Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

نیا رنگ روپ اختیار کرتی بھارتی فوج

$
0
0

نئی دہلی میں حالیہ خوفناک مسلم کش فسادات نے سبھی پر واضح کر دیا کہ بھارت میں نریندر مودی ‘ امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈر جنگجوئی اور طاقت سے اپنے مفادات پورے کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے عام آدمی سے لے کر اپنی افواج تک میں جنگجوئی کے وائرس پھیلا دئیے۔مودی سرکار بہ عجلت بھارتی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہی ہے تاکہ پڑوسی ممالک میں اسی طرح جنگوں کی آگ بھڑکا کر سپرپاور بننے کا اپنا خواب پورا کر سکے۔

بھارتی افواج میں تنظیمی لحاظ سے بھی انقلابی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اہل پاکستان کے لیے ان تبدیلیوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ وہ بھارتی حکمران طبقے کے شرپسندانہ عزائم سے آگاہ رہ سکیں۔ اس طبقے نے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور روز اول سے ہمارے خلاف سازشیںکر رہا ہے۔ اب ہندو قوم پرست لیڈروں کی آمد سے تو برصغیر پاک و ہند میں جنگ کے بادل مسلسل منڈلانے لگے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مودی سرکار بھارتی افواج کو اتنی زیادہ طاقت دے ڈالے کہ وہ آخرکار بھارت کی حقیقی حکمران بن جائیں۔سنگھ پریوار کے جنگی جنون کا یہ قطعی نتیجہ نکل سکتا ہے۔

سول ملٹری کشمکش
مودی کے چھ سالہ دور حکومت میں یہ بہت بڑی تبدیلی جنم لے چکی کہ بھارتی افواج کے کمانڈر سیاسی بیان دینے لگے۔ اس سے قبل یہ عسکری کمانڈ کبھی سیاسی بیان نہیں دیتی تھی۔ وجہ یہ کہ پہلے بھارتی وزیراعظم‘ جواہر لعل نہرو کے بعض اقدامات سے عسکری کمانڈروں کو سیاسی معاملات سے دور کر دیا گیا تھا۔ نہرو تمام حکومتی معاملات میں سول بالادستی چاہتے تھے اور انہیں ہر معاملے میں فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرنا پسند نہیں تھا۔گو ہندوستانی تاریخ سے آشکار ہے کہ یہاں روایتی طور پر حکومتی ڈھانچے میں عسکری کمانڈروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔

ماضی کے تمام بت پرست بادشاہ اور پھر مسلمان حکمران بھی اپنے فوجی سرداروں کی مدد و حمایت ہی سے حکومت کرتے رہے۔ مغل دور حکومت میں بیوروکریسی کا اولیّن نظام سامنے آیا۔ اس نظام میں گاؤں کا مُکھیا یا چودھری سب سے نچلا حصہ تھا۔ چودھری کی ذمہ داریوں میں یہ اہم کام بھی شامل تھا کہ جنگ کی ضرورت پیش آنے پر وہ گاوَں سے جوان جمع کرکے انہیں شاہی فوج میںبھرتی کرائے۔

جب انگریز ہندوستان آئے‘ تو انہوںنے مقامی فوجی سرداروں کی مدد ہی سے سونے کی اس چڑیا پر قبضہ کیا۔ پھر ملکی انتظام و نسق بہتر طور پر چلانے کی خاطر سول بیورو کریسی کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔ اس کے باوجود ہندوستان میں برطانوی فوجی کمانڈروں کو حکومت میں بہت عمل دخل حاصل تھا۔ وائسرائے ہند کے دست راست عام طور پہ جرنیل ہی ہوتے۔بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی ہند میں اعلی ترین سطح پر سول اور ملٹری کے مابین پہلا ٹکراؤ دیکھنے کو ملا۔ اس وقت برطانوی نواب‘ لارڈ کرزن وائسرائے ہند تھا ۔

1902میں جنرل کیچنر ہندوستانی فوج کا کمانڈر انچیف بن گیا۔ وہ فوج کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتا تھا۔ اسی لیے وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے مابین اختیارات کی جنگ چھڑ گئی۔ رفتہ رفتہ اس انوکھی جنگ کی شدت اتنی بڑھی کہ دونوں ایک دوسرے پر شخصی حملے کرنے لگے۔ مثلاً لارڈ کرزن نے ایک خط میں جنرل کیچنر کو لکھا ’’تم اپنے دستخط میں کیچنر آف خرطوم لکھتے ہو۔ ایسا لکھنا بند کر دو کیونکہ یہ دستخط زیادہ جگہ گھیرتے ہیں۔‘‘ اس بات کا کمانڈر انچیف نے کافی برا منایا۔ (وائسرائے ہند نواب ہونے کے باوجود اپنے دستخط میں صرف کرزن لکھتا تھا۔)

جنرل کیچنر پھر کوشش کرنے لگا کہ طاقتور امپیر یل لیجسلیٹو کونسل میں ملٹری مشیر کا عہدہ اسے مل جائے۔ یہ عہدہ رکھنے والا ہی ہندوستانی فوج میں سپلائی و لاجسٹکس کا انتظام سنبھالتا تھا۔ اس تنازع میں برطانوی حکومت نے اپنے جنرل کا ساتھ دیا۔ اس پر تاؤ کھا کر لارڈ کرزن نے اگست 1905ء میں استعفیٰ دیا اور واپس برطانیہ چلا گیا۔

اب فوج کا کمانڈر انچیف ہی ہندوستان کا وزیر دفاع بھی بننے لگا۔ یوں فوج کے معاملات خاصی حد تک سول بیوروکریسی کے ہاتھ میں نہیں رہے۔درحقیقت وائسرائے ہند کے بعد کمانڈر انچیف ہی ہندوستان کو دوسرا طاقتور ترین شخصیت بن گیا۔اوائل بیسویں صدی میں برطانوی ہند حکومت کے بجٹ کا 40 فیصد حصہ فوج پر خرچ ہوتا تھا۔ جنرل کیچنر کے دور میں فوج کو مزید رقم ملنے لگی۔ برطانوی سول افسر اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔

حکومت میں جرنیلوں‘ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے مابین جاری چپقلش ہندوستانی لیڈروں سے چھپی نہیں رہ سکی۔ ان میں قائداعظم کے اتالیق سمجھے جانے والے اعتدال پسند لیڈر‘ گوپال کرشن گھوکلے نمایاں تھے۔گھوکلے نے دعوی کیا ’’ہندوستان میں حکومت اپنی بیشتر آمدن فوج پر خرچ کر دیتی ہے۔ دفاع کو مضبوط بنانا ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہوکہ بیشتر آمدن اسی شعبے پر لگا دی جائے۔ یہ خرابی اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد پھر مقامی ہندوستانی لیڈروں مثلاً موتی لال نہرو‘ قائداعظم‘ گاندھی وغیرہ نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت میں سول اور ملٹری اختیارات کے مابین توازن ہونا چا ہیے۔ یہ لیڈر حکومتی معاملات میں سول بالادستی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

جرنیل سیاسی حکومت کی ماتحتی میں
برطانوی راج کے آخری دنوں میں مگر مملکت برطانوی ہند پھر ملٹری ریاست بن گئی۔ برطانوی حکومت نے دو فوجی افسروں ‘ جنرل ویول اور ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن کو آخری وائسرائے بنایا اور انہیں ہندوستان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ تاہم ستمبر1946ء میں عبوری حکومت وجود میں آ ئی تو مقامی لیڈروں کا ایک خواب پورا ہو گیا۔ اس حکومت میں پہلی بار کسی کمانڈر انچیف نہیں ایک سیاست داں (سردار بلدیو سنگھ) کو وزیردفاع بنایا گیا۔

1947ء کے وسط تک واضح ہو چکا تھا کہ جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔ نہرو تمام جرنیلوں کو سیاسی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے تھے۔ اس تمنا کا اظہار وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی کرنے لگے۔دہلی میں کمانڈر انچیف ایک شاندار رہائش گاہ ،تین مورتی بھون میں رہتا تھا۔وہ بھارتی وزیراعظم کو الاٹ کر دی گئی۔اگست 1947ء میں جنرل لاک ہارٹ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ پرچم کشائی کی تقریب میں عوام کو دور رکھا جائے۔پنڈت نہرو نے بطور وزیراعظم اپنے ا ختیار استعمال کرتے ہوئے کمانڈر انچیف کا یہ حکم معطل کیا اور عام لوگوں کو تقریب دیکھنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں‘ نہرو نے بعدازاں جنرل لاک ہارٹ کو خط لکھ کر خبردار کیا :’’ فوج کے معاملات کے سلسلے میں حکومت جو پالیسی بنائے گی‘ صرف اسی پر عمل ہو گا۔ جو شخص اس پالیسی پر عمل نہیں کرنا چاہتا‘ اس کے لیے بھارتی فوج میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘

غرض ان اقدامات سے پنڈت نہرو نے سبھی جرنیلوں پہ واضح کر دیاکہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ گئی ہے۔ پہلے بھارتی وزیراعظم نے طاقتور انگریز کمانڈر انچیف پر آشکارا کر دیا کہ اسے سیاسی حکومت کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔ بعض بھارتی مورخین کا دعوی ہے کہ پنڈت نہرو مسلسل بیچارے انگریز کمانڈر کو اپنے ماتحت رکھنے کی خاطر غیر معمولی اقدامات کرتے رہے۔1997ء میں میجر جنرل اجیت ردرا کی ایک سوانح حیات شائع ہوئی جو میجر جنرل (ر) ڈی کے پلیت نے لکھی تھی۔ میجر جنرل اجیت ردرا 1947ء میں جنرل لالک ہارٹ کا سیکرٹری تھا۔ 1958ء میں کمانڈر ساؤتھرن کمانڈ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا۔ کتاب میں میجر جنرل پلیت نے ایک واقعہ لکھا ہے۔

بکواس پلان ہے‘ نرا کچرا…
اگست 1947ء کے اواخر میں جنرل لاک ہارٹ نے بھارت کا دفاع کرنے کی خاطر ایک پلان بنایا ۔ جسے کمانڈر انچیف نے وزیراعظم کی خدمت میں پیش کیا۔ نہرو اس کی تفصیل جان کر کہنے لگے:’’ یہ بکواس پلان ہے‘ نرا کچرا۔ ہمیں کسی ڈیفنس پلان کی ضرورت نہیں۔ اہنسا (عدم تشدد) ہماری پالیسی ہے۔ ہمیں کسی ملک کی فوج سے خطرہ نہیں۔ میں تو فوج ہی ختم کر دینا چاہتا ہوں۔ ہماری سکیورٹی کے لیے پولیس کافی ہے۔‘‘

میجر جنرل (ر) پلیت نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب پنڈت نہرو نے جنرل لاک ہارٹ کو بھارتی فوج کا کمانڈر انچیف بنایا تو اجیت ردرا اور دیگر مقامی فوجی افسروں کو بہت صدمہ پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں نے دو سو سال غاصبوں سے لڑ کر آزادی حاصل کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک انگریز ہی کو ہمارا کمانڈر بنا دیا گیا۔پنڈت نہرو نظریاتی شخصیت تھے مگر یہ کہنا خلاف عقل بات لگتی ہے کہ وہ بھارتی فوج ختم کرنا چاہتے تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ ہر صورت چاہتے تھے ، ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس خواہش کا نتیجہ پاکستان سے ٹکراؤ کی صورت نکل سکتا ہے۔ مزید برآں انہی کی حکومت نے پاکستان کو ملنے والا روپیہ اور عسکری سازو سامان روک کر اگست 1947ء ہی میں جنگ جیسی صورت حال پیدا کر دی تھی۔ لہٰذا پنڈت نہرو کو امن و محبت کا سفیر قرار دینا تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔

بھارت کے عسکری وسول مورخین نے یہ د عوی بھی کیا ہے کہ جنرل لاک ہارٹ اور پاکستانی فوج کے پہلے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی دوست تھے۔ ان دونوں کے مابین روزانہ ٹیلی فونک گفتگو ہوتی تھی۔ ستمبر1947ء میں جنرل گریسی نے اپنے ساتھی کو مطلع کیا کہ ضلع راولپنڈی میں پٹھان لشکر جمع ہو رہا ہے۔ شاید وہ کشمیر پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تاہم جنرل لاک ہارٹ نے یہ خبر نہرو تک نہیں پہنچائی۔ بعدازاں وہ لشکر سری نگر تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا۔اگر پہنچ جاتا تو بھارت ریاست جموں وکشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ جب نہرو نے اپنے کمانڈر انچیف سے باز پرس کی تو لاک ہارٹ کہنے لگا ’’جناب‘ میں اس قسم کے سوالات سننے کا عادی نہیں۔ مجھے علم ہے کہ جلد ہی برطانوی افسروں کو لیے ایک بحری جہاز جا رہا ہے۔ میں بھی جلد یہاں سے رخصت ہو جاؤں گا۔‘‘

اہل ہندوستانی جرنیل موجود نہیں
اس طرح بھارتی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف نے کشمیر کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم اس استعفیٰ میں یہ وجہ بھی کارفرما نظر آتی ہے کہ نہرو حکومت دفاعی معاملات اپنی پالیسیوں اور مرضی سے چلانا چاہتی تھی۔ بھارتی مورخین نے اگلے مستقل کمانڈر انچیف کی تقرری کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ہوا یہ کہ اگلا کمانڈر انچیف منتخب کرنے کی خاطر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم، وزیر دفاع بلدیو سنگھ، میجر جنرل نتھو سنگھ راٹھور، میجر جنرل کریاپا اور ماہرین عسکریات شریک ہوئے۔ نہرو خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ اب ہمیں نئے مستقل کمانڈر انچیف کا تقرر کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عہدے پر کسی برطانوی جرنیل کا تقرر ہونا چاہیے۔ ابھی ایسا کوئی تجربے کار اور اہل ہندوستانی جرنیل موجود نہیں جو اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوسکے۔‘‘

میٹنگ میں بیٹھے سبھی لوگ خاموش رہے۔ تاہم بھارتی جرنیلوں کو اپنی ہتک اور بے عزتی کا احساس ہوا۔ وزیر دفاع بلدیو سنگھ نے وزیراعظم کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے پاس کوئی باصلاحیت بھارتی جرنیل موجود نہیں۔‘‘

کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ اس موقع پر میجر جنرل نتھو سنگھ راٹھور کھڑا ہوا اور کہنے لگا ’’جناب! میں ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے، ہمارے پاس ایسا کوئی تجربہ کار اور اہل سیاست داں موجود نہیں جو بھارتی قوم کی قیادت کرسکے۔ لہٰذا کیوں نہ کسی برطانوی رہنما کو وزیراعظم بنا دینا چاہیے۔‘‘

اس بات سے کمرے میں ایسی خاموشی چھاگئی کہ سوئی بھی گرتی تو آواز آجاتی۔ یہ براہ راست پنڈت نہرو پر زوردار حملہ تھا۔ وہ برواختہ ہوکر بولے ’’جنرل! آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کمانڈر انچیف بنا دیا جائے؟‘‘

جنرل نتھو سنگھ نے کہا ’’سر! مجھے ایسی کوئی تمنا نہیں۔ مگر بھارتی فوج میں تجربہ کار اور اہل جرنیل موجود ہیں۔ یہاں میرے سینئر جرنیل کریاپا بیٹھے ہیں جو بہت قابل جرنیل ہیں۔ آپ نے پھر کیسے یہ دعویٰ کردیا کہ بھارتی فوج میں اہل جرنیل موجود نہیں؟‘‘

میٹنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مداپا کریاپا بھارتی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بن گیا۔ تاہم درج بالا واقعے سے عیاں ہے کہ اسے زور زبردستی سے نیا عہدہ ملا تھا۔ اسی لیے نہرو اور کریاپا کی بیشتر مواقع پر بن نہیں سکی اور ان کے مابین ٹسل جاری رہی۔نہرو حکومت نے افواج پر ایک وار یہ کیا کہ ہر بجٹ میں ان کے لیے مخصوص رقم کم کی جانے لگی۔ خاص طور پر فوجی افسروں کی تنخواہیں کم کردی گئیں۔ (پنڈت نہرو کا کہنا تھا کہ برطانوی ہند کی حکومت انہیں دل کھول کر تنخواہیں دیتی تھی مگر آزاد بھارت میں ایسی فضول خرچی نہیں ہوسکتی۔) عوامی طور پر ہندو حکومت کا دعویٰ تھا کہ معاشی بحران کے باعث عسکری بجٹ میں کمی ناگزیر ہوگئی ہے۔

جنرل کریاپا کو مگر عسکری بجٹ میں کمی پسند نہیں آئی اور وہ وقتاً فوقتاً دبے دبے لفظوں میں نہرو حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے۔ پنڈت نہرو کو کمانڈر انچیف کی سیاست میں دخل اندازی قطعاً پسند نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرنیلوں کو صرف اپنے پیشہ وارانہ عسکری امور پر گفتگو کرنا چاہیے۔ جب جنوری 1953ء میں کریاپا ریٹائر ہوئے تو نہرو حکومت نے انہیں سفیر بناکر بیرون ملک بھجوادیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکیں۔پنڈت نہرو کمانڈر انچیف کے عہدے بھی بہت خار کھاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے کی وجہ سے افواج میں بیشتر طاقتیں کمانڈر انچیف کی شخصیت میں جمع ہوگئی ہیں۔

وہ اسے اپنا معاصر سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے، اپریل 1955ء میں یہ عہدہ ختم کردیا گیا۔ اب تینوں افواج (بری، فضائیہ اور بحریہ) کے کمانڈر اپنی اپنی فوج کے سربراہ قرار پائے۔ بری فوج کا سربراہ چیف آف دی آرمی سٹاف کہلانے لگا۔ یوں پنڈت نہرو نے ایک طاقتور معاصر عہدے سے چھٹکارا پالیا۔

بھارت میں مارشل لا کا امکان
مئی 1957ء میں جنرل کے ایس تھمایا بری فوج کا چیف مقرر ہوا۔ یہ بھارتی عوام میں بہت مقبول تھا کیونکہ اسی کی جنگی حکمت عملی کے باعث جموں و کشمیر میں پاک اقواج پوری ریاست فتح نہیں کرسکی تھیں۔ بھارتی فوج اسے اپنا ہیرو تصّور کرتے تھے۔ لیکن اسی شہرت اور ناموری نے جنرل تھمایا میں غرور و احساس برتری کا منفی جذبہ بھی پیدا کردیا۔ چنانچہ مختلف معاملات میں چیف آف آرمی سٹاف اور حکومت کے مابین تصادم شروع ہوگیا۔اتفاق سے ان دنوں کرشن مینن وزیر دفاع تھا۔ یہ لیفٹسٹ دانشور، نہایت ہوشیار سیاست داں اور ذہین و فطین سفارتکار تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ جنرل تھمایا اپنے آپ کو بھارت کا حقیقی حاکم تصور کرتا ہے۔ پھر کیا تھا، دونوں میں ٹھن گئی۔ جنرل تھمایا جو عسکری پلان بناتا، کرشن مینن اسے مسترد کردیتا۔ بھارتی مورخین لکھتے ہیں کہ توہین آمیز سلوک کی بنا پر جنرل تھمایا غصے میں آگیا ۔حتیٰ کہ وہ بھارت میں نہرو حکومت کا تختہ الٹنے کی بابت سوچنے لگا۔ مورخین نے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔

ایک دفعہ وزیراعظم نہرو کسی کام سے جنرل تھمایا کے دفتر پہنچے۔ وہاں انہوں نے چیف کی کرسی کے پیچھے ایک بڑی سی اسٹیل کی الماری دیکھی۔ متجسس ہوکر پوچھا ’’اس میں کیا ہے؟‘‘

جنرل تھمایا نے کہا ’’الماری کے بالائی خانے میں مملکت کے ڈیفنس پلان محفوظ ہیں۔ دوسرے خانے میں ہمارے اعلیٰ جرنیلوں کی خفیہ فائلیں رکھی ہیں۔‘‘

’’ اور تیسرے خانے میں کیا ہے؟‘‘ پنڈت نہرو نے دلچسپی سے پوچھا۔

آرمی چیف سپاٹ چہرہ لیے بولا ’’آہا، اس میں مارشل لاء کا خفیہ پلان موجود ہے جو میں آپ کے خلاف لگانا چاہتا ہوں۔‘‘

فوج نے حکومت کیوں سنبھالی؟
کہتے ہیں کہ یہ سن کر پنڈت نہرو قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ تاہم ان کی ہنسی میں گھبراہٹ کا عنصر بھی شامل تھا۔وجہ یہ کہ پڑوسی ملک، پاکستان سے خبریں آرہی تھیں کہ شاید جرنیل حکومت سنبھال لیں۔ ان خبروں نے پنڈت نہرو کو چوکنا کردیا اور وہ اپنے جرنیلوں کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھنے لگے۔ چند ماہ بعد ہی خبریں درست ثابت ہوئیں جب اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔بیسیوں بھارتی تاریخ دانوں اور ماہرین عمرانیات نے اس موضوع پر کتب تحریر کی ہیں کہ پاک فوج سیاست میں کیوں داخل ہوئی جبکہ بھارتی فوج دور رہی؟ تقریباً سبھی نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی وجہ دونوں ممالک میں فوج،سیاست دانوں اور بیورو کریسی کا مختلف کردار ہے۔

بھارت میں پنڈت نہرو کی زیر قیادت مستحکم سیاسی حکومت قائم ہوئی جو بیورو کریسی اور فوج دونوں کو اپنے ماتحت رکھنے میں کامیاب رہی۔ پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد سیاست داں اقتدار پانے کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جوڑ توڑ کا بازار گرم ہوگیا جس میں بیوروکریسی نے بھی حصہ لیا۔ مگر ان منفی سیاسی سرگرمیوں کے باعث پاکستان انتشار اور معاشی و معاشرتی ابتری کا نشانہ بن گیا۔ حالات پر قابو پانے کی خاطر فوج کو مجبوراً حکومتی معاملات اپنے حالات میں لینے پڑے۔

عوام 1953ء میں دیکھ چکے تھے کہ فوج کلام سے زیادہ کام پر توجہ دیتی ہے۔ جب پنجاب میں مذہبی ہنگامے ہوئے تو جنرل اعظم خان کی زیر کمان وہاں مارشل لا لگ گیا۔ اس دوران فوج نے نہ صرف فساد پر قابو پایا بلکہ کئی علاقوں میں ’’صفائی مہم‘‘ شروع کردی۔ سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھایا گیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مرمت کی گیں۔ ناجائز تعمیرات گرادیں۔ سڑکوں پر پودے لگائے۔ سرکاری عمارتوں پر رنگ و روغن کیا اور دیگر ایسے سول کام انجام دیئے جو سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے زیر التوا تھے۔ جب تین ماہ بعد فوج بیرکوں میں واپس گئی، تو لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقے کنٹونمنٹ کی طرح صاف ستھرے ہوچکے تھے۔ان معاشرہ سدھار سرگرمیوں کی وجہ سے عوام میں پاک فوج کے لیے عزت و احترام بڑھ گیا۔

فوجیوں نے چند ہفتوں میں وہ کام کر دکھائے تھے جو سیاسی حاکم اور سرکاری افسر برسوں مکمل نہ کرسکے تھے۔ یہی وجہ ہے جب 1958ء میں مارشل لاء لگا تو پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی زمانے میں یہ کہاوت مشہور ہوئی ’’پاکستان میں اب تو ماشاء اللہ ہوگیا۔‘‘ یعنی مارشل لا لگنے سے سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ ایوب خان کی زیر قیادت پھر ایک عشرے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے تاریخی دور سے گزرا۔ افسوس کامل طاقت نے پھر حکمرانوں کو سیدھی راہ سے ہٹا ڈالا۔مطلق العانیت کا نتیجہ اکثر یہی نکلتا ہے۔

جنرل تھمایا کا استعفیٰ
بہرحال پاکستان میں فوجی حکومت آنے سے وزیراعظم نہرو زیادہ سراسیمہ ہوگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ پڑوس کی صورتحال سے متاثر ہوکر جنرل تھمایا بھی ان کی حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم اور وزیر دفاع مینن، دونوں آرمی چیف کے نظریات کی نفی کرنے لگے۔ مثلاً جنرل ایوب خان نے تجویز دی کہ پاک بھارت کو مشترکہ دفاعی کونسل ہونی چاہیے۔ جنرل تھمایا اس تجویز کے حق میں تھے مگر نہرو حکومت نے اسے مسترد کردیا۔ کرشن مینن خصوصاً آرمی چیف سے توہین آمیز سلوک کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، جنرل تھمایا نے اگست 1959ء میں پنڈت نہرو کو اپنا استعفی بھجوا دیا۔ وزیراعظم کے شدید دبائو اور قومی سلامتی کے نام پر آرمی چیف نے استعفی واپس لیا۔ تاہم اس واقعے نے بھارت میں ہنگامہ برپا کردیا۔ نہرو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا ’’یہ ایک معمولی واقعہ تھا جو نمٹ چکا… مگر ہماری حکومت ہر حال میں سول بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔‘‘

اس ٹسل کے باعث بھارتی افواج میں بھی بے چینی رہی اور وہ اپنے حقیقی فرائض سے غافل ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے، 1962ء کے موسم سرما میں چینی فوج نے بھارتی فوج کو شکست دے ڈالی اور اپنی سپرمیسی قائم کرلی۔ اس عبرتناک ہار کے بعد بھارتی حکمران طبقے کو ہوش آیا۔ تب وزیراعظم نہرو عسکری معاملات میں فیصلہ سازی کا عمل افواج کے چیفس کو دینے پر آمادہ ہوگئے۔ یوں اختیارات کی جنگ کسی حد تک اختتام کو پہنچی۔ مگر آرمی چیفس کو یہی گلہ رہا کہ وزارت دفاع میں بیٹھے افسر افواج کی مانگیں پوری نہیں کرتے اور رقم کے حصول اور ہتھیاروں کی خرید میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

بھارتی جرنیلوں کا سیاست میں داخلہ
سیاسی حکومتوں سے اختلافات کے باوجود آرمی چیف مروجہ پالیسی پر کاربند رہے۔ وہ صرف عسکری امور پر بیان دیتے اور سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے۔ اگرچہ پاکستان کا معاملہ آتا، تو بعض اوقات سیاسی نوعیت کے بیانات بھی داغ دیتے۔ اسی دوران سنگھ پریوار کے انتہا پسندانہ اور قوم پرستانہ نظریات فوج میں نفوذ کرگئے۔ اس کا عملی مظاہرہ 2008ء میں سامنے آیا۔ تب انکشاف ہوا کہ بھارتی فوج کے کرنل پروہت نے مساجد اور سمجھوتا ایکسپریس پر بم حملے کرنے والے انتہا پسند جن سنگھی گروہ کو ملٹری ڈپوئوں سے آتش گیر مادہ فراہم کیا تھا۔ ظاہرہے، کرنل پروہت نے اعلیٰ فوجی افسروں کی آشیرباد سے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔2014ء میں سابق آرمی چیف، جنرل (ر) کے وی سنگھ بی جے پی کا رکن بن گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سابق آرمی چیف نے عملی سیاست کے میدان میں قدم دھرے۔ اسی سال سنگھ پریوار کے سیاسی روپ، بی جے پی نے اقتدار سنبھال لیا اور اپنے جنگجویانہ نظریات کی ترویج کرنے گی۔ وزیراعظم مودی بار بار اعلان کرنے لگے کہ وہ بھارتی سینا کو طاقت ور اور مضبوط قوت میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

مودی سرکار کی شہہ پر ہی 2016ء میں آرمی چیف بننے والا جنرل بپن راوت اشتعال انگیز سیاسی بیان دینے لگا۔ مثال کے طور پر اس نے کہا کہ بنگلہ دیش سے مسلمان آسام نہیں آنے چاہیں ورنہ وہاں مقامی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔ مودی سرکار پورے بھارت میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کررہی تھی، موصوف نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ یہی نہیں، مودی کی جنگجویانہ پالیسی اور شاونیت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر حملے شروع کردیئے۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل راوت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بہرحال اس کے عمل و کلام نے بھارتی افواج کی یہ برسوں پرانی پالیسی ملیامیٹ کر ڈالی کہ آرمی چیفس سیاست سے دور رہیں گے۔ بلکہ جنرل راوت مودی حکومت کی جنگجویانہ پالیسیوں کا بلند آہنگ سفیر بن گیا۔

تھیٹر کمانڈز کا منصوبہ
مودی سرکار نے بھی جنرل راوت کی فرماں برداری اور جی حضوری کا بہترین انعام دیا اور اسے چیف آف ڈیفنس سٹاف بناکر نئے تخلیق کردہ سرکاری ادارے، ڈیپارٹمنٹ ملٹری افیئرز کا سربراہ بنا دیا۔ یہ ادارہ پاکستان کے عسکری ادارے، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کا قیام 7 جنوری 2020ء کو عمل میں آیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنگ و امن کے زمانے میں تینوں افواج بری، فضائیہ اور بحریہ کی کارروائیوں اور سرگرمیوں کو ہم آہنگ کیا جاسکے۔ماہ فروری میں جنرل راوت نے اعلان کیا بھارتی افواج کو ’’تھیٹر کمانڈز‘‘ میں بانٹ دیا جائے گا۔یہ عمل اگلے تین چار سال میں مکمل ہو گا۔تھیٹر کمانڈ دور جدید میں ایک فوج کی سب سے بڑی فارمیشن یا صف بندی بن چکی۔اس میں بری،فضائیہ اور بحریہ،تینوں افواج کے دستے شامل ہوتے ہیں۔جنگ چھڑنے پر وہ تینوں مل کر لڑتے ہیں۔یوں مدمقابل کا مقابلہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔امریکا ایسی چھ جبکہ چین پانچ تھیٹر کمانڈز بنا چکا۔اب بھارت بھی اپنی افواج کو پانچ یا چھ تھیٹر کمانڈز میں تقسیم کر کے انھیں جدید ترین فارمیشن کا روپ دینا چاہتا ہے۔مدعا یہ ہے کہ افواج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو موثر وسریع الحرکت بنایا جا سکے ۔فی الوقت وہ 19 کمانڈز میں منقسم ہیں۔

بھارتی افواج کی نئی صف بندی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو بھی ایک تھیٹر کمانڈ تفویض کی گئی ہے۔اس سے عیاں ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ ہر قیمت پر کشمیر پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے چاہے وہاں وسیع جنگی وسائل جھونک دئیے جائیں۔بعض بھارتی ماہرین نے اگرچہ یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نریندر مودی ذاتی خواہشات اور اپنی انا کی تسکین کے لیے بھارتی افواج کو آزاد وخودمختار بنا کر بوتل سے جن باہر نکال رہے ہیں۔اب مستقبل میں اپنی جائز وناجائز خواہشات پوری کرنے کی خاطر بھارتی افواج سول حکومت پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکیں۔گویا بھارت میں سول وملٹری قوت کا توازن فوج کے حق میں جھک سکتا ہے۔

پاکستان کی افواج بھی جدت و سہولت پانے کے لیے خود کو تھیٹر کمانڈز میں تقسیم کر سکتی ہیں۔مثلاً پانچ تھیٹر کمانڈز(کشمیر،پنجاب،سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختون خواہ)وجود میں آ جائیں۔اس طرح تینوں فورسز کے وسائل کو زیادہ عمدگی،سرعت اور سہولت سے دوران جنگ استعمال کیا جا سکے گا۔ابھی مسلح افواج بھارتی فورسز کی طرح کئی کمانڈز میں تقسیم ہیں۔بھارت ہم سے بڑی طاقت ہے۔وہ دنیا کی دوسری بڑی افواج اور تیسرا بڑا جنگی بجٹ رکھتا ہے۔مگر پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کا اتحاد ویک جہتی اس بڑی قوت کو منہ توڑ جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔افریقی کہاوت ہے:’’جہاں اتحاد ہو،وہاں فتح ہے۔‘‘بزرگ کہہ گئے ہیں:’’کمزور بھی متحد ہو کر طاقتور بن جاتے ہیں۔‘‘

The post نیا رنگ روپ اختیار کرتی بھارتی فوج appeared first on ایکسپریس اردو.


دو فرلانگ لمبی سڑک

$
0
0

کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دوفرلانگ لمبی سڑک ہوگی، ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے، کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر۔ سڑک کے دو رویہ شیشم کے سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں۔ ان میں نہ حسن ہے نہ چھاؤں، سخت کھردرے تنے اور ٹہنیوں پر گدھوں کے جھنڈ، سڑک صاف سیدھی اور سخت ہے۔ متواتر نو سال سے میں اس پر چل رہا ہوں، نہ اس میں کبھی کوئی گڑھا دیکھا ہے نہ شگاف، سخت سخت پتھروں کو کوٹ کوٹ کر یہ سڑک تیار کی گئی ہے اور اب اس پر کول تار بھی بچھی ہے جس کی عجیب سی بو گرمیوں میں طبیعت کو پریشان کردیتی ہے۔

سڑکیں تو میں نے بہت دیکھی بھالی ہیں لمبی لمبی، چوڑی چوڑی سڑکیں برادے سے ڈھنپی ہوئی سڑکیں، سڑکیں جن پر سرخ بجری بچھی ہوئی تھی، سڑکیں جن کے گرد سرو و شمشاد کے درخت کھڑے تھے، سڑکیں۔۔۔ مگر نام گنانے سے کیا فائدہ اسی طرح تو ان گنت سڑکیں دیکھی ہوں گی لیکن جتنی اچھی طرح میں اس سڑک کو جانتا ہوں کسی اپنے گہرے دوست کو بھی اتنی اچھی طرح نہیں جانتا۔ متواتر نوسال سے اسے جانتا ہوں اور ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہریوں سے قریب ہی ہے اٹھ کر دفتر جاتا ہوں جو لا کالج کے پاس واقع ہے۔ بس یہی دوفرلانگ کی سڑک،ہر صبح اور ہر شام کچہریوں سے لے کر لاکالج کے آخری دروازے تک، کبھی سائیکل پر کبھی پیدل۔

اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا، اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس کی صورت میں روکھا پن بدستور موجود ہے۔جیسے کہہ رہی ہو مجھے کسی کی کیا پروا ہے اور یہ ہے بھی سچ اسے کسی کی پرواکیوں ہو؟ سینکڑوں ہزاروں انسان، گھوڑے گاڑیاں، موٹریں اس پر سے ہر روز گزر جاتی ہیں اور پیچھے کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اس کی ہلکی نیلی اور سانولی سطح اسی طرح سخت اور سنگلاخ ہے جیسے پہلے روز تھی۔ جب ایک یوریشین ٹھیکیدار نے اسے بنایا تھا۔

یہ کیا سوچتی ہے؟ یاشاید یہ سوچتی ہی نہیں، میرے سامنے ہی ان نو سالوں میں اس نے کیا کیا واقعات، حادثے دیکھے۔ ہر روز ہر لمحہ کیا کیا نئے تماشے نہیں دیکھتی، لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا، نہ روتے ہی، اس کی پتھریلی چھاتی میں کبھی ایک درز بھی پیدا نہیں ہوئی۔

’’ہائے بابو!اندھے محتاج غریب فقیر پر ترس کر جاؤ ارے بابا، ارے بابو، خدا کے لئے ایک پیسہ دیتے جاؤ ارے بابا، ارے کوئی بھگوان کا پیارا نہیں، صاحب جی! میرے ننھے ننھے بچے بلک رہے ہیں ارے کوئی تو ترس کھاؤ ان یتمیوں پر۔‘‘

بیسیوں گداگر اسی سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی اندھا ہے تو کوئی لنجا، کسی کی ٹانگ پر ایک خطرناک زخم ہے تو کوئی غریب عورت دو تین چھوٹے چھوٹے بچے گود میں لئے حسرت بھری نگاہوں سے راہ گیروں کی طرف دیکھتی جاتی ہے۔ کوئی پیسہ دے دیتا ہے۔ کوئی تیوری چڑھائے گزر جاتا ہے کوئی گالیاں دے رہا ہے، حرام زادے، مسٹنڈے، کام نہیں کرتے، بھیک مانگتے ہیں۔

کام، بیکاری، بھیک۔

دو لڑکے سائیکل پر سوار ہنستے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک بوڑھا امیر آدمی اپنی شاندار فٹن میں بیٹھا سڑک پر بیٹھی بھکارن کی طرف دیکھ رہا ہے، اور اپنی انگلیوں سے موچھوں کو تاؤ دے رہا ہے۔ ایک سست مضمحل کتا فٹن کے پہیوں تلے آگیا ہے۔ اس کی پسلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ لہو بہہ رہا ہے، اس کی آنکھوں کی افسردگی، بیچارگی، اس کی ہلکی ہلکی دردناک ٹیاؤں ٹیاؤں کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔ بوڑھا آدمی اب گدیلوں پر جھکا ہوا اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے جو ایک خوش نما سیاہ رنگ کی ساڑھی زیب تن کئے اپنے نوکر کے ساتھ مسکراتی ہوئی باتیں کرتی جا رہی ہے۔ اس کی سیاہ ساڑھی کا نقرئی حاشیہ بوڑھے کی حریص آنکھوں میں چاند کی کرن کی طرح چمک رہا ہے۔

پھر کبھی سڑک سنسان ہوتی ہے۔صرف ایک جگہ شیشم کے درخت کی چھدری چھاؤں میں ایک ٹانگے والا گھوڑے کو سستا رہا ہے۔ گدھ دھوپ میں ٹہنیوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں۔ پولس کا سپاہی آتا ہے۔ ایک زور کی سیٹی،’’او تانگے والے یہاں کھڑا کیا کررہا ہے۔ کیا نام ہے تیرا، کردوں چالان؟‘‘

’’ہجور‘‘

’’ہجور کا بچہ!چل تھانے ‘‘

’’ہجور! یہ تھوڑا ہے!‘‘

’’اچھا جاتجھے معاف کیا۔‘‘

تانگے والا تانگے کو سرپٹ دوڑائے جارہا ہے۔ راستے میں ایک گورا آ رہا ہے۔ سر پر تیڑھی ٹوپی، ہاتھ میں بید کی چھڑی، رخساروں پر پسینہ، لبوں پر کسی ڈانس کا سْر۔

’’کھڑا کردو کنٹونمنٹ۔‘‘

’’آٹھ آنے صاب۔‘‘

’’ویل۔ چھ آنے۔‘‘

’’نہیں صاب۔‘‘

’’کیا بکتا ہے، ٹم۔۔۔‘‘

تانگے والے کو مارتے مارتے بید کی چھڑی ٹوٹ جاتی ہے پھر تانگے والے کا چمڑے کا ہنٹر کام آتا ہے۔ لوگ اکٹھے ہورہے ہیں،پولس کا سپاہی بھی پہنچ گیا ہے۔’’حرام زادے! صاب بہادرسے معافی مانگو‘‘ تانگے والا اپنی میلی پگڑی کے گوشے سے آنسو پونچھ رہا ہے۔ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں۔

اب سڑک پھر سنسان ہے۔

شام کے دھندلکے میں بجلی کے قمقمے روشن ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ کچہریوں کے قریب چند مزدور، بال بکھرے، میلے لباس پہنے باتیں کر رہے ہیں۔

’’بھیا بھرتی ہوگیا؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’تنخواہ تو اچھی ملتی ہوگی۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’بڑھؤ کے لئے کمالائے گا۔ پہلی بیوی تو ایک ہی پھٹی ساڑھی میں رہتی تھی۔‘‘

’’سنا ہے جنگ شروع ہونے والی ہے۔‘‘

’’کب شروع ہوگی؟‘‘

’’کب؟اس کا تو پتہ نہیں،مگر ہم گریب ہی تو مارے جائیں گے۔‘‘

’’کون جانے گریب مارے جائیں گے کہ امیر‘‘

’’ننھا کیسا ہے؟‘‘

’’بخار نہیں ٹلتا،کیا کریں، ادھر جیب میں پیسے نہیں ہیں ادھر حکیم سے دوا‘‘

’’بھرتی ہوجاؤ‘‘

’’سونچ رہے ہیں‘‘

’’رام رام‘‘

’’رام رام‘‘۔

پھٹی ہوئی دھوتیاں ننگے پاؤں، تھکے ہوئے قدم،یہ کیسے لوگ ہیں۔یہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں نہ حریت۔یہ کیسی عجیب باتیں ہیں، پیٹ، بھوک، بیماری، پیسے، حکیم کی دوا، جنگ۔

قمقموں کی زرد، زرد روشنی سڑک پر پڑ رہی ہے۔

دوعورتیں، ایک بوڑھی ایک جوان، اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے، خچروں کی طرح ہانپتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ جوان عورت کی چال تیز ہے۔

’’بیٹی ذرا ٹھہر تو۔‘‘ بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں ہیں اس کی چال مدھم ہے۔ اس کے لہجے میں بے بسی ہے۔

’’بیٹی،میں، ذرا ٹھہر، میں تھک گئی۔۔۔ میرے اللہ۔‘‘

’’اماں، ابھی گھر جا کر روٹی پکانی ہے، تو تو باؤلی ہوئی ہے‘‘

’’اچھا بیٹی،اچھا بیٹی‘‘

بوڑھی عورت جوان عورت کے پیچھے بھاگتی ہوئی جارہی ہے۔ بوجھ کے مارے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،اس کے پاؤ ں ڈگمگا رہے ہیں۔ وہ صدیوں سے اسی سڑک پر چل رہی ہے اپلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے،کوئی اس کا بوجھ ہلکا نہیں کرتا کوئی اسے ایک لمحہ سستانے نہیں دیتا، وہ بھاگی ہوئی جا رہی ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، اس کی جھریوں میں غم ہے اور بھوک، اور فکر اور غلامی اور صدیوں کی غلامی!

تین چار نوخیز لڑکیاں بھڑکیلی ساڑھیاں پہنے، بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے جا رہی ہیں۔

’’بہن! آج شملہ پہاڑی کی سیر کریں‘‘

’’بہن! آج لارنس گارڈن چلیں ‘‘

’’بہن! آج انار کلی !‘‘

’’ریگل؟‘‘

’’شٹ اپ ، یو فول !‘‘

آج سڑک پر سرخ بجری بچھی ہے، ہر طرف جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں، پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں، کسی بڑے آدمی کی آمد ہے، اسی لئے تو اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے لڑکے نیلی پگڑیاں باندھے سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں ہیں، ان کے لبوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں، ان کے چہرے دھوپ سے تمتما اٹھے ہیں اسی طرح کھڑے کھڑے وہ ڈیڑھ گھنٹے سے بڑے آدمی کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب وہ پہلے پہلے یہاں سڑک پر کھڑے ہوئے تھے تو ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ اب سب چپ ہیں چند لڑکے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے تھے۔ اب استاد انہیں کان سے پکڑ کر اٹھا رہا ہے۔ شفیع کی پگڑی کھل گئی تھی۔ استاد اسے گھور کر کہہ رہا ہے، ’’او شفی! پگڑی ٹھیک کر‘‘ پیارے لال کی شلوار اس کے پاؤں میں اٹک گئی ہے اور ازار بند جوتیوں تک لٹک رہا ہے۔

’’تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے پیارے لال!‘‘

’’ماسٹر جی، پانی!‘‘

’’پانی کہاں سے لاؤں! یہ بھی تم نے اپنا گھر سمجھ رکھا ہے دو تین منٹ اور انتظار کرو بس ابھی چھٹی ہوا چاہتی ہے‘‘

دو منٹ، تین منٹ، آدھا گھنٹہ۔

’’ماسٹر جی پانی!‘‘

’’ماسٹر جی پانی!‘‘

’’ماسٹر جی بڑی پیاس لگی ہے۔‘‘

لیکن استاد اب اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے وہ ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں۔

’’لڑکو! ہوشیار ہو جاؤ، دیکھو جھنڈیاں اس طرح ہلانا۔ ابے تیری جھنڈی کہاں ہے؟ قطار سے باہر ہو جا، بدمعاش کہیں کا۔۔۔‘‘

سواری آ رہی ہے۔

موٹر سائیکلوں کی پھٹ پھٹ، بینڈ کا شور، پتلی اور چھوٹی جھنڈیاں بے دلی سے ہلتی ہوئی۔ سوکھے ہوئے گلوں سے پژمردہ نعرے۔

بڑا آدمی سڑک سے گزر گیا لڑکوں کی جان میں جان آ گئی ہے۔ اب وہ اچھل اچھل کر جھنڈیاں توڑ رہے ہیں شور مچا رہے ہیں۔

خوانچے والوں کی صدائیں۔ ریوڑیاں،گرم گرم چنے، حلوا پوری، نان، کباب۔

ایک خوانچے والا ایک طرے والے بابو سے جھگڑ رہا ہے، ’’آپ نے میرا خوانچہ الٹ دیا۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ میرا تین روپئے کا نقصان ہوگیا، میں غریب آدمی ہوں، میرا نقصان پورا کردیجئے تو میں جانے دوں گا۔‘‘

صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھنگی سڑک پر جھاڑو دے رہا ہے۔ اس کے منہ اور ناک پر کپڑا بندھاہے جیسے بیلوں کے منہ پر، جب وہ کولھو چلاتے ہیں۔ وہ گرد و غبار میں اٹا ہوا ہے اور جھاڑو دیئے جا رہا ہے۔

میونسپلٹی کا پانی والا چھکڑا آہستہ آہستہ سڑک پر چھڑکاؤ کررہا ہے۔ چھکڑے کے آگے جتے ہوئے دو بیلوں کی گردنوں پر زخم پیدا ہوگئے ہیں۔ چھکڑے والا سردی سے ٹھٹھرتا ہوا کوئی گیت گانے کی کوشش کررہا ہے۔ بیلوں کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ابھی سڑک کا کتنا حصہ باقی ہے۔

سڑک کے کنارے ایک بوڑھا فقیر مرا پڑا ہے۔ اس کے میلے دانت ہونٹوں کے اندر دھنس گئے ہیں۔ اس کی کھلی ہوئی بے نور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں۔

’’خدا کے لئے مجھ غر یب پر ترس کر جاؤ رے بابا۔‘‘

کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا۔ سڑک خاموش اور سنسان ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتی ہے، سنتی ہے، مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔

انتہائی غیض و غضب کی حالت میں اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر اسے ڈائنامائٹ لگا کر اڑا دیا جائے تو پھر کیا ہو، ایک بلند دھماکے کے ساتھ اس کے ٹکڑے فضا میں پرواز کرتے نظر آئیں گے۔ اس وقت مجھے کتنی خوشی حاصل ہو گی اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔کبھی کبھی اس کی سطح پر چلتے چلتے میں پاگل سا ہوجاتا ہوں، چاہتا ہوں کہ اسی دم کپڑے پھاڑ کر ننگا سڑک پر ناچنے لگوں اور چلا چلا کر کہوں۔ ’’میں انسان نہیں ہوں، میں پاگل ہوں، مجھے انسانوں سے نفرت ہے، مجھے پاگل خانے کی غلامی بخش دو، میں ان سڑکوں کی آزادی نہیں چاہتا۔‘‘

سڑک خاموش ہے اور سنسان، بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں، یہ دو فرلانگ لمبی سڑک۔۔۔

The post دو فرلانگ لمبی سڑک appeared first on ایکسپریس اردو.

مجھے مقابلوں کی ’جیوری‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے، ایوارڈ کیسے ملتا؟

$
0
0

اِبلاغیات میں جہاں الفاظ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہیں تصاویر بھی بہت سے لمحوں کو ساکت کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتی ہیں۔۔۔ بہت سے لمحے ہمارے لیے یادگار ٹھیرتے ہیں، تو بہت سے ٹھیر کر زمانے کی تاریخ بن جاتے ہیں۔ عام طور پر تو ہم یہ کہہ لیں کہ وہ منظر جو ہم نہ دیکھ سکے، وہ تصاویر کے ذریعے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ چاہے ’منظر‘ سے ہماری یہ دوری زمانی ہو یا مکانی، تصویر اس کا کافی حد تک ازالہ کر سکتی ہے۔۔۔ لیکن ’تصویر کشی‘ اپنے وجود میں ایک مکمل اور نہایت دل چسپ فن ہے۔۔۔ اِس میں جہاں ’سیکنڈ‘ کے ہزارویں حصے میں بپا ہونے والے کسی اہم منظر کا ٹھیر جانا اہمیت رکھتا ہے، وہیں روشنی کی کمی وبیشی اور آڑھا ترچھا ہونے سے لے کر کیمرے کا ’زاویے‘ بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس کے کمال سے ایسے شان دار منظر محفوظ ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں دیکھنے والے اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔۔۔ پھر چاہے مناظر ہمارے بار بار کے دیکھے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں، انہیں کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے والا ’تصویر کَش‘ ان مناظر کو اپنی ’کاری گری‘ سے ایک نئی انفرادیت پر فائز کر دیتا ہے۔۔۔

’اِبلاغیات‘ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ تمام باتیں ہمارے ذہن میں تھیں، اور کلفٹن، کراچی میں واقع ’فرانسیسی کلچرل سینٹر‘ (آلیانس فرانسز) میں ہماری ملاقات فوٹوگرافی کے ایک سینئر استاد رحمت اللہ خان سے ہوئی۔۔۔ جس میں ہم نے فوٹوگرافی کی اہمیت اور اس سے جڑی ہوئی بہت سی باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ایک گھنٹے کی ملاقات میں ہمارے سوالات پر ’مہمان‘ تین، چار مرتبہ کچھ معترض سے بھی ہوئے۔۔۔ بہرحال، یہ سب معلومات ہماری بیٹھک کا حصہ ہوگئیں۔۔۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز ’پرنٹ‘ اور ’ڈیجیٹل‘ تصویر کے حوالے سے کیا، وہ کہتے ہیں کہ ’اسکرین پر تصویر دیکھنا اور کسی کو بھیجنا آسان ہو گیا ہے۔ ہم نے استفسار کیا کہ ’اس کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں؟‘ تو وہ بولے کہ فیزیکلی تو بہت فرق ہے، لیکن اس سے ترسیل بہت آسان ہوگئی ہے، یہاں بیٹھے بیٹھے امریکا بھیج دی اور وہاں پرنٹ کیا اور لگا دیا گیا۔‘

’تو گویا پرنٹ تو لیا گیا؟‘ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ نمائش کے لیے تو ’پرنٹ‘ لینا پڑے گا، لوگ کہتے ہیں کہ ’فوٹوگرافک فلم‘ ختم ہوگئی، لیکن آرٹ فوٹوگرافر ’فلم‘ پر ہی کام کر رہا ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دنیا میں ہر طرح کی مشینیں آئیں، کیمرا بھی ایک الیکٹرانک مشین ہے، لیکن ’ہیومن فیکٹر‘ ہمیشہ اہم رہے گا۔ آج بھی بہت سی چیزوں پر ’دست کاری‘ یا ’ہاتھ سے تیار کردہ‘ اسی لیے لکھا جاتا ہے کہ اس کی اہمیت برقرار ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ فوٹو گرافی کو بہت محدود کر رہے ہیں، آج کل کے دور میں فوٹوگرافی پرنٹنگ کی محتاج نہیں، نہ پہلے کبھی تھی۔ ’پرنٹ میڈیا‘ پر ضرور فرق پڑا ہے، لیکن فوٹوگرافی کی پرنٹنگ پر ایسا کوئی اثر نہیں پڑا!

’تصویر کی ’طبعی شکل‘ کو ’ڈیجیٹل‘ پر برتری حاصل ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’نمائش‘ تو ’پرنٹ‘ کی شکل میں ہی ہوگی اور تصویر اسکرین پر بھی وہی تاثر دے گی، جو پرنٹ میں دے گی۔ ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘ کی وسعت کے مقابلے میں ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ کی محدود ’اسکرین‘ کا ذکر ہوا، تو وہ بولے کہ آج کل ’ایس ایم ڈی‘ آگئی ہے، جتنی بڑی اسکرین چاہیں لگالیں۔ ہم نے کہا، لیکن وہ ہر ایک کے پاس تو نہیں؟ اخبار میں تو ہم کسی بھی تصویر کو جتنا چاہے بڑا کر سکتے ہیں، لیکن ’اسکرین‘ پر ایک مخصوص چوکھٹے کے قیدی ہیں؟‘

رحمت اللہ خان کا کہنا تھا کہ سائز کے باوجود تصویر کے تاثر میں فرق نہیں پڑے گا، بلکہ ’الیکٹرانک‘ زیادہ طاقت وَر ذریعہ ہے، کیوں کہ لوگوں کی ’پرنٹ میڈیا‘ سے زیادہ ’الیکٹرانک‘ ذرایع تک رسائی ہے۔ یہ بھول جائیے کہ فوٹوگرافی کے تاثر پر کوئی فرق پڑے گا۔ چاہے کسی بھی ذریعے سے دیکھیے، یہ بصری زبان ہے، اسی طرح ہر جگہ سمجھی جاتی رہے گی۔

تصویر کشی میں جدید تبدیلیوں سے متعلق ہمارے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں دو تین چیزیں شامل ہوئی ہیں، بالخصوص اب ہر چھوٹے اور ’موبائل فون کیمرے‘ سے بھی ’فوٹوگرافی‘ اور ’ویڈیو گرافی‘ شروع ہوگئی ہے۔ دنیا میں بہت سارے لوگ کسی حد تک پروفیشنل کام اب ’سیل فون‘ سے کر رہے ہیں۔

ہم نے پوچھا ’کیا ’سیل فون‘ عام کیمرے کا نعم البدل ہے؟‘ وہ بولے کہ کافی حد تک ہے، اصل میں یہ ابھی اتنا بہترین استعمال نہیں ہو رہا۔ 2004ء میں بحرہند کے سمندری طوفان ’سونامی‘ کی تباہ کاری موبائل کیمرے کی ویڈیو میں محفوظ ہوئی، جو ’سی این این‘ پر بھی نشر ہوئی، جس کے بعد اس طرف رجحان بڑھا، اب کیمروں کی بڑی کمپنیاں اپنے عدسے (لینس) سیل فون کے لیے فراہم کر رہی ہیں، کچھ عدسے اس کے علاوہ بھی لگائے جاتے ہیں۔

رحمت اللہ خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے تمام آرکیولوجیکل فوٹو گرافی کی ہے۔ آرکیالوجی میں تو ’گلیمر‘ نہیں ہوگا، نئی نسل کو فیشن فوٹوگرافی اور ’ماڈلنگ‘ چاہیے، کیوں کہ وہ شہرت اور ’گلیمر‘ میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔

فوٹوگرافی میں ’گلیمر‘ کا پوچھا گیا، تو وہ بولے کہ جہاں خاتون شامل ہو جائے! ہم نے کہا کہ کیا بس یہی تعریف ہے؟ وہ بولے ہمارے ملک میں تو یہی ہے۔ ہم نے رحمت اللہ خان کے سامنے ’ویڈیو‘ کی ’فوٹو گرافی‘ پر برتری کا سوال رکھا، تو وہ بولے ’میں موازنے میں نہیں جانا چاہتا، چھوٹی چھوٹی ویڈیو زیادہ چل رہی ہیں، لیکن ’اِسٹل‘ تصویر کا اپنا مزا ہے، وہ ہمیشہ رہے گا۔۔۔! ویڈیو دیکھنے کے لیے ہمیں کوئی آلہ چاہیے، ٹھیری ہوئی تصویر دیکھنے کے لیے ہمیشہ آلہ درکار نہیں۔ اگر ایک چَھپی ہوئی ’البم‘ 10منٹ میں دیکھ لی جائے، تو اس کی ویڈیو کم سے کم آدھے گھنٹے کی ہوگی۔۔۔ ’البم‘ میں وقت کی بچت ہے۔ فوٹوگرافی دراصل ایمجینگ کی ماں ہے، پہلے ’سنگل فریم‘ بنا، پھر ’ملٹی پل فریمنگ‘ ہوئی، بنیادی طور پر سب کیمرے ہی ’اِسٹل‘ ہیں۔ یہ تو ایڈیسن کی مہربانی ہے کہ اس نے ’موشن پکچر‘ کیمرا بنایا اور اب ’ڈیجیٹل فوٹوگرافی‘ کے بعد ’سینماگراف‘ آرہا ہے، اس کا پروٹو ٹائپ بھی بن گیا ہے، جس میں براہ راست تصویر آئے گی۔‘

’الیکٹرانک میڈیا‘ میں تصویر کے بہ جائے ’ویڈیو‘ کی کھپت کا ذکر کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ویڈیو بھی دراصل ’تصویر‘ ہی ہے، اسے الگ نہ کریں۔‘

’کیا آج بھی یہ بات درست ہے کہ ’ایک تصویر ایک ہزار الفاظ پر بھاری ہے؟‘

ہم نے ’ایم اے‘ کے زمانے میں پڑھا ہوا ایک مشہور مقولہ سوال بنایا، تو وہ بولے کہ ’آج کی تصویر ایک لاکھ الفاظ پر بھاری ہے۔۔۔! اس میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے انکشافات اور کارروائیاں تصاویر پر ہوئیں۔ وہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ کو حقیقی فوٹوگرافی قرار دیتے ہیں۔ ہم نے کہا جو چیز نیلی ہے وہ نیلی دکھائی دے اور جو جامنی ہے وہ جامنی دکھائی دے، تو کیا یہ حقیقت سے قریب تر نہ ہوئی؟‘

ہمارے سوال پر وہ اپنا موقف دُہراتے ہیں کہ حقیقتاً فوٹوگرافی تو بلیک اینڈ وائٹ ہی ہے، انسانی آنکھ تین رنگ سرخ، نیلا اور سبز ہی دیکھ سکتی ہے، اِن تینوں کو برابر ملایا جائے، تو سفید روشنی بنتی ہے۔ فوٹوگرافی بھی 1826ء میں بلیک اینڈ وائٹ آئی، پھر 1861ء میں رنگین ہوئی۔ ان رنگوں کو حقیقی نہیں کہتے، حقیقی تو یہ ہے کہ آپ انہیں کتنا اچھا دکھا سکتے ہیں۔۔۔ اس میں رنگ آنا ضرور نہیں۔ دنیا کی بڑی طاقت وَر تصاویر ’بلیک اینڈ وائٹ‘ ہیں۔‘ ہم نے پوچھا کہ آج کی دنیا میں رنگین تصویر جو تاثر دیتی ہے، کیا ایک ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصویر سے ہم وہ تاثر لے سکتے ہیں؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصویر کا اپنا ایک چارم Charm ہوتا ہے۔‘

رحمت اللہ خان نے اپنی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وہ 25 اکتوبر 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، 1977-78ء میں میٹرک کیا، تب پاکستان میں فوٹوگرافی کہیں نہیں پڑھائی جاتی تھی، ایک امریکی یونیورسٹی نے داخلہ بھی بھیج دیا، لیکن وہ نہ جا سکے، پھر سندھ یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میں ’ایم بی اے‘ کیا اور 10 برس ’کمپیوٹر فرم‘ میں مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے، کہتے ہیں کہ اس وقت ’کمپیوٹر‘ بیچنا بہت دشوار تھا۔ آٹھ سال کی عمر سے فوٹوگرافی کر رہا ہوں۔ بڑے بھائی فوٹوگرافی کا شوق رکھتے تھے، میں ان کے جس کیمرے سے تصاویر کھینچتا تھا، وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ 1991ء سے فوٹوگرافی پڑھانا شروع کی اور 1994ء میں ’مارکیٹنگ‘ کی ملازمت چھوڑ کر مکمل طور پر تدریس پر مرکوز ہوگئے۔ فوٹو جرنلزم سے بھی منسلک رہے اور فیشن فوٹوگرافی بھی کی۔ کہتے ہیں کہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصاویر میرا خاص موضوع ہے، ایک دو شادی کی تقاریب میں ’بلیک اینڈ وائٹ‘ فوٹو گرافی کی مانگ کی، شادی کی تقاریب میں وقت بہت لگتا ہے، اس لیے جان چھڑانے کے لیے انہیں بہت زیادہ پیسے بتائے، لیکن انہوں نے ہامی بھر لی!

رحمت صاحب شہر کی مختلف جامعات میں فوٹو گرافی، فلم اور ٹی وی پروڈکشن پڑھاتے رہے، تاہم اپنے ’پی ایچ ڈی‘ کی طرف متوجہ ہونے کے سبب گزشتہ ڈیڑھ سال سے ’آلیانس فرانسز‘ اور ’پی اے سی سی‘ (پاک امریکن کلچرل سینٹر) تک محدود ہیں۔ وہ ’آلیانس فرانسز‘ میں پروفیسر فوٹو گرافی ہیں۔ وہ فوٹو گرافی کو مذہب کی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک ماہ نامے میں فوٹوگرافی پر لکھتے رہے ہیں، مجموعی طور پر ڈیڑھ، دو سو کے قریب مضامین لکھ چکے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ’ماڈلنگ‘ بھی سکھاتا تھا، لیکن اب خود کو آرکیالوجی، ہیریٹیج اور کلچر کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آلیانس فرانسز‘ میں پاکستان میں فوٹوگرافی کا پہلا بین الاقوامی تسلیم شدہ ڈپلوما شروع کیا، اس کے علاوہ ’بنیادی فوٹو گرافی‘ ’بلیک اینڈ وائٹ ڈیولپنگ فلم‘ اور ’ویڈیو پروڈکشن اور فلم ڈاکیو منٹری‘ وغیرہ پر بھی کورس کراتے ہیں۔

چینی ثقافت سے خصوصی دل چسپی کا ماجرا سناتے ہوئے رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ’مارکیٹنگ‘ کی ملازمت کے دوران ہانگ کانگ گئے، جہاں سے چینی ثقافت سے عشق شروع ہوا۔ پھر کئی بار چین گئے اور چینی صوبہ ’سینکیانگ‘ پر کام کیا۔ ان تصاویر کی چار پانچ نمائشیں بھی ہوئیں۔ مجھے پاکستان میں ’چائنا مین‘ کہا جاتا، اب بھی لوگ کہتے ہیں کہ تم نے ’فرنچ کلچرل سینٹر‘ میں ’چینی مرکز‘ بنایا ہوا ہے۔ چین پر ایک کتاب بھی شایع ہوتے ہوتے رہ گئی، ہوا یوں کہ اس کتاب کی تصاویر کا چینی زبان میں کیپشن لکھنے والے صاحب انتقال کر گئے، وہ کتاب کا بہ یک وقت انگریزی اور چینی ایڈیشن لانا چاہتے تھے، اس لیے اشاعت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ ’موئن جو داڑو‘ اور ’رنی کوٹ‘ اور آرکیالوجی اور ہیریٹیج وغیرہ کے کام کو بھی شایع کرانا چاہتے ہیں۔

رحمت اللہ خان اِن دنوں ڈنمارک کی ایک جامعہ سے فوٹو گرافی پر ’پی ایچ ڈی‘ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ وقت طلب کام ہے۔ ہفتے کی صبح سے اتوار کی شام تک ’آلیانس فرانسز‘ میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ میرا دوسرا نہیں بلکہ پہلا گھر ہے۔ 2010ء میں شادی ہوئی، کوئی مجھ سے بچوں کا پوچھے، تو میں کہتا ہوں کہ چھے ہزار کتابیں ہیں۔ جن کے موضوعات فوٹوگرافی، فلم پروڈکشن، ٹی وی پروڈکشن اور تاریخ وغیرہ ہیں۔

ایوارڈز کا ذکر ہوا تو وہ بولے کہ اکثر مقابلوں میں، مجھے ہی ’جیوری‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس لیے ایسا کوئی ایوارڈ کوئی نہیںِ ملا، البتہ یادگاری شیلڈ بے شمار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا موضوع ’آرکیالوجی اور ہیریٹج‘ ہے، اس کی نمائشیں تو ہوتی ہیں، لیکن مقابلے نہیں ہوتے۔

رحمت اللہ نے بتایا کہ ’جیوپولیٹکس اینڈ ہسٹری آف سینٹرل ایشیا اینڈ سلک روڈ‘ پر اُن کی خاص دل چسپی ہے، وہ اس پر لیکچر بھی دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایشیا میں یہی خطہ کام کا ہے۔ عربوں نے کچھ ایجاد نہیں کیا، ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی صرف چارپائی ایجاد کی، یہاں بھی پرانے لوگوں نے جو کچھ ایجاد کیا ہے، تو اس کا بنیادی تعلق وسطی ایشیا سے ہی بنتا ہے۔

تصاویر میں ’ایڈیٹنگ‘ کا معاملہ
’تصویر میں تدوین (ایڈیٹنگ) کتنا ضروری ہے؟‘ ہمارے اس سوال پر وہ کہتے ہیںکہ یہاں ’ایڈیٹنگ‘ کے تصور کو لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہم پہلے ’فوٹوگرافک فلم‘ استعمال کرتے تھے، اس کا ’نیگیٹو‘ اور پھر ’پوزیٹو‘ بناتے تھے، اب ایسا نہیں ہوتا، اب ہم ان تصویروں کا ’کنٹراسٹ‘ اور ’سائز‘ بنانا پڑتا ہے۔

’کیا ’ایڈیٹنگ‘ اُس ہی کو کرنا چاہیے جس نے تصویر لی کھینچی ہو؟‘ وہ بولے ضروری نہیں ہے۔

کیا ’ایڈیٹنگ‘ سے تصویر کی سچائی اور حقیقت پر فرق پڑتا ہے؟ اس استفسار پر وہ کہتے ہیں ’اگ

ر آپ زیادہ کریں، تو تھوڑا بہت پڑتا ہے۔ آپ تصویر میں ’فوٹو ایڈیٹنگ‘ کر سکتے ہیں، لیکن ’گراف

کلی ورک‘ نہیں کر سکتے!‘

’تصویر میں وہ اثرات (ایفیکٹس) ایسے تاثر دیں، جو وہاں ہوں نہیں، جیسے کیمرا کسی جگہ رنگوں کو زیادہ چمکتا ہوا دکھا دیتا ہے، تو کیا یہ تصویر حقیقت سے قریب تر ہوگی؟ کہتے ہیں کہ ’بالکل ہوگا، دراصل ’ایڈیٹنگ‘ کی ضرورت خراب تصویر میں پڑتی ہے۔‘
اسے حقیقت سے متصادم نہیں سمجھیں گے؟ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ نہیں، دو تصویروں میں ’زاویوں‘ اور ’کنٹراس‘ کی وجہ سے فرق ہوتا ہے۔ ’ریئل کلر‘ کے حوالے سے رحمت صاحب کہتے ہیں کہ ’ریئل کلر‘ کچھ بھی نہیں ہوتا، جو دکھا رہے ہیں وہ ریئل ہوگا۔ ہم نے کہا ’اور جو وہاں دکھائی دے رہا ہے وہ ریئل نہیں؟‘ تو وہ بولے کہ جو ہے وہ تو ہوگا، ہم اسے تبدیل نہیں کر رہے، اس کے رنگ کے ’درجے‘ کو اوپر نیچے کر رہے ہیں۔ جیسے ایک رنگ کو آپ ’کالا‘ کہیں گے، لیکن میرے لیے گرے ہے، اب آپ اسے ’گِرے‘ دیکھنا چاہتے ہیں یا ’بلیک‘؟ یہ بطور فوٹو گرافر آپ پر منحصر ہے۔ میں اِسے ہلکا کردوں گا، تو گِرے اور گہرا کر دوں گا، تو ’سیاہ‘ دکھائی دے گا۔

پہلے تصویرکھینچیں یا جان بچائیں۔۔۔؟

ہمارے سوالات کے ’پلندے‘ میں ایک اہم سوال فوٹوگرافی کی اخلاقیات کے حوالے سے بھی تھا، وہ بولے کہ فوٹوگرافی کا ہمیشہ مثبت استعمال کرنا چاہیے، کسی کو بلیک میل وغیرہ نہ کریں۔ ہم نے کہا کبھی موقع ایسا ہوتا ہے کہ تصویر لینے کے ساتھ اس وقت آپ کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔۔۔ جیسے آپ کا پانی ڈال دینا، پانی پلانا یا روک دینا وغیرہ، لیکن آپ اس کے بہ جائے تصویر لے لیتے ہیں۔۔۔۔ جیسے ’کیون کارٹر‘ (Kevin carter) کی 1993ء میں افریقا میں قحط کے زمانے میں دم توڑنے والے بچے کے انتظار میں موجود گِدھ کی مشہور (’پولیٔٹزر‘ ایوارڈ یافتہ) تصویر تھی، ہمارے سامنے بھی ایسے موقعے آسکتے ہیں کہ جیسے کوئی خود کُشی کر رہا ہے، تو آپ اسے روکیں یا اس کی مرتے ہوئے تصویر بنائیں؟ اس پر وہ کہتے ہیںکہ ’تصویر کھینچنے والے کی ذمہ داری ہے کہ پہلے تصویر کھینچے۔۔۔ پہلے اُسے اپنا کام کرنا ہے۔‘

ہم نے کہا کہ فوٹو گرافر پہلے انسان بھی تو ہے؟ تو وہ بولے کہ ’اس کو بچانے والے اور بہت سارے ہیں، ضروری نہیں ہے، وہی کرے۔‘ ہم نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے سوا اور کوئی قریب نہ ہو؟‘ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، اسے پہلے تصویر لینا چاہیے!‘

’کیون کارٹر‘ نے تو اُس بچے کو نہ بچانے کے پچھتاوے میں خود کُشی کر لی تھی؟‘ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ اس کی وجہ ملازمت سے بے دخلی اور نشے کی وجہ وسے کام نہ کر پانا تھا، وہ ڈپریشن میں چلا گیا تھا۔‘

ہم نے کہا ڈپریشن کی وجہ یہی تو تھی؟‘ وہ بولے کہ نہیں اس کے ساتھ اور دیگر وجوہات بھی تھیں۔ ویت نام کی جنگ میں بھی بہت سی تکلیف دہ تصاویر ہیں، جس میں لوگوں کو گولیاں ماری جا رہی ہیں، اب آپ کہیں گے کہ انہیں روکا کیوں نہیں، تو بندوق کے سامنے کون کھڑا ہوگا!‘

’’کیا تصویر جھوٹ بھی بول سکتی ہے۔۔۔؟‘‘

ہم نے رحمت صاحب سے استفسار کیا کہ ’’کبھی تصویر ’جھوٹ‘ بھی تو بول سکتی ہے؟ جیسے ایک تصویر کے چھوٹے ’فریم‘ میں زمین پر گرئے ہوئے ایک بچے کے گال پر ایک جوتا رکھا ہوا ہے، لیکن بڑی تصویر میں دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنے ہاتھ میں ہی جوتا لے کر اپنے منہ پر رکھا ہوا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی ’فینٹسی‘ بنائی جاتی ہے۔ پروپیگنڈا اور اینٹی پروپیگنڈا دونوں چل رہے ہیں۔۔۔ ایسی ’ایڈیٹنگ‘ بھی ہوتی ہے، لیکن حقیقی چیز ’حقیقی‘ نظر آتی ہے، ہم تصویر کو دیکھ کر پہچان جاتے ہیں اور پھر سچائی سامنے آجاتی ہے۔

ہم نے تصاویر کے ایسے سوفٹ ویئر کا ذکر کیا، جو اس قدر صفائی سے تبدیلیاں کرتا ہے، کہ اصل اور نقل پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے؟ تو وہ بولے کہ ’ایسے سوفٹ وئیر آتے رہتے ہیں، اور چند دن کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔‘

’’کیا اس سے سچائی پر اثر نہیں پڑا؟‘‘ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ کوئی اثر نہیں پڑا، دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ تصویر ’تدوین شدہ‘ ہے۔

’ایک عام آدمی کس طرح تصویر کو کس طرح جانچ سکتا ہے؟‘ ہم نے معلومات چاہی، تو وہ بولے کہ تصویر خود بول دیتی ہے کہ وہ جعلی ہے، سوفٹ وئیر ’فوٹو شاپ‘ کا اشتہار آیا، تو اس میں تصویر میں فلسطینی راہ نما یاسر عرفات اسرائیلی وزیراعظم سے ہاتھ ملا رہے تھے، درمیان میں امریکی صدر بھی موجود تھے۔ لوگوں نے اِسے دیکھتے ہی کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں!

’’لیکن وہ بچے کے جوتے والی تصویر کی حقیقت کیا ہے، جب کہ وہ قریب کی چھوٹی تصویر (فریم) کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ ہم نے پچھلے سوال کی تشنگی دور کرنا چاہی، تو رحمت اللہ بولے کہ تصویر صرف ’دکھاتی‘ ہے، اور ایسی چیزیں کسی پروپیگنڈے کے لیے دکھائی جاتی ہیں اور پروپیگنڈے میں صرف تصویر تو نہیں ہوتی، کوئی تحریر بھی ساتھ ہوگی! ’کیپشن‘ کی اہمیت کے حوالے سے رحمت اللہ خان کہتے ہیں کہ ’تصویری صحافت‘ میں اس کی اہمیت ہے۔ ’کیپشن‘ کی ’اتھارٹی‘ کے لیے تصویر ہوگی۔‘

’پرنٹ میڈیا‘ دوبارہ آگے آئے گا۔۔۔!

رحمت اللہ خان کا خیال ہے کہ مطبوعہ کتاب کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوگی، اس وقت ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ (پرنٹ میڈیا) میں صرف اخبار پر اثر پڑ رہا ہے، کتابوں پر نہیں، میں بستر پر لیٹ کر چھَپی ہوئی کتاب ہی پڑھتا ہوں، اگر ’ٹیبلٹ‘ پر پڑھوں گا، تو ایک دو صفحے کے بعد مجھے نیند آنے لگے گی۔‘‘

ہم نے کہا کہ اس کی وجہ کہیں عادت تو نہیں؟ ورنہ بھاری کتاب سے آسان تو ہلکا پھلکا ’موبائل فون‘ ہے؟ وہ بولے کہ اگر ایسا ہوتا تو کتابیں شایع ہونا بند ہو جاتیں۔۔۔ آج ’پرنٹ میڈیا‘ پیچھے ضرور گیا ہے، لیکن کچھ وقت بعد اس کا احیا ہوگا، انسان چیزوں سے اکتا جاتا ہے۔ لوگ بھی ’موبائل‘ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نوٹ بک، ٹائپ رائٹر، ٹی وی، اخبار، فون ڈائری وغیرہ کا ’بدل‘ ہے، اس لیے بالکل ختم تو نہیں ہوگا۔۔۔ علم ہمیشہ کتابوں سے پھیلا ہے، خلافت عثمانیہ اس لیے ختم ہوگئی کہ چھاپا خانہ ’حرام‘ قرار دیا گیا، نتیجتاً 250 سال طباعت نہ ہوئی اور وہ پیچھے رہ گئے۔ آج ہم ایک بال پوائنٹ تو بنا نہیں سکتے، لیکن راج دنیا پر کرنا چاہتے ہیں۔ میں ’اردو سائنس کالج‘ کے زمانے میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کا ’سی آر‘ منتخب ہوا۔ بعد میں اختلاف پر ’جمعیت‘ سے استعفا دے دیا، پروفیسر غفور احمد نے مجھے روکا کہ نہ جاؤ، حالات ٹھیک ہو جائیں گے، میں نے کہا تھا کہ آپ غلط کام کر رہے ہیں اور اس کے نتائج نکلیں گے، آج جماعت اسلامی پورے ملک سے ’غائب‘ ہوگئی ہے۔

The post مجھے مقابلوں کی ’جیوری‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے، ایوارڈ کیسے ملتا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اب پاکستان سے متعلق اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتا ہوں ، عارف انیس ملک

$
0
0

 ’میں اچھا گڈریا نہیں تھا‘

بارانی علاقے کی وجہ سے یہاں کے لوگ کاشتکاری کے بجائے ملازمت کرنے اور بھیڑ بکریاں پالنے کو ترجیح دیتے۔ اکثریت فوج کا رخ کرتی، کیونکہ ’مارشل ریس‘ کے سبب وادی سون سکیسر کے مضبوط اور جری نوجوان فوج میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ عارف انیس ملک کا جنم چار اپریل 1976ء کو اردو ادب کی ممتار شخصیت احمد ندیم قاسمی کے گاؤں (انگہ) اور خاندان میں ہوا۔ قاسمی صاحب رشتے میں ماموں لگتے تھے۔

والد فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر تھے، انہوں نے برٹش اور پاکستان آرمی دونوں میں کام کیا۔ دو بہنوں اور تین بھائیوں میں منجھلے عارف انیس سکول میں اوسط درجے کے طالب علم تھے، ان کی دلچسپی کمرہ جماعت سے باہر کی دنیا میں تھی۔ کھیلوں کا شوق تھا، نہ ہی شرارتیں کرنے کا حوصلہ۔ قبائلی طرز زندگی میں لڑائی جھگڑے عام تھے، اس لیے بچ بچا کے چلنا پڑتا تھا۔ ایسے میں بھیٹر بکریاں چرانے کا خاندانی مشغلہ انہیں خوب راس آیا، جس کے دوران سوچنے اور خیالوں میں کھوئے رہنے کا وافر وقت میسر تھا۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اچھے گڈریے نہیں تھے، ان کے بقول، ’’دوسرے لوگ جانوروں کی بولیاں سمجھتے یا ان کو دیکھ کر ان کی کیفیت جان لیتے، مجھے اس کام کی اتنی سمجھ نہیں تھی، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سے مجھے سوچنے سمجھنے کا موقع ملا۔ مجھے پوری زندگی یوں لگا ہے کہ میں ایک چرواہا ہوں، جس کی بھیٹر گم ہو گئی ہے اور وہ اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔‘‘

 طلسم ہوش ربا

ان کے گھر کے ساتھ ایک خالی مکان تھا، جس کے مکین بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے۔ ایک مرتبہ اس کی دیوار گر گئی تو عارف انیس اس گھر میں داخل ہو گئے۔ وہاں انہیں گتے کے ڈبوں کے ڈھیر نظر آئے، جن میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے زندگی میں جو پہلی کتاب پڑھی وہ طلسم ہوش ربا تھی۔ عمرو عیار، زنبیل اور امیر حمزہ کے قصوں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

کرنل محمد خاں کی ’بسلامت روی‘ کا مطالعہ کیا۔ پھر کتابوں میں ایسے کھوئے کہ باہر کی دنیا اچھی لگنی ختم ہو گئی۔ ویسے بھی خوشاب سے ستر کلومیٹر دور پہاڑوں کے درمیان زندگی بہت سادہ تھی۔ گاؤں میں کہیں دور جانا ہوتا تو گھوڑوں پر سفر کیا جاتا۔ اکا دکا کسی کے پاس موٹر سائیکل ہوتی۔ دس، گیارہ سال کی عمر میں پہلی دفعہ سڑکوں پر گاڑیاں اور ٹرک چلتے دیکھے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان پہاڑوں کے پار بھی ایک دنیا ہے۔ یہ خیالی دنیا بھی کسی ’طلسم ہوش ربا‘ سے کم نہیں تھی۔ وہاں جا کر رہنے اور پڑھنے کے لیے ضد کرنا شروع کر دی، جس کے آگے بالآخر گھر والوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور انہیں تایا کے پاس ملتان بھیج دیا گیا۔

کریزی ڈریمز …..

پرائمری سے آگے کے تعلیمی مراحل ملتان میں طے ہونے لگے۔ پانچ برس بعد پوری فیملی یہاں منتقل ہو گئی، جس کی وجہ سے بہن بھائیوں کو بھی اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کے دونوں بھائی شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن ایف ایس سی کے دونوں سال انہوں نے ملتان گریژن لائبریری میں کتابیں پڑھتے گزار دیئے اور ہزاروں کتابیں چاٹ ڈالیں۔ احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خاں، سعادت حسن منٹو، بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کو پڑھ ڈالا۔ اسی دور میں ’شہاب نامہ‘ شائع ہوا، جس سے بہت متاثر ہوئے۔ ٹالسٹائی، چیخوف، ہمینگوے، برنارڈ شا وغیرہ۔ اس مطالعے کا یہ ’فائدہ‘ ہوا کہ ایف ایس سی میں فیل ہو گئے۔ بعدازاں ایف اے کا امتحان دیا تو ملتان بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں داخلہ لے لیا۔

عارف انیس اپنی فینٹیسی کی دنیا میں رہنا پسند کرتے، جہاں اصل زندگی کے مقابلے میں کوئی مشکلات نہیں تھیں۔ 1998ء کا ذکر ہے، ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کوئی غیبی طاقت اچانک مہربان ہو کر پوچھے کہ مانگ کیا مانگتا ہے، تو وہ کون سی تین چار چیزیں مانگیں گے۔ ان کے کریزی ڈریمز کی فہرست، جنہیں دیوانے کے خواب کہنا چاہیے، کچھ یوں تھی: ٭ سی ایس ایس کرنا ہے۔ (قدرت اللہ شہاب سے متاثر ہو کر) ٭ امریکی صدر بل کلنٹن سے ہاتھ ملانا ہے۔ (ان دنوں ٹائم میگزین کے سرورق پر بل کلنٹن کی تصویر دیکھی تھی) ٭ مس ورلڈ کے ساتھ ڈنر کرنا ہے۔ (جس کے متعلق اخبار میں پڑھا تھا) ٭ آکسفورڈ یونیورسٹی کے یونین ہال میں خطاب کرنا ہے۔ (مارٹن لوتھر کنگ کی آپ بیتی سے پتا چلا کہ وہاں خطاب کرنا بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے)

 کئی زندگیاں جینے کا شوق

انہیں بیک وقت کئی زندگیاں جینے کا شوق تھا۔ انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرتے کرتے سوچا کہ کچھ ایسا پڑھنا چاہیے جس سے انسان اور معاشرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ انہوں نے نفسیات کی کتابیں پڑھنا شروع کیں، اور پھر انسان کو سمجھنے کی کنجی کی تلاش میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ جا پہنچے۔ یہاں ڈیل کارنیگی، برائن ٹریسی اور جیک کینفیلڈ کو پڑھنے کا موقع ملا تو سیلف ہیلپ لٹریچر کی طرف رجحان ہو گیا۔ یہ تصور انہیں بڑا شاندار لگا کہ آپ خود اپنی زندگی کے معمار ہو سکتے ہیں، جو ہمیشہ ان کی ہمت بڑھاتا۔ معروف سپیکر اور مصنف قیصر عباس ان کے جونیئر تھے۔ دونوں دوست رات کو کیمپس میں نہر کے ساتھ ساتھ لمبی واک کرتے اور سوچتے کہ ایک دن وہ بھی دنیائے ٹریننگ کے بڑے ناموں کے ساتھ تقریریں کر رہے ہوں گے۔ اسی دوران ان دونوں نے مل کر کتاب ’’شاباش تم کر سکتے ہو‘‘ بھی لکھی۔

 ’جنوں کی طرح کام کیا‘

حقیقی دنیا، بہرحال فینٹیسی کی دنیا سے مختلف تھی، جہاں انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ وسائل اتنے نہیں تھے کہ آسانی سے آگے بڑھ سکیں۔ ٹیوشنیں پڑھائیں، بے شمار چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دیں، دو چار مرتبہ مزدوری کی نوبت بھی آئی۔ لیکن انہوں نے اپنا دل چھوٹا نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’آپ جب بھی بڑے خواب دیکھتے ہیں تو انہیں عملی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے جنوں کی طرح کام کیا، ایک دن میں اٹھارہ، بیس گھنٹے کام کرنا میری عادت تھی۔ پھر آپ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے صحیح راستہ پکڑ لیتے ہیں تو جلد یا بدیر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسے لاء آف اٹریکشن کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم بھی شامل حال رہا۔‘‘

نفسیات میں ماسٹرز کیا ہی تھا کہ تین چار ملازمتوں کی تقریباً ایک ساتھ پیشکش ہو گئی۔ لیکچر شپ، سپرنٹنڈنٹ جیل اور فوج میں بطور کیپٹن بھی انتخاب ہو گیا۔ ان دنوں صدر پرویز مشرف نے سی ایس ایس کے امیدواروں کے لیے عمر کی حد کم کر دی تھی۔ ان کے پاس ایک چانس تھا، 45 دنوں میں تیاری کے بعد امتحان میں بیٹھے اور 2001ء میں سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کر لی۔ سول سروس کے آغاز میں ہی انہیں احساس ہو گیا کہ یہ روٹین کی ملازمت ہے، جس میں رہتے ہوئے وہ زیادہ کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتے۔ سرکاری ملازمت کی اپنی محدودات ہوتی ہیں۔ 2011ء میں جب وہ بطور ڈپٹی کمشنر کام کر رہے تھے انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے چھٹی لی اور دنیا کے بڑے ناموں سے سیکھنے کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ اندر کی بے چینی اور کچھ بڑا کرنے کی جستجو ایک جگہ ٹکنے نہیں دے رہی تھی۔

 گوروں کے دیس میں

برطانیہ میں بطور طالب علم پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے، لیکن دو تین چیزوں نے انہیں فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ بطور مصنف، لائف کوچ اور سپیکر وہاں اپنی جگہ بنانا خاصا مشکل تھا۔ پہلے پہل مختلف مجلوں کے لیے لکھنا شروع کیا، پھر 2012ء میں صدر بل کلنٹن کے ساتھ ایک پروگرام کرنے کا موقع ملا، جس سے انہیں بہت پذیرائی ملی اور رستے کھلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے برائن ٹریسی اور جیک کنفیلڈ کو خود بلایا اور ان کے ساتھ ٹریننگ کرائی۔ اپنے دوست قیصر عباس کو بھی بلایا، اس طرح ان دونوں کے مشترکہ خواب کو تعبیر مل گئی۔ ’مائینڈ مائیپنگ‘ کے موجد ٹونی بوزان سے دوستی ہوئی تو انہیں پاکستان لے کر آئے۔ان کے دوسرے کریزی ڈریمز بھی زیادہ عرصہ تشنہ تعبیر نہیں رہے۔ 2014ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین نے خطاب کی دعوت دی۔ مس ورلڈ پریکانکا چوپڑا کے ساتھ ڈنر بھی کر لیا، یوں اللہ تعالیٰ نے ساری عجیب و غریب خواہشیں پوری کرا دیں۔

عارف انیس بتاتے ہیں، ’’ٹریننگ ایک وسیع میدان ہے، جس میں سیلز، مارکیٹنگ، ٹیم بلڈنگ سے لے کر روحانیت تک ہر چیز کی ٹریننگ موجود ہے، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سیلف ہیلپ کتابوں اور ان ٹرینرز سے استفادہ کرتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کسی چیز سے آپ کا مسئلہ حل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ بات درست ہے کہ انرجی لیول ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک دن میں انرجی لیول تبدیل ہوتا رہتا ہے تو دنوں اور مہینوں کی تو بات ہی اور ہے۔ لیکن جس طرح خلیل جبران کہتا ہے کہ پیار کی روٹی کو روز پکانا پڑتا ہے، اسی طرح آپ کو مستقل بنیادوں پر سیکھنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔وقتی طور پر آپ ڈپریس ہو سکتے ہیں، لیکن آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اس کیفیت سے کیسے باہر آنا ہے اور اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔‘‘

 ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز

برطانیہ میں انہوں نے دیکھا کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی کمیونٹی ہے، جن میں کوئی یکجہتی نہیں اور یہ لوگ مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے سعیدہ وارثی اور دوسرے موثر پاکستانیوں کے ساتھ مل کر ’کنزرویٹو فرینڈز آف پاکستان‘ کی بنیاد رکھی، جو کنزرویٹو پارٹی کے اندر اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد پاکستان کا امیج بہتر بنانا تھا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے انڈیا میں پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا، جس کے بعد اس تنظیم کی کوششوں کی وجہ سے انہیں پارٹی اجلاس میں کہنا پڑا کہ پاکستان کا دوست برطانیہ کا دوست، اور پاکستان کا دشمن، برطانیہ کا دشمن ہے۔ عارف انیس کو لگا کہ لابنگ کا یہ کام موثر ہے، جس سے پاکستان کے لیے کنٹری بیوٹ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے 2013ء میں دوستوں کے ساتھ مل کر ’ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز‘ کی بنیاد رکھی تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ کئی لوگوں کے ساتھ جائیداد خریدنے میں فراڈ ہوا ہے یا ان کی جائیداد پر کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ تو ایسے مسائل کے حل کے لیے پاکستان میں سرکردہ افراد کے ساتھ مل کر طریقہ کار بنانے کی کوشش کی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے آئینی حق کے لیے عدالت میں کئی سال کیس لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ ڈیم فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے کام کیا۔ برطانیہ کی اس وقت کی ہوم سیکرٹری تھریسا مے نے اس تنظیم کی ایک تقریب میں شرکت کی پہلے ہامی بھری، لیکن تقریب کے وقت سے عین پہلے آنے سے انکار کر دیا۔ تنظیم نے احتجاج کیا تو ڈیوڈ کیمرون کو معافی مانگنا پڑی۔ دو سال بعد تھریسامے خود بھی آئیں اور انہوں نے بتایا کہ ان کی اپنے شوہر سے پہلی ملاقات بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں ہوئی تھی۔عارف انیس سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اور ایشیائی کمیونٹی میں اتنا پوٹینشل ہے کہ اگلے دس برسوں میں کوئی ایشیائی پس منظر کا شخص، برطانیہ کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔

کامیابی اور خوبصورتی کیا ہے؟

عارف انیس ملک بنیادی طور پر برطانیہ میں لائف کوچ اور سپیکر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ افراد اور اداروں کو اپنے مسائل پر قابو پانے کی تربیت دیتے ہیں، اور آگے بڑھنے کے لیے درکار صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف ’فالو یور ڈریمز‘ ، ’آئی ایم پاسیبل‘ اور حال ہی میں ’گوروں کے دیس میں‘ میں شائع ہو چکی ہیں، جو ان کے کالموں کا انتخاب ہے۔ اسی عنوان سے وہ روزنامہ ایکسپریس میں کئی برس سے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔ وہ مختلف تھنک ٹینکس کا بھی حصہ ہیں اور پولیٹیکل لابنگ کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 2018ء میں برٹش پارلیمنٹری ریویو نے انہیں یورپ کے سو بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ گزشتہ برس لندن سے شائع ہونے والے ’گلوبل مین میگزین‘ نے انہیں ’گلوبل مین آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ دیا۔

عارف انیس کہتے ہیں، ’’جب میں گاؤں میں تھا تو میرا کامیابی کا تصور مختلف تھا، جو تبدیل ہوتا رہا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کسی کے کام آ سکیں، کسی کی مشکل حل کر سکیں، کسی کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے میں مدد کر سکیں تو یہ اصل کامیابی ہے۔ میرے اب تمام ’کریزی ڈریمز‘ پاکستان سے متعلق ہیں کہ اپنے ملک اور لوگوں کے لیے کچھ کنٹری بیوٹ کروں۔‘‘ خوبصورتی کے متعلق کہتے ہیں، ’’پہلے مشہور لوگوں کو سکرین پر دیکھتے تھے تو حسن کا ایک خاص تصور ذہن میں تھا۔ جب مس ورلڈ اور دنیا کے مشہور لوگوں سے کیمرے سے پیچھے جا کر ملا تو پتا چلا کہ خوبصورتی دراصل کچھ اور ہے۔ میرے نزدیک خوبصورتی بے ساختگی اور سادگی ہے۔ جب بھی کوئی بناوٹ اور ڈینٹنگ پینٹنگ کرتا ہے تو وہ کوئی گھڑی گھڑائی چیز بن جاتی ہے،اس میں سے خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔

ٹونی بوزان سے جو سیکھا….

عارف انیس کے بقول، ’’میں نے ایک جو سب سے قیمتی چیز سیکھی ، وہ ٹونی بوزان سے سیکھی ہے۔ میری ملاقات ہوئی تو ان کی عمر ستر سال تھی، انہوں نے اس وقت ایک ڈائری بنائی ہوئی تھی کہ اگلے تیس پینتیس برسوں میں کیا کرنا ہے۔ وہ ایک بات کہا کرتے تھے کہ زندگی میں دو گفٹس ہیں جو اوپر والے نے مجھے دیئے ہیں: ایک ذہانت اور دوسرا وقت۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ کبھی اپنا وقت ضائع نہیںکرتے تھے، کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کی کوئی دولت وقت کا نعم البدل نہیں ہے۔ میں نے ان سے سیکھا کہ کسی بھی کام کو فوراً کیا جائے اوردرمیان کی بھول بھلیوں میں نہ الجھا جائے۔‘‘

ان کی اہلیہ عظمیٰ انیس بھی ماہر نفسیات ہیں۔ دو بیٹوں سروش انیس اور فارقلید انیس کے والد ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے پسندیدہ جگہ پاکستان کے شمالی علاقے ہیں۔ دیسی کھانے پسند ہیں، اس لیے لکشمی چوک ان کی فیورٹ جگہ ہے۔ موسیقی میں الاپ والا میوزک اور قوالی پسند ہے۔ کہتے ہیں، انگریزوں کا ’سینس آف ہیومر‘ سب سے اچھا ہے۔ فلم کو سیکھنے کا ایک طاقتور میڈیم سمجھتے ہیں۔ کھیلوں میں فٹ بال پسند ہے، جس میں بہت انرجی ہوتی ہے، نوے منٹ میں ختم ہو جاتا ہے اور جیتنے والا وزیراعظم بھی نہیں بننا چاہتا۔ وہ پاکستانی یوتھ پر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ملین نوجوان لیڈرز تیار کر سکیں۔ ان کے بقول، ’’میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ایک چیز پہ کلئیر ہیں کہ کچھ کرنا نہیں ہے۔ وہ بے کار گپیں ہانکتے رہتے ہیں لیکن کچھ مثبت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو میری کوشش ہے کہ میں نے اپنے سفر زندگی میں جو کچھ سیکھا ہے، وہ تجربہ انہیں منتقل کیا جائے۔‘‘

شادی کی فلمی کہانی

محبت کبھی بھی میری زندگی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ یہ سوچا تھا کہ پہلے کچھ کر گزریں، روزگار، گھر وغیرہ کا بندوبست ہو جائے تو پھر دیکھیں گے۔ اس دوران ملتان کی ایک فیملی سے جان پہچان ہوئی تو کچھ فیملی ریلیشن شپ بن گیا۔ نئی صدی، بلکہ نئے ہزاریے کا آغاز ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کچھ ایسا کرنا چاہیے جو پہلے زندگی میں نہیں کر سکا۔ تو 31 دسمبر 1999ء کی رات میں نے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔ خیر خاندانوں کے ذریعے معاملات آگے بڑھے اور کچھ عرصے بعد ان کی طرف سے ہاں ہو گئی۔ اب شادی، گھر وغیرہ کے لیے آٹھ، دس لاکھ روپے درکار تھے جو ہمارے پاس نہیں تھے۔ میری عمر چوبیس، پچیس سال تھی۔

2001ء میں پاکستان میں سیف گیمز کا انعقاد ہوا، جس کے ساتھ سیف گیمز سے متعلق ایک کوئز شو کا بھی اعلان ہوا جس کی انعامی رقم دس لاکھ روپے تھی، نعیم بخاری اس شو کے میزبان تھے۔ کتابیں پڑھنے کی وجہ سے میری نیلام گھر وغیرہ میں کوئز شو جیتنے کی ایک ہسٹری رہی تھی۔میں نے گھر سے دور اپنے آپ کو دو ہفتوں کے لیے ایک کمرے میں بند کیا اور کوئز سے متعلق ہزاروں سوالوں کے جواب رٹنا شروع کر دیئے۔

فلاں میدان کی چوڑائی کتنی ہے، گیند کا وزن کیا ہے وغیرہ، اس طرح کے عجیب و غریب سوال تھے۔ کبھی چار گھنٹے سوتا، کبھی صرف ایک دو گھنٹے۔ دنیا میں کسی کومعلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے گھر والوں سے ایک کہانی بنائی ہوئی تھی کہ دو ہفتوں کے لیے ایک کام سے اسلام آباد جا رہا ہوں۔

کوئز میں شرکت کے لیے پہلے فون پر انٹرویو ہوا، پھر تحریری امتحان میں بھی کامیاب ہوا۔ بالآخر مجھے اسلام آباد بلا لیا گیا، ملک بھر سے صرف بیس شرکاء کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کمپیوٹر پر فوری طور پر صحیح جواب دینے والے کو ہاٹ سیٹ پہ بلایا جاتا۔ بیس سوال پوچھے جاتے، ایک سوال کی مالیت پچاس ہزار روپے ہوتی۔ پہلے دو مرتبہ میری باری نہ آ سکی۔ یہ دونوں لوگ کچھ سوالوں بعد آؤٹ ہوئے تو تیسری مرتبہ مجھے ہاٹ سیٹ پر آنے کا موقع ملا۔ اللہ نے کرم کیا اور میں سات آٹھ منٹوں میں ایک ملین کا کوئز شو جیت گیا۔ اس طرح اللہ نے شادی کے اخراجات کا انتظام کر دیا۔ کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ میری مہندی والے دن یہ شو پی ٹی وی پر نشر ہوا تو لوگوں کو اس کامیابی کا پتا چلا۔

The post اب پاکستان سے متعلق اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتا ہوں ، عارف انیس ملک appeared first on ایکسپریس اردو.

وبائی امراض کی عالمی یلغار صدی بہ صدی!

$
0
0

بظاہر یونہی دکھائی دیتا ہے کہ لگ بھگ 100 سالوں میں ایک بار ضرور عالمی سطح پر وبائی امراض حملہ آور ہوتے ہیں۔ ابھی دنیا پچھلی وبا انفلوئنزا کی بے رحمی و سفاکی کو نہ بھول پائی تھی کہ جس نے سارے عالم میں تباہی مچائے رکھی تھی اور دنیا کے کروڑوں انسان اس فلو سے متاثر ہوئے اور جس سے اندازہ ہے کہ 100 ملین افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

آج اکیسویں صدی میں پھر سے دنیا کو وبائی مرض کی کاری ضرب کا سامنا ہے جسے ’’کورونا وائرس COVID-19 ‘‘ کہتے ہیں جو چین کے شہر ’’وُوہان ‘‘ سے نمودار ہوا اور اب اس نے قریب قریب ساری دنیا میں اپنا رنگ دکھا ڈالا ہے اور یہ 60 سے زائد ممالک کو اپنی جکڑ میں لے چکا ہے۔

چھ سو سال کی انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو متواتر وبائی امراض یا متعدی بیماریاں سر اٹھاتی رہی ہیں۔ 1720 ء میں طاعون، 1820 ء تک ہیضہ، 1918 ء سے 1920 ء تک فلو یا انفلوئنزا جو ’’اسپانوی فلو‘‘ سے بخوبی جانا جاتا ہے دنیا کے انسانوں کے لیے خوف ودہشت کی علامت بنا رہا تھا جس نے لاکھوں جانیں لے لیں۔ آج سو برسوں بعد ایک بار پھر ہمیں اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر وائرس کی ایک سب سے مہلک قسم ’’سارس‘‘ کی طرح کے جراثیم سے مقابلہ ہے جو پہلے وبائی مرض کی صورت میں 2003 ء میں جلوہ گر ہوچکا ہے اور اب نئی شکل میں یہ چین کے معاشی حب سے ابھر کے سامنے آیا اور بین الاقوامی اہمیت اختیار کرچکا ہے اس نے چین کی ساری اقتصادی ترقی کو بھی چیلینج کردیا ہے تو آخر ہونے کیا جارہا ہے؟ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ کوئی انسانی ذہن کی سازشی پیداوار کا نتیجہ ہے؟

14 صدی کا ایک خطرناک ترین مرض طاعون یا پلاگ جو کہ پہلے “Marseille” کے نام سے شروع ہوا اور پھر اسے “The Great Plague of Marseille” کہا گیا۔ اس میں اموات کا تخمینہ 50 ملین انسان تھے۔ ہیضہ کا پہلا مریض 1820 ء میں دنیا کے سامنے آیا یہ ایذا دینے والا قاتل بیکٹریا ایک نباتی جراثیم ہے۔ اگلے سو سالوں کے بعد دنیا نے ایک اور خطرناک جان لیوا جراثیم کا سامنا کیا۔ یہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا انفلوئنزا ہے اسکے شکار انسانوں کی تعداد کا اندازہ 100 ملین انسانوں کی موت لگایا گیا ہے۔ یہ دنیا کی آبادی کا تین سے چھ فیصد بنتا ہے۔

تین ماہ قبل شروع ہونے والا چینی کورونا وائرس بھی ایسی ہی جان لیوا وبائی مرض ہے یعنی ایسی بیماری جو کسی طرح پرندوں یا پالتو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسانوں تک بہ آسانی منتقل ہوتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ اس کی بھی ہلاکت خیز ی پچھلے کچھ کم نہیں ہے کیوںکہ یہ لاعلاج ہے اور اس کی ویکسی نیشن دریافت نہیں ہوئی ہے جس کی تیاری جاری ہے اور اس میں وقت درکار ہے۔ اس وائرس میں ایک زیادہ پریشانی کی بات ہے کہ یہ اڑ کر انسانوں میں داخل ہوتا ہے اور سانس کے ذریعے نظام تنفس میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے جب کہ اس کے آثار 14دنوں بعد سامنے آتے ہیں۔ محض اس وائرس سے خود کو بچانا ہی ابھی اس کا واحد علاج ہے۔

ابتدائی طور پر چین میں 35 ملین باشندے متاثر ہوگئے تھے جب کہ یہ وبائی مرض متواتر پھیلتا جارہا ہے اور دنیا میں بھی فروغ پارہا ہے۔ کورونا وائرس انسانوں تک چمگادڑوں کے توسط سے پہنچا ہے جن میں 130 وائرس پائے جاتے ہیں۔ چینی چمگادڑوں اور پینگولن کا گوشت کھاتے اور اس کا سوپ پیتے ہیں، اسی لیے ان کا گوشت مارکیٹس میں عام فروخت ہوتا تھا جس پر اب پابندی لگائی جاچکی ہے۔ چمگادڑیں انسانوں کے لیے سوائے موت کے سامان کے علاوہ کچھ بھی نہیں، ایبولا، نمفا اور کورونا وائرس چمگادڑوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ یہ سارس نسل کی چمگادڑوں سے چیونٹیاں کھانے والے جانور پینگولن میں بھی سراہیت کرجاتا ہے جو کہ انسانوں میں منتقل ہونے کی وجہ بنتا ہے۔

چمگادڑوں نے کورونا کو اونٹوں میں بھی پہنچایا جب کہ غالب امکان ہے کہ ’’ہورس شو‘‘ چمگادڑوں کو کھانے سے انسان متاثر ہوئے تھے جس کا شکار کرکے گوشت مارکیٹس میں سپلائی ہوتا رہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق چمگادڑوں کا جسم خطرناک جراثیمی وائرسوں سے ساتھ ارتقائی پاتا ہے اور ان کے مطابق ان چمگادڑوں کے مدافعتی نظام سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ قارئین کے لیے پچھلی وبائی امراض کی تاریخ سے آگاہی آج کے وبائی مرض کو کسی حد تک سمجھنے میں مددگار ہوگی۔

طاعون ـ”Plauge”کی وبا:

طاعون کی متعدی بیماری ایک بیکٹریم ــ ’’یر سینیا پیسٹس‘‘ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ علامات میں بخار، دردسر اور کمزوری شامل ہیں۔ یہ ایک ہفتے میں ظاہر ہوتا ہے۔ طاعوں کی تین قسموں ہیں ’’بوبونک پیسٹس‘‘،’’ سپیسٹی سمیک‘‘ اور ’’نیو مونک طاعون۔‘‘

اینٹی بائیوٹکس ادویات، مناسب دیکھ بھال اور طاعون کی ویکسین سے اس کا علاج کیا جاتا ہے اس کے ہر سال 600 مریض سامنے آتے ہیں۔ بیماری کی شدت میں سانس لینے میں تکلیف، کھانسی اور سینے میں درد ہوتا ہے۔ یہ بیماری عام طور پر پسّوؤں کے کاٹنے سے یا اس کے متاثرہ جانوروں کی نگہداشت کرنے سے پھیلتی ہے۔ نیومیٹک شکل میں یہ عام طور پر لوگوں کے مابین پانی کی بوندوں بذریعہ ہوا کے ساتھ آگے پھیل جاتی ہے۔

تشخیص کے لیے مریض کے خون یا تھوک کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ پانی میں اس کے جراثیم کی موجودگی سے بھی اس کی شناخت ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت علاج ہوجائے تو اس میں موت کا خطرہ 10 فی صد ہوتا ہے جب کہ مرض بگڑنے کی شکل میں موت کا خدشہ 70 فی صد تک ہوجاتا ہے۔ عالمی سطح پر طاعون کا انفیکشن کبھی کبھار امریکی ریاستوں کے دیہی علاقوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ جراثیم چوہوں میں رہ کر اپنی زندگی کا سائیکل پورا کرتے ہیں۔ چودہویں صدی میں طاعون نے تباہی مچارکھی تھی تب اسے ’’سیاہ موت ‘‘ (بلیک ڈیتھ) سے تعبیر کیا گیا جس کے حملوں کے نتیجے میں 50 ملین سے زائد لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب ایک پسّو کسی جان دار کو کاٹتا ہے تو اس کے زخم کو باقاعدہ خون آلودہ کردیتا ہے۔

متعدی مرض جراثیم سے متاثرہ برتنوں سے بھی پھیلتا ہے۔ ٹشو اور عضلات کی کمی کے نتیجے میں جسم میں خون کے جمنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے لہٰذا خون بہنے پر قابو نہیں رہتا جس کے باعث جلد اور دیگر جسمانی اعضاء سے خون بہنے پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور وہ بہتا رہتا ہے۔ ایسے میں مریض کو سرخی یا سیاہی مائل الٹیاں ہوتی ہیں۔ درست علاج سے چار سے ایک اعشاریہ پانچ فی صد موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ طاعون ایسی مہلک بیماری ہے کہ کچھ لوگ اس کی علامت ظاہر ہونے والے دن ہی وفات پاجاتے ہیں۔ یرسینیا کیڑوں کی بیماری جانوروں میں بکثرت عام پائی جاتی ہے۔ خاص کر چوہوں میں اور یہ ماسوائے آسٹریلیا تمام براعظموں میں موجود ہے۔

یہ بنیادی طور پر پسّو میں (رینو سلادچیپیس) موجود ہوتی ہے جو چوہوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چوںکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں انسانی طاعون شاذونادر ہی ہوتا ہے خاص طور پر علاوہ زیادہ مہلک کے معمول کی ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ طاعون کی ایک طویل ترین تاریخ رہی ہے۔ قدیم چین اور قرون وسطٰی یورپ کی تاریخ میں درج ہے کہ دشمن کی پانی کو آلودہ کرنے کے لے زیاگو / ہنس ، منگول اور ترکوں کے علاوہ دوسرے گروہ بھی متاثرہ جانوروں کی لاشوں جیسے کہ گائے یا گھوڑے اور متاثرہ انسانی لاشوں کا استعمال کرتے تھے۔ ہین شاہی جنرل ہود کیونیگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ژیاگو (Xiongnu)کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے ہوئے ایسی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔

1347 ء میں جزیرہ نما جینوس  (Genoese) پر کیفا کا قبضہ تھا، جزیرہ نما کریمیا ایک بہت بڑی تجارتی ایمپائر تھا جینی بِگ (Janibeg)کی کمان میں گولڈ ن ہارڈ کے منگول جنگجوؤں کی فوج نے اس کا محاصرہ کرلیا تھا اور طویل محاصرے کے دوران ان کے مطابق منگول فوج اس مرض سے دوچار ہوگئی تھی۔ انہوں نے متاثرین لاشوں کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کا فیصلہ کیا۔ لاشوں کو شہر کی دیواروں پر ٹانگ دیا گیا جس سے وہاں کے رہائشی متاثر ہوگئے تھے۔ ممکن ہے کہ اس واقعے سے ’’سیاہ موت‘‘ کو وہ اپنے بحری جہازوں کے ذریعے یورپ میں منتقل کرنے کا موجب بنے ہوں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جاپانی فوج نے بھی ہتھیاروں کے طور پر طاعونی بیماری کا استعمال کیا تھا۔ مینچوریا پر جاپانی قبضے کے دوران یونٹ 731 نے جان بوجھ کر چینی، کورین اور مینچورین شہریوں پر ان طاعون زدہ جراثیم سے متاثرہ کردیا تھا اور قیدیوں پر بھی اس کا اثر ڈالا۔

ہیضے “Cholera” کی وبا:

ہیضے سے متاثرہ مریض کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے، آنکھیں، ہاتھ پاؤں خشک ہوجاتے ہیں جس سے جلد بُھربُھری ہوجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں اسہال (دست) اور قے ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پٹھوں میں درد کی شکایت بھی ہوجاتی ہے۔ پانی میں کمی اور الیکٹرولائٹ میں عدم توازن یعنی معدنیات کا فقدان ہوجاتا ہے۔

آنتوں کے دہانے کے ذریعے سے ہیضہ پھیلنے کی وجوہات میں ہیضے کی ویکسین اور مُنہ کے راستے ڈی ہائیڈریشن تھراپی کی جاتی ہے۔ ایک سال میں اس وبائی مرض سے تین سے پانچ ملین مریضوں کی اموات ہوئی تھیں۔ وبریو ہیضے کی کچھ تناؤ کی وجہ چھوٹی آنت کا انفیکشن ہے، اس کی ہلکی علامات بڑھ کر شدید نوعیت تک جاسکتی ہیں۔ جسم سے پانی کی بڑی مقدار اسہال کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے، گھنٹوں میں پانی کی اشد کمی سے جلد نیلی ہوجاتی ہے۔ علامات ظاہر ہونے کے دوگھنٹے بعد دنوں میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔ ہیضے کی متعدد اقسام میں زیادہ تر غیرمحفوظ پینے کا پانی، غیرصحت بخش خوراک کے کھانے سے پھیلتا ہے جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔

اس سے بچاؤ کا اولین راستہ یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام ہو اور جراثیم سے پاک پانی تک رسائی ممکن بنائی جائے۔ یہ متعدی بیماری ہر سال 50 لاکھ لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح نہایت کم ہے۔ متاثرہ مریضوں میں اموات کا تناسب کم سے کم پانچ فی صد ہوتا ہے لیکن حالت بگڑنے سے یہ پچاس فی صد ہوسکتا ہے۔ درست علاج معالجہ نہ ہونے کی صورت میں موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ انگلینڈ میں جان برف کے ذریعے سے ہیضے کی بیماری کا مطالعہ سنہ 1849ء اور 1854 ء کے درمیان کیا گیا تھا جب وبائی امراض کے میدان میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔

اس مرض سے گذشتہ 200 سال میں لاکھوں اموات ہوچکی ہیں، سات بڑی ہیضے کی اقسام کے ساتھ وبائی مرض پھوٹ چکے ہیں۔ ہیضے کو ’’نیلی موت‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے کیوںکہ ایسے شخص کی جلد نیلی بھوری پڑسکتی ہے جب کہ ہیضے میں بخار شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ جگہوں صفائی ستھرائی نہ رکھی جائے تو یہ ماحول میں اس کے متاثرہ تعداد کو دس گنا بڑھا سکتا ہے البتہ یہ بیماری براہ راست کسی ایک فرد سے دوسرے کو نہیں لگتی۔ 1966 ء میں ہیضے کے خلاف حفاظتی ٹیکا لگایا گیا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ساری دنیا میں تین سے پانچ ملین افراد میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔

یورپ میں یہ متعدی بیماری 1642 ء کے اوائل میں مغربی ادب سے ملتی ہے۔ ڈچ معالج جیکوپ ڈی بونڈ تھ نے اپنی کتاب ’’ڈی میڈی سیناانڈوررُم‘‘ میں اس کی تفصیل لکھی ہے ’’انڈوررُم سے مراد ’’ایسٹ انڈیا‘‘ ہے یعنی ہندوستان۔ یہ انڈیا سے تجارتی زمینی و بحری راستوں 1817 ء میں روس تک پھیل گئی تھی۔ دوسو سال میں وبائی ہیضے نے مہینوں ہلاکت خیزی جاری رکھی۔ وبائی مرض ہیضہ 1826 ء سے 1837 ء تک جاری و ساری رہا خاص طور پر تجارتی نقل وحمل میں پیش رفت کے صلے میں شمالی امریکا و یورپ کو ہٹ کرچکا تھا۔ اس ہیضے کی تیسری لہر 1846 ء میں وارد ہوئی جو کہ 1860 تک برقرار رہی۔ شمالی افریقہ تک پھیلتی ہوئی پہلی بار جنوبی امریکا میں برازیل پر بھی حملہ آور ہوگئی۔

ہیضے کی چوتھی لہر 1863 ء سے 1875 ء کے مابین پھوٹی جو ہندوستان سے لے کر نیپلس (اٹلی) اور اسپین جاپہنچی اور وہاں اپنے اثرات دکھائے۔ پانچویں بار ہیضے کی ’’نیلی موت‘‘ نے اپنا سر بدستور 1881ء سے 1896 تک اٹھائے رکھا۔ ہیضے کی اگلی لہر جو چھٹی بار دنیا پر وارد ہوئی 1899 ء سے 1923 ء تک انسانوں کے لیے دردسر بنی رہی اور انہیں تکالیف سے دوچار کیا۔

اس بار ہیضے کے بیکٹریا کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہوجانے سے وبائی مرض قدرے کم مہلک رہا تھا جب کہ اس چھٹی لہر نے مصر، عرب، جزیرہ نما فارس، ہندوستان اور فلپائن کو اپنا گھر بنایا اور انسانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا جب کہ دوسرے ممالک 1892 ء جرمنی، 1910 ء سے 1911 ء نیپلس میں شدید ہیضے کے وبائی حملوں کا سامنا رہا۔ ساتویں ہیضے کی لہر آخری وبائی ضرب تھا جب متعدی بیماری نے انڈونیشیا میں اِل تو ر(El tor) کے نام سے نیا تناؤ پید ا کردیا تھا جس کا کہ آغاز 1961 ء سے ہوچکا تھا۔ ہیضے کی وبا نے 1,50,000 امریکیوں کو موت کی نیند سلادیا۔ 1900 ء سے 1920 ء کے مابین ہیضے نے آٹھ لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں لی تھیں۔ ہیضے کی وبا اگر پھیلنا شروع کردے تو حکومتی تیاری انتہائی ضروری ہوجاتی ہے۔

فلو یا انفلوئنزا”Spainish Flu”کی وبا:

دنیا پر عالمی سطح پر فلو یا انفلوئنزا وبائی حملے جنوری 1918 ء سے دسمبر 1920 ء تک جاری رہے تھے۔ یہ انفلوئنزا جو غیرمعمولی وائرس انفلوئزH1N1 ہے ۔ عرف عام میں یہ ’’اسپینش یا ’’ہسپانوی فلو‘‘ سے جانا جاتا ہے۔ اس وائرس میں دو بیماریاں ہیں جن میں یہ پہلی ہے جب کہ دوسرا وائرس ’’سوائن فلو‘‘ کے نام سے 2009 ء میں دنیا پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ کرۂ ارض کی 500 ملین افراد کی آبادی اس کا شکار ہوچکی ہے جو کہ 8.1 بلین میں کی کل آبادی کا 27 فی صد ہے۔ اس کے متاثرہ علاقے دوردراز کے بحرالکایل کے جزیرے اور آرٹک علاقے کے لوگ شامل ہیں۔

اس خوف ناک وبائی مرض سے ہلاکتوں کا تخمینہ 50 ملین ہے اور ممکنہ طور پر یہ 100 ملین تک ہوسکتی ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا تین سے چھ فی صد بنتا ہے۔ انسانی تاریخ کے مہلک ترین وبائی مرضوں میں سے ایک فلو ہے ۔ 1920 ء تک رہنے والے انفلوئنزا وائرس خاص طور پر انسانی جانوں کے لیے ہلاکت انگیز وائرس کی شکل میں انسانوں کی موت کا سامان لے کر آیا، کیوںکہ یہ ’’سائیٹو کاٹن ‘‘ بہت زیادہ جوان اور بہت بوڑھے لوگوں پرا پنا اثر زیادہ دکھایا تھا، جس میں امریکا میں مرنے والے نوجوانوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہوئی تھی۔ ہسپانوی فلو وبائی مرض سے کم بالغ افراد میں اموات زیادہ ہوئی تھیں۔ یہ مضبوط مدافعتی نظام کو تہہ وبالا کرڈالتا ہے۔ فرانس کے شہر اٹلیس میں موجود فوجی دستوں اور طبی کیمپوں کی تحقیق نے اسپانوی فلو کے وار ہونے کی نشان دہی کی تھی۔ یہ تحقیق1999 ء کی ہے جسے ایک برطانوی ٹیم نے شائع کروایا تھا۔ اس ٹیم کی سربراہی وائرس کے ماہر جان آکسفورڈ نے کی تھی۔

روزانہ ایک لاکھ فوجی کیمپوں میں وقت بسر کرتے تھے، کیمپوں میں ان کے ساتھ کھانے کا گوشت بھی وافر مقدار میں موجود رہتا تھا جس کی باقاعدہ فراہمی کا ذریعہ نزدیکی دیہات کی پولٹری اور سور کے فارمز تھے، جہاں سے یہ خریدا جاتا تھا۔ آکسفورڈ کی ٹیم نے یہ موقف اپنایا کہ پرندوں میں محصور ایک پیشگی وائرس کیمپ میں رکھے ہوئے گوشت میں منتقل ہوگیا۔

ایسے بھی دعوے کیے گئے تھے کہ اس وبا کی ابتدا امریکا میں ہوئی۔ مورخ الفریڈ ڈبلیوکروسبی نے یہ دعویٰ کرڈالا تھا کہ اس فلو کی شروعات کینساس میں ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں چین میں اس فلو سے مجموعی لحاظ سے اموات کی شرح نسبتاً کم ہوئیں اور چین میں نہایت ہلکا فلو کا موسم رہا تھا اور کم اموات کی شرح کی وضاحت اس حقیقت سے ہوجاتی ہے کہ چینی آبادی پہلے ہی فلو سے استثنیٰ حاصل کرچکی تھی۔ کچھ کا خیال یہ بھی تھا کہ فلو کی آغاز مشرقی ایشیا میں ہوا جو جانوروں سے انسان میں مرض کا موجب بنی جو مرغیوں سے منتقل ہوئی تھی۔ جنگ عظیم میں قریبی حلقوں اور وسیع پیمانے پر فوجی یونٹس کی نقل وحمل نے وبائی مرض کے لیے سفری رابطے کا کام کیا اور اسے بڑھاوادیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست کینساس کے شہر باسکل کاؤنٹی میں پہلی بار یہ مرض دیکھا گیا تھا۔

مارچ 1918 ء میں اس کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والی کمپنی کے باورچی البرٹ گچل نے فورٹ ایلی نامی ایک امریکی فوجی مرکز پر اپنی بیماری کی اطلاع دی۔ عین اس وقت جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کی تربیت جاری تھی، اسے ’فلو‘ کا سب سے پہلا ریکارڈ شدہ شکار سمجھا گیا۔ 11 مارچ 1918 ء تک وائرس نیویارک کے علاقے ’’کوئنز‘‘ تک رسائی پاچکا تھا۔ اگست 1918 ء میں یہ بریسٹ۔ فرانس میں یک جا طور بھیانک کشیدگی پھیلنے کی وجہ بنا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس وبائی بیماری کو ’’اسپینش فلو‘‘ ہی کے نام سے پکارا۔ بنیادی طور پر اس لیے کہ نومبر 1918 ء میں فرانس سے اسپین منتقل ہونے کے بعد اس وبائی مرض نے اپنا زیادہ دباؤ بڑھادیا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں کُل 17 ملین اموات ہوئیں اور دوسری جنگ عظیم میں 60 ملین افراد مارے گئے تھے، جب کہ فلو کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد دونوں جنگی ادوار کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں عالمی وبائی مرض ’کالی موت‘ کے بعد انفلوئنزا کی یہ بڑی خونی لہر تھی جس نے لاکھوں انسانی جانیں نگل لیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انفلوئنزا نے اپنے ابتدائی 25 ہفتوں میں 25 ملین جانیں لیں، جب کہ پرانے تخمینے کی رو سے 40 سے 50 ملین ہوسکتے ہیں جوکہ تین سے پانچ فی صد ہے لیکن گمان ہے کہ پانچ فی صد سے بھی زیادہ یعنی 100 ملین تک انسانوں جانوں کا زیاں ہوا تھا۔

اس فلو نے 24 ہفتوں (چھ ماہ) میں جتنے فلو سے ہلاک ہوئے تھے اتنے آج کی مہلک بیماری ایچ آئی وی۔ ایڈز سے ہونی والی 24 سالوں کی اموات سے بھی زیادہ ہیں تاہم کالی موت نے دنیا کی آباد ی کا بڑا حصہ مارڈالا تھا۔ ہندوستان میں 17 ملین اموات ہوئیں جو کہ آبادی کا پانچ فی صد بنتا ہے۔ ہندوستان کے برطانوی راج والے اضلاع میں ہلاکتوں کی تعداد 1388 ملین بتائی جاتی ہے۔ گھانا (افریقہ) میں 100,000 ، امریکی سمویا میں3800 ہزار لوگ مرے، جاپان میں 23 ملین متاثرہ ہوئے اور کم ازکم 390,000 اموات ہوئیں، ایران میں 902,400 سے،24,31000 اموات ہوئی تھیں جوکہ ایرانی آبادی کا 8 فی صد سے 22 فی صد تک بنتا ہے۔ جنوبی امریکا میں برازیل کے صدر ’روڈیگزایلو‘ سمیت 00,000 3 افراد لقمہ اجل بنے۔ امریکا میں28 فی صد متاثرہ مریضوں میں 500,000 سے 675,000 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ کینیڈا میں 50,000 ہزار ، برطانیہ میں 250,000 ، فرانس میں 400,000 سے زائد اور انڈونیشیا میں 1.5 ملین یا 13 فی صد، چین میں ایک فی صد اور روس میں 4,5000 لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

اکتوبر 1918 ء کا سارا مہینہ فلو کی تباہ کاریوں سے لبریز تھا۔ مرض پھیلانے میں جنگ عظیم اوّل کا کردار بہت اہم ہے۔ بحرالکاہل کے متعدد علاقوں میں اس بیماری کے مرکز بنے یہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے یہ نیوزی لینڈ پہنچا۔ 1999ء تک اس فلو سے 99 فی صد بالغ نوجوان مرض کا شکار ہوئے۔ 1920 ء میں امریکا میں اس کا تناسب 65 سال کے بوڑھے اور بالغ جوانوں میں 20 سے40 سال کے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ حقیقت میں چین سے ہی ہسپانوی فلو کی شروعات ہوئیں تھیں جس سے چینیوں میں مرض کے خلاف مزاحمت پائی گئی۔ چین میں اموات کی زیادہ تر مقامات پر کم رہی اور مجموعی طور پر چین فلو سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اکتوبر 1918 میں وبائی مرض کی جانب دوسری لہر کے ذریعے سے سنگین وارداتوں کا وقت تھا۔ اسی سال کے اواخر میں مہلک ترین فلو کی دوسری لہر اٹھی۔

یہ اکتوبر کا اختتامی ہفتہ تھا جب فلے ڈیلفیا (امریکا) میں مرنے والوں کی تعداد 4,592 ہوگئی تھی۔ اگلے ہی ماہ 11 نومبر کو اچانک ہی انفلوئنزا شہر سے روپوش ہوچکا تھا۔ وبائی مرض فلو نے 9 ماہ سے کم مدت میں برق رفتاری سے امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک کے متاثرہ مریضوں کو ہلاک کرڈالا تھا جس کی میڈیا میں محدود تشریحی ہوئی تھی۔ امریکا میں کی کل آبادی میں فلو سے ہلاکتوں نے لائف انشورنس کمپنیوں کا دیوالیہ نکال دیا جنہیں لائف پالیسی کے تحت لواحقین کو 15.3 سے 27.8 بلین ڈالرز ادا کرنے پڑے تھے۔

نئی صدی کا نیا مہلک ترین وائرس کورونا اب عالمی سطح کی بیماری بن کر ساری دنیا کو پریشان کررہا ہے۔ افسوس ناک طور پر ابتدائی طور پر چینیوں نے اس وبائی مرض کے معاملے میں غیرسنجیدہ رویہ اختیار کیا، جب ووہان شہر کے مرکزی اسپتال کے ایک آنکھوں کے ڈاکٹر لی ِوینلیانگ کے ساتھ غیرمناسب برتاؤ رکھا گیا۔ ڈاکٹر لی ہی وہ پہلے چینی ڈاکٹر تھے جنہوں نے اس مہلک مرض کورونا کی نشان دہی کی تھی اور 30 دسمبر 2019 ء کو اس سے خبردار کردیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ 2003 ء کے وبائی مرض سارس وائرس سے ملتا جلتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر اور ان کے آٹھ ساتھی ڈاکٹروں پر افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں باز رہنے کی تنبیہ کی گئی۔

10جنوری 2020 ء کو ڈاکٹر لی کو کھانسی کی شکایت ہوئی جب کہ ان کے والدین بھی بیمار پڑگئے تھے۔ بدقسمتی سے لی کے تمام ٹیسٹ کے باوجود ان میں کورونا وائرس کی تصدیق نہ ہوسکی جو کہ بعد میں 30 جنوری کو کنفرم ہوسکا، افسوس کہ وہ بچ نہ سکے۔ اصل میں ڈاکٹر لی نے ایک ایسی خاتون کے کالے موتیا کا آپریشن کیا تھا جو کہ کورونا سے متاثر ہوچکی تھی۔ 20 جنوری کو باقاعدہ طور پر چینی سرکاری حکام نے کورونا وائرس کی حقیقت کا اعلان کردیا۔ وہاں اب تک 80,000 ہ کے قریب چینی متاثر ہوچکے ہیں اور 2700 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جب کہ 36,000 کے زائد مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں 70 کے قریب ملکوں میں کورونا سے متاثر مریضوں کی تعداد 90,000 سے تجاوز کرچکی ہے اور کل ہلاکتیں 3000 ہزار سے زائد ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بھی کورونا کے مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور یہاں یہ مرض ایران سے آیا ہے جس نے قم کے مقدس شہر کو زیادہ متاثر کیا ہے اور یہ سطور لکھے جانے تک ایران میں 54 سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔

ایران کے نائب وزیر صحت جناب ارج ہریکی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔ چین کے بعد سب سے زیادہ وائرس سے متاثرہ ملک جنوبی کوریا ہے جہاں اب تک کورونا کے شکار 4000 سے زائد مریض ہیں جن میں 22 سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جب کہ امریکا میں 90 زائد مریض سامنے آئے جن میں 6 کی موت واقع ہوچکی ہے۔

یورپ میں اٹلی سب سے زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہوا یہاں 300 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں جن میں 30 سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں جب کہ برطانیہ میں 51کیس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جب کسی متاثرہ شخص کو کھانسی یا چھینک آتی ہے تو اس کے اطراف میں پانچ لاکھ سے زائد جراثیمی وائرس بکھر سکتے ہیں۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت ہمیشہ سے صابن سے اچھی طرح ہاتھوں کو دھونے پر زور دیتا رہا ہے۔ ڈبلیو۔ ایچ۔ او نے اکیسویں صدی کے وبائی وائرس کے بارے میں کہا ہے کہ کورونا کے مریضوں میں شرح اموات صرف دو سے پانچ فی صد رہی ہے۔ اس کے مطابق وبائی مرض کا زیادہ اثر 60سال یا اوپری عمر کے افراد یا ان لوگوں میں ہورہا ہے جن کی صحت اچھی نہیں یا ان کے پھیپھڑے متاثر یا کمزور ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تمام دنیا کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا کے مریضوں کے لیے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز رکھیں اور آکسیجن کی دست یابی کو ممکن بنائیں۔

The post وبائی امراض کی عالمی یلغار صدی بہ صدی! appeared first on ایکسپریس اردو.

عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا

$
0
0

( قسط نمبر5)

یہ تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ 1918 میں جب چار سال بعد پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو پوری دنیا میں صدیوں سے قائم عرب اسلامی آزاد ممالک نو آبادیاتی نظام کے تحت غلامی قبول کر چکے تھے۔

یوں 1918 سے لیکر دوسری جنگ عظیم 1945 کے اختتام تک دنیا میں آزاد اسلامی ملک کہلانے والے تین یا چار ملک تھے جن میں حقیقی معنوں میں تو صرف ترکی ہی آزاد ملک تھا جس کی آزادی کو اتاترک مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت ِ عثمانیہ کے بکھر جانے کے بعد اس کے رد عمل میں ترک نیشنل ازم کی بنیاد پر بچایا تھا اور یہاں سے مسلم عالمی اتحاد کی بجائے ترکی کی بقا اور تحفظ کی جنگ لڑی تھی۔

وہ عرب ممالک جو 1918 تک خلافتِ عثمانیہ کے زیر اقتدار تھے اُن میں صرف سعودی عرب کو انگریزوں کی جانب سے پوری آزادی کا برائے نام حکم تھا اور یہ بھی غالباً اس لیے تھا کہ انگریز مقبوضہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے تحریک خلافت کا زور دیکھ چکا تھا اب اگر مکہ شریف اور مدینہ منورہ میں بھی غیر ملکی فوجی ہوتے تو اُسے معلوم تھا کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے اس کا شدید ردعملِ آتا اوریہ بھی ممکن تھا کہ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام مسلم ملکوں میں تیسری اینگلو افغان جنگ 1919 کی طرح کی صورتحال ہو جاتی اور برطانیہ جو جنگِ عظیم اوّل کا فاتح ہونے کے باوجود امریکہ کے مقابلے میںاب دنیا کی سپر پاور نہیں رہا تھا اور اس جنگ کی وجہ سے بہت تھک چکا تھا اُس نے حکمت سے کام لیا تھا اور سعودی عرب کو آزادملک کا درجہ دیا تھا۔

ایران کا بھی اگرچہ یہی دعویٰ تھا مگر یہاں برطانیہ اور روس دونوں کے اثرات تھے۔ افغانستان جس نے تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد 1878 سے برطانیہ کو ایک بڑی رقم کی سبسڈی کے عوض دی گئی خارجہ پالیسی اور دفاع کے امور واپس لے لیے تھے اور اس کی حیثیت سابق سوویت یونین اور برطانوی ہند کے درمیان حائلی ریاست یعنی بفر اسٹیٹ کے طور پر بحال ہوگئی، یوں افغانستان غازی امان اللہ کے دورِ حکومت تک اپنی پالیسیوں کے لحاظ سے بھی مکمل آزاد تھا۔ دیکھا جائے تو 1918 سے 1945 تک جب دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945میں قائم ہونے والے عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اُس وقت 51 بنیادی ممبران میں مقبوضہ ہندوستان، ڈومینین آف کیوبا، پانامہ ، بولیویا، وینزویلا اورعراق جیسے ملکوں کی حکومتوں کے نام بھی تھے مگر یہ بھی نوآبادیاتی نظام سے اُس وقت مکمل آزاد نہیں ہوئے تھے۔

اسی طرح اُس وقت شام عراق میں شاہ فیصل ثانی، اردن میں 1946 میں بادشاہت کے قیام پر شاہ عبداللہ اوّل اور سوڈان و مصر کے بادشاہ شاہ فاروق تھے اور باقی عرب دنیا میں بھی جو ملک اُس وقت سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو رہے تھے وہاں پہلے ہی سے باد شاہتوں کی نامزدگیاں خصوصاً برطانیہ کی مرضی اور مشاورت سے ہوئی تھیں اور یہاں بھی بنیاد عرب نیشنل ازم تھا، پھر ہمارے بادشاہوں کی طرح یہ اُس نازک دور میں بھی کہیں زیادہ عیاش بادشاہ تھے۔

مصر کے بادشاہ شاہ فاروق کا صرف ایک واقعہ یہاں اُس وقت کی صورتحال اور باد شاہ کے مزاج کے اعتبار سے دیکھیں ، شاہ فاروق باقی برائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے بہت بڑے جواری بھی تھے، اس دور میں ہالی ووڈ کے مشہور اداکار عمر شریف کی والدہ یہاں قاہرہ میں بڑے کیسینو ’’جوا خانے‘‘ کی مالک تھی ایک بار شاہ فاروق اس خاتون کے ساتھ فلاش کھیل رہے تھے،کیسنو کی مالکن کے پاس تین کوئنز یعنی بیگم کے تین پتے آئے، تو اُس نے زیادہ سے زیادہ اور بڑے داؤ لگانے شروع کر دئیے اس پر شاہ فارق نے بھی بڑی رقم کے داؤ لگائے جس پر وہ ڈر گئی، اُس کے پاس رقم بھی ختم ہو رہی تھی اُس نے شو کی رقم ٹیبل پر رکھی اور باشاہ سے کہا اپنے پتے دکھا دیں، شاہ فارق بولے تین بادشاہ، خاتون گھبر ا گئی پھر احترام سےگزارش کی کہ میں نے شو مانگی ہے۔

شاہ فارق نے تینوں پتے دکھائے تو وہ بولی اس میں تو دو بادشاہ ہیں جس پر شاہ فاروق نے قہقہ لگاتے ہوئے اپنی جانب اشارہ کیا اور کہا تیسرا بادشاہ میں ہوں اور ساری رقم خاتون کی طرف بڑھا دی۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ اسی شاہ فاروق نے کہا تھا کہ آخر میں اس دنیا میں پانچ بادشاہ رہ جائیں گے جن میں سے چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا بادشاہ ہو گا، اتنا شعور رکھنے والا مصر کا یہ بادشاہ تھا جو دولت جوئے میں لٹا رہا تھا اور اسی کے عہد میں اسرائیل قائم ہوا، یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنگ عظیم اوّل کے اختتام سے جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک27 برسوں کے عرصے میں اِن عرب ملکوں میں صورتحال یوں تھیکہ بلحاظ عمر اِن کی آبادیوں کا سب سے بڑا حصہ وہ تھا جس نے ترک خلافت کے دور میں ترکوں کا غیر جمہوری انداز بھی دیکھا تھا پھر اپنے لیڈروں کی جانب سے ترک خلافت کے خلاف عرب قوم پرستی کی بنیاد پر جنگ دیکھی۔

جب جنگ ِ عظیم اوّل میں ترکی جرمنی کے ساتھ مل کر برطانیہ سمیت مغربی قوتوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھا اور ترکی کی جانب سے اس جنگ کو جہاد قرار دیا گیا تھا تو دوسری جانب عرب اس موقع کو غنیمت جان کر قوم پرستی کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف برطانوی فوجی اور مالی امداد کے ساتھ مصروف جنگ تھے تو عرب رہنما بھی ترکوں کے خلاف اس جنگ کو جہاد قرار دیتے تھے۔

جنگ عظیم اوّل میں جرمنی اور ترکی کی سلطنت کی شکست کے بعد ترکی بطور ایک آزاد جمہوری ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا، ایک ایسا ملک جہاں عرب ملکوںکے خلاف غم وغصہ تھا اور اس کی وجہ جنگ میں عربوں کی جانب سے انگریزوں کی حمایت اور مدد تھی جس کے ردعمل پر ترک نیشنل ازم شدت سے ابھرا، یہاں تک کہ اُنہوں نے عربی زبان کو بھی اپنانے سے انکار کردیا، ترکی کے اتاترک مصطفٰی کمال پا شا نے ترکی کو جدید خطوط کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی کوشش کی اور چونکہ ترکی کا ایک حصہ یورپ میں بھی آتا ہے اور قبل از اسلام سے لیکر بعد کے زمانوں تک یہاں کے لوگوں کے روابط یورپ سے رہے، یوں اتاترک نے اپنی جدت پسندی کی وجہ سے اُس لکیر یا لائن کو بھی پار کر دیا جو تہذیبی طور پر اسلامی معاشرتی اقدار اور مغربی اقدار کے درمیان تہذیب ، ثقافت اور تمدن کو واضح کرتے ہوئے مسلم معاشرے کی اپنی شناخت کو قائم رکھتی ہے ۔

اگر چہ اتاترک مصطفی کمال پاشا آج بھی ترکی میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہے مگر اُس وقت عقائد اور دینی تعلیمات کی بنیاد پر ترکی سمیت اسلامی دنیا کے علماِ دین نے اُن کے اِن اقدامات پر شدید تنقید کی۔ واضح رہے کہ اُس وقت اسلامی ممالک کے بعض لیڈوں نے مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل بھی بنایا جن میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد اہم ترین افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان اور پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی شامل تھے، یہ دونوں ایرانی اور افغان قوم پرستی کی علامت بھی سمجھے جاتے تھے۔

پھر یہ بھی عجیب صورتحال تھی کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو ایران اُس وقت واحد ملک تھا جس کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کچھ عرصے بعد  اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا، جنگ عظیم اوّل سے لیکر جنگ عظیم دوئم تک یہ بڑے ملک تھے جن کی آبادی مسلم اکثریت کی تھی مگر ایک جانب یہ مغربی تہذیب کو اپنائے ہوئے تھے تو دوسری طرف عرب ملکوں اور عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر اُ س وقت دینِ اسلام کے اسلامی اتحاد کے مقابلے میں اپنی قوم پرستی پر فخر کرتے تھے۔ افغانستان میں غازی امان اللہ خان کو آج بھی تعلیمیا فتہ طبقہ افغانستان کے لیے ایک مثالی بادشاہ قرار دیتا ہے، جب کہ اُن کے عہد میں اُن کے خلاف بغاوت کی بنیاد یہی تھی کہ وہ مغربی تہذیب کو پسند کرتے تھے۔

اُن کی ملکہ ثریا بھی مغربی طرز کا لباس پہنا کرتی تھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نہ صرف 1919 میں انگریزوں کے خلاف تیسری اینگلو افغان جنگ لڑی تھی بلکہ اس جنگ میں جنگ کے میدان میں بھی فتح حاصل کی تھی اور اخلاقی طور پر بھی جیتے تھے مگر اپنی مغرب پسندی کی وجہ سے وہ انگریز سازش کے تحت افغان عوام کی بغاوت کی وجہ سے بہت جلد اقتدار سے الگ کر دیئے گئے اور باقی زندگی روم میں جلاوطنی میں گزاری۔ ایران کے باد شاہ محمد رضا شاہ پہلوی بھی ایرانی قوم پر ست باد شاہ تھے۔

اِن کی اس قوم پرستی کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بادشاہت کے خاتمے سے تین سال پہلے اپنی شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تو اس شہنشاہت کا تعلق ڈھائی ہزار سال قبل سائرس اعظم سے جوڑا جس نے عراق ، شام، مصر، فلسطین ، سنٹرل ایشیا اور ہمارے ہاں سندھ تک کے علاقوں کو فتح کیا تھا اور اس بادشاہ کو یہودی پیغمبروں کے بعد عظیم تسلیم کرتے ہیں کہ اُس نے طویل عرصے تک جلاوطنی میں انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارنے والی یہودی قوم کو دوبارہ باوقار انداز میں فلسطین لا کر آباد کیا تھا، پھر1917 میں جب بالفور اعلانیہ کے تحت برطانوی حکومت فلسطین میں دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی آزاد اور خود مختار ریاست بنانے کا اعلان کر چکی تھی تو اسی سال جنگِ اعظیم اوّل کے خاتمے سے ایک سال پہلے روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد لینن اور اسٹالن نے ترکی اور جرمنی کے خلاف اتحاد سے روس کو جنگ سے باہر نکال لیا تھا اور اُن کا یہ فیصلہ اخلاقی اور نظریاتی فیصلہ تھا جب کہ روس کے جنگ سے باہر آنے کے ساتھ ہی امریکہ جنگ ِ عظیم اوّل میں ترکی اور جرمنی کے خلاف اتحاد میں شامل ہو کر بر طانیہ سے دنیا کی سپر پاور ہو نے کا اعزاز چھین چکا تھا۔

1917 کا روسی اشتراکی انقلاب بھی روس میں زار بادشاہ کے خلاف تھا جو جنگِ عظیم اوّل سمیت دیگر جنگوں میں نہ صرف لاکھوں روسیوں کو مر وا چکا تھا بلکہ اربوں ڈالر کی دولت کے ساتھ اُس وقت دنیا کا امیر ترین شخص تھا اور اس کی اپنے عوام میں بری شہرت کی ایک اور وجہ اس کی ملکہ کا تعلق تاریخی طور پر بدنام بدکار اور عیاشی سے جڑی شخصیت راسپوٹین سے بھی تھا، اگرچہ راسپوٹین کو کیمونسٹ انقلاب سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس کی وجہ سے بھی روس کے عوام میں بادشاہت کا بطور ادارہ وقار مجروح ہوا تھا۔

روس میں کیمونسٹ انقلاب کے کچھ عرصے بعد اِس بادشاہ کو اُس کے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ روس کے انقلاب اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات اور اِن کے اثرات پوری دنیا پر مختلف انداز سے مرتب ہو رہے تھے۔ چین میں بھی کیمونسٹ تحریک کو کا میابیاں حاصل ہو رہی تھیں اور ماوزے تنگ چینی کیمونسٹ انقلاب اور آزادی کے قریب تھے۔ اسی تاریخی صورتحال اور تبدیلی کو علامہ اقبال نے بھی کئی اشعار میں بیان کیا تھامثلاً ساقی نامہ نظم کے یہ تین مصرعے ۔

گراں بار چینی سنبھلنے لگے   ہمالہ کے چشمے ابلنے  لگے

پرانی سیات گری خوار ہے ،    زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

گیا دورِ سرمایہ داری گیا  تماشہ دکھا کر مداری گیا

ا ب دنیا بھر کے سرمایہ دار یورپ اور دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے سرمائے کو امریکہ میں زیادہ محفوط سمجھتے تھے اور اُس وقت بدلتی ہوئی دنیا کے مالیات، اقتصادیات اور معاشیات کے ماہر ین اور سرمایہ دار جن میںایک بڑی تعداد یہودیوں کی بھی تھی، نئے سپر پاور ملک امریکہ منتقل ہو گئے تھے، پھر اِن قوتوں نے عالمی طور پر سنٹرل بینکنگ سسٹم اور اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ ساتھ امریکہ ، بر طانیہ اور سرمایہ دارانہ اقتصادیاتی نظام سے منسلک دیگر مغربی ممالک کے مالیاتی میکنزم کے ساتھ کیمونزم سے تحفظ کے لیے اسٹرٹیجی بھی بنائی تھی۔ اب اس سٹریٹجی پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا تھا۔

پھر روس کی عظیم بادشاہت کا حال دیکھ کر دنیا بھر کے بادشاہ بھی اپنے تحفظ اور بچاؤ کے لیے امریکہ اور بر طانیہ ہی کی جانب دیکھتے تھے۔ اگرچہ روس کا اشتراکی انقلاب 1925 میں لینن کی وفات تک ڈولتا رہا اور اس کے بعد اسٹالن نے کئی لاکھ روسیوں کا قتل عام کر کے صنعت اور ز راعت کے شعبوں میں اشتراکی معیشت کی بنیاد پر انقلابی اصلاحات کیں اور پھر عظیم عالمی کسادی بازاری اور دوسری جنگ عظیم تک جہاں 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک روس، جرمنی اور جاپان کے خلاف اتحاد میں برطا نیہ، امریکہ، فرانس اور دیگر ملکوں کے ساتھ شامل رہا اور اس دوران روس نے عملی طور پر یا فوجی طاقت کے ذریعے کسی ملک میں اشتراکیت کی مدد نہیں کی، مگر دنیا کے کئی ملکوں میں کروڑوں غریب عوام کیمونزم کے اثرات کو قبول کر رہے تھے اور 1930 کے بعد سے برصغیر سمیت دنیا بھر میں زبان، ادب ، صحافت کی بنیاد پر کیمونزم نظریاتی اور فکری اعتبار سے کروڑوں افراد کو ذ ہنی طور پر بدل رہا تھا۔ عرب ممالک سمیت اسلامی دنیا میں بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے تھے لیکن عجیب صورت یہ تھی کہ کیمونسٹ یا اشتراکی نظام جہاں مذاہب کی نفی کرتے ہوئے اِسے قوموں کے لیے افیون قرار دیتا ہے وہاں یہ سیکولرازم کے ساتھ نیشنل ازم یعنی قوم پرستی کو سپورٹ دیتا ہے۔

دنیا بھر میں اس پورے تاریخی پس منظر اور ماحول میں کچھ آزاد اور باقی اکثر نوآبادیا تی نظا م میں جکڑے اسلامی ممالک کے کروڑوں عوام شدیدکنفیوژن کا شکار تھے، جب اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور کیا،اور پھر14 جولائی1948 کو فلسطین کی تقسیم کے بعد اسرائیل کی ایک خود مختار آزاد ریاست قائم کر دی گئی۔

واضح رہے کہ برطانیہ کے اس منصوبے کے خلا ف عرب ملکوں کے عوام میں فلسطین کی مقدس سرزمین سے عقائد کی جذباتی وابستگی کی بنیاد پرایک تناؤ کی فضا پہلے سے قائم تھی اور کچھ علما ِ دین جو کسی حد تک بادشاہوں کے بھی خلاف تھے وہ تو 1917 کے اعلان بالفور کے بعد سے ہی مغربی سازشوں کے خلاف عوام کو تحریک کے لیے تیار کر رہے تھے اور پھر 1945 میں جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہودیوں کے حق میں بدلتے ہوئے حالات بہت واضح ہو گئے تھے تو یہودی فلسطینی تصادم کے واقعات بھی رونما ہونے لگے تھے اور مسلم امہ پوری دنیا میں غم و غصے میں مبتلا تھی، مگر عرب دنیا میں بادشاہتیں تھیں جن میں سے چند ایک ہی اقوام متحدہ کے رکن تھے اور ابھی نو آبادیاتی سیاسی نظام سے آزاد نہیں ہوئے تھے۔ جب اسرائیل کے وجود میں آتے ہی 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو ئی، ایک جانب اسرائیل اور اس کی منظم جدید اسلحہ سے لیس ایک لاکھ پچھتر ہزار فوج تھی۔

ساتھ ہی برطانیہ اور یورپی ممالک سمیت دنیا بھر میں صدیوں سے آباد اور اِن ملکوں کی شہریت کے ساتھ یہودیوں کی مذہبی عقید ے کی بنیاد پر شدید جذباتی حمایت اور مالی امداد حاصل تھی اور یہ عالمی امداد وہ تھی جو 1903 میں روسی زبان میں تحریر کئے گئے ’’جیوش پروٹوکول،، کے اعتبار سے اپنی نصف صدی کی اسٹریٹجی اور خاص منصوبہ بندی کے تحت تھی جس کو دستاویزی طور پر برطانیہ کی جانب سے اعلان بالفور کے حوالے سے عالمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا ، جبکہ 175000 اسرائیلی فوج کے مقابلے میںاس جنگ میں مصر کی فوج 10000 سے20000 کے درمیان تھی، اردن کی فوج 10000 سے زیادہ نہیں تھی، عراق اور شام کے پانچ پانچ ہزار فوجی تھے۔

لبنان کے 436 فوجی سعودی عرب کے 800 فوجی یمن کے 300 اور عرب لبریشن آرمی کی تعداد 3500 تھی، یوں عرب ممالک کی کل فوج 45000 سے زیادہ نہیں تھی اور اِن تمام ملکوں میں بادشاہتیں تھیں اور وہ بادشاہ تھے جنہوں نے خود یا ان کے والدین نے انگریزوں کی مدد سے ترکی کی سلطنت کے خلاف عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے، خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا اور اِن عرب سربراہوں میں شائد ہی کوئی حقیقی ایمانی جذبے سے سر شار ہو کر اسرائیل کے خلاف آیا ہو۔

بادشاہوں کی لیڈر شب میں ابھرا ہوا نیشنل ازم بھی تقریباً تیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ماند پڑ گیا تھا کہ اب تو عرب ہی عربوں پر حکومت کر رہے تھے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر پوری دنیا کے مسلمان بھرپورایمانی جذبے کے ساتھ فلسطین کی اسلامی ریاست کو بچانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور مصر،اردن ، شام، لبنان عراق، سعودی عرب اور یمن کی مشترکہ فوجوں کو شکست ہوئی۔ اس پہلی عرب اسرائیل جنگ میں 7000 ہزار عرب اور 13000 فسلطینی شہید ہوئے اور اسرائیل کے6373  فوجی ہلاک ہوئے اور جنگ کا نتیجہ یہ رہا کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم پر فلسطین کوجو علاقہ الاٹ کیا تھا اسرائیل اُس سے بھی 60% سے زیادہ رقبے پر قابض ہو گیا۔ اس جنگ میں در پرد برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی مدد بھی اسرائیل کو حاصل تھی۔ عرب ممالک میں عجیب صورتحال تھی اسلامی عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کی مقدسسر زمین سے عوام کی جذباتی وابستگی تھی۔

باد شاہوں کی لیڈر شب میں ابھارا گیا عرب نیشنل ازم کام نہ آسکا ، لیکن 1917 کے سوویت یونین کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد مصر، سوڈان ، شام، عراق، اردن، لبنان وغیرہ میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی اجتماعی ناکامی کے بعد سیکولرازم اور سوشل ازم کے نظریات کے حامل آزاد خیال مسلمانوں اور عیسائیوں میں نظریاتی بنیادوں پر اتحاد بڑھنے لگا۔ یہ اتحاد عرب نیشنل ازم کی قدرِ مشترک کی بنیاد پر تھا۔ اب اِن ملکوں میں اگرچہ اکثریت مسلمانوں کی ہے، مگر1918 میں جنگ ِ عظیم اول کے خاتمے پر اسلامی وحدت کو ترک کرکے عرب لیڈروں نے عرب مسلمانوں کو ترک خلافت کے خلاف لڑوایا تھا اوراب یہ بادشاہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں ذلت آمیز شکست کھا کر اپنی بادشاہتیں بچا گئے تھے۔

اب یہ اشتراکی نوعیت کا اتحاد سیکولرازم اور نیشنل ازم کی بنیاد پر عیسائیت اور اسلامی عقائد سے بالا تھا کیونکہ یہ اُس یہودی آبادی کے خلاف تھا جس کو دنیا بھر سے لاکر فلسطین میں آباد کیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ اتحاد عالمی سطح پر اِن یہودیوں کی حمایت کرنے والے مغربی سرمایہ دار ملکوں کیخلاف ہو گیا ا ور سرد جنگ کے آغاز پر یہاں اِن کو سوویت یونین کی جانب سے مدد ملنے لگی۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میںاشتراکی ادب نے اشتراکی نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کرنے کے عمل کو نوجوانوں میں ایک رومانویت بخشی تھی اور پسماندہ ملکوں میں اس بنیاد پر انقلابی تحریکیں چل رہی تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر ، عراق، شام، سوڈان اور ایسے ہی دوسرے ملکوں میں اشتراکی نظریات کی بنیاد پر سوویت یونین، چین اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ملکوں کی طرح کا مکمل اشتراکی انقلاب ممکن نہیں تھا کیونکہ اَن ملکوں میں مذہب اسلام کو ترک کرکے ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن سوویت یونین نے یہاں امریکہ ، برطانیہ سمیت سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں سے مقابلے کے لیے اِن مقامی بائیں بازو کی تحریکوں کی حمایت اور مدد کی اور اس کے بعد بھی عوامی حمایت سے زیادہ یہاں سوویت یونین نے فوجی بغاوت یا انقلاب کے ذریعے بادشاہتوں کے تختے الٹے، مصر اور سوڈان میں روس نے جنرل نجیب اور کرنل عبدالجمال ناصر نے 1952 میں شاہ فاروق کو رخصت کر دیا، پھر ایسی ہی صورت 14 جولائی 1958 میں بغداد عراق میں ہوئی، جب بادشاہ الملک فیصل دوئم کے خلاف فوجی حمایت سے اُس کا تحتہ الٹ دیا گیا اور بادشاہ کو سرعام قتل کر کے لٹا دیا گیا، بعد میں ایسا ہی انقلاب لیبیا میں کرنل قذافی نے بر پا کیا۔

اگرچہ صدر جمال ناصر اور کرنل قذافی اور اسی طرح شام میں صدر بشارت الاسد اور صدر صدام حسین اپنے وقت کے مقبول لیڈر سمجھے جاتے تھے لیکن یہاں اِن کے یہ انقلابات معاشرتی ساخت کے اعتبار سے عوام کے سماجی، سیاسی شعور اور معاشرتی اقدار سے میل نہیں رکھتے تھے اور عالمی سیاسی بساط پر سابق سوویت یونین کے رویے اس اعتبار سے دوہرے معیار کے تھے مثلاً عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں عرب عیسائی اور مسلمان جو صدیوں سے یہاں رہ رہے تھے وہ اس لیے اشتراکی نظریے کے ساتھ سیکولرازم اور عرب نیشنل ازم کو اپنائے ہوئے تھے کہ یہاں فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کیا جا رہا تھا اور اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کی نفی کی جا رہی تھی کہ 1948 کی قرارداد سے یہاں کی مقامی مسلم اور عیسائی فلسطینی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔

پھر پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے فسلطین اور عرب ملکوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کو ظلم و جبر قرار دیتے ہو ئے شام ، عراق، سوڈان ، مصر اور بعد میں لیبیا میں جو حکومتیں سوویت یونین کی دوستی پر قائم ہوئیں وہ عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر اسرائیل اور اس کے حمایت کرنے والے ملکوں کے خلاف تھیں مگر دوسری جانب یہی سوویت یونین ہر سال خود پا نچ ہزار یہویوں کو روس سے نکلنے اور اسرائیل میں آباد ہونے کی اجازت دیتا تھا ۔ جب کہ مقامی طور پر عام عرب مسلمانوں کو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کے مقدس ہونے کی وجہ سے اُن یہودیوںکے خلا ف غم و غصہ تھا جن کو دنیا کے دوسرے ملکوں سے یہاں لا کر آباد بھی کیا گیا اور پھر فسلطینی سر زمین پر آبادی کا توازن اُن کے حق میں کر کے اُنہیں صدیوں بعد یہاں الگ وطن دے دیا گیا تھا، لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ صدر جمال ناصر کا عرب نیشنل ازم اُس وقت عربوں میں اُس نیشنل ازم کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہوا جس کی لیڈر شپ پہلے عرب باد شاہوں کے پاس تھی جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر عربوں اور فسلطین کو مایوس کیا تھا اور اسرائیل سے عبرت ناک شکست کے بعد بھی اپنی بادشاہتوں کو بچانے کی ہی کوشش کی تھی۔

یوں انیس سو پچاس، ساٹھ کی دہائیوں تک یہ عرب قوم پرستی یہاں عوامی سطح پر بھی قابلِ قبول رہی اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ یہ انقلابی لیڈر جو فوجی انقلاب لائے تھے فوجی تھے اور ان کا مزاج جمہوری نہیں تھا مگر یہ بادشاہ یا شہزادے نہیںتھے عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عرب تھے اب عرب ملکوں کے معاشروں میں زیادہ شرح ناخواندگی، سیاسی، سماجی شعور کی پستی کے ساتھ تین چار طرح کے رجحانات حکومتوں نے اپنائے ہوئے تھے۔

ساٹھ کی دہائی تک چونکہ اشتراکی نظریات کی حامل حکومتیں مصر، سوڈان ، عرق، شام اور پھر آخر میں لیبیا میں بادشاہتوں کے تختے الٹ کر سوویت یونین کی بھرپور حمایت اور امداد سے قائم تھیں اس لیے سعودی عرب اور اردن جیسے ملک جو اسرائیل کے قیام کے اصولی طور پر تو مخالف تھے لیکن وہ سوویت یونین سے بھی خائف تھے اس لیے اِن کے تعلقات امریکہ سے زیادہ مضبوط تھے اور اِن ملکوں کی فوجوں کی ٹریننگ اور انتظام اب امریکہ یا امریکہ نواز ملکوں کے تعاون سے تھا تاکہ اِن کی فوجیں سوویت یونین کے اشتراکی نظریات سے محفوظ رہتے ہوئے بادشاہتوں کی مکمل وفادار رہیں، اس میں اردن کی بادشاہت جہاں شاہ عبداللہ کے بعد ولی عہد شاہ حسین بعد میں بادشاہ ہوئے، زیادہ اہم تھے، کہ نہ صرف اردن کا حصہ ہی فلسطین کہلا رہا تھا بلکہ جنگ کے بعد اس ملک کے بڑے اور اہم حصے پر اسرائیل کا قبضہ بھی ہوا تھا۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سرد جنگ کے حوالے سے اب کیونکہ سرد جنگ کا ایک بڑا مرکز مشرق و سطٰی بن گیا تھا اور فلسطینی مہاجرین کے یہاں آجانے سے اور اسرائیل کے خلاف سوویت یونین کی امداد سے فلسطینیوں کی گوریلا جد وجہد شروع ہو گئی تھی جس میں عیسائی اور مسلمان دونوں مقامی فلسطینی شامل تھے، یہاں اردن کے امریکہ سے بھی تعلقات بہت زیادہ اور مضبوط تھے اسرائیل کو بھی امریکہ امداد دیتا تھا اور اردن کو بھی، یوں بعد کے دنوں میں اردن میں بادشاہ کے خلاف مسلح بغاوت کی بھرپور کوشش کی گئی جس کو بادشاہ کی وفادار فوج نے کچل دیا اور اس میں بڑی تعداد میں فلسطینی جان بحق ہوئے۔

اسی طرح اُس وقت عوامی سطح پر اسلامی تحریکیں بھی منظم تھیں جن میں اخوان المسلمین زیادہ اہم رہی جس کا اثر آج بھی خصوصاً مصر میں کہیں زیادہ ہے، اس کے علاوہ لبنان ، شام ، عراق میں شیعہ مسلک کی حامی تنظیمیں بھی تھیں جو بعد کے دنوں میں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں لیکن عرب میں جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں مساجد اور مدرسوں میں شاہ کے وفادار علما ِ دین ہی تعینات رہے۔ اسی طرح شام ، عراق، مصر، لیبیا اور سوڈان جیسے ملکوں میں جہاں سابق سوویت یونین کی حمایت اور امداد سے انقلابات آئے تھے یہاں بھی جمہوریت کی بجائے آمریت تھی اور اِن حکمرانوں کے مزاج بھی شاہانہ ہو گئے، اِن کے بھی بڑے بڑے محلات تھے۔

یہ آمریتیں بھی باوجود وسائل کے جدید انداز اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی نہ دے سکیں اور قومی وسائل اوردولت کا استعمال یہاں بھی اِن شخصیات نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اسرائیل میں نو آباد یہودی صدیوں کے تھپیڑے کھا کے دوبارہ ایک قوم کی صورت میں سامنے آئے تھے۔

یہ یہودی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کے بعد کم از کم ایک صدی کی منظم منصوبہ بندی اور پھر جیوش پرو ٹوکول پر اپنے مذہبی عقیدے سے جڑے نہایت جذباتی اور پُرخلوص اجتماعی جدوجہد کے بعد عربوں کے مقابلے پر تھے، یہ درست ہے کہ امریکہ ، بر طانیہ، فرانس اور روس سمیت یہ یہودی دنیا بھر میںجہاں جہاں ہیں صدیوں کی مستقل سکونت کی بنیاد پر پورے شہری حقوق رکھتے ہیں، وہاں ان کی حیثیت حکومتوں کے اعلیٰ عہد یداروں کی بھی ہے، اس لیے اقوام متحدہ میں اِن کے اس اثرو رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اپنے وجود میں آتے ہی اسرائیل کے قیام کا ایک ایسا فیصلہ کیا جو اُس کے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلیریشن کے خلاف ہے اور دنیا میں کہیں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ ایسے افراد کا ایک اجتماع دو ہزار سال بعد تشکیل دے دیا گیا ہو جو صدیوں سے روس، برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، امریکہ ، ایران اور دوسرے ملکوں میں آباد ہوں اُن کو جمع کر کے اُس خطے میں پھر ایک ملک دے دیا جائے جہاں سے وہ صدیوں پہلے نکلے تھے۔

اگر یہی معیار مقرر کیا جائے تو پھر دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسا ملک ہو گا جہاں دو ہزار سال پہلے جو قومیں آباد تھیں وہی اب وہاں اکثریت میں ہوں، اس طرح تو امریکہ میں آج جو آبادی ہے اس کی 95% اکثریت گذشتہ پانچ سو سال میں وہا ں آباد ہوئی ہے پھر انسانی تہذیب، تمد ن، ثقافت اور سماجی علوم کے ماہرین دنیا میں اس وقت تین بنیادی نسلوں کی آبادیوں کو قوموں اور ملکوں میں تقسیم کرتے ہیں جن میں منگول، سامی اور آریا تین بنیادی انسانی نسلیں ہیں، ایک قدیم انسانی نسل دراوڑ ہے جو تقربیاً معدوم ہو چکی ہے اور برصغیر میں صرف دو تین کروڑ کی تعداد میں رہ گئی ہے۔

اِن تین بنیادی نسلوں میں سامی نسل عرب اور یہودیوں کی کہلاتی ہے، شام ،عراق، مصر اور عرب کے علاقوں میں زیادہ تر اسی سامی نسل کے لو گ آباد ہیں جو مختلف ملکوں اور ثقافتوں کی بنیاد پر پھر کئی قوموں میں تقسیم ہیں، فلسطین میں اسی سامی نسل کی اکثریت ہزاروں سال سے آباد ہے جو بعد میں فلسطینی کہلائی، یہاں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کی ہدایت کے لیے توحید کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے کئی انبیا اور پیغمبران بھیجے گئے ، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک ان سے پہلے انبیا پر ایمان لانے والے خود کو یہودی کہلواتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس کے بعد بہت سے سامی نسل سے تعلق رکھنے والے فلسطینی جو یہودی تھے اُ نہوں نے عیسائت کو قبول کیا اور پھر جب اسلام آیا تو یہی صورت یہاں آباد سامی نسل سے تعلق رکھنے والے اُن فسلطینی یہودیوں اور عیسائیوں کی تھی جنہوں نے اسلام قبول کیا، یوں سوشیالوجی کے ماہر ین کی قوم سے متعلق جو تعریفیں ہیں جنھیں اقوام متحدہ نے بھی اپنے چارٹر اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن میں اپنائی ہیں اُن کے مطابق اسرائیلی قوم کا یہ تصور درست نہیں تھا جس کو خود اقوام متحدہ نے 1948 میں اپنا کر فلسطین کی تقسیم کے بعد اسرائیل کے نام سے یہا ں ایک ملک اُن یہودیوں کے لیے قائم کر دیا جو صدیوں سے دنیا کے مختلف ملکوں کے شہری تھے۔

اب اس کا موازنہ اگر اسلام کے دو قومی نظریے سے کرایا جائے تو برصغیر میں قائد اعظم نے 1916 میں آل انڈیا کانگریس کے ساتھ میثاقِ لکھنو میں مشترکہ ہندوستان کی آزادی کی صورت میں ایک ایسی آئینی ضمانت کے لیے فارمولہ دیا تھا جس میں مشترکہ ہندوستان میں ہندو مسلم حکومت میں اکٹھا رہتے ہوئے اپنی اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ آبادی کے تناسب کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے ساتھ رہتے، جیسے لبنان میں عرب عیسائی اور مسلمان حکومت رہتے رہے ہیں ۔ برصغیر ہندوستان میں موتی لال نہرو کی جانب سے میثاقِ لکھنو کے یک طر فہ رد کئے جانے کے بعد قائداعظم نے اسی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔

ویسے اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمان ایک امت ہے اور آپس میں بھائی بھائی کی طرح اتحاد سے رہنے کا حکم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں شروع ہی سے پہچان کے لیے قبائل، قومیں اور قومیتیں رہی ہیں اور آج بھی ہیں جن کی اپنی اپنی زبانیں اور ثقافتیں ہیں ، یوں پاکستان میں یہاں کی شہریت رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ عیسائی، ہندو سبھی پاکستانی کہلاتے ہیں ، اور ساتھ ہی زبانوں اور ثقافتوں کے لحاظ سے بلوچ ، سندھی، پنجابی ، پشتوں، سرائیکی وغیرہ کہلاتے ہیں اور اقوام متحدہ نے جو قرار داد منظور کی اس پر عربوں کا موقف روزِ اوّل سے درست تھا اور آج بھی درست ہے، اس اعتبار سے قائد اعظم نے اسرائیل کے قیام سے قبل جو پیش گوئی کی تھی آج 72 سال گزر جانے پر وہ بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔

یوں یہ واقعی درست ہے کہ لمحوں کی غلطی کا خمیاز ہ تاریخ میں بعض اوقات صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے حوالے سے دانستہ طور پر تاریخی ناانصافی کی غلطی برطانیہ کی مرضی پر اقوام متحدہ نے کی اور عربوں میں سے بھی سیاسی سماجی طور پر بڑی غلطیاں اُس وقت کے بادشاہوں نے کیں اور پھر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی بڑی غلطیاں کیں ، بہرحال پہلی عرب اسرائیل جنگ عربوں نے بغیر تیاری کے لڑی، جنگ بندی کے بعد بھی ا قوام متحدہ اپنا موثر اور اور انصاف پر مبنی کرادا ر ادا کرنے میں ناکام رہا مگر سیاسی زبان میں مبصرین نے یہی کہا کہ عرب ممالک یہاں لابنگ کرنے میں ناکام رہے۔

The post عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

ماضی میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے تھے‘ خواہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں، شیخ جہانگیر محمود

$
0
0

شیخ جہانگیر محمودکا شمار بلاشبہ اِن خوش قسمت شخصیات میں ہوتا ہے جن کے اطمینان قلب کو رب تعالیٰ کارخیر کے ساتھ منسلک کردیتا ہے۔

وہ اُستاد ہیں‘ اساتذہ کی تربیت سے منسلک ہیں‘ ماہر تعلیم ہیں‘ تحریکی و ترغیبی مقرر ہیں اوراسلامی محقق ہیں۔ اُن کی علمی‘ تحقیقی‘ تعلیمی اور فکری سرگرمیاں محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ان حوالوں سے ان کا تعارف بین الاقوامی ہے۔ ان کے دادا جنوبی ایشیا کے اہم ماہر حیاتیات میں سے ایک شمار کیے جاتے تھے۔ ان کاسارا خاندان پشت در پشت درس و تدریس سے وابستہ چلا آرہا ہے اور انہیں اِس بات پر بجا طور پر فخر بھی ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم متحدہ  عرب امارات میں حاصل کی۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔

اس کے بعد ایک ایسا مرحلہ آیا جب انہوں نے ساری توجہ دینی تعلیم پر مرکوز کردی۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ مدرسہ میں داخلہ لیا اور جید علماء سے کسب فیض کیا‘ آپ کو چار بڑے روحانی سلسلوں سے بھی نسبت ہے‘ انہوں نے دنیا بھر میں تعلیم و تعلّم کے حوالے سے اسلامی اقدار کے موضوع پر قلم اور زبان سے جہاد کیا۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ان کے لاتعداد پروگرام نشر ہوچکے ہیں۔

وہ 24کے قریب نصابی کتب تحریر کرچکے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے نصاب کے لیے تحریر کی جانے والی ٹیکسٹ بک آف اسلامیات اور The vision of an islamic school نامی کتابچے کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان موضوعات پر ان کے بہت سے تحقیقی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے 2004ء میں سوسائٹی آف ایجوکیشنل ریسرچ کی بنیاد رکھی جس کے تحت وہ دس ہزار ٹریننگ سیشن مکمل کراچکے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی سطح پر ان کی مشاورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ایکسپریس: اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔اپنے فیملی بیک گراؤنڈ کے حوالے سے کچھ بتائیے؟ابتدائی تعلیم کہاں سے حال کی؟

شیخ جہانگیر: بنیادی طور پر میں ایک اپنے آپ میں رہنے والا شخص ہوں۔ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں عموماً زیادہ بات نہیں کرتا۔  گزشتہ چار پانچ برسوں سے میں نے میڈیا پر آنا جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس سے ایک تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور مجھے لگتا ہے انسان کے نفس کو تقویت ملتی ہے۔ یعنی وہ مغرور ہوجاتا ہے۔

میرا تعلق پاکستان کے ایسے مڈل کلاس گھرانے سے ہے جن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ تربیت اور تعلیم کے علاوہ ان کے پاس بچوں کو دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ میری والدہ بھی استاد ہیں، والد بھی اور میرے دادا بھی، یوں میں استادوں کے خاندان کی تیسری پیڑھی سے ہوں۔ میرے دادا نے 1932ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے زولوجی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

انہیں ’’بابائے فیشریز‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کی اکثر پوسٹنگ مشرقی پاکستان میں رہا کرتی تھی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بطور انسٹرکٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یوں تعلیم و تعلم سے میرا تعلق ہمیشہ رہا۔ طرز زندگی نیم انگریزی نیم پاکستانی تھا جو ہمارے ہاں مڈل کلاس کا ہوتا ہے۔ سینئر کیمرج بیکن ہاؤس سے کیا۔ اس سے پہلے کی تعلیم متحدہ عرب امارات کی ہے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور چل اگیا۔ تایا، چچا ماموں سب تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ مگر شاید اللہ کا ایک نظام ہے، شاید گریجویشن کے بعد میں ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندان سے دین کی طرف راغب ہوا۔ اس سے پہلے میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔

دین کا علم براہ راست مدرسے کے علماء سے حاصل کرنے کا موقع ملا۔ والد کی وفات کے بعد مجھے ساری ذمہ داری سبھالنا پڑی تو بہت سی چیزوں کا براہ راست سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے جوانی میں ہی مشکل وقت دیکھ لیا۔ آج جن دوستوں کو بڑھاپے میں ایسا وقت گزارتے دیکھتا ہوں تو بہت مشکل لگتا ہے۔ میرے بچے اکثر سوال کرتے ہیں کہ اپنے والد کی وفات کے صدمے سے کیسے نکلے؟ تو میں کہتا ہوں بیٹا میں نکلا ہی نہیں، میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ یہ تو آجکل کے بچوں کی عیاشی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم صدمے میں ہیں، ہمیں ٹائم چاہیے۔ ہمارے پاس تو وقت ہی نہ تھا، معاشی معاملات دیکھنے تھے۔ اس کے بعد آپ کہہ لیں کہ جب آدمی نیا نیا مسلمان ہوتا ہے یا مذہب کی جانب راغب ہوتا ہے تو تحریکوں کی جانب مائل ہوتا ہے، تو میں بھی ہوا۔

اایکسپریس: آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور تحقیقی مقالہ جات پہ بھی کام کر چکے ہیں، آپ کے خیال میں ہمارے معاشرے میں اسلامی اقدار صحیح معنوں میں مروج نہ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟ اور ہم کس طرح اسلام کے اصولوں پہ عمل پیرا ہو سکتے ہیں؟

شیخ جہانگیر:  میرے خیال میں ہم بہت حد تک دین کے معاملات میں ابھی تک عمل پیرا ہیں۔ میں آپ کو اس کی مثال دے سکتا ہوں۔ ہمیں بہت سی چیزیں ہمارے دین سے ملی ہیں۔ آج بھی بس سٹاپ پر بزرگوں اور خواتین کو راستہ دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارا ہی معاشرہ نیک ہوچکا ہے یا ایسا کرتا ہے مگر ہم ایسے ہیں۔ یہ سہولت آپ کو باہر نہیں ملے گی۔ ہمارے معاشرے میں ابھی اقدار زندہ ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو باہر سڑکوں پر نظر آتے ہیں، روز ٹی وی پر بوڑھے ماں باپ کو گھر سے نکالنے کے بارے میں کچھ نہ کچھ دکھایا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے لوگ نہیں لیکن کتنے لوگ ہیں؟

آج بھی لوگوں کے لیے خدا کا واسطہ اہمیت رکھتاہے۔ ہاں اطمینان کا فقدان ہے اور میں سمجھتا ہوں اس کا قصور وار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے۔ سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ عوام کو تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اس خاموش فیصلے پر آمادہ کردیا گیا ہے کہ دین زیادہ سے زیادہ تمہاری انشورنس پالیسی ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعد ہونے والا ہے۔  زندگی میں تم مت سوچو کہ تمہارا دین کیا ہے۔ اس میں مغرب کے اپنے مقاصد ہیں۔بنیادی وجہ اگر دو لفظوں میں بیان ہو تو وہ ہمارا تربیت اور تعلیم کا نظام ہے۔

آپ اس کو نوٹ کریں کہ میں نے تعلیم و تربیت نہیں کہا بلکہ تربیت و تعلیم کہا ہے۔ کیونکہ پہلے دور میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے تھے،چاہے تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں۔ اب تعلیم تو بہت ہے لیکن تربیت نہیں۔ سکول تو بہت ہیں جو بچوں کو کتابیں بھی دیتے ہیں، مفت ناشتہ بھی کرواتے ہیں، لیکن وہاں ویسی تربیت نہیں ہوتی۔ تربیت ہوتی ضرور ہے مگر غلط تربیت ہوتی ہے۔ اب اگلا سوال ہے ٹھیک کیسے ہوگا۔ میرے خیال میں مستقبل میں جو سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خواتین کی ہے، کیونکہ جو ذہن سازی خواتین گھر میں شروع کرتی ہیں وہی ساری زندگی چلتی ہے۔

خواتین بھی باقی دنیا کی طرح کیپیٹل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام میں  Consumerism کے زیر اثر ہیں، جو ایک مذہب کا درجہ حاصل کر چکا۔ تو اگر وہ ایسی ہے تو یہ سوچیں کہ جس لڑکے کی وہ تربیت کرنے جاری ہیں اس لڑکے نے بڑے ہوکر عورتوں کی عزت کرنی ہے یا تذلیل۔ اسی بچی نے میری وراثت آگے لے کر جانی ہے۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آج تک وہ میرے خیال میں رول ماڈل ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مردوں سے ذمہ داری ہٹا رہا ہوں یا ریاست سے یا علماء سے یا اساتذہ سے بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر شروع کرنا ہے تو خواتین کریں گی اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں ہوگا کہ کوئی ادارہ بنے گا بلکہ یہ شعور گھروں میں ایک فرد بھی لاسکتا ہے۔

ایکسپریس: دنیا میں اس وقت سب سے Fashionable بات یہ سمجھی جاتی ہے کہ کسی بڑی تبدیلی یا انسانی مطالبے کی بنیاد مذہب کو نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ اس صورتحال میں ہماری Strategy کیا ہونی چاہیے جیسے ابھی مقبوضہ کشمیر میں اس بیانیے پر اصرار ہے کہ تحریک کا عنوان اسلام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس بڑے چیلنج کا ہم کیسے جواب دیں گے؟

شیخ جہانگیر:دیکھیں ہم تو اس کا جواب دے چکے ہیں۔ ہم نے جو لیڈر شپ پروگرام بنائے ہیں وہ مذہب کو بنیاد بنا کر ہی بنائے کیونکہ مذہب کے بنا ہم چل نہیں سکتے۔ مسلمانوں کا مذہب ان کی رہنمائی ہر شعبہ زندگی میں کرتا ہے پھر ان کے سیاسی، سفارتی اور عدالتی معاملات اس سے خالی کیوں ہیں،جبکہ اصول موجود ہیں۔ جیسے تاریخ میں جو خلیفہ یا انبیاء گزرے اگر کوئی شخص بھوکا یا مجبور تھا تو انہوں نے اس کے پڑوسی کی پوچھ کی۔ قاضی نے بلایا کہ اس کو شرم نہیں آتی اس کا ہمسایہ بھوکا تھا یا بچے کی دوا نہ تھی اور وہ مزے سے سو رہا تھا۔ ہمیں تو قرآن نے کہا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔

ایک پاؤں وہاں، دوسرا یہاں مت رکھو۔ اخلاقی برائی تو ختم ہوکر ذاتی معاملہ بن چکی ہے۔اب کشمیر کے مسئلے کی بات کریں تو کوئی آپ کو یہ نہیں بتا رہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو دس بارہ بابے سرجوڑ کر بیٹھے تھے، دنیا کو تقسیم کرنے، انہوں نے یہ سب اپنے کاروبار کے لیے کیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو حقوق دینے کے لیے یا ملائشین مسلمانوں کو آزاد کرنے کے لیے یہ سب نہیں کیا۔کہنے کی بات ہے وہ کیسے چھوڑ گئے یہ زمین۔ ہم تو دادا کی تین مرلہ زمین نہیں چھوڑتے۔ اس میں اپنا حصہ لیتے ہیں۔ ان کا یہ پلان تھا اور انہوں نے اس میں جھگڑے بھی شروع کروا دیئے۔ ایسا صرف ہندوستان میں نہیں کیا بلکہ ملائشیا، انڈونیشیا اور بوسنیا میں بھی ایسے بارڈر بنا دیئے کہ جھگڑا کبھی ختم نہ ہو اور پھر اقوام متحدہ کی فورسز وہاں بیٹھی ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو اس کے پاکستان کی شاہ رگ ہونے کی اولین وجہ وہاں سے پانی کی پاکستان کو فراہمی ہے۔

دوسری چیز یہ کہ ہم مسلمان چاہے جتنے بھی کمزور کیوں نہ ہوجائیں اپنے اعمال و فرائض پر پورے نہ اتریں، لیکن ہمارے درمیان ایک مشترکہ محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ محمد رضوان، عائشہ خان اور فاطمہ بٹ پر ظلم ہو رہا ہے تو ہم سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ ہماری تربیت ہے۔ ہمیں اس لڑی میں پرویا گیا ہے۔ اب مسئلہ کشمیر پر کہتے ہیں کہ اسے انسانی مسئلہ بنایا جائے تو چلیں وہی بنا دیں۔ کوئی انسانیت کی بنیاد پر ہی مداخلت کرے۔ مگر کوئی ایسا صرف اس لیے نہیں کررہا کہ وہ مسلمان ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ کاروبار ہے، اب ریاست کاروباری لوگ چلاتے ہیں۔  جنگیں کاروبار کے لیے ہوتی ہے۔

کشمیر کا ایشو اگر کاروبار کے لیے اچھا ہے تو اسے کریں گے۔ کسی نے پوچھا کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جو بنیادی طور پر Mormon ہے (عیسائیوں میں بھی قادیانیوں کی طرح ایک فرقہ ہے جس میں ایک نبی آیا تھا تو وہ اپنے مذہب کے اعتبار سے ملحدہ ہے)  یہ کہا گیا کہ دیکھیں! نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا، یہی اگر امریکہ میں ہوتا تو کوئی اتنی بڑی بات نہ ہوتی۔ یہاں حملہ ہوا تو وزیراعظم خود آئی ہے۔ میرا موقف یہ تھا کہ دونوں کا ایک ہی ری ایکشن تھا جو کارروبار کے لئے بہتر ہو وہی ردعمل آئے گا ۔ نیوزی لینڈ کے لیے سکیورٹی اچھی ہے تو اس پر غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی ۔ دوسروں کے لیے Insecurity بہتر ہے تو ویسا ہی رد عمل نظر آئے گا۔ ان کو مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔

ایکسپریس:آپ اسلامی تعلیم کے ماہر اور سماجی معاملات پہ عبور رکھتے ہیں، ہمارے معاشرے میں طبقاتی نظام کی وسیع ہوتی خلیج کو پاٹنے کا کیا حل تصور کرتے ہیں؟

شیخ جہانگیر: یہ بات سمجھ لیجئے کہ معاشرے میں ہمیشہ طبقات ہوں گے۔ ہم جسے آئیڈیل  ریاست کہتے ہیں، یعنی اسلامی ریاست ، محمدﷺ کے دور میں بھی وہاں طبقات تھے۔ امیر بھی تھے، غریب بھی، بہت زیادہ مذہبی طبیعت والے لوگ بھی تھے، ہنسی مذاق والے لوگ بھی تھے۔ معاشرے میں یہ تفریق تو رہے گی۔ انسان ہیں بسکٹ تو ہیں نہیں کہ سب ہی ایک طرح کے نکل آئیں۔ خلیج اس لیے بنائی گئی ہے کہ ایک دوسرے کا استحصال کیا جائے۔ محنت کرنا امیر ہونا اور اس کے بعد اس بات کا اہتمام کرنا کہ میرے بعد کوئی امیر نہ ہوسکے، اللہ کی نعمتوں کو اپنے اوپر حلال کرنا اور دوسروں کے اوپر حرام کرنا یہ اصل مسئلہ ہے۔ اس میں پھر وہی تربیت اور تعلیم کی بات ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی طور پر مغربی معاشرے میں جو لوگ جتنے امیر ہوتے ہیں اتنے ہی سخی ہوجاتے ہیں اور جو ریاست جتنی امیر ہے وہ اپنی رعایا پر اتنی ہی مہربان ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے وہاں یہ تربیت ہے۔  دنیا کی اہم یونیورسٹیاں ’جن کو ہم آج بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے‘ وہ بڑے لوگوں نے اس لیے نہیں بنائی تھیں کہ لوگ ان کا نام لیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب انسان ایک ایسا درخت کا پودا لگائے جس کے سائے میں اس نے کبھی نہیں بیٹھنا تو سمجھو وہ زندگی کو جان گیا ہے۔ تو ہمیں بھی وہ درخت لگانے ہیں جن کے سائے میں ہم نے نہیں بیٹھنا۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں ایسے پروجیکٹ شروع کریں جن کے ثمرات فوری طور پر سامنے نہیں آتے۔

کسی کا علاج کر دیا تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن کوئی ایسا بھی کام شروع کریں جس کے اثرات ایک پیڑھی کے بعد بھی نظر آئیں۔ مسجد میں پنکھا لگا دینا بڑی اچھی بات ہے۔ میں اس پر تنقید نہیں کرتا مگر ایسے ادارے بنائیں جن کے ثمرات بعد میں بھی دکھائی دیں۔ اب آپ کہیں گے ادارے تو موجود ہیں، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ تعلیمی کا م کا معیار گھٹتا نہیں، تربیت ہے جس کا معیار گھٹ جاتا ہے۔ لوگوں کی شخصیت سازی نہیں ہو رہی ہوتی۔

ایکسپریس: دنیا بھر کے تہذیبی ارتقاء میں فنون لطیفہ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اسے دین سے متصادم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس تضاد سے کیسے نمٹا جائے؟

شیخ جہانگیر: دیکھیں جو فنون لطیفہ یا لبرل آرٹس ہیں انہیں ہم نے چند ایک میڈیمز میں قید کردیا ہے۔ ٹی وی میں یا فلم میں، پینٹنگ میں یا مجسمہ سازی میں جس پر سب سے زیادہ اعتراض ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ماضی میں ان چیزوں پر اتنا زور دیا کہ پھر صرف یہی رہ گئیں۔ میں کسی کی عبارت پڑھ رہا تھا کہ ایک تقریب پر کھانا بہت اچھا تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ باورچی مغلوں کے زمانے کا تھا۔ بتانے لگا کہ آٹھ پیڑھیوں سے بادشاہوں سے تعلق کا پس منظر رکھتا ہے اور یہ چند مہمانوں کا کھانا کیا کھیر کی پچاس اقسام بنانا جانتا ہے۔ سو قسم کے پلاؤ جانتا ہے، ستر قسم کے روسٹ جانتا ہے۔ تو لکھاری نے کہا کہ جوں جوں وہ پلاؤ کی اقسام گنوانے لگا توں توں مجھے مغلوں کے زوال کے اسباب سمجھ آنے لگے۔

یہ آرکیٹکچر بھی لبرل آرٹس کا حصہ ہے۔ عمرانیات، Enthropology بھی لبرل آرٹس کا حصہ ہے، صرف گانا بجانا لبرل آرٹس نہیں ہوتا۔ دوسری بات جو میں نے پہلے کہا کہ Social-Reengneering ہورہی ہے اس کے لیے ضروری ہے لوگوں کو ایسے کاموں میں مصروف رکھا جائے جن کا کوئی مطلب و مقصد نہیں۔ دیکھیں کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ I Think Its Junk Food کیا آپ کو معلوم ہے مشہور فاسٹ فوڈ کی ایک برانچ کے ایک برگر میں میٹ کتنا ہوتا ہے۔ صرف 8 فی صد اور باقی آنتیں اور نجانے کیا کیا بھرا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں جنک فوڈ اچھا ہے تو کھالیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر ایک انسان اپنی ذمہ داری سمجھ لے کہ اسے کوئی کارخیر انجام دینا ہے تو اسے فرصت ہی نہیں ملے گی یا کسی اور راحت کی ضرورت پڑے گی۔ایک بات آج کی تمام دینی جماعتوں کے حوالے سے کہ ان کا حال بالکل ایک پرانی گاڑی جیسا ہوچکا ہے جو ماضی میں بڑی عالیشان گاڑی تھی، کوئی ایک آکر کہتا ہے، اگر اس میں ٹائر ڈال لیں تو ٹھیک ہوجائے گی اور ٹائر ڈالنے ضروری ہیں اس میں کوئی انکار نہیں۔ لیکن جب تک اس میں انجن ہی نہیں ہوگا تو سٹارٹ کیسے ہوگی۔ اب انجن بنانے میں اتنا وقت صرف کر رہے ہیں  اور ٹائر ڈالنے والے کے راستے میں رکاوٹ بھی ڈال رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ جز کو کل نہ سمجھا جائے۔ دوسرے کو بھی اپنا مسلمان بھائی سمجھیں وہ بھی کوئی اچھا کام کر رہا ہے۔ ہمارے اخوت فاؤنڈیشن والے دوست لوگوں کو بلا سود قرضے دے رہے ہیں وہ بھی دینی کام ہی ہے۔

ایکسپریس:پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے اسلامی تعلیمات سے کیسے مدد لی جا سکتی ہے اور سود سے پاک معیشت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

شیخ جہانگیر: میرے خیال میں اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بہت زیادہ مدد کرچکی ہیں اور بہت زیادہ محدود اختیارات اور گنجائش کے باوجود علماء نے اسلامک بینکنگ متعارف کروائی ہے۔ اب اس سے آگے صرف ریاست ہی کچھ کرسکتی ہے۔ اسلامک بینکوں کو شروع ہوئے سات برس بیت چکے ہیں ان کی جتنی کامیابی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں میں سود کا شعور تھا اور یہ سود کا شعور New York Times سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ مسجدوں اور ممبروں سے آیا تھا۔ بنکوں نے اپنی اسلامی برانچز بنا دی ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلامک کاؤنٹر بنالیے ہیں۔ یعنی لوگوں کے جذبات اور نسبت تو ہے اور اگر وہ محسوس کرتے بھی ہیں کہ سہولیات اسلامک بینک میں کم ہیں تو پھر بھی وہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔

اسلامک سکول بھی ہیں میں اس موضوع پر کتابیں بھی لکھ چکا ہوں۔ اگر آپ دوپہر کے وقت کھڑے ہوں، ان سکولوں کے سامنے، آپ دیکھیں گے کہ بظاہر ایسے لوگ وہاں نظر آئیں گے جنہیں دیکھ کر شاید آپ اندازہ نہ کرسکیں کے ان کے بچے اسلامی سکولوں میں پڑھتے ہیں، لیکن وہ پڑھ رہے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کی صورتوں پر ایمان لے آتے ہیں کہ فلاں کا چہرہ اچھا لگ رہا تو یہ اسلامی ہوگا بہت سے لوگوں کے چہرے شاید ہمارے معیار کے نہیں ہوتے لیکن اللہ کے ہاں ان کا کیا درجہ ہے یہ تو ہمیں معلوم نہیں۔

ایکسپریس:  آپ ماشااللہ 10000سے زائد ٹیچرز ٹرینگ دے چکے ہیں کیا وجہ سمجھتے ہیں کہ آج تک پاکستانی تعلیمی ادارے بین الاقوامی سطح پہ مستند مقام حاصل کرنے میں نا کام دکھائی دیتے ہیں؟

شیخ جہانگیر: استعمار نے ہمیں جو تحفے دیئے ہیں ان میں سے ایک Negative Self Imagingہے۔ جوں ہی کوئی شخص کہتا ہے کہ مسلمان بڑے  بُرے ہیں بڑے پسماندہ ہیں تو ہم اسے  بڑی خوشی  کے ساتھ رضاکارانہ طور پر قبول کرتے ہیں کہ جناب ہم بہت بُرے ہیں۔ حالانکہ معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر آپ کو ہزاروں اچھی مثالیں مل سکتی ہیں۔اہم بات یہ کہ رینکنگ بناتا کون ہے۔ انٹرنیٹ پر آرٹیکلز کون لکھتا ہے؟ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں جو مجھے ایک دن ملے پوچھا کیا کررہے ہیں آجکل؟ کہنے لگے میں ایک آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔ مالدیپ (Maldives) اور آئرلینڈ (Irland) میں سے گھومنے پھرنے کے لیے کون سا ملک بہتر ہے۔ میں نے کہا، آپ ان ممالک میں گئے ہیں؟ تو کہنے لگے میں تو کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا تو میں نے کہا پھر آپ کیسے لکھیں گے۔

انہوں نے کہا نیٹ پر ہے سارا کچھ تو میں دیکھ دیکھ کر لکھوں گا۔ تو کون ہیں وہ ادارے ان کی اپنی Credibility کیا ہے۔ کیا وہ یونیورسٹیوں کے سپانسر سے ڈونیشن لیتے ہیں اور Ranking کردیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک مدرسہ ہے۔ الحمدللہ ہم اس کے ساتھ بڑے عرصے سے ٹریننگ کا کام کر رہے ہیں۔ اس مدرسہ میں 50 ممالک سے بچے پڑھنے آتے ہیں۔ پاکستان کے شہر کراچی میں ہے کوئی چھپا چھپایا نہیں ہے۔ کوئی رینکنگ ہوگی نہ  کہ وہ بچے سعودیہ کیوں نہیں پڑھنے جاتے۔

انڈیا کیوں نہیں چلے جاتے، جامعہ ازھر کیوں نہیں چلے جاتے۔ یہاں ایجوکیشن فری ہے۔ کوئی ڈونیشن نہیں وہ خود یہ انتظام کرتے ہیں۔ تعلیم، رہائش، کھانا مفت ہے اور وظیفہ بھی ملتا ہے۔ Across the board تمام مدارس کا یہی نظام ہے۔ یہ کسی رینکنگ میں نہیں۔ وہ چاہتے ہیں یہ پیسے کیوں نہیں دیتے۔ انہیں تکلیف یہ ہے کہ جو ہزاروں بچوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، ہمیں کیوں کچھ نہیں کھلاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکیڈمک سٹینڈرڈز نیچے گرے ہیں۔ ہم سنتے تھے کہ گذرے زمانے کا میٹرک اور آج کا ایم اے برابر ہے۔ یہ بات درست ہے مگر آپ ریٹ بھی نکال کردیکھ لیں کہ آپ کی یونیورسٹی کتنے پیسوں میں ایم بی اے کی ڈگری دے رہی ہے اور ان کی یونیورسٹی کتنے پیسوں میں ایم بی اے کراتی ہے۔ تو پَر ڈالر ہماری کوالٹی ان سے بہتر ہے۔

ایکسپریس:آپ نے سرکاری اداروں کے ساتھ بھی کام کیا؟ یہ تجربہ کیسا رہاِ؟

شیخ جہانگیر:میں نے کئی دفعہ کام کیا وہاں لیکن یہ دیکھا کہ اول تو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے، پھر ان میں سمجھنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکنوکریٹ بہت کم ہیں۔ سب سے بڑا ٹیکنوکریٹ وہ ہوگا جو محکمے کا کلرک ہے اور ڈیپارٹمنٹ کے Operational سسٹم کوجانتا ہے۔ اس کو ٹیکنوکریٹ سمجھتے ہیں اور جو اوپر افسر آیا ہے وہ دو سال کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹ میں آیا ہے۔ دو سال بعد کسی اور میں چلا جائے گا۔ اس نے دو سال گزارنے ہیں اور چلا جائے گا۔ سسٹم ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کبھی ٹھیک نہ ہوسکے۔ بیرون ممالک ٹریننگ دینے میں بہت لطف آتا ہے کیونکہ وہاں سب رسپانڈ کرتے ہیں۔ وہاں جو شخص معلم کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہ جب تک چار برس بی ایس ایجوکیشن نہیں کرتا اسے استاد بننے کا لائسنس ہی نہیں ملتا۔

ایکسپریس:اسلام ایک پر امن دین ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ اسلام کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے؟

شیخ جہانگیر:دیکھیے یہ جملہ پتہ نہیں آیا کہاں سے ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ اگر اس معنی یہ ہے کہ مسلمان کسی پر جارحیت نہیں کرتا تو ٹھیک ہے لیکن اگر ہم پر جارحیت کی جائے تو اس کا جواب ہم دیتے ہیں اور ساری معقول انسانیت کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے۔ میں مانتا ہوں کہ مسلمان معاشرے میں ری ایکشن بڑا سٹرونگ آتا ہے مگر یہ دیکھیں کے ان کے پاس راستہ بھی کوئی نہیں۔ آپ دیکھیں دنیا بھر میں مسلمان ممالک مسلسل ایک دباؤ کا شکار ہیں۔آپ فلسطینی کے بچے کو سمجھائیں جس کا باپ گاؤں میں اپنی زمینوں پر حل چلارہا تھا اور اس کی ماں روٹی بنا رہی تھی اور اس کے اوپر آکر فوجی چڑھ گئے، کھینچ کر نکال دیا اور اس کا گھر مسمار کردیا آپ سے اس کہیں کہ پُر امن رہو تو کیاآپ سمجھا سکتے ہیں اس کو یہ بات؟

ایکسپریس: کیاہمارے ہاں جہاد کے اصل تصور کو فراموش کیا گیا ہے؟درحقیقت جہاد کا اسلامی تصور کیا ہے ؟

شیخ جہانگیر: اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے خود اپنا دین نہیں پڑھا، تو اب غیرآپ کو آپ کا دین پڑھا رہے ہیں۔ اگر خود پڑھ لیتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔ آپ کا جو پڑھا لکھا طبقہ کہلاتا ہے وہ تو شاید اسے پڑھنے کو اچھا بھی نہیں سمجھتا۔ لفظ ’’جہاد‘‘ کے بڑے سادہ سے معنی ہیں۔ میں جہاد کی وہ تعریف کرنے جارہا ہوں جو شاید تمام مسالک میں مشترک ہے۔ لفظ جہاد قرآن مجید میں ایک سے زیادہ معنوں میں آیا ہے۔ اصل تصور ہے جدوجہد کا، ہر وہ چیز جو آپ اور آپ کے رب کے درمیان حائل ہے اس کے خلاف جدوجہد کرنا۔ وہ اندرونی بھی ہوگی، بیرونی بھی ہوگی، وہ خرچ کرنے سے بھی ہوگی خرچ روکنے سے بھی ہوگی اور ضرورت پڑنے پر ہاتھ میں اسلحہ بھی ہوگا۔

اس میں قتال الگ ہے،انفال فی سبیل اللہ الگ ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا ہم نے پڑھا نہیں ہے تو اب جو بھی ہمیں کہتا ہے یا ہم ادھر ادھر سے پوچھتے پھرتے ہیں جہاد کس نے کیا؟ بے بس اور لاچار قومیں جن پر مغربی طاقتیں مسلط ہوگئیں۔ فلسطین اور کشمیر بھی اس میں شامل ہیں۔ بوسنیا کے لوگ بھی تنگ آکر مجبوری میں نکلے۔ نہ ان کے پاس اسلحہ، نہ ان کے پاس فوج، نہ کوئی ٹریننگ، نہ ان کے پاس کوئی ڈائریکشن وہ بے چارے اپنے گھروں اپنی خواتین، ان کی عصمت کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو اس کو جہاد کہہ دیتے ہیں۔ جب بوسنیا میں Weapon emergo لگایا تو وہ لاگو مسلمانوں پر ہوا، بوسنیائی سربوں پر تو نہیں ہوا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس نے اپنے گھر کا دفاع کیا وہ بھی جہاد ہے۔ اگر کوئی اپنے گھر کا دفاع کرتے مارا گیا تو وہ بھی شہید کہلائے گا۔

ایکسپریس:ہمارے معاشرے میں لفظ مولوی کا تاثر غلط انداز میں لیا جاتا ہے۔ مولوی کی قابلیت پہ شک و شبہ کا اظہار کیاجاتا ہے، لفظ مولوی کے برے تاثر کی وجہ کیا ہے، اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

شیخ جہانگیر:اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے ذمہ دار خود مولوی حضرات ہیں تو میں اس کا جواب یہ دوں گا کہ اس تاثر کو ٹھیک نہ کرنے کے ذمہ دار تو مولوی ہوسکتے ہیں لیکن یہ تاثر بھی Social Reengineering کا حصہ ہے۔ جن ممالک میں ’جیسے پاکستان، مصر یا الجزائر‘ براہ راست دین کو گالی نہیں نکال سکتے وہاں دین داروں کو، دین کے شعار کو گالی دے کر اسے کمزور کیا جائے۔ میں بھی باہر جاتا ہوں، لوگ مجھے مولوی صاحب بلاتے ہیں لیکن مجھے عزت کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ میں سری لنکا کے ایئرپورٹ پر تھا کہ وہاں ایک گارڈ آیا جو ہندو تھا ، کہنے لگا کہ آپ ’’استاذ‘‘ ہیں؟ آپ وہاں بیٹھ جائیں۔ اُن سیٹوں پر سفید کپڑا لگا ہوا تھا۔ وہ کنے لگا ’’آپ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں عبادت کرنی ہوتی ہے تو یہ صاف سیٹوں پر بیٹھیں ان کا کپڑا ہم روز بدلتے ہیں۔

ایکسپریس:کیا کبھی محبت ہوئی؟ محبت کے بارے میں کیا نظریات ہیں آپ کے؟

شیخ جہانگیر:میرے نزدیک محبت کا تصور عام تصور سے الگ ہے۔ محبت جسے ہم Love کہتے ہیں یہ Verb ہے اسم نہیں ہے۔ محبت مجھے اب ہوگئی ہے کچھ عرصہ پہلے ہی مجھے سچی محبت ہوئی، اپنی بیوی سے۔ مجھے احساس ہوا کہ اس نے 24 چوبیس سال جو میرا ساتھ دیا تو میری ساری کامیابیوں میں اس کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ کتنی راتیں اس نے خاموشی سے گزار دیں۔ میرے بچوں نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ بہت سی فرمائشیں نہیں کیں۔ جس زمانے میں بہت سفر کرتا تھا میرے دیر سے آنے پر تم نے شکوہ نہ کیا تو یہ میری محبت ہے۔ محبت کا ایک رومانوی سا افسانوی تصور جو فلموں نے دیا ہے اس نے ہم سے محبتیں چھین لیں۔

ایکسپریس:زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ۔

شیخ جہانگیر: ناقابل فراموش واقعات تو حقیقت میں بہت سارے ہیں لیکن میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ میرے دین کی طرف آنے کا سبب ہے۔ ایک بحث تھی دین دار شخص سے جب کہ میں اس وقت ایک دین دار شخص نہ تھا کیونکہ وہ دین دار تھا تو مجھ سے سبقت تھی اسے۔ اس بحث کے نتیجے میں میرا واپس آنا، قرآن مجید کو کھولنا، اسے پڑھنا اور اسے پڑھ کر میرا سینہ روشن ہوجانا اور جو زندگی بھر کی تشنگی و اضطراب دور ہوجانا اور اصل سفر اور زندگی کی شروعات ہونا وہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے اور قابل قدر واقعہ ہے۔ وہ جگہ اور وہ دن یاد ہے مجھے، نوجوانی تھی اور اس بحث کے دوران ہونے والے سوالات کے جوابوں کی خاطر میں نے قرآن کو کھولا اور اس کے بعد جیسے اللہ نے محبت سے اپنی آغوش میں لے لیا کہ اب تم ادھر ہی آجاؤ۔

ایکسپریس:مذہبی طرز زندگی اپنانے والوں کو دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے، برقعہ اور داڑھی کے حوالے سے جو منفی تاثرات موجود ہیں آپ بطور موٹیویشنل اسپیکر ان کو زائل کرنے کے لئے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟

شیخ جہانگیر:اگر کوئی شخص داڑھی یا برقعے کے بارے میں منفی تاثر رکھتا ہے تو یہ اس کا حق ہے وہ رکھے۔ ہم اس کو مجبور تو نہیں کرسکتے کہ وہ اس کو تبدیل کرے۔ میں نے اس کا اپنی ذاتی حیثیت میں جو حل سوچا کوشش کرتا ہوں کہ خود اس پر عمل پیرا ہوں اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اس پر عمل کریں وہ یہ کہ آپ اخلاقیات کے اس اعلیٰ درجے پر اپنے آپ کو فائز کریں کہ یہ تصور بدلے اور اس کے لیے آپ Out of the Way بھی جائیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ باہر نکلتے ہیں۔ سڑکوں پر بازاروں میں اور آپ کا حلیہ وہ ہے جسے لوگ اسلامی سمجھتے ہیں تو آپ اپنے اخلاق کا زیادہ خیال کریں کیونکہ آپ اس پورے طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں جس کے بارے میں بعض لوگوں میں منفی تاثر پھیلایا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد میں پارکنگ پر کھڑے تھے تو میرے ڈرائیور نے وہاں گاڑی پارک کردی، ساتھ ہی ایک اور صاحب کافی دیر سے انتظار کررہے تھے میں نے اسے روکا اور خود دوسری گاڑی والوں کے پاس گیا میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ آپ پہلے سے انتظار کررہے تھے تو پہلے آپ گاڑی پارک کیجئے۔ میرا ڈرائیور پارکنگ خالی کرے گا اور آپ گاڑی کھڑی کریں گے۔ وہ شاک میں چلاگیا۔ تو وہ کہنے لگا مجھے آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟ میں میں نے کہا لیجئے۔ وہ کہنے لگے کبھی ایسا دیکھا نہیں۔

ینگ علماء لیڈر شپ  پراجیکٹ نوجوان علماء کی کردار سازی کا سنگ میل ہے
میری ذات سے مخالفت رکھنے والے بھی اس سے مخالفت نہیں رکھتے

علماء کا جو معاشرتی رتبہ ہوا کرتا تھا وہ اب نہیں رہا۔ سرکاری پروٹوکولز میں درجا بندی میں سب سے نیچے مولوی صاحب کا لفظ آتا ہے تو ہم نے کہا اس کی وجہ کیا ہے؟ اب وجوہات تو بہت ساری ہیں ان میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مدارس کے نصاب میں انگریز کے بعد آنے والی تبدیلیوں نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں پیش کرتا ہوں کہ پہلے علماء کو اُس زمانے کے سارے جدید علوم پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن انگریز کے آنے کے بعد انہیں نصاب سے الگ کردیا گیا۔ ہمیں علم دین تو تفویض ہوگئے۔

مگر اب وہ پہلے والا مقام نہیں ،آج برصغیر میں جو مسلمان ہیں وہ انہی کی مرہون منت ہیں۔ اور اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں۔ اُس مقام کو دوبارہ پانے کے لیے جدید علماء کو ان علوم اور صلاحیت سے لیس کرنا پڑے گا تاکہ وہ جدید معاملات کا سامنا کرسکیں۔ دیکھیں!ً اب ایمانی معاملات بھی جدید ہوگئے ہیں۔ اب ایمان پر حملے اور طرح سے ہوتے ہیں۔ جدید ہوتے ہیں اور جدید زبانوں میں ہوتے ہیں تو پھر ہمارا طریقہ کار بھی جدید ہونا چاہیے۔ ہمارے بزرگوں نے ہندوستان میں ہمیشہ حالات کو معاشرے کو اور معاملات کو اور مشکلات کو دیکھ کر اپنے آپ کو آراستہ کیا اور اپنی جگہ کو قائم رکھا اور میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ہم نے اسی راستے پر چلنا ہے جس پر ہمارے بزرگ چلے، وہی راستہ جو پیچھے جاکر امنبیاء سے ملتا ہے اور آپﷺ سے ملتا ہے۔ اس راستے پر چلنا ہے، کھڑے نہیں رہنا۔ بڑا فرق ہے کھڑے رہنے اور چلنے میں۔ موٹر وے پر اگر کھڑے رہیں تو کبھی اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے، چلنا شرط ہے چاہے پیدل ہوں، سائیکل پر، چاہے گاڑی یا بس پر۔ بزرگوں نے ضرورت محسوس کی اور ہمیشہ مشعل راہ دکھائی۔

جب یہ پروگرام شروع کیا تھا تو میرا کیا ہم سب کا یہ خیال تھا کہ ہماری عمر بھر کی کمائی یہ ہوگی کہ ہم اس دیوار کے ساتھ سر ٹکراتے ٹکراتے مرجائیں گے۔ لیکن ہمارا خیال آٹھ دس سال ایسے ہی چلتا رہا اس کے بعد ایک دم سے ماحول میں کچھ تبدیلی آئی۔ شاید ہمارا کوئی تکا چل گیا ہوگا۔ عام سا آدمی ہوں بس اللہ کی جانب سے ماحول میں تبدیلی آئی اور لوگوں نے اس کو قبول کرنا شروع کردیا اور اس میں بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہمارے علماء نے مختلف ممالک کے سفر کیے۔ سفر سے اک دنیا کُھلتی ہے۔ پھر خاصی طور پر 9/11 کے بعد ہر مسلمان پر جو پریشر بڑھا دنیا کے ہر ملک میں اس سے بھی ذہن کھلا، تو جہاں تک کامیابی کی بات ہے، تصور سے کہیں بڑھ کر کامیابی ملی۔

اب تو اس کے مخالف جوکہ شاید میری ذات سے مخالفت رکھتے ہوں وہ بھی اس سے مخالفت نہیں رکھتے۔ہمارے ادارے کے قیام کو  سولہ برس بیت چکے ہیں۔ اس سے قبل ہم اور اداروں کے ساتھ کام کرتے تھے وہ زیادہ انتظامی نوعیت کا نہ تھا اور کتابوں کے حوالے سے اندازہ یوں لگا لیجئے کہ ہماری کتابوں کے ایک لاکھ (100,000) آن لائن ڈاؤن لوڈز ہیں۔ دوسرا یہ کہ لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ پیسے لیا کرو ورنہ لوگ قدر نہیں کریں گے۔ ہم نے کبھی پیسے نہیں لیے جس نے قدر کرنی تھی اس نے کرلی جس نے نہیں کرنی وہ پیسے دے کر بھی نہیں کرتے۔ قدر دان یا جس کو بھوک لگی ہوتی ہے وہ کوڑے سے اٹھا کر بھی آدھا سیب کھا لیتا ہے اور جس کو قدر نہیں کرنا ہوتی وہ قیمتی برگر اٹھا کر کوڑے میں پھینک دیتا ہے۔

بے قدری مزاج کا نام ہے اس کا نوٹوں کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا۔ 10,000 دس ہزار ٹرینگز صرف میری ہیں اس کے علاوہ ہماری پوری ٹیم ہے اور اس میں بہت سے لوگ ہیں اور اس کی ٹریننگ لارنس کالج گھوڑا گلی سے لے کر اُن اسکولوں تک ہے جن کی ایک دیوار پر گوبر لگا ہوتا ہے۔ ان تمام اداروں میں یکساں ٹریننگ اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ ہم پیسے نہیں لیتے۔ ہمارا سٹاف فرق نہیں کرے گا کیونکہ جہاں سے کچھ ملنا ہی نہیں وہاں تفریق کیسی۔ ہم جو سالانہ پروگرام کرتے ہیں 100 علماء کو لے کر جاتے ہیں۔ 15 دن کی ٹریننگ کرواتے ہیں بھوربن میں جاکر۔  کاش ان نوجوان لڑکوں کی تصویریں کھینچ سکتے کہ پہلے شکل کیسی تھی اور ٹریننگ کے بعد کیسی ہوگئی۔

جب تاثر بدلتا ہے تو شکلیں ہی بدل جاتی ہیں۔  تاثر کیسے بدلتا ہے یہ بھی سن لیں۔ ایک دوسرے کی قدر کرنا، اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا، ایک دوسرے کی بات سننے کی عادت ڈالنے سے اور جو باہمی گفتگو کرنی وہ بھی عزت و محبت سے اور حق کا بیان بھی احترام سے کرنا ہے۔ اگر حق بول رہے ہیں تو چیخنے چنگھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ شعلہ بیانی یہ نہیں ہوتی کہ منہ سے شعلے نکل رہے ہوں۔ بلکہ دلوں میں ایمان کا شعلہ بھڑکتا ہے۔ یہ ہے شعلہ بیانی۔ اس ادارے کی کتابیں اور ٹریننگز اپنی جگہ لیکن سب سے جو اہم Achievement ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ہے۔ ہم نے تصور بدلدیا ہے۔

Perspective ہی تبدیل کردیا ہے کیونکہ جب ذہن بدل جاتا ہے تو باقی سب بھی بدل جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے 32 ممالک میں ہماری رسائی ہے۔ کیلیفورنیا سے ساؤتھ امریکہ تک۔

فلموں سے دلچسپی کبھی نہیں رہی

مجھے یہ سب فیک (Fake) سا لگتا تھا۔ ایک سکرین ہے ایک شیشہ ہے اس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ Real نہیں ہے اور بچپن میں یہ بات بہت عجیب لگتی تھی کہ لوگ کسی کی نقلی غمی کو دیکھ کر روتے بھی ہیں۔ اس کام پر لوگ مجھ پر لعن طعن بھی کرتے کہ تم ہنس رہے ہو۔ میں کہتا کہ عجیب طریقے سے یہ آدمی رو رہا ہے۔ ابھی سکرین بند ہوگی اور یہ ہنس رہا ہوگا کہ لوگوں کو میں نے خوب رُلا دیا ہے۔ فیک ہونے کی وجہ سے کبھی بھی فلم سے دلچسپی نہیں رہی البتہ کتابوں سے میرا گہرا تعلق رہا۔ کتاب پڑھے بنا نہیں سو سکتا۔ جیسے نشہ ہوتا ہے کسی چیز کا کہ رات کوئی سگریٹ پیتا ہے تو مجھے یہ ہوتا ہے کہ کتاب مجھے مل جائے۔ بچپن میں بہت فکشن پڑھی۔ بچپن کا آل ٹائم فیورٹ ’شرلک ہومز‘ ہے۔ سکواش کھیلا کرتا تھا۔

لوگ پوچھتے ہیں کون جنتی ہے کون جہنمی؟

نوجوانی میں مرزا غالب اور احمد فراز سے متاثر رہا اور پھر تھوڑا انقلابی ذہن ہے تو فیض احمد فیض کی جو انقلابی شاعری ہے اسے پڑھا۔ فیض کی براہ راست فکر سے تو اتفاق نہیں کرتا لیکن اس بات کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہر شخص میں جو خیر ہوئی ہے اسے حاصل کرلینا چاہیے۔ اور ذاتیات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ فلاں شخص کی ذاتی زندگی ایسی تھی یا ویسی ہوگی مگر اس کا جواب میں نے نہیں دینا۔ دوست پوچھتے ہیں فلاں شخص جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔ یہاں تک کہ جناح صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ جنت میں جائیں گے یا نہیں۔ نیلسن منڈیا نے بڑا کام کیا، کیا وہ جنتی ہوگا؟تو میرا جواب عموماً تمسخر بھرا ہوتا ہے ’’بھئی تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ وہ جائے یا نہ جائے تمہارا اس سے کیا مطلب۔ مجھے اس شخص کی تلاش ہے جو اپنے بارے میں پوچھے میں اپنے اعمال کی بنا پر جنتی ہوں یا جہنمی ہوں؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا۔

مغربی ممالک کے بیانیے کا ٹکرائو مذہب کے ساتھ نہیں، اقدار کے ساتھ ہے
ویسٹ کی Debate کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب ایک Consumer Culture ہے۔ وہ معاشرے میں کنزیومرازم کو پرستش کے درجے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ کیوں لے کر جانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ تمام مذاہب میں ایک چیز تو مشترک ہوگی۔ مذہب اصرار کرتا ہے کہ اقدار جو کروڑوں سالوں سے چل رہی ہیں ان کی پیروی ہو۔ مغرب والے ان اقدار کو توڑنا چاہتے ہیں۔

اس لیے بنیادی حملہ مرد اور عورت کے تعلق پر ہوتا ہے کہ اس پر کوئی قدغن نہ ہو، کیونکہ معاشرے کی بنیادی اینٹ ہی شادی ہے۔ شادیوں سے خاندان ہے اور خاندان سے معاشرہ ملک و ملت اور اُمت ہے۔ اب اگر وہ اینٹ ہی ٹوٹ گئی تو؟ اس کوکہتے ہیں Social Reengineering۔ آپ کو لگتا ہے کہ ان کومسئلہ اسلام سے ہے لیکن درحقیقت ان کو مذہب سے مسئلہ ہے۔ وہ سالوں سے اس Social Reenginering پر کام کررہے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت سے کہا جائے تم ذلیل ہو رہی ہو۔ تم کھانے گرم کرتی ہو، لعنت ہے تم پر تم ایک گھٹیا عورت ہو۔ اگر یہی کام آدمی کریں تو کیا وہ گھٹیا نہیں ہوں گے؟ وہ مرد اور عورت کے اس تعلق کو توڑنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جہاں سب روپے کے، Creditcard کے غلام ہوں۔ اصل میں جھگڑا ہے Consumerism کا اور ان اقدار کا جس کے باعث وہ تمام مذاہب سے خار کھاتے ہیں۔ اسلام بڑا مذہب ہے اور اس سے سب کی وابستگی بھی مضبوط ہے۔ عیسائیوں کی حالت اب کمزور ہے۔

انہیں وہ پہلے ہی توڑ کر الگ کرچکے ہیں۔ بظاہر ان کی جنگ اسلام سے نظر آتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال میں یوں دینا چاہوں گا کہ اسلام کہتا ہے پانی سے ہاتھ دھونے ہیں، چلو اگر صابن ہو تو اچھی بات ہے، پانی نہیں ہے تو پتوں سے صاف کرلو وہ بھی نہیں تو مٹی سے صاف کر لو۔ لیکن دوسری جانب وہ کہتے ہیں یہ آپ کا عام صابن ہے، یہ ہینڈ واش ہے، یہ فیس واش ہے، بالوں کا الگ ہے، گنجوں کا الگ ہے، پیروں کا سوپ الگ ہے ۔ تو قرآن میں کہا گیا کہ’’اَلْھَکُمُ التَّکَاثُرْ حَتّٰی زُرْتُمْ الْمَکَابِرَo‘‘ یعنی ’’تمہیں دنیا کے مال کی کثرت گھاٹے میں لے جائے گی‘‘ تو وہ آپ کو اور سے اور کی جانب لے جا رہے ہیں۔ کاروبار کیسے چلیں گے ان کے، آپ محسوس کریں گے کہ اگر فون ایک سال پرانا ہوگیا ہے تو لوگ ترحم بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ میں فون خریدتا ہی ایک سال پرانا ہوں، تب تک اس کے پرائس بھی نیچے آچکے ہوتے ہیں تو یہ دیکھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ’’شیخ صاحب اتنا پرانا موبائل۔ ایک سال پُرانے موبائل کے ساتھ آپ زندہ کیسے ہیں؟‘‘
ویسٹرن میڈیا تو ویسٹرن کارپوریشنز کی پروپیگنڈامشن ہے
ویسٹرن میڈیا نے تو وہی کہتا ہے جو ان ممالک کو سپورٹ کرتا ہے۔ انھیں کیا لینا دینا ہے آپ سے، یا آپ کے مسائل سے یا ضرورتوں سے۔ یہ کام تو مسلمانوں کے میڈیا کا ہے کہ اصل تصویر دیکھیں۔ جب وہ اپنے ممالک دکھاتے ہیں تو آپ کو وہ کروڑوں لوگ نہیں دکھائے جاتے جو بے گھر ہیں اور فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور کوڑے سے کھاتے ہیں۔

وہ آپ کے وہ ادارے نہیں دکھاتے جہاں لنگر سینکڑوں سالوں سے چل رہا ہے۔اصل ذمہ داری تو ہمارے میڈیا کی ہے کہ وہ یہ بھی دکھائے کہ ہمارے ہاں غریب سے غریب آدمی بھی صدقہ کرتا ہے۔ مغرب والے تو اپنے ماں باپ پر خرچ نہیں کرتے۔ یہ بات آپ کو کوئی بتائے گا نہیں۔ ان کی دفعہ دکھائیں گے Manhattan, Dawnton۔ کیفلیفورنیا کے مہنگے مہنگے محلے۔ اور ہماری دفعہ مصری شاہ دکھائیں گے کہ یہ پاکستان دیکھو کہ چھوٹی چھوٹی سڑکیں ہیں، ہمارا اصل حصہ تو دکھائیں گے نہیں۔ وہ ان چھوٹی گلیوں کے حوالے سے یہ نہیں دکھائیں گے کہ کون سارا دن نوکری کرنے کے بعد اپنی ماں کو اُٹھا کر رات کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے، پوری رات اُس کے سرہانے جاگتا ہے اور صبح پھر کام پر نکل جاتا ہے۔

یہ سٹوریز میڈیا کیوں نہیں دکھاتا؟ صرف یہ یہی کیوں دکھاتا ہے کہ فلاں نے ماں کو گھر سے نکال دیا۔ فلاں کا باپ بیمار تھا۔ فلاں بچے کے ساتھ یہ ہوگیا، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسائل موجود ہیں لیکن صرف Negativity کو دکھانا اپنا منصب بنا لیا گیا ہے تو کیا کرسکتے ہیں۔

The post ماضی میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے تھے‘ خواہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں، شیخ جہانگیر محمود appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

کورونا وائرس: ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔۔۔!‘‘

خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م

’’کورونا وائرس‘ سے زیادہ اسکولوں کی ’’چُھٹی کَروناں‘‘ وائرس ہمیں برباد کر رہا ہے۔‘‘

ثمر بھائی حسب عادت صوفے پر بیٹھنے سے پہلے ہی بولنا شروع ہوگئے۔ ’’ہماری حالت تو یہ ہے کہ کورونا‘ کا انکشاف ہوا تو قوم اس پر لڑتی رہی کہ یہ فلاں ملک سے کیوں آیا اور فلاں ملک سے کیوں نہیں آیا۔۔۔!‘‘ ثمر بھائی نے اپنی روایتی تنقید کا ایک دفتر کھول لیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یار لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ ہر طرح کے اجتماع پر پابندی ہونا چاہیے، یہ ٹھیک ہے کہ بچوں میں بے احتیاطی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ابتداً اسکول وغیرہ بند کرنا سمجھ میں آتا تھا، لیکن اب اللہ کا نام لے کر اسکول کھول دینے چاہئیں۔ اگرچہ کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ سب بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں ہی تشخیص ہوا ہے اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ یہ مرض یہاں دوسروں میں نہیں پھیلا اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ ’کورونا‘ کے پہلے مریض صحت یاب ہو کر گھر بھیجے جا چکے ہیں۔

ثمر بھائی نے تو اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالتے کے ساتھ ہی چائے کا آخری گھونٹ بھر کر پیالی دھری اور چلتے بنے اور ہم دوبارہ اخبار پر نگاہیں جما کر بیٹھ گئے، جس میں ’کورونا وائرس‘ کی احتیاطی تدابیر لکھی تھیں، کہ:

ہاتھ اچھی طرح دھوئیں… لوگوں سے فاصلہ رکھیں… گلے نہ ملیں… مصافحہ نہ کریں اور منہ ڈھانپ کر رکھیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ ساری تجاویز ہم جیسے ’’غیر سماجی‘‘ معاشرے کے لیے کتنی لایعنی ہیں۔۔۔ دیکھیے ناں، ہم اپنی فکری آزادی، سُکھ، چین، استحکام اور امن وامان سمیت نہ جانے کتنی چیزوں سے ہاتھ پہلے ہی دھو چکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ رفع حاجت کے بعد اتنے خوش ہوتے ہیں کہ نہیں چاہتے کہ اس عمل سے ان کے ہاتھ پر ’نادیدہ‘ جو کچھ لگا ہے وہ اتنے جلدی چھُوٹ جائے، اور انہیں ’اِس‘ سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ اس لیے وہ بیت الخلا سے بنا ہاتھ دھوئے ایسے ہنستے گاتے ہوئے نکلتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو ایسے ہاتھ دھوتے ہیں یاتھ پر صابن ملتے ہوئے نل ہی بند کرنا بھولے جاتے ہیں۔۔۔ گویا ہاتھ نہ دھونے والوں کا پانی ضایع کرنا بھی انہی کا ذمہ ہوتا ہے۔۔۔۔ رہی بات ہاتھ دھو کر پیچھے پڑنے کی تو ان گنت لایعنی باتوں پر ہمارا یہ رویہ اب ہمارا تشخص بن چکا ہے۔

دوسری احتیاط ’لوگوں سے فاصلہ رکھیں‘ پر بھی ہم پہلے سے عمل پیرا ہیں۔۔۔ اللہ گواہ ہے کہ بنا کسی ضرورت یا کام کے ہم کسی کو اپنے قریب ہی نہیں آنے دیتے۔۔۔ اب بس یہ کرنا ہوگا، ہم اپنے سے ’بڑے لوگ‘ جن سے ہم فاصلہ گھٹانا چاہتے ہیں، کچھ احتیاط کر لیں گے۔۔۔ اور چھوٹے لوگوں کی کیا مجال ہے کہ خواب وخیال میں بھی ہمارے قریب پھٹکیں!

’گلے نہ ملیں‘ والی احتیاط کو یہ لکھنا چاہیے تھا کہ ’اپنوں کا گلا دبانے کے لیے گلے ملنے کے بہ جائے ’متبادل‘ طریقے ڈھونڈیے، تاوقتے کہ ’کورونا وائرس‘ کا خوف چَھٹ جائے۔‘ اس کے ذیل میں یا اسی کے آگے قوسین میں یہ لکھنا بھی مناسب رہتا کہ ’کسی کے گلے نہ پڑیے!‘ یہ عادت تو واقعی کورونا کا خطرہ نہ ہو، تب بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔

’مصافحہ نہ کریں!‘ یہ وہ احتیاط ہے جسے لکھنے والے نے اس لیے ضروری سمجھا کہ اگر لوگوں سے فاصلہ رکھنے سے باز نہ رہ سکے، تو کم سے اُن سے ہاتھ ملانے سے تو دور رہو!، جیسے گذشتہ دنوں برلن میں جرمن وزیرخارجہ ہورشت زیہوفر نے اپنے ملک کی چانسلر انجیلا مرکل سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا کہ ’کہیں کورونا نہ ہو جائے!‘ اور پھر یہ تصویر اگلے روز اخبارات کی زینت بنی۔ اپنے ہاں کے احمد فراز تو پہلے ہی شاعری شاعری میں یہ نکتے کی بات کہہ گئے تھے کہ ’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔۔۔!‘ ان ’جرمنوں‘ کو اب جا کے یہ بات سمجھ میں آئی ہے۔۔۔!

رہی بات منہ ڈھانپنے کی تو بہت سے پیسے کھانے والے لوگ منہ چھپائے پھرتے ہیں، گویا انہیں بھی پتا ہوتا ہے کہ وہ اب سماج میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ البتہ ’کورونا‘ وائرس سے حفاظت کی ایک اور تازہ احتیاط یہ سامنے آئی ہے کہ ہر شخص دوسرے سے کم سے کم ایک میٹر کا فاصلہ ضرور رکھے۔۔۔ لیکن وہ جو کراچی جیسے گنجان شہر میں ایک ایک کمرے کے گھر میں سات، سات افراد رہتے ہیں، وہ ’فاصلے‘ بڑھانے پر آئے تو گھر میں تو صرف دو تین بندے ہی رہ سکیں گے، ویسے ہی ’عدالتی کدال‘ سے کراچی میں ’تجاوزات‘ اور ’غیرقانونی‘ کے نام پر گھروں کی ’’توڑ پھوڑ کرونا‘‘ وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وائرس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عام آدمی کو گھروں سے نکال نکال کر سڑک پر لا رہا ہے۔۔۔ جب کہ یہ تعمیرات کرنے والے اؒصل ’تخریب کار‘ (المعروف معمار)، رشوت خور سرکاری افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں کے بھتا خوروں کی طرف تو دیکھتا بھی نہیں۔۔۔ بلکہ ایک آنکھ میچ کے ’خلق خدا‘ کی بے بسی اور رسوائی سے لطف لیتا ہے!

سرکاری طور پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ’ڈینگی‘ بخار کے لیے زیادہ تر ہم سردیوں کی آمد کا انتظار کیا کرتے تھے کہ ڈینگی پھیلانے والا مچھر ’’خود‘‘ ہی ٹھنڈ سے مر جائے گا۔ ایسے ہی ’کورونا‘ سے بھی یہ امید لگائی جا رہی ہے کہ اس کا وائرس ہمارے دیش کی پگھلا دینے والی گرمی کی تاب نہ لاسکے گا اور پھر ہم خم ٹھونک کر کہیں گے دیکھا۔۔۔ کیسے بھگایا! اللہ کرے بالکل ایسا ہی ہو اور ہمارے شہر اور ملک سمیت پوری دنیا کو جلد ہی سے اس موذی وبا سے نجات مل جائے۔

۔۔۔

آدمی سے ڈرتے ہو؟ آدمی تو تم بھی ہو۔۔۔
محمد علم اللہ، نئی دلّی

شہر میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے تھے، چار دن تک بلوہ ہوتا رہا۔۔۔ درجنوں لوگ جان سے گئے، بیسیوں لاپتا اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اب قدرے سکون تھا، مگر ہر نفس دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا، بالخصوص ’اجنبی‘ کو کڑی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ فضا میں زہر اتنا گھول دیا گیا تھا کہ آدمی کو اپنے سائے سے بھی خوف محسوس ہوتا۔

انہی حالات میں ایک رات میرا دوست بیمار پڑگیا، میرے پاس اس کے گھر سے فون آیا کہ اسپتال پہنچیے، جلدی جلدی پہنچا، تو معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا اور کوئی پریشانی والی بات نہیں، اور اسے معمولی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ اب رات کافی ہو چکی تھی، نصف رات تک کھلی رہنے والی دکانیں بھی بند ہو چکی تھیں۔۔۔

جاتی ہوئی سردی کی خنک ہوا میں قریبی پیڑوں کے پتوں کی سرسراہٹ بتا رہی تھی کہ شہر اس وقت کس قدر سکوت میں ہے۔ کہیں دور سے کچھ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ماحول کی پراسراریت بڑھا رہی تھیں، اسپتال میں آنے والے کسی مریض کی گاڑی کی آواز کبھی اس سناٹے میں نقب لگاتی، تو کبھی برق رفتاری سے ’زووں‘ کر کے کوئی گاڑی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں جاتی، پھر وہی سناٹا راج کرتا۔۔۔ اگر یہ عام ماحول کی کوئی رات ہوتی تو شاید یہ خاموشی اتنی محسوس بھی نہ ہوتی، لیکن اب ماحول اور تھا، سچی بات ہے کہ اس خالی سڑک پر اکیلا میں بہت خوف زدہ تھا، کیوں کہ کوئی رکشے والا جانے کی ہامی بھی نہ بھرتا تھا، میں منہ مانگا کرایہ دینے کی بات کر کے انہیں منانے کی کوشش کرتا، مگر بے سود۔

میں ابھی پیدل ہی نکلنے کا سوچ رہا تھا کہ ایک دم سامنے ایک سیاہ گاڑی آ کر رکی۔

’’کہاں جائیے گا؟‘‘ اس نے شیشہ نیچے کر کے مجھ سے پوچھا، تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اُسے اپنا پتا بتا دیا۔ شاید خوف ایسا تھا کہ میں جلدی میں یہ فیصلہ ہی نہ کرپایا کہ اسے پتا بتاؤں بھی یا نہیں۔

’’بیٹھ جائیے۔۔۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہتے ہوئے میرے لیے پچھلا دروازے کا لاک کھول دیا۔

کہنے کو میں گاڑی میں بیٹھ گیا تھا، لیکن ذہن میں عجیب وغریب واہمے اور ہول اٹھنے لگے کہ نہ جانے یہ مجھے کہاں لے جائے۔۔۔ دفعتاً میرے ذہن میں بلوے کے دوران اغوا ہونے والوں کے قصے گردش کرنے لگے۔۔۔ مارے خوف کے میرا حلق خشک ہو گیا۔ اگر اس نے کچھ بد معاشی کی تو میں کس طرح اپنا بچاؤ کر سکتا ہوں؟ اس نے اگر گاڑی کسی اجنبی راستے کی طرف موڑی، تو میں چلتی گاڑی سے کس طرح اتر سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

’’جناب! شاید آپ کو یہیں اترنا تھا۔‘‘ اس نے ’عقبی شیشے‘ سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تو میں ہڑبڑا گیا۔

میں نے سوچا حالات اچھے نہیں ہیں، میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ اترتے ہوئے میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنا نام بتایا سنتوش اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’میں سعد!‘ مصافحہ کرتے ہوئے اس نے گاڑی کی بتی جلائی، تو میں نے دیکھا کہ ونڈ اسکرین کے اندرونی حصے پر ’اوم‘ لکھا ہوا تھا۔

۔۔۔

کراچی کی ایک گلی کامنظر!

سلیمان شاہ

شہر کی ایک مصروف کاروباری گلی۔ چارہا جانب دکانیں۔ دکانوں سے نکلتا، حدود سے تجاوز کرتا سامان تجارت۔ قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ ایک گدھا گاڑی بیچ گلی میں سامان سے لدی راستہ دیکھنے کی تگ و دو میں۔

ایک رکشے والا جانے کہاں سے نکل کر آ کھڑا ہوا تھا۔ ایک بوڑھا ہتھ گاڑی لیے تھکا تھکا سا نظر آیا۔ گدھا گاڑی والا رکشے والے کو کوس رہا تھا۔ رکشے والا دکان داروں کو قابض قرار دے رہا تھا۔ بوڑھا حکومتی مشینری کو موردِ الزام ٹھیرا رہا تھا۔

پیدل چلنے والے اس انتظار میں کہ کب راستہ بنے اور وہ چلتے بنیں۔ دکان داد بے نیاز ہوکر گاہکوں سے بھاؤ تاؤ میں مصروف تھے۔ ایسے میں ایک پستہ قامت آدمی بھاگتا ہوا آیا اور چیخا

’’کے ایم سے افسران آرہے ہیں۔۔۔‘‘

دکان داروں نے گھبرا کر گاہکوں کو چھوڑا اور سامان اندر کرنے لگے۔ کچھ ’سیل مین‘ مالکوں سے ڈانٹ سنتے ہوئے اَدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ رکشے ولا بھی جانے کہاں غائب ہوگیا۔ گدھا گاڑی عقبی گلی میں مڑتی ہوئی نظر آئی۔

بوڑھا ہتھ گاڑی لیے خراماں خراماں فٹ پاتھ کے ساتھ چلنے لگا۔ پیدل چلنے والے شکر ادا کرنے لگے۔ چند لمحوں میں تنگ گلی دور تک وسیع اور کشادہ نظر آنے لگی۔ ’کے ایم سی‘ افسران نے اپنے کارکردگی پر گلی میں فوٹو کھینچوائے اور گاڑیوں میں چلتے بنے۔

گلی آہستہ آہستہ پھر تنگ ہونے لگی!

۔۔۔

علی گڑھ والی پھپھو۔۔۔
سہیل اختر

وہ ہمارے بچپن میں گھر آئیں، اور ’رقیہ پھپھو‘ کہلائیں، وہ اب ’علی گڑھ‘ کی یادیں سمیٹتے سمیٹتے ایک بڑی عمر کی خاتون میں ڈھل چکی ہیں۔ سارا گھر سنبھالا ہوا ہے۔ ناشتے، کھانے سے لے کر سبکی آمدورفت اور ان کے جملہ مسائل اور سرگرمیوں تک انہیں سب خبر ہوتی۔ رسم و رواج کی بات ہو یا بیاہ شادی کی ’رقیہ پھپھو‘ تو یہاں بھی پیش پیش۔ رقیہ پھپھو کے بارے میں میں جو بھی معلومات ہیں، وہ سنی سنائی ہیں اور بس۔ جب رقیہ پھپھو آئی تھیں، تو ان کے شوہر بھی ساتھ تھے، تب رقیہ 18،  20سال کی ہوں گی۔ اللہ بخشے، امیّ نے نجانے اسے کہاں سے ڈھونڈ لیا؟ تب سے وہ اور اس کا شوہر ہمارے ہاں ملازم ہوگئے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب رقیہ کا میاں گزرا، تو میں گلی میں کھیل رہا تھا، یہ بات ہمارے گھر میں ان کے آنے کے دس ایک برس کے بعد کی ہے۔ امی کا رقیہ کا ساتھ ایسا بیٹھا کہ پھر کبھی نہ چھُوٹا، برسوں پہلے امی گزر گئیں، میری شادی ہوئی، بچے ہوگئے، مگر رقیہ موجود رہیں، ہاں اتنا ہوا رقیہ، رقیہ نہ رہی سب کی رقیہ پھپھو بن گئیں۔ شخصیت میں وقار آگیا، میرے بچے بیاہ کر ملک سے باہر بس گئے، تو پورا گھر رقیہ پھپھو کے سپرد ہوگیا۔

ایک دفعہ یوں ہوا کسی محفل میں میں کہہ بیٹھا یہ ہماری پھپھو نہیں، بلکہ مارے ہاں کام کرتی ہیں! ارے بس پھر نہ پوچھیے، کیا ہوا۔۔۔ رو رو کر رقیہ پھپھو نے آنکھیں سُجالیں، امی جان سے بار بار دہائی دیتیں، دیکھیے بی جان! چھوٹے میاں صاحب نے کیا کر دیا، بہ مشکل معاملہ رفع دفع کرایا گیا۔ رقیہ پھپھو آج بھی ہمارے گھر کی رونق ہیں۔ ہم بھی ان کی قدر کرتے ہیں اور وہ بھی ہمارا دَم بھرتی ہیں۔۔۔ خون کا رشتہ نہ ہو کر بھی یہ رشتہ کتنا اَن مول ہے، سب سے بڑھ کر ہم اُن کے زیر سایہ ان کی قدر ومنزلت سے واقف ہیں، لیکن ہم اکثر رشتے کھو دینے کے بعد قدر کرتے ہیں، جس کا پھر کوئی فائدہ نہیں رہتا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


صاحب اُمید سے ہیں

$
0
0

جس طرح ایک ٹھنڈے مشروب کے اشتہار میں شکوہ کیا جاتا ہے، کس نے کہا تھا پانچ روپے کم کردو، اسی طرح ہمارا دل چاہ رہا ہے کہ سائنس سے کہیں، کس نے کہا تھا اتنی ترقی کرنے کو۔ بھلا بتائیے سائنس داں کہہ رہے ہیں کہ اب مرد بھی بچے جنم دے سکیں گے۔

جب سے اس کرۂ ارض پر انسان نے جنم لیا ہے مرد عورت میں سالن سے سوتن تک ہر معاملے میں اختلافات رہے ہیں، لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ بے بی کو بی بی ہی جنم دیں گی۔ اب سائنس دانوں نے یہ نیا کھڑاگ کھڑا کردیا۔ بھئی مردوں کے لیے پہلے ہی کم جھمیلے ہیں کہ انھیں ولادت کی ذمے داری بھی دی جارہی ہے۔

امریکن سوسائٹی فار ری پروڈیکٹیو میڈیسنز کے صدر ڈاکٹر رچرڈ پاؤلسن نے مردوں پر بجلی گراتے ہوئے کہا ہے کہ اب مردوں کے جسم میں بھی ’’رحم‘‘ کی پیوند کاری کی جاسکے گی، جس کے بعد زچہ خانوں میں خواتین کے شانہ بہ شانہ حضرات بھی چمن میں دیدہ ور، نورنظر اور لخت جگر کے گُل کھلا رہے ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے مردوں کے صاحب رحم ہونے کی بات کتنی بے رحمی سے کردی۔ اگر یہ تیکنیک دریافت ہو ہی گئی تھی تو مرد برادری کے مفاد میں اسے چھپائے رکھتے، آخر بھائی چارہ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، بھائی بندی بھی کسی شئے کا نام ہے، مگر انھوں نے تو بھائیوں کی ذرا فکر نہ کی اور بندیوں کو خوش کردیا۔ یہ کیا کہ بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ انکشاف کرکے دو باتیں ثابت کردیں، ایک، عورتیں تو خوامخواہ بدنام ہیں، درحقیقت ہم مردوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی، اور دوسری، جب مردوں کے پیٹ میں کوئی بات کوئی راز نہیں رہ سکتا تو مُنا یا مُنی کیسے ٹکیں گے۔

اب یہ انکشاف مردوں کے مستقبل پر افسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے کہہ رہا ہے:

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

ہمارے خیال میں ڈاکٹر صاحب خواتین کے اس پروپیگنڈے میں آگئے کہ ’’ائے یہ موئے مرد بڑے بے رحم ہوئے ہیں۔‘‘ بھیا! انھوں نے اس رحم کی بات تھوڑی کی تھی جو آپ مردوں میں ’’نصب‘‘ کرنے چلے ہیں۔ اگر اس شکوے کا ازالہ کرنا تھا تو کوئی ایسی دوا بناتے جس کی ایک خوراک سنگ دل افراد کو رحم دل بنادے، مگر ایسی دوا ایجاد کردی جائے تو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو وہ ڈاکٹر کیسے ملیں گے جو تحفے تحائف اور مراعات کے عوض مریض کو جان لیوا دوا لکھنے سے بھی نہیں چوکتے، پھر ایسے سفاک لوگ کیسے دست یاب ہوں گے جو ادویہ بیچنے کے لیے مختلف طریقوں سے امراض جنم دیتے اور پھیلاتے ہیں، بڑی طاقتوں کے مقتدر صاحبان نے دل کو ہاتھوں مجبور ہوکر جنگ بازی سے باز آگئے تو اسلحہ سازوں کے دھندے کا کیا بنے گا۔ چناں چہ ایسی کسی دوا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس سے سرمایہ داروں، زورآوروں اور زرگروں کے مفادات مارے جائیں۔

سائنس داں اور محققین جو کرنے چلے ہیں اس سے مرد صاحب رحم ہونے کے ساتھ قابل رحم بھی ہوجائیں گے۔ پہلے بچے کے بعد بیویوں کی فرمائش نما ہدایت ہوگی، ’’اب آپ کی باری ہے۔‘‘ ہر حاملہ اپنی تکلیف کا معاملہ بھول کر شوہر سے یہ کہتی نظر آئے گی،’’پیٹ‘‘ سے کس کو رستگاری ہے آج ’’میں‘‘ کل تمھاری باری ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ’’باری‘‘ آئے گی تو کیا ہوگا؟ عجیب مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ صاحب دفتر جانے کے لیے سیڑھیاں اُتر رہے ہیں، بیگم اچانک گھبرا کر کہتی ہیں، ’’ارے ذرا سنبھل کے آپ کا چوتھا مہینہ چل رہا ہے۔‘‘ صاحب کی ساس بیٹی کو فون کرکے داماد کے بارے میں ہدایت کریں گی، ’’بٹیا! آج چاندگرہن ہے، میاں کو کُھلے آسمان کے نیچے مت جانے دیجیو۔‘‘ شوہر دفتر سے آنے والی بیوی دیکھ کر شرمائیں گے، لجائیں گے، پھر پوچھنے پر اٹھلا کر بتائیں گے ’’آپ موم بننے والی ہیں‘‘ اور بتاتے ہی منہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے دوسرے کمرے کی طرف دوڑ جائیں گے۔

مردوں کی محفلوں میں کرکٹ، عورت اور سیاست کے بہ جائے ولادت سے جُڑے تذکرے ہوں گے، اور اس طرح کی گفتگو ہوا کرے گی:’’یار! اچھا اچار کہاں سے ملے گا؟‘‘،’’تم ان دنوں شریفہ کھایا کرو، اس سے شریف اولاد جنم دو گے، آزمایا ہوا ٹوٹکا ہے۔‘‘، ’’بابوبھائی! نر پھل کھایا کرو، جیسے خربوزہ، بس پھر سمجھو لونڈا پکا ہے، اگر لڑکا نہ ہو تو مونچھیں کٹوا لوں گا قسم اللہ پاک کی۔‘‘

بھاری پاؤں والے مردوں کو عورتوں کی طرح حاملہ کہنا شیوۂ مردانگی کے خلاف ہوگا، ان کے لیے ’’حامل‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا مناسب رہے گا۔ یعنی ’’حامل رقعہ ہٰذا‘‘ کی طرح ’’حامل بچہ ہٰذا‘‘ کہا جائے گا۔ گائناکولوجسٹ کو اس طرح کے پیغامات ملیں گے،’’حامل بچہ ہٰذا میرے دوست ہیں، اس ’زچے‘ اور بچے کا پورا خیال رکھا جائے۔‘‘

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سڑکوں اور رکشوں پر ولادتیں ہوجاتی ہیں، مردوں کے لیے الگ زچہ خانے بنانے کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے منشور میں مردانہ زچہ خانے بنانے کا وعدہ بھی شامل کرنا پڑے گا۔ پھر انتخابات میں اختیار سب کے لیے کی طرح ’’زچہ خانہ سب کے لیے‘‘ جیسے نعرے سامنے آئیں گے۔

بریکنگ نیوز کے جنون میں مبتلا الیکٹرانک میڈیا سے کچھ اس نوعیت کی خبر دیتی ’’چیخیں‘‘ بلند ہوا کریں گی،’’مولانا فضل الرحمٰن جلسے کے دوران اچانک ماں بن گئے۔ کسی کو پتا ہی نہ چل سکا وہ پیٹ سے ہیں۔‘‘،’’نوازشریف کے ہاں چاند سے بیٹے کی ولادت، ’زچے‘ نے ہوش میں آتے ہی پوچھا کیوں نکالا۔‘‘،’’عمران خان نے کم زور بچہ جنم دیا، دائی بتولن پر دھاندلی کا الزام۔‘‘،’’بلاول زرداری حامل ہوگئے یاد رہے کہ انھوں نے کچھ دنوں پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ جان مانگو گے جان دیں گے، سر مانگو گے سر دیں گے لیکن قوم نے ان سے بچے کی فرمائش کی تھی۔‘‘،’’سراج الحق امید سے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی بچے کا نام انقلاب ہوگا، یوں وہ انقلاب لانے کا وعدہ پورا کردیں گے۔ فاروق ستار ماں بن گئے نرس سے کہا گیا بچہ کو صاف کر لاؤ، وہ اسے مصطفیٰ کمال کے حوالے کر آئی۔‘‘

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک طرف دنیا بھر میں آبادی بڑھنے کا شور ہے اور منصوبہ بندی کی دھوم مچی ہے، دوسری طرف بندوں سے بھی بچے جنوانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اب یا تو یہ ہوگا کہ لکھنوی مزاج جوڑے ’’پہلے آپ، پہلے آپ‘‘ کرتے بوڑھے ہوجائیں گے اور ’’میرے دو، تو تمھارے بھی دو‘‘ کی تریا ہٹ بالکوں کی تعداد بڑھاتی رہے گی۔ اب جو بھی ہو، مردوں کو چاہیے کہ تیاری کرلیں، اب تک تو ذمے داریوں کے بوجھ سے ان کے کندھے اور بیوی کی باتوں سے سر بھاری ہوتا تھا، جلد ان کا پاؤں بھی بھاری ہوا کرے گا۔

The post صاحب اُمید سے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

 روزہ افطار کرنا
احسان اللہ شان،لاہور

خواب : میں نے کچھ دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوں اور میرے باس کے کوئی ملاقاتی آتے ہیں جو ان کے مصروف ہونے کی بنا پہ میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ میں بھی خواب میں کام کرنے کی بجائے ان سے باتیں کر رہا ہوتا ہوں پھر اذان کی آواز آتی ہے تو وہ کچھ سامان خور ونوش نکالتے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ روزہ افطار کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور میں ان کے ساتھ روزہ افطار کرنے لگ جاتا ہوں۔ باقی مجھے کچھ یاد تو نہیں مگر یہ خواب عجیب لگا کیونکہ ہمارے آفس کے اوقات اتنے نہیں ہیں کہ ہم افطار تک ادھر رہیں۔ برائے کرم اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

بارش سے کمرے کی چھت گرنا
رقیہ مقصود، اسلام آباد

خواب : میں نے دیکھا کہ کافی بارش ہو رہی ہے اور ہم اپنے گھر کے اندر کمروں میں پریشان بیٹھے ہیں۔ بارش کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ ہم اس خوف میں ہوتے ہیں کہ کہیں پانی اندر نہ آ جائے۔ اسی دوران ہماری چھت سے بھی پانی ٹپکنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی بات کو لے کہ ابھی پریشانی کے عالم میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ ایک خوفناک دھماکے کی آواز آتی ہے اور ہمارے ساتھ والے کمرے کی چھت گر جاتی ہے۔ ہم سب چیخیں مارتے ہوئے ادھر سے باہر نکلتے ہیں۔ اسی کے ساتھ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

 نکاح نامہ پر دستخط کرنا
نادیہ محمود، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میری دوست کی شادی ہے اور ہمارے کالج کی تمام دوستیں وہاں موجود ہیں۔ ہم سب بہت خوشی سے ڈھولک بجاتے ہوئے گانے گا رہے ہیں۔ پھر نکاح کے لئے لوگ اندر آتے ہیں اور ہم سب بھی ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر میں دیکھتی ہوں کہ نکاح خواں میرے ابو اور ماموں کے ساتھ میری طرف آتے ہیں اور مجھ سے نکاح کا پوچھتے ہیں ، پھر میں خوشی خوشی سائن کر دیتی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ ہر طرف میرے ہی رشتے دار ہوتے ہیں۔

تعبیر: اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نا کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بیماری یا تعلیمی سلسے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں۔

کشتی کی سیر
سعدیہ خرم غنی، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے میاں کے ساتھ کہیں گھومنے گئی ہوئی ہوں۔ وہاں بہت سے لوگ کشتی کی سیر کر رہے ہیں ، مجھے پانی سے بہت خوف آتا ہے مگر میرے میاں کہتے ہیں کہ آؤ ہم بھی اس میں بیٹھتے ہیں ۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ میرا بھی ٹکٹ لے لیتے ہیں جس پہ میں ان سے ناراض بھی ہوتی ہوں مگر وہ سنتے نہیں اور زبردستی مجھے کشتی میں بٹھا دیتے ہیں۔ میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہوں۔ پانی بھی کافی مٹیالہ اور کچھ کچھ کیچڑ جیسا لگ رہا ہوتا ہے۔ اور میں یھی سوچ رہی ہوتی ہوں کہ اتنا دلدلی پانی ہے یہ کشتی آگے نہیں جائے گی بلکہ یہیں پھنس جائے گی۔ مجھے یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے میرا سانس بند ہو جائے گا ۔

تعبیر: خواب مختلف عادات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں تا کہ آپ خود میں تبدیلی لے کر آئیں۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا دماغ بہت زیادہ دنیا داری میں لگا ہوا ہے۔ اور زیادہ تر وقت پیسوں اور دنیا کے متعلق سوچتے ہوئے گزرتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس دنیا داری سے ذہن سے نکال کر اللہ کی طرف دھیان لگائیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔ رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

شوہر کی ناراضگی
غوثیہ علی، گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میری نند کی شادی ہے اور میرے میاں نے اس کے شادی کے جوڑے کی ادائیگی کے لئے مجھے پیسے دیئے ہیں جو کہ میرا ذ اتی خیال ہوتا ہے کہ میرے پرس میں تھے اور پرس میں نے نند کو گھر سے نکلنے سے پہلے ہی دے دیا تھا ۔ جب ہم سوٹ لینے گئے تو ادائیگی کے وقت میں اپنی نند سے کہتی ہوں کہ تم پیسے دو، تو وہ کہتی ہے کہ میرے پاس تو کوئی پیسے نہیں ۔ یہ سن کر میں بہت پریشان ہوتی ہوں۔ مگر میری نند کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتی کہ میں ان کو پیسے دے چکی ہوں پھر میرے میاں وہیں مجھے سب کے سامنے برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 81

فقیر آپ کو جیون میلے کی رُوداد سُنا رہا ہے۔ جیون میلے کے ایک شریک تو آپ خود بھی ہیں! جی آپ خود بھی۔ جی جناب! جو جی رہا ہے وہ جیون میلے میں شریک ہے، چاہے وہ ایسا نہ سمجھ رہا ہو۔ دیکھا ہے کبھی آپ نے میلہ! فقیر ادبی میلے کی نہیں گاؤں کے میلے کی بات کر رہا ہے جی! کیا فرمایا آپ نے، نہیں دیکھا تو صاحبو! پھر آپ نے کیا دیکھا ۔۔۔۔۔۔ ! دیکھیے کیا یاد آیا

جو جاگتا نظر آتا ہے وہ بھی نیند میں ہے

جو سو رہا ہے، ابھی اور جاگ سکتا ہے

تو جاگیے جناب، سانسوں کی آمد و رفت جاری رہی تو فقیر آپ کو گاؤں کے میلے کی تصویریں دکھائے گا۔ تو ہم جیون کتھائیں سُن رہے تھے ناں تو یہ بھی ایک تصویر ہے۔ دیکھیے اسے بھی اور آنکھیں کھولیے اور اپنے اردگرد دیکھیے۔ اپنے خول میں بند ہوکر جینا، جینا نہیں خودغرضی ہے۔ کسی کے دُکھ پر آپ کی چشم نم نہیں تو کیسی آنکھ! بنجر آنکھ بھی کوئی آنکھ ہوتی ہے بھلا۔

دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ چا ہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، مذہب و ملت اور قوم قبیلے سے ہوں۔ فقیر کا تو یہی تجربہ ہے، آپ کا نہیں جانتا۔ وہ بھی ایسی ہی ہیں، بس ایک ماں۔ شفیق، مہرباں اور ہم درد۔ ہر ایک لیے چشم بہ راہ اور سب کی فلاح سوچنے والی، انتہائی متحرک، سچ کو اپنا راستہ بنانے اور عزم، حوصلے اور ہمت سے اس راہ کی مسافر۔ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا، ہاں کوئی بھی۔ مُسکرا کر بات کرنے، اور لوگوں کے دُکھ درد توجّہ سے سن کر بے چین ہوجانے والی اور انہیں دلاسا دیتی ہوئی ماں۔ ہر ماں ایسی ہی ہوتی ہے، کہ خدا نے اپنی تخلیق کو دنیا میں لانے کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔ اسی لیے خدا نے جنّت کو ماں کے قدموں تلے بچھایا ہے۔ کتنا کرب، دکھ اور درد سہہ کر وہ خلق خدا کو پالتی پوستی اور راتیں جاگ کر انہیں راحت و سکون پہنچاتی ہے۔ ماں کا دل خدا کا عظیم تحفہ ہے جو سب کے لیے دھڑکتا ہے۔ اس کی دعائیں مقبولیت کی سند لیے ہوئی ہیں۔

مسز ولیم بھی ایک ایسی ہی ماں ہیں۔ ہمت، حوصلے، لگن اور جہد مسلسل کی داستان۔ فقیر کا ان سے عجیب رشتہ ہے، جی! سر راہ روک لیتی ہیں فقیر کو اور جو من میں آئے سُنا ڈالتی ہیں اور سچ یہ بھی ہے کہ فقیر کی ناروا بھی سن لیتی ہیں لیکن کبھی بدمزہ نہیں ہوتیں، عجیب ہیں وہ۔ تو چلیے ان ہی سے سنتے ہیں ناں ان کی جیون کتھا۔

میرا نام الزبتھ میری ہے۔ میں 1950 میں میاں چنوں میں پیدا ہوئی۔ میرے والد ایک زمین دار کے بیٹے تھے، لیکن انہوں نے اپنا پیشہ بدل لیا۔ دراصل انہیں عمارتیں بنانے کا جوانی ہی سے شوق تھا پھر یہی شوق ان کا کاروبار بن گیا اور وہ عمارت کار بن گئے۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا اور وہ تقسیم کے وقت پاکستان چلے آئے تھے۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں نے ہجرت کی تھی، بہت سے مسیحی بھی ترکِ وطن کرکے پاکستان آگئے تھے، بل کہ تحریک پاکستان میں مسیحیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ میرا بچپن میاںچنوں میں گزرا۔ میرے والد چوں کہ عمارتیں بناتے تھے تو انہیں مختلف علاقوں میں کام ملتا رہتا تھا۔ اس دوران انہیں میرپورخاص میں کام مل گیا تو ہم میرپورخاص چلے گئے اور مجھے سینٹ میری اسکول میں داخل کرادیا گیا، جہاں سے میں نے پانچویں جماعت پاس کی، اسی دوران والد صاحب کا کام مکمل ہوگیا تھا اور انہیں ملتان میں کام مل گیا، تو ہم ملتان چلے گئے۔ سینٹ میری اسکول کی اک شاخ ملتان میں بھی تھی، تو مجھے وہاں داخلہ بہت آسانی سے مل گیا۔ میں نے میٹرک یہیں سے پاس کیا۔

اس زمانے میں بھی یہی کہتے تھے کہ لڑکیوں سے کون سی ملازمت کرانی ہوتی ہے انہیں بس واجبی سی تعلیم دینی چاہیے۔ حالاں کہ یہ انتہائی غلط تصوّر ہے، جو اب بھی پایا جاتا ہے۔ میٹرک کے بعد مجھے گھر بٹھا لیا گیا۔ اس زمانے میں شادی بیاہ بھی جلد ہو جایا کرتے تھے، تو میرے تایا نے میری لیے رشتہ تلاش کرلیا۔ وہ ہمارے رشتے دار تو نہیں بس تایا کے ساتھ ان کی اچھی جان پہچان تھی۔ 1975 میری شادی مسٹر ولیم بٹ سے ہوگئی جو کیمیکل انجنیئر تھے۔

ولیم بٹ بہت اچھے انسان تھے اور میرا آئیڈیل بھی۔ خداوند نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے نوازا میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ شادی کے بعد ہم کراچی آگئے کہ مسٹر ولیم یہاں کام کرتے تھے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں انہیں کام کے سلسلے میں جانا پڑتا تھا۔ پھر سعودی عرب کی ایک کمپنی میں انہیں کام مل گیا اور ہم ریاض چلے گئے۔ وہاں دو سال کا کنٹریکٹ تھا، جس کے ختم ہونے پر ہم واپس کراچی آگئے۔ بہت اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اچھا وقت جلد ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے انسان کو بُرے وقت کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

میرے شوہر ایک مرتبہ کام کے سلسلے میں حیدرآباد گئے۔ وہ اپنے کام کے لیے باہر جاتے رہتے تھے۔ یہ تو معمول کی بات تھی۔ وہ حیدرآباد سے واپس آئے تو شام کا وقت تھا۔ وہ نہا دھوکر چھت پر چلے گئے، میں کھانا بنانے کے بعد چھت پر گئی تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری ٹانگ میں بہت درد ہو رہا ہے۔ مجھے تشویش ہوئی تو ہم انہیں سرکاری اسپتال لے گئے۔ نصف شب کو ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں فالج ہوگیا ہے۔ مجھے بہت زیادہ پریشانی ہوئی۔ میں سرکاری اسپتال کے علاج سے مطمئن نہیں ہوئی اور انہیں سیونتھ ڈے اسپتال لے آئی اور ان کا بہترین علاج کرایا۔ ہمارے پاس پیسا تھا، زیور تھا، ہمت تھی۔

میں نے اپنے شوہر پر سب کچھ قربان کردیا۔ وہ آہستہ آہستہ تن درست بھی ہوگئے تھے کہ ایک دن انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس وقت میری شادی کو13 سال اور 8 ماہ ہوئے تھے۔ میرا بڑا بیٹا دس سال، چھوٹا سات سال اور بیٹی تین سال کی تھی۔ میرا جیون ساتھی مجھے چھوڑ کر خداوند کے پاس جاچکا تھا۔ ظاہر ہے پھر حالات کا مقابلہ تو مجھے ہی کرنا تھا۔ زندگی کٹھن سفر ہے، میں نے اپنے سسرال والوں سے مشورہ کیا کہ آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میں کام کرنا چاہتی ہوں۔

انہوں نے اجازت دے دی۔ میں اس وقت جوان تھی، ہمارے مذہب میں بھی بیوہ کو شادی کی اجازت ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں دوسری شادی کرتی تو سسرال والے مجھ سے میرے بچے واپس لے سکتے تھے کہ یہ ان کا خون تھا۔ پھر اگر وہ بچے لے جاتے تو وہ جس طرح چاہتے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کرتے میں مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شادی نہیں کروں گی۔ اپنے بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پالوں گی۔ انسان ارادہ کرلے تو خداوند اس کے ارادوں میں برکت عطا فرماتا ہے۔ میں نے خداوند کا نام لے کر کام شروع کیا۔

میں نے ناظم آباد میٹرک بورڈ آفس کے قریب سینٹ جوزف اسکول میں درخواست دی اور مجھے وہاں ایڈمن انچارج کی ملازمت مل گئی۔ میں نے وہاں 23 سال تک کام کیا ہے۔ میں نے ایمان داری، لگن اور محنت کو اپنا ہتھیار بنایا اور کام سے کبھی جی نہیں چُرایا۔ اپنے دو بیٹوں کو میٹرک تک تعلیم دلوائی۔ پھر ان کا پڑھائی کی جانب رجحان نہیں تھا۔ انہوں نے کام سیکھا اور میں نے ان کی شادیاں کرائیں اور اپنا فرض ادا کیا۔ بیٹی نے بی کام کیا ہے اور وہ ملازمت کرتی ہے۔ میں نے آج تک کسی سے بھیک نہیں مانگی، ہاں قرض ضرور لیا ہے اور اسے ادا بھی کیا ہے۔ دیر سویر تو ہوجاتی ہے۔ زندگی میں آپ لاکھ اچھے منصوبے بنائیں کچھ منصوبے اوپر سے طے شدہ ہوتے ہیں۔

میں بیٹوں کی تعلیم اور شادی کراچکی تھی۔ لیکن مجھے اپنی چہیتی بیٹی کی شادی تو کرنی تھی۔ میں نے اس کے لیے کچھ پیسے بھی جمع کیے ہوئے تھے کہ مجھے ہیپاٹائیٹس سی ہوگیا۔ یہ ایک طویل صبرآزما اور منہگا علاج ہے۔ اس طرح مجھے وہ علاج کرانا پڑا اور اس پر تقریباً پانچ لاکھ روپے صرف ہوگئے جو میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رکھے تھے، لیکن خداوند کے فضل سے اب میں بالکل تن درست ہوں، زندگی میں اکثر لوگ مجھے فرشتہ صفت ہی ملے۔

جیسے ہم جس مکان میں رہے ان کے مالکان بہت اچھے تھے، آج بھی میں جس فلیٹ میں رہتی ہوں وہ بہت اچھا فلیٹ ہے، لیکن ہمارے مالک مکان نے مجھے سستا دیا ہے اور میں ان کی ایک پریسٹ کی طرح عزت کرتی ہوں۔ دنیا میں اچھے بُرے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ میں مسیحی ہوں لیکن مجھے ہر مسلم نے اپنا سمجھا ہے اور میں انہیں اپنا سمجھتی ہوں۔ میں نے مرد بن کر زندگی گزاری ہے اور خداوند نے میری حفاظت کی ہے۔ زندگی عجیب واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے آج تک محنت کی ہے۔ حلال کا لقمہ کھایا ہے۔ میں حرام سے خداوند کی پناہ میں ہوں۔

ایک مرتبہ میں گھر آرہی تھی تو چند غنڈوں نے مجھے روک کر کہا، اپنا سب کچھ نکال کردو۔ میں نے کہا بیٹا! یہ ٹوٹا پھوٹا موبائل ہے، اگر تمہیں اس کی ضرورت ہے تو تم رکھ لو۔ انہوں نے کہا اچھا امّاں آپ جائیں۔ ایک مرتبہ میرے بیٹے کرکٹ کھیل رہے تھے وہاں سے ایک مسلم بھائی گزر رہے تھے تو گیند گندے پانی میں گرنے سے ان کے کپڑے ناپاک ہوگئے، وہ میرے گھر آئے اور بہت ناراض ہوئے کہ آپ نے اپنے بچوں کو تمیز نہیں سکھائی۔ وہ ہمارے محلے دار ہی تھے۔ میں نے ان سے کہا آپ گھر جائیے میں ابھی آتی ہوں۔ وہ چلے گئے تو میں نے سرف لیا اور ان کے گھر پہنچ گئی۔ ان سے معذرت کی اور کہا کہ آپ اپنے کپڑے مجھے دیجیے میں انہیں دھوکر دے دیتی ہوں۔

جھک جانا بھی تو عظمت ہے۔ میں نے 25 سال تک ایک اسکول میں کام کیا ہے۔ ہمارا ایک پٹھان چوکی دار تھا۔ رمضان کا مہینا تھا۔ ایک دن میں جانے لگی تو اس نے کہا بہن یہ سو روپے رکھ لیں، اس کا افطار خرید لینا۔ میں نے کہا بھائی! میں تو مسیحی ہوں وہ بہت حیران ہوا اور پھر اس کا معمول تھا کہ وہ مجھے ویگن میں بٹھانے آتا تھا، وہ میرا بھائی بن گیا۔ اچھے بُرے لوگ تو ہوتے ہی ہیں۔ میں ایک محلے میں رہتی تھی۔ وہاں ایک صاحب ہمیں بہت نیچ سمجھتے تھے، حالاں کہ انسان تو سب برابر ہیں۔ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ کالے کو گورے پر اور گورے پر کالے کو کوئی برتری نہیں ہے۔ اگر برتری ہے تو وہ تقویٰ اور پرہیزگاری سے۔ یہ کتنا روشن اصول ہے۔ خیر وہ صاحب، جنھوں نے میرے بچوں کی شکایت کی تھی ایک دن بہت بیمار ہوگئے انہیں انجائنا ہوگیا تھا۔ ایک دن میں انہیں لے کر اسپتال گئی وہاں پر مسیحی نرسیں تھیں، میں نے کہا یہ میرا بھائی ہے اس کی خدمت کرو اور علاج بھی۔ انہوں نے ان کی بہت خدمت کی وہ تن درست ہوگئے۔

پھر انہوں نے مجھ سے معذرت بھی کی۔ دیکھو بیٹا! خدمت سے خدا ملتا ہے کسی کی بُرائی کا جواب اگر آپ برائی سے دیں گے تو برائی پھیلتی ہی جائے گی۔ اس لیے بُرائی کا جواب نیکی ہے۔ ہمارے خداوند کا حکم ہے کہ اگر کوئی تمہیں تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کردو۔ الٰہی مذہب کی تعلیمات بہت روشن ہیں۔

بس ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی مسلم انتقال کر جاتا ہے تو میں وہاں تعزیت کے لیے جاتی ہوں اور وہاں عبادت و دعا بھی کرتی ہوں مجھے تو آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا، بل کہ وہ تو خوش ہوتے ہیں۔ چند ایک وحشی تو ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ مذہب کی آڑ لے کر اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

وہ ہماری اور ہم ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ مذہب تو انسان کو رواداری سکھاتا ہے، جس طرح انسان کا ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اس طرح سماج بھی ہوتا ہے۔ نیکوکاروں کی تعداد بڑھے گی تو سماج بھی اچھا ہوگا۔ ہمارے سماج میں نیک لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لوگوں میں یہ غارت گری معاشی ناہمواری کا نتیجہ ہے۔ اگر بے روزگاری ہوگی تو چنگا بھلا انسان بھی درندہ بن جاتا ہے۔ بھوک ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ مسیحیت اور اسلام کی تعلیمات بہت زیادہ قریب ہیں۔ ایک مسلم کسی بھی مسیحی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے، اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ مجھے اپنے مسلم برادر اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ جناب حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر اور انجیل مقدس کو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں۔ اسلام تو کسی کی بھی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو انسان کے قتل اور دہشت گردی کی تعلیم قطعاً نہیں دیتا۔

میں صبح سویرے اٹھ کر عبادت کرتی ہوں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ہر بچے کے لیے دعا کرتی ہوں۔ اپنے پیارے ملک پاکستان کے لیے تو ہر وقت کرتی ہوں۔ میں بہت اچھے کھانے بناتی ہوں، لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہوں۔ مجھے خوب صورتی بہت پسند ہے۔ موسیقی سے بہت لطف اندوز ہوتی ہوں بل کہ میں خود بھی بہت اچھا گانا گاتی ہوں۔ میں کسی کے لیے بھی بُرا نہیں سوچتی، میری بیٹی بہت فرماںبردار اور خدمت گزار ہے، اب دعا ہے اور کوشش بھی کہ وہ ہنسی خوشی اپنے گھر کی ہوجائے۔ میرے بھائی سب اچھے اور میرا خیال رکھتے ہیں، بل کہ سارے محلے کے لوگ میرا خیال رکھتے ہیں۔ دور بہت نازک ہے، بچیوں کو بہت اچھی تعلیم دینی چاہیے کہ یہ بہت زیادہ ضروری ہے۔

ایک لڑکی کو آگے چل کر ایک خاندان کی ذمے داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں، بچیوں کو دوست بناکر رکھنا چاہیے، جس شخص نے سچ کو اپنا راستہ بنالیا وہ فلاح پاجاتا ہے۔ مسائل سے گھبرانے کے بہ جائے ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کا، دُکھ سُکھ کا نام ہے۔ آج اگر دُکھ ہے تو یہ گزر ہی جائے گا، بس صبر سے، محبّت سے، عزم سے سچ کے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔

چلیے اب فقیر ہُوا رخصت

اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بَلا سے

اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

1857ء اور 1947ء کے بعد دلی آج پھر اُجڑی۔۔۔!

$
0
0

جس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے!

اردو کے صف اول کے شاعر میر تقی میرؔ کے زمانے میں بھی برصغیر پاک وہند کی مانگ کا سندور سمجھی جانے والی ’دلّی‘ لہو رنگ ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں وہ لکھنؤ جا بسے۔۔۔ 1739ء میں نادر شاہ نے تقریباً ایک لاکھ دلی واسیوں کی گردنیں اتاریں اور 1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے اس شہر کو تاراج کیا، پھر مرہٹوں نے بھی اپنے پنجے گاڑے اور 1802ء میں دلی والوں پر ’سام راجی‘ شکنجے کسے جانے لگے۔۔۔ آخر 1857ء کی قیامت ’غدر‘ کی صورت بپا ہوگئی، اور ہندوستان میں تجارت کے بہانے آکر قابض ہونے والے برطانیہ نے اپنے اقتدار کی راہ میں حائل ہر آواز کچل کر رکھ دی۔ یہ مرزا غالبؔ کا زمانہ تھا۔۔۔! اس بار دلی ایسی اجڑی کہ دلی والے شہر کی حدود سے باہر جا پڑے۔۔۔ برسوں بعد جو لوٹ سکے تو عالم یہ تھا کہ گھروں کے منہدم ملبے میں اپنے آشیانوں کے نشان تلاشتے تھے۔۔۔!

میرؔ وغالبؔ کی اِس نگری میں 1857ء کے ’غدر‘ کے بعد 1947ء کی مسلم کُش ’قیامت‘ میں 90 برس حائل تھے، اور اب 2020ء میں آنے والی بربریت میں فقط 72 برس کی مسافت ہے۔۔۔ گویا دلی میں اُسے اجڑتے ہوئے دیکھنے والی ’آنکھیں‘ ہمیشہ موجود رہیں۔۔۔ 1857ء دیکھنے والے دنیا سے اُٹھے، تو بعد والوں نے 1947ء دیکھ لیا، اور اب سینتالیس والے خال خال ہونے لگے، تو اس نگر کے مسلمانوں نے 2020ء کا دیکھ لیا۔۔۔

بیتے برس نریندر مودی مسلسل دوسرا چناؤ جو جیت کے آئے، تو اگست 2019ء میں انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی، اسی اثنا میں بابری مسجد تنازع کا ’’انصاف‘‘ رام مندر کی تعمیر کے فیصلے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس پر ابھی سانس بھی نہ لیا تھا کہ نریندر مودی نے متنازع شہریت بل کا اعلان کر دیا۔۔۔ جس میں براہ راست ہندوستان کے مسلمان شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، کیوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اپنے پرانے کاغذات سے خود کو ’ہندوستانی‘ ثابت کرنا ہے۔ تو دوسری طرف پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے ہندو، سکھ، عیسائی اور جین مت وغیرہ کے پیروکاروں کا کاغذات نہ ملنے کی صورت میں شہریت کی ’چھوٹ‘ مل جائے گی، لیکن چوں کہ آس پڑوس کے دیشوں کے مسلمانوں کے لیے شہریت بند ہے، اس لیے گویا ایک دروازے سے تمام بھارتی باہر نکال لیے جائیں گے اور پھر واپس آنے کے لیے بنا کاغذی ثبوت کے کوئی بھی آسکتا ہے، سوائے مسلمان کے، ہندوستانی مسلمانوں کو کاغذات لازمی دکھانا ہوں گے، بہ صورت دیگر ان کی شہریت چھین لی جائے گی۔۔۔!

مسلمانوں کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ صوبہ ’بِہار‘ کی ایک مسلمان خاتون کہتی ہیں کہ اگر وہ ثبوت نہ دے سکیں، تو یہ کہا جائے گا کہ وہ بنگلادیش یا پاکستان سے آئی ہیں! یعنی سوچیے تو یہ کس قدر بھونڈی بات ہے کہ جو زمین دراصل ہے ہی صرف ’ہندوستان‘ کے جغرافیے میں، اس کے باسی کو آس پڑوس کے دیش سے آنے والا باشندہ سمجھا جائے!

پہلے پہل متنازع شہریت بل پر دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ میدان میں نکلے، جن پر لاٹھی چارج کر کے ادھ موا کیا گیا۔۔۔ لیکن اُن کا جوش بڑھتا چلا گیا اور اس کی گونج ہندوستان کے جنوب میں بھی بہت دور تک سنی جانے لگی اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور معتدل حلقوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ 16 دسمبر 2019ء کی رات کو دلی پولیس نے رات کے اندھیرے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھس کر وحشیانہ طریقے سے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ کتب خانے سے لے کر کینٹین تک خوب توڑ پھوڑ بھی کی۔۔۔ اس کارروائی نے ’شاہین باغ‘ میں مسلمان خواتین کے احتجاجی دھرنے کو زندگی دے دی۔۔۔ گھر کی دہلیز کم کم پھیلانگنے والی خواتین احتجاجاً پھر وہیں براجمان ہو گئیں۔ حتیٰ کہ خوف اور اس پر دلی میں گذشتہ 100سال کی شدید ترین جاڑے میں بھی ’شاہین باغ‘ کا شامیانہ آباد رہا۔۔۔ ’مودی سرکار‘ نے بہتیرے جتن کیے کہ کسی طرح اس دھرنے کو ختم کر دیا جائے۔۔۔ لیکن کام یابی نہ ہو سکی۔

پھر 30 جنوری 2020ء کو موہن داس گاندھی کے یوم قتل پر ایک انتہا پسند نوجوان گوپال نے پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ پر گولی چلائی۔۔۔ اس سے پہلے جامعہ ملیہ میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے بعد جامعہ کے اندر وحشیانہ تشدد بھی آنے والے بھیانک منظر کی خبر دے رہا تھا، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی سرکار اب یہ راز بھی نہیں چھپانا چاہتی کہ یہ ’مسلم کُش‘ لہر اسی کی آشیرواد سے جاری ہے۔۔۔

یہی وجہ ہے کہ 24 فروری لو جس لمحے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان پہنچے، عین اسی وقت دلی کو تاراج کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا گیا۔۔۔ مسلح انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین، بچوں اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ بند گھروں کے تالے توڑے گئے، دکانوں پر مسلمان نام دیکھ کر نذرِآتش کیا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ مساجد اور مدارس تک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

شمال مشرقی دلی مسلسل کئی دنوں تک بلوائیوں کے رحم وکرم پر رہا، جس کے نتیجے میں کم سے کم 46 افراد کی جانیں جا چکی ہیں، لوگ اب بھی اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات پر پناہ گزین ہیں۔ بلوے کے سبب اپنے گھروں سے نکلنے والوں کی داستانیں ایک بار پھر 1947ء کی یاد دلا رہی ہے، کہ جب اپنی جان اور عزت بچانے والے مسلمان اپنے گھروں سے صرف تن کے کپڑوں میں نکلے تو پھر کبھی پلٹ نہ سکے۔۔۔ تب تو ابو الکلام آزاد کی آواز کسی بہتری کی امید جگانے کی کوشش کرتی۔۔۔ موہن داس گاندھی بھی کسی قدر دلی کے مسلمانوں کے لیے آس تھے، پھر انہوں نے انہی مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر ’مرن برت‘ (تادم مرگ بھوک ہڑتال) رکھا۔۔۔ جو ختم تو کرا دیا، لیکن 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے ہندوستانیوں کے ’باپو‘ کے نحیف ونزار وجود کو جیون کی قید سے آزاد کر کے گویا ہندوستانی مسلمانوں کو زنجیر میں جکڑنے کا اعلان کر دیا۔۔۔ آج 72 برس بعد گاندھی کے قاتل کی مالا جپنے والے ’انتہاپسند‘ ہی سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور ہندوستان بھر کے 20 کروڑ مسلمان تاریخ کے بد ترین جبر اور خوف تلے دبے جا رہے ہیں۔۔۔

’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر نفرت انگیز ’رواں تبصروں‘ کے ساتھ بنائی جانے والی ویڈیو یہ بتا رہی ہیں کہ دلی میں رہنے والے بہت سے ہندو گھرانے بھی ’نفرت‘ کا شکار ہو چکے ہیں۔۔۔ ایسی ہی ایک بہت سرعت سے پھیلنے والی ویڈیو کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ دیکھو، مسلمانوں کو ہنگامے کرنے کو روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ’بی بی سی‘ نے اس ویڈیو کی کھوج کی اور بتایا کہ یہ دلی کی نیو مصطفیٰ آباد کے بابو نگر کی گلی نمبر چار کی ویڈیو ہے، جس میں فساد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ فساد زدہ مسلمان خواتین کی داد رسی کو رقم بانٹی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ 26 فروری کے بعد سے دلی کے نالوں سے بھی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔ اس کے براہ راست حالات سے جڑنے کی کوئی واضح تصویر نہ مل سکی، لیکن شہری کہتے ہیں کہ پہلے کبھی نالوں سے اس طرح لاشیں برآمد نہیں ہوئیں، جس سے واضح طور پر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو مار کر ان کی لاشیں نالے میں پھینکی جا رہی ہیں۔

دل والوں کی دلی ابھی ’اہل دل‘ سے خالی نہیں۔۔۔!

دلی کے رہایشی مہندر سنگھ نے بلوے کے دوران محمد حمزہ کے اہل خانہ کو گھر میں پناہ دی اور ان کے پگڑی باندھی، مہندر سنگھ کہتے ہیں کہ انہیں 1984ء کے دلی کے سکھ مخالف فسادات یاد ہیں، تب کسی بھلے آدمی نے ان کی جان بھی ایسے ہی بچائی گئی تھی، اس لیے یہ ان پر قرض تھا، انہوں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔ فساد سے متاثرہ مسلمان بھورا خان بتاتے ہیں کہ ان کی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور جب انہوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا، انہوں نے دیکھا کہ پولیس اور لوگ مل کر آگ لگا رہے تھے، انہوں نے چھت سے کود کر اپنی جان بچائی۔

26 فروری 2020ء  کی شام 27 سالہ محمد عرفان بچوں کے لیے دودھ لینے نکلا اور اس کی لاش آئی، جو ان کے محلے ’کرتار نگر‘ اس لیے نہ لے جائی جا سکی کہ حالات خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ دلی کے شہری مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کی جان بچانے والے سنجیو کمار اس بات پر آب دیدہ ہو گئے کہ انہوں نے اپنے مسلمان ہم سائے کو پناہ دی تو گلی والوں نے انہیں ’غدار‘ کہا اور ’دہشت گرد‘ سمجھا۔۔۔ اگر چہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہنگامے اور قتل وغارت کرنے والے باہر کے لوگ تھے، لیکن ایک ساتھ رہنے والوں کا انہیں غلط کہنا یہ رویہ یقیناً کوئی اچھی نشان دہی نہیں کر رہا!

ابوالکلام آزاد اور جناح کے مباحثے

دلی کی ’مسلم کش‘ ہنگاموں کی لہر کے بعد ایک بار پھر ’بٹوارا درست‘ اور ’بٹوارا غلط‘ کی بحث چل نکلی ہے۔ ’سوشل میڈیا‘ پر سرحد کے دونوں طرف سے ہی اِس پر بات کی جا رہی ہے۔۔۔ ایک موقف یہ ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنا دیا، ورنہ آج وہاں کے مسلمانوں کی طرح بنگلادیش اور یہاں بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خوف تلے سہمے ہوئے ہوتے۔ دوسری طرف کا موقف یہ ہے کہ دراصل ہندوستانی مسلمان اسی بٹوارے کی ہی قیمت ہی ادا کر رہے ہیں، آج انہیں ’پاکستان جاؤ‘ کے طعنے سننے پڑتے ہیں، اگر ’تقسیمِ ہند‘ نہ ہوتی تو ایک ارب غیر مسلموں کے مقابلے میں 20 کروڑ کے بہ جائے (بنگلادیش اور پاکستان کے ملا کر) کُل 60 کروڑ مسلمان یک جا ہوتے، تو ایسی کسی بھی انتہاپسندی کے سامنے کم از کم تین گنا زیادہ بڑی اقلیت ہوتی، یوں امکان ہے کہ صورت حال اس قدر دگرگوں نہ ہوتی۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ ’پاکستان تو ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن بھی تھا، مگر آج پاکستان کا وہ کردار کہاں ہے؟‘‘ ساتھ ساتھ کچھ لوگ نہایت شدومد سے مولانا ابو الکلام آزاد کے ’متحد ہندوستان‘ کے موقف پر انہیں مطعون کر رہے ہیں کہ دیکھو اُن کے ہندوستان کا حال، اور پاکستان نہ آنے والوں یا پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کا انجام دیکھ کر عبرت حاصل کرو وغیرہ۔ اس ضمن میں بنیادی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے کہ ’پاکستان‘ مسلمانان ہند کی جدوجہد کا ثمرہ تھا۔۔۔

یہ صرف اِن علاقوں کے مسلمانوں کی کاوش نہ تھا، جو ’پاکستان‘ کے جغرافیے میں شامل ہوئیں، بقول کالم نگار سعد اللہ جان برق کے کہ ’پاکستان کی اصل ضرورت تو اقلیتی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی تھی، نہ کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی!‘ ساتھ ہی یہ تاریخی حقیقت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح یہ بات سچ ہے کہ ’پاکستان‘ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔

اسی طرح یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 1947ء میں قائم ہونے والے مسلمانوں کے اس دیش میں پورے ہندوستانی مسلمانوں کو سمونے کی استطاعت نہیں تھی۔۔۔ نیز یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے ابوالکلام آزاد کا ساتھ دیا تھا، تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ پورے ہندوستانی مسلمانوں نے ’جناح‘ کے مقابلے میں ’آزاد‘ کے نظریے کو مکمل طور پر مسترد کیا تھا۔۔۔ تو ایسے میں بھی اگر ہم ابو الکلام آزاد کو مورود الزام ٹھیرائیں، تو یہ تو وہی بات ہوگی کہ آپ دو ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر کا علاج کریں اور پھر فائدہ نہ ہو تو اُس ڈاکٹر پر تنقید کرنے لگیں، جس کی دوا استعمال ہی نہیں کی! چناں چہ وہاں رہنے والے مسلمانوں پر یہ لعن طعن کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ہجرت نہ کرنے کے فیصلے کی قیمت ادا کر رہے ہیں کہ جب خود بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اگست 1947ء میں دلی سے کراچی آتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کا وفادار رہنے کی تلقین کی تھی، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان میں ’ہجرت‘ کے حوالے سے کوئی پروگرام طے شدہ نہیں تھا۔

’’اروند کیجریوال بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔ ‘‘

11 فروری 2020ء کو دلی کے صوبائی انتخابات میں ’عام آدمی پارٹی‘ مسلسل تیسری بار سرکار بنانے میں کام یاب ہوئی۔۔۔ اس کے بہت سے مسلمان امیدوار بھی بھاری ووٹ لے کر سرخرو ہوئے، دوسری طرف ’بی جے پی‘ کو اگرچہ بدترین شکست ہوئی، لیکن اسے پچھلے چناؤ سے زیادہ ووٹ ملے، اِسے مودی نوازوں نے ’مثبت‘ اشارے کے طور پر دیکھا۔ اروند کیجریوال کی کام یابی کو اُن کی سادگی اور بے مثال عوام دوست اقدام کا ثمرہ قرار دیا گیا۔

بالخصوص ہندوستان کی نفرت انگیز سیاست اور گھٹن زدہ ماحول میں وہ ’موذی‘ سے کئی گنا بہتر انتخاب تھے، لیکن اِس چناؤ کے فوری بعد دلی میں جو خوں آشامی اتری اس پر کیجریوال کے کردار سے عوام میں ایک مایوسی کی لہر بھی دیکھی جا رہی ہے، ہرچند کہ دلی پولیس مودی سرکار کے پاس ہے، اس کے باوجود کیجریوال کے اس کٹھن گھڑی میں منظر سے ’غائب‘ اور غیر فعال رہنے پر سوالات کھڑے کیے جار ہے ہیں اور ’یہ بھی ویسا ہی ہے‘ جیسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔

The post 1857ء اور 1947ء کے بعد دلی آج پھر اُجڑی۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

کسی سفرنامے کا سا لطف لیے ہوئے خودنوشت

یوں تو وہ بٹوارے کے برس ہی جنمے، لیکن ہندوستان میں ہی پلے بڑھے، ہجرت کا سبب دوران تعلیم یہ سن گُن بنی کہ وہاں ہندو اساتذہ قابل مسلمان طلبہ کو نمبر نہیں دیتے۔ یوں والدین کی اجازت سے جولائی 1962ء میں ہندوستانی پاسپورٹ پر پاکستان آگئے اور پھر اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر ’پاکستانی‘ شہریت حاصل کی، 1971ء میں مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہو کر سرکاری ملازم بن گئے۔

یہ ذکر ہے سید سبط یحییٰ نقوی کی خود نوشت ’’جو ہم پہ گزری‘‘کا۔ جسے پڑھتے ہوئے ہمیں کسی سفرنامے کا سا لطف ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ڈائری وغیرہ نہیں لکھی، بلکہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنی یادداشت کی بنیاد پر یہ سارے حالات واقعات رقم کیے ہیں۔ وہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ سے بھی منسلک رہے، یوں گاہے گاہے اس کتاب میں بین الاقوامی امور کے تئیں پاکستان کے ذکر کے ساتھ بہت سے داخلی معاملات کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص ان کی کراچی میں تعیناتی، کہ جب بین الاقوامی پروازیں اسلام آباد کے بہ جائے کراچی میں اترتیں اور پھر دارالحکومت جاتیں، ان غیر ملکیوں کا استقبال سید سبط یحییٰ نقوی کے حصے میں آتا۔

اس کے ساتھ لیبیا کی ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کے لیے کوششیں، فلسطینی حریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے سبب یاسر عرفات کی ضیا الحق سے ناراضی کا ذکر بھی ہے۔ دیگر اہم مندرجات میں کراچی میں غیر ملکیوں کی آزادانہ کارروائیوں کا تذکرہ حیران کرتا ہے، سانحہ اوجڑی کیمپ، اور کارگل کے محاذ کی بازگشت بھی ہے۔

لسانی کشیدگی کے دوران کراچی میں الطاف حسین سے ملاقات، اہم سرکاری تقرریوں کے ماجرے اور اس دوران بیتنے والے مختلف واقعات کے حوالے سے وہ خلاف رواج اشاروں کنایوں سے کام نہیں لیتے۔ سیاست دانوں اور اقتدار کی راہ داریوں میں آنے جانے والے ’اہل حَکم‘ کے رویوں اور سفارت کاروں سے ان کے رابطے اور تعلقات کی جھلک بھی ان اوراق میں دیکھی جا سکتی ہے، نیز ہمارے ملک میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں کی خُو بُو کیا تھی، ہمارے کس حکمراں میں کیا صلاحیت تھی اور کہاں تاریخ میں غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے، اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بخوبی احساس ہوتا ہے۔  338 صفحات کی اس داستانِ حیات کی اشاعت کا اہتمام ’زندہ کتابیں‘ کے تحت راشد اشرف نے ’اٹلانٹس‘ پبلی کیشنز (02132581720) سے کیا ہے، قیمت 400 روپے ہے۔

تاریخ لکھنے والوں کی تاریخ

حالات حاضرہ کو اپنے لفظوں کے پیرہن سے آنے والے کل کی تاریخ محفوظ بنانے والوں کی وادی ’وادی پرخار‘ کے نام سے ایسے ہی تو نہیں جانی جاتی۔۔۔ سچ جاننا اور پھر اس سچ کو عوام کے سامنے لانا حاکموں اور حاکم اداروں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہا۔۔۔ لیکن سچ کے لیے لڑنے والے کبھی کم اور کبھی زیادہ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھے رہے۔۔۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ’’پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ‘‘ میں ایسے ہی موضوع پر تشنگان علم کی پیاس دور کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔

لیل ونہار، امروز، پاکستان ٹائمز، مساوات، آزاد، الفتح، امن معیار، ڈان، ویو پوائنٹ، عوامی آواز، آؤٹ لک، مسلم، پنجاب پنج اور پنجاب ٹائمز جیسے اخبارات اور جرائد کی ملکیت، ادارت، ادارتی ٹیم، اہم موقعوں پر اِن کے مسائل اور اشاعتی حکمت عملی، بالخصوص اداریوں، کالموں اور مختلف خبروں کے حوالے سے قابل ذکر رویوں کو محفوظ کیا ہے۔ حوالہ جاتی خصوصیت کی حامل 120 صفحاتی اس کتاب سے متعلق ممتاز صحافی مظہر عباس لکھتے ہیں کہ ’’آج کی صحافت اور معیار کے موازنے کے لیے اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس کتاب کا نام ’صحافت کی متبادل تاریخ‘ کیوں رکھا گیا ہے۔‘‘ بدلتی دنیا پبلی کیشنز اسلام آباد (03335577993) سے شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 600 روپے ہے۔

’قائد‘ کے سپاہی سے ’شہرِ قائد‘ کے نشیب وفراز تک ۔۔۔

اگر ہم تحریک پاکستان کے بعد آزاد بن حیدر کا سب سے بڑا حوالہ دیکھیں، تو اس کا محور ’کراچی‘ اور ’سندھ‘ دکھائی دیتا ہے، بالخصوص ’کراچی صوبے‘ کی تحریک سے لے کر 1972ء کی مردم شماری میں مبینہ طور پر کراچی کی آبادی آدھی بتائے جانے جیسے معاملات پر اُن جیسی طویل اور مسلسل جدوجہد کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ اُن کی زیر تبصرہ آپ بیتی ’بقلم خود‘ ہمارے ملک کی اسی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے مندرجہ بالا امور سے متعلق تاریخی گواہیاں ایک عینی شاہد کے طور پر رقم کی ہیں۔ ساتھ ہی ان کی تصانیف، تعلیمی، صحافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ کتاب کے ہر صفحے کے کنارے پر اوپر تلے پانچ، پانچ کر کے تحریک پاکستان کی 40 نمایاں شخصیات کی تصاویر باری باری طبع کی گئی ہیں، ابتدائی 65 صفحات میں مختلف شخصیات کے تاثرات درج کیے گئے ہیں۔

کتاب کے 60 صفحات مختلف موقعوں کی تصاویر سے آراستہ ہیں۔۔۔ اس کے بعد کے 60 صفحات میں بہ عنوان ’یادرفتگان‘ مختلف مشہور ومعروف شخصیات کے حوالے سے اظہار رائے کیا گیا ہے، اس سے اگلے اوراق میں ان کی ’تصانیف‘ کے سرورق زینتِ کتاب ہیں، ساتھ ہی مصنف کو دیے جانے والے مختلف ایوارڈ کی تصاویر بھی جمع کی گئی ہیں۔ 688 صفحات تک پھیلی ہوئی اس تاریخی دستاویز کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔کتاب میں بہت سی جگہوں پر تراشوں کے عکس کے ساتھ اگر اس کے مندرجات الگ سے بھی لکھ دیے جائیں، تو ان کی پڑھت کافی سہل ہو سکتی ہے، نیز بہت سی جگہوں پر کتابت کی اغلاط کے ساتھ، اس کی تدوین کر کے کتاب کو مزید نکھارا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ ہماری اہم تاریخی دستاویز میں شمار کی جائے گی، اس لیے اس کا ہر ممکن طور پر غلطیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے فضلی بک (0213269724)، کتاب سرائے (04237320318)، اور مسٹر بکس (0512278845) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

100 لفظوں کی سو سے زائد کہانیاں

سو لفظوں کی کہانی لکھنے والے مبشر علی زیدی کافی دنوں تک ایک معاصر روزنامے میں روزانہ کہانی لکھنے کے بعد آج کل دیگر مصروفیات کو وقت دیتے ہیں، لیکن اردو میں مختصر کہانی کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے، اور اس جاری سلسلے میں فاخرہ گُل بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، جو کہ سو لفظوں کی کہانیوں کی پہلی خاتون صاحب کتاب بھی ہیں۔ ’’اسّی نوے پورے سو‘‘ کے عنوان سے ان کی سو لفظی کہانیوں کی دوسری تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔

ان کہانیوں کا موضوع سماجیات اور حالات حاضرہ ہے۔ بیش تر کہانیوں کے مرکزی خیال سماجی تضادات، مکافات عمل، طنز اور نصیحت سے بُنے گئے معلوم ہوتے ہیں، جیسے ایک کہانی ’منزل‘ کا پس منظر راہ میں بھونکنے والے کتوں کی ضرب المثل پر ہے۔ ان کہانیوں میں مکالمے بھی ہیں، اور کچھ پر (بقول ناقدین کے) ’مضمون‘ کا گمان گزرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی تحریری اہمیت پر کوئی کلام نہیں کیا جا سکتا۔ اردو سخن، لیہ (03027844094) سے شایع ہونے والی اس تصنیف کے صفحات 132 اور قیمت 400 روپے ہے۔

سیکڑوں ’یک سطری‘ جملوں کا ’سراغ‘

اس تصنیف سے قبل ڈاکٹر قمر فاروق مختلف موضوعات پر درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ’سراغ‘ ان کی یک سطری جملوں پر مشتمل فکر کا نتیجہ ہیں۔ مختلف موضوعات کو 10 مختلف ابواب میں بانٹا گیا ہے، جیسے کسی میں مذہبی افکار کو جمع کیا گیا ہے، تو کسی میں واہموں کو یک جا کر دیا گیا ہے، کسی میں رشتوں سے جڑے موضوعات ایک ساتھ ہیں تو کہیں علم وسماج کے حوالے سمٹے ہوئے ہیں۔۔۔

کہنے کو اس پوری کتاب میں ہی سیکڑوں چھوٹے چھوٹے جملے یا اقوال لکھے گئے ہیں، جن کی علمی حیثیت کا فیصلہ تو یقیناً سماجیات اور فلسفے کے اساتذہ ہی کر سکتے ہیں، لیکن دراصل اصول، تحریک، قوانین اور اخلاقیات ایسے ہی چھوٹے چھوٹے نکات پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر ہم اپنی زندگی قابلیت اور راہ عمل کو یک سو کرتے ہیں۔ مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکنے والوں کے لیے یہ کتاب اچھا اضافہ ہے، کہ اگر چند منٹ کے لیے بھی ورق گردانی کریں، تو یقیناً بہت سی کام کی باتیں ہاتھ آجائیں گی۔ زربفت پبلی کیشنز لاہور (03016360741)سے شایع شدہ 144 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔

پچھلی صدی کی صحافت و سیاست کی چاپ

راشد اشرف کے مشہور سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت منظر عام پر آنے والی یہ کتاب ’’آہنگ بازگشت‘‘ معروف صحافی اور سیاسی کارکن مولوی محمد سعید کی آپ بیتی ہے اور یک ساں طور پر سیاست اور صحافت سے دل چسپی رکھنے والوں کو دعوت مطالعہ دیتی ہے۔ اس میں ’مطالبۂ پاکستان‘ سے لے کر بہار، بنگال، دلی اور پنجاب میں تقسیم سے پہلے پیش آنے والے واقعات اور فسادات کے حوالے سے کافی کچھ بیان کیا گیا ہے۔

پنجاب میں ’یونینسٹوں‘ کی بہ یک وقت دو کشتیوں میں سواری اُس وقت کی سیاسی اٹھان کی خبر دیتی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے سمے ہمیں پاکستان میں ’ڈان‘ اخبار کے نام کی تبدیلی کی کوششوںکا ذکر سب سے منفرد اور دل چسپ احوال معلوم ہوا۔ 502 صفحات کی یہ کتاب اگرچہ بہت سے ابواب میں منقسم ہے، جو پھر واقعات اور موضوعات کی مناسبت سے مزید چھوٹے حصوں میں بانٹے گئے ہیں۔ تاہم کتاب کے شروع میں فہرست کا نہ ہونا بہت کَھلتا ہے، امید ہے آیندہ اشاعت میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔ فضلی بک سپر مارکیٹ (02132629724) سے شایع شدہ اِس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔

سماج اور اس کے منہ زور مسائل

معاشرہ، معاشرتی انتشار، انحراف، آبادی، صحت اور رہائش جیسے مسائل کی فکر لیے سیما لیاقت جمیل کی یہ کتاب ’’پاکستان کے سماجی مسائل‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پہ آئی ہے۔ یوں تو یہ کراچی، سندھ، پنجاب، پشاور اور بلوچستان کی جامعات کے نصاب کا احاطہ کرتی ہے، لیکن کراچی کے حوالے سے بالخصوص اس میں کافی مواد ہے۔

خاص طور پر ذرایع آمدورفت کے حوالے سے مختلف منصوبوں کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے گھر بچوں، ضعیف العمر افراد، صارفین کے حقوق اور قوانین، گھریلو ملازمین کے ساتھ ساتھ ’خواجہ سرا‘ کے حوالے سے بھی علاحدہ ابواب موجود ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف سماجی مسائل سے نبٹنے کے لیے معاون اداروں کے نام، پتے اور فون نمبر وغیرہ بھی درج کیے گئے ہیں۔ معروف آرکیٹکٹ عارف حسن 285 صفحات پر مشتمل اس تصنیف کے حوالے سے اظہار رائے کرتے ہوئے اس کتاب میں کی جانے والی سفارشات کو طالب علموں کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ کفایت اکیڈمی (02132211722) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔

’شہرِ قائد‘ کا مختصراً احاطہ کرتی ہوئی مفصل کتاب!

زیر تبصرہ کتاب ’’شہروں میں شہر کراچی: ایک مطالعاتی جائزہ‘‘ رئیس کلیہ فنون جامعہ کراچی ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ کتاب کے ابتدائی 94 صفحات میں مجموعی طور پر شہر کی بنیادی معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ شہر کی شروعات 1729ء میں مچھیروں کی بستی سے ہوئی۔ پھر شہر کی وجہ تسمیہ، محل وقوع، مقامات، سڑکیں، تعمیراتی منصوبے، مسائل، آبادی، مشہور سماجی، ادبی اور فن کار شخصیات، مساجد اور دیگر مختلف عبادت گاہیں، مزارات، قبرستان اور کتب خانوں وغیرہ تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد باقی کتاب میں شہر قائد کے 18 ٹاؤن کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ہر ٹاؤن کی یونین کونسلیں، اس کی آبادی اور اس کے خددوخال، خصوصیات، مسائل، مشہور مقامات، مساجد اور دیگر عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، تفریح گاہیں، بڑے بازار، صنعتیں، مشہور دکانیں، ریستوران، بینک، یہاں تک کے پیٹرول پمپ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ’روٹس‘ تک لکھ دیے گئے ہیں۔

 

کتاب کے آخر میں شامل کتابیات میں 150 کے قریب کتب کے حوالے درج ہیں۔ شہر کی سیاسی اور سماجی تاریخ، اس کی مسلسل محرومی اور اس جیسے بہت سے دقیع مسائل سے لے کر شہر میں رونما ہونے والے اہم واقعات اور حادثات کے حوالے سے کافی تشنگی محسوس ہوتی ہے، لیکن رائل بک کمپنی، کراچی (0331-2085205)سے شایع شدہ اس کتاب کی 483 صفحات کی ضخامت دیکھیے تو پتا چلتا ہے کہ اگر ان وسیع موضوعات کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی تو توایک اور ’دفتر‘ کھولنا پڑتا، یعنی کتاب کا حجم کم ازکم دُگنا کرنا پڑتا۔ کتاب کے سرورق موجود صوبہ سندھ کا نقشہ دیکھ کر ایک نظر میں یہ گماں ہوتا ہے کہ اس کا موضوع وادیٔ مہران ہے، لیکن کتاب کے عنوان اور سرورق پر موجود شہر کے مشہور مقامات کی مصوری سے وضاحت ہو جاتی ہے، کتاب کی قیمت 2 ہزار 500 روپے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

افغانستان امن معاہدہ : صدر ڈاکٹر اشرف غنی ناراض کیوں؟

$
0
0

قطر کے دارالحکومت دوحا میں 29 فروری کو امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان امن معاہدے کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ 10 مارچ کو ہونے والے بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

معاہدے پر دستخط کے اگلے روز افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا۔ اس انکار کے ایک، دو دن بعد انھوں نے صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ایک فوجی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام آباد سے اپنے تعلقات ختم کر دیں۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی امن معاہدے کے بعد افغانستان طالبان اور پاکستان سے ناراض کیوں ہے؟ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے قبل افغانستان طالبان کی کابل میں قیام امن کے لئے بنیادی شرط یہ تھی کہ قیام امن کے لئے وہ صرف واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے۔اس حوالے سے طالبان کا موقف یہ تھا کہ کابل کا حکمران ’’بااختیار‘‘ نہیں بلکہ ’’ بے اختیار‘‘ ہے اس لئے ہم ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس امریکا اور افغانستان کا موقف تھا کہ اگر طالبان امن چاہتے ہیں تو بات چیت کابل سے ہی کرنا ہو گی۔

گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں جاری غیر ضروری جنگ کو ختم کرکے اپنی مسلح افواج وہاں سے واپس بلا لیں گے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے افغانستان طالبان پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے ساتھ قیام امن کے لئے بات چیت کریں لیکن طالبان انکار کرتے رہے اور اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ مذاکرات ہوںگے تو براہ راست صرف امریکا سے اور یہ کہ وہ کابل کے حکمران کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔

واشنگٹن نے افغانستان طالبان کو صدر ڈاکٹر اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور کرنے کے لئے اسلام آباد پر بھی دباؤ ڈالا لیکن طالبان نے اسلام آباد کو بھی انکار کر دیا۔ 2018 ء میں امریکا نے طالبان کا مطالبہ مان لیا اور ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت سے صدر ڈاکٹر اشرف غنی شدید ناراض ہوئے، اس لئے کہ صدر ٹرمپ نے انھیں اعتماد میں لئے بغیر افغانستان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئیے تھے۔افغانستان  کے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے امریکا نے نہ صرف اپنی پالیسی میں تبدیلی کی بلکہ طالبان کے موقف کو تسلیم کیا جبکہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے موقف کو مسترد کیا جس پر وہ ناراض ہوئے۔

دوحا میں جب امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا تو صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکا کو پیغام بھیجا کہ براہ راست بات چیت میں افغانستان کو بھی شامل کیا جائے۔ امریکا نے کوشش کی کہ دوحا میں ہونے والی براہ راست بات چیت میں کابل بھی حصہ لے لیکن طالبان نے انکار کیا۔ طالبان کے انکار کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کابل کے بغیر جاری رہی۔ صدر ڈاکٹر اشرف غنی براہ راست بات چیت میں شامل نہ ہونے پر شدید ناراض رہے۔ انھوں نے بھرپور کوشش کی کہ مذاکرات کی میز پر ان کے نمائندے بھی موجود رہیں لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے اس لئے کہ طالبان ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

اب رہا یہ سوال کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے ناراض کیوں ہیں؟ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے ناراض اس لئے ہیں کہ انھیں شکوہ ہے کہ اسلام آباد نے طالبان کو کیوں ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پرمجبور نہیں کیا؟ انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ جب اسلام آباد نے امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے راہ ہموار کی تو ان براہ راست مذاکرات میں کابل کو شامل کیوں نہیں کیا؟ اس لئے امن معاہدے کے چند دن بعد انھوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کردیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان طالبان کو مجبور کر سکتا تھا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ براہ راست مذاکر ات کریں یا امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت میں کابل کو بھی شامل کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے بس سے باہر تھا۔اس لئے کہ امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت تب ممکن ہوئی جب انھوں نے اپنی پالیسی بدل دی اور طالبان کو کابل کے ساتھ براہ راست بات چیت کی بجائے خود ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر راضی ہوئے۔ اگر امریکا طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر راضی نہیں ہوتا تو اسلام آباد ہرگز انھیں راضی نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ امریکا کی نہیں مان رہے تھے تو پاکستان کیسے انھیں مجبور کرتا؟ اس طرح جب براہ راست مذاکرات شروع ہوئے تو طالبان کی شرط تھی کہ بات چیت صرف امریکا کے ساتھ ہوگی۔ پاکستان سہولت کار کا کردار ضرور ادا کرتا رہا لیکن براہ راست مذاکرات میں میز پر کبھی بھی فریقین کے ساتھ شامل نہیں رہا۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ہونے جا رہا تھا اور وہاں کی حکومت کو اس تمام عمل سے باہر رکھا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟اگر جائزہ لیا جائے تو بنیادی قصور ڈاکٹر اشرف غنی کا ہے۔ انھیں چاہئے تھا کہ براہ راست مذاکرات شروع ہوتے وقت امریکا سے مطالبہ کرتے کہ کابل کو شامل کیا جائے اگر وہ راضی نہ ہوتے تو ان سے اس وقت شدید ترین احتجاج کرتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔اس کے برعکس براہ راست مذاکرات کے دوران وہ امریکا کے ساتھ مکمل تعاون کرتے رہے۔اب جب معاہدہ ہو گیا ہے تو دوسروں پر الزامات کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس کی مکمل پاسدار ی کریں اس لئے کہ مذاکراتی عمل میں ان کی مشاورت شامل رہی ہے۔امن معاہدے کے بعد صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بیانات نے صلح کی فضا میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا کردی ہے۔ اگر ان کے تحفظات ہیں بھی تو براہ راست امریکا سے بات چیت کریں، اس لئے کہ کوئی اور ان کے تحفظات کو دور نہیں کر سکتا۔

امن معاہدہ ہوجانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین دن بعد افغانستان طالبان کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ انھوں نے قطر دفتر میں معاہدے پر دستخط کرنے والے ملا عبدالغنی برادر سے آدھے گھنٹے تک گفتگو کی۔ ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں کے مطابق ملاعبدالغنی برادر نے صدر ٹرمپ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کریں گے۔

انھوں نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران امریکی صدر کو یقین دلایا ہے کہ مستقبل میں طالبان ان کے ساتھ مثبت تعلق قائم کریں گے جبکہ ان سے درخواست بھی کی ہے کہ افغانستان کی بحالی میں ان کی مدد کریں۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے طالبان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ آپ سخت لوگ ہیں، غیرملکی فوجیوں کا انخلاء سب کے مفاد میں ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے رابطہ کرکے افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات میں موجود رکاوٹیں دور کریں گے۔‘‘ لیکن اس رابطے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا ہے کہ وہ دس مارچ سے قبل صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو مجبور کریں گے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔

اگر اس طرح کی کوئی یقین دہانی کرائی ہوتی تو لازمی طور پر ٹیلی فونک رابطے کے بعد جاری بیان میں اس کا تذکرہ ضرور کیا جاتا۔ طالبان قیدی رہا نہ کرنے کے بیان پر ابھی تک امریکا نے کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ صدر ٹرمپ جو ہر معاملے پر بیان دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی کوئی بیان نہیں دیا ہے اور نہ ہی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ابھی تک اس پر کوئی وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اس بیان کے بعد طالبان نے فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کے قیدی رہا نہیں کئے جاتے وہ بین الافغان مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ طالبان نے اس بیان کے بعد عارضی جنگ بھی ختم کر دی ہے اور انھوں نے افغان ملی اردو (افغانستان کے مسلح افواج ) پر دوبارہ حملوں کی نہ صرف دھمکی دی ہے بلکہ عملی طور پر اپنی کارروائیاں بھی شروع کردی ہے۔

طالبان کی کارروائیوں کے جواب میں امریکا نے بھی ان کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے۔ امریکا نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ افغانستان کی فوج کی حفاظت ان کی ذمہ دار ی ہے۔ ان تازہ کارروائیوں سے لگ رہا ہے کہ معاہدے سے ایک ہفتہ قبل جو عبوری جنگ بندی کی گئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ دونوں اطراف سے دوبارہ کارروائیاں شروع ہو جانے کے بعد ان سوالات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے کہ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس لئے کہ ابھی تو اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے اور فریقین نے خلاف ورزیاں شروع کردی ہے۔

اس طرح یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا امریکا ڈاکٹر اشرف غنی پر دباؤ بڑھائیں گے کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں تا کہ بین الافغان مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ یہ بھی ایک خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا اور ڈاکٹر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ پہلے مختلف افغان دھڑوں کے ساتھ طالبان کی غیر موجودگی میں بات چیت کریں اور ان کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کے بعد طالبان کو بھی شامل کیا جائے لیکن اس تجویز کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر واشنگٹن اور کابل اس طرح کا ارادہ رکھتے ہوں تو پھر ایک طرف بین الافغان مذاکرات طالبان کے بغیر جاری رہیں گے اور دوسری طرف دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما بھی ہوںگے لیکن یہ بھی ایک سوال ہے کہ طالبان بعد میں ان مذاکرات کا حصہ بننے پر تیار ہو جائیں گے جو ان کے بغیر ہو رہے ہوںگے۔

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان سے جو مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات ختم کر دیں، امریکا اور طالبان نے ابھی تک اس پر بھی کو ئی ردعمل نہیں دیا ہے۔دونوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہ دینے کی وجہ سے اسلام آباد بھی شش و پنج کا شکار ہے، اس لئے کہ پاکستان ان مذاکرات میں بنیادی سہولت کار ہے اور مستقبل میں بھی اسلام آباد کا کردار مرکزی ہی ہوگا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغانستان کے صدر یہ سب کچھ بھارت کی ہمدردیاں حا صل کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو اور وہ اپنی دوسری مدت پوری کریں ۔ بعدمیں عبوری سیٹ اپ قائم ہو جس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی ہو۔

امکان یہی ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات شروع ہو گئے تو فوری طور پر تمام دھڑے کسی حل پر متفق نہیں ہوںگے بلکہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ایک خدشہ کہ جس کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر ڈونلڈٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو کیا وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں گے؟ افغانستان میں قیام امن کے لئے کیا گیا یہ معاہدہ اب بھی خدشات اور شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔

اس معاہدے کی کامیابی اور ناکامی کا تمام تر انحصار تینوں فریقین امریکا، افغانستان کی حکومت اور افغانستان طالبان پر ہے۔ اگر تینوں فریقین نیک نیتی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہیں تو امن افغانستان کا مستقبل ہے اگر نہیں تو پھر خدشہ ہے کہ خطے میں ایک اور جنگ نہ چھڑ جائے، اس لئے کہ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔اگر ایک اور جنگ چھڑ گئی تو نہ صرف اس خطے کو اپنے لپیٹ میں لے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے فریقین کو چاہئے کہ وہ تدبر سے کام لیں اور اس خطے کو ایک اور جنگ سے بچائیں ۔

The post افغانستان امن معاہدہ : صدر ڈاکٹر اشرف غنی ناراض کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

امورخانہ داری کرنے والی خواتین ’بے کار‘ نہیں ۔۔۔ !

$
0
0

’عالمی یوم خواتین‘ حقوق نسواں کی بہت ساری باتوں کے ساتھ گذشتہ ہفتے بیت گیا۔ وہ عورت، جو آزاد پیدا ہوئی، اس کے فرائض ہیں تو بہت سے حقوق بھی ہیں، لیکن بات حقوق کی ہو تو عورت چاہے ترقی یافتہ ملک کی شہریت رکھتی ہو یا ترقی پذیر ملک کی، وہ کسی نہ کسی سطح پر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی آ رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے آزاد خیال معاشروں نے اسے دراصل ایک جنس سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ بظاہر آزاد ہے، لیکن جتنا بوجھ اس نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیا ہے، وہ اس کی ہمت وطاقت سے کہیں زیادہ ہے۔

ایشیائی ممالک میں تو عورت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ سماج کی طرح وہ بھی کئی طبقوں میں منقسم ہے۔ ایک نچلا طبقہ، جہاں وہ کاموں کے لحاظ سے تو مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور دُہری ذمہ داری نبھا رہی ہے، لیکن اس کو حقوق دینے کے معاملے میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جہاں مرد نشے اور آرام طلبی سے چارپائی سنبھالے ہوا ہے اور بیوی صبح سے شام تک گھروں میں کپڑے، برتن اور صفائی کرکے اپنی زندگی بِتا رہی ہے۔

پڑھے لکھے طبقے میں خواتین، اسکول، کالجوں اور دفاتر وغیرہ میں اپنی صلاحیتوں و قابلیت کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی ہے، جو منہ زور مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے، یا اپنا طرز زندگی بلند کرنے کی خواہش میں صبح سے شام تک مختلف ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

عورت اپنی ہر تصویر میں باعزت، باوقار، سراپا الفت ہے۔ وہ تو ایثار و وفا سے گُندھی ہے۔ آج کی عورت کو سماج میں جو مسائل درپیش ہیں، حکومت اس پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ آج کچھ حلقوں کی طرف سے عورت کو حقوق اور آزادی کے نام پر رشتوں سے آزادی اور وفاداری کے بندھن توڑنے کا انوکھا سبق پڑھایا جا رہا ہے، حالاں کہ عورت کا تحفظ اور اس کی قوت تو انہی رشتوں کے حصار میں ہے۔ بہت سے آزاد سوچ رکھنے والے شاید ہمارا وہی حال بنانا چاہتے ہیں، جو آج مغرب کا ہے۔ وہاں عورت پر بے جا ذمہ داریاں ڈال کر اسے عدم توازن کا شکار کر دیا گیا ہے، یعنی یہ کیسی آزادی ہے کہ جس کی منشا اُسے گھر سے باہر نکال کر ہر صورت معاش کی جدوجہد میں دھکیلنا ہے۔۔۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو پھر گھر کے کاموں کے لیے ملازم رکھیں گے، تو بات پھر وہی ہو جائے گی۔ پھر بچوں کی نگہداشت اور ان کی تربیت کا خانہ بھی خالی ہو جائے گا، نتیجتاً پھر یہ بچے بھی صرف اپنے لیے جیتے ہیں، اور یہی بچے بڑے ہوکر والدین کو بھی گھروں سے رخصت کر دیتے ہیں۔

یہ سوچنے والی بات ہے کہ قوموں کی تربیت کرنے والی عورت کو ایسے کس طرح ’گھروں میں بیٹھا ہوا‘ یا ’بے کار‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ تو حقیقت میں خواتین کے لیے بہت ظالمانہ سوچ معلوم ہوتی ہے کہ خواتین خانہ کے کردار کو تسلیم کرنے کے بہ جائے، الٹا طعنہ دیا جائے کہ یہ تو دقیانوسی خواتین ہیں، اور کوئی کام ہی نہیں کرتیں، اس لیے کہ وہ گھر داری کرتی ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ گھر داری اس سماج کے تمام شعبوں میں کام کرنے والوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے اپنا کردار ادا کر پاتے ہیں۔ اج عورت چاہے خاتون خانہ ہو یا گھر سے باہر اپنی کوئی ذمہ داری نبھا رہی ہو، ضروری ہے کہ اسے اپنے مدار سے نہ ہٹنے دیا جائے، اور اسی میں رہتے ہوئے اسے درپیش مختلف مسائل حل کیے جائیں۔

The post امورخانہ داری کرنے والی خواتین ’بے کار‘ نہیں ۔۔۔ ! appeared first on ایکسپریس اردو.


’حقوق نسواں‘ کی لڑائی کس طرف نکل گئی؟

$
0
0

ایسا لگتا ہے کہ ’عورت مارچ‘ کے ذریعے ہم اندرونی زخموں کو رِستا چھوڑ کر اوپری جلد سینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجتاً زخم بھریں گے نہ مسئلہ حل ہوسکے گا ۔کیا راستہ روکنا مسئلے کا حل ہے یا بڑھتے طوفان کو درست سمت دینا؟ سوال یہ ہے کہ وہ چند غیر مناسب سے نعرے، جنہیں آپ کے معاشرے کی اکثر عورتوں  نے خود رَد کر دیا، وہ توجہ کا مرکز کیوں بن گئے؟

کون ایسا ہوگا، جو ایسے مادر پدر آزادی کو راہ دیتے نعروں کی حمایت کر سکے، مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ ان چند مطالبات کی آڑ میں آپ پورے ’مارچ‘ کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ آپ ’حقوق نسواں‘ کے عَلم بردار‘ نہ ہوں، مگر یہ تو مانیں کہ اس پدر سری سماج میں بہت سے علاقوں میں عورت کی حیثیت آج بھی پیر کی جوتی جتنی ہے۔ آپ ’فیمینسٹ‘ نہ بنیں، مگر یہ تو مانیں کہ ہمارے معاشرے کی عورت آج بھی مختلف مسائل میں گھِری ہوئی ہے اور کیا صرف یہ مان لینا ہی کافی ہے؟ ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش بھی آپ کو کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس بات سے انکار کس کو ہے کہ اسلام سے زیادہ کسی مذہب نے عورت کو بحیثیت انسان وہ اہمیت نہیں دی، مگر سوال یہ ہے کہ اسلام کے پیروکاروں نے وہ حقوق عورت کو دیے ہیں یا نہیں؟

ذرا سوچیں کیا اب یہ صرف چند خواتین ہیں؟ اب غیر ملکی امداد کی بات نہ کیجیے گا۔ اس کی وجہ ہم ہیں۔ ہم نے انہیں دھکیل کر خود سے جدا کر کے ان کی گود میں ڈال دیا۔ جانتے ہیں کیسے؟

جب خراش زدہ چہرے، سوجی ہوئی آنکھیں، زخمی اور  ٹوٹے ہوئے ہاتھ لے کر وہ ہمارے پاس آئی، تو ہم نے اسے دھتکار دیا کبھی یہ کہا کہ ’’اپنی لَلّو نہیں چلانی چاہیے تھی ناں!‘‘ کبھی اِس کے نشئی شوہر کے باوجود اُسے یہ کہا کہ ’’اب وہی تمہارا گھر ہے، بیٹا برداشت کرو، اپنے لیے نہیں تو اپنے بچوں کیلئے ہی سہی۔‘‘

جب وہ تیزاب سے جھلسائی گئی، تو آپ کے طعنوں نے اس کی جھلسے ہوئے زخموں پر نمک پاشی کی کہ تم نے ہی غلطی کی ہوگی یا تم نے ہی کسی راہ چلتے کو شہہ دی ہو گی۔ اسے شوہر نے گھر سے نکال دیا، تو آپ نے اپنے گھر کے دروازے بھی بند کر دیے۔ وہ بیوہ ہوئی تو آپ نے زندگی کی ساری خوشیاں اس کے لیے ممنوع کر دیں۔ وہ طلاق یافتہ ہوئی، تو آپ نے کہا ’’طلاق کا داغ‘‘ اس کے ماتھے پہ ان مٹ سیاہی سے نقش کر دیا کہ اب یہ گھر بسانے کے قابل نہیں۔

بات تلخ ہے، مگر سوچیے گا ضرور! رونے کے لیے ایک کندھا تو سب کو چاہیے ہوتا ہے! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور پھر ڈوبتا ہوا کب یہ دیکھتا ہے کہ وہ تنکا کس شاخ کا ہے۔ اسے تو بس جان بچانے کی فکر ہوتی ہے، ایسے میں دشمن بھی ہاتھ بڑھائے، تو وہ دوست لگتا ہے۔ یہ آپ اور میں ہی ہیں، جنہوں نے ایسے نعرے لگانے والوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، تو قصور کس کا ہوا؟

اب بھی وقت ہے، ہم سب کو اپنی سمت درست کرنا ہوگی اور یہی بات خواتین کے حقوق کی جنگ لڑتی عورتوں کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں۔ اگر آپ اصلی مسائل پر بات کریں گی، اور مبہم اور ذومعنی نعروں سے جان چھڑائیں گی، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ صرف مخصوص فکر کی خواتین آپ کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ مردو وزن سمیت پورا باشعور سماج آپ کا ہم آواز ہو اور برابری اور مساوات کا معاشرہ قائم ہو جائے۔

The post ’حقوق نسواں‘ کی لڑائی کس طرف نکل گئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

خواتین کا استحصال ۔۔۔

$
0
0

پاکستان میں عورت کے مقام کی بات کی جائے، تو یہاں بہت سے علاقوں میں لڑکیاں ونی، کاروکاری، وٹہ سٹہ، غیرت کے نام پر قتل اور زندہ درگور کرنے جیسی کئی قبیح رسموں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔

کیوں کہ ہمارے سماج میں عورت کو مرد سے کم تر مانا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اصطلاح صنف نازک گھڑی گئی، جو بظاہر بڑی دل نشیں ہے، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید درپردہ پیٹھ میں خنجر اتارنے جیسی ہے، گویا اسے ’صنف نازک‘ کا خطاب دے کر اس کی تربیت میں شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ ہر صورت مرد کی فرماں برداری اور ناز برداری کرتی رہے۔

حالاں کہ ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘  سے لے کر سوشل میڈیا (سماجی ذرایع اِبلاغ) تک اس کے مسائل نے جہاں بھی سر اٹھایا وہاں صدائے احتجاج بلند تو ہوئی، مگر بدقسمتی سے نہ تو صنفی امتیاز کم ہوئے اور نہ ختم!

سماج کی پس ماندہ ترین سمجھی جانے والی جزو اول یعنی خواتین جہاں صنفی امتیاز تلے دب کر سانس لینے پر مجبور ہیں وہاں معاشی قتلِ عام کے ظالمانہ نظام تلے پس رہی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر پاکستان میں کئی شعبوں میں کام کرتی ہوئی خواتین کے مسائل دیکھیں، تو ہمیں پتا چلے گا کہ یہ بدترین استحصال کا شکار ہیں۔

ملازمت پیشہ خواتین جو دفاتر میں صبح 9 سے شام 5 بجے تک فائلوں میں سر کھپاتی رہتی ہیں، مگر ان کی تنخواہ قلیل ہے یا نجی اسکولوں میں کام کرنے والی ٹیچر جن کی تنخواہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی اجرت سے بھی کم ہے۔

ان اداروں میں پڑھانے کے ساتھ لڑکیاں ڈبل ایم اے اس آس پر کرتی ہیں کہ شاید سرکاری ملازمت مل جائے، یہاں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے کرتے انہیں نہ شوخ رنگ بھاتے ہیں، نہ فطری تقاضوں کی آواز سننے کا وقت ملتا ہے، بلکہ وہ فطرت پر قابض لوگوں کا آلہ کار بن کر اس دائرے سے باہر ہی نہیں نکل پاتیں، یہاں تک کہ ان کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔

اسی دائرے میں اگر ایک نرس، آیا کو دیکھیں، جو اسپتال میں کام کرتی ہیں، جہاں آٹھ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود فقط تین ہزار روپے ہتھیلی پر دھر دیے جاتے ہیں۔

ہمارے ارد گرد معاش کی تلاش میں جان کی پروا کیے بغیر پورا دن پیدل چلتی ’پولیو ورکر‘ سردی ہو یا گرمی ہمارے گھروں تک پہنچتی ہیں، مگر نہ تو ان کی تنخواہ بڑھائی جاتی ہے نہ ہی کوئی تسلی بخش تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔  اتنے خطرے میں ہونے کے باوجود یہ اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لیے یہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

کم تعلیم یافتہ وہ لڑکیاں جو گھر گھر جا کر کمپنی کی مصنوعات ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بیچ رہی ہیں۔ ان کی دستک کے جواب میں دروازے پر اگی مردانہ آنکھیں ذہنی طور پر کتنی اذیت سے دو چار کرتی ہیں، یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس پیشے سے جُڑی ہوئی ان بچیوں کی نوے لاکھ تعداد یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ دن میں نجانے کتنی بار مشکلات سے صرف اس لیے گزرتی ہیں کہ گھر کے چند افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔

اسی طرح فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے اوقات کار لمبے اور اُجرت مرد کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے، فیکٹری کے مالک کے لیے منافع بنانے میں غرق یہ مخلوق صرف ماہانہ تنخواہ کی حق دار ٹھہرتی ہے، مگر گھر کے راشن کے لیے یہ اس کام سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان خواتین کی نسبت مزدور خواتین جو بالکل ان پڑھ ہیں وہ زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔

انہیں اینٹوں کے بھٹے پر، پتھر کوٹتے صبح سے شام تک کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، جو اپنے پورے کنبے کے ساتھ کام کر کے بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے سے قاصر ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے عورت کے حق میں نعرہ یا بینر بلند کرتی عورت مارچ کی کسی شرکا  کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہمارے ہاں ساری لڑائی طبقات کی ہے مرد و عورت کی نہیں۔ ہمارے سماج میں اصل معاملہ معاشی عدم مساوات ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان مقابلے بازی تو دور کی بات یہاں تو عورت بھی عورت کے برابر نہیں۔ کیا اسمبلی میں بیٹھی ہوئی حکمران طبقے کی ایک عورت اور سڑکوں پر اینٹیں کوٹتی عورت برابر ہیں۔۔۔؟ حالاں کہ یہ بھی تو صنف نازک ہیں۔ دوسری طرف اپنے گھروں میں ہی جھانک کر دیکھ لیں… کیا ایک بااثر اور پیسے والا داماد اور غریب داماد برابر ہیں؟ ہمارے ہاں خصوصی پکوان بھی امیر داماد کے لیے بنتے ہیں!

مدعا اتنا سا ہے کہ ہمارے نظام میں نہ تو مرد، مرد کے برابر ہے اور نہ ہی عورت اور نہ ہی یہ دو مخالف صنف ایک دوسرے کی دشمن ہیں، بلکہ طبقاتی سماج میں عورت معاشی و سماجی عدم استحکام کی بنا پر مدمقابل آ گئی ہے، اس لیے ہمارے سماج میں طاقت وَر ہونے کا تعین صنف سے نہیں، بلکہ سرمائے سے تعلق رکھتا ہے، کیوں کہ  اس نظام کے تحت طبقاتی استحصال کا خاتمہ جب تک نہیں ہو جاتا سماجی برابری کا تصور ممکن نہیں۔

The post خواتین کا استحصال ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوششیں کرنے والی۔۔۔

$
0
0

آج کل کی خواتین اپنے حقوق مانگتے ہوئے کسی سے نہ ڈرتی ہیں اور نہ ہی شرم محسوس کر تی ہیں، بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں۔ دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھا رہی ہیں۔ تقریباً ہر شعبے میں خواتین نمایاں ہیں۔ ہوائی جہاز اڑانے سے لے کر جدید سوفٹ ویئر بنانے تک ہماری خواتین پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔

8مارچ  خواتین کا عالمی دن کے طور پہ منایا گیا اور دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین اس دن کو کافی جوش و خروش سے منایا، لیکن پچھلے دو برسوں سے اس کو منانے کا انداز یک سر تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان میں ایسی بہت سی خواتین ہیں، جو گم نام ہو کے بھی خواتین کے لیے اچھے کام کر رہی ہیں۔ یہ ایسی خواتین کے لیے کام کرتی ہیں، جو آگے بڑھنے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں لیکن کسی وجہ سے آگے نہیں آسکتی۔

اب زمانہ انٹرنیٹ کا ہے اور اس تیز رفتار دور میں ایک عورت مشعل پکڑے عورتوں اور بچیوں کو محفوظ طریقے سے انٹرنیٹ کا استعمال سکھا رہی ہے۔ یہ خاتون نگہت داد ہیں۔ اُن کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں خواتین کو انٹرنیٹ پر آزادی میسر نہیں ہے اور انہیں انٹرنیٹ پر ان کے ’صنف نازک‘ ہونے کی بنیاد پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ 38 سالہ نگہت داد پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

نگہت پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی، ڈیجیٹل سیکیورٹی، سائبر ہراسمنٹ اور فیمینزم کے حوالے سے سر گرم ہیں۔ نگہت کی تنظیم نے پاکستان میں پہلی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن متعارف کروائی۔ جس کا مقصد آن لائن ہراساں ہونے والے افراد کو مفت، محفوظ اور رازدارانہ سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس ہیلپ لائن کے ذریعے متاثرین کو قانونی مدد، ڈیجیٹل سیکیورٹی سپورٹ اور نفسیاتی مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ 2018ء میں عالمی اقتصادی فورم نے نگہت داد کو اپنی سالانہ ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر نے اپنی ہزارہ برادری اور دوسری خواتین کے لیے ہر پلیٹ فارم میں آواز اٹھائی۔ جس کے سبب انہیں ’بی بی سی‘ نے انہیں اپنی دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد جلیلہ کو ایسا محسوس ہوا کہ برادری کا نظام برابری پر نہیں چل رہا۔ جلیلہ کی والدہ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا اسکول کھول رکھا تھا۔ اس اسکول میں آنے والے بچوں کو دیکھ کر انھوں نے اس معاشرتی تقسیم کو شدت سے محسوس کیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرنا شروع کیا ۔

بشریٰ خالق انسانی حقوق کی محافظ اور کمیونٹی آرگنائزر ہیں۔ بشریٰ خواتین میں جدوجہد برائے خودمختاری خواتین (women in struggle for empowerment) کے نام سے ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ دیہاتوں میں بہت سی خواتین کے شناختی کارڈ رجسٹرڈ نہیں ہوتے ۔ جس کی وجہ سے انھیں بینک اکاؤنٹ کھولنا ، ڈرائیونگ لائسنس اور ووٹ ڈالنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں دیہی اور قبائلی علاقوں میں بہت سی خواتین کارڈ کے ساتھ یا اس کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتی۔

رسم و رواج اور خاندانی دباؤ کے مطابق، وہ قانونی شناخت کے بغیر اپنے گھروں کی رازداری میں رہتی ہیں۔ انہی خواتین کے لیے بشریٰ خالق نے آواز اٹھائی۔ بشریٰ پاکستان میں خواتین کی شمولیت اور مساوات کے لیے لڑ رہی ہیں۔ خاص طور پر دیہی اور قبائلی علاقوں میں پس ماندہ طبقات کے لیے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینا صرف آغاز ہے اور یہ سب بشریٰ خالق کی کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔

The post کوششیں کرنے والی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

محکوم خاتون کو تو آواز اٹھانے کا حق بھی نہیں

$
0
0

ہمیں سعادت حسن منٹو کی ایک بات کافی قابل غور طلب معلوم ہوتی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ’اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ہی ناقابل برداشت ہے۔ میں ایسی تہذیب و تمدن اور سماج کو کیا بے لباس کروں، جس کے تن پر پہلے ہی کچھ نہیں! میں اِسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا نہیں، درزیوں کا کام ہے۔‘ لیکن تب کیا ہوگا جب کرنے والے اپنا کام نہ کریں؟ کیا معاشرے میں خوش حالی، برابری اور امن و امان قائم رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دراصل عورتوں کے حقوق کی بات، عورتوں کے حقوق کی جنگ اور عورتوں کے حقوق کی تحریک معاشرے کے ایک ایسے طبقے کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کی عکاسی نہیں کر سکتے جس حقیقت سے ہمارے تنگ نظر معاشرے میں رہنے والی عورتیں روز سامنا کرتی ہیں۔

8مارچ  پر عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ’’عورت مارچ‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار کرتا ہے۔ ساتھ ہی بہت سے سوال بھی پیدا ہو جاتے ہیں، جیساکہ ’’فیمنزم (تحریک نسواں) کا مطلب کیا ہے؟‘‘ کیا یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔۔۔؟ اور کیا اس سے بے حیائی پروان چڑھ رہی ہے؟ عورت کے حقوق کی فراہمی کے لیے تو یہی دلیل کافی ہونی چاہیے تھی کہ وہ بھی انسان ہیں اور جو ضروریات انسان کو میسر ہونی چاہئیں اور جو استثنا اور چھُوٹ مردوں کو حاصل ہیں وہ عورتوں کو بھی ہونی چاہئیں۔

یوں تو دنیا میں ’فیمنزم‘ کی تحریک عورتوں کو بنیادی حق دلانے کے لیے چلی، لیکن ایشیا تک آتے آتے شاید اس کے مطلب میں تبدیلیاں آتی گئیں اور آج اس تحریک کو ایک ایسی تحریک سمجھا جاتا ہے، جو معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں، جب کہ ’تحریک نسواں کے مطالبات صرف انصاف کے مطالبات ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں معاشرے کو مردوں کی بالادستی حاصل ہے۔ یہاں اکثر وہی قوانین اور اصول رائج ہیں، جو مردوں کے بتائے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ اصول، رسمیں اور قوانین منصفانہ ہوں معاشرے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہر سال بچیوں کی ایک بڑی تعداد زیادتی کا شکار ہوتی ہے، رشتے سے انکار کی سزا تیزاب پھینکے جانے کی صورت میں ملتی ہے، کئی عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جب یہ تحریکیں پاکستان میں موجود ’طبقاتی امتیاز‘ کی نذر ہو جاتی ہیں، تبھی تو یہ سارے بنیادی مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں موجود لوگوں کو پھر تصویر کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔

دراصل جن عورتوں کو حقوق کی ضرورت ہے، ان کو سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور احتجاج کرنے کی بھی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اب ایسی صورت حال میں ہمارے معاشرے کی ’اَپر کلاس‘ (بالائی طبقے) پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان بے بس عورتوں کے حقوق کی بات کریں اور ان کی صحیح طریقے سے عکاسی کریں، کیوں کہ بلاشبہ معاشرہ باعزت اور باشعور عورت کے بغیر بہت خراب تصویر بناتا ہے، جہاں گویا زندگی کا وجود ہی نہیں پایا جاتا۔ اگر پاکستان کی ہر ایک عورت کو تعلیم کے حق سے اور شعور کے زیور سے آراستہ کیا جائے، تو دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ارفع کریم اور پائلٹ آفیسر مریم مختیار جیسی بیٹیاں قوم کا فخر سے سر اونچا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، کیوں کہ  ازل سے ہی آدم کو حوا کی ضرورت ہے۔

The post محکوم خاتون کو تو آواز اٹھانے کا حق بھی نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کب حل ہوں گے یہ مسئلے پرانے۔۔۔

$
0
0

کبھی کبھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین دو انتہاؤں میں جی رہی ہیں، ایک طرف نہایت آزاد خیال ماحول، جب کہ دوسری انتہا میں مکمل پابند ماحول دکھائی دیتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان وہ خواتین ہیں، جو نہ وہ اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے کھل کر جی سکتی ہیں اور نہ ہی وہ پابند رہ کرجینا چاہتی ہیں۔ اس روش سے ذرا بھی ہٹتی ہیں، تو انہیں شدید دباؤ اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنی شناخت بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ زیادہ تر مسائل بھی اسی طبقے میں جنم لیتے ہیں۔ خواتین کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور صحیح سمت میں پیش رفت سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

بنیادی مسئلہ عورت کی شناخت کا ہے۔ اسے مرد کے برابر انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کم علمی اور جہالت ہے۔ کبھی اولاد نہ ہونا یا بیٹا نہ ہونا اس کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے، تو  کبھی اس کے اختلاف کرنے پر حشر اٹھا دیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کا حل اس سوچ کو اجاگر کرنا ہے کہ عورت بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے، وہ اپنا اچھا برا بھی سوچ سمجھ سکتی ہے اور دنیا میں جتنا فعال کردار مرد ادا کر سکتا ہے، اتنا ہی ایک عورت بھی کر سکتی ہے۔ اس کے لیے روشن خیال علما، دانش وَروں کو مل کر معاشرے کی سوچ بدلنی ہوگی۔ ایک بیٹی اور بیٹے کے درمیان برابر کا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ دوسرا بڑا مسئلہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے، ہمارے بہت سے دیہاتوں میں آج بھی عورتوں کی تعلیم کا رواج نہیں۔ ماں باپ بچی کی تعلیم کو اہم ہی نہیں گردانتے ان کے مطابق لڑکی تو شادی کر کے ’پرائے گھر‘ چلی جائے گی، اس لیے اس کی تعلیم پر خرچ کیوں کیا جائے۔ ایک ذہنیت یہ بھی ہے کہ تعلیم حاصل کر کے لڑکیوں میں ’بے حیائی‘ پیدا ہوگی۔ وہ ہر معاملے کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ گاؤں دیہات میں کمی کی بیٹی پڑھ گئی۔ تو وہ جائیداد میں اپنا حصہ مانگے گی، یہی وجہ ہے وہاں عورتوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

اس مسئلے کو انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور ماں باپ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم دلائیں، بلکہ حکومتی سطح پر میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت قرار دی جائے۔ تعلیم اُسے شعور اور آگاہی دیتا ہے، اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے۔ اسلام میں ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ مرد تعلیم حاصل کرے اور عورت نہیں۔ حکومت کو اس پر سب سے پہلے کام کرنا چاہیے ۔ نیپولین کا قول ہے تم مجھے ’’اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کر سکتی ہے۔ اس لیے خواتین کی تعلیم پر بہت کام کرنا ہوگا۔

تیسرا اہم مسئلہ ان خواتین کا ہے جو ’ورکنگ ویمن‘ ہیں۔ ہمارے سماج میں ٹیچر، ڈاکٹر اور دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کو ہتک آمیز سلوک اور حراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں دیہات میں ان پڑھ خواتین بھی معاشی کام کرتی ہیں، کہیں بھٹہ مزدوری، کہیں کھیتوں میں کام، نہروں کنوؤں سے پانی بھرنا، جانوروں کی دیکھ بھال وغیرہ۔ ان خواتین کو ان سب کاموں کے علاوہ گھریلو کام بھی انجام دینے پڑتے ہیں اور ساتھ ہی بہت سے ناگفتہ بہ معاملات پر زبان بھی بند کرنا پڑتی ہے۔

اس کے لیے قانون پر سختی سے عمل درآمد ناگزیر ہے، کیوں کہ قانون تو موجود ہیں، لیکن ہمارے ملک کی 95 فی صد خواتین یہ نہیں جانتی ہیں کہ خواتین کو کسی طور پر ہراسگی کا شکار بنانا، تنگ کرنا، مثلاً سیٹی بجانا، آوازیں کسنا، بد اخلاقی کرنا یہ سب جرائم میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے خلاف شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ اس جرم کی سزا تین سے پانچ سال قید اور جرمانہ ہے۔ قانون پر عمل نہ ہونا، پولیس کا ہتک آمیز رویہ بھی خواتین کوع اپنے حق کے لیے لڑنے سے ڈراتا ہے۔

جب تک ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے کہ خواتین بھی جیتی جاگتی انسان ہیں اور معاشرے کے لیے کارآمد ہیں اور ان کا لحاظ اور احترام بھی مردوں کے برابر ہی ہے، تب تک کچھ بہتر نہیں ہوگا۔ ایک اور مسئلہ کم عمری کی شادی ہے، اس کی روک تھام کے قاون پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا، ہمارے ہاں بہت سی کم عمر خواتین میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں سے موت واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم وتربیت کے ساتھ خواتین کو طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، جب تک ان مسائل سے آگاہی اور ان کے سدباب کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں جائے گا، تب تک بہتری کی کوئی صورت حال نظر نہیں اتی۔ اس کے لیے محکمۂ صحت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں اسپتالوں کی حالت بہتر بنانی چاہیے۔

گھروں میں بہت سی خواتین پر تشدد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ کہیں مرد کی انا ہے، تو کہیں جائیداد کے معاملات۔ بیوی، بہن یا بیٹی کو حصہ نہ دینا ان پر تشدد کر کے جائیداد اپنے نام کروانا، اپنی زمین کو تقسیم سے بچانے کے لیے لڑکی کی شادی قرآن سے کرکے اسے تاعمر گھر بٹھائے رکھنا روا ہے۔ غیرت کے نام پر عورت کو قتل کرنا، محبت مین ناکامی پر تیزاب پھینک کر عورت کو بدصورت بنانے کا عمل تو اکثر دُہرایا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں میں عورت پر تشدد تو عام ہے، اس میں عورت کو قصور وار ٹھیرا کر کہا جاتا ہے برداشت کرو، جائیداد کی وجہ سے خاندان میں شادی کرنا، بے جوڑ رشتے چاہے لڑکی بڑی اور لڑکا نابالغ ہو۔ غیرت کے نام پر بھی عورت کا قتل، باپ بھائی کے کیے کی سزا عورت کو کاری کر کے دی جاتی ہے۔ جس وقت اس معاشرے نے عورت کو بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا، وہیں سے بہتری کا آغاز ہو سکے گا۔

The post کب حل ہوں گے یہ مسئلے پرانے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>