Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

سارے رنگ

$
0
0

ایک احساسِ
جرم۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

ہمارے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر روانگی کے وقت ہر لمحہ یہی دھیان رہتا ہے کہ ہم کہیں کچھ بھول نہ جائیں۔۔۔ صبح دفتر جاتے ہوئے سارے دن کے کاموں کے حوالے سے  سوچ بچار بھی ایک لازمی امر ہے۔۔۔۔ سو اُس روز یہ سلسلہ بھی رہا۔۔۔

جاتے ہوئے فروری کی یہ صبح بھی ایک معمول کی سحر تھی، ابھی ’کورونا‘ کی وبا ہمارے نگر سے کچھ دنوں کے فاصلے پر تھی۔۔۔ اس لیے زندگی رواں تھی، ہم بھی حسب معمول گھر سے دفتر کے لیے نکلے۔۔۔ راستے میں اسکول جاتے ہوئے بچے۔۔۔ اپنا سامان جھاڑتے ہوئے دکان دار۔۔۔ مختلف موسمی پھلوں کی ریڑھیاں سجاتے محنت کش۔۔۔ صفائی کرنے والے خاکروب۔۔۔ گھروں میں کام کرنے آنے والی ماسیاں۔۔۔ پینے کا پانی لے جانے والے بچے، بزرگ اور خواتین۔۔۔ ایک ’چائے خانے‘ کے باہر بھاپ اڑاتا ہوا پراٹھوں کا بڑا سارا توا۔۔۔ یہ سب معمول کے مناظر تھے۔۔۔ ان ہی میں سے گزرتے گزرتے چند منٹوں میں مرکزی سڑک کا وہ کنارا آجاتا ہے۔۔۔ جہاں سے ہم ’بس‘ میں سوار ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن آج اسٹاپ پر پہنچتے ہی ہم کیا منظر دیکھتے ہیں کہ سڑک کی دیوار کے ساتھ ایک شخص گرا ہوا ہے۔۔۔

آپ یوں اگر کسی کو سر راہ دیکھیں، تو ضرور چونکیں گے، ہم بھی ٹھٹکے۔۔۔ وہ کوئی ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔۔۔ جس کے لباس اور حلیے سے اُجلا پن بہت دور جا چکا تھا۔۔۔ لیکن اس کے زمین پر پڑنے کا غیر ارادی انداز واضح طور پر یہ بتا رہا تھا کہ وہ یقینی طور پر لیٹا نہیں، بلکہ کسی وجہ سے گرا ہے۔۔۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ اسٹاپ پر سات سے اٹھ مسافر پہلے سے موجود تھے، لیکن اس شخص کی موجودگی سے گویا بالکل ہی بے خبر۔۔۔! اب یہ منظر ہمیں اور بھی عجیب لگا۔۔۔ ہمیں اس زمین پر گرے ہوئے انسان سے زیادہ وہاں موجود لوگوں کا احساس اور شعور پست لگا۔ کہاں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں یہ رواج ہے کہ کوئی بھی مشکل میں ہو، مدد کے لیے دوڑے اتے ہیں، لیکن یہاں آج ایک خاموش پڑا ہوا اللہ کا بندہ کچھ اور ہی داستان کہہ رہا تھا۔۔۔

میں بہ یک وقت دو صدموں میں تھا، ایک اس بندے کے ساتھ کسی اَن ہونی پر اور دوسرا لوگوں کی حد درجہ بے پروائی پر۔۔۔ ’میں کیا کروں؟‘ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میری بس آن پہنچی۔۔۔ اور کنڈیکٹر کی روایتی جلد بازی نے میری سوچ کو جھٹکا دیا اور میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا اور بس میں چڑھ گیا۔۔۔!

’میں نے بھی اپنا نام وہاں بے حس بنے کھڑے رہنے والے افراد میں لکھوا لیا۔۔۔!‘

بس کے پائیدان پر ہی ہمارے اندر سے کسی نے گویا ہمیں ایک ’چَپت‘ لگائی۔ باطن میں ہر لمحہ جاری رہنے والی ضمیر کی عدالت میں اچانک ایک شور برپا ہوگیا۔۔۔

ہم پر عائد فرد جرم پڑھ کر سنائی جانے لگی۔۔۔ اوروں کی طرح ہمیں بھی قول وفعل میں تضاد رکھنے والا بتایا جانے لگا۔۔۔ ہمارے وجود میں ’احساس‘ کی کمی کا اعلان ہونے لگا۔۔۔ ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ تھا، سو سر جھکائے اس ’کٹہرے‘ میں مجرم بنے سب سنتے رہے۔۔۔

ہمارے اسٹاپ کے ’سامنے ہی تو ایک فلاحی ادارے کی ایمبولینسیں کھڑی ہوئی ہوتی ہیں، دوسروں کو تو چھوڑو، تم بھی تو جا سکتے تھے، کیا تھا دفتر کے دس منٹ ہی دیر ہوتی، کیا یہ 10 منٹ کسی کی مدد کرنے سے بڑھ کر ہیں، کیا پتا یہ لمحے اس کی زندگی بچانے کے لیے ہوں۔۔۔ تم نے ہمیشہ کی طرح دیر کر دی، تم نے ایک موقع اور گنوا دیا۔۔۔۔ تم بے حس سماج کا نوحہ کہتے ہو، لیکن تمہیں نہیں لگتا کہ تم خود بھی تو ’بے حس‘ ہو۔۔۔!‘

ہم نے ضمیر کی عدالت کے سارے الزامات قبول کر لیے۔۔۔ ’اب کیا ہو سکتا ہے؟‘ بس یہ سوچتے سوچتے دفتر پہنچ گئے اور پہنچتے کے ساتھ ہی پہلا فون فلاحی ادارے کی ایمبولینس کو کیا اور بتایا کہ ہم نے ایک شخص کو دیکھا ہے، آپ اسے فوری طور پر طبی امداد کے لیے کسی اسپتال لے جائیے۔۔۔

فون کر دیا، لیکن صبح کی غفلت دل پر باقی سارا دن کچوکے لگاتی رہی، خدا جانے اُس پر کیا بیتی؟ فلاحی ادارے کی ایمبولینس شاید اسے لے بھی گئی ہو، لیکن وہ سارا دن ہماری نگاہوں کے سامنے پڑا رہا۔۔۔ اور ہم اس منظر سے نگاہیں چرانے کی ناکام کوشش میں مصروف رہے۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
وبا

رضوان طاہر مبین
شہر میں ایک موذی وبا کے سبب گھروں سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔
سب چار دیواری تک محدود ہوئے، تو دھیرے دھیرے وبا قابو میں آنے لگی۔
مگر ایک دن ’چھامو بھائی‘ میں یہ مرض سامنے آگیا۔۔۔!
یہ عارضہ تو ایک دوسرے کو چھونے سے لگتا ہے، اِن کے گھر میں کسی کو یہ بیماری نہیں۔
تحقیقات کی گئیں۔۔۔
پتا چلا یہ مرض پڑوس کے محلے سے منتقل ہوا۔
لیکن وہ تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلے۔۔۔
دراصل ’چھامو بھائی‘ کبوتر بازی کے شوقین ہیں۔۔۔
اور بیماری پڑوسی محلے کے ایک ’کبوتر باز‘ سے اُن میں آئی۔

۔۔۔

مولانا آزاد نے کہا ’پاکستان کا استحکام ضروری ہے!‘

مولوی محمد سعید

پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیق کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے ’’دلّی چلا گیا تھا۔‘‘ دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا ’’دلّی میں قیام کہاں رہا۔۔۔؟‘‘ کہنے لگے ’’مولانا آزاد کے ہاں۔۔۔‘‘ یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ’’مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟‘‘ کہنے لگے:

’’میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے۔۔۔؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آکے کہنے لگے ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔‘‘

یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دُہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔ پہلی عید الفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ’’مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔‘‘

(خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے لیا گیا)

۔۔۔

روشنی کی آخری لو بھی پہاڑوں کے پار اتر چکی تھی

مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر

پہاڑوں پر شام بہت انوکھے ڈھنگ میں اترتی ہے۔ چوٹیوں پر سنہری دھوپ چمک رہی ہوتی ہے اور دامن میں گہری سبز چھایا اپنے آنچل پھیلا کر نیم روشنی اور کہیں کہیں سے ظاہر ہونے والی تاریکی کا ایک ایسا امتزاج بناتی ہے، جو دل کو بہ یک وقت امید و یاس کی کیفیت میں مبتلا کر دے۔

چوٹی پر اس روشنی کا گمان ہے، جو آٹھ منٹ قبل غروب ہو چکی اور دامن میں جو سبز اندھیرا ہے وہی حقیقت ہے، مگر دل ہر بار اس حقیقت سے نگاہیں چرا کر روشنی کے فریب میں بھٹکنا چاہتا ہے۔ کسی ایسے کا انتظار کرنا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ وہ کبھی نہیں آئے گا مگر پھر بھی ہر آہٹ پر اسی کا گمان کرنا جانے کیسی خوداذیتی ہے؟ یا پھر حال و حقیقت سے ایک سوچا سمجھا فرار ہے؟

آج شام کچھ ایسے آئی کہ میں پہاڑ کے دامن سے پھوٹتے جھرنے کے یخ پانیوں میں پاوں ڈبوئے رویوں کی اس جلن سے نجات پانے کی کوشش کر رہی تھی، جو میری روح کو ہر لمحہ سوزش زدہ رکھتی ہے۔

پانی میں چھوٹے بڑے بہت سے رنگین پتھر تھے، جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں سے مزید دل کش اور نمایاں ہو رہے تھے۔ دور بستی کے گھروندوں میں بجلی کے بلب ٹمٹمانے لگے تھے اور کہیں کہیں باورچی خانوں کی چمنیوں سے اٹھتا گہرا سرمئی دھواں زندگی اور اس کے اہتمام کو ظاہر کر رہا تھا۔

ایک مقامی لڑکا جس کے دونوں پیروں میں مختلف رنگوں کے ربڑ کے بوٹ تھے، دو بکریاں اور تین میمنے ہنکاتا ہوا میرے قریب سے گزرا، تو بکری کے گلے میں بندھی گھنٹی کی نغمگی اطراف میں بکھر گئی۔ ننھے میمنے ابھی گھر نہیں جانا چاہتے تھے، لہٰذا وہ لڑکے کی ’’ہش ہش ہررررر‘‘ کی آوازوں کو نظر انداز کر کے من چاہے راستوں پر چوکڑیاں بھرنے لگتے، مگر ان کا رکھوالا انہیں کان سے گھسیٹ کر اس راہ پر لے آتا جو گھر کو جاتی تھی۔۔۔

ہم بھی تو من چاہے راستوں کی کھوج میں ہر نگہبان کو پیچھے چھوڑ کر آزاد جانور کی مانند بھاگنا اور اچھلنا چاہتے پیں، مگر ذمہ داریاں، سماج، رشتے، توقعات ہمیں کان سے کھینچ کر اس راہ پر لے آتے ہیں، جو گھر کو جاتی ہے۔ وہ راہ جو معاشرے تہذیب اور تمدن کی راہ ہے، جہاں ہم آرزوں کے کھونٹے سے بندھے فرائض کا بوجھ ڈھوتے رہتے ہیں۔

میرے سامنے کے پھیلاو میں بستی تھی، آبادی تھی، گھر تھے اور انسان تھے، جہاں روشن کمروں اور آباد باورچی خانوں میں رشتوں کی شیرینی اور تلخی سے بھرے لوگ سیدھی راہ پر چلنے کی طمانیت لیے موجود تھے اور جہاں میں تھی وہاں تنہائی کا سرمئی غبار تھا۔ دل میں جھانکا تو کائنات سے بھی عظیم و عمیق یکتائی تھی اور اس میں راہ بھٹکے میمنے کی مانند میرا تنہا وجود جو گردن میں کسی طوق کے انکار کی جرأت کے سبب معاشرے کے مروجہ اصولوں کے مطابق ناقابل قبول ہے۔

ایک ایسے میمنے کا انجام بھلا کس سے پوشیدہ ہے جو گلہ بان کے تحفظ سے فرار ہو کر سرشام ایک ایسی راہ چل نکلے جو بھیڑیوں کے بھٹ کو جاتی ہو۔ ظاہر ہے اسکا انجام ایک ایسی دردناک موت ہے جو بھیڑیوں کے پنجوں دانتوں اور جبڑوں میں گھات لگائے اس کی منتظر ہے مگر!

وہ بکری جسے چرواہا اپنی نگرانی میں اپنی منتخب کردہ راہ چلنے کی اجازت دیتا ہے، اس کا انجام بھی تو ایک ایسی موت ہے، جو گلہ بان کی چھری، اس کی ہنڈیا اور اس کے دانتوں اور جبڑوں میں پوشیدہ ہے۔ تو پھر اپنی مرضی کی موت چننے میں بھلا کیا حرج ہے؟

روشنی کی آخری لو بھی پہاڑوں کے پار اتر چکی تھی۔ میں نے جھرنے سے نکالے ہوئے دو سرخ اور سرمئی دھاری دار پتھر اٹھائے اور مٹھی میں دبائے ایک تنہا پگ ڈنڈی پر چلنے لگی۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


 ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘

$
0
0

یہ جولائی 2008ء کی ایک صبح تھی۔۔۔ ایک فون آیا اور آواز سنائی دی ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘

ارے، احفاظ صاحب۔۔۔! ہم نیم جاگے، نیم سوئے اچانک مؤدب ہوگئے۔۔۔ وہ ہمارے لکھے گئے ایک خط کے جواب میں ہم سے مخاطب تھے۔۔۔ اُن دنوں ہم ایک مسئلے کی جانب بہت توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، انہوں نے بہت مشفقانہ انداز میں تفصیل سے ہم سے بات کی اور اپنا جواب ہم تک پہنچایا۔۔۔

پھر اگلے برس ہم ’ایم اے‘ میں آئے تو ایک شام آوارگی کرتے ہوئے آرٹس کونسل میں افتخار عارف کی کلیات ’کتاب دل ودنیا‘ کی تقریب رونمائی میں شریک ہونے پہنچے۔۔۔ ابھی تقریب شروع ہونے میں کچھ وقت تھا، ہمارے استاد نما سینئر ساتھی رانا محمد آصف ہم سے آملے اور ہمیں مہمانوں کے کمرے میں لے گئے جہاں افتخار عارف کے قریب ہی احفاظ صاحب بھی جلوہ افروز تھے، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہمیں پہچانیے، ہم ملے تو پہلی بار ہیں، البتہ غائبانہ طور پر کچھ سلسلہ رہا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے فوراً ہمارا نام لے دیا۔۔۔!

انہی دنوں ہمارے ’ایکسپریس‘ میں ’مراسلوں‘ کی اشاعت کے ساتھ مضامین بھی جگہ پانے لگے تھے۔۔۔ ایک دن بالواسطہ خبر ہوئی کہ وہ ہماری تحریریں سراہتے ہیں۔۔۔ پھر یوں ہوا ہم بے روزگاری کے کچھ دن کاٹنے کے بعد ایک مقامی روزنامے سے جُڑ گئے۔۔۔ یہ 2012ء کی بات ہے، ایک سہ پہر احفاظ صاحب کا فون آیا۔۔۔ پوچھا کہ آج کل کہاں ہوتے ہیں، کیا کر رہے ہیں وغیرہ، صبح آکے مل لیجیے۔ یہ ہمارے ’ایکسپریس‘ بلاوے کا موقع تھا۔۔۔ انہوں نے میگزین انچارج محمد عثمان جامعی کے ساتھ ہمارا ’انٹرویو‘ لیا اور پھر چند دن بعد ہم احفاظ الرحمن صاحب کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔۔۔

 

یہ جتنا بڑا اعزاز تھا اتنا ہی دشوار بھی تھا۔۔۔ انہوں نے صحافتی مسابقت کے لیے تیار کرنے کو ہمیں مشقت اور تربیت کی بھٹی میں جھونک دیا۔۔۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انہوں نے ہمارے کیریر کے اوائل میں ہمیں خوب دوڑایا، بلند تحریری معیار تک پہنچانے کے لیے انہوں نے خوب مشقت کرائی۔۔۔ تحریر میں کوئی بھی بات کس طرح شروع کی جاتی ہے۔۔۔؟ علت ومعلول اور فلسفیانہ فکر کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ منطقی استدلال کیوں کر ہوتا ہے۔۔۔؟ مطالعہ کتنا ضروری ہے۔۔۔؟ اخبار کے لیے نئے موضوعات کیا ہونے چاہئیں۔۔۔؟ اور اخبار کے لیے جان دار اور مضبوط متن کس طرح تشکیل دیا جا سکتا ہے۔۔۔؟ وغیرہ

کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی ہلکے موضوع پر کچھ لکھ دے یا کوئی پرانے موضوع پر مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش کرے۔۔۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے وہ بار بار اُس جگہ پر جا کر کام کرنے پر زور دیتے، کہ جاکر دیکھیے اور پھر لکھیے۔ معمول کے کام کے ساتھ ساتھ آئے روز وہ خبرگیری کرتے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر کوئی نیا موضوع تفویض کر دیتے، ترجمے کے لیے کچھ دے دیتے۔۔۔ کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو اس کے لیے خصوصی صفحے کا حکم جاری کرتے اور پھر باقاعدہ موضوعات کی تقسیم ہوتی کہ کس موضوع پر کون لکھے گا۔

احفاظ صاحب کی ڈانٹ کا خوف ہمیں مجبور کرتا کہ ہم سرخیوں سے لے کر ایک ایک لفظ پر کئی بار سوچتے، جملے میں کہیں جھول نہ ہو، الفاظ کی تکرار نہ ہو، بات مبہم نہ ہو وغیرہ۔ انہیں صفحے کا ’پروف‘ دکھانا اپنے اندر ایک بہت بڑا امتحان رکھتا تھا۔۔۔ ہم خوب اچھی طرح پڑھ کر ہی ان کی میز پر ’پروف‘ رکھتے، اس کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی گنجائش باقی رہ جاتی، جو وہ اپنے قلم سے دور کردیا کرتے، ساتھ سرزنش بھی ہوتی، کبھی کم اور کبھی زیادہ۔

دراصل ہم اپنے ’شعبۂ میگزین‘ میں سب سے جونیئر تھے، اب جیسے بعض گھروں میں چھوٹے ایک کونے میں دبکے چُپکے ہو کر بیٹھے رہتے ہیں، اکثر ہم بھی اپنے دفتر میں ایسے ہی رہتے۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آیا کہ جب انہوں نے ہمارے کام کی تعریف کرنا شروع کردی۔۔۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایک بلند معیار ’باس‘ جس کی توقعات پر آپ کوشش کے باوجود پورا نہ اتر پا رہے ہوں اور اب وہ آپ کے کام پر ’تھمبز اَپ‘ کرتا ہے یا کبھی کمر تھپتھپا دیتا ہے، تو واقعی کتنی زیادہ مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی آج ہم نے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہے۔

پھر کبھی وہ ہم سے بھی بے تکلف ہو جاتے تو ’آنکھ مار کے کہتے، میاں چھوڑو یہ کام وام تو ہوتا رہے گا، ذرا یہ دیکھو، فلاں نے کیا لکھا ہے۔۔۔!‘ اور پھر بات سے بات کا ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا۔۔۔ پرانے قصے، نئی باتیں، تجربات ومشاہدات، تاریخی انکشافات، آج کے المیے اور مستقبل کے اندیشے، سب ہی کچھ موضوع بن جاتا۔۔۔ آپ چاہے ان کی رائے سے اتفاق نہ بھی کریں، لیکن کسی بھی معاملے پر ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوتا تھا کہ دیکھیں احفاظ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

کہاں وہ وقت تھا، ان کے سامنے کلام کرتے ہوئے ہماری زبان دس بار جملے سیدھے کرتی تھی، اور اب کہاں وہ ہمیں اپنے ساتھ بٹھاتے اور ہنستے بولتے۔ کبھی ہم اُن سے کوئی اجازت لینے جاتے، تو وہ الٹا پوچھ لیتے کہ آپ کا اس معاملے میں کیا خیال ہے؟ جیسے مارچ 2017ء میں ہمارے سنیئر ساتھی اقبال خورشید جب ’دنیا‘ اخبار گئے، تو انٹرویو کا ذمہ ہمارے سپرد ہوا۔۔۔ احفاظ صاحب اخباری مواد کے معاملے میں اتنے سخت تھے کہ انٹرویو کے لیے بھی نئی سے نئی شخصیات ڈھنڈواتے۔۔۔ نئی سے مراد ایسی شخصیت جس کا انٹرویو کہیں نہیں ہوا ہو، اب جب انٹرویو کرنے کی زمام ہمارے ہاتھ میں آئی، تو ہم نے مجوزہ شخصیات کی فہرست ان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کردی۔

انہوں نے ایک اصول وضع کیا ہوا تھا کہ اپنے ادارے (ایکسپریس) سے وابستہ شخصیات کا انٹرویو نہیں ہوگا۔۔۔ شاید انہیں لگتا ہوگا کہ قارئین پر یہ تاثر جائے گا کہ ہم اپنے ادارے کی ’واہ واہ‘ کرا رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ چھیڑا اور کہا کہ اگر کوئی شخصیت ’قابلِ انٹرویو‘ ہے، تو پھر محض اپنے ادارے سے وابستہ ہونے کی بنا پر اسے چھوڑ دینا کچھ مناسب بات نہیں لگتی، انہیں یہ بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے ہمیں اجازت دے دی، پھر ہم نے ممتاز ادیبہ اور کالم نگار زاہدہ حنا کا انٹرویو کیا، جو اخبار کی زینت بنا۔

اسی طرح جب انہوں نے اپنی صحافتی جدوجہد پر مبنی کتاب ’سب سے بڑی جنگ‘ شایع کی، تو ہمیں اپنے پاس بلاکر پوچھا کہ بتائیں اور کس کس اہم شخصیت کو یہ کتاب جانا رہ گئی ہے، ہم بتاتے گئے اور وہ لکھ کر دستخط کرتے گئے۔۔۔ ایک دو نام ایسے بھی آئے، جن کے نظریات یا کردار وغیرہ کی وجہ سے وہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے، لیکن انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ان کے نام بھی اپنی کتاب عطا کر دی۔۔۔ پھر جب ہم ان شخصیت کے پاس یہ کتاب لے کر گئے، تو وہ بھی حیران تھے کہ احفاظ صاحب نے کتاب بھیجی ہے!

احفاظ الرحمن سراپا تحریک تھے۔۔۔ جب کبھی وہ کسی طاقت وَر سے ٹکرانے کے لیے اٹھ جاتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ اب انہیں اللہ ہی روکے تو روکے، ورنہ کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ انہیں ٹھیرا سکے! اُن کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ جوانی میں انہوں نے جن خوابوں کی خاطر خون تھوکا، آج کے زمانے میں اس کا پھل نہیں مل سکا، بلکہ سویرا یا روشنی تو کیا ہوتی الٹا اس تحریک اور جدوجہد میں بری طرح رخنہ پڑ گیا۔۔۔ وہ بہت سے صحافیوں کے منفی کردار اور صحافتی آزادی، حکومتی جبر، مختلف سماجی مسائل پر سخت برہم رہتے۔۔۔ اور ایسے معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اکثر ان کا پارا چڑھ جاتا۔۔۔ انہیں اپنے ضمیر بیچ دینے والے اور اصولوں کا سودا کر دینے والوں نے بہت اذیت دی۔۔۔

2015ء کے اوائل میں گلے کے سرطان کے باعث وہ لکھ کر بات کرنے لگے اور پھر ایک آلے کی مدد سے گفتگو کرنے کے قابل ہوئے۔۔۔ 2018ء کے آخر تک وہ ’ایکسپریس‘ کے ’میگزین مدیر‘ کے منصب پر فائز رہے، پھر علالت کے باعث صحافتی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ دیا۔۔۔ اب ہماری یہ خواہش تھی کہ ’ایکسپریس‘ کے لیے ان سے ایک انٹرویو کرلیا جائے۔۔۔ اخبارات اور مختلف صحافتی امور سے لے کر ان کی زندگی سے متعلق کتنے سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔۔۔ لیکن مصروفیات اور زندگی کے مسائل میں یوں ہی دن گزرتے چلے گئے اور پھر ’کورونا‘ کی وبا نے سارے معمولات کو ہی تلپٹ کر دیا۔۔۔ اور 11 اور 12 اپریل 2020ء کو ہماری یہ خواہش ایک دائمی حسرت میں تبدیل ہوگئی اور انہوں نے اس دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔

The post  ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کلام اقبال اور حیات انسانی کی اصلاح

$
0
0

اقبال کی دانشِ نورانی کے متعدد زاویے ہیں۔ کہیں یہ اخلاقی و نظریاتی بنیادیں رکھتی ہے تو کہیں اس کے دامن میں انسان کی ذہنی و نفسیاتی گرہوں کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے شعر پارے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حکمت آمیز کلام فلسفیانہ و مفکرانہ رنگ بھی رکھتا ہے اور اس کی شعری و فنی کرشمہ کاریوں سے بھی انکار نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ حیاتِ انسانی پر علامہ کی گہری نظر تھی اور اس کی واضح تر نمود ان کے عشق و خرد، فقر و استغنا اور خودی و بے خودی پر مبنی تصورات کی صورت میں ہوئی۔ اس کی مربوط ترین شکل ان کا  تصورِ انسانِ کامل ہے اور اقبال نے ان سب کی آمیزش سے ایک ایسے نظامِ فکر کی تشکیل کی جس کا انسانی زندگی سے بالعموم اور حیاتِ مُسلم سے بالخصوص گہرا ربط ضبط ہے۔

انھیں فلسفیانہ و حکیمانہ تصورات کا فیضانِ خاص حکمت ودانش پر مبنی اُن رمزوں کی صورت میں ظاہر ہوا جہاں علامہ عمومی طور پر انسانی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں اوراس کے نتیجے میں حیرت انگیز طور پر بے شمار حکمت آموز نکات پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں جابجا متعدد ایسے بصیرت افروز افکار موجود ہیں جہاں وہ اس قبیل کے حقائق سے باخبر کراتے ہیں کہ آئینِ قدرت اور اُسلوبِ فطرت یہی ہے کہ فرد  راہِ عمل میں گام زن رہے، تبھی وہ محبوب ِ فطرت ٹھہرتا ہے۔

ایک سچا اور کھرا انسان خاشاک کے تودے کو کوہِ دماوند نہیں کہہ سکتا، بے تگ و دو کسی کو کمال میسر نہیں آتا، اسی لیے مہ نو ہر ایک مقام سے آگے گزر جاتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں ذوقِ آشکارائی کار فرما ہے، چناں چہ زمانے میں ایسے فرد کا نگیں جھوٹا ہے جو خودی کو پہچاننے اور پرکھنے سے قاصر ہو۔ خارِ صحرا بھی اسی راز کی عقدہ کشائی کرتے ہیں کہ زندگی میں برہنہ پائی کا گلہ بے سُود ہے اور فرد کی شان اسی صورت میں قائم و دائم رہتی ہے جب  وہ چمن میں وفورِ گل دیکھ کر قناعت شعار نہ ہو بل کہ  اپنا دامن دراز تر کرتا چلا جائے کیوں کہ سختی منزل کو سامانِ سفر بنانا ضروری ہے۔اقبال کے اشعار دیکھیے :

نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد  پہچانے

نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے

جو ہے راہِ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے

مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش

خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دِماوند

ہر اک مقام سے آگے نکل گیا مہِ نو

کمال کس کو میسّر ہوا ہے بے تگ و دو

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرّے ذرّے میں ہے ذوقِ آشکارائی

زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں

جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں

فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

انسان اور انسانی زندگی پر گہری نظر کے باعث اقبال ہر کہیں ایک نباض ماہر نفسیات دکھائی دیتے ہیں اور اکثر مقاماتِ زیست پر ان کے پیش کردہ شعر پارے فرد کی تحلیل نفسی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کلام اقبال نفسیاتی ژرف بینی کی ایک نادر مثال ہے جو ایک طرف مسلم ملت کی اصلاح و فلاح کے لیے باریک تر رمزیں لیے ہوئے ہے تو دوسری جانب عمومی طور پر بھی فرد کی ذہنی و نفسی کیفیات کی عقدہ کشائی کرتا ہے۔

اقبال کے ایسے فکر انگیز ابیات فرد کی داخلی دنیا کو مزین اور مرتب کرتے ہیں اور ایسے بہت سے استفسارات کا جواب فراہم کرتے ہیں جو اکثر اوقات فرد کی ذہنی اور قلبی دنیا میں ہیجان برپاکیے رہتے ہیں۔ اقبال فرد کی ایسی نفسیاتی گرہوں کو کھولتے اور حکمت کی باتیں دل میں اتارتے چلے جاتے ہیں، چند شعر دیکھیے:

یہ آبجو کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظّارہ

اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز

بلند زورِ دُروں سے ہوا ہے فواّرہ

٭٭

جو دونیِ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز

اُس مرغکِ بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد

٭٭

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

٭٭

کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو

کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے

٭٭

ہر حال میں دلِ میرا بے قید ہے خرّم

کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند

بعض اوقات نفسیات انسانی سے متعلق اقبال کے پیش کردہ یہ خرد افروز پہلو فرد کی سماجی و معاشرتی سطح پر بھی رہ نمائی کرنے لگتے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ علّامہ کا کلام اجتماعی معاشرتی نظام کے تناظرمیں بھی فرد کی تحلیل نفسی کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ان کے ہاں متعدد ایسے شعر پارے ملتے ہیں جو معاشرے کی مجموعی فضا کے تناظر میں فرد میں بلند حوصلگی اور عالی ظرفی کے جذبات انگیخت کرتے ہیں۔

بالخصوص ہمارا سماجی ڈھانچہ جھوٹ ، تضاد اور منافقت کی دلدل میں جس بُری طرح دھنس چکا ہے، کلامِ اقبال ایسے ابتر معاشرتی نظام سے وابستہ فرد کو مثبت اور منفی سماجی اقدار کی تفریق سے نہ صرف آشنا کراتے ہیں بل کہ نہایت عمدگی سے اسے مثبت طرز حیات کو اپنانے کی ترغیب و تشویق دلاتے ہیں:

خدا وندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری

٭٭

کہے یہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو

یہ بات راہروِ نکتہ داں سے دُور نہیں

٭٭

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں

فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

٭٭

مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب

خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

٭٭

یوں بھی دستورِ گلستاں کو بدل سکتے ہیں

کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثلِ قفس

٭٭

ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں

اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا

٭٭

حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے

اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری

اقبال نفسیاتِ محبت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور اس جذبے کی حقانیت کے پیش نظر اسے فرد کی فلاح کے لیے محترم و مقدم جانتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات اس امر سے آشنا کراتے ہیں کہ جذبہ محبت کائنات میں جاری و ساری ہے اور محبت ہی سے کار خانہ ٔ قدرت کے تمام تر رنگ قائم و دائم ہیں۔ محبت فاتح عالم ہے۔ یہ وہ مے ہے جسے نازک آبگینوں میں رکھاجاتا ہے، قرینۂ ادب اس کا پہلا قرینہ ہے اوریہ جذبہ آدمی کے ریشے ریشے میں یوں سماجاتا ہے جیسے شاخِ گل میں بادِ سحر گاہی کا نم سرایت کر جاتا ہے۔ یہی وہ جذبۂ بلند ہے جو اقبال کے تصورِ عشق کی اساس ہے اور اسی سے زندگی میں تطہیر و تقدیس پیدا ہوتی ہے۔ نفسیات محبت کی رمزوں پر مبنی اقبال کے چند حکمت آمیز ابیات دیکھیے:

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

٭٭

ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق

سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

٭٭

محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا

یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

٭٭

خموش اے دل بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

٭٭

آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق

شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم

اقبال کے متعدد شعر پارے دانش آموز سماجی حقیقت نگاری کے آئینہ دار ہیں اور اپنے ہمراہ بے شمار اخلاقی ضابطے لیے ہوئے ہیں۔ ایسے ابیات بسا اوقات طعن آمیز رنگ میں مرقوم ہیں اور ان میں اقبال کے طنزیہ اسلوب کی کاٹ بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سماجی دانش کی ذیل میں علامہ نے فرد کی اخلاقیات کو ہرا عتبار سے مقدم سمجھا ہے ۔ وہ اس امر کے قائل ہیں کہ چمن میں تربیت ِ غنچہ قطعاًنہیں ہوسکتی جب تک قطرۂ شبنم، شریک نسیم نہ ہو۔ بے شک زمانے کی ہوا ہر چیز کو خام رکھتی ہے لیکن فرد کو چاہیے کہ وہ اخلاقی پختگی کے لیے کد و کاوش ضرورکرتا رہے۔اقبال فرد کی تربیت و تہذیب کے لیے بے شمار ایسے نکات پیش کرگئے ہیں جو حکمت کے اسرار لیے ہوئے ہیں۔

اقبال کی شاعری وصل کے اسباب پیدا کرتی ہے اور ان کے نزدیک ان کے فنِ شعر کا منشور یہی ہے کہ ان کی تحریر سے کسی کا دل نہ دکھے۔ چند دانش آموز اخلاقی ابیات دیکھیے جہاں اقبال بڑی عمدگی سے فرد کی رہ نمائی کرگئے ہیں:

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے

دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

٭٭

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف

٭٭

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

٭٭

چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی

نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریکِ نسیم

٭٭

ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

٭٭

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

یہاں کلامِ اقبال کے تنبیہی رنگ کا ذکر ناگزیر ہے جسے علامہ نے فرد کی اصلاح کے لیے جابجا اپنایا ہے اور جو حیاتِ انسانی میں تبدیلی اور ترقی کے لیے جزوِ لازم بھی ہے۔ انسان فطری طورپر تنبیہ وملامت کے نتیجے میں سدھرنے کے امکانات رکھتا ہے۔ علّامہ اس فطری امر سے باخبر ہیں اور ایسے فکر انگیز ابیات پیش کرگئے ہیں جو بہت حد تک زجر و توبیخ سے عبارت ہیں لیکن اس کے نتیجے میں حیاتِ انسانی کی اصلاح ممکن ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کلامِ اقبال لہجوں کے تنوعات کے باعث اپنے اصلاحی اور نصیحت آموز پیرایے میں یکسانیت سے بچ جاتا ہے۔ چناں چہ ان کے ہاں کہیں ایسا مقام مطلق دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے ناصحانہ اشعار قاری پر گراں گزریں۔ اقبال فرد کی ذہنی دنیاؤں کی تفہیم و تعبیر کی صلاحیت رکھتے ہیںاور بڑی ذہانت سے حیاتِ انسانی کو ایک نئی اور پرکشش دنیائے دانش میں داخل کردیتے ہیں۔

حیاتِ انسانی سے متعلق اقبال کے یہ دانش آموز شعر پارے نفسیاتی و سماجی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ خالص فلسفیانہ و مفکرانہ رنگ سے ہم آہنگ ہیں۔اس سلسلے میں ان کا پیش کردہ مخصوص نظام فکر و فلسفہ سرِ فہرست ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو ان کے ہاں عمومی دانش کی متعدد جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ گل کی پتی میں رازِ ہست و بود دیکھنے کے قائل ہیں اورظاہر ہے کہ یہ فرد کے اشرف المخلوقات ہونے کی قوی دلیل ہے۔

حیاتِ انسانی سے متعلق اقبال کی دانش نورانی کے یہ نکات دو گونہ لذت رکھتے ہیں۔ ایک توموضوعاتی حوالے سے ان کا اظہار خالص علمی و فلسفیانہ رنگ و آہنگ میں ہوا ہے دوسرے یہ دانش آموز رمزیں دل کش پیرایہ بیان کی حامل ہیں۔ ذیل کے اشعار میں پُر کشش اسلوب میں مرقوم اقبال کے حکمت آموز فلسفے کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں جہاں علامہ خدا، فرد اور کائنات کی مثلث کو پیش نظر رکھتے ہوئے نوبہ نو خیالات پیش کرگئے ہیں:

زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل

کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل

٭٭

موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے

اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے

٭٭

ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو

مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو

٭٭

طائرِ دل کے لیے غم شہپرِ پرواز ہے

راز ہے انساں کا دل، غم انکشافِ راز ہے

حیاتِ انسانی کو دانشِ نورانی سے ہم کنار کراتے ہوئے علامہ اکثراوقات بلند آہنگی کے استمداد سے معنی آفرینی کرگئے ہیں۔ بلند آہنگی اقبال کا کلیدی آہنگ ہے جو اپنی نہج کے اعتبار سے اقبال کے تمام تر تصورات کی بنیاد بھی ہے اور ان کے لیے قوت و حرکت کا باعث بھی__کلامِ اقبال میں مخاطبت کا پہلو کمال درجے کے شکوہ اور طظنے کا حامل ہے اور علامہ نے بڑی مہارت سے بلند آہنگی کے وصف کو تلقینِ عمل کے لیے مستعار لیا ہے۔

اقبال فطری طور پر بھی خطابت کا ذوق رکھتے تھے ، چناں چہ حیاتِ انسانی کی اصلاح کے لیے ان کے کلام میں جابجا تخاطب کی ضمیروں سے فرد کودانش آموز نکات کی جانب متوجہ کیاگیا ہے۔ اقبال کا اعتماد نفس، بلند گویائی اور تحرک و حرارت مخاطبین میں اوصافِ جلیلہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کلامِ اقبال میں دانشِ نورانی پر مبنی بے شمار نکات ملتے ہیںجو فرد کی اصلاح وفلاح کے جذبے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرقوم ہوئے۔ یہ نہ صرف شاعر کے اخلاص اور نیک نیتی پر دلالت کرتے ہیں بل کہ خالص حکیمانہ زاویے سے دیکھیں تو ان میں فرد کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے حیاتِ انسانی کے متعدد پہلوؤں کے حوالے سے رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا گیا ہے۔

 

The post کلام اقبال اور حیات انسانی کی اصلاح appeared first on ایکسپریس اردو.

فکر اقبال خطوط کے آئینے میں

$
0
0

اپنی شاعری کے حوالے سے نظر:

شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمع نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاری چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔(مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی)

بیداری امت :

آپ کا حسن زن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے حقیقت میں‘ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے (Seriously) اس طرف توجہ کی ہے۔ بہر حال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کو موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہئے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں مقصود تو بیداری سے تھا۔ اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں لیکن آپ کے اس ریمارک سے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔

مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی‘ شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملے میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔(مکتوب اقبال بنام عشرت رحمانی )

سوشلزم اور روحانیت اقبال کی نظر میں:

سوشلزم کے معترف ہر جگہ روحانیات کے، مذہب کے مخالف ہیں اور اسے افیون تصور کرتے ہیں۔ لفظ افیون اس ضمن میں سب سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا۔ میںمسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا۔ میرے نزدیک تاریخ انسان کی مادی تعبیرسراسر غلط ہے۔ روحانیت کا میں قائل ہوں۔ مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا جس کی تشریح میں نے ان تحریروں میں جابجا کی ہے اور سب سے بڑھ کر اس فارسی مثنوی میں جو آپ کو عنقریب ملے گی۔ جو روحانیت میرے نزدیک مغضب ہے یعنی افیونی خواص رکھتی ہے اس کی تردید میں نے جا بجا کی ہے۔ باقی رہا سوشلزم‘ سو اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اُٹھایا ہے۔(مکتوب اقبال بنام خواجہ غلام السیدین)

مسلمان محمدیت کا وارث ہے:

پھر ’’ مسلم‘‘ جو حامل ہے محمدیت کا اور وارث ہے موسویت و ابراہیمیت کا کیونکر کسی ’’شے‘‘ میں جذب ہو سکتا ہے؟ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ بھی ذاتی اور فطری نہیں بلکہ مستعار ہے، ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا۔(اقبال بنام مولانا گرامی )

شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں:

شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقہ کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ (1) ۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (2) ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (3)۔ بلند پرواز ۔(4) ۔ خلوت پسند ہے۔(5) ۔ تیز نگاہ ہے۔ (مکتوب اقبال‘ بنام ظفر علی صدیقی )

مسلم لیگ کو عوام کی حالت زار پر توجہ دینی ہو گی:

مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا مسلم لیگ‘ مسلمانوں کے امیر طبقے کی نماندگی کرے گی یا پھر برصغیر کے غریب مسلمانوں کی آواز بنے گی جبکہ اب تک مسلم لیگ میں نہ ان کی نمائندگی ہے اور عوام نے اس میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں لی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی تنظیم جو ایک عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کاوعدہ نہیں کرتی ہے اسے عوامی امداد اور رعایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔(مکتوب اقبال بنام محمد علی جناح )

زندہ زبان کیا ہوتی ہے؟

زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔(مکتوب اقبال ‘ بنام سردار عبدالرب خاں نشتر )

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جا ئے۔ مسلم لیگ کے پورے مستقبل کا انحصار اسی سوال کے مثبت جواب پر ہے۔ اگر مسلم لیگ کوئی ایسا وعدہ نہیں کرتی تو مجھے یقین ہے کہ برصغیر کے مسلمان پہلے کی طرح مسلم لیگ سے لا تعلق رہیں گے۔ مقام مسرت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے باعث ‘ اس مسئلے کا حل اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے فروغ کے اسباب متوقع ہیں۔ طویل اور سنجیدہ مطالعے کے بعد ‘ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قوانین کو صحیح طریقے پر سمجھا اور ان پر عمل بھی کیا جائے تو پھر ہر شخص کی بنیادی ضرورتیں قانونی طور پر پوری ہو جاتی ہیں۔(مکتوب اقبال‘ بنام محمد علی جناح )

مثنوی رومی سے گرمئی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہئے:

آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمئی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہئے۔ شوق خود مُرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں۔ اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے:

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں

ایک بھی صاحب سُرور نہیں

بہر حال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پید ا نہیں ہوتے۔(مکتوب اقبال بنام حکیم محمد حسین عرشی )

قرآن سے عشق:

’چراخ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں‘ ۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاوَں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لئے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ(قیامت کے دن) آپ کے جد امجد (حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا۔(مکتوب اقبال بنام سرراس مسعود)

اقبال کی انکساری:

کیا میں نے آپ کو کچھ سکھایا یا پڑھایا؟ آپ کو آموزش کی احتیاج ہی کب تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے افلاطون سے آپ کو روشناس کرایا۔ مگر بات وہیں ختم ہو گئی۔ ہم نے اس کو اتنا کم پڑھا کہ میں آپ کی آموزش کے اعزاز کے اقرار کا واقعی دعویٰ نہیں کر سکتا۔(مکتوب اقبال‘ بنام عطیہ فیضی )

’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق‘‘ کیسے لکھی گئی:

3 اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اُس شب بھوپال میں تھا۔) میں نے سر سید کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتماب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضد اشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئے۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی ۔’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہو گی۔14 اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے ۔ زیادہ کیا عرض کروں۔(مکتوب اقبال‘ بنام پروفیسر الیاس برنی)

The post فکر اقبال خطوط کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

چھٹیاں زیادہ۔۔۔ مگر ذرایع تفریح محدود

$
0
0

کورونا وائرس کی وجہ سے مدارس اور اسکولوں کا بند ہونا پریشان کن ثابت ہوا ہے۔ اتنے لمبے دورانیے میں بچے گھر میں کیا کریں، چوں کہ مسئلہ یہاں کورونا جیسے خطرناک وائرس کا ہے۔

بچے کھیلنے کودنے کے لیے پارکوں یا کھانے پینے کے لیے عوامی مقامات پر بھی نہیں جا سکتے، بچے گھر میں پڑھیں، تو کتنا پڑھیں، اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعے ’اسکرین‘ کا استعمال کریں تو کتنا کریں؟ بچے تو بچے ہیں۔ گھر تک محدود ہوجانے سے بچے بوریت محسوس کرتے ہیں اور پھر وہ والدین کو ہی پریشان کرتے ہیں۔

کچھ نجی اسکولوں کی جانب سے چھٹیوں میں پڑھائی کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ جو نہایت اچھا اقدام ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ  بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے دن کے مختلف حصوں میں چھوٹے چھوٹے کام ترتیب دے لیں، تاکہ بچہ گھر میں ٹکا رہے اور باہر جانے کی ضد نہ کرے۔ چند کام روزانہ کی بنیاد پر بچوں سے کروانے ہیں۔

* صبح کے اوقات میں ناشتے کے بعد اگر بچے پڑھ لیں، تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ بچوں کی پڑھائی کے لیے صبح کا وقت مناسب رہتا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچوں کی نماز کا بھی اہتمام کرائیں، قرآن پاک کا سبق بھی روزانہ کیے جانے والے کاموں میں ایک اہم کام ہے۔

*روزانہ کی بنیاد پر بچے سے اس کا کمرا صاف کروائیں۔ بکھری ہوئی چیزیں سمیٹنے کا کہیں۔ کتابیں بک شیلف میں ترتیب سے رکھوائیں، کھلونے اور دیگر اشیا ان کی جگہوں پر رکھوائیں۔ بچہ اپنی الماری بھی درست کر سکتا ہے۔

* بچے سے اس کا بستر ٹھیک کرائیں، بچہ خود اپنے بستر کی چادر ٹھیک کرے اور تکیوں کو ترتیب سے الماری میں رکھے۔

* چھے سے آٹھ سال کا بچہ کپڑے تہہ کر سکتا ہے اور الماری میں رکھ سکتا ہے۔ میلے کپڑے الگ کر سکتا ہے۔

* اس کے علاوہ بچوں سے پیپر ورک کرایا جا سکتا ہے، جس میں ڈرائنگ، کلرنگ کے علاوہ پیپر  پر مختلف اشیا بنا کر انہیں کاٹنا وغیرہ شامل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے آپ انٹرنیٹ پر بھی کاغذ سے بنی ہوئی بہت سی ایسی خوب صورت چیزوں کے بارے میں جان سکتے ہیں، جو آپ بچوں کے  ساتھ مل کر بنا سکتی ہیں۔

* گھر تک محدود ہونے والے بچوں کو روزانہ کچھ وقت کے لیے ورزش کرائیں، انہیں بندشوں کے اِن ایام میں گھر میں بھاگنے دوڑنے کی اجازت دیں اور ساتھ ہی گھر کے اندر ایسا بندوبست کریں، جس میں وہ جھول سکیں، لٹک سکیں یا دوڑ لگا سکیں، یہ ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ان کی اکتاہٹ کو بھی کم کرنے کا باعث بنے گا۔

ماہرین کے مطابق آٹھ سے 10 سال کا بچہ اپنے لیے چائے، نوڈلز، ملک شیکس، سینڈوچ وغیرہ بنا سکتا ہے۔ بچوں کو باورچی خانے میں کام کرنے سے منع نہیں کریں، بلکہ ایسا  کرنے میں ان کا ساتھ دیں، تاکہ وہ کچھ سیکھ بھی سکیں اور ان کا وقت بھی اچھی طرح صرف ہو۔

بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں بھی مشغول کیا جا سکتا ہے، جیسے تھرمو پول، کلر اور مختلف رنگوں کی شیٹیں دے کر  بچوں کو کہیں کہ ہوائی جہاز، کمپیوٹر، چڑیا گھر یا کوئی من پسند چیز بنائیں۔ البتہ ان چیزوں کی گھر میں دست یابی ہونا ضروری ہے، کیوں کہ لاک ڈاؤن کے باعث بازار سے یہ چیزیں نہیں خریدی جا سکتیں۔ کام مکمل کرنے پر بچے کو کوئی انعام دیں خواہ وہ تعریف کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

* کارٹون ہمیشہ سے ہی بچوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ اچھے کارٹون، انیمیٹڈ فلم، بچوں کے لیے بنے ٹی وی پروگرام اور ڈرامے بچوں کو دیکھنے کی اجازت دیں، مگر یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ بچے کو کسی بھی طرح کی اسکرین دینے کا وقت دو گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔

* ٹی وی کے علاوہ معیاری ویڈیو گیم، گوگل پلے اسٹور پر موجود مختلف دل چسپ ایپس جو بچے کو مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں، ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے بچوں کے لیے بنے ایپس بھی بچوں کو اپنی نگرانی میں استعمال کے لیے دیں۔

* اگر آپ کے گھر میں باغیچہ ہے یا گملوں میں پودے ہیں، تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ بچوں کو لازمی ان کی صفائی ستھرائی اور نگرانی میں اپنے ساتھ ملائیں۔ بالخصوص مرجھائی ہوئی شاخیں اور پتے صاف کرائیں، روزانہ بچوں سے ہی اِن پودوں میں پانی ڈلوائیں اور انہیں بتائیں کہ کس پودے میں کتنی مقدار میں پانی ڈالنا چاہیے وغیرہ۔

* زمانہ ترقی کر چکا ہے پرانے کھیلوں کی جگہ اب نئے کھیل ایجاد ہوچکے ہیں۔ بچوں کے ساتھ اپنے زمانے کے پرانے کھیل جیسے چھپن چھپائی، برف پانی، آنکھ  مچولی، ’نام چیز جگہ‘ وغیرہ کھیلیں۔ نئے کھیل یقیناً بچوں کو محظوظ کریں گے۔

The post چھٹیاں زیادہ۔۔۔ مگر ذرایع تفریح محدود appeared first on ایکسپریس اردو.

رمضان المبارک وبا کے زمانے میں

$
0
0

مسلمانان عالم کے لیے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ‘ رمضان کریم کا آغاز ہو چکا۔ یہ مقدس ماہ مسلمانوں کو صبر و شکر‘ قربانی وایثار ‘ محبت و ہمدردی اور ضبط نفس کے اعلیٰ جذبے اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس سال کوویڈ 19وبا کی وجہ سے سبھی مسلمان مختلف مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ ایسے موقع پر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہٰ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے محبوب صحابہ کرام نے مصائب و آلام آنے پر کس قسم کے رویّے کامظاہرہ فرمایا۔

عارضی لاک ڈاؤن نے کئی پاکستانیوں کو پریشان کرڈالا مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے آقا ﷺ تو مسلسل تین برس تک اہل مکہ کی معاشی و معاشرتی ناکہ بندی یا لاک ڈاؤن کا شکار رہے۔ سرداران قریش نے آقا ﷺ سمیت تمام بنو ہاشم کو دو پہاڑوں کے درمیان ایک احاطے (شعب ابی طالب) میں محصور کردیا تھا۔ وہاں مقید سبھی مسلمان بالغ، خواتین اور بچے چند ماہ نہیں تین سال تک بھوک، پیاس اور دیگر روزمرہ مسائل سے نبرد آزما رہے۔حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران اہل پاکستان میں سے بیشتر کو راشن میّسر رہا۔ بجلی و گیس کی سہولت بھی ملی رہی۔ لوگ فراغت سے گپ شپ لگاتے رہے۔ حکومت نے یہ ناکہ بندی اس لیے کی کہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں۔ مگر سرداران قریش نے جو لاک ڈاؤن کیا، وہ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اہل خانہ کے لیے ایک بہت کڑا امتحان تھا جس سے آپؐ سرخرو ہوکرنکلے۔ یہ واقعہ ہم پر صبر و شکر کی اہمیت واضح کرتا ہے۔

کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ خلیفہ راشد دوم ،حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں بھی دو برس تک لاکھوں مسلمانوں کو ایک نہیں دو قدرتی آفات…وبا اور قحط سے نبرد آزما ہونا پڑا تھا۔ وہ دو برس مسلمانوں پر بہت کڑے گذرے تھے۔ وہ بھوک‘ بیروزگاری اور سب سے بڑھ کر موت سے مقابلہ کرتے رہے۔ خاص بات یہ کہ اس کٹھن دور میں حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کے سب سے بڑے پشتی بان اور ہمدرد بن گئے ۔انہوں نے اسلامی ریاست میں آباد شہریوں کی فلاح و بہبود کی خاطر جو انقلابی اقدامات اٹھائے‘ وہ آنے والے حکمرانوں کے لیے سبق آموز اور روشن مثال بن گئے۔خلیفہ راشد کے اقدامات سے عوام کو یہ فائدہ ملا کہ آفات زیادہ جانی ومالی نقصان نہیں پہنچا سکیں اور وہ نہایت کٹھن وقت جھیلنے کے قابل ہو گئے۔

اس سال ماہ مقدس ایسے وقت آیا جب نئے کورونا وائرس کی پھیلائی تباہ کن وبا انسانیت پر حملہ آور ہے۔ اس کی لپیٹ میں آکر ڈیرھ لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے۔ مسلمانان عالم نے اپنے اپنے زاویہ فکر و نظر سے اس وبا کو جانچا، پرکھا۔ بعض کے نزدیک یہ بنی نوع انسان پر رب العالمین کا عذاب ہے جس نے پچھلی ایک صدی میں اعتدال پسندی کا دامن چھوڑ دیا تھا۔ وہ لالچ و ہوس اور ظلم و جبر کے بھنور میں پھنس گئے تھے۔یہ توبہ استغفار کرنے اور عبرت پکڑنے کا وقت ہے۔ بعض وبا کو مومنین کے لیے آزمائش سمجھتے ہیں جو ہر حال میں تقویٰ کا دامن نہیں چھوڑتے اور مصائب بھی صبرشکر سے برداشت کرتے ہیں۔علمائے کرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وباء کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو خبردار کیاکہ وہ گناہوں کا راستہ ترک کرکے جادہ ِحق پر گامزن ہوجائے ورنہ کرہ ارض سے اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ سائنس و ٹیکنالوجی بھی رب تعالیٰ کے اس انتباہ پر مہر ِصداقت ثبت کرچکی۔ سائنس داں خبردار کررہے ہیں کہ انسان بدستور ارضی وسائل بے پروا ئی سے استعمال کرتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک زمین کے بیشتر علاقوں میں انسانی بستیوں کا وجود تک نہیں رہے گا۔

عرب میں وبائیں

تاریخ اسلام ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ جزیرہ نما عرب کے باشندے ارضی و بحری راستوں سے بیرون ممالک تجارت کرتے تھے۔ یہی عرب تاجر پہلے پہل بیرون ملکوں میں پھیلی وبائیں عرب لائے۔ اولیّں سیرت نگار‘ ابن اسحاق نے ’’سیرت نبوی ﷺ‘‘ میں لکھا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تو عرب میں پہلی بار چیچک اور خسرہ کی وبا پھیل چکی تھی۔ اس بنا پر انیسویں صدی کے مصری عالم دین، شیخ محمد عبدہ نے سورہ الفیل کی تفسیر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ مکہ مکرمہ پر حملہ آور ابرہہ کی فوج وبا کے باعث تباہ ہوئی تھی۔سورہ الفیل میں پکی مٹی کے پتھروں سے مراد وبائیں ہیں جو ا للہ تعالیٰ کا عذاب بن کر ابرہہ پر نازل ہوئیں۔ یوں اس کے لشکر کا بھرکس نکل گیا۔

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’کیا تم نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے کہہ دیا ’’مر جاو‘‘۔ لیکن پھر انہیں زندہ کر دیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے مگر ا کثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘ (آیت 243-242)۔ممتاز عالم دین‘ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ درج بالا آیات علاقہ واسط (عراق) میں آباد یہود سے متعلق ہیں۔ جب وہاں وبا (طاعون) پھیلی تو وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ یوں وہ زندہ بچ جائیں گے۔ لیکن جب وہ اپنی نئی منزل پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں موت آ گئی۔ چند دن بعداللہ تعالیٰ نے انہیں پھر زندہ کر دیا۔ یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ انسان چاہے تو بھی اپنے اس انجام سے نہیں بچ سکتا جو اللہ تعالیٰ مقرر کر چکے۔

کتب تاریخ سے بہر حال عیاں ہے کہ جب ظہور قدسیﷺ ہوا تو وبائیں عرب میں پہنچ چکی تھیں۔اسی لیے وبا سے متعلق احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا:’’وبائیں اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں جو وہ انسانوں پر جب چاہے، نازل فرماتے ہیں۔ مگر وہ مومنین کے لیے رحمت بن جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان وبا والے علاقے میں مقیم ہے تو وہ وہیں قیام کرے۔ اللہ تعالیٰ اس صبر پر اسے انعام عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کی جو تقدیر طے کر چکے‘ وہی ہو کر رہے گا۔(اور اگر وہ چل بسا تو ) اسے شہید کا درجہ عطا ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

درج بالا حدیث سے عیاں ہے کہ وبائیں مومنین پر رحمت بن کر بھی آتی ہیں۔ وہ اس صورت میں کہ وبا سے انہیں کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتاہے۔ مثلاً دیکھا گیا ہے کہ وبا کے زمانے میں جب مسلمان مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں میں گرفتار ہوں،تو وہ توبہ استغفار کرتے اورعبرت پکڑ کر بدی کی راہ ترک کر دیتے ہیں۔ تب بھٹکے اور گناہوں سے لتھڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے وبارحمت بن جاتی ہے ۔وہ شر کا راستہ چھوڑ کر خیر کو اپنا لیتے ہیں۔گویا اللہ پاک نے اپنی قدرت الٰہی سے بظاہر شر میں خیر کے پہلو بھی پوشیدہ کر رکھے ہیں۔

قرنطینہ ،صابن اور سینی ٹائزر

ایک دوسری حدیث میں رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا: ’’وبا اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھیلتی ہے۔ مگر بیمار کو صحت مند کے ساتھ نہ رکھا جائے۔(صحیح مسلم) اسی حدیث مبارکہ سے قرنطینہ کی سائنس نے جنم لیا۔ ماضی کی اقوام بھی بیمار کو بعض اوقات علیحدہ رکھتی تھیں۔ لیکن انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیمار کو تندرستوںسے الگ تھلگ کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ ولید اول نے 707ء میں دمشق میں پہلا ہسپتال تعمیر کرایا تو وہاں فرمان نبوی پر عمل کرتے ہوئے وبائی مرض ‘ جذام کے مریض دیگر مریضوں سے الگ تھلگ رکھے گئے۔ یہی عمل قرنطینہ کی بنیاد تھا۔

بعدازاں ممتاز مسلم جوہر قابل‘ ابن سینا (متوفی 1037ء) نے قرنطینہ کا مربوط نظام وضح کیا۔ اس نظام میں وبا کے مریض کو چالیس دن تک الگ تھلگ رکھا جاتا۔ ابن سینا نے اپنے انسائیکلو پیڈیا طب (القانون فی الطب) میں اس نظام کو تفصیل سے بیان کیا ۔ انہوں نے چالیس کی مناسبت سے اپنے طبی نظام کا نام ’’ال اربعینیہ‘‘ رکھا ۔ جب اطالوی مترجموں نے اس اصطلاح کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا تو اسے ’’قرنطینہ‘‘ کر دیا۔ گویا وبا کی روک تھام اور مریضوں کی صحت یابی کا یہ جامع نظام مسلم اطبا کی تخلیق ہے ۔ اور انہیں یہ نظام وضع کرنے کی تحریک رحمت للعالمین ﷺسے ملی جو بنی نوع انسان پر شفقت فرماتے تھے۔

نبی کریم ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا۔ اسی حدیث کے باعث مسلمان جسمانی و روحانی طہارت پر بھی توجہ دینے لگے۔ کوویڈ19 پھیلنے کے بعد ہر ملک میں اربوں شہریوں پر زور دیا جانے لگا کہ وہ روزانہ بار بار بیس سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں اور ہاتھوں پر جراثیم کش مائع (سینی ٹائزر) لگائیں۔ کم ہی مسلمان جانتے ہیں کہ سخت صابن اور الکوحل کی بنیاد پر بنے سینی ٹائزر ‘ دونوں مسلم سائنس دانوں اور ہنر مندوں کی ایجاد ہیں۔ماضی میں مختلف جڑی بوٹیوں اور کیمیائی مادوں سے بابلی‘ مصری‘ اور رومی مائع صابن بنا رہے تھے مگر سخت صابن ساتویں اور آٹھویں صدی میں مسلم سائنس دانوں نے ایجاد کیا۔

مشہور مسلم جوہر قابل، زکریا رازی (متوفی 925ء)نے اپنی کتب میں سخت صابن بنانے کی متفرق ترکیبیں بیان کی ہیں۔اسی طرح ماضی کی اقوام ’’عمل تقطیر‘‘ (distillation)کے ذریعے اجناس و پھلوں سے الکوحل حاصل کر رہی تھیں مگر ان کا طریقہ کار موثر نہ تھا۔ یہ مسلم کیمیاداں مثلاً جابر بن حیان‘ الکندی اور المجریطی ہیں جنہوںنے نہ صرف عمل تقطیر سے الکوحل بنانے کا زیادہ بہتر طریقہ تجربات سے دریافت کیا بلکہ پہلی بار اسے ادویہ بنانے میں بھی استعمال کرنے لگے۔ مقصد یہی تھا کہ بیماریاں رفع کرنے والی موثر ادویہ بن سکیں تاکہ اہل اسلام کو شفایابی عطا ہو ۔ انہی نئی ادویہ میں جراثیم کش مادے (سینی ٹائزر) بھی شامل تھے۔

طاعون کی وبا

مسلمانوں کو سب سے پہلے17ہجری ( 638 ء ) میں ایک وبا سے واسطہ پڑا۔یہ خلیفہ دوم‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور تھا۔ تب فلسطین میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ اس وقت اسلامی افواج شام و فلسطین فتح کرنے کے آخری مرحلے میں تھیں۔ انہوں نے عمواس کے مقام پر ایک جنگی مستقر قائم کر لیا جو علاقے کا تاریخی شہر تھا۔ تب حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح ٰ ‘حضرت معاذؓ بن جبل، حضرت شرحبیلؓؓ بن حسنہ ‘ حضرت عمروؓ بن العاص اور حضرت ولیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جیسے جید صحابہ کرام علیہم الرضوان اسلامی افواج کے جرنیل تھے۔طاعون کی وبا پھوٹنے سے قبل شام و عراق میں قحط پھیلا ہوا تھا۔

خیال ہے کہ غذا کی تلاش میں چوہے جنگل چھوڑ کر انسانی بستیوں میں دندناتے پھرنے لگے۔ کسی چوہے کے خون پہ پلنے والے پسو(Oriental rat flea) نے انسان میں طاعون کے جراثیم منتقل کیے اور یوں علاقے میں وبا پھوٹ پڑی۔ اس وبا نے عمواس میں ڈیرے ڈالے تو اسلامی لشکر کو ازحد جانی نقصان پہنچایا۔ اسی لیے یہ وبا تاریخ اسلام میں ’’طاعون عمواس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

طاعون عمواس دو وجوہ کی بنا پر اسلامی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے۔ اول یہ کہ اس کی لپیٹ میں آکر نامی گرامی صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح، حضرت معاذؓؓ بن جبل، حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان، حضرت شرحبیلؓؓ بن حسنہ، حضرت فضلؓؓ ابن عباس، حضرت ابو مالک اشعریؓ، حضرت حارثؓ بن ہشام،حضرت سہیلؓؓ بن عمرو،حضرت ضرارؓ بن الازور اور حضرت اویس قرنیؒشامل ہیں۔ شہدا کی تعداد ’’25 ہزار‘‘ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔دوسری وجہ یہ کہ صحابہ کرام کے مابین فکر و نظر کے زاویے میں کچھ فرق کے باعث وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں مختلف آرا سامنے آئیں۔

یہ واضح رہے کہ طاعون عمواس کا آغاز محرم 17 ہجری (جنوری فروری 638ء) سے ہوا۔ وہ اواخر 18 ہجری (نومبر 639) تک جاری رہی۔ جب وبا پھوٹی تو حضرت عمر فاروقؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ اسلامی افواج کو نامی گرامی لیڈروں سے محروم کرسکتی ہے۔ انہوں نے بطور خاص شام و فلسطین میںسپہ سالار اعظم ،حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو ایک ضروری کام کی خاطر مدینہ طلب فرمالیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ خلیفہ دوم انھیں اپنا جانشین بنانے کے خواہش مند تھے۔اسی لیے انھیں وبا سے دور کرنے کی تدبیر کی گئی۔ابن طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ سمجھ گئے کہ خلیفہ راشد انہیں وبا سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تاہم وہ اپنی سپاہ کے ساتھ رہنے کے متمنی تھے۔

اس لیے انہوں نے مدینہ منورہ آنے سے معذرت کرلی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے پھر فیصلہ فرمایا کہ وہ شام و فلسطین پہنچ کر بچشم خود وبا سے پھیلی تباہی کا جائزہ لیتے ہیں۔شام کی سرحد پر سرغ نامی قصبہ آباد تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے وہاں قیام فرمایا۔ حضرت ابوعبیدہؓ بھی خلیفہ راشد سے ملاقات کرنے وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے پھر مہاجرین اور انصار سے تعلق رکھنے والے جید صحابہ کرام کا ایک اجلاس منعقد فرمایا۔ اس میں غوروخوص ہوا کہ وبا سے جنم لینے والے مسائل کیونکر حل کیے جائیں۔

بیشتر صحابہ کرام کی رائے تھی کہ اسلامی افواج کو وبا کے علاقے سے نکل کر محفوظ مقام پر ڈیرا ڈال دینا چاہیے۔ خلیفہ راشد نے ان کا استدلال قبول کرلیا۔ تاہم حضرت ابوعبیدہؓ اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’آپ کیا تقدیر الٰہی سے منہ موڑ رہے ہیں؟‘‘حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا ’’ایسی کوئی بات نہیں، ہم (ایک) تقدیر الٰہی چھوڑ کر (دوسری) تقدیر الٰہی کی طرف جارہے ہیں۔‘‘خلیفہ راشد نے پھر اپنا نکتہ اس مثال سے واضح فرمایا ’’فرض کیجیے، آپ ایسی وادی میں داخل ہوں جس کا ایک حصہ تو بنجر و اجاڑ جبکہ دوسرا حصہ سرسبز و شاداب ہو۔ اب جس حصّے میں بھی آپ نے اپنے مویشی چرنے چھوڑے،یہ تقدیر الٰہی ہے۔ لیکن آپ سرسبز و شاداب حصّے ہی کا انتخاب کریں گے۔‘‘خلیفہ راشد دوم کا استدلال تھا کہ انسان کو وبا سے بچنے کی خاطر ہر ممکن تدبیر اختیار کرنا چاہیے۔ وہ زندہ رہا یا مرگیا، یہ تقدیر الٰہی پر منحصر ہے۔بہرحال خلیفہ واپس مدینہ لوٹ گئے جبکہ اسلامی افواج اپنی جگہ قیام پذیر رہیں۔

اسی موقع پر ایک معاملہ بھی سامنے آیا۔ حدیث نبویؐ کے مطابق وبا مسلمانوں پر رحمت بن کر آتی ہے۔ لیکن طاعون عمواس سے شام و فلسطین میں جہاد رک گیا اور مسلمانوں کا خاطر خواہ جانی نقصان ہوا۔ اسی لیے صحابہ کرام کو احساس ہوا کہ یقیناً مسلمانوں میں سے بعض اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ وبا ان کے لیے بھی باعث ِزحمت بن گئی۔ ممکن ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے بطور سزا نازل فرمایا۔جب تحقیق کی گئی تو انکشاف ہوا کہ شام و فلسطین کے رہائشی کچھ نو مسلم اب بھی ماضی کی طرح شراب نوشی میں ملوث ہیں۔ اسی واسطے حضرت عمر فاروقؓ کے حکم پر ان نو مسلموں کو کوڑوں سے پیٹا گیا۔ (تاریخ طبری)۔

’’معاشرتی دوری‘‘ کا آغاز

کچھ عرصے بعد حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی لشکر کو عراقی سرحد پرواقع جنگی مستقر، الجبایہ لے آئے۔ وہیں آپ کا طاعون عمواس سے انتقال ہوگیا۔ آ پ کے بعد حضرت معاذؓؓ بن جبل سپہ سالار اعظم مقرر ہوئے مگر وبا نے جلد انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حضرت معاذؓؓکی شہادت کے بعد حضرت عمروؓ بن العاص نے افواج اسلامی کی قیادت سنبھال لی۔علامہ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمروؓ امیر لشکر مقرر ہوئے تو انہوں نے حکم دیا کہ سبھی مسلمان علاقے میں بکھر جائیں اور ایک دوسرے سے علیحدہ قیام کریں۔ ٹولیوں کی صورت انہیں جمع ہونے سے روک دیا گیا۔ اس عمل کی بنیاد یہ حدیث نبوی تھی کہ وبائی مرض میں مبتلا مریض کو الگ تھلگ کردیا جائے۔حضرت عمروؓ بن العاص نے گویا اس ’’معاشرتی دوری‘‘ (social distancing)کو اختیار فرمایا جو کوویڈ19 کی وجہ سے آج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ حضرت عمروؓ نے تب مسلمانوں سے فرمایا تھا: ’’وبا آگ کے مانند ہے۔ جب وہ گنجان آبادی میں پھیل جائے تو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن لوگ ایک دوسرے سے دور رہنے لگیں تو وہ پھیل نہیں پاتی۔‘‘

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمروؓ نے لشکریوں کو بکھر جانے کا حکم دیا تو بعض نے اس عمل کو بزدلی سے تعبیر کیا۔ ایک صحابی خاصے ناراض ہوگئے۔ وہ اٹھ کر کہنے لگے ’’میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ اللہ کی قسم، تم غلط ہو بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ تم میرے گدھے سے بھی زیادہ گمراہ ہوچکے۔‘‘

یہ خاصے سخت الفاظ تھے جو حضرت عمروؓ بن العاص کے سامنے ادا کیے گئے۔ وہ امیر لشکر تھے، چاہتے تو زیادہ سخت کلمات ادا فرماتے تاہم انہوں نے نرمی سے فرمایا ’’میں آپ کی بات کا جواب نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی آپ کو کچھ کہوں گا۔‘‘بہرحال حضرت عمروؓ کے حکم پر تمام لشکری علاقے میں پھیل گئے اور انہوںنے معاشرتی دوری اختیار کرلی۔ جب اس امر کی اطلاع حضرت عمر فاروقؓ کو ملی تو انہیں بھی یہ عمل اپنالینے کی پالیسی میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی اور اسے درست قرار فرمایا۔

درج بالا واقعے سے کوویڈ19 کا نشانہ بنے مسلمانان عالم کو تین سبق ملتے ہیں۔ اول یہ کہ اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام نے بھی وبا کے دنوں میں معاشرتی دوری اختیار فرمائی۔ یہ کوئی ناپسندیدہ فعل نہیں بلکہ حفاظت ِصحت کی خاطر اٹھایا جانے والا ضروری اقدام ہے۔دوسرا سبق یہ کہ جب امیر یا حکمران وبا کے دوران غیر معمولی اقدامات کرے تو ان کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔

یہ ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن حقیقی لیڈر جذباتی باتوں پر دھیان نہیں دیتا اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن عملی قدم اٹھاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جذبات سے انسانی جانیں نہیں بچائی جاسکتیں، عملی اقدامات اور پالیسیاں ہی ایسے موقع پر کام آتی ہیں۔تیسرا سبق یہ کہ علامہ ابن کثیر نے یہ نہیں لکھا کہ کیا اس موقع پر باجماعت نمازیں اور نماز جمعہ ادا ہوتی رہی یا نہیں۔ تاہم اس وقت چند ماہ کے لیے تمام مسلمان الگ تھلگ رہے تھے تاکہ طاعون کے جراثیم سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ نماز جمعہ اور باجماعت نمازیں عارضی طور پرموقوف ہوگئی ہوں۔ بہرحال اس بارے میں اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر جانتے ہیں۔

قحط بھی آ پہنچا

بیان ہو چکا کہ طاعون عمواس پھیلنے سے قبل شام و عراق میں قحط پھیلا ہوا تھا۔وبا کے بیشتر اثرات تو فلسطین و شام تک محدود رہے مگر آنے والے مہینوں میں جزیرہ نما عرب قحط کا نشانہ بننے لگا۔موسم گرما طویل ہوگیا اور بارش کا ایک قطرہ تک نہ برسا۔ نمی کی کمی نے فصلیں تباہ کردیں۔ حتیٰ کہ دور دور تک صحرائی گھاس بھی عنقا ہوگئی۔ خوراک و پانی کی کمی کے باعث ہزارہا مویشی مرگئے۔

دیہی علاقوں سے بدو غذا کی تلاش میں شہروں میں چلے آئے۔ غرض عرب پر شام و عراق سے بھی زیادہ شدید قحط چھاگیا کیونکہ وہ پہلے ہی خشک علاقہ تھا۔اسلامی تاریخ میں یہ سال ’’عام الرمادہ‘‘ کہلاتا ہے یعنی ’’خاک اڑنے کا سال‘‘ ۔وجہ یہ کہ اس زمانے میں جب ہوا چلتی تو ہر سمت مٹی اڑتی نظر آتی۔ زمین اتنی بنجر ہوگئی کہ جگہ جگہ سے اس کا رنگ سیاہ پڑگیا۔ اس قحط نے ’’الرمادہ‘‘ کی اصطلاح کو جنم دیا۔ ممتاز عرب ماہر لسانیات، ابن منظور کی لغت ’’لسان العرب‘‘ میں الرمادہ کی تشریح یہ لکھی ہے: ’’عظیم تباہی کا واقعہ۔ ایسی کیفیت جب انسان، پودے، مویشی اور مال ،سب کچھ تباہ ہوجائے۔‘‘

مورخ ابن سعد نے اپنی کتاب ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں لوگ ہڈیاں اٹھاتے نظر آتے تاکہ انہیں ابال کر کچھ غذائیت حاصل کرسکیں۔ نہایت بھوکے انسان جانوروں کے بل کھودتے پائے گئے تاکہ جو کچھ ملے، اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاسکیں۔ اس وقت خوراک نایاب ہونے سے بہت مہنگی ہوگئی۔ طبری بیان کرتے ہیںکہ تب ایک برتن دودھ کی قیمت چالیس درہم تک جاپہنچی ۔ یہی دودھ پہلے چند سّکوں کے عوض دستیاب تھا۔حد یہ ہے کہ سونا چاندی اور درہم و دینار بے معنی ہوکر رہ گئے کیونکہ عرب میں خریدنے کے لیے سامان خورونوش ہی موجود نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ طاعون عمواس اور عام الرمادہ کی قدرتی آفات کے دوران خلیفہ راشد دوم نے بہ حیثیت حکمران کس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ فرمایا؟

حضرت عمر فاروقؓ کے تاریخی کارنامے

ڈاکٹر جریب بن احمد الحرسی مکہ مکرمہ کی اسلامی یونیورسٹی، جامعہ ام القری سے بطور استاد وابستہ ہیں۔ آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی فقہ و طرز حکمرانی پر ایک کتاب ’’فقہ اقتصادی امیر المومنین عمرؓ بن خطاب‘‘ تصنیف کی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ قدرتی آفات کے دوران خلیفہ دوم نے عظیم الشان کردار کا مظاہرہ فرمایا اور ایک مثالی و عوام دوست حکمران بن کر نمایاں ہوئے۔ آپ کے فیصلے اور اقدامات سبھی حکمرانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پہلی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے بہ حیثیت حکمران قدرتی آفات نازل ہونے کی ذمے داری اپنے سر لے لی حالانکہ جن وجوہ کی بنا پر آفات نے جنم لیا وہ آپ کے کنٹرول سے باہر تھیں۔ مثلاً چوہوں کا انسانی بستیوں میں آنا اور وبا (طاعون) کا جنم لینا ،بارشوں کا نہ ہونا، شدید گرمی پڑنا، فصلیں اجڑ جانا، شہروں میں ہزارہا بدوؤں کی آمد وغیرہ ۔ اس کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ کا خیال تھا کہ یقینا بطور حکمران ان سے ایسی کوئی کوتاہی ہوئی جس کی بنا پر یہ قدرتی آفات نازل ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی تاویل کا سہارا نہیں لیا۔

یہی وجہ ہے، حضرت عمر فاروقؓ وبا کے جنم لیتے ہی بہت متحرک ہوگئے اور اپنی رعایا کو محفوظ کرنے کی خاطر انہوں نے کئی غیر معمولی اقدامات کئے۔ حتیٰ کہ آپ وبا کے علاقے، شام تشریف لے گئے تاکہ مجاہدین اسلام کی خیریت دریافت کرسکیں اور ان کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ یوں آپ نے اہل اسلام کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔جب قحط شروع ہوا تو سرکاری اقدامات کا سلسلہ زیادہ وسیع ہوگیا۔ کوویڈ 19 نے دنیا بھر میں جس قسم کے تباہ کن حالات کو جنم دیا اس سے عیاں ہے کہ وبا نہایت خطرناک آفت ہے۔ اسی طرح قحط بھی ایک زبردست خطرہ بن کر نمودار ہوتا اور انسانوں کو بھوک و پیاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ وبا اور قحط کے منفی اثرات کسی بھی مملکت یا ریاست کو تباہ وبرباد کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کوبھی اپنے دور میں ایک نہیںان دونوں قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونا پڑا جو نہایت غیر معمولی صورتحال تھی۔

وبا اور قحط سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے خلیفہ دوم نے مصر، شام اور عراق کے والیوں کو پیغامات بھجوائے کہ غلہ اور دیگر سامان خورونوش عرب بھجوایا جائے۔ چناں چہ ان علاقوں سے غلے کی بوریاں اور کھانے پینے کا دیگر سامان جزیرہ عرب نما پہنچنے لگا۔اس زمانے میں فلسطین قحط کا شکار نہ تھا اور وہاں وافر غلہ موجود تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ فلسطین سے حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح چار ہزار اونٹوں پر اجناس لاد کر مدینہ مشورہ تشریف لائے تھے۔ اس زبردست امداد سے بھوک پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اس طریق کار کی بدولت معاشرتی ابتری و انارکی جنم لینے کا امکان ختم ہوگیا۔ ریاستی انتظام مضبوط ہوا اور حکومت کی رٹ کو گزند نہیں پہنچا۔

بیرون ممالک سے کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور دیگر روز مرض ضروریات کا جو سامان آتا‘ وہ حضرت عمر فاروق ؓ یا آپ کے مقرر کردہ نمائندوں کی موجودگی میں ضرورت مندوں کے مابین تقسیم ہو جاتا۔ یہی نہیں‘ خلیفہ دوم نے غریبوں کے لیے سرکاری خرچ پر کھانا پکانے کا انتظام بھی فرمایا۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں مدینہ منورہ میں روزانہ چالیس ہزار افراد کی خاطر کھانا پکایا جاتا۔ بھوکوں اور غریبوں کو اتنے وسیع پیمانے پر آج تک کسی حکومت نے کھانا نہیں کھلایا تھا۔خلیفہ بھی عوام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کے لیے الگ سے کھانا تیار ہوتا ہے۔

دوسرے خلیفہ راشد دوم نے وبا و قحط کے زمانے میں اپنا طرز زندگی بالکل تبدیل کر دیا۔ آپ بصد شوق دودھ پیتے اور پنیر کھاتے تھے۔ لیکن ان دوبرسوں میں آپ نے رمضان المبارک کے دوران بھی نہ دودھ پیا نہ پنیر کوہاتھ لگایا۔ صرف سادہ روٹی‘ نمک اور کبھی کبھار تیل اس عظیم سلطنت کے والی کا پسندیدہ کھا جا رہا ۔طرز زندگی میں تبدیلی لا کر گویافاروق اعظم ؓ نے صحیح معنوں میں عوام دوست حکمران ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ سبھی مسلمانوں نے جانا کہ وہ جن تکالیف سے گذر رہے ہیں‘ حکمران وقت بھی ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس اقدام سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ کسی شہری کو صورت حالت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا خیال تک نہیں آیا۔ اسی لیے ذخیرہ اندوزی اسلامی ریاست میں عنقا رہی اور ایک بھی شے غیر ضروری طور پر مہنگی نہ ہوئی۔

غذائیت نہ ملنے پر حضرت عمر ؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔ آپ کمزور بھی ہو گئے تاہم روزمرہ معمولات میں فرق نہ آیا۔ ’’طبقات کبری‘‘ میں درج ہے کہ ایک بار خلیفہ دوم کے ملازم نے بازار سے گھی اور دودھ چالیس درہم میں خرید لیا۔ جب حضرت عمر فاروق ؓ کو معلوم ہوا تو آپ بہت خفا ہوئے ۔ آپ نے فرمایا:’’تم نے اتنے مہنگے داموں میرے لیے چیزیں کیوں خریدیں۔ میں اسراف پسند نہیں کرتا۔ جاؤ انہیں صدقہ کر آؤ‘‘۔ پھر کہنے لگے: ’’ مجھے عوام کے دکھ درد کا اندازہ اسی وقت ہو گا جب میں بھی انہی حالات سے گزروں جن سے عام لوگ گزر رہے ہیں۔‘‘

ایک بار ناقص غذا کھانے سے آپ کا پیٹ خراب ہو گیا ۔ خلیفہ راشد دوم نے پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’تم شاید گھی مانگتے ہو۔ اللہ کی قسم‘ جب تک میری رعایا کو گھی نہیں ملتا‘ وہ تمہیں بھی میسر نہیں آئے گا۔‘‘اس موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف وہاں موجود تھے۔ وہ خلیفہ راشد کی یہ بات سن کر رو پڑے اور کہنے لگے۔ ’’اے عمر! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے۔ تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے۔‘‘ (یعنی وہ آپ جیسا مثالی اور عوام دوست حکمران کہاں سے لائیں گے؟)

وبا و قحط میں حضرت عمرفاروق ؓ کو عوام کی تکالیف کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی لیے آپ نے ایسے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف فرما دی جو کھجوریں یا کھانے پینے کی کوئی اور شے چرا رہا ہو۔(مصنف عبدالرزاق ) اس حکم سے عیاں ہے کہ آپ ایک بھوکے انسان کی نہایت پیچیدہ نفسیات سے واقف تھے۔ایک بار مدینہ منورہ کے کھاتے پیتے صاحب حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور شکایت کی کہ ان کے ملازمین کھانا چوری کر رہے ہیں۔ خلیفہ نے تحقیق کرنے کا وعدہ فرمایا۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ وہ صاحب اپنے ملازمین کی ضرورتیں پوری نہیں کرتے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ اپنے ملازموں کی ضرورتیں پوری کرو ورنہ اصل میں سزا تمہیں ملے گی۔اسی طرح آپ نے زکوٰۃ ادا کرنے کے حکم میں بھی نرمی فرما دی۔ آپ نے دونوں برسوں کے رمضان المبارک میں اعلان فرمایا کہ صاحب استطاعت اپنی سہولت سے زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔

وبا اور قحط کے زمانے میں حضرت عمر فاروق ؓ کا تیسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں‘ غریبوں اور مفلسوں کا مدد گار بن جانے والا ایک جامع سرکاری معاشرتی نظام وضع فرمایا۔ آپ اور آپ کے نمائندے زکوٰۃ ‘ انفاق اور صدقے کے ہر عمل کی نگرانی فرماتے ۔ وقف کا ادارہ بھی پوری طرح کام کرنے لگا۔ حتیٰ کہ آپ نے بوڑھے و معذور غیر مسلموں کے لیے بھی وظائف مقرر فرمائے۔ یوں سوشل سکیورٹی کا ایسا بہترین نظام قائم کر دیا جو دور جدید کے اسکینڈے نیویا ممالک میں دکھائی دیتا ہے۔

اسی دوران بیت المال کے ادارے کو بھی مضبوط و توانا بنایا۔ اس کے تمام وسائل عوام کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں پر خرچ ہونے لگے۔ مورخین اسلام لکھتے ہیں کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کا تعین کرنے کے لیے خلیفہ راشد دوم نے ایک انوکھا تجربہ فرمایا۔آپ نے سب سے پہلے ساٹھ غریب جمع فرمائے۔ اس کے بعد ان کے لیے روٹیاں پکائی گئیں۔ پھر گوشت کا سالن پکایا گیا۔ اب طعام کا آغاز ہوا۔ جب سب پیٹ بھر کر کھا چکے‘ توانہیں رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ دیکھا کہ ساٹھ افراد کے کھانے پینے پر کون کون سی شے کتنی استعمال ہوئی ہے۔ جب ہر شے کا حساب کتاب ہو چکا‘ تو آپ نے حکم دیا: ’’وبا و قحط سے متاثر ہر مفلس کو فلاں فلاں شے ہر ماہ اتنی مقدار میں بیت ا لمال سے فراہم کی جائے۔‘‘

یہ عیاں ہے کہ آفتیں آنے پر صورت حال غیر معمولی ہو جاتی ہے۔ تب عوام دوست حکمران انوکھے تجربے کرتے ہیں تاکہ مصائب وآلام میں گرفتار اپنی رعایا کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی اجتہاد سے کام لے کر ریاست میں عدل و انصاف کا ایسا مثالی نظام قائم کر دیا کہ ایک غریب کو بھی اتنی ہی غذا میسر آنے لگی جو امیر کو دستیاب تھی۔

وبا و قحط کا مقابلہ کرتے ہوئے خلیفہ راشد دوم کا پانچواں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے شعبہ خوراک کو ترقی دینے اور محفوظ بنانے کے سلسلے میں اہم اقدمات کیے ۔ آپ نے فوری طور پر تمام علاقوں کے والیوں کو ہدایت دی کہ وہ اسوہ حسنہﷺ اختیار کر لیں۔ جب غذا کی مقدار کم ہوتی تو رسول کریم ﷺ کا طریقہ عمل یہ تھاکہ آپؐ تمام مسلمانوں کے گھروں سے کھانا منگوا کر ایک جگہ جمع فرما لیتے۔ ظاہر ہے‘ صاحب استطاعت مسلمانوں کے گھروں سے زیادہ کھانا آتا ۔ جب کہ غریب مسلمان اکثر اوقات کچھ نہ دے پاتے۔ اس کے بعد کھانا برابر مقدار میں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اسی طرح کوئی بھوکا نہ رہتا۔ وبا و قحط کے دور میں اس بہترین سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بدولت بھوک و پیاس مٹانے میں بہت مدد ملی۔جب قدرتی آفتیں ختم ہو گئیں تو حضرت عمر فاروق ؓ نے کھیتی باڑی‘ باغبانی ‘ کٹائی اور غذا محفوظ کرنے کے اعمال میں جدتیں متعارف کرائیں تاکہ شعبہ خوراک کو ترقی یافتہ ‘ منظم اور مضبوط بنایا جا سکے۔

قدرتی آفات سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے خلیفہ راشد دوم نے سلطنت کا انفراسٹرکچر یا انتظامی ڈھانچا بھی مضبوط و موثر بنایا جو آپ کا ا یک اور کارنامہ ہے۔آپ نے شام، عراق، مصر اور یمن سے آنے والے راستوں پر عسکری چوکیاں بنوائیں اور سرائیں بھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان ممالک سے جو مال و اسباب عرب آرہا ہے، اس کی حفاظت ہوسکے اور آنے والوں کو سفری تکالیف سے بھی نجات مل سکے۔ وبا اور قحط ختم ہوئے تو حضرت عمرؓ نے والی مصر، حضرت عمروؓ بن العاص کو حکم دیا کہ وہ دریائے نیل سے ایک نہر نکال کر بحر احمر تک لے آئیں۔ مقصد یہ تھا کہ مصر سے اجناس جلد عرب تک پہنچ سکیں۔ یوں خلیفہ راشد دوم نے نہ صرف خوراک کی نقل حمل اپنے اقدامات سے سہل بنائی بلکہ اس کی سکیورٹی کا بھی جامع انتظام فرمایا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا ساتواں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے وبا و قحط کے دوران عوام کو بعض مراعات دے ڈالیں۔ مثلاً زکوٰۃ تاخیر سے لینے کا اعلان فرمایا۔ پہلے غربا کے شیر خوار بچوں کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا، اب پیدا ہوتے ہی ملنے لگا۔ حتیٰ کہ کچھ سزائیں بھی موقوف کردی گئیں۔ تاہم خلیفہ راشد دوم نے طبقہ بالا کو نہ صرف ان رعایات سے دور رکھا بلکہ ان پر زیادہ سختی ہونے لگی۔ مثال کے طور پر جن امراء کی زمینیں ویران پڑی تھیں، انہیں کہا گیا کہ وہ زمینوں پر کھیتی باڑی شروع کرائیں ورنہ حکومت انہیں ضبط کرکے ایسے لوگوں کو دے گی جو وہاں زرعی سرگرمی شروع کرسکیں۔

غرض حضرت عمرؓفاروق نے وبا اور قحط کے مسائل سے مقابلے کی خاطر جو بندوبست کیے، ان کی بدولت سلطنت اسلامی کے خصوصاً غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس قابل ہوگئے کہ انتہائی مشکل وقت میں بھی بھوک پیاس کا بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ انہیں یہ ہمت و حوصلہ اپنے بے مثال خلیفہ کے ناقابل فراموش عملی اقدامات ہی سے حاصل ہوا۔مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓفاروق اکثر راتوں کو یہ دیکھنے کے لیے گشت فرماتے کہ کوئی شہری دکھ و تکلیف میں مبتلا تو نہیں۔ اگر کوئی خاندان کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا، تو اسی وقت اس کی امداد کی جاتی۔ حتیٰ کہ بعض اوقات خلیفہ راشد دوم اپنی کمر پر سامان خورونوش لاد کر مصیبت زدہ کے گھر تک پہنچاتے۔

مصائب و آلام کے اس دور میں خلیفہ روزانہ نماز فجر میں امامت بھی فرماتے۔ تب آپ کا معمول تھا کہ بعداز نماز مسلمانوں سے فرماتے ’’مجھے نہیں معلوم کہ وبا و قحط بہ حیثیت خلیفہ میری کوتاہیوں سے نازل ہوئیں یا ان کا موجب قوم کے گناہ بنے ہیں۔ لیکن آئیے، اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کریں تاکہ وہ اپنی مہربانی و کرم سے ہمیں ان تکالیف سے نجات دلادیں۔‘‘

یہ ممکن ہے کہ کوویڈ 19 کے باعث اس بار رمضان المبارک مختلف طریقے سے بسر ہو اور مسلمانان عالم کو غیر روایتی اندازاختیار کرنا پڑیں ۔شاید وہ سحروافطار،تراویح اور عید خریداری کی روایتی خوشیوں سے کسی حد تک محروم رہ جائیں۔اس عالم میں ہمیںنبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی رحمت و کریمی سے ہمیںوبا کی آفتوں سے نجات دلاسکیں۔ رب للعالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو جادہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

The post رمضان المبارک وبا کے زمانے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

قدرتی آفات اور عذاب

$
0
0

جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اس پر قدرتی آفات کا نزول ہوتا رہا ہے۔ اس کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی۔ حتمی تعین اس لیے نہیں ہوسکا کہ اس وقت قمری اور شمسی تقویم کا رواج نہیں پاسکا تھا کیوںکہ کائنات اس وقت اپنی ارتقائی منازل طے کررہی تھی۔ مذہبی کتب و تواریخ کسی واقعے کی نشان دہی کرتی ہیں تو اس طرح کہ یہ وقوعہ طوفان نوح سے قبل یا بعد میں پیش آیا۔ پھر اس کو قبل مسیح سے دو ہزار پانچ قبل بتلایا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد صحیح تقویم کا پتا چلتا ہے ورنہ زیادہ تر طوفان نوح ہی سے اندازے لگائے گئے۔

طوفان نوح دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش واقعہ جسے تاریخ انسانی صدیاں گزر جانے کے باوجود فراموش نہیں کرسکی وہ ایک پانی کا سیلاب تھا جو حکم الٰہی کے تحت ایک مخصوص تنور کے ذریعے ابلا اور روئے زمین پر اس تیزی سے پھیلا کہ کسی بھی جاندار کے لئے مفر ممکن نہیں رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کوہ جودی کی چوٹی کو چھونے لگا یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس سے جالگی۔ آپ علیہ السلام اپنے 70 تا 80 پیروؤں کے ہمراہ سلامتی کے ساتھ وہاں اتر گئے۔ اس میں آپ علیہ السلام کے تین بیٹے سام، حام، یغوث اور ان کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ اس طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام کی کافرہ بیوی واعلہ اور نافرمان بیٹا کنعان جو کہ ایک بہترین تیراک تھا پیغمبر کی نظروں کے سامنے غرق ہوگئے یہ سیلاب نہیں بلکہ عذاب کی ایک شکل تھی جو نافرمانی اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کے لیے ایک سزا بنی۔

حضرت نوح علیہ السلام کے خطۂ نبوت میں پوری انسانیت ملیامیٹ ہوگئی تھی اس خطے میں طوفان کے بعد جس آبادی کا وجود ملتا ہے وہ صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کی نسل یا پھر کشتی میں سوار نیک لوگوں کی نسل سے ملتے ہیں بس اسی وقت سے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب آدم ثانی پڑگیا۔ اس واقعے کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے ترجمہ ’’یہاں تک ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے (نرمادہ) سوار کرالے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوائے ان کے  جن پر پہلے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی۔ اس کے ساتھ ایمان والے بہت کم تھے۔‘‘ (سورۂ ہود آیت 40)

مفسّرینِ کرام لکھتے ہیں تنور کے ساتھ چشموں اور آسمانوں کو بھی حکم ہوا کہ وہ تیزی سے پانی خارج کرنا شروع کر دیں وہ حکمِ الٰہی کے طابع تھے اپنے فرائض بلا تاخیر ادا کیے زمین کو جل تھل کردیا یہ عمل 7دن تک جاری رہا ایسے میں صرف ایک نوحؑ کی کشتی تیر رہی تھی اور پوری مشرک اور نافرمان قوم اس میں غرق ہو گئی اور ان کا نام لیوا کوئی نہ بچا۔

حضرت لوط ؑ کی قوم معاشرے میں ایک بڑے گھناؤنے فعل میں مبتلا تھی جس کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے گذرنے والے لوگ ہو۔ مگر اس کی قوم کا جواب اسکے سوا کچھ نہ تھا کہ نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے (یہ) بڑے پاک باز بنتے ہیں۔‘‘ (سورئہ اعراف آیات 80تا 82)

ہم جنس پرستی ایک ایسا موضوع ہے جو زمانہ قدیم سے آج تک چلا آرہا ہے یونان دنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جس نے اس فعلِ قبیح کی حوصلہ افزائی کی۔ رہی سہی کسر جدید مغرب نے پوری کردی اسے آئینی حیثیت دے کر مکمل تحفظ فراہم کردیا۔ پچھلے سالوں ایک خبر تمام بڑے اخباروں کی زینت بنی کہ مغرب کے ایک ملک میں دو ہم جنس پرستوں نے شادی کرلی ہے۔ گویا ایسا کرکے اس ملک کے حکم رانوں اور عوام نے اﷲ تعالیٰ سے کھلی دشمنی کا اعلان کردیا ہے۔ ایک ملک سیلاب تو دوسرے میں بم دھماکے یہ ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

حضرت لوط ؑ کی قوم ہر قسم کی اخلاقی تعلیم سے بے بہرہ تھی کسی میں انہیں ٹوکنے کی جرّأت نہ تھی وہ کسی بھی قسم کی اصلاح کے لیے تیار نہ تھے وہ پاکی کے اُس آخری عنصر کو بھی فضاء سے نکال دینا چاہتے تھے جو ا ن کی گھناؤنی فضا ء میں باقی رہ گیا تھا۔ بس اب وقت آچکا تھا کہ اﷲ تعالیٰ ان کا استحصال کرکے انہیں ان کے انجام تک پہنچا دے اس نے اپنا عذاب اس قوم پر بھیج دیا۔ ارشاد فرمایا ترجمہ ’’سو ہم نے لوط ؑ اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کہ جو ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور ہم نے اُن پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا کیسا انجام رہا۔‘‘ (سورئہ اعراف آیات 84-83) حق تعالیٰ نے اس قوم کا ایک ایک فرد ایک مخصوص (پتھروں کی) بارش سے ختم کردیا۔

قدیم قوم عاد اولیٰ اور سام یہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں یہی قوم جب مصر پہنچی تو عمالقہ کہلائی اس قوم کا زمانہ دو ہزار سال قبلِ مسیح بتایا جاتا ہے ان کا علاقہ احقاف جو حضرِموت کے شمال میں واقع ہے بتایا جاتا ہے اس قوم کے آثار اب بھی یہاں پائے جاتے ہیں ان کا دارالحکومت یمن تھا اور یہ عربی النسل تھے۔

جسمانی اعتبار سے یہ بڑے طاقت ور لوگ تھے اور اقتدار میں بھی رہ چکے تھے لہٰذا ان کی دماغی صلاحیت کا تاریخ نے بھی اعتراف کیا ہے۔ البتہ یورپی مصنفین انہیں مذہبی کم علمی کی بناء پر فرضی کہانی تصوّر کرتے ہیں۔ یہ قوم نقل مکانی کرتے کرتے اسرائیل تک پہنچ گئی۔ مذہبی طور پر یہ بت پرست تھے ان کے خدا بھی وہی تھے جو حضرت نوح  ؑ کی امّت کے تھے یعنی ودّ، یغوث، سواع، یعوق نسر۔ حضرت عبّاس ؓ کی روایت کے مطابق ہتار اور صمود بھی ان کے خدا تھے۔ یہ اپنی سرکشی اور نادانی میں حد سے بڑھ گئے تھے تو انہیں میں سے حق تعالیٰ نے حضرت ہودؑ کو ان پر پیغمبر بنا کر بھیجا مگر اس امّت نے بھی دیگر سابق امم اور ملل کی طرح نبوّت اور اس کی تعلیمات کا انکار کیا کہنے لگے تم تو ہماری طرح کے ہی انسان ہو نبی کیسے ہو سکتے ہو؟ آج ہم سے زیادہ شان و شوکت اور جبروت کا مالک کون ہے؟ قرآنِ حکیم نے اس قوم کا ذکر 6 مقامات پر کیا ہے۔

ان کی نافرمانی کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ نے اپنا عذاب ان پر بھیجا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ’’پھر ہم نے بھیجی ان پر بڑے زور  کی آندھی جو کئی دن چلی یہ مصیبت کے دن تھے تاکہ انہیں اپنی زندگی میں عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت میں تو پوری رسوائی ہے اور انہیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔‘‘ (سورۂ حم السجدہ آیت 15) یہ قوم ہوا کے عذاب سے ہلاک ہوئی جو ان پر سات دن تک چلتی رہی۔ پھر زمین پر کوئی ایک فرد اس قوم کا نام لیوا نہیں بچ سکا۔

حضرت ہود ؑ کے ساتھ جو لوگ عذاب سے بچ گئے تھے وہ حضرت صالح  ؑ کے وقت میں قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہیں عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ الحجر کے مقام پر آباد تھے جو مدینہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے یہاں ایک ریلوے اسٹیشن بھی ہے جو مدائنِ صالح کے نام سے مشہور ہے آج کل اس علاقے کو فج الناقہ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ آثارِقدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ بڑی طاقت ور قوم تھی جو پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنایا کرتی تھی اس وقت اس مقام کی آبادی 4 سے 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی اس قوم کے آثار اب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی 9 سورتوں میں تقریباً 50 مقامات پر انکا ذکر موجود ہے۔

مذہبی اعتبار سے انکا بھی کوئی مذہب نہیں تھا یہ بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے اور کئی خداؤں کی تعظیم ان کا مسلک تھا ان کی ان بداعمالیوں کی بناء پر اﷲ نے حضرت صالح ؑ کو ان پر مبعوث کیا۔ آپ کی تبلیغ سے صرف چند غریب افراد ایمان لائے باقی تمام امرا و رؤسا شرک پر ڈٹے رہے اور ان سے معجزہ طلب کرتے رہے آخر کار آپ نے اپنے رب سے دعا کی اور ان کے لیے معجزہ طلب کیا۔ چناںچہ اونٹنی والا مشہورومعروف معجزہ آپ کو عطا کیا گیا جس کا ذکر اس طرح سے آیا ہے۔ ترجمہ ’’یہ اونٹنی تمھارے لیے ایک معجزہ ہے لہٰذا اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی زمین پر چرتی پھرے اس کو کسی بُرے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تم کو آپکڑے گا۔‘‘ (سورۂ اعراف آیت 72)

مگر وہ سرکش قوم اتنے واضح معجزے کے باوجود ایمان نہ لائی اور وہ اونٹنی کو مارنے کے منصوبے بناتے رہے۔ آخر ایک دن اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اس کا۔ بچّہ پہاڑی پر چیختا ہوا بھاگا اور غائب ہوگیا۔ اور بھلا پھر اﷲ سے سچّی بات کس کی ہوسکتی ہے۔ چناںچہ وہ دردناک عذاب آکر رہا جس کے بارے میں حضرت صالح  ؑ انہیں تنبیہ کررہے تھے۔ ترجمہ ’’اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا یہ حال ہوا کہ ایک روز کی کڑک نے نے انہیں آلیا جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروں میں منہ کے بل اوندھے پڑے تھے گویا ان گھروں میں کبھی بَسے ہی نہ تھے تو سنو ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ہاں سن رکھو ثمود کے لئے محرومی ہوئی ہے۔‘‘ (سورۂ ہود آیات 66تا 68) اب اس قوم کا ایک فرد بھی اس دنیا کے کسی بھی خطّے میں موجود نہیں ہے۔ آپ کی تبلیغ سے صرف 120افراد ایما ن لائے جو آپ کے ساتھ رہے۔

حضرت شعیب ؑ کی قوم کو اصحابِ مدین اور اصحاب الایکہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن حکیم میں 4 سورتوں میں آیا ہے۔ الحجر 78، الشعراء 176، ص 13اور ق آیت 14مدین انکے مذہبی شہر کا بھی نام ہے اور قبیلے کا نام بھی۔ اس کا پرانا نام حیسون جابر ہے اسی مقا م پر اصحابِ سبت کا واقعہ پیش آیا۔ ایکہ کا نیا نام تبوک ہے جو یاقوت نے محجم البلدان میں لکھا ہے۔

اس قوم میں مذہب کے علاوہ سماجی اور معاشرتی برائیاں بھی تھیں۔ مثلاً یہ بڑی شاہراہوں پر بیٹھ کر لوٹ مار اور ڈکیتیاں وغیرہ کیا کرتے تھے اور دوسری بڑی برائی ان میں یہ تھی کہ جب کسی سے کوئی چیز لیتے تو پوری لیا کرتے تھے اور جب دینے کا وقت آتا تو ناپ تول میں کمی کردیا کرتے تھے۔ ان برائیوں کو ختم کرنے کی خاطر اﷲ نے حضرت شعیب ؑ کو پیغمبر بنا کر ان پر مبعوث کیا ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمھارے رب کی جانب سے واضح دلیل آچکی پس تم ناپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دیا کرو۔‘‘ (الاعراف آیت 85) ایک حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا سخت ظلم مسلّط کردیا جاتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ حدیث نمبر 19۔40) یہ حدیث آج کے تاجران کے لیے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

حضرت شعیب ؑ کی تبلیغ کے باوجود یہ قوم ان برائیوں سے باز نہ آئی اور کہنے لگی ترجمہ ’’اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تجھے اپنے اندر کم زور پاتے ہیں۔ اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں سمجھتے۔‘‘ (سورئہ ہود آیت 91)

قوم کے ایسے ہی بے ہودہ جواب پر غضبِ الٰہی جوش میں آتا ہے اور پھر وہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا اور عذاب الٰہی ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔ فرمایا ترجمہ ’’پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ (سورئہ اعراف آیت91) اس طرح وہ پوری قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوگئی۔ عذاب کا سبب ان مذکورہ قوم پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ان پر انھی میں سے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ انہوں نے حق کا پیغام بلا کم و کاست امّت تک پہنچایا مگر ان کی قوم نے ان کی تعلیمات پر کوئی توجہ نہ دی اور وہ شرک پر ڈٹے رہے۔ شرک ایک ایسا مذموم فعل ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے، کیوںکہ یہ اﷲ کی چوکھٹ سے غیر کی چوکھٹ پر لے جاتا ہے پھر پیغمبروں کی تکذیب اور ایذارسانیاں جیسے امور پر امّت پر اجتماعی عذاب نازل کرکے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ صرف ہمارے پیا رے نبیﷺ کو یہ امتیاز و اعزاز حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی امت پر اجتماعی عذاب نازل نہ ہوگا کیوںکہ اس دین کو قیامت تک باقی رہنا ہے۔

تمام امم اور ملل کے لیے آپﷺ پر ایما ن لانا شرط ہے۔ مسلم امّہ تمام دنیا پر محیط ہے یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کی امت پر اجتماعی عذاب اس لیے نازل نہیں ہوگا کہ اس میں تمام کفّار و مشرکین کی ہلاکت کا اندیشہ موجود ہ ہے۔

The post قدرتی آفات اور عذاب appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا وائرس آنکھوں کے ذریعے پھیل سکتا ہے؟

$
0
0

آنکھیں انسان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ کہا جاتا ہے آنکھیں بولتی ہیں۔لیکن بولتی آنکھوں کی زبان سمجھنا ضروری ہے کیونکہ وہ پیغام جو لفظ پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں، وہ آنکھیں لمحوں میں پہنچا دیتی ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آنکھوں کا خیال رکھا جائے۔

ہمارے اردگرد ماحول میں گرد وغبار اس قدر موجود ہے کہ ناچایتے ہوئے بھی ہماری آنکھیں اس سے متاثر ہوتی ہیں اور نتیجتاً مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں اور ان کی صحت و حفاظت سے جڑے کئی سوالات کے جوابات کی تلاش اس انٹرویو کا محرک بنی اور شاہینوں کے شہرسرگودھا سے تعلق رکھنے والے آئی سرجن ڈاکٹر فضل محمود تک لے گئی۔ ان سے کئے ٹیلیفونک انٹرویو کا احوال کچھ یوں ہے؛

ایکسپریس: کیا آنکھوں کے ذریعے کوئی وائرس پھیل سکتا ہے؟

ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر تین جگہوں سے وائرس پھیلتا ہے جوکہ آنکھیں منہ اور ناک ہیں۔ اگر وائرس زدہ ہاتھ آنکھوں کو لگا دیئے جائیں تو وائرس پھیلتا ہے۔

ایکسپریس: عمومی طور پر آنکھوں کی بیماریاں کونسی ہیں؟

ڈاکٹرفضل: آنکھوں کی تو بے شمار بیماریاں ہیں، کچھ الرجیز ہیں، انفکشن ہیں، کچھ Congenital ہیں جوکہ موروثی بیماریاں یا پھر ٹروما کی وجہ سے ہوسکتی ہیں پھر اس میں متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جیسے عمر اور ماحول وغیرہ۔ عموماً ہمارے ہاں الرجی کے مریض بہت زیادہ آتے ہیں، یا جن مریضوں کی بلڈپریشر کی وجہ سے آنکھیں متاثر ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر الرجی اور انفکیشن کے مریض ہی زیادہ آتے ہیں۔

ایکسپریس: شوگر کے مریضوں کے آنکھوں میں اکثر خارش اور چھبن رہتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آنکھوں میں ریت چبھ رہی ہو۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور ایسی صورت میں مریض کو کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹرفضل: ہمارے ہاں الرجی کا موسم شروع مارچ سے لے کر جون جولائی تک چلتا ہے جس میں الرجی کے زیادہ کیسز آتے ہیں۔ الرجی کی وجہ سے آنکھوں میں زیادہ خارش ہوتی ہے۔ ایسے میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنی چاہیے۔ عموماً ہمارے ہاں سیلف میڈیکیشن ہوتی ہے۔ لوگ خود سے ہی دوا لیتے ہیں جو قطرے ڈالتے ہیں وہ سٹیرائڈز (Steroids) ہوتے ہیں جن سے فوری طور پر تو خارش میں کمی واقعہ ہوتی ہے مگر اس کے زیادہ استعمال سے کمپلیکیشنز شروع ہوجاتی ہیں۔ جس سے کالا موتیا کے چانس ہوتے ہیں۔ الرجی کے لیے خصوصی دوائیں موجود ہوتی ہیں جنہیں چیک کرواکر ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی استعمال کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: آنکھوں میں خارش کی بڑی وجوہات کیا ہیں اور کچھ لوگوں کی آنکھیں خشک رہنے لگتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا اس سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے؟

ڈاکٹرفضل: آنکھوں میں خشکی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عموماً ہمارا ماحول اور آب و ہوا کیوں کے گرم مرطوب ہے وہ آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح لمبے عرصے تک دواؤں کے استعمال سے بھی آنکھوں میں خشک پن آجاتا ہے جیسے کالے موتیے کے مریض ہیں ان کو کیونکہ دوائیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا پڑتی ہیں، یا پھر کچھ مستقل امراض کے مریض جیسے کہ جوڑوں کا درد ان میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور ایسے میں اگر مصنوعی آنسوؤں کا استعمال نہ کیا جائے اور یہ بڑھ جائے تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ آنکھ کا سرفیس خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے جو اور کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسے میں بروقت علاج شروع نہ کروایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی پچیدگیوں سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس: کیا نارمل آئی چیک اپ کے دوران کالے موتیا کی شناخت ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر پیشنٹ یہ علامات محسوس کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہورہی جب ڈاکٹر کے پاس جائے گا تو پھر معلوم ہوگا۔ مگر عموماً ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو محسوس ہوکہ نظر کمزور ہورہی ہے تو وہ آپٹو مٹرسٹ (Optometrist) ماہر بصارت کے پاس چلے جاتے ہیں۔جہاں وہ کوئی نہ کوئی نمبر گلاسز میں لگادیتے ہیں اور مریض کو لگتا ہے کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ کی ویژن کم ہورہی ہے تو آپ ڈاکٹر کو ضرور چیک کروائیں تاکہ وہ اس کو پراپر چیک کرے اور اس کی اصل وجہ تلاش کرسکے۔ نظر کم تو بہت سی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے جیسے عمر، موتیا اور دیگر وجوہات اس کے پیچھے کار فرما ہوسکتی ہیں۔ سوخالی عینک لگا دینا اس کا حل نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس:موتیا کیوں ہوجاتا ہے اور ایک عام انسان اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟

ڈاکٹرفضل:موتیا کی دو اقسام ہیں ایک (Catoracts) جسے عام لوگ سفید موتیا کہتے ہیں جس کا علاج ممکن ہے اورآپریشن کے بعد ویژن بلکل صاف ہونے لگتا ہے۔ دوسرا کالا موتیا ہے جس کا پہلے ذکر ہوا اس میں ویژن (بینائی) آہستہ آہستہ متاثر ہوتی ہے یا اچانک سے اس کا اٹیک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جو بینائی جاتی ہے وہ واپس نہیں ملتی۔ مریض کا بینائی کی کمزوری کو محسوس کرنا اس کی علامت ہے سو اگر جلدی معلوم ہوجائے تو آج کل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سرجری کردی جاتی ہے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہو تو آرٹیفیشل لینز کا بھی ڈال دیئے جاتے ہیں۔

ایکسپریس: آج کل لیئزر سرجری کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے، خصوصاً عینک سے چھٹکارا پانے کے لیے تو کیا اس کے اثرات و نتائج دیرپا ہوتے ہیں اور کیا اس کے کوئی نقصانات ہیں؟

ڈاکٹرفضل: عموماً اٹھارہ یا بیس برس میں نظر سٹیبل ہوجاتی ہے کیونکہ لیئزر سرجری جوکہ گلاسیز ریمو کرنے کے لیے کی جاتی ہے، اس کے لیے نظر کا ایک جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر ایک اور چیز ہے کہ پہلے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور آنکھ کا جو کالا پردہ ہمیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس کی موٹائی چیک کی جاتی ہے کیونکہ لیئزر کے ساتھ اس کو کاٹا جاتا ہے۔ پھر نمبر دیکھنا ہوتا اس کے ساتھ دوسری بہت سے چیزیں جیسے کہ کوئی بیماری تو نہیں کہ پردہ پیچھے ٹھیک ہیں یا نہیں نمبر ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے کہ نہیں کوئی مورثی بیماری تو نہیں۔ پھر ایک خاص حد تک کے نمبر کے لیے لینز کی جاسکتی ہے۔

7 سے 8 نمبر تک آسانی سے ہٹاسکتے ہیں۔ مریض کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد اور ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی یہ مشورہ دیا جاتا ہے۔ باقی اس کی اپنی پیچیدگیاں ہیں جیسے جو خشک آنکھوں (Dried eyes) والے مریض ہوتے ہیںان کو سرجری ریکمنڈ نہیں کرتے۔اس کے علاوہ بعد میں ڈرائی نیس فیل ہونا شروع ہوجانی ہے تو اگر ڈرائینس ہو یا الرجی ہو یا کوئی اور آنکھوں کے پردوں کا مسئلہ ہو تو پھر سرجری نہیں کرتے۔ اگرسرجری کرنے کے بعد آنکھوں میں خشکی یا نمبر دوبارہ آجائے تو ایسا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔

مگر اس کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیئزر سرجری کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ پی آر کے، لیسک اور فیمؤبیسک اور آجکل اس کی ایک نئی قسم آئی ہے جوکہ سمائل لیئزر سرجری کہلاتی ہے۔

کچھ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ پی آر کے اس حوالے سے بہتر ہے کیونکہ لیسک میں ایک فلیئر بناتے ہیں جس کی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں خصوصاً سرجری کے دوران اور اس کے بعد بھی۔ لیکن زیادہ تر لیسک ہی تجویز کی جاتی ہے کیونکہ اس میں جلد بہتری ہوتی ہے اور درد بھی کم ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی آر کے میں ریکوری دیر سے ہوتی ہے۔ آنکھوں سے بلیڈنگ ہوتی ہے اور درد رہتا ہے۔ اس کے علاوہ فیمٹو لیسک ہے جس میں ایکوریسی (Accuracy) زیادہ ہے اور نظر بہت جلد بحال ہوجاتی ہے۔ لیئزرٹریٹمینٹ مہنگاہے چونکہ لینز مشین کافی مہنگی ہوتی ہے تو اس حساب سے ان کے چارجز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

ایکسپریس: آنکھوں کے پردے کمزور ہونے سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹرفضل: آنکھوں کے پردے جسے ہم ریٹینا (Retina) کہتے ہیں اس کو عام طور پر نظر سے جوڑا جاتا ہے لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی بے شمار بیماریاں ہیں۔ نظر کی کمزوری کے لیے Laymanterm میں کہہ سکتے کہ آنکھوں کے پردے کمزور ہیں۔ اس کی تین لیئرز ہوتی ہیں۔

ایک اندر والی جوکہ نظر کے لیے کام کررہی ہوتی ہے۔ تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کی نظر کم ہورہی ہے جس سے آپ کے آنکھوں کے پردے کمزور ہورہے ہیں۔ اس کے پیچھے متعدد وجوہات ہوسکتی جیسے گلوکوما ی، موروثی بیماری یاٹروما وغیرہ۔ لیکن اصل وجہ کی شناخت مکمل تشخیص کے بعد ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس: نظر کی کمزوری کا آنکھوں کے پردوں پر اثر ہونے کی صورت میں لیئزر ٹریٹمنٹ کیا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹرفضل: بعض اوقات گلاسز کا نمبر بہت زیادہ ہوتا ہے تو ریٹینا Stratch ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے اس پر ہلکے ہلکے سلاٹ Slot بنانا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا لینز کے ذریعے کنفیکٹڈ ٹریٹمنٹ کرتے ہیں تاکہ ریٹینا ڈی ٹیچ نہ ہو۔ کیونکہ ایسے مریضوں میں رٹینا کے ڈی ٹیچ ہونے کا چانس ہوتا ہے تو لینز کے ذریعے اسے سٹیبل کیا جاتا ہے۔

اسی طرح شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کے پردوں میں خون کی نالیاں کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان سے لیکیج ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس سے آنکھ کے پردے متاثر ہونے لگتے ہیں تو ان لیکیج یا متاثرہ جگہ کو لیئزر کے ذریعے ٹھیک کرتے ہیں تاکہ بینائی کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح بہت سی کنڈیشنز ہوتی ہیں جن میں لیئزر کیا جاتا ہے اور پھر لینز کی بھی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں تو بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کونسا ٹریٹمنٹ کرنا ہے۔

ایکسپریس: کیا کوئی ایسے ڈراپس بھی ہیں جو ہر وقت فرسٹ ایڈ باکس میں موجود ہونے چاہئیں؟ اگر ایمرجنسی ہوجاتی یا آنکھ میں کچھ چلا جاتا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹرفضل: اصل میں اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور پر ہماری آنکھ کے اندر ایک نظام رکھا ہوا ہے کہ پانی کی ایک لیئر ہوتی ہے جس سے مسلسل پانی بن رہا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں اینٹی باڈیز بھی رکھی ہیں اور اس میں پروٹکٹیو چیزیں بھی ہیں جوکہ ہماری آنکھ کو محفوظ بنارہی ہوتی ہیں۔ عموماً تو ایسے ڈراپس کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن کیونکہ ہمارا ماحول بہت گرد آلودہ ہے تو باہر نکلنے پر آنکھوں میں دھواں یا مٹی چلی جاتی ہے تو ایسی صورت میں جب بھی گھر واپس آئیں آنکھوں میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں تو آپ کی آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔

اگر آنکھوں میں خدا ناخواستہ کوئی کیمیکل چلا جاتا ہے تو ایسی صورت میں آنکھ میںاچھی طرح پانی ڈالیں، اور فوراً ڈاکٹر کو چیک کروائیں کیونکہ کوئی ایسے ڈراپس نہیں جن کے بارے میں کہا جاسکے کہ و ڈالنے سے نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ پانی کے اچھی طرح چھینٹے مارنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے کم سے کم نقصان ہو۔ ڈراپس بعد میں معالج ہی تجویز کرسکتا ہے۔

ایکسپریس: کچھ لوگوں کو بظاہر کوئی بیماری نہیں ہوتی مگر ان کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں تو اس کا کیا راز ہے؟

ڈاکٹرفضل: جیسے ہر شخص کی رنگت الگ ہوتی ہے، اسی طرح آنکھوں کی رنگت بھی جدا ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی سرخی مائل، کسی کی زردی مائل اور کسی کی سفیدی مائل اگر قدرتی رنگ ہی ایسا ہو تو پھر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر خداناخواستہ کوئی چیز چلی جاتی ہے یا انفکشن ہوجاتا ہے تو آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔

اگر آنکھوں کا قدرتی رنگ سرخ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، اگر الرجی ہے تو اس کے ڈراپس موجود ہیں اور اگر انفکشن ہے تو دیکھنا ہوگا کہ بیکٹرئیل انفکیشن ہے، وائرل ہے یا کوئی اور قسم ہے تو اس کا ٹریٹمنٹ دیں گے تو اس صورت آنکھوں کی سرخی ختم ہوگی۔اگر وائرل انفکشن ہے تو اس میں عموماً کسی اینٹی باڈی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس میں آرٹیفیشل ٹیئرز ڈالیں تو وہ کچھ دنوں کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ بیکٹرئیل انفیکشن کی صورت میں پیٹنٹ اینٹی باڈیز ڈالنے سے پانچ سے سات روز میں آپ کی وہ ریڈنس ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس: آشوب چشم کی کیا وجوہات ہوتی ہیں اور اس میں کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹرفضل: آشوب چشم ایک وائرل انفکشن کی صورت پھیلنے والی وباء ہے جوکہ عموماً ایک سے دوسرے فرد کو لگ سکتی ہے۔ اس میں اگر حفظان صحت کا خیال رکھیں تو کم سے کم متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ اور چہرہ اچھے طریقے سے دھلا ہو اور صاف ہونا چاہیے۔ عموماً گندے ہاتھ منہ پر اور آنکھوں میں لگانے سے یہ انفکشن پھیلتا ہے۔ متاثرہ شخص کی استعمال شدہ اشیاء مثلاً اس کا تولیہ استعمال کرنے سے پھیل سکتا ہے۔

 

اگر ہائی جین (Hygiene) کا خیال رکھیں، مکمل صفائی رکھیں، متوازن غذا کا اہتمام کریں اور گھروں میں مناسب ہوا کا بندوبست ہو تو اس کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں عموماً سیلاب کے بعد ایسی ایپی ڈیمک (Epidemic) یا وباء پھوٹ پڑتی ہے، تو اگر مناسب حفاظتی اقدامات کریں تو اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ کسی دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے سے یہ وباء ہرگز نہیں پھیلتی لیکن اختلاط سے جیسے گھروں میں خواتین جو چھوٹے بچوں کو اٹھاتی اور ان کی دیکھ بھالی کرتی ہیں یا چھوٹے بچے جو آپس میں کھیلتے ہیں یا اگر گھر میں سب ہی افراد ایک ہی تولیے کا استعمال کرتے ہوں یا عینک جو ایک بندے نے لگائی وہ دوسرا بھی لگائے تو یہ فوراً دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔

ایکسپریس: الرجی کی بہت سی اقسام ہیں۔ ایسی کونسی علامات ہیں جو الرجی کو ظاہر کرتی ہیں؟

ڈاکٹرفضل: عموماً مریض کو آنکھوں میں چبھن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں سوجن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو ان علامات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ الرجی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی کافی ادویات موجود ہیں جنہیں استعمال کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس: دھندلا دکھائی دینا کس چیز کی جانب اشارہ کرتا ہے؟ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نظر کی کمزوری کوئی بہت بڑی بیماری ہے تو اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

ڈاکٹرفضل: نظر کی کمزوری کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں عموماً اسی صورت میں عینک کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج کل بچوں کی نظر کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آؤٹ ڈور (Outdoor) ایکٹوٹیز بہت کم ہوتی ہے۔ ہر وقت گیجیٹس استعمال کرنے سے نظر کمزور ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو موبائل بہت کم استعمال کردینے دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ آؤٹ ڈور ایکٹویٹز بہت ضروری ہیں۔ اگر نظر کمزور ہوگئی ہے تو عینک کے استعمال سے اس روکا جاسکتا ہے۔ اگر عینک استعمال نہیں کریں گے تو نظر کے مزید خراب ہونے کے چانسز ہوں گے۔ کانٹیکٹ لینزز کا مستقل استعمال آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر اپنی ڈائٹ اچھی رکھیں، میک اپ کم سے کم استعمال کریں، آؤٹ ڈور مشاغل اپنائیں تو نظر پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ عموماً 18 سے 20 برس تک گروتھ مکمل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ایک عینک سے چھٹکارا پانا چاہیں تو لیئزر بھی کروایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس: کچھ بچوں کی آنکھوں سے پانی آتا ہے صبح اٹھنے کے بعد انہیں آنکھیں کھولنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹرفضل: عموماً انفکیشن کی صورت میں ایسا ہوتا ہے صبح اٹھنے پر آنکھوں میں ڈس چارج آیا ہوتا ہے۔ بیکٹریل انفکشن کی وجہ سے کافی ڈسچارج آنا شروع ہوجاتا ہے تو اینٹی باڈیز یوز کریں، پانی کے چھٹے لگائیں یہ ہفتہ دس دن کے اندر اندر ٹھیک ہوجاتا ہے۔

ایکسپریس: آنکھوں کی اچھی صحت کے لیے بطور ماہر امراض چشم کیا ہدایات دینا چاہیں گے؟

ڈاکٹرفضل: سب سے اہم یہ بات ہے کہ اپنی صفائی کا خیال رکھیں۔ اپنے ہاتھوں اورجسم کو صاف رکھیں، اپنے گھروں کو صاف رکھیں، متوازن غذا کا انتخاب کریں، نیند پوری لیں، ورزش کریں تو بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اپنے طرز زندگی کو بہتر بنایا جائے تو ناصرف آنکھوں کی بلکہ بہت سی بیماریاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ میرے خیال سے کرونا نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ زندگی نان سٹاپ کام کرنے کا ہی نام نہیں، ہمیں کچھ وقت اپنی فیملی کے ساتھ بھی گزارنا چاہیے۔

کالا موتیا سے جانے والی نظر دوبارہ واپس نہیں آتی:ڈاکٹر فضل
ایکسپریس:گلوکوما یعنی کالا موتیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں کیا یہ درست ہے؟ کیا اس کے علاج کے حوالے سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیا اس کے حملے کی کوئی پیشگی علامات ہیں جن سے بروقت بینائی بچانے کی کوئی سبیل کرسکے؟
ڈاکٹرفضل: کالے موتیے کی مختلف اقسام ہیں جیسے اس کی ایک قسم Angle Closure Glaucoma ہے۔ اس کے مریض کو شدید درد شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر شام کے وقت جب روشنی مدہم پڑتی ہے تو کیونکہ وہ Narrow angle ہوتا ہے تو آنکھ کی پتلیاں پھیلنے لگتی ہیں۔ سو مریض جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ تشخیص کرلیا جاتا ہے۔ ایک ہوتا ہے۔


Open Angle Glaucoma جس میں آہستہ آہستہ مریض کی آنکھیں متاثر ہورہی ہوتی ہیں مگر اسے محسوس نہیں ہوتا۔ جب مریض کو لگتا ہے کہ اس کی نظر کم ہورہی ہے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے۔ عموماً ایسے مریضوں میں فیملی ہسٹری ہوتی ہے۔ جن کے خاندان میں گلوکوما (کالا موتیا) ہو انہیں وقفے وقفے سے چیک کروانا چاہیے۔ عموماً چالیس برس (40) کے بعد اگر فیملی ہسٹری میں گلوکوما ہو تو آہستگی سے نظر کے متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور وقفے وقفے سے اپنی آنکھوں کا چیک اپ کرواتے رہناچاہئے۔

اب تو میڈیکلی اور سرجیکلی بھی اس کا بروقت علاج ممکن ہے۔ اس میں دوائیں مسلسل استعمال کرنا ہوتی ہیں۔ اگر یہ تشخیص ہوجائے تو ڈاکٹر سے مسلسل دوا لے کر اسے قابو کیا جاسکتا ہے اور دوائوں کے استعمال سے ویژن(بینائی) سٹیبل رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواکر اسے بدلابھی جاسکتا ہے، جس سے بہتر نتائج آسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک دفعہ کالے موتیے کی وجہ سے نظر چلی گئی تو پھر واپس نہیں آسکتی۔

The post کیا وائرس آنکھوں کے ذریعے پھیل سکتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


دُنیا بھی اک پتلی گھر ہے! سمجھو تو ۔۔۔۔

$
0
0

امید و یقین پر قائم ہے یہ دنیا، یہ فانی جہاں۔ امید و یقین ہی تو امنگ ہے جینے کی، یہی تو خوش خبری ہے، اور امید و یقین ہی سنبھالتی ہے انسان کو۔۔۔۔ شکست دیتی ہے مایوسی کو۔ میرا سوہنا رب کہتا ہے ناں امید و یقین کا دامن تھامے رہو، میں کروں گا تمہاری مرادوں کو پورا، میں ہی تو کرسکتا ہوں تمہاری آرزوؤں کی تکمیل، میں ہی تو کرسکتا ہوں تمہیں آسودہ، میں ہی تو بنا سکتا ہوں تمہیں تونگر اور میں ہی تو بدل سکتا ہوں حالات کو، مخلوق کے دلوں کو، میں ہی تو کارسازِ حقیقی ہوں۔

میں ہی ہوں دلوں کا پھیرنے والا، چراغِ محبت روشن کرنے والا، تمہارے دوستوں کو بڑھاوا دینے والا اور تمہارے دشمنوں کے چہروں کو خاک آلود کرنے والا، انہیں نابود کردینے والا۔ میں ہی ہوں ہر شے پر قادر، قادرِ مطلق۔۔۔۔! سب ہیں میرے محتاج، میں تو کسی کا بھی محتاج نہیں ہوں۔ مجھ سے کون پُوچھ سکتا ہے! میں جسے عزت دینا چاہوں کون اس کی تذلیل کرسکتا ہے؟ اور میں ہی کسی کو ذلیل کردوں تو کون ہے جو اس کی تکریم کرے؟

ہاں جو میرے لیے ذلّت برداشت کرے تب اُس کا مقام بلند ہے، جو میرے لیے ٹھکرا دیا جائے اس کا کیا کہنا، جو میرے لیے محروم کردیا جائے اُس کی شان مت پوچھو۔ رب امید و یقین ہے اور ابلیس مایوسی و ناامیدی۔ تم جانتے ہو شیطان کا نام ابلیس ہے۔ ابلیس، مایوس کردینے والا۔ مایوسی کو پھیلانے والا۔ تنہا کردینے والا۔ خوف دلانے والا۔ وسوسے پیدا کرنے والا۔ ہر طرح کا خوف۔۔۔۔ رزق کا خوف، موت کا خوف، بھوک و پیاس کا۔ جب نام ہی ابلیس تو مایوسی ہی پھیلائے گا ناں! بندگانِ رب کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ کسی بھی حالت میں خوف کا شکار نہیں ہوتے۔ تُو بس بندۂ رب بن، اور شیطان ابلیس کو دُھتکار دے۔ لعنت بھیج دے اُس پر!

ہمارے خُلد مکیں بابا جی حضور بہت دُکھ سے کہتے تھے: ’’مجھے اس غریب پر حیرت ہوتی ہے، بہت رحم آتا ہے جو مفلس ہوکر بھی رب کی طرف نہ پلٹے، رب کا دامن نہ تھامے۔ امیر کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دولت کے نشے میں مدہوش ہوکر بُھول جائے رب کو۔ غریب کیوں نہیں رب سے مانگتا، کیوں نہیں اپنے رب کا در پکڑتا، کیوں آہ و زاری نہیں کرتا، مجھے حیرت ہے ایسے غریب و مفلس پر!‘‘

ہاں! فقیر کو ازبر ہیں ان کی باتیں۔ آبِ زر سے لکھی جانے والی دانش و بصیرت افروز۔ ہمارے اردگرد بھی ایسی وبا پھیلی کہ حالات بہت بگڑ گئے۔ خاک بسر روٹی ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔۔ رشتے ناتے ٹوٹ گئے، دلوں کی دنیا اُجڑ گئی، موت کا ہرکارہ ہر طرف گھوم رہا ہے، نوجوان مایوس ہیں، پہلے تو اپنوں کے لیے فرصت نہیں تھی اور اب گھر میں رہتے ہوئے بھی اجنبی ہوگئے سب۔۔۔۔ کسی سے مسئلہ پوچھو تو وہ ’’یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے‘‘ کہہ کر بیٹھ جاتا ہے، اور وہ بتاتا اس لیے نہیں کہ اعتبار ہی نہیں رہا۔ بندہ اعتبار کرے بھی تو کس پر؟ اندر کچھ، باہر کچھ۔۔۔۔۔!

یہ عذاب نہیں! بالکل بھی نہیں کہ عذاب میں تو کوئی کبھی کسی صورت بچ ہی نہیں سکتا۔ ہمارے آقا و مولاؐ کی دعا ہمارے حق میں قبول کی گئی ہے کہ میری اُمّت کو کبھی عذاب نہ دیا جائے۔ رب تعالی کریم و رحیم کا وعدہ پکّا ہے کہ اُمّت رسول کریمؐ کبھی عذاب سے دوچار نہیں کی جائے گی۔

یہ آزمائش و امتحان و تنبیہ ہے بس! کتنی بڑی آزمائش میں آگئے ہم، جی آزمائش میں! کتنے دُکھی ہوگئے، تنہا ہوگئے، بے یار و مددگار ہوگئے، بے دست و پا ہوگئے ۔۔۔۔! ہمارے شہر اجڑ گئے، بستیاں ویران ہوگئیں۔۔۔۔۔ اداسی اور تنہائی اوڑھے ہوئے ہیں ہم۔ اتنے بڑے ہجوم میں ہر ایک تنہا۔

لیکن فقیر کے بابا جی نے تو بتایا تھا کہ یہ سب کچھ رحمت ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں۔ اپنے مالک حقیقی کو پہچان لیں، اسے منائیں، آہ و زاری کریں۔۔۔۔ ہم سے بہت بڑا ظلم ہوگیا، ہم گم راہ ہوگئے تھے، ہم سے گناہِ عظیم ہو گیا، تُو ہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں کو نہ دیکھ اپنی رحمت کو دیکھ، اپنے پیارے حبیبؐ کے صدقے، اپنی رحمت کے طفیل ہمیں معاف کردے، ہم سے درگزر فرما دے، ہم بے سہارا ہیں، بس تُو ہی تو ہے ہمارا سہارا۔ اور دیکھ تُو ہمیں معاف نہیں کرے گا تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ ہم پر رحم کردے!

ہاں ہمیں وعدہ کرنا چاہیے تھا کہ آیندہ نہیں ہوگا اس طرح۔ ہم نہیں چھوڑیں گے تیرا دامن۔ ہم در در کے بھکاری بن گئے، اپنے غیبی خزانے ہم پر کھول دے، ہمیں رسوا نہ کر، ہاں ہم آیندہ تیرا در نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن کتنے دُکھ کی بات ہے، کتنی محرومی ہے کہ ہم اس مصیبت میں بھی اُسے بُھول گئے ہیں۔

بہت خراب ہیں، بہت زیادہ خراب ہیں حالات۔ ہر پل نیا حادثہ، نیا واقعہ۔ بندہ بشر اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے، تکریمِ انسانیت دم توڑ گئی ہے، اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ حد ہے انسان، انسان سے خوف زدہ ہے، بے کل ہے، بے چین ہے، کوئی جائے اماں نہیں، سائباں نہیں۔ نفسانفسی ہے۔ کہیں چھینا جھپٹی ہے، معمولی سی چیز پر قتل و غارت گری ہے، شہر اجڑ رہے اور شہر خموشاں میں بدل رہے ہیں۔ کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ بہت ابتر ہیں حالات۔ رونا ہے، آہیں ہیں، سسکیاں ہیں، نالے ہیں۔ کوئی نہیں ہے اپنا، بے گانے بن گئے سب۔

کیوں ہوا ایسا! کبھی سوچا ہم نے؟ سوچ لیں گھڑی دو گھڑی۔ آپ کیا سوچتے ہیں، فقیر کیا جانے! بڑے بڑے دانش وروں کو دیکھتا ہے۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔۔! اس نے یہ کر دیا، ہم نے تو یوں کیا تھا، اب ایسا کرلو، وہ ہیں ذمے دار، فلاں نے بیج بویا تھا۔۔۔۔۔ پھر تلخ کلامی، الزامات، یہ جا وہ جا۔ چھوڑیں جانے دیں، آپ بہت سمجھ دار ہیں۔

فقیر کو لگتا ہے۔۔۔۔ لگتا کیا ہے۔۔۔۔! یقین ہے، ہم اجتماعی گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم رب کے باغی ہیں۔ ہم نے رب کی نعمتوں کا کفران کیا ہے۔ ہم غیروں پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سہارے تلاش کیے۔ انہیں پُوجا۔ رب نے ہمیشہ کرم کیا، ہمیشہ معاف کیا۔ ہمارے بابے کہتے ہیں، انسان کی گُھٹی میں پڑا ہوا ہے گناہ، نافرمانی، سرکشی اور نہ جانے کیا کیا۔ گناہ ہو جائے تو رب کے سامنے ندامت سے سر کو جھکاؤ، آنسو بہاؤ، وہ معاف کرتا رہے گا، اپنی نعمتیں برساتا رہے گا۔

اور ہم نے کیا کیا! سرکشی کی اور اس پر اترائے، گناہ کیے اور ان پر فخر کیا، بغاوت کی اور اس پر اکڑے۔ کون سا گناہ ہے جو ہم نے نہیں کیا! ہم پر سے رب کا حفاظتی حصار اٹھ گیا ہے۔ بس ایک ہی در ہے، بس ایک ہی ذاتِ باری ہے جو ہمیں بچا سکتی ہے۔۔۔۔۔ اﷲ جی۔۔۔۔۔! بس وہی اور کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔ ہم تو سوچتے بھی نہیں ہیں۔ گھڑی دو گھڑی سوچیے!

دل کی دھڑکن، خون کی گردش دھوکا ہے

تن من سارا خاک نگر ہے‘ جانو تو

ان دیکھی اک ڈوری کا سب کھیل ہے یہ

دنیا بھی اک پُتلی گھر ہے‘ جانو تو

جی لینا بھی فن تھا‘ اب تو عزّت سے

مر سکنا بھی ایک ہنر ہے! جانو تو

علم و دانش کسی کی بھی میراث نہیں ہے۔ بس مومن کی میراث ہے، میرے آقا و مولاؐ کا ارشاد گرامی ہے حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ جہاں سے بھی ملے، اور یہ جو مراکزِ علم و دانش ہیں یہ بہت ضروری ہیں، ان میں تشنگانِ علم و فن بہت قابل قدر ہیں لائق تحسین ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی ان علمی مراکز میں نہیں رہا، وہ نرا جاہل رہ گیا۔ ایسا نہیں ہے، فطرت نے علم کا دائرہ بہت وسیع کیا ہے، حدود و قیود سے بالاتر، پوری کائنات اور اس کے مظاہر علم کا سرچشمہ ہیں۔ بس غور کرنے کی دیر ہے، اسرار کائنات کھلنے لگتے ہیں۔

فقیر بہت سے لوگوں کو جانتا ہے، پہچانتا ہے، ان میں رہا ہے، وہ کسی بھی مکتب میں نہیں رہے۔ کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ بس غور کیا، فکر کیا، رب کی عنایت سے وہ جانتے ہیں، پہچانتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ جب ان سے بڑے بڑے مسائل کو پلک جھپکتے حل ہوتا دیکھتے ہیں تو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ بہت ہی سادہ الفاظ، عجز و انکسار کا پیکر واہ کیا بات ہے ان کی! میرا وہ دوست بھی بالکل ان پڑھ ہے، کسی اسکول کی شکل نہیں دیکھی، عسرت و تنگ دستی میں آنکھ کھولی۔

مزدوری کی، بہت محنت سے موٹر مکینک بنا اور پھر گاڑی ہم وار راستوں پر روانہ ہوئی۔ اپنے کام کا ماہر، کسی بھی قسم کا انجن ہو اس کا کیڑا۔ کتنے ہی آوارہ لڑکوں کو مارپیٹ کر کام سکھایا اب سب اسے دعائیں دیتے ہیں۔ وہ ہے ہی دعاؤں کے لائق، پیار کے قابل۔ ایک دن میں اس کے ورکشاپ میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ ایک انجن پر جُھکا ہوا تھا۔ پھر نہ جانے اسے کیا ہوا۔ کہنے لگا: یار بابے! جاپانیوں نے جو انجن بنائے ہیں کمال کے ہیں لیکن جو جرمن نے بنائے ہیں ان کی تو ٹور ہی نرالی ہے۔

میں نے کہاں ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا: ہر گاڑی کے ساتھ، ہر انجن کے ساتھ، ہر مشین کے ساتھ چاہے وہ چھوٹی ہو بڑی ہو۔ ایک کتاب آتی ہے جس میں لکھا ہوا ہے اسے استعمال کرنے سے پہلے یہ کتاب پڑھو اور جس طرح ہم کہہ رہے ہیں اسے استعمال کرو، یہ خراب نہیں ہوگی ہماری گارنٹی ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن کیا؟ میں نے پوچھا۔ لیکن یہ کہ ہم کبھی وہ کتاب کھول کے بھی نہیں دیکھتے وہ تو بس پلاسٹک کی تھیلی میں بند رہتی ہے اور ہم اپنی تگڑم لڑاتے رہتے ہیں۔ مشین چل تو جاتی ہے۔ لیکن دیرپا نہیں رہتی اور خراب ہو جاتی ہے۔

اگر مشین خراب ہوجائے تو ہم وارنٹی کلیم کرتے ہیں اور جب مشین بنانے والے اس مشین کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں آپ نے اسے غلط استعمال کیا ہے۔ اب خراب ہوگئی تو ہم جواب دہ نہیں ہیں۔ ہم اس وقت ذمے دار تھے جب آپ اسے ہماری ہدایات پر استعمال کرتے پھر ہم اس کے لیے ذمے داری قبول کرتے۔ اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ میں نے بے زار ہوکر پوچھا: یار تُو عجیب آدمی ہے، میں کیا کروں پھر؟ پتا نہیں کیا بکواس لے کر بیٹھ گیا۔ تب اس کی آواز گونجی: چھوٹے! بیٹا ذرا کڑک سی چائے لا۔ خان کا میٹر گھوم گیا ہے جا میرا بیٹا جلدی سے۔ وہ پھر انجن کو ٹھک ٹھک کرنے لگا۔

ہاں تو خان صاحب کا میٹر صحیح ہوگیا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا، کیا پھر بکواس کرے گا؟ میں نے اس کی بات کاٹی۔ میری بات تو سن لے یار، ہر کسی سے تو میں نہیں کہتا ناں۔ ویسے تو تم لوگ لیکچر دیتے رہتے ہو سب کی سنو اور حال یہ ہے تمہارا۔ اچھا بول، کر اپنی بکواس۔ ہاں یہ ہوئی ناں بات، اب بول بھی چُک۔ تو میں کہہ رہا تھا مشینیں بنانے والے کی بات نہ سنو تو مشین خراب ہو جاتی ہے اور ہمارے گلے پڑ جاتی ہے۔

اب دیکھو یہ جو انسان ہے ناں۔ یہ اﷲ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اور اسے ٹھیک ٹھیک انسان بننے کے لیے ایک کتاب دی ہے کہ یہ لو۔ اس طرح رہو گے تو ٹھیک رہو گے اور ساری زندگی سُکھی گزرے گی اور ہماری ذمّے داری میں رہو گے۔ تمہاری ہر چیز کا ذمّے دار میں خود ہوں۔ تم بے فکر رہو اور اگر اپنی مرضی کرنا ہے تو ذمے داری بھی خود قبول کرو میں بری الذّمہ ہوں۔ انسان نے اپنی مرضی کی اب نتیجا سامنے ہے۔ اب رو رہا ہے۔ اب تو اﷲ تعالیٰ کی ذمّے داری نہیں ہے ناں۔ اب جو بویا ہے وہ کاٹو اپنا خود کیا ہے یہ نقصان تو رونا کس بات کا؟ واہ چَریا! تُونے یہ کہاں سے سیکھی ؟ میں نے پوچھا۔ اِدھر اُدھر سے سُن سن کر سیکھ لیں بس۔ پھر ہم کیا کریں اب؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔ وہ پھر سے انجن پر جُھک گیا۔

فقیر کو یاد آیا ایک دن ہمارے بابے جی نے بتایا تھا۔ رونے دھونے سے بگڑے کام بن جاتے ہیں، ناکامی کام یابی بن جاتی ہے، چیخیں قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔ دُکھ، سُکھ کی جون بدل لیتے ہیں۔ تکلیف راحت اوڑھ لیتی ہے، اداسی مسکراہٹ بن جاتی ہے، تنہائی محفل ہو جاتی ہے، روٹھے ہوئے جاں نثار کرتے اور واری جاتے ہیں، سب کچھ ہو سکتا ہے، ہر کام چاہے ناممکن ہو، بن جاتا ہے سنور جاتا ہے۔ رونے دھونے سے، بس ایک چھوٹے سے فرق کے ساتھ، مخلوق کے سامنے نہیں رونا، خالق کے سامنے رونا ہے، مخلوق کے آگے دست سوال نہیں دراز کرنا، خالق کے سامنے کرنا ہے۔ آہ و زاری کرنا ہے، خوشامد کرنی ہے۔ آنسوؤں کے نذرانے پیش کرنے ہیں۔

بس اپنے رب کے سامنے صرف اپنے خالق کے سامنے، یہ آنسو کوئی معمولی شے نہیں ہیں۔ یہ آنکھوں سے برسنے والے لعل و گوہر ہیں۔ نمکین پانی کی بوندیں نہیں ہیں۔ بے وقعت تو ہرگز نہیں ہیں۔ ہزار لفظوں پر بھاری ہیں۔ یہ آنسو، یہ موتی مناجاتوں کی قبولیت کا نشان ہیں۔ انہیں بس ویسے ہی نہ سمجھو، یہ بہت انمول ہیں، بہت نایاب ہیں۔

میں نے اپنا حال بتانا چاہا بھی

لیکن آنسو مجھ سے پہلے بول دیا

قوسِ قزح سی حد نظر تک بکھرا دی

اشکوں نے جو رنگ دیا انمول دیا

انکھیوں میں آنسو کیوں امڈ آتے ہیں۔ نیناں رم جھم، رم جھم کیوں برستے ہیں۔ یہ ساون بھادوں کیوں برستا ہے۔ اس لیے کہ آنسو علامت ہیں، بے بسی کے! آنسو اعلان ہیں بے چارگی کے! آنسو نشان ہیں اعتراف کے! یہ بہت انمول ہیں! بہت زیادہ قیمتی اور بے مثال!

ہمارے پاس بس ایک ہی راہ رہ گئی ہے ہم نے خود اپنے لیے جہنم بنا لی ہے یہ زمین، ہم خود ہیں اس کے ذمے دار، ہمارے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ سب کچھ برباد ہو گیا ہے ہر طرف تباہی ہے۔ بس ایک ہی راہ رہ گئی ہے ہمارے پاس ہمارے آنسو، مجھے آپ سے زیادہ دیر بات نہیں کرنا، بس رونے دھونے سے بگڑے کام بن جاتے ہیں ناکامی، کام یابی بن جاتی ہے۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم پھر سے فلاح پا سکتے ہیں۔ خالق کے سامنے رونے سے، اعتراف سے، رب کے ساتھ ناتا جوڑنے سے اور کوئی راہ نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں۔

فقیر کا کام تو صدا لگانا ہے جی! جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ یقین رکھیے اور چاہے تو لکھ لیجیے فقیر کی بات کہ بہت جلد ہم اس آزمائش سے سُرخ رُو نکل جائیں گے۔ بس دعا کیجیے کہ مالک کبھی تنہا اور بے یار و مددگار نہ چھوڑے، مالک ہم پر رحم کرے۔ اور ہمیں یہ سمجھ دے، یہ توفیق دے کہ مالک حقیقی کو پہچانیں، زمینی خداؤں کا انکار کردیں اور اپنے رب سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ دو پل کا جینا ہے اور پھر اندھیری رات سجنو! کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔

بس نام رہے گا اﷲ کا

مایوسیوں کے گھور اندھیروں میں روشنی

غم کے سمندروں میں کنارا ہے تیرا نام

تنظیم مری بکھری ہوئی ذات کی ہوئی

جب روح و دل سے میں نے گزارا ہے تیرا نام

The post دُنیا بھی اک پتلی گھر ہے! سمجھو تو ۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونامہ

$
0
0

٭اور کورونا نے بالکونیاں پھر سے آباد کردیں: یہ سچ ہے کہ کورونا کی عالم گیر وبا نے پوری دنیا میں گھروں کی بالکنیاں پھر سے آباد کر دی ہیں۔ یہ بالکنیاں وقت کی دھول میں اپنی رونق کھو بیٹھی تھیں۔ مکینوں کے پاس اتنا وقت ہی کب رہا تھا کہ بالکنی میں آئیں اور ایک دوسرے کا حال احوال پوچھیں۔ گزرے وقت میں بالکنیاں سماجی رابطے کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔

شہر کے حالات سے لے کر کھانا پکانے کی ترکیبوں تک سارے معاملات عورتیں بالکنیوں میں زیربحث لاتیں۔ اکثر تو گھر کے مرد بھی ان بالکنیوں میں ہونے والے مباحثوں اور مذاکروں میں حصہ لیتے یا پھر اندر سے ہی خاتون ِ خانہ کو لقمے دے کر گفتگو کا مزہ لیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مکینوں کی بے پناہ مصروفیت سے بالکنیوں میں سناٹے نے ڈیرے ڈال لیے۔ اب تو وہ وقت آگیا تھا کہ اکثر یہ خبر ہی نہ ہوتی کہ ساتھ والی بالکنی آخر ہے کس کی؟

کورونا کی وبا نے دنیا میں بے شک بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن سچ ہے کہ بالکنیوں کو ان کی گم شدہ رونق لوٹا دی ہے ۔ دنیا کے بے شمار ممالک سے ہم تک پہنچننے والی یہ تصاویر دیکھ کر وبا کے پریشان کن دور میں بھی ہونٹوں پہ بے اختیار مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ یورپ اور ایشیا کے بے شمار ممالک میں تنہا رہ رہ کر لوگ اکتا چکے ہیں۔ ایسے میں اب بالکنیاں ہی ہیں جو انہیں دوبارہ ایک دوسرے سے شناسا کر رہی ہیں۔

میڈیکل اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرنا ہو، موسیقی سے لطف اندوز ہونا ہو، مل کر مشروبات پینے ہوں، کوئی نئی تخلیق کرنی ہو، ایک دوسرے کو سال گرہ کی مبارک باد دینی ہو، اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہو۔۔۔۔ غرض انسان کی انسان سے جُڑے رہنے کی سماجی بھوک مٹانے کے لیے بالکنیوں کا ناقابل، فراموش استعمال ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ اٹلی وہ پہلا ملک تھا جہاں بالکنیوں کو سماجی رابطے کے ایک بڑے اور بنیادی ذریعے کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔ اکثر ممالک میں لوگوں نے بالکنیوں پر آنے کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں۔ جن گھروں میں بالکنیاں نہیں ان کے مکین اپنی کھڑکیوں میں بیٹھ کر لوگوں کے ساتھ اپنی تنہائی بانٹتے ہیں۔ وبا کا دور توگزر جائے گا لیکن بالکنی کے راستے جُڑنے والے یہ رشتے وبا کے بعد مزید مضبوط ہوجائیں گے۔

٭کورونا نے محبت کے دیے جلا دیے:

یہ تصویر امریکی ریاست فلوریڈا کے ٹیمپا جنرل اسپتال کی ہے۔ یہاں کام کرنے والے نرسنگ اسٹاف کے یہ دو ممبر مائینڈی بروک اور بین کایر میاں بیوی ہیں۔ وبا کے اس مشکل وقت میں یہ مل کر انسانیت کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس ضمن میں بھرپور تعاون بھی۔ ذمہ داریوں نے انہیں وقتی طور پر تو دور کردیا لیکن اس وبا نے ان کے بندھن کو مزید مضبوط کیا ہے۔

ڈیوٹی کے دوران ان دونوں کا سامنا ہوا تو بے اختیار ایک دوسرے کے چہرے کو تھام لیا۔ تمام حفاظتی سامان سے لیس دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کو تک رہے ہیں۔ محبت کے اس خوب صورت لمحے کو ڈیوٹی پر موجود چیف نرس نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔ کورونا نے محبت کی ایسی بے شمار داستانوں کو جنم دیا ہے جو ذہنوں میں کبھی دھند لائیں گی نہیں۔

٭مسکرانا اہم ہے۔۔۔ آپ بھی مسکرائیے:

کہتے ہیں ڈاکٹر کی ایک نرم مسکراہٹ اور پیار بھرا لہجہ آدھا مریض کی آدھی تکلیف ختم کردیتا ہے۔ لیکن اب اس خطرناک وبا کا کیا کیا جائے جس نے سب چہروں کو ماسک کے پیچھے چھپا دیا ہے۔ اب ڈاکٹر اپنے مریض کو دیکھ کر کتنا بھی مسکرالے لیکن مریض اس مسکراہٹ کو دیکھنے سے محروم ہے۔ سان ڈیاگو کے اسکرپس مرسی اسپتال میں کام کرنے والے ایک سانس کے معالج نے مسکراہٹ کے اظہار کا کیا خوب حل نکالا ہے۔

انہوں نے حفاظتی لباس کے اوپر اپنی ایک ہنستی مسکراتی تصویر ٹیپ سے چپکا لی ہے ۔ اب وہ کورونا میں مبتلا جس مریض کے پاس جاتے ہیں وہ لباس کے اوپر چپکی ڈاکٹر کی اس مسکراتی تصویر کو دیکھ کر ہی مسکرا پڑتا ہے۔ مریض کو اپنی مسکراہٹ دکھانے کا یہ نیا ٹرینڈ سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پہ بے حد مقبول ہوا اور اسے پینتیس ہزار سے زائد لوگوں نے لائک کیا اور اسے  Share Your Smile کا ہیش ٹیگ دیا گیا۔

 ٭کورونا میں دوسری جنگ عظیم کے سپاہی کی سال گرہ:

وبا کا دور ہے۔ ہر کوئی سہما ہوا ہے لیکن زندگی کے معاملات کا کیا کیا جائے جو نہیں جانتے کہ وبا کیا ہے اور کتنی خطرناک ہے۔ لوگ ہنسنا بھی چاہتے ہیں اور اپنی خوشیاں منانا بھی۔ وبا ہے تو کیا ہوا، بھلا اپنے قومی ہیروز اور ان کی خدمات کو کیسے فراموش کردیا جائے۔ اب اسی تصویر میں دیکھ لیں نیویارک پولیس کے سپاہی دوسری جنگ عظیم کے ایک سپاہی کے گھر کے باہر جمع ہیں اور اس سپاہی کی نناویں سال گرہ پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے سیلوٹ کر رہے ہیں۔ سماجی دوری کے اصول کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہے اور اپنے قومی ہیرو کی سال گرہ کا دن بھی منانا ہے۔ سو ایسے ہی سہی۔

٭وبا میں دادا اور پوتی کی محبت کا خوب صورت انداز:

کہتے ہیں اصل سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ہر وہ فرد کر سکتا ہے جس نے اولاد کی اولاد کو اپنے سینے میں بھینچا ہو۔ کورونا کے دور میں امریکی ریاست مشی گن میں ایک دادا روز اپنی نومولود پوتی کو دیکھنے آتے ہیں، لیکن ان کی محبت اس وقت پوتی کو سینے سے لگانے کے بجائے اس سے دور رہنے کی متقاضی ہے۔ یوں میلوں پیدل سفر طے کر کے بھی وہ اپنی پوتی کو چھو نہیں پاتے بلکہ شیشے کی دروازے کے پار سے اس کی صورت دیکھ کر اور کھڑے کھڑے اس کے ساتھ کچھ وقت گزار کر چلے جاتے ہیں۔

٭کورونا نے سُجھائے ماسک بنانے کے نت نئے طریقے:

ماسک ہوگا تو سانس کی آس بھی رہ جائے گی۔ بس اسی لیے وبا سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال ہر ایک نے خود پر لازم کرلیا ہے۔ ایک عام ماسک سے ہٹ کر دنیا میں لوگوں نے ایسے ایسے ماسک تخلیق کر ڈالے کہ کبھی تو عقل حیران ہوئی اور کبھی ہونٹوں پر مسکراہٹ پریشاں۔

اب دیکھیے ناں، برازیل کے فوٹو گرافر مارشیو روڈریگس نے پلاسٹک ویسٹ کا ہی ماسک بنا ڈالا۔ انہوں نے اس طرح دنیا کو لاحق بیک وقت دو خطرات کی نشان دہی کی ایک کورونا کی وبا اور دوسرے ماحولیات۔ حکومت کی طرف سے بیس دن کے لاک ڈاؤن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ سڑکوں پر کچرا جمع ہورہا ہے اور اسے کوئی سمیٹنے والا نہیں تو انہوں نے پلاسٹک کی بوتلوں، کین، ڈھکنوں اور دیگر ویسٹ کی مدد سے ایک ماسک بناکر حکومت کو پیغام دیا کہ وبا کے دور میں ماحول کی طرف سے آنکھیں بند نہ کریں۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو وہ اس ویسٹ سے پورا لباس بھی تیار کریں گے۔

دوسری تصویر ایک فلسطینی بچے کی ہے جس نے کورونا کی وبا سے بچنے کے لیے بند گوبھی کے پتے سے ماسک تیار کر کے پہن رکھا ہے۔ نیویارک میں تو اک عمر رسیدہ آدمی نے بچوں کے ڈائپر کو ہی ماسک بنا کر پہن لیا۔ لندن میں ایک عورت کی پارک میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کی تصویر بھی وائرل ہوئی جس میں اس نے ملکہ الزبتھ دوم کی شکل کا ماسک پہن رکھا ہے۔ یہ ماسک اس نے کورونا میں مبتلا ہونے والی ملکہ الزبتھ کی صحت یابی کے بعد پہنا۔ بچوں کی تو ہر چیز بڑوں سے الگ ہوتی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ بڑوں کی طرح ماسک پہن لیں۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں ایک آٹھ سالہ بچے نے خوب صورت فَر کا ماسک پہن رکھا ہے جس پر جانور کا کارٹون بنا ہے۔ یہ اب تک منظر عام پر آنے ولا سب سے پیارا ماسک ہے۔

٭کورونا نے بچوں کے کھلونے بھی بد ل ڈالے:

وبا کے بعد کی دنیا کئی اعتبار سے دوبارہ جنم لے گی۔ نظریوں سے لے کر طریقوں تک ہر چیز میں کافی حد تک تبدیلی آئے گی، پھر کیسے ممکن ہے کہ بچوں کے کھلونے پرانے ہی رہ جائیں۔ جمہوریہ چیک میں بچوں کے کھلونے تیار کرنے والی کمپنیوں نے اب کھلونوں کو بھی ماسک پہنا ڈالے ہیں۔

٭کورونا دور کا سنیما کلچر:

وبا میں لوگ گھر بیٹھے بیٹھے اکتا چکے ہیں۔ ہر جگہ بھیڑ کی وجہ سے پابندی۔ لیکن لوگوں کی تفریح اور وقت گزاری کی خاطر اب سنیما کلچر تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ڈرائیو ان سنیما پوری دنیا میں مقبول ہورہے ہیں جہاں لوگوں کے لیے چوڑی سڑکوں پر سنیما اسکرین لگا دی گئی ہے اور لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر سنیما کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ زیرنظر تصویر جنوبی کوریا کے شہر سیؤل کی ہے۔ آؤٹ دور اسکرین کے باہر گاڑیاں پارک کی گئی ہیں اور شائقین فلم دیکھنے میں مصروف ہیں۔

٭جنگل کے بادشاہ کی حکومت اب سڑکوں پر بھی:

یہ حیرت انگیز منظر ہے۔ جنوبی افریقا کے کروگر نیشنل پارک کا، جہاںشیر سڑک کے بیچوں بیچ آلیٹے ہیں۔ وبا سے پہلے اس سڑک سے سیاحوں کی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ دیگر پر ہجوم جگہوں کی طرح یہ پارک بھی لوگوں کے لیے بند کیا جاچکا ہے۔ شیروں نے اپنی سلطنت میں دخل دینے والے انسان کی غیرموجودگی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اب سڑکوں پر یوں پاؤں پھیلائے لیٹے ہیں گویا انسان سے جان ہی چھوٹی جس نے جنگل کے بادشاہ کو ایک خاص حصے تک محدود کر کے سخت اذیت دے رکھی تھی۔

٭کورونا سے لڑنا ہے تو درختوں کو گلے لگائیے:

یہ پیغام دیا ہے آئس لینڈ کے محکمۂ قومی جنگلات نے، جس کا کہنا ہے کہ درختوں کو گلے لگا کر کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس مشکل وقت میں جب ہر فرد تنہا ہے اور کسی سے ہاتھ بھی نہیں ملا سکتا ایسے مشکل وقت میں درخت ایک بار پھر انسان دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ درختوں کو صرف گلے نہیں لگانا ہے بلکہ ان سے لپٹ کر انتظار کرنا ہے جب تک وہ آپ کے وجود کو محسوس نہ کرنے لگیں۔

پھر دیکھیے گا کہ درخت اور انسان کے درمیان کیسی مثبت توانائی رواں ہوتی ہے جو کورونا وائرس سے نجات میں مددگار ثابت ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئس لینڈ میں لوگوں کی درختوں اور جنگلوں تک بہ آسانی رسائی کے لیے سڑکوں اور راستوں کو صاف کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ محکمۂ جنگلات ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ایک ہی درخت کو زیادہ لوگ گلے نہ لگائیں بلکہ وہ اس میں بھی سماجی دوری کے اصول کا خیال رکھیں۔

٭حضرت عیسیٰ ؑ کا مجسمہ اور ڈاکٹروں کو خراج تحسین:

برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں حضرت عیسیٰ ؑ کے آرٹ ڈیکو مجسمے کو روشن کیا گیا جس کا مقصد کورونا وائرس سے نمٹنے والے نرسوں اور ڈاکٹروں کو ایسٹر پر خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ یہ مجسمہ برازیل کے سب سے بڑے شہر میں واقع کورکوڈو پہاڑ پر ہے اس کی لمبائی ایک سو پچیس فٹ ہے۔ اس مجسمے کا خالق ایک فرانسیسی مجسمہ ساز پال لانڈوسکی تھا۔ اس مجسمے کو، کورونا وبا میں انسانیت کی خدمت کرنے والے مسیحاؤں کی تصاویر اور ان کے لیے نیک خواہشات کے پیغامات سے سجایا گیا۔

٭اب ٹشو رول صرف استعمال نہیں کیجیے ان کی شکل کا کیک بھی کھائیے:

جرمنی کی مشہور بیک پیراڈائز بیکری نے وبا کے دور میں ٹشو پیپر رول کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اسی شکل کا کیک ہی متعارف کروا ڈالا۔ بیکری کے مالک ٹم کورٹیم کا کہنا ہے کہ کریم میں لپٹا ان کا یہ اسپیشل کیک کورونا وبا کے دوران بیسٹ سیلر کیک بن چکا ہے۔

 ٭وبا اور ماں سے محبت کی تجدید کا دن:

یہ تصویر ہے لبنان کے ساحلی شہر جونیا کی۔ ایک عورت، بالکنی میں کھڑی اپنے بچوں کی طرف سے بھیجے گئے گلاب کے پھول کو پکڑ رہی ہے جو انہوں نے مدر ڈے پر ڈرون کے ذریعے اپنی ماں کو پہنچائے ہیں۔ عورت کے چہرے کی خوشی کو تصویر میں صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وبا نے اپنوں سے محبت کے اظہار کے جو نت نئے طریقے متعارف کروائے ہیں، انہیں اگلی نسلیں کہانیوں کا حصہ ضرور بنائیں گی۔ لبنان نے کئی ماؤں کو اسی طرح ان کی اولاد نے ڈرون کے ذریعے پھول بھیجے۔ واضح رہے کہ لبنان میں ہر سال اکیس مارچ کو ماؤں کا دن منایا جاتا ہے۔

٭اور وبا میں مجسموں نے بھی ماسک پہن لیا:

مانچسٹر میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے چورانوے کنفرم کیسز سامنے آنے پر ملکہ وکٹوریا کے مجسمے کو بھی علامتی طور پر ماسک پہنا دیا گیا، جب کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر ایکسچینج کے باہر نصب  Fearless Girl کے مجسمے کا منہ بھی ماسک سے ڈھک دیا گیا۔ دنیا کے دیگر کئی شہروں میں نصب مجسموں کو بھی ماسک پہنا دیے گئے ہیں۔

٭میڈیکل اسٹاف کی محبت میں مبتلا کتے کا مالک کے ساتھ جانے سے انکار:

یہ پڑھ کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ چین کے ایک اسپتال میں گولڈن ریٹرائیور نسل کے ایک کتے نے میڈیکل اسٹاف کو چھوڑ کر مالک کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ کتے کے مالک کوکورونا لاک ڈاؤن کے باعث گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ ملی۔ اس دوران پالتو کتا اس سے بچھڑ گیا لیکن وہ سخت پابندیوں کی وجہ سے اس کی تلاش میں نہ جا سکا، گم شدگی کے ان پچاس دنوں میں کتے کی دیکھ بھال اسپتال کے میڈیکل اسٹاف نے کی۔

وبا پر قابو پانے کے بعد لاک ڈاؤن نرم ہوا تو مالک کو اپنے پالتو کتے کے بارے میں پتا چلا۔ مالک کتے کو لینے اسپتال گیا، لیکن کتا مالک کے پاس سے بھاگ کر میڈیکل اسٹاف کے پاس چلا گیا۔ وہ اپنے ان نئے دوستوں سے اس قدر مانوس ہوگیا کہ ان کو چھوڑ کر جانے کو تیار ہی نہیں۔ مالک سے ملنے اور پھر بھاگ کر میڈیکل اسٹاف تک جانے کی ویڈیو دیکھ کر ہر ایک کی آنکھ نم ہوگئی۔ وبا کے اس دور میں انسانی ہم دردی کے بے شمار ایسے واقعات کو کیمرے کی آنکھ نے اپنے اندر اتار ا ہے جو کئی دہائیوں تک یادوں سے دھندلائیں گے نہیں۔

The post کورونامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونامہ

$
0
0

٭ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کام کیسے انجام دیں؟: سننے میں تو بہت بھلا لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر پر بیٹھ کر آن لائن دفتری اُمور اور کاروباری معاملات کی انجام دہی کی جاسکتی ہے، مگر چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں کام کرنے والے افراد کس طرح بہتر طور آن لائن کام کرسکتے ہیں؟ عام طور پر اِس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں بتاتا اور لوگ خود ہی تصور کرلیتے ہیں کہ بس کمپیوٹر کو کھول کر اپنی آن لائن کاروباری خدمات دوسروں کو فراہم کی جاسکتی ہے۔

حالاںکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیوںکہ آن لائن کاروباری اُمور کی انجام دہی کے لیے بھی کچھ بنیادی مبادیات کا سیکھنا اور قواعد و ضوابط کا جاننا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دوسرے عملی کام کرنے کے طریقے سیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ چوںکہ ہمارے ہاں آن لائن کام کرنے کی تربیت حاصل کرنے کی طرف زیادہ توجہ اور دھیان نہیں دیا جاتا، لہٰذا ہم کسی کو ای میل بھیج دینے اور اُسے وصول کرلینے کو ہی آن لائن کام کرنا سمجھے ہوئے ہیں، جب کہ آن لائن کام کرنا ایک بہت وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے۔

اگر آپ بھی آن لائن کام کرنے سے متعلق بنیادی اُصول اور مبادیات سے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لیے گوگل نے پاکستانیوں کی مدد کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے اور نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی لاک ڈاؤن کو مفید اور کارآمد بنانے کی خاطر چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بلامعاوضہ ورچوئل ورکشاپس کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔

یہ ورچوئل ورکشاپس جنہیں آپ آن لائن کام سکھانے والی تربیتی کلاسیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اُن چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے تیار کی گئی ہیں جنہیں دنیا بھر میں اپنی کاروباری خدمات فراہم کرنے کی شدید خواہش یا ضرورت ہے۔ گوگل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ریموٹ ورکنگ اور ڈیجیٹل میں تبدیلی کی غرض سے مفت ورچوئل ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ہے جو گوگل کی جانب سے پاکستانی کاروباری اداروں کی مدد کے وعدے کا حصہ ہے۔

یہ مفید کورس Grow with Google پروگرام کی ٹیم نے تیار کیا، جسے کووڈ 19 کی وجہ سے آن لائن کروایا جائے گا۔ اِس کورس میں گوگل کی طرف سے ہینڈی ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال کرنے سے متعلق بھرپور تربیت فراہم کی جائے گی اور اسی کے ساتھ ایسے چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے مشورے اور ترکیبیں بتانے کی کوشش بھی کی جائے گی، جن کی مدد سے اس ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں کو اپنے کسٹمرز اور ملازمین، دونوں کے ساتھ رابطے میں رہنا مزید آسان ہوجائے گا۔

اِس کورس کے ہر سیشن کا دورانیہ ایک گھنٹہ ہے جس میں گوگل کے ماہر ٹرینرز تربیت دیں گے۔ ان سیشنز کو ریکارڈ نہیں کیا جا سکے گا، لہٰذا اِس میں شرکت کے لیے شیڈول کے مطابق گرو وتھ گوگل کی ویب سائٹ وزٹ کریں۔ ویب سائٹ کا مختصر لنک یہ ہے۔ https://bit.ly/2ROv9Z7 جب کہ ورکشاپ کا شیڈول ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔

پہلا سیشن، بتاریخ: 30 اپریل صبح 11 سے 12 بجے تک،موضوع: آن لائن ہونا کیسا لگتا ہے؟

دوسرا سیشن، بتاریخ: 05 مئی صبح 11 بجے سے دوپہر 12 بجے تک، موضوع: آپ گوگل کے ساتھ آن لائن کیا کرسکتے ہیں؟

تیسرا سیشن، بتاریخ 08 مئی صبح 11بجے سے دوپہر 12 بجے تک، موضوع: گوگل کس طرح چھوٹے، درمیانے کاروباری اداروں کی مدد کرتا ہے؟

چوتھا سیشن، بتاریخ: 12 مئی صبح 11بجے سے دوپہر 12بجے تک، موضوع: کسی کو آن لائن گاہک کیوں بنایا جا ئے اور کیسے؟

کورونا وائرس کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن کے فرصت کے لمحات میں آپ Grow with Google کی ویب سائٹ سے مزید بے شمار فوائد بھی سمیٹ سکتے ہیں، مثلاً اِس ویب سائٹ پر کاروبار، مارکیٹنگ، مینیجمنٹ اور دیگر بہت سے موضوعات پر سیکڑوں اسباق موجود ہیں، جب کہ ذاتی ضرورت کے مطابق، اگلے اقدامات بھی تجویز کرتی ہے تاکہ آپ اپنی اسکلز کو درست انداز میں استعمال کر سکیں۔

اس کے علاوہ، کاروباری ادارے یہاں سے مزید مشورے اور تجاویز بھی بہ آسانی تلاش کر سکتے ہیں جس کی مدد سے ان کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کا کاروبار کیا ہے، بس آپ اپنے کاروبار کی آن لائن ترقی کے لیےGrow with Google کی اِس ویب سائٹ پر اعتماد کرسکے ہیں، اِس اُمید کے ساتھ کہ گوگل آپ کے کاروبار کو آن لائن پیش آنے والی مشکلات میں زبردست معاونت کرے گا۔ مزید بہتری اور فوائد کے لیے Grow with Google کی یہ موبائل اپلی کیشن اپنے اسمارٹ فون کا حصہ بنانا بھی ازحد مفید ہوگا، جس مختصر لنک یہ ہے: https://bit.ly/2yjivdD

٭کورونا وائرس کے خلاف پہلی دوا کیا واقعی آنے کو ہے؟: نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے تجرباتی دوا ریمیڈیسیور (Remdesivir) کے استعمال کے نتائج کو بالآخر طبی ماہرین نے کورونا وائرس کے خلاف علاج کے سلسلہ میں ایک انقلابی پیش رفت قرار دے دیا ہے۔ شکاگو کے ایک اسپتال میں ہونے والے طبی تجربات کے دوران گیلاڈ سائنز نامی کمپنی کی تیار کردہ دوا ’’ریمیڈیسیور‘‘ کے اثرات کا مریضوں پر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں کی تمام علامات بہت جلد ختم ہوگئیں اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں تمام مریض صحت یاب ہوگئے۔

ابتدائی مرحلے میں کووڈ 19 کے 125 مریضوں پر ’’ریمیڈیسیور‘‘ دوا کو بطورِ علاج استعمال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اِن 125 میں سے 113 افراد میں کووڈ 19 بیماری کی شدت بہت زیادہ تھی اِس کے باوجود ’’ریمیڈیسیور‘‘ کے استعمال سے 123 مریض مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر اسپتال سے روانہ کردیے گئے اور اَب اسپتال میں صرف 2 مریض باقی رہ گئے ہیں، جن کی حالت بھی مستحکم ہے۔ اس تجرباتی دوا کے دیگر مختلف ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر طبی تجربات جاری ہیں جن میں کووڈ 19 کے خلاف اس دوا کی افادیت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ خصوصاً چین سے بھی بڑے پیمانے پر اِس دوا کے مثبت نتائج موصول ہونے کی اطلاعات ہیں ۔

اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں 152 مختلف کلینکل ٹرائلز کے دوران کورونا وائرس کے 24 سو مریضوں کا بھی اِس دوا سے علاج کیا جارہا ہے، جن کے نتائج مئی کے پہلے ہفتہ تک موصول ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ اگر سب نتائج ویسے ہی حوصلہ افزا حاصل ہوئے جیسا کہ شگاکو کے ہسپتال میں پائے گئے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ’’ریمیڈیسیور‘‘ نامی اِس دوا کو طبی ماہرین کی طرف سے کورونا وائرس کے خلاف عام استعمال کے لیے باقاعدہ طور پر منظور کر لیا جائے۔ اِس خبر کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے سائنس دانوں کی طرف سے پہلی منظور شدہ دوا ’’ریمیڈیسیور‘‘ کے منظرِعام پر آنے کے کافی روشن امکانات ہیں۔

٭سیکنڈوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کرنے والا منفرد آلہ :کورونا وائرس کا ٹیسٹ کورونا وائرس کا ٹیسٹ ایک مہنگا سودا ہی نہیں ہے بلکہ وقت طلب کام بھی ہے۔ عموماً کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج آنے کئی گھنٹوں یا ایک سے دو دن بھی لگ سکتے ہیں ۔

شاید اِسی لیے دنیا بھر کے طبی ماہرین کورونا وائرس کے ٹیسٹ کو ارزاں اور جلدازجلد نتائج دینے والا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اِس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے کہ ایران کے طبی ماہرین نے فقط پانچ سیکنڈ میں کورونا وائرس کی درست تشخیص کرنے والے منفرد آلہ ایجاد کرلیا ہے۔ مذکورہ آلہ متاثرہ شخص کو 100 میٹر کی دوری سے پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کہ ایئرپورٹ یا ٹریفک حکام کے پاس گاڑیوں کو چیک کرنے والے انٹینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ایرانی پاس داران انقلاب نے مذکورہ آلے کو 15 اپریل کو ایک چھوٹی سی تقریب میں متعارف کرایا۔ آلے کو متعارف کرانے والی تقریب میں ایرانی پاس داران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ مذکورہ آلہ اپنی نوعیت کا منفرد اور اسٹیٹ آف دی آرٹ آلہ ہے جو کہ دنیا میں کسی اور ملک کے پاس نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ آلہ کورونا سے متاثرہ شخص کی نشان دہی 100 میٹر کی دوری سے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی آلہ کسی بھی ایسے علاقے کی نشان دہی بھی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جہاں پر کورونا کی نمی موجود ہو، جب کہ یہ آلہ محض 5 سیکنڈ میں نتائج دیتا ہے اور اس کے نتائج کورونا ٹیسٹ سے 80 فی صد ملتے جلتے ہیں۔ یعنی آلہ 80 فی صد درست نشان دہی کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس شخص میں بھی تشخیص کے لیے یہ منفرد آلہ استعمال ہوگا پھر اُسے بلڈٹیسٹ سمیت دیگر کسی بھی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ آلہ کیس طرح سے اور کیسے کام کرتا ہے ملاحظہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں: https://youtu.be/GjiutzasHTY

٭ایئرکنڈیشنر بھی کورونا وائر س پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے:حال ہی میں چین میں ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ جنوبی چین کے ایک ریستوراں میں جانے والے 3 خاندانوں کے 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے پر اس حوالے سے کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا کہ اِن تمام افراد میں کورونا وائرس کے وائرل ذرات کی منتقلی کا بنیادی سبب ایئرکنڈیشنر تھا۔ گوانگزو سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے ہونے والی اس تحقیق کے نتائج جریدے ایمرجنگ انفیکشنز ڈیزیز میں شائع کیے گئے جو کہ امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کا اوپن ایسز جریدہ ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جنوری کے آخر میں گوانگزو شہر کے ایک ریستوراں میں ایئرکنڈیشنر سے ہوا کا مضبوط بہاؤ وائرل ذرات کو 3 میزوں تک پہنچایا۔ محققین نے مشورہ دیا ہے کہ میزوں کے درمیان فاصلے کو بڑھانے اور ہوا کے اخراج کے نظام کو بہتر کرکے اس طرح کے وائرس انفیکشن کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ان 10 مریضوں میں سے ایک 23 جنوری کو ووہان سے واپس آیا تھا، یعنی وہ شہر جہاں سب سے پہلے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا، اس مریض نے اگلے دن ریستوراں میں اپنے خاندان کے 3 افراد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔

ریستوراں میں کھڑکی نہیں تھی بلکہ ہر منزل پر ایک ایئرکنڈیشنر لگا ہوا تھا، جب کہ2 دیگر خاندان بھی اردگرد کی میزوں پر موجود تھے اور اِن کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ تھا جب کہ اوسطاً ایک گھنٹے تک وہ لوگ وہاں موجود رہے۔ پہلے مریض میں اسی دن بخار اور کھانسی کی علامات سامنے آگئیں اور وہ اسپتال میں داخل ہوگیا۔ اگلے 2 ہفتے میں اس کے خاندان کے مزید 4 افراد، دوسرے خاندان کے 4 اور تیسرے خاندان کے 3 افراد نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار ہوگئے۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ دوسرے اور تیسرے خاندان میں اس وائرس کے پہنچنے کی وجہ ریستوراں میں موجود پہلا مریض تھا۔

تحقیق کے مطابق وائرس کی ترسیل کے ممکنہ ذرائع کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس کی ممکنہ وجہ ایئرکنڈیشنر کے ذریعے وائرل ہونے والے کورونا وائرس کے ذرات ہی تھے۔

مزید تحقیقی تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ وائرل ذرات ایئرکنڈیشنر کے وینٹی لیشن سے پھیلے تھے۔ واضح رہے کہ ہوٹل کی اسی منزل پر پہلے مریض کے ساتھ 73 مزید افراد بھی کھانا کھا رہے تھے مگر ان میں بیماری کی علامات 14 دن کے قرنطینہ میں ظاہر نہیں ہوئیں اور ٹیسٹ بھی نیگیٹو رہے۔ اسی طرح ریستوراں کے عملے میں سے بھی کوئی متاثر نہیں ہوا۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق ابھی محدود پیمانے پر ہوئی ہے، مگر اِس سے اتنا ضرور معلوم ہوگیا ہے کہ ایئرکینڈیشنر بھی کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

The post کورونامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

عہد حاضر کی سب سے بڑی دفاعی دیوار

$
0
0

چین میں عہد حاضر کی سب سے بڑی دفاعی دیوار کی تعمیر محض ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس دیوار کی تعمیر کو یقینی بنانے میں گیارہ کروڑ سے زائد رضا کاروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ تعداد خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ دیوار چین سے بھی لمبی اس دیوار نے نہ صرف چین کے طول عرض میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا بلکہ عالمی برادری کو بھی وائرس کے خلاف تیاری کے لیے قیمتی وقت فراہم کیا۔

چین کے شہر ووہان میں گذشتہ سال کے آخری ہفتے میں چند افراد میں نوول کورونا وائرس کی تصدیق نے چینی حکومت اور عالمی ادارہ صحت کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اس وائرس کی ساخت، اس کے خاندان، اس کے شکار افراد میں ظاہر ہونے والی علامات، اس کے تباہ کن اثرات اور اس کے پھیلاؤ کے طریقۂ کار سمیت بہت سے دیگر موضوعات کے بارے میں آپ نے بہت کچھ سن، دیکھ اور پڑھ رکھا ہوگا۔ ہم بات کریں گے کہ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابتدائی دفاعی دیوار کیسے تعمیر ہوئی اور اس دیوار نے کتنے عرصے تک دنیا کو اس وائرس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رکھا۔

چین میں دسمبر کے آخری ہفتے سے لے کر چھبیس جنوری تک کورونا وائرس نمونیا کے صرف دو ہزار مریض تھے۔ اگلے دس دنوں میں مریضوں کی تعداد 25 ہزار ہوگئی اور پھر آنے والے دنوں میں یہ تعداد بڑھتی چلی گئی اور لوگ تیزی سے مرنے لگے۔ تادم تحریر بھی اس وائرس کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں نئے کیسز اور اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا جنوری میں چینی حکومت نے اس وائرس کے سامنے دفاعی دیوار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔

وائرس کے سامنے دفاعی دیوار کی تعمیر

چینی حکومت اور طبی ماہرین وائرس کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک نہایت خطرناک وائرس ہے اور ایک شخص سے دوسری شخص میں نہایت تیزی کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد ممکن طریقہ اس کو محدود کرنا ہے۔

لہٰذا فوری طور پر ووہان کا مکمل اور چین کا جزوی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ووہان شہر اور صوبے ہوبے سے کوئی شخص، کوئی گاڑی، کوئی ٹرین یا کوئی بھی ہوائی جہاز باہر نہیں جا سکتا تھا۔ مجبوراً ووہان آنے والوں کو بھی ووہان سے واپس جانے کی اجازت نہ تھی۔

تئیس جنوری کو ووہان کے انسداد وبا کے کمانڈ سینٹر نے نوٹس نمبر 1 جاری کیا جس کے مطابق صبح دس بجے سے ووہان سے ہوائی اور ریلوے سفر کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔ اسی روز وزارت ٹرانسپورٹ نے فوری طور پر مطلع کیا کہ ملک بھر سے ووہان جانے والی سڑکوں اور آبی گزرگاہوں سے مسافروں کی آمدورفت معطل کردی گئی ہے۔

ووہان کے لاک ڈاؤن کو کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا گیا، لیکن چین کا موقف تھا کہ پہلا حق انسانی جان کی حفاظت اور تحفظ ہے۔ اس کے ساتھ پورے چین میں جزوی لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ یہ ایک نہایت مشکل اور حیران کن کام تھا لیکن ہم اپنی آنکھوں سے اسے ممکن بنتا دیکھ رہے تھے۔

چین بھر میں تمام رہائشی آبادیوں میں جانے والے داخلی راستے بند کردیے گئے۔ صرف ایک یا دو راستے کھلے رکھے گئے۔ ہر راستے پر پانچ سے دس تک رضاکاروں نے ذمہ داریاں سنبھال لیں، آبادی میں آنے والے ہر شخص کا درجۂ حرارت چیک کیا جانے لگا۔ آبادی میں داخل ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا، گذشتہ ایک ماہ کے دوران ان کے جانب سے اختیار کئے جانے والے سفر کی تفصیلات، ان کو لاحق امراض سمیت تمام ڈیٹا گھنٹوں کی بنیاد پر مرتب کیا جانے لگا۔

یہ ڈیٹا مختلف تحقیقی اداروں کے ساتھ شیئر کردیا جاتا جہاں سائنسی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کیا گیا اور پھر ہم نے مختلف شہروں میں پوری پوری آبادی کو قرنطینہ سینٹر بنتے دیکھا گیا۔ وائرس کے مشکوک شکار افراد کی نقل و حمل کو محدود بنا دیا گیا۔ یہ ایک ایسی دفاعی دیوار تھی، جس نے اس وائرس کے تیزرفتار پھیلاؤ کو فوری طور پر روک دیا۔

وائرس کا راستہ کیسے رکا؟

چین میں رضا کارانہ سرگرمیاں سال کے مختلف حصوں جاری رہتی ہیں۔ چین میں تیرہویں پنج سالہ منصوبے (2016-2020) میں طے شدہ ہدف کے مطابق رضارکاروں کی تعداد ملک کی کُل آبادی کا تیرہ فی صد ہوں گی۔ یہاں رجسٹرڈ رضا کاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا فیصلہ ہوا تو چین کے پاس ناممکن کو ممکن بنانے والے یہ زبردست عزم کے حامل لوگ موجود تھے۔

یہ ایک وقت کا کھانا گھر سے کھا کر آتے تھے اور دوسرے وقت کا کھانا گھر جاکر کھاتے تھے۔ یہ بارش، سردی، رات اور دن کی پروا کیے بغیر اپنے محاذ پر ڈٹ گئے۔ یہ اپنی نیند کرسیوں پر کچھ دیر اونگھ پر پوری کر لیا کرتے تھے۔ یہ مشکوک لوگوں کو شناخت کرتے اور فوری طور پر ایمبولینس طلب کرلیتے۔ یوں محض چند روز میں چین بھر سے کورونا وائرس کے تمام مشکوک لوگ شناخت ہوکر قرنطینہ میں منتقل کر دیے گئے، وائرس پھر بھی پھیلتا رہا لیکن اس کی جو رفتار جنوری کے آخری ہفتے اور فروری میں تھی مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی تیزی سے نیچے گرنے لگی۔

اگلے مرحلے میں ان لوگوں نے گھر گھر جاکر لوگوں کا درجۂ حرارت چیک کیا اور یوں محض دو سے تین روز میں ان کے پاس کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں، ان کے قریبی دوستوں، رشتوں داروں حتیٰ کے جن سے وہ ملے تھے ان کا بھی ڈیٹا موجود تھا۔ یہ ایک بڑی کام یابی تھی جسے ان رضاکاروں نے ممکن بنایا۔

زندگی کا پہیہ رواں دواں

چین کے اکثر حصوں میں وبا کے بدترین دنوں میں بھی زندگی کا پہیہ رواں دواں رہا۔ اس میں بھی ان رضاکاروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ بسوں اور سب ویز میں داخل ہونے والوں کا درجۂ حرارت چیک کرتے، ماسک پہننے کو یقینی بناتے اور ان کے ہاتھوں پر سینی ٹائزر لگاتے اور انہیں سواری میں بیٹھنے کی اجازت دے دیتے۔

یہ بڑے بڑے شاپنگ مال سے لے کر چھوٹے سے جنرل اسٹور کے باہر بھی لوگوں کا درجۂ حرارت چیک کرتے، لوگوں کو اس حوالے آگاہی فراہم کرتے رہے۔ چھوٹے دکان داروں کو کہا گیا کہ وہ اپنے پاس آنے والے ہر گاہک کا درجۂ حرارت خود چیک کریں اور اس کا اندراج ایک فارم پر کریں۔ اس کے بعد گاہکوں کے درمیان مناسب فاصلے کو یقینی بنانا بھی دکان دار کی ذمہ داری قرار پایا۔ یوں نہ تو اشیائے ضروریہ کی قلت پید ا ہوئی نہ ہی قیمتیں بڑھیں۔

تفریحی مقامات، شاپنگ مالز اور فیکٹریوں میں

آبادیوں اور کمیونٹیز کو مکمل محفوظ بنانے کے بعد سب سے اہم کام پارکوں، شاپنگ مالز اور فیکٹریوں میں معمولات کی بحالی تھی۔ اس کام میں بھی چین کی ریاستی مشینری کے ساتھ ساتھ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے نہ صرف پارکوں کے داخلی دروازوں پر ذمے داری سنبھالی پارک میں داخلے کے وقت بھی درجۂ حرارت کی چیکنگ کو یقینی بنایا گیا، بلکہ پارکوں کے اندر تمام جھولوں اور ورزش کی مشینوں کے گرد حفاظتی باڑ لگا دی گئی۔ اس دوران حکومت بھی اپنے انتظامات کو موثر بناتی چلی گئی۔ عام تھرمامیٹرز کی جگہ تھرمل اسکینر آگئے۔ عوامی مقامات، بسوں اور سب ویز میں سپرے کیے گئے۔ مرحلہ وار فیکٹریوں میں کام شروع کردیا گیا۔

آنے والے وقت کی تیاری

پانچ مارچ کو چینی نوجوان رضا کاروں کا دن منایا جاتا ہے۔ چینی صدر مملکت شی چن پھنگ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی اٹھارھویں کانگریس کے بعد مختلف مواقع پر اس امید کا اظہار کیا کہ تمام رضا کار، فلاحی تنظیمیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے۔

چین میں زیادہ سے زیادہ افراد بطور رضاکار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت تک چین میں رضاکار تنظیموں کی تعداد پانچ لاکھ اسی ہزار سے زائد ہے جب کہ رجسٹرڈ رضاکاروں کی تعداد گیارہ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

اس وقت چین کے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس نمونیا کی وبا کے خلاف جدوجہد کے دوران ہر جگہ رضاکار نظر آر ہے ہیں۔ وہ طبی عملے کے ساتھ مریضوں کی مدد کررہے ہیں، امدادی سامان کی منتقلی اور تقسیم میں مصروف ہیں یا رہائشی کمیونٹی میں عام شہریوں کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چین کے صدر شی جن پھنگ کی بے مثال قیادت، چینی کمیونسٹ پارٹی کی راہ نمائی اور چینی قوم کے عزم کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ چین میں معمولات زندگی 98 فی صد سے زائد بحال ہوچکے ہیں۔ ووہان میں لاک ڈاؤن ختم ہو چکا ہے۔

پاکستان میں اس وقت بھی وائرس کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ یقیناً حکومت کی جانب سے مثبت اقدامات اختیار کیے گئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ تن تنہا اس وائرس کا راستہ نہیں روک سکتی، لوگوں کو ضروریات زندگی فراہم نہیں کرسکتی۔ ہماری معیشت اس وبا کے مالی دباؤ کا سامنا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمیں چین کے کامیاب تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے معمولات زندگی کی بحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

The post عہد حاضر کی سب سے بڑی دفاعی دیوار appeared first on ایکسپریس اردو.

آدمی کو بھی میسر ’’ہُوا‘‘ انساں ہونا

$
0
0

گذشتہ برس کے آخر تک کارہائے زندگی کا پہیا انتہائی سبک رفتاری سے گھوم رہا تھا، دنیا ہر آن بدل رہی تھی، کائنات کی وسعتیں اس کی اگلی منزل تھی۔ ستاروں پر کمند ڈالتا انسان چاند کو مسخر کرنے کے بعد خلا میں چھلانگیں لگاتا مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا تھا۔

ابھی چند ہی ماہ پہلے کی تو بات ہے امریکی صدر نے ” خلائی فورس” بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ خلانوردوں کے علاوہ چاند پر عام آدمی کو بھی محض “سیروتفریح” کے لیے بھیجنے کی تیاریاں تھیں اور پہلے خوش نصیب کا اعلان بھی ہوگیا تھا۔ زمین پر جان داروں کی زندگی اجیرن کرنے والا انسان اپنے لیے خلاؤں میں پناہ کا متلاشی تھا۔

یہ بھی کچھ زیادہ عرصے پہلے کی بعد نہیں جب طاقت کے زعم میں بھارتی حکومت نے جنت نظیر وادی میں “لاک ڈاؤن” کا عفریت نافذ کرکے مقبوضہ کشمیر کو قیدخانے میں تبدیل کردیا تھا۔ کسی مظلوم کی آہ سے مودی کا دل پگھلتا نہ تھا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب “شام” میں روزو شب جنگی طیارے بم برساتے نہ ہوں۔

عمارتوں کے ملبے سے کچلے ہوئے انسانی اعضا اور مسلے ہوئے پھول کی طرح بچوں کی لاشیں ملتیں، جو بچ جاتے وہ کسی ساحل پر ایلان کی طرح مردہ حالت میں پائے جاتے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا عراق و لیبیا میں خوں ریزی کو، یمن میں تباہ حال مکانات اجاڑ بستی کا منظر پیش کرتے اور غذائی قلت کے شکار لاکھوں بچوں کی ماند پڑتی سسکتی سانسیں کل ہی کی تو بات ہے۔

افغانستان دہائیوں سے دھماکوں، میزائل حملوں اور دو بدو جھڑپوں میں سستانے کو سہی کچھ دیر “وقفے” کا متلاشی تھا اور افریقی ممالک غربت سے لڑتے لڑتے تھک چکے تھے کہ شدت پسندی نے پنجے گاڑھ لیے۔ایسا نہیں کہ دنیا کے ہر خطے میں جنگ چھڑی ہوئی تھی، کئی ممالک ان جنگوں سے مستفید بھی ہورہے تھے۔ اسلحہ سازی عروج پر تھی اور اربوں ڈالر کی کمائی ہورہی تھی۔ پیسے کی ریل پیل، بلند عمارتیں، جدید سہولیات، ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، کھیل، تفریح اور اپنی مستی میں مست ممالک کے باسی اپنا مستقبل روشن سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔

کارخانوں، گاڑیوں، طیاروں، ریلوں اور بھانت بھانت کی فیکٹریوں نے فطرت سے اس کا فطری حسن ہی نہیں چھینا تھا بلکہ کرۂ ارض پر رہنے والے دیگر جان داروں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ایسے میں شاید ضروری ہوگیا تھا کہ انسانوں کو ان کی اوقات یاد دلائی جائے۔

فطرت کا انتقام کہیں یا قدرت کی ” وَیک اَپ کال”۔۔۔کورونا آگیا۔ کورونا چین سے شروع ہوا اور کسی “بلٹ پروف” جیٹ طیارے کی رفتار سے پوری دنیا میں جیسے جیسے پھیلتا گیا، ویسے ویسے انسانوں کو نگلتا گیا۔ عالمی ادارۂ صحت کی ویب سائٹ پر جاری اعدادوشمار کے مطابق 20 اپریل تک کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 15 ہزار 707 ہوگئی ہے جب کہ اس مہلک وائرس نے 22 لاکھ 45 ہزار 872 انسانوں کو بیمار کیا ہے۔

ستاروں پر کمند ڈالنے کا شوق ہوا ہوگیا، بلند عمارتیں ویران اور صنعتیں بند ہوگئیں۔ بھانت بھانت کی کھانے بنانے والے ریستورانوں پر تالے پڑ گئے، انسان گھر کی چاردیواری تک محدود ہوگیا تو اس زمین کے اصل وارث چرند پرند فضاؤں میں نغمے بکھیرتے خوشی سے جھومتے نظر آئے، اب انہیں کسی طیارے سے ٹکرانے کا ڈر نہیں اور نہ ان کی گھن گرج کا خوف ہے۔ طویل شاہراہوں پر جانور چہل قدمی کر رہے ہیں۔

ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایثار، قربانی، خلوص اور چاہت جیسے انسانی جذبے کہیں کھو سے گئے تھے، یہ نام ہی اجنبی ہوگئے تھے۔ شاذونادر کہیں کوئی شخص اپنے انسان ہونے کا ثبوت دے دیا کرتا تھا لیکن اب جہاں کورونا وائرس سے بہت سی قیمتی چیزیں چلی گئیں وہیں سب سے قیمتی چیز انسانیت لوٹ آئی ہے۔

کورونا وائرس مریض کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس سے مریض کو سانس لینے میں انتہائی دقت کا سامنا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ موت کی وادی میں جا بستا ہے، زندگی کا سارا دارومدار “وینٹی لیٹر” پر ہوتا ہے، جس سے وہ مصنوعی طریقے سے سانس لیتا رہتا ہے یہاں تک کہ کورونا وائرس جسم میں اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور مریض صحت یاب ہوکر گھر لوٹتا ہے۔

اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے وینٹی لیٹر کم پڑ گئے ہیں۔ طبی عملے کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کس مریض کو ترجیح دی جائے اور کسے محروم رکھا جائے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وینٹی لیٹر اس کے پیارے کو مل جائے۔ ایسے دل خراش مرحلے پر کچھ معمر مریضوں نے کم عمر مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر سے دست بردار ہو کر ایثار اور قربانی جیسے جذبوں کی یاد تازہ کردی۔

امریکی ریاست پنسلوانیا میں 65 سالہ سابق نرس نے یہ کہہ کر وینٹی لیٹر ایک نوجوان مریض کو دے دیا کہ میں زندگی کی تمام ہی بہاریں دیکھ چکی ہوں، اپنا وقت کاٹ لیا اور تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکی اس لیے وینٹی لیٹر کسی نوجوان مریض کو دیا جائے جسے ابھی اپنی زندگی جینی ہے اور اپنے خواب پورے کرنے ہیں۔ نرس ڈارلیں فیریئر کی حالت بگڑ گئی اور وہ جانبر نہ ہوسکیں لیکن ان کی جگہ وینٹی لیٹر سے مستفید ہونے والا نوجوان چند روز بعد صحت یاب ہوگیا۔ اسی طرح بیلجیئم کی 90 سالہ خاتون سوزین اور اٹلی کے پادری 72 سالہ گوسپے براردیلے نے نوجوان مریضوں کے حق میں وینٹی لیٹر سے دست بردار ہوکر موت کو ہنستے ہوئے گلے لگایا۔ دیگر ممالک میں بھی ایسے واقعات درجنوں کی تعداد میں رونما ہوئے ہیں۔

گذشتہ برس ہی مس انگلینڈ منتخب ہونے والی24 سالہ بھاشا مکرجی اس وبا کے دورانیے کو کسی مہنگے ہوٹل یا خوب صورت جزیرے میں سب سے الگ تھلگ گزار سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے اپنے پرانے پیشے طب میں لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ معروف ماڈل نے ملکہ حسن کا تاج اتار کر ڈاکٹر کا گاؤن پہنا اور اسپتال میں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے “فرنٹ لائن فائٹر” بن گئیں۔

مسلم ملک ملائیشیا کی ملکہ تنکو عزیزہ کو دنیا کی ہر آسائش میسر ہے وہ شان دار اور محفوظ محل میں یہ کٹھن دور گزار سکتی تھیں لیکن انہوں نے اس محاذ میں خاموش تماشائی بننے کے بجائے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ وہ طب کے پیشے سے تو منسلک نہیں البتہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں ذائقہ دیا اور اس نعمت کو انہوں نے خدا کی مخلوق کی مدد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملکۂ ملائیشیا اپنے محل میں اپنے ہاتھوں سے لذیذ کھانے بنوانے کر اسپتال کے عملے اور مریضوں کو بھجواتی ہیں۔

سویڈن کی شہزادی 35 سالہ صوفیہ نے آن لائن تربیت لے کر اسٹاک ہوم اسپتال میں کورونا وائرس کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی معاونت شروع کردی ہے۔ سویڈن میں کورونا وائرس کے باعث طبی عملے پر پڑنے والے بوجھ کو دیکھتے ہوئے شہریوں کے لیے نرسنگ کے مختصر کورس کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سویڈن کی شہزادی بازی لے گئیں۔

شامی نژاد 32 سالہ ایوارڈ یافتہ فلم ساز حسن عقاد اس وقت برطانیہ کے محکمۂ صحت میں ایک کلینر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اسی طرح کھیل اور شوبز دنیا کے کئی ستارے اپنے گھر، ہوٹل اور فارم ہاؤسز کو قرنطینہ مرکز بنانے کی پیشکش کرچکے ہیں، کئی عملی طور پر اسپتالوں میں طبی عملے کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت خلق خدا کو لوٹا رہے ہیں۔ فنڈز جمع کیے جارہے ہیں۔ دولت جمع کرنے، منافع کمانے کے بجائے مدد کرنے کا جذبہ غالب آرہا ہے۔ جنگیں تھم گئی ہیں، جھڑپوں کا سلسلہ رک گیا، طیارے بم لے کر اڑتے نہیں پھر رہے اور لگتا ہے انسانیت جاگ گئی ہے۔

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

امیر قزلباش

The post آدمی کو بھی میسر ’’ہُوا‘‘ انساں ہونا appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونائی ادب : صورت حال پر معروف مزاح نگار کی شگفتہ تحریر

$
0
0

صاحبو! ہم تو پہلے ہی گھر کے آدمی تھے…یا پھر گھروالی کے لیکن کورونانے تو گویا پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ ہم نے بھی ’’عوام کے وسیع تر مفاد میں‘‘ یہ بیڑیاں، اٹھکیلیاں سمجھ کر قبول کرلی ہیں۔ اب تو گھر کی چاردیواری کی عادت پڑگئی ہے۔

کنویں کے مینڈک بننے ہی میں خوش ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن‘‘ نے سارے کس بل نکال دیے۔ گھر کے باہر ہر طرف ’’کورونا‘‘کی ہوائیں اور گھر کے اندر مسلسل صدائیں کہ ’’یہ کروناں، وہ کروناں۔‘‘ کورونا کیا آیا، عورتوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ خود آرام کے مزے لُوٹ رہی ہیں اور بے چارے مردوں پر نِت نئے ’’آلام‘‘ تھوپ رہی ہیں۔

ہم دن کے اول حصّے میں صِرف لکھتے تھے۔ اس لیے بیگم کا ہم پر الزام تھا کہ ’’آپ کچھ نہیں کرتے۔‘‘ ان کے نزدیک لکھنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام تو وہ ہے جو وہ خود کرتی ہیں یا کسی کو تفویض کردیتی ہیں، مثلاً پیاز چھیلنا، مٹر کا سینہ چیر کے اس کے تمام بیج باہر نکال لینا یا دال میں سے کنکر نکالنا، جس کو وہ گردے کی پتھری نکالنے سے زیادہ مشکل سمجھتی ہیں۔

بہرحال، ہم اب بھی لکھتے ہیں لیکن اس طرح جیسے کوئی منچلا، سارجنٹ سے نظر بچا کر ٹریفک کا سگنل توڑتا ہے۔ اُنھیں اور اُن جیسی بہت سی خواتین کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ ماسیوں کو چھٹی دے کر اُنھیں اب روٹی، کھانے سے پہلے، پکانی بھی ہوتی ہے۔

اس پر مزید ’’ظلم‘‘یہ کہ دو روٹیاں گھر کے مسکین مرد کے لیے بھی ڈالنی پڑتی ہیں۔ باورچی خانے میں جانے سے قبل بیگم ہم پر ایسی آتشیں نظر ڈالتی ہیں جیسے ’’کورونا‘‘ ہماری ہی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔ اُنھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جب کچن میں اُن کا مزاج عرش پر ہوتا ہے توہم بھی بے کار نہیں ہوتے…فرش پر مصروف کار ہوتے ہیں (ع اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!) پرسوں ہمیں بھی غصہ آگیا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، میڈم کو بصداحترام کچن میں جانے سے روک دیا اور خود گُھس گئے۔

ہم نے گُندھے ہوئے آٹے پر طبع آزمائی شروع کردی۔ بیلن گھما گھما کر ایک پیڑے کو ہموار کیا اور اسے چولھے پر رکھے ہوئے چپٹے تَوے پر ڈال دیا۔ اب ہم انتظار کرنے لگے کہ روٹی پک کر تیار ہو لیکن وہ تو پکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ پکتی بھی کیسے؟ چولھا تو ہم نے جلایا ہی نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ماچس تلاش کی اور چولھا جلایا۔ دوتین منٹ میں روٹی جیسی کوئی شے ’’جَل‘‘ کر تیار ہوگئی۔

بیگم جو دور بیٹھی یہ سب تک کر ’’پک‘‘ رہی تھیں، لپک کرقریب آئیں اور ہمیں پرے دھکیلتے ہوئے بولیں ’’یہ جو آپ نے میرا آٹا ضائع کیا ہے ناں، اسے خود ہی کھائیے گا۔‘‘ ہم ’’او کے، باس‘‘ کہہ کر پیچھے ہٹے لیکن ہمت کرکے اتنا ضرور کہا ’’میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ جو ہاتھ قلم چلاتے ہیں، وہ بیلن بھی چلاسکتے ہیں۔‘‘

شام کو ہم گھر کے قریب ایک پارک میں ہواخوری کے لیے جاتے تھے جہاں اب خواری کے سوا کچھ نہیں۔ انتظامیہ نے تالا ڈالنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، گیٹ پر ایک موٹا تازہ گارڈ بھی بٹھا دیا ہے۔ ایک دن ہم غلطی سے اُدھر جانکلے۔ اس نے ہمیں یوں گھُورکر دیکھا جیسے ہم کوئی لَڈّن جعفری ہوں۔ لہٰذا اب شام کا وقت بھی مطالعے کو دے دیا ہے جو رات کو بستر پر لیٹ کرکیے جانے والے مطالعے کے علاوہ ہے۔ ’’ٹَیم‘‘ تو کٹ جاتا ہے لیکن احباب کی صحبت سے محرومی کا قَلَق ہے کیوںکہ ؎

زندگی ہے نام لطفِ صحبتِ احباب کا

یہ نہیں فانیؔ تو جینا کوئی جینا ہی نہیں

کئی ماہ سے ’’کُلّیاتِ آتشؔ‘‘ زیرِمطالعہ ہے۔ نو ہزار اشعار لفظ بہ لفظ پڑھ لیے ہیں، چند باقی ہیں۔ کل ایک شعر پر نظر پڑی اور وہیں جم گئی۔ سوچ میں پڑ گئے کہ ہم کو تو کورونا نے گوشہ نشین کردیا ہے، حضرتِ آتشؔ پر کیا اُفتاد آن پڑی تھی جو وہ یہ کہتے ہوئےIsolation میں چلے گئے کہ ؎

اس قلزمِ ہستی میں ہیں وہ گوشہ نشیں ہم

دن رات رہا مِثلِ حباب اپنا مکاں بند

آج کل ہمیں رئیس امروہوی بھی بہت یاد آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سامنے ہی کھڑے فرمارہے ہیں ؎

وہ اور دبینر ہوگئے ہیں

میں اور مہین ہوگیا ہوں

مے خانہ نشین ہوگئے وہ

میں، خانہ نشین ہوگیا ہوں

ہم نے یہ چند اشعار ریڈیو پاکستان کی سینیرپروڈیوسر، شاعرہ، افسانہ نگار اور ناول نویس محترمہ سیمارضا کو ٹیلی فون پر سنائے تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اس موضوع پر مضمون لکھیں۔ اب ہم جُوں جُوں اردو شاعری میں غوطے لگاتے گیے، اس میں سے کورونا برآمد ہوتا رہا جس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎

مصحفیؔ گوشۂ عُزلت کو سمجھ تختِ شہی

کیا کرے گا تُو عبث ملکِ سلیماں لے کر

فانیؔ پر بھی یہ وقت آیا جس کا ذکر ’’کلّیاتِ فانی‘‘ میں یوں ملتا ہے ؎

یادِ ایّام عیش برنائی

ہم ہیں اب اور کنجِ تنہائی

یا پھر ؎

پاکیزہ ہوا کی تازگی سے محروم

دیواروں میں بند روشنی سے محروم

مگر فانیؔ تو حریصِ حُزن تھے۔ ان کے لیے اتنا کچھ کافی نہیں تھا۔ کورونا کی بھرپور پذیرائی کی خاطر انھوں نے حضورِ حق میں دعا کی ؎

اپنے دیوانے پہ اِتّمامِ کرم کر یارب

درودیوار دیے، اب اِنھیں ویرانی دے

1950ء؁کی ہندوستانی فلم ’’آرزو‘‘ کے لیے مجروح سلطان پوری نے ایک نغمہ لکھا جو طلعت محمود کی پُرسوز آواز میں دلیپ کمار پر فلمایا گیا۔ آج یہ نغمہ سنو تو معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں میں ’’کورونا‘‘ پھیلا ہوا تھا۔ دو شعر دیکھیے ؎

اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو

اپنا پرایا مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو

جاکر کہیں کھو جاؤں میں، نیند آئے اور سو جاؤں میں

دنیا مجھے ڈھونڈے مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو

1950ء؁ ہی کی فلم ’’بابل‘‘ کے لیے شکیل بدایونی نے ایک دوگانا لکھا، جسے دلیپ کمار اور منور سلطانہ نے فلم میں گایا۔ اس کا ایک شعر آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے۔ دیکھیے آج کے حالات پر کتنا ’’فِٹ‘‘آتا ہے ؎

دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی

ایسی چلی ہوا کہ خوشی دکھ میں ڈھل گئی

کوئی نئی صورتِ حال ابھرے اور کلامِ غالبؔ میں اس کی عکاسی نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اب دیکھ لیجیے، مرزا نے ڈیڑھ صدی قبل کورونا سے موثر بچاؤ کے موضوع پر ایک پوری غزل کہہ ڈالی تھی؎

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

۔۔۔

بے درودیوار سا اِک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

۔۔۔

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

’’دیوانِ غالبؔ‘‘ کے چند دیگر مقامات سے بھی اُس دور میں کورونا کا سراغ ملتا ہے۔ مثلاً ان اشعار سے اس ’’محفل ساز‘‘ شاعر کے کرب کا اندازہ لگائیے ؎

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوش قدح سے بزم، چراغاں کیے ہوئے

۔۔۔

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

۔۔۔

کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک

آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

ہم نے اس مضمون میں صرف اساتذہ کے کلام کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ طوالت سے بچنے کی خاطر ہم عصر شعرا کو چھوڑدیا ہے لیکن ہماری ایک سینیر شاعرہ پروفیسر رضیہ سبحان قریشی نے کافی عرصے پہلے یہ شعر کہا تھا جو آج کے حالات، خصوصاً ڈاکٹروں اور دیگر طبّی عملے کی کیفیات پر سو فی صد صادق آتا ہے ؎

مسیحا جاں سے اپنی جارہا ہے

اندھیرا روشنی کو کھا رہا ہے

اب ذرا خدائے سخن میر تقی میرؔ کی سنیے۔ آپ قائل ہوجائیں گے کہ شاعری جزویست از پیغمبری ؎

سارے عالم کے حواسِ خمسہ میں ہے انتشار

ایک ہم تم ہی نہیں معلوم ہوتے وہ ولے

اورا ب آخر میں حضرت اکبرؔ الٰہ آبادی کا یہ دلاسا سن لیجیے جو آج کے بڑے بڑے کورونا ایکسپرٹ بھی دے رہے ہیں ؎

مبدّل اس کو راحت سے خدا کردے گا اے اکبرؔ

مصیبت کی مگر افسوس ابھی تکمیل باقی ہے

The post کورونائی ادب : صورت حال پر معروف مزاح نگار کی شگفتہ تحریر appeared first on ایکسپریس اردو.

مشرقی اور مغربی جرمنی کے تنازعہ پر تیسری عالمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی

$
0
0

( قسط نمبر11)

1918 میں جب جنگ عظیم اوّل ختم ہو ئی تو جرمنی کی کل آبادی 64800000 تھی جب کہ اس دوران سالانہ آبادی میں اضافہ 3% رہا۔ جنگ کے بعد جرمنی نے فرانس کے وارسائی محل میں ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کئے جس میںجرمنی پر بھاری تاونِ جنگ ، اسلحہ سازی اور بڑی فوج رکھنے سے دست برداری شامل تھی۔

ان وجوہات کے سبب جرمنی کی معیشت اتنی گری کے کہ ایک ڈالر کی قیمت کئی ہزار جرمن مارک ہو گئی ،جرمنی تومعاشی اقتصا دی بحران کا شکار ہوا ہی لیکن جنگ کے معاشی اور اقتصادی منفی اثرات جنگ کے دس گیارہ سال کے اند ر اندر پوری دنیا میں 1930-33 کی عالمی کساد بازاری کی صورت میں نمایاں ہو ئے اور اسی دوران جرمنی میں 1933 میں ایڈولف ہٹلر نے اپنے نازی ازم کے تحت اقتدار اور قوت حاصل کرنا شروع کی اور 1938-39 میں اُس نے بر طانیہ ،فرانس سمیت پورے یورپ کو چیلنج کرتے ہوئے دوسری جنگ عظیم کا آ غاز کر دیا۔ اگرچہ 1942 کے آخر اور 1943 کے آغاز سے جرمنی کی پسپائی شروع ہو گئی تھی لیکن 1944 میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب جرمنی کی شکست کے دن گنے جا چکے ہیں۔

ہاں البتہ امریکہ ، برطانیہ ،فرانس ، اور سویت یونین سمیت دیگر اتحادیوں کو اگر فکر تھی تو یہ تھی کہ کہیں جرمنی پہلے ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب نہ ہو جائے کیونکہ ایسی صورت میں ہٹلر سے کسی قسم کی انسانی ہمدری کی توقع نہیں تھی اور ہٹلر نے چند دنوں میں دنیا کو خاکستر کر دینا تھا یوں 1944 میں اتحادیوں کی کمیٹی جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے نکات بھی طے کر رہی تھی جس میں پہلی جنگ ِعظیم کے بر عکس حکومتی سربراہ کی مرضی کے ساتھ سول سربراہ کے بجائے فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر جرمن فوج کے کمانڈر کے دستحط لازمی کرانے پر زور دیا گیا۔ 1944 میں اتحادی فوجیں فرانس کے علاقے نارمنڈی کے بیچ شمالی علاقے میں اتریں اور جرمن فوج کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔

20 اپریل 1945 کو ایڈولف ہٹلر کی پیدائش کا دن تھا اس سے چار روز قبل ہی روسی جنرل مارشل ژاکوف نے مشرق اور شمال سے جرمنی پر گولہ باری شروع کر دی برلن کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ ہٹلر شہر میں موجود تھا اور جرمن کمانڈر جنرل Gotthard Heinric گوٹھارڈ ہینرک اور جنرل کورٹ ون ٹیپیلسکیرچ تھے۔ جرمنی کی 36 ڈویژنوں پر مشتمل 766750 فوج2224 لڑکا طیارے 9303 توپیں، 45000 افراد پر مشتمل اسپیشل پویس اور ہٹلر کا خصوصی فوجی دستہ جو40000 جانبازوں پر مشتمل تھا برلن کے دفاع کی جنگ لڑا رہے تھے۔ دوسری جانب سویت یونین کے سربراہ اُس وقت اسٹالن تھے۔

سوویت جنرل جیارگے ژاکوف، جنرل کونسٹنٹین روکوسوویسکی اور اوین کونیف 2300000 روسی فوج 200000 پولیش فوج کے ساتھ جرمنی میں داخل ہو کر دارالحکومت برلن کا محاصرہ کرچکے تھے۔ اِن کے پاس 6250 ٹینک 7500 لڑاکا طیارے اور توپ خانہ 41600 توپوں پر مشتمل تھا۔ سویت فوج نے برلن کے محاصرے پر پندرہ لاکھ فوج لگا ئی۔ برلن کی لڑائی16 اپریل سے2 مئی 1945 تک دو ہفتے دو دن جاری رہی۔ اِس جنگ کی ہولناک تباہی کا اندا ہ کیجئے کہ سولہ روزہ جنگ کے اختتام پر نہ صرف 2 مئی 1945 کو ایڈ ولف ہٹلر نے خود کشی کر لی بلکہ جرمن فوج کے ایک لاکھ فوجی ہلاک دو لاکھ20 ہزار سے زیادہ زخمی اور ہتھیار ڈالنے پر 4 لاکھ 80 ہزار جرمن فوجی گرفتار ہو ئے اور برلن شہر کے اندرونی اُس حصّے میں جہاں ہٹلر نے خود کشی کی وہاں مزید 22 ہزار جرمن فوجی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں جرمن سویلین ہلاک ہو ئے۔

دوسری جانب سوویت فوج کے 81 ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک 2 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جنگ میں سویت یونین کے 1997 ٹینک 917 طیارے اور محتلف قسم کی 2108 توپیں تباہ ہوئیں۔ اگر چہ 2 مئی کو برلن میں جرمن فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے لیکن با ضابط طور پر 7 مئی کو جرمن کمانڈر اِن چیف جنرل کیٹل نے اتحادی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کئے جو انگریزی ،روسی اور جرمن زبانوں میں لکھی گئیں تھیں۔

مغربی اتحادیوں نے فتح کا جشن 8 مئی کو منا یا اس کے تین مہینے بعد جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے اور جاپان نے بھی ہتھیار ڈال دئیے اورپھر25 اکتوبر1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا یا برلن کے مشرقی حصے سمیت مشرقی جرمنی میں روسی فوجیں موجود تھیںتو مغربی برلن سمیت مغربی جرمنی میں امریکہ ،فرانس اوربر طانیہ کی فو جیں مو جود تھیں اور برلن شہر سمیت شکست خوردہ جرمنی دو حصّوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ برلن شہرجہاں جرمن فو جوں کے ہتھیار ڈالنے پر دنیا بھر میں سات کروڑ سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت کے بعد دوسری جنگِ عظیم ختم ہو ئی تھی اسی لمحے وہیں سے سرد جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں سب سے زیادہ روسی ہلا ک ہو ئے تھے جن کی تعداد ایک کروڑ 40 تک بتائی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک کر وڑ عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔

ہلاک ہو نے وا لے جرمن فوجیوں کی تعداد 53 لاکھ 18 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ30 لاکھ جرمن شہری بھی لقمہء اجل بن گئے۔ فرانس کے 21 لاکھ فوجی اور 4 لاکھ سویلین اورامریکہ کے 4 لاکھ 46 ہزار فوجی اور 12 ہزار سویلین جبکہ بر طانیہ کے 383700 فوجی اور67 ہزار سویلن دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہوئے۔

جب اقوام متحدہ کی تشکیل اور خصوصاً سیکورٹی کونسل بنی تو سویت یونین کی پوزیشن سرد جنگ میں سیاسی طور پر مغربی اتحاد کے مقا بلے میں کمزور تھی۔ وہ اُس وقت سیکورٹی کو نسل کے پانچ مستقل اور ویٹو رکھنے والے ملکوں میں ایک تھا۔ یعنی اُس کا حصہ صرف 20% تھا۔ پھر جب امریکہ نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کر لیا تھا تو ظاہر ہے کہ اُس وقت امریکہ کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں تھے مگر جرمنی کے مشرقی حصے پر نہ صرف سویت یونین نے اپنا قبضہ مضبوط کرلیا تھا بلکہ یہاں کیمونزم کے تحت ملک کا نظام استوار کر لیا تھا اور ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر بھر پو ر توجہ مرکوز کی یہاں تک کہ امریکہ سے ایٹمی راز چرائے گئے۔ 1949 میں سوویت یونین نے ایٹمی دھماکہ بھی کر لیا۔

24 جون 1948 سے 11 مئی 1949 تک سویت یونین نے برلن کی ناکہ بندی کرلی یا یوں کہیں کہ برلن کو محاصرے میں لے لیا جس کو امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس نے برلن بلاک کہا۔ سویت یونین نے برلن آنے والے ریلوے اور سڑک کے تمام راستے بند کر دئیے یوں مغربی اتحادی یعنی امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس برلن میں رسد نہیں پہنچا سکتے تھے کیوں کہ منقسم برلن کے جو حصے اِن کے قبضے میں تھے وہ چاروں اطراف سے سویت علاقوں میں گھرے ہوئے تھے۔

سوویت یو نین کی جانب اس سے محاصرے کا مقصد اِن مغربی قوتوں کو مجبور کر نا تھا کہ وہ تنگ آکر سویت یونین کو مغربی برلن کو خوراک اور ایندھن کی فراہمی کی اجازت دیں اور اس طرح پورے برلن شہر پر سوویت یو نین کا قبضہ ہو جائے۔ عام حالات میں شائد امریکہ طاقت کے استعمال پر زور دیتا لیکن شائد اُس وقت امریکی سی آئی اے امریکی صدر اور حکو مت کو سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیار وں کی تیاری کی اطلاعات دے چکی تھی یوں سوویت یونین کی جانب سے محاصرے کا جواب مغربی اتحاد نے فضائی نقل وحمل یعنی Berlin Airlift کے آغاز سے دیا۔

24 جون 1948 سے11 مئی 1949 تک امریکہ ،برطانیہ اور دولت ِ مشترکہ کے دوسرے ممالک خصوصاً آسٹریلیا کے سامان بردار بڑے طیاروں نے اِن گیارہ مہینوں کے دوران دولاکھ سے  زیادہ اڑانیں بھریں اور اس دوارن 13 ہزار ٹن غذائی اشیا روزانہ برلن پہنچائیں۔ اس فضائی کارروائی سے سوویت یونین کو خفت اٹھانا پڑی اور اِس نے برلن کا محاصرہ اُٹھا لیا۔ البتہ ان گیارہ مہینوں میں فضائی سپلائی کے دوران 101 جانیں ضائع ہوئیں جن میں40 برطانوی اور 31 امریکی شامل تھے۔ زیادہ تر ہلاکتیں ہوائی جہازوں کے گرنے کی وجہ سے ہو ئیں۔ اس آپریشن کے دوران17 امریکی اور 8 بر طانوی ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوئے اور اس پورے عمل پر 224 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔

امریکہ نے اس آپریشن کا نام operation Vittles برطانیہ نے Operration Plainfare اور آسٹریلیا نےOperation Pelican رکھا تھا۔ سرد جنگ کے حوالے سے یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پہلا بڑا واقعہ تھا جس میں سوویت یونین نے ایک شدید نوعیت کا قدم اٹھایا تھا اور اسکے مقابلے میں امریکہ ،برطانیہ،فرانس نے سیاسی حکمت ِعملی اپنائی تھی جو کا رگر ثابت ہوئی۔

جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے تو یہ پہلا واقعہ تھا کہ سیکورٹی کونسل کے ایک ویٹو پاور ممبر سوویت یونین کے مقابل باقی ویٹو ممبر ان کھڑے ہو گئے تھے اور پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں  بھی فیصلہ طاقت آزمائی اور سیاسی حکمت کی بنیاد پر ہوا تھا اور جرمنی اور خصوصاً برلن شہر کی تقسیم اور اس پر قبضے کا تنازعہ حل نہیں ہو ا تھا۔ اس عالمی نوعیت کے تنازعہ کے فوراً بعد 4 جو لائی 1949 کو امریکہ ،بیلجیم ، لکسمبر گ، نیدر لینڈ، فرانس کینیڈا، پرتگال، اٹلی، ڈنمارک اور آئس لینڈ نے نیٹوNATO Narth Atlantic Treaty Organisation یعنی  شمالی اقیانوس اتحاد کی تنظیم تشکیل دے دی۔

اس کے تین سال بعد 18 فروری 1952 کو نیٹومیں یونان اور ترکی بھی شامل ہو گئے۔ 1954 میں سوویت یونین نے بھی اس میں شمولیت کے لیے درخوست دی کہ وہ اس میں یورپ کے امن کے لیے شامل ہو نا چاہتا ہے لیکن نیٹو میں شامل اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ 9 مئی 1955 کو مغربی جرمنی کو بھی نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور ناروئے کے وزیر خارجہ نے اس کو اہم موڑ قرار دیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1999 میں تین سابق کیمونسٹ ملک ہنگری، چیک ری پبلک جمہوریہ اور پولینڈ نیٹو میں شامل ہو گئے29 مارچ 2004 کو شمالی اور مشرقی یورپ کے مزید سات ملک اسٹونیا، لٹویا، سلودینیا، سلواکیہ، بلغاریہ، اور رومانیہ بھی نیٹو میں شامل ہو گئے اِن کے علاوہ البانیہ مقدونیہ، جارجیا،اور کرو شیا نیٹو کی رکنیت کے خواہش مند ہیں۔  جب نیٹو تشکیل پائی اور اس میں مغربی جرمنی شامل ہوا تواس کے ردعمل میں سوویت یونین نے اپنے اتحادیوں پر مشتمل 15 جولائی 1955 کو پولینڈ کے دارالحکو مت وارسا  میںوارسا پیکٹ تشکیل دیاجس میں سویت یونین سمیت ،البانیہ، بلغاریہ،چیکو سلواکیہ،مشرقی جرمنی، ہنگری، رومانیہ اور پولینڈ شامل تھے۔

البانیہ نے 1961 میں چین ،روس اختلافات کے باعث اس معاہد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ ستمبر1954 میں SEATO۔ساوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل پائی یہ دفاعی نوعیت کا معاہد تھا اس میں آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ، فلپائن، فرانس،برطانیہ ،امریکہ اور پاکستان شامل تھے یہ تنظیم سوویت یونین اور چین کے خلاف تھی اور اس کا خاتمہ 1977 میں ہوا۔

اس کے علاوہ مشرق وسطٰی میں سویت یونین کے مفادات کے مقابلے کے لیے اسی نوعیت کی ایک دوسری تنظیم سینٹوCENTO سنڑل ٹرٹیٹی آرگنائزیشن یا بغداد پیکٹ کے نام سے 1955 میں قائم ہو ئی تھی جس میں ایران ،عراق،پاکستان،ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔

یہ تنظیم اُس وقت بے اثر ہو گئی جب 14 جولائی 1958 کو عراق میں جنرل عبدالکریم نے انقلاب سے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا۔واضح رہے کہ 1949 میں چین میں انقلاب اور کیمونسٹ حکومت کے قیام اور سویت یونین کی جانب سے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد صورتحال مغربی بلاک کے لیے تشویشناک ہو گئی تھی۔

جرمنی دوحصوں میں تقسیم تھا اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل کی ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد پھر ایک عالمی تنازعہ پر الجھی ہو ئیں تھیں، البتہ یہ ضرور تھا کہ اب دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ اور سوویت یونین جیسی یکساں ایٹمی قوتوں کی وجہ سے بہتر ہو گیا تھا مگر اب بھی جنگ کے کے خدشات کے اعتبار سے میدانِ جنگ جرمنی ہی تھا جہاں ایک جانب مغربی جرمنی میں مغربی اتحادکی صورت میںنیٹو گروپ کے میزائل اور ڈھیروں اسلحہ کے ساتھ فوجیں موجود تھیں تو دوسری جانب مشرقی جرمنی میں یہی صورت سویت یونین کے وارسا پیکٹ کے ممالک کا اسلحہ اور فوجیں تھیں۔ یوں معلوم ہو تا تھا کہ شائد دنیا کی یہ بڑی قوتیں یہ طے کر بیٹھی تھیں کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہو تو اس کا میدان بھی جرمنی ہی ہو۔ مشرقی جرمنی میں کیمونسٹ اقتدار اپنی آمرانہ طرز حکومت کے ساتھ مو جود تھا اور سویت یونین کے ساتھ مشرقی جرمنی ایسے معاہدوں میں جکڑی ہو ئی تھیْ

جن سے خلاصی ممکن نہیں تھی اور ایسی ہی صورت مغربی جرمنی کی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام پر قائم حکومت کی تھی جس نے جنگ میں شکست کے بعد ایسے ہی معاہدے امریکہ ،برطانیہ سے کر رکھے تھے جن میں سے چند اب بھی جرمنی روس سے تعلقات کے لحاظ کار گر ہیں اور جرمنی اب بھی تجارتی اقتصادی معاہدوں کے تناطر میں اِن کا پابند ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت مشرقی جرمنی کے مقابلے مغربی جرمنی کے باشندے خود کو زیادہ آزاد خوشحال تھے۔

1945 سے1950 تک پندرہ لاکھ جرمن مشرقی جرمنی سے مغربی جر منی منتقل ہو ئے اور سیاسی پناہ حاصل کی۔ 1961 تک 45 لاکھ جرمن با شند ے مشرقی جرمنی سے فرار ہو کر مغربی جر منی پہنچے اور یہاں سیاسی پناہ حاصل کی۔ یہ تعداد مشرقی جرمنی کی کُل آبادی کا 20% تھی۔ مشرقی مغربی جرمنی پر سویت یونین اور اس کے مقابلے میں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پوزیشن سیاسی اعتبار سے عجیب سی تھی۔ سویت یونین پورے جرمنی اور خصوصاً برلن کے پورے شہر پر قبضے کا عویدار تھا اور اس کے لیے ایک ناکام کوشش و ہ1948-49 میں برلن کے محاصرے کی صورت میں کرچکا تھا اور وہ یہ جانتا تھا کہ سیاسی لحاظ سے اگر مشرقی جرمنی کے باشندے مغربی جرمنی جانے سے نہیں رکتے تو ایک وقت ایسا آئے گاکہ اُسے مشرقی جرمنی سے بھی دستبردار ہو نا پڑے گا۔

جہاں تک تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن راٹس ڈیکلریشن کا تھا تو اخلاقی طور پر ہی سہی، اس کا احترام سوویت یونین پر لازم تھا کیونکہ اقوام متحدہ کا چار ٹر اور ہیومن راٹس ڈیکلریشن سوویت یونین سمیت اِن قوتوں نے مل کرتشکیل دیا تھا اور اِن پر ان کے دستخط بھی تھے اس صورتحال کو برلن کے حوالے سے سویت یونین کے حق میں رکھنے کے لیے برزنیف نے1958 میں مغربی اتحاد کو الٹی میٹم دے دیا کہ وہ چھ مہینوں میں مغربی برلن کو خالی کردیں تاکہ اس شہر کو غیر فوجی علاقہ بنا دیا جا ئے اور چھ ماہ بعد برلن شہر کے راستوں کا کنٹرول مشرقی جرمنی اور سویت یونین حاصل کر لے گا اس پر امریکہ،برطانیہ اور فرانس نے موقف اختیار کیا کہ وہ برلن شہر کا آزادانہ استعمال کو جاری رکھیں گے۔

انہوں نے  فیصلہ کیا کہ سوویت یونین کی مغربی جرمنی کے خلاف جارحیت کا ملکر جواب دیا جائے گا۔ مئی 1959 میں چاروں ملکوں کے وزرا خارجہ کے تین اجلاس ہو ئے مگر وہ کسی معاہد پر نہ پہنچ سکے لیکن اِن اجلاسوں کی وجہ سے روسی وزیراعظم خروشف اور امریکی صدر آئزن ہاور نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ہتھیاروں پر کنٹرول کے ساتھ کسی بھی مسئلے کا حل طاقت کی بجائے بات چیت سے کیا جائے پھر 1959 میں خروشیف نے کچھ دن امریکی صدر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں گذارے اور بات چیت سے خروشیف کو اندازہ ہوا کہ برلن کے مسئلے پر امریکہ کے ساتھ ڈیل ممکن ہے اور وہ اس مسئلے پر بات چیت کرنے پر راضی ہو گئے۔

بعد میں طے ہوا کہ 1960 میں پیرس سمٹ میں اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔ مگر یکم مئی1960 کو سوویت یونین نے پاکستان میں پشاور بڈابیر کے مقا م پر امریکہ کے فوجی اڈے سے اڑنے والے امریکی جاسوسی جہاز U2 کو روسی علاقے میں زمین سے فضا میں مارنے والے SA2 گائڈڈ میزائل سے گر ا دیا اور اس کے پائیلٹFrancis Gary فرانسس گرے کو گرفتار کر لیا۔ (واضح رہے کہ پاکستان سے یوٹو امریکی جاسوسی طیارے جو انتہا ئی بلندی پر اڑتے تھے وہ روس کے علاقے میں کیمرے سے روس کی فوجی اوردیگر اہم تنصیبات کی تصاویر لیتے تھے) جب سویت یو نین نے یہ جہاز مار گرایا تواور پائیلٹ کو زندہ گر فتار کرلیا جس نے جاسوی کا اعتراف بھی کر لیا۔

تواس پر امریکہ کو عالمی سطح پر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب خروشیف نے پاکستان کو بھی دھمکی دی کے روس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے تو دوسری جانب آئزن ہاور سے شدید ناراضی کے ساتھ احتجاج کیا اور پیر س اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا اور یوں پیرس کا یہ اہم اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔اس کے بعد جان ایف کینڈی امریکہ کے صدر ہو گئے پیرس اجلاس کی منسوخی کے ایک ماہ تین دن بعد 4 جون 1961 کو ویا نا اجلاس میں صدر کینڈی اور خروشیف کے درمیان تناوء میں بہت اضافہ ہوا۔ سوویت یونین نے برلن شہر کو کنڑول میں لینے کی ڈید لائن 31 دسمبر1961 جاری کردی تھی اور سوویت یونین کی جانب سے دیوار ِبرلن تعمیر کر نے کا منصوبہ واضح ہو گیا تھا۔ جس کوخروشیف نے اس دوران خفیہ رکھ کر پہلے ہی کروڑوں ٹن مٹیریل اور 32000 ہزار انجئینرو دیگر عملہ اورچودہ ہزار فوجی جمع کر کے تیار کرلیا تھا تاکہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ 156 کلو میٹر طویل دیوارِبرلن کی تعمیر ہو سکے۔

ویانا اجلاس کے بعد جب صدر کینیڈی نے بحران بڑھتا دیکھا تو واشنگٹن میں ABC ٹی وی اور ریڈیو پر خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ امریکہ جنگ نہیں چا ہتا وہ تاریخی اعتبار سے مشرقی یورپ پر روس کے تحفظات کوتسلیم کر تا ہے اور اس لیے سوویت یونین سے ہم دوبارہ بات چیت شروع کر نا چا ہتے ہیں۔ لیکن اسی تقریر میں صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ وہ کانگریس سے کہیں گے کہ وہ اسلحہ و ہتھیاروں اور فوج کے لیے مزید 3.25 ارب ڈالر دیں تاکہ فوج میں مزید چھ ڈویژن اور میرین میں دو دویژن کا اضافہ کیا جا سکے۔ اُنہوں نے خلائی تحقیق کے لیے بھی مزید رقم مانگتے ہو ئے کہا کہ اس سے دفاعی نظام کو مزید بہتر کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا آج امریکہ کی فوج کی تعداد 875000 ہے جس کو 1000000 کرنا ہے اسی طرح متحرک نیوی میں 29000 اور فضائیہ میں 6300 کا اضافہ کر نا ہے ،امریکی صدر جان ایف کینڈی کے ٹی وی ریڈیو خطاب کے وقت سویت وزیر اعظم خروشیف بلیک سی کے قریب سوچی کے تفریحی مقام پرتھے۔

اُنہوں نے امریکی نمائندے John Jay Mccly جان جوئے مکلے سے کہا کہ صدر کینیڈی کی جانب سے فوج میں اضافہ جنگ کی دھمکی ہے اگر چہ صدر کینڈی اپنی تقریر میںمشرقی یورپ کے تاریخی پس منظر میں سوویت یونین کے تحفظا ت کو تسلیم کر تے ہو ئے یہ اشار ہ دے چکے تھے کہ مشرقی برلن اور مغربی برلن کے درمیان اگر سوویت یونین نے دیوار تعمیر کی تو وہ اس کوجنگ کی وجہ نہیں بنا ئیں گے۔

یوں 13 اگست 1961 کو سوویت اور مشرقی جرمنی کے فوجیوں نے مشرقی سرحد کو 156 کلو میٹر لمبائی میں خاردار تارکی باڑ لگا کر بند کر دیا 17 اگست سے 156 کلو میٹر لمبی 3.6 میٹر اُونچی دیوار کی تعمیر کا کام نہایت تیز رفتاری سے شروع ہو گیااور30 اگست کو مشرقی جرمنی اور سویت یونین نے مغربی برلن اور مغربی جرمنی سے مشرقی برلن اورمشرقی جرمنی میں داخلہ بند کر دیا حالانکہ 1945 میں جنگ عظیم دوئم کے فوراً جب برلن میں ہٹلر اور نازی ازم کو شکست ہو ئی تھی تو اِ ن چار طاقتوں یعنی سوویت یونین ،امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کے درمیان کانفرنس میں طے پایا تھا کہ اتحادی فوجیں آزادی کے ساتھ برلن کے ہر علاقے میں آجا سکیں گی۔

30 اگست 1961 کے بعد سویت یونین کی مشرقی برلن اور مشرقی جرمنی میں مو جودگی اور دوسری جانب امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مغربی برلن اور مغربی جرمنی میں مو جودگی اُ س وقت اسٹینڈ آف پوزیشن میں آگئی جب امریکی صدر کینیڈی نے فوری رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14000 فوجی 216 جدید لڑاکا طیارے F84 اور F86 ائر فورس طیارے یورپ روانہ کر دیئے۔ 22 اکتوبر1961 کو دیوار برلن کی تعمیر شروع کر نے کے دو ماہ بعد یو ایس چیف آف مشن ویسٹ جرمنی E Allan Lighter ای ایلن لائٹر کی کارکو مغربی برلن سے مشرقی برلن جاتے ہو ئے چیک پوائنٹ پر روک لیا گیا۔

سابق امریکی جنرل Lucius D. Clay لُوسیوس ڈی کلے جو برلن میں صدر کینڈی کے مشیر تھے اُنہوں نے چاہا کہ اس کا جواب دیا جائے اور بریگیڈئر جنرل ٖFrederick.O.Hartel فیڈرک اوہارٹل ٹینکوں کے ساتھ راستے کی رکاوٹ کو بلڈوز کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُنہوں نے امریکی سفیر Albert Hemsing البرٹ ہیمسنگ کو ’جو برلن مشن کے ممبر بھی تھے‘ پیغام بھیجا کہ وہ مغربی برلن سے مشرقی برلن جانے کے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو ہٹانے کا حکم دیں۔ غالباً اس دوران ہیمسنگ کی صدر کینیڈی سے بات چیت ہو ئی ہوگی اور پھر ہیمسنگ اپنی سرکاری گاڑ ی میں پو رے پروٹوکول یعنی محا فظوں کے ساتھ اُس مقام پر پہنچے جہاں سویت یونین اور مشرقی جرمنی کے ٹینک او ر فوجیں اور امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کی فوجیں اور ٹینک آمنے سامنے کھڑے تھے۔

جب امریکی سفارت کار البرٹ ہیمسنگ داخلے کے پوا ئنٹ پر پہنچے تو سوویت اور مشرقی جرمنی کے فوجیوں نے اُن سے پاس پورٹ طلب کیا اور پھر بات چیت کے لیے صرف اُن کی کار کومشرقی برلن میں داخل ہو نے دیا اور باقی محا فظوں کو واپس جا نا پڑا۔ دوسرے روز بر طانوی سفیر کو بھی روک دیا گیا 27 اکتوبر1961 کو جب ہیمسنگ کو واپس کیا گیا تو صورتحال بہت ہی بحرانی ہوگئی اور تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا شدید خطرہ پید ا ہو گیا۔ اب سوویت یونین نے بالکل واضح کر دیا تھا کہ وہ مشرقی برلن سمیت مشرقی جرمنی پر اپنا مکمل قبضہ رکھے گا اور امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس کا داخلہ یہاں بند کر دیا گیا ہے۔ اب پوری دنیا میں سیاسی حدت اور فشار اپنی انتہائی بلندیوں پر تھا۔

یہ وہی جرمنی کی سر زمین تھی جہاں سولہ سال پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس فاتح کی حیثیت سے داخل ہو ئے تھے پھر 1948-49 میں سوویت یونین کے محاصرے کو بہت خوبی سے امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس نے ناکام کیا تھا مگر اب فوجیں آمنے سامنے تھیں اور اِن کے درمیان چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ نکیٹا برزنیف نے فیصلہ کن مو قف اختیار کیا تھا اوراس میں کسی قدر لچک صدر کینڈی نے اُس وقت دکھائی تھی جب انہوں ویا نا کانفرنس کے بعد ٹی وی ،ریڈیو پر تقریر کرتے ہو ئے کہا تھا کہ وہ مشرقی یورپ پر سوویت یونین کے تحفظات کو تاریخی پس منظر میں تسلیم کر تے ہیں۔

اُس وقت ہی برز نیف صدر کینڈ ی کے عزام اور پالیسی کے اعتبار سے ٹھیک اندازہ کر چکے تھے اور اُن کو اِس سے پہلے پشاور سے اڑنے والے U2 جاسوسی طیارے کو مار گرا نے اور پیرس کا نفرنس میں شرکت سے انکاراور پھر پیرس کانفرنس کی منسوخی سے بھی برزنیف کو سیاسی تقویت ملی تھی۔

اور پھر 27 اکتوبر 1961 کو جب صورتحال انتہائی تشویشناک اور بحرانی ہو گئی تھی تو صدر جان ایف کینڈی نے بیان دیا کہ اگرچہ دیوار کوئی بہتر حل نہیں لیکن ہم جنگ نہیں چاہتے اس کے بعد دیوار برلن کے اس پوائنٹ سے فوجوں کو پیچھے ہٹنا تھا اور اب سوال یہ تھا کہ کون پہلے پیچھے ہٹے۔ اس پر غالباً مشرقی جرمنی میں مو جود فوجی کمانڈ کی وزیر اعظم برزنیف سے با ت ہو ئی ہوگی اور جب اُنہیں کامیابی مل گئی تھی تو پھر اتنی سے بات پر وہ کیو ں اڑتے۔ پہلے پانچ میٹر روسی ٹینک اور فو جیں پیچھے ہٹیں اور پھر مغربی اتحادی ٹینک اور فوجیں پیچھے ہٹیں اور اس طرح دیوارِ برلن کی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ دنیا میں یوں تو کئی دیواریں ہیں اور حالیہ بر سوں بیسیوں ملک ایسے ہیں جو اپنے ہمسایہ ملکوں سے تحفظات رکھتے ہو ئے سرحدوں پر سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر دیواریں تعمیر کر وا چکے ہیں۔

1961 تک جب اس دیوار کی تعمیر شروع نہیں ہو ئی تھی اُس وقت تک تقریباً45 لاکھ افراد مشرقی جرمنی میں کیمونسٹ آمریت سے فرار ہو کر مغربی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرتے رہے اور پھر اس کی تعمیر کے بعد 1989 تک5000 جرمن باشندوں نے مشرقی جرمنی سے فرار ہو نے کی کوشش کی اور 200 افراد ایسی کو ششوں میں ہلا ک ہو ئے۔

بظاہر مشرقی اور مغربی جرمنی کے اس مسئلے اور سیاسی بحرانوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر یہ حقیقت ہے کہ دیوار برلن کی تعمیر بھی پاکستان کی وجہ سے ہوئی اور دیوارِ برلن مسمار بھی پاکستان کی وجہ سے ہو ئی۔ 1959 میں جینوامیں امریکی صدر کے ساتھ خروشیف بات چیت میں اس پر آمادہ ہو گئے تھے کہ اسلحے میں کمی کے ساتھ برلن کے مسئلے پر بھی 1960میں ہونے والے پیرس اجلاس میں معاملات طے کر لیئے جائیں گے یوں خروشیف مذاکرات میں شرکت کی مجبوراً حامی بھر کرسیاسی طور پر پھنس گئے تھے کیونکہ 1945 میں جرمنی کی فتح کے بعد سوویت یونین،امریکہ ،بر طانیہ اور فرانس چار طاقتی برلن مشن میں طے تھا کہ چاروں قوتوں کے فوجی آزادانہ مشرقی اور مغربی برلن سمیت جرمنی کے دونوں حصّوں میں آجا سکیں گے۔

اس طرح کے آزادانہ ماحول میں مشرقی جر منی کے عوام کو کیسے مغربی جرمنی آنے سے روکا جاسکتا تھا۔ آخر کو یہ ہو نا تھا کہ سوویت یونین یا تو مشرقی جر منی سے دستبردار ہو جاتا یا اگر مشرقی جرمنی میں رہتا تو بھی وہ بے اثر ہو تا۔ لیکن یکم مئی 1960کو پشاور کے قریب بڈا بیر کے امریکی فوجی ہوائی اڈے سے اڑنے والے یو ٹو جاسوسی جہاز کو جب سوویت یونین نے مار گرایا تو اُسے پیرس سمیٹ سے بائیکاٹ کا جواز مل گیااور پھر خروشف نے زیادہ سخت رویہ اختیار کر کے دیوار برلن تعمیر کردی۔ 1961 سے9 نومبر1989 تک دیوار ِبرلن سے چھلا نگیں لگانے والوں میں سے بہت کم ہی مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی پہنچے۔

پھر1979-80 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان فوجیں داخل کر دیں تو اُس وقت سوویت جارحیت کے خلا ف افغا نستان کے مجاہدین نے مزاحمت شروع کی تو پوری دنیا کا یہ خیال تھا کہ سوویت یونین کسی ملک میں داخل ہو کر واپس نہیں جاتا۔ مگر افغان مجاہدین نے پاکستان کی واضح مدد سے سویت یونین کی افواج کو آخر نہ صرف افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا بلکہ سوویت یونین کے سربراہ گارباچوف نے گلاسنس اور پریسٹرئیکا کے عنوانات سے اصلاحات کرتے ہوئے مشرقی اور مرکزی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اپنی مقبوضات کو آزاد کر دیا اور ساتھ ہی اپنے ہاں کیمونزم کو رخصت کرتے ہی وراسا پیکٹ کو توڑ دیا اور یوں مشرقی اور مرکزی یورپ کے تمام اشتراکی ممالک بھی آزاد ہو گئے۔

یہاں سے بھی سوویت یونین کی فوجیں رخصت ہو گئیں۔ یہ صورتحال 1989 کے آخر میں مشرقی اور مرکزی یورپ میں انقلابی لہر کی صورت میں رونما ہو ئی تو مشرقی جرمنی میں چند ہفتوں کی بد امنی کے بعد 9 نومبر1989 کو جب یہ اعلان ہوا کہ مشرقی جرمنی کے شہری مغربی برلن اور مغربی جرمنی آزادانہ جا سکتے ہیں تو مشرقی جرمنی سے جرمن با شندوں کی بڑی تعداد رکا وٹوں کو عبور کر تی مغربی برلن پہنچی جہاں مغربی برلن کے ہزاروں لاکھوں باشندوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا اور ہفتے کے اندر اندر جرمنوںکے اُس پُر جوش اژدھام نے دیوارِ برلن کو کئی ایک مقامات سے توڑ دیا۔ اس کے بعد یہی عوام بلڈوزر اور دیگر آلات لے کر پہنچ گئے اورپوری156 کلو میٹر دیوار کو گرانا شروع کر دیا۔

پھرGerman reunification ہوئی اور 3 اکتوبر 1990 کو مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ہو گئے۔1945 سے1961 تک جب دیوارِبرلن تعمیر نہیں ہو ئی تھی تو یہاں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل کی بنیادی اور مرکزی قوتیں آپس میں پنجہ آزمائی کرتی رہیں اور تاریخی طور پر عالمی سیاست کا جبر یہاں کے عوام برداشت کر تے رہے اور پھر اس جبر کو دیوار برلن تعمیر کر کے مزید مستحکم کر دیا گیا۔

دیوارِ برلن کے ٹوٹتے ہی سرد جنگ کے خاتمے کا علان ہوا تو ترقی پزیر اور پسماندہ ملکوں کے کروڑوں اربو ں مظلوم یہ سمجھے کہ اب قوموں کو تقسیم کر نے والی تمام طاقتیں اور دیواریں مسمار ہو جائیں گی۔ شمالی اور جنوبی کوریا ،فلسطین یوروشلم ،قبرض اورشمالی قبرص،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر بھی دوبارہ ایک ہو جائیں گے لیکن تاریخ کا جبر دیکھیںکہ دیوار برلن کے مسمار ہو نے کے بعد انسانی تاریخ میں ملکوں کے درمیان قوموں کو تقسیم کر نے ، ملکوں کے حصے بخرے کرکے اُن پر قبضہ کر نے کے لیے مزید اور زیادہ مضبو ط بلند اور طویل دیواریں بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دیوارِبرلن کے گرانے کے 21 سال بعد Israli west Bank barrer اسرائیلی مغربی کنارے کی708 کلو میٹر طویل دیوار کی تعمیر شروع ہو ئی جو اب440 کلومیٹر تک تعمیر ہو چکی ہے۔

اقوام متحدہ بھی مو جود ہے اس کی سیکورٹی کو نسل کے ویٹو پاور بھی ہے ،یہاں صر ف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ عراق کی قدیم بابل و نینوا تہذیب میں بھی بخت نصر بہت طاقتور بادشاہ تھا جس کے دور میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ معلق باغات لگا دیئے تھے تو جب بخت نصر نے غرور و تکبر کی حد کرد ی تھی تو ایک غیبی ہاتھ نے اُس کے عظیم محل کی دیوار پر لکھ دیا تھا کہ تیرا زوال لکھ دیا گیا ہے اور آج ،،نوشتہ ِ دیوار ،،کا یہ محاورہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں استعمال ہو تا ہے اور اُن زبانوں تو بہت عام ہے جو اقوام متحد ہ کی با ضابط دفتری یا سرکاری زبانیں ہیں۔

(جاری ہے)

The post مشرقی اور مغربی جرمنی کے تنازعہ پر تیسری عالمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.


کورونا وائرس: انسانیت کے لیے لمحۂ فکر

$
0
0

سورۃ بقرہ کی چند آیات میں اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے، کچھ ڈر اور بھوک سے، اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سُنا دیجیے اُن صبر کرنے والوں کو کہ جب اُن پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اﷲ کے مال ہیں اور ہم کو اُسی کی جانب واپس لوٹنا ہے، یہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت اور یہی لوگ صحیح راہ پر ہیں۔‘‘

آج کل مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو کورونا وائرس کی تباہی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ یہ ایک مہلک ترین اور جان لیوا وبا ہے، پھر اس بحران سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار نے پوری دنیا کو خوف و ہراس اور مایوسی کی ہیجانی کیفیت میں مبتلا اور ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔

انسان کی زندگی میں کبھی غم تو کبھی خوشی، کبھی غربت تو کبھی ثروت، کبھی امن و آشتی تو کبھی بدامنی اور کبھی صحت و تن درستی تو کبھی بیماری کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہ سب اتار چڑھاؤ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے۔ ان آزمائشوں کو صبر و تحمل اور توکل علی اﷲ کے ساتھ برداشت کرنا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے لیکن زندگی کی حفاظت کرنا، علاج کرنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی بہ حیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ ہے پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 97 فی صد مریض صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا پھر اس کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا۔ اس اعلیٰ منصب پر فائز کرنے کی وجہ علم تھی، علم ہی کی وجہ سے فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا۔ پھر یہ دعا بھی سکھا دی گئی کہ اﷲ تعالیٰ علم نافع دے لیکن جب انسان علم نافع کے بہ جائے نقصان دہ علم کی طرف بڑھنے لگا یعنی علم کا استعمال بنی نوع انسان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بننے لگا اور انسانی جان کے لیے مہلک ترین ہتھیاروں، بایولوجیکل ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کی ایجادات کی دوڑ میں لگ گیا۔ پھر نام نہاد سپر پاور بننے کا خواب، دنیا کی قابل تسخیر قوت اور پوری دنیا پر غلبہ پانے اور حکم رانی کی خواہش کرنے لگا تو انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہوگئی اور انسانی جانوں کے اوپر ظالم و جابر حکم ران مسلط ہوکر ظلم و بربریت، ناروا سلوک، قتل و غارت گری، عصمت دری، انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی اور ملک بدری سمیت لغت کے تمام الفاظ ناکافی لگنے لگے۔

انسان کو کسی تکلیف کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خود اس تکلیف کا شکار ہو جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے روزے دار کو غریبوں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب کشمیریوں کے نہتے معصوم شہریوں کو کرفیو لگا کر قید کردیا گیا تو پوری عالم انسانیت حتیٰ کہ کئی مسلمان حکم ران بھی خاموش تماشائی بن گئے اور ظالم و جابر حکم ران کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ ہمارے پیارے نبی آخرالزماں محمدؐ نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا، مفہوم: ’’جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور روکنے کی کوششیں نہ کریں تو اﷲ کی طرف سے عمومی عذاب اترتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد۔ حدیث نمبر 4338)

اب مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں پوری انسانیت خصوصی طور پر ملت اسلامیہ اپنا محاسبہ خود کرے کہ کیا ایسا ہی نہیں ہوا کہ خالق کائنات نے ایک چھوٹے سے جرثومے سے غفلت میں ڈوبی دنیا کو بیدار کردیا اور ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی سے بڑی طاقتوں کو زیر اور بے بس کردیا۔ ترقی کا سارا غرور خاک میں ملا دیا، بڑے سے بڑے سائنس دان اور ان کے جدید طبی آلات و ادویات سب بے سود نظر آتی ہیں اور اب خود ہی پوری دنیا نے کرفیو لگا کر اپنے آپ کو مقید کردیا۔ نہ اس کورونا وائرس کی ابتداء کا پتا نہ انتہا کا اور نہ ہی انجام کا۔ تمام بنی نوع انسان اس کی تباہی کا شکار ہوگئی۔ پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج انسان کی حیثیت جانور سے بھی بدتر ہوگئی ہے کہ وہ تو آزاد بغیر متاثر ہوئے پھر رہے ہیں اور انسان جس کو اﷲ تعالیٰ نے عقل و شعور اور علم کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا آج اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مظلوم و مقید ہوگیا ہے۔

اس چھوٹے سے ان دیکھے جرثومے نے گنجان آباد شہروں کو بے رونق و ساکت کردیا۔ نہ اونچی اونچی عمارتیں محفوظ نہ مضبوط سے مضبوط قلعے و محل محفوظ۔ ترقی یافتہ انسان بھی ساکت و بے بس ہو گیا۔ قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے ہی گناہ تھے۔ قرآن میں ان کے بارے میں فرمان ہے، مفہوم:

’’پھر ہم نے، ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی تھی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے پانی میں غرق کردیا۔ اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ اور شرک) کرتے تھے۔‘‘

سورۃ انعام آیت نمبر 48 مفہوم درج کیا جاتا ہے: ’’اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ان کو عذاب اس وجہ سے پہنچے گا کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘

یعنی جب اﷲ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جانے لگتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہمارا پہناوا، رہن سہن کے طریقے اور شادی بیاہ کی رسومات سب کچھ تو خلاف شرع ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ یعنی امربالمعروف و نہی عن المنکر سے بھی ہم غافل ہوچکے ہیں۔ معاشرے میں بے حیائی عام ہوچکی ہے۔ عفت و حیا اسلامی اخلاق کی بنیادی صفت میں سے ہے جیسا کہ سرور کائنات نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا سے ہے۔‘‘

ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تُو حیا کھو دے تو جو مرضی میں آئے کر۔‘‘ یعنی حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔ اور انسان وحشی درندے کی مانند ہو جاتا ہے۔ حیا کا ہی تقاضا ہے کہ انسان اپنے منہ کو فحش باتوں سے پاک رکھے اور بے حیائی کی بات زبان پر نہ رکھے۔ اب ہمارے لیے یہ نعرہ لمحہ فکریہ ہے جس کا گزشتہ دنوں بڑا چرچا تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہنے والے ہمارا خالق و مالک اﷲ ہے اسی کی مرضی اور حکم چلے گا ہماری کیا مجال اور بساط کے ہم منہ سے ایسی فحش بات نکالیں؟ یہ سراسر اﷲ کی حدود کو توڑنا ہی تو ہے۔

حضور پاکؐ نے 14 سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا، مفہوم: ’’جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ ان پر ایسی بیماریاں مسلط فرماتے ہیں جس کا تصور ان کے اسلاف میں نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ 4019)

ہمارے حالات میں ہمارے اعمال کا ضرور دخل ہوتا ہے۔ سورۃ انعام آیت 65 مفہوم: ’’کہو وہ اﷲ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔‘‘

مذکورہ آیات کا مفہوم تو آج کل کے حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ یہ اﷲ کا عذاب ہی تو ہے جو ایک چھوٹے سے جرثومے سے ہمارے ہی قدموں کے نیچے سے پھیل رہا ہے۔ پھر پوری دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مہلک ترین ہتھیار بنانے میں پوری طاقت و توانائی صرف کر رہے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہمارے گناہوں پر غالب ہے وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر مایوسی کفر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے حقیقی مالک و آقا کی طرف پلٹ آئیں۔ شاید ہمارا مالک و آقا ہم سے ناراض ہوگیا ہے۔ یہ عذاب کسی کے لیے سخت بے چینی تو کسی کے لیے اﷲ کی طرف رجوع ہونے، توبہ و استغفار کرنے، خالق کی قربت اختیار کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرکے ثواب کمانے کا ذریعہ ہے۔

خالق کائنات تو قرآن پاک میں جگہ جگہ دعوت دیتا ہے کہ میرے بندوں میری طرف رجوع کرلو کہ میں معاف کروں۔

سورۃ انعام کی آیت کا مفہوم: ’’جو شخص تم میں سے بُرا کام جہالت سے کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو اﷲ کی یہ شان ہے کہ وہ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

ہم سب کو اس مصیبت کی گھڑی میں خلوص دل کے ساتھ توبہ استغفار زیادہ سے زیادہ کریں، اپنی اصلاح کریں پختہ عزم کے ساتھ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ بے شک صدقہ و خیرات بلاؤں کو آزمائشوں کو ختم کردیتا ہے۔ آج ہمیں اپنے ارد گرد کے سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے۔ ان کی مدد بالکل اسی طرح سے کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتا بھی نہ چلے۔ مخلوق کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا کنبہ کہا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے کنبے کی جس قدر ممکن ہو مدد کیجیے یہ وقت ہے نیکیاں کمانے کا حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

یااﷲ! ہم نے تیری حدود کو پامال کیا، ہم اقرار کرتے ہیں، ہم نادم ہیں، ہم تجھ ہی سے رجوع کرتے ہیں، یااﷲ! ہمیں معاف کردے، ہم سے راضی ہو جا، ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ارحم الرحمین! اپنی قدرت کاملہ سے ہم سب کی حفاظت فرمادے، اے عرشِ عظیم کے مالک! جو بیمار ہیں ان کو صحت کاملہ عطا فرمادے۔ ہم تیرے کن فیکون کہنے کا انتظار کر رہے ہیں بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔

The post کورونا وائرس: انسانیت کے لیے لمحۂ فکر appeared first on ایکسپریس اردو.

جادو سا جگاتی ہوئی ’اذان‘۔۔۔!

$
0
0

اذان ہمارے سماج کی صرف ایک مذہبی پکار نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا خوب صورت تہذیبی اور ثقافتی جزو بھی ہے، جس سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری بہت سی یادیں بھی وابستہ ہو جاتی ہیں۔۔۔ تبھی کسی مخصوص موذن کی اذان سنتے ہی ہماری نگاہوں کے سامنے وہی پرانا منظر اور وہی تصویر آجاتی ہے، کسی جگہ، کسی شہر یا کسی مخصوص مسجد کی اذان۔۔۔

آپ نے بھی یقیناً مختلف خوش الحان مؤذنوں کی اذانیں سنی ہوں گی۔۔۔ اور جب سے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے لیے بھی کوئی نہ کوئی اذان ایسی ضرور ہوگی، جو یادداشت کے کسی نہاں خانے میں کسی شیریں یاد کی طرح ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ہوگی۔۔۔ جس کی صدا سن کر کوئی واقعہ یاد آجاتا ہوگا، بچپن کے کسی شفیق بزرگ کی مسکراتی ہوئی شبیہہ ابھر جاتی ہوگی۔۔۔ کوئی بیتا ہوا وقت یادداشت سے ایک دم ابھر آتا ہوگا۔۔۔ اور چند لمحے کے لیے اب بھی ماضی کے دھندلکوں میں سفر کرنے لگتے ہوں گے۔۔۔

ہمیں بھی اپنے پرانے محلے کی جامع مسجد کی عصر اور مغرب کی وہ اذانیں بہت یاد آتی ہیں، بچپن میں جس کے دوران کبھی ہم کھیل کود رہے ہوتے تھے، یا اسکول سے گھر لوٹ رہے ہوتے تھے۔۔۔ ہمارے لیے یہ اذانیں گھڑیال کی صدا کی مانند ہوتیں، جو ہمیں بیتتے ہوئے سمے کا پتا دیتیں کہ اب شام کتنی ڈھل چکی ہے یا دن کتنا تمام ہو چکا ہے۔۔۔ اسکول سے چھٹی میں اب کتنا وقت ہے، ٹیوشن کا کتنا وقت باقی ہے وغیرہ۔۔۔ جیسے گھر سے اگر ہدایت ہوتی تھی کہ مغرب کی اذان سے پہلے لوٹ آنا۔۔۔! اس کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے آجاؤ اور مغرب کی اذان ہوتی ہی عین اس وقت ہے، جب سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔

اسی طرح عصر کا وقت یہ بتاتا ہے کہ اب دن کا آخری پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔۔۔ کڑی گرمیوں میں یہ اذان گویا یہ خبر کرتی ہے کہ سورج کی گرفت قدرے ڈھیلی پڑنے لگی ہے۔۔۔ سائے لمبے ہوگئے ہیں۔۔۔ آج کے دن کی گرہ میں وقت کی نقدی بہت کم رہ گئی ہے۔۔۔ وہ لوگ جو دھوپ کی تمازت سے بچنے کو گھروں اور اپنے سائبانوں میں جا ٹھیرے تھے، ان سے گلی کوچوں میں محفلیں آباد ہونے لگی ہیں۔۔۔ سال کے 12 مہینے پانچ وقت کی اذانوں کا وقت بدلتے رہنے کے باوجود دن اور رات کے حساب سے یہ وقت کا ایک مکمل پیمانہ ہے۔۔۔ ہمارے پاس گھڑی نہیں ہو، لیکن جوں ہی اذان ہوتی ہے، تو ہمیں خودبخود خبر ہو جاتی ہے کہ اب کیا وقت ہو چکا ہوگا۔

کچھ اذانیں بہت منفرد اور مختلف بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔ اس میں مؤذن کی آواز اور اس کے اتار چڑھاؤ کی انفرادیت ہماری سماعتوں میں ایک الگ ہی طرح رس گھول دیتی ہے۔۔۔ ذرا سوچیے، ایک صدا اور فقط ایک آواز کیسے مکمل اور کیا کچھ اِبلاغ کر جاتی ہے۔ ایک ’اللہ اکبر‘ سے ایک طرف شہنشاہوں کے شہنشاہ کی واحدانیت اور حاکمیت کا اعلان ہوتا ہے، اس کے آگے سربسجود ہونے کا بلاوا ہوتا ہے اور اُدھر خیالوں میں یکایک گئے وقتوں کا کوئی منظر بھی جَل اٹھتا ہے۔۔۔ جیسے ہمارے محلے میں رمضان میں افطار کے وقت ’چھوٹی مسجد‘ کی اذان جو صاحب دیتے ہیں، ہم نے ہوش سنبھالتے ہی اب تک رمضان کی مغرب میں فقط انہی کی اذان سنی ہے۔۔۔

اتنے برسوں میں شاید ہی اب تک انہوں نے کسی ایک روزے میں بھی اذان کی ناغہ کی ہو (اللہ انہیں سلامت رکھے) ان کی آواز، اور انداز سے لے کر ان کا لحن اور معمول سے زیادہ ٹھیراؤ ایک عجب طرح کی کرشماتی کشش لیے ہوئے ہے۔۔۔ سراپا سکون ہی سکون بنی ہوئی یہ اذان صبر کا کیسا پیغام دیتی ہے کہ کھجور سے روزہ کھولنے والا مؤذن رب تعالی کی حمد وثنا اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے ایسا مگن ہے، کہ شاید اسے خیال بھی نہیں کہ اس کے لیے دسترخوان پر خدا کی کتنی نعمتیں انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ نتیجتاً یہ اذان جتنی دیر میں مکمل ہوتی، اتنی دیر میں اکثر روزے دار اپنے اپنے دسترخوانوں سے نمٹ کر مسجد کا رخ کر چکے ہو تے ہیں۔۔۔

اس اذان کو سنتے ہوئے ہم کچے اور ’ایک داڑھ کے روزے‘ رکھتے ہوئے مکمل روزے رکھنے لگے۔۔۔ رمضان المبارک فروری، مارچ کے گلابی موسم سے ہوتا ہوا سخت جاڑوں سے گزرا۔۔۔ اور سخت گرمی کا ایک پھیرا لگا کر پھر دوبارہ گلابی موسم میں آنے لگا ہے، لیکن ما شاء اللہ وہ اذان ہمارے افطار سے ایسی جُڑی ہے، کہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم اب تک اس اذان کے بغیر ’رمضان‘ اور افطار کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔۔۔!

اسی ’چھوٹی مسجد‘ سے ایک جمعے کے وقت مرحوم قاری ذکی اذان دیا کرتے تھے، ان کی آواز میں جانے کیسا خلوص اور ایک سوز تھا کہ انہیں الفاظ میں بھلا کیسے بیان کیا جائے۔۔۔ بس پھر وہ کبھی کسی اور وقت کی بھی اذان دے دیا کرتے، تو ہم خود کو جمعے کی چٹھی کے زمانے کی دوپہروں میں کھیل کود چھوڑ کر جلدی جلدی نہا دھو کر مسجد کو جاتا دیکھنے لگتے۔۔۔ اور اُس وقت ایسا لگتا کہ ساری دنیا اور ساری چیزیں سب چھوڑ چھاڑ کر جمعے کے اہتمام کے ساتھ مسجد کا رخ کر رہی ہے۔۔۔ محلے کی ’بڑی مسجد‘ سے ایک شیریں آواز بھائی سلیم کی بھی ہے۔۔۔ اذان میں اُن کے منفرد ترنم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔۔۔ لوگ ان کی اذان کے اتنے شائق ہیں کہ ریکارڈ کر کے رکھ لیتے ہیں، اب وہ محلے سے منتقل ہوچکے ہیں، لیکن محلے کی ایک دوسری مسجد سے ایک مؤذن بھائی سلیم کی طرز پر اذان دے کر سامعین سماعتوں کو سجا دیتا ہے۔۔۔

اذان کے طرز سے ہمیں یاد آیا کہ ’حرم پاک‘ سے بلند ہونے والی اذان کا منفرد طرز دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک الگ ہی لطف دیتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے بہت سے مؤذن اس طرز کو کام یابی سے اپنی آواز میں اتار کر لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں۔۔۔ بہت سے اذان دینے والے اسی طرز کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بہت سی آوازوں کا آہنگ اُس طرز کا ساتھ نہیں دے پاتا، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ کچھ مؤذنوں کو اپنے منفرد طرز کو ہی برقرار رکھنا چاہیے۔۔۔ یہ ہماری رائے ہے۔

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے، اور جب دنیا سے چلا جاتا ہے، تو اس کی نماز ادا کی جاتی ہے۔۔۔ جس کی اذان نہیں ہوتی، اسی لیے انسان کی زندگی کے اختصار کو اذان سے نماز کے درمیانی وقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ ماہ صیام میں روزے دار کھانے کا دسترخوان سجا کر اذان کا انتظار کرتے ہیں، دست دعا دراز کیے ہوئے بندوں کے کان مسجدکی طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب مؤذن صدا بلند کرے اور پھر اس پاک پرودگار کے نام سے اپنا روزہ افطار کیا جائے۔۔۔ بہت سی مساجد سے رمضان میں سحری کے وقت کے آغاز پر بھی اذان دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے بہت سے لوگ ’تہجد کی اذان‘ بھی کہتے ہیں اور پھر اذانِ فجر کے ذریعے ہی ’انتہائے سحر‘ کا تعین کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سی مساجد سحری کے وقت سے اختتام تک اعلانات کے ذریعے صائمین کو جگانے اور باقی ماندہ لمحوں کے حوالے سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔

موسلا دھار بارشوں، خراب موسم، مشکل وقت یا وبا وغیرہ سے نجات کے لیے بھی اذان دینے کی روایت پائی جاتی ہے۔۔۔ جیسے گذشتہ دنوں روزانہ رات 10 بجے ’کورونا‘ کی وبا سے نجات کی خاطر مختلف مساجد سے اذانوں کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔۔۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں اور چھتوں پر بھی اذانیں دیں۔

کہتے ہیں اذان دنیا میں ہر وقت گونجتے رہنے والی آواز ہے۔ روزانہ مشرقی ممالک میں جب فجر کی اذان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو باری باری وہ سفر کرتا ہوا مغرب کی سمت جاتا ہے، اور پھر اسی اثنا میں دنیا کے ’مشرق‘ میں ظہر کی اذان بلند ہونے لگتی ہے۔۔۔ یوں یہ سلسلہ مستقل ہی جاری وساری رہتا ہے۔

اذان پر غور کیا جائے تو یہ ایک پکار بھی ہے، ایک دعوت بھی ہے اور ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہ یک وقت رب تعالیٰ کی حمد بھی اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بھی ہے۔۔۔ اذان ایک ایسی مقدس اور بابرکت چیز ہے، کہ اس کے حُسن، شان اور بلند مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے نہ صرف احترام سے سنا جائے، بلکہ خاموشی کے ساتھ اس کا جواب بھی دیا جائے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی بہت ضروری ہے کہ جس لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہے، اس کا آہنگ بھی ایسا ہو کہ انسانی سماعت پر گراں گزر کر اذان جیسی پیاری پکار کی بے ادبی کا باعث نہ بنے۔۔۔ بلکہ یہ اذان جس کان میں بھی پڑے، اس سماعت کو نہایت خوب صورتی سے اللہ کے پیغام سے منور کر جائے۔۔۔

یہ بات ضروری ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز علاقے کے ہر گھر تک جائے، اس کے لیے مسجد کے علاوہ دیگر بلند مقامات اور عمارتوں پر بھی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر نصب کر دیے جاتے ہیں۔ ان لاؤڈ اسپیکروں کی بلند آہنگ آواز کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ تاکہ دور دور تک اذان کی آواز جا سکے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اس سے دور تک آواز ضرور پہنچ جاتی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس لاؤڈ اسپیکر سے جو قریب کے لوگ ہیں، ان کی سماعتوں پر اتنی تیز آواز کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اس کے لیے نہایت مناسب راستہ یہ ہے کہ درمیانی آواز کے زیادہ تعداد میں لاؤڈاسپیکر لگا لیے جائیں، جس سے لاؤڈ اسپیکر کے قریب کے لوگوں کی سماعت پر بھی اس کی آواز گراں نہ گزرے، شاید یہ اس مقدس پکار کے شایان شان امر بھی ہے۔

The post جادو سا جگاتی ہوئی ’اذان‘۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈاکٹر جمیل جالبی ایک قدرآورعلمی شخصیت

$
0
0

18 اپریل 2020 کو ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی پہلی برسی منائی گئی۔ سلسلہ روز و شب کی اس برق رفتاری کو کیا کہیں کہ ان کو بچھڑے ایک سال ہوا اور معلوم ہوتا ہے کل کی بات ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جیسے لوگ مرتے ہیں مگر ہم سے جدا نہیں ہوتے، وہ صرف ہماری یادوں میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے اعلیٰ کارناموں کی بدولت نسلوں یاد کیے جاتے رہتے ہیں۔ اور یہی چیز اس عالم فانی میں عظمت کا نشان ہے۔

وہ ایک سرکاری افسر تھے، دفتری جھنجھٹوں میں مبتلا رہتے ہوئے انھوں نے اپنی علمی لیاقتوں میں اضافہ کیا اور وہ اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کیں جن کے آگے کچھ نہیں ہوتا۔

کہنے کو وہ سول سروس کے آدمی تھے مگر علم و ادب سے ان کا شغف علمی اداروں سے وابستہ لوگوں سے بھی زیادہ تھا۔ وہ مسلسل لکھتے رہے اور ادبی حلقوں میں اپنا مقام بناتے رہے۔ علمی دنیا سے انھوں نے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ رکھا کہ وہ علمی و ادبی دنیا کے فرد ہی لگتے تھے۔

دفتری مناصب کے اعتبار سے بھی وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے جہاں کا ماحول علم و ادب کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے مگر وہ انکم ٹیکس کمشنر کے اعلیٰ عہدے پر رہتے ہوئے اپنی اہل شناسی علم و ادب کو بنائے رہے۔

اس کا صلہ بھی انھیں ملا۔ انکم ٹیکس کمشنری سے فارغ ہونے کے بعد وہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اگرچہ وہ جامعہ کراچی کے ماحول اور اس کے کلچر سے آشنا تھے مگر اس سے شناسائی پیدا کرنے میں انھوں نے دیر نہیں لگائی۔ اپنی مدت ملازمت میں دانش مندی، حوصلے اور رواداری سے اپنے فرائض ادا کیے اس کا معترف ان کے عہد کا ہر وہ فرد ہے جس نے اس عہد میں جامعہ کی ہلڑ بازی بھی دیکھی اور پھر جالبی صاحب کے پرسکون عہد کو بھی دیکھا جس میں زور علمی سرگرمیوں پر رہا۔ سیاسی سرگرمیوں پر نہیں۔

جب وہ شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز تھے میں شعبہ اردو کا صدر نشین تھا۔ میں نے جامعہ کے اچھے برے دن دیکھے ہیں اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی ملازمت کے دوران جن وائس چانسلروں کو دیکھا مجموعی طور پر ان میں سب سے کامیاب وائس چانسلر جالبی صاحب تھے۔

میں ان کی فراست کے اعتراف میں ان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایک بار کسی مطالبے کے سلسلے میں طلبا کے ایک گروہ نے شیخ الجامعہ کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔ ان کے بعض مطالبات ایسے تھے جن کو تسلیم کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ جالبی صاحب اپنے دفتر میں بیٹھے اطمینان سے پان کھاتے رہے۔

پھر سیکریٹری کو حکم دیا کہ تمام صدور شعبہ جات کو میرے دفتر میں طلب کرلو۔ چنانچہ ساٹھ کے قریب صدور شعبہ وائس چانسلر کے دفتر پہنچ گئے۔ اب صورت یہ بن گئی کہ گھیراؤ محض شیخ الجامعہ کا نہیں ساٹھ کے قریب صدور شعبہ کا بھی ہوگیا۔ طلبا کے لیے یہ صورت حال انتہائی مضر تھی، چنانچہ انھوں نے گھیراؤ ختم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ جالبی صاحب نے یہ مسئلہ پولیس یا رینجرز کی مداخلت کے بغیر حل کیا۔ جالبی صاحب اعلیٰ انتظامی عہدوں پر رہ چکے تھے مگر طلبا کے بچکانہ اور ضدی مطالبات سے واسطہ پڑا تو وہ اس میں بھی کام یاب رہے۔

جامعہ کراچی سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک اور علمی ادارے کے سربراہ رہے اور وہ تھا مقتدرہ قومی زبان۔ اس ادارے کی سربراہی کے دوران انھوں نے متعدد حوالے کی کتب، شعرا اور ادیبوں کی کتابیات اور دفتری اردو کی ترویج کے لیے بڑا کام کیا۔

جامعہ کراچی کی وائس چانسلری کے دوران وہ شعبہ اردو کے معاملات میں خصوصی دل چسپی لیتے رہے۔ ان کے زمانے میں بعض اچھے اساتذہ کا شعبے میں اضافہ ہوا۔ شمیم احمد صاحب، سحر انصاری صاحب اور ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب اسی زمانے میں شعبہ اردو میں آئے۔ وہ جب شعبہ کا دورہ کرتے تو ہر اعتبار سے اس کی علمی سرگرمیوں کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے اور چاہتے تھے کہ شعبے کا امیج اس کے اساتذہ کی لیاقت کی بنیاد پر استوار ہو۔

جالبی صاحب ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ ہمارے قدما کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ یک رُخے نہیں ہوتے تھے۔ جالبی صاحب بھی اس روایت کے اسیر تھے۔ ان کی منتظمانہ صلاحیتوں سے قطع نظر ادبی اعتبار سے  بھی وہ بیک وقت، محقق، نقاد، دانش ور تھے۔ قدیم و جدید ادب پر ان کی یکساں نظر تھی انھوں نے ادبی دنیا کے وہ بھاری پتھر بھی اٹھائے جو کسی سے نہ اٹھتے تھے۔ مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کی ترتیب و تدوین جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھی۔ دیوان حسن ذوقی اور دیوان نصرتی کو مرتب کرکے انھوں نے دکن میں اردو کی ترویج کی کڑیاں اس طرح ملائیں کہ اردو ادب تقریباً ایک صدی قبل تک جاپہنچا اور اس کے ارتقائی خلا پُر ہوگئے۔

ان کا اصل کارنامہ جو ان کے تمام کارناموں میں نمایاں ترین ہے وہ ہے ’’تاریخ ادب اردو۔‘‘ یہ تاریخ ادبی تاریخ نگاری کے جدید اصولوں کے پیش نظر لکھی گئی ہے اور ہر عہد کے سیاسی، علمی اور ادبی و تاریخی پس منظر میں اس دور کے ادب کی معنویت کو تلاش کرکے اس کی نمایاں خصوصیات واضح کی گئی ہیں۔ اسی لیے اس تاریخ کو اردو ادب کی تاریخوں میں منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہوا ہے۔

یہ ایک ایسا کام ہے جو ایک ادارے کے کرنے کا تھا جیسے تنہا جالبی صاحب نے انجام دیا۔ وہ یہ کام تقریباً اسی فیصد مکمل کرگئے تھے اور جب تک ہوش حواس نے ساتھ دیا کام کرتے رہے، جو کام باقی رہ گیا تھا اس کے نوٹس بھی انھوں نے مرتب کرلیے تھے۔ ایک اعتبار سے یہ کام تشنہ تکمیل ہے مگر اب ہمارے معاشرے میں دو چار لوگ ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اس بھاری پتھر کو اٹھا سکیں اور ان کا اتنا معتبر ہونا بھی لازمی ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ کام ضایع نہ ہو، اس کا معیار بھی برقرار رہے۔ اردو کو جس طرح اپنی بائیس جلدوں پر مشتمل لغت  کی تکمیل پر فخر ہے اسی طرح اس ادبی تاریخ پر بھی فخر رہے گا۔

جالبی صاحب کثیر التصانیف تھے۔ غالباً 1988 میں ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ’’ڈاکٹر جمیل جالبی۔۔۔۔سوانحی کتابیات‘‘ مرتب کرکے شایع کی تھی جس میں ان کی تصانیف کو تفصیل اور ’’سوانحی کتابیات‘‘ کی دل کش اصطلاح بھی تھی مگر جالبی صاحب کی تصانیف کا سلسلہ اس کے بعد تک جاری رہا۔ اب ان کی مطبوعات کی جو فہرست سامنے آئی ہے اس کے مطابق ان کی مطبوعات 37 بنتی ہیں جن میں تاریخ ادب اردو جلد چہارم بھی شامل ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تصنیف و تالیف کا کام کرنے کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے اور جالبی صاحب نے اپنی عمر اسی میں کھپائی۔

یہ تصانیف محض اپنی تعداد کے اعتبار سے اہم نہیں بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی اہم ہیں۔ ان میں تنقید، تحقیق، لغت، افسانوی ادب، تراجم اور ادب کی متعدد اصناف پر ان کی گراں قدر کاوشیں شامل ہیں اور وہ اپنی ان اعلیٰ علمی کاوشوں میں زندہ رہیں گے۔

The post ڈاکٹر جمیل جالبی ایک قدرآورعلمی شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.

تھامس جیفرسن کی بائبل

$
0
0

تھامس جیفرسن کا مختصر تعارف
تھامس جیفرسن (13 اپریل 1743 ء – 4 جولائی 1826 ء) امریکا کے تیسرے صدر تھے۔ 1776ء میں جمہوریہ ریاست ہائے متحدہ کا مشہورِ زمانہ اعلان آزادی قلم بند کرنے کا اعزاز انھی کو حاصل ہوا۔ 1797ء سے 1801ء تک امریکا کے نائب صدر اور 1801ء سے 1809ء تک امریکا کے صدر رہے۔ انہوں نے ریاستی اور قومی سطح کی کئی راہ نما دستاویز تیار کیں اور کئی اہم فیصلے صادر کیے۔

یہ 1804کی ایک شام تھی، جب تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن وائٹ ہاؤس میں روز مرہ کے صدارتی امور سے فارغ ہوکر اپنی ڈیسک پر آبیٹھے، چھوٹا چاقو یا قینچی لیے سابق صدر نے بائبل کے دو مختلف نسخوں میں سے تراشے کاٹ کاٹ کر ایک نئے رجسٹر میں چسپاں کرنا شروع کردیے۔ تھامس جیفرسن اس کتاب کی کانٹ چھانٹ کر رہے تھے جسے ان کے اکثر ہم وطن امریکی ’’خدا کا کلام‘‘ تصور کرتے تھے۔ یہ فعل انتہائی حساس بلکہ توہین کے زمرے میں آتا تھا مگر جیفرسن کے لیے یہ ایک سادہ سا کام تھا۔

تھامس جیفرسن نے بائبل کے دو نسخوں کی کاٹ چھانٹ کر کے ایک تیسری بائبل تیار کرلی جو ان دونوں بائبل سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ بقول جیفرسن اس نے بائبل کے تمام غیرضروری حصوں سے ضروری حصوں کو الگ کر لیا تھا۔ بعدازاں جان ایڈمس کو لکھے ایک خط میں جیفرسن نے بائبل کے (ان کے خیال میں) غیرضروری حصے سے الگ کر کے اپنے انتخاب کردہ تراشوں کو ’’ایسے ممتاز و نمایاں جیسے کوڑے کے ڈھیر پر ہیرا ‘‘ قرار دیا۔

جیفرسن نے اپنی اس بائبل کا نام”The Philosophy of Jesus of Nazareth”  ( فلسفۂ یسوعِ ناصری) رکھا۔ انہوں نے اس کتاب کی جلد بنوالی تھی مگر اسے کبھی شائع نہیں کیا، صرف چند قریبی دوست یہ بات جانتے تھے۔ 46 صفحات کی اس کتاب کا یہی ایک نسخہ تھا جو بعدازاں کہیں غائب ہوگیا اور تاریخ میں گم ہوگیا۔ اب یہ صرف جیفرسن کے تحریر کردہ خطوط میں کسی حد تک موجود ہے جو انہوں نے اپنے مختلف دوستوں کو ارسال کیے۔

جیفرسن کی بائبل کا دوسرا ورژن:

سولہ برس بعد جیفرسن نے ایک اور نسخہ تیار کیا۔ 1820ء میں جب جیفرسن کی عمر 77 سال تھی اور وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے فارغ ہوچکے تھے، وہ دوبارہ بیٹھے۔

انہوں نے چھ بائبل خریدیں، دو انگریزی، دو فرانسیسی اور دو ایسی جو یونانی و لاطینی دونوں زبانوں پر مشتمل تھیں۔ جیفرسن نے دوبارہ بائبل میں کانٹ چھانٹ کی، ان کے تراشیدہ حصوں کو الگ صفحات پر چسپاں کیا اور یوں چار زبانوں پر مشتمل ایک اور بائبل تیار کرڈالی جوان کے وسیع علم کو ظاہر کرتی ہے۔

اس دوسرے ورژن کو جیفرسن نے “The Life and Morals of Jesus of Nazareth”(حیات و کردارِ یسوع ناصری) کا نام دیا۔ یہی وہ بائبل ہے جسے آج ہم جیفرسن کی بائبل کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جو اب واشنگٹن میں واقع لائبریری Smithsonian National Museum of American Historyمیں محفوظ ہے۔ تاہم یہ بات اکثر لوگ نہیں جانتے کہ تھامس جیفرسن نے اپنی الگ بائبل تیار کی تھی۔

واضح رہے کہ ناصرہ (Nazareth)  اسرائیل کے جنوبی ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کا بچپن گزرا تھا۔ اس نسبت سے آپ کو عیسائی دنیا میں ’یسوع ناصری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس ورژن میں جیفرسن نے چار کالم بنائے، ایک جانب لاطینی و یونانی زبان کے تراشے جب کہ فرانسیسی اور انگریزی تراشے دوسری جانب چسپاں کیے۔

انچ میں یہ کتاب 8.3 لمبائی، 5.2 چوڑائی اور 1.3 موٹائی رکھتی ہے ۔

جیفرسن کی کٹ اینڈ پیسٹ بائبل:

کہا جاتا ہے کہ جیفرسن نے 1808 میں اپنے ایک دوست برطانوی سائنس داں جوزف پریسلے کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے پریسلے کو ترغیب دی کہ وہ بائبل سے اخذ کر کے ایک کتاب یسوع کے اخلاقی کردار کے حوالے سے لکھے۔ مگر ہوا یوں کہ پریسلے اس کے ایک ہفتے بعد ہی فوت ہوگیا، تب خود جیفرسن نے بائبل کے دو نسخوں کی مدد سے اپنی نئی بائبل اسی موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کی۔ جیفرسن کی ایک تحریر سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی یہ کتاب امریکا کے قدیم باشندوں ریڈانڈینز کی تعلیم کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ مگر مورخین کا ایک گروہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس گروہ کے مطابق جیفرسن نے یہ آئیڈیا کسی کو نہیں دیا، نہ ہی جیفرسن اس کتاب کے ذریعہ ریڈ انڈینز کی تعلیم کے خواہاں تھے بلکہ جان ایڈمس کو لکھے ایک خط میں جیفرسن نے واضح کیا ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے تیار کی ہے۔ جیفرسن پر بعض لکھنے والے اس بابت خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں میں سے کس کی بات کو درست مانا جائے۔

تھامس جیفرسن کی بائبل میں عیسٰی علیہ السلام کو بہ حیثیت ایک انسان اور بہ طور اخلاقیات کے استاد نمایاں کیا گیا تھا۔ ایک ایسا استاد جس کی سچائی معجزات اور کسی قسم کی مافوق الفطرت (Supernatural) طاقت کی مدد کے بغیر ثابت کی گئی تھی۔ جیفرسن نے عہدنامہ جدید کے ان حصوں کی کاٹ چھانٹ شروع کی جو ان کے خیال میں ’’ غیرضروری ‘‘ تھے۔

اس بائبل میں صرف یسوع پر زور دیا گیا تھا ان کے روحانی امور کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندہ ہونے اور ایسٹر کے تہوار کا ذکر بھی شامل نہیں تھا اور نہ ہی ان کے معجزات مثلاً پانی کا شراب بن جانا، پانی پر چلنا، روٹیوں اور مچھلیوں کو کئی گنا زیادہ کردینا وغیرہ شامل تھے۔

تھامس نے پولوس کو عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں سب سے پہلا تحریف کرنے والا ( first corrupter of the doctrines of Jesus  ) قرار دیا۔

تھامس جیفرسن نے تثلیث کے تصور کو ’’اپنے آپ کو عیسیٰ کا پادری کہنے والے دھوکے بازوں کا محض جادو منتر، لایعنی بول (“mere Abracadabra of the mountebanks calling themselves the priests of Jesus”) کے طور پر مسترد کردیا۔

تھامس جیفرسن لکھتے ہیں کہ ’’مسیح علیہ السلام خود کو بنی نوع انسان کے سامنے خدا کے بیٹے کے طور پر پیش کرنے کے متمنی نہیں تھے۔‘‘

“Jesus did not mean to impose himself on mankind as the son of God”

انہوں نے نیا عہدنامہ تحریر کرنے والے لکھاریوں کو جاہل اور ان پڑھ (ignorant, unlettered men) قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صرف توہم پرستی، جنونیت اور جعل سازی (“supersitions, fanaticisms and fabrications”) کو پروان چڑھایا۔

جیفرسن کے مطابق عیسائی مذہبی راہ نماؤں نے مذہب کو محض دولت و طاقت حاصل کرنے کی چال کے طور پر استعمال کیا۔ (“mere contrivence to filch wealth and power to themseves”)

مزید لکھتے ہیں کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں پادری آزادی کے دشمن رہے ہیں۔ (“in every country and every age, the preist has been hostile to liberty”)

عیسائی دنیا کا ردِعمل:

عیسائی مذہب و مذہبی راہ نماؤں سے متعلق تھامس جیفرسن کے ان تبصروں نے عیسائی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چناںچہ ان عقائد کی بنیاد پر عیسائی محققین پریشان ہیں کہ تھامس جیفرسن کو کیا کہا جائے۔

والڈ مین نے تھامس کو عیسائی مخالف، یہود کا حامی اور مذہب مخالف مگر خدا کے وجود کا حامی (anti-Christian pro-Jew and anti-religion  pro-God) قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ کورانہ تقلید کا مخالف اور دلیل کی بنیاد پر عقیدہ رکھنے کا قائل تھا۔

ان کی کتاب کو کٹ اینڈ پیسٹ بائبل کا نام دے کر کوئی انہیں ملحد (Atheist)قرار دیتا ہے تو دوسرا کہتا ہے جیفرسن سچے ملحد نہیں تھے کیوںکہ وہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتے تھے۔

لیکن سب سے دل چسپ تبصرہ کلیرمونٹ گریجویٹ یونیورسٹی (Claremont Graduate University)میں تاریخ و ادب کی پروفیسر لوری این فیریل (Lori Anne Ferrell)کا ہے، وہ لکھتی ہیں:

’’اصل میں بات یہ ہے کہ تقریباً ہر شخص بائبل میں کاٹ چھانٹ کرتا ہے۔ حتٰی کہ روزانہ بائبل کا مطالعہ کرنے والے لوگ بھی اس کے صرف بعض حصے پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ منتخب حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ وہ حصے پڑھتے ہیں جن پر ان کا یقین ہوتا ہے یا وہ جو انہیں تسکین پہنچاتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے لیے بائبل کَٹ اینڈ پیسٹ (cut and paste)کام ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ جیفرسن نے حقیقت میں قینچی یا بلیڈ اٹھا لیا اور عملاً ان حصوں کو بائبل سے الگ کردیا جو ان کے خیال میں اس میں نہیں ہونا چاہیے تھے۔‘‘

ایک فری لانس قلم کار ایلیسا روٹ (Alyssa Roat) نے مکاشفہ اور استثناء کی بعض آیات کے حوالے سے لکھا کہ بائبل کے مندرجات میں سے کچھ نکالنا خدا کے نزدیک ایک بڑا جرم ہے جس کے جیفرسن مرتکب ہوئے۔

خود اپنے بارے میں جیفرسن کا کہنا تھا کہ میں اپنی ذات میں ایک فرقہ ہوں “I am a sect by myself ”

وہ اپنی سوانح حیات میں ایک جگہ لکھتے ہیں:’’میں یسوع کے عقائد کا پیروکار ایک حقیقی عیسائی ہوں۔‘‘

“I am a real Christian, that is to say a disciple of the doctrines of Jesus”

جیفرسن نے یہ کتاب اپنے بہت سے دوستوں کو ارسال کی مگر اپنی زندگی میں اسے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیفرسن کا تیار کردہ مکمل ترین نسخہ وراثت میں ان کے پوتے تک پہنچا اور اس کا اصل نسخہ 1895 میں اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن (Smithsonian Institution) نے ان کی پڑپوتی کیرولینا رینڈولف سے چار سو ڈالر کے عوض حاصل کیا۔

اس کے بعد یہ بائبل 1904 میں شائع ہوئی اور ہر دوسرے سال 1950 تک شائع ہوتی رہی۔ کانگریس کے نئے ارکان کو ایک نقل فراہم کی جاتی رہی جسے بعدازاں روک دیا گیا۔ پھر امریکن ہیومینسٹ ایسوسی ایشن(American Humanist Association) نے 2013 میں اس کا ایک ایڈیشن شائع کیا اور کانگریس کے ہر رکن اور باراک اوباما کو مفت فراہم کیا۔

اس سارے قصے کو دیکھتے ہوئے ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ ایک عیسائی کے دل میں کیوںکر اپنے مذہب کے بارے شبہات پیدا ہوئے؟ ایسے ماحول میں جہاں تثلیث کا عقیدہ ہر شخص کی گھٹی میں پڑا ہو کوئی ذہن کیوںکر عیسٰی علیہ السلام کی بشریت کا قائل ہوا؟ کیا چند مخصوص عقائد کے حوالے سے تھامسن کے دل و دماغ میں مچی ہلچل کسی خارجی عامل کے سبب تھی؟ اگر ہاں تو وہ خارجی اسباب کیا کیا تھے؟

چند باتوں کے جواب ہم ایک اور تاریخی واقعے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اگرچہ خود عیسائی دنیا خصوصاً امریکا میں ان کے اعلانیہ عقائد کے متعلق سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ عیسائی تھے یا یہودی؟ لیکن یہ سوال اٹھانے کے بعد بات تھامس جیفرسن کے وائے کروموسوم (Y Cromosom)کی طرف نکل جاتی ہے۔n

(جاری ہے)

The post تھامس جیفرسن کی بائبل appeared first on ایکسپریس اردو.

موت کی کوٹھڑی سے نئی زندگی تک

$
0
0

کلنٹن کانیو مغربی افریقہ کے ملک نائجیریا میں ایک متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا، اس کا باپ غریب آدمی تھا جس نے اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سرکاری محکمہ ڈاک میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔کانیو کی ماں سکول ٹیچر تھی۔ دونوں میاں بیوی اپنے چھ بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

کلنٹن کانیو بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، وہ پڑھنے کا شوق رکھنے والا، محنتی بچہ تھا۔ اس نے قانون اور کرمنالوجی (جرائم کا سائنسی علم) میں تعلیم حاصل کی اور جلد ہی ماہر جرمیات کے حوالے سے مشہور ہوگیا اور مختلف جرائم اور مقدمات میں سرکاری افسروں کی مدد کرنے لگا۔ وہ اٹھائیس سال کی عمر کا ایک پُرجوش اور دلکش نوجوان تھا، جس نے کم عمری میں ہی اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کر لی تھی۔ اس کے پاس دو شاندار رہائش گاہیں، چار گاڑیاں تھیں اور اعلیٰ سرکاری حکام سے اس کے تعلقات تھے۔

1992ء کے آغاز کے دن تھے۔ کانیو دیگر افسران کے ہمراہ ایک خاندان میں ہونے والی چوری اور زمین کا تنازعہ سلجھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اتفاق سے اس جھگڑے کے متعلقین میں سے ایک شخص کا قتل ہوگیا۔ کانیو کو اس قتل میں ملوث کردیا گیاحالانکہ جس وقت وہ قتل ہوا، کانیو جائے وقوعہ سے ایک سو کلو میٹر دور تھا۔ اسے اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

گرفتاری کے بعد اسے احساس ہوا کہ اسے جان بوجھ کر اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اس کی ترقی اور سرکاری افسروں سے تعلقات سے نالاں تھے، انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اسے جیل بھجوانے کا انتظام کیا۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہونے کا انتظار وہ برسوں تک ایک چھوٹی سی جیل میں قید رہ کر کرتا رہا۔ اس تکلیف دہ وقت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی اس کا چہرہ غم و غصہ سے سرخ ہو جاتا ہے اور وہ اسے نائجیریا کے قانون جرم وسزا کی بدعنوانی،ناانصافی اور غداری قرار دیتا ہے کہ ایک شخص کو مقدمہ کی سماعت کے لیے اس قدر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق نائجیریا میں جرم و سزا کا نظام بدعنوانی سے بھر پور ہے۔کئی بار ججز کو رشوت ستانی کے باعث معطلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماعت اور پیشی میں غیر ضروری تاخیر کی جاتی ہے۔ ملک کی مختلف جیلوں میں قید 70 فیصد قیدی مقدمہ شروع ہونے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔کانیو کو گرفتاری کے تیرہ سال بعد سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور اسے ملک کی بڑی جیل میں بھیجا گیا۔

804 افراد کی گنجائش رکھنے والی اس جیل میں چار ہزار سے زائد لوگ قید تھے۔ نائیجریا کی قیدیوں سے متعلق ایک رفاہی تنظیم کے سربراہ کے مطابق جیلوں میں اس غیر معمولی بھیڑ کی ایک بڑی وجہ معمولی جرائم میں اور غیرقانونی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا گرفتار کیا جانا ہے جس کی وجہ سے عدالتیں اور جیل کا نظام دونوں مشکل میں ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افریقہ کے ممالک میں سب سے زیادہ پھانسی کی سزا نائیجریا میں سنائی جاتی ہے۔2017 ء میں621 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔2016 ء میں 527 لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ یہ تعداد 2015 ء کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ پھانسی کی سزا عموماً مسلح ڈکیتی، قتل یا غیر قانونی کام کرنے والے گروہوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے دی جاتی ہے۔

طویل قید اور پھر موت کی سزا نے کانیو کو جذباتی اور جسمانی ہر دو لحاظ سے بری طرح متاثر کیا۔ وہ بلند فشارِ خون، بے خوابی، ذیابیطس، پریشانی اور دباؤ کا شکار ہو کر جیل کے ہسپتال میں جا پہنچا۔ وہ اپنی بے گناہی سے لڑتے لڑتے تھک چکا تھا اور سزائے موت نے اس پر مایوسی طاری کر دی تھی۔ 2008 ء میں اس نے خواب آور گولیوں کی ایک بھاری مقدار کھا کر خود کشی کی کوشش کی، بے خوابی کا مریض ہونے کی وجہ سے اس نے یہ گولیاں جیل حکام کی نظروں سے بچ کر منگوا رکھی تھیں لیکن یہ گولیاں کھانے کے بعد بھی مرنے سے بچ گیا۔

وہ جیل میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو بہت یاد کرتا تھا، اگرچہ وہ سب اسے ملنے آتے رہتے تھے لیکن انہیں جاتا ہوا دیکھنا اس کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ وہ کئی کئی دن تک اس تکلیف میں مبتلا رہتا۔ یہ دن اس کے خاندان کے لیے بھی بہت مشکل تھے۔اس کی بہن وکٹوریہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی پہلی تکلیف دہ سوچ اس کے ذہن میں یہی آتی تھی کہ اس کا بھائی بے گناہ جیل کاٹ رہا ہے اور اس سوچ کے ساتھ دن گزارنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ ان تلخ ایام کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا پسند نہیں کرتی۔

کانیو کی قید کے دوران ہی اس کے والد، ایک بھائی، انکل اور کئی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں لیکن2014 ء میں ہونے والی ماں کی موت نے اسے بہت دل شکستہ کیا۔ وہ اپنی ماں کی پہلی اولاد تھا جس سے ماں کو بہت محبت تھی، اور وہ بیٹے کے جیل میں ہونے کا غم لے کر دکھی دل کے ساتھ دنیا سے گئی۔

ماں کی موت سے دل بر داشتہ کینو نے ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کی، اس بار ذیابیطس کی دوا کی بھاری خوراک کھا کر اس نے مرنے کی کوشش کی لیکن جیل کے اسپتال میں متعین ایک نرس کے بروقت اسے دیکھ لینے کی وجہ سے وہ بچا لیا گیا۔ جیل میں اس کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی لیکن چند ہی دن بعد اس نے جیل کی ورکشاپ سے تیز دھار آلہ چرا کر خود کو ختم کرنے کی کوشش کی تاہم ایک ساتھی ملزم کی بروقت مداخلت کی وجہ سے وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ خودکشی کی تین ناکام کوششوں نے اسے احساس دلایا کہ ابھی خدا کو اس کی زندگی مقصود ہے۔ اس احساس کے زیرِ اثر اس نے جیل میں اپنے وقت کو مثبت استعمال کرنے کا سوچا اور ساتھی قیدیوں سے رہنمائی لینا اور مشاورت کرنا شروع کر دی۔

اس نے افریقہ کے ایک مشنری ادارے کو جیل میں تعلیم کے لیے قائل کیا اور پچاس دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ دین الہیا ت کے مطالعہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ اب اسے ہر ہفتے ہونے والی کلاسز کا انتظار رہتا تھا۔ اس مصروفیت نے اس کی بے چینی کو ختم کیا اور بہت عرصہ بعد اسے سکون کا احساس ہوا۔ 2009 ء میں وہ دو مختلف مضامین میں ماسٹرز کر چکا تھا، جیل میں سات سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2014 ء میں اس نے مشن منسٹری اور مشاورت کے مضامین میں الگ الگ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرلیں۔

اسی سال اسے جیل میں مبلغ کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ جیل میں یہ وہ پہلی چیز تھی جس نے اسے خوشی دی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی مبلغ بننا چاہتا تھا۔ اس کے دس اور ساتھیوں کو بھی مبلغ مقرر کیا گیا لیکن ان سب نے اسے اعزاز دیتے ہوئے بڑے پادری کا رتبہ دیا۔ وہ ان ساتھیوں کے ہمراہ جیل میں مذہبی دعائیہ اجتماع منعقد کرواتا، ساتھی قیدیوں کو پرسکون رہنے اور غصہ پر قابو پانے کی نصیحت کرتا اور سزائے موت پر کی جانے والی اپنی اپیل کی شنوائی کا انتظار کرتا۔

مقدمہ لڑنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس کی چاروں گاڑیاں، دونوں رہائش گاہیں اور سارا گھریلو سامان بک چکا تھا۔اب اس کے پاس کچھ نہیں رہا تھا۔ موت کی سزا ملنے کے دس سال بعد سپریم کورٹ میں اس کے کیس کی شنوائی ہوئی جس میں اس کے مقدمے کی تفصیلات کا ایک بار پھر جائزہ لیا گیا۔

اس کے خلاف واحد گواہ مقتول کا بھائی تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے کانیو کو جائے وقوعہ پر دیکھا تھا۔ جبکہ دو لوگ کانیو کے حق میںگواہی دے رہے تھے کہ وہ جائے واردات سے سو کلومیٹر دور تھا۔ بالآخر طویل سماعت کے بعد 2019ء میں سپریم کورٹ نے کانیو کو بے قصور قرار دیتے ہوئے بری کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اس فیصلے کے دو ہفتوں بعد وہ جیل سے رہا ہوا۔ ایک بیگ میں اپنی تعلیمی اسناد اور مشنری ادارے کی طرف سے تحفتاً دیئے گئے کپڑے لے کر وہ جیل سے باہر آیا۔

جس وقت وہ جیل گیا تھا اس وقت اٹھائیس سالہ نوجوان تھا جس کے پاس سب کچھ تھا، لیکن آج جب جیل سے باہر آیا وہ ایک چھپن سالہ بوڑھا تھا جس کے پاس نہ گھر تھا، نہ گاڑی، نہ دوست اور نہ ہی بیوی بچے۔ وہ متوسط درجے کی ایک رہائشی عمارت کی تیسری منزل پر واقع ایک کمرے کے مختصر سے فلیٹ میں رہتا ہے، کمرے میں کل سامان ایک سخت کھردرا میٹرس، اور ایک بدرنگ آرام کرسی ہے، کمرے کی چھت اتنی نیچی ہے کہ طویل قامت نہ ہونے کے باوجود وہ اگر سیدھا کھڑا ہوتا ہے تو اس کا سر چھت سے ٹکراتا ہے۔ دن کا بیشتر وقت وہ کھڑکی سے شہر کی سرخ مٹی بھری سڑکیں دیکھتا رہتا ہے اور بائبل کے مطالعے میں مصروف رہتا ہے۔

ہفتے کے دن وہ اسی شہر میں رہنے والی اپنی ایک بہن کے گھر کھانے کے لیے جاتا ہے جہاں وہ بہن بہنوئی کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور کھانے کے بعد اس کی بہن خاندان کی تصویروں پر مشتمل البم اسے دکھاتی ہے۔ یہ ان ستائیس سالوں کے دوران بنائی جانے والی تصویریں ہیں جب کانیو جیل میں تھا۔ وہ اپنے بھانجے، بھتیجوں کی تصویریں دیکھتا ہے جو تعلیم اور روزگار کے لئے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ یہ تصویریں دیکھ کر اس بدترین وقت کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے جو اس نے گزارا ہے۔ وہ زندگی میں واپس آنے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن ظاہر ہے یہ آسان نہیں ہے۔

نرم، سادہ اور بالکل عام سی شکل والا کانیو مذہب پر بہت یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی یقین اس کا ساتھ دے گا۔ وہ اب سخت حفاظتی انتظامات والی جیل میں تو نہیں ہے لیکن ایک بیروزگار ادھیڑ عمر شخص ایک غریب ملک میں کیسے زندگی گزارے، یہ اس کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد اس نے اپنی جیل میں حاصل کی گئی ڈگریوں کی بنیاد پر مختلف جگہوں پر ملازمت کے لئے درخواستیں جمع کرائیں، مختلف حکومتی اداروں میں امداد کے لئے درخواست دی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جس دنیا سے وہ ستائیس سال دور رہا ہے وہاں وہ اپنے دوستوں اور پرانے تعلق داروں کو ڈھونڈ رہا ہے لیکن ظاہر ہے یہ آسان نہیں ہے۔

اسے اپنی تعلیم اور صلاحیتوں پر اعتماد ہے لیکن فی الوقت وہ بھکاریوں کی طرح رہائش اور خوراک کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ اس کی رہائش گاہ سے تیس منٹ کے فاصلے پر ایک چرچ ہے جہاں وہ کبھی کبھار مہمان مقرر کے طور پر مدعو ہوتا ہے، اس چرچ کا پادری اس سے بہت متاثر ہے، وہ سمجھتا ہے کہ کانیو کے اندر کوئی روحانی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی لمبی بے گناہ قید کاٹ سکا ہے۔

کانیو کو چرچ جا کر بہت خوشی اور سکون ملتا ہے لیکن وہ روزانہ وہاں نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے پاس بس کے کرائے کے لیے رقم نہیں ہوتی۔کینو کے پاس تعلیم ہے، صلاحیت ہے، آئیڈیاز ہیں لیکن پیسہ، طاقت، تعلقات اور ملازمت نہیں ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے ابتدا کرے۔ وہ اپنے ملک میں جیل کے نظام کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جو طویل وقت اس نے جیل میں گزارا اس میں اسے جیل کے نظام کی خرابیوں اور برائیوں کا بہت اچھی طرح علم ہوا۔ اس نے جیلوں میں ہونے والی بد عنوانی، تشدد اور زیادتی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔

قیدیوں کی خوراک، رہائش اور دیگر ضروریات کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رقم میں جیل حکام خردبرد کرتے ہیں اور قیدیوں پر بہت کم خرچ کرتے ہیں۔ جیلوں میں بنیادی ضروریات جیسے بیت الخلا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا فقدان ہے، علاج کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے قیدی قابلِ علاج بیماریوں مثلاً ملیریا اور ٹی. بی کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ سزائے موت کے قیدیوں کو تنگ و تاریک سیل میں رکھا جاتا ہے جہاں چوہوں کی بھرمار ہوتی ہے جبکہ ہوا اور روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ جیل میں قید لوگوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ جب وہ جیل سے باہر آئیں تو وہ ایک کارآمد فرد ہوں۔کانیو اپنی غیر آرام دہ’آرام کرسی‘ میں بیٹھا بہ آواز بلند کہتا ہے، جیلوں میں کچھ نہیں ہو رہا۔ کرسی جُھلاتے ہوئے وہ کہتا ہے:

’’آپ لوگوں کو وہاں ڈالتے ہیں اور وہ فارغ بیٹھے باہر آنے اور بدلہ لینے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں، آپ انہیں کسی مثبت کام میں کیوں نہیں لگاتے کہ ان کی معاشرے میں واپسی ایک مجرم کی واپسی نہیں بلکہ ایک ہنر مند کی واپسی ہو‘‘۔

کانیو اس نظام کو بدلنا چاہتا ہے جو کسی بھی بے قصور شخص کی زندگی نگل جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قیدیوں کی فلاح کے لیے ایک تنظیم بنائی جائے جو رہائی کے بعد انہیں عام روزمرہ زندگی میں واپس آنے میں مدد کرے۔ وہ فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہے جبکہ مالک مکان کی طرف سے اسے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس مل چکا ہے لیکن وہ اب بھی پُر امید ہے کہ کوئی نہ کوئی حل اس کا منتظر ہوگا۔

کلنٹن کانیو کی یہ داستان صرف ایک فرد کی داستان نہیں ہے، یہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کی جیلوں میں قید ہر اس بے قصور شخص کی کہانی ہے جو ظالمانہ نظام جرم و سزا کی نذر ہو رہا ہے، جس کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال خود کو بے قصور ثابت کرنے کے جدوجہد میں صرف ہو رہے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات کے لئے ناکافی ان جیلوں میں قید لوگ نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

(یہ کہانی الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر لکھی گئی ہے )

The post موت کی کوٹھڑی سے نئی زندگی تک appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>