Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

روحانی دوست

$
0
0

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں:
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار15 جون 2020
حاکم نمبر9
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِ خاص” یارحیمُ یا رحمنُ یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہونے کا امکان ہے، جذبات میں کچھ گرمی ہوسکتی ہے۔
2نمبر کے لیے: آپ کی توانائی بہتر ہوگی اور اپنے کام ایک نئی ہمت سے کریں گے۔
3نمبر کے لیے: گھر سے منسلک کچھ امور آپ کو فکرمند کرسکتے ہیں۔
4 نمبر کے لیے: بنیادی طور پر ایک معاون دن ہے، کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہوسکتی ہیں۔
5 نمبر کے لیے: سفرہوسکتا ہے یا کسی کی مشاورت سے آپ اپنے فیصلے بہتر انداز میں کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
6نمبر کے لیے: آج کا دن آپ کا ہے، آپ جو چاہتے وہ ملتا نظر آتا ہے۔
7 نمبر کے لیے: مزاج میں کچھ گرمی ہوسکتی ہے، لیکن دن آپ کے لیے آسانیاں لائے گا۔
8 نمبر کے لیے: آپ تیزی اور تلخی سے بچیں ورنہ کام خراب ہوسکتا ہے ۔
9 نمبر کے لیے: یہ بات ٹھیک ہے جوش ضروری ہے لیکن ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔

منگل 16جون2020
حاکم نمبر8
صدقہ:سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے
وردِخاص” استغفراللہ العظیم” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: آج کا دن احتیاط کا تقاضا کرتا ہے، صدقہ لازم دیں
2نمبر کے لیے: منصوبہ بندی یا عملی طور پر کوئی غلطی ہورہی ہے، کوئی الجھن ہوسکتی ہے۔
3نمبر کے لیے: مسائل کی سنگینی اپنی جگہ پر ہے لیکن آپ اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کے ان مسائل کا حل نکالیں گے۔
4 نمبر کے لیے: آج کا دن ففٹی ففٹی ہوسکتا ہے، کچھ الجھنیں آپ کو الجھا سکتی ہیں اور کچھ کو آپ سلجھا لیں گے۔
5 نمبر کے لیے: پرانا کوئی وعدہ/چیک یا معاہدہ گلے پڑسکتا ہے، دھوکا کا اندیشہ ہے۔
6نمبر کے لیے محتاط رہیں، آج کا دن کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔
7 نمبر کے لیے: آپ کے ماضی کا تجربہ آپ کی درست سمت میں راہنمائی کرے گا اور آپ مطلوبہ ہدف حاصل کرلیں گے۔
8 نمبر کے لیے: پلاٹ/پراپرٹی کا کوئی معاملہ اہم ہوسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے: کوئی شخص آپ کے راستے کا پتھر بن سکتا ہے محتاط رہیں۔

بدھ 17 جون2020
حاکم نمبر5
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500روپے کسی مفلس طالبعلم کودینا بہتر ہوگا
وردِ خاص” یاسمیع یامجیبُ یا اللہ” 41 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے ایک بہترین دن، آج کوئی خوشی کی خبر ضرور ملے گی۔
2نمبر کے لیے: آج آپ کے دل سکون ملے گا، اس کی وجہ مالی نہیں روحانی ہوگی۔
3نمبر کے لیے: مستقل مزاجی اور صبر سے کام لیا تو آج آپ کا کوئی بہت اہم معاملہ حل ہوجائے گا۔
4 نمبر کے لیے: آپ اپنی قوتِ ارادی سے آج اہم کام نمٹالیں گے۔
5 نمبر کے لیے لین دین میں ری چیک کو نہ بھولیں، اور کسی سے وعدہ یا معاہدہ کرنے سے پہلے ضرور سوچ لیں۔
6نمبر کے لیے: اچھا دن، مالی اور روحانی فائدے ملیں گے۔
7 نمبر کے لیے: آپ کے لیے ایک بہترین دن ہونے کی امید ہے۔ کام یابی مقدر ہوگی۔
8 نمبر کے لیے: سفر، معاہدہ، یا وعدہ کی وجہ سے کوئی مسئلہ تنگ کرسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے: بہتر دن، آپ کے کاموں میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

جمعرات 18جون2020
حاکم نمبر 4
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِ خاص ’’ یاقادرُ یا قدیر یا اللہ‘‘ 41 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1نمبر کے لیے: سفر یا رابطوں میں دن گزرتا نظر آتا ہے، فائدہ ہوگا۔
2نمبر کے لیے: کوئی اچانک خوشی مل سکتی ہے، مددگار دن۔
3نمبر کے لیے: ایک اچھا دوست آپ کے لیے ایک نیا پلان لاسکتا ہے، جو کہ بہتر بھی ہوگا۔
4 نمبر کے لیے: قدم اٹھانے سے پہلے ابتدا و انتہا دونوں کو پلان کا حصہ بنالیں تاکہ بعد پریشانی سے سامنا نہ ہو۔
5 نمبر کے لیے: بلڈ پریشر ہائی ہوسکتا ہے، صحت کا خیال رکھیں
6نمبر کے لیے کوئی نیا بزنس شروع ہوسکتا ہے، نیا راستہ کھلے گا۔
7 نمبر کے لیے: معاون دن، مالی فائدہ ہوگا، کوئی دوست دوستی کا حق ادا کردے گا۔
8 نمبر کے لیے: لمبی منصوبہ بندی کرنے کے لیے بہتر دن۔
9 نمبر کے لیے: آپ کو اپنا راستہ بدلنا پڑسکتا ہے، بزنس پلان بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

جمعہ 19 جون2020
حاکم نمبر8
صدقہ:60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا۔
وردِ خاص” یاحافظ یا حفیظ یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: عارضی رکاوٹیں کھڑی ہوسکتی ہیں، لیکن فکرمند نہ ہوں
2نمبر کے لیے: ایک بہتر دن، کوئی پریشانی نہیں نظر آتی۔
3نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہونے کی امید ہے، کوئی نئی ڈیل ہوسکتی ہے۔
4 نمبر کے لیے: مالی اور روحانی فائدہ ہوگا، زمین سے منسلک کام فائدہ دیں گے۔
5 نمبر کے لیے: محتاط رہیں، ایک مشکل دن ہوسکتا ہے، صدقہ دیں۔
6 نمبر کے لیے: نہ چاہتے ہوئے بھی سفر ہوسکتا ہے، کچھ باتیں مزاج کے خلاف ہوسکتی ہیں۔
7 نمبر کے لیے خوش کردینے والا دن، کوئی پرانی الجھن دور ہوسکتی ہے۔
8 نمبر کے لیے: کوئی نئی آفر مل سکتی ہے، کام میں بہتری کی امید ہے۔
9 نمبر کے لیے: صدقہ دیں اور اپنے امور میں محتاط رہیں۔

ہفتہ 20 جون2020
حاکم نمبر2
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا80 یا800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ” یافتاح یارزاقُ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1نمبر کے لیے: کسی کا رویہ دل دکھا سکتا ہے، مالی لحاظ سے بہتر دن۔
2نمبر کے لیے: اہم دن ہوسکتا ہے، اچانک حالات نئی کروٹ لے سکتے ہیں۔
3نمبر کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، معاہدہ یا وعدہ سوچ سمجھ کے کریں۔
4 نمبر کے لیے: اچھا دن، مالی فائدہ ہونے کی امید ہے۔
5 نمبر کے لیے: کسی سے تلخی ہوسکتی ہے، کسی میں زیادہ امید نہ رکھیں۔
6 نمبر کے لیے: کوئی نقصان ہوسکتا ہے، صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔
7 نمبر کے لیے: کاموں میں سست روی آپ کے مزاج کو برہم کرسکتی ہے۔
8 نمبر کے لیے: مکان، پراپرٹی یا کسی پلاٹ کے لیے بہتر دن ہے۔
9 نمبر کے لیے:مالی اور اخلاقی فائدہ ہوگا، دوست احباب ساتھ دیں گے۔

اتوار21 جون2020
حاکم نمبر5
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِ خاص ” یاسمیع یا بصیریا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، کسی پسندیدہ شخص سے ملاقات آپ کو خوش کردے گی۔
2نمبر کے لیے: کوئی کال آسکتی ہے، پیغام مل سکتا ہے، رشتہ طے ہوسکتا ہے۔
3نمبر کے لیے: خواہ مخواہ کی باتیں آپ کے ذہنی سکون کو درہم برہم کرسکتی ہیں۔
4 نمبر کے لیے: اچھا دن، آپ کا کوئی پرانا معاملہ حل ہوسکتا ہے۔
5 نمبر کے لیے: زیادہ سوچنے اور بولنے سے گریز کریں۔
6نمبر کے لیے: رشتے خوشی کا سبب بنیں گے اور آپ آج کا دن ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
7 نمبر کے لیے: اچھا دن، اچھے لوگوں سے ملاقاتیں اور فائدہ ہوگا۔
8 نمبر کے لیے: آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے، اپنے امور میں محتاط رہیں۔
9 نمبر کے لیے: بہت اچھا دن، آپ کی قوتِ ارادی کئی مشکلوں کو آسان بناتی نظر آتی ہے۔

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک (Saim Almsuataf Saim)

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.


علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

15 جون تا21 جون 2020

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
بزرگ یا باس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی راہ نکلے گی۔ آپ کے وقار کی بحالی نظر آتی ہے، لیکن آپ کا احساسِ زیاں اس قدر ہے کہ فائدے کو بھی نقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں، جمعرات بہتر دن ہے، لیکن اتوار پھر مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ خصوصاً والدین کی صحت اور قریبی اعزاء کے ساتھ تعلقات اہم ہوں گے، محتاط رہیں۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
آپ کی صحت ڈسٹرب ہوسکتی ہے، گلے اور سانس کے مسائل ہوسکتے ہیں، خصوصاً ہفتے کے آخری دو دن، سوموار تا جمعہ سنیئرز کا تعاون رہے گا، اور مالی طور پر آپ کی جیب مستحکم رہے گی۔ صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
بیرون ملک سے مالی فائدہ ہوسکتا ہے یا پھر کوئی غیرمتوقع جاب یا بزنس کی پرانی رقم آپ کو مل سکتی ہے۔ ممکن ہے کوئی حکومتی فرد معاون ثابت ہو۔
جمعرات کا دن اہم ہوسکتا ہے مالی حوالے سے۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22 جون تا 23 جولائی
آپ کے تعلقات کے خانے میں مشتری جائز ناجائز تعلقات کی اطلاع دے رہا ہے۔
ناجائز تعلقات کی خاطر جائز تعلقات کو داؤ پر نہ لگائیں، بدھ اور جمعرات کو معاملات خراب ہوسکتے ہیں، مالی نقصان بھی ہوسکتا ہے اور عزت بھی خراب ہوسکتی ہے، محتاط رہیں۔

برج اسد
سیارہ شمس،24 جولائی تا 23 اگست
بدھ اور جمعرات کسی بڑوں سے نصیحت سن کے مزاج میں برہمی آسکتی ہے، آپ کے کچھ نادرست فیصلے آپ کو پریشان کرسکتے ہیں، جذباتی ہونے سے گریز کریں تو بہتر ہوگا، اتوار کا سورج گرہن آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا محتاط رہیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
یہ ہفتہ بہت اچھا رہے گا، سوموار اور منگل بچوں کی صحت کا خیال رکھیں، بدھ اور جمعرات مالی فائدے مل سکتے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار بیرون ملک سے کوئی مالی فائدہ مل سکتا ہے۔ بڑے بہن بھائی یا پرانے دوست کا تعاون اہم کردار ادا کرے گا۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کی جاب کا معاملہ جو کہ کچھ عرصے سے لٹکا ہوا تھا اور کسی ماتحت کی کرم فرمائی سے مسائل کھڑے ہوچکے تھے، آپ کے وہ مسائل ختم ہوتے نظر آتے ہیں۔
آپ کا کوئی پرانا سنیئر درمیان میں آکے آپ کے وقار میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ازدواجی حوالے سے کچھ الجھنیں نظر آتی ہیں۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
ہفتے کی ابتدا اور آخری دو دن مالی حوالے سے کافی معاون اور مددگار ہوسکتے ہیں، بیرون ملک یا اندرونِ ملک لمبے سفر کے اسباب پیدا ہوسکتے ہیں۔
اپنی صحت کا خیال رکھیں آپ بچوں، محبوب اور والد کے لیے جذباتی ہوسکتے ہیں۔

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبر تا 22 دسمبر
یہ ہفتہ آپ کے ازدواجی تعلقات میں کچھ غلط فہمیاں اور ناچاقیاں ظاہر کررہا ہے۔ مکان کے حوالے سے کچھ مسائل ہوسکتے ہیں۔ کرائے داروں کو مالک مکان پریشان کرسکتے ہیں۔ اتوار مالی فائدہ تو اچانک ہوسکتا ہے لیکن کسی بزرگ کی اچانک صحت خراب ہوسکتی ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
آپ کے لیے یہ ہفتہ بچوں اور محبوب شخصیت کے حوالے سے اہم نظر آتا ہے۔
آپ کی آمدن میں اضافے کا امکان ہے۔ آپ کی شخصیت میں زیادہ سنجیدگی اور دوراندیشی ابھرے گی۔ کسی قسم کا معاہد نہ کریں، خصوصاً ہفتہ اور اتوار کے دن۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
آپ کے تعلقات میں اضافہ ہوگا، کام میں وسعت پیدا ہوگی،
لیکن ازدواجی اور شراکتی امور میں غلط فہمیاں اور دھوکادہی کا اندیشہ نظر آتا ہے۔ بچوں کے حوالے سے کوئی پریشانی ہوسکتی خصوصاً ان کی صحت کے حوالے سے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
آپ کے مزاج میں حساسیت کی زیادتی کا عنصر ابھرا رہے گا۔
بیرون ملک کسی سے مالی لین دین ہونے کا امکان ہے۔ سوموار، جمعرات اور اتوار اہم دن ہیں۔ مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اس اداکاری کا الفت کی، ثمر بنتا ہے جی
کم سے کم بھی اس کا ہدیہ آسکر بنتا ہے جی
جسم سے تو مٹ چکا لیکن سمجھ آتی نہیں
داغ اک اب بھی ہمارے عکس پر بنتا ہے جی
ٹوٹ جاؤں گا پڑا بے سود ایسے سو، نیا
توڑ کر مجھ سے بنا لوکچھ اگر بنتا ہے جی
رقص کرتا ہوں کنارے پر کھڑا ہو کے میں جب
دیکھ کر یہ رقص، پانی بھی بھنور بنتا ہے جی
اُس کے غم میں بھی نکل آئے ہیں حصے دار اور
سو مجھے کب مل سکا ہے جس قدر بنتا ہے، جی
لکھنے والا رو رہا ہے جب اسے لکھتے ہوئے
پڑھنے والوں پر کہانی کا اثر بنتا ہے جی
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے گجرات)

۔۔۔
غزل


خون کی تاثیر یوں ناکام ہے
پانچویں دیوار زیرِ بام ہے
فاصلے کا دکھ اگر تسلیم ہو
راستے کی گرد بھی انعام ہے
آگہی سے کون سا عقدہ کھلے
آگہی ابہام در ابہام ہے
اک دیے کی گھورتی لو کے سبب
اک چمکتا چاند بھی بدنام ہے
آپ نے کی ہے مذمت دیر سے
بے وفائی شہر میں اب عام ہے
رتجگے میں صبح مت انڈیلیے!
ہمسروں کے حلق میں اک شام ہے
وہ کسی ساگر کی بپھری موج ہے
یا کسی ساغر میں بہتا جام ہے
(ساگر حضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل


خبر تو خیر اسے سب ہے وہ مگر چپ ہے
ڈرو خدا سے خطاؤں پہ بھی اگر چپ ہے
بتاؤکیا ہے بھلا کائنات عشق سوا؟
مرے سوال پہ سارے کا سارا گھر چپ ہے
گواہی صبر کی میرے وہ دے رہا ہے مگر
قصور پیڑ کا کیا اس میں گر ثمر چپ ہے
سکو ت جان کو میری ہے اس کا آیا ہوا
خدا کی خیر ہو کیوں آج نامہ بر چپ ہے
عجیب لوگوں میں اک بے حسی کا عالم ہے
جو ہو رہے ہیں ستم ان پہ بھی نگر چپ ہے
لحد پہ باپ کی شہزاد بیٹھا سوچتا ہوں
زبان سونپی مجھے جس نے وہ شجر چپ ہے
(شہزاد جاوید۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


اف سامانِ جادہ کرتے ہیں
ہم سفر کا ارادہ کرتے ہیں
عہد جو ہم بھُلا کے بیٹھے تھے
اب اُسی کا اعادہ کرتے ہیں
یہ کرشمہ ہے اُن کے ہاتھوں کا
آبِ سادہ کو بادہ کرتے ہیں
اُس کی رحمت تو ہے وسیع کتنی
ہم بھی دامن کُشادہ کرتے ہیں
یاد کرتے ہیں تیری باتوں کو
بیکلی کو زیادہ کرتے ہیں
جسم جھلسے نہ آرزوؤں سے
ہم توکّل لبادہ کرتے ہیں
مات کا تو یقین ہے ہم کو
پیش اپنا پیادہ کرتے ہیں
جِن کی نیّت میں کھوٹ ہو ساجد
وہ تکلّف زیادہ کرتے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


دیکھ اچھا ہوں یا برا ہوں میں
جو بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں میں
اک مری جنگ ہے زمانے سے
دوسرا خود سے لڑ رہا ہوں میں
میرے حصے کی نیند لے گیا وہ
اس کے حصے کا جاگتا ہوں میں
جب کوئی بولتا نہ تھا مجھ سے
خود سے ہی بولنے لگا ہوں میں
تم سے ملتا رہا ہوں روز مگر
خود سے برسوں نہیں ملا ہوں میں
پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وقت کو ڈھونڈتا رہا ہوں میں
زندگی تیرے قید خانے میں
وہ گھٹن تھی کہ مر گیا ہوں میں
( نوید انجم ۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


اندر سے اگر دل کا اشارہ نہیں ہوتا
پھر کوئی ہمارا بھی ہمارا نہیں ہوتا
آنچل کا تقدس بھی تو کرسکتا ہے پامال
بڑھتا ہوا ہر ہاتھ سہارا نہیں ہوتا
ہر شخص کو پلکوں پہ جگہ دی نہیں جاتی
ہر شخص ہمیں جان سے پیارا نہیں ہوتا
بے وجہ اداسی کو مسلط نہ کرو تم
اس گہرے سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
اپنوں کے رویوں سے بھی تھک جاتا ہے انسان
خاموش جو ہوتا ہے وہ ہارا نہیں ہوتا
ممکن ہے تری آنکھ کا دھوکہ ہو یہ فوزیؔ
ہر چیز جو روشن ہو، ستارہ نہیں ہوتا
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


کوئی کسی کی جان بڑی دیر تک رہا
روشن مرا مکان بڑی دیر تک رہا
وہ تو چلا گیا مجھے چھو کر مگر یہاں
زندہ کوئی نشان بڑی دیر تک رہا
یادوں نے اس کی اب مجھے بوڑھا سا کر دیا
بوڑھا بھی یہ جوان بڑی دیر تک رہا
بالکل بھی اس کو مجھ پہ نہیں آرہا رحم
جو مجھ پہ مہربان بڑی دیر تک رہا
میرے اور اس کے بیچ نہ تھا کچھ بھی پر اویسؔ
اک شخص درمیان بڑی دیر تک رہا
(حافظ اویس۔بصیرپور ،اوکاڑہ)

۔۔۔
غزل


جو اتنے داغ ملے ہیں تجھے وہ دھو لے گا؟
تو ایک بار بتا مجھ کو کتنا رو لے گا؟
یہ میرا مسئلہ ہے میں اکیلا رہ گیا ہوں
کہ اُس کا کیا ہے زمانے کے ساتھ ہولے گا
کچھ اس لیے بھی ترے ساتھ میں نہیں رہتا
تومیرا خیال نہ رکھے گا مجھ کو رولے گا
ہمارے بعد تجھے چپ بھلی بھلی لگے گی
ہمارے بعد تُو خود سے بھی کچھ نہ بولے گا
پتہ نہیں ہمیں طارق ؔکب اس کے ہاتھ لگیں
پتہ نہیں کہ وہ کس دن دراز کھولے گا
( محمد طارق عزیز سلطانی۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


زمیں پہ دیکھو وہ آسماں کو گِرا رہا ہے
یہاں تو رکنا تھا اس نے لیکن وہ جا رہا ہے
یہی دعا ہے نئے سفر میں وہ سُرخرو ہو
نئے محبت کے ضابطے جو بنا رہا ہے
اگرچہ دونوں کے درمیاں کچھ بچا نہیں اب
گلی کے نکڑ پہ دیر تک کیوں کھڑا رہا ہے
تمھاری یادوں سے ہوکے غافل تمھارا شاعر
کئی طرح کی اداسیوں میں گھِرا رہا ہے
اب اس کے ہونٹوں پہ نام میرا کبھی نہ آئے
وہ یاد کر کر کے روز مجھ کو بھلا رہا ہے
کہاں کہاں پر یہ تیری آنکھیں پڑھی گئی ہیں
تُو میری غزلیں کہاں کہاں پر سنا رہا ہے
خلیلؔ سننے کو میرے قدموں کی چاپ اکثر
کبھی تو کھڑکی پہ کان تیرا لگا رہا ہے
(خلیل حسین بلوچ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
چمکیں ہیں کچھ اس طرح سے دندان وغیرہ
جیسے ہو ستاروں کی کوئی کان وغیرہ
کل تک تو پڑے رہتے تھے پہلو میں ہمارے
جو آج بنے پھرتے ہیں انجان وغیرہ
پہلے ہی قیامت تھے خدوخال تمہارے
سونے پہ سہاگا ہے یہ مسکان وغیرہ
اس وقت ہزاروں میں کوئی ایک ہی ہوگا
کہتے ہیں جسے حضرتِ انسان وغیرہ
لوگوں کے بتائے ہوئے خدشات صحیح تھے
جھوٹے تھے سبھی عشق کے پیمان وغیرہ
اللہ رے، کیا فائدہ درکار ہے مجھ سے
بیکار ہوئے جاتے ہیں قربان وغیرہ
یہ کون سخی گزرا ہے اس راہ سے محسنؔ
دل تھام کے بیٹھے ہیں قدردان وغیرہ
(محسن اکبر۔حجرہ شاہ مقیم)

۔۔۔
غزل


غمِ عشق سے میری رنجور آنکھیں
مُحبت کے ہاتھوں ہیں مجبور آنکھیں
شرابی ، نشیلی و مغرور آنکھیں
بہت تھیں ہماری بھی مشہور آنکھیں
تجھے دیکھنا، بس تجھے دیکھے جانا
اسی کام پر اب ہیں مامور آنکھیں
بہت دل کو بھاتی ہیں اُس کی ادائیں
بہت مجھ کو کرتی ہیں مسرور آنکھیں
دلوں پر حکومت وہ کیسے کریں گے
نہ ہو جن کا مقصد و منشور آنکھیں
مثال اس کی سینؔ ایسی کوئی تولاؤ
کہ چہرہ ہے عنبر تو کافور آنکھیں
(سعد سین۔لاہور)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنا بتا ضروری تھا
عشق کرنا بھی کیا ضروری تھا؟
ہو گئے ہم ترے تو بھول گئے
کیا نہیں اور کیا ضروری تھا
چھوڑ سکتے تھے ابتدا میں بھی
بیچ میں چھوڑنا ضروری تھا
تم کھلونا بھی توڑ سکتے تھے
کیا یہ دل توڑنا ضروری تھا؟
شاعری میں مٹھاس لانے کو
دل بھی ٹوٹا ہوا ضروری تھا
تم وہاں چپ ہوئے مگر ہمدرد
اُس جگہ بولنا ضروری تھا
(زمان ہمدرد۔ نوشکی، بلوچستان)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جارج فلائیڈ کی زندگی کے آخری 8 منٹ 46 سیکنڈز کی کہانی

$
0
0

امریکا میں ہر سال مئی کا آخری پیر’’میموریل ڈے‘‘ اُن امریکی فوجیوں کی یاد میں منایا جاتاہے جنھوں نے جانیں وطن کی خاطر قربان کیں۔اس روز وفاقی سطح پر چھٹی ہوتی ہے۔

امسال یہ دن 25مئی کو منایاگیا۔ اُس روز جارج فلائیڈ نامی شخص نے ’کپ فوڈز‘ نامی ایک سٹور  سے کچھ سگریٹ خریدے۔ ان کی قیمت 20 ڈالرز تھی۔ جارج نے رقم ادا کی اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر جابیٹھا ۔ یہ شام آٹھ بجے سے ایک دومنٹ پہلے کا وقت تھا۔

آٹھ بجے ’کپ فوڈز‘سٹور سے دو ملازم  تیزی سے اس کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ  اس نے جعلی کرنسی دی ہے۔جارج فلائیڈ اور دونوں ملازموں میں کچھ تکرار ہوئی۔انھوں نے جارج سے سگریٹس واپس کرنے کو کہا تاہم جارج نے انکار کردیا۔ آٹھ بج کر ایک منٹ  پر ایک ملازم نے پولیس کو فون کردیا کہ

’ایک کسٹمر نے جعلی کرنسی استعمال کی ہے ، وہ شراب کے نشے میں دھت ہے اور اپنے آپ میں بھی نہیں ہے‘۔

آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر پولیس آن پہنچی، ایک پولیس اہلکار ’تھامس کے لین‘  نے جارج پر گن تانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرنے کو کہا۔جارج نے حکم کی تعمیل کی، تھامس نے اسے گاڑی سے باہر نکالااور اسے ہتھکڑی لگادی۔سی سی ٹی وی  اور کسی شخص کی ریکارڈڈ ویڈیو کے مطابق جارج اس لمحے پرسکون تھا اور اس نے پولیس اہلکار کو ’’شکریہ‘‘ بھی کہا۔

آٹھ بج کر تیرہ منٹ پر پولیس افسران نے جارج سے کہا کہ ’’آپ اب زیرحراست ہیں‘‘۔ وہ ان کے ساتھ پولیس کارکی طرف چل پڑا تاہم کار کے نزدیک جاکر وہ گرپڑا۔ پھر اس نے پولیس والوں سے کہا کہ اسے بندجگہ سے خوف کا نفسیاتی عارضہ ہے، اس لئے وہ کار میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اسی اثنا میں دومزید پولیس اہلکار آئے، انھوں نے جارج کو کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہا۔ جارج نے ان سے کہا کہ اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔پولیس اہلکاروں نے اسے اپنی گاڑی میں دھکیلا لیکن وہ بیٹھنا نہیں چاہ رہاتھا۔ اس کے اور پولیس اہلکاروں کے درمیان کشمکش دیکھنے کو ملی۔

اس کے بعد ایک ویڈیو کے مطابق جارج گاڑی سے باہر نیچے سینے کے بل گرا ہوا تھا، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔اس کے بعد ایک ویڈیو میں دیکھاگیا کہ  ڈیریک شوون نامی اہلکار نے اپنا گھٹنا جارج کی گردن پر رکھا ہوا تھا جبکہ دیگر دو پولیس اہلکاروں نے بھی  اس کے باقی جسم پر اپنے گھٹنوںکا دباؤ ڈالاہوا تھا۔ یادرہے کہ مینیسوٹا پولیس افسران کو ’محکمے کی طاقت کے استعمال‘ کی پالیسی کے تحت، مشتبہ شخص کی گردن پر اُس وقت تک گھٹنا ٹیکنے کی اجازت ہے، جب تک سانس کی نالی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

ویڈیوز کے مطابق جارج کی گردن پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے آٹھ منٹ 46 سیکنڈز رہی۔ جارج پانچ منٹ میں16مرتبہ چیخا کہ اس کی سانس رک رہی ہے لیکن پولیس اہلکار نے اس کی ایک نہ سنی، وہ اپنے بائیں گھٹنے سے اس کی گردن کو زیادہ سے زیادہ دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران قریب کھڑے لوگوں نے بھی پولیس کو ایسا کرنے سے منع کیا لیکن ایک پولیس اہلکار نے ان کی طرف بھی گن تان لی۔ جب اس نے گھٹنا اٹھایا تو جارج ساکت ہوچکاتھا۔ یہ ایک ریاستی ادارے کے اہلکاروں کی درندگی کی بدترین مثال تھی۔جارج فلائیڈ کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا، اس کے ہاتھ  ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے، تو اسے ہلاک کرنے کا کیا جواز تھا؟

جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ’مینیاپولس‘، پھر ریاست منی سوٹا اور پھر پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔دوسری طرف ابتدائی طور پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہاگیا کہ جارج نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مزاحمت کی تھی لیکن جب ویڈیوز وائرل ہوئیں کہ جارج کیسے مزاحمت کرسکتاتھا جب کہ اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے تو پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ رات گئے ڈیرک شوون اور دیگر تین پولیس اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کردیا۔ ڈیرک شوون پر قتل کا مقدمہ جبکہ ساتھی پولیس اہلکاروں پر اعانت قتل کا مقدمہ درج کیاگیا۔  اس کے بعد اس عوامی احتجاج ختم ہوناچاہئے تھا لیکن مسئلہ ایک قتل کا نہ تھا  بلکہ سیاہ فاموں کے خلاف مسلسل ہونے والے نسلی امتیاز کا ہے۔

مینی سوٹا کے رہائشی46 سالہ جارج فلائیڈ کے قتل سے پہلے2013 ء سے2019ء تک امریکی پولیس سات ہزار666افراد کو ہلاک کرچکی ہے۔ امریکا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں یہ اس طرح کے واقعات نہ ہوئے ہوں، واضح رہے کہ ان واقعات میں  سیاہ فام باشندے سفید فاموں کی نسبت کئی گنا زیادہ امریکی پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے۔

امریکی سرکاری ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ کیلی فورنیا، ٹیکساس اور  فلوریڈا  میں سیاہ فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔کیلی فورنیا میںچھ برسوں کے دوران میں 186سیاہ فام ہلاک کئے گئے جبکہ ٹیکساس میں157، فلوریڈا میں169، جارجیا میں98، جنوبی کیرولینا میں 38، شمالی کیرولینا میں 77، ورجینیا میں 52، میری لینڈ میں 80، نیوجرسی میں 51، پینسیلیوانیا میں 58، نیویارک میں71، اوہیو میں 80، الیونیوئس میں 96، میسوری میں74، اوکلاہاما میں 52، واشنگٹن میں 25، نواڈا میں 21، آریزونا میں 31، نیومیکسیکو میں 4،کینساس میں 11،آرکنساس میں28،میسیسپی میں41،الاباما میں 52،ٹینیسی میں 41، انڈیانا میں 40، کولوریڈا میں 21، مینیسوٹا میں 17،میسوری میں74، میسسپی میں 41،وسکونسن میں 27،مشیگن میں 42، مغربی ورجینیا میں 10سیاہ فام پولیس کی درندگی کا نشانہ بنے۔ دیگر ریاستوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں وہ کچھ ہورہاہے جس کا کبھی سوچا نہیں گیاتھا۔اس قتل کے خلاف امریکا کے ساڑھے تین سو شہروں میں احتجاج ہونے لگا ۔ اس احتجاج پر قابو پانے کے لئے تادم تحریر23 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو متعین کیاگیا۔بعض ریاستوں میں کرفیو نافذ کیاگیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مظاہرین پہنچ گئے اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ بھاگ کر بنکر میں جاچھپے۔ جس وقت یہ رپورٹ لکھی جارہی ہے، امریکا میں نسلی امتیار کے خلاف مظاہروں کو دوہفتوں سے زائد عرصہ گزرچکاہے۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ  اور ان کی ’ری پبلیکن پارٹی‘ کے بیشتر ارکان کے درمیان واضح اختلافات سامنے آئے۔ ٹرمپ اس احتجاج کو کسی بھی قیمت پر ، ہر اندازمیں کچل ڈالنے کے خواہاں تھے لیکن ان کے پارٹی میں بہت سے لوگوں نے نہ صرف احتجاج کی حمایت کی بلکہ مظاہروں میں شرکت بھی کی۔ بعض ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹرز بھی شامل تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دھمکی دی کہ احتجاج کاسلسلہ نہ تھما تو وہ وفاقی فوج کو ریاستوں میںبھیج کر افراتفری کو کچل دیں گے۔ تاہم امریکا کے وزیر دفاع نے مظاہروں کوکچلنے کے لیے فوج بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ وہ امریکی عوام کے پرامن مظاہرے کرنے کے حق کا تسلیم کرتے ہیں۔انھوں نے امریکی صدر کے بیانات اور اعمال کا دفاع بھی نہ کیا۔گویا انھوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

بحیثیت مجموعی مظاہرے پر امن رہے تاہم کہیںکہیں تشدد اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے۔ مظاہروں میں  تشدد کا عنصر تب شامل ہوا جب پولیس کی طرف سے وحشت اور بربریت کا سلوک کیا گیا۔ امریکی پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر موجود مظاہرین پرکیمیائی گیس پھینکی، مختلف مقامات پرمظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ تشدد کا حربہ اختیار کیا۔ حتیٰ کہ پولیس نے صحافیوں کو بھی نہ بخشا۔ جواب میں مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا، ہاتھا پائی کی،  پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

امریکا کے باہر کی دنیا میں شمالی امریکا، جنوبی امریکا،  یورپ، افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ زمبابوے کی حکومت نے امریکی سفیر کو طلب کیا اور جارج فلائیڈ کے قتل پر وضاحت طلب کی۔ جرمنی کی حکومت نے جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے سبق سیکھا اور اپنے ملک میں نسلی امتیاز کے اثرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں سیاہ فام جہاں بھی ہیں، وہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر رو رہے ہیں، وہ محسوس کررہے ہیں کہ گورے پولیس افسر کا گھٹنا ان کی گردنوں پربھی ہے۔

انھوں نے اپنے مظاہروں کو ’’ہماری گردنوں سے اپنا گھٹنا ہٹاؤ‘‘ کا عنوان دیا۔ دنیا بھر کے سیاہ فاموں کی کامیابی ہے کہ انھوں نے دوسرے رنگ والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا، سفید فاموں نے بھی سیاہ فام کے قتل پر آنسو بہائے۔

سیاہ فاموں کے احتجاج کی موجودہ لہر کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے ۔گزشتہ پوری صدی کے دوران امریکا نے اپنے آپ کو آزادی اور جمہوریت کے علمبردار عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا تاہم جب نسلی امتیاز کی بات آتی ہے تو امریکا تاریخ کی غلط طرف کھڑا نظر آتا ہے۔ مثلاً امریکا نے 80ء کی دہائی تک یورپی نسل پرست نوآبادیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔

ان میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے امریکا میں ریاستی مشینری نے شہری حقوق کا مطالبہ کرنے والے سیاہ فام مظاہرین پر نہ صرف کتے چھوڑے ، انھیں پانی کے حوضوں میں ڈبویا، ان پر ربر کی گولیاں برسائیں بلکہ ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک کیا۔ شہری حقوق کی تحریک کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ اپنی تقاریر میں واضح طور پر پولیس کی بربریت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ اس بربریت کی ساری تصاویر پوری دنیا تک پھیلیں۔

اس کے ردعمل میں امریکا سے باہر سیاہ فام سرگرم ہوئے۔1964ء میں افریقی یونین نے ایک قرارداد منظور کی جس میں امریکا میں نسلی امتیاز کی شدید مذمت کی گئی۔آزاد ہونے والے افریقی ممالک کے بہت سے مسائل تھے لیکن امریکا کے گورے حاکموں نے انھیں مسائل کا شکار رکھا۔ نتیجتاً آزاد افریقی اقوام  نے امریکا، جنوبی افریقا ، زمبابوے اور اقوام امتحدہ میں نسل پرستی کو مسترد کیا۔ افریقی رہنماؤں نے سمجھ لیا کہ عالمی سطح پر سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی کو مسترد کرنے ہی سے کامیابی ملے گی۔

آج تک تاریخ کے ہرموڑ پر ثابت ہوا کہ امریکا میں گوروں کی مطلق العنانیت قائم ہے۔یہاں سیاہ فام آبادی غربت کی جس سطح پر زندگی بسر کررہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر11فیصد امریکی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں، اگر سیاہ فاموں کی طرف  دیکھیں تو وہ27 فیصد غربت کی لکیر کے نیچے دبے ہوئے ہیں، جن میں 38فیصد سیاہ فام بچے بھی شامل ہیں، دوسری طرف بہت سے گورے بچوں کو خبر ہی نہیں ہے کہ غربت کیا ہوتی ہے۔

37فیصد سیاہ فام خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر نہیں ہیں، وہ اکیلی مسلسل عذاب کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔24فیصد سیاہ فام مرد اس قدر غربت کے مارے ہوئے ہیں کہ شادی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میںشادی کے بعد والی زندگی میں ان کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔کس قدر کرب کی بات ہے کہ 65 سال کی عمر سے زائد کے15فیصد مرد اور 20 فیصد عورتیں غربت کی لکیر کی نیچے پڑے کراہ رہی ہیں۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت سیاہ فام باشندے امریکا کی کل آبادی کا15فیصد ہیں یعنی چار کروڑ74 لاکھ ۔ تاہم عام امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ 15فیصد نہیں 33 فیصد ہیں۔ وہ یہ خیال اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ انھیں اپنے اردگرد موجود لوگوں میں اتنے فیصد ہی سیاہ فام نظر آتے ہیں۔شاید گورے امریکی اس لئے فکر مند ہیں کہ سیاہ فاموں کا امریکا کی کل آبادی میں حصہ مسلسل بڑھ رہاہے۔ اگرچہ اس کی رفتار زیادہ تیز نہیں، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ امریکا کے منظرنامے پر گوروں کو حصہ کم ہورہاہے۔

The post جارج فلائیڈ کی زندگی کے آخری 8 منٹ 46 سیکنڈز کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا

$
0
0

(پہلی قسط)

اسلامی جمہوریہ پاکستان، اپنے رقبے اور آبادی کی طرح ثقافتی اور تاریخی ورثے میں بھی بہت منفرد اور تنوع کا حامل ہے جہاں ہر کونے میں نت نئی چیزیں موجود ہیں۔

یہاں کی ثقافت ایک رنگ برنگے گل دستے کی مانند ہے جس میں تمام خِطے اپنا اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔

یہاں شمال میں ٹیکسلا کے اسٹوپے، بدھ خانقاہیں اور گلگت بلتستان کی کُندہ چٹانیں ہیں تو جنوب میں بہاولپور کا صحرا اور محل، مکلی کا قبرستان، رنی کوٹ جیسے قلعے اور مکران کے عجوبے ہیں۔ مشرق میں لاہور جیسا تاریخی شہر اور تھر پارکر کے قدیم جین مندر ہیں تو مغرب میں پشاور کی پرانی حویلیاں و خوب صورت قلعے بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

اس لحاظ سے اس بے مثال ملک کے تاریخی و ثقافتی ورثے کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان علاقوں کے کلچر کو محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں خوب صورت عجائب گھر بنائے گئے ہیں جہاں آثارِقدیمہ اور تاریخی نوادرات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں علم و فنون کے نمونہ جات، وراثتی، ثقافتی، تہذیبی تمدنی اور ارتقا جیسے شعبہ جات کے آثار کا تحفظ کیا گیا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک سیاح کے طور پر میرا یہ ماننا ہے کہ سیاحت اور تاریخ و ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی بھی علاقے کے عجائب گھر کو دیکھے بغیر آپ اس کی بود وباش کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے سفر کہیں کا بھی ہو میں راستے میں آنے والے عجائب گھروں کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔

اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ عجائب گھر لاہور شہر میں موجود ہیں۔ یہاں موجود مختلف سرکاری و نجی عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں پاکستان اور لاہور کی روایتی ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے، سنبھالنے اور لوگوں تک بطریقِ احسن پہنچانے کا کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ پیشِ خدمت ہے پاکستان بھر کے بڑے چھوٹے عجائب گھروں کا تذکرہ، جو طوالت کے باعث یہ تذکرہ قسطوں کی صورت میں شایع کیا جائے گا:

1- عجائب گھر لاہور؛

کہتے ہیں کہ ”جِنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں” ، میں یہ کہوں گا کہ ”جِنے لہور اچ رہ کہ وی لہور میوزیم نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔”

بِلاشبہہ پاکستان کے اس عجائب گھر کو پاکستان کا سب سے زرخیز اور بڑا عجائب گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس کی بنیادوں میں کئی کہانیاں دفن ہیں جنہیں اگر کاغذ پر اتاریں تو ایک ضیغم کتاب بھی کم پڑ جائے۔ اس عجائب گھر نے پاکستان بھر کی تہذیبوں کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ اس کی کئی ایک گیلریوں میں برصغیر کے عروج و زوال کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جو برسوں سے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتی آ رہی ہیں۔ لیکن اس میوزیم کو اچھے سے دیکھ لینا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ اس کی ہر ہر گیلری میں رکھا ایک ایک نمونہ، غور طلب ہے۔ اپنے نوادرات کے حوالے سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔

رڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کے ناول ”کِم” میں بھی اس عجائب گھر کا ذکر کیا گیا ہے۔

یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ اس میوزیم میں گندھارا، مغل اور سکھوں کے دور کے نوادرات موجود ہیں، جن میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے، مجسمے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، شامل ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات، سِکے اور تصاویر ایک قومی اثاثہ ہیں جن کی کہیں کوئی مثال نہیں گئی۔

اس میوزیم میں چند آلات موسیقی کے علاوہ قدیم زیورات، دیدہ زیب روایتی ملبوسات، پیتل ، کانسی اور مختلف دھاتوں کے برتن، چینی کے ظروف اور جنگ و جدل کا سامان بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

اس میوزیم کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہاں دیگر ممالک سے لائے گئے نوادرات اور تحفے بھی رکھے گئے ہیں جن میں برما، بھوٹان، نیپال، تبت (چین)، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان چیزوں نے اس عجائب گھر کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ یہاں کی گندھارا گیلری کی بات کریں تو پشاور کے بعد لاہور میوزیم میں گندھارا سلطنت کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جس میں سِکری، جمال گڑھی سے لایا گیا وہ خوب صورت اسٹوپا بھی شامل ہے جو ہال کے وسط میں رکھا گیا ہے۔ یہاں روکھڑی (میانوالی) اور اکھنور (جموں) سے لائے گئے بدھا کے مجسموں کے سر، مختلف حالتوں میں گوتم بدھا کے مختلف مجسمے، قیمتی اور منفرد روزہ کی حالت میں موجود بدھا اور پتھر پر کُندہ مختلف درباری مناظر جیسے شاہ کار بھی رکھے گئے ہیں۔

بات کریں دریائے سندھ کی قدیم تہذیبوں کی تو اس گیلری میں وادی سون، ہڑپہ، موہنجودڑو اور مہر گڑھ سے دریافت کیے گئے شاہ کاروں کو جگہ دی گئی ہے۔ مٹی سے بنے چھوٹے پتھر، سکے، زیورات، پانسے، چھکڑے اور کھلونے شامل ہیں۔

منی ایچر تصاویر کی گیلری میں برصغیر کی سب سے بڑی کلیکشن موجود ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں اکٹھی کی گئی۔ اس میں تقریباً ایک ہزار چھوٹی تصاویر شامل ہیں جو سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کی ہیں۔ ان میں فارسی، مغل اور راجپوت کلیکشن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔لاہور میوزیم کی قیام پاکستان گیلری آپ کو کئی برس پیچھے لے جاتی ہے اور مختلف تصاویر اور اخباری تراشوں کے ذریعے آپ کو پاکستان کے قیام کی کہانی یوں سناتی ہے جیسے آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہوں۔ بلاشبہہ یہاں رکھی گئی کئی تحریریں اور تصویریں آپ کو رلانے کے لیے کافی ہیں۔

میوزیم کی سکہ جاتی گیلری برصغیر کی سب سے بڑی گیلری مانی جاتی ہے جس میں لگ بھگ چالیس ہزار سِکے شامل ہیں۔ یہاں ساتویں صدی قبل از مسیح سے لے کر برصغیر پر حکم رانی کرنے والے تمام خاندانوں کے دور کے سکے شام ہیں جو یقیناً کسی خزانے سے کم نہیں۔

ان کے علاوہ سکھ گیلری، مختلف ثقافتی گیلریاں، تحریک پاکستان گیلری اور ڈاک ٹکٹ گیلری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پنچ مندری کپورتھلہ کا ماڈل، اشوک چکرا، برما کا سنہری بُدھا، ملکہ وکٹوریہ کا دھاتی مجسمہ، مینار پاکستان کا ماڈل، بدھا کی تصاویر والا ہاتھی دانت، گولڈن ٹیمپل امرتسر اور بادشاہی مسجد لاہور کے ماڈل، اسٹوپے اور صوبائی ثقافتی گیلریاں یہاں کی منفرد ترین چیزیں ہیں جو لازمی دیکھنی چاہییں۔ لاہور میوزیم کو جتنا بھی بیان کیا جائے اتنا کم ہے، یہ سب آپ خود جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہی مزہ آئے گا۔

2- نیشنل میوزیم آف پاکستان؛

قومی عجائب گھر پاکستان، کراچی کے ریڈزون میں واقع آثار قدیمہ بالخصوص گندھارا تہذیب کے نادر و نایاب ذخیرے کا حامل عجائب گھر ہے۔

اس میوزیم کو اپریل 1950 میں کراچی کے فریئر ہال میں قائم کیا گیا تھا جو اپنے آپ میں ایک تاریخی عمارت تھی۔ اس میوزیم کو 1970 میں اس کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا تھا۔ تب یہاں صرف چار گیلریز ہوا کرتی تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ کر گیارہ ہو گئیں۔ یہاں کی سب سے منفرد گیلری قرآن گیلری ہے جس میں قرآن شریف کی 300 کاپیاں رکھی گئی ہیں ان میں 52 ایسے نسخے بھی شامل ہیں جو بہت نایاب ہیں۔

دیگر گیلریز میں وادی مہران کی تہذیب، گندھارا کی تہذیب، اسلامی آرٹ، مصوری کے شاہ کار، قدیم سِکے اور ریاستِ پاکستان کی اہم دستاویز رکھی گئی ہیں۔ میوزیم میں مجسموں کی ایک کثیر تعداد دیکھی جا سکتی ہے جن میں موہنجودڑو سے نکلنے والے قدیم مجسمے، بُدھ بھکشوؤں کے مجسمے، ہندو دھرم کے بھگوان وشنو، سرسوتی، لکشمی اور درگا دیوی کے مجسمے شامل ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کا قلم، بٹن اور تلوار، علامہ محمد اقبال کی ذاتی کرسی اور قلم جبکہ لیاقت علی خان کے عطر کی شیشی، گھڑی اور چھڑی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔

قومی میوزیم میں لگ بھگ اٹھاون ہزار سکے موجود ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میں کچھ سکے سن 74 ہجری کے بھی ہیں۔ ہر سال قومی دنوں کے موقعوں پر یہاں نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس کو متوجہ کرتی ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام آثارقدیمہ میں نہایت کم دل چسپی لیتے ہیں۔ اسی باعث یہاں اسکول طالب علموں کے مطالعاتی دورے ہی زیادہ منعقد ہوتے ہیں۔ ایک حساس علاقے میں واقع ہونے کے باعث یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی نگرانی کے باعث کراچی کے عام شہری عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے۔

3- گندھارا میوزیم ٹیکسلا؛

اگر آپ پاکستان میں رہ کر ایک منفرد اور اچھوتی تہذیب کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں ٹٰیکسلا میوزیم کا چکر لگائیں۔ اس عجائب گھر کی عمارت سے ہی آپ کو اس کی جدت اور انفرادیت کا اندازہ ہو جائے گا۔

ٹیکسلا میوزیم کو اگر گندھارا تاریخ کا گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ یہاں بدھ مت اور اس سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جو اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں سے دریافت کی گئی ہیں۔ یہ ایک سائٹ میوزیم ہے جس کے اطراف میں بھی کافی اہم اور قدیم مندر اور اسٹوپے واقع ہیں جو آپ بہ آسانی پیدل چل کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میوزیم کا سنگِ بنیاد 1918 میں اس وقت کے وائسرائے ہند، لارڈ چیمس فورڈ نے رکھا تھا جب کہ اس کی تعمیر 1928 میں جا کر مکمل ہوئی، جب کہ ایک گیلری کا اضافہ 1998 میں کیا گیا۔

میوزیم میں سجائے گئے تمام نوادرات ٹیکسلا کی وادی سے کھدائی کے دوران حاصل کیے گئے ہیں۔ میوزیم میں تین بڑے ہال ہیں مرکزی ہال نسبتاً بڑا ہے۔ اس ہال میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے بھی ہیں اور اس ہال کے وسط میں ’’موہڑہ مراد‘‘ میں دریافت ہونے والے ایک اسٹوپہ کی نقل رکھی گئی ہے۔ یہ ہال پتھر پر تراشیدہ بتوں اور پتھروں سے بنی ہوئی دیگر اشیا پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی ہال میں متفرق اشیاء جن میں لوہے، تانبے اور پتھروں سے بنائی گئی اشیاء اور آگ میں بنے ہوئے مٹی کے برتن ا ور کھلونوں کی نمائش کی گئی ہے۔ مرکزی ہال کے دو کمروں میں سکے، چاندی کے برتن اور زیورات رکھے گئے ہیں۔ دوسرے کمرے میں سونے کے زیورات ہیں۔

اس عجائب گھر کے خزانے میں تقریباً 4000 کے قریب نوادرات شامل ہیں جن میں مختلف اقسام کے پتھر، بدھا کے مجسمے، دھات کے زیورات تعمیراتی سامان جیسے ترتیب وار دیواروں کے پتھر، برتن اور اسٹوپے وغیرہ شامل ہیں۔ اس ایک عجائب گھر میں آپ بدھ مت، جین مت اور ہندو مت سے متعلق اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ ٹیکسلا کا میوزیم سیاحوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے مفید معلومات کا ایک خزانہ ہے۔

4- ایبٹ میوزیم ایبٹ آباد؛

ہزارہ کا علاقہ خیبر پختونخواہ کے باقی علاقوں سے مختلف ثقافت رکھتا ہے۔ یہاں زبان سمیت بہت سی چیزیں ایسی ہی جو آپ کو مختلف نظر آئیں گی۔ اس ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں ایک میوزیم کی شدید ضرورت تھی جو ایبٹ میوزیم کے صورت میں پوری ہوئی۔ اسے ہزارہ یونیورسٹی کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا میوزیم ہے جہاں آپ ہزارہ کی پرنی ثقافت اور رہن سہن سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ اس خوب صورت عمارت میں فرنیچر، اسلحہ، برتنوں، سکوں اور تلواروں کے علاوہ کچھ پرانی تصاویر اور پینٹنگز بھی رکھی گئی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اس میوزیم پر خاص توجہ دے کیوںکہ اس میوزیم کو تھوڑی سی توجہ اور کوشش کے ساتھ ایک اچھے اور بڑے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

5- چترال میوزیم؛

ہندوکش کے دامن میں آباد چترال شہر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے بلکہ ایک منفرد ثقافت اور رسم ر رواج کا حامل خطہ ہے۔ چترال کی اسی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں 2010 میں ایک عجائب گھر بنایا گیا۔

یہاں دو گیلریں ہیں ایک آثارقدیمہ اور کالاش سے متعلق جب کہ دوسری چترالی تہذیب و تمدن سے متعلق۔ پہلی گیلری میں کیلاش ثقافت کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں ان کے پہناوے، برتن اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گندھارا کی کھدائیوں سے دریافت شدہ برتن، زیور اور آلاتِ جنگ بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔ دوسری گیلری میں چترال کا کلچر دکھایا گیا ہے جس میں اس علاقے کے زیورات، ہتھیار، برتن، شکار کے اوزار، آلاتِ موسیقی، فرنیچر اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ مٹی اور لکڑی سے بنے مختلف قسم کے برتن اس میوزیم کی خاصیت ہیں۔ تھوڑی سی حکومتی توجہ سے اس میوزیم کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

6- موہنجودڑو میوزیم؛

موجودہ صوبہ سندھ کے شمال مغرب میں واقع وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز، موہنجودڑو لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

اس قدیم شہرِ بے مثال سے دریافت شدہ خزانے کو یہاں موہنجو دڑو میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ موہنجو دڑو کے قدیم شہر اور یہاں کے ٹیلوں سے ملنے والی تمام مہریں، مجسمے، برتن، مورتیاں، منکے، زیورات جن میں مٹی کی چوڑیاں، گنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ شامل ہیں، پرندوں کی شکل کی مٹی کی سیٹیاں، مٹی کے گول جھنجنے، ترازو اور مختلف باٹ، نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں، مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے، رتھ اور چھکڑے، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے اور مٹی کے چوہے دان تک شامل ہیں۔ان کے علاوہ بازو بند، کانسی اور تانبے سرمچو، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بھی اس خزانے کا حصہ ہیں۔

دو منزلہ سادہ اینٹوں سے بنے اس میوزیم کے دیواروں پر مختلف جانوروں کی دلکش تصاویر بنائی گئی ہیں جو پہلی ہی جھلک میں دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ یہ میوزیم ایک نہایت گرم علاقے میں واقع ہے اس لیے قدیم اور نازک نوادرات کی حفاظت کے پیز نظر اس کی عمارت کو سادہ رکھا گیا ہے۔ اس کی دیواریں بھی بغیر چونے اور رنگ کے سادہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ موسمی سختی سے نبرد آزما ہونے کے لیے اوپری منزل کے فرش کی دو تہیں بچھائی گئی ہیں۔ اوپری منزل پر تمام چھوٹی اشیاء رکھی گئی ہیں جبکہ زمینی منزل کو نقسوں، تصویروں اور بڑی چیزوں کے لیے کُھلا رکھا گیا ہے۔

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

بنگلادیش کا قیام اور اقوام متحدہ

$
0
0

( قسط نمبر17)

25اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا یا تو اس کے 51 بنیادی اراکین تھے جن میں سے کئی اُس وقت تک نو آبادیا تی نظام سے آزاد نہیں ہو ئے تھے لیکن اقوام متحدہ کے چارٹر اور بعدازاں ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے بعد یہ طے پا یا کہ اب نو آبادیا تی نظام کو مرحلہ وار ختم کر دیا جا ئے۔ جو  ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی منظوری سے آزاد ہو نگے اِن کی آزادی کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ اقوام متحدہ کے رکن بھی بن جا ئیں گے۔

اس طرح عالمی برادری پر ایسے آزاد اور اقوام متحدہ کے رکن ملک کی آزادی کا احترم بھی لازم ہو گا۔ اقوام متحدہ کے 51 بنیادی رکن ملکوں میں یوںتو اور بھی نو آبادیاتی ملک رکن تھے لیکن یہاں رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دو اہم خطوں کا ذکر ضروری ہے جن میں ایک برصغیر اور دوسرا چین جس کے علاقے تائیوان، مکاؤ، اور ہانگ کانگ نوآبادیاتی تسلط میں تھے۔

1945 میں اقوام متحدہ کی تشکیل پر بر طانیہ امریکہ ، فرانس نے آج کے تائیوان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کو پورے چین کی حکومت تصور کرتے ہوئے جمہوریہ چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت کے ساتھ سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور دیا تھا جس میں اِ ن چاورں قوتوں کے علاوہ سوویت یونین بھی ویٹو پاور رکھتا تھا۔ برصغیر کو 1945 ہی میں انڈیا کے نام سے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل تھی۔

تقسیم کے بعد بھارت کی وہی رکنیت تسلیم کر لی گئی جب کہ پاکستان کو 1947 میں پانچوں قوتوں نے تسلیم کرتے ہو ئے اقوام متحدہ کی رکنیت دی۔ اُس وقت آج کے عوامی جمہوریہ چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں کروڑوں چینی باشندے چین کی آزادی و خود مختاری کی جنگ لڑے رہے تھے۔ یہ جنگ چینی قوم نے مادر وطن کی آزادی اور سیاسی اور اقتصادی کیمو نسٹ نظریات کی بنیاد پر بے جگری سے لڑی اور آخر یکم اکتوبر 1949 میں چین مین لینڈکی بنیاد پر اپنے وسیع و عریض خطے کے طور پر آزاد ہو گیا۔

چینی قوم ونسل اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر چین کا دعویٰ تائیوان ، مکاؤ ،اور ہانگ کانگ پر بھی تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے بر عکس اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی کے بہت سے اراکین جو مغربی اتحاد میں شامل تھے چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اسی طرح سیکیورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں میں سے سوویت یو نین کے علاوہ باقی چاروں مستقل ممبران بھی عوامی جمہوریہ چین کے خلاف تھے۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد بر طانیہ نے مر احلہ وار برصغیر میں جمہوریت کو متعا رف کرایا۔ جمہوری عمل کے آغاز پر ایک انگریز مسٹر ہیوم نے 1885 میں آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی تھی۔ اُس وقت ہی سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو اس سیاسی جماعت سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ شروع ہی سے ہند وستان میں مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے دوسری اکثریت قرار دیتے ہوئے پوری قومی شناخت کے ساتھ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ہر شعبہء  ِزندگی میں اِن کا حق دلانا چاہتے تھے۔

1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی 23 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت دنیا کی کل آبادی کا 20% تھی اور اُس وقت مشترکہ صوبہ بنگال کی آبادی 7 کروڑ 85 لاکھ تھی جو پورے ہند وستان کی آبادی کا تقریباً 34% بنتی تھی۔ وائسرائے لارڈ کرزن نے 1905 میںوسیع رقبے اور بڑی آبادی کے انتظام کو بہتر کرنے کے لیے بنگال کو دو صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ مغربی بنگال جو ،اب بھی کولکتہ شہر کے ساتھ بھارت کے پاس ہے اور مشرقی بنگال جو 1947 سے1971 تک مشرقی پاکستان تھا اور اس کے بعد اب بنگلادیش ہے۔

اس تقسیم سے مشرقی بنگال کی مسلم اکثریتی آبادی کو فائدہ تھا، جس پر کانگریس نے شدید احتجاج کیا جس نے پہلی بار مسلمانوں کو اپنے مذہبی ،سماجی اقتصادی سیاسی تحفظ کے لیے سوچنے پر مجبور کیا اور ردعمل کے نتیجے میں بنگال میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہو ئی۔ 1911 تک کانگریس کا احتجاج ا نتہا کو پہنچ گیا اور ساتھ ہی جنگ ِ عظیم اوّل کے آثار واضح ہونے لگے تو انگریز سرکار نے مصلحت سے کام لیتے ہو ئے تنسیخ تقسیم بنگال کا اعلان کر دیا۔

پہلی جنگِ عظیم کے دوران 1916 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی کوشش سے لکھنو میں کانگریس اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ہو ئے اور اں دونوں جماعتوں کے درمیان ہندوستان کی مشترکہ آزادی کے لیے میثاق لکھنو طے پا گیا۔  قائد اعظم نے متحدہ ہندستان کی آزادی کے حوا لے سے سمجھایا کہ ہندوستان میں بر طانیہ جیسی جمہوریت ضروری ہے مگر جہاں تک تعلق آئین کا ہے جو کسی بھی ملک کی جمہوریت کی بنیاد ہو تی ہے وہ آئین اُس ملک کی سماجی  ثقافتی، تہذیبی ،مذہبی،سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کی صحیح عکاسی کرتا ہو تو جمہوریت مستحکم رہتی ہے۔

ہند ستان میں د نیا کی کل آبادی کا بیس فیصد آباد ہے اور اس آبادی میں سے 30% مسلمان ہیں اس لیے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان میں اُ ن کی سماجی ثقافتی تہذیبی مذہبی شناخت قائم رہے اور زندگی کے ہر شعبے میں مسلم آبادی کے تناسب سے اُ ن کو اُن کا حصہ دیا جائے، اس بنیاد پر جداگانہ طریقہ انتخاب سمیت باقی نکات کانگریس نے تسلیم کر لیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر کانگریس اپنے اِس عہد پر قائم رہتی تو آبادی اور وسائل کے اعتبار سے دنیا کا امیر ترین ملک ہندستان تقسیم نہ ہوتا۔  کانگریس نے 1928 میں بغیر کسی مشورے کے یک طرفہ طور پر نہرو رپورٹ جاری کر کے میثاق لکھنو کو مسترد کر دیا۔

1929 میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں ایک بار پھر کوشش کی مگر کانگریس نے ہندو اکثریت کو ہی ہند ستان کے معاملات طے کر نے اور جمہوریت اور ہندوستان کے آئیندہ آئین کی بنیاد قرار دیا۔ جب 1935 کا قانون آیا تو اس میں انگریز نے جداگانہ انتخاب کے طریقے سمیت قائد اعظم کے کچھ نکات کو آئینی طور پر تسلیم کر لیامگر 1937 کے صوبائی سطح کے انتخابات میں کانگریس کی زبردست کامیابی اور مسلم لیگ کی ناکامی نے کانگریس کو غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ ہندوستان کے مسلمان برطانوی طرز کی جمہوریت کے لیے اپنی مذہبی،ثقافتی اورتہذیبی شناخت سے دستبردار ہو سکتے ہیں اور پھر جب کانگریس نے 1937 میں اقتدار میں آنے کے بعد ایسے اقدمات کئے جس سے ہند وستان میں مسلمانوں کی شناخت اور مفادات متاثر ہوئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے کانگریس کو مسترد کر دیا۔

یوں ان حالات کے نتیجے میں 1947 میں  برصغیر تقسیم ہو گیا۔ مشرقی (اب بنگلادیش) اور مغربی پا کستان کے درمیان تقریباً 2000 کلو میٹر کا خشکی کا فاصلہ بھارت کا علاقہ تھا۔ پاکستان نہ صرف نظریہ پاکستان کے لحاظ سے دنیا کا ایک نیا اور سیاسی اعتبار سے منفرد ملک تھا بلکہ اسی دوقومی نظریے کے تحت اپنے جغرافیائی نقشے کے لحاظ سے بھی دنیا میں منفرد تھا۔ 1951میںملک پہلی مردم شماری ہوئی جس کے مطابق اُس وقت پا کستان کی کل آبادی7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ اور مغربی پا کستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔

مغربی پاکستان میں ہند و سکھ اقلیت کا تناسب تقریباً2% اور مشرقی پاکستان میں یہ تناسب22% تھا۔ بھارت میں پنڈت جو اہر لال نہرو نے بھارتی نیشنل ازم کی بنیاد پر جمہوری سیکولر سیاسی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت اور پا کستان دونوں کے استحکا م کے لیے اِن کے نظریات بنیادی طور پر نہایت ضروری تھے۔ بھارت آزادی کے بعد 1951 کی مردم شماری کی بنیادپر84.1% ہند و 9.8% مسلم آبادی کے ساتھ دنیا میں ہندو اکثریت آبادی کا سب سے بڑا اور واحد ملک تھا، مگر ساتھ ہی وہ دنیا کا ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رہتی ہے۔

2011 کی مردم شماری میں بھارت میں مسلم آ بادی کا تناسب 14.23 فیصد ہو گیا ہے اور بھارت کی اس بنیاد پر کوشش رہی ہے کہ اُسے اُوآئی سی کی رکنیت مل جا ئے اسی طرح 1947 سے لیکر 1971 تک پا کستان بھارت کے بعد دنیا کا وہ ملک تھا جہاں سب سے زیادہ بڑی اقلیت ہندو آبادی کی تھی جس میں سے تقریباً88 لاکھ ہندو بنگالی، بنگلادیش میں آباد تھے جب کہ مغربی پاکستان میں ہندوں کی کل تعداد 1951 میں تقریباً چھ لاکھ تھی۔

بد قسمتی سے نہ تو پاکستان اپنے دوقومی نظریہ پر اسلا م کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق دیانتداری عدل و انصاف جمہوریت کی بنیاد پر عملدر آمد کر سکا اور نہ ہی بھارت سیکولر ازم پر قائم رہا۔ آزاد ی کے فوری بعد 30 جون 1948 کو ،آر ایس ایس ، راشٹریہ سوئم سیوک سنگ کے ایک انتہا پسند ہندو نتھو رام گوڈسے  نے گاندھی جی کو قتل کر دیا اوراس کے دو ماہ گیارہ د ن بعد قائد اعظم کا بھی انتقال ہو گیا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے قومی اور بین الا قوامی سطح پر کمال ہو شیاری سے سیاسی پینترے بدلے اور بھارت کی بنیاد پر اپنے سیکولرازم اور عالمی سطح پر غیر جانبداری کا کامیاب پر وپگنڈہ کیا تو دوسری جانب زبان، خارجہ پالیسی، سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں پاکستان کی شرکت پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ختلافات پیدا ہوئے۔

1954 میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں یو نائٹڈ فر نٹ،،جتو فرنٹ ،،نے مسلم لیگ کو شکست دی اس سیاسی اتحاد کی قیادت مولانا بھاشانی ، حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل نے کی تھی مگر وزیراعلیٰ فضل الحق کی صوبائی حکومت کو گور نر جنرل غلام محمد نے چند مہینوں میں ختم کر کے گورنر راج نافذ کردیا۔

پا کستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع پہلے دن سے موجود تھا۔ پہلی پاک بھارت جنگ 1948 میں کشمیر پر ہی ہوئی تھی اور جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نہرو خود اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل گئے اور اس کی قرار دادوں کو تسلیم کیا  جس میں کشمیر کا حل استصواب رائے کی بنیاد پر ہونا طے پایا تھا۔ 1965 کی پا ک بھارت جنگ بھی بنیادی طور پر کشمیر کے مسئلے پر ہی ہو ئی تھی جس میں بھارت کی شکست کے بعد بھارت اور کچھ عالمی قوتوں نے یہ حکمت عملی اپنا ئی کہ مشرقی پا کستان میں حالات بگاڑے جائیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اِن حالات کو اُس وقت کے عالمی تناظر میں نہیں سمجھا گیا۔

جنرل ایوب خان کے رخصت ہو نے کے بعد صدر جنرل یحٰی خان نے مارشل لا نا فذ کر کے 1970 میں اپنے ایل ایف او کے تحت انتخابات کروائے جس میں ایک شرط یہ تھی کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے بعد تین مہینے کے اندر اندر ملک کا نیا آئین بنا نا ہو گا۔ بصورت دیگر اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔ انتخابات سے قبل صدر کو بتایا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے بائیں بازو کی جماعتیں زیادہ سے زیادہ 37 نشستیں حاصل کر سکیں گی لیکن نتائج ان اندازوں کے بالکل بر عکس رہے۔

الیکشن میں مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں کے لیے 876 کا غذات نامزدگی جمع کر ائے گئے اور مغربی پا کستان سے قومی اسمبلی 138 نشستوں کے لیے 1070 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے پیپلز پارٹی نے 120 امیدوار مغربی پاکستان سے کھڑے کئے جن میں سے 103 صرف پنجاب سے کھڑے کئے تھے جماعت اسلامی نے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں151 امیدوار مسلم لیگ کنونشنل نے 124 مسلم لیگ کو نسل نے119 مسلم قیوم نے 133 کھڑے کئے تھے مولا نا بھاشانی انتخابات سے قبل شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے حق میں اپنی پارٹی سمیت دستبردار ہو گئے۔

انتخابات کے نتائج تمام پیش گوئیوں سے مختلف تھے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 162 نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پا کستان کی 138 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی 81 نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ جماعت اسلامی نے 4، کونسل مسلم لیگ2، مسلم لیگ قیوم 9، جمعیت علما اسلام جمعیت علما پاکستان اور کنونشنل مسلم لیگ سا ت سات نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی 6 اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی ایک نشست حاصل کر سکی اور 16 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

اب مسئلہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا تھا اور شیخ مجیب الرحمن یہ واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ وہ اپنے چھ نکات پر مبنی آئین بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کا موقف تھا کہ عوامی لیگ اپنے چھ نکات میں سے امور خارجہ ، کرنسی ، اور دفاع کے امور کو پوری طرح وفاق کے سپرد کرئے اور یہ  کہ آئین چونکہ پورے ملک کے لیے اور طویل مدت کے لیے ہے، اگر آج عوامی لیگ کامیاب ہو ئی ہے کل کو ئی اور جماعت کامیاب ہو گی، پھر ملک کے دوسرے حصے یعنی مغربی پاکستان کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے اس لیے آئین سازی کے عمل میں اُس کی یہ بات تسلیم کی جائے یا پھر ایل ایف او کی آئین سازی سے متعلق شرائط ختم کی جائیں۔

یوں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر ہو تی گئی۔ اسی زمانے میں چین کے سرحدی تنازعا ت سویت یونین سے بڑھ گئے تھے اور جھڑپیں بھی ہو ئیں تھیں جب کہ 1962 میں چین بھارت جنگ ہوئی تھی۔ جولائی1971 میں جب مشرقی پاکستان میں بھارت عوامی لیگ اور اس کے عسکری ونگ مکتی باہنی کے ذریعے پُرتشدد کا روئیاں شروع کرا چکا تھا تو پاکستان نے امریکہ اور چین تعلقات کے قیام میں اہم کر دار ادا کر تے ہو ئے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجر کا خٖفیہ دورہ چین، پاکستان سے کر وایا جو خفیہ نہ رہ سکا اور سوویت یونین کو ہنری کسنجر کے چین کے دورے کی خبر ہو گئی۔

سوویت یونین کو یہ خوف لا حق ہوا کہ امریکی اور چینی سوویت یونین کے خلاف متحد ہو رہے ہیں یوں سویت یونین نے بھارت کے ساتھ فوراً دفاعی معاہد ہ کر لیا جس میں یہ کہا گیا کہ بھارت یا سوویت یونین میں سے اگر کسی ایک ملک پر کو ئی تیسر املک حملہ کر ئے گا تو یہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جا ئے گا۔ اس کے بعد حالات مزید بگڑتے گئے اور پھر مشرقی پا کستان میں مکتی باہنی کے خلاف فوجی ایکشن ہوا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مشرقی پاکستانی بھارتی ایما پر بھارت چلے گئے۔ بھارت نے ان لوگوں کو مہا جرین  بتاتے ہو ئے مشرقی اور مغربی پا کستان دونوں حصوں پر بھر پور فوجی قوت سے حملہ کر دیا۔

یہ جنگ 16 دسمبر1971 کو پاکستان کی فوج کے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پر ختم ہو گئے۔ 20 دسمبرکو مغربی پاکستان میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں سقوطِ ڈھاکہ کے اعتبار سے بہت سی باتیں ہو ئیں حمود الرحمن کمیشن کے کچھ حصے بھی سامنے آئے یہ حقیقت ہے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں جہاں 1948 سے لیکر 1971 تک پاکستان کے حکمرانوں کی غلطیاں تھیں بلکہ اِن میں شامل بعض افراد اس عالمی سازش میں بھی ملوث تھے وہاں الیکشن 1970 میں کاغذاتِ نامزدگیوں سے لے کر نتائج تک بہت سی باتیں شکوک پیدا کرتی ہیں، امریکہ، بر طانیہ، فرانس کا پاکستان کے موقف کا ساتھ نہ دینا ،عوامی لیگ کا پوری طرح مشرقی پاکستان سے جیتنا اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مشرقی پا کستان سے کو ئی ایک امیدوار کھڑا نہ کرنے سے امریکہ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ مغربی پا کستان کو ساتھ مشرقی پاکستان سے کوئی مفاد نہیں۔ لہذٰا اُس نے مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے خلاف کو ئی عملی اقدام نہیں کیا۔

جبکہ اس کے مقابلے میں سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہد ہ کر لیا اور بھارت اپنی نام نہاد غیرجانبدارانہ پوزیشن کو چھوڑ کر اس معاہدے میں شامل ہوا۔ پھر  16 دسمبر1971 میں پاکستان کی شکست کے فوراً بعد اسی معاہدے میں بنگلادیش کو بھی شامل کر لیا گیا۔ جولائی 1970 میں پا کستان سے ہنری کسنجر کے دورے کے بعد امریکی صدر نکسن نے چین کا دورہ کیا تھا اور پھر کامیاب مذاکرات کے بعد جمہوریہ چین یعنی تائیوان کی جگہ چین کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور مل گیا تھا اس کی وجہ سے پاکستان اس پوزیشن میںآگیا تھا کہ جب تک پاکستان چین کو کہتا اُس وقت تک چین بنگلادیش کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کرتا رہتا۔

1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہو ئی اس جنگ میں ماضی کے مقابلے میں سوویت یونین نے مصر شام وغیرہ کی1967 کے مقابلے میںقدرے بہتر انداز میں مدد کی۔ روسی سام میزائل مصر نے استعمال کئے اور جنگ میں اگرچہ اسرائیل کو شکست تو نہیں ہو ئی لیکن فتح بھی نصیب نہیں,ہوئی۔

اس جنگ کے بعد پاکستان میں او آئی سی ملکوں کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ جس سے عالمی سطح پر ملکی وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی وجہ سے جب تیل پیدا کر نے والے عرب ملکوں میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لیے گئے اور وہاں سے اپنے گھروں کو پیسے بھیجنے لگے تو پاکستان کے پاس زرِ مبادلہ کا ایک مستقل پا ئدار اور بڑا ذریعہ آگیا اور ملک مالی اقتصادی طور پر بھی آزاد و خو د مختار ہو گیا۔ پاکستان نے شملہ معاہدے میں شکست کے باوجود نہ صرف جنگی قیدیوں کی رہائی اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ خالی کروایا بلکہ مسئلہ کشمیر کو بھی حل طلب مسئلے کے طور پر زندہ رکھا اور اِن تمام معاملات کے بعد 1974 میں بنگلادیش کو اقوام متحدہ کا رکن بننے دیا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم نے 16 دسمبر1971 کو یہ کہا تھا کہ اُنہوں نے دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا، لیکن دو قومی نظریہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت میں آج بھی مو جود ہے۔ نریندر مودی سرکاری کی  پالیسیوں سے یہ بالکل واضح ہو گیا ہے اور اس کا  اعتراف اب خود کانگریس کر رہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بھارت نے ہمیشہ ہر نظریے فلسفے کی اپنے طور پر ہی تشریح کی ہے بھارت کا سیکولر ازم اب دنیا کے سامنے ہے۔

1905 میں جب تقسیم بنگال ہو ئی تھی تو کانگریس نے بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کی مخالفت کی تھی پھر جب انگر یز نے بنگال بہار اور آسام کو ایک یونٹ، مرکزی ہند وستان کو دوسرا یونٹ اور پنجاب ، کے پی کے ، سندھ اور بلو چستان کو تیسرا یو نٹ بنا نے کا منصوبہ پیش کیا تھا تو اُس کی مخالفت کی گئی تھی۔ 1941 کی مردم شماری میں بنگال کی آبادی  60306525 تھی جس میں 54% کے تناسب سے مسلمانوں کی تعداد33005434 تھی اور اس بنیاد پر یکم اپریل 1937 سے29 مارچ1943 تک شیر بنگال فضل حق مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔

اِن کے بعد 1943 سے 1945 خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے اور پھر 1945 سے14 اگست1947 تک حسین شہید سہر وردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ وہ بنگال کی تقسیم نہیں چاہتے تھے مگر کانگریس کو اب بنگالی نیشنل ازم نظر نہیں آیا اور نہ صرف بنگال کی تقسیم پر زور دیا بلکہ ریڈ کلف ایوارڈ میں کلکتہ شہر کے دفاع کے لیے سو کلو میٹر سے زیادہ علاقہ بھی لیا۔ اگر واقعی اندرا گاند ھی نے دو قومی نظریہ سمندر میں پھینک دیا تھا تو اپنے مغربی بنگال کو بنگلادیش میں ضم کر کے بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر دو بارہ ایک بنگال بنادیتے اور اگر اس میں بھارت کی سالمیت کا مسئلہ تھا تو تقسیم ہند سے قبل کی طرح یہاں مسلمان وزیراعظم کی بنیاد پر اسے بھارت کا ہی صوبہ قرار دے دیتیں، لیکن یہ دو قومی نظریہ تھا، اور ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکیں۔

اندرا گاندھی کو مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے سے سیاسی فائد ہ تو ہو ا، کیونکہ اندرا گاندھی نے پاکستان شکست دی تھی اس لیے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور کانگریس نے آئندہ کے لیے اپنا ووت بنک مضبوط کر لیا۔  مگر اس کا مستقل نقصان مستقبل میں پورے خطے اور خصوصاً بھارت کو کہیں زیادہ ہوا، وہ اس لیے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کر کے بنگلادیش کے نام سے آزاد و خود مختار ملک بنانے کی مثال قائم کردی گئی اور یہ مثال جنوبی ایشیا کے خطے میں قائم کی گئی ہے جہاں ہر ملک میں کئی نسلیں ، قومیں قومیتیں ،کئی کئی لسانی گروپ ،مذاہب فرقے اورقبائل صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ آباد ہیں۔

اندرا گاندھی نے ایک منفی مثال قائم کردی۔ پھر خالصتان تحریک جس میں سکھ پنجاب کو آزاد اور خود مختار بنانا چاہتے تھے اس کو جب اندار گاندھی نے جبراً ختم کرنے کی کو شش کرتے ہوئے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر فوجی آپریشن کیا تو اس کے نتیجے میں سکھ محافظوں نے ہی اندرا گاندھی کو قتل کر دیا۔ اسی طرح تامل مسئلے پر اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بھی جان سے  گئے اور اس کے بعد سے ناگا لینڈ پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھارت سے علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ گئیں کیونکہ اب اَن کے سامنے بنگلادیش کی مثال بھی ہے۔

پاکستان کی یکجہتی کے لیے اگر مرکزی نقطہ دینِ اسلام ہے تو بھارت کی سالمیت کے لیے اُتنا ہی ضروری اُس کا سیکولر ازم ہے جس سے اب بھارت مکمل انحراف کر رہا ہے۔ یوں بھارت کا معاشرتی سماجی تنوع اب معاشرتی سماجی تضادات میں تبدیل ہوکر شدت اختیار کرتا ہوا تصادم تک جا پہنچا ہے۔

1971 میں پاک بھارت جنگ کے بعد بنگلادیش کے آئین کو سیکولر بنا یا گیا تھا مگر اُس وقت یہ برائے نام سیکولر تھا پھر جب شیخ مجیب الرحمن قتل کر دئے گئے تو اس کے بعد ضیاالرحمن اور خالدہ ضیا کے دور میں بھی سیکولر ازم بنگلادیش کی پہچان نہیں تھا مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے بھارت سے قُرب  حاصل کرنے کے لیے ہندومت کی سرپرستی بھی کی اور ساتھ سکولرازم کی ڈھال کو استعمال کیا۔

انہوں نے بھارت کی خوشنودی کے لیے بنگلادیش کی فوج کے سائز کو ڈیرھ لاکھ سے بھی کم کر کے اگر چہ بظاہر اور وقتی طور پر معاشی ترقی کی مگر حال ہی میں برما جیسے ملک نے لاکھوں برمی روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دش میں دھکیل دیا اور بنگلادیش 1971 کی طرح اِن مہاجرین کی بنیاد پر کو ئی قدم نہیں اٹھا سکا اور منت سماجت کرتا رہا۔ اب حال ہی میں جب بھارت نے نیا سٹیزن شپ قانون متعارف کرایا تو بھی لاکھوں مسلمان بنگالیوں کو بنگلادیش دھکیلا گیا اور مستقبل میں کئی گنا زیادہ تعداد میں مسلمان بنگالی بنگلادیش میں دھکیلے جائیں گے۔

جہاں تک تعلق دو قومی نظریے کا ہے تو بنگلادیش کے مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے مودی بنگلادیش اور حسینہ واجد بھارت کا دورہ نہیں کر سکیں۔ جب 1971 میں بنگلادیش بن گیا تو بہرحال اس جنگ سے ایک بار پھر بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو نقصان ہوا لیکن اس وقت 1947 کے بعد سے اب تک بھارت ،بنگلادیش اور پاکستان میں تاریخ کی مقبول ترین سیاسی قیادت بر سر اقتدار تھی جو بہرحال خطے میں پا ئدار امن قائم کرنے کی بھر پور عوامی قوت رکھتی تھی۔

اس کا نداز ہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو نے بنگلادیش تسلیم کیا اور چین کی سپورٹ سے 1974 تک پہلے بنگلادیش کو اقوام متحدہ کی رکنیت نہیں لینے دی۔ یہ بھی اہم حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھٹو اور اندرا گاندھی تینوں ہی غیر طبعی موت مارے گئے۔

یوں اگر ہم ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک غور کریں تو ہمارے سامنے یہ حقائق ہیں کہ باوجود اقوام متحدہ کے خوبصورت چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے جرمنی کو اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی مشرقی اور مغربی جرمنی میں تقسیم کر دیا گیا اور پھر برلن شہر کے درمیان بھی دیوار کھڑی کردی اور پھر انہی بڑی قوتوں کی مر ضی سے دیواربرلن گر گئی اور جرمنی دوبارہ متحد ہو گیا، جنوبی اور شمالی کو ریا کی جنگ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ہی لڑی گئی لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے اور بڑی قوتوں نے ہی ایک قوم ایک ملک کو اب تک دو ملکوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، ویتنام کو جنوبی اور شمالی دوملکوں میں عیسائی آبادی اور کیمو نسٹ آبادی کی بنیاد پر تقسیم کر کے تقریباً 40 لاکھ افراد ہلاک کر دئیے گئے لیکن چین اور سوویت یونین کی قوت کے ساتھ یہ ملک دو بار متحدہ ہو گیا۔

یمن ایک طویل عرصے تک شمالی اور جنوبی یمن میں تقسیم ہو کر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ اور آپس میں لڑتا رہا اور آج متحد ہوکر بڑی قوتوں کے اشارے پر جنگ میں ملوث ہے اور اس وقت دنیا کا غریب ترین ملک ہے اسی طر ح پہلے سو ڈان کو مصر سے الگ کیا گیا پھر سوڈان کی تقسیم ہوئی، پھر دافور کامسئلہ اور تقسیم، انڈو نیشیا ،ملائیشیا تقسیم پھر انڈو نیشیا سے پا پپوانیو گینیا کی تقسیم یہ سب کبھی قومیتوں مذاہب  اور سرد جنگ کے زمانے میں نظریات کی بنیادوں پر تقسیم ہو تے رہے جب کے اس کے مقابلے میں امر یکہ ریاست ہائے متحدہ کی بنیاد پر9834000 مربع کلو میٹر رقبے کا ملک ہے یورپی یو نین 4476000 مربع کلو میٹر رقبے کی بنیاد پر ایک کرنسی ایک شہریت کی بنیاد پر 27 ملکوں پر مشتمل ہے۔

واضح رہے کہ75 سال قبل تک یہی ممالک آپس میں تاریخ کی خو نریز جنگوں الجھے رہے کروڑوں افراد ہلاک ہو ئے برصغیر میں سارک تنظیم 8 دسمبر1985 میں تشکیل پائی مگر بد قسمتی سے بھارت نے اس کو بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا ورنہ یہ تنظیم اگر باہمی اتفاق کی بنیاد پر کام کر تی تو مسائل حل ہو سکتے تھے لیکن بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس نے1916 کے میثاق لکھنو کرنے کے بعد بد عہدی اور اس کے بعد متواتر بڑے عرصے سے اپنے معمولی نوعیت کے مفادات حاصل کرتے ہو ئے اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے خلاف سازشیں کیں اور اُن کو نقصان پہنچایا۔ (جاری ہے)

The post بنگلادیش کا قیام اور اقوام متحدہ appeared first on ایکسپریس اردو.

جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیرؔ

$
0
0

(12مئی 2020؁ء کو اردو کے عظیم اور عہد ساز مزاح گو سید ضمیر جعفری کی 21 ویں برسی تھی جو کورونا وبا کے باعث نہ منائی جا سکی۔ اس مناسبت سے مرحوم کا یہ خاکہ شائع کیا جا رہا ہے۔)

کچھ لوگوں کو ان کی وفات کے بعد بھی یاد کریں تو تبسم زیرِلب کو روکا نہیں جاسکتا ۔ ہمارے اس ’’قول زریں‘‘ کا حضرت ضمیرؔ جعفری پر سو فی صد اطلاق ہوتا ہے۔ جتنی مسرت ان سے مل کر ہوتی تھی اتنی ہی اب ان کے تصور سے ہوتی ہے، کیوں کہ وہ تو مجسّم ہنسی، سرا پا قہقہہ اور سرتاپا محبت تھے۔

یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ہم میں موجود نہیں۔ ان کا بھاری بھر کم جثّہ، پاٹ دار آواز، کاٹ دار جملے، بسیار گوئی، مجلس سازی، چمکتا ہوا گلابی چہرہ، دمکتے ہوئے گال، ’’توسیع پذیر‘‘ پیشانی، سر پر مائل بہ تخفیف بال، لمبی ستواں ناک، اُس پر موٹے شیشوں اور ان سے زیادہ موٹی کمانیوں کا چشمہ، آنکھوں میں ذہانت اور شرارت آمیز شوخی، کلین شیو، دراز قد، کشادہ بازو، باہر نکلتا ہوا سینہ اور اس سے بھی آگے بڑھتا ہوا شکم ِ مبارک، غرض وضع قطع کے کس کس پہلو کا ذکر کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ دوستوں کی جانب سے ’’پیر و مرشد‘‘ کا خطاب پانے والے کے سراپے کا تھوڑا بہت حال خود ان کی زبانی بھی سن لیا جائے۔ فرماتے تھے ؎

یہ بڑھاپا تو مجھ کو خدا نے دیا

ہے مٹاپا مگر میرا خودساختہ

۔۔۔

مونچھیں کہاں گئیں ہماری

پوچھیں گے یہ اسمبلی سے

۔۔۔۔

پیر صاحب! آپ کو کچھ زیب تو دیتی نہیں

من کی باتیں تن پہ اس دو تین من چربی کے ساتھ

دبلا پتلا (آج کی اصطلاح میں ’’اسمارٹ‘‘) فرد اُن کے معیار ِنجابت پر پورا نہیں اتر تا تھا ۔ کہتے ہیں ؎

پتلی گردن، پتلے ابرو، پتلے لب، پتلی کمر

جتنا بیمار آدمی ، اتنا طرح دار آدمی

سیدضمیر جعفری ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ جو اُن سے ایک بار مل لیتا تھا، دوبارہ ملاقات کا متمنی رہتا۔ پہلی ملاقات میں سامنے والے کو ایسا تاثر دیتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ گفتگو، رویے اور اپنائیت کے بل پر ہر کسی کا دل موہ لیتے تھے۔ مزاج میں تکلف، تصنع اور تفاخر نام کو نہ تھا۔ باتوں میں شیرینی اور شگفتگی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بھاری بھر کم جسامت اور سرتاپا علمیت کے باوجود طبیعت میں غضب کا انکسار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی طرف کھنچتے تھے۔

کرشن چندر نے ’’چھٹی حِس‘‘ میں لکھا تھا ’’ہر آدمی اپنی شخصیت سے ایک خاص قسم کی ذَرّاتی قوت مترشح کرتا رہتا ہے۔ یہ قوت یا تو اس قدر دل کش ہوتی ہے کہ ہر فرد ہزار برائیاں دیکھتا ہوا بھی خودبخود اس کی طرف کھنچتا ہوا چلا جاتا ہے یا اس قدر تنافرانگیز ہوتی ہے کہ ہر فرد اس کی حسین ترین تجسیم کے باوجود اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور یہ سب کچھ پہلے لمحے میں ہوتا ہے جب ایک شخصیت دوسری شخصیت سے ٹکراتی ہے۔ یہ ذراتی لہریں بھی عجیب و غریب ہیں اور شاید اسی سبب سے آئین اسٹائن نے کہا تھا کہ ہم لوگ ایتھر کی لہروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ‘‘ میرے ساتھ 1997ء؁ میں ان سے پہلی ملاقات کے موقع پر یہی کچھ ہوا تھا۔

کراچی جمخانے میں کوئی ادبی تقریب تھی اور جعفری صاحب حاضرین میں براجمان تھے۔ ان کے اطراف کی دونوں کرسیاں خالی تھیں اس لیے میں اپنا نام بتاکر علیک سلیک کرنے کے بعد ان کے بائیں جانب بیٹھ گیا۔ میرا نام سن کر وہ لمحہ بھر کے لیے چونکے اور پھر مجھ سے پوچھا’’آپ وہی ایس ایم معین قریشی تو نہیں جو ہمارے ’’پنچ‘‘ میں لکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے اقرار کیا کہ حضور ع میں وہی ہوں ’’معینِ‘‘ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ (’’پنچ‘‘ پاکستان میں مزاح کا انتہائی معیاری جریدہ تھا جس کے اجرا کنندگان میں شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، شیخ نذیر اور جعفری صاحب پیش پیش تھے۔) جعفری صاحب یہ جان کر بے حد خوش ہوئے۔ میرے لیے بھی یہ ملاقات ایک اعزاز سے کم نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ ناچیز کی تحریریں ’’پنچ‘‘ کے علاوہ بھی دیگر ادبی جرائد میں پڑھتے رہے ہیں۔ اب مجھ پر دل ہی دل میں اس شعر کا پڑھنا لازم ہوگیا تھا کہ ؎

اے ذوقؔ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

میں نے موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ان سے عرض کیا ’’سر، میرے اردو کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ہر شاخ پہ…‘‘ کے عنوان سے عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ اس کے مسودے پر ڈاکٹر وزیرآغا، مشتاق یوسفی، محمد خالد اختر، مشفق خواجہ، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ارشاد احمد خان، عطا الحق قاسمی اور دیگر متعدد مشاہیر اپنی رائے دے چکے ہیں ۔ میری خواہش اور گزارش ہے کہ چند سطور آپ بھی لکھ دیں تو کتاب کی توقیر دو چند ہوجائے گی۔ وہ تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے۔ مجھے مشورہ دیا کہ میں کتاب کے کم از کم دس منتخب مضامین کی نقول انھیں فراہم کردوں۔ اس زمانے میں ان کے صاحب زادے میجر جنرل احتشام ضمیر کراچی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) تھے اور جعفری صاحب ان کے ساتھ ملیر کینٹ میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے پتا لے کر دس مضامین کی فوٹوکاپیاں انھیں ڈاک کے ذریعے بھیج دیں۔

ایک ہفتے بعد ہی، دیگر حضرات کے مختصر مضامین کے برعکس، جعفری صاحب کی ایک تفصیلی تحریر موصول ہوئی جس میں انھوں نے اس خاکسار کو ’’مزاح کا چشمۂ کوہستانِ نمک‘‘ قراردیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں نے مزاح نگاری کا آغاز مجید لاہوری کے ’’نمکدان‘‘سے کیا تھا۔ اس حوالے سے انھوں نے لکھا ’’نمکدان ‘‘ کے نئے لکھنے والوں میں معین قریشی کے تیور ایک انوکھی ذہنی بشاشت کے حامل تھے۔ ان کی تحریر بیک وقت عوامی ترسیل اور ثقافتی ترتیل رکھتی تھی۔۔۔‘‘ یہ گراں قدر نثر پارہ ’’ہر شاخ پہ۔۔۔‘‘ میں شامل ہوا لیکن اُس کے بعد سے یہ میری مزاح کی ہر کتاب میں بطور ’’تعارف‘‘ تبرکاً شائع کیا جاتا ہے۔

مجھے 17فروری1998ء؁ کی وہ شام بھی نہیں بھولتی جب میرے گھر (صدیق ہاؤس، کراچی) میں اہل علم و ادب کی ایک کہکشاں جمع تھی۔ ان میں یوں تو جمیل الدین عالی (مع بیگم عالی)، مشتاق یوسفی (مع بیگم یوسفی)، اظہر حسن صدیقی (مع بیگم صدیقی) راغبؔ مراد آبادی، قمر علی عباسی (مع بیگم نیلوفر عباسی)، نسیم درانی، حفیظ با حلیم، ضیا الحق قاسمی، ڈاکٹر ہارون صدیقی شاہدؔ جیسی نابغہ روز گار ہستیاں شامل تھیں لیکن جانِ محفل سید ضمیر جعفری ہی تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کے لیے لکھا تھا ’’جہاں ضمیر جعفری ہوں وہاں رونق محفل کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔‘‘ کھانے سے پہلے تقریباً ایک گھنٹہ اور کھانے کے بعد دو گھنٹے تک عالم یہ تھا کہ ع  وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ عالی جی اور یوسفی صاحب بڑی چالاکی سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی شوشہ چھوڑ دیتے اور جعفری صاحب قہقہہ آور واقعات کا ایک نیا دفتر کھول دیتے تھے۔ گفتگو کے ساتھ ساتھ فرمائش کا دور بھی چلتا رہا۔ اس رات انھوں نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’پید اکرو‘‘ سناکر ہنسایا بھی اور اہل دانش کے ذہنوں کو گھمایا بھی۔ یہ چند اشعار اب تک یاد ہیں ؎

شوق سے لختِ جگر، نُورِ نظر پیدا کرو

ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

شیخ، ناصح، محتسب، ملاّ کہو کس کی سنیں؟

یارو، کوئی ا یک مردِمعتبر پیدا کرو

حضرت اقبالؔ کا شاہیں توہم سے اُڑ چکا

اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

جعفری صاحب شاعر تو تھے ہی،’’لغت نویس‘‘ بھی غضب کے تھے۔ ایسے ایسے الفاظ کلام میں لاتے کہ بڑے بڑے ماہرین لسانیات ان کے معانی اور مفاہیم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ میری درخواست پر انھوں نے اپنی نظم ’’ضمیریات‘‘ سنانی شروع کی؎

مایوس و مضمحل ہیں یتیم و یسیر ہیں

وہ بھی مری طرح ہی ترقی پذیر ہیں

جن کا کلام خام، وہی برسرِکلام

نادسترس جو ہاتھ، وہی دستگیر ہیں

جب اس شعر پر پہنچے ؎

ان کے سخن سے کُھل نہ سکا آج تک کہ وہ

ریح الحریر ہیں کہ مسیح المصیر ہیں

تو عالی جی نے ٹوکا ’’پیر و مرشد، (اٹکتے اٹکتے) یہ ریح الحریر اور مسیح المصیر کیا معنی رکھتے ہیں ؟‘‘ جعفری صاحب نے نہایت بھولپن سے جواب دیا ’’کچھ بھی نہیں‘‘ اور محفل زعفران زار بن گئی۔

سید ضمیر جعفری پہلی جنوری 1916؁ء کو پنجاب کے ضلع جہلم کے ایک گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ تاہم یونین کونسل، پرائمری اسکول اور میٹرک کی اسناد کی رُو سے آپ تین مرتبہ پیدا ہوئے اس لیے کہ تینوں جگہ مختلف تاریخِ پیدائش درج ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے اور ثانوی، گورنمنٹ ہائی اسکول جہلم سے حاصل کی۔ میٹرک کے امتحان میں اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت اس طرح دیا…کہ حساب میں فیل ہوگئے۔ بہرحال، ’’سپلی‘‘ سے گزر کر انٹر پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرلیا۔

شاعری کا آغاز ساتویں جماعت ہی سے کردیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوچۂ صحافت میں قدم رکھا اور مولانا چراغ حسن حسرت کے اخبار ’’شیرازہ‘‘ میں بطور مدیر معاون کام شرو ع کیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی چلے گئے اور کلرکی اختیار کی۔ یہ پیشہ راس نہ آیا تو فوج میں کمیشن حاصل کیا اور جنگِ عظیم دوم کے دوران سنگاپور میں خدمات انجام دیں۔ وہ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ میں تھے۔ اس شعبے سے مجید ملک، فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت، ن م راشد، حفیظ جالندھری اور صدیق سالک جیسے نامی گرامی اہل قلم وابستہ رہے ہیں۔

1949ء؁ میں کپتانی سے استعفا دے کر خاکی وردی اتار دی اور ایک بار پھر صحافت میں آئے لیکن ناکام رہ کر واپس وردی میں آگئے۔ دوسری مرتبہ بحیثیت میجر ریٹائر ہوئے اور مختلف سویلین اداروں میں کام کرتے رہے جن میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) بھی شامل ہے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی پہلی اینٹ رکھنے والوں میں کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ سیاست کا شوق چَرایا اور الیکشن میں حصہ لیا لیکن روایت ہے کہ انتخابی مہم پورے خلوص سے مخالف امید وار کی چلاتے رہے۔ چنانچہ وہی نتیجہ حاصل کیا جو حکیم محمد سعید شہید نے اپنی ایسی ہی کوششِ رائگاں سے حاصل کیا تھا__  ان کا ’’پسندیدہ‘‘ امیدوار جیت گیا۔

جعفری صاحب شاعر بھی تھے، ادیب بھی، مترجم بھی، کالم نویس بھی اور ناول نگار بھی۔ اس قدر کثیرالتصنیف اور سریع التصنیف تھے کہ بقول شخصے ’’ناشتے میں دیباچہ پسند کرتے تھے، لنچ کالم سے کرتے، چائے غزل سے اور ڈنر صدارتی خطبے سے تکمیل پاتا۔‘‘ بھلکڑ اتنے زبردست تھے کہ کبھی کسی تقریب کے لیے تقریر لکھی اور اسے اتنا سنبھال کر رکھ دیا کہ وقت پر دستیاب نہ ہوئی۔ لہٰذا تلاش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ہاتھ کے ہاتھ دوسری لکھ لیتے تھے۔ اُن کے ادبی سرمائے میں شاعری کے چوبیس مجموعے اور نثر کی پچیس کتابیں شامل ہیں جن میں پانچ (1943؁ء تا 1997؁ء کے دوران لکھی گئیں) روزنامچوں کے انتخاب پر مبنی ہیں۔ روزنامچوں میں بھی اُن کی شگفتہ نگاری عروج پر تھی، مثلاً 26  ستمبر 1971؁ء کی ڈائری میں ایک عرس کی روداد کے آخر میں لکھتے ہیں ـ” نذیر بادشاہ نے بتایا کہ خرچ کے بعد تیس ہزار روپے نقد، پندرہ زندہ بکرے اور سوا سو اذانیں دیتے ہوئے مرغ منافع میں ہاتھ آئے۔ ” تاہم ان کی شناخت ایک مزاح گو کی حیثیت سے ہے۔ ’’مافی الضمیر‘‘، ’’ضمیرِ ظرافت‘‘، ’’سرگوشیاں، ’’ولایتی زعفران‘‘ اور ” مسدّسِ بدحالی ” وغیرہ ان کی مزاحیہ شاعری کے مقبول مجموعے ہیں۔ نثری سرمائے میں خاکے (’’کتابی چہرے‘‘) اور ڈائری کے علاوہ ’’خسرنامہ‘‘ کے عنوان سے ایک ناولٹ شامل ہیں۔ ان کا مزاح سادگی، شائستگی، برجستگی اور شگفتگی کا مرقع ہے۔ ہنسی کی خاطر کبھی معیار کا سودا نہیں کیا۔ معاشرے میں پائی جانے والی ناآسودگی، ناانصافی، ناہمواری، منافقت، مخاصمت، محاسدت، بغض، کینہ، ریا اور دیگر لاتعداد معائب و مصائب پر انھوں نے بھرپور وار کیے لیکن اس طرح کہ جس فرد /طبقے کو نشانہ بنایا وہ پکار اٹھا ؎

لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی

قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اُسی طرح

(مومنؔ)

حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور نکتہ فہمی کے اوصاف جعفری صاحب پر ختم تھے۔ ایک محفل میں وہ، جنرل ضیاالحق اور حفیظ جالندھری یکجا تھے۔ جعفری صاحب کی لفظی پھلجھڑیاں سن کر حفیظ صاحب نے اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں کہا ’’اوئے جعفری، جب تُو فوج میں میرا ماتحت تھا، اس وقت تو نِرا بوڑم تھا۔ آج بڑے مزے کی باتیں کررہا ہے!‘‘ جعفری صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’سر، یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔‘‘ ابوالاثر صاحب اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ سید ضمیر جعفری کے نزدیک ’’مزاح کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو چیز آپ کی طبیعت، آپ کی روح اور آپ کے ذوق میں ایک احساسِ لطافت، احساسِ مسرت اور احساس ِ شگفتگی پیدا کردے، وہ صحیح ظرافت ہے۔ پھر اس ظرافت میں ایک ادبی پہلو اور ایک ذہنی سطح کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس سے ایک سلجھا ہوا اور نکھرا ہوا احساس پروان چڑھتا ہے اور یہی احساس زندگی پر دوررس اثر ڈالتا ہے۔‘‘ ہندوستان کے ایک معروف مزاح گو (مرحوم جی ایم احمد خوامخواؔہ) نے بھی یہی کچھ کہا تھا ؎

ظرافت میں فصاحت اور شرافت بھی ضروری ہے

گدھوں پر زین کس دینے سے وہ گھوڑے نہیں ہوتے

مزاح کا سرچشمہ اندوہ ہے۔ لیکن مزا ح نگار جذبات الم کی ترجمانی بھی ہلکے پھلکے انداز میں کرتا ہے۔ قاری، مزاح نگار کے غم تک پہنچے یا نہ پہنچے لیکن لکھنے والے کا فرض ہے کہ اس کے فن پارے کا پہلا ردعمل ذہنی آسودگی ہو۔ اس مقصد کا حصول کتنا مشکل ہے یہ کوئی جعفری صاحب سے پوچھے۔ فرمایا ؎

میرا چہرہ دیکھنے والوں کو کیا معلوم ہے

کتنے آنسو پی گیا ہوں مسکرانے کے لیے

علامہ اقبالؔ سے قوم کے اظہارِعقیدت پر یہ تیکھا طنز ہماری گردنیں جھکا دینے کے لیے کافی ہے ؎

کبھی اک سال میں ہم مجلسِ اقبالؔ کرتے ہیں

پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں

ایشیا اور امریکا کے معاشی اور معاشرتی حالات کا اس سے زیادہ طنز آمیز اور فکرانگیز تقابل شاید ممکن نہ ہو ۔ کہتے ہیں ؎

پوچھتے ہو ایشیا اور امریکا کا فرق

جو ہمارے گھر میں ہے، اُن کے عجائب گھر میں ہے

جعفری صاحب نے انگریزی کی چند مزاح پاروں کے ترجمے بھی کیے۔ بطور نمونہ، انگریز شاعر اور طنز نگار John Drydenنے اپنی بیوی کی قہقہہ آور لوح مزار لکھی:

Here lies my wife;  here let  her lie!

Now  she  is  at  rest, and  so am I.

جعفری صاحب نے اس کا یہ برجستہ اور پر لطف ترجمہ کیا:

میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے

وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے

جعفری صاحب کو سنجیدہ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔ ان کی نظموں اور غزلوں کے مجموعے ’’کھلیان‘‘ اور ’’قریۂ جاں‘‘ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اخلاق کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎

کبھی اے کاش ہم سے کوئی ایسا کام ہو جائے

کہ جینا واقعی اک حسن، اک انعام ہو جائے

یہ قابل غور نکتہ بھی دیکھیے ؎

یہ دور،  دورِ پُر آشوب ہی سہی لیکن

زمانہ پہلے بھی کب کس کو سازگا ر ہوا

یا پھر یہ تلخ حقیقت ؎

حدیں صرف باہر سے کب ٹوٹتی ہیں

غنیم اپنے  قصبے کے  اندر  بھی  ہوگا

اگرچہ جعفری صاحب فوجی تھے لیکن ہمیشہ امن کے گیت گاتے رہے ؎

برملا   نقصان   ہر   اک    رنگ    میں

فتح کب کس  کو  ہوئی  ہے  جنگ  میں

۔۔۔۔

ضمانت امنِ عالم  کی نہتے لوگ  ہوتے ہیں

وہاں جنگیں نہیں ہوتیں جہاں لشکر نہیں ہوتے

سید ضمیر ؔجعفری (مرحوم ) کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدّد اعزازات سے نوازا گیا ۔ 1936؁ء میں اُنہوں نے ” ہمایوں گولڈ میڈل ” بدست سر عبدالقادر وصول کیا ۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1967؁ء  میں تمغۂ قائداعظم اور 1985؁ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کار کردگی عطا کیے۔ اُن کی ایک خوبی یہ تھی کے اپنے ہم عصر حتّیٰ کہ جونیئر اہلِ قلم کی ستائش اور ہمت افزائی میں بخل سے کام نہ لیتے تھے۔ نام ور مزاح گو نذیر احمد شیخ اُن کے لنگوٹیے تھے۔ 17 مارچ 1971؁ء کو اُن کے انتقال پر جعفری صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ”  ہمارے عہد میں اردو کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا شاعر چلا گیا۔1999 “ء؁ کے آغاز میں سید ضمیر جعفری صاحب شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انھیں علاج کے لیے لندن بھی لے جایا گیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ 12مئی 1999؁ء کو وہ اس دارِفانی سے کُوچ کر گئے۔ وہ تراسی سال حیات رہے۔ انھوں نے لگ بھگ 60سال گلستانِ ظرافت کی آبیاری کی اور ’’باباے ظرافت‘‘ کہلائے۔ وہ نہ خود کبھی افسردہ ہوئے نہ اوروں کو افسردہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنی ہنس مکھ طبیعت کے بارے میں خود کہا ؎

وقت سے کہہ دو کہ آخر تک ضمیرِ جعفری

جب بھی دیکھا جائے گا چونچال دیکھا جائے گا

جعفری صاحب کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد ان کے معاصرین نے اپنے اپنے رنگ میں انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’شہنشا ہ ظرافت‘‘ دلا ور فگار نے ان کی شاعری پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جو ماہنامہ ’’نیرنگِ خیال ‘‘ (راولپنڈی) کی جنوری 2009؁ء کی اشاعت میں شامل ہوا۔ اس مضمون کا اختتام ان توصیفی الفاظ پر ہوتا ہے،’’ہمیں دعویٰ ہے کہ ضمیر صاحب اپنے فن میں منتخب اور منفرد ہیں۔ انہیں دنیا یاد رکھے گی۔ اس کی ضمانت ان کے یہ (محولہ) اشعار ہیں۔‘‘ چند ایک دیگر نامور شعرا کے تاثرات درجِ ذیل ہیں:

نذیر احمد شیخ

ان کی رنگ آرائیوں سے محفلیں رنگین ہیں

قہقہوں کا دائمی بھونچال ہیں میجر ضمیر

ضیاالحق قاسمی

وہ ہیں بابائے ظرافت ہم ہیں ان کے بالکے

ہم ہیں پچپن سال کے اور وہ پچھتر سال کے

راغب ؔمراد آبادی

دانائے رموزِ شاعری ہیں موصوف

ممدوحِ ضیائے قاسمی ہیں موصوف

بابائے ظرافت بھی لقب آپ کا ہے

سید ہیں، ضمیر جعفری ہیں موصوف

سرفراز شاہد

روشنی  کا اور   مسرت    کا   سفیر

جس کا تھا رنگِ ظرافت  بے نظیر

کر  گیا   سُونی   ادب کی محفلیں

’’جانِ  محفل  تھا خد ا بخشے ضمیرؔ‘‘

انور شعور

خوشیاں بکھیر تے رہے وہ عمر بھر

کہتے ہیں دل فگار گئے حضرتِ ضمیر

پروفیسر عنایت علی خاں

بزمِ اہلِ سخن کے ضمیر آپ تھے ، کون اب معتبر کرے گا ہمیں

آپ کی یاد کے ساتھ مدت تلک ، بے ضمیر ی کا صدمہ رہے گا ہمیں

سعید آغا

منفرد تھے آپ بھی اکبرؔالہٰ آبادی کے بعد

اس حوالے سے مقلد آپ کے کہلائے ہم

فرحت ندیم ہمایوں

لو چل دیے ضمیر ؔ بھی دامن کو جھاڑ کے

اردو مشاعروں کے وہ میلے نہیں رہے

وہ ہم کو چھوڑ کر ہیں رواں آپ کی طرف

حضرتِ  فگار ؔ آپ  اکیلے  نہیں رہے

محمد ممتاز راشد

اس کا تھا  ہر کسی  سے  محبت  کا  سلسلہ

ہر شخص  اس  کے  حسنِ سخن  کا اسیر تھا

وہ آئینہ تھا اس میں ہما رے ہی عکس تھے

سید  ضمیر جعفری  سب کا ضمیر تھا

خالد اطہر

شاعر بھی تھا ادیب بھی اور سولجر بھی تھا

وہ تھا  ضمیرؔ جعفری  جو  باخبر بھی تھا

میں اس خاکے کا اختتام جعفری صاحب کے اس شعر پر کرتا ہوں ؎

جانِ  محفل  تھا   خدا بخشے  ضمیرؔ

اب تو  اک مدّت   سے شوہر ہوگیا

دوسرے مصرِع میں تحریف کر کے ’’شوہر ‘‘ کی جگہ ’’اُوپر‘‘ پڑھیں تو بات واضح ہوجائے گی۔n

The post جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیرؔ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ انسان سانس لینے کے لیے 4 سو برس سے کراہ رہا ہے

$
0
0

یہ انسان پچھلے 4 سو برس سے کراہ رہا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پارہا، یہ فریاد پہلی بار اس نے 20 اگست 1619 میں کی تھی جب وہ پہلی بار غلام بنا کر ” سفید شیر” نامی جہاز جیمس ٹاؤن، ورجینیا کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ وہ اس وقت پہلی بار غلام کی حیثیت سے منڈی میں دو ڈالر میں بکا تھا۔ اس نے اگلے ڈھائی سو سال 1865 تک بحیثیتِ غلام کپاس، چاول، تمباکو اور نیل کی پیداوار سے گورے مالکان کی دولت میں آج کے حساب سے کھربوں ڈالرز کا اضافہ کیا۔

سماجی گٹھن اور سیاسی فضا اس وقت بھی اسے سانس لینے نہیں دیتی تھی جب صدر ابراہیم لنکن نے 6 دسمبر 1865 کو اس کی ڈھائی سو سال کی غلامی کو غیرقانونی قرار دینے کے لیے 13ویں آئینی ترمیم کی لیکن یہ آئینی وینٹیلیٹر بھی سانس کو بحال کرنے میں ناکام رہا، ڈیموکریٹس نے غلامی کے خاتمہ کی آئینی ترمیم کی مخالفت کیوں کی، اس جرم پر لبرل جمہوریت کے دل دادہ عناصر سے سوال پھر کبھی سہی!

وہ مسلسل کہہ رہا ہے اُسے چار صدیوں سے سانس نہیں لینے دیا جارہا۔ اس پر کوڑے برسے ہیں، زبردستی نام تبدیل کیے گئے، مذہب بدلا گیا، جسم کو داغ کر غلامی کی مہر ثبت کی گئی لیکن ان صدیوں کے دوران ایک لمحہ بھی اس نے اپنی روح اور ذہن کو غلام نہیں ہونے دیا۔ گرامچی نے کہا تھا کہ اگر ذہن شکست تسلیم نہ کرے تو جسم کی شکست کوئی معنی نہیں رکھتی۔

اس کی گردن کو کبھی ہاتھوں سے اور کبھی گورے ہاتھوں کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے گھٹنوں سے دبایا گیا۔ وہ ہر بار مارا جاتا ہے اور ہر بار پھر سے جی اْٹھتا ہے۔ وہ دوبارہ سانس لینے کی جستجو کرتا ہے کیوں کہ اسے زندگی سے پیار ہے، اسے اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں، اپنی چمکتی، گہری رنگت والی جلد اور اپنے ماضی سے پیار ہے۔ اسی لیے تو جب لینگسٹن ہوگس نے اپنی ایک خوب صورت نظم میں کہا تھا کہ ” بلیک اِز بیوٹی فل”، تو پھر یہ مصرعہ اس شخص کا نعرہ بن گیا۔ اس نے چالیس کی دہائی میں اپنے سانس لینے کے حق کی جستجو میں آزادی کی تحریک شروع کی جو سول رائٹس موومنٹ کہلائی۔

اس نے بس میں بیٹھنے، اسکول جانے، پارک میں ٹہلنے، کینٹین میں کھانا کھانے اور ووٹ جیسے حق کے لیے طویل سفر طے کیا، اس نے اپنے سانس لینے کے حق کی خاطر ریولیشنری ایکشن موومنٹ، ڈیکونز فار ڈیفنس، بلیک پینتھر پارٹی، بلیک مسلم موومنٹ، نیشن آف اسلام، دی بلیک لائیوز موومنٹ جیسی ان گنت تحریکوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس نے لٹّل روک نائین 1957، فریڈم رائیڈر 1961، مارچ آن واشنگٹن 1963، اینٹی ویت نام وار تحریک 1968 جسے معرکوں کو جنم دیا۔ وہ کبھی ہیرئیٹ ٹبمن بن کر نمودار ہوا تو کبھی اے فلیپ روڈلف بنا۔ وہ کبھی بییارڈ کی شکل میں آ نکلا، کبھی روزا پارک بن گیا تو کبھی کامریڈ ہیری ہائیووڈ.۔

وہ میلکم ایکس، مارٹن کنگ لوتھر جونئیر جیسے بڑے نام اور کام کی صورت نمودار ہوا، شہید کر دیا گیا، وہ ہزاروں بے نام مجاہدوں کی شکل میں آیا اور سانس لینے کی پاداش میں مار دیا گیا۔ مارٹن لوتھر جونیئر نے کہا تھا ’’میرا ایک خواب ہے…‘‘ اسے سانس لینے کے خواب دیکھنے پر مار دیا گیا۔ ہم 4 اپریل 1978 کے دن کی یاد میں افسردہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس شخص نے تو ایک دہائی پہلے 4 اپریل کے ہی روز لوتھر جونیئر کے روپ خون میں لتھڑی اپنی ہی لاش اْٹھائی تھی۔

اس کے ستواں جسم میں رقص کرتے خون کی حرارت سے کاٹن فیلڈز، تمباکو، چاول اور نیل کے کھیتوں اور فارمز سے دولت کشید کرنے والوں نے اسے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں تو دھکیلا ہی لیکن جب 1968 میں ویت نام جنگ کی بھٹی میں اسے جھونکا گیا تو اس نے محمد علی کلے کی شکل میں جنگ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو پابند سلاسل ہوا۔

سانس لینے کے حق کی پاداش میں سفید فام پولیس افسران نے کبھی اسے “جمی لی جیکسن” کے روپ میں قتل کیا تو کبھی “روڈنی کنگ” کی شکل میں۔ قتل کی ان وارداتوں کے، دن، تاریخ اور سال مختلف تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ مارا صرف ایک ہی بات پر گیا کہ سانس لینے کا حق کیوں مانگتا ہے۔

اس شخص کے درد کی گہرائی اور تاریخ میں پیوست الم ناک سانحہ اس کے سوا شاید ہی کوئی جان سکا، جدید دور کی تاریخ میں اس سے زیادہ اذیت سے کوئی نہیں گزرا۔ رافیل ایلیسن کے ناول، “ایلینیشن”، “دی بلیو” ، “ان ویسیبل مین” اس شخص کے دکھوں کا تحریری اظہار ہیں۔ اس شخص کا نوحہ آٹھ قسطوں پر مشتمل دستاویزی فلم ” روٹس” اور کے دوسرے حصہ ” روٹس – سیکنڈ جنریشن” میں فلم بند ہو کر تاریخی کے مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کر چکا ہے۔ نسلِ انسانی کی سب سے بدترین تذلیل کے مقدمے کا فیصلہ اور سزا کس اعلان ہونا تو دُور کی بات، ابھی تو مقدمہ کہ پہلی شنوائی بھی نہیں ہوپائی۔

اس شخص کی صدیوں پر محیط دکھ بھری آپ بیتی پڑھ کر کسی بھی مظلوم کو خود پر ہونے والے ظلم پر صبر نہیں آتا بل کہ مسلسل لڑتے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کوئی ہے اس جیسا جو چار سو برس سے مسلسل اپنے زندہ وجود اور اپنے رنگ کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے لڑ رہا ہو؟ اس جیسا اس کے علاوہ شاید ہی کوئی ہو!

جنرل کولن پاؤل امریکا کا پہلا افریقن امریکن سکریٹری آف اسٹیٹ بنے یا پھر پہلا دفاع کا سکریٹری، کنڈالیزا رائس پہلی افریقن امریکن خاتون کسی بڑے منصب پر فائز ہو یا پھر بارک اوباما 2008 میں صدر منتخب ہو کر وائٹ ہاؤس پہنچے، معتوب نسل کے شخص کے سانس لینے کے حق کو تسلیم کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں۔

آج سے چار سو سال پہلے 20 اگست 1619 کو ورجینیا کے شہر جیمس ٹاؤن کی منڈی میں جس بے نام شخص کی قیمت دو ڈالر لگی تھی، اب اس ساحلی شہر سے تیرہ سو میل دور مینیو پولس شہر میں چار سو سال بعد 25 مئی 2020 کو جارج فلڈ کے روپ میں سانسوں کی بھیک مانگتے شخص کی جان کی قیمت 20 ڈالرز مقرر ہوئی۔ یعنی ہر سال 5 سینٹ کی شرح سے اضافہ!

اس چار سو سالہ شرم ناک بے حرمتی کے خلاف سانسوں کی بھیک مانگتے “جارج فلڈ” کی لاش چیخ اُٹھی ہے۔ یہ چار کروڑ ستر لاکھ نفوس کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ جوالا مکھی کا لاوا بن کر سڑکوں پر اُمڈ آیا ہے۔ یہ غصہ، تکلیف اور بے بسی امریکا کی سڑکوں پر تاریخ کے مجرموں کا تعاقب کرتے سرمایہ کی کمیں گاہ وائٹ ہاؤس تک جا پہنچا ہے۔ اس کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے قاتل پولیس آفیسر ’’ڈیرک شاوین‘‘ کا سیاسی گرو ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے بنکر میں جا چھپنے کی مشق کر گزرا۔

خوف زدہ ڈونلڈ ٹرمپ سانس لینے کا حق مانگنے والوں کو شرپسند قرار دے کر مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر چکا۔ اس نے ہل چل کو دہشت زدہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے ہیں۔ شاید فوج بھی بلا لی جائے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ’’اگر مظاہرین نے حفاظتی باڑ پار کی تو ان کا استقبال شیطانی طبیعت کے کتے اور انتہائی مہلک ہتھیار کریں گے۔‘‘ ہاں یہی اس کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں، لیکن سڑکوں پر امڈتا غصہ ہے کہ تھمنے کو ہی نہیں آرہا۔ ہاں اس میں بایاں بازو اور نراجیت پسند گروپس اظہارِ یک جہتی کے لیے شامل ہورہے ہیں کیوں کہ وہ چالیس دہائیوں کے جرائم کے خلاف دائر ہوتے مقدمہ کے حقیقی اور مستند گواہ ہیں۔

یہ صدیوں سے پنپتا غصہ ہے جو امریکی شہروں، ریاستوں سے نکل کر دیگر برِاعظموں میں بھی سرمایہ کے عالمی عفریت اور اس کی فسطائی سیاسی علامتوں کے خلاف صف آراء ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت سماجی و سیاسی ماحول کو کئی معنوں میں یکسر تبدیل کردے گی۔ نسل پرستی اور نفرت کی صدیوں گہری جڑیں کم زور پڑیں گی۔ صدیوں سے سانس کی نالی پر رکھے ہاتھوں اور گھٹنوں کی گرفت ڈھیلی پڑ کر ہی رہے گی۔

مئی کے آخری ہفتے میں سفید فام پولیس آفیسر ایک سیاہ فام شخص جارج فلویڈ کو چار سو سال بعد بھی سانس لینے کی اجازت نہیں دیتا اور زندگی کا چراغ بجھا دیتا ہے، جب کہ مئی کے اسی ہفتے میں ایک پرائیویٹ راکٹ ’’اسپیس ایکس 9 ‘‘ دو افراد کو لے کر خلا کی سیاحت کے لیے روانہ ہوتا ہے، جسے ٹرمپ مریخ کی جانب سفر کی ابتدا قرار دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جلد ہی چاند پر رہائش کے انتظامات کیے جائیں گے۔ سماج کی یہ گراوٹ اور تضاد اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا اور موجودہ عوامی ابھار اس کی ابتدا ہے۔

فراز کا شعر ہے کہ

بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو!

کرہ ٔ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

The post یہ انسان سانس لینے کے لیے 4 سو برس سے کراہ رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


اردو اوربرصغیر کی دیگرزبانوں میں پودوں، سبزیوں اور پھلوں کے مشترک نام

$
0
0

زباں فہمی کالم نمبر53

(آخری حصہ)

اسی کالم کی پچھلی قسط میں لہسن کے عربی نام، تُوم کے براہوئی میں جُوں کے تُوں استعمال ہونے کی بات ہوئی تو یہ ذکر رہ گیا کہ اس اتفاق کا پس منظر بہت حیران کُن ہے۔

موئن جودَڑو، ہڑپہ اور (ان دونوں سے زیادہ قدیم) مہرگڑھ کے آثار کی زبان پڑھنے میں کامیابی حاصل کرنے والے ماہرِلسانیات ابوالجلال ندوی مرحوم نے انکشاف کیا تھا کہ یہ کوئی اور زبان نہیں، بلکہ عربی کی ابتدائی شکل ہے جوکسی باقاعدہ رسم الخط کی ایجاد سے قبل، تصویری انداز میں تحریر کی جاتی تھی۔ مہابھارت کے عہد تک خطۂ ہند میں عربی بولی جاتی تھی (بحوالہ ’’ہند و عرب کے تعلقات‘‘ از علامہ سید سلیمان ندوی بحوالہ ستیارتھ پرکاش، منقولہ در مضمون ’سندھی مُہریں‘ از قلم ابوالجلال ندوی)۔

انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ بعض آثار کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کا مذہب، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ’’دینِ حنیف‘‘ تھا یعنی اسلام کی ابتدائی شکل۔ یہ تمام تفصیل ذہن میں رکھیں تو براہوئی ہی نہیں، بلکہ ویدِک، سنسکِرِت، قدیم ہندی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی اور ہندکو زبان میں پایا جانے والا عربی ذخیرۂ الفاظ، اپنی اصل کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔ (سندھی میں پیاز کے نام بصل اور بصر جو دیگر زبانوں میں بھی قدرے فرق سے مستعمل ہیں، اسی سلسلے کی کڑی ہیں)۔ آلو کو اردو کی طرح آسامی، بنگلہ، ہندی، اُڑیا، پنجابی، گوجری اور ہندکو میں بھی آلو کہتے ہیں۔ پشتو میں اسے آلو اور آلوگان کہتے ہیں۔

بروشسکی زبان میں بھی آلو ہے ، شِنا میں ’’ء لو‘‘ ہے تو بَلتی میں اسے اَلو کہتے ہیں۔ ہماری مقامی فارسی میں بھی آلو ہے، مگر معیاری (ایرانی ) فارسی میں اسے ’سیبِ زمینی‘ کہا جاتا ہے۔ سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ اردو کی قدیم، مگر زندہ بولی میواتی میں آلو کو آڑو کہتے ہیں، جبکہ یہ تو ہمارے ایک مفید اور مزے دار پھل کا نام ہے۔ (خاکسار کا قیاس ہے کہ پھل آڑو کا یہ نام، میواتی سے نکل کر اردو اور دیگر زبانوں میں رائج ہوا ہوگا)۔ کونکنی میں آلو کو آلوگیڈڈے کہا جاتا ہے۔ آلو کا انگریزی نام Potato، حیرت انگیز طور پر براہوئی کے پٹاٹہ، گجراتی کے پپیٹا، گجراتی کی بولی میمنی، مراٹھی اور سندھی کے بٹاٹہ (نیز پٹاٹہ) سے مماثل، بلکہ مشتق لگتا ہے۔ شکرقند کو ہندی اور پنجابی میں شکر کند، گجراتی میں شک کریا، آسامی اور بنگلہ میں میٹھا آلو اور اُڑیا میں چینی آلو کہتے ہیں۔

ادرک کو ہندی اور پنجابی میں بھی ادرک، آسامی، بنگلہ اور اُڑیا میں اَدا اور گجراتی میں اَدھو کہتے ہیں، جبکہ نیپالی میں اَدوا کہا جاتا ہے۔ لوکی (Bottle gourd)کو ہندی میں بھی لوکی کہتے ہیں۔ لوکی کو قدیم ہندی/ اردو میں رام تُرَئی بھی کہا جاتا تھا۔ مؤخرالذکر نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شاید یہ رام چندرجی کو مرغوب تھی۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مرغوب سبزیوں میں بھی اس کا شمار تھا، مگر بعض جگہ اس کی بجائے کدّو لکھا ہوا دیکھا ہے۔ لوکی کو پنجابی میں گھیا اور گھیا کدّو کہتے ہیں۔ نیپالی میں اس کا نام لوکا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ لفظ لوکی دیگر زبانوں میں ’’لَو(Lau) ‘‘ ہے جیسے، آسامی میں ’جاتی لو‘، بنگلہ اور اُڑیامیں لو۔

اردو کا میٹھا کدّو /حلوہ کدّو(Sweet gourd)، ہندی میں میٹھا کدو ہے، پنجابی میں حلوہ کدو ہے، سندھی میں کدھُو، بنگلہ میں میٹھا کُمرا ہے تو اُڑیا میں میٹھا کوکھرُو۔ آسامی میں اسے ’رونگا۔لو‘ کہتے ہیں۔ پیٹھا گوجری اور ہندکو میں بھی پیٹھا ہے۔ توری کو میواتی میں توئیری، نیپالی میں تُرَئی (اور ’رام تروئی‘)، گوجری میں توری اور پشتو میں تورے کہتے ہیں۔ پنجابی اور ہندی میں یہ گھِیا توری اور توری کہلاتی ہے۔ گاجر کو ہندی، آسامی، بنگلہ، گجراتی اور ملیالم میں بھی گاجر کہا جاتا ہے۔ اُڑیا میں گاجور، کنڑ میں گجّاری، تمل میں گجّارا کیلانگو اور تلیگو میں گجراگیڈا، جبکہ سندھی میں گجروں کہتے ہیں۔ مولی ہندی اور پنجابی میں بھی مولی ہے، جبکہ آسامی، بنگلہ، مراٹھی، اُڑیا اور نیپالی میں اسے مُولا کہتے ہیں۔ سندھی میں موریوں، کنڑ میں مُولنگی، کونکنی میں مُللو، ملیالم میں مُل لنکی، جبکہ تمل اور تلیگو میں مُل لنگی کہا جاتا ہے۔

لِیموں کے دیگر زبانوں میں نام بہت مماثل ہیں۔ اردو اور فارسی میں لِیموں، سنسکرت میں نِمبو، ہندی میں نِیبو اور نِمبو، بنگلہ میں کاگجی نِیبو (یعنی کاغذی جو لیموں ہی کی ایک قسم ہے)، مراٹھی میں کاگڈی لِمبُو (یعنی کاغذی لیموں)، گجراتی میں لِمبُو، پنجابی میں نِیمبو ۔یا۔ نِبّو، ہندکو میں نمِبو، گوجری میں نِموں، براہوئی میں لیمبوُ، آسامی میں نیِمُو ٹینگا، کنڑ میں نِمبے، کونکنی میں لِمبِن اور انگریزی میں Lemonکہتے ہیں۔ وکی پیڈیا سے معلوم ہوتا ہے کہ سنسکِرِت لفظ نِمبو، فارسی میں لیموں ہوگیا جو عربی میں لیمون (لے مُون) یا لِیمُو ن کی شکل اختیار کرگیا۔ عربی سے (پہلے لاطینی اور پھر) اطالوی میں لی مون ہوا تو قدیم فرینچ میں اسے لی موں کہا گیا۔ یہاں درمیان کی ایک کڑی، پہلوی زبان نظرانداز ہوگئی جو قدیم فارسی تھی۔ یہاں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور یورپ کی اکثر زبانوں میں لیموں کو مماثل ناموں سے پکارا جاتا ہے جن سے، ذہن، خودبخود، اردو کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیے:

https://www.indifferentlanguages.com/words/lemon

ٹماٹر کو ہندی، میواتی، پنجابی، سرائیکی، گوجری اور ہندکو میں بھی ٹماٹرکہتے ہیں۔ پنجابی کی بولی پوٹھوہاری میں ٹماٹُر اور بنگلہ میں یہ ٹماٹو (انگریزی کے Tomatoسے مماثل) ہے تو سندھی میں ٹماٹا۔ گجراتی میں اسے ٹمیٹا اور ٹوماٹو، کنڑ میں بھی ٹوماٹو، جبکہ تلیگو میں ٹمیٹا کہتے ہیں۔ نیپالی میں اسے گول بھینڑا کہتے ہیں۔ مٹر: بنگلہ ،ہندی، اُڑیا، پنجابی، گوجری اور ہندکو میں بھی مٹر ہے، جبکہ پوٹھوہاری میں مَٹُر کہلاتا ہے۔ گوبھی کو قسم کے فرق سے میواتی میں بھی گوبھی اور بند گوبھی (پت گوبھی )، پشتو میں گوبی، سندھی میں گوبی (گاف کی مختلف آواز کے ساتھ) پوٹھوہاری میں گوہبی، مگر نیپالی میں کاؤلے کہتے ہیں۔ بینگن، میواتی میں بینگنڑ، اکثر دیگر زبانوں میں بینگن ہے، بنگلہ میں بے گُن ہے ، سرائیکی میں وَتاؤں کہتے ہیں تو پنجابی میں بتاؤں اور پَٹھے۔ ٹنڈہ کو میواتی میں ٹنڈہ کہتے ہیں تو پشتو میں ٹنڈے۔ شلجم /شلغم کے نام مختلف ہیں۔ اسے پنجابی میں گونگلو، ہندکو اور گوجری میں ٹِپَر کہتے ہیں، جبکہ پشتو میں ٹیپر۔

کھیرا کو براہوئی میں بادرنگ کہتے ہیں۔ میتھی سندھی اور پنجابی میں بھی میتھی ہی ہے۔ پالک میواتی، پنجابی، گوجری، ہندکو، سندھی اور شِنا میں بھی پالک ہے ، جبکہ نیپالی میں یہ پالنگ ہے۔ ہمارے یہاں بھی اردو بول چال میں پالک کی بجائے پالگ کہنا عام ہے۔قُلفہ/کُلفہ کو میواتی میں کُلفہ کہتے ہیں مگر سرائیکی میں لونڑک اور براہوئی میں پچلی کہلاتا ہے۔ دھنیہ کو میواتی میں دھنڑیا، دیگر زبانوں میں بہت مختلف نام ہیں، جیسے سرائیکی میں ساوے دھانڑے، گوجری میں تندھیل، براہوئی میں گِسنیچ۔ پودینہ کو پنجابی میں پُدینہ کہتے ہیں تو سرائیکی میں پھودنہ۔ ہری مرچ کو نیپالی میں ہریو کھرسانی کہتے ہیں تو سرائیکی میں ساوی مرچ، شِنا میں نیلی ماروچ اور بروشسکی میں مَرِچو۔ مونگرے، پنجابی میں بھی مونگرے ہی ہے۔ سُہانجنا انتہائی مفید درخت ہے جسے ہمارے یہاں تمام زبانوں اور اردو کے مختلف لہجوں میں سوہانجنا، سیجنا اور سینجنا کے مماثل ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق اس کے پتوں، بیجوں، پھولوں اور پھلیوںمیں، ذیابیطس اور سرطان سمیت ساڑھے تین سو کے لگ بھگ بیماریوں کا علاج ہے۔ پنجابی میں سُہانجنا، سرائیکی میں سوہانجنڑاں، (جبل پور سے آبائی نسبت کے حامل، مرحوم شاعر اقبال حیدر کے بھائی عثمان اشرف صاحب کے منھ سے اس کا نام ’مونگے کی پھلیاں‘ سنا)۔ کچنار کو سرائیکی میں کچنال کہتے ہیں۔ سرسوں کو ہندی اور پنجابی میں بھی سرسوں کہتے ہیں۔ ہندکو میں اس کا نام سریاں ہے جو آسامی کے متبادل، سَریا سے مماثل ہے، جبکہ بنگلہ میں اسے سَریشا اور اُڑیا میں سوروشا کہا جاتا ہے۔ گجراتی میں اسے ’’سفید رائی‘‘ کہتے ہیں۔ اَروی کو پنجابی میں بھی اَروی کہتے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر مراٹھی میں اسے آلو اور کونکنی میں اَلُّو اور اَؤم کہا جاتا ہے۔

رَتالو(Wild yam) کو آسامی میں گوچ آلو کہتے ہیں، بنگلہ میں یہ گچھ آلو، ہندی اور پنجابی میں زمین کھنڈ ہے (جو یقیناً فارسی کا زمین قند اور اس سے ما قبل سنسکرت کا زمین کند ہے)، جبکہ اُڑیا میں اسے دیشی آلو اور پِٹا آلو کہتے ہیں۔ کچالو کو اردو کے علاوہ ہندی اور پنجابی میں بھی کچالو کہتے ہیں، (ہندی میں اِسے اَروی بھی کہتے ہیں)، مراٹھی میں کسالُو اور پشتو میں کچالان کہتے ہیں۔ آسامی اور بنگلہ میں یہ کاچُو ہے۔ لوبیہ کو ہندکو اور گوجری میں موٹھ کہتے ہیں۔ بتھواکو میواتی، گوجری اور ہندکو میں بھی بتھوا کہاجاتاہے۔ اَب آتے ہیں پھلوں کی طرف۔آم کو سنسکرت میں آمرام کہا جاتا ہے جو اردو، میواتی، آسامی، ہندی، بنگلہ، پشتو، بَلتی، شِنا اور بروشسکی میں آم کے نام سے مشہور ہوا۔

مقامی فارسی میں بھی یہ آم ہے، مگر معیاری ایرانی فارسی میں انبہ (Ambay) کہا جاتا ہے، جبکہ سندھی میں یہ آمُ (آمو) ہے۔ ہندکو میں اسے ’اَم‘ کہتے ہیں۔ ہندی، پنجابی، پوٹھوہاری، سرائیکی اور براہوئی میں انب/امب کہتے ہیں۔ نیپالی میں یہ آنپ ہے، گجراتی اور اُڑیا میں انبو ہے تو مراٹھی میں انبا، ملیالم اور کنڑ میں ماوُو، تمل میں ممارَم اور منگا ہے، جبکہ تلیگو میں اسے ممی دی اور اَم رامُو کہتے ہیں۔ ملائی زبان میں اسے منگا کہتے ہیں، فرینچ میں اسے مانگُو کہتے ہیں، جو شاید انگریزی کے Mangoکا ماخذ ہو۔ یورپ کی تقریباً تمام زبانوں میں آم کا انگریزی نام یا اس سے مماثل نام ہی رائج ہے:

https://www.indifferentlanguages.com/words/mango

ایک انتہائی حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ افریقہ میں پائے جانے والے ایک جنگلی پھل کو بھی جنگلی آم (Wild mango)کہا جاتا ہے، حالانکہ اُس کا ہمارے ’’آم شریف‘‘ (خاکسار کا دیا ہوا لقب) سے کوئی تعلق نہیں۔ انار کو اردو کے علاوہ، نیپالی، پنجابی، گوجری، پشتو، بلوچی، فارسی میں بھی انار کہا جاتا ہے۔ جامن پنجابی میں جموں اور جامنو ہے تو سرائیکی میں بھی جموں۔ انگور کو میواتی اور ہند کو میں بھی انگور کہا جاتا ہے۔ پشتو میں انگور اور کور کہا جاتا ہے۔ ناشپاتی (اور ناک) کو نیپالی اور میواتی میں ناسپاتی (اور ناک)، پوٹھوہاری میں ناخ کہا جاتا ہے۔ کیلے کو میواتی میں کے ڑا، نیپالی میں کے را اور پشتو میں کیلا کہتے ہیں۔ پپیتا نیپالی میں میوا کہلاتا ہے، جبکہ قدیم اردو میں اسے اَرَنڈ خربوزہ بھی کہا جاتا تھا۔

آڑو کو (ہندوستان، پاکستان و افغانستان میں ہنوز رائج) قدیم فارسی میں شفتالو کہا جاتا ہے جو اردو زبان میں بطور رنگ بھی رائج ہے، مگر جدید فارسی (ایرانی) میں اسے ہُلو کہتے ہیں۔ خوبانی کو جدید فارسی (ایرانی ) میں زردآلو کہتے ہیں، جبکہ ہندکو میں اسے زردالی اور ہاڑی کہا جاتا ہے۔ پوٹھوہاری میں یہ خُرمانی ہے۔ تربوز کے نام کئی زبانوں میں مختلف ہیں۔ بنگلہ میں تورمج ہے۔ سرائیکی میں َمتِیرا کہلاتا ہے (جبکہ ہماری والدہ مرحومہ جن کا بچپن اور لڑکپن بہاول پور میں گزرا، تربوز کی ایک مختلف قسم کو اس نام سے یاد کرتی تھیں)، ہندکو میں اس کا نام اَدوانڑاں ہے، پوٹھوہاری میں ہندوانڑا، پشتو میں ہیندوانہ ہے تو گوجری میں ہندوانو۔ براہوئی میں گلہو۔

خربوزہ کو پنجابی اور پشتو میں بھی خربوزہ کہتے ہیں، پوٹھوہاری اور گوجری میں کھکھڑی اور ہندکو میں ککڑی، براہوئی میں کُوٹیج ۔ سیب کو میواتی، گوجری میں بھی سیب، پشتو میں سِیو (یہ لفظ ہمارے یہاں پنجاب سے آیا ہے اور کشمیری۔یا۔ گاجا نسل کے ننھے منے سیب کو اردو میں سِیو ہی کہتے ہیں)، سندھی اور براہوئی میں صُوف۔ امرود کو نیپالی میں امبا کہتے ہیں، جبکہ سرائیکی میں امبرود۔ آلوبخارا نیپالی میں بھی آلو بخارا ہے، گوجری میں جلدارو اور پلمپ (یعنی انگریزی Plumسے مماثل)۔ آلوچہ، ہندکو میں لُوچہ کہلاتا ہے۔ سنگترہ کو نیپالی میں سنتلا، میواتی میں سنترہ، جبکہ کینو کو میواتی اور پنجابی میں کِنّوکہتے ہیں۔

آملا کو نیپالی میں اَملا کہتے ہیں۔ ناریل کو سرائیکی میں نریل کہا جاتا ہے۔ کھجور کو سندھی اور بَلتی میں خُرما، بروشسکی میں خُورمہ اور شِنا میں کھورمہ کہتے ہیں۔ شہتوت کو سرائیکی میں شتوت اور شِنا میں شتوُں کہاجاتا ہے۔ انناس (Pineapple)کو ہندی، گجراتی اور مراٹھی میں اناناس (Ananas) کہتے ہیں، ملیالم میں اَنّا ناس(Annanas) اور کونکنی میں انوس(Anos)کہتے ہیں۔ بنگلہ بولنے والے اسے انارَس (Anaras)کے نام سے یاد کرتے ہیں، تَمِل میں اس کا نام اناسّ پالم (Anassappalam)ہے اور تلیگو میں اناس پانڈو (Anasapandu)۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس پھل کا نباتی نام (Botanical name) بھی اناناس کو موسَس(Ananas Comosus)ہے اور اس پر مستزاد، اس لفظ کا ماخذلاطینی زبان کا ہونا ہے۔

خاکسار کا ظنِ غالب ہے کہ سنسکرت کے لاطینی سے رشتے کے پیش نظر، یہ ممکن ہے کہ یہ لفظ ہندوستانی زبانوں سے یورپ تک پہنچا ہو۔ (یہاں وِکی پیڈیا کی ایک عبارت کا ترجمہ درج کرتاہوں: ’’کولمبس اِسے یورپ لایا اور اُس نے اِسے ’ہندیوں کے چِیڑ‘ کا نام دیا۔‘‘ وجہ یہ ہے کہ وہ امریکا پہنچ کر یہ سمجھا تھا کہ ہندوستان جاپہنچا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ اس بابت مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ جب ہندوستان کی قدیم زبانوں میں یہ نام قدرے مختلف شکل میں پہلے سے موجود تھا تو پھر کولمبس کا حوالہ کیسے درست ہوسکتا ہے)۔ سرخ رنگ کے شریفے یعنی رام پھل (Bullock’s Heart) کوہندی، گجراتی، پنجابی اور مراٹھی میں رام پھل ہی کہتے ہیں، کَنَّڑ میں راماپھلا، تَمِل میں رام سِیتا اور تلیگو میں راماپھلامُوکہا جاتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پھل رام چندرجی کو پسند تھا، جبکہ عام شریفے(Custard apple) کو سیِتا جی کی پسند اور نسبت سے سیتا پھل کہا جاتا ہے، مگر یہ نام اب ہمارے یہاں عام نہیں۔ راقم کو وقت اور جگہ کی تنگی کے پیش نظر بہت سارا مواد ، ترک کرنا پڑا ہے، ورنہ ایک تیسری قسط بھی تیار ہوسکتی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ برصغیر پاک وہند کی اکثر زبانوں میں پودوں، درختوں، پھلوں، پھولوں اور سبزیوں نیز مسالوں کے نام اکثر مشترک ہیں، بعض مختلف ہیں، یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ علاقائی زبانوں کا روزمرہ عموماً اردو سے بہت زیادہ متأـثر ہوچکا ہے۔

اس ضمن میں کراچی کے پنجابی اور سندھی اہل زبان زندہ مثال ہیں۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل ایک قریبی سپراسٹور میں ایک سندھی سیلز مین اپنے ساتھی سے (سندھی میں بات کرتے ہوئے ) کہہ رہا تھا کہ چھُٹّی ملے گی تو جاؤ ں گا۔ خاکسار نے اسے ٹوکا کہ چھُٹّی یا موکل (سندھی متبادل) تو وہ کھسیانا ہوگیا۔ لگے ہاتھوں ایک لسانی لطیفہ بھی پیش خدمت ہے۔ سنگھاڑے کو بنگلہ کی طرح بِہاری اردو میں بھی ’پانی پھل‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ بِہار میں سموسے کو سنگھاڑا کہتے ہیں۔

مآخذ (References)

A class book of Botany by A.C.Dutta-(India)-Appendix-II: Glossary of Names of Plants٭

Chambers Fun with English Word Origins by George Beal, London, UK-1995٭

The Oxford English Dictionary-1990s Edition: 1990٭

The Oxford English-French/French-English Dictionary٭

English Persian Dictionary  by Abbas Aryanpur  Kashani & ManoocherAryanpur  Kashani

: Tehran, Iran (Pirated edition: Karachi)]فرہنگ انگلیسی۔فارسی[

Southern African Trees-A Photographic Guide By Piet Van Wyk: Struik Publishers, Cape Town, South Africa: 1993

Sindh-English Dictionary: Inst. of Sindhalogy, Jamshoro٭

Various websites, including Wikipedia٭

٭ اردو زبان کا ماخذ۔ ہندکو از پروفیسر خاطر غزنوی، ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد: 2003

٭مضامین ِ اختر جوناگڑھی از قاضی احمد میاں اختر ؔ جوناگڑھی، ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی: 1989

٭پاکستان وہندوستان کی جڑی بوٹیاں از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیوڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭ خواص الاشیاء: تین جلد بشمول سبزیوں اور پھلو ں کے خواص، گھریلو اشیاء کے خواص از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیو ڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭ بنگلہ زبان پر اردوزبان کا اثر، از پروفیسر ڈاکٹر ام سلمیٰ (مرحومہ)۔ شعبہ فارسی و اردو، جامعہ ڈھاکا، بنگلہ دیش: یاد بود ہفتاد وپنجمین سال بخش فارسی و اردو (پچھہتر ویں سال گرہ پر یادگاری مجلہ، حصہ فارسی و اردو: 1996)

٭گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017

٭جریدہ شمارہ بائیس، بابت جنوری ۲۰۰۴ء : مرتبہ سید خالد جامعی، ناظم (شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی) و عمرحمید ہاشمی،

نائب ناظم

٭جریدہ شمارہ تئیس، بابت2004: مرتبہ سید خالد جامعی، ناظم (شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی) و عمرحمید ہاشمی،

نائب ناظم

٭فرہنگ آصفیہ تمام جلدیں ازمولوی سید احمددہلوی

٭فیروزاللغات (اردو)جامع۔ نیا ایڈیشن

٭ نجی گفتگو بَرواٹس ایپ( WhatsApp): شہاب الدین شہابؔ (انگریزی و سندھی پر عبور نیز فارسی سے واقفیت کے حا مل اردو شاعر، براڈکاسٹر، صحافی: کراچی)، اشرف میواتی (اردو کے میواتی شاعر، معلمِ تاریخ: مُوہوں، ہریانہ۔ ہندوستان)، مصطفی دل کش (اردو اور بھوج پوری کے شاعر۔ ہندوستان)، قاضی اعجاز محورؔ (پنجابی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: گوجرانوالہ)، عبداللطیف ندیم (سابق رفیق کار، متوطن گجرات، پنجاب۔ مقیم کراچی)، ہومیو ڈاکٹر محمد ظفر (اردو شاعروادیب، مقیم ِ قصبہ ترشولی، نیپال)، ثاقب ہارونی (اردو شاعر وادیب، مقیم ِنیپال)، ڈاکٹر علی کمیل قِزِل باش (فارسی میں پی ایچ ڈی، اردوشاعر)، افضل مراد (براہوئی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: کوئٹہ)، اظہار اللہ اظہارؔ (پشتو اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: پشاور)، شہزادنیاز (سرائیکی اور اردو کے شاعر، جاپانی زبان سے واقف: متوطن بہاول پور، مقیم کراچی)، حق نواز چودھری (گوجری شاعر: مقیم عباس پور، آزادکشمیر)، حسنین ساحر (اردو، پوٹھوہاری اور فارسی کے محقق وشاعر: بھاراکہو، اسلام آباد)، ظہیرظرفؔ (اردواوربلوچی کے شاعر، مترجم)، انجم جاوید (اردوکے شاعرو صحافی، مادری زبان ہندکو)

sohailahmed.siddiqui@live.com

The post اردو اوربرصغیر کی دیگرزبانوں میں پودوں، سبزیوں اور پھلوں کے مشترک نام appeared first on ایکسپریس اردو.

ظلم کی چکی میں پستے امریکی سیاہ فام

$
0
0

جعلی نوٹ دے کر سگریٹ خریدنے کی کوشش کرنا جرم ہے مگر اتنا بڑا نہیں کہ اس کی پاداش میں نہتے انسان کی جان ہی لے لی جائے۔ تاہم دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں ایسا ہونا ممکن ہے۔

25 مئی کی شام یہی جرم کرنے پر ایک گورے پولیس افسر نے سیاہ فام جارج فلائیڈ کو بڑی بے دردی سے مار ڈالا۔جارج نوجوانی میں چھوٹے موٹے جرم کرتا رہا تھا۔پھر اسے احساس ہوا کہ وہ گناہ کی راہ پر گامزن ہے۔ چناں چہ  اپنا آبائی شہر چھوڑ کر نئے شہر، منیاپولس آگیا تاکہ نئی زندگی کا آغاز کرسکے۔ اب وہ اکثر اوقات سیاہ فاموں کو لیکچر دیتا  تھا کہ تعلیم و ہنر اپنا کر اپنی قسمت بدلیں اور جرائم سے دور رہیں۔ مگر امریکی قانون نے اسی سیاہ فام مبلغ کی گردن پہ بڑے جابرانہ انداز سے اپنا گھٹنا رکھ دیا جو اپنی کمیونٹی میں مردوزن کو اچھائی و بھلائی کی طرف بلا رہا تھا۔

پولیس افسر ڈیرک چاوین نے  مجبور و مقہور جارج کے بدن پر کسی آقا و مالک کی طرح گھٹنا رکھ کر وہ منفی ذہنیت یا سائیکی آشکارا کردی جس سے امریکی سفید فاموں کی اکثریت سوا سو سال گزر جانے کے باوجود چھٹکارا نہیں پاسکی۔یہ کہ وہ آج بھی سیاہ فاموں کو اپنا زرخرید غلام سمجھ کران سے حقارت آمیز اور تعصبانہ سلوک کرتے یہں۔ امریکا کی سفید فام اکثریت منفی ذہنیت سے اس لیے نجات حاصل نہیں کرسکی کہ دور جدید میں بھی امریکی اشرافیہ یا طبقہ ایلیٹ میں شامل بہت سے سفید فام سیاہ فاموں کے لیے تعصب رکھتے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔امریکی ایلیٹ طبقے نے 1865ء سے 1968ء کے دوران بادل نخواستہ،دباؤ کی وجہ سے سیاہ فام عوام کو حقوق دیئے ورنہ وہ اس کے حق میں نہیں تھا۔

رحم کھانا یہاں عجوبہ ہے!

امریکا میں چار کروڑ سے زائد سیاہ فام بستے ہیں۔ یہ کل آبادی (تقریباً تیتیس کروڑ) کا 12.8 فیصد حصہ ہیں۔ سیاہ فام کی اکثریت ان افریقی باشندوں کی اولاد ہے جو 1500ء سے  1865ء کے درمیان غلاموں کی حیثیت سے امریکا لائے گئے۔ سفید فام مالکوں کی اکثریت ان غلاموں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتی تھی جنہیں خود انہی کے مورخین نے اپنی کتب میں بیان کیا۔ولیم ایلن (متوفی 1882ء) ایک مشہور پادری تھا جو دوران حیات سرزمین امریکا سے غلامی کی لعنت دور کرنے کے لیے کوششیں کرتا رہا۔ اس نے غلامی کی مخالف تنظیم، امریکن اینٹی سیلیوری سوسائٹی کے سالانہ اجلاس (منعقدہ 1834ء) میں تقریر کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا ’’امریکی آقاؤں کی اکثریت اپنے غلاموں پر بے پناہ ظلم کرتی ہے۔ ان پر رحم کھانا یہاں عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

غلامی ایک قدیم چلن ہے مگر یہ مغربی قوتیں ہی ہیںجنہوں نے اُسے منظم و منضبط تجارت اور کاروبار کا روپ دیا۔ پندرہویں صدی میں اسپین، پرتگال، برطانیہ، فرانس، ڈنمارک وغیرہ افریقا اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کرنے لگے۔ ان مغربی طاقتوں کے جنگی سرداروں نے مفتوحہ علاقوں میں وسیع و عریض فارم قائم کرلیے۔ فارموں اور بعدازاں کارخانوں میں کام کرنے کی خاطر ہی افریقی مالک سے غلام لائے گئے۔ شروع میں یہ غلام وہ جنگی قیدی ہوتے جو جنگوں میں مغربی افواج کے ہاتھ لگتے تھے۔ بعد میں افریقی شہریوں کی بطور غلام خرید و فروخت ہونے لگی۔ دور حاضر میں مغربی طاقتیں انسانی حقوق جمہوریت اور انسان دوستی کا بہت پرچار کرتی ہیں۔ مگر ماضی میں غلاموں کی ظالمانہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی تجارت کرنا ان کے دامن پر نہایت بدنما داغ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس تجارت کے دوران ایک کروڑ بیس لاکھ افریقی باشندے غلام بناکر یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا لائے گئے۔ یہ غلام سفید فام جاگیرداروں، صنعت کاروں، سرکاری افسروں حتیٰ کہ پادریوں کی چاکری کرتے تھے۔اکثر جگہ انہیں کوئی انسانی حق حاصل نہ تھا۔ ان کو مارنا پیٹنا معمول تھا۔بہت سے مالک افریقی خواتین کی بے حرمتی کردیتے۔ ظلم و ستم سے گھبرا کر کوئی سیاہ فام بھاگ جاتا تو سفید اس کے تعاقب کرکے اسے قتل کردیتے۔ ابراہم لنکن اور دیگر انسان دوست امریکی لیڈروں کی کوششوں سے آخر 1865ء میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ لیکن یہ لیڈر اپنے لاکھوں سفید فام عوام کے دماغوں سے یہ تصّور نہیں کھرچ سکے کہ وہ آقا ہیں اور سیاہ فام غلام! اسی لیے آج بھی احساس برتری اور غرور پر مبنی اس تصّور کے زیر اثر کبھی ڈیرک چاوین مجبور جارج کی گردن دبوچ لیتا ہے تو کبھی سفید فام ہر کالے کو جرائم پیشہ سمجھ کر اسے گولیوں سے مار ڈالتے ہیں۔

23 فروری 2020ء کو ریاست جارجیا میں ایسا ہی اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ جارجیا کے علاقے گلائن کاؤنٹی میں 25 سالہ سیاہ فام نوجوان احمدو آربری جاگنگ کررہا تھا کہ اچانک وین میں سوار دو سفید فام اس کا پیچھا کرنے لگے۔ احمدو نے ان سے بچنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک سفید فام نے گولیاں مار کر اسے قتل کردیا۔بعد میں انکشاف ہوا کہ دونوں سفید فام باپ بیٹا تھے۔ ان کا خیال تھا کہ احمدو آربری وہی چور ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے ان کے علاقے میں چوریاں کررہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے احمدو کو مار ہی ڈالا حانکہ وہ چور نہیں تھا۔باپ، گویگوری مائیکل مقامی پولیس میں کام کرچکا تھا۔ اسی لیے مقامی سفید فام انتظامیہ اسے بچانے کی سعی کرنے لگی۔

کہا گیا کہ باپ بیٹے نے غلط فہمی کی بنا پر احمدو پر گولیاں چلادیں۔ لیکن ایک ویڈیو ان کے جرم کی گواہ بن گئی۔ یہ ویڈیو ان کے پڑوسی، ولیم برائن نے اتاری تھی جو ان کے پیچھے پیچھے اپنی گاڑی چلارہا تھا۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلح باپ بیٹا بڑی سرگرمی سے نہتے احمدو کا تعاقب کررہے ہیں۔ وہ بیچارا ان سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر  بھاگ رہا ہے۔ آخر وہ اسے پکڑلیتے ہیں۔ احمدو بندوق چھیننے کی کوشش کرتا اور ناکام رہتا ہے۔ گویگوری مائیکل اس کے پیٹ میں تین گولیاں داغ کر دن دیہاڑے اسے مار ڈالتا ہے۔

اس ویڈیو نے امریکی معاشرے میں سنسنی پھیلا دی۔ جب جارج فلائیڈ کا قتل ہوا تو مظاہرین یہ مطالبہ بھی کرنے لگے کہ احمدو آربری کے قاتل گرفتار کیے جائیں۔ عوامی دباؤ کی وجہ سے آخر 74 دن بعد مجرم باپ بیٹا حراست میں لے لیے گئے۔ ذرا سوچیے، اگر احمدو کی جگہ کوئی سفید فام ہوتا اور سیاہ فام یا مسلمان اس کا پیچھا کرکے اسے قتل کرتے، تو امریکا میں طوفان برپا ہوجاتا۔ میڈیا تب سیاہ فاموں یا مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا۔ لیکن اس بار قاتل سفید فام تھے، اس لیے شروع میں نہ صرف امریکی میڈیا خاموش رہا بلکہ سوشل میڈیا میں بھی کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ اگر ویڈیو سامنے نہ آتی، تو احمدو آربری کا قتل بھی انصاف کی گرفت سے صاف بچ جاتا۔ اب اس کے رنجیدہ و مغموم والدین کو انصاف ملنے کی امید ہے۔

ابراہم لنکن نے امریکا میں عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی نظام قائم کرنے کی بھرپور کوششیں کی تھیں مگر سفید فام سپرمیسی پر یقین رکھنے والے ایک شخص نے انہیں مار ڈالا۔ لنکن کے بعد جلد ہی سفید فام امریکا میں طبقہ ایلیٹ بن بیٹھے اور قومی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے پھر عوام پر ظالمانہ اور نامنصفانہ نظام ٹھونس دیا جو مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال پیش ہے۔

امریکا کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی شہروں میں سیاہ فام باشندوں نے مشہور کمپنیوں کے ریٹیل اسٹور لوٹ لیے۔ ان اسٹوروں میں لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کی اشیا برائے فروخت رکھی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاہ فام نوجوانوں نے مشہور برینڈ بیچنے والے اسٹوروں کو کیوں نشانہ بنایا؟ وجہ یہ کہ وہ سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایک واضح نشانی ہیں اور اس کا تعلق امریکا کے جیل خانہ جات سے ہے۔

پرزن انڈسٹریل کمپلیکس

امریکا میں حکمران ایلیٹ طبقے نے پولیس فورس کو طاقتور بنا رکھا ہے تاکہ وہ اس کے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ گویا عوام نہیں طبقہ ایلیٹ کے مفاد کو تحفظ دینا امریکی پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔اور اس فورس میں سفید فاموں کی کثرت ہے جن میں سے اکثر نسل پرست اور متعصب ہیں۔1971ء میں ایلیٹ طبقے سے تعلق رکھنے والے صدر رچرڈنکسن نے ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اس جنگ کی آڑ ہی میں امریکی اشرافیہ سیاہ فاموں کو دوبارہ اپنا غلام بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوگئی۔ وہ اس طرح کہ پولیس ہر سال ہزارہا سیاہ فاموں کو کسی نہ کسی جرم میں گرفتار کرنے لگی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ امریکی جیلوں میں مقید ’’50 فیصد‘‘ قیدی سیاہ فام تھے۔ ان کی پکڑ دھکڑ خاص مقصد پانے کی خاطر انجام پائی۔وہ مقصد سستی افرادی قوت مہیا کرنا تھا۔

دراصل امریکی جیلوں میں قیدیوں سے مختلف کام کرائے جاتے ہیں۔ بدلے میں انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر آج امریکا میں فی گھنٹہ کم سے کم اجرت 7.25 ڈالر ہے۔ مگر جیلوں میں قید مجرم فی گھنٹہ صرف 3 ڈالر معاوضہ پاتے ہیں۔ چناں چہ امریکی پولیس معمولی باتوں پر بھی سیاہ فام نوجوانوں کو قید کرنے لگی۔ مدعا یہی تھا کہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو سستی افرادی قوت مل جائے۔ آج امریکا کی 500 بڑی (فارچون)کمپنیوں میں سے اکثر کی مصنوعات براہ راست سے ناراست طور پہ جیلوں میں بند قیدی ہی تیار کرتے ہیں۔ یوں امریکی طبقہ ایلیٹ نے قیدیوں خصوصاً سیاہ فام باشندوں کے استحصال کا نیا طریق کار ڈھونڈ نکالا۔ ماہرین اس طریق واردات کو ’’پرزن انڈسٹریل کمپلیکس ‘‘(Prison–industrial complex) کا نام دے چکے۔

دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں قائم اس پرزن انڈسٹریل کمپلیکس کی وسعت کا اندازہ  یوں لگائیے کہ امریکی جیلوں میں آج بائیس لاکھ قیدی بند ہیں۔ ان میں سے اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشیاء تیار کرتے ہیں۔عالمی آبادی میں امریکی باشندے صرف ’’4 فیصد‘‘ ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر کل قیدیوں میں سے ’’22 فیصد‘‘ امریکی جیل خانوں میں مقید ہیں۔ یہ تلخ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ لالچی اور ہوس ناک امریکی ایلیٹ طبقہ ان کی اسیری کو کاروبار کا روپ دے چکا۔ وہ قیدیوں کی مجبوری و بے بسی سے فائدہ اٹھا کر ان سے کام کراتا اور بدلے میں معمولی اضافہ دیتا ہے۔ یوں اسے نہایت سستی افرادی قوت مل گئی جو کمپنیوں کا منافع بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔

زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کی خاطر انسانوں کا استحصال امریکی سرمایہ داری کا وصف خاص بن چکا۔ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی جیلیں سیاہ فام نوجوان کے لیے جرائم کی درس گاہیں ثابت ہوتی ہیں ۔وہاں سفید فام انتظامیہ انہیں جرائم پیشہ بنانے کی خاطر ہر حربے اپناتی ہے۔ چناں چہ وہ آزادی پاکر پھر جرم کرتے اور واپس جیل پہنچ جاتے ہیں۔ یوں جیلوں میں ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پرزن انڈسٹریل کمپلیکس کو مسلسل سستی لیبر دستیاب رہتی ہے۔

حقائق سے عیاں ہے،امریکی ایلیٹ طبقے اور پولیس کا بھی مفاد اسی  میں ہے کہ سیاہ فام باشندوں کو دانستہ جرائم میں لت پت رکھا جائے تاکہ نہ صرف انھیں سستی افرادی قوت میّسر آئے بلکہ ان کی امریکی معاشرے پر گرفت بھی مضبوط رہے۔اس طرح وہ اپنے اقتدار کو دوام بخش دینا چاہتا ہے۔مگر دنیائے مغرب میں ایلیٹ طبقوں کے خلاف حالیہ احتجاجی مظاہروں سے یہ بات آشکارا ہو چکی کہ وہاں اب سفید فام بھی اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔اسی لیے امریکا میں خصوصاً سفید فام نوجوانوں اور طلبہ وطالبات نے سیاہ فاموں کے شانہ بشانہ مارچوں،مظاہروں اور جلوسوں میں حصہ لیا۔یہ نئی تبدیلی مستقبل میں مغربی حکومتوں اور معاشروں پر ایلیٹ طبقوں کی گرفت کمزور کر سکتی ہے۔کم از کم وہ مجبور ہوں گے کہ عوام کو زیادہ سہولتیں اور مراعات عطا کر دیں تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں۔دوسری صورت میں عوامی احتجاج تحریک بن کر ان کا بوریا بستر گول کر دے گا۔

بھارتیوں کا دوغلاپن

بھارت میں کئی سیاست دانوں،فلمی ستاروں ،دانشوروں وغیرہ نے ٹویٹ کر کے امریکی سیاہ فام باشندوں سے اظہار یک جہتی کیا۔یہ اچھا فعل ہے۔سوال مگر یہ کہ جب بھارتی پولیس مذہبی تعصب  سے مسلمانوں اور نسلی عصبیت کے باعث دلتوں پہ خوفناک ظلم ڈھاتی ہے،تو ان بھارتی سیلیبرٹیز کا ضمیر اور دلیری کہاں جا چھتی ہے؟بھارتی پولیس بھی اپنے حکمران ایلیٹ طبقے کے مفادات کی نگہبان بن چکی۔دہلی کے حالیہ مسلم کش فسادات میں پولیس نے مسلمان لڑکوں کو گھیر کر بے دردری سے مارا پیٹا اور انھیں ’’وندے ماترم‘‘پڑھنے پہ مجبور کیا تھا۔بعد کو ان میں سے ایک لڑکا،محمد فیضان تشدد کی وجہ سے شہید ہوگیا۔بھارت میں مگر پولیس کی کھلی دہشت گردی کے خلاف رتّی برابر احتجاج نہیں ہوا۔کشمیر میں سیکورٹی فورسسزکے مظالم پر بھی اکثریتی ہندو فرقے کے افراد کی خاموشی سنگین جرم کے مترادف ہے۔

The post ظلم کی چکی میں پستے امریکی سیاہ فام appeared first on ایکسپریس اردو.

’کورونا‘ کے خلاف خاتون حکم رانوں کی کامیابیاں۔۔۔

$
0
0

بھلے ہی خلا سے دیکھنے پر کرہ ارض اپنے مدار پر محو حرکت نظر آتی ہو، لیکن زمینی گولے کے اندر اِن دنوں زندگی اپنی ڈگر پر معمول کی طرح رواں دواں نہیں۔۔۔ تھم سی گئی ہے اور کسی اَن جانے سے خوف میں خاموش ہے۔۔۔ یہاں امید اور خوف کی جنگ جاری ہے، جیت کس کی ہوگی اور کب ہوگی۔۔۔ کسی کو کچھ خبر نہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، کہیں یہ اپنے عروج پر ہے، تو کسی ملک میں اگلے چند ماہ میں ہونے والی ریکارڈ اموات کا خطرہ منہ کھولے کھڑا ہے۔ عالمی قوتیں اور عالی دماغ اس عفریت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ صنعتوں کا پہیا جام ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، ذرایع آمد و رفت معطل ہیں اور ہر طرف خوف کا راج ہے۔

صدارتی انتخابات کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ماتھے پر آنے والے سلوٹیں دراصل تاجر طبقے کی ناراضی اور ووٹروں کا اعتماد کھو جانے کا خوف ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن تو خود روبہ صحت ہوگئے ہیں، لیکن اِن کا ملک اب بھی اس وائرس کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت میں معاملات مودی سرکار کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

ایسا نہیں کہ صرف جمہوری ممالک کی کورونا وائرس کے آگے دال نہیں گلی، اس وائرس نے ’’ملٹری رول‘‘ کو بھی للکارا اور کئی محاذوں پر شکست بھی دی۔ اسی طرح یہ انصاف پسند وائرس بادشاہوں کا درباری بھی ثابت نہیں ہوا۔ خلیجی ممالک جہاں بادشاہت قائم ہے، وہاں اب اس وائرس کا راج ہے۔

غالباً 1997ء کی بات ہے، جب ایک بھارتی فلم میں معروف اداکار نانا پاٹیکر کا ڈائیلاگ ’’سالا ایک مچھر انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے!‘‘ کافی مقبول ہوا تھا۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے کہ بڑے بڑے ’بت‘ ایک چھوٹے سے وائرس کے آگے زمین بوس ہورہے ہیں۔

ایسے میں ایک کھلکھلاتا ہوا چہرہ، جیت کی خوشی سے لبریز مسکراہٹ کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے اور دنیا کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فتح کا مژدہ سناتا ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کی دھان پان سی وزیراعظم اور ’فاتحِ کورونا‘ جسینڈا آرڈن ہیں۔ نیوزی لینڈ میں ’کووِڈ 19‘ یعنی کورونا کا اب ایک بھی مریض نہیں۔ اس لیے مقامی سطح پر لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے، تاہم عالمی پروازیں اب بھی بند رہیں گی۔ سخت اور فوری اقدام کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں صرف 11 سو 53 افراد اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 22 تک محدود رہی۔

’کورونا وائرس‘ کی جائے پیدائش چین ہے، تاہم وہاں اس وبا پر قابو پالیا گیا ہے، لیکن چین سے نکل کر اب بھی یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہوا تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ چین کے بعد کورونا وائرس کو شکست دینے والا ملک امریکا، برطانیہ، جاپان، فرانس یا جرمنی نہیں بلکہ حیران کن طور پر یہ کارنامہ ایک چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ نے انجام دیا ہے۔

نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کو شکست جواں سال وزیراعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے مرہون منت ہی نہیں، بلکہ اس میں ملک کے جغرافیے، آبادی، بلند شرح تعلیم اور عوام کی قربانیاں بھی شامل ہیں تاہم جسینڈا آرڈن کی روزِ اول سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں واضح اہداف کے حصول میں کھری پالیسی کے ساتھ مکمل دل جمعی اور اعتماد سے آگے بڑھتے رہنے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والا جزیرہ نیوزی لینڈ دو بڑے زمینی ٹکڑوں پر مشتمل ہیں جنہیں شمالی اور جنوبی جزیرہ کہا جاتا ہے، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چھوٹے جزیرے اس ریاست کا حصہ ہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آنے پر سب سے پہلے بیرون ملک پروازوں اور زمینی سرحدوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا، جس کے بعد مقامی سطح پر بھی وزیراعظم جسینڈا آرڈن نے سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا، جو وبا کے اختتام تک یعنی سات ہفتے جاری رہا۔

جزیرہ نما ہونے کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو دنیا کے دیگر ممالک سے خود کو دور کرنے میں آسانی رہی، آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی اور بالغوں میں شرح تعلیم 99 فی صد تک ہے۔ عوام نے لاک ڈاؤن کے دوران نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی حکومت کے شانہ بہ شانہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ یہ خصوصیات بھی نیوزی لینڈ کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام نے دنیا بھر کو حیران کر دیا ہو، 15 مارچ 2019ء کا دن بھی نیوزی لینڈ کے باشعور شہریوں کے لیے ایک امتحان تھا، جب ایک سفید فام جنونی آسٹریلوی نوجوان برینٹن ہریسن ٹیرنٹ نے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نماز جمعہ کے وقت اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 50 نمازی شہید اور 45 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اس دل دہلا دینے والے واقعے سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی، خود ’کیوی‘ یعنی نیوزی لینڈ کے باسی بھی دہشت گردی کے اس واقعے پر چونک اُٹھے تھے، کیوں کہ وہاں جرائم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس موقع پر جسینڈا آرڈن نے خود لواحقین سے ملاقات کی، ہم دردی کا اظہار کیا، معافی مانگی اور ہر طرح کا خیال رکھا۔ ان کا کردار ایسا ہی تھا جیسے ایک ’’ماں کی طرح ریاست‘] کا ہونا چاہیے۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ کے شہری بھی بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے نکل آئے، مساجد کھلوائیں اور نماز جمعہ کے اجتماعات کی خود پہرہ داری کی۔ کیوی وزیراعظم اور عوام نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا کہ ایک جنونی دہشت گرد کی پست ذہنیت کا نیوزی لینڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ پارلیمان نے اسلحہ رکھنے کے قوانین میں ترمیم کیں۔ خودکار اور بڑا اسلحہ واپس لے لیا گیا اور سفاک قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

جسینڈا آرڈن اس واقعے کے بعد پوری دنیا کے سامنے ہم دردانہ رویے، قانون کی عمل داری اور متحرک وزیراعظم کی طور پر ابھریں اور اپنی قوم کے وقار اور سر بلندی کا باعث بنیں۔ ایک سال بعد پھر جسینڈا آرڈن اور کیویوں نے کورونا وائرس کو شکست دے کر پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جسینڈا آرڈن کے ساتھ ساتھ دیگر کئی خواتین حکمرانوں نے بھی کورونا وائرس کی جنگ میں حیرت انگیز نتائج دیئے ہیں۔ جن میں تائیوان، فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، جرمنی، آئس لینڈ اور بھارتی ریاست کیرالہ کی خاتون  وزیر صحت شیلجہ شامل ہیں، جنہوں نے کورونا وائرس کا مردانہ وار مقابلہ کر کے مرد حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

نیوزی لینڈ کے مقابلے میں چین کے پڑوسی ملک تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا، تائیوان چین کے صوبے ہوبی سے بہت نزدیک واقع ہے، جو کورونا وائرس کا گڑھ تھا اور جس کی وجہ سے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی رکھنے والے تائیوان میں اس مہلک وائرس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوگا اور معیشت تباہ ہو جائے گی لیکن خاتون صدر کی موثر حکمت عملی نے وائرس کو بے لگام نہ ہونے دیا۔

خیال تو یہ کیا جا رہا تھا کہ چین کے مقابلے میں تائیوان میں کورونا وائرس سے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوگی لیکن تھوڑی ہی دوری پر جنم لینے والا اور سبک رفتاری سے پھیلنے والا وائرس پڑوسی ملک تائیوان میں صرف ایک ہزار افراد کو متاثر کر سکا اور صرف سات افراد لقمہ اجل بنے۔

تائیوان کی خاتون صدر سائی ان وین نے جنوری میں ہی یہ خطرہ بھانپ لیا تھا، جب کورونا وائرس نے چین ہی میں سر اُٹھایا تھا۔ انہوں نے فوری طور چین، مکاؤ اور ہانگ کانگ سے آنے اور جانے والی پروازیں بند اور ماسک اور دیگر طبی آلات کو برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی۔

تائیوان نے 2003ء میں مہلک وبا ’سارس‘ کے بعد ایک قومی صحت کمانڈ سینٹر تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد آئندہ آنے والی آفات اور وباؤں کے لیے تیاری کرنا تھا، تاکہ مستقبل میں کسی وبا کے نتیجے میں ’سارس‘ جیسی بحرانی کیفیت پیدا نہ ہوں۔ یہ ادارہ وبا کی وجہ، مرض اور مریض سے متعلق اعداد و شمار جمع کرتا ہے، جس کی روشنی میں ماہرین کی مختلف ٹیمیں سدباب کے لیے کام کرتی ہیں۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے وبا کے تدارک کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا، جس کے تحت قومی صحت انشورنس کے اعداد و شمار کو امیگریشن اور کسٹم سے حاصل ڈیٹا کے ساتھ ہم آہنگ کیا جس سے طبی عملے کو کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس کے آنے سے قبل ہی مشتبہ مریضوں کی شناخت میں کافی مدد ملی۔

تائیوان میں ایئرپورٹ پر مسافروں کو ’’کیو آر کوڈ اسکین‘‘ کے ذریعے سفری معلومات اور بیماری کی اطلاع دینے کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ان معلومات کے جواب میں مسافروں کو ایک ٹیسٹ میسج آتا جسے دکھانے پر کم خطرے والے مسافروں کو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی جاتی اور مشتبہ مریضوں کو اسپتال بھیج دیا جاتا۔

تائیوان کی صدر نے ’سارس‘ کے بعد ہی سے حیاتیاتی طبی تحقیق میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا اور کورونا وبا کے دوران بائیو میڈیکل ٹیم نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایسے پروٹین کی نشاندہی کرنے والے اینٹی باڈیز تیار کیں، جو کورونا وائرس کا سبب بنتے ہیں۔ تیز رفتار اور مستند ٹیسٹ کٹس تیار کیں اور طبی عملے کو جدید ٹریننگ دیں۔

عوام نے اپنی صدر کا ساتھ دیتے ہوئے سخت سے سخت اقدام کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور کسی ایک بھی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائی۔ ایک متحد قوم کی طاقت کیا ہوتی ہے، وہ نیوزی لینڈ اور تائیوان کی عوام کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی نیوزی لینڈ اور تائیوان کی حکومتوں کے اقدامات کی تعریف کی اور اسے مشعلِ راہ قرار دیا۔ امریکی ماہرین بھی تائیوان کی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کام یابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان نے سب سے پہلے خطرہ بھانپ لیا اور صدر سائی اِنگ وین نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ’’کلیئر پالیسی‘‘ وضع کی۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے نہ صرف اپنے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آگے بند باندھے رکھا، بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ دنیا بھر سے اس وائرس کا نام و نشان مٹ جائے، جس کے لیے وہ دیگر ممالک کی مدد بھی کرتی ہیں اور حال ہی میں انہوں نے امریکا اور یورپ میں 10 ملین ماسک کا تحفہ بھجوایا ہے۔

بھارت میں مودی سرکار کی پالیسیوں سے کورونا وبا پر قابو تو نہ پایا جا سکا، البتہ بغیر منصوبہ بندی کے آناً فاناً لاک ڈاؤن لگانے کی وجہ سے حالات کافی بے قابو ہوگئے، فاقہ کشی کی نوبت آگئی اور اب تک 100 کے قریب مزدور شہروں سے اپنے گاؤں جانے کے لیے سواری نہ ملنے کے سبب مختلف واقعات میں حادثات کی نذر ہوچکے ہیں۔۔۔!

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ناکامی اپنی جگہ لیکن بھارتی ریاست کیرالہ کو کورونا وائرس کے خلاف موثر پالیسی اپنانے اور بہترین منصوبہ بندی کرنے کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت اور طبی ماہرین کی جانب سے کافی سراہا جا رہا ہے۔ تین کروڑ سے زائد آبادی اور بھارت کی گنجان ترین ریاست میں پہلا مریض جنوری میں پہلا مریض سامنے آیا تھا۔

کیرالہ کی خاتون وزیر صحت شیلجہ نے اپنے لوگوں کو اس مہلک وائرس سے بچانے کا بیڑہ اُٹھایا، 31 جنوری کو ایئرپورٹ پر اسکریننگ سے پہلا مریض سامنے آنے پر 50 ہزار سے زائد اسکریننگ کے بعد صرف 50 مریض سامنے آئے، اس کے باوجود 3 فروری 2020ء کو صحت ایمرجینسی نافذ کر دی۔

لاک ڈاؤن سے قبل 200 بلین کا پیکیج منظور کرایا گیا، جس میں 10 بلین دیہی علاقوں میں بے روزگاروں کی مالی مدد کے لیے استعمال کیا گیا، پورے صوبے میں ایک ماہ تک مفت راشن دیا گیا۔ تربیت یافتہ 800 ڈاکٹروں کو ضلعی سطح پر تعینات کیا، 3 لاکھ 75 ہزار بچوں کو گھر پر غذا پہنچائی اور مفت ماسک تقسیم کیے۔

کیرالہ کی خاتون وزیر صحت کی محنت رنگ لائی اور اب تک صوبے میں کورونا وائرس صرف 2 ہزار 244 افراد کو متاثر کر سکا اور 18 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ کیرالہ کے علاوہ دیگر بھارتی ریاستوں میں ’کووِڈ 19‘ کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ تک جا پہنچی ہے اور 8 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہیں۔

گویا دنیا بھر کی مختلف خاتون حکمرانوں نے ’مرد حکمرانوں‘ کو کھلا چیلنج دے دیا ہے اور اب دیکھنا ہے کہ اس مثبت مقابلے میں کون سا مرد حکمراں میدان میں آتا ہے اور مردوں کی ’لاج‘ رکھ پاتا ہے۔

 

The post ’کورونا‘ کے خلاف خاتون حکم رانوں کی کامیابیاں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری بے احتیاطیوں نے گھروں میں محفوظ لوگوں کی زندگی کوبھی داؤ پر لگا دیا!

$
0
0

عوام کی بے پروائیوں اور انتظامیہ کی غفلتوں کے سبب خدشات کے عین مطابق ’کورونا‘ ملک بھر میں بری طرح پنجے گاڑ چکا ہے۔۔۔ 

’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے!‘‘ کے نعرے سے اب ایسا معلوم ہونے لگا ہے کہ اب ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ کورونا سے یہ ’جنگ‘ ہم گھروں سے باہر نکل کر لڑیں گے۔۔۔ اور اس دو دو ہاتھ کرنے میں فتح وشکست تو بعد کی بات ہوتی ہے، البتہ جانی نقصان  کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وبا کے باعث روزانہ ہلاکتوں کی تعداد اب 10، 20 سے بڑھ کر 100 سے زائد ہو چکی ہے۔۔۔

بغیر ماسک کے گھروں سے نکل کر تمام احتیاطی تدابیر کو پس پشت ڈالنے والوں نے گھروں میں  بند ہو کر محفوظ رہنے کی کوشش کرنے والوں کی زندگی کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے، کیوں کہ ہمارے ہر دوسرے گھر میں بزرگ اور بیمار افراد موجود ہیں، جن میں شوگر، بلڈ پریشر، دمہ اور دل کے مختلف عوارض وغیرہ کے مریض شامل ہیں۔۔۔ جنہیں وقتاً فوقتاً طبی امداد اور معمول کے معائنے کے لیے شہر کے مختلف اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔۔۔

ملک میں ناکافی طبی سہولتوں کے باعث پہلے ہی صورت حال غیر تسلی بخش تھی، اب اس وبا نے معاملہ بہت گمبھیر کر دیا ہے، شہر کے مختلف اسپتالوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شرح اموات میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔۔۔ بروز اتوار روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں یہ اضافہ 30 سے 40 فی صد بتایا گیا ہے۔۔۔

ایک طرف لوگوں کو اسپتال میں جگہ نہیں مل رہی، وہیں بہت سے لوگ ازخود بھی اپنے مریض اسپتال لے جانے سے خوف زدہ ہیں۔۔۔ مسلسل جاری غیر یقینی کی صورت حال میں انہیں ڈر ہے کہ مریض کو ’زبردستی‘ کورونا سے متاثرہ قرار دے کر ان سے ’چھین‘ لیا جائے گا۔۔۔ کیوں کہ  اسپتالوں سے ایسی شکایات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، جن کی تصدیق یا اصل صورت حال بتانے کی طرف کسی بھی ذمہ دار کی توجہ نہیں۔۔۔۔!

اس بدترین ماحول میں آج بھی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ موجود ہے، جو خم ٹھونک کر ’کورونا‘ کو کسی طور وبا یا خطرہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔۔۔ ظاہر ہے، حکام بالا کو تو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو قائل کرے یا اس حوالے سے ان کے تحفطات کا جواب دینے کا سوچے۔۔۔ اس لیے اب صورت حال اس خطرناک نہج کو پہنچ چکی ہے، جس کا خدشہ ہم گذشتہ کئی دنوں سے انہی صفحات پر مستقل کر رہے تھے۔

کراچی میں شرح اموت میں اضافے سے ہمیں 2015ء کا جون یاد آرہا ہے، جب سخت گرمی نے شہر میں اسپتال کے اسپتال بھر دیے تھے اور چند دنوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد جانیں تلف ہوئی تھیں۔۔۔ یہ طبی اموات کسی بھی طرح ’قتل‘ سے تو کم نہ تھیں۔۔۔ لیکن کس کو فکر ہے صاحب۔۔۔! اس سانحے کے بعد کراچی میں طبی سہولتوں کے لیے کوئی قدم نہ اٹھا کر یہ بتا دیا گیا ہے کہ شہریوں کی جان کی اہمیت کس قدر ہے۔۔۔ رہی بات ’کورونا‘ سے نجات کے لیے خصوصی دعاؤں اور عبادات کی، تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب  لوگ اسپتال بھر جانے کے باوجود بھی ’کورونا‘ کوخطرہ نہیں سمجھ رہے تو پھر کیسی توبہ اور کیسی دعا صاحب۔۔۔ اب تو روزانہ رات دس بجے اذانیں دینے کا سلسلہ بھی موقوف ہو چکا ہے۔

اب اس پر مزید اور کیا لکھا جائے۔۔۔ خدا جانے ہم اب کون سے طوفان کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ کب ہم یک سو ہو کر اس مہلک وبا کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی ترتیب دیں گے۔۔۔ اب اور کیا حجت تمام ہونا باقی ہے۔۔۔؟ کیا یوں ہی ہمارے وزیر سکون سے بیٹھ کر اندازے لگاتے رہیں گے کہ فلاں مہینا کورونا کے حوالے سے خطرناک ہوگا اور فلاں تاریخ تک متاثرین اتنے لاکھ ہو جائیں گے۔۔۔ اور لوگ ایسے ہی بے بسی میں مرتے رہیں گے۔۔۔؟؟

rizwan.tahir@express.com.pk

 

The post ہماری بے احتیاطیوں نے گھروں میں محفوظ لوگوں کی زندگی کوبھی داؤ پر لگا دیا! appeared first on ایکسپریس اردو.

وٹامن سے اپنی ’قوت مدافعت‘ مضبوط بنائیے

$
0
0

کورونا کا جن قابو میں نہیں آسکا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس نے اس سال مسلمانوں کے فریضہ ٔحج پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے اس وائرس کی وجہ سے لوگوں میں زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ۔ جب سے یہ وبا پھیلی ہے لوگ کھانوں کے معاملے میں محتاط نظر آرہے ہیں، کیوں کہ اس بیماری کا مقابلہ مضبوط قوت مدافعت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ وٹامن (حیاتین) کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔  قوت مدافعت مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھرپور نیند لیں، پرسکون رہیں اور تمام ضروری غذائی اجزا  پر مشتمل غذا نوش جان کریں۔

وٹامن دو الفاظ ’’ وٹا‘‘ اور ’’ایمین‘‘ کے ملاپ سے بنا ہے۔ وٹا انگریزی کے لفظ vital سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی اہم یا ضروری کے ہیں، جب کہ ایمین (Amine) ایسے کیمیائی مرکبات کو کہتے ہیں، جو زندگی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کیمیائی مرکبات کی ساخت پیچیدہ ہوتی ہے اور یہ قلیل مقدار میں جسم کو درکار ہوتے ہیں، لیکن زندگی کے لیے اتنے اہم اور ضروری ہوتے ہیں کہ ان کی کمی اور عدم موجودگی سے ہماری صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ عام طور پر وٹامن کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جو چکنائی میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ جن میں وٹامن بی اور سی کمپلیکس شامل ہیں ۔

وٹامن کی بڑی مقدار نباتاتی اور حیواناتی ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ نباتاتی ذرایع میں ہری پتے والی ترکاریاں، جڑ والی سبزیاں، دالیں، چنے، لوبیا، گریاں اور ثابت اناج شامل ہیں، جب کہ حیواناتی ذرایع میں کلیجی، گردے، گوشت، اور مچھلی کے علاوہ دودھ، انڈے اور ان سے تیار شدہ مصنوعات شامل ہیں۔ ہمارے جسم کو وٹامن کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی وٹامن کی کمی سے بیماریاں لاحق ہو نے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر وٹامن اے کی کمی سے جلد کی بیماریاں کیراٹینائزیشن ، شب کوری اور ذہنی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔

اب ان وٹامن کا تذکرہ کرتے ہیں، جو کورونا میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یعنی جو مختلف وبائی امراض کے خلاف انسانی جسم میں بھرپور قوتِ مدافعت یا محافظ بن کر بچاؤ کر سکتے ہیں۔ وٹامن اے نباتاتی غذاؤں میں زرد نارنجی اور سبز مادے میں بطور کیروٹین پایا جاتا ہے، جو آنتوں میں جا کر وٹامن اے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کیروٹین کو پرو وٹامن اے بھی کہتے ہیں۔ جسم میں یہ جگر کے اندر ذخیرہ ہوتا ہے اور اس کی زیادتی سے انسان سر درد، متلی، ڈائیریا، ہڈیوں کی تکلیف اور خارش کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ وٹامن جہاں جسمانی نشو ونما، بینائی، اور آنکھوں کے لیے نہایت ضروری ہے تو وہاں وبائی امراض کے مقابلے میں قوتِ مدافعت پیدا کر کے محافظ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس وٹامن کے ضمن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ دودھ کی مصنوعات ، انڈے ، مچھلی، سبز پتے والی سبزیاں ، پیلی اور نارنجی رنگ والی سبزیوں کا استعمال اس کی کمی نہیں ہونے دیتا۔ لہٰذا اس کی کمی کی تشخیص کے نہ ہونے تک وٹامن اے سپلیمنٹ کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ اس کی زیادتی جسم میں چربی کا ذخیرہ بڑھاتی ہے۔ وٹامن سی ایک سادہ قسم کا نامیاتی ترشہ ہے، جو تمام وٹامن میں سب سے زیادہ نازک اور حساس ہے اور ہوا لگنے کی صورت میں ضایع ہو جاتا ہے۔ خوراک میں تازہ پھلوں اور سبزیوں میں وسیع پیمانے پر موجود ہوتا ہے، لیکن اس سے حاصل کردہ مقدار کا انحصار اس بات ہر ہوتا ہے کہ انہیں کیسے تیار کیا جائے۔

وٹامن سی جہاں زخموں کو مندمل کرنے ، دانت اور ہڈیوں کے بنانے، مسوڑھوں کی بافتوں اور خون کی شریانوں کو مضبوط بناتا ہے، تو وہاں یہ جسم میں بیماریوں اور جراثیم کے خلاف قوتِ مدافعت بھی پیدا کرتا ہے۔ جس کی بدولت ہم مختلف خطرناک وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ سورج کی شعاعیں ہیں، جن کی موجودگی میں یہ انسانی جسم میں از خود پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں گرمی زوروں پر ہے، تو لہٰذا ہمارے جسم میں اس کی کمی نہیں ہو سکتی۔

سورج کی شعاعوں کے علاوہ وٹامن ڈی کلیجی، دودھ، انڈے، مکھن اور بالائی وغیرہ میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے جسم میں وٹامن کا اہم کردار ہوتا ہے، جو وبائی امراض کے خلاف خودبخود حرکت میں آجاتا ہے، لیکن جن افراد میں کمزور مدافعتی نظام پایا جاتا ہے، ان کو ویکسین یعنی حفاظتی ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں تاکہ اسے متحرک کیا جا سکے۔ تاحال کورونا وائرس کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، اس لیے تمام افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی غذاؤں میں ایسے وٹامن شامل کریں، جن سے قوتِ مدافعت میں اضافہ یا محافظ نظام مضبوط ہو۔

 

The post وٹامن سے اپنی ’قوت مدافعت‘ مضبوط بنائیے appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک مریض کورونا سے تو صحت یاب ہوگیا، لیکن بیوی خوف سے چل بسی

$
0
0

کورونا کی وبا سے دنیا تاحال نجات پانے میں مصروف ہے۔ اس کی تباہ کاریوں کے اثرات نہ جانے کب تک رہیں گے۔

پاکستان میں اس کے مریضوں کی تعداد میں رواں ماہ یعنی جون میں بہت تیزی سے اضافہ سامنے آیا ہے۔ رواں برس فروری میں جب اس سے متاثرہ پہلا فرد ہمارے سامنے آیا، تب سے ہی اس وبا کے خلاف  احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں، ابتدا میں لوگ اس پر بالکل سنجیدہ نہیں ہوئے، لیکن اب صورت حال روز بروز تشویش ناک ہو رہی ہے۔ ایسے میں ڈر اور خوف کے بہ جائے اس سے نبرد آزما ہونے کا واحد حل صرف اور صرف احتیاط ہے۔

میں خود گزشتہ ماہ اس وبا کا شکار ہوا، لیکن الحمدللہ میں اور مجھ جیسے کئی دیگر افراد اس موذی بیماری کو شکست دے کر صحت یاب ہونے میں کام یاب رہے، اگرچہ میں بھی اس کا شکار ہونے سے قبل اپنے طور پر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھا، جو حکومتی سطح پر بیان کی جاتی رہی تھیں، ہم نے تین جمعے کی نماز گھر پر ادا کی، لیکن صرف دفتر آنے کی خاطر میں گھر سے باہر آتا جاتا، وہ بھی مکمل احتیاط کے ساتھ۔

خیر میں اس کا شکار بنا اور پھر بطور ذمے داری شہری کے ازخود ’آئسولیشن‘ کے لیے ایکسپو سینٹر، کراچی میں واقع فیلڈ اسپتال منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے دفتر کے دوستوں کی وساطت سے وہاں چلا گیا، جہاں 22، 23 دن قیام کے بعد دو منفی ٹیسٹ آنے پر صحت یاب قرار دیا گیا اور یوں گھر واپسی کا پروانہ مل سکا۔

اس دوران پیش آنے والے تجربات اور محسوسات کو ضبط تحریر میں لانے کا مقصد لوگوں میں اس وائرس کے خلاف  احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور اور لوگوں کا ڈر ختم کرنا ہے۔۔۔ سب سے پہلے تو ہم لوگوں کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ کورونا کی تشخیص ہوجانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اب موت یقینی ہے، دوم اگر کوئی مریض آپ کے علاقے یا قرب وجوار میں وارد ہو جائے تو اس سے گھبرانے کے بہ جائے ازخود احتیاط کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ عام طور پر اس موقعے پر ہمارے وہ حضرات جو دیگر کو تلقین کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، لیکن عمل کی باری آتی ہے تو ان کا پتا نہیں ہوتا۔

’ایکسپو سینٹر‘ میں میرے ساتھ ایک خاندان ایسا بھی تھا، جن کے اہل محلہ نے محض اس وائرس میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے ان سے قطع تعلق کر لیا، برسوں کے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے اور مشکل کے وقت میں جب ساتھ دینے کا وقت تھا، ساری مذہبی اور سماجی اقدار پس پشت ڈال دی گئیں۔ مذکورہ خاندان کے سربراہ نے آبدیدہ انداز میں اہل محلہ کا دل دکھانے والے سلوک کا تذکرہ کیا۔

ایکسپو سینٹر میں سماج سے ’علاحدگی‘ کے دوران اس وقت شدید دکھ ہوا جب وہاں موجود ایک صاحب کی اہلیہ محض اس غم میں دنیا سے چلی گئیں کہ ان کے شوہر کو ’کورونا‘ ہوگیا ہے۔۔۔! ان کی اس الم ناک موت کی وجہ ہمارے معاشرے میں کورونا کا پایا جانے والا خوف تھا۔ اپریل اور مئی میں یہ خوف عروج پر رہا، لیکن اب جون آنے پر جہاں حکومتی سطح پر نرمی کی جا رہی ہے اس سے لوگوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، لیکن اب لوگ ’بے خوفی‘ کی انتہا پر جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بے احتیاطی کی جا رہی ہے اور یوں کورونا کے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

کراچی میں ایکسپو سینٹر کا انتظام پاک فوج کے سپرد ہے، جہاں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نزہت طبی شعبے کی نگران ہیں، ان کے ساتھ ڈاکٹر اجمل، ڈاکٹر مہروز، ڈاکٹر ایمان ضیا، ردا تفویض، ڈاکٹر علیشبہ خان، ڈاکٹر انوشہ اور دیگر طبی عملے کا رویہ انتہائی ذمہ دارانہ اور مشفقانہ تھا۔ بطور مریض میرا آئسولیشن کا تجربہ انتہائی اطمینان بخش رہا۔ کورونا کی تشخیص ہونے پر دو دن تو دیگر لوگوں کی طرح میں بھی انتہائی پریشان ہوگیا تھا۔ ’قرنطینہ‘ ہونے میں مجھے قریبی لوگوں کی مخالفت کا بھی سامنا رہا، لیکن میں نے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ’ایکسپو سینٹر‘ منتقل ہو جانے کو ہی بہتر خیال کیا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں میرے اہل خانہ بھی معاشرے کی روایتی بے حسی کا شکار ہوئی۔۔۔ افسوس ناک بات یہ کہ  بہت سے لوگوں نے ’تشہیر‘ کا موقع پا کر اس حوالے سے بے مقصد ویڈیو بنائیں اور ’سوشل میڈیا‘ پر سینکڑوں ’ لائک‘ جمع کیے۔

بہرحال یہ بھی تصویر کا ایک رخ ہے، لیکن دوسری طرف ایکسپو سینٹر میں بلاشبہ بہترین انتظامات کیے گئے تھے اور متاثرین کو صحت یابی کی منزل تک پہنچانے میں کوئی بھی کسر نہیں رکھ چھوڑی۔ اس کا ہم سب ’مریضوں‘ کو اعتراف اور ادراک ہے، منتظمین نے تمام لوگوں کو ضروری اشیا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے بلند رکھنے کا بھی بھرپور خیال رکھا۔ یہ بہت ضروری تھا، کیوں کہ بیماری سے زیادہ سب لوگ خوف زدہ ہو کر وہاں پہنچے تھے، وہاں بڑی اسکرین پر بہ ذریعہ ’اسکائپ‘ ماہرِ نفسیات اور دیگر لوگوں کے سیشنز کا انعقاد بھی ایک عمدہ کاوش تھی۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ڈاکٹرز اور دیگر معاون عملے نے اپنی بہترین کاوشیں کیں۔

وہاں جاکر مجھے ایک نئی زندگی کا احساس ہوا، انتظامیہ نے تمام مریضوں کو سورج کی روشنی فراہم کرنے کے لیے ایک پارک کو کھولے رکھا، جس سے سب لوگوں نے استفادہ کیا۔ وہیں ’ایکسپو سینٹر‘ میں رمضان المبارک کے دوران احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز تراویح کا بھی اہتمام کیا گیا۔ وہاں ہم جیسے مقامی لوگوں کے علاوہ بیرون شہر سے آنے والوں کی بھی بڑی تعداد ٹھیرائی گئی تھی، جس میں تبلیغی جماعت کے کچھ افراد بھی شامل تھے، جن کی آمد سے وہاں کا ماحول انتہائی روح پرور ہوگیا تھا۔ نماز تراویح کے تین مصلے لگائے گئے، ایک جماعت نے 10 یوم میں قرآن کریم مکمل کیا، ایک مصلے پر روزانہ ایک پارے کی ترتیب رہی اور تیسرے مقام پر قرآنی سورتوں پر تراویح کو مکمل کیا گیا۔ حکام نے تراویح کی تکمیل پر مٹھائی کی تقسیم کا بھی بطورخاص اہتمام کیا۔

’ایکسپو سینٹر‘ میں بِتائے گئے ابتدائی دنوں میں ایک مسئلہ ’ٹیسٹنگ‘ کے نتائج میں تاخیر کا رہا، اس حوالے سے لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن ایکسپو سینٹر فیلڈ اسپتال کے منتظم اعلیٰ بریگیڈیئر اعجاز اور ان کے رفقائے کار نے تمام مسائل کو حل کیا اور لوگوں کے اطمینان کے لیے کوشاں رہے، جس میں ٹیسٹ کے نتائج کو آویزاں کرنے کا عمل بھی شامل تھا، اس کے بعد بتدریج ٹیسٹ کے نتائج جلد آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر نتائج 24 گھنٹوں میں سامنے آنے لگے تھے۔

The post ایک مریض کورونا سے تو صحت یاب ہوگیا، لیکن بیوی خوف سے چل بسی appeared first on ایکسپریس اردو.

لاک ڈاؤن، ایس او پِیز اور بے خبر صحافی

$
0
0

 زباں فہمی نمبر 54

خاکسار نے اپنی تحریروتقریر میں یہ بات بارہا کہی کہ ’تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا۔‘ اس کی وضاحت یا تشریح میں صفحہ قرطاس سیاہ کیا جاسکتا ہے، مگر اختصار وجامعیت کا احساس دامن گیر ہے۔ مسلم اُمّہ کے عہدِزوال میں جنم لینے والا یہ المیہ بہت دل گرفتہ ہے کہ جب ہم نے دین کو فقط ایک مختصر، محدود اور ناقص مضمون کی شکل میں نصاب تک محدود کردیا اور فرنگی عہد استعمار میں مغربی تعلیم کے حصول کی محدود سعی ہی ہماری معاشی و معاشرتی ترقی کا پیمانہ قرار پائی تو نوبت بہ این جا رسید کہ کہاں تو ہمارا ایک سترہ سالہ شخص، بہ یک وقت عابدوزاہد، مجاہد، تقریباً تمام دینی و دُنیوی علوم وفنون کا ماہر ہوا کرتا تھا (دُنیاوی غلط ہے، بحوالہ لغات ِکشوری) اور کہاں آج، ہمارا نوجوان کیا، بزرگ کیا، اپنے مضمون ہی پر عبور کا حامل نہیں ہوتا، باقی باتیں تو اضافی ٹھہریں۔

ہم پاکستانی اگر (قومیت کی کسی بھی تعریف کی رُو سے) کوئی قوم ہیں تو ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اکثر اپنی مشترکہ خرابیوں اور خامیوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان عام خرابیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ بلاامتیاز ِ طبقہ وشعبہ، لاعلمی اور کم علمی کو یا تو سِرے سے کوئی خامی نہیں سمجھا جاتا، یا اس کے تدارک کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی جاتی، یا اس پر اکتفا کرتے ہوئے بعض افراد اسے بھی باعث ِ فخر سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک زیادہ پڑھنا اور زیادہ جاننا انسان کی ذہنی صحت کے لیے مُضِرّ ہے۔ خاکسار کو مختلف شعبوں میں کام کرنے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے اور اُن کی ’’شخصیت خوانی‘‘ یعنی مزاج سمجھنے کا بارہا موقع ملا۔ ایک سربرآوُردہ طبقہ وہ ہے جو یہ سمجھ کر ہی کسی سے مخاطب ہوتا ہے کہ مقابل کو کچھ نہیں پتا، ہمیں دین و دنیا کا سب علم حاصل ہوچکا ہے۔

اُن کا سلوک اکثر توہین آمیز اور تحقیرآمیز ہوتا ہے۔ بقول ِشاعر ع رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ………..اُن کا نام بتانے کی ضرورت نہیں، آپ کو انٹرنیٹ پر ہمہ وقت، بے تحاشا مواد اُنھی سے متعلق مل جاتا ہے۔ ہم اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں اور براہ راست بات کرتے ہیں اہلِ صحافت کی جو ہمارے ہم پیشہ تو ہیں، ہم مزاج یا ہم ذوق نہیں۔

ان دنوں ہم ایک مصنوعی وباء کرونا کے خوف میں مبتلا ہیں (بی بی سی، سی این این، انڈس ٹی وی اور پی ٹی وی ورلڈ سمیت تمام انگریزی چینلز، اصل ہجوں کے ساتھ ’کو۔رو۔نا‘ نہیں کہہ رہے تو ہمیں بھی چنداں ضرورت نہیں)۔ (مصنوعی اس لیے کہ اب تک کی تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ کوئی قدرتی وباء یا آسمانی آفت نہیں)۔ صحافیوں میں گزشتہ دو عشروں سے ایک بہت بڑی کھیپ کا اضافہ ہوا ہے جو یا تو پہلے کسی اخبار سے منسلک تھے اور اخبار کے مالک/مالکان نے اپنے نیوز ٹی وی چینل کا آغاز کیا تو اُنھیں بھی بھرتی کرلیا۔ یا وہ کچھ اور کام کرتے تھے، کسی سے واقفیت کے طفیل، اُس کی سفارش پر کسی نئے ٹی وی چینل میں بڑے منصب پر براہ راست فائز ہوگئے اور پھر تو بس چل سو چل۔ یہاں کئی ایک محاورے بھی یاد آرہے ہیں۔

آپ جو چاہیں موزوں سمجھ لیں۔ مثلاً: جب اللہ مہربان تو گدھا پہلوان۔ ایسے حضرات (بشمول خواتین، کیونکہ بقول جناب یوسف جمال وہ بھی تو، حضرت کی جمع کے طور پر، اسی زُمرے میں آتی ہیں) نے جہاں دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو علی الخصوص اپنے ناقص علم سے ’’بری طرح‘‘ متأثر کیا ہے، وہیں اردو زبان کے ساتھ بھی سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہے۔ یہ کام انھوں نے کسی باقاعدہ پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے کیا ہے، جبکہ دوسری طرف ایک بڑی قطار خبرخواں (News reader/News caster)اور خبررساں(News reporter)افراد کی ہے جو کسی باقاعدہ تعلیم وتربیت کے بغیر، اکثر محض اس بنیاد پر، بھرتی ہوگئے کہ فُلاں شہر، قصبے اور گاؤں میں اس سے سستا کوئی میسر نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ٹیلی وژن پر خبریں سنیں/دیکھیں تو اکثر دل دماغ پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سادہ زبان میں کہیں تو ’دماغ پر ہتوڑے برستے ہیں۔‘ خاکسار کا دیرینہ تعلق ٹی وی اور ریڈیو سے ہے، {پاکستان ٹیلی وژن سے یکم جنوری 1993ء سے بطور ‘A’کیٹیگری مصنف و محقق اور ریڈیو پاکستان سے بطور ‘AA’کیٹیگری براڈکاسٹر وابستہ}، شعروادب پہچان ہے{امریکا اور برطانیہ سے شایع ہونے والے چار عظیم وضخیم انگریزی عالمی انتخاباتِ شعری میں شامل واحد اردو شاعر}، اور ابتدائے کار (1985ء ) سے آزادہ رَو (Freelance) صحافی رہا، پھر پاکستان کی اولین آن لائن نیوز ایجنسی میں (2014ء سے) بطور مدیرِاعلیٰ خدمات انجام دیں تو عامل /پیشہ ور(Professional) صحافیوں کی صف میں بھی شامل ہوگیا۔

یہ وضاحت اُن لوگو ں کے لیے ہے جو اِس تحریر پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو یہ نہ کہہ سکیں کہ لو! انھیں بھی اس موضوع پر بولنے کا شوق ہوا……انھیں کیا پتا، صحافت، وہ بھی ٹی وی کی صحافت کا۔ آمدم برسرِمطلب! پہلے ہم نے ٹی وی کی بات کی، اب ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرلیں کہ عموماً زبان وبیان کی اغلاط، اخبارات میں بھی وہی دیکھنے میں آرہی ہیں جو ٹیلی وژن کی خبروں اور پروگراموں کی دین ہیں۔

یہاں ذرا دَم لیں تو عرض کرتا چلوں کہ اس ضمن میں بھیڑچال اس قدر بڑھ گئی ہے کہ زبان وبیان کے علم اور شعور سے عاری، اکثر نیم خواندہ، متعدد غیراہل زبان مصنفین کی ایک اچھی خاصی تعداد کا کام ڈراموں کی شکل میں ٹیلی وژن کے پردہ نیرنگ پر موجود ہے جنھیں حالات و واقعات نے کسی ’سیڑھی‘ کی مدد سے پہلے مصنف اور پھر عظیم مصنف بنادیا۔

ان کے مہربانوں میں ایسے ’’مہان‘‘۔ یا۔ ’’مہا پُرش‘‘ ہدایت کار/پیش کار (یعنیProducer ) شامل ہیں جنھیں انگریزی کُجا، اردو میں لکھا ہوا مسودہ بھی پڑھنا محال ہے، مگر جب کام شروع کردیا تو وقت کے ساتھ ساتھ انھیں بھی ’عظیم‘ سمجھا جانے لگا۔ ایسے لوگوں نے بھی زبان کا ’حسب ِاستعداد‘ (حسب ِ توفیق کہنا مناسب نہیں) بیڑا غرق کیا ہے۔ آئیے اس موضوع کو خاص خاص ذیلی عنوانات کے تحت تقسیم کرتے ہوئے اپنا مدعا سب کے لیے واضح کریں۔

غلط تلفظ: سب سے بڑا مسئلہ صحافیوں (اور جعلی ادیبوں) کے تلفظ کا ہے۔ اس ضمن میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے اور غلط سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ایسے افراد کا انگریزی ذریعہ تعلیم سے اکتساب کرنا ہے۔ یہ ہیچ مدآں (یہ ’’مَد‘‘ استعمال کرنا تلفظ کی وضاحت کے لیے ضروری ہے)، شعبہ تدریس سے وابستگی کے سبب، اپنے تجربات ومشاہدات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس ضمن میں اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کے فیض یافتہ افراد، بالکل ایک جیسے ہیں۔ مؤخرالذکر کی انگریزی بھی ایسی ہوتی ہے کہ انگریز شرما جائے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اخبارات، ٹی وی چینلز، ریڈیو (خصوصاً ایف ایم چینلز) اور جامعات کے شعبہ صحافت (جدید نام شعبہ ابلاغ ِعامّہ) کے طلبہ و اساتذہ، نیز اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ واساتذہ کو ماہرین لسان (نہ کہ لسانیات) کے زیرنگرانی کورس کرایا جائے۔

اس بابت اِس راقم نے اپنی سی کوشش کا پہلا پتھر رکھتے ہوئے واٹس ایپ بزم بعنوان زباں فہمی میں تحریک کا آغاز کیا جس کے نتائج خوش گوار موصول ہوئے، مگر احباب کی توجہ اُس درجے نہیں رہی جو ہمیں مطلوب تھی اور ہے۔ بہرحال یہی کام دیگر واٹس ایپ بزم اور فیس بک سے جُڑے ہوئے بعض حضرات کررہے ہیں اور کچھ واقعی اچھا کررہے ہیں۔ یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ سکھانے کے لیے سیکھنا اولین شرط ہے۔ کچاپکا علم فائدے سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اپنے چہیتے، بہ زَعمِ خویش عظیم میزبانوں (Anchors) کودیے جانے والے معاوضوں میں فوری طور پر کچھ تخفیف کرکے، معقول رقم اس مقصد کے مَختص کریں۔ وہ ایک قدم بڑھائیں، ہم چار قدم بڑھا کر اُن کا مشن اپنا لیں گے اور محض چند ہفتوں میں نمایاں تبدیلی (حقیقی) آئے گی۔ وہ یقین کریں کہ اِس اِقدام سے اُن کے ٹی وی چینل /اخبار کی ساکھ بہتر اور بفضلہ تعالیٰ بہترین ہوگی کہ اس چینل /اخبار میں پیش ہونے والی/ شایع ہونے والی خبر، زبان وبیان کے اصولوں کے مطابق، مستند ہے اور دیگر کے لیے لائق تقلید۔ سارا مسئلہ Ratingکا ہی ہے تو آئیے پاکستان ٹیلی وژن کا تجربہ کار مصنف و محقق (نیز نجی چینل کا کوئز ماسٹر یعنی میزبان) آپ سے کھُل کر بات کرنے کو تیار ہے، اپنے ماہر اور اہل ذوق ساتھیوں کی مختصر جماعت کے ہمراہ۔

غلط/بھونڈا ترجمہ: یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رکھیں برصغیر پاک وہند کے عظیم صحافیوں کی اکثریت نے صحافت کی مخصوص تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر، متنوع و مختلف الجہات معلومات کی بدولت ایسا کام کرگئے کہ آج بھی معیار اور سند ہے۔ خاکسار نے آج کے Position  holder صحافی کا معیار بھی دیکھ رکھا ہے۔ اس لیے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اور اپنی معلومات کا لوہا منوانے کے لیے غیررسمی، ہمہ جہتی تعلیم وتربیت کی اہمیت کبھی نظرانداز نہ کریں۔ یہی پیغام اساتذہ کے لیے بھی ہے۔ جب ماضی میں کم پڑھے لکھے صحافی انگریزی سے عمدہ ترجمہ کرسکتے تھے تو آج ذرائع معلومات کی وافر دستیابی کے ماحول میں ایسا کرنا کیوں ممکن نہیں۔ اگر آپ اپنی ترجمہ کاری کی صلاحیت بہتر کریں، تو بہتر خبر لکھنا، ترتیب و تدوین کرنا اور پیش کرنا ممکن ہوگا۔

انگریزی کا بے جا اور غلط استعمال: جہاں جہاں اردو مترادفات موجود ہیں اور عام فہم بھی ہیں، انھیں کسی بھی سبب ترک کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس ضمن میں ہم سبھی خطاکار اور مجرم ہیں۔ ہمارے اکثر گھروں میں امی، ابو کی جگہ ماما، پاپا نے لے لی ہے، دادا، دادی کی جگہ گرینڈپا، گرینڈما (علیٰ ہٰذاالقیاس)، باورچی خانے کی جگہ کچن، بیت الخلاء کی جگہ ٹوائلٹ، غسل خانے کی جگہ باتھ روم، خواب گاہ کی جگہ بیڈ روم، بستر کی جگہ بیڈ (Very bad!)، کرسی کی جگہ چیئر، میز کی جگہ ٹیبل، ہاتھ دھولو کی بجائے ہینڈ واش کرو، پڑھو کی جگہ رِیڈ کرو اور اسی قسم کی بھونڈی، مخلوط اور ناروا زبان نے لے لی ہے۔

صحافت، تعلیم وتدریس، شعروادب اور نشریات سمیت تمام شعبوں میں انفرادی و اجتماعی مساعی درکار ہیں۔ جہاں اشدّ ضرورت محسوس ہو اور کہیں سے رہنمائی نہ ملے تو انگریزی یا کسی دوسری غیرملکی زبان کے الفاظ واصطلاحات برتنا ہرگز ناموزوں یا باعثِ تنقیص نہیں! ناقص اور فضول برجستہ گفتگو: صحافت سمیت تمام شعبوں میں نمایاں ہونے والا، یہ مسئلہ بھی ہر خاص وعام کی توجہ چاہتا ہے۔ زیادہ بولنا اور غلط سلط بولنا کسی بھی معاشرے میں، کسی بھی زبان کے بولنے والوں میں کوئی معیارِفضیلت نہیں۔ اپنی اصلاح کے لیے اہل علم اور بزرگوں سے رجوع کرتے رہنا چاہیے۔ اس موضوع پر مزید اظہار خیال کے لیے بشرط زیست آیندہ خامہ فرسائی کروں گا۔

فی الحال ایک نمونہ (بطور آئینہ) اسی کالم میں شامل ہے جس سے اچھی خاصی اصلاح احوال ممکن ہے۔

لاک ڈاؤن کی جگہ بَندشِ عامّہ

ایس او پیز (جبکہ پری کاشنز یا پری کاشنری میژرز درست تھا) کی جگہ احتیاطی تدابیر

آئسولیشن کی جگہ خلوت یا تنہائی یا محدودی

ہراسگی اور ہراسانی دونوں غلط، کیونکہ درست ہے: ہراس

استحصال نہیں استیصال

مُتوَقعا نہیں مُتَوقِع

مُتَوجا نہیں متوجِہ

اقدام اٹھانا نہیں اقدام کرنا یا قدم اٹھانا

عام عوام نہیں عوام النّاس (لام ساکن۔ عوامُن ناس)

اعلیٰ عدلیہ نہیں عدالت ِعالیہ /عظمیٰ

The post لاک ڈاؤن، ایس او پِیز اور بے خبر صحافی appeared first on ایکسپریس اردو.


سرد جنگ کی شدت نے انقلاب ایران کی راہ ہموار کی

$
0
0

( قسط نمبر19)

1970 میں مصر کے جما ل عبدالناصر کے انتقال، 1971 میں پا ک بھارت جنگ،  1973 میں عرب اسرائیل جنگ سے لے کر 1978-79 میں انقلاب ایران تک ایک ایسی دہائی تھی جس میں ترقی پذیر دنیا کے نامور لیڈر یا تو قتل کر دیئے گئے یا پھر اُن کی حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا۔

یہ سب کچھ سرد جنگ کی شدت کا کیا دھرا تھا۔ ہمارے خطے میں ستر کی دہائی میں ایک سے زیادہ مرتبہ پاک بھارت جنگ ،سوویت یونین کی جانب سے پا کستان پر براہ راست حملے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کے خطرات منڈلاتے رہے۔ افغانستان میں صورتحال بدل گئی لیکن تاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اِن سب واقعات میں اہم ترین واقعہ ایران کا انقلاب تھا۔ دنیا کے انقلا بات میں اب تک کا آخری انقلاب 1979 میں انقلابِ ایران ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ ایران کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جا ئے۔ قدیم تہذیبوں کے حوالے سے پوری دنیا میں ایران کا دسواں درجہ ہے۔

یہاں انسانی تہذیب تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار سال قدیم بتائی جا تی ہے۔ فارسی زبان میں تاریخ ادب شاعری اور دیگر علوم کا ذخیرہ یونان اور روم کے علمی ذخائر سے زیادہ قدیم تصور کیا جا تا ہے۔ ایران کی قدیم تاریخ میں زرتشت اور دنیا کا پہلا فاتح ِعالم سائرس اعظم عالمی سطح پر اہمیت کے حاصل ہیں۔

اگرچہ زرتشت کی زندگی کے بارے میں معلومات قدرے مبہم ہیں مگراس کے عہد کے بارے میں مورخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 628 قبل میسح میں پید ا ہوا اور 551 قبل مسیح میں وفات پائی۔ زرتشت نے ا پنے مذہب میں دو دیوتاوں کا تصور دیا ایک دیوتا ’اہورہ‘ جسے جدید فارسی میں ’مزد‘ کہتے ہیں وہ سچا اور نیکی کا دیوتا ہے اور زرتشت کے مطابق وہ سچائی اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کی حوصلہ افزائی کر تا ہے۔ دوسرا دیوتا بدی کا ہے اور،، بد روح  انگرہ مینیو ،، ہے جسے جدید فارسی میں ،،اہرمن ،،بھی کہتے ہیں یہ شر جھوٹ اور بدی کا نمائندہ ہے۔

زرتشت کے مطابق دنیا کی زندگی میںہر انسان کے اندر اہورہ مزدہ اور اہرمن کی جنگ جاری رہتی ہے اور ہر انسان اِن دونوں میں سے کسی ایک کی طر فداری کرنے میں آزاد ہے اور اس جنگ کا اختتام اُسی وقت ممکن ہے جب انسان دونوں دیوتاوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ زرتشت کے مطابق آخری فتح اہورہ مزدہ کی ہو گی۔ اس کی تعلیمات میں موت کے بعد زندگی کا تصور مو جود ہے اور وہ اخلاقی طور پر انسانی بھلائی صداقت اور نیک عمل کادرس دیتا ہے۔

اَن کی عبادت گاہوں میں ہمیشہ آگ کا الاؤ جلتا رہتا ہے فارسی اور اردو زبانوں میں ان کو آتش کدہ کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اپنے مُردوں کو جلاتے یا دفناتے نہیں بلکہ اپنے انہیں خاص میناروں یا بڑے دہانوں کے کنو ؤں کی دیواروں میں بنے تاقچوں میں رکھ دیتے ہیں جہاں اِن لاشوں کا گوشت گدھ کھاجاتے ہیں اور بعد میں ہڈیاں دفن کردی جاتی ہیں۔

زرتشت کے پیرو کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد بھی کسی کے کا م آنا چاہیے۔ زرتشت نے ایران میں جہاں تبلیغ شروع کی وہ علا قہ چھٹی صدی    قبل میسح کے عظیم فاتح سائرس اعظم کی سلطنت میں شامل رہا اور اگلی دو صدیوں میں معتدد ایرانی باد شاہوں نے زرتشت مت کو قبول کیا اور یوں اس مذہب کو بہت فروغ حاصل ہوا مگر جب چوتھی صدی قبل میسح کے آخر میں سکندر اعظم کے حملے اور ایران کی شکست کے سبب زرتشت کا مذہب انحطاط کا شکار ہوا پھر ایرانیوں نے اپنے قتدار اور قوت کو بحال کیا ہیلینانی Hellenistic اثرات کم ہو ئے تو دوبارہ زرتشت مذہب اُبھرا اور پھر ساسانی سلطنت کے دور حکومت 226 ء سے 651 ء زرتشت مت کو خوب عروج نصیب ہوا کہ اس سلطنت نے زرتشت مذہب کو سرکاری مذہب قرار دیا۔

ساتویں صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں نے ایران فتح کر لیا تو آبادی کے بیشتر حصے نے اسلام قبول کر لیا۔ زرتشت کا مذہب آتش پرستوں کا مذہب بھی کہلا تا ہے اور ایران کے پرانے نام فارس کی نسبت سے اِن کو پارسی بھی کہا جا تا ہے۔ چونکہ زرتشت مت کی تعلیمات اپنے زمانے کے اعتبار سے انسانی فکر احساس اور جذبات کو بھی متاثر کرتی تھی یوں اس کے گہر ے اثرات خصوصاً فارسی شعر ادب پر مرتب ہو ئے اور آج تک بھی بہت سی ادبی اصطلاحات ، تلمیات وغیرہ اردو میںبھی استعمال ہو تی ہیں یوں یہ مذہب ایرانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ علاقے کی ثقافت کا حصہ بن گیا۔

جب لوگوں  نے اسلام میں نیکی و بدی کے تصور کو اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے تناظر میں اور پھر نیک عمل کرنے پر جنت اور بُرے عمال پر دوزخ کے تصور اور پورے اسلامی نظام حیات کو دیکھا تو ایران میں اسلام کی آمد پر بیشتر زرتشت مت کے ماننے والے ایرانیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کا تصور ایران میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے عاشقِ رسول ؐحضرت سلمان فا رسیؓ کے حوالے سے بھی مو جود تھا جو ایران کے ایک زرتشتی  عالم کے صاحبزدے تھے۔

انہیں تلاش ِحق کی جستجو ہوئی اور پھر انہوں نے شام کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر عیسائیت کو قبول کر کے بڑے عیسائی راہب کے پاس علم حاصل کرنے پہنچے مگر اُس کے کردار سے بد دل ہو ئے تو اس کا نائب جو سچا عیسائی تھا اُس نے بتایا کہ تمہیں جس کی تلاش ہے اللہ کا وہ نبی ؐدنیا میں آچکا ہے اور پھر نبی کریم ؐ کی تین نشانیاں بتائیں کہ نمبر1 وہ صدقہ قبول نہیں کر تے البتہ حدیہ تحفہ قبول کرلیتے ہیں نمبر 2 اُنؐ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر مہر نبوت ہے اور نمبر3 وہ جہاں آباد ہیں وہاں اُس شہر میں کھجوروں کے گھنے باغا ت ہیں یوں سلمان فارسیؓ شام سے نکلے تو جس قافلے میںشامل ہو ئے اُس قافلہ سالار نے اُنہیں دھوکے سے کسی کو فروخت کر دیا اور وہ اُسے مدنیہ لے آیا جہاں واقعی کھجوروں کے گھنے باغات تھے پھر وہ غلامی سے نجات پا کر نہایت ہی قریبی صحابیؓ ِرسول اور عاشق ِ نبیؐ ہوئے اور حضرت محمد ؐکے  خاص مشیر ہوئے۔ غزوہ ِ خندق میں اُنہی کے مشورے پر خندق کھود کر مدینے کی دفاعی جنگ لڑی گئی تھی جس میں کفار مکہ کو پسپائی ہو ئی تھی۔

ایران کے حوالے سے دنیا کے پہلے فاتح سائرس کا نام بھی بہت اہم ہے۔ اس کا عہد 590 قبل مسیح سے 529 قبل مسیح کا تھا۔ سائرس اعظم کا مقامی ایرانی نام ’کورش‘ تھا۔ وہ جنوبی ایران میں پیدا ہوا۔ سائرس اعظم ہی کو عظیم ایرانی سلطنت کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ انسانی تاریخ کی اُن شخصیات میں پہلی شخصیت ہے جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کر نے کا خواب دیکھا اور کافی حد تک اپنے خواب کو پورا بھی کیا۔ اس کی سلطنت میں وسیع ایران کے علاوہ عراق،مصر،شام ،مشرق وسطیٰ،فلسطین، لبنان اسرائیل،کویت ،سعودی عرب ،عرب امارات ، اومان، پاکستان افغانستان ،سنٹرل ایشیا کی ریاستوںکے علاوہ مشرق میں بلقان کے علاقے بھی شامل تھے۔ اس کے اور اس کے بعد بھی اس جانشینوں کے زیر اقتدار وسیع و عریض سلنطت میں اُس وقت پانچ کروڑ انسان آباد تھے جو دنیا کی کل آبادی کا 44% تھے۔

سائرس اعظم کو آج یہودی اپنے پیغمبران کے بعد سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں اور اُس کا احترام کر تے ہیں۔ 586 قبل مسیح میں بابلیوں نے فلسطین کو فتح کیا تو یہاں نہایت بربریت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نہ صرف ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا بلکہ یہودی آبادی کے بڑے حصے کو قیدی بنا کر بابل (عراق) لے آئے۔ یہاں یہ یہودی انتہائی ذلت آمیز اور غلامی کی زندگی بسرکر رہے تھے۔

اِن سے پورے شہر میں غلاظت صاف کر نے کا کام لیا جا تا تھا۔ یوں بابل میں اس جلا وطنی کے دورہ میں اُن کی زندگی قدیم ہندوستان کے شودروں سے بھی بد تر تھی۔ جب سائرس اعظم نے بابل کی سلطنت کو فتح کیا تو اُس نے بابل میں جلا وطن اُن تمام یہودیوں کو دو بارہ با عزت طور پر فلسطین میں آباد کیا اور تقریباً تمام مورخین اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ اگر سائرس اعظم پانچویں صدی قبل مسیح میں یہودیوں کو فلسطین میں دوبارہ آباد نہ کرتا تو یہودی بابل ہی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے۔ دنیا فتح کرنے کی کوشش کرنے والی دیگر شخصیات کے برعکس سائرس اعظم کا کمال یہ ہے کہ اُس نے جنگوں میں شہری آبادیوںکا خیال رکھا اور جنگوں میں بھی اُس زمانے میںا نسانیت کا احترام کیا۔

اسی لیے جب 1945 میں اقوام متحدہ کا ادراہ تشکیل پا یا تو سائرس اعظم کو اس موقع پر یاد رکھا گیا۔ ایران میں عرب مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک طویل عرصے یعنی 1501 ء تک یہاں کی آبادی سنی مسلمانوںپر مشتمل تھی۔ 1501 ء سے ایران میں صفوی سلطنت کا آغا ز ہوا تو 16 ویں صدی عیسوی میں ایران میں آبادی کی واضح اکثریت اثنا عشریہ اہل تشیح مسلم ہو چکی تھی۔ صفوی سلطنت 1736 تک رہی اور اپنے عروج پر ایران کی سلطنت مضبوط اور وسیع تھی۔ 1526 ء میں ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر کی ماں چنگیز خان کی نسل سے اور باپ امیر تیمور کی نسل سے تھا۔

جب بادشاہ بابر نے سلطنت اپنے بیٹوں میں تقسیم کرنے کی روایت کے خلاف ہمایوں کو اپنا جانشین بنایا جو 1530 میں بابر کی مو ت کے بعد بادشاہ بنا تو بھائیوں کی طرف سے اقتدار کی جنگ اور پھر شیر شاہ سوری کے اقتدار حاصل کر لینے پر ہمایوں 1540 ء میں ایران فرار ہو گیا جہاں صفوی سلطنت کے دوسرے شہنشاہ تاہما سپ اوّل نے ہما یوں کو پناہ دی، یوں ہمایوں اپنے خا ندان کے ساتھ تقریباً پندرہ سال ایران میں رہا۔ مغلیہ دور میں اہم عہدوں پر بھی بہت سی ایرانی شخصیت تعینات رہیں۔ شاہجہان کے دور میں تاج محل جیسی دنیا کی حسین عمارت بنانے والا انجنیئرشیرازی بھی ایرانی تھا۔ جہاں تک ایرانی تہذیب اور ثقافت اور فارسی زبان و ادب کا تعلق ہے تو یہ ا ثرات آ ج بھی برصغیر میں موجود ہیں۔ فارسی زبان صدیوں تک ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کی سر کاری زبان رہی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایران تاریخی طور پر دنیا کی بڑ ی اور طاقتور سلطنتوں میں شامل رہا ہے اور یہاں مستقل انداز سے بادشاہت 1979 تک ڈھائی ہزار سال تک قائم رہی۔ ایران کے باشاہ نادر شاہ  نے1727 میں افغانیوں کو شکست دے کر ایران سے نکال دیا۔

افغانیوں کی شکست دیکھ کر روس نے1732 میںگیلان اور مازئراں کے صوبے ایران کو واپس کردئیے اور اسی طرح ترکی کی عثمانیہ سلطنت نے ہمدان اور لورستان کے ایرانی علاقے ایران کو واپس کرد ئیے لیکن گرجستان اور آرمینیا کے صوبے اپنے پاس رکھے نادر شاہ نے اس صلح نامے کو مسترد کر دیا۔  1737 میں فیصلہ کُن جنگ میں ترکوں کو شکست دے کر گرجستان اور آرمینیا کے علاقے بھی واپس لے لیئے۔ نادر شاہ نے روس کو دھمکی دی کہ روس باکو اور داغستان کے علاقے ایران کو واپس کر دے ورنہ وہ ترکی کی سلطنت سے مل کر روس سے جنگ کر ئے گا، اس دھمکی پر روس نے باکو اور داغستان کے علاقے ایران کو واپس کر دئیے۔ اپنی باشاہت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد 1738 میں نادر شاہ نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا اور قندھار فتح کر لیا۔

یہاں کے افغانیوں کی بڑی تعداد نے کابل میں پناہ لی جو تب ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کو اِن افغانیوں کی واپسی کے لیے پیغام بھیجا اور جب مقررہ وقت تک جواب نہیں آیا تو کابل پر حملہ کر کے بہت آسانی سے قبضہ کر لیا۔ یوں نادر شاہ افشار کو ہند وستان کی مغلیہ سلطنت کی کمزوری کا پتہ چل گیا اُس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہ محمد شاہ المعروف رنگیلا شاہ کی حکومت تھی جو بہت عیاش اور کمزور بادشاہ تھا۔ اس کی کمزوری کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ کابل سے کرنال 600 میل دور ہے اور دہلی سے کرنال کا فاصلہ صرف 70 میل ہے۔ نادر شاہ اپنی فوج کے ساتھ کابل سے چھ سو میل کا فاصلہ طے کرتا راستے میں پشاور اور لاہور جیسے بڑے شہروں کو فتح کر تا کرنال پہنچا تو کرنال میں مغلیہ فوج تو مو جود تھی مگر توپ خانہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔

یہیں سے رنگیلے شاہ کے حوالے سے ’ہنوز دلی دور است‘ کا تاریخی جملہ مشہور ہوا۔ 1739 میں نادرشاہ نے دہلی فتح کر لیا۔ نادر شاہ نے یہاں دو مہینے قیام کیا اس دوران شہر میں سیر کرنے والے کچھ ایرا نی سپاہیوں پر مقامی نوجوانوں نے حملے کئے تو نادر شاہ نے دلی شہر میں قتل عام کا حکم دیا اور 20000 شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔

نادر شاہ نے پہلے ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ جب اُسے ہاتھی سواری کے لیے پیش کیا گیا اور وہ ہاتھی پر سوار ہوا تو اُس نے پو چھا کہ اس کی لگام کہاں ہے۔ بتا یا گیا کہ آپ اس پر سوار ہوں، اس کو مہاوت چلا ئے گا۔ اِس پر نادر شاہ نے کہا کہ اُسے ہاتھی سے فوراً اتار دیا جائے کیو نکہ وہ ایسی سوار ی پر کبھی نہیں بیٹھے گا جس کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ نادر شاہ ہندوستان سے یہ بڑا خزانہ لوٹ کر واپس ہوا تو ایران آنے سے قبل نہ صرف سندھ کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا بلکہ بخارہ اور خیرہ کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ 1747 میں نادر شاہ قتل ہوا۔

ایران کی آخری بادشاہت پہلوی سلطنت تھی جو 1925 سے 1979 تک قائم رہی۔ یہ بادشاہت جنگ عظیم اوّل کے سات سال بعد قائم ہو ئی۔ جنگِ عظیم اوّل کے اختتام سے ایک سال پہلے 1917 میں روس میں لینن اور اسٹالن کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد روس جنگ سے باہر آگیا تھا۔ سلطنت عثما نیہ ختم ہو گئی تھی۔ بر طانیہ کی نو آبایات بڑھ گئی تھیں مگر بر طانیہ کے مقا بلے میں امریکہ زیادہ طاقتور ہو گیا تھا۔ ہندستان پر انگر یز پوری طرح قابض تھا اور 1919 میں تیسری اینگلو افغان جنگ میں اگرچہ افغان بادشاہ غازی امان اللہ کامیاب ہو اتھا مگر کچھ عرصے بعد سازش کے تحت اُس کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اب ایران بھی برطانیہ ، امریکہ اور روس کے مقابلے میں بہت کمزور ملک تھا۔ اگر چہ 1906 ایران میں پہلی پارلیمنٹ تشکیل پا ئی مگر جمہوری مزاج نہیں آسکا تھا۔

1909 بادشاہ محمد علی قاجار کو روس کے مقابلے میں شکست ہو ئی۔ روس نے شمالی ایران پر قبضہ کر لیا۔1911 میں روسی فوجوں کے اور قاجار بادشاہت کے خلاف کو چیک خان کی جنگل تحریک شروع ہو ئی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران  برطانیہ نے مغربی ایران کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1914 سے1920 کے دوران ترکوں نے آرمینیں کا قتل عام کیا بعد ازاں 1921 میںایران میں تاریخ کا بد ترین قحط آیا اور 80 لاکھ سے ایک کروڑ افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی سال قاجار سلطنت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ایران کے سابق جنرل رضا شاہ وزیراعظم ہو گئے اورپھر1925 میں رضا شاہ نے اپنی باد شاہت کا اعلان کر دیا۔ ایران اب برائے نام آزاد و خود مختار تھا اورسویت یونین ، بر طانیہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جدید اسلحہ کے ساتھ بڑی فوجی قوت بن چکے تھے۔

ایران یورپ اور ایشیا کے درمیان جغرافیائی اور اسٹرٹیجی کے اعتبار سے اہم ملک ہے۔ 1925 میں سویت یو نین میں اسٹالن بر سر اقتدار آئے۔ 1933 میں جرمنی میں ہٹلر کی نازی حکو مت آگئی۔ 1941 میں جرمنی نے Molotov Ribbentrop Pact معاہد ہ توڑ کر سوویت یونین کے خلاف آپریشن بارباروسہ کے نام سے بڑاحملہ کر دیا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ایران پر پڑا جو دوسری جنگ عظیم میں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کر چکا تھا۔

اسی سال کے آخر میں روس اور بر طانیہ ایران میں داخل ہو گئے اور رضا شاہ کو اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے حق میں دستبردار کر دیا اور ایران وہ مرکزی علاقہ بن گیا جہاں سے سوویت یو نین کو جنگ کے دوران امریکہ اور بر طانیہ جرمنی کے خلاف امداد فراہم کر تے رہے۔ 1943 میں جب اتحادیوں کو یقین ہو نے لگاکہ اب وہ یہ جنگ جیت جائیں گے تو اس سے قبل ہی خصوصاً تین بڑی قوتوں امریکہ ،سوویت یونین اوربرطانیہ کے درمیان کچھ عالمی سطح کے امور اور مسائل طے پانے لگے اور اِن امور میں سے ایران بھی بہت اہم تھا کیونکہ اس کی جغرافیائی پوزیشن بھی اہم تھی اور یہ تیل اور دیگر معدنیات سے مالا مال تھا، یوں 1943میں امریکہ کے صدر فرنک ڈی روزولٹ سوویت یونین کے جوزف اسٹالن اور برطانیہ کے وزیراعظم ونیسٹن چرچل کے درمیان تہران کانفرنس ہو ئی اور اس کے اختتام پر اعلانیہ جاری کیا گیا جسے تہران ڈیکلریشن کہا جا تا ہے اس ڈیکلریشن میں یہ طے پا یا کہ ایران کی آزادی و خود مختاری جنگ سے قبل ایران کی سرحدوں کے مطابق ہوگی۔ یعنی امریکی برطانوی ،روسی فوجیں ایران سے نکل جائیں گی۔

سوویت یونین 1917 کے بعد سے اشتراکیت کا پرچار ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں خصوصاً اپنے وسیع رقبے کے ملک روس کے ہمسایوں سے کرتا رہا تھا۔ سنٹرل ایشیا کی ریاستوں پر تو جنگ عظیم اول اور اشتراکی انقلاب سے پہلے ہی روس کا قبضہ ہو چکا تھا اس لیے ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی اشتراکی گروپوں کوسوویت یونین نے ترتیب دیا اور جنگ کے فوراً بعد سوویت یونین کی فوجیں یہاں مو جود رہیں۔ 1946 میں جب سوویت یونین کو تیل کی سپلائی کی یقین دہانی کر دی گئی تو یہاں سے روس نے اپنی فو جیں نکال لیں۔

1941 میں جب محمد رضا شاہ پہلوی کوامریکہ اور بر طانیہ نے اُن کے والد کی جگہ صرف 21 سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا دیا تھا تو دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور یہ اندیشہ بھی تھا کی کہیں جرمن فوجیں روس پر قبضے کے بعد ایران اور برطانوی ہند پر قبضہ نہ کرلیں اس لیے بر طانیہ نے پاکستانی بلو چستان سے ایرانی بلوچستان کے شہر زہدان تک تقریبا ً 700  کلو میٹر ریلو ے لائن بھی ہنگامی طور پر بچھا دی تھی۔ محمد رضا شاہ پہلوی ایک ایسے بادشاہ تھے جو امریکہ اور بر طانیہ سے ہی احکامات لیتے تھے مگر1946 سے1948 تک دنیا میں حالات کافی تبدیل ہو ئے۔

پاکستان 1947 میں اوراسرائیل 1948 میں قائم ہوا۔ ایران نے اسرائیل کو بعد میں تسلیم کیا۔ ساٹھ کی دہا ئی تک سیٹو سینٹو جسے معاہدوں میں ایران ،ترکی اور پا کستان کے ساتھ شامل ہو کر امریکہ اور برطانیہ کے حق میں اور سوویت یونین کے خلاف سر د جنگ میں فریق رہا۔ اُس زمانے میں ایران میں غربت زیادہ تھی۔ پھر ایران کی قدیم عظمت کے قصے ایرانی بزرگوںکو یاد تھے اور جہاں تک تعلق پہلوی خاندان کا تھا تو جنرل رضا شاہ بھی امریکہ اور بر طانیہ کی وجہ سے اقتدار میں آ ئے تھے اور اِن کے بعد امریکہ اور بر طانیہ کے دباؤ ہی کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے حق میں تخت سے دستبردار ہوئے تھے یوں ایرانی اپنے بادشاہ کو آزاد نہیں سمجھتے تھے۔

1949 میں رضاشاہ پہلوی قاتلانہ حملے میں زخمی بھی ہو ئے تھے عوام میں قومی سیاسی اعتبار سے بادشاہت کی مخالفت اب وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آرہی تھی اور شاہ کی مخالفت  میںدو نظریاتی گروپ تھے ایک مذہبی اور دوسرا اشتراکی۔ مذہبی گروپ میں جو علما بادشاہ کے حق میں تھے وہ اصل میں امریکہ نواز تھے اور جو بادشاہ کے حق میں نہیں تھے ان کو کو ئی بیرونی سپورٹ حاصل نہیں تھی البتہ اشتراکی گروپ کی جماعت تودہ پارٹی روس نواز تھی اور اس جماعت کو سوویت یونین کی سپورٹ حاصل تھی۔

یوں 1952 میں تود ہ پارٹی انتخابات جیت گئی اورمحمد مصدق پارلیمنٹ سے 12 ووٹوں کے مقابلے میں 79 ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اُنہوں نے زرعی سیاسی ،سماجی صنعتی اصلاحات کیں اور سب سے اہم یہ کہ ایران میں 1913 سے قائم برطانیوی اینگلو پرشین آئل کمپنی جو بعد میں برٹش پٹرولیم کہلائی اسے قومی ملکیت میں لے لیا۔ اب امریکی سی آئی اے اور برطانیوی ایم آئی سکس نے وزیر اعظم محمد مصدق کے خلاف ایرانی فوج کی مدد سے بغاوت کروائی۔ حالات اتنے خراب ہو ئے کہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی اٹلی فرار ہو گئے اس موقع پر امریکی صدر آئزن ہاورسے مشورے کے بعد سیکرٹری جان فاسٹر ڈیگلس نے سی آئی اے کو بھر پور کاروائی کرنے کا حکم دیا۔

یوں سی آئی اے کے Donald Wibber ڈو نالڈ ویبرنے فوج کے تعاون اور ایک ملین ڈالر کے جاری شدہ فنڈ کی مدد سے19 اگست 1953 کو وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور22 اگست1953 کو باد شاہ رضاشاہ پہلوی روم سے واپس ایران پہنچ گئے۔ 2017 میں امریکی سی آی اے کے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق ایران میں سی آئی اے کے سربراہ ڈونالڈ ویبر نے باشاہ سے پہلے ہی دو طرح کی دستا ویزات پر دستخط کروا لیے  تھے ایک میں ایران کے آئین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر وزیراعظم محمد مصدق کی معزولی اور اِ ن کے خلاف مقدمہ قائم کر نا تھا دوسری دستاویزجنرل فضل اللہ زیدی کی بطور وزیراعظم تعینا تی کی تھی۔ بعد میں معزول وزیراعظم محمد مصدق کو سزائے موت کی بجائے تین سال قید ہوئی اور قید کے بعد اُن کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اُن کا 1967 میں انتقال ہوا اور انتقال کے بعد اُن کو گھر کے اسی کمرے میں دفن کردیا گیا جہاں اُن کی رہا ئش تھی۔ اب شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی پوری طرح امریکہ اور بر طانیہ کی گرفت میں تھے اور وہ ممنون اور احسا ن مند بھی تھے۔ نئے وزیر اعظم نے فوراً ہی امریکہ اور بر طانیہ کی مراعات بڑھا دیں۔ آئل کمپنی بھی

بحال کردی گئی۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط تک امریکہ کا اثر پورے خطے میں بہت زیادہ تھا اور سی آئی اے کی گرفت بھی بہت مضبوط تھی۔ ایران کو اس زمانے میں خلیج فارس میں امریکہ کا محافظ یا سپاہی کہا جا تا تھا اور شہنشاہ فرینڈ آف امریکہ کہلاتا تھا جب کہ ایرانی خفیہ پو لیس ساواک کی عوام پر دہشت تھی۔

ہر دوسرا شخص یہ سمجھتا کہ اُس سے ملنے والا ملاقات کرنے والا ساواک کارند ہ ہو سکتا ہے۔  ملک میں شراب نوشی اور فحاشی کی ممانعت نہ تھی۔ ترقی کے نام پر خواتین کا پردہ تقریباً ختم کر دیا گیا تھا۔ جب مصدق کے خلاف کاروائی کی گئی اور تودہ پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو ہلاک و زخمی اور گرفتار کیا گیا تو درپردہ ایرانی علما نے شاہ کے خلاف تحریک جاری رکھی اور چند سال بعد آیت اللہ روح اللہ امام خمینی ایرانی سیاست کے افق پر ایک عظیم مذہبی رہنما کی حیثیت سے اُبھرے۔ آپ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے ایران آ یا تھا۔ان کی نسبت سید علی ہمدانی سے ہے۔ آپ 24 دسمبر1902 خمین ایران میں پیدا ہوئے۔

ساٹھ کی دہائی میں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ امریکہ کے ربر اسٹمپ بن چکے تھے۔ 28 اکتوبر 1964 کو شاہ ایران کی حکومت نے ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت امریکی فوجی مشن کے افراد کو سفارتکاروں کے ہم پلہ حقوق دے دیے گئے جو ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کو حاصل ہو تے ہیں۔ یعنی اب امریکی فوجی ایران میں جو چاہیں کر لیں اِن پر ایران کا کوئی قانون لا گو نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے دوسرے روز 29 اکتو بر1964 امام خمینی نے قم کے مدرسے میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو پھر ایران کے انقلاب کا سنگ ِمیل ثابت ہوئی۔

انہوں نے کہا ’’میرا دل درد سے بیٹھ رہا ہے۔ میں اس قدر دل گرفتہ ہوںکہ موت کے دن گن رہا ہوں۔اس شخص ( اشارہ شاہ کی طرف) نے ہمیں بیچ ڈالا ہے۔ ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا دی ہے ،اہل ایران کا درجہ امریکی کُتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔

اگر شاہ ِایران کی گاڑی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہو گا لیکن اگر کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا کسی اعلیٰ ترین ایرانی عہد یدار کو اپنی گاڑی سے روند ڈالے تو ہم بے بس ہو نگے آخر کیوں ؟ ان کو امریکی قرضوں کی ضرورت ہے۔ اے نجف اور شیراز کے لو گو! میں تمیں خبر دار کر تا ہوں یہ غلامی مت قبول کر و۔کیا تم چپ رہو گے ؟ کیا ہمارا سودا کر دیا جائے اور ہم زبان نہ کھو لیں؟‘‘ اس کے فوراً بعد امام خمینی کو گر فتار کر کے ترکی جلا وطن کر دیا گیا 4 اکتوبر 1965 کو وہ نجف عراق آ گئے۔ اُن کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا۔

1967 میں وہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ مہم میں یاسر عرفات سے ملے۔ پھر عراق میں حالات اُن کے بہت زیادہ خلاف ہو گئے تو 6 اکتو بر1978 کو وہ فرانس چلے گئے اوراس دوران شاہ کے خلاف اُن کی تحریک شعلے سے آتش فشاں بن گئی۔17 جنوری 1979 کو شاہ ایران امریکہ چلے گئے اور فروری 1979 میں وہ ایران کے مقبول ترین انقلابی رہنما کی حیثیت سے وطن واپس آگئے جہاں لاکھوں ایرانیوں نے والہانہ اور پُر جوش انداز میں اُن کا ستقبال کیا۔            (جاری ہے)

The post سرد جنگ کی شدت نے انقلاب ایران کی راہ ہموار کی appeared first on ایکسپریس اردو.

خوف اور مایوسی مت پھیلائیے، امید کی شمع روشن رکھیے

$
0
0

چھوٹا تھا، بہت کم سِن، لیکن تھا بَلا کا شرارتی اور نڈر، جی کوئی نہیں ڈرا سکا فقیر کو، رب تعالٰی کے کرم و عنایت سے رات کے اندھیرے میں بھی ہر اُس جگہ پہنچ جاتا تھا، جہاں لوگ دن کے اُجالے میں بھی جانے سے گھبراتے تھے۔

جب سائیکل چلانا سیکھا تو ایک سنسان گلی ہُوا کرتی تھی، کوئی نہیں گزرتا تھا وہاں سے، نہ جانے کیا کچھ عجیب واقعات اس گلی سے منسوب تھے، کسی کو وہاں ڈراؤنی شکل والی مخلوق دکھائی دی تھی تو کسی کو کوئی بُڑھیا روتی ہوئی ملی تھی، کبھی کسی کو اُس گلی سے رات گئے موسیقی کی آوازیں سنائی دیتی تھی لیکن نظر کوئی نہیں آتا تھا اور کبھی کوئی آوارہ کُتّا چلتے چلتے کسی نے غائب ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ اس گلی سے منسوب سَرکٹے تھے، جو نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دکھائی دیے تھے اور پھر وہ گلی سَرکٹوں والی گلی مشہور ہوگئی تھی۔

گلی کے ایک طرف پُرانے زمانے کے اجاڑ اور وسیع مکینوں سے محروم خالی مکانات تھے اور دوسری طرف پاور ہاؤس کی اونچی دیوار۔ تو جب سائیکل چلانے کا ارادہ کیا تو اپنے ایک بیلی سے کہا کہ چلو اس گلی میں سائیکل چلاتے ہیں لیکن اس نے تو یک سر انکار کردیا تو پھر اکیلے ہی اس گلی کا انتخاب کیا تھا۔

یاد ہے مجھے وہ ایک انتہائی گرم دوپہر تھی، سورج جہنّم بنا آگ برسا رہا تھا جب میں وہاں اپنی سائیکل لے کر پہنچا، دُور تک ہُو کا عالم، بندہ نہ بندے کی ذات، وحشت ناک خاموشی، میں نے تھوڑی دیر رک کر دُور تک گلی کا جائزہ لیا اور رب تعالٰی کا نام لے کر سائیکل چلاتا ہوا اس گلی میں داخل ہوگیا۔ جی کئی مرتبہ گرا، سنبھلا پھر گرا اور تھوڑی دیر بعد میں سائیکل پر رواں ہو ہی گیا تھا، ظاہر ہے مشاق ہونے میں تو بہت عرصہ لگا تھا۔

میں اتنا سرشار تھا کہ میں نے بغیر کسی کی مدد لیے سائیکل چلانا سیکھ لی ہے اور مجھے کچھ اور یاد ہی نہیں رہا تھا، پھر مجھے تھکن ہونے لگی اور میں ایک ویران گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اور میرے ذہن کے پردے پر اُس گلی کی کہانیاں رقص کرنے لگیں، مجھے نظر تو کچھ نہیں آرہا تھا، ہاں سناٹا ضرور تھا، کوئی آواز نہ کوئی اور مخلوق، پھر اچانک مجھے ایک آوارہ کتّا نظر آیا اور میں انتظار کرنے لگا کہ وہ کب غائب ہوجائے گا۔

وہ مجھ سے خاصے فاصلے پر منہ کھولے زبان لٹکائے ہانپ رہا تھا لیکن ہم اک دوجے کے سامنے تھے، شاید اسے مجھ پر رحم آگیا ہو کہ وہ بس اپنی جگہ ساکت رہا، میں نے صبر کو بچھونا بنایا اور اس کے غائب ہونے کا انتظار کرنے لگا، بتایا تو ہے کہ انتظار کی تکلیف موت کی سختی سے بدتر ہوتی ہے تو بس کچھ ایسا ہی ہوا، میں اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے بس۔ میں تو اب تک عجلت پسند ہوں تو آخر کب تک انتظار کرتا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور فیصلہ کرلیا کہ اس ٹنٹے کو ختم کیا جائے پھر جو ہونا ہے وہ تو ہوگا ہی۔ میں نے اس کی جانب چلنا شروع کیا، وہ اب تک اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جیسے جیسے میں اس کے قریب ہو رہا تھا اس نے چوکس ہونا شروع کیا، اور پھر جیسے ہی میں نے اس کے پاس پہنچ کر پتھر اٹھانے کے لیے جھکا وہ مخالف سمت سرپٹ دوڑنے لگا اور مجھے اس کے غائب ہونے سے محروم ہونا پڑا۔

پھر میں خود سے کہا یہ تو حیوان ہے، ویسے ہی یہاں آگیا ہوگا، ہو سکتا ہے وہ غائب ہونے والا کتّا کوئی اور ہو، یہ سوچ کر مجھے قرار آگیا لیکن اب میں تجسس کا مارا جو ہوں، بس اک پھانس مجھ میں چبھ گئی تھی، اب جب تک وہ نہ نکلے تو چین کہاں سے آئے۔ میں نے سائیکل پر اس گلی کے تین چکر لگائے اور واپس گھر کی راہ لی، گلی کے اختتام پر رک کر میں نے پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا کہ ہوسکتا کوئی انہونی ہوجائے لیکن صاحبو! محرومی کا کیا کیا جائے۔

پھر تو مجھ پر اس گلی کے اسرار کھولنے کا جنون سوار ہوگیا، کئی ماہ تک مختلف اوقات میں اس گلی میں قیام کیا، سیاہ رات میں، تپتی دوپہر میں، سہانی شام میں مجھے تو کچھ نظر نہیں آیا، شاید میں اس قابل ہی نہیں ہوں جسے کچھ نظر آئے۔ خیر! ہمارے محلے کے جہاں دیدہ بزرگ حافظ سعید احمد کے گھر پہنچا، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور دریافت کیا: ہاں بھئی! بتاؤ کیسے آنا ہوا، خیریت تو ہے ناں۔ جی خیریت ہے سعید چچا! میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جو پاور ہاؤس والی گلی سے منسوب واقعات ہیں، کیا واقعی درست ہیں؟ کیا شان دار انسان تھے۔

کاروباری تھے لیکن دردمند و بااخلاق و باکردار، ہر ایک کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تیار اور حافظ قرآن بھی جو رمضان میں مسجد میں تراویح کی امامت بھی کرتے تھے، یاد ہے مجھے جب حج کرنے گئے تو میرے لیے ایک کھلونا ٹی وی لائے تھے جس میں حجاز مقدس کی تصاویر تھیں جو بٹن دباتے بدلتی تھیں، بہت سنبھال کے رکھا تھا اسے جو بعد میں میرے بڑے بیٹے شامل نے لے لیا کہ اسے پُرانی اور نایاب اشیاء جمع کرنے کا شوق ہے تو ایسے تھے حافظ سعید احمد۔ میرا سوال توجّہ سے سنا، پھر مجھے بہ غور دیکھا اور کہا: اچھا تو اب تمہیں اس گلی کا راز معلوم کرنا ہے۔

میں نے کہا: جی بالکل! تو کہنے لگے: دیکھو بیٹا! کیا فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہو، کسی اچھے اور مثبت کام پر توجہ دو، چھوڑو ایسی باتوں کو۔ یہ کیا بات ہوئی چچا! کوئی اس گلی میں سے گزرتا نہیں اور سب نے اسے ڈراؤنی مخلوق کا مسکن قرار دیا ہوا ہے، کیوں۔۔۔؟ میں تو کئی ماہ سے اس گلی میں جا رہا ہوں مجھے کیوں کچھ نظر نہیں آتا ۔۔۔؟ سعید چچا نے مجھے پھر تلقین کی اور کہا: بیٹا! میں تو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ بہت مایوسی ہوئی تو میں ایک اور بزرگ حاجی ممتازاﷲ کے پاس جا پہنچا جو ایک زمین دار اور ابّا جی کے بہت اچھے دوست تھے، انہوں نے بھی بس مجھے ٹال دیا۔

داستان بہت طویل ہے، ہاں کئی برس کے بعد جب میں آوارگی کرتا ہوا اس گلی میں پہنچا تو دنگ رہ گیا کہ اتنے خوب صورت اور شان دار مکانات وہاں بنے ہوئے تھے اور گلی میں مکینوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا، تب مجھے وہاں ایک بزرگ نظر آئے تو میں ان سے یہ سب کچھ دریافت کیا تو وہ بولے: بیٹا! تم تو بہت پُرانی بات کر رہے ہو، اس وقت تو یہاں سارے خالی مکانات جو تقسیم کے وقت ان کے مکین چھوڑ گئے تھے تو ان پر کچھ لوگوں نے قبضہ کرلیا اور یہ اس لیے مشہور کردیا کہ کوئی اور ان مکانات پر قابض نہ ہوجائے اور کوئی ان مکانات کو نہ خریدے۔ تب اچانک ہی میرے اندر کے سارے سوالات کا جواب روشن ہوگیا اور اچانک میرے منہ سے نکلا: اوہ اچھا! تو یہ تھی حقیقت۔ اس بزرگ نے مجھ سے میرے متعلق پوچھا تھا کہ میں کون ہوں تب میں نے انہیں ٹال دیا تھا اس لیے کہ میں انہیں پہچان گیا تھا اور وہ تھے ہمارے محلے کے راؤ ثناء اﷲ اور ابّا جی کے بہترین دوست۔ بس اس سفر میں خوشی ہوئی کہ ایک راز آشکار ہوا جو برسوں میرے اندر آگ بڑھکائے ہوئے تھا۔

مجھے یاد ہے اور بہت اچھی طرح کہ برسات کی رات میں جب میں اپنی گلی میں سیاہ چادر اوڑھ کر نکلتا اور مختلف گھروں کے دروازوں پر جو لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کی جِھریوں سے اندر تاکتا اور بہت ڈراونی آوازیں نکالا کرتا اور مکین دبک جایا کرتے، اور صبح محلے بھر کی خواتین اک دوجے کو بتایا کرتیں: ارے اکبری! رات کو ہماری گلی میں بَدروحیں بین کر رہی تھیں اور اکبری باجی تشویش سے کہتیں ہاں! بدّن آپا ہم نے بھی وہ آوازیں سنی تھیں بل کہ امّاں نے تو مُصلّہ ڈال کر حفاظت کے لیے نفل بھی پڑھے تھے، بس خدا خیر کرے، کوئی مصیبت ہی محلے پر نازل نہ ہوجائے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں اور سب انہیں پَتلی خالہ کہا کرتے تھے۔

ان کے گھر میں پیپل کا ایک گھنا پیڑ تھا، پھر وہ بیمار ہوگئی تھیں اور ایک دن رب تعالی کو پیاری ہوگئیں۔ اُس دن اُن کا تیجا تھا اور ان کا وسیع گھر خواتین سے بھرا ہوا تھا، قرآن خوانی ہوگئی تھی اور مغرب کے بعد سب خواتین کھانا کھا کر صحن میں جمع تھیں، میں پیپل کے درخت کو سر اٹھائے دیکھ رہا تھا کہ یہی اکبری باجی اپنی نندوں مہرو اور نسرین کے ساتھ میرے قریب آکر کھڑی ہوگئیں اور کہا: کیا دیکھ رہے ہو تم! بس کچھ دیکھ رہا ہوں، میں نے کہا۔ کیا دیکھ رہے ہو تم! ہمیں بھی تو بتاؤ۔ بس یہی موقع تھا جب میں نے اکبری باجی سے کہا: وہ دیکھیے اکبری باجی! درخت پر پَتلی خالہ بیٹھی ہوئی ہیں۔

انہوں نے اوپر دیکھا اور چیختے ہوئے باہر کی جانب دوڑیں ان کے ساتھ مہرو اور نسرین بھی تھیں، اور پھر میں نے دیکھا ساری خواتین اس پر متفق تھیں کہ ہاں انہیں بھی پتلی خالہ نظر آئی تھیں کہ نیک لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے گھر کا خیال رکھتے ہیں۔ سچ بتاؤں تو مجھے وہاں کچھ نظر نہیں آیا تھا، میں تو ویسے ہی انہیں ڈرا رہا تھا اور حیرت اس بات پر تھی کہ سب کو وہ کچھ نظر آرہا تھا۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی واقعات میری پٹاری میں ہیں۔

ہمارے ایک عزیز نے ایک دن بتاتا تھا کہ ایک بیوہ جو شوہر کے انتقال کے بعد اپنے کسی رشتے دار کے ہاں مقیم تھی، کی ملکیت وسیع خالی مکان کو جو وہ بیچنا چاہتی تھیں اور ایک صاحب اسے اپنی پسند کے دام میں خریدنا چاہتے تھے جو مارکیٹ سے انتہائی کم تھے تو اس بیوہ نے اپنا وہ خالی مکان بیچنے سے انکار کردیا اور اس مکان پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کردیا، اب ان صاحب جو اسے اونے پونے خریدنا چاہتے تھے، نے اس خالی مکان میں اپنے چند ملازمین کی ذمے داری لگائی کہ وہ رات کو اس مکان میں جاکر ٹیپ ریکارڈر پر ڈراؤنی آوازیں اونچی آواز میں لگا دیتے اور دن میں خود ہی اس مکان کے متعلق مشہور کرتے کہ یہ مکان تو آسیب زدہ ہے اور اس ہتھ کنڈے کی وجہ سے لوگوں نے اس مکان کو خریدنے سے انکار کردیا اور پھر اس مجبور بیوہ سے وہ اس کا مکان ہتھیانے میں کام یاب ہوگئے۔ کیسے سفاک لوگ ہیں یہ۔

کہنا صرف اتنا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان مت دھریے، تحقیق کیجیے، سوچیے، ثبوت تلاش کیجیے، واقعات کو بہ غور دیکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے۔ یہ جو کورونا وبا جس نے سارے عالم کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے، یہ ایک حقیقت ہے، جی یہ ایک وبائی مرض ہے جو ہجوم میں پھیلنے لگتا ہے، نہ جانے کتنے ہی انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، ساری دنیا کا کاروبار رُک گیا اور ایک نفسانفسی کا عالم ہے، دردمند طبیب جو احتیاط بتا رہے ہیں ان پر ضرور عمل کیجیے، خود کو بھی محفوظ رکھیے اور دوسروں کو، من گھڑت باتوں سے خود بھی پرہیز کیجیے اور جو ایسی بے سر و پا باتیں کرے اسے بھی منع کیجیے، مایوسی مت پھیلائیے اور امید کی شمع روشن رکھیے، لیکن خوف مت پھیلائیے کہ یہ بہ ذات خود ایک مہلک مرض ہے۔ حقیقت بتائیے کہ اس مرض کا علاج احتیاط ہے اور وہ جو دردمند طبیب بتائیں ان پر عمل کیجیے۔

مایوس ہونے سے یک سر انکار کردیجیے اور رجائیت کو فروغ دیجیے کہ یہی ہے اس وقت کی ضرورت، اور ساتھ میں اس رب عظیم سے دعا کیجیے کہ الہی! میرے شر سے دوسروں کو اور دوسروں کے شر سے مجھے امان میں رکھنا اور اس یقین کامل کے ساتھ کہ رب تعالٰی ہم سب کو اس آزمائش سے سرخ رو نکال باہر کرے اور اپنی رحمتوں کی برسات کردے جس میں سب غم دھل جائیں، سارے خدشات بہہ جائیں، ساری کلفتوں کا صفایا ہوجائے، سارے زخم بھر جائیں، دُکھ دور ہوں اور سُکھ چھا جائیں۔

یقین رکھیے! ان شاء اﷲ ایسا ہی ہوگا اور جلد۔

دیکھیے! یہ کیسی التجا ہے، دل کی سماعت سے سنیے ناں!

سائیں! تُوں نہ کریں تے ہور کیہڑا، میریاں ساری ضرورتاں پُوریاں

لوکی تکدے عیب، گناہ میرے، میں تے تکدہ رحمتاں تیریاں

The post خوف اور مایوسی مت پھیلائیے، امید کی شمع روشن رکھیے appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک (Saim Almsuataf Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاًحسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار22 جون 2020
حاکم نمبر7
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِخاص: یارحیمُ یا رحمنُ یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا
1نمبر کے لیے: کچھ کاموں میں رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، جلد بازی سے گریز کریں۔
2نمبر کے لیے: کچھ قریبی لوگوں کا رویہ پریشان کرسکتا ہے، درگزر سے کام لیں۔
3نمبر کے لیے: ماضی سے منسلک کوئی واقعہ یا شخص منظر پر پھر آسکتا ہے۔
4 نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، کوئی دوست خوشی دے گا۔
5 نمبر کے لیے: کسی بزرگ سے ملاقات ہوسکتی ہے، مستقبل کا کوئی پلان بن سکتا ہے۔
6نمبر کے لیے: حالات میں کچھ خرابی کا اندیشہ ہے، محتاط رہیں
7 نمبر کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، لیکن کسی سے کوئی معاہدہ یا وعدہ سوچ سمجھ کے کریں۔
8 نمبر کے لیے: بہت اچھا دن، آج کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے، اچھا محسوس کریںگے۔
9 نمبر کے لیے: تحقیق اور ماضی سے منسلک چیزیں آپ کو اپنی جانب متوجہ رکھ سکتی ہیں۔

منگل 23جون2020
حاکم نمبر6
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے
وردِخاص” یا وھاب یا رزاق” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: اچھا دن ہے، مادی امور سے زیادہ آْپ کی توجہ دلی سکون کی طرف رہے گی ۔
2نمبر کے لیے: کچھ چیزیں پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں، یا کوئی عزیز پریشان کرسکتا ہے۔
3نمبر کے لیے: امورِ زندگی میں کچھ معاملات آپ کے مزاج میں کچھ تلخی لاسکتے ہیں۔
4 نمبر کے لیے: کوئی نیا کام کرنے کے لیے اچھا دن ہے، لیکن کوئی ایگریمنٹ سائن نہ کریں۔
5 نمبر کے لیے: صنفِ مخالف سے مالی واخلاقی فائدہ مل سکتا ہے
6نمبر کے لیے: کوئی ہم مزاج آپ کے لیے کوئی بہتر تجویز دے سکتا ہے۔
7 نمبر کے لیے: کوئی بات ذہنی الجھن کا سبب بن کستی ہے، صدقہ لازمی دیں۔
8 نمبر کے لیے زندگی میں آسائشیں لانے کے لیے آپ کو سفر کا سامنا ہوسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے: بہت اچھا دن، آج آپ کا اپنا دن ہے، خوشی در کھٹکھٹا سکتی ہے۔

بدھ 24 جون2020
حاکم نمبر3
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مفلس طالب علم کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص: یاسمیع یا مجیبُ یا اللہ” 41 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: کوئی پلان تبدیل ہوسکتا ہے یا غیرمتوقع حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
2 نمبر کے لیے: کوئی پیغام، کوئی کال کوئی رابطہ آپ کے لیے اہم ہونے والا ہے۔
3نمبر کے لیے: اچھا دن ہے، آپ اپنے آپ کو بہتر محسوس کریں گے، حالات آپکی مرضی کے مطابق رہیں گے۔
4 نمبر کے لیے: مزاج میں کچھ گرمی ہوسکتی ہے، آپ کے لیے مراقبہ اور تنہائی بہتر ہے۔
5 نمبر کے لیے: کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے، کوئی چلتا کام رک سکتا ہے۔
6 نمبر کے لیے: بہتر دن، آپ اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس کریں گے۔
7 نمبر کے لیے: نئی ابتدا کے لیے ایک معاون دن ہوسکتا ہے۔
8 نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، کوئی مہربان آپ کی خوشی کا سامان کرسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے: باس یا سنیئر کا تعاون حاصل ہوگا، مستقبل کے حوالے سے اچھے مشورے ملیں گے۔

جمعرات 25 جون2020
حاکم نمبر 2
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِخاص ” یاقادرُ یا قدیر یا اللہ” 41 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1نمبر کے لیے: مشاورت کے لیے اچھے لوگ بھی ملیں گے اور اچھا دن!
2نمبر کے لیے: زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔
3نمبر کے لیے: کسی مادی فائدے کیلئے سفر یا رابطہ یا معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔
4 نمبر کے لیے: آپ کی زندگی میں راحتوں کے سامان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
5 نمبر کے لیے: روحانی حوالے سے ماضی سے منسلک کوئی شخصیت سے ملاقات ہوسکتی ہے۔
6نمبر کے لیے: کچھ امور میں خرابی کا اندیشہ ہے۔ محتاط رہیں۔
7 نمبر کے لیے: کچھ باتیں ذہنی الجھن کا سبب بن سکتی ہیں۔
8 نمبر کے لیے: کسی اہم شخص سے ملاقات ہوسکتی ہے جو آپ کے کاموں میں معاون ہوسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے مالی حوالے سے ایک اچھا دن۔

جمعہ 26 جون2020
حاکم نمبر6
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا۔
وردِخاص” یاحافظ یا حفیظ یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: آپ کے لیے ایک لکی دن ہوسکتا ہے، کوئی خوشی مل سکتی ہے۔
2نمبر کے لیے: رکاوٹ کا دن، صدقہ دیں اور صبر وتحمل سے کام لیں
3نمبر کے لیے: مزاج میں گرمی مت لائیں ضروری نہیں کہ آپ کو ہر کوئی سمجھ جائے۔
4 نمبر کے لیے: آپ کی معاشرتی عزت میں اضافہ ہوگا۔
5 نمبر کے لیے: آپ کو مالی فائدہ ہونے کی امید ہے۔
6نمبر کے لیے: فیملی کے ساتھ ہوکے بھی فیملی سے الگ۔ ہوں گے، آپ کی ذاتی نشوونما رک سکتی ہے۔
7 نمبر کے لیے: ص، ط اور9 نمبر والوں سے معاملات خیال سے طے کریں، اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔
8 نمبر کے لیے: الف،غ اور 1 نمبر والے آپ کے لیے خوشی کا سبب بن سکتے ہیں۔
9 نمبر کے لیے: آج کا دن آپ کو خوشی دے سکتا ہے، مالی اور روحانی دونوں حوالوں سے ایک بہتر دن۔

ہفتہ 27 جون2020
حاکم نمبر9
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا 80 یا 800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِ خاص: یافتاح یارزاقُ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1نمبر کے لیے ن اور5 نمبر والوں کے ساتھ مل کر کوئی کام نیا شروع کیا جاسکتا ہے۔
2نمبر کے لیے: پراپرٹی اور لوہے کے کام میں آپ کے لیے رزق ہوسکتا ہے۔
3نمبر کے لیے: 1اور8 نمبر والوں سے بچ کے رہیں، باقی لوگ آْپ کے لیے بہتر رہیں گے۔
4 نمبر کے لیے: ایک اہم فیصلہ کرنا پڑسکتا ہے، جو کہ آپ کے ہی خلاف ہوسکتا ہے۔
5 نمبر کے لیے: کچھ مشکل حالات اور رویے پریشان کرسکتے ہیں۔
6نمبر کے لیے: ایک بہتر دن، مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
7 نمبر کے لیے: مادی معاملات کے لیے یہ دن کچھ بہتر نہیں ہوگا۔
8 نمبر کے لیے: آپ کو مشقت معمول سے زیادہ کرنی پڑے گی، ورنہ مشکل ہوسکتی ہے۔
9 نمبر کے لیے: ف اور 8 نمبر والوں سے محتاط رہیں، صدقہ دیں اور بلڈپریشر ہائی نہ ہونے دیں۔

اتوار28 جون2020
حاکم نمبر3
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ” یاسمیع یا بصیر یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: ص، ط یا 9 نمبر والے آپ کے لیے اہم تبدیلی یا اہم فیصلے کی وجہ بن سکتے ہیں۔
2نمبر کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، لیکن دورانِ گفتگو یا سفر بریک پر قابو رکھیں۔
3نمبر کے لیے: ص، ط یا 9 نمبر والے آپ کے لیے خوشی کا سبب بن سکتے ہیں۔
4 نمبر کے لیے: الف، یا 1 نمبر والوں سے محتاط رہیں، 8 نمبر والوں سے فائدہ ہوگا۔
5 نمبر کے لیے: 7نمبر سے فائدہ اور9 نمبر والے پریشان کرسکتے ہیں
6نمبر کے لیے: 6 نمبر والے دوست لیکن 8 نمبر والوں سے دشمنی کا اندیشہ ہے۔
7 نمبر کے لیے: 7نمبروالوں سے بچیں، آج آپ خود بھی خود سے دشمنی کرسکتے ہیں۔
8 نمبر کے لیے: 6نمبر والوں سے فائدہ ہوسکتا ہے، بہتر دن۔
9 نمبر کے لیے: 3 نمبر والوں سے فائدہ ملے گا، لیکن 1 اور 5 نمبر والوں سے بچیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


عجب معاملہ کل رات بھر رہا مرے ساتھ
چراغ میرا مخالف تھا اور ہوا مرے ساتھ
نگہ سے دل میں اترنا بھی کتنا مشکل ہے
ذرا سی دیر میں کیا کیا نہیں ہوا مرے ساتھ
میں اس کے سامنے جانے سے خوف کھاتا تھا
پھر ایک روز مرا آئینہ لڑا مرے ساتھ
اگرچہ شہر بڑا ہے، بہت حسین بھی ہے
مگر وہ گاؤں جہاں تُو پلا بڑھا مرے ساتھ
یہ میرا نیند میں چلنا بھی ایک قصہ ہے
کسی نے ہاتھ بڑھا کر کہا تھا ،آ مرے ساتھ
(نذر حسین ناز۔چکوال)

۔۔۔
غزل


یہی تدبیر قہر ڈھاتی ہے
نیند سولی پہ چڑھ کے آتی ہے
پہلے میں دربدر بھٹکتا ہوں
پھر کوئی روح مجھ کو بھاتی ہے
جس طرف خواب جا رہے ہیں مرے
اک پری اس طرف بلاتی ہے
جو بدلتا ہے موسموں کو وہ گیت
مدھر آواز میں وہ گاتی ہے
خود سے مایوس ہونے لگتا ہوں
جب کبھی عاجزی ستاتی ہے
کیا ہماری رضا سے دنیا بھی
آپسی رابطے بڑھاتی ہے
(نعیم رضا بھٹی۔ پاہڑیانوالی)

۔۔۔
غزل


اتار لیں گے بدن کی تھکان چلتا جا
پڑے ہیں دُور زمان و مکان چلتا جا
شجر کا سایہ میسر ضرور ہوتا ہے
کسی سے ہوتے نہیں بدگمان چلتا جا
ازل سے تیری محبت کا ایک مرکز ہے
وہ منتظر ہے سوئے لامکان چلتا جا
ہم اک جہان کو تسخیر کرنے نکلے ہیں
جہاں نوردی نہیں رائگان چلتا جا
زمانہ یادکرے گا دلیر لوگوں کو
بنا کے دشت میں اپنے نشان چلتا جا
گرے پڑے کو سہارا کوئی نہیں دیتا
پکارتا ہے تجھے کاروان چلتا جا
یہی نجات کے رستے کی اک نشانی ہے
خدا کے دین پہ اے نوجوان چلتا جا
(ساجد جاوید ساجد۔گوجرانوالا)

۔۔۔
غزل


اوج پر آئے ہوئے چاند کی اس رات کا رنگ
شہرِ انکار پہ چھاتا ہوا اثبات کا رنگ
میں تو خوشبو کی زباں ایسے سمجھ لیتا ہوں
جیسے پھولوں نے چرایا ہو تری بات کا رنگ
یہ فقط تیرے بدلنے سے کُھلا ہے مجھ پر
کیسے پل بھر میں بدلتا ہے سماوات کا رنگ
ایسے اشکوں کی روانی سے دھلے خال و خد
جیسے برسات میں نکھرا ہو نباتات کا رنگ
تُو نے جانی ہی نہیں طرزِ پزیرائی مری
تُو نے دیکھا ہی نہیں میری مدارات کا رنگ
ایسے چھینا ہے ترے ہجر نے سب میرا جمال
جیسے کھا جائیں مہ و سال عمارات کا رنگ
میرے ماتھے سے رواں سیلِ ندامت نے اسد ؔ
کہیں چھوڑا ہی نہیں کوئی عبادات کا رنگ
(اسد رحمان خان ۔میانوالی)

۔۔۔
غزل


خواب لکّھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نَوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں
تو جو خاموش ہو چھا جائے دو عالم میں سکوت
تو جو بولے تو تجھے شورشِ اِمکاں لکھوں
تو ہی محور ہے مرے دائرۂ ہستی کا
جان ہر خط کی تجھے جلوۂ جاناں لکھوں
میں نے سرمد اُسے لکھّا تو بہت ہے لیکن
جی میں آتا ہے ذرا اور نمایاں لکھوں
(شاہ نواز سرمد۔محمد پور دیوان ،ضلع راجن پور)

۔۔۔
غزل

کبھی رنجشوں، کبھی بندشوں، کبھی گردشوں سے جڑی رہی
مِری سمت آتی بہارِ جاں کئی سازشوں سے جڑی رہی
وہ کمی، وہ حزن و ملال سب، جو عیاں کسی پہ نہیں کیا
وہی ہست و بود کی بے کلی جوستائشوں سے جڑی رہی
ہے عجیب دور ِ جدیدیت، یہ صدی نَمودورِیا کی ہے
ہے یہ زیست بھی کسی فلم سی جو نمائشوں سے جڑی رہی
وہی جیسے خواب و خیال سی، کوئی آرزو ،کوئی چاہ سی
وہ طلب جو دل میں بسی ہوئی، مِری خواہشوں سے جڑی رہی
یہ نگہ سبیلہ! ہے منتظر، کسی چاپ کی، کسی دید کی
یہی بن کے رب سے دعا مِری تو گزارشوں سے جڑی رہی
(سبیلہ انعام صدّیقی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


بعد تیرے دوستا کوئی نہیں
زندگی سے واسطہ کوئی نہیں
میں یہاں سے کب کا اٹھ کے جا چکا
اب یہاں میرے سوا کوئی نہیں
کال پر پوچھا جب اس نے کون ہو
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کوئی نہیں
وہ چراغِ دل جلاتے جائیں گے
جن کے ہاتھوں میں دیا کوئی نہیں
اِس جہانِ خواب کی تعبیر میں
کون ہے کیوں ہے پتہ کوئی نہیں
اپنے اندر آ گیا ہوں اور اب
واپسی کا راستہ کوئی نہیں
زندگی بھر سانس لینے کا عذاب
اور جینے کی سزا کوئی نہیں
(احمد اویس۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


لاکر زہر کا گھونٹ مجھے یار دیجیے
میں مرنا چاہتا ہوں مجھے مار دیجیے
ہم کو تو صرف آپ سے الفت کی آس تھی
کب آپ سے کہا تھا کہ گھر بار دیجیے
کل آپ چھوڑ جائیں گے معلوم ہے ہمیں
جی بھر کے آج ہم کو صنم پیار دیجیے
چھٹکارا پانے آیا ہوں ساجن کی یاد سے
کیا ہوگا ایک جام سے،، دو چار دیجیے
دیکھا نہ زیست سے برا کچھ بھی ارے حمیدؔ
سر سے اتار زیست کا یہ بھار دیجیے
(حمید راہی۔کوٹ مومن، ضلع سرگودھا)

۔۔۔
غزل


سانسوں کے ساتھ تازہ ہوا کا وجود ہے
ماں کے وجود میں ہی خدا کا وجود ہے
اب مجھ کو یار تیری ضرورت نہیں رہی
اب میرے ساتھ میری انا کا وجود ہے
میں اس کی اور وہ ہے کسی کی تلاش میں
اور درمیان صرف دعا کا وجود ہے
وحشت کی شام اور کوئی ناتمام دکھ
وہ گلبدن وجود،جفا کا وجود ہے
وہ ہے سیاہ رات میں جلتا ہوا دیا
میرا وجودکالی گھٹا کا وجود ہے
احمدؔ ہمارے دل کو دکھایا تھا جس نے، وہ
کہتا پھرے گا سب سے، وفا کا وجود ہے
(احمد نیازی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


بڑی لمبی مسافت کی تھکن لپٹی ہے پیروں میں
ابھی کچھ دیر سونے دے ابھی نہ چھیڑ خوابوں میں
کبھی تو پوچھ حالِ دل میری وحشت کے چارہ جو
کبھی تو آ کے مجھ سے مل مری دل سوز راتوں میں
یہاں پر تو ہواؤں کا بھی یارو دم نکلتا ہے
کہاں کوئی ٹھہرتا ہے میرے خستہ مکانوں میں
بہانہ کر کے پڑھنے کا لگا کے کنڈی کمرے کی
کسی کی یاد میں رو ئے چھپا کے منہ کتابوں میں
مری اولاد کے دکھ نے جھکائی ہے کمر میری
سمے سے پہلے ہی اتری ہے چاندی سر کے بالوں میں
(عدنان چوہدری،لونگو۔کھاریاں)

۔۔۔


’’اندھا شاعر اب دیکھنا چاہتا ہے‘‘
لازمی تو نہیں
سانحہ دیکھ کر اس پر نظمیں لکھوں
دلخراشی،
مناظر کی بھرمار ہو
آنسوؤں سے بھری ایک تصویر ہو
خون ہو
شور!!
آزردگی!!
نارسائی میں ڈوبا رہے یہ جہاں
رنگ بے رنگ ہوں
چاہے جیسا بھی ہو
کیوں ہمیشہ میں اوروں پہ نظمیں لکھوں
میں بھی موجود ہوں
تھک گیا ہوں مناظر کی افراط سے
اپنے دکھ سے بڑا کوئی موضوع نہیں
اک نئی نظم لکھنے کی مہلت تو دو
دیکھنے دو مجھے!
(عادل ورد۔ گوجر خان)

۔۔۔
غزل


یزداں سے تھوڑی دور بلایا ہوا تھا میں
منصب پہ اپنے گویا بٹھایا ہوا تھا میں
بے کار کوستے ہیں مجھے یہ مشینی لوگ
دنیا میں ایک سیر کو آیا ہوا تھا میں
پہچان کھو رہے تھے محلات دل فریب
کٹیا میں اک چراغ جلایا ہوا تھا میں
اس غدر آخریں نے اثاثہ گنوا دیا
اک عمر سے کسی کا کمایا ہوا تھا
راز و نیاز کہنے کو محرم بجائے شخص
مٹی کا اک کھلونا بنایا ہوا تھا میں
(شہزاد بزمی۔دولت نگ

 

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

غزوۂ احد

$
0
0

جنگ بدر میں شکست کفار مکہ کو بے چین کیے ہوئے تھی کیوںکہ اس معرکے میں انہیں جانی نقصان کے علاوہ مالی شکست بھی ہوئی تھی اس لیے ان کے دلوں میں انتقام کی آگ دو آتشہ ہوگئی تھی ستر کفار جن میں ابوجہل سرفہرست تھا مارے گئے تھے عرب کا اصول تھا کہ وہ ایک فرد کا بھی بدلہ لیتے تھے یوں سالہا سال وہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ یہ جنگ اس انتقام کا فطری نتیجہ تھی۔ مدینہ میں مسلسل ان کے حملہ اور چڑھائی کی خبریں گردش میں تھیں۔

۵؍ شوال ۰۳ھ؁ کو حضورؐ نے دو خبر رساں انسؓ اور مونسؓ کو سرحد پر خبر لانے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے آکر اطلاع دی کہ کفار کا لشکر قریب آپہنچا ہے اور مدینہ کی چراگاہ عریض کو ان کے گھوڑے صاف کر چکے ہیں۔ آپ نے حباب بن منذر ؓ کو دشمن کی فوج کی صحیح تعداد اور طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا۔

ان کی اطلاع پر مدینہ شہر پر حفاظتی نقطہ نگاہ سے پہرے بٹھادیے گئے اور حضرت سعد بنؓمعاذ ہتھیار لگا کر رات بھر مسجد نبوی کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کو آپؐ نے صحابہ کرام ؓسے مشورہ لیا مہاجرین اور انصار نے بالعموم یہ مشورہ دیا کہ خواتین اور بچوں کو باہر قلعے میں بھیج دیا جائے اور مرد شہر میں رہ کر مقابلہ کریں مگر چند نوخیز صحابہؓ نے جو جنگ بدر میں شریک نہ تھے یہ مشورہ دیا کہ شہر سے نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ آنحضرتؐ گھر میں تشریف لائے اور زرہ پہن لی۔ اب لوگوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے آپؐ کو خلاف مرضی نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ تمام نے مل کر عرض کی ہم اپنے رائے سے باز آتے ہیں ارشاد فرمایا کہ پیغمبر کو زیب نہیں دیتا کہ ہتھیار پہن کر اتارے۔

قریش ابوسفیان کی سربراہی میں تین ہزار کا لشکر لے کر بدھ کے دن مدینہ کے قریب کوہ احد پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ آنحضورؐ نے جب سنا کہ زرہ پوش دو سو سوار دستوں اور بیس دف بجاکر گانے والیاں اپنے مقتول بدر کا بدلہ لینے کے لیے زورشور سے حد بندی کر چکے ہیں آپؐ اپنے ساتھ ہزار کی جمعیت لے کر بروز جمعہ مدینہ سے نکلے راستہ ہی میں عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) یہ کہہ کر کہ میں مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے خلاف ہوں شہر میں ہی جنگ لڑی جائے، اپنا تین سو کا دستہ لے کر علیحدہ ہو گیا۔ اب آنحضورؐ کے ساتھ صرف سات سو جاں نثار رہ گئے، جن میں صرف پچاس ہی تیر انداز تھے اور صرف سو زرہ پوش تھے۔

مدینہ سے نکل کر ایک مرتبہ پھر فوج کا جائزہ لیا گیا جو بچے تھے انہیں گھر جانے کے لیے کہا گیا مگر جذبہ ایسا کہ اسے ناپنے کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا۔ ہر کمسن جنگ کے لیے بضد تھا۔ حضرت رافع بن خدیج ؓسے جب جانے کے لیے کہا تو انگوٹھے کے بل کھڑے ہوکر اپنے پستہ قد کو دراز کرتے ہوئے چلنے کی اجازت لے لی۔ ان کی ترکیب کا رگر ثابت ہوتے دیکھ کر ان کے ایک ہم عصر سمرۃ نے کہا، میں رافع کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں چنانچہ وہ کشتی جیت کر شریک جنگ ہوگئے۔

حضورؐ نے احد کو اپنی پشت کی جانب رکھا۔ صف آرائی کی۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو فوج کا علم (پرچم) عنایت فرمایا حضرت زبیرؓ سالار فوج مقر ر ہوئے۔ حضرت حمزہؓ کو اس دستے کی قیادت ملی جو زرہ پوش نہ تھا۔ پشت کی جانب سے حملہ کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ عبداللہ بن جبیرؓ کو پچاس افراد کے دستے کے ساتھ متعین کیا گیا اور سختی سے کہا گیا کہ یہاں سے کسی قیمت پر نہ ہٹنا۔

قریش کو بدر کے میدان میں شکست کا تجربہ تھا۔ اس لیے اس مرتبہ انہوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے کو تیار کیا۔ خالد بن ولید جو (ابھی اسلام نہ لائے تھے) میمنہ پر عکرمہ پر میسرہ کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ قریش کا مشہور رئیس صفوان امیہ سواروں کا کمانڈر تھا۔ عبداللہ تیراندازوں کا افسر اور طلحہ کے ہاتھ میں علم تھا۔

جنگ شروع ہونے سے قبل آپؐ نے ابو دجانہؓ کو اپنی تلوار مرحمت فرمائی لشکر اسلام نے بڑی جرأت کے ساتھ حملہ کیا کفار ان کے حملہ کی تاب نہ لا سکے اور پسپا ہونے لگے۔ حالاںکہ تلواروں کی گھن گرج میں دف بجا کر گانی والیاں کفار کے لشکر کو جوش دلا رہی تھیں، مگر وہ مسلمانوں کا جوش جہاد دیکھ کر پیچھے ہٹتے رہے۔

حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، حضرت شیبہؓ اور حضرت ابودجانہ ؓ دشمنوں کی صف میں گھس کر اسے تہس نہس کرچکے تھے۔ انصاری بھی پیچھے نہ تھے انہوں نے بھی حق رزم ادا کردیا۔ تیرانداز یہ منظر دیکھ کر اپنی جگہ سے ہٹ گئے کیوںکہ وہ یہ سمجھے مسلمان غالب ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب مال غنیمت سمیٹ لیا جائے۔ وہ اس طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ خالد بن ولید نے دیکھا کہ مسلمان مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو پشت کی جانب سے حملہ کردیا۔ یہ مقامات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس پہاڑی کو جبل رماح کہا جاتا ہے۔ رماح عربی میں تیر کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو کہتے ہیں۔

حجاج اور زائرین کرام ان دونوں مقامات، یعنی جبل احد اور خالد بن ولید نے جس جگہ تیراندازوں پر پشت پر حملہ کیا تھا جبل رماح اور ان دونوں جبال کے درمیان شہدائے احد کے مقبرے ہیں، کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ خالد بن ولید کے اس غیرمتوقع حملہ سے مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی۔ لشکر درہم برہم ہوچکا تھا۔

کچھ کفار آنحضرتؐ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ مصعب بن عمیر ؓ نے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہادت پائی۔ اسی دوران کسی نے آنحضورؐ پر حملہ کردیا آپ کا چہرہ انور لہو لہان ہوچکا تھا۔ دائیں طرف کا نچلا دانت بھی شہید ہو چکا تھا۔ حنظلہ ؓ نے ابوسفیان پر حملہ کیا لیکن شداد بن اسود نے ان پر حملہ کرکے شہید کر دیا۔ جب مشرکین کا کوئی بس نہ چلا تو انہوں نے حضورؐ کی جانب سنگ باری شروع کردی آپؐ گڑھے میں گرتے گرتے بچے۔ حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر آپ کو سنبھالا۔ خود کے حلقے چہرہ انور میں پیوست ہوچکے تھے۔ مالک بن سنانؓ اور ابوعبیدہ بن جراح ؓنے حلقے نکالے اور خون صاف کیا۔کفار مکہ حضورؐ کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔

مگر جاں نثاروں نے انہیں روکے رکھا اور جام شہادت نوش کرتے رہے۔ عمارؓ بن یزید اور طلحہؓ بھی اسی جگہ مامور تھے۔ انہوں نے دشمنوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا مگر اسی دوران عمارؓ شہادت پاگئے۔ ابو دجانہ ؓ نے حضور کو مسلسل اپنی اوٹ میں رکھا اور تمام تیر جو حضورؐ پر آرہے تھے اپنے جسم پر کھائے۔ جسم چھلنی ہوچکا تھا آخر آپ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ عمرو بن قمیہ نے آگے بڑھ کر حضرت عمیرؓ کو شہید کر ڈالا وحشی (بعد میں ایمان لے آئے) جو کہ ایک حبشی غلام تھا۔ اس کے آقا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر حمزہؓ کو شہید کر دے گا تو آزادی پائے گا اس نے تاک کر ایک تیر حضرت حمزہؓ کی ناف میں مارا آپ جواب دینے ہی والے تھے کہ لڑ کھڑا کر گرے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

نضرؓ بن انس نے ستر زخم کھائے مگر ہمت نہ ہاری عمروبن قیمہ نے اعلان کر دیا تھا کہ حضورؐ کو شہید کردیا گیا ہے مگر اسے دھوکا ہوا تھا وہ حضورؐ نہیں مصعب بن عمیرؓ تھے۔ نضرؓ نے لوگوں میں اتنے زخم کے ساتھ بھی ایک نئی روح پھونکی کہ جو کام ہمیں آپ کی زندگی میں کرنا تھا بعد میں بھی کریں گے۔ چنانچہ مسلم لشکر ایک مرتبہ پھر مجتمع ہوا اور نشۂ شہادت کے متوالے ایک مرتبہ پھر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود پڑے۔ کعب بن مالکؓ (مشہور شاعر) نے حضورؐ کو پہچانتے ہوئے کہا مسلمانو! خوش ہوجاؤ حضورؐ زندہ ہیں۔ یہ نعرہ مستانہ سنتے ہی سب آپ کے گرد پروانہ وار جمع ہونا شروع ہوگئے۔

آپ ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ جس میں حضرت عمر فاروقؓ، ابو بکر صدیقؓ، علیؓ، زبیرؓ اور حارث ؓ بن اصمہ تھے پہاڑ کی گھاٹی کی جانب آئے۔ ابوسفیان نے دور سے ان بہت سے لوگوں کو دیکھ کر پکارا کیا تم لوگوں میں محمدؐ، ابوبکر اور عمر، علی وغیرہ موجود ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’انہیں جواب نہ دو‘‘ جب کئی مرتبہ پکار پر جواب نہ ملا تو اس نے خوش ہو کر کہا ’’اے ہبل تیرا نام بلند ہو‘‘ اس وقت آپ نے فرمایا ’’اب جواب دو‘‘ تب حضرت عمرؓ نے بلند آواز سے پکارا’’خدا سب سے بلند اور بزرگ تر ہے یہ تمام تجھے ذلیل کرنے کے لیے زندہ سلامت ہیں۔‘‘

یہ سن کر وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گیا اور زور سے پکارا ’’لڑائی ختم ہو گئی ہے ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے۔ اے ہبل! تیرا نام بلند ہو اب آئندہ سال پھر تم سے لڑنے کا وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ آنحضرتؐ کے حکم کے بموجب حضرت عمرؓ نے جواب دیا‘‘ہم بالکل تیار ہیں۔‘‘اس کے بعد لشکر کفار نے مکہ کی جانب کوچ کیا اور حضورؐ اپنے بقیہ اصحاب کے ساتھ مدینہ تشریف لے آئے۔ بہ ظاہر یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی، تاہم مسلمانوں کا اس میں جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا۔ جنگ احد میں ہار کی جانب قرآن شریف میں سورہ العمران آیات 173-137میں ذکر ہے۔

The post غزوۂ احد appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>