Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4561 articles
Browse latest View live

کورونا کو ہرانے کے لیے مسکرانا ضروری

$
0
0

کورونا وائر س نے جہاں دنیا کے ہزاروں کاروبار بند کر کے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا ہے وہیں کووڈ 19 بیماری کی وجہ سے ’’عالمی عطائیوں‘‘ کا کاروبار ایسا چلا ہے کہ گویا اُن کی لاٹری کی نکل آئی ہے۔ جب دنیا کے سارے تاجر عالم گیر لاک ڈاؤن کے باعث اپنی دُکانیں بند کرکے گھروں میں دبکے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اِن دگرگوں معاشی حالات میں بھی اِن عطائیوں پر آسمان سے مال و دولت کی زبردست بارش برس رہی ہے۔

یہ خوش قسمت عطائی کورونا وائرس کے نام پر اپنی دُکان ہر اُس جگہ کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں اب بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے۔ بطورِ خاص الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو یہ عطائی کورونا وائرس کے علاج کے لیے ایسے ایسے دیسی، بدیسی، ٹونے ٹوٹکے اور آزمودہ نسخے پیش کررہے ہیں کہ بس رہے نام اللہ کا۔ اگر اِن عطائیوں کے دعووں پر یقین کرلیا جائے جیسا کہ اَب تک لاکھوں سادہ لوح افراد کر بھی چکے ہیں، تو کورونا وائرس کے اتنے زیادہ علاج دریافت کیے جاچکے ہیں کہ شاید اتنے تو کورونا وائرس کے دنیا بھر میں مریض بھی نہ ہوں۔

ہمارے اردگرد موجود اِن عطائیوں کے نزدیک تو کوورنا وائرس کا علاج لہسن سے بھی کیا جاسکتا ہے اور پیاز سے بھی جب کہ وٹامن سی کی گولیاں بھی پانی کے ساتھ بطورِ دوا لی جاسکتی ہیں اور پسی ہوئی مرچیں سبز چائے میں ڈال کر پینے سے بھی کورونا وائرس کو بہ آسانی دن میں تارے دکھائے جاسکتے ہیں۔ اگر اِس کے باوجود کورونا وائرس کے علاج میں کوئی کسر رہ جائے تو پھر اِن عطائیوں کی ایجاد کردہ مصنوعات اور ادویات کو بھی آزمایا جاسکتا ہے، جو تھوڑی سی مہنگی سی ضرور ہیں مگر اتنی بھی نہیں جتنی کہ آپ کی اور ہماری زندگی۔

کورونا وائرس کے علاج کے نام پر کیا کچھ ایسا ہے جو اَب تک ’’عالمی عطائیوں‘‘ کی طرف سے پیش نہیں کیا جاسکا ہے، ایک شئے جو واقعی کووڈ 19 کی بیماری اور اِس کے نتیجے میں انسانی جسم پر مرتب ہونے والے مضر اثرات سے بچاؤ میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے، اُس کا کہیں ذکرِ خیر ہی نہیں ہورہا۔ ہماری مراد حضرتِ انسان کے چہرے کی اُس دل کش و دل نشین مسکراہٹ سے ہے جو کورونا وائرس کے نزول کے بعد اچانک سے کہیں غائب ہوگئی ہے۔

قبل اِس کے کہ ہمارے اِس مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جملہ پر بھی کوئی ناعاقبت اندیش، یاوہ گوئی یا بے پرکی بات کی تہمت دھر دے۔ کیوں نا! حفظِ ماتقدم کے طور پر زیرنظر مضمون میں کِھل کِھلا کر ہنسنے کے وہ تمام صحت افزا فوائد بیان کردیے جائیں، جن پر مہرتصدیق سائنس کے دبستان سے بھی ثبت فرمائی جاچکی ہے۔

٭ مسکراہٹ سے قوتِ مدافعت کو مضبوط بنائیں:

دنیا کے تمام سائنس دانوں اور طبی ماہر ین کا اجماع ہے کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ موثر ہتھیار انسان کی قوتِ مدافعت ہے اور کووڈ 19 کی بیماری سے صحت یابی میں سب سے فیصلہ کُن کردار قوت ِ مدافعت کا ہی ہے۔

شاید اِسی لیے دانش و بنیش حلقوں کی جانب سے بار بار یہ زریں قول بتانے اور ذہن نشین کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آجانے کے بعد گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ کورونا وائرس کی تشخیص ہوجانے کے بعد تو خوش رہنا اور بھی زیادہ ضرور ی ہوجاتا ہے کیوںکہ نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے مطابق مسکراہٹ ذہنی خلجان کو کم کرنے اور قوتِ مدافعت کو بڑھانے والے ہارمونز جیسے این کے سیل، بی سیل اور ٹی سیل کی کارگردگی کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ چند لمحوں کی مسکراہٹ سے انسان اپنی قوت مدافعت میں جتنا اضافہ کرسکتا ہے، شاید اُتنا اضافہ تو ایک ہفتہ تک مسلسل ملٹی وٹامنز کی گولیاں کھانے سے بھی نہ ہو۔ اِس لیے کورونا کے دور میں زندگی بسر کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے چہرے سے مسکراہٹ کو زیادہ دیر تک غائب نہ ہونے دیا جائے۔

٭  مسکراہٹ بلڈ شوگر لیول کو متوازن بناتی ہے:

کووڈ 19 بیماری کے متعلق طبی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ مرض ذیابیطس یا عرف عام شوگر کے مریضوں کو بہت زیادہ اور خطرناک حد تک متاثر کرسکتا ہے، کیوںکہ ذیابیطس کے مریضوں کا مدافعتی نظام صحت مند انسانوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتا ہے۔ یہ بات ذیابیطس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں طرح کی بیماریوں کے مریضوں پر صادق آتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں اینٹی باڈیز جسم میں انسولین تیار کرنے والے خلیات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بیماری میں انسولین کی ناکافی مقدار کی وجہ سے مریض کے جسم میں شوگر لیول مستقل طور پر زیادہ رہتا ہے۔ یہ عمل انسانی جسم کی مدافعتی قوت کو مستقل بنیادوں پر کم کر دیتا ہے۔ ایسے حالات میں شوگر کے کسی مریض پر اگر کورونا وائرس کا حملہ ہوجائے، تو نتیجہ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

اس بات کا اطلاق ان مریضوں پر بھی ہوتا ہے، جو شوگر کے مریض ہوں اور چاہے اس مرض کے خلاف باقاعدگی سے ادویات بھی استعمال کر رہے ہوں، مگر اچھی با ت یہ ہے کہ مسکراہٹ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی ایک بہترین شفابخش علاج ہے اور 2012 میں کیے گئے ایک تجرباتی مطالعے میں یہ حیران کن نتیجہ طبی ماہرین کے سامنے آیا ہے کہ ذیابیطس کے وہ مریض جو خوش مزاج تھے اور مسکرانے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایسے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول اُن مریضوں کی بہ نسبت مسلسل متوازن اور بہتر رہتا تھا، جو ہنسی مذاق سے اجتناب کرتے تھے۔

٭ مسکراہٹ خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے:

ایک رپورٹ کے مطابق اٹلی، اسپین اور جرمنی میں بلند فشار خون کے مریضوں کو کورونا وائرس کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اِن ممالک میں کووڈ 19 بیماری سے ہلاک ہونے والے بیشتر افراد ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا پائے گئے تھے، جس کے بعد سائنس داں اِس نتیجے پر پہنچے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ہائی بلڈ پریشر کا نتیجہ بھی کئی طرح کے اضافی خطرات کا سبب بن سکتا ہے، کیوںکہ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے انسانی جسم کو تازہ خون فراہم کرنے والی شریانوں کو مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچتا ہے۔

ایسی صورت میں کورونا وائرس کا حملہ مریض کی زندگی کے لیے ایک بڑا امتحان بن جاتا ہے اور مریض کو علم اس وقت ہوتا ہے جب اُسے ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے یا کوئی دماغی شریان خون کے دباؤ کی وجہ سے پھٹ جاتی ہے۔ مگر یہ خطرات بلڈپریشر کے اُن مریضوں کو بہت کم لاحق ہوتے ہیں جن کے چہرے اکثر و بیشتر مسکراہٹ سے سجے رہتے ہیں ۔ ایسا کہنا ہے یونیورسٹی آف میری لینڈ سینٹر کے طبی ماہرین کا،جن کے مطابق روزانہ چار، پانچ بار کھل کر ہنسنے سے بلند فشار خون کے مریضوں میں خون کا بہاؤ ناقابلِ یقین حد تک بہتر ہوجاتا ہے۔

٭مسکرائیں کیوںکہ یہ دل کا معاملہ ہے:

چین، اٹلی اور امریکا سے جو تازہ ترین اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں، اُن کو دیکھ کر امراض قلب کے ماہرین کو یقین ہوچلا ہے کہ کووڈ 19 بیماری دل کے پٹھوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ابتدائی تحقیق میں کورونا وائرس کے ہر 5 میں سے ایک مریض میں دل کو ہونے والے نقصان کو دریافت کیا گیا، جو بعدازاں ہارٹ فیلیئر یا موت کی جانب لے جاتا ہے، حیران کن طور پر ان میں سے بیشتر مریضوں میں تنفس کے مسائل ظاہر نہیں ہوئے۔

اِس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں کے مخصوص ریسیپٹرز سے منسلک ہوتا ہے اور یہی ریسیپٹرز دل کے پٹھوں میں بھی دریافت کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں چند روز قبل چین کے ماہرین نے اِسی مناسبت سے2 تحقیقی رپورٹس جاری کی ہیں، جس میں کووڈ 19 کے مریضوں میں دل کے مسائل کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ اِس تحقیق میں طبی محققین نے اسپتال میں زیرعلاج 416 کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں سے 19 فی صد میں دل کو نقصان پہنچنے کی علامات واضح طور پر محسوس کیں، جس کے نتیجے میں کورونا وائرس کے باعث موت کا خطرہ بڑھ گیا، جب کہ کورونا وائرس کے ایسے مریض جن کے دل کو نقصان پہنچا ان میں موت کی شرح 51 فی صد تھی۔

لہٰذا طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ دل کے مریضوں میں اگر کورونا وائرس تشخیص ہوجائے تو انہیں اپنے دل کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ادویات، ورزش اور اچھی خوراک کے ساتھ ساتھ اگر آپ مسکراتے بھی رہیں تو کیا ہی اچھی بات ہو۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کی تحقیق کے مطابق مسکرانے سے ہمارے جسم میں کئی طرح کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں،  آڈرینیلن سے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں بہتری آتی ہے، جب کہ کارٹیزول اسٹریس یا دباؤ کا کلیدی ہارمون ہے جس سے خون کے بہاؤ میں شکر کا تناسب بہتر ہوجاتا ہے۔

٭کیوں نہ آج مسکراتے، مسکراتے سوجائیں:

جب سے کورونا وائرس نے دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اِس عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دُنیا بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی احتیاطی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن سے جہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں خاطر خواہ کمی واقع ہونے کے شواہد میسر آئے ہیں، وہیں لاک ڈاؤن کے بعد سے گھروں میں قید بعض افراد کی آنکھوں سے نیند کی دیوی روٹھ گئی ہے، جس کی وجہ سے اِن لوگوں کی قوتِ مدافعت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی جارہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھر پور نیند کا براہِ راست تعلق ہماری قوت مدافعت سے ہے اگر ہم اپنی نیند پوری کریں گے تو اُس صورت میں ہی ہماری قوت مدافعت مضبوط ہوگی اور ہم کورونا وائرس سے بھی بچ سکتے ہیں، کیوںکہ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارے جسم میں ایک پروٹین پیدا ہوتا ہے جس کا نام ’’سائٹوکائنز‘‘ ہے، اِس پروٹین کے ساتھ دوسرے پروٹینز کا ایک بڑا گرو ہ ہوتا ہے جو ہمارے قوت مدافعت کے خفیہ خلیوں میں چُھپ کر انفیکشن اور سوزش جیسی بیماریوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق نیند کا اچانک سے غائب ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مسکرانا چھوڑ دیا ہے، کیوںکہ ہماری مسکراہٹ Serotininکو افزودگی میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ Serotininایک Neuro Hormone ہے جو کہ نیند، تکلیف، مزاج اور خوداعتمادی بحال کرنے میں نہایت ممد اور معاون ہوتا ہے۔

٭مسکراہٹ طویل زندگی کی ضامن بھی:

زیادہ مسکرانا درحقیقت آپ کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ یعنی مسکراتے رہنے والے لوگ نہ صرف زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں بلکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ ایک لمبی زندگی بھی پاتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک طویل مدت تک کی جانے والی تحقیق میں تقریباً چار ہزار زیر مشاہدہ افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی ایک مخصوص دن کے اپنے احساسات کا حساب رکھیں۔ اِس تحقیق کے لیے بہت سادہ طریقے استعمال کیے گئے۔

مثبت اثرات کے کے لیے پیمانہ مختلف مشاہدوں کا مجموعہ تھا۔ خوش رہنے والے لوگ کیا محسوس کرتے تھے، ان احساسات کے دوران وہ اپنے آپ میں کتنی گرم جوشی محسوس کرتے تھے اور وہ کس قدر مطمئن تھے۔ اور ان سب کو پانچ نکات پر مشتمل ایک سادہ پیمانے پر پرکھا جاتا۔‘‘ اگلے پانچ سالوں کے دوران محققین نے زیرمشاہدہ افراد میں اموات کی شرح پر نظر رکھی۔

اس عرصے کے دوران سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ جن لوگوں کے مزاج میں خوش مزاجی یا مسکرانے کی عادت زیادہ تھی ان کی موت کے امکانات کم رہے اور زیادہ ہنسی مذاق کرتے رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں دوسرے گروہ یعنی ہر وقت سنجیدہ رہنے والے افراد میں مرنے کے خطرات 35 فیصد تک بڑھ گئے تھے۔ ایسی ہی ایک تحقیق امریکا کی وینی اسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے بیس بال کھلاڑیوں پر کی گئی تھی۔ جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جو کھلاڑی زیادہ مسکراتے ہیں ان کی اوسط عمر لگ بھگ 80 سال ہے جو امریکا کے عام شہریوں کی اوسط عمر سے دو سال زائد ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ چند لمحوں کی ہنسی سے بہ آسانی طبعی عمر کی دوڑ کو دراز کیا جاسکتا ہے۔

٭ہر درد کی دوا ہے مسکراہٹ :

ہم اکثروبیشتر کبھی کہیں تو کبھی کہیں درد میں مبتلا رہتے ہیں، جب کہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریض میں ظاہر ہونے والی بنیادی علامات میں سے ایک سردرد کی علامت بھی ہے۔ مگر اَب درد جسم میں کہیں بھی اور کسی بھی وجہ سے ہو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے طبی ماہرین کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ہنسنے سے ہر طرح کے درد میں واضح کمی واقع ہوسکتی ہے ۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 5 سے 10 منٹ تک وقفہ وقفہ سے مسکرانے سے اینڈوفن نامی کیمیکل انسانی جسم پیدا ہوتا ہے، جو جسم میں درد کا باعث بننے والے ہارمونز کو معتدل کردیتا ہے۔ یوں جسم درد کے متاثرہ مقام پر راحت و آرام محسوس کرنے لگتا ہے۔

٭مسکراہٹ ایک ورزش :

مسکرانے سے چہرے کے 123 ، گردن کے 60 اور پیٹ کے 90 مسلز ہلتے ہیں اور اِن کی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی ہے۔ اَب جو شخص کبھی مسکراتا نہیں ہے اُس کے یہ مسلز جامد رہنے کی وجہ بے شمار عوارض کی آماج گاہ بن جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مِصر میں کی گئی ایک سائنسی تحقیق کے مطابق ہر وقت سنجیدگی اور خفگی کے نتیجے میں آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، گردن کے گرد جھریاں اور پیٹ کے اطراف میں اضافی چربی جیسی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اِن مسائل پر بیک وقت قابو پانے کا سب سے آسان اور سستا علاج صرف مسکرانا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جدید سائنس میں کھلکھلا کر ہنسنے کو بھی باقاعدہ ورزش تصور کیا جاتاہے اور مغربی ممالک میں بے شمار ایسے کلینکس قائم ہوچکے ہیں جو لوگوں کو بھاری فیسوں کے عوض درست انداز میں ہنسنا سکھاتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں مسکرانے کی اِس ورزش کو ’’لافنگ تھراپی‘‘ کے منفرد نام سے پکارا جاتا ہے۔

٭وبا کے دنوں میں مسکراہٹ کے ہدیے:

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ اب سائنس نے بھی اس حدیث کو صحیح ثابت کردیا ہے۔ معروف بین الاقوامی ٹیک کمپنی ہیولیٹ پیکارڈ کی ایک تحقیق کے مطابق کسی دوست، رشتے دار بلکہ کسی اجنبی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے سے بھی ہمارے دل اور دماغ میں ایسی خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے جو چاکلیٹ کھانے یا پیسوں کے حصول وغیرہ سے بھی زیادہ طاقتور اور مفید ہوتی ہے۔ خاص طور پر کسی بچے کی مسکراہٹ کو دیکھنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مسکراہٹ ایک سے دوسرے فرد تک بہ آسانی منتقل ہوجاتی ہے، یعنی جب کوئی مسکراتا ہے تو اسے دیکھ کر دوسرے فرد کے لیے اپنی مسکراہٹ کو روک پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ یوں ایک شخص کی مسکراہٹ لمحہ بھر میں پورے ماحول کو زعفران زار بنادیتی ہے۔

سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ایک انسان جب کسی کو مسکراتے دیکھتا ہے تو دوسرے انسان میں بھی مسکراہٹ کے اعصابی پٹھے Mirror Neurons حرکت میں آجاتے ہیں۔ دراصل Mirror Neuronsایک انسان کو دوسرے انسان کے جذبات پہچاننے میں مدد کرتے ہیں اور انہیں اعصابی پٹھوں کی وجہ سے ایک مسکراہٹ دوسری مسکراہٹ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ علاوہ ازیں تحقیقات کے نتائج نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک مسکراہٹ Neuro Transmittersمیں ہیجان پیدا کرنے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتی ہے جتنی کہ 2000 چاکلیٹس۔

یادر ہے کہ چاکلیٹ ایک نہایت لذت آمیز خوراک اس لیے گردانی جاتی ہے کیوںکہ یہ Serotinin Dopamineاور Endorphinsکو متحرک کرتی ہے، جب کہ انسانی مسکراہٹ ہزاروں چاکلیٹس سے بھی زیادہ مفید ہوتی ہے ۔ اِس لیے ہماری گزارش ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنوں میں اپنے اردگرد پریشان حال اور تفکرات میں گھرے لوگوں میں مسکراہٹ کے ہدیے زیادہ سے زیادہ سے تقسیم فرمائیں تاکہ ہر جگہ مایوسی کے بجائے اُمید کی فصلیں لہلہائیں۔

The post کورونا کو ہرانے کے لیے مسکرانا ضروری appeared first on ایکسپریس اردو.


کورونا وائرس: لاک ڈاؤن نے ریٹیل بزنس کی دنیا بدل دی

$
0
0

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، ری ٹیل بزنس کی دنیا میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ فروخت کرنے اور خریدنے والوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوئیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں لوگ  پہلے کی نسبت زیادہ آن لائن خریداری کررہے ہیں، رہے ترقی پذیر ممالک وہاں یہ رحجان پہلے کم تھا تاہم  اب بڑھ رہاہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر حکومتیں لوگوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت گھر پر رہیں۔ دوسری طرف دکان داروں( ریٹیلرز) سے کہاگیاہے کہ وہ اپنے آن لائن شاپنگ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور وسیع کریں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں اپریل2020ء میں گزشتہ  برس کی نسبت گروسری کی آن لائن  سیل میں37 فیصد اضافہ ہواہے، مارچ میں جب  حساب کتاب کیا گیا تو اضافہ25 فیصد تھا۔ اگرچہ امریکا میں کتابیں اور الیکٹرانکس کا سامان پہلے ہی آن لائن خریدا جاتا تھا، اسی طرح خوراک کے لئے بھی موبائل ایپلیکیشنز ہی پر آرڈر  دیے جاتے تھے۔ امریکی صرف گوشت اور سبزی خود سٹورز پر جاکر خریدنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس کی آمد کے بعد منظرنامہ یکسر بدل گیا۔ اب مختلف سٹورز میںگروسری کا سامان، تازہ پھل اور زیادہ کھائی جانے والی سبزیوں کے اس قدر زیادہ آرڈر وصول ہورہے ہیں کہ سٹورز ڈیمانڈ پوری کرنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں۔کورونا وائرس سے خوفزدہ صارفین گھروں  میں رہنا چاہتے ہیں، اپنی ضروریات اس طرح پوری کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا دیگرانسانوں سے رابطہ کم ازکم ہو۔

جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس نے تباہی پھیلانا شروع کی تو صارفین کی ضروریات ان کے گھر کی دہلیز پرکرنے کی خاطر علی بابا، جے ڈی داٹ کام،  پی ڈی ڈی اور ایم ٹی ڈی پی جیسی ریٹیل کمپنیوں نے فوری طور پر اپنے آن لائن سسٹم اور ہوم ڈیلیوری سسٹم کو مزید  بہتر بنایا۔ اور لاک ڈاؤن کے پورے عرصہ میں  ووہان کے ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کو اشیائے ضروریہ ڈیجیٹل انداز ہی میں فراہم کیں۔

چین میں یہ نظام راتوں رات نہیں تشکیل پایا بلکہ اسے بنانے میں برسوں کا عرصہ لگا۔ یہ نظام اس قدر مضبوط ہوگیا کہ گلی محلوں میں موجود جنرل سٹورز، ریسٹورنٹس، کتابوں کے سٹورز اور دیگر  دکانوں نے بھی ڈیجیٹل خرید وفروخت شروع کردی۔کاروبار کو اس قدر نچلی سطح پر ڈیجیٹلائز کرنے کا ہمارے ہاں کبھی سوچا بھی نہیںگیا۔ ووہان میں صرف ایک ایپلی کیشن کی بنیاد پر سارا نظام چلایا گیا، انھیں الگ الگ چیزیں خریدنے کے لئے الگ الگ ایپلی کیشنز میں الجھنا ہی نہیں پڑا۔ دنیا کے دیگر آن لائن ری ٹیلرز نے بھی اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق تیار کیا۔ لاک ڈاؤن کے بعد ’امازون‘  نے اپنی رینج ایسی اشیا تک بھی بڑھائی جو عمومی طور پر آن لائن سٹورز کا حصہ نہیں بنتیں۔اس کے پیچھے زیادہ سے زیادہ صارفین کی ضروریات بہترین اندازمیں پوری کرتے ہوئے اپنے دائرہ صارفین کو بڑھانے کا جذبہ تھا۔

لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ری ٹیل بزنس کی دنیا میں بے شمار اہم تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ مثلاً امریکا سے یورپ تک روایتی ری ٹیلرز، ای کامرس اور ڈیلیوری سروسز دینے والوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہوا ہے چونکہ وہاں کورونا وائرس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے اس لئے وہاں یہ تعلقات دنیا کے دیگرحصوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوئے۔ برطانیہ نے ری ٹیلرز کے کاروباری اوقات کے حوالے سے ضابطوں میں ترمیم کی ، انھیں موقع فراہم کیا کہ وہ رات کے وقت بھی سٹورز کھولیں اور اپنے سٹاک کا کام کرسکیں۔

فرانس میں ’فرین پرکس‘ (ریٹیل کمپنی) نے ڈیلیورو( آن لائن فوڈ ڈیلیوری کمپنی ) کو اپنے ساتھ ملالیا اور ’کیری فور‘(ریٹیل کمپنی) نے اوبر ایٹس(آن لائن فوڈ ڈیلیوری کمپنی ) کے ساتھ مل کر صارفین کی ضروریات ان کے گھر کی دہلیز پر پوری کیں۔ مذکورہ بالا ریٹیل کمپنیاں ہوم ڈیلیوری دینے والی ان کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرنے پر اس لیے مجبور ہوئیں کہ کسٹمرز کی ڈیمانڈز میں بے پناہ اضافہ ہورہا تھا۔’کیری فور ‘ نے میڈیکل سٹاف اور بڑی عمر کے افراد  کے لیے  الگ سے مخصوص اوقات مقرر کئے۔ بڑے سٹوروں نے’اِن سٹور پک اپ‘ کا بھی نظام قائم کیا بالخصوص ان سٹوروں نے اس شعبے میں زیادہ توجہ دی جن کے ہاں ہوم ڈیلیوری کا نظام زیادہ وسیع اور مضبوط نہیں تھا۔’اِن سٹور پک اپ‘ میں صارف اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے مطلوبہ ریٹیلر کو آرڈر اور ادائیگی کرتاہے البتہ سامان اٹھانے کے لئے سٹور میں آتا ہے۔

بھارت میں ایک کروڑ بیس لاکھ کریانہ سٹورز ہیں۔ یہاں90 فیصد سپلائی چینز غیرمنظم انداز میں کام کررہیتھیں تاہم بڑے ملٹی نیشنل ریٹیلرز اور سپلائی چین کے آ نے سے  اس شعبے میں کافی بہتری آئی ہے۔ اب یہ کریانہ سٹورز ڈیجیٹلائزڈ ہورہے ہیں، انھوں نے ای کامرس شروع کردی ہے۔ وہاں ڈیجیٹل پے منٹ کا انتظام کرنے والی کمپنیاں بھی اپنی خدمات میں تیزی پیدا کررہی ہیں، اسی طرح بڑے ری ٹیلرز پوائنٹ آف سیل(پی او ایس) سسٹم  متعارف کروا رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کی ان کوششوں سے بھارت کے کریانہ سٹور جدید سٹورز کی شکل اختیار کررہے ہیں۔

کورونا وائرس کے خوف کی شکار لوگ غیرمعمولی طور پر تیزی سے آن لائن شاپنگ کی طرفگئے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا میں بڑی ریٹیل کمپنیوں ’انسٹاکارٹ‘ ، ’وال مارٹ‘ اور ’شپ‘  کی ایپلیکیشنز کی ڈاؤن لوڈنگ میں یکسرغیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مارچ میں ’انسٹاکارٹ‘ کی ایپلی کیشنز 218 فیصد، ’وال مارٹ‘ کی 160 فیصد اور’شپ‘ کی 124 فیصد زیادہ ڈاؤن لوڈ ہوئیں۔اس کا واضح مطلب ہے کہ کسٹمرز نے سمجھ لیا کہ اب ان کے پاس آن لائن شاپنگ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس کے آنے کے بعد41 فیصد امریکیوں نے پہلی بار آن لائن خریداری کی۔ ان لوگوں میں60 سال سے زائد عمر کے افراد زیادہ تھے۔ یاد رہے کہ 2019ء میں صرف چار فیصد امریکی صارفین نے آن لائن گروسری خریدی تھی۔

ہمیشہ ڈیزاسٹر کے دنوں میں کسٹمرز کے رجحانات میں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے، ایسے دنوں میں لوگ نئی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ لوگوں کو آج جس آفت کا سامنا ہے، اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ سیکھ رہے ہیں کہ آن لائن شاپنگ کیسے کی جاتی ہے؟ دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ’گوگل‘ کے ٹرینڈز کے مطابق  یکم مارچ2020ء سے 25 اپریل تک ’’آن لائن شاپنگ کیسے کی جاتی ہے؟‘‘ کا جواب گوگل پر تلاش کرنے والوں میں گزشتہ مہینوں کی نسبت 100گنا اضافہ ہوا۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ انہیں آن لائن خریداری نے مزہ اور فائدہ دیا تو کورونا وائرس کے بعد بھی وہ آن لائن خریداری ہی کریں گے۔ ’فائدہ‘ سے ان کی مراد ہے کہ اگر اشیائے ضروریہ سستے داموں ان کے گھر تک پہنچیں اور اسی معیار کی ہوں جو وہ چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو خریدار سٹور تک جانے اور آنے کا وقت اور اخراجات بچائے گا۔

عمومی طور پر سمجھا گیا کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ریٹیل بزنس پر بھی بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم ریٹیل بزنس کی دنیا میں کچھ عجیب تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثلاًبرطانیہ میں لوگوں نے گروسری کی شاپنگ پر524 ملین پونڈز معمول سے زیادہ خرچ کیے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سپرمارکیٹوں میں خریداروں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے جبکہ چھوٹے سٹوروں کی طرف  جانے والے خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں چھوٹی دکانوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے والوں کی تعداد میں40 فیصد اضافہ ہواہے، اس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے خود ہی زیادہ رش والی جگہوں کے بجائے اپنے علاقے کی چھوٹی دکانوں پر جانا شروع کردیاہے۔ برطانیہ میں بھی لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گھر ہی میں گزار رہے ہیں، کھانے پینے کی خاطر بھی کم ہی باہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گھر میں استعمال ہونے والی اشیائے صرف کی خریداری کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

سپرمارکیٹوں جیسے ٹیسکو کے منتظمین کا کہناہے:’’ اگرچہ ان کے ہاں آنے والے خریداروں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن آنے والے خریداروں نے شاپنگ معمول سے دوگنا زیادہ کی۔ مثلاً پہلے ایک خریدار ایک ماہ کے دوران میں اوسطاً ایک سٹور پر 17بار جاتا تھا تاہم اپریل2020ء میں وہ 14بار آیا۔ اب وہ  جب بھی آیا تو اس نے معمول سے سات گنا زیادہ مقدار یا تعداد میں چیزیں خریدیں۔

٭صارفین اب کیا خریدتے ہیں؟

لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ جو کچھ خریدتے ہیں، اس میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب وہ ایسی اشیا خریدتے ہیں جن سے گھروں میںرہ کر لطف اندوز ہوا جاسکے۔ مثلاً اب بیکنگ کا زیادہ سامان خریدا جارہا ہے، معمول سے115فیصد زیادہ ۔ اپریل 2020ء میں اپریل 2019ء کی نسبت چینی کی فروخت میں46 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ رائے عامہ کے ایک جائزہ کے دوران میں لوگوں کی اکثریت کا کہناہے کہ وہ گھر میں زیادہ تر بیکنگ کرتے ہیں۔ا عدادوشمار کے مطابق گزشتہ 12ہفتوں کے دوران میں گروسری کے سامان کی فروخت میں9.1  فیصد کا اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں بھی آن لائن گروسری منگوانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔ مجموعی خریداری میں  اس کا حصہ پہلی بار 10فیصد سے زیادہ ہوا ہے۔

برطانیہ میں بھی بڑے سٹور اپنے آن لائن شاپنگ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، اسی طرح وہ ہوم ڈیلیوری کے سسٹم میں بھی اضافہ کررہے ہیں کیونکہ  آن لائن خریداروں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ گروسری کے شعبے میں ماہ اپریل2020ء میں آن لائن شاپنگ کا حصہ 10.2فیصد تھا جوکہ مارچ 2020 ء میں سات اعشاریہ چار فیصد تھا۔

اب ترقی یافتہ ممالک میں بڑی بڑی سپرمارکیٹیں ایسے سٹورز بھی کھول رہی ہیں جو بظاہر سپرمارکیٹ ہی نظر آتی ہے تاہم وہ دراصل ان کے وئیرہاؤس ہوتے ہیں، وہاں ہوم ڈیلیوری کے لیے سامان تیار ہوتا ہے یا پھر صرف پک اپ آرڈرز۔ ہوم ڈیلیوری اور باقی امور کی انجام دہی کے لئے سپرمارکیٹوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں  دینا شروع کردی ہیںکیونکہ ان کے ہاں ہوم ڈیلیوری کے آرڈرز بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ وبا کے ان دنوں میں امریکی  زیادہ سے زیادہ سامان اپنے گھروں میں ذخیرہ کررہے ہیں۔ خوراک، ہینڈ سینی ٹائزر، ٹوائلٹ پیپر اورگھر کے دوسرے سامان کی طلب غیرمعمولی طور پر بہت زیادہ ہوچکی ہے۔

لاک ڈاؤن کے بعد اب تک  امریکی کمپنی ’وال مارٹ‘ نے اپنے سٹورز کے لئے ڈیڑھ لاکھ  نئے ملازمین بھرتی کیے ہیں، ان میں سے زیادہ  کو عارضی بنیادوں پر کل وقتی یا جزوقتی ملازمت دی  ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ملازم ہیں جو مختلف کمپنیوں میں کام کرتے تھے لیکن حالیہ بحران میں انھیں بے روزگار کردیاگیاہے۔ دوسری امریکی کمپنیوں ’کروجر‘،’ ٹارگٹ‘، ’ امازون‘ نے  بھی ہزاروں لوگ بھرتی کئے ہیں۔

ریٹیلرز نے اپنے ہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر میں سختی اختیار کی ہے۔ مثلاً ’وال مارٹ‘ نے اپنے ملازمین پر ماسک یا چہرہ ڈھاپنے کی دوسری چیزیں لازم قرار دیدی ہیں۔ پہلے زیادہ سختی نہیںکی جاتی تھی تاہم اب اس پابندی کو زیادہ سخت کردیاگیا ہے۔ ایسا صرف سٹورز ہی میں نہیں کیا جارہا بلکہ کلبوں، ڈسٹری بیوشن سنٹرز،  وئیرہاؤسز اور کارپوریٹ دفاتر میں پابندی سخت کی گئی ہے۔

نئے حالات میں تبدیلی کی ضرورت کو سماجی رابطے کے ذرائع نے بھی خوب محسوس کیا، نتیجتاً وہ صارفین اور ریٹیلرز کو سہولت دینے کے لئے نت نئے راستے کھول رہے ہیں۔’انسٹا گرام‘ نے پاکستان سمیت ایشیائی ملکوں میں لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن بزنس اور ہوم ڈیلیوری میں مدد دینے کے لیے نئے فیچرز متعارف کرائے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے کاروبار کی معاونت کے لیے نئے ٹولز سامنے لائے گئے ہیں۔

پاکستان میں صارفین خود جاکر اشیائے ضروریہ خریدتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن کاروبار کرنے والے  زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں اور جیسا مال دکھاتے ہیں، ویسا بھیجتے نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے صاف اور آن لائن ریٹیلر کے درمیان اعتماد کی شدید ترین کمی ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں بعض ریٹیلرز نے صارفین کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے کاروباری اداروں، برانڈز، حتیٰ کہ بینکنگ سیکٹر نے بھی صارفین کو مختلف انداز میں آن لائن رشتہ جوڑنے کی ترغیب دی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ اب  ری ٹیلرز کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ آن لائن سسٹم کے ذریعے کسٹمرز  کو دوسرے ریٹلرز کی نسبت سستے داموں پر معیاری اشیا فراہم کرکے انھیں مستقلاً  اپنے ساتھ آن لائن جوڑے رکھیں۔ کامیاب ریٹیلرز وہی ہوگا جو اس دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لائے، آرڈر ملنے سے ہوم ڈیلیوری یعنی سامان فراہم کرنے تک کے وقت کو کم سے کم کرے۔

موجودہ صورت حال میں ری ٹیلرز کی تمام تر توجہ  صارفین کی ضرورت کو محسوس کرنے اور اسے موجودہ حالات میں بہتر اور محفوظ طر یقے سے پوری کرنے  پر ہے۔ وہ سپلائی چین پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ڈیلیوری  کی صلاحیت کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ وہ دوسرے سیکٹرز سے نوجوانوں کو بلا رہے ہیں اور ان کی مدد سے اپنے آپ کو مزید بہتر کررہے ہیں۔ وہ بالخصوص ایسے نوجوانوں کو اپنے ہاں جگہ دے رہے ہیں جو حال ہی میں بے روزگار ہوئے ہیں۔

اندازہ ہے کہ بدلتے ہوئے منظرنامے میں آن لائن شاپنگکلچر تیزی سے متعارف ہوگا اور ترقی کرے گا۔ اگرچہ اس سے بڑے ری ٹیلرز زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔  یہ چھوٹے ریٹیلرز کے لئے چیلنجنگ ہوگا کیونکہ وہ بڑے ریٹیلرز کی نسبت آن لائن اور ہوم ڈیلیوری سسٹم کو بڑے پیمانے پر چلانہیں سکتے۔ تاہم انھیں اپنی بقاکے لئے نئے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اورایسا نظام بنانا ہوگا جس پر لاگت بھی کم آئے اور کسٹمرز کی توقعات بھی پوری ہوسکیں۔

The post کورونا وائرس: لاک ڈاؤن نے ریٹیل بزنس کی دنیا بدل دی appeared first on ایکسپریس اردو.

اقوام متحدہ میں چین کا رویہ باقی عالمی طاقتوں سے مختلف رہا

$
0
0

( قسط نمبر14)

ساٹھ کی دہائی میںہم ٹاٹ اسکول میں غالباً دوسری یا تیسری جماعت میں تھے۔ ہماری اردو کی کتاب میں ایک کہانی ’’چین کے طوطوں کا پیغام ،،کے عنوان سے ہوا کرتی تھی جو کچھ اس طرح سے تھی، کہ ایک تاجر چین جانے لگتا ہے تو روانگی سے قبل گھر کے ہر فرد سب سے پو چھتا ہے کہ اُس کے لیے چین سے کیا تحفہ لاؤں۔ سب بچے بڑے اپنی اپنی فرمائشیں بتا تے ہیں۔ آخر میں وہ اپنے طوطے کے پنجرے کے پاس جا تا ہے اور پوچھتا ہے کہ طوطے تمارے لیے کیا لاؤں۔ تو طوطا تاجر کو کہتا کہ چین کے طو طوں کو میرا پیغام دنیا کہ تمارا ایک ساتھی بہت دور پنجر ے میں بند زندگی گذار رہا ہے۔ تاجر چین جا تا ہے اپنا سامان وہاں فروخت کر تا ہے اور اپنے ملک کے لیے وہا ں سے تجارتی سامان خریدتا ہے۔ بچوں بڑوں کی فرمائشوں کے مطابق اُن کے لیے بھی چیزیں خریدتا ہے۔

ایک دن وہ کسی باغ کے قریب سے گذر رہا ہوتا ہے تو ایک درخت پر طوطوں کا جھنڈ نظر آتا ہے۔ وہ درخت کے نیچے جا کربلند آواز میں اپنے طو طے کا پیغام سناتا ہے تو ایک دم ایک طوطا درخت سے اُس کے سامنے گر کر مر جا تا ہے۔ وہ تاجر گھر پہنچتا ہے تو یہ قصہ طو طے کو سناتا ہے۔ یہ سُنتے ہی طو طا بھی پنجرے میں گر کر مر جا تا ہے۔ تاجر کو بڑا افسوس ہو تا ہے۔

وہ مردہ طو طے کو پنجرے سے نکال کر باہر پھینکتا تو طوطا اُڑ کر درخت پر جا بیٹھتا ہے۔ تا جر حیر ت سے اُ س سے پو چھتا ہے یہ کیا؟ اس پر طوطا کہتا ہے یہ چین کے طو طوں کا پیغا م تھا۔ مجھے آ زادی کا یہ انوکھا پیغام اُس چھو ٹی سی عمر میں بھی اچھا لگا تھا اور آج بھی دل کو بھاتا ہے۔ اُس زمانے میں پانچویں جماعت تک لکھنے کے لیے پن استعمال کر نے کی اجازت نہیں ہوتی تھی نڑ کی قلم اور تختی، سیلٹ اور سلیٹی اور چوتھی اور پانچوایں جماعتوں میں کاپیوں پر نب والے ہولڈر استعما ل کرائے جاتے تھے۔

جی کی نب انگریزی کے لیے اور زیڈ نب اردو کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جب چھٹی جماعت میں پہنچے تو روشنائی والے پن استعمال کرنے لگے۔ مقامی پن تو ملتے ہی تھے، اُسی زمانے میں کوئٹہ میں چین کے کنسنگ اور ونسنگ برانڈ کے پن چار ساڑھے چار روپے اور اتنی ہی قیمت پر پکنک جرابیں ملنے لگیں۔ یہ دونوں چیزیں اپنی کار کردگی کے اعتبار سے لا جواب تھیں۔ بعد میں ہمیں بھی پارکر ،شیفرد اور واٹر مین جیسے مہنگے پن کا شوق ہوا جو اب تک درجن کے قریب میرے پاس ہیں لیکن چین کے پنوں کی کارکردگی ان مہنگے پنوں سے کسی طور بی کم تر نہ تھی۔ 1974 میں ہم نے میٹرک پاس کر لیا تو اُس زمانے میں صدر ایوب اور صدر یحٰی خان کی جانب سے کیمو نسٹ لٹریچر پر عائد پابندیاں ختم ہو چکیں تھیں اور سوویت یونین اور چین کا چھپا ہوا کیمو نسٹ لٹریچر واجبی سی قیمت پر عام فروخت ہو تا تھا۔

اِن میں عام رسالے کے سائز کا روسی ماہنامہ طلوع پچاس پیسے اور آج کے اخبارات میں شامل سنڈے میگزن کے سائز کا چینی ما ہنامہ چین با تصویر ایک روپے کا ملتا تھا۔ اِن رسالوں میں اِن دونوں ملک کے بارے میں دلچسپ معلومات کیمونسٹ پر وپگنڈے کے ساتھ ملتی تھیں۔

مذہبی گھرانو ں میں عموماً اَن دونوں رسالوں کا داخلہ بند تھا حالانکہ اِن میں مذاہب کے بارے میں کو ئی ذکر نہیں ہو تا تھا۔ یوں چین کے بار ے بنیادی معلوما ت ہمیں اس طرح مشاہدے اور مطالعے سے نوجوانی میں ہی ہو گئیں تھیں۔ بار ہا ہمیں پاکستان چین تعلقات کے حوالے لکھنے اور مختلف فورمز پر بولنے کا موقع ملا۔ دیکھا جائے تو چین کا عالمی کردار سیکو رٹی کو نسل کے باقی چار ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں امریکہ ،بر طانیہ ،فراس اور روس سے مختلف رہا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین اپریل 2020 ء کے مطابق اپنی 1402233440 آبادی کے ساتھ بالحاظ آبادی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے چین، روس کینیڈااور امریکہ کے بعد اپنے 9596961 مربع کلو میٹر کی وسعت کے ساتھ دنیا کا چو تھا بڑا ملک ہے۔ چین اقتصادی ترقی کے عالمی معیار گلوبل جی ڈی پی پرامریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور فوجی تعداد اور قوت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

تسلیم شدہ ایٹمی قوت کے لحا ظ سے چین امریکہ ، روس ، بر طانیہ اور فرانس کے بعد دنیا کی اعلانیہ پانچویں ایٹمی قو ت بنا۔ 1997 میںسیمول پی ہنٹینگٹن نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب تہذیبوں کا تصادمThe Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order by Samuel P Huntington شائع کی اور اس کتاب کے ٹائٹل پر درمیان میں دیوارِ چین کی تصویر دی اور دنیا میںسرد جنگ کے بعد ممکنہ طور پر تہذیبوں کے تصادم میں مضبو ط اور قدیم تہذیب کے طور پر چین اور اس کی تہذ یب کا ذکر کیا۔

اسی طرح مائیکل ہارٹ نے جب دی ہنڈرڈ کے نام سے انسانی تاریخ کی 100 شخصیات کا ذکر کیا تو اِ س میں نمبر5 پر چینی مصلح فلاسفر کنفوشس ہے جو551 قبل مسیح چین میں پیدا ہوا، اس کے بعد ساتویں نمبر پر چینی شخصیت تسائی لون کی ہے جو105 ء میں پیدا ہوا اورشہنشاہ ہوتی کے عہد میں اس نے کا غذ ایجاد کیا۔ پھر 17 ویں تاریخ ساز شخصیت شی ہوانگ تی کی ہے جس کا عہد 259 قبل مسیح سے 210 قبل مسیح کا تھا یہ چین میں چاؤ سلطنت یا خاندان کا وہ شہنشاہ تھا جس نے وسیع چین کو متحد کیا تاریخ انسانی کی 73 ویں شخصیت لاؤ تسو کو قراردیا ہے یہ چوتھی صدی قبل مسیح میں تھا اور اس نے اپنے افکار پر انسانی معاشرے اور اطاعت کے حوالے کتاب لکھی اور اس کے ماننے والے کنفیوشس ازم کی طرح تسو ازم پر عمل کرتے ہیں۔ 85 نمبر پر سوئی وین تی جس کا اصل نام یانگ چین تھا یہ 541 تا604 رہا یہ چین کا وہ عظیم بادشاہ تھا جس نے چین جیسے وسیع ملک کو صدیوں بعد دوبارہ متحد کیا۔

سوئی وین تی نے عظیم نہر تعمیر کروائی زراعت اور صنعت کو ترقی دی اس نے آج کی بیوروکریسی کا انداز اپنے عہد میں متعارف کرایا۔ وہ آ ج کے سی ایس ایس کی طرح مقابلے کے امتحان میں کامیاب امیدواروں کو خصوصی تربیت کے بعد انتظا می شعبوں میں تعینات کرتا تھا۔ 92 نمبر پر 371 قبل مسیح سے 289 قبل مسیح تک کی اہم تاریخی شخصیت چینی فلسفی مین سیس آتا ہے۔ مین سیس کنفیوشس کا سب سے اہم جا نشین تھا مگر اس تاریخ ساز شخصیت سے تین درجے اُوپر یعنی 89 نمبر پر عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ ہیں جن کو مائیکل ہارٹ نے آج کی جدید دنیا میں تاریخ ساز شخصیت قرار دیا ہے۔ ہر قوم کی ثقافت رنگ ،نسل ،زبان وادب ،اخلاقی اقدار و عقائد، موسیقی ،لباس ، فنون، پکوان، رسم و رواج، اور اخلاقی اقدار پسند و ناپسند اور دیگر کئی چیز یں پر مشتمل ہوتی ہے۔

کسی خطے میں آباد قوم اپنی سماجی زندگی میں اس ثقافت کو نسل در نسل اپنا تی ہے۔ پھر صدیوں اپنے اقتدار و حکومت کے ساتھ تاریخ رقم کر تی ہے تو وہ کسی علاقے یا خطے کی تہذیب کہلاتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ صدیوں بعض اوقات ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کسی قدرتی یا غیر قدرتی آفت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسی کسی پرانی تہذیب کے آثار قدیمہ دریافت کر لیے جا تے ہیں جیسے ہمارے ہاں موہنجو داڑو اور ہڑپا کے تقریباً پا نچ ہزار سال قدیم آثار موجود ہیں۔ ان آثار قدیمہ پر ہمیں فخر تو ہے مگر اس تہذیب سے ہمارا کو ئی ثقافتی تعلق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکسلا کی گندھارا، تہذیب کے آثار قدیمہ جو تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب ہے اس کے قدرے مدہم ثقافتی اثرات ہماری ثقافت پر دکھائی دیتے ہیں۔

مگر دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں تہذیبیں ایک دوسرے سے ہم آغوش اور ہم آہنگ ہو تے ہوئے زمانے کے تسلسل کے ساتھ ہزاروں بر س پرانی تہذیب بن کی شکل میں ڈھل گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے۔ چین دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں انسانی زندگی کے آثار قبل از تاریخ ہزاروں برس ہی نہیں لاکھوں برس پرانے ہیں۔ آرکیالو جی سا ئنسی علوم کی وہ شاخ ہے جس میں ایسی قدیم تہذیبوں کا مطالعہ مشاہدہ اور تحقیق کی جا تی ہے۔ شہا دتوں کی بنیاد پر ان کی قدامت کا درست انداز میں تعین کیا جاتا ہے یوں اس شعبے کے ماہر ین کے مطابق چین کے ابتدائی باشندے جو ،ہومو ایرکٹس ، یعنی اُس نسل سے تھے جن کو ابتدائی انسان یا انسانوں سے ملتی جھلتی مخلوق قرار دیا جاتا ہے اس کے شواہد چین میں بیجنگ کے نزدیک زہوکوڈیان نامی غار سے ملے۔ یہ فاسل سوا دو ملین سال یعنی ساڑھے بائیس لاکھ سال پرانے ہیں۔

پھر چین ہی کے علاقوں سے تین سے ساڑھے پانچ لاکھ سال پرانے پتھر کی بنائی ہو ئی اشیا اور جانوروں کی ہڈیاں ملیں ہیں جو سائنسی ریسرچ کی بنیاد پر،،ہوموایرکٹس،، مخلوق سے جوڑی جاتی ہیں۔ اب جہاں تک تعلق انسانی نسل کا ہے تو چین سے انسانی آبادی کی شہادت ،،لیوجیانگ،، سے ملنے والی انسانی سر کی ایسی ہڈی ہے جو سائنسی ریسرچ کے مطابق 67000 سال پرانی ہے۔ اسی طرح چین کے علاقے ،،ڈمنا ٹوکاوا،، سے ایک جزوی انسانی ڈھانچہ ملا ہے جو اٹھارہ ہزار سال پرانا ہے۔ چین کی پہلی قدیم بادشاہت یا سلطنت کے بارے میں ثبوت چین کے صوبے ارلیٹوجو ہنین کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد ملے۔ یہ سلطنت ژیا کہلاتی تھی اور اس کا تعلق تانبے کے زمانے سے تھا۔

پھر تاریخی اعتبار سے چین کی پہلی مستند سلطنت شانگ کے نام سے تھی جو دریائے پیلو کے کنارے مشرقی چین میں اٹھارویںصدی قبل مسیح سے بارویں صدی قبل مسیح تک رہی۔ بعد میں ژاؤ نے مغرب کی طرف سے حملہ کر کے شانگ سلطنت کو ختم کردیا اور بارویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی قبل مسیح تک ژاؤ سلطنت رہی۔ متحدہ چین کی پہلی اوٹن بادشاہت یا سلطنت کا دور 221 قبل مسیح سے شروع ہوا مگر یہ زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ یہ قانون کی سختی سے پاسداری کرتے تھے جس کے نتیجے میں بغاوت پھیلنا شروع ہو گئی اور پھر206 قبل مسیح میں ہن ،یا ہان سلطنت قائم ہوگئی۔ یہ عظیم بادشاہت 220 ء سن عیسوی تک قائم رہی۔ پھر چین میںایک خلفشار کا دور رہا چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں سوئی وین لی نے صدیوں بعد چین کو تاریک دورسے نکالااور580 تک چین ایک وسیع اور متحد ملک بنا۔ تانگ اور سونت بادشاہوں کے ماتحت یہ چین کا سنہری دور کہلاتا ہے۔

ساتویں صدی عیسوی سے چودویں صدی عیسوی تک ٹیکنالوجی ، ادب اور آرٹ کے علاوہ دیگر شعبوں میں چین بتدریج دنیا کی سب سے ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتا تھا۔ 1271 ء میں عظیم منگول رہنما قبلائی خان نے یوان بادشاہت کا آغاز کیا جو سرنگ بادشاہت کے زیر اثر رہی۔ ژو یوان ژینگ نامی کسان نے1368 ء میں منگولوں کو باہرنکال دیا اور منگ سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1644 ء جو قائم رہی۔ پھر منچو کی بنائی ہوئی رونگ بادشاہت 1911 تک قائم رہی جسے بعد میں لوئی نے ختم کیا۔ یوں عموماً رونگ باشاہت کو چین کی آخری بادشاہت کہا جا تا ہے۔

چین نے تاریخی اعتبار سے نہ صرف اپنے عہد میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں بہت سی ایجادات اور دریافتوں کی بنیاد پر چین کو دنیا کی ممتاز اور ترقی یافتہ تہذیب اور ملک بنا دیا بلکہ اِن ایجادات اور دریافتوں کی وجہ سے پوری دنیا کے انسانوں نے تہذیب کے ارتقائی مراحل طے کیے اور چین کے علم و تحقیق سے استفادہ کیا۔ چین نے اپنی تابناک تاریخ میں جو ایجادات اور دریافتیں کیں اُن میں اہم ترین یوں ہیں ایثیائی ایباس ،بلاسٹ بھٹی ، بلاک پرنٹ میکنگ، پرنٹنگ ٹیکنالوجی، تانبہ، گولائی کی پیمائش کا آلہ، ،گھڑی،کمپاس یعنی قطب نما، کراس بو، پنکھے، آتش بازی، سالڈ فیول راکٹ، مچھلی کے شکار کی بنسی، بارود، بم، ہارٹ ایئر بیلون، پتنگ، وارنش، ماچس،کاغذ، کاغذ ی کرنسی نوٹ، پیراشوٹ، تیل کے کنوئیں، پسٹن والا پمپ، امدادی نقشے، بیج بونے والا ڈرل، زلزلہ پیما، ریشم، رکاب، سپنشن برج( معلق پل) ،ٹائلٹ پیپر، ٹوٹھ برش ، چھتری، وال پیپر ، ادویاتی اور جراحی کے حوالے سے چین کی ٹیکنالوجی کا ذکر کچھ یوں ہے۔

چینیوں ہی نے سب سے پہلے ریاضی کو آرکیٹکچر اور جیوگرافی میں استعمال کیا، چینی ریاضی دان زونگ زہی نے پائی یعنی عشاریہ کی ساتویںمقدار تک کی قیمت معلوم کرلی، چینی اعشاری اعداد کے نظام کو چودھویں صدی عیسوی قبل مسیح استعمال کر رہے تھے، پارسکل کی مثلث جسے چین میں یانگ ہوئی کی مثلث کہتے ہیں چیا ہزین یانگ ہوئی،زاؤشی،جی اور لیو جوہز یہ نے پارسکل کی پیدائش سے پانچ سو سال قبل دریافت کر لی تھی۔ ادویاتی نباتات روایتی ادویات اور جراحی جس میں چین بہت ترقی یافتہ تھااب گذشتہ کچھ دہائیوں سے چین میںاسے ثانوی علاج کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔فوجی ایجادات جیسا کہ کراس بو اور گرڈ سائٹ بورکاب خود کار کراس بو،منجیق، زہریلی گیس جو خشک سرسوں کو جلانے سے پیدا ہوتی ہے آنسو گیس،جو باریک لائم کو جلا کر بنائی جا تی ہے۔

جنگوں میں استعمال ہو نے والے امدادی نقشے ،انسان بردار پتنگ،آگ والے نیزے،راکٹ،جلنے والا با رود، بم ، اور پرانی تانبے کی مشین گن یہ تمام سب سے پہلے چین نے ایجاد کیا۔ ان ایجادات اور دریافتوں میں سے کاغذ ،بارود ،چھاپہ خانہ اور ریشم اپنے عہد کی آپ مثال تھے اور ان بنیادوں پر حاصل برتری نے چین کو صدیوں تک علمی، تحقیقی ،عسکری و فوجی اقتصادی صنعتی تجارتی اعتبار سے پوری دنیا میںممتاز اور ترقی یافتہ بنایا۔ دیوار چین دوہزار سال سے چین کی پہچان ہے جس کو 200 قبل مسیح چین کے بادشا ہ چن شی ہوانگ نے شروع کیا تھا۔

یہ دیوار 1500 میل لمبی 20 سے 30 فٹ چوڑی اور بارہ سے پچاس فٹ تک اُونچی ہے۔ ہر دوسو گز پر پہریداروں کی پنا ہ گاہیں ہیں اس دیوار کی تعمیر کی مشہور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ چین کی شمالی سرحد پر اس لیے تعمیر کی گئی کہ منگولوں کے حملوں کے لیے چین کا تحفظ یقینی ہو جائے لیکن اس کی تعمیر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ چین میں ریشم کی دریافت ہو ئی تھی اور دنیا بھر میں صرف چین ہی ریشمی کپڑا تیار کر تا تھا اور پوری دنیا میں بڑے بڑے شہنشاہ بادشاہ اور امرا اپنی بادشاہت اور امارت کو دکھانے کے لیے یہ قیمتی ر یشمی کپڑا پہنا کرتے تھے جو صرف چین میں تیار ہو تا اور چینی تاجر ہی اس ریشمی کپڑے کو پوری دنیا میں فروخت کرتے یوں تصور کیا جا سکتا ہے کہ ریشمی کپڑے پر اجارہ اداری کی وجہ سے چین کو صدیوں تک کتنا فائدہ پہنچا اور چین نے ا س اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے بھی دیوار چین کو استعمال کیا۔

صدیوں تک جو شخص بھی چین سے با ہر جا تا تو اس دیوار کی چوکیوں پرتعینات محافظ اُ س کی تلاشی لیتے تھے پھر یورپ سے دو پادری عیسایت کی تبلیغ کے لیے چین آئے اور کئی برس یہاں قیام کیا اور واپسی پر اپنے عصا کو کھوکھلا کر کے اِن کے اندر ریشم کے کیڑے چھپا کر چین سے باہر لے گئے اور ریشم کا راز دنیا کو معلوم ہو گیا۔

جغرافیائی اور موسمیاتی اعتبار سے چین بہت زیادہ تنوع رکھتا ہے اور اس کے علاقے ایک دوسرے سے جغرافیائی ساخت کے لحاظ سے بھی بہت مختلف ہیں۔ مغرب کی طر ف سطح مرتضع اور پہاڑ ہیں جب کہ مشرق کی جانب میدان ہیں۔ بڑے دریا بشمول ینگنز دریا جو مرکزی دریا ہے دریائے ہوانگ ہی،اور آمور دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہتے ہیں اور بعض اوقات اِن کا رخ جنوب کی طرف بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ دریائے میکونگ اور برہما پترا۔ زیادہ چینی دریا بحرِاقیانوس میں گر تے ہیں۔ مشرق کی طرف دریائے پیلو کے کناروں اورمشرقی چینی دریاکے کناروںپر زرخیز مٹی کے وسیع میدان ہیں اندرونی منگو لیا سطح مرتفع جو شمال کی جانب ہے چراگاہیں ہیں جنوبی چین میں پہاڑوں اور کم بلند پہاڑوں کی کثرت ہے مرکز سے مشرق کی طرف چین کے دو بڑے دریا یعنی بو آنگ ہی اور ینگنز دریا کے ڈیلٹا ہیں۔

چین کی زیادہ تر زرخیز زمینیں انہی دو دریاؤں کے کناروں پر واقع ہیں۔ دوسرے مشہور دریاؤں میں پرل دریا،میکانگ برہما پتر اور آمور دریا شامل ہیںاس علافے کو تاریخی پس منظر میںدیکھیں تو اسی کے ساتھ میانمار،لاؤس ،تھائی لینڈ ،کمبوڈیا،اور ویتنام اہم ہیں،مغرب کی طرف چین کے زرخیز میدان جب کہ جنوب کی جانب چونے کے پتھر وں پر مشتمل بلند زرخیز میدان ہیں اور پھر دنیا کا بلند ترین پہاڑ کوہ ہمالیہ بھی اسی جانب واقع ہے، چین کے شمال مغرب میں اُونچی سطح مرتضح ہے جو بنجر اور صحرائی ہے یہ تاکلاماکن اور صحرائے گوبی کا علاقہ ہے  جو مزید پھیل رہا ہے۔

چین کے موسموں میں بھی بڑا فرق پا یا جاتا ہے شمالی زون جس میں بیجنگ بھی شامل ہے اس پورے علاقے میں بہت سردی ہو تی ہے اور اِسے آرکیٹک نوعیت کا علاقہ کہا جا تا ہے درمیانی علاقہ جس میں شنگھائی آتا ہے معتدل علاقہ ہے جنوبی علاقے میں گوانگ زاؤ ہے جو استوائی نوعیت کا علاقہ ہے طویل خشک سالی اور زراعت میں پرانے طریقوں کی وجہ سے موسم بہار میں آندھیوں کا چلنا معمول بن گیا ہے یہ آندھیاں نہ صرف جنوبی چین اور تائیوان تک جاتی ہیں بلکہ امریکہ کے مغربی ساحل تک پہنچتی ہیں۔

پانی سے کٹا ؤ اور آبادی پر کنٹرول دو ایسے مسائل ہیں جن پر چین باقی دنیا سے مختلف زاویہ نظر رکھتا ہے چین میں آخری مر دم شماری یکم نومبر 2010 میں ہوئی تھی اوراب اس سال نومبر2020 میں مردم شماری ہو گی یوں اب تک چین کی آبادی کے تمام تخمینے 2010 کی مردم شماری ہی کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں اس وقت چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ ہے اور چین اب بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تسلیم کیا جا تا مگر آبادی میں سالا نہ شرح اضافہ کے اعتبار سے دنیا بھرمیں 159 نمبر پر ہے۔

چین کی معاشرتی سماجی ساخت جو اِ س وقت دنیا کے سامنے اس کے پس منظرمیں ہزاروں لاکھوں برسوںکا تہذیبی ارتقائی عمل شامل ہے۔ چین غالباً اس اعتبار سے بھی دنیا کا نمبر ایک ملک ہے جہاں سیلابوں ،،زلزوں اور قحط وباؤں کی اور جنگوں سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ 757 ء سے 763 ء چین این لوشان بغاوت میں تین کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہو ئے 1340 ء یانگ بادشاہت کی جنگوں میں بھی تقریبا تین کروڑ افراد ہلاک ہو ئے۔

اس کے بعد کوئنگ بادشاہت فگ یا فنگ بادشاہت کو شکست دی یہ جنگیں 1616 ء سے 1662 ء تک جاری رہیں اور اس دوران ڈھائی کروڑ افراد ہلاک ہو ئے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کی وجہ عموماً چین کی اندرونی جنگیں رہیں یا پھر چین نے اپنی آزادی و خودی مختاری کے لے مزاحمت کی جنگیں لڑیں۔ پھر اگر چین کو  ایشیائی ہمسایہ ملکوں سے جنگیں کرنی پڑیں تو وہ بھی عموماً دفاعی نوعیت کی تھیں، یوں چین نے نہ تو دنیا کی اقوام اور ملکوں کے خلاف جارحیت اور نہ چین نے عالمی سطح پر تاریخ میں فتوحات کرتے ہوئے نام پیدا کیا۔ ہنی بال ، سائرس اعظم، سکندراعظم ، جولیس سیزر،چنگزخان، ہلاکوخان ،قبلائی خان ، امیر تیمور ،نیپو لین بو نا پاٹ اور ہٹلر جیسے فاتحین نے پوری دنیا فتح کر نے کے خواب دیکھے تھے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا۔

اٹھاویں صدی عیسوی تک چین اپنی ٹیکنالوجی اور عسکری قوت کے لحاظ سے ایشیا میں تو ایک مضبو ط پوزیشن رکھتا تھا مگر اب اس کے مقابلے میں یورپ کہیں آگے آگیا تھا اور وہ نو آبادیاتی نظام جو اہل یورپ نے سولہویں صدی سے شروع کیا تھا وہ اب پور ی دنیا کو اپنی گر فت میں لے کر چین کی سرحدوں پر پہنچ چکا تھا۔ اب چین اور ہند چینی کے پورے خطے میں پرتگال ، نیدر لینڈ ، اسپین، فرانس اور بر طانیہ سبھی پہنچنے لگے تھے بر طانیہ کے پاس نزدیک سونے کی چڑیا بر صغیر تھا پھر اس کی بحریہ دنیا کی مضبو ط ترین بحریہ تھی اور اس بنیاد پر اسے اُ س وقت سپر پاور تسلیم کیا جا تا تھا یوں بر طانیہ سمیت ان یورپی ممالک کی تجارتی کمپنیاں یہاں وارد ہو ئیں۔ برطانیہ نے یہاںکی تجارت اور پیداور کو فروغ دیا اور افیون یہاں کھلے عام استعمال اور فروخت ہو نے لگی۔

ساتھ ہی یہاں عیسائی مشنری سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں۔ یہاں دو جنگیں ہو ئیں جن کو افیون جنگوں کا نام دیا جاتا ہے۔، اس کی وجہ سے چین کی بادشاہت مسائل کا شکار ہوئی اور اُس کا قبضہ کمزور ہونے لگا جس کے نتیجے میں تائی پنگ کی خانی جنگی ہو ئی۔ ڈوگن کی بغاوت میں بھی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب چینی ہلاک ہو ئے۔ 1900 میں باکسر کی بغاوت ہوئی اس نے مزید تباہی پھیلائی اگر چہ ملکہ سی شی نے باغیوں کی درپردہ امداد جاری رکھی اور بظاہر اُس نے بیرونی افواج کی مدد کی کہ اس بغاوت کو کچلا جائے بعد ازاں باکسر ز کو آٹھ غیر ملکی افواج نے شکست دی اور 20 ہزار ٹن چاندی بطور تاوان ِجنگ وصول کیا۔

اب ہند چینی کے علاقوں کی طرح چین بھی نو آبادیاتی نظام میں جکڑا جا چکا تھا اور یہاں بھی ہند ستان کی طرح تقسیم کر و اور حکومت کر و کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ اب چین میں بھی بظاہر جمہوریت کو نافذالعمل کیا جا رہا تھا۔ چین کی نام نہاد یا کمزور آخری بادشاہت Qing قنگ تھی جس کا آخری بادشاہ Puyi پوئی 7 فروری1906 میں پیدا ہوا تھا جو بچہ تھا۔ پہلے 1908 ء میں منگولیا میں پناہ لیئے رہا پھر 1912 ء میں اُس کی بادشاہت ختم ہو گئی اس کی وفات 17 اکتو بر 1967 میں بیجنگ میں ہوئی۔

یکم جنوری 1912 کو چین میں گوا مینتانگ یعنی نشنلسٹ پارٹی سن یت سین کو بادشاہت کے خاتمے اور نقلاب اور جمہوریت کی آمد پر صوبائی گور نر بنا یا گیا تاہم ایک سابق قنگ جنرل  یو آن شیکائی جو انقلاب کے لیے نا موزوں سمجھا گیا تھا اُس نے سن یت سین کو ایک طرف کرکے خود صدارت سنبھا ل لی۔ یوآن نے خود کو نئی حکومت کا باد شاہ منوانے کی کو شش کی تاہم چینی سلطنت پر مکمل طور پر قبضہ کر نے سے پہلے ہی وہ اپنی طبعی مو ت مر گیا یوآن شیکائی کی موت کے بعد چین سیاسی لحاظ سے تقسیم ہو چکا تھا لیکن اُس وقت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی گئی مگر کٹ پتلی حکومت بیجنگ میں مو جود تھی تھی۔

لیکن حقیقت میں چین کے مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ 1920 کے اختتام پر گواومینتانگ ،،نشنلشٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کے زیرِانتظام ملک کو متحدہ کیا اور دارالحکومت کو نانجنگ منتقل کیا اور سیاسی رہنمائی کے نظام کو نافذ کر نا شروع کیا یہ نظام سن یت سین کے سیاسی ترقی کے پروگرام کی در میانی صورت تھی جس کے مطابق چین کو بتدریج ایک جدید اور جمہوری ریاست بنانا تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کے عرصے میں 1917 کو روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور پھر آنے والے برسوں خصوصاً 1925 کے بعد سے اسٹالن نے جس طرح طاقت کے بھر پور استعمال سے کیمو نزم کا نظام نافذ العمل کیا اور اُسے کا میا ب کر کے دکھا یا اس کا بھر پور اثرمشرقی یورپ ہند چینی ممالک اور سب سے زیادہ چین اور اس کے اجتماعی سیاسی سماجی شعور پر ہوا اور اس میں قیادت کا اہم کردار چیرمین ماو زے تنگ کا تھا۔

ماوزے تنگ ایک چینی مارکسی،عسکری ،سیاسی شخصیت تھے جنہوںنے مارکیسٹ لینینسٹ اشتراکی نظرایات کو اپنایا چین کی آزادی خود مختاری کے لیے خود پہلے طویل گوریلا جنگ لڑی اور پھر یکم اکتوبر 1949 کو چین کی آزادی اور خود مختاری کے بعد عالمی برادری میں چین کو مستحکم اور مضبو ط مقام دلوانے کے لیے ایک طویل صبر آزما جدو جہد مر تے دم تک جاری رکھی۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے پانچ سال قبل عالمی برادری میں چین کو اُس کا مقام دلوا یا وہ 1949 سے 1976 تک چین کی کیمو نسٹ پارٹی کے چیرمین رہے جبکہ 1959 تک عوامی جمہوریہ چین کے صدر بھی رہے۔ ماوزے تنگ دنیا کی جد ید تاریخ کی مو ثر ترین شخصیات میں شمار کئے جا تے ہیں۔ ٹائم میگزین نے اُن کو 20 ویں صدی کی 100 موثر ترین شخصیات شمار کیا ،اُنہوں نے زندگی میں چار شادیاں کیں اور اُن کی دس اولادیں تھیں اُن کو آخری عمر میں راعشہ یعنی پارکنسن کی بیماری لاحق ہو گئی تھی عملی زندگی میں وہ شاعر، مصنف، فلسفی، گوریلا کمانڈر، پیپلز لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف اور سیاست دان رہے۔

شروع کے دور میں پیکنگ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے چینی انقلاب کی جنگ جسے خانہ جنگی بھی کہا جا تا بھی لڑی اور دوسری چین جاپان جنگ میں بھی کمانڈ کی وہ1911 میں Xinhai Revolution ایکسنہائی انقلاب ا ورپھر اس کے بعد 1919 کیMay Fourth Movement تحریک سے شدید طور پر متاثر ہو ئے پھر بیجنگ یو نیورسٹی میں ملازمت کے دوران کیمو نسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بنے 1927 سے تحریک میں شامل ہوئے

خانہ جنگی اور ریڈ آرمی اور چینی کمو نسٹ پارٹی کی قیادت کی لانگ مارچ کیا پھر کچھ عرصہ یو نائنٹیڈ فرنٹ سے اتحاد کیا 1937 سے1945تک جاپان چین جنگ میں حصہ لیا اورر پھر انقلابی جنگ جسے خانہ جنگی بھی کہا گیا اس میں میں ماوزے تنگ نے قیادت کرتے ہو ئے یکم اکتوبر 1949 کو نیشنل گورنمنٹ کو شکست دیکر عوامی جمہوریہ چین کو آزاد ملک بنایا تو ساتھ ہی مغربی قوتوں نے تائیوان اور دیگر علاقوں کی بنیاد پر تائیوان کی حکومت کو چین کی نمائند گی اور جمہوریت کے ساتھ جمہوریہ چین کے نام سے تسلیم کیا۔ واضح رہے کہ اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کے قیام پر جو 51 بنیادی ممبران تھے اُن میں چین نہ صرف شامل تھا بلکہ اُسے ویٹو پاور بھی دیا گیا تھا اور جب یکم اکتوبر 1949 کو مین لینڈ کے ساتھ ماوزے تنگ کی قیادت میں چین آزاد ہو کر عوامی جمہوریہ چین بنا تو مغربی قوتوں نے تائیوان کی بنیاد پر اسے جمہوریہ چین قرارد یکر ویٹو پاور اُس کے پاس رہنے دیا اور ماوزے تنگ کا چین اقوام متحدہ کی رکنیت سے محروم رہا۔          (جاری ہے)

The post اقوام متحدہ میں چین کا رویہ باقی عالمی طاقتوں سے مختلف رہا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


وہاں سے لوٹ کے آئی ہے دید ۂ بینا
جہاں ہے بامِ محبت کا آخری زینہ
لہو ہی سوکھ گیا ہو تو جام کیا بھرنے
بدن ہی ٹوٹ گیا ہو تو زہر کیا پینا
نہیں خبر بتِ پندار کس طرف ٹوٹے
سِپر ہے تیری کماں کی طرح مِرا سینہ
یہ کس کا سایہ در و بام پر لرزتا ہے
یہ کس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے چشمِ نابینا
اگر تُو چاہے تو رستے جدا جدا کر دے
کسی نے تجھ سے بچھڑنے کا حق نہیں چھینا
محبّتوں کی سی شدّت جدائیوں میں بھی ہے
پلٹ کے آیا نہیں میرا یارِ دیرینہ
اُٹھائے ہاتھ میں پیمانہ محتسب ذاکرؔ
لگا رہا ہے مِری تشنگی کا تخمینہ
(ذاکر رحمان۔ؔ ہری پور)

۔۔۔
غزل


وہ اشتعال خدا کی پناہ دونوں طرف
نہیں کسی کا کوئی خیر خواہ دونوں طرف
یہ کیسی جنگ ہے جس میں مقابلے پہ کھڑی
سیاہ پٹّیاں باندھے سپاہ دونوں طرف
طلب ،رسد میں توازن رکھا کرو مرے دوست
میں چاہتا ہوں برابر ہو چاہ دونوں طرف
وہ جس طرف بھی چلے ساتھ ساتھ چلتی ہے
بہشت جیسی کوئی سیر گاہ دونوں طرف
پھر اک بدن کے دلائل سے مطمئن ہو کر
خدا نے بانٹ دیا وہ گناہ دونوں طرف
درونِ خواب سرِ چشم کیا تماشہ ہے
کہ دیکھتے ہیں ترے کم نگاہ دونوں طرف
میں جنگ جیت کے ساحر ؔذرا بھی خوش نہیں ہوں
کھڑے ہیں لوگ یونہی خوامخواہ دونوں طرف
(جہانزیب ساحر۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


ہم آج کہتے ہیں، کل کی تاریخ اہم نہیں ہے تو کیا غلط ہے
نئے زمانے کے ہاتھ کاغذ قلم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے!
ہمارے ناکام تجربوں کی کسی کو کوئی خوشی نہیں تھی
ہمیں بزرگوں کی رائیگانی کاغم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے
ہمیں بڑوں نے یہی کہا تھا کہ’’لا‘‘ہی سچ ہے، سو گھر کی چھت پر
کسی جماعت، کسی خدا کا عَلم نہیں ہے، تو کیاغلط ہے
کہ سائنسی طور پر بھی دونوں کا کوئی امکاں نہیں، سو کہہ دوں
تمھارا ملنا خدا کے ملنے سے کم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے!!
یہی بہت ہے کہ مدتوں بعد، دوست آئے ہیں بات کرنے
اب ان کا موضوع تیرا ظلم و ستم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے
جو مان بیٹھے، کہ ارتقا سے سبھی کے کس بل نکل گئے ہیں
تو رازؔ صاحب اب اس کی زلفوں میں خم نہیں ہے تو کیا غلط ہے!
(رازؔ احتشام ۔آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


مرے مُرشد کہا کرتے تھے ـ، سب اچھا نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سوچا نہیں ہوتا
بہت خستہ مکانوں میں رہائش بھی مصیبت ہے
اگر کھڑکی سلامت ہو تو دروازہ نہیں ہوتا
کسی سے راہ چلتے میں اچانک عشق ہو جائے
یہ ایسا جرم ہے ، جس پر کہیں پرچہ نہیں ہوتا
مجھے بینائی کَھو جانے کا اِک یہ فائدہ بھی ہے
کہ میں اب وہ بھی پڑھ لیتا ہوں جو لکھا نہیں ہوتا
محبت ہو کسی سے اور یک طرفہ محبت ہو
یہ وہ احساس ہے ، جس میں کبھی دھوکہ نہیں ہوتا
ہر اِک درویش کے کاسے میں درویشی نہیں ہوتی
ہر اِک چشمے کا پانی دوستا! میٹھا نہیں ہوتا
کسی کے عشق میں برباد ہو کر یہ کھلا عامیؔ
بہت خوش حال ہونا بھی بہت اچھا نہیں ہوتا
(عمران عامی ۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


اِک عکس تھا خیال میں آیا، چلا گیا
دو پل لہو ابال میں آیا چلا گیا
حیران کیوں ہو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر
جو بھی یہاں زوال میں آیا چلا گیا
وحشی کو اور چاہیے بھی کیا مکان سے
تھوڑا سا اعتدال میں آیا چلا گیا
کیا دیکھتے ہو ہاتھ سے چہرہ ٹٹول کر
جو رنگ ماہ و سال میں آیا چلا گیا
یہ دشتِ عمر ہے یہاں ٹھہرا نہیں کوئی
جو شخص جیسے حال میں آیا ،چلا گیا
اختر ؔپڑی ہیں سامنے یادوں کی سیپیاں
دریا تھا وہ اچھال میں آیا چلا گیا
(اختر ملک کلر کہار۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے
ہم ایک قافلۂ بے خبر کی نذر ہوئے
کوئی نہیں تھا مگر مانتے رہے کوئی ہے
یہ لوگ ڈرتے رہے اور ڈر کی نذر ہوئے
عجیب قافلہ تھا رک نہیں رہا تھا کہیں
مسافروں کے مسافر سفر کی نذر ہوئے
کسی کے ہاتھ میں جب ٹہنیاں نہیں آئیں
تب اس کے ہاتھ کے پتھر شجر کی نذر ہوئے
ہوائیں چلنے لگی اور قبائیں کھلنے لگی
کئی چھپے ہوئے منظر نظر کی نذر ہوئے
(احسن سلیمان ۔تتہ پانی ،آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


مگر وہ اِس پہ تھے مُصر کہ دوں حسابِ زندگی
میں چیختا رہا مُجھے نہیں مِلی! نہیں ملی!
ہمارا کون تھا وہاں؟ جو آ کے ڈُھونڈتا ہمیں
ہماری لاش ایک سرد خانے میں پَڑی رہی!
کہ آنکھ نَم تھی اِس لیے تو دیکھ نہ سکے تھے ہم
ہمارے درمیان صرف قہقہے کی دُوری تھی!
میںسبز پیڑ تھا کبھی خزاں میں بھی نہ سُوکھتا
اگر وہ مجھ سے ٹیک لگ کے بیٹھنا نہ چھوڑتی!
مجھے تووقت نے سکھا دیا ہے وقت کاٹنا
وگرنہ تیرے بعد تو گھڑی بھی چَل نہیں سکی!
میںآئینے کی مِثل تھا، چَٹخ کے ریت ہو گیا
وہ بُھربُھری سی خاک تھی، ہوا کے سنگ اُڑ گئی!
(محمد طہٰ ابراہیم۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


چراغ جلنے لگے تو ہوا نہیں دیتا
فقیر ہوں میں کبھی بد دعا نہیں دیتا
تو کیا اسی لیے دنیا نہیں توازن میں؟
وہ جرم دیکھ کے فوراً سزا نہیں دیتا
تُو ایک بار تو کہتا کہ کاش ایساہو
میں آسمان زمیں سے ملا نہیں دیتا
ضرور لطف کا پہلوہے میرے جلنے میں
وگرنہ اٹھ کے مجھے وہ بجھا نہیں دیتا
یہ کتنا واضح اشارہ ہے بخت ڈھلنے کا!
میں بھیک دوں تو بھکاری دعا نہیں دیتا
میں خالی ہاتھ کبھی لوٹتا نہیں مقدؔاد
مجھے خوشی کے علاوہ وہ کیا نہیں دیتا
(مقدؔاد احسن ۔ تاندلیانوالہ)

۔۔۔
غزل


سنو،قریب سے دیکھو ذرا بتاؤ مجھے
میں اس کی آنکھ میں کھویا ہوں ڈھونڈ لاؤ مجھے
پھر اس کے بعد میں دنیا بھلا کے بیٹھ گیا
لکھا تھا اس نے مری جان بھول جاؤ مجھے
تمہارے ہاتھ بلندی کو چھو رہے ہیں ابھی
میں گر رہا ہوں مرے دوستو! اٹھاؤ مجھے
تمھارے درد کا چہرے سے جائزہ لے لوں
تم اپنا ہاتھ دکھاؤ گے، مت دکھاؤ مجھے
سلیقہ مند! کتابیں سمیٹنا کیسا؟
ذرا پسند نہیں ہے یہ رکھ رکھاؤ مجھے
میں نظم تھوڑی ہوں جو چپکے چپکے بات کرو
میں گیت ہوں! سو ذرا کُھل کے گنگناؤ مجھے
ہوس بغیر کبھی حوصلہ کرو عارفؔ
بِنا چھوئے بھی کبھی تو گلے لگاؤ مجھے
(عارف نظیر۔ کراچی)

۔۔۔
’’ٹیڈی‘‘


اس کی گود میں سر رکھوں تو
(کیا بتلاؤں کیا ہوتا ہے)
سر کا درد چلا جاتا ہے
آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں
ہونٹوں پر اک ہنسی ابھر کر
چہرے پر بھی چھا جاتی ہے
یعنی غم کو کھا جاتی ہے
اس کی گود میں بیٹھا ٹیڈی
اکثر مجھ سے لڑ پڑتا ہے
یوں کہتا ہے’’حد ہوتی ہے‘‘
پیار جتانے والے لڑکے!
پیار جتانے آجاتے ہو
تم گودی پر بھار رہے ہو!
میرا کیوں حق مار رہے ہو؟
(شہزاد مہدی۔ اسکردو،گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


سوچا ہے تُو نے جیسا ،ویسا نہیں ہوں میں
ساتھی ہوں میں تو سچ کا ،جھوٹا نہیں ہوں میں
چکر دیا ہے تُو نے یہ جانتا ہوں میں
اتنا بھی دوست میرے بھولا نہیں ہوں میں
تُو نے بسایا دل میں غیروں کو ساتھ ساتھ
عاشق بنا جو تیرا پہلا نہیں ہوں میں
کٹ جائے عمر ساری تیرے ہی پیار میں
میں پیار کا سمندر، دریا نہیں ہوں میں
(احمد مسعود قریشی۔ ملتان)
غزل
کب میری مدد کا کوئی سامان کرے ہو
تم لوگ تماشے کو فقط کان کرے ہو
بیزاری و مکّاری، انا، کینہ، کراہت
سب دور رہو، تم مِرا نقصان کرے ہو
اے کاش کوئی پوچھے ستم گر سے کہ صاحب
کیوں اپنے پریشاں کو پریشان کرے ہو
دنیاوی فوائد کے تعاقب میں تم انسان
نقصان پہ نقصان پہ نقصان کرے ہو
تدبیر لڑاؤ نا ملاقات کی صادرؔ
کب ہم سے ملاقات کا امکان کرے ہو
(آصف خان صادر۔ بنوں)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

موجودہ حکومت معاشی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے

$
0
0

آفتاب احمد خان شیرپاؤ میدان سیاست کے چمکتے، دمکتے آفتاب ہیں جو سیاست کے داؤپیچ سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بساط سیاست پر بچھی شطرنج کا منجھا ہوا کھلاڑی سمجھا جاتاہے اور جس انداز اور طریقے سے وہ سیاسی معاملات سے نمٹتے ہیں وہ ثابت بھی کرتا ہے کہ انہیں سیاسی امور سے نمٹنے میں یدطولیٰ حاصل ہے۔

پیپلزپارٹی میں تھے تو پارٹی کی سیاست کا محور تھے، پیپلزپارٹی شیرپاؤ بنائی تو اپنا الگ انداز اپنایا اور جب قوم پرست سیاست کا رخ کیا تو اے این پی جیسی قوم پرست سیاسی جماعت کی موجودگی میں نہ صرف پارٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ ثابت کیا کہ اگر کوشش کی جائے تو سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے اپنا مقام بنایا جاسکتا ہے۔

یہ ان کے قد کاٹھ ہی کا اثر ہے کہ پیپلزپارٹی جسے چھوڑے ہوئے انہیں بیس سال سے زائد ہوچکے ہیں وہ اب بھی آفتاب شیر پاؤ کو نہیں بھول پائی اور وقتاً فوقتاً انہیں پارٹی میں واپس لانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور گئے ماضی کو واپس بلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم آفتاب شیر پاؤ سیاست کو جس ڈگر پرلے کر چل رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب ان کا اوڑھنا بچھونا قومی وطن پارٹی ہی ہے۔

پیر صابر شاہ کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت بناکر ثابت کیا کہ کوئی بھی کام ناممکن نہیں بس کھیلنے کا طریقہ آنا چاہیے۔ ان کے سیاسی داؤپیچ اور مہارت کو جاننے والے اسی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک پر آفتاب شیر پاؤ ہی کی سیاست کی چھاپ ہے اور جو سیاسی تربیت انہوں نے آفتاب شیرپاؤ کے ساتھ رہتے ہوئے حاصل کی اسی مہارت کی بدولت انہوں نے اپنی حکومت کو بخوبی چلایا، لیکن خود آفتاب شیر پاؤ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ گذشتہ عام انتخابات خیبرپختونخوا سے قومی اور صوبائی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے والے سیاسی راہ نماؤں کے لیے کچھ اچھے ثابت نہیں ہوئے اور کئی راہ نما انتخابی بازی ہار کر میدان سے باہر بیٹھ گئے۔

تاہم ان کی پارٹیاں پارلیمان اور اسمبلیوں میں نمائندگی کرنے کے لیے موجود ہیں لیکن قومی وطن پارٹی کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا۔ لیکن آفتاب شیرپاؤ اس صورت حال سے دل شکستہ نہیں بلکہ ان کے حوصلے جوان اور وہ نئی سیاسی اننگ کھیلنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ان تمام امور کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ نے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے ساتھ نشست کی جس کا احوال قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس: ملک میں اٹھارھویں ترمیم کے خاتمے کی جو باتیں ہورہی ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوپائے گا، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: جی ہاں موجودہ حکومت نے بارہا اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑنے کی بات کی ہے۔ اس ترمیم کو ہوئے دس سال مکمل ہوگئے ہیں جس کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور محنت کی تھی۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے لیے ہم نے کمیٹی کے سو کے لگ بھگ ریگولر اور سو ہی کے قریب غیررسمی اجلاس منعقد کیے۔

سول سوسائٹی اور دیگر تمام طبقات سے بھی رائے لی اور متفقہ طور پر اس ترمیم کی منظوری حاصل کی جس کے ذریعے آمروں کی جانب سے حاصل کردہ اختیارات پارلیمان کو واپس لوٹا دیے گئے۔ ان اختیارات کے صوبوں کو منتقلی سے وہ مضبوط ہوئے اور دس سال سے صوبے خوش اسلوبی سے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سارا کام چلارہے ہیں، لیکن اب موجودہ حکومت یہ الزام عائد کررہی ہے کہ صوبوں کے پاس اختیارات تو ہیں لیکن وسائل نہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ اپنے معاملات کو چلاسکیں۔

کیوںکہ یہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو وسائل کی فراہمی نہیں کرنا چاہتے۔ ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ اٹھارھویں ترمیم سے قبل جاری ہوا تھا جس میں قومی وسائل کی تقسیم کرتے ہوئے صوبوں کا حصہ 57.5 فی صد جب کہ مرکز کا حصہ 42.5 فی صد مقرر کیا گیا لیکن اب مرکز صوبوں کو دیے گئے یہ وسائل واپس لینے کا خواہاں ہے، حالاںکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مرکزی حکومتوں نے انہی کم وسائل کے ساتھ اپنا نظام چلایا لیکن اللہ جانے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔

اب جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غیرمعمولی قسم کی صورت حال پیدا ہوئی ہے تو یہ اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑنا چاہتے ہیں، درحقیقت ڈالر کی قیمت بڑھی ہے تو اس سے مرکزی حکومت پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا ہے، اس لیے اب مرکز، صوبوں پر بوجھ ڈالنا چاہتا ہے جس کے اثرات انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے اور یہ کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہوگا۔ موجودہ مرکزی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت بھی نہیں کہ وہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کو چھیڑ سکے۔

انہیں نیا این ایف سی ایوارڈ لانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اب دسواں قومی مالیاتی ایوارڈ جاری ہونا چاہیے۔ یہ درحقیقت آمرانہ نظام چاہتے ہیں۔ فیڈریشن میں تو مرکز کو سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اس سے راہ فرار اختیار کررہی ہے لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر اٹھارھویں ترمیم کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

حکومتِ سندھ نے کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے جس میں کوئی شک نہیں ایسے میں دیگر صوبوں کو چاہیے تھا کہ وہ سندھ کی پیروی کرتے ہوئے اس کی طرح کام کرنے کوشش کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مرکز کا کام ہوتا ہے پالیسی دینا لیکن مرکز تنقید کرنے میں جُت گیا جس سے صورت حال خراب ہوئی ہے۔ مرکز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال کرنا چاہیے تاکہ اس فورم کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں پیدا شدہ مسائل کو حل کیا جاسکے۔

ایکسپریس: موجودہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے اورنیا پاکستان بنانے میں کس حد تک کام یاب ہوسکی ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: اس حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہوگئے ہیں، جب اقتدار سنبھالا تو پہلے مسائل کو حل کرنے کے لیے سو دنوں کی بات کی جس کے بعد چھ ماہ کی بات کی گئی۔ انہیں سب جماعتوں نے وقت دیا تاکہ یہ ملک وقوم کو درپیش مسائل حل کرسکیں لیکن یہ کام نہیں کرسکے، کنٹینر پر تو کھڑے ہوکر یہ سارے کے سارے مسائل چٹکی بجاتے ہوئے حل کردیا کرتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد معاملہ الٹ ہوگیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی اپنی ٹیم ناکام ہوگئی جس کے بعد یہ ٹیکنوکریٹس کو میدان میں لے آئے لیکن صورت حال یہ ہے کہ حکومت معاشی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے۔

انہوں نے جتنے بھی وعدے کیے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے پچاس لاکھ گھر بنانے کر دینے اور ایک کروڑ نوکریاں عوام کو دینے کا اعلان کیا تھا، کہاں ہیں وہ گھر اور کہاں ہیں وہ نوکریاں؟ کورونا وائرس کے حوالے سے جو صورت حال بنی ہے اس میں ثابت ہوگیا ہے کہ یہ لوگ مکمل طور پر ناکام ہیں جس کی وجہ سے پوری قوم بھی مایوسی کا شکار ہے، سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کورونا کی صورت حال اور دیگر معاملات میں ناکام ہوچکے ہیں جب کہ سندھ نے کورونا کو کنٹرول کیا۔ یہ لوگ نیا پاکستان کیا بناتے ان سے تو پرانا پاکستان بھی گیا جسے انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنی اطلاعات کی ٹیم کو بار، بار تبدیل کیا لیکن کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ لوگ اب ان سے مایوس ہوچکے ہیں۔

ان کی معاشی پالیسیاں فیل ہوچکی ہیں۔ گندم اور چینی کا اسکینڈل سامنے آیا کیوںکہ جب آپ کے اپنے ملک میں چینی کم ہو تو آپ کیسے اسے برآمد کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے ایسا کیا اور پھر مہنگے داموں چینی باہر سے درآمد کرائی گئی۔ انہوں نے اس اسکینڈل کی ادھوری رپورٹ پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اب اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے اور جو لوگ اس اسکینڈل میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو سارے کے سارے ان ہی کے اپنے لوگ ہیں۔

یہ معاملہ تو مفادات سے تصادم (Conflict of Interest ) کا ہے۔ یہ جو دوسروں کی میٹروز پر تنقید کیا کرتے تھے۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں ان کی اپنی بی آرٹی مکمل نہیں ہوپارہی۔ بلین ٹری سونامی منصوبے میں بھی مسئلے، مالم جبہ کرپشن کیس الگ سے لیکن ان کے کیس نہیں کھل رہے اور یہ دوسروں سے سیاسی انتقام لینے کی راہ پر گام زن ہیں۔ ان کے خلاف جو کیس ہیں وہ سب فائلوں تک محدود ہیں جب کہ دوسروں کے خلاف کیس چل رہے ہیں، یہ ملک کیسے بچائیں گے کہ ان کی صورت حال کل تک یہ تھی کہ یہ کہتے پھرتے تھے کہ ہم کشکول نہیں اٹھائیں گے لیکن آج سب سے بڑا کشکول انہوں نے ہی اٹھارکھا ہے اور ہر جگہ کشکول اٹھائے مانگ رہے ہیں اور چندے کی اپیلیں کررہے ہیں۔

یہ لوگ بہت ہی جلد ایکسپوز ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں سے ملک نہیں چل سکتا اور نہ ہی چل پارہا ہے اس لیے عمران خان اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں، کیوںکہ اس وقت پارلیمان جام ہے جو کسی قسم کی قانون سازی نہیں کررہی۔ حکومت اور اپوزیشن میں کسی قسم کی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں، جب آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ ہوا تو پوری کی پوری سیاسی قیادت ایک صفحے پر آگئی۔ اسی طرح جب وزیرستان میں آپریشن کرنا مقصود تھا اس وقت بھی ساری پارٹیاں اکٹھی تھیں لیکن انہوں نے نہ تو کشمیر ہاتھ سے جانے کے معاملے پر سیاسی قیادت کو یکجا کیا اور نہ ہی آج کورونا کے معاملے پر اکٹھ ہورہا ہے۔ عمران خان تو اسمبلی تک آنے کے لیے تیار نہیں کیوںکہ وہ اب تک کنٹینر والی سیاست ہی چلارہے ہیں جب کہ ملک کی حالت یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں، غربت بڑھی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ایکسپورٹ کم ہوگئی ہے۔

ایکسپریس: افغانستان میں پاور شیئرنگ فارمولا حتمی مراحل میں ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوسکے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: پہلے بھی جب افغانستان میں انتخابات منعقد ہوئے تو ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اسی طرح تنازعہ پیدا ہوا اور پھر دونوں پاورشیئرنگ فارمولے پر متفق ہوگئے جس کے مطابق اشرف غنی صدر جب کہ عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹیو بن گئے۔

یہی صورت حال اب پھر موجود ہے اور ایک ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اشرف غنی نے بطور افغان صدر حلف بھی اٹھایا ہے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر یہ دونوں مل بیٹھتے ہیں اور اکٹھے ہوتے ہیں تو طالبان سے بات کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے لیکن اگر یہ اکٹھے نہیں ہوتے تو اس کا فائدہ کسی اور کو نہیں وہاں کے طالبان کو جاتا ہے۔ اس لیے انہیں اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ افغانستان میں قیام امن ممکن بنایاجاسکے اور یہ دونوں مل کر ہی اس مسئلے کا بہتر حل تلاش کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان میں پختون قوم پرست یکجا کیوں نہیں ہوپاتے، کیا شخصیات کے ٹکراؤ وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوپارہا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: ہم تو ہر صورت پختونوں کا اکٹھ اور ان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں کیوںکہ پختون قوم کو بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ قبائلی علاقہ جات اب انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے مسائل اب ہمارے مسائل ہیں جہاں ٹارگٹ کلنگ بھی ہورہی ہے اور دیگر مسائل بھی موجود ہیں۔ اس لیے مشترکہ طور پر کوشش کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے، جہاں تک پختون قوم کے اکٹھ اور مجموعی طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے کا تعلق ہے تو یہ سب کچھ یک دم اور راتوں، رات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے، یعنی سب مل کر بات کریں اور مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں۔ بنیادی ایشوز کو پہلے حل کرنا چاہیے۔

میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری یا میری پارٹی یا میرے ساتھیوں کی جانب سے اس ساری کوشش کی قیادت کرنے یا کریڈٹ لینے کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ نہ ہی ہمیں کسی دوسرے کی قیادت میں کام کرنے میں کوئی عار ہے، بھلے کوئی بھی اس ساری تحریک کی قیادت کرے، ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں اناؤں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ ہم تو پختون قوم کے مسائل کا حل چاہتے ہیں کیوںکہ پختون قوم مایوس ہوچکی ہے اور اس کی مایوسیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ پاکستان میں قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: یہ تو ہم نے اپنی پارٹی کے منشور میں کہا ہوا ہے کہ پاکستان میں آباد تمام قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، جب سابق وزیراعظم نوازشریف کو ان کے عہدے سے نااہل قرار دیتے ہوئے ہٹایا گیا تو انہوں نے بھی یہی بات کی تھی۔ ملک میں آباد قومیتیں مل بیٹھ کر ایک تحریری معاہدہ کریں اور اسے قانون تحفظ دیں کیوںکہ آج صورت حال یہ ہے کہ پشتون مایوس ہیں، بلوچ بدظن، سندھیوں کی اپنی مشکلات اور پنجاب میں بسنے والوں کے اپنے الگ مسئلے۔ اس لیے نیا عمرانی معاہدہ ضروری ہے جس میں سب کے مفادات کا تحفظ بھی ہونا چاہیے اور سب کو نمائندگی بھی ملنی چاہیے تاکہ کوئی بھی قومیت مایوسی کا شکار نہ ہونے پائے۔

ایکسپریس: ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کیسے اور کیوںکر کم کیا جاسکتا ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں اصل قیادت نہ ہو اور وہ اپنا کردار ادا نہ کرپائے تو اس صورت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنا مشکل ہوجائے گا، اگر قوم کی قیادت کرنے والے راہ نما کم زرویوں کا شکار ہوں اور کسی کے اشاروں پر چل رہے ہوں تو پھر تو معاملات ایسے ہی چلیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کی سب کو ماننی پڑے گی لیکن اگر اصل قیادت سامنے ہو تو وہ اداروں کی طرف نہیں بلکہ ادارے اس کی طرف دیکھیں گے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پارلیمان خودمختار ہو اور درست طریقے سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، تمام اداروں کا نظام درست ہوجائے گا۔

ایکسپریس: قومی وطن پارٹی گزشتہ عام انتخابات میں جس طریقے سے باہر رہی، آئندہ انتخابات میں کم بیک کیسے کیا جائے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: گذشتہ عام انتخابات میں قومی وطن پارٹی کو کیسے آؤٹ کیا گیا اور انتخابات میں کیسے دھاندلی کی گئی، اس پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور جو بھی ہوا وہ سب کے سامنے بھی ہے، اس لیے اس پر اب مزید کیا بات کریں۔ ہمارے صوبے کی اپنی ایک روایت رہی ہے کہ جو بھی پارٹی ایک مرتبہ اقتدار میں ہوتی ہے وہ مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آپاتی اور اگلا الیکشن ہار جاتی ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پانچ سالوں میں کیا بھی کچھ نہیں اور دوبارہ دو تہائی اکثریت لے کر کام یاب بھی ہوگئی اور اس کی اس کامیابی کی زد میں ہم سب آئے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کی گذشتہ عام انتخابات میں جس طریقے سے راہ روکی گئی اس کے خاتمے کے لیے ضروری تھا کہ ہم منظم انداز میں کام کریں اس لیے ہم نے اپنی پارٹی کی نچلی سطح سے تنظیم سازی کی اور پوری کی پوری پارٹی قیادت کو ہرہر معاملے اور ایشو پر تمام امور سے آگاہ رکھا ہے تاکہ جس دھاندلی کا شکار ہم ایک مرتبہ ہوئے ہیں، دوبارہ اسی صورت حال سے دوچار نہ ہوں اور جس انداز میں ہم اپنی پارٹی کو استوار کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ جو کھیل ایک مرتبہ ہمارے ساتھ کھیلا گیا ہے وہی دوبارہ کھیلا جائے گا۔

ایکسپریس: کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں انہیں آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کا نقصان ہوا تو ظاہر ہے کہ پاکستان کو بھی اس کا شدید نقصان ہوا ہے کیوںکہ ہم پہلے ہی سے کم زور معاشی صورت حال میں تھے جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جو دھچکا لگا ہے اسے سنبھالنا مشکل ہے، یہ حکومت کوروناوائرس سے پہلے بھی معیشت کو نہیں سنبھال پارہی تھی نہ ہی کوئی یکساں پالیسی سامنے لائی گئی اس لیے جو معاشی مسائل اور مشکلات اس وقت پیدا ہوئی ہیں وہ آئندہ چار، چھ سال رہیں گے۔ مانگے تانگے سے کام نہیں چلے گا، اس سلسلے میں سب کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ سب مل کر مشکل کی اس گھڑی سے نجات کی راہ تلاش کرسکیں۔

ایکسپریس: خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے جو بھی ہے سب کے سامنے ہے۔ محمودخان دو سال سے حکومت کررہے ہیں لیکن انہوں نے کون سا ایسا بڑا کارنامہ کیا ہے جسے بیان کیاجاسکے۔ ان کے اپنے تین وزراء نے ان کی حکومت پر یہ کہہ کر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت میں کرپشن بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس پر عمران خان نے ان تینوں وزراء کو نکال باہر کیا حالاںکہ اصولی طور پر ان کی بات سننی اور اس کی جانچ کروانی چاہیے تھی اور اگر ان کی باتوں میں صداقت پائی جاتی تو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ موجودہ حکومت تو گذشتہ جاری ترقیاتی منصوبے بھی مکمل نہیں کراسکی۔

صوبے میں غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے، حالاںکہ سندھ میں6.7 فی صد، پنجاب میں3 فی صد اور بلوچستان میں ایک فی صد غربت کم ہوئی، صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں غیرمعمولی انداز اور طریقے سے کام ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، جس سے وسائل سول اداروں اور حکومت سے لے کر سیکیوریٹی اداروں کے حوالے کیے گئے تاکہ ان کا درست اور مناسب استعمال ممکن بنایاجاسکے۔

ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان حالات میں سب نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو فوکس کررکھا ہے لیکن کسی کی بھی توجہ محمودخان پر نہیں حالاںکہ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ حقائق سامنے لائے جاسکیں کہ یہاں وسائل کیسے استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں اور مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اگر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرگئی تو اس صورت میں شاید ہی صوبہ واپس اپنی جگہ آسکے کیوںکہ یہ اتنا پیچھے جاچکا ہوگا۔

ایکسپریس: کیا شریف برادران کا ملکی سیاست میں کردار ختم ہوگیا ہے یا ابھی ایک اور اننگ باقی ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: شریف برادران صرف شخصیات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پوری پارٹی کا نام ہے، ایسی پارٹی کہ جس کی جڑیں عوام میں ہیں جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آج پنجاب میں انتخابات کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو یہ پارٹی وہاں سے دو تہائی اکثریت لے کر آجائے گی۔ نہ تو شریف برادران ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن)، ان کی اپنی بنیادیں ہیں اور اپنی حیثیت لیکن اس وقت اس پارٹی اور شریف برادران کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ایکسپریس: خیال کیا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک آپ کے سیاسی شاگرد ہیں، حقیقت کیا ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: بھٹوصاحب کو ایوب خان کا شاگرد قرار نہیں دیا جاسکتا حالاںکہ لوگ ایسا کہتے ہیں، سیاست میں ہر ایک کا اپنا طریقۂ کار ہوتا ہے۔ پرویزخٹک کا بھی اپنا کردار ہے، اس کو موقع ملا، اسے مضبوط اپوزیشن نہیں ملی، ہم نے تو ایک ووٹ کے فرق سے حکومت بنائی، یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں، وہ نوشہرہ کی بنیاد پر سیاست کررہا ہے۔ یہ شکر کرے کہ ایسی اپوزیشن ملی جو اتنی فعال نہیں اور نہ ہی اس نے وہ کردار ادا کیا جو اپوزیشن ادا کرتی ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ کے اور پیپلزپارٹی کے دوبارہ ایک ہونے کے راستے بند ہوگئے ہیں؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میں سیکڑوں مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میری اور پیپلزپارٹی کی سیاست الگ نہج پر ہے۔ ہماری سوچ الگ ہے، ہم قوم پرست سیاست کرتے ہیں جب کہ ان کی الگ سوچ ہے، جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ اس کمٹمنٹ پر ہیں کہ ہم نے قوم پرستانہ سیاست کرنی ہے۔

ہم اب ان سے کیسے الگ ہوسکتے ہیں، بیس سال سے زائد سال ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے سے جدا ہوئے، اب اس میں کیا صداقت ہوسکتی ہے کہ میں واپس جارہا ہوں، پیپلزپارٹی ایک لبرل ماڈریٹ پارٹی ہے جو صوبے میں اپنی سیاست کرے جو اس کا حق ہے ہم اس کو ختم نہیں کرنا چاہتے کہ کہیں یہ تاثر نہ ملے کہ لبرل لوگوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ہماری اپنی سیاست اور پی پی پی کی اپنی سیاست ہے۔ یہ پی پی پی کی خواہش ہوسکتی ہے جس کا میں احترام کرتا ہوں لیکن ہماری کمٹمنٹ ایک پروگرام سے ہے، پشتون قوم سے ہے جس سے میں ہل نہیں سکتا۔

ایکسپریس: آپ کے بے نظیر بھٹو شہید سے کیا اختلافات تھے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میرا بی بی کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اختلاف رائے آجاتا ہے۔ بی بی جن کو انکلز کہتی تھیں ان کو پہلے ہی دور کردیا، میں نے بی بی کا پہلا سیاسی دورہ مارشل لا میں کراتے ہوئے ان کی سیاست کا آغاز کرایا۔ جب دونوں مرتبہ حکومت بنی اس نے صوبے میں کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی ،1997ء کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کے حالات بہت خراب تھے۔ پورے ملک سے قومی اسمبلی کی 18سیٹیں تھیں جو صرف سندھ سے تھیں دیگر صوبوں سے کوئی نشست نہیں ملی اور کرپشن کے الزامات تھے۔ خیبرپختونخوا سے صوبائی صرف چار نشستیں تھیں، کیوںکہ جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے دیر سے نشستیں حاصل ہوئیں۔

میری بے نظیر بھٹو کو یہ تجویز تھی کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں تاکہ ورکروں کی مایوسی ختم ہوجائے اور وہ متحرک ہوجائیں انہوں نے اتفاق کیا، ہم نے طریقۂ کار بھی بنالیا لیکن ان کے ذہن میں کسی نے بٹھادیا کہ میں صوبے میں کسی اور کو آگے نہیں آنے دیتا اور پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں، میں عوامی سیاست سمجھتا ہوں کہ پی پی پی بھٹو کے نام کے بغیر کیسے چل سکتی ہے؟ ایسی کوئی کوشش نہیں تھی مجھے جب سنیئر وائس چیئرمین بنایا گیا تو میں نے اس وقت بھی کہا کہ آئندہ وزیراعظم بھی بے نظیر بھٹو ہی ہوں گی۔

لیکن ایک دن مجھے بلائے بغیر بی بی نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں خود کو پارٹی کا تاحیات چیئرپرسن قرار دے دیا جس پر میں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ جمہوری رویہ نہیں، کیوںکہ اس سے خراب تاثر پیدا ہوگا۔ یہ اختلاف آگے بڑھتا گیا، کچھ لوگوں نے بھی درمیان میں زیادہ اختلافات پیدا کیے جو بڑھتے گئے، کیوںکہ میری جگہ کچھ اور لوگ لینا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی بی ان کی باتوں میں آگئیں۔

میں نے پارٹی نہیں چھوڑی انہوں نے مجھے ڈی نوٹیفائیڈ کیا، اس دن کے بعد سے لے کر جب تک بی بی زندہ تھیں میں نے کبھی ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی۔ ہمیشہ احترام کیا، وہ ایک ایسے عظیم لیڈر کی بیٹی تھیں جو ہم سب کا لیڈر تھا اور میرا بھائی اس پارٹی میں شہید ہوا۔ میں نے پانچ سال قید کاٹی،2007 ء میں21دسمبر کو عید کے موقع پر میرے حلقے کی مسجد میں نماز عید میں بم دھماکا ہوا جس میں 53 افراد شہید اور150زخمی ہوئے میرا بیٹا بھی شدید زخمی ہوا جو پمز اسلام آباد میں زیرعلاج تھا۔ شہادت سے دو دن پہلے انہوں نے پیغام بھجوایا کہ آپ کے بچے میرے سامنے بڑے ہوئے ہیں اور مجھے آپ کے بیٹے کے زخمی ہونے پر بڑا دکھ ہے۔ میں نے بھی شکریہ ادا کیا۔ دو دن کے بعد ہی وہ شہید ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی اب بھی مجھے واپس لانے کی بات کرتی ہے تو یہ ان کی مہربانی ہے۔

ایکسپریس: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا اختلاف صدرمملکت کے عہدے کے لیے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے شروع ہوا؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: نہیں ایسا نہیں بی بی تو مجھے صدر مملکت بنانا چاہتی تھیں، میں پشاور آیا فیملی مسائل کے حوالے سے تو انہوں نے میرے لیے جہاز بھجوایا اور مجھے صدر مملکت بنانے کی بات کی لیکن میں نے انکار کیا۔ فاروق لغاری کا نام تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آیا ان کے ایک خاص آدمی کی جانب سے جس کے بعد وہ صدر بنائے گئے۔ ان کے لیے ہم نے کام کیا، فاروق لغاری میرا رشتہ دار ہے ، جب بی بی اور فاروق لغاری کے اختلافات ہوئے تو میں مصالحت کرارہا تھا، جس رات کو حکومت ختم ہونی تھی اس شام میں دیر سے واپس آیا تو وزیراعظم کا فون آیا کہ لغاری صاحب کے ساتھ دو دنوں میں ملاقات ہونی چاہیے لیکن پھر حکومت ختم ہوگئی تو بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے مجھے اطلاع دی، شاید لوگوںنے اس کے بعد کہانیاں بنائی ہوں، فاروق لغاری نے میرے خلاف کیس بنائے، جب ایسا ہوا تو یہاں کے گورنر نے استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے نیا گورنر لگانا تھا جس کے لیے گراؤنڈ بھی بنانا تھا، نئے گورنر نے یہاں صوبے میں حکومت ختم کرنے کے لیے کیا اندازہ لگایا ہوگا اسی لیے تو ان کی سہولت کے لیے کیس بنائے گئے، اگر ہم مستعفی ہوجاتے تو ان کے لیے آسان ہوجاتا لیکن ہم نے ان پر چھوڑا اور ان کا اقدام کورٹ میں چیلینج کیا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ جب 1988ء میں پیپلزپارٹی جیت کر آئی تو اسے حکومت بنانے نہیں دی جارہی تھی اور ایسا تب ہی ممکن ہوپایا کہ جب بے نظیر بھٹو سے کچھ ضمانتیں لی گئیں کیا یہ درست ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: پاکستان کی سیاست اور ایوب، ضیاء الحق اور مشرف کے ادوار کو دیکھا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سویلین سیٹ اپ کم زور ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی تو تھی جو مضبوط ہوئی اور اب بھی ہے، اسی لیے جب پی پی پی 1988ء میں جیتی تو غلام اسحاق خان ہمیں حکومت نہیں دینا چاہتے تھے۔ جب الیکشن ہوئے تو کافی دنوں تک ہمیں حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی ہم پریشان تھے لیکن انہوں نے صاحبزادہ یعقوب خان اور جعفری کو شامل کرایا تو پھر حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ جونیجو نے بھی پہلے حکومت سنبھالی پھر مارشل لا ختم کرایا۔

اسی طرح بے نظیر بھٹو نے بھی پہلے حکومت سنبھالی پھر اقدامات کیے، عوام کی توقعات بہت زیادہ تھیں، حکومت نہ لینے کی باتیں بھی تھیں تاہم یہ مناسب نہ ہوتا، یہ مشکل وقت تھا اس سے عوام میں مایوسی پھیل جاتی۔

ایکسپریس: کیا بے نظیر بھٹو سے یہ گارنٹی بھی لی گئی تھی کہ وہ ضیاء الحق کے خاندان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گی؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میرے علم میں نہیں کہ بی بی نے ضیاء الحق خاندان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی گارنٹی دی تھی، انہوں نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے طور پر شاید یہ کام نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس سے مزید کشیدگی پیدا ہوجاتی جو وہ یہ نہیں چاہتی تھیں، وہ مضبوط ہونا چاہتی تھیں۔

ایکسپریس: آئی جے آئی، پیپلزپارٹی کے خلاف بنائی گئی جس کے لیے اسامہ بن لادن اور آئی ایس آئی کی جانب سے فنڈنگ کے تذکرے ہوئے، حقیقت کیا ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: اسامہ والی بات بعد میں آئی لیکن ضرور اسٹیبلشمنٹ اور غلام اسحاق خان خوش نہیں تھے اور ان کے گٹھ جوڑ سے اٹھاون ٹو بی کے استعمال کی بجائے ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو ناکام ہوئی تو پھر پیپلزپارٹی کی حکومت ہٹائی گئی۔

ایکسپریس: کیا آپ کو سیاست میں لانے والے ذوالفقارعلی بھٹو تھے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: جب حیات شیر پاؤ شہید ہوئے تو بھٹوصاحب دوسرے دن تعزیت کے لیے آئے، ممتاز بھٹو بھی ساتھ تھے جنہوں نے مجھے الگ کمرے میں لے جاکر کہا کہ آپ کے کیا ارادے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میرے کوئی ارادے نہیں نہ سیاست میں ہوں نہ ہی کوئی شوق ہے، جب نصر اللہ خٹک کے خلاف ری ایکشن شروع ہوا تو لوگ اس طرف آنے لگے کیوںکہ پی پی پی میں طریقہ ہے کہ جو عہدے پر ہوتا ہے اس کے خلاف سب ہوجاتے ہیں چلا جاتا ہے تو سب اسے یاد کرتے ہیں، پی پی پی کے پشاور میں ملک گیر کنونشن میں بھٹو صاحب کی موجودگی میں نصر اللہ خٹک کے خلاف باتیں ہوئیں حالاںکہ نصر اللہ خٹک زیرک انسان تھے۔

تاہم جیسے لوگ چاہتے تھے وہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے تھے، حیات شیر پاؤ رات دن کام کرتے تھے، حیات شیرپاؤ کے گورنر بننے پر لوگوں نے گورنر ہاؤس پہلی مرتبہ اندر سے دیکھا ورنہ پہلے تو گورنر لارڈ صاحب ہوتا تھا گورنر ہاؤس کی طرف کون دیکھ سکتا تھا، پھر اس کے بعد حیات شیر پاؤ شہید سنیئر وزیر اور وفاقی وزیر بنے تو رات دن کام کرتے تھے کیوںکہ یہ ان کا جنون تھا، نصر اللہ خٹک ایسا نہ کرسکے جس کی وجہ سے ورکروں میں مایوسی پیدا ہوئی، بھٹو صاحب نے مجھے پھر بلایا اور مجھے صوبائی نائب صدر بنادیا اور کہا کہ اب یہ ضروری ہے۔

ایکسپریس: آپ کے بڑے بھائی حیات شیر پاؤ کو بم دھماکے کے ذریعے شہید کرنے کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کچھ لوگوں کے نام سامنے آئے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: حیات شیر پاؤ کے قاتلوں کے بارے میں پوچھا جاتاہے، اس ملک میں جتنے سیاسی قتل ہوئے کس کے قاتل پکڑے گئے؟ لازمی بات ہے کہ ہمیں بھی پتا ہے کہ جو لوگ باتیں کررہے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ہوگی، ہمیں پتا ہے کہ کیا صورت حال تھی، یہ بات واضح ہے کہ ان کو ختم کرنا اس وقت کچھ لوگوں کی ضرورت تھی کیوںکہ وہ ان کی شہرت اور مقبولیت سے خائف تھے اور سمجھتے تھے کہ ان سے چھٹکارا پانا ضروری ہے لیکن نتیجہ کچھ اور نکلا کیوںکہ لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کے خون کی وجہ سے پی پی پی مزید مضبوط ہوئی کہ لوگ اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

The post موجودہ حکومت معاشی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

انٹرنیٹ کے سحر میں گرفتار انسانی دماغ

$
0
0

پچھلے دنوں ایک  عزیز کے گھر جانا ہوا۔ وہ ایک بھرا پرا گھرانا ہے۔ چھ بچوں کی وجہ سے خاصا ہنگامہ رہتا تھا۔ مگر اس دن گھر میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کوئی اپنے فون پر بیٹھا ہے تو کوئی لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر براجمان۔غرض سبھی چھوٹے بڑے دنیائے انٹرنیٹ میں گھوم پھر رہے تھے۔

یہ ایک گھر کا ماجرا نہیں‘ پاکستان کے شہروں میں خصوصاً یہ منظر اکثر دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن نے تو نیٹ کو ان گھروں میں بھی پہنچا دیا جہاں پہلے اس کا کم عمل دخل تھا۔نیٹ استعمال کرنے میں یقیناً کوئی قباحت نہیں  لیکن اس کے پیچھے انسان دنیا مافیہا سے بے خبر ہو جائے تو یہ شدت پسندی اسے ہی نقصان پہنچاتی ہے۔

فوائد اور نقصان بھی

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وجہ یہی کہ نیٹ تفریح نہیں رہا روزمرہ کاموں میں مدد کرنے والا اہم ذریعہ بھی بن چکا۔ مثلاً لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ ہی دنیا بھر میں کروڑوں طلبہ و طالبات کوتعلیم و تربیت دینے والا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ۔ پھر اربوں انسان یہیں فلمیں و پروگرام دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔ انٹرنیٹ کرہ ارض پر معلومات کی فراہمی کا سبب سے بڑا مرکز بھی بن چکا ۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف باہمی رابطہ سہل و تیز تر بنایا بلکہ عام آدمی کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کر سکے۔

غرض انٹرنیٹ کے کئی فائدے ہیں مگر اس کے نقصانات بھی سامنے آ چکے۔مثلاً اس کے ازحد استعمال سے خصوصاً شہری خاندانوں میں باہمی تبادلہ خیال کم ہوا ہے۔ حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی نوجوان نسل سمارٹ فون تھامے اپنے مشغلے میں گم رہتے ہیں۔

اسی طرح کلاس روم میں بھی طلبہ و طالبات کم سوال پوچھنے لگے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت سوشل میڈیا کے تصّورات میں کھوئی ہوتی ہے۔ اب ہر سال سمارٹ فون کی وجہ سے لاکھوں ٹریفک حادثے ہونے لگے ہیں کہ ڈرائیور اس میں مشغول ہوتے ہیں۔ کئی لوگ تو چلتے پھرتے سمارٹ فون استعمال کرتے اتنے منہمک رہتے ہیں کہ کسی سخت شے سے ٹکرا کر خود کو زخمی کر ڈالتے ہیں۔

اسی طرح جو مرد و زن حد سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کریں‘ وہ ڈپریشن‘ سستی اور بے پروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقی دنیا اور اپنے پیاروں سے بھی کٹ جاتے ہیں۔ پھر دنیائے نیٹ میں بہت سے جرائم پیشہ گروہ متحرک ہو چکے جو مختلف طریقوں سے وہاں کے باسیوں کو لوٹتے اور قبیح جرم کرتے ہیں۔ خصوصاً فحاشی پھیلانے میں بھی نیٹ کا اہم کردار رہا ہے۔

سمارٹ فون اور انٹرنیٹ سستے ہونے کی بنا پر یہ جدید ایجادات اب قصبوں اور دیہات تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا، ان ایجادات کے فوائد ہیں۔ مگر انہیں پسندی اور صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جسمانی خصوصاً ذہنی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔

ان کے کثرت استعمال سے انسان احمق، گم سم، توجہ سے محروم اور انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔دنیائے انٹرنیٹ اسے رنگ برنگ معلومات دینے والا زبردست ذریعہ بن چکا۔ یہی وجہ ہے، آسٹریلیا سے لے کر پاکستان ‘ برطانیہ اور امریکا تک آج کروڑوں لوگ روزانہ دن میں کم از کم چار گھنٹے ضرور نیٹ پر بیٹھتے ہیں۔ بعض سر پھرے تو ایسے ہیں کہ تقریباً چوبیس گھنٹے آن لائن رہتے ہیں۔ نیٹ پر رہنا ان کی عادت بن چکی یا کہہ لیجیے کہ انہیں اس کا نشہ ہو چکا۔

نئی معلومات کی بھوک

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نیٹ کے منفی عوامل انسان کی ایک ازلی خواہش کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں… یہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلے۔ پروفیسر آدم گیزلے ( Adam Gazzaley)مشہور امریکی نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ وہ اسی موضوع پر ایک اہم کتاب’’The Distracted Mind: Ancient Brains in a High-Tech World‘‘ بھی لکھ چکے۔ ان کا کہنا ہے ’’انسان کی روزاول سے تمنا ہے کہ وہ روزانہ نت نئی باتیں سیکھے اور نئی معلومات پائے۔

اس کا تجسس اسے نئی چیزیں جاننے کی جانب اکساتا ہے۔ مگر انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات استعمال کرتے ہوئے اسی ازلی تمنا نے انسان کو مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔‘‘

دنیا بھر میں نفسیات ‘ عمرانیات اور طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے بطن سے جنم لینے والا سب سے بڑا عجوبہ یہ ہے کہ اس نے بنی نوع انسان پر معلومات کا زبردست بوجھ ڈال دیا۔ اب انسان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنے دماغ کی مدد سے اس بے حساب معلومات کو پروسیس کیونکر کرے؟ کیونکہ پچھلے پچاس برس میں انسانی دماغ میں تو کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی‘ وہ قدیم دماغی مشینری کے ذریعے ہی اپنا کام کر رہاہے۔

دماغ مگر قدیم رہا!

انسان جب کسی بھی معاملے میں اعتدال پسندی ترک کر دے تو بے صبری اسے گھیر لیتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا کی حالیہ نوجوان نسل میں سے جو انٹرنیٹ پر زیادہ عرصہ گزاریں‘ ا ن میں صبرو برداشت کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ کہیں بھی قطار میں کھڑے ہوں تو بے صبری دکھاتے ہوئے اسے توڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کا کام پہلے ہو جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی بعض اوقات بحث مباحثے سے بات لڑائی تک جا پہنچتی ہے اور رواداری و برداشت کا نام ونشان نہیں رہتا۔یہ باتیں محض پچاس سال قبل کے انسانی معاشروں میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔

گویا انسان فطری طور پر زیادہ سے زیادہ معلومات پانے اور نت نئی باتیں سیکھنے کا بھوکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم بلکہ کچھ عرصہ قبل تک اسے نئی معلومات محدود تعداد ہی میں ملتی تھیں۔ اسی لیے انسان کا دماغ نئی معلومات اخذ کرنے اور توجہ دینے کی استعداد بھی محدود مقدار میں رکھتا ۔ جب اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ شروع ہوا تو وہاں معلومات کا سیلاب آگیا۔

لاکھوں برس پر محیط اپنی تاریخ میں انسان نے پہلی بار اتنی زیادہ معلومات پائی تھیں اور وہ بھی انگلیوں پر… بس چند بٹن دباؤ اور گوگل دنیا جہان کی باتیں حاضر کرنے لگا۔ مگر محدود پیمانے پر کام کرنے والا انسانی دماغ اتنی زیادہ معلومات پروسیس کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اسی لیے خصوصاً جو مرد و زن حد سے زیادہ نیٹ استعمال کرنے لگے، ان میں مختلف ذہنی مسائل پیدا ہوگئے۔ ان مسائل نے نیٹ پر بیٹھنے والے دیگر بچوں بڑوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ان مسائل کی ماہیت اور اصلیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ یہ واقف ہوجائیں کہ انسانی دماغ کیونکر ارتقا پذیر ہوا۔

قدرت کا سپر کمپیوٹر

کرسٹوف کوخ امریکا کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ انسانی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ ترین شے ہے۔‘‘انسانی دماغ تقریباً 86 ارب خصوصی خلیوں‘ نیورونر(neurons) کا مجموعہ ہے۔ یہ برقی چارج رکھنے والے خلیے ہیں جو بذریعہ برقی(electrical) یا کیمیائی(chemical) سگنل ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ سگنل کی شکل میں ان کا باہمی رابطہ اصطلاح میں’’سیناپس‘‘(synapses) کہلاتا ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک نیورون کم از کم دس ہزار نیورونز سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دس ہزار نیورون فی سیکنڈ ایک دوسرے کو ’’ایک ٹریلین سگنل‘‘ بھیجنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ماہرین اسی لیے انسانی دماغ کو ایک ٹریلین پرویس فی منٹ انجام دینے والا کمپیوٹر قرار دے چکے۔

ہمارا دماغ ساٹھ ستر سال کی عمر تک ایک ارب بٹس کا ڈیٹا اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری آف کانگریس (امریکا) میں ایک کروڑ نوے لاکھ کتب جمع ہیں۔ انسانی دماغ اس سے پچاس ہزار گنا زیادہ کتب کا ڈیٹا اپنے میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دماغ کے نیورون زمانہ حمل میں پیدا ہوتے اور پھر ساری عمر زندہ رہتے ہیں۔ ان میں خرابی در آنے سے انسان بھول پن اور دیگر بیماریوں کا نشانہ بنتا ہے۔

انسانی ذہن کا ارتقا

یہ دماغ ہی ہے جس کی بدولت انسان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ کہانیاں اور ناول تخلیق کر سکے۔ دل چھو لینے والی دھنیں بنائے۔ یہ کوشش کرے کہ نظام شمسی سے باہر کس طرح خلائی جہاز بھجوایا جائے؟ اور ایسے سپر کمپیوٹر ایجاد کر لے جن کی طاقت اب انسانی دماغ کی قوت سے بھی بڑھ چکی۔ تاہم قدرت الٰہی کا یہ شاہکار بذریعہ ارتقا ہی حالیہ مقام پر پہنچا ۔کرہ ارض پر زندگی کے حیران کن ارتقا کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین میں نہایت مدلل و جامع انداز میں بیان فرمایا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ قران پاک میں افشا کردہ معلومات سے سائنس چودہ سو سال بعد واقف ہوئی۔

اس آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ ہمیں مطلع کرتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا فرمایا۔ (سورہ الانبیاء۔30)اس کے بعد رب کائنات کو جو شے پسند آئی، آپ نے اسے تخلیق فرمایا۔(سورہ قصص ۔68) ظاہر ہے‘ پھر انسان سمیت ہر شے ارتقا کے عمل سے گزری: ’’اور اس نے تمھیں طرح طرح سے بنایا۔‘‘(سورہ نوح۔14 )۔اسی دوران اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت رکھنے والا بنا دیا۔(سورہ تین۔4) اور اس کو بہت سی نئی باتیں سکھائیں۔

(سورہ علق ۔5)جب معین وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہی انسانوں میں سے ایک ‘ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا نبی اور زمین پر بہ حیثیت فرماں روا چن لیا۔(سورہ آل عمران ۔33) رب کائنات نے پھر حضرت آدم علیہ السلام کو عقل عطا فرمائی ۔ یوں آدمی بن کر انسان شرف المخلوقات قرار پایا اور زمین پر اس کی حکومت قائم ہو گئی۔

حضرت آدمؑ پہلے انسان ہیں جنہیں اللہ پاک نے عقل کی دولت عطا فرمائی: ’’اور آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے گئے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔31)۔ گویا دنیا کے پہلے عاقل و ذہین آدمی کی تخلیق فرما کر اللہ پاک نے کرہ ارض پر جدید انسانی دور کا آغاز فرما دیا۔حضرت آدمؑ کو پہلے مسلمان ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ اللہ پاک نے اب تک جتنی بھی زندہ چیزیں تخلیق فرمائی تھیں، حضرت آدمؑ عقل رکھنے کی وجہ سے ان میں ممتاز ترین قرار پائے۔ حتیٰ کہ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ تبھی ایک فرشتہ (ابلیس) حکم الٰہی نہ اختیار کرنے پر آدمی کا ازلی دشمن قرار پایا۔

اللہ تعالی کی مخلوق،قدیم انسان غاروں اور درختوں میں رہتے تھے۔ ماہرین بشریات کا کہنا ہے کہ رب کائنات نے حضرت آدمؑ کو عقل عطا فرمائی تب وہ کھڑے ہوکر چلنے لگے۔ ان کی آنے والی نسلوں نے اس اہم تبدیلی سے بہت فائدہ اٹھایا۔ وہ یوں کہ اب اس قابل ہوگئیں کہ ہاتھوں سے نت نئے آلات اور اوزار بناسکیں۔ یہی نہیں، وہ اس قابل بھی ہوگئے کہ چل کر دور دراز علاقوں تک جاسکیں۔ حضرت آدم ؑہی نے اپنی اولاد کو کھیتی باڑی کرنا اور روٹی پکانا سکھایا۔

عقل کا لافانی تحفہ

قدیم زمانے میں عرب سے لے کر حبشہ (ایتھوپیا) تک کا علاقہ قدیم انسانوں کی آماج گاہ رہا ہے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت آدم ؑاس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ ان علاقوں کے مکین ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ اسی باعث ہم دیکھتے ہیں کہ جب سرداران قریش نے مسلمانان مکہ کو بہت زیادہ تنگ کیا تو اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر بہت سے صحابہ کرام حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کو ایک محفوظ و مامون مقام پر بھیج دیا۔

اس خصوصی علاقے سے دور جدید کے ماہرین بشریات کو قدیم انسانوں کی کھوپڑیاں اور دیگر جسمانی اعضا کی ہڈیاں ملی ہیں۔ سب سے پرانی کھوپڑی باون لاکھ سال پرانی ہے۔ ان کھوپڑیوں کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی حقانیت واضح ہوگئی: ’’اور اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا۔‘‘ (سورۃ نوح۔ 14) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف، قسم قسم کے انسان تخلیق فرمائے اور پھر عقل کا لافانی تحفہ عطا فرماکر حضرت آدمؑ کو جدید انسانی نسل کا جدامجد بنادیا۔

قدیم کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے مطالعے سے ماہرین بشریات نے جانا کہ قدیم انسان کا دماغ کافی چھوٹا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی قدرت سے پھیلاتے رہے تاکہ ایک دن انسان پوری عقل پاکے کرۂ ارض پر ان کا نائب بن جائے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیس لاکھ سال پہلے کے قدیم انسانوں کا چھوٹا دماغ اللہ تعالی کی ایک اور تخلیق،بندر سے ملتا جلتا تھا۔ مگر جب تقریباً پچاس ہزار سال قبل حضرت آدمؑ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ ماضی کی نسبت ان کے دماغ کو تین گنا بڑا فرماچکے تھے۔ دماغ اسی لیے بڑا کیا گیا تاکہ عقل و ذہانت میں اضافہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ نیورون اور ان سے بنے مختلف حصے اس میں سماسکیں۔

جینیاتی تبدیلیاں اور قران پاک

عقل و ذہانت کا ویسے دماغ کی جسامت یا وزن سے کوئی تعلق نہیں۔ کرۂ ارض کے زندہ باسیوں میں سب سے بڑا دماغ اسپرم وہیل کا ہے۔ وہ 7800 گرام وزن رکھتا ہے جبکہ آج عام انسانی دماغ صرف 1361 گرام وزنی ہے۔ گویا بہ لحاظ جسامت ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں مگر انسانی دماغ میں عقل و ذہانت کو بڑھاوا دینے والے حصے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دماغی خلیوں (نیورون) سے مالا مال ہیں۔

مثال کے طور پر انسانی دماغ کی بیرونی تہہ سیربرل کورٹکس (cerebral cortex) کہلاتی ہے۔ دماغ کا یہ حصّہ توجہ، شعور، سوچ، یادداشت اور زبان کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ یہ تقریباً سولہ ارب نیورونز سے تخلیق پاتا ہے۔ دنیا کے کسی اور جاندار کا سیربرل کورٹیکس اتنے زیادہ نیورونز سے تشکیل نہیں پاتا۔

اب قرآن پاک کی حقانیت کا ایک اور زبردست ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ جدید سائنس نے دو درجن سے زائد ایسی جینیاتی تبدیلیاں دریافت کی ہیں جن کے ذریعے نہ صرف انسانی دماغ بڑا ہوگیا بلکہ اس کی قوت میں بھی حیران کن اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں مشہور امریکی ماہربشریات، جان ہاکس کہتا ہے ’’انسانی دماغ یک دم چھلانگ لگاکر بڑی جسامت والا سرچشمہ طاقت نہیں بنا بلکہ اس کی نشوونما مرحلہ وار ہوئی۔ اس نشوونما میں نئے نیورونز کی پیدائش سے لے کر نظام استحالہ (metabolism) تک کی تبدیلیوں نے حصہ لیا۔‘‘

مثال کے طور پر تحقیق سے عیاں ہوا کہ ہمارے جسم میں’’ نوچ 2 ‘‘(NOTCH2) نامی ایک جین ملتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس جین میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کی بدولت ہمارے بدن میں نیورل بنیادی خلیوں (Stem cells) کی تعداد بڑھ گئی۔ انسانی جسم میں یہی خلیے نیورون بناتے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا دماغ نہ صرف پھیل گیا بلکہ اس کی استعداد کار میں بھی اضافہ ہوا۔اسی طرح ’’فوکس پی 2 ‘‘(FOXP2)نامی جین کو لیجیے۔

زندہ اشیا میں یہی جین ان کو بولنے کے قابل بناتا ہے۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ انسان میں یہ جین دو بنیادی جوڑے (base pairs) رکھتا ہے۔ یہ جوڑے کسی اور جاندار میں نہیں پائے گئے۔گویا فوکس پی 2 جین میں ایک جینیاتی تبدیلی نے انسان کو بولنے کے قابل بنا دیا جبکہ بقیہ چرند پرند انسان کی طرح بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

غرض جدید سائنس نے اس فرمان الٰہی کی تصدیق کردی ’’اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تمہیں طرح طرح سے اور اپنی پسند کے مطابق تخلیق کیا۔‘‘ زندگی کے تمام اقسام میں رنگارنگی اور تنوع دراصل رب کائنات ہی کی دین اور انہی کا عظیم ترین معجزہ ہے۔ اس معجزے کے پوشیدہ پہلو اب سائنس داں دریافت کررہے ہیں۔سورہ علق آیت 5 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔ اب سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ کی نشوونما میں بیرونی قوتیں بھی کارفرما رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جب عاقل ہوکر آدمی دو ٹانگوں پر چلنے لگا تو وہ اپنے ساتھیوں سے دور بھی چلا جاتا۔ اسی دوری کے باعث یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ گفتگو کے ذریعے ساتھیوں سے رابطہ رکھے۔

 تبدیلیوں کے ادوار

بولنے کے اس عمل نے بھی انسانی دماغ کی نشوونما کو بڑھاوا دیا اور وہ ذہانت کی طاقت حاصل کرنے لگا۔ ہماری خوراک میں در آنے والی تبدیلیوں نے بھی دماغ پر اہم اثرات مرتب کیے۔ حضرت آدمؑ کے بعد آدمی فصلیں اور اناج اگانے لگے۔ اب کاربوہائیڈریٹس کی بدولت دماغ کو غذا میسر آئی۔ چناں چہ انسانی دماغ نے تیزی سے نشوونما پائی اور طاقت کا مرکز بن گیا۔

دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ عاقل ہونے کے بعد آدمیوں نے خاندان بناکر رہنا شروع کیا۔ بستیوں کی بنیاد پڑی۔ اخلاقی اصول و ضوابط نے جنم لیا۔ ان معاشرتی تبدیلیوں نے بھی انسانی دماغ کے پھلنے پھولنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن درج بالا تمام تبدیلیاں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہی انجام پائیںکیونکہ وہ انسانوں کو بتدریج سبھی باتیں سکھانا چاہتے تھے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن ادوار میں انسانوں کا دماغ تبدیلیوں سے گزر رہا تھا، وہ دور جدید سے بالکل مختلف تھے۔ کئی لاکھ برس تک انہیں جنگلوں کے قریب رہتے خطرناک جانوروں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ ہر وقت چوکنا رہتے کہ کہیں حیوان ان پر حلمہ نہ کردیں۔ پھر قبائل کی باہمی دشمنیوں نے جنم لیا۔ خوراک اور سر چھپانے کی جگہیں وجہ تنازع بن گئیں۔خاص بات یہ کہ انسانی دماغ اپنے ارتقا کے دوران کبھی ملٹی ٹاسک نہیں رہا… یعنی وہ عام طور پر ایک وقت میں ایک ہی مسئلے یا امر پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دماغ کی توجہ دو باتوں پر رہتی۔ لیکن جدید دور کے نت نئے ڈیجیٹل آلات آدمی کی قوت ارتکاز میں بنیادی تبدیلیاں لارہے ہیں جو کافی اہم ہیں۔

قوت ارتکاز میں کمی

جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک حصہ ’’پیش پیشانی قشر‘‘(Prefrontal cortex) فیصلہ سازی سے متعلق ہے۔ گویا یہ دماغ کا سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہے۔ جب دماغ کے مختلف حصّوں سے معلومات اس حصے تک پہنچیں تو وہ انہیں معین صورت دے کر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ انسان پھر اسی فیصلے پر عمل درآمد انجام دیتا ہے۔ قدرت الٰہی نے رفتہ رفتہ اس حصے کو خوب طاقتور بنا دیا لیکن انسان لاکھوں برس کے دوران اپنی قوت ارتکاز زیادہ قوی نہ کرسکا۔

ماہرین کے مطابق توجہ کی قوت میں کمی ہمارے ماضی سے تعلق رکھتی ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان کمزور و ناتواں تھا ۔اس کی عقل ابھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے باعث ارتقا پذیر تھی۔ تب اس کے ذرائع دفاع بھی محدود تھے مثلاً ڈنڈا اور پتھر جب کہ آس پاس خونخوار جانور بستے تھے۔

اسی لیے ان سے مقابلہ کرنے کی خاطر انسان کو بہت زیادہ چوکنا رہنا پڑتا۔کہیں پتے چرچراتے یا کوئی شاخ ہلتی تو انسان ہوشیار ہوجاتا۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ کوئی جانور آرہا ہے۔ جب کچھ عقل آئی، تو انسان قبائل میں تقسیم ہوگیا۔جلد ہی یہ قبائل زمین، زر یا زن کی خاطر آپس میں نبرد آزما ہوگئے۔ تب دور سے نظر آنے والا سایہ بھی دشمن بن گیا۔ غرض زمانہ قدیم میں وہ واقعات اور چیزیں بکثرت تھیں، جو انسان کی توجہ فوراً حاصل کرلیتیں۔ انہی حالات و عوامل کی وجہ سے انسان اپنی قوت ارتکاز زیادہ بہتر نہیں کرپایا۔

دور جدید میں توجہ ہٹانے والی نت نئی چیزیں جنم لے چکیں۔ مثال کے طور پر کوئی اچھا ٹی وی پروگرام، کھیل کا مقابلہ، کوئی لذیز کھانا، فلم وغیرہ۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ حقیقتاً وہ انسان کی توجہ تقسیم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔

دلچسپ بات یہ کہ انٹرنیٹ ہی سے انسان کو نت نئی معلومات بھی ملتی ہیں جو اس کی ازلی تمنا ہے۔ کیونکہ انھیں پاکر انسان میں خوشی و اطمینان کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خوشی و لذت پانے کے لیے ہی انسان پھر نئی معلومات پانے کی کھوج میں لگ جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسری ویب سائٹ پر جاتا ہے۔ کبھی فیس بک میں گھومتا پھرتا ہے تو کبھی ٹویٹر، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کی سیر کرتا ہے۔

’’ملٹی ٹاسکنگ‘‘ کا عمل

جیسا کہ بتایا گیا، دنیائے انٹرنیٹ میں گھومتے پھرتے نئی معلومات کا حصول قاعدے سے اور اعتدال میں رہتے ہوئے کیا جائے تو عموماً اس سے انسان کو فائدہ ملتا ہے۔ اس کے شعور میں اضافہ ہوتا اور ذہنی کینوس بڑھتا ہے۔ لیکن انسان دن کا بیشتر حصہ اسی ورچوئل دنیا میں گزارنے لگے تو اس عمل سے سب سے زیادہ انسانی قوت ارتکاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ تب انسان توجہ سے محروم ہوکر کئی لحاظ سے اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ نے دفتر یا گھر میں ایک اہم کام مکمل کرنا ہے۔اگر توجہ نہ رہی تو وہ کام بروقت مکمل نہیں ہوسکتا یا انجام پایا تو غیر معیاری ہوگا۔ اسی طرح آپ کلاس میں تعلیم پر توجہ نہیں دے پائیں گے۔ اسی خرابی کے باعث اپنے پیاروں سے تعلق متاثر ہوگا۔ دور جدید میں بعض انسانوں نے کوشش کی ہے کہ وہ بیک وقت تین چار کام کرنے کا فن سیکھ سکیں۔ اس عمل کو ’’ملٹی ٹاسکنگ‘‘ کا نام ملا۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ بیشتر انسان ملٹی ٹاسکنگ کرتے ہوئے ایک کام بھی درست طرح نہیں کر پاتے۔ صرف انتہائی ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان ہی توجہ متاثر کیے بغیر بیک وقت دو تین کام کرپاتے ہیں۔

منفی اثرات سے بچنے کے گُر

پروفیسر گیزلے کا کہنا ہے ’’انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل آلات کی آمد کے باعث جدید انسان عجیب مشکل میں گرفتار ہوچکا۔ اس کی تمنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت نیٹ پر گزارے تاکہ اسے بھرپور معلومات اور نئی باتیں میسر آئیں۔ لیکن اس کا انسانی دماغ قدرتی طور پر اس ساخت وہئیت سے بنا ہے کہ وہ ڈھیر ساری معلومات کو بہت جلد پروسیس نہیں کرسکتا۔ گویا انسان جو کرنا چاہتا ہے، اسے انجام دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ لہٰذا جب وہ زبردستی انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارے تو اسی غیر فطری عمل سے مختلف جسمانی و نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں جن کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا۔

انسان کے حق میں مگر یہ حقیقت جاتی ہے کہ وہ جلد یا بدیر نئے حالات اور نئی چیزوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔اسی طرح ہم صحت مندانہ عادات اختیار کرنے سے ٹکنالوجی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ان میں توجہ کی قوت میں کمی لے آنا ہی ایک اہم اثر ہے۔ماہرین ان اثرات سے عہدہ براں ہونے کے لیے درج ذیل مشورے دیتے ہیں:

٭گھر میں جب اہل خانہ یا عزیزاقارب کے ساتھ بیٹھیں تو سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ استعمال نہ کریں۔خصوصاً کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے ہوئے انھیں دور رکھیے۔صرف ضروری کام کرنے کے لیے ہی انھیں اٹھائیے۔

٭دفتر میں پہلے اپنے سارے کام کر لیجیے۔جب فراغت کے لمحے میسر آئیں تو آپ کچھ عرصہ نیٹ کی سیاحت کر سکتے ہیں۔

٭فطرت سے دوستی رکھیے۔تحقیق وتجربات سے آشکارا ہو چکا کہ کچھ عرصہ باغ یا کھلی جگہ وقت گذارنے سے تھکا دماغ تازہ دم ہو جاتا ہے۔

٭دماغی ورزش کرانے والے کھیل کھیلیے۔اعتدال کے ساتھ اس قسم کی وڈیو گیمز بھی کھیلی جا سکتی ہیں۔

٭اللہ تعالی کی قلب سلیم سے عبادت کیجیے۔تحقیق سے معلوام ہوا ہے کہ عبادت ِالہی سے انسان کی قوت ارتکاز اور یاداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔

٭جسمانی ورزش کیجیے۔بدن کی نقل و حرکت سے دماغ چست وچالاک ہوتا ہے۔

٭گاڑی چلاتے ہوئے صرف اشد ضرورت کے تحت ہی فون استعمال کیجیے۔

The post انٹرنیٹ کے سحر میں گرفتار انسانی دماغ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا نے لوگوں کی زندگیوں کو کیسے متاثر کیا؟

$
0
0

کورونا وائرس روزبروز خطرناک سے خطرناک تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اب تک (آخری معلومات) دنیا بھر میں اکتالیس لاکھ سے زائد افراد کورنا وباء سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ اڑھائی لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

کورونا کے وسیع تک اثرات سے نامعاشرہ بچ سکا نہ معیشت، صنعت و تجارت ٹھپ ہوچکے جبکہ کاروبار زندگی بھی معطل ہے۔ ڈراور خوف کے زیر سایہ افراد یہ نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ آنے والے وقت میں کیا ہوگا۔ پاکستان میں بھی کرونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔

کورونا کا زور ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ ایسے حالات میں زندگی عام روش سے ہٹ کر چل رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے کورونا زندگی  میں بریک لانے کا سبب بنا ہے جبکہ کچھ ایسے بھی افراد ہیں جن کی زندگی کورونا میں ایک ٹف ٹاسک بن چکی ہے۔ وہ دوہری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی پر کورونا کس طرح اثر انداز ہوا ہے یہ جاننے کے لیے ایک تحقیقی سروے کیا گیا جس میں یہ جاننا مقصود تھا کہ کورونا کی وجہ سے ان کی نجی و پیشہ وارانہ زندگی کیسے متاثر ہورہی ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ کورونا سے انہوں نے کیا سیکھا؟

گھر میں الگ سے کرفیو لگاہوا ہے

کورونا وائرس نے جہاں تمام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے ونہی خاتون خانہ کی زندگیوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ کورونا کے ہاس وائف کی زندگی کی بابت جب ہم نے سروے کیا جس کی تفصیل قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگی۔ شکیلہ (فرضی نام) ایک ہاس وائف ہیں۔ ان کے شوہر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور آج کل آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ ان کے دو بچے بھی ہیں جوکہ سیکنڈری سکول کے سٹوڈنٹس ہیں۔ شکیلہ کہتی ہیں ’’جب سے لاک ڈان شروع ہوا میں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہوں۔

چار کمروں پر مشتمل گھر میں تین کمروں پر میرے شوہر اور بچوں کی حکمرانی ہے۔ میرے حصے میں کچن اور ڈرائنگ روم آتے ہیں۔ تینوں سارا سارا دن آن لائن کلاسز کے چکر میں لگے رہتے ہیں اور میں سوچتی ہی رہتی ہوں آخر کس سے بات کروں۔ میں اور گھر میں کام کرنے والی ملازمہ آپس میں بات کرتے بھی ہیں تو ایک دوسرے کو اشاروں سے بات سمجھاتے ہیں کہ وہاں وہ لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔ یوں لگتا ہے گھر میں الگ کرفیو لگا ہو‘‘

شکیلہ کہتی ہیں ’’ایک روز میں نے فرخندہ (ملازمہ) سے کہا چلو قریبی پارک چلتے ہیں۔ وہاں رش نہیں تھا سو میں نے فرخندہ سے کہا مجھ سے اونچی اونچی آواز میں باتیں کرو، پھر میں نے اور فرخندہ نے خوب باتیں کیں اور کھل کر سانس لیا۔ہمیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ سب گھر میں ہوکر بھی گھر میں نہیں۔ ہاں مگر اس بات کی خوشی ہے کہ میرے شوہر نہایت دیانت داری سے پڑھاتے ہیں اور روزق حلال کماتے ہیں۔ اللہ جلد کورونا کو ختم کرے۔‘‘

جیوفزیسٹ کامران جاوید کہتے ہیں کہ ’’کورونا نے میری پروفیشنل لائف کو بہت کم متاثر کیا۔ کیونکہ میرے کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ کورونا سے اس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ بس لوگوں سے میل جول میں ایک ڈر سا لگا رہتا ہے۔ مگر جو اہم بات سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ انسان بے بس ہے چاہے ترقی کہ جتنے مرضی زینے طے کرے، آسائشوں کے انبار لگالے کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔‘‘

عادل فاروق ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’کورونا کے بعد ٹائم مینجمنٹ اور ڈسپلن میں بہتری محسوس کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ آپس میں کمیونیکیشن بہت بہتر ہوئی۔ جہاں تک سیکھنے کی بات ہے تو میں نے زندگی کی ناپائیداری، گھر میں رہنے کے فوائد و نقصانات، آسائشات زندگی سے چھٹکارا، نظم و ضبط، رابطے میں رہنے کے فوائد اور اپنی ذات کو وقت دینے کی اہمیت کو سمجھا ہے۔‘‘

شائستہ (فرضی نام) ایک مڈ وائف ہیں وہ کہتی ہیں کہ ’’کورونا ہمارے پر یہ ذمہ داری بڑھا دی ہے کہ ہمیں اپنے ملک اور خاندان کا خاص خیال رکھنا ہے اور متحد ہوکر اس وائرس سے لڑنا ہے، اس پھیلنے سے روکنا ہے۔‘‘

کورونا وباء میں جہاں ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں وہیں نرسز بھی۔ پیش پیش ہیں اعظمی (فرضی نام) نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور کورونا کے اثرات کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’’کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارا ورک لوڈ بڑھ گیا ہے۔ کورونا کیمپس میں ہماری ڈیوٹیز لگائی گئی ہیں جوکہ بہت مشکل روٹین تھی۔ خوشی ہے کہ فرنٹ لائن پر کورونا کہ مریضوںکو ڈیل کیا اور کرونا کا مقابلہ کیا اور یہ کہنا چاہوں گی کہ کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے پر میڈیکل فیلڈ سے وابستہ افراد کو متحد ہوکر کام کرنا چاہیے اور ڈٹ کر مقابلہ کرکے شکست دینی چاہیے۔‘‘

اس ضمن میں جب ایک لیڈی ڈاکٹر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’جب تک ہم سب مل کر اس کا مقابلہ نہیں کریں گے یہ روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اورحالات کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔

ویکسین اس صورت حال میں ناگزیر ہے۔ ‘‘

جہاں ڈاکٹرز ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی طبیب ہیں جوکہ آن لائن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر شیرین چیف منسٹر سندھ ٹیلی ہیلتھ انیشیٹو کوویڈ۔19 آئسولیشن مانیٹرنگ سیل کے زیر اہتمام ای ڈاکٹرز پروگرام کے تحت کام کررہی ہیں یہ پروگرام خصوصاً لیڈی ڈاکٹرز چلا رہی ہیں جوکہ یہ کام رضا کارانہ طور پر کررہی ہیں۔ ناصرہ کا کہنا ہے ’’کراچی شیفٹنگ اور بچوں کی وجہ سے میری پریکٹس میں چار پانچ سال کا وقفہ آگیا تھا پھر میں نے اپنی فیلڈ کے آن لائن کورسز جاری رکھے اور یوں میں اس پروگرام کا حصہ بنی۔ پہلے کبھی سوچا نہ تھا کہ آن لائن سب اکٹھا ہوں گے۔ بہت سی خواتین کومسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے وہ پہلے بھی جاب نہیں کررہی کہ وقت دینا مشکل ہوجاتا ہے لیکن جن ڈاکٹرز حضرات کا اپنا رجحان تھا انہوں نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ گو کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل طے کررہا ہے مگر ابھی کورونا کے بارے میں بھی کوئی حتمی معلومات آپ کو کہیں سے نہیں مل سکتیں۔ سو ہم کام کررہے ہیں اور خدمت خلق کے لیے کوشاں ہیں۔ جو چیز سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ اتحاد بے حد ضروری ہے۔ ایسے موقعوں پر بھی سیاست کرنے والے صرف انتشار پیدا کرتے ہیں۔ مایوسی کی صورت حال پیدا ہونے سے ہمت ہارنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ تو سب کو متحد رہنا چاہیے‘‘

شاہد علی جو پیشے کے لحاظ سے ایک اکانٹنٹ ہیں کہتے ہیں کہ ’’آفس مکمل طور پر بند ہے اور پیشہ وارانہ کام اور روپے پیسے کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ زندگی کی ترجیحات میں صرف آفس ہی ضروری نہیں بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے۔ ‘‘

  دکھ ہے کہ ٹورازم کا شعبہ پوری دنیا میں بہت پیچھے چلا گیا

ٹی۔ڈی۔سی۔پی ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد تنویر جبار بیسویں گریڈ کے سرکاری ملازم ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’کورونا سے فائدہ بھی ہوا لیکن نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ایک تو جو ٹارگٹس پروفیشنل لائف کے حوالے سے سیٹ کررکھے تھے وہ میٹ اپ نہیں ہوئے۔ گو کہ میں جس شعبے سے منسلک ہوں وہ ضروریات زندگی میں نہیں شامل مگر وہ لوگوں کو جہاں ریفریشمنٹ دیتا ہے وہیں معاشی فائدہ بھی دیتا ہے۔

مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصے بعد ٹورازم کی صورت میں ایک آنرشپ(اعزاز) ملی اور پاکستان دنیا میں ان اہم مقامات میں نمایاں حیثیت بنا رہا تھا مگر اب پوری دنیا میں یہ شعبہ بہت پیچھلے چلا گیا ہے۔ جس کو شاید دوبارہ بحال ہونے میں وقت لگے گا۔ اس کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ شاید یہ اللہ پاک کی جانب سے ہی ہے کہ ہمیں سبق ملاا کہ ڈیجٹلائزیشن جانب جانا چاہیے۔

بجائے اس کے کہ آپ اتنی دور دور میٹنگز میں جائیںلوگوں کو کلاس روم میں بیٹھا کر پڑھائیں تو بہت سی چیزیں ڈیجٹلائزیشن سے ہوسکتی ہیں جس سے ناصرف آسانی ہوتی ہے بلکہ آپ کا سرمایہ بھی محفوظ ہوتا ہے۔ تو اب ہمیں مینول سے ڈیجیٹل کی جانب شفٹ ہونے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

خوش قسمتی سے میں ڈائریکٹر جنرل ماحولیات بھی رہ چکا ہوں تو اچھی بات یہ ہوئی کہ آلودگی کم ہوئی پھر اس کے ساتھ ساتھ ہی اہم بات یہ ہے کہ اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس وقت پلاسٹک کا استعمال ختم نہ کیا، احتیاط نہ کی اور قدرت سے محبت کرنے والے نہ بنے تو اس قسم کی بیماریاں آتی رہیں گی۔ تو یہ خدا کی طرف سے ایک اشارہ اور تنبیہ ہے کہ محتاط ہوجائیں اور فطرت سے پیار کریں۔

آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو مذہب نے کہا اور جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی کہ وباء میں شہر نہ چھوڑیں وہ نیویارک کی دیواروں پر لکھی ملتی ہے۔ تو بہت تھوڑے پہلو ہیں جو منفی ملتے ہیں۔‘‘

ذاتی زندگی پر کورونا کے اثرات سے متعلق محمد تنویر کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے میرے لیے گھر پر رہنا بے حد مشکل کام تھا۔ مشکل سے دس روز گھر ٹھہرا پھر دفتر کا رخ کیا۔  لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ اس وقت کو میں نے ضائع نہیں کیا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا، مثلاً فوٹو شاپ کرنا، ویب سائٹ بنانا اور اپنے طور پر ٹورازم کی ایک ویب سائٹ بنانا شروع بھی کردی ہے۔ جو وقت پہلے نہیں ملتا تھا وہ چیزوں میں صرف کیا۔

موسیقی کا شوق پورا کیا۔ لیکن شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے میرے اندر ایک خوف بھی تھا۔ دن میں تین چار مرتبہ اگر چھینک آگئی یا جب اپنی والدہ کے پاس بیٹھا ہوتا اور سر میں درد ہورہا ہوتا تو سوچتا تھا پتا نہیں مجھے کورونا ہو ناگیا ہو! احتیاط بھی ہے لیکن اللہ پر بھروسا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس نے میری زندگی کو بہت منفی انداز میں متاثر کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں آپ کی زندگی میں خوشیاں آپ کے پروفیشنل لائف کے گولز حاصل کرنے سے جڑی ہوتی ہیں۔

مجھے اس بات کا بہت قلق ہے کہ ہم جس تیزی سے اوپر جارہے تھے اسے روکنا پڑا۔ لیکن ا نشاء اللہ ہم اسے جلد بحال کریں گے۔ اقوام متحدہ کی گائیڈ لائنز کے مطابق میں ایک کتابچہ ترتیب دے رہا ہوں جس میں لوگوں کو یہ آگاہی فراہم کرنا مقصود ہے کہ ہم نے کیسے اس صورتحال سے نکلنا ہے، کیسے اجتماعی اصول ہوں گے، کیا طریقہ کار ہوگا۔ مثبت بات یہ ہے کہ میں نے اپنے منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر بہت سے ڈویلپمنٹ پروگرام بنائے اور اپنا نیکسٹ پلان بنایا، وہ بہت خوبصورت ہے۔

تو اگر انسان کی نیت ٹھیک ہو تو کورونا کچھ نہیں کرتا۔ پروفیشنلی کورونا مجھے کچھ پیچھے لے گیا ہے۔ مگر میں نے اسے شکست دی ہے، ایسے کہ ہم نے جو سمری بنائی ہے اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جن پر ہمیں مستقبل میں عمل پیرا ہونا ہے۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ میں اس سے ڈرگیا ہوں تو ایسا قطعاً نہیں ہے۔‘‘

جب ان سے کورونا سے سیکھنے کی بابت دریافت کیا تو محمد تنویر کا کہنا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک وارننگ ہے، کیونکہ جب دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اورقدرت کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے۔ یہ سیکھا کہ آج سے صدیوں پہلے ہمارے پیغمبر ؐ نے جو کہا ہے آج درست ثابت ہو رہا ہے۔ پاکیزگی نصف ایمان ہے تو آج دنیا نے دیکھا کہ بارہا ہاتھ دھونے کا کہا گیا۔

تو ہم بھی اللہ کے احکامات پر عمل کریں تو جو وضو کی صورت پانچ مرتبہ تلقین کی گئی وہ بے معنی نہ تھی۔ پھر ان لوگوں کو ملنے کی فہرست ملی جن کو ہم نے اگنور کررکھا تھا، ان لوگوں کا احساس ہوا جن کے پاس روپیہ نہیں تھا، ہر آفت کے اندر ایک پیغام چھپا ہوتا ہے تو میں اس سے ایمپاور (Empower) ہوا ہوں گو کہ کچھ وقت کے لیے میں ڈپریس ہوا لیکن اب میرے پاس ایک روڈ میپ ہے کہ ہم نے کیا کیا اور کیا کرنے جانا ہے۔ اب تو میں ڈرتا بھی نہیں کیونکہ موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ لیکن احتیاط لازم‘‘۔

کورونا سے پتا چلا کہ ہمارا پروفیشن کتنا ڈیمانڈنگ ہوسکتا ہے

شعبہ طب کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت فرنٹ لائن پر کام کرنے والے افراد کاحوصلہ قابل تحسین ہے۔ انسانیت کے محسن اپنی جانوں کی پرواہ کیے بنا کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔

ڈاکٹر واسع اعظم سی۔ایم۔ایچ راولپنڈی میں کوویڈ19 سپیکٹ وارڈ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کورونا کے آنے سے پروفیشنل لائف مجموعی طور پر تھوڑی مشکل ہوگئی ہے۔ شفٹس کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ مریضوں کو سکریننگ کے بعد دوسرے وارڈز میں منتقل کرنا ہوتا ہے اور یہ ایک بہت خطرناک بیماری ہے جس سے بچنا بے حد مشکل ہوتا ہے اور دوران ڈیوٹی اپنی بھی حفاظت کرنا ہوتی ہے تو ہم پر دہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔

کورونا آنے کے بعد لائف بہت ٹف اور چیلنجنگ ہوگئی ہے۔ شفٹوں کا دورانیہ مریضوں پرمنحصر ہوتا ہے جیسے جیسے زیادہ مریض آتے جائیں تو اس حساب سے ہمیں وقت دینا ہوتا ہے۔ پہلے اگر ہم آٹھ گھنٹے کی شفٹ کرتے تھے تو اب بارہ سے چودہ گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ مریضوں کو ٹریس کرنا ہوتا ہے۔ پی۔سی۔آر، چیسٹ ایکس رے اور سی ٹی سکین کرنے تک آپ فری نہیں ہوسکتے۔‘‘

جب ڈاکٹر واسع سے پوچھاکہ اس ساری صورتحال میں آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ’’بنیادی طور پر یہی فیلنگز ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مرض کو جلد سے جلد ختم کرے تاکہ ملک میں حالات پھر سے معتدل ہوجائیں کیونکہ اس سے ناصرف ہماری معیشت کو خسارہ ہورہا ہے بلکہ بادی نظری میں تمام شعبہ زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں۔ تو ہماری فیلنگز یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد سے جلد ٹھیک کردے اور زندگی معمول پر لوٹ آئے‘‘

طبی عملے کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی موجودگی و اہتمام کی بابت ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری ایک حفاظتی کٹ ہوتی ہے جسے پہننے کے بعد سر سے پاں تک ڈھانپنا ہوتا ہے۔ جب بھی سکریننگ کے لیے جانا ہوتا ہے تو اسے پہنتے ہیں اور شفٹ کے آخر میں اسے ڈسکارڈ کردیا جاتا ہے۔ اس کٹ کو پہننے کے بعد ویسے تو ہم محفوظ ہوتے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ اس کے اندر بہت پسینہ آتا ہے اور کھانا کھانے یا پانی پینے نجی ضروریات پورا کرنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔

اگر اس دوران پانی پینا ہو یا کھانا ہو تو اس کے لیے الگ کمرے بنے ہوتے ہیں لیکن اس میں بہت وقت لگتا ہے اور یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے تو ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو مرتبہ جائیں یا شفٹ کے اختتام پر۔ گھر آنے کے بعد کچھ کر نہیں پاتے کیونکہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں۔

لیکن حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ آپس میں کولیگ وغیرہ بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ہمت بڑھتی ہے اور ٹیم کی بہت سپورٹ ہے۔‘‘ ڈاکٹر واسع سے جب کورونا سکریننگ کے لیے آنے والوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ درست ہے کہ لوگوں کی اکثریت کورونا سے ڈری ہوئی ہے مگر سکریننگ کے لیے آنے والوں میں بھی آگے دو مختلف رویوں کے لوگ ہیں۔

کچھ لوگ بہت تعاون کرتے ہیں اور وہ ہماری مشکلات اور باقی معاملات کو سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف کے لوگ بہت ہائپر ہوجاتے ہیں جوکہ اصل میں کورونا کے ڈر کی وجہ سے نفسیاتی دبا میں مبتلا ہوکر بوکھلائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس گزشتہ ہفتے تک آٹھ کورونا پازیٹو کیسز آئے جنھیں آئسولیشن وارڈجبکہ باقی نتائج نیگیٹو والوںکو متعلقہ وارڈ میں شفٹ کردیا گیا۔ کورونا مریض کی ونگز میں ان کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور باقی مریضوں کی طرح تمام چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔

کیونکہ وہاں سب کورونا پیشنٹ ہوتے ہیں تو ان کے آپس میں کانٹیکٹ کا مسئلہ نہیں ہوتا مگر جو سٹاف وہاں جاتا ہے مثلاً نرسز، ڈاکٹرز تووہ باقاعدہ طور پر کٹس میں جاتے ہیں۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ گھر والوںسے دور رہیں۔ موبائل فونز تو ان کے پاس ہوتے ہی ہیں مگر کھانا وغیرہ ہسپتال کی جانب سے ہی دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لوگوں میں ڈر ہے مگر وہ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے۔‘‘

’’کورونا سے ہمیں پتا چلا کہ ہماراکام کس قدر اہم ہے اور یہ کہ فرنٹ لائن پر ہم نے کیسے آنا ہے اور یہ سیکھا کہ کوئی بھی مشکل آئے تو انسان کو اس کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے تب ہی وہ دور ہوسکتی ہے۔‘‘

 چلتی گاڑی کا پہیہ رکا ہوا ہے

کاروبار اس وقت کورونا سے متاثر ہونے والی فہرست میں اہم شمار ہوتا ہے۔ کورونا کے بزنس پر اثرات کے حوالے سے تعمیرات کے شعبے سے منسلک عثمان علی خان کا کہنا ہے ’’میں کنسٹرکشن سے متعلقہ خدمات دیتا ہوں۔ پیشہ وارانہ زندگی کی بات کریں تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اگر میں کچھ کرنا بھی چاہوں تو دوسروں کی مدد کے بنا اکیلے  نہیں کرسکتا۔ پہلے ہی لاک ڈان کی وجہ سے سارے پروجیکٹس متاثر ہیں۔

اسی طرح ڈیزائن کا سیکشن ہے وہ بھی یوں ہی متاثر ہے۔ مشکلات اس طرح سے نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک نظام ہے۔ ہاں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ  چلتی گاڑی کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ مجھے زیادہ تکلیف یہ ہوتی ہے کہ میرے جو جونیئر متاثر ہیں یا جو سٹاف یا لیبر ہے یا جو پروجیکٹس سے متعلقہ ایسوسی ایشن ہیں وہ سب پریشان ہیں۔‘‘

عثمان علی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر یہ صورت حال مزید طوالت اختیار کرتی ہے تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور کیا آپ کے پاس اتنا مارجن ہے کہ اگلے چھ ماہ بغیر کاروبار کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا، ’’دیکھیں اس طرح کا محفوظ سر مایہ کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہماری زندگی میں اس طرح کا تجربہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

تاریخ میں پڑھا کرتے تھے کہ فلاں جگہ طاعون کی بیماری آئی تھی تو کتنی تباہی ہوئی، لیکن اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرتی ہے تو ہمیں بہت سی قربانیاں دینا ہوں گی اور بہت ساری چیزیں پیچھے چھوڑنا پڑیں گی۔ مجھے لگتا ہے جو ایک ڈیڑھ ماہ گزرا ہے اس میں ہم ایک ڈیڑھ برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ دراصل یہ وقت کا نقصان ہے۔ اگر چیزیں جہاں کھڑی ہیں میں وہیں سے شروع کرتا ہوں تو میرا کام تو پھر سے شروع کرنے کے مترادف ہوگا۔

میرے ایک دوست سٹیل مل اونر ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے باہر سے شپمنٹ کروائی تھی ’’تین ماہ پہلے بکنگ کروائی جاتی ہے، اب مجھے کسٹم بھی پے کرنا ہے، ٹیکسز بھی دینے ہیں، چاہے میرے پاس کچھ ہے یا نہیں ہے۔ تو میری شپ منٹس آئی جارہی ہیں۔‘‘ یہاں تو عام حالات میں لیبر تین دن عید کی چھٹیوں پر جائے تو بارہ دن بعد آتی ہے اب تو ایک لمبے عرصے بعد ان کے جو تانے بانے تھے وہ بکھرگئے ہیں۔ اب دوبارہ ہر پروجیکٹ کو چاہے وہ کتنا ہی مکمل ہونے کے قریب تھا اسے زیرو سے شروع کرنا ہے۔

لیکن اگر یہ عرصہ لمبا جاتا ہے تو میں اسے آئن لائن سسٹم کے اندر بدلنے کی کوشش کروں گا۔ ایک ایسا سسٹم بناں کے مجھے گھر بیٹھے سب مل جائے۔ مثلاً سائٹ پر کچھ ایسے پروپوزلز دوں گا کہ جیسے ایک سائٹ پر لیبر آئسولیٹ ہوگی۔ مہینہ مہینہ کرکے کام کروایا جائے اور وہاں تمام خام مال مہیا کیا جائے۔ جو مہینے یا دو ماہ کے بعد چھٹی پر جانا چاہیے تو وہ واپسی پر سکریننگ کرواکر جائے گا۔‘‘

مزید کہنا تھا کہ ’’میں نے کورونا سے دین سیکھا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتیں مجھ پر واضح ہوگئیں کہ مجھے خود کو صاف ستھرا رکھنا ہے، مجھے اللہ کو تنہائی میں یاد رکھنا ہے، اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا ہے، مجھے کیسے صبر کرنا ہے اور کیسے دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ان دنوں میں نوٹ کی وہ یہ کہ اگر ہم سادہ زندگی ان دنوں میں گزار سکتے ہیں تو عام دنوں میں کیوں نہیں گزار سکتے۔ سب کھا، پی رہے ہیں۔

زندگی کا سفر رواں ہے مگر جو غیر ضروری سرگرمیاں تھیں وہ ختم ہوگئیں لیکن اس سے زندگی کتنی پرسکون ہوگئی۔ نہ دھواں ہے نا آلودگی ہے نہ افراتفری، نا ایکسیڈنٹ کی وہ شرح ہے نہ ٹریفک کا بے ہنگھم شور تو مجھے لگا کہ اگر عام زندگی میں بھی ایسے گزارہ کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔‘‘

ہم وہ نسل ہیں کہ ہم نے اللہ کی لاٹھی چلتے دیکھی

محمد احمد صہیب پیشے کے لحاظ سے ایک جیوفزیسٹ ہیں اور انرجی سیکٹر سے منسلک ہیں۔ ان کا کام تیل و گیس کا سروے کرنا ہے۔ کورونا کے دوران ان کے کام کی کیا صورتحال رہی انہی کی زبانی جانتے ہیں، ’’حکومت نے انرجی سیکٹر کو ایک دن کے لیے بھی نہیں روکا، اس میں بجلی کی پیداوار، تیل اور گیس کے ادارے ہیں۔

ہمارے لیے حکومت کی جانب سے خاص حکم نامہ جاری کیا گیا تھاکہ انہیں بالکل نہ روکا جائے۔ شروع شروع کے دنوں میں بہت مسئلہ ہوا، پولیس والے روکتے تھے اور ہمارے لیٹر دکھانے پر کہتے تھے تم فون کرا ہم کہتے تھے آپ کروائیں اس طرح لڑ جھگڑ کر گھنٹے ڈیڑھ میں ہم آگے نکل جاتے تھے۔ ہمارا کام تو نہیں رکا مگر ہمیں یہ آرڈر ملا کہ جو فیلڈ مین ہیں وہ فیلڈ میں رہیں اور جو گھر میں ہیں وہ گھر رہیں۔

تو یوں ہم روٹین سے ہٹ کر دو سے اڑھائی ماہ وہاں رہے ۔ فرق یہی پڑا کے ہماری چھٹیاں بند ہوگئیں اور دوسرا ایک خوف کی فضاء تھی کیونکہ ہم روزانہ کی بنیاد پر لیبر اٹھاتے جہاں ہمارا کام ہوتا۔ اب لوکل لیبر اٹھانے سے ہم خطرے کی لپیٹ میں آجاتے کیونکہ اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بندہ رات کہاں رکا، کس سے ملا۔ زیادہ سے زیادہ ہم ہاتھ دھلوا دیتے۔ اسی دوران ایک دو گاں میں کورونا کے کیسز بھی نکل آئے۔ ان علاقوں پر فوج کا کنٹرول ہے کیونکہ یہ وہی علاقے ہیں جہاں ضرب عضب ہوا۔ تو ان گاں میں جانے سے منع کردیا گیا جس کا دورانیہ ہفتے دو پر مشتمل تھا۔

ہم دوسرے علاقوں میں کام کرتے رہے۔ مگر اس دوران اس کے بعد جب دوبارہ ٹیسٹ کروائے گئے تو پھر ہمیں جانے دیا گیا۔ Limitations اور Resrictions بڑھتی جارہی تھیں مگر منسٹری کی جانب سے مسلسل آرڈر آرہے تھے کہ کام نہیں روکنا۔ جیسے ڈاکٹر کام کرنے پر مجبور ہیں ہم بھی مجبور تھے کیونکہ اس شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کا عمل دخل ہے تو اس کو روکنا کٹھن ہے۔‘‘

’’میں تقریباً دو ماہ بعد گھر واپس لوٹا ہوں اور وہ بھی اس شرط پر کہ اپنی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اہتمام سے گھر لوٹوں۔ اسی طرح آنے والے واپس آسکتے ہیں لیکن اگربیماری لے کر آئے تو پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ بیماری کی صورت میں آنے سے منع کردیا گیا ہے۔ جس بندے پر شک ہوا اسے وہاں بنائے گئے سینٹر میں منتقل کیا جائے گا۔ یہ وہ محکمہ ہے جو کسی کی نظر میں نہیں مگر اس محکمے کی جو خدمات ہیں، وہ بہرحال کم نہیں ہیں۔ ڈاکٹر تو پھر بھی ماسک پہن کر کام کرتے ہیں اور حفاظتی کٹس کے ساتھ تو لوکل لیبر جن کو شاید پتہ بھی نہیں کہ کورونا کیا ہے ان کے ساتھ کام کرنا انتہائی رسک تھا۔ آہستہ آہستہ ہم نے انہیں سمجھا ہی دیا۔‘‘

’’سیکھنے کی بات کریں تو لفظ ’فانی‘ کا مطلب صحیح معنوں میں سمجھ آیا۔ کبھی سنا کرتے تھے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، تو ہم وہ نسل ہیں کہ ہم نے وہ لاٹھی چلتے دیکھی۔

ہم سے پہلے تین چار نسلیں کشمیریوں پر ظلم دیکھتے چلی گئی ہیں، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ظلم پر قدرت نے سخت ایکشن لیا ہے۔ جہاں زندگی کی بے ثباتی دیکھی وہیں اللہ کی قدرت کا اظہار بھی دیکھا ہے۔ ہماری نسل ہوش کے عالم میں کورونا کا مشاہدہ کررہی ہے تو کم سے کم ہماری نسل کورونا سے سبق حاصل کرلینا چاہیے۔‘‘

 سب سمجھتے ہیں کہ شاید گھر پر بیٹھے ہیں تو بالکل فارغ ہیں

شعبہ تدریس سے وابستہ ڈاکٹر عامر سعید یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لا ہورکہ سکول آف بزنس اینڈ اکنامکس میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جب ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جمعہ کے روز لاک ڈان کا فیصلہ ہوا تو یہ ایک پریشان کن صورتحال تھی مگر انتظامیہ کی جانب سے فوراً اس کرائسز سے نکلنے کا بندوبست کیا گیا اور شدید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ پیر کی صبح آٹھ بجے ہم آن لائن کلاس لے رہے تھے‘‘ عامر سعید کہتے ہیں کہ ’’گو کہ آن لائن سسٹم ہمارے لیے ایک نیا تجربہ ہے اور اس میں سٹوڈنٹس کے لیے کلاس روم جیسا ماحول فراہم کرنا مشکل چیلنج ہے مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے طلباء بھی بھرپور انداز میں شرکت کرتے ہیں۔

گو استاد کے لئے طلباء کے بی ہیویئر کی اسسٹمنٹ کرنا بہت کٹھن ہے کہ آیا واقعی کوئی تکنیکی ایشو ان کی سمجھ میں بات نہ آنے کی وجہ ہے یا وہ وقت لینا چاہ رہے ہیں۔ لیکن جو خوش کن بات ہے وہ یہ ہے کہ ہر کاس میں ایوریج اٹینڈنٹس 90 فیصد سے کم نہیں ہوتی۔ ہاں دیکھا جائے تو اساتذہ کے لئے مشقت بڑھ گئی ہے کہ پہلے جو بات ایک بار کہنا ہوتی اب تین سے چار مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔

سسٹم کی بہتری کے لیے ہم نے آن لائن ویڈیو کانفرنسز ایپ کا لائسنس ورژن خرید لیا ہے، جس میں مسائل کم سے کم ہوں‘‘ نجی زندگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’گو کہ کورونا میں سوشل ڈسٹیننگ ضروری ہے اور گھر سے کلاس لینا ایک اچھا تجربہ ہے مگر اس سے سب سمجھتے ہیں کہ شاید گھر پر بیٹھے ہیں تو بالکل فارغ ہیں۔ اب تو سیچر ڈے اور سنڈے کو بھی آن لائن میٹنگز ہورہی ہوتی ہیں اور بعض اوقات تو رات بارہ بجے بھی کوئی مسیج آجاتا ہے۔ اب تو کسی چھٹی کا تصور ہی نہیں‘‘

’’جہاں تک کورونا سے سیکھنے کی بات کا تعلق ہے تو کورونا نے انسان کو اس کی اوقات یاد دلادی ہے۔ یہ واضح کررہا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے بے بس ہے اور ایک اہم سبق یہ کہ مشکل حالات میں ہاتھ پاں چھوڑ دینے کے بجائے ان میں بہتری کے لیے جدوجہد کرنا اہم ہے۔‘‘

مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے

یونیورسٹی آف سرگودھا، انچارج ڈیپارٹمنٹ آف کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز نعمان یاسر قریشی کہتے ہیں کہ ’’یقینا یہ ایک مشکل وقت اور صورت حال تھی مگر یہ بات قابل تحسین ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وائس چانسلر نے ایک اہم فیصلہ لیا کہ طلباء کا وقت اور تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔ اسی ضمن میں لاک ڈان کے پہلے ہی ہفتے آن لائن کلاسز شروع کردی گئیں۔ اس سلسلے کو میں ایک خوش آئند کے طور پر دیکھتا ہوں کیونکہ جلد یا بدیر ہم نے آنے والے وقتوں میں اس سسٹم کو اپنانا ہی تھا۔

اس وباء کے آنے سے جو کام شاید ہم نے آج سے دس برس بعد کرنا تھا وہ ہم آج کررہے ہیں۔‘‘ طلباء کے رسپانس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’گوکہ شروع شروع میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو بہت سی پیچیدگیاں تھیں، طلباء اور اساتذہ کی اکثریت اس انداز میں کام سے آشنا نہ تھی مگر جب یہ طے کرلیا کہ ہمیں ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے تو مسائل کا حل سمجھائی دینے لگا۔ ابھی بھی شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے جو دو سے تین فیصد طلباء ہیں ان کے لیے نیٹ ورک سے رابطے کے مسائل ہیں مگر ہم بھرپور تعاون کررہے ہیں۔‘‘

کورونا کے ان کی ذاتی و پروفیشنل زندگی کے متعلق اثرات پر انہوں نے کہا کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ اب ذمہ داریاں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ بطور استاد تو اپنے فرائض سرانجام دینے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بطور چیئرپرسن مجھے اپنی ٹیم کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ پھر یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی رابطے میں رہنا انہیں بریف کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ہم مسلسل اس تگ و دو میں ہیں کہ آن لائن سسٹم کو بہتر سے بہتر انداز میں تمام طلباء و طالبات کی رسائی میں لاسکیں۔

چیلنجز تو ہیں مگر ہمیں ان سے نمٹنا ہے۔ یقینا اس صورت حال میں گھر میں رہتے ہوئے گھر والوں کو وقت دینا مشکل ہورہا ہے مگر ایسے میں ان کی جانب سے تعاون نے چیزوں کو سہل بنا دیا ہے۔ کیونکہ گھر والے بھی ہمیں اور ہماری پوزیشن کو سمجھ رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے کورونا سے سیکھنے کی تو سب سے پہلے یہ کہ ہم سب خواہ کتنا ہی طاقتور ہونیکا دعویٰ کریں مگر سب اللہ کے سامنے بے اختیار ہیں۔ حتمی طاقت و اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے رجوع کرنے میں فلاح ہے اور دوسری اہم چیز یہ کہ مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی اور سسلہ روز و شب کو چلتے رہنے دینا ہے۔‘‘

The post کورونا نے لوگوں کی زندگیوں کو کیسے متاثر کیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اب ہمیں ’کورونا‘ کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔۔۔

$
0
0

جس سماج میں ’لاک ڈاؤن‘ ڈھنگ سے نہ ہو سکا ہو، وہاں ہم نے یہ امید کیسے لگا لی تھی کہ ’لاک ڈاؤن‘ میں نرمی کے بعد حفاظتی تدابیر پر اچھی طرح عمل درآمد ہو سکے گا۔۔۔؟

یہ تو بہت بنیادی سا سوال ہے۔ ان چیزوں کا تعلق ایک طرف عوامی ذمہ داری سے ہوتا ہے، تو دوسری طرف حکومتی ساکھ اور اس پر عوامی بھروسے سے بھی ہے، اس کا مظاہرہ ہم تقریباً گذشتہ دو ماہ سے ’لاک ڈاؤن‘ کے حوالے سے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔۔۔

عالمی وبا قرار دی جانے والا ’کورونا‘ وائرس ہمارے ملک میں داخل ہوا، تو بہ جائے اتحاد کے ہم نے دیکھا کہ پہلے دن سے ہی اجتماعیت تارتار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے باہمی اختلافات اور تنازعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔۔۔ ایسے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ایک دوسرے سے متفق نہ ہو سکیں، الا یہ کہ وہ اس موقع پر عوام کی شکایات پر مرکوز ہوتیں اور انہیں اچھی طرح اعتماد میں لے کر اپنے فیصلے کرتیں اور پھر اس پر عمل کرنے کے لیے قائل کرتیں۔۔۔

’کورونا‘ کے حوالے سے مسلسل ہی مشکوک صورت حال اور ایسی اطلاعات اور شکایات سامنے آرہی ہیں، جس پر رائے عامہ میں انتشار اور بے چینی پھیلنا فطری ہے۔ یہاں تو اب ڈاکٹروں کی ’پریس کانفرنسوں‘ کو بھی شک وشبے کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے، لوگ مختلف سوالات کرنے لگے ہیں، جیسا کہ یہی کہ عوام کو ’کورونا‘ سے ڈرانے والے معالجین آخر خود ’اغل بغل‘ ہو کر کیوں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔؟ انہوں نے خود ’سماجی فاصلہ‘ کیوں ملحوظ نہ رکھا؟

حالات کے ستائے ہوئے عوام  نوحہ کناں ہیں کہ اِن کے مریضوں کو زبردستی ’کورونا‘ کا شکار قرار دے دیا گیا ہے۔۔۔ لواحقین براہ راست اسپتالوں اور طبی عملے پر ’ہمارا مریض مار دیا‘ جیسے سنگین الزامات بھی لگانے لگے ہیں۔۔۔ متوفیوں کی میتیں حوالے نہ کرنے پر پس ماندگان مشتعل ہو رہے ہیں۔۔۔ ملک بھر سے ایسی تکلیف دہ اطلاعات برابر سامنے آرہی ہیں، جس سے سراسیمگی پھیل رہی ہے، کہ ہم اپنے بزرگوں اور مریضوں کو طبی امداد کے لیے اسپتال لے کر جائیں، تو وہاں نہ جانے اِن کے ساتھ کیا سلوک ہو۔۔۔ وہ اس کے بعد کی صورت حال کا تصور کر کے ہی دہل جاتے ہیں۔ متعلقہ حکام کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کسی قسم کی کوئی تحقیقات یا لب کشائی کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے فوراً سے پیش تر اس حوالے سے آزادانہ اور کھلی گفتگو کی جائے، ساتھ ہی عوام کی داد رسی کے لیے کوئی مددگار مرکز قائم کیا جائے، جہاں ایسے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

’لاک ڈاؤن‘ میں نرمی کے نام پر بازار کھولنے کی اجازت کے حوالے سے پہلے بارہا یہ بات سامنے آتی رہی کہ باری باری ہفتے میں دو، دو دن مختلف قسم کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے گی، جس سے لوگوں کی ضرورت پوری ہونے کے ساتھ ساتھ بازاروں میں بھیڑ کے مسئلے سے بھی محفوظ رہا جا سکے گا۔۔۔ لیکن پھر ایک دم ہی سارا بازار کھول دیا گیا۔۔۔ جس میں شاذونادر ہی سماجی فاصلے کا خیال  رکھا گیا، اس قانون کی ’خلاف ورزی کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تاجروں کی دھینگا مشتی شروع ہوئی، کئی مارکیٹیں سیل کی گئیں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔۔۔؟ سماجی فاصلے کا خیال تو شاید ہی کسی جگہ رکھا جا رہا ہو، کہاں تک دکانیں سیل کی جائیں گی۔ ایسے میں کراچی کے چھوٹے بڑے تاجر اور مختلف تنظیمیں در در کی سیاسی جماعتوں کے چکر لگا رہے ہیں، کہیں وہ دیرینہ سیاسی جماعت کے سامنے ’پرانے‘ وقت کو یاد کرتے ہیں اور کہیں وہ موجود حکمراں جماعتوں کی چیرہ دستیوں پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔

دوسری بات یہ کہ ہفتے میں چار دن فجر تا شام پانج بجے کھلنے والے بازار کا ’کم وقت‘ اپنے آپ ہی لوگوں کے جم غفیر کا سبب بن رہا ہے، بالخصوص کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں ’سماجی فاصلے‘ کی اصطلاح بھی بہتیری جگہوں پر خود ’شرمندہ‘ ہو جاتی ہے۔۔۔ کہنے کو کسی نے یہ شگوفہ چھوڑا ہے، لیکن بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے کہ اگر ’کراچی والے‘ چھے فٹ کا ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے لگے، تو شاید لوگ حیدرآباد تک پھیل جائیں گے۔۔۔! خیر، کم وقت کو لوگوں کے رش کا سبب بتانے والے اول وقت میں دکانیں بند رہنے کی غفلت کو بھی تو نظرانداز نہیں کر سکتے، جب لوگ ہی گیارہ اور بارہ بجے کے بعد دکانوں کا رخ کریں گے، تو پھر کاہے ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ سکیں گے۔۔۔؟

بازاروں میں ٹوٹ پڑنے والی خلقت دیکھ کر یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کہ ’نہیں لگتا کہ یہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور تھے۔۔۔!‘ بھئی، بھوکوں مرنے والے لوگ اور ہیں اور اس وبا میں ’عید‘ کی خریداری کرنے والوں کا جہاں بالکل ہی دوسرا ہے۔۔۔ ایسا کہنا ہی نہایت غلط اور غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔

لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کرتے ہوئے اندرون ملک پروازیں کھل چکی ہیں اور اب ریلوے کھلنے کی بازگشت ہے اور شاید ٹرانسپورٹ بھی کھل جائے گی۔۔۔ گلیوں اور بازاروں میں ’سماجی فاصلے‘ کی دھجیاں اڑنے کے بعد ٹرانسپورٹ میں اس کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہوگا۔۔۔ بالخصوص کراچی کی وہ ناکافی اور کھٹارا بسیں جس کے اندر مسافروں کو ٹھونس ٹھونس کر لے جایا جاتا ہے، اور بس کے پائیدان سے لے کر اس کی چھت تک لوگ حقیقتاً ’ٹنگے‘ ہوئے ہوتے ہیں، اس میں سماجی فاصلے کا ’تماشا‘ بھی شاید ہم بہت جلد دیکھ لیں گے۔

عالمی سطح پر ’کورونا‘ کے حوالے سے ایسی آوازیں سنی جا رہی ہیں کہ نہ جانے کورونا جائے گا بھی یا نہیں اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے نقاب پوش بن کر پھرے گی، کوئی کسی کو چھوتے ہوئے بھی ڈرے گا۔۔۔ گلے نہ مل سکے گا۔۔۔ مصافحہ کرنا ترک رہے گا اور۔۔۔۔ عملاً سب ایک دوسرے سے پرے پرے ہوجائیں گے۔۔۔

پہلے ہمیں یہ کہا جاتا رہا کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘ اور اب  صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ’’کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے‘‘ یعنی باہر نکلیں تو مستقل ماسک پہنے رہیں، سارا سارا دن ماسک پہنے رہنے سے کان تک دُکھ جاتے ہیں۔۔۔ یہی نہیں ’فاصلے‘ رکھ کر میل جول کرنا کس قدر اور کب تک ممکن رہے گا۔۔۔ خوشی، غمی کے مواقع پر بھی طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ یہ صورت حال جتنا بھی طویل رہتی ہے، ہمیں ہر صورت یک سو ہو کر ہر قسم کی شکایات اور مسائل کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، تبھی ہم ’کورونا‘ کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں گے، بصورت دیگر ناامیدی، خوف اور مایوسی کی پرچھائیاں یوں ہی دور تک پھیلتی چلی جائیں گی۔۔۔

’وائرس‘ صابن سے دھل سکتا ہے مگر ویکسین نہیں؟

بہت سے صاحب الرائے افراد کی جانب سے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا)  پر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ’کورونا‘ کیسا وائرس ہے جو عام صابن سے دھل جاتا ہے، مگر اس کی ویکسین نہیں بن سکتی۔۔۔؟  یہ پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے تو دماغ چکرا سا جاتا ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔۔۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک چیونٹی ہاتھی کے پورے بدن پر گھومتی رہے اسے کچھ نہیں ہوتا، لیکن اگر ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تو ہاتھی کی موت واقع ہو سکتی ہے۔۔۔! جی بالکل، یہ ایسی ہی بات ہے کہ آپ سرخ مرچوں کو ہاتھ لگا کر کہیں کہ اس سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسی کو دلیل بنا کر اسے اپنی زبان پر رکھیں یا اپنی آنکھوں میں جھونک دیں۔ جیسے لال بیگ کو حشرات الارض میں اتنا سخت جان بتایا جاتا ہے کہ ’ایٹمی حملے‘ تک میں وہ خود کو بچا سکتا ہے، لیکن اس رینگنے والے کیڑے کی جان کو آپ کتنی آسانی سے کچل سکتے ہیں، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ تو وائرس کے حوالے سے بھی ہم یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ یہ صابن سے دھل سکتا ہے، تو خطرناک کیسے ہوسکتا ہے یا اس کی ویکسین نہیں بن سکتی، ہر چیز کو ایک پیمانے پر نہیں پرکھا جا سکتا۔

وبا کے دنوں میں ’فرقہ واریت!

کورونا کیا کم تھا کہ کراچی میں گذشتہ دنوں ’فرقہ واریت‘ کا جن بھی بوتل سے باہر آنے لگا، بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ حکام کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کے سبب باہر نکلا۔۔۔ دانستہ یا غیر دانستہ حکومت سندھ کی جانب سے حساس مذہبی صورت حال پر ٹھیک طرح سے کام نہیں کیا گیا، نتیجتاً مختلف مسالک کے لوگ آمنے سامنے آگئے۔۔۔ کہاں سارا دیش ایک وبا کی ہول ناکیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور کہاں شہر پر فرقہ واریت کی نئی افتاد آنے لگی۔۔۔ اس پر طرہ کہ کوئی اس صورت حال پر مرہم رکھنے والا اور آگ بجھانے والا بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ سماجی ذرایع اِبلاغ کے بے لگام ذریعہ ایسے موقع پر بہت کاری وار کیا کرتا ہے اور کوئی بھی چنگاری خدانخواستہ کسی آگ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔۔۔ اور دونوں طرف کے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے کے لیے قائل کرنے والے متحرک دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ جذباتیت کے بہ جائے تدبر اور عقل کی بات کرنے پر راضی کرسکے۔۔۔ شہر کو آگ لگتی ہے تو لگا کرے ان کی بلا سے!

ایندھن سستا کرنے کا نقصان۔۔۔!

کورونا کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مندی کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے بعد بہ ظاہر عوام کو اس کا فائدہ پہنچانے کے لیے حکومت نے بھی دو بار تیل کے نرخ کم کیے۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کمی سے واقعی عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ جب بھی عالمی منڈی کے کم نرخ کو جواز بنا کر حکومت ایندھن سستا کرتی ہے، تو کسی چیز کی قیمت نہیں گھٹتی، آمدورفت سے لے کر روزمرہ کی چیزوں کی ترسیل میں لاگت کم ہونے کے باوجود نرخ کم نہیں ہوتے، لیکن الٹا جب کچھ ماہ بعد جب پیٹرول دوبارہ اپنے سابقہ نرخ پر واپس آئے گا تو ’مہنگائی‘ کے نام پر کرائے سے لے کر روزمرہ کی چیزوں تک کے اخراجات ضرور بڑھ جائیں گے۔۔۔۔! یہ ہوتا ہے مہنگا ایندھن سستا کرنے کا اصل نقصان۔۔۔! اس لیے زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر حکومت پیٹرول سستا کرنے کے بہ جائے یہ رقم اپنے پاس جمع رکھے اور پھر جب عالمی منڈی میں ایندھن مہنگا ہونے لگے تو پھر اس جمع شدہ رقم کو اپنے عوام کے لیے اس کی قیمت تادیر مستحکم رکھنے میں کام میں لے۔ اس طریقے سے شاید زیادہ بہتر طریقے سے عوام کی تلافی ممکن ہے، بہ جائے اس طرح قیمت کم کرنے کے۔

 

The post اب ہمیں ’کورونا‘ کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


چائنا کا سامان کل اور آج

$
0
0

ٹھیک آج سے چھے ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھی وہ چائنا کی ہی چیزیں تھی۔ حتیٰ کہ پاکستانی دکان دار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے یہ چائنا کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنا سے آئے ہوئے کورونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان  اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگی۔

چین دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے۔ جہاں پر ہرچیز بنانے کا سب سے بڑے بڑے کارخانے موجود ہیں۔ اس وقت پوری دنیا چین کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ جلد کورونا وائرس کی ویکسین بنا کر ہم سب کو دیں گے اور ہماری سانسیں نہیں رکیں گی، حتیٰ کہ چین نے ویکسین بنا کر پاکستانی عوام پر تجربہ کرنے کا بھی سوچ بھی لیا ہے۔ چین دنیا میں ناکارہ ترین چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں پر ہر چیز دو سے تین مرتبہ دوبارہ استعمال میں دوبارہ لائی جاتی ہے۔ایک شیونگ بلیڈ سے لیکر چمچے تک۔۔

آج کل پوری دنیا میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑ کے سوپ کھانے سے پھیلا ہے سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی تو سارا سال مرغی کا سوپ کھاتے ان کا کھانسی زکام تک ختم ہو جاتا ہے اور تو اور سوپ کھانے سے کبھی الرجی تک ہوا نہیں ہے۔ آج سب کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ کورونا وائرس کو چین نے ختم کر دیا ہے اور وہی کورونا وائرس ہمارے پاس پھلنے پھولنے لگا ہے۔

آج تک کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کورونا وائرس پاکستانیوں کے جسم میں کیسے منتقل ہوا اور پہلا کیس کس کا رپورٹ ہوا ہے اور جس کو کورونا وائرس ہوا ہے اس کے وائرس کس شخص سے اس شخص میں منتقل ہوئے ہیں۔ اگر اس ملک کے کسی شخص کو کچھ پتا ہے تو وہ لاک ڈاؤن کا پتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے شہر شہر قریہ قریہ بند کرنے کا افسوس ہوتا ہے۔ دنیا نے ایٹم بم بنایا ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ نہ معلوم کر سکیں ہیں۔ آخر سائنس دانوں نے اس کورونا وائرس کے پھیلاؤ پہ کبھی تحقیق کیوں نہیں کی۔ جب پاکستان میں کسی بچے کو پولیو وائرس ہوتا ہے تو اس کا فضلہ لیا جاتا ہے۔اور پھر وائرس کی تصدیق کے ساتھ یہ بھی پتا چل جاتا ہے۔کہ وائرس کہا سے بچے کو لگا ہے۔ مگر کورونا وائرس ایسا وائرس ہے جس کے لئے ہم صرف ہاتھ پہ ہاتھ صاف کیے ہوئے ہیں آخر کیوں؟

کہیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہاتھوں کو صاف کر کے ماسک پہن کر اور ٹھنڈا ٹھار سینیٹائزر استعمال کر کے ہم لوگ  اس بیماری سے بچ سکیں گے بالکل یہ طریقہ اس ملک میں غلط چل رہا ہے کبھی سوچا ہے کہ جو سامان ہمیں کورونا وائرس زدہ ملک چائنا سے ملا ہے وہ سامان تو کورونا زدہ نہیں ہے کبھی اس سامان کی کوالٹی کسی بڑے ادارے نے چیک کی ہے۔ اگر کی ہے تو اس کا رپورٹ کہا ہے عوام کے سامنے کیو پیش نہیں کیا گیا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کا مال جو چائنا سے پاکستان میں آیا بڑے دھوم دھام سے فروخت ہو رہا ہے اور جتنا مال آیا ہے اس روز سے آج تک پاکستان کے کورونا وائرس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے آخر کیوں؟ اور تو اور اعلیٰ شخصیات بھی اس وائرس کی زد میں آ چکے ہیں اور ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ بھی اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر حضرات بھی اس وائرس سے بچ نہیں سکیں ہیں آخر؟

پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر وہ لوگ ہیں جو کورونا وائرس زدہ شخص سے بھی بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں مگر پھر بھی کورونا وائرس نے ان کو گلے لگا لیا ہے آخر کیوں؟ کہیں ان کو ملنے والا سامان چائنا کا مال کورونا زدہ تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس وقت لوگ کیوں کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں؟یہ بات سوچنے کی ہے اور اس پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

کورونا وائرس ایک نیا وائرس ضرور ہے مگر پاکستان میں یہ وائرس پرانے لوگوں کو مار رہا ہے ہر کھانسی زکام بخار کورونا وائرس نہیں ہوتا ہے مگر علامت کورونا وائرس کے ضرور ہے پاکستانی وہ قوم ہے جو بیس سال سے زائد عرصے میں پولیو کو ختم نہیں کر سکا ہے تو پھر کورونا وائرس کو کیسے ختم کریں گا کورونا وائرس اگر خود بخود ختم ہو جائے تو ہمارے لیے مال غنیمت ہوگا۔

پاکستان نے میڈیکل کے شعبے میں کئی ممالک سے  بہت ترقی یافتہ ملک ہے جس نے جگر ٹرانسپلانٹ سے لیکر ہڈیوں کے ڈھانچوں کو ایسے جوڑا ہے جیسے ہڈیاں ٹوٹی ہی نہیں ہے خدارا چائنا کا مال جو ملا ہے یا مل رہا اس کا چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ ٹیسٹ بھی ضرور کریں تاکہ ہمیں بھروسا ہو کہ چائنا کا مال اچھا ہے یا برا ہے یا ناکارہ مال ہے یا استعمال شدہ مال ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ چائنا دنیا میں اپنے معاشی ترقی کے لیے اپنا راہ ہم وار کر رہا ہے۔

ووہان چائنا سے پھیلنے والا وبا کورونا وائرس جس نے دنیا میں دھوم مچا دیا ہے سب لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور بیمار کر دیا ہے۔ وہ دسمبر کا مہینا تھا جب پاکستان میں سخت سردی کا راج تھا اس وقت یہ وبا چائنا سے نمودار ہوا اور  اپریل تک دنیا کے دو سے زائد ممالک میں پھیل گیا ہے۔

اس وقت دنیا کی آنکھیں چین کی طرف ہے اس وقت چین دنیا کے ہر ممالک میں کورونا وائرس کا سامان پہنچانے میں لگا ہوا ہے چین ترقی کا سفر طے کر رہا ہے دنیا تنزلی کا سفر طے کرنے میں مصروف  ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر برائی چین میں ہوتی ہے ہر چیز ہضم کر جاتے ہیں چاہے لکڑ ہو یا پتھر ہو۔ ہم نے ہر چیز کو بند کردیا، مگر چائنا کے مال کو تالا نہیں لگایا اور نہ چائنا کا مال اپنے لیبارٹری تک پہنچائیں ہیں کہ لیب ٹیکنیشن یہ دیکھیں کہ کہیں چائنا کا مال متاثرہ تو نہیں!

 

The post چائنا کا سامان کل اور آج appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا چین کے دیگر علاقوں میں کیوں نہیں پھیلا؟

$
0
0

کورونا وائرس جس طرح پوری دنیا میں پھیلا ہے اور جس طرح ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے، اس بیماری کو صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ اس وائرس کا الزام چین پر عائد کر چکے ہیں۔۔۔ جب کہ گذشتہ دنوں سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا اور کہا کہ امریکا نے چین، ایران اور اٹلی کے خلاف اس وائرس کا آغاز کیا، کیوں کہ چین کی یورپی یونین میں سب سے بڑی تجارتی شراکت داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سازش علاقائی کرنسیوں میں نہیں، بلکہ امریکی ڈالر میں تجارت کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔

فیصل رضا عابدی کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں زلزلہ آتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مرکز تلاش کیا جاتا ہے اور اس وائرس کا مرکز ووہان (WUHAN) تھا، جہاں کی آبادی ایک کڑوراٹھارہ لاکھ ہے، لیکن یہ وائرس صرف 80ہزار لوگوں میں پایا گیا اور آخر اس نے ووہان کی سرحد کو عبور کیوں نہیں کیا، جب کہ یہ نومبر 2019ء میں آیا، جنوری 2020ء میں اس وائرس کی تشخیص کا اعلان ہوا اور فروری میں اسے COVID-19 کا نام دیا گیا اس دوران ٹراسپورٹیشن اور لوگوں کی ایک سے دوسرے شہر میں آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا۔

ایک کڑور اٹھارہ لاکھ میں سے کوئی نہ کوئی تو بیجنگ بھی گیا ہو گا، شنگھائی بھی گیا، لیکن یہ وائرس ’ووہان‘ سے باہر کیوں نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بغیر کسی ہتھیار کے ہو رہی ہے اور دنیا اس سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ کچھ وقت کے بعد جب یہ وائرس ختم ہو جائے گا، تو دنیا کے بہت سے ممالک بدترین معاشی حالات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

امریکا میں بھی مبینہ طور پر ایسی ہدایات کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جس میں محکمہ صحت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دمے کا مریض، نزلہ، کھانسی، ضعیف یا کوئی بھی الرجی کا مریض آئے، تو اسے کورونا کا مریض بتا دیا جائے۔ یہاں تک کہ کوئی پولن الرجی کا مریض بھی آئے، تو اسے بھی ’covid-19‘ میں شامل کر دیا جائے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ امریکا کا اس وائرس سے یہ مفاد تھا کہ پوری دنیا کے معاشی حالات خراب ہوں اور سب امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔

اس کے بعد اس کی ویکسین کے ذریعے ممکنہ طور پر امریکا فائدہ اٹھائے گا، کیوں کہ یہ ویکسین لگانا سب کے لیے ضروری ہوگا، اس کے بغیر نہ تو کوئی سفر کر سکے گا، نہ کوئی ویزا حاصل کر سکے گا، یہاں تک کہ ہر طرح کی ٹریڈنگ بھی بند کر دی جائے گی ۔ اس طرح 180 ممالک امریکا کے غلام ہو جائیں گے۔

کورونا کے حوالے سے ایک کتاب ’اینڈ آف دا ڈیز‘ کتاب کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، جو 24 جون  2008ء کو منظرعام پر آئی، جس میں اس وائرس کا ذکر ہے، یہاں تک کہ وائرس کے کوڈ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2010ء میں ہالی وڈ میں دو فلمیں بنائی گئیں ، جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

ان فلموں میں جو شہر دکھائے گئے، حقیقت میں بھی ان ہی شہروں میں یہ وائرس آیا۔ جس سے اس وائرس کے حوالے سے سازشی تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب دنیا کی معیشیت کو تباہ کرنے کے لیے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت کا پہیا چلنا چاہیے، نہیں تو ملک اگلے 20 سے 25 سال تک کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہے گا۔

The post کورونا چین کے دیگر علاقوں میں کیوں نہیں پھیلا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کرونا کا آسیب ؛ گھروں کاسکون، دلوں کا چین نگل رہا ہے

$
0
0

 ہماری زمین، اور اس دنیا نے اپنی تخلیق کے بعدکتنی ہی ناگہانی آفات دیکھیں،ان کے نتیجے میں انسانوں نے طرح طرح کے مصائب جھیلے اور ہلاک ہوئے ۔ دریاؤں کا بپھر جانا،سمندر کا غضب ناک ہونا،آندھی طوفان،تیز بارشیں، قحط ، زلزلے اور مختلف امراض بھی، جنھوں نے بستیاں ویران کردیں،ہستیاں مٹا ڈالیں ، قبائل کا نام و نشان نہ رہااور وبا پھوٹی تو کنبے کے کنبے نگل گئی اور پھر پھیلتی ہی چلی گئی۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دبے پاؤںآنے والی وباؤں نے ایک بستی اجاڑی اور دوسری بستی پر حملہ کیا ،ایک گاؤں سے دوسرے گاؤںکو لپیٹ میں لیا، قصبے سے نکلی تو شہر اور دور دور تک موت کا سامان کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے بعد رخصت ہو گئیں ،مگر یہ طے ہے کہ مختلف ادوار میں انسانوں نے وبائیں دیکھیں اوران کے آگے خود کو بے بس اور ناتواں پایا۔وہ ان سے لڑتا رہا، زندہ رہنے کے لیے بھاگا، سو جتن کیے،ہر حربہ آزمایا،اجڑا اور دوبارہ ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ پس ماندگان نے بستیاں آباد کر لیں۔ زندگی کودوبارہ آواز دی اوراسے سب کچھ بھول کرآگے بڑھنا پڑا۔

آج پھر دنیا کو ایک وبا کا سامنا ہے۔ مگر آج کا انسان جدیدسائنسی آلات، علاج معالجے کی بہترین سہولیات کے ساتھ اس کا مقابلہ کررہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے آنے والی وبائیں کسی ایک ملک یا وسیع رقبے پرآباد بستیوں کو نشانہ بنا نے کے بعد ختم ہو جاتی تھیں ، ان کا زور ٹوٹ جاتاتھا، مگر کروناوائرس تیزی سے پھیلا اور دنیا کے بیش تر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ سائنس داں اور متعلقہ ماہرین کووِڈ 19 کو سمجھنے اور اس کا توڑ دریافت کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، مگر اب تک اس ضمن میں قابلِ ذکر کام یابی نہیں ملی ہے۔امید ہے کہ جلد اس سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرلی جائے گی۔

متاثرہ فرد سے صحت مندجسم کو کرونا وائرس کے منتقل ہونے کے قوی امکان نے انسان کو انسان ہی سے دور دھکیل دیا ہے ۔ سیلف آئسولیشن اورسوشل ڈسٹینسنگ جیسی اصطلاحات کے بعد انسان خوف زدہ اور نفسیاتی طور پرشدید دباؤ کا شکار ہے۔ اپنوں سے دور رہنے کی ہدایات یا سماجی فاصلے نے اسے ایک اعصابی جنگ میں دھکیل دیاہے۔

تنہائی تو ویسے ہی عذاب ہوتی ہے ،لیکن اگر یہ جبری طور پر مسلط کر دی جائے توا س سے زیادہ خوف ناک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق معاشی عدم تحفظ، ذہنی تناؤ، غیریقینی صورتِ حال میں گھریلو مسائل، رنجشوں، جھگڑوں اور کشیدگی کو نہ صرف جارحیت میں بدلا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

کرونا کے خانگی زندگی پراثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال پچھلے سال عالمی سطح پر مالیاتی بحران کے بعد قدرتی آفت جیسا کہ2011  کے کرائسٹ چرچ کے زلزلے میں بھی نہیں دیکھی گئی۔

کسی بھی خطے میں گھر کو بنیادی یونٹ مانا جاتا ہے  اور انسان خودکو سب سے زیادہ اپنے گھر میں محفوظ اور پرسکون سمجھتا ہے ۔ گھر کا امن اس کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ہر فرد گھر میں داخل ہونے کے بعدخود کوذہنی طور پر پُرسکون محسوس کرتا ہے اوردفتر، کام کاج کی جگہوں اور باہر کے دوسرے مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والا دباؤ کم ہو جاتا ہے، لیکن جب گھر ہی اکھاڑہ  بن جائے جہاں دو فریق ہمہ وقت ایک دوسرے کے صبر، برداشت اور ہمت کو طرح طرح سے آزمانے پر کمر بستہ رہیں تو پھر سکون گلی محلے کی بیٹھک، ہوٹلوں پر گپ شپ،بازاروں کی رونق، دوستوں کے درمیان اور کسی بھی محفل میں  نہیں ملتا۔

اس عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔ تشدد کے واقعات میں اضافہ حیران کن بات نہیں ،لیکن اس کے بے لگام ہوجانے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جو اصل خطرہ ہے۔

عام حالات میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور کسی حد تک قابو میں رہتے ہیں ،مگر کرونا کی وبا کے دوران جس ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا، وہاں ہیلپ لائن پر گھریلو تشدد کی شکایات میں 67 فی صد اضافہ ہوا ہے۔حالیہ دہائیوں میں دنیا نے متعدد بحرانوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا، لیکن سرد جنگوں کے دوران سیکیورٹی رسک، نائن الیون کے واقعات میں بین الاقوامی رجحانات، داعش کی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے یورپ تک سلامتی کے خدشات سامنے آئے اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں دنیا مالی بحران کا شکار بھی ہوئی ،لیکن ان بحرانوں میں سے کوئی بھی عالمی تعلقات، رابطوںاور بین الاقوامی نظام کواتنا نقصان نہیں پہنچا سکا جتنا اس وبا نے پہنچایا۔

چین، امریکا، ایران، اٹلی، اسپین، جنوبی ایشیا اور افریقامیں معاشی، معاشرتی اور سب سے زیادہ خانگی امن اور سکون کونقصان پہنچاہے۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران چین سے لے کر فرانس ، اٹلی سے لے کر اسپین، جرمنی سے برازیل تک مختلف ممالک میں اس وبا کے ساتھ ساتھ گھریلو محاذ آرائیاں بھی پھیلتی جا رہی ہیں۔

اس حوالے سے ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کے صوبے ہوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا جب کہ ایسے 90 فی صد واقعات اس وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سامنے آئے۔ اسی رپورٹ کے مطابق برازیل میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں چالیس سے پچاس فی صد اضافہ دیکھا گیا ، جن میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں مگر ان کے ساتھ ساتھ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔تشدد کے یہ واقعات برازیل کے ایک بڑے شہرمیں سامنے آئے۔

بیلجیم میں بھی مختلف علاقوں سے پولیس کولاک ڈاؤن کے بعدگھروں میں تشدد کی اطلاع ملی اور ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چلی میں امورِ خواتین کی وزیر کلاڈیا پاسکل کا کہنا ہے کہ ملک میںلاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

میکسیکوکی پولیس کے شکایتی مرکز کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کی شکایات میں گزشتہ ایک سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ ہواہے۔ کولمبیا کی بات کریں تو وہاں لاک ڈاؤن کے دوران ہیلپ لائن پر خواتین پرتشدد اوران سے بدسلوکی کی شکایات 130 فی صد بڑھ گئی ہیں۔

آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ گھر یلو تشدد کے خلاف مدد سے متعلق انٹرنیٹ سرچ میں 75 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی افریقا میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں گھریلو تشدد کی 90 ہزار رپورٹس موصول ہوئیں۔

کرونا وائر س سے شدیدمتاثرہ ملک اٹلی میں بھی لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ۔ اسپین میں بھی عورتوں پر گھریلو تشدد میں ریکارڈ اضافہ بتایا جارہا ہے ،ا س کے علاوہ عورتوں نے قتل کی دھمکیوں کے واقعات بھی درج کروائے ہیں۔

فرانس کی حکومت کے مطابق لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 33 فی صد اضافہ ہوا جس میںمتاثرہ خواتین کی عمریں 18 سے 75 تک ہیں۔

برطانیہ کی طرف چلیں تو معلوم ہو گا کہ گھریلو تشدد کی رپورٹ کے لیے ہاٹ لائن پر 65فی صد سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لاطینی امریکا کے بڑے ممالک میکسیکو اور برازیل میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے اعدادوشمار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ ارجنٹینا میںوبا کے دنوں میں عورتوں سے بدسلوکی اور تشدد میں 67 فی صد اضافہ ہوا۔

اقوام متحدہ میں خواتین سے متعلق امور کی ڈائریکٹر ماریا نوئیل بائیزا کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس لاطینی امریکا میں 38سو خواتین کا قتل ہوا، آئندہ برس نہ جانے کتنی اور خواتین جان سے جائیں گی؟

اسی وبا کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس یہ کہنے پر مجبورہوگئے کہ’’بہت سی خواتین اور لڑکیوںکے لیے سب سے زیادہ خطرہ وہاں ہے جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے، یعنی ان کے اپنے گھروں میں۔ لہذا، آج میں دنیا بھر کے گھروں میں امن کے لیے ایک نئی درخواست کر رہا ہوں۔‘‘

اگر جنو ب ایشیائی ممالک کا ذکر کیا جائے تو صو ر تِ حال یہاں بھی گمبھیر ہو رہی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس خطہ میں وسائل سے زیادہ مسائل رہے ہیں اوراب کرونا کی بدولت یہ ایک دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔یہاں اربوں انسان رہتے ہیں۔ بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان سمیت خطے کے گنجان آباد علاقوںمیں کرونا کے متاثرین یورپی ممالک کی نسبت کم ہیں ۔ تاہم اس وبا کے برے اثرات کے باعث سماجی اور تجارتی زندگی معطل ہے جس سے گھروں میں موجود وہ لوگ بھی متاثر ہیں جو باہر نکل کر کام نہیں کرتے، یعنی خواتین، بزرگ اور بچے…!

جنوبی ایشیا میں سب ہی ممالک ترقی پذیراور لاکھوں کچی بستیوں پر مشتمل ہیں جن کی صحت کے مراکز تک رسائی بھی آسان نہیں ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور دیگر چھوٹی ریاستیں جہاں کروناکے مریضوں کی کم تعداد رپورٹ ہوئی ہے ، مگر یہ بھی وائرس کے نشانے پر ہیں ۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی متوقع ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ کیسز بھارت میں جب کہ سب سے کم بھوٹان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں کتنا اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق اور انسدادِ گھریلو تشدد کے ادارے کی ہیلپ لائن پر شکایات کے لیے گھنٹوںانتظار کرنا پڑ رہا ہے اور یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے۔انسانی حقوق سے متعلق ضیااعوان کے مطابق ان کی ہیلپ لائن بیس سال سے چل رہی ہے، لیکن ایسی صورتِ حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں شوہر مطلق العنان حاکم کے روپ میں سامنے آتا ہے وہاں عورت پر ہاتھ اٹھ جانا عام بات ہے۔ ایسے میں اس وبا کے دوران پہلے سے موجودسخت گیر طبیعت، حاکما نہ مزاج اورذہنی یا جسمانی تشدد کو اپنا حق سمجھنے والوں کو موقع مل جانا حیران کن نہیں ہوگا۔ تاہم اس بار گھریلو تشدد کے اثرات صرف شادی شدہ جوڑے کو نہیں بھگتنا پڑرہے بلکہ یہ گھر کے ہر مکین کو متاثر کر رہا ہے۔

ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل وقت گزارنے، گھریلو معاملات اور مختلف امور سے متعلق ضرورت سے زیادہ حصہ ڈالنے یا رائے کا اظہار کرنے سے بات بڑھ رہی ہے اور بحث مباحثے پہلے یکسانیت کا شکار بنا رہی ہے اور پھر ماحول کی گھٹن اعصاب پر طاری ہوکربگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔

حساسیت کی وجہ سے ہلکی پھلکی بحث کا اختتام سنگین لڑائیوں کی ابتدا ثابت ہو رہا ہے اور یہ زیادہ تر ان خاندانوں میں معمول بن گیا ہے جن کو روزگار کے مستقل ذرایع میسر نہیں ہیں۔ایسے گھرانے جو ماہانہ تنخواہ اور لگی بندھی آمدن پر نہیں چلتے بلکہ یومیہ اجرت اور ہوائی روزی سے منسلک ہیں، ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔

ان میں ویلڈر، مستری، درزی، پلمبر، الیکٹریشن ،گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں جو گھر کا چولھا نہیں جلا پارہے۔اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تو ان کے پاس وسائل ہیں نہ اہلیت ،جس کے نتیجے میں مارپیٹ کے بعد اور معاملہ بڑھ جانے پراقدامِ قتل یا اس کا ارتکاب اورمیاں بیوی کے مابین طلاق کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایسا ہوا بھی ہوگا، کیو ں کہ یہاں پر بہت کیسزرپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد گھر میں رہتے ہوئے ماحول کو بہتربنانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے اورایک دوسرے کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت اور مباحث سے بچے۔ دوسری طر ف صاحبِ حیثیت افرادکوچاہیے کہ وہ مفلس اور بدحال لوگوں کی اتنی مدد ضرور کریں کہ ان کا دال دلیا چلتا رہے۔

اس ضمن میں ذرایع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔گھروں کا ماحول بہتر بنانے اور گھریلو تشدد سے بچنے کے حوالے سے بھی آگاہی دینے اور اس پرباقاعدہ پروگرام نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں قید دماغ جو بتدریج نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں ، انھیںبتایا جائے کہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ما ر پیٹ ، گالی گلوچ کو ہی ہتھیار نہ بنائیں بلکہ اس کا مثبت، بہترین متبادل نکالنے کے لیے زور آزمائی کریں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں ہی نہیں بلکہ اس حالیہ وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی حکومتوں کو کچھ ایسی پالیسیاں ضروری بنانی چاہئیں جو گھر کے یونٹ کو پریشانیوں اور الجھنوں کا مرکز نہ بننے دیں، بلکہ اسے صحیح معنوں میں امن  و شانتی کے گہوارے میں تبدیل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

اگر آپ خود، آپ کاکوئی پیارا، دوست یاپڑوسی گھریلوجھگڑوں اور تشدد کا سامنا کر رہا ہے توہمّت کیجیے، آگے بڑھ کر ان کے مابین صلح صفائی کروائیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کی مدد سے وہ اپنے معاملات سلجھا سکیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو خاموش نہ رہیں، لیگل ایڈ  سیل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، وزارتِ انسانی حقوق پاکستان کی ہیلپ لائن پر اس کی رپورٹ درج کروائیں ۔دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ ہیلپ لائن پررابطہ کرنے والوں کو اردواور علاقائی زبانوں میں خدمات مہیا کی جائے تاکہ ہر زبان اور بولی جاننے والی خواندہ اور نیم خواندہ عورتیںایسی صورتِ حال میں مدد لے سکیں۔

The post کرونا کا آسیب ؛ گھروں کاسکون، دلوں کا چین نگل رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

عالمی وباء کی پیش گوئی پر مبنی ساری تخلیقات امریکہ ہی میں کیوں؟

$
0
0

کورونا وائرس کہاں پیدا ہوا اور کیسے ساری دنیا تک پھیلا؟ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہیں۔کوئی کہتاہے کہ یہ چین کا  امریکا پر بائیالوجیکل حملہ ہے، کوئی کہتاہے کہ امریکا نے چین پر حیاتیاتی وار کیا جسے چین نے واپس  امریکا  کی طرف پلٹ دیا۔  اسی طرح کچھ اور بھی باتیں پھیل رہی ہیں جنھیں ’سازشی تھیوریز‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے ناول کا ذکر کرتے ہیں جس  کے بارے میں 16فروری2020 کو ٹوئٹر پر ایک شخص’نِک ہنٹن‘(Nick Hinton) نے ٹویٹ کی اور بتایا کہ  ڈین کونٹز(Dean Koontz) نامی ناول نگار نے1981ء میں اپنے ناول ’The Eyes Of Darkness‘  میں کورونا وائرس کے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔ ساتھ ہی نک ہنٹن نے ناول کا صفحہ نمبر333 کا سکرین شارٹ بھی لگادیا جس کے مطابق، ناول میں ایک کردار ڈومبے ایک چینی سائنس دان ’لی چن‘ کا ذکر کرتاہے جو بھاگ کر امریکا پہنچ جاتا ہے۔

بظاہر وہ چین کے نظام سے بے زار ہوکر امریکا پہنچتاہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ  اپنے ساتھ ایک انتہائی خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار بھی  لے گیا۔ اس بائیالوجیکل ہتھیار کا نام تھا ’ووہان400‘۔ یہ شہر سے باہر قائم’آر ڈی این اے‘ لیبارٹریوں میں تیار کیاگیاتھا۔ یہ ایک مکمل ہتھیار تھا جو صرف انسان کو بیمار کرتاہے، کوئی دوسری مخلوق اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ آتشک کی بیماری کی طرح  ’ووہان 400‘ انسانی جسم کے باہر ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

’نِک ہنٹن‘ کی اس ٹویٹ کو 36 ہزار لوگوں نے ری ٹویٹ کیا۔ بعض لوگوں نے ایک دوسرا صفحہ بھی دکھایا، جس میں نمونیا جیسی بیماری پھوٹ پڑنے کا سال یعنی  2020ء بھی بتایا گیا۔بہرحال ’ڈین کونٹز‘ کے ناول میں لکھی گئی کچھ باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ مثلاً اب تک کہیں ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ وائرس کسی چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔ اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس خوراک کی ایک منڈی میں پیدا ہوا جہاں غیرقانونی طور پر جنگلی جانوروں کا گوشت بیچا جاتا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے پیدا ہوا اور پھر مختلف جانوروں کے ذریعے ہوتا ہوا  انسانوں کے اندر داخل ہوا۔

اب بات کرتے ہیں ناول میں مذکور وائرس اور حقیقی وائرس کی علامتوں کے بارے میں۔ ووہان 400 اور کووڈ19کے درمیان علامتوں میں کافی فرق پایاجاتا ہے۔ ناول کے مطابق وائرس کی افزائش کا عرصہ صرف چار گھنٹے ہے  جبکہ کووڈ19کی افزائش کا عرصہ ایک دن سے 14دن تک ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق زیادہ تر پانچ دنوں میں اس کی افزائش ہورہی ہے۔

کونٹز لکھتا ہے کہ ووہان400ایک ایسی بیماری ہے جس میں شرح اموات100فیصد ہے۔ یعنی جو بھی اس سے متاثر ہوا، وہ اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ختم ہوگیا، زیادہ تر لوگ 12گھنٹوں کے اندر مرتے ہیں۔ کووڈ19کے نتیجے میں شرح اموات بہت کم ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کووڈ19کی شرح اموات صرف 2فیصد ہے۔

ووہان میں 4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7 فیصد۔ کونٹز کے مطابق ووہان400کے نتیجے میں ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے جو دماغ کے ٹشوز کو کھاجاتا ہے، یوں جسم کے تمام سسٹم کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، سانس رک جاتی ہے اور پھر اچانک نبض بند ہوجاتی ہے جبکہ کووڈ19میں مختلف علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ بخار ہوجاتا ہے، کھانسی شروع ہوجاتی ہے، تھوڑا سانس آنا، سانس لینے میں بہت تنگی محسوس ہوتی ہے، اس بیماری کی عام حالت میں زکام کی سی کیفیت ہوتی ہے جبکہ شدید حالت میں نمونیے جیسی کیفیت ہوجاتی ہے۔ پھپھڑوں کی بیماری کے بعد گردے فیل جاتے ہیں اور پھر موت واقع ہوجاتی ہے۔

ناول میں ووہان400کو ایبولا سے زیادہ سنگین بیماری قرار دیا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایبولا میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی شرح50 فیصد تھی۔اسی طرح ماضی کی دیگر وباؤں میں شرح اموات 25سے90 فیصد دیکھی گئی ہے۔ کووڈ19کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی شرح  ووہان میں 2سے  4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7فیصد۔

ایک اور دلچسپ بات بھی جان لیں،ڈین کونٹز کا ناول  ’The Eyes Of Darkness‘  جب 1981میں شائع ہوا تو اس کے پہلے ایڈیشن میں  چینی شہر ووہان کے بجائے سوویت یونین کے ایک مقام  ’گورکی‘ کانام لکھا ہوا تھا۔ اس وقت ناول کے اس مقام پر  بیماری کو ’گورکی400‘کانام دیاگیا۔ یعنی اس وقت خطرناک ترین بائیالوجیکل ہتھیار سوویت یونین کے شہر میں پیدا ہوا تھا۔ جب سوویت یونین ختم ہوگیا تو ناول نگار نے  نام تبدیل کردیا۔اس بات کی تصدیق کے لئے گوگل بکس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔ 1981ء میں شائع ہونے والے پہلے ایڈیشن میں آپ ’ووہان400‘ کا نام تلاش کریں گے تو نہیں ملے گا۔

چینی اخبار ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کے مطابق1989ء میں ’کورگی 400‘ ختم کرکے ’ووہان400‘ کا نام لکھا گیا۔ یہ وہی سال ہے جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی افواج نکالی تھیں اور اس کے بعد وہ مختلف ریاستوں میں بکھر گیا تھا۔ ایک اور اہم بات، ڈین کونٹز نے1989ء میں یہ ناول اپنے قلمی نام کے بجائے اصل ’لی نکوس‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔کووڈ 19 کے پھیلنے کے بعد جب  اس ناول میں بتائی گئی بیماری کو کووڈ19سے جوڑنے کی مہم چلائی گئی تو ایسے میں بعض اخبارات  اور خبر رساں اداروں نے ناول کے مصنف  اور پبلشر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ بات کرنے سے پرہیز کرتے رہے۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بہت کوششیں کیں لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ بڑے برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے بھی رابطہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن نہ مصنف سے بات ہوسکی نہ ہی پبلشر سے۔یہ تو تھا ناول اور اس کے ایک مخصوص حصے کا تجزیہ، اگر ہم اس ناول میں لکھی گئی باتوں کو اور  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بیانات کو ایک جگہ پر رکھ کر دیکھیں تو ایک تھیوری یہ بھی بنتی ہے کہ پہلے یہ وائرس سوویت یونین کے مقام ’گورگی‘ سے پھوٹنا تھا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد  وہاں اس کام کی ضرورت ہی نہ رہی، اب جب چین عالمی معیشت، تجارت اور سیاست سمیت تمام شعبوں میں لیڈرشپ والا کردار حاصل کررہا ہے، تو وہی فکشنل (Fictional) بیماری ’ووہان‘ سے پھوٹ پڑی۔ اب پردے ہٹتے جارہے ہیں کہ یہ بیماری خود نہیں پھوٹی بلکہ کسی کے ہاتھ سے پھوٹی ہے۔

آنے والے دنوں میں مزید پردے ہٹیں گے کیونکہ سکرپٹ کے مطابق کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کورونا وائرس کو امریکا پر بدترین حملہ قرار دیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب وہ اس سے اگلی بات بھی کریں گے، اور اپنا رخ براہ راست چین کی طرف رکھیں گے۔اب ہم ایک دوسری کتاب ’End of Days‘ کا ذکر کرتے ہیں جس میں واضح طور پر یہ بتایاگیاتھا کہ لگ بھگ 2020ء میں نمونیا جیسی ایک بیماری پھوٹے گی اور پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ بات کتاب کے صفحہ نمبر 312 پر لکھی ہوئی ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ ’سیلویا براؤن‘بھی امریکی تھیں۔ 2013ء میں ان کا77سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ان کی40 کتابیں شائع ہوئیں۔

2008ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سیلویا براؤن نے لکھا کہ لگ بھگ سن2020ء میں نمونیا جیسی ایک سنگین بیماری پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی، یہ پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور ڈھانچے پر حملہ کرے گی۔ یہ وبا اچانک آنے کے بعد اچانک ہی دنیا سے چلی جائے گی اور دس سال بعد دوبارہ اسی طرح دنیا پر حملہ کرے گی۔ اس کے بعد وہ خود سے ختم ہوجائے گی اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گی‘۔

سیلویا براؤن کی یہ پہلی پیش گوئی ہے جو کسی حد تک درست ثابت ہوئی۔ ورنہ اس نے اس سے پہلے بہت سی پیش گوئیاں کی تھیں جو تقریباً سب کی سب غلط ثابت ہوئیں۔ وہ ایک ٹی وی پروگرام میں لاپتہ افراد کا پتہ بتایا کرتی تھی۔ اور بیس، تیس منٹ کے سیشن کے ساڑھے سات سو ڈالرز لیا کرتی تھی، یعنی سوا لاکھ روپے پاکستانی روپے۔ سیلویا براؤن کا دعویٰ تھا کہ وہ یہ اتا پتا اپنی مخصوص قوتوں کے بل بوتے پر کرتی ہے، اوراسے یہ قوتیں پانچ سال کی عمر ہی میں حاصل ہوگئی تھیں۔

سن 2002ء  میں موصوفہ نے کسی ماہر عامل کی طرح، پورے یقین سے اغوا ہونے والے ایک گیارہ سالہ بچے ’شان ہورن بیک (Shawn Hornbeck ) کے والدین سے کہا کہ ان کے بیٹے کو ایک گہری رنگت والے ہسپانوی شخص نے اغوا کیا ہے اور اس نے اسے قتل کردیاہے۔ تاہم پانچ سال بعد بچہ زندہ حالت میں والدین کو مل گیا جبکہ اسے اغوا کرنے والا ایک کاکیشین فرد تھا۔

2004ء میں سیلویا براؤن نے اغوا ہونے والی ایک لڑکی امینڈا بیری کی ماں سے کہا کہ اس کی بیٹی زندہ نہیں ہے۔ امینڈا19ماہ قبل اغوا ہوئی تھی۔ سیلویا نے کہا کہ اسے لڑکی کی جیکٹ نظر آرہی ہے جس پر اس کا ڈی این اے لکھا ہواہے۔ امینڈا کی ماں کو یہ خبر سن کر اس قدرصدمہ ہوا کہ وہ بستر کے ساتھ لگ گئی اور دو سال کے اندر ہی اندر مرگئی۔

تاہم 2013ء میں امینڈا زندہ منظرعام پر آگئی۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سیلویا براؤن کس قدر غیرذمہ دار تھی، اس کی ایسی بہت سی باتوں نے بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ وہ محض دولت جمع کرنے کی خاطر جھوٹ بولتی اور لوگوں کو یقین دلاتی تھی کہ اس کے پاس کچھ ایسی قوتیں ہیں جن کی مدد سے وہ گتھیاں سلجھاتی ہے۔ 2003ء میں اس نے مشہور امریکی لیری کنگ ٹی وی شو میں پیش گوئی کی کہ وہ 88 سال تک زندہ رہے گی۔

تاہم وہ 77 سال زندہ رہی۔سیلویا براؤن اپنی کتاب ’End of Days‘ میں دنیا کو خبر دینے کی کوشش کہ یہ دنیا کب ختم ہوگی۔ شاید اسے کہیں سے2020ء میں نمونیا جیسی وبا پھوٹنے کی اطلاع ملی ہو لیکن شاید بتانے والوں نے اسے مکمل خبر نہیں دی تھی کہ یہ وبا ووہان سے پھوٹے گی۔کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے سیلویا براؤن کی کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، امریکیوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیلویا کی پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتی رہیں ، اس کتاب کو خریدا۔ دراصل کورنا  وبا عام ہونے کے بعد کتاب کے ایک پیراگراف میں’’ سن 2020ء  ‘‘ اور ’’نمونیا جیسی بیماری‘‘ کے لفظوں نے اسے شہرت دی اور اس کی ریٹنگ اچھی خاصی کردی۔ سیلویا براؤن کی پیش گوئی کومشہور امریکی اداکارہ، ماڈل ’کم کارڈیشین‘  نے اپنی ٹویٹ میں شامل کیا جس کے بعد لوگوں کی توجہ اس کتاب کی طرف ہوئی۔

تاہم ایک امریکی مصنف اور انویسٹی گیٹر ’بنجمن ریڈفورڈ‘کا کہناہے کہ سیلویا براؤن نے ہزاروں پیش گوئیاں کیں جن میں چند ایک بظاہر ٹھیک بھی نظر آئیں تو یہ کون سی کمال کی بات ہے۔ امریکی ٹیلی ویڑن چینل‘ فوکس نیوز‘ نے سیلویا براؤن کے انتقال پر خبر دیتے ہوئے یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ وہ اپنی غلط ثابت ہونے والی پیش گوئیوں کی وجہ سے بہت زیادہ متنازعہ رہی اور اسی وجہ سے اس پر شدید تنقید ہوتی رہی۔سیلویا براؤن غریب والدین کی بیٹی تھی، اپنی اس محرومی کا ازالہ کرنے کے لئے اس نے بہت سے حربے اختیار کئے لیکن افسوس کہ زیادہ تر حربے منفی ہی تھے۔ وہ زندگی میں کئی بار فراڈ اور چوری کے الزامات میں پکڑی گئی۔اس نے ڈالرز بٹورنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمائے۔ مثلاً  مارچ 2011ء میں خبر عام کی کہ اسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ ڈونیشنز دی جائیں۔

سیلویا براؤن کی ذاتی زندگی کے بارے میں یہ سب کچھ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ 2020 میں نمونیے جیسی وبا پھوٹنے کی پیش گوئی کے پیچھے کوئی علم اور مہارت نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے بتایاگیاہے کہ ممکن ہے کہ اسے کہیں سے خبر ملی ہو کہ 2020ء کے قریب قریب ایسی وبا پھوٹے گی۔ایک خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے دوسری اقوام کے خلاف جو منصوبے بناتی ہے، انہی منصوبوں کی خبر پاکر ناول نگار ناول لکھتے ہیں، مصنفین تجزیاتی کتابیں لکھتے ہیں اور فلم ساز فلمیں بناتے ہیں۔

کہاجاتاہے کہ کورونا وائرس کی پیش گوئی ایک فلم میں بھی کی گئی۔2011ء میں ریلیز ہونے والی فلم’کونٹیجن‘(contagion) میں بہت سے معروف اداکاروں ، اداکاراؤں نے کام کیا لیکن اس کے باوجود یہ فلم مقبول فلموں کی فہرست میں بہت نیچے تھی تاہم کورونا وائرس پھوٹا اور اس کے نتیجے میں جس طرح دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی، اس کے بعد ’کونٹیجن‘ کی کہانی لوگوں کو یاد آئی۔ فلم میں ایک کاروباری خاتون چین جاتی ہے، وہاں ایک شیف سے ہاتھ ملاتی ہے جس کے نتیجے میں ایم ای وی ون نامی ایک وائرس اس میں داخل ہوتاہے۔

شیف کو یہ وائرس ایک ذبح شدہ سور سے لگتا ہے اور سور کو ایک چمگاڈر سے۔چین کے دورے سے وہ واپس گھر پہنچتی ہے تو وہ بیمار پڑجاتی ہے۔ اسے سانس کی شدید تنگی درپیش ہوتی ہے۔ بیماری شدت اختیار کرلیتی ہے اور پھر چند دن بعد وہ ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی اثنا میں اس کا بیٹا بھی اس سے متاثر ہوتاہے ، وہ بھی ہلاک ہوجاتاہے ، شوہر بھی متاثر ہوتاہے لیکن وہ اپنی قوت مدافعت کے مضبوط ہونے کی بنا پر بچ جاتاہے۔بعدازاں پتہ چلتاہے کہ یہ وائرس اس گھرانے سے دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو شکار کرلیتاہے، پھر پوری دنیا میں پھیل جاتاہے۔

ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی اس فلم میں جب  وبا پھیلنے کا شبہ ہوتا ہے تو ایک اصلی ادارے ’ایپی ڈیمک انٹیلی جنس سروس‘ کے عملے کو روانہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ متاثرہ لوگوں کی شناخت اور انھیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کریں۔ نتیجتاً فلم میں امریکی شہر شکاگو کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔ فلم میں دکھایاجاتاہے کہ وائرس کے سبب ایک ماہ کے اندر پوری دنیا میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ فلم میں دنیا کا منظرنامہ ایسا ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کا دل دہل جاتا ہے، ہرطرف افواہوں اور تشویش کا راج ہوتاہے۔

معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ لوگ قرنطینہ میں جاتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ معاشروں میں لوٹ مار کے واقعات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ائر پورٹ خالی ہوجاتے ہیں۔ فلم میں  جہاں بے شمار متاثرین دکھائی دیتے ہیں، وہاں ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جو اس بیماری کے لئے ویکسین تیار کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی تو اس کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی لوری جیرٹ نے کہا تھا کہ ’’اس کا پلاٹ کچھ افسانوی اور کچھ حقیقی یا پھر ممکن ہے کہ مکمل ہی حقیقت ہو‘‘۔

فلم کے ایم ای وی ون نامی وائرس اور کورونا وائرس کے مابین کئی مشابہتیں ہیں۔ اولاً فلم میں یہ وائرس ایک چمگادڑ سے ایک چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانور میں منتقل ہوا اور پھر امریکی خاتون تک پہنچا۔کورونا وائرس کے بارے میں بھی یہی کہاجارہا ہے کہ یہ چمگادڑ سے شروع ہوکر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ’سور‘ کے ذریعے ایک شخص میں منتقل ہوا، وہ اپنے ہاتھ نہیں دھوتا تھا، لوگوں سے ہاتھ ملاتاتھا، یوں بیماری آگے مزید انسانوں میں منتقل ہوئی۔ فلم میں اس بیماری کے پھیلاؤ کا وقت 72 گھنٹے بتایاگیا جبکہ کورونا کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس کی افزائش کا وقت ایک دن سے 14دن تک ہوتاہے۔فلم میں دکھائی جانے والی بیماری اور کورونا وائرس میں فرق یہ ہے کہ فلم میں وباسے29 دنوں میں دنیا بھر میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں یہ تعداد 29 دنوں میں 210  تھی ۔ فلم کی بیماری اور کورونا وائرس میں مزید کئی تضادات ہیں تاہم پھر بھی اسے حالیہ عالمی وبا کے قریب تر دیکھا جارہاہے۔

سن 2018ء میں دکھائے جانے والے جنوبی کوریا کے ایک ٹی وی ڈرامہMy Secret Terrius جو نیٹفلیکس پر بھی موجود ہے، کی دسویں قسط میں  بھی کافی حد تک درست باتیں کی گئیں۔ ڈرامہ میں ایک ڈاکٹر ایک کردار سے گفتگو کرتے ہوئے بتاتی ہے:’’ کورونا وائرس نظام تنفس پر حملہ آور ہوتاہے، زیادہ خطرے والی بات یہ ہے کہ یہ دو سے 14دن کے اندر نشوونما پاتاہے۔جب یہ وائرس پھٹتا ہے تو اگلے پانچ منٹ کے اندر اندر پھیپھڑوں پر حملہ کرتاہے۔جب اس سے پوچھا جاتاہے کہ کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ اس نے کہا کہ’’ نہیں، اس وقت تک اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘  ڈرامے میں ایک دوسری جگہ پر بچوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ وائرس سے بچاؤ کے لئے اپنے ہاتھ دھوئیں۔

اسی طرح1993ء میںThe Simpsons  نامی ایک کارٹون سیریز میں بھی کورونا وائرس کی خبر دی گئی تھی۔ اس کے چوتھے سیزن۔ اکیسویں قسط میں دکھایاگیا کہ براعظم ایشیا سے ایک پراسرار قسم کا وائرس سپرنگ فیلڈ نامی ایک شہر میں داخل ہوتاہے۔ اس ڈرامہ کے مطابق یہ بیماری جاپان سے پیدا ہوتی ہے، اسے ’اوساکا فلو‘ کا نام دیاجاتاہے۔

یہ جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتاہے۔ اس کے ایک سین میں غصے سے بھرے ہوئے مریضوں کو دکھایاجاتاہے جو علاج کے لئے ایک ہسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر انھیں کہتاہے کہ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے بستر پر لیٹ جاؤ۔سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سمپسن نے واقعتاً ٹھیک پیش گوئی کی تھی۔یہ تو فکشن کی باتیں ہیں، دوسری طرف بہت سے سنجیدہ شخصیات نے بھی کورونا وائرس کے آنے کی نہ صرف خبر دی بلکہ اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کی پیشگی تیاری نہیں کررہی ہے۔

یادرہے کہ تقریباً سب ہی شخصیات امریکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں سے ایک مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس بھی ہیں۔ 2015ء میں بل گیٹس نے ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر دنیا میں فلو جیسی کوئی عالمی وبا پھوٹتی ہے تو  ورلڈبنک کے مطابق دنیا تین کھرب ڈالرز کا نقصان اٹھائے گی اور لاکھوں افراد ہلاک ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ دنیا اس بیماری کے لئے تیار نہیں ہے۔2018ء میں میساچوسٹس میڈیکل سوسائٹی کی ایک تقریب میں انھوں نے کہا کہ اگلے عشرے میں دنیا میں مختلف وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 2018ء میں پھوٹنے والی فلو جیسی بیماری جس میں پچاس ملین لوگ ہلاک ہوئے تھے، جیسی وبا پھوٹ سکتی ہے، ممکن ہے کہ چھ ماہ می 30 ملین افراد ہلاک ہوجائیں۔انھوں نے کہاتھا، ہوسکتاہے کہ یہ قدرتی بیماری ہو یا پھر ’ویپنائزڈ ڈیزیز‘ ہو۔ حیاتیاتی جنگوں کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے، وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

دنیا کو ان وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی طرح سنجیدگی سے تیاری کرنا ہوگی جیسے جنگ کے لئے کی جاتی ہے۔متعدی امراض کے ماہر مائیکل آسٹرہوم نے2017ء میں”Deadliest Enemy: Our War Against Killer Germs.” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں انھوں نے لکھا کہ امریکا نے وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب تیاری نہیں کی۔ اس سے پہلے 2005ء میں انھوں نے کہاتھا کہ تاریخ کا سنگین مرحلہ شروع ہوچکا ہے، آنے والی وبا کے لئے تیاری کا وقت نکلا جارہاہے، اب ہمیں فیصلہ کن اور بامقصد کام کرنے ہوں گے۔

وائرلوجسٹ اور فلو ایکسپرٹ رابرٹ جی ویبسٹر نے بھی اپنی ایک کتاب”Flu Hunter: Unlocking the secrets of a virus,” میں پیش گوئی کی تھی، انھوں نے اس سوال کا جواب’ہاں‘ میں دیاتھا کہ کیا دنیا کو تہہ وبالا کرنے والی وبا آسکتی ہے؟ اور کہاتھا کہ امکان کی بات ہی نہیں ہے، بس! صرف اس وقت کا انتظار کرو۔انھوں نے لکھا تھا کہ فلو جیسی وبا آئے گی، جسے قابو کرنے تک لاکھوں افراد ہلاک ہوجائیں گے۔

2018ء میں ایک امریکی انٹیلی جنس ٹیم نے بھی ایک جراثیم سے خبردار کیاتھا جو آسانی سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے اور اسے ایک بہت بڑا خطرہ قراردیاتھا۔جنوری2019کے آخری دنوں میں ایک بار پھر انٹیلی جنس ٹیم نے کہاتھا کہ فلو کی وبا پھوٹنے والی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جائیں گے ، عدم استحکام پیدا ہوگا ، عالمی معیشت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، عالمی وسائل میں سخت کمی واقع ہوجائے گی ، امریکا سے بڑے پیمانے پر امداد کی اپیلیں کی جائیں گی۔

سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں یو ایس ایڈ کے’آفس آف یو ایس فارن ڈیزاسٹر اسیسٹنس‘   کے ڈائریکٹر جرمنی کونینڈیک نے2017ء میں ایک مضمون لکھا جس میں پیش گوئی کی تھی کہ 1918ء کے سپینش فلو( جس میں ایک تہائی دنیا متاثرہوئی تھی، 50سے 100ملین افراد ہلاک ہوئے تھے) جیسی وبا پھوٹنے والی ہے۔ یہ صحت کا عالمی بحران ہوگا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آئے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب آئے گا۔انھوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس وبا کے لئے کوئی تیاری نہیں کی۔

وائٹ ہاؤس نیشنل سیکورٹی کونسل کی سابق رکن ڈاکٹرلوسیانا بوریو نے2018ء  میں فلو کی وبا سے خبردار کیاتھا اور اسے سب سے بڑا خطرہ قراردیاتھا۔انھوں نے کہاتھا: ’’کیا ہم نے اس کی تیاری کی ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ اس کا جواب ہوگا:’’ نہیں۔‘‘

2006ء میں فلوپینڈیمک پریپیرڈنس پلان میں ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ چالیس لاکھ بیمار ہوسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ دس لاکھ لوگوں کا ہسپتالوں سے باہر علاج کرنا ہوگا، 80ہزار مریضوں کا ہسپتالوں میں علاج ہوگا، 20ہزار ہلاک ہوسکتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی پیش گوئیاں کرنے والے قریباً تمام افراد ہی امریکی ہیں۔ دنیا میں کسی دوسری قوم کے افراد کو یہ وبا آتے ہوئے محسوس نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ان امریکیوں کو کیسے خبر ہوئی کہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی ایک وبا آئے گی جو ’فلو ‘ ہوگی اور 1918ء میں آنے والی وبا جیسی ہوگی؟ یہ تمام شخصیات اس سوال کا جواب دینے سے انکاری ہیں۔فلم ’’کونٹیجئین‘‘ کے مصنف سکاٹ زیڈ برنز سے جب پوچھاگیا کہ کورونا وائرس اور آپ کی فلم میں دکھائی جانے والی بیماری کے درمیان مماثلت کیسے ہوگئی؟ انھوں نے کہ بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا کہ  یہ بات اس قدر اہم نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جیسا کہ بل گیٹس نے ایک اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ آنے والی وبا ویپنائزڈبیماری ہو۔

وہ شاید براہ راست ’بائیولوجیکل وارفیر‘ کا لفظ استعمال نہیں کرناچاہ رہے تھے۔اگرایسا ہے ، جیسا کہ اشارے مل رہے ہیں اور ایک بڑی طاقت کی طرف سے اپنے مخالف دو ممالک کے خلاف یہ بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کیے جانے کا تاثر مضبوط ہورہاہے۔چین کی طرف سے باقاعدہ امریکا کی طرف واضح اشارہ دیاجاچکاہے۔چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان  لی جیان ژاؤ نے کہا تھا کہ ’ بہت حد تک ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکی فوجی چینی شہر ووہان میں لائے ہوں۔‘ انھوں نے صاف انکار کیا کہ  یہ وائرس ووہان میں پیدا نہیں ہوا۔اسی طرح چین کے انفیکشن ڈیزیزز کے معروف ماہر زونگ نانشان کا کہناہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کا پہلا شکار چینی باشندہ ہوا ہے لیکن  اس وائرس  نے چین میں جنم نہیں لیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار’ گلوبل ٹائمز‘ نے لکھاتھا کہ کورونا وائرس امریکا میں پہلے سے موجود تھا، 2019ء میں 37 ہزار افراد اس سے متاثر ہوکر ہلاک ہوئے  لیکن امریکی ماہرین ان کے مرض کی درست تشخیص کرنے میں ناکام رہے تھے۔دوسری طرف چین سمیت دنیا کے بعض حصوں میں بعض  لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس امریکا کا چین پر بائیالوجیکل حملہ ہے۔

یہ منصوبہ برسوں پہلے تیار ہوا اور طے کیا گیا کہ یہ وائرس ’ووہان‘ میں لے جا کر کھولنا ہے۔ امریکی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے۔چین میں یہ  کہانی عام ہوچکی ہے کہ اکتوبر 2019ء میں ووہان میں ساتویں ملٹری ورلڈ گیمز ہوئیں، امریکا سے300 فوجی کھلاڑی آئے۔ وہی یہ وائرس لے کر آئے تھے۔ یہ کہانی بھی عام ہورہی ہے کہ چین میں امریکی سفارت خانے سے وائرس کی ٹیوبیں پکڑی گئی تھیں۔اور امریکا میں جو وائرس پھیلا، وہ ’جوابی وار‘ کا نتیجہ ہے جبکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ بائیالوجیکل جنگ پہلے سے جاری تھی، بس! دسمبر2019 میں  دنیا پر آشکار ہوئی۔

کورونا وائرس بائیالوجیکل جنگ ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے قطعی فیصلہ کہیں سے نہیں آئے گا۔ بدقسمتی سے دنیا میں کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو اس کافیصلہ کرسکے۔ ہر عالمی ادارہ کمزور ہے اور  بعض عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہے۔ ایسے میں سازشی تھیوریز دنیا پر غلبہ قائم کیے رکھیں گی۔ ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ جنگیں  نوٹیفکیشن جاری کرکے شروع نہیں ہوتیں۔

اگر کورونا وائرس کوئی بائیالوجیکل ہتھیار ہے تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ اب مختلف ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کی افواج کی بجائے عوام کو نشانہ بنا رہی ہیں۔تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر اقوام کو اپنے بچاؤ کی خاطر اٹھ کھڑے ہوناچاہئے ، وہ دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کرنے پر زور دیں جہاں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال نہ کئے جائیں۔

جو ملک بھی ایسا کرے ، باقی پوری دنیا مل کر اس کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ تجویز معصومانہ لگے لیکن ایسا کرنا ہی پڑے گا، صرف اسی صورت میں پوری دنیا کے انسان زندہ رہ سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ عقل مندی ہے، اقوام ایک دوسرے کو ختم کرکے اس دنیا کو خالی کردیں؟

The post عالمی وباء کی پیش گوئی پر مبنی ساری تخلیقات امریکہ ہی میں کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا نے سیاحت کو بھی وینٹیلیٹر پر ڈال دیا

$
0
0

دہشت گردی نے دیگر شعبہ ہائے زندگی سمیت سیاحت کو بھی کافی متاثر کیے رکھا جس کے باعث اس شعبے سے وابستہ افراد فاقوں پر مجبور ہوگئے، یوں دکھائی دے رہا تھا کہ یہ شعبہ پھر کبھی اپنے پاؤں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھ پائے گا۔

وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ دہشت گردوں نے سیاحت کے مرکز سوات سمیت دیگر جنت نظیر علاقوں کو بھی زیرتسلط رکھا جہاں چوکوں میں سرعام لوگوں کے گلے کاٹے اور انہیں تختہ دار پر لٹکایا جاتا رہا، لیکن ایک طویل، کٹھن اور صبرآزما دور کے بعد سیکیوریٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت جب دہشت گردوں کی قوت کا قلع قمع ہوگیا اور امن کے شادیانے بجنے لگے، تو لوگوں میں پھر سے جینے کی امنگ نے انگڑائی لی، خوف کے سائے تلے کئی ماہ وسال بتانے کے بعد لوگ ایک نئی صبح کی امید پر آگے بڑھنے لگے، پھر سے اجڑے دیارآباد ہونے لگے، کھیت کھلیان ہرے بھرے ہونے لگے اور لہلہاتی فصلیں ایک نئے اور بہتر مستقبل کی نوید سنانے لگیں۔

سڑکوں اور شاہراہوں پر پھر سے گاڑیوں کا سیلاب امڈنے لگا، تو ایک عالمی وبا کورونا وائرس نے ہر چیز کو بریک لگا، دنیا بھر میں لاکھوں اموات وقوع پذیر ہونے لگیں، زندگی کا پہیا جام ہونے لگا۔ پوری دنیا سمیت اس زہرقاتل نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑے، متاثرین کی تعداد آئے دن بڑھنے کے ساتھ ہر شعبہ زندگی شدید طور پر متاثر ہونے لگا، یہاں تک کہ نوبت فاقوں تک آن پہنچی، ان شدید ترین متاثرہ شعبہ جات میں سیاحت کا شعبہ بھی شامل ہے جس نے ابھی ابھی گھٹنوں کے بل چلنا سیکھا تھا۔

کیوں کہ حکومت نے بھی اس شعبہ کو خاص اہمیت دینا چاہی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں اگر کسی شعبے میں کچھ تھوڑا بہت کام ہوا تو یہی شعبہ ہے، اس وقت اس کی باگ سابق وزیرسیاحت عاطف خان کے ہاتھ میں دی گئی جنہوں نے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں صوبے کی سیاحت پر بطورخاص مرکوز رکھی جس سے یہ شعبہ توانا ہوتا گیا۔

گذشتہ برس ریکارڈ تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاحوں نے پاکستان اور بطورخاص خیبرپختون خوا کے حسین اور قدرتی نظاروں سے خوب لطف اٹھایا کیوں کہ خیبرپختون خوا قدرت کے حسین نظاروں سے مالامال ہے جہاں بلندوبالا سرسبزپہاڑ، آبشاراورقدرتی جھیلیں سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں، ان سیاحتی مقامات میں بابوسرٹاپ، ناران، کاغان، مالم جبہ، کالام، شوگران، چترال اورگلیات ایسے علاقے ہیں جہاں نہ صرف ملکی بلکہ غیرملکی سیاح بھی کھچے چلے آتے ہیں، قدرتی مناظر سے مالامال ان علاقوں تک سیاحوں کی رسائی اگرچہ قدرے مشکل رہتی ہے۔

اس کے باوجود ہر سال سیاحوں کا ان علاقوں آنا جانا لگا رہتا ہے اور سیاح کئی گھنٹوں کا راستہ طے کرنے کے بعد ان علاقوں تک پہنچ ہی جاتے ہیں، دوردراز علاقے ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو سہولیات کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے لیکن قدرتی نظارے دیکھنے کے لیے سیاح ان مشکلات کی پروا نہیں کرتے۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ سیاحت کے فروغ اور ان علاقوں میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی توجہ دیناشروع کردی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات پر اس جانب خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے۔

اس لیے خیبرپختون خوا کے محکمہ سیاحت کی جانب سے سیاحت کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا گیا ہے، حکومت کی جانب سے خیبرپختون خوا کے دوردراز سیاحتی مقامات جن تک سیاحوں کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور وہ سیاحوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں وہاں تک رسائی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لیے مالی سال کے بجٹ میں اضافہ کرنے سمیت سالانہ اولیت دی گئی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے لیے بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں، ساتھ ہی خیبرپختون خوا حکومت نے پہلی بار سیاحوں کے لیے ٹورازم پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا، اس حوالے سے ابتدائی طور پر تقریباً 690 ٹورازم پولیس اہل کار سوات، کاغان، ناران اور گلیات میں تعینات کیے گئے۔

وزیراعلٰی کی خصوصی ہدایت پر سوات کے علاقوں لنڈاکے، شموزئی، شانگلہ ٹاپ ، بحرین، مدین، کالام سمیت دیگر علاقوں میں اسکواڈ تعینات کیا گیا۔ ان پولیس اہل کاروں کی تربیت کے لیے تھائی لینڈ کی حکومت سے رابطہ کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ اناکڑ، گبین جبہ الائی، گنول سمیت تمام سیاحتی مقامات پر کیمپنگ پاڈز فعال بنائے گئے، صوابی کے علاقے ہنڈ کے مقام پر واٹر پارک بنانے پر بھی غورکیا جا رہا ہے، شوگران بازار کی خوب صورتی کے لیے پلان ترتیب دینے سمیت پاڑہ چنار، تیراہ اور سمانا میں سیاحتی مقامات پر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

انہیں اقدامات کی بدولت گذشتہ عیدالفطر کی تعطیلات میں 20 لاکھ سیاحوں نے سیاحتی مقامات کا رخ کیا جس میں سوات بازی لے گیا جہاں دس لاکھ سیاح چار روز میں داخل ہوئے ، محکمہ سیاحت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 20 لاکھ سے زائد سیاحوں نے سیاحتی مقامات کی سیر کی، ملاکنڈ ڈویژن میں 2 لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں۔

ان سیاحوں نے سوات، بونیر، دیر بالا، لوئردیر، چترال اور شانگلہ بھی دیکھا، سوات میں 10 لاکھ سیاح دلکش نظاروں سے محظوظ ہوئے، دیر چترال اور بونیر میں 41 ہزار گاڑیوں کے ذریعے تقریباً 2 لاکھ سیاحوں نے پر فضاء مقامات کے نظارے دیکھے، 63 ہزار گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کے ذریعے4 لاکھ سیاح گلیات میں داخل ہوئے، 23ہزار859 گاڑیاں کاغان میں داخل ہوئیں، 2 لاکھ سیاحوں نے ناران کا رخ کیا۔

لیکن جیسا کے اوپر ذکرکیا جاچکا ہے کہ اس مرتبہ سیاحتی سیزن شروع ہونے کے ساتھ ہی تمام سرگرمیوں کو کورونا نے بریک لگادی جس کے باعث رواں سیزن میں سیاحت کے شعبے اور اس سے وابستہ لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، خیبر پختون خوا میں کورونا سے سیاحتی رونقیں ماند پڑنے لگیں جب کہ سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہوگئے، صرف ضلع سوات میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد رمضان المبارک گزارنے کے لیے کرائے کے مکانات میں رہائش اختیار کرتے تھے اور چاند رات کو یہ تمام سیاح اپنے علاقوں کو واپس لوٹ جاتے تھے۔

پھر عید کے دوسرے یا تیسرے روز سوات کے مختلف علاقوں میں دوبارہ یہ سیاح امڈ آتے جس کے باعث شاہراہوں ، ہوٹلوں اور بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی، پچھلی عید پر ریکارڈ تعداد میں سیاحوں نے ان علاقوں کی سیر کی جس کے باعث پھر سے یہ امید ہو چلی کہ سیاحت اپنی آب وتاب کے ساتھ مزید چمکے گی جس سے یہاں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور لوگوں کی زندگی خوش حال ہوجائے گی۔ تاہم کورونا وائرس کے باعث اب ضلع سوات سمیت گلیات میں بھی سیاحتی مقامات ویران اور ہوٹلز خالی پڑے ہیں۔ سوات کا سیاحتی مقام مالم جبہ جہاں پہلے صرف گرمیوں میں سیاح آتے تھے اب وہاں سال کے بارہ ماہ سیاحت عروج پر رہتی ہے۔ یہ عالمی شہرت یافتہ علاقہ بھی ویران اور سنسان پڑا ہے، یہاں کے ہوٹلوں میں ہوکا عالم ہے، جب کہ مقامی لوگ سیاحوں کی راہ تھکتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے مالم جبہ کے ایک مقامی رہائشی گل حمید نے بتایا کہ کوروناوائرس کی وجہ سے معمولات زندگی جام ہوکر رہ گئی ہیں، ہمارے لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحوں سے وابستہ ہے جب سیاح آتے ہیں تو ہمارے گھروں میں چولہے جلتے ہیں دوسری صورت میں تلاش معاش کے سلسلے میں دیگر علاقوں کا رخ کرتے لیکن اس کورونا نے تو سب کچھ جام کردیا، اب ہمیں اپنی جان کے لالے پڑے ہیں، بچے بھوک سے بلبلارہے ہیں، جب کے سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگ گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب سوات میں ہوٹل ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کلیم خان، اقبال گل اور ریاض خان نے بتایا کہ یہاں پر قائم ہوٹلز کے نرخ مری اور ملک کے دیگر سیاحتی مقامات سے پچاس فی صد کم ہیں۔ اس لیے زیادہ تر سیاح یہاں آنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے باعث یہاں معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی ہیں لیکن کورونا وبا نے سوات کی مسکراہٹ ایک بار پھر چھین لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ پر بندش کے باعث سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں، ضلع میں اشیاء خوردونوش کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، جب کہ حکومتی سطح پر یہاں کے عوام کو ابھی تک کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا اور نہ احساس پروگرام کے تحت مستحق افراد کو رقم ملی ہے جس سے ان میں بے چینی پیدا ہونا فطری امر ہے، اس لیے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی برتی جائے تاکہ یہاں کے لوگ مزید فاقہ کشی کا شکار نہ ہو، ساتھ ہی ہوٹلزانڈسٹری کو خصوصی پیکیج دیا جائے یا ٹیکسز میں مکمل طور پر چھوٹ دی جائے۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کے مطابق کوروناوائرس کے باعث سیاحتی مقامات پر جاری تمام منصوبے تعطل کا شکار ہوچکے ہیں، حکومت نے ان منصوبوں پر کام روک دیا ہے جب کہ ان سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے جانے پر پابندی عائد کردی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس ضمن میں اس شعبے کو تقربیاً دو ارب روپے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اسی طرح مقامی آبادی بھی خاصی متاثر ہورہی ہے، کیوں کہ ان کا انحصار سیاحت پر ہے۔

ٹورازم ایکٹ کے سیاحت پر مثبت اثرات

قدرتی حسن سے مالامال یہ علاقے ماضی کی حکومتوں کی آنکھ سے اوجھل رہے، سڑکوں کی تعمیر، رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے لیکن انتخابات میں تحریک انصاف کی کام یابی کے بعد موجودہ خیبرپختون خوا حکومت نے سیاحت پر خصوصی توجہ دینا شروع کردی۔

وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں، سیاحت کا محکمہ جب عاطف خان کو دیا گیا تو انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات شروع کیے۔ گذشتہ مالی سال کے بجٹ میں سیاحت کے حوالے سے خطیر رقم مختص کی گئی جب کہ دوسری طرف حکومت غیرسرکاری تنظیموں سے مل کر بھی سیاحتی ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت بیرون ملک خیبرپختون خوا کے سیاحتی مقامات کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبے کو سیاحت کے حوالے سے کافی نقصان پہنچا جس کے باعث غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن حالات کے بہتر ہونے کے بعد غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا، غیرملکی سیاح نہ صرف پشاور سمیت میدانی علاقوں کی سیر کرنے لگے بلکہ پہاڑی علاقوں تک رسائی کا سلسلہ بھی تیزہوگیا، غیرملکی سیاح چترال میں چلم جوشٹ، کمراٹ فیسٹول اور شندور پولو فیسٹول میں شریک ہوتے رہے، اس سلسلے میں حکومت غیرملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

گندھارا تہذیب کے حوالے سے بھی خیبرپختون خوا کی ایک طویل تاریخ ہے، بدھ مت کے اثرات کے باعث مذہبی سیاحت کو بھی فروغ مل رہا ہے، پشاور، سوات اور تخت بھائی میں موجود بدھ مت کے مقامات دیکھنے کے لیے مختلف ممالک کے سیاح ان مقامات پرآنا شروع ہوگئے، حکومت نے سیاحت کے فروغ ، سیاحتی مقامات پر سہولیات کی فراہمی اور سیاحتی مقامات کے تحفظ کے لیے سیاحتی پالیسی بنائی جس کی منظوری خیبرپختون خوا اسمبلی نے دی، اس سلسلے میں ٹورازم ایکٹ 2019 کی ایوان نے منظوری دی۔

خیبرپختون خوا ٹورازم ایکٹ 2019 کے مطابق سیاحت کے فروغ کے لیے وزیراعلی کی نگرانی میں بورڈ تشکیل دیا جائے گا، بورڈ میں وزیر سیاحت، وزیرخزانہ، وزیر ماحولیات، چیف سیکرٹری، سیکرٹری سیاحت، سیکرٹری ماحولیات، پرائیویٹ سیکٹر سے تین ارکان اور ڈی جی ٹورازم اتھارٹی شامل ہوں گے، بورڈ صوبے میں پانچ سال کے لیے صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے حکمت عملی مرتب کرے گا، ایکٹ کے تحت ٹورازم اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا، وزیر سیاحت اتھارٹی کے چیئرمین ہوں گے، مذکورہ ایکٹ کے تحت سیاحتی زونزکا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

حکومت نے سیاحت سے وابستہ شعبوں کو فروغ دینے کے لیے سیاحتی زونز کے قیام کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا، سیاحتی مقامات پر ٹریفک اور پولیس سے جڑے مسائل کے حل کے لیے ٹورازم پولیس بھی قائم کی جارہی ہے۔

اس ایکٹ کے ذریعے ٹورازم پولیس کا کردار بھی وضع کیا گیا ہے، ایکٹ کے مطابق ڈیپوٹیشن پر آنے والے پولیس اہل کاروں کی تقرری تین سال اور دوبارہ دو سال کے لیے ہوسکے گی اور کسی بھی سیاحتی مقام پر مدد کے لیے یہ مقامی پولیس کو طلب کرسکے گی، ٹورازم فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایاجائے گا، اتھارٹی نجی شعبہ کے تعاون سے معاملات کو چلانے کی مجاز ہوگی، اتھارٹی ٹورازم لائسنسوں کے اجراء ومنسوخ کرنے کی ذمہ دار ہوگی جب کہ سیاحوں سے سیاحتی ٹیکس وصولی کی بھی مجاز ہوگی۔

اسی طرح سیاحتی مقامات پر خلاف ورزیوں پر سیاحوں کو10 ہزار روپے تک جرمانہ جب کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کا کیس عدالت بھجوایا جائے گا، اتھارٹی کے سیکرٹری کے فیصلوں کے خلاف محکمہ سیاحت کے سیکرٹری کی سربراہی میں کام کرنے والے ایپلٹ ٹریبول کو پندرہ دنوں میں اپیل کی جاسکے گی ، ایکٹ کے تحت ٹورازم ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو سرپلس پول میں ڈالا جائے گا جب کہ ان ملازمین کی قسمت کا فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پرکیا جائے گا ان ملازمین کو ٹورازم اتھارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ اسکروٹنی کمیٹی کرے گی۔

اسی طرح خیبرپختون خوا حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحتی مقامات پر ایکو ٹورازم ویلج قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، پہلے مرحلے میں چترال کی تین وادیوں اور ہزارہ ڈویژن میں ٹورازم ویلج قائم کیے جائیں گے، جس کے ذریعے سیاحتی مقامات پر آنے والے سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی میں مدد ملے گی، اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایکوٹورازم تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے دوررس نتائج سامنے آرہے ہیں، اس لیے خیبرپختون خوا میں بھی ایکو ٹورازم ویلیج متعارف کئے جائیں گے۔

اس مقصد کے لیے مقامی افراد کو سرمایہ فراہم کرنے کے علاوہ باقاعدہ تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ ایکوٹورازم سے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سیاحتی مقام کمراٹ کو بھی جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمراٹ اور جازبانڈہ قدرتی حسن سے مالامال وادیاں ہیں جہاں وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورے کے دوران ان وادیوں پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی تھی کیوں کہ وزیراعظم ان علاقوں میں بنیادی انفرااسٹرکچر سمیت تمام سہولیات اور ترقی دینے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں، کالام سے کمراٹ اور جازبانڈہ تک 114 کلومیٹر کوریڈور بنایا جائے گا جس کے لیے ماسٹر پلان تیار کیا جارہا ہے۔ مذکورہ اقدامات سے پاکستان خصوصاً خیبرپختون خوا میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا ایک سافٹ امیج ابھرے گا۔

The post کورونا نے سیاحت کو بھی وینٹیلیٹر پر ڈال دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

منفرد پکوان۔۔۔ بنے دسترخوان کی جان

$
0
0

پکوان دسترخواں کی شان ہوتے ہیں۔مزے دار اورلذیزکھانے بھوک بڑھادیتے ہیں۔ ہر ملک اور خطے کے کھانوں کے حوالے سے اپنے منفرد نظریات ہوتے ہیں۔ جیسے ترکی کی ایک کہاوت ہے،’’زندگی غذاء سے بنتی اور بگڑتی ہے‘‘گویازندگی غذاء کے بنا ناممکن ہے۔

عام حالات میں سادہ غذاء سے ہی کام چلایا جاتا ہے مگر جب بات ہو خوشی کے تہواروں کی توایسی صورت میں خصوصی پکوان بنائے جاتے ہیں۔ویسے تو سب نے سن رکھا ہوگا کہ مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کر جاتا ہے مگر شایدیہ نہ جانتے ہوںکہ عیدپر رشتہ داروں اور عزیزوں کہ دل میں گھر کرنا بھی مزدار کھانوںسے ممکن ہے۔تو ہم آپ کو سب کہ دلوں میں گھر کر لینے کا گُر سیکھاتے ہیں تاکہ عید کا مزہ دوبالہ ہوجائے۔

لبِ شیریں

اجزاء :

دودھ ایک کلو۔مکس فروٹ ٹِن۔کریم ایک پیکٹ۔پاستہ سویّاں ( رنگ برنگی )پیکٹ کا چوتھائی حصّہ۔(اْبال لیں )سیب باریک کٹے ہوئے۔کیلے لمبائی میں باریک کاٹ لیں۔ آم باریک کاٹ لیں۔عرقِ گلاب ایک چائے کا چمچ۔کارن فلور ایک بڑا کھانے کا چمچ۔چینی ایک کپ۔

ترکیب:

ایک کلو دودھ میں سے تھوڑا سا دودھ نکال کر باقی چولہے پر رکھ دیں ، جب دودھ اْبلنے کے قریب ہو تو جس دودھ کو الگ رکھا ہے اس میں کارن فلور حل کرکے چولہے پر رکھے دودھ میں ڈال دیں۔آہستہ آہستہ چمچ ہلائیں اور پھر چینی بھی شامل کر دیں۔جب مناسب گاڑھا ہو جائے تو چولہا بند کردیں اور اس کو ٹھنڈا ہونے کے لیئے رکھ دیں ، ٹھنڈا ہونے پر اس میں فروٹ ٹِن میں سے آدھا فروٹ اور کریم شامل کر کے اچھی طرح بلینڈ کر لیں ، اب بچا ہوا آدھا فروٹ ٹِن کے فروٹ ، اْبالی ہوئی سویّاں ،سیب ، کیلا اور آم شامل کر کے ٹھنڈا ہونے کے لیئے رکھ دیں ،ٹھنڈا ہونے پر روح افزاء، کریم اور پستے بادام سے گارنش کریں۔

٭٭٭

پشاوری آئس کریم

اجزاء :

تازہ کریم آدھا لیٹرتازہ دودھ آدھا کلوونیلا ایسنس چند قطرے چینی۔۔ ایک پیالہ کیوڑہ ۔۔ ایک کھانے کا چمچ پستے چوپ کئے ہوئے چھ عددجیلٹن پاؤڈر۔۔ دو کھانے کے چمچے کارن فلور پانی میں گھلاہوا ایک کھانے کا چمچہ

ترکیب:

دیگچی میں دودھ ابالیں اور چینی ملالیں۔ اس میں چمچہ چلاتے ہوئے تھوڑا تھوڑا کارن فلور ملائیں اور گاڑھا ہونے پر چولہے سے اتارلیں۔ جب ٹھنڈا ہوجائے تو اس میں باقی تمام اجزاء شامل کر کے خوب اچھی طرح سے ملائیں، پھر ائیر ٹائٹ ڈبے میں نکال بھر کر فریزر میں رکھ دیں۔ آئس کریم اچھی طرح سے جم جائے تو پیالوں میں نکال کر پیش کریں۔

٭٭٭

بیکڈ چکن فنگرز

اجزاء :چکن فنگر کٹ۔۔۔ ایک کلو۔انڈے۔۔۔ دو عدد۔بریڈ کرمز۔۔۔ ایک کپ۔ادرک لہسن کا پیسٹ۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ۔مسٹرڈ پیسٹ۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ۔نمک۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ۔لیموں کا رس۔۔۔ ایک کھانے کا چمچہ۔کالی مرچ۔۔۔ آدھا چائے کا چمچہ۔پسی لال مرچ۔۔۔ آدھا چائے کا چمچہ۔تیل۔۔۔ چار کھانے کے چمچے۔

ترکیب:

چکن فنگرز بنانے کے لئے ایک کلو بون لیس چکن کو فنگرز کٹ میں کاٹ لیں۔پھر ان ٹکڑوں میں دو عدد انڈے ،ایک چائے کا چمچہ لہسن ادرک کا پیسٹ ،ایک چائے کا چمچہ نمک ،آدھا چائے کا چمچہ کالی مرچ ،آدھا چائے کا چمچہ پسی لال مرچ ،ایک چائے کا چمچہ مسٹرد پیسٹ اور ایک کھانے کا چمچہ لیموںکا رس لگا کرکچھ دیر کے لئے رکھ دیں۔پھر انہیں ایک کپ بریڈ کرمز میں رول کرلیں اور اوون پروف ڈش میں ڈال کر اوپر تیل ڈال دیں۔آخر میں اسے 180c میں آدھے گھنٹے کے لئے بیک کریں۔

٭٭٭

لکھنوی کباب

اجزاء :

گاے کا باریک قیمہ ایک کلو۔کچا پپیتہ کھانے کے تین چمچے۔پیاز (باریک کاٹ لیں) دو عدد۔گرم مسالہ پاوڈر کھانے کا ایک چمچہ۔ادرک چاے کا ایک چمچہ

لہسن پیسٹ چاے کے دو چمچے۔بادام 14 عدد۔لال مرچ پاوڈر چاے کے دو چمچے۔تیل کھانے کے دو چمچے۔نمک حسب زایقہ۔دہی آدھی پیالی

ترکیب:

سب سے پہلے قیمے میں پپیتا اور نمک ملا کر آدھے گھنٹے کے لیے رکھ دیں-اب ایک کڑاہی میں تیل گرم کریں اور اس میں باریک کٹی ھویی پیاز ڈال کر سنہری مایل کر لیں — اسکے بعد نکال کر ہاتھ سے مسل کر چورا کر لیں پھر قیمہ میں دہی ،لال مرچ،پیاز، ادرک اور چھلے ھوے بادام پیس کر ملا دیں –ساتھ ہی گرم مسالا ،کھانے کے دو چمچے تیل اور لہسن بھی ملا دیں-ایک بیکنگ ٹرے لیںاور قیمے کے گول کباب بنا کر ٹرے میں رکھیں اور اوون میں بیک کریں- براون ہونے پراوون سے نکال لیں۔پیاز ،ٹماٹر اور لیموں کے ساتھ سرو کریں۔مزے دار لکھنو کے کباب تیار ہیں۔

٭٭٭

کھوئے کی سویاں

اجزاء :

کھویا ڈیڑھ پاؤ۔سویاں ایک کلو۔بالائی آدھ کلو۔دودھ آدھ لیٹر۔چینی ایک کلو۔گھی ایک پاؤکیوڑا ایک بڑا چمچ۔بادام ایک چھٹانک۔کشمش آدھی چھٹانک۔پستہ آدھی چھٹانک۔لونگ دو تین عدد۔پسی زعفران آدھی چٹکی۔سبز الائچی چند عدد۔

ترکیب:

پتیلی میں گھی کو گرم کریں اور اس میں لونگ اور سبز الائچیاں ڈال کر بھون لیں۔ سویوں کو بھی بادامی رنگت آنے تک بھونیں۔ ان پر دودھ ڈالیں اور مدہم آنچ پر پکنے دیں۔ سویاں پک جائیں تو بالائی اور کھوئے کوملا کر پھینٹیں۔

٭٭٭

ایرانی آلو مکس کباب

آلو آدھا کلو۔گوشت ایک پیالی ابلا ہوا۔پیاز دو عدد۔ انڈے دو عدد۔بیسن دو چمچ۔گرم مصالحہ ایک چمچ۔ مرچ ایک چمچ۔نمک حسب ِ ذائقہ۔ ادرک ایک چمچ۔انار دانہ ایک چمچ۔ خشک دھنیہ ایک چمچ۔ پسا ہوا پودینا ایک چمچ۔ تیل ایک پیالی۔ دہی آدھا کپ

ترکیب

گوشت کے ریشے کرلیں اور ابلے ہوئے آلوؤں کو پیس لیں۔ پیاز کو پیس کر ابلے ہوئے آلو اور گوشت میں شامل کرلیں۔ بیسن، مرچ ، نمک، گرم مصالحہ، دہی، سبز دھنیا، ادرک اور پسا ہوا انار دانہ ملا کر مکس کرلیں۔اور اس آمیزے کو پیس کر گول ٹکیاں تیار کرلیں۔کڑاھی میں تیل گرم کرکے ٹکیوں کو میدے کے آمیزے میں ڈبو کر تل لیں۔

٭٭٭

موتی چور لڈو

بیسن ایک پاو۔ٔ چینی ایک پاؤ۔ گھی ایک پاؤ۔ عرق گلاب آدھی چھٹانک۔ زعفران چار ماشہ پسی ہوئی

 

بیسن کو گاڑھا سا پھینٹ لیں۔اس میں زعفران اور عرق گلاب ملا کر لڈو بنا لیں۔چینی میں آدھ پاؤ پانی ڈال کر شیرہ پکا لیں۔فرائنگ پین میں گھی کو خوب گرم کر یں اور لڈو ڈال کر تلتے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ تیار شدہ شیرے میں ڈالتے رہیں۔گھنٹہ بھر پڑا رہنے دیں۔ شیرہ جذب ہو جائے گا اور ذائقے دار لڈو تیار ہوں گے۔

tehreem.qazi@express.com.pk

The post منفرد پکوان۔۔۔ بنے دسترخوان کی جان appeared first on ایکسپریس اردو.

اس برس عید کیسے گزرے گی

$
0
0

عید خوشیوں اور مسرتوں سے بھرا تہوار ہے۔ تمام افراد چاہے ان کا تعلق جس بھی مذہب سے ہو وہ عید کے تہوار کو بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے عیدیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں خاص طور پر عیدالفطر کیونکہ ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو وہ اس خوشی کو اجتماعی سطح پر مناتے ہیں۔ ہر سال یہ تہوار مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

مگر اس بار حالات نے کچھ ایسی بازی پلٹی ہے کہ تمام افراد جہاں خوف و دہشت میں مبتلا ہیں وہیں وہ عید اور عید کی خوشیوں کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بظاہر وہ روایتی جوش و جنون مفقود پڑتا دکھائی دیتا ہے جو عموماً رمضان شروع ہونے سے قبل عید کی تیاریوں کی صورت نظر آتا ہے۔ رمضان سے قبل عید کی شاپنگ ‘ گھر کی ضروری اشیاء کی خرید و فروخت رنگ و روغن اور دیگر کام‘ خواتین کا بیوٹی پارلر کے چکر لگانا‘ مہندی اور میچنگ جیولری و جوتے پسند کرنا یہ سب موجودہ حالات میں روایتی انداز میں ممکن نہیں رہا۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ تیزی سے بدلتے رجحانات میں ڈئیجٹلائزیشن نے اپنی مضبوط جگہ بنا لی ہے۔ جس سے اب بہتآن لائن ممکن ہو گیا ہے۔

کاروبار سے وابستہ افراد نے سماجی رابطوں کے ذریعے لاک ڈاؤن میں آن لائن ڈیلز سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ خصوصاً میک اپ پروڈکٹس سے متعلق ڈیلز کی خوب دھوم رہی یہی نہیں بلکہ خواتین نے دھڑا دھڑ میک اپ اور کپڑوں کی آن لائن شاپنگ بھی کی۔ لیکن سب ہی کا تجربہ ایک سا نہیں رہا۔ اس روڈ میں مرد بھی پیچھے نہیں رہے تو کس کا تجربہ کیسا رہا۔ آئیے انہی کی زبانی سنتے ہیں۔

محمد سفیان کہتے ہیں کہ ’’آن لائن شاپنگ سے موبائل اور پاور بینک خریدنے کے تجربات تو شانداررہے، لیکن ایک مرتبہ میرے بھائی صاحب نے گارمینٹس خریدنے کا تجربہ کیا جو کہ اچھا نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی شاپنگ میں کیونکہ اشیاء کا جائزہ لینے کی پوزیشن نہیں ہوتی تو دکھائی جانے والی خوش نما تصاویر دھوکہ دے جاتی ہیں۔ڈبہ پیک موبائل کی خریداری قدرے محفوظ رہی ہے۔‘‘

نادیہ جو کہ ایک ہاوس وائف ہیں اکژ آن لائن اشیاء خریدتی رہتی ہیں اور کبھی تو یہ تجربہ اچھا رہتاہے تو کبھی برا۔ یوں جویریہ کہتی ہیں کہ ابھی تک وہ ایک مشہور شاپنگ ایپ سے جو کچھ خریدتی رہی ہیں وہ سب اچھا اور مناسب تھا، اگر کوئی مسلہ ہو تووہ ان کہ آفس جا کر چیز بدلا لیتی ہیں۔

اس ضمن میں عالیہ (سٹوڈنٹ) کا کہنا ہے کہ ’’آن لائن شاپنگ کا تجربہ ایک دم بکواس ہوتا ہے ۔ جو چیز دکھائی جاتی ہے وہ ایک دم نظر کا دھوکہ ہوتی ہے اور اس کا معیار استعمال شدہ مال سے بھی گرا ہوتا ہے۔ ہاں اگر معتبر برانڈز کی اصل ویب سائٹ سے خریداری کی جائے تو بالکل وہی چیز ہوتی ہے جو دکھائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر آن لائن شاپنگ بالکل بیکار ہے‘ جب تک انسان چیز خود اپنے سامنے دیکھ کر تسلی نہ کر لے تو اس وقت ہی حقیقی اطمینان قلب نصیب ہوتاہے۔‘‘

اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان چاہے کتنے ہی ڈیجئٹلدور میں رہ رہا ہو جو سکون و اطمینان اسے چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انہیں چھو کر تسلی کرنے سے ملتا ہے وہ ورچوئل رئیلٹیسے ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ ایسے افرادجو کہ دھوکہ بازی کے عادی ہوتے ہیں انہیں لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

آن لائن شاپنگ کہ اصول:۔  دنیاکا کوئی بھی کام ہو اس کو کرنے کا کوئی دھنگ ضرور ہوتا ہے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اچھی اور بری چیز کی پہچان ہو جائے۔آن لائن شاپنگ کرتے ہوئے مندجہ ذیل باتوں کوذہن میں رکھا جائے تو اچھی اور معیاری اشیاء کی خریداری ممکن ہے۔

ویب سائیٹ محفوظ(سیکور)ہے یا نہیں:۔  کبھی بھی پبلک وائی فائی کا استعمال مت کریں ، اس کہ بجا ئے موبائل ڈیٹا کا استعمال کئی زیادہ محفوظ ہے۔

کمپنی کی کسٹمر اور ریٹرن پالیسی کواچھی طرح سے پڑھ کر اطمینان کر لیں۔

ایسی ڈیلز جو بہت سستی دکھائی دیں ان سے ہوشیار رہیں۔ کاروبار کرنے والا کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، وہ ہمیشہ اپنا منافع دیکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے جو چیز بہت سستی فروخت کی جا رہی ہو اس کامعیار ہی کم تر ہو۔ جیسے ایسی اشیاء جن کی مدت معیاد ختم ہونے کو ہو انھیں فروخت کرنے کا بہترین انداز ڈیل کی صورت سستے داموں فروخت کرنا ہوتا ہے۔اور عموماً لوگ اس جھانسے میں آجاتے ہیں کہ سستی چیز مل رہی ہے۔

ہمیشہ جس سائیٹ یا پیج سے شاپنگ کرنا ہو اس کی لائیکس اور ریووز ضررو چیک کریں، ایسا کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سے لوگوں کا کیسا تجربہ رہا ہوگا۔

فیسبک اور انسٹاگرام پہ بنے غیر معروف پیجوں سے کچھ بھی خریدنے سے گریز کریں۔

جو بھی پروڈکٹ خریدیں پہلے اس کے ریووز پڑھیں کونکہ ضروری نہیں کہ جیسا تصویر میں دیکھایا گیا ہو وہ درست ہو۔

جب آپ کہیں سے آن لائن شاپنگ کریں تو استعمال کہ بعد اپنی آراء سے ضرور آگاہ کریں۔ کیونکہ آپ کا اچھا یا برا تجربہ مزید خریداری کرنے والوں کے لئے رہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔

گھر پہ پارلر:۔ عید ہو یا کوئی بھی تہوار خواتین اپنی زیبائش و آسائش پہ توجہ نہ دیں یہ ممکن نہیں۔ عید سے قبل ہوئی پالروں پر مہندی‘ فیشل‘ تھیریڈنگ ‘ ویکسنگ‘ کٹنگ ‘ مینی کیور اور پیڈی کیور کے لئے خواتین کا رش اس قدر ہوتا ہے کہ وہاں قدم دھرنے کی جگہ تک نہیں رہتی۔ لیکن اس بار کیونکہ حالات سماجی فاصلے اور احتیاط کا تقاضا کر رہے ہیں تو خواتین کے بھی تحفظات بے معنی نہیں۔ ایسے حالات میں عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خواتین کو گھروں پہ ہی پارلر کا سماع بنا لینا چائے۔

یقینا آپ یہ سن کر حیران ہوں گی کہ بھلا گھر پر پارلر وہ بھی کیسے؟ تو زیادہ حیرانی کو چھوڑیئے ہم آپ کو ایسی ٹپس دیتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر آپ گھر پر ہی اپنے حسن کو نکھرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہیں۔

چمکتی ہوئی شفاف جلد کے لئے دو چمچ دودھ کی بالائی لیں‘ اس میں ایک چٹکی ہلدی شامل کر یں ا ور چند قطرے شہد کے‘ آمیزے کو اچھی طرح مکس کر کے ایک موٹی تہہ چہرے پر بیس منٹ کے لئے لگا دیں۔نوٹ: یہ آمیزہ ہاتھوں اور گردن پہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔

جلد کی رنگت نکھارنے کے لئے کچے آلو کو چھیل کر دو حصوں میں تقسیم کریں اور ایک ٹکڑے کو اچھے سے کچل کر کپڑے میں پھیلا کر چہرے پر لگائیں۔ یہ عمل رات سونے سے قبل کریں اس سے عرق ساری رات چہرے میں جذب ہو گا۔ صبح روئی کے پھاہے کو پانی میں ڈبو کر اس کی مدد سے چہرہ صاف کریں اس کے بعد منہ دھو لیں۔

بہترین کلینزنگ سکرب کے لئے شہد اور بادام کا پیسٹ بنائیں اور اس میں چند قطرے لیمو کے ملا کر چہرے پر لگائیں اس سے چہرے کو ایک نئی چمک ملے گی۔

رنگت نگھارنے کے لئے پھل بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ دو سے تین سٹرابیری کو مسل کر اس میں چند قطے شہد اور لیموں کا رس ملا لیں اور 20 سے 30 منٹ کے لئے چہرے پرلگائیں ۔ کیلے مسل کر 20 منٹ تک چہرے پر ماسک لگانے سے بھی رنگت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔

گھر پہ آئی پروز بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک ٹیویزر (Twizer) لیں اور خود آئینے میں دیکھیں۔ اب کسی آئی پینسل کی مدد سے اپنی بھنوؤں کی شیپ واضع کر لیں۔ اب جو فالتوں بال ہیں انہیں نکالنا شروع کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ مناسب روشنی میں بیٹھی ہوں اور بھنویں بنانے سے قبل آئس کیوب سے مساج کرنے کافائدہ یہ ہو گا کہ درد نہیں ہو گا۔

tehreem.qazi@express.com.pk

The post اس برس عید کیسے گزرے گی appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


روندنے آیا اگر کعبۂ جاں، فیل کوئی
کنکری پھینک گئی آ کے ابابیل کوئی
اپنے ہاتھوں سے کریں اپنا مسیحا مصلوب
اور پھر چاہتے ہیں آئے گی انجیل کوئی
حیرتی اتنا ہے کیوں دیکھ کے آنکھیں میری
کیا کبھی دیکھی نہیں خشک ہوئی جھیل کوئی
لوگ اس دل کی مشقت کو کہاں سمجھیں گے
تھل میں کر دیکھے ذرا پانی کی ترسیل کوئی
ہائے دشواری کہ تلخیص نہیں ہے ممکن
اور تیار نہیں سننے کو تفصیل کوئی
میں سمجھتا تھا نکل آتا ہوں فن کاری سے
دیتا رہتا تھا حقیقت میں مجھے ڈھیل کوئی
خواب کو داد، کئی منزلیں طے آنکھ میں کیں
چل کے پانی میں دکھائے تو فقط میل کوئی
اپنی رفتار کے مختار بھلے ہم ہیں مگر
راستہ اور کرے ریل کا تبدیل کوئی
(حبیب احمد ۔ شورکوٹ ،ضلع جھنگ)

۔۔۔
غزل


جو شعبدہ گر ہیں سرِ افلاک رکھے ہیں
اور جتنے ستارے ہیں تہِ خاک رکھے ہیں
صحرا ہیں کسی پل میں سمندر ہیں یہ آنکھیں
تجھ سیر کو ہر طرح کی املاک رکھے ہیں
کمزور سفینے کا رواں ہونا کٹھن ہے
جس بحر میں جس دہر میں ہم دھاک رکھے ہیں
دنیا کے حوادث کا ہمیں خوف نہیں ہے
اپنا تو خیال اب شہِ لولاک رکھے ہیں
ہم میر جنوں پیشہ کے مذہب میں کٹر لوگ
صد پارہ جگر سینۂ صد چاک رکھے ہیں
(انعام کبیرکامونکی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


تھکن کی رات چراغوں نے اتنا پیار دیا
لووں کے رقص پہ میں نے سکون وار دیا
بدن مہکنے ہی والا تھا باغِ ہستی میں
کسی نے روح کے پہلو میں وقت مار دیا
دکھا کے خواب ستاروں کے اہل ِدنیا نے
مرے وجود کو زیرِ زمیں اتار دیا
جو ضبط میں نے پس ِ پردہ ٔ نگاہ رکھا
ترے بچھڑنے پہ رخسار سے گزار دیا
جدید جنگ میں بوڑھا سپاہی کیا کرتا؟
نئے مکاں نے پرانا درخت مار دیا
شبِ جمال اندھیرے کی نذر ہو جاتی
اگر نگاہ کو دیتا نہ اختیار دیا
(علی شیران۔شورکوٹ، جھنگ)

۔۔۔
غزل


زیاں ہوابنامِ تخت و تاج میرے بادشاہ!
دِلوں پہ گرنہیں کیاجو راج میرے بادشاہ
یہ وارداتِ عشق ہے کوئی مرض نہیں حضور
نہیں ہے اس کا اِس لیے علاج میرے بادشاہ
ہماری نسبتوں سے جوعمل مُضحکہ خیز ہے
وہ تُو کر ے تو چل پڑے رواج میرے بادشاہ
اُنہیں کے کل کووقت نے نہ دیں مزیدمہلتیں
بَدل نہیں سکے جو اپناآج میرے بادشاہ
کرم کی خشک سالیوں سے فصلِ خواب جل گئی
کڑا ہے وقت کاٹ لے بِیاج میرے بادشاہ
بہت سے لوگ بھوک سے مرے تھے پچھلے سال بھی
کثیر اس برس بھی ہے اناج میرے بادشاہ
چُرائیںیا خرید لیںجو بے کسوں کے اَشک ہیں
سجے گا ایسے موتیوں سے تاج میرے بادشاہ
(نجم الثاقب ۔میانوالی)

۔۔۔
غزل


اک عجب طورِ تماشہ مری دہلیز پہ تھا
کیا کہوں کیسا اجالا مری دہلیز پہ تھا
یعنی دنیا مری امداد کو آئی ہی نہیں
یعنی وہ شخص اکیلا مری دہلیز پہ تھا
میرے بھی دوست گئے تھے اسے سمجھانے کو
اس کا بھی ایک شناسا مری دہلیز پہ تھا
ایک دنیا کہ جسے سمت نما جانتی تھی
بجھنے والا وہ ستارہ مری دہلیز پہ تھا
شوخ سی چاپ مرے گھر میں اتر آئی تھی
جیسے اک میر کا مصرع مری دہلیز پہ تھا
اے شہہِ کرب و بلا کل تری دہلیز سے میں
لوٹ آیا تو زمانہ مری دہلیز پہ تھا
(زین عباس۔ شورکوٹ)

۔۔۔
غزل


ہمیں گرا کر کوئی مجازاََ کھڑا رہے گا
ہماری چپ سے کسی کا رتبہ بنا رہے گا
زمیں فلک سے فقط دکھاوے کو مل رہی ہے
تجھے گلے سے لگا بھی لیں تو خلا رہے گا
ہم اس جہاں سے رہائی پائیں تو کیا نیا ہو
کہ اگلی جیلوں میں بھی تو جیلر خدا رہے گا
تم ایک خستہ مکان کو رنگ کر رہے ہو
مگر کہیں پر نمی کا اک حاشیہ رہے گا
ہوا کے ہوتے بھی سانس لینا کٹھن رہا ہے
تمہارے ہوتے بھی عالمِ تخلیہ رہے گا
(علی ادراک۔ پتوکی۔ قصور)

۔۔۔
غزل


دیکھا نہ جب تلک بھی کسی عکسِ نور کو
آیا نہیں سکون کسی با شعور کو
مژدہ سنا کے پھر بھی ہمیں گالیاں ملیں
غارت خدا کرے گا تمہارے غرور کو
جلوہ کبھی تو مجھ کو دکھائے گا کبریا
آتا ہوں روز چھو کے میاں کوہِ طور کو
لکھنے لگا ہے تو بھی کوئی عشقیہ کتاب
شامل خدارا کر لے مری کچھ سطور کو
دنیا میں ہم نے پیار کے پودے لگائے ہیں
سجدہ کریں گے لوگ ہماری قبور کو
شکوہ بہ لب ہوں میری محبت بھی چھین لی
دھوکہ دیا گیا ہے سحر بے قصور کو
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


ہر کسی کو کب بلا فصل مانا جاتا ہے
اصل جو ہوں ان کو ہی اصل مانا جاتا ہے
اس کے گاؤں جا رہا ہوں میں بھی رخصت لے کر
چاند جس کے حسن کی نقل مانا جاتا ہے
وہ مری محنت کا انکار ہے ،فن کی نفی
جب مجھے یوں ترس کی شکل مانا جاتا ہے
ہم تو ایسی بستیوں میں پلے ہیں کہ جہاں
ہجر میں مر جانا بھی قتل مانا جاتا ہے
مبتلائے درد رہنا وراثت ہے یہاں
بے اذیت لمس بے دخل مانا جاتا ہے
میں وفاؤں کا وہی استعارہ ہوں جسے
معتبر بھی نسل در نسل مانا جاتا ہے
گنگ ہے ساگر مشیرِ محبت اس لیے
مشورہ دیتے ہی بے عقل مانا جاتا ہے
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


انہیں سوچ جن سے تُو وعدہ کر کے ملا نہیں
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں پھر بھی تجھ سے گلہ نہیں
تری دسترس سے رِہا ہوا تو کُھلا ہے یہ
ترے ساتھ رہ کے اداس تھا میں کِھلا نہیں
میں کروں تو کس سے کروں گلہ کہ وہ ایک شخص
مرے ساتھ ساتھ رہا مجھے وہ ملا نہیں
ترے ساتھ رہتے جو چاہا میں نے وہ مل گیا
ترے بعد مجھ کو ملا نہیں تو گلہ نہیں
تری خامشی پہ ہے شور سارے جہان میں
تری چپ سے کوئی پرندہ تک بھی ہلا نہیں
بڑی بے رخی سے ملے مجھے وہ جو یار تھے
میں سمجھ گیا کہ محبتوں میں صلہ نہیں
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


جب دکھ دیا عضد نے گھٹن اور بڑھ گئی
پہلے جو دل میں تھی وہ چبھن اور بڑھ گئی
قاصر تھے لفظ بوجھ اٹھانے سے درد کا
تب میرے لہجے کی بھی تھکن اوربڑھ گئی
وعدے پرانے یاد اسے جب دلائے تھے
ماتھے پہ اس کے دیکھا شکن اور بڑھ گئی
حالانکہ اس نے بولے تھے کچھ لفظ ہی فقط
پر میرے زخموں کی تو جلن اور بڑھ گئی
ہر بار درد اپنا میں نے لفظوں کو دیا
اعجازؔ یونہی طلبِ سخن اور بڑھ گئی
(اعجاز کشمیری۔آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


دلِ گستاخ کو لازم ہے جلایا ہوتا
عشق معصوم تھا جھگڑے میں نہ لایا ہوتا
تیری تعظیم میں اٹھی ہیں جو آہیں فوراً
اِک نظر دیکھ کے ان کو تو بٹھایا ہوتا
لوگ جو عشق میں گھر باہر لٹا کر آئے
وارثِ شعر و سخن ان کو بنایا ہوتا
میرے وجدان میں رہتے ہیں کسی یاد کے دکھ
خواب کچھ بھیج کے یادوں کو سلایا ہوتا
مجھ کو محرومِ وفا دیکھ کے نوحہ کہتے
عشقِ مغموم پہ ماتم ہی منایا ہوتا
تجھ کو بیمار کے لہجے کی تھکن یاد نہیں
تجھ سا بے غرض مسیحا نہ خدایا ہوتا
یہ میری صفت خلیل ؔآج مجھے لے ڈوبی
سچ نے سولی پہ چڑھایا،نہ چڑھایا ہوتا
(خلیل حسین بلوچ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
چمن میں پھول کھلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
خزاں میں شام ڈھلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
تمھاری دید کی خواہش لیے بیٹھا ہوں سجدے میں
میرا ایمان جانے سے ذرا پہلے چلے آنا
میری برسوں سے حسرت ہے تمھیں بارش میں تر دیکھوں
سنو برسات ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا
مجھے لگنے لگے ہیں اب بہت اچھے نئے چہرے
میری نیت بدلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
سنا ہے شہرتیں اکثر بدل دیتی ہیں انساں کو
میرے معروف ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا
(معروف شاہ۔ اسکردو)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

تاریخ پاکستان: ایس ایم ظفر کی نظر میں

$
0
0

2017ء کے یہی دن تھے، رمضان المبارک کا ابھی آغاز ہوا تھا، جب مجھے ملک کے ممتاز قانون دان، سینئر سیاستدان، دانشور اور مصنف ایس ایم ظفر کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ دو نشستوں میں ہونے والی اس ملاقات میں کئی موضوعات زیر بحث آئے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ وہ پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔

انٹرویو کے آغاز سے پہلے میں انہیں اپنے اسسٹنٹ کو کتاب کا کوئی باب ڈکٹیٹ کراتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔حوالے کی کئی کتب سامنے میز پر دھری تھیں۔ مجھے ان کے کام کے طریقہ کار، بالخصوص اس بات نے بہت متاثر کیا کہ وہ اس پیرانہ سالی میں بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے ایک مشکل اور صبر آزما کام میں اپنی توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اس کی ضرورت سمجھتے تھے کہ ملکی تاریخ سے متعلق اپنا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کی درجن بھر تصانیف پہلے شائع ہو چکی تھیں۔ چنانچہ مجھے فطری طور پر تجسس اور انتظار تھا کہ یہ کتاب کب شائع ہوتی ہے اور اس کے مندرجات کیا ہوں گے۔ گزشتہ برس کے آخر میں کتاب شائع ہوئی، لیکن میں نے اسے قدرے تاخیر سے حاصل کیا۔

اب اس کے مطالعے کے بعد میں سمجھ سکتا ہوں کہ اسے لکھنا کیوں ضروری تھا۔ کتاب سے جہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے کس موڑ میں ریاست کے مختلف ستونوں، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کا کردار کیا تھا، وہاں آگے بڑھنے کی وہ راہ عمل بھی نظر آتی ہے، جس پر چلتے ہوئے ہم اس پاکستان کی تشکیل کر سکتے ہیں، جس کا خواب وطن کے قائدین اور برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی کو بالعموم اور سیاستدانوں، بیوروکریٹس ، عدلیہ اور ریاستی اداروں کے سرکردہ افراد کو بالخصوص اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’تاریخ سچ کی تلاش ہے اور تاریخ کی تعبیر اس سچ کو دریافت کرنے کا ذریعہ ہے، اور تعبیر (interpretation)کرنے پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔‘‘وہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ بھی مصنفین اور دانشور وطن عزیز کی تاریخ کو سمجھنے کا یہ کام کرتے رہیں گے، کیونکہ ’’تاریخ کی درست تعبیر قوم میں ہم آہنگی اور یکجہتی کا سبب بنے گی۔‘‘

ایس ایم ظفر کو زمانہ طالب علمی میں قائداعظم کی تقریر سننے کا موقع ملا جب قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ طلبہ سے خطاب کرنے لاہور(اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) تشریف لائے۔ آزادی کے معجزے سے متاثر ہو کر انہوں نے انجینئر بننے کے بجائے وکالت کے شعبے کا انتخاب کیا۔ دوران تعلیم پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے، اپنے عظیم قائد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے کام کیا۔ بعدازاں ایک کامیاب پیشہ ور وکیل بننے کے باوجود سیاست میں ان کی دلچسپی بڑھتی رہی۔ چنانچہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی کابینہ میں وزیر قانون اور پارلیمانی امور کی حیثیت سے شامل ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے کچھ دنوں بعد رضامندی ظاہر کر دی اور 25مارچ 1965ء کو اس عہدے کا حلف لیا۔

چار سال ایوب کابینہ کا حصہ رہے۔متحدہ اپوزیشن کی طرف سے 1973ء کا آئین تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ بنے۔پیرپگاڑا کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ ملکی تاریخ کے کئی مشہور مقدمات کی پیروی کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہالینڈ کی عدالت میں کامیابی سے دفاع کیا۔ کئی برس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سنیٹر رہے ، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی تیاری کے عمل میں بھی شامل رہے۔ اس مختصر تعارف کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملکی آئینی اور سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں۔

تاہم زیر نظر تصنیف میں انہوں نے اپنے مشاہدات پر زیادہ اکتفا کرنے کے بجائے متعدد کتابوں اور دوسرے حوالہ جات (بالخصوص نصف صدی بعد عام کیے جانے والے امریکی کاغذات) کی مدد سے تاریخ بیان کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں۔ تاریخ کی غلط تعبیر، مختلف واقعات کا صحیح فہم نہ ہونا، گمراہ کن تھیوریوں اور اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے نظریوں نے عظیم قوم بننے کی منزل کے حصول کا راستہ کھوٹا کیا ہے۔ اسی لیے کتاب کو ’’تاریخ پاکستان، ایک نئی تعبیر‘‘ (History of Pakistan – Reinterpreted)کا نام دیا گیا ہے۔‘‘

796 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام 1906)ء( سے برصغیر کی آزادی اور پھر قیام پاکستان سے 2013ء میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے اختتام تک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ کتاب کا بڑا اور مرکزی حصہ ہے۔ دوسرے حصے میں منصف اور عدالتی فیصلے، سیاسی جماعتیں، کشمیر، افواج پاکستان، بیوروکریسی اور مقامی (بلدیاتی) حکومتوں کی تاریخ پر جامع مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے میں سماجی تاریخ کے عنوان سے نظریہ، دہشت گردی، کلچر، مذہب،قوم، ایٹمی پاکستان، بلوچستان، پانی کا مسئلہ، بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اپنے متنوع مندرجات کے اعتبار سے یہ پاکستان پر ایک جامع، دلچسپ اور مفید کتاب ہے۔کتاب کی پروف ریڈنگ کا معیار اچھا نہیں ، امید ہے اگلے ایڈیشن میں غلطیوں کی درستی کر لی جائے گی۔

یہاں اس کتاب سے اخذ اور ترجمہ کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے پہلے پندرہ برسوں 1962)ء کے آئین تک(کی تاریخ بہت اختصار لیکن ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں کئی اہم امور پر قارئین مصنف کا نقطہ نظر جان سکیں گے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجوہات سے متعلق بھی مصنف کی رائے کا ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے مندرجات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو تفصیل کے لیے کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ناشر: منظور لاء بک ہاؤس، 2مزنگ روڈ، لاہور ۔ قیمت: 4500 روپے

٭٭٭

مصنف لکھتے ہیں کہ 1906ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نواب وقار الملک نے کہا تھا، ’’آپ مستقبل میں اس وقت کا تصور کریں جب برطانیہ ہندوستان سے جانے کا فیصلہ کرے گا۔ اس دن مسلمانوں کی حالت کیا ہو گی جب وہ ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہوں گے، اور انہیں جبر برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘ ایس ایم ظفر کے مطابق، قائداعظم کی حکمت عملی کا شاہکار یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانان ہند کو اقلیتی سوچ سے نکال کر ایک قوم کی حیثیت میں برابری کا عزم دیا جسے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔مصنف کے نزدیک قرارداد لاہور میں ایک متحدہ بھارت میں رہنے کے لیے نیک نیتی سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل کے آئین میں مسلم اکثریتی صوبوں کو بہتر خودمختاری اور آزادی دے دی جائے تو مسلم لیگ اس کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ وہی آئینی صورتحال ہوتی جو کینیڈا کے آئین میں کیوبک کے صوبے کو دی گئی ہے۔

ایس ایم ظفر تحریک پاکستان کو شخصی کامیابی کے بجائے ایک عوامی سوچ اور دیانت دار قیادت کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ قائداعظم کے گورنر جنرل بننے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیںکہ اس وقت تک یقیناقائداعظم کے علم میں آ چکا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن نے کس طرح غیر جانبداری ترک کرتے ہوئے (سرحدوں کی حد بندی اور دوسرے معاملات میں) کانگریس اور جواہر لال نہرو کا ساتھ دیا تھا، اس لیے وہ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل بنا کر مزید خطرات مول نہیں لینا چاہتے تھے۔7 اگست 1947ء کو دہلی سے کراچی روانہ ہوتے ہوئے قائد نے کہا تھا: ’’میں تہہ دل سے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم اور تاریخی شہر (دہلی) میں امن سے رہیں۔ ماضی کو دفن کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کو ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔میں ہندوستان کے لیے ترقی اور امن کی تمنا کرتا ہوں۔‘‘

مصنف کے بقول، دو قومی نظریہ مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کے حصول کا ایک فارمولا تھا، جسے قیام پاکستان کے بعد سیاسی صورتحال کے تبدیل ہونے پر قائداعظم نے بطور پالیسی ترک کر دیا۔11اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ’’ایک قوم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اب ایک قومی نظریے کی بات کرتے ہوئے ، ایک ایسی قومی ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جس میں تمام شہری بلاتفریق مذہب برابر ہوں ۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں، ’’میں قائداعظم کی ان تقاریر سے بے خبر نہیں ہوں۔

جن میں انہوں نے اسلام کو اپنی حکومت کی اساس قرار دیا ہے، جس سے مصنفین نے نتیجہ نکالا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جبکہ قائداعظم اس معاملے میں بڑے واضح تھے کہ پاکستان ایک مسلم قومی ریاست ہو گا، جس میں اسلام کے اصولوں پر عمل کیا جائے گا، جیسے مساوات، انصاف، رواداری، ایمانداری، سماجی رویہ، اخلاقیات، دولت میں بہت زیادہ فرق کا خاتمہ اور لوگوں بالخصوص غریبوں کی فلاح و بہبود۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس معاملے میں راجہ محمود آباد ، جو قائد اعظم کے بہت قریب تھے، کا حوالہ دینا کافی ہو گا۔ اسلامی ریاست کی وکالت کرتے ہوئے راجہ صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مقاصد میں اسلامی نظریے کو شامل کرنے کے لیے قرارداد کی تجویز دی تھی۔قائداعظم نے اسے نہ صرف مسترد کر دیا تھا۔

مصنف رقمطراز ہیں، ’’ایک قومی ریاست کسی زبان کو رابطے کی زبان کے طور پر اختیار کرتی ہے، جسے ریاستی زبان کہا جاتا ہے۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ اردو متحدہ ہندوستان میں رابطے کی زبان (Lingua franca)ہو گی۔بعد ازاں 25فروری 1948ء کو آئین ساز اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کی کہ اردو پاکستان کی رابطے کی زبان ہو گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مشرقی پاکستان کے ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔ آئین ساز اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں صرف دھریندر ناتھ دتا نے، جو کانگریسی رہنما تھے،بنگالی کو ریاستی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا۔‘‘ مصنف کے بقول، قومی زبان ریاستی زبان سے مختلف ہوتی ہے جو بین الاقوامی سٹیٹس کی حامل ہوتی ہے، جبکہ ریاستی زبان محض رابطے کی زبان ہے۔

اسی طرح قائداعظم نے 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو ریاستی زبان قرار دینے کے الفاظ استعمال کیے تھے۔جس پر کچھ طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا، اگرچہ قائداعظم نے اردو کے لیے قومی زبان کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔ بعد میں قائداعظم نے طلبہ رہنماؤں کو مدعو کیا اورطلبہ کی دو مختلف تنظیموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ شیخ مجیب الرحمن کے مطابق، ’’اس واقعے کے بعد محمد علی جناح نے کبھی نہیں کہا کہ وہ صرف اردو کو پاکستان کی ریاستی زبان بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ مصنف لکھتے ہیں کہ اردو کو کسی ایک مخصوص صوبے کی زبان نہیں کہا جا سکتا تھا، اسی لیے قومی ہم آہنگی کی خاطر اسے منتخب کیا گیا۔

قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے ریاست سازی کا عمل آگے بڑھایا اور ایسی پالیسیاں متعارف کرائیں، جن پر بعد میں آنے والی حکومتیں عمل پیرا رہیں۔ جیسے مغرب کے سرمایہ داری رجحان سے ہم آہنگ ٹھوس مالیاتی پالیسی کے ذریعے معیشت کا استحکام، ایران سمیت تمام مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات اور مسلم ممالک کا بلاک بنانے کی کوشش کرنا، کشمیر پر استصواب رائے کے لیے اقوام متحدہ سے قراردادیں منظور کرانا،فلسطین اور عرب کاز کی وکالت کرنا اور بھارت کی طرف سے جارحیت کی سنجیدہ دھمکیوں کا بہادری سے سامنا کرنا، جب انہوں نے مکا دکھا کر اس عزم کا اظہار کیا کہ ملکی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔ اس وقت سے پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی انڈیا کی بنیاد پر تشکیل دی جا رہی ہے۔

قرارداد مقاصد 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی۔ مصنف کے مطابق، یہ لبرل اور مذہبی قوتوں کے درمیان ایک سمجھوتا تھا جس میں جمہوری اصولوں کو مستقبل کے آئین کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس کے پیچھے یہ یقین تھا کہ جمہوری قوتیں اسلام کے رواداری اور مساوات جیسے اصولوں پر زور دیتے ہوئے حقیقی جمہوریت کی جانب بڑھیں گی۔

اس قرارداد کی وجہ سے مذہبی جماعتوں کو جو گنجائش ملی ، اس کا انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کی کمزوری کی وجہ سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کا جمہوری نظام بگاڑ کا شکار ہو کر سٹیٹس کو میں بدل گیا جو صرف اشرافیہ کو فائدہ دے رہا تھا، اس وجہ سے مذہبی جماعتوں نے کم پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت کو یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ حکومت کا ایک زیادہ کامیاب نظام موجود ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو 1973ء کے آئین میں قابل عمل حصے (operating part) کے طور پر شامل کر دیا۔

قرارداد مقاصد کے بعد آئین ساز اسمبلی میں کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، اس طرح مستقبل کے آئین کا ایک بنیادی خاکہ تیار کیا گیا جسے ’’عبوری رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں تجویز کیا گیا کہ ایوان بالا میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی ملے گی، جس کے نتیجے میں دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر ملک کے دونوں حصوں کے ارکان برابری میں آ گئے۔

آئین ساز اسمبلی کے کچھ ارکان نے، جن میں سے زیادہ کا تعلق بنگال سے تھا،برابری کی اس تجویز اور اردو کو قومی زبان قرار دینے پر تنقید کی۔ مذہبی گروہوں نے بھی اسلام کو خاطر خواہ جگہ نہ دینے کا شکوہ کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیاقت علی خان مختلف طبقات کے مطالبات کا سامنا نہ کر سکے اور ’’عبوری رپورٹ‘‘ نومبر 1950ء میں واپس لے لی گئی۔ (یاد رہے بھارتی آئین ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949ء کو اپنا آئین منظور کر لیا تھا۔) اگلا ایک سال بھی ضائع کر دیا گیا، کسی اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکامی نے سیاستدانوں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ آئین سازی میں تاخیر ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی، جس نے ملک کو جمہوریت کے بجائے آمرانہ حکومت کے رستے پر ڈال دیا۔

ایس ایم ظفر کہتے ہیں، ’’لیاقت علی خان پر اس سفارتی گناہ کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے روس کی دعوت ٹھکرا کر امداد حاصل کرنے کے لیے امریکا کا دورہ کیا۔ یہ دونوں الزام سراسر غلط ہیں۔‘‘ مصنف نے ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیل سے بتایا ہے کہ تہران میں روسی سفیر نے 29مارچ 1949ء کو راجہ غضنفر علی خان کے ذریعے سوویت یونین حکومت کی طرف سے دورے کی دعوت بھیجی جسے فوری طور پر قبول کر لیا گیا۔

پاکستانی حکومت روسی حکام سے دورے کی تاریخ اور دوسری تفصیلات طے کرنے کے لیے مسلسل رابطے میں تھی اور ان کے مطالبات پر عمل کرتی رہی، لیکن سوویت حکام مختلف حیلوں سے پہلے دورے کو لٹکاتے رہے اور بالآخر دورے کی دعوت سے ہی مکر گئے۔ راؤ فرمان علی اپنی کتاب میں رقمطراز ہیںکہ نئی دہلی میں روسی سفارت خانے نے دورے میں مزید التوا کی اطلاع کراچی بھیجی ، جس سے اس معاملے میں ہندوستان کی مداخلت کا شک جنم لیتا ہے۔ دسمبر 1949ء میں امریکا نے دورے کی دعوت بھیجی، لیاقت علی خان 3مئی 1950ء کو واشنگٹن ایئرپورٹ پہنچے، جہاں امریکی صدر ٹرومین نے ان کا استقبال کیا۔

مصنف نے امریکا میں لیاقت علی خان کی تقاریر کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ان کا دورہ کسی امداد کی درخواست کے لیے نہ تھا، نہ ہی کہیں انہوں نے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کا اعلان کیا یا کسی ایسی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک نئے اسلامی جمہوی فلاحی ملک کے طور پر متعارف کرایا۔ لیاقت علی خان نے خود کو قائداعظم کا اہل اور مخلص جانشین ثابت کرتے ہوئے ملکی مفاد میں بہترین اقدامات کیے۔

16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں لیاقت علی خان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جسے آج تک بے نقاب نہیں کیا جا سکا۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک سازش جسے بے نقاب کیا جا سکتا تھا ، اس کی طرف پیش رفت کرنے کے بجائے اسے ایک پراسرار معمہ بنا دیا گیا۔مکمل اور اطمینان بخش تحقیقات نہ ہونے کی وجہ سے کابینہ میں موجود کچھ اہم وزیروں غلام محمد (وزیر خزانہ) ، عبدالقیوم خان، مشتاق احمد گورمانی، خواجہ شہاب الدین، پنجاب اور صوبہ سرحد کے پولیس سربراہان قربان علی خان اور سردار عبدالرشید کے کردار پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔

کچھ صوبائی رہنماؤں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ان افواہوں کے گردش میں ہونے کے باوجود سازش کا سراغ نہ لگایا گیا، جس نے ملکی تاریخ پر بہت منفی اثرات مرتب کیے۔ خاص طور پر تحقیقاتی کمیشن اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کو بھی سامنے نہ لایا گیا۔

آزادی کے بعد ریاستی امور چلانے میں پاکستان مسلم لیگ سب سے کمزور ثابت ہوئی اور بحثیت سیاسی جماعت اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کی وجہ سے کار حکومت چلانے کا بوجھ بتدریج سول انتظامیہ کے کندھوں پر منتقل ہو گیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد آنے والی حکومتیں بدقسمتی سے ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکیں۔چنانچہ اگلے برسوں میں سرکاری ملازمین کا ایک پورا جتھا اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ریاست کے بڑے سیاسی عہدوں پر براجمان ہو گیا، یہ لوگ عوام کی نمائندگی کرتے تھے نہ ہی خود کو ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔

17اپریل 1953ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو اچانک برطرف کر دیا اور اسی دن ایک سرکاری ملازم محمد علی بوگرہ کو، جو امریکا میں سفیر تعینات تھے، کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی۔ اس طرح ایک بیورو کریٹ نے ،جو گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچ گیا تھا، پوری کابینہ کو برطرف کر کے ریاست کی سیاسی شاخ پر وار کیا اور ایک بیورو کریٹ کو ہی ملک کا چیف ایگزیکٹو مقرر کر دیا۔ غلام محمد کے اس عمل کا پارلیمانی حکومت کے کسی بھی اصول پر دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فرض کرنا جائز ہو گا کہ فوج کی خفیہ حمایت، منقسم اور غیرمنظم پارلیمنٹ اور کابینہ یا اسمبلی میں موجود کچھ سیاستدانوں کے اکسانے کے بغیر گورنر جنرل اپنے اس اقدام میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کی مدت ملازمت 16اگست 1953ء سے بڑھا کر 16جنوری 1959ء مقرر کر دی گئی۔ بعد ازاں 25اکتوبر 1954ء کو کابینہ میں بطور وزیر دفاع بھی شامل کر لیا گیا۔ مصنف کے بقول، ’’حاضر سروس کمانڈر انچیف کو کابینہ میں شامل کرنا ایک خطرناک جدت تھی، اونٹ خیمے میں داخل ہو چکا تھا، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ جلد ہی اونٹ خیمے کے اندر ہو گا اور جمہوریت باہر۔‘‘ ابھی تک ملک کا آئین تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا۔

آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ آئین ساز اسمبلی لوگوں کی نمائندہ نہیں رہی اور اسے تحلیل کیا جائے۔ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد حسین شہید سہروردی نے یہ بیان دیا۔محمد علی بوگرہ نے ان مطالبات کا توڑ کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی سے چار ترامیم منظور کر ا کے ، گورنر جنرل کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کر دیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس منظور شدہ قرارداد کو قانون میں بدلنے سے پہلے امریکا چلے گئے ۔گورنر جنرل کو جب ان ترامیم کا علم ہوا تو اس نے طیش میں آ کر مبہم اختیارات کے تحت 24اکتوبر 1954ء کو آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔سپیکر مولوی تمیز الدین یہ معاملہ عدالتوں میں لے گئے، جو بالآخر فیڈرل کورٹ پہنچ گیا۔ عدالت نے اس اسمبلی کو تو بحال نہ کیا، لیکن جمہوری نظام بچانے کے لیے گورنر جنرل کو پابند کیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے نئی آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے، جیسا کہ پہلے حسین شہید سہروردی تجویز دے چکے تھے۔

ؒجون 1955ء میں نئی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، جس نے اگست میں چوہدری محمد علی کو وزیراعظم منتخب کیا۔ 3 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان میں تمام صوبوں اور ریاستوں کو اکٹھا کر کے ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔چوہدری محمد علی بالآخر آئین تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو 23مارچ 1956ء کو نافذ ہوا۔ اس میں پاکستان کو ایک وفاقی جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ صدر، وزیراعظم، اس کی کابینہ اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کی گئی۔ ملک کے دونوں حصوں میں برابری کا اصول متعارف کرا کے مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو ختم کیا گیا۔

ایس ایم ظفر کے بقول، یہ ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول کی خلاف ورزی تھی ۔ مشرقی پاکستان کی شرح آبادی گھٹا کر یہ تاثر دیا گیا کہ ایک بنگالی شہری، ایک مغربی پاکستان کے شہری سے کمتر ہے، جس نے دونوں حصوں میں علیحدگی کے بیج بو دیئے۔پارلیمنٹ ایک ایوان پر مشتمل تھی، ارکان قومی اسمبلی اپنے اپنے صوبوں کی ضروریات پر زور دیتے،جس کی وجہ سے اس قومی فورم میں صوبائی تعصب پروان چڑھنے لگا۔ یہ فیصلے کرنے والے بیوروکریٹ (اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور دیگر) قوم کے نبض شناس نہیں تھے، انہوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ایوان بالا کے نہ ہونے، ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول کی نفی کرنے اور ون یونٹ کے قیام جیسے اقدامات سے قوم کو سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

اسکندر مرزا ، جو غلام محمد کی علالت کے بعد گورنر جنرل بن گئے تھے، پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہو گئے۔ 1956ء کے آئین میں آرٹیکل 37(6)کے تحت صدر کو اختیار دیا گیا کہ وہ ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہونے کی صورت میں وزیراعظم کو برطرف کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور صدر نے اس اختیار کا اتنا غلط استعمال کیا کہ یکے بعد دیگرے وزرائے اعظم کی تبدیلی کا ایک کھیل شروع ہو گیا۔ چوہدری محمد علی174) دن ( ، حسین شہید سہروردی) 13ماہ( اور آئی آئی چندریگر 59) دن ( وزیراعظم رہے۔

16دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ 23ستمبر 1958ء کو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں ہاتھا پائی کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر شدید زخمی ہو گئے اور دو دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ وزارت عظمیٰ بچانے کے لیے فیروز خان نون کو اپنی کابینہ میں مزید وزیر شامل کرنے پڑے لیکن حلیف مطمئن نہ ہوئے۔ ملک کو معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو، رات آٹھ بجے، آئین معطل کرتے ہوئے ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ 1956ء کا آئین محض ڈیڑھ برس نافذ العمل رہا۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں، ’’ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی صورت میں، بیورو کریسی ان کی جگہ لے کر کار مملکت چلاتی ہے۔ اور جب بیورو کریسی بھی کرپشن کا شکار ہو کر خود کو قومی مفاد پر ترجیح دینے لگتی ہے تو اگلا ادارہ جو ملک میں استحکام لانے کے لیے آگے آتا ہے، وہ فوج ہے۔ تو یہ ایک دوسرے سے جڑے واقعات کا تسلسل (domino effect)تھا جو فوج پر آ کے رک گیا۔‘‘

کچھ دنوں تک یہ واضح نہیں تھا کہ اقتدار اصل میں کس کے پاس ہے۔ صدر ریاست پر اپنا پورا اختیار اور گرفت برقراررکھنا چاہتے تھے۔ کسی شک کی بنیاد پر اسکندر مرزا نے جنرل موسیٰ کو حکم دیا کہ جنرل ایوب خان کو گرفتار کر لیا جائے، جس پر عمل نہ کیا گیا۔ اس کے بجائے فوج نے جبراً اسکندر مرزا کو مستقل جلاوطن کر دیا اور ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ ٹھیک ایک سال بعد ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا قانون متعارف کرایا۔ اس نظام کا ڈھانچہ یونین کونسل، تحصیل کونسل ، ضلع کونسل اور پھر ڈویژنل کونسل پر مشتمل تھا۔ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخابات کے ذریعے 80ہزار نمائندوں کو منتخب کیا گیا۔ کابینہ کی تجویز پر ایوب خان نے خفیہ بیلٹ کے ذریعے ان نمائندوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔

15فروری 1960ء کو جاری کردہ نتیجے میں بتایا گیا کہ ارکان کی بہت بڑی اکثریت نے جنرل ایوب خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دو دن بعد ایوب خان نے چار سالہ مدت کے لیے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مصنف کی رائے میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کو قانونی جواز مہیا کرنے کی کوشش کی گئی، کیونکہ اس وقت تک مشکوک طریقے سے اقتدار میں آنے والی حکومت کا انحصار صرف فوج پر تھا۔

جسٹس محمد شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا گیا۔ 6مئی 1961ء کو آئینی کمیشن کی رپورٹ وصول ہوئی، اس پر غور و خوض کے بعد یکم مارچ 1962ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں نئے آئین کا اعلان کیا۔کمیشن نے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی تجویز دی،کیونکہ اس کی رائے میں ملک میں پارلیمانی نظام ناکام ثابت ہو چکا تھا۔بعدازاں بنیادی جمہوریتوں کی کونسل کے ذریعے ہی قومی اسمبلی )اپریل 1962ء (اور صوبائی اسمبلی )اپریل 1962ء ( کے لیے عوامی نمائندوں کو منتخب کیا گیا۔ 8جون 1962ء کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے ساتھ ہی 1962ء کا آئین نافذالعمل ہو گیا۔ ایوب خان نے اسی دن نئے آئین کے تحت پہلے صدر کا حلف اٹھایا اور تقریباً چار سال بعد مارشل لاء ختم کر دیا گیا۔

مصنف لکھتے ہیں، ’’میاں منظور قادر کی سربراہی میں آئینی کمیشن کی سفارشات پر نظرثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی، جس نے صدارتی نظام کو اتنا مرکزی بنا دیا کہ صدر کے اختیارات پر پارلیمنٹ کا کوئی کنٹرول نہ رہا، اس طرح بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر، ایوب خان کے اختیارات میں کوئی بنیادی فرق نہ آیا۔

سوائے اس کے کہ وہ ملکی سیاست کا حصہ بن گئے اور سیاسی جماعتوں کو بحال کرنے کے بعد کنونشن لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ ‘‘ایس ایم ظفر کے مطابق،’’ 1962ء کے آئین میں بھی ون یونٹ اور ملک کے دونوں حصوں میں برابری کے اصول کو برقرار رکھا گیا۔ جس سے مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے صحیح طور پر اخذ کیا کہ انہیں کمتر قرار دیا گیا ہے اور وہاں علیحدگی کی تحریک پنپنے لگی۔ مغربی پاکستان میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف تعصب پروان چڑھنے لگا۔پارلیمنٹ بھی ایک ایوان پر مشتمل تھی۔ بدقسمتی سے 1956ء کے آئین میں کی جانے والی غلطیوں کو 1962ء کے آئین میں بھی درست نہیں کیا گیا۔‘‘

٭ اگرتلہ سازش کیس

ایوب خان کی طرف سے بلائی جانے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے اپوزیشن نے شرط عائد کی کہ شیخ مجیب الرحمن کو، جو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار تھے اور ان پر مقدمہ چل رہا تھا، رہا کیا جائے۔ چنانچہ ایک آرڈینینس جاری کر کے شرکت ممکن بنائی گئی۔

بعدازاں حکومت کے خلاف چلنے والی بڑی تحریک اور مذاکرات کے کئی ادوار کے باعث بدقسمتی سے کیس کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکی اور سازش کی نوعیت اور مقصد پر کوئی عدالتی فیصلہ نہ آ سکا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’کوئی عدالتی فیصلہ نہ دینے کے بجائے میں (عدالتی فیصلے کے ذریعے) بریت کو ترجیح دیتا۔ تاریخ، بالخصوص پاکستان کی تاریخ سے واضح سبق ملتا ہے کہ اگر ایک ملزم پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام لگتا ہے اور اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے، لیکن پھر کسی عدالتی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے کارروائی درمیان میں چھوڑ دی جائے تو ملزم اس کیس کی مشہوری کے ذریعے مقبولیت اور عزت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح اگرتلہ سازش کیس نے بھی مشرقی پاکستان کی عوام کی نظر میں شیخ مجیب الرحمن کو مظلوم بنا دیا، جس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔

جبکہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے رہائی نے بھی اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمن کے قد میں اضافہ کیا۔چھ نکات کے ذریعے، جس میں زیادہ صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، مشرقی پاکستان میں مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کو اس کے غدارانہ عمل پر بھی ہیرو بنا دیا گیا۔‘‘ جنید احمد کی تصنیف (Creation of Bangladesh: Myth Exploded)کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ مجیب اور دوسرے ملزموں کے خلاف ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود، حکومت نے کیس کو خراب کیا اور پھر اسے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لینا پڑا۔

٭ پاکستان کا دولخت ہونا

ایس ایم ظفر کے مطابق، مشرقی پاکستان جو وفاق کا سب سے بڑا صوبہ تھا، اس کے وفاق سے نکل جانے کو ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ کے بجائے ’پاکستان کا دو لخت ہونا‘ کہنا درست پیرایہ اظہار ہے۔1965ء کی جنگ اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان سے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع سفارتی کوششوں اور چین کی مدد سے کیا گیا، مشرقی پاکستان کے ارکان قومی اسمبلی اور دانشور مایوس ہوئے اور انہوں نے نتیجہ نکالا کہ مشرقی پاکستان کو بغیر کسی دفاع کے ہی چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی شکایتوں نے سیاسی صورتحال کو مزید خراب کیا اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے مطالبے نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی، جس میں علیحدگی کا امکان موجود تھا۔

جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء کے ایک سال بعد ’لیگل فریم ورک آرڈر‘ جاری کیا، آئینی اور سیاسی اہمیت کے اس مسودے میں ملک کا مستقبل محفوظ بنانے اور انتقال اقتدار کے بنیادی اصول طے کیے گئے ۔ اس میں انتخابات کے بعد ایک ایوان پر مشتمل مقننہ تجویز کی گئی ، جو سادہ اکثریت کی بنیاد پر ملک کا آئین بنائے گی۔ ون یونٹ بھی ختم کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال کر دیے گئے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ دراصل’ ایل ایف او‘ میں بتائے گئے طریقہ کار میں شیخ مجیب الرحمن کے بڑے مطالبوں کو پورا کر دیا گیا۔

جنرل یحییٰ خان کی کابینہ میں اس نکتے پر شدید تنقید کی گئی کہ آئین سازی کے تمام معاملات سادہ اکثریت پر طے ہوں گے۔ نور خان اور جنرل حمید نے مخالفت کی کہ ایک ایوان پر مشتمل مقننہ جو آبادی کی بنیاد پر منتخب ہو گی، اس میں بنگال کے صوبے کے ارکان اکثریت میں ہوں گے، جو وفاق کے دوسرے صوبوں پر اپنا آئین مسلط کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بجا طور پر اصرار کیا کہ آئینی معاملات کے لیے خاص طریقہ کار بنایا جائے، جس میں کم از کم اسمبلی کے 60فیصد ارکان کے ووٹ ضروری ہوں۔ عوامی لیگ کے چھ نکات کے پس منظر میں کابینہ کے خدشات حقیقی تھے۔

جب شیخ مجیب الرحمن کو اس اعتراض اور ’لیگل فریم ورک آرڈر‘ میں ممکنہ تبدیلی کا پتا چلا تو اس نے گورنر ایڈمرل احسن کے ذریعے دھمکی دی کہ اگر (ایل ایف او میں) یہ تبدیلی کی گئی تو اس کا مطلب مذاکرات کا خاتمہ اور ایک مسلحہ محاذ آرائی کا آغاز ہو گا۔جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کی بات مانتے ہوئے یہ تجویز واپس لے لی۔ مصنف کے بقول، ’’یہ جنرل یحییٰ کی سادگی اور ناتجربہ کاری تھی کہ ایک باقاعدہ ملاقات میں معاملات طے کرنے اور انہیں لکھنے کے بجائے محض فرد واحد کے الفاظ پر بھروسہ کر لیا۔

جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن صرف انتخابات تک کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ جی ڈبلیو چوہدری کی کتاب (The Last days of United Pakistan)کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے، ’’شیخ مجیب کے اس بیان کا ذکر کیا جاتا ہے، جس میں اس نے اپنے قریبی رفقاء سے کہا تھا کہ اس کا واحد مقصد بنگلہ دیش کا قیام ہے۔ جنرل یحییٰ خان کو شیخ مجیب کی ایسی باتوں کی ٹیپ ریکارڈنگ فراہم کی گئی تھی، اور اس میں یہ واضح طور پر سنا جا سکتا ہے:’ میرا (شیخ مجیب کا) مقصد بنگلہ دیش کا قیام ہے۔جیسے ہی انتخابات ہو جائیں گے میں ایل ایف او پھاڑ کر پھینک دوں گا۔ جب الیکشن ہو جائیں گے، کون مجھے چیلنج کر سکے گا؟‘ ‘‘

مصنف نے بنگالی قوم پرستی، مارچ 1969ء کے بعد ہونے والی آئینی اور سیاسی پیش رفت، بھارت کی مداخلت اور غیرملکی طاقتوں کے کردار کوبنگلہ دیش کے قیام کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہوئے ان میں سے ہر ایک پہلو کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں، ’’دو مقبول عوامی رہنماؤں کی باہمی چپقلش، جو صرف اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے، خانہ جنگی میں تبدیل ہو کر بالآخر پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوئی۔‘‘

ایس ایم ظفر کے مطابق، حمود الرحمٰن کمیشن کے دائرہ کارrences) (Terms of refمیں صرف فوجی ناکامی کی وجوہات (سیاسی نہیں) معلوم کرنا تھا۔ اگر اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد مان لی جاتی تو افواج پاکستان کو ہندوستانی فوج کے سامنے ذلت آمیز انداز میں ہتھیار نہ ڈالنے پڑتے اور 90 ہزار فوجی قیدی بھی نہ بنائے جاتے۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عمل میں آتا اور پاکستان کو (بعد میں) بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

The post تاریخ پاکستان: ایس ایم ظفر کی نظر میں appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش۔
مثلا احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احمد کا نمبر 2 نکلا۔
نام سے سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد کا نام اور اس کے حروفِ ابجد کو مفرد کیجیے۔
نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے۔
1 کے حروف(ا،ی،ق،غ)
2 کے حروف(ب،ک،ر)
3 کے حروف(ج،ل،ش)
4 کے حروف(د،م،ت)
5 کے حروف(ہ،ن،ث)
6 کے حروف(و،س،خ)
7 کے حروف(ز،ع،ذ)
8 کے حروف(ح،ف،ض)
9 کے حروف(ط،ص،ظ)
احسن کے نمبرز(1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں۔
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ملا
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبرز کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔
(2+9+1=12=1+2=3) گویا احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

سوموار25مئی2020
حاکم نمبر9
صدقہ”سفید اشیاء یا 20 یا 200 روپے”
وردِ خاص” یا بدیع یا رفیع یا سمیع” 9 یا اپنے نمبر کے مطابق پڑھنا مناسب ہوگا
1نمبر والوں کے لیے کوئی دوست مدد کرے گا، اور نیا راستہ کھلے گا، بزنس میں بہتری کا امکان ہے۔
2نمبر والوں کے لیے مالی فائدہ ہوسکتا ہے، رشتوں سے خوشی ملے گی، آپ کی طبع کے لیے موزوں دن ہے۔
3نمبر والوں کے لیے کسی بزرگ یا باس کی حمایت حاصل ہوگی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک معاون دن ہے۔
4نمبر والوں کے لیے کچھ امور میں مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ آسانیاں مشکل کے بعد ہی آتی ہیں۔
5نمبر والوں کے لیے کسی نئے معاہدے یا پلان کے تجویز آسکتی ہے، بہتر ہے عمل پیرا ہونے سے پہلے نظرثانی ضرور کرلیں، دھوکا دہی کا اندیشہ ہے۔
6نمبر والوں کے لیے راحت افزا دن ہوسکتا ہے، زندگی میں کوئی خوشی دینے والا آسکتا ہے، آپ خود کو لکی محسوس کریں گے
7نمبر والوں کے لیے زیادہ غوروفکر سے گریز کریں ابھی اہم فیصلے کا وقت مناسب نہیں، ایک ہفتہ انتظار کرلیں، مطالعہ اور روحانی امور کے لیے ایک بہتر دن ہے۔
8نمبر والوں کے لیے آپ کچھ سست روی کا شکار ہوسکتے ہیں، صحت کا خیال رکھیں اور مایوسی پیدا کرنے والے خیالات کو ذہن سے کھرچ دیں، کاموں کچھ رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
9 نمبر والوں کے لیے کاموں کی وقت پر تکمیل کرنے کے لیے مزاج کے اندر جارحانہ پن اچھی چیز ہے لیکن دھیان رکھیں کسی کی دل آزاری یا حق تلفی نہ ہو۔

منگل26مئی2020
حاکم نمبر8
(ایک مشکل اور پریشان کرنے والا دن)
صدقہ”سرخ رنگ اشیاء یا 90 یا 900 روپے
وردِ خاص” استغفراللہ یا غفاراللہ” 13 بار پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: کسی کم ظرف سے واسطہ پڑسکتا ہے، معاملے کو بڑھنے سے بچانا آپ کی کام یابی ہوگی۔
2نمبر والوں کے لیے: کام کی نوعیت آپ کے مزاج کے مخالف ہوسکتی ہے، گھبرائیے مت، اسی میں بہتری ہے، اپنے کام کو بہتر انداز سے سرانجام دیں۔
3نمبر والوں کے لیے: کچھ بہتری کی امید ہے، تجارتی امورِ یا جاب میں کچھ بدمزگی ہوسکتی ہے۔
4نمبر والوں کے لیے: ممکن ہے کوئی مہربان چیٹ کرنے کی کوشش کرے ، کسی سبز باغ کے لالچ میں نہ آئیں۔
5نمبر والوں کے لیے: محتاط رہیں، سفر سے گریز کریں، صدقہ دیں،
6نمبر والوں کے لیے: کہیں جانا انتہائی ضروری ہو تو سفر کریں ورنہ کل پر ٹال دیں۔
7نمبر والوں کے لیے: کچھ مشقت کا سامنا تو ہوگا، لیکن انجام آپ کے لیے خوش کن ہونے کی امید ہے ایک اچھا دن ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: کسی کام کی ابتدا کے لیے بہتر دن، لیکن پھر دن صدقہ ضرور دیں۔
9نمبر والوں کے لیے: خوامخواہ کی رکاوٹیں آپ کے قدموں میں زنجیر ڈالنے کی کوشش کرسکتی ہیں، کچھ مسائل پریشان کرسکتے ہیں۔

بدھ27مئی2020
حاکم نمبر5
صدقہ”زرد رنگ کی اشیاء یا 50 یا 500 روپے کسی طالب علم کو دینا مناسب ہوگا۔
وردِ خاص” یاھادی! اھدنا الصراط المستقیم” 5 بار یا اپنے نمبر کے مطابق پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: کوئی اچھی خبر ملنے کا امکان ہے، کوئی پرانا دوست کال کرسکتا ہے ، کوئی اچھی ڈیل ہوسکتی ہے۔
2نمبر والوں کے لیے مالی وروحانی خوشی کا دن ہے، ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔
3نمبر والوں کے لیے: کچھ مسائل ہوسکتے ہیں، کوئی بات بنتے بنتے بگڑسکتی ہے۔
4نمبر والوں کے لیے تیزرفتاری اور تلخ گویائی سے گریز کریں، اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس کریں گے جو آْپ کو رکے ہوئے کاموں کی تکمیل کی طرف لائے گی ۔
5نمبر والوں کے لیے: آپ کو ضرور دھوکادہی کا سامنا ہوسکتا ہے، حساب کتاب کے الجھاؤ میں کوئی شخص پھنسانے کی کوشش کرسکتا ہے محتاط رہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: مالی لحاظ سے اچھا دن، آپ کے کام کا و مناسب معاوضہ ملنے کی امید ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: بزنس یا جاب میں بہتری تبدیلی کا امکان ہے، کسی بہتر جگہ تبادلہ ممکن ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: کچھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں صحت اور جاب کے حوالے سے صدقہ دیں اور اپنا خیال رکھیں۔
9نمبر والوں کے لیے ایک بہتر اور معاون دن، کوئی بہتر راستہ سامنے آئے گا جو آپ کی منزل تک آپ کو بہ آسانی لے جائے گا۔

جمعرات28مئی 2020
حکام نمبر4
(اپ ڈاؤن لانے والا دن)
صدقہ” 30 یا 300 روپے کسی نیک شخص کی مدد کرنا مناسب ہوگا۔
وردِ خاص” یا عزیزُ یا معزُ یااللہ” 13 یا اپنے نمبر کے مطابق پڑھیں۔
1نمبر والوں کے لیے: کچھ راز آپ پر کھلیں گے، اب تک آپ ایک ہی پہلو سے دیکھتے آئے ہیں۔ آپ کی سنجیدگی میں اضافہ ہوگا، اور اپنے امورِ زندگی کو مزید بہتر انداز سے چلانے کی صلاحیت پیدا ہوگی
2نمبر والوں کے لیے: کچھ نیا خریدیں گے جو آپ کی شخصیت اور اندرونی ذات کی خوشی میں اضافہ کرے گا، آپ چیزوں کو خوب صورت بنانے کے لیے پرعزم ہوںگے۔
3نمبر والوں کے لیے: لمبی پلاننگ اور روحانیت کے حوالے سے آپ کے گذشتہ نظریات میں تبدیلی کا امکان ہے، ذہنی الجھاؤ سے نکلنے میں کچھ وقت لگے گا۔
4نمبر والوں کے لیے: حالات آپ کے لیے آسان نہیں ہوںگے، مشقت اور دقت ایک ساتھ آپ کی دانش مندی کا امتحان لے سکتی ہیں۔
5نمبر والوں کے لیے: آپ ایک نئی توانائی کے ساتھ عملی میدان میں اتریں گے جو کہ تحریر یا گفتار کا میدان ہوگا، آپ کام یاب ہوتے نظر آتے ہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: اپنے کام کو مزید پرکشش کرنے کے لیے آپ پبلسٹی کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں، یہ عمل یقیناً آپ کو ایک نئی کام یابی دے گا۔
7نمبر والوں کے لیے آپ کی کوئی پرانی امید ہوری ہوسکتی ہے، مالی آمدن میں بہتری کا امکان ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: آپ کی مسلسل مشقت آج آپ کو کوئی انعام دے سکتی ہے، بے شک آپ انتہائی محنتی اور مستقل مزاج ہیں۔
9نمبر والوں کے لیے کچھ الٹے سیدھے خیالات آپ کو آپ کی اصل راہ سے ہٹانے کی کوشش کریں گے، ان فضول خیالات کے ریلے کو گزرجانے دیں کوشش کریں کہ کہیں اس ریلے کے ساتھ آپ نہ بہہ جائیں۔

جمعہ29مئی2020
حاکم نمبر8
صدقہ”6کلو چینی، آٹا یا سوجی یا 60 یا 600 روپے کسی بیوہ یا مفلس بچوں کو دینا مناسب ہوگا۔
وردِ خاص”ٰیاحافظُ یا حفیظ” 11 بار پڑھنا مناسب ہوگا
1نمبر والوں کے لیے مزاج میں کاہلی کی وجہ سے نقصان ہوسکتا ہے، مشقت کا سامنا کیجیے تاکہ آپ کام یاب ہوسکیں
2نمبر والوں کے لیے آپ کی الیکٹرانکس، گاڑی یا سیل یا دیگرچیزیں خراب ہوسکتی ہیں، خیال رکھیں۔
3نمبر والوں کے لیے: مالی بہتری کی خبر ہے، بڑی پلاننگ کے لیے نظرثانی کرلیں، ابھی کچھ چیزیں واضح نہیں ہیں۔
4نمبر والوں کے لیے: آپ کو خالق نے انوکھا دماغ عطا کیا ہے۔ آپ اپنی الگ سوچ سے وہ مسائل حل کرلیتے ہیں دوسرا کوئی جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپ ایک بہتر منصوبہ بنائیں گے جو مستقبل میں آپ کو کام یابیاں دے گا
5نمبر والوں کے لیے آج کا دن اچھا نہیں ہے، صدقہ دیں اور اپنے امور میں الرٹ رہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: کسی ضروری کام کی وجہ سے سفر کا امکان ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: آپ کا مالی مفاد ہوسکتا ہے، ایک بہتر دن، اگرچہ کچھ الجھنیں بھی ساتھ ہیں۔
8نمبر والوں کے لیے آپ کی رکاوٹیں آپ کی اپنی ذاتی سستی اور اندر بیٹھے ڈر کی وجہ سے ہیں، کمر کس لیں ورنہ آپ کے مسائل پہاڑ بنتے چلے جائیں گے۔
9نمبر والوں کے لیے: کوئی شخص آْپ کے راستے میں کھائی کھودے بیٹھا ہے، آپ اسے دانش مندی سے ہینڈل کریں۔

ہفتہ30مئی2020
حاکم نمبر2
صدقہ، کالے چنے، کالا کپڑا، آلو بخارا، کالامرغا یا 80 یا 800 روپے کسی معذور یا مزدور کو صدقہ دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص” یا فتاحُ یارزاق یا اللہ” اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: کسی دوست کی مدد سے آپ ایک رکا ہوا اپنا کام نکلوالیں گے۔
2نمبر والوں کے لیے: ایک متحرک دن، آپ اپنا پلان تبدیل کرتے نظر آتے ہیں، ایک نئی سمت سفر ہوسکتا ہے۔
3نمبر والوں کے لیے خیالات اور عملی زندگی میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی، فضول ارادوں اور خیالات سے نکلیں، صحت کا خیال رکھیں۔
4نمبر والوں کے لیے آپ اپنی زندگی میں چھپی ہوئی خوب صورتی اور ڈھونڈہی لیں گے، ایک خوشی دینے والا دن۔
5نمبر والوں کے لیے: مالی امور میں کچھ رکاوٹیں ہوسکتی ہیں، مجموعی طور پر بہتر دن ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: ایک اچھا دن ہے، خوشی ملے گی، کسی مہربان سے بات ہوگی یا ملاقات کا امکان ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: مالی الجھن ہوسکتی ہے، آپ کی کوئی ضرورت آپ کو وقتی طور پر پریشان کرسکتی ہے ، مزاج میں تلخی آسکتی ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: آپ کوئی نیا کام مستقل بنیادوں پر شروع کرتے نظر آتے ہیں۔
9نمبر والوں کے لیے ملی جلی صورت ہوسکتی ہے، کچھ الجھنیں اور کچھ سلجھنیں ساتھ ساتھ۔

اتوار31مئی2020
حاکم نمبر5
صدقہ، 13یا 100 روپے کسی بھی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِ خاص” یا حی یاقیوم” 11 بار یا پنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا
1نمبر والوں کے لیے: آج آپ کا دن ہے ، کسی اہم جگہ مدعو ہوسکتے ہیں۔ آپ کے وقار کا ستارہ بلند ہوتا نظر آتا ہے
2نمبر والوں کے لیے: آپ کی جذبات کے ساتھ نفع نقصان کی جمع تفریق کی صلاحیت آپ کو ایک بہتر مقام کی طرف لے جائے گی۔
3نمبر والوں کے لیے: حالات آپ کے حامی ہیں لیکن پھر بھی کچھ چیزیں عارضی بریک ہوسکتی ہیں۔
4نمبر والوں کے لیے: غورفکر سے نئے راستے کھلیں گے آپ ایک نئی توانائی اور وجدانی صلاحیتوں سے حالات پر قابو پالیں گے۔
5نمبر والوں کے لیے: کسی اہم حکومتی شخصیت سے ملاقات اور اپنا پلان منظور کروانے میں کام یابی کی امید ہے ، آپکی عزت میں اضافہ ہوگا۔
6نمبر والوں کے لیے: سفر اور رابطوں سے فائدے ہوتے نظر آتے ہیں، مالی اور ذہنی دونوں سکھ ایک ساتھ!
7نمبر والوں کے لیے انسان دوستی کے لیے آپ ہمیشہ سرگرم نظر آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے کام غائبانہ ہوجاتے ہیں، ایک لکی دن ہوسکتا ہے ۔
8نمبر والوں کے لیے آپ بہتر ہے آج کا دن گھر میں سکون سے گزاریں، کسی سے گفتگو یا سفر سے گریز کریں، ورنہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
9نمبر والوں کے لیے کئی رابطے ہوسکتے ہیں، کئی لوگ ملاقات کو آسکتے ہیں، ایک مصروف دن!

رابطے کے لیے
واٹس ایپ: 0092-03338818706
فیس بک: saim almustafa saim

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

تیل کی سیاست

$
0
0

امریکا اور سعودی عربیہ کا تاریخی اتحاد اب کم زور پڑتا نظر آ رہا ہے اس اتحاد کا آغاز 1945 میں اس وقت ہوا جب امریکی صدر Franklin D. Roosevelt اور سعودی فرمارواں شاہ عبدلعزیز کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں معاہدہ ہوا کہ سعودی عربیہ امریکا کی تیل کی ضروریات پوری کرے گا اور اس کے بدلے میں امریکا شاہی خاندان کے اقتدار کی ضمانت دے گا۔

اس اتحاد کو مزید مضبوط 1974 کی ڈیل نے کیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ سعودی عرب اپنا تیل صرف ڈالر میں فروخت کرے گا لیکن 2011 سے امریکا میں آنے والے تیل کے انقلاب نے صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکا جو کے تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا اب تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن چکا ہے امریکا اب سعودی عرب سے زیادہ تیل فروخت کرتا ہے اور اب تیل کی مارکیٹ میں امریکا اور سعودی عربیہ حلیف نہیں بلکہ حریف بن چکے ہیں موجودہ تیل کی جنگ جو کہ بظاہر تو سعودی اور روسی اختلاف کی وجہ سے سامنے آئی لیکن اس نے سب سے زیادہ نقصان امریکی shale oil کی صنعت کو پہنچایا آیے موجودہ تیل کی جنگ کا معائنہ کرتے ہیں  8 مارچ 2020 کو سعودی عرب اور روس کے درمیان ایک کانفرنس میں  تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے پر اتفاق نہیں ہو پاتا اور ایک تنازعہ اٹھتا ہے۔

یہ کانفرنس کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد تیل کے استعمال میں کمی کے پیش نظر تیل کی پیداوار میں کمی کے لیے بلائی گی سعودی عرب روس سے تیل کی پیدا وار میں 1.5 ملین بیرل یومیہ کمی کا کہتا ہے اور ساتھ ہی 2016 میں اتفاق شدہ 2 ملین بیرل یومیہ کمی کو جاری رکھنے کی درخواست کرتا ہے تاکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت کو سہارا دیا جا سکے لیکن روس تیل کی پیداوار میں کمی کی سعودی تجویز سے رضامندی ظاہر نہیں کرتا جس کے جواب میں سعودی عرب تیل کی پیداوار مزید بڑھا دیتا ہے، تیل کی قیمت تیزی سے نیچے گرتی ہے۔

سعودی عرب کا بظاہر مقصد روس کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانا تھا لیکن پس پردہ مقصد اپنے مارکیٹ شیر میں اضافہ بھی تھا لیکن روس نے تیل کی پیداوار میں کمی سے انکار کیوں کیا؟ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے: ولادیمیر پیوٹن 20 سال سے روس کی قیادت کر رہے ہیں وہ چار بار روس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں جس طرح چین کے صدر نے 2018 میں آئین میں تبدیلی کروا کر خود کو تاحیات صدر منتخب کروا لیا تھا بالکل اسی طرح ولادیمیر پیوٹن بھی جب چاہیں اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے آئین میں ترمیم کر لیتے ہیں روس میں الیکشن برائے نام ہوتے ہیں۔

2018 میں ہونے والے الیکشن کے دوران ان کے ایک مخالف کو قتل کردیا گیا تھا جب کہ ایک مخالف کو الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا، لیکن عوام کے ایک بڑے طبقے میں پٹن ایک مقبول لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ مغرب کی طرف ان کا جارحانہ رویہ ہے جو کہ سرد جنگ کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ چاہے وہ 2016 کے امریکی الیکشن میں روس کی مداخلت ہو یا شام میں بشارالاسد کی حمایت ہو پٹن ہر موقع پر مغرب کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔

روس امریکا میں تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار سے خائف ہے اور سمجھتا ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی سے جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا فائدہ امریکی shale oil کی صنعت کو ہوتا ہے امریکا دیکھتے ہی دیکھتے روس اور سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے روس کا ماننا ہے کہ امریکا نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے مالی پابندیوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا امریکن منڈی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے، لہٰذا اگر امریکا کسی بھی کمپنی کو کسے بھی ملک کے ساتھ کاروبار ختم کرنے کا کہے تو اس کمپنی کے پاس امریکا کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسی ہی ایک کمپنی Swift ہے جو کہ بیلجیئم کی کمپنی ہے وہ صرف بینکوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔

یہ دنیا کے 11 ہزار بینکوں کو آپس میں ملاتی ہے اور روزانہ 2.5 کروڑ پیغام ایک بینک سے دوسرے بینک تک پہنچاتی ہے۔ اس کے بنا دنیا کا کوئی بینک نہ تو کسی دوسرے بینک کو پیسے بھجوا سکتا ہے اور نہ ہی وصول کرسکتا ہے اور بدقسمتی سے یہ واحد کمپنی ہے جو دنیا کے تمام بینکوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتی ہے دنیا میں نہ تو کوئی اور ایسی کمپنی ہے جو ایشیا کے بینکوں کو آپس میں ملائے اور نہ ہی کوئی اور ایسی کمپنی ہے جو ایشیا اور یورپ کے بینکوں کو آپس میں ملائے، بلکہ یہ واحد کمپنی ہے جو ایشیا، یورپ، امریکا اور آسٹریلیا کے بینکوں کو آپس میں ملاتی ہے اور دنیا کی ہر کمپنی کی طرح جب امریکا اس کمپنی کو کسی بھی ملک سے رابطہ ختم کرنے کا کہتا ہے تو اس کمپنی کو ماننا پڑتا ہے، لہٰذا اس کمپنی کو کہہ کر امریکا نے ایران کا پوری دنیا سے رابطہ ختم کروا دیا لہٰذا موجودہ دور میں امریکا کا سب سے بڑا ہتھیار معاشی پابندیاں ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا لیکن امریکی معاشی پابندیاں طاقت کا بے دریغ استعمال ہیں لیکن دنیا فی الوقت انھیں ہتھیار ماننے پر راضی نہیں۔ امریکا نے روس ایران اور ونیزویلا پر معاشی پابندیاں لگا کار انھیں تیل پیدا کرنے سے روک رکھا ہے۔ امریکا کی تیل کی پیداوار کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے 13 ملین بیرل یومیہ تھی، لیکن اس میں سے 7 ملین بیرل یومیہ شیل آئل ہے شیل آئل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فی بیرل شیل آئل کی پیداواری لاگت 30 سے 50 ڈالر کے  کے لگ بھگ ہے جب کہ سعودی عرب کی فی بیرل پیداواری لاگت 7 سے 10 ڈالر فی بیرل ہے جب کہ روس کی فی بیرل پیداواری لاگت 15 سے 20 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 30 ڈالر فی بیرل پر بھی روس اور سعودی عرب منافع کما سکتے ہیں لیکن امریکی تیل کی کمپنییاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں، لیکن امریکی معیشت تیل کی صنعت کے سہارے نہیں کھڑی جب کہ روس اور سعودی عرب کی معیشت تیل کے سہارے کھڑی ہے۔ روس کو اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے تیل کی کم سے کم قیمت 42 ڈالر فی بیرل چاہیے جب کہ سعودی عرب کا حال اس سے بھی برا ہے۔

سعودی عرب کی حکومت کو اپنے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے تیل کی کم سے کم قیمت 82 ڈالر فی بیرل چاہیے کیوں کہ سعودی عرب کے پاس 496 ارب ڈالر اور روس کے پاس 440 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں، لہٰذا وقتی طور پر دونوں ملک اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن تقریباً ایک ماہ بعد ہی دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پرا اور تیل کی پیداوار کم کرنے کا معاہدہ کرنا پڑا۔ اوپیک کے اجلاس میں دونوں ملکوں نے پیداوار میں 10 ملین بیرل یومیہ کمی کی اعلان کیا معاہدے کے مطابق ہر ملک تیل کی پیداوار کو 23 فی صد کم کرے گا روس اور سعودی عرب دونوں 2.5 ملین بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کم کریں گے، جب کہ عراق 1 ملین بریل یومیہ تیل کی پیداوار کم کرے گا۔

اس سال مئی سے جون تک تیل کی پیداوار میں کمی 10 ملین بیرل یومیہ ہو گی جب کہ جون سے دسمبر تک کمی 8 ملین بریل یومیہ ہو گی جب کہ جنوری 2021 سے اپریل 2022 تک کمی 6 ملین بیرل یومیہ ہو گی لیکن 10 ملین بیرل یومیہ کمی کے اعلان کے باوجود تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں تیل کی کھپت 65 سے 75 ملین بیرل یومیہ ہے، جب کہ روزانہ کی تیل کی پیداوار 100 ملین بیرل ہے، لہٰذا تیل کی منڈی میں موجود عدم توازن ختم کرنے کے لیے اوپیک کو تیل کی پیداوار میں 10 ملین بیرل یومیہ نہیں بلکہ 20 سے 25 ملین بیرل یومیہ کمی کرنی ہوگی اس کے بعد ہی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے جب کہ روس کسی طور پر 20 ملین بریل یومیہ کمی پر راضی ہوتا نظر نہیں آ رہا، لہٰذا مستقبل قریب میں تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری رہے گا۔

The post تیل کی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.

ماسک لگاکر جو حقیقتیں ہوئیں بے نقاب

$
0
0

 ہم زندگی میں پہلی بار ماسک لگارہے ہیں یا یوں کہیے کہ ماسک کو منہ لگا رہے ہیں۔ ویسے تو ہماری حرکتیں ہمیشہ سے منہ چھپانے والی رہی ہیں مگر پردہ رکھنے والا پردہ رکھتا رہا اس لیے کبھی منہ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اپنی پی ٹی آئیٍ….ارے معاف کیجیے گا غلط لکھ گئے…اپنی ڈھٹائی کے باعث ہم نے کبھی ’’کس منہ سے جاؤ گے‘‘ یا ’’کیا منہ لے کر جاؤ گے‘‘ جیسے مسائل کی پروا نہیں کی جہاں بھی گئے یہی منہ ساتھ لے گئے۔ ویسے دوسرا منہ لاتے بھی کہاں سے، یوں بھی اب تک تو یہ منہ سلامت ہے ’’اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔‘‘ جب سے ماسک لگایا اور منہ چھپایا ہے بہت سی حقیقتیں بے نقاب ہوکر سامنے آگئی ہیں۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی سانس اپنے منہ میں لوٹ کر آتی ہے تو ’’سانسوں کا ملنا‘‘ اور ’’سانسوں کا ٹکرانا‘‘ جیسے سارے رومانوی تصورات فضول لگنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی ساس کی طرح اپنی سانس برداشت کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ ڈکار کی منہ میں واپسی اس سے بھی کہیں زیادہ اذیت ناک تجربہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ معافی، معذرت اور موقف میں تبدیلی کی صورت میں اپنے ڈکار سے زیادہ بدبودار الفاظ واپس لیتے ہیں ان پر کیا گزرتی ہوگی!

ماسک لگانے سے یہ تجربہ بھی ہوا کہ سارے فساد کی جڑ دہانے کا وہ حصہ ہے جس میں ہونٹ دانت اور زبان پائے جاتے ہیں۔ اکثر جھگڑے خاص طور پر خاندانی تنازعات کسی کے آنے، کچھ فرمانے یا کوئی اعتراض اٹھانے پر منہ بنانے سے شروع ہوتے ہیں یا کسی کی بات یا ذات پر دانت نکال دینے سے جنم لیتے ہیں۔

ماسک لگے منہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جذبات احساسات اور خیالات کا پتا نہیں چلتا۔ کوئی پوری سنجیدگی سے کلن نائی، ببن قصائی اور شبن پنواڑی کے تجزیوں کی بنیاد پر سیاست پر موشگافیاں کررہا ہو، نماز پڑھو ’’قبل اس سے پہلے کہ‘‘ تمھاری نماز پڑھی جائے کی نثری نصیحت علامہ اقبال کا شعر قرار دے کر سنائے یا تاریخ بیان کرتے ہوئے جرمنی کی سرحد جاپان سے جا ملائے، آپ پسِ نقاب مسکرائیں یا پوری بتیسی نکال لیں، اسے خبر نہیں ہوگی کہ آپ اس کی دانائی سے بھری گفتگو پر دانت نکالے ہوئے ہیں۔ بس اثبات میں سر ہلاتے رہیں۔ یوں وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کے شرکاء اور وزیراعظم سے بالمشافہ ملاقات کرنے والوں کے لیے ماسک جراثیم ہی نہیں برہمی سے بچاؤ کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے، گویا ’’چہرہ چھپا لیا ہے کسی نے نقاب میں….ورنہ تو مسکرا کے وہ آتا عتاب میں۔‘‘

اس کے ساتھ ماسک بیگم کی تعریف کرتے ہوئے لبوں پر ہنسی روک کر آنے والی مسکراہٹ، شاپنگ کی فرمائش پر دانت بھینچ کر ابھرنے والی جھنجھلاہٹ، باس کی بکواس پر زیرلب گالیوں کی بھنبھناہٹ، کسی خطا پر چہرہ فق کرتی گھبراہٹ، کوئی پری چہرہ بیوی کے سامنے دیکھ کر ہونٹوں پر نغمے کی گنگناہٹ اور کسی بے زار کردینے والے کی طویل صحبت میں زور کی جَھلاہٹ کا پردہ رکھ لیتا ہے۔

ہماری عمر کے لوگوں کے لیے ماسک لگاکر راستے پر چلتے ہوئے اور لب سڑک سواری کا انتظار کرتے ہوئے گانا گنگنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے لمحات میں ہم تو دل بھر کے ’’مُنّی بدنام ہوئی‘‘،’’کجرارے کجرارے تورے کارے کارے نیناں‘‘ اور ’’نہ لحاف نہ غلاف ٹھنڈی ہوا بھی خلاف سُسری‘‘ جھوم جھوم کر گاتے ہیں مگر آنکھوں میں وہ غضب کی متانت ہوتی ہے کہ اگر کوئی بہ مشکل ماسک کے پچھے ہونٹوں کی جنبش کا اندازہ لگا بھی لے تو سمجھے گا ہم کوئی وظیفہ پڑھ رہے یا ’’سب مسلماں ایک ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ قسم کی کوئی قوالی گاکر اپنا ایمان بڑھا رہے ہیں۔

ویسے ماسک کے پیچھے ہم اکثر ذہنی آزمائش کے لیے پوچھے گئے سوال پر مبنی وہ مشہور گانا گا رہے ہوتے ہیں جس میں ایک ملبوس کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ بھیا بتاؤ تو اس کے پیچھے کیا ہے؟ پھر حکومتوں کی طرح آدھا سچ بولتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پیچھے دل ہے۔ مگر ایسے گانوں کا گانا ہی ٹھیک ہے ان کا ذکر تحریر میں آنا مناسب نہیں۔

ماسک کے اتنے فوائد جاننے اور ان سے مستفید ہونے کے بعد ہم نے تو فیصلہ کرلیا ہے کہ وبا رہے یا جائے اپنے رخ روشن سے اب ماسک ہٹایا نہ جائے گا۔ ہمارے اس فیصلے پر کسی کو اعتراض ہو تو ہوا کرے ’’میرا منہ میری مرضی‘‘ ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ ماسک میں بندھنا کھلے منہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادی عطا کرتا ہے۔

The post ماسک لگاکر جو حقیقتیں ہوئیں بے نقاب appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4561 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>