Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

’’پختون ولی‘‘ کیا ہے؟

$
0
0

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ کی حامل پختون قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جغرافیے کی تقسیم درتقسیم حد بندیوں کے باوجود ثقافتی طرز پر ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

دریائے آمو اور دریائے سندھ (اباسین) کے درمیان رہتے ہوئے پختونوں کے مختلف قبائل، مختلف رسم ورواج اور روایات کے باوجود ایک ہی قومی دھارے اور ثقافتی تہذیبی دائرے میں اپنی اپنی مخصوص قبائلی شناخت کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اور اس دھارے اور دائرے کو ’’پختون ولی‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ان کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، قانون، آئین اور قومیت کی اصل روح اور مادی قوت پنہاں ہے۔

پختون ثقافت اسی ضابطۂ اخلاق (code of life) کا عملی اظہار ہے، اور ان کی زبان پشتو اس کے ابلاغ، پھیلاؤ اور ترقی وترویج میں بنیادی کردار کا سب سے اہم حوالہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو نہ صرف اظہار وبیان کا ذریعہ اور وسیلہ ہے بلکہ پوری سماجی، نفسیاتی، ثقافتی زندگی، ضابطہ اخلاق اور تہذیبی تاریخ کو بھی ’’پختو‘‘ کہا جاتا ہے جو اسے دنیا کی دیگر زبانوں سے ممتاز کرتی ہے کیوں کہ پشتو زبان بھی ہے اور سماجی وثقافتی اعتبار سے ایک ضابطہ اخلاق اور قانون بھی ہے، جو پختونوں کی قومی وتہذیبی زندگی کی عکاس اور ترجمان ہے۔

لہٰذا ’’پختون ولی‘‘ پختونوں کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ایک ایسے ضابطے اور آئین کا نام ہے، جس کی روشنی میں ان کی سماجی اور تہذیبی زندگی کے تقریباً تمام پہلو کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور اس ضابطہ حیات میں ان کی طرززندگی، سیاست، ادب، ثقافت، تہذیب یہاں تک کہ مذہب بھی شامل ہے۔ یہ ضابطہ اس قدر مضبوط ہے کہ اگر کوئی پختون اس کی اقدار و روایات سے روگردانی کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اس پر لعن طعن کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی سے کوئی غیراسلامی وغیرشرعی حرکت بھی سرزد ہوجائے تو اس کی اتنی پروا نہیں کی جاتی جتنا سخت نوٹس ’’پختون ولی‘‘ سے انحراف یا روگردانی پر لیا جاتا ہے۔

گوکہ دنیا کے دیگر اقوام بھی اپنا اپنا منفرد ضابطہ حیات رکھتا ہے، اور بیش تر اقوام چند ایسے منفرد اصول اور ضابطے رکھتی ہیں، جس کی وہ پابند ہوتی ہیں، مگر ’’پختون ولی‘‘ کے جو اصول، سانچے اور ضابطے ہزاروں سالوں سے متوارث چلے آرہے ہیں۔ ہر پختون ان اصولوں، سانچوں اور ضابطوں پر عمل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے، تاکہ معاشرے کے طعنوں اور باتوں سے بچا رہے۔ اگر کسی پختون کو کوئی یہ کہے کہ آپ افغان نہیں ہو تو شاید شعراء، ادبا اور دانشوروں کے علاوہ اس موضوع پر کوئی اس بندے سے بحث وتکرار نہ کرے، اسی طرح اگر اسے کہا جائے کہ آپ تو روھی، سلیمانی یا پٹھان نہیں ہو تو اس کا بھی اتنا برا نہیں مانے گا۔

تاہم اگر کسی پختون سے یہ کہا جائے کہ تم تو سرے سے پختون ہی نہیں ہو یا تم تو ’’پختو‘‘ اور ’’پختون ولی‘‘ سے عاری ہو تو حقیقت یہ ہے کہ وہ اس بات پر اسی وقت الجھ پڑے گا کہ اس قسم کے الفاظ وہ اپنے لیے ایک بہت بڑا طعنہ سمجھتا ہے، کیوںکہ ’’پختو‘‘ اور ’’پختون ولی‘‘ کو وہ اپنا ایمان سمجھتا ہے۔ اس قسم کے اصولوں سے بنا ہوا ضابطہ دراصل ایک ایسا قالب ہوتا ہے جو کسی قوم کو جداگانہ حیثیت بخشتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم ظاہری اور باطنی طور پر ایک دوسرے سے منفرد ہوتی ہے، اور ہر قوم چند ایسی اقدار رکھتی ہیں جو دیگر قومیں نہیں رکھتیں، اور انہی منفرد اقدار وروایات اور رسم ورواج سے اس قوم کی پہچان ہوتی ہے، پختون قوم بھی بیشتر ایسی منفرد اقدار، رسم ورواج اور روایات رکھتی ہیں، جن کی بدولت اسے دنیا کے دیگر اقوام سے ایک جداگانہ حیثیت اور شناخت دی جاسکتی ہے اور جیسا ذکر کیا گیا کہ ان منفرد اقدار، روایات، رسم ورواج، اجتماعی نفسیات اور میراث پر مشتمل مجموعہ کو ’’پختون ولی‘‘ کہا جاتا ہے۔

اور یہ ’’پختون ولی‘‘ پختونوں کے مجموعی طرزعمل میں ظاہر ہوتا ہے، اور یہ طرزعمل پختون سماج کے ان بنیادی اداروں سے متعین ہوتا ہے، جنہیں ہم اقدار، روایات، رسم ورواج، معیشت، فنون وہنر، سیاست، زبان، علم وغیرہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ بنیادی ادارے معاشرے کی فکر اور اس فکر سے پیدا شدہ اقدار ومعیار کا نتیجہ ہیں جو بحیثیت مجموعی معاشرے کے طرزعمل کو متعین کرتے ہیں۔ ان میں بہت سے تصورات، معیار اور اقدار ایسے ہیں جو ہمیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملے ہیں۔ بہت ایسے ہیں جو کسی دوسری قوم کے اختلاط سے حاصل ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو گردوپیش کے طبعی حالات اور آب وہوا کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو معاشرے کے تاریخی بہاؤ میں ترقی یا تنزل کی حالت میں پیدا ہوگئے ہیں۔

یہی وہ عوامل ہیں جن کے سمجھنے سے کسی قوم کی ثقافت اور تہذیب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر پختون جو اپنی جو اپنی تہذیب وثقافت میں زندگی گزارنا چاہتا ہو اسے ان قدروں کا پاس رکھنا پڑتا ہے جو ’’پختون ولی‘‘ میں فرض کا درجہ رکھتے ہیں۔ پختون کردار کی سینہ بسینہ ایک روایتی تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ لفظ پختو پانچ حروف سے بنا ہے جس میں کردار کے لحاظ سے ’’پ‘‘ سے مراد ’’پت‘‘ہے۔

پت کے معنی ہیں عزت وناموس، حرف ’’خ‘‘ یا خین) کا مطلب ہے ’’خیگڑہ‘‘ یعنی نیکی، خیر، مدد اور احسان کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حرف ’’ت‘‘ ہے جس سے مراد ہے ’’تورہ‘‘ تورہ پشتو میں تلوار کو بھی کہتے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر تورہ کا مطلب شجاعت، بہادری اور دلیری کے ہیں، حرف ’’و‘‘ وفا کے لیے ہے وفا ووفاداری پختونیت سے مشروط ہے جو دوستی میں راستی کی صفت کو ظاہر کرتی ہے، حرف ’’ن‘‘ ننگ کے لیے ہے۔ ننگ پشتو میں غیرت کو کہتے ہیں اگر ان اوصاف اور خصوصیات کو مدنظر رکھا جائے تو پختون کہلانے کا مستحق وہ شخص ہوسکتا ہے جو ان اوصاف کا حامل ہو حقیقی پختون یا پشتون میں اس قسم کے اوصاف ضروری سمجھے جاتے ہیں جو بھی ان اوصاف سے عاری ہو اس کے لیے کسی پختون معاشرے میں زندگی بسر کرنا مشکل ہوجاتا ہے یا اگر ان کے بغیر رہتا بھی ہو تو اصطلاح میں اسے موذی کہتے ہیں۔ اور پشتو میں موذی ایک قسم کی گالی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتون ثقافت میں لوگ اس طعنے سے بچنے کے لیے پشتو کی قدروں کا پاس رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

پشتو کی ان قدروں کی تاویل وتفسیر کی گئی ہے۔ پشتو ایک فلسفہ ہے، ایک اخلاقی نظام ہے۔ اس اخلاقی نظام میں نیک وبد کا اپنا ایک تصور ہے جو اگرچہ اسلام کے اصولوں سے بھی کئی سرحدوں پر ملتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اکثر خصوصیات پشتو کی ایسی ہیں جو انفرادیت کے بھی حامل ہیں اور ممتاز بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر آفاقی حیثیت نہ بھی رکھتے ہوں تو پھر بھی آفاقیت کے قریب ضرور ہیں۔ اس لیے کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ پختونوں کی سرزمین پر مسلط عالمی جنگوں، بیرونی مداخلت، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، ثقافتی یلغاروں اور عالم گیریت کے اثرات کی وجہ سے پختون ولی میں کچھ منفی اثرات بھی نفوذ کرچکے ہیں، خیر وشر کے فطری اثرات سے بھی پشتو مبرا نہیں، لیکن ایک معاشرے کے اخلاقی نظام کے طور پر اصل پشتو اپنی نوعیت میں مثبت اقدار کی حامل ہے۔

اعلیٰ انسانی صفات سے مزین کردار کا تصور پشتو کا اخلاقی فلسفہ ہے۔ بقول پروفیسر پریشان خٹک (مرحوم) کہ پشتو مردانگی ہے اور مردانگی پشتو ہے۔ پشتو خدمت انسانیت کا نام ہے۔ پشتو میں تکبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پشتو میں ظلم کا تصور نہیں ہے۔ کم زوروں کے ساتھ زورآزمائی پشتو نہیں ہے۔ پشتو میں مظلومیت بھی نہیں ہے۔ پشتو اپنے قول پر برقرار رہنا اپنی بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اپنے وعدے کو نبھانا اور ایفا کرنا ہے۔

پشتو غنا ہے، پشتو استغنا ہے، پشتو میں مانگنا نہیں ہوتا، پشتو قناعت ہے، پشتو حق کی حمایت ہے پشتو میں ناروا نہیں ہے اور نہ ہی ناروا پشتو ہے۔ پشتو صبر کا نام ہے پشتو حوصلہ مندی ہے، پشتو برداشت کا نام ہے، پشتو کام کرنا ہے پشتو محنت کرنا ہے، پشتو جہد مسلسل ہے، جدوجہد پشتو کی صفت ہے جس پر پشتون تفخر کرتے ہیں اور پشتون کی ستائش اس سے ہوتی ہے۔

سستی بے کاری پشتونیت کا متضاد ہیں۔ پشتو دین، ملک اور عوام کی خدمت ہے، پشتو سچائی ہے پشتو خیانت نہیں ہے پشتو میں دغا نہیں ہے، پشتو میں دھوکا بازی نہیں ہے، پشتو میں چوری نہیں ہے، پشتو میں لوٹ نہیں ہے، پشتو میں ظالم نہیں ہے، پشتو مظلوم کی حمایت ہے، چور ڈاکو اور خائن کے خلاف آواز بلند کرنا یا ان کو پکڑنا پشتو ہے۔ پشتو صداقت کا نام ہے، پشتو میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ جھوٹ پشتونیت کی ضد ہے، یہ پشتون کے شان کے خلاف ہے کہ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لے، پشتو ہر کسی کے سامنے سچ بولنے کا نام ہے، پشتو جوانوں کی وجاہت اور لڑکیوں کی خوب صورتی ہے۔ پشتو زیور ہے پشتو مردوں کی پگڑی اور عورتوں کی چادر ہے۔ پشتو عورتوں کی عفت اور پردہ ہے۔ اس قسم کے بے شمار اعلیٰ اخلاقی تصورات پشتو سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔

ہر معاشرے کا اپنا ایک سماجی نظام ہوتا ہے۔ یہ نظام زندگی کی راہوں کے تعین کا جو بندوبست کرتا ہے وہ چند اخلاقی قدروں پر قائم ہوتا ہے۔ ان اقدار سے اگر ایک طرف کسی قوم کی اجتماعی زندگی نفسیات اور رجحانات کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف کسی قوم کے تشخص اور شناخت کی تصویر بھی اسی سے بنتی ہے۔ ’’پختون ولی‘‘ پختون تمدن وثقافت کا نام ہے، اس ثقافت کے اپنے قاعدے اور قوانین ہیں، یہ قاعدے اور قوانین پشتو زبان کی ان اصطلاحات کے ذریعے پہچان رکھتے ہیں جو زندگی کے مختلف امور سے متعلق ہیں۔ ہر اصطلاح اپنے معانی میں کسی قانون یا رسم ورواج کی تشریح وتعریف رکھتی ہے۔ پشتو زبان میں ہر رسم اور ہر قانون ان اصطلاحات کے ذریعے پختونوں میں جانا جاتا ہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ پختون ولی ایک ناتحریر شدہ آئین کی حیثیت رکھتی ہے تو اس لیے بھی کہ یہ صرف پشتو زبان میں زندہ ہے۔ جن لوگوں نے ’’پختون ولی‘‘ کے بارے میں پڑھا ہے وہ ان چند خصوصیات کے متعلق متفق ہیں جن میں ایک ’’میلمستیا‘‘ (مہمان نوازی) ہے جس میں اکثر اوقات میزبان اپنی اوقات سے بڑھ کر مہمان کے لیے کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ مہمان کا میزبان کے حجرے یا گھر میں داخل ہونے سے میزبان پر مہمان نوازی فرض ہوجاتی ہے۔ یہ مہمان نوازی شادی بیاہ اور کسی کی وفات کی رسم وراج کے وقت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ مہمان نوازی کے ساتھ پختون ولی میں ایک اور اہم جز ’’پناہ‘‘ دینا ہوتا ہے۔ پناہ ہر اس شخص کو دینا فرض ہوجاتا ہے جو پناہ دینے کی درخواست کرے۔

اور کسی کی پناہ میں رہ کر اس کا ’’ہمسایہ‘‘ بن جاتا ہے، مگر پناہ لینے والے کو اس علاقے اور قبیلے کے معاملات میں فیصلے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پختون ولی میں ’’پناہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جب کوئی مظلوم کسی ظالم کی زور زیادتی سے تنگ آکر پختونوں کے کسی علاقے یا گاؤں اور قبیلے کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے تو گویا اس نے پناہ حاصل کی اور اپنی حفاظت مانگی۔ اس حفاظت اور بچاؤ کو پناہ کہا جاتا ہے۔ پناہ لینے والا کسی گاؤں، قبیلے اور علاقے میں پناہ حاصل کرلے پھر وہاں کے لوگوں کا فرض اور غیرت کا تقاضا گردانا جاتا ہے کہ پناہ لینے والے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ اس کی خاطر پناہ دینے والا شخص اور قبیلہ اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ بڑی بڑی دشمنی اپنے سر لیتا ہے مگر پناہ لینے والے کی حفاظت کرتا ہے پناہ دینے میں بھی مہمان نوازی کی طرح کسی رنگ ونسل زبان اور مذہب کے امتیاز سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔

اس طرح ایک دوسرا اہم جز پختون طرز زندگی میں ’’بدل‘‘ (انتقام) ہوتا ہے۔ عام اصطلاح میں بدل سے مراد انتقام لیا جاتا ہے، تاہم بدل اپنے اعلیٰ معنوں میں شریعت موسوی کی مانند ایک معاشرتی نظام عدل کا نام ہے ’’بدل‘‘ کے معنیٰ کو صرف خونی انتقام تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے جیسے کہ عام لوگوں کا خیال ہے اور جس کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ بدل صرف آنکھ کے بدلے آنکھ کا نام نہیں بل کہ دوستی اور سماجی زندگی کے لین دین میں اچھائی کے بدلے اچھائی اور احسان کے بدلے احسان کو بھی کہا جاتا ہے یا کسی کو اس کی شادی کے موقع پر کوئی تحفہ دے یا کسی آڑے وقت میں کسی کی مدد کرے تو وہ پھر اسے اپنے اوپر ایک قرض سمجھتا ہے اور کہتا ہے ’’دفلانی پہ ما بدل پور دے‘‘فلاں کا مجھ پر بدل قرض ہے۔

پختونوں کے معاشرے میں ’’جرگہ‘‘ نظام نے گاؤں محلے کے چھوٹے چھوٹے معمولی تنازعات سے لے کر قبیلے اور علاقے کے بڑے بڑے سنگین مسائل اور دشمنیوں تک کو بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنے کا بہترین فریضہ سرانجام دیا ہے۔ آج بھی اس کی اہمیت اور طاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم پختون قوم اس وقت تین حصوں (خیبرپختون خوا، بلوچستان اور افغانستان) میں تقسیم ہے اور ایک الگ الگ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے تلے زندگی گزار رہی ہے۔ اسی الگ الگ قانون اور نظام کے زیراثر جرگہ نظام کی اپنی اصل روح اور شکل پر بھی کچھ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جس طرح آج ملک کی عدالتیں، تھانے، کچہریاں اور دیگر دفاتر و ادارے رشوت و سفارش کے نرغے میں ہیں۔ اس طرح بعض علاقوں میں جرگہ کرنے والے یا ماہرین جرگہ بھی باقاعدہ پہلے اپنی فیس کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آج کے اکثر جرگوں میں جرائم پیشہ اور بدمعاش قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس قسم کے جرگہ کرنے والے سنگین سے سنگین نوعیت کا مسئلہ اور تنازعہ باقاعدہ ٹھیکے پر لیتے ہیں۔

جرگہ اور حجرہ پختونوں کی زندگی میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں اور دونوں روایات کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جن جن علاقوں میں جرگہ اور حجرہ اپنی اصل روح اور جواہر کے ساتھ موجود اپنا کردار نبھا رہے ہیں وہاں دیگر علاقوں کے مقابل جرائم، قتل و غارت، ڈاکا زنی اور اغواء جیسے جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ پختونوں کا جرگہ نظام جمہوریت، عدل و انصاف اور اظہار رائے کی آزادی کا ایک بہترین فورم ہے۔ جرگہ نظام کے ساتھ دو رسمیں اور بھی ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ان میں ایک دستور کا نام ’’ننواتے‘‘ (کسی کے گھر میں داخل ہونا) ہے ۔ اپنی کسی غلطی پر پشیمان ہونے، کسی کا عذر کے ساتھ کسی کے پاس جانے یا اپنے مخالف کے گھر معافی مانگنے کیے لیے جانے کو پشتو میں ’’ننواتے‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے ’’ننواتے‘‘ کو تسلیم کرنا، آنے والے کو بخش دینا بھی ایک دستور ہے۔ اس دستور کے ذریعے بڑے بڑے جرائم اور قتل جیسے سنگین گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ ’’ننواتے‘‘ میں اکثر علاقوں میں اپنے ساتھ دنبہ یا بکرا بھی ساتھ لے جایا جاتا ہے اور جب ننواتے منظور ہوجاتی ہے تو اس جگہ دنبہ یا بکرا ذبح کرکے مشترکہ طور پر کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس طرح جب خواتین اپنے کسی مخالف کے گھر بطور ننواتے جاتی ہیں تو اپنے ساتھ قرآن پاک بھی سر پر رکھ کر جاتی ہیں۔

دوسرے متعلقہ دستور کو ’’تیگہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تیگہ پشتو میں پتھر کو کہا جاتا ہے۔ جب جرگہ دو فریقین کی آپس میں صلح کرانا چاہے تو بیچ میں ’’تیگہ‘‘ رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک علامتی پابندی ہوتی ہے کہ آپ دونوں اس وقت تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے جب تک جرگہ کا یہ فیصلہ سامنے نہیں آجاتا ۔ تیگہ کی خلاف ورزی کی جائے تو جرگہ خلاف ورزی کرنے والے فریق سے مقررہ جرمانہ بھی وصول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے علاقہ بدر بھی کیا جاتا ہے اور اس سے قطع تعلق بھی کیا جاتا ہے جب کہ فیصلہ متاثرہ فریق کے حق میں دے دیا جاتا ہے۔ تیگہ کی روایت کو اب بعض علاقوں میں دورجدید کی اصطلاح میں عارضی جنگ بندی، فائر بندی (جسے پشتو میں ڈز بندی کہتے ہیں) جیسے نام دیے گئے ہیں۔

’’حجرہ‘‘ آپ جیسے ہی قبائلی معاشرے میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ کی نظر ایک بڑی عمارت پر پڑتی ہے عام طور پر مٹی اور پھتروں کی بنی اس عمارت میں ایک بڑا اور وسیع وعریض کمرا اور ایک میدان ہوتا ہے جس میں جگہ جگہ چارپائیاں بچھائی جاتی ہیں اور تکیے لگے ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے قبائلیوں کا کلب اور کمیونٹی سینٹر ہوتا ہے اسے حجرہ کہتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے مذکورہ کیمونٹی سینٹر یا کلب سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے کچھ تحریری رواج نہیں ہوتے، کوئی بھی اجنبی اس میں داخل ہو تو وہ پورے محلے یا قبیلے کا مہمان بن جاتا ہے اور اگر اس کو کوئی نقصان پہنچائے تو وہ شخص پورے محلے اور قبیلے کا دشمن بن جاتا ہے۔ حجرے میں ہر عمر کے مرد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔

گاؤں، محلہ اور قبیلے کے تمام اہم فیصلوں کے علاوہ ملک کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی صورت حال پر بحث مباحثے بھی اسی مرکز میں ہوتے ہیں کسی کی فوتگی کے وقت تین دن تک فاتحہ خوانی بھی حجرے میں ہوتی ہے گاؤں اور محلہ والے والے تین دن تک فوتگی والے گھر میں کھانا لاتے ہیں اور اس گھر میں تین دن تک چولہا نہیں جلنے دیا جاتا۔ حجرے میں عورت کے آنے پر سخت پابندی ہے کوئی عورت حجرے میں آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ پہلے عموماً پورے گاؤں اور محلے کا ایک ہی حجرہ ہوا کرتا تھا اور وہاں آنے والا مہمان سب کا مشترکہ مہمان سمجھا جاتا تھا اور ان کی مہمان نوازی سب مشترکہ طور پر کیا کرتے تھے۔ تاہم اب حجرہ صرف غمی اور خوشی کے مواقع پر آباد رہتا ہے کیوں کہ اب ہر کسی نے اپنے لیے الگ الگ حجرہ، ڈرائنگ روم اور بیٹھک بنایا ہوا ہے۔

The post ’’پختون ولی‘‘ کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


یومِ والدین

$
0
0

محمد احسان کی عمر اس وقت 64 سال ہے، یہ کسی زمانے میں ملک کے مایہ ناز سرکاری انجنیئر ہوا کرتے تھے، ساری زندگی انہوں خوب عیش و عشرت میں گزاری جس چیز کی تمنا کی، وہ ان کے سامنے دوڑتی ہوئی حاضر ہوگئی۔

اپنی بیوی سے انہیں شدید محبت بلکہ عشق تھا اس لیے ساری زندگی وہ اُس کے لبوں کے متحرک ہونے کے انتظار میں رہے کہ کب اُس کی زبان سے کوئی فرمائش کی جائے اور وہ اُسے پورا کردیں اور محمد احسان کا اکلوتا بیٹا کامران جس کے لیے انہوں نے جائز و ناجائز دولت کے انبار پوری لگن سے جمع کیے تھے۔

اُسے تو انہوں نے دنیا کی ہر آسائش وقت اور عمر سے بھی بہت پہلے ہی لاکر دینا شروع کردی تھی ، کامران کی جب سائیکل چلانے کی عمر ہوئی تو موٹر بائیک لاکر دے دی، جب موٹر مائیک چلانے کی عمر آئی تو گاڑی خرید کر دے دی اور جب اُس کی ملازمت ڈھونڈنے کا وقت آیا تو اپنی برسوں کی جمع پونچی اور تمام جائیداد اُس کے ہاتھوں میں تھماکر خود سکون سے ایک بھرپور ریٹائر زندگی گزارنے کے زعم میں آرام دہ بستر پر دراز ہوگئے اور آنکھیں بند کرکے دن میں خواب دیکھنے لگے کہ جس جاں سے پیارے بیٹے کی وہ ساری زندگی ’’چیزوں سے خدمت‘‘ کرتے رہے اب وہ اکلوتا بیٹا اپنی چاند سی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ان کی پورے ’’اخلاص سے خدمت‘‘ کرے گا۔

یہ خواب چونکہ دن کو دیکھا گیا تھا اس لیے جلد ہی ٹوٹ گیا۔ ابھی محمد احسان کو بستر سے لگے پورے چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ انہیں رات میں باربار اُٹھنے کی بیماری لاحق ہوگئی، جس سے ان کے بیٹے اور اُس کی نئی نویلی دلہن کو سخت کوفت ہونے لگی۔ بڑے ارمان اور چاؤ سے لائی گئی بہو نے اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ انہیں شہر کے کسی اچھے سے ’’اولڈ ہوم‘‘ میں داخل کرادیں اور ان کی زوجہ محترمہ کو ملازمہ کا روزمرہ کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے گھر میں ہی رکھ چھوڑیں۔ محمد احسان نے اپنی رفیقِ زندگی کے بغیر ’’اولڈ ہوم‘‘ جانے سے لاکھ انکار کیا لیکن اُن کی ایک نہ چلی اور اب حالت یہ ہے کہ ہر چھ ماہ میں ایک بار ملاقات کرنے کے لیے اُن کا بیٹا اور بہو ’’اولڈ ہوم‘‘ اُن سے ملنے آجاتے ہیں۔

محمد احسان اپنے پیارے ملاقاتیوں کے چلے جانے کے بعد ساری دنیا کو چیخ چیخ کر کہنا چاہتا ہے کہ ’’جب تک وہ تن درست تھا، کماتا تھا، اس وقت تک ان کے گھر والوں کا برتاؤ ان کے ساتھ مناسب رہا لیکن اب وہ ساری زندگی اُن کی ضرورتوں کا بوجھ اُٹھانے والے کو ہی خود پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ’’اپنے‘‘ گھر میں رکھنا نہیں چاہتے۔ سب کا خون سفید ہوگیا ہے لیکن پھر وہ یہ سوچ کر چُپ ہوجاتا ہے کہ بھلے ہی وہ اپنے وقت کا ایک کام یاب انجنیئر رہا ہو مگر اُس نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے خود کو ٹھیک سے’’ انجنیئرڈ‘‘ نہیں کیا، ورنہ اُس کی بیوی اور بیٹا اُس کے ساتھ ایسی ’’بے رحمانہ حرکت‘‘ آخر کرتے ہی کیوں۔‘‘

زمانہ جتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے انسانی اقدار اسی تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہیں جہاں پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ہم دردی باقی نہیں رہی۔ خصوصی طور پر ناخلف اولاد اپنے والدین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے۔ اسے ضبط تحریر میں لانا بے حد مشکل ہے۔ ویسے تو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے شعور کی کمی کسی نہ کسی صورت ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ دورِ جدید میں جس تواتر اور کثرت کے ساتھ والدین کے ساتھ بدسلوکی کے دل دہلا دینے والے لرزہ خیز واقعات دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں، یقیناً اس کی مثال تو ماضی کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

والدین کے ساتھ زیادتی و بدسلوکی کے واقعات دنیا کے ہر ملک، ہر معاشرہ، ہر فرقہ اور ہر قوم میں اس تواتر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہی اقوام ِ متحدہ نے 17 ستمبر 2012 ؁ء کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے اپنے تمام رکن ممالک کو پابند کیا کہ وہ ہر سال یکم جون کو بطورِ یوم والدین منانے کے پابند ہوں گے۔

اُس وقت سے ہر سال یکم جون کو دنیا بھر میں ’’یوم والدین ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یکم جون کو والدین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ والدین کی عزت و توقیر معاشرہ کی نشوونما کا سب سے اہم جز ہے۔ اس کے بغیر معاشرے کو جس افراط و تفریط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُس کا آخری نتیجہ انسانیت کی موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ اپنے تمام رُکن ممالک کو اس دن کے ذریعے سے یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں ایسے قوانین اور پالیسیاں بھی بنائیں جن سے والدین کو معاشرہ میں عزت، وقار، ستائش اور تحفظ حاصل ہوسکے۔

گو کہ دنیا بھر میں ’’والدین‘‘ اپنی اولاد کے ہاتھوں جس قسم کے الم ناک رویوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اُن کے مقابلے میں پاکستان میں حالات فی الحال قدرے بہتر ہیں لیکن اتنے بھی بہتر نہیں ہیں کہ جنہیں ہم اطمینان بخش قرار دے کر صرفِ نظر کر سکیں، کیوںکہ روز بہ روز ہمارے ہاں بھی والدین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

آج سے 25 سے 30 سال پہلے ہمارے والدین انفرادی اور اجتماعی طور پر جس اہمیت، احترام اور تحفظ کا احساس رکھتے تھے آج اُس کا عشر عشیر بھی معاشرے میں باقی نہیں رہا۔ اُس وقت یہ تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا کہ پاکستان میں کبھی ’’اولڈ ہوم‘‘ بھی کھلیں گے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ’’اولڈ ہوم‘‘ کھل چکے ہیں اور مزید کھل رہے۔

اولڈ ہوم چاہے کتنے ہی خوب صورت اور آرام دہ کیوں نہ ہوں مگر معاشرہ کے لیے ان کا وجود ایک المیہ کی علامت ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ وقتی طور پر والدین کی مادی ضروریات کی تکلیف تو کچھ کم کر سکتے ہیں مگر کسی بھی صورت اُن کے اُن نفسیاتی و ذہنی دکھ درد کا مداوا نہیں بن سکتے، جس کا شکار اولڈ ہوم میں آنے والے اکثر و بیشتر والدین ہوتے ہیں۔ اولڈ ہوم ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیرفطری رویوں کا مظہر ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان عوامل کا نہ صرف سراغ لگائیں جن کی وجہ سے ہمارے مضبوط خاندانی معاشرے میں ’’والدین‘‘ ادب و احترام کے حوالے سے شکست و ریخت کا شکارہو رہے ہیں بلکہ اُن کے تدارک کے لیے ہر ممکن عملی قدم بھی اُٹھائیں۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں سالانہ عالمی ٹیچر ایوارڈ کا انعقاد کرنے والی تنظیم ’’ورکی فاؤنڈیشن‘‘ نے والدین کے ترجیحات اور رویوں کو جاننے کے لیے 29 ممالک کے 83,027 والدین کا سروے کیا تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کس مقام پر ’’سنگین غلطی‘‘ کے مرتکب ہورہے ہیں کہ بچے بڑے ہوکر اپنے آپ کو والدین سے وابستہ ہونے میں عدم دل چسپی سے کام لے رہے ہیں۔

سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر ماں باپ کے رویوں میں اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کے روزگار کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دنیا کے اکثر والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے گھریلو جھگڑوں، کیریئر یا کاروباری ترقی، ملکی سیاست اور دیگر تنازعات پر زیادہ غور کرتے ہیں، اوربچوں کو اُن کی ذہنی صلاحیت، کارکردگی اور فیصلہ سازی میں معاون اشیاء مثلاً غیرنصابی کتابیں، کیلکولیٹر، برقی ڈکشنری یا اس نوعیت کی دیگر سائنسی آلات فراہم کرنے کی بہ نسبت اسکول کی فیس، آمدورفت کے اخراجات اور ٹیوٹر کو تنخواہ دینے میں زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں، جب کہ دنیا کے صرف گیارہ فی صد والدین ہی اپنے بچوں کے ساتھ چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ گزار پاتے ہیں۔ رپورٹ سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق والدین کے یہی غیردانش مندانہ رویے بچوں کو ذہنی و قلبی طور پر والدین سے دور کر رہے ہیں۔

یکم جون ’’یوم والدین ‘‘ کے صورت میں جہاں ہماری نئی نسل سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی محبتوں، قربانیوں اور شفقتوں کا احساس کریں اور اُنہیں وہی عزت، احترام اور مقام دیں جس کا ہم سے ہمارا مذہب، ہمارا معاشرہ، ہماری اقدار اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہم سے تقاضا کرتی ہے۔ وہیں والدین پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور اولاد کے درمیان مزاج آشنائی کا ایک مناسب ماحول تخلیق کریں۔

اس کے لیے فریقین کا ایک دوسرے کے مزاج اور رویوں سے ہم آہنگی حاصل کرنا ازحد ضروری ہے اور ہم آہنگی تب ہی حاصل ہوگی جب دونوں فریق ایک دوسرے کی ذہنی و نفسیاتی ضروریات سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ اولاد کو یہ سوچنا ہو گا کہ زمانہ چاہے کتنا بھی جدید ہوجائے بہرحال کچھ روایات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی پابندی والدین کا دل جیتنے کے لیے ضروری ہوتی ہے، جب کہ والدین کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا کہ وہ اولاد سے متعلق تمام فیصلے صرف اپنے ماضی کے محدود مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں نہیں کر سکتے۔ اُنہیں بھی جدید اطلاعات کے سمندر سے اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور مستفید کرنا ہوگا۔

جیسا کہ امامِ علم و حکمت حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! کبھی بھی اپنی اولاد کو اپنے جیسا بننے پر مجبور نہ کرو کیوںکہ یہ اپنے زمانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اگر انہیں بھی تمہارے جیسا بنانا ہی قدرت کا منشا ہوتا تو پھر وہ انہیں پیدا ہی کیوں کرتا، اس کے لیے تو تم لوگ ہی کافی تھے۔‘‘ آج کا دور کیوںکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے اور ہم میں سے ہر شخص کا زیادہ تروقت انٹرنیٹ پر ہی صرف ہوتا ہے اس لیے یہاں ہم والدین کی تربیت، اولاد کی آگاہی کے حوالے سے دنیا کی چند بہترین ویب سائیٹس دے رہے جو ہماری رائے میں ہر کسی کے لیے معلومات افزا ثابت ہوں گی:

1 ۔www.understood.org

تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہترین اور سازگار ماحول فراہم کریں جو ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔ یہ ویب سائیٹ اُن تمام امور کا احاطہ کرتی ہے جو آپ کو بچوں کے مسائل کو سمجھنے یا اُن کو حل کرنے کے سلسلے میںآپ کو کبھی بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔

2 ۔www.parentmap.com

یہ ویب سائیٹ جہاں دنیا بھر کے کام یاب والدین کے تجربے، مشاہدے اور معلومات کا نچوڑ آپ کے سامنے پیش کرتی ہے، وہیں ایسے مقابلے بھی کرواتی ہے جن میں آپ کو ایک اچھا والد یا والدہ بننے کا چیلینج دیا جاتا ہے، اگر آپ اس چیلینج کو پورا کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو یہ ویب سائیٹ آپ کو انتہائی قیمتی انعامات سے بھی نوازتی ہے۔

3 ۔www.freeprintablebehaviorcharts.com

اس ویب سائیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہر بات، رویہ اور کام کو لمبے چوڑے مضامین یا لیکچرز کے بجائے مختلف چارٹس کی شکل میں سمجھا یا جاتا تاکہ آپ کو اس ویب سائیٹ میں دیے گئے مشورے عملی طور پر اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے میں آسانی ہو۔ آپ ان چارٹس کو مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے ساتھ، ساتھ پرنٹ بھی کر سکتے ہیں۔

4 ۔https://www.fathers.com

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ ویب سائیٹ اچھا باپ بننے کے لیے آپ کو وہ تمام آزمودہ نسخے اور حل فراہم کرتی ہے جو آپ کے اور بچوں کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے معاون ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ، ساتھ یہاں آپ اچھا والدین بننے کے لیے خصوصی کورسز بھی کرسکتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت! تو کیا پھر تیار ہیں آپ کوالیفائیڈ والد بننے کے لیے؟

5 ۔www.workingmother.com

اگر آپ ورکنگ مدر ہیں اور آپ پریشان رہتی ہیں کہ کم سے کم وقت میں کس طرح اپنے بچوں کے لیے ایک مہربان ماں کا درجہ حاصل کر یں تو یہ ویب سائیٹ آپ ہی کے لیے ہے۔ یہاں آپ کے لیے وہ سب معلومات موجود ہیں جس کے ذریعے آپ اپنے کام یا ملازمت کو متاثر کیے بغیر اپنے بچوں کی درست سمت میں تربیت و راہ نمائی بالکل کسی گھریلو خاتون خانہ کی طرح کر سکتی ہیں۔

آج کے جدید دور میں فلم بھی ایک ایسا میڈیم ہے جو ہر ذہن کو بہت کم وقت میں متاثر کر کے اُس کے رویوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو معاشرے کی شکست و ریخت کا ذمہ دار بھی اسے ہی قرار دیا جاتا ہے۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ آپ کلیتاً اس میڈیم پر پابندی بھی نہیں لگا سکتے لیکن اگر آپ چاہیں تو ایک کام ضرور کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ ایسی فلمیں بھی دیکھیں جو آپ کے لیے والدین کے مسائل اجاگر کرنے بلکہ ان کے حل کے لیے بھی آپ کو کوئی راہ سجھاسکیں۔ یقین مانیے دنیا بھر میں ہر سال بے شمار فلمیں والدین کے مسائل، شعور اور تربیت کے لیے بھی بنائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں تو یہاں ہم چند فلموں کے نام دے رہے آپ انہیں دیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی دکھائیں اُمید ہے کہ پھر آپ ہماری رائے سے متفق ہوجائیں گے۔

1 ۔پیرنٹل گائیڈنس (Parental Guidance)

2012 ء میں اینڈی فک مین کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم ایک ایسی کہانی پر مشتمل ہے جس میں ہنسی مذاق میں والدین کے عزت و احترم کی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس فلم نے 119.8 ملین ڈالر کا بزنس کیا جس سے آپ اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

2 ۔ لائم لائف (Lymelife)

دو بھائیوں ڈیرک مارٹینی اور اسٹیون مارٹینی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں والدین کی بڑھتی عمر کے مسائل اور پریشانیوں کو انتہائی موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم 2008ء میں پردہ اسکرین پیش کی گئی تھی۔

3 ۔ باغبان

2003 ء میں بننے والی اس بھارتی فلم میں ایسے والدین کو بطور مرکزی کردار پیش کیا گیا ہے، جو اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کی عمر کے بعد اپنے بچوں کی طرف سے ناقدری اور توہین آمیز سلوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مگر بجائے ہمت ہارنے یا رونے دھونے کہ وہ کیسے ان نامساعد حالات سے واپس نکلتے ہیں۔ یہی اس فلم کی خاص بات ہے، جس میں والدین اور بچوں کے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔

4 ۔ مسز ڈاؤٹ فائر(Mrs. Doutfire)

والدین کی محبت اور خاندانی رویوں کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتی یہ فلم 1993ء میں پردۂ سیمیں پر پیش کی گئی ۔ اس فلم میں اولاد کی تربیت کے کئی پوشیدہ زاویے منکشف کیے گئے ہیں۔

5 ۔ پیرنٹ ہڈ(Parenthood)

126 ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کرنے والی یہ کامیڈی، ڈراما فلم ایسے والد کے گر د گھومتی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کیریئر میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے، اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے اسے کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس فلم میں ہی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

The post یومِ والدین appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک ’’کُہنہ مشق‘‘کی کُہنی

$
0
0

بعض لوگ ہماری بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کودیکھ کر ہمیں ’’کہنہ مشق‘‘ ادیب کہنے لگے ہیں لیکن عید کے موقعے پر انھوں نے اس کہنہ مشق کے دائیں ہاتھ کی کہنی پر اتنا تشدد کیا کہ ایک ہفتے سے اس کی ٹکور کروارہے ہیں۔

عید ملنے کے لیے آنے والے احباب مسلسل تین روز تک کہنی سے کہنی ٹکراتے رہے اور ذرا خیال نہ کیا کہ ہماری ہڈیاں اب بُھربُھری بلکہ کُرکُری ہوچکی ہیں۔ کورونا نے مجبور کردیا ہے کہ انسان کسی سے ہاتھ نہ ملائے بلکہ تمام دن اپنے ہی ہاتھ ملتا رہے۔ وہ معانقہ بھی نہ کرے کہ کہیں اس کے نتیجے میں مقاطعہ نہ ہوجائے۔ لہٰذا آدابِ عید کی بجاآوری کے لیے کہنی یہ دونوں فرائضِ غیرمنصبی انجام دیتے دیتے ’’کُہنا‘‘ ہوگئی ہے۔

ڈھائی تین ماہ سے گھروں میں محصور یار دوست اور عزیز و اقارب عید کے تین دنوں میں یوں باہر نکل پڑے جیسے گھوڑوں کی ریس چھوٹتی ہے۔ سماجی فاصلے کے سرکاری مشوروں اور احکام کو ہوا میں اڑا کر لوگوں نے ثابت کردیا کہ تہوار زمین پر بنے دائروں میں کھڑے ہوکر نہیں منائے جاتے۔ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جن کے لیے کسی فلمی شاعر نے کہا تھا ؎

آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے

پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

جانِ جانان کے رتبے تک پہنچنے کے لیے صرف نظروں سے نظروں کا ٹکرانا ہی کافی نہیں، جسمانی تصادم بھی ضروری ہوتا ہے۔ کبھی اس مقصد کے حصول کے لیے سینے دھونکے جاتے تھے، اب یہی اُفتاد کہنیوں پر آن پڑی ہے۔ عید کے دن ہم نے گھر آنے والے پہلے مہمان کا استقبال اپنی اُس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کیا جس میں اب بڑی حد تک کڑواہٹ آگئی ہے اور جو لوگوں کو قریب کھینچنے کے بجائے کھلم کھلا یہ اشارہ دیتی ہے کہ…ذرا فاصلے سے ملا کرو۔ بہرحال آنے والے دوست نے ہمارے چہرے پر توجہ نہ دی (یا اُسے اس قابل نہیںسمجھا) اور جھٹ کہنی نکال کر ہماری طرف بڑھے۔

ایسا لگتا تھا کہ یہ اُسے ہماری پسلیوں میں گھونپ دیں گے۔ ہم نے پُھرتی سے اپنی کہنی پر ان کی کہنی کا وار روکا اور عید مبارک کہہ کر کہنی سہلانے لگے…یعنی اپنی کہنی۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی کہنی پر ’’تاؤ‘‘دیا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ وہ یہاں آتے ہی یہ نئی رسمِ دنیا ادا کرچکے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ تہنیتی کہنی تھی اور یہ رخصتی کہنی ہے۔ ہم ابھی پہلے ٹکراؤ کی کیفیت سے پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے اُسی ’’مضروب‘‘ کہنی کو مزید مغضوب کردیا۔ ہمارا حال یہ تھا کہ ؎

دل یہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے

تیر پہ تیر چلاؤ تمھیں ڈر کس کا ہے

عید کے دن ہی شام تک ہماری کہنی متورّم ہوچکی تھی۔ بیگم اس کی ٹکور کرتی جاتیں اور دن بھر آنے والوں کو بے نقط سناتی جاتی تھیں۔ درمیان میں اپنی شعلہ فشاں زبان کا ایک آدھ گولا وہ ہماری طرف بھی چھوڑدیتیں۔ انھیں اس بات کی مطلق پروانہ تھی کہ جو غریب جسمانی تکلیف سہہ رہا ہے، کم ازکم اسے ذہنی اذیت سے تو محفوظ رکھیں لیکن ہماری بیگم کا تو یہ حال ہے کہ ع تیری زباں کے آگے نہ دہقاں کا ہل چلے۔ زبان کیا ہے دودھاری تلوار ہے جس کی ایک دھار سننے والے کو گھائل کرتی ہے جبکہ دوسری اسے شہادت کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔

باسی عید کو ہم نے اپنے ’’بیڈ روم‘‘ کو قرنطینہ قرار دے دیا اور خود اُس میں مائیوں بیٹھ گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اب بقیہ دن سکون سے گزرے گا لیکن حضرت علامہ نے غلط تھوڑی کہا تھا ع سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔ عین اُس وقت جب سورج سوا نیزے پر اور ہمارا مُوڈ اس سے بھی دو نیزے اوپر تھا ہمارے ایک سابق باس اچانک اور غیرمتوقع طور پر چلے آئے۔ ان کی ناگہانی اینٹری بالکل ایسی تھی جیسے ایک قدیم شاعر اپنے محبوب کے گھر میں آن دھمکے تھے ؎

گھر میں ترے کُودا کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا

جو ہم سے ہوا فعل وہ رستم سے نہ ہوگا

(نوازش حسین نوازشؔ)

اب اگر ہم اُن سے اپنے کورونامیں مبتلا ہونے کا امکان تو کیا شبہ بھی ظاہر کردیتے تو وہ فوراً رفو چکر ہوجاتے اور اس بات کو آگے پھیلاتے۔ لوگوں کو تو بہانہ چاہیے افواہ طرازی کا۔ بڑھتے بڑھتے یہ افواہ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب تک پہنچتی ۔ وہ ہمارا ٹیسٹ تو بعد میں کرواتے پہلے ہمارے محلّے کو سِیل کراتے اور یوں ہم اپنے ہمسایوں کے لیے باعثِ اذیت وحزیمت بنتے۔ (ہم ہمیشہ اتنی ہی دور کی سوچتے ہیں اور اسی لیے ہمارے قریب کے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔) مجبوراً ہم نے اپنے اصلی چہرے پر ایک نقلی چہرہ (یعنی خوش دلی والا چہرہ) چڑھا کر ان کے استقبال کی تیاری کی۔

دریں اثنا انھیں اسٹڈی میں بٹھایا تھا تاکہ چاروں طرف کتابیں دیکھ کر انھیں کچھ اجنبیت کا احساس ہو اور کتابوں کی نامانوس ’’بُو‘‘ انھیں جلد اٹھنے پر مجبور کردے۔ پھر جوں ہی ہم اپنی کہنی سہلاتے ہوئے اسٹڈی میں داخل ہوئے انھوں نے جھٹ سے اس پر اپنی کہنی جڑ دی۔ یوں سمجھیے کہ بجلی سی کوند گئی۔

ہم ہائے کہہ کر رہ گئے لیکن انھوں نے کمال بے اعتنائی سے ہماری آہ وبُکا کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’’اور سناؤ کیا حال چال ہے؟‘‘ ہم نے کراہتے ہوئے جواب دیا ’’چال تو اب بھی مستانہ ہے لیکن حال آپ کی مشفقانہ کہنی نے پہلے سے بدتر کردیا ہے۔‘‘، ’’کیوں؟‘‘انھوں نے تجابلِ عارفانہ سے کام لیا۔ ہم نے سوجی ہوئی کہنی انھیں دکھائی تو اُلٹا انھوں نے اس کی ذمے داری ہم پر ڈال دی۔

بولے ’’آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ ہم نے عرض کیا،’’آپ نے بتانے کا موقع دینے سے پہلے ہی اظہارِمحبت کردیا تھا۔‘‘ یہ سن کر وہ ہمیں دوائیں تجویز کرنے لگے۔ پہلے کچھ لگانے کی دوائیں بتائیں جن میں ہلدی چونے سے لے کر ’’ڈِیپ ہِیٹ اسپرے‘‘ تک شامل تھا۔ پھر کھانے کی دواؤں پر آگئے۔

ساری ہی مانع درد ادویہ گنوادیں۔ ہم نے ان سے عرض کیا’’سر،کچھ دعائیں بھی بتادیں۔‘‘ وہ اس طنز کو سمجھ نہ پائے لیکن نہ جانے انھیں یہ کیسے محسوس ہوا کہ ہم پر ان کی کوئی نصیحت، کوئی خیر خواہی اثر نہیں کررہی۔ ارشاد ہوا ’’آپ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی صحت کی طرف سے کچھ بے فکرے ہوگئے ہیں۔ کاغذ منگائیے۔‘‘ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ انھوں نے جو جو مشورے ہمیں زبانی دیے تھے وہ انھیں ضبطِ تحریر میں لے آئے اور حکم صادر فرمایا’’ان تمام ہدایات پر ’الفاظ اور روح کے مطابق‘ عمل کرکے مجھے48گھنٹے کے اندر اپنی حالت کی رپورٹ دیں۔‘‘ ان کے دماغ میں ابھی تک افسری کا خنّاس سمایا ہوا تھا۔ جی میں تو آیا، ایک عوامی محاورے کا شعر پڑھیں اور انھیں باور کرائیں کہ جناب ؎

وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

اب عطر بھی ملو تو پسینے کی بُو نہیں

لیکن مُروّت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ خاصی دیر تک طوعاً و کرہاً ان کا لیکچر سننے کے بعد حسبِ توفیق ان کی تواضع کرکے ہم نے انھیں رخصت کیا اور پھر سے اپنے ’’ڈربے‘‘ میں گھس گئے جہاں ہمیں ایک اور لیکچر کی مار پڑی۔ کہنی اب خاصی مخدوش ہوچکی تھی۔

بیگم نے مشورہ دیا کہ اب کوئی آئے تو کہنی ٹکرانے سے صاف انکار کردینا۔ ہم نے کہا،’’سامنے والا انکار کی مہلت کہاں دیتا ہے۔ وہ تو ملتے ہی دوستی کی کہنی آگے بڑھا دیتا ہے۔ اب اسے جھٹکا تو نہیں جاسکتانا؟‘‘،’’تو پھر الُٹی کہنی استعمال کرنے لگو‘‘ان کے پاس بھی مشوروں کی کمی نہیں۔ ہم نے احتجاج کیا، ’’تمھارا مطلب ہے کہ دوسری بھی تڑوالوں۔ بالکل ہی اپاہج ہوجاؤں؟‘‘ بولیں ’’میں تمھاری جگہ ہوتی تو کہنی کے جواب میں بیلن استعمال کرتی۔ اِن لوگوں کو دن میں تارے نظر آجاتے۔ اب تم ایسا کروکہ کہنی پر بھاری ڈریسنگ کرالو۔ اس طرح اس پر ’ضربِ عضب‘ تو پڑے گی مگر ذرا ہلکی۔‘‘ ان کی اس بات میں خاصا وزن تھا۔ دودن مصنوعی ڈریسنگ کے بعد جب کہنی کھولی تو وہ پھُول کر کُپّا ہورہی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب اصلی ڈریسنگ میں ہیں۔

یقین نہ آئے تو ہمارے اس مضمون کا ڈیل ڈول دیکھ لیجیے۔ کتنا اسمارٹ ہے ورنہ ہم تو دفتر کے دفترسیاہ کرنے کے عادی ہیں۔ جتنا تشددتمام دن اپنے کانوں پر برداشت کرتے ہیں اس کا حساب کاغذ پر چکاکر ہلکے ہوجاتے ہیں۔ عید تو گزر گئی۔ ڈریسنگ بھی ایک آدھ دن میں کھل جائے گی لیکن ہم اپنے محسنوں کو حضرتِ آتشؔ کی زبان میں یہ پیغام ضرور دیں گے کہ ؎

اور کوئی طلب اَبنائے زمانہ سے نہیں

مجھ پر احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں کرتے

The post ایک ’’کُہنہ مشق‘‘کی کُہنی appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

حلوہ بانٹنا

احمد جلیل۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ ہم لوگ اپنے کچن میں ہیں اور حلوہ تیار کر رہے ہیں اس کے ساتھ بانٹنے کے لئے بہت سی پلیٹیں رکھی ہیںجبکہ دوسری جانب بہت سے میوے رکھے ہیں تا کہ ان پہ چھڑکے جا سکیں ۔

تعبیر:اچھا خواب ہے۔جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہو گا۔گھر میں آرام و سکون ملے گا۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت دے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

سورہ الکوثر کی تلاوت

مجید علی۔ لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں کہیں محفل میلاد میں موجود ہوں اور وہاں اونچی آواز میں سورہ الکوثر کی تلاوت کر رہا ہوں۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔آپکے کاروبار میں اضافہ ہو گا۔جس سے مال و وسائل میں بہتری ہو گی اور گھر میں بھی سکون ہو گا۔آپکی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

فرشتے کا تحفہ

ہاشم علی باجوہ۔ گوجرانوالہ

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ جیسے کوئی فرشتہ سا میرے کمرے میں سفید ہیولا سا اترا ہے اور مجھے قرآن پاک دیتا ہے۔برائے کرم  اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپکے درجات میں ترقی ہو گی۔علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی۔آپکے رزق میں اضافہ ہو گا اور اس سے کاروبار اور مال و وسائل میں بھی برکت کا باعث بنے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

نئے گھر میں سورج

کاظم خان۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے نئے گھر میں ہوں اور صبح صبح چھت پہ کھڑا ہوں وہاں سورج طلوع ہوتا ہے تو میںطلوع ہوتابلندسورج دیکھ کے حیران ہوتا ہوں کہ کس قدر حسین و پرنور نظارہ ہے ۔پھرسورج عین میرے گھر کے سامنے چمکنے لگ جاتا ہے۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپکی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔گھر میں اور کاروبار میں بہتری ہو گی۔بچوں کی  طرف سے بھی پیار و خوشی ملے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا شکور یا خفیظ کا ورد کیا کریں۔

سرخ پتھر

سلیم اللہ ۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں کہیں جا رہا ہوں اور راستے میں میرے دوست کے بڑے بھائی ملتے ہیں جو مجھے دیکھ کہ بہت خوش ہیں اور ایک پوٹلی نکال کے مجھے دیتے ہیں،گھر آ کے کھولتا ہوں تواس میںانگاروں کی مانند چمکتے انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کے پتھرہیں۔گھر والے بھی ان کو دیکھ کے بہت خوش اور حیران ہوتے ہیں۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی میربانی سے آپکی کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔اگر آپ کسی حکومتی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہاں پہ ترقی ہو گی اور کاروباری و گھریلو معاملات میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

چھت پر چاند

صائمہ مرتضیٰ۔ ملتان

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کی چھت پہ رات کے وقت ٹہل رہی ہوں۔ ٹھنڈی ہوا اورچمکتے چاند کی روشنی میں ٹہلتے ہوئے مجھے بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔پھر میں دیکھتی ہوں کہ وہ چاند آہستہ آہستہ گردش کرتا ہوا میری چھت پہ ٹہر جاتا ہے اورپوری جگہ روشن ہو جاتی ہے۔پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:اچھا خواب ہے۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے میاں کو کوئی غیر معمولی  فائدہ حاصل ہو گا  جس سے رزق میں برکت ہو گی۔اور کاروباری و گھریلو امور میں بھی بہتری آئے گی۔ممکن ہے کہ اللہ تعالی اولاد نرینہ کی خوشی عطا کریں۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں۔

چونٹیوں بھرا کمرہ

فوزیہ جلیل۔  لاہور

خواب :میں نے خواب دیکھا کہ میں صفائی کے لئے کمرہ کھولتی ہوں تو سارا چیونٹیوں سے بھرا ہوتا ہے۔جس کو دیکھ کے میں بہت پریشان ہوتی ہوں۔پھرکمرہ بند کر دیتی ہوں کہ کیسے صفائی کروں یہ تو پورے گھر میں پھیل جائیں گی۔

تعبیر:یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نا کرے کسی غم یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔جسکی وجہ سے آپکی صحت خراب ہو سکتی ہے۔اس کا اثر گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات پہ بھی ہو سکتا ہے۔اگر آپ نوکری کرتی ہیں تو اس پہ بھی اثر ہو سکتا ہے۔مال و وسائل کی کمی سے معاملات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار کیا کریں۔ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

کام سے دوسرے گاؤں جانا

سید احمد شاہ ، آزاد کشمیر

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اہنے گھر سے دوسرے گاوں جا رہا ہوتا ہوں۔ راستے میں ایک بڑا پل ہوتا ہے جس کو کراس کر کے ہم دوسرے گاوں جاتے ہیں۔ میں اس کو کراس کرتا ہوں تو سامنے سے میرا دوست مل جاتا ہے۔ ہم دونوں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ چلتے چلتے میرا مطلوبہ گاوں آ جاتا ہے تو میں اپنے دوست سے اجازت لے کر داخلی راستے کی طرف مڑ جاتا ہوں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔ اگر آپ کسی حکومتی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہاں پہ ترقی ہو گی۔ کاروباری و گھریلو معاملات میں بھی بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

پہاڑی چشمہ

اکبر سمیع۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ ہم پوری فیملی کہیں گھومنے گئے ہوئے ہیں اور وہاں ایک پہاڑی چشمہ ہے۔جس کا پانی بہت ہی ٹھنڈا ہے اور ہم سب بھائی اس کے نیچے کھڑے ہو کہ نہانے لگتے ہیں کہ گرمی کم لگے اور زرہ دل کو سکون ملے۔جس سے بہت زیادہ مزہ آتا ہے اور ہم دیر تک اس میں نہاتے رہتے  ہیں ۔پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:اچھا خواب ہے۔جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے اگر آپ بیمار ہیں یاگھر میں کوئی بیمار ہے تو بھی شفاء ملے گی۔آپکی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو گا۔آپ کو گھر میں آرام و سکون ملے گا۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

بلند آواز میں ذکر

خدا بخش۔ لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے محلے کی ایک مسجد میں ہوتا ہوں اور وہاں پر نماز ادا کرتا ہوں۔ بعد میں اللہ تعالی سے نہایت عاجزی کے ساتھ توبہ کرتا ہوں۔پہلے تو میں آہستہ آہستہ استغفار کرتا ہوں پھر بلند آواز میں شروع کر دیتا ہوں۔میرے پاس دو تین نمازی بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور وہ بھی خاموشی سے ذکر شروع کر دیتے ہیں۔میرا بلند آواز میں ذکر کرنا شاید ان کو اچھا نہیں لگتا اور سب مجھے غور سے دیکھتے ہیں جس پہ مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔آپکے کاروبار میں اضافہ ہو گا۔جس سے مال و وسائل میں بہتری ہو گی اور گھر میں بھی سکون ہو گا۔آپکی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

ہوا میں بلند ہونا

ولید علی۔ گوجرانوالہ

خواب:یہ خواب میرے بڑے بھائی نے دیکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میں  چھت پہ لیٹا ہوں اور پھر آہستہ آہستہ ہوا میں بلند ہو جاتا ہوں۔یہ خواب میں نے پہلی دفعہ نہیں دیکھا بلکہ پہلے بھی کئی دفعہ خود کو ہوا میں اڑتے دیکھا ہے۔اور ہمیشہ کی طرح کچھ دیر بعد میرا جسم واپس آہستہ آہستہ زمین پہ آ جاتا ہے۔برائے کرم اس کی تعبیر بتا دیں!

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے درجات میں ترقی ہو گی۔علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی۔آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا اور اس سے کاروباراور مال و وسائل میں بھی برکت کا باعث بنے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

خوبصورت دروازہ

عظمیٰ کامل۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ ہم کہیں نئے گھر کا سامان لے رہے ہیں اور وہاں گھر کے لئے آرائشی سامان بھی ہے جس میں ایک منقش سواتی دروازہ مجھے پسند آتا ہے اور میں اپنے میاں سے اصرار کرتی ہوں کہ یہ قدیم شکل والا دروازہ داخلی جگہ لگا دیں ۔مجھے اس کا ڈئزائن اور خوبصورتی بہت متاثر کرتے ہیں۔میں مسلسل قیمت کے لئے دوکاندار سے بحث کرتی جاتی ہوں تا کہ وہ میرے بجٹ میں آ جائے اور میں لے سکوں۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپکی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔گھر میں اور کاروبار میں بہتری ہو گی۔بچوں کی  طرف سے بھی پیار و خوشی ملے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاشکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔

کام بھول جانا

سجاد خان۔لاہور

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں گھر سے کسی کام کے لئے نکلا ہوں اور کہیں راستے میں ہی رک گیا ہوں جہاں میرے دوست موجود ہیں میں ان کے ساتھ باتیں کرتے بالکل بھول جاتاہوںکہ میں گھر سے کسی کام سے نکلا تھا۔کافی دیر ان کے ساتھ خوش گپیاں کرنے کے بعد میں ٹہلتا ہوا واپس گھر کی طرف خوشی خوشی چل پڑتا ہوں۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپکی کوئی دلی مراد پوری ہو گی۔اگر آپ کسی حکومتی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہاں پہ ترقی وبہتری ہوگی۔ کاروباری و گھریلو معاملات میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

خوش نما انار

سید نفیس شاہ۔ ملتان

خواب:میں نے خواب دیکھا کہ میں کچھ خریدنے بازار جا رہا ہوں۔ وہاں ریڑھی والے سے خوبصورت انار دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کچھ خرید لوں۔دوکاندار سے قیمت پوچھ کر کچھ انار لے لیتا ہوںاورگھر آ کے وہ انار بیگم کو دیتا ہوں۔بچے بھی آ جاتے ہیں اور بیگم چھری سے کاٹ کے ایک پلیٹ میں بھر دیتی ہے۔اس کے دانے بہت ہی خوشنما اور سرخ ہوتے ہیں۔ہم سب مل کے اس کو کھاتے ہیں پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی میربانی سے رزق میں برکت ہو گی۔جس سے کاروباری و گھریلو امور میں بھی بہتری آئے گی۔ممکن ہے کہ اللہ تعالی اولاد نرینہ کی خوشی عطا کریں ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔رات کو سونے سے پہلے سیرت النبی کا مطالعہ کیا کریں۔

چاند گرہن

سائرہ فخر۔  لاہور

خواب :میں نے خواب دیکھا کہ گرمیوں کے دن ہیں اور ہم سب چھت پہ سو رہے ہیں۔چاند کو دیکھ کر اچانک میری امی پریشانی میں اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کو تو گرہن لگا ہے۔

تعبیر:یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نا کرے کسی غم یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔جسکی وجہ سے آپکی صحت خراب ہو سکتی ہے۔اس کا اثر گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات پہ بھی ہو سکتا ہے۔اگر آپ نوکری کرتی ہیں تو اس پہ بھی اثر ہو سکتا ہے۔مال و وسائل کی کمی سے معاملات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار کیا کریں۔ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

پیسے گم جانا

یعقوب ارسلان ،گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں آفس کے کام کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا ہوں اور بنک کی چھٹی ہونے کی وجہ سے کلائنٹ سے پیسے خود ہی لے کر واپس پنڈی آ گیا ہوں پھر نہ جانے وہ پیسے کدھر گئے۔ میں سارا گھر تلاش کر رہا ہوں، ساتھ میں سب فیملی بھی ہے مگر کسی کو بھی نہیں مل رہے۔ پریشانی اتنی ہے کہ جب میری آنکھ کھلی تب بھی میرا دل بہت پریشان تھا ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

 ندی پر نہانا

ارشد علی، اوکاڑہ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے شہر کی ندی پہ نہانے کے لئے جاتا ہوں۔ وہاں پہ بے شمار لوگ آئے ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ سارا شہر ندی پہ نہانے آ گیا ہے۔ میں بھی ایک جگہ جہاں پانی کم ہوتا ہے۔کپڑے اتار کے نہانے لگتا ہوں۔ میں کافی دیر تک اس ٹھنڈے پانی سے نہاتا رہتا ہوں۔ پانی کچھ مٹی رنگ کا ہوتا ہے۔ مگر ٹھنڈا بہت ہوتا ہے۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ بیمار ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے شفا ملے گی۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو بھی شفا ملے گی۔ آپ کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کے گھر میں آرام و سکون ملے گا ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

جولیا رابرٹس

$
0
0

قدرت کی عطا کردہ صفت ’’تجسس‘‘ انسانی فطرت کا وہ خاصا ہے، جس نے اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجا دیا، کیوں کہ  یہ تجسس ہی ہے جس نے انسان کے ذہن میں ’’کیوں، کیا اور کیسے‘‘ کا سوال پیدا کیا اور پھر اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے انسان نے کبھی ہواؤں میں پرندوں کی طرح اڑنا سیکھ لیا تو کبھی مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرنا۔ انسانی تاریخ کی ساری ترقی، سارا علم اور ساری کامیابیاں اسی تجسس یعنی جاننے کی چاہ کی مرہون منت ہیں۔

گزشتہ صدی کے سب سے بڑے سائنسدان آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ آپ میں اتنا ٹیلنٹ کس طرح پیدا ہوا؟ تو انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد سوال کرنے والی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ’’ تجسس کی وجہ سے‘‘ اس دنیا کا سارا حسن تجسس کے دم سے ہے، اگر انسان میں تجسس نہ ہوتا تو ہم آج بھی پتھر کے دور میں کسی غار میں بیٹھے کچا گوشت کھا رہے ہوتے۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور انسان صرف جان دار یا بے جان چیزوں ہی نہیں بلکہ اپنے جیسے دیگر انسانوں کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہے اور بات اگر پسند کی ہو تو وہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے بارے میں جاننے کو اپنی بہت بڑی خواہش بنا لیتا ہے۔ ایسے ہی ایک انسان کی زندگی کی روداد یہاں بیان کرکے ہم کروڑوں پرستاروں کی خواہش کی تکمیل کرنے جا رہے ہیں اور وہ انسان ہے جولیا رابرٹس۔

ہالی وڈ کی خوبصورت، مہنگی اور مقبول ترین اداکاروں میں شامل جولیا فیونا رابرٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہرت کی جن بلندیوں کو انہوں نے چھوا، اس کے بارے میں شائد انہوں نے کبھی خود بھی نہیں سوچا ہو گا۔ فلمی دنیا کے سفر میں ایکشن، رومانس اور مزاحیہ سمیت ہر قسم کے کردار نبھا کر انہوں نے شوبز انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ بنا رکھی ہے۔

مختلف اداروں اور  میگزین کی طرف سے اداکاری، خوبصورتی، شہرت اور کمائی کے اعتبار سے بنائے جانے والے تمام پیمانوں میں جولیا کو ہمیشہ ایک نمایاں مقام حاصل رہا۔ ان کا شمار دنیا بھر کی ایسی 16 اداکاروں میں ہوتا ہے، جو آسکر، بی اے ایف ٹی اے، کریٹیکس چوائس، گولڈن گلوب اور ایس اے جی ایوارڈ اپنے نام کر چکی ہیں۔ بہترین اداکارہ کی فلمیں صرف امریکی باکس آفس میں دو ارب ڈالر سے زائد کی کمائی کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کرچکی ہیں، ایک فلم کے لئے 20 ملین ڈالر معاوضہ لینے والی پہلی اداکارہ کی 13فلموں کو آسکر کے لئے نامزد کیا جا چکا ہے لیکن… اپنی تمام تر کامیابیوں اور بے پناہ مقبولیت کے باوجود جولیا رابرٹس کا خود کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’ میں ایک معمولی انسان ہوں جو غیرمعمولی کام کر رہا ہے‘‘ بلاشبہ ان کو عظیم اداکارہ ثابت کرتا ہے۔

آسکر ونر اداکارہ 28 اکتوبر 1967ء کو سمرنا،جارجیا میں پیدا ہوئیں، ان کے والد والٹر گریڈی رابرٹس ایک ویکیوم کلینر سیلز مین جبکہ والدہ بیٹے لو بریڈیمیس ایک چرچ میں ملازمہ اور جائیداد کی خریدوفروخت کے کام سے منسلک تھیں۔

جولیا کے آباؤ اجداد کا تعلق انگلش، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، جرمنی اور سویڈن سے تھا۔ ماضی میں جولیا کے والدین کا بھی شوبز سے کچھ تعلق رہا اور اس دوران  افواج کے لئے بنائے جانے والے ایک تھیٹر کے دوران ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور 1955ء میں انہوں نے شادی کرلی، تاہم یہ تعلق زیادہ دیر نہ چل سکا اور جولیا کی پیدائش کے صرف 4 سال بعد ہی ان میں طلاق ہو گئی، جس کے بعد بیٹے لو بریڈیمیس نے  مائیکل موٹس سے دوسری شادی کر لی جو طبعیتاً ایک بداخلاق اور بے روزگار انسان تھا، جس کی وجہ سے جولیا اسے سخت ناپسند کرتی تھی۔

1983ء میں یہ شادی بھی ناکام ہو گئی، جس کے بارے میں بیٹے لو بریڈیمیس کا کہنا تھا کہ ’’مائیکل سے شادی کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘‘ اسی دوران جولیا جب 10 سال کی عمر کو پہنچی تو اس کے حقیقی والد والٹر رابرٹس کینسر کے باعث چل بسے۔ جولیا کا والٹر رابرٹس سے بڑا عجیب رشتہ تھا یعنی وہ باپ بیٹی ہو کر بھی کبھی بہت زیادہ گھلے ملے نہیں، اس ضمن میں جولیا کہتی ہیں کہ ’’میرے والد نے پوری زندگی میں جو بات مجھ سے براہ راست کی وہ یہ تھی کہ زندگی میں کبھی  بھی کوئی ایسی بات مت کرنا جس کا کوئی مطلب نہ ہو‘‘ والدین میں طلاق، سوتیلے باپ کی بداخلاقی اور حقیقی باپ کے انتقال جیسے معاملات کی وجہ سے جولیا ایک بار تو اندر سے ٹوٹ ہی گئیں، جس کا ذکر وہ خود کچھ یوں کرتی ہیں کہ ’’ میرا بچپن کچھ محرومیوں اور مشکلات میں گزرا، والدین میں طلاق اور کم عمری میں والد کے انتقال کی وجہ سے بہت ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکی تھی، تاہم اس وقت مجھے میری بڑی بہن نے مکمل سہارا دیا‘‘ اداکارہ نے سمرنا کے کیمبیل ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے کے بعد جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، تاہم بدقسمتی سے وہ یہاں اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں۔

جولیا کو بچپن سے ہی جانوروں سے بہت زیادہ محبت تھی اور اسی وجہ سے وہ مویشیوں کی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی اور بعدازاں انہوں نے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران جولیا کے بھائی ایرک رابرٹس نے ہالی وڈ میں کامیابیاں سمیٹنا شروع کیں تو اس سے متاثر ہو کر انہوں نے بھی اداکاری میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا، جس کے بعد مستقبل کی سپرسٹار نے صرف 17 برس کی عمر میں نیویارک سٹی کا رخت سفر باندھ لیا، جہاں انہوں نے ایک طرف کلک ماڈلنگ ایجنسی کے ساتھ کام شروع کیا تو دوسری طرف اداکاری کی باقاعدہ کلاسز لینا شروع کر دیں۔

ہالی وڈ سپرسٹار جولیا رابرٹس نے فنی سفر کا آغاز 1987ء میں بننے والی فلم Firehouse سے کیا، جس میں ان کے کردار کا کوئی نام تک نہیں تھا، کچھ یہی حال ان کی اگلی فلم Satisficationکا تھا، تاہم 1988ء میں بننے والی فلم Mystic Pizza نے جولیا کو انڈسٹری میں بریک تھرو دلوا دیا، یہ ایک رومانوی فلم تھی، جس میں جولیا کو مرکزی کردار میں دیکھا گیا۔

1989ء ہی میں نشر ہونے والی ایک مزاحیہ ڈرامہ فلم Steel Magnolias میں جولیا کی اداکاری کو خوب سراہا گیا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس فلم کی وجہ سے نہ صرف جولیا کو گولڈن گلوب ایوارڈ ملا بلکہ انہیں آسکر کے لئے بھی نامزد کر دیا گیا۔ عالمی سطح پر رابرٹس کی پہچان کا سبب 1990ء میں بننے والی فلم Pretty Woman بنی۔ صرف 14 ملین ڈالر کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے باکس آفس پر 464 ملین ڈالر کمائی کرکے فلم انڈسٹری میں ایک بھونجال برپا کر دیا۔ اس فلم کے بعد جولیا نے شہرت کی ان بلندیوں پر چڑھنا شروع کیا، جس میں تاحال کوئی زوال نہیں۔ اداکارہ نے فلم انڈسٹری کو Blood Red، Hook، The Player، The Pellican Brief، Sleeping with the Enemy، Erin Brockovich، Closer، Something to Talk About، My Best Friend’s Wedding، Notting Hill، August: Osage County، Mother’s Day، Wonder اور Ben is Back جیسی کامیاب ترین فلمیں دے کر کروڑوں دلوں پر راج کیا۔

اداکاری کے بعد جولیا رابرٹس نے پروڈکشن میں قسمت آزمائی کی اور Red Om Films کے نام سے کمپنی بنا رکھی ہے۔ اس کے ساتھ وہ پراپرٹی کے بزنس سے بھی کسی حد تک منسلک ہیں، ملیبو(کیلی فورنیا) میں جولیا نے کئی گھر بنا رکھے ہیں، وہ گھروں کی خریدوفروخت کے کام میں کافی خوشی محسوس کرتی ہیں۔

اسی طرح جزیرہ ہوائی کے ساحلی مقام کوائی پر بھی جولیا کا گھر ہے۔ پیشہ وارانہ زندگی کی رعنائیوں اور گہما گہمی کے دوران 1993ء میں رابرٹس نے معروف گلوکار لیلے لوٹ سے بیاہ رچا لیا لیکن یہ رشتہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور 1995ء میں ہی ان میں طلاق ہو گئی، جس کے بعد 2000ء میں اداکارہ کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر کیمرہ مین ڈینئل موڈر سے ہوئی، اس وقت موڈر شادی شدہ تھے لیکن پھر انہوں نے اپنی بیوی سے طلاق لے لی اور 2002ء میں جولیا سے شادی کر لی، اس جوڑے کو قدرت نے تین بچے عطا کئے، جن میں سے دو جڑواں ہیں۔ اگرچہ جولیا پیدائشی طور پر عیسائیت سے تعلق رکھتی ہیں لیکن 2010ء میں انہوں نے اپنا مذہب (ہندو) تبدیل کر لیا اور اپنے بچوں کے نام بھی ہندی رکھ لئے۔ جولیا رابرٹس یونیسیف سمیت متعدد فلاحی اداروں کے ساتھ کام کر چکی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

 

فلم، ٹی وی، ایوارڈز اور نامزدگیاں

ہالی وڈ سپرسٹار جولیا رابرٹس کی شوبز کی دنیا میں انٹری 1987ء میں بننے والی فلم Firehouse سے ہوئی، اگرچہ اس فلم میں ان کا کردار بہت محدود تھا لیکن اس مختصر کردار نے ہی انہیں فلم Satisfaction کے ڈائریکٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی دلائی۔ Satisfaction کے بعد انہیں اسی سال بننے والی فلم Mystic Pizza میں مرکزی کردار مل گیا، جس کے بعد جولیا نے شہرت کی وہ اڑان بھری کے پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا، اداکارہ نے فلمی شائقین کوBlood Red، Steel Magnolias، Pretty Woman، Hook، The Player، The Pellican Brief، Sleeping with the Enemy، Erin Brockovich، Closer، Something to Talk About، My Best Friend’s Wedding، Notting Hill، August: Osage County، Mother’s Day، Wonder اور Ben is Back سمیت 50 سے زائد سپر ہٹ فلمیں دیں۔ ’’پریٹی وومن‘‘ نے ٹیلی ویژن کے سفر کا آغاز بھی فلم کے ساتھ ہی کیا۔

1987ء میں انہوں نے اس وقت کے معروف مقامی ڈرامہ سیریز Crime Story میں کام کرکے ٹیلی ویژن شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا، پھر 1988ء میں انہوں نے Miami Vice (ڈرامہ سیریز) اور ٹیلی ویژن فلم Baja Oklahoma میں اداکاری کے جوہر دکھلائے۔ ہر عمر کے افراد کی پسندیدہ اداکارہ نے Before Your Eyes: Angelie’s Secret، Friends، Murphy Brown، Law & Order، Maker: Women Who Make America، The Normal Heart، Running Wild with Bear Grylls اور Homecoming سمیت 19 ٹی وی ڈرامہ یا فلم میں کام کیا۔ رابرٹس 3 فلموں اور 6 ٹی وی پروگرامز میں ایگزیکٹو پروڈیوسر کی ذمہ داریاں بھی نبھا چکی ہیں۔

دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوانے والی اداکارہ کو عالمی سے لے کر مقامی سطح تک کے تقریباً تمام ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے یا پھر کم از کم نامزد ضرور کیا جا چکا ہے۔ وہ شوبز کی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز یعنی آسکر کو بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔

فلم Erin Brockovich، August: Osage County، Pretty Woman اور Steel Magnolias میں بہترین پرفارمنس پر انہیں چار بار آسکر کے لئے نامزد کیا گیا اور 2001ء میں بہتری اداکارہ کے طور پر وہ یہ اعزاز لے اڑیں۔ اداکارہ نے ایک ایک بار برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس فلم، کریٹیکس چوائس، سکرین ایکٹرز گیلڈ، ایم ٹی وی موویز، ٹین چوائس، لندن فلم کریٹیکس، لاس اینجلس فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن، سان ڈیاگو فلم کریٹیکس، سیٹلائیٹ، پام سپرنگز انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، دو بار ہالی وڈ فلم فیسٹیول، تین تین بار گولڈن گلوب، نیشنل بورڈ آف ریویو اور چار بار بلاک باسٹر انٹرٹینمنٹ ایوارڈ اپنے نام کیا، ان کے علاوہ بہترین پرفارمنس پر انہیں درجنوں ایوارڈز کے لئے نامزد بھی کیا جا چکا ہے۔

 

The post جولیا رابرٹس appeared first on ایکسپریس اردو.

فورٹ منرو؛ جنوبی پنجاب کا مَری

$
0
0

جنوبی پنجاب میں سیاحت کے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی بھی خِطے کی سیاحت کو پنپنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہاں موجود صحرا، میدانی علاقے ، پہاڑ، تاریخی و ثقافتی ورثہ، ہل اسٹیشن، عجائب گھر، مقبرے، دریائی بند اور جھیلیں اس خطے کی سیاحتی شناخت اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اگر ٹھنڈے پہاڑی علاقے یا ہِل اسٹیشن کی بات کی جائے تو ضلع ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ”فورٹ منرو” اور ضلع راجن پور کا علاقہ ”ماڑی” پورے جنوبی پنجاب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ ڈیرہ جات کا پورا خطہ ہی بہت منفرد ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔

یہاں ایک طرف آپ کو سرسبز میدان اور لہلہاتے کھیت ملیں گے تو دوسری جانب کوہِ سلیمان کے خوبصورت پہاڑ۔ ایک جانب ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے تو دوسری جانب کوہِ سلیمان کے نالے یہاں کا حسن بڑھاتے ہیں۔ غرض یہ علاقہ جنوبی پنجاب کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتا ہے۔

بات کریں اگر یہاں کے سب سے مشہور مقام فورٹ منرو کی تو بہت سے احباب اسے جنوبی پنجاب کا مری بھی کہتے ہیں، لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے۔ ہر شہر اور ہر علاقے کی اپنی الگ خصوصیات ہوتی ہیں، جیسے کے اس خطے کی بھی ہیں۔ کوئی کسی جیسا یا اس کا متبادل نہیں ہوا کرتا۔ فورٹ منرو بھی مری سے مختلف ہے۔ اور اگر اس کو جدید خطوط پر ڈیویلپ کیا جائے تو قوی امکان ہے کہ یہ مستقبل کا ایک مشہور ہل اسٹیشن ہو گا۔

برصغیر پر انگریز سامراج کے قبضے کے بعد انگریزوں نے بہت سے مقامات کو دریافت کر کے انہیں ڈیویلپ کیا اور اپنی رہائش کا انتظام کیا۔ انگریز چوںکہ سرد علاقوں سے آئے تھے لہٰذا یہاں کی گرمی ان کی برداشت سے باہر تھی سو انہوں نے برصغیر کے طول و عرض میں ٹھنڈی جگہیں تلاش کیں جو کہ زیادہ تر پہاڑوں پر تھیں۔ اس کے بعد وہاں تک راستے نکالے گئے اور سڑکیں لے جائی گئیں۔ ان جگہوں پر انتظامیہ کے دفاتر، رہائش کے لیے گھر، تفریح گاہیں، کھیل کے میدان، بیمار فوجیوں کے لیے سینی ٹوریم، لانڈریز اور دیگر دوسرے لوازمات کا انتظام کیا گیا۔ مقامیوں کو ملازم بھرتی کر کے وہیں سرونٹ کوارٹرز الاٹ کیے گئے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار ملا اور ان علاقوں کی ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔

انگریزوں کے بسائے ان ہل اسٹیشنز میں سری نگر، مری، اوٹی، زیارت، لہہ، ایبٹ آباد، پہلگام، سکیسر، شیلانگ، مسوری، نتھیا گلی اور فورٹ منرو شامل ہیں۔

فورٹ منرو جسے بلوچی زبان میں ”تْمن لغاری” بھی کہا جاتا ہے ضلع ڈیرہ غازی خان کے انتہائی مغربی کونے میں بلوچستان و پنجاب کے سنگم پر واقع ہے۔ سطحِ سمندر سے 6470 فیٹ (1970 میٹر) بلند یہ مقام انیسویں صدی کے اواخر میں انگریز فوجی آفیسر سر رابرٹ گرووز سنڈیمن نے دریافت کیا تھا اور اس کا نام اس وقت کے ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر، کرنل اے اے منرو کے نام پر رکھا گیا تھا۔

لغاری قبیلے کے خانہ بدوشوں کی جنت ، فورٹ منرو ملتان سے 185 کلو میٹر اور ڈیرہ غازی خان سے قریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

یہاں میں جنرل سنڈیمن کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1835 میں جنرل رابرٹ ٹرنبل سنڈیمن کے گھر آنکھ کھولنے والے اس افسر نے ڈیرہ جات اور بلوچستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1866 میں جب ان کو ڈیرہ غازی خان کا ضلعی افسر تعینات کیا گیا تو آپ نے پہلی بار قبائیلیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان پر اپنی شخصیت کی دھاک بٹھا دی۔

1871 کی مٹھن کوٹ کانفرنس میں ان کو پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوہِ سلیمان کے مَری، بُگٹی اور مزاری قبیلوں کے بارے سیاسی فیصلوں کا حق دے دیا گیا جس سے ان علاقوں اور وہاں کے لوگوں پر آپ کا کنٹرول اور مضبوط ہو گیا۔جنرل سنڈیمن ہی کے ذریعے انگریز حکومت نے خان آف قلات سے مذاکرات کیے اور بلوچ قبائل کے سرداروں کی مالی معاونت بھی کی۔ یہ اپنی وفات تک بلوچستان کے گورنر جنرل کے ایجنٹ رہے اور انہوں نے شورش زدہ بلوچستان کو انگریز سامراج کے اندر ایک پر امن علاقہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سر رابرٹ سنڈیمن نے 1892 میں لسبیلہ کے شہر بیلہ میں وفات پائی۔ بلوچستان کے شہر ژوب کا پرانا نام آپ ہی کے نام پر فورٹ سنڈیمن رکھا گیا تھا۔

جنوبی پنجاب کے اکلوتے ہل اسٹیشن تک رسائی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ سب سے سیدھا اور خوب صورت راستہ تو ملتان یا راجن پور سے ڈیرہ غازی خان، سخی سرور اور فورٹ منرو ہے، جب کہ بلوچستان میں ژوب اور کوئٹہ سے آنے والے پہلے لورالائی اور پھر میختر اور رکھنی سے ہو کر فورٹ منرو پہنچ سکتے ہیں۔

میرے نزدیک فورٹ منرو کا سب سے خوب صورت مقام دماس جھیل ہے۔ یہاں پاکستان ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے خوب صورت سے موٹیل کے عقب میں فورٹ منرو کی سب سے بڑی اور خوب صورت جھیل ’’دماس‘‘ اپنی دل کشی اور حُسن کے جلوے بکھیر رہی ہے۔ یہ جھیل یہاں واقع تین جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ نقشے پر ایک ”انسانی گُردے” کی سی شکل میں نظر آنے والی یہ جھیل سردیوں میں سکڑ جاتی ہے جب کہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ بقیہ دو جھیلوں کا نام تریموں اور لال خان جھیل ہے۔

فورٹ منرو میں ہی ایک پہاڑ کے اوپر ایک قلعے کے آثار ہیں جس کو لوگ قلعہ فورٹ منرو ہی کہتے ہیں۔ یہ پہاڑی کے اوپر ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے ساتھ واقع ہے۔ پیلے رنگ میں رنگی اس کی ایک برجی آج بھی جیسے تیسے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اسی ہل ٹاپ پر ایک اور اہم مقام ”گورا قبرستان” ہے۔برصغیر پر قبضے کے بعد اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لیے، تاجِ برطانیہ نے اس خطے کے طول و عرض میں اپنے نمائندے، فوجی اور انجنیئر بھیجے جنہوں نے مرتے دم تک ان علاقوں میں رہائش رکھی۔ ان انگریز نمائندوں نے مختلف علاقوں میں پُختہ سڑکیں، نت نئی عمارتیں ، دفاتر، اور مکانات تعمیر کیے اور برسوں ان علاقوں میں خدمات سر انجام دیں۔ ان میں سے بہت سے افسروں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے اسی دھرتی پر اپنی جان دی اور ان کا مدفن بھی یہیں بننا ٹھرا۔ بہت سے شہروں جن میں لاہور، کراچی، ایبٹ آباد، خانپور اور فورٹ منرو شامل ہیں، میں گورا قبرستان وجود میں آئے جو آج بھی قائم ہیں۔چھوٹی سی چار دیواری کے اندر واقع فورٹ منرو کے گورا قبرستان میں لگ بھگ پانچ قبریں ہیں جو جنگلے میں بند ہیں۔

نہ جانے کیا وجہ ہوئی ہو گی کہ قبروں کو بھی قید کرنا پڑ گیا۔ اب بھی ان جنگلوں کے اندر سے سفید کُتبے بہ آسانی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ایک قبر جنوبی افریقہ کے مسٹر ایچ سمتھ کی ہے جو30 سال کی عمر میں فورٹ منرو کے کسی مقام پر نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے۔

اس قبرستان کی بائیں دیوار کے ساتھ ڈپٹی کمشنر ہاؤس (جو منرو لاج بھی کہلاتا ہے) واقع ہے۔ اور اس کے پہلو میں سو سال سے بھی قدیم ایک عمارت تنہا کھڑی ہے جس کے ماتھے پر جلی حروف میں ”دفتر عدالت پولیٹیکل اسسٹنٹ” لکھا ہے۔ اسی کے قریب ایک بورڈ پر Proposed PA Museum لکھا ہے۔ شاید کہ مستقبل میں یہاں کوئی اچھا میوزیم بن جائے۔اسی عمارت کے پیچھے اور قلعے کے ساتھ وہ پوائنٹ واقع ہے جہاں مختلف قومی دنوں پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور ایک پتھر کے مانومنٹ پر ”پاکستان زندہ باد” اور بلوچ سرداروں کے نام لکھے ہیں۔اسی پہاڑی کے گرد ایک پکی اور خوب صورت سڑک بَل کھاتی ہوئے گزرتی ہے جو آپ کو فورٹ منرو کے دیگر مقامات تک لے کر جاتی ہے۔

فورٹ منرو سے چند ہی کلومیٹر دور “اناری” نام کی جگہ ہے جہاں آپ بادلوں سے اٹھکھیلیاں کرسکتے ہیں، یہاں آپ بادلوں سے اُوپر اور بادل نیچے ہوتے ہیں۔

کھانے کی بات کریں تو یہاں کی سب سے مشہور سوغات مٹن سجی ہے۔ اس بلوچی سجی کے لیے لوگ خاص طور پر یہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانوں کا حال کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ البتہ یہاں پر ضروریات زندگی بہت مناسب داموں پر دستیاب ہیں۔ اکثر لوگ اپنے کھانے کا سامان ساتھ لاتے ہیں۔

یہاں اب کئی نئے ہوٹل اور لاجز بھی کھل رہے ہیں۔اس علاقے کے لوگوں کی مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں۔ بلوچ اور سرائیکی تو ویسے بھی اپنی مہمان نواز طبیعت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو فری چائے بھی پیش کریں گے اور راستہ بتانے بھی آپ کے ساتھ آخر تک آئیں گے۔ سردیوں میں یہاں مری، چترال، سوات اور دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح برفباری ہوتی ہے۔ فورٹ منرو میں بلوچوں کے مُختلف قبائل آباد ہیں جن میں علیانی، احمدانی، بجرانی، شاہوانی، ہندیانی وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام قبائل لغاری قبیلے کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔

فورٹ منرو سے کچھ آگے جائیں تو کوہِ سلیمان کے بیچ واقع بلوچستان کے ضلعے بارکھان کا شہر رکھنی آتا ہے جہاں کے بازار ایرانی و افغانی سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر طرف چہل پہل ہے۔

ہر سال جنوبی پنجاب کی گرمی کے ستائے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں جب کہ ملتان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور دیگر قریبی علاقوں کے لوگ تو ہفتہ وار یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہاں کی مقامی سیاحتی تنظیموں (جن میں وسیب ایکسپلوررز سر فہرست ہے) کی محنت اور کوہِ سلیمان کے نت نئے علاقوں کی کھوج کی بدولت اب تو لاہور، کراچی اور پختونخواہ کے سیاح بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

یہاں زیادہ تر گلہ بان اور خانہ بدوش رہتے ہیں۔ وہ افراد جنہوں نے یہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ آس پاس کے بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے 2015 میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے بڑی گرانٹ منظور کی تھی جس میں ایک چیئر لفٹ کا منصوبہ بھی شامل تھا جو ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ اگر یہاں کھانے پینے کے مناسب انتظام کے ساتھ ساتھ عوام کی تفریح کے لیے ایسے ہی چند پراجیکٹ لگا دیے جائیں تو یہ خطہ مہینوں نہیں دنوں میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔

جو شوقین حضرات ٹھنڈے موسم کے ساتھ ساتھ سکون، خاموشی، تنہائی، سادگی، اور ایک کپ چائے کا مزہ لینا چاہتے ہیں وہ یہاں ضرور آئیں۔ بلکہ یہاں کے پہاڑوں اور اڑتے بادلوں کے سامنے بیٹھ کہ کتاب پڑھنے کا جو مزہ ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

تو کب جا رہے ہیں پھر آپ جنوبی پنجاب کے مَری؟

The post فورٹ منرو؛ جنوبی پنجاب کا مَری appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا زمین کے کتنے ستارے نگل گیا

$
0
0

کورونا وائرس ایک اندھی موت ہے، جو کسی کو بھی، کہیں بھی اور کسی بھی وقت اپنا نشانہ بنا سکتی ہے، جب کہ اِس وائرس کے نتیجے میں لاحق ہونے والا مرض کووڈ 19نہ تو کسی غریب کو اُس کی غربت پر رعایت دیتا ہے اور نہ ہی کسی امیر کی امارت کا ذرہ برابر لحاظ کرتا ہے۔حتٰی کہ کورونا وائرس صاحبِ اختیار اور بے اختیار ولاچار شخص میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کورونا وائرس کے باعث لقمہ اجل بننے والوں میں دنیا کے مشہور و معروف افراد کی بھی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔

زیرِنظر مضمون میں کورونا وائر س کے ہاتھوں راہی ملک عدم ہوجانے والی چند اہم ترین شخصیات کا ایک مختصر سا جائزہ پیشِ خدمت ہے، تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے یہ مہلک وائرس من و تو کی تمیز کیے بغیر دنیا بھر میں اپنی ہلاکت خیزی کس طرح سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

٭  شہزادی ماریہ تریسا

اسپین کے بادشاہ فلپ ششم کی کزن شہزادی ماریہ تریسا کورونا وائرس کا شکار بننے والی دنیا کی اوّلین شاہی شخصیت ہیں۔ ہسپانوی شہزادی ماریہ کا تعلق بربن پارماشاہی گھرانے سے تھا۔ شہزادی ماریہ تریسا 28 جولائی 1933 میں پیرس میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے پیرس سوربون یونیورسٹی سے ہسپانوی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

اس کے علاوہ انہیں کمپولوٹینس یونیورسٹی میڈرڈ سے سیاسیات میں اعزازی ڈگری بھی مل چکی تھی۔ شہزادی ماریہ تریسا کو دنیا بھر میں سماجی خدمات کی وجہ سے ’’سرخ شہزادی‘‘ کے منفرد لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ شہزادی نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارنا بے انتہا پسند کرتی تھیں اور اِسی لیے وہ ماضی میں فرانس کے کئی مایہ ناز تعلیمی اداروں میں باقاعدگی کے ساتھ سوشیالوجی بھی پڑھاتی رہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہزادی ماریہ تریسا کا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسپین کے بادشاہ فلپ کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا۔ شہزادی ماریہ تریسا اسپین کے شاہی خاندان کی کیڈٹ برانچ کی اہم ترین رکن تھیں۔

یاد رہے کہ شاہی روایات کے مطابق کیڈٹ برانچ اس وقت تخلیق کی جاتی ہے جب شاہی خاندان کے کسی نوجوان رکن کو جو کہ تخت کا وارث نہ ہو خطابات اور جاگیریں دینا مقصود ہو۔ شہزادی مایہ تریسا کی آخری رسومات انتہائی خاموشی کے ساتھ اسپین کے شہر میڈرڈ میں ادا کی گئیں، جس میں شاہی خاندان کے فقط دوچار افراد نے ہی علامتی شرکت کی ۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس کے باعث یورپ میں اٹلی کے بعد اسپین سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جہاں تقریباً 6000 اموات ہوچکی ہیں، جب کہ 70 ہزار سے زائد متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 30 ہزار 8 سو سے تجاوز کر گئی ہے۔

٭  ٹیرنس میکنیلی(Terrence McNally)

ٹیرنس میکنیلی معروف ترین امریکی پلے رائٹر اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ انہیں امریکن تھیٹر کا سب سے مؤثرترین اسکرین رائٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ٹیرن میکنیلی نے اپنی تحریر کی بدولت ہالی وڈ انڈسٹری کے ایک جزولاینفک سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے 56 بر س تک امریکی ناظرین سمیت دنیا بھر شائقین کو اپنے منفرد اور کاٹ دار مکالموں سے محظوظ کیے رکھا۔ ٹیرنس میکنیلی چار مرتبہ ٹونی ایورڈز جب کہ ایک مرتبہ ایمی ایوارڈ اور دو مرتبہ گوگین ہیم فیلو شپ سمیت بے شمار دیگر اعزازات بھی اپنے نام کرچکے تھے۔

اِن کی لکھی ہوئی فلمیں اور ڈرامے دنیا بھر انتہائی پسندیدگی سے دیکھے جاتے تھے۔ “Kis of The Spider-Woman” اور “Ragtime” ٹیرنس میکنیلی کی چند یادگار فلموں میں سے ایک ہیں۔ بہرحال 24 مارچ 2020 کو ہالی ووڈ کی یہ معروف ترین شخصیت بھی 81 برس کی عمر میں کووڈ 19 بیماری کا شکار ہوکر فلوریڈا کے ایک اسپتال میں جان کی بازی ہار گئی۔ ٹیرنس میکنیلی ہالی وڈ کی اوّلین شخصیت ہیں، جنہیں کورونا وائرس نے موت سے ہم کنار کیا۔

٭  اعظم خان

اسکواش کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک اور1959 سے 1962 تک لگاتار چار مرتبہ برٹش اوپن ٹائٹلز جیتنے والے اعظم خان بھی 95 برس کی عمر میں کورونا وائرس کا شکار ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اعظم خان کے بڑے بھائی ہاشم خان 1951 میں برٹش اوپن جیتنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے اور انہوں نے والد کے انتقال کے بعد اپنے 11سال کے چھوٹے بھائی اعظم کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی۔ ہاشم خان 1953 میں اعظم خان کو اپنے ہم راہ لندن لے گئے تھے اور وہاں جاتے ہی انہوں نے اعظم خان کو بھی پیشہ ورانہ اسکواش کے مقابلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینا شروع کردی۔

اعظم خان نے برٹش اوپن میں پہلی مرتبہ شرکت کی تو وہ خوش قسمتی سے اسی سال سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کام یاب رہے جہاں ان کا مقابلہ اپنے بڑے بھائی ہاشم خان سے ہوا جس میں انہیں سخت مقابلے کے بعد بڑے بھائی کے ہاتھوں پانچ سیٹ کے میچ میں شکست ہوگئی۔ بعدازاں اعظم خان مستقل عالمی مقابلوں میں شرکت کرتے رہے اور 1958 میں جب ہاشم خان انجری کے کا شکار ہوکر اسکواش کے عالمی ایونٹ سے دست بردار ہوئے تو اعظم خان نے چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ انہوں نے اس کے بعد مزید تین سال لگاتار برٹش اوپن چیمپیئن بننے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔

البتہ 1963 میں انجری کے سبب وہ دوبارہ اسکواش نہ کھیل سکے۔ اپنے کیریئر میں 7 مرتبہ برٹش اوپن میں شرکت کرنے والے اعظم کا شمار اسکواش کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے اور ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب 1960 میں انہوں نے اپنے بڑے بھائی ہاشم خان کو یک طرفہ مقابلے کے بعد 1-9، 0-9 اور 0-9 سے مات دے دی تھی۔ اعظم خان کے بعد ان کے بھتیجے اور اسکواش کی دنیا کے عظیم ترین کھلاڑی تصور کیے جانے والے جہانگیر خان نے اپنے والد اور چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکواش میں ماضی کے تمام ریکارڈ پاش پاش کردیے۔

٭  مارینو کوراہیمن(Marino Quaresimin)

مارینو کوراہیمن اٹلی کے معروف سیاسی خانوادے کے گھر 1937 میں پیدا ہوئے، انہیں سیاست وراثت میں ملی تھی۔ یہ وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان کا انتخاب کیا اور اطالوی پیپلزپارٹی کے سرگرم راہنما بن کر ابھرے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ ٹریڈ یونین میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

مارینو کوراہیمن اٹلی کے سیاسی حلقوں میں بہت مقبول اور متحرک راہنما گردانے جاتے تھے۔ انہیں سیاسی، سماجی خدمات کے صلے میں اطالوی آڈر آف میرٹ ففتھ کلاس بطور نائٹ پھر دوسری بار انہیں آڈر آف دی میرٹ تھرڈ کلاس بطور کمانڈر دیا گیا۔ اس کے علاوہ مارینو کوراہیمن اٹلی کے مشہورومعروف شہر وینیزا سٹی کے میئر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مارینو کوراہیمن 20 مارچ 2020 کو 82 برس کی عمر میں کووڈ 19 کے مرض میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوگئے۔ واضح رہے کہ اٹلی دنیا کا وہ واحد ملک جہاں سب سے زیادہ سیاسی و سماجی شخصیات کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک چکی ہیں۔

٭  آیت اللہ ہاشم بطحائی

ایران کی اہم ترین مذہبی شخصیت اور ایران میں مجلس خبرگان کے رکن آیت اللہ سید ہاشم بطحائی بھی کورونا وائرس سے جان کی بازی ہار گئے۔ مجلس خبرگان کو ایران کے سپریم لیڈر کو مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہ 88 رُکنی کمیٹی سپریم لیڈر کی نگرانی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے۔ آیت اللہ ہاشم بطحائی میں موت سے دو روز قبل ہی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی، جس کے بعد انہیں قرنطینہ کردیا گیا تھا، جہاں اِن کا علاج جاری تھا۔ تاہم وہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے میں کام یاب نہ ہوسکے۔

آیت اللہ ہاشم بطحائی کی موت کے بعد ایران میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے اہم سیاسی اور سرکاری حکام کی تعداد 12 ہوگئی ہے، جس میں دو ارکان ِ اسمبلی اور مشیر خارجہ بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ ایران کے نائب صدر سمیت تین مزید ارکان ِ پارلیمنٹ ابھی قرنطینہ میں زیرعلاج ہیں۔ ایران میں اب تک مہلک مرض سے 724 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ 13 ہزار سے زائد اس کا شکار بن چکے ہیں۔ ایران کا شمار ان ممالک میں کیا جارہا ہے جہاں کورونا وائرس نے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتوں کی فہرست میں ایران چین اور اٹلی کے بعد سب سے آگے ہے۔

٭  ا یلن گارفیلڈ (Allen Garfield)

امریکی فلم اور ٹیلی ویژن اداکار ایلن گارفیلڈ کورونا وائرس کے باعث 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ایلن گارفیلڈ کی ساتھی اداکارہ رونی بلیکلی نے اپنے فیس بک پر سب سے پہلے اِس خبر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ایلن کورونا وائرس کے باعث چل بسے، امید ہے ان کے خاندان والوں کو صبر آجائے، میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ ایلن گارفیلڈ 1968 کی فلم ’اورجی گرلز 69‘ کے ساتھ سنیما کا حصہ بنے، وہ زیادہ تر فلموں میں منفی کردار نبھاتے نظر آتے تھے۔ وہ اپنے کیریئر میں ’بناناز‘، ’اے اسٹیٹ آف تھنگز‘، ’انٹل دی اینڈ آف دی ورلڈ‘، ’نیشول‘ اور ’دی اسٹنٹ مین‘ نامی پروجیکٹس میں کام کرچکے ہیں۔

وہ آخری مرتبہ 2016 میں ریلیز ہونے والی فلم ’چیف زابو‘ میں جلوہ گر ہوئے، تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی شوٹنگ 1986 میں مکمل ہوچکی تھی۔ 2004 میں اداکار کو فالج ہوا تھا، جس کے بعد سے ان کی طبیعت زیادہ اچھی نہیں رہی۔

٭  شیر پاکستان حاجی محمد افضل

حاجی محمد افضل 7 اپریل 1935 کو پیدا ہوئے تھے اور 1960 میں صدر پاکستان ایوب خان نے انہیں شیر پاکستان کے لقب سے نوازا تھا۔ انہوں نے 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کی تھی لیکن سیمی فائنل میں انجری کے باعث ایونٹ سے باہر ہو گئے تھے۔ حال ہی میں انہیں طبیعت خراب ہونے پر امریکا منتقل کیا گیا تھا، لیکن وطن عزیز پاکستان کے نام ور پہلوان 85 برس کی عمر میں امریکی شہر نیو یارک میں کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔

اولمپیئن محمد افضل کو پاکستان میں پہلوانوں کا اُستاد ِاعلی بھی کہا جاتا تھا، کیوںکہ انہوں اپنے دورِ پہلوانی میں پاکستان کے کئی نام ور پہلوانوں کو فنِ پہلوانی کے اسرارورموز کی باقاعدہ تربیت فراہم کی اور ان کے معروف شاگردوں میں بشیر بھولابھالا، طیب رضا اعوان ٹائیگر پہلوان، بلال اعوان پہلوان، حافظ اسرار پہلوان اور یاسر عباس پہلوان، عثمان مجید بلو پہلوان مرحوم شامل ہیں۔

٭  محمود جبرائیل

لیبیا کے سابق وزیراعظم محمود جبرائیل کورونا وائرس کے باعث مصر کے دارلحکومت قاہرہ میں داعی اجل کو لبیک کہے گئے۔ 26 مارچ کو محمود جبرائیل میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد انہیں قاہرہ میں واقع اِ ن کے گھر میں ہی قرنطینہ کردیا گیا تھا۔ گھر میں جب ان کی حالت بگڑی تو انہیں اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ دو روز زیرعلاج رہنے کے بعد دم توڑ گئے۔ محمود جبرائیل 2011 میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے والی تحریک کے سربراہ تھے اور عرب بہار کے بعد لیبیا کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، جب کہ وہ اپنی تشکیل کردہ سیاسی جماعت الائنس آف نیشنل فورسز کے سربراہ بھی تھے۔

محمود جبریل معمرقذافی کے بعد لیبیا کی سب سے مشہور و معروف سیاسی شخصیت تھے۔ انہوں نے1975 میں معاشیات اور سیاسیات میں قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1980 میں پرنسٹن یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ بھی کرچکے تھے۔ محمود جبریل کا شمار عرب دنیا کے چند پڑھے لکھے سیاسی راہنماؤں میں کیا جاتا تھا۔ اِسی لیے محمود جبریل کو دنیا کے کئی تھنک ٹینکس میں عرب سیاسیات پر باضابطہ گفتگو کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔

٭  نور حسن حسین

صومالیہ کے سابق وزیراعظم نور حسن حسین لندن میں زیرعلاج رہنے کے بعد کورونا وائرس کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔ یاد رہے کہ صومالیہ کا شمار دنیا کے انتہائی غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ اِس ملک کے سابق وزیراعظم نور حسن حسین جو کہ 2007 سے 2009 تک صومالیہ کے وزیراعظم رہے ہیں۔

اپنے دورِحکومت کی تکمیل کے بعد اپنے غریب ملک کو فقط اِس لیے چھوڑ کر مستقل طور پر برطانیہ میں آبسے تھے کہ اُن کا خیال تھا کہ صومالیہ دنیا کا ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے اور یہاں صحت کی ضروری سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا اِس ملک میں رہ کر زیادہ دیر تک خود کو مہلک بیماریوں کا شکار بننے سے نہیں بچایا جاسکتا ہے۔

یعنی نور حسن حسین ایک صحت مند اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے مع اپنے اہل وعیال لندن میں منتقل ہوگئے تھے۔ مگر شومئی قسمت کہ انہیں کورونا وائرس نے لندن میںہی اپنی شکار بنالیا اور دوسری جانب اٹلی جیسے ترقی ملک کے ایک وفد نے صومالی حکومت سے باقاعدہ پناہ کی درخواست کردی ہے کہ وہ اپنے ترقی یافتہ ملک اٹلی میں رہنے کے بجائے صومالیہ جیسے پسماندہ ملک میں رہنے کے اِس لیے خواہش مند ہیں کہ صومالیہ میں اُنہیں کورونا وائرس کے خطرات اٹلی جیسے ملک سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ نور حسن حسین کی موت ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔

٭  آیتاش یالمان  (Aytash Yalman) 

آیتاش یالمان ترک فوج کے مایہ نازجنرل کمانڈر تھے۔ یہ 29 جولائی 1940 کو ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بطور یونٹ فیلڈنگ ترک آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یاد رہے کہ یہ عہدہ ترک فوج میں کرنل سے نیچے ہوتا ہے۔ آیتاش یالمان 2000 جنرل کمانڈر آف گیندا میری آف ترکی تعینات کردیے گئے تھے۔

بعدازاں انہیں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر 2002 میں کمانڈر آف ترکش آرمی کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی اور اِسی عہدے پر یہ ریٹائر ہوگئے۔ آیتاش یالمان کو روناوائرس کا شکار ایران کے ایک نجی دورے کے دوران ہوئے تھے۔ یہ تین ہفتے تک کووڈ 19 کے مرض سے مقابلہ کرتے رہے اور آخر کا ر 15 مارچ 2020 کو اِس موذی وائر س نے انہیں شکست سے دوچار کردیا۔

 ٭  اینڈریو جیک(Andrew Jack)

نام ور برطانوی اداکار اور مشہور زمانہ فلم ’’اسٹار وارز‘‘ میں اہم کردار نبھانے والے 76 سالہ اینڈریو جیک کا انتقال برطانیہ کے اسپتال میں ہوا اور اس خبر کی تصدیق ان کے ایجنٹ جل میکلو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کی۔ یاد رہے کہ اینڈریو جیک نے 2017 کی سائنس فکشن فلم ’اسٹار وارز: دی لاسٹ جیڈی‘ میں جنرل ایمٹ کا کردار نبھایا تھا، اس کے علاوہ وہ اسٹار وارز سیریز کے دیگر حصوں میں بھی جلوہ گر ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اینڈریو جیک کی ایک اور شناخت دنیا کے بہترین ڈائی لیکٹ کوچ کی بھی تھی۔

ذہن نشین رہے کہ ’’ڈائی لیکٹ کوچ‘‘ فن اداکاری سکھانے والے ایک ماہر اور تربیت اُستاد کو کہا جاتا ہے۔ اینڈریو جیک کی اہلیہ گیبریل روجرز اس وقت آسٹریلیا میں قرنطینہ میں ہیں، انہوں نے شوہر کے انتقال کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’اینڈریو میں کورونا وائرس کی تشخیص دو روز قبل ہوئی تھی، وہ کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا نہیں تھے اور نہایت سکون کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی پوری فیملی ان کے ساتھ موجود ہے،‘‘

٭  کر کٹر ظفر سرفراز

دنیا میں کورونا وائرس سے پہلے کرکٹر کی موت ہو گئی ہے اور پاکستان کے سابق فرسٹ کلاس کرکٹر ظفر سرفراز کورونا وائرس کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ظفر سرفراز میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں جس کے بعد انہیں 7 اپریل کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور حالت خراب ہونے پر انہیں آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا تھا۔ سابق کرکٹر کئی دن سے وینٹی لیٹر پر رہے اور بالآخر کورونا وائرس کے باعث لاحق ہونے والی موذی مرض کووڈ 19 کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔

30 اکتوبر 1969 کو پیدا ہونے والے ظفر سرفراز نے کبھی بھی پاکستان کی نمائندگی نہیں کی تھی لیکن 50 سالہ کرکٹر کو 15فرسٹ کلاس اور 6 لسٹ اے میچز کھیلنے کا اعزاز حاصل تھا۔ واضح رہے کہ ظفر سرفراز کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے پہلے کرکٹر ہیں۔

٭ روڈیف گونزو (Rodolfo González Rissotto)

روڈیف گونزولے جنوبی امریکا کی ریاست یورو گوئے میں 1949 میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرکے وہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ پھر ڈائریکٹر ایجوکیشن اور ثقافت مقرر ہوئے۔ وزارت دفاع میں اہم عہدے پر فائز رہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی میں اہم خدمات سرانجام دیں، پارلیمان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم رہے اس موضوع پر تین کتابیں بھی تحریر کیں۔ کورونا وائرس نے انہیں چوتھی کتاب لکھنے کا موقع ہی نہیں دیا اور انہوں نے زندگی کی بازی ہار دی۔ یاد رہے کہ اِن کی موت یوروگوئے میں کورونا وائرس سے ہونے والی سب سے پہلی ہلاکت تھی۔

The post کورونا زمین کے کتنے ستارے نگل گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

انسان کی ایمان داری کا امتحان ؛ راہ پہ گرا نقدی سے بھرا بٹوہ

$
0
0

ایک بار نبی کریم ﷺ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کچھ نصیحت فرما رہے تھے۔ایک بدو آیا اور اس نے  پوچھا ’’قیامت کب آئے گی؟‘‘ حضور اکرمﷺ نے کوئی جواب نہ دیااور بدستور کلام فرماتے رہے تو وہ چپ چاپ بیٹھ گیا۔ جب آپ ؐ اپنی بات ختم فرما چکے‘ تو فرمایا ’’ وہ کہاں ہے جس نے قیامت کی بابت سوال کیا؟‘‘ بدو کھڑا ہوا اور بولا ’’رسول اللہ ﷺ! میں یہاں ہوں۔‘‘نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’جب دنیا میں سچ نہیں رہے گا‘ تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ بدو نے پوچھا ’’ سچ کیسے جاتا رہے گا؟ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ سچ اس وقت ختم ہو گا جب جھوٹے لوگ اور حکمران آئیں گے۔ تب تم قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (البخاری، کتاب سوم )

اس حدیث سے عیاں ہے کہ دنیا سے سچائی‘ ایمان داری اور دیانت داری کا خاتمہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وجہ یہ کہ ہر معاشرے میں ایمان داری اور سچائی انسانی تعلقات میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایمان داری نہ رہے‘ تو پھر وہ جھوٹ و مکاری کانشانہ بن کر زوال پذیر ہو نے لگتا ہے۔ مفکرین کے نزدیک بھی عقل و دانش کا پہلا باب ایمان داری ہے۔عام خیال یہ ہے کہ مادی اشیا کی کثرت دنیا بھر میں انسان کو بے ایمان اور مکار بنا رہی ہے۔

وہ سچائی کادامن جھٹک کر جھوٹ کا سہارا لینے لگا ہے تاکہ دولت و آسائش پا سکے ۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ خیال عملی جامہ پن چکا یا محض خیالی بات یا نظریہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی ایک سماجی تنظیم،گوٹلیب ڈٹ ویلر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے اس سوال کی جانچ پرکھ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔یہ عمرانیات اور انسانی معاشرت کے مختلف پہلوؤں پہ تحقیق کرنے والی  قدیم یورپی غیر سرکاری تنظیم  ہے جس کا نعرہ ہے: ’’پیسے نہیں انسان پر توجہ دو۔‘‘

گوٹلیب ڈٹ ویلر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے تحقیق سے دریافت کیا تھا کہ ایک انسانی معاشرے میں ایمان داری کی موجودگی ’’لازمی‘‘ ہے۔انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق سے یہ بنیادی نکتہ بھی اجاگر ہوا کہ   اگر کسی معاشرے میں یہ لازمی عنصر موجود ہے‘ تو تب ہی وہ معاشی ترقی کرتا ہے۔ اور اس کے بقیہ کل پرزے بھی ٹھیک طریقے سے کام کرتے ہیں۔ گویا کسی معاشرے میں بے ایمانی اور جھوٹ زیادہ ہو‘ تو وہ معاشی ترقی بھی نہیں کر سکتا اور وہاں غربت زیادہ ہو گی۔ایک ملک کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے میں ایمان داری بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

سوئس تنظیم نے پھر اپنی تحقیق کو عملی تجرے میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔یہ طے پایا کہ 40ممالک کے بڑے شہروں(کل 355 شہروں ) میں ایک انوکھا تجربہ کیا جائے۔ یہ کہ عوامی مقامات مثلاً سرکاری دفاتر‘ بینکوں‘ دکانوں‘ ڈاک خانوں‘ ہوٹلوں ‘ عجائب گھروں  وغیرہ میں نقدی سے بھرے یا پھر خالی بٹوے زمین پر پھینک دیئے جائیں۔

بٹووں میں رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریس بھی رکھے گئے۔تجربے سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ کتنے لوگ سچائی و ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بٹوے واپس کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے کتنے فیصد لوگ ہیں جو مکاری و بے ایمانی دکھاتے ہوئے بٹوے  ہڑپ کرجائیں گے۔سوئس تنظیم نے اپنے تجربے کی خاطر تمام 40 ممالک میں مقامی سماجی تنظیموں کی خدمات حاصل کر لیں۔ چنانچہ تنظیموں کے کارکنوں کی مدد سے جولائی 2013ء تا دسمبر2016ء،  تقریباً ساڑھے تین سال تک یہ تجربہ تین سو پچین شہروں میں دہرایا گیا۔

اس دوران نقدی سے بھرے یا خالی ’’سترہ ہزار‘‘بٹوے عوامی مقامات پر چھوڑ ے گئے ۔دور حاضر کے انسان کی اخلاقی طاقت کا امتحان لینے والے اس دلچسپ تجربے کے حتمی نتائج  کچھ عرصہ قبل سامنے آئے ۔ نتائج سے نہ صرف انسانی فطرت کے اسرار نمایاں ہوئے بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ انسان میں ہر لمحے خیر و شر کی قوتوں کے مابین کشمکش جاری رہتی ہے۔

بھرے بٹوؤں میں 14 ڈالر کے مساوی مقامی رقم رکھی گئی جبکہ خالی بٹوؤں میں صرف پتے کی تفصیل والا کارڈ موجود تھا۔ ہر شہر میں دوسو نقدی سے بھرے جبکہ دو سو خالی بٹوے عوامی مقامات پر چھوڑے گئے۔ اس کے بعد انتظار کیا گیا کہ بٹوہ اٹھانے والا کب دیئے گئے ٹیلی فون نمبر یا ای میل پتے پر رابطہ کرتا ہے۔

اس انوکھے تجربے میں ڈنمارک کے شہریوں نے اول نمبر پایا۔ وہاں بھرے بٹوے اٹھانے والے 82 فیصد مردوزن نے انہیں واپس کردیا۔ جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے والوں کی شرح 72 فیصد رہی۔ اس کے بعد سویڈن کا نمبر رہا۔81 فیصد سویڈش شہریوں نے بھرے جبکہ 81 فیصد ہی نے خالی بٹوے واپس کیے۔

دیگر پہلے پندرہ ممالک میں یہ تناسب رہا۔ سوئٹزر لینڈ (80 فیصد بھرے اور 73 فیصد خالی)، نیوزی لینڈ (80 فیصد اور 62 فیصد) ناروے (79 فیصد اور 72 فیصد)، جمہوریہ چیک (78 فیصد اور 62 فیصد) ،ہالینڈ (75 فیصد اور 71 فیصد)، پولینڈ (71 فیصد اور 68 فیصد)، آسٹریلیا (71 فیصد اور 53 فیصد)، جرمنی (67 فیصد اور 55 فیصد)، فرانس (61 فیصد اور 55 فیصد)، سربیا (57 فیصد اور 53 فیصد)۔ یہ تجربہ چھ اسلامی ممالک میں بھی بھی اپنایا گیا۔ بدقسمتی سے یہ سبھی آخری ممالک کی صف  میں آئے۔ چالیس ممالک میں پیرو کے باشندے سب سے زیادہ بے ایمان ثابت ہوئے۔ وہاں صرف 13 فیصد شہریوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کیے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی شرح 15 فیصد رہی۔

اس کے بعد میکسیکو کا نمبر رہا۔ وہاں17 فیصد شہریوں ہی نے نقدی والے بٹوے واپس کیے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی شرح بھی محض 23 فیصد رہی۔ دیگر آخری دس ممالک میں شہریوں کی ایمانداری کا تناسب یہ رہا: کینیا (19 فیصد بھرے اور 16 فیصد خالی)، چین (22 فیصد اور 8 فیصد) ،قازقستان (22 فیصد اور 14 فیصد) ،گھانا (23 فیصد اور 19 فیصد)، ملائشیا (24 فیصد اور 18 فیصد)، انڈونیشیا (33 فیصد اور 18 فیصد)، متحدہ عرب امارات (36 فیصد اور 16 فیصد)،چلّی (37 فیصد اور 35 فیصد)، جنوبی افریقہ (39 فیصد اور 29 فیصد)، تھائی لینڈ (41 فیصد اور 22 فیصد) اورترکی (42 فیصد اور 20 فیصد) ۔یہ تجربہ بھارت کے بڑے شہروں مثلاً ممبئی، نئی دہلی، کلکتہ اور بنگلور میں بھی کیا گیا۔ ان نگروں کے 45 فیصد باسیوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کردیئے جبکہ صرف 22 فیصد مردوزن نے خالی بٹوے واپس کیے۔

اب آپ خود سوچ لیجیے کہ اگر پاکستانی شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں یہ تجربہ اپنایا جاتا تو کیا نتیجہ برآمد ہوتا۔ شاید بھارت کی طرح 45 فیصد پاکستانی ہی بھرے بٹوے واپس کرتے یا پھر دینی جذبہ زیادہ پاکستانیوں کو ایمان داری برتنے پر ابھار دیتا؟ اگرچہ ہمارے ہاں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ ظاہری عبادات کا دکھاوا کرنے والے زیادہ کرپٹ ہوتے ہیں۔

گوٹلیب ڈٹ ویلرانسٹی ٹیوٹ کے تجربے سے بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ واقعی ایمان داری اور ایک قوم کی معاشی ترقی و خوشحالی کا آپس میں تعلق ہے۔ اس تجربے میں جن ممالک کے شہریوں نے سب سے زیادہ بھرے و خالی بٹوے واپس کیے، وہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ جبکہ پیرو، میسکیکو، گھانا اور چین میں بھی خاصی غربت موجود ہے۔ غربت اور بھوک بہت بڑا شیطانی عجوبہ ہے۔ یہ بعض اوقات اعلیٰ کردار رکھنے والے انسان کو بھی اخلاقیات سے گری حرکت کرنے پر اکسا دیتا ہے۔تجربے میں جو ممالک سرفہرست آئے، وہ ایک اور خاصیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کہ وہاں قانون کی حکمرانی مضبوط ہے۔

گویا ایمان داری کی طاقتور حسّ اور قانون کے احترام کاجذبہ مل کر دو آتشہ بن گئے۔ اسی لیے ان ملکوں میں عوام اپنے حصے کے تمام ٹیکس دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔حکومتوں کو جو آمدن ہو‘ وہ کرپشن کی نذر نہیں ہوتی بلکہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ وہاں بیورو کریسی ہو یا نجی شعبہ‘ ہر کوئی اپنے فرائض ذمے داری سے انجام دیتا ہے۔ غرض ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی وہ خوشحالی کا راز یہ ہے کہ وہاں نہ صرف حکومتیں قانون کا سختی سے نفاذ کرتی ہیں بلکہ ہر شہری کو بھی احساس ہے کہ وہ اپنے کام ایمانداری سے کرے۔ اسی واسطے مملکت کی تمام سرگرمیاں بخیر و خوبی انجام پاتی ہیں۔

یوں سبھی فائدے میں رہتے ہیں۔درج بالا حقائق جان کر ذرا اپنے پاک وطن کی حالت پر نگاہ دوڑایئے۔ یہاں بیشتر پاکستانی ایمانداری سے اپنے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ ان کا دعوی ہے‘ حکومت اور بیورو کریسی ٹیکسوں کی بیشتر رقم ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومت کو مطلوبہ رقم نہ ملے تو وہ قرضے لیتی ہے۔ انہی قرضوں نے اب پاکستانی حکومت کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ روز مرہ اخراجات بھی قرضے لے کر پورے ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا پاکستان جدید ترین اسلحہ خرید کر اپنا دفاع مضبوط بنا سکتا ہے؟ مملکت کے مستحکم دفاع کی خاطر ہمارا معاشی طور پر طاقتور ہونا لازمی امر ہے۔

تجربے سے یہ بھی عیاں ہوا کہ اسلامی معاشروں میں اخلاقیات کی کمی امت مسلمہ کے زوال کی اہم وجہ ہے۔ جب مسلمان سادہ‘ قناعت پسند‘ جفاکش‘ دیانت دار اور معاملات میں کھرے تھے‘ انہوں نے دنیامیں سپر پاور کی حیثیت حاصل کر لی۔

لیکن جب وہ عیش و عشرت کی زندگی ‘ جھوٹ و فریب اور بے ایمانی میں گرفتار ہوئے‘ تو پستی کے گڑھوں میں جا گرے۔ زوال سے نکلنے کا ایک بنیادی راستہ یہی ہے کہ اسلامی معاشروں میں دوبارہ ایمان داری‘ خلوص‘ اتحاد‘ بھائی چارے ‘ سادگی جیسی اعلی وضاحت کو پروان چڑھایا جائے۔ اخلاقی طور پر باشعور ہونے سے مسلمان خود بخود قانون کا احترام بھی کرنے لگیں گے۔تبھی وہ دنیاوی کامیابی بھی پا سکتے ہیں۔ مگر یہ کامیابی ان خامیوں سے مبرا ہو گی جن میں مغربی ممالک مبتلا ہیں۔ مثلاً مادہ پرستی سے لگاؤ‘ فحاشی‘ حد سے بڑھی انفرادیت اور بے حسی وغیرہ۔

عالم اسلام کے زوال کی ایک اور اہم وجہ علم (سائنس و ٹیکنالوجی) سے کٹ جانا بھی ہے۔ اگر نویں دسویں عیسوی میں کوئی این جی او دنیا کے چالیس ممالک میں ایمان داری کا تجربہ کرتی‘ تو صف اول پر اسلامی ممالک مثلاً جزیرہ نما عرب‘ اندلس‘ عراق‘ مصر‘ شام‘ ایران‘ تیونس‘ مراکش وغیرہ آتے۔ جبکہ اس زمانے میں یورپی و مغربی ممالک میں غربت و جہالت کا دور دورہ تھا۔ تب اسلامی دنیا زبردست علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی کل عالم کی تاجدار بنی ہوئی تھی۔ مگر آنے والی صدیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کا پرچم مغرب میں بلند ہوا‘ تو رفتہ رفتہ مغربی ممالک ہی بام عروج پر پہنچ گئے۔ گویا آج اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت دی جائے تو یہ راستہ بھی انہیں دوبارہ ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچا سکتا ہے۔

قرآنی تعلیم سے ٹکراتا تاثر
اہل پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر ایمان دار،اہل اور محنتی حکمران آ جائے تو وہ ساری حکومتی و معاشرتی خرابیاں دور کر دے گا۔حکمران یقیناً دیانت دار ہونے چاہیں مگر یہ سکے کا ایک رخ ہے۔دوسرارخ یہ کہ افراد ِقوم کو بھی ایمان دار ہونا چاہیے تبھی سارے معاملات درست ہوں گے۔

اگر عام لوگ بے ایمان اور کرپٹ ہوں تو محض ایک ایمان دار حاکم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اپنی قوم کی خراب حالت ٹھیک نہیں کر سکتا۔خدائے برتر وبزرگ نے بھی سورہ انفال،آیت آٹھ میں یہی بات بیان فرمائی جس کا مفہوم ہے:’’ایک قوم کی حالت اسی وقت بدلتی ہے جب وہ خود فیصلہ کر لے۔‘‘

اس آیت میں حکمرانوں نہیں عام افراد(قوم)کا ذکر آیا ہے۔اب عوام وخواص مثلاً دکان دار،پھیری والے،کلرک ،کاروباری،سرمایہ دار وغیرہ بے ایمانی سے کمائی کریں تو ایک ایمان دار حکمران کیا اخلاقی زوال کے اس قومی شعار کو بدل سکتا ہے؟تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔

The post انسان کی ایمان داری کا امتحان ؛ راہ پہ گرا نقدی سے بھرا بٹوہ appeared first on ایکسپریس اردو.


جرائم کے خاتمے میں ناکامی کیوں؟

$
0
0

جب معاشرے میں غربت، بے روزگاری، رشوت ستانی،اقربا پروری، ناانصافی بڑھ جائے تو افراد حسد اور تعصب ، حرص و ہوس اور اسی نوع کی کم زوریوں،اخلاقی گراوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

معاشرے میں نفرت، غم وغصہ اور مایوسی جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں افراتفری اور نفسانفسی پر وان چڑھتی ہے۔ اسی طرح جب سیاست داںاور حکم راںاپنے مفادات کی تکمیل کے لیے قانون سازی کریں اور سزا و جزا میں دہرا معیار اپنایا جائے، اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے لگے تو لوگوں میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے اور جرم کو پنپنے کا موقع مل جاتاہے ۔

جدید دنیا اورتہذیب یافتہ معاشروںمیں ریاست کا تصورایک ماںجیسا ہے، جو ہر دکھ، ہر مشکل اور ہر موقع پر عوام کا ساتھ دیتی ہے، ان کا خیال رکھتی اور ان کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ قانون کی بالادستی یقینی اورعدلیہ کی آزادی کااحترام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرہ افراتفری، انتشار کا شکار ہے۔

اگر ہم معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم، پاکستان کے قانون ساز اداروں اور عدلیہ کی بات کریں توسب سے پہلے جو مسئلہ سامنے آتا ہے،و ہ ہے سیاسی مفاد کی تکمیل اورمخصوص طبقے کوفائدہ دینے کے لیے قوانین کا نفاذجس کا بوجھ عدالتی نظام پر پڑتا ہے اور عدالتیں اپنے اصل مقاصد سے کنارہ کشی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

پچھلے 73 سال کے دوران مفکرین، دانش وروں اور قانون دانوںنے جرم و سزا سے متعلق حکومتی اداروں اورریاست کے پلیٹ فارم سے،مختلف سماجی فورمز اور ذرایع ابلاغ کی مدد سے ریاست کو متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی اور اس ضمن میں ٹھوس اور جامع تجاویز، سفارشات بھی پیش کیں، مگر جرائم بڑھتے ہی چلے گئے اور آج ہمارا عدالتی نظام اس کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔ آئیے، اس کی چند بنیادی اور اہم وجوہ جاننے اور اس مسئلے کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم اپنے سمجھنے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ جرم دو طرح کے ہیں۔ایک معمولی نوعیت کا اوردوسری قسم کو غیرمعمولی یا بڑے جرائم کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے موٹے جرائم میں عام اشیا کی چوری، شراب نوشی، گھریلو و سماجی تشدد جیسے جرائم شامل ہیں ، جب کہ قتل ، ڈکیتی، کرپشن و غیرہ بڑے جرائم ہیں۔ انھیں ضلعی عدالتوں میں ان کی قسم یا نوعیت کے تحت زیر سماعت لایا جاتا ہے جب کہ چھوٹے جرائم کو جوڈیشل مجسٹریٹ نمٹاتے ہیں، اسی طرح وہ جرائم سیشن ججز کے سپرد کیے جاتے ہیں جن میںبڑی اور طویل سزا ہوسکتی ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی بات کریں تو صرف چند امتحانات پاس کرنے پراس کی تقرری کا پروانہ جاری ہوجاتاہے، باقی رہا تجربہ تو وہ اسی کرسی پر بیٹھ کر حاصل کرتا ہے اور یہی وجہ سے اکثر سیشن ججوں پر مزیدکیسز کا بوجھ پڑتا ہے۔دوسری طرف عدالتی کارروائیوں کے دوران یا بعد میں ملزم یا مجرم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کی اصلاح کرنے اور جرم سے نفرت دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جیل کا ماحول اور ہمارا سسٹم اسے مزید بگاڑ کرکچھ عرصے یا چند سال بعد دوبارہ اسی معاشرے میں دھکیل دیتا ہے۔

قتل، ایک سنگین جرم ہے اور اگرسیریل کلر زکی بات کی جائے تو امریکا اورمغربی ممالک میںکئی ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں اور  آتے رہتے ہیںاور اس میں گرفتاری کے بعد عدالتی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔ وہاںایسے مجرموں کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے جرم کی وجہ، اسباب اور مجرم کے حالات ،اس کے خیالات پرباقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے ،مگر پاکستان میں 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے خود گرفتاری دی تھی، اسے پولیس نے نہیں پکڑا تھا۔

کیا پاکستا ن میں سیریل کلر موجود نہیں یا ایسے درندہ صفت جو کئی بے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں؟ یہاں دراصل جرم اور مجرم کے تعاقب کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اس لیے سیریل کلر ز بھی سامنے نہیں آتے، ان کا ریکارڈبھی نہیں بنتا اور کوئی ایسا ادارہ موجود ہی نہیں جو اس درندگی کی اصل وجہ جاننے کے لیے تحقیق کرے ۔

زینب اور دیگر معصوم زندگیاں بھی اسی نوعیت کے جرائم کی لپیٹ میں آئیں، مگر تحقیقات روایتی طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے صرف جرم اور اس کا ارتکاب ثابت کیا گیا، اس کے محرکات،اسباب جاننے کے لیے سائنسی طریقے اپنانے اور کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عام آدمی بھی سمجھتا اور جانتا ہے، اور یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں مگرکیا اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے بہتری ممکن ہے؟ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جو اس نظام کو درست کرنے میں مدد دے ؟ ایسا کیا ہے کہ پالیسیاں بھی مرتب کی جاتی ہیں ،اصلاحات بھی سامنے آتی ہیں، قانون سازی بھی کی جاتی ہے،مگر ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ہم اگر مغربی دنیا کے چندممالک سے اپنے معاشرتی حالات، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کا موازنہ کریں تو ہمیںاس  کی کچھ بنیادی خامیاں نظر آسکتی ہیں۔ یورپ جو آج سے 70 سال پہلے جنگ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوںاوربحرانوں کا شکار تھااس کے حالات کیسے بہتر ہوئے،  اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

٭  یورپ میں جرائم

دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں 1960کی دہائی سے، جرائم کا مطالعہ تاریخی نقطۂ نظر سے کیا جاتا رہا ہے، تاریخ اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جرم پر تحقیق اور اس پر قابو پانے کے لیے زور دیا گیااور نتیجتاً 1983 میں کونسل آف یورپ کا قیام عمل میںآیا اور سالانہ تعزیراتی اعداد و شمار کے حوالے سے تنظیم(SPACE) نے کام شروع کیا، اس ادارہ کا کام یورپ کی جیلوں سے قیدیوں کا ڈیٹا جمع کرناتھا جوہر سال شایع بھی کیا جاتا ہے۔

وہاں جرم سے متعلق تحقیقاتی ادارے اس کی مدد جرم کے محرکات اور اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اوراپنی رپورٹ تیارکر کے پیش کرتے ہیں جس کے مطابق حکومت پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔

یورپ میں پولیس کا نظام قابل ِرشک ہے ۔اگرہم پرتگال کی بات کریں تویہاں دیہی اور شہری علاقوں میں پولیس کا کردار الگ الگ ہے۔ شہر میں پولیس کی نفری ہر وقت موجود رہتی ہے کیوں کہ وہاں کی معمول کی سرگرمیاں اورجرائم کی نوعیت دیہی علاقوں سے قدرے مختلف ہے۔

دیہی علاقوں میں پولیس شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے بلکہ نیشنل گارڈز کو دیہی علاقوں میں زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں ۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کام پولیس نہیں بلکہ نیشنل گارڈز انجام دیتے ہیں اور یہ سب مذکورہ نظام کے تحت ہوتاہے جس کی بنیاد پر حکومت پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔

٭  پالیسیاں اور ان سے پیدا ہونے والے دوسرے مسائل

ہمارے ملک میں فوجداری مقدمات (جو عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو شہری مدعیت اور دوسرا سرکاری مدعیت میںدرج ہوا) عدالتی بوجھ کم کرنے کی غرض سے ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے پچھلے سال شہری مدعیت میں ہونے والے مقدمات کے طریقہ ٔکار پر ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ ملک میں اس قسم کے چھے لاکھ سے زائد کیس درج ہیں اس لیے ایک نئی پالیسی دی جارہی ہے جس کے تحت تھانہ دار کی عدم توجہی کی صورت میں مدعی ضلع ایس پی شکایات کے پاس پیش ہوگا اور اسے  لازمی قرار دیا گیا۔

ماہرین کے مطابق یہ اچھی پالیسی ہے، مگر کیا سرکاری مدعیت میں مندرج مقدمات کے حوالے کوئی پالیسی مرتب کی گئی؟ایسا نہیںکیا گیا بلکہ اسے نظر انداز کرکے گویا شہریوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کرد یا ہے۔ سرکاری مدعیت میںدرج مقدمات میں بھی ایسی ہی کسی پالیسی کی ضرورت ہے تا کہ عدالتوں کا بوجھ مزید کم ہوسکے اوراس طرح پولیس کی کارکردگی کا باقاعدہ جائزہ لیا جاسکے، کیوں کہ چرس، شراب اور اسی نوعیت کے عام نشے کسی کے بھی سَر ڈال کربے گناہ کو فوجداری مقدمات میں گھسیٹ لیا جاتا ہے۔

مغربی ممالک میں جب شہری کسی دوسرے شہری کے خلاف ابتدائی شکایت درج کرواتا ہے تو ٹیم پہلے تحقیق کرتی ہے، پھر اسے ڈائری میں درج کیا جاتا ہے اور اگر جرم بنتا ہو تو پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ آیا یہ کیس تعزیراتی تقاضوں پر پورا اتر رہا ہے یا قابل سماعت ہے

؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح آدھا کیس تو حل ہوجاتا ہے ، پھر عدالتوں پر بوجھ کیسا۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔یہاں اصل مجرم پولیس کی نااہلی یا کیس کی معمولی کم زوری کے باعث گرفت میں نہیں آتا یا کوئی بے گناہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کسی سزا کوبرسوں بعد کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

٭  انگریز دور کے قوانین پر انحصار

ہمارے ملک میں برطانوی دور قوانین اورسسٹم آج بھی چند تبدیلیوں کے ساتھ کام کررہا ہے جب کہ یورپ میں انقلاب ِ فرانس کے بعد معروف سماجی دانش وروں، قانون دانوں   Jeremy Bentham،  Sonnenfels  اور والٹیئر سمیت دیگر وکلا،اصلاح پسند لوگ اور باشعور شہریوںنے نیپولین ایکٹ اور تاریخی تعزیرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور نئی اصلاحات متعارف کروائیں۔

اسی طرح ہمیں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اورچندٹھوس اور جامع پالیسیوں کی ۔ بدقسمتی سے یہاں قانون سازی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے جیسا کہ اسلحے سے متعلق لائسنس کی میعاد،جرمانہ اور قید وغیرہ اور سیاسی اشراف اپنے مفاد میں اداروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

٭  حکومتی رٹ کیسے قائم کی جائے

ایک اہم مسئلہ حکومتی رٹ قائم نہ ہونا ہے جس کی بنیادی وجہ اختیارات پر مرکزی کنٹرول برقرار رکھناہے جب کہ اختیارات کی  نچلی سطح پر منتقلی نہ ہونے سے حکومت کی رٹ قائم ہونے بھی نا ممکن ہوتاہے ۔ لندن کی مثال لے لیجیے ، وہاں پولیس کمشنر تک میئر کے کنٹرول میں رہتا ہے ، جرائم یا عوامی مسائل کو قانون ساز اداروں تک جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

اس کی ایک مثال ہم مشرف ا دورسے دے سکتے ہیں جس میں مئیر کراچی کے اختیارات اور اقدامات سے کون واقف نہیں۔ شہری مسائل کو اس دور میں مقامی سطح پر حل کیا جاتا رہا۔  2001سے شہری حکومت کے خاتمے تک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ شہری مسائل کو نچلی سطح پر حل کیا جا رہا تھا، بجٹ کا صحیح استعمال کیا گیا،اور شہر کے لیے کئی نئے منصوبوں پر کام ہوا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اٹھارویں ترمیم آئی جس سے صوبوں کو بااختیار تو بنایا گیا، مگران کا بجٹ نہ جانے کہاں خرچ ہونے لگا اور آج سندھ کی حالت سب کے سامنے ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی ممالک میں موجود نظام اور پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی سطح پرپولیس اور عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے اور اصلاحات کیاجائیں۔محکمہ پولیس اور متعلقہ اداروںکو نئے سرے سے ترتیب و تشکیل دے کرسود مند اور مؤثر پالیسیوں کے تحت چلایا جائے یا کم از کم اس محکمہ میں وہ تبدیلیاں ضرور کی جائیں کہ یہ سماجی تقاضوں کوپورا کرنے کے قابل ہوسکے۔ہمیں ان اداروں کی ضرورت ہے جو سماج اوراس کے مختلف گروہوںکواسٹڈی کرکے معاشرے کی انجینئرنگ کرسکے۔

اس ضمن میں ماہر قانون دانوں،سماجی مفکرین اور ٹیکنوکریٹ کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے۔ نظام میں سب سے اہم تبدیلی شہری حکومت کے تحت لائی جاسکتی ہے جس میں مسائل کومقامی نمائندے اور کونسلر کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔

The post جرائم کے خاتمے میں ناکامی کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی آبادی اور بڑھتی آلودگی کے باعث تتلیوں کی معدومی کا خطرہ

$
0
0

 لاہور: تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے تتلیوں کی نسل کو معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

ہمیں احساس ہی نہیں کہ خوبصورتی کا استعارہ ، رومانوی اور جمالیاتی حسن کی عکاس یہ تتلیاں کس تیزی سے ہمارے ماحول سے غائب ہو رہی ہیں۔اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے لاہورمیں تتلیوں کی افزائش، ان سے متعلق آگاہی ،ریسرچ اورافزائش کے لئے دو تتلی گھر بنا رکھے ہیں جہاں موسم کے مطابق مختلف اقسام کی سیکڑوں تتلیاں موجود ہوتی ہیں۔

2016 میں لاہورکے جلوپارک میں پہلا جب کہ 2019 میں جوہر ٹاؤن لاہور میں دوسرا تتلی گھر بنایا گیا،یہاں پاکستان کی مقامی تتلیوں کی افزائش کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان دنوں گرمی کے سیزن میں یہاں 8 سے 10 اقسام کی تتلیاں موجود ہیں جن میں لٹل ییلو، پلین ٹائیگر، مارمن،سلفر،پی کاک پانسی، پینٹیڈ لیڈی اورکامن کاسٹر شامل ہیں۔

تتلی گھرمیں کام کرنیوالے ملازمین کے مطابق ابتدامیں فلپائن سے مختلف تتلیوں کے لاروے منگوائے گئے تھے تاہم اب مقامی نسل کی تتلیوں کی ہی بریڈنگ کی جارہی ہے۔ پی ایچ اے کے ملازمین شام کے وقت بوٹینکل گارڈن کی آزادفضاؤں میں اڑنے والی تتلیوں کو پکڑتے اور پھر انہیں یہاں بٹر فلائی ہاؤس کے اندر چھوڑ دیتے ہیں۔

تحقیقات کے مطابق تتلی ایک کیڑا ہے جو اپنے خوبصورت پروں کی وجہ سے ممتاز ہے۔ دنیا بھر میں 17500 کے قریب تتلی کی انواع پائی جاتی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک تتلیوں کی 58 اقسام دریافت ہوسکی ہیں، پھولوں کا رس تتلیوں کی بنیادی خوراک ہے۔ اس کے علاوہ زرگل دانے درختوں کے رس، پھل اور کئی چیزیں بھی ان کی خوراک میں شامل ہیں۔تتلی دیگر جانوروں کی طرح چیزوں کو زبان سے نہیں چکھتی بلکہ اس کے لیے وہ اپنی پتلی پتلی ٹانگوں کو استعمال میں لاتی ہے۔ تتلی کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے، جو ایک ہفتے سے ایک ماہ تک ہوسکتی ہے،تتلی کے پروں کی خوبصورتی اس کے پروں پر موجود نظر نہ آنے والے ’’کرسٹلز‘‘ کی بدولت ہوتی ہے۔ تتلی کے پروں میں سیاہ اور براؤن رنگ کچھ پگمنٹس کی بدولت ہوتا ہے جبکہ باقی سات رنگ درحقیقت ان کرسٹلز پر روشنی پڑنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جو تتلیوں کے پروں کو بے بہا خوبصورتی دیتے ہیں اور دیکھنے والے کی آنکھ کو بہت بھلے سات رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کرسٹل اس قدر نرم ہوتے ہیں کہ چھونے پر ریشم کا احساس ہوتا ہے۔ تتلیاں آسانی سے اپنے پروں کا بوجھ اٹھاتی ہیں اور ہواوں میں لہراتی ہیں۔

نرم ونازک اوررنگ برنگی تتلیوں سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ زہریلی نہیں ہوتیں اس لیے اکثر افراد انہیں چھونے اورپکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تتلیاں دم توڑجاتی ہیں لیکن اب تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تتلیوں کی کچھ اقسام بے حد زہریلی اور خطرناک بھی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی قسم سامنے نہیں آئی ہے۔

تتلی گھرکی انچارج نازین سحر کا کہنا ہے پاکستان میں مختلف موسموں کے دوران مختلف قسم کی تتلیاں پائی جاتی ہیں تاہم چنداقسام ایسی بھی ہیں جو پورا سال نظرآتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں تتلیوں کو زندہ رکھنے کے لئے خاص انتظامات کرناپڑتے ہیں۔ بوٹینکل گارڈن میں تتلیوں کے لئے فائبرکی خاص ٹنل بنائی گئی ہے جس کے اندر درجہ حرارت کو 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھا جاتا ہے۔

نازنین سحر کہتی ہیں کہ ہم تتلیوں کی 8 سے 10 اقسام کی افزائش بھی کررہے ہیں، ہم نے ان کے لئے الگ سے پروڈکشن ہاؤس بنایا ہے ، ان کی افزائش اتنی آسان نہیں ہے ،مختلف مقامات پر تتلیوں کے ہوسٹ پلانٹ لگائے گئے ہیں ،انہوں نے کہا پاکستان میں تتلیوں کی افزائش ابھی تجرباتی مراحل میں ہے اورہم نے ابھی آغازکیاہے، آنیوالے سالوں میں یہاں مزیدکئی اقسام کی تتلیاں نظرآئیں گی۔

نئے موسم اور نئی نسل کی سو سے ڈیڑھ سو تتلیاں جب اس مصنوعی مسکن میں چھوڑی جاتی ہیں تو دو ہفتوں میں ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اس مسکن میں ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جو تتلیوں کے قدرتی ماحول سے مطابقت رکھتی ہے تاہم ان کی شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے اوران کی طبعی عمربھی چند دن ہی ہوتی ہے۔

نازنین سحریہ بھی کہتی ہیں کہ ابھی توان کے یہاں تتلیوں کی جو افزائش ہورہی ہے وہ تتلی گھروں کے لئے بھی کم ہے، اس لئے باہرسے تتلیاں پکڑنا پڑتی ہیں تاہم آنیوالے چندسالوں میں تتلیوں کی افزائش اس سطح پر پہنچ جائے گی کہ ہم انہیں کھلی فضا میں چھوڑ سکیں۔

The post انسانی آبادی اور بڑھتی آلودگی کے باعث تتلیوں کی معدومی کا خطرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اردو اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں پودوں، سبزیوں اور پھلوں کے مشترک نام

$
0
0

 زباں فہمی کالم نمبر25

اردو زبان کی وسعت و ہمہ گیری سے کسے انکا رہے۔ ہاں جنھیں انکارہے، اُن کی اپنی علمیت اور ذہنیت دونوں ہی مخالفت بربِنائے تعصب کے سوا کچھ نہیں کرپاتی۔ یہ لوگ محاورے میں ’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘ کے مصداق ہیں۔ خاکسار اپنی تحریروتقریرمیں یہ نکتہ بارہا عرض کرچکا ہے کہ دنیا کی تقریباً تمام قابل ِذکر، بڑی ، اکثر نمایاں، متعدد چھوٹی زبانوں، حتیٰ کہ بولیوں میں بھی ایسے الفاظ، تراکیب، محاورہ جات اور دیگر لسانی مواد موجود ہے جو اردو سے مشترک ہے۔ یا تو اردو میں وہ مشترک ذخیرہ موجود ہے، مستعار ہے یا اس کے برعکس، کسی دیگر زبان کا معاملہ ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں مختلف قسم کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر فی الحال پہلے اپنے موضوع سے براہ راست انصاف کیا جائے تو اچھا ہے۔

برصغیر پاک وہند (یابعض بزرگوں کے نزدیک برّعظیم) کی مختلف بڑی اور چھوٹی علاقائی زبانوں سے اردو کے اشتراک کی ایک نمایاں مثال پودوں، خصوصاً سبزیوں اور پھلوں کے وہ نام ہیں جو اردو اور ان تمام زبانوں میں یا تو بالکل یکساں ہیں، مماثل ہیں یا قریب قریب ویسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ بات شروع کرتے ہیں اپنی من پسند سبزی بھنڈی سے جو خاکسار کے محدود مشاہدے کے مطابق، اکثر گھروں کی مقبول سبزی ہے۔ ادھر کچھ سال سے اس کے طبی فوائد، خصوصاً ذیابیطس کے علاج میں شافی ہونے کے بارے میں جدید تحقیق پر مبنی مواد بھی انٹرنیٹ پر پیش کیا جارہا ہے۔

بھنڈی کے انگریزی نام Ladies’ fingers or Ochroاور Okraسے ہمارے جدید اذہان کافی مانوس ہیں، مگر یہ بات شاید اکثر خواندہ، اردوگو اور اردوداں حضرات کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوگی کہ پورے خطے میں مقبول و مرغوب، اس سبزی کا نام کم وبیش ہر زبان میں یکساں ہے۔ اِسے ہندی میں بھنڈی، آسامی، اُڑیا اور مراٹھی میں بھینڈی (Bhendi)کہتے ہیں، بنگلہ، نیپالی اور پنجابی میں بھی یہ سبزی بھنڈی کہلاتی ہے، جبکہ نیپالی میں اس کا دوسرا نام ہے: چپلے بھینڑی۔ پشتو میں بنِڈے، (بھے کی بجائے بے کی آواز)، جبکہ گجراتی میں اسے بھِنڈا کہتے ہیں، تیلگو۔یا۔ تیلگو میں بینڈا (Benda)اور کونکنی میں بھینڈڈی (Bhenddi)کہا جاتا ہے۔

یہاں ایک ضمنی بات عرض کرتا چلوں کہ کونکنی کو، اہل زبان اپنی تحقیق کی بنیاد پر باقاعدہ زبان کی بجائے بولی (Dialect) قرار دیتے ہیں، باوجودیکہ اس میں، (گجراتی کی بولی میمنی کی طرح) ادب بھی تخلیق ہوچکا ہے۔ بعینہ یہی معاملہ پوٹھوہاری سمیت مختلف شاخ ہائے پنجابی اور جنوبی ہند کی ایک بولی ’’نوائط‘‘ کا ہے۔ کَنَّڑ بھی ہمارے برصغیر کی ایک زبان ہے۔ اس زبان میں ہماری ہردل عزیزبھنڈی کو ’’بھینڈے کئی‘‘(Bhende Kayi)کہتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔اور جناب! بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مَلیالَم اور تَمِل زبان میں اس کا نام ہے: وینڈاکا(Vendakka) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے کہ صاحب! یہ نام تو مختلف ہے، نہیں جناب، ذرا غورکریں، اس لفظ کا ماخذ بھی وہی ہے جو بھنڈی کا ہے۔

اس کی تفصیل تو کوئی ماہرِلسانیات ہی آپ کو بتائے گا۔ (بہت سے لوگ سہواً ’’تَمِل‘‘ کو تامَل یا تامِل کہتے ہیں)۔ ببول یا کیکر (Gum Arabic tree, Thorny Accacia, Egyptian Accacia, Thorn Mimosa, Babul ) سے کون واقف نہیں۔ بنگلہ میں اسے بابلا(Babla)، پنجابی میں کِیکر، کونکنی میں ببول زھاد(Babulzhadd)، مراٹھی میں ببھول (Babhul)اور اُڑیا میں ببوری (Baburi)کہتے ہیں۔ ہاں، البتہ آسامی میں بڑا عجیب اور مختلف نام ہے: توروا کدم (Toruakadam)۔ یہ انتہائی مفید جھاڑی ہے جس کی ایک قسم پورے درخت کی شکل میں بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ اس کے پتوں اور پھلیوں کے طبی فوائد میں مردوعورت دونوں کے لیے مقوّی ہونا ثابت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا شہد (یعنی اس پر بننے والے چھَتّے کا شہد) ذیابیطس کا قدرتی علاج ہے۔

یہ کم یاب ہے اور عوام النّاس ہوں یا خواص ، اس کی ماہیت سے ناواقف ہیں، لہٰذا گزشتہ کچھ سال سے ملکی وغیرملکی ادارے ، نامعلوم کون کون سی چیز سے شہد تیار کرکے ’کیکر کا شہد‘ کہہ کر بیچ رہے ہیں اور خوب مال کمارہے ہیں۔ لسان و لسانیات کے اس ادنیٰ طالب علم سے یہ گُر بھی جان لیں کہ کیکر کا شہد، پتلا ہوتا ہے اور اس میں مٹھاس اس قدر کم ہوتی ہے کہ جیسے نکال لی گئی ہو اور قدرے نمکین ذائقے کی قدرتی آمیزش ہوتی ہے۔ یہ سب نہ ہو تو فوری سمجھ جائیں کہ آپ کو ’کیکر کے شہد‘ کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

{ویسے یہی معاملہ بیری کے شہد کا بھی ہے جو خالص تو بازار میں بہت ہی کم یاب ہے، مل جائے تو ذیابیطس کا یقینی علاج ہے اور نیم کا شہد بھی جس کے متعلق ابھی ’کماؤ‘ اداروں کو علم نہیں کہ یہ بھی اسی مقصد کے لیے مفید ہے۔ بیری کا شہد سب سے پتلا اور تقریباً پھیکا ہوتا ہے، جبکہ نیم کے شہد میں نیم کا مخصوص کسیلاپَن اور خوشبو بدرجہ اَتم موجود ہوتی ہے۔ مگس بانی کے کاروبار سے منسلک لوگ، اَجوائن اور سورج مکھی کے پھولوں سے بھی شہد کشید کرتے ہیں۔

راقم کا گمان ہے کہ یہ بھی ذیابیطس کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تین سو سے زائد بیماریوں کے علاج کے لیے مشہور ومنفرد، سُہانجنا/سوہانجنا / سینجنا کا شہد بھی یقیناً کم یاب ہی نہیں، نایاب برابر ہے اور آنکھ بند کرکے، ذیابیطس سمیت کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ ’’شہدکہانی‘‘ کا سب سے حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ ’ماحول دشمن‘ یا ’’قدرے کم‘‘ ماحول دوست درخت ، کونوکارپس(Conocarpus) بھی (جو سابق فوجی آمر اور سابق ناظم کراچی کا اس شہر اور ملک پر مسلط کیا ہوا درخت ہے) اللہ کے فضل وکرم سے شہد کے چھتّے بناسکتا ہے۔

گلستان جوہر بلاک 19، کراچی میں ایک جگہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے دیکھا اور بتایا تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ ویسے اسی درخت پر عام چڑیوں کے علاوہ، ایک بہت ہی پیاری، ننھی منی، من موہنی سِیٹی باز، خاکستری چڑیا اور ایک سیاہی مائل نیلی سِیٹی باز چڑیا (Sun-bird) بھی خوب سُر بکھیرتی ہیں (یہ اس خاکسار کا مشاہدہ ہے)۔ افسوس اس ملک میں کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو قدرت کے ان بیش بہا خزانوں کو اصل شکل میں عوام الناس کے فائدے کے لیے بڑے پیمانے پر تیار کرکے، مناسب قیمت پر عام کردے}۔

سِری پھل (Wood Apple)کو پنجابی میں بِیل (Bil)کہتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں عموماً میوہ فروش اِسے ’بیل پتھر‘ یا ’کَٹ بیل‘ کے نام سے بیچتے ہیں۔ اب اسی نام سے مماثل نام ملاحظہ فرمائیں۔ آسامی اور بنگلہ میں بائل یا بَیَل(Bael)، گجراتی میں بیلیوا پھل (Biliva Phal) ، کَنَّڑ زبان میں بِیلوا پاترے(Bilva Patre)، کونکنی میں بیل فولی (Belfoli)، مراٹھی میں بیل (Bel)اور اُڑیا میں بیلا(Bela)کہتے ہیں، جبکہ تلیگو میں اس کا نام ہے بِیلوامُو(Bilvamu)۔ ایک اور نام جو بظاہر مختلف ہے ، مگر اصل میں اس پھل کے نام کے مآخذ سے مشتق لگتا ہے: وِیلوا مرام (Vilvamaram)۔ یہ نام اس پھل کو تَمِل زبان میں دیا گیا ہے۔

پیاز(Onion)کو ہندی، پنجابی، گوجری، پشتو اور (حیرت انگیز طور پر) فارسی (پاکستانی و ایرانی دونوں) میں پیاز ہی کہا جاتا ہے۔ (پنجابی میں اس کے دوسرے نام: گنڈھا، گٹھا)۔ بلوچی اور براہوئی میں پیِماز کہتے ہیں، بنگلہ میں پیاج، (گوجری میں اسے ’گنڈو‘ بھی کہتے ہیں)، جبکہ اُڑیا میں یہ پیازو(Piazo)کہلاتی ہے اور کونکنی میں اس کا نام پیاؤ(Piao)ہے۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ ہندی اور قدیم اردو میں پیاؤ سے مراد ہے، گھوڑے کے پانی پینے کی جگہ)۔ سندھی میں بَصَل (خالص عربی لفظ ) اور بَصَر استعمال ہوتا ہے، جبکہ سرائیکی میں پیاز کو وس۔ سل (عربی بصل کا محرّف ) کہتے ہیں۔ ل

ہسن (Garlic)کو سنسکرت میں لسوند، ہندی میں لہشن اور پنجابی میں لہسن ہی کہتے ہیں، (بول چال کی زبان میں اردو اور پنجابی دونوں ہی کا بگڑا ہوا تلفظ ہے: لھس سن)، میواتی میں لھسّنڑ، جبکہ گجراتی میں لیسن (Lason)کہا جاتا ہے۔ بنگلہ میں اس کے ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ آجاتی ہے، یعنی ’’رَسُن‘‘ (Rasun)یا رَشُن اور اُڑیا میں یہ ’’رسونا‘‘(Rasuna) کہلاتا ہے۔

(ویسے حیران کُن بات یہ ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں بھی حرف ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ کہنے اور لکھنے کا رواج ہے۔ کسی خواندہ جاپانی کے لیے بھی ایسا کوئی لفظ انگریزی یا اردو میں بالکل درست کہنا محال ہے جس میں ’لام‘ شامل ہو۔ بات دراز ہوتی ہے کہ اردو کی قدیم، مگر زندہ بولی میواتی میں حرف لام، ڑے سے بدل جاتا ہے جس کی مثالیں آپ اسی مضمون میں ملاحظہ کریں گے)۔ ہاں ایک بات تو مَیں بھول ہی گیا، مراٹھی میں بھی اسے لیسن (Lason)ہی کہا جاتا ہے، جبکہ کونکنی میں یہ لوسن (Lossun)ہوتا ہے۔ پنجابی میں لہسن کا دوسرا نام تھوم (عربی لفظ ’توم‘ کی متبدل شکل) ہے، جبکہ یہی نام پوٹھوہاری (پنجابی کی بولی)، گوجری، بلوچی اور سندھی میں بھی رائج ہے۔ براہوئی میں عربی لفظ تُوم مستعمل ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، کیونکہ موضوع کی وسعت کے پیش نظر خاکسار یہی عرض کرے گا: ع  کچھ اور چاہیے وسعت، مِرے بیاں کے لیے۔

مآخذ(References)

A class book of Botany by A.C.Dutta-(India)-Appendix-II: Glossary of  Names of Plants  ٭

Chambers Fun with English Word Origins by   George Beal, London, UK-1995  ٭

٭ English Persian Dictionary  by Abbas Aryanpur  Kashani & ManoocherAryanpur  Kashani

: Tehran, Iran (Pirated edition: Karachi)]فرہنگ انگلیسی۔فارسی[

٭ اردو زبان کا ماخذ۔ ہندکو، از پروفیسر خاطر غزنوی، ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد:2003

٭مضامین ِ اختر جوناگڑھی از قاضی احمد میاں اختر ؔ جوناگڑھی، ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی: 1989

٭پاکستان وہندوستان کی جڑی بوٹیاں، از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیوڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭ خواص الاشیاء: تین جلد بشمول سبزیوں اور پھلو ں کے خواص، گھریلو اشیاء کے خواص از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیو ڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭بنگلہ زبان پر اردو زبان کا اثر، از پروفیسر ڈاکٹر ام سلمیٰ (مرحومہ)۔ شعبہ فارسی و اردو، جامعہ ڈھاکا، بنگلہ دیش: یاد بود ہفتاد وپنجمین سال بخش فارسی و اردو (پچھہتر ویں سال گرہ پر یادگاری مجلہ، حصہ فارسی و اردو: 1996)

٭گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت، از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017

٭ نجی گفتگو بَروھاٹس ایپ( WhatsApp): شہاب الدین شہاب ؔ(انگریزی و سندھی پر عبور نیز فارسی ، عربی ودیگر زبانوں سے شدھ بدھ کے حا مل اردو شاعر، براڈکاسٹر، صحافی: کراچی)، اشرف میواتی (اردو کے میواتی شاعر، معلمِ تاریخ: مُوہوں،

ہریانہ۔ ہندوستان)، مصطفی دل کش (اردو اور بھوج پوری کے شاعر۔ ہندوستان)، قاضی اعجاز محورؔ (پنجابی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: گوجرانوالہ)، عبداللطیف ندیم (سابق رفیق کار، متوطن گجرات، پنجاب۔ مقیم کراچی)، ہومیوڈاکٹر محمد ظفر (اردوشاعروادیب، مقیم ِ قصبہ ترشولی، نیپال)، ثاقب ہارونی (اردو شاعر، ادیب اور براڈکاسٹر، مقیم ِنیپال)، ڈاکٹر علی کمیل قِزِل باش (فارسی میں پی ایچ ڈی، اردوشاعر)، افضل مراد (براہوئی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: کوئٹہ)، اظہار اللہ اظہارؔ (پشتو اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: پشاور)، شہزادنیاز (سرائیکی اور اردو کے شاعر، جاپانی زبان سے واقف: متوطن بہاول پور، مقیم کراچی)، حسنین ساحر(اردو، پوٹھوہاری اور فارسی کے محقق وشاعر: بھارا کہو، اسلام آباد)، ظہیرظرف ؔ(اردواوربلوچی کے شاعر، مترجم)

The post اردو اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں پودوں، سبزیوں اور پھلوں کے مشترک نام appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ۔۔۔
مریم مجیدڈار، آزاد کشمیر

آج کی صبح بہت انوکھی ہے، کیوں کہ ایک عرصہ طویل کے بعد میرے من میں تمہیں مخاطب کرنے کی چاہ مسکرائی ہے اور تمہیں کبھی بھی نہ پکارنے کا عہد میں نے کچھ دیر کو یہ کہہ کر بھلا دیا ہے کہ میں تم سے ہم کلام نہیں، خود سے ’خود کلام‘ ہوں! ہاں کیوں کہ بہت وقت پہلے میں نے جان لیا تھا کہ خود کلامی، ہم کلامی کی منزل طے نہیں کر پائے گی۔ سو عہد شکنی ہو کر بھی نہ ہو گی۔

تمہیں خبر ہو، میں ان دنوں اپنے گوشہ محفوظ کی نیند آور اور پُرخمار پناہ سے دور ہوں۔ وہ بلاد مسرت جو مجھے افیون کے مرہون منت ہوئے بغیر بھی میسر ہے، اس کے دروازے عارضی طور پر میرے لیے بند ہیں اور ایک کنکریٹ کی دنیا میں افسردگی میرے سرہانے یوں بیٹھی ہوتی ہے جیسے کسی بستر مرگ پر پڑے شخص کے قریب بیٹھا تیماردار!

سوچتی ہوں، شہروں میں بھی تو موسم بدلتے ہیں، فطرت کے پیراہن مختلف رنگوں میں جلوہ نما ہوتے ہیں، مگر شاید ایک مشینی زندگی میں ان کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اسی لیے وہ اپنا دامان رنگ و بو سمیٹے کھلے میدانوں بلند پہاڑوں اور وسیع و عریض چراگاہوں کا رخ کر لیتی ہے جہاں وہ پہلی مرتبہ مبتلائے محبت دوشیزہ کی مانند ہر آن نئے روپ کے ساتھ جلوہ نما ہو کر اٹھلاتی اور گنگناتی پھرتی ہے اور اسے دیکھنے والے ایک جذبہ عظیم کے احترام میں آنکھیں جھکا کر فطرت کی اولین عبادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

پہاڑوں میں آنے والے موسم کے سفیر ہوائیں، پیڑ، پرندے، پھول، گھاس، بھنورے اور بادل ہوتے ہیں، جب کہ شہر میں بدلتی رت لباسوں کے نئے اشتہارات کی محتاج ہوتی ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں کے حلقۂ نور میں ’پینا فلیکس‘ پر سجی بے تاثر شکلیں ’’بہار آئی‘‘ کی نوید سنا کر مزید افسردہ کر دیتی ہیں اور میری کوتاہ نصیبی تو دیکھو کہ اس بہار میں فطرت کو خوش آمدید کہنے اپنے یوٹوپیا میں موجود نہیں!

نہ یہاں بھوری سنہری گھاس سے جھانکتی نئی زمردیں پتیاں ہیں، نہ آڑو، سیب، آلوچے اور خوبانی کے نازک ترین شگوفے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور سنہرے لمبی سونڈ والے بھنورے کا نغمہ جاں فزا بھی سماعت کو نوازنے کے لیے موجود نہیں۔

صبح کے پرندے اور انگور کی بیلوں پر پھوٹنے والے ننھے، ہرے اور چمکیلے پتے بھی بصارت کی حد سے کہیں پرے ہیں۔

یہاں کچھ ہے تو دن رات تعمیر ہوتی عمارتیں ہیں، چھتوں پر رکھی سیاہ، سفید اور نیلی پلاسٹک کی ٹینکیاں ہیں اور وہ زمین جو کنکریٹ میں دفن ہونے سے بچ گئی ہے، اس کے سینے پر کچرے کے رنگ برنگے تمغے سجے نظر آتے ہیں۔

جہازوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور بے ہنگم موسیقی میں پرندوں کی اذانیں گم ہو چکی ہیں اور گھاس نے سیمنٹ سے ہار مان لی ہے۔

جیسے میرے دل نے تمہاری سردمہری اور بے رخی کے سرد پتھر سے اپنی تمام تر زندگی سمیت شکست تسلیم کر لی تھی!

اب تم یہ سوچ رہے ہو گے کہ میں نے اس قدر بے رنگ ماحول میں موجود ہوتے ہوئے بھی آج کی صبح میں ایسا کیا انوکھا پن دیکھ لیا، جو تمہیں یہ حکایت سنانے بیٹھ گئی؟ لو بھئی! اب تمہارے صبر کا مزید امتحان نہ ہوگا۔

آج صبح بالکونی میں چائے پیتے ہوئے میری نگاہ اس گھر پر پڑی جس کی پیشانی پر دھات سے اس کی پہچان لکھی ہے۔ اس گھر کے مکینوں میں ایک عدد بادامی رنگ کا کتا بھی شامل ہے، جو چھت پر بندھے ہونے کے سبب رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو کر منڈیر پہ آ بیٹھنے والی آزاد اور خودمختار چڑیوں پر بھونکتا اور غراتا رہتا ہے اور جب بہت ہی بور ہوجائے، تو منڈیر کے سوراخوں سے مقدور بھر چہرہ باہر نکال کر سڑک پر ٹہلتی آوارہ بلیوں کو خوب خوب کوسنے دیتا ہے مگر آزاد مخلوق قیدی کی زنجیر کی حد جانتی ہے، سو کتے کی بھونک اس کو تھکانے کے سوا کسی کام کی نہیں ہے۔

گھر کے چھوٹے سے ٹیرس میں ایک بھورا گملا رکھا ہوا ہے، جس میں اگی ہوئی بوگن ویلیا کی بیل جس پر اکا دکا پتے نظر آتے ہیں، ایک رسی کے سہارے ٹیرس کی چھت تک رسائی پا چکی ہے اور شاید یہ اس کے پھیلاؤ کی حد مقرر ہے، اسی لیے اس سے آگے بڑھنے کی کوشش پر اسے تراش دیا جاتا ہے۔ گویا شہروں میں فطرت کو بھی ’جامۂ تہذیب‘ میں رہنا پڑتا ہے اور بے ساختگی کی نرم و نازک شاخوں کو ’آداب و تمدن‘ کی تیز دھار قینچی سے کاٹ کر فطرت کو مَن چاہی صورت میں ڈھال لیا جاتا ہے۔

خیر۔۔۔! تو اس منظر میں آج فطرت ایک نئے انداز سے محو کار تھی۔ بھوری چڑیا اور نیم سیاہ چڑا بیل کی گتھی ہوئی شاخوں کے بیچ گھونسلا بنانے میں مگن تھے۔ بہت سی شاخوں پر پُھدک پُھدک کر بالاخر انہیں ایک ایسی شاخ پسند آئی جو اوپر سے باریک شاخوں سے الجھی ہوئی تھی اور بلیوں کی دسترس سے دور، گھر کا آغاز کرنے کے لیے نہایت مناسب تھی۔

میں انہیں دیکھتی رہی اور وہ اپنی ننھی چونچ میں مختلف تنکے، پتیاں اور دھاگے لا لا کر اپنے خوابوں کا محل بناتے رہے۔ ان کی چہکاروں میں ترنگ تھی اور حرکات میں سرخوشی۔۔۔!

ان کا آشیانہ نصف کے قریب تکمیل پا چکا تھا کہ منڈیر سے جھانکتے حاسد اور مجرد کتے کو خبر ہو گئی اور اس نے ہر ممکن حد تک گردن لٹکا کر حسرت و یاس میں ڈوبی غراہٹ کے ساتھ بھونکنا شروع کر دیا۔ آن واحد میں ننھا جوڑا تنکے اور زیر تعمیر آشیانہ چھوڑ کر اڑ گیا اور کتا سرشار سا ہو کر اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا۔ جوں ہی وہ منظر سے غائب ہوا، چڑا اور چڑیا ایک بار پھر نیچے گرے تنکے سمیٹ کر تندہی سے گھونسلا بُننے لگے۔

مجھے اپنی وہ سب کاوشیں یاد آنے لگیں جو آندھی میں آشیاں بنانے کے لیے کی گئی تھیں۔۔۔! یک طرفہ، بے سود کاوشیں۔۔۔!!

کچھ دیر بعد کتے نے ایک بار پھر انہیں بھگانے کے لیے اپنی واحد طاقت استعمال کی، مگر اس مرتبہ ننھے معماروں نے اس پر چنداں توجہ نہ کی اور تنکے لانے اور بُننے کا کام جاری رکھا۔ میری چائے ختم ہو چکی تھی، مگر منظر نے وہاں ٹھیرے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہیں کام کرتے ہوئے دیکھنا مجھے سکون عطا کر رہا تھا۔

جذبہ تعمیر و محبت سے سرشار اس ننھی مخلوق کو ایک مرتبہ پھر اپنا کام کرنے سے روک دیا گیا اور اب کے یہ مداخلت ’اشرف المخلوقات‘ کی جانب سے کی گئی تھی۔ گھر کی مالکن جو کسی کام سے وہاں آئی تھی، اس نے ہش ہش کرکے انہیں اڑا دیا اور فرش پر گرے تنکے ایک جھاڑو کی مدد سے سمیٹ کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیے۔ مایوس چڑا اور چڑیا درد انگیز چوں چوں میں اپنی محنت رائیگاں جانے کا احتجاج کرتے رہے اور پھر ایک سمت کو اڑ گئے۔۔۔

انسان۔۔۔! اپنے ٹھکانے میں کسی چڑیا کو بھی شریک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور انسان۔۔۔! جو دیگر مخلوقات کے گھر اور، ماحول کو اپنی ترقی کی ہوس میں دن رات نگلتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ دیر پہلے کا سکون ایک ناقابل بیان بوجھل افسردگی میں ڈھل گیا اور میں خالی پیالی لیے واپس جانے کے لیے مڑی اور جانے کس خیال کے تحت میں نے ایک بار پھر پلٹ کر بوگن ویلیا کی بیل پر نظر ڈالی، تو مجھے وہ منظر دکھائی دیا جس نے مجھے اپنا عہد بھلا کر تم سے مخاطب ہونے کے لئے ایک جواز مہیا کر دیا۔

چڑا اور چڑیا پوری جانفشانی سے ایک بار پھر تنکے جوڑنے اور گھونسلا تعمیر کرنے میں جُت چکے تھے۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں مشکلات کے لیے چیلنج تھا اور چہچہوں میں رکاوٹوں کو پار کرنے کا عزم جھلک رہا تھا۔ پُھر پُھر کی آوازوں کے ساتھ تیزی سے اِدھر اُدھر اڑتے ننھے پنچھیوں نے میرے مغموم دل پر تسلی بھرا ہاتھ رکھ دیا۔ ناامیدی، تھکن اور کھنچے ہوئے اعصاب کسی جادوئی طاقت کے زیر اثر ختم ہونے لگے۔ تھکی ہوئی منتظر آنکھوں میں پہاڑوں سے پلٹ کر آئی ہوئی تازگی کا منظر نرمی سے سما گیا اور کنکریٹ کا جنگل سبزہ زار میں ڈھل گیا۔

ہاں۔۔۔! یہی تو وہ جذبۂ تعمیر ہے جو ہم انسانوں میں عنقا ہو چلا ہے۔ ہمیں زنجیر سے بندھے کتے کی غراہٹ اس قدر بوکھلا دیتی ہے کہ ہم خوش گمانی کے تنکوں کو آگ میں جھونک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کسی کی سرد مہری کی ’ہش ہش‘ ہمارے حوصلوں کو پست اور جذبات کو منجمد کر دیتی ہے کہ دوسری مرتبہ ہم ان شاخوں کا خواب دیکھنے سے بھی گھبراتے ہیں چہ جائے کہ آشیاں کی بنیاد رکھنے کا حوصلہ مجتمع کیا جا سکے۔

کسی رشتے میں در آئی تلخی کی بے سود غراہٹ کو محبت کے میٹھے چیچہے میں بدلنے کا ظرف ہی کہاں ہے ہمارا۔۔۔! نہ کسی زخم خوردہ، مبتلائے غم کی دستکوں پر در دل وا کرنے کی ہمت ہم خود میں پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے زخم عیاں کرنے کی بہادری ہماری صفت ہے۔ ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ہمارے لیے بے کار ہیں کہ انہیں پھر سے آشیاں کا حصہ بنانا ہماری انا کے خلاف ہے، ہم تمام عمر اپنے ملبے کا ماتم تو کر لیں گے، لیکن اس ملبے سے نئی تعمیر اٹھانے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

تو یار من۔۔۔! بھلا ’اشرف المخلوقات‘ کون ٹھیرا۔۔۔؟ ہم۔۔۔! بااختیار انسان یا یہ فطرت پر قائم پرندے۔۔۔؟

سوال چھوٹا ہے، مگر آسان نہیں کہ ہمارا تفاخر ہمیں ایک کم تر پرندے کو بہتر تسلیم کرنے سے ہمیشہ روکے گا۔ لیکن فطرت کو اس مصیبت سے کوئی غرض نہیں ہے، سو وہ خاموشی اور یک سوئی سے اپنا کام کیے جاتی ہے۔

کبھی سیمنٹ کی دیوار میں اُگے پودے کی صورت، کبھی ایسفالٹ کی سڑک کے بیچ اُگے تنہا ڈینڈلائن کی مانند اور کبھی اَن تھک، ہار تسلیم نہ کرنے والی چڑیوں کی طرح۔۔۔!

ہمارے حوصلے بڑھانے کو فطرت کے یہ ننھے اشارے ہی بہت ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہماری کوتاہ بینی ہماری توجہ کی راہ میں ایک عظیم رکاوٹ ہوتی ہے اور فطرت کی جانب سے دیے گئے بہت سے دلاسے اور اسباق پرے پھسل جاتے ہیں۔

میرا دل بہار میں جنم لینے والے خودرو گل لالہ کی مانند کھل اٹھا اور تمہاری من موہنی من چاہی اور دل کش صورت پرتو گل سے جھانکنے لگی۔

اور جب تم خود ہی مقابل آن بیٹھے، تو پھر مخاطب کرنے میں کیسی جھجک۔۔۔؟ اگرچہ خودکلامی ہی سہی، مگر تمہارے احساس کے روبرو ہونے کا تصور ہی اس قدر روح فزا ہے کہ کنکریٹ کے ڈھانچوں پر سیب کے مدہوش مہک والے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے “یار من! آمد بہار مبارک۔۔۔!

۔۔۔

ہم ایسے ہی ہیں۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

آپ نے صرف پڑھا ہی ہوگا کہ ’سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے۔‘ لیکن محسوس شاید ہی کیا ہو۔۔۔ کیوں کہ یہاں غالب اکثریت ’دنیا والی‘ ہے۔ جو اپنے حال میں مست ہیں، جو صرف اپنے آگے سے آگے بڑھنے پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ایسا کر کے اپنی زندگی کو بالکل ’شانت‘ رکھنے میں کام یاب بھی ہو جاتے  ہیں۔

ان کے دکھ اور تکالیف بس وہی ہوتی ہیں، جو ان کے ہاں کی ’دیوار‘ پھاند کر اور دہلیز لانگ کے آجائیں۔۔۔ ورنہ وہ ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی طرح سب کچھ ایسے اڑا دیتے ہیں، جیسے راہ میں پڑے ہوئے کنکر کو بے دھیانی میں زور سے ٹھوکر لگتی ہے، اور پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں جا کر پڑا ہے۔

ہمیں بصد احترام یہ اعتراف ہے کہ ہم کوئی ’نارمل‘ یا ’مگن‘ انسان ہرگز نہیں۔۔۔! ہم کبھی اس دنیا اور اس کے مزاجوں اور رواجوں کے آدمی تھے ہی نہیں اور نہ ہی شاید کبھی ہو سکیں گے۔۔۔ ہمیں دو جمع دو چار کا قاعدہ ہی نہیں آتا۔۔۔ ہم سب کا سوچتے ہیں، اس لیے بہت چاہ کر بھی ’پیٹ‘ سے ذرا کم ہی سوچ پاتے ہیں، نتیجتاً اکثر ’خسارے‘ کے سودے کرتے ہیں۔۔۔ ضمیر کی سوچ وبچار میں پڑ کر ہم سکہ رائج الوقت ’ناکام‘  گنے جاتے ہیں۔ ہم کچھ خریدنے جائیں، تو دکان دار کا سوچنے لگتے ہیں، اور اگر کبھی تقدیر کے ہاتھوں کچھ بیچنے والے بنے ہوں، تو سامنے موجود گاہک کا ’درد‘ ہمارے اندر اترتا ہے۔۔۔

کوئی رکشا، ٹیکسی کریں تو بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔۔۔ اور تو اور راہ چلتے بھی تو ہم اپنے لیے ’درد‘ تراشتے رہتے ہیں۔۔۔ راستے میں کہیں تازہ پھول اور گجرے سجائے اس گُل فروش کی فکر پریشان کرتی ہے کہ رات گہری ہو رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں ابھی گجرے بے شمار ہیں۔۔۔ یہ تمام اگر اس رات نہ بک سکے، تو کل تک تو یہ کلیاں مرجھا کر بے کار ہو جائیں گی اور اس چھوٹی سی پونجی والے کا کتنا زیادہ نقصان ہو جائے گا۔۔۔ کبھی گلیوں میں کچرا چننے والے معصوم وجود بے کل کرتے ہیں تو کہیں کاندھے پر لادے ہوئے تازے پاپڑ والے کی صدا ہمیں چین نہیں لینے دیتی کہ شام ڈھل چکی ہے، اور آج اس کے تھیلے میں تہ در تہ جمع ہوئے بہت سے پاپڑ بچ جائیں گے اور وہ سارے دن کی مشقت کے بعد بھی خسارہ لے کر  گھر جائے گا۔۔۔

ہماری انہی باتوں کے سبب سماج کے کچھ ’بے درد‘ اور ’ستم ظریف‘ ہمیں بہت آسانی سے ’اذیت پسند‘ کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتے ہیں روح کے یہ زخم۔۔۔ ہر لمحے برپا رہنے والا جذبوں کا یہ ماتم اور احساس کا گریہ۔۔۔ اور سب سے بڑھ ہمارے اس کیفیت کے ساتھ لکھے گئے لفظوں کا دکھ۔۔۔ ایسے میں ہم اگر اپنے لفظوں پر اپنی تخلیق اور ’اولاد‘ کے موافق ’اپنا‘ ہونے کا ’اجارہ‘ کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کم ازکم ہمارے نام سے منسوب تو رہنے دیا جائے، تو یہ ہمارا حق ہے۔ ہمارا یہ ’حق‘ بہت سوں کو ’غیر علمی‘ اور ’خود پسندی‘ لگنے لگتا ہے، جب کہ کوئی بھی ہمارے لکھے ہوئے کو بغیر نام یا اپنے نام سے کہیں بھی نقل کر ڈالے، تو یہ عمل وہ ’غیر علمی‘ نہیں کہتے، کہ یہ بھی تو ’چوری‘ ہے۔ ایسے میں وہ جان ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لفظ ہم کس تپسیا سے لکھتے ہیں اور لکھے گئے احساس کے دل میں اترتے سمے لہو سے کشید کیا ہوا پانی نگاہ کو کتنی دیر تک دھندلائے رکھتا ہے۔۔۔!

ذرا بتائیے، آپ کی آنکھیں کتنے دن میں چَھلکتی ہیں۔۔۔؟ چَھلکنا تو چھوڑیے، کیا کبھی نم بھی ہوئیں۔۔۔؟ دوسری طرف ہم  اگر کبھی بہ مشکل خود کو شانت کر کے ’بے حسوں‘ کی اداکاری کرتے ہوئے خود کو بہلانے میں کام یاب ہوتے ہیں اور ذرا مطمئن ہوئے جا رہے ہوتے ہیں کہ راستے کا کوئی ایک بہت چھوٹا سا منظر، جو ساری دنیا کے لیے شاید معمول کا واقعہ ہو، ہماری پرسکون طبیعت میں کہرام برپا کر جاتا ہے۔۔۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

 جب بیوی ہی جان کی دشمن بن گئی

$
0
0

ملتان: آج انسانی رشتوں پر اعتبار ختم ہوگیا ہے، کیوں کہ نہایت معمولی سے فائدے کے لئے لوگوں کا قتل عام بات بن کر رہ گئی ہے۔ اگر معمولی جھگڑا ہوتا ہے تو نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے، معمولی سی رقم کے لئے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیسے بن جاتے ہیں اور پھر نفرت کی ایسی آگ جلتی ہے جو کئی دہائیوں تک خاندانوں کے خاندان جلا دیتی ہے۔

آئے دن کتنے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ چند روپوں کے لئے کسی بے قصور کی انمول جان لے لی گئی۔ کسی شوہر نے معمولی گھریلو جھگڑے یا شک کی بنیاد پر اپنی بیوی کا گلا گھونٹ ڈالا، کسی بیوی نے اپنے شوہر سے بے وفائی کرتے ہوئے کسی اجنبی سے قربت پیدا کرلی۔

پھر اپنے شوہر کو راستہ سے ہٹانے کے لئے اپنے آشنا سے مل کر اس کا بے دردی سے قتل کرڈالا۔ مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قتل وغار ت گری کا یہ عمل روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہم آئے روز مختلف مقامات سے ایسی خبریں سن کر کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہوتے ہیں، لیکن یہ بات صرف پھر ایک فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ گروہوں، خاندانوں اور برادریوں کے درمیان تصادم میں متعدد لوگوں کے مارے جانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، ایسے واقعات پر قابو پانے کے لیے بلاشبہ ہمیں ایک طرف اپنے قوانین اور اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا تو دوسری طرف صبر، برداشت اور بھائی چارے کے جذبات کا فروغ بھی ناگزیر ہے۔

معمولی نفسانی خواہش کی تکمیل میں گھروں کے گھر اجاڑنے کی ایک مثال گزشتہ دنون ملتان میں دیکھنے کو اس وقت ملی جب ایک خاتون نے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے خاوند اور دو معصوم بچوں کے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعہ کی تفصیلات کچھ یوں ہیںکہ 20 مارچ کی رات ڈاکٹر سہیل احمد خان جو کہ محکمہ لائیو سٹاک میں بطور اسسٹنٹ ڈیزیز آفیسر انوسٹی گیشن تعینات تھے، اپنی سرکار ی جیپ پر بیگم کے ہمراہ کسی جگہ جا رہے تھے، ان کی بیوی صوبیہ گاڑی چلا رہی تھی، تاہم اس دوران اچانک نامعلوم موٹرسائیکل سوار نے چلتی گاڑی پر فائرنگ کر ڈالی، جس سے ڈاکٹر سہیل قتل ہو گئے۔

پولیس نے مقتول کے بھائی ضیاء الرحمان کی رپورٹ پر نامعلوم قاتل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ادھر مقتول ڈاکٹر سہیل کے بھائی ضیاء الرحمان کے مطابق چھ سال قبل بھی خانیوال میں ایک نامعلوم شخص نے اس کے بھائی پر فائرنگ کی تھی، جس میں وہ شدید ہوئے تھے اور اس واقعہ کا مقدمہ  تھانہ سٹی خانیوال میں درج ہوا تھا،تاہم قاتلوں کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔

اس واقعہ کے بعد ایس ایس پی انویسٹیگیشن ملتان ربنواز تلہ کی نگرانی میں ڈی ایس پی گل گشت طاہر مجید اور بہاالدین زکریا پولیس کے ایس ایچ او انسپکٹر مہر بشیر ہراج  نے اپنی ٹیم کے ہمراہ روایتی اور جدید پولیسنگ کی مدد سے دن رات ایک کرتے ہوئے بالآخر قاتلوں کا سراغ لگا لیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقتول کی بیوی صوبیہ جو کہ محکمہ ایگریکلچر میں پیسٹ کنٹرول آفیسر ہے۔

اس کی ایماء پر ملزم زمان پاشا نے جو کہ اس کا یونیورسٹی دور کا دوست ہے نے  ڈاکٹر سہیل کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق صوبیہ اور زمان پاشا کے درمیان ناجائز تعلقات تھے، جس پر دونوں نے باہمی مشاورت اور منصوبہ بندی سے  ڈاکٹر سہیل کو قتل کیا۔ پولیس نے خاتون ملزمہ اور  اس کے آشنا زمان سے دوران تفتیش آلہ قتل بھی برآمد کر لیا ہے اور ان کا چالان مرتب کر کے عدالت میں بھجوا دیا ہے۔ سی پی او ملتان حسن رضا خان نے اس اندھے قتل کی واردات کو ٹریس کرنے پر پوری ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔

ادھر نئے سی پی او حسن رضا خان کی ملتان میں تعیناتی کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ وہ ضلع میں کرائم کی روک تھام کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے کیوں کہ وہ اس سے قبل ملتان میں بطور اے ایس پی کینٹ اور ایس پی ریلوے بھی تعینات رہے ہیں اور ضلع کے بارے میں بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔

The post  جب بیوی ہی جان کی دشمن بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

 چلتی گاڑی میں سیلفی لیتے ہوئے گولی چلنے سے ڈرائیور جاں بحق

$
0
0

گجرات:  اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ صرف تعلیم ہی انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کا ذریعہ ہے، اسی لئے ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاداعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرے کا قابل فخر انسان بن سکے لیکن والدین کی بہترین پرورش کے ساتھ سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیوں کی  بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی منفی سوچ کو ختم کر کے ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو ابھاریں اور انہیں تراش کر نگینہ کا روپ دیں، لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور طلباء جرائم کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ہی واقعہ یونیوسٹی آف گجرات کے طلباء کی جانب سے رونما ہوا، جس میں ایک پولیس کانسٹیبل کی جان چلی گئی۔

تھانہ اے ڈویژن گجرات میں تعینات26 سالہ کانسٹیبل حسن شہزاد 5 مارچ 2020ء کو محکمانہ رخصت  کے باعث معمول کے مطابق رینٹ پر اپنی گاڑی پر روزی کمانے کی خاطرایک لڑکے اور دو لڑکیوں پر مشتمل سواریوں کو لے کر لاہور چلا گیا لیکن اچانک اگلے روز 6 مارچ کو بیوووالی کے قریب تھانہ صدر گجرات کو اس کی نعش ملی، مقتول کو سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔

تفتیش پر معلوم ہوا کہ مقتول کو گاڑی سمیت اس کے دوست محمد ولید نے ایک روز قبل سواریوں کو لاہو رجانے کیلئے بک کروایا تھا، جس پر پولیس نے فوری طور پرمسافر محمد ولید کے باپ محمد احسن اور بھائی کو حراست میں لیا تو انہوں نے محمد ولید کو پولیس کے حوالے کر دیا، جہاں ولید نے بغیر کسی تاخیر کے لمحوں میں ہی سچ اُگل دیا کہ وہ یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ زوالوجی کی سکینڈ سمیسٹرمیں زیر تعلیم اپنی20سالہ دوست ریئسہ کے ساتھ ایک روز ہ سیر وتفریح کیلئے لاہور گیا تھا اور اس کے ساتھ ریئسہ کی کلاس فیلو19سالہ لائبہ بھی تھی۔

ابتدائی حقیقت علم ہونے پر تھانہ صدر گجرات کے ایس ایچ او توقیر رانجھا نے فوری طور پر پولیس نوجوان کے قتل کیس کے حوالے سے یونیورسٹی آف گجرات کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل کو آگاہ کر کے ملزمان حوالے کرنے کا کہہ تو انہوں نے دونوں طالبات کی یونیورسٹی سے آنے اور جانے بارے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ہاسٹل میں ان کی موجودگی سے بھی انکار کر دیا جس پر پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے طالبات کے  یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں موجودگی ظاہر ہونے پر چھاپہ مار کردونوں طالبات ریئسہ اور لائبہ کو گرفتار کر کے جامعہ کی سیکورٹی سمیت تمام انتظامات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

گرفتار ہونیوالی طالبہ ریئسہ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ 26سالہ حسن شہزاد کو اسی نے گولی ماری ہے، ملزم محمد ولید سے اُس کی دوستی چھ ماہ قبل پراجیکٹ تیاری  کے دوران ہوئی، ولید سے ملاقات کے لئے اس نے ہاسٹل وارڈن سے گھر جانے کا بہانا بنایا اور لاہور چلے گئے۔

جہاں سے واپسی کے دوران وہ گاؤں بیوووالی کے قریب پہنچ کر گاڑی میں ہی پڑے اپنے برقعے پہن کر یونیورسٹی جانے کیلئے صبح 7بجے کے قریب تیار ہو رہی تھیں کہ اُس کی دوست لائبہ نے ڈرائیونگ سیٹ کیساتھ کنسول بکس میں پڑے پرُفیوم کو لگانے کے دوران مقتول کانسٹیبل حسن شہزادکا پسٹل اُٹھا لیا اور اپنے موبائل پر سیلفی بنانی شروع کردی جس کے بعد لائبہ سے پسٹل لے کر ریئسہ نے بھی سیلفی بنانے کیلئے پسٹل ہاتھ میں تھامہ ہی تھا کہ اچانک گولی چل گئی جو ڈرائیونگ کرنیوالے حسن شہزاد کو سر میں جا لگی۔

اس دوران عقب سیٹ پر ہی ہمارے ساتھ بیٹھے دوست ولید نے فورا گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچ کر گاڑی کو حادثہ سے سے تو بچالیا مگر حسن شہزاد موقع پر ہی دم توڑ گیا، جس پرفورا پسٹل وہیں پھینک کر اُس نے ولید کو ریسیکو 1122کو کال کرنے کو کہا مگر ولید نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور گاڑی سے اُتر کر وہ تینوں مسافر بس پر سوار ہو کر گجرات آ گئے، ہم ابھی گھر والوں کو سارا واقعہ بتانا ہی چاہ رہی تھیں کہ اس سے قبل ہی پولیس نے آکر ہمیں پکڑ لیا۔

گھر سے تعلیم حاصل کر نے کے لئے ہاسٹل میں مقیم منڈی بہاوالدین کے30 چک شادیوال ملکوال کی رہائشی طالبہ رئیسہ کا کہنا ہے کہ ولید ہمیں یونیورسٹی کا طالبعلم بتاتا رہا مگر واردات کے بعد اب علم ہوا کہ وہ ایک سال پہلے ہی یونیورسٹی کو خیر آبادکہہ کر آسٹریلیا جانے کیلئے تیار ی کر رہا تھا مگر وہ اب وہ جیل پہنچ گیا، ہم دونوں پہلے بھی ایک مرتبہ لاہور جا چکے ہیں، جس میں اس کا ہمسفر ولید اوراس کا بااعتماد مقتول ڈرائیور شامل تھے، مگر وزیرآباد کے علاقہ اوجلہ کی رہائشی لائبہ اُس سفر میں شامل نہیں تھی، اس مرتبہ لائبہ نے بھی اپنے لاہور کے دوست علی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھی ساتھ چلی گئی۔

مگر واقعہ رونما ہونے پر حقیقت سب پر آشکار ہو گئی۔ یوںگھر سے دوردوسرے اضلاع میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے والی ان طالبات کو اپنے والدین کا بھروسہ توڑنے اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی سزا تو مل گئی لیکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم 70فیصد طالبات میں سے بیشتر ہاسٹل میں مقیم طالبات کے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل بارے میں شدید خوف زدہ اور پریشان ہیں۔

حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے پر وائس چانسلر نے فارغ التحصیل ہونیوالے لاتعداد طلبہ وطالبات کے کارڈ منسوخ کر کے جامعہ میں ان کا داخلہ بند کر دیا جنہیں اسی بات پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے فرائض سے نظریں چرا کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنیوالے ذمہ داروں کیخلاف مزید ایکشن بھی لینا ہوگا۔

اس وقوعہ میں پولیس نے جہاں واردات کے فورا بعد ملزمان گرفتا رکر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا وہیں پولیس نے ایک ماہ بعد ہی وقوعہ کو بدل کر اسے اپنی مرضی کا رنگ بھی دیدیا حالانکہ واقعہ میں گرفتار تینوں ملزمان کی جانب سے میڈیا کے سامنے حقائق سے پردہ اُٹھانے اور طالبہ ریئسہ کے گولی چلانے کے برملا اعتراف جرم کے بعد مقدمہ کے تفتیشی وایس ایچ او تھانہ صد ر گجرات توقیر رانجھا ، ڈی ایس پی صدر ریاض گجر نے تمام تر حالات و اقعات من و عن اپنے آفیسران کے سامنے رکھ دئیے تھے مگر اچانک ایک ماہ بعد ہی پولیس کے اعلیٰ آفیسران نے تفتیش کا رخ خود ہی بدل کر دونوں طالبات رئیسہ اور لائبہ کو بے گناہ قرار دے کر ولید کو ہی اکیلا واردات کا مرکزی ملزم بنا ڈالا کہ پسٹل بھی اسی کے ہاتھ میں تھا اور گولی بھی اسی نے چلائی تھی۔ جس پر ملزم ولید کا کہنا ہے کہ مقتول حسن شہزاد کا بھائی پولیس ملازم ہے اور اب اس واقعہ کو پولیس دیرینہ چپقلش کا رنگ دے رہی ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔

The post  چلتی گاڑی میں سیلفی لیتے ہوئے گولی چلنے سے ڈرائیور جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.

آزاد جموں کشمیر کا ایک حیرت انگیز علاقہ

$
0
0

’’پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا۔‘‘

یہ الفاظ ایک ایسی شخصیت کے ہیں  جن کے علاقے میں سکول نہ ہونے کے باوجود شرح خواندگی100 فیصد ہے اور تقریباً ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے ہرگھر میں اوسطاً ایک سے زائد ایم فل ڈگری کے حامل ا فراد موجود ہیں۔آزاد جموں کشمیر تعمیر وترقی کے اعتبار سے پسماندہ ضرور ہے تاہم تعلیمی اعتبار سے پاکستان میں پہلے درجے پر ہے۔

اس کے پسماندہ ترین ضلع ’’حویلی‘‘میں ایک ایسا گاؤں موجود ہے جو تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے دنیا کے تعلیم یافتہ علاقوں پر سبقت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔اس گاؤں کو ’’جبی سیداں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  بے پناہ خوبصورتی کے حامل ضلع حویلی جسے ’فارورڈ کہوٹہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ایسا علاقہ ہے جہاں زندگی خوف کے سائے میں پروان چڑھتی ہے۔ یہ سرحدی علاقہ ہے تین اطراف سے خونی لکیر (ایل او سی) میں گھرا ہوا ہے جس کے باعث آئے روز تین اطراف سے بمباری ہوتی رہتی ہے۔

سیز فائر لائن کی کشیدہ صورت حال اور جدید سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب یہاں بسنے والوں کو آئے روز دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اس ضلع میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو ایک اعتبار سے پاکستان کا مثالی گاؤں ہے، پاکستان میں ایسے گاؤں گنے چنے ہی ہیں۔ دل چسپ اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں میں کوئی ہائی سکول ہے نہ ہی مڈل سکول۔ لڑکوں اور لڑکیوںکے لیے کسی زمانے میں ایک، ایک پرائمری سکول ہوتا تھا لیکن یہ دونوں سرکاری سکول بھی عملاً بند ہو چکے ہیں۔

(اس علاقے میںہائی سکول تقریباً پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں جس کا نام ’سولی‘ ہے میں موجود ہے)۔ اس سب کے باوجود اس گاؤں کا بچہ بچہ نہ صرف زیور ِتعلیم سے آراستہ ہے بلکہ گاؤں کے ہزاروں افراد تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہیں اورآزاد جموں و کشمیر کے اعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ اس گاؤں کو پاکستان بھر میں دو اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ ایک تو یہاں کا تعلیمی تناسب 100فی صد ہے، دوسرا، یہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں میںمساجد کو گاؤں کی خواندگی میں مرکزی مقام حاصل ہے۔

گاؤں میں چھ مساجد اور ایک مدرسہ موجودہے۔ ایک جامعہ مسجد ہے جو ضلع بھر کی اولین جامعہ مساجد میں سے ہے۔اکلوتے مدرسے سے سینکڑوں قاری، حفاظ فارغ التحصیل ہیںجو ضلع بھر کی مساجد اور تعلیمی اداروں سے منسلک ہوکر قرآن کی روشنی سے عوام الناس کو بہرہ مند کر رہے ہیں۔ یہاں بسنے والے خواتین و حضرات اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ کھیتی باڑی سے بھی منسلک ہیں۔

گریڈ 19اور 20کے افسران بھی گھر کے کام کاج خود کرتے ہیں۔ پھل دار درختوں اور سبزیوں کی افرائش کے علاوہ اپنے اپنے گھروں میں کم عمر بچوںکو ناظرہ قرآن بھی خود ہی پڑھاتے ہیں۔ اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو گاؤں کے لوگوں سے مل کر اپنائیت کا احساس ہوا۔ یہاں کی خواتین بھی ان میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ہر گھر میں ایم اے، بی ایڈ ، ایم فل اور ایم ایس سی کے مشکل مضامین کی ڈگری ہولڈر خواتین بھی مل جائیں گی۔ مرد و خواتین کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے اور  زیادہ تر شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں میں تمام گھرانوں کا تعلق سادات خاندان کے بخاری سلسلے سے ہے۔ سادات کے اس خاندان کی ایک شاخ مقبوضہ کشمیر میں سری نگر اور کریڑی کے مقام پر بھی آباد ہے۔ وہاں بھی یہ خاندان تعلیمی، صحافتی اور سیاسی میدان میں نمایاں نظر آتا ہے۔جبی سیداں اور ملحقہ علاقے کی محرومیوں کا ذکر کریں تو آدھے سے زیادہ گاؤں کو پختہ سڑک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ چار کلومیٹر لمبی پختہ سٹرک گاؤں کو دو اطراف سے باہم ملاتے ہوئی دائرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سڑک کا آدھا حصہ جو تقریباً دو کلومیٹر بنتا ہے، مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیرکیا۔

اس گاؤں کے 84 سالہ بزرگ سید زین العابدین بخاری (جویہاں کے معمر افراد میں شامل ہیں اور محکمہ تعلیم سے انیسویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر ممتاز حسین راٹھور سمیت آزاد کشمیر کے بعض اعلیٰ ترین بیوروکریٹ ان کے تلامذہ میں سے ہیں۔ ان کے گھر میں پانچ افراد نے مختلف شعبہ جات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی) نے بتایا کہ گاؤں میں تعلیمی رجحان کا تعلق ہمارے آبا ؤ اجداد کے فارسی اور عربی سے شغف کے باعث بھی ہے۔ گاؤں کی ملازمت پیشہ آبادی میں سے اکثریت کا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے۔ علم و ادب سے صدیوں پرانا تعلق یہاں کہ آبادی کو ممتاز کرتا ہے۔

اوائل عمری ہی سے لوگ ننگے پاؤں پیدل سفر کرتے تھے، تاہم اب ہر چیز میں جدت نے کافی کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔عہدِ جدید میں چھوٹے چھوٹے گاؤں میں وسائل اور ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان شہروں کا رخ کررہے ہیں تاہم اس سب کے باوجود ان کا تعلق گاؤں سے جڑا رہتا ہے۔اس گاؤں کے علمی میدان میں آگے بڑھنے کا راز بھی یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب بطور قوم ہمیں رسمی تعلیم سے نکل کر فنی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے ساتھ تعلق جوڑے رکھنا حقیقی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔

٭ اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے سید علی رضا بخاری آزادجموںکشمیر کے وزیر مذہبی امور ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے یہاں کے لوگ تعلیم کیلئے پونچھ شہر جاتے تھے۔ پونچھ کا وہ شہر آج بھارت کے زیر قبضہ ہے یہاں سے کافی دور تھا ، سفر مشکل ہوتا تھا، وسائل کی بھی کمی ہوتی تھی لیکن گاؤں کی بڑی آبادی نے وہاں جا کر اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پھراپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم دی۔ یہ بات ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے بعد کی نسلوں کو بھی تعلیم دلائی۔  اس تسلسل سے آج یہاں کا تعلیمی تناسب سو فیصد ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آج جبی سیداں کے لوگ دوسری جگہوں پر جاکر آباد ہوتے ہیں تو وہاں بھی اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور علم پھیلا رہے ہیں۔ علی رضا بخاری کا کہنا ہے کہ جہاں تک تعمیر و ترقی اور وسائل کا سوال ہے تو میری خواہش ہے کہ پورے ضلع میں پختہ سڑکیں ہر گاؤں تک پہنچیں اور عوام الناس کو سفر کی آسان سہولیات میسر ہوں لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہونے کے اجتماعی طور پر مجرم ضلع حویلی کے تمام عوامی نمائندے ہیں۔ ہم سب خود کو تعمیر و ترقی کے ہیرو کہتے ہیں لیکن ہم نے اپنے علاقے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں مل کر علاقے کی بہتری کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔

٭۔چیئرمین آ زاد جموں و کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ عابد حسین بخاری کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ہمارے آبا کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہیں، علم سے محبت اور اس کی اہمیت سے آگاہی کا جذبہ ہمیں وراثت میں ملا۔ ہمارے اساتذہ میں کئی نابغہ روزگار افراد نے عشروں سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ دراصل ہمارے اساتذہ کا اہم ترین کردار نئی نسل میں شعور پیدا کرنا تھا۔اب تو علمی و ادبی ترقی کا زمانہ ہے اور تعلیمی میدان میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن ایک عرصہ پہلے ایسا نہیں تھا۔اس دور میں ضلع بھر میں علمی ماحول پیدا کرنے میں ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا۔

٭ سید ریاض حیدر بخاری آزاد کشمیر کے محکمہ پولیس میں اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (AIG)ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے آبا ؤ اجداد کا رجحان تعلیم اور ادب کی طرف زیادہ رجحان رہا۔ اس وجہ سے تعلیم سے رغبت ہماری نسلوں کو وراثت میں ملی۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرکاری نوکری کا حصول ضروری سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا متبادل کوئی نہیں تھا۔ اس لئے بھی لوگ تعلیم سے وابستہ رہے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ پونچھ شہر اپنے دور میں علم و ادب کا گہوارا تھا، وہیں سے چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ بزاز اور کرشن چندر جیسے ادیب سامنے آئے۔

وہاں سرکاری اور غیر سرکاری سکول بھی تھے۔ ہمارے آبا ؤ اجداد تعلیم کیلئے وہاں جاتے تھے۔ یوں ایک کلچر بنا کہ اور انہوں نے اپنی نسلوں کو بلا امتیاز تعلیم دلائی۔ پھر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تعلیم کے حصول میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی رہی جس سے اس چیز کو زیادہ مہمیز ملی اور لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔ علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتوں کے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ذرائع مواصلات انتہائی کمزور ہیں، تعلیمی معیار نیچے جا رہا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان علاقوں سے ہجرت کرنا شروع کر دی ہے۔ حکومت کو عوام میں اعتبار پیدا کرنا چاہیے اور وہاں سے ہجرت کی وجوہات کو دیکھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ دیہی علاقوں کو کیسے سہولیات دی جائیں۔

٭ سیداعجاز حیدر مختلف چینلز میں بطور اینکر پرسن منسلک رہ چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا۔

اس کے ساتھ جبی سیداں کے لوگ سیاست سے دور رہے اور سرکاری نوکریوں کے حصول پر توجہ رہی، نوکریوں کے حصول کیلئے تعلیم ضروری تھی، اس لئے بھی تعلیم کو فوقیت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگ شاعری  بھی کرتے تھے ، ادب سے خاصا لگاؤ تھا جس کے باعث پڑھنے لکھنے کا رجحان بڑھتا گیا۔

٭ ڈاکٹر مسعود بخاری عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کامیابی ایک مکمل پیکج ہوتی ہے، اس کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے۔ جو  سیکھتا ہے وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو سیکھنا چھوڑ دیتا ہے وہ کامیابی کی منزلوں سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی کامیابی مستقل اور دائمی نہیں ہوتی۔ انسان جہاں رک جاتا ہے، ہمت ہار دیتا ہے وہاں سے اس کے زوال کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔

The post آزاد جموں کشمیر کا ایک حیرت انگیز علاقہ appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


مرے دکھ درد ہر اک آنکھ سے اوجھل پڑے تھے
شکر صد شکر کہ بس روح پہ ہی بل پڑے تھے
کسی مقصد سے ترے پاس نہیں آئے ہیں
کہیں جانا ہی تھا سو تیری طرف چل پڑے تھے
ایک میں ہی نہیں شب چھت پہ بسر کرتا تھا
چاند کے پیچھے کئی اور بھی پاگل پڑے تھے
کیسا نظارا تھا کہساروں کی شہزادی کا
بام پر وہ کھڑی تھی فرش پہ بادل پڑے تھے
جلد بازوں نے بچھڑنے میں بڑی عجلت کی
ایک اک مسئلے کے ورنہ کئی حل پڑے تھے
عجز کے اشک بہاتے ہوئے شب سو گیا میں
صبح اٹھا تو مرے کام مکمل پڑے تھے
دھیان تیاری کا آیا ہی نہیں ہم کو عقیل
سفرِ عشق تھا بے رختِ سفر چل پڑے تھے
(عقیل شاہ۔راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


گونجتی لہجے کی ملہار نے سرشار کیا
دائرہ کھینچتی پرکار نے سرشارکیا
ایک بے دام کو انمول بنا ڈالا ہے
دیر تک چشم ِ خریدار نے سرشارکیا
کہاں ممکن تھا ٹھہرنا مگر اس کے با وصف
دمِ رخصت ترے اصرار نے سرشارکیا
خواب ہی خواب دکھائے گئے جن لوگوں کو
کب انہیں دیدۂ بیدار نے سرشار کیا
آبلے پھوٹ کے بہتے رہے پاؤں کے مگر
تیز ہوتی ہوئی رفتار نے سرشار کیا
کسی کم ظرف کے چشمے سے نہیں گھونٹ بھرا
پیاس میں بھی دلِ خود دار نے سرشار کیا
مر گیا بانٹتا سامانِ مسرت جاذبؔ
کھیل کے مرکزی کردار نے سرشار کیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل


آنکھیں کبھی دیکھیں نہ وہ چہرہ نظر آیا
اے راحتِ جاں اور تجھے کیا نظر آیا
تصویر بنائی تھی خیالوں میں کسی کی
آیا مجھے جب ہوش تو تجھ سا نظر آیا
نکلے تھے کبھی دل میں لیے وصل کی حسرت
خوش اتنے تھے پتھر نہ ہی راستہ نظر آیا
کرنا پڑا جب عشق کا مذہب مجھے معلوم
کعبہ نہ حرم، اور نہ کلیسا نظر آیا
جاتے ہوئے کچھ کہہ تو رہے تھے وہ نیازی
لہجے میں مجھے اس کا سراپا نظر آیا
( نیاز احمد نیازی۔ گلگت)

۔۔۔
’’ہر مقام منزل ہے!‘‘


زندگی کے رستے میں
ایسا موڑ آیا ہے
ہر قدم نہاں جس میں
درد، آبلہ پائی!
اس طویل رستے میں
دھوپ ہی برستی ہے
اور قرار پانے کو
چھاؤں بھی نہیں ملتی
دور تک مسافت میں
پیڑ جو بھی آتے ہیں
سب خزاں رسیدہ ہیں
آسماں کے دامن میں
ابرِناامیدی ہے
بے کنار صحرا ہے
حد کوئی نہ منزل ہے
پھر بھی دل کی ضد ہے کہ
سانس کی لکیروں کا
آخری نشاں جب تک
گھس کے مٹ نہیں جاتا
اس اجاڑ رستے میں
ہر مقام منزل ہے!
(طارق محمود خالد۔ سیال شریف سرگودھا)

۔۔۔
غزل


کیا کہا ہجر کی راتوں کی سحر ہوتی ہے؟
میں بھی دیکھوں گا بتا مجھ کو کدھر ہوتی ہے
دن گزرتا ہے مگر سچ ہے تری یادوں کی
جاگتی آنکھوں میں ہر رات بسر ہوتی ہے
ایک لمحے کو جدا تک نہیں ہو پاتا ہوں
میں جدھر جاؤں تری یاد ادھر ہوتی ہے
جو مرے ساتھ محبت کا سبق پڑھتی تھی
اب تو کالج بھی نہیں جاتی ہے ،گھر ہوتی ہے
شہر کا شہر اداسی میں گھرا رہتا ہے
لوگ کہتے ہیں نہیں ہوتی، مگر ہوتی ہے!
(شاہد ریاض۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


رحمان کی جانب سے عطا آتی رہی ہے
ہر ایک عبادت کی جزا آتی رہی ہے
ہم نے ہی چراغوں کی حفاظت ہے بہت کی
ورنہ یہ بجھانے کو ہوا آتی رہی ہے
صحرا میں مجھے اور سنائی نہ دیا کچھ
بس عشق نہ کرنے کی صدا آتی رہی ہے
ٹالا ہے ہمیشہ ہی اسے نام علی سے
سر پہ جو کوئی میرے بلا آتی رہی ہے
اس شہر میں جب میرا کوئی اپنا نہیں ہے
کس سمت سے پھر مجھ کو دعا آتی رہی ہے
شہباز یہ اب درد بتا دیتی ہیں آنکھیں
پہلے تو چھپانے کی ادا آتی رہی ہے
(شہباز ماہی۔ اوکاڑہ)

۔۔۔
غزل


پرانا قافیہ لیکن نئی ردیف کے ساتھ
مقابلہ نہیں میرا کسی حلیف کے ساتھ
طلب اچھوتے کھلونے بھی نفس کرتا ہے
بہل بھی جاتا ہے بازیچۂ کثیف کے ساتھ
وہ میری جیت کا اعلان اپنے منہ سے کرے
سلوک ایسا کروں کیوں نہ میں حریف کے ساتھ
میں رند وہ ہوں جو اپنے خلاف چلتا ہے
ستم ظریفی ہی ہوگی ستم ظریف کے ساتھ
میں کیا معانی نکالوں گا اس کی رمزوں کے
اٹھا جھکا ہے جو سر جنبشِ خفیف کے ساتھ
میں کیوں اٹھاؤں گا طارق ربیع کے نخرے
گزار لیتا ہوں اچھی میں جب خریف کے ساتھ
(طارق محمود۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


دور سے بیٹھے ہوئے بوسے عبارت کرنا
اس کی عادت ہے نگاہوں سے اشارت کرنا
جس جگہ جاؤں میں بس تم ہی نظر آؤ مجھے
آج مجھ کو بھی عطا حسنِ بصارت کرنا
وہ جہاں پر بھی گیا مہک اٹھے شام و سحر
پھول کا کام ہے خوشبو کی تجارت کرنا
ایسے دھتکار نہیں یار چلا جاؤں گا
میرا مقصد تھا فقط ایک زیارت کرنا
آج کل کوئی کسی سے بھی نہیں خوش ہوتا
سب کا شیوہ ہے یہاں پر تو حقارت کرنا
لفظ اینٹوں کی طرح چن کے غزل لکھتا ہوں
اتنا آساں بھی نہیں ان کو عمارت کرنا
(وقاص احمد۔ ملتان)

۔۔۔
غزل
حافظے سے ایک پرچھائیں مٹانی پڑ گئی
تیرگی میں آخری لو بھی بجھانی پڑ گئی
یوں گزاری جا رہی تھی عمر لیکن ایک دن
لاش کمرے سے مجھے اپنی اٹھانی پڑ گئی
شورِ دنیا سے اگرچہ تنگ تھا، لیکن مجھے
خرمنِ زندان میں کھڑکی بنانی پڑ گئی
دامنِ امید بھی ایسا شکستہ ہو گیا
خوش گمانی کی نئی چادر سِلانی پڑ گئی
ایک تو عمرِ رواں کو اس قدر جلدی رہی
طفلی و پیری کے اندر ہی جوانی پڑ گئی
ہم تمہارے پاس آنے کا گماں پالے رہے
اور باقیؔ وسوسوں میں زندگانی پڑ گئی
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


پھول جیسے چمن میں رہے
یوں تیری انجمن میں رہے
ان کو لوگوں نے چاہا بہت
جو بھی شہرِ سخن میں رہے
چوٹ دل پر کچھ ایسی لگے
نام تیرا چبھن میں رہے
تم کبھی پھول بن کے ملو
تاکہ خوشبو بدن میں رہے
مفلسی کی انہیں کیا خبر
عیش سے جو زمن میں رہے
جھوم اٹھوں تجھے دیکھ کر
نشہ وہ بانکپن میں رہے
شعر عارفؔ تم ایسے کہو
گونج جن کی سخن میں رہے
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
بھلا کے رنجشیں میں اتنا کام کرتا چلوں
کہ جاتے جاتے بھی اس کو سلام کرتا چلوں
قدم قدم پہ تجھے میں دھیا ن میں رکھوں
میں اپنا زادِ سفر تیرے نام کرتا چلوں
وہ بے وفا رہے اپنی جفا پہ آمادہ
کہ میں وفاؤں کا اونچا مقام کرتا چلوں
کبھی تو آئے یا نہ آئے تیری مرضی ہے
میں گھر سجانے کا تو اہتمام کرتا چلوں
مٹا کے اپنی عداوت ،یہ رنج و غم اختر
محبتوں کا میں رائج نظام کرتا چلوں
(محمد اختر سعید۔جھنگ)

۔۔۔
’’یاد‘‘
میری صبحوں میں میری شاموں میں
میرے دِن اور میری راتوں میں
میرے خوابوں اور خیالوں میں
میری ہچکی میں میری آہوں میں
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
میں کھوجتی ہوں جب یادوں میں
اُسے اس کی میٹھی باتوں میں
خاموشی شور مچاتی ہے
میرے دِل کو بہت سلگاتی ہے
خاموشی کی اِس گَرد میں بھی
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
پھر یادوں کے اِن سایوں میں
دِن میرے سب ڈھل جاتے ہیں
جب رات بہت ہوجاتی ہے
یادوں کے گہرے سمندر میں
دِل میرا ڈوبنے لگتا ہے
اور نم آنکھیں ہوجاتی ہیں
چاہت کے زرد جزیرے پر
اِک یاد مسلسل رہتی ہے!
(مناہل فیصل۔ کراچی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

فاصلوں کی وبا نے ٹیکنالوجی سے قریب کردیا

$
0
0

بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ رواں سال زیادہ خوش آئند نہیں ہوگا جو کہ اب درست بھی ثابت ہو رہا ہے۔ دراصل اس سال کے پہلے ہی مہینے ایران اور امریکا کے تعلقات بگڑنے لگے اور پوری ہی دنیا کو جنگ کے شدید خدشات لاحق ہو گئے، چلیے وہ معاملہ تو نمٹا، لیکن اب کورونا کی آمد کے بارے میں دنیا کو خبر ہوئی تو کوئی ایسا شخص نہ بچا کہ جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو یا اس وبا کے باعث پریشان نہ ہوا ہو۔ سارے کام فاصلوں سے کیے جانے لگے، لوگ خریداری کے لیے بھی اس جانب مرکوز ہوئے۔ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود گھر سے کام کرنے  کی طرف توجہ مرکوز کرنا پڑی۔

اسی طرح ہماری کلاسیں بھی ’آن لائن‘ ہونے لگیں، ظاہر ہے ہمیں اگر اس وبا کو شکست دینی ہے تو اٹھتے بیٹھتے فاصلہ اختیار کرنا ہوگا، نہ صرف یہ بلکہ غیر ضروری کاموں کے لیے   باہر جانے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ ایسی صورتِ حال کے پیشِِِِ نظر آن لائن کلاسوں کا نیا تجربہ کیا گیا۔ نیا اس لیے  کہ یہ پاکستان میں پہلی دفعہ آزمایا گیا ہے۔

’قرنطینہ‘ کے دوران سب سے پہلی چیز جو میں نے سیکھی وہ یہ ہے کہ انسان کی عام فطرت ہے کہ جب تک اس پر وہ حالات مسلط  نہیں ہوتے، جن کا دوسرے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں، وہ سمجھ نہیں سکتا کہ اس حال میں ہونا کتنی مشکل بات ہے۔

اس کے علاوہ میں نے سیکھا کہ انٹرنیٹ ہمارا کتنا بڑا استاد ہے۔ انٹرنیٹ لامحدود ہے اور بہترین علم کا ذریعہ بھی ہے، ہمیں اس کا اچھا استعمال کرنا چاہیے۔  جہاں تک بات ہے آن لائن کلاسوں کے تجربے کی ،  تو میرا خیال ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا  مثبت۔ آن لائن کلاسوں نے جہاں ہم سب کا وہ وقت بچایا جو یونیورسٹی آنے جانے میں لگ جاتا تھا، تو اس کے بر عکس اس کا عادی ہو جانے میں کافی وقت بھی لگ گیا۔ میرے خیال میں ا گر سب لوگ وقت کی پابندی کرتے اور کلاسیں یونیورسٹی کے نظام الاوقات کے  مطابق ہوتیں، تو کسی کے لیے  کچھ مشکل نہ ہوتا۔ اکثر ایسا ہوا کہ آدھے دن تک کلاسیں ہی چلتی رہیں اور باقی دن بھی کم پڑگیا اور ہمارے اسائنمنٹس مکمل نہ ہو سکے۔

اس وبا کے دوران بہت سے کاروبار بند ہوگئے، لیکن ہمیں فری لانسنگ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی کہ آنے والے وقتوں میں اس کا بھرپور استعمال درکار ہے ، پھر نہ کوئی ملازم ٹریفک جام ہونے کا بہانہ کر سکے گا اور نہ ہی کوئی طالب علم کاپی گھر بھول جانے کا۔  اس کے علاوہ ہماری نظر سے اور بھی اہم باتیں گزریں۔ فلاحی ادارے اور ڈاکٹرز سپاہیوں کی طرح اس وبا سے لڑنے کے لیے  سامنے آئے اور نیو کلیئر پاور ہونا نہ امریکا کو محفوظ رکھ سکا۔

نہ برطانیہ کو اور نہ ہی ہمیں۔ اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ ہمارا تعلیمی اور طبی نظام کئی  عرصے سے منجمد ہے اور اس میں کتنی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں صبر اور برداشت نہ ہونے کے برابر دکھائی دیا۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم برائے نام ہے، جب کہ شعور بالکل بھی نہیں دیا جاتا ہے، ورنہ ایک دن کے لیے  لاک ڈاؤن میں ڈھیل دینے سے بازاروں میں رونق نہ دکھائی دیتی، لیکن دکانوں کے  باہر انتظار میں کھڑی عورتوں کی لمبی قطاروں کی ہیں، یہ  ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ حماقت کرنے والا بے چارہ غریب طبقہ نہ تھا، جس پر ہمتعلیم اور شعور نہ ہونے کا قیاس کرسکتے ،  یہ وہ طبقہ تھا جو کہ پڑھا لکھا جانا جاتا ہے۔ کورونا کا شکار ہونے والے مریضوں کی غمگین داستانیں سن کر افسوس ہوا کہ ان مشکل حالات میں بھی اسپتالوں میں بے ایمانی رائج ہے۔

کورونا کے اثرات سے معمول کی طرف آنے میں شاید کافی وقت لگ جائے۔ اس کے معاشی نتائج بہت برے ہوں گے۔ مالکان اور نجی تعلیمی اداروں والے بہت فائدے میں رہے، لیکن غریب اور دہاڑی دار مزدور روند دیے گئے۔ آنے والا وقت بہت مشکلات لائے گا، بہت سے لوگ نوکریوں سے نکال دیے جائیں گے، زکوۃ دینے والوں کی تعداد کم اور لینے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ نجی جامعات کا ان سب حالات میں بھی فیسوں میں اضافہ کرنا  اچھی علامت نہیںہے، بہت سے طلبا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے، کیوں کہ ہر چیز سے بڑھ کر تعلیم ہمارے معاشرے میں ’کاروبار‘ ہے۔ امید ہے کہ پاکستان آنے والے وقتوں کا سامنا کرلے گا اور بخیریت ان مشکل حالات سے نکل آئے گا۔

The post فاصلوں کی وبا نے ٹیکنالوجی سے قریب کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا ؛ سائنسی دعوے اور قدرت کے معجزے

$
0
0

کوئی زنجیر ہو
آہن کی، چاندی کی،روایت کی
محبت توڑ سکتی ہے!
یہ ایسی ڈھال ہے جس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا!
یہ ایسا شہر ہے جس میں
کسی آمر، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا!
اگر چشمِ تماشا میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو
یہ آئینہ نہیں چلتا!
یہ ایسی آگ ہے جس میں
بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو رْوحیں مسکراتی ہیں
یہ وہ سیلاب ہے جس کو
دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بلاتی ہیں
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے
جو منظر بجھ چْکے ہیں ان کو بھی تنویر مل جائے
دعا، جو بے ٹھکانہ تھی، اسے تاثیر مل جائے
کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو!
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو!
محبت روک سکتی ہے، کسی گرتے ستارے کو!
یہ چَکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاہے یہ باگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو، اس کو محبت توڑ سکتی ہے

محبت کی کئی تعریفیں ہیں اور سیکڑوں داستانیں ہیں، لیکن معروف شاعر امجد اسلام امجد نے ’محبت ‘ کا تعارف جس طرح اس نظم میں کرایا ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس محبت نامے کی یاد ہمیں اس لیے آئی کہ  کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی سر دست دست یابی نہ ہونے کے باوجود ’’محبت‘‘ نے اس عفریت کو شکست کی دھول چٹا دی ہے۔

اٹلی میں کورونا وائرس میں مبتلا جوڑے 73 سالہ جیانکارلو اور 71 سالہ ساندرا نے وینٹی لیٹر پر اپنی شادی کی 50 ویں سال گرہ منائی۔ دونوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا اور وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود یہ تکلیف کسی طور کم نہ ہو پا رہی تھی۔ اسی دوران اْن کی سال گرہ کا دن آگیا۔

طبی عملے نے معمر جوڑے کی توانا محبت کو دیکھا، تو شادی کی پچاس ویں سال گرہ کی مختصر سی تقریب انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منعقد کی۔ دونوں کے بستر قریب تھے اور چت پڑے ہوئے بھی، جھریوں بھرے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو تھامے ہوئے تھے۔ کیک لایا گیا، دونوں نے بستر پر لیٹے لیٹے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹا۔ کانپتے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی اشد ضرورت تھی۔

معمر جوڑے نے اپنی محبت کے بل بوتے پر سال گرہ کے چار دن بعد کورونا کو شکست دے دی اور اب یہ جوڑا گھر میں نارمل زندگی بسر کر رہا ہے۔ کورونا وائرس کو شکست دینے والے اسی طرح معمر مریضوں کی طویل فہرست نے سائنسی دعوے اور شماریاتی اندازوں کو ’چکرا‘ کر رکھ دیا ہے۔

کورونا وائرس کی رونمائی چین کے شہر ووہان میں گزشتہ برس ستمبر یا اکتوبر میں ہوئی، تاہم اس کی ساخت، کیمیائی مطالعے اور بیش تر معلومات جنوری کے آخر تک مل سکیں اور تاحال نت نئی باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے اور اب بھی بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔ کورونا سے ہونے والی بیماری کو کوویڈ 19 (COvid 19) کا نام دیا گیا ہے، جس میں ’سی او‘ سے مراد کورونا، ’وی آئی‘ سے وائرس اور ’ڈی‘ سے مراد ’ڈیزیز‘ یعنی بیماری ہے۔

سائنس دانوں نے اب تک حاصل ہونے والی معلومات کی بنا پر دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس سب سے زیادہ معمر افراد کے لیے ہلاکت خیز ہے، کووڈ 19 سے زیادہ تر ہلاک ہونے والوں میں 60 سال سے زیادہ عمر والے افراد شامل ہیں اور یہ کہ یہ وائرس بچوں یا نوجوانوں کے لیے اتنا خطرناک نہیں۔

کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دنیا بھر میں تین  لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 65 لاکھ ہو گئی ہے۔ سائنسی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والے مقالے میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں 80 سال سے زائد عمر والوں کی ہیں جو کہ 13.4 فی صد  ہیں۔ اسی طرح 70 سے 79 سال کی عمر والوں کا تناسب 8.6 اور 60 سے 69 عمر والوں کا تناسب 4 فی صد  ہے جب کہ 40 سے 50 سال تک کی عمر والوں کی شرح 1.25 فی صد  اور 40 سے کم عمر والوں میں صرف 0.3 فی صد ہے۔

سائنس دان کورونا وائرس سے معمر افراد کے ہلاک ہونے کی وجہ ’امیون سسٹم‘ کے کمزور ہونے یا پہلے سے ہی کسی دوسری بیماری جیسے ذیابیطس، امراض قلب، گردوں اور پھپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہونا بتاتے ہیں۔ کورونا وائرس خون میں لوتھڑے بنانے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جس سے دل کا دورہ، فالج یا فوری طور پر گردے ناکارہ ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے اور لواحقین کو لگتا ہے کہ ان کے پیارے کورونا سے نہیں، بلکہ ان بیماریوں کی وجہ سے جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

ماہرین طب کے لیے یہ بات بھی پریشانی کا باعث ہے کہ ہلاک ہونے مریض یا ایسے افراد جن میں کورونا کی تصدیق ہوگئی ہے سے زیادہ اس وبا کو پھیلانے کے ذمہ دار ایسے طاقت وَر امیون سسٹم کے حامل لوگ ہیں، جن میں کورونا وائرس تو موجود ہوتا ہے لیکن کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ ایسے مریضوں کو ’ اے سمٹومیٹک‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان افراد میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے یہ زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی طبی عملے کو ایسے افراد پر مریض ہونے کا شک گزرتا ہے۔

بنا علامت اور نہایت رازداری سے ’’ اے سمٹومیٹک مریض‘‘ وائرس کو اپنے جسم میں لیے گھومتے رہتے ہیں اور دوسروں میں کورونا وائرس کی منتقلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے سنگاپور میں کی گئی ’بی بی سی‘ کے سائنسی صحافی ڈیوڈ سکمین کی تحقیق قابل ستائش ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ سنگاپور میں کووڈ 19 کے مریضوں کے سامنے آنے پر اس کے ماخذ کی کیسے کھوج کی گئی۔

تحقیق سے پتا چلا کہ 19 جنوری کو ’گرجا گھر‘ میں ہونے والی ایک تقریب میں ووہان سے آنے والے ایک جوڑے نے شرکت کی، جو اْس وقت صحت مند تھے اور دونوں میں کورونا کی کوئی ایک بھی علامت نہیں تھی، تاہم 22 جنوری کو دونوں کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ جہاں ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، علاوہ ازیں دو اور ایسے افراد میں بھی کورونا کی تصدیق ہوئی، جو ’گرجے‘ کی اسی تقریب میں شریک تھے اور ممکنہ طور پر چینی جوڑے کی وجہ سے انفیکشن زدہ ہوئے۔

دریں اثنا ایک اور 52 سالہ مقامی خاتون میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، خاتون نے بتایا کہ وہ بھی 19 جنوری کو ’گرجا گھر‘ گئی تھیں، تاہم وہ اس تقریب میں شریک میں نہیں تھی، جس میں ووہان سے آنے والا چینی جوڑا بھی موجود  تھا، تو پھر اس خاتون کو یہ وائرس کیسے لگا؟ اس سوال کی کھوج میں چرچ کے ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کی مدد لی گئی، تو پتا چلا کہ خاتون اسی چرچ میں دوسری تقریب میں شریک تھیں اور ٹھیک اسی نشست پر براجمان تھیں، جہاں چند گھنٹے قبل چینی جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔

اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وائرس صرف کھانسنے یا چھینکنے سے ہی نہیں پھیلتا کیوں کہ چینی جوڑے میں جب یہ علامتیں ظاہر بھی نہیں ہوئی تھیں، اس دوران بھی وہ تین لوگوں میں وائرس پھیلانے کا سبب بنے۔ یہ ایک اور ایسا انکشاف تھا جس نے سائنس اور طب میں کئی اور سوالات کو جنم دے دیا تھا سب سے بڑا سوال تو یہی تھا کہ اس مہلک وائرس کی پُراسرایت یوں ہی برقرار رہی تو ناکافی معلومات اور تیزی سے بدلتے رجحانات کو جانے بنا اتنی بڑی آفت کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔

اس کا سادہ سا جواب ’قدرت‘ ہے۔

ڈائمنڈ پرنسس نامی بحری جہاز 20 جنوری کو جاپان سے چین، ویت نام اور تائیوان جانے کے لیے 14 دن کے دورے پر روانہ ہوا تھا، دیوقامت بحری جہاز میں 3 ہزار 711 افراد موجود تھے۔ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے چین نے بحری  جہاز کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا اور واپس جاپان بھیج دیا، جہاں وہ 14 روز تک ’قرنطینہ‘ میں رہا۔ اس دوران طبی عملہ جہاز میں سوار افراد کا کورونا ٹیسٹ کرتا رہا۔

ٹیسٹ کے نتائج حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب بھی تھے،  712 ایسے افراد میں ٹیسٹ مثبت آیا، جن میں علامات موجود تھیں جب کہ 410 افراد ایسے تھے، جن میں ٹیسٹ مثبت آنے تک علامات ظاہر نہیں تھیں، اسی طرح 331 ایسے افراد تھے، جن میں ٹیسٹ تو مثبت آیا، لیکن ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں، جب کہ 40 افراد کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرنا پڑا تھا۔

حاصل یہ رہا کہ کروز شپ میں موجود 3117 افراد میں سے صرف ایک ہزار 493 کو کورونا وائرس نے متاثر کیا اور ان میں سے بھی صرف 40 کی حالت اتنی بگڑی کہ ’آئی سی یو‘ میں رکھنا پڑا، باقی افراد ’قرنطینہ‘ کے دوران خود ہی روبہ صحت ہوگئے  اور صرف 12 افراد اپنی جان سے گئے۔ اگر اس کروز شپ کو دنیا سمجھ لیا جائے اور اس میں موجود افراد کو کْل آبادی ، تو یہ اعداد و شمار کافی حوصلہ افزا دکھائی دیتے ہیں۔

قدرت نے اپنی جھلک اس ایک واقعے میں ہی نہیں دکھائی بلکہ کئی اور ایسے واقعات ہیں، جنہیں حضرت انسان کو قدرت کی جانب سے ’ ویکنگ کال‘ کہا جا سکتا ہے۔ جو دل برداشتہ اور حوصلہ شکن انسان میں یقین کی طاقت بھر دیتے ہیں اور وبا سے لڑنے کی ہمت پیدا کرتے ہیں۔ یہ وہ ’‘اعداد و شمار‘‘ ہیں جنہوں نے سانس دانوں کو ہکا بکا کردیا ہے اور سائنسی تھیوریز کو غلط ثابت کردیا ہے۔

ابتدا میں ہی ہم اٹلی کے معمر جوڑے کی کورونا سے فتح کی داستان بیان کرچکے ہیں اور اب تک ایسے درجنوں کیس سامنے آچکے ہیں جس میں 100 سے سال زائد عمر کے مرد اور خواتین نے کورونا وائرس کو شکست دی ہے۔ محتاط اعداد وشمار کے مطابق سو سال سے اوپر عمر کے حامل صحت یاب مریضوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے، جب کہ 60 سال سے 100 سال کے درمیان شفایاب مریضوں کی تعداد 5 ہزار تک ہے۔

اب تک سب سے زیادہ عمر رسیدہ مریض جس نے کورونا وائرس کو دھول چٹائی، اسپین کی 113 سالہ خاتون ماریہ برانیاس ہیں۔ 1907 میں پیدا ہونے والی اس خاتون نے کورونا کو کسی اسپتال میں طبی عملے کے سہارے نہیں، بلکہ گھر میں قرنطینہ ہوکر شکست دی۔ جب ان میں ٹیسٹ آیا تو صرف چند علامتیں ہی موجود تھیں، جن کا ’’سمٹومیٹک‘‘ علاج جیسے پیناڈول وغیرہ سے کیا گیا۔ اٹلی میں سو سال زائد عمر والے شفایاب مریضوں کی تعداد  سات ہے۔

ترکی میں 107 سالہ خاتون اور 93 سالہ کسان نے کورونا وائرس کے شکار مریضوں نے زندگی کی جنگ بڑی بہادری سے جیتی۔ چین میں 100 سے زائد عمر والے 5 مریضوں نے بھی یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا، وہاں بھی سب سے طویل العمر شفایاب مریضہ 103 سالہ خاتون ہی تھیں۔ ایران میں 106 سالہ مرد اور 103 سالہ خاتون نے کورونا سے صحت یابی پا کر سب کو حیران کر دیا۔ ایران میں سو سے زیادہ عمر والے شفایاب مریضوں کی تعداد 4 رہی۔

امریکا، برطانیہ، ہالینڈ سمیت دیگر ممالک میں بھی عمر رسیدہ افراد کے شفایاب ہونے اور بالخصوص کسی ہنگامی طبی  امداد کے بغیر صحت یابی پر سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ پھپھڑوں کے امراض اور انتہائی پیچیدہ امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر کینیتھ لین کیو معمر افراد کی کورونا وائرس میں صحت یابی کو حیران کن، مگر خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو قدرت کے کرشمے کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں عقل سے ماورا ہوتی ہیں۔

ان حقائق کے بعد اس جدید سائنسی دور میں بھی روحانیت کا انکار ممکن نہیں، خدائے وحدہ لاشریک پر کامل یقین رکھنے اور ایمان کی طاقت سے مالا مال افراد کا ’امیون سسٹم‘ مضبوط ہوتا ہے، جو انہیں کسی بھی بیماری سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی صحت یابی میں ایک یہ عنصر بھی شامل رہا ہے، اس لیے مایوس ہونے کے بہ جائے دوا کے ساتھ دعا اور ایمان کے ساتھ امیون کو مضبوط تر بنائیں۔ میل جول میں فاصلہ رکھیں، باہر نکلتے وقت ہمیشہ ماسک پہنیں، بار بار ہاتھ کو صابن سے دھوئیں اور غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ممکن ہے آپ میں وائرس موجود ہو اور علامات ظاہر نہ ہوں، لیکن کسی دوسرے کو منتقل کرکے آپ کسی اور کی زندگی سے کھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

The post کورونا ؛ سائنسی دعوے اور قدرت کے معجزے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ۔۔۔

$
0
0

آزاد کشمیر:  آج کی صبح بہت انوکھی ہے، کیوں کہ ایک عرصہ طویل کے بعد میرے من میں تمہیں مخاطب کرنے کی چاہ مسکرائی ہے اور تمہیں کبھی بھی نہ پکارنے کا عہد میں نے کچھ دیر کو یہ کہہ کر بھلا دیا ہے کہ میں تم سے ہم کلام نہیں، خود سے ’خود کلام‘ ہوں! ہاں کیوں کہ بہت وقت پہلے میں نے جان لیا تھا کہ خود کلامی، ہم کلامی کی منزل طے نہیں کر پائے گی۔ سو عہد شکنی ہو کر بھی نہ ہو گی۔

تمہیں خبر ہو، میں ان دنوں اپنے گوشہ محفوظ کی نیند آور اور پُرخمار پناہ سے دور ہوں۔ وہ بلاد مسرت جو مجھے افیون کے مرہون منت ہوئے بغیر بھی میسر ہے، اس کے دروازے عارضی طور پر میرے لیے بند ہیں اور ایک کنکریٹ کی دنیا میں افسردگی میرے سرہانے یوں بیٹھی ہوتی ہے جیسے کسی بستر مرگ پر پڑے شخص کے قریب بیٹھا تیماردار!

سوچتی ہوں، شہروں میں بھی تو موسم بدلتے ہیں، فطرت کے پیراہن مختلف رنگوں میں جلوہ نما ہوتے ہیں، مگر شاید ایک مشینی زندگی میں ان کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اسی لیے وہ اپنا دامان رنگ و بو سمیٹے کھلے میدانوں بلند پہاڑوں اور وسیع و عریض چراگاہوں کا رخ کر لیتی ہے جہاں وہ پہلی مرتبہ مبتلائے محبت دوشیزہ کی مانند ہر آن نئے روپ کے ساتھ جلوہ نما ہو کر اٹھلاتی اور گنگناتی پھرتی ہے اور اسے دیکھنے والے ایک جذبہ عظیم کے احترام میں آنکھیں جھکا کر فطرت کی اولین عبادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

پہاڑوں میں آنے والے موسم کے سفیر ہوائیں، پیڑ، پرندے، پھول، گھاس، بھنورے اور بادل ہوتے ہیں، جب کہ شہر میں بدلتی رت لباسوں کے نئے اشتہارات کی محتاج ہوتی ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں کے حلقۂ نور میں ’پینا فلیکس‘ پر سجی بے تاثر شکلیں ’’بہار آئی‘‘ کی نوید سنا کر مزید افسردہ کر دیتی ہیں اور میری کوتاہ نصیبی تو دیکھو کہ اس بہار میں فطرت کو خوش آمدید کہنے اپنے یوٹوپیا میں موجود نہیں!

نہ یہاں بھوری سنہری گھاس سے جھانکتی نئی زمردیں پتیاں ہیں، نہ آڑو، سیب، آلوچے اور خوبانی کے نازک ترین شگوفے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور سنہرے لمبی سونڈ والے بھنورے کا نغمہ جاں فزا بھی سماعت کو نوازنے کے لیے موجود نہیں۔

صبح کے پرندے اور انگور کی بیلوں پر پھوٹنے والے ننھے، ہرے اور چمکیلے پتے بھی بصارت کی حد سے کہیں پرے ہیں۔

یہاں کچھ ہے تو دن رات تعمیر ہوتی عمارتیں ہیں، چھتوں پر رکھی سیاہ، سفید اور نیلی پلاسٹک کی ٹینکیاں ہیں اور وہ زمین جو کنکریٹ میں دفن ہونے سے بچ گئی ہے، اس کے سینے پر کچرے کے رنگ برنگے تمغے سجے نظر آتے ہیں۔

جہازوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور بے ہنگم موسیقی میں پرندوں کی اذانیں گم ہو چکی ہیں اور گھاس نے سیمنٹ سے ہار مان لی ہے۔

جیسے میرے دل نے تمہاری سردمہری اور بے رخی کے سرد پتھر سے اپنی تمام تر زندگی سمیت شکست تسلیم کر لی تھی!

اب تم یہ سوچ رہے ہو گے کہ میں نے اس قدر بے رنگ ماحول میں موجود ہوتے ہوئے بھی آج کی صبح میں ایسا کیا انوکھا پن دیکھ لیا، جو تمہیں یہ حکایت سنانے بیٹھ گئی؟ لو بھئی! اب تمہارے صبر کا مزید امتحان نہ ہوگا۔

آج صبح بالکونی میں چائے پیتے ہوئے میری نگاہ اس گھر پر پڑی جس کی پیشانی پر دھات سے اس کی پہچان لکھی ہے۔ اس گھر کے مکینوں میں ایک عدد بادامی رنگ کا کتا بھی شامل ہے، جو چھت پر بندھے ہونے کے سبب رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو کر منڈیر پہ آ بیٹھنے والی آزاد اور خودمختار چڑیوں پر بھونکتا اور غراتا رہتا ہے اور جب بہت ہی بور ہوجائے، تو منڈیر کے سوراخوں سے مقدور بھر چہرہ باہر نکال کر سڑک پر ٹہلتی آوارہ بلیوں کو خوب خوب کوسنے دیتا ہے مگر آزاد مخلوق قیدی کی زنجیر کی حد جانتی ہے، سو کتے کی بھونک اس کو تھکانے کے سوا کسی کام کی نہیں ہے۔

گھر کے چھوٹے سے ٹیرس میں ایک بھورا گملا رکھا ہوا ہے، جس میں اگی ہوئی بوگن ویلیا کی بیل جس پر اکا دکا پتے نظر آتے ہیں، ایک رسی کے سہارے ٹیرس کی چھت تک رسائی پا چکی ہے اور شاید یہ اس کے پھیلاؤ کی حد مقرر ہے، اسی لیے اس سے آگے بڑھنے کی کوشش پر اسے تراش دیا جاتا ہے۔ گویا شہروں میں فطرت کو بھی ’جامۂ تہذیب‘ میں رہنا پڑتا ہے اور بے ساختگی کی نرم و نازک شاخوں کو ’آداب و تمدن‘ کی تیز دھار قینچی سے کاٹ کر فطرت کو مَن چاہی صورت میں ڈھال لیا جاتا ہے۔

خیر۔۔۔! تو اس منظر میں آج فطرت ایک نئے انداز سے محو کار تھی۔ بھوری چڑیا اور نیم سیاہ چڑا بیل کی گتھی ہوئی شاخوں کے بیچ گھونسلا بنانے میں مگن تھے۔ بہت سی شاخوں پر پُھدک پُھدک کر بالاخر انہیں ایک ایسی شاخ پسند آئی جو اوپر سے باریک شاخوں سے الجھی ہوئی تھی اور بلیوں کی دسترس سے دور، گھر کا آغاز کرنے کے لیے نہایت مناسب تھی۔

میں انہیں دیکھتی رہی اور وہ اپنی ننھی چونچ میں مختلف تنکے، پتیاں اور دھاگے لا لا کر اپنے خوابوں کا محل بناتے رہے۔ ان کی چہکاروں میں ترنگ تھی اور حرکات میں سرخوشی۔۔۔!

ان کا آشیانہ نصف کے قریب تکمیل پا چکا تھا کہ منڈیر سے جھانکتے حاسد اور مجرد کتے کو خبر ہو گئی اور اس نے ہر ممکن حد تک گردن لٹکا کر حسرت و یاس میں ڈوبی غراہٹ کے ساتھ بھونکنا شروع کر دیا۔ آن واحد میں ننھا جوڑا تنکے اور زیر تعمیر آشیانہ چھوڑ کر اڑ گیا اور کتا سرشار سا ہو کر اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا۔ جوں ہی وہ منظر سے غائب ہوا، چڑا اور چڑیا ایک بار پھر نیچے گرے تنکے سمیٹ کر تندہی سے گھونسلا بُننے لگے۔

مجھے اپنی وہ سب کاوشیں یاد آنے لگیں جو آندھی میں آشیاں بنانے کے لیے کی گئی تھیں۔۔۔! یک طرفہ، بے سود کاوشیں۔۔۔!!

کچھ دیر بعد کتے نے ایک بار پھر انہیں بھگانے کے لیے اپنی واحد طاقت استعمال کی، مگر اس مرتبہ ننھے معماروں نے اس پر چنداں توجہ نہ کی اور تنکے لانے اور بُننے کا کام جاری رکھا۔ میری چائے ختم ہو چکی تھی، مگر منظر نے وہاں ٹھیرے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہیں کام کرتے ہوئے دیکھنا مجھے سکون عطا کر رہا تھا۔

جذبہ تعمیر و محبت سے سرشار اس ننھی مخلوق کو ایک مرتبہ پھر اپنا کام کرنے سے روک دیا گیا اور اب کے یہ مداخلت ’اشرف المخلوقات‘ کی جانب سے کی گئی تھی۔ گھر کی مالکن جو کسی کام سے وہاں آئی تھی، اس نے ہش ہش کرکے انہیں اڑا دیا اور فرش پر گرے تنکے ایک جھاڑو کی مدد سے سمیٹ کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیے۔ مایوس چڑا اور چڑیا درد انگیز چوں چوں میں اپنی محنت رائیگاں جانے کا احتجاج کرتے رہے اور پھر ایک سمت کو اڑ گئے۔۔۔

انسان۔۔۔! اپنے ٹھکانے میں کسی چڑیا کو بھی شریک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور انسان۔۔۔! جو دیگر مخلوقات کے گھر اور، ماحول کو اپنی ترقی کی ہوس میں دن رات نگلتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ دیر پہلے کا سکون ایک ناقابل بیان بوجھل افسردگی میں ڈھل گیا اور میں خالی پیالی لیے واپس جانے کے لیے مڑی اور جانے کس خیال کے تحت میں نے ایک بار پھر پلٹ کر بوگن ویلیا کی بیل پر نظر ڈالی، تو مجھے وہ منظر دکھائی دیا جس نے مجھے اپنا عہد بھلا کر تم سے مخاطب ہونے کے لئے ایک جواز مہیا کر دیا۔

چڑا اور چڑیا پوری جانفشانی سے ایک بار پھر تنکے جوڑنے اور گھونسلا تعمیر کرنے میں جُت چکے تھے۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں مشکلات کے لیے چیلنج تھا اور چہچہوں میں رکاوٹوں کو پار کرنے کا عزم جھلک رہا تھا۔ پُھر پُھر کی آوازوں کے ساتھ تیزی سے اِدھر اُدھر اڑتے ننھے پنچھیوں نے میرے مغموم دل پر تسلی بھرا ہاتھ رکھ دیا۔ ناامیدی، تھکن اور کھنچے ہوئے اعصاب کسی جادوئی طاقت کے زیر اثر ختم ہونے لگے۔ تھکی ہوئی منتظر آنکھوں میں پہاڑوں سے پلٹ کر آئی ہوئی تازگی کا منظر نرمی سے سما گیا اور کنکریٹ کا جنگل سبزہ زار میں ڈھل گیا۔

ہاں۔۔۔! یہی تو وہ جذبۂ تعمیر ہے جو ہم انسانوں میں عنقا ہو چلا ہے۔ ہمیں زنجیر سے بندھے کتے کی غراہٹ اس قدر بوکھلا دیتی ہے کہ ہم خوش گمانی کے تنکوں کو آگ میں جھونک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کسی کی سرد مہری کی ’ہش ہش‘ ہمارے حوصلوں کو پست اور جذبات کو منجمد کر دیتی ہے کہ دوسری مرتبہ ہم ان شاخوں کا خواب دیکھنے سے بھی گھبراتے ہیں چہ جائے کہ آشیاں کی بنیاد رکھنے کا حوصلہ مجتمع کیا جا سکے۔

کسی رشتے میں در آئی تلخی کی بے سود غراہٹ کو محبت کے میٹھے چیچہے میں بدلنے کا ظرف ہی کہاں ہے ہمارا۔۔۔! نہ کسی زخم خوردہ، مبتلائے غم کی دستکوں پر در دل وا کرنے کی ہمت ہم خود میں پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے زخم عیاں کرنے کی بہادری ہماری صفت ہے۔ ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ہمارے لیے بے کار ہیں کہ انہیں پھر سے آشیاں کا حصہ بنانا ہماری انا کے خلاف ہے، ہم تمام عمر اپنے ملبے کا ماتم تو کر لیں گے، لیکن اس ملبے سے نئی تعمیر اٹھانے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

تو یار من۔۔۔! بھلا ’اشرف المخلوقات‘ کون ٹھیرا۔۔۔؟ ہم۔۔۔! بااختیار انسان یا یہ فطرت پر قائم پرندے۔۔۔؟

سوال چھوٹا ہے، مگر آسان نہیں کہ ہمارا تفاخر ہمیں ایک کم تر پرندے کو بہتر تسلیم کرنے سے ہمیشہ روکے گا۔ لیکن فطرت کو اس مصیبت سے کوئی غرض نہیں ہے، سو وہ خاموشی اور یک سوئی سے اپنا کام کیے جاتی ہے۔

کبھی سیمنٹ کی دیوار میں اُگے پودے کی صورت، کبھی ایسفالٹ کی سڑک کے بیچ اُگے تنہا ڈینڈلائن کی مانند اور کبھی اَن تھک، ہار تسلیم نہ کرنے والی چڑیوں کی طرح۔۔۔!

ہمارے حوصلے بڑھانے کو فطرت کے یہ ننھے اشارے ہی بہت ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہماری کوتاہ بینی ہماری توجہ کی راہ میں ایک عظیم رکاوٹ ہوتی ہے اور فطرت کی جانب سے دیے گئے بہت سے دلاسے اور اسباق پرے پھسل جاتے ہیں۔

میرا دل بہار میں جنم لینے والے خودرو گل لالہ کی مانند کھل اٹھا اور تمہاری من موہنی من چاہی اور دل کش صورت پرتو گل سے جھانکنے لگی۔

اور جب تم خود ہی مقابل آن بیٹھے، تو پھر مخاطب کرنے میں کیسی جھجک۔۔۔؟ اگرچہ خودکلامی ہی سہی، مگر تمہارے احساس کے روبرو ہونے کا تصور ہی اس قدر روح فزا ہے کہ کنکریٹ کے ڈھانچوں پر سیب کے مدہوش مہک والے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے “یار من! آمد بہار مبارک۔۔۔!n

The post ہمارے خوابوں کے اُجڑے تنکے ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم ایسے ہی ہیں۔۔۔!

$
0
0

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

آپ نے صرف پڑھا ہی ہوگا کہ ’سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے۔‘ لیکن محسوس شاید ہی کیا ہو۔۔۔ کیوں کہ یہاں غالب اکثریت ’دنیا والی‘ ہے۔ جو اپنے حال میں مست ہیں، جو صرف اپنے آگے سے آگے بڑھنے پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ایسا کر کے اپنی زندگی کو بالکل ’شانت‘ رکھنے میں کام یاب بھی ہو جاتے  ہیں۔

ان کے دکھ اور تکالیف بس وہی ہوتی ہیں، جو ان کے ہاں کی ’دیوار‘ پھاند کر اور دہلیز لانگ کے آجائیں۔۔۔ ورنہ وہ ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی طرح سب کچھ ایسے اڑا دیتے ہیں، جیسے راہ میں پڑے ہوئے کنکر کو بے دھیانی میں زور سے ٹھوکر لگتی ہے، اور پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں جا کر پڑا ہے۔

ہمیں بصد احترام یہ اعتراف ہے کہ ہم کوئی ’نارمل‘ یا ’مگن‘ انسان ہرگز نہیں۔۔۔! ہم کبھی اس دنیا اور اس کے مزاجوں اور رواجوں کے آدمی تھے ہی نہیں اور نہ ہی شاید کبھی ہو سکیں گے۔۔۔ ہمیں دو جمع دو چار کا قاعدہ ہی نہیں آتا۔۔۔ ہم سب کا سوچتے ہیں، اس لیے بہت چاہ کر بھی ’پیٹ‘ سے ذرا کم ہی سوچ پاتے ہیں، نتیجتاً اکثر ’خسارے‘ کے سودے کرتے ہیں۔۔۔ ضمیر کی سوچ وبچار میں پڑ کر ہم سکہ رائج الوقت ’ناکام‘  گنے جاتے ہیں۔ ہم کچھ خریدنے جائیں، تو دکان دار کا سوچنے لگتے ہیں، اور اگر کبھی تقدیر کے ہاتھوں کچھ بیچنے والے بنے ہوں، تو سامنے موجود گاہک کا ’درد‘ ہمارے اندر اترتا ہے۔۔۔

کوئی رکشا، ٹیکسی کریں تو بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔۔۔ اور تو اور راہ چلتے بھی تو ہم اپنے لیے ’درد‘ تراشتے رہتے ہیں۔۔۔ راستے میں کہیں تازہ پھول اور گجرے سجائے اس گُل فروش کی فکر پریشان کرتی ہے کہ رات گہری ہو رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں ابھی گجرے بے شمار ہیں۔۔۔ یہ تمام اگر اس رات نہ بک سکے، تو کل تک تو یہ کلیاں مرجھا کر بے کار ہو جائیں گی اور اس چھوٹی سی پونجی والے کا کتنا زیادہ نقصان ہو جائے گا۔۔۔ کبھی گلیوں میں کچرا چننے والے معصوم وجود بے کل کرتے ہیں تو کہیں کاندھے پر لادے ہوئے تازے پاپڑ والے کی صدا ہمیں چین نہیں لینے دیتی کہ شام ڈھل چکی ہے، اور آج اس کے تھیلے میں تہ در تہ جمع ہوئے بہت سے پاپڑ بچ جائیں گے اور وہ سارے دن کی مشقت کے بعد بھی خسارہ لے کر  گھر جائے گا۔۔۔

ہماری انہی باتوں کے سبب سماج کے کچھ ’بے درد‘ اور ’ستم ظریف‘ ہمیں بہت آسانی سے ’اذیت پسند‘ کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتے ہیں روح کے یہ زخم۔۔۔ ہر لمحے برپا رہنے والا جذبوں کا یہ ماتم اور احساس کا گریہ۔۔۔ اور سب سے بڑھ ہمارے اس کیفیت کے ساتھ لکھے گئے لفظوں کا دکھ۔۔۔ ایسے میں ہم اگر اپنے لفظوں پر اپنی تخلیق اور ’اولاد‘ کے موافق ’اپنا‘ ہونے کا ’اجارہ‘ کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کم ازکم ہمارے نام سے منسوب تو رہنے دیا جائے، تو یہ ہمارا حق ہے۔ ہمارا یہ ’حق‘ بہت سوں کو ’غیر علمی‘ اور ’خود پسندی‘ لگنے لگتا ہے، جب کہ کوئی بھی ہمارے لکھے ہوئے کو بغیر نام یا اپنے نام سے کہیں بھی نقل کر ڈالے، تو یہ عمل وہ ’غیر علمی‘ نہیں کہتے، کہ یہ بھی تو ’چوری‘ ہے۔ ایسے میں وہ جان ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لفظ ہم کس تپسیا سے لکھتے ہیں اور لکھے گئے احساس کے دل میں اترتے سمے لہو سے کشید کیا ہوا پانی نگاہ کو کتنی دیر تک دھندلائے رکھتا ہے۔۔۔!

ذرا بتائیے، آپ کی آنکھیں کتنے دن میں چَھلکتی ہیں۔۔۔؟ چَھلکنا تو چھوڑیے، کیا کبھی نم بھی ہوئیں۔۔۔؟ دوسری طرف ہم  اگر کبھی بہ مشکل خود کو شانت کر کے ’بے حسوں‘ کی اداکاری کرتے ہوئے خود کو بہلانے میں کام یاب ہوتے ہیں اور ذرا مطمئن ہوئے جا رہے ہوتے ہیں کہ راستے کا کوئی ایک بہت چھوٹا سا منظر، جو ساری دنیا کے لیے شاید معمول کا واقعہ ہو، ہماری پرسکون طبیعت میں کہرام برپا کر جاتا ہے۔۔۔

The post ہم ایسے ہی ہیں۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>