Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

آہ! طارق عزیز

$
0
0

عظمت…وہ انسانی خواہش ہے، جس کے حصول کی خاطر وہ اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا، لیکن یہ اعزاز پھر بھی نصیب والوں کے ہی حصے میں آتا ہے، ایسے عظیم لوگوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کبھی عظمت کے پیچھے نہیں بھاگتے، وہ تو بس اپنے حقیقی جذبے کی پیروی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عظمت خود چل کر ان کے پاس آتی ہے۔ یہ لوگ صرف زندگی میں ہی عظیم نہیں ہوتے بلکہ موت کے بعد بھی ان کی عظمت کا چرچارہتا ہے، دارِفانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی ان کی محبتیں، یادیں اور خلوص صدیوں تک لوگوں کے دِلوں میں نقش رہتے ہیں۔

یہ ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں، جس کی روشنی میں کئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام طارق عزیز کا ہے۔ اخلاص اور وطن سے محبت کے جذبوں میں گوندھی ہوئی گونج دار آواز، بہترین تلفظ، شاندار لب و لہجہ اور بارعب مگر سحرانگیز شخصیت کے حامل طارق عزیز کا شمار اس فہرست میں شائد سب سے اوپر ہے، جنہیں بچپن سے پچپن تک کے سب لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں، جن کا اندازِ بیان اور آواز ہر عمر کے مرد و خواتین کے کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔

’’ابتداء ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں، جنہیں سنتے سنتے بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہو کر شائد زمین کی گود میں سو گئے، لیکن ان الفاظ سے انسیت ختم ہوئی نہ انہیں سننے کا اشتیاق۔ طارق عزیز کی آواز کے سحر نے اک جہاں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ علم و ادب اور فنِ اداکاری و صداکاری کی عہد ساز شخصیت کے سفر زیست کا مختصراً احاطہ کیا جائے تو لیجنڈ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو بھارتی پنجاب کے شہر جالندھرمیں پیدا ہوئے۔

والد میاں عبد العزیز پاکستانی 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، جن کی پاکستان سے والہانہ محبت اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتے تھے، پاکستان آ کر میاں عبدالعزیز نے ساہیوال (اس وقت کا منٹگمری) میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے اپنا ایک اخبار نکالا، جہاں منیر نیازی اور مجید امجد سمیت کئی بڑے شعراء کا آنا جانا ہوتا اور اسی توسط سے طارق عزیز بھی ان سے خاصا شغف رکھنے لگے۔ طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزارا اور وہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

بعدازاں شعرو ادب اور ابلاغ سے جبلی لگاؤ مستقبل کے لیجنڈ کو لاہور کھینچ لایا، جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، کچھ ہی عرصہ میں ان کی صداکاری کی ہر طرف دھوم مچ گئی، جس کی ایک واضح مثال پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی ہے۔ 26نومبر 1964ء کو جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے نشریات کا آغاز کیا تو یہ طارق عزیز ہی تھے، جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے جنم کا اعلان کیا۔ تاہم 1975ء میں شروع کئے جانے والے ان کے اسٹیج شو ’’نیلام گھر‘‘ نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، جسے بعدازاں طارق عزیز شو اور بزمِ طارق کا نام دے دیا گیا۔طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت کے حامل اور صاحب کمال تھے۔

انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967) تھی، جس میں انہوں نے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد اور زیبا کے ساتھ کام کیا۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ سالگرہ طارق عزیز کی وہ کامیاب ترین فلم تھی، جسے 1969ء میں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ 1992ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انہیں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’’داستان‘‘ اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی۔ ان کے علاوہ ’’اقبال شناسی‘‘ اور ’’فٹ پاتھ سے پالیمنٹ تک‘‘ کے مصنف بھی یہی عہد ساز صداکار تھے۔

شعروشاعری اور میڈیا کی چکا چوند کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی سیاست میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے بحرانی دور میں باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا، جس کی وجہ سے جہاں کئی بار انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے وہاں سپریم کورٹ پر حملہ جیسے کیسز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے پاکستانی پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی قربت بڑھی اور 1970ء میں انہوں نے عملی طور پر سیاست میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد طارق عزیز نے پیپلزپارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور جنرل ضیاء نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔

وقت گزرا تو طارق عزیز میاں نواز شریف کے قریب ہو گئے اور 1977ء میں وہ نواز لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے، یہ رکنیت جنرل مشرف کے ایمرجنسی لگانے تک برقرار رہی۔ طارق عزیز کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 1977ء کے عام انتخابات میں انہوں نے آج کے وزیراعظم عمران خان کو لاہور میں 45ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں ان پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد ہوگئی، تاہم بعدازاں 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ ق کی طرف ان کا رجوع ہوا اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر حاجرہ مخصوصی کوٹہ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں۔

طارق عزیز کو قدرت نے ایک بیٹا دے کر واپس لے لیا، جس کے باعث ایک بار وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے، لیکن اپنے وطن اور قومی ثقافت سے ان کی لازوال محبت نے انہیں کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے ایک وصیت کی کہ مرنے کے بعد ان کا جو کچھ ہے وہ ریاست پاکستان کو دے دیا جائے اور 17 جون 2020ء وہ دن ہے، جب ان کی وصیت پر عملدرآمد طے پایا، کیوں کہ لاکھوں دلوں کو علم و ادب، ثقافت اور وطن سے محبت کی روشنی سے منور کرنے والا یہ دیا بجھ گیا۔ لیجنڈ طارق عزیز آج ہم میں نہیں رہے کہ ’’ہر زندگی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ لیکن ان کی آواز کی گونج ماضی، حال کے سنتے کانوں کے ذریعے آئندہ آنے والی نسل کی سماعت میں بھی رس گھولتی رہے گی۔

طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے:سہیل احمد

 اردو ادب پر کمال حاصل تھا: ڈاکٹر مہدی حسن، فرد نہیں ادارہ تھے: وسیم عباس

ملک کے مایہ ناز اداکار سہیل احمد نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے لیجنڈ طارق عزیز کو کچھ اس انداز میں خراج تحسین پیش کیا کہ ’’ طارق عزیز صاحب میں ثقافت کا ہر رنگ موجود تھا، کیوں کہ وہ ایک بہترین اداکار، صداکار، شاعر اور کمپیئر تھے، ان کے پاس الفاظ کا جو ذخیرہ تھا، وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے انہیں رستم ثقافت کا خطاب دیا ہے، وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی آواز اور سکرین تھے، میں سمجھتا ہوں آج ہمارے ہاں میڈیا کا جتنا پھیلاؤ اور اس پر جو فن دکھایا جا رہا ہے، یہ ان کی وجہ سے ہے۔

ہندوپاک میں جتنے بھی پروگرام ہو رہے ہیں، وہ ان کے شو کی اولاد ہیں۔ دیکھیں! ہمارے ہاں آج جو لوگ ثقافت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے ان میں ثقافت سے مطلوبہ محبت نہیں پائی جاتی لیکن طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے۔ ان کے شو کے آخری نعرے’’پاکستان زندہ باد‘‘ میں اتنی محبت، خلوص اور جذبہ ہوتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا جیسے پاکستان خود اپنا نعرہ لگا رہا ہو۔ رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی تو میں حکومت سے انہیں نشان امتیاز دلا کر رہوں گا یہ حکومت نہیں دے گی تو میں اگلی حکومت سے یہی مطالبہ کروں گا‘‘ معروف دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کا لیجنڈ طارق عزیز سے زمانہِ سکول سے تعلق ہے۔

مرحوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’’ طارق عزیز پاکستان کا کامیاب ترین اور بہترین براڈ کاسٹر تھا، بحیثیت براڈ کاسٹر انہیں جو عزت ملی وہ شائد کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ زمانہ سکول سے ہی ان کی انگریزی کمزور تھی، جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن اپنی اس خامی کو انہوں نے اردو ادب پر عبور حاصل کرکے پورا کیا، بلاشبہ انہیں اردو شاعری پر کمال حاصل تھا۔ مرحوم کے شو کی 20ویں سالگرہ پر انہوں نے اشفاق احمد کے ساتھ مجھے مدعو کیا تو میں نے وہاں کہا کہ طارق عزیز ٹیچر بننا چاہتے تھے لیکن تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ بن نہ سکے، جس کا مجھے بڑا افسوس ہے کیوں کہ اگر وہ ٹیچر بنتے تو ایک بہترین ٹیچر ہوتے، تاہم انہوں نے اپنے شو کے ذریعے اپنی اس خواہش کو پورا کیا اور بہت خوب پورا کیا۔

رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو سرہانے کی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعزازات مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے۔ دوسرا یہ اعزازات سیاسی ہوتے ہیں، حکومتی پارٹی سے وابستگی پر آپ کو اعزازات مل جاتے ہیں اور طارق کا رجحان چوں کہ ن لیگ کی طرف تھا تو اس لئے حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی، تاہم میرے خیال میں حکومتی اعزازات کی کوئی اہمیت نہیں، اصل اعزاز لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے، لوگوں کی محبت کا ملنا ہے اور یہ سب کچھ طارق عزیز کو بہت ملا‘‘ ٹی وی ڈرامہ اور فلم کی جانی پہچانی شخصیت وسیم عباس کہتے ہیں کہ ’’ طارق عزیز ایک ایسے عظیم انسان تھے۔

جنہیں ایک فرد نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ تھے، جس سے آج تک دنیا فیض یاب ہو رہی ہے، وہ کامیاب ترین اداکار، سیاست دان، شاعر، کمپیئر اور صداکار تھے لیکن افسوس ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی قدر نہیں، حالاں کہ طارق عزیز وہ شخصیت ہیں، جن کے بارے میں نوجوان نسل کو پڑھایا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب پاکستانی کیسا ہوتا ہے۔ رہی بات حکومت کی طرف سے ان کی خدمات کو سراہنے کی تو یہ حکومت زندہ لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرتی وہ مرے ہوؤں کے لئے کیا کرے گی؟‘‘

 

The post آہ! طارق عزیز appeared first on ایکسپریس اردو.


امریکی پابندیوں نے ایران کو خود کفالت کی راہ پر ڈالا

$
0
0

( قسط نمبر20)

29 اکتوبر 1964 کو قم کے مدرسے میں آیت اللہ روح اللہ امام خمینی نے جب شاہِ ایران کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر تے ہو ئے ایران اور ایرانی عوام کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کئے جانے پر قوم کومخا طب کیا تھا، انہیں ایران کی عظمت یاد لائی تھی اور بادشاہ کا نام لیے بغیر ایران کی بادشاہت کے اپنے مر تبے اور مقام سے گرنے کا ذکر کیا تھا، اور بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی خفیہ ایجنسی ساواک کے ذریعے چند گھنٹوں میں امام خمینی کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا۔ اُ س وقت کسی کو بھی یہ احسا س نہیں تھا کہ یہ شخص پندرہ سال بعد بیسویں صدی عیسوی کا دوسرا بڑا انقلا ب لائے گا۔

ساٹھ کی دہائی شہنشاہ ایران کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم محمد مصدق کو اُن کے ناکام انقلاب کے بعد عبرتناک سزا سے دوچارکرچکے تھے۔ ساٹھ ہی کی دہائی میں اُن کو ولی عہد نصیب ہوا اور تاج پو شی ہو ئی۔

وہ1958 سے عالی شان Narayan Palace نارایان محل کی تعمیرکروا رہے تھے جس میں انہوں نے دنیا کے قیمتی نوادرات اور جواہرات جمع کئے تھے۔ 1968 میں محل مکمل ہوا تھا اور وہ اپنی ملکہ فرح   دیبا کے ہمراہ یہاںمقیم ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے تاج پو شی کے بعد ایران میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا جشن منا یا اور پو ری دنیا میں چرچا کیا تھا۔  بیسویں صدی کے وسط تک ایران کا قدیم نام فارس، پرشیا یا پروشیا استعمال کیا جا تا تھا۔ پھر ملک کا نام ایران رکھا گیا جس کے معنی آریاؤں کی سرزمین ہے اور شاہ نے اپنے آریا ہونے پر ایرانیوں کے احساس تفاخر کو مزید بڑھا یا۔ شاہ کو امریکہ کی مکمل حمایت اور سیاسی اور فوجی مدد حاصل تھی۔ ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھااور یہاں سے پورے خطے میں امریکی مفادات کی نگرانی کی جاتی تھی۔

اس لیے ایران کے پاس بڑی مضبو ط اور امریکی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج تھی جسے ہزاروں امریکی فوجیوں اور ماہرین کی مدد بھی میسر تھی۔ وزیراعظم سمیت ایرانی پارلیمنٹ پر بھی شاہ کی آمریت تھی۔ انتطامیہ اور پو لیس کا بنیادی کام ہر صورت اور ہر حالت میں باشاہت کا دفاع تھا۔ ساٹھ کی دہائی ہی میں شہنشاہ ایران نے سفید انقلاب کے نام سے ایران میں اصلاحات کاعمل شروع کیا جو زمینی حقائق سے ہٹ کر تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد جب کمال پا شا نے مغربی تہذیب، لباس اور ثقافت اپنا یا تھا تو اُس وقت ترک قوم کو عربوں پر غصہ تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کی شکست میں اہم کر دار ادا کیا تھا، مگر اُس وقت بھی ترک علما کی جانب سے یورپ کی اندھی تقلید کی مخالفت کی گئی تھی۔ عثمانیہ خلافت کے زوال سے قبل دنیا میں تین بڑی اسلامی سلطنتیں تھیں ،ہند وستان کی مغلیہ سلطنت ، ترکی کی عثمانیہ سلطنت اور ایران کی صفوی سلطنت مگر اِن میں نااتفاقی اور اہل مغرب کی علم و تحقْیق، ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں سبقت کے باعث تینوں سلطنتوں کو اہل مغرب کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

جنگ ِ عظیم اوّ ل میں شکست کے بعد ترکوں ،عربوں ،ایرانیوں میں نیشنل ازم اور فرقہ واریت نے جنم لیا۔  رضا شاہ پہلوی نے بھی امریکہ او ر برطانیہ کی خوشنودی کے لیے ساٹھ کی دہا ئی میں زیادہ تیز رفتاری سے مغربی طرز معاشرت کو اپنا یا اور تقریباً جبراً ایرانی خواتین کی اکثریت کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا۔

عراق میں مقیم آیت اللہ خمینی اپنی انقلابی تحریک کو اپنے لٹریچر کے ذریعے ایران میں پھیلا رہے تھے جب کہ مشرق وسطیٰ میں فسلطینی لیڈروں سے اور علماء سے بھی اُن کے رابطے تھے۔ 1970 میں مصر کے صدر ناصر کی وفات نے مشرق ِ وسطیٰ میں قیادت کا وسیع خلا پیدا کر دیا۔ باد شاہ کا خیال تھا کہ اب وہ امریکہ اور بر طانیہ کی مجبوری بن چکے ہیں۔ پورے ایران میں امریکی فوجی اور ماہرین مو جود تھے یوں وہ اپنے اقتدر کو لا زوال تصور کرتے تھے۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ جس میں عرصے بعد مصر کی پوز یشن قدرے بہتر تھی اس جنگ نے امریکہ اسرائیل دفاعی اسٹرٹیجی کے لحاظ سے ایران کی پوزیشن کو اور اہم کر دیا تھا کہ اُس وقت پا کستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت برسرا قتدار تھی اور بھٹو نے متوازن اور آ زاد خارجہ پالیسی اپناتے ہو ئے ماضی کے بر عکس بر طانوی دولت مشترکہ سے علیحد گی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور چین سے زیادہ بہتر تعلقات قائم کر لیئے تھے۔

1974 میں لاہور میں ہو نے والی اسلامی سربراہ کانفرنس اگر چہ شاہ کے لیے بھی قدرے پر یشان کن تھی مگر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو بر طانیہ اور امریکہ کو اُمید تھی کہ ایران اُن کے کہنے پر تیل پید ا کر نے والے عرب ملکوں کے مقابلے میں امریکہ اور بر طانیہ کا ساتھ دے گا اور اپنے تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرئے گا مگر شاہ ایران نے ایسا نہیں کیا بلکہ اُنہیں جواب دیا کہ ایرانی عوام کی قوت خرید کم ہو چکی ہے اس لیے وہ بھی دنیا کے باقی ملکوں کی طرح اپنے ملک میں تیل کی پیداوار پر اُسی تناسب سے ٹیکس وصول کرئے گا جو دیگر تیل پید ا کرنے والے ملکوں نے حال ہی میں عائد کئے ہیں۔ باقی عرب ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہو رہا تھا جو شاہ کے لیے نا قابلِ برداشت تھا۔

پھر اُس وقت کی جو صورتحال تھی اُس میں بادشاہ کی پو زیشن بہت اچھی تھی بادشاہ کو یقین تھا کہ اُس وقت اِن کا کو ئی متبادل نہیں اور یہ کافی حد تک درست بھی تھا لیکن امریکہ بر طانیہ اور دیگر مغربی قوتوں نے اُس موقع پر 1930-32 کے بعد کی سب سے بڑی عالمی کساد بازاری برداشت کی اور ساتھ ہی اسلامی ملکوں کے اہم لیڈروں اور تیل پیدا کر نے والے ملکوں کے خلاف جامع حکمت عملی اپنا ئی۔ طویل المدت منصوبے کے تحت معدنی تیل کے متبادل ایندھن کی ایجاد یا دریافت اور فوری طور پر تیل پیدا کر نے والے اُن ملکوں کی قیادت کی تبدیلی جنہوں نے کُھل کر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ مخالفت کی تھی مگر اس میں ایران اور اس کا شہنشاہ شامل نہیں تھا کہ ایران نے اسرائیل کوتسلیم کر رکھا تھا۔

مگر امریکہ اُسے نا فر مانی کی کو ئی نہ کو ئی سزا ضرور دنیا چاہتا تھا کہ اُس نے امریکہ کی حکم عدولی کی تھی۔ 1973 کی جنگ کے بعد تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب ایران کی سالانہ آمدنی میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔  1977 میں ایرا ن کا یہ بادشاہ غالباً دنیا کا سب سے امیر آدمی بھی تھا، یوں بادشاہ کے سفید انقلاب کے ساتھ تعمیر وترقی کے اس عمل میں 80% رقوم کرپشن کی نظر ہو رہی تھیں اور غالباًاس منصوبہ بندی میں امریکی سی آئی اے کی یہ غلطی تھی یا پھر وہ شاہ کو سبق دینا چاہتی تھی جو رضا شاہ پہلوی کے خلاف خمینی کے انقلاب کی شدت اور عوام میں امام خمینی کی مقبولیت کا انداز ہ نہیں کر سکی تھی یا شاہ کو بے خبر رکھا اس طرح جب 80% کرپشن کی وجہ سے ایران میں افراد زر مہنگائی  اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔

1973 کے بعد دیہاتوں سے عوام کی بڑی تعداد اس تعمیر وترقی کے عمل میں بطور افرادی قوت شرکت کے لیے تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں آباد ہو گئی تھی اور اس طرح ایک جانب زرعی پیداور میں کمی واقع ہوئی تو دوسری جانب ایران جو پہلے ہی بہت بڑی مقدار میں اشیا خوردنی در آمد کرتا تھا اس میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

دیہاتوں آئی ہوئی آبادی جو لاکھوں مزدوروں کی صورت میں تھی اور زیادہ مذہبی رجحانات کی حامل تھی اُس نے اس انقلاب میں شعلے کو آتش فشاںکرنے کا کام کیا۔ ،،امریکہ کے مشہور مصنف جان پر کنز،، Jhon Perkins ،، نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Confesion of an Economic Hit Man کنفیکشن آف این اکنامک ہیٹ مین کے باب The Fall of King کے آخر میں لکھا ہے، ’’ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں بھی درست اطلاعات نہیں دی گئیں کہ شاہ کے خلاف اس قدر شدید عوامی نفرت ہے ،جن کمپنیوں کے ایران میں دفاتر اور غیر ملکی ملازمین تھے اُ ن کو بھی بدلتی ہوئی صورتحال کی سنگینی سے آگاہ نہیں کیا گیا‘‘

شاید امریکی سی آئی اے یہ سمجھتی رہی ہو کہ وہ فوج کی مدد سے خمینی کے انقلاب کو بھی سابق وزیر اعظم مصدق کے انقلاب کی طرح ناکام بنا دے گی مگر جب شہنشاہ جنوری1978 میں ایران سے فرار ہو گئے اور فروری میں امام خمینی فرانس سے جلا وطنی ترک کر کے تہران پہنچے تو تا حد نظرانسان ہی انسان تھے۔ اردو کے نامور انشا پرداز اور اور پاکستان سول سروس اکیڈمی کے پہلے بیج کے سی ایس ایس آفیسر مختار معسود کی کتاب ،، سفر نصیب ،، میں بھی ایران کے انقلاب کی تفصیلا ت ہیں۔

1978-79 میں مختار معسود کی پو سٹینگ ایران میں    تھی۔ رضا شاہ پہلوی اپنے ولی عہد اور شہزادے اور دو شہزادیوں ملکہ کے ہمر اہ ایران سے نکلے تو ساتھ ہی ایران کی انقلابی حکومت نے اُنہیں ایران کا مجرم قرار دیا اور اُن کی واپسی کا مطالبہ کر دیا، شاہ کے وفاداروں کو گر فتار کرلیا گیا جنہوں نے شاہ کی خاطر عوام پر ظلم و ستم کیا۔ سرسری مقدمات چلا کر انقلابیوں نے سابق وزیر اعظم اور وزرا ،اعلیٰ بیوروکر یٹس اور اعلیٰ فوجی افسران کو سر عام پھانسی دی۔ اب سوال یہ تھا کہ جو حکومت یا ملک بادشاہ کو پناہ دیتا اُس کو عوامی سطح پر مسائل کا سامنا کر نا پڑا رہا تھا اور اگربادشاہ کو واپس کر دیا جاتا تو ظاہر ہے کہ انقلابی حکومت نے اُنہیں بھی سر عام پھانسی دے دینی تھی۔

رضا شاہ پہلے  مصر گئے، پھر مراکش کے شاہ کے مہمان ہو ئے وہا ں سے نکلے تو بھاماس جزیر ے پر گئے، اس کے بعد میکسیکو سٹی،پانا ما مارے مارے پھرے، میکسیکو میں فیڈل کاسترو کی وجہ سے عوام نے اُن کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی دوران یہ خبریں عام ہوئیں کہ شاہ بیمار ہیںاور کچھ عرصہ وہ خفیہ نام کے ساتھ نیو یارک کے کورنویل میڈیکل ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ 4 نومبر 1979 کو ایرانی طلبا کے ایک گروپ نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر کے سفارت خانے کے52 افراد کو یر غمال بنا لیا۔

اِن کا مطالبہ تھا کہ شاہ کوایران کے حوالے کیا جائے۔ اس دوران اِن طلبا کو ایران اور علاقے کے دوسرے ملکوں کے حوالے سے بعض خفیہ دستاویزات بھی ملیں۔ ایران کے بہت سے صحافیوں ، سرکاری اعلیٰ فسران کے سی آی اے سے تعلقات کے اعتبار سے بھی معلو مات اُن کے ہاتھ آئیں۔ تہران میں امریکی سفارت خانے کے 52 افراد اورسفارت کار 444 دن یر غمال بنے رہے۔

امریکہ نے یہاں فوجی کار وائی کرکے اپنے سفارتکاروں کو چھڑوانے کی کوشش کی جو ناکام ہو ئی اور ایک امریکی ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوا۔ بعد میں امریکہ نے شاہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور پھر مصر کے صدر انور السادات نے رضا شاہ پہلوی اور اُن کے خاندان کو مصر میں سیا سی پنا ہ دی جہاں انہوں نے کینسر کے باعث 27 جولائی 1980 کو وفات پائی۔ جب کہ امریکہ نے الجیرا معاہدہ کے تحت 19 جنوری 1981 کو اپنے سفارت خانے کے عملے کو آزادی دلوائی شاہ ایران رضا شاہ پہلوی27 جولائی 1980 کو کینسر کی بیماری کی وجہ سے ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

یوں دیکھا جائے تو بیسویں صدی کی ساتوں دہائی میں تاریخ کی عظیم سلطنت ایران جو اگرچہ ماضی کے مقابلے میں رقبے کے اعتبار سے کم رہ گئی تھی مگر یہ ڈھائی ہزار سالہ مستقل بادشاہت کی حامل تھی جسے دنیا کے اب تک کے آخری انقلاب نے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔

اس وقت ایران اپنے 1648195 مربع کلومیٹر رقبے کی بنیاد پر دنیا کا 17 واں بڑا ملک ہے۔ ایران کا مو جو دہ آئین 1979  کے انقلاب کے بعد   منظور کیا گیا جس کے تحت مجموعی اختیارات سپریم لیڈر کے پاس ہو تے ہیں اِس وقت ،،آیت اللہ علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں ، رہبر معظم کا انتخاب ماہرین مجلس کرتی ہے ،،مجلس خبرگان رہبری ،، کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کئے جا تے ہیں۔ رہبرِ معظم افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہو تا ہے جب کہ حکومت کا سر براہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جا تا ہے۔

ایرانی آئین کے مطابق کو ئی فرد بھی دو مر تبہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکتا قانون سازی کے اختیارات مجلس ،اسمبلی ،کو ہوتے ہیں جو 290 ارکان پر مشتمل ہو تی ہے اور یہ چار سالہ مدت کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائند گی کر تی ہے،مسیحیوں ،زرتشتوں اور یہو دیوں کے نمائندے بھی اسمبلی میں ہوتے ہیں ،پھر شور ی ِ نگہبان ہے جو مجلس ،،اسمبلی ،، سے منظور ہونے والے قوانین کا جا ئزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلام کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر ِ معظم کی جانب سے نامزدکرد6 مذہبی رہنماعدلیہ کے 6 نامزدکردہ قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔

انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی یہ رہی ہے کہ و ہ اپنے نظریاتی اور اصولی موقف پر کسی طرح کا بیرونی دباؤ قبول نہیں کرتا۔ ترقی پذیر ملکوں سے تعلقات زیادہ بہتر رکھے جاتے ہیں۔ ایران مخالف قوتوں خصوصاً امریکہ ،اسرائیل سے 1979 سے ہر سطح اور ہر فورم پر مقابلہ کر رہا ہے۔

ایران نے 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی مگر اس کے قیام کے دو برس بعد ہی شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھااور جنوری 1979 تک ایران اور اسرائیل کے مثالی دوستانہ تعلقات تھے جب کہ 1979 میں انقلاب کے ساتھ ہی ایران نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح امریکہ سے بھی 1980 سے تعلقات منقطع ہیں اور آج تک بحال نہیں ہو ئے۔2001  میں امریکہ نے ایران اور لیبیا پر پا بندیوں کے قانون میں مزید پانچ سال کی توسیع کردی۔ جنوری2002 میں صدر بش نے ایران کو بدی کے محور Axis of Evil کا حصہ قرار دیا تھا۔ اُس وقت ایران پر مغربی قوتوں کی طرف سے مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطیٰ کے امن کو خراب کر نے کے خواہش مندوں کی مبینہ سر پر ستی کرنے اور دیگر الزامات لگائے گئے اور امریکی حاشیہ بردار ملکوں کی اکثریت کسی نہ کسی حد تک ایران کے خلا ف رہی۔

اس وقت اقوام متحدہ کے رکن 193 ممالک میں سے 99 ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات ہیں۔ امام خمینی نے توہین رسالت کے مرتکب سلمان رشدی کے قتل کا حکم دیا اور قتل کرنے والے کی حوصلہ افزائی کا بھی اعلان کیا تھا۔ بر طانیہ کے دباؤ کے باوجود ایران نے یہ حکم واپس نہیں لیا مگر1999 میں عرصہ بعد ایران اور برطانیہ میں سفارتکاروں کا تبادلہ ہوگیا مگر ایران کے خلاف اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قراردادوں پر اکثر برطانیہ نے دیگر مغربی ملکوں کی طرح امریکہ کا ساتھ دیا،1979 سے امریکہ سمیت مغرب کی جانب سے ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں سازشوں کے جواب میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ہر سطح پرخود کیفل ہو نے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالو جی ،نانوٹیکنا لوجی،کلوننگ ،اور میڈ یکل کے ساتھ ساتھ ایئر اسپیس میں دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔

روس، چین ،بھارت سے بہتر تعلقات قائم کئے ہیں۔ مغربی سازشوں کے نتیجے میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ جنگ 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل نے 28 جولائی 1987 میں قرارداد نمبر582 ۔588 اور598 میں عراق ایران میں فوری جنگ بندی کے لیے کہا۔ جس کو امام خمینی نے مان لیا اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان 160000 جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً دس لاکھ ایرانی جاں بحق اور زخمی ہو ئے تھے۔ بعد میں پیدا ہونے والے حالات میں ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ عراق مستحکم اور متحد رہے۔

اب عراق کی عبوری حکومت سے ایران کے تعلقات ہیں اورعراق اور ایران میں براہ راست اور دو طر فہ معاہد ہ بھی ہے۔ ایران عراق کو بجلی کی فراہمی میں مدد بھی دے رہا ہے۔ 30 نومبر 2004 کو عراق کی سلامتی عام انتخابات کے بر وقت انعقاد اور بیر ونی عناصر کی مداخلت کو روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس ہو ئی جس کی میز بانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب ،کو یت ، اردن اور مصر کے وزراء خارجہ نے شرکت کی مگر عراق میں ایرانی سیاسی اثر و رسوخ کے بڑھنے پر امریکہ کی جانب سے 3 جنوری 2020 کو ایک بڑا واقعہ پیش آیا جب ایران کے اہم ترین اور عوامی سطح پر مقبول جنرل قاسم سلیمانی کو ابومہدی المنیدس اور دس دیگر افراد سمیت عراق میں بغداد کے انٹر نیشنل ایر پورٹ پر  ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔

اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  نے خود دیا تھا میجر جنرل قاسم سیلمانی نہایت تجربہ کار ماہر کمانڈر تھے۔ وہ لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی ، افغانستان جنگ اور صدام کے بعد عراق میں سفارتی فضا کی تشکیل نو ،شام کی خانہ جنگی عراق میں داعش سے مقابلے کے اعتبار سے ایرانی حکومت میں بہت اہمیت رکھتے تھے۔ اُن کی موت پر سپریم لیڈرسید علی خامنہ ای نے اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں شہید ِ زندہ کا خطا ب دیا اور بعد از مرگ لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔

ایران میں اس صدی کا سب سے بڑا جنازہ3 جون تا5 جون 1989 امام آیت اللہ روح اللہ خمینی کا تھا جس میں ایک کروڑ افراد نے شرکت کی تھی اس کے بعد بہت بڑا جنازہ جنرل قا سم سلیمانی کا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

ایران نے امریکہ سے جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور ایران سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر کئی میزائل داغے بد قسمتی سے اِن میں سے ایک میزائل یوکرائن کا مسافر طیارہ تباہ ہو گیا جس سے عملے کے تمام افراد اور مسافروں ہلاک ہو گئے۔ ایران او آئی سی، اوپیک،ای سی او،ڈی ایٹ میں انڈو نیشیا ،بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی ،مصر ،ملائیشیا، نائجیریا کے ساتھ شامل ہے ایران کی خارجہ پالیسی اورتعلقا ت اسلامی نظریات اور شعیہ فرقے کے عقائد کی بنیاد پر ہیں اور ایران نے ان نظریات کے پھیلاؤ کے لیے انقلاب کے ساتھ ہی کام شروع کر دیا تھا اور ایک بڑا محاذ توعالمی سطح پر مجموعی طور پر امریکہ اور مغربی قوتوں کے خلاف اِن کی عالمی اسلام دشمنی کے تاثر کے ساتھ برقرار رہا ہے کہ تو دوسرا محاذ رفتہ رفتہ سعودی عرب ،عرب امارات کے ساتھ بھی کھلتا گیا اوراس میں شدت بھی آتی رہی ہے۔

ایران1958 میںآئی اے ای اے IAEA کا رکن بنا 1968 میں اُس نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی کے معاہد این پی ٹی پر دستخط کئے مگر 1979 کے تھوڑے عرصے بعد ہی ایران نے اپنے ایٹمی پر گرام پر توجہ دی اور 2005 میں امریکہ اور بعض دوسری مغربی قوتوں نے ایران کے ایٹمی پر وگرم کو متنازعہ بنا دیا اور بہت سے ملکوں نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ 2009 میں امریکی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے بتا یا کہ ایران 2013 تک ایٹمی ہتھیار بنالے گا۔ ایران نے اقوام متحدہ اورIAEA کو مطمین کیا کہ ایران کا ایٹمی پر وگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔

اس زمانے میں امریکہ کے صدر اوبامہ تھے۔ 14 جولائی 2015 کو P5+1 کا تاریخ معاہد ہ Joint comrehensive plan of action طے پا گیا یہ اس لیے کیا گیا تاکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہو۔ ایران نے انٹر نیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی IAEAکے تمام معیارات کو تسلیم کر لیا مگر بعد میں صدر ٹرمپ نے اس سے انحراف کیا اور 20 اپریل 2019 کو دھمکی دے دی کہ امریکہ اُن ملکوں پر پابندیاں عائد کر دے گا جو ایران سے تیل خریدیں گے۔ یکم ستمبر2019 سے ایرانی حکام نے قطر سے تعلقات بہتر کرلیئے ہیں اور سفارتی محاذ پر یہ ایران حالیہ کامیابی ہے۔

ایران نے دنیا کامقابلہ کرنے کے لیے فوجی قوت ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں انقلاب کے بعد بہت ترقی کی ہے۔ 1979 کے مقابلے میں اب ایران نہ صرف دنیا بھر میں اِن شعبوں میں نمایاں ہے بلکہ بہت سے ملکوں سے آگے نکل چکا ہے۔ جی ایف پی 2020 فوجی درجہ بندی GFP2020Militory Strength Ranking میں ایران ورلڈ ٹاپ ٹوینٹی میں 14 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ایران میں دو طرح کی فوج ہے ایک با قائدہ بحری بری اور فضائی فوج اور دوسری پاسدران ِ انقلاب Revolutionary Guard کی تعداد 545000 ریزرو فوج 350000 کل تعداد 900000 ہے۔ بغیر یو نیفارم کے تربیت یافتہ مرد و خواتین کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔

2014 میں ایران نے اسلحہ پر 15 ارب ڈالر خرچ کئے 2017 کے انتخاب کے بعد صدر ٹرمپ نے سرکاری طور پر الزام لگا یا کہ پاسداران ِ انقلاب ایک بیرونی دہشت گرد تنظیم ہے یوں دنیا میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی فورس کو دہشت گرد کہا گیا۔ تعلیم کے میدان آج ایران غالباً تمام اسلامی ملکوں سے سبقت لے گیا ہے۔  اسلامی ملکوں میں ایران سب سے زیادہ تعداد میں سالانہ پی ایچ ڈی ماہرین اور ریسرچرز پیداکر رہا ہے۔ ایران میں یو نیورسٹی کے ماہر ین کی ریسر چ اس لیے بھی زیادہ ترقی کر رہی ہے کہ تعلیم کی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے ماتحت ہے اور یوں اُن ریسرچ کی فوری حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔

جس سے قومی پیداوار قومی دفاع جدید اسلحہ سازی اور ایسے ہی دیگر شعبوں کو فروغ ملے اس رحجان کو اس لیے بھی زیادہ تقویت ملتی ہے کہ ایران اس وقت کتابیں شائع کر نے میں پہلے نمبر پر ہے اور خصوصاً تراجم کی اشاعت تو حیرت انگیز حد تک جلد اور فوری ہو تی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالو جی کے کسی بھی شعبے میں شائع ہو نے والی ہر اچھی کتاب کے لیے کوشش ہو تی ہے کہ اُس ترجمہ فوری طور پر فارسی میں کر دیا جائے۔ ایران دنیا کا نواں ملک ہے جس نے خلا میں اپنا سٹیلائٹ بھیجا تھا ،با ئیو میڈیکل سائنسسز میں بھی ایران نے قابل ِ قدر ترقی کی ہے ایران کے انسی ٹیوٹ آف با ئیو کیمیسٹر ی اینڈ بائیو فزکس نے عالمی سطح پر UNESCO کی چیر حاصل کی۔

2006 میں ایرانی سائنسدانوں نے رویان ریسرچ سنٹر میں کا میابی سے بھیڑ کی کلونگ کی ،نینو ٹیکنالوجی میں ایران دنیا میں پندرویں درجے پر ہے۔ 2009-10 میں تہران یو نیورسٹی نے سو رینا ٹو متعارف کرویا جس کو (IEEE ) نے عالمی سطح اپنے پانچ بہترین ربوٹ میں شامل کیا۔ ایران کا دعویٰ یہی رہا ہے کہ وہ پُرامن مقاصد کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہو ئے ہے اور اس شعبے میں بھی ایران ٹاپ ٹو نٹی ممالک میں شامل ہے۔اقوام متحدہ کے 75 سال کے حوالے سے ایران اقوام متحد ہ کے بانی رُکن ملکوں میںشامل ہے لیکن گذشتہ 40 برس سے ایران اقوام متحدہ کی جانب سے بہت سی منظور ہونے والی قراردادوں کی وجہ سے اقتصادی دباؤ کے باوجود اپنی نظریاتی اساس کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایران کے الزامات یہ رہے ہیں کہ امریکہ سمیت مغربی قوتیں ایران میں کئی مر تبہ سیاسی بحران پید اکر نے کی سازشیں اور کوششیں کر چکی ہیں اور اِن کو ششوں میں علاقائی ملکوں کی جانب سے بھی تعاون حاصل کیا گیا۔ دوسری جانب علاقائی ملکوں کو بھی ایران کی جانب سے ایسی ہی شکا یات رہی ہیں اس اعتبار سے اقوام متحدہ 193 ملکوں میںسے بھی ایران کو بہت سے ملکوں کی حمایت در کار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کو ایران کے انقلاب کے بعد ایران کے حوالے سے مختلف صورتحال کا سامنا رہا ہے۔                 (جاری ہے)

The post امریکی پابندیوں نے ایران کو خود کفالت کی راہ پر ڈالا appeared first on ایکسپریس اردو.

مدیحہ پردیش؟

$
0
0

( زباں فہمی نمبر 55)

ہوسکتا ہے کہ قارئین کرام یہ عنوان دیکھ کر ورطہ حیرت میں پڑگئے ہوں۔ کچھ لوگ سوچ رہے ہوں کہ شاید آج سہیل کا لطیفہ گوئی کا ارادہ ہے۔ نہیں صاحبو! بلکہ جتنی بھی ’مدیحائیں‘ ہیں، وہ بھی حیران پریشان نہ ہوں۔ کسی بھی مدیحہ کے نام کا کوئی دیس، پردیش (بمعنی ریاست=State=ہندوستان میں بمعنی صوبہ) ہرگز معرض ِ وجود میں نہیں آرہا، بلکہ یہ ایجاد بندہ ہے۔

آپ چاہیں تو ایجادِبندی کہہ سکتی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے ٹی وی چینلز پر ’’اغلاطِ عامہ ‘‘ کا سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا ہے کہ ہم مصلحت بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے تمام ’منفرد‘ خبرخواں، خبر رساں اور میزبان افراد کے اسمائے گرامی لکھنے پر مجبور ہیں جو اردو کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرنے میں بہت ممتاز اور ہمہ وقت ’رواں‘ دکھائی دیتے ہیں۔

یہ نیا نام ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کو دُنیا نیوز ٹی وی کی خاتون خبرخواں، آنسہ آمنہ کھٹانہ نے دیا ہے۔ (ویسے تو عموماً اردوگو افرادبشمول اہل ِ قلم مَدھ۔ہیا۔ پردیش Madhya Pradesh] [کہتے ہیں، لیکن ہندی اور/یا سنسکرت سے واقف، ہندوستانی احباب، اس نام کا شُدھ تلفظ ’’مَدھ۔پردیش‘‘ ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں نام گنواتے ہوئے خاکسار سب سے پہلے اپنے رشتے دار، قطر میں مقیم، ممتاز ہندوستانی شاعر ندیم ماہرؔ کا ذکر کرسکتا ہے)۔ یہ پہلا موقع نہیں جب ٹیلی وژن کے پردے پر اس طرح کا صریحاً غلط تلفظ سننے کو ملا ہو۔ گذشتہ تین عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور بنیادی وجہ ہے، زبان اور نشریات کی تکنیک کی بنیادی تعلیم وتربیت کا فقدان۔ نوبت بہ این جا رسید کہ سرکاری ٹی وی (یعنی پاکستان ٹیلی وژن) پر بھی بھانت بھانت کی بولی بولنے والے ایسے ہی لوگ جگما رہے ہیں، جنھیں نہ تو پوری اردو ہی آتی ہے نہ یہ پتا ہے کہ اس میں ’’فادری‘‘ زبان یعنی انگریزی کی آمیزش کرتے ہوئے، کھچڑی کس طرح پکانی ہے۔

ویسے یہ تو ہمارے یہاں ہر کوئی کہتا سنتا نظر آتا ہے: ’’فُلاں شخصMentally طور پر ایسا ہے۔‘‘ (خاکسار کے اس نکتہ اعتراض پر معترض ہونے والے افراد کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ راقم یکم جنوری 1993ء سے بطور مصنف و محقق، اسی معتبر ادارے سے منسلک رہا ہے، دیگر ٹی وی چینلز کے لیے بھی کام کرچکا ہے اور بَربِنائے اہلیت، روزِاول سے درجہ اوّل یعنی ‘A-category’میں شمار ہوتا ہے، ٹی وی کے پردے پر بطور شریک ِ محفل، بطور صحافی اور بطور میزبان معلوماتی پروگرام یعنی Quiz master بھی نمودار ہوچکا ہے)۔ یادَش بخیر….بخیر کہنا بھی اچھا نہیں کہ یاد اچھی نہیں، یوں کہیے یادَش بہ زِشت۔ آج سے کوئی پینتیس برس قبل، ہندوستان کے نجی ٹی وی چینل Zee نے اردو (ان کے بقول ہندی) میں انگریزی کے بلاضرورت ٹکڑے لگاکر، نیز قابل اعتراض حد تک عجیب اشاروں کے ساتھ، اُوٹ پٹانگ بول چال کا آغاز کیا جسے ہمارے یہاں پاکستان ٹیلی وژن کے دو سربراہوں رعنا غنی اور یوسف بیگ مرزا نے شرف ِقبولیت بخشتے ہوئے اپنے تمام میزبانوں(Anchors)اور ٹی وی پر دکھائی دینے والی شخصیات کے لیے فوری تقلید کا نمونہ سمجھا۔ بس پھر کیا تھا۔

پروگراموں کی نوعیت اور معیار کی بات تو پس پشت چلی گئی، ہدایات کے تحت، سب پر واجب ہوگیا کہ ایسی زبان بولنی ہے جسے سمجھنے کے لیے سامع کا کچی پکی انگریزی اور گزارے لائق اردو جاننا ضروری ہو اور ساتھ جسمانی حرکات وسکنات بھی پورے زورشور سے جاری رہیں۔ زی ٹی وی کی اس عجیب وغریب زبان کے خلاف، خلیجی ممالک کے مشہور اخبارات خلیج ٹائمز اور گلف نیوز میں، خود ہندوستانی ہندؤوں نے آواز بلند کی۔ اسے ہنِگلش (Hinglish=Hindi+English) اور زِنگلش (Zinglish=ZeeTV+English) قرار دیتے ہوئے اس مصنوعی بولی کی مذمت کی، مگر ایسے اہل علم کی آواز، صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ (خاکسار بہت پہلے زباں فہمی کے ایک کالم میں یہ ماجرا مختصراً بیان کرچکا ہے، مگر چونکہ عِلّت ابھی باقی ہے اور علیل بڑھتے جارہے ہیں، لہٰذا اس کی تکرار ضروری محسوس ہوئی)۔

چونکہ ایک طویل عرصے سے ہمارے بچوں کی تربیت کا ذمہ پہلے ٹی وی نے لیا اور پھر انٹرنیٹ ودیگر ذرائع ابلاغ نے اس کی جگہ لے لی، لہٰذا یہ بے ہودگی معاشرے میں ہر جگہ اور ہر شعبے میں عام ہوگئی۔ ابھی چند روز پہلے ہمارے ایک مشہور کرکٹر وہاب ریاض نے ٹیسٹ کرکٹ سے سبک دوشی کا اعلان واپس لیتے ہوئے۔

انگلستان کے دورے پر جانے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کچھ اس طرح Minglishکے پھول جھاڑے: ’’مجھ کو پی سی بی نے Enquireکیا، انگلینڈ کے Tourکے لیے Availabilityکے لیے……تو مَیں نے کہا، Obviously، اپنے Countryکے لیے Performکرنا اور جب بھی ٹیم کو ضرورت پڑی تو…………….‘‘ وہاب ریاض کتنی اچھی انگریزی جانتے ہیں اور اُن کی کرکٹ سے وابستگی، جُوئے کے رسوائے زمانہ معاملے سے بہ کمال ہوشیاری اُن کی بریّت سمیت تمام باتیں کس قدر مشہور ہیں، یہ جاننے والے جانتے ہیں۔ ابھی تو ہم اسی نکتے پر اصرار کررہے تھے کہ لاک ڈاؤن Lockdown کو ’’بندشِ عامّہ‘‘ کہا جاسکتا ہے (یہ ترجمہ فی البدیہ، گذشتہ دنوں خاکسار نے اپنے واٹس ایپ پر بزرگ ومشفق معاصر، محترم سلمان صدیقی کے استفسار پر کیا تھا جسے انٹرنیٹ پر بعض دیگر اہل قلم بشمول محترم رفیق سندیلوی، مقیم اسلام آباد نے بھی استعمال کرکے سند ِقبولیت عطا کی)۔ آئسو لیشن Isolation کا ترجمہ موجود ہے۔

تنہائی، علیٰحدگی، انفراد، تفرِید (طب)، متعدی بیماری میں مبتلا شخص کی دوسرے لوگوں سے علیٰحدگی (قومی انگریزی اردو لغتQaumi English-Urdu Dictionary مرتبہ و موشوعہ زیرنگرانی ڈاکٹر جمیل جالبی، مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد)۔ انگریزی ہی بولنی ہے تو SOPSکی جگہ، Precautions or Precautionary measures/steps کہا جائے یا اردو میں سیدھا سیدھا احتیاطی تدابیر کہا جائے۔ Sanitizeکا ترجمہ تو ہماری اسی لغت میں درج ہے: صحت گاری کے مطابق بنانا; جراثیم رُبائی کرنا…مگر Sanitizer کا ترجمہ دستیاب نہیں۔ خاکسار نے اسی ترجمے کی بنیاد پر اپنی واٹس ایپ بزم بعنوان زباں فہمی میں Sanitizerکا اردو ترجمہ جراثیم رُبا قرار دیا۔……….اب آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ ایک ٹی وی چینل نے ایک قدم آگے بڑھ کر لاک ڈاؤ ن کی جگہ Cordon off کا استعمال شروع کردیا ہے۔ ویسے تو اس اصطلاح کا عام فہم ترجمہ محاصرہ ہے، مگر شاید برگر لوگ اس کے استعمال سے واقف نہیں یا اس کے استعمال سے کشمیر (یا کراچی کے ماضی میں) مخدوش حالات یاد آجاتے ہیں۔

اس اصطلاح کا ترجمہ، لغات کی مدد سے کریں تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد کسی علاقے کا گھیرا یا گھیراؤ ہے، نیز کسی وباء سے متاثر ہونے والے علاقے کے گرد حلقہ بنانا ہے۔ خاکسار کے نزدیک یہاں بہرحال لاک ڈاؤن ہی کا جواز ہے۔ لاک ڈاؤ ن کو محاصرہ یا گھیراؤ کہنا ازرُوئے لغات، درست نہ بھی ہو تو فقط یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اول یہ کہ آپ نے اصطلاح کا استعمال غلط کیا ہے، دُوَم یہ کہ اس کا اردو متبادل موجود ہے اور سِوم یہ کہ یہاں انگریزی ہی جھاڑنی ہے تو لاک ڈاؤ ن کہیں۔ اسی طرح تمام ٹی وی چینلز کہہ رہے ہیں کہ فُلاں شہر میں فُلاں فُلاں مقامات کو سِیل  (Sealed)کردیا گیا ہے۔ بھائی سیدھے سبھاؤ یہ کیوں نہیں کہتے کہ (آمدورفت کے لیے/نقل وحمل کے لیے)، بند کردیا گیا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی سیکھنے کو تیار نہیں، لغات دیکھنے کو تیار نہیں۔ جتنا وقت اور پیسہ خبرخواں افراد (خصوصاً خواتین) کے خوش لباس اور خوش نُما بناکر دکھائے جانے پر صَرف ہوتا ہے، اس کے چوتھائی میں تمام معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ کبھی BBC,CNN,Aljazeera,DDW یا کسی ہندوستانی ٹی وی چینل پر دیکھا کہ اگر دو افراد خبریں پڑھ رہے ہوں تو اُن کے لباس کی یکسانیت یعنی Matching پر کس قدر توجہ دی گئی ہے؟…..انگریزی کے غلط استعمال اور اردو میں اس کے زبردستی، نیز بے جا استعمال کی بات تو اس قدر طویل ہوسکتی ہے کہ ایک پوری کتاب لکھ دی جائے، مگر ساتھ ہی یہ المیہ بھی ہمارے قلب و ذہن پر نِشتر کی طرح چُبھتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ بظاہر اہل زبان، اپنی زبان کے عام فہم الفاظ ہی سے واقف نہیں۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر (ایک خبر کی تفصیل پڑھتے ہوئے) خبر خواں اور (پیش کرتے ہوئے) خبررساں دونوں ہی کہے جارہے تھے: ’’جسم کے کسی بھی اعضاء کو مت چھُوئیں‘‘…..یعنی اعضاء کا واحد ’’عضو‘‘ اتنا مشکل یا خارج ازروزمرہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں یا کسی سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے تمام ٹی وی چینلز پر جلوہ افروز ہونے والے میزبان اور خبرخواں دن میں کئی بار کہتے دکھائی دیتے ہیں: ’’اب ہم لیں گے ایک چھوٹی سی Break، یا، یہاں ہوگا ایک Break، یا Breakتو بنتا ہے / بنتی ہے۔‘‘ جو لوگ وقفہ کہنے کا تکلف گوارا کرتے ہیں۔

انھیں یہ معلوم نہیں کہ اس کا استعمال کس طرح ہونا چاہیے۔ لغات دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں نا کسی اہل علم بزرگ سے پتا کرنے کی۔ ٹی وی سے نظریں ہٹاکر اخبارات اور رسائل پر ڈالیں، حتیٰ کہ ادبی جرائد دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہی سلسلہ ہے۔ کوئی غلط دَرغلط، نقل دَر نقل لکھنے پر مُصر ہے تو کوئی اس کی تصحیح و اصلاح کو سِرے سے غیرضروری سمجھتا ہے۔ زبان وبیان کی صحت کا خیال رکھنا، اب ہمارے اُدباء وشعراء کے نزدیک اتنا اہم نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی بھی شوقین اُوٹ پٹانگ نثر یا نظم لکھ کر فوراً اس کی اشاعت (خاص طور پر آن لائن اشاعت) کے لیے بقول کسے ’’کاتا ، لے دوڑی‘‘ پر عمل پیرا نظر آتا/آتی ہے، بلکہ اس سے بھی سنگین مسئلہ، المیہ اور جُرم یہ ہے کہ ہمارے بعض بزرگ معاصرین، چہرہ دیکھ کر، کچھ اور دیکھ کر یا اپنی کسی قسم کی آسودگی کی خاطر، اسے سراہتے ہیں اور سندِقبولیت مرحمت فرمادیتے ہیں۔

ایک واقعہ شاید پہلے بھی آپ کی نذر کیا تھا کہ ریڈیو سے منسلک، ایک آزادہ رَو میزبان نے، ایک ریڈیو پروگرام کے تقریری مقابلے میں خاکسار کے ہاتھوں (بہ سبب حوصلہ افزائی) انعام وصول کیا (نشریات میں یہ ظاہر کیے بغیر کہ وہ اسی ریڈیو چینل پر، پروگرام بھی پیش کرتی ہیں) اور مختصر گفتگو کا اپنے طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ صاحب دیگر اُمور کے علاوہ ناشر بھی ہیں تو میرا مجموعہ کلام شایع کردیں گے۔ دفتر تشریف لائیں اور اپنا کلام دکھایا تو راقم نے برملا، بہت مناسب الفاظ میں استفسار کیا کہ آیا کسی بزرگ کو دکھایا۔

انھوں نے یہ کہہ کر ششدر کردیا کہ فُلاں بزرگ تو میری شاعری کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ اب ایسے میں خاکسار نے بہت احتیاط برتتے ہوئے انھیں مشورہ دیا کہ براہ کرم پہلے اپنا پورا مجموعہ کلام ایک مرتبہ لاکر دکھائیں، پھر کسی سے اشاعت کی بات کریں اور پاکستان میں ماسوائے ایک آدھ سرکاری اداروں کے، کوئی بھی ناشر اپنے خرچ پر، کوئی کتاب شایع نہیں کرتا۔ وہ بہت خفا ہوئیں۔ اب بندہ کیا کرتا۔ اُن بزرگ کی طرح نا تو ’’دستِ شفقت‘‘ پھیرسکتا تھا نہ ہی اُن کے جلوہ افروز ہونے پر مدح سرائی کرسکتا تھا۔ انھوں نے بھی اس ’بدتمیزی‘ کے سبب، دوبارہ رابطہ کرنا گوارا نہیں فرمایا۔

The post مدیحہ پردیش؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

6 جولائی تا 12 جولائی 2020
برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
یہ ہفتہ آپ کے کیریر کے حوالے سے اہم ہے۔
ہفتہ کی ابتدا میں پلان، منصوبہ بندی اور معاہدوں کے حوالے سے
خاصا روشن نظر آتا ہے جب کہ جمعرات اور جمعہ کو کچھ الجھاؤ اور رکاوٹیں ہیں، لیکن12 جولائی سے آپ کے اندر ایک توانائی آپ کو میدانِ عمل میں کھینچ لائے گی۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
اس ہفتے کسی سے معاہدہ یا وعدہ سوچ سمجھ کے کریں، کوئی پرانا معاملہ سر اٹھا سکتا ہے۔ کوئی دوست دغا دے سکتا ہے، منگل اور ہفتے کے دن مالی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ 12 جولائی کو کسی قریبی سے تلخی ہوسکتی ہے، محتاط رہیں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
ذہن کافی الجھا ہوا لگتا ہے جس کی وجہ مالی اور فیملی امور ہیں۔
کسی لاٹری یا کمیٹی میں نام آنے کی امید ہے، کوئی درازقد اور بچکانہ حرکات والا دوست آپ کی مدد تو کرے گا لیکن اس کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں بھی سر اٹھا سکتی ہیں۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
پیر اور منگل ازدواجی تعلق یا شراکت داری میں محتاط رویہ رکھیں۔
مالی طور پر مستحکم نظر آتے ہیں لیکن کچھ قریبی لوگوں سے آپ کے معاملات میں ان بن نظر آتی ہے، ہفتہ کا دن عزت اور کیریر کے لیے اچھا ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
اپنی صحت کا خیال رکھیں۔
جمعہ اور ہفتہ مالی فائدہ ہوسکتا ہے، بیرون ملک یا آن لائن بزنس میں فائدہ ہوگا۔
لیکن کوئی چیک یا کسی معاہدہ میں غلطی ہوسکتی ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
قریبی لوگوں کے ساتھ ابھی تک تعلقات میں خرابی نظر آتی ہے
اس میں تندی آخری دنوں یعنی ہفتہ اور اتوار کو آسکتی ہے، محتاط رہیں۔
مالی حوالے سے بہتری کی امید ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
پیر کو کوئی اچھی خبر ملنے کی امید ہے۔مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
کیریر کے حوالے سے اہم ہفتہ ہوسکتا ہے، پبلک ڈیلنگ سے متعلق امور اہم ہیں اور ان سے آپ کو فائدے مل سکتے ہیں۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
ابتدائے ہفتہ سفر یا کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے۔ آن لائن یا سفری بزنس میں تیزی نظر آتی ہے۔ کسی دوست سے مالی تعاون مل سکتا ہے اور بزرگ سے ان بن ہوسکتی ہے۔

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبر تا 22 دسمبر
اچانک مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔ پرائزبانڈ یا کوئی اور صورت ہوسکتی ہے۔ شریکِ حیات کے ساتھ کسی بات پر گرماگرمی ہوسکتی ہے۔
والد کی صحت کا خیال رکھیں۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
جمعرات اور جمعہ فیملی اور ازدواجی رشتوں میں خرابی کا اندیشہ ہے۔ اس ہفتے میں گھرکی تعمیر یا اس کی تزئین و آرائش ہونے کی امید ہے۔ اولاد کے حوالے سے محتاط رہیں

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
صحت کے حوالے سے محتاط رہیں۔ احساسِ زیاں زیادہ رہے گا، لیکن مایوس نہ ہوں، ہفتہ اتوار رابطے اور سفر بڑھتے نظر آتے ہیں۔
صدقہ لازم دیں تاکہ کسی مصیبت کا سامنا نہ ہو۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
تین سیارے آپ کے دوستوں کے گھر میں بتارہے ہیں کہ دوستوں سے فائدے اور اخلاقی مدد مل سکتی ہے۔ بدھ اور جمعرات کسی محبوب شخصیت سے رابطہ یا ملاقات کا امکان ہے۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک(Saim Almsuataf Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احسن کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار6 جولائی 2020
حاکم نمبر1
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے۔
وردِخاص” یارحیمُ یا رحمنُ یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، کوئی خوشی دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: رشتوں کے حوالے سے ایک اہم دن، کچھ قریبی احباب سے خوشی ہوگی۔
3نمبر والوں کے لیے: ایک رکاوٹ لانے والا دن ہوسکتا ہے، مستقل مزاجی اور تحمل سے چلیں۔
4نمبر والوں کے لیے: ایک معاون دن، توانائی سے بھرپور۔
5نمبر والوں کے لیے: حساب کتاب میں گڑبڑ ہوسکتی ہے، دھوکے کا خطرہ ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: کسی دوست سے فائدہ مل سکتا ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: مالی اور فیملی کے حوالے سے کوئی مستقبل کا پلان بن سکتا ہے۔
8 نمبر والوں کے لیے: ہوسکتا ہے کچھ باتیں آپ کے مزاج سے ہٹ کے ہوں۔
9نمبر والوں کے لیے: سفر اور رابطے دونوں آج کے دن اہم ہیں، فائدہ ہوسکتا ہے۔

منگل 7جولائی 2020
حاکم نمبر9
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے۔
وردِخاص ”یا وھاب یا رزاق” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: کچھ تبدیل ہورہا ہے، سفر یا تبادلہ ہوسکتا ہے
2نمبر والوں کے لیے: خوشی کا سامان ہورہا ہے اچھا دن۔
3نمبر والوں کے لیے: خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں اور حقیقی زندگی کو دیکھیں۔
4نمبر والوں کے لیے: آج آپ کو مستقل مزاجی سے حالات کا سامنا کرنا ہوگا، ورنہ کوئی مشکل ہوسکتی ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: مزاج میں گرمی اور حالات میں تیزی آسکتی ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: کچھ نیا ہوسکتا ہے، کوئی نیا راستہ دکھائی دے سکتا ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: آمدن میں اضافے کا امکان ہے
8نمبر والوں کے لیے: کسی بینکر یا مالی حوالے سے مستقبل کا پلان کرنے والے سے مشاورت کے لیے اچھا دن۔
9نمبر والوں کے لیے: کچھ ایسی خبریں مل سکتی ہیں جو وقتی طور پر پریشان کرسکتی ہیں

بدھ 8 جولائی 2020
حاکم نمبر6
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500روپے کسی مفلس طالبعلم کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص”یاسمیع یا مجیبُ یا اللہ” 41 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: آپ کا واسطہ آپ کے مزاج سے الٹ لوگوں سے پڑ سکتا ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: پراپرٹی اور مکان کی خریدوفروخت کے لیے اچھا دن۔
3نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل ہوسکتی ہے، لیکن مالی حوالے سے نتیجہ بہتر ہوگا۔
4نمبر والوں کے لیے: کاموں کی رفتار سست روی کا شکار ہوسکتی ہے، مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
5نمبر والوں کے لیے ایک مشکل اور پریشان کرنے والا دن ہوسکتا ہے صدقہ دیں۔
6نمبر والوں کے لیے: بنا سوچے سمجھے کوئی وعدہ یا معاہدہ نہ کریں۔
7نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل کے بعد حالات آپ کے حق میں ہونے کی امید ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: پراپرٹی سے منسلک کام اہم رہیں گے، فائدہ ہوگا۔
9نمبر والوں کے لیے: ایک مشکل دن ہوسکتا ہے، صدقہ دیں اور تحمل سے چلیں۔

جمعرات 9 جولائی 2020
حاکم نمبر 5
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں
وردِخاص ”یاقادرُ یا قدیر یا اللہ” 41 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: کوئی حکومتی کارندہ آپ کے لیے مشکل کھڑی کرسکتا ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: روحانی سکون ملے گا، ذہنی طور پر ریلیکس ہونے کے اسباب بنیں گے۔
3نمبر والوں کے لیے: آگے بڑھنے کا راستہ دکھائی دے گا اور منصوبہ بندی بھی ہوسکے گی۔
4نمبر والوں کے لیے: مالی حوالے سے ایک بہتر دن۔
5نمبر والوں کے لیے: مذہبی اور مالی حوالے سے ایک بہتر دن۔
6نمبر والوں کے لیے آپ کے صبر اور بردباری امتحان ہوسکتا۔ ہے، کچھ رویے پریشان کرسکتے ہیں۔
7نمبر والوں کے لیے سفر کا امکان ہے، کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: زندگی میں راحتوں کے لیے سامان ہونے کا امکان ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: ماضی سے منسلک کوئی واقعہ شخص پھر سامنے آسکتا ہے۔

جمعہ 10 جولائی 2020
حاکم نمبر9
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا۔
وردِخاص”یاحافظ یا حفیظ یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: ایک نئی صبح کا دن، کچھ نیا ہونے کا امکان۔
2نمبر والوں کے لیے: کسی دوست سے مالی حوالے سے مدد مل سکتی ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: مالی اور روحانی لحاظ سے آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا ۔
4نمبر والوں کے لیے: کچھ امور میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے محتاط رہیں۔
5نمبر والوں کے لیے: سفر یا رابطے فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: ایک اچھا دن، زندگی میں سکون کے سامان ہوں گے۔
7نمبر والوں کے لیے: مراقبہ یا روحانیت کی طرف توجہ بڑھے گی، ایک لکی دن۔
8نمبر والوں کے لیے: رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، صدقہ دیں۔
9نمبر والوں کے لیے: تلخی اور تیزرفتاری سے گریز کریں۔

ہفتہ 11جولائی 2020
حاکم نمبر3
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا80 یا800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ”یافتاح یارزاقُ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔
2نمبر والوں کے لیے: کچھ خبریں یا اطلاعات آپ کا سکون خراب کرسکتی ہیں۔
3نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، خوشی کی خبر مل سکتی ہے۔
4نمبر والوں کے لیے: بہتر دن، حالات ففٹی ففٹی رہنے کی امید ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: کسی سے اختلافِ رائے جھگڑے یا پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: اچھا دن حالات توقع کے مطابق رہنے کی امید ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: آگے بڑھنے یا بزنس بہتر کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔
8نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، رشتوں سے سکھ ملنے کی امید ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: ترقی یا آپ کی آمدن میں اضافے کا امکان ہے۔

اتوار12جولائی 2020
حاکم نمبر6
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ”یاسمیع یا بصیر یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن ہوسکتا ہے، کوئی خوشی مل سکتی ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: کچھ کاموں میں تعطل یا رکاوٹ کا اندیشہ ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: ہمت آپ کو آپ کے مقاصد کے قریب کردے گی۔
4نمبر والوں کے لیے: نئی شروعات ہوسکتی ہیں، نیا باب کُھل سکتا ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: مالی فائدے کی امید ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: آپ کے مزاج کے مطابق حالات ہونے کی امید ہے اور آگے بڑھنے کے راستے ملیں گے۔
7نمبر والوں کے لیے: تخلیقی صلاحیتوں کا امتحان کا دن، صبر وتحمل سے چلیں۔
8نمبر والوں کے لیے: سفر ہوسکتا ہے یا کسی سے معاہدہ کا بھی امکان ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: ممکن ہے کافی عرصے بعد آج وہ مل جائے جس کا آپ محض خواب دیکھتے تھے۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

پیرالٰہی بخش ۔۔۔۔ سندھ کے بابائے تعلیم

$
0
0

 حیدرآباد: تحریک پاکستان میں سندھ کے مسلم دانشوروں اور راہنماؤں کا بہت اہم کردار تھا، جنہوں نے دن رات انتھک محنت کرکے پاکستان کے قیام کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ پاکستان کی تاریخ میں آج بھی ان راہنماؤں کا مقام بلند ہے۔ انہی اہم شخصیات میں ایک تاریخ ساز شخصیت پیر الٰہی بخش کی ہے۔

پیر الٰہی بخش 9 جولائی1897ء کو ضلع دادو کی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا نام پیر غلام حسین تھا۔ وہ ایک روحانی اور دینی شخصیت تھے۔ ان کے خاندان کے مرید کاٹھیا واڑ ریاست میں زیادہ تھے۔ پیر الٰہی بخش کے والد پیر نواز علی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جس کے بعد انہوں نے اپنے ماموں پیر لعل محمد کے زیرسایہ ترتیب حاصل کی۔

پیر الٰہی بخش نے ابتدائی تعلیم بھان سعید آباد میں حاصل کی جس کے بعد وہ خیرپور میرس چلے گئے۔ 1919ء میں ناز ہائی اسکول خیرپور سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے ممبر تھے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پیر الٰہی بخش مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت چلنے والی خلافت تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔

مولانا محمد علی جوہر کے حکم کی بنا پر جن طلبہ نے 1920ء میں علی گڑھ کالج کو چھوڑا، ان میں سے ایک وہ بھی تھے۔ انہوں نے علی گڑھ کالج کو چھوڑ کر دہلی میں واقع مولانا محمد علی جوہر کی زیرسرپرستی چلنے والی جامعہ ملیہ دہلی میں داخلہ لیا۔ اس درس گاہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے رکھا تھا، جس کے چانسلر حکیم اجمل خان مرحوم تھے۔

یہاں سے بی اے کی سند حاصل کی اور اپنی مزید تعلیم چھوڑ کر اپنے وطن لاڑکانہ سندھ واپس آگئے اور یہاں تحریک خلافت کی قیادت سنبھال لی۔ جب سندھ میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو پیر الٰہی بخش8 سے 10جولائی1921ء کو صوبہ سندھ خلافت کانفرنس کراچی میں شریک ہوئے جس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی تھی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں کراچی کے مشہور مقدمہ بغاوت میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدد سرہندی کو دو دو سال کی سزا دی گئی تھی۔ پیر الٰہی بخش آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کے بھی کچھ عرصہ ممبر رہے۔ تحریک خلافت زیادہ عرصہ زور نہ پکڑ سکی اور بالآخر برطانوی حکومت نے اسے دبادیا۔

حالات و واقعات نے پیر الٰہی بخش کو سیاست داں بنادیا تھا۔ تحریک خلافت کے ختم ہونے کے بعد حالات بدلنے لگے اور اس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر مرحوم سرشاہنواز بھٹو نے پیر الٰہی بخش کو مشورہ دیا کہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی منقطع تعلیم کی تکمیل کریں۔

سرشاہنواز بھٹو نے اس مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی جانب سے انہیں وظیفہ عطا کیا اور اس طرح پیر الٰہی بخش ایک مرتبہ پھر تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے انہوں نے 1929ء میں ایم اے کیا، پھر ایل ایل بی کی ڈگری لی اور واپس آکر لاڑکانہ میں وکالت شروع کردی اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ پاکستان کے قیام میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قرارداد آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل اجلاس منعقدہ لاہور میں شیربنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔

اس قرارداد میں کہا گیا کہ برصغیر میں موجود مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی ریاستوں اور صوبوں کی پاکستان میں شمولیت کی جائے۔ اگر 1937ء تک سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ ہوئی اور وہ ہمیں ریزیڈنسی سے الگ کرکے ایک خود مختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا تو قرارداد پاکستان میں اسے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جاسکتا۔ اس عظیم کارنامے کے پیچھے پیر الٰہی بخش مرحوم کی کاوشیں کار فرما تھیں۔ پیر الٰہی بخش اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی اس بات سے پریشان تھے کہ لاڑکانہ کے طلباء کو میٹرک کے امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ سوچتے تھے کہ کچھ ایسا کریں جس سے سندھ کو برصغیر کے جغرافیے میں اپنا صحیح، آزاد اور علیحدہ مقام حاصل ہوسکے۔

سندھ کے بمبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد 1937ء میں سندھ اسمبلی کے لیے جو انتخاب ہوا، اس میں پیر الٰہی بخش دادو کے خان بہادر یار محمد خان جونیجو اور یاٹ کے ایک بااثر وکیل کو شکست دے کر سندھ اسمبلی کی ممبری کے لیے منتخب ہوئے۔ اس وقت پیر الٰہی بخش سندھ اتحاد پارٹی کے ممبر تھے۔ سر غلام حسین ہدایت اﷲ کی وزارت بننے کے بعد اتحاد پارٹی کے ممبر جن کی تعداد شروع میں 24 تھی، آہستہ آہستہ پارٹی چھوڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد 8یا 9 رہ گئی۔

اتحاد پارٹی کے لیڈر خان بہادر اﷲ بخش مرحوم تھے اور انہوں نے ہی یہ جماعت بنائی تھی لیکن پیر الٰہی بخش اتحاد پارٹی کے اس حال میں بھی وفادار رہے۔ سندھ کی پہلی کابینہ صرف تین افراد یعنی سرغلام حسین ہدایت اﷲ بطور وزیراعلیٰ جبکہ میر بندے علی خان تالپور اور مکھی گوبند داس پریتم داس بطور وزراء پر مشتمل تھی۔ اس وزارت کا خاتمہ 22 مارچ 1938ء کو ہوا۔ 23 مارچ 1938ء کو خان بہادر اﷲ بخش سومرو بطور وزیراعلیٰ، پیر الٰہی بخش بطور وزیر ریوینیو اور نیچلداس وزیرانی وزیر پی ڈبلیو ڈی اور پبلک ہیلتھ شامل تھے۔

18مارچ 1940ء کو اﷲ بخش سومرو کی حکومت بھی مستعفی ہوگئی جس کے بعد میر بندے علی خان تالپور سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آئے تو پیر الٰہی بخش وزارت سے علیحدہ ہوگئے۔ صرف ایک سال بعد 6 مارچ 1941ء کو ایک بار پھر کابینہ میں تبدیلی آئی جس کا سبب 3 وزراء کا استعفیٰ تھا۔ نئی کابینہ جو دوسری مرتبہ 1941ء میں خان بہادراﷲ بخش سومرو کی سربراہی میں سندھ کے اقتدار پر فائز ہوئی اس میں پیر الٰہی بخش بھی شامل تھے اور اس مرتبہ انہیں بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت، آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقیات کے اہم قلمدان سونپے گئے۔

پیر الٰہی بخش آخر تک محکموں کے وزیر کے طور پر برقرار رہے۔ تعلیم کے شعبے میں آپ کو خصوصی دل چسپی تھی۔ آپ نے پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کی غرض سے941ء میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی سربراہی میں پیش ہوا جسے اسمبلی نے منظور کرلیا۔ 1943ء میں گورنر نے اﷲبخش کی وزارت اعلیٰ کو ختم کردیا اور غلام حسین ہدایت اﷲ کو وزارت بنانے کی دعوت دی ۔ پیر الٰہی بخش مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1937ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود میٹرک سندھی طلباء کو امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا۔

یہ وہ موقع تھا کہ انہوں نے سندھ اسمبلی کے 22 ویں اجلاس منعقدہ 12مارچ 1945ء میں یونیورسٹی بل 1945ء پیش کیا جسے پیر الٰہی بخش نے صرف 2 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے میں کام یاب ہوگئے اور اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پیر الٰہی بخش نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ابوبکر احمد حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پیر الٰہی بخش کی اس کاوش کو بھرپور انداز میں سراہا۔

1946ء میں پیر الٰہی بخش مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ممبر منتخب ہوئے۔ اسی سال ستمبر کے مہینے میں گورنر نے اسمبلی ختم کردی اور دسمبر میں نئے چناؤ ہوئے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ سرغلام حسین ہدایت اﷲ سندھ کے گورنر مقرر ہوئے۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ کھوڑو صاحب منتخب ہوئے۔ 1948ء میں کھوڑو صاحب کا کراچی کے سوال پر مرکزی حکومت سے اختلاف پیدا ہوا۔ انہوں نے کراچی کو مرکزی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ مرکزی حکومت نے انہیں ڈس مس کردیا۔ پیر الٰہی بخش کو کھوڑو صاحب کی جگہ صوبہ سندھ کا وزیراعلیٰ بنایاگیا۔

1950ء میں جی ایم سید کی دائر کردہ اپیل کے فیصلے میں پیر الٰہی بخش کو ڈس کوالیفائڈ کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس وقت پیر الٰہی بخش وزارت اعلیٰ اور اسمبلی سے علیحدہ ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش 3مئی 1948ء سے 4 فروری1949ء تک صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ رہے تھے۔ ان کا تعلق سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ سے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پیر الٰہی بخش سندھ کے دوسرے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی تقرری کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ ان کی بطور وزیراعلیٰ تقرری براہ راست قائداعظم کی جانب سے نامزدگی پر عمل میں آئی تھی۔ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے اعتماد پر پورے اترے۔

پیر الٰہی بخش تحریک پاکستان کے مجاہد، قائداعظم کے رفیق کار تھے۔ قائد اعظم نے جب گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور حلف برداری کی تقریب ہوئی تو تلاوت قرآن پاک کی سعادت پیر الٰہی بخش کو حاصل ہوئی۔ وہ نہ صرف بابائے تعلیم تھے بلکہ 1947ء میں مہاجروں کی آبادکاری کے سلسلے میں ہراول دستے میں شامل تھے۔

انہوں نے اس سلسلے میں پیر الٰہی بخش ہاؤسنگ سوسائٹی 1948ء میں رجسٹرڈ کروائی۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد مسلمان مہاجرین پاکستان کے اس وقت دارلحکومت کراچی میں منتقل ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش کالونی اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب مہاجروں کو کالونی کے لیے اراضی کا عطیہ ایک بڑے ماہر زراعت نے دیا تھا۔ اس کے بعد ایک نجی ٹھیکے دار مسٹر حسن کو مکانات بنانے کا ہدف دیا گیا۔ حسن نے 1800 روپے کی لاگت سے 150مربع گز کے مکانات بنائے۔ مہاجر برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے مشہور افراد اس کالونی میں رہتے تھے جو بعد میں دوسرے علاقوں میں چلے گئے۔

اس علاقے میں سب سے مشہور مساجد میں ہاشمی مسجد، جامع مسجد، فیضان عطار، احمد رضا، کھتری مسجد، مکی اور مدنی مسجدیں ہیں۔ دہلی کالونی، پیر آباد اور بعض دیگر آبادیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ پیر الٰہی بخش کی کوششوں سے سندھ میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا، جن میں سندھ یونیورسٹی اور ایس ایم کالج سرفہرست ہیں۔ وہ سالوں تک سندھ مدرستہ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے رہے۔ پیر صاحب کا اردو کالج کے قیام میں بھی اہم کردار تھا۔ پیر صاحب نے مولوی عبدالحق کو ایک عمارت مہیا کی تھی، جہاں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی تھی اور بعد میں وہاں اردو کالج کھولا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں دیگر تعلیمی اداروں کا سنگ بنیاد رکھا۔

پیر الٰہی بخش ٹاور (علمی ٹاور) اسٹیٹ بینک آف پاکستان سکھر کے قریب ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ 10فٹ اونچائی اور 66 فٹ چوڑا ہے۔ اس ٹاور کا سنگ بنیاد مئی 1939ء میں اس وقت کے وزیرتعلیم سندھ پیر الٰہی بخش کے ہاتھوں رکھا گیا اور 1940ء میں تعمیر مکمل ہوئی۔

جب پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں آیا تو پیر الٰہی بخش اس میں شامل ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش نہایت کریم النفس، خوش اخلاق اور صوم و صلوٰۃ کے بے حد پابند تھے۔ پیر الٰہی بخش کی وصیت تھی کہ میرے انتقال کے بعد میری تدفین پیر الٰہی بخش کالونی جامع مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ کی جائے۔ پیر صاحب جب تک زندہ رہے ان کے گھر کے دروازے کبھی بند نہ ہوئے۔ ہمیشہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے، اکثر خود بھی بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بے شمار بچے ان کے خرچ پر تعلیم حاصل کرتے تھے۔

انہیں تعلیم سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ آپ نے مفت تعلیم بالغاں کا اہتمام کیا۔ پیر صاحب درویش صفت انسان تھے۔ پیر الٰہی بخش8اکتوبر 1975ء کو 5 بیٹے اور 2بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ بیٹوں کے نام پیر محمد نواز، پیر شاہنواز، پیر عبدالمجید، پیر عبدالحمید اور پیر عبدالرشید ہیں۔ ان کے پوتے ایڈووکیٹ پیر مظہر الحق نے سیاست میں کام یابی حاصل کی اور وہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی سندھ اور وزیر بھی رہے۔

پیر مظہر الحق پاکستان پیپلزپارٹی کے انتہائی وفادار ممبروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ پیر مظہر الحق نے جنرل ضیاء کے دور میں اس وقت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی جب دوسرے پارٹی چھوڑ کر جارہے تھے یا پھر متبادل کی تلاش میں تھے۔ پیر مظہر الحق کی بیٹی ماروی مظہر بھی رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ وہ سندھ کے ضلع دادو سے صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ پیر الٰہی بخش جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی سیاسی اور سماجی خدمات بے مثال ہیں۔

The post پیرالٰہی بخش ۔۔۔۔ سندھ کے بابائے تعلیم appeared first on ایکسپریس اردو.

مودی کا لاک ڈاؤن ڈراؤنا خواب بن گیا

$
0
0

یہ 24 مارچ کی بات ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شام چار بجے تقریر کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں سے صلاح مشورہ کیے بغیر اعلان کردیا کہ چار گھنٹے بعد کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن لگایا جارہا ہے۔ مقررہ وقت پر پورے بھارت میں ٹرانسپورٹ تھم گئی، کارخانے بند ہوئے اور ہر قسم کا کاروبار بھی روک دیا گیا۔ غرض مودی سرکار نے زندگی کا پہیہ مکمل طور پر جام کردیا۔ بعد ازاں وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک عاجلانہ، غیر عاقلانہ اور عوام دشمن فیصلہ تھا جس  نے کروڑوں بھارتیوں کا نظام زندگی تہ و بالا کر ڈالا۔

مودی چائے فروش کا بیٹا ہے۔ نوجوانی میں جھاڑو پونچھا بھی لگاتا رہا۔ ایسے غریب لوگ جب خوش قسمتی سے حکمران بن جائیں تو لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ وہ عوام کے دکھ درد اور مسئلے مسائل سمجھیں گے کہ خود انہی سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں حل کرنے کی کوشش ہو گی۔ ان کے فیصلے عام آدمی کی خواہشات کے آئینہ دار ہوں گے۔

حکومت عوامی مصائب ختم کرے گی، اضافہ نہیں۔ مگر نجانے کیوں غربت کی آغوش میں پلے بڑھے بہت سے لیڈر حکومتی محلات کے خواب آگیں، پُر آسائش اور رنگین ماحول میں پہنچتے ہی عام آدمی سے کٹ جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ  آمر بن بیٹھتے اور پھر عوام دشمن فیصلے کرتے ہیں مگر انہیں اس سچائی کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ وہ ہر معاملے میں خود ہی کو درست اور عقل کُل سمجھتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم بھی اسی انوکھے اعجوبے کا شکار ہوچکے گو بظاہر وہ عوامی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔

نریندر مودی کو احساس تک نہ تھا کہ بے سوچے سمجھے اور عجلت میں لاک ڈاؤن لگانے کا بھیانک نتیجہ نکلے گا۔اول اس نے بھارتی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا جو مودی سرکار کی خراب پالیسیوں کے سبب پہلے ہی بحران کا شکار تھی۔دوسرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کروڑہا بھارتیوں کی روزمرہ زندگی درہم برہم ہو گئی اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔

عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ لگائے بغیر اس پر من مانے فیصلے ٹھونس دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا۔مثال کے طور پر مودی نے یک دم بھارت میں پانچ سو اور دو ہزار کے کرنسی نوٹ ختم کردیئے۔ یوں نوٹوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی جس نے عوام کو سخت پریشان کیا۔ آٹا خریدنے سے لے کر تنخواہ لینے تک کرنسی نوٹوں کی شدید کمی ایک نئی مصیبت بن کر  ان کے گلے پڑگئی۔ مودی پھر سرکاری محکموں میں رشوت کا چلن بھی روک نہیں پایا۔ آج بھی عام آدمی کو کام کرانے کی خاطر سرکاری افسر کو مال کھلانا پڑتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن بھی مودی سرکار کی عوام دشمن پالیسیوں کا منہ بولتا مظہر بن گیا۔

پندرہ کروڑ مہاجر ورکر

بھارت میں افرادی قوت 47 کروڑ مردوزن پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 42 کروڑ غیر رسمی (ان فارمل) معیشت سے منسلک ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر انہوں نے اپنے معمولی کاروبار شروع کررکھے ہیں۔ انہیں روزانہ اتنی آمدن ہوجاتی ہے کہ خرچے پورے ہوسکیں۔ اکثر مردوزن کو روزانہ کے حساب سے روزگار ملتا ہے،کبھی مل گیا اور کبھی نہیں ملا۔ایسے لوگ عرف عام میں ڈیلی ویجر کہلاتے ہیں۔ غیر رسمی معیشت سے وابستہ ملازمین کو عموماً علاج و انشورنس کی سہولیات نہیں ملتیں اور نہ ہی مستقل روزگار کی ضمانت۔وہ لشٹم پشٹم زندگی گذارتے ہیں۔

ان 42 کروڑ مردوزن میں چودہ  پندرہ کروڑ مہاجر ورکر بھی شامل ہیں۔ یہ وقتاً فوقتاً دیہات اور قصبات سے شہروں میں  پہنچ کر مختلف چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے ہیں۔ دیہات کی نسبت شہروں میں انہیں زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر سال لاکھوں بھارتی شہروں کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ مگر انہی کارکنوں کی زندگیاں سب سے تباہ حال گزرتی ہیں۔ یہ عموماً ڈیلی ویجز ہوتے ہیں۔

مل جل کر چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں تاکہ رقم بچاسکیں۔انھیں ضروریات زندگی مثلاً پانی،بجلی ،گیس بہ مشکل میسر آتی ہیں۔ اکثر کے گھر والے دیہات میں مقیم ہوتے اور ان کی بھجوائی رقم پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ روکھی سوکھی کھا کر پیسے بچاتے اور اپنے اہل خانہ کو بھجواتے ہیں۔

مودی کے اچانک لاک ڈاؤن نے سب سے پہلے انہی ڈیلی ویجروز کو نشانہ بنایا۔ لاک ڈاؤن ہوتے ہی ذرائع آمدن ختم ہوگئے۔ مودی کا کہنا تھا کہ بندشیں اور پابندیاں جلد ہٹ جائیں گی مگر کورونا وائرس پھیلنے کے باعث لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی چلی گئی۔ڈیلی ویجروں کے پاس خصوصاً جمع پونجی بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے شہروں میں مقیم لاکھوں ایسے افراد جلد ہی قلاش ہوگئے۔ ان کے پاس دو وقت کی روٹی خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں رہے۔ تبھی وہ پیدل یا سائیکل پر گھر کی طرف سفر کرنے لگے۔ انہیں علم تھا کہ گھر میں تو انہیں سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کا آسرا مل جائے گا۔ شہر میں تن تنہا وہ لاک ڈاؤن کے سبب جنم لینے والی مشکلات سے کیونکر مقابلہ کرتے؟

کیڑے مار دوا کا سپرے

مودی حکومت کو چاہیے تھا کہ ان لاکھوں کروڑوں ڈیلی ویجروں کی بھوک مٹانے کے لیے بندوبست کرتی۔ انہیں ماہانہ خرچ دیتی جیسے حکومت پاکستان نے اپنے ڈیلی ویجروز کو دیا۔ یا پھر وسیع پیمانے پر ان کی رہائش و طعام کا انتظام کیا جاتا ۔ مودی سرکار نے ایسا کوئی عوام دوست قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ مسلمانوں کو بدنام و معطون کرنے میں لگی رہی کہ ان کی وجہ سے بھارت میں وبا پھیل رہی ہے۔

گھر کی جانب جاتے اور سفر کی سختیاں برداشت کرتے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو مودی سرکار کوئی مدد تو کیا کرتی، پولیس و افسر شاہی ان کے لیے نیا وبال جان بن گئی۔ انہیں جگہ جگہ روک کر سزائیں دی گئیں کیونکہ وہ آمرانہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہے تھے۔ سزا دینے میں بھی مغرور افسر شاہی نے جدتیں پیدا کر ڈالیں۔ مثلاً رائے بریلی آنے والے ڈیلی ویجروز کے ایک گروپ پر انتظامیہ نے کیڑے مار دوا کا سپرے کر ڈالا حالانکہ وہ کورونا وائرس پر قطعاً کارگر نہیں ہوتی۔

غرض مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کے منفی اثرات سے متاثر کروڑہا شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑا تو تو وہ خوراک و جائے پناہ کی تلاش میں ہجرت کرنے لگے۔ بھارتی دانشوروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب بھارت میں 1947ء کے بعد دوسری بڑی ہجرت ظہور پذیر ہوئی۔ اور اسے انجام دینے میں مودی سرکار کا بڑا کردار رہا۔اس ہجرت کے دوران کم از کم پانچ سو بھارتی بھوک،پیاس،تھکن اور حادثات کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مہاجرین کی سہولت کے لیے آخر بھارتی حکومت نے یکم مئی سے ریلیں چلائیں مگر ان کے کرائے میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اب قلاش مہاجرین ٹکٹ کا پیسا کہاں سے لاتے؟ جب عوام نے احتجاج کیا تو کرایہ کم کیا گیا۔ مزید براں مہاجرین کے قیام و طعام کی خاطر جو مرکز قائم کیے، وہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ان مراکز میں انسانوں سے جانوروں جیسا ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔

 ایلیٹ طبقے کو پالتا نظام

غرض کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے روکنے کے لیے مودی سرکار نے جو لاک ڈاؤن اپنایا، وہ بھارتی حکومت کی خامیاں، بدانتظامی اور کرپشن دنیا والوں پر عیاں کرگیا۔ نریندر مودی بھارت کو سپرپاور بنانا چاہتا ہے۔ مگر لاک ڈاؤن نے افشا کردیا کہ بھارت کا نظام اب بھی نااہل، کرپٹ اور ذاتی مفادات میں گھرے سیاست دانوں، افسر شاہی اور جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ نظام صرف ایلیٹ طبقے کو پالتا پوستا اور طاقتور بناتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود سے بھارتی حکمران طبقے کو کوئی سروکار نہیں۔

اس دوران مودی سرکار نے اپنی نااہلی چھپانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستانی سفارت کاروں کو نکال دیا۔ یہ قوم پسندی کے جذبات بھڑکا دینے والا عمل تھا۔ بھارتی انتہا پسندوں کا یہ دیرینہ حربہ بن چکا کہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف ہندو عوام کے جذبات مشتعل کرکے اپنے مفادات حاصل کرلیتے ہیں۔ یوں وہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ بھی ہٹانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بھارت کی اکثریتی عوام کو نجانے اپنے قوم پرست اور انتہا پسند لیڈروں کی یہ چال بازی کب سمجھ میں آئے گی۔

مظلوم آدی واسی
بھارتی حکمران طبقے کا بڑا حصہ برہمنوں اور کھشتریوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں کے مسائل حل کرنے میں کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، آزادی کے سات عشرے بیت چکے، بھارت میں کم از کم پچاس کروڑ شہری غربت، جہالت اور بیماری کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہریوں میں سب سے زیادہ آدی واسیوں کی حالت قابل رحم ہے۔بھارت کی سطی ریاستوں میں مقیم قبائل ’’آدی واسی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی تعداد دس کروڑ ہے۔

یہ قبائل جنگلوں یا کھیتوں میں کام کرکے گزار اوقات کرتے ہیں۔ کوئی شکاری ہے تو کوئی کسان۔ یہ سرزمین بھارت کے اصل وارث ہیں کہ آریائوں کی اولاد، برہمنوں اور کھشتریوں سے پہلے ہندوستان میں مقیم ہیں۔ مگر دور جدید کا بھارتی حکمران طبقہ انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔دراصل جب وفاقی یا ریاستی حکومت کو فیکٹری لگانی یا کان کھولنی ہو تو آدی واسیوں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ان مجبوروں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی زمینوں میں تہہ ِزمین قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں۔

یہ معدنیات نکالنے کے لیے پچھلے ستر برس میں بھارتی حکومت کروڑوں آدی واسیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرچکی۔ یہ جدید ترقی کا ایک منفی روپ ہے۔زمین چھین لینے کے بعد حکومت انہیں معمولی معاوضہ دیتی اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ چناں چہ بھارت میں مہاجر آدی واسیوں کی کثرت ہوچکی اور وہ تقریباً سبھی شہروں میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں وہ معمولی کام کرکے کماتے اور جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔ بہت سے نوجوان آدی واسی بھارتی حکمران طبقے کے ظلم کا شکار ہوکر انتقاماً جنگجو بن چکے۔ انہیں ’’مائو باغی‘‘ کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج مودی سرکار مسلمانوں کی طرح آدی واسیوں اور دلتوں کی بھی نسل کشی کرنے میں محو ہے۔ لیکن مغربی میڈیا کو مودی حکومت کا یہ بے پناہ ظلم دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنا اپنا فرض اولیں سمجھتا ہے۔آدی واسیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی ایک مثال ریاست جھاڑکھنڈ ہے۔

اس ریاست کی 40 فیصد آبادی آدی واسی ہے۔ مگر جھاڑ کھنڈ ہی میں بھارت کی 40 فیصد معدنیات پائی جاتی ہیں۔ پچھلے پچاس برس سے بھارتی کمپنیاں کھربوں روپے مالیت کی معدنیات ریاست سے نکال چکیں مگر اس بھاری رقم میں سے معمولی سرمایہ بھی آدی واسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ نہیں ہوا۔ الٹا لاکھوں آدی واسیوں کو انہی کی زمینوں سے نکال دیا گیا تاکہ وہاں کانیں بن سکیں۔ گویا معدنیات مقامی باشندوں کے لیے ترقی و خوشحالی کا پیغام نہیں لعنت بن گئیں۔ اس لعنت کی وجہ سے انہیں دربدر بھٹکنا پڑگیا۔

The post مودی کا لاک ڈاؤن ڈراؤنا خواب بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

سماء یا سماں؟؟

$
0
0

 زباں فہمی نمبر 56

معروف گلوکار عالمگیر اِس عمر میں بھی بہت سوں سے زیادہ جواں عزم دکھائی دیتے ہیں اور بیماری سے مسلسل نبردآزما ہیں۔ یہ مضمون براہ ِراست کمپیوٹر پر رقم کررہا ہوں تو ایسے میں ٹیلی وژن کے پردہِ زرنگار پر خبروں، اشتہارات اور اطلاعات کی شکل میں نیا نویلا مواد بھی سامنے آرہا ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ’’ہم ٹی وی‘‘  نے اعلان کیا :’’البیلا راہی………آرہا ہے …..سماء سجانے کو۔‘‘ انھوں نے تو خاکسار کی زباں دانی کو بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ سماں اور سماء کا فرق بھی نہیں جانتے، لہٰذا یہ بتانا مشکل ہے کہ سماء سجانے سے مراد سماء ٹی وی سجانا ہے، سماء بمعنی آسمان سجانا ہے (آسمان کو سجانا غلط ہے) یا اس سے مراد، اِن فاضل Copywriterنے سماں یعنی منظر سجانے سے لی ہے۔

راقم بہت پہلے عرض کرچکا ہے کہ ہمارے کئی ٹیلی وژن نیوز چینلز کے نام غیرممالک سے مستعار ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ انھیں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ کسی ہنرمند، تجربہ کار اور شعبے سے منسلک شخصیت سے نام تجویز کرنے کے لیے مشورہ کرلیا جائے۔ ضمناً دو نکات آپ کے گوش گزار کردوں۔

پہلی بات تو یہ کہ گلوکار عالمگیر کا ہِسپانوی (Spanish)دُھن پر گایا ہوا یہ گانا، پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ’سنڈے کے سنڈے‘ میں پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ یہ بات ہے 27 جنوری 1974ء کی، شاعر تھے ہمارے بزرگ معاصر عبدالرزاق شاعرؔ صدیقی، اس کی دھن بنائی تھی مشہور مُوسیِقار کریم شہاب الدین نے، جب کہ اس کے پیشکار (Producer)تھے، جناب ظہیر خان۔ اس وقت اس نغمے کے گلوکار، شاعر اور پیشکار سب ماشاء اللہ بقیدِحیات ہیں۔

شاعرؔ صدیقی صاحب سے ملاقات کو کئی سال ہوگئے، مگر ابھی کچھ عرصہ قبل اُن سے موبائل فون پر چند ایک بار گفتگو ہوئی تھی، جبکہ ظہیرخان صاحب بارہ فروری سن دو ہزار بیس کو ہمارے بزرگ دوست، ممتاز شاعر اور پی ٹی وی کے سابق سینئر پروڈیوسر محترم اقبال حیدر (مرحوم) کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ادبی تقریب میں کیفے گُل رنگ، آرٹس کونسل تشریف لائے تھے۔

تقریب کی ابتداء سے پہلے اُن سے دل چسپ گفتگو ہوئی اور پھر انھوں نے تقریب میں سامعین سے خطاب بھی کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نغمات سے مقبول ہونے والے شاعرؔ صدیقی کسی بھی دوسرے مستند سخنور کی طرح اپنی اس شاعری کو عوام کی طرح اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کا کہنا ہے:’’اپنی فلمی اور ٹیلی وژن نغمات کی شاعری کے بارے میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوںکہ اِن تمام نغمات کی دُھنیں پہلے بنائی گئیں اور بعد میں اِن دھنوں اور مُوسِیقی کی رِدم(Rhytm)پر الفاظ لکھے گئے۔ میں اِسے مکینیکل شاعری کہتا ہوں۔‘‘ (یہ لفظ رِدَھم نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے پاکستانی انگریز بلا تفریق کہتے دکھائی دیتے ہیں)۔ ]مجموعہ کلام ’آنکھوں میں سمندر‘ مطبوعہ جنوری [2004۔

ان دنوں مصنوعی وباء کرونا کا ہر طرف چرچا ہے تو ایسے میں بے چارے ذرائع ابلاغ کی بڑی شامت آئی ہوئی ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ انھیں اس وباء سے متعلق چند مخصوص جملوں، فقروں اور اصطلاحات کا ترجمہ بھی کرنا پڑا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے کسی بقراط نے انگریزی عبارت Stay home-Stay safeکا ترجمہ فرمایا: ’’گھر رہیں، محفوظ رہیں۔‘‘ (درست ہے: گھر پر رہیں، محفوظ رہیں)۔ بس چونکہ مستند ہے سرکار کا فرمایا ہوا تو سب ٹی وی چینلز اور اخبارات ورسائل پر بھی (ازخود) واجب ہوگیا کہ یہی کہہ کہہ کر ’ڈراوا‘ مہم شدّومدّ سے چلائیں۔

اسی پر بس نہیں، ہمارے اردو اہل قلم بھی بغیر سوچے سمجھے یہی نعرہ لگا رہے ہیں۔ خیر جہاں تک اردو اُدَباء وشُعَراء کا تعلق ہے تو خاکسار نے اپنی تحریر اور ٹیلی وژن انٹرویو میں یہ بات ایک سے زائد بار کہی ہے کہ ہمارے اہل ِقلم (خصوصاً شاعر) پڑھتے کم، لکھتے زیادہ ہیں، اور بولتے…اس سے بھی زیادہ ہیں۔ جب یہ حال اہلِ زبان کا ہے تو غیروں سے گِلہ چہ معنی دارد۔ ایسی ہی غلط زبان کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ۱۔ مجھے کام جانا ہے (بجائے ’’کام سے جانا ہے‘‘ کے)۔۲۔ وہ چھٹّی گئے ہوئے ہیں (بجائے ’’چھٹی پر گئے ہوئے ہیں‘‘ کے)۔ ۳۔ میں نے لاہور جانا ہے (بجائے ’’مجھے لاہور جانا ہے‘‘ کے)۔۴۔ میرا نہیں خیال کہ وہ واپس آئے گی (بجائے ’’میں سمجھتا ہوں کہ وہ واپس نہیں آئے گی‘‘ کے)۔ ]یہ ویسے انگریزی کے فقرےI don’t think کا چالو، مگر بھونڈا ترجمہ ہے

[۔ یہ تمام مثالیں پنجابی میں قابل ِ قبول ہیں، مگر یہ اردو نہیں اور جو اہلِ زبان ان کی صحت پر اصرار کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اہلِ زبان سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، حتّیٰ کہ میمنی (بولی) غلط بول کر دکھائیں اور پھر یہ بھی کرکے دکھائیں کہ ان علاقائی زبانوں سمیت کسی بھی زبان سے متعلق، کوئی اہلِ زبان، بَروَقت اُنھیں ٹوکنے کی بجائے کہہ دے: او کوئی بات نہیں….چلتا ہے….اپنی زبان ہے، جیسے چاہے بولو! اس بابت زباں فہمی کے ایک پرانے کالم میں بھی یہی مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ ڈنکے کی چوٹ پر، غلط اردو بولنا اور پھر یہ کہنا کہ کوئی بات نہیں، بات سمجھ میں آگئی ناں؟؟ اور یہ اصرارکرنا کہ اردو تو ہے ہی لشکری زبان (لہٰذا جیسے چاہے بیڑہ غرق کرو)۔ ہر زبان کی تحریروتقریر میں صحتِ تلفظ اور صحتِ قواعد کا خیال رکھنا ازبَس ضروری ہے۔ اگر آپ ’’فادری‘‘ زبان (انگریزی) غلط بولیں تو آپ کسی بھی محفل میں ہدف ِتنقیدوتنقیص بن سکتے ہیں، عربی زبان میں اگر دینی اصطلاحات کی بات ہو تو یقیناً معاملہ گناہ وثواب تک جاپہنچتا ہے، مگر ویسے بھی کوئی اہلِ زبان عرب یا عربی داں، عربی کی شان میں ذرا سی گستاخی برداشت نہیں کرتا، تو پھر کیا سبب ہے کہ ہم اردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رَوا رکھیں؟؟

حیدرآباد، سندھ میں مقیم، ہمارے ایک بزرگ معاصرمحترم عتیق احمد جیلانی شاعری میں تو اپنے جوہر دکھاتے ہی رہتے ہیں، کل شام انھوں نے ایک منثور (یعنی نثر سے بنا ہوا یا نثر سے متعلق) پیام بذریعہ موبائل فون یوں ارسال فرمایا:’’جس نے کبھی کسی کی نہیں مانی، وہ بھی کہتا ہے، ’میرا ماننا ہے۔‘ نادان یہ نہیں کہتا کہ میرا کہنا ہے۔‘‘ مزے کی بات ہے کہ یہ طرزِگفتگو اِن دنوں محض ٹیلی وژن تک محدود نہیں، ہمارے تو شاعر وادیب بھی یہی زبان لکھ اور بول رہے ہیں۔یہ وہ غلط زبان ہے جو ہمارے یہاں، ماضی قریب میں ہندوستانی ٹی وی چینلز کی ’برسات‘ کے طفیل دَر آئی ہے۔ (یلغار پرانا لفظ ہوگیا ناں)۔ اس کی سب سے مشہور مثال ہے: ’’فُلاں میرا فون نہیں اُٹھارہا‘‘ (بجائے اس کے کہ میری کال نہیں سن رہا/میری کال وصول نہیں کررہا)۔ یہ باتیں اس قدر تواتر سے ہوتی رہتی ہیں کہ خاکسار کو بھی کالم میں دُہرانی پڑتی ہیں۔ گویا ’’بنتی نہیں ہے بات، مکرر کہے بغیر۔‘‘ زبان کی اصلاح کے ضمن میں روزانہ ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جب یہ سمجھنا دشوار ہوتا ہے کہ اس بات پر ہنسیں، روئیں یا غصہ کریں۔

میٹرو وَن ٹی وی نے اپنی خبروں میں یہ بھی بتایا کہ ’’گلیوں کو قناعتیں لگاکر Sealکردیا گیا‘‘۔ ہاہاہا۔ یہ ہے صحیح معنوں میں چالو زبان کہ جس طرح کسی چلتے پھرتے مجہول شخص نے عادتاً یہ لفظ ادا کیا، بعینہ اُسی طرح لکھ دیا گیا۔ نیوز وَن ٹی وی پر لکھا دکھائی دے رہا تھا:’’قمرزمان (قمرالزمان) کائرہ عدالت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے متعلق درخواست دیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ پارلیمنٹ سے وجود میں آیا تھا۔‘‘ بول نیوز ٹی وی کے خبر رساں کہنے کو تو بہت کچھ کہہ رہے تھے، مگر فی الحال فقط ایک مثال:’’ایک پرسنٹ‘‘ بجائے ایک فی صد کے۔ چونکہ ذرایع ابلاغ اس وقت ’وقت کم ہے، مقابلہ سخت‘ کی ہمہ وقت عملی تصویر بنے رہتے ہیں، خصوصاً ٹی وی چینلز، اس لیے ہماری تحریر کی تان اکثروبیشتر اُنھی پر آکے ٹوٹتی ہے، ورنہ زبان کا بگاڑ تو ہمارے تمام شعبوں میں یکساں اور صاف گوئی سے کام لیں تو ’’بام عروج‘‘ پر ہے یا انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔

شعبہ تعلیم کی بات کریں تو ہمارے اساتذہ ہی نہیں، بلکہ اُن کے اساتذہ گویا استاذالاساتذہ (نا کہ استادالاساتذہ) بھی اس سے مُبَرّا نہیں، جنھیں عرف ِعام میں Master Trainer کہا جاتا ہے۔ شعبہ تشہیر کا تو بہت بُرا حال ہے، مگر شعبہ نشریات بھی اس لسانی زوال سے ہرگز محفوظ نہیں۔ اگر زبان کی اصلاح کی بات کی جائے تو بخدا پاکستان میں ’’انگریزی زباں فہمی‘‘ کی بھی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر فی الحال خاکسار اردو اخبار کے لیے خامہ فرسائی کررہا ہے ، سو اِس بارے میں فقط ’’دل پشوری‘‘ کی حد تک ہی بات ہوسکتی ہے۔

بربِنائے تجربہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کبھی انگریزی کے کسی مؤقر اخبار یا جریدے کے لیے ایسی کاوش کرنے میں پہل کروں تو پہلے اُنھیں اس کے جواز اور قارئین کی دل چسپی کی بابت قائل کرنا ہوگا۔ مدت پہلے (1990ء تا 1995ء)، ایک انگریزی روزنامے میں خاکسار کی، بطور آزادہ رَو (Freelance) صحافی، متنوع موضوعات (بشمول عالمی سیاست، کھیل، تاریخ، معلومات عامہ، ادب، ٹی وی کالم)، پر تحقیق و تحریر کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک مرتبہ (کسی اندرونی خلفشار کی وجہ سے)، مدیراعلیٰ صاحب (مرحوم) نے اس خاکسار کو بلا بھیجا…….تفصیل سے قطع نظر، خاکسار نے اُن کے اس بُودے اعتراض پر کہ آپ جو لکھتے ہیں، وہ پڑھتا کون ہے، ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ بصد معذرت! آپ جو یہ فلمی گپ شپ چھاپتے ہیں، وہ کون پڑھتا ہے….. کوئی سنجیدہ آدمی تو پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ لاجواب ہوگئے تھے۔ بہرحال جہاں ضرورت اصلاح کی ہو تو ہمیں اپنا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔

The post سماء یا سماں؟؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


عرو جِ ارتقا پہ بھی یہ مہریں ثبت موت کی
بتا رہی ہیں ہمتیں نہیں ہیں پست موت کی
اسے پتہ چلے کہ پیاری کس قدر ہے زندگی
میں سانس روک لوں اگر انا پرست موت کی
کبھی کبھی تو غالب آتے دیکھ کر تڑپ اٹھوں
کئی برس کی زندگی پہ ایک جست موت کی
ہمیں مٹا کے خود فنا سے کس طرح نہ جا ملے
فضا میں گونجتی ہوئی صدا کرخت موت کی
ازل سے ایک دوسرے سے پنجہ آزما ہیں یہ
نہ زندگی کی فتح ہے نہ ہے شکست موت کی
میں پارساؤں کے فیوض کا ہوں معترف مگر
نہ راہ روک پائیں گے یہ نیک بخت موت کی
بعید کیا ہے راگنی نئی حیات کی بنے
سنائی دے رہی ہے جو یہ بازگشت موت کی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء ُ الدین)

۔۔۔
غزل


خیرخواہ اب، نہ کوئی یار مرا باقی ہے
پھر بھی اک آس ہے باقی کہ خدا باقی ہے
کیا ہوا گر گئی جو ہاتھ سے تلوار مرے
اب بھی اس ہاتھ میں شمشیرِ دعا باقی ہے
بعد میں کس طرح ماروں گا میں یہ نوعِ سکوت
ترکشِ صوت میں اک تیرِ صدا باقی ہے
چند جلنے دو دیے اِ س سے گھٹن دور کرو
اب جو طوفان کے دامن میں ہوا باقی ہے
شاید اس طرح بھروسہ ہو کسی پر پھر سے
فرض کرتے ہیں زمانے میں وفا باقی ہے
کرگیا بند سخی وقت سے پہلے در کو
آج پھر بھول گیا ایک گدا باقی ہے
(عزم الحسنین عزمی۔گجرات، ڈوڈے)

۔۔۔
غزل


میں کیوں کہوں کہ لوگ ہی فقط بُرے ہیں دوستا
مجھے تو اپنے آپ سے یہی گِلے ہیں دوستا!
کبھی جو حل نہ ہو سکے، وہ مسئلے ہیں دوستا
کبھی جو سَر نہ ہو سکے، وہ معرکے ہیں دوستا
تو پھر یہ تیری من پسند اُڑان کس طرح بھریں؟
جنہیں اُڑا رہا ہے تُو، وہ پَر کٹے ہیں دوستا
ہمیں کیوں دیکھ کر ترے، پسینے چھوٹنے لگے
ہم اِس سے پہلے کیا کبھی کہیں ملے ہیں دوستا
وہ ہم ہی تھے جو سہہ گئے، تری نگاہِ سنگ بھی
اِنہیں نہ دیکھ اس طرح یہ آئینے ہیں دوستا
تجھے سہارتے ہوئے، تجھے سنبھالتے ہوئے
ہم اپنے ہاتھ سے کہیں نکل گئے ہیں دوستا
بَجا کہ ہم نہیں رہے، تمہارے کام کے مگر
ہم اپنے کام کے بھی اب کہاں رہے ہیں دوستا
اویسؔ یہ بتا مجھے کہ تُو کہاں رہے گا اب؟
وہ خواب کے مکان تو اجڑ چکے ہیں دوستا
(اویس احمد ویسی۔ زیارت معصوم، ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


جادۂ خواب کہیں گرد میں تحلیل نہ ہو
دیکھ اے ماہ جبیں! شوق کی تذلیل نہ ہو
حسن ہو، اور ستم کیش نہ ہو، حیرت ہے
یعنی اوزان میں ہو فعل، مفاعیل نہ ہو؟
کام اکٹھے کریں دونوں کسی منصوبے پر
اور ایسا ہو کہ اس کی کبھی تکمیل نہ ہو
تتلیاں دوست ہیں، مانا، مگر اے شیریں بدن
لب پہ ہر وقت رہیں، اتنی بھی اب ڈھیل نہ ہو
دل کا کہنا ہے ’’یہ آنکھ اس کا زیاں کرتی ہے
پس مری مان، اسے خون کی ترسیل نہ ہو‘‘
کیسے کردار نبھے ایسے جہاں میں کہ جہاں
کوئی ہم زاد نہ ہو، چاند نہ ہو، جھیل نہ ہو
لطف ہے گرچہ تری مختصراً ’’ہوں‘‘ میں بھی
مگر اتنا بھی نہیں یار کہ تفصیل نہ ہو
(زبیر ارشد۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


دل میں قیدی بنی کسی کی یاد
اشک آنکھوں سے ہوگئے آزاد
دل کے گوشے نہیں سنبھلتے ہیں
خاک بستی کوئی کریں آباد
تیری آنکھوں کو دیکھ لینے سے
ہلنے لگتی ہے روح کی بنیاد
ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ
خوب دیتے رہے ہمیں امداد
سب امیدوں کا خون کر کے کہا
جا پرندے تجھے کیا آزاد
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
ایک دن روک لی گئی امداد
جاؤ اب کوئی بھی نہیں ہے یہاں
جاؤ اب مر گیا ترا شہزادؔ
(شہزاد مہدی۔ گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


تسخیرِ کائنات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
یعنی خدا کی ذات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
دل بیٹھنے لگا ہے محبت کے حبس سے
خوشبو تری حیات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
مانا سمجھ رہے ہیں مجھے بدگمان آپ
تصویر ِ ممکنات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
یارو بٹی ہوئی ہے مری خواہشِ نمو
فردا کے حادثات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
طاعون، تپ وہ پولیو چیچک چلے گئے
مجھ کو کرونا مات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
حیرت زدہ نہ کیجیے باتوں سے اب ولیؔ
تصویرِ شش جہات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)

۔۔۔
غزل


کیا اٹھائے پھر رہے ہیں، خاک، میدانوں سے وہ
پوچھتے ہیں راستا کعبہ کا میخانوں سے وہ
وہم تھا میرا کہ بس مجھ پر قناعت ہو گئی
حیف، اب بھی مل رہے ہیں روز بیگانوں سے وہ
کوئی بتلائے گا کیا یہ پیار کا انداز ہے؟
یا جھگڑتے پھر رہے ہیں اپنے دیوانوں سے وہ
مار کر کنکر، پڑھا لاحول ابراہیمؑ نے
تب کہیں جا کے بچے ہیں تین شیطانوں سے وہ
جن کی پیدائش کا مقصد بس تری تقدیس تھا
لڑ رہے ہیں آج کل دھرتی کے بھگوانوں سے وہ
کیا کوئی بچھڑا ہوا پھر سے ملاقاتوں میں ہے؟
پھر چُرانے لگ گئے ہیں پھول گلدانوں سے وہ؟
کچھ سنے اور کچھ کہے بِن ہی روانہ کر دیا
کیا یہی کرتے ہیں محسنؔ اپنے مہمانوں سے وہ
(محسن اکبر۔ حجرہ شاہ مقیم)

۔۔۔
غزل
گھٹی گھٹی سی ہوا ہے، گھٹی گھٹی ہوئی شام
کسی طرح سے گزرتی نہیں رکی ہوئی شام
تمہارے سامنے آنے سے رونما ہو گی
ہماری زیست کی شاموں سے اک چھپی ہوئی شام
تھکن سے چور ہے، داغ ِالم سے بوجھل ہے
ملالِ یار کے ملبے تلے دبی ہوئی شام
تمہارے قرب کی لذت میں شعر کہتی تھی
تمہارے قرب میں رنگ ِغزل بنی ہوئی شام
ہماری آنکھ کے حلقوں سے جان لینا تم
کہ ہم نے ہجر میں کاٹی ہے اک تھکی ہوئی شام
(علیزہ زہرہ۔کراچی)

۔۔۔
غزل


دیکھیں گے نہ اس چاند کو ہم عید کریں گے
اس بار اپنے چاند کی تائید کریں گے
پائیں گے دیکھ لینا بقائے دوام وہ
جو زندگی میں آپ کی تقلید کریں گے
تنقید قومی مشغلہ ہے اور یہاں پہ لوگ
اصلاح کرنے والوں پہ تنقید کریں گے
مایوس گر نہ ہوں گے ترے امتحان سے
ہوں گے ضرور پاس جو امید کریں گے
حارث یہاں پہ سوچنے والوں کی سوچ ہے
ایجاد کریں گے تو کچھ جدید کریں گے
(حارث انعام۔حکیم آباد، نوشہرہ)

۔۔۔
غزل


تُو خطا سے ہر گھڑی ڈرتا رہے
جو بتایا حق نے ہے کرتا رہے
اُس کا جینا ہو گا کیا جس پر میاں
یار بھی الزام ہی دھرتا رہے
تیرا کعبے جانا ہے بے فائدہ
گر پڑوسی بھوک سے مرتا رہے
آس اعظم بے وفا سے مت لگا
تجھ پہ واجب ہے وفا کرتا رہے
(اعظم بلوچ۔احمد پور شرقیہ، بہاولپور)

۔۔۔
غزل


لڑکھڑاتی ہوئی وہ سامنے آئے، ہائے
دل میں آتی ہے مگر ہاتھ نہ آئے، ہائے
کاش ایسے وہ کرے لطفِ مسلسل ہم پہ
پاس آئے تو کبھی دور نہ جائے، ہائے
وہ سنورتے ہیں اور آئینہ یہ کہتا ہے سنو
دیکھنے والا تجھے جان سے جائے، ہائے
ایک تو حسن غضب اُس پہ نرالی ہے ادا
دل چرا کے بھی مجھے آنکھ دکھائے، ہائے
یہ تیری شرم و حیا ہے جو مجھے بھاتی ہے
ورنہ توصیف تجھے منہ نہ لگائے، ہائے
(توصیف احمد توصیف ۔لاہور)

۔۔۔
غزل


ہر بار چل پڑا ہوں بیابان کے لیے
نکلا ہوں بارہا میں گلِستان کے لیے
لاکھوں اٹھیں گے ہاتھ مجھے اس کا علم تھا
کپڑا ہی کم پڑا تھا گریبان کے لیے
بے شک فقط خدا سے شِفا کی امید ہے
لازم ہے احتیاط بھی انسان کے لیے
مجھ پر بہت قریب سے اک قہقہہ لگا
کنکر اٹھا رہا تھا میں شیطان کے لیے
اک نظم جب غریب پہ لکھنا تھی تب مجھے
الفاظ ہی نہیں ملے عنوان کے لیے
علمِ عروض سیکھ کے شاعر ہوا ہے تُو
حُلیہ بگاڑ شعر کا اوزان کے لیے
انجم وبائے شہر سے ہم عاشقوں کو کیا
رختِ سفر تُو باندھ پرستان کے لیے
(امتیاز انجم۔اوکاڑہ)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

چین کی فوج اکیسویں صدی میں

$
0
0

اٹھارہویں صدی میں پہلی جنگ افیون کے دوران برطانوی فوج کی تعدادصرف انیس ہزار تھی جبکہ چین کی فوج میں سوا دو لاکھ فوجی شامل تھے۔ جدید ہتھیاروں سے مگر انگریز  جیتنے میں کامیاب رہے۔ شکست نے چینی حکومت کو برطانیہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔

یوں اس سو سالہ دور کا آغاز ہوا جسے چینی قوم ’’ذلت کی صدی‘‘ کہتی ہے۔ بیسویں صدی میںکمیونسٹ برسراقتدار آئے تو چین میں کچھ ٹھہراؤ آیا۔طویل خانہ جنگیوں کے باعث چینی فوج آزمودہ، تجربے کار اور فنون جنگ و جدل میں طاق ہوچکی تھی۔ یہی وجہ ہے، 1962ء میں اس نے بھارتی فوج کو بہ آسانی شکست دی۔ بھارتی سینا اس پہلی ہار کے صدمے سے آج تک نہیں نکل سکی۔ وہ چینی فوج سے نفسیاتی طور پر اتنی مرعوب ہوچکی کہ  براہ راست اس کامقابلہ کرتے ہوئے خوف کھاتی ہے۔ لداخ میں جنم لینے والی حالیہ جھڑپیں اس امر کا ثبوت ہے۔

دفاع مضبوط کر نے کا وقت

ماضی میں افواج چین  کئی ڈویژنوں پر مشتمل تھیں۔ ان کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا اور اسی لیے حرکت بھی سست رفتار۔ لیکن پچھلے پانچ برس سے چینی آرمڈ فورسز تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ اب انہیں چھوٹے ڈویژنوں میں تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ ہر ڈویژن زیادہ متحرک اور حرکت میں تیز رفتار ہوسکے۔ نیز ہر ڈویژن کو جدید ترین، ہائی ٹیک ہتھیاروں سے لیس کیا جارہا ہے تاکہ میدان جنگ میں دشمن کا بھرپور مقابلہ ہوسکے۔چین مگر کبھی استعماری قوت نہیں رہا بلکہ اس پر کبھی مغربی قوتیں تو کبھی جاپانی قابض رہے۔

اکیسویں صدی کے اوائل تک چین معاشی طاقت بن چکا تھا۔ مگر اس نے کبھی اپنی عسکری قوتوں کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چین کی بنیادی سرکاری پالیسی میں درج ہے: ’’چین کسی بھی ملک کو عسکری، معاشی، سیاسی یا معاشرتی طور پر اپنے دائرہ کار میں نہیں لانا چاہتا۔ چین کی فوجی سرگرمیاں خالصتاً دفاعی ہیں جو اس کا بنیادی حق ہے۔‘‘ چین نے جبوتی میں ایک عسکری اڈہ ضرور قائم کیا مگر وہ بھی دفاعی نوعیت کا ، مدعا یہ کہ بحرہند میں چینی تجارت کی حفاظت ہوسکے۔

اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے سے جب امریکا اسے عسکری طور پہ چیلنج کرنے لگا تو چینی حکومت کو احساس ہوا کہ اب جنگ سے پرہیز کی پالیسی ترک کر کے اپنا دفاع مضبوط کر نے کا وقت آ چکا۔اس فلاسفی کے باعث چینی افواج پچھلے چند برس سے اصلاحات کے وسیع و جامع عمل سے گزر رہی ہیں۔

یہ عمل وسعت پذیر ہے کیونکہ امریکا اپنے چین دشمن اتحاد میں بھارت ،جاپان،تائیوان اور آسٹریلیا کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ہندوستانی قوم بھی استعماری قوت نہیں رہی مگر ماضی میں اس کے بعض حکمران توسیع پسندانہ عزائم رکھتے تھے۔ مثلاً ہندو شاہی سلطنت (850 ء تا 1026ء ) کے راجا جو مشرقی افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان ہندو راجاؤں کی سرکوبی کے لیے ہی محمود غزنوی کو ہندوستان آنا پڑا ورنہ وہ حملوں کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

بھارت میں مگر 2014ء سے انتہا پسندوں کا ٹولہ نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت کر رہا ہے۔ ہندومت کی سپرمیسی کے قائل موجودہ بھارتی حکمران بھی ہندو شاہی راجاؤں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔یہ حکمران طبقہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہڑپ کرکے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا قیام چاہتا ہے تاکہ اپنے مذہبی جذبات کی تسکین کرسکے ۔

ان کے عزائم کی تکمیل میں چین  بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ اہم وجہ یہ کہ چین بھی کشمیر تنازع میں تیسرے فریق کی حیثیت اختیار کرچکا۔ ریاست کا ایک حصہ ،اکسائی چین اس کے پاس ہے۔ نیز سی پیک منصوبے کے تحت وہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں انفراسٹرکچر بنانے پر بھاری رقم خرچ کررہا ہے۔ تنازع کشمیر کے علاوہ چین بحرالکاہل میں امریکی اجارہ داری سے بھی خائف ہے۔

اسی لیے وہ اپنا دفاع مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ  کسی جنگ کی صورت دشمن کو نیچا دکھاسکے۔چین اور بھارت کی سرحد چار ہزار کلو میٹر طویل ہے۔ اس پہ بیس مقامات پر سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ دونوں ممالک  متنازع سرحدی مقامات پر سڑکوں، پلوں، عمارتوں اور فوجی چوکیوں کا جال بچھارہے ہیں۔ جب تعمیری سرگرمی ’’نومین لینڈ‘‘ میں داخل ہوجائے تو دونوں ملکوں کے فوجی الجھ بیٹھتے ہیں۔ بات بڑھے تو قتال تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے 15 جون کی شب ایک گولی چلائے بغیر چینیوں نے لداخ میں محض ڈنڈوں سے کئی بھارتی فوجی مار ڈالے۔

غربت کس نے ختم کی؟

بھارتی جرنیلوں اور عوامی دباؤ پر بھارتی حکمران طبقہ سرحدی مقامات پر انفراسٹرکچر کی تعمیر تیز تر کرے گا۔ نیز پہاڑی مقامات پر اسلحہ و فوجی تعینات کرنے اور جنگ لڑنے کی خاطر عسکری اصلاحات اپنائی جائیں گی۔ بھارتی حکمران طبقے کو مگر یاد رکھنا چاہیے کہ چین کی افواج پہلے ہی انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں انجام دینے کے لیے چینی حکومت اربوں ڈالر خرچ کرننے لگی ہے۔ امریکا کے جنگی بجٹ (721 ارب ڈالر) کے بعد چین کا جنگی بجٹ( 261 ارب ڈالر) ہی دوسرے نمبر پر ہے۔وجہ یہی  کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا۔ اس کا نومنل جی ڈی پی 14 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

(پہلے نمبر پر21 ٹریلین ڈالر کے ساتھ امریکا  ہے) خاص بات یہ  کہ پچھلے چالیس برس میں زبردست معاشی ترقی کے ذریعے چینی حکومت اپنی مملکت سے غربت کا تقریباً خاتمہ کرچکی۔ اب دور دراز واقع چند دیہات ہی ترقی و خوشحالی کے ان ثمرات سے محروم ہیں جن سے کروڑوں چینی عوام مستفید ہورہے ہیں۔ عوام کی محرومیاں دور کرنے اور خاتمہ غربت کے بعد ہی چینی حکمران اپنا دفاع مضبوط کرنے کی سمت متوجہ ہوئے۔

بھارت کا نومنل جی ڈی پی سواتین ٹریلین ڈالر ہے۔ یہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ کہ بھارتی حکمران طبقہ پچھلے تہتر برس میں اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی 28 فیصد آبادی غریب ہے۔

یعنی وہ روزانہ دو ڈالر سے کم کماپاتی ہے ۔جبکہ حالیہ لاک ڈاؤن  سے کم از کم مزید 2 فیصد بھارتی غربت کی آغوش میں چلے گئے۔ گویا بھارت میں آج پچاس کروڑ شہری غربت میں مبتلا ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسّر نہیں۔ وہ اکثر بھوکے رہتے، پھٹا پرانا لباس پہنتے اور گندا پانی پیتے ہیں۔بھارت کا جنگی بجٹ 71 ارب ڈالر دنیا میں تیسرا بڑا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ اپنے بجٹ کا نمایاں حصہ اسلحہ خریدنے اور افواج برقرار رکھنے پر خرچ کررہا ہے۔

سوال یہ  کہ چالیس پچاس کروڑ غریبوں کی موجودگی میں بھارتی حکمرانوں کو کیا یہ شوبھا دیتا ہے کہ وہ اربوں ڈالر اسلحہ خریدنے پر پھونک کردیں؟ اور ہتھیاروں کے بے محابا خریداری کا اصل مقصد دفاع کرنا نہیں بلکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہے۔

تبدیلیوں سے گذرتی افواج

جدید اصلاحات کا یہ عمل 2013ء میں صدر شی جن پنگ کے آنے سے شروع ہوا۔ چینی صدر اگلے بیس تیس برس میں چین کو ماضی کی طرح عظیم قوت بنانا چاہتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے افواج میں اصلاحی پروگرام متعارف کرایا تاکہ انہیں مضبوط تر بنایا جاسکے۔ سب سے پہلے ملٹری کمانڈز سات سے کم کرکے پانچ کردی گئیں۔

اس کے بعد ایسے ڈویژن بنائے جارہے ہیں جو بیک وقت بری، فضائی جنگ لڑسکیں۔ یہ ڈویژن جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے حامل اور ہائی ٹیک ہتھیاروں سے لیس ہوں گے۔عمل اصلاحات کے تحت بری فوج کی تعداد تیرہ لاکھ سے گھٹا کر پونے دس لاکھ کردی گئی۔ اس تبدیلی کے پس پشت یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ کم تعداد والے ڈویژن زیادہ متحرک اور چست ہوں گے۔ یوں محاذ جنگ تک پہنچنے میں انہیں کم وقت لگے گا۔ پھر بری فوج کو نئے ہتھیار دیے گئے۔ ان میں ٹائپ 15 ٹینک، پی سی ایل۔181 توپ، الیکٹرومیگنیٹک توپ اور دیگر اسلحہ شامل ہے۔ ان ہتھیاروں کی خصوصیت ہلکا ہونا ہے۔ لہٰذا یہ پہاڑوں میں جنگ کے لیے نہایت موزوں ہیں۔

چین کی بحریہ بھی پچھلے چھ سال کے دوران اصلاحات کے عمل سے گزر کر مضبوط ہوچکی۔ آج یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ جنگی جہاز رکھتی ہے۔ ڈھائی لاکھ نفری اس سے وابستہ ہے۔ چین اب طیارہ بردار جہاز، آبدوزیں اور جنگی جہاز اپنی بندرگاہوں میں بنارہا ہے۔

چینی حکمران اپنی بحریہ کو طاقتور بناکر بحرالکاہل اور بحرہند میں موجود حریفوں کا بخوبی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔فضائیہ بھی اصلاحی عمل سے گزر رہی ہے۔ چینی فضائیہ تقریباً چار لاکھ سپاہ پر مشتمل ہے۔ یہ لڑاکا بمبار ملٹی رول اور اسٹیلتھ طیارے رکھتی ہے۔ اواکس اور ڈرون بھی فضائی فوج کا حصہ ہیں۔ جے۔20 جدید ترین اسٹیلتھ طیارہ ہے۔ صرف چین اور امریکا کی فضائیہ ایسے پانچویں نسل کے بہترین طیارے رکھتی ہیں۔

چین میں افواج سے متعلق فیصلہ سازی کرنے والا سب سے اعلیٰ ادارہ سینٹرل ملٹری کمیشن ہے۔ صدر شی جن پنگ اس کے سربراہ بننے والے پہلے صدر ہیں۔ اس حیثیت سے انہوں نے 2015ء میں میزائل اور راکٹ کا انتظام سنبھالنے والی آرٹلری کور کو ایک نئی باقاعدہ فوج’’ راکٹ فورس‘‘ کی صورت دے ڈالی۔ اب اس فوج سے سوا لاکھ سپاہ وابستہ ہے۔چینی حکومت نت نئے ایٹمی اور غیر ایٹمی میزائل بنوارہی ہے۔ میزائلوں میں ہائپرسونک بلاسٹک میزائل DF-17 اور فضا سے فضا میں مار کرنے والا P1-21 میزائل قابل ذکر ہیں۔

ان میزائلوں کے ذریعے چین اس پوزیشن میں آچکا کہ اپنے حریفوں کا دلیری سے مقابلہ کرسکے۔صدر شی جن پنگ نے 2015ء ہی میں ایک اور خود مختار عسکری فوج ’’اسٹریٹجک سپورٹ فورس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفری رکھتی ہے۔ یہ فوج الیکٹرونک وارویئر، سائبر وار ویئر اور سپیس وار ویئر لڑنے میں طاق ہے۔ نفسیاتی تدابیر سے دشمن کو زک پہنچانا بھی اس فوج کے فرائض میں شامل ہے۔جنوری 2016ء میں ایک اور باقاعدہ فوج’’جوائنٹ لاجسٹکس سپورٹ فورس‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔یہ فورس دوران امن یا جنگ جنگی سامان کی نقل وحمل کی ذمے دار ہو گی۔اسی فورس کے ذریعے لداخ میں حالیہ کشیدگی کے دوران چین بھاری ہتھیار پہاڑوں تک بہ سرعت پہنچانے میں کامیاب رہا۔

جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول

چین میں سب سے نمایاں تبدیی اسلحہ سازی کی صنعت میں آئی ہے۔ ماضی میں چین بیرون ممالک سے اسلحہ خریدتا تھا لیکن آج وہ سبھی ہتھیار خود بنارہا ہے۔یہ تبدیلی بھی زیادہ تر صدر شی جن پنگ کے دور میں انجام پائی۔ انہوں نے سرکاری اور نجی شعبوں کا تعاون بڑھایا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر مختص کیے۔

چینی یونیورسٹیوں کے بیرونی ممالک کے تعلیمی اداروں اور نجی کمپنیوں سے معاہدے کرائے تاکہ اسلحہ سازی کی جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل ہوسکے۔انقلابی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چین امریکا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ ساز ملک بن چکا۔ وہ پاکستان اور دیگر ممالک کو جدید ترین ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ خاص بات یہ کہ چین اب عسکری صنعت میں مصنوعی ذہانت، 5جی اور ڈیٹا سائنس جیسی اعلیٰ ٹیکنالوجیاں بھی بروئے کار لارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق آج چین ہی ان ٹیکنالوجیوں میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں ان پر سب سے زیادہ مقالے چین میں شائع ہوتے ہیں۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ انقلابی تبدیلیوں سے گزر کر چینی افواج زیادہ مضبوط ہوچکیں۔ وہ جدید ہائی ٹیک اسلحے سے لیس ہیں۔ بھارتی افواج تادیر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ عقل یہ کہتی ہے کہ بھارتی حکمران طبقے کو اپنے پڑوسیوں سے سرحدی تنازعات مل بیٹھ کر حل کرلینے چاہیں۔ مگر اس پرانا اور توسیع پسندی کا بھوت سوار رہا تو مستقبل میں جنوبی ایشیا میں خوفناک جنگیں ہوسکتی ہیں۔

پاکستان کے لیے اہم بات یہ کہ چین بھی  تنازع کشمیر کا فعال کردار بن چکا۔ بھارتی حکمران طاقت کے نشے میں پاکستان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر  چین کی شمولیت سے تنازع کشمیر کو کاغذات تلے دبا دینا اب ممکن نہیں رہا۔ مزید براں چین کی اب سعی ہوگی کہ افواج پاکستان کو بھی ہائی ٹیک ہتھیاروں اور مشترکہ جنگی مشقوں کے ذریعے طاقتور بنایا جائے۔ ان  اقدامات سے شاید  متکبر بھارتی حکمران راہ راست پر آجائیں کیونکہ جنگ کی صورت ان کی کامیابی کا امکان کم ہوچکا۔

The post چین کی فوج اکیسویں صدی میں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بلاگ‘‘ کیا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے؟

$
0
0

فانیلہ دل افروز کا ہمیشہ سے شوق تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ملک سے باہر جائے اور اس کی یہ خواہش کچھ اتنی بے جا بھی نہیں تھی۔ آخر وہ تھی ہی اتنی ذہین کہ دنیا کی اچھی سے اچھی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اس کا حق بنتا تھا۔ گذشتہ سال فانیلہ دل افروز نے بارہویں جماعت کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی تھی، جس کے بعد اس نے دنیا کی ایک بہترین یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے اپلائی کردیا۔

فانیلہ دل افروز کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ رہی کہ چند روز بعد ہی اسے داخلہ کا پروانہ میسر آگیا، جب اُس نے یہ خبر اپنے گھر والوں کو سنائی تو وہ اس خبر پر خوش ہونے کے بجائے، گہری فکر میں چلے گئے اور فانیلہ دل افروز سے کہنے لگے کہ ’’بیٹا! ہمیں تمہارے ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن یہ تو بتاؤ ملک سے باہر جانے اور تعلیمی اخراجات کے لیے اتنی خطیر رقم آئے گی کہاں سے۔‘‘

’’آپ اس کی فکر بالکل نہ کریں رقم کا بندوبست ہے میرے پاس،آج سے ٹھیک دو سال پہلے میں نے تعلیم کے موضوع پر ایک بلاگ بنایا تھا، جو اب اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اشتہارات کی مد میں مجھے ٹھیک ٹھاک آن لائن رقم کما کر دے دیتا ہے، جب کہ مجھے اُمید ہے کہ میرا یہ بلاگ دورانِ تعلیم بھی میری خوب مالی مدد کرنے کے قابل ہے۔‘‘

فانیلہ دل افروز کے اس جواب نے اُس کے گھر والوں کی تمام فکر اور تردد کو رفو چکر کردیا اور یوں فانیلہ دل افروز اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ملک سے باہر روانہ ہوگئی۔ آج فانیلہ دل افروز بیرونِ ملک اعلٰی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے اور اپنی بہترین بلاگ نویسی کی بدولت اپنے تمام تعلیمی و رہائشی اخراجات بھی بغیر کسی کی مدد کے بحسن و خوبی پورے کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ صرف بلاگ کی ہی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس وقت بلاگ کی مدد سے عزت، شہرت اور دولت حاصل کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد دنیا بھر میں موجود ہے۔

بلاگ کیا ہے؟

لفظ بلاگ در اصل ویب لاگ کا مخفّف ہے، جو انگریزی کے دو لفظوں web and log سے مل کر بنا ہے جو ایسی ویب سائٹس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معلومات کو تاریخ وار ترتیب سے رکھا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آن لائن کوئی لاگ بُک یا ڈائری مرتّب کر تے ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن ہو کر کچھ لکھتے ہیں تو اس سارے عمل کو انٹرنیٹ کی جدید رائج اصطلاح میں ’’بلاگ‘‘ بنانا یا بلاگ نویسی قرار دے دیا جاتاہے۔

ویب لاگ (weblog) کا لفظ جان بارگر (Jorn Barger) نے پہلی دفعہ1997میں استعمال کیا تھا، اس کے بعد لفظ بلاگ کو پیٹر مرہولز (Peter Merholz) نے مزاحیہ انداز میں لفظ ’’ویب لاگ‘‘ کو توڑ کر we blog کے طور پر استعمال کیا اور یہیں سے پھر لفظ ’’بلاگ‘‘ مشہور ہوگیا۔ اب آپ کسی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر بلاگ لکھتے ہیں؟ کِن موضوعات پر لکھتے ہیں؟ یہ آپ کی مرضی پر ہی منحصر ہے کیوںکہ عام خیال یہ ہی ہے کہ بلاگ کسی بھی موضوع پر تحریر کیا جاسکتا ہے۔ مگر زیادہ تر بلاگ نویس، اپنے بلاگ عموماً سماجی اور سیاسی موضوعات پر تحریر کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بلاگ کو جدیدطرز کی آن لائن ڈائری بھی کہا جاتا ہے، جس کو بلاگ نویس باقاعدگی سے پبلک میں شیئر کرتے رہتے ہیں، تاکہ ان کے جذبات، احساسات اور ردّعمل ان کے منتخب کردہ قارئین تک پہنچیں۔ پرانے زمانے میں جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا کوئی وجود نہیں تھا، اکثر لوگ اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ مگر ڈائری اکثر دن بھر کی نجی مصروفیات کا احاطہ کرتی تھی۔ اس میں سماجی یا سیاسی موضوعات پر اپنے جذبات کی ترجمانی اکثر ناپید ہوتی تھی اور اِس قسم کی ڈائریاں عموماً مرنے کے بعد کبھی کبھار کتابی شکل میں بھی سامنے آجایا کرتی تھیں۔ ذاتی ڈائری اور بلاگ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ذاتی ڈائری آپ تک یا چند ایک قریبی دوستوں تک محدود ہوتی ہے، جب کہ بلاگ پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔

جہاں آپ اپنی سوچ اور جذبات کے مطابق اپنے خیالات، احساسات، تجربات اور معلومات شیئر کرتے ہیں اور بذریعہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا کے توسّط سے اپنے قارئین سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ بے حِس نہیں ہیں، اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور تنقید اور دباؤ برداشت کرسکتے ہیں۔ تو آپ کو اپنی سوچ، اپنے جذبات اپنے محسوسات اور معلومات دوسروں تک ضرور پہنچانی چاہیے۔ اور اِس کام کے لیے سب سے بہترین چیز بلاگ ہی ہے۔

لہٰذا جرأت کیجیے، میدانِ عمل میں آئیے، سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات کیجیے، کیوںکہ قوتِ اظہار کو بہتر انداز میں استعمال میں لانا ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ اگر آپ بھی بلاگ کی مدد سے اپنے پڑھنے والے کے ساتھ ایک بندھن بناسکتے ہیں، تو بلاشبہ آپ میں ایک اچھا بلاگ نویس بننے کی پوری صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے، بس اسے صحیح سمت میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر فیس بُک اور دوسرے سوشل میڈیا فورم وجود میں آجانے کے بعد بلاگ تحریر کرنا، اُن کی اشاعت کرنا، پھر لوگوں کا ردِّعمل جانچنا بہت آسان ہوگیا ہے۔

ایک دو سال پہلے تک بلاگز صرف تحاریر پر مشتمل ہوتے تھے، مگر اب بلاگ نویسی صرف تحریروں تک محدود نہیں رہی بلکہ فوٹو بلا گ، اسکیچ بلاگ، ویڈیو بلاگ، میوزک بلاگ، آڈیو بلاگ کے منظرعام پر آنے کے بعد اس کا دائرہ کار بہت زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھا بلاگ نویس اگر چاہے تو بلاگ کی منفرد طاقت سے اپنی پوری شخصیت کی عکاسی کرسکتا ہے۔ اپنے جذبات کی صحیح ترجمانی کرسکتا ہے کیوںکہ قارئین کے اور بلاگ نویس کے درمیان کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ کسی ایڈیٹر کی قینچی سے بلاگ نویس کے خیالات اور جذبات کی قطع و برید نہیں ہوتی۔

جیسی بلاگ نویس کی سوچ ہو گی ویسا ہی اُس کا بلاگ ہو گا۔ بلاگ نویسی بلاشبہہ اس وقت انٹرنیٹ کی اہم ترین سرگرمی شمار کی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے بلاگز لکھتے یا دوسروں کے بلاگ پڑھتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک جنون کی طرح انٹرنیٹ پر پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ سیکڑوں بلاگنگ ٹولز کی بدولت یہ کام ازحد آسان ہوچکا ہے۔

مزید براں، مختلف ڈیوائسز کے استعمال سے بھی بلاگ نویسی کو بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس وقت بلاگ اور بلاگ نویس اتنے مشہور ہوچکے ہیں کہ اب یہ ٹھیک ٹھاک پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی بنتے جارہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مشہور بلاگ ہو جسے آپ اشتہارات سے پاک دیکھیں۔ لوگوں میں دوسروں کے بلاگ پڑھنے کا رجحان، اپنے خود کے بلاگ لکھنے سے بھی زیادہ ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پوری ویب سائٹ کے مقابلے میں اسی سائٹ پر موجود کسی مخصوص بلاگ کے ملاحظہ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے بلاگز پر اشتہارات لگا کر ان کی شہرت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

اُردو زبان کے حوالے سے اگر بلاگ نویسی کا جائزہ لیا جائے تو اردو زبان میں اور اُردو زبان کے تعلق سے بھی دنیائے انٹرنیٹ پر سیکڑوں بلاگ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے نظر آئیں گے لیکن اُردو زبان میں لفظ بلاگ کی ابھی تک کوئی جامع اور معین تعریف وضع نہیں کی جاسکی ہے۔

تاہم عرفِ عام میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلاگ انٹرنیٹ پر کسی ویب سائٹ کے ذریعے ایک قسم کا ذاتی، جذباتی، محسوساتی اور مشاہدات کا تحریری اظہار ہوتا ہے، یہ بالکل اس ہی طرح ہے جیسے کوئی شاعر اپنے اشعار کے ذریعے اپنے محسوسات اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ بلاگنگ کی اس تیز رفتار ترقی نے اُردو کو بھی زبردست انداز میں متاثر کیا ہے ۔

سال2005 میں کثرت سے اُردو بلاگ نویس سامنے آنا شروع ہوئے اور پھر انہی اُردو بلاگ نویسوں کی بدولت انٹرنیٹ پر تحریری اُردو کی مکمل ویب سائٹس منظرِعام پر آئیں۔ آج انٹرنیٹ پر اُردو بلاگ نویسوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بعض بلاگ تو ایسے ہیں جو اُردو زبان و ادب سے متعلق ہیں مگر وہ انگریزی زبان میں ہیں یا اُردو زبان میں انگریزی حروف اور انگریزی رسم الخط میں ہیں۔

دیگر زبانوں کی طرح اُردو زبان نے بھی انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنی جگہ اور شناخت قائم کرلی ہے اور بتدریج اس کا دائرہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اُردو زبان میں بلاگ لکھنے کے لیے یونی کوڈ فونٹ کی مدد لی جاتی ہے جو ہر کمپیوٹر پر آسانی سے دست یاب ہوسکتا ہے۔ اردو زبان میں ایسے بہت سارے برقی اخبار اور سائل و جرائد ہیں جن کی ویب سائٹس پر اردو زبان میں بلاگ پڑھے اور لکھے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اردو زبان میں بلاگ لکھنے کے لیے ویب سائٹ کا اردو زبان میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ کسی بھی زبان میں موجود ویب سائٹ پر اگر بلاگ لکھنے کی سہولت مہیا ہے تو اس ویب سائٹ پر اردو زبان میں یونیکوڈ فونٹ کا استعمال کرکے بلاگ لکھے جاسکتے ہیں۔

بلاگ اور ویب سائیٹ کا فرق

اکثر لوگ بلاگ اور ویب سائیٹ کو ایک ہی شئے کے دو نام سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں تیکنیکی اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتے ہیں، ایک ویب سائٹ در اصل آن لائن موجود مختلف ویب پیجز کا ایک مجموعہ ہوتا ہے یعنی ویب سائٹ ایک عمومی اصطلاح ہے جس سے مراد انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی ڈومین پر ویب پیجز کا کوئی بھی مجموعہ ہوسکتا ہے۔ بظاہر بلاگ بھی ایک طرح سے ویب سائٹ کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے جس پر کسی فرد کی جانب سے پابندی کے ساتھ خیالات، احساسات، واقعات وغیرہ کو متن یا متن کے ساتھ ساتھ سمعی و بصری صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

بلاگ نویس اپنے خیالات کو بلاگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر اس بلاگ کو پڑھنے والے اس پر رائے زنی کرتے ہیں اور مشوروں سے بھی نوازتے ہیں، جس طرح ایک بلاگ نویس اپنے افکار کو متن کے ذریعے پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی واقعے کو ویڈیو اور تصاویر کے ذریعے بھی دکھا سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنی ریکارڈیڈ آوا ز میں اس پر اپنا تبصرہ بھی نیٹ صارفین کے گوش گزار کرسکتا ہے۔ لیکن ویب سائیٹ اور بلاگ کی روایتی ساخت الگ الگ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہم بلاگ کو ویب سائٹ سے الگ تصور کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ویب سائٹ کی کچھ نشانیاں درجِ ذیل ہیں:

٭ ویب سائٹ میں ایک عدد سرورق یا ہوم پیج ہوتا ہے جو ویب سائٹ کے مختلف سیکشنز یا شعبوں میں کھلتا ہے۔

٭ ویب سائٹ کے پیجز میں تبصرہ خانہ یعنی کمنٹس باکس نہیں ہوتا۔

٭ ویب سائٹ کے پیجز پر تاریخ یا مصنف کا نام نہیں نظر آتا۔

٭ ویب سائٹ عموماً کسی کاروبار یا کمپنی کی بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے۔

٭ ویب سائٹ پر سروسز، عام پوچھے جانے والے سوالات، پرائسنگ اور بلاگ وغیرہ کے سیکشنز موجود ہوتے ہیں۔

بلاگ کی یہ نشانیاں ہمیشہ یاد رکھیں:

٭ بلاگ کی تحریریں تاریخ اور مصنف کے نام کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔

٭ بلاگ بار بار اپڈیٹ ہوتا ہے، جب کہ ویب سائٹ کو ایسے اپڈیٹ نہیں کیا جاتا۔

٭بلاگ میں تبصرہ خانہ یعنی کمنٹس باکس ہوتا ہے جس کے مدد سے قاری اپنی رائے کا اظہار تبصرہ خانے میں کر سکتا ہے۔

٭ بلاگ پر عموماً سروسز یا کاروباری معلومات موجود نہیں ہوتیں۔

٭ بلاگ پر معلومات اس طرح شائع ہوتی ہیں کہ نئی پوسٹ (تحریر) سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

٭اگر آپ کو پروگرامنگ، لینگویج، کوڈنگ نہیں آتی تو بھی آپ بلاگ بنا سکتے ہیں۔

٭ بلاگ کی تحریروں کو آپ اپنی مرضی سے کسی بھی کیٹیگری میں رکھ سکتے ہیں۔ اور ٹیگ کے ذریعے منظم کر سکتے ہیں۔

٭ بلاگ پر معلومات تاریخ وار ہوتی ہے۔ آپ کوئی بھی مہینہ یا دن سلیکٹ کر کے اس دن شائع ہونے والی تحریر پڑھ سکتے ہیں۔

٭زیادہ تر بلاگ کے دائیں یا بائیں سائیڈ پر ایک سائیڈ بار ہوتی ہے جس میں مختلف ویجٹس کی مدد سے تازہ ترین معلومات، زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز وغیرہ کی نمائش کی جا سکتی ہے۔

٭ بلاگ میں سبسکرائب کرنے کی سہولت ہوتی ہے، سبسکرائب کے ذریعے آپ کے چاہنے والوں کو آپ کی ہر تحریر بذریعہ ای میل یا فیڈ فوراً مل جاتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھیں کہ آج کی نیوز سائٹس در اصل بلاگ ہی کہ ایک مسخ شدہ شکل ہیں۔ یہ عام بلاگ سے ہزاروں گنا زیادہ تیزی سے اپڈیٹ ہوتی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر دس منٹ بعد کوئی نئی خبر آرہی ہوتی ہے۔ اس لیے نیوز سائیٹس کو ویب سائٹ اور بلاگ کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے، ہر نیوز سائٹ میں بھی بلاگ کا الگ خانہ ہوتا ہے۔

بلاگ لکھنے سے متعلق کن چیزوںکا جاننا ضروری ہے

٭بلاگنگ شروع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ جو دیکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں اسے سادہ الفاظ کی شکل دیں اور بلاگ لکھ دیں۔ فرض کریں آپ نے کہیں کو حادثہ دیکھا یا کوئی منفرد چیز دیکھی اب آپ اس حادثہ یا منفرد چیز سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس سے آپ نے اور دوسروں نے کیا اثر لیا وغیرہ وغیرہ سوچیں۔

٭عام طور پر بلاگ 800 سے 1000 الفاظ کے درمیان ہونا چاہیے۔ اگر بلاگ نویس لکھے گئے مواد سے متعلق کسی چیز کا حوالہ دینا چاہے، تو وہ حوالہ ٹیکسٹ کے اندر ہائپر لنک کی مدد سے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

٭بلاگ کے عنوان کی بڑی اہمیت ہے کیوںکہ کسی بھی تحریر کے سب سے پہلے جس حصے پر نظر پڑتی ہے وہ عنوان ہے پھر آغاز کے تین چار جملے ہیں۔ یہ اگر دل چسپ ہوں تو قاری کی دل چسپی بڑھتی ہے اور نظر خودبخود تحریر پر پھسلتی جاتی ہے۔ عنوان حتیٰ المکان مختصر اور معنی خیز ہونا چاہیے۔

٭جو لوگ کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہیں وہ کوشش کریں کہ زیادہ تر اپنے شعبے سے متعلق لکھیں کیوںکہ اس سے آپ کی تحریر جاندار بھی ہوجائے گی اور آپ اپنا مافی الضمیر بھی خوب اچھی طرح بیان کر سکیں گے۔

٭آغاز کے کچھ جملے بہت اہم ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں یہ تحریر کا حساس ترین حصہ ہے۔ یہی چند جملے ہیڈ لائن اور ایگریگیٹر پر بھی ابھرتے ہیں۔ یہاں اگر آپ نے قاری کو پکڑ لیا تو پکڑ لیا۔

٭بلاگ کے لیے جس قدر ممکن ہو ایسے موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے جو حقیقت سے قریب تر ہو۔

٭من گھڑت کہانیوں کی بجائے عام زندگی میں ہونے والے تجربات پر لکھیں۔ اس سے ایک تو آپ کے تجربات اور تجزیے دوسرے لوگوں تک پہنچیں گے اور جب قارئین تبصرے یا رائے دیں گے تو آپ کو تصویر کے کئی دوسرے رخ نظر آئیں گے، جس سے آپ کی سوچ مزید پختہ ہو گی۔

٭ بلاگ حالاتِ حاضرہ، سماجی مسائل، سیاسی واقعے و پیش رفت، اور ملکی و غیر ملکی حالات پر لکھے جائیں۔ اس کے علاوہ بلاگ کسی تاریخی واقعے پر بھی لکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مضبوط حوالے دینا ہر گز نہ بھولیں۔

٭جو بھی لکھیں مکمل حوالے اور ٹھوس ثبوت کی بنا پر لکھیں تاکہ اگر کوئی کسی بات پر آپ سے بحث کرے تو آپ تسلی بخش جواب دیں سکیں۔

٭ کبھی یہ نہ سوچیں کہ آپ بڑے تیس مار خاں ہیں کیوںکہ آپ سیکھنے، سکھانے اور مشورے کے انداز میں بلاگنگ کریں گے تو آپ کو بے شمار فوائد حاصل ہوں گے ۔

٭تحریر کے لیے کچھ نکات بنا کر رکھیں۔ حساس موضوع کے لیے ان نکات کو دوران تحریر زیربحث لائیں۔

٭بلاگ فیچر اسٹوریز سے مختلف ہوتے ہیں۔ لوگوں سے زیادہ انٹرویوز کرنا اور ان کی باتوں کے حوالے دینا بلاگ نہیں، بلکہ فیچر کہلاتا ہے۔ بلاگز خبر سے بھی مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کسی بھی شہ سرخی والی خبر کو مختلف الفاظ میں پیش کر دینا بھی بلاگ نہیں کہلاتا۔

٭بلاگ پر کبھی بھی کوئی ایسی ذاتی معلومات شیئر نہ کریں جس سے آپ کو اسی وقت یا آنے والے وقت میں نقصان ہونے کا خدشہ ہو۔ اس لیے جب بھی اور جو بھی لکھیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر لکھیں۔

٭ مذہبی بحث کو جنم دینے والے اشتعال انگیز بلاگز لکھنے سے گریز کرنا چاہیے جب کہ لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ گالیوں یا کسی کی ذات پر حملے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

٭تحریر کی ادارت بہت ضروری ہے۔ بلاگ کی تحریر کو کبھی بھی خام حالت میں یونہی نہیں شائع کردینا چاہیے۔ اپنے ڈرافٹ پر نظر ثانی کریں۔ ہجے اور لغوی اغلاط کے علاوہ جملوں کی ترتیب پر بھی ایک سے زیادہ بار نظرثانی کریں۔

بلاگ کیسے بنائیں؟

انٹرنیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ایسی سیکڑوں ویب سائٹیں مل جائیں گی جو نیٹ صارفین کو بالکل مفت میں بلاگ نویسی کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ بلاگ کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ آج کل تقریباً ہر نیوز چینل اور اخبارات و رسائل کی ویب سائٹوں پر، حتی کہ تفریحی، تجارتی، تنظیمی و تعلیمی ویب سائٹوں پر بھی بلاگ مل جائیں گے۔ عموماً بلاگ دو طرح سے بنائے جاسکتے ہیں۔ اول یا تو آپ کسی بلاگ ہوسٹنگ فراہم کرنے والی ویب سائٹ پر رجسٹریشن کروا کر اپنا بلاگ لکھیں جب کہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنا ڈومین نیم اور ویب ہوسٹنگ خریدیں اور پھر کسی بلاگنگ ٹول کو ویب سائٹ پر انسٹال کرکے اپنا بلاگ بنا لیں۔ مشہور بلاگ ہوسٹنگ پرووائیڈرز میں سب سے آگے گوگل کا بلاگر (Blogger) یا بلاگ سپاٹ (Blogspot) نظر آتا ہے۔ گوگل نے بلاگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر بلاگر کو خرید لیا تھا۔ بلاگر بہت مقبول سروس ہے۔ یہ بلاگز کے لیے بہت سے مفت ٹیمپلیٹس فراہم کرتی ہے جنھیں اپنی ضرورت کے حساب سے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ بھی بلاگر پر اپنا مفت بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو بلاگر کی ویب سائٹ وزٹ کریں، لنک درج ذیل ہے:

https://www.blogger.com/about/?hl=ur

اس کے علاوہ ورڈپریس(Word Press)  ایک اور بہت مشہور سروس ہے اور بلاشبہہ اس وقت یہ بھی بلاگنگ کی دنیا میں مقبول ترین بلاگنگ سروسز میں شمار کی جاتی ہے۔ ورڈ پریس پر پائے جانے والے بے شمار دل کش تھیمز اور پلگ اِنز کی مدد سے آپ اپنی سائٹ کو بلاگ سے لے کر کسی خبروں کی ویب سائٹ یا پھر کوئی اور شکل دے سکتے ہیں۔ مووایبل ٹائپ کی طرح ورڈپریس بھی دو طرح کی بلاگنگ کا انتخاب دیتی ہے۔ ورڈپریس کی سب سے بڑی خوبی اس کی لچک دار ساخت ہے۔ ورڈپریس کو دنیا کی ہر تحریری زبان میں بہ آسانی ڈھالا جا سکتا ہے۔ آزاد مصدر ہونے کے سبب اس کے مسائل کے لیے مناسب سپورٹ بالکل مفت ورڈپریس کی سائٹ پر دست یاب ہے، جہاں دنیا بھر سے ورڈپریس کے صارفین باہمی تعاون سے منٹوں میں آپ کے مسائل حل کر دیتے ہیں۔ ورڈپریس کا بلاگنگ ٹول جو پی ایچ پی میں بنایا گیا ہے، ایک مکمل آزاد مصدر پروگرام ہے، جسے بہ آسانی کسی بھی ویب سائٹ پر انسٹال کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اپنی ویب سائٹ بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو ورڈپریس ہی آپ کا اولین انتخاب ہونا چاہیے۔ پی ایچ پی میں بنائے جانے کی وجہ سے یہ ونڈوز اور لینکس دونوں طرح کی ہوسٹنگ پر چلایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ورڈ پریس پر اپنا بلاگ بنانا چاہتے ہیں ورڈ پریس کی ویب سائیٹ وزٹ کریں، جس کا لنک یہ ہے۔

https://wordpress.com/create-blog/

بلاگ بنانے کے لیے بہترین موضوعات

ویسے تو آپ اپنی دل چسپی کے مطابق اپنے پسندیدہ موضوع پر بلاگ لکھ کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ بلاگ نویسی سے کچھ رقم بھی کمانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی پسند کو پس پشت ڈال کر لوگوں کی پسند کا خیال رکھنا ہوگا۔ بہت سے لوگ بلاگ شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں موضوع کا تعین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہم آپ کو چند ایسے موضوعات کے بارے میں بتائیں گے جن پر لکھ کر آپ بلاگنگ کی دنیا میں اچھا نام کما سکتے ہیں۔

٭ صحت:

صحت کے موضوع پر لکھنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں اگر آپ تھوڑی سی شُدبُد رکھتے ہیں تو اس موضوع کو اپنائیں۔ جیسے وزن گھٹانے کے نسخے اور فٹنیس ٹپس وغیرہ۔ اس موضوع پر آپ کو بے شمار اشتہارات ملیں گے اور مختلف کمپنیاں اپنے ادویات کی تشہیر کے لیے آپ سے رابطہ کر سکتی ہیں۔

٭تعلیم :

اگر آپ کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے یعنی آپ اُستاد وغیرہ ہیں تو آپ کے لیے اس موضوع پر بلاگ بنانا انتہائی فائدہ کا سودا ہوگا۔ تعلیم پر بلاگ نویسی کی بدولت جہاں ہزاروں طالب علموں کو فائدہ ہوگا وہیں آپ بھی خوب مالی منفعت حاصل کرسکتے ہیں۔

٭ آن لائن پیسے کمائیں:

گو کہ اس موضوع پر بلاگ نویسی سب سے زیادہ کی جاتی ہے مگر پاکستان میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اور اب آہستہ آہستہ لوگوں میں شعور آ رہا ہے اور وہ اس حوالے سے سرچ کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس موضوع پر منفرد مضامین لکھ سکتے ہیں تو بہت کامیابی مل سکتی ہے۔

٭ ٹریول بلاگس:

یہ موضوع بہت ہی دل چسپ ہے۔ بہت سے ٹورسٹ پاکستان کا رخ کر رہے ہیں اور وہ اس حوالے سے سرچ کرتے ہیں کہ پاکستان میں کن جگہوں کی سیر کی جائے۔ اگر آپ سیاحت کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں یا چند علاقوں کا ٹور لگا چکے ہیں تو اس موضوع کو اپنائیں۔ اس موضوع پر انگریزی میں لکھنا بہتر رہے گا اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی ویب سائٹ پہ آئیں گے۔

٭ بیوٹی:

خواتین اور طالبات کے لیے اس موضوع پر بلاگ نویسی کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ اس موضوع پر پاکستان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ اگر محنت کی جائے تو بہت کامیابی ہوگی اور مختلف کمپنیاں اپنے مصنوعات کی تشہیر کے لیے آپ سے رابطہ کریں گی۔

٭کھانا پکانا:

اس موضوع پر بلاگ نویسی کرنا گھریلو خواتین کے لیے گھر بیٹھے رقم کمانے کی کئی آسان راہیں کھول سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی گھریلو خواتین اس موضوع پر بلاگ نویسی کر کے ٹھیک ٹھاک اضافی رقم کما رہی ہیں۔

٭ فاریکس ٹریڈنگ:

پاکستان میں بہت کم لوگ فاریکس ٹریڈنگ کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اس موضوع پر بلاگ پڑھنے والوں کی تعداد کافی ہے اور جب کہ دوسرے ممالک سے ٹریفک کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اگر آپ فاریکس ٹریڈنگ میں مہارت رکھتے ہیں تو یہ موضوع آپ کے لیے منافع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔

٭کھیل:

انڈیا اور پاکستان میں سب سے زیادہ اس موضوع پہ سرچ کیا جاتا ہے خصوصاً جب ورلڈ کپ، ایشیا کپ، آئی پی ایل یا پی ایس ایل جیسا کوئی بڑا کرکٹ ٹورنامنٹ چل رہا ہو تو اس موضوع پر بلاگ پڑھنے والوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔ اگر آپ کھیل میں دل چسپی رکھتے ہیں تو آپ اپنے شوق کو بلاگ لکھ کر آمدنی کمانے کا ذریعہ بھی بناسکتے ہیں۔

 ٭پراڈکٹ ریویو:

اس وقت ہر کوئی موبائل فون یا کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے گوگل پہ سرچ کر کے اس کے بارے میں معلومات اور ریویوز دیکھتا ہے۔ اگر آپ موبائل فون، لیپ ٹاپ، کیمرے اور دیگر چیزوں کی خصوصیات کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور پرائس لسٹ بنا سکتے ہیں تو اس موضوع پر بلاگ نویسی کر کے آپ کو بہت کام یابی مل سکتی ہے۔

٭وائس بلاگ کیا ہے اور کیسے بنتا ہے؟:

اگر آ پ صحیح معنوں میں اپنے بلاگ کے قارئین کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کی آواز آپ کے لیے سب سے موزوں ذریعہ ہے، کیوں کہ جو لوگ آپ کو پڑھتے ہیں وہ آپ کو سننا بھی چاہتے ہیں۔ اور آپ کی آواز یقیناً آپ کے قارئین سے زیادہ آپ کے سامعین کی تعداد بڑھا دے گی۔ یہ کرنا کچھ مشکل کا م نہیں۔ ایسی بہت سی ویب سائٹس ہیں جو آپ کو نہ صرف وائس بلاگ نویسی کی سہولت دیتی ہیں بل کہ ان میں سے بہت سی ویب سائٹس تو آپ کو آپ کا اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔

mixlr.com کے نام سے ایک ایسی ویب سائٹ موجود ہے جو اپنے صارفین کو اعلیٰ معیار کی اسٹیریو آواز کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے آپ اپنی ریکارڈ کی گئی فائل کو وقفے کے بعد اب لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کی مدد سے آپ اپنا ایک مرکز بناسکتے ہیں۔ اپنے سامعین کے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور فوری طور پر اپنے سامعین کا تاثر جان سکتے ہیں۔ ایک بہترین اور بالکل مفت وائس بلاگ بنانے کے لیے چند درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔

٭ سب سے پہلے اپنے ویب براؤزر کے ایڈریس بار میں www.mixlr.com لکھیے۔ ونڈو کھلتے ہی آپ Login اور Signin کا Optionدیکھیں گے۔ آپ Sign Up کے Option پر کلک کیجیے۔ یہاں یہ آپ کو دو اقسام کی سہولیات فراہم کرتا ہے، اگر آپ کے پاس Facebookکا اکاؤنٹ موجود ہے، تو فقط Sign Up with Facebookکے Option پر کلک کردیجیے، آپ کا اکاؤنٹ mixler  پر خود ہی بن جائے گا۔ اگر نہیں، تو دیے گئے فارم کو مکمل کیجیے اور اپنا اکاؤنٹ بنائیے۔

٭ Sign Upکرنے کے بعد آپ کا اکاؤنٹ بن جائے گا۔ اب آپ کے سامنے ایک نئی ونڈو خود ہی کُھل جائے گی۔ اس ونڈو پر موجود broadcastکے Option پر کلک کریں گے تو ایک ونڈو کھلے گی جو آپ سے یہ پوچھے گی کہ آپ mixler کو اپنے کمپیوٹر پر چلانا چاہتے ہیں یا اپنے موبائل پر۔ ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشن آپ کو بیک وقت 3 چینلز سے وابستہ رہنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے سے آڈیو کے ذریعے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے ہی کمپیوٹر پر دو مائیک اٹیچ کرسکتے ہیں جب کہ آئی فون کے آپشن کو استعمال کر کے آپ نہ صرف اپنی آواز Broadcast کرسکتے ہیں بل کہ اپنے دوستوں کے ساتھ سن بھی سکتے ہیں اور چیٹ بھی کرسکتے ہیں۔ اینڈرائیڈ فون کی ایپلی کیشن جلد ہی آپ کے سامنے آئیں گی۔ ویب سائٹ اس سلسلے میں کام کر رہی ہے۔ اب آپ ونڈو میں موجود Download  for  Windows  کے Options  پر کلک کیجیے۔ آپ کا کمپیوٹر اس Program کو ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کردے گا۔

٭ چند لمحوں میں ڈاؤن لوڈ مکمل ہوجائے گا۔ ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے Setup  Mixler آپ سے create a desktop icon  کے بارے میں پوچھے گا۔ اس کے آگے کلک کیجیے، تاکہ آپ کے پاس mixler پینل کا Icon آپ کے ڈیسک ٹاپ کی مین اسکرین پر نمایاں ہوسکے اور آپ جب بھی چاہیں اسے اپنی مرضی سے استعمال کرسکیں۔

٭ اب Panel آپ کے سامنے کھل چکا ہے۔ پینل میں موجود دائرے نما نقطوں پر کلک کرتے ہی آپ کا پروگرام شروع ہوجائے گا۔ لیجیے اب اپنی ریکارڈنگ مکمل کیجیے، اب نہ صرف اپنا وائس بلاگ ریکارڈ کرسکتے ہیں، بل کہ آپ ریڈیو اسٹیشن کے مالک بھی بن گئے ہیں۔ ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد ان ہی دائرے میں نظر آتے نقطوں پر کلک کیجیے۔ اب mixler آپ سے پوچھے گا کہ کیا آپ اپنا پروگرام فوراً آن ایئر کرنا چاہتے ہیں یا کچھ وقفے سے؟ آپ اپنی مرضی کے مطابق Option کا انتخاب کیجیے۔ آپ کا شو ریکارڈ ہونے کے بعد آپ کی mixler کی ویب سائٹ کے اکاؤنٹ میں شامل ہوجائے گا اور اس کے لیے آپ کو باقاعدہ ایک لنک بھی دیا جائے گا، تاکہ آپ اس لنک کو مختلف سماجی ویب سائٹ پر شیئر کرسکیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ریکارڈنگ ابھی اتنی بہتر نہیں ہے کہ اسے شیئر کیا جائے یا اپنے اکاؤنٹ کا حصہ بنایا جائے، تو آپ ریکارڈنگ آڈیو کے Optionsمیں جاکر اس آڈیو کو منسوخ، تدوین، ڈاؤن لوڈ یا ایکسپورٹ وغیرہ کرسکتے ہیں۔ ایکسپورٹ ایک ایسا Optionہے جس کے ذریعے آپ اس آڈیو ریل کو دوسرے سوفٹ ویئر میں لے جاسکتے ہیں۔ مثلاً آپ اپنی آڈیو ریل کوSoundcloud,Dropbox,Audioboo,Mixcloudمیں لے جاسکتے ہیں۔

٭اس بات کا اطمینان کرلیجیے کے آپ کا ہیڈفون آپ کے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ سے اٹیچ ہو۔ پہلا پینل جہاں speaker لکھا ہوا ہے وہاں ڈراپ ڈاؤن مینیو پر کلک کیجیے۔ اب بہت سے Option  آپ کے سامنے آجائیں گے۔ ریکارڈنگ کرنے کے لیے یہاں Microphone کو سلیکٹ کیجیے۔

٭ اب دوسرا پینل دیکھیے، جہاں آپ کو select source لکھا نظر آئے گا۔ ڈراپ مینیو کو اپنی پسند کے مطابق بدل دیجیے، یہ آپ کو پروگرام کے دوران دوسرے سافٹ ویئر سے اٹیچ ہونے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔Any input  کے ذریعے نہ صرف آپ دوسرے پروگرامز سے اٹیچ ہوسکتے ہیں بلکہ اپنے ہی کمپیوٹر پر دوسرا مائیکرو فون لگاکر اپنے ساتھی ہوسٹ کے ساتھ بیک وقت پروگرام بھی کرسکتے ہیں اور اگر آپ کسی قسم کا چینل اپنے پروگرام کے ساتھ استعمال کرنا نہیں چاہتے توselect source کے Option کو offکردیجیے۔ آپ Mixlr  پر تین پینل دیکھتے ہیں۔ ایک پلے لسٹ، دوسرا ایکسٹرنل سورس یا ان پٹ اور تیسرا مائیکرو فون آپ بیک وقت جس چینل کی آواز بڑھانا یا گھٹانا چاہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔

٭ اب تیسرے پینل کی بات کرتے ہیں، جہاں open playlist لکھا ہوا ہے۔ اس پینل کے ذریعے آپ اپنے پروگرام کے دوران کسی بھی آڈیو لوکل فائل کو پلے لسٹ کی صورت میں چلاسکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو یہ فائل بیک گراؤنڈ میں اپنا کام کرے گی۔ آپ کی پسند پر منحصر ہے کہ آپ بیک ٹو بیک میوزک بھی چلاسکیں۔ پینل میں جائیے Any List پینل میں ڈراپ مینیو میں جا کر Open Play Listپر کلک کیجیے۔ پینل کے نیچے +Add Sound  کا بار کھل جائے گا Add Sound پر کلک کیجیے اور اپنی پسند کا سونگ یا کسی بھی قسم کی آڈیو فائل یا فائلز کی لسٹ اپنے پروگرام میں Add کرلیجیے۔

٭اب آپ اپنی پسند کے مطابق ان فائلز کو چلاسکتے ہیں۔ کلک کرنے کے بعد جو فائلز ریڈ یعنی سرخ رنگ کا ICON ظاہر کرے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فائل چلے گی۔ آپ اپنے ماؤس کو ڈریگ کرکے اس لسٹ کو بدل بھی سکتے ہیں۔ اس کی ترتیب میں ردوبدل کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی رائٹ کلک کرکے بہ آسانی چلاسکتے ہیں اور روک بھی سکتے ہیں۔

 اسکائپ(Skype) کو وائس بلاگ میں تبدیل کریں

آپ اپنے پروگرام میں اسکائپ کے ذریعے اپنے دوستوں اور مہمانوں کو بلاکر بہ آسانی گروپ ڈسکشن اور بحث مباحثے پر مبنی پروگرام کرسکتے ہیں۔

٭اس کے لیے سب سے پہلے آپ اپنے اسکائپ سے آن لائن ہوجائیے اور ساتھ ہی اپنا Mixler کا پینل بھی کھول دیجیے۔

٭ اسکائپ کی پریفرنس preference میں جائیے۔ اسکائپ کے اوپر کلک کیجیے پھر ’’پروفائل‘‘ پر اور اس کے بعد Change Sounds پر کلک کیجیے۔

٭ایک ونڈو Skype Option کی آپ کے سامنے کھل جائے گی اب اس ونڈو میں Adio Setting پر کلک کیجیے۔

٭یہاں آپ دو اوپشنز نظر آئیں گے Speakers اور Ringing، ان دونوں کو ’’Speakers ’’پر سیٹ ہونا چاہیے۔

٭اس کے بعد Save پر کلک کیجیے اورSkype کے Option والی ونڈو کو بند کردیجیے۔

٭اب Mixler کے پینل پر جائیے۔ وہاں Selcet Source کے اوپر کلک کیجیے، کافی سارے Options آپ کے سامنے کھل جائیں گے۔ آپ (high Definition audio Micro phon) پر کلک کیجیے، جب کہ Any Input کا Option ’’Speakers‘‘ پر سیٹ ہونا ضروری ہے۔ اسکائپ پر کانفرنس کال کے ذریعے آپ ایک یا ایک سے زیادہ کالر کو ایک ہی وقت میں پروگرام میں ایڈ بھی کرسکتے ہیں۔

The post ’’بلاگ‘‘ کیا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا (قسط نمبر 4)

$
0
0

30۔ نیشنل ہسٹری میوزیم، لاہور

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے قلب میں دودھ سی سفید ایک خوب صورت چمکتی ہوئی عمارت موجود ہے۔ یہ کولمبو نیشنل میوزیم ہے۔ پچھلے سال اس نیشنل میوزیم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں سری لنکا کی تاریخ و ثقافت اور دست کاریوں کو سلیقے سے نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس میں سری لنکا کی جدید تاریخ اور فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ دی گئی تھی۔

یہ میوزیم دیکھتے ہوئے میں شدت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس طرح کا ایک میوزیم پاکستان میں بھی ہوتا جہاں صرف ادب، موسیقی، دست کاریاں اور مختلف فنونِ لطیفہ نمایاں کیے جاتے۔ شاید وہ وقت قبولیت کا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد مجھے لاہور کے نیشنل ہسٹری میوزیم کا پتا چلا۔ یہ میوزیم ابھی ابھی بنا تھا بلکہ یوں کہیں کہ ابھی اس کا ’’آخری ٹچ‘‘ باقی تھا لیکن مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں دوستوں کو منت کر کے وہاں لے گیا۔خوش قسمتی سے میوزیم عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ باہر عمارت کی خوب صورتی سے ہی اندر کی نفاست کا اندازہ لگا لیا اور میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔

لاہور کا عظیم الشان عجائب گھر کئی گیلریوں پر مشتمل ہے جہاں قیامِ پاکستان اور اس دور کے حالات کو ترتیب سے دکھایا گیا ہے. اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پاکستان بننے کے بعد کے فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ نہیں دی جا سکی (کراچی کا نیشنل میوزیم میں نے دیکھا نہیں اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا)۔ قصور، بہاولپور اور سوات کے عجائب گھر وہاں کی مقامی تاریخ اور کرافٹس پر مشتمل ہیں۔ پشاور کا میوزیم گندھارا آرٹ کا شاہ کار ہے، جب کہ ہڑپہ اور ٹیکسلا کے میوزیم میں قدیم اشیاء رکھی گئی ہیں۔

ایسے میں قومی سطح کے میوزیم کی سخت ضرورت تھی جہاں پاکستان کی قدیم و جدید تاریخ سمیت فنونِ لطیفہ پر بھی خاص روشنی ڈالی جائے اور یہ کام لاہور کے نیشنل میوزیم سے بخوبی لیا گیا ہے۔اس میوزیم کا محلِ وقوع بھی بہت تاریخی ہے۔ یہ لاہور کے ”گریٹر اقبال پارک” میں واقع ہے جہاں مینار پاکستان اور حفیظ جالندھری کے مرقد جیسی تاریخی جگہیں موجود ہیں۔ 35000 اسکوائر فٹ کے رقبے پر محیط اس میوزیم کی عمارت نصف گولائی میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپریل 2018 میں کیا تھا جب کہ اسے عوام کے لیے یکم جولائی کو کھولا گیا۔

اس خوب صورت میوزیم کی عمارت ”پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی” نے بنائی ہے اور اب یہ ”سٹیزن آرکائیوز آف پاکستان” کی تحویل میں ہے جو تاریخ، ثقافت اور ورثے سے متعلق ایک غیرسرکاری تنظیم ہے۔نصف گولائی میں بنائے گئے میوزیم میں ایک جانب داخلہ تو خروج مخالف سمت میں رکھا گیا ہے۔ میوزیم کو پانچ مختلف گیلریز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تاریخ، ادب، کھیل، ثقافتی سرگرمیاں، موسیقی، فلم، زبان، مجسمہ سازی، ذرائع نقل و حمل، دست کاریاں، ڈاک کا نظام، فوٹوگرافی، آلاتِ حرب اور منظرکشی سے متعلق قدیم و جدید سامان کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ آئیے تفصیلاً ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

اندر داخل ہوتے ہی پہلی گیلری تقسیم سے پہلے اور بعد کے اہم واقعات کی دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز سے مزین ہے جہاں آپ ہر سال کے حساب سے اس سال کے اہم واقعات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہاں قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور پاکستان بننے کے بعد کے حالات کو ترتیب اور نفاست سے دکھایا گیا ہے۔ برِصغیر کے خوب صورت نقشوں سے لے کر قائدِاعظم اور اہم راہنماؤں کی نایاب تصاویر تک سب یہاں موجود ہیں۔

دوسری گیلری میں تقسیم کے دردناک مناظر کی منظرکشی کی گئی ہے۔ اس میوزیم میں تاریخ کو واضح کرنے کے لیے نہ صرف تصاویر بلکہ آڈیو اور ویڈیوز سے بھی مدد لی گئے ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے مناظر اور مہاجرین کے کپڑوں سمیت ان کی اشیاء بھی دکھائی گئی ہیں۔ ایک حِصہ میں مہاجرین کی چیخیں گونج رہی ہیں جو دیکھنے والے کو انکی تکلیف کا اندازہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔تیسری گیلری کے دو حصے ہیں۔ ایک میں اُس وقت کے واہگہ ریلوے اسٹیشن کی منظرکشی کی گئی ہے جہاں ایک پرانا ٹرین کا ڈبا اور بنچ رکھا گیا ہے۔

ساتھ ہی تقسیم کے بعد کے حکومتِ پاکستان کے دفاتر، اسٹیشنری اور ٹیلی فون وغیرہ رکھے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں پاک فوج کی تینوں شاخوں، بری، بحری اور فضائیہ سے متعلق سامانِ حرب رکھا گیا ہے۔ ان میں جہازوں، آبدوزوں، کشتیوں اور ٹینکوں کے ماڈل سے لے کہ پاکستان کے تمام سول و ملٹری تمغہ جات ان کی تفصیل کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔

چوتھی گیلری کو اگر میوزیم کی سب سے دل چسپ و رنگین جگہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ گیلری پاکستان کے فنونِ لطیفہ سے متعلق ہے۔ یہاں پاکستانی فلمی صنعت ”لالی وڈ” کی مشہور پرانی فلموں کے پوسٹرز، لالی وڈ کی تاریخ، مشہور فلمی شخصیات کا تعارف، گلوکاروں کے پورٹریٹس، مشہور غزل گائیکوں کی تصاویر اناکی غزلوں کی آڈیوز سمیت نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں 60 کی دہائی کی پاکستانی فلمی صنعت کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ فوٹوگرافی کے متعلق بھی ہے۔ آخری ہال میں کھیل و ثقافت اور ذرائع نقل و حمل کو رکھا گیا ہے۔

سب سے پہلے آپ پاکستان کے مشہور کھیلوں کی تاریخ تصاویر سمیت دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کونے میں ایک چھوٹا سا پروجیکٹر لگا کر سنیما ہال بنایا گیا ہے جہاں مختلف معلوماتی دستاویزی فلمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اسکرین پر قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کھیل کے میدان میں پاکستان کی اہم پیش قدمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ ملکہ ترنم نورجہاں اور مشہور پاکستانی آرٹسٹ صادقین کی خدمات کے لیے مختص ہے جہاں ملکہ ترنم کے گانے بھی سُنے جا سکتے ہیں۔

یہاں پشاور ریلوے اسٹیشن کا ایک ماڈل ہے اور پاکستانی ٹرین کو خوب صورت نظاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان پوسٹ اور پاکستانی پاسپورٹ کے بارے اہم معلومات تصاویر اور ماڈلز سمیت ڈسپلے کی گئی ہیں۔ اور آخر میں ”ڈسکور پاکستان” کے نام سے ایک دیوار بنائی گئی ہے جہاں پاکستان کی علاقائی ثقافت کے رنگوں کو بکھیرا گیا ہے۔ یہاں آپ پورے پاکستان کی خوشبو اپنے اندر اتار سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک مجسمہ گیلری بھی ہے جہاں نصف گولائی میں تحریکپاکستان کے اہم راہنماؤں کے سفید مجسمے رکھے گئے ہیں۔

کسی بھی وزیٹر کے لیے پہلی بار اتنی معلومات یک دم نگلنا کچھ مشکل ہوتا ہے اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں باخبر گائیڈز رکھے گئے ہیں جو آپ کو ہر گیلری کے بارے میں چید چیدہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مختلف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔

یہ اپنی طرز کا پہلا پاکستانی میوزیم ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی سب سے اہم خاصیت یہی ہے کہ یہاں آپ نہ صرف نمائش کے لیے رکھے گئے نوادرات، اہم تحریریں و معاہدے اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی تاریخ اور ان کے ذرائع (جہاں سے حاصل کیے گئے ہیں) کے بارے میں مختلف آڈیو ویڈیوز سے بھی جان سکتے ہیں جو خود بہت نادر ہیں۔ یہاں قائداعظم کی اہم تقاریر، مختلف اہم نوعیت کے پیغامات، ریڈیو پاکستان کی پہلی اناؤنسمنٹ اور مشہور فلمی گانوں کو سُنا بھی جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیں، آپ ایک پرانا ٹیلی فون اٹھاتے ہیں اور محمد علی جناح کی بارعب آواز آپ کو سنائی دیتی ہے، کتنا یادگار تجربہ ہے نا یہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ اس سے بہتر طریقے سے محفوظ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

٭اہم خصوصیات

پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل میوزیم جو 35000 اسکوائر فٹ پر محیط ہے۔

8700 سے زیادہ ڈیجیٹل تصاویر۔

تاریخی دستاویزی فلموں کے لیے ایک سنیما ہال۔

ڈیجیٹل کوریڈورز کی مدد سے تاریخ کا ایک خوب صورت سفر۔

پاکستان کے پہلے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ کی یادگار۔

قائداعظم اور گاندھی کے تاریخی خطوط۔

اور ان تمام اہم معلومات کا وائی فائی کے ذریعے آپ کے لیپ ٹاپ/یو ایس بی میں ٹرانسفر۔

31- وزیر مینشن کراچی ؛

کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ہے اس عمارت کی وجہ شہرت یہ ہے کہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح، 25 دسمبر، 1876ء کو اس عمارت میں پیدا ہوئے۔ بانیٔ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اس عمارت کو حکومت پاکستان نے قومی اثاثہ قرار دے کر ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔کراچی کے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے چونے اور پٹ سن کے مصالحے سے بنائی گئی یہ خوب صورت عمارت 1860 سے 1870 کے بیچ بنائی گئی۔ یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے زیراستعمال تمام اشیاء جیسے فرنیچر، ملبوسات، سگار، جوتے اور روزمرہ استعمال کی چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

32- ٹھٹھہ میوزیم سندھ ؛

ٹھٹھہ صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جس کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ بہت سارے تاریخی مقامات کا گڑھ ہونے اور کراچی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ہر سال اس جگہ سیاحت کے دل دادہ لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس شہر اور اس کی ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔حال ہی میں ٹھٹھہ میں ایک میوزیم کی بنیاد رکھی گئی ہے جو غالباً اگست میں عوام کے لیے کھولا گیا ہے۔ یہاں ٹھٹھہ شہر کی قدیم تاریخ، فنِ کاشی گری، مختلف پیشوں، اور سندھ کی دیہی زندگی کو خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے نیا بننے والا عجائب گھر ہے۔

33- فقیر خانہ میوزیم لاہور

پرانے لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر داخل ہوں تو کچھ آگے چل کر دائیں ہاتھ پر ایک پرانی حویلی ”فقیر خانہ” کے نام سے موجود ہے، یہی پاکستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم ”فقیر خانہ میوزیم” ہے جو پچھلی 6 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیرانتظام قائم ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں جو اس عجائب گھر کا انتظام بخوبی چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق فقیرخانہ عجائب گھر میں 7000 لگ بھگ نوادرات موجود ہیں جو ایک خاندانی ورثے کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے ہیں۔

اس دوران اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا۔ جو کتابیں، نوادرات اور تبرکات بچے انہیں فقیرخانہ میں جمع کردیا گیا ہے۔ دو منزلہ خوب صورت عمارت پر مشتمل اس عجائب گھر کے نچلے مرکزی کمرے میں مختلف قسم کی تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان، پستول اور خنجر نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، جب کہ یہی کمرہ فقیر سیف الدین کے بیٹھنے اور تحقیق کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔اوپر کے مرکزی کمرے میں رکھی گئی نایاب اشیاء میں بدھا کا مجسمہ، خطاطی کے نمونے، چھوٹی تصاویر، قالین کا وہ ٹکڑا جس میں ایک چہرہ نظر آتا ہے، پیتل کے مجسمے، لکڑی کا خوب صورت فرنیچر اور قیمتی گلدان شامل ہیں۔

یہاں سے ایک گیلری نکلتی ہے جہاں لکڑی کے خانوں میں چینی پورسلین کے خوب صورت ظروف اور گندھارا تہذیب کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ یہاں سے ایک اور کمرہ نکلتا ہے جہاں مختلف الماریوں میں کئی قسم کی نادر اشیاء کو محفوظ کیا گیا ہے۔

فقیر سید نور الدین نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کروائی تھی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں۔ آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں اور پورسلین کے بنے ظروف بہت اہم شاہ کار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں۔ لکڑی کے شاہ کار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہ کار بھی موجود ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے بھی اس عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

فقیرخانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ اسکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔

34- خواجہ فرید میوزیم کوٹ مٹھن ؛

نجی عجائب گھروں میں ایک منفرد مقام کا حامل یہ میوزیم پاکستان کا سب سے بڑا ”نجی صوفی میوزیم” ہے جو سرائیکی، پنجابی، فارسی اور سندھی کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی درگاہ کے ساتھ واقع ہے۔ اس میوزیم کا نظم و نسق درگاہ کے متولین چلا رہے ہیں جس کے ساتھ ایک لائبریری بھی منسلک ہے۔خواجہ فرید میوزیم اور لائبریری کی قطار اندر قطار کئی گیلریوں میں آپ کے خطوط، لباس، کتابیں، گھریلو استعمال کی اشیاء، بستر، قرآن پاک، آخری غسل کا صابن، فریدی رومال، کنگھی، کچھ سکے اور کرنسی نوٹ وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر اشیاء موجود ہیں۔

آخری گیلری میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطے کی مختلف ثقافتی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ہر سال خواجہ صاحب سے عقیدت رکھنے والے ہزاروں افراد اس میوزیم کو دیکھنے آتے ہیں اور عرس کے دنوں میں تو تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اس میوزیم کو کسی نئی عمارت میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔

35- علامہ اقبال میوزیم لاہور ؛

یہ بات ہے 1977 کی جب پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا تھا تو حکومت نے اقبال منزل سیالکوٹ، اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کا سوچا۔ ان تینوں عمارتوں کو خرید کر میوزیم میں بدل دیا گیا۔

مئی 1935ء میں علامہ اقبال اور ان کے اہل خانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے جاوید منزل میں منتقل ہوگئے۔ آخری عمر میں ملنے والے اس خوب صورت گھر کو علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید کے نام سے موسوم کردیا اور آج اسی جاوید منزل کو ”علامہ اقبال میوزیم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت جاپان نے اس ضمن میں ایک احسن اقدام اٹھاتے ہوئے اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈ سے شوکیسوں اور ایئر کنڈیشنروں کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے ایک بڑی رقم مہیا کی۔

میوزیم کی تیاری کے بعد اسے محکمۂ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیا، جو اب بھی اس کی تحویل میں ہے۔ اقبال میوزیم، 9 گیلریوں پر مشتمل ہے۔ میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں، جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ ان اشیاء میں اقبال کا پاسپورٹ، دستخط کی مہر، ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا، بنک کی کتاب، عینکیں، انگوٹھیاں، کف لنکس، پگڑی، قمیص، جوتے، کوٹ، تولیے، چھڑیاں، ٹائیاں، کالر، دستانے، وکالتی کوٹ، جناح کیپس، گرم سوٹ جو لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ سے سلوائے گئے تھے۔ پشمینہ شیروانی، حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجا سرکرشن پرشاد کی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے، خطوط، دستاویزات، تصاویر اور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔ میوزیم کا رقبہ تقریباً سات کنال ہے۔

36- قلعہ بالا حصار میوزیم

بالاحصار، پشاور میں واقع ایک قدیم قلعہ اور تاریخی مقام ہے۔ تیمور شاہ درانی نے اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا جس کے لفظی معنی بلند قلعہ کے ہیں۔ یہ قلعہ ایک طویل عرصے تک درانیوں کے زیراستعمال رہا، 19ویں صدی میں جب سکھوں نے پشاور پر حملہ کیا تو یہ قلعہ ان کے زیراستعمال آیا اور انہوں نے اس کا نام سمیر گڑھ رکھا لیکن مقامی طور پر سمیر گڑھ کا نام مشہور نہ ہوسکا۔اس وقت قلعے کو بطور فرنٹیئر کور ہیڈکوارٹر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے۔

اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی اندرونی دیوار کی بلندی 50 فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعے کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے۔ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعے کے اندر تک جاتی ہے۔ اس خوب صورت قلعے کے اندر ایک خوب صورت میوزیم بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کور کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے جن میں خیبر رائفلز، سوات اسکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال اسکاؤٹس، کُرم ملٹری، باجوڑ اسکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر اسکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی اسکاؤٹس اور خٹک اسکاؤٹس شامل ہیں۔

یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیے گئے آلاتِ حرب، نقشے، سپاہیوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ، اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔ یہاں ایک پھانسی گھاٹ اور خوب صورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درۂ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔یہاں موجود ایک تختی پر رڈیارڈ کپلنگ کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے۔

37- کوئٹہ جیولوجیکل میوزیم ؛

علمِ ارضیات اور پیش قیمت معدنیات پر مشتمل جیولوجیکل سروے آف پاکستان میوزیم، پاکستان میں اپنی طرز کا واحد میوزیم ہے۔ یہ عجائب گھر کوئٹہ میں سریاب روڈ پر واقع ہے۔ اس میوزیم میں زمین، چٹانوں، پتھروں، معدنیات اور تمام قیمتی و تعمیراتی پتھروں سے متعلق تمام اہم چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی مناسبت سے اسے معدنیات کے گڑھ بلوچستان میں بنایا گیا ہے۔ سب سے اہم چیز 500 ملین سال قدیم فاسلز اور 47 ملین سال پرانی وہیل مچھلی کا ڈھانچا ہے۔یہ میوزیم پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے:

٭چٹانی و معدنیاتی گیلری:اس گیلری میں 2000 سے بھی زیادہ دستاویزات موجود ہیں جو دنیا بھر سے یہاں لا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ گیلری تعلیم و تحقیق کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

٭معدنیاتِ بلوچستان گیلری:پاکستان بھر سے اور خصوصاً بلوچستان سے نکالی جانے والی قیمتی معدنیات اس گیلری کی زینت بنائی گئی ہیں جن میں لوہا، تانبا، جست، نمک، ماربل، گندھک، سونا اور شامل ہیں۔

٭جواہرات گیلری:ملک بھر سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر و جواہرات یہاں رکھے گئے ہیں جن میں زمرد، فیروزہ، نیلم، پکھراج اور شامل ہیں۔

٭تعمیراتی پتھر گیلری:اس گیلری میں آپ مختلف عمارتوں میں استعمال ہونے والا پہاڑی پتھر دیکھ سکتے ہیں۔یہ کوئٹہ کا ایک ایسا میوزیم ہے جسے اب دیکھنے کوئی نہیں جاتا۔ اس جیسے میوزیم جو دوسرے ملکوں میں ہیں ان کا کئی ڈالر ٹکٹ ہے اور روزانہ ہزاروں سیاح ان کا دورہ کرتے ہیں۔ اس کے تالے ہمارے لیے خصوصی طور پر کھولے گئے۔ اس میں قیمتی پتھر لاکھوں سال پرانے فوسلز بلوچستان کی معدنیات اور بلوچستان کے پہاڑوں سے متعلق بے بہا معلومات موجود ہیں۔

38- پاکستان ریلوے ہیریٹیج میوزیم گولڑہ شریف؛

برسوں سے ریل گاڑی ملکوں کی معیشتوں کا پہیا چلاتی آئی ہے اور لاکھوں لوگوں کو آرم دہ سفر اور بیش بہا خوبصورت نظاروں سے مستفید کرتی آئی ہے، لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ ان ریل گاڑیوں کو کسی میوزیم میں بھی رکھا جائے گا۔گولڑہ شریف ریلوے عجائب گھر جو ”پاکستان ریلویز ورثاتی عجائب گھر” بھی کہلاتا ہے اسلام آباد میں واقع پاکستان کا واحد ریلوے عجائب گھر ہے۔ یہ عجائب گھر گولڑہ شریف جنکشن ریلوے اسٹیشن میں قائم ہے جو اسلام آباد کے جنوب مغرب میں سطح سمندر سے 1,994 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

یہ عجائب گھر اور ریلوے اسٹیشن سیاحوں اور خاص طور پر ریلوے اور ٹرین کے شیدائیوں کی دل چسپی کا مرکز ہے۔اس اسٹیشن کو انگریز دور میں 1882 میں بنایا گیا جب کہ 1912 میں اسے جنکشن بنا دیا گیا۔ افغانیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران برطانوی افواج کے لیے اس اسٹیشن کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔ریلوے کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے اکتوبر 2003 میں یہاں ایک عجائب گھر کی بنیاد رکھی گئی۔ اس عجائب گھر میں تین مختلف ہال ہیں جہاں 150 سال سے بھی زیادہ پرانا سامان رکھا گیا ہے جس میں سے زیادہ تر متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔

میوزیم کے ساتھ ہی ایک یارڈ میں ریلوے کی کرینیں، ٹرالیاں، انجن، ڈبے، سیلون اور ٹریک خوب صورتی سے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مشینیں، سگنل سسٹم اور ذرائع ابلاغ کا سامان بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ میوزیم 2002 میں راولپنڈی ڈویژن کے ڈی ایس اشفاق خٹک کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کے کہنے پر ہی پاکستان ریلوے کے تمام ڈویژنوں سے تنگ پٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا مختلف پرانا سامان جیسے کراکری، فرنیچر، انجن اور سیلون اکٹھا کیا گیا۔ 2003 کے آخر تک اس پراجیکٹ کو بغیر حکومتی مدد اور کام کرنے والے آفیسرز کی دل چسپی کی بدولت مکمل کیا گیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح مارچ 2007 میں کیا گیا۔اس عجائب گھر میں پاکستان ریلویز سے متعلق پرانے ریلوے انجنوں، ڈبوں اور نادر اور تاریخی اشیاء کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

ریلوے سے متعلق پرانی اور نادر اشیاء کو دو ہالوں جب کہ پرانے انجنوں اور ڈبوں کو اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور احاطے میں رکھا گیا ہے۔اپنی خوب صورت لوکیشن اور خوب صورتی کی بدولت یہ اسٹیشن اور میوزیم فلم، ٹی وی، فوٹوگرافی اور قلم قبیلے کا پسندیدہ ترین رہا ہے۔ یہاں کئی فلموں، ڈراموں اور کمرشلز کی شوٹنگز ہو چکی ہیں اور بہت سے فوٹوگرافر بھی صبح سویرے اس کی خوبصورتی کو کیمرے میں قید کرتے پائے جاتے ہیں۔

39- پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری، اسلام آباد؛

پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا قیام 1976ء میں پاکستان سائنس فاونڈیشن اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرانتظام عمل میں لایا گیا۔ یہ 4 مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے، جن میں نباتات، حیوانات، ارضیات اور عوامی خدمت شامل ہیں۔ پہلے تین شعبہ جات کا مقصد پاکستان میں موجود پودوں، جانوروں، معدنیات، چٹانوں اور فاسلز کے نمونے اکٹھے کرنا ان کی پہچان اور ان پر تحقیق کرنا ہے، جب کہ چوتھا شعبہ ترتیب و تشہیر سے متعلق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس میوزیم میں تین لاکھ اشیاء موجود ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم ایک تحقیقی ادارہ بھی ہے جو لوک ورثہ میوزیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ یہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے زیرِانتظام ہے۔ اس کی گیلریوں کی تعداد 6 ہے۔

٭ حیاتیائی گیلری؛ مختلف علاقوں کے پودے، درخت، جانور اور پرندوں کے لیے۔

٭ قیمتی پتھروں کی گیلری؛ اس میں تراشے ہوئے اور خام حالت میں قیمتی پتھر و جواہرات رکھے گئے ہیں، جب کہ حکومتِ جاپان کی طرف سے صدرِپاکستان کو تحفتاً بھیجا گیا ”ہیروشیما کا پتھر” بھی یہاں رکھا گیا ہے۔ گرینائٹ کا یہ پتھر تاریخ کے سب سے بڑے المیے کا گواہ ہے۔

٭ فاسلز گیلری؛ جہاں آپ مختلف قدیم جانوروں کے فاسلز، ان کی تصاویر، مخطوطات، اندھی ڈولفن کے فاسلز، ہاتھی کی ٹانگ کا فاسل، خوشاب سے ملنے والے مگرمچھ کے فاسلز بھی یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کینیا کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ابتدائی انسان کی وہ کھوپڑی بھی رکھی ہے جو تقریباً 29 لاکھ سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مشرقی افریقہ سے برآمد ہوئی تھی۔

ماحولیاتی گیلری؛ جہاں ماحولیات کے طالب علم ماحولیاتی سائیکل اور نظام کا بغور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

٭ ارضیاتی گیلری؛ اس گیلری میں پاکستان کے سمندروں اور معدنیاتوں سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں ایک وہیل مچھلی کا ڈھانچا بھی شامل ہے۔ کوہِ نمک کی مختلف پرتوں اور طبعی خصوصیات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

٭ ورچول ٹور گیلری؛ اس گیلری میں آپ تمام گیلریوں کی چیدہ چیدہ خصوصیات دیکھ سکتے ہیں۔ ٹائم کی کمی کے باعث یہ گیلری آپ کو پورے میوزیم کی سیر کروا سکتی ہے۔

40- مہوٹہ پیلس میوزیم؛

کراچی کے ایک مشہور مارواڑی تاجر شیو رتن مہوٹہ نے 1927 میں کلفٹن کے ساحل کے قریب اپنے لیے ایک شان دار محل تعمیر کروایا تھا جس کے انجنیئر جے پور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے پہلے مسلمان انجنیئر احمد حسین آغا تھے جو کراچی میونسپلٹی کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ یوں تو انہوں نے کراچی میں کئی عمارتوں کو ڈیزائن کیا لیکن مہوٹہ پیلس ان کا لازوال شاہ کار قرار پایا۔ عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جب کہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

قطار اندر قطار دروازے اور ایک شان دار زینہ محل کی رونق میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں۔مغل طرزِتعمیر اور کراچی کے ریتیلے پیلے اور گلابی پتھر کو استعمال میں لا کر انہوں نے وہ عمارت کھڑی کی جو راجستھان کی کسی راجپوت ملکہ کے محل سے کم نہ تھی۔پاکستان بننے کے بعد مہوٹہ پیلس وزارتِ خارجہ کا دفتر قرار پایا۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد یہ محل محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا۔ 1964 میں آپ کی وفات کے بعد یہ محل آپ کی بہن شیریں بائی کے استعمال میں رہا جن کی وفات کے بعد یہ 1995 تک سیل کردیا گیا۔

1995 میں اسے حکومتِ سندھ نے میوزیم بنانے کے وعدے پر وفاق سے خرید لیا۔ ضروری مرمت کے کام کے بعد اسے 1999 میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ تب سے لی کر اب تک یہاں درجنوں شان دار نمائشیں منعقد کی جاچکی ہیں اور تین گیلریوں پر مشتمل یہ میوزیم آج چوالیس گیلریوں پر محیط ہے جہاں مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں۔

مرکزی عمارت کے ساتھ ہی کراچی کی مرکزی لوکیشنز سے اٹھا کر لائے گئے انگریز دور کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ کچھ نادر مجسمے (جیسے ملکہ وکٹوریہ اور برطانوی سپاہیوں کے مجسمے) اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔         (جاری ہے)

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا (قسط نمبر 4) appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

 دیارشمس( ترکی نامہ)

مصنف: ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔۔۔ قیمت:700روپے

ناشر: بک کارنر، جہلم،  054-4278051

بعض مسافر اپنی داستانِ سفر کچھ اس انداز سے سناتے یا پڑھاتے ہیں کہ سننے، پڑھنے والا ان کے ساتھ ہی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے، علاقے دیکھتا ہے، گلیوں، کوچوں میں پھرتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر بھی ایسے ہی مسافر ہیں۔ وہ ایک معروف مقرر، محقق، اقبال شناس، شاعر اور کالم نگار ہیں، ساتھ ہی ساتھ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی ہیں۔  وہ ترکی کے دوشہروں استنبول اور قونیہ میں گئے، انھوں نے وہاں کی ثقافت اور تاریخ کے آثار کو بنظر عمیق دیکھا ، انھوں نے جو کچھ  دیکھا، اس کا اندازہ اس کتاب کے اندر موجود عنوانات سے ہوتا ہے جن کے تحت انھوں نے ابواب باندھے ہیں:

ترکی بہ ترکی، طربوش اور ترک دلہنیں، ایوب سلطان کی خدمت میں، حسن ظن کا انعام، قانونی سلطان اور ملکہ خرم،  نیلی مسجد، ڈاکٹر فواد سیزگین اور علوم کی آبنائے، نوجوان یوشع بن نون علیہ السلام کی خدمت میں، استنبول سے قونیہ، قونیہ کا چراغ، قونیہ میں ابن بطوطہ، پیرومرید کی یک جائی، قونیہ سے واپسی، استنبول یونی ورسٹی کی جانب، خالدہ ادیب خانم، پنجاب یونی ورسٹی اور استنبول یونی ورسٹی، توپ کاپی عجائب گھر،الوداع استنبول۔

پروفیسر ڈاکٹرآسمان بیلن اوزجان، صدر شعبہ اردو، انقرہ یونیورسٹی، ترکی نے لکھا:

’’ ترکی کے دو صوفیانہ شہروں میں گھومتے ہوئے زاہد منیر عامر نے انتہائی باریک بینی اور اشتیاق سے ترک ثقافت اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعے کو رقم کرتے ہوئے جو جذبہ شدت سے کارفرما نظرآتا ہے وہ ترکی سے محبت ہے۔ محبت کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا‘‘۔

کتاب میں سفرنامہ نگار کی مختلف مقامات کی تصاویر کے ساتھ ہی ساتھ بے شمار نادر دستاویزات کے عکس بھی شامل کئے گئے ہیں۔ عمدہ کاغذ، مضبوط جلد اور خوبصورت سرورق کی صورت میں ’بک کارنر‘  نے حسب سابق کتاب دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔

 معرکہ بالاکوٹ اور گوجرقوم

مصنف: مولانا قاضی مہدی الزماں کھٹانہ۔۔۔ قیمت:300روپے

ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل ، حسن مارکیٹ، اردو بازار لاہور،03008834610

کتاب کا تعارف اس کے عنوان ہی سے ہوجاتاہے۔ تحریک جہاد سیداحمد شہید اور 1857ء کی تحریک آزادی برصغیر کی ملی تاریخ کے دو اہم اور روشن ترین ابواب ہیں۔ ان دونوں انقلاب آفرین ، تاریخ ساز اور اسلامی نظریاتی معرکوں میں گوجرقوم نے مجاہدین کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔اپنے لہو سے آزادی کی تاریخ رقم کی اور انگریز سرکار کے عتاب اور انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے۔ زیر نظر کتاب میں یہ ساری کہانی نہایت تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک جہاد اپنوں کی غداری اور مخبری سے ناکام ہوئی، یہ مخبری اور غداری کس نے کی، اس کا بھی کتاب میں مفصل ذکر ہے۔ مصنف نے نہایت عرق ریزی اور دیانت سے تحریک جہاد بالاکوٹ سے متعلق حقائق کو منظرعام پر لانے کی بھرپورسعی کی ہے۔

جہاد بالاکوٹ کا حقیقی رخ جاننے کے لئے یہ کتاب ازحد مفید ثابت ہوگی بلکہ اس کتاب کا مطالعہ کیے بغیر جہاد بالاکوٹ کی حقیقت تک پہنچنا نہایت مشکل ہے۔ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے ،  جن میں گوجروں کا تفصیلی تعارف دیاگیا ہے، ان کے ہم نسل قبائل اور ذیلی شاخوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ ان کی حکومتوں اور ریاستوں کا تذکرہ ہے۔ بتایا گیاہے کہ سکھوں کے ساتھ مجاہدین کے جہاد کی ابتدا کیسے ہوئی؟اور اس کے بعد کیا ہوا؟۔ اس لئے تاریخ کے طلبہ و طالبات کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔

نام: روزقیامت

مصنفہ: سلویا براؤن۔۔۔ ترجمہ: یاسرجواد ۔۔۔ قیمت :995روپے

ناشر: بک کارنر، جہلم، 054-4278051

جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھوٹا تو بین الاقوامی میڈیا میں ایک کتاب سے متعلق خبریں اور رپورٹس شائع ہوئیں کہ 2008ء میں ایک امریکی مصنفہ نے اپنی کتاب میں 2020ء میں کورونا وائرس پھوٹنے کی پیش گوئی کی تھی۔  یہ کتاب تھی End of Days اور مصنفہ ’سلویا براؤن‘۔ وہ ایک امریکی تھیں۔ان کی 40کتابیں شائع ہوئیں، 2013ء میں ان کا 77سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

زیرنظرکتاب  End of Days  ہی کا اردو ترجمہ ہے، اس میں سلویا براؤن نے لکھا کہ 2020 کے قریب نمونیہ جیسی ایک شدید بیماری دنیا بھر میں پھیلے گی جو پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں پر حملہ کرے گی اور علاج کے تمام معلوم طریقے ناکارہ ثابت ہوں گے۔ بیماری سے بھی زیادہ بوکھلا دینے والی بات یہ ہوگی کہ یہ جس تیزی سے آئے گی ، اسی تیزی سے ختم بھی ہوجائے گی۔ پھر یہ دس سال بعد دوبارہ آئے گی اور اس کے بعد مکمل طور پر ختم ہوجائے گی‘‘۔

آج جب ہم کورونا کے عہد میں جی اور مر رہے ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ بارہ سال پہلے کیسے ایک خاتون کو اس بیماری کا پتہ چلا؟ اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے تلاش کیا، تجزیے کیے، مصنفہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کیا اور ان کے ٹریک ریکارڈ کو کھنگالا۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مصنفہ نے یہ پیش گوئی کی تھی اور وہ سچ بھی ثابت ہوئی۔

زیرنظرکتاب میںسلویا براؤن نے اپنی کتاب میں قیامت سے متعلق مختلف تہذیبوں کے تصورات اور نظریات کا احاطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر وباؤں اور آفات ، نیوکلیائی جنگوں اور انسانی تباہ کاریوں  کے باعث دنیا کے خاتمے کی عالمی پیش گوئیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب میں سلویا براؤن کا  تفصیلی تعارف بھی دیا گیاہے۔ امید ہے کہ یہ نہایت دلچسپ کتاب آپ کی معلومات میں خاطرخواہ اضافہ کرے گی۔

 سندھ طاس معاہدہ

مصنف : ضیا شاہد ۔۔۔ قیمت:800 روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل،یثرب کالونی، بنک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ، 0300 0515101

صدرپاکستان جناب ڈاکٹرعارف علوی نے فرمایا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ’سندھ طاس معاہدہ‘ میں کیا طے پایا تھا جس کا اب پاکستان کو نقصان ہورہا ہے اور بھارت کو فائدہ ۔ اور کیوں صدر پاکستان نے اس پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیاہے؟

زیرنظر کتاب سندھ طاس معاہدہ کا اردوترجمہ ہے۔ اس لئے یہ اردوخواں حضرات وخواتین کے لئے ایک گراں قدر ریفرنس بک ثابت ہوگی، معاہدہ کا متن دینے سے پہلے مصنف نے پیش لفظ میں متعدد اہم پہلوؤں کی طرف نشان دہی کی ہے اور کئی انکشافات کیے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ معاہدہ جلدی میں کیا گیاتھا۔  پاکستان کی طرف سے مذاکرات کس نے کیے اور وہ معاہدہ طے پانے کے بعد کیوں امریکا منتقل ہوگیا؟ یہ انکشافات بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ 1960ء میں جس معاہدے پر پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے دستخط کئے تھے اس میں پاکستان نے کیا شرائط تسلیم کی تھیں اور بھارت نے کیا کچھ تسلیم کیا تھا؟

تاریخ اور پاک بھارت تعلقات میں دلچسپی رکھنے والوں کو  یہ کتاب اپنے گھر کے کتب خانے میں ضرور شامل کرنی چاہئے۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی یہ گراں قدر کاوش ہے۔

تذکرۃ الاولیا

مصنف: حضرت شیخ فریدالدین محمد عطار نیشا پوری۔۔۔

ترجمہ، ترتیب و اضافہ : رئیس احمد جعفری

قیمت: 1200روپے۔۔۔ ناشر: بک کارنر، جہلم، 054-4278051

تصوف کیا ہے؟ یہ ایک اہم ترین سوال ہے،  اس کا ایک تو سیدھا سادا جواب ہے کہ  حب دنیا سے دوری، دنیا کی چمک دمک سے بے نیازی، جاہ اور نمائش کو زندگی میں داخل نہ ہونے دینا،  صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا، زندگی کے ہر مرحلہ پر اسی سے لَو لگانا، یہ تصوف ہے۔ رسول اکرم ﷺ دن اور رات کا بڑا حصہ لوگوں سے الگ دنیا سے دور، غارحرا کی تنہائیوں میں بسر کرتے تھے، اسی طرح آپ ﷺ کے اصحاب کرام بھی خشوع وخضوع سے عبادت، مجاہدہ نفس کرتے، دنیا کی چمک دمک سے دور رہتے۔، وہ شیطان کے دشمن تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے شائق اور جویا۔ یہی طرزعمل تابعین، تبع تابعین اور بعد کے لوگوں نے بھی اختیار کیا۔ وہ تصوف کی راہ پر چلتے ہوئے تنقیہ نفس اور تصفیہ قلب کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی کے ذریعے ارشاد فرمایا:

’’ میں نے جو کچھ فرض کیا ہے اس پر عمل کرکے بندہ مجھ سے قریب ہوسکتا ہے، نوافل کی پابندی کرکے بندہ مجھ سے قریب اور میرا محبوب ہوسکتاہے، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جو کچھ وہ سنتا ہے، میں سنتاہوں، جو کچھ وہ دیکھتاہے، میں دیکھتاہوں، میں اس کے ہاتھ سے پکڑتا اور پاؤں سے چلتاہوں۔ اگر وہ کچھ مجھ سے مانگتاہے میں اسے دیتاہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتاہے  تو میں اسے پناہ دیتاہوں‘‘۔

اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں  رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو دنیا سے نفرت کرتاہے تو اس کا قرب حاصل کرو، وہ تمھیں حکمت بتائے گا۔‘‘(ابن ماجہ)

نبی مہربان ﷺ، صحابہ کرام ؓ  کے بعد عام مسلمانوں کا ایک حصہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے لگا تو اس کے مقابل ایک بڑا گروہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے ایک بار پھر فقر و غنا کی زندگی کی طر ف لوگوں کو بلانا شروع کردیا۔ یہی اہل تصوف تھے۔ زیرنظرکتاب ایسے ہی بیسیوں لوگوں کے تذکروں پر مشتمل ہے جن کے کردار اور سیرت کے واقعات دوسروں کی زندگی کو بناتے اور عمل کو سنوارتے ہیں۔ انہی لوگوں کی زندگی سے روشنی حاصل کرکے ہم بھی ویسے ہی بندے بن سکتے ہیں جنھیں رب پسند کرتاہے اور جن پر اللہ کی رحمتوں اور نعمتوںکا نزول ہرلمحہ ہوتاہے۔

 

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک طرف ہیں شادیاں آسان دوسری طرف تقاریب سے جڑی ’معیشت‘ کا بحران!

$
0
0

 پشاور:  ’’یہ شادی نہیں ہوسکتی!‘‘ جیسے مکالمے فلموں میں تو سنتے آئے ہیں لیکن کورونا وائرس نے اس کو سچ بھی ثابت کردیا،جس کی وجہ سے ایک دو شادیاں نہیں رکیں، بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ان رشتوں کو بریک لگ گیا ہے، پاکستان میں عموماً فروری اورمارچ کو شادیوں کا سیزن کہا جاتا ہے۔

اس دفعہ جوں ہی یہ سیزن شروع ہوا اور ہر سو شادیانے بجنے لگے، تو ’کورونا‘ کے طوفان نے گویا شادی کے لیے تنے ہوئے شامیانے اور  قناتیں اکھاڑ کے رکھ دیں، جو شادیاں طے تھیں، وہ  رک گئیں، بہت سے مہندی لگے ہاتھوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا، مایوں بیٹھی لڑکیوں کے  عروسی جوڑا زیب تن ہونے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی، جن شادی خانہ آبادیوں کے پروگرام طے ہوچکے تھے اس پر پانی پھر گیا۔۔۔ بہت سے مجبوروں نے قرض پر بچیوں کے لیے جو جہیزکا سامان خریدا تھا وہ پڑے پڑے گرد آلود اور زنگ آلود ہونے لگا، بڑے چاؤ سے خریدے گئے۔

عروسی جوڑے کی چمک دمک  ماند پڑنے لگی، شہروں میں ایڈوانس بکنگ پر لیے گئے شادی ہالوں کی بکنگ منسوخ کر دی گئی، چوں کہ شادی ایک ایساموقع ہوتا ہے، جس میں دولھا دلہن سے لے کر ان کے گھر والوں تک سبھی بڑے شوق سے دوستوں اور رشتے داروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن نے جوڑوں اور ان کے گھر والوں کے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔

ہمارے ہاں شادیاں بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ چلتی ہے، پھرشادی کی تقریبات کئی روز جاری رہتی ہیں، لیکن کورونا میں  یہ ساری منصوبہ بندیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ دوسری جانب  لاک ڈاؤن یاباالفاظ دیگر ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کے دنوں میں شادی کا لباس تیارکرنے والی دکانوں سے لے کر زیورات، پھولوں، سجاوٹ، باورچیوں، کیٹرنگ اورخاص طور پر بیوٹی پارلروں کوبھی تالے پڑ گئے ہیں، اسی طرح اگرایک جانب شادی ہال ویران ہیں، تو دوسری جانب زیادہ تر نے ملازمین فارغ کردیے ہیں۔

جہاں دن اور سرشام قمقموں کی روشنی کے ساتھ ڈھول شہنائی، بینڈ باجوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا، وہیں اب ایک آدھ بلب کی روشنی میں صرف ایک پہرے دار بندوق گلے میں لٹکائے بوجھل قدموں سے وقت گزاری کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی تناظرمیںشادی ہال ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا کے عہدیداروں نے وزیراعظم عمران خان، چیف جسٹس آف پاکستان  اور وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ چار ماہ سے بند شادی ہالزکو ’ایس او پیز‘ کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی جائے جب کہ اسی مدت میں ہونے والے نقصان کے لیے امدادی پیکیج کااعلان کیا جائے۔

تاکہ شادی ہالوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا مزید معاشی قتل عام نہ ہو، ایسوسی ایشن کے صدر خالد ایوب کہتے ہیں کہ کورونا کے لاک ڈاؤن کے باعث رواں سال 14 مارچ سے شادی ہال بند ہیں, جس کی وجہ سے اب تک ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، ان کے مطابق پشاورمیں چار سو اور دیگر اضلاع میں 130 رجسٹرڈ اور 300 غیر رجسٹرڈ شادی ہال ہیں، ایک شادی ہال میں تقریباً 40 کے لگ بھگ ملازمین اپنی روزی روٹی کا سامان کرتے ہیں، تاہم چار ماہ سے بندش کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں سمیت ہال کے اخراجات نے شادی ہال کے کاروبار سے وابستہ  افراد کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، اس لیے اب ان میں مزید خسارہ برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی، جب کہ بچے کچھے ملازمین کے سروں پربھی بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔

بقول ان کے اگر صوبے بھر میں بینک، نادرا کے دفاتر اور دیگر کاروبار کھول دیے گئے ہیں، تو شادی ہال سے وابستہ افراد کو اجازت دینے میں کیا رکاوٹ ہے۔ ہمیں بھی ’ایس او پیز‘ کے تحت شادی ہال کھولنے کی اجازت دی جائے، اسی سلسلے میں ’شادی ہالز ایسوسی ایشن‘ کے صدر خالد ایوب کی سربراہی میں ایک  وفد نے پچھلے دنوں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان سے ملاقات میں وزیراعلیٰ کو موجودہ حالات میں اپنے مسائل سے آگاہ کیا، جس پر وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ وہ شادی ہال کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں گے۔

انھوں نے شادی ہال کو ممکنہ ’حفاظتی اقدام‘ کے تحت کھولنے سے متعلق ایس اوپیز کے لیے صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایس اوپیز تیارہونے کے بعد معاملہ وزیراعظم کی زیرصدارت نیشنل کوآرڈی نیش کمیٹی کے اگلے اجلاس میں اٹھایاجائے گا۔ اس کے بعد شادی ہال کھولنے یا نہ کھولنے کا حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں مختلف کاروبارمتاثرہوئے وہیںشادی کے لیے رشتے ڈھونڈنے والی آنٹیاں اور ’ماسیاں‘ بھی اس کی زد میں آئیں، ان خواتین کے مطابق لاک ڈاؤن نے انہیں بھی کافی متاثرکیا، کیوں کہ رشتہ ڈھونڈنے اور کرانے کے لیے اول تو کوئی بھی اپنے گھر میں آنے کی اجازت نہیں دیتا، اجازت مل بھی جائے، تو سب سے پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ مذکورہ خاتون یا ان کے اہل خانہ میں کوئی کورونا کا شکار تو نہیں، اس وباکے باعث شادی دفاتر بھی بند پڑے ہیں۔

جہاں ایک جانب بہت سوں نے شادی کے پروگرام ملتوی کیے وہیں چند موقع پرست یامجبورلوگوں نے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے پھولوں کی سیج سجاکر شادیاں کیں یا کرائیں، شادی کے انتظارمیں بیٹھے دولھا نے سہرا سجایا تو لڑکی نے سرخ جوڑا پہن کر والدین کے ارمانوں کو حقیقت کاروپ دیا۔

کسی نے یہ فریضہ ڈنکے کی چوٹ پر تو کسی نے نہایت راز داری سے نبھایا، بعض نے منصوبہ بندی کے تحت ایسا کر کے ’’کم خرچ بالانشین‘‘ کا فارمولا اپناتے ہوئے نمودونمائش سے خود کو بچایا، تو بعض نے دل کے ارمان خوب پورے کیے، البتہ اس دوران ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی کہ جن لڑکیوں یا لڑکوں کی شادیاں جہیز یا دیگر جھمیلوں کے باعث رکی ہوئی تھیں، انھوں نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چند رشتے داروں اوردوستوں کی موجودگی  میں ایک نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔

اس لیے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے  ہیں کہ کوروناوائرس کے پیش نظر سادگی سے شادی کرنے کی ایک روایت ضرور پڑی ہے، انتہائی کم خرچ میں نمودونمائش کے بغیر دولھا اور دلہن والے گنے چنے  افراد کی موجودگی میں شادی کااہتمام کرنے لگے ہیں، صوبائی دارالحکومت پشاور میں کورونا وائرس کے دوران ایک اندازے کے مطابق 1500 سے زائد جوڑے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، مہندی، نکاح، بارات، رخصتی، ولیمے  کی تقریبات بھی گھروں کی چاردیواری میں منعقد ہونے لگیں، گھروں کو سجانے سے لے کر آتش بازی، ہوائی فائرنگ، بینڈ باجا اوردولھا کی گاڑی سجانے سمیت دیگرروایات ورسومات کو ترک کر دیا گیا، لاک ڈاؤن میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے بیش تر نوجوانوں کے مطابق شادی میں صرف چند قریبی رشتے داروں اور پڑوسیوں کو گھروں میں دعوت دی گئی۔

کورونا کی وجہ سے شادی پر صرف 50 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک خرچ آیا، یوں لاکھوں روپے کی بچت ہوئی، اس طرح کورونا کی وبا کم سے کم  لوگوں کو یہ باور کرانے میں کام یاب ہوئی ہے کہ کم خرچ میں بھی فرائض نمٹائے جا سکتے ہیں۔

The post ایک طرف ہیں شادیاں آسان دوسری طرف تقاریب سے جڑی ’معیشت‘ کا بحران! appeared first on ایکسپریس اردو.

یرقان: اسباب، علامات اورعلاج کیا ہے؟

$
0
0

’بغاوت مستحکم سلطنت کو بھی ناکام بنا دیتی ہے ‘ (مقولہ)

جسمِ انسانی بھی مانندِ سلطنت ہے جس میں امورِ خوراک مثلاََ خوراک کو جذب کرنا ، خوراک کو ہضم کرنے کے لیے اثناء عشری ( ڈوڈینم) میں صفراء پہنچانا ، معدے کو دائیں جانب سے گرمی پہچانا مشاغل ہیں، جو جگر کے ذمہ ہیں۔ ان امور کے علاوہ جگر (کبد) کے ذمہ خون کے لیے لحمیات (پروٹین) بنانا ، ضرورت سے زیاہ شکر کو ’’گلائیکو جن‘‘ کی صورت میں محفوظ کرنا ، لحمیات کی اکائیوں ’’ امائینو ایسڈ‘‘ کی مقدار برقرار رکھنا ، فولاد ( آئرن) کو محفوظ کرنا، زہریلی مواد ’’امونیا‘‘ کو ’’یوریا‘‘ میں تبدیل کرنا، خون کو ادویہ وغیرہ کے اثرات سے پاک کرنا، خون کے جمنے اور بہنے کو قابو کرنا، مدافعتی نظام ترتیب دینا جس سے جراثیم سے خون کو صاف رکھا جائے، سرخ خلیات سے ’’بلی روبین‘‘ کو صاف کرناجگر ہی کے ذمہ ہیں۔

یاد رہے کہ جب جگر نقصان دہ مواد کو  توڑتا ہے تو اس کے کچھ حصّے خون میں جاتے ہیں ، اضافی صفراء آنتوں میں پہنچتا ہے اور براز کے ذریعے خارج ہوتا ہے۔خون میں موجود اضافی صفراء گردے میں چھنتا ہے اور بول کے ذریعے خارج از جسم ہوتا ہے۔ غرضکہ صفراء اپنی گرمی جسم میں غیر معمولی چربی کو بھی پگھلا دیتا ہے۔ اگر خون میں اس کی مناسب مقدار نہ ہو تو شریانوں میں چربی کا اجتماع ہوجاتا ہے، براز کے اخراج کا احساس بھی صفراء کے پیدا کردہ ہیجان سے ہی ہوتا ہے۔ صفراء کا  رنگ زرد اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور مزاج گرم اور خشک ۔ اگر اس کی مقدار کسی بھی وجہ سے غیر طبعی طور پر بڑھ جائے تو ’’یرقان‘‘ ہوجاتا ہے۔

یرقان کا سبب

جگر سے یرقان ’’پتہ  ‘‘ (گال بلیڈر) کی خرابی، صفراوی نالیوں کے انسداد (رکاوٹ) ، جگر کے ورم سے ہوتا ہے، ’’پتہ‘‘ صفراء کو جمع رکھتا ہے جب فرد خوراک حاصل کرتا ہے تو آنتوں سے ایک خاص خامرہ (انزائیم) پتہ کو تحریک دے کر صفراء حاصل کرتا ہے جو آنت میں پہنچ کر ہضمِ غذاء کا کام کرتا ہے، اگر اس نالی میں جو یہ صفراء آنت تک پہنچاتی ہے رکاوٹ آجائے تو صفراء آنت تک نہیں پہنچ پاتا اور ہضم ِ غذاء کا کام بھی تکمیل کو نہیں پہنچتا بلکہ خون میں پہنچ کر یرقان کا موجب ہوتا ہے، جگر کے بڑھنے سے بھی یرقان ہوجاتا ہے۔ کبھی ایک دم خوف زدہ ہونے سے کمزور اعصاب والے لوگوں کو یرقان ہوجاتا ہے ، رگوں کے مزاج میں تغیر اور کچھ لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ صفراء کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔

ان میں یرقان دوسروں کی نسبت جلدی ہوتا ہے۔ اسی طرح گرم علاقوں کے باشندگان بھی گرم امراض جن میں یرقان شامل ہے مبتلا ہوجاتے ہیں ، ان امور کے علاوہ کچھ عادات جو خشکی کا باعث ہیں ، وہ بھی ایسے امراض میں مبتلا کرنے کے لیے انسان کو تیار کرتی ہیں مثلاََ کم سونا، بھوکا پیاسا رہنا، طاقت سے زیادہ کام کرنا ، چڑ چڑا رہنا، گرم مصالحہ جات والی خوراک کا استعمال بغیر اصلاح کے کرنا، تمباکو نوشی، زیادہ سوچ بچار،غم ، قبض اورجراثیم شامل ہیں۔یرقان رگوں کے مزاج میں تبدیلی ، زہروں اور غذاؤں سے بھی ہوتا ہے۔

یرقان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

عادات پر غور کریں ، اگر مذکورہ عادات میں سے کوئی عادت ہے تو اسے دور کریں، پانی اور رقیق خوراک کا اہتمام کریں ، جلد پر خارش ہونے لگے تو محتاط رہیں کیونکہ یرقان سے پہلے بھی خارش ہوتی اور جلد خشک ہوتی ہے، قبض نہ ہونے دیں۔ مصفی خون قدرتی ادویہ کا استعمال کریں ، جب علامات محسوس ہوںتو کاسنی کا قہوہ پئیں۔ کوشش کریں کہ یرقان کی علامات پوری ہونے سے پہلے ہی اس کا تدارک کر لیں ورنہ امراضِ تولید جنم لیتے ہیں اور کچھ اشخاص کو بانجھ پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

علامات

1۔ جلد ، زبان اور آنکھوں کا زرد مائل ہونا، 2 ۔ خارش کا ہونا، کیونکہ صفراء خشکی کرتا ہے، 3 ۔ براز کا پیلا ہونااور بول کا گاڑھا ہونا، 4 ۔ تھکاوٹ، 5۔ شکم کے دائیں جانب اور کبھی پیٹ میں درد،6۔ جلن والی قے، 7۔ بخار مگر زبان اور آنکھ کی پیلاہٹ کے ساتھ، 8۔ ہتھیلی اورتلوں کا گرم ہونا، 9۔ وزن میں تیزی کے ساتھ کمی، کیونکہ خوراک ہضم نہیں ہوتی۔

10۔ ہتھیلی اورتلوں کا گرم ہونا،11۔ بالوں کا خشکی کے باعث گرنا، 12۔جگر میں جلن بوجھ اور تناؤ،13۔ اگر جگر میں بوجھ ، بخار اور پیاس نہ ہو تو رگوں کے مزاج کی خرابی کی وجہ سے یرقان ہے، 14۔ اگر سخت پیاس ، خشک زبان اور سخت براز ہو تو جگر کی گرمی کی وجہ سے یرقان ہے، 15۔ اگر نالی کا انسداد ایسے مقام پر ہوجہاں سے صفراء آنتوں میں پہنچتا ہے تو براز کا رنگ سفید ہوجاتا ہے، کیونکہ صفراء بالکل رک جاتا ہے،16۔ یرقان کی ایک قسم سیاہ یرقان ہے، لہذا اگر براز کا رنگ سیاہ ہو تو تلی کے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔17۔یرقان میں اگر براز اپنی حالت پر ہو تو پتہ ماؤف نہیں بلکہ جگر بیمار ہوتا ہے۔

یرقان کا علاج

سیاہ یرقان کے لیے: مویز منقی، گل سرخ، کبابہ، ایلوا، سقومونیا،غاریقون، ہلیلہ زرد، سونف اور افتیمون نہار منہ پلائیں دوپہر میں عرقِ بادیان ، عرقِ کثوث اور عرقِ مکوء، ملٹھی کے سفوف کے ساتھ دیں۔ غذہ میں سرکہ سے تیار شدہ مچھلی اور ہلیلہ، افتیمون ، شاہتراہ، بسفائج اورصبر کا سفوف دیں۔ مقدار: بمطابق عمر ۔

زرد یرقان کے لیے: کاسنی ، گل سرخ، مکوء، افسنتین، ریوند ، عرقِ پودینہ کا قہوہ مجرب ہے۔نیز پیاز یرقان کا ازالہ کرتی ہے۔

ایلوپیتھی علاج: جراحت سے رکاوٹ دور کریں یا اینٹی وائرل ادویہ کا استعمال ، انٹرفیرون وغیرہ کا استعمال کچھ لیب ٹیسٹ کے بعد کیا جاتا ہے۔

The post یرقان: اسباب، علامات اورعلاج کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


سیلف میڈیکیشن ، مفید یا نقصان دہ؟

$
0
0

 سنا مکی اور پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے حوالے سے  بہت ساری ای میلز آئیں ، بچوںکے پیٹ میں کیڑوں کے حوالے بہت سے پریشان والدین نے رابطہ کیا کہ ان کے بچے کے پیٹ میں کیڑے ہیں، دوا بتادیں۔ جنھیں علاج کا مشورہ دیا وہ دوا کا نام جاننے کے لیئے ہی اصرار کرتے رہے ۔ آج کسی مرض پر لکھنے کے بجائے چند  باتیں آپ سے کرنا ہیں۔

سب سے پہلے میں واضح کردوں کہ ہومیوپیتھک  طریقہ علاج ایلوپیتھک سے یکسر مختلف ہے ۔ محض ایک علامت یا مرض کے نام پر دوا تجویز نہیں کی جاسکتی۔کیڑوں کے ہر مریض کوایک مخصوص دوا نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح دیگر امراض مثلاً بلڈپریشر اور بخار وغیرہ کا معاملہ ہے۔ ہومیوپیتھی میں ایک مرض کے لیئے درجنوں میڈیسن ہوتی ہیں  اور ان میں سے کسی ایک کا  انتخاب مریض کی تمام علامات کی بنا پر کیا جاتا ہے۔

ہومیوپیتھی میں کسی چیز کی  خواہش اور نفرت، پسند، نا پسند جیسے کہ نمک کھانے،  بار بی کیو کی خواہش،  ٹھنڈا پانی پینے کی شدید خواہش ،گرم مشروبات کی طلب، برف کھانے کی عادت، کوئلہ  کھانے کی زبردست خواہش، مرض میں کمی بیشی، مزاج ، کانسٹیٹیوشن  بڑی اہمیت کا حامل ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ تکلیف کے اوقات یعنی  ٹائمنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔

جب تک مذکورہ بالا تمام علامات معلوم نہ ہوں صحیح دوا کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا۔ بصورت دیگر بہت سی دوائیں ہیں، تکے میں  بدل بدل کر  دی جاسکتی ہیں۔آپ کو کیڑوں کے دو دوائیں بتائی تھیں:

سائنا سپاء جیلیا۔

لیجیئے مزید نوٹ کرلیں :

ٹیوکریئم  سینٹو نائین۔ کلکیریا فاس  اور ایک لمبی لسٹ ہے۔ اب ہر کسی کو یہ تمام دوائیں نہیں دی جاسکتیں۔

ایک کیس جان لیجئے۔ ایک دس سالہ بچی  سانس  کی تکلیف الرجک  استھما  میں مبتلا  تھی۔ ہر چند ماہ میں اٹیک ہونا لازمی تھا  جبکہ اس سے پہلے کوئی تکلیف نہیں رہی تھی۔  چند دن کارپٹ پر سونے کی وجہ سے الرجی، سانس لینے میں تکلیف،  دمہ جیسی کیفیت ہوگئی۔

عرصہ دراز تک ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک علاج، ٹوٹکے غرضیکہ  جو بھی کیا جاسکتا تھا ،کیا گیا۔ تمام ٹیسٹ رپوٹس کلیئر  تھیں۔ ڈاکٹرز کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اسے مسئلہ کیا کس چیز سے الرجی ہے۔ دوران سانس الٹیاں، بخار، دھڑکن کابڑھ جانا۔ وہ کئی دن تک لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں داخل رہی۔ بچی کی کیس ٹیکنگ کی گئی، کئی دوائیں بدلی گئیں، وقتی آرام مل جاتا تھا۔ ایک بار  شدید اٹیک کے دوران کیس ٹیکنگ  میں پتہ چلا کہ اسے شدید میٹھے کی خواہش ہے، اسے کچھ بھی میٹھا چاہیے۔ اس ایک خواہش نے صحیح دوا کے انتخاب تک پہنچا دیا۔ پھر دوا کی ایک خوراک نے منٹوں میں بستر سے اٹھا دیا۔ اگر وہ نمکین یا کسی اور چیز کی خواہش رکھتی تو یقیناً دوا کچھ اور ہوجاتی۔ کچھ عرصہ علاج سے الحمد للہ وہ مریضہ بالکل ٹھیک ہے۔ آج 24 سال کی ہے۔ اب کبھی کبھار کوئی مسئلہ ہوجائے تو موجودہ کنڈیشن پر دوا دے دی جاتی ہے ۔

اگر کوئی فردکسی مسئلہ  سے متعلق کوئی مشورہ چاہتے ہیں تو پوری تفصیل لکھیے ورنہ قاصر رہوں گی، میں آپ کو صرف مشورہ دے سکوں گی ۔ علاج کے لیئے کسی قریبی ہومیو ڈاکٹر سے رابطہ کیجیئے کیونکہ یہ سیلف میڈیکیشن ہوگی۔ ڈاکٹر  سے رابطے میں رہنا لازم ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے جس تکلیف میں آپ مبتلا ہوں، اس میں کچھ زیادتی ہوجائے یا کوئی نئی کنڈیشن بن جائے اور آپ  پریشان ہوجائیں حالانکہ وہ شفایابی کی طرف پہلا قدم ہو ۔

یا پھر ہوسکتا ہے کہ دوا بدلنے یا طاقت بڑھانے کی ضرورت  پڑجائے لیکن آپ اسے ہی کھاتے رہیں اور پھر ٹھیک نہ ہونے پر دوا تجویز کرنے والے ڈاکٹر کو برا بھلا کہیں۔ اس لئے معالج سے براہ راست تعلق ازحدضروری ہوتاہے۔

The post سیلف میڈیکیشن ، مفید یا نقصان دہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں

$
0
0

کورونا رواں صدی کی ایسی وباء ہے، جس کے دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں بھی کورونا وائرس ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جس نے متعدد نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ملکی معیشت ہو یا عام آدمی، سب ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے وباء سے نمٹنے کے لئے بروقت اور بڑے اقدامات کیے جن میں مستحق افراد اور غرباء پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور نہ ہی کرفیو لگایا گیا بلکہ غریب طبقہ کی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کیا گیا، جس میں بعد ازاں نرمی بھی کی گئی اور اب سمارٹ لاک ڈاؤن جاری ہے، جس سے کسی حد تک عام آدمی کو راحت محسوس ہوئی ہے تاہم ان تمام تر اقدامات کے باوجود ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور لوگوں کے معمولات زندگی پر بد اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لاک ڈاؤن کے پیش نظر غرباء اور مستحقین کی مدد کیلئے احساس پروگرام متعارف کروایا جو کامیابی سے جاری ہے اور اس کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے ذریعے مستحق افراد میں میرٹ پر 12 ہزار روپے تقسیم کیے گئے جس سے یقینا غرباء کو کافی حد تک مدد ملی۔ اس کے علاوہ حکومت نے ریلیف کے دیگر پروگرام بھی شروع کئے، جن میں بجلی و گیس کے بلوں میں ریلیف جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ریلیف کے ساتھ ساتھ حکومت نے لوگوں کو کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی ترغیب دی۔ اس کے لیے روایتی و سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی گئی۔ تاہم یہاں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ حکومت کے تمام اقدامات اس وقت تک ناکافی ہیں، جب تک انہیں عوامی تعاون میسر نہ ہو۔ عوام کو چاہیے کہ لاپرواہی نہ کریں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور حکومت کی جانب سے دیے گئے ایس او پیز پر مکمل عمل کریں اور جن علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے وہاں پر بھی حکومت کا ساتھ دیں تاکہ کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

وباء کے دوران ریلیف کے کاموں میں حکومت کے ساتھ سماجی تنظیموں، مخیر حضرات، نوجوانوں غرض کے ہر شخص نے اپنی مدد آپ کے تحت مستحقین کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سخاوت اور خدمت، پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کوئی اور مشکل گھڑی، پاکستانی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس طرح کورونا کی وبا ء میں بھی غریب شہریوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستانی متحرک و متحد ہوئے اور بڑھ چڑھ کر غرباء و مستحقین کی مدد کر رہے ہیں۔

سماجی تنظیموں کی بات کریں تو ان کا کردار نہایت مثبت رہا ہے۔ان اداروں میں سرچ فار جسٹس اور اجالا نیٹ ورک سمیت بہت سی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ کورونا وائرس کی مشکل صورت حال میں بھی سماجی ادارے اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے ایک طرف تو لوگوں کواس وباء سے بچنے کے لئے آگاہی دی ہے جبکہ دوسری طرف بڑے پیمانے پر فلاحی کام کیے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے ہسپتالوں میں مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں ماسک، سینی ٹائزرز، حفاظتی کٹس، ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹرز، نئی آئسولیشن وارڈز، مستحقین کیلئے کھانا و دیگر سہولیات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مستحقین اور غریب افراد میں بھی ماسک، سینی ٹائزر، امدادی پیکیج، راشن و دیگر اشیائے ضروریہ تقسیم کی گئیں، جو قابل تحسین ہے۔ ان تمام کاموں سے لگتا ہے کہ حکومت، سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کی جانب سے کی گئی امداد کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ شاید ہی کوئی غریب بچا ہو، جس تک یہ امداد نہ پہنچی ہو۔ مجموعی طور پر تو یہی تاثر ہے مگر میرے نزدیک ابھی بھی ہمارے معاشرے کے کچھ ایسے طبقات ہیں جو نظر انداز ہوئے ہیں۔

وباء کے دوران نظر انداز کئے جانے والے 4 طبقات ہیں جن پر حکومت، سماجی اداروں اور مخیر حضرات کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں ’’خصوصی افراد‘‘ کی۔ عام آدمی تو کسی بھی طرح اپنے معاملات زندگی کو مینج کر ہی لیتا ہے مگر خصوصی افراد کو بے شمار مسائل ہوتے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کی اس وباء نے انہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔

سرکاری سطح پر ملک بھر میں موجود خصوصی افراد کا ڈیٹا نہیں ہے جس کے باعث وہ امدادی پیکیج سے محروم ہیںاور ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے لہٰذا حکومت اور سماجی تنظیموں کو معاشرے کے اس اہم طبقے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خصوصی افراد کے علاوہ ’’اقلیتیں‘‘ بھی نظر انداز ہوئی ہیں۔ ان میں خصوصاََ خاکروب و نچلا عملہ شامل ہے۔ ہسپتالوں و مختلف مقامات پر کام کرتے ایسے عملے کے پاس حفاظتی کٹس اور دیگر اشیاء کی کمی ہے اور بعض جگہ تو انہیں کٹس ہی نہیں ملی۔

اس کے علاوہ امدادی پیکیج میں بھی بعض جگہ مسائل سامنے آئے ہیں، لہٰذا ان کیلئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور سماجی تنظیموں کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ نظر انداز ہونے والوں میں معاشرے کا تیسرا اہم طبقہ ’’خواجہ سراء‘‘ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ نادرا میں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

حکومت کے پاس ان کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ امدادی پیکیج سے محروم ہیں۔ معاشرے کا چوتھا نظر انداز ہونے والا طبقہ ایسی خواتین ہیں جو اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ وہ یا تو بیوہ ہیں یا وہ خود گھر کی سربراہ اور اپنے خاندان کا واحد سہارا ہیں مگر اس مشکل میں انہیں سہارے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سماجی تنظیموں، مخیر حضرات اور خود علاقے کے افراد کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔

The post کورونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹائیفائیڈ۔۔۔ایک مہلک مرض

$
0
0

ٹائیفائیڈ بخار موسم گرما خصوصاً موسم برسات میں سامنے آنے والا ایک مہلک مرض ہے، جو پاکستان میں مئی سے لے کر اکتوبر تک بڑی شدت کے ساتھ موجود رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل وطن عزیز میں کرونا کے ساتھ ٹائیفائیڈ کے کیسز میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے۔

ٹائیفائیڈ بخار پہلی دفعہ 1880ء میں منظر عام پر آیا اور اس وقت ایک محدود اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 1 سے 2 کروڑ افراد اس سے متاثر جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اموات ہو رہی ہیںجن میں اکثریت کا تعلق براعظم ایشیا اورافریقہ سے ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے، جس کی بنیادی وجہ بیکٹیریا سالمونیلا ٹائیفی (Salmonella Typhi)  اور سالمونیلا پیرا ٹائیفی اے ، بی ،سی ،ڈی (Salmonella paratyphi A,B,C,D) ہیں۔ ٹا ئیفائیڈ کا جراثیم متاثرہ شخص کے پیشاب اور پاخانہ کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے اور رفع حاجت کے بعد مناسب طریقہ سے ہاتھوں کو دھونے، انسانی فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے کے علاوہ خوراک کے آلودہ ہونے سے پھیلتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کسی انسانی کیریئر کے ذریعہ پانی یا کھانے میں جمع ہوجاتے ہیں اور پھر اس علاقے کے دوسرے لوگوں میں پھیل جاتے ہیں۔

ٹائیفائیڈ سے کون لوگ متاثر ہوسکتے ہیں؟

ٹائیفائیڈ کا بیکٹیریا پانی یا خشک نالے میں ہفتوں تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس بیماری سے متاثرہ ہونے والے تقریبا 3سے 5فیصد افراد اس بیماری کے کیریئر (Carrier) بن جاتے ہیں ،کیریئر سے مراد وہ شفا پانے والے افراد ہیں جن میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم ان کے جسم کو نقصان نہیں پہنچاتا تاہم یہ دیگر انسانوں کو جراثیم منتقل کرسکتے ہیں ۔یہ لوگ بیکٹیریا کے لمبے عرصے کے لیے کیریئر بن جاتے ہیں اور ان میں کوئی علامات نہیں ہوتیں۔

ٹائیفائیڈ بخار کی علامات ہو سکتی ہیں:

بخار، سر درد،کمزوری اور تھکاوٹ، پٹھوں میں درد، پسینہ آنا، خشک کھانسی، بھوک اور وزن میں کمی، پیٹ کا درد، اسہال یا قبض

ٹائیفائیڈ بخار کی تشخیص:

مرض کی تشخیص خون، پاخانے یا پیشاب کے نمونے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔

ٹائیفائیڈ پھیلنے کے ذرائع:

ٹائیفائیڈ بخار کا باعث بننے والے بیکٹیریا آلودہ کھانا یا پانی اور کبھی کبھار متاثرہ شخص سے براہ راست رابطے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔

پیچیدگیاں:

ٹائیفائیڈ بخار کی سب خطرناک پیچیدگی آنتوں میں خون بہنا یا آنتوں کا پھٹ جانا ہے۔ جوکہ بیماری کے تیسرے ہفتے میں نمودار ہوسکتی ہے،جس کی وجہ سے آنتوں میں پائے جانے والے زہریلے مادے پورے پیٹ میں پھیل جاتے ہیں اور اس کی علامات میں پیٹ میں شدید درد، متلی، الٹی اورپورے جسم میںزہر کا پھیل جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ دل، دل کے پٹھوں، لپبلے، گردے یا مثانے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد موجود جھلیوں اور سیال مادے کی سوزش اور نمونیا بھی ہو سکتا ہے

روک تھام:

بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے اہداف جو ٹائیفائیڈ بخار کی روک تھام اور ان پر قابو پانے میں مدد کرسکتے ہیں جن میں پینے کا صاف پانی، بہتر صفائی اور مناسب طبی نگہداشت وغیرہ حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

ٹائیفائیڈ میری  (Typhoid Mary)

یہ بات قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کی جارہی ہے کہ انسانی تاریخ میںمیری میلن( Mary Mallon)(ستمبر 23، 1869 – 11 نومبر، 1938) آئرش نژاد امریکن باورچی گزری ہیں ،جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انھوں نے 53 افراد کو ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا کردیا، جن میں سے تین فوت ہوگئے اور امریکہ میں اس کو ٹائیفائیڈ مرض کے پہلے کیریئر کے طورپر پہچانا جاتا ہے۔ چونکہ وہ ایک باورچی کے طور پر کام کرتی تھی جس کے ذریعہ دوسروں لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے اس وجہ سے اس کو ٹائیفائیڈ میری(typhoid Mary) کا نام دیا جاتا ہے ۔

میری میلن 1869ء میں کوک اسٹاؤن شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ غالبا ًوہ ٹائیفائیڈ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کیونکہ حمل کے دوران اس کی والدہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا تھیں۔ 15 سال کی عمر میں وہ امریکہ چلی گئی۔ 1900ء سے 1907ء تک میری میلن نے آٹھ خاندانوں کے لئے نیو یارک سٹی کے علاقے میں باورچی کی حیثیت سے کام کیا، ان میں سے سات خاندان ٹائیفائیڈ کا شکار ہوئے۔ اگست 1906ء میں میری نے نیو یارک کے ایک امیر بینکر چارلس ہنری وارن(Charles Henry Warren) کے اہل خانہ کے ساتھ رہائش اختیار کیاور27 اگست سے 3 ستمبر تک خاندان کے 11 افراد میں سے 6 افراد ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوئے۔

1906ء کے آخر میں میری کو والٹر بوون (Walter Bowen) نے ملازمت پر رکھا جس کا کنبہ پارک ایونیو میں رہتا تھااس کی نوکرانی 23 جنوری 1907ء کو بیمار ہوگئی اور جلد ہی چارلس وارن کی اکلوتی بیٹی کوٹائیفائیڈہوااور اس کی موت ہوگئی۔ان واقعات سے میری کو ٹائیفائیڈ انفیکشن کو پھیلانے والی کک ہونے کا شک ظاہر کیا گیااور اس معاملے میں تفتیش کا سلسلہ شروع کیاگیا کہ یہ اس بیماری کے پھیلانے میں ملوث ہے لیکن تفتیش کار اس کوڈھونڈنے سے قاصر رہے کیونکہ وہ عام طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کو بتائے بغیر نکل مکانی کرجاتی تھی۔ میری میلن کو تقریباً 30سال قرنطینہ (Quarantine) میں رکھا گیاجوکہ انسانی طب کی تاریخ میں سب سے طویل ترین عرصہ ہے۔

The post ٹائیفائیڈ۔۔۔ایک مہلک مرض appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیٹ اسٹروک۔۔۔ایک جان لیوا مرض

$
0
0

ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزر

بلاشبہ عصر حاضر میں انسانی عقل نے زندگی کو بہت سہل بنا دیا ہے، سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج کا انسان پتھر کے دور سے کہیں آسان زندگی بسر کر رہا ہے، لیکن اس جدت اور ترقی نے انسان کے لئے مسائل بھی پیدا کئے ہیں، جن میں ایک بڑا مسئلہ صحت کا ہے، درختوں کے کٹاؤ اور مشینوں کی بھرمار کے باعث کرہ ارض پر جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے انسان کو متعدد مصائب کا شکار کر دیا ہے، بے موسمی بارشوں سے جہاں ایک طرف سیلاب آ رہے ہیں تو دوسری طرف گرمی ہر سال پچھلے ریکارڈ توڑ دیتی ہے۔ شدید گرمی کی وجہ سے انسانی صحت مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو چکی ہے،جن میں سے ایک ہیٹر اسٹروک ہے۔

جسم کا درجہ حرارت چالیس ڈگری سے بڑھ جانا ہیٹ اسٹروک کہلاتا ہے اور یہ مریض انسان کو موت کے منہ تک لے جاتا ہے۔ یہ حالت موسم گرما خصوصاً ان دنوں میں عام ہوتی ہے۔ زیادہ دیر تک سورج کی روشنی کا سامنا یا گرمی میں مشقت کرنا اس حالت کی وجہ بن سکتی ہے۔ اگر اس صورت حال میں فوری طبی توجہ حاصل نہ کی جائے تو سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مریض موت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ جب گرمی کا اثر جسم سے خارج نہیں ہو سکتا تو شدید بخار کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، درجہ حرارت غیر معمولی زیادہ ہو جاتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ اردو زبان میں ہم اسے لو لگنا بھی کہتے ہیں۔ پاکستان میں کراچی سمیت تمام میدانی علاقے ہر سال موسم گرما میں سخت گرمی کی لپیٹ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت اور شہریوں کو مل کا حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہیٹ اسٹروک کی علامات

ہیٹ اسٹروک یعنی لو لگنے کی درجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں:-

سانس کی رفتار بڑھ جانا، پسینہ نہ آنا، سانس میں لینے میں دشواری، جسم میں پانی کی کمی ہونا، مریض کا بے ہوش ہونا، جلد کا سرخ ہو جانا، سر میں درد، متلی اورقے کی کیفیت

حفاظتی تدابیر

پانی انسانی جسم کے درجہ حرارت کو معمول پر رکھتا ہے، لہذا پانی کا استعمال زیادہ کر دیں۔ پانی پیتے وقت نمکیات کا بھی خیال رکھیں، حسب ضرورت نمکول اور لیمن کا بھی استعمال رکھیں۔ ایک دن میں 6 سے 8 گلاس پانی ضرور پئیں۔ دوپہر کے وقت دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں۔ روزانہ نہائیں۔ دھوپ میں باہر نکلتے وقت سر پر ٹوپی یا کپڑا رکھیں۔ اپنی گردن اور کندھوں کو دھوپ میں ڈھانپ کر چلیں۔ زیادہ دیر تک اور مسلسل سورج کے سامنے نہ رہیں۔ باہر نکلتے وقت سن سکرین اور چشمے کا استعمال کریں۔ سخت گرمی میں ہلکے رنگ اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں۔

The post ہیٹ اسٹروک۔۔۔ایک جان لیوا مرض appeared first on ایکسپریس اردو.

لاکھوں روپے میں تیار ہونے والے عروسی ملبوسات کلو کے بھاؤ بکنے لگے

$
0
0

 لاہور: ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کرکے تیار ہونے والے گوٹہ کناری والے لہنگے اور ساڑھیاں استعمال کے بعد کلو کے بھاؤ بیچ دی جاتی ہیں جبکہ لاہور میں یہ استعمال شدہ لہنگے اور ساڑھیاں کرائے پر بھی مل جاتی ہیں، ایک دن کا کرایہ محض چند ہزار روپے ہوتا ہے۔

شادی بیاہ کا موقع ہویا کوئی اورخاص تقریب ،خواتین جاذب نظرآنے کے لئے خاص پہناوے کا استعمال کرتی ہیں، کچھ خواتین لہنگا پہنتی ہیں کوئی ساڑھی۔ جن پر سونے ،چاندی پیتل اور تانبے کی تاروں سے کی گئی کشیدہ کاری دل موہ لے لیتی ہے ۔ لاکھوں ہزاروں روپے سے تیار ہونے والے یہ ملبوسات دو، چار بار استعمال کے بعد بیکار ہوجاتے ہیں، کچھ لوگ توانہیں ایسے ہی پھینک دیتے ہیں مگر بعض سمجھدار انہیں بیچنے بازار لے آتے ہیں۔

لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں لہنگا بیچنے آٗئی ایک خاتون نازیہ نے بتایا کہ ان کے لہنگے پر جو گوٹہ کناری کا کام ہوا تھا اورجو موتی لگے تھے ان کی چمک دمک ماند پڑگئی ہے، کئی جگہوں پر پیوند لگ گئے اب یہ استعمال کے قابل نہیں رہا ہے اس لئے اسے بیچنے آئی ہوں۔

شاہ عالم مارکیٹ کے سوہا بازار میں استعمال شدہ لہنگے اور کپڑے خریدنے والے جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،جن لہنگوں اور کپڑوں پرتانبے کی تاروں سے کشیدہ کاری گئی ہو انہیں 200سے 250 روپے کلو جب کہ چاندی کی کشیدہ کاری والے کپڑے 600 سے 700 روپے تولہ کے حساب سے خریدے جاتے ہیں۔

ایک دکاندارمحمد اسلم نے بتایا کہ وہ ان کپڑوں کا وزن کرکے اسی حساب سے پیسے دیتے ہیں، ہمارے لئے کپڑابیکارہوتا ہے ،ہم صرف کپڑے کے اوپر جو چاندی ، پیتل یا کسی دھات کا کام ہوا ہوتا ہے اسی کے وزن کے مطابق خریدتے ہیں۔ کوئی سوٹ پچاس اورسو روپے کا بکتا ہے توکسی کی قیمت 50 ہزار بھی ہوسکتی ہے

سوہا بازار میں تاجروں کی یونین کے رہنمامہتاب خاں اس حوالے سے کہتے ہیں لہنگا، اور ساڑھی خریدتے ہوئے دیکھنا پڑتا ہے کہ اس میں چاندی کتنی اور اس میں دھاگا کتنا ہے، اس حساب سے قیمت بتاتے ہیں۔

پرانے وقتوں میں امرا اپنے لباس پرسونے چاندی کی تاروں سے کشیدہ کاری کرواتے تھے جبکہ آج پیتل اور پلاسٹک کااستعمال زیادہ کیاجاتاہے ،دکاندارمخصوص طریقے سے چاندی ،پیتل اورتانبا الگ کرتے ہیں، ان پرانے کپڑوں اور گوٹے کو جلا کر دکاندار ان سے چاندی اور تانبا حاصل کرتے ہیں جنہیں بعد میں زیوارت کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف ان بیش قیمت لہنگوں ،شیروانیوں اورساڑھیوں کو کرایہ پرخریدنے کا رحجان بھی بڑھنے لگا ہے ، لاہور کی تمام بڑی مارکیٹیوں میں ایسی دکانیں ہیں جہاں سے آپ کو اپنی پسند کا لہنگا، ساڑھی ایک ہفتے کے لئے کرایہ پرمل سکتی ہے۔

شالامار کے علاقے میں واقع ایک بوتیک کے مالک آفتاب احمد نے بتایا کہ وہ شادیوں کے لئے خصوصی لہنگے تیار کرنے کے علاوہ منگنی اور دیگر تقاریب کے لئے جدید فیشن کے مطابق کپڑے تیار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کرائے پر دینے کے لئے عروسی ملبوسات تیار کرنے کے ساتھ ساتھ آرڈر پر بھی کام کرتے ہیں۔ لیکن اب زیادہ تر لوگ آرڈر پر لباس تیار کروانے کی بجائے کرائے پر لہنگے لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے پاس دور دور سے لوگ شادیوں کے لئے کرائے پر ملبوسات لینے آتے ہیں۔‘

آفتاب کے مطابق شادیوں پر دلہن کے پہننے کے لئے استعمال ہونے والے زیادہ تر ملبوسات پر گوٹی، کٹ ورک، ریشم اور اسٹون کا کام کیا جاتا ہے جبکہ لباس کی قیمت بیس ہزار سے شروع ہو کر ایک لاکھ روپے تک جاتی ہے۔کرائے پر لہنگا لینے کے لئے آنے والوں سے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی اور کچھ رقم ایڈوانس لے لی جاتی ہے جبکہ بقیہ رقم لہنگے کی واپسی پر وصول کی جاتی ہے۔ بوتیک پر لہنگے کی بکنگ کے لئے آنیوالی ایک خاتون میمونہ نے بتایا کہ ان کی بہن کی آئندہ ماہ شادی ہے، ہمارے والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ شادی کے لئے نئے لہنگا تیار کروا سکیں۔ اس لئے ہم نے یہاں سے کرائے پر لہنگے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسی بوتیک پرکام کرنیوالے محمداسلم نے بتایا کہ چارسال قبل جب ان کی شادی ہوئی توانہوں نے بھی اپنی شادی کے موقع پراپنے لئے شیروانی اورسوٹ اور ہونیوالی بیگم کے لئے لہنگا کرایہ پرہی حاصل کیاتھا جو ہم نے ایک ہفتے بعد واپس کردیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک اچھا لہنگا ایک ہفتے کے لئے دوسے ڈھائی ہزار روپے کرایہ پرمل جاتا ہے۔

The post لاکھوں روپے میں تیار ہونے والے عروسی ملبوسات کلو کے بھاؤ بکنے لگے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>