Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

بُک شیلف

$
0
0

 مزاح کبیرہ

مصنف :ناصرمحمود ملک۔۔۔ قیمت:500 روپے

 ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردوبازار،لاہور

انسان کو حیرت ہوتی ہے جب وہ کسی پولیس والے کو ہنستا ہوا دیکھتاہے اور اس وقت مزید حیرت ہوتی ہے جب پولیس والے کی باتوں سے دوسرے انسان خوش ہوتے ہیں۔ ناصرمحمود ملک ایسے ہی حیران کرنے والے پولیس افسر ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں خدمات سرانجام دینے کے لئے ایک عرصہ بیرون ملک ’سوڈان‘ بھی رہے۔

ایک مختلف رنگ کے لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی تخلیقی صلاحیتیں زیادہ تیز ہوئیں۔ عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں:’’ ان کی کتاب کے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک شگفتگی کی ایک لہر ہے جو آپ کے گرد ایسا  گھیرا ڈالے رکھے گی  کہ آپ اس سے اپنا دامن نہیں چھڑاسکیں گے‘‘۔کسی مزاح نگار کے بارے میں بڑے بڑوں کی تعریفوں پر فوراً ایمان نہیں لانا چاہئے بلکہ خود وہ مزاح پارہ پڑھ کر دیکھ لیناچاہئے۔ میرا خیال ہے کہ ’’مزاح کبیرہ‘‘ پڑھنے کے بعد آپ کو عطاالحق قاسمی کی رائے کے درست یا غلط ہونے کا صحیح اندازہ ہوجائے گا۔

زیرنظر کتاب میں تین درجن مزاح پارے ہیں۔ یہ کیسے لکھے گئے؟ مصنف کہتے ہیں:’’ اس ضمن میں عرض ہے کہ ہوش سنبھالا اور معاملات زندگی شروع ہوئے تو نوٹ کیا کہ ہم سے کئی حماقتیں سرزد ہورہی ہیں۔ تھوڑا مزید غور کیا تو پتہ چلا کہ حماقتوں کی سرزدگی میں ہم تنہا نہیں دیگر لوگ بھی کم وبیش یہی کررہے ہیں۔ چنانچہ مشاہدے کو قدرے تیز کیا تو اس کا نتیجہ اس کتاب کی صورت میں نکلا۔‘‘

’القریش پبلی کیشنز‘ کا اب تک زیادہ کام فکشن شائع کرنے ہی کا تھا یا کم ازکم مجھے زیادہ فکشن نظر آیا تاہم ’مزاحِ کبیرہ‘  اور کچھ دیگر کتابیں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اب ہرقسم کی کتابیں شائع کرنے لگا ہے۔ اللہ کرے کہ کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کا یہ سلسلہ مزید  وسیع اور تیز ہو۔ کتابیں ہی فرد اور معاشرے کو بڑا بناتی ہیں۔ آپ بھی کتابوں کی قدر کیا کریں۔

گاندھی کے چیلے

مصنف : ضیا شاہد ۔۔۔ قیمت: 800 روپے

 ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ

ضیاء شاہد پاکستان کے معروف اخبارنویسوں میں سے ایک ہیں، اور صحیح معنوں میں ایک رجحان ساز ایڈیٹر ہیں۔ وہ پاکستان کے ان صحافیوں میں سے ہیں جنھوں نے آزادی صحافت کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔ زیرنظرکتاب دراصل ان کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ’’پختونخوا‘‘ یا ’’پختونستان‘‘کا مطالبہ کرنے والوں کے جواب میں لکھے۔کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے :’’ گاندھی کے پاؤں دھونے والے سابق صوبہ سرحد کے سرخ پوش غفارخان اور ان کے بھائی ڈاکٹرخان صاحب اور بیٹے ولی خان کی پاکستان دشمنی اور انگریز اور ہندو کے ایجنٹ ہونے کی خوفناک اور اندرونی داستان‘‘۔ مصنف نے کتاب کا انتساب اجمل خٹک کے نام کیا جن کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے:

’’مجھے ان کے ساتھ تحریک نجات میں مسلسل سفر کا موقع ملا۔ بعدازاں ان سے بے شمار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وہ لاہور میں میرے گھر  اور میں خیبرپختونخوا میں ان کے گھر بہت مرتبہ گیا۔ان کی علالت کے دنوں میں تیمارداری کے لئے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ایسی ہی ایک شام وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور میں کرسی پر ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا:

’ضیا شاہد! میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کیا اس پر میں بہت شرمسار ہوں۔کبھی موقع ملے تو اپنے اس بوڑھے دوست کے بارے  میں یہ لکھئے گا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میںنے اپنی غلطیوں پرشرمندگی کا اظہار کیاتھا‘۔

میراخیال ہے کہ اس کتاب کے تعارف کے لئے یہی سطور کافی ہیں، تفصیل جاننے کے لئے آپ کو کتاب پڑھنا ہوگی۔ اس میں آپ کو ہماری تاریخ کی انتہائی اہم شخصیات کے بارے میں جاننے کا خوب موقع ملے گا۔

تاریخ سندھ

مصنف: سیدابوظفرندوی۔۔۔ قیمت:500 روپے

ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور

سیدسلیمان ندوی نے لکھاتھا :’’ انگریزوں نے اسلامی ہند کی جو تاریخیں لکھیں وہ بہت کم سیاسی اغراض سے خالی ہیں، ان کا مقصد ہندو اور مسلمانوں میں منافرت پیدا کرنا، مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نامور اسلاف اور شاندار ماضی کی وقعت گھٹانا اور اپنی حکومت کی عظمت و برتری کا نقش جمانا تھا، اس لئے ان کی لکھی ہوئی تاریخوں میں عموماً بڑی تحریف و تدلیس ہے اور ان مقاصد کے مطابق واقعات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نمایاں کیاگیا ہے اور رائی کو پہاڑ بنا کر دکھایاگیا ہے‘‘۔

اسی لئے انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کی ایک مفصل و مستند تاریخ لکھنے کا آغاز ہوا۔ ’’دارالمصنفین‘‘  نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا۔اس کام میں تحقیق و صحت کا پورا اہتمام اور لحاظ کیا گیا۔ برسوں کی محنت کے بعد اس کے بعض حصے تیار ہوئے۔ زیرنظرکتاب اسی کام کا ایک حصہ ہے۔

سیدسلیمان ندوی جو دارالمنصنفین کے سربراہ تھے، نے تاریخ سندھ کی اہمیت یوں بیان کی:’’سندھ کی تاریخ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں مسلمانوں کا پہلا قافلہ سندھ ہی میں اترا تھا اور یہیں ان کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی اور وہ ایک ہزار سال سے اوپر یہاں کے حکمران رہے جس کے آثار آج بھی سندھ میں درودیوار سے نمایاں ہیں۔ اس کے باوجود اردو میں سندھ کی کوئی مفصل محققانہ اور مستقل تاریخ موجود نہیں ہے‘‘۔

زیرنظرکتاب  اردو میں سندھ کی سب سے پہلی مفصل ، مستند اور مستقل تاریخ ہے، اس میں سندھ کا جغرافیہ ، مسلمانوں کے حملہ سے پیشتر کی مختصر اور اسلامی فتوحات کے مفصل حالات ، خلافت راشدہ کے زمانہ سے لے کر آٹھویں صدی ہجری تک سندھ جن جن حکومتوں کے ماتحت رہا اور عباسیوں سے آزاد یہاں جو جو حکومتیں قائم ہوئیں ، ان کی پوری تاریخ اور ان تمام دوروں کے نظام حکومت ، علمی وتمدنی حالات  اور رفاہ عامہ کے جو جو کام انجام پائے ، ان سب کی پوری تفصیل ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ یہ کتاب تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں بالخصوص طلبا وطالبات کے لئے کس قدر اہم ہے۔

جیری ایٹرک کئیر (ناول)

مصنف: نعیم کیفی ۔۔۔ قیمت:650 روپے

ناشر: رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، اقبال مارکیٹ، اقبال روڈ، کمیٹی چوک، راولپنڈی

مصنف نے ایک کہانی لکھی تھی ’’سفررائیگاں‘‘، اسے ایک ناول کے طور پر  شروع کیا تھا لیکن پھر عجلت میں اسے ختم کرنا پڑا تو پڑھنے والوں کو یہ ادھوری کہانی لگی۔ اس کے بعد مصنف نے اسی تسلسل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ زیرنظرناول اسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ یہ امید، خواہش، کشش، گریز، دکھ ، خوف، پشیمانی، کسک، احساس گناہ اور ذہنی اضطراب جیسے انسانی جذبات کا امتزاج ہے۔ اس میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی  اپنے پیشے سے لگن بھی ہے اور ایک خوبصورت عورت کا آتش شوق میں جلنا بھی۔

یہ کہانی بتاتی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں موجود کرپشن، غربت اور طبقاتی تقسیم ، صاحب اقتدار اور ثروت مند لوگوں کی بے حسی، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے مناسب روزگار کے محدود ذرائع، امن وآشتی کا فقدان اور انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کا نہ ملنا ، ان سب حقائق سے بھاگ کر لوگ امریکا جیسے ممالک میں جاتے ہیں، وہاں  وہ سخت جسمانی محنت کرتے ہیں، جان لیوا تنہائی کا شکار ہوتے ہیں، انھیں یکسر مختلف معاشرتی اقدار  اور اجنبی زبان کے ساتھ جینا پڑتاہے، انھیں ناقابل قبول ڈشز کھانا پڑتی ہیں،  وہاں بے رحم پیشہ وارانہ مسابقت ہوتی ہے جوانسان تو دور کی بات، مشینوں کو بھی تھکادیتی ہے ۔ پھر اس اجنبیت سے تنگ آکر وطن واپس آنے کا سوچا جائے تو یہ راستہ بھی آسان نہیں ہوتا، اگرکوئی آجائے تو پھر اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی یہی سب کچھ بتاتی ہے۔

ناول نگار درس وتدریس سے وابستہ ہیں، زیادہ تر وقت قومی ادارہ نفسیات ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گزارا، برطانیہ ، امریکا، کینیڈا اور ملائشیا میں بھی رہے۔طالب علمی کے زمانے ہی سے انگریزی اور اردو ادب سے شغف رہا۔ ان کی لکھی کہانیاں پڑھنے والا ان کے مشاہدے اور کردارنگاری کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

کیا یہ بدن میرا تھا (افسانے)

افسانہ نگار: صباممتازبانو۔۔۔ قیمت:300روپے

ناشر: ولید پبلشرز، 394 بلاک G-4 ایم اے جوہرٹاؤن، لاہور

صباممتازبانو کو ایک طویل عرصہ تک میدان صحافت میں ہرلمحہ سخت جدوجہد کرتے ہوئے، اکثر انھیں لکھتے ہوئے دیکھا۔ کبھی انٹرویوز ، کبھی فیچرز اور کبھی بین الاقوامی مسائل پر رپورٹس۔ مرحوم علی سفیان آفاقی کہاکرتے تھے کہ صبا ممتاز کے لئے لکھنا ایک شوق اور مشغلہ ہے۔ اسی دوران  صبا ممتاز بانو نے بتایا کہ وہ کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ ضرور لکھتی ہوں گی کیونکہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کہانیاں پڑھتی اور پھر لکھتی ہے، ڈائجسٹوں کی دنیا خواتین لکھاریوں ہی کی وجہ سے آباد ہے۔ لیکن ان کے ہاں موضوعات میں تنوع نہیں ہوتا۔ عورت اور خاندان، محبت کی کہانیاں اور بس!  ان کہانیوں میں کبھی خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں اور کبھی آنسو بہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ صبا ممتاز بھی ایسی ہی کہانیاں لکھتی ہوں گی۔

چند دن پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ ’کیا یہ بدن میرا تھا‘ موصول ہوا ا۔ دفتر میں بیٹھے بیٹھے ان کی دو، چار کہانیاں پڑھ لیں۔ سچی بات ہے کہ ان  کہانیوں نے مجھے انگشت بدنداں کردیا۔ہر کہانی میں ایک مختلف موضوع ۔کہانی کی بنت ایسی کہ دل اش اش کر اٹھا۔ میں سمجھتاتھا کہ پاکستان میں اب اچھی کہانی نہیں لکھی جارہی، اسی لئے میں کسی کہانی کو پڑھنے سے پہلے سوبار سوچتاتھا کہ کہیں کہانی بدمزہ ہی نہ کردے تاہم صبا ممتاز کے افسانے پڑھ کر تسلیم کرتاہوںکہ اچھی کہانی لکھی جارہی ہے۔

زیرنظر مجموعے کے ڈھائی درجن سے زائد افسانے دراصل اس معاشرے کی ڈھائی درجن سے زائد تصویریں ہیں۔ ہر تصویر ایک مختلف منظر دکھاتی ہے۔ صبا ممتاز نے بعض مناظر کو دیکھ کر تصویر بناتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور کھٹاک سے تصویر بنا ڈالی۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو منظر میں تھا۔ یعنی ایک بولڈ تصویر۔مثلاً ایک تصویر’’چلتی پھرتی عورت‘‘ کی بھی ہے۔ اس میں ایک مخصوص ’پیشے‘ کی عورت کی نفسیات کوپیش کیاگیاہے۔’’اولاد‘‘ کے عنوان سے بھی ایک تصویر موجود ہے جس میں ایک خوش باش عورت کی  بے کراں محبت  اپنا ٹھکانہ انسانی جنس سے ہٹ کر حیوانی جنس میں تلاش کرلیتی ہے۔

میں صباممتاز کے نہایت عمدہ افسانے پڑھ کر عجب مشکل میں پھنس گیاہوں، فیصلہ نہیں کرپارہا کہ وہ صحافی اچھی ہیں یا کہانی کار۔ ان کی کہانیاںآپ بھی پڑھئے اور پھر اپنا خیال بتائیے گا۔

شب آرزو تیری چاہ میں(ناول)

ناول نگار: نائلہ طارق۔۔۔ قیمت:1200روپے

 ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ، چوک اردوبازار،لاہور

یہ تو ہر کسی کے علم میں ہے کہ کوئی بھی کہانی خلاؤں میں جنم نہیں لیتی، ہر کہانی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے،جو  اسی زمین پر ہوتی ہے۔ ہر کہانی کے کردار اس زمین پر موجود ہوتے ہیں،  اور ہر فرد کے اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ صرف نام تبدیل ہوتے ہیں ورنہ کہانیاں ہر جگہ اپنا آپ دوہرا رہی ہوتی ہیں۔ صرف ایک کہانی  ہی اچھی کہانی ہوتی ہے۔کہانی لکھنے والوں کو کہانی کار ہی ہونا چاہئے، مبلغ، واعظ یا اپنے نظریات کا پرچارک نہیں۔اچھی کہانی خود اپنے پڑھنے والے کو مسخر کرتی ہے، اس میں کہانی لکھنے والا کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ کہانی کار ہی کیا ہے جو درمیان میں نثر  یا پھر خطابت کے جوہر دکھانا شروع کردے۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو نائلہ طارق ایک بہت اچھی کہانی لکھنے والی ہیں۔

انھوں نے ’شب آرزو تیری چاہ میں‘کے عنوان سے اس ناول میں  معاشرے کے ان نازک ایشوز کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جن پر عموماً زیادہ بات کرنا بھی معیوب سمجھاجاتاہے مگر یہ پوری سچائی کے ساتھ ہمارے اردگرد ، ہمارے اسی معاشرے میں موجود ہیں۔ ان ایشوز سے نظریں چرانا بہت آسان ہے مگر انھیں نمایاںکرنا ، ان کے محرکات ،و جوہات اور پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ایک بڑی اہم ذمہ داری کاکام ہے۔ ناول نگار کہتی ہیں کہ اس ناول کے کچھ اہم کردار  ان کے قلمی سفر کے ابتدائی دور سے ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ کردار ماورائی یا آسمانی نہیں مگر ان کے اندر چھپے کچھ مقدس، پاکیزہ جذبے ضرور آسمانی ہیں۔

جب آپ یہ ناول ختم کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک نیا وژن ہوتاہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا جذبہ، نئی ہمت بھی۔ذرا اس ناول کو پڑھ کر دیکھئے، کیا ایسا نہیں ہے؟

چین سے چین تک

انسانی تہذیب و تمدن کے سفر میں چین کو ہمیشہ ممتازو منفرد حیثیت حاصل رہی ہے۔چین سے دریافت ہونے والے آثار یہاں پر قبل از تاریخ عہد کے انسان کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں جبکہ چین میں پہلی باقاعدہ بادشاہت 17سو قبل مسیح میں موجود تھی۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک مختلف تاریخی ادوار میں علم و ہنر، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں غیر معمولی مہارتوں اور ایک طرح کی پراسراریت کی وجہ سے ہمیشہ پرکشش رہا ہے۔ ایک زمانے میں پوری دنیا میں صرف چین ریشم پیدا کیا کرتا تھا۔

ریشم پیدا کرنے کے اس راز کو چین سے باہر منتقل کرنے پر سرکاری ممانعت تھی۔ ایک طویل عرصہ تک دنیا اس راز کی کھوج میں سرگرداں رہی لیکن کوئی کامیابی نہ مل پائی۔ ریشم بنانے کا یہ راز تب دنیا کو معلوم ہوا جب انگریز جاسوس عیسائی  مبلغ بن کر چین گئے اور اپنے اعصاء کو اندر سے کھوکھلا کرکے ریشم کے کیڑے ان میں چھپا کر برطانیہ لے آئے۔ آج دنیا کا یہ غیر معمولی ملک انقلابات زمانہ سے گزرتا ہوا اپنی قوم کی غیر معمولی محنت کے بل پر امریکہ جیسی واحد عالمی طاقت کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔

زیر تبصرہ کتاب بھی چین سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان سے بحیثیت پروڈیوسر منسلک ہیں۔ انہیں تین برس تک چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اُردو سروس میں کام کرنے کا موقع ملا جس کا نتیجہ اس کتاب کی صورت میں سامنے آیا۔ ریڈیو میں محمد کریم احمد کے کام کی نوعیت تخلیقی ہے لہٰذا انہوں نے چین کو بھی ایک تخلیق کار کی نظر سے دیکھا ہے جس نے اس کتاب کے صفحات پر پھیلے بیانیے کو انتہائی دلچسپ اور پرکشش بنا دیا ہے۔ میرے لیے یہ کتاب اس لیے بھی خصوصی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں شامل بیشتر مواد کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں سلسلہ وار شائع ہو چکا ہے۔

گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا میں جاری کشمکش نے پاکستان اور چین کو بتدریج مخلص دوستی کے رشتے سے آگے بڑھا کر ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا ہے۔ دونوں ملک ایک ایسے دیرپا تزویراتی بندھن میں بندھ چکے ہیں جو عالمی کشاکش میں پاکستان کے حریفوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔

ایسے میں چین اور چین کے لوگوں کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش ایک قومی خدمت کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہم نے دنیا کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے تو ہمیں ’یعنی پاکستان اور چین کو‘ ایک دوسرے کو پوری طرح سے سمجھنا ہوگا جس طرح چینی زبان ہم پاکستانیوں کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہے اسی طرح چین کے مزاج اور معاشرتی رویوں کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے انتہائی مددگار ہے۔ کتاب کی پیشکش کامعیار بہت اعلیٰ ہے جسے فکشن ہاؤس بک سٹریٹ 68مزنگ روڈ لاہور نے شائع کیا ہے۔ قیمت600روپے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


فضائی حادثات ۔۔۔ دنیا کا محفوظ ترین سفرغیرمحفوظ کیوں بن رہا ہے

$
0
0

اکیسویں صدی جہاں ٹیکنالوجی اور جدید علوم کی صدی ہے، وہاں تمام ذرائع آمدورفت کے حوالے سے حفاظتی اقدامات میں بھی جدت اور نمایاں بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود ہوائی سفر کے دوران انسانی ذہن میں شدید خوف و وسوسے رہتے ہیں۔

اگرچہ ٹرانسپورٹ سکیورٹی انتظامیہ کے مطابق تقریباً 1.8ملین مسافر روزانہ ہوائی سفر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہوائی سفر میں کچھ خدشات و رِسک پھر بھی موجود رہتے ہیں۔ ہوائی جہاز ایک قسم کی مشین ہے اور مشینیں بعض اوقات خراب ہوجاتی ہیں۔ امریکن نیشنل سکیورٹی کونسل کے مطابق امریکہ میں ایک شخص کے ہوائی حادثے کا شکار ہونے کے امکان 7178میں سے 1 جبکہ روڈ حادثات میںیہی امکانات 98 میں سے 1 ہیں، جو ہوائی سفرکو ایک محفوظ سفر ثابت کرتا ہے۔

جدید انسانی تاریخ میں پہلا فضائی حادثہ 17ستمبر 1908ء میں ہوا جس میں Mr. Thomas Etholen Selfridge نامی شخص کی جان چلی گئی۔ یہ ایکdemonstration flight تھی جس کوOrville Wrightچلا رہا تھا، تھامس ایلوتھن سیلفریج امریکی فوج میں فرسٹ لیفٹیننٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ فضائی حادثات کی بہت ساری وجوہات ہیں، تاہم پائلٹ کی غلطی کا تناسب سب سے زیادہ ہے اور تقریباً نصف فضائی حادثات پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔

فضائی حادثہ کی ایک اہم اور عام وجہ مکینیکل خرابی ہے جو کہ تمام فضائی حادثات کا 22 فیصد ہے ۔ میکینکل خرابی پائلٹ کی غلطی سے مختلف ہوتی ہے کیوں کہ جب سسٹم خراب ہوجاتا ہے تو پائلٹ جہازکے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔کچھ میکنکل خرابیاں جہاز کی بناوٹ کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔مثال کے طور 1974ء میں ترکی کا ایک جہاز جو فرانس جا رہا تھا حادثہ کا شکار ہوا کیوںکہ اس کے کارگو دروازے کی بناوٹ میں نقص تھا۔1955ء میں مغربی افریقہ کی ایک فلائٹ جو نائجیریا جارہی تھی اس وقت حادثے کا شکار ہوئی جب ونگ میںکریک آنے کی وجہ سے ونگ ٹوٹ گیا۔

پائلٹ کی تھکاوٹ(Fatigue) کو اہم سمجھا جانا چاہیے International Civil Aviation Organization (ICAO)تھکاوٹ (Fatigue)کی اس طرح تعریف بیان کی جاتی ہے کہ ’’جسم کی ایسی حالت جس میں ذہنی اور جسمانی کارکردگی کم ہونا شروع ہوجائے اور نیند کا غلبہ ہوجائے‘‘ اس عمل سے جہاز کا عملہ اور مسافر شدید خطرہ میں ہوتے ہیں کیونکہ اس عمل میں پائلٹ کی غلطی کے چانس زیادہ ہوتے ہیں،غیر متوقع طویل ڈیوٹی اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔

ایک سے زیادہ انجن والے جہاز کا جب ایک انجن کام کرنا چھوڑ جائے توجہازکی کسی Diversion airportپر ہنگامی لینڈنگ کرانی پڑ جاتی ہے۔ آگ اور زہریلی گیسیں بھی فضائی حادثہ کی وجہ بنتی ہیں۔ 1983ء میں کینیڈا ائیر لائن کی فلائٹ نمبر 797میں بجلی کا نقص  آنے کی وجہ سے آگ لگی جس کی وجہ سے 46مسافروں میں سے 23کی موت واقع ہوئی ۔علاوہ ازیں جہاز میں ناقص وائرنگ ، خراب انسولیٹر والی تاریں جو کہ آپس میں سپارکنگ کرتی ہیںبھی آگ لگنے کا باعث ہو سکتی ہیں۔

فضائی حادثات میں سے12فیصد حادثات موسم کی خرابی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ موسم کی خرابی مثلاًطوفان ، تیز ہوا اور دھند کی صورت میں فلائٹ آپریشن روک دیا جاتا ہے خاص طور پر آسمانی بجلی خطر ناک ثابت ہوتی ہے ۔جب آسمانی بجلی جہاز سے ٹکراتی ہے تو یہ جہاز کوکئی طرح سے ناکارہ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے فضائی حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں کیونکہ آسمانی بجلی کی وجہ سے جہاز کی بجلی ناکارہ ہوجاتی ہے۔

برفباری بھی جہاز کے حادثے کا سبب بنتی ہے حتی کہ معمولی سی برفبا ری بھی ونگز کی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے جس کی وجہ سے ونگزکام کر نا چھو ڑ جاتے ہیں اور اس طر ح جہاز حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔ 1982ء میںAir Florida Flight 90ٹیک آف کے دوران حادثہ کا شکار ہوئی کیونکہ اس کے ونگز پر برف جمی ہوئی تھی۔ایئر لائنوں اور ہوائی اڈوں کو جہازوںکے ٹیک آف اور لینڈنگ کیلئے سب سے پہلے De-iecedکو یقینی بنانا چاہیے۔ جدید طیارے اس قسم کے تیار کیے گئے ہیں کہ جب بھی برف ان کے پروں، انجن یا دُم پر جمنے لگتی ہے تو انجن کی گرم ہوا برف کو جمنے نہیں دیتی اور اس طرح جہاز کو حادثہ سے بچالیا جاتا ہے۔

جہاز کے حادثات جو تخریب کاری کی وجہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں تمام حادثات کا صرف9فیصد ہے۔ دہشت گردی و ہائی جیک سے نمٹنے کیلئے عملہ کو خصو صی تربیت دی جاتی ہے ۔ ایئر پورٹس اور جہازوں کی سکیورٹی کو یقینی بنا یا جاتا ہے۔ دہشت گردی سے بچنے کے لئے سکیورٹی چیک پوائنٹ اور جہاز کی ٹیک آف کے وقت دروازوں کو لاک کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کچھ فضائی حادثات ائیر ٹریفک کنٹرول کی غلطیوں کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں جس سے جہاز رن وے اور حتی کہ midairمیں دیگر جہازوں سے ٹکرا جاتے ہیں اس کے علاوہ جہاز کواوور لوڈ کر نے سے بھی حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔

Electromagnatic interfaceبھی حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔خا ص طور پر فلائٹس کے دوران موبائل فون ایک بڑی وجہ ہو سکتے ہیںکیونکہ یہ فلائٹ کے دوران مواصلا تی رابطوں میں خلل پید اکر تا ہے ۔ Bird Strike  پرندوں اور جہازوں کے درمیان تصادم کے لیے استعمال ہونے والی ہوابازی کی  ایک ٹرم ہے ۔ پرندوں کا انجن میں ٹکراؤ اور Wind shields کے ٹوٹنے کی وجہ بھی جہاز کے حادثے کی وجہ بنتا ہے ۔ Bird Strikeکا سب سے زیادہ خطرہ جہاز کے لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران ہوتا ہے نچلی پرواز کرنے والے خاص کر فوجی جہاز اور ہیلی کاپٹر اس کا نشانہ بنتے ہیں۔

ان عوامل کے علاوہ طیارہ کی رن وے پر غیر ضر وری نقل و حر کت کو قا بو رکھنا بھی ضر وری ہے۔ رن وے پر غلط طریقے سے کھڑے دیگر جہاز ، عملہ اور گاڑیاں طیارے کے حادثات کا سبب بن سکتے ہیں۔ ائیر پورٹ کی تعمیر، نقشہ و ڈیزائن اور جگہ کا بھی جہازوں کی حفاظت پر خاصا اثر ہوتا ہے جیسا کہ Chicago Midway International Airportجو کہ خاص طور پر Propeller طیاروں کیلئے بنایا گیا ہے  اس پر تمام قسم کے طیارے اترتے ہیں۔ بہت سارے ائیر پورٹ گنجان آباد علاقوں میں ہیں جو موجودہ حفاظتی اقدامات پر پورا نہیں اترتے اور انتہائی خطرناک ہیں۔

1999 میں Federal Aviation Administration(FAA)نے رن وے کی حفاظت کے حوالے سے قانون شائع کیے تھے جن میں عام طور پر رن وے کے دونوں سائیڈز سے 500فٹ یعنی150میٹر اور رن وے کا اختتام 1000فٹ یعنی 300میٹر پر ہو۔ان کے مطابق جہازوں کے رن وے پر رکاوٹوں کی وجہ سے حادثات میں 90فیصدکمی آجاتی ہے۔

فضائی عملے کی دماغی و نفسیاتی صحت کا پوشیدہ پہلو بھی طیارے کے حادثے کا سبب بنتا ہے اور ان میں کچھ خودکشی کے اقدام بھی سامنے آئے ہیں۔مثا ل کے طور پر مصر میں فلائٹ نمبر 990کو فر سٹ پائلٹ نے شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے Atlantic Oceanمیں گرا دیا۔مارچ 2015ء میں جرمنی کی فلائٹ نمبر 9525نائس سے 100کلومیٹر شمال مغرب میں حادثہ کا شکار ہوئی جس میں تمام 144مسافر اور چھ عملہ کے ارکان لقمہ اجل بنے۔ جو کہ پا ئلٹ کی خود کشی کی وجہ سے وقو ع پذیر ہو ا۔

امن اور جنگ کے دوران مسافر طیارے فوجی عمل کی وجہ سے حادثے کا شکار نہیںہونے چاہیے  تاہم  اس کی چند مشہور مثالیں موجود ہیں، مثال کے طور پر 1973ء میں اسرئیل نے لیبیا کی فلائٹ نمبر 144کو نشانہ بنایا۔1983میں سوویت یونین نے کورین ائیر لائن کی فلائٹ نمبر 007کو نشانہ بنایا۔ 1988میں یونائیٹڈ سٹیٹ نے ایران ایئر لا ئن کی فلائٹ نمبر 655کو نشانہ بنایا۔ 2014میں یوکرائین نے ملائیشیا ا یئر لائن کی فلائٹ نمبر 17کو نشانہ بنایا تاہم یہ تباہ کاریاں جنگی جرائم میں شمار ہوتی ہیں۔

انسانی ترقی کا راز صرف برق رفتاری ہی میں پوشیدہ نہیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی حفاظت کے سنہرے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تین(Ps) پیز(Pilots) پائلٹ ، (Plans)جہاز اور  (Planes) منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے چھوٹے بڑے حادثات سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔

The post فضائی حادثات ۔۔۔ دنیا کا محفوظ ترین سفرغیرمحفوظ کیوں بن رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

امام مسجد جس نے سفید فام آمریت سے ٹکرلی

$
0
0

’’آمر دنیا سے رخصت ہو تو اس کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے ۔اور جب ایک شہید دنیا سے جاتا ہے تو اس کی حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘( ولندیزی فلسفی، سوزین کرکے گارڈ)

٭٭

امریکا میں سیاہ فاموں کے قتل یہ سچائی سامنے لے آئے کہ تمام تر ترقی کے باوجود دنیا میں رنگ، نسل، زبان، امارت وغیرہ کی بنا پر نفرت و دشمنی کے منفی جذبات ختم نہیں ہو سکے۔ یہ منفی جذبے مٹانے کے لیے ہی پیغمبر و رسول آئے اور راہ راست پر گامزن عام انسانوں نے بھی نفرت کے ہرکاروں سے مقابلہ کیا۔ انہی دلیر افراد میں امام عبداللہ ہارون کا شمار ہوتا ہے جن کی داستان حیات ولولہ انگیز اور سبق آموز ہے۔عبداللہ ہارون 8 فروری 1924ء کو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں پیدا ہوئے۔

اس مملکت پر سولہویں صدی سے یورپی استعمار نے قبضہ کرلیا تھا۔ پرتگالی، ولندیزی اور برطانوی یہاں آبسے۔ انہوں نے کھیت بنائے اور کارخانے بھی۔ چونکہ مقامی سیاہ فام قبائل ان حملہ آوروں سے برسرپیکار رہتے تھے، اس لیے یورپی استعمار جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے لاکھوں مزدور جنوبی افریقہ لے آیا اور وہ کھیتوں، کارخانوں اور دیگر پیشوں میں کام کرنے لگے۔ ان میں سے اکثر غلام کا درجہ رکھتے تھے۔ہندوستان کے برہمنوں کی طرح یورپی طاقتوں نے جنوبی افریقہ میں ذات پات کا نظام قائم کردیا۔ اس نظام میں سب سے اوپر وہ خود براجمان تھے۔

انہیں ہر لحاظ سے آسائشیں اور سہولتیں میسر تھیں۔ وہ عالیشان گھروں میں رہتے اور اچھا کھاتے پیتے تھے۔ دوسرے درجے پر وہ مقامی سیاہ فام لیڈر فائز تھے جنہوں نے ارض وطن سے غداری کی اور یورپی استعمار کے مددگار بن بیٹھے۔ یورپی حکمرانوں نے انہیں بھی کچھ سہولتیں دے رکھی تھیں اور وہ شاہانہ زندگی گزارتے۔ ذات پات والے اس نظام میں سب سے نیچے عام سیاہ فام اور گندمی نسل کے لوگ تھے۔ انہیں بس غذا، پانی اور رہائش دستیاب تھی تاکہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ ورنہ انہیں نہ عمدہ غذا حاصل تھی اور نہ ہی اچھی تعلیم، اچھا علاج اوردیگر سہولیات میسر تھیں۔ زندگی لشٹم پشٹم بسر ہوجاتی۔

نا انصافی کا چلن

یورپی غاصب جنوبی افریقا کی آبادی میں صرف 20 فیصد تھے مگر انہوں نے مملکت کی 90 فیصد زمین پر قبضہ کررکھا تھا۔ یہی نہیں، انہوں نے سیاہ فاموں اور گندمیوں کے لیے علیحدہ رہائشی بستیاں بنائیں، اسکول اور ہسپتال بھی۔ غرض سفید فام غاصبوں نے ہر ممکن سعی کی کہ خود کو سیاہ فام اکثریت سے علیحدہ و ممتاز رکھ سکیں۔

اسی سلسلے میں کئی قوانین بنائے گئے تاکہ ظلم و جبر کا شکار سیاہ فاموں میں سے کوئی احتجاج کرے تو اسے مثالی سزا دی جاسکے۔ ان آمرانہ قوانین کے ذریعے سفید فاموں نے سیاہ فاموں اور گندمیوں پر ایسا جابرانہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام تھوپ دیا جسے ’’اپارتھیڈ‘‘ کا نام ملا۔ یہ مقامی افریقن زبان کا لفظ ہے اور معنی ہیں: ’’علیحدہ کرنے کا عمل۔‘‘

جب عبداللہ ہارون پیدا ہوئے تو جنوبی افریقہ میں ظالمانہ اپارتھیڈ جاری تھا۔ ایک طرف سفید فام تھے جو پُر آسائش اور آرام دہ زندگی گزارتے۔ دوسری سمت سیاہ فام اور گندمی افراد جو سارا دن فارموں، کانوں اور کارخانوں میں کام کرکے بس اتنا کما پاتے کہ روزمرہ اخراجات پورے ہوجائیں۔ عبداللہ ہارون کا تعلق بھی اسی طبقے سے تھا۔اٹھارویں صدی میں ان کے اجداد کو بہ حیثیت غلام انڈونیشیا سے لایا گیا ۔

اواخر انیسویں صدی میں عبداللہ کے دادا نے اپنی قیمت دے کر محدود آزادی حاصل کرلی۔ اب وہ آزادانہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے پرچون کی دکان کھول لی۔ یوں ظالم سفید فاموں کے کارخانوں میں کام کرنے کی اذیت سے جان چھوٹی۔ وہ گدھوں کی طرح کام لیتے تھے اور معمولی معاوضہ ادا کرتے۔

ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے لاکھوں مزدوروں میں بیشتر مسلمان تھے۔ عام طور پر مسلمان کہیں بھی آباد ہو، وہ اپنا اسلامی تشخص اور انفرادیت ضرور برقرار رکھتا ہے۔ انہوں نے بھی غیر دیس میں اسلامی تعلیمات سے ناتا جوڑے رکھا اور خصوصاً گھر میں مذہبی رواج پر عمل پیرا رہے۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کا اپنا علیحدہ گروہ تشکیل پاگیا۔ اس گروہ کے دو ذیلی حصے تھے: ایک ملائی مسلمان اور دوسرے ہندوستانی مسلمان۔ ان کی تعداد مملکت کی کل آبادی کا ڈیڑھ فیصد تھی۔

عبداللہ ہارون پانچ سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تب لاولد ایک پھوپھو نے انہیں گود لے لیا۔ وہ خاتون مذہبی تھیں۔ انہوں نے بھتیجے کو مدرسے بھجوا کر اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ یوں لڑکپن ہی میں عبداللہ جان گئے کہ دین اسلام کی رو سے سبھی انسان برابر ہیں چاہے کوئی کالا ہو یا گورا۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ہر مسلمان کو معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی خاطر جدوجہد کرنا چاہیے اور یہ کہ جابر حکمران کے سامنے سچ کا اظہار ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔

مدرسے کے علاوہ عبداللہ نے پرائمری تک سکول میں بھی تعلیم پائی۔ یوں وہ کسی حد تک جدید تعلیم سے بھی آگاہ ہوئے۔ پھوپھو نے پھر اپنے خرچ پر انہیں مکہ معظمہ بھجوایا تاکہ وہ اعلیٰ اسلامی تعلیم سے روشناس ہوسکیں۔ عرب سے واپس آکر عبداللہ مقامی علما سے اکتساب فیض پاتے رہے۔ یوں وہ تیس برس تک عالم دین کا اعزاز پانے میں کامیاب رہے۔

عبداللہ ملنسار، ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ انہیں شوق تھا کہ اپنوں اور غیروں میں دین سے متعلق باتیں پہنچائی جائیں۔ چناں چہ وہ جس سے ملتے، اسے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے اور سچا مسلمان بننے کی ترغیب دیتے۔ کچھ عرصے بعد وہ والد کی دکان پر کام کرنے لگے۔ یوں انہیں غیر مسلموں سے بھی میل جول بڑھانے کا موقع ملا۔ اب وہ ان میں تبلیغ اسلام کرنے لگے اور بعض سیاہ فاموں کو دین حق کی آغوش میں لے آئے۔

نماز پڑھنے عبداللہ قریب ہی واقع الجامع مسجد جاتے تھے۔ وہاں اپنی ملنساری، سادگی اور خلوص کے باعث جلد نمایاں اور ہردلعزیز شخصیت بن گئے۔ یہی وجہ ہے 1955ء میں انہیں مسجد کا امام مقرر کردیا گیا۔ یوں عبداللہ کو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر جنوبی افریقہ کی اہم ترین اور بڑی مساجد میں سے ایک کا امام بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔قابل ذکر بات یہ کہ بطور امام انہوں نے انتظامیہ سے کوئی معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کی خاطر پرچون فروشی سے ہونے والی آمدن کافی ہے۔ قناعت پسندی اور مادہ پرستی سے بے رغبتی نے عبداللہ کو نوجوانوں میں زیادہ مقبول کردیا۔

امام مسجد بن کر عبداللہ تبلیغ اسلام میں زیادہ سرگرم ہوگئے۔ انہی دنوں ان کی ملاقات ایک پاکستانی عالم دین مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی سے ہوئی جو تبلیغ دین کے سلسلے میں بہت سرگرم تھے۔ مولانا نے نوجوان امام کو بہت سا تبلیغی لٹریچر دیا۔ عبداللہ نے ان کتابچوں کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کرایا تاکہ غیر مسلموں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا جاسکے۔

اس دوران امام عبداللہ نے دور جدید کے مسلم مصلحین مثلاً جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا، حسن البنا، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، محمد قطب وغیرہ کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔ تب انہیں احساس ہوا ، طاقتور یورپی استعمار ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک پر قابض ہے اور یہ کہ ہرملک میں مسلم لیڈر ووٹ یا گولی کی طاقت سے غاصبوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی امام عبداللہ نے بھی جنوبی افریقا میں آمرانہ سفید فام حکومت سے ٹکرلینے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ حکمرانوں کو مجبور کردینا چاہتے تھے کہ نسلی، لسانی اور مذہبی امتیاز کی پالیسی ترک کرکے مملکت میں عدل و انصاف اور مساوات انسانی پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔

جدوجہد کا آغاز

امام عبداللہ کو مگر مسجد انتظامیہ میں شامل بعض رہنماؤں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان رہنماؤں کا استدلال تھا کہ حکومت ان کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن امام عبداللہ کے نزدیک یہ بزدلانہ اور اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی پالیسی تھی۔

ظاہر ہے، حکومت کی مخالفت مسلم رہنماؤں کے معاشی و سیاسی مفادات کو نقصان پہنچاسکتی تھی۔ اسی لیے وہ حکومت مخالف تحریک چلانے سے خائف تھے۔ان مسلم رہنماؤں کی اکثریت لکیر کی فقیر تھی۔ انہیں جدت پسند امام عبداللہ کی بعض سرگرمیوں پر بھی اعتراض تھا۔ دراصل انہوں نے مسجد میں تعلیم بالغاں کی کلاسیں شروع کردی تھیں جن میں لڑکیاں اور خواتین بھی شریک ہوتیں۔ نیز بحث و مباحثہ کرنے والے گروپ بھی تشکیل دیئے جن میں سیاست، معیشت اور دیگر موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ روایت پسندوں کے نزدیک یہ بھی بدعت اور تقلید کی مخالفت پرمبنی تھی۔

اس زمانے میں سیاہ فام لیڈر اپارتھیڈ نظام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرچکے تھے۔ ہم وطن مسلمانوں کے متعلق ان کا عام خیال یہ تھاکہ یہ لوگ ایک انقلابی پیغمبر (ﷺ) کے پیروکار ہیں مگر یہاں وہ سورہے ہیں۔

انہیں علم نہ تھا کہ جنوبی افریقن مسلمانوں میں جلد ہی ایک شیر جنم لینے والا ہے۔1961ء میں امام عبداللہ نے ہم خیالوں کے اشتراک سے ایک پمفلٹ بعنوان ’’اعلان اسلام‘‘ (call of islam) جاری کیا۔ اس میں انہوں نے حکومت کی سرکاری پالیسیوں کو ’’ظالمانہ، غیر انسانی اور اسلامی تعلیمات کے منافی‘‘ قراردیا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فی الفور اپارتھیڈ نظام ترک کرکے جنوبی افریقہ میں عادلانہ و منصفانہ طرز حکمرانی تشکیل دے۔ جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم لیڈر نے بڑی شدت سے حکومت پر تنقید کی ۔ اس پمفلٹ کو غیر مسلموں میں بھی شہرت ملی اور انہیں احساس ہوا کہ طبقہ ِمسلماں میں بھی بیداری پیدا ہوچکی۔

ظالم حکمرانوں سے لڑتے ہوئے امام عبداللہ نے سیاہ فاموں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ جابر حکومت نے مگر انھیں الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔ سیاہ فاموں کی بستیوں میں جانے کے لیے خصوصی پاس درکار ہوتا تھا۔ امام جناب نے حل یہ نکالا کہ ٹافیاں گولیاں فروخت کرنے والی ایک برطانوی کمپنی میں بطور سیلز مین ملازمت کرلی۔

یوں انہیں کیپ ٹاؤن کی سیاہ فام آبادیوں میں جانے کے لیے پروانہ راہداری مل گیا۔امام عبداللہ نے پھر سیاہ فام لیڈروں سے تعلقات بڑھائے۔ ان کی بستیوں میں جاکر تبلیغ اسلام بھی کی۔ وہ ہر بستی کے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے ۔ یوں وہ بستیوں میں ’’ٹافی والا بابا‘‘ کے خطاب سے مشہور ہوگئے۔ بچے انہیں دیکھتے ہی خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ امام عبداللہ کی سعی سے کئی سیاہ فاموں نے اسلام قبول کرلیا۔انہی دنوں کیپ ٹاؤن کے کچھ مسلم لیڈر ’’مسلم نیوز‘‘ کے نام سے ایک اخبار شائع کرنے لگے۔ امام عبداللہ اس کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ اب وہ بذریعہ قلم بھی ظالم حکومت کے خلاف جہاد کرنے لگے۔

انہوں نے سیاہ فاموں کی جماعتوں، افریقن نیشنل کانگریس اور پان افریکنسٹ کانگریسی سے تعلقات قائم کرلیے۔ حتیٰ کہ وہ غریب سیاہ فاموں کی مالی امداد بھی کرتے تھے اور انہیں سہارا دیتے۔1966ء اور 1968ء میں امام عبداللہ نے بیرون ممالک کا دورہ کیا۔وہ جلاوطن افریقی رہنماؤں سے ملے۔ نیز اسلامی ممالک میں چندہ جمع کیا تاکہ اپنی عملی جدوجہد کو وسیع کیا جاسکے۔

امام عبداللہ کی حکومت مخالف سرگرمیاں مگر حکمران طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی تھیں۔ وہ ان کے اقتدار کو ضعف پہنچارہے تھے۔ یہی وجہ ہے، 28 مئی 1969ء کو حکومت کی ایما پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ پھر ایک سو تئیس دن قید میں رہے۔ اس دوران ان پر شدید تشدد کیا گیا۔ حکومت ان سے جلاوطن سیاہ فام لیڈروں کی بابت معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی مگر امام عبداللہ نے کچھ بتانے سے انکار کردیا۔

اس دوران سیاہ فام پادریوں نے امام صاحب کی رہائی کے لیے بیانات دئیے۔جنوبی افریقن تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پادریوں نے کھل کر ایک امام مسجد کی حمایت کی۔آخر ظالمانہ تشددکے باعث 27 ستمبر کو وہ شہید ہو گئے۔گو سرکاری طور پر اعلان ہوا کہ وہ سیڑھیوں سے گر کر چل بسے مگر یہ سفید جھوٹ تھا۔امام عبداللہ کی شہادت کے بعد لندن کے مشہور گرجاگھر،سینٹ پال کیتھریڈل میں ان کے لیے دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔گرجا گھر کی سوا تین سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان کے اعزاز میں یہ تقریب منعقد ہوئی۔ امام عبداللہ ہارون آمرانہ نظام کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے اور خصوصاً نئی نسلوں کو یہ پیغام دے گئے:

’’کہیں بھی ظلم ہوتا دیکھو تو خاموش نہیں رہو اور معاشرے میں عدل وانصاف پھیلانے کی خاطر جدوجہد کرو۔ظالم ومغرور کے سامنے کبھی سر نہ جھکایو اور بہادری سے اس کا سامنا کرو چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور بے رحم ہو۔‘‘

The post امام مسجد جس نے سفید فام آمریت سے ٹکرلی appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا

$
0
0

(دوسری قسط)

 7- بہاولپور میوزیم ؛

تقسیم سے پہلے ریاست بہاولپور اپنے وقت کی ایک خوش حال اور امیر ترین ریاست تھی، جس کا اپنا سِکہ، ریلوے کا نظام، نہری نظام، ڈاک کا نظام، بینک، ٹکسال اور فوج تھی۔ محلات کا شہر کہلایا جانے والا بہاولپور آج شاید تاریخ میں کہیں گم ہوچکا ہے لیکن اس شہر نے اپنے تاریخی اہمیت پر آنچ نہیں آنے دی جس کی جیتی جاگتی مثال اس شہر کا میوزیم ہے۔

ایک عام سی عمارت میں واقع بہاولپور میوزیم سینٹرل لائبریری کے بالکل پہلو میں بہاول وکٹوریہ اسپتال کے ساتھ واقع ہے۔

اس عجائب گھر کا قیام لگ بھگ 1976 میں بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ کی زیرنگرانی عمل میں آیا۔

گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی جو چیز آپ کا استقبال کرتی ہے وہ ایک بڑے چبوترے پر نمائش کے لیے رکھی گئی نواب صاحب کی گاڑی ہے جس کے قریب ہی ایک صدی پرانا اسٹیم انجن کھڑا ہوا ہے، جو ابتدائی طور پر بنگال ریلوے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاریخ کے مطابق اسی انجن کو پھر ہیڈ پنجند کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان کی ترسیل کے لیے کام میں لایا گیا۔ 1931 میں ہیڈ پنجند کی تعمیر کے بعد اسے ورکشاپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ 2004 میں اسے پنجند سے بہاولپور میوزیم منتقل کر دیا گیا جو اب تک یہیں ہے۔

ٹکٹ لے کر میوزیم کے اندر داخل ہوں تو پہلی گیلری میں تین مختلف اقسام کی توپیں اور دیگر جنگی سامان نظر آتا ہے۔ یہ توپیں ریاست بہاولپور کے شاہی توپ خانے سے لائی گئی ہیں۔ دیگر سامان زیادہ تر پرانی جنگوں میں استعمال کیا جانے والا ہے جن میں موتیوں کے کام والے طمنچے، تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان اور زرہ بکتر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہاتھی دانت کی اشیاء، زیورات اور منقش پلیٹیں رکھی گئی ہیں۔

اگلی گیلری میں آپ موہن جو دڑو، ہڑپہ اور گندھارا سے نکلنے والے قدیم مجسمے اور دیگر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں رکھی گئی اشیاء میں کالی دیوی کا مجسمہ، کالادھاری مندر بہاولپور کا لکڑی کا منقش دروازہ، سنگ مرمر کے مجسمے، ریت کے پتھر کا ستون، ناپ تول کے باٹ اور گوتم بدھ کا سر شامل ہیں۔ یہیں گیلری کے وسط میں نور محل کا خوب صورت ماڈل بھی رکھا گیا ہے۔

اس سے آگے ڈاک گیلری ہے جہاں ریاست بہاولپور سمیت حکومت پاکستان کے جاری کردہ مختلف ڈاک ٹکٹ نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

ریاست بہاولپور کی ثقافتی گیلری اس میوزیم کی سب سے منفرد جگہ ہے جہاں آپ چولستان کی ثقافت کو ایک چھت تلے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو چاندی کے قدیم زیورات، صندوقچے، لکڑی کے چرخے، آئینے، مٹی کے برتن، چھبیاں، لسی بنانے والی مندھانی اور قلعہ دیراوڑ کا ایک خوب صورت ماڈل دیکھنے کو ملے گا۔ ملبوسات کی گیلری میں بہاولپور ریجن میں بنائے جانے والے دلکش کھیس، دریاں، چادریں، کُھسے، کشمیری و بلوچی پوشاکیں، چنری، تکیوں کے غلاف، ہاتھ کی کڑہائی والی ٹوپیاں، لنگیاں اور دولہا کے سہرے شامل ہیں۔

اگلی گیلریوں میں آپ نواب صاحب، ان کی اولاد، دیگر سربراہانِ مملکت اور ان کے محلات کی تصویریں، ریاست کے جاری کردہ سکے، شاہی بگھی، چولستان کی روز مرہ زندگی اور ثقافت، روہیلوں کے گوپے اور بہاولپور کے محلوں کے ماڈل دیکھ سکتے ہیں۔

غرض یہ میوزیم جنوبی پنجاب خصوصاً بہاولپور و چولستان کی ثقافت سے روشناس ہونے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

8- شاہی قلعہ لاہور میوزیم؛

یوں تو شاہی قلعے کو کسی میوزیم کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ اپنے آپ میں پوری تاریخ کی کتاب ہے۔ لیکن قلعے کے اندر تین آرٹ گیلریوں پر مشتمل ایک نایاب عجائب گھر قائم ہے۔

پہلی گیلری موتی مسجد کے پاس واقع ہے جہاں سکھ اور برطانوی دور کے اسلحے کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں تلواریں، ڈھالیں، زرہ بکتر، تیر، کمان، نیزے، خنجر اور پستول وغیرہ شامل ہیں۔

مغل گیلری ایک تاریخی لائبریری کی طرح ہے جہاں آپ مغلیہ دور کی دستاویزات، تصاویر، سِکے اور دیگر نوادرات دیکھ سکتے ہیں۔

سکھ گیلری اس میوزیم کی آخری گیلری ہے جہاں راج کماری بمبا کی اشیاء اور دیگر تصاویر رکھی گئی ہیں۔

اس میوزیم کی ایک خاص چیز یہاں موجود ہاتھی دانت سے بنا تاج محل کا ماڈل ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

9- ہُنڈ میوزیم صوابی؛

پنجاب کے شہر اٹک کے قریب واقع اٹک قلعے تقریباً 15 کلومیٹرشمل میں سندھو ندی کے بائیں کنارے پر ضلع صوابی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ”ہْنڈ” آباد ہے جو گندھارا تہذیب کا اہم مسکن رہا ہے۔ یہ بالکل اس جگہ واقع ہے جہاں سے سکندرِ اعظم کی فوجوں نے دریائے سندھ عبور کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہندو حکم رانوں کے زیر اثر گندھارا سلطنت کا آخری دارالحکومت ہُنڈ تھا۔ اس شہر کا قدیم نام ”ادابھنداپورا” تھا۔ اس کی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر مغل بادشاہ اکبر نے یہاں ایک قلعہ بنوایا اور ہُنڈ مغل دور کی ایک اہم فوجی چھاؤنی رہی۔ اس قلعے کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہُنڈ کے موام پر کھدائی کا آغاز 1996 میں کیا گیا۔ کھدائی کے دوران انڈو یونانی تہذیب کے خوب صورت گھر، سکے، زیور اور دیگر سامان دریافت ہوا جبکہ کشان، ہندو شاہی دور اور مسلم دور کے گھر بھی ملے۔ ان گھروں سے پرانے زمانے کا ایسا خوب صورت فنِ تعمیر سامنے آیا جس نے وہاں سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ پکی گلیاں، کشادہ کمرے، ستونوں کی قطار اور خوب صورت فرش۔ کیا نہیں تھا اس دور کی تہذیبوں کے پاس۔

2002 میں ہنڈ میوزیم کے لیے 33 کنال زمین لی گئی اور اس کا افتتاح ماہرِتعمیرات ڈاکٹر احمد حسن دانی مرحوم نے کیا۔

10- ہڑپہ میوزیم ساہیوال؛

ضلع ساہیوال میں واقع ہڑپہ کی قدیم تہذیب کو تحفظ دینے کے لیے یہ سائٹ میوزیم 1926 میں بنایا گیا۔ 1966 میں اسے حکومتِ پاکستان کی بنائی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ عجائب گھر ہڑپہ کی تہذیب کا امین ہے جہاں اس علاقے کی کھدائی سے ملنے والی نایاب اشیاء جن میں کپڑے، برتن، ڈھانچے، زیور اور اوزار شامل ہیں رکھے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ میوزیم سے باہر آپ کئی کھنڈرات اور قدیم تعمیرات بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

11- بنوں میوزیم؛

اس میوزیم کو پاکستان کے نئے بننے والے عجائب گھروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بنوں میوزیم خیبرپختونخواہ کے محکمہ آثارِقدیمہ اور عجائب گھر کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے اور اس کا افتتاح 2011 میں کیا گیا۔ بنوں اور گرد و نواح کے علاقوں سے مختلف کھدائیوں کے دوران برآمد ہونے والی اشیاء کو رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوا تو یہاں ایک عجائب گھر بنانے کی شدید ضرورت محسوس کی گئی جسے بنوں میوزیم سے پورا کیا گیا۔

بنوں کے آس پاس شیری خان ترکئی، لیوان اور آکرہ کے مقامات پر پشاور یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، برٹش میوزیم اور محکمہ آثارِ قدیمہ بنوں کے اشتراک سے کھدائی کی گئی اور ملنے والے نوادرات بنوں میوزیم سمیت برٹش میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ سادہ سی عمارت میں بنا یہ میوزیم ایک بار لازمی دیکھنا چاہیے۔

12- کیلاش میوزیم بمبوریت؛

شہروں کی ہلچل سے بہت دور کیلاش کی خوب صورت و پُراسرار وادی میں موجود اس حسین عجائب گھر کی روایتی عمارت لکڑی اور پتھر سے بنائی گئی ہے جس میں قدیم و جدید کی آمیزش اس طرح سے کی گئی ہے کہ جیسے یہ کسی دورِ جدید کے کیلاشی راجا کا محل ہو۔ اس میوزیم کو مقامی زبان میں ”دْر کالاشہ” کہا جاتا ہے جب کہ اس کا نام بمبوریت میوزیم ہے۔ بمبوریت میں واقع اس میوزیم کو 2005 میں مکمل کیا گیا۔ یہاں تقریباً 1300 نوادرات محفوظ ہیں جو عمومی طور پرکوہِ ہندوکش اور خصوصی طور پر وادیٔ کیلاش کی ثقافت، معاشرت اور رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں۔

یہاں رکھے جانے والے زیادہ تر نوادرات ”یونانی رضاکار” نامی تنظیم سے حاصل کیے گئے ہیں جو 1995 سے ان وادیوں میں کام کر رہی ہے۔ بہت سے قدیم اور نادر برتن پشاور اور چترال سے بھی خریدے گئے ہیں۔

اس عمارت میں دو منزلیں ہیں۔ نیچے کیلاش اور ہندوکش کے لوگوں کی خاندانی اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں کیلاشی خواتین کے بنائے ہوئی کپڑے، ٹوکریاں، قدیم اور بھاری زیور، چمڑے کے پرس، گھریلو برتن، موسیقی کے آلات اور کام والے دروازے اور کھڑکیاں شامل ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ یہ سب سامان بہت اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے، جب کہ اوپری حصے میں ایک کیلاش پر لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری، مقامی ہنرمندوں کے لیے ایک ٹریننگ سنٹر اور ایک سکول قائم ہے جہاں کیلاشی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ زندگی میں ایک بار یہ وادی اور یہ عجائب گھر ضرور دیکھنے جائیے گا۔

13- شیر شاہ سوری میوزیم، قلعہ روہتاس؛

جہلم کی تحصیل دینہ کے پاس واقع قلعہ روہتاس، یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہے۔ ویسے تو یہ قلعہ خود کسی عجوبے سے کم نہیں ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں شیرشاہ سوری اور اس کے دورِحکومت سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی بنیاد پر اسے شیر شاہ سوری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں رکھا گیا جنگی سازوسامان اور پرانے سکے (سکندر لودھی اور ہمایوں کے دور کے) بہت نفاست سے رکھے گئے ہیں۔ دیگر اہم نوادرات میں قرآن کریم کے اٹھارویں صدی کے قلمی نسخے، مختلف پہناوے خصوصاً جنگی پوشاکیں ، بھاری تلواریں، ڈھالیں اور قلعے کا ایک جامع ماڈل شامل ہیں۔

14- عجائب گھر قصور؛

پنجاب کا شہر قصور یوں تو کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے لیکن بابا بْلھے شاہ، قصوری فالودہ اور چرخے یہاں کی پہچان ہیں۔ قصور کا پرانا نام قسو سے منسوب کیا جاتا ہے جو رامائین کے مشہور ہیرو رام چندرا کا بیٹا تھا۔ قسوپور کا نام بعد میں تبدیل ہو کر قصور ہوگیا۔ قصور میوزیم قصور سے گنڈا سنگھ والا جاتے ہوئے برلبِ سڑک واقع ہے جس کی منفرد عمارت تقسیم سے پہلے سب ڈویڑنل مجسٹریٹ کا دفتر ہوا کرتی تھی۔ اس کا سنگ بنیاد 1999ء میں ڈسٹرکٹ قصور کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔

قصور میوزیم کی پانچ گیلریاں ہیں جن میں مختلف نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

آثارِقدیمہ گیلری: اس گیلری میں ”بن امیر خاتون” ضلع چکوال سے دریات شدہ قدیم درختوں اور ہڈیوں کے نمونے (فاسلز) زیرنمائش ہیں جن کی عمر کا تعین 80 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی آثار کی کھدائیوں سے ملنے والے پکی مٹی کے برتن، ٹھیکریاں، انسانی اور حیوانی مورتیاں اوزان کے پیمانے اور باٹ بھی زیرنمائش ہیں۔ گیلری میں گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسّمے بھی رکھے گئے ہیں۔

سکہ جات گیلری: اس گیلری کا دائرہ نہایت وسیع ہے جو انڈویونی، پارتھی، کشان، ہندوستان، ابتدائی اسلامی، مغل، سکھ اور برطانوی عہد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گیلری میں قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جاری ہونے والے ابتدائی ترین سِکّوں سے لے کر موجودہ عہد تک کے سکے رکھے گئے ہیں۔

اِسلامی گیلری: اس گیلری کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں صنائع دستی، لکڑی کی کھدائی والا کام، پچکاری، زیورات اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں دوسرا حصہ مخطوطات اور خطاطی پر مشتمل ہے، جس میں مشہور خطاط حافظ مرتضیٰ افغان قصور1179ء کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید، خط نسخ میں عزیز خان کشمیری کے ہاتھ کا لکھا ہوا 1290ء کا مخطوطہ دلائل الخیرات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خط نستعلیق کے چند نمونے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ تیسرا حصہ مسلم عہد اور اس کے بعد کے اسلحہ پر مشتمل ہے اس حصے میں تلواریں، خنجر، چاقو، زرہ بکتر، پستول اور بندوقیں زیرنمائش ہیں۔

تحریک پاکستان گیلری: اس گیلری میں طلبہ وطالبات کو تحریک پاکستان کے اہم کرداروں اور قدم بہ قدم تحریک آزادی سے روشناس کرانے کے لیے تحریک آزادی کی کہانی تصویروں کی زبانی پیش کی گئی ہے۔

قصور کرافٹ گیلری: قصور مدتوں سے لکڑی کی خوب صورت کھدائی کے کام، لکڑی پر روغنی کام، چمڑے کے کام اور کھڈی سے تیار کی جانے والی مصنوعات کے سلسلے میں مشہور چلا آ رہا ہے۔ قصور کا چارخانہ، کھیس، دریاں اور چمڑے کی زینیں (Saddles) دنیا بھر میں مشہور ہیں جن کی نمائندگی اس گیلری میں کی گئی ہے۔

دیکھنے میں تو یہ میوزیم چھوٹا سا ہے لیکن لاجواب شاہ کاروں سے مزین ہے۔

15- پی اے ایف میوزیم کراچی ؛

یوں تو پاکستان کی تقریباً ہر ایئر بیس میں چھوٹا موٹا کوئی نہ کوئی میوزیم موجود ہے لیکن پی اے ایف میوزیم کراچی کو ہم ائیر فورس کا فخر کہہ سکتے ہیں جہاں فضائیہ کے متروک جنگی ہوائی جہازوں اور ان کی اشیاء کو خوب صورتی سے نمایاں کیا گیا ہے۔ 1990 میں بنائے جانے والے اس میوزیم کی کہانی ائیر بیس میں دور دراز واقع ایک جہازوں کے شیڈ سے شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع میوزیم میں بدل گیا۔ یہاں زیادہ تر پرانے جہازوں، ہتھیاروں اور پاکستان ائیر فورس کے ریڈاروں کو باہر پارک میں رکھا گیا ہے جبکہ فضائیہ کے تمام مرکزی لڑاکا طیارے اندر ہال میں موجود ہیں۔

یہاں قائدِاعظم کے استعمال میں رہنے والا وائیکر-1 ایئرکرافٹ اور 1965 کی جنگ میں پسرور میں لینڈ کرنے والا انڈین ائیر فورس کا طیارہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کے کچھ جہازوں کے علاوہ یہاں پاکستان ائیر فورس کی تصویری گیلری بھی ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور خوب صورت فوڈ کورٹ بھی بنایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

ماں اور بیٹے کا مدفن ، چنیوٹ کا عمر حیات محل

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں کئی ایسی شاندار اور قدیم عمارتیں ہیں جن سے متعلق اچھی اور بری کہانیاں منسوب ہیں اور وہ ویران پڑی ہیں، چنیوٹ میں واقع عمرحیات محل کو مقامی لوگ منحوس محل سمجھتے ہیں تاہم یہاں قائم لائبریری میں علم وآگہی کے لئے آنیوالے ان روایات اور کہانیوں پریقین نہیں رکھتے ہیں۔

پاکستان کے شہر چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی ایک اعلی قسم کی عمارت ہے۔ جسے چنیوٹ کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے، اس عمارت کا نام عمرحیات محل ہے جبکہ اسے گلزارمنزل بھی کہا جاتا ہے۔14 مرلہ رقبہ پرمشتمل یہ شاندارعمارت تہہ خانہ اورپانچ منزلوں پرمشتمل تھی تاہم اب دوبالائی منزلیں خستہ حالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں، یہ محل 1935 میں دس سے بارہ سال کے عرصہ میں مکمل ہواتھا۔

محل کی تعمیر برصغیر کے مشہور کاریگر اور ماہر تعمیر استاد الہی بخش پرجھا نے کی جن کی اس دورمیں بہت زیادہ شہرت تھی۔ داخلی دروازے کے ساتھ لگائی گئیں دو میں سے ایک تختی پر استاد الہی بخش پرجھا سمیت ساتھی مستریوں اور کاریگروں کے نام درج ہیں جبکہ دوسری تختی پر ان لوگوں کے نام کندہ ہیں جنہوں نے مرمت کے ذریعے اسے تباہی سے بچایاہے،خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی ایک منفرد ہی دلکشی ہے۔ بالکونی، چھتیں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے اسے وہ خوبصورتی بخشی ہے جو شاید ہی کسی اور فن تعمیر میں نظرنہیں آتی ہے۔ اس محل کی تعمیرپراس دورمیں تقریبا چارلاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔یہ محل کولکتہ کے ایک معروف تاجرشیخ عمرحیات نے اپنے خاندان کے لئے تعمیرکروایاتھا۔

1935 میں جب یہ شاندارمحل اپنی تعمیرکے اخری مرحلے میں تھا اورشیخ عمرحیات نے یہاں منتقل ہونا تھا تواسی سال ان کی ناگہانی موت واقع ہوگئی ،شیخ عمرحیات کی وفات کے بعد یہ محل تومکمل ہوگیا مگر اس غمگین صورت حال کی وجہ سے عمر حیات کی بیوہ فاطمہ اپنے بیٹے گلزار اوربیٹی حسینہ کے ساتھ اس محل میں منتقل نہ ہوئیں اور محل بند پڑا رہا۔ اسی عرصے میں ان کی بیٹی حسینہ کا تپدق کی بیماری سے انتقال ہوگیا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے اس محل کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور 1937 میں اپنے بیٹے گلزار کی شادی کی ،لیکن شادی کے اگلے ہی روز گلزارکی پراسرارموت ہوگئی ، بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اوراسے محل کے برآمدےمیں ہی دفن کردیا گیا۔ بیٹے کی اچانک موت سے فاطمہ کا ذہنی توازن بھی بگڑگیا اورایک سال بعد وہ بھی فوت ہوگئیں، انہیں ان کی وصیت کے مطابق انکے بیٹے کے قریب دفن کردیا گیا۔ یہ شاندارمحل اب ماں بیٹے کا مدفن ہے۔

شیخ خاندان کے باقی لوگ یہ سوچ کر یہاں سے چلےگئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔اس کے بعد شیخ خاندان کے ملازمین تقریبا دوسال یہاں قیام پذیر رہے بعدازاں وہ بھی اس محل کو چھوڑگئے اوریہاں مقامی لوگوں نے یتیم خانہ بنادیا، عمارت کی خستہ حالی کی وجہ سے بالاخریتیم خانہ بھی یہاں سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا اور 1989 میں اس عمارت کو قومی ورثہ قراردیتے ہوئے وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنرمحمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو اپنی حفاظت میں لیتے یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور ازسرنو تعمیر کے لیے 17لاکھ روپےخرچ کیے گئے ، محل کے ایک کمرے میں میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے جہاں عمر حیات اور ان کے اہل خانہ کے استعمال میں آنے والی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ 7 جون 1990ء میں اسے عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے کھول دیاگیا تھا۔

مقامی لوگ اس شاندارمحل کومنحوس کیوں سمجھتے ہیں،اس سوال کے جوا ب میں چنیوٹ کے ایک بزرگ شیخ محمدرفیع نے بتایا جس محل کے تعمیرہوتے ہی اس کا مالک چل بسے، پھراس کے بعدجوان بیٹاشادی کے اگلے ہی روزاللہ کوپیاراہوجائے اورگھرکی مالکن اپنے شوہراوربیٹے کی جدائی میں پاگل ہوجائے اس جگہ کومنحوس نہ کہیں توکیا کہیں۔

پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ یہ محل مقامی ضلعی انتطامیہ کی زیرانتطام ہے۔چندسال قبل جب وہ ڈپٹی دائریکٹرتھے اس وقت چندماہرین اورکاریگردیئے تھے جنہوں نے وہاں بحالی کا کچھ کام کیاتھا۔ افضل خان نےبتایا کہ شیخ عمرحیات کے بیٹے گلزارکی پراسرارموت کی وجہ کاربن مونوآکسائیڈ گیس تھی۔محل میں بنے حمام میں سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے جو سسٹم بنایاگیاتھااس میں خرابی کی وجہ سے حمام کے اندرگیس جمع ہوئی اورگلزارنہاتے ہوئے دم گھٹنے سے مرگیا۔

یہاں موجود لائبریری میں 10 ہزارسے زائد مختلف موضوعات پرکتابیں موجودہیں، یہاں درجنوں طلبا وطالبات اورعلم کے متقاشی اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں مگر اس لائبریری کی حالت بھی خستہ حال ہے، گزشتہ تین دہائیوں سے محل کے نگران اور لائبریری انچارج مشتاق احمد کہتے ہیں حکومت اگر اس محل کے لیے کم از کم دس لاکھ کی سالانہ گرانٹ فراہم کرتی رہے تو اس ثقافتی ورثے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور یہ مُلکی اور غیر مُلکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔

ڈپٹی کمشنرچنیوٹ محمدریاض نے بتایا کہ اس محل کی آرائش وتذئین اوربحالی کے لئے ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں، یہاں قائم لائبریری کو میونسپل کارپوریشن کے تحت چلایاجارہا ہے ، یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں، بجلی اورخبارات کا بل سٹیشنری کا خرچہ وغیرہ ہم اداکرتے ہیں جو ماہانہ ڈیڑھ ،دولاکھ روپے بنتے ہیں، اس سے زیادہ کے ہمارے پاس وسائل ہیں اورنہ بجٹ ہے۔

 

The post ماں اور بیٹے کا مدفن ، چنیوٹ کا عمر حیات محل appeared first on ایکسپریس اردو.

چنیوٹ کا تاج محل، منحوس سمجھی جانیوالی شاہکار عمارت

$
0
0

لاہور: چنیوٹ میں واقع عمرحیات محل کومقامی لوگ منحوس محل سمجھتے ہیں تاہم یہاں قائم لائبریری میں آنیوالے ان روایات پریقین نہیں رکھتے، اندرون اوربیرون ملک سے ہزاروں سیاح چنیوٹ کے اس تاج محل کو دیکھنے آتے اورفن تعمیرکے اس شاہکارمیں کھوجاتے ہیں، یہ محل ایک ماں بیٹے کا مدفن ہے۔

چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی اس عمارت کو چنیوٹ کا تاج محل اورگلزارمنزل بھی کہا جاتا ہے۔14مرلہ رقبہ پرمشتمل یہ شاندارعمارت تہہ خانے اورپانچ منزلوں پرمشتمل تھی تاہم اب دوبالائی منزلیں خستہ حالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں۔

یہ محل کولکتہ کے ایک معروف تاجر شیخ عمرحیات نے اپنے خاندان کیلئے تعمیرکروایا تھا،1935 میں جب یہ شاندارمحل اپنی تعمیرکے آخری مرحلے میں تھا اورشیخ عمرحیات کی ناگہانی موت واقع ہوگئی۔

شیخ عمرحیات کی وفات کے بعد یہ محل تومکمل ہوگیا مگر عمر حیات کی بیوہ فاطمہ  اپنے بیٹے گلزار اوربیٹی حسینہ  کے ساتھ اس محل میں منتقل نہ ہوئیں اور محل بند پڑا رہا۔ اسی عرصے میں ان کی بیٹی حسینہ کا تپ دق سے انتقال ہوگیا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے اس محل کو آباد کرنیکا فیصلہ کیا اور 1937 میں اپنے بیٹے گلزار کی شادی کی، لیکن شادی کے اگلے ہی روز گلزارکی پراسرارموت ہوگئی، بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اوراسے محل کے  برآمدے میں ہی دفن کردیا۔

 

The post چنیوٹ کا تاج محل، منحوس سمجھی جانیوالی شاہکار عمارت appeared first on ایکسپریس اردو.

خبردار! غیرمعیاری ماسک کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان دہ ہوسکتا ہے

$
0
0

 لاہور: کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد ماسک استعمال کررہی ہیں،تاہم ماہرین کا کہنا ہے ماسک کا اگر درست استعمال نہ کیا جائے اور اسے مخصوص وقت کے بعد تبدیل نہ کیا جائے تو یہ فائندہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پوری دنیا میں لوگ دو قسم کے ماسک استعمال کر رہے ہیں۔ ایک این 95 ماسک ہے، جسے ایف ایف پی 2 بھی کہتے ہیں۔ یہ ماسک دو طرفہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ پہننے والے کے سانس لینے اور نکالنے دونوں کو فلٹر کرتا ہے۔ اس ماسک سے ہوا میں معلق 94% ذرات فلٹر ہوجاتے ہیں، جن میں 0.3 مائیکرون سائز کے دیگر بیکٹیریا اور وائرس شامل ہیں۔ یہ ماسک تھوک کے قطروں اور سانس کے اخراج کو پھیلنے سے روکتا ہے۔یہ ماسک عام طورپر طبی عملے کوپہننے کی تجویزدی جاتی ہے

دوسرا ماسک جو سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے وہ سرجیکل ماسک کہلاتا ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کو پہننا چاہیے جو بیمار ہوں۔ اس ماسک سے بیمار لوگوں کا تھوک یا ناک اور منہ سے نکلی دیگر رطوبت صحت مند لوگوں تک نہیں پہنچتی۔ کبھی کبھار یہ ماسک ڈھیلا ہوتا ہے۔ اگر اسے ٹھیک سے نہ پہنا جائے تو بیمار انسان کی سانس میں شامل دیگر مواد یا رطوبت ماسک کے ارد گرد سے نکل کر ہوا میں شامل ہوسکتی ہے۔

لاہورمیواسپتال کے سینئرڈاکٹرسلمان کاظمی کہتے ہیں ماسک پہننے کے بعد اس کو ہاتھ نہ لگایا جائے کیونکہ ہاتھوں کے ذریعے بھی یہ مواد ادھر ادھر پھیل سکتا ہے۔ ہر ماسک چار سے پانچ گھنٹے بعد تبدیل کرلینا چاہیے اور استعمال شدہ ماسک کو کچرے میں پھینک دینا چاہیے۔ ماسک پھینکنے کے بعد ہاتھوں کو صابن سے دھو لینا چاہیے یا ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ جب چھینک آئے تو منہ ڈھکنا، ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹرسلمان نے بتایا کہ کپڑے کو ماسک کو روزانہ سرف اورگرم پانی سے دھولینا چاہیے۔اسی طرح اگرآپ ڈسپوزایبل ماسک استعمال کرتے ہیں تو اسے 6 سے 8 گھنٹے بعد تلف کردینا چاہیے۔

کورونا سے بچاؤ کے لئے ماسک کے استعمال سےمتعلق شہریوں میں ملاجلا رحجان پایا جاتا ہے ، بعض شہری یہ سمجھتے ہیں ایسے افرادجنہیں پہلے ہی سانس کی تکیلف ہے ان کے لئے ماسک کااستعمال نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ایک شہری فیاض حسین نے بتایا کہ سڑک کنارے جو ماسک فروخت ہوتے ہیں سارادن ان پرگرد پڑتی رہتی ہے، اسی طرح مختلف لوگ انہیں چیک کرتے ہیں، ایسے ماسک کا استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ ماسک کی بجائے کپڑے کا رومال استعمال کرلیں جسے آسانی سے دھویا جاسکتاہے۔

بعض ماہرین ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچاؤ میں ماسک کے پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ماسک، وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سرجیکل ماسک 18ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا استعمال 1919 میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں آیا جو پانچ کروڑ افراد کی ہلاکت کی وجہ بنا تھا۔ یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچاؤ اور ہاتھ سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔

لاہورکے بڑے نجی اسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی سینئرڈاکٹر صائمہ ملک کا کہنا ہے کپڑے اور کاغذ کے ماسک عوام میں کووِڈ-19 پھیلنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن یہ کسی بھی طرح انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں استعمال کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ یہاں انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور طبی عملے کو بلند ترین معیار کا حفاظتی سامان چاہیے ہوتا ہے تاکہ وہ خود کو وائرس سے مکمل طور پر محفوظ کر سکیں۔

امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹوٹ فار آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (این آئی او ایس ایچ) نے ایف ایف پی ریسپائریٹرز کی درجہ بندی اس لحاظ سے کی ہے کہ وہ کتنے ذرات کو آپ کے نظامِ تنفس تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ چنانچہ این 95 اور این 99 ماسک بالترتیب 95 اور 99 فیصد ذرات کو روکتے ہیں جبکہ این 100 ڈیوائسز 99.97 فیصد ذرات کو روک لیتی ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے ہمیں کورونا سے بچاؤ کے لئے کم از کم آئندہ دوسال تک ماسک کا استعمال کرنا ہوگا اوراس رحجان کو فروغ دینا ہوگا۔ ماسک کے استعمال سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے جبکہ اس کی سستی اورعام دستیابی بھی یقینی بناناہوگی۔

The post خبردار! غیرمعیاری ماسک کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان دہ ہوسکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

اٹھارھویں آئینی ترمیم کو چھیڑنا ملکی مفاد میں نہیں

$
0
0

انجنیئر اقبال ظفرجھگڑا نے صوبہ خیبرپختون خوا کے 28 ویں گورنر اور قبائلی علاقہ جات کے آخری چیف ایگزیکٹیو کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ پکے مسلم لیگی ہیں، انتہائی مشکل حالات میں بھی انہوں نے مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑا، جب سابق صدر پرویزمشرف نے 12 اکتوبر1999ء کو اقتدار کو سنبھالا اور میاں نوازشریف کی حکومت برطرف کی گئی۔

اس وقت کہیں بھی مسلم لیگی راہ نماؤں اور شریف خاندان کو جائے امان نہیں مل رہی تھی، ان حالات میں جب کہ سب اپنے بچاؤ کی فکر میں تھے، لیکن یہ انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا ہی تھے جن کی رہائش گاہ کو بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز نے اپنے دورہ پشاور کے دوران لیگی ورکروں اور قائدین سے ملاقات کے لیے چنا، وہ نہ تو ’’کُو‘‘سے متاثر ہوئے اور نہ ہی مسلم لیگ(ق) کا قیام ان کے پایہ استقامت میں لرزش پیدا کرسکا بلکہ اسی روز جب پشاور میں مسلم لیگ(ق) کی جنرل کونسل کا انعقاد اور قیادت کے انتخاب کے ذریعے مسلم لیگ کا مزید ایک اور دھڑا تخلیق کیا گیا، اقبال ظفر جھگڑا کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ(ن) کی جنرل کونسل کا انعقاد کرتے ہوئے پیغام دیا گیا کہ جو سیاست اور اپنے قائدین سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ چٹان کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) نے انہیں دو مرتبہ سینیٹر بنوایا اور جب سردارمہتاب احمدخان گورنر کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی نگاہ انتخاب اقبال ظفر جھگڑا پر پڑی اور انہیں صوبے کا گورنر بنایا۔ انہوں نے 4 مارچ2016 ء سے20 اگست2018ء تک خیبرپختون خوا کے 28 ویں گورنر کے طور پر فرائض انجام دیے، آئین میں 25 ویں ترمیم کے تحت قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے بعد انہوں نے قبائلی اضلاع کے آخری چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے ان کے صوبہ خیبرپختون خوا میں انضمام کی سمری پر دستخط کیے۔

پارٹی میں انہیں مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا اور انہوں نے اس عہدہ کو خوب نبھایا۔ جھگڑا خاندان کا نام روشن کرنے والوں میں جہاں اس خاندان کے دیگر سپوتوں یعنی افتخار جھگڑا اور سلیم جھگڑا اور اب تیمور سلیم جھگڑا کے نام آتے ہیں وہیں۔ انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کا نام ماہ روشن کی طرح دکھائی دیتا ہے،’’ایکسپریس‘‘ نے ان کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر اور عہد گورنری سے متعلق اہم امور سے متعلق ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی روداد ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔

ایکسپریس: قبائلی علاقوں کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے اقدام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: پاکستان سے ملحقہ علاقوں کو قبائلی علاقوں میں تقسیم کرنا انگریز کی اپنی ضروریات اور اپنی موجودگی کو دوام بخشنے کے لیے کیا جانے والا اقدام تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد وقت کا تقاضا یہی تھا کہ ہر لحاظ سے چاہے وہ تہذیب وتمدن، بول چال اور رسم ورواج ہو، کسی صورت میں بھی قبائلی علاقوں کو قبائلی رکھنا پاکستان اور خصوصاً خیبرپختون خوا کے حق میں نہیں تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں 9/11 کے بعد پاکستان بھر میں حالات کو تشویشناک کردیا گیا اور قبائل کو بھی۔

ایکسپریس: کیا اس انضمام کے بعد قبائلی عوام کے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوپائیں گے؟

اقبال ظفرجھگڑا: قبائلی عوام کی پس ماندگی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود ان کی کوئی آئینی حیثیت نہ تھی اور یوں وہ ملک کے مالی وترقیاتی پروگرام کا حصہ نہ تھے، اس انضمام سے اب وہ خیبرپختون خوا کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں اور یوں سالانہ بجٹ میں بھی ان کا پورا پورا حصہ ہوگا اور یوں قبائلی عوام کے تمام مسائل حل کرنے کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوگی۔

ایکسپریس: سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی صدر پاکستان اور گورنرز کے عہدے سیاسی ہی ہیں جن پر مرکز میں برسراقتدار پارٹی اپنے من پسند افراد کا تقرر کرتی ہے، کیا اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے؟

اقبال ظفرجھگڑا: بہت اچھا سوال ہے اور یقیناً ہر دوسرے شخص کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے، لیکن ذرا غور سے سوچا جائے تو حکومت اور حزب اختلاف میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میں صدر اور گورنرز کے عہدوں کو جمہوری نظام میں غیرسیاسی بناکر مرکزی وصوبائی حکومتوں پر ایک آئینی دسترس رکھی جائے، ان عہدوں کے غیر سیاسی ہونے سے توازن برقرار رہتا ہے اور برسراقتدار جماعت کو یہ اختیار دینا بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا من پسند فرد لے آئے کیوںکہ حکومت کو فیصلے کرنے میں بھی پوری تسلی ہونی چاہیے۔

ایکسپریس: کیا آپ اپنے دورگورنری کی کارکردگی سے مطمٔن ہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: خیبرپختون خوا کی گورنری میرے دور تک نہایت ہی اہم اور بڑی ذمہ دار تھی، کیوںکہ اس وقت قبائلی علاقہ جات کے لیے گورنر کو چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت حاصل تھی اور تمام فیصلے کرنا گورنر ہی کی ذمہ داری تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نے اپنی یہ ذمہ داری نہایت ہی احسن طریقہ سے نبھائی اور پھر قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی سمری پر دستخط بھی میں نے ہی کیے جو ایک تاریخی فیصلہ تھا اور یہ میرے حصے میں آیا۔

ایکسپریس: آپ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، اس پارٹی نے عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، اس کے زوال کی کیا وجوہات ہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: زوال کے باوجود بھی مسلم لیگ(ن) آج بھی ملک کی مضبوط جماعت تسلیم کی جاتی ہے کیوںکہ زوال کی وجوہات جماعتی نہیں بلکہ ملک میں حکومت کی ہیں اور حکومت کے زوال میں قومی اور بین الاقوامی قوتوں کا کردار رہا ہے۔ وقت کے ساتھ مستحکم جمہوریت اور سیاسی بلوغت آنے پر حکومتیں اپنی سمت درست کریں گی۔

ایکسپریس: اس وقت مسلم لیگ(ن) کا سربراہ کون ہے، میاں نواز شریف، شہبازشریف یا پھر مریم نواز؟

اقبال ظفرجھگڑا: سیاسی جماعتوں میں سربراہ سے زیادہ اہمیت قائد کی ہوتی ہے جس کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف ہی ہیں جب کہ موجودہ حالات میں نوازشریف کی ایماء پر ہی جماعت کے سربراہ کی ذمہ داریاں شہبازشریف کو سونپی گئی ہیں جب کہ جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے تو ان کی اپنی حیثیت ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وومن ونگ کو سنبھالتی ہیں بلکہ وقتاًفوقتاً انھیں جو بھی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں وہ انھیں نبھاتی ہیں۔

ایکسپریس: کیا سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی سزا مل رہی ہے؟

اقبال ظفرجھگڑا: میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے اور پاکستان کے آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ وزیراعظم، اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانے کے پابند ہوں گے بلکہ اسٹیبلشمنٹ، وزیراعظم کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے، بطور وزیراعظم نوازشریف آئین کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہاں تھے۔ تاہم کچھ قوتیں پاکستان کو کم زور کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کام یاب ہوئی ہیں۔

ایکسپریس: کیا واقعی پاکستان تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لائی ہے، اگر ایسا ہے تو اس سے پہلے بھی تو حکومتیں بنانے اور گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار رہا ہے، ایسے میں صرف آج کے حکم راں سلیکٹڈ کیوں کہلاتے ہیں، ان سے پہلے والے کیوں نہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت باقاعدہ انتخابات میں اکثریت لے کر آئی تاہم انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، تحریک انصاف پر سلیکٹڈ کا دھبا ان کی اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے لگا ہے۔ حالاںکہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کسی قسم کی رخنہ اندازی کیے بغیر انھیں حکومت کرنے کا پورا موقع فراہم کررہے ہیں۔

ایکسپریس: میاں نوازشریف علاج کے لیے لندن گئے لیکن وہاں بیٹھ ہی گئے ہیں، کیا وہ وطن واپس آئیں گے؟

اقبال ظفرجھگڑا: آپ کے سوال ہی میں جواب واضح ہے، میاں نواز شریف حکومت اور ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی علاج کے لیے لندن گئے تھے، اسی دوران کورونا وائرس کی وجہ سے اسپتالوں میں ریگولر امراض کا علاج متاثر ہوا، میاں نوازشریف صحت یاب ہونے کے بعد فوری طور پر وطن واپس آئیں گے۔

ایکسپریس: کیا تمام لیگی دھڑے یکجا ہونے کا کوئی امکان موجود ہے؟

اقبال ظفرجھگڑا: مسلم لیگ(ن) حقیقی مسلم لیگ ہے اور اسے دھڑا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ دیگر دھڑوں کو احساس ہورہا ہے کہ وہ حقیقی مسلم لیگ یعنی (ن) لیگ میں ضم ہوجائیں، قائد مسلم لیگ نواز شریف ہر اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں ملک، قوم اور جماعت کی بہتری ہو۔ اس لیے اگر وسیع تر مفاد میں تمام لیگی دھڑوں کو یکجا ہونا ہو تو میاں نوازشریف اس کا خیرمقدم کریں گے۔

ایکسپریس: میاں نوازشریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے، وہ ملک اور عوام کے لیے کیا تبدیلی لائے؟

اقبال ظفرجھگڑا: بے شک میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے۔ تاہم ان کا ہر دور ادھورا رہا۔ تاہم اس کے باوجود ان کے ادھورے ادوار میں بھی انہوں نے وہ کام اور کارنامے کیے جو اظہر من الشمس ہیں اور ان کی فہرست بہت طویل ہے لیکن ان میں قابل ذکر کام عوام دوست پالیسیاں مرتب کرنا، مستحکم مالی پروگرام دینا، ملک میں موٹرویز اور ہائی ویز کا جال بچھانا، مستحکم بلدیاتی نظام اور سب سے بڑا کام ایٹمی دھماکا کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی دسویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانا ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے؟

اقبال ظفرجھگڑا: ہمارے قائد میاں نواز شریف اور جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی بشمول پارلیمانی پارٹی آپ کے سوال سے متفق ہے اور ہماری ہمیشہ ہی یہ کوشش رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈیں۔

ایکسپریس: اگر اٹھارویں آئینی ترمیم کو چھیڑا جاتاہے تو اس کے کیا اثرات دیکھتے ہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: اٹھارویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا اور یہ ترمیم اس لیے متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ صوبوں کو اختیار مل سکیں اور وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کرسکیں، اگر اس ترمیم کو چھیڑا گیا تو یہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہ ہوگا اور اس سے کئی مسائل جنم لیں گے۔

ایکسپریس: آپ کی پارٹی صوبہ ہزارہ کے قیام کی حمایت کرتی آئی ہے لیکن اس کا قیام عمل میں نہ لاسکی، کیا رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل رہیں؟

اقبال ظفرجھگڑا: مسلم لیگ(ن) استحکام پاکستان کو بے پناہ اہمیت دیتی ہے اس لیے ہزارہ ہو یا دیگر صوبوں کا قیام، موجودہ حالات میں ہرگز ملکی سلامتی ان کے لیے ضامن نہیں ہوسکتی۔

ایکسپریس: آپ کا تعلق پشاور سے ہے، بطور سینیٹر اور گورنر، آپ نے اپنے شہر پشاور کے لیے کیا بڑے کام کیے؟

اقبال ظفرجھگڑا: بحیثیت سینیٹر اور گورنر میں نے صرف پشاور نہیں بلکہ پورے صوبہ اور ملک کے مفاد میں جو پالیسی اپنائی اس میں میرٹ کو اہمیت دی اور ان میں اہم ترین قبائلی علاقوں کے حوالے سے میرٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، بحیثیت گورنر خیبرپختونخوا معمول کے امور کے علاوہ قبائلی علاقہ جات کا انضمام، میں اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہوں جس کی بدولت خیبرپختون خوا میں خصوصاً اور ملک بھر میں عموماً دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن ہوپایا، اس کے علاوہ فاٹا میں اضافی ترقیاتی پروگرام بھی مرتب کیے اور یوں 119.45 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے مرکزی حکومت کو بھیجے تاکہ ان منصوبوں کو بجٹ میں شامل کیا جاسکے جب کہ ساتھ ہی سی پیک کے لیے بھی مزید 12 منصوبے ارسال کیے اور فاٹا یونی ورسٹی میں باقاعدہ طور پر کلاسوں کا اجراء کیا۔

پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اپنے ہاتھوں سے کئی خدمت سینٹرز قائم کیے اسی طرز پر میاں شہبازشریف کی معاونت سے ہم نے خیبر میں خدمت سینٹر اور شمالی وزیرستان میں دانش سکول کا قیام کیا جس کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے معاونت کی گئی، پشاور ڈویژن میں گیس سپلائی اور آمدورفت میں سڑکوں کی منظوری نمایاں ہے جب کہ فاٹا میں فنی تعلیم کے فقدان کے باعث وہاں سولہ اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں مختلف کورسز کے ذریعے 11773 نوجوانوں کو فنی تعلیم دی گئی۔

The post اٹھارھویں آئینی ترمیم کو چھیڑنا ملکی مفاد میں نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.


علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
مالی اور معاشرتی وقار میں اضافہ اور استحکام پیدا ہونے کی امید ہے
لیکن کچھ قریبی احباب کا رویہ آپ کے لیے کچھ دل شکستگی کی وجہ بن سکتا ہے۔
جمعہ اور ہفتہ تلخی سے گریز کریں اور درگزر سے کام لیں۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
اس ہفتے کی اہم تاریخ 2جولائی ہے، کوئی اہم ملاقات ہوسکتی ہے
مالی امور میں فریب کا اندیشہ ہے لیکن امید ہے آپ نقصان سے بچ جائیں گے۔
5 جولائی کو کسی قسم کے وعدے یا معاہدے سے گریز کریں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
بزنس یا جاب کے لیے سفر ہوسکتا ہے، مزاج میں گرمی پیدا ہوسکتی ہے۔
کوئی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے، محتاط رہیں اور نظرثانی کرلیں۔
4 اور5 تاریخ کو کیریر اور تعلقات کے حوالے سے اہم دن ہوسکتے ہیں۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
اس ہفتے دو امور اہم نظر آتے ہیں ایک تو آپ کے خلاف خفیہ سازش ہوسکتی ہے۔
آپ کے دشمن آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
دوم 2 تاریخ کوئی آپ کی زندگی میں آسکتا ہے لیکن تعلق سے پہلے سچ اور فریب میں فرق ضرور کرلیں۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
اس ہفتے شریکِ حیات سے ان بن ہوسکتی ہے، جذباتی ہونے سے بچیں۔
کوئی پرانا لین دین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، جو کہ لگتا ہے کچھ مسائل کھڑے کرسکتا ہے، وراثتی یا کرائے کے مکان کے معاملات میں الجھن ہوسکتی ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
گھر یا پلاٹ کے معاملے میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
بیرون ملک یا آن لائن کام کرنے والوں کے لیے کچھ اہم راہیں کھل سکتی ہیں۔
عزت ووقار پر کچھ حاسد داغ لگانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
جاب یا عزت و وقار کے امور ابھی تک کچھ مسائل کا شکار نظر آتے ہیں۔
2تاریخ کو جذباتی نہ ہوں، اور بلاخطر میدان میں نہ کودیں۔
اگرچہ سنیئرز آپ کے ساتھ ہیں لیکن مخالفیں اپنی عادتوں سے باز نہیں آئیں گے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
کچھ ہفتے قبل مالی فائدہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا، لگتا ہے دوبارہ ایسے حالات بن رہے ہیں کہ آپ کے تعطل میں پڑے امور پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں۔
جذباتی نہ ہوں، آپ کی تخلیقی صلاحیتیں آپ کو نئی راہ دکھاسکتی ہیں۔

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبر تا 22 دسمبر
آپ کے مالی حالات میں بہتری کی امید ہے، آپ کی شخصیت اور وقار میں ایک رعب پیدا ہوتا نظر آتا ہے۔ پبلک ڈیلنگ سے منسلک بزنس کرنے والوں کے لیے ایک بہترین ہفتہ ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں کے ساتھ ڈیل کرتے وقت محتاط رہیں۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
ایک شان دار ہفتہ ہوسکتا ہے، محبت، پیسہ اور عزت سب کچھ آپ کو میسر نظر آتا ہے۔بس آپ کے بزنس یا کام کی جگہ پر کچھ اچانک معاملہ خراب ہوسکتا ہے۔ کوئی ایمرجنسی جیسی صورت ہوسکتی ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
کوئی محبت کا فریب آپ کو گھیر سکتا ہے، محتاط رہیں۔
آپ کی تمام توجہ نقصان سے بچنے پر ہے اور آپ کی سنجیدگی آپ کو درست سمت دکھارہی ہے، مالی اور کیریئر کے لحاظ سے اچھا ہفتہ ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
مجموعی طور پر تمام سیارے آپ کے لیے اچھا ہی کہہ رہے ہیں،لیکن اس ہفتے کچھ منصوبہ بندی کرتے ہوئے کچھ مسائل ہوسکتے ہیں۔
کچھ غلط فیصلے ہوسکتے ہیں، اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک (Saim Almsuataf Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں:
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار29 جون 2020
حاکم نمبر5
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِخاص”یارحیمُ کریم یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: راحت افزا دن، کوئی اچھی خبر مل سکتی ہے۔
2نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن آپ کی ترجیح ذہنی سکون ہوسکتا ہے۔
3نمبر کے لیے: صبروتحمل سے کام لیں، ورنہ آپ کو ذہنی طور پر کوفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔
4 نمبر کے لیے: کچھ رویے مزاج میں تلخی ہوسکتی ہے، گاڑی خیال سے چلائیں۔
5 نمبر کے لیے: معاہدہ یا وعدہ سوچ سمجھ کے کریں، کسی فریب کا سامنا ہوسکتا ہے۔
6نمبر کے لیے: آج کا دن آپ کے لیے اچھا ہے، آپ کو کام یابی مل سکتی ہے۔
7 نمبر کے لیے: سفر کے لیے اچھا دن، فیملی اورروحانیت کے لیے اچھا دن۔
8 نمبر کے لیے: آج کا دن صبر سے گزاریں، کچھ مشکلات ہوسکتی ہیں۔
9 نمبر کے لیے: آپ کے لیے نیا معاہدہ یا نیا راستہ سامنے آسکتا ہے اس میں کچھ خرابی کا امکان ہے۔

منگل 30 جون2020
حاکم نمبر8
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے
وردِخاص” استغفراللہ العظیم” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: کاموں میں خوامخواہ کا تعطل اور رکاوٹ ہوسکتی ہے، پریشان نہ ہوں صدقہ اور صبر سے کام لیں۔
2نمبر کے لیے: دل برداشتہ اور جذباتی ہو کے کوئی فیصلہ نہ کریں۔
3نمبر کے لیے: کچھ دقت کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن مالی امور میں ایک بہتر دن۔
4 نمبر کے لیے: آپ کی اختراعی فطرت نیا راستہ تلاش کرلے گی، رکاوٹ دور ہوجائے گی۔
5 نمبر کے لیے: ایک قطعی طور پر صبر اور تحمل سے گزارنے والا دن، صدقہ ضرور دیں۔
6نمبر کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، کوئی اہم کال آسکتی ہے، جذباتی ہوکے کوئی معاہدہ یا وعدہ نہ کریں۔
7 نمبر کے لیے: ایک حیران کرنے والا دن ہوسکتا ہے، لگے گا کہ ہر سو اندھیرا ہے لیکن اسی اندھیرے سے روشنی نمودار ہوسکتی ہے۔
8 نمبر کے لیے: وراثتی یا پرانی کوئی پراپرٹی کا معاملہ سامنے آسکتا ہے۔
9 نمبر کے لیے: آپ کے کاموں میں رکاوٹ ہوسکتی ہے، صدقہ دیں۔

بدھ 1 جولائی 2020
حاکم نمبر8
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مفلس طالب علم کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص” یاحافظُ یاحفیظُ یا اللہ” 41 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: آپ کے مزاج کے خلاف دن ہوسکتا ہے، صبر سے کام لیا تو آپ کے حق میں ہوگا۔
2 نمبر کے لیے: کوئی نیا کام شروع کیا جاسکتا ہے، ایک معاون دن۔
3نمبر کے لیے: مالی حوالے سے ایک بہتر دن، فائدہ ہوسکتا ہے۔
4 نمبر کے لیے: کسی اچھے انسان کی مشاورت سے آپ کو نیا راستہ ملے گا۔
5 نمبر کے لیے: کوئی آپ کے منصوبوں میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، بردباری سے کام لیں۔
6نمبر کے لیے: کچھ اہم کالیں آسکتی ہیں یا سفر کا سامنا ہوسکتا ہے۔
7 نمبر کے لیے: ایک اچھا دن، مالی اور روحانی فائدے مل سکتے ہیں۔
8 نمبر کے لیے: زیادہ غوروفکر سے گریز کریں اور صحت کا خیال رکھیں۔
9 نمبر کے لیے: ذرا تحمل سے چلیں، کچھ امور میں مشکلات ہوسکتی ہیں۔

جمعرات 2جولائی2020
حاکم نمبر 7
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِخاص: یا سلام یا وھابُ یااللہ 41 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1نمبر کے لیے: ضروری نہیں ہے کہ ہر معاملہ آپ کی مرضی کے مطابق ہو،کبھی کبھی مشقت بھی ضروری ہوتی ہے۔
2نمبر کے لیے: رشتے آپ کو جذباتی اور تلخ کرسکتے ہیں، پرسکون رہیں۔
3نمبر کے لیے: عزت اور وقار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بہتر دن کی امید۔
4 نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہونے کی امید ہے۔
5 نمبر کے لیے: پلان میں بہتر تبدیلی کا امکان ہے، بہتر صورت نکلے گی۔
6نمبر کے لیے: تلخی اور تیزرفتاری سے گریز کریں، کچھ خلافِ توقع ممکن ہے۔
7 نمبر کے لیے: بہت اچھا دن، آپ کے عمل میں تیزی کی امید ہے۔
8 نمبر کے لیے: مالی یا روحانی معاملے میں خوشی ملنے کی امید ہے۔
9 نمبر کے لیے: بہتر دن، آپ خود کو مکمل اور کام یاب محسوس کریں گے۔

جمعہ 3 جولائی 2020
حاکم نمبر2
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا۔
وردِخاص”یاکفیلُ یاوکیلُ یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: صنفِ مخالف یا ماں سے کوئی اخلاقی مدد مل سکتی ہے۔
2نمبر کے لیے: جذبات عروج پر ہوںگے،کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کے اٹھائیں۔
3نمبر کے لیے: سفر کا سامنا ہوسکتا ہے، مرشد یا کسی بزرگ سے ملاقات کی امید ہے۔
4 نمبر کے لیے: آج ایک خوش کرنے والا دن ہے، کوئی امید بر آسکتی ہے۔
5 نمبر کے لیے: حالات مجموعی طور پر آپ کے حق میں نظر آتے ہیں۔
6نمبر کے لیے: صدقہ دیں اور صبر سے معاملات کا سامنا کریں، مشکل ہوسکتی ہے۔
7 نمبر کے لیے: اچھا دن، حالات میں کافی تیزی کا امکان ہے آپ کے لیے بہتر دن۔
8 نمبر کے لیے: بہت اچھا دن، نیا راستہ، یا کوئی اہم تبدیلی کا امکان ہے۔
9 نمبر کے لیے: کچھ مشکلات ضرور ہیں لیکن معاملات کافی حد تک بہتر ہونے کی امید ہے۔

ہفتہ 4جولائی2020
حاکم نمبر5
صدقہ : سیاہ رنگ کی چیزیں یا 80 یا 800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ”یافتاح یارزاقُ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1نمبر کے لیے صدقہ دیں اور الرٹ رہیں، کچھ الجھنیں ہوسکتی ہیں۔
2نمبر کے لیے: ایک بہتر دن، عارضی اور بے تُکی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی۔
3نمبر کے لیے: مزاج میں سستی یا طبعیت میں خرابی کا اندیشہ ہے، ویسے معاون دن۔
4 نمبر کے لیے: ایک یقینی طور پر اہم دن، کچھ مشکل اور اہم فیصلے اور راستے تبدیل ہوسکتے ہیں۔
5 نمبر کے لیے: کسی بھی قسم کے سبزباغ، معاہدے یا وعدے سے گریز کریں ۔
6نمبر کے لیے: اچھا دن، ایک بہتر فیصلہ لیتے نظر آتے ہیں، کام یابی کی امید ہے۔
7 نمبر کے لیے: ایک بہتر دن، مالی فائدے ہوسکتے ہیں۔
8 نمبر کے لیے: کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے، مالی فائدہ ہوسکتا ہے بہتر دن۔
9 نمبر کے لیے: مشکل فیصلہ، کوئی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، محتاط رہیں۔

اتوار5جولائی 2020
حاکم نمبر8
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ”استغفراللہ العظیم یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر کے لیے: آسان دن نہیں ہے لیکن امید ہے آپ اپنی صلاحیتوں سے آسان بنالیں گے۔
2 نمبر کے لیے: ایک اچھا دن، مالی فائدے کا امکان ہے۔
3نمبر کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، رشتوں سے خوشی مل سکتی ہے۔
4 نمبر کے لیے: تھوڑی بہت مشکل ہوسکتی ہے، مجموعی طور پر دن بہتر ہے۔
5 نمبر کے لیے: تحمل سے کام لیں، کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
6نمبر کے لیے: اچھا دن، کام یا بزنس میں بہتری کی امید ہے۔
7 نمبر کے لیے: خوشی دینے والا دن، مالی فائدے کی امید ہے۔
8 نمبر کے لیے: آج کا دن ففٹی ففٹی کی امید ہے، کچھ بہتر کچھ مشکل۔
9 نمبر کے لیے: کچھ مزاج کے خلاف باتیں قبول کرنا پڑسکتی ہیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

خودکشی کے راستے سے واپس کیسے پلٹیں؟

$
0
0

کیمروں کی چکاچوند، دولت کی فراوانی اورشہرت کی بلندی مگر سوشانت سنگھ پھر بھی خودکشی کر لیتا ہے۔ میڈیاکی گلیمرس دنیا سے یہ کوئی پہلا نام نہیں جس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہو۔ رابن ولیمسن، جمان جی کا مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار کا نام کون بھول سکتا ہے۔

انہوں نے بھی اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کی۔Old Man and the Sea جیساشاہکار ناول تخلیق کرنے والے ارنسٹ ہمینگوے نے بھی اپنی ہیجان خیز زندگی سے مر جانا آسان گردانا۔ The Light House  کی شہرہ آفاق مصنفہ ورجینیا وولف بھی اپنے والد کی وفات کے بعد سے ذہنی دباؤکا سامنا کر رہی تھیں بالآخر1941ء میں ایک تحریر میں انھوں نے اپنی بہن اور خاوند کو لکھا کہ وہ خود کشی کے لئے منظر سے غائب ہو رہی ہیں۔ پھر تین ہفتے گھر سے غائب رہنے کے بعد ان کی لاش سمندر کے کنارے سے ملی۔ جرمنی کے مشہور نازی لیڈر ہٹلر نے اپنی اہلیہ سمیت Red Army کے خوف سے خودکشی کی۔

’’ہم دیکھیں گے‘‘ فیض احمد فیض کی نظم اپنے ہر جلسے کی زینت بنانے والے عمر اصغر خان، ائرمارشل اصغر خان کے بیٹے اور جمہوری قومی پارٹی کے بانی نے بھی خود کو پھانسی دے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ کیمروں کی چکا چوند، دولت کی فراوانی اورشہرت کی بلندی ذہنی سکون کا باعث نہیں۔

سوشانت سنگھ کے کمرے سے ایسی دستاویزات ملی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈپریشن کا علاج کرا رہے تھے۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے سے ایک رات پہلے ان کے کچھ دوست بھی ان کے گھر مدعو تھے۔ نہ جانے یہ ڈپریشن کا کون سا مقام تھا کہ دوستوں کی موجودگی بھی اسے کم نہ کر سکی۔اگلی صبح 12 بجے تک ان کے نہ جا گنے پر جب کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو انھیں مردہ حالت میں پنکھے سے لٹکتا ہوا پایا گیا۔

معاشرے کا وہ فرد جو کامیابی کی معراج تک پہنچتا ہے پھربھی خودکشی جیسے فعل کا مرتکب ہوتاہے تو معاشرے کو رک کے سوچنے کی ضرورت ہے کہ مادی اشیاء کا حصول نہ تو زندگی کا مقصدہے نہ ہی ذہنی سکون کا ذریعہ ۔ ہم جن بڑے بڑے ناموں کی زندگیوں کو کامل سمجھ کر ان جیسی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتے ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں کسی ہیجان کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔گلیمر کی روشنی ان بڑے ناموں کی زندگی کا تاریک پہلو نظر نہیں آنے دیتی۔ ہر کامیابی کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے اور اس کہانی کے کرداروں کوکہانی لکھنے والے سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم عام انسان ان بظاہر کامیاب لوگوں کی کہانیوں کو پڑھتے ہیں مگر ان کی زندگی کی تلخیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے محتاط اندازے کے مطابق ہر سال خودکشی کا ارتکاب کرکے موت کو گلے لگانے والے لوگوں کی تعداد تقریباً 8لاکھ ہے مگر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد قتل ہونے والے افراد سے کہیں زیادہ ہے۔یورپ میں ’جو ہم ایشیا میں رہنے والوں کے لئے جنت ہے‘ خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے جبکہ وسطی ایشیا اور مشرقی بحیرہ روم کے قریبی ممالک میں یہ رجحان کم ہے۔

2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال سب سے زیادہ خودکشیاں گرین لینڈ میں کی گئیں، مگر بھارت اور چین کا شمار بھی ان مما لک میں کیا جاتا ہے جہاں اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس طرح یہ ترقی یا فتہ اور ترقی پزیر دونوں طرح کے مما لک کا سلگتا المیہ ہے۔ دنیا میں سائنس اور جدید ٹیکنا لوجی کے عروج کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی تفاوت اس تیزی سے بڑھی ہے کہ زندگی کا مقصد مادی اشیاء کا حصول گردان لیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے45 برسوں میں خودکشی کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

یہاں تک کہ اب 15 سے45 سال کے افراد میں یہ موت کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں میں بڑی تعداد ڈپریشن یا کسی خوف کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی المیہ ہی ہے کہ معاشرے میں ڈپریشن جیسی بیماری کو بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا اس لیے کسی سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانا تو اس سے بھی زیادہ بُرا سمجھا جاتا ہے۔ دماغ کو بھی دوسرے جسمانی اعضاء کی طرح سمجھا جانا چاہیے۔ عورت کو جذباتی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے مگر خودکشی کا رجحان عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق یہ رجحان انسان کے جنیاتی خلیوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ زمانہ قدیم کے انسان میں بھی اس کے رجحان سے انکار نہیں کیا جا سکتاجبکہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب کسی انسان نے خودکو خاندان پر بوجھ سمجھ کے اس کا ارتکاب کیا جیسے کہ جنگ کے دنوں میں یا کسی دیوی یا دیوتا کو چڑھاوے دینے کے لئے۔ اس طرح ہم خودکشی کے مذہبی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں میں خودکشی کا رجحان کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ عقیدہ ہے کہ خودکشی حرام اور ما یوسی کفر ہے۔ان سب کے علاوہ اس کی معاشی اور معاشرتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جیسے کہ خود ساختہ یا معا شرے کی طرف سے ودیعت کردہ تنہائی۔ کسی پیارے کا بچھڑ جانا، معاشی دھچکا، تعلیمی ناکامی، کوئی خاندانی چپقلش وغیرہ۔ وجہ جو بھی ہو ، ہر ریاست کا فرض ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ خودکشی کے طریقوں پر تحقیق کر کے ان کا سدباب کرے۔

دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں زہر کھانے کی وجہ سے ہو تی ہیں تو ضروری ہے کہ اس کی آسانی سے دستیابی کو روکا جائے لیکن اس کے ساتھ ان معاشرتی اور معاشی وجوہات اور رویوں پر بھی غور کیا جائے جو اس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ضرورت کے وقت سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانے کو عام بات سمجھا جائے۔ سکول کی سطح سے ہی اگر طالب علموں کو کسی بھی جذباتی بحران سے نمٹنے اور درست فیصلہ سازی کی تربیت دی جائے تو اس کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

زندگی کے سفر میں کامیابی کے پیچھے بھا گتے ہوئے اور دولت کا مینار کھڑا کرتے ہوئے ہم اکثر ایسے انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جن سے دل کا بوجھ بانٹا جا سکتا ہے۔ اپنے اردگرد ہم اتنی اونچی دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کی آواز بھی نہیں سن پاتے۔ ہم خود کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کر دیتے ہیں۔

ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لئے سب سے پہلے تو اپنی زندگی میں اپنی لئے وقت نکالیں۔ روز 10 سے20 منٹ چہل قدمی کریں۔ ممکن ہو تو کسی پارک میں چلے جائیں وہاں قدرت کے رنگ دیکھیں۔ پھولوں کی تروتازگی دیکھیں۔ پرندوں کی آوازیں سنیں۔سبزے پر ننگے پاؤں چلیں۔ آپ جی اٹھیں گے۔دن کے کسی وقت میں کم ازکم 10 منٹ خاموشی میں گزاریں۔ہم زندگی کی دوڑ میں خور کو بھول جاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کسی غیر ضروری چیز کو رکھ کے بھول جاتے ہیں۔ اپنے اندر کی آوازسنیں۔ خود کو اہم سمجھیں۔ ربٍ کائنات نے کوئی چیز غیر ضروری نہیں بنائی، اس لئے اپنی زندگی کو کوئی مقصد یت دیں۔

اپنی نیند پوری کریں۔ رات سونے کے لئے ہے اور دن جاگنے کے لئیے۔ لاک ڈاؤن ہے تو بھی اپنی روٹین مت خراب کریں۔ رات کو وقت پر سونا ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے، ہمارے میٹابو لزم کو بہتر بناتا ہے۔وہ لوگ جو چھ گھنٹے سے کم سوتے ہیں ان میں موٹاپے کے امکانات 30 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔اچھی نیند ہمارے موڈ کو اچھا بناتی ہے، دل کے امراض سے بچا تی ہے۔ ہماری Long Term اور Short Termیادداشت کو بہتر بناتی ہے۔اداسی اور ڈپریشن سے بچاتی ہے۔جلد کو تر و تازہ رکھتی ہے۔سونے کے اتنے فوائد ہیں تب ہی تو رب کائنات نے رات بنائی تو کم از کم 8 گھنٹے سونے کی عادت اپنائیں۔

دن میں کم ازکم 2 لٹر پانی پئیں۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ یہا ںسے لگا سکتے ہیں کہ ہماری دنیا 71فیصد اور ہمارا جسم60 فیصد پانی سے بنا ہے۔ نظام انہضام، نظام دوران خون اور عصبی نظام کے لئیے پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جسم کا درجہ حرارت معتدل رکھتا ہے۔ موٹاپے سے بچاتا ہے۔جلد کی خوبصورتی اور لچک کو بحال رکھتا ہے تو پانی پئیں اور خوبصورت نظر آئیں۔کتابیں پڑھیں۔ ان سے اچھا کوئی ساتھی نہیں ہے۔ ایک بار آپ خود کو اس ساتھ کے لیے تیار کر لیں آپ کبھی اداس نہیں ہوں گے۔ویسے بھی کتابیں ہمارے علم کی پیاس کو تو بجھاتی ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ ہمیں بہتر سوچنا اور بہتر بولنا بھی سکھاتی ہیں۔

خواب دیکھنا مت چھوڑیں۔ خواب ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ زندگی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کے جینے کی جرات دیتے ہیں۔ معیار زندگی کو بہتربنانے کے خواب دیکھتے ہوئے صرف مادی ترقی کو مدنظر نہ رکھیں۔ یاد رکھیں آپ کے جسم میں ایک روح بھی ہے۔ اس کی تسکین صرف مادی ترقی نہیں کر سکتی۔ماضی کے معاملات پر سوچنا چھوڑ دیں۔

اپنے حال کے ساتھ امن سے رہیں۔ ماضی کی یادیں ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتں۔ آپ اپنے ماضی کو ساتھ رکھیں گے تو اپنے حال سے دوستانہ تعلقات کبھی نہیں بنا پائیںگے۔ زندگی سہل بنائیں، آگے بڑھیں اپنے حال میں جینا سیکھیں۔جو چیزیں آپ کے بس میں نہیں ان کے لئے خود کو ہلکان مت کریں۔

ہر چیز کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ یہ ہی تقدیر اور تدبیر ہے۔ ان کے جھگڑے میں خود کو مت لائیں۔کوشش ضرور کریں کیونکہ زندگی تو کوشش سے ہی عبارت ہے مگر کوشش کے بعد باقی قدرت پر چھوڑ دیں۔ قدرت کبھی آپ سے نا انصافی نہیں کرے گی جتنی کوشش کریں گے اس سے زیادہ ہی نوازے گی۔کسی سے نفرت کے لئے زندگی بہت چھوٹی ہے۔معاف کرنا سیکھیں دوسروں کے لئے نہیں اپنے لئے۔ ہم جب تک دوسروں کو معاف کرنا نہیں سیکھتے ہم ان کی دی ہوئی درد اور تکلیف کو بھی زندگی سے نہیں نکال پاتے تو دوسروں کو معاف کریں اور پر سکون رہیں۔

اپنی زندگی کا دوسروں سے موازنہ مت کریں۔ کسی کے لال منہ کو دیکھ کے تھپڑوں سے اپنے منہ کو لال مت کریں۔ہر شخص کی کہانی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ آپ نہیں جانتے کسی دوسرے نے اپنی کہانی کن نشیب و فراز سے گزر کے لکھی ہے۔اپنی کہانی خود لکھیں کسی دوسرے کو اسکے مصنف ہونے کا اعزاز مت دیں۔وقت اچھا ہو یا برا اس کی خا صیت ہے یہ گزر جاتا ہے۔ زندگی میں کچھ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی آپ پر برا وقت آیا ہو گا اگر وہ نہیں رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا۔ یاد رکھیں ہر اندھیری رات کی ایک صبح ضرور ہوتی ہے اور ہر صبح اپنے ساتھ اجالے لے کر آتی ہے تو زندگی کے ہر لمحے کو جئیں۔

خود سے محبت کریں آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کا ہے۔ خود سے محبت آپ کو پر اعتماد بنائے گی۔آپ کی خوبیوں میں نکھار لائے گی۔آپ کا خود کو عزت دینا دوسروں کی نظر میں آپ کو پر وقار بنائے گا۔ ہر کا میابی پر خود کو شاباش دیں اور ہر نا کامی پر خود کو باور کرائیں کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔خوش رہنا سیکھیں۔ یہ ایک آرٹ ہے۔ بے شک کوئی بھی آرٹ سیکھنا آسان نہیں مگر یقین کریں یہ سب سے آسان آرٹ ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کریں۔ زندگی کے سفر کو بڑی بڑی خوشیوں سے موسوم کر کے اسے مشکل نہ بنائیں۔ خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دیں۔

ہر روز کسی کے لئے کچھ اچھا کریں کیونکہ رب کائنات نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کے بھیجا۔ ہمیں سوچنے، سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت دی۔ اور آخری بات! اپنے رب پر بھروسہ کریں۔وہ آپ سے اس سے زیادہ محبت کرتا ہے جتنی آپ اس سے کرتے ہیں۔وہ کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ کبھی کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔امید مت چھوڑیں۔ ہاتھ اٹھائیں اپنے لئے دعا مانگیں۔ وہ دینے پر قادر ہے۔

The post خودکشی کے راستے سے واپس کیسے پلٹیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چین نے بھارت کو گردن سے دبوچ لیا

$
0
0

بھارت کو ہمیشہ ہی خطے کا چوہدری بننے کا گھمنڈ رہا ہے،اسی خام خیالی کے تحت ہی اس نے چین کے علاقے لداخ پر قبضہ جمایا، جو 1962 کی چین اور بھارت کی جنگ کا باعث بھی بنا، جس میں چین نے بھارت کو ناک رگڑنے پر مجبور کردیا تھا، مگر بھارت چورمچائے شور کے مصداق اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور معاملات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی، بعدازاں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا قیام عمل میں آیا۔ دونوں ملکوں کے مابین لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اختلاف رہا ہے۔ 2017 میں بھی سکم اور لداخ کے مقام پر بھارت اور چین کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

9 مئی 2020 کو سکم میں نکولا کے مقام پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں فریقوں کی جانب سے ’’جارحانہ رویہ‘‘ دیکھنے کو ملا جس کے نتیجے میں فوجیوں کو معمولی چوٹیں بھی آئیں۔ تاہم طے شدہ پروٹوکولز کے تحت مقامی کمانڈر کی سطح کے افسران کے مابین مذاکرات کے بعد فریقوں میں معاملہ رفع دفع ہوگیا، مگر ایسا نہیں ہے چین بھارت میں 20 کلومیٹر سے زیادہ تک آگے چلا گیا ہے، اور بھارت کی بہادر سینا بینرز اٹھا کر چین کی پیش قدمی کو ’’اسٹاپ اسٹاپ‘‘ کا کہہ رہی ہے۔

15 جون کی شب لداخ میں ہونے والی اس جھڑپ میں بھارتی کرنل سمیت 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ چین کی جانب سے تاحال جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا ہے کہ ’وادی گلوان پر ہمیشہ سے چین کی عمل داری ہی رہی ہے۔ انڈین فوجیوں نے سرحدی معاملات پر ہمارے پروٹوکول اور کمانڈرز کی سطح کے مذاکرات پر طے شدہ اتفاقِ رائے کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔‘ چینی میڈیا کے مطابق مئی 2020 میں’مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیا نے غیر قانونی تعمیرات کی ہیں جو معاہدے کی شدید خلاف ورزی ہے جس کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے۔’

٭چین نے بھارت کو گردن سے دبوچ لیا ہے :چین بھارت کو ایک جھٹکے میں توڑ سکتا ہے چین کی سرحدیں ہندوستان کے انتہائی اہم اہمیت کے حامل علاقے سلگری کوریڈور سے ملتی ہیں، جسے چکن نیک یعنی چوزے کی گردن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔چین نے چیک نیک تک آسان رسائی کے لیے سڑک بنائی ہے جس پر جون 2017 میں ہندوستان اور چین کی فوج کے درمیان چھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔

چین کی طرف سے تمام مخالفتوں کے باوجود یہ سڑک تقریباً تعمیر ہو گئی ہے، جس سے دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے بہت ہی اہم راہ داری ’چکن نیک‘ تک چین کی رسائی بہت آسان ہو گئی ہے۔ اب چین بھارت کی گردن کو پکڑ چکا ہے۔ یعنی ہندوستان کو توڑنے کے لیے چین کو صرف بیس کلومیٹر کا راستہ بند کرنا ہے اور بھارت کی آسام سمیت اہم ریاستیں بھارت سے ایک جھٹکے میں کٹ جائیں گی۔

٭ نیپال بھی بھارت کو آنکھ دیکھا رہا ہے :حال ہی میں بھارت کے تیرہ فوجی نیپال میں جاگھسے جنہیں نیپالی دیہاتیوں نے پکڑ کر اپنی فورسز کے حوالے کردیا، بعدازاں صورت حال یہ رونما ہوئی کہ بھارت کو باقاعدہ طور معافی نامے پر دستخط کرکے اپنے سورماؤں کو رہا کروانا پڑا۔ گُھس کر مارنے کے فلمی مکالمے بولے والوں کو حقیقی دنیا میں 27 فروری 2019 کے بعد پاکستان جب کہ حالیہ دنوں میں چین اور نیپال سے تاریخی چھترول کے بعد چپ لگ گئی ہے۔

نیپال نے بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضی کا اظہار کیا جب بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے آٹھ مئی کو حقیقی کنٹرول لائن پر واقع لیپو لیک کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ۔ کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔ لیپو لیکھ وہ جگہ ہے جہاں بھارت، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد نیپالی وزیراعظم کو کُل جماعتی اجلاس طلب کرکے وضاحت کرنی پڑی۔نیپال کی وزارت خارجہ نے کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کرکے سخت احتجاج کیا اور کہا ’’بھارت نیپال کے علاقے کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔‘‘ بھارت نیپال کی جانب سے آنکھیں دکھانے کے معاملے کو چین سے جوڑ رہا ہے جس کے بعد ماحول مزید تناؤ کا شکار ہوگیا۔

انڈیا ٹو ڈے کے مطابق پہلی بار نیپال اور بھارت کی متصل بارڈر پر نیپالی آرمی مکمل چاق چوبند انداز میں تعینات ہے۔ نیپال اور بھارت کے درمیان نہایت قریبی اور تاریخی رشتے رہے ہیں لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں کے درمیان مسلسل دوری دکھائی دے رہی ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سرحدی تنازعے کو بھارت کے سامنے کئی مرتبہ اٹھایا ہے۔ گذشتہ برس نومبر میں بھی بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد شائع کیے جانے والے نقشے پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھا۔

اس نقشے میں کالاپانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے جب کہ نیپال کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے جو بھارت، نیپال اور چین کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وزیراعظم کے پی اولی اور ان کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نیپال کو جواب نہیں دے رہا کیوںکہ اسے علم ہے کہ اگر نیپال کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا تو چین کو نیپال میں گھسنے، وہاں بیٹھنے اور بھارت کے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی کھٹمنڈو میں اپنا انٹیلی جنس نظام مزید مضبوط اور مستحکم کر سکتا ہے۔

٭بھارتی ابلاغ عامہ کا بچکانہ اقدام:خطے میں کشیدگی بڑھانے کے لیے بھارتی حکومت نے ایک اور نئی چال چلی تھی۔ بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے سرکاری ٹی وی دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کے لیے احکامات جاری کیے ہیں کہ آزاد کشمیر کے شہر مظفرآباد اور میرپور کے علاوہ گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہیں۔

اس لیے بھارت کے دیگر شہروں کی طرح ان شہروں کے موسم کا حال روزانہ کی بنیاد پر پیش کریں، پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بھارت کے اس گھناؤنے فعل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے گذشتہ سال اپنے ملک کا نقشہ تبدیل کرتے ہوئے اس میں پاکستانی علاقوں کو شامل کر لیا تھا جو نہ صرف حقیقت کے برخلاف تھا بلکہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بھی منافی تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا کوئی بھی غیرقانونی اقدام جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ بھارت کی اس گھناؤنی چال کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ بھارتی عوام اور دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا کر سکے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھارتی علاقے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی اس مذموم اور گم راہ کن حرکت سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ سرحدپار دہشت گردی کے حوالے سے یو این او کے ریڈر کی بھارت پر کڑی نظر ہے۔ مودی کی جانب سے متنازعہ شہری قانون کی منظوری، مقبوضہ کشمیر کے آئین میں ردوبدل سے باخبر یو این او کو بھی ہے، جب کہ سری لنکا میں چرچ پر حملے کے تانے بانے بھی ہندوستان سے ملتے ہیں ۔

٭ ایل اے سی کی خاموشی سے خلاف ورزی بھارت کو لے ڈوبی:بھارت جس خاموشی سے ایل اے سی کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر سرحدی خلاف ورزی کرکے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنا رہا تھا۔ بھارتی کی خاموش کاروائی پر چین نے جس خاموشی سے اپنی فوج کو میدان میں اتارا ہے وہ قابل دید ہے۔ بھارتی وزیراعظم، فوج اور میڈیا کی تو بولتی ہی بند ہوگئی ہے جب کہ بھارتی عوام مودی سرکار سے پوچھ رہے ہیں کہاں ہے وہ مضبوط بھارت جس کا خواب تم نے ہمیں دکھایا تھا۔

بھارت جو کھیل پاکستان کے ساتھ کھیل رہا تھا اللہ نے الٹی آنتیں گلے میں ڈال دی ہیں، اب بھارت اپنے عوام کو انرجی ڈرنک دینے کے لیے پاکستان پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ لیکن بھارتی سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان قدرتی ماحول دوست ملک ہے اب کی دفعہ اگر ہمارے درختوں کو کچھ ہوا تو چائے نہیں پلائیں گے بلکہ بکسے میں بند کرکے بھیجیں گے۔

The post چین نے بھارت کو گردن سے دبوچ لیا appeared first on ایکسپریس اردو.

سی ای اوز کے چند شاندار کام جنھوں نے ماتحتوں کی زندگیاں بدل دیں

$
0
0

سربراہ خواہ چار افراد پر مشتمل عملے کا ہو یا سینکڑوں، ہزاروں لوگ اس کے ماتحت کام کر رہے ہوں، یہ سربراہی جہاں اسے عزت و احترام عطا کرتی ہے، وہیں اس کی ذمہ داری اور لوگوں کے ساتھ رویے کی بنیاد پر اس کے اچھے یا برے انسان ہونے کا تعین کرتی ہے۔ سربراہ جیسا بھی ہو، اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے احکامات کی پیروی پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن اچھا اور قابلِ قدر سربراہ وہ ہوتا ہے، جس کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ رویہ اس قدر مثالی ہو کہ لوگ اس کے ساتھ خوشی اور بھر پور صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے کام کریں۔

یہاں ہم دنیا میں سی ای اوز کی جانب سے کئے جانے والے ان اقدامات کا تذکرہ کریں گے جن کے حیرت انگیز مثبت نتائج سامنے آئے۔ ایک مشہور کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والے نوجوان کی گاڑی دفتر جانے سے ایک دن پہلے حادثے کی نظر ہو کر تباہ ہو گئی۔ اس کے پاس وقت پر دفتر پہنچنے کے لیے کوئی سواری کا انتظام نہ تھا۔ ملازمت کے پہلے دن اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وقت پر دفتر پہنچنے کے لیے اس نے آدھی رات کو پیدل چلنا شروع کیا تاکہ وہ وقت پر پہنچ سکے۔

تقریباً سات گھنٹوں کے سفر کے بعد جس میں تھوڑی سی مسافت پولیس کی گاڑی نے اس کی بپتا سن کے طے کرائی، وہ صحیح وقت پر دفتر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب اس کے احساسِ ذمہ داری کی خبر اس کی کمپنی کے سربراہ تک پہنچی تو وہ بطورِ خاص دوسرے شہر سے نہ صرف اس کی ملاقات کو آئے بلکہ اسے کمپنی کی طرف سے گاڑی بھی فراہم کی تاکہ اسے آنے جانے میں اس تکلیف کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ سربراہِ ادارہ کی طرف سے اْٹھایا جانے والا ایسا قدم تھا، جس نے نوجوان کی پہلی ملازمت کے تجربے کو ہی اس کے لیے بہت یادگار بنا دیا اور خود پر اس کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔

ایک ادارے کے سربراہ نے اپنے ماتحتوں کو اس صورت میں ایک مشہور جزیرے پر ادارے کے خرچ پر چھٹیاں منانے کی پیشکش کی، اگر وہ آنے والے پانچ سالوں میں ادارے کی آمدنی دوگنا کر دیں۔ اس پُرکشش اور جذبہ پیدا کرنے والی پیشکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام ملازمین اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرنے میں لگ گئے اور واقعتاً پانچ برسوں میں ادارے کو دْوگنا کامیاب کرنے کا مقصد حاصل کر لیا۔ سربراہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور پانچ سو لوگوں اور ان کے اہل خانہ کو اپنے خرچ پر چھٹیاں گزارنے کا موقع فراہم کیا۔

انسانی نفسیات کے درست استعمال کے ذریعے اس سربراہ نے بظاہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ اپنی پسند کی پیشکش ملنے پر اس تک پہنچنے کے تمام ذرائع اور وسائل استعمال کرتا ہے۔ایک معروف تعمیراتی کمپنی کے سربراہ پچھلے تیس سال سے باقاعدگی سے اپنے آٹھ ہزار ملازمین کو ان کی سالگرہ کے موقع پر تہنیتی کارڈز بھجواتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ مشکل اور وقت لینے والا کام ہے، لیکن ان کے ملازمین کمپنی کی کامیابی اور ترقی کے جس قدر محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ان کے ملازمین ان کے خوابوں اور ارادوں کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں، اس کے جواب میں ان کی سالگرہ کا دن یاد رکھنا اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنا نہ صرف میری طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف میں اظہار تشکر ہے، بلکہ اس سے ان کا کام کرنے والے ادارے سے تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔ تین عشروں تک اپنے باس کی طرف سے سالگرہ پر تہنیتی کارڈز وصول کرنے والے ملازمین نے باس کی ساٹھویں سالگرہ پر انہیں آٹھ ہزار کارڈز دے کر حیران کر دیا۔

کاریں بیچنے والی ایک کمپنی کے مالک نے ایک دن ایک ورکر کی طبیعت ناساز معلوم ہونے پر اسے چھٹی دے کر ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی یہ رحم دلی اس شخص کی جان بچانے کا سبب بنے گی کیونکہ ورکر ہسپتال جانے کے راستے میں ہی بے ہوش ہوگیا۔

جب اسے ایمرجنسی میں ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹرز کو فوراً اس کی اوپن ہارٹ سرجری کر کے اس کی جان بچانا پڑی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر اس دن اسے بروقت ہسپتال نہ پہنچایا جاتا تو اس کی جان بچانا شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس کی سرجری کا علم ہونے پر اس کے باس نے نہ صرف ہسپتال کے تمام اخراجات خود ادا کیے بلکہ اس کے صحت یاب ہونے تک اسے تنخواہ کی ادائیگی بھی ممکن بنائی۔

بعض اوقات آپ کی ہمدردی کا ایک عمل کسی انسان کی زندگی بچا لیتا ہے، اور انجانے میں بھی کسی کی تکلیف کا احساس کرنا آپ کو ایسی نیکی کی طرف لے جاتا ہے جو آپ نے ارادتاً سوچا بھی نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں نامور افراد میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر ایک علمی ادارے کے سربراہ نے اپنے پچھتر ہزار ملازمین کو ایک برقی خط کے ذریعے اپنی ذہنی صحت کو بنیادی ترجیح بنانے اور اس حوالے سے پیش آمدہ مسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کو کہا، اور اس سلسلے میں ماہرین سے مشاورت کے لئے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے سو سے زیادہ ملازمین نے ان کے برقی خط کا جواب دیتے ہوئے انہیں اپنی ذہنی صحت کے مسائل اور ان کے حل کے لیے اپنی کوششوں سے آگاہ کیا۔

اس سے سربراہِ ادارہ کو اندازہ ہوا کہ کمپنی کو ملازمین کی ذہنی صحت کی بہتری کے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، تب ہی ان کے ملازمین اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اپنے تمام ملازمین کے لئے تھکاوٹ، پریشانی سے نجات کے طریقوں، مراقبہ اور یوگا کلاسز، ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے لیے مفت مشاورتی علاج کے مراکز قائم کئے تا کہ اس مرض کا ابتداء میں ہی علاج کر کے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ ادارے کی کارکردگی تب ہی بہترین ہو سکتی ہے جب اس کے ملازمین ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل صحت مند ہوں۔ انہوں نے اسی چیز کا احساس کرتے ہوئے اپنی کمپنی کی ترقی کے ضامن اپنے سٹاف کی ذہنی صحت کی حفاظت کا انتظام کر لیا۔

ایک انوکھا کام ایک دوائیں بنانے والی کمپنی کے سربراہ نے اپنے ورکرز کو اچھا اور مددگار انسان بننے میں مدد دینے کے لیے شروع کیا ہے۔ اس ادارے میں کام کرنے والے لوگوں میں سے سربراہ سمیت کسی ایک فرد کو ہر ماہ کی ’’مہربان شخصیت‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ ادارے کے ملازمین ایک دوسرے کے نیکی، فیاضی اور دوسروں کے کام آنے کے اچھے اعمال کا پورا مہینہ جائزہ لیتے ہیں اور خاموشی سے برقی پیغام کے ذریعے باس کو ووٹ کرتے ہیں اور پھر سربراہ کی جانب سے سب عملے کو ہر ماہ برقی پیغام کے ذریعے اس ماہ کی مہربان شخصیت کا خطاب حاصل کرنے والے ساتھی کے بارے میں اطلاع کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس معمولی سے تعریف اور حوصلہ افزائی کے عمل نے ادارے میں کام کرنے والوں کو ایک نیا جوش اور ولولہ دیا ہے اور وہ دوسروں کی مدد کرنے اور نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ کو اچانک علم ہو کہ آپ کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے کام کرنے والے ایک ورکر کے گردے ناکارہ ہو چکے ہیں اور اس کی زندگی بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ اسے عطیہ شدہ گردہ مل جائے جو اس کے جسم کے لیے مناسب بھی ہو، تو آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے اس کے لیے عطیہ شدہ گردے کی فراہمی کی کوشش کریں گے لیکن یہ کہاں آسان ہے۔ وقت کم تھا اور بیمار کی مسلسل گرتی ہوئی صحت پریشان کن تھی۔ اس مشکل صورتحال میں سربراہ ادارہ نے وہ فیصلہ کیا جوقریبی رشتے دار بھی کم ہی کرتے ہیں۔

اس نے اپنے ورکر کی جان بچانے کے لیے اپنا گردہ اسے عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں خود کی صحت اور جان کو مشکل میں ڈال کر اس کی جان بچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جب ان سے اتنے بڑے اور مشکل فیصلے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا : ’’میرے ورکر کا ایک چھ سالہ بیٹا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ بچہ اپنے باپ کے بغیر پروان چڑھے۔‘‘ اس بچے کو دیکھتے ہی میں نے اس کے باپ کی جان بچانے کے لیے ہر طرح کے انتہائی اقدام کا فیصلہ کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

فوٹوگرافی سے متعلقہ ایک ویب سائٹ کے سربراہ نے اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ براہ راست ملاقات کا بہت اچھوتا آئیڈیا اختیار کیا ہے۔ وہ مہینے میں ایک بار اپنے خرچ پر دفتری اوقات کے بعد تمام ساتھیوں کو کافی پلوانے کے لیے لے جاتے ہیں۔ اس اکٹھا ہونے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کہ باس سے لے کر ورکر تک کوئی سینئر، جونیئر نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس دورانیے کو دوستوں کی طرح گھل مل کر گزارتے ہیں۔

یہ اچھوتا آئیڈیا متعارف کرانے والے باس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ نہ صرف ایک دوسرے کے ذاتی اور دفتری مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں بلکہ کام کے حوالے سے بھی بہت سے نئے آئیڈیاز اسی ماہانہ اکٹھ کے دوران حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اکٹھا ہونا ہمیں دوستوں کی مانند ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور اسی دوران ہونے والے باہمی تبادلہ خیالات سے ہم بہت سے جدید اور منفرد انداز متعارف کرا پائے ہیں۔

ایک خاتون جب دنیا کی ایک معروف مشروب ساز کمپنی کی سربراہی کے عہدے پر فائز ہوئیں تو اپنے والدین کی خوشی دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ اولاد کی کامیابی والدین کے لیے کس قدر مسرت اور فخر کا لمحہ ہوتا ہے حالانکہ یہ کامیابی انہی کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کی ہی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

اس چیز نے انہیں آئیڈیا دیا کہ وہ اپنی کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کے والدین کو ان کی اچھی تربیت پر شکریہ کے خطوط لکھیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ خطوط لکھنا اگرچہ مشکل تھا، لیکن انہوں نے بڑے جذبے سے اس کے کرنے کا آغاز کیا. انہوں نے ہر ورکر کے والدین کو خط بھیجا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بہترین تعلیم و تربیت کر کے اپنے بچے کو ان کی کمپنی کی ترقی میں حصّہ دار بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ ان کی توقع سے بڑھ کر کامیاب ہوا، بہت سے والدین نے انہیں جوابی خطوط لکھے اور اس شکریے کے خط پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا کہ اپنی تربیت کی تعریف نے انہیں بہت خوشی سے ہمکنار کیا ہے جس پر وہ کمپنی اور سربراہ دونوں کے شکر گزار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ایک خط سے ان کے ملازمین اور ان کے درمیان اعتماد اور وفاداری کا جذبہ پروان چڑھا ہے۔

بظاہر یہ تمام معمولی کام ہیں جو کسی بھی سربراہ ادارہ کے لیے کرنے مشکل نہیں ہیں۔ایک لگی بندھی روٹین میں کام کرنے سے انسان اکتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتیں ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک اچھا باس وہی ہوتا ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی بہترین صلاحیتوں کو بظاہر بے ضرر اور معمولی نظر آنے والے اقدامات کے ذریعے ابھارے اور نکھارنے کی کوشش کرے۔ ایک چھوٹا سا تعریفی نوٹ، معمولی سا حوصلہ بڑھانے والا جملہ، دوسروں کے سامنے تعریفی کلمات، ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا، سب ساتھیوں کا ایک ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیر کو جانا…… یہ سب وہ امور ہیں جو نہ صرف روٹین کا جمود توڑتے ہیں بلکہ اس سے انسان کی ذہنی صحت پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی دونوں میں مزید چست اور چاق و چوبند ہو کر کام کرتا ہے۔

اگر اللہ نے آپ کو چند افراد، چند سو یا ہزاروں لوگوں کی سربراہی کا منصب عطا کیا ہے تو یہ اعزاز بہت بھاری ذمہ داری بھی ساتھ لے کر آیا ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس کیجئے اور اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی زندگی بہتر اور آسان بنا کر اس ذمہ داری کو رحمت اور برکت کا سبب بنائیے۔

The post سی ای اوز کے چند شاندار کام جنھوں نے ماتحتوں کی زندگیاں بدل دیں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اشر‘‘ کی رسم۔۔۔ماضی سے حال تک

$
0
0

یہ لوگ کس صنعتی انقلاب کی بات کرتے ہیں، کونسی تہذیبی ترقی کے ترانے گاتے ہیں۔ اس تبدیلی اور ترقی نے توہم سے ہمارے خاندانی رشتے، دیہاتی زندگی، برادری، شراکت داری، روایات، رسم ورواج اور اجتماعیت چھن لی ہے۔

ہم آج ایک ایسے تہذیبی ویرانے میں کھڑے ہیں، جہاں محبت، ہم دردی، انصاف اور یگانگت کے پھولوں کے بجائے لالچ، خودغرضی، ذات پسندی کا گردوغبار اڑ رہا ہے آدمی تو بہت آگے جا چکا ہے، لیکن آدمیت اور انسانیت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہم ایک ایسے سیاسی اور اقتصادی نظام میں گھرے ہوئے ہیں، جو اپنے پیروں اور اپنی توانائی کے بجائے دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے۔

سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی اور تہذیبی لحاظ سے بھی ہم غیروں کی سوچ اور خیال کے پروردہ ہیں جس نے ہم سے ہمارا خاندان، ہماری برادری، ہماری دوستیاں اور عزیزداری جیسی اقدار چھین لی ہیں۔ رشتے داری نے دکان داری اور محبت نے بیوپار کی شکل اختیار کرلی ہے، مشین، ٹیکنالوجی اور سائنسی معاشرے نے انسان کو تخلیقی قوت، جذبات اور احساسات سے عاری کرکے بیگانگی ذات کا شکار بنا ڈالا ہے ہر کوئی مشین کی طرح چل رہا ہے اور مشینوں کے باہمی رشتے نہیں ہوتے، مشینوں کا کوئی کلچر، کوئی اقدار روایات اور رسم و رواج نہیں ہوتے۔

مشینیں تو صرف ایک چیز جانتی ہیں اور وہ ہے پیداوار اور سرمایہ، چاہے اس کے لیے انہیں کسی کے ہاتھ کاٹنے پڑیں یا جسم کا کوئی اور حصہ جدا کرنا پڑے۔ پہلے زمانے میں سرمائے کا جنون نہیں تھا، آبادی اور فطرت میں فاصلے نہیں تھے، اب اگر کوئی روپوں سے بوری بھی بھرلے وہ پیار وہ فضاء او مزہ کہاں سے لائے گا جو محبت، یگانگت، اتفاق، خلوص اور بے لوث خدمت کا جذبہ ’’اشر‘‘ اور ’’غوبل‘‘ (اردو میںگاہ) میں تھا۔

سادہ خوراک ہوا کرتی تھی، دودھ، مکھن، لسی، دیسی گھی، کھیر۔ آج ان چیزوں کے کھانے میں وہ ذائقہ اور مٹھاس بھی نہیں رہی، شاید کچھ لوگ ہمیں ماضی پرست، قدامت پسند یا روحانی جلاوطن کا نام دیں جیسا کہ آج کل اس قسم کی باتیں کرنے والے پر اس طرح کی اصطلاحات چسپاں کرنے کا فیشن بن گیا ہے، لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد ماحول اور اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں اور تہذیبی یا ثقافتی نقطہ نظر سے اپنے ماضی کی ان روایات، اقدار اور رسم و رواج کا اپنے قومی اجتماعی مزاج اور نفسیات کے تناظر میں پرکھیں جو روایات واقدار ہمارے آباؤاجداد سے بتدریج ہم تک پہنچی ہیں تو شاید ہم ان باتوں کی معنویت اور افادیت کو سمجھ لیں گے اور اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ ہماری کچھ روایات واقدار اتنی مثبت، ترقی پسند اور انقلابی ہیں کہ اگر انہیں ہم آج بھی اپنائیں تو ہماری زندگی کی ترقی اور خوش حالی کی رفتار اور بھی تیز اور زندگی متحرک ہوسکتی ہے۔

پختونوں کے سماج میں ’’اشر‘‘ کرنے، کرانے اور بلوانے کی روایت ایک بہت ہی قدیم روایت ہے اور غالباً اس دورِغلامی کی ترقی یافتہ اور اتقائی شکل ہے، جب محنت کی تنظیم حتمی طور پر طاقت پر انحصار کرتی تھی۔ زراعت کے فروغ اور انسانی نابرابری کی وجہ سے معاشرتی طور پر کم زور لوگ طاقت ور لوگوں کے کام میں لگ گئے۔ اس طرح ہم انسانی تاریخ میں دیکھتے ہیںکہ جب ایک قوم جنگ میں فتح حاصل کرتی تو مفتوح قوم کو ختم کرنے کے بجائے تاوان کے طور پر اسے غلام بنالیتی اور اس سے بیگار لیا جاتا۔ غالباً صدیوں کی غلامی کی وجہ سے انسان نے جانفشانی کی روایات اور عادات پیدا کیں اور غلامی اس نظم وضبط کا حصہ بن گئی، جس کی بدولت انسان محنت کے لیے تیار ہوا اور بالواسطہ اس نے تمدن کو فروغ دیا۔

اب جہاں تک پختو ن معاشرے میں اشر کی روایت کا تعلق ہے یہ ایک الگ تصور کی غماز ہے۔ سب سے پہلے تو لفظ ’’اشر‘‘ کی بات کرتے ہیں جو خالص پشتو زبان کا لفظ ہے، یہ شرکت اور شراکت کا ایک بہترین نمونہ اور مظاہرہ ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی خیبرپختون خوا کے بیش تر علاقوں اور دیہات میں لوگ ایک دوسرے  کے کام کاج میں مدد کرنے کی غرض سے ’’اشر‘‘ کرتے ہیں۔

خصوصاً فصل کی کٹائی، گھرکی چھت پر مٹی کا لیپ کرنے فصل کی گوڈی کرنے اور اس طرح دیگر زرعی اور معاشرتی کاموں میں لوگ اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ’’اشر‘‘ کرتے ہیں۔ البتہ آ ج اور کل کے اشر میں جو اہم فرق محسوس کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح پہلے زمانے کے لوگوں کی زندگی سادہ تھی اسی طرح ان کی خوراک بھی اصل اور سادہ ہوتی تھی۔

اُس وقت اشر میں شریک افراد کے لیے خالص دیسی گھی، خالص دودھ کی بنی ہوئی کھیر، دیسی مرغ، اصل لسی سے بنی ہوئی کڑھی، جس میں مکھن بھی استعمال ہوتا تھا، گندم کی فصل کے کاٹنے کے بعد اس فصل کی گہائی کے دوران گاہ (جسے پشتو میں غوبل کہتے ہیں) بھی اس قسم کی خوراک ہوا کرتی تھی اور چائے کے ساتھ پراٹھوں کے بجائے تندور پر پکی روٹیاں اور ان روٹیوں پر دیسی گھی کی ترائی اور میدہ گُڑ ڈالا جاتا تھا، جسے پشتو میں ’’غڑی‘‘ کہتے ہیں۔ خصوصاً ’’غوبل‘‘ گندم کی پکی ہوئی فصل کو گاہ کرنے کے دن جس کی فصل کی گہائی ہوتی تھی اس شخص کے گھر میں خوشی کا سماں نظرآتا تھا۔

بالکل اسی طرح جس طرح صدیوں پہلے کئی قوموں اور قبیلوں میں یہ ایک عام رواج تھا کہ فصل کی کٹائی کے دوران وہ اپنی خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا کرتے تھے، جس نے بعد میں موسمی میلے اور تہوار کی شکل اختیار کرلی۔ اس ضمن میں اردو زبان کے نام ور ادیب اور دانشور علی عباس جلال پوری اپنی کتاب رسوم اقوام میں لکھتے ہیں کہ ’’ موسمی میلے زرعی معاشرے میں ہر کہیں منائے جاتے تھے۔ یہ میلے آج بھی بالعموم بونے یا کاٹنے پر لگتے ہیں اور بارآوری کی یادگار ہیں۔ اراضی کی زرخیزی کو بحال رکھنے کے لیے رسمیں وضع کی گئی ہیں۔ یونان، ایران اور ہندوستان میں لوگ نفیریوں کی آواز اور ڈھولوں کی تھاپ پر ناچتے ہوئے ان میلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے یہ تہوار خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں۔‘‘

’’اشر‘‘ کی رسم بھی ہمارے ہاں ایک ایسی زرعی روایت کے طور پر آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود چلی آرہی ہے جو نہ صرف ہمیں اتفاق، اتحاد، تنظیم کاری اجتماعیت اور شراکت سکھاتی ہے بل کہ فصل کاٹنے یا فصل کی گہائی ’’غوبل‘‘ کے دن تو یہ عمل ایک تفریح بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دن اچھی خوراک ملتی ہے، خوشی کا موقع بھی ہوتا ہے، پورے سال کے بعد گھرانے کے سب افراد خوشی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ صنعت یعنی مشین نے ’’غوبل‘‘ (گہائی) کو بالکل ختم کردیا کیوںکہ تھریشر کی ایجاد اور استعمال نے آج ’’غوبل‘‘ کو ماضی کا ایک حصہ بنادیا ہے۔

آج کی نوجوان نسل غوبل کے نام سے تو واقف ہے لیکن غوبل کیا تھا اور کس طرح کیا جاتا تھا اس سے موجودہ نسل بالکل ناواقف ہے۔ وہ تو اس نام کو صرف اس حد تک جانتی ہے کہ روزمرہ زندگی میں یہ لفظ غوبل اکثر اوقات شوروغل اور ایک دوسرے کے ساتھ مستی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ’’داسہ غوبل مو جوڑ کڑے دے‘‘ ( یہ تم لوگوں نے کیا مستی اور شور کا ماحول بنا رکھا ہے ) چوںکہ ہمارا موضوع ’’اشر‘‘ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اشر کی ساخت اور طریقۂ کار پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔

اشر اجتماعی طور پر کسی کے ساتھ کام کرنے اور مزدوری نہ لینے کو کہتے ہیں۔ اجتماعی طور پر ایک دن میں کسی کے لیے ایک کام نمٹانا اشر کہلاتا ہے۔ زمین داروں اور کاشت کاروں میں عام دستور ہے کہ کسی مسجد یا حجرے کی تعمیر کے سلسلے میں پہاڑ سے پتھر لانے، مٹی اور اینٹیں ڈھونے یا زمینوں میں ہل چلانے، فصل کاٹنے اور گاہنے کے لیے اشر بلواتے ہیں۔ اشر کے ہر کام میں بڑی سرگرمی اور قوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ خصوصاً گہائی (غوبل) کے وقت جب کہ مئی، جون کے دنوں میں گیہوں پر بیلوں کو پھراتے تھے تو ان بیلوں کے ساتھ بیلوں کی جوڑی کے مالک خود بھی ہاتھ میں لاٹھی جسے پشتو میں ’’چوکہ‘‘ کہا جاتا ہے اس گول دائرے میں پھیرتے اچھلتے کودتے اور پیروں سے گندم کی فصل کو روندتے تھے۔ گاہنے کا کام عموماً صبح سے لے کر ظہر، عصر اور شام تک کیا جاتا تھا۔

گہائی یعنی غوبل کے لیے بیلوں کے پیچھے جو کیکر یا ببول کی موتی دوشاخی سہ شاخی ڈگالی باندھی جاتی تھی۔ اسے پشتو میں درمڑ، جامبرہ اور چپہ بھی کہا جاتا تھا پھر اس کے بعد بھوسا کو محفوظ کرنے کے لیے اس سے بوساڑہ بنایا جاتا ہے، کہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ زراعت سے وابستہ ہماری جتنی بھی رسوم وروایات اور تہوار تھے یا اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ ان روایات سے ہمیں ایک اچھا سبق یہ ملتا ہے کہ کس طرح ہمارے آباؤاجداد آپس میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ہم دردی کا عملی مظاہرہ کرتے تھے۔

ان کے درمیان محبت بھائی چارے، اتفاق اور یکجہتی کی جو فضاء قائم تھی۔ اس فضاء کو مشین نے کس طرح نفرت اور بیگانگی سے آلودہ کردیا ہے۔ ’’اشر‘‘ کی روایت سے ہمیں جو درس ملتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کاج میں بلامعاوضہ شرکت کرنا۔ چوںکہ آج زمانہ صنعتی انقلاب کی طرف گام زن ہے۔ زرعی معاشرے کی روایات، آلات و اوزار ختم ہوتے جارہے ہیں۔

ان روایات اور آلات و اوزار کے ساتھ لوگوں کے جو تصورات، احساسات وجذبات وابستہ تھے وہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماضی کی ان روایات، اقدار، رسوم و رواج، تہواروں اور میلوں کو صرف ماضی پرستی یا قدامت پسندی کا نام دے کر مسترد نہ کریں، بل کہ ان کو آج کے تناظر میں جانچیں، پرکھیں اور ان میں جو بھی مثبت اثرات، تصورات اور احساسات ہمیں ملتے ہیں چاہیے کہ ہم انہیں ایک جدید شکل و صورت دے کر ان میں ایک نئی تہذیبی اور ثقافتی روح ڈال دیں۔

زندہ قومیں اپنے ماضی کی درخشندہ روایات، تاریخ اور اقدار پر نازاں ہی نہیں ہوتیں بل کہ ان سے سبق بھی حاصل کرکے زندگی کی دوڑ میں دیگر قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی اور خوش حالی کے میدان میں کھڑے ہونے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دیگر قوموں میں جتنا بھی علم اور شعور آتا ہے وہ اپنی روایات و اقدار میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انقلابی تبدیلیاں لاکر تہذیب و تمدن کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جب کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم یافتہ طبقہ جتنا بھی علم اور تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ و تہذیب سے دور ہوتا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جوان پڑھ اور ناخواندہ ہے وہ اپنی تاریخ ثقافت اور تہذیب کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتا ہے، لیکن جدید علم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ان روایات و اقدار میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ یہ کام دنیا کے ہر معاشرے میں تعلیم یافتہ اور اہل علم ہی کرتے ہیں اور جب تک ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ اپنی تاریخ اور ثقافت کے ساتھ بے رخی کا برتاؤ کرتا رہے گا تو ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کے بجائے غیروں کی تہذیب کے زیراثر رہیں گے۔ صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے یہ تہوار خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں، جن کا احیاء بہت ضروری ہے۔

The post ’’اشر‘‘ کی رسم۔۔۔ماضی سے حال تک appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا

$
0
0

(قسط نمبر3 )

 16 عجائب گھر پشاور؛

خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا عجائب گھر پشاور میوزیم، گندھارا کی شان و شوکت اور قدیم تہذیب کا امین ہے۔ پشاور میوزیم 1907 میں ملکہ برطانیہ کی یاد میں ”وکٹوریہ ہال” کے طور پر بنایا گیا تھا جس پر ساٹھ ہزار روپے لاگت آئی۔ اِسے بعد میں ایک خوب صورت دو منزلہ عمارت کی شکل دے دی گئی جو مُغلیہ، بُدھ، ہندو اور برطانوی طرزِتعمیر کا حسین امتزاج قرار پائی۔

شروع میں اس کا ایک مرکزی ہال تھا۔ 1970 اور 2006 میں اس کے رقبے کو وسیع کر کے مختلف بلاکس کا اضافہ کیا گیا۔ فی الوقت پشاور کے عجائب گھر کو چار مرکزی گیلریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گندھارا آرٹ گیلری؛ اس گیلری کو اگر پشاور میوزیم کی جان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پوری دنیا میں گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا اور اہم ذخیرہ اسی میوزیم میں ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں بدھا کے مجسمے، مختلف اشکال، مراقبے کی حالت، دربار کے مناظر، اسٹوپے، متبرک صندوقچے، زیورات، سنگھار دان، لکڑی کے بکس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔

نیچے کی مرکزی گیلری میں بُدھا کی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، ان کے معجزات، مراقبے کی حالتیں، عبادت کے طریقے موجود ہیں جو مختلف پتھروں پر کُندہ ہیں۔ یہاں گوتم بُدھا کا ایک مجسمہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا دریافت شُدہ مجسمہ ہے۔

یہ نوادرات خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں کی کھدائیوں سے یہاں لائے گئے ہیں جن میں سیری بہلول، تخت بھائی، جمال گڑھی، شاہ جی کی ڈھیرئی، آکون، غاز ڈھیرئی، بالا حصار، اتمانزئی، چارسدہ اور ہری پور شامل ہیں۔

اسلامی گیلری؛ پشاور میوزیم کی اسلامک گیلری بھی لوازمات کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں قدیم عربی و فارسی مخطوطات، لکڑی کے دروازے، ملتانی ٹائلیں اور برتن، سکھوں کے خلاف بالاکوٹ میں شہید ہونے والے سید احمد شہید کے کپڑے اور برتن، دھاتوں پر کندی آیتیں، خطاطی اور مغلیہ دور کی تصاویر شامل ہیں۔

ان میں سب سے اہم، 1244 کا خطِ غبر میں لکھا ہوا قرآن پاک ہے جو تین تین پاروں میں محفوظ ہے۔ قرآن کریم کے نایاب قلمی نسخوں کو محفوظ رکھنے کے لیے 2001 میں ایک نئی گیلری بنائی گئی جہاں 29 ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کریم کے نسخے اور 56 مخطوطات رکھے گئے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز گیارہویں صدی کا شاہنامہ فردوسی ہے جس میں کئی ایم مخطوطے محفوظ ہیں۔

سکہ جات کی گیلری؛ یہاں آپ کو ہند یونانی، کُشان، ہُن اور ہندو شاہی دور کے قدیم سِکے ملیں گے جو بیشتر کھدائیوں سے دریافت شُدہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہی غزنوی، غوری، تغلق، لودھی، مغلیہ، سِکھ اور برطانوی دور کے سِکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ گول، چوکور اور بیضوی سکے سونے، چاندی، تانبے اور کانسی سے بنائے گئے ہیں۔ یہاں کُل 8625 سکے موجود ہیں۔

ثقافتی و علاقائی گیلری؛ یہاں آپ کو پورے خیبر پختونخواہ اور کالاش قبائل کے کلچر کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا موقع ملے گا۔ کالاش یا کیلاش چترال میں افغانستان کی سرحد کے قریب موجود ایک قبیلہ ہے جن میں زیادہ تر کا کوئی مذہب نہیں۔ یہاں اس قبیلے کا خوب صورت لباس، تابوت، زیورات، برتن اور دیگر استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر پختون قبائل کے رسم ورواج کا احاطہ کرتی اشیاء مثلاً کپڑے، ہتھیار، زرہ، چمڑے اور کانسی کی اشیاء اور لکڑی کے اسٹول شامل ہیں۔ غرض یہاں آپ پختونخواہ کے کلچر کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔

17- ٹولنٹن مارکیٹ میوزیم؛

ٹولنٹن مارکیٹ ایک معروف اور تاریخی نام ہے، اس نام کے ساتھ جو تصور ابھرتا ہے، وہ ایک ایسی مارکیٹ کا ہے، جسے آج کے دور میں میں شاپنگ مال کہا جاتا ہے، لیکن یہ مارکیٹ کوئی عام مارکیٹ نہیں ہے۔

اسے قیام پاکستان سے قبل انگریز دور حکومت میں بنایا گیا تھا جہاں کتابوں سے لے کر بچوں کے کھلونے ادویات اور راشن سمیت ہر شے کی دکانیں تھیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ یہ عمارت خستہ ہوگئی۔ گرنے کے خدشے کے پیش نظر اسے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تاجروں نے احتجاج کیا۔ خاصے عرصے تک کشمکش ہوتی رہی، بالآخر جیل روڈ پر ایک نئی مارکیٹ تعمیر کر کے پرانی مارکیٹ کے تاجروں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ پرانی مارکیٹ کو میوزیم میں تبدیل کر کے اسے لاہور کی تاریخ کا مرکز بنا دیا گیا ہے جو اب ”لاہور سٹی ہیریٹیج میوزیم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سبز اور پیلے رنگ کی خوب صورت عمارت انارکلی کے قریب چوک کے کونے پر کھڑی ہے۔

لاہور شہر میں جتنے بھی میوزیم ہوں وہ کم ہیں۔ اس شہر کی تاریخ، اس کا ماضی اتنا وسیع ہے کہ سنبھالے سے بھی نہ سنبھل پائے۔ لاہور سٹی میوزیم اس تناظر میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس خوب صورت عمارت کے اندر واقع یہ عجائب گھر دیکھنے والوں کو لاہور کے شان دار ماضی میں لے جاتا ہے جہاں آپ لاہور پر حکم رانی کرنے والے مغل و سکھ بادشاہوں کے پورٹریٹس، ان کی استعمال شدہ تلواریں اور دیگر نادر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔

18- پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ؛

2006 میں قائم کیا جانے والا پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ میوزیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پشکلاوتی چارسدہ شہر کا قدیم نام تھا جو چھٹی سے پہلی قبلِ مسیح میں گندھارا سلطنت کا پہلا پایہ تخت تھا۔ پشکلاوتی کا لفظی مطلب ”کنول کے پھولوں کا شہر” ہے جب کہ یہ ایک دیوی کا نام بھی ہے۔ آج بھی چارسدہ شہر اور گردونوح میں کنول کے پھول جا بجا ملتے ہیں۔چارسدہ سے 4 کلومیٹر شمال میں واقع غنی ڈھیرئی، باچا خان کے بیٹے عبدل غنی خان کے نام پر رکھی گئی ہے جو ایک شاعر، فلاسفر اور آرٹسٹ تھے۔ 2001 میں خیبر پختونخواہ حکومت نے ان کے اعزاز میں یہاں ایک لائبریری اور مشاعرہ ہال قائم کیا اور اس کے بعد 2006 میں یہیں پُشکلاوتی میوزیم بنایا گیا جہاں گندھارا تہذیب کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔

19- سندھ میوزیم حیدرآباد؛

سندھ دھرتی قدرت کے ہزاروں راز اپنے اندر سموئے ہوئے ایک سحر انگیز خطہ ہے۔ اس کے مختلف رنگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن سندھ میوزیم حیدرآباد میں اس دھرتی کے چند رازوں کو کام یابی سے محفوظ کیا گیا ہے۔ 1971 میں بنائے جانے والے سندھ میوزیم میں بنیادی طور پر وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب اور سندھ دھرتی کے مختلف ادوار جن میں سامرا، کلہوڑا اور تالپور دور شامل ہیں، کو محفوظ کیا گیا ہے۔عجائب گھر کا مرکزی دروازہ کسی قلعے کے داخلی دروازے سے مشابہت رکھتا ہے جس پر نیلا ٹائل ورک کیا گیا ہے۔ عجائب گھر کی ایک منفرد چیز وہ گھر ہے جسے سندھی ثقافت و دست کاریوں سے مزین کیا گیا، جس میں آپ سندھ کی روزمرہ گھریلو زندگی، لوگ، ان کے پہناوے، کھانے اور دیگر اہم امور کو دیکھ سکتے ہیں۔

20- مردان میوزیم؛

مردان شہر میں واقع یہ میوزیم 1991 میں اس وقت کے کمشنر کی زیرسرپرستی ٹاؤن ہال میں بنایا گیا تھا جس میں 90 فن پاروں پر مشتمل ایک ہی گیلری تھی۔ پھر 2006 میں ضلعی حکومت مردان کے زمین فراہم کرنے کے بعد اس میں 3 گیلریوں کا اضافہ کیا گیا جس کا افتتاح 2009 میں اس وقت کے وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ نے کیا۔یہاں تین گیلریاں موجود ہیں جن میں گندھارا، اسلامی اور ثقافتی گیلریز شامل ہیں۔

گندھارا گیلری کے زیادہ تر لوازمات تخت بھائی، سیری بہلول اور جمال گڑھی سے دریافت شدہ ہیں۔ تخت بھائی ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں وسیع کھدائیوںکے بعد گندھارا سلطنت کی کئی قیمتی اور منفرد اشیاء اور مجسمے دریافت کیے گئے ہیں جن میں بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کندہ ان کی زندگی کے حالات، اسٹوپے اور زیورات شامل ہیں۔ مردان میوزیم گندھارا تہذیب کی حسین ترین باقیات کا امین ہے۔

اسلامی گیلری میں آٹھویں سے تیرہویں صدی کے مخطوطات، قرآن پاک کے قلمی نسخہ جات اور عربی و فارسی میں لکھی شاعری رکھی گئی ہے۔

آخری گیلری میں علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں روایتی زیورات، لکڑی کے اسٹول، ہتھیار، کام والے لباس، شالیں، موسیقی کے آلات جیسے رباب، ستار، طبلہ، بانسری اور ہارمونیم وغیرہ شامل ہیں۔

21- گوڑکھتری سٹی میوزیم پشاور؛

پشاور شہر کے پرانے حصے میں گھنٹہ گھر اور فوڈ اسٹریٹ کے ساتھ واقع یہ میوزیم، گوڑ کھتری کمپلیکس کا حصہ ہے جس میں سٹی میوزیم کے علاوہ تحصیل پارک، گورکھ ناتھ مندر، مسجد امام ابو حنیفہ، فائر بریگیڈ کی پرانی عمارت اور کچھ پرانے کھنڈرات واقع ہیں۔ ایک پرانی عمارت کی اوپری منزل پر واقع یہ میوزیم پشاور شہر کی تاریخ اور پختون ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف دھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں تجارت کے لیے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلاتِ موسیقی، مٹی کے ظروف اورکھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

22- عجائب گھر عمر کوٹ؛

صحرائے تھر کے خوب صورت شہر عمر کوٹ کا عجائب گھر قلعہ عمر کوٹ کے اندر واقع ہے جو 1968 میں قائم کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ پچاس سال پرانا میوزیم ہے۔ وقفے وقفے سے اس کو پھیلایا گیا اور 2006 میں اسے ایک نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا جو بنیادی طور پر تین گیلریوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اہلِ ذوق کی دل چسپی کی بہت سی چیزیں ہیں جن میں مغل دور کے سِکے، بندوقیں، تلواریں، تیر کمان، ڈھالیں، زرہ بکتر، قلمی نسخے، تصاویر، شاہی فرمان اور خطاطی کے شان دار نمونے شامل ہیں، جب کہ دیواروں تھرپارکر کی تصاویر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جب کہ سندھ کی ثقافت کو بھی ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔

23- پنجند میوزیم؛

پنجند پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع ہے جہاں راوی، بیاس، ستلج، جہلم اور چناب کا پانی آپس میں ملتا ہے۔ اس مقام پر ایک ہیڈ ورکس بنایا گیا ہے۔ انگریز دور میں تعمیر ہونے والا یہ ہیڈ ورکس ضلع مظفر گڑھ اور بہاولپور کے بیچ واقع ہے۔ علی پور شہر سے چند کلومیٹر پر واقع یہ ہیڈ ورکس اور یہ مقام، پچھلی ایک صدی سے بہاولپور، رحیم یار خان اور مظفر گڑھ سمیت پورے وسیب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

بلاشبہہ اس ہیڈورکس کی تعمیر بہت جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس لیے سکھر بیراج کی طرح اِس تاریخی اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیڈ ورکس کی تعمیرو تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں آب پاشی کے مختلف ذرائع اور تاریخ، پنجند ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے نایاب آلات، ہیڈورکس کی تعمیر کے دوران بنائی گئی یادگار تصاویر، ہیڈ ورکس اور اس سے نکالی جانے والی تمام نہروں کا ماڈل موجود ہے۔ مخدوش حالت میں موجود یہ میوزیم ہیڈورکس کے کنارے پر موجود ہے اور ہر خاص و عام کے لیے کُھلا ہے۔

24- اقبال منزل، سیالکوٹ؛

سیالکوٹ شہر کے دل میں واقع ”اقبال منزل” شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال کی جائے پیدائش ہے جہاں ان کی یاد میں ایک چھوٹا سا میوزیم بنایا گیا ہے۔

اقبال منزل حضرت علامہ کے پردادا محمد رفیق نے 1861 میں خریدی تھی۔ یہ ایک بہت چھوٹا سا گھر تھا جو آنے والے وقتوں میں بڑا ہوا چلا گیا۔ یہ گھر علامہ اقبال کو تَرکے میں ملا جہاں ان کے بیٹے جاوید اقبال کی پیدائش ہوئی۔

حکومتِ پاکستان نے 1971 میں یہاں مرمتی کام کروا کے اسے محکمہ آثارِقدیمہ کے حوالے کر دیا جس نے1977 میں یہاں اقبال سے متعلق ایک میوزیم قائم کردیا۔

یہاں مختلف کمروں میں علامہ اقبال اور ان کے خاندان کے زیرِاستعمال چیزیں مثلاً ان کا پلنگ، کرسی، میز، قلم دوات، پردے اور ان کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ علامہ محمد اقبال کی دوستوں، اساتذہ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہ نماؤں کے ساتھ یادگار و نایاب تصاویر بھی یہاں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں سے کئی ایک پر ان کے دست خط ثبت ہیں۔

کچھ کمرے مرمت و بحالی کی غرض سے بند کردیے گئے ہیں۔ نیچے بنائی گئی لائبریری میں تقریباً 4000 کتابیں موجود ہیں جن میں سے دو ہزار صرف اقبالیات پر ہیں اور یہ سب دیکھنے والوں کی طرف سے عطیہ کردہ ہیں۔

25- دیر میوزیم چکدرہ؛

دیر میوزیم جسے عام طور پر چکدرہ میوزیم بھی کہا جاتا ہے، ضلع لوئر دیر کے علاقے چکدرہ میں واقع ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے محکمہ آثارِقدیمہ نے 1969-1966 میں اس علاقے میں کھدائی کی کیں تو یہوں سے دریافت شدہ نوادرات کو محفوظ کرنے کے لیے اس وقت کی ریاستی حکومت نے ایک عجائب گھر تعمیر کروایا۔ یہ میوزیم وادی سوات اور چکدرہ کی کھدائیوں سے ملنے والی گندھارا تہذیب کا حسن لیے ہوئے ہے۔ اس کی بنیاد 1970 میں رکھی گئی جب کہ اس کا افتتاح 1979 میں کیا گیا۔

خوب صورت علاقائی طرزتعمیر کے عین مطابق بنایا گیا یہ میوزیم حکومتِ پختونخواہ کے انجنیئر سیدل خان نے ڈیزائن کیا تھا جس کی تعمیر میں اس علاقے کا مضبوط ”مالاکنڈی پتھر” استعمال کیا گیا۔ میوزیم کے عمارت کسی قلعے سے مشابہہ ہے جس کا سامنے کا رخ چوڑا رکھا گیا ہے اور داخلی دروازے پر ایک محراب بنائی گئی ہے۔ ریاستِ دیر کے پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد اس کا نظام صوبائی حکومت کو دے دیا گیا۔

چکدرہ میوزیم میں نوادرات کی کل تعداد 2161 ہے جس میں سے 1444 نوادرات گندھارا تہذیب کے ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات اندن ڈھیری، جبہ گئی، بمبولائی، رامورہ، تری بانڈہ، دمکوٹ، باجوڑ، تالاش، دیر، مالاکنڈ، جندول اور تیمرگرہ کی کھدائیوں سے لائے گئے ہیں۔ ان نوادرات میں گوتم بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کُھدی انکی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، بدھا کی مورتیوں کے سرشامل ہیں۔ ان کے علاوہ ثقافتی گیلری میں علاقائی برتن، لباس، زیور، ہتھیار، آلاتِ موسیقی اور فرنیچر شامل ہیں۔ اگر آپ سوات اور کالام کی سیر کو جائیں تو یہ میوزیم دیکھنا مت بھولیے گا۔

26- بھنبھور میوزیم؛

بھنبھور سندھ، میں واقع ایک قدیم شہر تھا جس کی تاریخ پہلی صدی قبل مسیح تک ہے۔

2004 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر حکومتِ پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پیش کیا۔

نیشنل ہائی وے پر کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف جائیں تو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان سسی کے شہر بھنبھور اور قاسم و داہر کے دیبل کے آثار ہیں، جس کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی واقع ہے۔

بھنبھور آثارِقدیمہ میوزیم سندھ کے جنوبی شہر بھنبھور میں واقع ہے جس کا قدیم نام دیبل تھا۔ یہ میوزیم بھنبھور کی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمۂ آثارِ قدیمہ حکومتِ پاکستان نے اگست 1960 میں قائم کیا۔ اس کا افتتاح 1967 میں کیا گیا۔

بھنبھور ایک انتہائی قدیم علاقہ ہے جہاں بہت سی پرانی آبادیوں کے آثار دریافت کیے گئے ہیں جو اب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ شہر 2100 سال سے بھی زیادہ قدیم ہے جو دسویں صدی میں وہاں کے راجہ بمبو کے نام پر تھا۔ زیادہ تر کتابوں، محققین اور تاریخ دانوں نے اسے ”دیبل” کے نام سے یاد کیا ہے جہاں سے محمد بن قاسم کے لشکر نے برصغیر کی دھرتی پہ قدم رکھا تھا اور اسے اسلام کے نور سے منور کیا تھا۔

کھدائیوں سے دریافت کی جانے والی مختلف اشیاء میوزیم کا حصہ ہیں جن میں مٹی کے برتن و نوادرات شامل ہیں۔

27- سوات میوزیم؛

خیبرپختونخواہ کی وادی سوات جتنی حسین و دلکش ہے اتنا ہی زرخیز یہاں کا تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ وادی گندھارا تہذیب کا گڑھ رہی ہے جس نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ اسی تہذیب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے منگورہ کا سوات میوزیم۔ کہتے ہیں کہ اس عجائب گھر کا مشورہ والی سوات کو ایک اطالوی مشن نے دیا تھا اور اس کا جڑواں میوزیم روم میں کھولا گیا تھا۔ سوات میوزیم کی موجودہ عمارت کو مختلف مراحل میں مکمل کیا گیا ہے۔ ماضی میں 2005 کے زلزلے نے اسے بہت نقصان پہنچایا اور پھر 2007 میں طالبان کے ساتھ جنگ میں اسے بند کر دیا گیا جب کہ اس کے نوادرات کو ٹیکسلا منتقل کر دیا گیا۔ اسی دوران اس کی عمارت کے قریب ایک بم دھماکے نے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ 2011 میں اس کے تمام نوادرات کو واپس لا کر اسے دوبارہ سے عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا۔

اس خوب صورت میوزیم کو اطالوی معماروں نے ڈیزائن کیا ہے۔ سوات کے عجائب گھر میں گندھارا سلطنت سے تعلق رکھنے والے بُدھا کے مجسمے اور دیگر متبرک اشیاء رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں منفرد قسم کا علاقائی سواتی فرنیچر، ملبوسات اور زیورات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

28- چغتائی آرٹ میوزیم، لاہور؛

لاہور شہر میں کلمہ چوک کے بالکل پاس واقع یہ میوزیم پاکستان کے مشہور پینٹر عبدالرحمان چغتائی (1975-1897) کی خوب صورت کلیکشن پر مبنی ہے۔ ”خان بہادر” کے لقب سے یاد کیے جانے والے چغتائی صاحب جنوبی ایشیا کے واحد جدید مسلمان مصور تھے جو تجدیدی اور کلاسیکل آرٹ میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ چغتائی صاحب کی مصوری میں ہمیں دو روایات کا ملاپ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ایرانی، ترک اور مغل مصوری ہے، دوسری طرف بنگالی مصوروں کی بنائی ہوئی وہ تصاویر ہیں جو جدید انڈین مصوری کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ان کی آرٹ میں مغلیہ دور کو ایک نئی جدت کے ساتھ پیش کیا گیا، جنہیں 1960 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہلالِ امتیاز اور 1968 میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ علامہ محمد اقبال، پِکاسو اور ملکہ الزبتھ دوئم بھی آپ کے چاہنے والوں میں سے تھے۔

آپ کی وفات کے بعد 1975 میں آپ کے نام سے یہ میوزیم بنایا گیا جہاں آپ کی پینٹنگز، پینسل سکیچ، مغلیہ آرٹ کے نادر شاہ کار اور نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ چوںکہ یہ میوزیم نجی تحویل میں ہے لہٰذا جانے سے پہلے وقت لے لیں تو مناسب ہو گا۔

29- سکھر بیراج میوزیم؛

تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ اپنے وقت کا ایک عظیم الشان منصوبہ تھا جس پر کثیر سرمایہ اور وقت لگا۔

بیراج کے بننے کے بعد، اہلِ ذوق نے سکھر بیراج کی تاریخ اور تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لیے بیراج کے بالکل پاس ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا گیا جو ”سکھر بیراج میوزیم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، بیراج کا ماڈل، اس سے نکالی جانے والی نہروں کی تفصیل، پرانی تصاویر اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بیراج کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مشینری جیسے کرین، کشتیاں، روڈ رولر وغیرہ بھی رکھی گئی ہیں۔

سب سے قابلِ ذکر چیز نئی بنائی جانے والی فوٹو گیلری ہے جہاں درجہ بدرجہ بیراج کی تعمیر دکھائی گئی ہے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.


موت کا جنگل

$
0
0

انسان زندگی میں مختلف کیفیات کا شکار رہتا ہے کچھ کیفیات اس کی زندگی کو حسین بنادیتی ہیں جبکہ بعض زندگی کے سارے رنگ چھین لیتی ہیں۔ مایوسی بھی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان تمام امیدیں ترک کردیتا ہے۔ معروف ڈرامہ نگار جارج برناڈ شاہ لکھتے ہیں کہ ’’جو کوئی امید نہ رکھے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوسکتا‘‘ یعنی امید کے بنا مایوسی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ برطانوی تاریخ نگار و پادری تھامس فیلٹر نے اس حوالے سے ایک مرتبہ کہا کہ ’’مایوسی ایک بزدل کو بھی بہادر بنا دینے کی قوت رکھتی ہے۔‘‘

اگر اس قول کی گہرائی میں جھانکا جائے تو درست انداز میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر صحیح بات کی گئی۔ مایوسی میں گھرا انسان کیسے اتنا بہادر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں گنوا دے۔ انسان کے اندر فطری طور پر زندگی سے محبت اور موت کے ڈر جیسے جذبات پائے جاتے ہیں مگر جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو وہ فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے یا یوں کہہ لینا چاہیے کہ جب انسان فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی تگ و دو کرنے لگتا ہے تو وہ مایوسیوں کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔

ایسے میں خودکشی کا رجحان بڑھنے لگتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہا ہو تو اندازہ کرلیجئے وہ ذہنی کسمپرسی کی کس سطح پر کھڑا ہوگا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) کے اعدادو شمار کے مطابق ہر سال تقریباً آٹھ سے دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے والے افراد زندگی سے بیزاری اور مایوسی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں، عزیزوں، زندگی کی رعنائیوں، لطافتوں اور دلکشیوں سے منہ موڑ لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لیے وہ جن جگہوں مثلاً جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں، پلوں اور اونچائیوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں پاتی۔ دنیا میں ایسے بہت سے حسین مقامات ہیں جو خودکشی کے لیے چنے جاتے ہیں۔ انہی بدنام زمانہ جان لیواء جگوںمیں سے ایک جاپان میں واقع مونٹ فوجی کے شمال مغربی جانب درختوں کا سمندر اوکی گھارا بھی ہے ،جسے موت کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔

جہاں خودکشی کا رجحان اس قدر زیادہ ہے کہ مقامی پولیس نے ایسے نشانات اور پیغامات لکھ چھوڑے ہیں کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکیں۔ گزشتہ 20 برس کے اعدادو شمار کے مطابق یہ جگہ خودکشی کرنے والوں کا مرکز رہی۔ سن 2003ء میں اوکی گھارا گزشتہ سو برس کی نسبت زائد جانیں لے گیا۔ جاپان کے قومی اخبار دا جاپان ٹائمز (The Japan Times) کے مطابق 2010ء میں دوسو سنتالیس 247 افراد نے خودکشی کی کوشش کی جس میں سے چون 54 افراد کامیاب رہے۔

یہ جنگل اس قدر گھنا ہے کہ ایک بار اس میں جانے والا شخص شاید ہی زندہ بچ کر واپس آسکے۔ مردہ وجود اس جنگل کو مزید گھنا بناتے ہیں۔ اس جنگل سے بہت سی کہانیوں کوجوڑا جاتا ہے جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

٭ خودکشی کی روایت

خودکشی جاپان کے اہم سماجی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس فعل کے پیچھے جہاں نفسیاتی وجوہات اور پیشہ وارانہ دباؤ کارفرما ہیں ونہی اس کی تاریخی روایات بھی ہیں۔ صدیوں پہلے جاپان میں جاگیرداری نظام سے تنگ آکر باعزت انداز میں مرنے کے لیے خودکشی کا ایک خاص طریقہ استعمال کیا جاتا جسے مقامی زبان میں ’’سی پاکو‘‘ (Seppuku) کہا جاتا۔ اس طریقہ سے خودکشی کرنے والے اپنے پیٹ میں چاقو یا تلوار مارا کرتے جس سے ان کی آنتیں باہر نکل آتیں۔ گوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت ویسی نہ رہی مگر آج اس کی مختلف اشکال خودکشی کرنے والوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کا وساقی میں شعبہ سائیکاٹری کے ڈائریکٹر، کتاب ”Why do People Commit Suicide کے مصنف مذکورہ بالا خیالات کے حامی ہیں۔ان کے مطابق آج بھی لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے ایسے طریقوْں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

٭ قبیح روایت کا امین ناول

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے کا ادبی ذوق وہاں کے باسیوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ نئے نئے خیالات کو ترویج دینے کا سبب بنتے ہیں۔ جاپان کی تاریخ میں خودکشی کی روایت صدیوں سے موجود تھی۔ سن 1960ء میں ایک المناک ناول اس قبیح روایت کی ترویج کا ذریعہ بنا۔ کورئے جوکاٹے ”Kuroi Jukai” نامی ناول میں مرکزی کردار( لڑکی) محبت میں ناکامی کے بعد درختوں کے سمندر میں جاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہے۔ اس رومان پرور کہانی نے جاپانی ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے اور آوکی گھارا کو خودکشی کے لیے بہترین مقام کا درجہ دیا۔ اس خودکشی کی کتاب کے مسودے مرنے والوں کے سامان میں سے اکثر ملے۔ لوگ اس ناول کو ایک آئیڈیل کہانی تسلیم کرتے ہوئے زندگی کی تلخیوں سے نجات کا اہم ذریعہ خودکشی کوہی سمجھتے ہیں۔

٭ جنگل سے جڑی داستانیں

درختوں کے سمندر پر مشتمل یہ جنگل روز اول سے ہی اپنے ساتھ کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ پرانے وقتوں میں اس جنگل سے جڑی ایک دیو مالائی داستان سے یہ روایت منسوب ہے جسے ’’ایبسوٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پرانے وقتوں میں دوران قحط بوڑھے اور بزرگ افراد کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ بھوک، پیاس یا وہاں کے ماحول میں رہنے کے باعث مرجائیں۔ گوکہ یہ ایک انتہائی سفاکانہ طرز عمل تھا مگر بہرحال اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں شواہد موجود نہیں۔ اوکی گھارا کے حوالے سے ایک اور بات بھی مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اس جنگل میں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں وہاں ایبسوٹ اور بین کرتی بدروحوں کا بسیرا ہے جو جنگل میں بھٹک کر مرگئے۔ لوک داستانوں کے مطابق اوکی گھارا میں بھٹکتی روحیں وحشت ناک ہیں اور وہاں جانے والوں کو بھٹکا دیتی ہیں تاکہ وہ کبھی واپس نہ جاسکیں۔

٭ تلاش اور سدباب

سن 1970ء سے جاپانی لوگوں نے رضاکارانہ طور پر تلاش کاایک سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد ایسے افراد کی مدد کرنا تھا جو گھومنے پھرنے کے لیے جنگل میں داخل ہوتے ہیں مگر راستہ بھٹک جانے کے باعث زندہ واپس نہیں لوٹ پاتے۔ گوکہ رضا کار انہیں زندہ نہ بچاسکیں مگر ان کی باقیات کو وہاں سے نکالنا اور مقامی پولیس کے تعاون سے ان کی نعشوں کو سپرد خاک کرنا بھی ان کے مشن کا حصہ رہا۔

جیسے کہ اوکی گھارا میں کیمپنگ کی اجازت ہے مگر یہ کیمپنگ مخصوص دنوں کے لیے کی جاتی ہے اور حفاظتی اقدامات کرنے والا عملہ ان افراد سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں تاکہ کیمپنگ کے لیے آئے افراد باحفاظت گھروں کو لوٹ سکیں۔ خودکشی کے اس رجحان کو کم کرنے کے لیے جاپانی حکومت نے ایک سات سالہ منصوبے کا آغاز کیا جس کا مقصد کم از کم خودکشی کی شرح میں 20 فیصد کمی کرنا تھا۔ اس ضمن میں جو عملی اقدامات اٹھائے گئے ان میں جنگل کے داخلی مقامات پر سکیورٹی کیمرہ نصب کرنا شامل تھا۔ جس سے زیادہ سے زیادہ افراد کو بچانے کے لیے مدد مل سکتی۔ پھر ایسے کونسلرز اور پولیس کا بھی اہتمام کیا گیا جو لوگوں کو مایوسی کی دلدل سے نکلنے میں مدد دیں۔ خصوصاً ایسی پوسٹ اور ایسے بورڈز نصب کیے گئے جو مثبت طرز فکر کی ترویج دیں۔

جنگل میں مختلف جگہوں پر رسیوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے جس کی مدد سے اگر کوئی وہاں جاکر خودکشی کا ارادہ بدل لیتا ہے تو واپس آسکے۔ ایسے مثبت جملے وہاں لکھے ملتے ہیں جو زندگی کی طرف لائیں جیسے ’’اپنے بچوں اور خاندان کے بارے میں زیادہ سوچیں ’’آپ کی زندگی آپ کے والدین کا اثاثہ ہے‘‘ اس جنگل کی ایک اور خوفناک بات یہ بھی ہے کہ وہاں جاکر زمین میں میگنیٹک آئرن وہاں کسی بھی قسم کے رابطوں میں خلیج بن جاتی ہے کیونکہ وہاں کوئی جی پی ایس سسٹم، موبائل نیٹ ورک یہاں تک کہ کمپاس بھی کام نہیں کرتا۔ جس کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایسا وہاں موجود بدروحوں اور آسیب کی وجہ سے ہوتا ہے۔

خودکشی کا اہم محرک زندگی سے نا اُمیدی ہے: ڈاکٹر طاہر

سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز سے جب رابطہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا کہ نفسیات کی رو سے خودکشی کیسا عمل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’دراصل ہمارے ہاں کچھ ایسی نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے امکانات زیادہ ملتے ہیں۔ جیسے ڈپریشن‘ شرو فرینیا اور ایسی دیگر نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں اور پھر شدت اختیار کر جاتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر ا ثر خودکشی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما جذباتی ہوتے ہیں جو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔

تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ اس میں دو ہی چیزیں کار فرما ہوتی ہیںجو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت کے مسائل ہوتے ہیں یا پھر معاشرتی مسائل۔ ہمارے ہاں نفسیات کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ خودکشی کرنے والوںمیں 70 فیصد ڈپریشن ‘ دس سے پندرہ فیصد شزوفرینیا کے مریض پانچ سے دس فیصد منشیات و شراب نوشی کے عادی جبکہ بقیہ سماجی وجوہات کی بنا پر ایسا کرتے ہیں ۔

عام طور پر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات آتے ہیں جب وہ ہوپ لیس ہو جاتا ہے تو زندگی میں امید اور ناامیدی کے درمیان کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جب آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے تو اس کی سوچوں کا ایک ہی پیمانہ اور انداز ہو جاتا ہے۔ وہ ناامید ہو جاتا ہے اور کہیں سے کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ حالات کے سنورنے کی امید کھو دیتا ہے۔

اگر کسی شخص کے بارے میں ہم منفی ہی سوچتے رہیں تو اس سے د وستی تو ناممکن ہے تو ایسا شخص جو زندگی کے بارے میں مسلسل منفی خیالات کا شکار رہے اور سوچے کے مستقبل کے اچھا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ۔ جو مذہبی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں وہ دعا پر یقین کرتے ہیں لیکن جو ا یسا رجحان نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہو گا کوئی فائدہ نہیں زندہ رہنے کا۔ یہ سوچ ان پہ اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ پلان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے وہ اس پر عمل کر لیتے ہیں‘ کچھ بچ جاتے ہیں کچھ انہی کوششوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر طاہر کا مذہب اور خودکشی کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’’اس میں دو چیزیں ہیں اگر کوئی انسان بیماری کا شکار ہے اور اسے ایسی سوچیں آتی ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ وہ بیماری کے زیر اثر ہے ۔ ایسے میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہے۔

لیکن جو عام جبلت کے رویے ہیں اس میں مذہب کا بڑا کردار ہے کہ ایک آدمی سوچتا ہے یہ عمل مخلوط ہے ‘ حرام ہے‘ مجھے اس کی سزا ملے گی تو وہ خود کو روکنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن بیماری کے زیر اثر شخص بے اختیار ہوتا ہے۔ لیکن جیسے نمبر کم آ جائیں‘ کوئی نقصان ہو جائے تو انسان یہ سوچے کہ اللہ مدد کرے گا‘ کوئی بات نہیں دنیا مختصر ہے تو ایسے میں سوچ کا یہ پیمانہ جو مذہبی ہے اسے روکنے کا باعث بنے گا۔ عموماً نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے جیسے پندرہ سے 25برس ا مڈل ایج کے دوران بھی ایسے امکانات زیادہ ہوتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ایسی علامات ہوتی ہیں کہ آدمی اگر دو ہفتوں تک مسلسل ادس رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ڈپریشن کی طرف جانا شروع ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھار ہم میں سے سب لوگ چاہتے کتنے بھی پرامید کیوں نہ ہوں اس فیز سے گزرتے ہیں جو کہ تھوڑی دیر کے لئے اداس ہونا ایک فطری سی بات ہے لیکن مسلسل دو ہفتوں تک اداسی‘ بے چینی‘ مایوسی اور پریشانی رہے‘ کھانا‘ پینا‘ سونا ہر چیز سے بیزاری ہو تو اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہئے۔ اگر توپرسنالٹی میں مسئلہ ہو تو وہ تھراپی سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اگر بیماری ہو تو اس کے لئے دوا بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘

The post موت کا جنگل appeared first on ایکسپریس اردو.

گھر میں بیٹھ کے نصاب کے ’عملی کام‘ کرنا دشوار ہے!

$
0
0

کورونا کے بعد دنیا ایک نئے انداز سے چلنے لگی۔ دفاتر، اسکول، جامعات، اور بازار حتیٰ کہ تمام چھوٹے بڑے ضروری اور غیر ضروری کام، جو کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک جگہ ٹھیر سے گئے تھے، آہستہ آہستہ معمولات پر آنا شروع ہوگئے ہیں، مگر ایک نئے انداز کے ساتھ۔۔۔ یہ تمام تر سرگرمیاں معمولات پر آنا تو شروع ہو گئیں، مگر ایک نئے انداز سے۔ جتنا ممکن ہوسکتا ہے یہ سرگرمیاں ’آن لائن‘ کر دی گئیں۔ جو کام ناممکن معلوم ہوتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے ممکن بنا دیے گئے۔ اور لوگوں کو اس بات پر قائل کر دیا گیا کہ وہ اس لاک ڈاؤن کو چھٹیاں یا تعطیلات سمجھ کر گھر میں بیٹھے وقت کا ضیاع کرنے کے بہ جائے اپنے اپنے گھروں سے ہی اپنے معمولات  دوبارہ سے کرنا شروع کر دیں۔

جیسے ہی دنیا کے تمام لوگ اس نئی طرزِ زندگی کے تحت اپنے کام سدھارنا شروع کر چکے تھے، اس ہی طرح ہماری جامعہ نے بھی کلاسیں آن لائن منتقل کرنے کا طریقہ کار وضع کر دیا۔ یوں ’کورونا‘ کے ساتھ ساتھ ہماری ’آن لائن‘ کلاسوں کا سفر جاری بھی و ساری ہو گیا۔ شروع میں تو غیر ذمہ دار شہری کی طرح ہم نے اپنی یونیورسٹی کے احکامات کو ہوا میں اچھال دیا، لیکن ایک دم احساس ہوا کہ یہ ’آن لائن‘ کلاسیں معمول کے مطابق روز لی جا رہی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان میں کلاس میں حاضری اور کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔

چوں کہ میرا معمول لاک ڈاؤن کی وجہ سے مکمل طور پر بگڑ چکا تھا، یہی وجہ تھی کہ میری شروع کی دو تین کلاسیں چُھوٹ گئیں اور مجھے کافی افسوس ہوا ان آن لائن کلاسوں کے چُھٹ جانے کا۔ اس غیر ذمہ داری کا احساس ہوتے ہی میں نے اپنے معمولاتِ زندگی کو بہتر بنانے کی ٹھانی۔ اگلے ہی دن میں صبح صبح اٹھی اور میں نے پرانی کلاسوں میں کرایا جانے والا کام مکمل کیا اور دوسری کلاسیں بھی پابندی سے لینا شروع کر دیں۔ یوں تو اچانک بگڑا ہوا روٹین سدھارنا بے حد مشکل لگا، مگر کچھ کوششوں سے یہ بھی ممکن ہو گیا۔

آن لائن کلاسیں تمام طالب علموں کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ چناں چہ سب ہی کو کوئی نہ کوئی پریشانی یا ہچکچاہٹ سی تھی۔ سب سے زیادہ جھجھک تو اس بات کی تھی کہ کہیں اساتذہ ہمیں ویڈیو کیمرا کھولنے کا حکم نہ دے دیں، لہٰذا ایک دو کلاسوں میں ہم قدرے صاف ستھرے اور تیار ہو کر بیٹھا کرتے تھے، جب اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ کیمرا نہیں کھولنا، تب ہماری آسانی کے دن شروع ہوئے۔ آن لائن کلاسیں، ویسے تو اس مناسبت سے اچھی بھی معلوم ہوتی ہیں کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی ہم کلاسیں لے سکتے ہیں، آنے جانے کی زحمت سے آزاد رہتے ہیں۔

ورنہ آنے جانے کی خاطر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے اٹھ کر تیار ہونا پڑتا تھا۔ وقت خرچ ہونے کے اعتبار سے اگر اس بات کو دیکھا جائے، تو یہ کلاسیں لینے کا ایکا خاصا مثبت طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت کے ضایع نہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے کافی کارآمد سرگرمیوں میں صرف کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں اس اضافی وقت میں گھر والوں کا کافی ہاتھ بٹا تی تھی اور اپنے اہل خانہ کو کافی وقت بھی دے پاتی تھی۔ اس سے پہلے مجھے یہ احساس نہیں ہو پایا تھا کہ ہم عام زندگی کے معمولات میں اپنے بڑوں اور بزرگوں کو اپنی زندگی میں سے کتنا کم وقت دے پاتے ہیں، جب کہ ہمارے دوستوں سے زیادہ وہی ہمارے وقت کے طلب گار اور اصل حق دار بھی ہوتے ہیں۔

یہ تو ان آن لائن کلاسوں کا مثبت پہلو تھا۔ اگر ہم منفی پہلوؤں کو دیکھیں اور انہیں تولا جائے، تو مثبت پہلوؤں کے مقابلے میں ان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ روز کا طلبہ و طالبات کی آپس میں بات چیت اور میل ملاپ اور پھر کلاسوں میں حاضری اور براہ راست اسائمنٹ پیش کرنا، ساتھ ہی دورانِ کلا اساتذہ کے سوالات کا بروقت جواب دینا، یہ سب آن لائن کلاسوں میں ناممکن نہیں تو خاصا دشوار معلوم ہوا۔

ہمارے کورس میں کچھ پریکٹیکل کام بھی شامل تھا، لیکن پھر اس میں رد و بدل کرنا پڑا اور ہمارے ’عملی کام‘ والے اسائمنٹ تحریری مشقوں میں تبدیل ہوگئے۔ اس بات کا یوں تو کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، لیکن دیکھا جائے تو اس بات کا نقصان ہمیں اس صورت میں ہوا کہ جو چیزیں ہم ’عملی کام‘ سے سیکھ پاتے، ان کو کسی دوسرے طریقے سے سیکھنے اور سمجھنے میں کافی کسر باقی رہ گئی۔ مجھے اس بات کا کافی افسوس ہے۔

تیسرا نقصان یہ ہے کہ بہت سے اساتذہ اس وبا کی پیشِ نظر ملنے والی چھٹیوں میں طالب علموں کو یہ سوچ کر زیادہ کام دیا کرتے تھے کہ اب وہ بالکل فارغ ہیں اور گھر میں محض وقت ضایع کر رہے ہیں، جب کہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔

اساتذہ کو یہ بات بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے تھی کہ چوں کہ اب تمام افراد گھروں میں ہی محدود ہو کر رہ رہے ہیں اور گھر کے کاموں میں مددگار ملازم وغیرہ بھی موجود نہیں، اس لیے گھر کا کام بڑھ چکا ہے اور سارا سارا دن کلاسوں اور اسائمنٹ کرنے کی صورت میں کمرے میں بیٹھے رہنا طالب علموں کے لیے کافی مشکل کا باعث بنتا ہے۔ اساتذہ کو ان باتوں کا اور اپنے طالب علموں کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ گھڑی مشکل وقت کی ہے اور اس میں ہم سب کا فرض بنتا ہے کے ہم سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ان تمام تر مسائل جن میں انٹرنیٹ اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل شامل ہیں، ان سب کے با وجود اللہ کا شکر ہے کہ وبا کے دوران ہمارا سیمسٹر خیر خیریت سے اختتام کو پہنچ گیا۔

The post گھر میں بیٹھ کے نصاب کے ’عملی کام‘ کرنا دشوار ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

’آن لائن‘ کلاسیں: طلبا کی بڑی تعداد کی محرومی کا خدشہ ہے

$
0
0

کورونا نے جہاں دنیا بھر کے معمولات کو روک لگا کے رکھ دیا ہے، وہاں تعلیمی ماحول کوبھی بالکل بدل دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روزانہ حاضری، کلاس روم،  اساتذہ کے روبرو لیکچر کے بہ جائے اب معاملہ ’اسکرین‘ کا محتاج ہو گیا ہے۔۔۔ ’کورونا‘ کے سبب چوں کہ فروری سے ہمارے تعلیمی اداروں میں معمول کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، چناں چہ  اب اس خسارے کو ’آن لائن‘ ذریعہ تعلیم سے پاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔

ابتداً یہ سلسلہ نجی یونیورسٹیوں سے شروع ہوا، اور اب اسکولوں میں بھی اس حوالے سے عمل درآمد ہونے لگا ہے۔ ’آن لائن‘ اسباق کی مدد سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں نے تعلیمی کیلینڈر کو آگے بڑھانے کے لیے کورونا لاک ڈاؤن کو شکست دی ہے، لیکن اس رجحان نے تعلیمی ماہرین میں بہت سارے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان میں ’یونیسکو‘ اور ’یونیسیف‘ کے افراد بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے چھوٹے بچوں کے لیے انٹرنیٹ کی نمائش کے امکانی خطرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی ظاہر کی ہے۔

ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ خوف زدہ ہیں کہ ڈیجیٹل شفٹ معاشی طور پر پس ماندہ طلبا کو الگ کر سکتا ہے۔ جنھیں ڈیجیٹل اسباق کی ضرورت ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کے اسکول بند ہیں۔ جس کی وجہ سے 120 کروڑ سے زائد بچے کلاس روم سے باہر ہیں۔ اس وجہ سے ای لرننگ (E-LEARNING) کے مخصوص عروج کے ساتھ، تعلیم ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ جس کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر تعلیم دی جا رہی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آن لائن سیکھنے میں معلومات کی برقراری کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔

15اپریل 2020ء کو اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف (UNICEF) نے کہا ہے کہ کورونامیں لاک ڈاؤن کے دوران ان کی زندگیوں میں تیزی سے آن لائن تعلیم کے اضافے کے باعث لاکھوں بچوں کو نقصان کا خطرہ لاحق ہے ۔کورونا کی وجہ سے بچوں کی زندگی صرف اپنے گھروں اور اسکرینوں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔

یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریٹافور (HENREITTA FORE) نے کہا کہ ہمیں بچوں کو اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ 21 اپریل 2020ء کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو (UNESCO) نے اپنی جاری کی گئی ایک رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نصاب سیکھنے والوں کی تعداد میں سے نصف  طلبا کورونا جیسی وبا کی وجہ سے تعلیم سے دور ہیں۔ جنھیں گھروں میں سہولت میسر نہیں اور 43 فی صد طلبا ایسے ہیں، جن کے گھروں میں انٹرنیٹ موجود نہیں ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ڈیجیٹل بنیاد فاصلاتی تعلیم کا استعمال بہت سے ممالک میں تعلیمی تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘

’آن لائن‘ کلاس سے مراد ایسی کلاس ہے، جس میں طلبا کسی بھی ’کمیونیکیشن سافٹ ویئر‘ کے ذریعے اپنے اساتذہ سے منسلک ہوتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل سر انجام پاتا ہے۔ ’آن لائن‘ کلاسوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ’ای لرننگ‘ سے نا آشنائی ہے۔ تعلیمی اداروں نے ’ای لرننگ‘ ای باکس (یا ٹیسکٹ باکس)،  ای ریڈر،  ای سکولنگ،  اور موبائل لرننگ پر کوئی توجہ نہیں دی، کیوں کہ ہمارا واسطہ اس سے پہلے کبھی کسی وبا سے نہیں پڑا تھا ۔ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح تعلیم کے دروازے اساتذہ اورطلبا کے لیے بند ہو جائیں گے۔

آن لائن کلاسوں میں سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہے ، جو لگاتار چھے سے سات گھنٹے آن لائن کلاسوں کے لیے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، یا موبائل کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی ان ’آن لائن‘ کلاسوں سے بے حد پریشان ہیں۔ اکثروالدین کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی ’آن لائن‘ کلاسوں کا طریقہ کار سمجھ میں نہیں آتا، تو ہم اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے پڑھائیں گے۔

اس طرح گھنٹوں کے حساب سے ’لیپ ٹاپ‘ کے سامنے بیٹھ کر ہمارے بچوں کی آنکھوں پر بھی برا  اثر پڑ رہا ہے۔ ان میں سر میں درد اور کمر میں درد وغیرہ کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور اب حالیہ دنوں میں شروع ہونے والا بجلی کی عدم دست یابی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ حکومت اور اسکولوں کو مل کے ایسی پالیسی بنانی چاہیے، جس سے بچوں کی تعلیم کا ہرج نہ ہو اور بچے احتیاطی تدابیر کے تحت باقاعدہ اسکول جا کے ہی اپنی تعلیم مکملکر سکیں۔

The post ’آن لائن‘ کلاسیں: طلبا کی بڑی تعداد کی محرومی کا خدشہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

رات بکھر رہی ہے۔۔۔!

$
0
0

موت و زیست کی کشمکش سے صحت یاب فرد کا اگر چند دنوں بعد انتقال ہو جائے، تو یہ موت  بہت گہرے سوالات چھوڑ کر جا رہی ہے۔ بے تحاشا دوائیں یہاں آزمائی گئیں۔ دوائیں جو  محفوظ نہ تھیں، ان کا بازار میں  چرچا ہوا، وہ وافر مقدار میں اندھا دھند دی گئیں۔ نتائج ناپنے کی اب اخلاقی جرأت ہے، نہ حوصلہ ہے اور نہ ہی اہلیت۔ خوش قسمتی سے  سفاک تاریخ اور جدید دور کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔  سب کچھ عیاں کر دے گا۔ کتنے ’کووِیڈ‘ کا شکار ہوئے۔ کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی جہالت سے موت  سے ہم کنار ہوئے اور کتنی بے بس و لاچار ہو کر مارے گئے۔

بس چند دنوں کی بات ہے۔ لاتعداد پیغام ہوں گے۔ سینکڑوں اسباق ہوں گے۔ دوسری طرف قدرت توازن قائم رکھتی ہے۔ وائرس ہو، بیکٹیریا ہو، جانور ہو یا انسان۔۔۔ بد لتے وقت کے ساتھ کائنات کی ہر چیز رونما ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات کو سموتی ہے اور دوسری طرف تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے واضح نشانیاں چھوڑ دیتی ہے۔ ہر عہد گویا اپنے وقت میں قید ہوتا ہے اور گزرتے موسم کے ساتھ ساتھ ساتھ قد نکالتا ہے یا زمین میں دھنستا ہے۔

وائرس کے اندر تبدیلیاں یا تو اسے مہلک سے مہلک تر بناتی ہیں یا مہلک سے بے ضرر۔ ساکت رہنے کی تمنا اس کی بے بسی ہے۔ ویسے بھی جو وائرس زیادہ مہلک ہوں، ان میں پھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور جن میں پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہو ان میں نقصان پہنچانے کی کم ہوتی ہے۔ سادہ سا اصول ہے مرض میں مبتلا انسان اگر وائرس کے زیر اثر آ جائے تو بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے محدود ہوجاتا ہے چلنے  پھرنے میں صحت مند افراد کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کی محدود سرگرمیاں وائرس کو پھیلنے کے مواقع کم کر دیتی ہیں۔

جب کہ صحت مند افراد اگر کھانستے نہ ہوں تو وائرس کے پھیلنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ وائرس کو باہر آنے کے لیے  متاثرہ افراد کا چھینکنا، کھانسنا یا بولنا ضروری ہے۔۔۔ تنفسی نظام کے وائرس اس انسانی جلد بال یا ناخن سے نہیں جھڑتے۔ اعدادوشمار واضح طور پر نشاندہی کررہے ہیں کہ کوویڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، جب کہ اس کے زہر کی حدود اپنے محدود دائرے کے خاکے کو تقریبا ابھار چکی ہے۔ طبی دنیا اس بات سے واقف ہے کہ انسان وائرس سے نہیں، بلکہ وائرس کے نتیجے میں انسانی جسم کے دفاعی نظام کے جارحانہ بے قابو اور بے ہنگم پھیلے ہوئے رد عمل کی وجہ سے نقصان دوچار ہوتا ہے۔

کچھ مضبوط اشارے انسانی عقل و دانش کی توجہ تحقیق کی طرف مرکوز کرتے ہیں، تاکہ کسی متوقع جینیاتی عوامل کے کردار کو پڑھا اور سمجھا جا سکے، جو وائرس کے پھیلاؤ، بیماری کی شدت کے ساتھ ساتھ رنگ و نسل اور جغرافیے کی بنیاد پر امتیاز کو آشکار کر سکے۔ یہ تعجب خیز نہیں کہ صحت عامہ کی سہولتیں کم یا پہنچ سے باہر ہوں، تو اپنا گہرا اور بد ترین اثر چھوڑتی ہیں۔

کووِیڈ کے مختلف وائرس انسانوں کے ’مہمان‘ ہوتے ہیں اور میزبان فرد کے اندر اپنے ’خاندان‘ کے مخصوص وائرس کو پہچاننا ابھی تک عملاً  خاطرخواہ بے یقینی رکھتا ہے۔ لیبارٹری نتائج میں سچے اور جھوٹے مثبت اور سچے اور جھوٹے منفی نتائج کی جانچ پڑتال متعدد  بار اس کی حساسیت، انفرادیت، تکرار اور درستگی کے لیے کی جاتی ہے، تب جاکر  ٹیسٹ قابل بھروسا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بہت بڑا حصہ اندازے کی بنیاد پر قائم ہے اور سائنسی اعدادوشمار اس پر یقین دہانی کی وہ چھتری فراہم نہیں کر رہے، جو کسی ٹیسٹنگ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

وائرس میں تغیرات یا جینیاتی تبدیلی پر جاری بحث در اصل ارتقائی نظریات کی پیچیدگیوں  کو درستگی سے بیان کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ ذرایع اِبلاغ پر سائنسی تبصروں سے امڈتا ہوا سیلاب گمراہ کن اور غیر ضروری خوف پھیلانے کی وجہ بن رہا ہے۔ جس طرح قیامت کبیرہ کا نقشہ کھینچا جارہا ہے، وہ بچوں کی کتاب میں لکھے گئے کھیل سے زیادہ قریب اور انسانی پختہ شعور سے دور نظر آتا ہے۔ سمجھنے کے لیے  یاد دہانی کیجیے۔ تاریخ کے اوراق چند برس پہلے بالکل اسی طرح  ’زیکا وائرس‘ کے تغییرات کو ہول ناک مستقبل سے تشبیہ دے رہے تھے۔

چوہوں اور تجربہ گاہوں کے نتائج پر پھیلائے گئے خوف کو توڑنے میں ایک سال کا عرصہ لگ گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تصورات کو نئی شکل دیں۔ وائرس کے اندر جینیاتی تبدیلی نہ اجنبی ہے اور نہ تباہ کن بلکہ ہماری سمجھ اور دانش مندی کی توجہ ابھرتے ہوئے حقائق کی طرف مبذول کر رہی ہے، جو کہ بلا  کسی شک کے انسان کو وائرس پر حاوی ہوتا دیکھ رہی ہے۔ غیر محتاط تبصرے نہ صرف سائنسی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ عام انسان میں افسردگی پھیلانے کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ سائنس میں ’افسانہ نگاری‘ لطف نہیں، بلکہ کراہیت کا باعث ہوتی ہے۔۔۔!

پوری دنیا میں نئی صبح کا بے تاب سورج دھیرے دھیرے افق پر ابھر رہا ہے۔ خالی سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ بازار ہو یا کھیل کا میدان زندگی کی رونق لوٹ رہی ہے۔ دل بوجھل ضرور مگر امنگ بند ہونٹوں کے ساتھ سوال کر رہے ہیں کہ ’سماجی فاصلے‘ کی ’عمر‘ کیا ہوگی۔۔۔؟ میری خوشیوں، میری صحت کے تحفظ پر اس کا ڈاکا کتنا شدید ہوگا۔ آنے والے کل کی آزمائش کیا کیا زخم دے گی۔۔۔؟ جینے کی خاطر میں کتنی بار مروں گا۔۔۔؟ کروٹیں لیتا ہوا یہ انسانی صحت کا بحران پاکستان میں وحشت کی نشانی بن چکا ہے۔۔۔؟ لوگ پیاروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔۔۔؟

پیارے اپنے پیاروں کی جمع پونجی پر اپنی صحت خاموش سے قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اسپتال سے گزریے تو معذرت کے ساتھ وہ کسی مقتل کا منظر پیش کرتا ہے۔۔۔ اعتماد چکنا چور ہے۔۔۔ انتشار نمو پا رہا ہے۔۔۔ صرف حکومت ہی نہیں احساس بھی منجمد ہے۔۔۔ ’سماجی فاصلے‘ کے نظریے کس کروٹ لینے والے ہیں، وہ تاریخ کا سب سے ہول ناک انجام ہوگا۔ موت کے بیوپار میں یا صحت کے بازار میں کشش کے ساتھ قوت بھی بڑھ رہی ہے۔ سرور ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ ادھر خمار ہے ہے کہ بیدار نہیں ہوتا۔ آج اگر درد کی حدود طے کر دی گئی، جینے کی قیمت طے کر دی گئی، تو  کووِیڈ 19 صرف ایک چنگاری ثابت ہوگا۔

عزیزو! عالم گیر وبا  کے خون آلود بحران میں کیا ہم نے سیکھ لیا کہ انتظامی، سیاسی اور سائنسی راہ نما کیسے عوام کے لیے حصارِ تحفظ بناتے ہیں، مختلف موضوعات کی جداگانی اور ان کے مابین عدم یک سانیت آپس میں کیسے بحث و مباحثہ کر کے فیصلے تک پہنچتے ہیں۔ وقت بھی کم ہے، انصاف، برابری، آزادی اظہار رائے، بحث و مباحثہ، بازاری حدود کا تعین، سماجی و معاشرتی ترقی کے لیے تباہی سے فرار کا آخری راستہ ہے۔ اللہ حامی و ناصر ہو۔

The post رات بکھر رہی ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم کہاں اور کتنا غلط ہیں۔۔۔ ’کورونا‘ ہمیں سب بتا رہا ہے۔۔۔!

$
0
0

ڈراما ’اندھیرا اجالا‘ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کا کام یاب ترین سیریل تھا، جس میں ہر ایک کردار گویا امر ہوگیا۔ قوی خان اس ڈرامے میں ایک اعلیٰ اور دبنگ پولیس افسر کے کردار میں نظر آتے ہیں، جب کہ ان کے ماتحت کا کردار معروف اداکار جمیل فخری نے ادا کیا۔ سب انسپکٹر کے روپ میں عابد بٹ تھے، جب کہ سب سے مقبول ہونے والا کردار ’’حوالدار‘‘ عرفان کھوسٹ نے اس خوبی سے نبھایا کہ اس کردار پر فلمیں بھی بنیں۔ ڈرامے میں حوالدار عرفان کھوسٹ کے بھی ماتحت دو کانسٹیبل ہوا کرتے تھے۔

’اندھیرا اجالا‘ کے مصنف یونس جاوید نے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کے ایک عمومی رویے کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ایک بڑا عہدے دار اور طاقت وَر کس طرح کسی بھی ناکامی کا ملبہ اپنے ماتحت پر ڈال کر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور خود کو بڑے طمطراق سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے، دوسری طرف بے چارہ کمزور آہ بھی نہیں کرپاتا۔

’اندھیرا اجالا‘ کی ہر قسط میں ایک نئی کہانی ہوتی تھی، پولیس کے کردار پوری سیریل میں ایک ہی رہے، البتہ ہر قسط میں کہانی کی مناسبت سے نئے کردار اْس قسط کا حصہ بنتے، لیکن ایک ’منظر‘ بار بار دُہرایا جاتا کہ کسی کیس کو حل کرنے میں ناکامی پر پولیس افسر قوی خان اپنے ماتحت کو سخت سست کہتے اور جھاڑ پلاتے۔

قوی خان کے کمرے سے نکلنے ہی قوی خان سارا غصہ سب انسپکٹر عابد بٹ پر نکالتے اور انہیں نااہلی کا طعنہ دیتے، بٹ یہ دباؤ اور غصہ اپنے ماتحت حوالدار عرفان کھوسٹ پر اتارتے۔ سب انسپکٹر عابد بٹ کے جاتے ہی عرفان کھوسٹ غصیلی آنکھوں اور سخت لہجے میں دونوں کانسٹیبل کی خبر لیتے، یوں ناکامی اور نااہلی کا جو غصہ اعلیٰ سطح افسر سے شروع ہوتا ہوا سب سے نچلے عہدے والے ملازم پر ختم ہوتا۔

’اندھیرا اجالا‘ اور اس کا یہ منظر پنجاب کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کے ایک بیان سے یاد آگیا اور کیوں نہ آئے کہ سیاست بھی ایک طرح کا ڈراما ہی ہے، جذبات سے بھرپور، سمع خراش دعوؤں سے رونے دھونے کی اداکاری تک، یہاں سارا مرچ مسالا دست یاب ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں اب تک وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، سیاست دان، اور بیوروکریسی اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں، لیکن پہلی بار ایک صوبائی وزیر نے حکومتی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار عوام یعنی کہ دوسرے الفاظ می اپنے ہی ووٹر کو قرار دے دیا۔

ہوا یوں کہ ایک نجی چینل کے ’مذاکرے‘ میں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کورونا پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں بڑی بے بسی اس کا ذمہ دار عوام کو قرار دے دیا۔ بات یہیں ختم ہو جاتی تو بھی شاید ٹھیک تھا، لیکن اچھی شہرت کی حامل خاتون وزیر نے ’لاہوریوں‘ کو عجیب مخلوق اور جاہل تک قرار دینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے شکوہ کیا کہ لاہور کے باسیوں نے وبا کو سنجیدہ نہیں لیا اور وہ حفاظتی اقدام پر عمل کرنے کو قطعی تیار نہیں، جس کی وجہ سے کورونا وائرس لاہور میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وفاق ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتی ہے اور صوبائی وزیر نے عوام پر ملبہ ڈال کر اپنی جان چھڑالی ہے۔ عوامی اور سماجی حلقوں کی جانب سے یاسمین راشد کے بیان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

کورونا کے آغاز سے ہی صوبہ پنجاب حفاظتی اقدام کا فیصلہ لینے کے حوالے سے وفاق کے زیر اثر نظر آیا، جب کہ ’وفاق حکومت‘ تذبذب کا شکار، چناں چہ پنجاب کی جانب سے اسکولوں کی بندش، بازاروں کو بند کرنا، صحت کے مراکز کے قیام اور لاک ڈاؤن کے اقدام ’صوبۂ سندھ‘ کے بعد کیے گئے، لیکن جب وفاق نے نرمی دکھائی، تو پنجاب نے پابندیاں اْٹھانا شروع کر دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی جب حکومت سندھ کو عید پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا کہا، تو کاروبار کھولنے اور پابندیاں ہٹانے کے لیے حکومت پنجاب کی مثال دی۔

صوبائی وزیر یاسمین راشد شاید یہ بھول گئیں کہ پنجاب اور وفاق میں ان ہی کی جماعت کی حکمرانی ہے اور حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح دیگر قوانین پر طوہاً و کرہاً عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسی طرح حفاظتی اقدام یا ’ایس او پیز‘ پر عمل کروانا بھی ان ہی کا ذمہ ہے۔ اب اگر کوئی غیر لائسنس یافتہ ڈرائیور فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھا کر راہ گیروں کو کچل دے تو کیا حکومت ڈرائیور کو ’’جاہل‘‘ کہہ کر چپ ہوجائے گی اور کیا قانونی تقاضے پورے نہیں کرے گی؟

ڈاکٹر یاسمین راشد یہ بات بھی بھول گئیں کہ لاہور سے منتخب ہونے والے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کا تعلق انہی کی جماعت سے ہی ہے، یعنی اس شہر میں ایک بڑی تعداد ان کے اپنے ووٹرز کی ہے۔۔۔ انہیں یہ بھی دھیان نہیں رہا کہ کنٹینر سے ’عوام‘ کی جیسی تربیت کی گئی تھی تو پھر صاحب بقول شخصے ’یہ تو ہوگا۔۔۔!‘ جو فصل بوئی ہے اسے خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنا ہوگی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’جاہل عوام‘ کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ امید تھی کہ یاسمین راشد کو عوام کے جاہل ہونے کے ادراک کے بعد حکومت پنجاب تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی اور صحت سے بھی زیادہ بجٹ تعلیم کے لیے ہوگا اور وفاقی وزیر شفقت محمود ضرور اس ’جاہل عوام‘ کو قاعدہ قانون پڑھانے کا کوئی انتظام کریں گے، لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔۔۔

کورونا سے متعلق حفاظتی اقدام پر عمل درآمد کرانا، حکومت کی ذمہ داری ہے، جسے پورا نہ کرنے کا ملبہ عوام پر ڈال دینا فرسٹریشن نکالنے کے ہی مترادف سمجھا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا اور ’ایس اوپیز‘ پر عمل درآمد کرانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی کے مرتکب شہریوں کے لیے سخت سے سخت سزائیں رکھی جائیں، اسی طرح ’ایس او پیز‘ پر عمل درآمد نہ کروا پانے پر متعلقہ کمشنر اور ’ایس ایچ او‘ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

عالمی ادارۂ صحت اور بین الاقوامی طور جن ممالک کو کورونا وبا پر قابو پالینے کی وجہ سے داد و تحسین مل رہی ہے ان میں نیوزی لینڈ، تائیوان، بھارتی  ریاست کیرالہ، فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور جرمنی شامل ہیں۔ ان ممالک نے یا تو وبا پر قابو پالیا ہے یا پھر وائرس کے پھیلاؤ روکنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ان کام یاب ممالک کی وبا کے دوران ترجیحات اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے، تو دو قدریں مشترک اور نہایت نمایاں نظر آتی ہیں۔ وہ ہے بروقت سخت لاک ڈاؤن اور بلند شرح تعلیم۔

نیوزی لینڈ کی آبادی 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے، یہ دو بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اور شاید جغرافیے کی وجہ سے بھی اسے کورونا وبا پر قابو پانے میں مدد ملی ہو۔ اس خوب صورت ملک کی بالغوں میں شرح تعلیم 99 فی صد ہے۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی والا تائیوان کورونا وائرس کی جائے پیدائش چین کا پڑوسی ملک ہے اور اس کی شرح تعلیم بھی بالغوں میں 98 فی صد ہے۔ اسی طرح ڈنمارک، فن لینڈ وغیرہ کی شرح تعلیم بھی کافی بہتر ہے۔ شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ ان ممالک نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بھی بروقت اقدامات اْٹھائے۔

مذکورہ ممالک کو کورونا وبا پر قابو پانے میں آسانی اس لیے بھی رہی کیوں کہ ان ممالک کی آبادی کم ہے اور ان کا جغرافیہ ایسا تھا کہ یہ خود کو دنیا سے الگ کر سکتے تھے، اس کے برعکس امریکا، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ میں شرح تعلیم تو اچھی ہے، لیکن گنجان آباد ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک خود کو دنیا سے آسانی سے ’منقطع‘ بھی نہیں کر سکتے، یہ مشکلات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک نے کورونا کے خطرے کا ادراک کرنے میں تاخیر کر دی اور سخت لاک ڈاؤن میں تذبذب کا شکار رہے۔

کورونا وبا سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ دنیا کا ’’گلوبل ولیج‘‘ ہونا ایک طرح سے نقصان دہ بھی ہے، کس طرح یہ وائرس انسانوں کے ہی بنائے ہوئے ذرایع آمد و رفت میں بغیر ٹکٹ لیے سفر کرتا ہوا ایک سے دوسرے ملک پہنچا اور انسانوں کو اپنا شکار بناتا چلا گیا۔ دنیا کے تمام ہی بڑے تجارتی شہر اس وائرس کی زد میں آگئے ہیں، تاہم دیہی آبادی یا قدرے کم گنجان آبادی والے علاقے محفوظ رہے ہیں۔

تیزی سے آباد ہوتے ہوئے کنکریٹ کے جنگل، بلند عمارتیں اور تمام تر تجارتی سرگرمیاں مخصوص شہروں میں ہونے کے نقصانات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ بڑے اور گنجان آباد شہر وبا کے پھیلاؤ کا مرکز ہیں اور اسے قابو میں کرنا بھی مشکل ہے اس لیے دنیا کو شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کا جائزہ لینا ہوگا، کیوں کہ ایک آباد علاقے سے دوسرے آباد علاقے کے درمیان ’فاصلہ‘ رکھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

تصویر بہت واضح ہوتی جا رہی ہے، کم شرح تعلیم، زیادہ آبادی، گلوبل ویلیج اور بروقت اقدامات کا فقدان کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی کے بڑے اسباب ہیں۔ کسی بھی وبا پر قابو پانا ہے، تو سب سے پہلے شرح تعلیم میں اضافہ کریں، اپنے ملک کی عوام کو جاہل ہونے کا طعنہ دینے کے بہ جائے آگہی دیں، تاکہ عوام سازش اور حقیقی خطرے میں بہ آّسانی فرق کر سکیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہی ساری آبادی کو ٹھونسنے کے بہ جائے، نئے شہر بسائے جائیں اور چھوٹے چھوٹے بلاک میں تقسیم کیا جائے، جسے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بہ آسانی کنٹرول کیا جا سکے اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں آسانی ہو۔

عوام کی غیر سنجیدگی اپنی جگہ لیکن عالمی قوتوں نے خوب رنگ میں بھنگ ڈالا ہے۔ ایک مرتبہ پھر صدر بننے کی شدید خواہش میں مبتلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ چین نے انہیں صدارتی انتخاب ہروانے کے لیے یہ مہلک وائرس پھیلایا۔ چلیے چین اور امریکا میں تو ہمیشہ سے ہی کھینچا تانی رہی ہے، لیکن یہ کیا کہ پیلے بالوں والے ڈونلڈ ٹرمپ ’عالمی ادارہ صحت‘ پر بھی چڑھ دوڑے اور اس اہم اور کورونا وائرس پر مستند سمجھے جانے والے ادارے پر چین کی پشت پناہی کا الزام عائد کر کے فنڈز ہی روک دیے گئے۔

خود کو ’عالمی سپرمین‘ سمجھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سے ایک بچکانہ حرکت کر کے اس پورے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے اور آج کل پوری طرح اس کوشش میں جتے ہوئے ہیں، جو ملک بھی کووڈ 19 کی ویکسین بنانے کام یاب ہو جائے، تو وہ ویکسین کا فارمولا اور اس کی مارکیٹ کے حقوق امریکا کو دے۔ جرمنی کی دوا ساز کمپنی ’کیور ویک‘ ایک ویکسین کی تیاری کے قریب پہنچ چکا ہے، لیکن ویکسین کے آنے سے قبل ہی امریکی صدر نے کمپنی کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ یہ ویکسین صرف امریکا کے لیے ہو۔

اس سے قبل چین نے بھی امریکا پر ویکسین کی تیاری میں رخنے ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی نے عالمی قوتوں سے ویکسین کی تیاری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے بیان بازی سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی زندگی کے معاملے کو اتنا پیچیدہ اور متنازع نہ بنایا جائے۔ عالمی قوتوں کے اس غیر سنجیدہ رویے نے کورونا کو عوام کی نظر میں مشکوک بنا دیا اور سازشی نظریوں کو تقویت ملی۔

پاکستان میں بھی کورونا وبا کے ابتدا سے ہی وفاق اور صوبے کسی ایک مشترکہ اور جامع پالیسی پر یک جا نہ ہو سکے۔ ساری بحث لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن نہیں کرفیو، کرفیو نما لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور اب خیر سے سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کے درمیان ہی گھومتی رہی۔ عید پر ملک بھر میں ٹرینیں کھولنے اور پورے ہفتے رات گئے تک شاپنگ سینٹرز کھولنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے وبا بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اب پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر 100 سے افراد اس مہلک وبا کے باعث جان سے گزر رہے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، بیورو کریسی اور عوام ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرانے کے بہ جائے اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ قومیں اجتماعیت سے بنتی ہیں اور اتحاد سے مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق سے برکت ہوتی ہے۔ یہ وبا سارے اختلافات اور الزامات بھلا کر ایک ہو جانے کا موقع ہے اور عقل مند افراد ایسے مواقع ضایع نہیں کرتے۔

The post ہم کہاں اور کتنا غلط ہیں۔۔۔ ’کورونا‘ ہمیں سب بتا رہا ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>