتے تھے، نانا دادی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ادب کے ساتھ اخلاق و کردار اور ہماری مذہبی اقدار کا سبق ملتا تھا، اس طرح بچے کم سنی سے ہی بڑوں کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی سعی کرتے تھے اور ایک اچھا انسان اور مُسلم بننے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ لیکن اس دور فتن میں بچے اس نعمت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اب والدین انہیں کوئی موبائل فون یا آئی پیڈ خرید کر دے دیتے ہیں، اس طرح بچے تنہائی میں جو چاہے دیکھتے ہیں اور اگر وہ بچوں کی سبق آموز فلمیں بھی دیکھ رہے ہوں جو شاید ہماری خوش فہمی ہے، پھر بھی وہ موبائل یا آئی پیڈ کی روشنی کے مضر اثرات سے خود کو نہیں بچاسکتے اور ان کی بینائی شدید متاثر ہورہی ہے۔ اب تو کئی یورپی ممالک میں نوجوانوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے دوران تعلیم و مطالعہ موبائل فون کا استعمال ممنوع قرار دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی نشوو نما میں تاخیر ہو سکتی ہے، کیوں کہ وہ زیادہ وقت مصنوعی دنیا میں گزارتے ہیں۔

جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے بچوں میں جذباتی مسائل، غصہ اور خراب رویّہ پایا جاتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں نے کھیل کود کو بھی وقت چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوان جعلی آئی ڈیز بناکر دوسروں کے جذبات اور احساسات سے کھیل کر خوشی محسوس کر تے ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر لڑکیاں فلمی اداکاراؤں اور ماڈلز کی ہیجان انگیز تصاویر لگا کر لڑکوں کو متاثر کر نے کوشش میں مصروف رہتی ہیں اور پھر کسی کے ساتھ محبت کا تعلق بنا کر بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

کیوں کہ نوّے فی صد لڑکے صرف وقت گزارتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دوستی کے نتیجے میں ملاقات کے بہانے بہت سی لڑکیاں اغواء برائے تاوان اور جنسی زیادتی کا بھی شکار ہورہی ہیں۔ آج کیوں کہ سوشل میڈیا کی بہ دولت جنسی ویب سائٹس تک رسائی آسان ہو چکی ہے لہذا نوعمر بچے خاص طور پر لڑکے ان ویب سائٹس کو دیکھ کر اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ اپنا وقت ان ویب پیجیز پر گزارتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت خراب کر بیٹھتے ہیں۔ یہی نہیں بل کہ بعض نوجوان جنسی تصاویر لگا کر بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔ لوگوں میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں کوتاہی کے ذمے دار وہ والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ کے زیادہ استعمال سے منع نہیں کر تے اور نہ ان پر نظر رکھتے ہیں کہ بچے سارا وقت ان پر کیوں وقت ضایع کر تے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں۔

اس گمبھیر صورت حال میں قرآن حکیم ہماری راہ نمائی فرماتا ہے: ’’اور یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے، اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔‘‘ دوسرے مقام پر قرآن حکیم ہمیں خبر دار کرتا ہے: ’’ قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کر رہے تھے۔‘‘

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ تم ضرور اگلی اُمتوں کی عادات و اطوار کی بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے۔ حتٰی کی وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم بھی ا س میں داخل ہوگے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اﷲ ﷺ! پہلی امتّوں سے آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: پھر اور کون۔۔۔۔ ؟ ‘‘

ڈاکٹر اقبال نے فرمایا تھا :

تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

آخر میں یہ چھوٹی سی خبر بھی پڑھیے اور سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔۔ ؟

خاندانی نظام پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات، یہودی تلملا اٹھے۔ قدامت پسند مقبوضہ یروشیلم کے یہودیوں نے انٹرنیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق قدامت پسند یہودیوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کو یہودی خاندانوں کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اسمارٹ فون اور میسجنگ کی سہولیات فراہم کرنے والے سوشل میڈیا کے خلاف مذہبی اور سماجی سطح پر مقدس جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں قدامت پسند یہودی نوجوانوں میں بھی مقبولیت پا رہی ہیں۔ ’’ دی فار وررڈ‘‘ نامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان میں سوشل نیٹ ورکنگ کے لیے ویب سائیٹس اور فیس بک کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس لیے یہودی مذہبی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اپنے خاندانوں کو سوشل میڈیا سے بچانے کے لیے اس کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ یہ یہودی گھرانوں اور خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ حتی کہ طلاق کی شرح میں بھی سوشل میڈیا اضافے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہودی خاندانوں میں نکاح و طلاق کے معاملات کو دیکھنے والے مذہبی پیشواؤں کے مطابق طلاق کی ان دنوں سب سے بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا ہے۔

اسرائیلی قدامت پسند یہودیوں کے ترجمان اخبار ’’دیربلات‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یہودی مذہبی لوگ سوشل میڈیا کو کاروبار میں خرابی کی ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ اسی قدامت پسند گروپ سے ایک ویب فلٹرنگ کمپنی بھی منسلک ہے۔ یہ فلٹرنگ کمپنی سوشل میڈیا پر آنے والے والے مواد کو سنسر کرے گی، جن میں آڈیو ٹیپس، ویڈیوز اور تصاویر شامل ہوں گی۔ واضح رہے مئی 2012 کے دوران نیو یارک میں چالیس ہزار قدامت پسند یہودیوں انٹر نیٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ یہودی مذہبی راہ نماؤں کا مطالبہ ہے کہ تمام کمپیوٹرز پر ویب فلٹرز لگائے جائیں۔

The post سوشل میڈیا؛ خاندان کے انتشار کا ذمے دار ۔۔۔۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

لالہ صحرائی۔۔۔ایک ہمہ جہت ادیب

$
0
0

7 جولائی 2000ء لالۂ صحرائی کی دنیاوی زندگی کا آخری دن تھا، تاہم ادبی دنیا میں ان کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی ہی سے ادب سے ایسی دوستی استوار کرلی تھی جو تاحیات اُن کی رفیق رہی۔ اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ وہ مڈل تک مشاہیرِ ادب کا مطالعہ کرچکے تھے۔

وہ اقبالؒ، ظفر علی خان اور اصغر گونڈوی کے کلام کے مداح تھے اور اقبالؒ سے تو انہیں بالخصوص عقیدت تھی، جس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، تاہم انھوں نے اپنے ایک مطبوعہ مضمون ’’کلامِ اقبال کی اثرانگیزی‘‘ (مشمولہ تکبیر شمارہ نمبر17، 20 اپریل 1984ء) میں اپنے زمانۂ طالب علمی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؒ کے ’’تو غنی از ہر دو عالم من فقیر‘‘ والے قطعے پر محمد رمضان عطائی نامی جس شخص نے بطورِ خاص یہ قطعہ اقبال سے اپنے نام کروایا تھا، وہ لالۂ صحرائی کے فارسی کے اُستاد تھے اور انھوں نے اپنے اس مضمون میں یہ واقعہ بہ جزئیات نقل کیا ہے۔

یہ قطعہ پڑھ کر ان کے اُستاد پر جذب کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ پھر وہ اقبالؒ سے ملنے گئے اور اس ہدیۂ بے بہا کو اپنے نام کرنے کی درخواست کی۔ اقبال سے نیازمندی کا یہ عالم تھا کہ لالۂ صحرائی نے جو اپنا پہلا مضمون لکھا، وہ ان کی وفات پر تھا، جو روزنامہ احسان میں چھپا مگر اُن کی یہ پہلی تحریر اب ناپید ہے۔

لالۂ صحرائی کی سندی تعلیم میٹرک تھی، تاہم ادبی ذوق و شوق رکھنے کے باعث انھوں نے اسناد سے ماورا ہوکر ادب کی خدمت کی۔ اُن کا زمانہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ ترقی پسند مصنّفین کے مطالعے اور تحریکِ ادبِ اسلامی سے فکری وابستگی کی بنا پر انھوں نے اسلامی ادب کو پروان چڑھانے کے لیے کام کیا۔

وہ مولانامودودیؒ کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ بصیرت، استدلال اور صداقت کی جس قوت کی انھیں تلاش تھی، وہ انھیں مولانا مودودیؒ کے قریب لے گئی اور اُن کی یہی عقیدت تھی جس کی بنا پر انھوں نے نہ صرف جماعتِ اسلامی کے اجتماعات کے احوال قلم بند کیے بلکہ مولانامودودیؒ اور دیگر اکابرینِ تحریکِ اسلامی کے خاکے بھی تحریر کیے ہیں۔ جماعتِ اسلامی سے وابستگی اور فوج کی ملازمت سے سبک دوشی کے لمحے کو انھوں نے ’’وہ ایک لمحہ‘‘ کے عنوان سے رپورتاژ کی صورت میں قلم بند کیا ہے۔ اس طرح وہ صالح ادب کے تصور کے تحت تحریکِ ادب اسلامی کے ایک فعال رکن بن گئے۔

ایک انٹرویو میں لالۂ صحرائی نے اپنے جن پسندیدہ مصنّفین اور شعرا کا ذکر کیا ہے، ان میں میر، غالب، انشاء، شیفتہ، اکبر الٰہ آبادی، حالی، شبلی، سیدسلیمان ندوی، اقبالؒ ، ظفر علی خان، محمد علی جوہر، اصغر گونڈوی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر، صلاح الدین احمد، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، آل احمد سرور، مولانامودودیؒ، یلدرم، حسن عسکری، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، سعادت حسن منٹو، فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، خضر تمیمی، حسین میر کاشمیری، مشفق خواجہ، مشتاق احمد یوسفی، آغا شاعر قزلباش، تاجور نجیب آبادی، حامد علی خان، حامد اللہ افسر، شاد عظیم آبادی، فانی بدایوانی، مجید امجد، اخترشیرانی، احسان دانش، فراق گورکھ پوری اور ضمیر جعفری وغیرہ شامل ہیں۔

لالۂ صحرائی نے متعدد اصناف پر طبع آزمائی کی، جن میں انشائیہ، ڈراما، افسانہ، سفرنامہ، رپورتاژ، طنزومزاح، تراجم، مضمون نویسی، تبصرے، نعت گوئی اورنظم نگاری شامل ہیں۔ ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو ان کا ادبی سرمایہ لائق تحسین ہے۔ اُن کی بیش تر تحریریں زیورِ طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکیں اور اس عدم اشاعت کی وجہ ان کا درویشانہ اور استغنا پر مبنی رویہ ہے۔

وہ نمودونمائش سے ماورا ہوکر تاحیات ادب کی خدمت میں مصروف رہے۔ ان کی غیرمطبوعہ تحریروں کو مرتب کیا جائے تو ان کے صحیح ادبی مقام و مرتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مضمون نویسی میں انھوں نے سیاسی، شخصی، تاثراتی، ملی، تحقیقی اور طنزومزاح پر مبنی مضامین لکھے ہیں۔ وہ تمام عمر نثر میں اظہارِ خیال کرتے رہے، لیکن عمر کے آخری حصے میں نعت گوئی کی جانب مائل ہوئے اور پھر اس صنف میں آورد کی انتہا تک پہنچ گئے۔نعت گوئی میں جناب عاصی کرنالی سے اصلاح لیتے رہے تا آنکہ وہ نظم نگاری کی جانب بھی مائل ہوگئے۔ اس ضمن میں انھوں نے ملک و ملت کی اہم شخصیات اور واقعات کو نظم کے سانچے میں ڈھالا۔ انھوں نے قومی و ملکی موضوعات اور جہاد پر نظمیں لکھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی تاثرات پر مبنی نظمیں بھی تحریر کی ہیں۔ نظم نگاری میں انھوں نے مروجہ ہیئتوں کی پابندی کرنے کے ساتھ آزاد نظم کو بھی وسیلۂ اظہار بنایا۔ نظم نگاری میں ان کا کارنامہ غزوات رحمۃ للعالمین (1997ء) ہے، جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ یہ کتاب  200صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کارنامے کے پسِ پشت کارفرما شخصیات کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔

عاصی کرنالی اپنے دوست کرم حیدری کے ہمراہ مولانا ظفرعلی خان کی وفات سے تین ماہ قبل ان سے ملنے مری گئے۔ حیدری صاحب نے ظفر علی خان سے عاصی صاحب کی شاعری کا ذکر کیا اورنمونۂ کلام بھی سنوایا تو انھوں نے عاصی صاحب سے اول تا آخر غزوات منظوم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم عاصی صاحب اتنا بڑا کام خود کرنے سے قاصر رہے بعد میں انھوں نے یہ خدمت لالۂ صحرائی کو سونپ دی۔ اس سے قبل اردوشاعری کی روایت میں منظوم غزوات، مثنویوں اور جنگ ناموں کی صورت میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں اور ان میں بیش تر کا بنیادی موضوع واقعۂ کربلا ہے۔

میلادنامے، معراج نامے، شمائل نامے بھی لکھے گئے، تاہم ان میں بھی غزوات پر خامہ فرسائی ناپید ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے کلیات میں ’’جنگ خیبر‘‘ کے نام سے ایک نظم ملتی ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں میں تحریکِ بیداری کے تحت سرسید کی فرمائش پر حالی نے مسدسِ مدوجزرِ اسلام لکھی۔ تاہم حالی نے بھی غزوات کا ذکر اجمالاً کیا ہے۔ حالی کے بعد حفیظ جالندھری وہ واحد شاعر ہیں جنھوں نے اسلامی تاریخ کو شاہنامۂ اسلام کی صورت میں منظوم کیا لیکن انھوں نے بھی بڑے غزوات کی حد تک خامہ فرسائی کی اور چھوٹے غزوات کو نظرانداز کردیا۔ مثال کے طور پر غزوۂ احد اور غزوۂ خندق کے درمیان پیش آنے والے غزوۂ بنوقریظہ کا ذکر نہیں کیا۔

غزوۂ احد کے بعد یہودیوں کی ریشہ دوانیاں اس حد تک بڑھ گئیں تھیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا لیکن وہ اپنے قلعوں میں محصور ہوکر مسلمانوں کے خلاف جنگ آزما ہوگئے۔ مسلمانوں نے قلعوں کا محاصر کیا اور بالآخر فتح یاب ہوئے۔

حفیظ نے یہودیوں کی ریشہ دوانیاں تو بیان کی ہیں اور حواشی میں پورا واقعہ بھی بیان کیا ہے لیکن اس غزوے کو نظم نہیں کیا۔ تاہم لالۂ صحرائی نے دورِ نبویؐ کے کل 23غزوات کو بہ عنوانات غزواتِ رحمۃ للعالمینؐ کے نام سے نظم کیا ہے۔ انھوں نے غزوات کی واقعہ نگاری کے ساتھ ساتھ ان کا پس منظر اور نتائج بھی تفصیل سے نظم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ انھوں نے صرف انھیں مستند واقعات کو نظم کیا ہے جن پر سیرت و مغازی کی کتب میں اتفاق ہے۔ انھوں نے واقعات کی تحقیقی صداقت کا خیال رکھا ہے لیکن کتاب کے آخر میں حوالوں یا کتابیات کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر وہ اس جانب توجہ کرتے تو تحقیقی اعتبار سے اُن کی اس کتاب کا مرتبہ بہت بلند ہوجاتا۔

لالۂ صحرائی کے نعتیہ مجموعے بارانِ نعت کی پشت پر زیرترتیب کتب میں ’’زمینِ حجاز‘‘ کے عنوان سے ایک سفرنامے کا ذکر بھی ہے تاہم وہ اسے مکمل صورت میں شائع نہیں کروا سکے۔ اس سفرنامے کا ایک حصہ قومی ڈائجسٹ نومبر1979ء کے شمارے میں ’’سائے ہیبت کے، پھوار رحمت کی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ نگاری کے ضمن میں اُن کی تحریریں لائق مطالعہ ہیں لیکن وہ بھی بدقسمتی سے تاحال طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکیں۔ مشہور جرمن صحافی لیو پولڈویلس مسلمان ہوکر محمد اسد کے نام سے جانے گئے؛ لالۂ صحرائی نے ان کی مشہور کتاب The Road to Mecca کے چار ابواب کا ترجمہ کیا جن میں سے دو ترجمے ’’منزل کے قریب‘‘ اور ’’اے خنک شہرے‘‘ دو مختلف رسائل میں شائع ہوئے اور ’’پہلا وہ گھر خدا کا‘‘ اور ’’بازگشت‘‘ تاحال غیرمطبوعہ ہیں۔

لالۂ صحرائی نے روس کے اعلیٰ سرکاری وفد کے رکن وکٹرکراچنکو Victor Kravchenko کی کتاب I Choose Freedom کا تین جلدوں میں ترجمہ ’’بیڑیوں کو سلام‘‘ کے عنوان سے کیا۔ کتاب کے مصنف نے اشتراکی نظام سے بے زاری کا اظہار کیا ہے اور بالآخر اس نے امریکہ کی شہریت اختیار کرلی۔ اس کتاب میں اس نے اشتراکی نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ لالۂ صحرائی کی یہ کاوش بھی کُلّی طور پر طبع نہیں ہوسکی۔ اس ترجمے کے صرف چند ابواب مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔

لالۂ صحرائی نے جو افسانوی تراجم کیے، اُن میں فلاہردی کا ’’پہلی اُڑان‘‘، ٹالسٹائی کے دو افسانوں ’’بہن‘‘ اور ’’دوگززمین‘‘، الفریڈ ہیلر کا ’’صابن کی ٹکیہ‘‘ اورموپساں کے افسانے کا ترجمہ ’’انقلابی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اُن کے غیرمطبوعہ تراجم میں اے ڈبلیو وہین کے All Quite on the Western Front کا ترجمہ ’’خموش محاذ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ یہ ناول جرمن زبان سے انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا اور لالۂ صحرائی نے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا۔

اس ناول کا موضوع جنگ ہے۔ اس ترجمے کا مسودہ نہایت ضعیف حالت میں ہے۔ سکے کی پنسل سے ترجمہ کرنے کے بعد قلم سے روشنائی کی مدد سے تصحیح بھی کی گئی ہے۔ ناول کے کل بارہ ابواب ہیں اور اُن کے ماقبل مذکورہ تراجم کی روایت کی طرح یہاں بھی عنوانات قائم کرکے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایان سٹیفنز کے سفرنامے Horned Moon کے تیسرے حصے ’’کشمیر‘‘ میں شامل پندرھویں باب Road to Hunza کا ترجمہ ’’ماہِ نو‘‘ کے عنوان سے کیا۔ ’’سوئے اسلام جو ہم بادلِ دیوانہ چلے‘‘ ازڈاکٹرعبدالکریم جرمانوس اور ’’اسلام میں تصویرسازی کیوں ممنوع ہے‘‘ از مریم جمیلہ بھی لالۂ صحرائی کے غیرمبطوعہ تراجم میں شامل ہیں۔

لالۂ صحرائی کے فنی سفر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت ادیب تھے۔ انھیں قدرتِ بیان اور طرزِ اجتہاد کی خدادادصلاحیتیں عطا ہوئیں تھیں۔ وہ خوش نویس اور طبعاً نفیس مزاج انسان تھے۔ اُن کے مسودات اُن کی نفاستِ طبع کے آئینہ دار ہیں۔ وہ اپنی جو تحریریں چھپوانے کی غرض سے لکھتے تھے، اُن میں کاتب کے لیے ہدایات بھی درج کرتے تھے تاکہ اُن کا منتہائے مقصود بہ طریقِ احسن قاری کے روبہ رو آسکے۔ اُن کے غیرمطبوعہ مسودات میں سے اکثر ایسے اشارات پر مبنی ہیں۔ حسنِ بیان، حسنِ سیرت اور استغنائے مزاج کا یہ مظہر ادبی تنقید کی ستم ظریفیوں کا شکار رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر فن کاروں کے علمی و ادبی سرمائے کو پرکھنے کی طرح ڈالیں تاکہ اُن کا صحیح مقام و مرتبہ متعین ہوسکے:

قافلہ عمر کا ہے پا بہ رکاب

زیست کا کیا ہے اعتبار افسوس

(شاہ نصیر دہلوی)

The post لالہ صحرائی۔۔۔ایک ہمہ جہت ادیب appeared first on ایکسپریس اردو.

’’جاؤ، نہیں بیٹھوں گی ویسے جیسے تم چاہتے ہو ۔۔۔!‘‘

$
0
0

عورت، جو دوران تعلیم اپنے پسندیدہ مضامین سے لے کر زندگی کے ہم سفر تک چنتے وقت، اپنے والدین کی سمت دیکھتی ہے۔۔۔ کبھی اپنی خواہش بھی ظاہر کرتی ہے، تو اس پر والدین کی رضامندی مل جائے تو جی اٹھتی ہے، ان کے انکار پر بجھ سی جاتی ہے۔

عورت، جو ڈاکٹر بن کر گول روٹی پکانے میں مگن ہے۔ تعلیمی میدان میں جتنی بھی اچھی ہو، اس کو ہانڈی روٹی پاس ہونے کی فکر ہمیشہ رہتی ہے۔ وہ عورت جو اکثر اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں، تو ان کا اظہار کیسے کرے؟

وہ عورت جسے مار کھا کر بھی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے ’’ایسا کیا کیا تھا کہ سامنے والے نے تھپڑ ہی مار دیا؟‘‘

یا پھر ’’ایک تھپڑ ہی تو مارا ہے ، ایک دھکا دینے سے تمہارا کیا بگاڑ گیا بھئی۔۔۔؟‘‘

یہاں فقط خاندان کی بات ہو رہی ہے۔ معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہے ہم جانتے ہیں۔ ووٹ دینے سے لے کر جائیداد میں حصہ دینے تک، عورت کی کہیں حمایت نہیں کی جاتی۔ کبھی کوئی ایک آدھ آواز اٹھتی تو اٹھ جاتی ہے۔

ایسے حالات میں جب آپ خود کو بے حد اکیلا، کمزور اور تنہا محسوس کرتے ہیں اور سامنے صنفِ مخالف مضبوط اور طاقت وَر لگتی ہے تو اندر خون اترتا ہے، طبیعت میں غصہ بھرا جاتا ہے اور پھر ایک روز جب موقع ملتا ہے، تو لاوا اُبل پڑتا ہے۔ غصہ باہر آتا ہے اور جیسے، جہاں اور جتنا موقع مل سکے اتر جاتا ہے۔ یہ غصہ گھر میں بھی اتر جاتا ہے، سڑک پر چلتے ہوئے بھی اور کسی ’مارچ‘ کے ذریعے بھی۔

کیا خیال ہے آپ کا، کیا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اور مشکل کام کھانا گرم کرنا ہے؟

آپ کو کیا لگتا ہے کہ عورت کسی محفل میں بیٹھنے کے آداب سے آگاہ نہیں ہے؟

کیا آپ سوچتے ہیں کہ عورت محبت کرنا، شادی کرنا اور بچوں کی پیدائش اور پرورش سے لگاؤ نہیں رکھتی؟

لیکن پھر بھی وہ جب بغاوت پر اترتی ہے، تو کہتی ہے کہ ’’جاؤ، نہیں بیٹھوں گی ویسے جیسے تم چاہتے ہو!‘‘

’’ہاں ہوں طلاق یافتہ۔۔۔! تو مر جاؤں کیا۔۔۔؟‘‘

گول روٹی کی خواہش پوری کرتے کرتے، کھانے میں نمک، مرچ کم یا زیادہ ہو جانے پر ہاتھ کٹوا کر تو باغی ہی ہونا ہے۔۔۔

تب وہ کہتی ہے ’’جاؤ۔۔۔! اپنا کھانا خود گرم کرو۔۔۔!‘‘

ہمارے ہاں بچوں کی عصمت دری اور تشدد کے خلاف بھی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ تعلیم پر بات کی جاتی ہے۔ مرد واحد کفیل کیوں؟ کا نعرہ بھی لگتا ہے، مگر انہیں ’پھیلانے‘ اور عام کرنے میں وہ مزہ کہاں، جو ان باغی نعروں کے ’سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) میں اِدھر سے اُدھر تک سرائیت کرنے میں ہے۔

یہاں صحیح غلط کچھ نہیں، یہاں غصہ ہے، بغاوت ہے، انتقام ہے اور سب سے خطرناک شے یعنی نفرت ہے۔۔۔! یہ سب جذبے عقل اور سمجھ کو کھا جاتے ہیں، پھر ہمیں سارا جہاں ہی اپنا دشمن لگنے لگتا ہے اور ان سب سے بغاوت کرنا ہی واحد حل سوجھتا ہے!

اب سچی حقیقت یہ ہے کہ بغاوت اس کا حل بالکل بھی نہیں ہے۔ نفرت کی وہ آگ جو اندر سلگ رہی ہے، بغاوت، غصے یا سامنے والے کا منہ نوچ لینے سے کم نہیں ہوگی۔ ہوش میں آنا ہی ہوگا، جوش تو زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے۔

’سیمون دی بووا‘ نے نے اپنی کتاب ’دوسری صنف‘ میں عورت کی پیدایش سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر اس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جس میں ایک عورت کی زندگی، اس کی سوچ، نفسیات اور جسمانی ساخت پر بات کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1949ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی دل چسپ اور مختلف کتاب ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ عورتوں کو سب سے پہلے ایک الگ صنف کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور عورتیں اپنی اس الگ شناخت پر فخر کریں۔ مرد سے اپنا تقابل کرنا چھوڑ دیں۔ دنیا میں پورے آب و تاب سے چمکیں، لیکن ایک عورت کی حیثیت سے آپ کو مردانہ چلن یا حلیہ اپنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔

آپ کو اپنے اندر لگی ہوئی محرومی یا جبر کی اس آگ کو خود کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے آہستہ آہستہ لفظ ’متاثرہ‘ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا بند کیجیے۔ عورت ہونا قابل فخر ہے، خود کو آئینے میں دیکھیں اور اپنے اندر موجود رنگوں ، محبت، جذبوں اور اداؤں پر مرمٹیں۔ وہ خواب جو آپ کے پورے نہ ہو سکے، کوشش کیجیے کہ آپ کی بیٹی کے وہ خواب ادھورے نہ رہیں۔ جس دکھ نے آپ کو چین نہیں لینے دیا، جان لگا دیجیے کہ آپ کی چھوٹی بہن پر کبھی کوئی ایسا پَل نہ آئے۔ اسی طرح اپنے آس پاس موجود خواتین کی مدد کیجیے۔ اپنی ماں، بہن، بیٹی، ساس، نند، جٹھانی، دیورانی اور سہیلیوں کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد کیجیے۔

وہ جو سارے حق آپ سے چھین لہے گئے ہیں، انہیں پانے کی جستجو کیجیے، لیکن مسکراہٹ کے ساتھ۔۔۔ ایک عورت کی طرح۔۔۔ نزاکت کے سنگ۔۔۔ شائستہ اور پروقار انداز سے۔۔۔ دراصل عورت اس دنیا میں مرد کے مدمقابل کھڑے ہونے نہیں آئی، وہ تو اس دنیا میں وہ کام سر انجام دینے آئی ہے، جو کام مرد کرنے سے قاصر ہیں۔

اب بات کر لیتے ہیں دوسری طرف کی، وہ مرد و زن جو بغاوت پر اترے ہوئے ان چند چہروں کو مسخ کرنے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ جنہیں لگتا ہے کہ دنیا کی ہر برائی اور خرابی کی وجہ سال کے فقط چند دن سڑکوں پر نکل کر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرنے والی یہ خواتین ہی ہیں۔

’’ہماری بچیاں انہیں دیکھ کر خراب ہو رہی ہیں۔۔۔!۔‘‘ یہ جملہ دراصل آپ کی ہی تربیت پر سوال اٹھاتا ہے، جو بچے ہر وقت آپ کے ساتھ، آپ کے پاس ہیں وہ ایک دن کسی کو دیکھ کر یا کسی کو سن کر کیونکر بگڑ سکتے ہیں؟

بات تو یہ ہے کہ جن مسائل پر آپ کو کوئی ’حقوقِ نسواں‘ کی کارکن بات کرتی نظر نہیں آتی ، ان مسائل کی نشان دہی کیجیے۔ ہر معاشرے میں شدت پسند افراد موجود ہیں۔ ہر مرد ظالم نہیں، ہر عورت مظلوم یا ’متاثرہ‘ نہیں۔

مختصر یہ کہ اس معاشرے مین برداشت کی بہت شدید کمی ہے۔ ہم اپنی بات منوانے کے واسطے باغی ہو جاتے ہیں۔ بے ادب ہو جاتے ہیں۔ یہ مہذب معاشرے کی پہچان نہیں۔ ہم ، یہاں ہم سے مراد خواتین ہیں، ایک مہذب معاشرہ چاہتی ہیں، جہان سانس لیا جا سکے، جہان زندگی جی جا سکے۔ تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہم مہذب معاشرے کی تمنا کرتے کرتے خود ہی غیر مہذب ہو جائیں۔ احتجاج ضرور کیجیے، سوال بھی ضرور اٹھائیے، اپنے حق کے لیے لڑ بھی جائیے، مگر تہذیب میں رہتے ہوئے۔ محبت، امن اور نزاکت کو ساتھ رکھتے ہوئے۔

The post ’’جاؤ، نہیں بیٹھوں گی ویسے جیسے تم چاہتے ہو ۔۔۔!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ جو مثال ہوگئیں

$
0
0

یوں تو زمانۂ قدیم کی عورت بھی ریاست اور سماج میں کسی نہ کسی حیثیت میں نہایت بااثر، طاقت ور، فیصلہ ساز اور بااختیاررہی ہے، لیکن قدیم تہذیبوں سے متعلق اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذریعے شاہانِ وقت، حاکم اور بالادست طبقے نے اپنے مفادات اور مخصوص مقاصد کی تکمیل کی اور ان خواتین نے وہی کچھ کیا جس کا حکم انھیں مرد نے دیا تھا۔

قدیم دور میں سماجی خدمت اور فلاح و بہود کے تصور کے برعکس انفرادی یا گروہی، قبائلی اور اشراف خود کو زور آور، طاقت ور اور خوش حال بنانے کے لیے ہر کوشش کرتے۔ اس میں عورتیں بھی ان کا ساتھ دیتیں اور ضرورت پڑنے پر مردوں کے دیے ہوئے اختیارات اور وسائل کے زور پر آگے رہتیں۔ زمانہ کروٹ لیتا اور وقت گزرتا رہا جس نے انسان کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا اور اس نے معاشرت سیکھی۔

تعلیم اور شعور کا مرحلہ طے کیا تو مردوں اور عورتوں نے دورِجاہلیت کے چلن اور انسان کے درندہ صفت، جابر اور سنگ دل ہونے سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا، مگر خود کو بدلنے میں پھر بھی بہت دیر کی۔ صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے کئی نسلیں انسانیت کا قتل اور حقوق کی پامالی دیکھتے ہوئے مٹی میں مل گئیں اور انسان انیسویں صدی میں داخل ہو گیا۔

تعلیم، آگاہی شعور نے تہذیب و تمدن کے نئے ضابطے اور قاعدے، معاہدے اور اصول طے کیے۔ ایجادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور دنیا نے ترقی کا سفر شروع کیا تو معلوم ہوا کہ مرد ہی نہیں عورت کا بھی معاشرے کی تشکیل اور اجتماعی ترقی و خوش حالی میں اہم کردار ہے، جسے نظرانداز کرکے یا اسے کچل کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج سیاست سے لے کر سماج تک، سائنس سے لے کر ادب تک ہر میدان میں، ہر محاذ پر عورت، مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔

تاہم ابھی نصف صدی پہلے تک بھی آج کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کی عورت کو کئی بندشوں، جبر اور استحصال کی مختلف شکلوں، قانونی رکاوٹوں اور سماج کی فرسودہ ذہنیت، فضول رسم و رواج کی وجہ سے اذیت اور تکلیف کا سامنا تھا۔ اسے ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا گیا، صدیوں پہلے تو وہ بنیادی اور عام تعلیم ہی سے محروم تھی، مگر بعد کے زمانوں میں اگر یہ اجازت ملی بھی تو محدود، امریکا اور اس جیسے دیگر معاشروں میں کوئی عورت میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے سکتی تھی، بیمار ہونے پر اسپتال نہیں لے جایا جاتا، سرکاری ملازمت ممنوع تھی تو کہیں مردوں کے مقابلے میں اسے کم اجرت دی جاتی اور وہ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتی تھی۔

گھروں میں تشدد کا نشانہ بننے پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی کہ وہ کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی تھی اور طرح طرح کی بیڑیاں اس کے پیروں میں تھیں۔ تاہم خواتین طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد خواتین نے پنے حقوق حاصل کیے اور آج مختلف شعبوں میں نام اور مقام بنا رہی ہیں۔

یہاں ہم ان چند قابل اور باصلاحیت خواتین کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں آپ نے بہت کم پڑھا اور سنا ہو گا۔ سماج کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات اور کارنامے انجام دینے والی ان خواتین نے مشکلات کا سامنا کیا، رکاوٹوں کو عبور کیا اور قبول و رد کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے کام میں جٹی رہیں اور آج ان کا نام اور کام دنیا کے لیے مثال ہے۔

ہم مارگریٹ ہلڈا تھیچر سے آغاز کرتے ہیں، جو اس ریاست کی آئرن لیڈی ہیں، جس نے ہندوستان پر راج کیا۔ برطانیہ کی یہ سیاست داں عزم وہمت کا پیکر اور بہت مضبوط ارادوں کی مالک مانی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں برطانوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بننے والی مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ وہ اس عہدے کی اہل ہیں کیوں کہ وہ اپنے سامنے آنے والی بڑی سے بڑی مشکل کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں۔

وہ 1979 تک برطانیہ میں اس عہدے پر فائز رہیں۔ مارگریٹ تھیچر کا سن پیدائش 1925ہے جنھوں نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ انھوں نے کیمسٹری میں ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد 1947 سے لے کر1951 تک ایک ادارے میں ریسرچر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1951 میں ان کی شادی ہو گئی تھی لیکن مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ ترک نہ کیا۔ مگر اب انھوں نے سائنس کا میدان چھوڑ دیا تھا اور جب 1953 میں وکالت کا امتحان دینے والی مارگریٹ کو اس میں کام یابی ملی تو وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے سیاست کی طرف بڑھنے کا موقع ملا اور عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے وہ کنزرویٹوپارٹی سے وابستہ ہو گئیں ۔ 1959 میں اس جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔

وہ سیاسی میدان میں آگے بڑھتی رہیں اور وزیراعظم کے عہدے کے لیے ان کا نام لیا گیا جس کے بعد کچھ ایسے فیصلے بھی کیے کہ انھیں سیاسی اور عوامی سطح پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مگر برطانیہ کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم نے اپنے فیصلے واپس نہ لیے۔ انھوں نے اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع کیا اور کئی نشیب وفراز کا سامان کیا۔ انہی کے دور میں برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان جنگ ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ مارگریٹ کی کام یاب خارجہ پالیسی ان کی فتح کا سبب بنی۔ وہ مسلسل تین انتخابات میں کام یاب ہوئیں اور خود کو بیسویں صدی کی طاقت ور اور کام یاب سیاست داں ثابت کیا۔

اب بات کرتے ہیں اداکاری کے میدان کی اور ہمارا انتخاب ہے کیتھرین ہیپ برن جو ایک عظیم اداکارہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق امریکا سے تھا۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں ان کا چرچا صرف باصلاحیت اور متاثر کن اداکارہ کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ان کا حُسن بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔ ان کی اداکاری نے سنیما کے شائقین اور ناقدین کو بھی یکساں متاثر کیا۔ چار اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ہیپ برن متعدد بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئیں۔

کیتھرین ہیپ برن کا تعلق ایک امیر کبیر گھرانے سے تھا۔ 12 مئی 1907 کو پیدا ہونے والی کیتھرین کے والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور عورتوں کے حقوق کی تحریک کی بانی رکن تھیں۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے گریجویشن کے بعد اسٹیج کی دنیا سے اپنے شوبز کیریئر کا آغاز کیا۔

نیویارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے کئی ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور مقبولیت حاصل کی۔

1932 میں انھوں نے پہلی فلم میں کام کیا۔ ابتدائی زمانے میں ہیپ برن کو حقوقِ نسواں کی حامی عورت کے کردار نبھانے کو ملے اور وہ اس میں کام یاب رہیں۔ وہ پراثر اور سحرانگیز شخصیت کی مالک تھیں اور نہایت خودمختار خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ ہیپ برن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933 میں ملا۔ انھوں نے یہ ایوارڈ فلم مارننگ گلوری کے ایک کردار پر حاصل کیا۔ فلاڈلفیا اسٹوری وہ فلم تھی جسے نہایت شہرت اور مقبولیت ملی اور یہ ان کی ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں سے ایک ہے۔ 2003 میں 96 برس کی عمر میں کیتھرین کی زندگی تمام ہو گئی۔

اب چلتے ہیں کھیل کی دنیا میں اور بات کرتے ہیں فلورنس گرفتھ جوئنر کی جو دنیا بھر میں اپنے نک نیم فلو جو سے بھی جانی جاتی ہیں۔ کھیل کی دنیا کی یہ مشہور ایتھلیٹ امریکا میں 1959 میں پیدا ہوئی۔ ان کا تعلق لاس اینجلس سے تھا جہاں یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف کھیلوں کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کیا اور چودہ سال کی عمر میں نیشنل یوتھ گیم میں کام یابی حاصل کی۔ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ایک سلور میڈل جیتنے کے بعد فلورنس نے مقابلوں میں حصہ لینا بند کر دیا اور 1987 میں مشہور ایتھلیٹ ایل جوئنر سے شادی کرلی۔ تاہم اسی سال روم میں منعقدہ ورلڈ چیمپئن شپ میں دوبارہ نظر آئیں اور مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انھوں نے 1988 کے سیول اولمپکس میں حصہ لیا اور تین گولڈ میڈلوں کے ساتھ ایک سلور میڈل اپنے نام کیا۔

کھیل کی دنیا میں نام اور مقام بنانے کے بعد اچانک ہی ماڈلنگ کا جنون سوار ہوا اور پھر کاروبار اور اس کے بعد وہ تصنیف وتالیف میں مشغول ہو گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ایک زرخیز ذہن کی مالک اور ہمہ وقت متحرک رہنے والی شخصیت تھیں۔ انھیں ہر روپ میں ہر شعبے میں کام یابی ملی اور لوگوں نے بے حد عزت اور احترام دیا۔ فلورنس گرفتھ جوئنر نے 1998 میں زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

نسلی تعصب اور رنگ کی بنیاد پر امتیاز جھیلنے والی سیاہ فام امریکیوں میں ایک نام ٹونی موریسن کا بھی ہے جو ماہرِتعلیم اور ادیبہ کے طور پر دنیا بھر میں اپنی موت کے بعد بھی عزت اور احترام پاتی ہیں۔ انھیں 1993 میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ وہ1931 میں امریکا کی ریاست اوہائیو میں پیدا ہوئیں۔ غربت اور تنگی کے باعث ابتدائی زمانہ بدحالی اور مشکلات جھیلتے گزرا، مگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی جس نے 1955 میں ایم اے کی سند دلوائی۔ یوں تدریس کے شعبے کی طرف آئیں۔ انھوں نے جلد ہی شادی کر لی، مگر ازدواجی زندگی تلخیوں کا شکار ہو کر بکھر گئی جس کے بعد تدریس کا شعبہ چھوڑا اور ایک مشہور اشاعتی ادارے میں ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ انھوں نے کافی پہلے ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، مگر زندگی کے تجربات اور مشاہدے نے کہانی کی طرف دھکیلا تو 1970 میں پہلا ناول بلیوسٹ آئی شائع ہوا جسے امریکا کے ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ اس کام یابی نے بہت حوصلہ دیا اور تین برس بعد دوسرا ناول اور پھر چار سال بعد تیسرا ناول منظر عام پر آیا۔ وہ قارئین اور ناقدین سبھی کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

اب ہم فلورنس نائٹ اینگل کا تذکرہ کریں گے جو 1820 میں پیدا ہوئی۔ اس بچی نے ایک نہایت خوش حال زمیں دار کے گھر آنکھ کھولی جب کہ والدہ بھی سیاست سے منسلک تھیں۔ کہتے ہیں فلورنس کے نانا انسان دوست اور فلاحی خدمات کے لیے مشہور تھے۔ فلورنس اور اس کی بہن کی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق گھر پر ہوئی۔ والد بھی رحم دل اور خداترس انسان تھے اور یہی وجہ تھی کہ فلورنس کے اندر بھی دوسروں سے ہم دردی اور مدد کا جذبہ شروع ہی سے تھا۔ بعد میں اسی جذبے نے ایک ایسے شعبے کا چناؤ کرنے کی طرف مائل کیا جسے دنیا بھر میں نہایت عزت اور احترام حاصل ہے۔

فلورنس نے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہوئیں اور اسے عبادت سمجھتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوگئیں۔ کئی ماہ وہ ایک اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرتی رہیں جس پر خاندان کے دیگر لوگوں نے ان کے والد اور والدہ سے شدید اختلاف کیا ۔ اس زمانے میں عورتوں کا کام کرنا اور گھروں سے باہر رہنا ہی نہیں بلکہ نرسنگ کا شعبہ بھی مغرب اور یورپ کے ملکوں میں نہایت برا سمجھا جاتا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ نرس کو حقیر اور معمولی عورت کہا جاتا تھا اور کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلیم یافتہ عورت کا نرسنگ کی طرف آنے کا تو تصور ہی نہ تھا۔ فلورنس نائٹ اینگل نے نرسنگ کے شعبے کا انتخاب کیا تو ہر طرف اس کی مخالفت ہوئی اور اسے نہایت احمقانہ اور عجیب و غریب فیصلہ سمجھا گیا۔

اس نوجوان لڑکی نے ہر رکاوٹ اور مشکل کا سامنا کرتے ہوئے مخالفت کو مسترد کر دیا اور نرسنگ کے پیشے کو عزت اور اعتبار بخشا۔

فلورنس نے صرف نرس کے طور پر کام نہیں کیا بلکہ ایک قابل اور پڑھی لکھی عورت ہونے کے ناتے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کر کے صحت عامہ کے مسائل کو اجاگر کیا۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے باقاعدہ اداروں اور تنظیموں کی بنیاد رکھتے ہوئے نرسنگ کی تعلیم و تربیت کے لیے کوششیں کیں۔ جنگِ کریمیا کے دوران زخمیوں اور مریضوں کی خدمت اور دیکھ بھال کے حوالے سے دنیا بھر میں آج بھی فلورنس کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ فلورنس نائٹ اینگل نے 1910میں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی، مگر انسانوں کو محبت، ہم دردی، مدد اور تعاون کا جو درس دیا، وہ رہتی دنیا تک اس کی یاد دلاتا رہے گا۔

The post وہ جو مثال ہوگئیں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اقبال کو کبھی صحیح طرح سے نہیں پیش کیا گیا‘‘

$
0
0

گذشتہ دنوں ایک مشہور ادبی گروپ ”پبورپ”
Pakistan Bloggers, Writers, Readers and Poets

(PBWRP)نے خودی کے نام سے لاہور کے دبستانِ اقبال میں ایک سیشن کا انعقاد کیا جس میں لکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس سیشن کے اسپیکر خود میاں اقبال صلاح الدین صاحب تھے جنہیں ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سیشن کے بعد گروپ لیڈر محترمہ نازیہ کامران کاشف کے ساتھ ان سے ایک تفصیلی نشست کا موقع ملا جس میں انہوں نے اقبال کے کلام، آج کے نوجوانوں کی حالتِ زار، خودی کا پیغام اور دیگر نکات پر سیرِحاصل گفتگو کی۔

اس نشست کا حال پیشِ خدمت ہے لیکن اس سے پہلے میں ان کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔

میاں اقبال صلاح الدین شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نواسے، سابق جسٹس، ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے بھانجے اور ٹیلیویژن کی مشہور ہستی میاں یوسف صلاح الدین کے بھائی ہیں۔ یوسف صلاح الدین کو تو آپ میں سے بہت لوگ جانتے ہوں گے لیکن اقبال صلاح الدین کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے، اس لیے اس مضمون میں آپ ان کے بارے میں کافی کچھ جان سکتے ہیں۔

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ نہ صرف ننھیال بلکہ ددھیال کی طرف سے بھی میاں صاحب ایک مشہور و معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے دادا میاں امیر الدین نہ صرف لاہور شہر کے سب سے پہلے مسلمان میئر تھے بلکہ مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری خزانہ بھی تھے۔ میئر بننے پر انہیں قائداعظم نے خود فون کر کے مبارک باد دی تھی اور اس بات کو مسلمانوں کے لیے نیک شگون قرار دیا تھا۔ 23 مارچ کے سالانہ جلسے میں وہ اسٹیج سیکرٹری تھے۔

میاں اقبال صلاح الدین 5 اپریل 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن کا زمانہ ایچیسن کالج میں تعلیم حاصل کرتے گزرا جس کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا اور اب ایک ٹیکسٹائل مل کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ”قرآن سوسائٹی پنجاب” کے چیئرمین اور ”دبستانِ اقبال” کے صدر کی ذمے داریاں بھی نبھارہے ہیں۔

دبستانِ اقبال کی بنیاد 2012 میں اقبال کے فلسفہ خودی میں ایک نئی روح پھونکنے اور اسے نوجوانوں کے دلوں تک پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھی۔ لاہور کے گلبرگ میں واقع اس ادارے کے دروازے تمام علم کے پیاسوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ یہ ادارہ نہ صرف نستعلیق لکھائی، پینٹنگ اور خطاطی پر باقاعدہ کلاسز لیتا ہے بلکہ علامہ اقبال کے فلسفے کو کیسے عملی طور پر رائج کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جائے اس بارے میں بھی ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ جنوری 2017 میں واہگہ بارڈر کے پاس ”تحریک آزادی میوزیم” کا افتتاح کیا گیا تھا، یہ میوزیم بھی دبستان کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے۔

اِس جگہ کے اندر ایک سحر ہے، ایک طلسم ہے جو ہر باذوق انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ علامہ اقبال کی قد آور پینٹنگز، استعمال کی اشیاء اور دیگر تصاویر سے مزین دبستان، کل چار کمروں پر مشتمل ہے اور ہر کمرے کی اپنی خاصیت ہے۔ یہاں جابجا اقبال کی لکھائی میں ان کے خطوط اور نظمیں نظر آتی ہیں ایک جگہ تو اقبال کے دستخط کو بھی فریم کر کہ لگایا گیا ہے۔ گویا اقبال سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ جگہ کسی جنت سے کم نہیں۔

میاں اقبال صلاح الدین خود بہت نفیس اور بردبار انسان ہیں، ٹھہر ٹھہر کہ بولنا اور آنکھوں کی چمک جن کا خاصہ ہے۔

اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچپن سے ہی میں نے اپنے گھر میں تحریکِ پاکستان اور تقسیمِ پاکستان کی کہانیاں سنی ہیں۔

میرے دادا میرے والد اور ماموں میرے سب سے بڑے آئڈیل تھے۔ میں نے اپنے دادا سے بھی کافی باتیں اور واقعات سنے کہ ماضی میں کب، کیسے، کیا ہوا؟  وہ ابھی میرے چالیس برس کے ہونے کے بعد فوت ہوئے ہیں۔

بچپن ہی سے میری دوستی اور رحجان میرے ماموں جاوید اقبال مرحوم کے ساتھ رہا ہے۔ میں ان کی باتیں بہت توجہ اور شوق سے سنتا تھا۔ بلکہ اقبالیات میں میری تربیت میرے ماموں نے ہی کی ہے۔ جو کام آپ یہاں دبستان میں دیکھ رہے ہیں یہ انہی کا بویا ہوا بیج تھا۔ وہ میرے استاد تھے، گائیڈ تھے، دوست تھے۔ میں نے ان کی کمپنی ہمیشہ  بہت انجوائے کی ہے۔ وہ مایوس ہونے والوں میں سے نہیں تھے حتیٰ کہ اپنی وفات سے پہلے وہ پیشاب کی نالی لگی ہونے کے باوجود بھی یہاں آ جاتے تھے۔ میں نے جو بھی اور جتنا بھی علامہ کو پڑھا انہی کی بدولت پڑھا۔ میں ان کے بہت قریب تھا۔ خاندان سے باہر میرا کوئی خاص آئڈیل نہیں تھا۔

اردو ادب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میں نے کسی کو بھی نہیں پڑھا۔ کوئی افسانہ یا ناول وغیرہ میں نہیں پڑھتا صرف اقبال، رومی اور فرید الدین عطار کو پڑھا ہے۔ میں نے آپ کی عمر میں انگلش ایڈونچر ناول بہت پڑھے تھے پھر ہسٹری کا چسکا لگ گیا جس میں اسلامی تاریخ بھی پڑھی اور آج تک پڑھ رہا ہوں۔ بغیر مقصد کی شاعری مجھے پسند نہیں۔ تصوف بھی کافی دل چسپی سے پڑھا۔ علامہ کا نواسہ ہونے کے باوجود میں نے کبھی شاعری کا نہیں سوچا کیوںکہ میرے نزدیک شاعری ایک رحجان ہوتا ہے جو انسان کو خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ یہ اندر سے نکل کر آتی ہے۔ میں نے تو کوئی کتاب لکھنے کا بھی نہیں سوچا ابھی۔

فارسی سیکھنے کے بارے میں انہوں نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا کہ نصرت فتح علی خان ہماری حویلی میں بہت آیا کرتے تھے۔ میں، میرے بڑے بھائی اور عمران خان بھی وہاں ہوتے تھے۔ نصرت وہاں اکثر فارسی کے شعر سنایا کرتے تھے اور مجھے بڑی شرم آتی تھی کہ اقبال کا کلام ہے اور ان کے نواسے کو ہی سمجھ نہیں آ رہا، پھر میں نے تقریباً 32 سال کی عمر میں فارسی سیکھی کیوںکہ مجھے اس چیز کا احساس تھا کہ اقبال کے کلام کو ان کے پوتوں اور نواسوں میں کوئی تو پڑھے۔ ایک ذمے داری تھی مجھ پر کہ ان کے کلام کو سیکھ کے آگے پہنچاؤں اور ویسے بھی یہ بہت خوب صورت زبان ہے۔

پھر بات چل نکلی اقبال کے نظریے اور کلام کی جس پر میاں صاحب یوں گویا ہوئے کے اقبال کا جو نظریہ ہے اسلام کے بارے میں، وہ بہت مختلف ہے۔ اقبال کو کبھی صحیح طرح سے نہیں پیش کیا گیا۔ ہمارے نصاب میں انہیں اس طرح نہیں پیش کیا گیا جس طرح ان کا حق تھا۔ اقبال اسلام کو ایک انسان دوست اور انسانیت پرست شخص کے طور پہ دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کی تعریف یہ تھی کہ یہ ایک مذہب نہیں دین ہے۔ کیونکہ مذہب آپ کا ایک ذاتی نقطہ نظر ہوتا ہے۔ دینِ اسلام آپ کا وہ عالم گیری نظریہ یا آفاقی اصول ہے جو تمام انسانیت پر مذہب، ذات رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ یہ دین کی اساس ہے۔

اقبال کو پڑھانے والے اور پڑھنے والے دونوں کے لیے دلیر ہونا ضروری ہے۔ ایک اوپن مائنڈ چاہیے، کیوںکہ علامہ کوئی بات بغیر کسی دلیل کے نہیں کرتے کیوںکہ اگر وہ کسی بات پر یا چیز پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیشہ اس کا متبادل بھی آپ کو بتاتے ہیں۔

یہ کبھی نہیں ہوا کہ اقبال نے بلاوجہ کسی کو تضحیک کی خاطر تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ وہ ہمیشہ متبادل راستہ بتاتے ہیں۔

رہی بات اقبال کے کلام کی تو اس کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کہا کرتے تھے کہ اقبال کی شاعری آپ کو موجودہ دور کے مطابق لگتی ہے وہ اس لیے کہ وہ آئڈیلزم جس کے لیے وہ آپ کو تیار کرنا چاہ رہے تھے آپ ابھی تک نہیں حاصل کر سکے۔ اگر آپ نے اسے حاصل کر لیا ہوتا تو یہ شاعری بے معنی ہو جاتی۔ اس لیے علامہ کی زیادہ تر شاعری آپ کو آج کے حالات کے عین مطابق لگتی ہے۔

ذاتی طور پر جاوید نامہ اور اسرار خودی اقبال کی وہ کتابیں ہیں جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں کیوںکہ یہ آپ کے ذہن، آپ کے تخیل کو کھولتی ہیں۔ اور یہ ہیں بھی آپ کی ذاتی ارتقاء اور ڈیویلپمنٹ کے بارے میں۔ پسندیدہ موسیقی و فلم کے بارے میں بتایا کے میں پرانے فلمی گانے بہت انجوائے کرتا ہوں اور کبھی کبھی غزلیں بھی سن لیتا ہوں۔ یوسف صلاح الدین کی حویلی پر جو پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں وہاں بھی اکثر شرکت کرتا ہوں۔

جوانی میں پنجابی کی فلمیں بہت دیکھی ہیں جب سدھیر اور سلطان راہی تواتر سے آیا کرتے تھے۔ پسندیدہ کوئی نہیں تھا جو مِلا دیکھ لیتا تھا۔ ہاں سائنس فکشن فلمیں مجھے بہت پسند تھیں۔ ایک وقت تھا میں خوف ناک فلمیں بھی بہت دیکھتا تھا۔

اقبال کی ذاتی اشیاء کے بارے میں استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اقبال کی گھڑی اور کف لنکس ہیں۔ ایک کتاب جو انہوں نے چوہدری رحمت علی کو مارک کر کے دی تھی وہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ افغانستان کے شہنشاہ نادر خان نے انہیں ایک قالین دیا تھا وہ بھی یہاں دبستان میں لگا ہوا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ساتھ شہنشاہ کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔ ان کے استعمال کے کچھ برتن بھی ہیں پیتل کے جو میری ممانی ناصرہ جاوید اقبال نے مجھے دیے تھے۔ یہ علامہ کے آخری وقت میں بھی ان کے زیرِاستعمال تھے۔

دبستان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کے پیچھے سیدھی بات یہ تھی کہ میں نے علامہ کو بہت پڑھا تھا اور بڑوں سے بھی کافی باتیں سیکھی تھیں۔ ایک دن میں نے ماموں کو کہا کہ جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ تو بے فائدہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کسی اور سمت میں جا رہا ہے اور علامہ کہیں اور۔ انہوں نے اقبال سے متعلق مجھے ایک ادارہ بنانے کا مشورہ دیا۔ تب یہ جگہ بھی میں نے خرید رکھی تھی سو میں نے اپنے استاد احمد جاوید کے مشورے سے 2012 میں ”دبستان اقبال” کے نام سے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہ پہلے کسی اور کے زیرانتظام تھا لیکن اب اسے میں خود سنبھال رہا ہوں۔ اسے سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔

یہاں میرے آج کل یہی مشاغل ہیں کہ نوجوانوں کو پکڑ کے انہیں شاہین کی طرح جکڑ کے ان کے دماغوں کو اقبال کے کلام سے روشن کر کے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کئی بچوں کو تو فلسفہ کا بھی نہیں پتا ہوتا لیکن جب ان کے سامنے اقبال کی کوئی ایسی بات کی جائے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آتی ہے، یہ دیکھ کہ مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔

پھر بات چل نکلی آج کل کے نوجوانوں کی تو بولے، میں آپ نوجوانوں کو یہ کہوں گا کہ آپ زندگی کو ضرور انجوائے کریں لیکن اپنی سمت کو سیدھا رکھیں۔ آج کے نوجوانوں میں آج بھی وہی خرابیاں ہیں جو علامہ نے پوائنٹ آؤٹ کی تھیں۔ آپ میں ریسرچ کرنے کا کوئی شوق ہی نہیں ہے۔ اول تو آپ لوگوں میں ”طلب” ہی نہیں۔ آرزو یا تمنا ہی نہیں ہے تو کوشش کہاں سے آئے گی؟؟

آپ کو کہاں سے پُش ملے گا۔ آپ کو ہر چیز سے مکمل طور پر واقفیت ہونی چاہیے۔ ہر بات کا پتا ہونا چاہیے۔ جب سرسید احمد خان کا دور تھا تو خطے کے آٹھ کروڑ مسلمانوں میں صرف 59 گریجویٹ تھے۔ اور اب تو آپ کروڑوں میں ہیں لیکن کوئی خاص ترقی یا ایجادات نہیں کیں۔ کسی بھی فیلڈ میں ہم نے کوئی اہم کارنامہ نہیں سرانجام دیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔

نوجوانوں کے لیے میرا پیغام خودی ہے۔ میں انہیں چند باتیں کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ؛

1- خودی کو سمجھنا مشکل نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ یہ محنت و ریاضت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ میرے خیال میں یہاں پاکستان میں خودی کو بہت ذلیل کیا گیا ہے لیکن ہمارے آج کل کے نوجوان اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔

خودی میں مادی اور روحانی دونوں خوبیاں شامل ہیں۔ یہ دونوں میں گُندھی ہوئی ہے۔

2- چار ایسی قدریں جو آپ کی خودی کو مضبوط کرتی ہیں وہ عشق، فقر، بلند پرواز اور خلوت پسندی ہیں۔

3-فکر و عمل ایک دوسرے کے لے لازم و ملزم ہیں۔ فکر کو عمل میں نہ لا سکے تو وہ محض ایک خیال بن جاتا ہے۔

4-انسان کی شخصیت ایک متنوع حالت کا نام ہے۔ انسان کا اولین فرض ہے کہ تناؤ کی اس کیفیت کو برقرار رکھے اور ریلیکس نہ ہو۔ ایسی صورت میں ہی وہ متحرک رہتا ہے۔

5-علامہ اقبال رح نے جن جن چیزوں کی نشان دہی کی ہے انہی چیزوں کی ہم مسلمانوں میں کمی ہے۔ اس کا احاطہ آپ خود کریں۔

6-زندگی کے سخت حالات کا سامنا کیے بغیر آپ کبھی بھی اپنے وجود ، اپنی بقا کو تسلیم نہیں کروا سکتے۔

یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نوجوانوں کے لیے نہایت اہم اور آج کے وقت و حالات کی ضرورت ہیں۔ میاں اقبال صلاح الدین کے اندر ایک مشفق استاد، ایک علم دوست انسان اور ایک انسانیت پرست پاکستانی چھپا ہوا ہے۔ آپ دبستان اقبال کے پلیٹ فارم سے ملک و ملت اور اقبال کے شاہینوں کے لیے قابل قدر اور شان دار کام کر رہے ہیں جس کو سراہنے سے میرا قلم قاصر ہے۔

The post ’’اقبال کو کبھی صحیح طرح سے نہیں پیش کیا گیا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>