Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

جنھیں کورونا نے نہیں مارا، مگر۔۔۔

$
0
0

تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ ایک بار امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحرائے عرب کے کسی دورافتادہ علاقے سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر صحرا میں سفر کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب مسافر پر پڑی، جس کی نہ شکل و شباہت عربوں جیسی تھی اور نہ چال ڈھال قرب و جوار کے علاقوں میں آباد افراد جیسی۔ آپ ؓ نے اُس اجنبی شخص کا راستہ روک کر پوچھا ’’اے مسافر! تم کون ہو اور کہاں جارہے ہو؟‘‘

اجنبی مسافر نے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دست بوسی کرتے ہوئے انتہائی احترام سے عرض کیا کہ ’’اے امیرالمومنین! میں معروف آسمانی وبا ہیضہ ہوں، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یمین کی بستی کی جانب عازمِ سفر ہوں، جہاں مجھے تقدیری الہیٰ کے عین مطابق70 لوگوں کو ہیضے کی بیماری میں مبتلاء کرنا ہے، جن میں سے 30 افراد ہیضے کے وبائی مرض سے لقمہ اجل بن جائیں گے اور باقی افراد صحت یاب ہوجائیں گے۔‘‘ آپ ؓ نے وبائی مرض ہیضہ کی گفتگو سُن کر اُسے یمین کی سمت جانے اجازت مرحمت فرمادی۔

ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کو یمین سے خبر موصول ہوئی کہ یمین میں 100 سے زائد افراد وبائی مرض ہیضے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے ہیں۔

آپ ؓ  کو خبر سن کر افسوس بھی ہوا اور ہیضے کی غلط بیانی پر شدید حیرت بھی۔ آپ ؓ نے ہیضے سے اُس کی دروغ گوئی پر جواب طلبی کرنے کے لیے اُسی راستے پر اُس کا انتظار کرنا شروع کردیا، جس راستے پر آپ ؓ کی ہیضے نامی مرض سے مجسم صورت میں ملاقات ہوئی تھی۔ ابھی آپ ؓ کو انتظار فرماتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ سامنے سے وہی عجیب و غریب شخص جس نے اپنا تعارف وبائی مرض ہیضہ بتایا تھا، خراماں خراماں، آتا دکھائی دیا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُس سے اپنے پاس بلایا اور سوال کیا کہ ’’تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا، اور یمین میں 30 افراد کے بجائے 100 سے زائد افراد کی ہیضہ کے مرض سے جان کیوں لے لی۔‘‘ اُس شخص نے جواب دیا کہ ’’اے امیر المومنین! میں نے آپؓ سے جو کہا تھا بالکل سچ کہا تھا، اور میں نے یمین کی بسی میں فقط 30 افراد کی ہی ہیضہ سے جان لی تھی، باقی لوگ تو ہیضہ کی بیماری سے نہیں بلکہ اِس مرض کے خوف سے ہی مرگئے۔‘‘

گذشتہ چند ماہ سے ہمارے ہاں بھی ایک مہلک وبائی مرض کورونا وائرس کی شکل میں نازل ہوچکا ہے، جو اَب تک ہزاروں قیمتی جانوں کو نگل چکا ہے مگر دوسری جانب لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جو اِس وبائی مرض کا شکار ہونے کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی خبر تو عالمی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں مسلسل جگہ بنارہی ہے لیکن کووڈ 19 بیماری سے شفایاب ہونے والے خوش قسمت مریضوں کا تذکرہ کسی نیوز بلیٹن میں نہیں کیا جارہا، جس کی وجہ سے کورونا وائرس سے زیادہ، اِس مرض کا خوف لوگوں میں ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بے شمار ایسے معصوم افراد بھی ہیں جن کی موت کا ذمہ دار کورنا وائرس ہرگز نہیں لیکن اِس کے باجود اُن کی اموات کو کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ کورونا وائرس کے نام پر جاں بحق ہونے والے ایسے ہی چند بدقسمت افراد کی سرگذشت پیش ِ خدمت ہے۔

٭غلط تشخیص سے ہونے والی موت:کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کی سب سے زیادہ اہمیت کورونا وائرس کے ٹیسٹ یا تشخیص کے لیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار کی ہے، کیوںکہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ ہی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آیا کسی شخص میں کورونا وائرس سے لاحق ہونے والی موذی بیماری کووڈ 19 موجود ہے یا نہیں۔ عام طور پر کورونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ دو اقسام کے ہوتے ہیں: پہلی قسم کی تشخیصی جانچ کو ’’سواب ٹیسٹ‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ناک یا گلے میں موجود رطوبت کا نمونہ لیا جاتاہے ۔ جسے ’’پولیمر چین ری ایکشن‘‘ یا ’’پی سی آر‘‘ ٹیسٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پی سی آر ٹیسٹ میں کسی بھی فرد سے ملنے والے رطوبت کے نمونے کا کوروناوائرس کی ’’جنیاتی ترتیب ‘‘ کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اگر متاثرہ شخص سے حاصل ہونے والے رطوبت کا نمونہ کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سے ملتا جلتا ہو تو، اسے پازیٹیو یا مثبت قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مذکورہ نمونے کی جینیاتی ترتیب چین کے شہر ووہان سے سامنے آنے والے کورونا وائرس کی ترتیب سے نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کیے گئے ٹیسٹ کا نتیجہ نیگیٹیو یا منفی ہے۔

کورونا وائرس کا دوسری قسم کا تشخیصی ٹیسٹ ’’اینٹی باڈی ٹیسٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ اِس ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا یہ شخص پہلے ہی سے کورونا وائرس کا شکار ہوکر ٹھیک تو نہیں ہوچکا ہے۔ اِس تشخیصی ٹیسٹ میں ایک آلے پر خون کے ایک قطرے سے قوتِ مدافعت کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ٹیسٹ اولالذکر تشخیصی طریقۂ کار کے تحت یعنی پی سی آر ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ اسپتالوں میں زیراستعمال طبی آلات یا کٹس سے کیے جانے والے تشخیصی ٹیسٹ بہت قابلِ اعتماد ہوتے ہیں جب کہ پی سی آر ٹیسٹ میں خاص طور پر غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِن ٹیسٹوں کے لیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار کے نتائج کبھی غلط نہیں آسکتے۔ امریکا کے معروف طبی تحقیقاتی ادارے سینٹرز فار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پری وینشن ’’سی ڈی سی‘‘ کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ نے گذشتہ دنوں کھلے عام میڈیا کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ امریکا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی بے شمار اموات غلط تشخیص کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان میں بھی پیش آچکا ہے۔

صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں جس شخص کی ہلاکت کو حیدرآباد میںکورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی پہلی ہلاکت قرار دیا گیا تھا، اُس کے بارے میں اَب جاکر معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ شخص تو کورونا وائرس سے کبھی متاثر ہی نہیں ہوا تھا۔ حیدرآباد کے علاقے حسین آباد کے رہائشی اس 54 سالہ شخص کوتیز بخار، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے پر لیاقت یونیورسٹی اسپتال (ایل یو ایچ) کے ایمرجینسی وارڈ میں معائنے کے لیے لے جایا گیا تو اُس شخص کو انتہائی نگہداشت یونٹ یعنی آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا، جہاں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے نمونے حاصل کیے گئے۔

واضح رہے کہ یہ شخص پہلے ہی سے متعدد امراض کا شکار تھا، جب کہ اِسے ماضی میں فالج بھی ہوچکا تھا اور یہ مریض گذشتہ ایک سال سے حیدرآباد کے ایک نجی اسپتال میں دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج بھی رہا تھا۔ حیران کُن با ت یہ ہے کہ لیاقت یونیورسٹی کی لیبارٹری میں مذکورہ مریض کے نمونوں کا جائزہ لینے کے بعد تشخیص کی گئی کہ یہ شخص کورونا وائرس سے متاثر ہے جس کے بعد اسے فوری طور پر آئیسولیشن وارڈ منتقل کردیا گیا۔

آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کیے جانے کے دو دن بعد مریض کا 3 اپریل کو انتقال ہوگیا، لیکن انتقال سے قبل اس شخص کا ایک اور نمونہ ایک مشہور نجی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھجوادیا گیا تھا، جس کی اگلے روز موصول ہونے والی رپورٹ منفی آئی۔ ایک مریض کی 2 مختلف رپورٹس آنے کے بعد جس کا نمونہ دونوں مرتبہ ایک ہی ٹیکنیشن نے حاصل کیا تھا، اِس سے نشان دہی ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کے نمونے میں اکھٹے کرنے میں کتنی زیادہ بے احتیاطی اور غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف غلطی سے کورونا وائرس کا شکار بتائے گئے مریض کی تدفین میں اُس کے اہل خانہ کو بھی شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ متوفی کورونا وائرس سے متاثر نہیں تھا اِس کے باوجود اُس کے اہلِ خانہ کو احترام کے ساتھ تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

٭ٹائپنگ کی غلطی سے۔۔۔۔!:ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا۔۔۔۔ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے۔ شاعر نے اِس شعر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کتابت کی ایک غلطی نے شاعر کو اپنے محبوب کے آگے رسوا کردیا تھا۔ مگر اسرائیل کی وزارت صحت نے تو ٹائپنگ کی غلطی سے ہزاروں صحت مند افراد کو کورونا وائرس کا مریض بنادیا۔

علاوہ ازیں اسرائیل کی وزارتِ صحت کی طرف سے جاری ہونے والی اِس غلط فہرست میں ایک کم زور دل شخص ایسا بھی شامل تھا، جو کورونا وائرس کی فہرست میں اپنا نام پڑھ کر اتنا پریشان ہوا کہ اُسے دل کا دورہ پڑا ور وہ موقع پر ہی انتقال کرگیا، جب کہ دل کے دورہ سے مرنے والے شخص کے لواحقین یہی سمجھتے رہے کہ اُن کے اِس عزیز کا انتقال کورونا وائرس کے باعث ہوا ہے۔ بس انہوں نے کووڈ 19 بیماری سے خود کو بچانے کی خاطر مذکورہ شخص کی آخری رسومات میں شرکت سے معذرت کرلی۔ حالاںکہ مریض کی ٹیسٹ رپورٹ میں صاف صاف لکھا تھا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہے۔

لیکن بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ اُس شخص نے لیبارٹری سے ملنے والی رپورٹ پر یقین کرنے بجائے اسرائیل کی وزارت ِ صحت کی طرف سے کورونا وائرس کی ایک غلط فہرست پر بھروسا کرلیا۔ یوں یہ شخص کمپیوٹر پر فہرست مرتب کرنے والے کی ٹائپنگ غلطی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ غلط فہرست میڈیا کی زینت بننے کے اگلے ہی دن اسرائیل کی وزارتِ صحت کی جانب سے ہزاروں لوگوں کا نام ٹائپنگ کی غلطی سے کورونا وائرس کے مریضوں کی فہرست میں آنے پر معذرت کرلی گئی تھی، مگر اسرائیل کی وزارت ِ صحت کی جانب سے جاری ہونے والی ایک غلط فہرست نے ہزاروں لوگوں کسی قدر ذہنی اذیت اور صدمے میں مبتلا کیا شاید اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

٭کورونا کے خوف سے ہونے والی اموات:جس طرح سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر کورونا وائرس کا سنسنی خیز انداز میں ذکر کیا جارہا ہے، وہ اَب عام افراد کے لیے شدید ذہنی کوفت اور اذیت کا باعث بننے لگا ہے۔ بطور ِ خاص الیکٹرانک میڈیا پر کورونا وائرس کی منفی کوریج نے لوگوں کے اعصاب کو بری طرح سے مجروح کرنا شروع کردیا ہے۔ پہلے پہل تو یہی کہا جارہا تھا کہ کورونا وائرس کا خوف گھریلو جھگڑوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے لیکن اَب تو لوگ اِس وبائی مرض کے خوف سے خودکشیاں بھی کرنے لگے ہیں۔ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ایک شخص نے بھارتی دارالحکومت دہلی کے ایک اسپتال کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔

اِس بدقسمت شخص کا نام چرن جیت سنگھ تھا اور اس کی عمر 35 سال بتائی جارہی ہے۔ چرن جیت سنگھ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتا تھا اور چند روز قبل ہی اپنے عزیز و اقارب سے ملنے بھارت آیا تھا۔ دہلی کے ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد اس نے سر درد کی شکایت کی تو اُسے کورونا وائرس کا مشتبہ مریض تصور کرتے ہوئے دہلی میں واقع ہسپتال صفدر جنگ بھیج دیا گیا اور اُس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرکے نمونہ جانچ کے لیے لیبارٹری بھجوادیا گیا۔ حالاںکہ چرن جیت سنگھ میں سردرد کے علاوہ کورونا وائرس کی کوئی دوسری علامت نہیں پائی جاتی تھی اِس کے باوجود اُس کے ساتھ کورونا وائرس کے مصدقہ مریض جیسا سلوک کیا جارہا تھا۔

چرن جیت سنگھ ہسپتال میں اتنی زیادہ ذہنی اذیت کا شکار ہوا کہ اُس نے تنگ آکر اسپتال کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ جب اُس کے مرنے کے بعد لیبارٹری سے رپورٹ موصول ہوئی تو اُس میں درج تھا کہ اُسے کورونا وائرس نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کی کشمیر کالونی کے رہائشی سرفراز کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے ۔

سرفراز کے ذہن میں بھی مختلف نیوز چینلز پر کورونا وائر س سے متعلق سنسنی خیز خبریں سن کر وہم بیٹھ گیا تھا کہ شاید اُسے بھی کورونا وائرس لاحق ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سرفراز دو چھوٹی بچیوں کا باپ تھا جبکہ اِس کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت بھی جلد ہی متوقع تھی ۔ سرفراز کو کئی دن سے کھانسی، نزلہ اور زکام کی شکایت محسوس ہورہی تھی۔ اِس نے محلے کے ایک عطائی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرایا جس نے اُس میں کورونا وائرس ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ڈرا دیا کہ اَب انتظامیہ تمہیں تمہارے خاندان سے جبری طور پر دور کردے گی۔ سرفراز پہلے ہی لاک ڈاؤن کے باعث کئی روز سے بے روزگار بیٹھا تھا، اُوپر سے کورونا وائرس کے مرض کا سن کر اتنا خوف زدہ ہوا کہ اپنے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔

٭کورونا کے علاج کے نام پر مرنے والے :کووڈ 19 بیماری کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ہے لیکن اِس کے باوجود سوشل میڈیا پر کووڈ19 کے علاج کے حوالے سے جعلی معلومات اور افواہیں تواتر کے ساتھ گردش کر رہی ہیں اور بے شمار سادہ لوح لوگ اِن افواہوں پر یقین کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بتائے گئے مختلف طریقۂ علاج اور گھریلو ٹوٹکے آزما بھی رہے ہیں۔

بلا یہ سوچے سمجھے کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے برخلاف کورونا وائرس سے بچنے کے لیے کسی بھی خودساختہ دوا کا استعمال خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ افریقی ملک کینیا میں ایک مذہبی پیشوا نے اپنے شاگردوں کو، کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ڈیٹول پینے کا مشورہ دے ڈالا، جس پر عمل کرتے ہوئے کئی افراد نے ڈیٹول کو دوا سمجھتے ہوئے خوشی خوشی پی لیا، جس کے نتیجے میں 59 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یاد رہے کہ اپنے پیشوا کے کہنے پر کُل 63 افراد نے ڈیٹول پیا تھا، جن میں سے 4 افراد کو بچالیا گیا۔ حیران کن با ت یہ ہے کہ اَب تک کینیا میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد صرف 11 ہے۔

یعنی کینیا میں اتنے لوگ کورونا وائرس سے نہیں مرے ہیں جتنے ڈیٹول کو دوا سمجھ کر پینے سے ایک دن میں ہلاک ہوگئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے پڑوسی ملک ایران میں پیش آچکا ہے جہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کم ازکم 450 افراد فیکٹریوں میں کام آنے والا زہریلا کیمیکل پی کر ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ایک ہزار سے زائد تشویش ناک حالت میں مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے۔ بظاہر کیمیکل پینے والے متعدد افراد کو مرنے سے بچالیا گیا ہے، تاہم اِن افراد میں کیمیکل کے زہریلے اثرات کی وجہ سے دیگر جسمانی عوارض پیدا ہوگئے ہیں۔

مثلاً بینائی کا ختم ہونا، زبان و گلے کا سٹر جانا، معدے میں زخم ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ اِس حوالے سے ایران کی وزارتِ صحت کے ترجمان ڈاکٹر حسین حسنین کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کے محکمہ صحت کو نہ صرف کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے چیلینج درپیش ہے بلکہ کووڈ 19 بیماری کے علاج کے نام پر زہریلے کیمیکل پینے والے افراد کی زندگیاں بچانے کا اضافی بوجھ اور دباؤ کا بھی سامنا ہے۔

٭کورونا کی آڑ میں قتل؟:گذشتہ ہفتے سے سوشل میڈیا پر ایک مبینہ ویڈیو وائرل ہے، جس میں ایک خاتون نوحہ کنا ں ہے کہ میرا 15 سالہ جوان بیٹا جس کا نام سید احمد حسن تھا، جو کہ جماعت نہم کا ایک ہونہار طالب علم تھا، اُسے ذاتی دشمنی کی بنیاد پر زبردستی گھر سے اغوا کر کے پہلے نشہ دیا گیا آور کوئی شئے کھلائی گئی اور بعدازاں اُسے بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ اِس مبینہ ویڈیو میں خاتون کا اصرار ہے کہ اُس کے بیٹے کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں نے الزام سے بچنے کے لیے اُس کے بیٹے کو کورونا وائرس کا مریض قرار دے کر لاوارثوں کی طرح دفنانے کی کوشش بھی کی ہے۔

مبینہ ویڈیو کے مطابق خاتون اور اُس کے بیٹے کا تعلق اسلام آباد سے ہے جب کہ مبینہ طور پر اُس کے بیٹے کا قاتل بھی اِسی شہر کے طاقت ور ترین افراد ہیں، جو اِس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہارہے ہیں۔ فی الحال اِس مبینہ ویڈیو کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں تو اِس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سوشل میڈیا افواہوں اور غلط خبروں کی آماج گاہ بن چکا ہے، اِس کے باجود ملک کے ریاستی اداروں سے اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر زیرگردش اِس ویڈیو کی اصل حقیقت کو ضرور بے نقاب کریں۔

اگر یہ مبینہ ویڈیو درست ہے تو بے چاری مظلوم ماں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے لیکن اگر اِس مبینہ ویڈیو کی صحت مشکوک ہے تو اِس کے بنانے والے کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ بہرحال کورونا وائرس کی آڑ میں ہونے والے اِس مبینہ قتل کی ویڈیو کی تحقیقات اِس لیے بھی ضرور ی ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کرنے والے ہیش ٹیگ #JusticeForAhmedHassan کی اصل حقیقت معلوم کی جاسکے۔

The post جنھیں کورونا نے نہیں مارا، مگر۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


سوشل میڈیا: آزادی اظہار کی دو دھاری تلوار

$
0
0

’’ بورس جانسن کا انتقال ہوگیا‘‘ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔

ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاؤنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ @BBCbreaki کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاؤنٹ @BBCBreaking کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔

اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگئے۔ یوں یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔ آج دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ تو سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میںلے چکا ہے۔

آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کر رکھ دیا ہے کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیا ہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فرد خود رپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشر یا براڈ کاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی مواد تحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ، یوٹیوب یا فیس بک کرسکتا ہے۔

سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جا رہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔ سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصطلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔

لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سُن سکیںاُن پر تبصرہ کرسیکں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔

وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگیاں گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ’’ ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیںگے‘‘۔

اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگنا شروع ہو گیا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔

سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ ممکن اور سب سے بڑھ کر کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا حصول ہے۔سوشل میڈیا ٹولز  صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتے ہیں۔

اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ ان ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کی نمایاں خصوصیت اس کی باہمی تبادلہ خیال کی سہولت ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اور یوںتمام تبصروںکو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگز 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔

ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہارا لیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔ جو براہ راست ویڈیو کاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔

جہاں صارفین نا صرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔ وکیزیہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کے کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میںپورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔

اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔ ’سوشل بک مارکینگ‘ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ’سوشل نیوز ان‘ خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller  ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔

سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے۔

جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔  گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے کے مطابق جنوری2019 تا جنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔

اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیںاور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔

اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ جبکہ سال2018-19 دوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔ نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔

لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔

اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔ یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔

یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ’’ سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 ‘‘کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔

جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی  کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔

ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔ ’’آزادی اظہار رائے انسانی حقوق کی فراہمی کی بنیاد ہے۔ جس کی ضمانت آئین کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے قاری یا صارف کسی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل نہیں دے سکتا تھا۔ جسے فیڈ بیک کہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر فوری ردعمل دے سکے۔

استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔

اگر سوشل میڈیا کمپنی والے کسی مواد کے بارے میں فیصلے کا حق رکھتے ہیں تو پھر ریاست کو بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی معاشرتی و نظریاتی ضرورتوں کے تحت اظہار رائے کے ضابطے لاگو کرائے۔ میرے خیال سے ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے۔

اگر درست قوانین لاگو ہوں گے تو لوگوں کے اظہار رائے کا تحفظ بھی کریں گے اور منفی رحجانات کی روک تھام بھی ہو گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کارروبار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ برابری کی بنیاد پر ہر صارف کے مفادات کا تحفظ ہو۔ ان قوانین کو ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی اور اکانومی کے حوالے سے، کیونکہ کرونا وبا کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے‘‘۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے۔ جب شہری خود پر سنسر شپ عائد کریں گے تو آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس کے نتیجے میں حکومت اور قانونی امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو کا امکان کم ہوجائے گا۔ جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ ان ضوابط کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات  ہوسکتے ہیں۔

اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔’’ سٹیزن پروٹیکشن رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے سے تحفظ فراہم کرنے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا ضروری تھا کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی ۔

سوشل میڈیا جہاں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے، وہیں اس کے ذریعے سے پروپیگنڈہ ، جھوٹ اور ڈس انفارمیشن بھی پھیلائی جا رہی ہے جس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہماری سماجی اور اخلاقی مذہب اقدار کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میںتھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ لہذا اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے، مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔

غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو  24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ یہ اندیشہ بہرحال موجود ہے کہ ان قوانین کی آڑ میں سیاسی کارکنوں اور تنظیموں کو انتقام کا  نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آزادی اظہار پر قدغن سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں پر پابندیوں سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔

ان قواعد و ضوابط کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے لئے سیاسی اور گروہی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر لائق اور پروفیشنل ماہرین کو چُنا جائے۔ نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کی معاونت کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے ‘‘۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق’’ ہر کسی کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت میں تحاریک سامنے آئی ہیں۔

یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں میں یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہاں یہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو رہا ہے، وہیں یہ غلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی قطعی نہیں ہوتی، اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔

اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔’’سماجی ذمہ داری کو دو پہلوؤں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اور ساتھ ہی عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔

اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوؤں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے، یا وہ موضوعات جس سے میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نہ دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو وموٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، نیم خواندہ افراد کی جانب سے کی جاتی ہے لہذا اس میں اُن کی ذاتی پسند ، نا پسند واضح محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔

اور بعض اوقات جذبات میں تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتے ہیں۔چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کیا جاتا ہے، یوں یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاؤنٹ کی صورت میں اپ لوڈ کرتی ہیں تو ان کا عمل بھی جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام صارف جیسا ہی ہوتا ہے لیکن شاید وہ درحقیقت اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتا ہے۔

کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔

لہذا لازم ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ معاہدہ کر ے کہ جس کے تحت نئے اور پرانے صارفین کے اکاؤنٹ جاری رہنے یا نئے اکاؤنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبر ضروری ہو۔ ایک نمبر پر ایک ہی اکاؤنٹ بنانے کی اجازت ہو ۔  لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے‘‘۔ـ

سوشل میڈیا ٹیکنالوجیز کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر شمار جا رہا ہے۔ جنگ کی اس پانچویں جہت کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی تک محیط ہے۔ قومی سلامتی کے تناظر میں سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کیا کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔

’’ آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ معاشرتی و معاشی استحکام سب سے مقدم ہے کیونکہ کسی ریاست کی معاشی و معاشرتی وحدت کو منتشر کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ مقصد غلط معلومات پھیلا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ عوامی مسائل کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں، جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں میں بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔

میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کی صلاحیت بھی دی ہے۔ انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اس حوالے سے قانون سازی کر رہی ہیں۔

اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018  بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کر رہی ہے ۔اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میںحال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نہ کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئں کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے، جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شہریوں اور مجموعی قومی سلامتی کے چیلنجز کا مقابل کرے۔ ریاست کو ایک موثر ضابطہ اخلاق لانا چاہیے۔ عام صارف کی تربیت بھی ضروری ہے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے‘‘۔

٭  سید محمد ذکی، کوئٹہ

سوشل میڈیا معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لئے جارہا ہے۔ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت پر لاگو ہے سوشل میڈیا اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا جس نے اسے دو دھاری تلوار بنا دیا ہے۔

اس کا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام کرتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔

مگر سوشل میڈیا کے  وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات اور خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ تو موثر ہیں اور نہ ہی کافی۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ وغیرہ معاشرہ پر محض اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے  ہیں۔

کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے میں ملک میں جاری بحث کا رخ موڑ دینے پر قادر ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث  ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔

ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ اور یہ نامعلوم ہے کہ ہمارے خیال کی ڈور نے کتنے گلے کاٹ   ڈالے۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔

٭  محبوب سرور، کراچی

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہو رہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے، لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میںسوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں اور اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن اسے مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟

٭  جویریہ مقبول، اسلام آباد

ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیںاور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیںنکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور  ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔

لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق  ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی  ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میںغلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیے۔

٭   ارشد حسین جگنو ، گلگت

سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہیں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری  استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے  شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔

یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں  سرفہرست ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے۔

بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو  ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر ے۔

٭  غنی الرحمان، گاؤں کاٹن دوش خیل،تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ

سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وبا اور اس کی   موجود صورتحال سے آگاہی سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی مثال ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ، طعنہ زنی، من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو جھوٹی خبروں، افواہوں، قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ  لسانی نفرت، قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی مواد پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل طور پر ریگو لیٹ کرنے کے ذرائع موجود نہیں جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل میں ہوتا ہے اس لیے اس کا منفی اثر ظاہر ہو رہا ہے۔

ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا  کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کا سرے سے ہی مخالف ہے۔ ان کی رائے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل صارفین خود ہی میڈیا کے مفید اور کارآمد استعمال کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ دوسرا مکتبہ فکرسخت اور منظم ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔

جبکہ تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین لوگو کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غور و خوص اور معاشرے میںموجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔ جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصود ہو اور یہی بہتر طریقہ کار ہے۔ حکومت سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے۔

٭  محمد فاروق بھٹی، لاہور

پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔

موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔ فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے  آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شْتر ِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔

سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان  سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاؤنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔

اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاؤنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاؤنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاؤن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹاAnalytica”  “Cambridge   کو  بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکر برگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔

ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے  لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف  کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔

دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land   باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔

سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرنا ہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاؤنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔

سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی

٭  روحان کی پیدائش 29 جولائی  2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جس کو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور  والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔

والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے  میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ’’ناروڈـــ‘‘ ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت تھا جس میں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیئے ضروری تھا۔

والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک  عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر  Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں  والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔

سرجری کے لئے جو مقامات سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Experties  کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر #helpbabyrohaan کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنےtweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔

6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔

روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔

اردو پوائنٹ جیسے مختلف شوشل میڈیا کے  پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلفs  platform  پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔

سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال کی دو کہانیاں

٭  خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن   ہی کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ پر پو سٹ کردی کہ ’’ خرم بابر اب نہیں رہے‘‘ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں  معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔

٭  ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاؤنٹ بنا یا گیا۔

اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Accept کرتا۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد ٰوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

(جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا  بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔

 پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے’’ سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 ‘‘کے نمایاں نکات

٭  قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔

٭  سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ’’ غیر قانونی مواد‘‘کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔

٭  اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد

3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔

٭  صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔

٭  ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیںپاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیںکورڈینیشن کے لئے  پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور  قائم کرنا ہوں گے۔

٭  کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔

The post سوشل میڈیا: آزادی اظہار کی دو دھاری تلوار appeared first on ایکسپریس اردو.

روزے کی معجزاتی سائنس

$
0
0

اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں۔ رب اللعالمین نے اپنے بندوں کو ان گنت نعمتوں سے نوازا۔ روزہ بھی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو انسان کو بے حساب جسمانی و روحانی فوائد بہم پہنچاتی ہے۔

جدید سائنس رفتہ رفتہ روزے کے طبی فائدے دریافت کر رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہی مسلمانوں پر فرض کر دیا تھا۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پیغمبر ؐخدا ہونے کے باعث وحی آنے سے قبل بھی نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر ہفتے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے۔ اس کے علاوہ قمری مہینے کی 13تا 15 تاریخ کو بھی روزہ رکھتے۔ دور جدید میں کھانے پینے سے اس قسم کی دوری ’’روزہ ِوقفہ‘‘(Intermittent fasting) کہلاتی ہے۔

2ہجری کو رمضان المبارک کے مہینے میں روزے فرض ہو ئے۔ یوں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم ِخداوندی سے سال میں زیادہ روزے اختیار فرمائے اور مسلمان بھی اسی سنت پر عمل کرنے لگے۔دور حاضر میں روزہ رکھنے کا عمل باقاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکا۔ دنیا بھر کے تحقیقی اداروں میں ماہرین خصوصاً یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روزہ کیمیائی‘ خلویاتی اور خرد بینی سطح پر انسانی جسم میں کس قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے۔

پچھلے چار ماہ سے دنیا بھر میں کوویڈ 19 وبا کا چرچا ہے۔ یہ وبا خاص طور پہ ان انسانوں کو متاثر نہیں کرسکی جن کاجسمانی مدافعتی نظام (immune system)مضبوط تھا چاہے وہ ایک سو سالہ ضعیف ہی ہوں۔ یوں یہ سچائی آشکار ہوئی کہ اگر انسان کا مدافعتی نظام طاقتور ہو‘ تو وہ کوویڈ19 جیسی خطرناک وبا کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ حالیہ تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ روزہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔

مدافعتی نظام پہ مثبت اثرات

پروفیسر والٹر لونگو ( Valter Longo)امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ضیعفیات ( Gerontology) اور حیاتیاتی سائنسز کے محقق ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک انوکھا تجربہ کیا۔ وہ اس تجربے سے دیکھنا چاہتے تھے کہ انسان چند دن بھوکا پیاسا رہے تو اس کے مدافعتی نظام پر کسی قسم کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ چنانچہ انہوںنے بیمار اور تندرست ‘ دونوں قسم کے مرد و زن کو تین چار دن روزانہ پندرہ گھنٹے تک بھوکا رکھا۔ اسی دوران ان کے اجسام میں مدافعتی نظام میں جنم لینے والی معمولی سی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس تجربے سے تین اہم انکشاف سامنے آئے۔

پہلا انکشاف یہ ہوا کہ جب بھوکے جسم کو غذا نہ ملے تو وہ اپنے میں ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی(چکنائی) جلا کر توانائی حاصل کرتا ہے۔ اسی دوران وہ اپنا بوجھ کم کرنے کی بھی سعی کر لیتا ہے جیسے کسی آفت کا نشانہ بننے پر ہوائی جہاز سے زائد وزن گرا دیا جاتا ہے۔ ہمارا جسم بھی غذا نہ ملنے پر مدافعتی نظام کے خصوصاً ایسے ’’سفید خونی خیلے‘‘ (White blood cells)مار ڈالتا ہے جو خراب ہو چکے ہوں۔ یوں انسانی مدافعتی نظام اپنے ناکارہ سفید خونی خلیوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔

پروفیسر والٹر لونگو نے تحقیق سے دریافت کیا کہ جب روزہ رکھنے والا پندرہ گھنٹے بعد پھر کھانے پینے لگے تو ہمارا جسم نئے سفید خونی خلیے بنانے لگتا ہے اور انسان زیادہ بہتر انداز میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

سفید خونی خلیے کیسے پیدا ہوئے؟

سوال یہ ہے کہ ہمارا جسم کیونکر نئے سفید خونی خلیے بنانے لگتا ہے؟ تحقیق سے پتا چلا کہ جب ہم روزے رکھیں تو ہمارے جسم میں ایک پروٹینی خامرے ’’پی کے اے‘‘ (protein kinase A) کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ خامرہ (انزائم) ہمارے جسم میں گلائکوجن (جمع شدہ گلوکوز)، گلوکوزاور چکنائی ریگولیٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔مگر یہی خامرہ جسم میں ’’بنیادی‘‘ (Stem) خلیوں کو کام کرنے سے روک دیتا ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ ہر زندہ جسم میں بنیادی خلیے ہی نئے خلیے بناتے ہیں۔

جب روزہ رکھنے سے پی کے اے خامرے کی مقدار کم ہو جائے تو وہ بنیادی خلیوں کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ یوں انہیں اپنا کام کرنے کی آزادی مل جاتی ہے یعنی وہ نئے خلیے بنانے لگتے ہیں۔ چونکہ اس وقت جسم میں سفید خونی خلیوں کی کمی ہوتی ہے لہٰذا وہ سب سے پہلے یہی خلیے بناتے ہیں تاکہ مدافعتی نظام پہلے کی طرح مضبوط وموثر ہو جائے۔

تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ مسلسل روزے رکھنے سے زیرتجربہ مرد وزن کے اجسام میں ایک ہارمون’’ آئی جی ایف 1- ‘‘(Insulin-like growth factor-1) کی مقدار کم ہو گئی۔ یہ انسانی بدن کا ایک اہم ہارمون ہے۔ گروتھ ہارمون (Growth hormone) کے ساتھ مل کر پرورش پاتے بچے میں بلوغت پیدا کرتا ہے۔ اِسے ہمارا جگر بناتا ہے۔ اگر بچپن میں خدانخواستہ آئی جی ایف 1- کی مقدار کم رہ جائے تو بچہ بلوغت حاصل نہیں کر پاتا اورچھوٹا رہ جاتا ہے۔ لیکن ہارمون کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو نشوونما پاتے بچے کا قد اور جسمانی اعضا بہت بڑے ہو جاتے ہیں۔

بلوغت کے بعد مگر آئی جی ایف 1- کی جسم میں مقدار کم ہی رہنی چاہیے۔ وجہ یہ کہ سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے، یہ ہارمون بڑھنے سے انسانی جسم سرطانی وغیرسرطانی رسولیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اعضا کی شکست وریخت سے انسان پر قبل ازوقت بڑھاپا آنے لگتا ہے۔جسم میں آئی جی ایف 1- کی مقدار اس وقت بڑھتی ہے جب انسان گوشت زیادہ استعمال کرنے لگے۔ ایسے کھانے زیادہ کھائے جن میں کاربوہائڈریٹس زیادہ ہوں۔ نیز ڈیری مصنوعات (دودھ، دہی) کا زیادہ استعمال بھی اس ہارمون کی سطح بڑھا دیتا ہے۔ لیکن پروفیسر والٹر کی تحقیق سے تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ روزے رکھنے سے جسم میں اس ہارمون مقدار کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

یومیاوی آہنگ کے اسرار

غرض امریکی پروفیسر والٹر لونگو کی تحقیق نے روزے کے کم از کم دو ایسے اہم فوائد طشت ازبام کر دیئے جو پہلے پوشیدہ تھے۔ پچھلے سال ہی روزے پر ایک اور تحقیق نیا زبردست انکشاف منظرعام پر لے آئی۔ بیلور کالج آف میڈیسن (Baylor College of Medicine)امریکا میں طب کی مشہور یونیورسٹی ہے۔ اس کا شمار دنیا کی بہترین طبی یونیورسٹیوں میں ہوتاہے۔ پچھلے سال وہاں ایک ٹیم نے یہ زبردست تجربہ کیا کہ رمضان المبارک میں تیس روزے رکھ کر انسان کے ’’یومیاوی آہنگ‘‘ (Circadian rhythm)پر کس قسم کے اثرات پڑتے ہیں۔یومیاوی آہنگ انسان سمیت تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا ایک اہم قدرتی اندرونی نظام ہے۔

یہ نظام ہمارے سونے اور جاگنے کے اوقات منظم کرتا ہے۔ طے کرتا ہے کہ ہارمونوں کا اخراج کب ہو گا۔ نئے خلیے کس وقت بنیں گے۔ یہ پودوںمیں بھی ملتا ہے۔ اسی کے ذریعے پودوں میں معین وقت پر پھول کھلتے اور پھر مرجھا جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور درجہ حرارت اس نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں اپنا چکر پورا کرتا ہے۔

اس کے بعد یومیاوی آہنگ کے نئے چکر کا آغاز ہوتا ہے۔اگر کوئی انسان رات کو طویل عرصہ جاگنے لگے تو اس میں یومیاوی آہنگ کا قدرتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔ نیند کی کمی سے پھر وہ بے چینی اور انتشار کا شکار رہتا ہے۔ زیادہ جاگنے کی وجہ سے وہ کھانا بھی زیادہ کھاتا ہے۔ یہ چلن اسے موٹاپے اور ذیابیطس میں گرفتار کرا سکتا ہے۔ بعض ادویہ بھی اس قدرتی نظام میں خلل ڈالتی ہیں۔ یومیاوی آہنگ اگر قدرتی طریقے سے کام کرتا رہے تو یہ انسان کی تندرستی کا ضامن بنا رہتا ہے۔

یومیاوی آہنگ کو انسانی جسم میں بیس ہزار اعصابی خلیوں (نیورونز) پر مشتمل ایک چھوٹا سا علاقہ کنٹرول کرتا ہے۔ اس کو عرف عام میں ’’ماسٹر گھڑی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ علاقہ ہمارے دماغ میں ’’ہایپو تھلامس‘‘ (Hypothalamus) علاقے میں واقع ہے۔ سائنسی اصطلاح میں ’’سپراچیاسمیٹک نیوکلیس‘‘(suprachiasmatic nucleus ) کہلاتا ہے۔اس ماسٹر گھڑی کے علاوہ انسانی جسم کے اہم اعضا اور اندرونی نظام کی اپنی اپنی ذیلی گھڑیاں بھی ہیں۔ مثلاً دل‘ جگر اور گر دے کے اعضا اور مدافعتی ‘ ہاضمہ‘ استحالہ(Metabolism)‘ اینڈوسیرین(Endocrine ) اور تخلیق(Reproductive) کے نظام ۔ ان سبھی اہم اعضا اور جسمانی نظاموں کی ذیلی گھڑیاں ماسٹر گھڑی سے تال میل رکھتی ہیں تاکہ انسانی بدن میں یومیاوی آہنگ کا نظام بخوبی کام کرتا رہے۔

جدید طبی سائنس نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ اگر انسان کے مدافعتی اوراستحالہ نظاموں کی ذیلی گھڑیاں خراب ہو جائیں تو وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے جن میں سب سے خطرناک کینسر ہے۔ اس آفت سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ماسٹر گھڑی کو ری سیٹ کر دیا جائے۔ یہ ایک نہایت کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ یومیاوی آہنگ یا ماسٹر گھڑی کو ازسر نو چلانے کی خاطر ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہتے ہوئے انسان کو روزمرہ معمول میں کئی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ عموماً یہ اقدامات صحیح طرح انجام نہیں پاتے اور یوں ماسٹر گھڑی سیٹ کرنے کی سعی بیکار جاتی ہے۔

پچھلے سال بیلور کالج آف میڈیسن کے محققوں نے بذریعہ تحقیق و تجربات یہ حیرت انگیز بات دریافت کی کہ جب انسان (رمضان المبارک کے مانند) متواتر تیس دن روزے رکھے تو اس عمل سے لاحقی گھڑیاں ماسٹر گھڑی کی گرفت سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ گویا 30 روزوں کا عمل انہیں ماسٹر گھڑی کے کنٹرول سے آزاد کروا کر ری سیٹ کر دیتا ہے۔ یوں ان محققوں نے یومیاوی آہنگ کی ری سیٹنگ کا ایک نیا طریقہ دریافت کر لیا جو رمضان المبارک کی بہت بڑی برکت اور انسانوں کے لیے انعام ہے۔

بیلور کالج آف میڈیسن میں روزوں کے دوران یومیاوی آہنگ پر ہوتی تبدیلیاں کا جائزہ لینے والی ٹیم کی سربراہ ایک ترک نژاد مسلمان ڈاکٹر ‘ آسیہ مند یکوغلو تھیں ۔ جبکہ اس دس رکنی ٹیم میں ایک اور مسلمان ‘ دوہندو‘ دوچینی بدھی اور چار امریکی عیسائی محقق شامل تھے۔

تحقیق کے انکشافات

محققوں نے اپنی تیس روزہ تحقیق میں درج ذیل انکشافات کیے:

٭…تیس روز تک روزے رکھنے کے باعث ہمارے خون میں پائے جانے والے پروٹینی سالمات(protein molecules)اور خلیوں کو طاقت ملی اور ان میں کینسر برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔

٭…گلوکوز اور چکنائی (lipid) کے پروٹینی خلیے بھی اپنے کام بہتر طور پر انجام دینے لگے۔ ان کی مدد سے ہماری غذا توانائی میں بدلتی ہے۔ یہ توانائی پھر ہمارا جسم استعمال کر کے روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔

٭…تیس روزوں کے متواتر پروگرام نے انسانی جسم میں انسولین ہارمون کا نظام بھی بہتر کر دیا۔ اس نظام کی مختلف خرابیاں دور ہو گئیں ۔یوں انسانی صحت کو قیمتی فوائد حاصل ہوئے۔

٭…یومیاوی آہنگ بہتر انداز میں کام کرنے لگا اور اس سے منسلک منفی امور دور ہو گئے۔

٭…جن خلیوں کے ڈی این اے کو کسی قسم کا نقصان پہنچ چکا تھا، روزے رکھنے سے ان کی بھی مرمت ہو گئی۔

٭…بھوک پیاس سے آراستہ تیس روزہ پروگرام نے انسانی خلیوں کے ایک اہم حصے ’’ سائٹو سکیلٹن‘‘(Cytoskeleton) کو بھی تقویت پہنچائی ۔ یہ حصہ خلیوں کی ساخت وہئیت تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

٭…روزے نے ہماری مدافعتی نظام پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے اور اسے پہلے سے زیادہ مضبوط بنادیا۔

٭…انسان کے دماغ میں موجود ’’نظام ادراک‘‘ (cognition) کو بھی تیس دن کے روزہ پروگرام سے فائدہ ہوا۔ ہمارے سوچنے سمجھنے ‘ نئی باتیں سیکھنے ‘ یاد رکھنے‘ مسائل حل اور فیصلے کرنے کی صلاحیتیں اسی نظام ادراک سے وابستہ ہیں۔

 روزہ روح کے لیے غذا

ان تمام فوائد سے محققوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں مسلسل تیس روزے رکھنے سے انسان کو کینسر‘ موٹاپے‘ ذیابیطس‘ استحالہ طبی خلل‘ سوزش‘ الزائمر مرض اور دیگر اعصابی و نفسیاتی بیماریوں سے بچنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔محققین نے یہ نکتہ بھی نمایاں کیا کہ روزے رکھتے ہوئے تمام زیر تجربہ چودہ مردو زن نے کسی قسم کی ڈائٹنگ نہیں کی اور معمول کے مطابق اشیائے خورونوش استعمال کیں۔ اس دوران ان کا وزن بھی کم نہیں ہوا۔

اس تحقیق کا ایک نمایاں انکشاف ہے کہ روزہ انسان کو کنیسر جیسی خطرناک بیماری سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔یہ واضح ہے کہ اگر ایک ماہ تک افطاری میں حد سے زیادہ روغنی اشیا، گوشت، تیل والے کھانے اور مسالے دار غذائیں کھائی جائیں تو پھر روزوں سے مطلوبہ طبی فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ سحر و افطار میں زیادہ تر صحت بخش خوراک کھائی جائے۔ تیس روز تک روزانہ چودہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہنا اور پھر غذائیت بھرے کھانے لینے کا بہترین امتزاج ہی روزوں کو جسمانی ہی نہیں روحانی طور پر بھی بے انتہا مفید بنا ڈالتا ہے۔

ایک قول ہے: ’’جسم کا روزہ روح کے لیے غذا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے، روزے کے پروگرام پر بالکل صحیح عمل درآمد کرنے والا مسلمان تیس دن بعد خود کو روحانی طور پر بھی ہلکا پھلکا، خوشگوار مزاج کا حامل اور مثبت سوچ رکھنے والا پاتا ہے۔ تیس روزوں کی عنایات پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے یہ جانیے، ہمارے جسم میں غذا کیونکر ہضم ہوتی ہے۔

ہاضمے کا پیچیدہ نظام

ہمارا جسم روزمرہ کام انجام دینے کی خاطر تین ذرائع… کاربوہائیڈریٹ(اناج،پھل،ڈیری) چکنائی(حیوانی چربی،پکانے کا تیل،ڈیری) اور پروٹین (گوشت،دالیں) سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ کاربوہائیڈریٹ سے حاصل شدہ ’’گلوکوز‘‘ (یا شکر)ہمارے جسم کا اہم ایندھن ہے۔ لاکھوں برس کے ارتقا سے انسانی جسم چکنائی اور پروٹین سے بھی گلوکوز بنانے کا طریقہ دریافت کرچکا۔ دراصل گلوکوز ہی سے ہمارا دماغ اپنے کام انجام دیتا ہے جو انسانی جسم میں بادشاہ یا کنٹرول سینٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔

چکنائی اور پروٹین ہمارے جسم میں دیگر افعال صحیح طرح انجام دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ چکنائی خلیوں کی نشوونما میں حصہ لیتی ہے۔ چربی میں ڈھل کر ہمارے اندرونی اعضاء کی حفاظت کرتی ہے۔ چربی کے باعث سردیوں میں بھی ہمارا جسم گرم رہتا ہے۔

چکنائی ہمارے بدن میں بعض وٹامن اور معدنیات بہ آسانی جذب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ نیز اہم ہارمون پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح قدرت نے پروٹین پر بھی مختلف ذمے داریاں عائد کررکھی ہیں۔ ہمارا جسم اس کی مدد سے خراب بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کرتا ہے۔ پروٹین کے ذریعے ہی خامرے ، ہارمون اور دیگر جسمانی کیمیائی مادے بنتے ہیں۔ نیز پروٹین ہی ہماری ہڈیوں، عضلات، کارٹیج، جلد اورخون کا اہم حصہ بھی ہے۔

گلوکوز کا مخزن

کاربوہائیڈریٹس کی تین اقسام ہیں: شکری، نشاستے دار (Starch) اور فائبر۔  ان تینوں اقسام کو پیدا کرنے والی غذاؤں کو آنتوں میں پیسنے سے جو توانائی حاصل ہو، وہ ہمارے خلیوں کے خصوصی سالمات میں محفوظ ہوتی ہے۔ انہیں’’ اے ٹی پی‘‘ (Adenosine triphosphate) کہا جاتا ہے۔ ہم جب ہاتھ ہلائیں، پلک جھپکائیں یا تیزی سے دوڑیں تو معمولی سی حرکت کے لیے بھی توانائی یہی اے ٹی پی سالمات فراہم کرتے ہیں۔انسان تین سو کھرب (30 ٹریلین) خلیوں کا مجموعہ ہے۔ انہی خلیوں کا آپس میں تال میل ہمیں زندہ رکھتا، سوچ بچار کراتا اور مختلف کام انجام دیتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ان تین سو کھرب خلیوں میں سے ہر ایک خلیہ اپنی جگہ ایک مکمل وجود ہے۔ہر خلیہ مختلف حصے رکھتا ہے جن کی مدد سے وہ زندہ رہتا ہے۔

انسان کا بجلی گھر

خلیے میں ’’مائٹوکونڈریون‘‘ (Mitochondrion) کا حصّہ توانائی بناتا ہے۔ گویا یہ ہمارے جسم کا بجلی گھر ہے۔ خلیہ اسی میں گلوکوز اور آکسیجن کی مدد سے اے ٹی پی سالمے بناتا ہے۔ یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ’’خلویاتی عمل تفنس‘‘ (Cullular Respiration) کہلاتا ہے۔ اس عمل سے پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جنم لیتی ہے جسے ہمارے پھیپھڑے جسم سے نکال باہر کرتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہر انسان روزانہ اپنے جسم جتنے وزنی اے ٹی پی سالمات بناتا ہے۔

تبھی وہ روزمرہ کام بخوبی انجام دینے کے قابل ہوتا ہے۔ہمارا جسم گلوکوز کو بطور گلائکوجن جگر اور دیگر اعضا میں ذخیرہ رکھتا ہے تاکہ وقت ضرورت وہ کام آئے۔ اسی طرح چکنائی بھی ذخیرہ کی جاتی ہے۔اگر انسان زیادہ پروٹین کھا لے تو وہ بھی چکنائی کی صورت ہمارے بدن میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ جب انسان روزہ رکھے تو سب سے پہلے جسم گلائکوجن سے گلوکوز حاصل کرتا ہے تاکہ روزمرہ کام جاری رہیں۔ گلائکوجن استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ نہ کھانے پینے سے جسم کو مزیدگلوکوز نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ اپنے ذخیرے سے کام چلاتا ہے۔

جب گلائکوجن کا ذخیرہ ختم ہوجائے تو چکنائی کی باری آتی ہے۔ یہ تینوں ایندھنوں میں سب سے بہترین ایندھن ہے۔ یہ فی گرام کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین سے دگنی سے بھی زیادہ توانائی فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے روزے کے عالم میں موٹے آدمی کے جسم میں چکنائی ہی بنیادی ذریعہ توانائی بن جاتا ہے۔ہمارا جسم ایک کیمیائی عمل’’گلوکونیوجینسیس‘‘ (Gluconeogenesis) کے ذریعے چکنائی سے گلوکوز بناتا ہے۔

جب چربی کا ذخیرہ اختتام کو پہنچے تو ہمارا بدن پھر پروٹین کے ذخیرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اب عمل گلوکونیوجینسیس کے ذریعے ہی پروٹین کو پہلے امائنو تیزابوں میں ڈھال کر پھر ان سے گلوکوز بنایا جاتا ہے۔ یوں اب بھی دماغ کو اپنا مرغوب و پسندیدہ ایندھن ملتا رہتا ہے۔ لیکن جب پروٹین کا ذخیرہ بھی ختم ہوجائے تو گلوکوز نہ ملنے سے دماغ چکرانے لگتا ہے۔ بدن میں بھی کمزوری بڑھ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں مزید کچھ عرصہ غذا نہ ملے، تو انسان اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔

انسولین ہارمون کی کاریگری

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ انسانی جسم میں ہاضمے کا نظام توانائی پیدا کرتا ہے۔ یہ نظام ہاضمہ ہمارے دماغ کا ایک حصہ ’’ایچ پی اے محور‘‘ (HPA axis ) کنٹرول کرتا ہے۔ ایچ ٹی پی اے محور ماغ کے تین اعضا، ہایپوتھلامس، صنوبری غدہ (pineal gland ) اور برگردہ غدود (adrenal glands) پر مشتمل ہے۔یہ دماغ کا نہایت اہم حصہ ہے کہ ہمارے بدن میں مدافعتی ، ہاضمے، ہارمونوں کے نظاموں، موڈ ،جذبات،جنسی خواہش ، رویّے اور توانائی ذخیرہ کرنے و استعمال کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ اسی لیے درج بالا تمام نظام و افعال ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب ہمارا موڈ خراب ہو، ہم پریشانی یا دباؤ میں مبتلا ہوں، تو ہمارا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے اور ہم بے سوچے سمجھے غذا کی طرف لپکتے ہیں۔

جب ہمارے خلیوں کے اے ٹی پی سالمات میں توانائی کم ہوجائے، تو یہ خبر ایچ ٹی پی اے محور تک پہنچتی ہے۔ وہ پھر ایک ہارمون، گرلین(Ghrelin) چھوڑ کر ہم میں بھوک پیدا کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم کھانا کھانے لگیں۔ جب پیٹ بھرجائے تو پھر ایک ہارمون، لیپٹن (Leptin)چھوڑتا ہے۔ یہ ہارمون ہمیں بتاتا ہے کہ میاں، کافی کھانا کھاچکے، اب ہاتھ روک دو۔جب ہمارے جسم میں غذا پہنچنے لگے، تو ایچ پی ٹی اے محور کے حکم ہی سے ہمارا لبلبہ ایک ہارمون، انسولین خارج کرتا ہے۔ یہ گلوکوز کو خلیوں میں داخل کرنے کی کلید ہے یعنی وہ اسی کی مدد سے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں پھر گلوکوز اے ٹی پی سالمات میں توانائی کی صورت ذخیرہ ہوجاتا ہے۔

اگر انسولین خدانخواستہ نہ ہو، تو بہت کم گلوکوز خلیوں میں داخل ہو پاتا ہے۔ چکنائی اور پروٹین بھی اسی ہارمون کی مدد سے ہمارے جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں۔ یہی انسولین مگر انسان کو ایک خطرناک بیماری، ذیابیطس قسم 2 میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ اگرچہ اسے جنم دینے میں انسان کا اپنا قصور ہے۔ جب آدمی خاطر خواہ جسمانی سرگرمی انجام نہ دے اور بیٹھا رہے تو اس کے اے ٹی پی سالمات میں بھی توانائی موجود رہتی ہے۔ مگر دماغ کے خلیوں کو تو مسلسل گلوکوز درکار ہوتی ہے کیونکہ وہ متواتر کام کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا آخر انسان کو بھوک لگ جاتی ہے اور وہ پھر کھانا کھاتا ہے۔

غذا جسم میں پہنچتے ہی قدرتاً ایچ پی ٹی اے محور انسولین خارج کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ کھانے سے پیدا شدہ گلوکوز کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔ اب دماغ کے اے ٹی ہی سالمات کو تو گلوکوز مل جاتی ہے لیکن دیگر اکثر اعضائے جسم کے اے ٹی پی سالمات تو بدستور توانائی رکھتے ہیں کیونکہ انسان بہت کم حرکت کررہا ہے۔لہذا انھیں گلوکوز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں زائد گلوکوز گلائکوجن کی شکل میں ہمارے جگر اور عضلات میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔

انسانی جسم مگر خاص حد تک ہی گلائکوجن کا ذخیرہ رکھ سکتا ہے۔ اس لیے انسان مسلسل کھاتا رہے مگر جسمانی سرگرمیاں کم انجام دے توگلائکوجن کا ذخیرہ بھی پورا ہو چکتا ہے۔اس کے بعد گلوکوز چکنائی میں ڈھل کر جسم میں ذخیرہ ہونے لگتا ہے۔ یہی عمل موٹاپے کا آغاز ہے۔  یہ حالت انسانی جسم کے کئی اہم اعضا مثلاً دل اور گردوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس حالت میں بعض اوقات خلیے انسولین کو صحیح طرح جذب نہیں کرپاتے۔ یوں ’’انسولین مزاحمت‘‘ (Insulin resistance)جنم لیتی ہے۔ کبھی کبھی لبلبہ اتنی زیادہ انسولین بناتا ہے کہ آخرکار وہ خراب ہوکر یہ ہارمون بنانا بند کردیتا ہے۔ تب یہ حالت ’’ذیابیطس قسم 1‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ حالت پیدائشی طور پر بھی جنم لیتی ہے۔ تب ٹیکے سے انسولین لینا پڑتی ہے تاکہ خلیوں کے اے ٹی پی سالمات گلوکوز جذب کرسکیں اور انسان کو روزمرہ کام کرنے کے لیے توانائی ملتی رہے۔

روزوں کی عظیم نعمت

انسانی جسم میں غذا کے ہضم ہونے اور اس سے توانائی بننے کا پورا نظام جان لینے کے بعد آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ رمضان المبارک میں تیس دن روزے رکھنے سے انسان کو کس قسم کے طبی فوائد ملتے ہیں۔ خاص طور پر فربہ مردوزن کو پہنچنے والا پہلا زبردست فائدہ یہی ہے کہ جسم چربی جلانے لگتا ہے۔ یوں وزن میں کمی آتی اور موٹاپا دور ہوتا ہے۔ذیابیطس قسم 2 کے مریضوں کو فائدہ ملتا ہے کہ روزانہ طویل عرصہ غذا نہ لینے سے ان کے بدن میں گلوکوز اور انسولین ، دونوں کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔ یوں اگر مریض ہمت کرکے تیس روزے رکھ لے، تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اسے ذیابیطس سے چھٹکارا دلوا دے۔

روزے سے بہ حیثیت مجموعی جسم کے تمام نظاموں اور اعضا کو بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ انہیں دن بھر کام نہیںکرنا پڑتا کہ انسان خالی پیٹ ہوتا ہے۔ چناں چہ انہیں آرام کا زیادہ وقت ملتا ہے اور وہ سکون سے رہتے ہیں۔ ایک ماہ کا آرام تھکن دور کرکے انہیں پھر تازہ دم کردیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس، امراض قلب اور دیگر دیرینہ بیماریوں کے مریض جب روزے رکھنے لگیں، تو تقریباً دو ہفتوں تک بھوک، بے چینی اور انتشار محسوس کرتے ہیں۔ مگر پھر یہ اثرات کم ہونے لگتے ہیں۔ وجہ یہ کہ تب تک ہمارا دماغ اور تمام جسمانی نظام و اعضا ساڑھے چودہ گھنٹے بھوکے پیاسے رہنے کے نئے چلن سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر والٹر لونگر رمضان المبارک کی افادیت کے بہت قائل ہیں۔ انہوں نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ جو انسان ہفتے میں دو دن کم کھائے، تو یہ عمل اس کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ یہی سنت نبویؐ ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ وہ صحت کی دولت پاسکے۔

پروفیسر لانگو کا کہنا ہے کہ جب انسان دو تین دن حرارے(کیلوریز) کم لے، تو اس کے تمام جسمانی خلیے تعمیر نو سے گزرتے ہیں۔ وہ اپنی خرابیاں دور کرکے پہلے سے زیادہ جوان بن جاتے ہیں۔ اس وقفہ روزہ عمل کو پروفیسر والٹر نے ’’ازسرنو جوانی‘‘( Juventology)کا نام دیا ہے۔طویل تحقیق و تجربات کے بعد پروفیسر والٹر کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں روزہ رکھتے ہوئے انسان کوشش کرکے اس دن ایک ہزار سے کم حرارے (کیلوریز) رکھنے والی غذا کھائے۔ نیز اس کی غذا سبزیوں، پھلوں اور دیر ہضم کاربوہائیڈریٹس غذاؤں پر مشتمل ہو۔ مضر صحت چکنائی نہ کھائی جائے اور گوشت بھی کم ہو۔ ایسے غذائی پلان کو پروفیسر ’’پرولون‘‘(Prolon) کہتا ہے۔

آزاد اصلیوں کی آفت

یہ واضح رہے کہ ہمارے جسم میں ہاضمے اور استحالہ کے نظام غذا کو پیستے اور دیگر کیمیائی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بعض ایسی ضمنی مصنوعات (بائی پروڈکٹس) بھی بناتے ہیں جن کی زیادتی انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان ضمنی مصنوعات میں ’’آزاد اصیلے‘‘ (Free radicals) بھی شامل ہیں۔

آزاد اصیلے خلیوں میں پائے جانے والے وہ ایٹم ہیں جن میں ایک الیکٹرون موجود نہیں ہوتا۔ چناں وہ دوسرے ایٹموں سے الیکٹرون چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ٹکراؤ سے مگر بعض اوقات خلیے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر ٹکراؤ شدید ہو اور خلیے کا ڈی این اے متاثر ہوجائے، تو تبھی اس خرابی سے کینسر جنم لیتا ہے۔ یہ خلیہ پھر سرطانی ہوکر دوسرے صحت مند خلیوں کو بھی کینسر میں مبتلا کرنے لگتا ہے۔

ہمارے جسم میں جنم لینے والی کیمیائی سرگرمیوں سے جو آزاد اصیلے جنم لیں، وہ ایک سیکنڈ میں مرجاتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تعداد اس تھوڑے سے عرصے میں بھی خلیوں کو دباؤ میں مبتلا کرسکتی ہے۔ اسی دباؤ سے سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے بدن میں خصوصی سالمات، اینٹی آکسیڈینٹ(Antioxidants) آزاد اصیلے مارنے میں کام میں آتے ہیں۔ ہمیں یہ اینٹی آکسیڈینٹ غذاؤں سے ملتے ہیں۔

ماہرین نے تحقیق سے جانا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں آزاد اصیلوں کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ یہ رمضان المبارک کا ایک اور بڑا فائدہ ہے کیونکہ آزاد اصیلے انسانی جسم میں مختلف عوارض پیدا کرتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے انسان رفتہ رفتہ بوڑھا ہونے لگتا ہے۔

آزاد اصیلے غیر فطری طرز زندگی اختیار کرنے سے زیادہ جنم لیتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی کرنا، تیل میں پکی اور بھنی غذائیں زیادہ کھانا، کیڑے مار ادویہ سے بوجھل غذائیں لینا، شراب نوشی اور دیگر کیمیائی مادوںکا استعمال۔ اسی غیر فطری زندگی کے باعث نت نئے جراثیم اور وائرس بھی پیدا ہورہے ہیں جیسے نیا کورونا وائرس (سارس کوو2) جس سے کوویڈ 19 نے جنم لیا۔

رمضان المبارک ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ آفاقی پیغام دیتا ہے کہ کھاؤ پیو مگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑو، اسی میں سلامتی و صحت ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک طبیب غیر مسلم تھا۔ اس نے ایک بار کسی مسلمان عالم دین سے شکایتاً کہا کہ قرآن مجید میں طب کے متعلق احکامات موجود نہیں۔وہ عالم دین کہنے لگے ’’جناب! اللہ تعالیٰ نے تو محض آدھی آیت میں آدھے علم طب کو جمع فرما دیا ہے۔‘‘ غیر مسلم طبیب نے حیران ہوکر پوچھا، وہ کون سی آیت؟ تب انہوں نے یہ آیت پڑھی ’’کھاؤ پئیو مگر حد سے نہ بڑھو۔‘‘ (سورہ الاعراف 31)

The post روزے کی معجزاتی سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.

فضائی آلودگی میں کمی سے ہزاروں بچے اور بزرگ موت کے منہ سے لوٹ آئے

$
0
0

چند روز پہلے ایک رات میں کمرے سے باہر نکلا ، آسمان کی طرف دیکھا، صاف شفاف آسمان پر پہلے سے کہیں زیادہ روشن چاند چمک رہا تھا، اس قدر شفاف چاند کہ اس میں بوڑھی اماں چرخہ کاتتے بھی دکھائی دی حالانکہ میں اس سے دوکروڑ50 لاکھ میل (چار کروڑ کلومیٹر) دورکھڑا تھا اور ایک ایسے شہر میں تھا جو بذات خود روشنیوں میں نہا رہا تھا۔ مجھے چٹانیں بھی نظر آرہی تھیں اور بڑے بڑے گڑھے بھی۔

چاند کے اردگرد موجود ستارے بھی خوب روشن تھے۔ چاند اور ستاروں کو اس قدر چمکتا دمکتا بچپن ہی میں دیکھا تھا جب گاؤں والے گھر کے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹا، آسمان کو دیکھا کرتا تھا۔ میرے بستر کی سفید چادر بھی چاندنی میں نہائی خوب چمکا کرتی تھی۔ پھر جب شہر آئے تو جیسے چاند اورستارے بجھ سے گئے۔ اکتیس برس لاہور میں گزار کر اسلام آباد جیسے نسبتاً صاف ستھرے شہر میں آن بسا تو ایسے لگا جیسے چاند میرے اس فیصلے سے خوش ہوا ہو،کم ازکم اس کے صاف وشفاف ، روشن چہرے سے مجھے یہی محسوس ہوا۔

تاہم یہاں آکر بھی مصروف  زندگی نے مجھے کبھی سراٹھانے  اور چاند  کی طرف دیکھنے نہیں دیا۔ صبح سرجھکائے دفتر جانا، شام کے بعد سرجھکائے گھر آنا اور پھر کمرے سے کم ہی باہر نکلنا۔ جب کورونا وائرس کے نتیجے میں ساری دنیا لاک ڈاؤن ہوئی تو   طویل عرصہ بعد جی بھر کر  روشن چاند ستاروں  کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مجھے خوشی سے نہال نظر آئے۔ پھر انھوں نے مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد دلایا:

حُسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

میں یہ شعر سن کر خوب شرمسار ہوا۔ شہرواقعی اچھے نہیں ہوتے بالخصوص وہ شہر جو حسن بے پروا پر نقاب ڈال دیں، وہ ملک بھی اچھے نہیں ہوتے جو انسانوں ، چانداور ستاروں کے درمیان دھویں کی چادر تان دیں۔

ہمیں جس زمین پر رہنے کا ایک موقع دیاگیا، جی ہاں! صرف ایک موقع، اس زمین پر تادم تحریر کورونا وائرس سے ایک لاکھ60 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں 47 فیصد کی عمر 75برس سے زائد تھی، 24.6 فیصد کی عمر 65 سے 74 برس کے درمیان تھی، 23.1 فیصد کی عمر 45 سے 64 برس کے درمیان تھی۔ مرنے والوں میں مردوں کی شرح 61.8 فیصد تھی اور عورتوں کی 38.2 فیصد۔ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ان لوگوں کو بیمار کرنے میں فضائی آلودگی کا کردار سب سے اہم رہا ہو گا۔

دنیا میں ہرسال 17لاکھ 60 ہزار افراد پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلاہوکر جاں بحق ہوتے ہیں۔یہ تعدادکسی بھی کینسر سے ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں پھیپھڑوں کے کینسر کو سب سے زیادہ ہلاکت خیز کینسر کہا جا سکتا ہے۔ دنیا میں 33کروڑ40لاکھ افراد سالانہ ایستھما میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں 15فیصد بچے ہوتے ہیں،  اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 40لاکھ افراد سانس کی بعض دیگر بیماریوں اور نمونیا کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔ ہر ایک منٹ میں پانچ سال سے کم عمر کے دو بچے نمونیا کے سبب جاں بحق ہوتے ہیں۔ نمونیا کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں میں 2 برس  سے کم عمر بچوں کی شرح 80 فیصد ہے۔99فیصد اموات اوسط آمدن یا اس سے کم آمدن والے معاشروں  میں ہورہی ہیں۔ انتہائی چھوٹے بچوں اور  بڑے بزرگوں میں زیادہ تر اموات نمونیا کے سبب ہی ہوتی ہیں۔1964ء کے بعد اب تک 25لاکھ افراد دوسروں کی تمباکو نوشی کے دھویں کے سبب بیماری میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے۔

ہرسال 42لاکھ افراد گھرسے باہر، فضائی آلودگی کے سبب بیمار ہوتے اور موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ اور دنیا کی91 فیصد آبادی غیرصحت مند ماحول میں سانس لیتی ہے۔اس حوالے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک زیادہ نمایاں ہیں۔ مثلاً  انگولا، باہماس، کمبوڈیا، کانگو، مصر، گھانا، لٹویا، نائجیریا اور شام ۔ ان اعداد و شمار کے بعد مزید کسی لیکچر کی ضرورت نہیںکہ ہمیں کیسے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ ہاں! صحت کے اس ہلاکت خیز بحران( کورونا وائرس) سے کچھ سبق ضرور سیکھنے چاہئیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق یہ زمین ہی واحد دنیا ہے جہاں زندگی ممکن ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسری دنیا نہیں جہاں نوع انسانی نقل مکانی کرسکے۔ اسی زمین پر ہم ٹھہر سکتے ہیں چاہے ہم یہاں رہنا پسند کریں یا نہیں۔ اسی زمین پر ہمیں رہنا ہے چاہے ہم صحت مند ماحول میں رہ کر زندگی سے لطف اندوز ہوں یا غیرصحت مند ماحول میں رہ کر تڑپ تڑپ کر مریں۔

اس وقت غیرارادی طور پر پوری دنیا ایک مختلف تجربے سے گزر رہی ہے۔کرونا وائرس کی وبا نے تمام تر صنعتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں، اب فضاؤں میں جہاز بھی نہیں اڑ رہے ، گاڑیاں بھی بہت کم ہیں، نتیجتاً  ان سے نکلنے والا دھواں بھی اسی قدر کم ہے۔ شہروں کی فضائی آلودگی میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ فضائی آلودگی ہی تھی جس نے دنیا میں سانس کی بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کیا، اسی وجہ سے اب لاکھوں افراد شدید بُرے اثرات بھگت رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے ایسے لوگوں کو زیادہ پکڑا ہے جو پہلے ہی سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔

تاہم  اب کورونا وائرس کے سبب فضا بہت زیادہ صاف و شفاف ہوچکی ہے، ایسا عشروں بعد ہواہے۔ چین میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کم ہونے والی فضائی آلودگی کے باعث ، ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 4000 بچے  اور 70سال سے زائد عمر کے 73000 بزرگوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ ایسا اس وقت ہوا ہے جب دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی گرگیا ہے۔ جنوری، فروری 2020ء میں چین کی انڈسٹریل آؤٹ پٹ گزشتہ برس انہی دو مہینوں کی نسبت  13.5فیصد کم ہوگئی ہے۔ یہ جنوری 1990ء سے اب تک، تیس برسوں کے دوران میں سب سے کم آؤٹ پٹ ثابت ہوئی ہے۔تاہم جیسے ہی وبا کا خاتمہ ہوگا، معیشتوں کو دوبارہ سے کھڑا کیا جائے گا، نقصان  پورا کرنے کے لئے صنعتی سرگرمیاں کئی گنا تیزی سے شروع کی جائیں گی۔ ایسے میں نئی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے، موجودہ کافی حد تک صاف ماحول کو کیسے برقرار رکھنا ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لئے ابھی سے سوچنا چاہئے اور اسی کی مطابق اقدامات کرنے چاہئیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کورونا کے بعد ماحول کو کم سے کم آلودہ کیا جائے۔

صاف ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

یادرہے کہ ماحول کو آلودہ کرنے والے اہم ترین عوامل میں گردوغبار کے طوفان، جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی شامل ہے ۔بالخصوص جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے شہروں میں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاںکھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو کھلے عام جلایا جاتا ہے۔ اسی طرح زرخیز زمین کا صحرا میں تبدیل ہونا، مشرق وسطیٰ اور مغربی چین میں ریت کے طوفان بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے بعض اسباب کو ختم کرنا یا کم کرنا انسانی اختیار میں ہے، ان پر توجہ دینے اور  روک تھام کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اب تک ماحول کو صاف رکھنے کے لئے  جو چند کامیاب اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں ایک بڑی کامیابی دنیا میں ماحول کی آلودگی کومانیٹر کرنے کا انفراسٹرکچر بننا ہے۔ اب کورونا وائرس کے تناظر میں شاید لوگوں کو احساس ہو کہ ماحول کو صاف رکھنا کتنا ضروری ہے، کاش! ایسا ہوجائے، اگرچہ اس سے پہلے حکومتوں اور لوگوں پر ایسے اعدادوشمار کوئی خاص اثرات مرتب نہیں کرتے تھے کہ دنیا بھر میں کتنے زیادہ لوگ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

2019 ء میں ، چین نے اپنے ہاں ماحول کی آلودگی کو 9 فیصد کم کیا، واضح رہے کہ 2018ء میں یہاں فضائی آلودگی میں12فیصد کا اضافہ ہواتھا۔گزشتہ برس بیجنگ دنیا کے 200 آلودہ ترین شہروں کی فہرست سے باہر ہوگیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کے98 فیصد شہروں میں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی پرواہ نہیں کی جاتی اور 53 فیصد چینی شہروں کی زندگی چین کے اپنے اہداف کے مطابق نہیں ہوسکی۔ تاہم مندرجہ بالا اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین ماحول کو صاف بنانے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کررہاہے اگرچہ بعض مغربی طاقتیں اس باب میں چین پر کڑی تنقید کرتی رہتی ہیں۔

اس وقت بھارت اور پاکستان کے شہر دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔سب سے زیادہ گندے 30شہروں میں سے 21 شہر بھارت کے ہیں جبکہ پانچ کا تعلق پاکستان سے ہے، ان میں گوجرانوالہ اور پشاور بھی شامل ہیں۔ بھارت کے شہروں میں آلودگی کم ہوئی ہے تاہم اس کا تعلق ماحولیات سے متعلق حکومتی اقدامات سے نہیں بلکہ اقتصادی سست روی سے ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ اور ویت نام کا دارالحکومت ہنوئی کا تذکرہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں چین کے دارالحکومت بیجنگ سے پہلے  آرہا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے پہلے سب سے زیادہ آلودہ دس ممالک بالترتیب بنگلہ دیش، پاکستان، منگولیا، افغانستان، بھارت، انڈونیشیا، بحرین، نیپال، ازبکستان اور عراق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا فضائی آلودگی کے تمام تر مہلک اثرات کو جاننے اور دیکھنے کے بعد  بھی، ہم آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟ بالخصوص جب پاکستان فضائی آلودگی کے معاملے میں بنگلہ دیش کے بعد سب سے بری حالت میں ہے۔ پاکستان میں آلودگی پیدا کرنے والے ذرائع کا جائزہ لیاجائے تو صورت حال کافی خطرناک ہے۔

جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شہری آبادی پاکستان میں ہے،اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے پانچ برس بعد آدھے سے زیادہ پاکستانی شہروں میں ہوں گے۔ افسوسناک امر ہے کہ پھیلتی ہوئی شہری آبادی اور آلودگی پیدا کرنے والے دیگر ذرائع کی وجہ سے اس وقت 98 فیصد پاکستانی آبادی عالمی ادارہ صحت کے معیاری ماحول کے برعکس  غیرصحت مندانہ ماحول میں زندگی بسر کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو پاکستانیوں کی صحت پر خراب ماحول کے اثرات کی پروا نہیں ہے۔ ملک میں ماحول کو آلودہ کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس کے سبب بدترین مسائل پیدا ہوچکے ہیں، ہمیں 69 لاکھ پاکستانیوں کو پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں سے صحت یاب کرنے کے لئے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ایسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے کہ  مزید پاکستانی ان بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔

یاد رہے کہ ماحولیات کا تحفظ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ اسے قومی سلامتی کے شعبے میں شامل کرنا ہوگا۔ قومی وسائل کا دفاع ملکی سرحدوں کی طرح اہم ہے۔اگرقومی وسائل ہی نہ رہے تو ہم کس چیز کا دفاع کریں گے!!

The post فضائی آلودگی میں کمی سے ہزاروں بچے اور بزرگ موت کے منہ سے لوٹ آئے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اپنے ہی گھر کے دروبام سے جھگڑا کر کے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے
جاؤ تم خواب کنارے پہ لگاؤ خیمے
میں بھی آتا ہوں ذرا شام کو چلتا کر کے
پہلے پہلے یہاں جنگل تھا ،گھنیرا جنگل
کاٹنے والوں نے چھوڑا اسے رستہ کر کے
وہ شب و روز، مہ و سال، وہ بکھرے لمحے
آپ کہیے تو اٹھا لاتا ہوں یکجا کر کے
ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے
عشق منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا ہر گز
شعر لکھا نہیں جاتا ہے ارادہ کر کے
(نذر حُسین ناز۔چکوال)

۔۔۔
غزل


تیرا خدا درست ،مرا نادرست ہے
باتیں درست ہیں نہ عقیدہ درست ہے
کیسے بیاں ہو حق کہ یہ ماضی پرست لوگ
مل کر کہیں گے کیا تو اکیلا درست ہے؟
میں تیرے ساتھ ساتھ رہوں گا اور اس طرح
جیسے بدن کے ساتھ یہ سایہ درست ہے
جس شعر میں عوامی رویوں پہ بات ہو
وہ شعر لاجواب ہے مصرع درست ہے
منہ پر تو اختلاف روا رکھتے ہیں بزرگ
خلوت میں سوچتے ہیں کہ بچہ درست ہے
ناراض ہو تو اوربھی آتا ہے اس پہ پیار
اور آج کل تو اس کا رویہ درست ہے
(احسن منیر۔ شور کوٹ)

۔۔۔
غزل


نمود ِ صبحِ منور میں جان پڑ گئی ہے
کھلی وہ آنکھ تو منظر میں جان پڑ گئی ہے
ہمارا دل بھی دھڑکنے پہ ہو گیا مائل
تمہارے چھونے سے پتھر میں جان پڑ گئی ہے
وہ در کھلا تو گلی میں ہجوم بڑھنے لگا
کمک پہنچتے ہی لشکر میں جان پڑ گئی ہے
بحسبِ چشم سبھی نے وہ حسن جذب کیا
فنا ہوئے کئی،اکثر میں جان پڑ گئی ہے
خدا کے ہونے کی اتنی دلیل بھی ہے بہت
کہ ایک خاک کے پیکر میں جان پڑ گئی ہے
(نثار محمود تاثیر۔میانوالی)

۔۔۔
غزل


درد مہکا ہوا کچنار پہ میرے جیسا
اک پرندہ نہیں اشجار پہ میرے جیسا
ایک تصویر لگانی ہی پڑی صحرا کی
رنگ آیا تبھی دیوار پہ میرے جیسا
اک تغیر کے سبب اُترا ہے یہ گہرا جمود
ورنہ طاری تھا جو گھر بار پہ میرے جیسا
آج ہر ایک زیاں خیز زباں پر اترا
واقعہ کل جو تھا اخبار پہ میرے جیسا
جس نے مقتل کے اصولوں سے بغاوت کی ہو
حق وہ رکھتا ہی نہیں دار پہ میرے جیسا
ہو رہی ہے کوئی تشکیلِ خَد و خال یہاں
ایک چہرہ تو بنا گار پہ میرے جیسا
(آصف انجم۔ رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل


ظلمت کدے سے خود کو ذرا مستفید کر
دو چار شعر پچھلی غزل کے مزید کر
صحرا کے میوزیم میں جو رکھا گیا گلاب
لایا تھا ایک برگ ِہوا سے خریدکر
تیرے معاملے میں ہوں شدت پسند، عشق
مجھ سے معاملات بھی اتنے شدید کر
ظلمت میں تیر یوں نہ چلا رات کے سفیر!
جگنو کو مجھ سے پہلے تُو اپنا مرید کر
اِن وسوسوں کو یوں نہ بھٹکنے دے آس پاس
ایمان ہے خدا پہ تو تھوڑی امیدکر
مجنوں کو کوئی دوسری لیلیٰ سے اب ملا
اِس داستانِ عشق کو تھوڑا جدید کر
وحشت زبان کاٹ لے جب شور کی فہد
خاموشیوں کے منہ پہ طمانچے رسید کر
(سردار فہد،ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


ایک مہیب خموشی جس میں یادوں کی پروائی تھی
رات بہت سنّاٹا تھا اور رات بہت تنہائی تھی
دھیمی دھیمی خنکی میں کچھ تیز ہوا کے جھونکے تھے
اور کسی احساس نے دل کے اندر آگ لگائی تھی
اک ہلکا سا شور جو میرے کانوں سے ٹکرایا تھا
اک ہلکی سی ٹیس جو میرے سینے میں در آئی تھی
یار نکل تصویر سے باہر اور گلے میں بانہیں ڈال
اک تصویر سرِ منظر اور ذہن میں ایک دہائی تھی
نام ترا لیتے تیرے عشّاق جو مرنے آئے تھے
دیکھ کے تیور موت بھی یکدم سہمی تھی گھبرائی تھی
ناموروں کی دنیا میں بھی میرا نام نمایاں تھا
میں نے عشق کمایا تھا اور میری نیک کمائی تھی
(افتخار حیدر۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


ریگ زاروں میں دَر نہیں ہو گا
سائیں رستوں میں گھر نہیں ہو گا
دشت میں آبلے روایت ہیں
کوئی مرہم اثر نہیں ہو گا
اپنی خوشبو کو خود جنم دینا
عطر دانی میں زر نہیں ہو گا
کیا خبر تھی کہ ایک دن اپنے
ساتھ دستِ ہنر نہیں ہو گا
ہم مقفل کریں گے ہر روزن
روشنی کا گزر نہیں ہو گا
خود سے مل کر گلے نبھا لینا
دور تک ہم سفر نہیں ہو گا
(سارہ خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


ہماری آنکھ میں پانی نہیں ہے
یہ صحرائی ہے بارانی نہیں ہے
یہاں جینا ذرا دشوار ہو گا
یہاں مرنے کی آسانی نہیں ہے
اگر اس کا کوئی ثانی نہیں ہے
تو پھر یہ کم پریشانی نہیں ہے
ہمیں آرام آتا بھی تو کیسے
ہماری چوٹ جسمانی نہیں ہے
نہیں ممکن مرا آباد ہونا
کہ ویرانی سی ویرانی نہیں ہے
تجھے سن کر پریشانی تو ہو گی
مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے
ہماری خاک کو وہ خاک سمجھے
عزیز اس نے اگر چھانی نہیں ہے
(ارشد عزیز۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل

رات گئے کتنی آوازیں آتی ہیں
رونے والوں کی آوازیں آتی ہیں
اپنے دل پر کان دھروں تو سنتی ہوں
سب بھولی بسری آوازیں آتی ہیں
روشن دان کھلا رکھتی ہوں کمرے کا
صبح پرندوں کی آوازیں آتی ہیں
جب تتلی پھولوں کو گیت سناتی ہے
کان میں رس بھرتی آوازیں آتی ہیں
روشنیوں کے پیچھے اک تاریکی ہے
لہجوں سے مرتی آوازیں آتی ہیں
کون یہاں ڈوبا، جو پار نہیں اترا
پانی سے گہری آوازیں آتی ہیں
کیا کیا لوگ یہاں پر جاناں تھے آباد
مٹی سے کیسی آوازیں آتی ہیں
(جاناں ملک۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


خرد تو ویسے ہی الجھی رہی سوالوں میں
رموز عشق کو رکھا گیا دھمالوں میں
ہماری خانہ خرابی میں رنگ بھر دے گا
ہمارا بیٹھنا اٹھنا خراب حالوں میں
تمہارے ساتھ کسی اور کو نہیں سوچا
بڑے خیال سے رکھا تمہیں خیالوں میں
جہاں بھی لوگ محبت کا ذکر چھیڑیں گے
ہمارا نام ضرور آئے گا حوالوں میں
علاج اس کا محبت ہے اور وہ لڑکی
فضول دوڑتی پھرتی ہے اسپتالوں میں
(شبیر احمد حمید۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


کنارے پر کھڑے لوگوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
اگر ان ڈوبنے والوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
مصور ہوں سو تصویریں بنانا جانتا ہوں
مگر مجھ سے مرے بچوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
نہیں سجتے بھنور بنتے ہوئے گالوں پہ آنسو
کسی بھی طور ان آنکھوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
فقط اک شعر میں چودہ برس کیسے سمائیں
اب اتنا کم تو ان برسوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
کہو ناں مرنے والے کو بہت پیسے ملیں گے
کہو ناں وردیوں والوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
کہیں پر بھی تمہارے نقش پا باقی نہیں ہیں
بتاؤ کیا مرے رستوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
بچھڑتے وقت ہم دونوں بہت خوش تھے نظامت
بچھڑ جانے پہ ہم دونوں کا دکھ بنتا نہیں ہے
(نظامت حسین ۔آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل
ایسے میں کرے کون طر ف داری ہماری
مشہور ہے لوگوں میں گنہگاری ہماری
ہم مانگ نہ لیں دن میں اندھیرے کی وضاحت
منہگی نہ پڑے آپ کو بیداری ہماری
وہ بول رہی ہو تو کوئی سُر نہیں لگتا
پاتی ہی نہیں داد صدا کاری ہماری
اب کون سمیٹے گا ہماری یہ کتابیں
ترسے گی کسی لمس کو الماری ہماری
دیمک کی طرح دونوں جڑیں کاٹ رہے ہیں
یہ کار ِ جہاں اور یہ بے کاری ہماری
پک جائیں اگر پھل تو شجر پر نہیں رہتے
بے وجہ نہیں آپ سے بے زاری ہماری
فی الحال تو آنکھوں میں خزاں اتری ہے ان کی
نیندیں بھی اڑا دے گی نمو داری ہماری
(تیمور ذوالفقار۔ مری)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمیں جیون کو پلٹ کر دیکھنے کی فرصت مل گئی

$
0
0

کیا ہمارے جیون میں ’غم روزگار‘ کے سوا اور کوئی ’کام‘ نہیں۔۔۔؟

ایک ماہ کے مسلسل ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران ہمیں تو اس کا جواب اثبات میں ملا ہے، کیوں کہ اس دوران خلقت اکتاہٹ اور بیزاری کی ایک شدید کیفیت سے دوچار دیکھی۔۔۔

شاید روزی روٹی کی فرصت سے ملنے والی تعطیلات کا مقصد ہمارے نزدیک، گھومنے پھرنے اور کھانے پینے سے آگے بڑھا ہی نہیں۔۔۔ یا شاید کچھ کھیل کود۔۔۔ لیکن اب وقت ایسا ہے کہ ’کورونا‘ کی وبا کے سبب گھر سے باہر نکلنے اور غیر ضروری سفر پر پابندی ہے، تو یہ کھیل بھی فقط ’چھت تلے‘ والے ہی باقی رہے ہیں، یہ امر ہمارے عوام کے لیے کسی شدید قید تنہائی جیسا ثابت ہو رہا ہے۔

دوسری طرف باقیوں سے مختلف ’ہم‘ ہیں۔۔۔ ایک ماہ کی ’فرصت‘ میں بھی ہمیں دراصل کوئی خاص فرصت نہیں ملی۔۔۔ ہر چند کہ صحافی ہونے کے باوجود ہمارے پیشہ وارانہ معمولات بھی کافی اتھل پتھل ہیں۔۔۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہم یہ بات ضرور ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہیں گے، کہ ہمارے کچھ نام نہاد ’ہمدرد‘، ’باشعور‘ اور ’اہل درد‘ گنے جانے والے بھی بارہا اس امر کا اظہار کرتے رہے کہ ’’جب ہمری دُکانوا بند ہے تو اُونو اخبار والے کیوں چالو ہیں۔۔۔؟‘‘

بہرحال ہماری زبان میں اثر ہو تو ایسوں کے لیے فقط دعا ہی کی جا سکتی ہے۔۔۔ ہم واپس اپنی ’فرصت‘ پر آتے ہیں، تو ہم تو کئی برسوں سے خواہاں ہیں کہ ہمیں ایسی ’بامعاوضہ‘ بابرکت اور ’اطمینان بخش‘ فرصت عطا ہو کہ ہم اپنی زندگی کے بہت سے بکھیروں کو سمیٹ سکیں۔۔۔

ان ’بکھیروں‘ کا ’دفتر‘ کھولنے کا بھی یہاں وقت نہیں، فی الحال یوں سمجھ لیجیے کہ ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دَم نکلے‘ لیکن اس میں گھومنے پھرنے اور موج مستی ٹائپ کوئی چیز شامل نہیں ہے، اور ظاہر ہے کھانے اڑانے کا کوئی معاملہ تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ سو ہمارے دفتری معمولات جو ڈھیلے ڈھالے ہوئے تو 24 گھنٹوں میں کسی بھی پہر انہیں نبٹا کر ہم وقت میں جتنا بھی نقب لگا سکے، اس میں اپنی الماری کے نہاں خانوں میں برسوں سے رکھی ہوئی بہت سی ’چیزیں‘ سمیٹ لیں۔۔۔ اور ان کی خاک صاف کر کے کچھ وقت کی ’گَرد‘ پالی۔۔۔ اور ہماری الماری کیا ہے، یہاں ہمارے روزوشب کے موافق سب کچھ بہت ترتیب سے ’بے ترتیب‘ ہوا پڑا ہے۔۔۔

ہمارے کمرے میں کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے سوا بھی بہت کچھ ہے، لیکن سمیٹا، سمٹائی کو زیادہ تر چیزیں انہی سے تعلق رکھتی ہیں، سو اخباری کالموں اور مضامین کے وہ صفحے جن کا مطالعہ برسوں سے ’ادھار‘ تھا، وقت پا کر انہیں چُکتا کرنے لگے۔۔۔ کیوں کہ ہماری عادت ہے کہ اہم اور قابل حوالہ اخباری مضامین محفوظ کرلیتے ہیں، اس لیے کسی بھی اخبار یا رسالے پر نظر ڈالے بغیر تلف یا خارج نہیں کرتے۔۔۔ سو یوں ہوا کہ زندگی آگے بڑھی تو اس کے جھمیلے بھی بڑھتے گئے، اور اس معمول میں بار بار اور طویل بے قاعدگیاں در آتی رہیں۔۔۔ نتیجتاً ایسے اخباری صفحات کا اچھا خاصا پلندہ ہوگیا۔۔۔ جو کافی طویل فرصت کا متقاضی تھا، کہ اسے توجہ سے دیکھا جائے اور پھر اچھی طرح کاٹ چھانٹ کر دی جائے۔۔۔

انتہا ہوگئی جب ہم نے دیکھا کہ اسی میں کچھ اخباری صفحات کی ’عمر 10 برس تک نکل آئی۔۔۔! یہ واقعی بہت حیرت زدہ کرنے والی بات تھی، یہ اس بات کی خبر بھی تھی کہ ہماری زندگی کی شدید ’بے نظمی‘ کو اب قریب قریب اتنا ہی عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔ کتنی ذمہ داریاں بڑھیں، کیا پڑھے کیا نہ پڑھ سکے، کتنے گھاؤ لگے، کتنے خواب بدلے، کتنے سبق ملے، کتنی مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑے، کتنی نئی جدوجہد شروع کرنا پڑیں۔۔۔ دوسری طرف ’ایکسپریس‘ کے کالموں کے کچھ صفحے ایسے بھی نکل آئے، جس پر چھے میں سے چار، چار کالم نگار اب اس دنیا سے ہی کوچ کر چکے تھے۔۔۔ ایک صفحے میں دیکھیے تو اوپر تلے حمید اختر، کلدیب نیر، اردشیر کاؤس جی اور انور احسن صدیقی جلوہ افروز ہیں، تو ایک دوسرے صفحے میں ’کاؤس جی‘ کی جگہ ’انتظار حسین‘ کسی یاد کی صورت میں جگمگاتے ہیں۔۔۔ کہیں ان کے ساتھ ’صدائے جرس‘ کے مستقل عنوان تلے لکھنے والے مقتدا المنصور بھی ماضی کی یاد کی صورت زندگی کی بے ثباتی کی خبر دے رہے ہیں۔۔۔

اس عرصے میں ویسے بھی ہمیں کتنے لوگ ملے، اور کتنے بچھڑے اور کتنے مل کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔۔۔ کتنوں کو اَجل نے لپک لیا، تو کتنوں کے راستے الگ ہوگئے، بہت سوں نے ’مصروفیت‘ کا عذر کیا، تو کچھ نے ’ترجیحات‘ کا غیر اعلانیہ عَلم بلند کر دیا۔۔۔ ہماری الماری کی بہت سی چیزوں سے ان سب ’ہم راہیوں‘ اور مبینہ ’دوستوں‘ کی خبر بھی برابر ملتی رہی۔۔۔ گویا اس دوران وقت نے بار بار ماضی میں سفر کیا اور یہ بتایا کہ یہ دنیا اور یہ زندگی کس قدر عجیب ترین شے ہے۔۔۔

ساتھ ہی کچھ تحریروں میں اپنا ہی لکھا اس قدر بچکانہ اور ’احمقانہ‘ سا لگا کہ خود ہی سوچ میں پڑ گئے، کہ یہ بھی ہم ہی تھے۔۔۔ کہیں برسوں پہلے کوئی مضمون لکھ لکھ کر تلف کرنے کو رکھے گئے ورقے باقی رہ گئے، اور تیزی سے بہتے سمے کی گرد میں اَٹ کر ایک دم کتنے بیش قیمت ہوگئے۔۔۔ اب اِسے ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے کو تو جی نہیں چاہتا۔۔۔ ایسے ہی کالج اور جامعہ کی کلاسوں میں لکھے ہوئے ’لیکچر‘ جن کو شاید اس وقت ایک ’رف‘ سی چیز سمجھ لیا تھا، آج وہ ’نادر و نایاب‘ شے کی طرح پرکشش اور پراسرار سے معلوم ہوتے ہیں۔۔۔

ہم نے ’نونہال‘ اور ’ہمدرد‘ کی کہانیوں اور معلوماتی کتب، جگہ کی تنگی کے سبب اپنے بھانجے بھانجی کو منتقل کیں، تو آشکار ہوا کہ اسکول کے زمانے میں اپنے ہاتھوں سے مجلد کی جانے والی کتب اور رسالوں کی تعداد لگ بھگ 200 ہے۔۔۔ یہ امر آج حیران کرتا ہے کہ کتابوں سے کتنا جنون تھا اور پھر اتنی مشقت کے لیے وقت بھی تو خوب تھا۔۔۔ باقاعدہ ایک رجسٹر میں ان کتابوں اور رسائل کا اندراج کرنا، ان کی تاریخِ خرید، صفحات، قیمت اور نمبر وغیرہ لکھنا۔۔۔

کتنی ہی کتابوں میں ’عیدی‘ کی پونجی صرف ہوئی اور کتنی ہی کتابوں میں روزانہ کے جمع کیے ہوئے جیب خرچ ایک دم لُٹا دیے۔۔۔ پھر اُس زمانے میں تین ہندسوں کی انتہا کو چھوتی ہوئی ڈھیر ساری کتابوں کی بے شمار رسیدیں۔۔۔ یہ کسی بھی برگر، پیزے اور کسی بھی مرغن پکوان سے کئی گنا زیادہ پرلطف چیز تھی، اور جب یہ کتابیں آتیں تو حقیقت میں بھوک اُڑ جاتی۔۔۔ اچانک یاد آتا، ارے کیا ہم نے کھانا نہیں کھایا؟ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کھانا کھا چکے ہیں۔۔۔ تب جی چاہتا کہ رات سونے کا وقت کبھی نہ ہو بلکہ یہ شام ٹھیری رہے اور ہم یوں ہی تادیر اِن نئی کتابوں کے ورقوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر کھوئے رہیں۔۔۔

مگر وقت نہیں رکا، شاید اِس ’وبا‘ کی مشکل صورت میں کہیں ’مثبت‘ نکتہ ملا تو وہ یہی تھا کہ ہم نے قدرے فرصت سے زندگی کو ایک بار پلٹ کر دیکھ لیا۔۔۔

The post ہمیں جیون کو پلٹ کر دیکھنے کی فرصت مل گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

جب وبا فلمائی گئی۔۔۔۔

$
0
0

رواں سال کی ابتدا میں جب لوگ نئے سال کا جشن مناکر ذرا سکون سے بیٹھے ہی تھے کہ چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان میں ایک ایسا پراسرار وائرس پھیل گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔

صرف چند ہی دنوں میں اس پراسرار وائرس نے ووہان کے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر چینی حکومت کو پورے شہر کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ ہی اس شہر سے باہر جاسکتا تھا۔ 25 جنوری تک چین میں اس پراسرار وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 56 اور 27 جنوری تک 80 تک پہنچ چکی تھی جب کہ ہزاروں افراد اس مہلک اور جان لیوا وائرس سے متاثر ہوچکے تھے۔

چینی حکام اور ماہرین صحت مسلسل یہ پتا لگانے میں مصروف تھے کہ آخر یہ جان لیوا وائرس آیا کہاں سے اور پھر انکشاف ہوا کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ جب سائنس دانوں نے ایک مریض کے جسم سے لیے جانے والے وائرس کا جائزہ لیا تو سیدھا اشارہ چمگادڑ وں کی جانب گیا۔

اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ چمگادڑوں کے ذریعے یہ مہلک وائرس دیگر جانوروں میں منتقل ہوا اور ان جانوروں کے انسانوں کے ساتھ رابطے میں آنے سے یہ انسانوں میں منتقل ہوگیا۔ یہ انکشاف سامنے آنے کے بعد ووہان کا زندہ جانوروں کی فروخت سے حوالے سے مشہور بازار جہاں زندہ مینڈک، سانپ، بچھو، چوہے، گلہری، لومڑی، کچھوے، مگرمچھ، کتے، گدھے، ریچھ کے گوشت سے لے کر ہر طرح کے زندہ اور مردہ جانور کا گوشت ملتا ہے، کو بند کردیا گیا۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ یہ جان لیوا مہلک کورونا وائرس جسے کووڈ- 19 کا نام دیا گیا ہے پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اب تک اس وائرس سے 8000 سے زائد لوگ ہلاک اور لاکھوں متاثر ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اس وائرس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی یہ وائرس ہاتھ ملانے، دوسروں سے رابطہ کرنے سے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ لہذٰا کورونا وائرس میں مبتلا شخص کو لوگوں سے دور الگ تھلگ رکھا جاتا ہے جسے قرنطینہ یا آئسولیشن کہا جاتا ہے تاکہ یہ وائرس دوسروں کو نہ لگے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اس وائرس کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔

حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس جیسے وائرس اور ان سے ہونے والی ہلاکت خیزی پر ہالی ووڈ میں کئی فلمیں بن چکی ہیں جن میں سے فلم کونٹیجن میں دکھائے گئے مناظر تو اس حد تک کورونا وائرس سے مماثلت رکھتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

کونٹیجن (Contagion)

2011 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی اس فلم کونٹیجن Contagion کی کہانی حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ہنگامی اور تشویش ناک صورت حال سے مماثلت رکھتی ہے۔ حالاںکہ فلم کونٹیجن آج سے 9 برس قبل ریلیز ہوئی تھی لیکن فلم میں دکھائے جانے والے حالات و واقعات ذہن کو گھمادیتے ہیں اور انسانی عقل سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ 9 برس قبل جو کچھ فلم میں دکھایا گیا آج ہوبہو ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں؟ یا پھر 9 برس قبل فلم کونٹیجن کے ذریعے آج کے دور میں پیدا ہونے والی صورت حال کی پیش گوئی کی گئی تھی؟ اس فلم کو دیکھ کر بہت سارے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

فلم کا آغاز ایک شادی شدہ خاتون بیتھ ایمہوف Emhoff Beth سے ہوتا ہے جو بزنس کے سلسلے میں ہانک کانگ گئی تھی اور اب واپس اپنے شہر مینیا پولس Minneapolisآرہی ہوتی ہے، لیکن راستے میں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے سابق دوست سے ملنے شکاگو چلی جاتی ہے اور اس سے ملاقات کے بعد واپس مینیا پولس آجاتی ہے لیکن ایک عجیب و غریب بیماری کے ساتھ۔ بیتھ جیسے ہی اپنے گھر پہنچتی ہے اچانک بیمار پڑجاتی ہے اور اسپتال جانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ اس پراسرار بیماری کی وجہ سے مرجاتی ہے۔

اس کا شوہر مچ ایمہوف Emhoff Mitch جب اسپتال سے گھر آتا ہے تو اس کا 6 سال کا بیٹا بھی اسی انفیکشن کی وجہ سے مرچکا ہوتا ہے جس سے اس کی بیوی مری تھی۔ اور پھر دنیا بھر سے خبریں آنے لگتی ہیں کہ لوگ اسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں اور مررہے ہیں۔

فلم میں دکھا یا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اور ماہرین صحت اس وائرس کے بارے میں پتا لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ وائرس جسے فلم میں ایم ای وی1 – کا نام دیا گیا ہے آیا کہاں سے ہے اور انسانوں میں کیسے منتقل ہوا؟ جس نے چند ہی دنوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ شاید یہ وائرس یہ ایک بائیو کیمیکل ہتھیار ہے جسے دہشت گردوں کی ایک تنظیم نے جان بوجھ کر دنیا بھر میں پھیلایا ہے امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کو ٹارگٹ کرنے کے لیے۔ تاہم ایک امریکی ڈاکٹر ایلی Ally یہ پتا لگانے میں کام یاب ہوجاتی ہے کہ دراصل یہ وائرس چمگادڑ اور سُوّر کے جینیاتی مٹیریل سے ڈویلپ ہوکر بنا ہے اور ان جانوروں کے ذریعے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے محض چند دنوں میں اس وائرس سے دنیا بھر کے 8 ملین لوگ متاثر ہوجاتے ہیں جس کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے اسے عالمی وبا قرار د ے دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو کورونا وائرس کے سبب پیدا ہوئی اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔ فلم میں دکھایا جانے والا وائرس انسانوں میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے سے منتقل ہورہا تھا جیسے ہاتھ ملانے سے، ایک دوسرے کے کپڑے استعمال کرنے سے۔ اور پھر اس وائرس پر کام کرنے والی ایک ڈاکٹر کی موت اسی وائرس کی وجہ سے ہوجاتی ہے۔

فلم میں معاشرے کے ان چند مفادپرستوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال میں بھی صرف اپنا ہی مفاد دیکھتے ہیں۔ فلم میں دکھایا جانے والا ایک کردار بلاگر ایلن اپنے فالوورز بڑھانے کے لیے لوگوں کو اس بیماری کے علاج اور دوا سے متعلق غلط معلومات دیتا ہے جس کے بعد لوگ اس دوا کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں اور فارمیسیز کو لوٹ لیتے ہیں اور اسی ہڑ بڑی میں وہ لوگ بھی اس وائرس کا شکار ہوجاتے ہیں جو اب تک اس سے محفوظ تھے۔ بعد میں ایلن قبول کرتا ہے کہ دوا بنانے والی کمپنی نے اسے اس سب کے پیسے دیے تھے تاکہ لوگ بڑی تعداد میں اس کمپنی کی دوا خریدیں حالاںکہ اس دوا کا اس وائرس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

فلم میں دکھا یا گیا ہے کہ یہ وائرس ایک چمگادڑ سے چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے سور تک پہنچا بعدازاں متاثرہ سور کو ایک ہوٹل میں لایا جاتا ہے جہاں ایک شیف اسے پکانے کی تیاری کررہا ہوتا ہے۔ تاہم یہ وائرس سور سے شیف میں منتقل ہوجاتا ہے اور یہ شیف بغیر ہاتھ دھوئے اس خاتون سے ہاتھ ملالیتا ہے جسے فلم کے شروع میں دکھایا گیا تھا جس کی نامعلوم اور پراسرار وائرس کے باعث موت ہوجاتی ہے اور یہیں سے یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے چین کی اس مارکیٹ تک پہنچا جہاں زندہ اور مردہ جانور فروخت کیے جاتے ہیں اور وہاں سے یہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔

فلم میں آگے دکھایا جا تا ہے ایم ای وی 1- نامی وائرس تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہوتا ہے لہٰذا حکومت ان تمام شہروں کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کرتی ہے جہاں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی نہ تو کوئی شخص اس شہر سے باہر جاسکتا ہے اور نہ ہی باہری دنیا سے اس شہر میں آسکتا ہے۔

دنیا بھر کے ماہرین اس پراسرار وائرس کا توڑ کرنے والی دوا بنانے میں مصروف ہیں لیکن انہیں کام یابی نہیں مل رہی جب کہ اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا ویران ہوگئی ہے، آفسز، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، ایئرپورٹس جم سب کچھ بند ہوکر رہ گئے ہیں، سڑکیں اور گلیاں سنسان ہوگئی اور سب لوگ وائرس کے خوف کے باعث اپنے گھروں میں بند ہوکر رہ گئے۔ بالآخر ڈاکٹرز اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تاہم اس دوران دنیا بھر میں اس وائرس کی وجہ 26 ملین لوگ مارے جاچکے ہوتے ہیں۔

فلم میں دکھائے جانے والے مناظر حیران کن طور پر آج کے حالات سے حیرت انگیز مشابہت رکھتے ہیں۔ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد گوگل پر اس فلم کی سرچ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں 9 سال پرانی اس فلم کو سرچ کررہے ہیں جب کہ آئی ٹیونز پر یہ فلم رینٹڈ فلموں کی ٹاپ 10 فہرست میں بھی شامل ہوگئی ہے۔

ہالی وڈ کی پروڈکشن کمپنی وارنربروس اسٹوڈیو Warner Brosکا کہنا ہے کہ جب چین میں کورونا وائرس کی بیماری کوویڈ- 19 پھیلنے کی پہلی خبر سامنے آئی اس وقت یہ فلم 270 ویں پوزیشن پر تھی تاہم وائرس پھیلنے کے بعد اس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کچھ دنیا میں پھیلنے والی کورونا وبا اور اس فلم کے مرکزی خیال کے درمیان مماثلت کی وجہ سے ہوا ہے۔

فلم Contagion کا بجٹ 60 ملین ڈالرز تھا اور اس نے باکس آفس پر 136.5 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔ فلم کی کاسٹ میں میرین کوٹیلارڈ، میٹ ڈیمن، لارنس فش برن، جوڈی لا، گیونتھ پالٹرو اور کیٹ ونسلیٹ شامل ہیں۔

12 منکیز (  Monkeys 12)

صرف کونٹیجن Contagionہی نہیں ہالی ووڈ میں اور بھی فلمیں ہیں جو جان لیوا وائرس یا عالمی وبا جیسے موضوع پر بنائی گئی ہیں۔ 1995 میں ریلیز ہوئی سائنس فکشن فلم 12 منکیز بھی ایک وبا کے موضوع پر مبنی فلم ہے۔ اس فلم میں 2035 کا دور دکھایا گیا ہے۔ فلم کی کہانی جان لیوا وائرس کے گرد گھومتی ہے جس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلادی ہے بہت سارے لوگ اس وائرس کے ہاتھوں اپنی زندگیاں گنواچکے ہیں اور جو لوگ بچ گئے ہیں وہ زندہ رہنے کے لیے زمین کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اس فلم میں ٹائم ٹریول کے ذریعے سائنس داں یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ا?خر یہ وائر س پھیلا کیسے۔ اس فلم میں ماضی اور مستقبل کی کہانی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ 1996 میں دنیا سے نالاں ایک سائنس داں ایک جان لیوا وائرس کو دنیا کے مختلف شہروں میں جاکر پھیلادیتا ہے ان شہروں میں سان فرانسسکو، نیوآرلنز، ریوڈی جنیرو، روم، کراچی، کنشاسا اور بنکاک وغیرہ شامل ہیں۔ ان شہروں سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل لیتا ہے۔ اب کہانی میں مستقبل دکھایا جاتا ہے جس کے تحت 2035 میں سائنس داں ایک ٹائم مشین بناتے ہیں اور ٹائم میں پیچھے جاکر اس وائرس کی ابتدائی معلومات اکھٹا کرتے ہیں تاکہ اس کی دوا بنائی جاسکے۔

ایکشن اور تھرلر سے بھرپور یہ سائنس فکشن فلم لوگوں کو بے حد پسند آئی تھی۔ فلم کی کاسٹ میں ہالی ووڈ سپر اسٹار بروس ولس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جب کہ میڈلین اسٹوو اور بریڈ پٹ بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اس فلم کو نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم کا بجٹ 29.5 ملین ڈالرز تھا جب کہ اس نے باکس آفس پر 168.8 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔

آؤٹ بریک ( Break Out)

1995 میں ہی ریلیز ہوئی ایک اور فلم آؤٹ بریک ایک میڈیکل ڈیزازٹر فلم ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افریقا میں ایبولا Ebola Virus وائرس جیسا موٹابا Motaba نامی وائرس 1967 میں پھوٹ پڑتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے متعدد لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں جس کے بعد امریکی آرمی کی ایک ٹیم افریقا میں اس حوالے سے ریسرچ کرتی ہے جب کہ اس وائرس کو خفیہ رکھنے کے لیے امریکی آرمی کے دو آفیسرز ڈونلڈ مک کلنٹوک اور بلی فورڈ فوجیوں کے اس کیمپ کو جلادیتے ہیں جہاں وائرس سے متاثرہ فوجی موجود ہوتے ہیں۔

کچھ سال بعد اس وائرس میں مبتلا ایک بندر کو افریقا سے امریکا اسمگل کردیا جاتا ہے جہاں سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے جس کے بعد کیلیفورنیا میں یہ وائرس وبا بن کر پھوٹ پڑتا ہے اور پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس فلم کا بجٹ 50 ملین ڈالرز تھا جب کہ اس نے باکس آفس پر 189.8 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔ فلم میں ڈسٹن ہوف مین، رینی روسو، مورگن فری مین، ڈونلڈ، کیوبا گوڈنگ جونیئر، کیون اسپیسی اور پیٹرک ڈیمپسی نے اداکاری کے جوہر دکھا ئے تھے۔

ورلڈ وار -زی (Z War World)

ہالی ووڈ میں زومبی کے موضوع پر کئی فلمیں بنی ہیں۔ یہ زومبیز دراصل ایک قسم کا وائرس ہوتا ہے جو انسانوں میں منتقل ہو کر انہیں حیوانوں میں تبدیل کردیتا ہے اور بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہالی ووڈ سپر اسٹار بریڈ پٹ کی میں ریلیز ہوئی فلم ورلڈ وار- زی بھی زومبی وائرس پر مبنی فلم ہے۔ یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس پراسرار وائرس کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں رہنے اور راشن جمع کرنے کی تاکید کی جاتی ہے جب کہ شہر کے شہر اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے اجڑ جاتے ہیں۔

فلم میں بریڈپٹ اقوام متحدہ کے سابق رکن کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں جو اس بات کا پتا لگاتا ہے کہ ا?خر اس زومبی وبا کو کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ بریڈ پٹ کے علاوہ فلم میں میرلی اینوس، ڈینیلا کرٹیز، جیمز بیج ڈیل ، لودی بوکن، ڈیوڈ مورس وغیرہ نے اہم کردار اداکررہے ہیں۔ فلم کا بجٹ 190 سے 269 ملین ڈالرز تھا اور فلم نے باکس آفس پر 540 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔

آئی ایم لیجنڈ (I Am Legend)

2007 میں آئی اس فلم کی کہانی بھی ایک خطرناک وائرس کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے دنیا کی 90 فی صد آبادی ختم ہوچکی ہے اور 9.8 فی صد لوگ زومبی بن گئے ہیں جنہیں فلم میں ڈارک سیکرز کہا گیا ہے، یعنی یہ لوگ صرف رات کے اندھیرے میں شکار کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ اور دنیا میں صرف ایک ہی آدمی بچا ہے جس کا نام ڈاکٹر رابرٹ ہے۔ اس کردار کو ہالی وڈسپراسٹار ول اسمتھ نے ادا کیا ہے۔ فلم میں یہ جان لیوا وائرس کینسر کے علاج کی دوا کے سائیڈ ایفیکٹ کے طور پر سامنے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

اس وائرس کے خطرے کے پیش نظر واحد بچ جانے والے ڈاکٹر رابرٹ خود کو قرنطینہ کرلیتے ہیں تاکہ وائرس سے متاثرہ افراد کے رابطے میں نہ آئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس وائرس کا علاج بھی ڈھونڈنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ول اسمتھ کی جان دار اداکاری کے باعث یہ فلم وائرس کے موضوع پر بنائی گئی فلموں میں سے بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے اور لوگوں نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا تھا۔ اس فلم کا ٹوٹل بجٹ 150 ملین ڈالر تھا جب کہ اس نے 585.3 ملین ڈالر کی کمائی کی تھی۔

The post جب وبا فلمائی گئی۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

جنگ ویتنام، بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کی بے بسی نمایاں ہوگئی

$
0
0

( قسط نمبر13)

ویت نام کی جنگ کا شمار بھی سرد جنگ کے ایسے بڑے واقعات میں ہو تا ہے جس میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے براہ راست ملوث ہو نے کی وجہ سے اقوام متحدہ کا ادارہ خودہیبے بس رہا اور اس کا اعتراف بھی اقوام متحدہ نے یو ں کیاکہ ’’اقوام متحدہ کا کردار ویت نام جنگ میں بہت ہی معمولی رہا‘‘ اقوام متحدہ اس جنگ میں ملوث ملکوں کی حکومتوں کو تجاویز دیتا رہا لیکن اس تنازعے کو ختم کرنا جنگ کو روکنا اقوام متحدہ کے لیے ناممکن تھا کیو نکہ امریکہ اقوام متحدہ کا مستقل رکن اور ویٹو پاور ہے۔

پہلے امریکی صدر جانسن کہتے رہے کہ اقوام متحدہ اس معاملے میں نہ آئے لیکن جب بہت نقصان ہو گیا تو جانسن نے چاہا کہ اقوام متحدہ جنگ کا حل نکالے تو اقوام متحدہ نے کردار ادا کیا جو بہت ہی معمولی تھا یوں بنیادی طور پر یہاں اقوام متحدہ نے کو ئی کرادار ادا کیا ہی نہیں ’’ویت نام ایشین ہند چینی جزیرہ نما ہے اس کی خشکی کی سرحدیں شمال میں چین سے، مشرق میں لاوس اور کمبوڈیا سے ملتی ہیں اور سمندر ی سرحدیں تھائی لینڈ ،خلیج تھائی لینڈ فلپائنانڈو نیشیا، ملائیشیا سے جنوب میں قربت رکھتی ہیں۔

ویت نام کا رقبہ 331212 مربع کلو میٹر ہے آبادی کے لحاظ سے یہ 2018 کے مطابق اپنی 95545962 آبادی کے ساتھ دنیا کا پندرہ واں بڑا ملک ہے یہاں آبادی کی گنجانیت 276.03 افراد فی مربع کلو میٹر ہے اس آبادی کا لسانی اور مذہبی اعتبار سے تناسب یوں ہے 85.7% ویتنامی زبان بولتے ہیں 73.2% کا مذہب Folkor فولکور ہے 12.2% بدھ مت ہیں 4.8% عیسائی ہیں باقی دیگر ہیں2019 میں ویت نام کا سالانہ جی ڈی پی 770.227 بلین ڈالر تھا اور فی کس سالانہ آمدنی8066 تھی ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق یہاں زندگی کے آثا ر پانچ لاکھ سال پرانے ہیںاور پتھر کے زمانے کے ہیں قبل از تاریخ یہاں انسانی تہذیب موجود تھی۔

ایک ہزار سال قبل ویت نام کا بڑا حصہ آزاد وخود مختار رہا پہلی خود مختار بادشاہت یا سلطنت ایک ہزار سال پہلے قائم ہو ئی اور مختلف بادشاہتوں کے ذریعے یہ سلسلہ کسی نہ کسی انداز سے بڑے یا درمیانے رقبے کی سلطنت کی حیثیت سے انیسویں صدی کے وسط تک چلتا رہا۔ اس دوران 544 ء سے 602 ء تک انٹریرر سلطنت اور پھر 938 میں Ngo   Quyenنگو کوین نے چین کی فوجوں کو دریائے باچ ڈانگ پر شکست دی اور چین کی ایک ہزار سالہ برتر ی سے مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کر لی۔

پھر یہاں للے اور ٹران سلطنت کا دور رہا جو ویت نام کا سنہری دور کہلاتا ہے اس دور میں یہاں Mahayana ماہایانا بدھ مذہب کو عروج ملا اور یہ ریاست کا مذہب بن گیا۔ سولہو یں صدی عیسوی ہی میں دنیا کے بیشتر علاقو ں کی طرح یہاں بھی یورپی قوتیں نو آبادیا تی نظام کے ساتھ وارد ہونے لگیں۔ 1500 ء میں پرتگالی یہاں پر آئے 1533 میں ویت نام ڈیلٹا پر اُ نہوں نے قدم جمانے کی کوشش کی مگر مقامی مزاحمت کی وجہ سے اُن کو واپس ہو نا پڑا۔

اُنہوں نے ماکانو اور نا گا ساکی جاپان سے تجارتی راستے اپنائے اور سلطنت ویت نام میں اپنے عیسائی کیتھو لک مشن بھیجے۔ اس کے بعد یہاں ڈچ آئے اور ڈچ ایست انڈیا کمپنی کی طرف سے تجارت شروع کی۔ 1613 میں بر طانیہ نے پہلی کوشش کی مگر یہاں بھی لڑائی کے واقعات ہوئے۔

اس دوران ویت نام خصوصاً جنوبی ویت نام میں عیسائیت کی تبلیغ سے کچھ مقامی آبادی نے کیتھولک عیسائیت کو قبول کیا یہ عمل زیادہ تر فرانس کے تاجروں کے یہاں 1615 سے1753 کے دوران آنے سے ڈانگ ٹرونگ کے علاقے میں ہوا اور پھر ملک کے دیگر علاقوں میں بڑھنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد ویت نامی سلطنت نے اِن عیسائیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور کچھ پادریوں کو گرفتار کر لیا۔ اس پر 1834 میں یہاں فرانسیسی نیوی نے اپنی حکومت سے ویت نام میں مداخلت کیمنظوری چاہی اور اِن عیسائی مبلغین کو رہا کر وایا گیا۔ اس طرح ویت نام کی خود مختاری بتدریج کم ہو نے لگی۔

1884 میں تقریبا پورا ویت نام فرانس کے قبضے میں آچکا تھاجس میں ویت نام کے مرکزی اور شمالی علاقے اننام اور ٹونکن تھے۔ اب یہاں، خصوصاً جنوبی ویت نام میں کیتھو لیک عیسائیت متعارف ہو چکی تھی۔ فرانسیسی انتظامیہ نے یہاں بہت سی ثقافتی، سیاسی تبدیلیاں کیں۔ مغربی طرز کی ماڈرن تعلیم کو فروغ دیا۔ کیتھو لک تبلیغ کی سرپرستی کی اور فرانسیسی آباد کار Cochinchina (کوچیننچینا) میں خصوصاً سیگان اور ہونا ئی میں آباد ہو نے لگے جو اس نو آبادیاتی ویت نام کا دارالحکومت تھا۔ پھر یہاں Can Vuong Movement (کان وُنگ گوریلا تحریک) شروع ہوئی جو فرانسیسی انتظامیہ کے خلا ف بغاوت تھی۔

اس تحریک میں یہاں آباد کیتھولک آبادی کا تیسرے حصے کوقتل کر دیا گیا۔ فرانس نے 1890 میں اِن کو شکست دی پھر ایک اور تحریک Thai Ngu Yen تھائی نگوین کی تھی اس نے بھی فرانسیسی انتظامیہ کو کافی نقصان پہنچایا۔ فرانس نے یہاں جدید دنیا کے تقاضو ں کے مطابق اقتصادی ترقی کی اور ویت نام سے تمباکو،چائے،کافی برآمدکی جس کی وجہ سے مقامی طور پر بھی روزگار میں بہتری آئی مگر فرانس نے یہاں خود مختار مقامی حکومت اور سول رائٹس کو نظر انداز کیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ملکوں میں کئی تحریکیں ابھرئیں تو ویت نام جہاں قومی مزاج میں آزادی اور خودی مختاری کا جذبہ شروع ہی سے تھا یہاں بھی ویت نامی قوم پرستی کی تحریکیں شروع ہوئیں بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے یہاںیہ قوم پرست تحریکیں زور پکڑ نے لگیں اور اِن سے مقبول لیڈ ر شپ ابھر کر سامنے آئی جن میں فان بوئی چاؤ، فان چاؤ ٹرین ، فان ڈن فؤنگ ، شاہ ہام ناگی اور ہوچی من شامل تھے۔ 1917 کے سوویت اشتراکی انقلاب کے بعد ہند چینی کے وسیع علاقے اور آبادی میں کیمونزم کے نظریات قوم پرستی، وطنیت ،آزادی اور خود مختاری سے ہم آہنگ ہونے لگے۔ ویت نام میں 1930 میں ویتنامی نیشنلسٹ پارٹی بنی۔

یہ وہ دور ہے جب پہلی جنگِ عظیم کی تباہ کاریو ں کے اثرات پوری دنیا کی اقتصادیات اور معا شیا ت کو متاثر کرنے لگے تھے مغربی اتحادی قوتیں جنگِ عظیم اوّل جیتنے کے باوجود کمزور ہو گئی تھیں 1930-32 کی عالمی کساد بازاری نے اقتصادی بحران پیدا کر دیا تھا جس کے باعث مغربی قوتوں کی نو آبادیات و مقبوضات میں آزادی کی تحریکوں کے لیے ماحول سازگار ہوا تھا تو دوسری جانب عالمی سطح پر دوسری عظیم جنگ کے اسباب بھی پیدا ہو گئے تھے۔

لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجہ سے نو آبادیاتی قوتوں کو مقبوضات میں طاقت کے استعمال سے کو ئی روکنے والانہیں تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ یہ نو آبادیا تی قوتیں خود سیاسی حکمت عملی استعمال کر رہیں تھیں جن میں کامیاب حکمت عملی بر طانیہ اور نئی سپر پاور امریکہ کی تھی جو اُس وقت کے تناظر میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات کر رہی تھیں۔ فرانس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک بڑی مغربی قوت تو ضرور تھا مگر اُ س نے اپنی تقریباً ہر نو آبادیات میں طاقت کا استعمال زیادہ کیا۔

1939 میں جنگِ عظیم دوئم شروع ہوتے ہی فرانس جرمنی سے شکست کھا گیا مگر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر لڑتا رہا۔ جنگِ عظیم دوئم کے دوسرے سال 1940 میں جب جنگ بحر ِ اقیا نوس پہنچی تو جاپان نے یہاں فرانس کی انڈو چا ئنا نو آبادیات پر قبضہ کر لیا۔ جاپان نے یہاں اپنی فوجوں کو رکھا اور انتظامیہ کو اپنے زیرِ کنٹرول کا م کر نے دیا مگر یہاں ویت نام کے وسائل کو بیدردی سے استعمال کیا اور یہی وجہ تھی کہ مارچ 1945 میں ویت نام میں قحط رونما ہوا جس کی وجہ سے یہاں 20 لاکھ ویت نامی ہلاک ہو ئے۔ پھر یہاں ویت من کیمو نسٹ نظریے کے تحت زبردست تحریک شروع ہوئی جس میں ہوچی من نے اہم کردار ادا کیا۔

یوں 1941 سے 1945 تک یہ پہلی انڈو چائنا جنگ کہلائی 7 اور 9 اگست 1945 میں جاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کے بعد دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ 1945 کے آغاز ہی میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب یہ جنگ ختم ہو نے والی ہے۔ جنگ کے خاتمے پر آپس کے ممکنہ مسائل اور تنازعاتکے اندیشے کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل مغربی اتحاد نے اشتراکیت کو روکنے کیتیاری شروع کی۔

جاپان پر باوجود اس کے کہ امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے، جنرل میکا رتھرنے ایک ایسا معاہد کر لیا تھا جس کے تحت جنگ کے بعد جاپان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی بھی یقینی تھی اور کچھ شرائط کے ساتھ اس کی آزادی و خود مختاری کو بھی تسلیم کیا گیا تھا البتہ اس کی حیثیت کو جنگ عظیم دوئم سے قبل کی جیسا بننے سے ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا تھا۔ یہاں ہند چینی میں اشتراکیت کو روکنے لییبرما،کمبوڈیا، لاوسانڈو نیشیا، ملائیشیا تھائی لینڈ میں بھی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی اور اس علاقے میں اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر برطانیہ کو سونپی گئی تھی جس کی فوجیں یہاں ہند وستان میں بھی قریب تھیں اور برما میں بھی، یوں ویت نام میں یہ طے کر لیا گیا کہ یہاں انڈو چائنا میں فرانس کے قبضے کو تسلیم کیا جا ئے گا۔

اب فرانس جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا یہاں اُس کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے بنیادی کرادر بر طانیہ نے ادا کیا اور اس فوجی آپریشن کو Operation Masterdom ماسٹر ڈم کا نام دیا گیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن آف انڈو نیشیا نے یہاں جنرل ڈیگلس گریسی کی کمانڈ میں ہند ستانی فوج کے ساتھ جاپانیوں کو بھی استعمال کر تے ہو ئے فرانس کے قبضے کو مستحکم کیا۔

ویت نام میں کمیونسٹوں کی قوت اتنی مضبو ط تھی کہ جنرل گریسی کو یہاں مارشل لا نا فذ کر نا پڑا جس پر کہا جا تا ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن خوش نہیں تھے۔ 21 ستمبرکو ماونٹ بیٹن نے بیان دیا کہ جنرل گریسی کو یہاں عوام کے تحفظ کی ذمہ داری دی گئی ہے مگر چیف آف اسٹاف اور بر طانوی وزارت خارجہ نے امن و امان کے لیے گریسی کی حما یت کی اور جنرل گریسی نے یہاں بغاوت پر قابو پا لیا، لیکن یہ عارضی کامیابی تھی کیو نکہ ویت نامی شروع ہی سے آزادی کے لیے گوریلا طرز کی طویل جنگ کے عادی تھے۔ انہوں صدیوں کی تاریخ میں اسی طرز کی جنگیں لڑیں تھیں۔

چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں مسلح تحریک آزادی جاری تھی، یہاںفرانس کے خلاف تحریک شروع ہو گئی تھی جس کے نمایاں لیڈر ہو چی من تھے۔ اُنہوں نے شروع میں یہ چاہا کہ معاملات جنگ کی طرف نہ جائیں اور فرانس پورے ویتنام کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دے کر تعلیم و ترقی میں مدد دے مگر ایسا نہ ہو نا تھا نہ ہوا۔1989-90 میں جب سابق سویت یونین میں صدر گاربوچوف نے گلاسنس اور پرسٹرائکا کے عنوانات سے اصلاحات نافذ کیں تو روس ،یوکرائن ،مشرقی اور مرکزی یورپی ریاستوں اور سنٹرل ایشیا سمیت مشرقی یورپ کے وارسا گروپ کے اتحادی ملکوں میں لینن اسٹالن سمیت تاریخ کے اہم ترین کیمو نسٹ لیڈروں کے دیو قامت مجسموں کو عوام نے چند دنوں ہی میں زمیں بوس کر دیا تھا۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اشتراکی فلسفہ اُس کے نظریا ت یا وہ لیڈر جھوٹے تھے جنہوں نے یہ فلسفہ اور نظریات دئیے تھے۔ عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا ،کیوبا اور ویت نام وغیرہ وہ ملک ہیں جنہوں نے کیمونزم سوشلزم کی بنیاد پر ون پارٹی نظام ِ حکو مت کو برقرا رکھتے ہوئے اصلاحات کا عمل شروع کیا اور معاشی ، اقتصادی سیاسی ،اور معاشرتی اصلاحات کو بتدریج اور مرحلہ واراپنے ملکوں کے معاشرتی،سیاسی تقاضوں کے مطابق نافذ کیا اور یوں دنیا میں آزاد مارکیٹ، نجی ملکیت کے رائج نظام سے خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کر لیا۔

چین میں ماوزے تنگ آج بھی چین کا بابائے قوم ہے اور اسی طرح ویتنام میں ہو چی من کو عظیم انقلابی لیڈر تسلیم کیا جا تا ہے اور سائگون کے شہر کا نام ہوچی من سٹی ہے۔ آج بھی ہونائی، ہوچی من سٹی اور ویت نام کے دوسرے شہر وں میں ہو چی من کے بڑے بڑے مجسمے شان و شوکت سے کھڑے دکھا ئی دیتے ہیں اور کروڑوں عوام اُن کا احترام کر تے ہیں۔ ہوچی من 19 مئی 1890 کو شمالی ویتنام میں پیدا ہو ئے اُن کا گھرانہ ا یک پڑھا لکھا اور متوسط گھرانہ تھا لیکن ایام جوانی اور پھر خصوصاً پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے اُن کو بھی روزگار کے مسائل سے دو چار ہو نا پڑا۔ وہ کبھی کلرک ہو ئے کبھی ٹیچر اور کبھی بحری جہازوں میں کام کرتے۔

وہ کام کی غرض سے امریکہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں بھی گئے۔ پھربیسویں صدی کی تیسر ی دہائی کے آغاز ہی سے وہ ایک نمایاں انقلابی گو ریلا لیڈر کی حیثیت سے اُبھر ے۔ وہ شمالی ویت نام کی بنیاد پر 2 ستمبر1945 سے 2 ستمبر1964 تک اوّل صدر رہے۔ 19 فروری1951 میں ہوچی من ویتنام کیمونسٹ پارٹی کے چیرمین ہو ئے اور اس عہدے پر اپنی وفات 2 ستمبر 1969 تک یعنی 79 سال کی عمر تک کام کرتے رہے۔ اُن کی لیڈر شپ کو ماڈرن ہسٹری میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے چالیس سال سے زیادہ جدوجہد کی اور اس دوران اُن کو فرانس، بر طانیہ، امریکہ کے خلاف لڑنا پڑا اور عمر کے آخری حصے میں جب چین اور روس کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تو چین بھی ویت نام کے خلا ف ہو نے لگا تھا۔

فرانس کے خلاف ویتنامیوں کی گوریلا جنگ 1945 سے1954 تک جاری رہی۔ پہلی انڈو چائنا جنگBattle of Dien Bien Bien Phu (ڈین بین بین فو کی لڑائی) میں فرانس کے خلاف کامیابی کی وجہ سے چواین لائی کو جنگ بندی کی بہتر پوزیشن کے لیے جنیوا کانفرنس میں مذاکرات کے لیے بھیجا۔ اس معاملے کو جنیوا معاہدہ 1954 کے تحت یوں حل کرنے کی کو شش کی گئی کہ یہاں شاہی مملکت کمبو ڈیا، لاؤس اور ویتنام تین ملک بنادیئے گئے۔ پھر ویتنام کو مزید دو حصوں شمالی ،جنوبی ویتنام میں تقسیم کیا گیا پھر

17th parallel کے تحت الیکشن شیڈول 1956 دیا گیا اور جنوبی حصے میںتیاریاں شروع ہوئیں اور300 دن کے اندر کیمو نسٹوں کے ڈر سے شمالی ویتنام سے دس لاکھ کیتھولک جنوبی ویت نام منتقل ہوئے اس ہجرت میں امریکی فوجیوں نے اِن کی مدد کی۔ آپریشن ’’پسیج ٹو فری ڈم‘‘ کے ذریعے ویت نام کی تقسیم ہو ئی جو پائیدار حل نہیں تھا۔ انڈوچائنا جنوبی ویت نام کی پشت پناہی امریکہ اور فرانس کر رہے تھے اور ان کے ساتھ لاوس ری پبلک آف چائنا اور تھائی لینڈ بھی تھے اور شمالی ویت نام جہاں ہو چی من اقتدار میں تھے اس کو سوویت یو نین، خمر وج جنگجو اور چین کی مدد حاصل تھی۔

شمالی ویت نام میں 1953 سے1956 کے دوران کیمو نسٹ اقتصادی معاشی پالیسوں کے تحت زرعی اور صنعتی اصلاحات کی گئیں اس دوران جنوبی ویتنام کے حامی 450 دانشوروں کو ری ایجوکیشن سنٹر بھیجا گیا جہاں اُن پر تشدد بھی ہوا۔ دوسری جانب جنوبی ویت نام جسے ویت کانگ بھی کہا گیا وہاں 1950 سے کیمونسٹ تحریک شروع ہو ئی ’جس کو شمالی ویت نام اور سویت یونین کی مدد حاصل تھی‘ یہ تحریک 1960 تک مزید تیز ہو گئی۔

1963 میں ڈیمس Diems اور بدھ مت تنازعہ کی وجہ سے یہاں حالات خراب ہو تے چلے گئے اور سیاسی بحران بڑھتا گیا۔ ڈیمس کا مسئلہ یہ تھا کہ اُسے امریکہ فرانس کے علاقے میں کیمونزم کو روکنے کیے لیے لائے تھے مگر وہ خود بدھ مت کے خلاف تھا اور ساتھ ہی ایک کرپٹ حکمران تھا۔ مقامی طور پر لوگ اس کے خلاف ہو گئے اور دوسری جانب یہاں جنوبی ویتنام میں مو جود کیمونسٹوں کو عوامی حمایت حاصل ہو ئی۔ ڈیمس کے عبرتناک انجام کے بعد بھی ویت کانگ یعنی جنوبی ویت نام میں حالات مکمل طور پر قابو میں نہ آسکے۔

امریکہ میں جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد 22 نومبر1963 کو لنڈن بی جا نسن صدر ہو ئے۔ غالباً یہ امریکہ کی تاریخ کے ناکام ترین صدر تھے۔ ایک ایسے صدر جنہوں نے حقائق عوام اور کانگریس دونوں سے چھپائے۔ امریکی صدر نے ویت نام کی جنگ کو اعلیٰ اخلاقیات اور مقاصد کے حصول کی جنگ کے طور پر اپنے اتحادیوں اور خصوصاً امریکی عوام کے سامنے پیش کیا تھا مگر وہ پینٹاگان اور فوج کی جانب سے ویت نام میں کئے جانے اقدمات کو چھپاتے رہے۔

اس دوران U thant یو تھان 3 نومبر1961 سے 31 دسمبر1971 تک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ جنہوں نے کیوبا میزائل بحران میں اہم کردار ادا کیا تھا یہاں باوجود کو شش کے ناکام رہے۔ امریکہ اگر چہ ویت نام کی جنگ میں فرانس کے ساتھ 1955 میں شامل ہوا تھا لیکن حقیقت میں امریکہ نے جنگ میں اپنی پوری فوجی قوت 1963-64 میں جھونک دی اور1965 میں امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی جب کہ یہاں امریکی ایئر فورس اور نیوی نے بھی بھر پور حصہ لیا تھا۔ اس کے مقابلے سویت یونین اور چین نے اپنے 15000 فوجی ماہرین بھیجے اور ساتھ ہی گوریلا جنگ اور جنگ میں اسلحہ کی جتنی ضرورت شمالی ویتنام کو اور جنوبی ویتنام میں لڑنے والے کیمونسٹوں کو تھی اُسے پورا کرتے رہے۔

ویتنام میں جنگ کا جواز 1963 گلف آف ٹاکن کے قریب امریکی نیوی کے بحری جہازوں پر ویتنام کی کشتیوں کی جانب سے فائرنگ کو بنا یا گیا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ الزام بھی درست نہیں تھا اور یہ جنگ کے لیے ایک بہانہ بنا یا گیا ویتنام کی جنگ امریکہ کی تاریخ میںایک ایسا اہم واقعہ ہے جس میں امریکہ کو نہ صرف شکست کا سامنا کر نا پڑا بلکہ اُس وقت پوری دینا کے سامنے امریکہ اس جنگ کے لیے کوئی اخلاقی جواز پیش کر نے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ اس جنگ میں امریکہ کی سیاسی عسکری اسٹرٹیجی بھی سوویت یو نین کے مقابلے میں ناکام رہی۔

سوویت یونین اور چین نے اس جنگ میں براہ راست اپنی فوجیں میدان ِ جنگ میں نہیں اتاریں صرف پندرہ ہزار عسکری ماہر ین شمالی ویتنام کو فراہم کئے، البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ کے خلاف ویتنامیوں کی اس گوریلا جنگ میں جس قسم کے اور جس قدر اسلحے کی ضرورت تھی وہ فراہم کیا گیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ نے اپنی پانچ لاکھ فوج،نیوی اور فضائی قوت کا بھر پور استعمال کیا۔ اگرچہ امریکہ اس جنگ میں 1959 میں شریک ہو ا تھا لیکن 1963-64 سے یہ امریکہ کی جانب سے بڑی جنگ بن گئی۔ اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ ،نیوزی لینڈ،اور جنوبی کو ریا تھے۔

اس جنگ کا باضابط اختتام تو 30 اپریل 1975 کو جنوبی ویتنام کے شہر سائگان پر قبضے کے بعد ہوا اور اس شہر کا نام ہوچی من سٹی رکھ دیا گیا ملک کا نام اشتراکی جمہوریہ ویتنام ہو گا لیکن امریکہ کے لیے واپسی کا راستہ 27 جنوری 1973 میں پیرس امن معاہدے Paris Peace Accords سے ہموار ہوا۔ 29 مارچ 1973 سے امریکی فوجوں کی واپسی ویتنام سے شروع ہو گئی تھی۔ اس جنگ میں38 لاکھ ویتنامی اور 58159 امریکی فوجی ہلاک جبکہ بڑی تعداد میںزخمی اور معذور ہو ئے۔

جنگ پر امریکہ کے 168 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ جب زرِ ازالہ کی مد میں سالانہ22 بلین ڈالر جاری ہوئے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ ناکامی صدر جانسن کے حصے میں آئی۔صدر کینیڈی کی اچانک موت کے بعد وہ صدر ہو گئے تھے اور جو سیاسی بصیرت صدر آئزن ہاور اور خصوصاً صدر کینیڈی کی تھی وہ سیاسی بصرت عالمی سیاست کے لحاظ سے صدر جانسن کو نصیب نہیں ہوئی۔

اس دوران دنیا کے غریب پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ، کیمو نسٹ پروپگنڈہ پر مبنی ادب میں بڑی رومانویت اور تاثیر تھی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا جو چار ٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن تھا اس پر خود امریکہ ہی میں پوری طرح عملد آمد نہیں ہو رہا تھا۔جمہوریت کی جو صورت اب ارتقائی عمل سے گذر کر امریکہ میں نکھر کر سامنے آئی ہے اُس وقت ایسی نہیں تھی۔ مثلاً اس دور میں امریکہ کی خانہ جنگی کو سوسال گذر چکے تھے جب اس خانہ جنگی یا انقلاب کے نتیجے میں امریکہ میں غلا م داری کا نظام ختم ہو گیا تھا۔ سیاہ فا م آزاد ہو گئے تھے مگر ساٹھ کی دہا ئی تک سیاہ فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری تھا اُن کو سفید فاموں کے مقابلے میں برابر کے حقوق حاصل نہیں تھے۔

سیاہ فاموں کی تنخواہیں سفید فاموں کے مقابلے میں کم تھیں۔ اُن کو ملا زمتیں بھی نہیں ملتیں تھیں اور پھر سیاہ فاموں کی جد و جہد کے نتیجے میں Civil Rights Act1964 سول رائٹس ایکٹ آیا اور ایک سال بعد ووٹنگ رائٹس ایکٹ1965 آیا مگر اس پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز کی صورتحال کا ندازہ اس سے لگائیں کہ عالمی شہرت کے حامل باکسر محمد علی کلے جو اُس وقت کاسیس مارسیلس کلے تھے جب 22 سال کی عمر میں روم اولمپک 1960 میں ہیوی ویٹ باکسنگ میں امریکہ کے لیے طلائی تمغہ جیت کر لائے تو واپسی پر اُن کو سیاہ فام ہو نے کی وجہ سے ایک ریستورانٹ میں نو کر ی نہیں ملی۔

اس پر وہ اتنے دلبراشتہ ہو ئے کہ روم اولمپک میں جیتنے والے سونے کے تمغے کو انہوں نے دریائے اُہائیو میں پھینک دیا تھا۔ 1964 میں کلے نے وقت کے ورلڈ ہیو ی ویٹ باکسنگ چمپئین سونی لسٹن کو کھلا چیلنج دے کر چھٹے راونڈ میں شکست دی اور اس کے بعد وہ کاسیس مارسیلس کلے سے محمد علی ہو گئے۔ اُن کو ویٹ نام جنگ کے دوران امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کر نے سے انکار پر سزا دی گئی اور اُن سے اُن کا اعزاز لے کر ہیوی ویٹ باکسنگ چمپیئن سے محروم کر دیا گیا۔

اِس پاداش میں انہوں نے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی بعد میں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مد نظر رکھتے ہو ئے اُن کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا۔ ساٹھ ہی کی دہائی ہی میں امریکہ میں سیاہ فام شخصیت مارٹن لوتھر کنگ جو نیئر نمایاں ہوئے جو ایک نو جوان پادری تھے۔

4 اپریل1968 کو انہیں قتل کر دیا گیا۔ کم از کم دو مسیحی گرجاؤں نے اُسے شہید کا درجہ دیا۔ 1964 میں انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف شہری نافرمانی کی پُر امن عدم تشددپر مبنی تحریک چلائی اور احتجاج کے ایسے پُر امنانداز اختیار کیے کہ دنیا حیران رہ گئی اس پر 1964 ہی میں اُن کو نوبل امن انعا م دیا گیا اور وہ اُس وقت سب سے کم عمر نوبل انعام یا فتہ تھے۔ 1968 میں اپنے قتل سے پہلے اُنہوں نے غربت کے خاتمے کی حمایت ا ور ویتنام کی جنگ کی مخالفت کی اور ان بنیادوں پر زبردست جد وجہد شروع کی اور اپنے موقف پر ان دنوں پر دلائل مذہبی نقطِ نگاہ سے پیش کیے۔

1986 کویوم مارٹن لو تھر کنگ کو امریکہ میں قومی تعطیل قرار دیا گیا2004 میں اُن کو کانگریسی طلائی تمغہ دیا گیا۔ ساٹھ کی دہا ئی امریکی تاریخ کی ایک اہم دہائی تھی اس میں جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد مارٹن لو تھر کنگ کا قتل دوسرا بڑا قومی سانحہ تھا۔ پھر ویتنام کی جنگ تھی جس میں امریکی حکومت اور فوج کی وجہ سے قومی اور عالمی سطحوں پر امریکہ کو رسوائی کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا۔

امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کے قتل سے 19 دن پہلے 16 مارچ1968 کو My Lai Massacre مائی لای قتل عام کا واقعہ پیش آیا جو تقریباً مارٹن لو تھر کنگ کے قتل کے کچھ دن بعد پوری دنیا میں امریکہ کی رسوائی کا سبب بنا اور اخلاقی اعتبار سے امریکہ کی ساکھ کو دنیا بھر میں نقصان پہنچا مائی لای کا سانئحہ یوںتھا کہ جنوبی ویتنام کےSon Tinh سن ٹین ڈسٹرکٹ میں 16 مارچ1968 کوامریکی فوجیوں نے ایک گاوں میں504 غیر مسلح افراد کاقتل ِ عام کیا۔

امریکی فوجیوں نے اِن نہتے انسانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ بارہ سال تک کی کئی بچیوں کو گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔ ماؤں کی گود میں بچوں تک کو بیدر دی سے ہلاک کردیا گیا اور پھر اِن قتل شدہ بچوں، خواتین اور دیگر افراد کی لاشوں کی تصاویر بھی پوری دنیا کے سامنے آگئیں۔ بعد میں26 فوجیوں پر مقدمہ چلا یا گیا اور صرف لفٹینٹ ولیم کالری William Calllery جو پلاٹون لیڈر تھا اُسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اُسے بھی ساڑھے تین سال اس کے گھر میں نظر بند رکھنے کے بعد رہائی مل گئی۔

یہ وہ واقعات تھے کہ جن کے منظر عام پر آجانے کے بعد امریکہ ہی میں ویتنام کی اس جنگ کی مخالفت میں روزبروز شدت آتی گئی اس میں جہاں امریکی صدر جانسن کی سیاسی غلطیاں اور امریکی فوجی کمانڈ پینٹا گان کی عسکری غلطیاں تھیں وہیں سب سے اہم دو بنیادی باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ ویت نام کی پوری جنگ میں سوویت یونین کی حکمت عملی امریکہ کے مقابلے میں روزِ اوّل ہی سے بہتر رہی کہ سویت یونین نے بڑی تعداد میں یہاں فوجیوں کو نہیں بھیجا۔ ویتنام کا علاقہ بھی گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں تھا اور یہاں دشمن کے خلاف گوریلا جنگ کی روایت بھی پرانی تھی۔

پھر سوویت یونین کا پر وپگنڈہ یہاں امریکہ کے مقابلے میں بہت پُر اثر تھا اور ساتھ ہی اشتراکی نظریات کی یہاں تعلیم بھی بہت سازگار ماحول اور اچھے انداز میں دی گئی اور سب سے اہم یہ کہ یہاں کمیونسٹ لیڈر شب کو اپنے بہتر کردار کی وجہ سے عوامی اعتماد حاصل تھا جس میں ہو چی من کی شخصیت مثالی تھی جب کہ اس کے مقابلے امریکہ جنوبی ویت نام میں جن کو اقتدار میں لاتا تھا وہ کردار کے اعتبار سے بھی کرپٹ ہو تے تھے اور اُن کو عوامی حمایت بھی حاصل نہیں ہو تی تھی دوسری اہم بات جو اُس وقت امریکہ کے حق میں نہیں رہی مگر بعد میں پائیدار بنیادوں پر امریکہ کے مستحکم مستقبل کی ضمانت بنی وہ امریکہ کی جمہوریت پسندی اور اپنے عوام کو دیا گیا آزادی خیال اور رائے کا حق تھا اور اِن سب سے بھی اہم آزاد اور خود مختار عدلیہ رہی۔

امریکہ سے جو غلطیاں ساٹھ کی دہائی میں اس ویتنام جنگ میں ہو ئیں وہ آمرانہ انداز میں امریکی حکومتوں سے چھپائی نہ جا سکیں اور اُس کی سزا ووٹ کی بنیاد پر یا عدلیہ کے فیصلوں کے تحت منصب اور اقتدار سے برطرفی بھی تھی اور ساتھ ہی سماجی ارتقا کے لحا ظ سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا فروغ بھی تھا۔ مثلاً 1971 کو امریکہ کے ٹائم رسالے نیپینٹاگان لیکس میں انکشاف کیا کہ امریکہ کی حکومت کی جانب سے جو باتیں عوام کو بتائی گئیں تھیں وہ دروغ گوئی پر مبنی تھیں۔

پھر 1973 میں پیر س معاہدے کے بعد امریکی فوجیوں کی ویتنام سے رخصتی شروع ہوئی 1975 میں ویتنا م متحدہ ہو گیا امریکی صدر جانسن 20 جنوری1969 کو رخصت ہو ئے تو صدر نکسن اقتدار میں آئے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں 2 اگست 1974 تک ہند چینی کے اس علاقائی مسئلے کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر اپنا تے ہو ئے امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رخ دیا اور اس میں پاکستان نے اہم کردار اد ا کیا۔

جولائی 1971 میں جب صدر جنرل یحیٰ خان تھے پاکستان سے امریکہ چین تعلقات کی بحالی کے لیے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پی آی اے کی پرواز سے خفیہ دور ہ کیا اور یہی وہ دور تھا جب چین سوویت یونین تنازعات بڑھ گئے تھے اور و یتنام جس کی چین نے جنگ میں بھی کی مدد کی تھی اب اُس کا جھکاؤ اور مکمل انحصار سوویت یونین پر ہونے لگا تھا اور ویتنام اور چین میں دوریاں پیدا ہونے لگیں تھیں۔ دوسری جانب اس کا خمیازہ مفت میں پاکستان کو سوویت یونین اور بھارت کی دشمنی کی وجہ سے دسمبر1971 کی جنگ میں بھگتنا پڑا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب امریکہ نے سرد جنگ کے تناظر میں پینترا بدلا تو اس کا فائدہ امریکہ کو ہوا۔

بدقسمتی سے صدر نکسن بعد میں واٹر گیٹ اسکینڈل میں بری طرح پھنس گئے اور اُن کو انپی صدارت سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر جان ایف کینیڈی نے امریکہ کی ساکھ کو کیوبن میزائل بحران میں نہ صرف بحال کیا تھا بلکہ اُس وقت امریکی عوام کا حوصلہ بھی بلند کیا تھا۔ اِن کے بعد جانسن نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کی ساکھ کو اخلاقی اور جذباتی دونوں انداز سے نقصان پہنچا یا۔ 1979 تک یہاں ہند چینی کے علاقے میں ویت نام اور چین ایک دوسرے سے دور ہوگئے اور سوویت یونین ویتنا م نزدیک تر ہو ہوگئے اور یہی زمانہ تھا جب سرد جنگ اختتام کے نزدیک پہنچ رہی تھی اور پھر 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا لیکن سوویت یونین کے زوال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اُس وقت ویتنام کی قیاد ت کرچکی تھی۔

دسمبر 1986 میں ویت نام کی نیشنل کیمو نسٹ پارٹی کی چھٹی کا نگریس میں ملک میں سیاسی اصلاحات ہوئیںاور پرانی کیمو نسٹ قیادت کی جگہ نئی لیڈرشپ آئی Ngu yen Van Linh نگو ین واںلینہ نے یہ اصلاحات متعارف کرائیں جو پارٹی کے نئے جنرل سیکرٹری تھے اِن اصلاحا ت کی وجہ سے فری مارکیٹ اکنامی کی بنیادوں پر ایک تسلسل کے ساتھ معاشی تبدیلیاں رونما ہو نے لگیں۔ یہ اصلاحات بعد میں Doi Moi ڈوئی موئی کہلائی کیونکہ یہ ڈوئی موئی حکومت تھی اس کو ڈوئی موئی انقلاب بھی کہا جا تا ہے اِن اصلاحات کی وجہ سے نجی ملیکت کی بھی اجاز ت ہو گئی اور پھر بیرونی سرمایہ کاری بھی بہت زیادہ ہو ئی۔           (جاری ہے)

The post جنگ ویتنام، بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کی بے بسی نمایاں ہوگئی appeared first on ایکسپریس اردو.


روحانی دوست

$
0
0

(صائم المصطفیٰ صائم المعروف”روحانی دوست” علم نجوم، علم اعداد اور دست شناسی کے ماہر ہیں۔ وہ اس صفحے ذریعے قارئین کے سوالوں کا جواب دیں گے، ساتھ ہی ستاروں، اعداد اور ہاتھ کی لکیروں سے متعلق ان کی تحریریں بھی اس صفحہ کا حصہ بنتی رہیں گی۔ اس کے علاوہ علم الاعداد اور علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا اور زندگی کے مسائل کے حل کے لیے وظائف قرآنی آیات اور صدقات بتائے جائیں گے امید ہے آپ یہ سلسلہ آپ کو پسند آئے گا)

کائنات کے خالق نے کائنات کی ہر شے (جان داریا بے جان) کو ایک مخصوص نمبر کے تحت رکھا ہے۔ نمبر1تا9 ہیں، جدید علم الاعداد میں 0 کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ ہر نمبر کو ایک سیارے سے منسوب کیا گیا، 1 شمس، 2 قمر،3 مشتری،4 یورنیس،5 عطارد، 6 زہرہ،7 نیپچون،8 زحل،9 مریخ اور 0 کو پلوٹو کا نمبر مانا گیا ہے

ہر شے یا شخص کے دو نمبر ہوتے ہیں، ایک وہ جس تاریخ کو وجود میں آیا، اس تاریخ کا نمبر انتہائی اہم ہوتا ہے اس کے اثرات ایسے ہی ہیں جیسے کسی شخص کی فطرت جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اور ہمیشہ انسان کو اپنے مخصوص دائرے میں رکھتی ہے۔ دوسرا نمبر اس کے نام کا ہوتا ہے، نام کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے کسی کا لباس یا کسی شخص کی عادت کو تھوڑے سے غوروفکر اور مشقت کے بعد تبدیل ہوسکتی ہے، ہر نمبر اپنے خاص اور منفرد اثرات رکھتا ہے ہر نمبر کسی نہ کسی نمبر کا بہترین دوست اور کسی نہ کسی کا دشمن ہوتا ہے اور کسی کے ساتھ مساوی، اور کسی کے ساتھ لاتعلق!

جس شخص یا شے کا پیدائشی نمبر نام کے نمبر سے 100 فیصد ہم آہنگی رکھتا ہے وہ شخص زمانے میں بہت سی کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے، اورجس شخص کے پیدائشی اور نام کے نمبرز ہم آہنگ نہ ہوں تو اسے زمانے سے مخالفت کا سامنا تو رہتا ہی ہے ایسا شخص اندرونی طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار رہتا ہے۔

نمبر معلوم کرنے کے دو طریقے ہیں ایک وہ تاریخ جس دن کوئی شخص یا شے وجود پاتی ہے دوم اس شخص یا شے کا نام!

…………

تاریخ پیدائش سے معلوم کرنے کا طریقہ: مثلاً کوئی شخص 25?11-1995 کو پیدا ہوتا ہے تو اس کا نمبر معلوم کرنے کے لیے تاریخ پیدائش کے تمام اعداد کو مفرد کریں گے حتی کہ 1 تا9 میں سے کوئی نمبر رہ جائے 5+9+9+1+1+1+5+2=32

2+3=5 اس شخص کا نمبر 5 نکلا، اس نمبر کو ایکٹو یا لائف پاتھ نمبر کہا جاتا ہے۔

دوسرا طریقہ میں تین نام لیے جاتے ہیں سائل، سائل کا والد اور سائل کی والدہ کا نام ان اسماء کے قمری اعداد نکال کے اسی طرح مفرد کرکے نمبر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مثلاً :نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے

1 کے حروف (ا،ی،ق،غ)— 2 کے حروف(ب،ک،ر)— 3 کے حروف (ج،ل،ش)

4 کے حروف (د،م،ت)— 5 کے حروف (ہ،ن،ث)—-6 کے حروف (و،س،خ)—7 کے حروف(ز،ع،ذ)—-8 کے حروف (ح،ف،ض)—9 کے حروف (ط،ص،ظ)

احسن کے نمبرز (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں۔

(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ملا

ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے

اب ان تینوں نمبرز کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا، (2+9+1=12=1+2=3)

احسن کا نمبر 3 نکلا!

ہر سال، ہر ماہ اور ہر دن کا اپنا اپنا ایک مخصوص نمبر ہوتا ہے

مثلا سال 2020 کا نمبر4 ہے۔

4 کا نمبر یورنس کا ہے، جو کہ بڑی تبدیلیوں، انقلابات اور عالمی سطح پر بڑے واقعات کا نمبر ہے۔

2 حادثات اور نقصانات اور 0 پلوٹو خفیہ سازشوں اور موت کا نمبر ہے

ایسے ہی ہر ماہ کا نمبر بھی اہم ہوتا ہے، مئی کا نمبر 5 (5 کو اہم رازوں کے افشا ہونے کا نمبر مانا جاتاہے، اہم خبریں اور مواصلاتی نظام)

ایسے ہی تاریخ کا بھی نمبر ہوتا ہے جیسے 4 مئی کا نمبر 4

اگر یہ دیکھنا ہو کہ 4 مئی کو کون سا نمبر حاکم ہوگا تو 4، 5 اور4 کو مفرد کرلیں گے تو ہمیں اس تاریخ کا نمبر مل جائے گا، اس تاریخ کا نمبر 13 یعنی 4 نکلے گا۔

اگر ہمیں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس ہو تو اس دن کا مخصوص نمبر بھی جمع کرلیں گے۔ سوموار کا اپنا نمبر 2 ہے تو ہمیں اس دن کا حاکم نمبر 6 ملے گا۔

لائف پاتھ نمبر، آپ کی تاریخ پیدائش کے نمبر سال، ماہ و دن کے مخصوص نمبرز کے ساتھ یکجا ہوکے مخصوص اثرات دکھاتے ہیں، یہ تمام نمبر دراصل وال کلاک کی سوئیوں کی طرح ہیں جو ہمیں صبح یا شام کی خبر دیتے ہیں۔

لائف پاتھ نمبردن، ماہ وسال کے نمبر سے یکجا ہونے کے بعد:

1 بنے تو زندگی کا نیا باب کھل سکتا ہے۔

2 بنے تو مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

3 بنے تو روحانیت اور بڑے پراجیکٹ کا موقع مل سکتا ہے۔

4 بنے تو زندگی کسی حادثے کے بعد تبدیل ہوسکتی ہے۔

5 بنے تو سفر ہوسکتا ہے کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا اہم معاہدے ہوسکتے ہیں۔

6 بنے تو خوشیاں مل سکتی ہیں، زندگی میں راحتیں آسکتی ہیں۔

7 بنے تو فنونِ لطیفہ یا مراقبہ یا تنہائی کی طرف رجحان ہوسکتا ہے۔

8 بنے تو بڑے حادثے یا اہم واقعہ ہوسکتا ہے جس کے اثرات تاعمر رہ سکتے ہیں ۔

9 بنے تو توانائی اور ولولہ عملی زندگی میں کام یابیاں دلا سکتا ہے۔

اس سال کا نمبر 2020 یعنی 4 ہے، ماہ کا عدد بھی 4 ہے۔

4 بڑی تبدیلی، بڑے انقلاب اور اپ ڈاؤن کی خبر دیتا ہے۔

آپ کا یہ ہفتہ علم الاعداد کی روشنی میں

سوموار11مئی 2020

حاکم نمبر4

ذکر ” یابدیع یا یا سمیع یا نصیر” 4 بار یا اپنے نمبر کے برابربعدازنمازِ فجر پڑھیں۔

صدقہ” 13 یا 100 روپے یا سفید اشیاء دودھ، دہی، آٹا یا چینی کسی بھی مستحق کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

1 نمبر والوں کے لیے آج سفر یا رابطوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، نئے مشورے اور نئی پلاننگ سامنے آسکتی ہیں۔

2نمبر والوں کے لیے آج خوشی اور سکون دینے والا دن ہے، زندگی میں خوب صورتی یا سکھ دینے والی کوئی شے ملتی نظر آتی ہے۔

3 نمبر والوں کے لیے آج عملی لحاظ سے کچھ مناسب حالات کا سامنا نہیں ہوگا، بہتر ہے مراقبہ یا آرام کریں۔

4نمبر والوں کے لیے آج گذشتہ کیے گئے فیصلوں اور جن راہوں پر گام زن ہیں میں رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے ، صدقہ اور صبر سے کام لیں۔

5 نمبر والوں کے لیے آج ایک نئی توانائی محسوس ہوگی اور رکے ہوئے کاموں کو مکمل کرنے کا موقع ملے گا۔

6 نمبر والوں کے لیے اپنے بزنس یا جاب میں کچھ نئے آئیڈیا سجھائی دیں گے عمل جامہ پہنانے سے پہلے نظرِثانی ضرور کرلیں۔

7 نمبر والوں کے لیے آمدنی میں اضافے یا رکے ہوئے پیسے مل سکتے ہیں۔

8 نمبر والوں کے لیے مالی اور روحانی لحاظ سے ایک معاون دن، نئی پللاننگ بھی ہوسکتی ہے۔

9 نمبر والوں کے لیے تلخی سے گریز اور ڈرائیونگ محتاط ہوکے کریں، آج کا دن کچھ پریشان کرسکتا ہے۔

منگل 12مئی 2020

حاکم نمبر3

ذکر” یاغفارُیا ستارُ یااللہ” 12 یا اپنے نمبر کے برابربعد از نماز فجر پڑھنا بہتر ہے۔

صدقہ سرخ رنگ کی چیزیں مثلًا ٹماٹر کپڑے یا 90 یا 900 روپے کسی بھی مستحق کو دے دیں۔

1نمبر والوں کے لیے حکومتی ادارے میں رکا ہوا کام ہوسکتا ہے، مزاج میں تندی یا تلخی سے بچنے کی کوشش کریں، کوئی فیصلہ اچانک کرنا پڑسکتا ہے۔

2نمبر والوں کے لیے کوئی اہم کال آسکتی ہے، کسی شخصیت سے ملاقات ہوتی ہے۔

3نمبر والوں کے لئے خوش خبری آسکتی ہے، مالی لحاظ سے اچھا دن ہے۔

4نمبر والوں کے لیے مالی امور انجام دیتے ہوئے ناگوار رویوں اور حالات سے مایوسی اور حوصلہ شکنی کا اندیشہ ہے اپنے آپ کو مضبوط رکھیں۔

5نمبر والوں کے لیے اپنے کاموں کو مستقل مزاجی سے سرانجام دیتے رہیں، آج عارضی رکاوٹ کا سامنا ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

6نمبر والوں کے لیے کسی دوست سے فائدہ ہوگا، اور کوئی الجھا ہوا مسئلہ سلجھ سکے گا۔

7 نمبر والوں کے لیے عزت ملے گی، آپ کے کاموں کو سراہا جائے گا۔

8 نمبر والوں کے لیے مالی امور میں بہتری آئے گی، آمدن کا کوئی نیا راستے کھلے گا۔

9 نمبر والوں کے لیے کسی بزرگ سے مشاورت آپ کے مالی اور روحانی امور میں ایک نئی راہ کھولنے کی خبردے رہی ہے۔

بدھ 13مئی 2020

حاکم نمبر9

ذکر”یابدیع العجائب یا مسبب الاسباب یاقادر یا قدیر” 9 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

صدقہ، زرد رنگ چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم کو دینا بہتر ہوگا۔

1نمبر والوں کے لیے کچھ ملکی سطح پر ایسی خبریں اور حالات سامنے آسکتے ہیں کہ آپ کو اپنے بزنس پلان تبدیل کرنے پڑسکتے ہیں ذہنی طور پر تیا رہیں۔

2نمبر والوں کے لیے کوئی نیا معاہدہ ہوسکتا ہے، کوئی نیا کام مل سکتا ہے ایک اچھا دن ہے۔

3نمبر والوں کے لیے خاندانی مسئلہ ذہنی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے، معاملے کو پیار سے سلجھا لیں۔

4نمبر والوں کے لیے ایک نیا موڑ لانے والا دن، نئے حالات کا درست اندازہ کرنے کے لیے پرسکون ہوکے فیصلہ کریں۔

5نمبر والوں کے لیے مکمل طور پر ساتھ دینے والا دن، کوئی نیا معاہدہ ہوسکتا ہے۔

6نمبر والوں کے لیے بزنس میں فائدہ، رشتوں میں خوشیاں اور آپ کی شخصیت میں نکھار آئے گا۔

7 نمبر والوں کے لیے مراقبہ، غوروفکر اور خود احتسابی کے لیے ایک بہتر دن۔

8 نمبر والوں کے لیے ایک مشکل دن ہوسکتا ہے۔ کام رک سکتے ہیں، آج کا دن صبر وتحمل سے گزاریں۔

9نمبر والوں کے لیے نئی آفر مل سکتی ہے، قبول کرنا فائدہ دے گا۔

جمعرات 14مئی 2020

حاکم نمبر8

ذکر” سورۂ فاتحہ تین بار”

صدقہ”30 یا 300 روپے کسی مؤذن یا امام مسجد کی خدمت کریں۔

1نمبر والوں کے لیے کچھ رکاوٹ ہوگی لیکن آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

2نمبر والوں کے لیے کچھ الجھنیں اور نظرثانی نیا راستہ یا نیا مور لاسکتی ہیں۔

3نمبر والوں کے لیے کسی نیک شخص سے بزنس کا معاملہ طے پاسکتا اور مالی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے۔

4نمبر والوں کے لیے مسلسل رکاوٹ عارضی طور پر حوصلہ کم زور کرسکتی ہے، آْپ کو آرام اور سکون کی ضرورت محسوس ہوگی۔

5نمبر والوں کے لیے آپ کو میدان میں مستقل مزاجی سے کام کرنا ہوگا، ہمت بالکل نہ ہاریں، فتح آپ کی ہوگی بس ڈٹے رہیں۔

6نمبر والوں کے لیے ضرورت اور خواہش میں فرق کو سمجھیں اور اپنی جان کو عذابوں میں مت ڈالیں۔

7نمبر والوں کے لیے مالی طور پر کچھ ریلیکس ہوجائیں گے روحانی سکون ملے گا۔

8نمبر مزاج میں ٹھہراؤ آئے گا، ایسے میں مایوسی کی کوئی لہر بھی چھو سکتی ہے، صدقہ ضرور دیں۔

9 نمبر والوں کے لیے پراپرٹی کے کام میں فائدہ ہوسکتا ہے یا زمین سے جڑے ہوئے کاموں میں فائدہ ہوگا۔

جمعہ15مئی 2020

حاکم نمبر3

ذکر” یاحی یا قیوم ” 12 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا بہتر ہے

صدقہ ”60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد۔

1نمبر والوں کے لیے حالات میں کچھ اچانک نئی صورت حال سامنے آسکتی ہے، آپ کے لیے مثبت نظر آتی ہے۔

2نمبروالوں کے لیے بھاگ دوڑ اور نئے رابطے بڑھیں گے، آمدن میں اضافے کا راستے کھلیں گے۔

3نمبر والوں کے لیے یہ دن مکمل طور پر روحانیت اور مراقبہ کا ہے، بہتر ہے دنیاوی امور میں وقت ضائع نہ کریں، فیملی کے ساتھ ہوکے فیملی سے کٹے رہیں گے۔

4نمبر والوں کے لیے ایک لکی دن، کوئی خوشی کی خبر مل سکتی ہے۔

5نمبر والوں کے لیے جس رفتار سے آپ جارہے ہیں، حالات میں اتنی تیزی نہیں ہے، کچھ اسپیڈ بریکر نظر آتے ہیں، آج کا دن رفتار ذرا دھیمی رکھیں۔

6نمبر والوں کے لیے زندگی کی راحتوں میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے، کاموں کا نتیجہ آپ کے حق میں نظر آتا ہے۔

7 نمبر والوں کے لیے آج عزت اور حوصلہ افزائی کا دن ہے، آپ کے کردار کو سراہا جائے گا۔

8 نمبر والوں کے لیے دو دوست یا دو لوگ آپ کے لیے مالی فائدے کا سبب بنیں گے، اور وہ صنفِ مخالف سے بھی ہوسکتے ہیں۔

9 نمبر والوں کے لیے فیملی، مذہب اور مستقبل سے منسلک امور فکرمند کردیں گے اور نئی پلاننگ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہفتہ 16مئی 2020

حاکم نمبر6

ذکر” یافتاح یا رزاق یابدیع العجائب یا اللہ” 6 یا اپنے نمبر کے لیے برابر پڑھیں۔

صدقہ ” کالے رنگ کی چیزیں یا 80 یا 800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دیں۔

1نمبر والوں کے لیے آج ذہنی اور روحانی سکون کے اسباب پیدا ہوسکتے ہیں۔

2نمبر والوں کے لیے کوئی نقصان ہوسکتا ہے، گاڑی یا سیل میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے، کاموں میں رکاوٹ ہوسکتی ہے، سفر سے میں محتاط رہیں۔

3نمبر والوں کے لیے کسی مخالف صنف سے مالی فائدہ ہوسکتا ہے، گھر کی تزئین وآرائش کا موقع ملے گا۔

4نمبر والوں کے لیے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوسکتی ہے، جس کی اصل وجہ معدہ کی خرابی ہے، کچھ الجھاؤ رہ سکتا ہے

5نمبر والوں کے لیے کاموں میں مشقت کا سامنا تو ہوگا لیکن کام یابی ملے گی اور مالی فائدہ ملتا نظر آتا ہے۔

6نمبر والوں کے لیے گھر اور فیملی کے سکھ کے لیے کوئی چیز خریدتے نظر آتے ہیں، اور یہ راحت مستقل ساتھ چلنے والی ہوگی

7 نمبر والوں کے لیے ممکن ہے۔ صورت حال ویسی نہ ہو جیسی آپ نے اپنے خیالات میں بنا رکھی ہے، مختلف حالات ہوسکتے ہیں۔

8 نمبر والوں کے لیے شریکِ حیات یا شریکِ بزنس یا کسی دوست سے تلخی ہوسکتی ہے، اور راہیں جدا جدا بھی ہوسکتی ہیں۔ اچھے دوست کو روکنا اور خراب شخص کو جانے دینا دانائی ہوتی ہے۔

9 نمبر والوں کے لیے مشکل کو آسان آپ ہی بنا سکتے ہیں، آپ کی محنت تقاضا کرتی ہے کہ دھوپ میں سایہ آپ کا حق ہے۔

اتوار 17 مئی 2020

حاکم نمبر 9

ذکر”یا عزیزُ یاوھابُ یااللہ ” 9 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

صدقہ ”گندم یا 13 یا 100 روپے کسی بھی مستحق کو صدقہ دیں۔

1نمبر والوں کے لیے کسی محفل میں کسی اہم عہدے پر سوار شخص سے ملاقات کا امکان ہے جو آپ کے کافی کام آسکتا ہے۔

2 نمبر والوں کے لیے آج دو لوگ آپ کے لیے اہم رہیں، اور دو اہم کام بھی پائی تکمیل تک پہنچتے نظر آتے ہیں۔

3نمبر والوں کے لئے حقیقی بہتری کے اسباب پیدا ہوںگے، اچھے لوگوں کا ساتھ ملے گا۔

4 نمبر والوں کے لیے آپ کے معاشرتی وقار بلند ہوگا، اور اچانک آپ کو اہم پوزیشن اور ذمہ داری مل سکتی ہے۔

5نمبر والوں کے لیے کوئی کال آسکتی یا کوئی شخص مالی حوالے سے ایک نیا معاہدہ یا پلان تجویز کرے گا۔

6 نمبر والوں کے لیے کچھ معاملات روٹین سے ہٹ کے ہوسکتے ہیں، ایک سرکاری عہدے کے شخص کو آپ میں کام پڑسکتا ہے جو آپکی آمدن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

7 نمبر والوں کے لیے ایک پوسکون دن ، مالی فکرمندی دور ہوگی

8 نمبر والوں کے لئے کچھ حکومتی یا کسی کسی ادارے کا سربراہ آپ کے کاموں میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرسکتا ہے ۔

9 نمبر والوں کے لیے اپنے مزاج میں تندی اور تلخی سے بچیں، بلڈ پریشر ہائی ہوسکتا ہے، صدقہ دیں اور کول رہیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

تھامس جیفرسن کے نظریات پر مطالعۂ قرآن کے واضح اثرات

$
0
0

 ریاست ہائے متحدہ امریکا کے یکے از بانیان اور امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن یوں تو امریکی تاریخ میں کئی جہت سے اہم حیثیت کے حامل ہیں لیکن دو موضوعات ان کے متعلق ایسے ہیں جن پر عیسائی دنیا مخمصے کا شکار اب سے نہیں بلکہ دو ڈھائی سو سال سے ہے کہ ان واقعات کو کیا معنی دیے جائیں۔ ایک ہے تھامس جیفرسن کی بائبل اور دوسرا موضوع ہے تھامس جیفرسن کا قرآن۔

قارئین کا چونک جانا قرین قیاس ہے۔ جیفرسن کی زندگی کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس کی حیات مستعار کے یہ گوشے جان کر چونک جاتا ہے اور ہر دو واقعات کے موقع پر آگے کے لیے ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں اس کی دل چسپی بڑھ جاتی ہے۔جیفرسن کی بائبل کا احوال ہم گذشتہ مضمون میں لکھ چکے اب ان کے قرآنی نسخہ پر کچھ بات کرتے ہیں، کیوںکہ یہ سوال جسے جیفرسن کے سوانح نگار ’’ایک مشکل سوال ‘‘ قرار دے کر اس کے درست جواب سے پہلو تہی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا تھامس جیفرسن پر مطالعہ ٔ قرآن نے کوئی اثر ڈالا تھا؟

راقم کے خیال میں اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے جیفرسن کی تیار کردہ بائبل اور اس سے متعلق خود جیفرسن کے تبصروں کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے، جس کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جیفرسن کی سوچ پر قرآن پاک کہاں کہاں اثرانداز ہوا۔

تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس واقعے کی بدولت کسی مورخ یا محقق کے لیے اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ اسلام امریکا میں اس ریاست کے بالکل ابتدائی دور سے موجود ہے۔ ایک امریکی قلم کار لکھتا ہے کہ امریکی جمہوریہ کے ابتدائی ایام میں یہاں اسلام کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا میں مذہبی تنوع کی تاریخ اس سے زیادہ گہری اور پیچیدہ ہے جتنی لوگ (خصوصاً امریکی عوام ) جانتے ہیں۔اس موضوع پر مطالعہ کرنے والوں کو یہ چیز خصوصیت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ بعض ایسے مقامات جہاں جیفرسن کے قرآنی نسخے کا ذکر ہے وہاں خصوصیت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نسخہ ’’امریکا کے اعلان آزادی لکھنے سے گیارہ سال پہلے‘‘ جیفرسن نے خریدا تھا۔ زیرنظر تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ جیفرسن کی سوچ پر مطالعہ قرآن کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور ان اثرات کی موجودگی کس کس رنگ میں ظاہر ہوئی۔

تاریخی طور پر ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام نارتھ امریکا میں کئی سو سال سے موجود ہے۔ اٹھارھویں صدی عیسوی میں قرآن کا انگریزی ترجمہ برطانیہ کے پروٹیسٹنٹ اور اس کی امریکی کالونیوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گیا تھا۔ اس کا مطالعہ کرنے والوں میں سے ایک تھامس جیفر سن تھے۔جیفرسن کے ذاتی قرآنی نسخے نے2019ء کے اوائل میں توجہ حاصل کی جب کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون راشدہ طلیب نے اعلان کیا کہ وہ تقریب حلف برداری میں اپنا حلف اس نسخہ پر دیں گی۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ کانگریس کے کسی ممبر نے صدیوں پرانے نسخہ قرآنی پر حلف دینے کی بات کی، کیتھ الیسن وہ پہلے کانگریس رکن تھے جنہوں نے2007ء میں ایسا کیا۔ اس نسخہ قرآنی کا استعمال امریکہ میں اسلام کی طویل اور اہم تاریخ کے خاکے کو اجاگر کرتا ہے۔

راشدہ طلیب کہتی ہیں کہ ایسا کرنا میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیوںکہ بہت سے امریکی اس قسم کا احساس رکھتے ہیں کہ جیسے اسلام امریکا میں کچھ عرصہ پہلے ہی درآمد ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان امریکا میں بالکل آغاز سے موجود ہیں اور امریکا کے لگ بھگ چار بانی راہ نما کانگریس کے موجودہ ارکان سے زیادہ اسلام کے بارے میں جانتے تھے۔

جیفرسن کے زیر مطالعہ ترجمہ قرآن کانگریس لائبریری میں کیسے پہنچا اس بابت بتایا جاتا ہے کہ 1781ء میں جب امریکا اور برطانیہ کے مابین جنگ ہوئی، تو برطانوی فوجیوں نے لائبریری کی عمارت جلا کر خاک کر دی۔ یوں تین ہزار قیمتی کتابیں بھی راکھ ہوئیں۔ تب جیفرسن نے لائبریری کو اپنے کتب خانے میں سے تقریباً ساڑھے چھے ہزار کتب واجبی قیمت پر فروخت کر دیں، تاکہ وہ نئے سرے سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔ ان کتابوں میں ایک قرآن پاک کا دو جلدوں پر مشتمل انگریزی ترجمہ کا وہ نسخہ بھی تھا جو جیفرسن نے 1765ء میں 22 سال کی عمر میں خریدا تھا۔

آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کی پروفیسر اور کتاب ’’تھامس جیفرسن کا قرآن اسلام اور بانیان ‘‘(Thomas Jefferson’s Quran – Islam and the Founders)کی مصنفہ ڈینیز اے اسپیل برگ لکھتی ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں قرآن کو برطانیہ اور نارتھ امریکا کے پروٹیسٹینٹ فرقے میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے مطالعہ میں بڑے پیمانے پر دل چسپی لی، کیوںکہ لوگ اسے ایک قانون کی کتاب کے طور پر لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ مسلمانوں کو سمجھ سکیں گے جن سے وہ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ میں میل جول رکھے ہوئے تھے۔1765ء میں جب جیفرسن نے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے قرآن کا نسخہ حاصل کیا تو اس کی وجہ عثمانی قانون کے سمجھنے میں اس کی دل چسپی بتائی جاتی ہے۔

تاہم اس مطالعہ نے ان کے عقائد و نظریات پر بھی واضح اثر ڈالا۔ ایک مضمون نگار لکھتا ہے ’’ہوسکتا ہے کہ اس (مطالعہ قرآن ) کا ورجینیا کے مذہبی آزادی کے قانون کے لیے جیفرسن کے ارادے میں دخل بھی ہو جو کہ یہودی اور غیر یہودی، عیسائی اور مسلمانوں (جنہیں جیفرسن نے Mahometanکا نام دیا ہے)، ہندو اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے عبادت کے حق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، جیسا کہ جیفرسن نے اپنی سوانح عمری میں لکھا تھا۔‘‘مورخین کے مطابق جیفرسن نے قانون پڑھنے والے نوجوان طالب علم کے طور پر ’’اسلام کے عالمی نظامِ قانون پر پڑنے والے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ‘‘ قرآن کا نسخہ خریدا تھا۔ یہ گویا کہ ایک اعتراف ہے اس بات کا کہ دنیا کے دیگر قوانین نے اسلامی قانون کے اثرات کو قبول کیا ہے ۔مورخین کے اس قول کو سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغرب کے تعلیمی نصاب میں اسلامی علوم کے دخل اور ان کی اہمیت اور اعلیٰ مقام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ بعض مورخوں کا گمان یہ بھی ہے کہ اس وقت جیفرسن اور یورپ کے بہت سے لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ اسلام افریقہ کے ان علاقوں میں بھی کتنی دور تک پھیل چکا ہے جو عثمانی سلطنت کے زیرنگیں نہیں ہیں۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ نارتھ امریکا کے بہت سے غلاموں کا مذہب وہی ہے جس کا یہ لوگ مطالعہ کر رہے تھے۔

کوئی مسلمان کہیں موجود ہو تو وہ اپنے مخصوص طریقہ عبادت سے ہی گویا اعلان کردیتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، اور جب کسی جگہ ہزارہا مسلمان موجود ہوں خواہ معاشرتی و معاشی لحاظ سے کسی بھی سطح پر ہوں اس مقام اور اس دور کے متعلق کوئی کہے کہ آس پاس والوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارے درمیان مسلمان بھی موجود ہیں بایں طور کہ وہ قرآن کا انہماک کے ساتھ مطالعہ بھی کررہے ہوں قابل فہم نہیں۔  سطور بالا میں ہم اسپیل برگ کا بیان لکھ آئے ہیں کہ نارتھ امریکا کے لوگ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں سے میل جول رکھے ہوئے تھے۔ مزید برآں بعض محققین تخمینہ لگاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جنوبی امریکا لائے گئے غلام مرد و عورتوں میں سے بیس فی صد مسلمان تھے۔

جارج سیل کا ترجمہ قرآن:

جیفرسن کا قرآنی نسخہ جارج سیل نامی برطانوی وکیل کا ترجمہ تھا جو اس نے1734ء میں کیا تھا۔ یہ براہ راست عربی سے کیا گیا پہلا انگریزی کا ترجمہ تھا جو اپنی اشاعت کے 150سال بعد تک انگریزی تراجم میں نمایاں مقام کا حامل رہا۔ اس سے پہلے جو انگریزی ترجمہ دست یاب تھا وہ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں منتقل ہوا تھا اور1649ء میں شائع ہوا۔

ترجمہ کے ساتھ 200 صفحات کے طویل ابتدائی تعارف میں سیل نے اس ترجمہ کا مقصد یہ بتایا کہ اس طرح پروٹیسٹنٹ عیسائی قرآن کو سمجھ کر اس کے خلاف بحث کر سکیں گے۔

اسپیل برگ کہتی ہیں کہ سیل کا یہ ترجمہ نظریاتی طور پر مشنری تبدیلیوں کا ایک ہتھیار تھا۔ ان کے مطابق سچ یہ ہے کہ عربی سے براہ راست پہلا انگریزی ترجمہ کرنے والے جارج سیل کو اینگلیکن مشنری سوسائٹی کی طرف سے اسپانسر کیا گیا تھا۔ جنوری 2019ء میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ ایک مضمون میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ1734۱ء کے اس ترجمہ قرآن کی بنیاد اسلام سے کسی قسم کی محبت نہیں تھی، بلکہ مسلم علاقوں میں عیسائی مشنری کوششوں کے باعث تھی۔قانونی کتاب کی حیثیت سے قرآن پاک کے مطالعہ میں جیفرسن کو جارج سیل کے کیے ہوئے نئے ترجمہ سے کافی مدد ملی ۔ سیل کے اس ترجمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ قرآنی تراجم کی ابتدائی کوششوں کے مقابلے میں تیکنیکی طور پر اعلیٰ تھا بلکہ اس حساسیت و نزاکت کے ساتھ کیا گیا تھا جو خود جیفرسن کے ابھرتے ہوئے رویہ سے مختلف نہیں تھی۔ جیفرسن کا خریدا ہوا ورژن اس وقت کا بیسٹ سیلر تھا۔

تاریخی موضوع پر امریکا کا ڈیجیٹل کیبل اینڈ سیٹلائیٹ ٹی وی ’’ہسٹری(History) ‘‘ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مورخین امریکا کے تیسرے صدر کے مقدس کتاب قرآن کے حصول کو ان کی مختلف مذاہب سے متعلق تجسس سے منسوب کرتے ہیں۔

سعودی آرامکو ورلڈ میگزین کے جولائی /اگست 2011ء کے شمارے میں شائع شدہ Sebastian R. Prange کے مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ جدید کے تبصرہ نگار جیفرسن کے قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے واقعہ کو بربری ممالک (آج کے مراکش، تیونس، الجزائر اور لیبیا) کے ساتھ تنازع سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے 1780 ء کی دہائی کا واقعہ بتاتے ہیں۔ حالاںکہ جیسا کہ ہم اوپر درج کر آئے ہیں کہ جیفرسن کے قرآنی نسخہ کی خریداری کا واقعہ1765ء کا ہے جب جیفرسن نوجوان اور ورجینیا کے کالج آف ولیم اینڈ میری میں قانون کے طالب علم تھے۔ یہ تجزیہ محض مذہبی تعصب کے زیر اثر روا رکھا گیا، جیسا کہ خود مضمون نگار نے اس خیال کو ردّ کیا ہے، نیزمنصف مزاج عیسائی مورخین اس بات پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیفرسن بربری ممالک کے بحری قزاقوں کے معاملے کو مذہبی زاویے سے نہیں ، معاشی پس منظر میں دیکھ رہے تھے۔

جیفرسن کی قرآن پاک میں دل چسپی :

آرامکو ورلڈ میگزین کے مطابق جیفرسن کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں جیفرسن کی دل چسپی کسی نظیر کے بغیر نہیں تھی۔ اس زمانے میں تقابلی قانون پر بہترین کام جرمن دانش ور سیموئیل وان پفن دروف کی ’قانونِ فطرت و اقوام ‘ (The Law of Nature and Nation) کے نام سے کتاب کی صورت میں موجود تھا جس سے جیفرسن نے کافی اثر لیا۔ خود جیفرسن کی قانونی تحاریر میں کسی اور سے زیادہ اس کتاب کا حوالہ دکھائی دیتا ہے۔ وان پفن دروف نے اپنی اس کتاب میں اسلام اور قرآن کے کافی حوالہ جات مہیا کیے ہیں اور مختلف مواقع پر اختلافی رائے زنی بھی کی تاہم بعض مقامات پر قرآن پاک کے قانونی فیصلوں کے حوالوں کو تائیدی انداز میں بھی بیان کیا۔  جیفرسن کی مشہور سوانح کا مصنف، کیون ہائیس Kevin Hayesلکھتا ہے: ’’اپنے وکالتی علم کو ہر ممکن حد تک وسیع کرنے کی خواہش کے دوران جیفرسن نے قرآن کو اپنی توجہ کا مستحق پایا۔‘‘

جیفرسن پر قرآن پاک کے اثرات :

جیسا کہ ہم سابق مضمون میں لکھ آئے ہیں کہ جیفرسن نے بائبل میں سے جو مضامین رد کر کے اپنی نئی بائبل ترتیب دی ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر یہودیت سے متاثر ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان میں سے کئی باتوں کا تعلق یہودیت سے قطعی نہیں بنتا ، تاہم اس قضیہ میں قدرے تفصیل ہے۔ جیفرسن نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو روحانی پیشوا یا کسی قسم کی مافوق الفطرت خدائی طاقت (یعنی معجزات) کا حامل انسان (بالفاظ دیگر نبی و رسول) ماننے میں پس و پیش کیا ہے، اس سے ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ وہ یہودی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں، اور انہوں نے لگے لپٹے الفاظ و دانش ورانہ انداز سے اس کا انکار کیا اور انہیں محض ایک انسان لیکن انتہائی اعلیٰ و قابل تقلید کردار کی حامل شخصیت کے طور پر مانا۔

اب یہاں جیفرسن اسلام اور یہودیت دونوں سے بہ یک وقت متاثر ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چوںکہ آزاد سوچ کے مالک تھے، اس لیے خود اپنے مذہب کی غیرفطری پابندیوں و جکڑ بندیوں سے بیزار تھے، مطالعہ کی کثرت نے انہیں اپنے علم و دانش پر غیرضروری حد تک پُراعتماد بنادیا تھا۔ اس چیز نے جیفرسن کو اپنی عقلی قبولیت کی بنیاد پر نظریات اختیارو ترک کردینے والا بنادیا۔ چناںچہ اپنے مطالعہ قرآن کے دوران جیفرسن نے کئی عقائد کی اصلاح کی وہیں کچھ باتوں میں وہ یہودیت سے متاثر ہوئے۔ مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کا انکار کہ وہ خدا نہیں بلکہ ایک انسان تھے، یہ حقیقت قرآن سے حاصل کی لیکن دیگر نظریات میں قرآن کے بالکل مخالف سمت میں نکل گئے مثلاً یہود کی پیروی میں انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدائش کا انکار کیا، یا عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی پیشوائیت یعنی نبوت و رسالت کا انکار۔ حالاںکہ ان دونوں باتوں پر قرآن پاک میں زور دیا گیا ہے۔

راقم کی رائے میں اگر جیفرسن مکمل طور پر یہودیت سے متاثر ہوتے تو عیسیٰ علیہ السلام کو اعلیٰ کردار کی حامل شخصیت کے طور پر بھی قبول نہ کرتے۔ یہاں جیفرسن کو دنیائے عیسائیت میں کسی قدر قابل قبول حیثیت حاصل ہونے میں قرآن پاک کا مطالعہ بنیادی عنصر ہے جس نے قطعی انداز میں عیسیٰ علیہ السلام کی کسی قسم کی خدائی حیثیت کا انکار کرتے ہوئے ان کی بشریت کے ساتھ ان کی رسالت اور اس اعلیٰ و ارفع فضیلت کا ذکر بھی کیا جس کے جیفرسن معترف تھے۔

جیفرسن نے جن عقائد و واقعات کو ’اپنی‘ بائبل میں شامل نہ کرکے انہیں ’کچرا ‘ قرار دیا ہے ان میں سے بیشتر وہ نظریات ہیں جن کا قرآن پاک میں ردّ آیا ہے جیسے عقیدۂ تثلیث، یا قرآن سے جس کی تائید نہیں ہوتی جیسے قیامت عیسیٰ جسے ایسٹر کے تہوار سے یادگار بنایا گیا ہے۔

پولوس سے متعلق جیفرسن جس موقف کا اظہار کرتے ہیں وہ ہمیشہ سے مسلمان محققین کا موقف رہا ہے۔ یہاں بھی وہ یہودیت و عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام سے متاثر ہوئے ہیں، بلکہ پولوس کا قرآن پاک میں کسی قسم کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جیفرسن نے قرآن کے علاوہ بھی مسلمان محقق علماء کی بعض کتابیں عیسائیت کے حوالے سے پڑھی ہیں تبھی پولوس کے بارے میں ان کی رائے اختیار کی، کیوںکہ یہودی تو پولوس پر اس طرح کا تبصرہ کرنے سے رہے۔ الغرض تھامس جیفرسن کی سوچ پر اور ان کے کام پر قرآن پاک کا مطالعہ اثرانداز ہوا جس کا اثر بالخصوص بائبل کی ترتیبِ نو کی شکل میں ظاہر ہوا۔ قارئین کے لیے یہ واقعہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امریکا کی تاریخ میں وائٹ ہاؤس میں کسی مسلمان مہمان کے اعزاز میں پہلا افطار تھامس جیفرسن نے1805ء میں دیا۔ یہ مہمان ایک تیونسی سفارت کار سلیمان ملیملی تھے۔نیز یہ بھی ایک تاریخی اتفاق ہے کہ 1786ء میں کسی بھی بیرونی طاقت سے امریکا کا پہلا معاہدہ مسلمان ملک مراکش کے ساتھ ہوا۔ اس معاہدے میں جیفرسن نے اہم کردار ادا کیا۔

The post تھامس جیفرسن کے نظریات پر مطالعۂ قرآن کے واضح اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.

جین ڈیچ۔۔۔ اینی میشن کی دنیا کا دمکتا ستارہ ڈوب گیا

$
0
0

کارٹون…یہ اصطلاح مخصوص کردار کی حامل ایسی پینٹنگ یعنی خاکے کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو عمومی طور پر مضحکہ خیز یا طنزیہ ہوتا ہے۔ یہ کارٹون ہمیں کبھی کسی کتاب، اخبار تو کبھی کسی میگزین میں دکھائی دیتے ہیں، لیکن حرکت کرتی دکھائی دینے والی تصاویر بھی کارٹون کی ایک صنف ہے۔ لفظ کارٹون بنیادی طور پر اطالوی لفظ cartone یا ڈچ لفظ karton سے لیا گیا ہے، جن کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ ہے مضبوط، موٹا اور بھاری کاغذ، کیوں کہ پہلے پہل کارٹون ایسے ہی کاغذ یا گتے پر بنائے جاتے تھے، تاہم آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کاغذ کی ضرورت ہی نہیں رہی بلکہ تمام تصاویر کمپیوٹر میں ہی بنا کر انہیں حرکت بھی کروا دی جاتی ہے۔

کارٹون کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی شروعات غار کے دور سے ہوئی، کیوں کہ اس زمانے میں پتھروں پر بنائے جانے والے خاکے ہی انسان کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ تھے، کارٹون نگاری میں جدت کا آغاز 17ویں صدی میں اطالوی آرٹسٹ لیونرڈو دا ونچی اور لورینزہ بینی جیسے لوگوں کے ذریعے ہوا، جنہوں نے باقاعدہ طور پر کارٹون کو اس کی حقیقت سے روشناس کروایا۔ منجمند کارٹون کے بعد حرکت کرتے کارٹونز نے دنیا بھر میں بھرپور مقبولیت حاصل کی۔ مذاحیہ کارٹونز بچوں سے لے کر بڑوں تک سب سے پسندیدگی کی سند حاصل کئے ہوئے ہیں۔ انہیں کارٹونز میں ایک کارٹون سیریز ٹام اینڈ جیری ہے، جسے دنیا کا سب سے مشہور کارٹون ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہ کارٹون ہر قسم کے زبان و بیان، معاشرتی روایات اور سرحدوں سے ماورا تصور کیا جاتاہے، کیوں کہ اس کی مقبولیت مغرب سے مشرق تک ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ شہرت کی چوٹیوں کو چھونے والے اس مذاحیہ شارٹ فلم سیریز کو 7 بار آسکر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

1940ء میں ویلیم ہانا اور جوزف باربرا نے چوہے اور بلی کے کرداروں پر مشتمل مذاحیہ کارٹون سیریز کا آغاز امریکی کمپنی ایم جی ایم کے اسٹوڈیو میں کیا۔ ہاتھوں سے بنائی گئی متحرک تصاویر اور تفصیلی پس منظر کی اس کارٹون سیریز کی صرف ایک قسط کو بنانے کے لئے کئی ہفتے اور 50 ہزار ڈالر صرف ہو جاتے، لہذا ہر سال صرف چند قسطیں ہی تیار کی جا سکتی تھیں۔

ویلیم ہانا اور جوزف باربرا نے 1940ء میں ایم جی ایم اسٹوڈیو میں ٹام اینڈ جیری کو جنم دیا لیکن 1951ء میں ایم جی ایم کا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ بند کر دیا گیا، جس کے بعد ہانا اور باربرا نے پرائیویٹ طور پر اس کو بنانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے چند برس بعد ہی ایم جی ایم پروڈکشن کمپنی نے ٹام اینڈ جیری کارٹون کو اس کے حقیقی تخلیق کاروں کے بنا دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن اب یہاں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ٹام اینڈ جیری کو دنیا بھر میں جو مقبولیت حاصل ہے، اس کو برقرار کیسے رکھا جائے؟ لہذا ہانا اور باربرا کے بعد کسی ایسے ڈائریکٹر کی ضرورت تھی، جو ٹام اینڈ جیری کی مقبولیت میں کمی واقع نہ ہونے دے، اس دوران کمپنی کی نظر آسکر ونر اینیمیٹر جین ڈیچ پر پڑی، لہذا پراگ میں ایک سٹوڈیو کرائے پر لے کر ٹام اینڈ جیری کو دوبارہ زندگی دی گئی۔ 1940ء میں جنم لینے والا ٹام اینڈ جیری آج 80 سال کے ہو چکے ہیں، اس دوران اس کے ڈائریکٹر بھی بدلتے رہے لیکن ٹام اینڈ جیری کے ابتدائی تخلیق کاروں کے بعد ان کو دوسرا جنم جین ڈیچ نے ہی دیا، یوں ٹام اینڈ جیری کے ساتھ اس کے کروڑوں شائقین بھی جین ڈیچ کے ممنوں ہوں گے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی السٹریٹر، اینی میٹر، فلم ہدایت کار اور پروڈیوسر جین ڈیچ 8 اگست 1924ء کو شکاگو (امریکا) میں ایک سیلز مین جوزف ڈیچ اور رتھ ڈیچ کے گھر پیدا ہوئے۔ 1929ء میں یہ خاندان کیلی فورنیا منتقل ہو گیا۔ جین نے 1942ء میں لاس اینجلس ہائی سکول سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کر دیا، ان کی پہلی ملازمت شمالی امریکن ایوی ایشن کے لئے تھی، جہاں وہ ہوائی جہازوں کے خاکے تیار کرتے۔ 1943ء میں پائلٹ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد انہیں نمونیہ ہو گیا، جس وجہ سے انہیں اعزازی طور پر ملٹری کی ذمہ داریوں سے موقوف کر دیا گیا۔ 1940ء سے 1951ء تک ڈیچ مشہور زمانہ میگزین ’’Jazz‘‘ کا سرورق اور اندرونی صفحات ڈیزائن کرتے رہے۔

دنیا کے مایہ ناز اینی میٹر اور السٹریٹر نے 1955ء میں یونائیٹڈ پروڈکشنز آف امریکا کے اینی میشن سٹوڈیو میں اپرنٹس شپ کی اور بعدازاں ’’Terrytoons‘‘ سٹوڈیو میں تخلیقی(Creative) ڈائریکٹر بن گئے، جہاں انہوں نےSidney the Elephant، Gasto Le Crayon، Tom Terrific اور Clint Clobber جیسے بے مثال کردار تخلیق کئے۔ 1955ء کے آغاز میں مشہور زمانہ اینی میٹر جب یونائیٹڈ پروڈکشنز آف امریکا میں کام کرتے تھے تو انہوں نے  The Real-Great Adventures of Terr’ble Thompson!, Hero of History کے نام سے ایک United Feature Syndicate( مذاحیہ، سیاسی کالم، آرٹیکلز اور کارٹون کی سیریز) بھی بنایا، اس خاکے میں Terr’ble Thompson ایک باہمت بچہ ہے، جسے تاریخ کا ہیرو دکھایا گیا ہے۔

یہ کارٹون بعدازاں معروف اداکار Art Carney اور Mitch Miller کے ذریعے ریکارڈ بھی کئے گئے۔ 1958ء کے اوائل میں جین کے تخلیق کردہ کارٹون Sidney’s Family Tree کو اکیڈمی ایوارد کے لئے نامزد کیا گیا اور اسی سال اگست میں ’’Terrytoons‘‘ نے انہیں ملازمت سے نکال دیا۔ صدمے اور غصے کے ملے جلے جذبات نے ڈیچ کو کسی کی بھی محتاجی ختم کرنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے نیویارک میں اپنا ہی سٹوڈیو بنا لیا، جس کا نام جین ڈیچ ایسوسی ایٹس کارپوریش رکھا گیا، جو بنیادی طور پر ٹیلی ویژن کے اشتہارات بنائے گی۔ 1959ء میں امریکی پروڈکشن کمپنی Rembrandt Films نے فلم Munro (مختصر دورانیہ کی اینی میٹڈ فلم) بنانے کے لئے فنڈز دینے کا وعدہ کیا تو ڈیچ پراگ (جمہوریہ چیک) چلے آئے، جہاں انہیں اپنے کام کے لئے صرف 10 روز صرف کرنا تھے لیکن جب ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی اہلیہ Zdenka Najmanová سے ہوئی تو انہوں نے پراگ کو ہی اپنا مستقل ٹھکانا بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

1960ء میں چیکوسلواکیہ اور 1961ء میں امریکا میں Munro کا پریمیئر ہوا۔ 1961ء میں ہی Munro کو اکیڈمی ایوارڈ (آسکر) سے نوازا گیا، جو اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا پہلا ایوارڈ ہے کہ پہلی بار کسی مختصر دورانیہ کی ایسی فلم کو آسکر دیا گیا جو امریکا سے باہر بنائی گئی۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ڈیچ نے پوپائے(Popeye) (ٹیلی ویژن کارٹون) بنانے کے لئے Rembrandt Films سے اشتراک کیا، اسی دوران 1961ء سے 1962ء کے درمیان عالمی شہرت یافتہ اینی میٹر نے مشہور زمانہ کارٹون ٹام اینڈ جیری کی 13 نئی اقساط اس وقت بنائیں جب اس کو بنانے والے اسے چھوڑ چکے تھے اور دنیا اس کارٹون کی دیوانی بن چکی تھی، ایسے میں متعلقہ کمپنی کو کوئی ایسا چاہیے تھا جو ٹام اینڈ جیری کے معیار کو کم بجٹ میں زیادہ بہتر بنا سکے اور جین نے ایسا کر دکھایا۔

ٹام اینڈ جیری کے حوالے سے ڈیچ کا کہنا ہے کہ ’’ میرے خیال میں یہ تشدد پر مبنی کردار تھے لیکن جب میں نے محسوس کیا کہ کوئی بھی اس تشدد کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو میں نے پھر بڑی تیزی سے ان کارٹونز پر کام شروع کر دیا‘‘ چند ناقدین ٹام اینڈ جیری کی ان 13 اقساط پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں، جو ڈیچ نے بنائیں تاہم شائقین نے انہیں پسندیدگی کی سند عطا کی۔ جین نے بطور شریک پروڈیوسر 1962ء سے 1964ء کے دوران Krazy Kat (ٹی وی کے لئے مذاحیہ خاکے) بنایا، جس کے بعدTom Terrific، The Bluffers، Alice of Wonderland in Paris، The Hobbit، Terrl’ble Tessie سمیت مختصر دورانیہ کی متعدد اینی میٹڈ فلمیں بنائیں۔ 2008ء تک جین معروف امریکی پروڈکشن کمپنی Weston Woods Studios میں سینئر ترین و مرکزی اینی میٹڈ ڈائریکٹر رہے، جہاں انہوں نے اس دوران 37 مختصر دورانیہ کی فلمیں بنائیں۔ بلاشبہ جین ڈیچ نے اینی میشن کی دنیا میں ایسا لازوال کام کیا، جسے ہر سطح پر نہ صرف سراہا گیا بلکہ قابل تقلید بھی سمجھا گیا، معروف اینی میٹر کو ان کی بہترین خدمات پر  Annie Awardsاور Winsor McCay Award  سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جین شمالی امریکن ایوی ایشن میں ملازمت کیا کرتے تھے، وہیں پر انہیں اپنی کولیگ میری سے محبت ہو گئی اور 1943ء میں انہوں نے شادی کر لی، اس جوڑے کو قدرت نے تین بیٹے (کم، سمن اور سیتھ ڈیچ) عطا کئے، یہ تمام بچے اپنے والد کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے کارٹونسٹ اور السٹریٹرز ہیں۔ پراگ آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد جین نے جس سٹوڈیو میں کام شروع کیا، وہاں کی پروڈکشن مینجر Zdenka Najmanová سے الفت ہو گئی اور 1964ء میں انہوں نے دوسرا بیاہ رچا لیا۔ 6 دہائیوں پر مشتمل طویل کیریئرکے حامل لیجنڈ اینی میٹر اور ہدایت کار گزشتہ دنوں 95 برس کی عمر میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں انتقال کر گئے، جس پر پوری دنیا کے آرٹسٹوں اور شائقین میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بلاشبہ جین ڈیچ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے، جنہیں اینی میشن آرٹ کی دنیا کبھی بھلا نہ سکے گی۔

The post جین ڈیچ۔۔۔ اینی میشن کی دنیا کا دمکتا ستارہ ڈوب گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونامہ

$
0
0

٭آپ کے پاؤں بھی کورونا وائرس کی نشان دہی کر سکتے ہیں:جیسے جیسے نوول کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، طبی ماہرین کی جانب سے اس وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی نئی نئی ممکنہ علامات کو شناخت کیا جارہا ہے۔ طبی ماہرین کورونا وائرس کی علامتوں پر خاص توجہ اِس لیے بھی دے رہے ہیں تاکہ کووڈ 19 کے مریض کی بروقت شناخت کرکے اُسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بننے سے روکا جاسکے، کیوںکہ اَب تک ہوا یہ ہی ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے جسم میں کورونا وائرس کے ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اُس وقت وہ شخص بے شمار افراد تک یہ وائرس پہنچانے کا سبب بن چکا ہوتا ہے۔

اِس لیے طبی ماہرین کی اولین کوشش یہ ہے کہ کورونا وائرس کی چند ایک ایسی علامات دریافت کرلی جائیں، جس کی بنیاد پر ہر شخص ابتدائی مرحلے پر ہی کورونا وائرس کی خودساختہ تشخیص کرنے میں کام یاب ہوجائے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ شاید طبی ماہرین بالآخر کورونا وائرس سے متاثرہ فرد میں وہ مخصوص علامت تلاش کرنے میں کام یاب ہو ہی گئے ہیں اور وہ اہم ترین علامت ہے پاؤں کی رنگت یا ساخت میں اچانک تبدیلی یا نشان کا ابھر آنا۔ امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین کے ماہرین نے کورونا وائرس کے مریضوں میں اس علامت کی نشان دہی کی ہے جسے ’’کووڈ ٹوئیز‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر جامنی یا نیلے رنگ کے نشان یا زخم ابھر آتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی ممکنہ نشانی اس لیے بھی ایک اہم ترین دریافت ہے کہ یہ خاص علامت کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں ہی نظر آرہی ہے جن میں کورونا وائرس کی دیگر علامات سامنے نہیں آتیں ، بالکل اسی طرح جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی بھی اکثر ان افراد میں دیکھی گئی جن میں اس بیماری کی دیگر علامات کو نہیں دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ یہ علامت کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں ظاہر ہوتی ہے اور اِس علامت کے ظاہر ہونے کے بعد ہی کووڈ19 کی بیماری آگے کی جانب بڑھتی ہے، کئی بار تو یہ علامت کووڈ 19 کا پہلا سراغ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب دیگر علامات نمودار نہیں ہوتیں۔

’’کووڈ ٹوئیز‘‘ کچھ افراد میں ایک ہفتے سے 10 دن میں غائب ہوجاتی ہیں، مگر پھر نظام تنفس کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ نئی علامت بچوں اور نوجوانوں میں دیگر عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ نظر آرہی ہے۔ اس علامت کو سب سے پہلے مارچ میں اٹلی کے ٖڈاکٹروں نے دریافت کیا تھا اور جب ماہرین نے اس عجیب علامت کی طرف توجہ دینا شروع کی تو امریکا میں اِس علامت کی زیادہ سے زیادہ کیسز میں شناخت ہونے لگی۔ ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر 2 وجوہات ’’کووڈ ٹوئیز‘‘ کا باعث بن سکتی ہے، ایک ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کووڈ 19بیماری کے نتیجے میں ہونے والی سوزش اور ورم کے خلاف ردعمل کا اثر پیروں اور انگلیوں میں ہوتا ہے، جب کہ دوسری وجہ جسم میں شدید انفیکشن سے ہونے والے ورم سے خون کی ننھی رگوں میں چھوٹے لوتھڑے بننا بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ علامت خاص طور پر کورونا وائرس کے ان مریضوں میں بہت عام مشاہدہ کی جارہی ہے جن میں سانس لینے میں مشکلات کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس سامنے آتا ہے۔

ایک بات اور اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ ’’کووڈ ٹوئیز‘‘ کی علامت ظاہر ہونے والے افراد میں زیادہ امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ ان میں ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی تشخیص نہیں ہوسکے گی کیوںکہ ابھی بیماری ابتدائی مراحل میں ہے۔ اِس لیے طبی ماہرین کی سختی سے ہدایت ہے کہ جس شخص کو بھی اپنے پاؤں میں یہ علامت نظر آنے لگے، اُسے ازحد خود ہی اپنے آپ کو قرنطینہ کرکے اپنی اِس علامت پر گہری نظر رکھی چاہیے اور کورونا وائرس کی دیگر علامات محسوس کرنے کی صورت میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازماً کروالینا چاہے۔

٭چین کی پاکستان میں کووِڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل کی پیشکش:چین کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن نے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) اسلام آباد کو کووِڈ 19 کے لیے تیار کردہ ویکسین کا پاکستان میں کلینکل ٹرائل کرنے کی دعوت دے دی۔ اگر قومی ادارۂ صحت اِس پیشکش کو قبول کرلیتا ہے تو اِس ویکسین کے کام یاب ٹرائل کے بعد پاکستان بھی خوش قسمتی سے اُن چند گنتی کے ممالک میں شامل ہوجائے گا، جنہیں کووڈ 19 ویکسین متعارف کروانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوسکتا ہے۔ اِس ویکسین کے کلینکل ٹرائل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اِسے ترجیحی بنیادوں پر خرید کر اپنے زیرِاستعمال لا سکے گا۔

واضح رہے کہ چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن دنیا کے اُن چند مایہ ناز ادویات ساز اداروں میں سے ایک ہے، جنہوں نے سب پہلے نوول کورونا وائرس کی ویکسین تیا رکی ہے، جب کہ اِسی کمپنی نے چین میں کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں 80 فی صد سے زائد قوتِ مدافعت کی ویکسین تیار کر کے کورونا وائرس کو شکست دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔

چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن کا کہنا ہے،’’دنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز نے کووڈ19 ویکسین جلد متعارف کروانے میں سہولت کے لیے ہنگامی پروٹوکولز بنائے ہیں اور چین میں اس عمل کو تیز کرنے کے لیے فیز ون اور فیز ٹو کے کلینکل ٹرائلز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ لہٰذا اگر پاکستان کی طرف سے آمادگی کا اظہار کیا گیا تو سائنو فارم کی نمائندہ کمپنی ہیلتھ بی پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ اور این آئی ایچ فوری طور پر فیز ون اور فیز ٹو کے اکٹھے ٹرائل کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا آغاز کرسکیں گے، جب کہ معاہدے پر دستخظ سے سائنو فارم کمپنی نہ صرف اس ویکسین کی ’منظوری، منصوبہ بندی کے حوالے سے مزید خفیہ معلومات فراہم نے کی پابند ہوگی بلکہ اِس سے متعلق دیگر مطلوبہ دستاویزات کی فراہمی، ٹرائلز کی تقسیم سے متعلق فنڈنگ، لاجسٹک کی منصوبہ بندی اور کلینکل ٹرائل کا ڈوزیئر ہیلتھ بی کے ذریعے فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔‘‘ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو کورونا وائرس خلاف جنگ لڑنے کے لیے چین کی طرف سے پاکستان کو کی جانے والی یہ ایک بہت بڑی پیشکش ہے۔

٭مُٹاپے کا شکار افراد کورونا وائرس کے نشانے پر: امریکی ریاست نیویارک کے سائنسی ماہرین نے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کیے گئے ایک مطالعے کے دوران کووڈ19 بیماری کا شکار ہونے والے افراد کا ڈیٹا جمع کیا اور شواہد کی بنیاد پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ موٹاپا بھی کورونا وائرس کے حوالے سے چوتھا خطرناک پہلو ہے۔

ماہرین کے مطابق پہلا خطرناک ترین پہلو عمر رسیدگی، دوسرا قوت مدافعت کی کم زوری، تیسرا ذیابیطس یا دل کے امراض، چوتھا موٹاپے کا مرض ہے۔ یعنی اَب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کا تیسرا حصہ زیادہ وزن والے افراد پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں نیویارک یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے جسم کا میس انڈیکس 25سے کم ہے وہ صحت مند قرار پاتے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے کورونا وائرس زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتا، البتہ 25 سے 29باڈی میس انڈیکس مٹاپے کے قریب ہوتا ہے جب کہ 30یا اس سے زیادہ میس انڈیکس مٹاپا شمار ہوتا ہے اور ایسے لوگوں میں کو رونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بہت ہی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگرمٹاپے کا شکار افراد اپنا وزن کم کرلیں تو کورونا وائرس کو بہ آسانی شکست دے سکتے ہیں۔

٭مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے ڈرون کا استعمال:امریکی ریاست کنیٹیکٹ کی پولیس عوامی مقامات پر کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا پتہ لگانے کے لیے وبائی ڈرون کا تجربہ کررہی ہے جو190 فٹ کی دوری سے انسانی درجۂ حرارت کا پتا لگا لیتا ہے۔ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے بنائے جانے والے ڈرون میں ایسے سنسر نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے وہ 190 فٹ کی دوری سے انسانی درجۂ حرارت، سانس، چھینک اور کھانسی کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وبائی ڈرون کا پہلا تجربہ نیویارک شہر کے کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے پر اڑاکر کیا گیا جس کے ذریعے یہ پتا لگایا گیا کہ لوگ آپس میں سماجی دوری اختیار کررہے ہیں یا نہیں اور وائرس کی علامات کس کس میں ظاہر ہورہی ہیں۔

کورونا وائرس کی شناخت کرنے کے لیے یہ منفرد ڈرون بنانے والی کمپنی کینیڈا کی جس کے منتظمین کا کہناہے،’’یہ ڈرون کسی بھی دیگر نجی معلومات کے حصول کے لیے قطعی استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ کسی کے چہرے کی شناخت یا انفرادی نوعیت کا ڈیٹا لینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘ کمپنی اِس ڈرون کو اگلے چھے ماہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کو فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن فی الحال نیویارک شہر کی ویسٹ پورٹ پولیس اس کی تجرباتی جانچ کر رہی ہے، تاکہ اِس کے فوائد اور ممکنہ نقائص سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ مستقبل میں اس وبائی ڈرون کا استعمال دفاتر، ہوائی اڈوں، بحری جہاز، اولڈ ایج ہومز اور دیگر ہجوم والی جگہوں پر کورونا وائر س سے متاثرہ افراد کی نشان دہی کرنے کے لیے کیا جاسکے گا۔ اگر آپ اِس وبائی ڈرون کی آزمائشی پرواز کی دل چسپ ویڈیو ملاحظہ کرنے چاہتے ہیں تو اِس مختصر لنک پر وزٹ کریں https://bit.ly/3aCuz76

٭لاک ڈاؤن کے دوران نایاب پینٹنگ کی چوری: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوجانے کے بعد چھوٹی موٹے جرائم میں تو ہر جگہ ہی اضافہ ہوا تھا لیکن اَب خبر آرہی ہے کہ لاک ڈاؤن کا فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی لٹیرے میں میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور تازہ ترین خبر کے مطابق نیدرلینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم کے سنگرلیرن میوزیم میں کورونا وائرس کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران انتہائی قیمتی پینٹنگ چوری کرلی گئی ہے، جس کی مالیت 2 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔

یہ میوزیم انتظامیہ کے لیے انتہائی پریشان کن وقت ہے کیوںکہ پہلے ہی کورونا وائرس کے باعث عجائب گھر کئی ہفتوں سے بند پڑا ہے اور اب یہ بیش قیمت پینٹنگ بھی چوری ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چور ہتھوڑے کی مدد سے میوزیم کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور پھر ونسنٹ وین گو کی بیش قیمتی پینٹنگ اٹھاکر لے جاتا ہے۔ یہ نایاب پینٹنگ مشہور ڈچ آرٹسٹ ونسنٹ وین گو نے 1884 میں بنائی تھی، جس کے 1887 میں ہونے والی ایک نیلامی میں ڈھائی کروڑ پاؤنڈ (آج کے تقریباً 6 کروڑ پاؤنڈ) قیمت لگ چکی تھی لیکن اُس وقت اِس پینٹنگ کو فروخت نہیں کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ سنگر لیرن انتظامیہ نے 12 مارچ کو 100 سے زائد افراد کے ایک جگہ جمع ہونے سے متعلق حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے میوزیم مکمل طور پر بند کردیا تھا۔ اگر آپ نے اَب تک اِس پینٹنگ کو نہیں دیکھا تو اِس مختصر لنک کی مدد سے ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ http://dailym.ai/2VDOiPT

٭لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر کورونا مریض کے ساتھ رہنے کی سزا:دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ اِس لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ کورونا وائرس کی عالمی ہلاکت خیزی دیکھنے کے بعد بھی لاک ڈاؤن کی افادیت کو سمجھنے سے انکاری ہیں اور لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نت نئے طریقے اور بہانے ڈھونڈنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی بگڑے ہوئے افراد کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈو کی پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انوکھی سزا دینا شروع کردی ہے۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ناکے پر کھڑے پولیس اہل کاروں نے موٹرسائیکل پر سوار تین نوجوانوں کو روکا۔ نوجوانوں نے کورونا سے بچاؤ کا ماسک پہنا ہوا تھا اور نہ ہی سماجی دوری کے اُصول کو کسی خاطر میں لائے تھے۔

پولیس اہل کاروں نے ناکے پر اپنے ساتھ ایک نقلی ایمبولینس کھڑی کی ہوئی تھی جس میں ایک آدمی کو کورونا کا مریض بنا کر لٹایا ہوا تھا۔ جب پولیس اہل کاروں نے نوجوانوں سے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی وجہ پوچھی تو تینوں نوجوانوں میں سے کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دے سکا، جس پر پولیس اہل کاروں نے تینوں نوجوانوں کو بتایا کہ اب انہیں ایک ایسی ایمبولینس میں بند کیا جائے گا جس میں کورونا کا مریض ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی تینوں نوجوانوں کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے مگر ناکے پر کھڑے چاک و چوبند پولیس اہل کاروں نے انہیں قابو کر کے زبردستی ایمبولینس میں ڈال دیا۔ جب نوجوانوں کو ایمبولینس میں زبردستی داخل کیا تو اندر موجود کورونا کا نقلی مریض اٹھ کر نوجوانوں کی طرف بڑھنا شروع ہوا جس پر وہ تینوں کھڑکیوں سے کود کر بھاگ نکلے۔ ناکے پر کھڑے پولیس افسر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوانوں کو اسی طرح ڈرایا جائے گا تاکہ انہیں کورونا وائرس کی حساسیت کا درست اندازہ ہوسکے۔

The post کورونامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اس جنگ میں انسان جیتنے والا ہے

$
0
0

میڑک میں مطالعہ پاکستان کے استاد محترم نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب پڑھاتے ہوئے ایک جملہ اپنی طرف سے ان اسباب کے اختتامیہ جملے کے طور پر ذہن نشین کرنے کو کہا تھا کہ جس سے پیپر دیکھنے والے پر اچھا تاثر جائے گا اور ہو سکتا ہے وہ اس سوال کے لکھے ہوئے جواب پر نمبر بھی زیادہ عنایت کر دے۔

جملہ کچھ یوں تھا:

“ہر عروج کو زوال ہے اور بے شک زوال کے بعد عروج کا آنا بھی یقینی ہے۔”

بالکل اسی طرح نوع انسانی آج جس زوال کا شکار ہے اس میں باہمی اور انفرادی رویے، انسانی مزاج اور معیشت ہر شے تباہ حالی کے دہانے پر ہے۔

خوف ہر چیز پر حاوی ہے، انسان ہر دوسرے انسان کے وجود سے خوف زدہ ہے۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اب زوال کی گہری کھائیوں سے امید کی کرنیں پھوٹنے کو ہیں اور بہت جلد نظامِ کائنات اپنی انسان دوست ڈگر پر واپس آنے کو ہے۔

کورونا کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں اللہ رب العزت انسان کو فتح سے ہم کنار کرنے ہی والا ہے۔ البتہ انسانی زندگی میں وبا کے یہ چند ماہ بہت ساری تبدیلیاں رونما کرنے کا باعث بنے ہیں۔ وہ تبدیلیاں جن کے باعث وبا کے بعد اب پہلے سا طرزِزندگی نہیں رہے گا۔ حتٰی کہ وہ لوگ جو پرانے طرززندگی اور اسی پرانی ڈگر پر چلنا چاہیں گے وہ وبا کے بعد کی نئی دنیا میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر ہار جائیں گے۔

وبا کے ختم ہونے کے بعد سماجی اور مذہبی رویے تیزی سے تبدیل ہوں گے اور یہ مثبت بدلاؤ قبول کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔

ٹیکنالوجی اپنا آپ ایک بار پھر منوائے گی اور آپ کو زندگی کے ہر معاملے میں ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔

دینی اقدار جن میں صفائی اور درست عبادت کے طریقۂ کار شامل ہیں، انہیں اپنانا ہوگا اور بے جا قسم کی توہمات سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی ہوگی۔ وبا کے ان ایام کے دوران جب کہ میں سعودی عرب میں مقیم ہوں کئی دردناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور جن پر یہ قیامت بیت رہی ہے۔ ان کی زبانی بے شمار انسانی رویوں کا مشاہدہ بھی کیا۔

وبا کے دور میں اس تنہا گزرنے اور محدود ہوجانے والی زندگی سے انسان ہر طرح سے ہی بے زار دکھائی دیا۔

خصوصاً بچوں کے لیے گھر قیدخانے بن گئے، انسان کھلی اور صحت مند فضا میں کھل کے سانس لینے کو بے قرار ہے وہ اپنے پیاروں سے ملنا چاہتا ہے۔ ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہونا چاہتا ہے پر افسوس فی الحال ایسا کچھ کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔

پوری دنیا کسی فوجی کیمپ کا منظر پیش کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جہاں ہر جگہ بیریئر لگا کر پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ گزرنے والوں کو روکا جارہا ہے۔ ان بیریئرز پر شناخت اور صحت جانچنے کے معیار سخت سے سخت کیے جارہے ہیں۔

وبا کے اس دور میں سب سے اہم انسانی رویہ یہ دیکھنے کو ملا کہ پہلے جو لوگ سر کے درد اور ذرا سی چھینک پر بھی شور مچانے لگتے تھے۔ اب اپنی ہر بیماری پوشیدہ رکھنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ بے شمار ایسی تکلیفیں جن پر پہلے فوراً اسپتال کا رخ کیا جاتا تھا اب انہیں گھر میں ہی وقت دے کر ختم ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ دعاؤں پر انحصار یا پھر اپنے طور پر علاج کے لیے ٹوٹکوں کے استعمال کو ترجیح دی جارہی ہے۔

وبا کے یہ ایام سب سے زیادہ امراض قلب میں مبتلا مریضوں، ذیابیطس یا بلند اور کم تر فشار خون میں مبتلا مریضوں اور ان کے گھر والوں کے لیے پریشانی کا سبب بنے رہے۔

پوری دنیا کی طرح یہاں سعودی عرب میں بھی کوئی طبی ایمرجنسی سروس فعال ہی نہیں کی گئی کہ وہ گاؤں یا شہری محلوں کی حد تک کورونا کے علاوہ دیگر امراض میں مبتلا انسانوں کو طبی سہولیات مہیا کرتی۔

اسی طرح ایک اور طبقہ جسے میں نے خوراک کی کمی کا شکار افراد سے بھی زیادہ پریشان دیکھا وہ اسموکرز کا ہے، تمباکو نوشی میں مبتلا ہر شخص کو اس وقت شدید چڑچڑا پایا جب انہیں سگریٹ فروش بقالوں (کریانہ اسٹور) پر یا تو سگریٹ میسر نہ آئے یا پھر اپنی مطلوبہ برانڈ نہ مل پائی، یہاں تک کے ایسے لوگ جھنجھلاہٹ میں گھروں میں بھی لڑائی جھگڑے کرتے رہے اور بات کا اظہار میرے ایک اسموکر دوست نے اپنی زبانی بھی کیا کہ آج اگر اسے سگریٹ نہ ملا تو یقیناً ابا سے میری لڑائی ہوجائے گی۔

کسی محلے یا گلی کے ایک فرد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر جو ذہنی اذیت اس گلی یا محلے کے باقی افراد کو سہنی پڑی میں اس سے بھی بہ خوبی آگاہ ہوں کہ یہ حالت خود میرے گھر والوں پر گزری جب ان کے دروازے کے باہر تالا لگا کر انہیں گھر کے اندر محصور کر دیا گیا۔

پھر اس مریض کے گھر والوں کے کورونا ٹیسٹ اور ان پر عائد کی جانے والی سماجی پابندیاں کرب کی طویل داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

بچوں نے وبا کے خوف سے گھر پر بند ہو کر رہنے کے معاملے پہ شروع میں بہت زیادہ مزاحمت کی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس روٹین کو تسلیم کرنے لگے، اس کے باوجود وہ خود کو کسی جیل کا قیدی ہی تصور کرتے ہیں۔

ہاتھ دھونے اور ذاتی صفائی کے معاملے میں ایک مثبت تبدیلی یہاں بھی جگہ جگہ مشاہدے میں آرہی ہے۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں ایک ایسی مریضہ بھی آئی کہ جس کے دل کی دھڑکن 110 سے 115 تک جا پہنچی ہے۔ اس کا جسم کانپ رہا ہے اور وہ یہ فیصلہ نہیں لے پا رہی کہ کس ڈاکٹر کے پاس اور کیسے جائیں اگر ایمبولینس کو گھر بلائیں تو لوگ کیا کہیں گے کہ کون سی ایمرجینسی ہو گئی ہے؟ اوپر سے یہ بھی ڈر کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کہیں کورونا کی وبا نے تو نہیں آگھیرا۔

ایک اور اہم سماجی رویے کورونا کی وبا میں مبتلا مریض کے گھر والوں کا دیکھا گیا، جو ہر طرح سے شدت پسندانہ رہا وہ اس بات کو مشکل سے ہی تسلیم کر تے ہیں کہ ان کے کسی اپنے کو یہ مرض لاحق ہو چکا ہے، حتٰی کہ میڈیکل رپورٹس کے ذریعے ہونے والی تصدیق کی صورت میں بھی انہیں یہ جھوٹ ہی معلوم ہوتا رہا۔ ان میں سے بے شمار افراد اہل محلہ سے اس بات پر ناراض بھی دکھائی دیے کہ ان کے مریض کی شکایت آپ میں سے ہی کسی نے کی ہوگی۔اس وبا میں مبتلا مریضوں کو مجرموں کی طرح چھپتے اور میڈیکل ٹیم سے فرار ہوتے بھی دیکھا گیا، گویا وہ علاج کے لیے نہیں بلکہ اسے کسی قیدخانے میں ڈالنے کے لیے لے جانے آئے ہوں۔

میں خود چوںکہ نیشنل واٹر کمپنی کے ساتھ منسلک ہوں تو گھر یا محلے سے باہر جانے کی حکومتی استثناء مجھے بھی حاصل ہے اور یقیناً یہ استثناء بے شمار خطروں اور خدشات سے بھی جڑا ہوتا ہے کہ جہاں بچاؤ کی بڑی صورت ہی یہ بتائی جا رہی ہو کہ آپ گھر پر رہیں اور سماجی رابطے مکمل طور پر منقطع کردیں۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر مختلف جگہوں پر جانا احتیاط کرتے ہوئے لوگوں سے بات کرنا لین دین کے معاملات بھی کرنا یقیناً اپنے اندر کئی خطرات بھی لیے ہوئے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اس وبا کے دوران رویوں میں اترتے زوال کو بہترین وقت میں ہمیں تبدیل کرنا ہوگا اور اللہ ہمیں یہ موقع ضرور دے گا، انشاء اللہ۔

آپ بھی آنے والے وقت کی تبدیلیوں کو بروقت اپنانے کے لیے خود کو ذہنی اور قلبی طور پر تیار رکھیں۔

انشاء اللہ یہ وبا ختم ہوگی اور آپ کی آئندہ نسل بے شمار نئے رویوں کو اپنائے گی تو ایسے وقت میں اس کی راہ نمائی کریں، اس نئے طرز زندگی کو بہترین بنانے میں ان کی معاونت کرنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔

دنیا میں پہلے کئی عذاب اترے، جنگ و جدل نے بستیوں کے نقشے بدلے وباؤں نے اپنا قہر ڈھایا، اس کے باوجود زندگی رواں دواں رہی اب بھی ایسا ہی ہونے والا۔

معاملات کروٹ ضرور بدلیں گے پر جاری و ساری رہیں گے،

اور جب تک اس کائنات میں ذی روح کا وجود باقی ہے۔ ایسے بے شمار حادثات رونما ہوتے رہیں گے اور زندگی اپنے رنگ بدلتی ہوئی آگے بڑھتی جائے گی۔

حالات مشکل ہوتے ہیں کہ جن میں جینے کے اسباب تک محدود ہوجاتے ہیں، لیکن کیا ہر خزاں کے بعد ٹُنڈمُنڈ پیڑوں کی ننگی شاخوں پر پھر سے شگوفے نہیں پھوٹتے؟ کیا ان پر نئے پھول پتے ان کے ویران ہوئے جسموں کو نکھار نہیں بخشتے؟

ایسے میں اب خزاں کا موسم بیت جانے کو اور انشاء اللہ بہار آپ کی دہلیز سے جسموں کی ویرانی کو دور کرنے کے لیے بس داخل ہونے ہی والی۔

اللہ رب العزت اس کائنات میں بسنے والے انسانوں پر چرند پرند، حیوانات اور نباتات پر اپنا فضل عطا فرمائے۔ آمین

The post اس جنگ میں انسان جیتنے والا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں!!

$
0
0

وہ چراغ تھے اور اپنے فن و ہنر سے جگمگاتے تھے۔ بولی وڈ کے دو روشن چراغ عرفان خان اور رشی کپور اب ہم میں نہیں رہے۔ دونوں کی اوپر تلے بے وقت اور اچانک موت کا بہانہ کینسر بنا۔ یہ خلا شاید کبھی نہ بھرے لیکن بقول وسیم بریلوی

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا

’’ابھی تک اپنے سفر میں، میں تیزگامی سے چلتا چلا جا رہا تھا… میرے ساتھ میرے منصوبے، توقعات، خواب اور منزلیں تھیں۔ میں ان میں مگن بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ اچانک ٹکٹ چیکر نے پیٹھ تھپ تپائی اور کہا اتریے آپ کا اسٹیشن آگیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا…نہیں نہیں، میرا اسٹیشن ابھی نہیں آیا لیکن بے نیازی سے جواب ملا آپ کو اسی اسٹاپ پر اترنا ہوگا… اچانک احساس ہوا کہ ہم تو کسی بوتل کے ڈھکن کی طرح وسیع اور اجنبی سمندر میں غیرمتوقع لہروں کے رحم و کرم پر بہہ رہے ہیں جس پر ہمارا کوئی اختیار بھی نہیں اگر کچھ ہے تو بے یقینی ہی بے یقینی ہے۔‘‘

عرفان خان کے یہ الفاظ دوست کے نام لکھے گئے خط کے ہیں جو انہوں نے 2018 میں پہلی مرتبہ نیورو اینڈو کرائن کینسر میں مبتلا ہونے کا علم ہونے پر لکھا تھا۔

دنیا کی بے ثباتی شاعروں کا محبوب موضوع رہا ہے لیکن اس نثر میں عرفان خان نے دنیا کی بے ثباتی اور بے رحم موت کو جس طرح بیان کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے لکھاری بھی تھے۔

عرفان نے انڈر 23 ٹیم سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی، روزی روٹی کے لیے معمولی کام کیے، لوگوں کے اے سی مرمت کرنے لگے اور ایک دن اے سی ٹھیک کرنے اپنے پسندیدہ اداکار آنجہانی راجیش کھنہ کے گھر جانے اور ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ یہ ان کی زندگی کا کام یاب موڑ ثابت ہوا۔ عرفان خان نے ایک پشتون خاندان میں آنکھ کھولی تو پہلی پہچان صاحبزادہ عرفان خان بنی، لیکن انہیں اپنے بل بوتے پر کام یابی کی سیڑھیاں چڑھنی تھیں اور وہ روایت شکن بھی تھے۔

اس لیے خاندانی جاہ و حشمت کی نمائندہ شناخت ’’صاحبزادہ ‘‘ کو نام سے ہٹا کر اپنی راہ خود چننے کا فیصلہ کیا۔ ’خان‘ کے سرنام کی بولی وڈ پر دھاک ہے لیکن یہ عجیب شخص خود کو صرف عرفان کہلوانا چاہتا تھا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد انہیں دو بار لاس اینجلس ایئرپورٹ پر کچھ دیر کے لیے حراست میں بھی لیا گیا تھا کیوں کہ امریکا کو کسی عرفان خان نامی دہشت گرد کی تلاش تھی جس کے بعد عرفان نے اپنے نام کے حروف کو تھوڑا تبدیل کیا اور Irrfan لکھنے گے۔ بولی وڈ سے ہالی وڈ کا سفر سبک رفتاری سے طے کیا، کہاں ایک وقت تھا کہ ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کے باعث وہ جراسک پارک نہیں دیکھ پائے اور کہاں ایک وقت ایک ایسا ا?یا کہ وہ خود جراسک پارک کا حصہ بنے۔ وہ ہیرو نہیں تھا۔ نہ اسے ویلن کہا جا سکتا ہے۔ وہ نہ صرف کامیڈی میں ملکہ رکھتا تھا بلکہ وہ ایک اداکار تھا۔ ایک ایسا اداکار جس نے بھانت بھانت کے کردار ادا کیے۔

عرفان خان کے ساتھ ’وہ آیا اس نے، دیکھا، اس نے فتح کرلیا‘ والا معاملہ بھی نہ تھا۔ ایک جہد مسلسل تھی۔ ٹیلی ویژن سے کام شروع کیا تو معروف شاعر اور مارکسی نظریے کے پرچاری غلام محی الدین کا کردار نبھایا۔ بھارت کی کھوج نامی ڈرامے میں مسلم خاندان کے ایک سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے اور اپنے والدین سے زرا ہٹ کر سوچنے والے نوجوان کا کردار ادا کیا۔ ڈراما سیریل ’ڈر‘ تو ان کی پہچان ہی بن گیا۔

وہ جن آنکھوں سے بولتا تھا وہ 29 اپریل کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ اب اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ فلمی ڈائیلاگ ہیں جو زبان زد عام ہیں۔ جیسے فلم جذبہ کا مشہور ڈائیلاگ ’’رشتوں میں بھروسا اور موبائل میں نیٹ ورک نہ ہو تو لوگ گیم کھیلنے لگتے ہیں۔‘‘ ابھی وہ مزید کام کرنا چاہتا تھا لیکن وقت نے مہلت نہ دی۔ بقول غالب

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

ابھی مداح عرفان خان کے صدمے سے نکل نہیں پائے تھے کہ رشی کپور بھی اگلے ہی دن داغ مفارقت دے گئے۔ کسے خبر تھی کہ فلم ’ڈی ڈے‘ میں ایک ساتھ جلوہ افروز ہونے والے عرفان خان اور رشی کپور محض ایک دن کے فرق سے اس دنیا سے منہ موڑ کر آسمانوں میں کہیں اپنی الگ بیٹھک بنائیں گے۔

کپور گھرانا بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک ستون ہے اور ایسے مضبوط اور باہنر خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جہاں رشی کپور کو فائدہ پہنچا وہیں خاندان کی ساکھ اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی۔ جلد ہی رشی کپور نے رومانوی ہیرو کے طور پر پہچان بنالی۔ مکالموں کی ادائیگی شان دار تھی، مزاح ان کی طبیعت میں شامل تھا، وہ منہ پھٹ واقع ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ٹویٹر پر ٹرولنگ کا شکار بھی ہوتے رہتے تھے۔ وہ اکثر اپنے ا?بائی شہر پشاور کو یاد کیا کرتے تھے۔

زندہ دل اور جوان امنگیں رکھنے والے 67 سالہ رشی کپور نے ایک کتاب بھی لکھی اور کتاب کا نام بھی ’کھلم کھلا ‘ رکھا، یہ کتاب بھی اسم بامسمیٰ ثابت ہوئی ہے کیوں کہ اس کتاب میں رشی کپور نے فلم انڈسٹری، اپنے خاندان اور ذاتی زندگی کے حوالے سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ’کھلم کھلا‘ لکھ دیا ہے۔ اپنے والد کے غیرازدواجی تعلقات اور ماں کی ان سے ناراضی سے لے کر امیتابھ بچن پر کام یاب فلموں کا کریڈٹ لینے کے الزام تک اس کتاب میں نہ جانے کتنے تلخ مندرجات ہیں۔

رشی کپور نے اس کتاب میں بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے یہ کہتے ہوئے شرم ا?تی ہے کہ میں نے فلم بوبی کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ خریدا تھا۔ کسی نے کہا کہ سر 30 ہزار دیں تو میں یہ ایوارڈ ا?پ کو دلا دوں گا اور میں نے بغیر سوچے سمجھے رقم دے کر ایوارڈ لے لیا۔

یہی نہیں صاف گو رشی کپور نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب میری فلمیں بری طرح فلاپ ہورہی تھیں اور میں اپنی ناکامی کا ذمے دار اپنی بیوی فلم اسٹار نیتو سنگھ کو ٹھہرا کر سارا غصہ اسی پر نکال لیا کرتا تھا۔ حالاں کہ اس وقت وہ حاملہ تھی۔ اب مجھے اپنے اس رویے پر بہت ندامت ہوتی ہے۔

سنیما اسکرین پر کبھی ہار نہ ماننے والے ستاروں کو کینسر نے ہمیشہ کے لیے کملا دیا ہے اب ’کُھلم کھلا‘ باتیں کرنے کو رشی کپور نہیں اور نہ بولتی آنکھوں والا اداکار رہا جو ہر کریکٹر میں ڈھل جایا کرتا تھا۔ادا جعفری نے کہا تھا

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

The post بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں!! appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی جسم : قدرت الہی کا عظیم الشان معجزہ

$
0
0

پچھلے ڈیڑھ سو سال میں سائنس و ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی نے کرہ ارض پر انسان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات بنادیا۔ لیکن ترقی کے اس تاریخ ساز سفر میں انسان سے یہ فاش غلطی سرزد ہوئی کہ وہ ان خرابیوں اور غلطیوں کو  نظر انداز کرتا چلا گیا جو بطور ضمنی پیداوار (By-product) ساتھ ساتھ جنم لے رہی تھیں۔

کارخانے لگاتے، کھیت بناتے اور بستیاں بساتے ہوئے انسان  ماحولیات اور جنگلی حیات کے حقوق سے بے پروا رہا۔ نتیجتاً آج دنیا کا ماحول اتنا آلودہ ہوچکا کہ بعض شہروں میں سانس تک لینا محال ہے۔اسی طرح نت نئی اشیائے خورونوش نے جنم لیا تو انسان اپنی صحت سے غافل ہوگیا۔ اب رنگ برنگ غذائیں غیر فطری طریقوں سے اگائی اور دھڑا دھڑ کھائی جانے لگیں۔ کھانے پینے کے اس جدید طرز نے مگر نئی بیماریوں کو جنم دیا اور انسان کو آرام و سکون سے محروم کردیا۔

یہ اچھوتی بات ہے کہ ایک معمولی ،غیر مرئی وائرس نے بنی نوع انسان کی دیوہیکل اور وسیع و عریض سرگرمیاں روک کر اسے خبردار کیا کہ وہ ترقی و خوشحالی کے سفر میں خرابیوں کو نظر انداز نہ کرے۔ امید ہے کہ اب انسان ہوش میں آکر اندھا دھند بھاگنے سے گریز کرے گا۔ وہ اعتدال پسندی کا دامن تھام لے گا تاکہ نہ صرف کرہ ارض میں ماحول صاف ستھرا رکھے بلکہ اپنی صحت بھی تندرست و توانا بنائے۔ ہر معاملے میں شدت پسندی اچھّی نہیں ہوتی۔

 خصوصی شے کی تخلیق

سارس کوو 2 وائرس سے پھیلی وبا نے انسان پر یہ بھی واضح کیا کہ اس کا جسم کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ عجائبات و اسرار کی عظیم الشان دنیا ہے۔ وجہ یہ کہ پوری کائنات میں انسان واحد زندہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے بنایا۔ جب رب کریم انسان کو پانی اور مٹی سے بناچکے تو فرشوں سے کہا کہ آدمؒ کو سجدہ کرو۔ ابلیس نے نافرمانی کی تو رب کائنات نے فرمایا ’’تجھے کس چیز نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا؟‘‘ (سورۃ ص۔ 75)

دور جدید کے مفسرین درج بالا فرمان الٰہی کی تشریح کرتے ہیں کہ اس جملے سے آشکارا ہے، اللہ تعالیٰ نے نہایت اہم اور خصوصی شے تخلیق فرمائی تھی ۔ اللہ پاک نے کسی اور زندہ مخلوق کو اتنی توجہ، چاہت، اپنائیت اور احتیاط سے تخلیق نہیں فرمایا۔

یہ آیت حضرت آدمؓؑ اور ان کی آل اولاد کے اشرف مخلوقات ہونے کا بین ثبوت ہے۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی بھی انسانی جسم کے حیرت انگیز اسرار دریافت کرتے ہوئے فرمان الٰہی کی حقانیت و سچائی کا اقرار کررہی ہے۔تعجب خیز بات یہ کہ سائنس دانوں نے خلویاتی سطح پر انسانی جسم کے جو اسرار بیسویں صدی میں آ کر دریافت کیے، اللہ تعالی چودہ سو سال قبل ہی انھیں اپنی کتاب مبین میں بیان فرما چکے۔یہ سچائی جان کر اللہ پاک کو نہ ماننے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔آئیے سائنس کی کسوٹی پر اس سچائی کا جائزہ لیتے ہیں۔

ایٹموں کی جادوئی دنیا

ہمارا جسم کئی ہزار کھرب ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ایٹم کائنات میں ہر شے کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف ایک سینٹی میٹر میں ’’دس کروڑ ایٹم‘‘ سما جائیں۔ یہ ایٹم پھر مختلف سالمات (ڈی این اے، خامرے، پروٹین، چکنائی، کاربوہائیڈریٹ) بناتے ہیں۔ سالمات سے پھر جین (Gene) اور خلیے بنتے ہیں۔انسانی جسم تیس تا چالیس ٹریلین خلیوں کے ملاپ سے بنا ہے۔ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں :جسے تقسیم نہ کیا جاسکے۔لیکن اب تحقیق  سے سائنس دان جان چکے کہ ایٹم کے مزید چھوٹے حصے ہیں جن کو ’’ذیلی ایٹمی ذرات‘‘ (Subatomic particle)کا نام دیا جاچکا۔ ماہرین اب تک ایسے پچیس ذیلی ایٹمی ذرے دریافت کرچکے۔ خیال ہے کہ مزید ڈیڑھ سو کائنات میں موجود ہیں۔ مگر موجودہ انسان ساختہ آلات انہیں شناخت کرنے سے قاصر ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں چودہ سو سال قبل ہی بتاچکے کہ ایٹم مزید چھوٹے ذرات رکھتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے ’’یہ اللہ ہے جو بیجوں اور مرکزے (نیوکلس) کو پھاڑ ڈالتا ہے۔ (سورۃ انعام۔96)۔ مرکزے کو عربی میں ’’نواۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’’نوی‘‘ ہے جوکہ آیت قرآنی میں درج ہے۔اس میں انسان کو مطلع کیا گویا بتایا گیا کہ ایٹم کے نیوکلس کو پھاڑنا ممکن ہے۔

واضح رہے، انسان اب تک کائنات کا محض 5 فیصد حصہ یا مادہ ہی دیکھ سکا ہے۔ 95 فیصد حصہ انسانی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ یہ حصہ ’’سیاہ مادہ‘‘ (Dark Matter) کہلاتا ہے۔ اس حصے کا پتا بس اس کی غیر مرئی قوتوں مثلاً دباؤ ڈالنے کی قوت سے چلتا ہے۔

مثلاً سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کسی ان دیکھی قوت نے کہکشاؤں کو اپنی جگہ تھام رکھا ہے۔ وہ نہ ہوتی تو کہکشائیں خلا میں پاگلوں کی طرح چکر کھانے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتیں۔یہ قوت کشش ثقل کے مخالف کی حیثیت رکھتی ہے۔گویا یہ یہ قوت نہ ہوتی تو ہماری کائنات تباہ وبرباد ہو جاتی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اِسی پُراسرار اور غیر مرئی قوت کے متعلق انسان کو یوں آگاہ فرمایا ہے: ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں سے سہارا دیا جنہیں تم دیکھ نہیں سکے۔ وہ پھر تخت پر بیٹھ گیا اور اس نے سورج اور چاند کو قانون کے مطابق رواں دواں کردیا۔ (سورۃ رعد۔ 2)

پانی رے پانی

کائنات میں تنہا ایٹم بہت کم ہیں، وہ عموماً ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ تب وہ ’’سالمہ‘‘(Molecule) کہلاتے ہیں۔ مختلف ایٹموں کے ملاپ ہی سے تمام مادے (عناصر) وجود میں آئے۔ درحقیقت کوئی بھی ماد ہ ہو یا گیس‘ وہ سالمات ہی سے بنی ہے۔ ان میں انسانی جسم بھی شامل ہے۔ انسانی بدن میں کئی اقسام کے سالمات ملتے ہیں۔ قدرت الٰہی نے مخصوص کام ان کے ذمے لگا رکھے ہیں۔

جب دو مختلف ایٹم باہم جڑ جائیں تو اصطلاح میں وہ ’’مرکب‘‘ (Compound) کہلاتے ہیں۔ پانی اس کی سادہ مثال ہے۔ ہائیڈروجن گیس کے دو اور آکسیجن گیس کا ایک ایٹم ملنے سے پانی وجود میں آیا۔ پانی بظاہر معمولی مرکب ہے۔ مگر جدید سائنس اسے ہی زندگی کا سرچشمہ بلکہ آب حیات قرار دے چکی۔ کائنات کے جس حصے میں پانی مل جائے، سمجھیے وہاں زندگی کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی ضرور موجود ہو گا۔ جدید سائنس نے تو بیسویں صدی میں یہ بات جانی مگر چودہ سو سال قبل قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما چکے : ’’کیا کفار نے غور نہیں کیا‘ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے انہیں الگ کر دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو بنایا۔ کیا وہ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے؟ (سورہ انبیاء۔ 30)

درج بالا آیت مبارکہ دو انتہائی اہم اور حیران کن انکشاف کرتی ہے۔ اول یہ کہ کائنات میں ہر زندہ شے پانی سے بنی ہے اور دوسرا یہ کہ کائنات وجود میں آنے سے قبل ہر شے آپس میں ملی ہوئی تھی۔ اللہ پاک نے اپنی قدرت سے اسے علیحدہ کر دیا۔ جدید سائنس نے یہی بات بیسویں صدی میں آ کر دریافت کی۔ اس نے ہر شے علیحدہ ہونے کے عمل کو ’’بگ بینگ‘‘(Big Bang) کا نام دیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے چودہ سو صدیاں قبل جو سچائی مسلمانوں کو بتا دی تھی‘ غیر مسلم کچھ عرصہ قبل ہی اس سے آگاہ ہوئے۔

قرآن پاک کی حقانیت کا ایک اور زبردست ثبوت ملاحظہ فرمایئے۔ جدید سائنس نے پچھلے چند برس کے دوران تحقیق و تجربات سے جانا ہے کہ کرہ ارض پر پانی خلا سے آیا۔ یعنی جب چار ارب سال پہلے زمین وجود میں آئی تو اس پر پانی نہیں تھا۔ لہٰذا زندگی کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ آج سائنس دانوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ زمین پر پانی وہ شہاب ثاقب اور دم دار ستارے لائے جن پر برف جمی تھی۔

وہ جب زمین سے ٹکراتے تو برف بادلوں کی صورت میں ڈھل کر کرہ ارض پر گر جاتی۔ حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ یہی سچائی قرآن پاک میں آشکارا فرما چکے:’’اور اسی (اللہ تعالیٰ)نے آسمان سے پہاڑوں کی صورت بادل نیچے (زمین پر) بھیجے اور ان سے اولے برسائے۔ وہ (اس پانی کو) جس پر چاہے‘ ڈال دیتا ہے۔ اور جس سے چاہے‘ ہٹا کررکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النور ۔43)

زندگی کی پیدایش

درج بالا حقائق سے آشکار ہوچکا کہ زمین پر زندگی کو جنم دینے میں پانی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے بعد سالمات کا نمبر آتا ہے۔ یہ سالمات انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے دریافت کیے مگر قرآن میں اللہ تعالیٰ صدیوں قبل ان کی نشان دہی فرما چکے۔ کتاب الٰہی میں ان سالمات کو مٹی یا خاک کہا گیا ہے: ’’اور اس نے انسان کو مٹی سے بنانا شروع کیا۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے چلایا۔ پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی کچھ روح پھونک دی۔‘‘ (سورۃ سجدہ۔ 7 تا 9)

حقائق سے عیاں ہے کہ زندگی کا سب سے چھوٹا روپ’’خلیہ ‘‘بھی حقیقتاً دو بے جان اشیا… پانی اور مٹی کا مجموعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانی اور مٹی کے مجموعے میں زندگی کی لہر کیسے دوڑی؟ اس میں حرکت نے کیونکر جنم لیا۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اہم ترین سوالات میں وہ ایک سوال ہے جس کا جواب تمام تر ترقی کے باوجود انسان نہیں جان سکا۔ گو وہ اس سلسلے میں سینکڑوں نظریات سامنے لاچکا۔

دلچسپ بات یہ کہ سائنس دان ہی ایک دوسرے کے نظریات کو غلط اور ناقابل قبول قرار دے چکے۔سائنس کی عقلی کسوٹی تو یہی کہتی ہے کہ صرف زندہ وجود ہی سے نیا زندہ جنم لے گا۔ ظاہر ہے، حقیقی دنیا میں پانی اور نامیاتی مادے (سالمات) یا مٹی کی مردہ حالت سے کوئی زندہ جنم نہیں لے سکتا۔ یہ یقیناً کسی فوق البشر اور عظیم ترین قوت ہی کا کام ہے کہ اس نے مردہ ملغوبے میں زندگی کی لہر دوڑا دی ۔لیکن ضدی، اناپرست اور مفرور سائنس داں اس زبردست قوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ یوں اللہ تعالیٰ کی حقانیت ثابت ہوجاتی ہے۔

تحقیق و تجربات کے بحر میں غوطے کھانے کے بعد سائنس داں البتہ اس نتیجے پر پہنچ چکے کہ اربوں سال پہلے کسی دریا یا سمندر کے کنارے پانی اور سالمات کا ملغوبہ (گارا) خشک ہوگیا۔ اس سوکھی مٹی میں پھر کسی طریقے سے بجلی کا کوندا لپکا، اسپارک بلند ہوا اور سوکھے گارے میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ سوال مگر یہی ہے کہ وہ بجلی کا کوندا یا سپارک کہاں سے آیا؟ اس سلسلے میں بعض ماہرین نے آسمانی بجلی کا نام لیا۔

مگر دیگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آسمانی بجلی تو ہر شے جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ وہ سپارک اتنا شدید نہیں تھا کہ اس سے تو زندگی جیسی نازک و نفیس شے نے جنم لیا۔ پھر اس وقت آسمانی بجلی کے علاوہ بجلی کی کوئی اور قسم موجود ہی نہیں تھی۔ اسی لیے کہا گیا کہ کسی شہاب ثاقب کے گرنے سے جو بجلی پیدا ہوئی، شاید اس نے ملغوبے میں زندگی دوڑا دی۔ مگر اس نظریے کو بھی تقریباً سبھی سائنس داں مسترد کرچکے۔

عالم اسلام کے اکثر سائنس داں البتہ تسلیم کرتے ہیں کہ پانی و مٹی کے سوکھے گارے میں زندگی کی لہر دوڑانے والے رب العزت ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ وجہ یہ کہ جب زندگی جنم لینے کے اس نظریے کا نام و نشان نہیں تھا تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں بنی نوع انسان کو اس کی بابت خبر دے رہے تھے۔

قرآن پاک میں آیا ہے :’’اور ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی سوکھی مٹی سے بنایا۔ اسے پھر درست کیا اور اس میں اپنی کچھ روح پھونک دی۔‘‘ (سورہ حجر۔ 26 تا 29) ان آیات میں روح پھونک دینے سے یہی مراد ہے کہ پانی و مٹی کے سوکھے گارے میں اللہ تعالیٰ نے قدرت الٰہی سے اسپارک یا زندگی کی چنگاری پیدا فرمادی۔ اس طرح کرہ ارض پر زندگی کے دور کا آغاز ہوا۔

خلیے کی کہانی

کرہ ارض پر سو سے کچھ زیادہ اقسام کے ایٹم ملتے ہیں۔ لیکن وہ باہم مل کر لاکھوں قسم کے مادے بنا سکتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں مستعمل کئی اشیاء مثلاً موبائل ‘ ملبوسات‘ جوتے‘ گاڑیاں‘ قلم‘ کاغذ‘ پلنگ اس امر کی نشانیاں ہیں۔ درحقیقت ایٹموں کے مرکبات کی وجہ ہی سے زمین پر رنگ برنگ اور متنوع اشیاء وجود میں آئیں۔

اگر ایٹم مردہ اشیا کے سب سے چھوٹا ذرے ہیں‘ تو خلیہ زندہ اجسام میں یہ مقام رکھتا ہے۔ خلیے کا 70 فیصد حصہ پانی ہے بقیہ 30 فیصد حصہ مختلف سالمات سے بنا ہے۔ ان میں پروٹین‘ نیوکلک تیزاب (ڈی این اے اور آر این اے)‘ کاربوہائڈریٹس‘ چکنائی اور دیگر مادوں کے سالمے شامل ہیں۔ خلیے کی چھوٹی بڑی اقسام ہیں۔ سب سے چھوٹا خلیہ محض0.2مائکرون قطر رکھتا ہے۔ انسانی خلیے کا قطر 20 مائکرون ہے۔ گویا ایک پن کے سرے پر دس ہزار انسانی خلیے جمع ہو سکتے ہیں۔

یہ خلیے ہی ہیں جو قرآن پاک کی صداقت کا ایک اور ثبوت سامنے لے آئے۔ چند عشرے قبل سائنس دانوں نے تحقیق سے دریافت کیا کہ انسانی جسم میں خلیوں کی بعض اقسام کی یادداشت انسان کے مرتے دم تک رہتی ہے۔ مثلاً دماغ کے نیورون خلیوں میں محفوظ شدہ یادیں انسان کبھی نہیں بھولتا۔ اسی طرح ہمارے مدافعتی نظام کے خصوصی خلیے ہر بیماری کی یادداشت اپنے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔

گویا ثابت ہوگیا کہ خلویاتی سطح پر بھی انسان میں یادیں رکھنے کا نظام موجود ہے۔ لیکن قرآن پاک میں چودہ سو سال قبل ہی یہ سچائی بیان فرمادی گئی۔ ’’اس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔‘‘ (سورہ النور۔ 24) ۔گویا یوم آخرت جب حساب کتاب کا وقت آئے گا، تو ہمارے جسمانی اعضا بھی ان کے اچھے یا برے ہونے کے گواہ بنیں گے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہمیں اپنے جسم کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے کہ روز قیامت وہ ہمارے اعمال کی گواہی دے گا۔

ننھیمنے کمپیوٹر

یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ قرآن مجید میں خلیوں سے متعلق وہ حقائق موجود ہیں جو کئی سو سال بعد سائنس دانوں کو رات دن مغز ماری کے بعد معلوم ہوئے۔ مثلاً انہوں نے جانا کہ ہر خلیے میں ڈی این اے سالمہ ننھے سے کمپیوٹر کے مانند ہے۔

اس کمپیوٹر میں تمام جنیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ جب بچہ رحم مادر میں پرورش پارہا ہو، تو تمام خلیوں کے ڈی این اے کے احکامات پر ہی اس کے اعضا تشکیل پاتے ہیں۔ اس کا رنگ تک انہی کی دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر خلیے کے اندر پائے جانے والے کمپیوٹر یا ’’بلٹ ان کوڈ‘‘ کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے۔ ’’ یہ ہمارا رب ہے جس نے ہر شے کو اس کا آئین (شکل و صورت) دیا اور اسے راہ دکھائی۔‘‘ (سورہ طہ۔ 50)

حیرت انگیز بات یہ کہ انسان ہو یا کوئی حیوان مثلاً وہیل، ہاتھی، کتا یا بندر… سب زندوں کے خلیوں کی کیمیائی ترکیب ایک جیسی ہے۔ خاص طور پر ان کے ڈی این اے پانی اور مطلوبہ سالمات ہی سے بنتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان کے ڈی این اے سے انسان ہی جنم لے گا جبکہ وہیل، ہاتھی یا بندر کے خلیوں سے انہی کے بچے جنم لیں گے۔ خلویاتی سطح پر اتنی حیران کن اور زبردست کارفرمائی صرف ایک طاقت ہی دکھا سکتی ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہیں۔ رب کائنات نے اپنی کتاب میں یہ کارفرمائی یوں بیان فرمائی ہے ’’ اور وہ تمام مخلوق (تخلیق کرنے کے طریقوں) کو جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ یٰسین۔ 79)

جنہیں وہ نہیں جانتے

خلیہ بھی ایٹموں سے بنے سالمات یا مرکبات کا مجموعہ ہے جو مردہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سالمات میں زندگی کی لہر کیسے دوڑی؟ حرکت نے کیونکر جنم لیا جو زندہ ہونے کی نشانی ہے؟ جیسا کہ بتایا گیا،یہ وہ سربستہ راز ہے جو سائنس تمام تر ترقی کے باوجود اب تک دریافت نہیں کر سکی۔ البتہ بیسویں صدی میں پہنچ کر ماہرین کو یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ پانی اور مرکبات کے ملنے سے کیمیائی عمل پیدا ہوئے اور انہی کی بدولت زندگی نے جنم لیا۔

حیرت انگیز بات یہ کہ اللہ تعالیٰ چودہ صدیاں قبل یہی سچائی بیان کر چکے: ’’پاک ہے وہ جس نے ان سب چیزوں کے جوڑے بنائے جنہیں زمین اگاتی ہے‘ اور ان چیزوںکے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘(سورہ یٰسین ۔36)

خون کے بے حساب خلیے

ایٹموں کے مانند خلیوں کی دنیا بھی بہت متنوع‘ رنگ برنگی اور قدرت الٰہی کا حیران کن معجزہ ہے۔ اسی میں صرف ایک خیلے والے جاندار ملتے ہیں تو وہیل اور ہاتھی جیسے دیوہیکل حیوان بھی جو کئی کروڑ کھرب خلیوں کا مجموعہ ہیں۔ پھر خلیوں کی بھی سیکڑوں اقسام ہیں۔ مثلاً انسانی جسم میں ’’200‘‘ اقسام کے خلیے ملتے ہیں۔

ہر قسم اپنا مخصوص کام انجام دیتی ہے۔ بعض خلیے تنہا اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت ’’بافتوں‘‘ (tissues) میں ڈھل جاتی ہے۔ پھر مختلف بافتیں مل کر ’’غدہ‘‘(gland) تشکیل دیتی ہیں۔ پھر انسانی جسم کے تمام غدودمل کر ہمیں زندہ رکھتے اور بھاگ دوڑ کرنے میں مد دیتے ہیں۔

انسان جسم میں خون کے خلیے سب سے زیادہ ہیں۔ حقیقتاً کل خلیوں کی ’’80 فیصد‘‘ تعداد انہی خون کے خلیوں پر مشتمل ہے۔ گویا ہمارے بدن میں 24سے 25ٹریلین خلیے خون کے ہیں۔ دماغ کے خلیوں کی تعداد تقریباً پونے دو سو ارب ہے۔ ان خلیوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ اول ’’نیورون خلیے‘‘ جن کی تعداد85سے 90 ارب کے مابین ہوتی ہے۔ دماغ میں نیورون ہی برقی احکامات کی ترسیل کرتے ہیں۔ دوم ’’گلیل خلیے‘‘ جن کی تعداد 85 ارب کے لگ بھگ ہے۔ یہ نیورون خلیوں کو کام انجام دیتے ہوئے مدد دیتے ہیں۔

ہمارا 65 فیصد جسم آکسیجن گیس، 18 فیصد کاربن، 10 فیصد ہائڈروجن گیس، 3 فیصد نائٹروجن گیس اور سلفر وغیرہ سے بنا ہے۔ آکسیجن اور ہائڈروجن گیسیں مل کر پانی بناتی ہیں۔ اسی لیے ہمارا 75 فیصد جسم پانی کے سالمات سے بنا ہے۔ یہی وجہ ہے، ہمارے جسم میں پانی ہر وقت رہنا چاہیے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔دلچسپ بات یہ کہ اگرچہ ہمارا جسم تیس تا چالیس ٹریلین خلیوں پر مشتمل ہے لیکن ہمارے بدن میں جراثیم کی تعدد ان سے کہیں زیادہ ہے۔

جی ہاں، انسانی جسم میں 100 ٹریلین جراثیم پائے جاتے ہیں۔ ان کی بیشتر تعداد ہماری آنتوں میں ملتی ہے۔ جلد، ناک، حلق میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ’’انسانی جراثیم‘‘ کہلائے جانے والے یہ یک خلوی نامیے ہمیں تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جراثیم بظاہر انسان دشمن سمجھے جاتے ہیں مگر ان کی تخلیق میں بھی اللہ پاک کی حکمت ہے۔ اسی لیے فرمان الٰہی ہے: ’’ہم نے ہر شے کو سوچ سمجھ کر (اور خاص کام انجام دینے کی خاطر) بنایا ہے۔‘‘ (سورہ القمر۔ 54)

ایک سالمے کے اسرار

انسانی خلیوں کے ڈی این اے سالمات میں ہماری جینیاتی خصوصیات محفوظ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہماری آنکھوں اور بالوں کا رنگ کیسے ہوگا، گردوں اور جگر نے کیسے کام کرنا ہے۔ یہ مختلف احکامات ڈی این اے کے مختلف حصوں میں محفوظ ہوتے ہیں جنہیں ’’جین‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک انسانی خلیے کے ڈی این اے کو رسی کی شکل دی جائے تو وہ 6 فٹ (دو میٹر) لمبی نکلے گی۔ گویا تمام انسانی خلیوں کے ڈی این اے سے ایک رسی بن جائے تو وہ اتنی لمبی ہوگی کہ اس سے سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کو ’’ستر‘‘ بار لپیٹا جاسکتا ہے۔اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے بدن کا محض ایک سالمہ(ڈی این اے)کیسے زبردست اسرار رکھتا ہے۔

ہمارے بدن میں بیشتر خلیے مرجاتے ہیں۔ ان کی جگہ پھر نئے لیتے ہیں۔ تاہم دماغی خلیے، نیورون موت کو گلے نہیں لگاتے، وہ ساری عمر انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ خون کے خلیے 120 دن زندہ رہتے ہیں۔ اس طرح جلد کے خلیے چند ہفتوں بعد چل بستے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے، روزانہ انسانی جسم کے 70 تا 80 ارب خلیے چل بستے ہیں۔ مگر گھبرائیے مت، ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔

اگر کسی خلیے میں خرابی پیدا ہوجائے یا چھوت اسے جاچمٹے تو وہ ایک قدرتی طریق کار ’’اپوپٹوسیس‘‘ (Apoptosis )کے ذریعے خودکشی کرلیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کی خرابی دیگر تندرست خلیوں کو متاثر نہ کرسکے۔ لیکن کسی وجہ سے وہ خودکشی نہ کرسکے تو کینسر کا نشانہ بن جاتا ہے۔

منہ کا شاہکار نظام

ہمارے بدن میں دماغ، دل، جگر اور گردے اہم اعضا ہیں۔ انہی میں منہ بھی شامل ہے۔یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ تقریباً ہر بیرونی شے اسی کے راستے ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے راستے اپنا ایندھن ‘ کھانا کھاتے ہیں۔ منہ بظاہر عام سا جسمانی حصہ ہے مگر حقیقتاً یہ بھی قدرت الٰہی کا چھوٹا سا شاہکار ہے۔کئی چھوٹے بڑے جزو مثلاً دانت ‘زبان ‘ لعاب دہن‘ مختلف جھلیاں‘ ٹانسلز‘ قوہ وغیرہ رکھتاہے۔ منہ کے ان حصوں میں سے ہر حصہ اپنی جگہ دنگ کردینے والی کئی خصوصیات رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر دانتوں کو لیجیے۔ ان کی بیرونی سفید تہہ ’’اینمل‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ انسانی جسم کا سب سے سخت حصہ ہے جسے کیلشیم اور فاسفیٹ مل کر بناتے ہیں۔ اسی اینمل کی بدولت ہم اپنے دانتوں سے انتہائی سخت چیزیں بھی توڑ ڈالتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے منہ کے پٹھوں کو اتنی زیادہ قوت بخشی ہے کہ ہم دانتوں سے کسی شے پر ’’200 پونڈ‘‘ کا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ مگر یہ عمل ہمیں وقتاً فوقتاً ہی کرنا چاہیے کہ اس سے دانتوں نقصان پہنچتا ہے۔

اینمل کے باعث ہی ہمارے دانت کئی سو سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہمارے منہ میں بستے جراثیم دانتوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ جب ہم میٹھی یا چٹ پٹی خوراک کھائیں تو جراثیم انہیں مزے سے کھا کر تیزاب بناتے ہیں۔ یہ تیزاب اگر زیادہ بنے تو اینمل کو کھوکھلا کرکے ہمارے دانت خراب کردیتا ہے۔ اسی لیے میٹھی اور چٹ پٹی اشیا کم ہی کھائیے۔ یاد رہے، ہمارے منہ میں ’’تین سو‘‘ سے زائد اقسام کے جراثیم ملتے ہیں۔

دانت :قانون کے مددگار

ماہرین دنداںکہتے ہیں کہ برش کرتے ہوئے دانتوں پر دباؤ مت ڈالیے۔ اگر پانی کا محض ایک قطرہ بھی پتھر پر گرتا رہے تو اس میں سوراخ کردیتا ہے۔ لہٰذا دباؤ ڈال کر برش کرنے سے اینمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ چونکہ اینمل میں خلیے نہیں پائے جاتے لہٰذا یہ ایک دفعہ خراب ہوجائے تو پھر نیا جنم نہیں لے پاتا۔ لہٰذا اینمل کی حفاظت کیجیے تاکہ بڑھاپے تک اپنے دانتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔

دانتوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان کا ڈیزائن یا ہئیت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے۔ گویا فنگر پرنٹس یا نشان انگشت کی طرح ہر انسان دانتوں کا بھی مختلف سیٹ رکھتا ہے۔ اسی لیے پولیس اور سراغ رساں کسی قاتل یا مقتول کو پہنچاننے کے لیے دانتوں سے بھی مدد لیتے ہیں۔

دانتوں کو معمولی عضو جسم مت سمجھیے۔ جدید طب نے دریافت کیا ہے کہ دانت خراب ہونے سے انسان امراض قلب، ذیابیطس اور ہڈیاں بھربھری ہوجانے جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہر کھانے کے بعد کم از کم تین منٹ ضرور دانت صاف کیجیے۔ یہ سنت نبویؐ بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو اکثر ہر نماز سے قبل دوران وضو مسواک بھی فرماتے تھے۔ (مسند احمد)۔ حدیث نبویﷺ ہے ’’چار چیزیں پیغمبروں کی میراث ہیں: حیا کرنا، خوشبو لگانا، مسواک اور شادی کرنا۔‘‘ (ترمذی۔ مسند احمد)

The post انسانی جسم : قدرت الہی کا عظیم الشان معجزہ appeared first on ایکسپریس اردو.


50 کام جو 50 سال کی عمر سے پہلے کر لینے چاہئیں

$
0
0

زندگی اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو عطا کردہ سب سے قیمتی اور بیش بہا عطیہ ہے جس کی حفاظت اور درست استعمال انسان کے ذمے ہے۔ انسان دنیا میں آتے ہی خوابوں اور خواہشوں کے حصار میں محصور ہو جاتا ہے۔

بچپن اور لڑکپن والدین اور دیگر قرابت داروں کی آرزوؤں اور تمناؤں کے تحت گزارتا ہے، جوانی میں جب اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں، اْس کو اپنے خواب بْننے اور پھر انہیں پورا کرنے کی لگن اْکساتی ہے۔ وہ ہر کامیابی اور عروج کو اپنے قدموں میں ڈھیر کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کی نظر آسمان پر اور قدم زمین پر، اس درمیانی فاصلے کو طے کرنے کو مچل رہے ہوتے ہیں۔

جب عمر ذرا ڈھلتی ہے اور وہ ذہنی پختگی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اب تک جن چیزوں اور مقاصد کے حصول میں وہ اپنی توانائیاں صرف کر رہا تھا وہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ زندگی تو اس سے بہت آگے کی چیز اور قیمتی سرمایہ ہے جسے بہت سمجھداری سے صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے تب پتہ چلتا ہے کہ ایسے بہت سے امور سے وہ بے خبر رہا ہے جو اسے اس عمر تک پہنچنے سے قبل مکمل کر لینے چاہئیں تھے۔ سمجھدار لوگ اپنے مقاصد طے کر تے اور پھر ان کے حصول کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور با مقصد زندگی گزارتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں پچاس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے آپ کو اپنے مقاصد حاصل کر لینے چاہییں۔ آئیے! ان پچاس امور کی فہرست بنائیں جو آپ کو پچاس سال تک پہنچنے سے قبل کر لینے چاہئیں:

1۔ مذہب کا بنیادی علم حاصل کریں:آپ جس بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ضروری ہے کہ آپ کو اس کے بنیادی علوم پر مہارت حاصل ہو تا کہ آپ نہ صرف مذہب کی روح کو سمجھ سکیں بلکہ ازخود مذہبی احکامات پر درست طریقے سے عمل کرنے کے بھی قابل ہوں۔ اپنی مذہبی کتاب کو سمجھ کر پڑھیں تا کہ آپ جان سکیں کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے کیا پیغام بھیجا ہے۔

2 ۔ پاسپورٹ کا استعمال کریں:ہم میں سے اکثر لوگ پاسپورٹ بنوا لیتے ہیں لیکن مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے جانے کے علاوہ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے، حالانکہ سفر کو وسیلہ ظفر کہا جاتا ہے اور سفر کرنے سے آپ بہت کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ اس لیے اپنی پسند کے مقامات پر جانے کا لازمی منصوبہ بنائیں، اپنے گھر، شہر اور ملک سے باہر نکل کر آپ پر علم اور آگاہی کے نئے در وا ہوں گے۔

3۔ وصیت تحریر کریں:ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اور ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہو گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اثاثوں کی مناسب تقسیم کا تحریری فیصلہ کریں تا کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے ورثاء کے درمیان ان کے حوالے سے کوئی بدمزگی نہ ہو۔ اپنے لین دین کا بھی تحریری اندراج رکھنے کی عادت اپنائیں تا کہ کل کلاں کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔

4۔ محبت کرنا سیکھیں :نفرت کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن یہ آپ کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔ اس لیے آپ لوگوں سے محبت کرنا سیکھیں۔ صرف اہلِ خانہ سے نہیں، اپنے ارد گرد کے لوگوں سے محبت بھرے برتاؤ کی عادت اپنائیں۔ محبت نہ صرف آپ کی اپنی زندگی کو آسان کرتی ہے بلکہ معاشرے میں بھی سکون اور خوشی پھیلانے کا سبب بنتی ہے، اس لئے اپنا دل محبت کے لیے وسیع کریں۔

5۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی کریں:اگر ملازمت پیشہ ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے بارے میں سوچیں۔ ملازمت کی مصروفیت کی وجہ سے جو کام آپ نہیں کر پاتے تھے، ان کے کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ اگر آپ ملازمت پیشہ نہیں ہیں، پھر بھی ساٹھ سال کے بعد کی عمر گزارنے کے حوالے سے کچھ خاص کرنے کا سوچیں، گھریلو ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ اپنی پسند کے کام کر سکتے ہیں جو پہلے آپ مختلف گھریلو امور میں مصروف رہنے کی وجہ سے نہیں کر پاتے تھے۔

6۔ مضمون تحریر کریں:ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی تخلیقی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے، اپنی اس صلاحیت کو جانیں اور اپنی دلچسپی کے کسی بھی موضوع پر مضمون تحریر کریں۔ چاہے وہ مضمون کہیں نہ چھپوائیں لیکن لکھنا آپ کو پُرسکون کرے گا ۔اپنی تحریر کو پڑھ کر آپ خود کو ازسرنو تروتازہ محسوس کریں گے۔

7 ۔ تھراپی کرائیں:مختلف جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا لوگوں کو ماہرین سے مشاورت اور رہنمائی کے سیشن لینے سے ہی افاقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی مرض کا شکار نہیں بھی ہیں تو کبھی کبھار تھراپی لینا آپ کے لیے مفید ہوسکتا ہے، چاہے وہ تھراپی جسمانی خوبصورتی سے ہی متعلق کیوں نہ ہو لیکن وہ آپ کی ذہنی اور نفسیاتی تندرستی کے لیے بھی معاون ہوگی۔

8۔ جانور یا پرندے پالیں:اگر آپ کو جانوروں یا پرندوں سے دلچسپی ہے تو گھر میں انھیں پالنے کا اہتمام کریں، ان کے کھانے پینے، صحت و صفائی کے امور کی مصروفیت آپ کے وقت کو بامقصد بنائے گا۔ اگر پاس جانور یا پرندے پالنے کے لیے گھر میں مناسب جگہ کا انتظام نہیں ہے تو آپ گھر سے باہر یا چھت پر پرندوں کے لیے دانے اور پانی کا انتظام کریں، خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں پرندوں کے لیے پانی کا ضرور انتظام کریں۔

9۔سماجی خدمت کے کام کریں:اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر سماجی خدمت کے کاموں میں ضرور حصہ لیں۔ اولڈہومز میں وقت دیں، ہسپتال میں جا کر کام کریں، آس پڑوس کے بزرگ اور بیمار افراد کا خیال رکھیں، ان کے راشن اور دیگر ضروری سامان بازار سے لا کر دینے کی پیشکش کریں۔

10۔ پرانے تعلقات کو بحال کریں:وہ لوگ جو آپ کی زندگی کے کسے حصہ میں آپ کے ساتھ رہے اور گردشِ زمانہ کی وجہ سے آپ اور اُن میں فاصلے آ گئے ہیں تو ان فاصلوں کو پاٹنے کی کوشش کریں۔ اپنے سکول کے کلاس فیلوز، بچپن کے دوستوں کو ڈھونڈیں، آج کل سماجی رابطوں کے اتنے فورم دستیاب ہیں کہ بچھڑے ہوؤں کو ڈھونڈنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ ان رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پیاروں کو زندگی میں واپس لائیں۔ بچپن کی دوستی بے غرض ہوتی ہے، ان بے غرض تعلقات کو اپنی زندگی میں شامل رکھیں۔

11۔ مشہور ملکی تفریحی مقامات پر جائیں:آپ کی زندگی کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو، اس میں تفریح کا وقت لازمی رکھیں۔ ملک کے قابلِ دید مقامات کی فہرست بنائیں، جب بھی چند ایک بھی چھٹیاں ہاتھ آئیں، سیر کو نکل پڑیں۔ اہل خانہ کے ساتھ مختلف تفریحی مقامات کی سیر آپ کو طویل عرصہ تک تروتازہ رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔

12۔ باقاعدگی سے لائبریری جائیں:کتابوں سے بڑھ کر اچھا دوست کوئی نہیں ہو سکتا، اچھی کتاب سوچ اور طرزِ عمل کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی قریبی لائبریری کی رکنیت حاصل کریں، چاہے ہفتہ وار ہی سہی لیکن کتابوں کے ساتھ وقت گزارنے کی عادت اپنائیں۔

13۔قومی انتخابات  میںخدمات پیش کریں :کسی بھی ملک میں حکومت کا نظام قائم کرنے کے لیے انتخابات کی ضرورت ہوتی ہے، ملک بھر میں یہ بہت مصروفیت کا موسم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے مددگار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اپنی صلاحیت کے مطابق کسی ذمہ داری کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔

14۔اپنی پسند کا کوئی ہنر سیکھیں:ہنر مند افراد کی ہر معاشرے میں ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ انہیں معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہنر اعتماد میں اضافہ کا بھی باعث ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھیں، چاہے وہ کھانا پکانے میں کوئی نئی تکنیک سیکھنی ہو، گاڑی چلانا سیکھنا ہو یا اور کوئی بھی کام جسے سیکھنے سے آپ کو خوشی ملے ۔

15۔ باغبانی کریں:اگر آپ کے گھر میں تھوڑی سی بھی خالی جگہ دستیاب ہے تو اس پر مختلف پھول اور پودے اْگائیں۔ ان کی دیکھ بھال کریں، پانی دیں، کھاد اور گوڈی کا عمل خود انجام دیں۔ آپ اپنی ضرورت کی چھوٹی موٹی سبزی بھی اس باغیچے میں کاشت کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ  قدرت کے قریب ہونے کے کاموں میں سے ایک باغبانی کرنا بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس مناسب جگہ نہیں ہے جہاں آپ باغبانی کرسکیں تو کوئی بات نہیں، بہت سے پودے اور پھول، یہاں تک کہ سبزیاں بھی ایسی ہیں جنہیں گملوں میں بھی اْگایا جا سکتا ہے۔

16۔ لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں:ہم میں سے ہر شخص سے غلطی بھی ہوتی ہے اور دوسروں سے زیادتی بھی ہم کر جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ساتھ بھی بعض اوقات ہمارے اہل خانہ، دوست یا جاننے والوں کی طرف سے ایسا ہو جاتا ہے، یہ زندگی کاحصہ ہے۔ تو ایسے کسی بھی موقع پر وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور زیادتی کرنے والے کو معاف کر دیں۔ اس سے نہ صرف اْسے اپنی زیادتی پر پشیمانی ہوگی بلکہ معاف کرنے سے آپ کا دل ودماغ بھی ہلکا ہو جائے گا۔

17 ۔ تنہائی سے لطف اندوز ہونا سیکھیں:انسان کو معاشرتی حیوان اسی لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ ہجوم میں خوش رہتا ہے اور تنہائی سے گھبراتا ہے. تنہائی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پریشان ہوا جائے۔ تنہائی تو خود سے اور اللہ سے گفتگو کا موقع فراہم کرتی ہے، تنہائی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے کچھ وقت تنہا اپنے ساتھ گزارنے کی عادت اپنائیں۔ تنہا بیٹھ کر غور وفکر کریں، ذہن کو پرسکون چھوڑ کر اپنے ساتھ سے خود کو لطف اندوز ہونے کا موقع دیں۔

18۔کوہ پیمائی کریں:اگرآپ کے ملک میں پہاڑی سلسلے ہیں تو ان پہاڑوں کو سر کریں۔ پہاڑ اس زمین پر اللہ کی قدرت کی نشانی ہیں۔ ان کو دیکھ کر آپ کے دل میں ہیبت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے، وہ ان پرچڑھنے سے دور ہوجاتا ہے اور اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بظاہر اتنے بڑے نظر آتے اجسام کو انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔

19۔کوئی ساز بجانا سیکھیں:اگر آپ کو موسیقی یا آلات موسیقی سے کوئی دلچسپی ہے تواپنی پسند کا کوئی ساز بجانا ضرور سیکھیں۔ کچھ بھی نیا اور من پسند سیکھنا آپ کی شخصیت کو نکھارتا ہے، خود میں یہ نکھار لازمی لائیں۔

20۔کھانے کی عادت تبدیل کریں:من پسند کھانا تو ہر ایک کو اچھا لگتا ہے، کیوں نہ کبھی وہ چیزیں بھی کھا لی جائیں جو آپ کو زیادہ پسند نہیں ہیں، کھانے کی عادات میں تبدیلی کی کوشش کرنا اور کبھی کبھار کسی بہت زیادہ پسند نہ ہونے والے کھانے کو بھی خاموشی سے کھا لینا ایک مْثبت سوچ کا باعث ہوسکتا ہے۔

21 ۔کوئی نظم لکھیں:شاعری کوئی پیشہ نہیں ہے کہ صرف مخصوص افراد ہی کر سکتے ہیں، آپ بھی اپنے جذبات کا اظہار کسی نظم کی صورت میں کر سکتے ہیں۔

22۔ہوابازی کی تربیت لیں:اگر آپ کا رجحان ہو تو ہوا بازی کی تربیت لیں۔ پرندوں کی مانند زمین سے فضا میں بلند ہونا بہت پر لطف تجربہ ہے جو کہ آپ کو کم از کم ایک بار ضرور کرنا چاہیے۔

23۔غلطی کرنے سے خوفزدہ مت ہوں:جب تک آپ غلطی کرنے کے خوف میں مبتلا رہیں گے، کچھ اچھا اور جرات مندانہ عمل کبھی نہیں کر پائیں گے، خود کو سمجھائیں کہ غلطیاں بھی انسانوں سے ہوتی ہیں، غلطی کے خوف میں خود کو محدود مت کریں۔

24۔ محبت نامہ لکھیں:اپنے پیاروں کے لیے آپ کے جو جذبات ہیں، انہیں دل میں چھپا کر مت رکھیں، بلکہ انہیں آگاہ کریں۔ اگر زبان سے اظہار مشکل لگتا ہے تو لکھ کے انہیں بتائیں، جن سے محبت کی جاتی ہے، ان کا حق ہے کہ انہیں اس جذبے سے آگاہ بھی کیا جائے۔

25۔ بینک اکاؤنٹ کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں:اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ رہیں تا کہ کسی بھی دھوکہ دہی سے بچ سکیں۔ اپنے موبائل فون میں آپ متعلقہ بینک کی ایپلیکیشن سے خود اپنے اکاؤنٹ کے متعلقہ امور کا گھر بیٹھے جائزہ لے سکتے ہیں۔

26 ۔ سیر کرنے کی عادت اپنائیں:دن رات کے اوقات میں سے پیدل سیر کے لیے کچھ وقت مخصوص کریں۔ گھر کے قریب کسی پارک تک چلے جائیں یا گھر کے اندر ہی سہی لیکن کچھ وقت نکال کر چہل قدمی لازمی کریں۔

27۔ بجٹ بنائیں:آمدنی اور خرچ میں توازن تبھی رکھا جا سکتا ہے جب آپ بجٹ بنا کر اخراجات اس کے مطابق کریں۔ بجٹ بنانا مشکل نہیں ہے، اس کے مطابق اخراجات کو قابو میں رکھنا خاصا مشکل امر ہے لیکن کچھ مہینوں کی مسقل کوشش سے آپ اس مشکل پر قابو پا سکتے ہیں۔

28۔ اپنی الماری کو ترتیب دیں:بظاہر بہت منظم دکھائی دینے والے لوگوں کی الماریاں منظم نہیں ہوتیں، یا اگر ہوتی بھی ہیں توچند دن میں ہی پھر بکھری ہوتی ہیں۔ اپنی الماری کو ترتیب سے رکھنا شروع کریں، یہ امر آپ کو ایک منظم فرد بنانے میں معاون ہو گا۔

29۔ گھر میں دستیاب اشیاء سے کھانا بنانا سیکھیں:اگر کبھی آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے کہ آپ باہر سے کچھ منگوا بھی نہ سکتے ہوں اور مہمانوں کو کھانا بھی پیش کرنا ہو، تو ایسے کسی موقع پر پریشان ہونے کی بجائے گھر کے فریج یا نعمت خانے میں دستیاب اشیاء سے بھی آپ بہت کھانا بنا سکتی ہیں، بات صرف اپنے حواس کو قابو میں رکھنے کی ہے۔

30۔ تھیٹر شو دیکھیں:ہر شہر میں مقامی فنکار تھیٹر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کے شہر کا تھیٹر کوئی ڈرامہ کر رہا ہو تو اسے دیکھنے جائیں، تھیٹر آپ کو حقیقت سے جڑا لگتا ہے۔ کیونکہ اس کے فن کاروں اور آپ کے درمیان کوئی سکرین نہیں ہوتی۔ آپ براہ راست ان کی اداکاری سے لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں اور یہ چیز آپ پر اثر پذیر ہوتی ہے۔

31۔ معافی مانگنے کا فن سیکھیں:ہم میںسے ہرایک سے دوسرے کے ساتھ کوئی نہ کوئی زیادتی یاحق تلفی ہو جاتی ہے، اچھا انسان ہی ہے جو اپنی غلطی کا احساس کرے، اس پر شرمندہ ہو اور معافی مانگ لے۔ معافی مانگنا وہ فعل ہے جو آپ کی انسانی عظمت میں اضافہ کرتا ہے۔

32۔ مقامی میلے میں جائیں:شہروں اور دیہات میں بہار کے آغاز کے ساتھ ہی میلے منعقد ہوتے ہیںجن میں کھانے پینے کے ٹھیلے، جھولے اور مختلف قسم کی تفریح کا سامان ہوتا ہے۔ آپ کو ان میلوں میں ضرور جانا چاہیے۔ دماغی صحت کے لیے ایسی جگہوں پر جانا فائدہ مند ہوتا ہے۔

33 ۔ بزرگوں کے ساتھ وقت گزاریں:اگر آپ کے گھر میں بزرگ افراد ہیں تو آپ سے بڑھ کر خوش قسمت اور کوئی نہیں کہ آپ کو بزرگوں کی صورت میں دانش کا خزانہ دستیاب ہے، ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور ان کی زندگی کے تجربات سے استفادہ کریں۔

34 ۔ ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھیں:یہ ٹیکنالوجی کے عروج کا زمانہ ہے، اس تیز رفتار زمانے کا ساتھ دینے کو ضروری ہے کہ آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقفیت حاصل ہواور آپ خود کو کم علم محسوس نہ کریں۔

35۔ قیلولہ لازمی کریں:اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو مذہب نے زندگی گزارنے کے جو اصول بتائے ہیں، ان میں دوپہر کے کھانے کے بعد کم از کم آدھے گھنٹے کے آرام کی تاکید کی ہے۔ آج کی دنیا اسے Power Nap قرار دے کر اس کی اہمیت و افادیت کی قائل ہو چکی ہے۔ آپ بھی دن میں آدھا گھنٹہ توانائی بڑھانے والی اس نیند کے لیے مخصوص کریں۔

36۔ زہریلے پودوں اور جانوروں کے بارے میں آگاہی حاصل کریں:اس رنگ برنگی کائنات میں بہت سے جانور اور پودے ایسے بھی ہیں کہ محض چھو لینے سے ہی کسی جان دار کی موت واقع جاتی ہے۔ خود کو اور پیاروں کو ایسے کسی بھی نقصان سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو زہریلے پودوں اور جانوروں کی پہچان ہو اور ان کے خواص کا علم ہو۔

37۔ لوگوں کے نام یاد رکھیں:لوگوںکے نام بھول جاناآپ کی شخصیت کابہت برا تاثرمرتب کرتاہے۔کوشش کریںکہ ایک دفعہ ملنے والے یاکم ملنے والوںکے بھی نام آپ کویاد رہیں۔

38۔نئی زبان سیکھیں:نت نئی زبانوںکاسیکھنا نہ صرف آپ کی شخصیت کونکھارتاہے بلکہ آپ کی دماغی صلاحیتوںکوبھی جِلابخشتاہے،اس لیے کوئی ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش کریں۔

39 ۔ثقافتوںکا مطالعہ کریں:ہرعلاقے اورملک کارہن سہن،لباس اور رسم ورواج مختلف ہوتے ہیں۔ان کامطالعہ نہ صرف آپ کے علم میںاضافہ کرے گابلکہ آپ کومختلف تہذیبوںسے بھی آگاہی ہوگی۔

40۔کوئی کھیل کھیلیں:جسمانی صحت کوبرقرار رکھنے کے لیے ورزش بہت ضروری ہے،اپنی پسندکاکوئی ایساکھیل روزانہ کی بنیاد پر کھیلا کریں جو آپ کی جسمانی صحت کے لیے معاون ہو۔

41۔ سمندر کا سفر کریں :اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں صرف زمین کے اوپر ہی مخلوق نہیں پھیلائی، بلکہ پانیوں کے نیچے بھی سمندری حیات کی دنیا آباد ہے، اس انوکھی دنیا کا نظارہ کرنے کے لیے سمندری سفر پر ضرور جائیں۔

42۔ وزن پر قابو رکھیں:فی زمانہ وزن میں اضافہ کئی بیماریوں کو دعوت دینے کا سبب بن سکتا ہے، اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو اپنے وزن کو قابو سے باہر نہ نکلنے دیں۔

43۔درخت سے پھل اْتارنے کا تجربہ:اگرآپ زرعی علاقے کے رہائشی ہیںتواپنے ہاتھ سے پھل داردرختوںسے پھل اْتاریں،یہ کام انمول روحانی خوشی سے ہمکنارکرے گا۔ زرعی علاقہ نہ بھی ہوتوگھرکے ارد گردموجودکسی بھی پھل داردرخت سے اپنے ہاتھ سے پھل اْتاریں۔

44۔مچھلی کاشکارکریں:کسی دن مچھلی کے شکارکاتجربہ کریں۔ ڈور ڈال کر شکار پھنسنے کا انتظار بہت اچھا تجربہ ثابت ہوگا۔

45۔ مذہبی اجتماعات میں شریک ہوں:آپ جس بھی مذہب کے پیروکار ہیں، اپنے عقیدے کے حوالے سے منعقد ہونے والے مذہبی اجتماعات میں باقاعدگی سے شریک ہوا کیجیے، یہ امر آپ کو روحانی بالیدگی سے روشناس کرائے گا۔

46۔ سوانح عمریوں کو زیرِ مطالعہ رکھیں:مختلف لوگوں کے حالات زندگی کے بارے میں جاننا بہت دلچسپ اور مفید عمل ہے۔ سوانح عمری کا مطالعہ اپنی عادت بنائیں تا کہ آپ کچھ نیا سیکھ سکیں۔

47 ۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں:بچے اس کائنات کی سب سے خوبصورت مخلوق ہیں،ان کے ساتھ وقت گزارناآپ کی پریشانی اور غم کو زائل کرتا ہے، اس لیے دن میں کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں۔

48۔ دوستوں سے رابطے میں رہیں:انسان کی زندگی کا قابلِ قدر سرمایہ اس کے دوست ہوتے ہیں، اس قیمتی سرمائے کو کھونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان سے رابطہ میں رہیں، ان رشتوں کو توجہ اور خلوص کا پانی ملتا رہے تو یہ شاداب رہتے ہیں۔

49۔ اپنی پسند کا ڈرامہ دیکھیں:اپنی پسند کا کوئی ٹی وی ڈرامہ دیکھیں، کبھی کبھی اپنے ساتھ وقت گزارنا اور پسند کی کسی سرگرمی میں مصروف ہونا سب سے اچھی تھیراپی ثابت ہوتا ہے۔

50۔خوش رہنے کی عادت اپنائیں:اپنی زندگی کا کسی بھی دوسرے فرد کے ساتھ موازنہ مت کریں، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو مختلف انداز میں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، جو آپ کو عطا ہوا ہے، اْس پر مطمئن اور قانع رہیں۔

اگر آپ ان 50 میں سے 35 سے 40کام بھی 50سال کی عمر تک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی کسی نہ کسی حد تک آپ نے زندگی کی نعمت کا حق ادا کر دیا ہے۔ کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ قرآنی دعا بھی کرتے رہیں تا کہ اپنے مقاصدمیں کامیابی سے ہمکنار ہوں:

ترجمہ :اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور میری اولاد کو بھی نیک بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ (الاحقاف 46:15)

The post 50 کام جو 50 سال کی عمر سے پہلے کر لینے چاہئیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جو ملی ہیں ’فرصتیں۔۔۔!

$
0
0

آج کل دنیا میں ہر طرف کورونا وائرس کا چرچا ہے، جسے دیکھیے وہ اس معاملے پر اپنی قابلیت منوانے کے چکر میں ہے، کوئی اسے قدرتی آفات سمجھتا ہے تو کوئی اسے دنیا کے کسی بڑے ملک کی کوئی سازش گردانتا ہے اور کچھ تو سرے سے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں  کہ یہ بھی کوئی چیز ہے، جب کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ ان سب کی دانش وری کا محور صرف اور صرف اِدھر سے اُدھر نقل پر قائم ہے۔ بعض ’خوش مزاجوں‘ نے اس ’فرصت‘ پر لطیفے بھی باندھنے شروع کر دیے کہ ایک بسکٹ میں کتنے سوراخ ہوتے ہیں، کسی نے یہ معلوم چلا لیا کہ پنکھا بند ہونے کے بعد کتنی دیر میں ساکت ہوتا ہے اور کوئی تو یہ ’’تحقیق‘‘ بھی کر چکا ہے کا ایک لوٹا پانی سے کتنی دیر میں بھر جاتا ہے۔

لاک ڈاون کی وجہ سے بہت نقصان بھی ہوئے، لیکن اس کے کچھ فوائد  بھی ہیں کہ اچھے خاصے وہ حضرات جو کبھی کسی بھی گھر کے کام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اب سب ہی کام کر رہے ہے ۔ جھاڑو لگانا، برتن دھونا اور کپڑے دھونا وغیرہ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کی خبر کسی کو کرتے نہیں ہیں اور باہر احباب میں اپنی خودی کو بلند کرتے رہتے ہیں۔

اب آیے ایک اور ’’فائدے‘‘ کی طرف۔ ہم جو اقوام عالم میں اپنی بدعنوانی کی وجہ سے اولین درجوں  میں اپنا مقام رکھتے ہیں، اس لاک ڈاون کے بعد یقینا ہم اس میں کچھ بہتری لانے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ کورونا وائرس کے خوف نے ہمیں پکا مسلمان بنا دیا ہے؟ نہیں جناب بات صرف اتنی ہے کہ تمام سرکاری دفاتر عدلیہ اور دیگر وہ دفاتر جن سے عوام کا واسطہ پڑتا رہتا ہے، وہ سب بند ہیں، تمام کام بھی بند ہیں اس لیے رشوت کا بازار بھی بند ہے، شاید اسی وجہ سے ہم بدعنوانی میں کچھ درجے نیچے آجائیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بہت سے سرکاری ملازمین کو  ’صرف‘ تنخواہ میں گزارہ کرنا پڑے گا۔

ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا سارا وقت صرف موبائل فون میں گزرتا تھا۔ اس لاک ڈاؤن میں وہ موبائل استعمال کر کر کے بیزار ہو چکے ہیں۔ وہ اب اپنے موبائل کی اسکرین سے کچھ اجتناب کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔

آخر میں اپنے نوجوان دوستوں کو ایک مفت مشورہ دیتا ہوں کہ یہی وقت ہے کہ جب تمام بیوٹی پارلر بند ہیں، شاید غالب انہی کے واسطے فرما گئے ہیں کہ ’’دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔۔۔‘‘ اس لیے قوی امکان ہے کہ جو دکھے گا، وہی ملے گا۔ ہماری فراغت کا یہ عالم ہے کہ لوگ نہ جانے کیا کیا کر رہے ہیں، بذات خود ہم بھی اس سے مبرا نہیں، پہلے شاعری کی ٹانگ توڑنے کی کوشش کی اس میں ناکام رہے، تو اب  نثر کے میدان میں کچھ ادیبوں کی ارواح کو تڑپانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہیں۔۔۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔

The post جو ملی ہیں ’فرصتیں۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

’’فیئروڈ۔19۔۔۔!‘‘

$
0
0

کیایہ تعجب کی بات نہیں کہ پاکستان  کے  جن لوگوں نے بے دردی سے ان کو اپنے سدھائے ہوئے باز اور دور مار  بندوقوں سے قتل عام کیا ، وہ اب خود کو ایک  ان دیکھے معمولی  جرثومے  کے شکار ہونے سے پریشان ہیں۔

یہ بات  اب دنیا بھر میں مانی جارہی ہے کہ  انسانوں  پر ہونے ولے اس حملے کی قیادت  کوویڈ۔19 نامی ایک مشہور وائرس کر رہا ہے، لیکن بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اصل نقصان فیئروڈ 19 نامی ایک اور خوف ناک وائرس نے کیا ہے، جو کوویڈ 19 کی  ایک 100 گنا زیادہ طاقت ور، اور مہلک قسم ہے۔ فیئر 19، جسے ’’خوف‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ، ایک خیالی وائرس ہے جو ٹائپ 2 ذیابیطس کی طرز پر چلتا ہے اور خاموش قاتل کی طرح کام کرتا ہے۔

تو Fearvid-19 کوویڈ 19 سے مختلف اور زیادہ مہلک کیسے ہے؟ شروع  اس بات سے کرتے ہیں کہ ایک حقیقی ہے، دوسرا خیالی۔ ایک کو ایک خوردبین کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے، دوسرا صرف  محسوس  کیا جا سکتا ہے۔ ایک بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات ظاہر کرتا ہے، دوسرے میں صرف مریض کے طرز عمل میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کوویڈ۔19 کے برخلاف جو کردار میں ہم آہنگی کا حامل ہے ، فیئر-19 فطرت میں طبقاتی  ہے۔ اس کے شکار عام طور پر امیر،  نہ سوچنے سمجھنے والے، بے کار اور باتوں میں آجانے والے لوگ ہوتے ہیں۔

سائنس دان اس بات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں کہ کس طرح Fearvid-19 خود کو ظاہر اور تبدیل کرتا ہے۔ انہیں یہ  بھی تشویش لاحق ہے کہ کوویڈ-19 چند مہینوں میں غائب ہو سکتا ہے، جب کہ اس کا شریک  جرم، فیر ویوڈ 19، ایک ’’مستقل مرض کی صورت باقی رہتا  ہے۔ کوویڈ۔ 19 کے برعکس، اسے صابن  سے  بھی نہیں بھگایا جا سکتا۔ جو لوگ اس بیماری پھیلانے والے آلے، جسے’’ اسمارٹ فون ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کے مالک ہیں۔  وہ  اس مرض  کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ  اس کے سب سے بڑے ’کیریئر ‘ بھی بنے ہوئے ہیں۔

Fearvid-19 ، اپنے نقصان دہ کیمیکل کو  اسی وقت چھوڑنا شروع کر دیتا ہے، جب کوئی شخص کسی نوٹیفیکشن کی آواز سنتا ہے یا فون کے واٹس اپ  پیغامات پر نظر ڈالنا شروع کرتا ہے۔ کسی پوسٹ کے اوپری حصے میں لکھا ہوا ‘فارورڈ’ دیکھتے ہی ، متاثرہ شخص جنونی کیفیت میں آجاتا ہے اور اس کے مواد کی نوعیت سے قطع نظر اس پوسٹ کو آگے بڑھانا شروع کر دیتا ہے۔    Fearvid-19 سے متاثرہ “واٹس ایپین” سیل فون پر صرف ایک کی انگلیوں کی حرکت سے سیکڑوں دوسرے افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔

Fearvid-19 غلط معلومات اور گپ شپ کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ انسانوں  نے گپ بازی  کو تقریبا 70 ہزار سال  پہلے ایجاد کیا تھا۔ مبہم اور غیرتصدیق شدہ معلومات، اپنے اثرات میں بہت  مؤثر، اور خطرناک ہے۔  فیئر ویوڈ 19 ان ادھ پکی معلومات کے ٹکڑوں پر پنپتا ہے، جو خوف کی تکلیف کا باعث بنتی ہے اور مریضوں کو بدترین صورت حال کے تصورات اخذ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کو غیرمعمولی رجحانات بھی کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر  کسی بے ضرر اور صحت مند عمل  جیسے چھینک یا سماجی فاصلہ کی سفارش کردہ 6 فٹ کی حد کی معمولی خلاف ورزی کرنے پر کوئی مریض اس کو  موت کا نتیجہ تصور کرے گا۔ سخت اضطراب اور خوف کا نتیجہ میں  پیدا ہونے والے کشیدگی کے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں ،  جس کے نتیجے میں مدافعتی نظام متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے ، اور اس طرح کئی منتظر بیماریوں کے لیے نئے راستے  اور کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔

پیشہ ور افراد  اس بات پر  متفق ہیں کہ چوں کہ فیر ویوڈ 19 اپنے مریضوں کے جینوم کو مستقل طور پر تبدیل کر دیتا ہے،  لہذا انھیں زندگی کو بالکل مختلف آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ تمام انسان کام کرنے کے ڈھنگ  اور زیادہ کام سے نمٹنے  اور مقابلہ کرنے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ان کو اس بات کا بہت کم اندازہ ہوتا ہے کہ بے کاری میں کیا کرنا ہے۔ انہیں پرانی اور بھولی ہوئی مہارتوں کی تازہ کاری کے لیے، جیسے قلم سے خط لکھنا، کسی جانور  سے محبت کرنا اور اچھا سلوک کرنا، بغیر کسی گیجٹ (موبائیل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ) کو چھوئے بغیر پندرہ منٹ گزارنا اور پیدل چلنا یا کام کرنے کے لئے سائیکل چلانے  کی  دوبارہ تعلیم  حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

سائنس دانوں اور فارما صنعتوں کو اس بات کا یقین ہے کہ کسی VID,وائرس کو ختم  کرنے کے  لیے واحد علاج ایک VAC‘ (ویکسین) ہے۔  کورونا سے  نمٹنے کے لیے پہلی ویکسین  تیار کرنے کے لیے  ریسرچ لیبارٹریز، تندہی سے  کام کر رہی ہیں۔ اس بات کا امکان  ہے کہ  مستقبل میں  انسانوں کا ویکسین شدہ ہونا  یا نہ ہونا ، ان کی اچھائی اور برائی کا معیار ہو جائے، لیکن اس سے پہلے کہ یہ سب ہو، ہمیں ایک لمحہ کے لیے رک کر غور و فکر کرنا چاہیے۔ کیا یہ بہتر نہیں  کہ ہم ویکسین  کے بہ جائے انسانیت پسند، ماحول دوست، اور مدافعتی قوت بڑھانے  کے اقدام تلاش کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ  اس جنگ میں  کیا ہماری خوش فکری، یا فینیٹی، کیمیائی سینیٹائزر پر غالب آتی ہے یا نہیں۔

The post ’’فیئروڈ۔19۔۔۔!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس : رنگ اور نقش ونگار کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟

$
0
0

دنیا میں انسان شروع سے ہی مختلف مشکلات جوجھتا آیا ہے، غاروں کی زندگی سے جدید دنیا تک اس کے لیے بہت سے کٹھن مراحل آئے ہیں۔ کہیں وہ قدرتی آفات کا شکار ہوا ہے، تو کبھی چند منہ زوروں کے جنگی جنون کا خمیازہ پوری انسانیت بھگتنا پڑا ہے۔ اسے ہر بار ایک نئے سفر کے آغاز کے لیے پھر سے جی اْٹھنا ہوتا ہے۔

فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہمیشہ ہی اس نئے سفر کی راہ متعین کی ہے، وقت کے ہر آمر کو للکارا ہے، قدرتی آفات پر مایوس قوم کی ڈھارس بندھائی ہے اور جنگوں میں امن کے نغمے بکھیرے ہیں۔ بغاوت کے بیچ بوئے ہیں اور نت نئے طریقوں سے شعور و آگاہی پھیلائی ہے۔

دنیا کو اس وقت ایک اور طرح کا محاذ درپیش ہے، جسے کوئی قدرتی آفت کہہ رہا ہے تو کسی کا خیال ہے کہ یہ بد اعمالیوں کی سزا ہے اور کچھ اسے سازش ثابت کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے اسٹریٹ پینٹرز نے بھی گلیوں، سڑکوں اور عمارتوں پر کورونا وائرس کے خطرات سے آگاہی اور طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تخلیقی شہ پارے بنائے ہیں۔

ان مصوروں نے اس عالمی بحران میں ایسے شاہ کار تخلیق کیے ہیں، جو دیکھنے میں تو صرف لکیروں اور رنگوں کا امتزاج ہیں، جاذب نظر بھی ہیں لیکن حقیقت میں ’’بولتی تصویریں‘‘ ہیں، جن کا ہر ایک کردار عزم و حوصلے کی داستان بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے اور جو بلند آواز میں پکار کر قوم کو اس موذی مرض کی ہول ناکی بتا رہی ہیں۔

کورونا وائرس عالمی وبا کی صورت میں منہ کھولے انسانوں کو نگل رہا ہے، اپریل کے اختتام تک دنیا بھر میں سوا دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جب کہ 3 لاکھ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور روز بروز اس تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سائنس دان اس مہلک بیماری کی ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں اور ڈاکٹرز طبی عملے کے ہمراہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مریضوں کو موت کے منہ سے نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ صحافی پل پل کی خبر دے رہے ہیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن کو موثر بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح تخلیق کار بھی شعور بیدار کرنے کے لیے فن پارے پیش کر رہے ہیں۔ اس وبا سے نمٹنا ہے تو ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اسکاٹ لینڈ کے آرٹسٹ نے گلاسکو کی ایک دیوار پر فن پارہ بنایا، جس میں ایک شخص کے پاؤں کو کورونا وائرس جکڑے ہوئے ہیں اور وہ شخص پوری طاقت لگانے کے باوجود کورونا وائرس کی زنجیر توڑ کر اس جان لیوا قید سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔

امریکا کے بعد کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں، جہاں روزانہ ہزار دو ہزار ہلاکتوں کی وجہ سے اب اجتماعی تدفین کی نوبت آگئی ہے۔ اٹلی کے شہر میلان کے ایک اسپتال کی دیوار پر طبی عملے کو سلام پیش کرنے کے لیے ایک آرٹسٹ نے ایسی نرس کی تصویر بنائی ہے، جو اٹلی کے نقشے کو گود میں لیے ہوئے ہے، یعنی اٹلی کو بچانے والے پیرا میڈیکل اسٹاف ہیں۔

برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے تارکین وطن مسلمان ڈاکٹرز اور طبی عملے کے اس مہلک وائرس کا خود شکار ہو کر جاں بحق ہونے پر سرکاری سطح پر اور پوری قوم کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ آرٹسٹ رچل لسٹ نے ایک دیوار پر محکمہ صحت کو یوں سلام تحسین پیش کیا۔

کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقصان جس ملک کو پہنچایا ہے، وہ امریکا ہے، جہاں اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد مصدقہ کیس ہیں۔ لاس اینجلس کی معروف شاہ راہ کی دیوار پر ایک پینٹنگ میں ’’اپنے پروگرام منسوخ کریں انسانیت نہیں‘‘ کا پُر مغز پیغام دیا گیا ہے۔

قدیم تہذیب کے وراث یونان میں 16 سالہ مصور ایس ایف نے کورونا وائرس وبا کے دوران سماجی دوری اور گھر پر محفوظ رہنے کے حوالے سے ایک شاہ راہ پر پینٹنگ کی، جس پر بے اختیار نوجوان مصور کو داد دیے بغیر نہیں رہا جاتا۔

فلسطین نے اسرائیل کے ظلم کے آگے ہار نہ مانی تو بہادر فلسطینیوں کو یہ وائرس کیا ڈرا سکتا ہے؟ غزہ کی ایک بلند عمارت کی دیوار پر مصور کی پینٹنگ میں نرس کو کورونا وائرس کو پھول بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس حوصلہ افزا مصوری کو سب ہی نے پسند کیا۔

کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف ممالک میں جرمنی بھی شامل ہے جہاں ویکسین کا پہلا ٹرائل مکمل بھی ہو گیا ہے اس کے علاوہ وہاں مصور بھی اس وبا میں کے خلاف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اس حوالے سے دارالحکومت برلن میں ایک دیوار پر یہ فن پارہ بنایا گیا ہے۔

امریکا میں صدر کی پالیسیوں سے نالاں مصور نے سان فرانسکو کی ایک شاہ راہ پر ایک پینٹنگ بنائی ہے، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کورونا وائرس کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ حکمرانوں کی کرتوتوں اور ناقص حکمت عملی پر غصے کا ایک اظہار یہ بھی ہے۔

مونا لیزا کے پورٹریٹ کو مصوری کی دنیا میں چند اعلیٰ شاہ کاروں میں تصور کیا جاتا ہے، اس شاہ کار میں وبا کے باعث مونا لیزا بھی آپ کو حفاظتی ماسک پہنے نظر آ رہی ہیں۔

پڑوسی ملک بھارت میں ایک سڑک پر کورونا وائرس کو یوں ظاہر کیا گیا ہے جیسے وہ سورج مکھی پھول ہوں۔

ایک دیوار پر ایک سادھو کی بھی تصویر بنائی گئی ہے جو تپسیا میں مصروف ہے لیکن پھر بھی ماسک لگائے ہوئے ہے

روم میں ٹی وی بوائے کے نام سے شہرت رکھنے والے ایک آرٹسٹ نے کورونا وائرس کے دوران فضائی آلودگی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک پینٹنگ بنائی، جس میں باپ بیٹے ماسک لگائے اسکوٹر پر محو سفر ہیں اور لڑکے نے ایک پوسٹر اْٹھایا ہوا ہے، جس پر ’ہوا کو آلودگی سے پاک کرو‘ لکھا ہوا ہے۔

بیلجیئم کے مصور کا فن پارہ بھی لاجواب ہے، اس میں ایک لڑکی کو ماسک پہنے دکھایا گیا ہے جس کی آنکھیں آنسوؤں اور مستقبل کے اندیشوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ حالات کی ایک دل خراش منظر کشی ہے۔

پولینڈ کے اسپتال کی دیوار پر طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خوب صورت پینٹنگ کی گئی ہے، جس میں ماسک لگائے ڈاکٹر اور طبی عملے کو مریضوں کو علاج کرنے کے لیے تیار دکھایا گیا ہے، جب کہ اس میں سپرمین ’کریکٹر‘ کو جوان بچے، ضعیف اور خاتون کو اسپتال لاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ہنگری میں ایک پینٹنگ میں نرس کو ’سپر مین‘ کے روپ میں دکھایا گیا ہے اور اس پر ’’اپنے گھروں میں رہیں اور ایک دوسرے کا خیال کریں‘‘ بھی تحریر ہے

کولاراڈو میں مصور نے کورونا وائرس کیخلاف ہراول دستہ بننے والی نرس کو طاقتور، بہادر اور مددگار فرشتے کے روپ میں دکھایا ہے۔

امریکا میں ایک مصور نے چاک کے ذریعے معروف سائنس دان آئن اسٹائن کی تصویر بنائی ہے, جو ماسک لگائے ہوئے ہیں۔ چاک کی مدد سے یہ پینٹنگ ایک اسپتال کی دیوار پر بنائی گئی ہے تاکہ آنے والوں کو ماسک کی اہمیت کا اندازہ ہو۔

ڈبلن میں ایک مصور نے وائرس کو انسانوں کا شکار کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اپنے اس فن پارے میں انہوں نے شوخ رنگ استعمال کیے ہیں۔

The post کورونا وائرس : رنگ اور نقش ونگار کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پھر کورونا آگیا۔۔۔!

$
0
0

میراگھرسڑک سے کافی اندر کی طرف ہے۔ پانی کی لائن سڑک سے گزرتی ہے اسی لائن کی ذیلی لائن سے میرے گھر تک چند گھنٹوں کیلیے پانی آجاتا تھا، تو میری ضرورت پوری جاتی تھی۔

آبادی کے مسلسل بڑھنے اورضلعی اداروں کی کمزور نگرانی کے باعث ہر سال بہت سے لوگ اسی ذیلی لائن سے پانی حاصل کرنے لگے تو طلب میں اضافے کے سبب ہمارے گھر تک پانی پہنچتے پہنچتے ختم ہو جاتا تھا۔اوراگر کبھی پانی ختم نہ ہوتا تو بجلی ختم ہوجاتی۔ گھر کی ٹینکی میں پانی نہ ہو یا آپ کی پشت پراچانک کتا بھونکے، دونوں صورتوں میں آپ کچھ اورسوچنے کے قابل نہیں رہتے۔

کسی نے مشورہ دیا کہ آپ سولر پینل لگوا لیں۔ اس سے آپ کے گھر بجلی دست یاب رہے گی اور جب محلے کی بجلی نہیں ہوگی تو آپ جی بھر کر پانی بھر لیجئے گا۔ مشورہ اچھا تھا۔ میں نے مان لیا!پانی کا مسئلہ تو سمجھیں جیسے حل ہی ہوگیا۔ کے ای کی بجلی کے جاتے ہی گھر کی موٹر چلتی اور پانی بھر لیا جاتا۔۔۔پھر آگیا کورونا۔۔۔۔اب بجلی نہیں جاتی۔۔۔!

The post پھر کورونا آگیا۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>