Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

کورونا وائرس سے بچاؤ

$
0
0

غذا ہمارے جسم کی صحت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے غذا کے بنیادی کاموں میں سب سے اہم کام جسم کو توانائی فراہم کرنا ہے جو اندرونی اعضاء کی کارکردگی اور روزمرّہ کے کاموں کے لیے درکار ہوتی ہے اس کے علاوہ غذا جسم کی نشوونما اور روزانہ کی بنیاد پر جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے غذا کی مدد سے جسم ایسا مدافعتی نظام قائم کرتا ہے جو اس کو ہر قسم کے بیرونی دشمنوں کے حملے سے محفوظ رکھتا ہے۔

وبائی اور متعدی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔ متوازن غذا سے مراد ایسی غذا ہے جس میں تمام ضروری غذائی اجزاء مثلاً نشاستہ، لحمیات، حیاتین، معدنیات اور چکنائی متوازن مقدار میں موجود ہوں۔ ہماری غذا کا سب سے زیادہ حصّہ نشاستہ (کاربوہاڈریٹ) پر مشتمل ہونا چاہیے مثلاً اناج اور اناج سے بنی اشیاء، پھل اور سبزیاں، نشاستہ کی مقدار غذا میں اتنی شامل کی جائے کہ وہ ہمارے جسم کی روزانہ کی توانائی کی ضرورت کا پچاس سے اٹھاون فیصد مہّیا کرے، لحمیات یعنی پروٹین مثلاً گوشت، مرغی مچھلی، دودھ، پنیر اور انڈوں سے اکیس سے اکیاون فیصد توانائی حاصل ہونی چاہیے اور تیس فیصد توانائی چکنائی سے حاصل ہونی چاہیے جس میں گھی، تیل، مکھن، ملائی، مارجرین اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ متوازن غذا ہر قسم کے ضروری غذائی اجزاء مہیّا کرتی ہے جس سے جسم کے تمام افعال مناسب طریقے سے انجام پاتے ہیں۔ یوں جسم میں ہر قسم کے وبائی امراض سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

نشاستہ (کاربوہائی ڈریٹ)

جسم کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ نشاستہ ہے۔ یہ توانائی جسم کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے۔ ساتھ ہی مدافعتی نظام کے افعال کے لیے توانائی مہیّا کرتا نشاستہ دو طر ح کا ہوتا ہے ایک وہ جو مکمل طور پر اپنے بنیادی اجزاء یعنی گلوکوز میں تبدیل ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے، جب کہ دوسری قسم کا نشاستہ جسم میں غیرہاضم ہوتا ہے۔ نشاستہ یعنی کاربوہائی ڈریٹ کی وہ اقسام جو جسم میں جذب نہیں ہوتیں ریشہ (فائبر) مہیّا کرتی ہیں۔ یہ ریشہ نظامِ ہاضمہ کی روزانہ صفائی کرتا ہے اور اسے تندرست رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق حل پذیر ریشہ جراثیم سے ہونے والے انفیکشن سے جلد بہتری کا باعث بنتا ہے اور جسم میں انفیکشن سے لڑنے والے ٹی۔سیل کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دالیں، مکمل اناج (بھوسی سمیت) ، رسیلے پھل، بیری اور السی کے بیج حل پذیر ریشے کے حصول کے بہترین ذرایع ہیں۔

لحمیات (پروٹین)

ہمارا جسم کھربوں خلیوں سے بنا ہے اور ہر خلیہ لحمیات (پروٹین) سے بنا ہے۔ ان خلیوں کی صحت اور مدافعتی صلاحیت پروٹین ہی کی بدولت مضبوط رہتی ہے۔ یہ ہی نہیں جسم میں موجود تمام انزائم، ہارمونز ، اینٹی باڈیز، اور خون کے دفاعی خلیات سب پروٹین سے بنے ہیں جسم کے مدافعتی نظام کو حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے ذریعے مضبوط بنایا جاتا ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر جسم میں ناکافی پروٹین ہو تو کسی بھی ویکسین کے نتیجے میں جسم میں اینٹی باڈیز نہیں بنتی اور حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے استعمال کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یعنی حفاظتی ٹیکے لگانے کے باوجود بیماری ہونے کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ اس کی مثال ہمارے ملک میں سندھ کے ضلع تھر کے نحیف اور لاغر بچوں کی ہے جن کو حکومت کی جانب سے مفت حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں مگر پھر بھی تھر میں خسرہ وبا کی صورت اختیار کرجاتی ہے اور بڑی تعداد میں بچوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض ادویات جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط نہیں کر سکتیں اگر جسم میں مناسب مقدار میں غذائیت موجود نہ ہو تو ویکسین کے استعمال کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

متوازن غذا میں اعلیٰ معیار کی پروٹین نہایت اہمیت کی حامل ہے اعلیٰ معیار کی پروٹین وہ کہلاتی ہے جو جسم کو زیادہ مقدار میں ضروری امینو تراشے مہیّا کرے یعنی زیادہ تعمیری مواد مہیّا کرے، انڈے، گوشت (گائے، بکرا، دنبہ وغیرہ)، مرغی، مچھلی، دودھ، پنیر، دودھ سے بنی غذائیں اور دالیں، پھلیاں اعلیٰ معیار کی پروٹین مہیّا کرتی ہیں۔

پروٹین کے بعد دیگر غذائی اجزا کا بھی ذکر ہو جائے ہمارا سب سے بڑا دفاعی عضّو ہماری جلد ہے جلد مضبوط اور محفوظ ہو تو بیرونی عناصر جسم پر حملہ نہیں کرپاتے۔ جلد کی صحت اور مضبوطی پروٹین کے ساتھ ساتھ دیگر غذائی اجزاء پر بھی منحصر ہے جن میں حیاتین (وٹامن) مثلاً وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای اور وٹامن بی کمپلیکس سرِفہرست ہیں۔

حیاتین (وٹامن)
وٹامن اے

وٹامن اے جلد کی صحت وتندرستی کا ضامن ہے اور مدافعتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے گاجر، پالک، رسیلے پھل، پنیر، انڈے، مچھلی مرغی ، دودھ اور کلیجی وٹامن اے کے حصول کے بہترین ذرائع ہیں۔

وٹامن سی

وٹامن سی جلد کے خلیات کو جوڑنے ولا مادہ جو سیمنٹ کی طرح کا کام کرتا ہے اور یوں جلد کو مضبوط مدافعتی ڈھال بناتا ہے جسم کی اندرونی جھلیاں مثلاً ناک حلق اور پھیپھڑوں کی اندرونی جھلیاں بھی اس کی مدد سے مضبوط و مستحکم رہتی ہیں رسیلے پھل مثلاً موسمی، مالٹے ، کینو، میٹھا ، سنترہ، چکوترہ، لیموں ان کے علاوہ اسٹرابیری ، ہری مرچ ، مٹر، مولی وٹامن سی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

وٹامن ای

وٹامن ای جسم کے خلیات کو زہریلے اجزاء (Free redicals) کے حملے محفوظ رکھتا ہے جبکہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے جسم میں داخل ہونے والے بیکٹیریا اور وائرس سے مقابلے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے صحت مند مدافعتی نظام کے لیے بے حد مفید ہے گوشت، مکئی، کدّو کے بیج ، خشک میوہ جات اور دودھ اور اس سے تیار غذائیں اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

وٹامن ڈی

جہاں وٹامن ڈی کے اور بہت سے افعال ہیں وہاں زکام کے خلاف مدافعت صلاحیت پیدا کرنا ہے تنفّس کے نظام میں ہونے والے انفیکشن اور فلو کے امکانات کو کم کرتا ہے اس کی کمی مدافعتی نظام کو کم زور کرتی ہے جس سے بیماریوں کے حملے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں وٹامن ڈی سورج کی بالائے بنفشی شعاؤں کی مدد سے جسم خود بھی تیار کرسکتا ہے مگر جدید شہری طرز رہائش مطلوبہ مقدار میں سورج کی روشنی جسم تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہی و جہ ہے کہ گرم ملک میں رہنے کے باوجود ہماری شہری آبادی کی ایک بڑی تعداد میں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ غذا سے بھی وٹامن ڈی حاصل کیا جاسکتا ہے مگر اس کی مقدار خاطرخواہ نہیں ہوتی مکھن، انڈے کی زردی، مچھلی دیگر سمندری خوراک اور آلو کچھ مقدار میں وٹامن ڈی مہیّا کرتے ہیں۔ وٹامن کے علاوہ  معدنیات کے گروہ میں سے زنک، کاپر اور آئیوڈین نہایت اہم ہیں۔

زنک

جدید تحقیق کے مطابق زنک کو نزلہ زکام کے علاج کے لیے بہت مفید و معاون پایا گیا زنک کی چوسنے والی گولیاں (lozenges) کے استعمال سے نزلہ زکام کے زور میں کمی پائی گئی یہ نہ صرف انفیکشن سے مقابلے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ زخموں کو بھی جلد مندمل کرتا ہے گوشت، دالیں، خشک میوہ جات، مکمل اناج، دودھ اور انڈے زنک کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں۔

پانی

ایک اور اہم عنصر پانی ہے گو کہ پانی کو غذائیت میں شامل نہیں کیا جاتا مگر تمام غذائی اجزاء کے انہضام اور انجذاب میں پانی بنیادی حیثیت رکھتا ہے جلد کو صحت مند رکھنے میں پانی کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ ہی نہیں پانی جسم سے فاضل اور زہریلے مادے خارج کرنے کا اہم کام کرتا ہے، اگر یہ فاضل اور زہریلے مادّے جسم سے مناسب طریقے سے خارج نہ ہوں تو جسم کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوتا ہے پانی دودھ، جوس، کھیرا، خربوزہ اور رسیلے پھلوں کے استعمال سے بھی حاصل ہوتا ہے۔

تناؤ (اسٹریس)

ایک اور بڑا محّرک جو ہمارے مدافعتی نظام کو کم زور کرتا ہے وہ ہے تناؤ یعنی اسٹریس ہے۔ اسٹریس جلد کی صحت کو متاثر کرتا ہے جس سے اس کی حفاظت کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور دیگر مدافعتی نظام میں معاون اعضاء کو بھی کم زور کر بناتا ہے اسٹریس بیماریوں کو نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ اگر کوئی مرض پہلے سے موجود ہو تو تناؤ اس کو مزید پیچیدہ بناتا ہے تناؤ کم کرنے کی ادویات لی جا سکتیں ہیں مگر بے ضرر قدرتی طریقوں سے تناؤ کم کرنا زیادہ دیرپا اور مؤثر ہے مثلاً ہلکی پھلکی ورزش، باغبانی، تعمیری اور فلاحی کام وغیرہ صحت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ پرسکون نیند بھی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے یہ نہ صرف تناؤ کو کم کرتی ہے بلکہ جسم کی روزانہ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے لیے وقت فراہم کرتی ہے۔

عمر اور مدافعت

عمر کے ساتھ ساتھ جسم کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا جاتا ہے چوںکہ بڑھاپے میں ذیابطیس، بلڈ پریشر، جوڑوں اور ہڈیوں کے امرض اور دیگر اعصابی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کم زور اور عمررسیدہ افراد زیادہ وبائی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری زیادہ توجہ اور زیادہ دیکھ بھال کے مستحق ہیں جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مدافعتی نظام کا بھی معاملہ ہے جس طرح بوڑھوں کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے ایسے ہی بچوں کا بھی مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے بچوں کی غذا کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں میں انفیکشن ان کی نشوونما کو روک دیتا ہے اور غذائی کمی میں مبتلا کر دیتا ہے اور غذائی کمی امدفعتی نظام کو کم زور کر دیتی ہے ہر انفیکشن مدافعتی نظام کو مزید کمزور کرتا ہے اور کمزور مدافعتی نظام ایک نئے انفیکشن کو دعوت دیتا ہے یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والے عناصر

غذا کے ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو کم زور کرتے ہیں اور Inflamation سوجن اور جلنے کی سی تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً غذا میں لگنے والی پھپوندی سے پیدا ہونے والے Mycotoxins زہریلے مادّے ہیں ڈبل روٹی، پھلوں، سبزیوں اور فریج میں رکھے کھانوں میں اکثر پھپوندی لگ جاتی ہے۔ اگر کسی غذا پر پھپوندی لگی ہو تو ہم صرف متاثرہ حصّہ الگ کرکے وہ غذا استعمال کرلیتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بظاہر تھوڑی سی پھپوند ی کا زہر غذا کے بڑے حصّہ میں دور تک پھیل جاتا اس لیے اگر ممکن ہو تو وہ غذا استعمال ہی نہ کریں اور اگر اس کا استعمال بے حد ضروری ہو تو پھر پھپوندی کے اردگرد کا بہت بڑا سا حصّہ ضائع کردیں۔ اس کے علاوہ ہوا اور ماحول میں موجود آلودگی، جو انسانی جسم میں سانس کے ذریعے تو جا ہی رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کھلے بکنے والے گوشت، دودھ، پھل اور سبزیوں کے ذریعے بھی ہمارے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔

بھاری دھاتیں (Heavey matals) مثلاً پارہ (Mercury) لیڈ (lead) اور کیڈیم (Cadmium) ہمارے ماحول خاص کر شہری علاقوں کو آلودہ کررہی ہیں اور غذا کے ساتھ جسم میں داخل ہوکر ہماری صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ اس ہی طرح غذاؤں کا ذائقہ، رنگ، خوشبو اور محفوظ کرنے کی مدّت بڑھانے کے لیے ڈالے جانے والے کیمیکلز بھی قابلِ توجہ ہیں۔ ان کیمیکلز میں سے بہت سے ایسے ہیں جو انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً مونوسوڈیم گلوٹامیٹ، مصنوعی فوڈ کلر، سوڈیم نائٹریٹ (گوشت کو محفوظ کرنے والا کیمیکل) وغیرہ۔ تمباکونوشی ایسا عمل ہے جو بالواسط اور بلاواسطہ جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کرتی ہے اور جسم کو تحفظ دینے والے وٹامن کو ناکارہ بناتی ہے۔ مثلاً وٹامن سی تمباکو نوشی سے ضایع ہوجاتا ہے یوں مدافعتی نظام مزید کم زور ہو جاتا ہے۔

انفیکشن کی صورت میں غذا کا استعمال

اب آجائیں ان غذاؤں کی جانب جن کا استعمال انفیکشن ہونے کی صورت میں بڑھا دینا چاہیے شہد خوردبینی اجسام کے خلاف ایک قدرتی دوا ہے۔ لہسن بھی بہترین اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کا حامل ہے۔ ہلدی ہمارے بزرگوں کا آزمودہ اور جدید سائنس سے ثابت شدہ نسخہ ہے ان کے علاوہ لیموں، انناس، ادرک اور کھوپرے کا تیل بھی فائدہ مند غذائیں ہیں۔ انفیکشن کی صورت میں اگر معالج اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں تو اس سے یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ بیماری پھیلانے والے جراثیم مر جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہمارے دوست جراثیم بھی مرجاتے ہیں دوست جراثیم ہمارے جسم اور خاص کر آنتوں کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اس لیے جب اینٹی بائیوٹیک ادویات استعمال کریں تو اس کے بعد زیادہ ریشے والی غذائیں مثلاً بھوسی کے ساتھ آٹا، پھلیاں، پھل، سبزیاں اور دہی کا استعمال ضرور کریں کیوںکہ یہ تمام غذائیں ہمارے دوست جراثیم کو دوبارہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

غرض یہ کہ کسی بھی وبائی یا متعدی مرض سے بچنے کے لیے اپنا گھر محفوظ کرنا ہوگا۔ یعنی اپنے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط بنانا ضروری ہے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال ، وقت پر کھانا کھانا، پراسیس غذاؤں سے اجتناب (یعنی وہ تمام کھانے جن میں محفوظ کرنے یا رنگ اور ذائقہ بڑھانے کے لیے کیمیائی اجزا ڈالے گئے ہوں) غذا کی خریداری اور تیاری میں صفائی کا خاص اہتمام، ہلکی پھلکی ورزش یا دن میں کم از کم تیس منٹ کی چہل قدمی، آٹھ سے دس گلاس پانی کا استعمال، چھے سے آٹھ گھنٹے کی پُرسکون نیند، تعمیری، فلاحی، مثبت کام اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خاص خیال ہمیں کسی بھی قسم کے وبائی اور متعدی مرض سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چوںکہ یہ اسباب کی دنیا ہے اس لیے ان تمام حفاظتی اقدامات کے بعد اللہ سے عافیت کی دعا ہمیں ایمان و یقین کی وہ روحانی طاقت عطا کرتی ہے جو ہمیں ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔

The post کورونا وائرس سے بچاؤ appeared first on ایکسپریس اردو.


جھنڈے میں پوشیدہ سندیسے

$
0
0

ماہ مارچ کے آخری ہفتے وطن عزیز کے مختلف شہروں مثلاً کراچی،حیدرآباد سکھر، بدین، راجن پور، کمالیہ، گھوٹکی، نصیرآباد ،ملتان،فیصل آباد میں شہری شام کو چھتوں پہ چڑھ کر سفید جھنڈے فخروشان سے فضا میں لہراتے رہے۔

یہ دراصل کوویڈ 19وبا سے نبردآزما ڈاکٹروں ،نرسوں اور پیرامیڈیکل عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کا منفرد انداز تھا۔ہمارے یہ دلیر پاکستانی اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کے اپنے بیمار اور تکلیف میں مبتلا ہم وطنوں کی جانیں بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔لہٰذا یہ ہمارے ہیرو ہیں۔انھیں خراج عقیدت پیش کرنے سے پاکستان بھر میں موذی وبا سے برسرپیکار ڈاکٹر،نرسیں اور دیگر عملے کا حوصلہ بلند ہوا اور وہ زیادہ جوش وجذبے سے اپنے فرائض انجام دینے لگے۔

سفید جھنڈا تاریخ اسلام میں اہمیت رکھتا ہے۔روایت ہے کہ کفار مکہ سے پہلی جنگ، غزوہ بدر میں سفید جھنڈا ہی اسلامی فوج کا بنیادی علم تھا۔نبی کریم ﷺ نے یہ علم حضرت معصبؓ بن عمیر کو عطا فرمایا تھا۔عالمی سطح پہ سفید جھنڈا امن وتعاون کی علامت سمجھا جاتا ہے۔مورخین کی رو سے جھنڈے بنانے کے رواج نے قدیم مصر یا اشوریہ میں جنم لیا۔بعد ازاں چین اور ہندوستان میں باقاعدہ طور پہ جھنڈے لہرانے کا چلن شروع ہوا۔ دور جدید میں ہر ملک ہی نہیں کئی ریاستیں یا صوبے اور ادارے بھی اپنے مخصوص علم رکھتے ہیں۔ایک ملک کا جھنڈا تشکیل دیتے ہوئے خصوصاً بعض نکات مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ان کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

جھنڈے کی اصطلاحیں

٭فیلڈ(Field):پس منظر یا بیک گراونڈ کے رنگ کو فیلڈ کہتے ہیں۔

٭کینٹن(Canton):سٹاف (جھنڈا لہرانے والے ڈنڈے یا پول) کا بالائی حصہ کینٹن کہلاتا ہے۔ یہ ملک کی عمومی کیفیت اور صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔

٭فلائی(Fly):یہ جھنڈے کا وہ حصہ ہے جو فضا میں لہراتا ہے۔ اس کا مطلب بنیادی مقصد کا حصول ہے۔

٭چارج (Charge):جھنڈے پر موجود ڈیزائن کو چارج کہا جاتا ہے۔ یہ ملک کا نصب العین ظاہر کرتا ہے۔

جھنڈوں میں چھپے پیغامات

ایک ملک کا جھنڈا قومی ثقافت اور تاریخ ظاہر کرتا ہے۔وہ محض کپڑے کا ٹکرا نہیں ہوتا بلکہ علم سے دنیا والوں کو پیغام بھی دئیے جاتے ہیں۔ اکثر افراد مختلف ممالک کے جھنڈوں کی پہچان تو رکھتے ہیں لیکن ان میں پوشیدہ رازوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔مشہور جھنڈوں کے پیغامات آپ بھی جانیے۔

سعودی عرب: برادر ملک سعودی عرب کا کلمہ توحید والا جھنڈا ہر مسلمان کے لیے باعث عزت و تکریم ہے۔وہ کبھی اور کسی بھی حالت میں سرنگو ں نہیں ہوتا کیونکہ جھنڈا عظیم و شان کلمے پر مشتمل ہے۔ سعودی جھنڈے رنگ سبز ہے۔یہ اسلام میں پسندیدہ رنگ ہے۔ تلوار سعودی فوجی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ سعودی عرب کا جھنڈا اس کی اسلام سے محبت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔

انگلینڈ:کہتے ہیں کہ برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔اس تاریخی مملکت کا جھنڈا تین رنگوں پر مشتمل ہے۔دراصل تین ریاستوں کے جھنڈے ملانے سے اس کی موجودہ شکل سامنے آئی ۔ بیچ میں” کراس “سینٹ جارج کو ظاہر کرتا ہے جو انگلینڈ کی سلطنت کا مالک تھا۔سفید پٹیاں سکاٹ لینڈ کے سینٹ اینڈریو اور سرخ پٹیاں آئرلینڈ کے سینٹ پیٹرک کو ظاہر کرتی ہیں۔ انگلینڈ کے جھنڈے کو یونین جیک کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ تین ریاستوں کا مجموعہ ہے۔

امریکا:امریکی جھنڈا سرخ اور سفید پٹیوں پر مشتمل ہے۔ ان پٹیوں کی مجموعی تعداد تیرہ ہے۔ اس کے بائیں جانب بالائی کونے کے نیلا حصے میں تارے نظر آتے ہیں۔ ان تاروں کی مجموعی تعداد پچاس ہے۔ تاروں کی یہ تعداد امریکا کی پچاس ریاستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ تیرہ سرخ اور سفید پٹیاں امریکا کی ان کالونیوں کی علامت ہیں جن کو آزاد کرالیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش:ہمارے اس سابقہ ساتھی کا جھنڈا سبز رنگ رکھتا ہے۔درمیان میں سرخ گول دائرہ ہے۔ سبز رنگ ترقی اور خو شحالی کی علامت ہے۔ گول سرخ دائرہ سورج کو ظاہر کرتا ہے یعنی بنگالی عوام ہمیشہ روشنی میں رہیں۔ یہ سرخ سورج ان لوگوں کی قربانی کو بھی ظاہر کرتا ہے جنہوں نے آزادی کے لیے خون بہایا۔

ایران:ہمارے پڑوسی کا جھنڈا تین رنگوں سبز ، سفید اور سرخ پر مشتمل ہے۔ سبز رنگ اسلامی رنگ ہے جسے ترقی سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔سفید کو امن سے تشبیہ دی جاتی ہے اور سرخ حوصلہ اور شہادت کی علامت ہے۔ بیچ میں نشان اسلام کی پانچ ستون کو ظاہر کرتا ہے جس پر ہمارے دین کی عمارت کھڑی ہے یعنی کلمہ، نماز، روزہ، زکوۃ، اورحج۔ درمیان والی سفید پٹی کے اوپر اور نچلے حصے پر اللہ اکبر لکھا گیا ہے۔ ایرانی جھنڈے میں اللہ اکبر بائیس مرتبہ لکھا ہے۔ سفید پٹی کے بالائی حصے پر بائیس مرتبہ اور نچلے حصے پر بھی گیارہ مرتبہ یہ مقدس کلمہ درج ہے۔

بھارت:پڑوسی ملک بھارت کا جھنڈا تین رنگوں پر مشتمل ہے… نارنجی، سفید اور سبز۔ بیچ میں ایک گول پہیہ سا بنا ہے جسے اشوک چکرا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اشوک چکرے میں چوبیس ڈنڈے لگے ہیں۔ نارنجی رنگ جرات اور مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ سفید رنگ اور اشوک چکرا امن اور سچائی کی علامت ہے جبکہ سبز رنگ ترقی اور خوشحالی دکھاتا ہے۔

سری لنکا:اس جزیرے کا جھنڈا شیر والا جھنڈا بھی کہلاتا ہے۔ جھنڈے میں زرد رنگ مذہب کو ظا ہر کرتا ہے جو بدھ مذہب ہے۔ نارنجی رنگ ہندوؤں جبکہ سبز رنگ مسلمانوں کی آبادی کو ظاہر کرتا ہے۔ میرون رنگ سنہالی قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ پنجے میں تلوار لیے شیر قوم کی بہادری کی علامت ہے۔ جھنڈے میں چار چھوٹے پتے محبت، خو شی، رحم، سکون کی علامات ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو شیر کی دم پر آٹھ بال نظر آتے ہیں۔ یہ بدھ مت کی آٹھ خصوصیات کو عیاں کرتے ہیں جن میں تلوار ،پانی، آگ, ہوا اور زمین شامل ہیں۔انہی خصوصیات کی بدولت زمین وجود میں آئی۔شیر کی اونچی ناک ذہانت کو ظاہر کرتی ہے۔ شیر کی داڑھی کی بھی اپنی پہچان ہے جو الفاظ کی فصاحت ظاہر کرتی ہے۔

کینیڈا:اس عظیم دیس کا جھنڈا میپل لیف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سرخ رنگ جنگ عظیم دوم کے دوران قربانیاں دینے والوں کو ظاہر کرتا ہے۔ سفید رنگ امن سے مشابہ ہے۔ بیچ میں پتہ ہے جس کی گیارہ نوک ہیں۔ میپل پتہ کینڈا کی ثقافتی علامت ہے ۔ یہ کینیڈا کی فوجیوں کے بیجز پر بھی لگا ہوتا ہے۔

نیپال:دنیا میں نیپال واحد ملک ہے جس کا جھنڈا حیران کن طور پر چار کونوں کے بجائے تین کونوں پر مشتمل ہے۔ نیپال کے جھنڈے میں بڑا رنگ سرخ ہے اور دو مثلث ملا کے اس کی شکل بنی ہے۔ اس کے بالائی حصے میں چاند اور نچلے حصے میں سورج دکھائی دیتے ہیں۔ اردگرد نیلی پٹی بنائی گئی ہے۔ نیلی پٹی امن کو ظاہر کرتی ہے۔ سرخ رنگ نیپال کے قومی پھول’’روڈو ڈینڈرون‘‘(Rhododendron) کو ظاہر کرتی ہے۔ ہلال اور سورج نیپال کے دو بڑے خا ندان رائل فیملی اور رانا خاندان کو ظاہر کرتے ہیں۔

پاکستان:ہمارے پیارے دیس کا جھنڈا دنیا کے خوبصورت ترین جھنڈوں میں شمار ہوتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم ہر پاکستانی کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ پاکستانی جھنڈا جسے ’’قومی پرچم‘‘ اور ’’سبز ہلالی پرچم‘‘ بھی کہا جاتا ہے،زیادہ تر سبز رنگ پر مشتمل ہے جو ترقی، خوشحالی اور مسلمانوں کی اکثریت ظاہر کرتا ہے۔ سفید رنگ امن اور اقلیتوں کی علامت ہے۔ چاند ترقی کی علامت ہے۔ جس طرح ہلال بڑھتے بڑھتے چودھویں کا چاند بن جاتا ہے، اسی طرح پاکستان ترقی کرتے کرتے دنیا پر چھا جائے گا۔

خدا کرے ہمارا سبز ہلالی پرچم اونچا اور اونچا رہے۔ ہمارا جھنڈا دنیا کو دکھاتا ہے کہ مسلمان ایک پُر امن قوم ہیں۔ہمارا دین ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ مساوات کا درس دیتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم دیکھ کر ہر پاکستانی کے دل میں اسکی سر بلندی کے لیے کچھ کر دکھانے کی امنگ جنم لیتی ہے :

چاند روشن چمکتا ستارہ رہے

سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے

سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے

آزادکشمیر کا جھنڈا :کرہ ارض پہ ارضی جنت،کشمیر کا جھنڈا عبدالحق مرزا کا تخلیق کردہ ہے۔آپ ایک ریٹائرڈ لیفٹینٹ کرنل تھے۔یہ جھنڈا 24 ستمبر 1975ء کو ایک قانون کے ذریعے آزاد جموں وکشمیر ریاست کا قومی علم قرار پایا۔ اس جھنڈے میں چارج چاند ستارہ ہے جو اسلام کی بین الاقوامی علامت ہے۔فلائی میں سبز رنگ پر چاند ستارہ پاکستان کے ساتھ الحاق اور اسلام کے ساتھ وابستگی کی علامت ہے۔ اور یہ حتمی منزل مقصود کی علامت ہے۔چار سفید پٹیاں ریاست کے چار بڑے دریاوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ دریا سندھ، جہلم، نیلم اور چناب ہیں۔اس جھنڈے میں پوشیدہ پیغام دنیا والوں کو بتاتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر اسلامی ریاست ہو گی۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گی اور ریاست کی ہندو بنیاد کو اسلامی شعائر میں بدل دیا جائے گا۔گویا اس کا مطلب ہے کی ریاست جموں و کشمیر کے سبھی مسلمان پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دنیاکے خوبصورت ترین علم

جھنڈا ہر ملک کی شناخت اور فخر کی علامت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالمی تقریب میں دو یا دو سے زائد ممالک کے شہری مدمقابل ہوں تو اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈوں کو سربلند کرنے میں جت جاتے ہیں۔کسی بھی جذباتی موقع پر لوگ اپنے قومی پرچم کو آنکھوں سے چومتے اور دل سے لگاتے ہیں۔ ہر شہری کو اپنے وطن کے جھنڈے سے پیار ہوتا ہے۔اسی لیے ان کی نظر میں وہ جھنڈا دنیا کا سب سے خوبصورت ترین جھنڈا ہوتا ہے۔کچھ عرصہ قبل امریکا کی نیوز ایجنسی ،نیوز میکس نے یہ سروے کرایا کہ امریکی شہری دنیا کے کن جھنڈوں کو خوبصورت اور جاذب نظر سمجھتے ہیں۔سروے کے ذریعے دس ممالک کے جھنڈوں کا انتخاب ہوا۔اس فہرست میں قومی پرچم نے ساتویں نمبر پر جگہ پائی جو ہمارے لیے خوشی وانبساط کا مقام ہے۔ذیل میں ممالک کے جھنڈوں کو نمبروں کے حساب سے ترتیب دیا گیا ہے۔ سب سے خوبصورت جھنڈا پہلے نمبر پر ہے۔

پہلے نمبر پر سب سے خوبصورت جھنڈا برطانیہ کا قرار پایا۔دوسری پوزیشن امریکی جھنڈے کو ملی۔تیسری کینیڈا،چوتھیآسٹریلیا،پانچویں اسپین،چھٹی برازیل، ساتویں پاکستان ،آٹھویں پرتگال اور نویں میکسیکو کے جھنڈے نے پائی۔بھارتی ترنگا آخری نمبر پر آیا۔

The post جھنڈے میں پوشیدہ سندیسے appeared first on ایکسپریس اردو.

مُجسّمِ مکر و فریب، بندۂ حرص و ہَوا

$
0
0

ترقی، ترقی اور ترقی کے راگ آہ و زاری میں بدل گئے! سب کچھ ہوگیا ہَوا اور رہ گئی بس آہ! یہ جو موت کا خوف ہے، جی موت سے بدتر اذیّت ہے یہ!

ہاں حالات تو خراب ہیں، بہت زیادہ خراب۔۔۔۔! لیکن کیوں ہیں؟ آپ صاحبِ بصیرت، زیرک، دانا اور دانش مند ہیں جانتے ہوں گے، میں نہیں جانتا۔ سوچتا ضرور ہوں، سوچتا چلا جاتا ہوں اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں اصل نہیں جعلی ہوں۔ ایک کشتی کے بہ جائے بہت سی کشتیوں میں سوار ہوں۔ ایک کامل صحیح راستہ، جو مجھے بہ حفاظت اپنی اصل منزل تک پہنچانے کا ضامن ہے، چھوڑ کر بہت سارے اجنبی راستوں پر گام زن ہوں۔ ادھورا، نامکمل اور تھڑدلا ہوں میں۔ میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا ہوں اور سہاروں کی تلاش میں ہوں۔ میں اتنا تو جانتا ہی ہوں کہ بے ساکھیوں سے میں چل تو لوں گا، دوڑ نہیں سکوں گا، پھر بھی بے ساکھیوں کا سہارا۔۔۔۔!

میں گِلے، شکوے اور شکایت کرنے والا بن گیا ہوں۔۔۔۔! مجھے یہ نہیں ملا، میں وہ نہیں پاسکا، میں اپنے حقوق سے محروم کردیا گیا، ہائے اس سماج نے تو مجھے کچھ نہیں دیا، دینا تو دُور کی بات یہ تو میری کام یابی میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوگیا، ہائے! میرے راستے کی دیوار بن گیا ہے۔

میں خود ترسی کا شکار ہوں، میں چاہتا ہوں ہر ایک صرف مجھ پر ترس کھائے، میری داد رسی کرے۔ میں بہت بے چارہ ہوں۔ میرا کوئی نہیں۔ میں تنہا ہوں، مجھے ڈس رہی ہے میری اُداسی۔۔۔۔ ہائے مرگیا، ہائے میں کیا کروں! میں مجسّمِ ہائے ہوں۔ میں کیا ہوں، کون ہوں، کیوں یہاں آیا ہوں، کس کام سے مجھے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں اور یہ میں جاننا بھی نہیں چاہتا۔ کہنے دیجیے! ’’کورونا‘‘ جیسے موذی مرض سے زیادہ بڑی افتاد کا شکار ہوں میں۔ بس کوئی مجھے سہارا دے، کوئی میرا ہاتھ تھامے، کوئی میری بپتا سنے۔۔۔۔ کولہو کے بیل کی طرح بس میری اور میں کا چکر۔ میں اس گرداب میں پھنس گیا ہوں اور نکلنے کی کوشش کے بہ جائے اس میں غوطے کھا رہا ہوں اور اب تو میں اس کا نشئی بن گیا ہوں۔ میں حقائق سے آنکھیں چُرا کر خواب میں گُم ہوں۔ ہر شے بس میری دست رس میں ہو، کسی اور کی نہیں صرف میری دست رس میں، جب کہ اتنا تو میں جانتا ہوں کہ میں کُن کہہ کر فیٰکُون نہیں دیکھ سکتا، پھر بھی۔۔۔۔!

میں اس پر تو کبھی غور ہی نہیں کرتا کہ میں نے کیا دیا لوگوں کو! اس سماج کو میں نے کیا دیا! میں دینا جانتا بھی ہوں یا بس مجھے صرف لینا ہی آتا ہے؟ کبھی نہیں سوچا میں نے۔ مجھے خود سے فرصت ملے تو سوچوں بھی ناں۔ میں نے کسی سے محبّت کا دعویٰ کیا، جینے مرنے کی قسمیں کھائیں، اور پھر اسے دھوکا دیا، اس کے اعتماد سے کھیل گیا۔ ایسا ہی کیا ناں میں نے! میں اسے کوئی جرم ہی نہیں سمجھتا۔ کسی نے مجھ سے ہم دردی کی، میرا ساتھ دیا، مجھے اپنے کام میں شریک کیا اور میں نے کیا کِیا؟ جب میرا ہاتھ کچھ کشادہ ہوا تو اسے چھوڑ کر دوسرے کے پاس جا بیٹھا۔ ایسا ہی کیا ہے ناں میں نے؟ میں نے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالے، انہیں سہانے خواب دکھائے، مفلوک الحال لوگوں کو پلاٹس کی جعلی فائلیں فروخت کیں، کسی غریب نے قرض لے کر مجھے پیسے دیے کہ میں اُسے باہر بھیج دوں تاکہ اس کا ہاتھ کشادہ ہو، میں نے اسے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالا، اس کا پورا مستقبل تباہ کر ڈالا۔ میں نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وہ کام کیا جس پر مجھے شرم آنی چاہیے، لیکن میں ڈھٹائی سے اپنی کمینگی پر اترائے پھرتا ہوں۔ میں نے نام نہاد اشرافیہ جو اپنی اصل میں رذیلیہ ہے، سے تعلقات بنائے اس لیے کہ وہ میرے کرتوتوں میں میری معاونت کریں۔

میں نے غنڈوں، قاتلوں، حرام خوروں، قبضہ اور اتھائی گیروں کے جتّھے تیار کیے اور در بہ در خاک بہ سر لوگوں کو زندہ درگور کردیا، اور پھر بھی میں معزّز ہوں۔ میں نے بینکوں سے فراڈ کے ذریعے پیسے نکلوائے اور اچھے محلات بنا کر اس میں عیش و عشرت کرنے لگا، اپنے جرائم کو میں دیکھتا ہی نہیں ہوں۔ میں نے قبرستان میں بہت سے مُردے دفن کیے اور خود کبھی نہیں سوچا کہ آخر مجھے بھی تو اسی جگہ آنا ہے۔ میں نے جعلی دوائیں بنائیں، انہیں فروخت کیا اور اپنی تجوریاں بھر لیں۔ میں نے ذخیرہ اندوزی کی اور معصوم انسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من چاہے دام وصولے۔

میں نے مذہب کو پیسا کمانے کا ذریعہ بنالیا۔ میں ایک بہت اچھا بہروپیا ہوں جو ایسا روپ دھارتا ہے کہ اصل کا گمان ہو۔ ہاں میں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام بھی اس لیے کیا کہ میری واہ واہ ہو اور سماج میں میری وقعت بڑھے، اور پھر اس کو بھی پیسے کمانے کا ذریعہ بنالیا، میں نے چند روپوں کا راشن تقسیم کیا اور پھر تصویریں بنوا کر اخبارات کو دیں اور پھر انہیں دیکھ کر اپنے نفس کو خوش کیا۔ میں نے رشوت لی، حق تلفی کی، ہر ناجائز کام کیا اور جائز کام والوں کو راستہ ہی نہیں دیا جب تک میری جیب نہ بھر دی انہوں نے۔ انتہائی شاطر ہوں میں، بندۂ نفس، بندۂ مکر و فریب، بندۂ حرص و ہَوا۔

میں سب کا مجرم ہوں، کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہوں، میں نے صرف اپنی ذات کو دیکھا اور اسے ہی پروان چڑھایا۔ لُوٹ کھسوٹ کے نت نئے طریقوں کا موجد ہوں میں۔ میں نے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کے لیے آخر کِیا ہی کیا ہے، سوائے زبانی جمع خرچ کے! چرب زبانی کے۔۔۔۔۔!

میں سمجھا تھا کہ جو میں کر رہا ہوں اسے سدا دوام ہے۔ میں نے اپنی ذہانت سے انتہائی سوچ بچار کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے کاروبار اور محلات بنائے۔ میں سمجھتا رہا کہ میں دنیا میں ہی جنّت بنالوں گا اور کچھ نے تو بنا بھی لی، جہاں ہر طرح کا عیش و آرام اور من چاہا جیون گزاروں گا، میں موت کو بھی اپنے پاس نہیں بھٹکنے دوں گا کہ دنیا کے بہترین اسپتال اور معالج جو میری دست رس میں ہیں اور نہ جانے کیا کچھ۔

پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! یہ اچانک کیا ہوا ۔۔۔۔۔ ! رواں دواں سب کچھ یک دم رُک گیا، جہاں تھا وہیں منجمد ہوگیا، یہ کیا ہوا۔ ترقی، ترقی اور ترقی کے راگ آہ و زاری میں بدل گئے۔ سب کچھ ہوگیا ہَوا اور رہ گئی بس آہ۔ موت تو آنی ہی ہے اور ضرور آکر رہے گی کہ کوئی اس سے فرار نہیں ہوسکتا، چاہے کچھ کرلے، ہو ہی نہیں سکتا، لیکن یہ جو موت کا خوف ہے یہ، جی موت سے بدتر اذیّت ہے یہ! انسان اپنے سوا سب کو موت کا ہرکارہ سمجھ بیٹھا ہے، اتنا خوف کہ خوف بھی پناہ مانگے، اتنا خوف کہ اپنے پیاروں کو بھی اپنے قریب آتا دیکھ کر پکارتا ہے، دُور رہو مجھ سے فاصلہ رکھو۔

ہائے! سامان ہزار برس کا تھا جسے پَل نے اسے بھس بنا ڈالا۔ قیامت کسے کہتے ہیں، اب تو سب جان گئے اور وہ بھی جو اسے ماننے سے انکاری تھے، سب جان گئے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ قیامت نہیں ہے۔ لیکن صاحبو! کیا قیامت صغریٰ سے کم ہے یہ۔ تو صاحبو! دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو ۔۔۔۔۔ !

اور اب جب میں ہلکان ہوگیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس عذاب سے جو میں نے خود خریدا ہے، کیسے نجات پاؤں۔ تب میں نے پہلے اقرار کیا اپنی خطاؤں کا اپنے رب کے سامنے اور پھر عزم کیا: نہیں اب میں بندۂ نفس نہیں بندۂ رب بننے کی کوشش کروں گا۔ یہ بہت مشکل ہے، بہت زیادہ۔۔۔۔ لیکن میں نے رب کو سہارا بنا لیا اور میرے زخم بھرنے لگے، پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ میں نے تہیہ کرلیا کہ میں اپنے لیے نہیں خلق خدا کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔

آپ رب کا سہارا پکڑ لیں تو مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ مجھے بہت الجھن ہونے لگی تھی کہ میں عذاب اور آزمائش میں فرق کیسے کروں، تب میں نے اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا، بہت دیر تک دیکھتے رہے، مسکراتے رہے اور پھر میرا مسئلہ حل کردیا: ’’دیکھ بہت آسان ہے عذاب اور آزمائش میں فرق رکھنا۔ جب کوئی پریشانی، مشکل آئے اور وہ تجھے تیرے رب کے قریب کردے تو سمجھ لے یہ آزمائش ہے۔ جب کوئی پریشانی، مشکل، غم اور دُکھ تجھے تیرے رب سے بھی دُور کردے تو سمجھ لے! یہ عذاب ہے، توبہ کا وقت ہے۔ ضرور کر توبہ اور جلدی کر اس میں۔‘‘

ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے، ہمیں خود دیکھنا چاہیے، سوچنا چاہیے۔ ہم اجتماعی آزمائش میں مبتلا ہیں یا اجتماعی عذاب میں؟

وادیٔ گماں میں بسنے والو! اس گماں میں، اس دھوکے میں، فریب میں مت رہنا کہ تم ہاتھ منہ دھوتے ہو، غسل کرتے ہو، اچھے کپڑے پہنتے ہو، نمازیں ادا کرتے ہو تو رب کو اس سے کچھ ملتا ہوگا، اسے بندگی کرانے کی کوئی خواہش ہوگی، رب کی عزت میں کوئی اضافہ ہوتا ہوگا، اور اگر تم بغاوت کرتے ہو، نہیں ادا کرتے فرائض، تو اسے کوئی نقصان ہوتا ہوگا، وہ رنجیدہ ہوتا ہوگا۔ وادیٔ گماں میں بسنے والو! ایسا نہیں ہے، قطعی نہیں ہے۔ ساری کائنات اُس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے تو اس کی بڑائی بیان نہیں ہو سکتی، اور ساری کائنات باغی ہو جائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس حکم کی تعمیل کرتے چلے جاؤ شُکر کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، اپنی تمام تر بے بسی کے ساتھ تو بس تمہارا ہی فائدہ ہے۔ فلاح پاؤ گے۔ مانتے چلے جاؤ گے تو امن پاؤ گے، سکون و راحت پاؤ گے۔

بغاوت کرو گے تو زندگی جہنّم بنی رہے گی، سکون و قرار کھو بیٹھو گے، اعتبار جاتا رہے گا، نفسانفسی مچی رہے گی، کوئی کسی کی نہیں سنے گا، بس پھنس کے رہ جاؤ گے اور تارِ نفس میں، اور دھوکے میں، فریب میں۔ تو ایک ہی راہ ہے: تسلیم کرو، اس کی رضا پر راضی رہو، اس کے گُن گاؤ۔ اسی کی مدحت ہے، وہی ہے سزاوارِ حمد و ثنا، نام اُس کا بلند ہے، رہے گا۔ سب چلے جانے کے لیے ہیں، چلے جائیں گے۔ کوئی نہیں رہا یہاں پر، کوئی نہیں رہے گا، رہ ہی نہیں سکتا۔ بس رہے گا تو نام رہے گا اﷲ کا، بس اسی کا۔

بہت ہی اتھلا ہے بندہ بشر، بہت ہی تھڑدلا، بہت مکاّر و عیّار، بہت ہی شکوہ کرنے والا، شکایت کرنے والا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی راحت پر پھول کر کپّا ہو جاتا ہے اور رب کو بُھول جاتا ہے۔ اور اگر تھوڑی سی تکلیف پہنچ جائے تو بس ڈھنڈورچی بن جاتا ہے۔ سب کو بتانے لگتا ہے دیکھو میرے سر میں درد ہے، دیکھو مجھے بخار ہو گیا، دیکھو میں تکلیف میں ہوں۔ یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، غضب ہوگیا۔ بس میں ہی نظر آتا ہوں رب کو۔ جنابِ رابعہ بصریؒ یاد آگئیں، کہیں سے گزر رہی تھیں کہ ایک شخص کو دیکھا جس نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا۔

تب اس سے پوچھا: ’’یہ تم نے سر پر رومال کیوں باندھا ہوا ہے؟ وہ بہت عاجزی سے بولا: دیکھیے میرے سر میں درد ہے، اس لیے۔ تب رابعہ بصریٰ بولیں: کیا تم نے کبھی شُکر کا رومال باندھا ہے؟ وہ شخص حیران ہوا اور وضاحت چاہی تو رابعہ بصریؒ نے فرمایا: اتنی راحتیں رب نے دیں تب تو تم نے رومال نہیں باندھا کہ جس پر لکھا ہوتا: مجھے رب نے راحت دی ہے اس لیے یہ رومال باندھا ہوا ہے، یہ شُکر کا رومال ہے۔ اور سر میں تھوڑا سا درد کیا ہو گیا کہ شکایت کا رومال باندھے گھومتے ہو۔‘‘

کبھی غور کیا ہے ہم نے اِس پر؟ ہم سب شُکر کے رومال سے محروم ہیں اور شکایت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بہت نا شُکرے ہیں ہم، بہت تھڑدلے، بہت بے عقلے۔۔۔۔ بصیرت نہ بصارت۔

بہت بغاوت کرلی ہم نے، نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔ پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف۔ ہاں! یہ مجھے میرے ایک بابا نے بتایا تھا بہت پیار سے کہ اﷲ جی اُس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو پلٹ آئے، سہما سہما سا، شرم آ رہی ہو اسے، اس بات کا ملال ہو کہ اتنے عرصے رب کا باغی رہا۔ جب وہ شرمندہ شرمندہ سا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تب رب کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اسے اپنی رحمت میں لپیٹ لیتا ہے۔

پلٹ آئیے۔ یہ سب کچھ رب نے دیا ہے۔ شُکر ادا کیجیے۔ اور شُکر یہ نہیں ہے کہ صرف نمازیں پڑھیے، تلاوت کیجیے، روزے رکھیے۔ یہ رب کا حکم ہے، ادا کرنا ہے۔ یہ آپ کا اور رب کا معاملہ ہے۔ شُکر یہ بھی ہے کہ آپ بے کسوں کی خبر گیری کریں۔ وہ جو آپ کے محلے میں سفید پوش ہیں اُن سے جا کر ملیں، ان کے مسائل معلوم کریں اور پھر اس طرح کہ ان کی عزتِ نفس ذرا سی بھی متاثر نہ ہو اُن کی مدد کریں، ان کا شکریہ ادا کریں۔ وہ جو بستر پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہے اسے راحت و آرام کی چند ساعتیں دیں۔ ان کی خبر گیری کریں جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں۔ یہ جو مال و دولت آپ کو رب نے دیا ہے اسے اس کی مخلوق کے لیے خرچ کرنا سیکھیے۔ فقیر آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ اس خرچ کرنے کی راحت کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ وہ لمحے جو آپ نے کسی کی راحت کے لیے خرچ کیے وہ سرمایہ ہیں زندگی کا۔۔۔۔۔ وہ آنسو جو آپ کی آنکھوں سے کسی اور کے لیے برسا، وہ انمول ہے اور وہی رب کو مطلوب ہے۔

دیکھیے، غور سے سنیے! فقیر کہہ رہا ہے: ’’خدمت سے خدا ملتا ہے‘‘ انتخاب تو آپ کا ہے ناں۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔۔۔۔۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

اداس میں ہی نہیں، شہر میں کہ میری طرح

زمیں کی رات بھی شامل ہے سوگواروں میں

اور دیکھیے یہ کیسا ہے:

یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں

ہم اپنی جاں کا دیا بُجھائے کسی گلی سے گزر رہے ہیں

The post مُجسّمِ مکر و فریب، بندۂ حرص و ہَوا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوئی ہے جو گدھوں کو بچائے؟

$
0
0

ہم شیروں، گینڈوں اور ہاتھیوں کی معدومیت کے خطرے ہی پر افسردہ خاطر تھے کہ اب پتا چلا ہے گدھے بھی دنیا سے ختم ہونے کو ہیں، یعنی وہ گدھے جن کے 4 پیر اور ایک دُم ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بس 5 سال کے اندر سارے جہاں کے نصف گدھے ناپید ہوجائیں گے، جس کی وجہ چین میں بنائی جانے والی دوا ’ایجیاؤ‘ ہے۔

یہ دوا گدھے کی کھال سے بنتی ہے، جو سردی لگنے سے بے خوابی تک کئی مسائل کا حل ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ دوا عمر میں اضافہ کرتی ہے۔ چین میں اس دوا کا استعمال اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے بنانے کے لیے دُور دراز ملکوں سے بھی گدھے کی کھال برآمد کی جارہی ہے۔

’ایجیاؤ‘ کی اسی حساب سے تیاری ہوتی رہی تو اندیشہ ہے کہ اگر 5 برس میں گدھوں کی نصف آبادی ختم ہوتی ہے تو اس سے اگلے 5 برسوں میں باقی کے گدھے بھی دنیا سے منہ موڑ جائیں گے۔ پھر دنیا میں گدھوں کی 2 ہی اقسام کا تذکرہ ہوا کرے گا، معدوم گدھے اور معلوم گدھے۔

اب تک تو یہ گدھے سواری اور باربرداری ہی کے کام آیا کرتے تھے، مگر یہ تو کسی کو بھی خبر نہ تھی کہ اس کی کھال میں سردی کے مداوے سے نیند کے لانے تک کتنے ہی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ حیرت ہے کہ جس گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں سے نیند کوسوں دُور چلی جاتی ہے، اسی کی کھال سُلانے کا باعث بنتی ہے، گویا خَر سے خراٹے لانے کی دوا بن رہی ہے۔ واہ بھئی واہ، مان گئے چینیوں کو، گدھوں کا استعمال کوئی ان سے سیکھے۔

چین میں گدھے کی کھال سے بنائی جانے والی دوا کی بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت اس دوا کے وظائف کی وجہ سے ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چینیوں کو سردی بہت لگتی ہے، نیند کم آتی ہے اور وہ طویل عمر کے خواہش مند ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ دوا صرف عام خنکی ہی کا علاج کرتی ہے یا خوف سے ٹھنڈے پڑ جانے والے جسموں کے لیے بھی تیر بہ ہدف نسخہ ہے، ہمارے خیال میں یہ صرف سردیوں ہی کی سردی کا مسئلہ حل کرتی ہے، ورنہ اس پر پابندی لگ چکی ہوتی۔

جہاں تک بے خوابی کا معاملہ ہے تو ایک زمانے میں چینی ایسے گراں خواب تھے کہ بیرونی قوتیں بہ آسانی سوتے ہوئے چینیوں کی کھال اتار لیتی تھیں۔ پھر ہوا یوں کہ ’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘، سنبھلنے کے بعد انہوں نے ماؤ زے تنگ کی قیادت میں تاریخی لانگ مارچ کیا۔ لانگ مارچ ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ان کا نتیجہ ’جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا‘ کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

بہرحال، اب حال یہ ہے کہ چینیوں نے امریکا کی بھی نیند اُڑا دی ہے، لیکن خود بھی نہیں سو پارہے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے گدھے کی کھال کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

سردی سے بچنے اور نیند کی خواہش تو سمجھ میں آتی ہے، مگر حیرت اس بات پر ہے کہ چینی لمبی عمر کیوں چاہتے ہیں؟ اسی طرح کا سوال ہمارے ایک مجسمہ شرافت و نجابت دوست سے ڈاکٹر نے کیا تھا۔ ان دوست کو کسی بیماری کے باعث جب ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تو ہمارے دوست نے جاننا چاہا کہ آپریشن سے ان کی جان کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

اس استفسار پر ڈاکٹر نے پوچھا: سگریٹ پیتے ہو؟

جواب ملا ’نہیں‘

کوئی اور نشہ؟

نہیں

کوئی ’’تعلق؟‘‘

نہیں

کچھ کھیلتے ہو، جیسے تاش؟

نہیں

ان تمام جوابات کو سننے کے بعد ڈاکٹر نے ہمارے دوست کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے پوچھا، ’تو بھئی جینا کیوں چاہتے ہو؟‘

ہمیں بھی چینیوں پر ایسی ہی حیرت ہے کہ اتنی پابندیوں میں جینے والے آخر مزید جینا کیوں چاہتے ہیں۔ چلو چاہتے ہیں تو چاہتے رہیں، مگر اپنے جینے کے لیے بے چارے گدھوں کا جینا کیوں حرام کردیا ہے؟

ہم سوچ رہے ہیں کہ گدھوں پر یہ سب بیتنے پر جب ہم اتنے پریشان ہیں تو گدھے کتنا پریشان ہوں گے؟ اب تک تو یہ گائے، بکروں اور مرغیوں کا انجام دیکھ کر اپنے گدھے ہونے کی خیر مناتے تھے، لیکن اب سوچتے ہوں گے کہ ہم واقعی کتنے گدھے تھے کہ یہ نہ سوچا جب انسان سے انسان نہیں بچ پاتا تو ہم کیسے بچیں گے؟

چوںکہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے اور حکم ہے کہ ’میڈیا مثبت تصویر دکھائے‘، اس لیے ہم حکم کی تعمیل کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ گدھا اتنا گدھا بھی نہیں ہوتا کہ آنکھوں کے سامنے سارے مناظر منفی ہوں اور وہ مثبت تصویر پر یقین کرلے، مگر اپنی سی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟

ہم گدھوں سے کہیں گے ’گھبرانا نہیں ہے‘، یقین مانو گدھو! کم از کم ہم تمھیں یہ گدھا سمجھ کر نہیں کہہ رہے۔ یہ تو دیکھو کہ کھال کی وجہ سے تمہاری اہمیت کتنی بڑھ گئی ہے۔ اب یہ مت کہنا کہ ’’اس اعتبار سے تو ہر پاکستانی بہت اہم ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہماری کھال سے صرف ’ایجیاؤ‘ بنتی ہے، اور پاکستانیوں کی کھال دیے جاؤ، دیے جاؤ کہہ کر کھینچ لی جاتی ہے۔‘‘ ایسی باتیں کرو گے تو ہم تمہیں دولتی مار دیں گے۔ تمہیں تو فخر ہونا چاہیے کہ تم چینیوں کے درد کی دوا بن گئے ہو، ورنہ کل تک کہتے تھے:

دنیا ہمہ تن درد ہے، ہونے دو ہمیں کیا

ایسا بھی کوئی درد ہے ہم جس کی دوا ہیں

اب کہیں جواباً یہ شعر نہ سنا دینا،

’چین‘ سے کس کو رستگاری ہے

آج ہم کل تمہاری باری ہے

ویسے ہمیں یقین ہے کہ چینی تمہیں ناپید نہیں ہونے دیں گے، تم کوئی ایغور تھوڑی ہو، وہ غور کرکے تمہارے تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ ممکن ہے دنیا بھر سے گدھے جمع کرکے چین لے آئیں، جہاں تم بچے پر بچہ پیدا کرکے ‘ون چائلڈ’ پالیسی پر کڑھتے چینیوں کے دل جلاتے رہو۔

اس امکان کے باوجود اگر تم چینیوں سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ چین جاؤ اور اپنی اپنی کھال اتار کر پیش کردو۔ بچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر اعلان کردو کہ ہم گدھے نہیں خرگوش ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہہ دینا ’’جب باقی گدھے اپنے گدھے ہونے کا اعتراف نہیں کرتے اور کوئی ان کے گدھا ہونے پر اصرار نہیں کرتا تو پھر ہم سے یہ تقاضا کیوں؟‘‘

The post کوئی ہے جو گدھوں کو بچائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا کے خلاف جنگ

$
0
0

اللہ تعالٰی نے آخرکار چینیوں کی آہ وزاری سن ہی لی۔ بدھ 18 مارچ کا دن تمام چینیوں کے لیے خونی وائرس کورونا کے خلاف فتح کی نوید لے کر آیا۔

چینی قومی صحت کمیشن کے مطابق اس دن وائرس کے دیکھ بھال کے مراکز(Epic Centres)کورونا وائرس کا ایک بھی کیس چوبیس گھنٹے میں رپورٹ نہیں ہوا جوکہ نہایت اطمینان بخش تھا اور اس کے بعد سے نئے کورونا وائرس کے شکار مریضوں میں قطعی اضافہ نہیں ہوا جو کہ چینیوں کے لیے بہت بڑی کام یابی ہے۔

چین میں 50 ہزار ایل ای ڈی وڈیو اسکرینوں روشن ہوگئیں اور جن پر کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹر، نرسز اور تمام پیرا میڈیکل اسٹاف کو اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر اپنے چینی بھائیوں کو موذی مرض سے دور رکھنے اور اس سے نجات دلانے پر، ان تمام کو قومی ہیروز کے طور پر بیان کیا جارہا اور سراہا جارہا ہے اور ان کی تصاویر و وڈیوز کو متواتر چلایا جارہا ہے۔ چین نے تاریخ رقم کردی ہے کہ زندہ قوموں پر مشکلات آتی رہتی ہیں اور وہ کیسے سرخ رو ہوتی ہیں۔

چینی قوم نے جس طرح متحد ہوکر عالمی وبائی کے خلاف عزم، ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا وہ نہایت قابل تعریف اور قابل تقلید مثال بن چکی ہے۔ چین میں کورونا وائرس پر احتیاطی تدابیر، عوام کے تعاون اور 58 دن کے مکمل لاک ڈاؤن کے سبب بہت حد تک قا بو پالیا گیا اور ’کوبے‘ صوبے کو جزوی طور پر آمدورفت کے لیے کھولا جاچکا ہے جس کا شہر ’’ووہان‘‘ کورونا کا ابتدائی مرکز بنا تھا اور اسی چینی صوبے میں ہلاکتوں کی تعداد 90 فی صدر ہی ہے۔ لیکن دوسری جانب اب کورونا کے مہلک ترین وائرس نے یورپ کو اپنا گھر بنالیا ہے اور صرف اٹلی جو کہ شدید متاثرہ ملک ہے وہاں ہلاکتوں کی تعداد چینیوں کی ہلاکت 3255 سے کہیں بڑھ چکی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال ہے۔

سار ا یورپ سر تھام کے بیٹھا ہے۔ اٹلی میں مرنے والوں کی تعداد 5000 سے بڑھ چکی ہے جب کہ دنیا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ سے بڑھ چکی اور اب یہ وبائی مرض گلوبل ڈیزازٹر بن چکا ہے۔ 18 مارچ کے دن سے ایران میں ہر دس منٹ میں ایک شہری ہلاک ہورہا ہے جب کہ ایک گھنٹے میں 50 سے زیادہ نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔1 2 مارچ کا دن کورونا کے حملوں کے حوالے سے انتہائی سفاک دن تھا جب 800 اٹالین اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور سب سے زیادہ مریض ریکارڈ ہوئے۔ امریکا میں بھی کورونا کے مریضوں میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اٹلی کے ساتھ ہی کورونا یورپ کے دوسرے ملکوں اسپین، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئیڈن، سوئیزرلینڈوغیرہ میں پھیل چکا ہے اور امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لے کر روس اور افریقی ممالک تک پہنچ چکا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں بھی 26 فروری سے مرض کی تشخیص کے بعد وائرس نے پھیلنا شروع کردیا اور تعداد 700 سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ وائرس پورے ملک بشمول آزاد وجموں کشمیر تک رسائی پاچکا ہے۔ پڑوسی ملک ایران میں بھی معاملہ نہایت حساس ہوچکا ہے۔ تمام مشرق وسطٰی بشمول سعودی عرب، مشرق بعید اس عالمی مصیبت کا سامنا کررہے ہیں۔ خصوصی طور پر ایرانیوں کے لیے اس وبا نے سب سے بڑے چیلینج کے طور پر سر اٹھایا ہے۔

انسانوں کو بچانے کے لیے خانہ کعبہ، دنیا کے کئی ممالک میں تمام مزار و مساجد کو بند کیا جاچکا ہے۔ صدی کی سب سے خطرناک وبائی بیماری کورونا نے رنگ ونسل، مذاہب، قومیت اور جغرافیائی تبدیلیوں کا امتیاز کی ے بغیر انسانیت پر حملہ کردیا ہے جو دنیا بھر کے جوان ، بوڑھوں بچوں کو اپنا شکار بنارہا ہے آج ساری نسلِ انسانی کو اپنی بقاء کا خطرہ جس نے دنیا کی معیشت پر بھی کاری ضرب لگائی ہے جس کے برے اثرات آئندہ کئی عشروں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ہر طرح کی وبائی بیماری جانوروں کے ذریعے ہی انسانوں میں آتی ہے اور پھر یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کورونا وائرس کی بالکل نئی شکل نہیں ہے یہ پہلے سارس، مرص اور ایبولا جیسے وائرسوں سے مشابہت رکھتا ہے جس کی یہ نئی صورت ہے جو کہ حال ہی میں انسانوں پر حملہ آور ہوچکے ہیں لیکن اس میں حیرت انگیز طور پر برق رفتاری سے سراہیت کرنے کی بے پناہ طاقت ہے۔ یہ انسانوں کے میل جول، ملاپ، ہاتھ ملانے اور متاثرہ مریضوں کے استعمال کی اشیاء کو چھولینے سے فوری پھیل جاتا ہے جس کے لیے سماجی تعلقات کی زنجیر کو توڑنا لازمی ہے اور دنیا بھر میں متاثرہ ممالک نے اپنی سرحدوں کو بند کردیا ہے اور لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو خاص وقت تک محدود کیا جاسکے۔

اب تک دنیا پر گیارہ بڑی وبائی بیماریاں اپنے حملے کرچکی ہیں اور اندازہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے ہر صدی میں اس طرح کی ایک بڑی وبائی بیماری سارے عالم پر نازل ہوتی ہے اور انسانوں کو اپنی جکڑ میں لے لیتی ہے۔ اٹلی یورپ اور امریکا پر کورونا کے وارد ہونے کے ساتھ ہی اس وبا نے عالمی وبا کی صورت اختیار کرلی ہے جس میں لاکھوں لوگ مریض بن چکے ہیں۔

11 مارچ 2020 ء کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے باقاعدہ طور پر اسے گلوبل وبا (Pandemic) کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا اور اس کے گلوبلی خطرات سے آگاہ کیا۔ ساری دنیا میں وائرس کے 308463 مریضوں کی تصویق ہوچکی ہے جن میں سے 13069کی موت ہوئی اور 95828 متاثرہ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں صرف یورپ میں اس وبائی مرض سے 2,88104 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں۔ 8000 ہزار کے لگ بگ یورپیائی لوگ وبائی مرض کا لقمہ بن چکے ہیں۔ وبائی کورونا پھیلتی ہی جارہی ہے اور کورونا وائرس کا مرض دنیا کے 190 کے قریب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور سارے عالم میں سرایت کرتا جارہا ہے۔ وبائیمرض “Epidemic” اور عالمی وبا جیسی بیماری”Pandemic” کو تین مختلف درجوں میں بانٹا گیا ہے، این ڈیمک ایپی ڈیمک اور پین ڈیمک۔

این ڈیمک (Endemic) : انفیکش کی ایسی بیماری ہے جو سال کے بارہ مہینے ایک علاقے میں پائی جاتی ہے، یہ ہروقت اور سال بہ سال موجود رہتی ہے جیسے کی چکن پوکس او ر خسرہ۔

ایپی ڈیمک (Epidemic) اس بیماری ایپی ڈیمک میں انفیکش زدہ مریضوں میں تیزی سے اضافہ تو ہوتا ہے لیکن پھر کمی آجاتی ہے۔ برطانیہ میں ہر سال فلو کی وبا رہتی ہے جس میں موسم خزاں اور سرما میں مریض بہت بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی انتہا کو پہنچ کر گرنا شروع ہوتی ہے جب مریضوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔

پین ڈیمک (Pendemic) : پین ڈیمک ایسی عالمی وبا کا نام ہے یہ ایک ہی وقت میں ساری دنیا میں پھیل رہی ہو۔ اس طرح کی وبا کا کا سامنا 2003 ء میں دنیا نے ’’سوائن فلو‘‘ کی صورت میں کیا تھا جس کا نقطہ آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر یہ عالمی سطح پر پھیلی۔ عالمی وبا کی اصطلاح ایسی بیماری کی ہے جس میں متعدی موزی مرض مختلف ملکوں میں کثیر تعداد میں لوگوں کو بیمار کردے اور ان کے ذریعے پھیلتا جائے۔ اب تک کی آخری عالمی وبا ’’سوائن فلو‘‘ نے دو لاکھ انسانوں کی جان لے لی تھی۔

یہ امراض دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال سے فروغ پاتے ہیں اور یہ انفیکشن سفر کے دوران مریض مسافروں کو دوردراز مقامات تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں اور وہاں اس اس بیماری کے اثرات برقرار رہتے ہیں جو کہ گلوبل وبا ’پینڈیمک‘ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ڈائریکٹر عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس نے کورونا کے مشکو ک مریضوں سے کہا ہے کہ ٹیسٹ، ٹیسٹ اور مزید ٹیسٹ! ٹیسٹ مثبت آنے پر مریض کی ساری فیملی کے بھی ٹیسٹ کیے جائیں اور انہیں الگ کیا جائے اور قرنطینہ(Quarantine) میں ڈالا جائے۔

دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج بنی ہے تو اب ہمیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور اس کی قیمت چکانا ہوگی۔ قاتل عالمی وبا نے دنیا کے اس گاؤں میں مشرق سے مغرب، شمال و جنوب تک ہل چل اور بے چینی پید ا کردی ہے۔ کورونا پر اس کی حیات کے سائیکل کو دیکھنے کے لیے تجربات سے اندازہ ہوا ہے کہ کس طرح کے حالات میں یہ اپنی زندگی کو پورا کرتا ہے، کھلی ہوا اور سطح پر اس کی زندگی کی میعاد مختلف ہوتی ہے۔ کھلی ہوا میں کورونا محض دو سے تین گھنٹے رہ سکتا ہے جب کہ تانبے پر چار گھنٹے، گتے یا ڈبوں میں 24 گھنٹے، اور پلاسٹک اور اسٹیل پر دو سے تین دنوں تک اپنی زندگی کو قائم رکھ سکتا ہے۔

ایسی ہی ٹیسٹ 2003 ء میں وبائی مرض ’’سارس وائرس‘‘ کے حملے کے بعد اس پر کیے گئے تھا تاکہ وبائی وائرس کی مختلف حالتوں میں زندہ رہنے کی صلاحیت کو پرکھا جاسکے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ذرایع سے معلوم ہوا ہے جو کہ مائیکروبائیلوجی پروفیسر جولی فشر نے آشکار کیا، ان تجربات کے نتائج نہایت اہمیت رکھتے ہیں جن سے صفائی وغیرہ کے بارے میں بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اسی لیے عالمی ادارۂ صحت نے ہاتھوں کو بار بار وقفوں سے اچھی طرح دھونے پر زور دیا ہے۔

نئی عالمی وبا ناول کورونا وائرس کووڈ۔19 کے لیے دنیا بالکل تیار نہ تھی حالاںکہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس متعدد بار وبائی امراض سے انسانوں کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہی دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ’’ڈیلی ٹیلگراف‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی وبائی بیماری اگر افریقہ میں پھیل جاتی ہے تو انسانی جانوں کو زیادہ نقصان ہوگا جہاں بہت پس ماندگی ہے اور صحت کی سہولیات کا فقدان اور ناقص ترین صورت حال ہے جس کے سبب خدشات ہیں کہ ایک کروڑ افریقی لقمۂ اجل ہوسکتے ہیں، جب کہ عالمی سطح پر بھی وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں 30 ملین لوگ اس بیماری سے متاثر ہوکر موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔

2015 ء میں ہی بل گیٹس نے امریکی میڈیا آرگنائزیشن (LLC) کے آن لائن تبادلہ خیال (TED) کی ایک پری زینٹیشن میں پیش ہوئے تھے جوکہ 1990 ء سے اس طرح کے شوز پیش کررہی ہے، اس آن لائن ٹاک شو جس کا سلوگن ہے” “Idea Worth Spreading ہے۔ اس کے لیکچر میں بل گیٹس نے بالکل واضح طور پر دنیا کو کورونا سے ملتے جلتے وائرس کے بارے میں جان کاری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آئندہ 10 سالوں میں دنیا کو سب سے بڑا خطرہ کسی میزائل یا ایٹمی ہتھیار سے نہیں بلکہ انسانوں کی صحت پر عالمی وبا کے حملوں سے ہوگا جس کے لیے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی ہے!‘‘ افریقہ کے 54 میں سے 23 ممالک میں اب کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے اور محض سارے ملکوں ایک دو مریضوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہے جو ابھی اطمینان کی بات ہے جس کے بارے میں بل نے خبردار کردیا ہے کہ انتہائی ڈرامائی طاقت کے اثر کا حامل کورونا وائرس افریقہ میں پھیلا تو وہاں صحت کے سارے نظام مغلوب ہوسکتے ہیں۔

بل گیٹس نے ان خیالات کا اظہار سیٹل (امریکا) میں امریکی ایسوسی ایشن برائے ایڈوانسمنٹ آف سائنسز(AAAS) کی ایک پری زینٹیشن میں کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افریقہ پر وائرس کا حملہ چین پر وبائی حملے کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچاسکتا ہے۔ افریقہ میں یہ ڈرامائی رخ اختیار کرسکتا ہے کیوںکہ یہ بہت تیزرفتاری سے پھیل رہا ہے۔ افریقہ میں ایبولا وبا سے بھی ہلاکتیں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی سے ہوئیں تھیں۔ یہ اس طرح صحت کے کارکنوں میں گھبراہٹ اور پریشانی پیدا کرنے والے عوامل بھی اس کا اہم سبب ہوسکتے ہیں۔

جان ہاکپنز یونیوروسٹی کے مطابق گذشتہ دہائی میں چین اور افریقہ کے مابین لوگوں کے بہاؤ میں فضائی راستوں کے ذریعے 600 فی صدی سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ 2012 ء تک براعظم افریقہ میں 200,000 لاکھ سے زائد چینی مزدور تعمیراتی منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں تاجر و دکان دار شامل نہیں۔ ’’بل اور ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ نے ترقی پذیر دنیا کے بچوں میں حفاظتی ٹیکوں کے لیے مالی معاونت دی ہے۔ گذشتہ ماہ فاؤنڈیشن کی طرف چین اور افریقہ میں وبا پر قابو پانے کی جاری لڑائی میں 100 ملین ڈالرز امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ افریقہ کی 109 ملین کی آبادی وبائی مرض کے حملے کے خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ افریقہ کے ساتھ ہی کورونا وائرس جنوبی امریکا کے ممالک برازیل اور ارجنٹائن میں پہنچ چکا ہے جب کہ یوراگوائے میں کورونا وائر سے ایک ہلاکت کی اطلاع ہے۔

چین میں خصوصاً کورونا کے گڑھ ’’ہوبے‘‘ صوبے میں وبائی مرض کے آنے کے بعد اب تیزی سے کمی آئی ہے۔ دارلحکومت ’’ووہان‘‘ کی ایک کروڑ سے زائد اور صوبے کی چار کروڑ سے زائد آبادی 23 جنوری سے سخت ترین حالات کا سامنا کررہی تھی جہاں پورا صوبہ چین اور بیرونی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ ملک بھر میں81 ہزار سے زائد افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا ان میں 75 ہزار کے قریب زیرعلاج ہیں۔ 10مارچ کو صدر جن پنگ نے ووہان کا دورہ کیا تھا اور بیماری پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہاں 68 ہزار سے زائد چینی مکمل صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں اور باقی تیزی روبہ صحت ہیں۔17 مارچ کی صبح سویرے ووہان سے پہلی پیرا میڈیکل ٹیم واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھی جنہوں نے مرکزی شہر میں انسانیت کو مہلک وبا سے بچایا اور وائرس کو شکست فاش دی۔

انہوں نے 40 روز تک شہر میں قیام کیا۔41 میڈیکل ٹیم کے طبی عملے نے ووہان اور صوبے کے 14 عارضی اور سات مخصوص وبائی اسپتالوں میں اپنی شان دار خدمات انجام دیں اور ہمت اور حوصلے و یک جہتی سے کورونا جیسے دشمن کو ہرایا۔ البتہ چین میں ابھی بیرونی دنیا سے آنے والوں سے خطرہ ہے اور ان میں تشویش پائی جاتی ہے، چین میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 ہزار سیّاح بیرونی ممالک سے آتے ہیں۔ 18 مارچ 2020 ء سے چین نے اپنی سرحدوں کو جزوی طور پر کھول دیا ہے۔ دارلحکومت ’’بیجنگ‘‘ اور دیگر علاقوں سے باہر سے آنے والے ملکوں کے لوگوں کے لیے 14 دن قرنطینہ میں قیام اشد ضروری ہے۔ ان قرنطینہ سینٹر کو مختلف ہوٹلوں میں بنایاگیا ہے۔ چین کی قومی صحت کے کمیشن کے مطابق دو ہفتوں میں ان بدیسی لوگوں میں 34 کورونا کے مریض سامنے آئے ہیں اور اب یہ تعداد 189 ہوچکی ہے جو بہت زیادہ ہے۔

حالیہ وبائی حملے کے نتیجے میں دنیا کی بڑی اسٹاک ایکس چینجز کو مندی کا سامنا ہے اور اکثر بیٹھ چکی ہیں۔ سیّاحت و ائیر لائن کمپنیوں سب سے زیادہ متاثرہ ہوئی ہیں۔ اس گلوبل وبا کے حملے کے سبب بڑی ایئرلائن کمپنیاں بینک دیوالیہ ہونے کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ امریکی سیاحت کی صنعت کو 24 ارب ڈالرز سے زائد کے نقصان کا سامنا ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک جہاں سیاحوں کا ہر وقت جم غفیر رہتا تھا وہ ویران ہوچکا ہے، راتوں کا جاگنے والا نیویارک شہر اب دن مین سناٹے کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہر سال پانچ کروڑ سے زائد سیّاح امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہائٹ ہاؤس نے 850 ارب ڈالرز کے پیکیج کی منظوری بھی دے دی ہے۔ امریکا میں کسادبازاری کا خطرہ بھی سر اٹھانے لگا ہے اور شرح ِسود صفر کردی گئی ہے۔

عالمی معیشت کو بھی وبائی کورونا وبا کے حملے سے 2.7 کھرب (ٹریلین) ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا میں وبا کے خطرے پیش نظر 102سے زائد ملکوں میں تمام اسکول کالج و یونیورسٹیوں کو بند کردیا گیا ہے۔ اسپین کے معروف اسٹورز”ZAM” نیٹ ورک کے دنیا بھر میں قائم تمام 3785 اسٹوروں کو بند کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کی ویلیو 30 سالوں میں سب سے کم سطح پر آئی ہے جس کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 1.8 فی صد گری ہے۔ دنیا بھر کی شوبزنس مارکیٹ بھی جمود کا شکار ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر دنیا کی معیشت کو تین ٹریلین (تین کھرب) ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے۔

کورونا کی بیماری میں سب سے بڑی رکاوٹ مطلوبہ ویکسین کی عدم دست یابی ہے جس پر کام ساری دنیا میں ہورہا ہے اور چین، اسرائیل، امریکا، روس و جرمنی نے ایسی ویکسین بنانے کے دعوے کیے ہیں لیکن ان کے ابھی عام مارکیٹ میں آنے میں سال لگ سکتا ہے۔ امریکا، روس اور جرمنی میں ویکسین کی آزمائش شروع ہوچکی ہے جو جنگ عظیم کے بعد انسانوں کے لیے سب سے بڑا چیلینج بن کر سامنے آیا ہے۔ اسپین کی بائیولوجی کی تحقیق کار کارکن خاتون نے طبی تحقیقی کاموں کے ملک میں دی جانے والی گرانڈ پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فٹ بال کلب اپنے کھلاڑیوں کو ایک لاکھ یورو ماہانہ دیتے ہیں جب کہ بائیلوجیکل ریسرچ کے لیے محض 1800 یوروز؟ انہوں نے مزید کہا کہ اب آپ کو اس پر سنجیدگی سے علاج کے لیے سوچنا ہوگا، کیا کرسٹینو رولانڈو یا میسی آپ کو تحفظ دے سکتے ہیں؟ جرمنی کے سائنس داں کورونا ویکسین کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔

جرمنی کی دواسازکمپنی کے سائنس دانوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک ارب ڈالرز کی پیشکش ٹھکرادی ہے۔ اب امریکا اور جرمنی کے مابین اس معاملے پر تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ جرمنی کے اخبار ’’ویلٹ ام زونٹاگ‘‘نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے دوران ہی جرمنی سے رابطہ کیا گیا تھا اور ویکسین کے حقوق کی بات کی تھی اس پر جرمنی کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ’’جرمنی برائے فروخت نہیں ہے!‘‘ جرمن صحت کے وزیر نے سرکاری ٹی وی پر بیان میں کہا ہے کہ جرمنی بکنے والا نہیں ہے یہ ویکسین انسانیت کی خدمت کے لیے تیاری کی جارہی ہے جس کے مالکانہ حقوق کسی ایک شخص یا ملک کو نہیں دیے جاسکتے، اس وبا پر متحد ہ ہوکر لڑنا ہے۔ چینیوں نے کورونا مریضوں کے علاج کی آزمائش میں جاپانیوں کی ایک فلو کی دوائی کو موثر پایا گیا ہے جب کہ ڈبلیوایچ او نے کورونا کے مریضوں کو ’’آئبوپروفن‘‘ کی جگہ پیراسٹامول دینے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک یورپ کے 170 ملین سے زائد افراد اب لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں جہاں ہلاکتیں چین سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ صر ف اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 4825 سے تجاوز کرچکی ہے اور صف ماتم پچھی ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد 53578 سے اوپر جاپہنچی ہے۔

اسپین میں 25374 مریض رجسٹر ڈ ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 1378 سے زائد ہے۔ امریکا میں متاثرین کورونا 24142 ہیںاور ہلاکتیں 288 ہوگئی ہیں، جب کہ برطانیہ میں 5018 متاثرین میں سے 233 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگرچہ کورونا سے ہلاکت کی شرح 12 فی صد ہے لیکن خدشات ہیں کہ اگر بیماری کا پھیلاؤ یونہی ہوتا رہا تو پھر مرنے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ چین اور یورپ میں لاک ڈاؤن نے حیران کُن طور پر ماحولیات پر اچھے اثرات مرتب کیے جو کہ عام دیکھے جارہے ہیں۔ چین میں فروری سے آج تک آلودگی میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ اس طرح اٹلی میں فضا نہایت سوگوار ہے، اس کے برخلاف ماحولیاتی لحاظ سے صاف ہے اور وینس کی نہروں کا پانی بالکل صاف ہوچکا ہے جس کی اہم وجہ انسانی سرگرمیوں میں جمود ہے، کوئی شپ یا بوٹس وغیرہ نہیں چل رہی ہیں اور پانی کے صاف ہونے سے نہروں میں مچھلیاں دیکھی جارہی ہیں، اس کے ساتھ بطخوں اور ڈولفن کی بھی واپسی ہورہی ہے۔

پاکستان میں افسوس ناک صورت حال ہے یہاں اس قدرتی آفت وبائی کورونا کو اب تک سنجیدہ معاملہ نہیں لے گیا جو ہماری سرزمین پر وارد ہوچکا ہے اور جس نے اب تیزی سے بڑھنا شروع کردیا ہے اور کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک ماہ کے اندر ہی 8 سو سے تجاوز کررگئی ہے اور عالمی سطح پر 27 ویں نمبر پر آگیا ہے تو اس سے دنیا کے زیادہ متاثرہ ممالک کی طرح آگے پھیلنے کا عندیہ مل رہا ہے۔ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) والوں نے خاطر خواہ انتظامات شروع کردیے ہیں اور چین سے امدادی سامان بھی آگیا اور آئندہ آتا رہے گا جس میں چین کی حکومت اور ارب پتی جیک ما ہماری مدد کررہے ہیں۔ اس کا اعلان 21 مارچ کی ایک پریس کانفرنس میں اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹینٹ جرنل محمد افضل نے کیا جن کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی موجود تھے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ دو ہفتے میں 40 لاکھ کورونا مریضوں کے علاج کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔

کراچی میں فوج کی مدد سے ایکسپو سینٹر میں ہنگامی 1100 بستروں کا اسپتال بھی قائم کردیا گیا ہے اور دوسرے مقامات پر بھی قرنطینہ مراکز بنائے جارہے ہیں۔ کراچی کے بعد ملک کے دوسرے شہروں میں بھی لاک ڈاؤن ہوچکا ہے کہ جس کے سوا اب کوئی آپشن نہیں ہے اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ کورونا وبائی مرض کو شکست دی جاسکے۔ آج اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں بھی کورونا وائرس کی یلغار کو سنجیدگی سے لیا جائے، اب ہمیں دنیا کے ساتھ اکٹھا ہوکر رنگ ونسل، مذاہب، طبقے سے بے نیاز ہوکر اتحاد کا مظاہر ہ کرنا ہے جس نے ہمیں سماجی سطح پر پہلے ہی برابر کردیا ہے کیوںکہ کورونا کی بیماری نے جوان، بوڑھوں، غریبوں سے لے کر انتہائی امیر لوگوں اور حکومتوں کے اعلٰی عہدے داروں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔

سائنس دانوں نے آگاہ کردیا ہے کہ یہ بڑا تاریخی موقع ہے جب ہم انسانوں کو بڑی خوف ناک صورت حال کا سامنا ہے، ہم اپنے سماجی تعلقات کی زنجیروں کو توڑیں، چند ماہ یا شاید سال بھر کے لیے ! یا پھر دوسرا انتخاب یہی ہے کہ ہزاروں ہزار انسانوں کی موت کا سودا کرلیں!

The post کورونا کے خلاف جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا۔۔۔ابہام، توہمات اور حقیقت

$
0
0

کورونا وائرس کی وجہ سے تمام دنیا خوف کے ایک نادیدہ حصار میں مکمل طور پر قید ہوچکی ہے۔ یہ خوف کی ایک ایسی منفرد اور اعصاب شکن کیفیت ہے جس کا شاید ہی کبھی تاریخ میں حضرت انسان نے سامنا کیا ہو۔

علم کی معراج چھو لینے والا انسانی معاشرہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ زمین کی پاتال کو کھنگال لینے اور آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کرنے والی ترقی یافتہ اقوام بھی نادیدہ کورونا وائرس کے متعلق بس اِتنا ہی جانتی ہیں کہ ’’وہ فی الحال کورونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتیں۔‘‘ دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل بھی اِس وائرس کی حقیقت کو سرچ کرنے سے قاصر ہے اور دنیائے انٹرنیٹ کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا بھی کورونا کے حدودِ اربعہ بیان نہ کرنے پر شرم سار سا دکھائی دیتا ہے۔

اَب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں یہ واحد عالمی وبا ہے جو چند ماہ کے مختصر عرصے میں شرق سے لے کر غر ب تک پوری زمین کو ہی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور دنیا کے کم وبیش چپے چپے پر کورونا وائرس پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ اگر دنیا کے کسی علاقے میں اَب تک کورونا وائرس نہیں دیکھا گیا تو وہاں بھی کورونا وائرس کا خوف صاف صاف دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ایسی ایسی بے سروپا اور غلط معلومات پھیلائی جارہی ہیں کہ عام لوگ کورونا وائرس کا کم اور ’’کورونا فوبیا‘‘ کا زیادہ شکار ہوتے جارہے ہیں۔

کورونا وائرس کے متعلق پھیلنے والے غلط تصورات کے نقصانات کا اندازہ صرف اِس ایک بات سے لگالیں کہ ابھی تک لوگ کورونا وائرس اور اِس کے نتیجہ میں لاحق ہونے والی بیماری میں فرق یا تمیز نہیں کرپا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بعض نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پوسٹوں میں کورونا وائرس کو COVID-19 کے نام سے لکھا اور پکارا جارہا ہے حالاںکہ COVID-19 کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کا نام ہے، جب کہ اس وائرس کا پورا نام SARS-CoV-2 یعنی Severe Acute Respiratory Syndrome Coronavirus 2 ہے، جسے مختصراً آپ کورونا وائرس بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ بالکل ایسا ہی ایک لفظی و معنوی سا فرق ہے جو ایڈز اور ایچ آئی وی کے درمیان بھی پایا جاتاہے۔ ایڈز مرض کا نام ہے جب کہ ایچ آئی وی اُس وائرس کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایڈز کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں قارئین کے لیے کورونا وائرس سے متعلق چند ایسے دل چسپ حقائق اور کچھ حیران کن مغالطوں کا مختصراً تذکرہ اور علمی محاکمہ پیشِ خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد یقیناً کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے ذہنوں پر چسپاں ابہام اور توہمات کی بہت سی گرد بہ آسانی صاف ہوجائے گی۔

کورونا وائرس کا پہلا شکار انسان نہیں ایک بیئر کمپنی تھی

ہم میں سے اکثر لوگ یہ ہی سمجھتے ہوں گے کہ کورونا وائرس نے سب سے پہلے انسانوں کا اپنا شکار بنایا اور بعد ازاں اُس کے خوف نے دنیا کی معیشت کو اوجِ ثریا سے زمین پر لاپٹخا۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ کورونا وائرس نے اپنا سب سے پہلا شکار ایک معروف بیئر کمپنی کو بنایا تھا، جس کا نام بھی ’’کورونا بیئر‘‘ ہے۔ اِس بین الاقوامی بیئر کمپنی کی مصنوعات کو 1998 سے امریکا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بیئر کا منفرد اعزاز حاصل ہے جب کہ دنیا بھر میں بھی اِس کمپنی کی بیئر مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ لیکن اِس کمپنی کو ’’کورونا‘‘ کا نام لے ڈوبا۔ کورونا کا مطلب ہسپانوی اور لاطینی زبان میں ’’کراؤن‘‘ یعنی تاج ہے اور کورونا وائرس کو بھی کورونا کا نام اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ یہ وائرس بھی خوردبین سے ایک تاج کی طرح کا دکھائی دیتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی لوگوں نے کورونا وائرس کے بارے میں سنا، نام کی مماثلت کی وجہ سے لوگوں نے سوچا کہ کورونا وائرس، کورونا بیئر پینے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ پس لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جھوٹی پوسٹوں پر کامل اعتقاد کرتے ہوئے کورونا بیئر کی خریداری مکمل طور پر ترک کرنا شروع کردی۔

حالاںکہ کورونا وائرس اور کورونا بیئر کا آپس میں نہ تو کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ ہے لیکن اِس کے باوجود کورونا بیئر کی فروخت دنیا بھر میں خطرناک حد تک گرگئی۔ معروف برطانوی تحقیقاتی فرم YouGov کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020 کی ابتدا میں ہی کورونا بیئر کمپنی کی مصنوعات کی فروخت میں 75 فی صد تک کمی آگئی اور تازہ ترین صورت حال میں کورونا وائرس کے ساتھ نام کی مماثلت رکھنے کے باعث یہ کمپنی دیوالیہ ہونے بالکل قریب پہنچ چکی ہے۔ اِس واقعے میں اُن لوگوں کے لیے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے جو صبح و شام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔

عالم گیریت کورونا وائرس کی سواری ہے

فقط تین ماہ پہلے کی بات ہے کہ گوبلائزیشن یعنی عالم گیریت ہم انسانوں کا سرمایہ افتخار تھا اور پوری دنیا سرحدوں کو فرضی لکیروں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھی کیوںکہ عالمی روابط کے جدید ترین ذرائع پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدل چکے تھے۔ ہمیں تو خیر تیسری دنیا کے لوگ کہا جاتا تھا لیکن جو پہلی اور دوسری دنیا کے لوگ تھے انہوں نے صرف سرحدوں کو دیواریں ہی نہیں بلکہ پروانہ راہ داری کے جھنجھٹ سے بھی اپنی عوام کو کلیتاً آزادی دے دی تھی۔

یعنی یورپ میں لوگ ایک دوسرے کے ملک میں اتنی آسانی سے دبے پاؤں داخل ہوجاتے تھے کہ اتنی آسانی سے تو ہم اپنے دیرینہ دوست کے محلے میں بھی نہیں جا سکتے تھے۔ مگر افسوس یہ ہی عالم گیریت آج یورپ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب قرار پارہی ہے اور وہ اقوام جو کل تک سرحدوں کا قیدی ہونا پسند نہیں فرماتی تھیں۔ آج وہی لوگ اپنی مرضی سے اپنے اپنے گھروں میں خود کو مکمل طور پر قید کرچکے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس عالم گیریت کے رتھ پر سوار ہوکر پہلے ہی اُس مقام تک پہنچ چکا ہے، جہاں پر لاک ڈاؤن کی سرحدیں بھی غیرموثر ثابت ہورہی ہیں۔ اَب لگتا یہ ہی ہے کہ جب تک کورونا وائرس دنیا سے اپنے رختِ سفر باندھے گا تو اپنے ساتھ ہی عالم گیریت کے مغرور بچہ کو بھی اُنگلی پکڑ کر ساتھ ہی لے جائے گا۔ کیوںکہ انسانوں کی قوت ِ مدافعت کے بعد اگر کورونا وائرس نے سب سے زیادہ کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ عالم گیریت کا تصور ہی ہے۔

کورونا وائرس، سارس وائرس کا دوسرا جنم ہے؟

عموماً وائرس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ اتنی آسانی سے مرتے نہیں اور اگر مرجائیں تو اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتے۔ یہ ہی وہ تیکنیکی مسئلہ ہے، جس کے باعث تک آج تک سائنس داں انسان پر حملہ آور ہونے والے کسی بھی وائرس کو ختم کرنے والی ایک دوا بھی نہیں ایجاد کرسکے۔ جہاں تک وائرس پر ویکسین کے اثرانداز ہونے کا تعلق ہے تو وہ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ یا تو ایک ویکسین وائرس کی استعدادکار کو کم زور بنادیتی ہے یا اُسے طویل نیند میں مبتلا کردیتی ہے یا پھر وائرس کی یادداشت کو چکمہ دے کر اُسے انسانی جسم کے مدافعتی نظام کے چنگل میں کچھ مدت کے لیے پھنسادیتی ہے۔ بہرحال ویکسین کسی بھی صورت وائرس کو جڑ سے ختم کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔

یہ ہی وجہ زمین پر آنے والے ہر نئے انسان کو وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے مدافعت کے لیے کم ازکم ایک بار ویکسی نیشن کی لازمی ضرورت رہتی ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا اِسی لیے لازم سمجھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر کوئی بھی وائرس پھر سے بیدار ہوکر انسانی جسم میں متحرک ہونے کے بعد اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سُلا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں بھی خیال کیا جارہا ہے کہ یہ وائرس چین میں 2003 میں پھیلنے والی بیماری سارس کا سبب بننے والے وائرس کی ہی ایک نئی لیکن طاقت ور شکل ہے۔

دونوں وائرسوں کے درمیان فرق صرف انسانی جسم کے اندر کام کرنے کے طریقہ کار ہے۔ سارس ایک خوفناک وائرس ضرور تھا لیکن یہ بہرحال پوشیدہ نہیں رہتا تھا اور لوگ سارس وائرس سے صرف تب ہی متاثر ہوتے تھے۔ جب ان میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہوجاتی تھیں۔ اِسی وجہ سے سارس وائرس کا شکار مریضوں کو الگ کرنا اور کسی بھی ممکنہ متاثر شخص کو قرنطینے میں ڈالنا بہت آسان تھا۔ مگر اس کے مقابلے میں کورونا وائرس کو تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور اِس کے پھیلاؤ کو روک پانا بھی مشکل تر ہے۔ وائرس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو ارتقائی اعتبار سے کورونا وائرس کی بقا کی حکمتِ عملی سارس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ بیمار لوگ خود اسپتال آئیں، آپ کو خود باہر جا کر انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اور اب کثیر تعداد میں کورونا وائرس کے ایسے تفصیلی کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں جس میں پایا گیا ہے کہ لوگوں میں علامات ظاہر بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ متاثرہ شخص خاموشی کے ساتھ بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب بننے لگتا ہے۔ آج سے پہلے طبی ماہرین کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رہتی تھی کہ کوئی وائرس کتنا ہلاکت خیز ہے، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی زبردست صلاحیت نے باور کروادیا ہے کہ کسی وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت، اس کے خطرے کی حقیقی نوعیت یا ہلاکت خیزی کو ہزار گنا زیادہ بڑھا سکتی ہے۔

مثلاً اب تک کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور 10 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں 2003 میں سارس نے 8098 لوگوں کو متاثر کیا تھا جن میں سے 774 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یعنی اگر دونوں وائرس کے متاثرہ افراد میں شرح اموات نکالی جائے تو کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی اموات کی شرح 3.4 فی صد ہے جب کہ سارس وائرس کی شرح اموات 9.6 فی صد تھی۔ لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے اُس کی ہلاکت خیزی کو سارس وائر س کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔

کورونا وائرس اپنے شکار میں فرق کرتا ہے

چینی سائنس دانوں کی اَب تک کی تحقیقات کے مطابق کورونا وائرس مردوں اور خواتین کو یکساں طور پر اپنا شکار بناتا ہے لیکن چین میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ فروری کے وسط میں کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کی شرح 2.8 فی صد، جب کہ اِس کے مقابلے میں خواتین میں اِس وائرس سے مرنے کی شرح مردوں سے کہیں کم یعنی صرف 1.7 فی صد رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ اعدادوشمار چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی شرح اموات سے اخذ کردہ نتائج کے مطالعے کے بعد سامنے آئے ہیں، جب کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2003 میں ہانگ کانگ میں سارس وائرس پھیلنے کے بعد بھی اسی قسم کے اعدادوشمار سامنے آئے تھے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کا مدافعتی نظام مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

خواتین اور مردوں کے مدافعتی نظام کا یہ فرق قدرت کے ’’جینیاتی نظام‘‘ کی دین ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود وہ جین جو بیماریوں کا سبب بننے والے عناصر کو قوت پہچاننے کے ذمے دار ہوتے ہیں، وہ صرف اور صرف ’’ایکس کروموسوم‘‘ پر ہی ان کوڈ ہو نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چوںکہ خواتین میں دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں اور مردوں کے پاس صرف ایک، اس لیے مادہ جنسی ہارمون ایسٹروجن عورتوں کے مدافعتی نظام کو متحرک کرنے اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے نظام کو مضبوط تر بنادیتا ہے اور یوں خواتین کسی بھی نئے وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا مقابلہ تیز رفتاری اور زیادہ بڑے پیمانے پر کر سکتی ہیں۔ اس کے برعکس مردوں کے اندر پائے جانے والے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون ایک ایکس کروموسوم ہونے کی وجہ سے مدافعتی نظام کو نئے وائرس کے خلاف وہ طاقت مہیا نہیں کرپاتا جس کی بیماری سے مقابلہ کرنے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا کرونا وائرس بھی اپنے پیشرو مہلک وائرسز کی طرح خواتین کے مدافعتی نظام کے آگے کسی نہ کسی حد تک بے بس سا نظر آرہا ہے۔

کورونا وائرس کسی کا دوست، کسی کا دشمن

کورونا وائرس کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک تہائی سے بھی زائد دنیا مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہوچکی ہے اور قریہ قریہ کورنا وائرس کو وہ وہ صلواتیں سنائی جارہی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے میں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کورونا وائرس کو نہ صرف اپنا دوست سمجھتا ہے بلکہ اُس کا شکرگزار بھی ہے تو یقینا سب کے لیے حیرانگی کی بات تو ہوگی ہی۔ ’’چائنا پلس‘‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق، ژو جیامنگ نامی ایک شخص 1990 میں تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کی غرض سے جنوب مغربی چین کے صوبے گوئیژو، پہنچا جب کہ اس کا تعلق صوبہ ہوبے کے قصبے چی شوئی سے تھا۔ بدقسمتی سے ایک حادثے میں اس کی یادداشت چلی گئی جب کہ اس کا شناختی کارڈ بھی گم ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی شناخت بھی ممکن نہ رہی۔

کچھ سال سڑکوں پر کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ایک رحم دل خاندان نے اسے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دے دی۔ اس دوران وہ اپنی گزری ہوئی زندگی، گھر اور خاندان کے بارے میں یاد کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا لیکن سوائے اپنے نام کے، اور کچھ اِسے یاد نہیں آسکا۔ پھر یہ خاندان 2015 میں اپنے آبائی صوبے ژی جیانگ واپس منتقل ہوگیا اور ژوجیامنگ کو بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ یہاں آکر ژو جیامنگ کی یادداشت کچھ بحال ہونا شروع ہوئی، لیکن اب بھی وہ اپنے ماضی کی بیشتر باتیں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ 2020 کے ابتدائی ایام میں صوبہ ہوبے کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں۔

ان ہی خبروں میں ژو جیامنگ کے قصبے کا تذکرہ بھی ہونے لگا، جنہیں دیکھ کر اس کی یادداشت حیرت انگیز طور پر مکمل طور پر بحال ہوگئی اور اسے وہ سب کچھ یاد آگیا جو وہ تیس سال پہلے بھول چکا تھا۔ اس نے فوراً مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور کچھ دن کی تلاش کے بعد بالآخر اس کا اپنے خاندان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوگیا۔ اس کی والدہ ابھی تک حیات ہے اور اس کے چار بہن بھائی اس کے اچانک مل جانے پر خوشی کے مارے نہال ہیں کیوںکہ سب ہی اسے مُردہ سمجھ بیٹھے تھے۔ دنیا کورونا وائرس کے متعلق کچھ بھی کہے لیکن ژو جیامنگ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی یادداشت واپس لوٹ آنے اور اپنے بچھڑے خاندان سے ملنے پر کوروناوائرس کا تہہ دل سے شکرگزار ہے ۔

کورونا وائرس واپس لوٹ کر بھی آسکتا ہے؟

دنیا کے متعدد مالک تک پہنچ جانے والے نوول کورونا وائرس کا اب تک کوئی علاج یا ویکسین تو دست یاب نہیں، مگر پھر بھی15 سے 28 دنوں میں اس وائرس کی علامات کو ٹھیک کرکے مریض کو صحت یاب کرنے میں کام یابی حاصل ہوجاتی ہے، جس کے بعد مریض کو صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

اِس اُصول کے تحت 91 ہزار افراد کو صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں واپس بھیجا جاچکا ہے۔ مگر ایک سوال سائنس دانوں کو یہ درپیش ہے ہے کہ کیا جو فرد اس وائرس کا شکار ہوچکا ہو، وہ صحت یابی کے بعد اس سے دوبارہ متاثر تو نہیں ہوسکتا؟ اور اب ایسا لگتا ہے کہ ایسا ممکن ہے کم از کم جاپان میں ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا ہے۔ جاپان کے شہر اوساکا کی رہائشی ایک خاتون دوسری بار اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا شکار ہوگئی ہے حالاںکہ پہلی بار یہ خاتون مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دی گئی تھی۔ 40 سال سے زائد عمر کی اس مریضہ میں دوسری بار کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

یہ خاتون جاپان کے شہر اوساکا میں ایک ٹور آپریٹر کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس خاتون میں 29 جنوری کو پہلی بار کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، کیوںکہ اس خاتون نے چین کے شہر ووہان (جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا) کے سیاحوں کی بس میں سفر کیا تھا۔6 فروری کو اِس خاتون کو، کورونا وائرس فری قرار دے کر مقامی اسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی، مگر 19 فروری کو وہ گلے اور سینے میں درد کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹروں کے پاس لے کر آئی، مگر اسے معمولی چیک اَب کے بعد گھر واپس بھیج دیا گیا۔ تاہم 21، 22 اور 25 فروری کو بھی جب یہ خاتون مسلسل ڈاکٹروں کے پاس گلے اور سینے میں شدید تکلیف کی شکایت لے کر آتی رہی تو ڈاکٹروں نے ازسرِ نو اِس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 26 فروری کو دوسری بار خاتون میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ خاتون دوسری بار کورونا وائرس کا شکار کیسے اور کیوںکر ہوئی۔

بہرحال دوبارہ سے کورونا وائرس کے لوٹ آنے کے واقعے نے طبی ماہرین کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور اَب خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ وہ تمام مریض جنہیں بظاہر مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں بھیج دیا گیا، شاید ان میں سے کسی مریض میں دوبارہ سے کورونا وائرس آجائے۔ یہ صورت حال کتنی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوسکتی ہے۔ اَب طبی ماہرین اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔

کورونا وائرس سے دنیا کو خبر دار کرنے والا خود بھی خبر بن گیا

ڈاکٹر لی وینلیانگ وہ سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے کورونا وائرس کو اپنے مریضوں میں محسوس کیا تھا اور انہوں نے دسمبر میں ہی اِس وائرس سے متعلق دنیا کو خبردار کرنا شروع کردیا تھا۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے معروف میسجنگ ایپ وی چیٹ پر اپنے میڈیکل اسکول کے سابقہ طالب علموں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کورونا وائرس کے متعلق تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ وہ اس وائرس اور اِس کے نتیجے میں نمایاں ہونے والی علامات کے بارے میں اپنے پیاروں کو بھی بتائیں۔

ویڈیو میں وہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’’ووہان کی ایک مقامی مارکیٹ سے کچھ لوگ ان کے پاس علاج کے لیے آئے تھے، جن میں سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) جیسے ایک مہلک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور جب ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں سارس جیسے وائرس سے ملتا جلتا کورونا وائرس کا ایک گروپ ملا ہے۔‘‘ ڈاکٹر لی وینلیانگ کی ویڈیو چیٹنگ کا اسکرین شارٹ چین بھر میں تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سارس نامی یہ وائرس پہلی مرتبہ 2003 میں سامنے آیا تھا جو چین سمیت پوری دنیا میں 800 افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ ابتدا میں کسی نے بھی اِن کی بات پر کان نہیں دھر ا بلکہ ووہان پولیس نے لوگوں میں خوف و ہراس اور افواہیں پھیلانے کے الزام میں ان سے تفتیش شروع کردی۔

بعدازاں جب ووہان میں کورونا وائرس پھیل گیا تو مقامی انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ڈاکٹر لی وینلیانگ اور اس کے خاندان سے باضابطہ معذرت بھی کی اور تحریری معافی بھی مانگی لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، کیوںکہ کورونا وائرس چین کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ آج جب کہ چین کورونا وائرس پر مکمل طور پر قابو پاچکا ہے، لیکن چینی عوام کو سب سے زیادہ افسوس ڈاکٹر لی وینلیانگ کی کورونا سے ہونے والی موت اور اِن کی تنبیہ کو بروقت نہ سننے کا ہے۔

ہم انسان کبھی بھی تیار نہیں تھے؟

کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے صرف ایک ماہ قبل ہی دسمبر 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’خلائی فوج‘‘ کے قیام کا سرکاری اعلان کر تے ہوئے کہا تھا بہت جلد امریکی اسپس فورس خلا میں خلائی مخلوق کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنے کی اہل ہوجائے گی۔

دنیا بھر نے اس پیشرفت کو دنیا کی سلامتی کے لیے امریکا کا انتہائی اہم عسکری قدم قرار دیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پینٹاگون کی سرپرستی میں اس منفرد خلائی فوج کی کمان ایئر فورس جنرل جے ریمنڈ کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جو اِس وقت ’’اسپیس کوم‘‘ کے سربراہ ہیں۔ اس خلائی فورس کو امریکی فوج کی چھٹی برانچ قرار دیتے ہوئے امریکی حکومت نے 1.4 ٹریلین ڈالر کے اخراجات میں سے خلائی فورس کے لیے 738 بلین ڈالر مختص کیے تھے، مگر پھر یہ ہوا کہ انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک خلوی نیم مردہ سا کورونا وائرس کہیں آن ٹپکا اور پھر آگے کی تمام صورت حال تو آپ روز انہ بلاناغہ نیوز چینلز پر ملاحظہ کر ہی رہے ہیں کہ کس طرح ایک نادیدہ وائرس دنیا کے 156 ممالک پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے اور نیلے آسمان تلے زمین پر شرق سے لے کر غرب تک وہ ہڑبونگ مچی ہوئی ہے کہ خلاؤں میں جنگ چھیڑنے کے دعوے دار بھی قرنظینہ نامی محفوظ کونے کھدروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس کا عالم گیر پھیلاؤ اشارہ ہے کہ ہم انسان، اپنے جیسے دیگر کم زور انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق سے نبرد آزما ہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھے۔

اگر تیار ہوتے تو آج دنیا کے کسی ایک سپرپاور ملک کے پاس تو اینٹی ایئرکرافٹ، اینٹی میزائل، اینٹی گن شپ ہیلی کاپٹر یا اینٹی ایٹم بم شیلڈ کے بجائے کم از کم ایک اینٹی وائرس جیسا چھوٹا سا ہتھیار تو ہونا ہی چاہیے تاکہ جس کی مدد سے کورونا وائرس کو تو بروقت ٹھکانے لگایا جاسکتا۔

The post کورونا۔۔۔ابہام، توہمات اور حقیقت appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس نے دنیا بدل دی

$
0
0

تاریخ انسانیت میں ایسے عظیم الشان واقعات بہت کم ظہور پذیر ہوئے ہیں جنہوں نے ایک مخوص علاقے کو متاثر نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہلا ڈالا۔

دسمبر 2019ء میں نئے کورونا وائرس (SARS-CoV-2) نے جس زبردست وبا’’کوویڈ۔19‘‘ (COVID-19)کو جنم دیا، وہ ایک ایسا تایخی واقعہ ثابت ہوا جو بین الاقوامی سطح پر انسانی زندگیوں میں کئی تبدیلیاں لے آیا۔ کرہ ارض پر 195 ممالک واقع ہیں اور اس وباء نے ان سبھی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر انسانی تاریخ میں اپنی اہمیت اجاگر کردی۔ بیماری کا سب سے خطرناک روپ وباء ہے۔ جب یہ جنم لے، تو بعض اوقات سلطنتیں تک تباہ کر ڈالتی ہے اور عوام و خواص، دونوں کی زندگی تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہے۔وباء پھر شاہ دیکھتی ہے نہ گدا اور ہر کسی کو دبوچ کر انسان پہ اس فانی دنیا کی بے ثباتی اجاگر کر ڈالتی ہے۔

جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک دنیا کو ایک فلو وائرس سے پھیلنے والی ’’ہسپانوی وباء‘‘ نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ اس کی زد میں آکر کم از کم پانچ کروڑ انسان چل بسے تھے۔ صرف ہندوستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ ہندوستان کی انگریز حکومت نے اس وباء کا بخوبی مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے اور لاکھوں ہندوستانیوں کو موت کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا۔چناں چہ عوام میں اس خیال نے جنم لیا کہ بدیسی حکمرانوں کو ان کی کوئی پروا نہیں۔انگریزوں کی اس کوتاہی نے تحریک آزادی ہندوستان پورے ملک میں پھیلا دی اور عام لوگ ان کی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ یوں ہسپانوی فلو نے اس عظیم برطانوی سلطنت کے تاروپود بکھیرنے میں اپنا کردار ادا کیا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

نئے کروناوائرس کے بطن سے پھوٹی وباء بھی پوری دنیا میں کئی انسانی شعبوں خصوصاً معاشرت، معیشت، سیاست، نفسیات، صحت اور تمدن میں انقلابی تبدیلیاں لے آئی۔ درحقیقت وباء نے انسانی معاشرتی زندگی مفلوج کرکے رکھ دی۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے ’’معاشرتی دوری‘‘ (social distancing) اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اجتماع کرنا منع ہوا اور ذاتی صفائی و پاکیزگی پر سب سے زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اس وبائئی حملے نے بنی نوع انسان کو کئی نقصان پہنچائے، تو بہت سے نئے سبق بھی عطا کیے۔

کورونا وائرس کی وباء نے کئی ممالک میں روزمرہ زندگی لاک ڈاؤن کردی، اسٹاک مارکیٹیں بٹھادیں اور نجی و سرکاری ادارے بند کرادیئے۔ اس باعث لاکھوں لوگ اپنے ذریعہ روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اگرچہ وباء کی وجہ سے بعض معاشی شعبوں میں نئی ملازمتوں نے بھی جنم لیا۔ ماہرین کے نزدیک ایسی وبائؤں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر حکومت کے نظاموں میں پائی جانے والی خامیاں اور کمیاں بے نقاب کردیتی ہیں۔ یہ خامیاں حکومتیں عموماً عوام سے چھپانے میں کامیاب رہتی ہیں مگر وباء کا اچانک حملہ انہیں طشت از بام کر ڈالتا ہے۔کوویڈ ۔19 انسانی معاشروں میں کس قسم کی تبدیلیاں لائی ہے؟ دنیا میں ہر شعبے کے نامور دانشور اور ارباب فکر و نظر اس سلسلے میں اظہار خیال کررہے ہیں۔ ان کے خیالات و نظریات کا خلاصہ قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہے۔

 عزم و حوصلے کی جیت

نئے کرونا وائرس سے پھوٹی وباء نے بنی نوع انسان کو بحران میں مبتلا کردیا۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا اور ارجنٹائن تک اربوں انسان اپنے گھروں میں مقید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی زندگیاں خطرے میں آگئیں۔ حکومتیں جیسے تیسے اور اپنے وسائل سے ان کو سہارا دینے کی کوشش کرتی رہیں تاہم مجموعی طور پر حکومتیں اس بحران میں عوام الناس کی امیدوں پر پورا نہیںاترسکیں۔خاص طور پر عالمی قوتوں نے اپنے طرز عمل سے مایوس کیا۔ امریکا اور چین طویل عرصہ کورونا وائرس کی حیاتیاتی لیبارٹری میں تخلیق کے سلسلے میںایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے رہے۔ چین نے تو پھر پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کو کچھ نہ کچھ مدد کی، امریکا میں ٹرمپ حکومت وباء کا پھیلاؤ روکنے میں ہی ناکام رہی۔ صدر ٹرمپ وباء پھیلنے سے روکنے کے اقدامات پر توجہ دینے کے بجائے یہ اعلان کرتے رہے کہ عنقریب تجارتی و کاروبائری سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔

دیگر ترقی یافتہ اور امیر ممالک نے بھی غریب ملکوں کو کسی قسم کی امداد نہ دی اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ تین ماہ بعد امداد دینے کا اعلان تو ہوا مگر عالمی طاقتوں کے طرزعمل کو متاثر کن نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ وباء سے پھوٹنے والے عالمی بحران میں بیشتر حکومتیں توقعات پر پورا نہیں اترسکیں۔ لیکن پاکستان سمیت ہر ملک میں انفرادی طور پر سینکڑوں مرد و زن نے کوویڈ 19 سے نبرد آزما ہوتے ہوئے زبردست عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ یوں انہوں نے انسانی دلیری و بہادری کی نئی تاریخ رقم کردی۔

کئی ملکوں میں ڈاکٹر اور نرس چوبیس گھنٹے مریضوں کی جانیں بچانے اور ان کی خدمت کرنے میں لگے رہے۔ اس دوران بہت سے معالج کورونا وائرس کا نشانہ بن کر چل بسے مگر انہوں نے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑا اور پوری استقامت سے وباء کا مقابلہ کرتے رہے۔ اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے متاثرین وباء کی دامے درمے سخنے مدد کرتے رہے۔ایثار اور ہمدردی کی مثالیں قائم کرنے والے انہی مردوزن نے کرہ ارض میں ایک امید کی جوت بھی جلادی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ جب انسان غیر معمولی حالات میں مبتلا ہو تو دنیا بھر کے مردو خواتین اپنی فوق البشر توانائی و قوت بروئے کار لاکر مشکل حالات کا مقابلہ کرتے اور سرخرو ٹھہرتے ہیں۔ کوویڈ 19 کی تمام تر سفاکی اور خطرات کے باوجود انہوں نے دکھا دیا کہ امید پر دنیا قائم ہے۔

سکے کا دوسرا رخ

حالیہ وباء کے باعث اربوں انسان گھروں میں قید ہوگئے۔ ایک دوسرے سے ملاقات کرنے حتیٰ کہ بولنے چالنے کا طریقہ کار بھی یک دم بدل گیا۔ لوگوں کی اکثریت جلد اس روٹین سے اکتا گئی مگر انہیں عالم تنہائی میں سوچ بچار کرنے کا بھی نادر موقع ملا۔اسی غورو فکر سے کئی افراد کو احساس ہوا کہ پیسا کمانے کی دوڑ میں شامل ہوکر وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہوگئے تھے۔ یہی خوشیاں روزمرہ زندگی میں رنگ بھرتی اور اسے جینے کے قابل بناتی ہیں۔

ایک امریکی ادیبہ کا قول ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ میری گردن میں ہیروں کے ہار کے بجائے میز پر گلاب کے پھول پڑے ہوں۔‘‘ اسی طرح دوسرا مفکر کہتا ہے: ’’صبح سویرے سورج کو طلوع ہوتے دیکھنا انمول خزانہ ہے۔‘‘مادہ پرستی میں پھنس کر بہت سے مردوزن قناعت و سادگی کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ مشہور یونانی فلسفی سقراط کہتا ہے۔ ’’قانع دنیا کا سب سے امیر انسان ہے کیونکہ قناعت قدرت کی دولت ہے‘‘ مسلم مفکر، حکیم رازی کہتے ہیں ’’ہر شے کی زیادتی فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔‘‘

دنیا بھر میں اربوں انسانوں کو بے جا اور چوبیس گھنٹے کی مصروفیت سے چھٹکارا ملا تو انہوں نے قدرت کی عطا کردہ نعمتوں پر بھی توجہ دی۔ اب باغ میں چلنا پھرنا منع ہوا تو انہیں تروتازہ کردینے والا سبزہ، بارعب درخت اور مہکتے پھول یاد آنے لگے۔ چہچہاتی چڑیاں اور میٹھی بولیاں بولتے حسین و جمیل پرندے بھی یاد آئے۔ غرض کوویڈ 19 نے کئی انسانوں کو دوبائرہ فطرت کے قریب کردیا اور انہیں احساس دلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے انسان کو دلی اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس میں خیرو بھلائی کے جذبات جنم لیتے ہیں اور وہ شیطان کے پھیلائے شر سے بچ جاتا ہے۔

حکومت کا کردار

پچھلے چالیس برس سے حکومتوں کا نجکاری پر زور ہے۔ وہ سرکاری خدمات اور ادارے نجی شعبے کے سپرد کررہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسانی معاشرے کے انتظام و انصرام میں اپنی ذمے داریاں کم سے کم کی جاسکیں۔ مثلاً برطانیہ کی لجنڈری وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے یہ مقولہ رائج کیا کہ حکومت کی نگاہ میں انسانی معاشرہ وجود نہیں رکھتا۔ اسی طرح امریکا کے ممتاز صدر، رونالڈ ریگن نے بہترین انسانی معاشرے کی تشکیل میں حکومت ہی کو بنیادی رکاوٹ قرار دیا۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کورونا وائرس وباء پھیلتے ہی بہرحال پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام ممالک میں حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتوں نے عوام الناس کو سہولتیں فراہم کرنے کی خاطر کھربوں ڈالر کے پیکجوں کا اعلان کیا۔ نیز شعبہ صحت کو مضبوط و توانا کرنے کی خاطر اسے اربوں ڈالر کی امداد دی گئی۔ یوں وباء نے یہ سچائی آشکار کردی کہ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض اور ذمے داری یہی ہے کہ عوام کی بھلائی کے کام کرے اور اس مقصد کے لیے اپنی طاقت و دولت بروئے کار لائے۔

دنیا کے اکثر ممالک میں شعبہ صحت دو حصوں… سرکاری اور نجی سطح پر تقسیم ہے۔ سرکاری شعبہ صحت تقریباً ہر جگہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ نجی شعبہ زیادہ موثر علاج معالجہ فراہم کرتا ہے مگر وہ مہنگا ہے اور عام لوگ اسے حاصل نہیں کرپاتے۔ لیکن کچھ ممالک مثلاً سنگاپور اور جنوبی کوریا میں سرکاری شعبہ صحت بہت اچھا اور متحرک ہے۔ اسی لیے ان دونوں ممالک میں کورونا وائرس وباء زیادہ پھیل نہیں سکی۔ دونوں ممالک کی حکومتیں سرکاری شعبہ صحت مضبوط بنانے کی خاطر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

امریکا، برطانیہ، اسپین، اٹلی، فرانس وغیرہ میں سرکاری شعبہ صحت پہلے کی طرح توانا اور طاقتور نہیں رہا تھا۔ حکومتیں اس پر فنڈز بھی کم خرچ کررہی تھیں۔ اسی لیے کورونا وائرس وباء آئی تو ان ملکوں میں سرکاری شعبہ صحت بیٹھ گئے اور ہزارہا مریضوں کا بوجھ برداشت نہ کرسکے۔ اس وباء نے عیاں کردیا کہ ہر ملک میں سرکاری شعبہ صحت نہایت مضبوط اور فعال ہونا چاہیے تاکہ وہ خصوصاً معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسانوں کو علاج کی عمدہ سہولیات فراہم کرسکے۔ یوں معاشرے کے کمزور طبقوں کو حکومت کا مضبوط سہارا مل سکے گا۔

ماحول دوست اقدامات

کورونا وائرس وباء پھیلنے سے دنیا بھر میں سرکاری و نجی ادارے بند ہو گئے اور کارخانوں میں کام رک گیا۔ سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہوگئی۔ اس تبدیلی سے ہر جگہ ماحول میں مثبت تبدیلیوں نے جنم لیا۔ فضا سے دھواں جاتا رہا اور ہوا صاف ہوگئی۔ آکسیجن میں اضافہ دیکھا گیا اور شہری باغات میں پھولوں اور سبزے کی مخصوص مہلک لوٹ آئی۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کی سطح میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔

ظاہر ہے، کارخانوں اور ٹریفک کی بندش عارضی ہے۔لیکن ماہرین کو یقین ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جن ماحول دوست اور انسان دوست طور طریقوںنے جنم لیا‘ وہ کسی نہ کسی صورت مستقبل میں بھی برقرار رہیں گے۔ مثلاً لاک ڈاؤن کے دنوں میں پوری دنیا میں لوگ گھر بیٹھ کر کام کرنے لگے اور باہمی مشورے کے لئے وڈیو کانفرنسیں معمول بن گئیں ۔ اسی طرز عمل سے دو بڑے فوائد انسانوں کو حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ دفاتر یا میٹنگ کی جگہوں پر آنے جانے میں جو وقت صرف ہوتا ہے‘ وہ بچ گیا۔ دوسرے گاڑیاں‘ ریلیں اور ہوائی جہاز بھی کم استعمال ہوئے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر کے ماحول میں مضر صحت گیسیں بڑھاتے ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں بہت سے کاروبائری ‘ تاجر اور افسر وڈیو کانفرنسوں کو ترجیح دیں۔ وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کی مدد سے ساری سرگرمیاں انجام دیں اور صرف اشد ضرورت کے وقت ہی سفر کریں۔ کام کا ایسا ویزل یا ڈیجٹل ماحول مستقبل میں کاروبائر اور صنعت و تجارت کی ماہیت بدل سکتا ہے۔

مزید براں دنیا بھر میں حکومتیں ایسے نجی اداروں کو ترجیح دینے لگی ہیں جو ماحول دوست پالیسیاں اپناتے ہیں۔ انہی اداروں کو حکومتیں زیادہ ٹھیکے اور دیگر سرکاری منصوبے دیتی ہیں۔ کوریڈ 19 کی وباء کے بعد یہ رجحان تقویت پکڑے گا۔ یہی نہیں‘ اب دنیا بھر میں سرمایہ کاروں پربھی یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ماحول دوست پالیسیاں اپنانے والی کمپنیوں پر ہی پیسا لگائیں ۔

قوم پرستی… کم ہو گی یا زیادہ؟

پچھلے چند عشروں میں دنیا کے کئی ممالک میں قوم پرستی کا دور دورہ ہو چکا۔ ان میں امریکا‘ روس‘ برازیل‘ اٹلی‘ فرانس اور کئی دیگر اہم ممالک شامل ہیں۔ان ملکوں میں قوم پرست لیڈر برسراقتدار آ گئے جنہوںنے اپنی قوم کو ’’ سب سے پہلے‘‘ رکھا اور اسی کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تشکیل دیں۔ منفی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ممالک کو دور کر دیا اور اپنی صنعت و تجارت اورکاروبائر کو تحفظ دینے والے طریقے اختیار کیے۔ سوال یہ ہے کہ کوویڈ19 کی وباء قوم پرستی کی پھیلتی تحریک ختم نہیں تو کمزور کر سکے گی؟ ایسی وسیع پیمانے پر پھیلتی وباء سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی انسانوں کے مابین رنگ‘ نسل‘ مذہب وغیرہ کا فرق کرتی ہے۔وہ بلاروک ٹوک ہر انسان کو نشانہ بناتی ہے۔

کوویڈ19 روکنے کے لیے مختلف ممالک نے باہمی کو ششیں بھی کیں مگر زیادہ تر یہی رجحان رہا کہ ہر ملک وباء روکنے کی خاطر مقامی اقدمات اپناتا رہا۔ امریکا بظاہر دنیا کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے‘ مگر جب بنی نوع انسان آفتوں اور مصائب کانشانہ بنے‘ تو صرف اپنے مفادات ہی مقدم رکھتا ہے۔ ویسے بھی اب وہاں ’’پہلے امریکا‘‘ کی سوچ رکھنے والے حکمران موجود ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت کی بیشتر توجہ اور توانائی اس امر پر مرکوز رہی کہ کوویڈ19سے کیونکر امریکا اور امریکی قوم کو محفوظ رکھاجائے۔ حتیٰ کہ لاکھوں انسانوں کو شکارکرنے والے اس وباء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس تک منعقد نہیں ہو سکا۔ ابتداء میں ٹرمپ حکومت نے اپنے قدیم و دیرینہ رفیق ‘ پاکستان کو صرف دس لاکھ ڈالر کی امداد دے کر خیال کیا کہ اس کا فرض ادا ہو گیا۔

اس وبائء کے دوران امریکا سے زیادہ چین نے ا یک عالمی اور نمایاں طاقت ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے پاکستان کے علاوہ اٹلی ‘ اسپین اور کویڈ19 سے متاثر دیگر ملکوں میں کثیر طبی سامان بطور امداد بجھوایا جس میں وینی لیٹر‘ ماسک اور ادویہ شامل تھیں۔ اسی دوران صدر ٹرمپ کرونا وائرس کو ’’چینی وائرس‘‘ کہہ کر چین کو بدنام کرنے اور اس کا مذاق اڑانے میں لگے رہے۔ ان کی کوشش رہی کہ یہ چرچا کر سکیں‘  کوویڈ19 پھلانے کا ذمے دار چین ہے۔ اس چلن سے عیاں ہے کہ امریکی قوم پرست رہنما نے عالمی وبائء کو بھی ا پنا ہتھیار بنا لیا اور اس کے ذریعے چین کے لیے خوف پھیلانے اور اپنی حاکمیت جتانے پر لگے رہے۔

نظریہ قوم پرستی کے مبلغ کوویڈ 19کو ایک انعام سمجھ رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اس سے قوم پرستی مضبوط ہو گی۔ ہر ملک میں حکومتیں وبا پر قابو پانے کے لیے ایمر جنسی طریقے اپنا رہی ہیں۔ ان طریقوں کی بدولت حکومتوں کو نئی طاقتیں میسر آئیں گی۔اور جب وبا ختم ہو گی تو عین ممکن ہے کہ کئی ممالک میں حکومتیں حاصل کردہ نئی قوتوں کو برقرار رکھیں تاکہ ریاست کی رٹ مضبوط بنائی جا سکے۔

’’ویسٹرن برانڈ‘‘ کا خاتمہ

کوویڈ19 نے بظاہر چین میں جنم لیا مگر اس کا پھیلاؤ دنیائے مغرب (یورپ‘ امریکا‘ آسٹریلیا‘ برازیل) میں زیادہ رہا۔ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے بیس بڑے ملکوں میں سے سولہ دنیائے مغرب میں واقع ہیں۔ اس سے عیاں ہے کہ ان ملکوں میں صحت و علاج معالجے کا اسٹینڈرڈ یا معیار ماضی کی طر ح اعلیٰ و عمدہ نہیں رہا۔ اس کے برعکس جنوبی کوریا‘ سنگا پور‘ جاپان‘ ملائشیا وغیرہ نے ٹھوس اقدامات اپنا کر وبا کو پھیلنے نہیں دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو عشروں دنیا میں طاقت کا منبع مغرب نہیں مشرق بن رہا ہے۔ اب کوویڈ19 کی وجہ سے تبدیلی کا یہ عمل تیز ہو جائے گا۔ چین نے بھی اپنی ابتدائی غلطیوں پر تیزی سے قابو پایا اور سوا ارب آبادی میں وبا کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر یورپی حکومتوں اور اورامریکی حکومت نے کوویڈ19 کے سلسلے میں خاصی سستی دکھائی اور ان کا رد عمل غیر سنجیدہ اور لاابالی رہا۔ اس بات نے ’’مغربی برانڈ ‘‘کو مزید نقصان پہنچایا اور وہ پہلے کی طرح احساس ذمے داری‘ بہترین کام اور نیک نیتی سے وابستہ نہیں رہا۔

ایک خطرناک راستہ

بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کوویڈ19 کے باعث عالمی سیاست کی ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس ضمن میں وہ تاریخ سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً1818ء تا1919ء میں ہسپانوی فلو سے کروڑوں انسان چل بسے تھے۔ یہ ایک خوفناک واقعہ تھا پھر بھی عالمی قوتیں باہم نبرد آزما رہیں اور ان کے مابین دشمنی ختم نہیں ہو سکی اور نہ ہی کرہ ارض کے مسائل مل جل کر ختم کرنے کے سلسلے میں انہوں نے کوئی ٹھوس قوم اٹھایا۔

کوویڈ19 بھی عالمی سیاست میں شاید بنیادی تبدیلی نہ لا سکے۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کا پھیلاؤ اور اثر و رسوخ مزید کم ہو جائے۔ وجہ یہ ہے کہ شہری اب اپنے معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کی خاطر حکومتوں سے رجوع کریں گے۔ شہریوں میں یہ خیال جنم لے چکا کہ صرف قوم پرست لیڈر ہی انہیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔گویا یہ امکان موجود ہے کہ کوویڈ19 کی بدولت دنیا مزید تنگ دلی کا نشانہ بن ہو جائے۔ کئی امیر ممالک میں پہلے کی طرح خوشحالی اور امارت بھی نہیں رہے گی۔ جبکہ بہت سے ملکوں میں قوم پرست حکومتیں اپنے آپ کو بااختیار بنانے کی خاطر شخصی آزادیوں پر پابندیاں لگا سکتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ آئے دن جنم لیتے خطرناک وائرسوں‘ خراب منصوبہ بندی اور نااہل لیڈروں کے ملاپ نے بنی نوع انسان کو ایک نئے مگر خطرناک راہ پر گامزن کر دیا ہے۔

چین… ایک عالمی طاقت

بیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کا مرکز رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے چین اب یہ جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوویڈ19کے باعث یہ عمل تیز تر ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی عوام اب عالمگیریت اور عالمی تجارت کو اپنے لیے موزوں نہیں سمجھتے ۔ ان کا خیال ہے کہ مہاجرین کی آمد سے امریکی شہریوں کے لیے زیادہ ملازمتیں نہیں رہیں اور پھر ان کی آمدن بھی کم ہو گئی۔ اسی طرح آزاد تجارتی معاہدے بھی امریکی معیشت کے واسطے نقصان دہ ہیں۔ غرض امریکیوں کی اکثریت ذہنی طور پر اپنے ملک تک محدود ہو چکی اور وہ ملکی وقومی مفادات کا ہی سوچتی ہے۔

چین میں عوام کی اکثریت عالمگیریت اور عالمی تجارت سے برگشتہ نہیں ہوئی۔ اس سوچ کی مختلف وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اہم وجہ تاریخی ہے۔ ماضی میں چین کے حکمران اور عام لوگ اپنے ملک تک محدود رہے۔ وہ بیرونی ممالک سے زیادہ رابطہ نہیں رکھتے تھے۔ اسی تنگ نظری نے مگر چین کو کافی نقصان پہنچایا ۔ 1842ء تا1949ء وہ خانہ جنگیوں اور بیرونی لڑائیوں کا مرکز بنارہا۔ ان جنگوں نے چین کی معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی زندگی تباہ کر ڈالی۔ وہ ایک بڑی قوت نہ رہا بلکہ شکست خوردہ اور افیونچی لوگوں کی مملکت بن گیا۔

جب کمیونسٹ لیڈر آئے تو انہوںنے بھی عالمی برادری سے زیادہ روابط نہیں رکھے اور خود انحصاری کے طریقے اپنانے کو ترجیح دی۔ مگر یہ طریقے چین میں خوشحالی لا سکے اور نہ اسے ترقی دے سکے۔ لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند نہیں ہوا اور زندگیاں لشٹم پشٹم گزرتی رہی۔ چینی عوام کی زندگیوں میں انقلاب 1980ء کے بعد آیا جب حکمرانوں نے بیرونی ممالک سے تجارت کرنے کا فیصلہ کیا اور معیشت پر عائد بہت سے پابندیاں ہٹالیں۔چین نے پھر تصادم کی راہ ترک کر دی اور ہر ملک سے دوستی و محبت کے رشتے قائم کرنے لگا۔ اگر کہیں ٹکراؤ آیا تو لڑائی سے حتی الواسع گریز کیا۔ عالمگیریت کی پالیسی اختیار کرنے کا نتیجہ شاندار رہا اور چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن گیا۔ یہی نہیں‘ اہل چین اب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی زبردست کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ شعبہ ثقافت میں بھی سرگرم ہیں۔ پُراعتماد ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کا بار اٹھا سکتے ہیں۔

امریکی حکمران ترقی یافتہ، خوشحال اور طاقتور چین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ چین کے عروج سے دنیا میں امریکا کی حاکمیت وا اہمیت ختم ہوسکتی ہے۔ اس لیے گہرے تجارتی روابط کے باوجود امریکی حکمران چین کو نقصان پہنچانے کی خاطر خفیہ طور پر کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً میڈیا میں یہ خبر گردش کرتی رہتی ہے کہ نیا کورونا وائرس کسی امریکی حیاتیاتی لیبارٹری میں بنا کر چین میں چھوڑا گیا۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس وائرس نے حقیقتاً معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر چین کو کافی متاثر کیا۔

دانش وروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں امریکی حکمران چین کے ساتھ دو قسم کا برتاؤ کرسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک منفی ہے اور دوسرا مثبت۔ اگر امریکی حکمران اپنے عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں۔ ان کی بہتری کے لیے سوچتے ہیں تب مثبت پالیسی بنائیں گے۔ یعنی چین سے دوستی کرلیں گے۔ دونوں ممالک پھر اپنے اپنے عوام کو فوائد پہنچانے کی خاطر مل جل کر کام کریں گے۔امریکی حکمران مگر کرہ ارض پر اپنا اثرورسوخ بحال رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ عالمی تھانے دار کا کردار ادا کریں۔ تب وہ لامحالہ منفی پالیسی اختیار کرلیں گے۔ وہ خفیہ و عیاں، ہر طریقے سے چین کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں شروع کرسکتے ہیں۔ یاد رہے، چین کے ساتھ جنگ کا آغاز بھی ٹرمپ حکومت نے کیا۔

آخری فتح عالمگیریت کی

پچھلے چند عشروں میں دنیا ’’عالمی گاؤں‘‘ بن چکی۔ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے کروڑوں افراد ہر سال بغرض کاروبار یا سیروسیاحت ایک دوسرے کے ملک میں جاتے ہیں۔ اسی بڑھتے ربط ضبط نے کوویڈ 19 کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اور اسی لیے اب یورپ اور امریکا میں ان سیاست دانوں اور دانشوروں کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے جو مہاجرین، پناہ گزینوں اور غیر ملکیوں کی آمد کے مخالف ہیں۔ اس وبا نے یورپی ممالک میں قوم پرستی کے جذبات بڑھادیئے ہیں۔

دانش وروں کے ایک طبقے کا مگر نظریہ ہے کہ رفتہ رفتہ دنیائے مغرب کے حکمرانوں اور عوام کو احساس ہوگا کہ طویل المعیاد لحاظ سے فلسفہ عالمگیریت ہی بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید ہے۔اس فلسفے کی بدولت ٹکراؤ، تصادم اور اختلافات کم جنم لیتے ہیں جبکہ امن، محبت اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا آگے چل کر مغربی ممالک کو دوبارہ نظریہ عالمگیریت ہی اختیار کرنا ہوگا تاکہ تصادم سے بچ سکیں۔ آخری فتح اسی نظریے کی ہوگی۔

شعبہ صنعت و حرفت تبدیل

پچھلے چند عشروں میں صنعت و حرفت کا شعبہ بھی عالمگیر ہوچکا۔ کئی بڑی کمپنیوں کے کارخانے اور دفاتر مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں۔ مثلاً ایک الیکٹرونک مصنوعہ کے بعض پرزے چین میں بنتے ہیں، تو کچھ ویت نام یا جاپان میں اور بقیہ پرزہ جات امریکا یا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں۔ غرض بہت سی بڑی کمپنیوں نے اپنا کام پوری دنیا میں پھیلا دیا تھا لیکن کوویڈ 19 وبا یہ طرز عمل بھی تبدیل کرسکتی ہے۔

دراصل اکثر بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے پرزدہ جات یا خام مال چین سے منگواتی تھیں۔ جب کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں کارخانے بند ہوئے تو وہاں سے ہر قسم کا مال آنا بند ہوگیا۔ اسی بندش نے عالمی سپلائی چین کو بہت متاثر کیا۔ کئی فیکٹریوں میں کام رک گیا۔ نیز جو مال مارکیٹوں میں موجود تھا، وہ مہنگا فروخت ہوا۔کوویڈ 19 کی آمد سے پہلے بھی دنیا کا شعبہ صنعت و حرفت دباؤ میں تھا۔ چین میں پیداواری لاگت بڑھ رہی تھی۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک سے تجارتی جنگ شروع کردی جس سے صنعت و تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پھر دنیا بھر مشینیں اور روبوٹ انسانوں سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ان کی وجہ سے لاکھوں مردو زن کا روزگار خطرے میں پڑ چکا۔ اب کوویڈ 19 کے باعث کارخانے بند ہونے سے ہسپتال، ادویہ ساز ادارے، سپر مارکیٹیں اور کریانے کی دکانیں تک مال کی کمی کا نشانہ بن گئیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب دنیا بھر میں صنعتی و تجارتی ادارے اپنی سرگرمیاں چند ممالک تک محدود کرنے کی کوششیں کریں گے تاکہ مستقبل میں کوئی قدرتی یا غیر قدرتی آفت جنم لینے پر ان کا کام متاثر نہ ہو۔ حکومتیں بھی شعبہ صنعت و حرفت میں دخل اندازی کریں گی۔ دراصل ان کی خواہش ہوگی کہ ملکی سلامتی سے منسلک اسٹریٹجک صنعتیں ہر لحاظ سے مقامی سطح پر ہی کام کریں تاکہ آفت آنے پر وہ بند نہ ہوں اور بدستور اپنا کام کرتی رہیں۔ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ ماضی میں سستی افرادی قوت کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے اداروں نے غریب ملکوں میں کارخانے لگائے۔ مگر اب کوویڈ 19 کی وجہ سے وہ اپنی فیکٹریاں اپنے ممالک ہی میں لگاسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا منافع کم ہوجائے گا مگر یہ ضمانت مل سکے گی کہ کوئی بھی آفت چمٹنے پر سپلائی چین برقرار رہے گی۔ کام رکنے نہیں پائے گا۔

فاتح ہی تاریخ لکھے گا

انسانی تاریخ سے آشکار ہے کہ کوویڈ 19 کے حالیہ بحران کی تاریخ بھی فاتح ہی لکھیں گے۔ اس وجہ کی وجہ سے ہر حکومت بلکہ ہر انسان معاشرتی و معاشی لحاظ سے دباؤ میں آگیا۔ اربوں انسانوں کو ایسے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے پہلے وہ کبھی عہدہ برآں نہیں ہوئے تھے۔اس سنگین صورتحال میں یقینا وہی ممالک فتح یاب ٹھہریں گے جہاں معیشت طاقتور ہے، مستحکم حکومت قائم ہے اور سرکاری شعبہ صحت توانا و مضبوط ہے۔ جو ملک معاشی، سیاسی اور انتظامی لحاظ سے کمزور ہیں، انہیں کوویڈ 19 سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین میں ایک لحاظ سے آمرانہ حکومت کام کررہی ہے۔ تاہم ابتدائی دھچکوں کے بعد اس نے وبا کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔ چناں چہ چین کے حامی دانشور چینی نظام حکومت کی خوب تعریف کررہے ہیں۔ اٹلی، اسپین، امریکا کی جمہوری حکومتیں وبا کا پھیلاؤ نہیں روک سکیں۔ لہٰذا ان ملکوں میں جمہوری نظام حکومت تنقید کی زد میں آگیا۔ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 نے سیاست اور معیشت کے بین الاقوامی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اب دنیا بھر میں عوام ایسے نظام حکومت اپنانے پر زور دیں گے جو ان کے مسائل و مصائب دور کرسکے جبکہ معاشی زوال ممالک کے درمیان اختلافات بڑھائے گا۔ گویا مستقبل میں دنیا عدم استحکام اور نئی لڑائیوں کی آماج گاہ بن سکتی ہے۔

مسکراہٹ علاجِ کورونا ہے

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مصیبت،غم اور دکھ میں مزاح انسان کو ہمت وحوصلہ عطا کرتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مسکراہٹ اور قہقہے کی بدولت انسان کو مسائل پہ قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔یہی وجہ ہے،پوری دنیا میں لوگوں نے کوویڈ 19سے مقابلہ کرنے کی خاطر مزاح کا سہارا لیا اور وباء سے پیدا کردہ مشکل حالات میں بھی مسکرانے کے اسباب ڈھونڈ لیے۔کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے:

میری ساری ہمدردیاں ان بیچارے شوہروں کے ساتھ ہیں جو عرصہ دراز سے بیگمات کو یہ کہتے چلے آ رہے تھے:

’’جب بھی وقت ملا،یہ کام کر دوں گا۔‘‘

٭٭

’’کیا انقلاب ہے!نوجوانی میں باہر نکلنے پر امی ابو مجھے ڈانٹتے تھے۔آج میں انھیں باہر جاتا دیکھوں تو چلانے لگتا ہوں۔‘‘

٭٭

ایک شوہر دوسرے سے :’’ میرا جسم میری مرضی والے اب کہاں ہیں؟ انہیں کہو، اب باہر نکلو نہ۔‘‘

٭٭

شوہر اخبار پڑھتے ہوئے بے اختیار ہنسنے لگے۔وجہ پوچھی تو کہنے لگے:’’چین میں سو جوڑے قرنطینہ سے باہر نکلے تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو طلاق کے نوٹس بھجوا دئیے۔‘‘

٭٭

مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ دن بھر میرا اہم ترین کام چہرے کو چھونا ہے۔

٭٭

لاک ڈاؤن کی پہلی رات…آج کوئی کھیل نہیں دیکھا۔بیوی سے ایک گھنٹہ گپ شپ ہوئی۔اچھی عورت ہے۔پتا چلا کہ کسی اخبار میں کام کرتی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ٹی وی بند ہو تو اس کی اسکرین کالی رہتی ہے۔

٭٭

ایک کتا دوسرے کتوں سے’’یار مجھے سخت حیرانی ہے، یہ سڑکوں پہ گھومتے انسان کہاں گئے؟کیا انھیں بھی میونسپلٹی والوں نے پکڑ لیا؟‘‘

٭٭

گھر سے کام کرنے کا پہلا دن:

بیگم نے ایچ آر کو ہراسمنٹ کی شکایت جمع کرا دی ۔

٭٭

آج بینک میں مجھے چھینک آ گئی…عملے کی جانب سے اتنی توجہ پچھلے دس سال میں کبھی نہیں ملی تھی۔

٭٭

عورتیں چلی تھیں آزادی لینے…الٹا شوہروں کو بھی گھروں میں قید کروا دیا۔

٭٭

اکیسویں صدی کا قول

پیارے اللہ میاں!پلیز 2020ء کو ان انسٹال کر کے ری انسٹال کر دیجیے۔اس میں وائرس آ گیا ہے۔

٭٭

وقت وقت کی بات ہے،کبھی گھر پہ پڑے رہنے والے نکھٹو کام چور کہلاتے تھے۔اب سمجھدار سمجھے جاتے ہیں۔

٭٭

اٹھو…کھانا کھاؤ…سو جاؤ…سپنا دیکھو… اٹھو…کھانا کھاؤ…سو جاؤ…سپنا دیکھو…

یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا!

دنیا کے بیسیوں ملکوں نے کوویڈ ۔19 کو سنگین خطرہ سمجھتے ہوئے پورے پورے شہر لاک ڈاؤن کر دیے۔ ہمارے ہاں کئی ’’بھولے بادشاہ‘‘ اس سارے معاملے کو مذاق سمجھتے رہے۔ وہ نہیں سمجھ سکے کہ یہ خطرناک وبا اللہ تعالی کا نازل کردہ عذاب بھی ہو سکتا ہے۔چناں چہ ہمیں درج ذیل جملے عام سننے کو ملے:

٭ یہ سب ایسے گپ شپ ہے، ڈراما ہے سارا…

٭گھر کون بیٹھ سکتا ہے؟

٭ابھی تک سب خیریت تھی، جیسے ہی پیسوں کا سنا تو غوغا مچ گیا۔ یہ سب ڈالر بٹورنے کا منصوبہ ہے۔

٭ اسکول ایسے ہی بند کر دیے، اسکولوں میں کرونا کا کیا کام؟

٭ اساتذہ کے مزے ہو گئے۔

٭ چین کو خراب کرنے کی امریکی سازش ہے۔

٭ بیماری کی وجہ سے غمی خوشی تو نہیں چھوڑی جا سکتی۔

٭ کوئی میرے ساتھ ہاتھ نہ ملائے تو پھر دیکھ لینا۔

٭موت نے اپنے وقت پر ہی آنا ہے۔

٭ حکومت جھوٹ بول رہی ہے کہ کرونا سے لوگ مر رہے ہیں۔اگر کسی بھی مردے کی موت کی وجہ کرونا بتائی جائے تو مردہ اٹھ کر کہہ نہیں سکتا، نہیں میں تو دمے سے فوت ہوا ۔

The post کورونا وائرس نے دنیا بدل دی appeared first on ایکسپریس اردو.

حیاتیاتی ہتھیار، مخالف اقوام کو نیست و نابود کرنے کا پرانا طریقہ

$
0
0

انسان کی تاریخ جنگ و جدل سے عبارت ہے ،خواہ جنگ کا مقصد لسانی و مذہبی ہو یا وسائل کا حصول ۔غرض ہر قوم کی تاریخ میں آتش و آہن کی داستانیں ملتی ہیں ،جنگ میں فتح کا اندازہ فوج کے ساتھ ساتھ اسلحے کی تعداد سے لگایا جاتا تھا۔ماہرین حرب دشمن کو شکست دینے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے تھے ،روایتی حملوں سے ہٹ کر نئے حملے کی تدبیر ہی فتح سے ہمکنار کرتی تھی۔

حال ہی میں چین کے اندر ’’کرونا‘‘نامی وائرس کی ایک قسم (COVID-19) نے تباہی مچائی، ہزاروں متاثر ہوئے اورسینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ پھر یہ وائر س یہاں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گیا، تادم تحریر پاکستان،ایران ،انڈیا اور آسٹریلیا سمیت 188 ملکوں کے باشندوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ یہ وائر س اصل میں ہے کیا ؟ کیا یہ تیار شدہ ہے یا پھر واقعی یہ کوئی قدرتی آفت ہے؟

قدیم زمانے میں محاصرہ ہونے پر فوج مختلف جڑی بوٹیوں کو جلا کر ان کا دھواں دشمن پر چھوڑتی تھی جس سے دشمن محاصرہ ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ اس کے علاوہ دشمن پر شہد کی مکھیوں کے چھتے پھینک دیئے جاتے تھے جس سے دشمن کی ڈھالیں اور تلواریں کسی کام کی نہ رہتیں اور مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے قافلے میں افراتفری پھیل جاتی ۔اطباء بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں پر تحقیق کرتے تاکہ ان کی افزائش کرکے انہیں دشمن پر چھوڑا جا سکے۔

حیاتیاتی و کیمیائی علوم نے جوں جوں ترقی کی اس کے ساتھ ہی کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں میں بھی اضافہ سامنے آیا۔ایک طرف میڈیکل سائنس کو انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیا گیا تو دوسری جانب اس کا تاریک پہلو بھی سامنے آیا ،تجربات کے نتائج میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا وہ دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔یہ بات تو قدیم طریقہ کار کی تھی جب لوگ جدید کیمیکل اور حیاتیات سے زیادہ واقف نہیں تھے لیکن بدلتے وقت کی ایجادات اور تجربات نے انسانیت کے پرخچے اڑا دیئے۔

جوہری جنگ

یہ سب سے زیادہ خطرناک جنگ ہے ،جس میں جوہری طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے ،دوسری جنگ عظیم (1945-1939) کے اختتام پر امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیئے،جس سے ہیروشیما میں 90,000سے 166,000افراد جبکہ ناگاساکی میں 60,000سے80,000افراد ہلاک ہو ئے ۔وہاں طویل عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ بچے پیدا ہوتے رہے ۔پاکستان سمیت دنیا میں متعدد ممالک کے پاس ان ہلاکت خیز بموں کی کثیر تعداد آج بھی موجود ہے ۔ان خطرناک جوہری ہتھیاروں میں ایٹم بم، ہائیڈروجن بم،نیوٹران بم اور ڈرٹی بم قابل ذکر ہیں۔مگر اس واقعہ کے بعد دوبارہ دنیا میں کسی جگہ ایٹم بم استعمال نہیں کیا گیا ۔

کیمیائی جنگ

اس جنگ میں زیادہ تر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اسے ہوا یا پانی میں ملا دیا جاتا ہے یا پھر گیس کی شکل میں خارج کیا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بیلجیم کے قصبے ویسپر میں 22اپریل 1915ء کو جرمن فوج نے پہلا کیمیائی حملہ کیا اور فرانس کی دو ڈویژن فوج پر150ٹن کلورین فضا میں چھوڑ ی جس سے متعدد فوجی اس زہریلی گیس کا شکار ہوگئے۔ جولائی1917ء میں (جرمن فوج ہالینڈاور بیلجیم کو روندتی ہوئی فرانس کی سر زمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی ) جرمن فوج نے بیلجیم کے قصبے ویسپر کے نزدیک ’’مسٹرڈ‘‘ گیس کا استعمال کیا۔اس کے اثر سے ابتدائی طور پر چھینکیں آتیں اور آنکھوں میں جلن پیدا ہو ا جاتی ،اور اگر یہ گیس جسم کے کسی حصے کو چھوجاتی تو وہاں آبلے پڑ جاتے تھے اور ان زخموں کو مندمل ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا تھا۔ب

عد ازاں ورسل معاہدے کی رو سے جرمنی کو ایسی گیس بنانے اور اس کے استعمال سے روک دیا گیا۔جنگ عظیم اوّل میں جہاں راکٹوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا وہاں کیمیائی ہتھیاروں کا بھی خطرناک حد تک استعمال ہوا ۔ان کیمیائی حملوں میں ’’آنسو گیس‘‘ ’’اعصاب شکن گیس‘‘کے علاوہ ’’کلورین گیس‘‘ کا بھی استعمال ہو ا۔دوسری جنگ عظیم (1939-1945) میں برطانیہ نے1942میںآپریشن ویجیٹیرین (Operation Vegetarian) کے دوران جرمن جانوروں کے کھانے میں ’’اینتھراکس ‘‘ ملا دیا تھا۔ بعد ازاں ان جانوروں کے ذریعے سے یہ خطرناک بیماری دودھ اور گوشت کی شکل میں جرمنوں میں منتقل ہوئی۔

آج کیمیائی حملوں کے طریقوں میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور کیمیائی حملے میزائل کے ذریعے کیے جا رہے ہیں ،مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال عام ہے ۔اس کے باوجود تمام ممالک خود تو کیمیائی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو نا چاہتے ہیں مگر دوسروں کو اس عمل سے روکنا چاہتے ہیں ۔امریکا نے بھی کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود یہ کہہ کر عراق پر حملہ کیا کہ عراق کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔مظلوم کشمیریوں کے خلاف ’’مرچی گرنیڈ‘‘ کا استعمال کیا گیا جو اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف کر رہا ہے جس میں سرخ مرچوں کے علاوہ ایسے کیمیکل کام میں لائے جاتے ہیں جو پھٹنے کے بعد دھواں پیدا کرتے ہیں جس سے دم گھٹنے لگتا ہے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جا تاہے۔

جنگ عظیم اول (1914-1918) کے خاتمے کے بعد جاپان نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیق کی غرض سے ’’یونٹ 731‘‘ بنایا،جس میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنائے جاتے اور انہیں جنگی قیدیوں پر استعمال کیا جاتا ،کم و بیش ایک ہزار قیدی ان خطرناک تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن جنگ عظیم دوئم میں شکست کے خوف سے اس نے اس یونٹ کو تباہ کر دیا ۔22فروری 2011ء کو اس یونٹ میں کام کرنے والی ایک نرس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وہاں انسانیت سوز تجربات کیے گئے۔اس نرس نے بتایا کہ جب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو انہیں سینکڑوں لاشوں کو دفنانے کا حکم دیا گیا اور یہ سب کام امریکی فوج کے پہنچنے سے پہلے کرنا تھا۔اس یونٹ کا تعلق جاپان کی امپیریل فوج سے بتایا جاتا ہے جس نے قیدیوں پر حیاتیاتی تجربے کیے۔

حیاتیاتی جنگ

حیاتیاتی جنگ کا سرا صدیوں پہلے کی تاریخ سے ملتا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ترکوں اور منگولوں نے بیماری سے مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ محصور علاقوں میں منگولوں اور ترکوں نے طاعون زدہ لاشیں پھنکوائیں جس سے دشمن میں طاعون پھیل گیا اور سینکڑوں افراد نے جان گنوائی ،ایسا ہی ایک حملہ گریٹ نادرن وار (عظیم شمالی جنگ) میں روس نے سویڈن پرکیا۔دشمن کے پانی کے ذرائع میں ایسے پودے ڈالنے کی مثالیں موجود ہیں جن سے اس پانی کو پینے والے بیمار یا ہلاک ہوئے۔1918ء میں سپینش وائرس سے 40 سے 50 ملین افراد ہلاک ہوگئے۔بعد ازاں 2009ء میں آنے والے سوائن فلو( H1N1،H1N2, H3N1, H3N2) سے دو لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے۔

2014ء میں ایبولا وائرس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے، مغربی افریقی ممالک میں ایبولا وائرس سے چار ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھنے والا یہ وائرس امریکا اور یورپ میں بھی پہنچا ۔

مغربی ممالک کے ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ شام اور عراق میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجو ایبولا وائرس کو بائیو ویپن(Bio weapon) کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں، جنگجو خود کو ایبولا سے متاثر کر کے مغربی ممالک آ سکتے ہیں اور یہاں وائرس دیگر انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ اس وقت فوجی تجزیہ کاروں کا موقف تھا کہ موجودہ حالات میں ایبولا کو بائیو ویپن کے طور پر استعمال کرناعین ممکن ہے ۔امریکا کے نیول وار کالج میں قومی سلامتی کے پروفیسرکیپٹن(ر)البرٹ شمکس کے مطابق ایبولا کو بائیو ویپن کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی مکمل طور پر قابل عمل ہے اور شدت پسند اس مقصد کیلئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں۔

امریکا کی خاتون پروفیسر امینڈا ٹیک مین نے عالمی جریدے گلوبل پالیسی میں ایک مضمون لکھا کہ ایبولا کے حیاتیاتی حملے سے دنیا کو سخت خطرہ ہے اور اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے کہ ایک جنگجو خود کو ایبولا سے متاثر کرے اور پھر مغربی ممالک میں گھسنے میں کامیاب ہو جائے جہاں ایئرپورٹس پر مسافروں کا سخت طبی معائنہ کیا جا رہا ہے ، تاہم بعض دیگر ماہرین کے مطابق ایبولا کو کئی دیگر طریقوں سے بھی دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہے ۔

اس خدشے کے پیش نظر امریکا اور یورپی ممالک کے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر نہ صرف ہائی الرٹ جاری کر دیا گیابلکہ ماہرین نے مسافروں کا سخت طبی معائنہ بھی کیا۔ایبولا سے متاثرہ شخص دو تین ہفتوں تک بخار، گلے ، پٹھوں اور سر کے درد میں مبتلا رہتا ، مریض کو قے آتی اور خارش ہوتی تھی ۔ مرض شدید ہوجائے تو جسم کے کسی حصے سے خون بہنے لگتا ۔ایبولا خون، پسینے ، تھوک ، فضلے اور جسمانی تعلقات کے ذریعے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ۔ایبولا خشک آب و ہوا والے علاقوں میں چند گھنٹوں سے زائد زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ایبولا وائرس افریقہ میں چمگادڑوں سے انسانوں اور جانوروں میں منتقل ہوا، اس کا پہلا کیس1976 ء میں سوڈان میں سامنے آیا۔2014ء میںعالمی ادارہ صحت نے ایبولا کو گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایڈز کے بعد ایبولا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس ہے۔

یاد رہے کہ حیاتیاتی ہتھیار (Biological weapon) یا جراثیمی ہتھیارسے مراد ایسے ہتھیار ہیں جن میں عموماً جراثیم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ہتھیار اعلانیہ اور خفیہ طور پر مختلف ممالک تیار کرتے ہیں۔حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار سب سے پہلے امریکا اور برطانیہ نے تیار کیے ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلاً گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں ،اگرچہ ظاہراً 1970ء میں ان کی تیاری امریکا نے بند کر دی تھی ۔اسی طرح امریکا میں یورپی ممالک نے جنگوں کے دوران بہت سی ایسی بیماریاں پھیلائیں جن سے امریکا کے قدیم باشندے لاکھوں کی تعداد میں ہلاک ہوئے۔ 1756ء سے1763ء میں فرانسیسیوں نے امریکا کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈینز) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے،جنھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جنہیں خسرہ تھا۔

ایسے ہی کمبل1834ء میں رچرڈ ہنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر فروخت کیے۔بیسویں صدی میں امریکا میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے جن میں انتھراکس جیسے جراثیم شامل تھے ۔سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد جراثیم اور ان کے توڑ تیار کیے ۔کورین جنگ (1950ء1953-ء)کے دوران امریکا نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا ۔(اگرچہ امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار کیا ہے )۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکا خود اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں کا شکار ہونے والا تھا جب امریکی کانگرس اور دیگر سرکاری دفاتر کو ایسے خط ملے جن میں انتھراکس کے جراثیم پاؤڈر کی شکل میں موجود تھے لیکن تاحال اس کاروائی کے ذمہ داروں کا اور ان کے مقاصد کا پتہ نہیں چل سکا۔

حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی روک تھام کے لئے اقدامات

ان جنگوں کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے،جن میں سے ایک جنیوا پروٹوکول ہے جسے17جون 1925ء میں پیش کیا گیا ،اس معاہدے کی رو سے تمام ایسے ہتھیاروں پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے حیاتیاتی جراثیموں کو پھیلانے میں کسی بھی طرح مدد حاصل کی جا سکتی ہے ۔اس معاہدے پر ابتدا میں 38 ممالک نے دستخط کیے لیکن نومبر 2010ء تک یہ تعداد 137ممالک تک جا پہنچی۔ 1922ء میں بھی واشنگٹن میں ایک ایسا ہی معاہدہ ہوا ،وہ معاہدہ ناکامی کا شکار ہوگیا کیوں کہ فرانس نے یہ کہہ کر مخالفت کر دی کہ آبدوزوں کی جنگ پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔1972ء میں بائیو لوجیکل ویپن کنونشن(BWC) ہوئی۔اسے بائیولوجیکل ٹاکسن ویپن کنونشن(BTWC) بھی کہا جاتا ہے ۔اس معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ تمام حیاتیاتی ہتھیار تلف کر دیئے جائیں اور ان کے بنانے پر بھی پابندی عائد کی جائے۔اسی طرح 1993ء میں کیمیکل وپین کنونشن (CWC) ہوا ۔

پہلی جنگ عظیم میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC) نے کوشش کی کہ حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی عائد کی جائے۔اس سلسلے میں 6 فروری 1918ء میں زہریلی گیس کے استعمال کے خلاف اپیل کی۔ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بہت سے ممالک نا صرف انہیں تیار کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے استعمال بھی کرتے ہیں۔ان حملوں کے خطرناک اثرات سے بچنے کے لیے بھی اقدامات جاری ہیں،اسرائیلی فوج اور محکمہ داخلہ کے تعاون سے اسرائیلیوں کو راکٹ حملوں اور کیمیائی جنگ سے بچنے کے لیے مشقیں کرائی جا رہی ہیں،بھارت نے اپنے فوجیوں کو کیمیائی جنگ سے محفوظ رکھنے کی خاطر مخصوص طرز کا لباس تیار کیا ہے ،احمد آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری ریسرچ ایسوسی ایشن اور بھارتی فوج کے طبی ماہرین نے مشترکہ طور پر کیمیائی جنگ سے محفوظ رہنے کے لیے لباس تیار کیا ہے ،جو زہریلی گیسوں سے بچاؤ کیلئے موثر ثابت ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا نوآمد وائرس اور وبائی بیماریاں بھی ان ہی حیاتیاتی ہتھیاروں کا تسلسل ہیں جن کا الزام وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر لگایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تاحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،تاہم دنیا کی تاریخ ،جنگوں کے نت نئے طریقے اور دشمن ممالک میں دفاعی عمل کو کمزور کرنے کے لیے ایسے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

The post حیاتیاتی ہتھیار، مخالف اقوام کو نیست و نابود کرنے کا پرانا طریقہ appeared first on ایکسپریس اردو.


افغانستان، دو صدور اور ایک امیرالمومنین کی حکمرانی میں تقسیم

$
0
0

امریکا اور طالبان کے درمیان جب رواں برس29 فروری کو افغانستان میں قیام امن کے لئے معاہدہ ہوا تو زیادہ تر لوگوں کو توقع تھی کہ اب یہاں امن کا قیام برسوں نہیں، مہینوں کی بات ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ 80 کی دہائی سے قبل افغانستان ایک پُرامن اور سیاسی طور پر مستحکم ریاست تھی، لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔

افغانستان کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے لیکن ہم گزشتہ ایک صدی یعنی بیسویںصدی اور رواں صدی یعنی اکیسویں صدی کی بیس برسوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا گزشتہ ایک سو بیس برسوں میں کبھی افغانستان میں طویل مدت تک امن قائم رہا؟ یا کابل کو اس ایک صدی اور بیس سالوں میں سیاسی استحکام طویل عرصہ تک نصیب ہوا؟

افغانستان کی تاریخ صدیوں پرانی ہے لیکن معلوم تاریخ سے پتہ لگ رہا ہے کہ موجودہ ریاست کی بنیاد 1747 ء میں احمد شاہ درانی نے رکھی تھی۔اس سرزمین کے سینے میں بڑی بڑی بادشاہتوں کے عروج و زوال کی کہانیاں دفن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گزشتہ صدی سے لے آج تک اس سرزمین پر کم و بیش ایک سو دس جنگیں لڑی گئی ہیں جن میں 70 فیصد سے زیادہ افغانوں کی آپس کی لڑائیاں تھیں۔ باقی تیس فیصد جنگیں افغانوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑیں مگر افسوس کہ تاریخ میں ان تیس فیصد بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ مقابلے اور شکست کی تمام تر تفصیلات تو موجود ہیں لیکن آپس میں لڑی گئی جنگوں کا تذکرہ نہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور نہ ہی افغان اس کا زیادہ تذکرہ کرتے ہیں۔

حبیب اللہ خان نے جب اکتوبر 1901 میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران افغانستان کو غیر جانبدار رکھا ۔ افغانوں کو ان کی یہ پالیسی پسند نہ آئی اور 20 فروری 1919 ء کو حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیا ۔ حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد ان کے تیسرے بیٹے امان اللہ خان نے حکومت سنبھالی۔انھوں نے ملک میں اصلاحات کا آغاز کیا، اس پر اختلافات پیدا ہوئے۔ پھر 14 نومبر 1928 ء سے 13 اکتوبر 1929 ء تک افغانستان میں سول وار جاری رہی ۔اس دوران حبیب اللہ کلاکانی حکمران رہے۔

15 اکتوبر 1929 ء کو امان اللہ خان کے کزن محمد نادر خان نے حبیب اللہ کلاکانی کے حکومت کا خاتمہ کیا اور نومبر 1929 ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔انھوں نے اپنے ایک وزیر کو قتل کیا۔ ڈرکی وجہ سے ان کے خاندان نے کابل سے ننگرہار ہجرت کی ۔ پھر1933 ء میں اس مقتول وزیر کے طالب علم بیٹے نے انتقام میں بادشاہ محمد نادر خان کو قتل کردیا۔ شاہ محمد نادرخان کے قتل کے بعد ان کے انیس سالہ بیٹے محمد ظاہر شاہ نے اقتدار سنبھالا۔ اپنے باپ کے قتل کے بعد ظاہر شاہ نے اس کم عمر طالب علم کو اپنے محل کے سامنے پنجرے میں بند کیا اور حکم دیا کہ ہر روز ان کا ایک ایک عضو کاٹا جائے ۔

ایک ہفتے تک اسی چوک میں تیرہ سالہ طالب کا ایک ایک عضو کاٹا جاتا ۔لوگ نظارہ کرتے لیکن خوف اور ڈر کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ظاہر شاہ 1946 ء تک اپنے چچا سردار محمد ہاشم خان کی زیر سرپرستی حکومتی امور انجام دیتے رہے۔ وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔1946 ء میں ظاہر شاہ نے اپنے دوسرے چچا سردار شاہ محمد خان کو وزیر اعظم نامزد کیا،جبکہ 1953ء میں انھوں نے ان کی جگہ محمد داؤد خان کو وزیر اعظم نامزد کیا۔ سردار داود سویت یونین کے زبر دست حامی جبکہ پاکستان کے شدید مخالف تھے۔

یکم جنوری 1965 ء میں ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان‘‘ قائم کی گئی۔ اس جماعت کے سویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن یہ پارٹی بھی زیادہ دیر تک متحد نہ رہ سکی اور دوحصوں ’’ خلق ‘‘ اور ’’ پرچم ‘‘ میں تقسیم ہوئی۔ خلق کی قیادت نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ہاتھوں میں تھی جبکہ پرچم کی قیادت ببرک کارمل کر رہے تھے۔ اس دوران ظاہر شاہ خاندان پر بدعنوانی اور خراب معاشی صورت حال کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ سابق وزیر اعظم سردار داؤد نے17 جولائی 1973 ء کواس وقت اقتدار پر قبضہ کیا جب ظاہر شاہ علاج کے لئے ملک سے باہر تھے۔

سردار داؤد خود وزیر اعظم اور صدر بن گئے۔ 1978 ء میں حکومت نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم رہنما میر اکبر خیبر کو قتل کیا،کئی گرفتار ہوئے۔اس خوف کی وجہ سے 28 اپریل 1978 ء کو پی ڈی پی اے کے رہنماؤں نور محمد ترکئی ،ببرک کارمل اورامین طلحہ نے سردار داؤد حکومت کو ختم کیا جبکہ سردار داؤد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد خونی فوجی کارروائی میں قتل کر دئیے گئے۔اس خون ریز سانحہ کو تاریخ میں ’’سرخ انقلاب ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یکم مئی کو نور محمد ترکئی ملک کے صدر اور وزیر اعظم بن گئے جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی انھوں نے اپنے پاس رکھا۔مارچ 1979 ء میں حفیظ اللہ امین وزیر اعطم نامزد کئے گئے جبکہ 14 ستمبر کو حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو معزول کیا، وہ قتل کر دیئے گئے اور حفیظ اللہ امین اقتدار پر قابض ہوئے۔

افغانستان میں اقتدار کے لئے جنگ جاری تھی، حالات زیادہ خراب تھے۔ اس خراب سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سویت یونین نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں ۔27 دسمبر 1979 ء کو حفیظ اللہ امین بھی قتل کر دیئے گئے جبکہ سویت یونین نے اقتدار ببرک کارمل کے حوالے کیا۔ سویت یونین نے کوشش کی کہ ببرک کارمل کو مضبوط کریں لیکن بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے 15 مئی 1988 ء کو افغانستان سے فوجیں نکالنا شروع کیں اور15 فروری 1989ء تک تمام سوویت فوج نکل گئی۔

افغانستان میں ناکامی کا تمام تر ملبہ سویت یونین نے ببرک کارمل پر ڈال دیا۔ سویت یونین نے ان کی جگہ ستمبر1987ء میں اقتدار ڈاکٹر نجیب اللہ کے حوالے کیا۔ مارچ 1990ء میں شاہ نواز تنائی نے کوشش کی کہ نجیب حکومت کا تختہ الٹ دے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔سیاسی حالات انتہا ئی خراب تھے۔ اپریل 1992 ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ سے زبردستی استعفی لے لیا گیا۔عبدالرحیم ھاتف ملک کے نئے عبوری سربراہ نامزد کئے گئے، انھوں نے 16 اپریل 1992 کو عبوری صدر کا حلف لیا اور 28 اپریل تک وہ اس عہدے پر رہے۔

26 اپریل 1992 کو معاہدہ پشاور ہوا ،جس میں صبغت اللہ مجددی کو عبوری صدر نامزد کیا گیا۔صبغت اللہ مجددی دو مہینے تک صدر رہے ۔ اس کے بعد جون 1992 میں برہان الدین ربانی نے منصب صدارت سنبھال لیا ۔ وہ دسمبر2001 ء تک اس عہدے پر فائز رہے،لیکن جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو انھوں نے ستمبر 1996 ء میں جلاوطنی اختیار کی اور پھر نو مبر 2001 ء میں واپس افغانستان آگئے۔

سویت یونین کے انخلا ء کے بعد مجاہدین کے درمیان حکومت سازی کے لئے صلا ح و مشورے جاری تھے ۔ گلبدین حکمت یار جون 1993 ء میں وزیر اعظم منتخب کئے گئے، وہ جون 1994 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جون 1996 ء میں وہ دوبارہ وزیر اعظم نامزد کئے گئے۔ اس مرتبہ وہ اگست 1997 ء تک اس منصب پر فائز رہے۔

نو سال تک مجاہدین سویت یونین کے خلاف لڑتے رہے جس کی ایک طویل داستان ہے۔اس دوران مختلف ممالک نے کوشش کی کہ افغانوں کے درمیان صلح ہو لیکن وہ آپس میں لڑتے رہے۔حکمت یار ، احمد شاہ مسعود ،برہان الدین ربانی ،صبغت اللہ مجددی، عبدالرب سیاف ،رشید دوستم سب کی کوشش تھی کہ تخت کابل پر قبضہ کر لے۔ مجاہدین کی آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے ملا محمد عمر نے تحریک طالبان کو منظم کیا۔انھوں نے ستمبر 1996 میں کابل پر قبضہ کیا۔ مجاہدین رہنماؤں کی اکثریت روپوش ہو گئی یا انھوں نے جلا وطنی اختیار کی۔کابل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے ’’ امارات اسلامی ‘‘ کا اعلان کیا۔ڈاکٹر نجیب کی لاش کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ افغانستان کی تاریخ کا ایک کربناک باب ہے۔

احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم نے ’’شمالی اتحاد‘‘ کے نام سے فوجی اتحاد قائم کرکے طالبان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم بھی کیا۔ دنیا کو ان کی طرز حکمرانی پر شدید ترین تحفظات تھے ۔ 9 ستمبر 2001 کو احمد شاہ مسعود کو قتل کیا گیا اور پھر گیارہ ستمبر 2001 ء کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سانحہ ہوا۔امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد پر ڈال دی۔انھوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کردیں ۔

طالبان نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ثبوت ہمیں دیے جائیں ہم خود ان کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن امریکا نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کردیا اور پھر اکتوبر 2001 ء میں اس نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ طالبان نے مزاحمت ضرور کی لیکن آخر کار ان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

امریکا نے دسمبر 2001ء میں جرمنی میں ایک بین الاقوامی کانفر نس کاانعقاد کیا جس میں حامد کرزئی کو عبوری انتظامیہ کا سربراہ نامزد کیا گیا۔وہ 22 دسمبر 2001ء سے جولائی 2002 تک اس منصب پر فائز رہے۔2004 ء اور 2009 کے صدارتی انتخابات میں انھوں نے کامیابی حاصل کی اور 2014 ء تک وہ افغانستان کے حکمران رہے۔حامد کرزئی کے پورے دور حکومت میں امریکا اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ پورا ملک شدید ترین بدامنی ،دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔2014 ء کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ مدمقابل تھے ۔

ڈاکٹر عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا لیکن امریکی مداخلت پر نئی حکومت تشکیل دی گئی ۔ڈاکٹر اشرف غنی صدر جبکہ ڈاکٹر عبداللہ چیف ایگزیکٹیو منتخب ہوئے۔2018 ء میں امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ہامی بھری ،جس کی وجہ سے اپریل 2019ء میں صدارتی انتخابات کو دو مرتبہ ملتوی کرنا پڑا ۔ پھر جب انتخابات ہوئے تو نتائج میں کئی مہینے کی تاخیر کی گئی لیکن جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر عبداللہ نے ایک مرتبہ پھر نتائج ماننے سے انکار کیا۔

29 فروری 2020 ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو ا لیکن اس کے چند روز بعد 9 مارچ کو ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ دونوں نے الگ الگ صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ طالبان نے بھی اعلان کیا کہ ان کی اسلامی امارات قائم ہے اس لئے ملا ہیبت اللہ اب بھی امیر المومینن ہیں۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت افغانستان پر دو صدر اور ایک امیر المومنین حکمران ہے جبکہ حکمت یار، رشید دوستم اور عبدالرب سیاف بھی تیار بیٹھے ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی کو بھی یقین ہے کہ اگر افغانستان میں قیام امن کے لئے کوئی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی تو امریکا اس کی سربراہی ان ہی کے سپرد کرے گا۔

گزشتہ ایک سو بیس سالوں کا سبق یہی ہے کہ افغانستان میں طویل مدت کے لئے نہ کبھی امن قائم ہوا ہے اور نہ وہاں سیاسی استحکام کا قیام ممکن ہوسکابلکہ زیادہ تر افغان آپس میں حکمرانی کے لئے لڑتے رہے ہیں جبکہ دومرتبہ بیرونی حملہ آوروں سویت یونین اور امریکا کے ساتھ بھی وہ لڑتے رہے ۔

The post افغانستان، دو صدور اور ایک امیرالمومنین کی حکمرانی میں تقسیم appeared first on ایکسپریس اردو.

ساری خلقت میں سب سے اشرف ہے آدمی کیوں؟

$
0
0

جنھیں تھا خدشہ
کہ ابنِ آدم
فساد سے یہ زمیں بھرے گا
ہلاکتوں کا کرے گا ساماں
فقط یہ ظلم و ستم کرے گا
فلک پہ بیٹھے ہوئے وہ حیراں
عجیب منظر یہ دیکھتے ہیں
گماں سمجھ کر
یقین کرنے
اتر کے، آکر
یہ دیکھتے ہیں
کہ جان خطرے میں ڈالے انساں
ہزاروں جانیں بچا رہے ہیں
خدا کے بھیجے ہوئے پیمبر ہیں
نہ ولی ہیں
نہیں ہیں وہ نیکیوں کے پُتلے
گناہ گاروں کی صف میں شامل
محض ہیں خاکی
بس آدمی ہیں
جو اسپتالوں میں
سانس کی ڈوریوں کو تھامے
اَجل سے آنکھیں ملا رہے ہیں
ہے موت سے دو بہ دو لڑائی
یہ جَم کے پنجہ لڑا رہے ہیں
سڑک پہ نکلے ہیں سربہ کف یہ
بلاؤں کی راہ روکنے کو
وباؤں کی راہ روکنے کو
یہ اپنی جانیں گُھلا رہے ہیں
یہ نہ ہو کہ بھوک حملہ کردے
زمین کو تَربتوں سے بھردے
یہ بھوک سے جنگ لڑ رہے ہیں
سو فاصلہ رزق کا گھروں سے
مٹارہے ہیں

یہ ابن آدم بتا رہے ہیں
کہ سارے خدشات آدمی سے
ملائکہ کے، ہوئے تھے رد کیوں
خلوص، قربانیوں کے پیکر
سپاہ انسانیت یہ بندے
وفا کے لشکر
جتا رہے ہیں
کہ ساری خلقت میں سب سے اشرف ہے آدمی کیوں
اترنے والوں کو آج منظر دکھارہے ہیں
بہت خدا کو ہے ناز جس پر
وہ ہے یہی کیوں
جو آئے ہیں دیکھنے اتر کر
ملال انھیں یاد آرہا ہے
اُدھر ہے شیطاں چُرائے نظریں
اِدھر خدامسکرا رہا ہے

The post ساری خلقت میں سب سے اشرف ہے آدمی کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

عجیب ’وبا‘ چلی ہے کسی سے نہ ملے کوئی۔۔۔!

$
0
0

زیادہ وقت نہیں گزرا ابھی کچھ برسوں پہلے ہے کی تو بات ہے، جب لفظ ’چُھٹی‘ اپنے وجود میں کس قدر سکون، شانتی اور ایک شیرینی سموئے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔۔۔

یہ ہماری بے فکری کے وہ دن تھے، جب ہفتے کے چھے دن صبح سے شام تک مدرسے، اسکول اور ٹیوشن کے معمولات ہمیں کوئی لمحہ فرصت کا نہ دیتے تھے کہ جس میں ہم اپنی مرضی سے جی سکیں۔۔۔ ایسے میں پہلے ’جمعہ‘ اور پھر ’اتوار‘ ہمارے لیے کسی ہفتہ وار ’عید‘ کے موافق محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک دن کے لیے ہر طرح کی ’فکر‘ اور ’کام‘ سے آزاد ہوں گے۔۔۔

ہمیں اِس ایک دن کے لیے ہفتے کے چھے دن گزارنے محال ہوتے تھے۔۔۔ ہفتے کا پہلا دن اپنے اندر ایک کرخت تاثر رکھتا تھا کہ وقت کے بہتے ہوئے دھارے میں وہ چھٹی کے دن کو پَچھاڑ کر جو نمودار ہوتا تھا، جب جمعے کی چھٹی تھی تو ’ہفتہ‘ اور اس کے بعد اتور کی چھٹی ہوئی تو ’پیر‘ ہمیں کبھی نہ بھایا، جب کہ پہلے ’جمعرات‘ اور بعد میں ’ہفتہ‘ یوں معلوم ہوتا کہ اپنی بانہیں پھیلا کر ہمیں ’نویدِ مسرت‘ دیتا ہے کہ خوش ہو جاؤ! کل ’آزادی کا دن‘ ہے۔

ہم پورا ہفتہ گن گن کے دن گزارتے تھے اور آخری دن تھا، گزارے نہ گزرتا تھا۔ اس آخری دن اگر اسکول میں چھٹی کے حساب سے زیادہ کام مل جاتا، تو کس قدر کَھلتا تھا کہ ہفتے میں ایک ہی چھٹی ملتی ہے کیا وہ بھی ہم اسکول کے کاموں میں گزار دیں۔۔۔؟ اسی لیے ہمارا معمول تھا کہ ہفتے کے آخر میں جس قدر بھی کام ملتا، وہ تعطیل کے روز سے پہلے ہر صورت مکمل کرتے اور ہماری یہ خود ساختہ سختی اس قدر تھی کہ شاید ہی کبھی کام کے لیے ہمیں چھٹی والے دن تک نوبت آئی ہو۔ پھر ہم کچھ بڑی کلاسوں میں آئے تو کام کا یہ بوجھ بانٹنے کو ’ہاف ٹائم‘ اس کام میں بھگتانے لگے، کیوں کہ کل چھٹی ضرور ہے، لیکن وہ ہمارے کھیلنے کودنے اور ہماری مرضی سے جینے کے لیے ہے، نہ کہ پڑھائی کے لیے۔۔۔!

ہفتے یا جمعرات کی رات کو جوں ہی اسکول کے یہ کام نمٹ جاتے، ویسے ہی ہم سُکھ کا سانس لیتے، گویا کندھوں پر رکھا ہوا کوئی بہت بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔۔۔ گویا یہ کوئی عید کی چاند رات ہو۔۔۔ اور پھر اگلے دن ہم نہ جانے کیسے عام دنوں سے بھی زیادہ سویرے جاگ جاتے۔۔۔ صبح کے وہ لمحے ہر اجالے سے زیادہ روشن، پر رونق اور مسرت آمیز معلوم ہوتے۔۔۔ ایسا لگتا کہ گھر کے بام ودر بھی ہماری اِس خوشی میں جھوم رہے ہیں کہ آج ہم اسکول، مدرسے اور ٹیوشن وغیرہ کی ’قید‘ اور ’بندشوں‘ سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔۔۔ آج ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں، اس لیے خوب مزے سے کہانیاں پڑھیں گے، کرکٹ کھیلیں گے، سائیکل چلائیں گے، کبھی گلی میں چُھپن چھپائی، برف پانی اور کرکٹ کھیلیں گے یا یوں ہی بے مقصد اپنی ڈیوڑھی سے باہر کھڑے رہیں گے۔

آزو بازو کے لڑکے بالوں سے ہنسی مذاق کریں گے اور کبھی اپنے گھر کی مغربی کھڑکیوں کے پار بنے ہوئے ’برآمدے‘ میں گھروندے بنائیں گے۔۔۔ کچھ نہیں تو کوئی کرسی یا اسٹول رکھ کر اس کی منڈیر سے بچوں کو کرکٹ، ٹینس، لنگڑی پالا، آنکھ مچولی، لٹو بازی، پٹھو واری یا پہل دوج وغیرہ کھیلتا دیکھیں گے۔۔۔ ہمارے گھر کی بالائی منزلوں کے سبب مغرب کی سمت کھلنے والے اس برآمدے پر تقریباً صبح گیارہ بجے تک چھاؤں رہتی تھی۔۔۔ اور ہمیں دھوپ پھیلنے تک برآمدے میں اچھل کود کی اجازت ہوتی تھی، یہی سبب ہے کہ دوپہر سے پہلے تک کا زیادہ تر وقت یہیں بیتتا تھا۔۔۔ ہم منڈیر سے سامنے کی سمت گلی میں اپنے گھر کا گَھٹتا ہوا سایہ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ دھوپ برآمدے کی منڈیر پار کرنے میں اب کتنی دیر مزید لگائے گی۔۔۔ اس کے بعد پھر شام کو برآمدے میں آتے، جب دھوپ کی تمازت سے اس کا فرش اور دیواریں ضرور تپ رہی ہوتی تھیں، لیکن کراچی کی خنک ساحلی ہوا اس تپش کو پَس پا کرنے کو کوشاں ہوتی۔۔۔

انہی فرصتوں میں ہم اپنے نہ جانے کون کون سے شوق اور ’خواب‘ مکمل کرنے کے لیے سوچ بچار کرتے اور انہی ’آزاد‘ وقتوں میں ہمارے ذہن میں نت نئے خیالات بھی کوندتے۔۔۔ جنہیں سچا کرنے کو پھر ہم کبھی روپے جوڑنے کے منصوبے بناتے اور کبھی گلّا (گلک) بناتے۔۔۔ (اکثر گلک ہم ٹالکم پاؤڈر کے خالی پلاسٹک کے ڈبوں کے پیندے میں گرم چُھری سے چھید کر کے بناتے) پھر بھی ہمارے ’وسائل‘ ناکافی ہوتے تو اپنی عرضی لیے ’عالمی بینک‘ کی طرح ابو کے پاس جاتے اور ان سے چاہتے کہ وہ کسی طرح ہماری خواہش پر ہامی بھر لیں۔ ہماری فوری مدد نہ بھی کریں لیکن کم ازکم مستقبل قریب میں اس کی یقین دہانی ہی کرا دیں۔۔۔ اور اکثر ایسا ہو جاتا اور پھر اگلا مرحلہ کچھ ’ترامیم‘ کے بعد پارلیمان کی طرح ’امی‘ سے اس کی منظوری ہوتا۔۔۔

اور یوں ہماری یہ بہت چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں زندگی کے کسی بہت عظیم الشان مقصد کی طرح دل فریب معلوم ہونے لگتیں، جس سے آگے کا ہم نے کبھی کچھ سوچا بھی نہیں ہوتا۔۔۔ یوں لگتا کہ اس سے آگے وقت ساکت ہے اور دنیا بالکل ٹھیری ہوئی ہوگی۔۔۔ ان خواہشات کی تکمیل کا خیال آتے ہی ہر منظر میں رنگ سے بھر جاتے، اور سماعتوں میں چہچہاتے پرندوں کی موسیقی گھلنے لگتی اور رُواں رُواں مسکانے لگتا۔۔۔

چلو کہیں گھومنے جائیں، چلو کسی سے مل کے آئیں، چلو کچھ نئی چیز بنائیں، چلو مل کے کچھ مزے کا کھائیں، چلو کچھ خرید کے لائیں۔۔۔ یہ ہمارے ناپختہ ذہنوں کو حیرتوں میں مبتلا کرتے نت نئے کھلونے یا نظر کو فریب دیتی ’جادو بھری‘ کچھ دل چسپ اشیا۔۔۔ یہ رنگ برنگی چمکتے ہوئی دیدہ زیب رسائل اور کتابیں اور ان کے ورقوں میں اتری ہوئی وہ کہانیاں جو ذرا سی دیر میں تخیل کو مہمیز کر کے جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔۔۔

ہر مہینے ’نونہال‘ کے تازہ شمارے کا آنا بھی تو ایک تہوار کی طرح تھا، جس سے ہماری چُھٹیاں سج جایا کرتی تھیں۔۔۔ ’نونہال‘ ’تعلیم وتربیت‘ اور ’آنکھ مچولی‘ کے وہ قصے جنہیں پڑھتے ہوئے جی چاہتا کہ کاش ان کا کبھی کوئی اَنت ہی نہ ہو۔۔۔ وہ طویل ترین کہانیوں کے باقی ماندہ صفحات کو دیکھ کر مایوس ہو جانا کہ ’ہئے، بس یہ کہانی تو ابھی ختم ہی ہو جائے گی۔۔۔!‘ لیکن صاحب، کہانی کوئی بھی ہو، ختم تو ہو ہی جاتی ہے! بالکل ایسے ہی جیسے چُھٹی کا دن بھی بیت جاتا تھا۔۔۔

گرمیوں کی دو مہینوں کی طویل چھٹیاں بھی تو ہمارے نہ چاہنے کے باوجود گزر ہی جاتی تھیں، اور چاہے اُس زمانے میں دوسری سے تیسری کلاس میں پہنچنے کے لیے ایک سال ایک زمانے جیسا معلوم ہوتا ہو، لیکن جون، جولائی کی چھٹیاں بہت تیزی سے بیت جاتیں۔۔۔ بالکل اسی طرح وہ وقت بھی اب خواب ہوا، ہم نہ چاہیں، مگر یہ گزرتے روز وشب ہمیں گویا گھسیٹ کر بچپن سے نکال کر بہت دور لے آئے اور یہ گھڑی کی ٹِک ٹِک سے پھسلتا ہوا وقت ہمیں ابھی اور آگے تک لے کر جائے گا۔۔۔ اور یہ صرف ہمیں کیا ہم سب ہی کو لے کر جاتا ہے، لیکن اس ’مختصر‘ سے وقت میں کتنا کچھ بدل گیا ہے۔۔۔

شاید اب ’فرصت‘ ملتی ہی نہیں کہ اس طرح کے ’فالتو‘ کاموں میں خود کو جھونکیں۔۔۔ روزی روٹی اور زندگی کے مسائل اور تلخیوں نے ہم سے دراصل وہ ’آزادی‘ اور ’بے فکری‘ کی خوشی ہی اُچک لی ہے۔۔۔ آج ہم کبھی کبھی مسکرا بھی دیتے ہیں، تو وہ اُس وقت جیب میں دو ٹافیوں کے ثابت موجود ہونے جتنا بھی خوشی نہیں دیتا۔۔۔

ہم ذرا دیر کو سوچتے ہیں کہ وہ پہلی بار امی سے چھُپ کر رنگ چھوڑتی قلفیاں کھا کے اپنے منہ اور ہاتھوں سے اس کا نارنجی رنگ چھُٹانے کا ’معرکہ‘ کس قدر بڑا تھا۔۔۔ وہ چار، چار آنے والی ’مے فیئر‘ چیونگم ایک ساتھ تین چار کھانا کہ اس سے ہم کتنا بڑا ’پھُلا‘ پھلائیں گے، کس قدر اہم تھا۔۔۔ وہ جھوٹ بول کر امّی سے دو، ایک روپوں کے زمین پر پتھر سے پھوڑے جانے والے پٹاخوں کا پہلا اور آخری ’تجربہ‘ کتنا ’عظیم‘ تھا۔۔۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس ’جھوٹ‘ کا ’احساس جرم‘ آج بھی درد دیتا ہے) وہ ٹوٹے ہوئے دانت کو تکیے کے نیچے رکھنے کا تجسس کہ صبح کیا ہوتا ہے۔۔۔ اور اس ’سنی سنائی‘ پر عمل کر کے دیکھنا کہ پینسل چھیلنے سے اس کا جو بُرادہ نکلتا ہے، اس سے ربڑ (ریزر) بنتا ہے۔۔۔ اور پھر کلاس بھر کی پینسلیں چھیل چھیل کر اس کے برادے کو دودھ میں پکا کر دھوپ میں رکھ کر انتظار کرنا کہ دیکھیں کیسے ربڑ بنتا ہے۔۔۔ اور وہ ایک تار اور سیل سے ننھا سا بلب جلانا۔۔۔ ٹیپ ریکارڈر میں اپنی آواز ریکارڈ کر کے سننا اور پرانے خراب ریڈیو کو کھول کر اُس میں ’ریڈیو پاکستان‘ کے مختلف ’’کمرے‘‘ ڈھونڈنا۔۔۔

یہ سب تو قصہ پارینہ ہوا، لیکن یہ ’چُھٹی‘ کے ساتھ کیا ہوا، ہم ہفتہ وار چھٹیوں کے ساتھ کراچی کی اَن گنت ’ہڑتالوں‘ کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔۔۔ گھر کے باورچی خانے میں جمع ہوتے راشن کی شبیہہ نے ہماری یادداشت میں لفظ ’کرفیو‘ کے معنیٰ بھی تبھی سمجھا دیے تھے۔۔۔ لیکن ہمارے لیے یہ فقط ’چھٹیاں‘ تھی۔۔۔ ہم ’پہیا جام‘ کا مطلب نہیں سمجھتے تھے اور اس ’بے پروا‘ عمر میں ہمجولیوں میں اپنے کھلونوں کا بالشت بھر ’پہیا‘ چلا کر خوش ہوتے تھے کہ ’لو چلا دیا ہم نے پہیا جام میں پہیا۔۔۔!‘ جتنی طویل چھٹیاں اتنی زیادہ مسرت اور اتنی زیادہ شادمانی۔۔۔ کہاں جی چاہتا تھا کہ اِن چھٹیوں کا بھی اَنت ہو۔ بے فکرے تھے ناں، تبھی بے خبر تھے کہ ایسی غیرمعمولی چھٹیاں یقیناً کوئی خوشی کا باعث نہیں ہوتیں۔۔۔ ایسی چھٹیوں سے کتنوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں، پے درپے ایسی تعطیلات بہت سوں کو روزگار سے بھی محروم کر دیتی ہیں۔۔۔

آج ’کورونا‘ کی وبا کے سبب اسکول کالجوں کو بند ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔۔۔ بات اس سے بھی بڑھ کر 15 دن کے مکمل ’لاک ڈاؤن‘ تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ صرف سندھ کے لاک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کا خوف علاحدہ ہے۔۔۔ لیکن یہ کیسی چھٹیاں ہیں کہ جو ہم سب کو بالکل تنہا گزارنا ہیں، پہلے کی اکا دُکا ہڑتالوں والی چھٹیوں کو قریب رہنے والے رشتے دار اور عزیز واقارب مل بیٹھنے کا بہانہ بنا لیتے تھے۔۔۔ بے وجہ ایک دوسرے کے ہاں چلے جاتے تھے۔۔۔ ساتھ دوپہر میں بیسنی روٹی بنانے کا پروگرام بن جاتا تھا، کبھی گھروں میں بیسن کی پھلکیاں تل لی جاتی تھیں۔۔۔ چائے ساتھ پی لیتے تھے، ساتھ باقر خانیاں منگا لیتے تھے۔

محلے کے پھیری والوں کی بھی چاندنی ہو جاتی تھی، گول گپے والا، سونٹھ بتاشے والا، پاپڑ والا، پاپ کورن والا، گولا گنڈے والا، ربڑی ملائی والا، کباب مسالے والا اورنہ جانے کیا کیا چیزیں ہوتی تھیں، جو اِن چھٹیوں میں چار پیسے زیادہ کما لیتے تھے۔۔۔ اُدھر گلی محلوں میں بھی وقتی پریشانی کو رفع کرنے کو نکڑوں پر دوستوں کی محفلیں لگی ہوئی ہوتی تھیں، باتیں کرلیتے، ساتھ ہنس لیتے، ایک دوسرے کا غم اور دکھ بانٹ لیتے۔۔۔ گلی میں کھیلتے کودتے بچے اور نوجوان کراچی کے اِن مشکل دنوں میں بھی محلوں کے سناٹوں کو ویرانہ نہیں ہونے دیتے تھے۔۔۔

اور آج۔۔۔؟ آج اگر ہم چاہ بھی لیں تو ’کورونا‘ وائرس کے سبب ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔ ہر چھینک اور کھانسی پر پریشانی ہے، ذرا سا بخار تشویش میں ڈال دیتا ہے۔۔۔ سب کو گھروں میں قید رہنا اور گھروں میں بھی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ہے۔۔۔ کسی سے ہاتھ نہیں ملانا، گلے نہیں ملنا، انتہا یہ ہے کہ بچے بزرگوں کی آشیرواد لینے کو ان کے قریب نہ جائیں۔۔۔ اس تکلیف کو وہی محسوس کر سکتا ہے، جو اپنے بزرگوں سے مصافحے کے ساتھ سر خم کر کے قیمتی دستِ شفقت وصول کرتا ہے۔۔۔ اور ہم تو اپنی مرحومہ پھوپھی جان کے اتنے لاڈلے رہے کہ اِن کے گھر جاتے ہی ہمارا سلام ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی اپنے دونوں بازو پھیلا دیتیں اور ہم دوڑ کر اِن سے جا ملتے تھے۔۔۔!

اب بس سب کچھ دور سے، بلکہ بہت دور سے ہی کرنا ہے۔۔۔ بھلا ہو اِس انٹرنیٹ کا کہ اب یہی رابطے کا ایک ’محفوظ‘ ذریعہ بتایا جاتا ہے۔۔۔ آپ لاکھ کہیں کہ نفسا نفسی کا دور ہے، سب اپنی دنیا میں مگن ہیں، کوئی کسی سے ملنا جلنا پسند ہی نہیں کرتا، لیکن مجلسی مزاج لیے پیدا ہونے والے حضرتِ انسان کو یہ وبا بتا رہی ہے کہ جدید دور کی مشین ہونے کے باوجود انسان کے لیے انسان سے ملنا کس قدر ضروری ہے۔۔۔!

The post عجیب ’وبا‘ چلی ہے کسی سے نہ ملے کوئی۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

قرنطینہ میں کیسے وقت گزاریں؟

$
0
0

 

 دنیا اس وقت ایک مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ہر ُسو ایک خوف و دہشت کی فضاء ہے۔ سماجی رابطے منقطع ہوچکے ہیں۔ ہر فرد ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ ایک وائرس نے دنیا بھر کو اپنا شکار بنا کر رکھا ہے اور اس ساری صورتحال میں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو اس وباء کے نشانے پر ہے۔ نہ تو کسی شخص کی دولت اس کی آڑ بن سکتی ہے، نہ اس کی حثیت و مرتبہ۔ عجب بے بسی کا عالم ہے۔ ایسے میں ذہنی طور پر پژمرگی کا چھا جانا کوئی انوکھی بات نہ ہوگی۔

خصوصی طور پر جب اس جان لیوا مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ایسے میں ہر شخص کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ نہ تو ابھی تک ایسی کوئی ویکسین ایجاد ہوئی جو اس وبا کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی کوئی دوا۔ ایسے میں اگر اس وباء سے بچاؤ کی کوئی تدبیر ہے تو وہ ہے خود کو قرنطینہ کرلینا۔ یعنی خود کو آئسولیٹ کرکے سب سے الگ کرلینا۔ یہ نہ صرف ایک شخص کے لیے انفرادی طور پر ردبلا کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی فائدہ بخش ہے۔

قرنطینہ بنیادی طور پر فرانس سے باقاعدہ شروع ہونے والا تصور ہے۔ فرانسیسی اور اٹلی کی زبان کے مرکب قورنٹائن، میں قوارنٹائن کا مطلب چالیس اور ٹائین کا مطلب دن ہے۔ اسی مناسبت سے چالیس دن کے اس خاص قیام کو قوارنٹائن (قرنطینہ) کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دراصل اس لیے شروع ہوا کہ دوسرے براعظموں سے آنے والے افراد اگر اپنے ساتھ کوئی بیماری یا وباء لے کر آتے تو وہ چالیس روز تک کسی سے نہ ملیں اور اس دوران ان کے مرض کی علامات بھی واضح ہوجائیں اور دوسری صورت میں اگر وہ صحت مند ہیں تو بے فکر ہوکر شہر میں داخل ہوسکیں۔ اسلامی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالیں تو قرنطینہ سے ملتے جلتے تصورات موجود ہیں جیسے کہ کوڑھ مریضوں کے لیے خلافت امیہ کے چھٹے خلیفہ الولید نے 706سن ہجری سے 707 سن ہجری کے دوران دمشق میں ہسپتال تعمیر کروائے جہاں کوڑھی مریضوں کو الگ رکھا جاتا۔ اس سے مرض کے پھیلاؤ کو روکنا مقصودتھا۔

اسی تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے موجودہ صورتحال پہ نگاہ دوڑائی جائے تو قرنطینہ بہترین آپشن معلوم ہوتا ہے۔ کورونا وائرس جوکہ چائنا کہ شہر ووہان سے وباء کی صورت تیزی سے پھیلتے ہوئے دنیا کے 198 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس نے نہ صرف صحت پر اثرات ڈالے بلکہ اس وقت عالمی سطح پر معاشی بحران کی سی کیفیت طاری ہے۔ کاروبار بند ہوگئے ہیں، سٹاک مارکیٹ میں مندی سے انڈیکس صدی کی کم ترین سطح پر جاپہنچے ہیں، تعلیم کا نظام، ذرائع نقل و حمل، مذہبی و سیاسی سرگرمیاں سب بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔

دسمبر 2019ء سے شروع ہونے والی کورونا وائرس  کی وباء نے 2020ء کو امید، خوشیوں اور ترقی کی بجائے مایوسی، خوف اور موت کا جو سندیسہ دیا وہ ڈپریشن پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے میں جب تقریباً تمام ملازمین اور سٹوڈنٹس کو گھر بھیج دیا گیا ہے، جن میں سے بعض کو آن لائن کام اور کلاسز کی ترغیب بھی دے دی گئی ہے، ایسے میں زندگی نارمل روٹین سے ہٹ کر چل رہی ہے۔ حکومتوں اور طبی ماہرین کی جانب سے باربار ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ خودکو قرنطینہ میں رکھیں۔ ضروری نہیں کہ قرنطینہ کوئی ہسپتال ہو بلکہ یہ گھر کا ایک کمرہ بھی ہوسکتا ہے جو محدود سماجی روابط کو یقینی بناتا ہے۔ اب چونکہ بقول ارسطو انسان معاشرتی حیوان ہے اور خودکو تنہا کردینے کے بعد وہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے تو ایسی صورت میں مندرجہ ذیل اقدامات اسے پریشان کن صورتحال سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

٭ قرنطینہ میں شدید ڈپریشن

بے خبری میں انسان مارا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ضوکر کا خیال ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جوکہ بے چینی اور دوسرے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہوجانے کے بعد مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ دوسرے عوامل جیسے کہ غربت اور کسی جان لیوا بیماری یا وباء کے خوف کی وجہ سے بھی لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ خود یا ان کے پیارے کہیں متاثر نہ ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ڈپریشن کی علامات سے آگاہی کسی بھی قسم کی بدترین صورت حال سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔

ڈپریشن کی علامات جن پر فوراً چوکنا ہونا چاہیے۔ ان میں نمایاں علامات یہ ہیں اور ہر وقت اداسی کی کیفیت کا شکار رہنا، بستر چھوڑنے کا دل نہ چاہنا، نیند میں کمی، بھوک کا نالگنا، نشہ آور اشیاء کی جانب رغبت، سگریٹ شراب نوشی اور انتہا درجے تک خود کو تنہا کرلینا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شدید غصہ، تباہ کن سوچیں، خود کو نقصان پہنچانے والے خیالات اور ناامیدی کا غلبہ ہے۔ ایسی علامات کی صورت میں خاندان کے افراد دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو نشاندہی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ایسی ذہنی حالت خطرناک ہوسکتی ہے۔ خصوصاً کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں طبی ماہرین ڈپریشن سے بچاؤ کے لیے چند ہدایات دیتے ہیں جوکہ پیش خدمت ہیں۔

٭خود کو وقت دیں

خیالات لہروں کی مانند ہوتے ہیں۔ خیالات کی بحروں میں مروجز کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بعض اوقات جب خود کو بے بس محسوس کریں تو ضروری نہیں کہ وہ بے بسی ہمیشگی ہو بلکہ وہ ایک لمحاتی کیفیت ہے جوکہ حالات کا شاخسانہ ہوسکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کووڈ۔19 نے پوری دنیا کی آفات و قدرت کے سامنے بے بسی کو عیاں کردیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص خود کو بے بس و بے کس محسوس کررہا ہے جیسا کہ شاید آپ بھی تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر اندھیرے کے بعد ایک اجالا آپ کا منتظر ہے۔ ہر رات کے بعد ایک صبح ضرور آتی ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ ’’لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے‘‘ یعنی وقت گزر جاتا ہے۔ اگر ابھی مایوسی کا دور دورہ ہے تو امید سحر بھی طلوع ہوگی۔ ہمیشہ کچھ بھی نہیں رہتا خود کو تھوڑا وقت دیں یہ سمجھانے کے لیے کہ ٹھیک ہے ہم ایک برے وقت سے گزر رہے ہیں مگر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ زندگی کے نشیب و فراز کا نام ہے۔ اچھے برے وقت کا آنا قدرت کا دستور ہے اور انسان اگر یہ تسلیم کرے کہ وہ قدرت کے قانون کو ٹال نہیں سکتا تو مایوسی کا شکار ہوگا۔

٭پارٹی کریں

کورونا وائرس کی اس خطرناک صورتحال میں یقینا پارٹی کا نام سنتے ہی سب کے ذہنوں میں سوالات سر اٹھانے لگے ہوں گے کہ بھلا ایسی صورت میں پارٹی کیسے اور کیوں کر جاسکتی ہے؟ تو یاد رکھیں کے ہم ڈیجیٹل ایج میں رہ رہے ہیں جہاں ورچوئل ریئلٹی کا دور دورہ ہے۔ ہم اصل زندگی میں تو ایک دوسرے سے ملنے سے پرہیز کررہے ہیں مگر ایک ورچوئل دنیا میں ہم سب سماجی رابطے میں بندھے ہیں۔ واٹس ایپ ہو، فیس بک، انسٹاگرام یا سنپ چیٹ ویڈیو کالنگ اور گروپ کالنگ میں سب ایک جگہ مل بیٹھ کر ایک ورچوئل پارٹی پلان کرسکتے ہیں۔ آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے دوستوں یا فیملی کے گروپ میں ایک روز قبل مسیج کردیں کے فلاں وقت ہم سب آن لائن ہوں گے اور مل کر چائے پئیں گے۔

ایسی ورچوئل پارٹی میں آپ سب ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گے اور لطف بھی ہوگا لیکن اس کی سب سے خاص بات یہ ہوگی کہ کسی کو وائرس کے لگنے کا خدشہ نہیں ہوگا، کیونکہ سوشل میڈیا پر البتہ سوشل ڈسٹینس تو برقرار ہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہے سو اسے اپنی مرضی سے موڑیں۔

٭مدد گار بنیں بزرگوں کی دعالیں

نوجوانی کا دور جوش جذبے سے بھرپور ہوتا ہے۔ بے معنی مصروفیات بھی الجھائے رکھتی ہیں اور وقت گزرنے کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس بڑی عمر کے لوگوں کے لیے وقت گزارنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور پر کووڈ۔19 میں خودکو قرنطینہ کرنے کے بعد ایسے افراد کا ڈپریشن میں جانے کا خدشہ 20 گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ گھروالوں سے کٹ کر تنہا رہنے سے وہ خود کو اکیلامحسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بڑی عمر کے افراد نوجوانوں کی مانند ٹیکنالوجی سے بھی خاص شناسائی نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے دوستوں سے مل سکتے ہیں۔ تو مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کی دعائیں لیں اور ان کے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ قرنطینہ کرنے والوں بزرگوں کے لیے کھانا لے جائیے، انہیں خط لکھیں، تحفے کے طور پر کتابیں بھیجیں۔ مددگار ہونا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے اہم ہتھیار ہے۔ اگر ایسا خود نہیں کرسکتے تو کسی ایسی بااعتماد تنظیم کو عطیات دیں جو بزرگوں کو کھانا پہنچانے کا کام کرتی ہے۔

٭رابطے میں رہیں

کورونا کی فضا میں جہاں جسمانی رابطوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے ونہی روحانی رابطے مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے تخلیق کار سے رابطے میں رہنا بے حد ضروری ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس وباء یا بلا کو کیسے ٹالنا ہے۔ ذی شعور افراد بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں انسان کی بے بسی کا کیا عالم ہے۔ اگر کسی کے پاس اختیار ہے تو وہ ہے اللہ عزوجل کی ذات جو ’کن‘ کہہ کر سب ٹھیک کرسکتی ہے اور چاہے تو نیست و نابوت۔ کورونا وائرس کو اللہ کا عذاب سمجھنے کے بجائے اسے امتحان سمجھیں اور رب کو اپنی بے بسی کا یقین دلا کر اس سے اپنے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی مانگیں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کے لیے دست سوال دراز ہوں۔ اپنے رب اور مذہب سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ اس وقت تمام ممالک میں چاہے ان کا تعلق جس مرضی مذہب سے ہو تمام افراد اپنے مذہب کی جانب راغب ہورہے ہیں اور دوا سے دعا تک کا سفر طے کررہے ہیں۔

مذہب سے لگاؤ رکھنا یا مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا کوئی بری بات نہیں مگر کمرشلزازم اور کنزومرازم کی دوڑ میں لگنے والے افراد اس چیز سے ناصرف خار کھاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متنفر کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں، جس سے نتیجتاً وہ اپنے دنیاوی فائدے حاصل کرتے ہیں مگر دنیا کے بعد کی زندگی خسارے میں ہے۔ لیکن فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ قرنطینہ میں رہتے ہوئے مراقبہ کیجئے۔ اگر مسلمان ہیں تو نماز، قرآن پڑھیں یا چاہے جس مرضی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اپنی مقدس کتابوں کو پڑھیں اپنے رب سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں۔ ایسا کرنے سے دلی سکون تو ملے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ ذہن و دل پر چھائے مایوسی کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور یوں آپ کورونا کے ڈر سے نکل جائیں گے۔

٭معالج سے رابطے میں رہیں

بہت سے معالجین نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر اپنی خدمات آن لائن پیش کرنا شروع کردیں ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو اب آن لائن یا ورچوئلی چیک کرتے ہیں بلکہ کورونا کے خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ایسے مریضوں جوہ پہلے سے کسی ڈاکٹر سے معائنہ نہیں کراتے ان کے لیے بھی اب ڈاکٹرز دستیاب ہیں جو آن لائن مختلف ویب سائٹس یا نمبروں کے ذریعے مریضوں کو چیک کرتے اور دوا تجویز کرتے ہیں۔ خصوصاً نفسیات کے ماہرین اس وقت زیادہ متحرک ہیں کیونکہ قرنطینہ کرنے والے افراد کو ذہنی الجھنوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگرحد سے زیادہ بوجھل پن محسوس ہو اور خود کو نقصان پہنچا لینے کا خدشہ ہو تو معالج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

٭وزش کریں

قرنطینہ میں سارا دن گزارنا قدرے مشکل کام ہے اور ایک جگہ بیٹھے لیٹے رہنے سے اکتانے کے ساتھ ساتھ وزن کے بڑھنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ورزش کریں۔ دن میں کوئی وقت مقرر کریں جس میں ورزش کرنا ہو۔ اگر ممکن ہو کہ باہر جاسکیں تو واک کرنے جائیں مگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔ دوسرے افراد سے کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیں۔ ورزش سے ناصرف مصروفیت ملے گی بلکہ یہ جسم کو بے ساختگی سے بچانے کے ساتھ ساتھ قوت مدافعت بھی بڑھائے گی۔ ورزش کے بعد محسوس کریں گے جیسے یہ انعام ہو۔ روزانہ کی ورزش قرنطینہ میں بہترین نتائج دے سکتی ہے۔

٭ پرہیز کریں

بعض افراد کو کسی چیز کی عادت ہوتی ہے اور اسے چھوڑنا ان کے لئے ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن نہایت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کچھ افراد کو بری عادات ہوتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، تمباکو، پان، بیڑا، نسوار اور شراب نوشی ایسے افراد اول تو ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے،اور اگر قرنطینہ میں وہ جب نجالت مجبوری انہیں چھوڑتے ہیں تو ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے ناصرف وہ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ بے خوابی اور نیند نہ آنے جیسے عارضے بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ ایسی خوفناک صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مناسب غذا لی جائے، روزانہ اچھی اور مکمل نیند اور کسی نہ کسی جسمانی مشقت کا سہارا ذہنی و جسمانی طور پر مضبوطی دینے کا باعث بن سکتا ہے۔

٭ پرسکون رہیں

کورونا وائرس سے شاید لوگ اتنے خوف زدہ نہ ہوں جتنے وہ کورونا وائرس سے متعلق چوبیس گھنٹے چلنے والی بریکنگ نیوز سے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات سے واقفیت ضروری ہے مگر ہر وقت نیوز چینل لگا کر بیٹھے رہنا ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ امریکی ماہرین نفسیات کی جانب سے عوام کے لیے یہ پیغام جاری کیا گیا کہ صرف مستند ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں پر کان دھریں اور کوشش کریں کہ کم سے کم ٹیلی ویژن اور خاص کر سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں دیکھیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ قرنطینہ میں پرسکون ہوکر بیٹھیں۔ لمبے سانس لیں، آنکھیں بند کرکے خود کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ پرسکون ہیں اور جلد کورونا وائرس کا یہ خوف دم توڑ دے گا۔ اپنے پسندیدہ مشغلے کو اپنائیں خواہ وہ تلاوت سننا ہو، کتابیں پڑھنا یا پھر مراقبہ۔ یہ آپ پر بہتر اثرات ڈالے گا۔

٭صفائی رکھیں

یہ تو تمام افراد جانتے ہی ہوں گے کہ کورونا وائرس ہاتھوں، منہ اور ناک کے ذریعے پھیلتا ہے سو ہر ممکن کوشش یہی کرنی چاہیے کہ خود کو صاف ستھرا رکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے استعمال کی چیزں کو بھی صاف رکھیں۔ ایسا کرنے سے آپ کوناصرف صفائی میں مدد ملے گی بلکہ یہ ایک اچھی مصروفیت بھی ہے۔ جیسے اپنے لحافوں کی صفائی کریں۔ اپنے کچن کی صفائی تمام درازیں، الماریاں کھول کر انہیں دوبارہ سے سیٹ کریں، فالتو اور پرانی بے کار اشیاء نکال پھینکیں۔ پرانے کاغذ پھینک دیں، وقت گزارنے کے لیے کوئی مشغلہ ڈھونڈیں۔ کتابیں پڑھیں، پہلیاں سلجھانے کی کوشش کریں، نئی نئی تراکیب آزمائیں، مزیدار کھانے پکائیں۔ اس طرح آپ میں کچھ کرلینے کا احساس پیدا ہوگا اور خود کو پر اعتماد محسوس کریں گے۔

٭بے فکر ہوجائیں

کورونا وائرس پھیلنے کے بعد خواتین خصوصاً مائیں بے حد پریشانی کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ بچے ویہی سنتے اور کرتے ہیں جو وہ والدین کو کرتا دیکھتے ہیں۔ بچوں کو سکھانے کے یے ایک مثال بننا ہوگا۔ بچوں کو کووڈ19 کے حوالے سے بٹھا کر سمجھائیں اور بتائیں کہ احتیاط کیسے کرنی ہے۔ ہم سب انسان ہیں اور کوئی بھی پرفیکٹ نہیں، پرفیکٹ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جوکوئی انسان کرسکتا ہے وہ احتیاط اور دعا ہے۔ اس ساری صورتحال میں لوگوں کی روزمرہ روٹین جیسے کام پر جانے والے افراد کی روٹین بھی بدلی ہے۔ سو وہ اس وجہ سے خاصے ڈسٹرب بھی ہیں اور خود کو قرنطینہ کرنے کے بعد تو مزید پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا جو لوگ ’ورک ایٹ ہوم‘ پر ہیں انہیں بھی اس پریشانی سے بچنے کے لیے اپنا ایک شیڈول بنالینا چاہیے۔ کب اٹھنا ہے، کب ناشتہ کرنا ہے، طعام اور باقی معاملات، خاص طور پر بچوں کے لیے ایک روٹین بنانا ضروری ہے تاکہ سکول کھلنے پر انہیں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

٭آگاہی پھیلائیں

کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے کوئی سا بھی مواد پھیلا دیتے ہیں بنا تصدیق کیے غلط معلومات کو شیئر کردیتے ہیں جس سے ناصرف خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے بلکہ معصوم لوگوں کے لیے وہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ایسی معلومات عام کریں جوکہ عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اس مشکل وقت میں سب کا ایک بیانیے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ ناکہ اشتعال اور تفرقہ پھیلانا۔ مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔

The post قرنطینہ میں کیسے وقت گزاریں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پانچ طاقتوں کی ویٹو پاور ظلم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے

$
0
0

( قسط نمبر8)

1099 سے1187 تک صلیبی جنگوں کا زور رہا اُس وقت تاریخ میں پہلی مرتبہ پورا یورپ مسلمانوں خصوصاً عرب مسلما نوں کے خلاف متحد ہوا لیکن اُس وقت یورپ میں مذہبی انتہا پسندی تھی اور حکومت سمیت پورے معاشرے پر مذہبی پیشوائیت کی گرفت مضبو ط تھی یونان اور روم کے علم وفضل کی روشنی کے بعد اب یورپ تاریکی میں ڈوب گیا تھا اور آج بھی مغربی مورخین اُس دور کو تاریکی کا دور کہتے ہیں۔

اگرچہ صلیبی جنگوں سے اہل یورپ کو نقصان پہنچا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِن جنگوں سے اُن کو عرب مسلمانوں کی معاشرتی علمی ترقی کا مشاہد ہ کرنے کا موقع ملا اس سے قبل ہی مسلمانوں کی اسپین میں حکومت قائم ہو گئی تھی یوں یورپی اقوام مسلمانوں کے اعتبار سے نہ صرف اچھی معلومات رکھتے تھے بلکہ بہت سے شعبوں میںاِن کے علم وفنون سے استفادہ بھی کر رہے تھے۔ کہ 13 ویں صدی سے ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے دور کے آغاز پر ہی مشرقی اور مرکزی یورپ کے بہت سے علاقوں پر ترک خلافت کا تسلط قائم ہو گیا اور پھر1492 میں جب کرسٹو فر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو اسی سال اسپین سے مسلمانوں کے صدیوں پرانے اقتدار کا خاتمہ ہو ا تو اسی کے ساتھ دنیا میں یورپی اقوام کے نو آبادیا تی دور کا آغاز ہو ا۔ نو آبادیاتی نظام کسی قوم کے کسی دوسری ریاست پر قبضہ کر لینے کے پرانے تاریخی انداز سے کافی مختلف تھا۔

اِس سے قبل یہ ہو تا تھا کوئی قوم اگر کسی علاقے یا ملک پر حملہ آور ہوتی تو اُس ملک کو فتح کر نے کی صورت میں اُس کے سامنے دو واضح مقاصد ہو تے تھے ایک یہ کہ مفتوحہ علاقے سے لوٹ کھوسٹ کر کے واپس اپنے ملک چلے جائیں یا پھر جس ملک پر قبضہ کیا ہے اُس پر مستقل حکومت قائم کرلیں۔ مستقل حکومت کے قیام کی صورت میں یہ ہو تا تھا کہ چند سو سال بعد جس ملک کو فتح کیا ہو تا تھا، فاتح قوم کی تہذیب و ثقافت ،تمدن، مذہب مفتوحہ علاقے کی ثقافت ، تمدن ، تہذیب ، مذہب یا مذاہب سے ملاپ یا قدرے غلبے کے ساتھ تبدیلی یا سماجی ارتقا کا عمل طے کرتیں اور اس سے معاشرے کی ساخت بھی بدل جاتی تھی اور عموما ًایسی سلطنتیں اپنے پہلے بانیوں کے نام یا اُن کی قوموں یا قومیتوں کے نام پہچانی جا تی تھیں۔

اس کی ایک مثال ہمارے ہاں برصغیر میں خلجی ، بلبن،لو دھی یا مغلیہ سلطنتوں کی ہے لیکن نو آبادیا تی دور ماضی کی تاریخ سے یوں مختلف ہے کہ اِس میں فاتحین کے پیش نظر علاقوں پر قبضے سے زیادہ اُن ملکوں کے وسائل کو تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کر نا تھا اور پھر اِنہی وسائل کو مصنو عات کی صورت میں اِن ہی مقبوضہ ملکوں کو منڈیا ں بنا کر فروخت کر نا ہوتا تھا۔ اس تاریخی بنیادی تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ اہل یورپ نے علم وفنون کے پرانے انداز میں جدت پید ا کرتے ہو ئے سائنس و ٹیکنالوجی کی ارتقائی منازل طے کرنا شروع کی تھیں۔ یوں اُس زمانے سے مشرق اور مغرب میں علم ،تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک بڑا خلا واقع ہو گیا جو آج بھی بہت سے مشرقی ملکوں میں موجود ہے ،لیکن یہ بھی ہے کہ اٹھارویں صدی کے آغاز تک ترکی کی سلطنت عثمانیہ نہ صرف مظبوط تھی بلکہ مشرقی اور مرکزی یورپ کے بہت سے علاقے اس کے قبضے میں تھے اور انہی علاقو ں میں ہنگری کا علاقہ تھا جو1526 سے لیکر1699 تک یعنی 173 سال ترک مسلمانوں کے قبضے میں رہا جب کہ اس سے قبل ہنگری پہلے صدیوں تک سلطنت روم کا حصہ رہا پھر بلغارین سلطنت اور اس کے بعد میڈیویلا ہنگری رہا بعد میں یہ کسی حد تک یورپ کی نیپولین جنگوں سے بھی متاثر ہوا۔

ہنگری پر نہ صرف جنگ عظیم اوّل کے اثرات یورپ کی دیگر ریاستوں کی طرح مرتب ہو ئے بلکہ 1917 میں سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے بعد ہنگری میں بھی مشرقی اور مرکزی یورپ کی دیگر ریاستوں کی طرح مارکسی ،لیننی اشترکی نظریات کو کافی حد تک پزیرائی ملی۔ اس کی بڑی وجوہات میں ایک تو جنگ عظیم اوّل کے منفی اثرات تھے پھر جنگ ِعظیم اوّل کے بعد 1930 سے 1932 تک کی عالمی کساد بازاری کی وجہ سے غربت ،بھوک ، افلاس میں بہت اضافہ ہوا تھا دنیا کا یہی اقتصادی بحران تھا جس کی وجہ سے ایک جانب جرمنی میں ہٹلر کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب سویت یونین کے ڈکٹیٹر اسٹالن نے تقریبا ایک کروڑ انسانون کو قتل کر کے اشتراکی نظام کو انقلاب کے بعد ناٖفذ کر دیا تھا اور اس کی کامیابی دنیا کے غریب و مفلس عوام کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی اور اسی دور میں یعنی 1939 میں جنگِ عظیم دوئم کا آغاز ہو گیا۔

اب ہٹلر کی فسطائیت تھی جس کے آغاز پر خصوصاً پو لینڈ پر حملے اور قبضے کے وقت اسٹالن اور ہٹلر ہم خیال تصو ر کئے جارہے تھے لیکن اس کے فوراً بعد اسٹالن کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ یہ دوستی اُسے اور اشتراکی نظام کے حامل سویت یونین کو بہت مہنگی پڑے گی اور یوں نہ صرف اسٹالن نے ہٹلر سے تعلق ختم کر لیا بلکہ اُسکے مخالف اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس جنگ میں اگرچہ پورے یورپ کے کروڑوں افراد ہلا ک ہوئے مگراس وقت کے تقربیا ً ایک لاکھ مربع کلو میٹر رقبے کے ملک ہنگری کو بھی تاریخ کی بڑی تباہی اور بر بادی کا سامنا کر نا پڑاجب ہٹلر کی فوجوںنے اس ملک پر چڑھائی کر کے قبضہ کر لیا۔ اُس زمانے میں یہاں دس لاکھ سے زیادہ یہودی آباد تھے جو صدیوں سے آباد یہاں کے ہنگرین باشندے تھے۔ ہٹلر کے حکم پر یہاں 1944 میں 600000 یہودیوں کو قتل کردیا گیا اور 440000 یہودی ہنگری چھوڑ گئے یا جلا وطن کر دئیے گئے جب کہ دیگر 280000 ہنگرین کو بھی ہلا ک کیا گیا یوں ہنگری کے چھوٹے سے ملک کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے معاشرے کی حالت اُس وقت کیا ہو ئی ہو گی۔ آج ہنگری کا رقبہ 93030 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ ہنگری کی سرحدیں شمال میں سلاواکیہ شمال مشرق میں یو کرئن شمال مشرق میں رومانیہ جنوب مشرق میں سربیا، جنوب میں کروشیا سے اور جنوب مشرق میں آسٹریا سے ملتی ہیں۔

اِن علاقوں پر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی فو جوں نے چڑھائی کی تھی اور جب 1945 میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اِن میں سے بیشتر علاقوں میں سابق سویت یو نین کی فوجوں نے جرمنی کی فوجوں کو پسپا کیا۔ ہنگری میں13 فروری 1945 کو روسی فوجیں داخل ہوئیں اور جنگ عظیم دوئم کے بعد یہاں کی ڈیمو گرفی یا آبادی میں معاشرتی لحاظ سے بہت بڑی تبدیلی آ گئی۔ ایک تو جنگ کے دوران بارہ لاکھ سے زیادہ افراد یہاں ہلاک ہوئے تھے، یعنی کل آبادی میں سے بارہ سے پندرہ فیصد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور پانچ سے سات فیصد یہ ملک چھوڑ گئے تھے جن میں بڑی تعداد ہنگرین یہو دیوں کی تھی۔ پھر جب یہاں سے جرمن فوجیں رخصت ہوئیں اور روسی فوجیں ہنگری میں داخل ہو ئیں تو اس کے بعد نہ صرف ہنگری کے رقبے میں کچھ کمی ہو ئی بلکہ ایک بار پھر آبادی میں کچھ رد و بدل لسانی اور قومی بنیادیوں پر شہریت کے لحاظ سے ہو ا اور ہمسایہ ملک سلو اکیہ کو جانے والے 70000 سلواکین کے بدلے میں 200000 ہیگرین ہنگری میں آئے۔ پھر ہنگری میں وہ جرمن جو جنگ عظیم دوئم سے پہلے مدتوں سے یہاں کی شہرت کی بنیاد پر آباد تھے اُن 202000 جرمن باشندوں کو بھی ہنگری سے نکال دیا گیا۔

اب جہاں تک تعلق پرانے انداز کے سیاسی نو آبادیا تی نظام کا تھاوہ اپنے پورے ظلم و جبر کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ کر جنگِ عظیم اوّل میں زوال پزیر تھا اگرچہ 1918 میں اس جنگ کے خاتمے پر یہ ضرور ہو ا تھا کہ برطانیہ سمیت دیگر نو آبادیاتی قو توں کی مقبوضات میں اضافہ ہوا تھا مگر یہ پرانا نو آبادیا تی نظام اپنی تجارتی ،اقتصادی پالیسیوں کے لحاظ سے چیلنج ہو چکا تھا اور اس کو پوری دنیا میں پرانے طرز کے روایتی ظلم و جبر سے مزید طویل عرصے تک بر قرار رکھنا ناممکن تھا۔ اس نظام کو دو بڑے چیلنج در پیش تھے ایک روس میں کا میاب اشتراکی انقلاب تھا اور دوسرامقبو ضہ ملکوں میں اٹھنے والی مسلح جد وجہد اور تحریکیں تھیں۔ پھر پہلی جنگ عظیم کے رد عمل میں ایک تو 1930 سے 1932 تک دنیا بھر میں بیک وقت رونما ہو نے والی عظیم عالمی کساد بازاری تھی اور دوسری جرمن قوم کا انتقامی جذبہ تھا جو 1919 کے معاہدہ وارسائی کی چنگاری سے 1939 میں آتش فشاں بن کر ہٹلر کے نازی ازم کی صورت میں سامنے آیا تھا جس نے اُس وقت یعنی1939 سے 1945 تک نصف سے زیادہ دنیا کو خاکستر کر دیا تھا۔

اِن دونوں عظیم جنگوں کے درمیان عالمی اجتماعی فکر تو یہی رہی تھی کہ پوری دنیا میں مکمل اور پائیدار امن قائم ہو اور پوری دنیا میں ہر قوم وملک آزاد و خو د مختارہو، انسانیت کا احترام کیا جائے اور آزادی ِ اظہار کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں انسانوں کے انسانی اور بنیادی حقو ق ہر شخص کو دئیے جائیںاور اسی عالمی انسانی خوا ہش کی بنیاد پر اقوام ِمتحدہ کا ادارہ وجود میں آیا تھا مگر یہ بھی نہایت تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے اربوں انسانوںکی یہ عالمی خواہش ابھی تک ادھوری ہے اور اقوام متحدہ کا ادارہ اور خصوصاً سیکورٹی کو نسل اس اعتبار سے ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی میں سویت یونین ،ا مریکہ ،بر طانیہ ، اور فرانس سبھی برابر کے شریک ہیں اور شائد آئندہ بھی ایسا ہی رہے اور اس کی پر دہ پوشی میں اِن ملکوں کا عالمی سطح کا میڈیا بھی اہم اور انسانیت کے لحاظ سے منفی کردار ادا کر تا رہے۔ تاریخی طور پر شائد پہلی جنگِ عظیم کے بعد ہٹلر کا دنیا میں اُبھرنا نہ صرف انسانیت کے لحاظ سے ایک ناخوشگوار واقعہ تھابلکہ اُس کو دنیا میں دو طاقتی بنیادوں پر متوازی انداز میں دو متضاد اقتصادی سیاسی نظاموں کے درمیان ارتقائی دور کا ایک ایسا تاریخی حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے غالباً دنیا میں انسانی تہذیبی ارتقائی سفر کو بری طرح متاثر کرکے عالمی سیاست کو حد درجہ عیاری اور انسانی ذہانتوں کے منفی تر استعمال کے ساتھ ظالمانہ کر دیا ہے۔

پر وپگنڈہ اسٹرٹیجی اس طرح کا ابہام پید ا کرتی رہی ہے کہ عا لمی سطح سے مقامی سطح تک یہ ظلم و ستم اب سہا اور برادشت تو کیا جا تا ہے مگر ظلم کرنے والے عالمی چہرے مکاری و عیاری سے مثبت رویوں اور رحجانات کے نقاب لگائے سامنے آتے ہیں اور اسی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اپنی عالمی سیاسی،عسکری ،اقتصادی اجارہ داری اور طاقت کی بنیاد پراکثریت ووٹوں سے اپنی ظالمانہ عالمی کاروئیوں کوجائز اور قانونی قرار دلواتے ہیں۔ اگر کبھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ساتھ سلامتی کونسل کی اکثریت بھی کسی ویٹو پاور کی کسی جارحیت کے خلاف ووٹ دے تو عالمی سطح پر غیر جمہوری انداز میں ایک ویٹو پاور ووٹ حقیقت اور سچ کو جھٹلا دیتا ہے۔

1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کے صرف پانچ سال بعد کوریا میں ہو نے والی جنگ میں بھی سویت یونین اور چین نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑا دیں اور یہاں ایک ملک کو ریا 30 لاکھ انسانوں کی ہلاکت کے بعد شمالی اورجنوبی کو ریا کے نام سے دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا اور پھر اسی اقوام متحدہ نے شمالی اور جنوبی کو ریا کو تسلیم کرتے ہو ئے دو ملکوں کو رکنیت بھی دے دی۔

،کوریا میں جنگ 1953 میں ختم ہو ئی تو اس کے صرف دوسال بعد اقوام متحدہ کے سامنے ایک اور بہت بڑا تنازعہ ہنگری کی صور ت میں سامنے آیا۔ سویت یونین نو آبادیاتی دور میں اگر چہ برطانیہ ، فرانس وغیر ہ کے مقابلے بڑی نو آبادیاتی قوت نہیں تھی یعنی روس کے پاس بر طانیہ اور فرانس وغیرہ کے مقابلے میں مقبوضہ علاقے کم تھے مگر ایک تو روس ہمیشہ سے رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا ہے، پھر یہاں اشتراکی انقلاب سے قبل زار باد شاہت کے زمانے سے نہ صرف روس کا اپنا رقبہ دنیا میں سب سے زیاد ہ تھا بلکہ سنٹرل ایشیا میں اُس کے قبضے میں ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان اور آزربائجان جیسے مسلم اکثریت کے ممالک تھے اور مشرقی یورپ میں کروشیا، لتھویا،بوسینیا ہرزوگووینا، لٹویا،سربیا، یوکرائن،جیسے علاقے اُس کے قبضے میں تھے اور بڑ ی قوت کی حیثیت سے ہمسایہ ملکوں پو لینڈ، چیک ، سلواکیہ، رومانیہ،ہنگری وغیرہ پر روس کا سیاسی غلبہ تھا۔ہٹلر نے دوسری جنگِ عظیم میں ماسوائے بر طانیہ تقر یباً پورے یورپ میں اتنے بڑے رقبے پر قبضہ کیا تھا جس کی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی یوںدوسری جنگ عظیم میں فرانس جیسے ملک پر بھی جرمنی کا قبضہ ہو گیا تھا تو بڑی قوتوں میں سویت یونین اور برطانیہ ہی ایسے ملک تھے جن کو مکمل طور پر جرمنی شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ جفاکش روسیوں اپنے وسیع علاقے اور شدید سرد موسم کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی کی فوج کو اپنی اُسی دفاعی حکمت عملی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا یا جیسا ماضی میں نیپولین کی فوجوں کو پہنچا یا تھا۔ روسیوں نے جرمن فوجوں کو بھی پہلے آگے بڑھنے دیا اور شدید سردی کی آمد پر اپنے شہر وں کو خود آگ لگا کر اور خوارک کے ذخائر کو تباہ کر کے پسپا ہو گئے تھے۔

یوں نیپولین کی فوجوں کی طرح ہٹلر کی لاکھوں کی تعداد میں فوج بھوک اور شدید سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گئی تھی۔ پہلی جنگ ِ عظیم کی طرح اس جنگ ِ عظیم دوئم میں بھی سب سے زیادہ تعداد میں روسی فوجی ہلاک ہو ئے تھے جہاں تک تعلق برطانیہ کا ہے توتاریخ اس کی گواہ ہے کہ جرمنی کی فوجیں جس طرح فرانس سمیت یورپ کے دیگر ملکو ں کو روندتی ہو ئی چند دونوں ہفتوں ،مہینوں میں یورپی ملکوں کو فتح کر تی آگے بڑھ رہی تھیں اُن کو مختصر رقبے اور جزیرے کے ملک برطانیہ نے روک لیا اور ایک جانب اس کی بحریہ تھی جو پہلی جنگ عظیم سے پہلے تک دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور بحریہ تھی اور اُس وقت امریکی بحریہ کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی تھی اُس نے سمندر میں جرمنی کو روکے رکھا ،اور فرانس کی فتح کے بعد فرانس اور برطانیہ کے درمیان واقع تقریباًچالیس کلومیٹر سمندر برٹش واٹر چینل ،،رود بادِ انگلستان،، جرمنی کو پار نہیں کرنے دی۔ اسی طرح جرمن فضائیہ نے ایک ایک دن میں بر طانیہ پر کئی کئی درجن لڑاکا طیاروں سے حملے کئے کہ کسی طرح یہ صورت پیدا کی جا ئے کہ جرمن چھاتہ بردار فوج اتاری جاسکے مگر جرمنی ہر طرح کی کوشش کے باوجود ناکام رہا۔

ہٹلر کا جنگی بنیادی منصوبہ یہی تھا کہ جس تیز رفتاری سے اُس نے یورپ کے باقی ملک فتح کئے اسی طرح وہ بر طانیہ کو فتح کر کے پورے یور پی اتحاد کوبے اثر کر دے گا۔ واضح رہے کہ جنگ عظیم دوئم کے پہلے ڈھائی برسوں میں امریکہ اس جنگ کے اتحادیوں میں شامل نہیں ہوا تھا۔ اگرجرمنی ہٹلر کے منصوبے کے تحت برطانیہ کو فتح کر لیتا تو دنیا کے کل رقبے کی 25 فیصد پر پھیلی برطانوی نو آبادیات پر اُس کی گرفت بہت کمزور ہو جاتی، برطانیہ کو بھی فرانس کی طرح جلا وطن حکومت قائم کر کے باقی جنگ لڑنا پڑتی، فرانس کی جلا وطن حکومت تو برطانیہ میں تھی، ایسی صورت میں برطانیہ کی جلا وطن حکومت امریکہ میں ہوتی اور وہاں سے نو آبادیا ت کو کنٹرول کر نا بہت مشکل ہو تا۔ انگریزوں کی یہ دفاعی جنگ دنیا کے لیے اُن کی بہادری اور مستقل مزاجی کی ایک تاریخی اور زندہ مثال ہے۔

اسی طرح ونسٹن چرچل کو دنیا کا عظیم سیاست دان یوں تسلیم کیا جا تا ہے کہ ایک تو بر طانیہ نے سویت یونین کو شدید نظریاتی ،سیاسی اور اقتصادی اختلافات کے باوجود جرمنی کے خلاف اتحادیوں میں شامل کر لیا جس کی وجہ سے روس نے تباہ کن جانی نقصان کے عوض جنگ ِ عظیم دوئم کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی طرح امریکہ بھی اس جنگ میں ایسا شامل ہوا کہ امریکہ برطانیہ کو آج تک ایک بڑی اور مستحکم قوت کے طور پر ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بر طانیہ نے دوسری جنگ عظیم میں بڑی حکمت عملی سے برصغیر سمیت اپنی دیگر نو آبادیات سے نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں فوجیں بھرتی کرکے دنیا بھر کے مختلف محاذوں پر جرمن فوجوں کے سامنے کھڑے کردیے اور باوجود جنگ کے اپنی نو آبادیا ت میں اس جنگی صورتحال پر مقامی طور پر کروڑوں کی تعداد میں عوام کو قابو میں بھی رکھا۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم میں پانسہ پلٹا تو تین بڑی قوتیں تھیں جنہوں نے جرمنی کی شکست کے بعد اُن علاقوں میں اپنی فو جیں داخل کیں جہاں جرمن فوجوں نے قبضہ کیا تھا اور اِن تین بڑی قوتوں میں امریکہ کی تازہ دم فوجوں کے علاوہ سابق سویت یونین اور بر طانیہ کی لاکھوں کی تعداد میں فو جیں شامل تھیں۔ اِن تینوں قوتوں کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ علاقوں میں جہاں جرمن فوجیں تھیں وہاں اِن کی فوجوں کا قبضہ ہو ،لیکن یہ احتیاط بھی ضروری تھی جنگِ عظیم دوئم کی فتح کے فوراً بعد اِن اتحایوں میں کو ئی تنازعہ فوجی تصادم، جھڑپ یا لڑائی کی صورت اختیار نہ کرئے۔

جہاں تک تعلق برطانیہ اور امریکہ کا تھا اِن دنوں کی لیڈر شپ اور فوجی قیادت میں اِن امور پر ہم آہنگی تھی بلکہ یہ خیال بھی کیا جا تا ہے کہ پہلے ہی سے مستقبل کے بہت سے منصوبوں پر اتفاق تھا جبکہ سابق سویت یونین جو اِن دونوں قوتوں کے اشتراک کے مقابلے میں ٹیکنالوجی ، بحری قوت اور اقوام متحدہ میں اکثریت کی سپورٹ کے لحاظ سے 70 سے 80 فیصد کم تک تھا مگر سویت یونین کی قیادت یہ جانتی تھی کہ پہلی جنگِ عظیم کے نقصانات سے کراہتی چیختی ہوئی یورپ کی معاشی ،اقتصادی اور مالیاتی حالت فورا کسی تصادم کی پوزیشن میں نہیں اور امریکہ جس کو پہلی جنگِ عظیم کی طرح اس دوسری جنگِ عظیم میں بھی فائدہ ہوا تھا وہ اپنی اس اُبھرتی مضبو ط پو زیشن اور قوت کو مستقبل کے پیشِ نظر مستحکم اور پائدار بنانا چاہتا تھا اور جنگِ عظیم دوئم کے بعد یہ نئی عالمی فضا خصوصاً اقوام متحدہ کے قیام کے بعد امریکہ کے حق میں تاریخی اعتبار سے بہت ہی آئڈیل تھی۔ جنگِ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی یورپ میں یہ منصوبہ بندی ایشیا ،افریقہ اور دیگر علاقوں سے مختلف تھی۔ پرانا نوآبادیاتی نظام نئے اقتصادی نو آبادیاتی نظام سے تبد یل کیا جا رہا تھا۔

خصوصاً مغربی یورپ کے وہ ممالک جو اتحادیوں میں شامل تھے جیسے ناروے ،پرتگال ،نیدر لینڈ، اسپین ،اٹلی،فرانس وغیرہ جن کی اپنی نو آبادیا ں جنگ سے پہلے مو جود تھیں، پھر وہ یورپی ملک تھے جو جنگ عظیم دوئم سے قبل آزاد وخود مختار تھے اور نظریاتی سیاسی اقتصادی پالیسیوںکی بنیاد پر امریکہ اور برطانیہ کے ہم مزاج تھے 1945 میں قائم ہو نے والے عالمی ادارے اقوام متحد کے ابتدائی یا بانی ممبران میں شامل تھے، یوں اِن کی خود مختاری آزادی واقعی نہ صرف حقیقی تھی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بعد کے ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے مطابق تھی۔ اِن ممالک میں مغربی طرز کی جمہوری حکومتیں قائم تھیں۔ اگر برطانیہ کی طرح نیدر لینڈ وغیرہ جیسے کچھ ملکوں میں بادشاہتیں بھی تھیں تو وہ جمہوری انداز کی تھیں۔ یہاں یورپ کے بیشتر ملکوں میں گذشتہ تین صدیوں کے مذہبی عقائد اور قوم پرستی کے نظریاتی تصادم سے گذرتی ہو ئی جمہوریت میں مذہب کو سیاست سے حکومتیں قائم تھیں۔

اگر برطانیہ کی طرح نیدر لینڈ وغیرہ جیسے کچھ ملکوں میں بادشاہتیں بھی تھیں تو وہ جمہوری انداز کی تھیں۔ یہاں یورپ کے بیشتر ملکوں میں گذشتہ تین صدیوں کے مذہبی عقائد اور قوم پرستی کے نظریاتی تصادم سے گذرتی ہو ئی جمہوریت میں مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا گیا تھا اور اِن مغربی ملکوں میں اگر چہ پوری مذہبی آزادی ہر فرد کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حاصل ہو تی ہے لیکن حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہو تا وہ سیکولر ہو تی ہے۔ یورپ میں کیونکہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے عوام مذہب سے اس کی پیشوائیت کی وجہ سے دور ہو گئے ہیں اس لیے وہاں آزادی اظہار کے ساتھ دوسرے نظریا ت کی قبولیت معاشرتی سطح پر بہت کھلے ذہنوں سے ہو تی ہے۔

یہی وجہ تھی کہ 1917 میں روس میں جس کی آبادی کی اکثریت عیسائی تھی اُس نے انقلاب کے بعد اشتراکیت کو قبول کیا اور یہ بھی حقیقت ہے جنگ عظیم اوّل میں کئی لاکھ ہلاکتوں اور سر کاری اخراجات میں بے پناہ اضافے اور شاہ کی جانب سے عوام کو ریلف نہ دینے کے سبب اُس وقت کوئی پچاس فیصد روسی عوام نے کارل مارکس اور لینن کے اشتراکی نظریا ت کو قبول کیا تھا اور مشرقی اور مرکزی یورپ جہاں جنگِ عظیم اوّل اور دوئم کے درمیانی عرصے میں عوام میں اشتراکی نظریا ت سرایت کر گئے تھے وہاں مختلف ملکوں میںغربت و افلا س کے سبب عوام کی 20 سے30 فیصد تعداد اشتراکیت کے حق میں تھی اور اب سویت یونین جنگ ِ عظیم دوئم کے بعد اور خصوصاً ایٹمی قوت بننے کے بعدا س پو زیشن میں تھا کہ اِن ملکوں میں اس عوامی قوت کو منظم کر کے اِن ملکوں میں اشتراکی انقلا ب بر پا کرئے یوں مشرقی یورپ کے بیشتر ملکوں میں جو اشتراکی انقلاب رونما ہو ئے۔

اُن کے پس منظر میں یہی تھا اوراس کے مخا لف آزاد جمہوریت کے حامی ممالک میں اس کو اسی وجہ سے کیمونسٹ آمریت اور اس کا جبر قرار دیا جاتا تھا۔ سابق سویت یونین کو اِن ملکوں میں جارحیت کا مرتکب جا نا جاتا تھا۔ دوسری جانب سویت یونین جو ایک نظریاتی ملک تھا یہاں کیمونزم کے نظریات کے تحت اقتصادی اور سیاسی نظام کامیاب ہو اتھا اور سویت یونین کے عوام کو نہ صر ف زندگی کی تمام بنیادی ضرویات اور سہو لتیں بغیر طبقاتی فرق کے ہر ایک کو برابری کی بنیاد پر میسر تھیں اور ساتھ ہی روسی اشتراکی پروپیگنڈ ہ اور خصوصاً ادب ایسا معیاری اور لاجواب تھا کہ پسماند ہ اور ترقی پزیر ممالک کے عوام کو روسی جارحیت بھی کچھ زیادہ بری نہیں لگتی تھی۔

ہنگری میں1945 روسی فوجیں داخل ہو ئیں تو اشتراکی نظریات کی حامل ہنگرین لیڈرشپ برسر اقتدار آ گئی۔ اقتدار Matyas Rokosi ماٹئیس روکوسی کو ملا اور اس کے باوجود کہ عوام کی ایک بڑی تعداد روس نواز اشتراکیت کے خلاف تھی، انقلاب کے نام پر جبر کے ساتھ اسٹالن ازم کے تحت سیاسی اصلاحا ت نافذالعمل ہو ئیں جس میں اشتراکی نظام کے مخالف دانشوروں،اور سیاسی ورکروں کو لاکھوں کی تعداد میںقتل کیا گیا۔ پھر 1953 میں سویت یونین کے لیڈر جوزف اسٹالن وفات پا گئے ہو گئے جو 1925 سے سویت یونین سربراہ تھے اور اپنی سخت گیری پالیسیوں کی وجہ سے دہشت ناک تصور کئے جا تے تھے یوں ان کی وفات کے بعد نیکیٹا خروشیف برسرِاقتدار آئے تو اُس وقت سویت یونین کے انقلاب کو 36 سال ہو چکے تھے جن میں سے 28 سال تک اسٹالن برسر اقتدار رہے تھے یہ سرد جنگ کے دوران ایک اہم موڑ تھا کہ اسٹالن کی شخصیت روسی اشتراکی انقلاب کے اعتبار سے بہت اہم تھی۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت اشتراکیت کے مخالف تمام ممالک توقع کرتے تھے کہ اسٹالن کے بعد سوویت یونین میں قیادت کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ اور اس تبدیلی کے کیسے اثرات سووتت یونین کے زیرِ اثر مرکزی اور مشرقی یورپی ملکوں پر مرتب ہو نگے۔ ہنگری سوویت یونین کی نئی لیڈر شپ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔

اب ایمسی نیگے اقتدار میں آئے اور جبر کا سلسلہ جاری رہا۔ ہنگری 1955 میں سویت یونین اور خصوصاً مرکزی اور مشرقی یورپ اور دیگر اشتراکی ملکوں کے ساتھ وارسا پیکٹ میں منسلک ہو گیا۔ اس کے بعد 1956 ہنگری کے عوام نے نیگے ہی کی قیادت میں سویت یونین کی بالا دستی کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کو سویت یونین نے بھر پور فوجی قوت سے دبا دیااور 23 اکتوبر1956 کوجب ہنگامے بہت بڑھ گئے تو سویت یونین نے4 نومبرکو 3000 ٹینکوں کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روسی فوج ہنگری میں داخل کر دی۔ 20000 سے زیاد ہ ہنگرین کو ہلاک کر دیا گیا بہت سے روسی فوجی بھی ہلاک ہوئے واضح رہے کہ ہنگری میں اشتراکی حکومت کے قیام کے بعد چھ لاکھ سے زیادہ ہنگر ین کو سویت یونین میں بیگار کیمپوں میں قید کیا گیا تھا، لاکھوں افراد ہلاک کئے گئے تھے۔

یوں ہنگری سویت یونین کے لیے اشتراکیت کے اعتبار سے ایک چیلنج تھا اور اگر یہاں سویت یونین ناکام ہو جا تا تو پھر شاید اُسے مرحلہ وار ہر اُس ملک سے نکلنا پڑتا جہاں اشتراکی انقلاب برپا کیا گیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر غیر اشتراکی ملکوں کی لیڈر شپ کا خیال تھا کہ خروشیف کا رویہ اسٹالن سے مختلف ہو گا مگر خروشیف نے اسے غلط ثابت کر دیا اس پر عالمی دباؤ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس نمبر 754 کے تحت سویت یونین کی جارحیت کے خلاف قرارداد نمبر 120 پیش کی گئی اس کے حق میں سوائے سویت یونین کے تمام ووٹ آئے اور سویت یونین نے اس قرارداد کو ویٹوکردیا اور اس کے دوسال بعد نو مبر1958 ہنگری کے لیڈر نیگے کو بغاوت کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی یہ حقیقت ہے کہ کئی دیگر ملکوں کی طرح ہنگری کے عوام کی اکثریت کیمونزم کے خلاف تھی اور مرکزی یورپ میں اس کے خلاف یہ بہت ہی زبردست مزاحمت تھی اور پھر جب سویت یونین ہی میں کیمونزم کا خاتمہ ہو ا تو یہاںاُسی خونی احتجاج کی تاریخ یعنی 23 اکتوبرکو سال 1989میں اس نظام اور سویت یونین سے آزادی ملی۔

آج ہنگری مرکزی یورپ کا ایک خوشحال ملک ہے یہاں قدرت نے اس ملک کو بہت خوبصورت اور وسائل بخشے ہیں یہاں یورپ کا سب سے وسیع گھاس کا میدان،، گراس لینڈ ہے ،،یہاں دنیا کی دوسری بڑی گرم پانی کی جھیل ہے اور اسی طرح یہاں کی غاریں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں یہ ملک سیاحوں کی جنت کا درجہ رکھتا ہے او ر سالانہ یہاں پونے دو کروڑ کے قریب سیاح آتے ہیں۔ اب 9772756 آبادی اور رقبہ 93032 مربع کلو میٹر کے ملک کا سالانہ جی ڈی پی 350.000 ارب ڈالر ہے اور فی کس سالانہ آمدنی 35941 ڈالر ہے ہنگری 2004 سے یورپی یونین کا رکن ہونے کے علاوہ ورلڈ بنک، نیٹو ، ڈبلو ٹی او،آئی آئی بی، اور اے آئی آئی بی کا بھی ممبر ہے یہ ایک خوشحال ترقی یافتہ اور پُر امن ملک ہے لیکن یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا اگر افغانستان میں1979-80 میں سویت یونین کی جاریت کے سامنے افغان بھی ہنگرین کی طرح ناکام ہو جاتے تو آج کیا صور ت ہو تی ؟مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے33 سال بعد اگر ہنگری سمیت دیگر ممالک آزاد ہوئے تویہ سب افغانستان کے عوام کی سابق سویت یونین کی طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں ،میزائیلوں ،ٹینکوں سے لیس لاکھوں فوجیوں سے وہ مسلسل جنگ تھی ،اور اسی جنگ نے سویت یونین کو شکست دی تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں کی قر بانیاں ہنگری کے عوام کی قربانیاں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔

(جاری ہے)

The post پانچ طاقتوں کی ویٹو پاور ظلم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وبا کی آڑ میں مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

$
0
0

پوری دنیا اس وقت بُری طرح موذی اور متعدی مرض کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ ہر طرف خوف اور آہ وبکا کا عالم ہے۔

حکومتیں اس وبا  کے پھیلاؤ کی شدّت کم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں بروئے کار لارہی ہیں، تاکہ کسی طرح بھی ہو اس ناگہانی آفت سے اپنے عوام کو حتی المقدور محفوظ بنایا جا سکے، لیکن انتہائی شرم ناک، تکلیف دہ اور قابل مذمت امر یہ ہے کہ قیامت صغریٰ کے اس ہیبت ناک مرحلے پر ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ناجائز ذرایع سے دولت کے حصول کی حرص و ہوس سے گلے تک بھرے کچھ سفاک، لالچی اور منافع خور تاجر، دکان داراور آڑھتی بنیادی ضروری اشیائے خورونوش، پھل اور سبزیوں کی قیمتیں فوراً بڑھا دیتے ہیں، جس سے عوام بالخصوص مزدور، دیہاڑی دار اور چھوٹے موٹے ملازمت پیشہ افراد انتہائی بری طرح پستے ہیں اور اُن پر اس ناجائز بوجھ ڈالے جانے کی کہیں اور کسی فورم پر کوئی مناسب تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیا بازار میں وافر دست یاب ہیں اور ان کی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے، تو پھر کیوں ان اشیائے خوردو نوش کو معمول کے مناسب داموں کی بہ جائے انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے۔ ان اشیا کی قیمتیں فوراََ کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، جس سے معاشرے کے وہ افراد جو پہلے ہی غربت، مفلسی، تنگ دستی، مناسب روزگار اور ذرایع آمدن نہ ہونے کے پیش نظر معاشی مسائل سے دو چار ہوتے ہیں اور اضافی بوجھ اُٹھانے کی بالکل سکت نہیں رکھتے کیسے اپنے گھر کا چولھا جلائیں گے، کس طرح اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں گے۔ یہ ہیں وہ تلخ حقائق جن کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ہم بے حسی و بے شرمی کا انتہائی ڈھٹائی سے مظاہرہ کرتے آرہے ہیں اور ان بے بس طبقات کی آواز نہیں بنتے، کیوں کہ ان کے دُکھ والم میں اضافہ کی بدولت ہمارے مفادات پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی۔

گزشتہ دنوں ایک سبزی فروش کی دکان پر ایک گاہک نے انتہائی سہمے ہوئے لہجے میں سبزیوں کے بھاؤ پوچھنے کی جسارت کی تو دکان دار نے بڑی بے باکی سے بتایا کہ ٹینڈے 70 روپے کلو، بینگن 60، کدو 70، شملہ 120، کریلا 200 اور  بھنڈی 250 روپے کلو۔ گاہک بے چارہ سنتے ہی سرد آہ بھر کے  اور واپس گھر کی راہ لی۔ میں نے دکان دار سے دریافت کیا کہ ان سبزیوں کی قیمتیں کل پرسوں تک تو تقریباً آدھی تھیں اور یہ سب تو یہاں کی مقامی پیداوار ہیں، اچانک آج انہیں کیوں پر لگ گئے ہیں، دوسرا ان کی ترسیل بھی تو کسی طرح متاثر نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے ناپید ہونے کا کوئی خدشہ ہے، آپ خوامخواہ لوگوں پر کیوں ظلم کر رہے ہیں۔

ایک کریانے کی دکان پر مشاہدے میں آیا، جہاں چند دن پہلے تک جو انڈے ہمیں فی درجن 110 روپے میں دست یاب تھے، اُس دن 140 روپے فی درجن فروخت کیے جا رہے تھے ۔ حالاں کہ لوگوں کی ریلیف کی خاطر حکومت کورونا کے اس بحران میں پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر چکی ہے، جس کا اثر خود بخود اشیائے خوردونوش پر بھی نظر آنا چاہیے تھا، قبل ازیں یہ دکان دار خود ہی ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے کہ مہنگائی کی وجہ محض تیل کی قیمتیں ہیں، لیکن اب کی بار تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ’کورونا‘ کی آڑ میں اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔

دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں ہمیشہ قومی ومذہبی تہواروں و دیگر زمینی و آسمانی آفات کے موقع پر تاجر  اپنے لوگوں کو خصوصی ریلیف دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان موقعوں پر غریب عوام کو ریلیف دینا تو درکنار اُلٹا مصنوعی مہنگائی کر کے انتہائی دیدہ دلیری سے من مانے دام وصول کیے جاتے ہیں اور اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی مافیا بہت طاقتور ہے، کیوں کہ سرکار کو خاطر میں لائے بغیر وہ بلا خوف وخطر کبھی تبدیلی اور کبھی کورونا کی آڑ میں عوام کا لہو پی رہے ہیں۔

شرم آنی چاہئے ایسے خوں خوار بھیڑیوں کو جو مذہبی تہواروں اور ناگہانی آفات کے دوران بھی مجبور و بے بس عوام سے اُن کی بے بسی، لاچاری اور بیماری پر ناجائز فائدہ اُٹھا کر اپنے بال بچوں کو رزق حرام کھلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اُنہیں شاید اس امر کا ادراک نہیں ہے کہ ایسے موقعوں پر اپنے لوگوں کو جائز ریلیف دے کر آپ اُن کی دل جوئی کا ساماں کر سکتے ہیں اور آپ کا یہ عمل اللہ عزو جل کے ہاں بے حد قبول و مقبول بھی ہو گا۔ یاد رکھو ہمیشہ لوگوں میں آسانیاں بانٹو اور اگر آپ دکھی انسانیت کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم اُنہیں مصنوعی مہنگائی کے بے رحم پھندے میں جکڑ کر اذیت مت پہنچاؤ۔

یہاں یہ امر حکومت کی توجہ کا متقاضی ہے کہ وہ ایسے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کر کے لوگوں کی پہلے ہی کٹھن ہونے والی زندگیوں کو مزید مشکل میں ڈالنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔ ان کی سزاؤں کے قوانین مزید سخت کر کے ان کا موثر نفاذ کرے، تاکہ آئندہ کوئی شخص ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی گرانی کی جرأ ت نہ کر سکے۔

The post کورونا وبا کی آڑ میں مہنگائی کا ذمہ دار کون؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونامہ

$
0
0

٭ لاک ڈاؤن کے لیے گاکر شہریوں کو مناتی بھارتی پولیس
بھارت میں لاک ڈاؤن کو کام یاب بنانے کے لیے پولیس اہل کار صرف ڈنڈوں سے کام نہیں چلا رہے ہیں بلکہ کچھ ایسے دل چسپ، ڈراؤنے اور مزاح سے بھرپور طریقے اپنائے ہیں جس سے بوریت کے شکار شہریوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس آفیسر ایک علاقے میں مائیک تھامے بولی وڈ کا مشہور گانا ’’ایک پیار کا نغمہ ہے‘‘ سنا رہا ہے لیکن غور سے سننے پر پتا چلتا ہے کہ یہ ایک پیروڈی ہے ،نغمہ یوں ہوگیا ’’ایک پیار کا نغمہ ہے، ہمیں مل کر کورونا کو بھگانا ہے، سینی ٹائزر لگانا ہے، کورونا کو بھگانا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور اہل کار ’’زندگی موت نہ بن جائے، سنبھا لو یارو!‘‘ گا رہا ہے۔

اسی طرح بھارتی پولیس نے شہریوں کو ہاتھ دھونے کے درست طریقے کی آگاہی دینے کے لیے فوک گیت پر رقص کرتے ہوئے پرفارم بھی کیا۔ بات نغموں، رقص اور پیروڈی تک ہی رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن یہ کیا کہ ایک اہل کار کورونا وائرس کی شکل کا ہیلمٹ پہن کر سڑک پر کھڑا ہوگیا اور لگا شہریوں کو ڈرانے۔ نغموں کے رسیا پیروڈی سے، رقص کے شوقین ڈانس اسٹیپس سے اور لاتوں کے بھوت ڈنڈوں سے بھی نہ مانیں تو ڈرانے کا ایک یہی طریقہ بچتا ہے۔

٭ تھائی لینڈ میں بچوں کو بچانے کے لیے انوکھے فیس ماسک
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے پرارام 9 اسپتال میں پیدا ہونے والے جڑواں بچے اپنے والدین کے ساتھ گھر جانے کو تیار ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں، کیوں کہ حفاظتی اقدامات کی قلت ہے۔ کورونا وائرس کا ان جانا خوف بھی ہے اور بچوں کو اس مہلک وائرس سے بھی بچانا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک نہایت کم ہے اور ان بچوں کی منزل اسپتال سے بہت دور ہے۔

اسپتال میں موجود نرسیں بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں ایسے میں دو نرسوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پھول سے بچوں کے لیے فیس ماسک بنانے کی ٹھانی اور غیرضروری سامان کی مدد سے بچوں کے لیے محفوظ اور دیدہ زیب فیس ماسک بنالیا۔یہ ماسک ہیلمٹ کی طرح پہنا جا سکتا ہے جس میں لگا شیشہ چہرہ ڈھانپ لیتا ہے، اور اسے ضرورت کے مطابق اوپر نیچے بھی کیا جاسکتا ہے۔

٭ زیورات اور گاڑیوں سے بھی خطرہ
کورونا وائرس انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے اور یہ مرد و زن کی تفریق کیے بغیر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ مہلک وائرس خواتین کے زیر استعمال زیورات میں اپنا گھر بناسکتا ہے اور اسی طرح گاڑی کچھ حصوں میں بھی چھپا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی مختلف دھاتوں پرزندہ رہنے کا عرصہ مختلف ہوتا ہے۔ ایک امریکی اسپتال کے شعبہ متعدی امراض کے سربراہ روشیل والنسکی نے میڈیا کو بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انگوٹھیوں کے اندرونی حصے میں جراثیم موجود ہو سکتے ہیں، تاہم سینی ٹائزر کے استعمال سے سونے کے زیورات کے معیار میں کمی آنے کا احتمال رہتا ہے۔

اس لیے سونے کی اشیا کو تو زیورات کو برتن دھونے کے ہلکے صابن یا کسی مائع مواد کے ساتھ دھولیا جائے اور اچھی طرح اطمینان کرلیا جائے کہ انگوٹھیوں، چوڑیوں اور ہار کے اندرونی و نچلے حصے تک مکمل صفائی ہوجائے۔گاڑی کے کچھ حصے ایسے ہیں جنہیں جراثیم کش اسپرے سے بار بار صاف کرنا چاہیے جیسے دروازے کھولنے کے اندرونی اور بیرونی لیورز، شیشے اوپر کرنے کے لیورز، اسٹیئرنگ، گیئر، ٹیپ ریکارڈ اور اے سی کھولنے کے بٹن۔ ان جگہوں کو سب سے زیادہ ہاتھ لگایا جاتا ہے۔

٭ امریکا :لاکھوں ڈالر مالیت کی اشیاء چاٹنے پر خاتون گاہک گرفتار
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک سپراسٹور میں خاتون گاہک کو 1 ہزار 800 ڈالر مالیت کی اشیا کو چاٹنے پر ان اشیا کو ناقابل فروخت قرار دے دیا گیا اور اس خاتون کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کردیا گیا۔اس سے قبل بھی نیوجرسی کے ایک سپراسٹور میں غذائی اشیا کے قریب ایک خاتون کو چھینک آگئی تھی اور خاتون کھانسی بھی تھی جس پر اسٹور کے مالک نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر تقریباً 56 لاکھ روپے کی اشیا تلف کردی تھیں۔

٭ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ہندو کی آخری رسومات مسلمانوں نے ادا کیں
انتہاپسند مودی سرکار نے اپنے دورِحکومت میں ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے شدید نفرت پیدا کی تو دوسری جانب متنازع شہریت قانون منظور کرکے مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی سازش رچائی اور جو مسلمان اُٹھ کھڑے ہوئے انہیں چن چن کر مارا گیا۔ ایسے نفرت آمیز ماحول میں بھی مسلمانوں نے رواداری کا دامن نہیں چھوڑا جس کی مثال کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ایک ہندو شخص کی آخری رسومات کے وقت دیکھنے کو ملی۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں روی شنکر نامی شخص کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ اہل خانہ نے خوف کی وجہ سے اپنے پیارے کی میت وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر محلے میں رہنے والے مسلمان آگے بڑھے اور نہ صرف روی شنکر کی میت وصول کی بلکہ اس کی آخری رسومات بھی ادا کیں۔ وہ ارتھی لے کر شمشان گھاٹ گئے اور چیتا کو آگ لگائی۔

٭بولی وڈ کے ستاروں کی اپنے گھروںہوٹلوں اور دفاتر کو قرنطینہ بنانے کی پیشکش
بالی وڈ کے کنگ خان شاہ رخ خان اور ان کی اہلیہ گوری خان کی جانب سے اپنے گھر اور دفتر کو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے قرنطینہ سینٹر بنانے کی پیشکش کے بعد کئی دیگر اداکار بھی کار خیر میں حصہ لینے کے لیے میدان میں آگئے۔درجنوں رومانوی اور چاچی 420 جیسی مزاحیہ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے 65 سالہ کمل ہاسن نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں ذاتی رہائش گاہ کو اسپتال میں تبدیل کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے لکھا کہ میری خواہش ہے کہ ڈاکٹروں کی مدد سے اپنی پرانی رہائش گاہ کو ہمیشہ کے لیے ایک اسپتال میں تبدیل کردوں۔

اسی طرح سلو بھائی کے مدمقابل آنے والے دبنگ ولین سونو سود نے بھی اپنے ہوٹل کو ڈاکٹرز اور طبی عملے کے آرام کے لیے پیش کردیا ہے جہاں ان سب کو مفت رہائش اور کھانے پینے کی سہولت بھی میسر ہوگی۔ اداکار سچن جوشی نے بھی اپنے ہوٹل کو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے قرنطینہ سینٹر بنانے کی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک سے بھارت آنے والے تمام مسافر میرے ہوٹل میں بلا معاوضہ رہ سکتے ہیں ۔ قبل ازیں بجرنگی بھائی جان سلماں خان نے 25 ہزار مزدوروں کو راشن دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس باقاعدہ طور پر 5 لاکھ مزدور ہیں جن میں سے 25 ہزار مزدورں کو مالی مدد درکار ہے۔

٭ نیویارک میں 40 افراد کی اجتماعی قبر
امریکا میں روزانہ ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کے باعث لاشوں کی تدفین کا مسئلہ گمبھیر ہوگیا ہے جس کے بعد ایک جزیرے ہارٹ میں لاوارث اور غریب افراد کے لیے مختص قبرستان میں اجتماعی قبر میں مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ 40 افراد کو ایک ساتھ دفن کیا گیا ہے۔ اس قبرستان میں مزید اجتماعی قبریں بھی کھودی جارہی ہیں۔دوسری جانب لاطینی امریکی ملک ایکواڈور میں تجہیز و تدفین کا نظام مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے۔

اہل خانہ کو اپنے مُردوں کی تدفین کی اجازت نہیں جب کہ محکمۂ صحت کا عملہ ناکافی ثابت ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کورونا کے مریضوں کی لاشیں دو دو دن تک سڑکوں اور گھروں میں پڑی رہتی ہیں۔نیویارک اور ایکواڈور میں تجہیز و تدفین کے لالے پڑے ہیں تو وہیں پاکستان صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع شانگلہ میں ایک ڈاکٹرحافظ ثنااللہ نے کورونا وائرس سے زندگی کی بازی ہارنے والے ایک شخص کو نہ صرف غسل دیا بلکہ نماز جنازہ بھی پڑھائی اور اسلامی طریقے سے میت کو قبر میں بھی خود ہی اتارا۔

٭ لاک ڈاؤن میں آن لائن بارات اور ولیمے
نہ ڈھول کی تھاپ، نہ مہمانوں کا تانتا، آتش بازی کا سامان نہیں، لذیذ پکوان کی مہک اور برقی قمقموں سے سجا پنڈال نہیں۔ دلہا ہے دلہن ہے اور ان کے والدین، وہ بھی ماسک لگائے ہوئے۔ یہ ہے اْس شادی کا احوال جس میں باراتیوں اور میزبانوں نے آن لائن شرک کی۔

کورونا وائرس سے قریب تمام ہی ممالک میں معمولات زندگی ٹھپ ہیں لیکن پیار کرنے والوں نے حالات نارمل ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے آن لائن شادیوں کی تقریبات کا انعقاد کرکے ایک نیا اور کم خرچ شادی کے چلن کا آغاز کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔انڈونیشیا میں محمد نور جامان کے والدین نے گذشتہ برس اوجی لیستاری ویدیا کو اپنے گھر کی بہو بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور شادی کے لیے تاریخ 12 اپریل طے پائی تھی جس کے لیے 500 مہمانوں کی فہرست بھی بنالی گئی تھی اور پُرتعیش ولیمے کی تیاریاں بھی مکمل تھی لیکن عین موقع پر کورونا وائرس نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

یوں تو شادی کو موخر بھی کیا جاسکتا تھا لیکن غیریقینی صورت حال کے باعث جوڑے نے طے شدہ تاریخ کو ہی شادی کرنے کو ترجیح دی۔ دلہا دلہن اور دونوں جانب سے 8 افراد نے آن لائن بارات کی تقریب سجائی گئی اور مہمانوں نے ویڈیو کانفرنس کال کے ذریعے رسومات کی ادائیگی دیکھی اور نوبیاہتا جوڑے کو مبارک باد دی۔

٭ لاک ڈاؤن اور ایک سے زائد شادی کرنے والوں کی پریشانیاں
جہاں سماجی اور معاشی سطح پر کورنا وائرس کے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہیں کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے ازدواجی زندگی بھی مسائل کا شکار ہوگئی ہیں اور اگر معاملہ دو شادیاں کا ہوں تو یہ قید بامشقت دہری ہوجاتی ہے۔ دو بیویوں کے گھروں کے درمیان لاک ڈاؤن ہے، ایک کے گھر جائے تو دوسری ناراض، دوسری کو منانے جائے تو پولیس خاطرداری کو تیار۔

کورونا وائرس کی وجہ سے دبئی اور اردن میں کرفیو سے پریشان شوہر اور بیوی نے پولیس سینٹر سے براہ راست کال کرکے رابطہ قائم کیا شوہر نے دوسری بیوی سے ملنے کے لیے کرفیو پاس کی استدعا کی جب کہ بیوی نے کہا کہ میرا شوہر پہلی بیوی کے گھر ہے اور کرفیو کی وجہ سے میرے پاس نہیں آسکتا اس لیے مجھے بھی کرفیو پاس دیا جائے۔

٭ شادی کی پہلی رات تھانے میں
جنوبی افریقا کے صوبے کوازلوناتال میں شادی کی تقریب جاری تھی اور 40 مہمانوں کے درمیان دلہا دلہن نئی زندگی کے حسین خواب آنکھوں میں سجائے عہد و پیماں کررہے تھے کہ پولیس نے چھاپا مار کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر نہ صرف تمام مہمانوں اور رسم کی ادائیگی کرانے والے پادری کو حراست میں لے لیا بلکہ دلہا اور دلہن کو بھی گرفتار کرکے تھانے لے گئی۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر دلہا دلہن کو اپنی شادی کی پہلی رات جیل میں کاٹنا پڑی۔

The post کورونامہ appeared first on ایکسپریس اردو.


کورونا سے سہمی دنیا۔۔۔ کچھ تصویروں کے آئینے میں

$
0
0

وائرس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’زہر‘‘ہے۔ اِس اعتبار سے سائنسی اصطلاح میں وائرس ایک ایسا زہریلا جان دار ہوتا ہے جو اکیلا زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ اسے خود کو زندہ رکھنے کے لیے کسی دوسرے جان دار خلیے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ زندہ خلیوں کے اندر پہنچ کر وائرس خوب پھلتا پھولتا ہے۔

بہت کم ہوتا ہے کہ وائرس ایک مخلوق سے کبھی دوسری مخلوق میں منتقل ہوا ہو۔ یہ عموماً قریبی رابطوں، آلودہ کھانے یا پانی کے ذریعے یا پھر ہوا میں معلق بوندوں کے ذریعے پھیلتا جاتا ہے۔ وائرس انسانی تاریخ میں بے شمار بار بدترین بیماریوں مثلاً ایبولا، چیچک، پولیو اور ایڈز کا سبب بن چکا ہے۔ وائرس کے خاندان کا تعین اس کی شکل، جینوم کی تشکیل اور پھیلنے کے انداز سے کیا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر وائرس کی تعداد کا تخمینہ اربوں میں لگایا جاتا ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف الیکٹران مائیکرواسکوپ سے نظر آسکتا ہے۔

ایک وائرس ہونے کی وجہ سے کورونا میں بھی یہ ہی تمام خصوصیات بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں۔ یعنی انسانی آنکھ سے نہ دکھائی دینے والے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جگہ جگہ اپنی ہلاکت خیزی سے ایسی اندوہ ناک اور خوف ناک خون آشام رنگ بکھیرے ہیں کہ تین ماہ پہلے تک اپنی خوب صورتی سے پوری کائنات کا دل موہ لینے والی دنیا کا سارا رنگ روپ ہی بگڑ کر رہ گیا ہے۔ ڈری، سہمی، مغموم، خاموش اور سنجیدہ دنیا کی تازہ ترین تصاویر میں بہ آسانی کورونا وائرس کا اصل بہروپ دیکھا جاسکتا ہے۔

چند ماہ میں کورونا وائرس نے ہماری ہنستی، مسکراتی دنیا کی کیا حالت بنادی ہے ، یہ جاننے کے لیے دنیا بھر سے ایک تصویری جائزہ پیشِ خدمت ہے ۔ یہ تصویریں جہاں ہماری دنیا کی بے بسی اور بے ثباتی کی چغلی کھارہی ہیں، وہیں اِن میں کورونا وائرس کی اصل حقیقت کو بھی صاف صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

1 ۔لاس ویگاس کی سڑکوں پر بے گھر افراد کی بھرمار:

امریکی شہر لاس ویگاس کو ’’گناہ کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لاس ویگاس (جسے مختصراً ویگاس بھی کہا جاتا ہے) امریکی ریاست نیواڈا کا سب سے بڑا شہر ہے، جو تعطیلات کے ایام گزارنے، خریداری، تفریح اور قماربازی کے لیے بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے۔ 20 ویں صدی میں آباد ہونے والا یہ امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ 1940 میں اِس شہر نے منشیات اور جوئے کے پیسوں سے بہت ترقی کی اور اِس شہر میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر نے شہر کی رونق کو چار چاند لگادیے۔

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کی آمد سے پہلے اگر آپ دنیا کے عالی شان شہروں کی فہرست بناتے تو یہ شہر اس میں پہلے نمبر پر آتا۔ آپ دنیا کے بہترین تفریحی مقامات کی فہرست بناتے تو یہ شہر اُس میں بھی اول نمبر پر موجود ہوتا اور اگر آپ دنیا کے رنگین ترین شہروں کا مقابلہ کرتے تو یہ شہر بہ آسانی وہ مقابلہ جیت جاتا، مگر کورونا وائرس نے لاس ویگاس کی سڑکوں کو پہلی بار بے گھر لوگوں سے آباد کردیا ہے۔ لاس ویگاس کی سڑکوں پر جہاں کبھی مہنگی اور قیمتی گاڑیاں پارک ہوتی تھیں وہاں آج کل ہزاروں بے گھر لوگ سماجی دوری کے اُصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سرِشام ہی سونے کی تیاریاں کررہے ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی اِس تصویر کو لاس ویگاس کے سب سے تاریک ترین لمحہ سے تعبیر کیا جارہا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر لوگ لاس ویگاس کی اِس حالتِ زار پر اپنی شدید افسردگی کا اظہار کر تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ لاس ویگاس کی ایسی خوف ناک تصویر بھی دیکھنے کو ملے گی۔ کورونا وائرس نے لاس ویگاس کو مکمل طور پر ویران کردیا ہے اور اِس شہر میں قائم ہوٹلز اور جوئے خانے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔

لاس ویگاس کی انتظامیہ کے مطابق ’’گذشتہ چند دنوں میں شہر میں بے گھر لوگوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ، جس کی وجہ سے شیلٹر ہومز کی شدید کمی ہوگئی ہے۔ لہٰذا شہر کی انتظامیہ نے پارکنگ ایریا میں سماجی دوری کے اُصول کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پینٹ سے نشانات لگادیے جہاں بے گھر افراد رات کو سو سکتے ہیں۔‘‘

2 ۔طبی عملے کے چہروں پر خدمت کے لازوال نشانات:

کورونا وائرس کے نزول سے پہلے شاید کسی شخص نے کبھی این 95 ماسک کے بارے میں کچھ سُنا ہو، لیکن اَب تو ہر شخص کی زبان پر این 95 ماسک کا نام ہے، کیوںکہ میڈیا میں صبح و شام چلنے والی خبروں کے بعد سب ہی جان گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے خلاف سب سے زیادہ مؤثر حفاظتی حصار این 95 ماسک ہیں۔ این 95 سے مراد ایک ایسا خصوصی ماسک ہے، جو 95 فی صد تک ہوا میں موجود دھول اور ذرات کو انسانی ناک میں داخل ہونے سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ کورونا وائرس کے لیے بھی این 95 ماسک کے درمیان میں سے نکل جانا کم وبیش ناممکن ہے۔ اِسی لیے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلاف صفِ اوّل میں لڑنے والے طبی عملے کو کورونا سے حفاظت کے لیے یہی ماسک فراہم کیے جارہے ہیں۔

مگر مصیبت یہ ہے کہ این 95 ماسک کو زیادہ دیر تک پہننا سخت جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے، جب کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کرنے والے طبی عملے کو این 95 کئی کئی دن تک مسلسل بھی پہننے پڑسکتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن ڈاکٹر ز اور نرسوں کے چہرے این 95 کی سختی کے باعث گلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی ایک تصویر میں این 95 ماسک کی وجہ سے طبی عملہ کے نرم و نازک چہرہ پر پڑنے والے بھیانک اور اذیت ناک نشانات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ تصویر زبانِ حال سے بتا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے طبی عملے کو دنیا بھر میں کتنی مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ این 95 ماسک کی وجہ سے بعض ڈاکٹر اور نرسز کے چہرے اتنے زیادہ گل، سٹر گئے ہیں کہ شاید ہی وہ چہرے کبھی دوبارہ اپنی اصل حالت میں واپس آسکیں۔ بلاشبہہ طبی عملے کے چہروں پر ثبت ہونے والے یہ نشانات جذبہ خدمت کی وہ زریں ترین علامتیں ہیں جو انہیں اپنے اردگرد موجود دیگر تمام انسانوں سے ممتاز بناتی ہیں۔

3 ۔ٹوائلٹس پیپر کے خالی اسٹورز:

یہ تصویر امریکا کے ایک معروف اسٹور چین کی ہے، جس میں ٹوائلٹ پیپرز کے ریک مکمل طور پر خالی نظر آرہے ہیں۔ ویسے تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیاء کی خریداری کر رہے ہیںِ، لیکن امریکا میں سب سے زیادہ قلت اِس وقت ٹوائلٹس پیپرز کی ہے۔ امریکا کی سپرمارکیٹس میں ٹوائلٹ پیپر رول کے حصول کے لیے باقاعدہ آپس میں لڑائی جھگڑے کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کی ایک پوری تاریخ ہے۔ امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی دوسری بڑی وجہ ہے جس کے باعث وہ خود کو ٹوائلٹ پیپر کے بغیر ادھورا سمجھتے ہیں اور امریکا میں کئی لوگوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی دوسرا متبادل طریقہ ہو سکتا ہے۔

امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے، کیوںکہ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جب کہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر حاصل کر نے کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں کرونا وائرس کے باعث جہاں ایک طرف دنیا ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر امریکیوں کو لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین طب نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال کوروناوائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف امریکا کی شمال مغربی ریاست اور یگون میں پولیس نے کورونا وائرس سے پریشان شہریوں کے لیے باقاعدہ ایک اطلاعی اشتہار شائع کیا ہے کہ ’’جب ٹوائلٹ پیپر ختم ہوجائیں تو وہ برائے مہربانی ایمرجنسی ہیلپ لائن “911” پر فون نہ کریں، کیوںکہ ہم لوگوں کو گھروں پر ٹوائلٹ پیپرز کے رول فراہم نہیں کرسکتے، جب کہ یہ بات آپ سب لوگ اچھی طرح سے ذہین نشین کرلیں کہ ٹوائلٹ پیپرز کے بغیر بھی بہ آسانی زندہ رہا جاسکتا ہے۔‘‘

4 ۔ریفریجریٹر ٹرک بنے مردہ خانے:

یہ تصویر امریکا کے شہر نیویارک میں بروکلین کے وائکوف اسپتال کے باہر اُس وقت کھینچی گئی جب کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے 9 افراد کی لاشیں ریفریجریٹر ٹرک میں رکھی جارہی تھیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ نیویارک کے کئی دیگر اسپتالوں کے باہر بھی ریفریجریٹر ٹرک قطار در قطار کھڑے ہیں جن میں کووڈ 19 بیماری سے جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشیں رکھنے کا بندوبست کیا جارہا ہے، کیوںکہ روزانہ کورونا وائرس کے سے متاثر افراد اتنی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں کہ لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے بنائے گئے سرکاری اور نجی سرد خانے کم پڑ گئے ہیں۔

اِس لیے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ریفریجریٹر ٹرک جنہیں اکثر آئس کریم یا کھانوں کی ڈلیوری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اَب اِن ٹرکوں کو عارضی مردہ خانوں میں تبدیل کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے گذشتہ چند ہفتوں میں ریفریجریٹر ٹرک فراہم کرنے والوں کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہوا اور ریفریجریٹر ٹرکوں کے حصول کے لیے اُن کمپنیوں کے دفاتر کے باہر باقاعدہ لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ریفریجریٹر ٹرک فراہم کرنے والی ایک کمپنی کرو فیونرل ہومز کوئنز کے مالک کین بروسٹر کے مطابق ’’نجی مردہ گھروں کی اکثریت کے پاس اتنی تعداد میں فریج نہیں ہیں جن میں لاشیں رکھی جا سکیں، اگر جگہ نہیں ہوگی تو مجبوراً لاشیں ٹرکوں میں رکھنا پڑیں گی۔

یہ ہی وجہ ہے ہم نے اپنی دیگر سروسز کو بند کرکے اپنے ریفریجریٹر ٹرک لاشوں کو محفوظ بنانے کے لیے بُک کرنا شروع کردیے ہیں۔‘‘ امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں وائٹ ہاؤس نے اندازہ لگایا ہے کہ اگست کے شروع تک ملک میں ایک لاکھ کے قریب افراد لقمۂ اجل بن جائیں گے۔ اس پس منظر میں ماہرین سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں امریکا کے پاس ریفریجریٹر ٹرکوں کو عارضی مردہ خانوں کے طور پر استعمال کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بیلجیئم کے سرکاری حکام نے بھی اپنے ملک میں کوروناوائرس کے سبب بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر مردہ خانوں کے متبادل کے طور پر ریفریجریٹڈ ٹرکوں کا انتظام کرنا شروع کردیا ہے۔ اِن ٹرکوں میں بیک وقت 36 لاشوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بیلجیئم میں اب تک کورونا وائرس کے سبب 2523 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

5 ۔روسی کارگو جہاز امریکی سرزمین پر:

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کے بعد عالمی سیاسی منظرنامے میں جو سب سے بڑی اور حیران کُن تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وہ اِس تصویر میں واضح طور پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے جس میں روس کا ایک کارگو جہاز ہزاروں ٹن امدادی سامان لے کر امریکا کی سرزمین پر اُتر رہا ہے۔ اِس روسی کارگو جہاز میں کورونا وائرس سے نبردآزما ہونے کے لیے روس نے امریکا کی طرف طبی آلات اور ضروری اشیاء کی ایک بڑی کھیپ روانہ کی ہے، جس میں سرجیکل ماسک اور کورونا ٹیسٹنگ کٹس شامل ہیں۔ کوروناوائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث امریکا میں طبی آلات کی شدید قلت ہوچکی ہے اور سپرپاور امریکا نے امداد کے لیے دنیا بھر کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔

اِن مخدوش ملکی حالات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی ہم منصب ولادی میرپیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا، جس میں وبائی مرض کورونا وائرس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوئی جب کہ روسی صدر نے کورونا وائرس سے امریکا میں ہونے والی اموات پر اپنے گہرے دُکھ اور رنج کا بھی اظہار کیا۔ اِس اعلیٰ سطحی رابطے کے دو روز بعد ہی روسی امداد امریکا کے لیے روانہ کردی گئی تھی، جسے وصول کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا اور روس ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک اَب تک ایک دوسرے کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے کئی جنگیں بھی لڑچکے ہیں۔

اِس وقت بھی عراق، افغانستان اور شام میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار میں مصروف ہیں۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ ایک ماہ پہلے تک کورونا وائرس کے متعلق روس کا سرکاری موقف یہ تھا کہ اِس وائرس کو امریکی تحقیقاتی ادارے سی ٹی ٹی نے اپنی لیب میں تیار کرنے کے بعد چین کے شہر ووہان میں پلانٹ کیا تھا۔ روس اور امریکا دہائیوں پرانی دشمنی اور پرخاش کے تناظر میں اِس تصویر کو عالمی منظرنامے میں ’’پکچر آف دا سنچری ‘‘ بھی کہا جارہا ہے۔

6 ۔کورونا سے جاں بحق افراد کی بے حرمتی:

کورونا وائرس کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے خوف کی عکاسی اِس تصویر سے  بخوبی ہوتی ہے جو اِس وقت دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی ہے۔ اِس تصویر میں ایک بند دُکان کے باہر دو خواتین کھڑی ہوئی ہیں جب کہ اُن کے عقب میں سڑک پر کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ایک شخص کی لاش پڑی ہے۔ یہ تصویر جنوبی امریکا کی ریاست ایکواڈور کی ہے، جہاں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو دفنانے کے بجائے سڑک پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایکواڈور میں اَب تک تقریباً 272 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ان لاشوں کو گھروں سے باہر ہی چھوڑ دیا گیا، جب کہ مرنے والے افراد کے لواحقین اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ سرکاری حکام ان لاشوں کو اٹھائیں گے، تاہم اسی انتظار میں لاشوں کو پڑے پڑے 3 روز سے زائد گزر گئے، لیکن جب کسی نے بھی لاشوں کو نہیں اُٹھا یا تو ایک شخص نے یہ تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کردی۔ چند گھنٹوں کے بعد یہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوگئی، جس کے بعد ایکواڈور کے نائب صدر اوٹو سونین ہولزنر نے اپنی عوام کو طبی سہولیات نہ دینے پر معافی مانگ لی ہے۔

لاطینی امریکا کے اس ملک کے سب سے بڑے شہر کو کورونا وائرس وبا کے بعد عوامی صحت کے شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایکواڈور میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے 70 فی صد مریضوں کا تعلق اس خطے کے دارالحکومت گویاکویل سے ہے۔ یہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں کورونا وائرس کے آبادی کے تناسب سے مریض بہت زیادہ ہیں۔ یہ بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ صدر لینن مورینو نے لاشیں اٹھانے اور دفنانے کے لیے اَب باقاعدہ خصوصی فورس تشکیل دے دی ہے۔

The post کورونا سے سہمی دنیا۔۔۔ کچھ تصویروں کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا کونسی بیماریاں چھوڑ جائے گا؟

$
0
0

چینی کہاوت ہے کہ ’’آفات کبھی بھی تنہا نہیں آتیں‘‘ یہ اپنے ساتھ کئی بلائیں لے کر آتی ہیں۔ جلد یا بدیر وہ خود تو ٹل جاتی ہیں، مگر اپنے ساتھ مزید بلاؤں جوکہ کبھی بیماریوں کی صورت تو کبھی بھوک کی، پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ جن کے اثرات تادیر غالب رہتے ہیں۔

مسائل اور پریشانیوں کا پیش خیمہ یہ آفات انسان کے بس میں تو نہیں ہوتی مگر انسان کہیں نہ کہیں ان کا ذمہ دار ضرور ہوتا ہے اور ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بھی خود انسان ہی ہے۔ قدرتی آفات کی بات کی جائے تو موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔ یہ ہفتوں نہیںبلکہ دنوں میں لاکھوں زندگی نگل گیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر شخص خوف کے سائے تلے جی رہا ہے جس کی وجہ کورونا وائرس ہے۔

اس وباء کے حوالے سے انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ہر فرد اس وباء کے نشانے پر ہے اور اسے روکنے کے لیے ماہرین ابھی تک تحقیق میں الجھے ہیں لیکن کوئی حفاظتی دوا نہیں تیار کرسکے، سوائے حفاظتی اقدامات تجویز کرنے کے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد جہاں کثیر ہے ونہی اس کے خوف میں دنیا بھر کی آبادی مبتلا ہے۔

فی الحال تو کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کب تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھے گا اور کتنی جانوں کا خراج لے کر جائے گا۔ مگر اہل فکر کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کرونا اگر چلا بھی جاتا ہے تو یہ اپنے پیچھے چند خوفناک اور اذیت ناک یادیں اور ذہنی بیماریاں چھوڑ کر جائے گا۔ اس عالمی وباء کے اثرات دیر پا رہیں گے جس سے تمام افراد پر کسی نہ کسی صورت میں اثر پڑے گا۔

ماہرین نفسیات اس حوالے سے فکر مند ہیں کہ چند ایسی نفسیاتی کیفیات جوکہ سنگین ذہنی عارضوں کا روپ دھار لیتی ہیں کورونا کے بعد لوگوں کوبڑی تعداد میں متاثر کریں گی۔ ان میں مندرجہ ذیل اہم ہیں۔

آبسیسو کمپیلسیوڈس آرڈر (OCD)

بعض اوقات کچھ چیزیں ہم بار بار کرتے ہیں جس کے پیچھے ہماری ضرورت یا خواہش کارفرما ہوتی ہے جوکہ قعطاً غیر معمولی بات نہیں، لیکن اکثر اوقات ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں یا ان سے ملتے ہیں جو کسی عادت یا کام کو بے تحاشہ سرانجام دیتے ہیں جس کے پیچھے ان کی ضرورت یا خواہش کارفرما نہیں بلکہ لاشعوری طور پر وہ ایسا کرتے ہیں۔

جیسے کسی کو ڈرامے دیکھنے کا جنون سوار ہو اور وہ بھوک پیاس فراموش کرکے بس ڈرامے ہی دیکھے یا کوئی جھوٹ بے حد بولتا ہو، بے وجہ بولتا ہو۔ ایسے لوگوں کے رویے کی سمجھ سامنے والے کو نہیں آرہی ہوتی۔ کچھ کاموں میں یہ مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے مگر باربار دہرائے جانے کا یہ عمل تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔

اگر ذہن میں بار بار کوئی تکلیف دہ خیالات آتے ہوں یا کوئی ایک ہی کام کرنے کا تقاضا دل بار بار کرے تو یہ آبسیوکمپلسیوڈس آرڈر (او۔سی۔ڈی) ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس نفسیاتی کیفیت کا کورونا وائرس یا اس کے بعد کی صورتحال سے بھلا کیا تعلق ہوسکتا ہے تو جیسا کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر میں ہاتھ دھونا اور بار بار ہاتھ دھونا اس سے بچاسکتا ہے۔

ایسے میں باربار ہاتھ دھونا لوگوں کی ضرورت بن گئی ہے اور اس تناظر میں یہ عادت بھی بن جائے گی، جوکہ ایک حد تک اچھی بات ہے مگر اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرجاتی ہے تو اکثریت اس ذہنی بیماری کی کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسے وہم کے خیالات میرے ہاتھ گندے ہوگئے بار بار ہاتھوں کو دھونا، پانی کا گلاس صاف نہیں۔ بیٹھنے کی جگہ صاف نہیں۔ ایسے کاموں کو کرنے کے لیے مریض خود کو بے بس پاتا ہے۔ اس موضوع کے انتخاب کے بعد صفحہ قرطاس پر بکھرنے سے پہلے جب اس سلسلے میں سروے کیا گیا تو اس دوران ایک نجی ادارے میں کام کرنے والی خاتون آمنہ (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’’میں اس وقت شدید ذہنی اذیت سے گزر رہی ہوں۔

ڈیوٹی کے بعد گھر جاتی ہوں تو بار بار اپنے اور اپنے بچوں کے ہاتھ دھوتی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں یا میرے بچے اور گھر والے کورونا وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔ حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے۔ کھانا پکانے کے دوران بھی بار بار ہاتھ دھوتی ہوں۔ شوہر گھر آتے ہیں تو تفصیل سے پوچھتی ہوں کہ وہ کہاں کہاں گئے ،تاکہ پتہ چل سکے کہ کسی ایس جگہ تو نہیں گئے جہاں بیماری لگنے کا اندیشہ تھا۔ انہیں جوتے گھر کے اندر نہیں لے کر آنے دیتی اور مجبور کرتی ہوں کہ نہائیں اور فوراً کپڑے بدلیں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں بے انتہا وہمی ہورہی ہوں مگر خوف ہر چیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ گوکہ گھروالوں کو اس سے بہت مسئلہ ہوتا ہے مگر میں خود کو بے بس پاتی ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہاتھ دھونے والی اور وہم والی عادت مزید پختہ ہورہی ہے۔‘‘

ماہرین کی نگاہ میں معمول میں اگر کوئی مرد یا عورت ایسا کرتا کرتا یا کرتی ہے تو کوئی زیادہ پریشان کن بات نہیں مگر اگر وہ انہی خیالات میں اپنے گھر والوں کو شامل کرنے کی کوشش کرے تو وہ ایک پریشان کن بات ہوسکتی ہے آو۔سی۔ڈی کا شکار افراد عام طور پر ذہنی لحاظ سے بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس بیماری کا اظہار کرتے ہچکچکاتے ہیں کہ لوگ انہیں پاگل نہ سمجھیں اور یہ عموماً بیس یا بائیس برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کروایا جائے تو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

کیا کرنا چاہیئے؟

اوسی ڈی عموماً موروثی، ذہنی دباؤ، زندگی میں اچانک تبدیلیوں، ذہنی تبدیلی اور شخصیت میں بدلاؤ کے نتیجے میں لاحق ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو جو لوگ اس کے خاتمے کے لیے کوشش کرتے ہیں وہ اس کا مزید شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہی خیالات بار بار ان کے دماغ میں آتے ہیں۔ ایسے صحیح خیالات ذہن میں لانا جو بڑے خیالات کے خاتمے کا سبب بنیں، ہی اس سے جان چھڑانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

ایک بہت اہم کام جو کیا جاسکتا ہے وہ شاید سننے میں عجیب لگے مگر وہ ہے اپنی مدد آپ کرنا، اپنے آبسپشنز کا سامنا کرنا، اپنے ڈر کو بار بار ریکارڈ کریں اور سنیں یا لکھ لیں اور بار بار پڑھیں۔ ایک باقاعدگی سے روزانہ آدھے گھنٹے پر عمل دہرایا جائے اور تب تک جب تک گھبراہٹ کم نہ ہو تو یہ بہت مدد دے گا۔ سنگین صورتحال میں کاگنٹییو تھراپی ایک نفسیاتی علاج ہے جس سے پیچیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ادویات اور ای۔آر۔پی سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس مرض کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے دل سے ڈر اور خوف کو نکال پھینکیں اور وہم میں مبتلا نہ ہوں۔

تھینیٹو فوبیا(Thanato phobia)

موت کا خوف یا تھینٹوفوبیا (Thonatophobia) اینگزائٹی یا اضطراب کی ایسی شکل کا نام ہے جس میں انسان خود اپنی یا اپنے کسی پیارے کی موت سے خوف زدہ ہونے لگتا ہے۔ یہ بذات خود پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسے کہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا اینگزائٹی۔ اس صورت میں فرد انتہائی اضطراب اور ڈر کا شکار ہوتا ہے جس میں کسی اپنے سے جدائی، کھو دینے کا ڈر اور اپنے پیاروں کو چھوڑ دینے کا ڈر غالب ہوتا ہے۔ موت سے خوف زدہ ہونا کوئی انوکھی یا بڑی بات نہیں، کوئی بھی نارمل انسان موت سے خوف کھائے گا مگر اس خوف کا حد سے بڑھ جانا اور اسے سر پر سوار کرلینا پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ جب موت کا یہ خوف انسانی ذہن پر اس قدر حاوی ہوجائے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات اس سے متاثر ہونے لگیں تو ایسے میں خبردار ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھلا تھینٹوفوبیا کا کیا لینا دینا تو ماہرین نفسیات کے مطابق اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات نے لوگوں کو بے حد خوف زدہ کردیا ہے،اور امکان یہ ہے کہ لوگوں میں Fear of death جیسی ذہنی کیفیات سنگین روپ دھار سکتی ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو (Covid-19) کوویڈ۔19 سے بلواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے یا جن کے قریبی و عزیز اس عالمی وباء کا شکار ہوئے ان میں تھینٹوفوبیا پیدا ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق نوجوان افراد اس کا وسیع شکار ہوتے ہیں جبکہ ایک اور تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ مردوں کی نسبت خواتین تھینٹوفوبیا سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جس سے مزید نفسیاتی مسائل جیسے کہ فوبیا کی دوسری اقسام، پینک ڈس آڈریا اینگزائٹی بھی جنم لے سکتے ہیں۔

کیا کرنا چایئے؟

موت کے خوف میں مبتلا ہوجانے والوں کے لیے بہت سے نفسیاتی طریقہ کار موجود ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے اس خوف پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹاک تھراپی بہت کارگر ثابت ہوتی ہے جس میں اپنے معالج کو اپنے خوف اور اس سے جڑی جزویات کے حوالے سے آگاہ کرنا نفسیاتی طور پر راحت بخش ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح کاگنیٹو بیہیورل تھراپی بھی معاونت فراہم کرتی ہے ،کیونکہ اس کا مقصد ذہنی دھارے کو مثبت روش پر ڈھلنا ہوتا ہے۔ اس سے موت کا پنپتا ہوا خوف کم ہوسکتا ہے اور زندگی نارمل روٹین کی جانب لوٹ سکتی ہے۔اس کے علاوہ مراقبہ اور لمبے سانس لینے کی تجاویز بھی کارآمد ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسان ذ ہنی و جسمانی طور پر پرسکون ہوجاتا ہے۔ ساری باتوں کا لب لباب دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر پیدا ہوجانے والے ڈر اس کی نفسیاتی کیفیات کے ساتھ اس کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں۔ دراصل جب انسان حال کے بجائے مستقبل میں رہنا شروع کردے تو اس کا حال بے حال ہوجاتا ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ دنیا اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے مگر انسان پر امید رہے تو وہ بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔

اینگزائٹی/ گھبراہٹ

انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی مشکل یا کڑا وقت ضرور آتا ہے۔ ایسے وقت میں گھبراہٹ کا شکار ہوجانا انسانی فطری احساسات کا حصہ ہے۔ عام طور پر چوکنا ہونے، خطرات سے بچاؤ اور مسائل کا سامنا کرنے پرخوف اور گھبراہٹ مفید ہوسکتے ہیں مگر جب یہ احساسات شدید ہوجائیں یا ان کا دورانیہ طویل عرصے پر محیط ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

گھبراہٹ کی ذہنی و جسماین علامات کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں کو شدید جسمانی بیماری ہوگئی ہے جس سے اس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ گھبراہٹ یا اینگزائٹی کے ایسے دور ے پینک اٹیک (Panic Attack) کہلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ڈپریشن بھی حملہ آور ہوجاتا ہے۔ گھبراہٹ کی ذہنی علامات کچھ یوں ہیں۔

ہر وقت پریشانی کا احساس، تھکن کا احساس، توجہ مرکوز نہ کرپانا، چڑچڑے پن کا احساس، نیند کے مسائل جبکہ اس کی جسمانی علامات میں دل کی دھڑکن تیز محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا، پٹھوں میں کھنچاؤ اور درد رہنا، سانس کا تیزی سے چلنا، سر چکرانا، بے ہوش ہوجانے کا ڈر، بدہضمی اور اسہال سرفہرست ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہر دس میں سے ایک شخص کبھی نہ کبھی اینگزائٹی یا گھبراہٹ کا شکار ضرور بنتا ہے مگر وہ اس کے علاج کی خاطر ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ گو تحقیق یہ بتاتی ہے کہ گھبراہٹ کا یہ احساس بعض لوگوں کو وراثت میں ملتا ہے اور وہ ہر وقت پریشانی کا شکار رہتے ہیں،تاہم زندگی میں درپیش آنے والے سخت حالات نارمل انسانوں کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

جیسے کہ موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہر فرد انفرادی و اجتماعی سطح پر گھبراہٹ کا شکار ہے جوکہ فطری امر ہے مگر بعض ماہرین کے خیال میں یہ گھبراہٹ مستقل ان کے رویے کا حصہ بن سکتی ہے۔ عمومی طور پر تو گھبراہٹ کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں وہ گھبراہٹ ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض اوقات وہ حالات اتنے خوفناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ ان سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ طویل شکل اختیار کرجاتی ہے اور وہ ان واقعات کے زیر اثر رہتے ہیں۔

جیسے اگر کوئی شخص کسی حادثے کا شکار ہوا ہو جیسے ایکسیڈنٹ یا آگ لگ جانا تو چاہے اس کی جان بچ گئی ہو اور اسے کوئی چوٹ نہ آئی ہو وہ گھبراہٹ اور پریشانی سالوں تک لاحق رہتی ہے۔ ایسی علامات کو پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کورونا کے خوف میں مبتا ہے۔ نجانے کب یہ خطرناک وائرس ختم ہوگا لیکن اس دوران جو ذہنی کیفیات خصوصاً گھبراہٹ اور بے چینی ہے وہ ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑیں گی اور امکان یہ ہے کہ لوگ وباء کا زور تھم جانے کے بعد بھی خوف اور گھبراہٹ کا شکار رہیں گے کہ کہیں انہیں کورونا وائرس نہ ہوجائے۔

کیا کرنا چاہیے؟

اس ذہنی کیفیت میں عموماً انسان پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ آخر کس سے بات کی جائے؟ اور کیا کیا جائے؟مثلاً اگر شادی ناکام چل رہی ہو، گھر میں بیماری ہو یا روزگار چھوٹ جائے تو ایسی صورت میں عموماً دوستوں یا رشتہ داروں سے یہ سوچ کر مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے کہ شاید وہ بھی ایسے حالات سے گزرے ہوں اور کوئی بہتر حل تجویز کرسکیں، تو اس میں کوئی غلط بات نہیں مسائل کو ان افراد سے شیئر کرنا چاہیے جوکہ مخلص اور قابل اعتماد ہوں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اینگزائٹی کے شکار افراد کو چاہیے کہ وہ پرسکون رہیں۔

گھر پر رہنے سے گو کہ وہ خود کو قیدی سا تصور کررہے ہیں مگر اس بات کو سمجھیں کہ اسی میں بہتری پنہاں ہے۔ اگر پرسکون رہنے میں بذات خود مدد نہیں مل پارہی تو اس سلسلے میں ماہرین کی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں اور ویڈیوز کے ذریعے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ اگر صورتحال قابو سے باہر ہوجائے تو ایسی صورت میں سائیکو تھراپی، ادویات اور خصوصاً اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اینگزائٹی کو معمولی مت سمجھیں اور اس میں شدت کی صورت فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

 اپنے اندر یقین پیدا کر نے اور رب سے تعلق مضبوط کرنے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، ماہرِنفسیات

روزنامہ ایکسپریس نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر پیدا ہونے والے ذہنی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ماہر نفسیات ارسہ فاطمہ مخدوم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ واقعتاً ایک خوفزدہ کردینے والی صورتحال ہے، مگر اس سب سے نمٹنے کے لیے جو سب سے بڑا نفسیاتی ہتھیار ہے وہ ہے اپنے مذہب سے لگاؤ، آپ جتنے زیادہ مذہبی ہوں، جتنا زیادہ اپنے رب سے تعلق مضبوط ہوگا اور جتنا یہ یقین رکھیں گے کہ زندگی صرف دنیا کی ہی کی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے آپ اس ساری مشکل صورتحال سے باآسانی نکل سکتے ہیں۔ آپ ڈیٹھ اینگزائٹی سے نکل سکتے ہیں۔ اس ضمن میں پوزیٹو سیکالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ شکر گزاری اختیار کریں۔ لوگوں سے اور خصوصاً اللہ سے۔ جب اللہ کا شکر ادا کریں گے تو اس حوالے سے بہت سی پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔‘‘

اس حوالے سے ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ’’ایک اور بہت اہم چیز ہے ’’سیکالوجیکل سٹرینتھ‘‘ جس میں سیکلوجیکل کیپٹل آتا ہے جوکہ انسان کی مجموعی ذہنی استعداد کو مضبوط کرتا ہے۔ جس میں امید، مثبت انداز فکر، خود آفادیت اور سیلف ریزلینس کا مرقع ہے۔ جس سے آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ یہ کرسکتے ہیں۔

جب یہ یقین مضبوط ہوتا ہے تو پھر اس ساری صورتحال سے باہر نکلنا ممکن ہوجاتا ہے۔ جب آپ کے اندر یہ یقین ہوگا کہ اس وائرس سے بہتر طریقے سے لڑسکے ہیں، خود کو بچاسکتے ہیں تو آپ اس اینگزائٹی سے ڈپریشن سے نکل آئیں گے۔ جہاں ریزلینس کی بات کریں تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی مشکل صورتحال سے کس طرح نکل سکتے ہیں جب اسے بڑھائیں گے تو تمام پریشان کن حالات سے نکل پائیں گے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ مستقبل کے حوالے سے پر امید رہیں گے کہ یہ برا وقت جلد گزر جائے گا اور مثبت انداز میں سوچیں گے تو اس سب سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

اب لڑنے اور مشکلات سے نکلنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اور ایک منفی انداز۔ آپ نے منفی کے بجائے مثبت انداز اپنانا ہے، ان سارے حالات کو نظر انداز نہیں کرنا بلکہ اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا ہے اور انہیں بڑھانا ہے۔

جیسے اگر آپ بار بار ہاتھ دھورہے ہیں تو اس سے یہ مراد لیں کہ اپنی بہتری کے لیے ایسا کررہے ہیں جوکہ فائدہ دے گا ناکہ نقصان‘‘ اس خوف کے اثرات کو زائل کرنے کے بارے میں ارسہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’’اس ساری صورتحال میں ایک چیز جو ہم کہتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہ فلاں نہیں کرنا، فلاں نہیں کرنا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس پر توجہ دیں جوہم کرسکتے ہیں۔ جیسے گھر کے اندر رہتے ہوئے کیا کرنا چاہیے۔ایسا کرنے سے بہت سے نفسیاتی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس دوران آپ اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھار سکتے ہیں۔ وہ سارے کام وہ ساری اسائمنٹس جو پہلے نہیں کرسکے انہیں نجام دے سکتے ہیں۔ یوں کورونا آپ کے لیے وبال جان نہیں بنے گا۔‘‘

The post کورونا کونسی بیماریاں چھوڑ جائے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سر فلپ انتھنی ہوپکنز

$
0
0

اگرچہ مختلف کرداروں سے مل کر ایک فلم یا ڈرامہ بنتا ہے، لیکن عمومی طور پر کسی بھی فلم یا ڈرامہ میں سب سے زیادہ اہمیت ہیرو اور ہیروئن کی ہوتی ہے۔

لوگ انہیں پسند کرتے ہیں، ان کو دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں سننا چاہتے ہیں، اسی لئے شوبز کی دنیا سے لگاؤ رکھنے والے افراد کی اکثریت ہیرو یا ہیروئن ہی بننا چاہتے ہیں، دوسری طرف ولن یا دیگر کرداروں کو وہ اہمیت نہیں ملتی، جو کسی ہیرو یا ہیروئن کو ملتی ہے، لیکن فنِ اداکاری کو اپنے عروج تک پہنچانے والے بعض اداکار  ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی مقبولیت سمیت ہر میدان میں سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔

ایسے ہی اداکاروں میں ایک نام سر فلپ انتھنی ہوپکنز کا ہے، وہ نہ صرف ایک بہترین اداکار بلکہ ہدایت کار، منظر نویس، فلم ساز اور نغمہ ساز بھی ہیں۔ لیجنڈری اداکار نے اپنے ہر کردار کو اپنے اندر سمو کر نبھایا، نیلی آنکھیں جھپکائے بغیر ڈائیلاگ بولنے والے اداکار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مقدار کے بجائے ہمیشہ معیار کو ترجیح دی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جس فلم (The Silence of the Lambs) میں انہیں بہترین اداکاری پر آسکر سے نوازا گیا، اس میں وہ صرف 24.52 منٹ سکرین پر رہے۔ اداکاری کے بارے میں سر انتھنی ہوپکنز کا کہنا ہے کہ ’’اداکاری ایک آبدوز ہے‘‘،اس سے مراد یہ ہے کہ جس قدر آپ خو د کو پوشیدہ رکھ کر اپنے کردار کو غالب لے آئیں گے اسی قدر آپ کی کارگردگی بہتر ہوگی۔

82 سالہ سر فلپ انتھنی ہوپکنز 31 دسمبر 1937ء کو  مارگم، پورٹ ٹالبوٹ، ویلز(برطانیہ) میں ایک نانبائی کے گھر پیدا ہوئے۔ اپنے والد کے بارے میں انتھنی کہتے ہیں کہ ’’ میرے والد کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا، جب بھی مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں خاص یا دوسروں سے مختلف ہوں، میں اپنے والد کے بارے میں سوچتا ہوں اور مجھے ان کے ہاتھ یاد آ جاتے ہیں، ان کے سخت اور زخمی ہاتھ‘‘ ہوپکنز کو بچپن سے ہی آرٹ خصوصاً پینٹنگ اور پیانو بجانے کا بہت شوق تھا، یہی وجہ تھی کہ سکول کا زمانہ ان کے لئے اچھا نہ تھا، رچرڈ ہوپکنز(والد) چاہتے تھے کہ انتھنی پڑھائی میں دلچسپی لے لیکن وہ آرٹ میں ڈوبے رہتے تھے۔

اس امر کا اظہار انتھنی نے 2002ء میں دیئے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں یوں کیا کہ ’’ میں ایک سست رو طالب علم تھا، جس کی وجہ سے میرا مذاق بھی اڑایا جاتا اور میں احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا‘‘ والدین کے اصرار پر انتھنی نے کسی طرح گرتے پڑتے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور پھر گریجوایشن کے لئے وہ رائل ویلش کالج آف میوزک اینڈ ڈرامہ، کارڈف چلے گئے، جہاں 1957 میں انہوں نے اپنی ڈگری مکمل کی۔ گریجویشن کے بعد ہوپکنز نے برطانوی فوج کو جوائن کر لیا، جہاں انہوں نے دو سال تک خدمات سرانجام دیں، لیکن بچپن سے آرٹ میں دلچسپی رکھنے والے انتھنی خود کو زیادہ دیر تک اپنے آپ سے جدا نہ رکھ سکے اور فوج کی ملازمت چھوڑ کر وہ لندن چلے گئے۔

جہاں انہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے لئے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں داخلہ لے لیا۔ انتھنی ہوپکنز نے تین شادیاں کیں، جن میں سے پہلی پیٹرونیلا بارکر(1966ء سے 1972ء) دوسری جینیفر لٹن (1973ء سے 2002ء) جبکہ تیسری اور تاحال آخری شادی (2003ء) سٹیلا ارورا سے کی۔

رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ، لندن میں تربیت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سوانسی شہر کے ایک تھیٹر (پیلس) میں باقاعدہ کام کرنا شروع کر دیا، یوں ہوپکنز کی شوبز کی دنیا میں انٹری تھیٹر سے ہوئی، جو برطانیہ میں شوبز کی سب سے مقبول صنف تصور کی جاتی ہے۔ 1964ء میں انتھنی نے اپنا پہلا تھیٹر پلے (رائل کورٹ تھیٹر میں)کیا، جو شکسپیئر کے ناول ’’Julius Caesar‘‘ سے ماخوذ تھا۔ اسی دوران 1965ء میں لیجنڈ اداکار سر لارنس اولیویر کی ہوپکنز پر نظر ٹھہر گئی، جنہوں نے مستقبل کے لیجنڈ اداکار کو لندن کے رائل نیشنل تھیٹر میں شمولیت کی پیشکش کر ڈالی۔

جسے انتھنی نے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے قبول کیا، یوں ہالی وڈ سٹار، سر لارنس کی باقاعدہ شاگردی میں چلے گئے، جہاں ایک موقع پر سر لارنس کو اپنڈکس کا مسئلہ ہوا تو ان کی جگہ پر ہوپکنز کو کردار ادا کرنے کا کہا گیا، جس کا وہ انکار تو نہ کر سکے لیکن سٹیج پر جانے سے قبل وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے، جس کو دیکھتے ہوئے سرلارنس نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان الفاظ میں ہمت بندھائی کہ ’’تمھاری گھبراہٹ ایک باطل کے سوا کچھ بھی نہیں، تم اس وجہ سے پریشان ہو کہ لوگ تمھارے بارے میں کیا سوچیں گے۔

حالاں کہ تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، لہذا اپنے ذہن کو جھٹکو اور سٹیج پر چڑھ جاؤ‘‘ انتھنی نے اس نصیحت کو یوں اپنے پلے سے باندھا کہ پھر وہ کبھی کسی بھی پلیٹ فارم پر گھبرائے نہیں، انہوں نے  سٹیج پر دن رات کام کیا اور بہت نام کمایا، اسی سٹیج سے بعدازاں انہیں فلم کی پیش کش ہوئی۔ انتھنی کی پہلی فلم ’’The White Bus‘‘ تھی، جس میں انہیں نہایت مختصر  کردار دیا گیا، لیکن آئندہ برس بننے والی فلم ’’The Lion in Winter‘‘ میں انتھنی کو مرکزی کردار میں لے لیا گیا، جس کے بعد 1969ء میں بننے والی فلم ’’Hamlet‘‘ جو شیکسپیئر کے ڈرامہ ہملٹ پر مبنی تھی، نے ہوپکنز کو فلمی دنیا میں اچھی پہچان دلا دی، یوں پھر ایک ایسا وقت بھی آیا، جب 1998ء میں سر انتھنی ہوپکنز مہنگے ترین برطانوی اداکار بن گئے۔

تھیٹر اور فلم کے ساتھ سٹائلش انہوں نے ٹی وی شائقین کو بھی خود سے دور نہیں رکھا، 1965ء میں انہوں نے پہلی ٹی وی سیریل ’’The Man in Room 17‘‘ کے نام سے کی، ٹی وی سے اداکار کو اس قدر لگاؤ ہوا کہ 80سال کو پہنچتے ہوئے بھی انہوں نے اسے فراموش نہیں کیا، جس کا واضح ثبوت ان کا آخری ٹی وی پروگرام ’’King Lear‘‘ ہے، جو انہوں نے 2018ء میں کیا۔

سر فلپ انتھنی ہوپکنز کی اداکاری کے سٹائل کی بات کی جائے تو اس ضمن میں وہ خود بتاتے ہیں کہ ’’جب میں ایک بار کسی کردار کو ادا کرنے کی حامی بھر لوں تو پھر اس کردار کو اس کے عروج تک پہنچانے کے لئے مجھے جتنی بھی تیاری کرنا پڑے، میں پیچھے نہیں ہٹتا، سکرپٹ کو اس کی روح کے مطابق بنانے کے لئے میں لائنز کو 2سو بار تک دہرانے سے بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اداکاری کر رہے ہوتے ہیں تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں، یعنی ان کا سٹائل بالکل فطری محسوس ہوتا ہے۔

ہوپکنز مزید کہتے ہیں کہ ’’جب ایک بار میں کسی سین کو سرانجام دے لیتا ہوں تو پھر اس کا سکرپٹ بھلا دیتا ہوں یعنی وہ لائنز جو میں بول چکا ہوں ذہن میں نہیں رکھتا تاکہ اگلے سین کو اس کی ضرورت کے مطابق کر سکوں‘‘ انتھنی کی پانچ فلمیں ڈائریکٹ کرنے والے رچرڈ اٹینبرا کہتے ہیں کہ ’’الفاظ کی ادائیگی کی خوبصورتی جو ہم نے ہوپکنز کی دیکھی وہ شائد کسی اور کی نہ دیکھ سکیں، آپ جب ہوپکنز کو سنتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یہ الفاظ انہوں نے پہلے کبھی نہیں بولے، یہ ایک حیرت انگیز قابلیت ہے‘‘ سین عکس بند کرواتے ایسا بہت کم ہوا ہے کہ انتھنی اپنی لائنز بھول گئے ہوں، کیوں کہ وہ اپنی یاداشت کا ہمیشہ دل سے خیال رکھتے تھے۔ سین میں شاعری ہو یا تقریر وہ ایک ہی بار اسے ریکارڈ کروا دیتے تھے جیسے کہ فلم ’’Amistad‘‘ میں انہوں نے ایک موقع پر جو تقریر کی وہ ایک ہی بار میں ریکارڈ کروائی گئی ہے۔

اسی طرح ہوپکنز کو نقالی(Mimicry) کا بھی استاد کہا جاتا ہے، کسی بھی کردار کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے جو وہ نقالی کرتے، اسے دیکھ کر لوگ عش عش کر اٹھتے۔ اسی طرح کسی کی آواز کی نقالی (جیسے کہ انہیں فلم ’’Spartacus‘‘ میں اپنے استاد لارنس کی آواز کی نقالی کرنا پڑی) بھی شائد ان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔

فلم، ٹی وی اور تھیٹر:۔

سر انتھنی ہوپکنز کی پہلی فلم 1967ء میں ’’The White Bus‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی، جس میں ان کو ایک مختصر کردار دیا گیا، یہ فلم اپنے وقت کے معروف ڈائریکٹر لنڈسے اینڈرسن نے بنائی، جس کا دورانیہ صرف 46 منٹ تھا، جس کے بعد اگلے ہی سال یعنی 1968ء میں فلم ’’The Lion in Winter‘‘میں صلاحیتوں سے مالا مالاداکار کو مرکزی کردار مل گیا۔ یہ فلم صرف 4 ملین ڈالر سے بنی لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی لاگت سے تقریباً 6 گنا تھی۔ 1969ء میں ہدایت کار ٹونی رچڑسن نے شکیسپئر کے ڈرامہ ہیملٹ پر اسی نام سے فلم بنائی تو ان کی پہلی نظر انتھنی پر پڑی، اس فلم کو شائقین کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔

1980ء میں منفرد اداکاری سے اپنی پہچان بنانے والے اداکار کو فلم ’’The Elephant Man‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انتھنی کو شہرت کی سیڑھی پر چڑھا دیا، جس کے بعد انہوں نے ’’The Silence of the Lambs ‘‘، ’’The Remains of the Day‘‘، ’’The Bounty‘‘، ’’Shadowlands‘‘، ’’Howards End‘‘، ’’Bram Stoker’s Dracula، ’’Nixon‘‘، ’’Amistad ‘‘، ’’Hannibal {‘‘ ’’The World’s Fastest Indian‘‘، ’’The Mask of Zorro‘‘، ’’The Good Father‘‘’’The Rite‘‘، ’’Noah‘‘، ’’The Two Popes ‘‘، ’’Thor‘‘، ’’Red 2‘‘ اور ’’ Mission Impossible2‘‘جیسی شہرہ آفاق فلموں میں اپنی اداکاری کا ایسا جادو چلایا کہ دنیا ان کے سحر میں گرفتار ہو گئی۔

ہوپکنز نے مجموعی طور پر 82 فلموں میں کام کیا۔ انتھنی ہاپکنز کی ٹی وی پر پہلی ڈرامہ سیریز ’’The Man in Room 17‘‘ تھی، جسے شائقین نے بے حد پسند کیا۔ معروف آرٹسٹ نے کل 41 ٹی وی ڈرامہ و فلم میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلائے۔ شوبز کی دنیا میں انتھنی کی انٹری تھیٹر سے ہوئی اور ان کا پہلا تھیٹر پلے’’Julius Caesar‘‘ تھا، انہوں نے 20تھیٹر پلے میں کام کیا۔ فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے علاوہ وہ موسیقی کا ذائقہ بھی چکھ چکے ہیں۔ 2016ء میں انتھنی نے ایک میوزک ویڈیو بنائی۔

جس کی صلاحیتوں کا اک جہاں معترف

خداداد صلاحیتوں سے مالا مال لیجنڈری اداکار سر انتھنی ہوپکنز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیائے شوبز کا شائد ہی کوئی ایسا بڑا ایوارڈ ہو، جس سے انہیں نہ نوازا گیا ہو۔ فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز آسکر کے لئے انہیں پانچ بار نامزد کیا گیا اور 1992ء میں ایک بار وہ اسے اپنے نام بھی کر چکے ہیں۔

انتھنی کو ملنے والے ایوارڈز میں اہم ترین برٹش اکیڈمی فلم، کریٹکس چوائس، گولڈن گلوب، گولڈن رسبیری، ہالی وڈ فلم فیسٹیول، جیوپیٹر، ایم ٹی وی، او ایف ٹی اے، آن لائن فلم کریٹیکس سوسائٹی، پیپلز چوائس، پرائم ٹائم ایمی، سیٹلائٹ، سیٹورن، ایس اے جی، بوسٹن سوسائٹی آف فلم کریٹیکس، شکاگو فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن،کریٹیکس چوائس،کینساس سٹی فلم کریٹیکس سرکل، لندن کریٹیکس سرکل فلم، لاس اینجلس فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن، نیشنل بورڈ آف ریویو، نیویارک فلم کریٹیکس سرکل، ساؤتھ ایسٹرن فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن، ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، شوویسٹ کنونشن، یو ایس ایفلم فیسٹیول، نیوزی لینڈ سکرین، یوگا، ٹونٹی ٹونٹی، مووی گائیڈ اور ویسٹرن ہیریٹیج ایوارڈز سمیت دیگر شامل ہیں۔

ان کے علاوہ 1988ء میں انتھنی کو یونیورسٹی آف ویلز کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لٹریچر اور 1993ء میں ملکہ برطانیہ الزبتھ2 کی جانب سے ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ کئی دہائیوں پر مشتمل کیرئیر کے حامل بہترین اداکار کو 2003ء میں واک آف فیم میں بھی شامل کیا جا چکا ہے۔

 

The post سر فلپ انتھنی ہوپکنز appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک ملامتی صُوفی میرے احفاظ بھائی

$
0
0

’’کہنے کو دو قدم کا فاصلہ ہے لیکن عمر کٹ جاتی ہے، فاصلہ نہیں کٹتا۔ ہم چل رہے ہیں مسلسل۔ صبح کو چلتے ہیں، شام کو چلتے ہیں، خوابوں میں سفر کرتے ہیں، ہم ہی کیا، ہمارے ساتھ راستے بھی سفر میں ہیں۔ منزل ملے، تو منزل سفر میں ہوتی ہے۔ یہ کائنات بھی مسافر ہے۔ ہر شے راہی ہے، ہر شے سفر میں ہے۔ نامعلوم سفر، بے خبر مسافر، ناآشنا منزلیں، کوئی وجود ہمیشہ ایک جگہ نہیں رہ سکتا۔ سفر ہی سفر ہے۔ سفر کا آغاز سفر سے ہوا اور سفر کا انجام ایک نئے سفر سے ہوگا۔ مسافرت بے بس ہے، مسافت کے سامنے۔‘‘

ہم سب ہمہ تن گوش تھے تب وہ بولے: ’’پرندے اُڑتے چلے جاتے ہیں، فضائیں ختم نہیں ہوتیں۔ مچھلیاں تیرتی چلی جاتی ہیں، سمندر ختم نہیں ہوتا۔ یہ سفر کب سے ہے، نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم! بسیں، گاڑیاں، خلائی اور فضائی گاڑیاں، جہاز ہوائی اور بحری سب متحرک ہیں۔ لوگ آ رہے ہیں، لوگ جا رہے ہیں۔ آنسوؤں سے الوداع ہے۔ خوشی کے ساتھ خوش آمدید ہے۔ جانے والے بھی مسافر اور بھیجنے والے بھی مسافر۔ سب مسافر ہیں۔ ہمیشہ سفر ہی سفر۔‘‘

جیون گیلری میں ہم سب تصویروں کی طرح لٹک رہے ہیں۔ یہ جو دنیا ہے میرے رب کی بنائی ہوئی، چلتی پھرتی، جیتی جاگتی تصویروں سے مزیّن۔ جسے میرے رب نے بہت پیار سے کہا ہے کہ میں نے تو ہر تصویر بہت خُوب صورت بنائی ہے۔ بہت ہی عمدہ اور حسِین۔

میں روزنامہ جسارت سے فیچر رائٹر وابستہ تو ہوگیا تھا، لیکن دفتر نہیں جایا کرتا تھا اور اپنا فیچر بھیج دیا کرتا تھا۔ پھر ہفت روزہ فرائیڈ اسپیشل میں زندگی کے نام سے میں نے عام آدمی کی حقیقی کہانیاں لکھنا شروع کیں اور پابندی سے دفتر آنے لگا۔ اس بات کو اب تقریباً چھبیس برس سے زیادہ ہوگئے۔ ہمارے دفتر کے برابر والی بلڈنگ میں ماہ نامہ سب رنگ کا دفتر تھا، جہاں میں برادر بزرگ شکیل عادل زادہ سے نیاز حاصل کرنے جایا کرتا تھا۔ میری اور احفاظ بھائی کی پہلی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے، میں نے انہیں بتایا تھا کہ میں عبداللطیف ابُوشامل ہوں۔

احفاظ بھائی نے مجھے بہ غور دیکھا، میرے شانوں پر بکھرے گیسو، پرانی جینز اور ٹی شرٹ میں وہ مجھے چند لمحے دیکھتے رہے اور پھر سینے سے لگا کر بس اتنا کہا: ’’آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، آپ تو نوجوان ہیں، میں تو آپ کو کوئی عمر رسیدہ مذہبی انسان سمجھ بیٹھا تھا۔‘‘ ہم دونوں بہت ہنسے اور پھر وہ ملاقات دوستی میں ڈھل گئی۔ میں بھول جاتا تھا اور وہ مجھے یاد دلاتے تھے۔ تم نے اس آدمی کی کہانی لکھی۔ میں رات کو بہت دیر تک رویا۔

وہ میری بہت سی باتوں سے نالاں تھے۔ اکثر کہتے تم اپنا حلیہ درست کرو۔ میں کسی دن تمہیں حجام کے پاس لے چلوں گا اور تمہارے بال خود کٹوا دوں گا اور میں ہنس دیتا۔ کبھی کہتے یہ تم نے لُنڈے سے کتنی جینز خرید لی ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتیں۔ عجیب آدمی ہو تم، وہ خود بھی سگریٹ پیتے تھے لیکن میری سگریٹ نوشی سے بہت نالاں تھے۔

تم باز نہیں آؤ گے اپنی حرکتوں سے۔ بہت خودسر ہو تم، میرے کاموں پر ان کی پیار بھری تنقید جاری رہتی۔ تم آخر ہو کیا، ہر وقت چائے سگریٹ پیتے رہتے ہو۔ میں نے تمہیں کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں ہنس کر کہتا: یہ جو آپ مجھے جوان کہتے ہیں۔ میرے اندر ایک بوڑھا انسان رہتا ہے آپ ہلکان نہ ہوں، میں نے اپنی زندگی گزار لی ہے۔ یہ تو اضافی جی رہا ہوں۔ تو بہت پیار کیا بہت۔ مجھے آج بھی یاد ہے ان کا جملہ۔ ’’تم یہ بات میرے سامنے کبھی مت کرنا، تم مجھے اپنے بھائی کی طرح عزیز ہو۔‘‘ اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا کہ آیندہ ایسی بات نہیں کروں گا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے بہت اچھی طرح جب انہیں کہیں سے معلوم ہوگیا کہ میں تین مرتبہ دل کی سرجری کروا چکا ہوں۔ اس دن تو انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے ایک نیا رُوپ دیکھا اُن کا، وہ پیار سے بھرا ہوا آدمی غُصّے سے کانپ رہا تھا۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا بولو! کیوں نہیں بتایا تھا۔ میں خاموش تھا اور وہ غُصّے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے، بہت غُصّے میں تھے وہ، پھر ایک عجیب سی بات کہی، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ اُن کی باتیں میں کبھی نہیں بُھول سکتا، کبھی نہیں۔

زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔ برف کی طرح پگھلتی چلی جاتی ہے۔ سب مایا ہے۔ سب چلتی پھرتی چھایا ہے۔ سب مایا ہے۔ مجھے جرم حق گوئی میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور میں سینٹرل جیل میں قید تھا۔ میری رہائی کے لیے پوری احتجاجی تحریک انہوں نے منظّم کی، نہ جانے ان پر کیا گزری۔ رہا ہو کر آیا تو بہت دیر تک مجھے سینے سے لگائے کھڑے رہے، کیسے رہے تم اتنے دن وہاں! کھانا کیسا ملتا تھا، بہت تکلیف ہوئی ناں تمہیں، میں سو نہیں سکا اتنے دن۔ میں ہنس دیا اور کہا: کچھ بھی نہیں ہوا احفاظ بھائی، سب ٹھیک رہا، بس آپ کی ڈانٹ نہیں سُن سکا۔ بہت پیار کیا انھوں نے مجھے۔ ہاں وہ مجھے واقعی اپنے حقیقی بھائی کی طرح چاہتے تھے۔ باکمال انسان۔

وہ صحافت کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ مُجسّم تاریخ، بہت نام ور لوگوں کے ساتھ رہے وہ۔ نہ جانے کتنے قصے یاد تھے انھیں اور نادر تصاویر، کتب اور مجسمے جمع کرنے کا جنون۔ فلمیں دیکھتے تھے اور بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کرتے تھے۔

وہ کارِ عشق میں مبتلا تھے۔ اپنے لیے بھی کوئی لمحہ پس انداز نہ کرسکے۔ آزاد صحافت سے اُن کی وابستگی دیدنی تھی۔ بے غرض انسان۔ انھوں نے آزاد صحافت سے عشق کیا تھا۔ ہر لمحہ، ہر وقت وہ اس کے گُن گاتے۔ اس کے اُتار چڑھاؤ ان کے سامنے تھے۔ بلا کے وفادار اور زندگی کو اپنے عشق پر قربان کردینے والے۔ انہیں پوری صحافتی تاریخ ازبر تھی۔ خُوش گفتار، ہنس مُکھ اور بَلا کی یاد داشت۔ انھوں نے اپنی زندگی اسی مقصد کے حصول میں کھپا دی۔ ایک کمٹمنٹ کے ساتھ جیے۔ انھوں نے کبھی کسی کو زحمت نہیں دی۔ کبھی نہیں۔ وہ ہنستے کھیلتے چلے گئے۔ نادر و نایاب انسان۔ بے مثال اور بے غرض انسان۔ وہ واقعی درِِ نایاب تھے۔ ہاں وہ جئے اور سر اٹھا کے جئے۔ قابل رشک زندگی تھی اُن کی۔

کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا۔ کیسے لکھیں، کیا لکھیں، الفاظ یوں دُور بھاگتے ہیں جیسے ہم کوئی کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے، یوں ہی تو نہیں ہوتا کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی اس کا الٹ ہوجاتا ہے لفظ قطار باندھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو لیکن ۔۔۔۔۔۔ لکھاری روٹھ جاتا ہے، اس لیے کہ کیفیت کو کیسے بیان کیا جائے، بیان کیا جاسکتا ہے کیا کیفیات کو، نہیں کوئی لفظ نہیں کفالت کرتا کسی کیفیت کو بیان کرنے کی، وہ تو صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہے۔

لکھاری بھی کیا لکھے، کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے، اندر قبرستان بن جائے تو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تہی دامن ہیں تو ایسے میں سوائے خموشی۔ کچھ چارہ نہیں ہوتا بس بے چراغ، گُلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنی قبر خود اٹھائے گھوم رہے ہیں، جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوند خاک ہوگئے۔ قبر تو انسان کو پکارتی رہتی ہے آؤ، آؤ! کب میری کوکھ بھرو گے لیکن اتنی منحوس آواز ہم آخر کیوں سنیں۔ زندگی کے ساتھ تو موت کا پہرہ لگا ہوا ہے، ہم سوجاتے ہیں وہ جاگتی ہے، کوئی بچ کے نہیں نکل سکتا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پُتلا ہو یا مُجسّم حماقت، زاہد و عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بے حس موت کچھ بھی نہیں دیکھتی اپنا کام کر گزرتی ہے۔ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے، مہلت عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی لے اُڑتی ہے۔

موت، زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جو آیا ہے وہ جائے گا، کوئی بھی تو نہیں رہتا سدا اس مسافر خانے میں۔ لیکن جو لوگ موت کی راہ خود منتخب کرلیں وہ زندہ رہتے ہیں، امر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ جوہر ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔ جو اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے جئیں وہ کب مرتے ہیں، مرتے تو وہ ہیں جو بس اپنے لیے جی رہے ہوں۔

عجب آزاد مرد تھا وہ، جسے احفاظ الرحمن کہتے ہیں۔ وہ جس نے اپنے بے کس و بے بس، مظلوم، معصوم، پسے ہوئے اور ناتواں لوگوں کے باوقار جینے کو اپنا شعار بنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ہاں وہ ندیم باصفا تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ گزر گئے، اتنا کریہہ جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے، اک زندہ و جاوید ہیرو کو کون مار سکتا ہے! آج ثابت ہوگیا احفاظ الرحمن امر ہوگئے۔

عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندۂ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔

عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔ عالم گیر حقوق انسانی کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ بل کہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔ صوفیاء اس منزل کو ’’نفی ذات‘‘ کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔

لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب تھے، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب! وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سُولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب ’’ سرِ بازار می رقصم‘‘ کا گیت گاتے، بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں دواں۔ عجیب سرشار لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک۔۔۔۔۔۔۔! مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے اور پھر اُس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ! تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی کسی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی ۔۔۔۔۔ !

پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا :

ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا

میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

احفاظ الرحمن نے اپنی ایک راہ چنی اور اپنے قبیلے کی لاج ہی نہیں اس میں نئی روایتوں کو بھی جنم دیا۔ جب بھی، جہاں بھی کسی ظالم نے چاہے وہ کسی بھی نقاب میں ہو، مظلوموں کے حقوق کو غصب کیا وہاں وہ اس کے مقابل آئے۔ ڈر، خوف، لالچ تو اس سے خود خوف زدہ تھے کہ وہ تھے ہی ایسے۔

وہ ایک نغمۂ شوریدہ تھے، جس کی لے میں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا کر گرتے دیکھے گئے۔ وہ ایک زلزلہ تھے، جس نے ان ایوانوں کو تہہ و بالا کیا جس میں انسانوں کو بہ زور جبر غلام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا منہ زور طوفان تھے، جس کی زد میں آئے ہوئے ظالم خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح اُڑ جایا کرتے تھے۔ وہ ایک شمشیر براں تھے، جس نے ظالموں کے وجود کو گھائل کر رکھا تھا۔ جہاں جبر تھا وہاں اس کے مقابل احفاظ بھائی تھے۔ جہاں ناانصافی تھی وہاں اس کے سامنے سینہ سپر تھے۔ احفاظ بھائی ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے جرم میں زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار رہے۔ کیا یہ اُن کے اخلاص، ایثار اور انسان دوستی کا مظہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ؟

بھگت سنگھ نے کہا تھا: ’’ لوگوں کو موت سے خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جینے کا حوصلہ سکھایا جائے، اس لیے کہ انسان ہر مُشکل میں جی کر اس عہد تک پہنچا ہے۔‘‘ بلاشبہہ احفاظ بھائی نے ایسا ہی کیا۔

وہ ایک درویش تھے، جی ہاں ایک ملامتی صوفی! میں انہیں درویش خدا مست کہوں تو آپ کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ہونے دیں۔ مولانا جلال الدین پیرِ رومی نے کہا تھا: ’’ اگر میرا علم مجھے انسان سے مُحبّت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ‘‘ کیا اس کے بعد بھی آپ کو اُن کی درویشی کی دلیل چاہیے؟ کیا آپ انکار کرسکتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں سے پیار کیا، ان کے لیے مار کھائی، جیلوں میں گئے۔ وہ صلہ ستائش کی تمنا سے یک سر محروم تھے، وہ بے نیاز انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انسان کی تکریم، ان کے حقوق کی جنگ جس جنگ جُو نے بے جگری سے لڑی، وہ احفاظ الرحمن کہلائے۔

صاحبو! کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہے، لیکن ذرا سا رُک جائیے! ذرا دم لیجیے! مرتے تو ہم جیسے ہیں، دھرتی کا بوجھ کہ خس کم جہاں پاک۔ احفاظ بھائی جیسے کہاں مرتے ہیں، وہ تو مرتے ہوئے کو جینے پر اکساتے ہیں۔

کبیر داس جی نے کہا تھا: ’’جب میں دنیا میں آیا تو میں رو رہا تھا، اور لوگ ہنس رہے تھے۔ اب میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں جاؤں تو ہنستا ہوا جاؤں اور لوگ میرے لیے روئیں۔‘‘

وہ حقوق انسانی کی مجاہدانہ داستان تھے اور صاحبو! داستانیں تو امر ہوتی ہیں، داستان بھی کبھی ختم ہوئی ہے کیا۔۔۔۔ ! ان کی جلائی ہوئی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور مظلوم اس کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر ظالم کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

ہمارے بہتے ہوئے گرم آنسو آپ کی سچائی اور جدوجہد کی گواہی ہیں احفاظ بھائی! سلام آپ پر! آپ ہم سب کو اداس اور اشک بار چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن مجھے تو اب بھی ایسا لگ رہا ہے، جیسے وہ کہیں اِدھر اُدھر سے نکل آئیں گے اور کہیں گے: ’’تم انسان بن جاؤ۔ بہت خودسر ہو تم۔ میں تمہیں ٹھیک کردوں گا۔‘‘

اپنے آنسو اپنے احفاظ بھائی کے نام کرتے ہوئے اب رخصت ہو رہا ہوں۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔

بہت اداس تھا منظر چراغ بجھنے کا

لپٹ کے رو دیا، میں بھی ہوا کے جھونکے سے

The post ایک ملامتی صُوفی میرے احفاظ بھائی appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا کے شکار اٹلی میں افریقا کا خوب صورت چہرہ

$
0
0

سیاحوں کی جنت اٹلی میں افریقوں نے نسل کی بنا پر بہت امتیازی سلوک جھیلا۔ اٹلی کا حوالہ یہاں سالوں سے بسنے والے افریقیوں کی کبھی شناخت نہ بن پایا۔

کالی چمڑی والوں کے ساتھ گوروں کے دیس میں یہ سلوک کوئی نیا نہیں لیکن گہرے رنگ کے پیچھے بارہا افریقا کا خوب صورت چہرہ بھی دمکا جسے دنیا جان بوجھ کر نظر انداز کرتی رہی اور یو  ان کاظاہری رنگ ساری باطنی خوب صورتی پہ حاوی ہوتا چلا گیا۔

پوری دنیا میں تباہی مچانے والی کورونا نامی اس خطرناک وبا نے جن ممالک کو زیادہ زخمی کیا ان میں اٹلی کا نام بھی سرفہرست ہے۔یہاں ہونے والے سخت لاک ڈاؤن میں اٹلی کے عوام گھروں میں محصور ہیں لیکن چند افریقی لڑکے اس بڑے بحران میں خدمت اور ہمت کی ایک نئی مثال قائم کررہے ہیں۔یہ نوجوان خوف کی فضا میں عائد کردہ  لاک ڈاؤن میں گھروں میں محصورمقامی اطالوی باشندوں کو پیٹ بھرنے کا سامان ان کے گھروں پر فراہم کررہے ہیں۔

یہ افریقی نوجوان  دن رات ،دہی ، پھل اور سبزیوں کو بروقت لوگوں تک پہنچاکر انسانیت کو سانسیں فراہم کرنے کے لیے مصروف ِ عمل ہیں ۔ ان کا تعلق اسی کالی چمڑی سے ہے جس کی بنا پر ان کا وجود اپنی سرزمین پر قبول کرنے میں اٹلی کی سرکار سے لے کر عوام تک سب کی نسل پرستانہ سوچ  مانع تھی۔

اٹلی میں روزانہ سورج بھی اپنا کام کل پہ موقوف کر کے غروب ہوجاتا ہے لیکن یہ لڑکے بنا رکے اپنا کام کیے جارہے ہیں کیوں کہ ان کا کام غذائی اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنا اور انہیں بروقت گھروں پر فراہم کرنا ہے ۔ وبا کے دور میں یہ افریقی لڑکے سڑکوں پہ ہیں لیکن اٹلی کی خواب ناک سڑکوں پر عیاشی اور تفریح کرنا پہلے ان کا مقدر نہ تھا اور اب ان کا مقصد نہیں ہے ۔  ضایع کرنے کو ایک لمحہ بھی ان کی دسترس میں نہیں ۔ کھیتوں سے جا کر پھل اور سبزیاں لانا اور پھر ان کو دھو کر صاف ستھرے طریقے سے ڈبوں میں بند کر کے ٹرک پہ لادنااور گھروں پر ڈلیور کرنا، عام دنوں کی نسبت وبا کے دنوں میں ان کا یہ کام زیادہ سخت اور محنت طلب ہوگیا ہے لیکن یہ لڑکے تھک کر ہار ماننے کو تیار نہیں ۔

ان لڑکوں کا تعلق ” باریکما ”  نامی ایک گروپ سے ہے ۔ ان کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے جنوری2010سے ۔ جب سیکڑوں افریقیوں نے اٹلی کے شہر روزارنو میں نسل پرستی کے خلاف ہونے والی بغاوت میں حصہ لیا ۔ اس بغاوت نے اٹلی کے دیہی علاقوں میں پناہ گزین افریقی مزدروں کے بدترین حالات پر سالوں سے موجود خاموشی توڑ ی ۔2011میں سلیمان اور سیڈو جن کا تعلق بالترتیب مالی اور گیمبیا سے تھا ، روزارنو سے روم پہنچے ۔ وہاں انہوں نے رہائش اختیار کی ، ورک پرمٹ حاصل کیے اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ۔

وہ اس غیر یقینی معاشرتی اور معاشی صورت حال سے ہر طور آزاد ہونا چاہتے تھے۔  باریکما نامی اس گروپ کی بنیاد  بغاوت میں حصہ لینے والے ہی چند افریقی نوجوانوں نے ہی رکھی  جس کا مطلب” طاقت” ہے ۔ دس سال بعد آج اسی باریکما سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان کورونا وائرس کے خلاف اٹلی کی جنگ میں صفِ اول کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔آج جب لوگ خود کو گھروں میں محصور کر چکے ہیں ایسے میں اسماعیل اور اس کے ساتھی لوگوں کے سکون کے لیے کھیتوں اور گوداموں میں اپنا سارا وقت بتا رہے ہیں ۔ سبزیوں اور ڈیری مصنوعات کے ڈلیوری باکس مقامی افراد کو ان کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کا کام پہلے سے زیادہ اس لیے  بڑھ چکا ہے کہ اب لوگ سامان خریدنے باہر نہیں جا سکتے ۔ لہذا یہ لڑکے لوگوں کے سکون کے لیے خود دوگنی مشقت کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں۔

بغاوت کے اگلے سال ہی باریکما کی بنیاد رکھنے کے بعد ان لڑکوں نے سب سے آسان قدم اٹھاتے ہوئے دہی بنانے کے کام کاآغاز کیا ۔ ان کے خیال میں یہ بہت زیادہ استعمال  اور آسانی سے تیار ہوجانے والی خوراک ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے یہ دہی اپنے اپنے مقامی طریقہ کار کے مطابق تیار کیا ۔یہ طریقہ اٹلی میں مستعمل نہیں تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے اس کام کے لیے ایک جگہ منتخب کی تاکہ وہ دہی کی پیداوار شروع کر سکیں۔ اس کام کا آغازانہوں نے محض تیس یورو سے کیا ۔ جس سے وہ دہی بنانے کے لیے پورے ہفتے میں بس پندرہ لیٹر دودھ خرید پاتے ۔

ان آٹھ نوجوانوں نے شروع کا وقت بے حد مشکل گزارا ۔ نئی مصنوعات پرلوگوں کا اعتبار حاصل کرنے سے بڑا مشکل کام اور کون سا ہوسکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ، ہم نے مارکیٹ بنانے کے لیے کسی کو اپنا دہی خرید کے لیے مجبور نہ کرنے کا اصول بنایا تھا۔ ہمارا گاہک سے بس یہی کہنا ہوتا کہ ہم نے جو دہی تیار کیا ہے یہ بہت اچھے معیار کا ہے ۔

آپ اسے خریدیں گے تو ہماری مدد ہو گی اور نہیں خریدنا چاہتے تو کوئی بات نہیں ۔ 2010میں ہونے والی بغاوت کے بعد ان افریقی نوجوانوں کے ذہن میں یہ ادارہ بنانے کا خیال اس لیے آیا کہ ان میں سے ہر نوجوان کھیتی باڑی کے متعلق تمام امور سے واقف تھا ۔ انہوں نے کھیتوں میں اپنی فصل اگانے کی منصوبہ بندی کی ۔ اپنے کاروبار کے خواب کو تعبیر دینے میں ان افریقی نوجوانوں کو بے حدمسائل جھیلنے پڑے ۔ ابتدا میں جو دہی یہ نوجوان تیار کرتے اس کو بیچ کر منافع کے نام پر فقط اتنا بچتا کہ گھر فون کر کے اپنوں کی آواز سننے کا خرچ نکل آتا ۔بعد میں انہوں نے سائیکلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوم سروس بھی متعارف کروائی ۔ساتھ ہی ساتھ سبزیوں کی کاشت بھی شروع کر دی ۔ 2016تک ان کا کام اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب وہ ہر ہفتے دو سو لیٹر دودھ سے بنا دہی فروخت کرنے لگے ۔

باریکما کا دوسرا بڑاکارنامہ اٹلی کی سرزمین پرنامیاتی کاشت کاری کی بحالی کا تھا ۔ انہوں نے مکمل طور پر قدرتی سبزیاں اور پھل اگائے جن میں کسی قسم کا کوئی کیمیکل استعمال نہیںکیا جاتا ۔ باریکما کا جو اصول انہیں دوسرے گروپس سے ممتاز کرتا ہے وہ ماحول دوستی اوراحترام  ہے۔یہی ان کی کمپنی کا مقصد بھی ہے ۔ ساتھ ہی ان کا ایک اور مقصد ہے اور وہ یہ کہ اس کام کو اس قدر پھیلائیں کہ یہاں سے روزگار کے نت نئے مواقع نکلیں جو ان کی طرح دوسرے ممالک سے آئے تارکین وطن کو روزگار میسر کرنے کا بھی ذریعہ بن سکیں ۔اب اس ٹیم کے آٹھ ارکان ہیں ، جن میں سے چھے مغربی افریقی ممالک سے جب کہ دو آٹزم کا شکار اطالوی ہی ہیں ۔

کورونا نامی اس وبا کے دور میں اس وقت ان افریقی نوجوانوں کا وقت کھیتی باڑی سے لے کر گھروں میں سامان کی فراہمی تک کے بڑے جہاد میں گزر رہا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم خود مشکل اٹھائیں گے لیکن تھک کر بیٹھیں گے نہیں، کیوں کہ اس مشکل گھڑی میں اٹلی کے عوام کو ہماری ضرورت ہے ۔ہمارے لیے یہی بات باعثِ اطمینان ہے کہ وبا کے اس خطر ناک وقت میں ہم ان کے لیے کار آمد بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے ذہن میں کہیں ایک یہ سوچ بھی ہے کہ اس  طرح شاید افریقا کا ایک نیا اور خوب صورت چہرہ لوگوں کے سامنے آئے اور انہیں کئی دہائیوں سے اس سرزمین پر ہونے والے استحصال اور نسل پرستانہ سوچ سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکے ۔

باریکما کا مرکزروم سے بائیس میل کی دوری پر واقع ہے ۔ پینیٹو میںان کا گودام ہے ۔ باریکما سے جڑے یہ نوجوان وبا کے اس دور میں روزانہ کی ذمہ داریاں آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ ان کی خریداری کا مرکز ویا کیانا کی مشہور ٹریسٹ مارکیٹ ہے ۔عام طور پر اس مارکیٹ میں خریداروں کا ازد حام ہوتا تھا لیکن وبا کے دور میں یہاں ایک وقت میں بس چوبیس افراد کو داخلے کی اجازت ہے ۔ ان نوجوانوں میں سے ایک نوجوان کے ذمے مارکیٹ سے اشیاء خریدکر لانا ہے ۔

اس تنظیم کا ایک اور نوجوان ٹونی چار سال قبل نائیجیریا سے اٹلی آیا تھا ۔ یہاں آنے کے بعد اس نے دوسرے تارکین وطن کی طرح فوگیا میں ٹماٹر کے کھیتوں میں مزدروی شروع کر دی تھی ۔ یہاں اسے دوسرے مزدوروں کی طرح ساڑھے تین سو کلو ٹماٹر ڈبوں میں بند کرنے کے صرف چار یورو ملتے تھے ، جو ان تارکین وطن باشندوں کے استحصال کی ایک بڑی شکل تھی ۔ اسی گروپ سے وابستہ ایک اورنوجوان چیک ہے جو سینیگال میں فٹ بال کا کھلاڑی تھا اور وہاں ایک یونی ورسٹی میں بائیولوجی کا طالب علم بھی تھا ۔

2007میں وہ جب اٹلی آیا تو اس نے بھی زندگی گزارنے کے لیے کھیتوں میں ہی مزدوری کرنا شروع کردی ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہاں آنے کے بعد اس بدتر صورت حال میں گزاراکرتے وقت میرا دماغ ہر وقت الجھن کا شکار رہتا۔میں اپنے اطراف کے حالات دیکھتا اور مخمصے میں رہتا ۔ روزارنو میں، دو سو سے تین سو افریقی باشندوں سے ایک ایک جگہ پر مشقت سے بھرپور کام لیا جاتا وہ بھی بنا کسی کانٹریکٹ کے ۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنے  وسیع پیمانے  پر ہونے والا استحصال کسی کی نظروں سے پوشیدہ رہ جائے ۔ اس طرح کام لینے والے خود کو بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی بچا لیتے تھے۔ اب چیک بھی اس گروپ کا حصہ ہے جہاں یہ اشیاء کے پیک ہونے والے کارٹن اور کریٹس کے وزن کی جانچ کرتا ہے ۔

اس گروپ کے ارکان ہر ماہ بنیادی خرچے نکالنے کے بعد ہونے والے منافع کو برابری کی بنیاد پر آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ یہ افریقی نوجوان ترقی کے اپنے مطلوبہ مقصدکو گو کہ حاصل نہیں کر سکے اور مسلسل محنت اور مشقت سے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہیں ، لیکن پچھلے کئی سال کے مقابلے میں2019 ان کے لیے نسبتاََ معاشی بہتری کا سال رہا ۔ اور اب جب کہ کورونا وائرس نے اٹلی کو اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے ،  ان افریقی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس صدمے اورخوف کے وقت اپنے صارفین کو صحت مند رکھنے کے لیے اہم کام کر رہے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ خوب صورت بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اس خوف ناک وقت میں لوگوںکی پیٹ بھرنے میں مدد کر رہے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ خوب صورت افریقا کا وہ چہرہ ہے جس نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ساتھ کیا گیا استحصال فراموش کر کے ایک ایسے ملک میں عزم ، خدمت اور ہمت کی ایک نئی اور اچھوتی مثال قائم کی ہے جہاں آج بھی رنگ اور نسل کی برتری پر مبنی سوچ وہاں بسنے والوں کا ایمان ہے ۔

The post کورونا کے شکار اٹلی میں افریقا کا خوب صورت چہرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>