Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

قُربتوں کی معراج

$
0
0

حضور سرور کائنات ﷺ کو رجب المرجب میں اﷲ رب العزت نے قربتوں کی ایسی انتہاؤں تک پہنچا دیا جن پر ابتدائے آفرینش سے ابد تک کوئی نہ پہنچا نہ کوئی پہنچ سکے گا۔

واقعہ معراج کا پس منظر یہ ہے کہ محبوب رب العالمینؐ مکہ اور اس کے مضافات کے مکینوں کے بے رحمانہ اور معاندانہ طرز عمل سے آزردہ تھے۔ آپؐ کی طبع نازک پر ان ازلی بدبختوں کی بے وجہ اور اذیت ناک مخالفت سے بڑی گراں باری پائی جاتی تھی۔ اہل طائف نے محسن ِ انسانیتؐ کے ساتھ جو سفاکانہ سلوک روا رکھا اس سے حضور نبی کریمؐ مغموم رہتے مگر ایک لحظے کے لیے بھی آپؐ مایوس نہیں ہوئے۔

کیوں کہ آپؐ کی چشمِ دُوررس اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ یہ دینِ فطرت ایک روز ادیانِ عالم پر غالب آکر رہے گا اور حق عیاں اور باطل نہاں ہوکر رہے گا، اس لیے اﷲ نے اپنے حبیب مکرمؐ کے احساس ِ تنہائی اور اداسی کو دور کرنے اور اس وقت کے سماجی اور معاشرتی حالات میں انقلاب آگیں تبدیلی لانے کے لیے حبیب دو عالمؐ کو اپنی بارگاہ میں انتہائی قُرب کا ایسا محبت آمیز شرف بخشا جو سیدنا آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک کسی نبی اور رسول کو نہیں بخشا گیا۔

تما م سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ ستائیس رجب کو پیش آیا۔ یوں تو ہر اسلامی مہینا اپنے جلو میں کوئی نہ کوئی تاریخی تقدیس و تحریم رکھتا ہے مگر عزت و حرمت، شوکت و حشمت اور رفعت و عظمت کے اعتبار سے رجب ایسا عظیم الشان مہینہ ہے جس میں حضور سرور کون و مکاں، انسانِ کامل حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو اﷲ نے اپنی بارگاہ اقدس میں مہمان بنانے کا شرف بخشا۔ حضورؐ کی منفرد عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ سینہ موسیٰ کلیم اﷲ ایک طویل عرصے تک قربِ خالقِ کائنات کے لیے تمناؤں کا مسکن بنا رہا۔

زبان سے رب ارنی کی صداؤں نے عرش عظیم کے گرد ہالہ باندھے رکھا مگر حضرت موسیٰ کے تمام تر اثاثہ ِ نیاز و ناز کے باوجود تواتر سے آسمان سے ندا آتی رہی۔ اس لیے کہ ذات ِ خداوندی کی بے عدیل حکمتوں اور مصلحتوں کے نزدیک کلیم اﷲ کا وجود نور ِخدا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، البتہ جب موسیٰؑ کا اصرار حد سے بڑھا تو طورِ سینا کی فلک بوس چوٹی پر بلا بھیجا کہ کہیں ہیبت خدا وندی کی لمعہ افشانیاں کسی آبادی کو خاکستر نہ کر دیں۔

حضرت موسیٰ ؑ خدائے بزرگ و برتر کی رفعتوں سے آشنائی کا ذوق لیے طور سینا پر تشریف لے گئے مگر نورِ خدائے لم یزل کی ادنیٰ سی تجلی بھی کلیم اﷲ پر وہ گراں باری چھوڑ گئی کہ آپ غش کھا کر گر پڑے اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ نے اپنی انتہائی قربتوں کا یہ لازوال تحفہ روز ازل سے ہی آمنہ کے دُرِیتیم ﷺ کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا۔ مگر دوسری جانب مقام حبیب یہ ہے کہ حضور ﷺ ستائیس رجب کی نصف شب کو بیت اﷲ شریف میں تشریف رکھتے ہیں جہاں کائنات بھر کی رعنائیاں اور زیبائیاں آفتاب ِ نبوت کے گرد محو خرام ہیں۔ گلوں سے نکہت اور ستاروں سے روشنی لے کر مصورِفطرت جمال رسالت مآب ﷺ کا نقشہ کھینچنے میں مصروف ہے۔

سکوت شب میں تحریم حُسن محمد ﷺ سے تابش چَھن چَھن کر بیت اﷲ کے در و دیوار کو بقعہ ِ نور بنائے ہوئے ہے۔ مظاہرِ فطرت کی بُوقلمونیاں حضور ﷺ کے رُخ انور پر نثار ہونے کو بے قرار ہیں۔ ذراتِ خاکی حضور ﷺ کی انگشتِ مبارک کے ایک اشارے پر ہی ستاورں کا روپ دھارنے کے لیے تیار ہیں۔ حضور اپنی جبین مبارک اﷲ رب العزت کے حضور جھکائے ہوئے ہیں۔

اس دوران سردارِ ملائکہ جناب جبریلؑ امین بہ صد احترام حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں کہ اے دانائے سُبل، اے مولائے کُل، اے ختم ِ رسل، اے ناموسِ ماوطین، اے رحمت اللعالمین، اے سراج مکان و لامکاں، اے اُمی حکیم، اے خُلق کی بُرھان ِ عظیم، اے صاحب ِ لطفِ عمیم، اے حبیب ربِ کریم، اے نازش ِتابشِ نجوم و قمر، اے فخرِ جمالِ سحر، اے عالمِ انسانیت کے دلوں کی دھڑکنوں کے مکین، اے اولاد آدم کی فتح ِ مبین، اے رشکِ جان و بہار، اے لطافتوں کی حسین و مقدس جوئے بار، اے آفتابِ تیرہ خاک داں، اے سرِ وحدت کے رازداں، اے آرائشِ آب و گل کا حسنِ جاوداں، اے مرکز محبت ِ ملائکہ، اے حسینان ِ عالم میں حسین تر، اے محبوب ِ ربِ دو جہاں خدائے عزوجل آپ ﷺ کو عرشِ اعظم پر بلا کر آپؐ کے جمالِ جہاں آرا کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ جب آپؐ نے بیت اﷲ کی چٹائیوں پر سر اقدس رکھ کر اﷲ کی حمد و ثناء بلند کی تو اﷲ نے آپؐ کو مقام ِ اعلیٰ عطا فرما دیا۔ اسرارِ کائنات کے محرم، فخرِ موجودات حضور سرور ِ کونین، وجہِ حسن ِ تقویم روزگار حضور ﷺ براق پر فروکش ہوتے ہیں اور چشم ِ زدن میں مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ کیوں کہ آپؐ کے سفر ارتفاع کی منازل اور ٹھہراؤ کا تعین ٹھیک حکمت خدا کے مطابق تھا وہاں آدمؑ سے حضرت مسیحؑ تک انبیاء و رسلؑ آپؐ کی زیارت و استقبال کے لیے بے چین کھڑے ہیں۔ امام الا انبیاء ﷺ کے سر اقدس پر امامت کا تاج سجایا گیا۔

چشم ِ فلک اشک ہائے تشکر و امتنان لیے حضور ﷺ کی عظمت و رفعت اور کمال و جمال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ تمام انبیاء اور مرسلینؑ اس نبیِ رحمت ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں، جس کا امتی ہونے کی وہ تمنا کیا کرتے تھے۔ یہاں اﷲ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ اوجِ کمال مصطفی ﷺ کا بھی اظہار و اقرار ہو رہا ہے۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حضور ﷺ کے جسمانی اوجِ کمال کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے حیات انسانی کے فکری رجحانات کا رخ موڑ دیا۔

گویا معراجِ مصطفی ﷺ نے مسجود ملائک حضرت انسان کی تخیلاتی قوتوں اور رفعتوں کو وہ پرِ پرواز بخشا کہ عقاب بھی رشک کرنے لگے۔ نسلِ آدمیت کو وہ توقیر بخشی گئی کہ کائناتِ عالم کی ہر چیز اس کی عظمت کے سامنے دم بہ خود اور فردوس بہ داماں نظر آنے لگی۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور خورشید کی کرنوں کو مسخر کرنے کا جذبۂ بے کراں سینۂ آدمیت میں کروٹیں لینے لگا۔ واقعۂ معراج نے انسانی تفکر و تدبر کو وہ مہمیز لگائی کہ اس کا خوابیدہ ذوق جستجو منزل کو پالینے کے لیے بے قرار ہوگیا۔

زمین پر رہتے ہوئے اشہب ِ انسانی بصیرت و دانش، خلاؤں کی جہتوں سے آشنا ہوکر خود اپنے ارتقاء کا تعین کرنے لگا۔ دنیا بھر کے صاحبان ِفراست آج تک اس حیرت میں سوچتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق بعد از خدا بزرگ توئی کی مصداق ہستی راتوں رات آسمانوں سے بھی اوپر مظاہر ِ خدا وندی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد واپس تشریف لے آئی۔ اس دوران زنجیر بھی ہلتی رہی، بستر بھی رہا گرم یعنی ساری دنیا کی مخلوق نیند کی وادیوں میں کھوئی رہی، نظام کائنات بھی رواں دواں رہا بلاشبہ یہ منفرد اعجاز مصطفی ﷺ مغرب کے مدبرین و مفکرین کو قیامت تک جھنجھوڑتا رہے گا۔

تو جو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شب ِاسریٰ

تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے

The post قُربتوں کی معراج appeared first on ایکسپریس اردو.


رنگ بہ رنگی دنیا، نت نئے انسان

$
0
0

جو انسان کا شُکر گزار نہ ہو، اور انسان ہی کیا! چرند کا، پرند کا، شجر کا، حجر کا، پُھول کا، پھل کا، ندی، دریا، جھیل کا، سمندر کا، بہار کا، سرد کا، گرم کا، صحرا کا، نخلستان کا، اور اب بس آپ سوچتے چلے جائیں، یہ فہرست تو کبھی ختم ہونے کی نہیں، جی ہم سب ختم ہوجائیں گے، ہماری سوچ کی حد ہوجائے گی، لیکن یہ کبھی ختم نہیں ہونے کی کہ اسی لیے تو کہا ہے خالق نے کہ تم آخر کس کس نعمت کا انکار کروگے، نہیں کرسکتے، کر ہی نہیں سکتے۔

تو بات ہو رہی تھی کہ جو انسان کا شُکر گزار نہ ہو، اور انسان ہی کیا! وہ ان سب کے بنانے والے، پالنے اور پوسنے والے رب رحیم کا کیا شکر گزار ہوگا! جو مخلوق سے محبّت نہ کرے، وہ خالق سے کیسے کرسکتا ہے ۔۔۔۔ ! جو خلق سے بے زار ہو اور خالق کا طلب گار، عجب ہے یہ تو، محبوب کے پاؤں کی تو دُھول بھی معتبر ہوتی اور معطر و سرشار کرتی ہے، محب تو محبوب کی ہر ادا پر نثار اور اس کی بے اعتنائی سے بھی پیار کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مصوّر سے عقیدت و عشق کا دعویٰ کرے اور اس کی بنائی ہوئی تصویروں کو، چلتی پھرتی سانس لیتی تصویروں کو نیست و نابود کرتا پھرے، ان میں نقص نکالے، ان سے دامن بچائے، انہیں حقیر سمجھے، کیا خالق کی بنائی ہوئی مخلوق کی توہین ان کے مصوّر کی توہین نہیں ہے!

لیکن رنگ بہ رنگی دنیا ہے یہ اور نت نئے انسان ۔۔۔۔۔ اور صاحبو انسان بھی کیا! ہر اک دوسرے سے جُدا، دنیا بھر کے کسی بھی انسان کے ہاتھ اور پاؤں کی لکیریں اک دوجے سے نہیں ملتیں، جانتے ہیں ناں آپ۔ دیکھیے کیا یاد آیا

آدمی، آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

لیکن دل نہ بھی ملے، آدمی تو ہے وہ بھی اور واجب تکریم۔

وادی مہران کے سوہنے شاہ سائیں لطیف جو ایک ٹیلے پر بیٹھ کر گیان کیا کرتے تھے، نے کہا ہے ناں: ’’ سانپ دیکھنے میں بہت خوب صورت ہوتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔‘‘ بہت سے ملتے ہیں یہاں۔ کچھ انس بھی اس خصلت کے ہوتے ہیں جی! میرا ایک دیوانہ سجن بیلی کہا کرتا ہے: خوب صورت شکل میں سب درندے بن گئے ہیں جی! ہم گم راہ ہوئے، ہمیں تو اپنے اصل کو، اپنے شرف کو پہچاننا چاہیے ناں۔ کوئی درندہ بن گیا تو کیا ہم بھی اس کی طرح ہوجائیں یا اسے پھر سے انسان بننے پر اکسائیں، اسے اس کے شرف کی طرف رستہ دکھائیں۔ لیجیے کیا یاد آگیا ہے جی!

وہ ایک باشرف انسان جو اپنے انسان ہونے کا سچّا دعوے دار تھا، ایک دریا کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ اسے ایک بچھو نظر آیا جو دریا سے باہر آنے کی کوشش کررہا تھا۔ جیسے وہ کنارے لگتا تو کوئی لہر پھر سے اُسے کنارے سے جدا کردیتی، وہ اسے بہت دیر تک دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنے اردگرد دیکھا کہ اسے کوئی ٹہنی نظر آئے جس سے وہ اس بچھو کو باہر نکال سکے، لیکن اتفاق ایسا کہ اسے کوئی ٹہنی نظر نہیں آئی، اس نے اپنا ہاتھ بچھو کو نکالنے کے لیے دریا میں ڈالا ہی تھا کہ بچو نے اسے ڈس لیا، تکلیف کی شدّت اس کے چہرے سے عیاں تھی لیکن اس نے اپنا ارادہ نہیں بدلا اور پھر سے کوشش کی لیکن نہیں۔

اُس نے اسے پھر ڈس لیا تھا، افضل اور اسفل کی جنگ فلک دیکھ رہا تھا کہ جیت کس کی ہوگی، آخر چھٹی کوشش میں وہ اس بچھو کو باہر نکالنے میں کام یاب ہوچکا تھا، تکلیف کے ساتھ ایک آسودگی بھی اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔ یہ سارا منظر ایک اور مسافر بھی دیکھ رہا تھا اس نے اسے آکر کہا: کیا ضرورت تھی تمہیں اس موذی کو نکالنے کی، تم نے اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہی اور کی بھی اور اس نے تمہیں اتنی مرتبہ ڈسا، لیکن تم بہت بے وقوف ہو، باز نہیں آئے۔ تو وہ اصل باشرف انسان مسکرایا اور کہا: مجھے اس کے ڈسنے کی عادت نے ہی تو اسے بچانے پر اکسایا تھا۔ مسافر نے حیرت سے پوچھا: وہ کیسے؟ تب اس اصل نے بتایا کہ جب وہ مجھے ڈس رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپنی بُری عادت سے باز نہیں آرہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیسے باز آجاؤں۔

نہ جانے کیا بکے جا رہا ہوں میں، سمع خراشی کی معذرت۔

مجھ سے ایک دن اُس نے پوچھا: ’’تم نے جگنو دیکھا ہے؟‘‘

میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں …! بہت سے جگنو، چمکتے ہوئے، جنگل کی رات، ہُو کا عالم، چہار سُو سنّاٹا، سر جھکائے اشجار، سرسراتی ہوا، آسماں میں بدلیوں سے چھپن چھپائی کھیلتا آفتاب اور جگنو۔

پھر میں نے اس سے کہا: میں نے تو بیر بہوٹی بھی دیکھی ہے۔

’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘

تم نے نہیں دیکھی بیر بہوٹی؟

’’نہیں تو‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔ تب میں نے اسے بتایا: برسات برس کر تھم گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا مسکرا رہی تھی۔ میں اپنی جیپ چلاتا ہُوا گاؤں کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا دونوں طرف درخت اور سناٹا۔ تب مجھے چائے کی طلب ہوئی۔ بہت دور نکل گیا تھا میں کہ ایک چھپّر ہوٹل نظر آیا میں نے گاڑی سڑک سے نیچے اتاری اور ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔

’’ صاحب چارپائی گیلی ہے۔‘‘ کوئی بات نہیں، میں نے کہا۔ چائے مل جائے گی؟ تب اس نے آواز دی ’’خانے چائے بنا۔‘‘ ایک نوجوان چھپر کے پیچھے سے برآمد ہوا۔ ایک نظر مجھ پر ڈالی اور چائے بنانے لگا۔

آپ اس طوفان میں اکیلے کہاں سے آرہے ہیں؟

میں نے مسکرا کر اسے دیکھا، میں تمہیں اکیلا نظر آرہا ہوں۔۔۔ ؟

تو وہ حیرت سے بولا: ’’آپ اکیلے ہی تو ہیں۔‘‘

دو فرشتے تو میرے کاندھے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تب وہ بہت ہنسا، میں نے چائے پی تو وہ پیسے لینے سے انکاری ہوگیا۔ میں نے کہا، لے لو تو کہنے لگا: ’’آپ دعا کریں بس‘‘ عجیب آدمی تھا وہ، کم رہ گئے ایسے لوگ، لیکن یقیناً اب بھی ہیں، دنیا کبھی ایثار کیش باشرف انسانوں سے خالی نہیں رہی۔

مجھے چائے دے کر وہ نوجوان پھر چھپّر کے پیچھے چلا گیا تو تجسس مجھے اس کے پاس لے گیا۔ میں نے پہلی مرتبہ اتنی ساری بِیر بہوٹیاں ایک ساتھ دیکھیں … نرم و نازک، لال سُرخ اور مخمل کی طرح ریشمی۔ وہ نوجوان انہیں دیکھ رہا تھا، میں نے ایک اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی اور فوراً ہی اسے نیچے رکھ دیا تو وہ مسکرایا۔

’’صاب یہ تو بہت معصوم ہیں، کاٹتی نہیں ہیں۔‘‘ میں نے کہا اچھا!

’’ صاب انہیں ماچس کی ڈبیا میں بند کرکے دوں؟ گھر جاکر بوتل میں ڈال لینا۔‘‘

میں نے کہا کیوں ۔۔۔۔ ؟

’’ بہت خوب صورت لگیں گی۔‘‘

تب مجھے کہنا پڑا، کیا ضروری ہے خوب صورتی کو قید کردیا جائے! وہ یہاں خوب صورت لگ رہی ہیں۔ بوتل میں اداس ہوجائیں گی اور پھر ایک دن مرجائیں گی، نہیں نہیں، انہیں یہیں رہنے دو، ابھی میں نے ایک اٹھائی تھی تو اس نے مجھ سے کہا تھا: آپ کیسے انسان ہیں، میری ہم جولیوں سے جدا کردیا مجھے، تب مجھے اسے رکھنا پڑا اور معذرت کرنا پڑی۔ وہ میری باتیں سن کر پریشان ہو رہا تھا۔

میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ایک سفر، زندگی کی طرح طویل تنہا سڑک، یادیں اور باتیں، آنسو اور قہقہے ۔۔۔۔۔ میری ساری زندگی اسی طرح گزرگئی۔ مجھے یہ سب کچھ میرے بابوں نے بتایا تھا، ایسے ویسے بابے نہیں جیسے آج کل کے ہیں، کھاؤ پِیر، اپنے نفس کے پُجاری، معصوم خلق خدا کو گم راہ کرنے والے، عیّار و مکار۔ وہ تو دانش مند تھے، باشرف تھے، ہاں ایسے انسان جو لوگوں کی خدمت پر معمور، وہ گاتے تھے۔

ناچتے تھے، مصیبت میں سب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے اور خلق خدا کے ہر پل کام آتے، تعصب، نہیں بالکل بھی نہیں! تعصب تو انہیں چُھو کر بھی نہیں گزرا تھا، وہ ہر انسان کو بس انسان سمجھتے تھے، کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے، ہندو، مسلم، سکھ، مسیحی، نہیں ، کبھی نہیں، بے ریا اور بے لوث۔ وہ اگر نہ ہوتے تو میں نہ جانے کس گڑھے میں پڑا ہوتا۔ وہ تو میں اب بھی گر جاتا ہوں لیکن انھوں نے ایسا چمتکار کیا کہ گڑھے میں گرنے سے بچانے والے پیدا کردیے۔ ورنہ تو میں نے دلدل میں دھنسنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

میں خود کو ہی اہم سمجھتا ہوں۔ کوئی مجھ سے محبت سے پیش آئے تو اس کے خلوص کی قدر نہیں کرتا، بل کہ اسے اپنا حق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ میں اسے نعمت نہیں، اپنا استحقاق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ یہی کچھ کیا ہے میں نے۔ میں ہر خوش بُو کو بوتل میں بند کردینا چاہتا ہوں، جب کہ خوش بُو تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔

میں خود جینا چاہتا ہوں، اس لیے کسی کو جیتے دیکھ کر کسی کو ہنستے دیکھ کر مجھ پر غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ میں خود پر کبھی غور نہیں کرتا کہ تنگ دلی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں، میں دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں۔ میں اپنی خامیوں، جنھیں میں چُھپانے کے لیے اتنی محنت کر رہا ہوں، اس سے بہت ہی کم محنت میں ان سے نجات حاصل کرسکتا تھا۔

لیکن نہیں! میں تو خود کو بیمار ہی نہیں سمجھتا تو علاج کیسا! کتنا سفاک ہوگیا ہوں میں۔ اس اندھے کا کیا علاج جو قدم قدم پر ٹھوکر کھائے اور خود کو اندھا ماننے سے انکار کردے۔ مجھے اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ زبان سے نہیں روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی بات سفر کرتی، خوش بُو پھیلاتی، لوگوں کو مہکاتی اور روح میں اتر جاتی ہے۔ میں خود کو بڑا فصیح البیان سمجھ بیٹھا ہوں۔ مجھے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب کرم ہے، توفیق ہے یہ جو میری آنکھ میں آنسو ہیں، یہ لطف و کرم ہے، یہ جو میرے ارد گرد بہار ہے عنایت ہے، میں سوچتا ہی نہیں، میں رب کا نہیں اپنی ذات کا پجاری بن گیا، خود کو پُوج رہا ہوں، خود نمائی، خود ستائی اور خود فریبی کا شکار ہوگیا ہوں۔

میں جانتا ہوں کہ میری چرب زبانی سے زندگی کی پستیاں ختم نہیں ہوسکتیں، مجھے خود بدلنا ہے، خود کو بیمار سمجھوں گا تب ہی تو میرا علاج ہوگا، لیکن میں دوسروں کو بیمار سمجھ بیٹھا ہوں۔ مجھے ہر ایک سازش کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے ہر آنکھ میری نگرانی کررہی ہے۔ میں ایک عجیب چکر میں گھوم رہا ہوں اور سمجھ ہی نہیں پارہا۔ مجھے سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی ایک درخت ہے جسے سانس کی آری مسلسل کاٹ رہی ہے۔ ہاں میں ایک دن نہیں رہوں گا، مجھے تو یہ کرنا چاہیے کہ میں نہ رہوں میری باتیں رہیں، میری خوش بُو رہے، میرا خلوص رہے۔ میں جسم کو بچانے کے چکر میں اپنی روح کو مار چکا ہوں، میں بہت خسارے میں ہوں اور رب سے کہتا بھی نہیں کہ مجھے اس مرض سے نجات دے دے۔

بہت لمبی سڑک تھی وہ ۔۔۔۔ اور میں یہی سوچ رہا تھا۔ پھر میں ان کے پاس پہنچا۔ دوست کے پاس، جن سے میں ہر بات کرسکتا تھا، ہر بات دریافت کرسکتا تھا۔ ہاں پھر میں نے سنا، ان کے دہن سے پھول جھڑے جی! مجھے یاد ہے، بہت اچھی طرح یاد ہے۔

’’دوست اور دشمن انسان کی اپنی پسند اور ناپسند کے مظاہر ہیں۔ محبت اور نفرت انسان کے اپنے مزاج کے حصے ہیں، جو انسان سراپا محبت ہو اسے دنیا میں کوئی انسان قابل نفرت نظر نہیں آتا۔ محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔ اپنی نظریں نظارے کو حُسن بخشتی ہیں۔ اپنا دل ہی سرِِ دل براں ہے۔

اپنا ذائقہ خوراک کو لذیذ بناتا ہے۔ اپنی حقیقت کو دریافت کرو تو کائنات کی حقیقتیں آشکار ہوجائیں گی۔ خود آگہی، خدا آگہی۔ اپنی سماعت کی اصلاح کرو تو آوازِ دوست مل جائے گی۔ نظر عطا کرنے والا نظاروں میں جلوہ گر ہے، ہم جس کے لیے ہیں وہی ہمارے لیے ہے۔ دنیا یا آخرت، جسم یا روح، ظلمات یا نور ۔۔۔۔۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ آسمان سے نور آتا ہے۔ روٹی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔ زمین و آسمان کا رشتہ ہمارے دم سے ہے۔ انکار و اقرار ہمارے اپنے نام ہیں۔ بلندی اور پستی ہمارے اپنے مقامات ہیں۔ ہم خود ہی گُم ہوگئے تو اس میں کسی کا کیا دوش!‘‘

نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا تھا، کیا کہہ گیا ہوں میں۔

دیکھا ہی نہ ہو جس نے کبھی خاک سے آگے

کیا اس کو نظر آئے گا افلاک سے آگے

شامل تو ہیں ہم قافلۂ ہوش و خرد میں

جانا ہے مگر منزلِ ادراک سے آگے

چلیے جی!

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے

The post رنگ بہ رنگی دنیا، نت نئے انسان appeared first on ایکسپریس اردو.

طبِ نبوی اور قسط البحری کے کرشمات

$
0
0

 اللہ رب العزت کا قیامت تک آنے والے ہر انسان پر احسان عظیم ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ایک طبیب اعظم اور طبیب عالم عطا فرمایا ہے۔

انسانیت مادی یا روحانی ترقیات میں آخری حد تک پہنچنے کے باوجود بھی محمدﷺ کی لائی ہوئی فطری زندگی جسے جدید دنیا Organic Life یا پھرLife Natural سے تعبیر کرتی ہے پر ہی واپس آنا پڑگیا ہے۔

ہماری کم فہمی اور کم علمی ہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی صحت مند زندگی گزارنے یا بیماریوں سے شفاء حاصل کرنے کے لیے محمد ﷺ کی مبارک زندگی سے حاصل ہونے والے طبی نکات جسے طب نبوی کہتے ہیں اس کا کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا اگر کسی نے علمی سفر کے دوران کتب حدیث کا مطالعہ کیا بھی تو فقط امتحان میں کام یاب ہونے کو مقصد بنا کر ہی ان احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا، لیکن کبھی یہ غور نہیں کیا کہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں کتاب الطب کا باب کیوں قائم کیا؟ ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف میں طب نبوی کی احادیث کیوں موجود ہیں؟ کیا یہ صرف مطالعہ برائے مطالعہ ہیں یا ان پر عمل کرنے کی برکت سے انسانیت بیماریوں کے چنگل سے نکل کر ایک صحت مند زندگی گزار سکتی ہے مگر یہ کام کون کرے گا؟

اگر یہ کام مسلمان قوم نہیں کرے گی جیسا کہ عموماً نہیں کررہی تو اللہ رب العزت کا دین اپنے پھیلنے میں صرف مسلمان کے جان و مال و اوقات کی قربانی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ جب چاہے جس سے چاہے اپنے مبارک دین اور اپنے نبی اکرمﷺ کی مبارک احادیث و زندگی کا کام کسی سے بھی لے لے۔ خوش قسمتی تو صرف ایمان والوں اور ایمان والیوں کی ہے اگر وہ ختم نبوت کی برکت سے اس کام کو اپنا کام سمجھیں۔

جتنی بھی غیرمسلم اقوام اس وقت عالم میں موجود ہیں وہ سب صرف اپنی بقاء کی خاطر Organic & Natural Life کی طرف تیزی سے پلٹ آئی ہیں۔ انہیں طب نبوی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی صورت میں شفاء تو مل رہی ہے مگر چوںکہ حالت ایمان میں نہیں ہیں اس لیے آخرت میں شفاعت سے محروم ہیں۔ مگر افسوس تو ان پر ہے جن کی قسمت میں شفاعت رکھی ہے وہ شفاء اور شفاعت دونوں سے عملی طور پر محروم ہوکر صحت کے حصول کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اب آپ موسم سرما کی آمد کو ہی لے لیجیے کون سا ایسا گھر ہے، جس گھر میں اس وقت بلغمی امراض کی آمد نہ شروع ہوچکی ہو۔ بچہ ہو، بڑا ہو، جوان ہو یا بوڑھا نزلہ، زکام،  کھانسی، ناک بند، سر میں درد کا شکار ہورہا ہے۔

لہٰذا ہم اس موسم کے اعتبار سے ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں پیارے آقا حضرت محمد عربی ﷺ کی مبارک زندگی یعنی طب نبوی سے اس موسم سرما کے امراض کے سلسلے میں احادیث مبارکہ آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں پھر ان سے ہونے والے تحقیقات، مشاہدات اور فوائد آپ کے سامنے رکھیں پھر آپ کی مرضی ہے چاہے اپنی نبی کریم ﷺ کی زندگی کو اپنا کر بلغمی امراض سے شفاء حاصل کریں بلکہ سنت کی اتباع کی نیت کی برکت سے آخرت میں شفاعت کے حقدار بھی بن جائیں یا پھر مختلف علاج گاہوں کے دھکے کھاتے رہیں اور اپنا پیسہ برباد کرتے رہیں۔

1۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا کہ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس تشریف لائے۔ آپ کے پاس ایک بچہ تھا، جس کے نتھنوں سے خون جاری تھا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا یہ کیا؟ ان لوگوں نے کہا حلق کے کوے میں چوں کے لگانے کی وجہ سے یا درد سر کی وجہ سے سیلان خون ہے (یعنی خون بہہ رہا ہے) آپؐ  نے فرمایا تمہاری سمجھ پر پتھر پڑے اپنی اولاد کو ہلاک نہ کرو۔ جب کسی عورت کے بچے کو حلق کے کوے کی تکلیف ہو یا درد سر ہو اسے عود ہندی (قسط بحری) کو لے کر پانی سے رگڑنا چاہے۔ پھر اسے ناک میں چڑھانا چاہے۔

یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس تدبیر کے کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چناںچہ یہ ترکیب عمل میں لائی گئی، بچہ پوری طرح تندرست ہوگیا۔ (مسند احمد، جلد نمبر2، صفحہ نمبر315)

2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اپنی اولاد کو ہلاک نہ کرو، جب کسی عورت کے بچے کو (گلے کے) ’’کوے کی تکلیف ہو تو عود ہندی (قسط البحری) کو پانی سے لے کر اس کی ناک میں چڑھائے۔ (بخاری 5713)

وضاحت: کوّا گوشت کا لٹکتا ہوا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو آدمی کے شروع حلق میں ہوتا ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ نے نمونیہ کے لیے وَرس، قسط البحری اور روغن زیتون پلانے کو مفید بتایا ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث3467)

4۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اپنے بچوں کو حلق کی بیماری میں گلا دبا کر عذاب نہ دو جب کہ تمہارے پاس قسط البحری موجود ہے۔ (بخاری و مسلم)

5۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’وہ چیزیں کہ جن سے تم علاج کرتے ہو ان میں حجامہ لگانا اور قسط البحری بہترین علاج ہے۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی)

6۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے بچوں کے حلق مت جلاؤ، جب کہ تمہارے پاس قسط ہندی اور ورس موجود ہیں۔ ان کو یہ چٹا دیا کرو۔ (مستدرک الحاکم)

7۔ حضرت اْمّ قیس بنت محصنؓ بیان کرتی ہیں ’’میں اپنا بچہ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔ اسے عذرہ (ناک اور منہ سے خون سے نکلنا) ہے۔ اس کے ناک میں بتی پڑی تھی اور گلا دبایا گیا تھا۔ حضور ﷺ اس امر پر خفا ہوئے کہ تم لوگ اپنے بچوں کو کیوں اذیت دیتے ہو۔ جب کہ تمہارے پاس عود الہندی (قسط البحری) موجود ہے، جس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے جن میں ذات الجنب (پھیپھڑوں میں پانی کی بیماری) بھی ہے۔ ذات الجنب میں یہ کھلائی جائے جب کہ عذرہ میں چٹائی جائے۔ (بخاری)

ضروری وضاحت: علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس حدیث کی تفسیر میں قرار دیا ہے کہ رسول اللہﷺ کی عود ہندی سے مراد قسط الہندی (قسط البحری) ہی ہے۔

قسط البحری کے طبی فوائد:

1۔ بلغم کو نکال کر آئندہ کی پیدائش کو روک دیتی ہے۔

2۔ زکام کو ٹھیک کردیتی ہے۔

3۔ اگر اسے پیا جائے تو معدہ، جگر اور طحال کی کمزوری کو رفع کرتی ہے۔

4۔ زہروں کی تریاق ہے۔

5۔ پرانے بخار، ملیریا میں اس کا سفوف مفید پایا گیا ہے۔

6۔ اگر اسے شہد اور پانی میں حل کرکے رات کو چہرے پر لگایا جائے تو چہرے کے داغ اتار دیتی ہے۔

7۔ حکیم جالینوس نے اسے کزاز اور پیٹ کے کیڑوں میں مفید بتایا ہے۔

8۔ قوت باہ میں اضافہ کرتی ہے۔

9۔ اس کا سونگھنا زکام میں مفید ہے۔

10۔ اس کا تیل کمر کے درد میں مفید ہے۔

11۔ جسمانی اعضاء کو قوت دیتی ہے۔

12۔ ریاح کو خارج کرتی ہے۔

13۔ ورم کو زائل کرتی ہے۔

14۔ سانس کے امراض میں بہت مفید ہے۔

15۔ سردی کے دردوں میں مفید ہے۔

16۔ دماغی بیماریوں خاص کر فالج ولقوہ، تشنج اور رعشہ میں بہت مفید ہے۔

17۔ بلغمی سر درد کو دور کرتی ہے۔

18۔ رحم کے دردوں کو دور کرتی ہے۔

19۔ دمہ کے مرض کو دور کرنے میں نافع ہے۔

20۔ کھانسی کو ختم کرنے میں بہت مفید ہے۔

21۔ ہیضہ کے بعد اعضاء کی سستی کو دور کرنے کے لیے قسط البحری کا جوشاندہ شہد کے ساتھ دینا بہت فائدہ مند ہے۔

22۔ قسط شیریں کا جوشاندہ پکا کر اس کے نیم گرم پانی میں پھٹے ہوئے ہاتھ، پیر ڈبونے سے ان کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔

23۔ سرکے میں قسط البحری کو حل کرکے لگانے سے جسمانی درد دور ہوجاتے ہیں۔

24۔ قسط البحری کی دھونی کمروں سے سیلن اور بدبو کو رفع کرتی ہے۔

25۔ اس کا سفوف زخموں پر لگانے سے جراثیم ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے مندمل ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔

26۔ اس کا سفوف سر کو دھونے کے لیے مفید دوا ہے۔

27۔ سانس کی بند نالیوں کی سوزش ختم ہوجاتی ہے۔

28۔ قسط البحری کا زیتون کے تیل کے ساتھ استعمال ہر قسم کی ٹی۔بی کا بہترین علاج ہے۔

29۔ قسط البحری کا سفوف دگنے شہد میں ملا کر چاٹنے سے شدید کھانسی اور دمہ کا دورہ کم ہوجاتا ہے۔

30۔ اسے کپڑوں میں رکھنے سے کپڑے کیڑوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

31۔ اس کا سفوف حلق کے امراض بہترین علاج ہے۔

32۔ ناک کی ہڈی / گوشت کا بڑھ جانے کے مرض کو ختم کرنے میں بہت ہی مفید ہے۔

33۔ نزلے کی وجہ سے ناک بند ہوجانے کے مرض کو دور کرتا ہے۔

34۔ کثرت سے چھینکیں آنے کا بہترین علاج ہے۔

35۔ گلے کے غدود بڑھ جانے کا مفید علاج ہے۔

36۔ سوتے میں خراٹے لینے کا مؤثر علاج ہے۔

37۔ سانس کے پھولنے کا علاج ہے۔

38۔ کان کے درد کا علاج ہے۔

39۔ نزلے کی وجہ سے آنکھوں میں پانی آنے کا علاج ہے۔

40۔ گردوغبار سے الرجی کا بہترین علاج ہے۔

قسط البحری کو استعمال کرنے کی آسان ترکیبیں: 1۔ ایک کلو دیسی آزاد مکھی کا شہد (Organic Honey) میں 300 گرام قسط البحری کا سفوف اچھی طرح سے ملا کر معجوب (Paste) بنالیں اور پھر اسے صبح و شام ایک چائے کا چمچہ اگر موسم سرد ہو تو نیم گرم پانی سے ورنہ سادے پانی سے کم از کم 40 دن باقاعدہ استعمال کرنے سے بلغمی امراض سے چھٹکارہ حاصل ہوجاتا ہے۔

2۔ ایک لیٹر عمدہ قسم کا (Organic Olive Oil) زیتون کا تیل لیکر اس میں 300 گرام قسط شیریں ڈال کر دھیمی آنچ پر اتنی دیر پکائیںکہ سفوف لال ہوجائے پھر اسے اتار کر ٹھنڈا کرلیں اور چھان کر ڈراپرز (Droppers) بھر لیں اور پھر 5,5 قطرے صبح و شام ناک میں ٹپکائیں اور ناک کے ہر قسم کے امراض سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اسی تیل کو ہر قسم کے کان کے درد میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ تیل بوقت ضرورت نہ صرف پھیپھڑوں کے امراض میں پیا جاسکتا ہے بلکہ جسمانی دردوں میں مالش میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ضد حیوی جڑی بوٹی Herbal Antibiotics: یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کہ قسط البحری بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ قسم کی ضد حیوی جڑی بوٹی ہے۔ جو لوگ کیمیکل والی (Antibiotics) استعمال کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ قسط البحری کو بطور (Antibiotics) استعمال میں لائیں ان شاء اللہ تعالیٰ بے ضرر ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے پہلوی اثرات (Side effects) کا کوئی اندیشہ نہیں رہے گا۔ صرف ایک چائے کا چمچہ یعنی 5 گرام صبح اور شام پانی یا پھر دودھ سے استعمال کرلیں آپ خود جان لیں گے کہ واقعی آسمانی (Antibiotics) اور کیمیکل والی (Antibiotics) میں کتنا نمایاں فرق ہے۔ تپ محرقہ (Typhoide) کے جراثیم کو مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا جب کہ قسط البحری اور شہد کے معجون (Paste) سے ان کا خاتمہ بہ آسانی ہوجاتا ہے۔

٭ چینی لوگ اسے مردانہ طاقت اور سفید بال سیاہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

٭ آنتوں کی سوزش اور پرانی پیچش کے لیے قسط شیریں اور کلونجی ہم وزن ملا کر 5 گرام سفوف کی چند خوراکیں کھانے سے ہی ان امراض سے شفاء حاصل ہوجاتی ہے۔

٭ سر درد میں صرف ایک چائے کا چمچہ یعنی 5 گرام ایک گلاس سادے پانی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔

٭جگر کے امراض خصوصاً یرقان میں اس کا استعمال دن میں چار سے پانچ مرتبہ انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔

٭ جگر کی پرانی خرابیوں کو دور کرتی ہے، بھوک کی کمی کو زائل کرتی ہے۔ آنتوں کے امراض کو دور کرنے خصوصاً ٹائیفائیڈ بخار کے جراثیم آنتوں میں موجود رہتے ہیں قسط شیریں کی برکت سے وہ جراثیم صرف چند سیکنڈ میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

٭ جو لوگ بدہضمی کے مرض کا شکار رہتے ہیں ان کیلئے یہ بہترین آسمانی دوا ہے۔ جتنے بھی شدید دست (Motion) آرہے ہوں اس کی ایک ایک گھنٹہ کے وقفہ سے چار خوراکیں ان شاء اللہ تعالیٰ کافی و شافی رہیں گی بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا یہ معدہ کے پرانے مریضوں کے لیے انتہائی مفید اور بہترین دوا ہے۔

٭ قسط شیریں، زیتون کا تیل اور شہد ہم وزن ملالیں یہ معجون (Paste) جسمانی کم زوریوں کے لیے انتہائی مفید (Tonic) ہے۔ یہ پھیپھڑوں میں پانی پڑ جانے والے مرض کے لیے بھی مفید ہے۔

٭ انسانی جسم میں قوت مدافعت بڑھاتی ہے، یہ بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم میں ایک ڈھال ہے۔

٭ اس کے استعمال کی وجہ سے وائرس کا حملہ کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔ مثلاً زکام تین دن لازمی رہتا ہے۔ اس کے استعمال سے اس کا دورانیہ ایک دن رہ جاتا ہے۔ حفاظتی اقدامات کے طور پر صبح و شام اس کا استعمال آپ کو وائرس کے حملوں سے محفوظ رکھے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

٭ اس کو کلونجی کے ساتھ ملا کر معدہ کے تمام امراض کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

٭ اگر کوئی زخم، پھوڑا، پھنسی ٹھیک نہ ہورہا ہو تو یہ وہاں بھی تیربہدف کی طرح کام کرتی ہے۔ صبح، دوپہر، شام پانی کے ساتھ ایک چائے کا چمچا صرف چند ہفتوں میں قدرت کا کرشمہ۔ اس نبوی نسخہ میں دیکھیں اور آپ جھوم اُٹھیں گے، آپ کہہ اُٹھیں گے کہ واقعی طب نبوی انسانوں کا تجویز کردہ نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا آسمانوں سے نازل کردہ بے ضرر علاج ہے جس سے انسانیت محروم بیٹھی ہے۔

٭ گُردوں کی سوزش میں اس سے بہتر دوائی شاید ہی کوئی ہو، گردوں میں سوزش کے جراثیم منہ کے ذریعہ ہی جاتے ہیں۔ گلا خراب ہو، ٹانسلز ہوں یا دانتوں میں انفیکشن ہو، آپ کے گردے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ قسط البحری پانی کے ساتھ 5 گرام یعنی چائے کا چمچا کچھ دن مستقل استعمال کرکے خود مشاہدہ کرلیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس مرض سے محفوظ رہیں گے۔

٭ قسط البحری پٹھوں کے درد کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ اعصاب مضبوط بناتی ہے۔

٭ گھر میں چھوٹے بچوں کو عموماً بازاری چیزیں مثلاً ٹافیاں بسکٹ، چھالیہ، پاپڑ وغیرہ کھانے کی وجہ سے گلے جلدی خراب ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بخار بھی چڑھ جاتا ہے۔ خصوصاً موسم سرما میں تو یہ بچے ٹھنڈ کا شکار ہو ہی جاتے ہیں اپنے بچوں کو موسم سرما کے بُرے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے خالص دیسی آزاد مکھی کے شہد میں قسط شیریں کا سفوف ملا کر معجون بنالیں اور بچوں کو صبح و شام چٹائیں۔ اگر بچے اپنی ماں کے دودھ پر ہیں تو یہ معجون بچوں کی والدہ کو پابندی سے استعمال کروائیں ان شاء اللہ ماں کے دودھ کی وجہ سے بچوں میں بھی اس دوا کا اثر لازمی آجائے گا اور بچے سردی کے اثرات سے محفوظ رہیں گے۔

٭ خواتین کے مخصوص امراض جن میں لیکوریا بھی شامل ہے، اس مرض سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی قسط شیریں کا استعمال لاجواب ہے۔ الغرض قسط شیریں استعمال کرنے سے پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 31 کا ترجمہ ذہن میں رکھ کر استعمال کریں تو نہ صرف فوائد ہی فوائد حاصل ہوں گے جس کو شفاء کہتے ہیں بلکہ آخرت میں شفاعت عظمیٰ کے مستحق بھی قرار پائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

٭ قسط البحری کو قسط شیریں یا قسط تلخ یا قسط ہندی بھی کہتے ہیں۔ تقریباً ہر بیماری کے خلاف جسم کو قوت پہنچانے والی یہ مسنون بوٹی کی قیمت بہت ہی سستی ہے اور یہ تقریباً ہر جڑی بوٹیاں بیچنے والے کی دکان سے جسے ہم پنساری کے نام سے جانتے ہیں آسانی سے مل سکتی ہے۔ بات صرف اور صرف اتباع سنت پر عمل کا جذبہ صادق اور حصول شفاء کی جستجو مقصود ہو تو ان شاء اللہ آخرت میں شفاعت بھی مقدر میں اللہ کے فضل و احسان کی برکت سے نصیب ہو ہی جائے گی۔

آخر میں اپنے تاجر حضرات سے یہ اہم گزارش کروںگا کہ طب نبوی کی خالص چیزیں لوگوں تک پہنچانے کے لیے وسیع پیمانے پر اعلیٰ اور عالمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے طب نبوی اسٹورز پورے ملک میں صرف اور صرف بُھلائی ہوئی اہم ترین سنت کو عملی شکل میں زندہ کرنے کی غرض سے قائم کیے جائیں تاکہ ایک عام انسان جو صرف سنت کی خاطر اس زندگی کو اختیار کرنا چاہتا ہو اسے طب نبوی کی تمام چیزیں ایک ہی معیاری اسٹور سے مل سکیں۔

ساری دنیا میں یہ کام  Stores Organic کے نام سے باقاعدہ تقریباً 30 سال پہلے سے ہورہا ہے۔ غیرمسلم اقوام اپنی بقاء کے حصول کیلئے اس زندگی پر بغیر ایمان لائے آچکی ہیں جسے ہم طب نبوی کہتے ہیں اور وہ لوگ اسے Life Organic  /   Life Naturalسے تعبیر کرتے ہیں۔

جو مسلمان مالی طور پر مضبوط ہوں انہیں چاہیے کہ باقاعدہ منظم انداز سے اس قسم کے طب نبوی سپر اسٹورز کی چَین (Tibbenabawi Super Stores Chain) بنانے کے لیے منصوبہ بندی کریں آپ کے اس کاروبار میں قدم اُٹھانے کی وجہ سے نہ صرف وطن عزیز پاکستان کی نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ ہزاروں نوجوانوں کو سنت نبوی کو پھیلانے کا عزت دار روزگار نصیب ہوگا۔ نیت سنت زندگی کو زندہ کرنے اور لوگوں کو ایک صحت مند طرز زندگی دینے کی ہو۔

ان شاء اللہ تعالیٰ مال و اسباب کا وجود تو اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے نصیب ہو ہی جائے گا جو لوگ بھی طب نبوی اسٹورز کا مضبوط نیٹ ورک پورے پاکستان میں بچھانے کا عزم مصمم کرچکے ہوں وہ احقر راقم الحروف سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ بندے کے بس میں جہاں تک اور جس قسم کا تعاون کرنا بھی ممکن ہوگا آپ سے تعاون کرنے میں بالکل دیر نہیں کی جائے گی۔

یہ یاد رکھیے گا کہ وطن عزیز پاکستان Organic اور Natural نعمتوں سے مالامال ہے بس صرف صحیح سمت میں مضبوط بنیادوں پر طب نبوی اسٹورز کھولنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ خالق کو راضی کرنے، مخلوق کو خالص، دیسی غذائیں، دوائیں پہنچانے اور طبیب اعظم ﷺ اور طبیب عالمﷺ کی مِٹی ہوئی زندگی عملی طور پر معاشرہ میں زندہ کرنے کی نیت اور ارادہ ہو۔ تو ان شاء اللہ ایسے ہی تاجروں کے بارے میں تو کہا ہے کہ ایمان دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے اور اگر وہ فساد کے زمانہ میں بھلائی ہوئی سنتیں پھیلانے میں کوشاں رہیں۔ ہر ہر سنت کے وجود میں آنے کی برکت سے نہ صرف سو شہیدوں کا ثواب ملنا آسان اور مزے دار ہوجائے گا بلکہ اللہ رب العزت کا محبوب بننا اور مغفرت کا مستحق بننا بھی آسان ہوجائے گا۔

اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و احسان سے ہم سب یعنی حضور ﷺ کی قیامت تک آنے والے آخری ایمان والے اور ایمان والی اْمتی کے لیے بھی ان کا حصول آسان فرمادے۔

The post طبِ نبوی اور قسط البحری کے کرشمات appeared first on ایکسپریس اردو.

سفیدہ

$
0
0

آزادکشمیر میں کاروباری مقصد کیلئے کاشت کئے جانے والے مخصوص درخت سفیدے (Populus) کے انسانی صحت کیلئے مضر اثرات ثابت ہوچکے، یہ بھی مانی ہوئی بات ہے کہ یہ سطح آب میں کمی کا موجب ہوتا ہے، حیرت ہے کہ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے متعلقہ حکام ان حقائق سے لاعلم ہیں،اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں شجر کاری سے متعلق تحقیق و منصوبہ بندی کا شدید فقدان پایا جاتاہے، یہ صورت حال ریاست میں ماحولیات اور انسانی زندگی کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

سفیدے کے نام سے مشہور اس درخت کو تلف کئے جانے کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے مختلف خطوں کے حکام سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں لیکن آزادکشمیر میں کام کرنے والے مختلف محکمہ جات بشمول محکمہ ماحولیات، صحت و جنگلات اس کے بُرے اثرات سے متعلق مکمل طور پر لاعلم ہیں۔

آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ سے 90 کی دہائی کے آغازمیں سفیدے کی شجرکاری کی ابتدا کی گئی۔ اس وقت آزاد کشمیر یونیورسٹی کے زرعی شعبے نے پہلی مرتبہ اس کی شجر کاری کی۔ بعد ازاں سرکاری سطح پر اس درخت کو کوئی خاص پذیرائی نہیں دی گئی لیکن نجی سطح پر لوگوں نے یہ درخت لگانے کا سلسلہ شروع کیا اور اسے کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ محکمہ جنگلات آزاد کشمیر کے مطابق اس خطے کے لوگوں کو سالانہ تیس سے پنتیس کروڑ روپے کی آمدن اس درخت کی لکڑی کی فروخت کرنے سے ہو رہی ہے جس میں سے کچھ حصہ ٹیکسز اور دیگر مدات میں سرکاری خزانے کو بھی جاتا ہے۔ سفیدے کی لکڑی کو سپورٹس مصنوعات، ماچس ، فرنیچر اورمقامی سطح پر ہونے والی تعمیرات میںاستعمال ہونے والی شٹرنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

سفیدے کی شجرکاری کے وقت اس کے ماحولیاتی اثرات کو زیر بحث لایا گیا نہ ہی تین دہائیاں گزرنے کے بعد اس کے ماحول اور صحت پر پڑنے والے اثرات زیر بحث لائے جا سکے ہیں حالانکہ سفیدے کی پیداوار سے پانی کی سطح میں انتہائی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

موسم بہار میں سفیدے کے درختوں پر روئی (Cotton) نما پھول کھلتے ہیں جو پولن الرجی، آنکھوں کی مختلف بیماریوں، زکام، پھیپھڑے اور گلے کے انفیکشن اور جلد کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ درخت جتنا زمین کے اوپر ہوتا ہے اس کی جڑیں اسی قدر زیر زمین پھیلی ہوتی ہیں۔ اگر یہ گھر یا سیوریج لائن کے قریب ہو اور اسے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہو تو اس درخت کی جڑیں گھر کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں اور سیوریج لائن کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ریسرچ سکالر ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ سفیدے کے درخت سے پانی کی سطح میں کمی آتی ہے اور آج سے بیس سال قبل راولاکوٹ شہر اور گردونواح میں کہیں بھی بورنگ کرنے پرتیس سے پچاس فٹ گہرائی پر پانی نکل آتا تھا لیکن آج تین سو فٹ سے پہلے پانی ملنا مشکل ہوتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ سفیدے کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ اس کے ساتھ سفیدے کے پتے جہاں گرتے ہیں وہ ارد گرد دوسرے پودوں کی افزائش کو روک دیتے ہیں۔اس وجہ سے پودوں میں بہت اچھا کمپیٹیٹر مانا جاتا ہے جو دوسرے پودوں کی افزائش کر روک کر خود پروان چڑھتا ہے۔اس کے علاوہ اس سے گرنے والی روئی پولن الرجی کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے مطابق آزاد کشمیر بالخصوص ضلع پونچھ کا موسم اس پودے کی افزائش کیلئے انتہائی موزوں ہے اس لئے یہاں کثرت سے پایا جاتا ہے۔

آزاد کشمیر کے پودوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ارشد بتاتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں سفیدے کی پانچ اقسام پائی جاتی ہیں جن کے سائنسی نام (Populus alba L, Populus Ciliata wall ex Royle, Populus euphratica Oliv,  Populus nigra L,  Populus parmirica kom) ہیں ۔ ڈاکٹر ارشدکے مطابق آزاد کشمیر میں زیادہ تعداد میں پایا جانے والے سفیدے (Populus alba L)کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ یہ مغربی آسٹریلیا کے نمی والے علاقوں اور (Murrumbidgee River) کے ساحل کے ساتھ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جہاں انھیں ساحلی نباتات کیلئے خطرہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں پائی جانے والی سفیدے کی دوسری بڑی قسم کے سفیدے کی ہے جو سات سے دس سال میں تیار ہو جاتا ہے اور ارد گرد کی زمین سے سارے کا سارا پانی کھینچ لاتاہے۔

راولاکوٹ کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے حمید کامران بتاتے ہیں کہ وہ سفیدے کی پولن الرجی سے ہر سال متاثر ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے اطراف میں سفیدے کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

اس وجہ سے سفیدے کی روئی ان کے صحن میں جمع رہتی ہے اور اس سے ان کی آنکھوں میں شدید خارش اور سانس لینے میں مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج کیلئے جب ہسپتال جاتا ہوں تو ماسک اور عینک پہننے کی تلقین کی جاتی ہے۔ بعض ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ بہار کے آغاز پر میں یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں بہار کے آغاز میں آنکھوں کی بیماری اور گلے کی خرابی کی بیماری عام ہوتی ہے ۔

سفیدے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر طب ڈاکٹر شبیر (سابق ڈائریکٹر EPA )کا کہنا ہے کہ عوام کو احتیاطی تدابیر میں چہرے کے ماسک استعمال کرنے چاہئیں تاکہ روئی گلے سے اندر نہ جا سکے اور صبح وشام غیر ضروری باہر نکلنے سے گریز کیا جانا چاہئیے۔ڈاکٹر شبیر کا کہنا ہے کہ سفیدے کی یہ روئی مادہ درختوں سے زیادہ بنتی ہے۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ محکمہ جنگلات مادہ درختوں کو تلف کرے ۔

تراڑ کھل سے تعلق رکھنے والے سردار عاصم بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے نزدیک نمی زدہ علاقہ تھا جہاں ہر وقت کیچڑ رہتا تھا اس کیچڑ سے بچنے کیلئے کسی کے مشورے پر سفیدے کے درخت لگائے اور دو تین سال میں وہ جگہ مکمل خشک ہو گئی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب سے ان کے علاقے میں سفیدے کی درختوں کی کثرت ہوئی وہاںموجود پانی کے چشموں میں پانی کی مقدار بہت کم رہ گئی ہے۔

اس حوالے سے آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر ماحولیات شفیق عباسی کا کہنا ہے کہ سفیدے کے حوالے سے شعبہ ماحولیات کو آج تک کوئی شکایت موصول نہ ہوئی اس لئے اس بارے میں انوائرنمنٹل اسٹڈی نہیں کی گئی۔ہم کسی چیز کی اسٹڈی اس وقت کرتے ہیں جب مقامی سطح سے شکایت موصول ہو یا معاملہ میڈیا میں آئے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسے معاملے پر تو کام نہیں کر سکتے جس کی شکایت اسلام آباد یا باہر بیٹھا کوئی شخص کرے۔

جب تک مقامی لوگوں کی جانب سے شکایت موصول نہیں ہوتی ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ اسے کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ لوگوں کو فائدہ دیتا ہے اور عوامی سطح پر اس کے نقصانات کی کوئی شکایت آزاد کشمیر کے محکمہ ماحولیات کو موصول نہیں ہوئی۔ آج پہلی مرتبہ سفیدے کے اثرات کے حوالے سے بات کی جارہی ہے۔

محکمہ جنگلات آزادکشمیر کے سیکرٹری ظہور گیلانی کاکہنا ہے کہ سرکاری سطح پر سفیدے کی افزائش بہت کم کی جاتی ہے کیونکہ جہاں اس کے فائدے ہیں وہیں یہ پانی کی سطح میں کمی کا موجب بنتا ہے اور اس کی روئی بھی نقصان دہ ہے۔ محکمہ جنگلات کے ایک سابق آفیسر کا کہنا تھا کہ سفیدے کی شجرکاری سے جہاں کئی لوگوں کو ذاتی حیثیت میں فائدہ ہوا وہیں حکومت آزاد کشمیر کو بھی فارمز (لکڑی کی ترسیل اور فروخت کے دوران محکمہ جنگلات فارم 25کے نام سے ایک اجازت نامہ جاری کرتا ہے جس میں لکڑی کی مالیت پر مخصوص فیس وصول کی جاتی ہے)کی وصولی اور دیگر مدات میں کچھ فائدہ ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر کے عوام کو سفیدے کی فروخت سے سالانہ 30 سے 35 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ آمدن ریاستی سطح پر نہیں بلکہ نجی سطح پر ہوتی ہے۔تاہم حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں اس سے کافی آمدن آ جاتی ہے۔

آزاد کشمیر میں ماحولیات اور دیگر شعبہ جات سفیدے کے اس درخت کے صرف کاروباری پہلو سے واقف ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں اس درخت کے مضر اثرات کے باعث اس کی کاشت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر(جموں وکشمیر) ہائی کورٹ نے سال 2014ء میں سفیدے کی کاشت اور کاروبار پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ بعد ازاں پندرہ مئی 2015ء کو ایک درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ نے سفیدے کے قریباً دو کروڑ درخت تلف کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنر صاحبان کو ایک سال کا وقت دیا تھا، جس پر جزوی عملدرآمد کرتے ہوئے ضلع پلوامہ اور کولگام میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چھ لاکھ کے قریب درخت تلف کئے گئے، آسٹریلیا میں بھی سفیدے کی مذکورہ قسم کو تلف کرنے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے جبکہ آزادکشمیر کے پونچھ ڈویژن ، میرپورڈویژن اور دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر سفیدے کی شجر کاری سے متعلق حکومتی سطح پر کسی قسم کی پالیسی واضح نہیں۔

ماہرین کے مطابق روئی(پولن) کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ مادہ درخت ہیں تاہم محکمہ جنگلات کی جانب سے تحقیق نہ ہونے کے باعث عوام میں یہ آگاہی موجود نہیں ہے کہ مادہ درخت کون سا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ کے اوائل میں درختوں پر اگنے والے شگوفوں کو تلف کرتے ہوئے اور درختوں کی شاخ تراشی کے ذریعے بھی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے تاہم مکمل طور پر ماحولیاتی اثرات سے بچنے کیلئے درختوں کو ہی تلف کیا جانا چاہیے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سفیدے کی کاشت والے اضلاع خاص طور پر پونچھ ڈویژن میں پانی کی فراہمی کیلئے قدرتی چشمے اور نجی سطح پر کروائی گئی بورنگ ہی کلیدی ذرائع کے طورپر موجود ہیں، سرکاری سطح پر واٹر سپلائی سکیم کی تعمیر سے متعلق تاحال کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی ہے، سفیدے کے درخت کی کاروباری سطح پر بڑے پیمانے پر ہونے والی کاشت کے باعث پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی جانے کے سبب پانی کی قلت مستقبل کے اہم خطرات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے بھی سفیدے کی کاشت کی حوصلہ شکنی اور متبادل پانی کی سکیموں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

The post سفیدہ appeared first on ایکسپریس اردو.

سر ڈیوڈ لین ۔۔۔ اک صدی کا عظیم ہدایت کار

$
0
0

’’ڈرامائی انداز میں پیش کی جانے والی حقیقت کو فلم کہا جاتا ہے اور فلم کو حقیقت تک پہنچانا ایک ڈائریکٹر کا کام ہے‘‘ یہ مقولہ اس عظیم ہدایت کار کا ہے، جسے دنیا سر ڈیوڈ لین کے نام سے جانتی ہے۔ بلاشبہ ڈیوڈ لین وہ شخصیت تھے، جنہوں نے فلم سازی کا کلچر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔

پورے کیرئیر میں صرف 17 فلمیں بنا کر خود کو فلم سازی کی تاریخ میں امر کرنے والے ڈیوڈ لین نے رزمیہ (Epic) فلموں کی وجہ سے وہ شہرت کمائی، جو شائد کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہدایت کاری کی صنف کو جدید رموزو اوقاف سکھانے والے لین کو صدی کے بہترین ڈائریکٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے زیادہ تر جنگوں اور رومانس پر مبنی فلمیں بنائیں، جنہیں دیکھ کر آج بھی شائقین ڈیوڈ کو داد دیئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ڈیوڈ وہ ڈائریکٹر تھے، جو صرف خود ہی فلمی دنیا کے آسمان پر نہیں چمکے بلکہ جو ان کے ساتھ چلا وہ بھی دنیا کی آنکھ کا تارا بن گیا، جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ڈیوڈ لین کی ہدایت کاری کی وجہ سے ہالی وڈ کی 11 اداکاراؤں کو آسکر مل چکا ہے۔

ہالی وڈ لیجنڈ فلم ڈائریکٹر ڈیوڈ لین اگر زندہ ہوتے تو رواں ماہ 25 مارچ کو وہ اپنی 112واں جنم دن منا رہے ہوتے۔ لین 25 مارچ 1908ء کو جنوبی لندن کے ایک ٹاؤن کرائے ڈن میں پیدا ہوئے، ان کے والد فرانسیس ویلیم لین اور والدہ کا نام ہیلینا ٹینگیے تھا، جو معروف برطانوی انجینئر سر رچرڈ ٹینگیے کی بھانجی تھیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ نے جنوب مشرقی انگلستان کی کاؤنٹی برک شائر میں واقع سکول لائیٹن پارک میں تعلیم حاصل کی۔

ان کے چھوٹے بھائی ایڈورڈ لین ادب سے خاص شغف رکھتے تھے اور اسی شوق کی تسکین کے لئے دوران تعلیم ہی انہوں نے ’’اینک لینگز‘‘ کے نام سے ایک ادبی کلب بنایا، جو 2 دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہا، تاہم ایڈورڈ کے برعکس ڈیوڈ کو تعلیم حاصل کرنے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی، اس لئے انہیں ایک ناکام طالب علم کہا جاتا تھا۔ 1926ء میں انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں سکول چھوڑ کر اپنے والد کی فرم کو بحیثیت انٹرنی جوائن کر لیا۔

اسکول سے بھاگنے کی ایک بڑی وجہ ڈیوڈ کے اس شوق کی تسکین بھی تھی، جو بچپن سے ہی ان کے سر پر سوار تھا یعنی عکس بندی۔ 10 برس کی عمر میں ڈیوڈ کو ان کے انکل نے تحفتاً ایک کیمرا دیا، جس سے تصاویر بنانا ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈ لین کا کیرئیر بنانے میں ان کے انکل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، کیوں کہ ڈیوڈ بچپن سے ہی اس شعبے کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ 1923ء میں ڈیوڈ کے والد نے ان کے والدہ کو طلاق دے کر اپنا گھر اجاڑ دیا اور شائد یہی وجہ تھی کہ بعدازاں ڈیوڈ بھی انہی راستوں پر چل نکلے کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی پہلی بیوی کو اس وقت طلاق دی، جب وہ ایک عدد بیٹے کے والد تھے۔

عظیم ہدایت کار کے کیرئیر کا آغاز زمین کی تہہ سے شروع ہوا لیکن پھر وہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ والدکی فرم میں ایک سال کے دوران ہی ڈیوڈ میں کام سے بیزار ہونے لگے، جسے دور کرنے کے لئے ان کی ہر شام سینما میں گزرتی، اس روش کو دیکھتے ہوئے ڈیوڈ کی آنٹی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سینما میں ہی کوئی ملازمت تلاش کر لے، جس سے کام کے ساتھ ساتھ ان کے شوق کی تسکین بھی ہوتی رہے گی۔

آنٹی کا مشورہ کام کر گیا اور انہوں نے  Gaumont Studiosمیں ملازمت کی ٹھان لی، جہاں پہلے ایک ماہ انہیں اجرت کے بغیر کام کرنا پڑا۔  Gaumont Studiosمیں ڈیوڈ نے پہلے پہل ٹی بوائے(چائے پیش کرنے والا لڑکا) کا کام کیا تو پھر انہیں ترقی دے کر کلیپر بوائے (سین شروع کرنے کے لئے لکڑی کی تختی بجانے والا) بنا دیا گیا، بعدازاں جلد ہی وہ تھرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے۔ 1930ء تک پہنچتے پہنچتے ڈیوڈ فلم ایڈیٹر بن چکے تھے۔ The Night Porter لین کے کیریئر کی وہ پہلی فلم تھی، جو انہوں نے ایڈیٹ کی، جس کے بعد انہوں نے اس وقت کی بہترین فلموں کی کانٹ چھانٹ کے فرائض سرانجام دیئے۔

خداداد صلاحیتوں کے مالک اور محنت شائقہ کے قائل ڈیوڈ نے فلم ایڈیٹر کے بعد اپنے ذہنی میلان کے مطابق ہدایت کاری کی جانب رخ کیا۔ سب سے پہلی فلم جو انہوں نے ڈائریکٹ کی وہ In Which We Serve تھی، جس میں ان کے ساتھ اس وقت کے معروف ہدایت کار نوئل کوارڈ بھی شامل تھے، تاہم اس فلم کی کامیابی کے بعد ڈیوڈ میں مزید حوصلہ پیدا ہوا اور صرف 2 سال بعد ہی یعنی 1944ء میں انہوں نے ایک اور فلم (This Happy Breed) اپنی ہدایت کاری میں بنا ڈالی اور اس بار وہ نہ صرف اکیلے ہدایت کار تھے بلکہ اس فلم کی کہانی بھی انہوں نے خود لکھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ 1955ء میں بننی والیSummertime  وہ فلم تھی، جسے ڈیوڈ کے لئے نئے سفر کا آغاز قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس پر لگنے والا پیسا پہلی بار ملک کے باہر یعنی امریکا سے آیا، اس فلم کی ہیروئن (کیتھرین ہببرن) بھی ایک امریکن تھیں۔

ہدایت کاری سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ڈیوڈ لین زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنے کام میں مصروف رہتے تھے۔ جس برس ان کا انتقال ہوا یعنی 16 اپریل 1991ء کو تو اس وقت بھی وہ جوزف کونرڈ کے ایک ناول پر بننے والی ایک فلم کی پری پروڈکشن میں مصروف تھے تاہم سکرپٹ پر جھگڑے کی وجہ سے وہ یہ پراجیکٹ چھوڑ گئے، تاہم بعدازاں ڈیوڈ نے میگی انسوارٹ (معروف سینما ماہر جیوفیر انسوارت کی اہلیہ) کے ساتھ مل کر خود ہی اس فلم کا سکرپٹ لکھنے کی ٹھانی۔ فلم کے لئے 46 ملین ڈالر کا بجٹ موجود تھا، لیکن بدقسمتی سے فلم کی شروعات کے صرف 6 ہفتے قبل ہی ڈیوڈ لین کی موت واقع ہو گئی۔

فلمی دنیا کا سفر اور اعزازات
برطانیہ کا سب سے بڑا سول اعزازMost Excellent Order of the British Empire پانے والے ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے فلمی صنعت میں بحیثیت ایڈیٹر قدم رکھا اور جو پہلی فلم انہوں نے ایڈیٹ کی وہ The Night Porter تھی۔

گومونت برٹش پیکچر کارپوریشن کے بینر تلے بننے والی یہ ایک مزاحیہ فلم تھی، جس کے بعد 1931ء میں بننے والی فلم These Charming People سے لے کر 1942ء میں بننے والی فلم One of Our Aircraft is Missing تک ڈیوڈ لین نے مجموعی طور پر کل 25 فلموں میں بحیثیت ایڈیٹر کام کیا۔ 1942ء میں بطور ایڈیٹر آخری فلم کرنے کے بعد اسی برس ڈیوڈ نے وہ کام شروع کیا، جس کے لئے شائد وہ جنم لئے تھے، یعنی ہدایت کاری۔

لین نے بحیثیت ڈائریکٹر سب سے پہلے In Which We Serve بنائی، جس پر 240ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ فلم دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائی گئی تھی، اس لئے فلم کا پلاٹ بھی جنگ ہی تھا۔ اگرچہ یہ لین کی پہلی کاوش تھی لیکن پھر بھی یہ فلم اپنی لاگت کو پورا کرتے ہوئے کمائی کی جانب گئی یعنی باکس آفس پر اس نے 3 سو سے زائد ملین ڈالر کمائے۔ بحیثیت ڈائریکٹر پہلی فلم کے بعد ڈیوڈ لین کا حوصلہ بلند ہوا تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ایسی کمال فلمیں بنائیں جنہیں آج تک بھلایا نہیں جا سکا۔

The Bridge on the River Kwai، Lawrence of Arabia، Doctor Zhivago، A Passage to India، Summertime، Ryan’s Daughter، Lost and Found: The Story of Cook’s Anchor ڈیوڈ کی وہ شاہکار فلمیں ہیں، جنہیں ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ بحیثیت ڈائریکٹر لین نے کل 17 فلمیں بنائیں۔ فلمی صنعت میں انفرادیت اور جدت کی مثال ڈیوڈ لین کو بہترین خدمات پر ملکہ الزبتھ نے 1984ء میں ڈیوڈ کو سر کا خطاب دیا۔

ایوارڈز کی بات کی جائے تو ڈیوڈ لین کو 1958ء میں فلم The Bridge on the River Kwai کے لئے بہترین ہدایت کاری پر آسکر دیا گیا، اسی طرح 1963ء میں بھی انہیں فلم Lawrence of Arabia کے لئے بہتری ہدایت کاری پر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈیوڈ 3 بار گولڈن گلوب، 6 بار بی اے ایف ٹی اے، 2 بار ڈائریکٹرز گیلڈ آف امریکا، 4 بار نینشل بورڈ آف ریویو، 3 بار نیویارک فلم کریٹیکس سرکل کے علاوہ سلور کونڈر، برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، کیناس فلم فیسٹیول، ڈیوڈ دی ڈونٹیلو، ایوینگ سٹینڈرڈ برٹش فلم، ہیوگو، نیسٹرو، کینسس سٹی فلم کریٹیکس سرکل، رائٹرز گیلڈ آف امریکا سمیت متعدد ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔ 1990ء میں معروف ہدایت کار کو امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔

’’ریانز ڈاٹر‘‘ سے ملنے والی مایوسی

1970ء میں ڈیوڈ لین نے ریانز ڈاٹر (Ryan’s Daughter) کے نام سے ایک رومانوی فلم بنائی۔ فلم میں پہلی جنگ عظیم کا دور دکھایا گیا، جس میں ایک شادی شدہ آئرش خاتون ایک برطانوی آفیسر سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ فلم کی کہانی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس وقت کے بڑے بڑے ناقدین نے جی بھر کر فلم پر تنقید کی، جس کی وجہ سے ڈیوڈ کو اتنا دکھ اور افسوس ہوا کہ پھر اگلے 14 برس تک انہوں نے کوئی فلم نہیں بنائی، تاہم دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ بے پناہ تنقید کے باوجود اس فلم نے باکس آفس پر راج کیا۔ یہ فلم 13.3 ملین ڈالر کی لاگت سے بنائی گئی تھی جبکہ اس کی کمائی 31 ملین ڈالر تھی۔ ریانز ڈاٹر کو آسکر ایوارڈ کی چار مختلف کیٹیگریز کے لئے بھی نامزد کیا گیا، جن میں سے دو کیٹیگریز میں اسے فاتح قرار دیا گیا۔

ناکام نجی زندگی

ڈیوڈ لین کے شریک لکھاری اور پروڈیوسر نارمن سپنسر بتاتے ہیں کہ ’’ لین خواتین کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے، میرے خیال میں ان کے اردگرد کوئی ایک ہزار خواتین تو رہتی ہوں گی، لیکن انہوں نے شادی ان میں سے صرف 6 کے ساتھ کی‘‘ ڈیوڈ نے 22سال کی عمر میں یعنی 28جون 1930ء کو اپنی کزن ازابیل لین سے شادی کی، جس میں سے انہیں قدرت نے ایک بیٹا پیٹر عطا کیا۔

1936ء میں یہ شادی کا بندھن ٹوٹ گیا اور 6 سال بعد یعنی 1940ء میں لین نے معروف اداکارہ اور ڈانسر کے واش سے بیاہ رچا لیا، لیکن یہ تعلق بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور 1949ء میں ان میں طلاق ہو گئی۔

اسی برس معروف ڈائریکٹر نے ایک خوبصورت اداکارہ و پروڈیوسر این ٹوڈ سے شادی کر لی، جو 8 سال چلی۔ 1960ء میں ڈیوڈ نے ایک بھارتی دوشیزہ لیلا سے شادی کر لی۔ ڈیوڈ کی تمام شادیوں میں سے یہ سب سے زیادہ دیر (18سال) چلنے والی شادی تھی لیکن بالآخر اس کا انجام بھی طلاق پر ہی ہوا۔ سینڈرا ہوٹز کے ساتھ 1981ء میں ہونے والی شادی صرف 3سال بعد یعنی 1984ء کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی، جس کے بعد 1990ء ڈیوڈ نے آخری بیاہ سینڈرا کوک سے رچایا، کیوں کہ 1991ء میں خود لین کا انتقال ہو گیا۔

The post سر ڈیوڈ لین ۔۔۔ اک صدی کا عظیم ہدایت کار appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچہ سخن

$
0
0

غزل


کچھ معتدل حیات کا موسم ہُوا تو ہے
آنچل کسی کے دوش پہ پرچم ہوا تو ہے
پہلی سی اب مزاج میں شوخی نہیں رہی!
لہجہ کسی کی بات کا سرگم ہُوا تو ہے
مری شبیہ کا عکس بھی شاید دکھائی دے
گوشہ کسی کی آنکھ کا پُر نم ہوا تو ہے
محسوس کررہا ہوں کئی روز سے کمی
نالہ شبِ فراق کا کچھ کم ہُوا تو ہے
تنہائیوں میں یاد بھی رہتی ہے ساتھ ساتھ
لیکن خیالِ یار بھی ہمدم ہوا تو ہے
اڑتی سی اک خبر ہے کہ وہ بھی اداس ہے
اس کو بھی میری ذات کا کچھ غم ہُوا تو ہے
جلتا ہوں سَر سے پیر تک اپنی ہی آگ میں
کچھ حسرتوں کے زخم کا مرہم ہوا تو ہے!
کوئی تو ایسی بات تھی جو دل میں چبھ گئی
جس کا ملال آپ کو محرم ؔ ہُوا تو ہے
(رفیع یوسفی محرم۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


تُو جو خدا کی نقل کر رہا ہے ایک کام کر
ظروف کو سنوار روح کا بھی انصرام کر
مری سعادتوں نے قصد کر لیا امام کا
تو راستے یزید کر یا فاصلے صدام کر
یہاں کوئی بھی موج پیاس کی امین تھی، نہ ہے
یہاں بھی اک فرات ہے یہاں پہ مت خیام کر
کلیم نے، خلیل نے حبیب نے یہی کہا
اذان دے، نماز پڑھ، قنود کر، سلام کر
خلوص ہی کٹار ہے، حرف کدوں کی جنگ میں
تہِ زباں دبا کے رکھ ابھی نہ بے نیام کر
شاید ترے سکون کا ادیب حل نکال لیں
مشاعرے شروع کر، مظاہرے تمام کر
سبیل زمزمی مزاج مانگتی ہے ساگرا
قبول ہے یہ شرط تو نگاہ میں قیام کر
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


حذر کی آخری حد کا عذاب ہونا پڑا
ہمیں بھی مصلحتاً بازیاب ہونا پڑا
ترے حواس پہ طاری تھا اب بچھڑ جانا
میں ہوش میں تھی مگر نیم خواب ہونا پڑا
ہمیں کوئی تو سنے ایک آرزو میں فقط
کسی کے ہاتھ میں کھیلے، رباب ہونا پڑا
نہ چاہ تھی، نہ طلب تھی، دیار انجانا
سو جس نے جیسے پکارا، شباب ہونا پڑا
تری کتاب کا ہر لفظ جس کا چہرہ تھا
یہ کیا ستم کہ اسے صرف باب ہونا پڑا
تو شاہ تھا ہی نہیں فقر تیرا پیشہ تھا
ہو خیر تیری تجھے کیوں خراب ہونا پڑا
وہ پیر باندھ کے بولے کہ ناچ اب سائیں
زمین سمٹی، ادب میں حساب ہونا پڑا
(سارہ خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
مرجھا گئے گلاب مرے زخم سونگھ کر
کیکر کا پیڑ دیکھ کے مجھ کو مہک گیا
پیچھا کِیا ہے ظلمتِ شب کا سحر تلک
سورج بہت گیا تو یہی شام تک گیا
اک عمر میری آنکھ ہی صحرا رہی فہدؔ
پھر یوں ہوا کہ خون کا آنسو ٹپک گیا
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


یوں بھی اپنا دل بہلاتا رہتا تھا
ریشم جیسے خواب بناتا رہتا تھا
چھیڑ کے سازِ ہجر میں رات کے پچھلے وقت
گلیوں میں آواز لگاتا رہتا تھا
اب یہ جانا میرے حق میں بہتر تھا
جو میں اپنا آپ چھپاتا رہتا تھا
اک شہزادی خواب میں ملنے آتی تھی
اور میں اس کو خواب سناتا رہتا تھا
اک درویش پڑوسی تھا اور وہ مجھ کو
شرک نہ کرنا، یہ سمجھاتا رہتا تھا
(طارق جاوید۔کبیر والا)

۔۔۔
غزل


ہوا کا ساتھ نبھانے سے معذرت کر لی
جلے چراغ بجھانے سے معذرت کر لی
ہمارے پاؤں مسافت سے تنگ آئے تھے
سو سَر کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کر لی
اسی کے گھر کو جلایا گیا ہے پچھلے دنوں
وہ جس نے شہر جلانے سے معذرت کر لی
اسی سے چھینا گیا رزق اس کے حصے کا
وہ جس نے چھین کے کھانے سے معذرت کر لی
اک عمر مجھ کو دلاسے دیے گئے یارو
پھر اس نے لوٹ کے آنے سے معذرت کر لی
توقعات پہ پورا اتر نہ پایا تو
نوید میں نے زمانے سے معذرت کر لی
(نوید انجم۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


جو میں اپنے سے اچّھا ڈھونڈتا ہوں
کوئی ایسا ہی بندہ ڈھونڈتا ہوں
لگے اپنوں سے بڑھ کر جو پیارا
کوئی ایسا پرایا ڈھونڈتا ہوں
جو جیتا ہے کئی خانوں میں رہ کر
وہ دنیا کا اکیلا ڈھونڈتا ہوں
مکر جائے جو سچ کہہ کر زباں سے
اب ایسا ایک جھوٹا ڈھونڈتا ہوں
میری پہچان مجھ سے کھو گئی ہے
خود اپنا ہی میں چہرہ ڈھونڈتا ہوں
بہت اکتا گیا ہوں تیرگی سے
حقیقت میں اجالا ڈھونڈتا ہوں
بدل دے جو مقدر کو بھی عارفؔ
کوئی میں کرماں والا ڈھونڈتا ہوں
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


بے چین دھڑکنوں میں ہیں گہری اداسیاں
روٹھا کوئی تو شہر میں پھیلی اداسیاں
رخصت ہوئے مکین تو خالی مکان میں
آسیب بن کے ہر جگہ اتری اداسیاں
شکوے بھلا کے میں بھی ترے پاس آ گئی
تو مسکرا کے ٹال دے ساری اداسیاں
ہوتی نہیں ہے شہر میں یونہی تو روشنی
ہر اک دیے کی لَو میں ہیں جلتی اداسیاں
آگے بھی اس سے دیکھ تو وحشت ہے کس قدر
تم نے تو صرف آنکھ میں دیکھی اداسیاں
تنہا بھی ہو کے میں کہیں تنہا نہیں رہی
میری سہیلیاں ہیں یہ میری اداسیاں
اس کا بھی کچھ مزاج اذیت پسند تھا
ہم نے بھی بال کھول کے اوڑھی اداسیاں
مانگے ہوئے ستارے، بہاریں ادھار کی
ان سے عزیز تر مجھے اپنی اداسیاں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


کسی کی محبت میں مسمار ہونا
بڑا پُر خطر ہے یہاں پیار ہونا
کہیں دھڑکنیں بند کر دے نہ میری
کہیں جاں نہ لے لے جگر تار ہونا
سزا پائی ہے بے گناہی کی میں نے
سو واجب ہے اب تو گنہگار ہونا
سمجھ جاؤ گے عشق کیوں لادوا ہے
کسی کے کبھی تم بھی بیمار ہونا
کہ جب سے تمہاری طلب مار ڈالی
کھٹکتا ہے تب سے طلب گار ہونا
(کاظم علی۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


یقین والا جدائیوں کے گمان بانٹے
چراغ جیسے دھویں کے کالے نشان بانٹے
تمہاری آنکھوں نے اک گداگر کو کشمکش دی
تمہارے ہاتھوں سے بھیک لے یا وہ دھیان بانٹے
ابھی تو باری شکاریوں کی بھی آنے کو ہے
شکار کب تک وجودِ جاں کی لگان بانٹے
وہ جس کو حاصل ہیں خلقِ ہستی کے سب عناصر
اب اس پہ ہے کہ گلاب بانٹے، چٹان بانٹے
ہمارے پرکھوں نے یہ وراثت میں ہم کو سونپا
کہ سات نسلوں کو دردِ فرقت کے گیان بانٹے
برائے حجت یہ رونا دھونا، یہ آہ و زاری
ہمارے جانے پہ غم زدوں نے مکان بانٹے
مجھے تو تہذیب نے محبت کا گر سکھایا
تجھے بھلا کون نفرتوں کے بیان بانٹے؟
تمہارے در پر کئی سوالی اجڑ گئے ہیں
تمہارے در پر تمہارا باقی امان بانٹے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


مکاں کی کھڑکی کُھلی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
جہان نظر ہر جمی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
یہ میں جو تجھ پہ نثار کرتا ہوں جان اپنی
یہ تو جو مجھ پہ مری ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
اسے جو پہلی نظر میں دیکھا تو یوں لگا کہ
وہ مجھ سے پہلے ملی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
لہو میں لت پت پڑی ہے لڑکی اور آدھی بوتل
شراب کی بھی پڑی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
غریب کیا ہے امیر کو بھی نہیں ہے راحت
سبھی کی جاں پر بنی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
مِرے رفیقوں نے شاخِ الفت جو کاٹ دی تھی
وہ آج پھر سے ہری ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
یہ شوخ و چنچل کسی کا نمبر مِلا کے انجم
جو طاق پیچھے چھپی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)

The post کوچہ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

کرکٹ علاجِ غم ہے

$
0
0

کرکٹ ہم پاکستانیوں کے ہر درد کا علاج اور ہر غم کا مداوا ہے، بلکہ ہر مسئلے کا حل ہے۔ ملک میں پورا نظام ہلا کر رکھ دینے والا سیاسی بحران ہو، معیشت کا بیڑا غرق ہورہا ہو، منہگائی نے جان عذاب کر رکھی ہو، بدامنی نے خون خشک کر رکھا ہو۔

کوئی قیامت برپا ہو، اِدھر کرکٹ میچ شروع ہوا اور اُدھر پاکستانی سب بھول بھال کر بال اور بیٹ پر نظریں جماکر بیٹھ گئے، اب لَلّو حجام ہو، بالا مکینک ہو، نورا قصاب ہو، ہم جیسا کپڑے دھونے والی تھاپی سے گلی میں کرکٹ کھیل کر بچپن گزارنے والا کوئی ’’کرکٹر‘‘ ہو یا کوئی آپا حمیدہ جن کا کرکٹ سے تعلق بیٹ کو ہتھیار بناکر بچوں کی پٹائی تک محدود ہو، سب کے سب کوچ اور کپتان بنے تنقید کررہے ہوتے ہیں۔

کرکٹ ہمارے ہاں بڑے بڑے تنازعات کو ایک پَل میں آؤٹ کردیتا ہے، توجہ اِدھر سے اُدھر کردیتا ہے، بڑے سے بڑے صدمے کی وکٹ اُڑا دیتا ہے۔ دو باریش حضرات اپنے اپنے مسلک کو حق ثابت کرنے کے لیے بحث میں مگن ہیں، مباحثہ جھگڑے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

چہرے غصے سے لال مرچ ہورہے ہیں، آنکھیں انگارہ ہورہی ہیں، منہ سے جھاگ نکل رہا ہے، سرپھٹول ہونے کو ہے، جس کے انتظار میں لوگ جمع ہیں، کہ اچانک کہیں سے ایک منمناتی آواز آتی ہے، ’’ارے اسکور کیا ہوا۔‘‘ اتنا کہنا تھا کہ بات کرکٹ میچ کی طرف گھومی، مجمع چھٹ کر میچ دیکھنے کے لیے روانہ ہوا اور جنگ پر مصر دونوں حضرات ’’سب لوگ ہی دیکھنا چھوڑ گئے، اب جھگڑا بڑھاؤں کس کے لیے‘‘ سوچ کر صلح پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

کمرے میں سیاست پر مناظرہ چل رہا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے سیاسی راہ نماؤں کے لیے دھرنوں کی زبان استعمال کررہے ہیں، لعنتوں کا باہمی تبادلہ ہورہا ہے، دونوں اپنے اپنے مخالف سیاست داں کے خلاف الزامات کی فہرست مکمل کرچکے ہیں اب گالیاں بھی ختم ہورہی ہیں، اتنے میں پردے کی پیچھے سے آواز آتی ہے، ’’اے سُنو! پاکستان کی ایک اور وکٹ گرگئی۔ ‘‘ یہ سُنتے ہی گفتگو کرکٹ کی طرف مُڑ جاتی ہے۔

لفظ اور لہجہ اب بھی وہی ہے، بس ہدف بدل گیا ہے اب دونوں کا نشانہ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور پی سی بی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ کھیل لوگوں کو قریب لاتے ہیں۔ اور کرکٹ تو قربت بڑھا کر گھر بھی لے آتا ہے۔

محسن حسن خان، رینا رائے، شعیب ملک، ثانیہ مرزا، عمران خان، جمائما، وسیم اکرم، شینیرا تھامسن۔ سامنے کی مثالیں ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی باؤنڈری سے پار جاتی بال پکڑ پائیں یا نہ پکڑ پائیں، سرحد پار بیوی پانے میں کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ بُکیز اور کرکٹروں کی قربتوں کی ایک الگ کہانی ہے اور اس کہانی کا عنوان ہے، ’’گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ ‘‘

کرکٹ کی عوامی مقبولیت نے اسے ہمارے یہاں سیاست کی ’’پِچ‘‘ بنا دیا ہے۔ اگر کسی نے ورلڈکپ جیت لیا تو وہ چاہتا ہے ملک کا اقتدار طشتری میں رکھ کر اُسے پیش کردیا جائے۔ ہمارے ہاں شاید آل راؤنڈر کا مطلب ’’جیک آف آل ٹریڈز‘‘ لیا گیا ہے، اور ان ٹریڈز میں سیاست سرفہرست ہے۔ کرکٹر کرکٹ میں رہ کر سیاست سیکھتے ہیں، پھر یہ گُر سیاست میں آزماتے ہیں۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاست کو بھی کرکٹ سمجھ لیتے ہیں، جیسے اپنے عمران خان، جو کرکٹ میں سیاست کرتے رہے اور سیاست میں ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار۔

کرکٹ کو ’’جینٹلمینز گیم‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا آسان ترجمہ ہوا ’’شریفوں کا کھیل۔ ‘‘ تاہم ہر لفظ اور اصطلاح کا ترجمہ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا، اب اسی ’’شریفوں کا کھیل‘‘ سے ذہن کرکٹ کے بہ جائے بدعنوانی سے نوٹوں کا اسکور بڑھانے، اپنے بنائے ہوئے ’’کاغذی رن‘‘ بیرون ملک چُھپانے اور ایمپائر سے مل کر مخالف ٹیم کو ہرانے کے گندے کھیل کی طرف چلا جاتا ہے۔

’’جینٹلمینز گیم‘‘ سے آپ اس غلط فہمی میں مت مبتلا ہوجائیے گا کہ گراؤنڈ میں بولر بیٹسمین کو یوں مخاطب کرکے اوور شروع کرتا ہوگا،’’حضور! اجازت ہو تو فدوی آپ کی خدمت میں اوور کی پہلی بال پیش کرے‘‘، فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کا کپتان کیچ چھوڑنے والے کھلاڑی سے اس طرح شکوہ کُناں ہوتا ہوگا، ’’اجی آپ نے کیچ چھوڑ دیا، بڑے وہ ہیں آپ‘‘، باؤنس پر بیٹسمین بولر سے اس ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہوگا، ’’اوئی اللہ، آپ نے تو ڈرا ہی دیا۔ ‘‘ ارے نہیں بھئی، ایسا کچھ نہیں، کرکٹ کے جینٹلمین ’’اوئے‘‘ کہنے، گالیاں دینے اور لعنت بھیجنے کو اپنی شرافت کے لیے ذرا بھی خطرہ نہیں سمجھتے۔

ارے سب کچھ اپنی جگہ، اتنا تو ہے کہ یہ کھیل ہم پاکستانیوں کو کچھ دنوں کے لیے آپس میں جوڑ دیتا ہے اور ہمیں فکروں سے آزاد کردیتا ہے، اور جوں ہی کسی ٹورنامنٹ کا اختتام ہوتا ہے وہی ہم آپ ہوتے ہیں وہی چھکے مارتی فکریں ہوتی ہیں، وہی باؤنسر پھینکتے آلام۔

The post کرکٹ علاجِ غم ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

جب ذہن بوڑھا ہونے لگے

$
0
0

مشہور چینی کہاوت ہے کہ ’’اگر آپ کا ذہن مضبوط ہے تو تمام مشکل چیزیں آسان ہوجائیں گی، لیکن اگر ذہن کمزور ہے تو تمام آسان چیزیں مشکل ہوجائیں گی‘‘ روزمرہ کی زندگی میں اس کہاوت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

جو لوگ ذہنی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ناصرف اپنے نجی بلکہ کاروباری و دیگر امور کو بڑی مہارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں توازن نہیں رکھ پاتے وہ دراصل ان کی کم درجہ ذہنی استطاعت کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ مضبوط اعصاب کے مالک بڑی سے بڑی مشکلات کو ہمت و استقامت سے جھیل جاتے ہیں جبکہ کمزور اعصاب بعض اوقات ایک صدمے کو بھی برداشت نہیں کرپاتے۔

یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جسمانی طور پر انسان ویسا تندرست و توانا نہیں رہتا۔ بالکل ویسے ہی انسانی ذہن پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہنی کمزوری بڑھتی عمر کی ایک نشانی تصور کی جاتی ہے لیکن اگر یہ وقت سے پہلے کسی کو اپنا شکار بنارہی ہو تو ضروری ہے کہ چوکنا ہوا جائے۔ وقت سے پہلے اور کم عمری میں ذہنی استعداد کے کم ہونے کو ایک بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

٭عمر رسیدگی
ہمارے ذہن اور جسم میں وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں میں بہ نسبت ایسی شعوری خلل سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلاً الزائمر اور ڈیمنشیاء کے، اس حوالے سے ایک امریکی ماہر نفسیات میچل آر و سرمین کا کہنا ہے کہ ’’ایک صحت مند دماغ کے لیے یہ معمولی بات ہے کہ جب عمر رسیدگی کا عمل شروع ہو تو وہ کام سست رفتاری سے کرے کیونکہ عمر بڑھنے سے دماغ اور جسم کے درمیان مطابقت پیدا کرنے والے نیورون سست رفتار ہوجاتے ہیں جس سے جسم اور ذہن کے درمیان معلومات کا تبادلہ سست روی کا شکار ہوجاتا ہے۔

لیکن اس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام افراد کا ذہنی و جسمانی نظام ایک سا نہیں ہوتا۔‘‘ اس حوالے سے ڈاکٹر میچل کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کئی افراد سے مل چکے ہیں جو سو برس کے ہونے کے باوجود ذہنی اور جسمانی طور پر ہوشمند اور چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ دوسری چیز جو اس ضمن میں اہم ہے وہ یہ کہ جب انسان کے شعوری مسائل اس کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے لگیں جن کی علامات کو عمر رسیدگی سے پہلے محسوس کرلیا جائے تو اس وقت کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔

٭ فوری بھول جانے کا عارضہ
ذہنی عارضوں اور شعوری بیماریوں کی ابت کی جائے تو الزائمر (بھول جانے کی بیماری) ایک بڑا مرض ہے اور اس کی علامات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماہرین کا اس حواے سے کہنا ہے کہ الزائمر شعور کے جس حصہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ ہے فوری یادداشت۔ سو ایسی صورت میں جب انسان کو چھوٹی چھوٹی باتیں بھولنے لگیں اور قلیل مدتی یادداشت متاثر ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ الزائمر آہستہ آہستہ حملہ آور ہورہا ہے۔

اب ان باتوں میں روزمرہ کی وہ تمام چھوٹی چھوٹی اہم باتیں ہیں جنہیں آپ بھول رہے ہیں۔ بار بار سوال دہرانا اور پہلے کی گفتگو کو بھول جانا اس کی واضح علامات ہیں۔ یہ ذہن کے کسی خاص حصے میں خرابی کے باعث پیدا ہوتا ہے اور پھر بہت سے ذہنی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔

٭ بھول جانے کا عارضہ
کہا جاتا ہے نسیان(بھول جانے کا عارضہ) بھی ایک نعمت ہے، مگر دھیان رکھیے اگر لمبے عرصے تک باتیں اور واقعات یاد نہیں رہتے تو ممکن ہے کہ کوئی ڈیمنشیاء کی بیماری کا شکار ہوچکا ہو۔

گوکہ الزائمر کے مریضوں کے لیے لمبے عرصہ تک باتوں کو یاد نہ رکھ پانا ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن ڈیمنشیاء کی مختلف اقسام سے بھول جانے کے مسائل طوالت اختیار کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ذہن کے اس حصے پر جو یادداشت کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کا کام کرتا ہے کوئی ایسی چوٹ پہنچی ہو یا اس کی ساخت میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا ہو جس کے باعث وہ اپنے کام کرنے کی استطاعت کھوچکا ہو۔ یہ صورت حال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

٭ نام اور الفاظ بھول جانا
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی نام کو یا لفظ کو یاد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور ذہن میں یہ تصور بھی چل رہا ہوتا ہے کہ آپ اسے جانتے ہیں یا فلاں موقع پر تو لیا تھا مگر افسوسناک صورتحال ہوہ ہوتی ہے جب آپ اسے یاد نہیں کرپاتے اور بعض اوقات اس سے شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ مگر زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت اس لمحے ہوتی ہے جب معمول کی چیزیں مثلاً اُون، ٹوسٹر، فریج، گاڑی کا سٹرینگ اور وہ چیزیں جن سے روٹین میں پالا پڑتا ہو، ان کے نام بھولنے لگیں۔

الفاظ کو بولنے میں دشواری ایک شعوری مسئلہ ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ذہن کا جو حصہ ہماری لسانیات یا ہماری زبان کو کنٹرول کررہا ہوتا ہے جیسے سیکالوجی کی زبان میں ’’لیفٹ ٹیمورل‘ یا ’پیریٹئل لوب‘‘ کہتے ہیں وہ فعال نہ ہو جوکہ الزائمر کی ایک واضح نشانی ہونے کے ساتھ دماغ فالج یا صدمے کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

٭ ڈرائیونگ میں مسائل
عموماً ڈیمنشیا کے مریضوں کو اس بیماری کی وجہ سے درپیش مشکلات و مسائل کا اندازہ نہیں ہوپاتا لیکن ان کے دوستوں خاندان اور عام لوگوں کو ان مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے جو ان مریضوں کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ بہت سے جسمانی عموامل جیسے کہ عمر کا بڑھتا اور جسمانی کمزوری نظر اور سماعت کو متاثر کرتے ہیں جس سے ڈرائیونگ کے دوران بھی مشکل پیش آتی ہے مگر ڈیمنشیاء اور الزائمر کے مریضوں کو راستے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے راستہ بھول جانا، اپنے پیاروں کے رابطہ نمبر بھول جانااور اپنے گھرکا ایڈیس بھول جاناشامل ہیں۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہوسکتی ہے کہ ایسے مریض ہر وقت ایک دستی ڈائری اپنے ہمراہ رکھیں جس میں خود ان کا نام پتہ اور اپنے عزیزوں کے رابطے لکھے ہوں تاکہ ایسی صورتحال میں وہ کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچ سکیں۔

٭ مزاج اور رویے میں تبدیلی
انسان کا مزاج اور اس کا رویہ اس کی ذہنی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ خود کو بوجھل اور بے حس محسوس کرنا بھی اس وقت قابل فکر ہوجاتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر ہولزمین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’جب رویہ بہت ناامیدی اور ڈپریشن کا مظہر ہو تو یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان میں شعوری طور پر کوئی خلل پیدا ہوا ہے جوکہ الزائمر کے مرض کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ منفی سوچوں سے بھی دماغی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں۔

٭ پریشان کن صورتحال
بعض اوقات چیزیں معمول میں ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑرہا ہوتا مگر اچانک اس روٹین میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے جوکے ہٹ کر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب جسمانی توازن میں خلل واقعہ ہوتا ہے تو یہ ڈیمنشیاء کی نشانی ہوسکتی ہے۔

دماغی خلل کی نشانیاں جسمانی طور پر بھی وضع ہوتی ہیں جیسے کہ کھڑے ہونے میں دقت پیش آنا، اپنے پیروں پر جسم کا بوجھ نہ سنبھال سکتا اور چکرانا یا بار بار سہارا تلاش کرنا۔ ایسی حالت ذہن کی ابتر صورت حال کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ بعض اوقات پارکسنز کے مرض میں بھی ایسی علامات سامنے آتی ہیں۔ اکثر افراد کو ہیولے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔جو کے دماغ میں ہونے والی پیچیدگیوں کی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔

٭سونگھنے کی صلاحیت

انسان کو دی گئی حسیات کا درست کام کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان تندرست ہے۔ ایسی صورت حال جس میں کو حس اپنا کام نہ کر پا ہی ہو اس بات کی علامت ہے کہ جسم میں کہیں نہ کہیں مسئلہ ہے۔ سونگھنے کی حس کا متاثر ہونا الزائمر اور پارکنسنز کے مرض کی  علامت ہے۔

سن 2016 ء میں الزائمر کی علامات جانے کے سلسلے میں کی جانے والی ایک تحقیق  سے معلوم ہوا کے ایسے مریض عام خوشبوں جیسے کے چائے، کافی ،سگریٹ اور پھلوں کی مہک کو محسوس کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

٭قوتِ سماعت
قوتِ سماعت کے متاثر ہونے کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کے انفکشن ہوجانا یا کان کے پردے کمروز ہونا مگر اس کی ایک اور وجہ الزائمر بھی ہے۔ ذہن کا تعلق ان سماعت کو متاثر کرنے والی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو ٹھیک سے سنائی نہیں دیتا یا باوجود کوشش کسی کی بات کو سن اور سمجھ نہیں سکتے اور ابھی آپ نے بڑھاپے کی حدود کو بھی نہیں چھوا تو اس کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔

٭معالج سے رجوع
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے ذہنی سطح پہ آنے والی تبدیلیاں جیسے کے شعوری مسائل اور   یاداشت کی کمزوری کو صرف بڑھتی عمر کی علامت ہی  نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ایسی حالت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔

اگریاداشت کے مسائل روزمرہ معاملات میں خلل پیدا کریں تو ایسی صورت میں فوری اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مناسب طبی امداد حاصل کریں۔کم عمر میں اگر ایسی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو یہ خطرناک ہو سکتی ہیں۔ جو کہ آگے چل کر مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں، سو احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج آپ کو کسی بڑی زہنی بیماری کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔

The post جب ذہن بوڑھا ہونے لگے appeared first on ایکسپریس اردو.


عصاء اور یدبیضاء

$
0
0

عصاء لاٹھی یدبیضاء سفید ہاتھ اور معجزے کے معنی خرق عادت جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کے ہاتھ سے ظاہر کرے دوسرے معنوں میں وہ معاملہ جو عام عادات اور اسباب ظاہری کے خلاف ہو ایسا معاملہ چوںکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو ۔ حضرات انبیاء کرام سے جو یہ مافوق العادت کیفیات اور اعمال صادر ہوتے ہیں ان کے لیے عام طور پر معجزہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔

یہ لفظ قرآن حکیم میں آیا ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ میں یہ لفظ برہان آیا ہے جس کے معنی دلیل ہیں، جو اپنے مفہوم کو نہایت خوبی سے ظاہر کرتا ہے۔ قدیم محدثین نے ان قرآنی الفاظ کی جگہ دلائل و علامات کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ان کے ہم معنی ہیں مگر اب لفظ معجزہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اسے ترک بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سیرت النبی ؐ میں لکھا ہے کہ معجزہ اس خارق عادت چیز کو کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیغمبر کی تصدیق کے لیے صادر ہو۔ (جلد دوم صفحہ35)

قرآن حکیم کی جن سورتوں میں معجزات کا ذکر ہے وہاں لفظ آیات کثرت سے آیا ہے دیکھیے سورہ بقرۃ آیات 248-273، آل عمران 49، اعراف 132، ہود 64، بنی اسرائیل 101، طٰحٰہ 47، الشعراء 15، نمل 14، زحزف 47، النازعات20 میں آیات الکبرٰی کہا ہے اعراف میں آیات مفصلات کہا ہے 133، اور کہیں صرف آیاتنا کہا ہے ۔ (بنی اسرائیل آیت1)

حضرت موسٰی ؑ اللہ کے بھیجے ہوئے اولوالعزم پیغمبر اور جلیل القدر رسول ہیں۔ ان کو سابقہ انبیاء کرام کے سچے دین کی تلقین وتبلیغ اور نبی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی خاطر چنا گیا اور ساتھ ہی ساتھ فرعون کی راہ نمائی کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔ وادیٔ مقدس (طوٰی) میں خدائے بزرگ و برتر سے ہم کلامی کے بعد آپؑ کو رسول چنا گیا پھر دو معجزے عطا کیے گئے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ترجمہ’’موسٰی تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑلیتا ہوں اس سے مجھے اور بھی فوائد ہیں۔ فرمایا۔ اے موسٰی! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے۔‘‘ (سورہ طٰحٰہ آیات 17-18) ’’پھر جب اسے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھن پھنا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کرواپس ہوگئے اور مڑکر رخ بھی نہ کیا۔ ہم نے کہا اے موسٰی آگے آ‘ ڈرمت یقیناً توہر طرح امن والاہے اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان (بغل ) میں ڈال دے، وہ بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا سفید نکلے گا اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے بازو اپنی طرف ملالے۔ پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں۔‘‘ (سورہ القصص آیات31-32)

ان آیات کریمہ میں دو معجزات کا ذکر ہوا ہے۔ لاٹھی کے سانپ یا اژدہا بننے کی صورت میں جو خوف حضرت موسٰی ؑ کو ہوا اس کا حل بتیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کر یعنی اپنا پنجہ بغل میں دبا لیا کر جس سے خوف جاتا رہے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف جاتا رہے گا۔

امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت موسٰی ؑ کی اقتدا میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم ازکم ہلکا ضرور ہوجائے گا ان شاء اللہ۔ حضرت موسٰی ؑ نے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل میں فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کیے کیوںکہ فرعون اور اس کے حواری اللہ کی اطاعت سے نکل کر اللہ اور اس کے دین کے مخالف ہوگئے تھے، بلکہ فرعون تو بذات خود خدائی کا دعوے دار بن بیٹھا تھا۔

حضرت موسٰی ؑ اللہ کے حکم سے فرعون کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے دربار میں پہنچے تو فرمایا کہ میں اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں تو اس نے اپنے باپ دادا کی ربوبیت کا اظہار کیا تاکہ موسٰی ؑ پر اس کا رعب پڑے پھر کہنے لگا کہ میرے علاوہ بھی کیا کوئی رب ہے؟ اگر ہے تو بیان کر۔ بارگاہ الٰہی سے آپؑ کو حکم تھا کہ فرعون کے آگے اپنا مدّعا بیان کرتے وقت شیریں کلامی اور نرم گفتاری اختیار کرنا، چناںچہ آپؑ نے بڑے دل نشیں انداز میں اپنی بات کو رکھا ترجمہ’’میرے رب نے علم و حکمت عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کردیا۔‘‘ (الشعراء آیت21) رب کے ذکر سے فرعون چونکا اور پوچھنے لگا۔ ترجمہ’’فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے۔

موسٰی (علیہ السلام ) نے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے اگر تم یقین رکھنے والے ہو فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے۔ موسٰی علیہ السلام ) نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا رب ہے۔ فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔

بولے وہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو، (فرعون بولا) اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بتایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا فرمایا اگر چہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟ تو فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو پیش کر۔ آپ نے اپنی لاٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اسی وقت ہر دیکھنے والے کو سفید اور چمکیلا نظر آیا۔

اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے۔ یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین ہی سے نکا ل دے۔ بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو۔‘‘(سورہ الشعرا آیات 23تا35)فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر حضرت موسٰی کی تصدیق کرتا اور ایمان لے آتا بلکہ اس نے ان کی تکذیب و عناد کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے تمام درباریوں کی رائے کے مطابق ایک دن مقرر کیا جسے قرآن حکیم نے یوم الزینت کہا ہے۔

عبدالوہاب نجار لکھتے ہیں کہ یہ مصریوں کی عید کا دن کہلاتا ہے۔ اس دن ملک مصر کے تمام جادوگروں کو اکٹھا کیا جن کی تعداد مختلف روایات کے مطابق12ہزار سے 70ہزار تک لکھی ہوئی ہے۔

انہوں نے حضرت موسٰی ؑ سے پوچھا کہ پہلے تم ڈالتے ہو یا ہم کریں آپؑ نے فرمایا پہلے تم ہی کرو۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اپنی رسیاں پھینکیں جو چشم زدن میں چھوٹے بڑے سانپوں کی شکل اختیار کر گئیں۔ پھر قوم قبط نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھا جو ناقابل یقین تھا۔ حضرت موسٰی ؑ کے عصاء سے جو معجزہ رونما ہوا کہ وہ جادو گروں کے تمام سانپوں کو آناً فاناً نگل گیا۔ جادوگر حقیقت کو بھانپ چکے تھے کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ چناںچہ انہوں نے فوراً ایمان لانے کا اعلان کردیا جس پر فرعون سخت مشتعل ہوگیا اور انہیں سزائے سخت دینے کا اعلان کیا اور وہ حضرت موسٰی ؑ کے بھی قتل کا ارادہ کرچکا تھا۔

اس کا خیال تھا کہ اگر اس نے حضرت موسٰی ؑ کو قتل کردیا تو پھر اسے کسی کا خطرہ نہ ہوگا کہ جو اسے خدا کہلانے سے روکے فرعون اور اس کے دربار ی ابھی اس قسم کے منصوبے بنا ہی رہے تھے کہ شوروغل کی آواز آئی لوگ دہائی دیتے ہوئے فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے اے خداوند! ہم بہت پیاسے ہیں ہم جہاں بھی پانی تلاش کرتے ہیں خون بہتا ہوا ملتا ہے۔ جھیلوں، تالابوں، کنوؤں غرض ہمارے گھروں کے گڑھوں تک میں خون بھرا ہوا ہے۔

ہمیں پانی فراہم کریں کہ ہم بہت پیاسے ہیں۔ فرعون نے ہامان سے مشورہ کیا جس نے یہ تجویز پیش کی کہ مختلف مقامات پر نئے کنویں کھود دیے جائیں مگر نتیجہ لاحاصل۔ ہر کنویں میں سے خون ہی نکلا۔ فرعون نے لوگوں کو اس وقت تسلی دے کر بھیج دیا اور فوراً ہی حضرت موسٰی ؑ کو بلایا ان کے سامنے صورت حال رکھی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ اپنے خدا سے کہہ کر یہ عذاب ختم کروادو ہم بھی اس خدا پر ایمان لے آئیں گے اور نبی اسرائیل کو بھی تیرے ساتھ جانے کی اجازت دے دوں گا۔ حضرت موسٰی ؑ کی دعا سے اللہ نے یہ عذاب ٹال دیا اب موسٰی ؑ نے اسے اپنا وعدہ یاد دلایا مگر وہ صاف انکار کر گیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو بہت سی برہان اور نشانات (معجزات ) سے نوازا تھا جس کی تفصیل قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر آئی ہے، جو اس طرح ہے (1) سورہ البقرۃ (2)الاعراف (3) اسراء( 4) طٰحٰہ (5) النمل (6) الشعراء(7) القصص (8) المومن (9)الزخرف (10) القمر(11) النازعات۔ ان سورتوں کی آیات میں آپؑ کو دیے گئے معجزات کا ذکر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ سورہ اسراء میں ارشاد باری ہے۔ ترجمہ ’’اوربلاشبہہ ہم نے موسٰی کو نو نشانات واضح عطا کئے پس تو بنی اسرائیل سے دریافت کر‘‘۔ (آیت 101) یہاں صرف نشانات کی تعداد بتائی گئی ہے، معجزات کی نوعیت نہیں بتائی۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ’’پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون کہ یہ سب آیات مفصلات ہیں ‘‘ یعنی معجزے ہیں۔ (الاعراف آیت133)

مفسرین کرام سورہ اسراء کی آیت 101کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ نو معجزات تھے (1) لاٹھی (2) یدبیضا (3) نقص ثمرات (4) طوفان (5) جراد (ٹڈی دل)(6) قمل (کھٹمل، جوئیں اور گھن) (7) ضفادع (مینڈک) (8) خون(9) قحط سالی۔ امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی معجزات جیسے لاٹھی کو پتھر پر مارنا جس سے بارہ چشمے جاری ہونا بادلوں کا سایہ اور من وسلوٰی ہیں لیکن یہاں آیات تسعہ سے مراد وہی نو معجزات ہیں جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا حضرت ابن عباس ؓ نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانا) کو بھی نو معجزات میں شمار کیا ہے اور نقص ثمرات اور قحط سالی کوایک ہی معجزہ مانا ہے۔ ترمذی کی ایک حدیث میں آیات تسعہ کی تفصیل مختلف بیان ہوئی ہے جس کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں ۔

فرعون اپنی سرکشی، ظلم، حق کے ساتھ استہزا اور نافرمانی کے باعث خدائے تعالیٰ کی جانب سے مختلف ہلاکتیں اور عذاب آتے رہے اور ان کے خاتمے کی خاطر وہ حضرت موسٰی سے رجوع کرتا اور جب بلاٹل جاتی تو وہ پھر اپنے وعدے سے انحراف کر بیٹھتا تھا۔ اب پھر فرعون اور اس کی قوم کو ایک نئے عذاب نے آگھیرا تمام دریاؤں جھیلوں اور جوہڑوں سے تمام مینڈک نکل کر فرعون کے محل اور آبادی میں پھیل گئے جس کی وجہ سے تمام آبادی فرعون کے محل میں داخل ہوکر ملتجی ہوئی کہ اے خداوند! ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا۔ فرعون نے پھر موسٰی ؑ کو دربار میں طلب کیا اور مینڈکوں سے نجات کی درخواست کی تو آپؑ نے فرمایا تو اس سے قبل بھی وعدہ خلافی کرچکا ہے لیکن میں پھر بھی دعا کروں گا اللہ اس سے نجات دے گا۔ فرعون نے پھر ایمان لانے کا وعدہ کیا اور موسٰی دست بہ دعا ہوئے اور مینڈک کے عذاب سے نجات مل گئی فرعون پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سر کش ہی رہا۔

ایک روز صبح ہی سے گرج چمک ہونے لگی دیکھتے ہی دیکھتے اولے برسنے لگے جس کی وجہ سے تمام مویشی ہلاک اور فصلیں تباہ ہوگئیں۔ قوم دہائی دیتی ہوئی پھر فرعون کے پاس پہنچی فرعون نے پھر حضرت موسٰی ؑ کو بلا کر ان ہی پرانے وعدوں پر قائم رہنے کے لیے کہا اور اپنے خدا سے یہ طوفان ٹالنے کی دعا کی درخواست کی۔

موسٰی ؑ نے فرمایا تم پہلے بھی وعدہ خلافیاں کر چکے ہو تمہاری بات کا اعتبار نہیں ہے، تاہم میں پھر بھی اپنے خدا سے دعا کروں گا کہ وہ قوم کو اس طوفان سے نجات دے آپؑ کی دعا قبول ہوئی موسٰی ؑ نے فرعون کو وعدہ یاد دلایا مگر وہ بھول چکا تھا۔

اس قوم کی سرکشی پر اللہ نے ایک مرتبہ پھر عذاب نازل کیا مشرق کی جانب سے ہوا کے جھونکے چلے اور ٹڈیوں کے جھنڈ چلے آئے جنہوں نے پوری فصلوں کو تباہ کردیا اور ان کے غلے اور پھل تمام چٹ کر گئے۔ اسی طرح قمل کا عذاب بھی آیا قمل سے مراد جوں ہے جو انسان کے جسم اور بال اور کپڑوں میں پڑگئیں بستر میں کھٹمل ہوگئے۔ اناج اور غلوں میں سرسریاں پڑگئیں عام طور پر انہیں گھن کہا جاتا ہے یہ جب غلے میں پڑ جائے تو اس کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔

چوپایوں میں یہ جونک بن کر آتی ہیں بہرحال یہ قمل ہر شے میں آجانے سے ایک مرتبہ پھر قوم پریشان ہوگئی اور فرعون سے درخواست کی کہ اس عذاب سے چھٹکارا دلایا جائے یہ عذاب بھی حضرت موسٰی ؑ کی دعا سے فرو ہوا۔

عذاب کی یہ پانچ قسمیں تھیں جو سورۂ اعراف میں بیان ہوئی ہیں ایک کے بعد دوسرا عذاب اس سے تنگ آکر وہ حضرت موسٰی کے پاس آتے آپؑ کی دعا سے وہ عذاب ٹل جاتا تھا مگر فرعون اور اس کی قبطی قوم ایمان لانے کے بجائے کفرو شرک پر مضبوطی سے جم جاتے۔ یوں تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے بعد ان پر عذاب نازل ہوتے رہے لیکن ان کے دلوں میں جو رعونت اور دما غوں میں جو تکبر تھا وہ حق کی راہ میں ان کے لیے زنجیرپا بنا رہا اور اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود وہ ایمان کی دولت سے محروم رہے۔

جب مصر میں حضرت موسٰی ؑ کا قیام لمبا ہوگیا اس وقت فرعون کا دارالحکومت عین شمس تھا۔ یہ شہر آج بھی قاہرہ کے نزدیک واقع ہے۔ موسٰی ؑ نے فرعون اور اس کی قوم پر ہر طرح کی حجت قائم کردی، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب میں مبتلا کرکے سامان عبرت بنادیا جائے۔ چناںچہ حضرت موسٰی ؑ کو حکم ہوا کہ راتوں رات نبی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں اور یہ بھی فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا گھبرانا نہیں۔ قرآن حکیم میں یہ ذکر یوں آیا ہے۔

ترجمہ ’’پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے جب دونوں نے ایک دوسرے کودیکھ لیا تو موسٰی ؑ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناً پکڑے گئے موسٰی ؑ نے کہا ہرگز نہیں یقین مانو میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔

ہم نے موسٰی ؑ پر وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا اور ہم نے دوسروں کو اسی جگہ لاکھڑا کیا اور موسٰی کو اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا۔‘‘(سور ہ الشعراء آیات 61تا 66) یہ معجزہ حضرت موسٰی ؑ نے اپنی عصاء کے ذریعے فرعون کو دکھا یا کہ وہ سب تو پار ہوگئے اور جب فرعون اپنی قوم قبط کو لے کر عین دریا کے وسط میں آیا تو پانی واپس اپنی جگہ پر آیا اس طرح فرعون مع اپنی قوم کے غرق ہوگیا اور تاقیامت نشان عبرت بن گیا۔

The post عصاء اور یدبیضاء appeared first on ایکسپریس اردو.

قرار داد پاکستان: متعصب مؤرخین کے پھیلائے مغالطے

$
0
0

مارکس سیسرو (متوفی 43 قبل مسیح) اٹلی کا مشہور فلسفی، سیاست داں اور ادیب گذرا ہے۔ اس کا منفرد قول ہے: ’’ایک قوم احمقوں کے ساتھ گزارا کرلیتی ہے۔ خواہشوں کے اسیر بھی اُسے کاری ضرب نہیں لگاپاتے، لیکن وہ اپنے اندر بیٹھے غداروں کے واروں سے آخر کار تباہ ہوجاتی ہے۔ وجہ یہ کہ دروازے پر بیٹھا دشمن تو صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے کی خاطر قوم پوری تیاری بھی کرتی ہے لیکن اس کی صفوں میں گھسے غدار ہر جگہ آزادی سے دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے اور اختلافات کی آگ کو آنچ دیتے ہیں۔‘‘

اطالوی فلسفی کا قول برحق ہے۔ وطن عزیز میں ہی نظر دوڑائیے۔ شروع سے یہاں تقریباً ہر شعبے میں ایسے کچھ غدار موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور اسے نقصان پہنچانے کی اپنی سی کوششیں کرتے رہے۔ شعبہ تاریخ میں بھی ایسے مورخین سامنے آئے جنہوں نے اپنے گروہی یا ذاتی مفادات پورے کرنے کی خاطر نظریاتی، تاریخی اور سیاسی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی شعوری سعی کی تاکہ پاکستانی قوم کو متحد اور یکجا ہونے سے روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خاص نشانہ بنایا جن میں قرارداد پاکستان بھی شامل ہے۔

تحریک آزادی پاکستان کی تاریخ میں یہ قرارداد ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو پیش کرکے مسلمانان ہندوستان نے بالآخر فیصلہ کرلیا کہ وہ علیحدہ وطن حاصل کرکے رہیں گے تاکہ وہاں آزادی سے اپنی دینی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔ اقدار و عقائد کی حفاظت کریں اور رسوم و رواج اپنالیں۔ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی بڑھتی طاقت پسندی اور من مانیوں نے مسلم اقلیت کو اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند کردیا تھا۔

پنجاب اور صوبہ سرحد سے لے کر بنگال تک ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اس زمانے میں غربت، جہالت اور بیماری کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھی۔ اگر انگریزوں کی روانگی کے بعد متعصب ہندو لیڈر ہندوستان کے حاکم بن جاتے تو ان کی یہی سعی ہوتی کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ سے زیادہ رعایات دیں اور انہیں پھلنے پھولنے کے مواقع عطا کریں۔ ہندوؤں کی زبردست اکثریت آخر کار مسلم علاقوں میں بھی اثرو نفوذ کرجاتی جیسا کہ حال ہی میں یہ عمل ریاست جموں و کشمیر میں دیکھنے کو ملا۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن نریندر مودی کی حکومت نے ریاست پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ بھارت عسکری طاقت کے بل پر ہی حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کی ریاستوں کو بھی زیر تسلط لے آیا  تھا۔

پچھلے ساڑھے پانچ برس میں خصوصاً مودی سرکار کے مسلم دشمن اقدامات تمام مسلمانان برصغیر پر آشکارا کرچکے کہ ان کے بزرگوں نے پاکستان قائم کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا جہاں آج ساڑھے اکیس کروڑ پاکستانی بھارتی مسلمانوں کی نسبت زیادہ آزادی و خودمختاری سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مسائل اور مصائب انہیں بھی درپیش ہیں مگر کم از کم پاکستانی مسلمانوں کو یہ خوف تو دق نہیں کرتا کہ اسلامی لباس پہننے یا ڈاڑھی رکھنے پر ہندو انتہا پسند غنڈے ان پر حملہ کردیں گے۔ بھارتی مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں تو یہ خوف ان کی شخصیت کا حصہ سا بن رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر  بہت اذیت میں مبتلا ہیں۔

پاکستان میں مگر آج بھی کچھ مورخین وقتاً فوقتاً پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے یا اپنی ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کے لیے درفطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ قرارداد پاکستان کے حوالے سے ان کی پہلی درفطنی یہ سامنے آئی کہ یہ 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی لیکن خاص طور پر جرنیلوں نے چند مقاصد حاصل کرنے کی خاطر ہمارے ہاں یہ نظریہ پھیلا دیا کہ یہ 23 مارچ کو منظور ہوئی۔ اسی لیے اس تاریخ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔

یہ عیاں ہے کہ اس الزام سے ہماری ا فواج کو بدنام کرنا مقصود تھا جو ہمارے بعض نام نہاد دانشوروں کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ اس سے انہیں کبھی کبھی  شہرت و دولت یا عزت مل جاتی ہے۔ایک مخصوص طبقہ انھیں سر آنکھوں پر بھی بٹھاتا ہے۔ بہرحال آئیے اس دعوی کو سچ و جھوٹ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں کہ کیا  کچھ جرنیلوں نے 24 نہیں 23 مارچ  کو یوم پاکستان منانے کا آغاز کیا؟

قائداعظم کی آمد

آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اس کا سب سے اعلیٰ ذیلی ادارہ تھی۔ اس نے وسط 1939ء میں طے کیا کہ پارٹی کا سالانہ ستائیسواں اجلاس 28 تا 30 دسمبر کو لاہور میں منعقد ہوگا۔ تاہم پنجاب کے وزیراعلیٰ، سکندر حیات خان کی درخواست پر انعقاد کی تاریخ 22 تا 24 مارچ 1940ء رکھ دی گئی۔ سکندر حیات اجلاس کی تیاریوں کے یے وقت چاہتے تھے۔ قائد 21 مارچ کی صبح دہلی سے لاہور پہنچے۔ سب سے پہلے اسپتال جاکر زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ شام کو ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں فیصلہ ہوا کہ قرارداد پاکستان کا ابتدائی متن قائداعظم اور سکندر حیات مل کر تیار کریں گے۔ قائداعظم مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ اس لیے ابتدائی متن سکندر حیات نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے بنایا۔

22 مارچ کو صبح گیارہ بجے ورکنگ کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا۔ اس میں ابتدائی متن پر بحث و مباحثہ ہوا۔ تاہم کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ کمیٹی ایک بجے برخاست ہوگئی۔ ڈھائی بجے عام اجلاس شروع ہوا۔ منٹو پارک ایک لاکھ افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا حالانکہ جلسے میں شرکت کا ٹکٹ لگا تھا۔ فرش پر بیٹھنے والوں نے فی کس آٹھ آنے دیئے۔ کرسی پر بیٹھنے کا خرچ دس روپے تھا۔ ڈائس پر بیٹھنے والوں نے سو روپے فی کس دیئے۔

یہ رقم اجلاس منعقد کرنے کے اخراجات میں کام آئی۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد نظمیں بشمول ’’ملت کا پاسباں ،محمد علی جناح‘‘ پڑھی گئیں۔ پھر نواب ممڈوٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پھر قائداعظم نے تقریر کی۔ اردو کے چند جملے بول کر وہ انگریزی میں تقریر کرنے لگے۔ حاضرین میں بیشتر ان پڑھ تھے مگر سبھی اتنی خاموشی سے اپنے محبوب قائد کی باتیں سنتے رہے کہ یہ منظر دیکھنے کے لائق تھا۔ قائد ایک سو منٹ تک فی البدیہہ تقریر کرتے رہے۔ ایک غیر معمولی انسان ہی یہ کارنامہ دکھلا سکتا تھا۔انہوں نے بڑی خوبی سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین فرق واضح کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ اس کے بعد عام اجلاس ختم ہوگیا۔

خصوصی کمیٹی کے اجلاس

قرارداد پاکستان کو آخری شکل دینے کی خاطر ایک خصوصی (سبجیکٹ) کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اختتام جلسہ کے بعد پنڈال میں رات نو بجے اسی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا جو چار گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ارکان کمیٹی نے متن پر بحث و مباحثہ اور غورو خوص کیا۔ تاہم کوئی اتفاق رائے نہ ہو پایا۔

23 مارچ کی صبح ساڑھے دس بجے دوبارہ خصوصی کمیٹی کے ارکان مل بیٹھے تاکہ قرارداد پاکستان کو قطعی شکل دی جاسکے۔ اب دوبارہ طویل مباحثہ ہوا۔ آخر کار دوپہر دو بجے قرارداد کا متن تیار کرلیا گیا۔ اس کے ایک گھنٹے بعد تین بجے عام یا کھلے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد سیکرٹری جنرل لیاقت علی خان نے سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ پھر وزیراعلیٰ بنگال فضل الحق نے تاریخی قرارداد پیش کی جسے پہلے پہل ’’قرارداد لاہور‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ صرف حصوں (پیراگرافس) پر مشتمل تھی اور ہر حصہ ِتحریر ایک جملے پر محیط تھا۔ بعدازاں مختلف لیگی رہنماؤں نے قرارداد کے حق میں تقاریر کیں۔

نماز مغرب کے وقت عام اجلاس ختم کردیا گیا۔ اسی رات نو بجے خصوصی کمیٹی کا اگلا اجلاس ہوا۔ اس میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور خاکساروں پر حکومتی ظلم کی مذمت کے سلسلے میں قراردادیں تیار کی گئیں۔24 مارچ کو صبح سوا گیارہ بجے آل انڈیا مسلم لیگ کا اختتامی کھلا اجلاس شروع ہوا۔ اس میں سب سے پہلے قرارداد پاکستان پر مختلف رہنماؤں نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ یہ اجلاس وقفے کرتے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہا۔

تقریباً دس بجے اس عام اجلاس میں قرارداد پاکستان سبھی حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کرلی۔ یوں پارٹی کا تاریخی اجلاس اختتام کو پہنچا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں مسلمانوں کی مجوزہ مملکت کو پاکستان کا نام نہیں دیا گیا ۔وجہ یہ  کہ یہ لفظ تب تک مسلمانان ہند میں مشہور نہیں ہوا تھا۔ لفظ چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں تخلیق کیا تھا۔ ہوا یہ کہ ہندوؤں کے اردو اور انگریزی اخبارات لاہور کی قرارداد کو ’’قرارداد پاکستان‘‘ لکھنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ نام مسلمانوں میں تیزی سے مقبول ہوگیا۔

ہندو اور برطانوی پریس کا شکریہ

19 اپریل 1940ء کو قائداعظم کی ہدایت پر مسلمانان ہند نے ’’یوم آزادی‘‘ منایا۔ اسی دن پارٹی نے پورے ہندوستان میں جلسے منعقد کرکے مسلمانوں کو قرارداد لاہور کی غرض و غایت سے آگاہ کیا۔ انہیں بتایا کہ علیحدہ وطن کے قیام سے انہیں کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ یوپی، سی پی اور کئی دیگر علاقوں میں یہ دن ’’یوم پاکستان‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ ایک ماہ کے کم عرصے میں بھی لفظ پاکستان مسلمانان ہند میں مشہور ہوگیا تھا۔

مسلم دشمن ہندو پریس نے پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے اور مسلمانوں میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔25 دسمبر 1940ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں قائداعظم نے حاضرین کو بتایا: ’’ہمیں اپنے مجوزہ وطن کے لیے ایک مناسب لفظ درکار تھا۔ ہندو اور برطانوی پریس کا شکریہ کہ انہوں نے وہ ہمیں عطا کردیا۔‘‘ جیسے ہی قائداعظم نے لفظ پاکستان کی توثیق کی، پورے ہندوستان میں مسلمان پاکستان کے متوالے ہوگئے۔ جلد ہی پارٹی کے آئین میں ترمیم کردی گئی۔ اب ہر نئے رکن کو پارٹی میں شامل ہوتے ہوئے یہ حلف اٹھانا پڑا کہ وہ ’’پاکستان سے وفادار رہے گا۔‘‘

قرارداد کی پہلی سالگرہ

22 فروری 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا دہلی میں اجلاس منعقد ہوا۔اس  میں یہ غوروفکر کیا گیا کہ قرارداد پاکستان کی پہلی سالگرہ تزک و احتشام سے 23 مارچ کو منائی جائے یا 24 مارچ کو؟ تبھی قائداعظم کی ہدایت پر 23 مارچ کو قرارداد کی سالگرہ منائی گئی۔

اس امر کا ٹھوس ثبوت ’’قائداعظم پیپرز‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ اس دستاویز میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام اہم اجلاسوں کی کارروائی نہایت تفصیل سے درج ہے۔ اسی دستاویز میں لکھا ہے کہ قائداعظم کے حکم پر 23 مارچ 1941ء کو قرارداد کی پہلی سالگرہ منائی گئی۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ خود بابائے قوم کی ہدایت پر قرارداد پاکستان کی ساگرہ 23 مارچ کو منانے کا رواج شروع ہوا۔ مگر متعصب پاکستانی مورخین کبھی یہ حقیقت عیاں نہیں کرتے کیونکہ اس طرح ان کا دعویٰ ٹھس ہوجاتا ہے۔

قائداعظم پیپرز میں تفصیل سے یہ درج نہیں کہ 23 مارچ کو سالگرہ منانے کا فیصلہ کیوں ہوا؟ اس ضمن میں بہرحال محب وطن مورخین نے کچھ قیاس لگائے ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندو اور برطانوی پریس کی بدولت مسلم عوام کے اذہان میں یہ بات بیٹھ گئی کہ قرارداد پاکستان 23 مارچ کو پیش ہوئی۔

لہٰذا یہی تاریخ ان کے ذہنوں میں جم گئی۔ اب اسے 24 مارچ کردیا جاتا تو خواہ مخواہ کا تناقص جنم لیتا۔ اسی سے بچنے کے لیے شاید قائداعظم نے ہدایت دی کہ ہندوستان بھر میں مشہور ہوجانے والی تاریخ (23 مارچ) کو ہی سالگرہ منائی جائے حالانکہ اسے 24 مارچ کی رات منظور کیا گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرارداد کی تیاری کی تاریخ (23 مارچ) کو منظوری والی پر ترجیح دی گئی۔ غرض یہ ایسا مسئلہ نہیں کہ اسے لے کر پریشان ہوا جائے۔ مگر ہمارے متعصب مورخین نے اسی کو رائی کا پہاڑ بنادیا۔ گو معاملے کی گہرائی میں جایا جائے تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی صورت حال ہی عیاں ہوتی ہے۔

ریاست یا ریاستیں؟َ

قرارداد پاکستان کے متعلق فسادی مورخین یہ پخ بھی سامنے لائے کہ اس میں ’’ریاست‘‘ نہیں ’’ریاستوں‘‘ کا ذکر ہے۔ گویا ہمارے بزرگ ایک نہیں کئی پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان میں ایک پاکستان کے سلسلے میں اتفاق موجود نہیں تھا۔ متعصب مورخین اسی بات کو یوں اچھالتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں میں سنگین باہمی اختلافات موجود تھے۔ تاہم حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے ان کے اس منفی نکتے کی قلعی بھی اتر جاتی ہے۔

جنگ آزادی 1857ء کے بعد انگریز ہندوستان کے حاکم بنے، تو جلد ہی برہمن بت پرست مطالبہ کرنے لگے کہ حکومت میں اردو نہیں ہندی نافذ کی جائے۔ یہ 1861ء کی بات ہے۔ سرسید احمد خان تب مجسٹریٹ تھے۔ انہی دنوں اردو ہندی تنازع کے سبب وہ سب سے پہلے یہ نظریہ سامنے لائے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو مل کر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

اسی نظریے کو پھر مستقبل کے مسلم لیڈروں نے مختلف طریقوں سے بیان کیا۔ ان کا اتفاق اس امر پر تھا کہ مسلمانوں کو اپنی ایک علیحدہ و خودمختار ریاست یا ریاستیں بنالینی چاہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ کسی ایک جگہ مسلم ریاست بنالینا کٹھن مرحلہ تھا۔ تب بقیہ علاقوں سے مسلمانوں کو مجوزہ ریاست میں ہجرت کرنا پڑتی۔

جب مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو یہ سوچ جنم لے چکی تھی کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں مسلم ریاست وجود میں آجائے۔ تاہم یہ نظریہ ابھی ارتقا پذیر تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرارداد پاکستان میں ریاست کے بجائے ریاستیں لکھا گیا۔ ممکن ہے کہ ایسا غلط فہمی کے باعث ہوا ہو۔ کیونکہ اجلاس کی ساری کارروائی پڑھی جائے، تو احساس ہوتا ہے کہ قائداعظم سمیت سبھی لیگی رہنما اپنی تقریروں میں ’’ریاست‘‘ کا لفظ ہی استعمال کرتے رہے۔ لہٰذا تاریخ پاکستان کے محققین کا خیال ہے کہ ریاستوں سے مراد وہ مسلم اکثریتی صوبے ہیں جو ایک مسلم ریاست کا آئینی و قانونی حصہ بن جاتے۔

درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ قرارداد پاکستان میں ’’ریاستوں‘‘ کا ذکر بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اسے لے کر شور مچادیا جائے۔ قیام پاکستان کی سوچ ابھی ارتقا پذیر تھی اور ایسے میں نادانستہ طور پر غلطیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ لیکن ان غلطیوں کا سراغ لگا کر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر حملے کرنے کا عمل متعصب مورخین کی بدنیتی اور منفی ذہنیت کا پول کھول دیتا ہے۔

پاکستان میں کیڑے نکالنے کی جستجو میں زندگیاں کھپا دینے والے ان فتنہ انگیز اور نام نہاد محققوں کا ایک اور بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے 23 مارچ کو فوجی پریڈ کے طور پر منایا جانا شروع کیا ۔ اس دعویٰ کو بھی تاریخی حالات اور واقعات کے آئینے سے دیکھتے ہیں۔

عسکری پریڈ کا قضیہ

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستان میں برطانوی حکمران گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت حکومتی نظم و نسق چلا رہے تھے۔ پاکستان نے اسی نظام حکومت میں کچھ تبدیلیاں لاکر اسے اپنایا۔ پاکستان میں نافذ کردہ یہ حکومتی نظام ’’انڈیپینڈینس ایکٹ 1947ء ‘‘کہلایا۔ بھارت میں بھی اسی قسم کا حکومتی نظام اپنایا گیا تھا۔بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے ڈیڑھ سال میں نیا آئین بنایا اور اسے نافذ کر دیا۔ یوں بھارتی حکومت نے سابق آقاؤں کے حکومتی نظام سے چھٹکارا پالیا۔

پاکستان میں مگر سیاسی مذہبی اور نظریاتی اختلافات کے باعث آئین بنانے کا مرحلہ طویل تر اور کٹھن بن گیا۔ حتیٰ کہ گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی ہی تحلیل کردی۔ افسوس کہ تاریخ پاکستان کے اولیّن دس گیارہ برس سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جوڑ توڑ سے پُر ہیں۔ انہی کی وجہ سے پاکستان میں معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر مضبوط پاکستانی معاشرہ جنم نہیں لے سکا۔

جون 1955ء میں پاکستان کی دوسری آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ اس کی کل نشستیں تھیں جن میں سے مسلم لیگ صرف 25 جیت سکی۔ پہلی آئین ساز اسمبلی میں اس کی 64 سیٹیں تھیں۔ تاہم گورنر جنرلسکندر مرزا اور وزیراعظم چوہدری محمد علی مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان کے سیاسی اتحاد، یونائیٹڈ فرنٹ میں شراکت داری کرانے میں کامیاب رہے۔ یوں حکومت بنانے اور آئین تشکیل دینے کا معاملہ آگے بڑھا۔ ارکان اسمبلی نے جنوری 1956ء تک آئین تیار کرلیا۔ محمد علی اور سکندر مرزا نے مشاورت کے بعد اسے 23 مارچ 1956ء کو نافذ کردیا۔ اس دن کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ قرار دیا گیا۔

خاص بات یہ ہے کہ 23 مارچ 1956ء ہی کو تاریخ پاکستان میں پہلی بار افواج پاکستان کی مشترکہ پریڈ بھی منعقد ہوئی۔ یہ پریڈ کراچی کے پولو گراؤنڈ میں کی گئی جسے عوام و خواص نے بہت دلچسپی اور جوش و جذبے سے دیکھا۔ برطانیہ کی وزارت، کامن ویلتھ ریلیشنز کے انڈر سیکرٹری، ایلن نوبل اس پریڈ کے مہمان خصوصی تھے۔ اسی پریڈ میں سویت یونین کے طاقتور ڈپٹی نائب وزیراعظم، اناستاس میکویان بھی شریک تھے۔ اس پریڈ کی ایک تصویر آج بھی محفوظ ہے۔ اگلے دو برس بھی یوم جمہوریہ کے موقع پر افواج پاکستان کی مشترکہ فوجی پریڈ پولو گراؤنڈ، کراچی میں منعقد ہوئی۔ ان مواقع پر جنگی سازو سامان اور عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔

اس حقیقت سے عیاں ہے کہ پاکستان میں 23 مارچ 1956ء سے یوم جمہوریہ کے موقع پر مسلح افواج کی پریڈ کا آغاز ہوا۔ تب ہمارے دیس میں جمہوری حکومت تھی، فوجی نہیں۔ مزید براں بھارت میں بھی یوم جمہوریہ پر افواج کی مشترکہ پریڈ ہوتی تھی۔ نیز دنیا کے کئی ممالک میں رواج ہے کہ مخصوص قومی ایام میں افواج کی شاندار پریڈ سے اپنی دفاعی و جنگی صلاحیتوں اور قوتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تاکہ عوام الناس جان سکیں، ان کی زندگیاں محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان میں مگر متعصب مورخین نے عسکری پریڈ کو متنازع بناڈالا تاکہ افواج وطن پر کیچڑ اچھال کر اپنے مذموم عزائم پورے کرسکیں۔

سیاسی رسّہ کشی

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس دوران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اندر اور باہر اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ حکمران بننے کی خاطر سیاست داں ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ سرکاری افسر بھی اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

وطن عزیز کو عدم استحکام اور ابتری سے بچانے کی خاطر معاملات میں پاک فوج کو بھی دخل اندازی کرنا پڑی جو تمام سرکاری اداروں میں سب سے زیادہ منظم اور قانون پسند ادارہ تھا۔سیاسی رسّہ کشی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ اپریل 1953ء سے دسمبر 1956ء تک صرف تین سال آٹھ ماہ میں اہل پاکستان کو پانچ وزرائے اعظم اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے اور نکلتے دیکھنے پڑے۔ اس عرصے میں سیاسی جماعتیں اور خاصی حد تک ایوان صدر بھی پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے گروہی مفادات پورے کرنے پر کمر بستہ رہے۔

برطانیہ کے مشہور رسالے، دی اکنامسٹ میں برطانوی صحافی، کیویئر کرام ویل نے 11 اکتوبر 1958ء کو اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’پاکستان میں مارشل لا لگنے سے چند ماہ قبل سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کہ انہیں ایک طرف تو مضحکہ خیز اور دوسری سمت ڈراؤنے کہا جاسکتا ہے۔‘‘ تب سیاست دانوں اور صدر سکندر مرزا کی زیر قیادت بیوروکریسی کے مابین اقتدار کی جنگ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ آخر کار 7 اکتوبر 1958ء کو صدر سکندر مرزا نے مارشل لا لگاکر آئین کالعدم قرار دے ڈالا۔ 27 اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا حکومت کا بوریا بستر گول کیا اور انہیں گھر بھجوا دیا۔

متعصب مورخین نے جنرل ایوب خان پر کئی قسم کے الزامات لگائے ہیں۔ مثلاً انہیں بزدل فوجی، جوڑ توڑ کے ماہر اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا جرنیل کہا گیا۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا جوش و جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی لیے سیاسی بوالعجبیوں سے تنگ آکر انہوں نے حکومت سنبھال لی۔ تاریخ پاکستان میں ان کا گیارہ سالہ دور معاشی لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

بہرحال جب 1959ء میں 23 مارچ کا تاریخی دن قریب آیا تو وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اسے ’’یوم پاکستان‘‘ کے طور پر منایا جائے۔ متعصب مورخین کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا کیونکہ فوجی حکومت 23 مارچ کو بطور یوم جمہوریہ منانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن یہ اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یوم پاکستان منانے کا فیصلہ کرنے والی حکومت میں جمہوریت کے چمپئن سمجھے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو، منظور قادر اور محمد شعیب جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ ویسے بھی یوم پاکستان زیادہ معنی خیز، وسعت پذیر اور قومی نوعیت کا دن قرار پایاجو امن، محبت اور خیر کے مثبت جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔

وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

بھارت میں 26 جنوری 1950ء کو آئین نافذ ہوا تھا۔ تب سے بھارتی حکومت اس دن کو بطور ’’یوم جمہوریہ‘‘ منارہی ہے۔ بھارتی حکمران بڑے فخر سے اپنی مملکت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں۔

دیکھ لیجیے کہ اس عظیم ترین جمہوری مملکت میں اقلیتوں خصوصاً بائیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ کیسا انسانیت سوز اور ظالمانہ سلوک ہورہا ہے۔یہ جمہوریت نہیں دیوہیکل جیل خانہ ہے جہاں کروڑوں مسلمان قید کیے جا چکے۔اس انسان دشمن بھارتی جمہوریت سے کیا وہ آمریت یا بادشاہت اچھی نہیں جس میں ہر شخص کو شہری حقوق حاصل ہوں اور وہ آزادی سے سر اٹھا کر زندگی گزار سکے؟ طرز حکمرانی اہم نہیں،بنیادی بات یہ ہے کہ ایک حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کتنی سرگرم ہے اور کیا مملکت میں سبھی شہریوں کو اچھی خوراک،تعلیم ،صحت اور شہری سہولیات میسّر ہیں؟

دلچسپ بات یہ کہ 26 جنوری 1950ء سے ہر یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی افواج بھی تزک واحتشام سے عسکری پریڈ کرتی ہیں۔ اس دوران بھارتی حکمران بڑے غرور سے اپنی عسکری طاقت کی نمائش کرتے ہیں لیکن پاکستان کے متعصب مورخین کو بھارت کی فوجی پریڈ دکھائی نہیں دیتی۔ ظاہر ہے، اگر وہ اس کا تذکرہ کردیں، تو افواج پاکستان کے خلاف ان کی دشنام طرازی کے بلند آہنگ دعویٰ اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔

قارئین کرام، درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ بعض مورخین نے جو اپنے آپ کو عقل ِکُل، روشن خیال اور مہا دانشور سمجھتے ہیں، قرارداد پاکستان کو متنازع بنانے کی منظم کوششیں کیں تاکہ خصوصاً نئی پاکستانی نسل کو تحریک آزادی سے برگشتہ کیا جاسکے۔

تاہم وہ اپنی منفی و گھٹیا سعی میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اہل پاکستان، خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں میں چھپے غداروں کو پہچانیں اور ان کی تفرقہ، نفرت اور کدورتیں پھیلانے کی سرگرمیوں کو ناکام بنادیں۔اس وقت قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے تاکہ مقامی وعالمی سطح پر درپیش چیلنجوں کا پوری قوم مل کر مقابلہ کر سکے۔ ہماری نئی نسل کو شاعر مسرور انور کا یہ آفاقی پیغام یاد رکھنا چاہیے:

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے

یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے

اس زمیں کا ہر ذرہ ِآفتاب تم سے ہے

یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں

کہکشاں کے یہ اجالے، رہ گزر تمہارے ہیں

اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا

ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا

نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو

وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو

یہ زمیں مقدس ہے ،ماں کے پیار کی صورت

اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت

دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو

یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

The post قرار داد پاکستان: متعصب مؤرخین کے پھیلائے مغالطے appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں ہر گھر میں مگرمچھ ہیں

$
0
0

براعظم افریقہ میں بہنے والا دریائے نیل جہاں دنیا کے طویل ترین دریاؤں میں اپنی منفرد شہرت رکھتا ہے، وہیں یہ دریا مصر کے معاشی و تہذیبی حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دریائے نیل کے وسیع و عریض احاطے پر پھیلے علاقے سے احرام مصر کی تعمیر کا سامان کشتیوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح میں صحرائے اعظم کی وسعت گیری و خشک سالی کے باعث دریائے نیل کی جانب ہجرت کرنے والے مصری آثار قدیمہ اس عظیم تہذیب کا پیشہ خیمہ بنے، جو آج بھی دریائے نیل کے کنارے ملتے ہیں۔

6,695 کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ روم میں گرنے سے پہلے یہ سینکڑوں دیہاتوں کو سیراب کرتا ہے۔ عالمی سطح پردریائے نیل کی ایک وجہ شہرت اس کے نیلگوں پانی میں پائے جانے والے مگرمچھ ہیں جوکہ ہزاروں سالوں سے اس دریا کا حصہ ہیں۔ دریائے نیل کے کنارے، روایتی نیلے اور سفید گنبدوں والے گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ وہاں ہر گھر میں مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہر گھر کے دروازے پر حنوط شدہ مگرمچھ ملتے ہیں۔ گرب سہیل نامی گاؤں اسوان ڈیم کی دوسری جانب دریا کے پار آباد ہے۔ اس گاؤں تک پہنچنے کے دو راستے ہیں براستہ زمین یا براستہ آب (دریا)۔ اگر گرب سہیل پہنچنے کے لیے بس کے راستے کو اپنایا جائے تو ہ عمارت اور گھر کے باہر”Crocodile House” کندہ ملے گا اور حنوط شدہ یا پینٹ شدہ مگرمچھ بھی۔

یہ گاؤں دراصل نیوبیا کی تہذیب کا مرکز ہے جوکہ مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جدید مصر سے منفرد کرتا ہے۔ نیوبیا کے باشندوں کے گھروں کے باہر اور اندر مگر مچھ کا ہونا ایک ثقافتی روایت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مگر مچھ کو رکھنا یا حنوط شدہ مگر مچھ کو دروازوں پر ٹانگنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ جتنا پرانا ہوگا اتنا ہی اس خاندان کیلئے باعث فخر ہوگا۔

گھر میں مگر مچھ پالنا جرأت و شجاعت کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مگر مچھوں کے شکار، ان کی لاش کو محفوظ کرنے اور دروازوں کے اوپر ٹنگانے سے اور بھی کئی معنوں کو جوڑا جاتا ہے۔ جیسے نظر بد سے بچانے کا طریقہ، گھر کے مالک کی ہمت و استطاعت میں بڑھوتری اور دوسرے مگرمچھوں کو گھر سے دور بھگانے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف مگرمچھ ہی ایسے جانور نہیں ہیں جنہیں گھروں کی زینت بنایا جاتا ہو بلکہ بڑے پہاڑی کوؤں کو مار کر ان کی لاشوں کو چھت پر لٹکایا جاتا ہے، تاکہ دوسرے بڑے کوے اور پرندے وہاں سے دور رہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہاڑی کوے، چوزوں، مرغی کے انڈوں، کبوتروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نیوبیا تہذیب کے افراد بچھو کا شکار کرکے اسے دیواروں پر لٹکاتے ہیں تاکہ وہ ان کے گھروں میں آنے والے دوسرے بچوؤں کے لئے نشانِ عبرت ثابت ہوں۔

مگر مچھوں کو گھروں میں پالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مگر مچھ ان کی آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ اب یہ بات باعث حیرانی ہے۔ بھلا ان خطرناک مگر مچھوں کو پال کر کوئی پیسے کس طرح کماسکتا ہے۔ تو گرب سہیل نامی اس گاؤں کے باسی وہاں آنے والے سیاحوں کے ذریعے پیسے کماتے ہیں جن کے لیے گھروں میں افراد کے ساتھ بسنے والے مگر مچھ اور گاؤں کے باسیوں کی تہذیب باعث کشش ہوتی ہے۔ سیاح وہاں آکر اپنا زیادہ وقت لوگوں سے ان کی تہذیب کے متعلق سوالات کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد گھروں میں رکھے مگر مچھوں کو جاننے کے علاوہ انہیں ہاتھوں میں لے کر تصویریں بنوانے میں دلچسپی لیتی ہے۔

سیاحوں کو اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے کے عوض وہ پیسے لیتے ہیں، اور گرب سہیل کے لوگوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ یہی ہے۔ لوگوں نے مگر مچھوں کے لیے گھروں میں ٹیرارم (Terrarium) بنا رکھے ہیں اور جب وہ بہت زیادہ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں دریائے نیل کے جنگلی حصے میں اسوان ڈیم کے شمالی جانب چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ جنوبی حصہ میں مگر مچھوں کو چھوڑنا غیر قانونی ہے۔

مگرمچھوں کو دریا تک باحفاظت چھوڑنے اور خود کوخطرے سے بچانے کے لیے وہاں لوگ ان کے جبڑے پر مضبوطی سے کپڑا باندھ دیتے ہیں۔ اور دوسرا کپڑا ان کی دم اور جسم کے گرد لپیٹ دیتے ہیں کیونکہ بڑے مگر مچھوں کی پونچھ اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ کسی بھی شخص کو گرانے کا سبب بن سکتی ہے۔ پھر انہیں ٹرک میں ڈال کر نیل کے ساحل پر لے جایا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر احتیاط سے ان کے گرد لپٹے کپڑوں کو کھول دیا جاتا ہے اور انہیں پانی میں چھوڑ دیتے یہں۔ عموماً اس عمل کے دوران مگر مچھ حملہ آور نہیں ہوتے کیونکہ ایک آزاد زندگی کا تصور دریا کے نیلگوں پانی کی صورت ان کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

عموماً سیاحوں کو محظوظ کرنے والے لوگوں نے اپنے گھروں میں مگر مچھوں کے انڈے رکھے ہوتے ہیں جن میں سے نکلنے والے بچوں کو وہ پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ گھر تو گھر وہاں تاریخی مقامات اور یہاں تک کے کشتیوں میں بھی مگر مچھوں کے سر آویزاں ملتے ہیں، اب اس کے پیچھے بھی مگر مچھوں سے جڑی عقیدت کارفرما ہے یا نہیںتو کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔ مگرمچھ یہاں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں اس کی ایک وجہ مصر کی تاریخ خصوصاً نیوبیائی قبیلے کی تہذیب میں مگرمچھوں کو دی جانے والی اہمیت ہے جو عقیدت کا روپ دھار چکی۔ ہزاروں سالوں سے مگر مچھوں کو قدیم بادشاہتوں میں شجاعت کی علامت مانا جاتا تھا۔ قدیم مصری تہذیب میں فنون لطیفہ پر بھی مگرمچھ کے گہرے اثرات رہے۔ 4,000 چار ہزار سال قبل مسیح احرام مصر سکارا پر ’’سوبک‘‘ مگر مچھوں کے خدا کی تصویر کندہ ہے جس کا سر مگر مچھ کا اور دھڑ انسانی ہے۔ یہ مصر کے’ُکوم اوبو‘ قصبہ میں ایک مندر کے ستون پر کندہ ہے جوکہ 47 قبل سیح سے 180 قبل مسیح کے درمیان فرعونوں نے تعمیر کروایا تھا۔

اس مندر میں مگر مچھوں کی شاندار تصاویر اور حنوط شدہ نعشیں ہیں مگر وہاں کسی کو تصویر لینے کی اجازت نہیں۔ مگرمچھوں کو مصری ثقافت کے ساتھ ساتھ زراعت میں بھی اہمیت دی گئی جس کا ثبوت قاہرہ کے زرعی میوزیم میں آویزاں شدہ مگر مچھوں کودیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔مگرمچھوں سے محبت کرنے والے یہ لوگ باقی لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کئے ہیں۔

The post جہاں ہر گھر میں مگرمچھ ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ہالی وڈ بھی کورونا کی زد میں

$
0
0

انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایک ننھے وائرس نے آن کی آن میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس جان لیوا اور خوف ناک کورونا وائرس کی شروعات چین سے ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

کورونا وائرس کے خوف اور دہشت کی وجہ سے ان تمام ممالک کی گلیاں اور سڑکیں سنسان پڑی ہیں جہاں کبھی ہنستے، کھلکھلاتے چہرے نظر آیا کرتے تھے لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں کہ کہیں یہ جان لیوا وائرس ان سے نہ چمٹ جائے۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس سے دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک اور تقریباً دو لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جب کہ 7 ہزار سے زیادہ لوگ اس وائرس کے باعث جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس جان لیوا وائرس کی ابھی تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی اور لوگوں کو صرف احتیاط کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن جیسی صورت حال ہے جس کے باعث دنیا بھر کی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کورونا وائرس نے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کی سب سے بڑی انڈسٹری ہالی وڈ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس وائرس کے خوف کی وجہ سے ہالی ووڈ کی بڑے بجٹ اور بڑے بینر کی زیرتکمیل متعدد فلموں کی شوٹنگ بند ہوکر رہ گئی ہے جس کے باعث ہالی ووڈ فلموں پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کرنے والے افراد اور نام ور پروڈکشن ہاؤسز سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہالی وڈ کے کئی نام ور اور بڑے اسٹارز میں کورونا وائرس کی تشخیص نے پوری انڈسٹری کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔

اب تک آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار ٹام ہینکس Hanks Tomاور ان کی اہلیہ ریٹا ولسن Wilson Rita، اوینجرز اسٹار ادریس البا Idris Elba، گیم آف تھرونز میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے اداکار کرسٹوفر ہیوجو Hivju Kristofer اور سابق بانڈ گرل اولگا کری لینکو Kurylenko Olgaمیں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اداکار ٹام ہینکس میں یہ وائرس اس وقت منظر عام پر آیا جب وہ آسٹریلیا میں آنجہانی گلوکار ایلوس پریسلے Elvis Presley کی زندگی پر مبنی فلم کی شوٹنگ کررہے تھے۔

کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کے سنیما ہالز اور تھیٹرز ویران پڑے ہیں۔ بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز نے کام چھوڑ کر عملے کو چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ جن فلموں کی شوٹنگ چل رہی تھی وہ درمیان میں ہی روک دی گئی اور جو فلمیں تیار ہوکر ریلیز کی منتظر تھیں ان کی تاریخ آگے بڑھادی گئی ہے۔ اس صورت حال نے ہالی ووڈ کی سٹی گم کردی ہے اور اربوں ڈالرز سے بننے والی فلمیں درمیان میں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس کے باعث ہالی وڈ انڈسٹری کو رواں سال 20 بلین ڈالرز کے نقصان کا خدشہ ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے کن فلموں کی شوٹنگ روک دی گئی ہے۔

Matrix 4

1999 میں آنے والی سائنس فکشن فلم دی میٹرکس The Matrix نے ریلیز کے بعد کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ یہ فلم دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس فرنچائز کی چوتھی فلم Matrix 4کی شوٹنگ جاری تھی کہ اسے بنانے والی پروڈکشن کمپنی وارنر برادرز جسے وارنر بروس Warner Bros بھی کہا جاتا ہے، نے فلم کی شوٹنگ درمیان سے ہی روک دی۔ فلم میں ہالی وڈ سپراسٹار کینو ریوز، کیری اینا موس، ہینوِک جیسیکا، یحییٰ عبدالمتین اور بولی وڈ کی اداکارہ پریانکا چوپڑا سمیت متعدد فن کار اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

Fantastic  Beasts  3

2016 میں آنے والی فلم fantastic beasts where to find themکی کام یابی کے بعد اس کے مزید سیکوئل بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور Fantastic  Beasts  3اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کی شوٹنگ رواں ہفتے برطانیہ میں شروع ہونے والی تھی۔ اس فلم کو بھی ہالی ووڈ کی مشہور کمپنی وارنر بروس ہی پروڈیوس کررہی تھی۔ تاہم کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اس فلم کی شوٹنگ کو بھی ملتوی کردیا گیا۔

Samaritan

ہالی وڈ کی مشہور پروڈکشن کمپنی میٹرو گولڈ ون میئر جسے ایم جی ایم اسٹوڈیو بھی کہا جاتا ہے۔ ہالی وڈ سپراسٹار سلویسٹر اسٹالون کے ساتھ مل کر سپرہیرو فلم سماریٹن Samaritan بنارہی تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ اٹلانٹا میں ہونی تھی لیکن یہ فلم بھی کورونا کی بھینٹ چڑھ گئی اور فلم کی شوٹنگ دو ہفتوں کے لیے روک دی گئی۔

Red Notice

ہالی ووڈسپر اسٹار ڈوائن جانسن، وینڈر وومن گال گوڈیٹ اور ریان رینالڈز کی ایکشن اور کامیڈی فلم ریڈ نوٹس کی شوٹنگ کو بھی دو ہفتوں کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی روسن مارشل تھربر نے لکھی ہے جب کہ ڈوائن جانسن اس فلم کے شریک پروڈیوسر ہیں۔ اس فلم کا بجٹ 125 سے 150 ملین ڈالر ہے۔

 Batman The

دنیا کو بچانے والے سپر ہیرو بیٹ مین Batman پر مبنی ہالی وڈ کی مشہور فلم بیٹ مین کو بچے ہی نہیں بڑے بھی بے حد شوق سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کے کئی پارٹس منظر عام پر آچکے ہیں۔ ڈی سی فلمز اور وارنر بروس کی فلم دی بیٹ مین، بیٹ مین سیریز کا دسواں حصہ ہے جس میں ہالی وڈ کے مشہور اسٹار روبرٹ پیٹنسن، بروس وائنس Batman کا مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ تاہم اس فلم کی شوٹنگ بھی دو ہفتوں کے لیے روک دی گئی ہے۔ یہ فلم اگلے سال 25 جون 2021 کو ریلیز کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے یہ خبر بیٹ مین کے مداحوں پر بجلی بن کر گرے گی۔

Jurassic World: Dominion

بڑے بڑے دیوہیکل ڈائناسارز پر مبنی فلم جراسک پارک Jurassic Park فرنچائز کی چھٹی فلم جراسک ورلڈ؛ ڈومینیئن ، 2018 میں ریلیز ہوئی۔ ایکشن، تھرلر اور ایڈونچر سے بھرپور فلم جراسک ورلڈ؛ فالن کنگڈم کا سیکوئل ہے۔

جراسک پارک فرنچائز کی ہر فلم کا لوگوں کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے اور یہ فرنچائزنہ صرف ہالی وڈ کی مہنگی ترین فرنچائز میں شمار ہوتی ہے بلکہ یہ فلمیں اربوں ڈالرز کا بزنس کرتی ہیں۔ فلم جراسک ورلڈ؛ ڈومینیئن کی شوٹنگ گذشتہ ماہ فروری سے لندن میں جاری تھی، تاہم کورونا وائرس کے باعث شوٹنگ منسوخ کردی گئی اور صرف اسی فلم کی نہیں بلکہ امریکن فلم اسٹوڈیو یونیورسل پکچرز نے تقریباً تمام زیرتکمیل فلموں کی شوٹنگ کو موخر کردیا ہے۔

  Sequels Avatar

ہالی وڈ کے نمبر ون ہدایت کار جیمز کیمرون James Cameron کی سپرہٹ سائنس فکشن فلم اواتار Avatar کے سیکوئل کی شوٹنگ بھی کوروناوائرس کے باعث اگلا نوٹس آنے تک روک دی گئی ہے۔ فرنچائز کے ایگزیکٹیو کے ایک گروپ کو 20 مارچ کو شوٹنگ کے لیے نیوزی لینڈ روانہ ہونا تھا لیکن اب انہوں نے لاس اینجلس میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 Shrine

ہالی وڈ پروڈکشن کمپنی اسکرین گمز کی خوف اور ایڈونچر سے بھرپور فلم شرائن Shrine کی شوٹنگ بھی چار ہفتوں کے لیے منسوخ کردی گئی ہے۔ یہ فلم اسکرین رائٹر ایون Evan Spiliotopoulosکی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم تھی جب کہ ہالی وڈ اداکار جیفری ڈین مورگن فلم میں اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے۔

Chi Shang

مارول اسٹوڈیو کے بینر تلے بننے والی فلم شانگ چی کی شوٹنگ بھی موخر کردی گئی ہے، کیوںکہ فلم کے ہدایت کار ڈسٹن ڈینئل کریٹن کی حالت صحیح نہیں ہے طبی ماہرین کے مطابق انہیں بھی کورونا وائرس کے مرض کا خطرہ ہے لہٰذا ڈاکٹرز نے انہیں کورونا وائرس کے مرض 19 COVID- کے ٹیسٹ کا رزلٹ آنے تک قرنطینہ یعنی لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اور تنہائی میں وقت گزارنے کا مشورہ دیا ہے۔

  Mermaid  Little The

ہالی وڈ کمپنی والٹ ڈزنی جسے ڈزنی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے اپنی تقریباً تمام زیرتکمیل فلموں کی شوٹنگ روک دی ہے۔ ڈزنی کی پروڈکشن میں بننے والی فلم دی لٹل مرمیڈ Mermaid Little The کے لیے لوگوں کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ڈزنی نے اس فلم کی شوٹنگ کو موخر کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ہوم الون Alone Home ، پیٹر پین اینڈ ونڈی Wendy &Pan Peterاور شرنک Shrunk کی پروڈکشن بھی روک دی گئی ہے۔

project Presley Elvis

آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی وڈ اداکار ٹام ہینکس Hanks Tom اور ان کی اہلیہ ریٹا ولسن Wilson Rita میں گذشتہ ہفتے اس وقت کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی جب وہ آسٹریلیا میں ماضی کے معروف گلوکار ایلوس پریسلے Presley Elvisکی زندگی پر بننے والی فلم کی شوٹنگ کررہے تھے۔ اس فلم کا ابھی تک نام تو نہیں رکھا گیا ہے تاہم فلم کی شوٹنگ شروع کردی گئی تھی۔ لیکن گزشتہ ہفتے ٹام ہینکس Hanks Tomاور ریٹا ولسن Rita Wilson نے یہ افسوس ناک خبر دے کر اپنے چاہنے والوں کو اداس کردیا کہ ان کا کورونا وائرس کے مرض 19 COVID- کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد ان دونوں میاں بیوی نے خود کو دنیا سے الگ تھلگ یعنی قرنطینہ کرلیا ہے۔

اس فلم کی پروڈکشن کے فرائض بھی وارنر بروس پروڈکشن کمپنی ہی انجام دے رہی تھی۔ ٹام ہینکس میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد وارنربروس اسٹوڈیو کی انتظامیہ نے فلم پر کام عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمپنی کے ارکان، عملے اور اداکاروں کی صحت اور حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہے، لہٰذا ہم دنیا بھر میں اپنی پروڈکشن میں کام کرنے والے ہر شخص کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے فلم کی شوٹنگ عارضی طور پر موخر کررہے ہیں۔

 7  Impossible Mission

ہالی ووڈ کے سپر اسٹار ٹام کروز کی کام یاب فلم سیریز مشن امپاسبل کی ساتویں فلم مشن امپاسبل 7 بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئی۔ ہالی وڈ پروڈکشن کمپنی پیراماؤنٹ پکچرز نے فلم کی عکس بندی کے لیے اٹلی کے شہر وینس میں تین ہفتوں کا شیڈول طے کیا تھا۔ فلم کے ہیرو ٹام کروز سمیت فلم کا عملہ بھی وینس پہنچ گیا تھا لیکن اٹلی میں کورونا کی وبا پھیلنے کے باعث نہ صرف فلم کی شوٹنگ منسوخ کردی گئی بلکہ فوراً عملے کے تمام ارکان کو ان کے گھر روانہ کردیا گیا۔ پروڈکشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فلم کی شوٹنگ اپنے عملے اور کاسٹ کی حفاظت اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے منسوخ کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اٹلی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں کے لوگ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس کے باعث تقریباً 400 اموات ہوچکی ہیں جب کہ 25 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہیں۔ اٹلی کی گلیاں اور سڑکیں کورونا کے ڈر سے سنسان پڑی ہیں اور لوگ گھروں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔

 Widow Black

مارول اسٹوڈیو Studios Marvelکی سپرہیرو فلم بلیک وڈو Widow Blackکا انتظار شائقین لمبے عرصے سے کررہے ہیں۔ فلم میں ہالی ووڈ اداکارہ اسکارلٹ جانسن Scarlett Johansson بلیک وڈو کا مرکزی کردار اداکر رہی ہیں۔

فلم یکم مئی 2020 کو ریلیز ہونی تھی، تاہم رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ کورونا وائرس کے پیش نظر بلیک وڈو کی ریلیز بھی ملتوی کردی گئی ہے۔ ہالی وڈ کمپنی ڈزنی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث احتیاطی تدابیر کے پیش نظر اور امریکی محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی گائیڈ لائنز کے مطابق کچھ علاقوں میں سنیما ہالز اور تھیٹرز کو عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی بڑی تعداد ایک جگہ جمع نہ ہو یہی وجہ ہے کہ فلم بلیک وڈو کی ریلیز ملتوی کردی گئی ہے۔

Mulan

تقریباً 200 ملین ڈالرز کے بجٹ سے بننے والی والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کی مہنگی ترین فلم Mulan جو کہ 27 مارچ 2020کو ریلیز ہونی تھی کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اس کی ریلیز بھی ملتوی کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ والٹ ڈزنی کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جیسا کہ آپ سے جانتے ہیں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم احتیاطاً فلم Mulan کی ریلیز ملتوی کررہے ہیں۔ فلم کی نئی ریلیز کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

 9  Fast and Furious

دنیا بھر کے شائقین امریکی ایکشن فلم 9  Fast and Furiousکا بے چینی سے انتظار کررہے تھے لیکن یہ فلم بھی کورونا وائرس کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ایکشن اور تھرلر سے بھرپور یہ فلم رواں سال 22 مئی کو دنیا بھر میں ریلیز ہونی تھی لیکن کورونا کے خطرے کے پیش نظر اس کی ریلیز ایک سال آگے بڑھادی گئی اور اب یہ 2 اپریل 2021 کو ریلیز کی جائے گی۔

No time to Die James Bond

کورونا نے جیمز بانڈ کو بھی نہیں چھوڑا۔ 250 ملین ڈالرز کے بجٹ سے تیار کی جانے والی جیمز بانڈ سیریز کی 25 ویں فلم نوٹائم ٹو ڈائے No time to Die James Bond دنیا بھر میں رواں سال اپریل میں ریلیز کی جانی تھی لیکن کورونا وائرس کے باعث فلم کی ریلیز کی تاریخ کو آگے بڑھادیا گیا ہے۔ اب جیمز بانڈ نومبر 2020 میں برے لوگوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچائے گا۔

The post ہالی وڈ بھی کورونا کی زد میں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


مجھے شعور بھی خواہش کا داغ لگنے لگا
جہاں بھی دل کو لگایا ، دماغ لگنے لگا
تلاش اتنا کیا روشنی کو جنگل میں
تھکن کے بعد اندھیرا چراغ لگنے لگا
کمال درجہ کی شفافیت تھی آنکھوں میں
خود اپنا عکس مجھے ان میں داغ لگنے لگا
پلک پرندہ تھا ، لب پھول اور زلف شجر
وہ چہرہ پہلی نظر میں ہی باغ لگنے لگا
تو سامنے تھا مگر کوئی اور لگ رہا تھا
پسِ خلائے محبت سراغ لگنے لگا
(علی شیران۔ شور کوٹ، جھنگ)

۔۔۔
غزل


در و دیوار ایسے دیکھتے ہیں
غذا کو جیسے بھوکے دیکھتے ہیں
میں اپنے سر پہ پتھر مارتا ہوں
مجھے حیرت سے شیشے دیکھتے ہیں
اُسے دیکھیں تو گونگے بولتے ہیں
اُْسے سن لیں تو اندھے دیکھتے ہیں
ہماری بے بسی پہ بارہا ہم
تری تصویر ہنستے دیکھتے ہیں
ترے چہرے کو آنکھیں مانگتی ہیں
ترے سر کو یہ شانے دیکھتے ہیں
لگی ہے آگ میری آستیں کو
بڑی حسرت سے اپنے دیکھتے ہیں
بْلاتا ہے تجھے چشموں کا پانی
تجھے گاؤں کے رستے دیکھتے ہیں
اب اِن آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے ہم
تری آنکھوں کے دیکھے ، دیکھتے ہیں
پتا ہے وہ نہیں مانے گی ویسیؔ
مگر ماتھا رگڑ کے دیکھتے ہیں!
(اویس احمد ویسی۔زیارت معصوم)

۔۔۔
غزل

جھوٹا ہے، جانتا ہوں، مگر اس کے باوجود
رونق لگائے رکھتا ہے اک خواب کا وجود
اس نے کتاب کھول کے رکھ دی ہے شیلف میں
میری قبائے وصل کو کب مل سکا وجود
اس بات سے ہی دیکھ لیں قربت ہمارے بیچ
پہنا ہے میں نے روح پہ اس شخص کا وجود
پھر میں کروں نہ ناز کیوں اپنی بڑائی پر
یزداں نے اپنے ہاتھ سے سینچا مرا وجود
اس میں ہر ایک بات ہے پر بولتا نہیں
پایا ہے میرے یار نے تصویر سا وجود
کیسے کرے گا سامنا دنیا کا اب کمال
ذلت کی گہری کھائی میں پھینکا گیا وجود
(عاجز کمال رانا۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل


جستجو کے کسی جہان میں ہے
دل پرندہ ابھی اڑان میں ہے
میں اُسے دیکھتا ہوں وہ مجھ کو
صرف آئینہ درمیان میں ہے
اُس کا چہرہ ہے اب بھی آنکھوں میں
اْس کی آواز اب بھی کان میں ہے
پاس ہوگا کہ فیل کیسے کہوں
دل محبت کے امتحان میں ہے
کاش ہوتی وہ حکمرانوں میں
ایک خوبی جو باغبان میں ہے
مار سکتا ہوں، مر بھی سکتا ہوں
آخری تیر بس کمان میں ہے
ہے عجب علم کی دکاں داری
بِک رہا ہے مگر دکان میں ہے
مجھ پہ طاری ہیں وحشتیں کیفی
خواہشِ وصل جسم و جان میں ہے
(محمودکیفی۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


زمامِ وقت کی گردش کو ٹالتا جائے
وہ اک نظر مری کھڑکی پہ ڈالتا جائے
مرے وجود میں اترے ہر ایک نشتر کو
اب آگیا ہے تو آکر نکالتا جائے
بس اک نظر یونہی سگریٹ کو ہاتھ میں تھامے
مری کتاب کے صفحے کھنگالتا جانے
کبھی کبھی مجھے دیکھے شریر نظروں سے
کبھی کبھی تو مرا دَم نکالتا جائے
کسی کسی کو یہ لہجہ نصیب ہوتا ہے
کہ لفظ لفظ نگینوں میں ڈھالتا جائے
یہ لوگ اس پہ ہی ایمان وار کرتے ہیں
جو ٹھوکروں پہ بھی خود کو سنبھالتا جائے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔

غزل

 


بدن کی آنچ سے جب دل پگھلنے لگتا ہے
لہو میں شعلہ سا اک رقص کرنے لگتا ہے
بہارِ حسن پہ اترا مگر خیال رہے
یہ رنگ چند دنوں میں اترنے لگتا ہے
یہی نہیں ہے کہ صحرا کو پیاس لگتی ہے
کبھی کبھی کوئی دریا ترسنے لگتا ہے
توازن ایسا کہ دل ڈوبنے لگے جس دم
نظر میں آس کا منظر ابھرنے لگتا ہے
انا پسند ضرورت کے رستوں پر جاذب
تنے ہوئے کسی رسے پہ چلنے لگتا ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


فقط دو چار سانسوں کے سہارے پر پڑا تھا
میں اک ارض تنفس کے کنارے پر پڑا تھا
ہمارے چل رہے تھے ہجر سے اچھے مراسم
وگرنہ وصل تو اک استخارے پر پڑا تھا
محبت کی تمہارے بعد کوشش رائیگاں تھی
خسارہ ہی مجھے پیہم خسارے پر پڑا تھا
مرا ہر عضو ٹھنڈے موسموں تک آگیا پر
یہ دل اب بھی کہیں عزمی شرارے پر پڑا تھا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل
وہی کافی ہیں دو گلاب مجھے
تو نے بھیجے تھے جو گلاب مجھے
چند کانٹے بھی ساتھ آتے ہیں
بھیجتا ہے وہ گو گلاب مجھے
اور کیا مانگوں میں جنم دن پر
آج تحفے میں دو گلاب مجھے
تیری خوشبو کے پیچھے پاگل ہوں
یار تم بھی تو ہو گلاب مجھے
ایک تتلی نے کی ہے سرگوشی
اپنی بانہوں میں لو گلاب مجھے
خط میں لکھا تھا ایک مالی نے
اب چمن میں نہ رو گلاب مجھے
(ناہیداختربلوچ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


کرنے والا ہوں اک غزل ایجاد
میر بولیں گے مرحبا شہزاد
جس کا اپنا ضمیر مردہ ہے
وہ بھی کہتا ہے ملک زندہ باد
دس کتابیں ہی چھوڑ کر جاتے
کتنے کمبخت تھے مرے اجداد
سب امیدوں کا خون کر کے کہا
جا پرندے تجھے کِیا آزاد
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
ایک دن روک لی گئی امداد
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
اس قدر مسئلے کھڑے ہوئے ہیں
کہ مرے رونگٹے کھڑے ہوئے ہیں
اُس نے مجھ سے کہا’’سنو‘‘ اور پھر۔۔
کان دیوار کے کھڑے ہوئے ہیں
شام کوان کے ساتھ بیٹھک ہے
اور ہم صبح سے کھڑے ہوئے ہیں
اس کو چھو کر ہوا جو آئی تو
احتراماً دیے کھڑے ہوئے ہیں
ہر کٹھن وقت میں حمید رضا
ایک پرچم تلے کھڑے ہوئے ہیں
(حمید رضا۔ اسکردو، بلتستان)

۔۔۔
غزل


میں سورج کو بھی دیکھو آئینہ اس دم دکھاتا ہوں
تیرے چہرے پہ بکھرے بال میں جس دم ہٹاتا ہوں
محبت تو نے جو دی ہے مجھے اک درد کی دولت
یہ وہ اندھی کمائی ہے جو رو رو کر لٹاتا ہوں
میں حسن یار کا گھائل مصور ہو گیا ہوں کیا
خیالوں میں کبھی آنکھیں کبھی وہ لب بناتا ہوں
شب ہجراں تڑپتا ہے، بہلتا ہی نہیں یہ دل
میں اس معصوم بچے کو تھپکتا ہوں مناتا ہوں
میری سوچیں مقید ہیں کسی اک حور کے ہاتھوں
کہ اس کی سوچ غالب ہے میں سب کچھ بھول جاتا ہوں
(عامر معان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
تمھارا فوٹو سجایا ہوا ہے کمرے میں
چراغِ ہجر جلایا ہوا ہے کمرے میں
خطوط لکھنے جلانے میں وقت کٹتا ہے
بس اپنا کام بنایا ہوا ہے کمرے میں
یہ دل ہے یادِ نشاطِ وصال میں گْم صم
تِرا خیال سا چھایا ہوا ہے کمرے میں
بلک رہا ہوں کہ آنکھوں سے اشک جاری ہیں
نظر کو چھت سے لگایا ہوا ہے کمرے میں
بہت سے لوگ مجھے گھر پہ ملنے آتے ہیں
پر اپنا آپ چھپایا ہوا ہے کمرے میں
کتابیں، پھول، تراشے، گلاس، سگرٹ، مے
بس ایک میلا لگایا ہوا ہے کمرے میں
میں فکر مند تھا تاخیرِ موت پر فیصل
اب ایک سایہ سا آیا ہوا ہے کمرے میں
(فیصل امام رضوی)

۔۔۔
غزل


زخم سینے کے اگر ہم سے دکھائے جاتے
دیپ کچھ ایسے اندھیروں میں جلائے جاتے
ہیچ پھر تجھ کو بھی آدم کا وہ قصہ لگتا
بزم سے ان کی اگر تم بھی اٹھائے جاتے
لاکھ کوشش کی بھلانے کی اسے ہم نے مگر
نقش گہرے تھے کہاں ہم سے مٹائے جاتے
کاش ملتی یہ خبر ہم کو کہ توآئے گا
ہم تری راہوں میں پلکوں کو بچھائے جاتے
(ندیم دائم۔ ہری پور)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

محبوب خان

$
0
0

برصغیر کی فلمی دنیا کی محبوب شخصیت، نمایاں اور افسانوی شہرت کے حامل فلم ساز وہدایت کار محبوب خان 9 ستمبر 1907ء کو گجرات کے ایک گاؤں بلیمورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمدرمضان تھا۔ ان کے آباؤ اجداد افغانستان سے آکر پہلے خیبرپختون خوا کے خوب صورت علاقے ہزارہ کے گاؤں شیروان میں آباد ہوئے اور بعد میں تلاش معاش کے سلسلے میں وہاں سے نقل مکانی کرکے گجرات جاکر آباد ہوگئے۔ محبوب خان کی کم عمری ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ انتہائی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکے جس کا انہیں بہت رنج تھا۔ لڑکپن ہی سے انہیں جلوہ گاہ اور فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ چناںچہ اداکار بننے کے شوق میں گھر سے بھاگ کر فلم نگری بمبئی کا رخ کیا۔

وہ اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے گھوڑوں کے ایک بیوپاری نورمحمد علی کے ساتھ بمبئی جاپہنچے، جہاں ان ہی کی ملازمت اختیار کرلی۔ نورمحمد علی فلم نگری کو گھوڑے مہیا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے ہاں ایک فلم ڈائریکٹر چندرشیکر ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے، محبوب خان نے ان سے اپنے جنون اور خواہش کا اظہار کیا، جسے دیکھ کر چندرشیکر ان کو اپنے ساتھ فلم نگری لے گئے۔

وہاں جاکر انہوں نے اردشیرایرانی کی امپیریل کمپنی میں 30روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کرلی اور دل لگا کر کام میں جُت گئے۔1927ء میں اس ادارے کی ایک خاموش فلم ’’علی بابا‘‘ میں ایک چور کا معمولی سا کردار نبھایا۔ اس کے بعد امپیئرل کمپنی کی چند خاموش فلموں ’’سنیماگرل، رام رحیم، شیریں خسرو اور انتقال‘‘ میں معمولی نوعیت کے کردار نبھاتے رہے، لیکن ان کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ وہ دور ماردھاڑ اور طلسماتی فلموں کا دور کہا جاتا تھا۔ محبوب خان نے بھی اپنی ابتدائی فلمیں اسی انداز میں بنائیں جن میں ججمنٹ آف اللہ، علی بابا اور ہمایوں شامل تھیں، لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی، وہ فلموں کو بامقصد ذریعے کے طور پر دیکھنے کے قائل تھے۔

اسی لیے انہوں نے فلم ’’ایک ہی راستہ‘‘ اور اس کے بعد چند ایس فلمیں بنائیں جن میں سماج کے سلگتے مسائل، غریبوں کے استحصال اور سماج میں عورت کے مقام کو اجاگر کیا،’’جاگیردار، بہن، روٹی، تقدیر اور عورت‘‘ ایسی ہی فلمیں تھیں۔ ممبئی فلم نگری میں سب سے پہلی رنگین فلم ’’آن‘‘ محبوب نے ہی بنائی۔ فلم ’’امر‘‘ میں دلیپ کمار، مدھوبالا اور نمی جیسے اداکار شامل ہوئے۔ نوشاد کی موسیقی میں بنی فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے، لیکن فلم کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی، کیوں کہ فلم میں دلیپ کمار کا کردار منفی دکھایا گیا تھا۔ محبوب خان نے اس دور میں ایسی ہمت دکھائی جب ناظرین ہیرو کا منفی کردار پسند نہیں کرتے تھے۔

محبوب خان کی ’’مدرانڈیا‘‘ کو شاہ کار فلم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فلم کئی معنوں میں بھارتی فلمی صنعت کی یادگار فلم ثابت ہوئی۔ مدرانڈیا وہ پہلی فلم تھی جو غیرملکی زبان کی فلموں کی حیثیت سے آسکرایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کے ذریعے پہلی مرتبہ سنیل دت کو متعارف کرایا گیا۔ فلم میں بھارت کے دیہات کی صحیح تصویر پیش کی گئی ہے۔ محبوب خان چوں کہ دیہات میں رہ چکے تھے اس لیے انہیں وہاں کے تہوار، رہن سہن، بول چال ہر بات سے واقفیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ یہ فلم شاہ کار قرار پائی۔ ’’مدرانڈیا‘‘کے بعد محبوب خان نے ’’سن آف انڈیا‘‘ بنائی جو زیادہ متاثرکن ثابت نہ ہوسکی۔

1930ء میں محبوب خان ساگر مووی ٹون میں چلے گئے۔ اس ادارے کی ایک خاموش فلم ’’دلاور‘‘ میں جلوبائی اور ماسٹروٹھل کے ساتھ کام کیا جس کے ہدایت کار جی آرٹور نے تھے۔ اس کے بعد ساگر کی متعدد خاموش فلموں ’’طوفان، گولی باز، اللہ کا پیارا، میٹھی چھری، میواڑکاموالی اور سائیکلون گرل‘‘ وغیرہ میں مختلف چھوٹے موٹے کردار نبھائے۔1931ء میں بولتی فلموں کا دور شروع ہوجانے کے بعد محبوب نے ساگر کی بولتی فلموں ’’رومانٹک پرنس‘‘ میں زبیدہ اور جال مرچنٹ کے ساتھ بطور معاون اداکار کام کیا۔ اس کے بعد محبوب نے ساگر کی متعدد فلموں ’’بلبلِ بغداد، مرزاصاحباں، پریمی پاگل، چندراشا، ناچ والی، گرے لکشمی اور ستی انجنی‘‘ میں کام کیا۔

محبوب کافی عرصے تک فلموں میں بطور اداکار کام کرتے رہے۔ تاہم وہ اپنی اداکاری سے مطمئن نہ تھے۔ وہ اداکاری سے زیادہ ہدایت کاری میں دل چسپی رکھتے تھے۔ انہیں کیمرے کے آگے ہدایت کاروں کے اشاروں پر ناچنا پسند نہیں تھا، بلکہ کیمرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اداکاروں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے تھے۔

وہ شب وروز اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوچ بچار کرتے رہے۔ آخرکار ایک دن انہوں نے اپنی کمپنی کے مالکان کسے ایک فلم ڈائریکٹ کرنے کی درخواست کردی۔ کمپنی مالکان اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہ تھے، پہلے انہوں نے صاف صاف انکار کردیا لیکن محبوب کے باربار اصرار پر انہوں نے اس شرط پر فلم بنانے کی اجازت دی کہ بمبئی کا کوئی بڑا سرمایہ دار اس بات کی ضمانت دے کہ فلم فلاپ ہونے کی صورت میں تمام ہرجانے کا وہ ذمہ دار ہوگا۔ پہلے تو محبوب اس صورت حال سے بڑے دل گرفتہ ہوئے تاہم انہوں نے اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ان ہی گھوڑوں کے بیوپاری سے بات کی۔ انہوں نے محبوب کے ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے کمپنی مالکان کو ہر قسم کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا۔ اس طرح محبوب اداکاری سے ہدایت کاری کی جانب آگئے۔

1935ء میں محبوب نے ساگر کے بینر تلے اپنی پہلی فلم ’’الہلال‘‘ عرف ججمنٹ آف اللہ بنائی۔ اس فلم کے موسیقار پران سنگھ نائیک تھے، اداکاروں میں ستارا، کمار، اندرا، یعقوب، قائم علی اور آزوری نمایاں تھے۔ یہ اپنے دور کی کام یاب فلم ثابت ہوئی جس نے محبوب کوایک کام یاب ہدایت کار ثابت کردیا۔ اس فلم کی کہانی محبوب کے دوست فرزند پشاور ضیاء سرحدی نے لکھی تھی جو ساگر کمپنی میں ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ بعدازاں ان دونوں کی دوستی مثالی رہی، فلم الہلال کی شان دار کام یابی کے بعد محبوب نے ساگر کی متعدد فلموں ’’دکن کوئین، من موہن، جاگیردار، وطن، ہم تم اور وہ، ایک ہی راستہ اور علی بابا‘‘ وغیرہ کی ہدایات دیں جس نے محبوب کی بطور ہدایت کار صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

1940ء میں محبوب نیشنل اسٹوڈیو سے وابستہ ہوگئے اور اس ادارے کی شہرۂ آفاق فلم ’’عورت ‘‘ کی ہدایات دیں، جس کے موسیقار اٹل بسواس تھے۔ اداکاروں میں سردار اختر، جیونی، سریندر، ارون، برج رانی، یعقوب، پریش اور کنہیال لال نمایاں تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئی، تقسیم ہند کے بعد محبوب نے ’’مدرانڈیا‘‘ کے نام سے اس فلم کو دوبارہ بنایا، جو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران محبوب سردار اختر کو دل دے بیٹھے اور ان سے شادی کرلی۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی شادی 1928ء میں فاطمہ بیگم نامی ایک گھریلو خاتون سے ہوئی تھی جن سے ان کے تین بیٹے ایوب خان، شوکت خان اور اقبال خان جب کہ تین بیٹیاں زبیدہ بیگم، ممتازبیگم اور نجمہ بیگم پیدا ہوئیں، سردار اختر کی کوئی اولاد نہیں تھی، فلم عورت کی بے مثال کام یابی کے بعد محبوب نے نیشنل اسٹوڈیو کے بینر تلے ’’بہن اور روٹی‘‘ نامی فلمیں بنائیں، جن کے موسیقار انل بسواس تھے۔

فلم بہن میں مرکزی کردار نلنی جیونت، پریش، حسن بانو اور شیخ مختار نے ادا کیے۔ فلم بہن کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ فلم روٹی میں اختری فیض آبادی، چندرموہن، ستارا، شیخ مختار اور اشرف خان نمایاں تھے۔ یہ فلم بنگال کے قحط کے موضوع پر بنائی گئی ایک سپرہٹ فلم تھی جس کی نمائش پر حکومت ہند نے پابندی لگادی تھی۔

1943ء میں محبوب خان نے اپنا ذاتی فلم ساز ادارہ ’’محبوب پروڈکشنز‘‘ کے نام سے قائم کیا اور ایک فلم ’’نجمہ‘‘ بنائی جس کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔ مرکزی کردار وینا، اشوک کمار، ستاراکمار اور یعقوب نے ادا کیے۔ اسی سال محبوب کی ایک اور شہرۂ آفاق فلم ’’تقدیر‘‘ ریلیز ہوئی جس کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔ محبوب خان نے اس فلم میں نرگس کو پہلی بار بطورہیروئن متعارف کرایا۔

فلم کے ہیروموتی لال تھے جب کہ دیگر اداکاروں میں چندرموہن، جلوبائی، چارلی اور قائم علی نمایاں تھے،1944ء میں محبوب خان کی ایک تاریخی فلم ’’ہمایوں‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر جب کہ اداکاروں میں نرگس، اشوک کمار، وینا، چندرموہن، شاہنواز اور ہمالیہ والا نمایاں تھے۔ اس فلم کی موسیقی مرتب کرنے کے لیے ماسٹرغلام حیدر کو خصوصی طور پر لاہور سے بمبئی بلوایا گیا۔ ماسٹر غلام حیدر نے اس فلم کی موسیقی کا معاوضہ ایک لاکھ روپے وصول کیا جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا جب کہ وہ لاہور کے فلمی ادارے پنچولی آرٹ اسٹوڈیو میں صرف دوہزار روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ محبوب خان اس فلم کی نمائش کے موقع پر پشاور بھی آئے تھے۔ وہ یہاں وائیٹ روز سنیما (موجودہ نازسنیما) کے مالک سردار ارجن سنگھ سندانہ کے پاس ٹھہرے تھے۔

1945ء میں محبوب خان کی ٹیم میں موسیقار نوشاد شامل ہوئے اور محبوب پروڈکشنز کی مایہ ناز فلم ’’انمول گھڑی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، اس فلم میں مرکزی کردار ملکہ ترنم نورجہاں اور سریندر نے ادا کیے، جب کہ نورجہاں اور سریندر کے گیتوں نے لوگوں کو دیوانہ بنادیا تھا۔

1946ء میں محبوب خان نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی پر ’’اعلان‘‘ کے نام سے فلم بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں منورسلطانہ، سریندر، ہمالیہ والا، شاہنواز، زیب النساء اور ڈبلیو ایم خان نمایاں تھے۔ یہ فلم1947ء میں ریلیز ہوئی اور ہندومسلم فسادات کے باوجود بے حد کام یاب رہی۔ تقسیم ہند کے بعد محبوب خان اپنے ہم زلف عبدالرشید کاردار کے ہمراہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پہلے کراچی اور پھر لاہور آئے لیکن یہاں پر فلم انڈسٹری کی زبوں حالی دیکھ کر مایوس ہوگئے اور دل گرفتہ ہوکر واپس بمبئی چلے گئے۔ البتہ انہوں نے لاہور کے ایبٹ روڈ پر اپنے اپنے ڈسٹری بیوشن آفس قائم کردیے۔ کاردار کے آفس میں ان کے بہنوئی اسماعیل نور اور محبوب کے آفس میں ان کے صاحبزادے نے انتظام سنبھال لیا۔ کراچی آفس میں محبوب کے بھائی محمد خان بیٹھا کرتے تھے۔

1948ء میں محبوب خان نے ایک نغماتی اور رومانوی فلم ’’انوکھی ادا‘‘ بنائی جس کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی۔ اداکاروں میں نسیم بانو، پریم ادیب، سریندر، زیب قریشی، مراد، ریحان اور ککو نمایاں تھے۔ اس کے بعد محبوب نے ’’انداز، آن اورامر‘‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ ان کی رنگین فلم ’’آن‘‘ نے آمدن کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی جو16ایم ایم پر بنائی گئی اور بعدازاں اسے 35ایم ایم پر منتقل کرایا گیا۔ ان فلموں کی موسیقی نوشاد نے دی، گیت شکیل بدایونی نے لکھے، پلے بیک گانے شمشاد بیگم، لتا منگیشکر، مکیش اور محمد رفیع نے گائے جو سب کے سب سپرہٹ ثابت ہوئے۔ یہ سدابہار گیت آج بھی اسی طرح مسحورکن اور کیف آور ہیں۔

جب فلم ’’آن‘‘ کا آغاز ہوا تو نوشاد نے محبوب خان کو سمجھایا کہ ’’ہمارے ملک میں کلر لیبارٹری نہیں، آپ کیسے رنگین فلم بنائیں گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں 16ایم ایم کوڈاکروم میں بناؤں گا اور اسے ٹیکنی کلر لندن سے 35 ایم ایم پر بلواپ کراؤں گا۔‘‘ نوشاد بڑے گھبرائے کہ اگر یہ تجربہ ناکام رہا توکیا ہوگا؟ انہوں نے محبوب کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ آپ کلر کے ساتھ ساتھ بلیک اینڈ وائٹ کا35 ایم ایم کا کیمرا بھی لگا لیجیے۔

وہ کہنے لگے اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو نوشاد نے کہا کہ اتنا بڑا جوکھم اٹھانا دانش مندی نہیں، اگر کلر میں ناکامی ہوئی تو کم ازکم ہمارے پاس بلیک اینڈوائٹ کا نیگٹو تو ہوگا۔ اس طرح محبوب کے کیمرا مین فریدون ایرانی نے نوشاد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے فلم آن کو کلر کے ساتھ ساتھ بلیک اینڈوائٹ میں بھی فلمانا شروع کردیا۔

اس دوران محبوب خان نے باندرہ میں زمین خریدی، جہاں فلم ’’آن‘‘ کے ایرینا کا سیٹ لگایا گیا۔ یہ کسی فلم کا پہلا سیٹ تھا جو اس زمین پر لگا۔ اس فلم کے لیے نوشاد نے سو سازندوں کا آرکسٹرا پہلی بار استعمال کیا۔ دراصل فلم کی بیک گراؤنڈ موسیقی تیار کرلی گئی تھی، اس کا ٹریک لندن جانے والا تھا جس کی مکسنگ لندن میں ہونی تھی۔ فلم ’’آن‘‘ تامل زبان میں بھی بنائی گئی۔ اردو کے ساتھ تامل ورژن کی شوٹنگ بھی ہوتی رہی۔ تامل کے گیت اور مکالمے ایک تامل رائٹر نے لکھے جب کہ اردو کے گیت شکیل بدایونی کے زورقلم کا نتیجہ تھے۔ البتہ تامل ورژن کے گیت نوشاد نے شمشاد بیگم، رفیع اور لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کرائے۔

جب محبوب خان ’’آن‘‘ کا16ایم ایم کلرنیگٹیو لے کر لندن پہنچے تو ٹیکنی کلر اسٹاف نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے 35 ایم ایم پر بلواپ نہیں کریں گے مگر کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر جو محبوب کے دوست تھے، انہوں نے اپنے اسٹاف کو یہ کہہ کر کام کرنے پر راضی کرلیا کہ ہم صرف ایک بار ایسا کریں گے۔ اس طرح فلم ’’آن‘‘ دنیا کی واحد فلم تھی جسے ٹیکنی کلر 16 ایم ایم سے35 ایم ایم پر بلواپ کیا گیا۔ اب سوال یہ اٹھا کہ فلم کا ساؤنڈ تو 35 ایم ایم کا تھا جب کہ فلم کا نیگٹیو 16ایم ایم کا؟ اس زمانے میں جدید مشینری بھی نہ تھی، اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر مووی ایلیا بنایا گیا جس کی رو سے یہ مشکل آسان ہوئی۔ محبوب خان ایک ایڈیٹر ہندوستان سے ساتھ لے گئے تھے، ایک ایڈیٹر لندن سے لیا گیا، دو اس کے معاون تھے، ایک ایڈیٹنگ روم کرائے پر لے کر کام شروع کیا گیا۔ نوشاد اور محبوب صبح کو ہوٹل سے اسٹوڈیو جاتے اور ایڈیٹنگ روم میں رات گئے تک کام کرتے رہتے۔ ایک طرح سے یہ فلم لندن میں دوبارہ بن رہی تھی۔

یہ سپرہٹ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی۔ ابتدا میں اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ نرگس کو ہیروئن لیا گیا، کچھ شوٹنگز بھی ہوئی تھیں مگر بعد میں ان میں اختلافات پیدا ہونے پر نرگس کو فلم سے علیحدہ کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک یہودی لڑکی نادرہ کو ہیروئن لیا گیا۔ جب بھارت کے دلن ڈیم پر نادرہ پر ایک گیت فلمایا جارہا تھا، تو نادرہ اچانک ڈیم میں گرگئیں، پانی کی تیز لہریں ان کو بہالے جارہی تھیں کہ گاؤں والوں نے جان کی بازی لگاکر نادرہ کو پانی سے بحفاظت نکال لیا۔ کافی دیر تک نادرہ اس صدمے سے نڈھال رہیں لیکن بعد میں انہوں نے شوٹنگ مکمل کرائی۔ اس فلم آن نے محبوب کو مالامال کردیا۔1954ء میں محبوب نے باندرہ میں باقاعدہ طور پر اپنے نام پر محبوب اسٹوڈیو تعمیر کروایا۔

’’آن‘‘ کی شان دار کام یابی کے بعد محبوب خان نے بطور فلم ساز دو فلمیں ’’آوازاور پیسہ ہی پیسہ‘‘ بنائیں۔ فلم آواز کے ہدایت کار فرزندِ پشاور ضیاء سرحدی اور موسیقار سلیل چوہدری تھے۔ مرکزی کردار نلنی جیونت اور راجندرکمار نے ادا کیے، جب کہ فلم ’’پیسہ ہی پیسہ ‘‘ کے ہدایت کار ہریش اور موسیقار انل بسواس تھے۔ مرکزی کردار مالاسہنا اور کشورکمار نے ادا کیے۔ یہ فلمیں 1956ء میں ریلیز ہوئیں لیکن فلاپ رہیں۔ اس کے بعد محبوب خان نے اپنی شہرۂ آفاق رنگین فلم ’’مدرانڈیا‘‘ بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں نرگس، راج کمار، کُم کُم، سنیل دت، راجندرکمار، کنہیالال اور ماسٹر ساجد نمایاں تھے۔ اس فلم نے کام یابی کے جھنڈے گاڑدیے۔ یہ ہندوستان کی پہلی فلم تھی جو آسکرایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کو بیرون ملک سے بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل کرنے پر بھارتی حکومت کی جانب سے سرٹیفیکیٹ آف میرٹ کا اعزاز بھی دیا گیا۔ فلم کے تمام گیت سپرہٹ ثابت ہوئے مثلاً:

دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا

جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا

اس فلم کی شو ٹنگ کے دوران سنیل دت اور نرگس ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ ہوا یوں کہ ایک سین میں گھاس پھوس سے بنی جھونپڑیوں میں آگ لگی جس نے نرگس کو بھی لپیٹ میں لے لیا، جس پر سنیل دت آگ کے شعلوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس میں کود پڑے اور بڑی مشکل سے نرگس کو آگ کے شعلوں سے نکال لیا جس پر نرگس کے دل میں سنیل دت کے لیے محبت کے جذبے نے انگڑائی لی اور یوں دونوں بعد میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

1962ء میں محبوب خان نے اپنی زندگی کی آخری رنگیں فلم ’’سن آف انڈیا‘‘ بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں کُم کُم، کمل جیت، سیمی گریوال، کمار، جنیت، مراد، مقری، کنہیالال، بختاور اور ماسٹر ساجد نمایاں تھے۔ فلم میں مرکزی کردار ان کے منہ بولے بیٹے ماسٹر ساجد نے ادا کیا۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکی جس کے بعد محبوب خان نے فلموں کی پروڈکشن ترک کردی اور اپنے اسٹوڈیو کے انتظامات میں مصروف ہوگئے۔

1963ء میں محبوب خان نے ایک فلم ’’میراوطن‘‘ کا آغاز کیا جو کشمیر کی نام ور محب وطن شاعرہ ’’حبہ خاتون‘‘ کی زندگی پر مبنی تھی۔ فلم کی کہانی علی سردار جعفری نے لکھی، گیت ساحرلدھیانوی نے لکھے، اداکاروں میں سائرہ بانو اور راجندرکمار کا انتخاب کیا گیا۔ تاہم محبوب خان کی اچانک موت کی بنا پر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ برصغیر کی فلم انڈسٹری کی محبوب ترین شخصیت محبوب خان کا انتقال 28 مئی1964ء کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد بمبئی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر57 برس تھی۔ ان کو بمبئی کے علاقے میرین لائن کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

محبوب خان کا بنیادی تعلق چوں کہ محنت کش طبقے سے تھا اس لیے انہوں نے اپنی فلموں کے ٹائٹل کے لیے مزدوروں کے نشان ’’ہتھوڑا اور درانتی‘‘ کو منتخب کیا تھا۔ محبوب خان زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ ایک مرتبہ ایک پارٹی نے ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ایک جگہ تین فلموں کے معاہدے پر دستخط کرالیے۔ معاملہ عدالت میں چلاگیا۔ جج کے سامنے محبوب خان نے برملا اعتراف کیا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں اور نہیں جانتے کہ معاہدے میں کیا لکھا ہے۔ یہ جواب سن کر جج نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس واقعے نے محبوب خان پر اتنا اثر کیا کہ انہوں نے اپنی فلموں کے ٹائٹل کے لیے اس شعر کا انتخاب کیا:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

یہ شعر ان کے پسندیدہ مونوگرام ’’ہتھوڑا اور درانتی‘‘ کے اسکرین پر نمودار ہونے کے ساتھ ہی پس منظر میں گونج اٹھتا تھا۔

محبوب خان 1959ء میں انڈین فلم پروڈیوسرزگلڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے فلم انڈسٹری کی تعمیروترقی کے لیے بہت کام کیا۔ وہ انڈین فلم انڈسٹری کی ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے اس وقت اپنی جانب سے ڈیفنس فنڈ میں دس لاکھ روپے عطیہ دیا۔ اس کے علاوہ وہ فلم ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے رکن بھی رہے۔ وہ دوسرے ماسکوانٹرنیشنل فلم فیسٹول کی جیوری کے ممبر بھی رہے۔ فلم فیڈریشن آف انڈیا کے صدر بھی رہے۔2007ء میں محبوب خان کے صدسالہ یوم پیدائش پر حکومت ہند نے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ محبوب خان کو حکومت ہند نے ’’ہدایت کاراعظم ‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔

محبوب خان نے جو اداکار متعارف کرائے یا جن کے کیریئر کو آگے بڑھایا ان میں سریندر، ارن کمارآہوجا، دلیپ کمار، راج کپور، سنیل دت، راجندرکمار، راج کمار، نرگس، نمی اور نادرہ شامل ہیں۔

The post محبوب خان appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا مسلمان کے لیے دولت کا حصول غلط ہے؟

$
0
0

نئی دہلی: ایک بہت ہی سنگین مسئلہ جس کا مشاہدہ میں نے نہایت قریب سے کیا، اس کا تعلق مسلم نوجوانوں کے مستقبل سے ہے۔ ہمارے نوجوان معاشرتی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جیسے ہی یونیورسٹی کے کسی کورس میں داخلہ لیتے ہیں، وہ دائیں اور بائیں بازو کی ایک بائنری میں پھنس جاتے ہیں۔ کوئی تو ایک دم ہی ملحد ہوجاتا ہے، کچھ بھگت بن جاتے ہیں اور باقی جو بچتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں اس پر گفتگو کرنا فضول ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں علمی طور پر پولورائزیشن کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ موجودہ طبقاتی، سیاسی چپقلش کے ماحول اور آمرانہ نظام کے عروج کے دور میں، ان میں سے ایک بڑی تعداد سیکولرازم کے سوالات کو دبانے کی کوشش میں بائیں بازو کی طرف مڑ جاتی ہے۔

مسلم طلبا کو ایک یہ سبق دیا جاتا ہے کہ کاروبار اور دولت کا حصول کس طرح بُرا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر نوجوان اس معمے کی حقیقت کو جانے بغیر اس مفروضے میں پھنس جاتے ہیں اور جو لوگ انھیں سکھا رہے ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر دولت کا حصول اچھی بات نہیں ہے، ان میں سے بیشتر جاگیردارانہ بلکہ اہل ثروت اور مال دار خاندان یا اس پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جو شاید اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتے کہ عام متوسط طبقے کے نوجوان تعلیم کی بنیاد پر ان کے برابر مرتبہ حاصل کر لیں۔ جب تک وہ اپنے خاندانی نیٹ ورک میں واپس جائیں گے، اس مہم جوئی کے متحمل ہوجائیں گے۔

مڈل کلاس والوں کو یہ ’عیاشی‘ اور فراخ دلی میسر نہیں آتی۔ ایک خاص موڑ کے بعد وہ خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ اب جائیں تو کہاں جائیں۔ زندگی سے مایوس ہوکر چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کام چلاتے ہیں۔ بسااوقات گاؤں لوٹتے ہیں تو خود کو لوٹا ہوا اور مجبور محسوس کرتے ہیں اور وہی پرانے ڈھرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے سنگین صورت حال یوپی اور بہار میں زراعت میں ہے جہاں کسی وقت زمینداری مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ زمینداری ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے خاندان بڑی تعداد میں خاندانی زمین بچانے میں کام یاب رہے اور یہ کنبے کاشتکاری کرتے رہے۔ مگر ایک تو خاندانی زمین نسل درنسل تقسیم ہونے سے آمدنی کم ہوتی چلی گئی اور جو کچھ کمی رہی تھی وہ گذشتہ چند سالوں کے دوران حکومت کی پالیسیوں نے کاشت کاروں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ آبائی کام کو چھوڑکر اور زمینیں فروخت کرکے دیگر پیشے اختیار کرلیے۔ مگر مسلمانوں کی بہ نسبت پنجاب میں سکھوں نے اپنے بچوں کو زراعت میں اعلیٰ تعلیم دی اور خاندانی پیشے کو ترقی دی۔ کیا مسلمانوں کی بھی اسی جانب توجہ نہیں دینی چاہیے تھی؟ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں کہا جاتا تھا۔ اُتم کھیتی مدھم بان نکھد چاکری بھیک ندان۔ مطلب سب سے اونچا پیشہ کاشت کاری ہے۔ تجارت درمیانہ درجے کا پیشہ ہے۔ نوکری سب سے گھٹیا اور بھیک مانگنا بدترین۔ ایک وقت اس پیشے کی اہمیت یہ تھی کہ اسے ہلے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔

دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آبائی پیشہ جیسے برتن سازی، تالا سازی، کپڑا سازی جیسے ہنر کو پڑھ لکھ کر مزید بہتر کرنے کے بجائے اسے چھوڑ رہے ہیں۔ نتیجتاً مسلم پس منظر والی پیشہ ورانہ صنعت زوال پذیر ہے۔ تجارت، جسے رسول کریمﷺ نے کرنے کی تاکید کی، اسے اختیار کرنے والوں کے لیے نہایت تحقیر آمیز لہجہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاں کوئی اس میں کام یابی حاصل کرلے تو وہ باعزت سمجھا جاتا ہے۔ حالاںکہ اس طرح کی چیزوں میں جیسے ہینڈ لومز ہیں تانبے اور کانسی کی صنعت ہے۔ مٹی کے برتن بنانے اور بہت سی گھریلو کشیدہ کاری کی صنعت ہے، اس میں کسی مڈل مین کو شامل کرنے کے بجائے، خود اپنی مارکیٹنگ کی جائے، اس کے لیے تھوڑا پڑھا لکھا ہونا کافی ہو گا۔

ہنر اور خاص طور پر ووکیشنل تعلیم آج کے نوجوانوں کو کارآمد اور دل چسپ روزگار فراہم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہماری کرم فرما محترمہ سلمٰی جیلانی صاحبہ جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے، اس موضوع پر بات ہونے لگی تو انھوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں ستانوے فی صد چھوٹے کاروبار ہیں اور ان میں سے اکثر زرعی پیشے سے وابستہ ہیں، جنھیں جدید خطوط پر آراستہ کرنے سے آمدنی کے ذرائع بہتر ہوتے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں بہت سے جدی پشتی پیشے ایسے ہیں جنھیں جدید خطوط پر ڈھالا جا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں متعارف کرا کے آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے مارکیٹ میں جگہ بنائی جا سکتی ہے، لیکن مسلم برادری اس جانب کم ہی توجہ دیتی ہے۔ مسلمانوں کو اس عام تصور کو خیرباد کہنا ہو گا کہ پیسہ کمانا کوئی بری بات ہے کیوںکہ پیارے نبی ﷺ نے مضبوط مسلمان کو کم زور مسلمان پر ترجیح دی ہے۔ یعنی اگر کوئی معاشی طور پر مستحکم ہو گا تب ہی غریبوں کی مدد کر سکے گا۔

ظاہری شان و شوکت، مالی فراوانی اور اہم عہدوں کے حصول کی طلب میں مسلم نوجوان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ وہ سوچ ہے جو کم علمی کی بنا پر ان کے ذہنوں میں بھردی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا صرف آخرت کی تیاری کی جگہ ہے اور یہاں خود دنیاوی ترقی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اصل مقصد سے ہٹ جانے کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں یہ بات دینی تعلیمات کی روشنی میں بھی نادرست ہے کیوں کہ قرآن مجید میں قصہ قارون میں اللہ تعالٰی دین و دنیا کے حصول میں توازن بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’جو کچھ تمہیں (مال ) دیا گیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کے بارے فکر کرو اور دنیا میں جو تمہارا حصہ ہے اسے بھی مت بھولو اور ویسے ہی اچھائی کرو جیسے اللہ نے (مال عطا کر کے) تمہارے ساتھ اچھائی کی۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ کیوں کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قارون کو یہ نہیں کہا جا رہا کہ دنیا کا حصول یا اس کی طلب کے لیے کوشش ہی نہ کر بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اسے حاصل کر لیکن اس کے ذریعے اپنی آخرت کو کام یاب بنا یعنی اس مال کو لوگوں پر خرچ کر۔ لوگوں پر کیا سارا مال خرچ کرنا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالٰی سورۂ بقرہ آیت نمبر 219 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مال ضرورت سے زیادہ ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مال کمانا اور پھر اپنی ضروریات کے بقدر اس کو اپنے پاس باقی رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ زکوٰۃ اور دیگر مدات میں جو ضروری انفاق ہے وہ بھی اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ایک خاص مقدار اللّہ کے نام پر بس خرچ کی جائے اور باقی کا مال اپنی ضروریات میں صرف کیا جائے سو یہ کہنا یا خیال رکھنا کہ دولت کا حصول بذات خود یا اس کے لیے تگ و دو ہی شریعت کی نظر میں کوئی نامناسب عمل ہے، غلط ہے۔

اسی طرح عہدے کی حصول کی بات کی جائے تو اپنے اسٹیٹس کی بحالی اور جملہ دینی و معاشرتی سطح پر انفرادی یا اجتماعی بھلائی کی غرض سے اس کا حصول یا کوشش بھی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجھے وزیرخزانہ بنا دیا جائے کیوں کہ اس سے ایک تو ان کا اپنا اسٹیٹس بڑھ جانا تھا جو دعوت کے کام میں مفید ثابت ہونا تھا اور اہل مصر کی بھلائی بھی اسی میں پوشیدہ تھی۔

ہمارے نوجوانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ جوں ہی گریجویشن کی تکمیل ہو، جزوقتی طور پر مزید اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو عملی طور پر اپنے من پسند میدان اور مزاج کے موافق آمدنی کے ذرائع سے وابستہ ہوں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پڑھنے کے بعد دماغ لگایا جائے تو اچھا کمایا جاسکتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ پیسہ کمانا بھی ہماری جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ جتنا ہو سکے جائز طریقوں سے امیر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔

The post کیا مسلمان کے لیے دولت کا حصول غلط ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


کورونا وائرس نے شوبز کی دنیا ویران کردی

$
0
0

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وباء نے اب تک دوسو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چائنہ اورایران سے شروع ہونے والا وائرس اب امریکہ، یورپ، کینیڈا، افریقہ، آسٹریلیا، روس، نیوزی لینڈ، جاپان، مڈل ایسٹ، انڈیا، کوریا، برطانیہ اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میںلاکھوں لوگوں کومتاثر کرچکا ہے اوراس سے اب تک ہزاروں لوگ مرچکے ہیں، جہاں تک اس وائرس پرقابو پانے کی بات ہے تو تاحال اس پرقابو نہیں پایا جاسکا، لیکن ماہرین بس ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ احتیاط ہی اس کا واحد حل ہے۔

اس لئے لوگ اپنے گھروں میں رہیں اورزیادہ سے زیادہ احتیاط برتیں ، کیونکہ یہ وائرس تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے بلکہ تیزی کے ساتھ لوگوں کوزیادہ سے زیادہ متاثرکررہا ہے۔ اگرہم نیوز چینلز دیکھیں یا سوشل میڈیا پرآنے والی ویڈیوز دیکھیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے اس وائرس نے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں زندگی کاپہیہ جیسے رک سا گیا ہے۔ ہرطرف لاک ڈاؤن ہے بلکہ بہت سے ممالک نے تولوگوںکو گھروں تک محدود رکھنے کیلئے کرفیو بھی لگا رکھا ہے، جس کا مقصد صرف اورصرف لوگوںکی قیمتی جانوںکو محفوظ رکھنا ہے۔

شروع میں تو صرف چین اور ایران ہی اس وائرس کا شکار تھے لیکن اب تو یہ وائرس ہر جگہ پھیلتا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ویسے تو اس وائرس نے روزمرہ زندگی کا نظام درھم برھم کردیا ہے لیکن زندگی کے دیگرشعبوں کی طرح دنیا بھرکی شوبزانڈسٹری بھی اس سے زبردست متاثرہوئی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صرف مارچ کے مہینہ میں ہونے والے لاک ڈاؤن اورکرفیو کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان صرف ورلڈ شوبز انڈسٹری کوہوا ہے جبکہ ہزاروں، لاکھوں دیہاڑی دار جوفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے تھے، وہ مالی طورپرشدید متاثرہوئے ہیں۔ ایک طرف تومالی مشکلات نے گھیرلیا ہے اور دوسری جانب کورونا وائرس نے بھی بہت سے فنکاروں کو ہسپتالوں میں پہنچا دیا ہے۔

جیسے ہی موسم سرما کے بعد بہار کا موسم آتا ہے تو پھر ثقافتی سرگرمیاں جس طرح پاکستان میں عروج پر ہوتی ہیں، اسی طرح دنیا بھر میں موسم کی اس بدلتی رت کو خوش آمدید کہتے ہوئے رنگا رنگ پروگرام سجائے جاتے ہیں۔ میوزیکل پروگرام، فیشن شو، ڈانس ایونٹ ، فلموں کے پریمئر اور اس کے ساتھ ساتھ فلم فیسٹیولز، ایوارڈ شو اوردیگرتقاریب کو سجانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شیڈول کے مطابق گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں موسم بہار کی مناسبت سے رنگارنگ پروگرام منعقد کئے جانے تھے لیکن کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلتے اثرات کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پرشوبزسرگرمیوں کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہالی وڈ، بالی وڈ، پاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں ریلیز ہونے والی فلموں کی ریلیز موخر کردی گئی ہے۔ ایوارڈشو، مس ورلڈ، مس یونیورس کے مقابلے، فلم فیسٹیولز، میوزک کنسرٹس، ڈانس شوزکا انعقاد ماہ مارچ میں ہونا تھا لیکن جیسے ہی کورونا وائرس نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تواحتیاطی تدابیر کے باوجود اس وباء نے لاکھوں لوگوں کواپنی گرفت میں لے لیا۔

کورونا وائرس نے جہاں عالمی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں وہیں اس نے دنیا کی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری ہالی ووڈکو بھی ویران کردیا ہے۔ اربوں ڈالرکے بجٹ سے بننے والی فلموں کی شوٹنگزجہاں بند ہوگئی ہیں ، وہیں سینما انڈسٹری کا بزنس بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہالی وڈ سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگارہوچکے ہیں۔دنیا کے سب سے بڑے فلمی میلے کانز فلم فیسٹیول کو بھی دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے مہلک اورجان لیوا کورونا وائرس کے خوف کے باعث ملتوی کردیا گیا۔ کانز فلم فیسٹیول کامیلہ ہر سال فرانس کے شہر کانز میں سجتا ہے جہاں دنیا بھر کے ستارے جمع ہوتے ہیں۔

تاہم یورپ میں کورونا وائرس کے باعث اس فیسٹیول کا انعقاد ملتوی کردیا گیا ہے۔ میٹ گالا کا رنگا رنگ میلہ بھی منسوخ کردیا گیا ہے ، جبکہ کینیڈا کے شہرووینکور فیشن ویک کو بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔ دونوں فیشن ویکس میں دنیا کے معروف فیشن ڈیزائنرز نے اپنی کولیکشنز متعارف کروانے کی ٹھانی تھی لیکن کورونا نے سارے خواب چکنا چورکردیئے۔ امریکا میں منعقد ہونیوالے 19 ویں ٹریبیکا فلم فیسٹیول کو کورونا وائرس کے باعث ملتوی کردیا گیا ہے۔ یہ فیسٹیول رواں سال 15 سے 26 اپریل تک منعقد ہونا تھا۔ ٹریبیکا انٹرپرائز کے شریک بانی اور سی ای او جین روزنتھل کے مطابق فیسٹیول کو فنکاروں ، عملے اور فیسٹیول میں شریک ہونے والے لوگوں کی حفاظت کے پیش نظر ملتوی کیا جارہا ہے۔

اسی طرح پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بھی دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا چکی ہے۔ یہاں بننے والی سالانہ فلموں کی تعداد کواگردنیاکی سب سے بڑی تعداد کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ یہاں سالانہ 15سو سے زائد فلمیں مختلف زبانوں میں بنائی جاتی ہیں اوران کودنیا کے بیشترممالک میں بیک وقت ریلیز کیاجاتا ہے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تو بالی وڈ وہ واحد فلم انڈسٹری ہے جس کی ہرماہ ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد سو سے زائد ہوتی ہے۔ اس لئے بالی وڈ کوبھی بڑے پیمانے پرمالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے حکومت کی جانب سے پہلے ہی کرفیولگا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے جہاں بالی وڈ فلموں کودیکھنے والے شائقین کومایوسی ہورہی ہے۔ اسی طرح دنیا کے بیشترممالک میںبھی فنون لطیفہ کے گرینڈ ایونٹس شیڈول تھے لیکن سب کے سب ملتوی کردیئے گئے ہیں اوراس وائرس کے پھیلاؤکے باعث آئندہ شیڈولز کا بھی کوئی اعلان نہیں کیا جارہا ہے۔

اگر بات کریں پاکستان کی تو یہاں بھی گزشتہ برسوں کی طرح رواں ماہ مارچ میں بہت سی شوبزسرگرمیاں ترتیب دی گئی تھیں بلکہ پاکستانی گلوکار، سازندے یوم پاکستان کی مناسبت سے ہونے والے پروگراموں میں پرفارمنس کیلئے دنیا کے بیشترممالک میں جایا کرتے تھے لیکن سب کچھ ملتوی ہوچکا ہے اورفنکاربرادری گھروں تک رہنے پرمجبورہوچکی ہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان کی جانب سے لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ سختی سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کورونا سے بچاؤ کیلئے گھرپررہنے میں ہی فائدہ ہے۔ یہ خبر واقعی ہی پاکستانی فلم، سینما، میوزک، فیشن اور ایونٹ آرگنائزنگ انڈسٹری کیلئے بہت بری ثابت ہوئی ہے۔

کیونکہ دنیا بھرکی طرح ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا روزگار اس پروفیشن کے ساتھ وابستہ ہے۔ مگراب سب کے سب گھروں تک محدود ہوکررہ گئے ہیں۔حالانکہ پاکستان میں دہشتگردی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستانی گلوکاروں ، سازندوں اور اورگنائزرز کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہوچکا تھا اور ایسے میں اکثریت امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ، یورپ اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی مارکیٹ میں منافع بخش کاروبار کرنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔

اسی لئے بہت سے گلوکار بیرون ممالک ہونے والے میوزک پروگراموں میں پرفارم کرکے جہاں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، وہیں وہ بہتر کاروبار بھی کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے ساتھ جہاں میوزیشنز، ساؤنڈ انجینئرز کی بڑی ٹیم کو بہتر روزگار ملتا ہے ، وہیں ارگنائزرز کی بڑی تعداد بھی اس مد میں منافع بخش کاروبار کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ اسی طرح اگرہم پاکستانی فلم اورسینما انڈسٹری کی بات کریں تو کورونا وائرس سے جہاں فلموںکی شوٹنگز متاثرہوگئی ہیں، وہیں سینماگھروں سے وابستہ سینکڑوں ملازمین بے روزگارہوکررہ گئے ہیں، کیونکہ سینماگھروں سے وابستہ اکثریت دیہاڑی دارافرادپرمشتمل تھی، لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظرسینما منتظمین کی جانب سے انہیں فارغ کردیا گیا ہے اوروہ شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ کے دوران کورونا وائرس نے جہاں چین اور ایران کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں اب اس کی لپیٹ میں دنیا کے دوسو سے زائد ممالک آچکے ہیں، اسی لیے ان ممالک میں ہونے والے 23مارچ کے خصوصی پروگراموں کے ساتھ ساتھ دیگر میوزک کانسرٹس بھی منسوخ کردیئے گئے۔

منسوخ ہونے والے کنسرٹس میں جہاں پاکستانی گلوکاروں کے پروگرام شامل ہیں ، وہیں بھارت سمیت مغربی ممالک کے معروف گلوکاروں کے پروگرام بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا، ، آسٹریلیا، یورپ میں ہونے والے فلم ایوارڈز اور دیگر تقریبات کو بھی فی الحال ملتوی کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستانی فنکاروں کو کروڑوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری جانب مغربی ممالک کے فنکاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق احتیاط ہی کورونا وائرس کا واحد حل ہے ، کیونکہ یہ وائرس پھیلتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

موجودہ صورتحال کے پیش جہاں دنیا کے بیشترممالک میں لوگوں کی سپورٹ کیلئے سپیشل پیکجز کا اعلان کیا گیا ہے، اسی طرح پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک امدادی پیج تومتعارف کروایا گیا ہے لیکن اس پرتاحال کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ خاص طور پرفنون لطیفہ کا شعبہ جوکورونا کی وجہ سے بے حد متاثر ہوا ہے اوراس سے وابستہ افراد کی اکثریت دیہاڑی دار ہے، تو اس بارے میں پاکستان شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کوعوام نے ووٹ دیا اوروہ تبدیلی کا نعرہ لے کراقتدار میں آئے ہیں۔

اس وقت ہمارا ملک دنیا کے بیشترممالک کی طرح کورونا وائرس کے گھیرے میں ہے لیکن جس طرح دوسرے شعبوں کیلئے ریلیف پیکج دیئے جارہے ہیں،اسی طرح پاکستان کی شوبز انڈسٹری کیلئے بھی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی وہ شعبہ ہے جس سے وابستہ افراد لوگوںکو انٹرٹین کرتے ہیں۔ جس طرح پاکستانی عوام کوفلموں، ڈراموں، میوزک ، فیشن اورڈانس کے ذریعے تفریح کے بہترین مواقع فراہم کئے جاتے ہیں،ا سی طرح پاکستانی فنکاردنیا بھرمیں پرفارم کرتے ہوئے ملک کانام روشن کرتے ہیں۔ اس لئے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی شوبز انڈسٹری کیلئے خاص ریلیف کااعلان کیا جائے۔

جہاں شوبز انڈسٹری کے دیہاڑی دارطبقے کی مالی امداد کی جائے، وہیں انہیں راشن بھی فراہم کیا جائے، کیونکہ اس وقت ماہانہ تو دورروزانہ کے راشن کی خریداری بھی پہنچ سے باہرہوچکی ہے۔ وباء کی صورت میں جہاں لوگوںکو ایک دوسرے کا احساس کرنے کی ضرورت تھی، مگرافسوس یہاں ہرکوئی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کوپھررہاہے۔ شعبہ صحت سے وابستہ اشیاء ماسک، سینیٹائزر اوردیگرادویات جوموجودہ صورتحال میں سب کے لئے ضروری ہیں، ان کی قیمتیں آسمان کوچھوچکی ہیں۔ ایسے میں غریب عوام کیسے گزارا کرسکتی ہے۔

دوسری جانب جن سٹورز پرکھانے پینے کی اشیاء دستیاب ہیں، وہاں بھی قیمتیں معمول سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ ایسے میں حکومت ہی ایک واحد سہارا ہے جوشوبز انڈسٹری سے وابستہ غریب اوردیہاڑی دارطبقے کوجانی اورمالی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ اس لئے ہماری وزیراعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ ریلیف پیکج کیلئے پاکستان شوبز انڈسٹری کا خاص خیال رکھیں، تاکہ حالات میں سدھارآتے ہی اس شعبے سے وابستہ فنکار، تکنیکار اپنی صلاحیتوں سے لوگوںکوبہترین تفریح فراہم کرسکیں ۔

The post کورونا وائرس نے شوبز کی دنیا ویران کردی appeared first on ایکسپریس اردو.

کرونا کے خلاف جنگ میں دنیا بھر کے نامور کھلاڑی بھی شریک

$
0
0

اولمپکس کھیلوں کا سب سے بڑا عالمی میلہ سمجھا جاتا ہے، میگا ایونٹ کا انعقاد ہر چار سال کے بعد ہوتا ہے، دنیا بھر کے کھلاڑی عالمی ایونٹ کے دوران ایکشن میں دکھائی دیتے ہیں اور اپنی غیر معمولی کارکردگی سے ملک وقوم کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، اس بار اولمپکس مقابلے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں شیڈول تھے، اسی مناسبت سے ان گیمز کو ٹوکیو اولمپکس 2020کا نام دیا گیا، جاپانی حکومت کی طرف سے عالمی ایونٹس کی تیاریاں عروج پر تھیں کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا،اس مہلک وبا کی وجہ سے ٹوکیو 2020 اولمپکس سرکاری طور پر 2021 تک ملتوی کرد ی گئیں ہیں۔جاپانی وزیر اعظم شنزوا بے نے اعلان کیا کہ ملتوی کئیجانے کے معاملے پر مطابقت قائم ہو گئی ہے اور اب یہ عالمی مقابلے آئندہ برس منعقد ہوں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی کورونا وائرس کے باعث جاپان میں ہونے والے اولمپکس گیمز 2020کو ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی، امریکی صدر کے مطابق تماشائیوں کے بغیر خالی سٹیڈیمز دیکھنے سیزیادہ اولمپکس گیمز ملتوی ہونا بہتر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ اور کینیڈا سمیت بعض دوسرے ممالک کی طرف سے اولمپکس مقابلوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے میگا ایونٹ کو باقاعدہ طور پر ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ 1896 میں شروع ہونے والے اولمپک مقابلے جنگ ِ عظیم اول اور دوئم کے دوران بھی منعقد نہیں ہوئے تھے، تاہم ان کا التوا پہلی بار عمل میں آیا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے صرف اولمپکس ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی دوسری گیمز بھی ملتوی یا منسوخ کی جا چکی ہیں۔ رواں برس فٹبال سیزن کے وسط میں کھیل کے تقریباً سبھی مقابلے منسوخ کئے جا چکے ہیں، منسوخ ہونے والا ایک بڑا ٹورنامنٹ یورو 2020 بھی ہے، یورپ میں فٹبال کی نگران تنظیم یوئیفا نے اعلان کیا کہ ٹورنامنٹ کو ایک سال کے ملتوی کیا گیا ہے، اس اعلان کا کھیلوں سے جڑی معیشت پر کافی زیادہ اثر ہو گا۔

2016 میں فرانس کی میزبانی میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ سے یوئیفا کے مطابق مقامی معیشت کو 1.3 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا تھا، یورپ کی پانچ بڑی فٹبال لیگز، اٹلی، انگلینڈ، سپین، جرمنی، اور فرانس، سبھی کے سیزن روک دیئے گئے ہیں، مہلک وائرس کی وجہ سے صرف فٹبال ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے کھیلوں کے دوسرے ٹورنامنٹس بھی یکے بعد دیگرے منسوخ یا ملتوی کئے گئے ہیں۔ جون اور جولائی میں ارجنٹینا اور چلی میں پلان شدہ کوپا امریکہ کو بھی ملتوی کر دیا گیا ہے، منسوخ ہونے والے یورو 2020 میں پہلی مرتبہ بارہ شہروں کو مختلف میچوں کی میزبانی کرنی تھی، ان شہروں میں بوکاریسٹ، ڈبلن، اور باکو جیسے نئے شہر بھی شامل تھے۔افریقہ میں 2021 افریقہ کپ آف نیشز کے لیے کوالیفائنگ میچز بھی اب منعقد نہیں کیے جا رہے، ایشیا میں متعدد مقامی لیگز اور ایشیئنز چیمپیئنز لیگ بھی نہیں کروائی جا رہی۔اٹلی میں مقیم ماہرِ معاشیات سیزر گافیٹی کہتے ہیں کہ ’یہ معاملہ صرف ٹکٹوں کی خرید و فروخت کا نہیں ہے۔

یورو 2020 یورپ میں سیاحت کی صنعت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے،ان کے مطابق یورو 2020 کے چار میچوں کی میزبانی کرنے سے آئرلینڈ میں 96 ہزار نئے سیاحوں کی آمد متوقع تھی جس سے ملک کی معیشت کو 110 ملین کا فائدہ ہونا تھا۔ انڈین پریمیئر لیگ 2020 بھی ملتوی کردی گئی ہے، آئی پی ایل کا آغاز 29 مارچ سے ہونا تھا تاہم کورونا کے باعث ٹورنامنٹ کو 15 اپریل تک ملتوی کردیا گیا ہے، بھارت میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو دیکھتے ہوئے مقررہ تاریخ پر بھی اب لیگ شروع ہونے کا امکان کم ہی ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، ابتداء میں پاکستان سپر لیگ 5 کے بقیہ میچز تماشائیوں کے بغیر خالی اسٹیڈیم میں کرائے جانے کا اعلان کیا گیا، بعد ازاں پی ایس ایل کے سیمی فائنل اور فائنل مقابلے بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیئے گئے۔ ایشین ٹیم اسنوکر چیمپئن شپ، ایشین مینز اسنوکر چیمپئن شپ اور ایشین سکس ریڈ چیمئن شپ کو ملتوی کردیا گیا ہے، یہ تینوں ایونٹ 27 مارچ سے دوحہ میں کھیلے جانے تھے۔ایونٹ میں پاکستان سمیت 20 ملکوں کے کیوئسٹس نے شرکت کرنا تھی پاکستان ایشین ٹیم چیمپئن شپ کا دفاعی چیمپئن بھی ہے۔

پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے بھی اعلان کیا کہ رواں ماہ اسلام آباد میں ہونے والا پروفیشنل باکسنگ ایونٹ بھی کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا ہے، ایونٹ میں پاکستانی باکسر عثمان وزیر سمیت پاکستانی اور غیر ملکی پروفیشنل باکسرز کی شرکت متوقع تھی۔پاکستان فٹبال فیڈریشن نے بھی مزید احکامات تک اپنی تمام سرگرمیاں معطل کردی ہیں اور ملک میں جاری بی ڈویڑن فٹبال لیگ کو بھی روک دیا گیا ہے، فیڈریشن کی جانب سے لیگ کے بقیہ میچز کا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا، ہاکی کا بڑا ایونٹ سلطان اذلان شاہ کپ بھی ملتوی کر دیا جاچکا ہے،نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول کیمپ کو ختم کر کے کھلاڑیوں کو گھروں کے اندر ٹریننگ جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

کرکٹ پاکستان کا محبوب اور مقبول ترین کھیل ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ نے وزیر اعظم کے ایمرجنسی فنڈز میں 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کر رکھا ہے، پی سی بی کی طرف سے جاری مراسلہ میں کہا گیا تھا کہ سینٹرل کنٹریکٹ پلیئرز کی طرف سے 50 لاکھ جبکہ جنرل مینیجر اور اس سے اوپر کا اسٹاف 2 دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سے نیچے کا سٹاف ایک دن کی تنخواہ دے گا،اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ بورڈ واحد ادارہ ہے جس کے پاس تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اب بھی اربوں روپے کی رقم موجود ہے،ایسے میں مزکورہ رقم کا اعلان کرنا آٹے میں نمک کے برابر ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑیوں کا تعلق متوسط بلکہ غریب گھرانوں سے رہا ہے لیکن کرکٹ کے کھیل کی وجہ سے اب ان ان کرکٹرز کے کروڑوں روپے کے بینک بیلنس ہیں، یہ کھلاڑی محل نما گھروں میں رہتے ہیں اور دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔

اب جبکہ پاکستان پر برا وقت آن پڑا ہے تو یہ کھلاڑی جیب سے خرچ کرنے کی بجائے بس بیان بازی پر ہی اکتفا کر رہے ہیں، شاہدخان آفریدی کو چھوڑ کر باقی کسی پاکستانی کھلاڑی نے عملی طور پر میدان میں آنے سے گریز کیا ہے، پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ تو سری لنکن کرکٹرز ہی زیادہ اچھے ہیں جنہوں نے پاکستانی پلیئرز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کرونا وائرس کے فنڈ میں 25 ملین جمع کروانے کا اعلان کیا ہے، سری لنکن میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ رقم کورونا وائرس کے خلاف جاری مہم میں میڈیکل کٹس اور دوسرے ضروری آلات کی خریداری پر خرچ کی جائے گی۔

سری لنکن حکومت کو یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں سب اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، اسی طرح بھارتی سابق ممتاز کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کو دیکھ لیں، انہوں نے مجموعی طور پر 50لاکھ روپے عطیہ کئے ہیں، انہوں نے 25لاکھ روپے وزیراعظم فنڈ اور اتنے ہی وزیراعلیٰ فنڈ میں جمع کروائے ہیں، اس سے قبل بھارتی کرکٹر عرفان اور یوسف پٹھان نے بڑودہ پولیس کو 4 ہزار ماسک دیئے، مہندرا سنگھ دھونی نے ایک این جی او کو ایک لاکھ روپے جبکہ بی سی سی آئی کے صدر ساروگنگولی نے ضرورت مندوں کو مفت چاولوں کی تقسیم کے لئے 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مدد میں پاکستان نژاد برطانوی باکسر عامر خان تو سب سے آگے ہیں، انہوں نے بولٹن میں موجود اپنا شادی ہال کورونا وائرس سے جنگ میں استعمال کرنے کے لیے پیش کیا ہے،33 سالہ سابق ورلڈ لائٹ ویلٹر ویٹ چیمپئن نے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ عام لوگوں کے لیے اس وقت اسپتال میں بیڈ حاصل کرنا کتنا مشکل ہے، اسی لیے میں اپنی 60 ہزار سکوائر فٹ پر قائم 4 منزلہ بلڈنگ نیشنل ہیلتھ سروس کو دینے کو تیار ہوں تاکہ وہ کورونا وائرس کے متاثرین کی مدد کرسکیں۔ اس سے قبل پریمیئر لیگ سائیڈ چیلسی نے بھی اپنے اسٹیمفورڈ برج سٹیڈیم میں موجود ہوٹل میں نیشنل ہیلتھ سروس سٹاف کو مفت رہائش دینے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ بھارتی ٹینس سٹارثانیہ مرزا نے یومیہ کمانے والوں کے لیے فنڈزجمع کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔

ثانیہ مرزا نے مزدوروں کے لیے خوراک اور روزمرہ ضروریات کا اہتمام کرنے والی فلاحی تنظیم کو چندہ دینے کی اپیل بھی کی ہے،اپنے ویڈیو پیغام میں ثانیہ مرزا نے کہا کہ خوش قسمتی سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہم گھروں میں بیٹھ کر بھی تمام سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں، مگر ہمیں ان لوگوں کا بھی سوچنا چاہیے جن میں اتنی سکت نہیں،لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی فیملیز کو کھانا نہیں دے سکتے،ہمیں ان کے بارے میں سوچنا اور استطاعت کے مطابق مدد کرنی چاہیے۔دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سٹار فٹبالرز بھی انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت سامنے آرہے ہیں، سپین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

اس صورتحال میں بارسلونا کلب کی نمائندگی کرنے والے لیونل میسی بھی پیچھے نہیں رہے، ان کی جانب سے دی جانے والی ایک ملین یوروز کی رقم بارسلونا کے ہسپتال، کلینکس اور دوسرے میڈیکل سینٹرز میں خرچ کی جائے گی، پرتگال میں کرسٹیانو رونالڈو نے اپنی خدمات پیش کی ہیں، ان کی جانب سے تین انتہائی خصوصی نگہداشت کے یونٹس بنائے جائیں گے، ان میں ایک 15 بیڈز پر مشتمل ہوگا جب کہ دو 10،10 بیڈز والے انتہائی خصوصی نگہداشت کے یونٹس ہوں گے۔ اس کے ساتھ لزبن پرتگال میں میڈیکل کالجز میں بھی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ انگلش فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کے منیجر پیپ گارڈیولا نے بھی ایک ملین یورو عطیہ کا اعلان کیا ہے۔

عالمی چیمپئن محمد انعام بٹ نے شہریوں کو سپرفٹ بنانے کا عزم کر رکھا ہے، محمد انعام بٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے تمام شہری گھروں تک محدود ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ویڈیو بناؤں گا جس میں انہیں خود کو سپرفٹ بنانے کے طریقے بتائے جائیں گے، آئیں، گھر پر رہ کر وقت کا بہترین استعمال کریں، اپنے جسم اور قوت مدافعت کو بہتر کرکے کورونا وائرس کا مقابلہ کریں۔ انعام بٹ کی رائے میں عام حالات میں ہمیں روزگار کے سلسلہ میں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم صحت کو مکمل طور اگنور کر دیتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام شہری گھروں تک محدود ہیں اور وہ اپنے وقت کو بہتر انداز میں صرف کر سکتے ہیں اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھروں میں رہ کر ایکسرسائزز کے ذریعے نہ صرف سپرفٹ بلکہ قوت مدافعت کو بھی بہتر بنایا جائے۔سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر کے مطابق صفائی نصف ایمان تھا جس کو ہم بھول گئے، کورونا وائرس کے بعد سب کو یاد آ گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو کورونا وائرس کی کیٹگری ٹو میں ڈال دیا گیا ہے، ماضی کے سابق عظیم بولر نے کہا کہ ضروری کام کے لئے باہر گیا تھا، اس دوران میں کسی سے ملا اور نہ ہی کسی سے ہاتھ ملایا ، اس دوران میں نے 4،4 لڑکوں کو موٹر سائیکلوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا، شہری پہاڑوں پر جا کر پکنک منا رہے ہیں، ایک دوسرے کے گھروں میں ملنے کے لئے آ رہے ہیں، بھارت میں لوگوں نے خود کی خود ہی گھروں میں بند کر لیا ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ ہمارے ہاں کیوں لوگ گھروں میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، یہ سرا سر قتل عام ہے، آپ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی جانوں کے ساتھ بھی کھیل رہے ہو،اگر باہر جانا ضروری ہے تو دو میٹر کا فاصلہ ہی رکھ لو۔

کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کی کوششیں قابل ستائش ہیں،قومی ریسلر انعام بٹ اور ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر سمیت دوسرے قومی کھلاڑیوں کی طرف سے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیلوں کو بھی اس لئے رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کرونا وائرس جیسے وبا سے صرف اور صرف احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہی بچا جا سکتا ہے،امید کرتے ہیں کہ دنیا اس مہلک مرض سے جلد نجات پائے گی اور کھیلوں کے عالمی ویران سٹیڈیمز ایک بار پھر آباد ہوں گے۔

The post کرونا کے خلاف جنگ میں دنیا بھر کے نامور کھلاڑی بھی شریک appeared first on ایکسپریس اردو.

سوال ایسے سوالوں پر

$
0
0

سوال انسان کی سب سے اہم ایجاد نہیں تو اہم ترین ایجادات میں ضرور شامل ہے۔ یہ ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کی پُراسرار نازنینوں کا تعاقب ہی تھا جو ابن آدم کو ترقی اور تمدن کے روشن راستوں اور منزلوں تک لے گیا۔ سوال کے جھونکے ہی سماج کو حبس سے بچاتے ہیں، سوال اٹھتے ہیں تو شکوک وشبہات کی گرد بیٹھتی ہے، ان کی نوک دار کرن ہی سے توہمات اندھیرے چاک کیے جاسکتے ہیں۔

سوال کے نشتر سے بدعنوانی، ناانصافی، تعصب، اندھی عقیدت اور ان جیسی دیگر سماجی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے، ان کی کھُرچ نقابوں کو نوچ کر مکروہ چہرے سامنے لے آتی ہے۔۔۔۔لیکن یہ سوال وہ ہیں جن کا تعلق حیات وکائنات سے ہے، جو انسانی وجود کی بنیادی آزادیوں کو جکڑے ریت رواج پر حملہ کرتے ہیں، جو قانون شکنی، ظلم اور زیادتی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے سوال ہمارے معاشرے میں شعوروجرأت کی غذا کی کمی کے باعث دماغ کی کوکھ ہی میں مرجاتے ہیں یا زبان کی نوک پر جان دے دیتے ہیں، اگر زندہ جنم لے لیں تو اکثر زندہ دفن کردیے جاتے ہیں۔

مگر ایسا نہیں کہ ہم سوال نہیں کرتے، اِس کا جتنا شوق ہمارے ہاں پایا جاتا ہے دنیا کی دیگر اقوام اُس سے محروم ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ ہمارے سوال جستجو، جاننے کی لگن، حق گوئی اور صداقت شناسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، یہ ’’کیا‘‘ اور ’’کیوں‘‘ پوچھنے، کھوجنے، اپنی بڑائی اور حقارت کے جذبے کو خوراک دینے اور وقت گزاری کے آلات ہیں۔

ہمارے ہاں شاید سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے ۔۔۔۔’’اور۔۔۔‘‘، جو ٹیلی فون پر ہونے والی طویل گفتگو کے بعد اس وقت کیا جاتا ہے جب کہنے اور سُننے کو کچھ نہیں رہ جاتا۔

’’کیا ہونے والا ہے‘‘ ہمارے ملک کا دوسرا مقبول ترین سوال ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے دورانیے کم کم آتے ہیں جب یہ سوال اخبارات اور ٹی وی اسکرینوں سے ڈرائنگ رومز اور تھڑوں تک پوچھا نہ جارہا ہو۔ بس مارشلائی ادوار کا بڑا حصہ ایسے سکوت میں گزرتا ہے کہ ایسے کسی سوال کی سوئی بھی نہیں گِرتی۔ یہ استفسار اپنے اندر ایک ہی معنی رکھتا ہے، بڑی سیاسی تبدیلی، چناں چہ فوراً اپنا ابلاغ کرلیتا ہے۔ پھر جواب میں دانش وری کا طوفان اٹھتا اور خواہشات کا باب کُھلتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پوچھنے والا اور جس سے پوچھا جائے دونوں حقائق کی روشنی سے دور لاعلمی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں۔

سوال اپنا بے ضرر روپ بدل کر تیر وخنجر اُس وقت بن جاتے ہیں جب انھیں جہل، ذہنی پس ماندگی، تعصب اور نفرت سے تراشا گیا ہو۔ کبھی یہ ان جانے میں ہوتا ہے اور بعض اوقات سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

میں نے ایک اخباری ادارے سے ناتا جوڑا تو میرے ہاتھ میں ایک فارم تھمادیا گیا، جس میں مجھے سوالات کا جواب تحریر کرتے ہوئے اپنے کوائف درج کرنا تھے۔ دیگر سوالات کے ساتھ یہ فارم پوچھ رہا تھا۔۔۔۔اپنی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیے۔۔۔اتنا ہی نہیں۔۔۔آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں! میں نے اصرار کیا کہ خود کو صرف مسلمان سمجھتا ہوں اور یہیں لکھنا چاہتا ہوں، کہا گیا جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب تو لکھنا ہوگا۔

مجھے نہیں پتا کہ اس نوعیت کے سوالات جو کسی کے سیاسی نظریے اور عقیدے کی بابت کیے گئے ہوں پاکستان میں اور کس کس ادارے سے وابستگی اختیار کرنے والوں کو دینا پڑتے ہیں؟ لیکن سوال ایسے سوالوں کے جواز پر ہے۔

آگے بڑھتے ہیں۔ اس منظر میں چلیے:

خوشی کی تقریب میں ایک نوجوان ہرفکر واندیشے سے بے نیاز مسرور نظر آرہا ہے۔ ہنس رہا ہے، مسکرا رہا ہے، پُراعتماد دکھائی دے رہا ہے۔ ساتھ بیٹھے صاحب اُن لوگوں میں سے ہیں جن کا مقصد حیات ہوتا ہے کہ دوسروں میں اپنے حصے کا جتنا دُکھ بانٹ سکتے ہو بانٹ دو، کسی کو جس قدر نقصان پہنچانے کی اسطاعت رکھتے ہو پہنچا دو۔ کھنکار کے نوجوان کو مخاطب کرتے ہیں اور پوچھ گچھ شروع کردیتے ہیں، ’’کیا کرتے ہو ۔۔۔کس ادارے میں۔۔۔۔‘‘ یہ سوال تو حملے کی تیاری تھے، تیر تو اب چلے گا۔ ’’کتنی تنخواہ دے رہے ہیں؟‘‘۔۔۔جواب سے حیران ہوکر وار کرتے ہیں۔۔۔’’اتنی کم۔۔۔۔‘‘ پھر کہیں اور ملازمت کا ہم دردانہ مشورہ دے کر نوجوان کی مالی اور سماجی حیثیت اس کی نظر میں گرادی جاتی ہے۔ اب اُس کے چہرے پر خوشی ہے، آنکھوں میں چمک، نہ لہجے اور نہ جسمانی حرکات وسکنات میں اعتماد۔ اس کے سینے میں گھونپا گیا سوال اپنا کام کرچکا ہے۔

اگر کسی تقریب میں میاں بیوی بچوں کے بغیر دکھائی دیں تو اِدھراُدھر کی کچھ باتیں کرکے اجنبیت دور کرنے کے بعد اپنائیت اور خلوص کے بھرپور اظہار کی ٹھانی جاتی ہے۔ بڑی معصومیت سے پوچھا جاتا ہے ’’بچوں کو نہیں لائے‘‘، جواب محرومی کی کہانی سُنادیتا ہے تو شادی کی مُدت پوچھی جاتی ہے (جیسے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہو کہ ایکسپائری ڈیٹ گزر تو نہیں گئی؟) پھر تفتیش اور افسوس کے بھرپور جذبات کے ساتھ کسی ڈاکٹر، حکیم، ہومیوپیتھ یا جھاڑپھونک کرنے والے کے بارے میں اس یقین کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ بس یہ کہنا رہ جاتا ہے کہ ’’ارے خواتین تو کیا وہ تو حضرات کو بھی ولادت کی سعادت عطا کرسکتے ہیں۔‘‘

یہ بہ ظاہر معصومانہ سوال اور پیار چھلکاتی گفتگو اس جوڑے کے ہونے پر ہی سوالیہ نشان لگادیتی ہے۔ خاص طور پر ان لفظوں کے کانٹے عورت کی روح میں ایسے چھبتے ہیں کہ کتنے ہی دن ان کی چبھن نہیں جاتی۔ اس سوال سے اس کے دل میں یہ زخم سا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا میرا وجود اولاد کے بغیر کچھ نہیں؟ اور لٹیرا سوال جوڑے سے چند پَل کی خوشی چھین کر یہ جا وہ جا۔

لڑکی نے پچیسواں برس پار کرلیا ہو اور مرد نے تیس کی چوکھٹ پھلانگ لی ہو تو ’’اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی؟‘‘ کی تشویش ہر جگہ ان کا پیچھا کرتی ہے۔

کوئی کہیں بھی آپ سے بے دھڑک پوچھ سکتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ یعنی مادری زبان کیا ہے، کس صوبے کے ہو، کون ذات ہو، قبیلہ کیا ہے؟ جب اس سوال کے پھاؤڑے سے کُھدائی کرکے بھی کچھ حاصل نہ ہوپارہا ہو تو ’’پیچھے کہاں کے ہو؟‘‘ کی کُدال چلائی جاتی ہے۔ اسی دھڑلے کے ساتھ آپ سے مذہب، مسلک اور فرقہ پوچھا جاسکتا ہے۔

ہمارے گھروں سے درس گاہوں اور محفلوں سے عبادت گاہوں تک کہیں کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سوال کی بھی کوئی اخلاقیات ہوتی ہے۔ ذاتی نوعیت کا سوال پوچھنا بعض دفعہ توہین کرنے اور گالی دینے کے مترادف ہوتا ہے، ایسے سوالات کبھی اعتماد پر وار کرتے ہیں تو کبھی مسرت اور ہمت وحوصلے پر حملہ۔

ایسے سوالات پر سوال اٹھائیے، انھیں دھتکاریے، ٹھکرائیے، کہ یہ بے مصرف اور بے مقصد سماج کے عکاس ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو بولنے کے لیے لفظوں کی تلاش ہے، لیکن اس کا کتاب دشمن، عقل و خرد کا بیری اور سوچنے اور غور کرنے سے بے زار رویہ اسے بانجھ کرچکا ہے، سو الفاظ اور موضوعات کیسے جنم لیں گے؟

The post سوال ایسے سوالوں پر appeared first on ایکسپریس اردو.

کوریا کی تقسیم اور جنگ ۔۔۔

$
0
0

( قسط نمبر7)

دوسری جنگ عظیم میں سابق سوویت یونین جلد ہی جرمنی کے خلاف برطانیہ، فرانس اوردیگر یورپی ممالک کے اتحاد میں شامل ہو گیا تھا۔ اگر چہ سوویت یونین میں اقتدار کے مالک جوزف اسٹالن ہی تھے، جنہوں نے لینن کے ساتھ مل کر پہلی جنگ ِ عظیم کے ایک سال پہلے1917 میں کیمونسٹ انقلاب کے موقع پر سوویت یونین کو جنگ سے نکال لیا تھا اور اس کی جگہ امریکہ اتحاد میں شامل ہوگیا تھا،کیونکہ کیمونسٹ سوویت یونین پہلی عالمی جنگ کو نو آبادیاتی قوتوں کی جانب سے ملک ہوس گیری کی بڑی جنگ قرار دیتا تھا اور ایسا تھا بھی، مگر جب 1930-32 کی عالمی کساد بازاری کے بعد جرمنی میں ہٹلر کی نازی پارٹی اقتدار میں آئی تو اسٹالن شروع میں ہٹلر اور اس کے ناز ی ازم کا مخالف نہیں تھا اور یہاں تک کہ شروع میں روس نے جرمنی کے ساتھ پولینڈ کے حصے بخرے کئے تھے مگر اس کے فوراً بعد سوویت یونین نے پینترا بدلا اور جرمنی اور جاپان کے خلاف اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا اور اُس وقت دنیا بھر میں اشتراکی نظریات کے کروڑوں لوگوں کو یہ سمجھایا کہ جرمنی کا ہٹلر کیونکہ قوم پر ستی کی بجائے فسطائیت پر یقین رکھتا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کے امن اور انسانوں کو خطرہ ہے اِس لیے سوویت یونین کو اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونا پڑا جو اشتراکی نظریات کے خلاف بھی ہیں ۔

یوں اسٹالن کے موقف کے مطابق روس کا یہ اتحاد اُس وقت تک تھا جب تک جرمنی کو شکست نہیں ہو جاتی لیکن جنگ عظیم دوئم کے دوران ہٹلر نے ایک جانب جیوش پروٹوکول کو اور دوسری جانب سوویت یونین کے اشتراکی نظریے کے باوجود اتحادیوں سے اتفاق کرنے پر بہت پروپیگنڈہ کیا، اور اُ س وقت یہ پروپیگنڈہ اور شدت اختیار کر گیا جب امریکہ کے بحری اڈے پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد امریکہ بھی جرمنی اور جاپان کے خلاف اتحاد میں شامل ہو گیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگست 1945 کو دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہوتے ہی بہت سے وہ ملک جو خصوصاً جاپان یا جرمنی کی مقبوضات میں تھے۔

اِن کی تقسیم کی یا اِن پر تعلقات کی بنیاد پر سیاسی اقتصادی کنٹرول کی بنیادوں پر فرانس، امریکہ اور بر طانیہ کی سوویت یونین سے کشاکش رہی، یہ تناؤ مشرقی اور مغربی جرمنی پر بھی تھا، پھر اقوام متحدہ کے قیام کے مراحل میں مفاہمت رہی، اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ امریکہ نے 1945 میں نہ صرف ایٹم بم بنا لیا تھا بلکہ جاپان پر یہ بم استعمال بھی کر لیے تھے۔ یوں 1949 تک ایسے بہت سے مواقع آئے کہ امریکہ اور برطانیہ کے رویے درشت بھی ہوئے مگر سوویت یونین نے برداشت سے کام لیا لیکن جب سوویت یونین نے بھی ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کی دوسری ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا تو صورتحال دنیا میں طاقت کے توازن کے لحاظ سے بہتر ہو گئی۔ اب سوویت یونین اس پوزیشن میں تھا کہ وہ برطانیہ اور امریکہ کے سامنے جرات کا مظاہرہ کر سکے، یوں 25 جون 1950سے27 جولائی 1953 تک کوریا کی جنگ ہوئی جو جنگ عظیم دوئم کے بعد سرد جنگ کے لحاظ سے پہلا اور بڑا معرکہ تھا۔

کوریا کا پس منظر یوں ہے کہ مشرقی ایشیا کا ایک یہ جزیرہ نما ملک ہے جو Yellow sea بحر زرد میں واقع ہے جس کا مجموعی رقبہ دوسری عالمی جنگ سے اور شمالی اور جنوبی کوریا میں تقسیم سے قبل 220540 مربع کلومیٹر تھا۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں یہاں بادشاہت قائم ہوئی اور پھر کوریا میں بیک وقت تین بادشاہتیں بھی رہیں، مضبوط مقامی کورین بادشاہت 698 ء میں قائم ہوئی، 1392 میںکوریا جوسن سلطنت میں رہا، پھر 12 اکتوبر 1897 کو کورین بادشاہت قائم ہوئی۔ 29  اگست 1910 کو جاپان کوریا معاہدہ ہوا اور پھراس پر جاپان کا قبضہ ہوا۔ جاپان اس علاقے میں ایک مضبوط اور طاقتورملک تھا اور خصوصاً پہلی جنگِ عظیم سے لے کر دوسری جنگِ عظیم تک اِس کی علاقائی طاقت میں بڑا ضافہ ہوا۔ کوریا کے ہمسایہ ملکوں میں جاپان ، روس، چین، تائیوان، فلپائن واقع ہیں، اس لیے دفاعی نقطہ نظر سے چین اور روس کے لیے کوریا اہمیت رکھتا ہے تو ساتھ ہی سمندر کے اعتبار سے امریکہ کے لیے بھی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر اہمیت رکھتا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم میں جاپان نے امریکہ کے اہم فوجی اڈے پرل ہاربر کو نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے امریکہ بھی دوسری جنگ ِ عظیم میں اتحا دیوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا اور پھر جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر 6 اور 9 اگست 1945 کو امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے، مگر ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں امریکی جنرل مارشل ڈگلس میکارتھر نے جاپان کی فتح کے موقع پر بھی اہم کردار اد ا کیا تھا۔ 29 اگست 1945 کو اسی مارشل میکارتھر کے سامنے جاپان کے کمانڈر اور بادشاہ ہیرو ہٹو نے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور جنگ کے خاتمے کے بعد جاپان کی نہایت تیز رفتار تعمیر و ترقی میں امریکہ نے بے حد تعاون کے ساتھ فوری اور بہت مالی امداد کی تھی، اس معاہدے کے بعد جاپان کی تعمیر وترقی اقتصادی و دفاعی تعاون کے معاہدے بھی ہوئے، اُس وقت سے امریکہ جا پان کا نہایت قریبی حلیف ہے۔

یوں اس علاقے میں کوریا جنگِ عظیم سے قبل چونکہ جاپان کا مقبوضہ ملک تھا اس لیے غیر اعلانیہ طور پر اس پر زیادہ حق پہلے امریکہ اور اس کے بعد ا س کے اتحادی برطانیہ اور مغربی یورپ کے دیگر ملکوں کا تھا چونکہ کوریا کی سمندر ی اور علاقائی قربت چین اور روس سے بھی ہے اس لیے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہاں پر امریکہ کا حلیف ملک اور حکومت موجود ہو۔ دوسری جنگِ عظیم میں اگر چہ سوویت یونین اتحادیوں میں شامل تھا مگر جنگ کے بعد جنگ عظیم دوئم کے اتحادیوں کے اپنے اپنے مفادات تھے اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بہر حال کوشش یہ تھی کہ اب دنیا میں کوئی تیسری عالمی جنگ نہ ہو اس لیے پہلے تو 38th Parallel کوریا کی جغرافیائی پوزیشن پر کوریا شمالی اور جنوبی دو ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا، شمالی حصے پر روس اور چین نواز حکومت برسراقتدار آئی اور جنوبی کوریا پر امریکہ کی حامی اور حمایت سے حکومت قائم ہوئی پھر اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا کہ شمالی اور جنوبی کوریا میں جمہوری اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے عام انتخابات کروائے جائیں مگر اِس کو شمالی کو ریا نے قبول نہیں کیا اور شمالی کوریا میں اقوام متحدہ کو اجازت نہیں دی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد شمالی کوریا سوویت یونین کی افواج کے قبضے میں تھا اور جنوبی کوریا میں امریکی تھے، شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں انتخابات نہیں کرائے۔ 12 دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 195 میں کہا گیا کہ اس قوم کو ایک حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے اور یہاں سے سوویت یونین اور امریکہ کی فوجوں کا انخلا ہونا چاہیے، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا شمالی کوریا کا رویہ جارحانہ ہوتا گیا، شمالی اور جنوبی کوریا کے فوجی دستوں میں تصادم کو روکنے کیلئے یواین آبزرور دستے بھیجنے کو کہا گیا۔

21 اکتوبر 1949 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 293 کو منظور کرتے ہوئے صرف جنوبی کوریا کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کیا اور شمالی حصے کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس پر امریکہ کے صدر ٹرومین نے کہا ’’میں یہ محسوس کرتا ہو ںکہ جنوبی کوریا کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ کیمونسٹ لیڈر کو ہٹائے اگر کیمونسٹ لیڈر شپ کو اجازت دی گئی کہ وہ بلا روک ٹوک جنوبی کوریا میں فوجی مداخلت کریں تو پھر دنیا کی کوئی چھوٹی قوم اپنے طاقتور کیمونسٹ ہمسایہ کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہے گی اور اگر اِن کو بغیر چیلنج اجازت دی گئی تو اِس کا مطلب واضح ہے کہ اقوام ِمتحدہ کی بنیاد اور اس کے اصول و ضوابط خطرے میں پڑ جائیں گے ‘‘ ۔ اب جنوبی کوریا جسے امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور دوسری جانب شمالی کوریا جس کی پشت پناہی سوویت یونین کر رہا تھا اِن دونوں کے درمیان حالات انتہائی کشید گی کی جانب جا رہے تھے، اس کی بنیادی وجہ یہاں اسِ جزیرہ نما ملک کی وہ جغرافیائی پوزیشن ہے کہ اگر امریکہ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں اپنی مکمل حامی حکومت قائم کر لیتا تو دفاعی نکتہ نظر سے چین اور روس دونوں ہی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ علاقے میں پہلے ہی اس اعتبار سے امریکہ کی پوزیشن اس طرح بہتر ہے کہ یہاں جاپان اور تائیوان پہلے ہی امریکہ کے اسٹرٹیجکل پارٹنر ہیں۔

پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل میں وہ غیر اعلانیہ اصول و ضوابط جن کو امریکہ سمیت، برطانیہ، فرانس اور یہاں تک کہ روس اور چین نے بھی تسلیم کر رکھا ہے اور وہ اصول وضوابط اقوام متحدہ کے چارٹر یا دائرہ عمل میںکہیں درجہ بھی نہیں رکھتے اور اِن ویٹو کی حامل قوتوں کی جانب سے اخلاقی طور پر اعلانیہ بھی نہیں ہیں، وہ یہی ہیں کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ، سابق سوویت یونین اور حالیہ روس، اسی طرح سابق تائیوان چین حالیہ عوامی جمہوریہ چین، فرانس اور برطانیہ جو سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبر بھی ہیں اور اِ ن کے پاس جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کے کسی بھی اکثریتی فیصلے کو اپنے ایک ویٹو ووٹ سے مسترد کرنے کا اختیار ہے اور یہ اختیار اس لیے ہے کہ اقوام متحد ہ کو تشکیل دینے والی اِنہی قوتوں کے سامنے 1919 میں، معاہدہ وارسائی کے ساتھ ہی قائم ہونے والے عالمی ادارے لیگ آف نیشن ’’ اقوامِ عالم‘‘ کی ناکامی تھی، یوں یہ طے کیا گیا کہ سکیورٹی کونسل میں اِن پانچ قوتوں میں براہ راست بنیاد پر کسی بڑے عالمی نوعیت کے تصادم سے بچنے کے لیے ا ِن پانچ ملکوں کے لیے سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور کو پریشر کم کر کے سیفٹی وال کی طرح رکھا گیا اور اگرچہ ان غیر اعلانیہ اصولوں کو اخلاقی طور پر کھلم کھلا نہیں اپنایا جاتا مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ بڑی قوتوں کی وہ نوآبادیات جو خصوصاً جنگ عظیم اوّل کے بعد سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک تھیں اِن پر اُس نوآبادیاتی دور کے قبضے کی بنیاد پر اب تک ان قوتوں کے مفادات کو عالمی اقتصادی، سیاسی تناظر میں تسلیم کیا جا تا ہے۔

البتہ مغربی جمہوری ملکوں نے اس عالمی سیاست میں یہ ایک راستہ ضرور چھوڑا ہے کہ کسی ایسے ملک میں بڑی قوتوں کے مفادات ہوں اور وہاں کے عوام جمہوری انداز میں اپنی مرضی سے آزادانہ فیصلے کرنا چاہیں تو اِن کا احترام کرنا چاہیے مگر اس پر بھی بہت کم عمل کیا جاتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ جب یہ پانچ ویٹو پاور متفق ہوں جیسے انڈونیشیا میں نیو پاپوا نیو گینیا اور مشرقی تیمور یا سوڈان کی تقسیم وغیرہ، مگر یہاں کوریا میں صورتحال قدرے مختلف ہے یہ جنگ عظیم سے قبل کسی ویٹو پاور کی حامل قوت کی نو آبادی نہیں تھا بلکہ یہاں کوریا کی سرزمین جاپان کے قبضے میں تھی اور جاپان کی حتمی شکست امریکہ کے جنرل مارشل ڈیگلس میکارتھر کے ہاتھوں ہوئی تھی اور کوریا جاپان کی نوآبادی تھی مگر جنگِ عظیم دوئم کے اختتام پر یہاں شمالی کوریا میں سابق سوویت یو نین کی فوجیں اور جنوبی کوریا میںامریکی فوجیں موجود تھیں اور پہلے ہی اقوام متحدہ کی نگرانی میں انتخابات کی بنیاد پر مشترکہ کوریا کی جمہوری حکومت کی تشکیل کے موقف کو شمالی کوریا نے مسترد کر دیا تھا اور ایسی ہی صورتحال مشرقِ وسطٰی میں اسرائیل کی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ہے، یہاں براہ راست یا یوں کہہ لیں کہ جنگ عظیم دوئم کے فوراً بعد روس اور چین، امریکہ کے آمنے سامنے آگئے تھے۔

1950 میں اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی تعداد 60 تھی اور سکیورٹی کونسل کے پانچ ویٹو پاور ملکوں میں سے امریکہ، برطانیہ ، فرانس کے علاوہ اِن کو تائیوان چین کے ویٹو پاور کی حمایت بھی حاصل تھی اور جنر ل اسمبلی میں بھی ان ملکوں کو اکثریت حاصل رہی، اور اسی اکثریت کی بنیاد پر 1947 کے اختتام پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر 112 کی منظوری کے بعد ایک عارضی کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے شمالی اور جنوبی کوریا کے انتخابات کی نگرانی کرنی تھی، اقوام متحدہ کی کوشش تھی کہ شمالی اور جنوبی کوریا دونوں دوبارہ ایک ہو جائیں اور یہاں عوام کی اپنی مرضی سے ایک حکومت قائم ہو مگر اقوام متحدہ کے اس کمیشن کو شمالی کوریا نے اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔

یوں جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق تھا تو اُس کے اصول و ضوابط کے مطابق تو اخلاقی طور پر یہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی فتح تھی یہ جمہوریت کی بنیاد پر یہ اخلاقی سیاسی دباؤ 1950 تک بہت بڑھ گیا تھا اور اس کے لیے سوویت یونین کی جانب سے طاقت کے استعمال کی اسٹرٹیجی اپنائی گئی تا کہ اس عالمی دباؤ کو پہلے روکا جائے، دوسری صورت میں دھکیلا جائے اور آخری صورت میں اسے کم سے کم کیا جائے اور یوں25 جون 1950 کو شمالی کوریا نے سوویت یونین کی پشت پناہی سے جنوبی کوریا میں اپنی فوجیں داخل کرنے کی کوششیں کی، جنوبی کوریا میں اُس وقت John J Muccio جان جے مُکوئی امریکہ کے سفیر تھے، اُنہوں نے فوراً امریکی صدر ٹرومین کو اطلاع دی کہ شمالی کو ریا نے 10 ڈویژن فوج یعنی 89000 فوج کے ساتھ جنوبی کوریا پر ایک بڑا حملہ کر دیا ہے۔

یہ فوری ٹیلی گرام اُن کی جانب سے امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجا گیا کہ اب صورتحال مزید بھی خراب ہو سکتی ہے، اُس وقت کے امریکی وزیر Dean Acheson نے رات کو سوتے ہوئے امریکی صدر ٹرومین کو جگا کر یہ اطلاع دی اور ٹرومین نے فوراً یہ صورتحال اسی وقت اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل Trygve Lie ٹریگو لی کے سامنے رکھ دی۔ جنوبی کوریا پر یہ حملہ صدر ٹرومین کے لیے بھی کافی تشویش کا باعث تھا، انہوں نے اس حملے کو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی جانب سے پرل ہاربر جیسا قرار دیا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ صورت جنگِ عظیم دوئم کے آغاز پر ناروے میںمداخلت جیسی ہے۔

امریکی صدر کے اِن بیانات نے واضح کر دیا تھا کہ امریکہ یہاں بہت زیادہ سنجیدہ ہے اور وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اب سوویت یونین اور چین بھی جنگ کرنے کا پورا ارادہ کر چکے تھے۔ امریکی صدر ٹرومین کے کہنے پر اُسی روز یعنی 25 جون 1950 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قرار داد نمبر 82 منظور کی جس میں شمالی کوریا سے مطالبہ کیا گیا کہ جنوبی کوریا میں اپنی فوجوں کو آگے بڑھنے سے روک دے اور یہ فوجی مداخلت بند کر دے، اس قرارداد کے حق میں نو ووٹ آئے اور ایک ووٹ ’’ملک‘‘ غیر حاضر رہا۔ اُس وقت عملی طور پر کوریا شمالی اور جنوبی کوریا کے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور یہاں جنگ شروع ہو گئی۔

اُس وقت یعنی جنگ عظیم دوئم کے صرف پانچ سال بعد سرد جنگ کے اعتبار سے یہ بہت بڑا معرکہ تھا جس میں بہت بڑی تاریخی شخصیات اپنے اپنے ملکوں کے عظیم لیڈروں کی حیثیت سے متحرک تھیں جن میں امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین امریکی جنرل میکار تھر، روس کے رہنما جوزف اسٹالن ، چین کے ماوزے تنگ ، برطانیہ کے چرچل شامل تھے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ کی اہمیت اور شدت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں شمالی کوریا کے ساتھ روس اور چین بھرپور طاقت کے ساتھ شامل تھے۔ شمالی کوریا کی اپنی کل فوج 266600 جبکہ چینی فوجیوں کی تعداد 1450000، روسی فوج 26000 تھی۔ جولائی 1953 تک جوں جوں جنگ میں شدت آتی گئی تو چین اور روس کی فوجیوں کی تعداد بڑھتی گئی اور آخر تک چین کی فوج 2970000 اور روس کی فوج 72000 تک پہنچ گئی۔

اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا کی کل 602902 تھی، لیکن اس کے ساتھ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس، ترکی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،کینڈا سمیت 28 ملکوں کی فوجیں شامل تھیں۔ شروع میں امریکہ کے فوجیوں کی تعداد 326863 اور برطانوی فوجیوں کی تعداد 14198 تھی لیکن بعد میںاِن کی بھی تعداد بڑھتی گئی اور امریکی فوج 1780000 ہو گئی اور اتحادیوں کی فوجوں کی تعداد بھی بڑھ کر 972334 ہو گئی، یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے موقف سے دستبردار ہو نے کو تیار نہیں تھے، کوریا کی جنگ 25 جون 1950سے27 جولائی1953 تک جاری رہی، اس جنگ میں امریکہ کی فوج کے مشہور تجربہ کار جنرل مارشل ڈیگلس میکار تھر نے جنوبی کوریا اور دیگر 28 ملکوں کی فوجوں کی کمان کی۔ دوسری جانب شمالی کوریا کے ساتھ تعدادکے لحاظ سے بڑی فوج چین کی تھی اس کی 29 لاکھ 70 ہزار فوج کے کمانڈر چین کے جنرل پینگ ڈیہوائی Peng Dehuai تھے۔

72000 روسی فوج کے کمانڈ رPavelzigrev پاول زیروف تھے۔ جنگ میں 30 لاکھ سے زیادہ فوجی اور سویلین افراد ہلاک ہوئے، جب کہ جنگ میں فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے اُن کے مطابق جنوبی کوریا کی جانب سے اتحادی فوج میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 990968 تھی، 387744 جنگ میں لاپتہ یا اغوا ہوئے اور373599 زخمی ہوئے، ان ہلاک ہونے والے فو جیوں میں سے 54246 امریکی اور 1109 برطانوی فوجی تھے، شمالی کوریا کی تین قومی اتحادی فوج کی کل ہلاکتیں 1550000 کے قریب تھیں جن میں سب سے زیادہ تعداد چینیوں کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران جب بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا تھا تو امریکی صدرو ٹرمین اور پھر صدرآئزن ہاور کو فوجی تھنک ٹینک کے بعض ماہرین نے جاپان کی طرح یہاں بھی ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز دی تھی جس کو امریکی صدر نے سختی سے رد کر دیا تھا، اس کی بنیاد ی وجہ غالباً یہی تھی کہ کوریا کی جنگ میں جب 25 جون 1950 کی اقوام متحدہ کی قرار داد کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی اور پھر یہ جنگ شدت ہی اختیار کرتی گئی تو یہ واضح ہو گیا تھا کہ سوویت یونین اور چین کسی بھی صورت میں یہاں کم سے کم شمالی کوریا کی کیمونسٹ یا روس اور چین کی حمایتی حکومت کو ہرحال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

جہاں تک تعلق اُس وقت کی جمہوریت کے حامل اور ترقی یافتہ ممالک کا تھا تو اکثر آزاد اور خود مختار ممالک کی اکثریت امریکی موقف کی حامی تھی، یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کی قرار دادیں بھی امریکی موقف کے حق میں تھیں مگر سوویت یونین اور چین نے اٹل موقف اختیار کیا تھا اور پوری دنیا کی اکثریتی رائے کو اپنے قومی مفادات کی خاطر رد کر دیا تھا۔

اس لیے اگر امریکہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرتا تو اُسے جاپان کے مقابلے میں بہت مختلف اور سخت جواب ملتا کیونکہ اُس وقت سوویت یونین بھی ایٹمی قوت بن چکا تھا اور اس طرح دنیا ایسی بڑی تباہی سے گزرتی کہ وہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے کہیں زیادہ ہوتی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اُن پانچ برسوں میں امریکہ کی مدد سے یورپ اور جاپان میں تعمیر نو کا عمل مکمل ہوا تھا اور جس تیز رفتاری سے وہاں ترقی اور خوشحالی آرہی تھی وہ عمل نہ صرف رک جاتا بلکہ یہ ممالک دوبارہ اور کہیں زیادہ بدحال تباہ اور برباد ہو جاتے، اس لیے امریکہ کے پاس اقوام متحدہ میں باوجود اکثریت کی حمایت اور تائید کے ایٹم بم استعمال کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ یوں شمالی اور جنوبی کوریا کی یہ جنگ Sea of japan  بحیرہ جاپان اور YellowSea بحیرہ زرد میں واقع جزیاہ نماہ کوریا میں 25 جون 1950 سے شروع ہو کر 27 جولائی 1953 کو3 سال 1 ماہ2 دن بعد ختم ہوئی او رKorean Demilitarized Zone شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحدوںکے درمیان قائم کئے جانے والے غیر فوجی علاقے میں دونوں جانب سے فوجی قبضے کی بنیاد پر کچھ تبدیلی آگئی کہ جنگ میں شمالی کوریا نے Kaesong کارسونگ کا شہر حاصل کر لیا اور جنوبی کوریا نےشمالی کوریاکے 3900 مربع کلو میٹر رقبے پر قبضہ کر لیا اور پھر 1953 میں ہو نے والے معاہد ے پر دونوں جانب سے دستخط کر دئیے گئے اور یوں ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا یعنی شمالی کوریا میں Kim ll Sung کم ایل سنگ کی کمیو نسٹ حکومت کو تسلیم کر لیا گیا اور ری پبلک آف کوریا جمہوریہ کوریا یعنی جنوبی کوریا میں کیمونسٹ مخالف Syngman Rhee سنگمین رہی کی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا ۔

اس کے بعد یہاں دونوں اطراف میں یعنی شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان نہ صرف پوری سرد جنگ کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی تناؤ کی صورت جاری رہی حالانکہ 1990 میںافغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے نکل جانے کے بعد روسی رہنما گوربا چوف نے گلاسنس اور پرسٹرء کا کے تحت فوری اصلاحات کیں۔

اس نظام کے ساتھ سوویت یونین کو دوبارہ روس میں تبدیل کیا، سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور سابق مشرقی سوویت یونین کی ریاستوں کو آزادیاں دے کر اِن کو خود مختار ملکوںکی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے کیمونزم کے خاتمے اور اس کی جگہ آزاد معیشت کو متعارف کر نے کے کٹھن مراحل طے کئے اور پھر نیٹو کے مقابلے میں تشکیل پانے والا سوویت یونین کا گروپ جو وارسا معاہد ے کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا وہ بھی اِن ملکوں سے کیمونزم کے خاتمے کے بعد ختم ہوا تو خیال کیا جا رہا تھا کہ اب مشرق اور مغربی جرمنی کی طرح شمالی اور جنوبی کوریا بھی دوبارہ ایک ملک ہو جائیں گے کیونکہ یہاںبھی دونوں حصوں میں ایک ہی کورین قوم آباد ہے جو جنگِ عظیم دوئم سے پہلے ایک ہی ملک کوریا میں بغیر سرحدی تقسیم کے صدیوں سے رہتی رہی ہے، مگر ایسا نہیں ہوا اور شمالی اور جنوبی کوریا میں یہ تناؤ آج تک جا ری ہے اور اس تناؤ میں اب بھی امریکہ، روس اور چین درپردہ کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور تعریف کی بات یہ ہے کہ باوجود دنیا سے اشتراکیت کے خاتمے کے اب بھی روس اورچین کی جانب سے وہی اسٹرٹیجی ہے اور امریکہ کی طرف سے بھی جواباً وہی انداز ہے۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حجم کے اعتبار سے اس میںبہت اضافہ ہو چکا ہے اور مزید ہوتا رہے گا، مثلاً شمالی کوریا پر جب امریکی ملٹری تھنک ٹینک کے بعض ماہرین نے امریکی صدر کو یہاں جاپان کی طرح ایٹم بم استعمال کر نے کی تجویز دی اور امریکہ نے اس لیے ایٹم بم استعمال نہیں کیا تھا کہ جواب میں سابق سوویت یونین بھی ایسا کر نے کے لیے تیار تھا، اب صورت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ شمالی کوریا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی معیشت بھی اتنی مضبوط نہیں، شمالی کوریا فوجی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایٹمی صلاحیت اور جدید میزائل سسٹم بھی رکھتا اور اس کے دور مار کروز میزائیلوں کی زد میں امریکہ بھی آتا ہے اور ماضی قریب میں باوجود امریکہ کے ڈرانے دھمکانے کے شمالی کوریا نے یہ صلاحیت حاصل کر لی اور یہ حقیقت ہے کہ اگر آج بھی امریکہ یہاں جنگ کر ے تو امریکہ کو افغانستان، شام، عراق، لیبیا جیسی صورتحال نہیں ملے گی بلکہ ایک تو یہاں اگر امریکہ نے روایتی انداز کی جنگ کی تو بھی اُسے ایک بہت بڑی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا اور اب اگر کوریا کی گزشتہ جنگ کی طرح چالیس پچاس ہزار امریکی فوجی یہاں مارے جاتے ہیں تو امریکی عوام اس پر بلبلا اٹھیں گے اور اگر امریکہ یہاں جدید میزائل استعمال کرتا ہے تو کوریا اس کا بھی موثر جواب دے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کا آپشن بھی شمالی کوریا کے پاس موجود ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اوّل تو دنیا بھر کے ماہرین اور جنگی مبصرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اب دنیا میں کوئی ملک بھی ایٹمی ہتھیار استعمال کر نے کی حماقت نہیں کرے گا اور اگر کی بھی تو جو قوت ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گی اُس کی اسٹرٹیجی یہ ہو گی کہ وہ پہل کرے کیونکہ اگر دشمن نے پہل کر دی تو دوسرا فریق اس کا جواب نہیں دے سکے گا۔ یوں آج امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر کی بھی مذاکرات ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں امریکہ کی کو شش ہوتی ہے کہ یہاںصورتحال کنٹرول میں رہے اس وقت شمالی کوریا کا رقبہ 120540 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی24052231 ہے اس کا آئین جو اس وقت نافذ العمل ہے، 1972 میں بنایا گیا اور جب 1990ء میں دنیا میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تو اس آئین میں 17 ستمبر1991 کو ضرورت، وقت اور صورتحال کے مطابق ترامیم کی گئیں۔ 2014 کے مطابق شمالی کوریا کا سالانہ جی ڈی پی، پی پی پی 40 ارب ڈالر اور سالانہ فی کس آمدنی 1300 ڈالر تھی، کوریا میں قومی رضاکار نیم فوجی دستے جو کل فوجی قوت کا 37 فیصد ہیں سمیت کو ریا کی فوجی قوت 9495000 ہے جو جنگ کی صورت میں دشمن کے خلاف لڑ سکتی ہے جب کہ اس کی باقاعدہ فوج کی تعداد 12 لاکھ 21 ہزار ہے۔

یوں فوجی تعداد کے اعتبار سے شمالی کوریا، چین امریکہ اور بھارت کے بعد دنیاکا چوتھا ملک ہے اور اس کی صرف باقاعدہ فوج کل آبادی کا 4.7% سے کچھ زیادہ ہے۔ شمالی کوریا 1991 ہی سے اقوام متحدہ کا رکن بنا، جب شمالی کوریا نے اپنے 1972 کے آئین میں بنیادی ضرورتوں کے مطابق ترامیم کی تھیں، شمالی کوریا جی سیون اور آسیان کا رکن ملک بھی ہے، شمالی کوریا کا دارالحکومت Pyonyang پیانگ یانگ ہے، 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے شمالی کوریا باوجود مختلف اقتصادی بحرانوں اور مسائل کے اپنی فوجی قوت کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بڑھاتا رہا ہے، شمالی کوریا کو 1994 سے لے کر 1998 تک شدید نوعیت کے قحط کا سامنا رہا جس میں شمالی کور یا کے 240000 عوام ہلاک ہوئے تھے۔ شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کو یا کا رقبہ 100363 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 51709098 ہے۔ 2020 کے مطابق جنوبی کوریا کا سالانہ جی ڈی پی، پی پی پی 2.418 کھرب ڈالر ہے۔

یہاں فی کس سالانہ آمدنی 46451 ڈالر ہے اور جنوبی کوریا دنیا کی چوتھی بڑی میٹرولپیٹین اکانومی ہے اس کا آئین جو 1988 میں تشکیل پایا تھا اس میں بھی 1991 میں ترمیم کی گئیں اور یہ بھی اسی وقت سے اقوام متحدہ کا رکن ہے، یہاں امریکہ اور روس اور چین کی اسٹرٹیجی واضح طور پر الگ الگ اپنی شناخت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے، شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں اور جدید میزائلوں کے ساتھ اپنی فوج کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی قوت ہے جب کہ اس کے مقابلے میںجنوبی کوریا اپنے سالانہ جی ڈی پی، پی پی پی 2.418 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی دنیا کی چوتھی میٹرو پولیٹین اکانومی ہے۔

امریکی بھرپور مالی اقتصادی حمایت اور تعاون کے ساتھ اس کا درالحکومت سیول اب تیزی سے ترقی کرتی معیشت کی بنیاد پر دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ جنوبی کو ریا کے لیے ا مریکہ کی منڈیوں کے ساتھ جاپان، برطانیہ اور دیگر وہ ملک جو سیاسی اقصادی معاشی طور پر امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں، اُ ن کی بھی منڈیاں جنوبی کوریا کی تجارت کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور مالیاتی تجارتی تعاون جنوبی کوریا کو حاصل ہے، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ یہاں 1990 کے بعد سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے باوجود کوئی تبدیلی نہ لا سکا، لیکن بہت آہستگی سے روس اور چین کے خلاف امریکہ اب تک اپنی چالیں چلتا آیا ہے اور اب امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح وہ کسی بھی قیمت پر شمالی کوریا کو اُس کے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار کروا دے اور جنوبی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر کسی ایسے معاہدے پر آمادہ کر لے کہ شمالی اور جنوبی کوریا ایک ہی قوم کے باشندے ایک دوسرے ملک میں آزادانہ آجا سکیں۔

اِن کے درمیان تجارتی، ثقافتی ، روابط بحال ہوں، اگر امریکہ مرحلہ وار سہی ان دونوں مقاصد میں سے کسی ایک مقصد میں بھی کامیاب ہو جا تا ہے تو شمالی کوریا میں چین اور روس کی اسٹرٹیجک پالیسی ناکام ہو جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی صورت میں چین اور روس بھی اپنی اسٹرٹیجی ضرور تبدیل کر یں، یوں اگرچہ آج کوریا کی جنگ کے واقعے کے اعتبار سے 70 برس اور جنگ کے خاتمے کے لحا ظ سے67 سال ہو چکے ہیں مگر کوریا جو جاپان کی نوآبادیات کے طور پر بھی ایک قوم کا ملک تھا دو حصوں میں تقسیم ہے، 1990 تک تو جرمنی کی تقسیم بھی مشرقی اور مغربی جرمنی کی بنیاد پر تھی مگر اُس وقت مشرقی جرمنی میں روس نواز کیمونسٹ حکومت تھی اور مغربی جرمنی میں امریکہ اور برطانیہ نواز آزاد معیشت کی حامل اور جمہوری حکومت تھی اور سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہی مغربی اور مشرقی جرمنی کے دوبارہ ایک ملک ہو جا نے پر ہوا تھا اور شائد اقوام متحدہ کے قیا م سے لے کر اب تک جدید تاریخ میں جرمنی ہی کوریا ہی کی طرح ایک ایسا ملک ہے جس کے دو حصے بھی اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ہوئے اور اُن دو حصوں کی آزادی اور خود مختار ی پر مہر بھی اقوام متحدہ ہی نے ثبت کی تھی مگر اقوام متحدہ ہی نے پھر مشرق اور مغربی جرمنی کو اُس کے پرانے نقشے کے مطابق ایک ملک تسلیم کیا۔

اب کوریا کی صورت بھی سامنے ہے کہ یہاں آج بھی کورین قوم دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ رہی ہے، یہا ں اکثر پاکستانی اقتصادی معاشی ماہرین کے حوالوں سے مختلف سیاسی حلقوں میں اور خصوصاً میڈیا میں جنوبی کوریا کی اقتصادی ترقی کی مثال دیتے ہو ئے کہا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا کی ترقی کا یہ ماڈل پاکستان کے ماہر ِاقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بنایا تھا جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے دور میں وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کی حکومت کا پہلا قومی بجٹ بنایا تھا جو بہترین اور خسارے سے پاک قومی بجٹ تھا لیکن وہ صرف ایک ہی بجٹ پیش کر سکے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اُس وقت بھی دنیا کی بڑی قوتوں کے مفاد میں یہ نہیں تھا کہ پاکستان اقتصادی طور پر آزاد اور خود مختار ہو جائے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورت ہے، اس لیے ڈاکٹر محبوب الحق کا اقتصادی ماڈل یہاں کام نہیں کر سکا اور جنوبی کوریا میں یہ ماڈل اُس وقت تک کام کر تا رہے گا جب تک جنوبی کوریا کی یہ اہمیت امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے لیے اہم ہے ۔          (جاری ہے)

The post کوریا کی تقسیم اور جنگ ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس ۔۔۔ بے روزگارہونے والوں کی مدد کیجیے

$
0
0

سب کچھ رک گیا ہے، فضا میں خوف ہے، اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں بند ہیں، کاروبار نہ ہونے کے برابر تو پہلے ہی تھے اب تو بالکل ہی نہیں ہے، دفتروں میں حاضری کم ہے، شادی ہال بند ہیں، سڑکیں خالی ہیں، مزدور سڑک کنارے فارغ بیٹھے ہیں مزدوری کوئی نہیں ہے، لوگ ملنا جلنا بند ہوگئے ہیں، ہاتھ ملانا بھی بیماری کا باعث ہوسکتا ہے، ماسک بازار میں نہیں ہیں، جو ہیں وہ مہنگے ہیں، احتیاط اچھی چیز ہے، سب سٹاک کرنا بہی بہتر ہے، پر خیال کیجیے ان کا جو اسٹاک نہیں کر سکتے، جن کو کئی دن سے مزدوری نہیں ملی، جو بے روزگار ہیں، ان کو تلاش کیجیے ان کی مدد کیجیے، ورنہ ہوسکتا ہے آپ کورونا سے بچ جائیں اور بے شرمی سے مر جائیں۔

نکلیے اپنے گھر سے ماسک پہنیے، اور دیکھے آپ کے آس پاس کوئی بھوکا تو نہیں ہے، کوئی ضرورت مند تو نہیں ہے، اس کی مدد کیجیے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ کا ایک احسن قدم آپ کو کرونا سے بچا کر بہت دور لے جائے گا، اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا بنائیے، تقسیم کیجیے، مستحقین میں ماسک، صابن تقسیم کیجیے ان کی مالی امداد کیجیے، تنگی کا وقت ہے اپنے دل کشادہ کیجیے اور جمع کی بجائے تقسیم کا فارمولا اپنائیے اللہ اس کو ضرب دے کر واپس عطا کریں گے۔ انشاء اللہ۔

کتنے لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں ان چھٹیوں سے اندازہ کیجیے، سیروسیاحت رک گئی، وزیٹنگ ٹیچرز کی آمدن بند ہوگئی، غریب غربت کے اور نچلے لیول کی طرف جا رہا ہے، اپنا خیال ضرور رکھیے پر اپنے اردگرد لوگوں کو بھی نظرانداز مت کیجیے، مشکل وقت اکیلے گزارنا مشکل ہے ساتھ ساتھ رابطے میں رہنے سے جلد اور بہتر گزر جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو ادھار مانگنے والے کی درخواست پر غور ضرور کریں۔ جو ممکن ہو اس کی مدد ضرور کریں۔ لوگوں کے لیے آسانی کریں، اللہ آپ کے لیے آسانیاں کریں گے انشاء اللہ۔ اگر ممکن ہو تو سفر سے گریز کریں، ضروری ہو تو احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، ہر بس، ویگن اسٹاپ پر ماسک مہیا کیے جائیں۔

کاغذ والے ماسک کو بھی گرم پانی میں بھگو کر دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں بس اس کو ڈبو کر نکال لیں اور سکھا لیں، اگر کوئی کورونا سے ہلاک ہوتا ہے تو بداحتیاطی ہے مگر اگر کوئی آپ کے آس پاس بھوک سے ہلاک ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ خیال کیجیے خیال رکھیے، زندگی مشکل نہیں ہے مشکل مت بنائیے، جمع مت کیجیے تقسیم کیجئے، یہ وقت تقسیم کرنے کا ہے کورونا وائرس نہیں مال ودولت تقسیم کرنا ہے، سادگی اپنائیے، توبہ کیجیے صدقہ دیجیے حسب توفیق۔ یہ وقت بہی گزر جائے گا۔ حکومت تو ایک تقریر کے بعد بری الذمہ ہوگئی ہے۔ اٹھیے اپنی مدد آپ کیجیے خیال کیجیے، آج کوئی بھوکا نہ سوئے، آپ کو پتا ہے آپ کے آس پاس کون ضرورت مند ہے؟ اگر نہیں تو پتا کیجیے۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ اس کی ضرورت پوری کیجیے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے آپ پر فرض ہے، اس کا دین، مذہب، فرقہ مت دیکھیے بس مدد کیجیے خیال رکھیے اللہ آپ کا خیال رکھیں گے۔

اگر صرف شادی ہال کی بندش کو لے لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوگئے، ویٹر، کھانا بنانے والے، کھانے کا سامان بیچنے والے، اسٹیج بنانے والے، فلم اور فوٹو بنانے والے، شادی ہال والے، گاڑیوں والے سجاوٹ والے، ڈھول اور دھمال والے، سیکیوریٹی والے، ڈرائیورز، ان سب کا خیال کیجیے اس انڈسٹری سے وابستہ بہت سے لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں جن کو روزانہ کی بنیاد پر ادائیگی ہوتی ہے۔

یہ تو ایک مثال ہے، پچاس لاکھ بچے مدرسوں سے گھروں کو واپس آئے ہیں جن کے کپڑے کھانا پینا مدرسے کی ذمہ داری تھا ان کا خیال رکھیے، مزاروں پر لنگر بہی بہت سارے لوگوں کے روزگار اور خوراک کا ذریعہ تھے وہ بھی بند کردیے گئے، غربا اور مستحقین ہمارے ہی بہن بھائی اور بچے ہیں ان کی کھلے دل سے مدد کیجیے، باقی دیکھنا، سوچنا، خیال رکھنا آپ کا کام ہے آئیے اس مشکل وقت کو آسان بنائیے۔

اللہ ہمارا مددگار ہو آمین

۔۔۔

آئیے عزم کریں
محمد عثمان جامعی
مجبور ہوئے
سو دور ہیں ہم
پر یارو! ساتھ نہ چھوڑیں گے
ہے ہاتھ ملانا ناممکن
پر طے ہے ہاتھ نہ چھوڑیں گے

ہم گھر میں تمھارے اک دن بھی
چولہے کو نہیں بجھنے دیں گے
ہم بھوک نہیں آنے دیں گے
افلاس نہیں ٹکنے دیں گے

ہو خالی پیٹ
بھری آنکھیں

ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے
ماؤں کو تڑپنے نہ دیں گے
بچوں کو رونے نہ دیں گے
ہم سر نہ کوئی جھکنے دیں گے
آنچل نہ کوئی بِکنے دیں گے

سب اپنے ہیں
غم سانجھے ہیں
بے فکر رہو
ہم آتے ہیں

اس وبا سے لڑنے نکلیں گے
ہر سو پھیلے سناٹوں میں
پھر شور جگانے نکلیں گے
یہ جان ہتھیلی پہ رکھ کر
ہر جان بچانے نکلیں گے
جس در پہ فاقہ پہنچا وہاں
راشن پہنچانے نکلیں گے
مشکل میں جو آئے اس کا
ہم ساتھ نبھانے نکلیں گے
ہیں ہر اک مصیبت میں یک جا
یہ سب کو بتانے نکلیں گے

The post کورونا وائرس ۔۔۔ بے روزگارہونے والوں کی مدد کیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>