Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

روسی ریفرنڈم کے مقاصد

$
0
0

 ماسکو: (مضمون نگار روس کے دارالحکومت ماسکو میں برسوں سے مقیم ہیں۔ وہ روس کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے روس کے داخلی معاملات اور معاشرت وثقافت کے مختلف پہلوؤں سے اردو کے قارئین کو روشناس کرتے رہتے ہیں۔ چناں چہ روس میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم کے بارے میں ان کا زیرنظر مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے)

آج صبح کراچی سے میرے ایک صحافی دوست ناصر ذوالفقار صاحب نے میسج میں سوال کیا کہ’’روس میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹننگ ہورہی ہے؟

اگر روس کے صدر یہ ووٹنگ جیت جاتے ہیں تو وہ 2036 تک روس کے صدر رہن سکتے ہیں / کیا یہ درست ہے؟؟ میرے انکار پر انھوں نے ایک اخبار میں شائع ہونے والی تصویر بھجوا دی۔

تصویر کے کیپشن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ماسکو پوتن کے 2036 تک صدر رہنے کے لیے خاتون ووٹ ڈال رہی ہے۔ اس سال جنوری میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں سے مشترکہ اجلاس سے اپنے سالانہ خطاب میں صدر پوتن نے آئین میں ترمیم اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت تو صدارتی مدت کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی لیکن بعد میں جب کہ آئینی کمیٹی نے 206 ترامیم لانے کا فیصلہ ہوا اور یہ بھی فیصلہ کیا کہ آئین میں 2 بار صدر بننے کے بعد تیسری مدت کے لیے لگائی گئی پابندی کو ختم کردیا جائے۔ اور ایک ریفرنڈم ہوگا جس میں لوگوں کی اکثریت اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ ان آئینی ترمیم کے حق میں ہیں یا مخالف۔

یاد رہے 22 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کو کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا۔

25 جون سے یکم جولائی تک ریفرنڈم کی نئی تاریخ کا اعلان ہوا۔ اور اس طرح 25 جون سے پولنگ کا عمل جاری رہا۔

25 جون سے جاری اس ریفرنڈم میں 3 آپشن تھے جن کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا جاسکتا ہے۔

  1. آن لائن ووٹنگ۔
  2. الیکشن کمیشن کے نمائندے گھر آکر ووٹر کا ووٹ کاسٹ کرواسکتے ہیں۔
  3. ووٹر پولنگ سٹیشن پر جاکر ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔

روسی فیڈریشن کے آئین کے ابواب 3-8 میں 206 ترامیم کے لیے ریفرنڈم ہوا۔ اور 72 فی صد سے زیادہ روسی شہریوں نے رائے شماری میں ترامیم کے حق دیا، روس میں آئینی ترامیم پر ٹرن آؤٹ 65 فی صد رہا، 77،9 فی صد ووٹروں نے ترامیم کی حمایت کی اور 21،3 فی صد نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔ اب ترامیم کو منظورشدہ تسلیم کیا جائے گا۔ ٹرن آؤٹ کی حد مقرر نہیں کی گئی تھی، جب کہ پورے ملک میں ووٹنگ میں 96 ہزار 500 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ روس کے تمام خطوں میں 108.5 ملین سے زیادہ بیلٹ پیپرز چھاپے اور پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچائے گئے تھے۔

آن لائن ووٹنگ کے لیے 1 215 926 درخواستیں جمع کروائی گئیں ، جن میں ماسکو میں 1،075،488 اور نزنی نوگوروڈ شہر میں 140،438 جمع کروائی گئیں۔ الیکشن کمیشن کو موبائل ووٹنگ کے ذریعہ مقام پر رائے دہی کے لیے 3.7 ملین سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں۔ 144 ممالک میں 254 پولنگ اسٹیشن بھی بنائے گئے ہیں، جہاں اوورسیز روسیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

البتہ روسی عوام نے پارلیمنٹ کی منظور کردہ آئینی اصلاحات پر اپنی توثیق کی مہر ثبت کردی جس کے بعد ولادیمیر پوتن کے 2036 تک روس کا صدر رہنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ روسی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے عہدۂ صدارت پر رہنے کی مدت کو ختم کرنے، ہم جنس پرستوں کی شادی پر پابندی اور دیگر اصلاحات پر مشتمل آئینی ترامیم کی منظوری دے دی ہے، تاہم صدر پوتن کی خواہش تھی کہ ان معاملات پر عوامی رائے بھی جانی جائے۔

اس مقصد کے لیے پوتن نے آئینی اصلاحات پر عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا جو 22 اپریل کو ہونا تھا، تاہم کورونا کی وجہ سے اسے مؤخر کردیا گیا تھا اور اس پر ووٹنگ گذشتہ ہفتے شروع ہوئی۔

روسی الیکٹورل کمیشن کے مطابق 10 فی صد پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹوں کی گنتی کے بعد یہ نتائج سامنے آئے کہ 72 فی صد سے زائد ووٹرز نے آئینی ترامیم کے حق میں رائے دی ہے۔ ان آئینی ترامیم کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن کے 2036 تک صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص صرف دو بار ہی 6،6 سال کی مدت کے لیے صدارت کے عہدے پر رہ سکتا ہے تاہم چوںکہ مذکورہ آئینی اصلاحات میں پیوٹن کے عہدہ صدارت پر رہنے کی مدت کو صفر کردیا گیا ہے، لہٰذا وہ مزید 2 بار عہدہ صدارت پر براجمان ہونے کے اہل ہوگئے ہیں۔

ولادیمیر پوتن کی دوسری صدارت کی مدت 2024 تک ہے اور فی الحال انہوں نے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ خیال رہے کہ روس میں صدارتی نظام رائج ہے جس میں صدر کو خاصے اختیارات حاصل ہیں لیکن نئی آئینی ترامیم کے بعد صدر کو مزید وسیع اختیارات حاصل ہوجائیں گے اور ان ترامیم میں صدر کا حکومت کو احکامات دینا اور وزیراعظم کو تعینات کرنے کے اختیارات بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل روسی وزیراعظم کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہوتی تھی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کو روسی صدر کی جانب سے تاحیات صدر رہنے کی کوشش قرار دیا تاہم ولادیمیر پوتن نے اس کی تردید کی ہے۔

رواں برس جنوری میں روسی صدر نے ملک کے آئین میں عوامی حمایت کے ساتھ ترمیم کی ایک تجویز دی تھی۔ اس ترمیم کا مقصد ریفرنڈم میں ایک اہم نکتہ ہے جو کہ روسی صدر پوتن کو آئندہ دو مرتبہ چھ چھ برس کی دو مدتوں کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔

سماجی فاصلوں کی شرط کو متعارف کرانے کی وجہ سے روس بھر میں ریفرنڈم 25 جون سے شروع ہو کر پہلے جولائی کو کُل 7 دنوں میں مکمل ہوا اور ان میں وہ خطے بھی شامل ہیں جو کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

واضح رہے روسی صدر کو آئینی ترمیم کے حوالے سے پارلیمان اور قانونی عدالت کی پہلے ہی حمایت حاصل ہے لیکن اس ریفرنڈم کا انعقاد روسی صدر پوتن کی خصوصی کاوش پر کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اس فیصلے یعنی آئینی ترمیم میں روسی عوام کی بھی براہ راست رائے لی جاسکے۔ اس ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد اگر روسی عوام روسی صدر پوتن کے حق میں اپنی رائے دیتی ہے تو اس طرح صدر پوتن پہلے سے مزید طاقت ور صدر کے طور پر سامنے آئیں گے، جس سے ان کے ناقدین سمیت مغربی دنیا کے ممالک بھی روسی صدر کے خلاف کسی پروپیگنڈا کرنے سے باز رہیں گے۔

آئین میں ترامیم:

شہریوں کو خود فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس طرح اور کس کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔

ماسکو میں 25 جون سے یکم جولائی تک 3.6 ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشن نے کام کیا۔ ہر وہ شخص جس کی عمر 18 سال ہے اور جس کی دارالحکومت میں مستقل اندراج ہے وہ وہاں ووٹ دینے کے لیے اہل تھا۔

پولنگ اسٹیشنز نے صبح 08:00 سے رات 08.00 بجے تک کام جاری رکھا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا پاسپورٹ دکھانا لازمی شرط تھی۔

روسی فیڈریشن کے آئین میں کن ترامیم کو پیش کرنے کی تجویز ہے ، ان تمام ترمیم کا احاطہ کرنا مشکل ہے کیوںکہ ان کی تعداد 206 ہے۔ لیکن ان میں 15 اہم ترمیم کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں جس پر آئینی کمیٹی نے کام کیا ہے۔

1۔ تازہ ترین آئین میں بچوں کے تحفظ اور ان کی پرورش میں ریاست کے کردار کو مزید اختیارات دینا ہے۔ ریاست ایسے بچوں کے والدین کی ذمہ داریاں سنبھالے گی جو کنبے کے بغیر رہ گئے ہیں۔

2۔ ان ترامیم میں کم سے کم تنخواہیں لینے والوں کے حق میں ہے جو معاش کی اجرت سے کم نہ ہو۔ ریاست کاروباری کاروبار میں مدد کے لیے پرعزم ہے۔

3۔ تازہ ترین آئین “معاشرتی ریاست” کے تصور کو ظاہر کرتا ہے اور بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری کو قائم کرتا ہے۔ ان ترامیم میں ہر سال پنشن کی ترتیب کی تجویز پیش کی جاتی ہے اور لازمی سماجی انشورنس ، ہدف کی حمایت اور سماجی فوائد کی اشاریہ کی ضمانت دی گئی ہے۔

4۔ معذور شہریوں کے معاشرتی تحفظ سے متعلق ایک شق کے ذریعہ آئین کی تکمیل ہوگی۔ ان کے لئے قابل رسائی ماحول کی تشکیل اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ریاست کی ترجیح ہوگی۔

  1. ان ترامیم سے قطع نظر، تمام شہریوں کے لئے معیاری طبی نگہداشت کے حق کی ضمانت ہے۔ حکام اس نتیجے پر کام کریں گے۔ ریاست صحت مند طرززندگی اور ان کی صحت کے لیے ذمہ دارانہ رویہ کی ثقافت کے قیام کے لیے بھی حالات پیدا کرے گی۔

6۔ جدید ترین آئین ماحولیات پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے۔ ان ترامیم سے ریاست کو روس کے قدرتی تنوع کے تحفظ اور جانوروں کے ساتھ ایک ذمہ دار رویہ رکھنے والے معاشرے میں تشکیل کے حالات پیدا کرنے کی پابند ہے۔

7۔ ان ترامیم میں روایتی خاندانی اقدار کی حمایت کی تجویز کی گئی ہے: یہ کنبہ ، زچگی اور بچپن کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے اتحاد کی حیثیت سے شادی کا حامی ہے۔

یعنی موجودہ آئین کی طرح نئے آئین میں بھی ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں ہوگی۔ یورپ کے ہیومن رائٹس پروپیگنڈے کے دباؤ کے باوجود روسی صدر ولادیمیر ولادیمیر پوتن نے ہمیشہ کھل کر کئی فورم پر کہا ہے کہ مرد اور عورت میں شادی کا قانون خدا نے بنایا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

8۔ آئین میں ہونے والی ترامیم کے تحت صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزرا، سینیٹرز، مشیر اور روس کے دیگر اعلٰی عہدے داروں کو غیرملکی ریاست کی شہریت یا رہائشی اجازت نامہ، اکاؤنٹ کھولنے اور غیرملکی بینکوں میں نقد اور قیمتی سامان رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ روسی فیڈریشن کے صدر کے عہدے پر شرائط کی تعداد پر بھی پابندی کی وضاحت کی جارہی ہے – اس کا اطلاق موجودہ صدر پر یہ ہوتا ہے۔

9۔ تازہ ترین آئین نے روس کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کا اعلان کیا ہے۔ روسی فیڈریشن کے علاقے کو خودمختاری کا اعلان کرنا کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی بین الاقوامی عدالتوں میں ان فیصلوں پر اپیل کی اجازت ہے۔ روسی فیڈریشن کے آئین پر ہی ترجیح دی جائے گی۔

10۔ فیڈریشن کونسل سے مشاورت کے بعد وفاقی عہدے داروں کی تقرری کی تجویز ہے، اور ریاستی ڈوما روسی حکومت کی قیادت اور تشکیل کو منظور کرے گا۔ ریاستی کونسل حکام کے مابین مربوط بات چیت کو یقینی بناتی ہے، ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسی کی اہم سمتوں کا تعین کرے گی، اور ریاستی فیصلے کرنے میں خطوں کے کردار کو مستحکم کرے گی۔

11 ۔ان ترامیم سے روسی زبان کو بطور قوی زبان کی حیثیت قائم ہوگی۔ مزید یہ کہ روس کے تمام عوام کو اپنی مادری زبان کے تحفظ، مطالعہ اور ترقی کے حق کی ضمانت ہے۔

12۔ جدید ترین آئین نے روس کی ثقافت کو اپنے کثیرالقومی معاشرے کا ورثہ قرار دیا ہے۔ ریاست ملک کے تمام لوگوں اور نسلی برادریوں کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرے گی۔

13۔ ان ترامیم سے روس کی سائنسی پیشرفت کی خواہش کی عکاسی ہوتی ہے۔ آئین انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذاتی ڈیجیٹل ڈیٹاز کی حفاظت جیسے تصورات کو مستحکم کرے گا۔

14 ۔ آئین میں روسی فیڈریشن کے تاریخی تسلسل پر ایک مضمون شامل کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح، روس اپنی سرزمین پر باضابطہ طور پر سوویت یونین کا جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں اور معاہدوں میں سوویت یونین کی نمائندگی کا متبادل ہوگا۔

15 آرٹیکل 81 کو تبدیل کیا جارہا ہے جس سے موجودہ صدر مملکت کو دوبارہ2 بار انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس سے قبل کوئی بھی شخص مسلسل 2 مرتبہ 6/6 سال کے لیے صدر بن سکتا تھا۔ لیکن اس شرط کے خاتمے کے بعد خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یورپ اور امریکا میں صدر پوتن کے سبکدوش ہونے کا جو بے چینی سے انتظار کیا جارہا تھا وہ انتظار اب کچھ زیادہ لمبا ہو جائے گا ایک یہی نیٹو ممالک کی اہم دکھتی رگ ہے۔ یورپ اور امریکا کے زخموں پر ریفرنڈم جیتنے کی صورت میں صدر پوتن مزید نمک پاشی کریں گے۔

یورپین اور امریکن میڈیا کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے اس ریفرنڈم کا اعلان ان کے عہدصدارت کو طول دینے کی کوشش ہے۔ اس پروپیگنڈے کو ہمارے میڈیا نے بھی فالو کیا ہے۔

ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ وہ روس کی خبریں روسی خبر رساں اداروں سے ہی لیں تاکہ وہ نیٹو ممالک اور روس کی میڈیا جنگ میں لاعلمی میں استعمال نہ ہوسکیں۔ کریملن کے ترجمان پیسکوف نے یورپین میڈیا میں آنے والی خبروں کی تردید کی ہے۔ آٹھویں پیراگراف میں کہا گیا تھا کہ سنیئر عہدے داروں کو غیرملکی شہریت رکھنے کے ساتھ ساتھ غیرملکی بینکوں میں اکاؤنٹ اور قیمتی سامان رکھنے سے بھی منع کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ روس کی قومی خودمختاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرے گا۔

ووٹ ڈالنے والے روسیوں سے ایک سوال کے جواب کے لیے کہا گیا ہے کہ “کیا آپ روسی فیڈریشن کے آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو منظور کرتے ہیں؟”

بیلٹ پیپر دو جوابات فراہم کیے گئے تھے، ہاں / نہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ روسی آئین خودمختاری کو مستحکم کرنے اور ریاست کے معاشرتی کردار کو مستحکم کرنے کے لیے تبدیل کیا جا رہا ہے، دمتری پیسکوف نے کے مطابق ’’ان ترامیم پر زور دیا جارہا ہے جو ہماری ریاست کے معاشرتی کردار، ملک کی خودمختاری کو مستحکم کرتی ہیں۔‘‘

“یلسن” کی بجائے پیوٹن کا آئین:

اب آئین میں 41 مضامین کو فوری طور پر درست کیا گیا اور پانچ مزید نئے مضمون شامل کردیے گئے۔ یعنی ، منفی پہلا ، دوسرا اور نوواں ابواب ، جو صرف آئینی اسمبلی کو بلانے اور ایک نئے بنیادی قانون کے مسودے کے ذریعہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے، 2020 کی ترامیم نے مضامین کا تقریباً60 فی صد حصے کو متاثر کیا۔

در حقیقت، یکم جولائی کے بعد، “یلسن” آئین کے بجائے، “پوتن” کا آئین روس میں نمودار ہوچکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی نظام میں ایک اہم تبدیلی واقع ہوگی جو ایک چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے موجود ہے، یہ ریفرنڈم کا ایک طرح کا ایک ایسے نظام کو جنم دے گا جس پر روس اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں بنائے گا اس سے قبل صدر یلسن کے دور میں 1993 میں آئین کی منظوری دی گئی تھی۔

روس کا موجودہ دستور 2024 کے بعد پوتن کو سربراہ مملکت کے عہدے پر رہنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ تاہم، 10 مارچ کو، ریاست ڈوما کی نائب ویلنٹینا تیریشکووا نے صدارتی مدت کو کالعدم قرار دینے کے لیے بنیادی قانون میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے ملک میں استحکام برقرار رکھنے کی ضرورت سے اپنے اس اقدام کی وضاحت کی۔ روسی فیڈریشن کی آئینی عدالت نے اس ترمیم کو قانونی تسلیم کیا۔ اب فیصلہ روسی عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کا فیصلے سے 2 جولائی کا سورج روس میں ایک خاموش انقلاب برپا کر چکا ہے۔ واشنگٹن اور یورپ میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔

The post روسی ریفرنڈم کے مقاصد appeared first on ایکسپریس اردو.


روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ(923338818706)
فیس بک (Saim Almsuatafa Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احسن کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار13جولائی 2020
حاکم نمبر8
صدقہ” سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِخاص” یاحی یاقیوم یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا
1 نمبر والوں کے لیے: مزاج میں برہمی کی وجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے خود پہ قابو رکھیں۔
2نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، کسی سرکاری افسر کے تعاون سے کام ہوسکتا ہے۔
3نمبر والوں کے لیے مالی فائدہ ہوسکتا ہے رشتوں سے فائدہ ہوسکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: عملی پلاننگ اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں بہتری کی امید ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: تبدیلی کا دن، کچھ امور آپ کے مزاج سے ہٹ کے ہوں گے، محتاط رہیں۔
6 نمبر والوں کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، رابطوں سے راستے نکلیں گے
7نمبر والوں کے لیے اچھا دن، رکا ہوا کام، کوئی پھنسی ہوئی رقم مل سکتی ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: روحانی حوالے سے ایک معاون دن، پراپرٹی سے فائدہ۔
9نمبر والوں کے لیے: صبر وتحمل سے گزاریں، کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

منگل 14جولائی 2020
حاکم نمبر7
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے
وردِخاص ”یابدیع یا رافع یا اللہ” 14 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: رک جائیں، تیزی بہتر نہیں، اور مایوسی کو سر اٹھانے نہ دیں۔
2 نمبر والوں کے لیے: تکمیل کا دن، کوئی رکا ہوا یا نامکمل کام مکمل ہونے امید ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: نیا دن، کسی کام کی ابتدا کے لیے بہتر دن۔
4 نمبر والوں کے لیے: فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے گا۔
5 نمبر والوں کے لیے: بزنس میں بہتری کے راستے کھلیں گے۔
6 نمبر والوں کے لیے: کوئی اچانک آپ کی زندگی سے نکل سکتا ہے۔ سفر میں محتاط رہیں۔
7 نمبر والوں کے لیے: معاہدوں اور سفر کے لیے اچھا دن۔
8 نمبر والوں کے لیے: خوشی مل سکتی ہے، اور اس کا تعلق ماضی سے بھی ہوسکتا ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: ایک بہتر دن، لیکن یہ دن مالی حوالے کچھ نرم رہ سکتا ہے۔

بدھ 15 جولائی 2020
حاکم نمبر4
صدقہ: زردرنگ کی چیزیں یا 50 یا 500روپے کسی مفلس طالب علم کو دینا بہتر ہوگا
وردِخاص ”یاحافظ یاحفیظ یا اللہ” 13 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: سفر اور رابطوں سے فائدہ لینے کا دن، تبادلہ خیال یا سیکھنے کے لیے معاون دن۔
2نمبر والوں کے لیے: کوئی خبر مل سکتی ہے جو آپ کی خوشی کا سبب بنے گی۔
3نمبر والوں کے لیے: بزنس کے امور میں طریقہ یا جگہ کی تبدیلی کا پلان بن سکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: آج آپ کا ذہن بہت سی گتھیاں سلجھا سکتا ہے، آپ کی سمجھ بوجھ درست سمت میں کام کرے گی۔
5 نمبر والوں کے لیے: تیزرفتاری و تند گفتاری سے اجتناب برتیں۔
6 نمبر والوں کے لیے: معمولِ زندگی سے اکتاہٹ کچھ نیا کرنے کی راہ سجھا سکتی ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: مالی حوالے سے کچھ دوستوں کا تعاون مل سکتا ہے، رابطے بڑھیں گے۔
8 نمبر والوں کے لیے: بزنس پھیلانے کے لیے اچھا دن، جدید خطوط پہ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
9 نمبر والوں کے لیے: بالکل ایک نیا دن، جو کئی حوالوں سے چھوٹی اور بڑی تبدیلیاں لاسکتا ہے۔

جمعرات 16 جولائی 2020
حاکم نمبر3
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِخاص ”یارحمٰن یارحیم یا اللہ” 21 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا
1 نمبر والوں کے لیے: روحانی اور ذہنی نشوونما کے لیے حالات سازگار نظر آتے ہیں۔
2 نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، گھر میں تزئین و آرائش پہ کام ہوسکتا ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: حالات و واقعات آپ کے حسبِ منشا رہیں گے، پرسکون رہیں گے۔
4 نمبر والوں کے لیے: ماضی سے جڑا کوئی شخص دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: صبر کیجیے، تحمل اور مستقل مزاجی کا امتحان ہوسکتا ہے۔
6 نمبر والوں کے لیے: زندگی کو سکون دینے والے سامان بڑھ سکتے ہیں، شاپنگ کا موقع مل سکتا ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: نئی شروعات کے لیے کئی حوالوں سے ایک بہتر دن، آگے بڑھیں۔
8نمبر والوں کے لیے: آپ اپنی مستقل مزاجی سے ضروریاتِ زندگی میں اضافہ کرلیں گے۔
9 نمبر والوں کے لیے: تصوف، مراقبہ، گیان دھیان اور مرشد سے ملاقات کے لیے ایک اہم دن۔

جمعہ 17 جولائی 2020
حاکم نمبر7
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا
وردِخاص”یامعید یا معز یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے آپ کی اندورنی سوچیں آپ کی ہمت کو کم زور کرسکتی ہیں۔
2 نمبر والوں کے لیے کچھ رویے یا حالت جذباتی کرسکتے ہیں، مزاج میں تلخی پیدا ہوسکتی ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: عزت میں اضافہ ہوگا۔ کسی اہم شخص سے ملاقات کا امکان ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: گھر، والدہ اور بہن یہ تینوں اہم رہیں گے۔
5 نمبر والوں کے لیے: آپ کی فہم وفراست کوئی پرانا معاملہ سلجھا دے گی۔
6 نمبر والوں کے لیے: کچھ واقعات تیزی سے رونما ہوں گے، پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔
7 نمبر والوں کے لیے: اہم دن، ماضی آپ کی حال کی پلاننگ میں راہ نمائی کرے گا۔
8 نمبر والوں کے لیے: مالی اور رشتوں کے حوالے سے اچھا دن، خوش کرنے والا دن۔
9 نمبر والوں کے لیے عملی لحاظ سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، محتاط رہیں۔

ہفتہ 18جولائی 2020
حاکم نمبر1
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا80 یا800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ”یافتاح یارزاقْ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: آپ کی طبع آپ کو حکومت اور بزرگی کی طرف لاتی ہے، لیکن آج کچھ رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
2 نمبر والوں کے لیے: بزنس پھیلانے کے لیے کچھ لوگ تعاون کرسکتے ہیں۔
3 نمبر والوں کے لیے: آپ کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بنا نہ کریں، آپ ”اوور کانفیڈینس” کا شکار ہوسکتے ہیں۔
4 نمبر والوں کے لیے: آپ کی تیز مزاجی کو آج غیرموافق حالات کا سامنا ہوسکتا ہے، وعدہ یا معاہدہ سوچ سمجھ کے کریں۔
5 نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل تو ممکن ہے، لیکن آپ کام یابی اور خوش حالی کی طرف گام زن ہیں۔
6 نمبر والوں کے لیے: اگرچہ بہت موزوں حالات نہیں ہوں گے، لیکن آپ قدرے پرسکون رہیں گے۔
7 نمبر والوں کے لیے: آج کا دن ہوسکتا ہے آپ کو مشکل میں ڈال دے، صدقہ دیں۔
8 نمبر والوں کے لیے: خیال میں عارضی طور پر ایسے خیالات آسکتے ہیں کہ آپ اپنے مزاج سے ہٹ کے تیزی میں آجائیں، یہ بہتر نہیں ہوگا۔
9 نمبر والوں کے لیے: حالات میں تھوڑی سی سست روی ہے، لیکن آپ کی خود ارادی آپ کو ان حالات سے نکال دے گی۔

اتوار19جولائی 2020
حاکم نمبر4
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ”یارافع یا فع یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: سفر ہوسکتا ہے، کوئی نیا معاہدہ ہوسکتا ہے، اچھا دن۔
2 نمبر والوں کے لیے: کسی محبوب شخصیت سے ملاقات ہوسکتی ہے، خوشی مل سکتی ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: ایک لَکّی دن، مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: زیادہ سوچنا حقیقت سے دور کرسکتا ہے۔
5 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، آپ اپنی ہمت سے کوئی اہم کام کرلیں گے۔
6 نمبر والوں کے لیے: کچھ ناگوار حالات کا سامان ہوسکتا ہے۔
7 نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہونے کا امکان ہے، اچھا دن۔
8 نمبر والوں کے لیے: اچھے مشورے اور دوست یقیناً آگے بڑھنے میں آپ کی معاونت کریں گے۔
9 نمبر والوں کے لیے: ایک غیرمتوقع دن ہوسکتا ہے، صدقہ دیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

13جولائی تا 19 جولائی 2020

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
آپ کا کیریر بدل رہا ہے، پیر ایک اہم دن ہوگا، کچھ قریبی لوگوں سے اختلافِ رائے ہوسکتا ہے۔ کافی امور طے پاجائیں گے لیکن کافی رہ جائیں گے۔
منگل، بدھ مالی فائدہ اور جمعہ ہفتہ سفر برائے فنانس ہوسکتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
محتاط رہیں، مالی نقصان ہوسکتا ہے، دھوکادہی کا اندیشہ ہے۔
اپنی صحت کا خیال رکھیں، دل اور سانس کی نالیوں میں کچھ خرابی نظر آرہی ہے۔ صدقہ دیں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
یہ ہفتہ پہلے دن سے ہی دوستوں سے فائدے دلائے گا۔
پرانے دوست بڑے بہن بھائی اور آپ کی پرانی امیدیں بر آتی نظر آتی ہیں۔ خصوصاً اس ہفتے کے آخری تین دن مالی حوالے سے کافی شان دار نظر آرہے ہیں۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
آپ کے کیریر کے لیے یہ ہفتہ خاصا جان دار نظر آرہا ہے۔
آپ کے تعلقات آپ کے بزنس میں اہم کردار ادا کریں گے، آپ کا کام بیرون ملک سے بھی منسلک ہوسکتا ہے۔ اس ہفتے کے آخری دنوں کوئی اہم معاہدہ اور سفر کا امکان ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
اس ہفتے کے آخر تک آپ کا مایوسی والی کیفیت سے نکل جائیں گے لیکن آکری دن اہم ہوں گے، کچھ مخالفتوں کا سامنا ہوسکتا ہے، محتاط رہیں، باس اور بزرگوں کا تعاون حاصل رہے گا۔ جمعہ اور ہفتہ اچھے دن ہیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
19 تاریخ اتوار اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھیں، جذباتی ہونے سے بچیں۔ آپ کا ستارہ دو نحوستوں کے درمیان چل رہا ہے، جمعے اور ہفتے کو مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔ پراپرٹی کا اور غیرمتوقع فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
گذشتہ دو دن سے آپ جس خواب کو تعبیر دینے کے لیے کوشاں ہیں، ہوسکتا ہے وہ حسبِ منشا نہ ہو، آپ کے کیریر کے لیے اہم دن ہفتہ ہے۔ کچھ لوگ بڑی پلاننگ سے آپ کو ناکام کرنے کے درپے ہیں، محتاط رہیں۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
آپ کا سیارہ بزنس اور جاب میں فائدہ دے رہا ہے، کچھ تبدیلیاں تیزی سے واقع ہوسکتی ہیں، بزنس میں کچھ اپ ڈاؤن ہوسکتے ہیں، تعلقات کا کا سیارہ کم زور چل ہا ہے۔ ہفتہ کو کوئی خوش خبری مل سکتی ہے۔

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبرتا 22 دسمبر
منگل کو صحت کا خیال رکھیں، اسی دن آمدن میں بہتری کا امکان ہے۔ جمعہ اور ہفتہ اس بات کے کافی امکان ہیں کہ بنا محنت کے کچھ رقم ہاتھ آجائے۔ ایک بہتر ہفتہ!

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
ہفتے کے آخر میں ازدواجی تعلقات اچانک بگڑ سکتے ہیں۔ اعتماد کو برقرار رکھیں، شریکِ حیات یا بزنس پارٹنر کسی بات پر خاصا جذباتی اور تندوتیز لہجہ اختیار کرسکتا ہے، والدہ کی صحت کا خیال رکھیں۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
کوئی مورثی مرض سر اٹھا سکتا ہے، کوئی دبا ہوا کیس پھر گلے پڑ سکتا ہے۔ اس ہفتے کسی سے معاہدہ، وعدہ کرتے یا چیک دیتے وقت پھر سوچ لیں۔ الرجی ہوسکتی ہے

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
گذشتہ دنوں سے آپ کے مالی خانے میں سیاروں کی سعد روشنی پڑ رہی ہے۔ مالی آمدن بہتر ہوگی، جمعہ اور ہفتہ کسی سے ملاقات یا رابطہ ہوسکتا ہے اور عہد وپیمان کا سلسلہ قائم ہوسکتا ہے۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

چار بار آسکر ایوارڈ اپنے نام کرنے والی واحد اداکارہ ، کیتھرین ہیپبرن

$
0
0

اداکاری…ایک ایسا فن ہے جس میں کسی کہانی کے لکھے ہوئے کردار کو  اداکار یا اداکارہ اپنی صلاحیت سے زندہ جاوید بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کہانی تھیٹر، ٹیلی ویژن، فلم یا ریڈیو کی ہو سکتی ہے، لیکن کامیاب کہانی وہی کہلائے گی، جو حقیقت سے آشنائی رکھتی ہو اور اس مقصد کے حصول میں تب تک کامیابی ممکن نہیں جب تک اس کو بیان کرنے والا یعنی اداکارہ/ اداکارہ اپنی صلاحیتوں کی معراج کو نہ منوالے۔ لہذا ایک اچھے اداکار کے لیے ضروری ہے کہ وہ لہجے کی فسو کار ی، تخیل کی پرواز، حرکات و سکنات کی جادوگری اور چہرے سے جذبات و احساسات کی حقیقی ترجمانی کے اوصاف سے مالا مال ہے۔

عصر حاضر میں اداکاری کی باقاعدہ تربیت کا باسہولت اہتمام میسر ہے، جہاں بہت سارے اداکار مذکورہ بالا مہارتوں کی نشوونما کے لئے مختلف پروگرامز میں حصہ لیتے ہیں، آج کے پیشہ وارانہ اداکاروں کی اکثریت ان تربیت گاہوں کی طالب بنیں، جہاں بہترین اساتذہ اور انسٹرکٹرز کی انہیں رہنمائی حاصل ہوئی، لیکن اگر شوبز کی تاریخی جائزہ لیا جائے تو اُس وقت جہاں محدود وسائل اور ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث اس شعبہ میں کام کرنے والوں کو بدترین مصائب کا سامنا تھا وہاں اداکاری کی تربیت کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بلکہ اداکار کو اپنی قدرتی صلاحیتوں پر ہی انحصار کرتے ہوئے انہیں خودپروان چڑھانے کے امتحان سے گزرنا پڑتا تھا۔

تاہم ان سب مسائل اور محرومیوں کے باوجود بہت سے اداکاروں نے اس میدان میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جنہیں رہتی دنیا تک بھلایا نہیں جا سکتا۔ یوں ہی اگر عصر حاضر میں فلم سازی کے سب سے بڑے مقام یعنی ہالی وڈ کی بات کی جائے تو اس کا آغاز بھی دیگر شعبوں سے کچھ مختلف نہ تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یہاں باقاعدہ فلموں گرافی کا آغاز ہوا تاہم وسائل اور ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث پروڈکشن کمپنیز سے لے کر اداکاروں تک سبھی کو ایک کڑے وقت کا سامنا رہا لیکن بعض اداکاروں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا یوں منوایا کہ وہ شوبز کی دنیا میں امر ہو گئے۔ ایسے ہی اداکاروں میں ایک نام کیتھرین ہیپبرن کا ہے، جو ہالی وڈ کے آسمان ہر چمکتا وہ ستارہ ہے، جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑے گی۔

دی لیجنڈکیتھرین ہیپبرن امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے اہم ترین شہر ہارٹ فورڈ میں 12 مئی 1907ء کو پیدا ہوئی اور 2003ء میں زندگی کی 96 بہاریں دیکھنے کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔کیتھرین کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا، ان کے والد تھامس نوروال ہیپبرن ایک ڈاکٹر جبکہ والدہ کیتھرین مارتھا ہیوگٹن خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تحریک کی سرگرم رہنما تھیں۔ تھامس کے بچوں نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی، جہاں بولنے کی آزادی اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی جدوجہد کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ تھامس نے اپنے بچوں کو گھر کی چاردیواری میں محدود نہیں رکھا بلکہ وہ انہیں تیرنا، دوڑنا، کشتی کرنا، گالف اور ٹیبل ٹینس تک کھیلنا سکھاتے۔

یہی وہ وجوہات تھیں، جن کی بنیاد پر کھیترین کا کہنا تھا کہ ’’ میں نہایت شاندار والدین کی پراڈکٹ ہوں‘‘ اداکارہ بچپن سے ہی بڑی شوخ وچنچل اور لڑکوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتی تھی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو کبھی بھی ایک کمزور یا روایتی خاتون نہیں بنانا چاہتی تھیں۔ 1921ء میں ہیپبرن اپنے 15 سالہ بڑے بھائی ٹام کے ساتھ نیویارک گئی، جہاں 30 مارچ کو ایک پول کے ساتھ اس کے بھائی کی لٹکتی نعش ملی۔ تھامس خاندان نے ٹام کی موت کو ہمیشہ ایک حادثہ قرار دیا لیکن بظاہر یہ ایک خودکشی تھی۔

اس واقعہ نے مستقبل کی ہالی وڈ سٹار کو اندر سے توڑ پھوڑ ڈالا، انہوں نے بچوں کے ساتھ کھیلنا اور سکول تک چھوڑ دیا، تاہم 3 سال بعد کیتھرین مارتھا ہیوگٹن نے زبردستی اپنی بیٹی کو برین مار کالج میں داخل کروا دیا لیکن پڑھائی پر توجہ نہ دینے کے باعث انہیں کالج کی طرف سے کئی بار وارننگز جاری کی گئیں بلکہ ایک بار تو انہیں کالج سے معطل ہی کر دیا گیا تاہم والدین کی کوششوں سے وہ دوبارہ تعلیم کی طرف لوٹ آئیں، اسی دوران انہیں اداکاری کا شوق ہوا تو انہوں نے کالج کی غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ٹھان لی۔ گریجوایشن کے دوسرے سال کھیترین نے کالج کے ایک تھیٹر بنام The Woman in the Moon میں مرکزی کردار ادا کیا تو اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے، جس پر ان کے والدین نے طے کیا کہ کھیترین کا مستقبل ادکاری ہی ہے۔

ہالی وڈ سٹار نے 1928ء میں اسی کالج سے تاریخ اور فلسفہ میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ کھیترین نے 1928ء میں اپنے کالج دور کے ساتھی لیڈلو اوجن سمتھ سے شادی کی لیکن ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کے باعث یہ تعلق 1941ء میں اختتام پذیر ہو گیا، جس کے بعد کھیترین نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔

گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد اداکارہ نے اداکاری کو بطور پیشہ اپنانے کے لئے بالٹی مور کا سفر باندھ لیا، جہاں وہ اس وقت کے معروف پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ایڈون ایچ نووف سے ملیں، جو اداکارہ کے شوق اور عزم سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے کھیترین کو اپنے اگلے ہی تھیٹر The Czarina میں ایک مختصر کردار دے دیا، جسے نہ صرف ناقدین بلکہ پرنٹ میڈیا کی طرف سے بھی خوب سراہا گیا، تاہم ان کے دوسرے پلے میں انہیں اپنی باریک مگر تیز آواز کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس پر وہ کچھ دلبرداشتہ ہوئیں اور انہوں نے آواز کی بہترین کے لئے نیویارک سٹی کا رخ کر لیا۔

دوسری طرف ایڈون، کھیترین سے اتنا متاثرہ تھے کہ انہوں نے نیویارک سٹی میں اپنا نیا پلے The Big Pond کے نام سے شروع کیا اور اس میں بھی کھیترین کو مرکزی کردار نبھانے کا موقع فراہم کر دیا تاہم سٹیج پر تاخیر سے پہنچنے، جملوں کو مکس کرنے اور بہت زیادہ تیز بولنے جیسی غلطیوں کے باعث انہیں مرکزی کردار سے ہٹا دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد کھیترین کی اس وقت کے مایہ ناز پروڈیوسر آرتھر ہوپکنز سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اداکارہ کو اپنے ساتھ منسلک کر لیا، مگر یہاں بھی ان کی دال نہ گل سکی۔

1931ء میں اداکارہ کو ایک بار پھر Art and Mrs. Bottle میں کام کا موقع ملا لیکن یہاں بھی انہیں اس وقت ناکامی کا سامنا ہوا جب ڈرامہ کے مصنف نے انہیں ناپسندیدہ قرار دے دیا۔ 1932ء میں ہالی وڈ سٹار نے نیویارک سٹی میں ایک تھیٹر The Warrior’s Husband کے نام سے کیا، جہاں ان کی ملاقات لیلینڈ ہیوارڈ سے ہوئی، جس نے کھیترین کو امریکن پروڈکشن کمپنی RKO کے بینر تلے بننے والی فیچر فلم A bill of Divorcement میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ اس فلم کا بجٹ اڑھائی لاکھ ڈالر جبکہ باکس آفس پر کمائی تقریباً ساڑھے 5 لاکھ ڈالر تھی، یوں کھیترین کو فلمی صنعت میں ایک بہترین آغاز مل گیا، جس کے بعد 1933ء میں اداکارہ نے ہالی وڈ انڈسٹری کو وہ شاندار فلم (Morning Glory ) دی، جس نے انہیں اپنی زندگی کے پہلے آسکر کا مستحق قرار دے دیا۔

اس فلم کے بعد کھیترین کو دولت، شہرت اور عزت کی سیڑھیوں پر چڑھنے سے کوئی نہ روک سکا اور انہوں نے مختلف اوقات میں اپنے شائقین کو Little Women، Morning Glory، Stage Door، Bringing Up Baby، Holiday، The Philadelphia Story، Woman of the Year، Adam’s Rib، The African Queen، Summertime، Suddenly, Last Summer، Guess Who’s Coming to Dinner، The Lion in Winterاور On Golden Pond جیسی شہرہ آفاق فلمیں دیں۔

لیجنڈ اداکارہ کھیترین ہیپبرن نے جہد مسلسل، ثابت قدمی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر شوبز کی دنیا میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، وہ ایسی تاریخ کا حصہ ہیں، جنہیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔ وہ آج تک کی واحد اداکارہ ہیں، جنہوں نے فلمی انڈسٹری کا سب سے بڑا اعزاز آسکر چار بار اپنے نام کیا۔

امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ نے انہیں دنیا کے عظیم لیجنڈ ادکاروں میں پہلے نمبر پر براجمان کیا، کونسل آف فیشن ڈیزائنرز آف امریکا سمیت متعدد اداروں نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا۔ کھیترین شوبز کی دنیا کی سپرسٹار ہونے کے علاوہ خواتین کے لئے ایک رول ماڈل بن گئی تھیں، جس بنا پر انہیں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی طرف سے بھی اعزازات سے نوازا گیا، حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو یوں سراہا گیا کہ ایک باغ، وہ جگہ جہاں انہوں نے تاوقت موت قیام کیا اور جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی، ان تمام مقامات کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

ان کے نام پر کلچرل آرٹس سنٹر بنے تو کبھی ان کی زندگی کا احاطہ کرتی دستاویزات کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ بلاشبہ کھیترین ہیپبرن نے شوبز کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کردی لیکن یہ مقام انہیں بار بار ناکامیوں کے باوجود غیرمتزلزل عہد اور جہد مسلسل کی وجہ سے نصیب ہوا، جو ہم سب کے لئے ایک بہترین سبق ہے۔

فلم، ٹی وی، تھیٹر اور ایوراڈز
ہالی وڈ کی لیجنڈ اداکارہ کیتھرین ہیپبرن نے 1928ء میں عملی زندگی کا آغاز تھیٹر سے کیا، کیوں کہ اس دور میں تھیٹر شوبز کی سب سے مقبول صنف تصور کی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنا پہلا پلے The Czarina کے نام سے امریکی ریاست میری لینڈ کے اہم ترین شہر بالٹیمور میں کیا، جس میں ان کے کردار اور اداکاری کو خوب سراہا گیا۔ 1928ء سے لے کر 1982ء تک اداکارہ نے مجموعی طور پر 33 پلے کئے۔ اسی دوران انہیں فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی۔

ان کی پہلی فلم A Bill of Divorcement تھی، جسے جارج کوکر نے ڈائریکٹ کیا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد اگلے ہی برس کیتھرین نے فلم Morning Strong میں مرکزی کردار نبھایا، جس پر انہیں شوبز کی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز آسکر سے نوازا گیا۔ ٹیلی ویژن پر ہیپبرن کی انٹری 1973ء میں The Glass Menagerie سے ہوئی، یوں انہوں نے کل 44 فیچر جبکہ 8 ٹی وی فلموں میں کام کیا۔ ان کے علاوہ کیتھرین نے ٹیلی ویژن کے لئے 2 ڈاکیومنٹریز بھی بنائیں جبکہ 2 مختصر ڈاکیومنٹریز میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

باکس آفس رینکنگ ہو یا ایوارڈز کا حصول، ماضی سے حال تک معروف اداکارہ نے کئی ریکارڈ بریک کئے، یہاں تک آسکر کے حوالے سے ان کا منفرد اعزاز آج بھی کوئی نہ توڑ سکا، گنیز بک ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانے والی اداکارہ کو بہترین اداکاری پر آج تک سب سے زیادہ یعنی 4 بار آسکر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

66 سال پر مشتمل کیرئیر کے دوران اداکارہ کو آسکر کے لئے 12 بار نامزد کیا گیا، جن میں وہ 4 بار فاتح رہیں، اسی طرح انہوں نے 2 بار برٹش اکیڈمی فلم، ایک ایک بار ایمی اور سکرین ایکٹر گلڈ، 3،3 بار فیسٹیول، لورل اور کریٹیکس، 2، 2 بار پیپلز چوائس اور گولڈن ایپل کے علاوہ سٹار آن دی ہالی وڈ واک آف فیم، امریکن موویز، کینڈی سنٹر آنرز سمیت متعدد دیگر ایوارڈ اپنے نام کئے۔

The post چار بار آسکر ایوارڈ اپنے نام کرنے والی واحد اداکارہ ، کیتھرین ہیپبرن appeared first on ایکسپریس اردو.

سائن لینگوئج ایکسپرٹ کا اُردو ترجمہ؟

$
0
0

 زباں فہمی نمبر 57

کوئی دو برس پرانی بات ہے کہ ہم اپنے معمولات کے ساتھ ساتھ، پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہونے والے کرکٹ میچ سے، جُرعہ جُرعہ لطف اندوز ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ کوشش کا لفظ یوں استعمال کیا کہ ہمارے عظیم ہیرو، تقریباً ہمیشہ کی طرح، اپنے ’ازلی دشمن‘ کے سامنے وہی کررہے تھے جو ماقبل بھی کرتے رہے ہیں، ماسوائے چند ایک مستثنیات کے۔ سوچ رہا تھا کہ، حسب ِ سابق، ماضی قریب کی طرح ، بہ زبان فرنگی ۔یا۔بہ زبان دیسی، کرکٹ پر جداگانہ کالم لکھوں، مگر بس مُوڈ نہیں ہوا (آسان اردومیں: جی نہیں چاہا)…..جیسے اُس موقع پر ہمارے کھلاڑیوں کا نہیں تھا۔

سو، ہوا یوں کہ جب میچ قریب قریب ختم ہونے کو تھا تو اِس خاکسار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پرلکھا اور کپتان (ہائے بے چارہ، اب تو سابق) سرفراز احمد سمیت چُنیِدہ شخصیات کو ارسال کیا: ’’آج کے میچ میں سب سے اچھی کارکردگی، محترمہ حنا نور کی رہی، جو اشاروں کی زبان کی ماہر ہیں۔‘‘ کیا مہارت سے ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔

انھیں اس چینل نے Sign-language Expert لکھا، کیوںکہ بے چارے ’’فادری‘‘ زبان تو جانتے ہی ہیں، مگر اپنی ماں کی سیدھی سادی زبان میں اس کا ترجمہ نہیں کرسکے………..میرے خیال میں اِس کا سیدھا سا اردو ترجمہ ہے: ’’ماہرِاشارتی زبان‘‘…..کیا کہتے ہیں ماہرین لِسان؟ دنوں کی بات ہے کہ اُسی نجی ٹی وی چینل نے ایک سرکاری خبر میں لفظ استعمال کیا Summary۔ یوں تو دفتری زبان میں یہ اصطلاح عام مروَج ہے، مگر اس کا ترجمہ بھی کچھ ایسا مشکل یا متروک نہیں۔ اسی طرح دیگر اغلاط کی بات کی جائے تو تمام مقامی ٹی وی چینلز افریقہ میں واقع ایک مسلم ملک کا نام ہمیشہ غلط لیتے ہیں: تیونس، حالاںکہ درست ہے: تُو۔نِس۔ ویسے مثالیں اور بھی ہیں۔ لُبنان کو ہمیشہ لَبنان کہا جاتا ہے کیوںکہ اصل نام (عربی) کی بجائے اسے انگریزی نام Lebanan کا ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک اور نجی چینل پر خبرخواں خاتون نے اردو کی لغات میں یوں اضافہ کیا کہ ہمارے مشہور دریا کا نام بدل کر ’’دریائے سُت۔لَج (یعنی سین پر پیش اور لام پر زبر)، جبکہ مرد نے درست پڑھا: سَت۔لَج۔ اسی پر بس نہیں، اگلے دن ایک دوسرے چینل پر ایک مرد خبرخواں نے وہی غلط تلفظ دُہرایا۔ اب تو راقم سوچ میں پڑگیا…..الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔

کیا زبان میں تبدیلی آگئی ہے (تبدیلی آئی رے…) یا اردو کے علاوہ کسی مقامی زبان میں یہ تلفظ رائج ہے………..خامہ فرسائی سے قبل، اپنے نجی کتب خانے میں موجود لغات کھنگالیں اور پھر وِکی پیڈیا، تو معلوم ہوا کہ اس لفظ کے چار تلفظ رائج ہیں: سنسکِرِت میں سَت درم، ہندی میں سَت لَج، پنجابی اور اردو میں سَت لَج، کسی نامعلوم زبان میں سَت دری (ویسے اردو میں سہواً سَت لُج بھی کہا جاتا ہے)، جبکہ انگریزی میں دو طرح سے ہجے کیے جاتے ہیں: Satlujاور Sutlej۔ مزید تحقیق کے لیے اپنے بزرگ دوست، پنجابی اور اردو کے صاحب ِدیوان شاعر محترم قاضی اعجاز محورؔ (مقیم گوجرانوالہ) سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی اِس ہیچ مَدآں کی معلومات کی تصدیق کی۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’کیونکہ جی جانتا ہے‘‘ اور ’’خبر کی دنیا‘‘ کا نعرہ لگانے والے نجی ٹی وی چینلز کے خبرخواں یہ تلفظ کہاں سے لائے؟ سلسلہ دراز ہوا تو ’’جی جان‘‘ والے ٹی وی چینل نے یہ گُل بھی خبروں میں کھِلائے: غلط فہمی کو غلطی فہمی، لاحِق کو لاحَق (جو بہت عام ہے)………..اور پھر نامور فٹ بالر محمد صَلاح کا نام تبدیل کرکے صالح۔ اسی چینل کی ایک خاتون خبررَساں نے ’’سردمُہری‘‘ کو ’’سردمِہری‘‘ کردیا۔

اسی نیوز ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کے اختتام سے قبل، میزبان خاتون نے Next ہفتے ملنے کا وعدہ کیا۔ اور تو اور ابھی ان کی تعریف میں یہ کالم تحریر ہو ہی رہا تھا کہ انھی کی ایک خاتون خبر خواں نے لفظ ’’مُرَوّجہ‘‘ کو ’’مُر۔وَج۔جہ‘‘ بناڈالا۔ اس چینل سمیت تقریباً تمام چینلز لفظ لائحہ عمل کو مسلسل ’’لا۔حے۔عمل‘‘ کہہ رہے ہیں۔ ایک نجی چینل کے خبر خواں نے مضحکہ خیز کو ’’مضحیکہ خیز‘‘ بنادیا۔ انھوں نے خبروں میں کہیں صدرمملکت کے بیان کا ترجمہ پڑھتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ …….لوگ رَدِعمل دیتے ہیں……حالانکہ ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔

وزیراعظم کے بیان کے ترجمے میں کہا گیا :…….ممکن بنایا جائے گا۔ درست ہے: ممکن کیا جائے گا (خیر یہ تو بہت عام ہے )۔ ہمارے تمام چینلز انگریزی لفظ Reservations کا بھونڈا ترجمہ ’’تحفظات‘‘ دُہرادُہراکر ہمارے دل دماغ پر گویا ہتھوڑے برساتے رہتے ہیں اور ایک اُنھی پر کیا موقوف، ہمارے سیاست داں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگ بھی یہی کہتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔

اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بندہ خدا! اس لفظ یا اصطلاح کا واحد کیا ہے، تحفظہ ۔یا۔تحفظا؟ ایک بار پہلے بھی خاکسار نے اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ استعمال کے فرق سے اس کا ترجمہ کبھی ’اعتراضات‘ درست ہوگا تو کبھی ’خدشات‘ (بہ اعتبار مفہوم)۔ ایک دن ہمارے وزیرخارجہ نے خلاف ِ عادت، واشنگٹن (امریکا) میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ اعتراضات ہیں……..مگر ’’جی جان ‘‘ والے چینل نے اپنی خبروں میں (اپنے تئیں درست کرتے ہوئے) ایک بار پھر تحفظات کردیا۔

یوں تو ہمارے وزیراعظم کا اردو سے لگاؤ یقیناً قابل ِتحسین اور لائق تقلید ہے، مگر اُن کے ٹوئٹر بیانات کے اردو ترجمے اکثر اغلاط سے پُر ہوتے ہیں، جیسے ایک مرتبہ ’بصیرت‘ کی جگہ ’’بصارت‘‘ کردیا گیا تھا۔ ایک بڑے نجی ٹی وی چینل نے ثالث کے لیے ایک نیا لفظ ایجاد کیا اور پھر سب اسی کی نقل (بِلا عقل) کرنے لگے…….لفظ تھا: مفاہمت کار…….ظاہر ہے کہ جدید انگریزی اصطلاح کا چالو ترجمہ کردیا گیا جو درست نہیں۔ اسی چینل کے ایک خبررَساں، تھَرجیسے دورافتادہ علاقے سے اکثر بہت اہم اور معلوماتی خبریں اور رُوداد پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

وہ مجھے اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ بہت سے اہل زبان کے برعکس، اچھی اردو بولتے ہیں، مگر ایک مرتبہ روانی میں اُن سے یہ سہو ہوا کہ ’’میلہ لُوٹنے ‘‘ کی بجائے ’’میلہ مارلیا‘‘ کہہ گئے (شاید میدان مارلیا کہنا چاہتے تھے)۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ نجی چینل لفظ ’میلہ ‘ کو اپنے تئیں جدت طرازی میں ’میلا‘ لکھتا ہے۔ ایک اور بڑے چینل کی ایک خبر میں کہا گیا: ’’ملزم موجیں لُوٹ رہا ہے‘‘… ہاہاہا….شاید وہ کہنا چاہتے ہوں کہ موج مستی کررہا ہے ۔یا۔موج کررہا ہے۔

اسی چینل پر ایک خاتون نے پس پردہ خبر کی تفصیل بتاتے ہوئے امریکی ریاست IOWAکو ’’لو۔وا‘‘ کہہ دیا۔ ویسے یاد آیا کہ ثالث کے لیے ایک اصطلاح ’مصالحت کار‘ بھی ایجاد کی گئی ہے۔ اب اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ انگریزی اردو لغت دیکھ لے کہ بھائی Mediatorکو کیا کہا جاتا ہے۔ ایک چینل کے ٹائپسٹ نے جلدی میں خبر ٹائپ کرتے ہوئے ’’سات اکتوبر‘‘ کو 7۔ اکبوتر کردیا……شاید بے چارے کے ذہن میں کبوتر ہوگا۔ ایک نسبتاً نئے ٹی وی چینل نے معذور افراد کے متعلق ایک خبر میں حسب ِروایت ’’خصوصی افراد‘‘ تو کہا ہی (جو مُہمِل اور ناموزوں ہے)، ساتھ ہی ایک محترمہ سے تأثرات معلوم کیے تو انھوں نے فرمایا کہ ’’ایسے افراد کو Communication میں مشکل ہوتی ہے۔

سیدھے سبھاؤ یہ کیوں نہیں کہہ سکتیں کہ انھیں گفتگو میں دِقّت ہوتی ہے یا مشکل ہوتی ہے؟؟ ایک زمانے سے ہمارے تمام ٹی وی چینلز موسمی تبدیلیوں کو ’’موسمیاتی تبدیلیاں‘‘ کہہ رہے ہیں جیسے محکمہ موسمیات میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے پہلے ایک کالم میں نشان دہی کی تھی کہ ’’ماحولیاتی‘‘ تبدیلی نہیں ’ماحولی تبدیلی‘ ہوتی ہے کیوںکہ اول الذکر کا مطلب ہوا: ماحولیات کے شعبے یا مضمون میں تبدیلی۔ ایک چینل کے خبرخواں نے لفظ ’’مُبَیّنہ‘‘ کو ’’مُبی۔نا‘‘ بنادیا …..اس سے قبل ہمارے ایک کالم میں ذکر ہوا تھا کہ ہمارے ایک خوردمعاصر، شاعر نے ایک بڑے نجی چینل پر خبریں پڑھتے ہوئے ’’مُبینہ ٹاؤن‘‘ تھانے کو ’’مُبَیّنہ‘‘ ٹاؤن تھانہ (ایک سے زائد بار) کہا جو اگلے دن تک مکرر چلتا رہا اور لطف دیتا رہا، کیونکہ یہ خاکسار بھی اسی تھانے کا نام بطور استہزاء ’’مُبَیّنہ ٹاؤن‘‘ ہی پکارا کرتا ہے۔

ویسے خاکسار نے زبان میں جو ’’بِدعات‘‘ کی ہیں اُن میں شامل دو مثالیں پیش خدمت ہیں: ماضی کی مختلف اقسام میں ایک نئی قسم ’ماضی پُلسیا‘ کا اضافہ ہوگیا ہے جیسے پولیس نے فُلاں مقام پر چھاپہ مارا تو وہاں چند افراد، شہر میں تباہ کاری کی نیت سے اسلحہ تیار کررہے تھے…..گئے وقتوں کی بات ہے جب بزرگ بتاتے تھے ، نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب (معاذاللہ)، یہ کام پولیس نے سنبھال لیا ہے۔ ضمنی بات ہے کہ ابھی چند دن ہوئے، ہمارے علاقے کی پولیس موبائل، (وارداتوں سے بے نیاز)،’’کسی بڑی واردات کی نیت سے‘‘ مٹرگشت کررہی تھی اور انھوں نے دو آم فروش ٹھیلے والوں کو، اپنی مرضی کے مطابق، جواب نہ ملنے پر، بری طرح تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی موبائل میں ڈالا اور لے گئے۔

(ظاہر ہے کہ اس جرم کی پاداش میں کچھ مناسب نذرانہ لے کر ہی چھوڑا ہوگا)۔ کچھ عرصہ قبل چینی وزیرخارجہ ہمارے مشہور پہاڑی مقامات ڈونگا گلی اور ایوبیہ کی سیر کو تشریف لے گئے تو ہمارے ٹی وی چینلز نے خبر دی کہ انھوں نے اِن مقامات پر Walkکی …..بھائیو اور بہنو! مجھے یہ بتاؤ By the wayکہ اس کے لیے سیدھے سیدھے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ چہل قدمی کی۔یا۔سیر کی؟؟ ایک اور چونکا دینے والی خبر: لاہور کے فیشن وِیک(Fashion week) میں کئی مشہور Brands نے اپنے Collection، انٹروڈیوس (Introduce)کیے……..کہیے کیسی رہیMinglish بلکہ خاکسار کے الفاظ میں Burgerish؟…… ابھی پرسوں کی بات ہے کہ ایک سی این جی اسٹیشن پر یہ عبارت لکھی دیکھی: ’’نیٹ ورک[Network] نہ ہونے پر پے منٹ [Payment] کیش [Cash] کی جائے۔‘‘ آسان اردو میں یہ لکھا جاسکتا تھا:’’اگر مشین کام نہ کرے/نیٹ ورک کام نہ کرے تو ادائی (چلیں ادائیگی کہہ لیں) نقد کریں۔‘‘ اس سے بھی بڑھ کر مزے دار عبارت قریب واقع ایک بھٹی (تنور کی جگہ روٹی پکانے والی) کے مالک نے لکھی، وہ بھی رومن رسم الخط میں:Bhatti kee Timing, Subah 9 bajay se Raat 10 tak hoga۔ جب خاکسار نے اس سے پشتو گنتی میں ’درے‘ یعنی تین کہا (اسکول کے زمانے سے پشتو میں تیس تک گنتی یاد ہے) تو اُس نے کہا،’’اَم (ہم) سے اردو میں بات کرو، یہاں اردو چلتا ہے۔‘‘ ایک ڈراما چینل پر کسی بقراط نے ایک پرانے ہندوستانی ڈرامے کی تشہیر کرتے ہوئے لکھا:’’دل چاہے نہ مَن‘‘….ہا ہاہا…یہ کونسا مَن ہے؟ ایک دوسرے ڈراما چینل پر ایک ترکی ڈراما اردو ترجمے کے ساتھ چل رہا ہے۔

مجموعی طور پر ترجمہ اچھا ہے، مگر بعض جگہ (ٹیلی وژن کی زبان میں) ایسا ’’بھَنڈ‘‘ مارتے ہیں کہ بس ، بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہنسے یا روئے۔ سابق شوہر یا پہلے شوہر کی بجائے پرانا شوہر۔ تم میری شادی کو لے کر اتنے پریشان کیوں ہو….وغیرہ ۔ ایک چینل پر چلنے والے ڈرامے کا عنوان تھا:’’میں ہار نہیں مانوں گی۔‘‘ عنوان تو یہ بھی ہوسکتے ہیں: ’’میں خودکُشی کرلوں گی‘‘، ’’میں گھر سے بھاگ جاؤں گی‘‘، ’’جانو! مجھے بھگالے‘‘، ’’منا، اب منا نہیں رہا‘‘……مگر لطف کی بات یہ نہیں، بلکہ یہ تھی کہ تین مختلف کردار، تین مختلف مناظر میں، ایک ہی تکیہ کلام استعمال کررہے تھے، ’’آپ ایک کام کیجیے‘‘۔

ایک چینل پر طویل عرصے تک چلنے والے ایک ڈرامے کا نام تھا، ’’میرے خدایا۔‘‘ خدایا کا مطلب ہے: میرے خدا، تو اِس عنوان کا مطلب ہوا: ’’میرے، میرے خدا۔‘‘ جب ہندوستان کے ہر طرح کے ڈراموں کی زبان ، کہانی اور منظر کشی کی اندھی تقلید ہوگی تو یہ کھِلواڑ تو ہوگا، زبان کے ساتھ۔ ایک ٹی وی چینل کی خبروں کی پیشکش بہت سے دیگر چینلز سے بہتر ہوتی ہے (شاید یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ ایک سال سے زیرِعتاب ہے اور سرکار کے حکم پر، اسے اور ایک دوسرے چینل کر Cable سے ہٹاکر DTH Boxکی طرف موڑدیا گیا ہے۔ دروغ برگردن راوی یعنی ہمارے کیبل آپریٹر کا نمایندہ)………..مگر اُنھوں نے حیرت انگیز طور پر بہت سے دیگر چینلز اور افراد کی طرح ، لفظ ’لالچ‘ کو مؤنث کہہ دیا جو اردو میں غلط ہے، مگر پنجابی میں درست ہے………..تو پھر باقی خبر بھی………..پنجابی اِچ ہونی چاہیدی اے……کیہہ خیال ہے تہاڈا؟؟

The post سائن لینگوئج ایکسپرٹ کا اُردو ترجمہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا

$
0
0

(قسط نمبر5 )

41۔ التت قلعہ میوزیم؛

ہنزہ کی شاہانہ وجاہت کا عکاس ”التِت فورٹ”، دریائے ہُنزہ کے کنارے بالائی کریم آباد میں واقع ہے۔ التِت قلعے کو ”میر آف ہنزہ” نے ہمسایہ ریاست نگر کے ”میر” پر اپنی طاقت اور عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اور تقریباً 11 ویں صدی سے یہ اسی طرح ”قراقرم” کے پہاڑوں پہ شان و شوکت سے براجمان ہے۔

اس قلعے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف کئی بیرونی حملوں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ زلزلوں میں بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ سرکا۔ التت قلعہ اور خاص طور پر قلعے کا ”شکاری ٹاور” تقریبا 900 سال پرانی جگہیں ہیں، یوں یہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ پاکستان کے دوسرے قلعوں کی طرح التِت فورٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا لیکن حال ہی میں ”آغا خان ٹرسٹ برائے تاریخ و ثقافت” نے اسے حکومت ناروے کی مدد سے بحال کیا ہے۔

500 کی ٹکٹ لے کر اندر جائیں تو سرسبز ”شاہی باغ” آپ کا استقبال کرتا ہے جس میں نارنجی پکی ہوئی خوبانی سے جُھکے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اس باغ کے ساتھ ایک خوب صورت پگڈنڈی آپ کو التت فورٹ تک لے جائے گی جس کا شکاری ٹاور دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ یہ دریائے ہُنزہ سے 1000 فٹ کی بلندی پر ہے جو جنگی حالات میں تمام علاقے پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس زمانے میں وادی ہُنزہ روس اور چین کی طرف سے حملوں کے خطرے میں گھری رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بنی ایک جگہ سے قیدیوں اور باغیوں کو نیچے دریائے ہُنزہ میں سزا کے طور پر پھینکا جاتا تھا جہاں سے ان کی لاش بھی نہ ملتی تھی۔

التت قلعے کی تعمیر کے تقریباً 400 سال بعد ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑ گئی اور پرنس شاہ عباس اور پرنس علی خان نے ایک دوسرے پر حملے کیے اور ہمارے گائیڈ کے مطابق پرنس عباس نے علی خان کو ایک ستون کے اندر زندہ چُنوا دیا جو آج بھی ٹاور کے اندر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف کمروں میں شاہی خاندان کے قدیم برتن اور بکس رکھے گئے ہیں۔ لکڑی کے چھوٹے دروازوں، سیڑھیوں اور کھڑکیوں پر خوب صورت کشیدہ کاری کی گئی ہے جس کے ڈیزائن دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ پرانے زمانے کے نقش و نگار تو نئے زمانے کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔

قلعے کا مرکزی ہال بیک وقت عبادت، کھانا پکانے اور مختلف مجالس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں ایک صدیوں پرانا کھانا پکانے کا برتن اور لکڑی کا پرانا بکس رکھا ہے جس پر ”سوااستیکا” کے کئی نشان بنے ہیں۔ گائیڈ کے مطابق سوااستیکا کا نشان آریائی زمانے میں چار بنیادی عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اسی سوااستیکا کو ہٹلر نے اپنا نشان بنایا اور جرمنی کی فوج کو بھی بازوبند بنا کر پہنا دیا۔ یہ بکس آٹا رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد کچھ شاہی کمرے دکھائے گئے جہاں پرنس اور شاہی خاندان کے دیگر افراد رہتے تھے۔ انہی کمروں کی کھڑکیوں سے نیلے رنگ کے دریائے ہُنزہ کا شان دار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ناگن سی بل کھاتی کالی لکیر بھی ہے جو شاہراہِ قراقرم ہے۔ اس سے آگے شاہی مہمان خانوں کے سامنے ایک خوب صورت گیلری سے ہُنزہ گاؤں کا خوب صورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ بنے چھوٹے چھوٹے گھر، ان میں سے اُٹھتا دھواں اور پسِ منظر میں برف پوش پہاڑ، التت قلعے کو ایسے ہی نہیں ہُنزہ کی شان کہتے۔ اب قلعے کے اندر شاہی مہمان خانوں کو ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں شاہی خاندان اور ہُنزہ سے متعلق نادر تصاویر رکھی گئی ہیں۔

اوپر چھت پر شکاری ٹاور، لکڑی کی ایک کھڑکی اور ایک چھوٹا کمرہ بنا ہوا ہے جس کے چھوٹے سے دروازے پر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے۔ قلعے کے باہر سبز پانی کا خوب صورت تالاب، ہینڈی کرافٹ شاپس، کیفے اور خوب صورت گھر بنے ہیں جن کے سامنے بیٹھے ہُنزہ کے آرٹسٹ رباب پر قسم قسم کی دھنیں بجا کر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

جاپان نے یہاں پرانے گاؤں اور اردگرد کی ترقی اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ التت قلعہ 2007 سے عوام کے لیے کھلا ہے۔

42۔ بلتت قلعہ میوزیم؛

اب رُخ کرتے ہیں بلتِت فورٹ کا۔ یونیسکو کی عارضی ثقافتی ورثہ کی لسٹ میں شامل بلتِت کا قلعہ، پریوں کی کہانیوں میں موجود کسی خوب صورت پری کا گھر لگتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر واقع یہ قلعہ کوئی 650 سال پہلے تب بنایا گیا جب ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑی اور پھر پایہ تخت التِت سے بلتِت قلعے میں منتقل ہو گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مرمت کیا گیا۔ 16 ویں صدی میں جب یہاں کے شہزادے نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تو وہ بلتی ہنرمندوں اور کاری گروں کو اپنے ہمراہ لائی تاکہ وہ اس قلعے کی تزئین و آرائش کر سکیں اور اس قلعے کی موجودہ شکل تب کے بلتی کاری گروں کی ہی عنایت شدہ ہے۔

1945 میں میرِہنزہ نے اس قلعے کو چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے ایک اور قلعہ نما گھر بنایا اور وہاں منتقل ہو گئے جس کے بعد یہ قلعہ ایک ویران اور دہشت زدہ جگہ کا روپ دھار گیا۔ لوگوں نے یہاں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا اور قلعے سے قیمتی سامان چوری ہونا شروع ہو گیا جو آج تک نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اِس قلعے کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس کے منہدم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔ ہماری بے پرواہی نے اسے یونیسکو کی ”خطرے میں موجود عمارتوں” کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ پھر اس علاقے کی ثقافت کے لیے شہہ رگ کی سی حیثیت رکھنے والا آغا خان ٹرسٹ اور لندن کی ”رائل جیوگرافیکل سوسائٹی” کے اشتراک سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا جو 1996 میں ختم ہوا اور اس قلعے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی جسے بلتت ٹرسٹ چلا رہا ہے۔

بلتت کا قلعہ بھی کچھ کچھ التت قلعہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے دروازے کھڑکیاں اچھوتے اور خوب صورت ڈیزائنوں سے مزین ہیں۔ سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو ایک ہال ہے جس میں سیڑھیوں سمیت تین کمروں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ایک کمرے میں برتن اور خوب صورت لال قالین رکھا گیا ہے، جب کہ دوسرا کچن ہے جہاں ہر قسم کے برتن اور ایک انوکھی چیز رکھی ہے جو سمجھ نہیں آتی، غور کرنے پر پتا چلا کہ یہ ”چوہے دانی” ہے۔ پہاڑی بکروں کی کھال اور پرندوں کے پر بھی رکھے گئے ہیں۔ غرض یہ وادی ہُنزہ کی ثقافت کا بھر پور عکاس ہے۔

43۔ آرمی میوزیم ، لاہور

لاہور کینٹ میں واقع یہ میوزیم پاک فوج کا دوسرا اور جدید میوزیم ہے ( پہلا راولپنڈی میں واقع ہے) جسے اگر افواجِ پاکستان کی آن، بان اور شان کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ اس میوزیم میں پاک فوج سے متعلق ہر اس چیز اور واقعے کو محفوظ کیا گیا ہے جو آپ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اس عجائب گھر کا سنگِ بنیاد اگست 2017 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رکھا تھا۔ یہ میوزیم اندرونی اور بیرونی حصے میں منقسم ہے۔ اندرونی حصے میں مختلف گیلریاں جب کہ بیرونی حصے میں ہیلی کاپٹر، اور ٹینک وغیرہ نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

داخلی دروازے سے اندر جائیں تو چار بھارتی ٹینک سب سے پہلے آپ کی توجہ کھینچتے ہیں۔ ان میں سے تین خطے میں لڑی گئی ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ”چونڈہ” کے دوران قبضے میں لیے گئے تھے جب کہ بقیہ ایک اکہتر کی جنگ میں دشمن سے چھینا گیا تھا۔ ان کے سامنے ان کی تاریخ بھی درج کی گئی ہے۔

اندرونی حصے میں سب سے پہلے پتھر کے وہ کتبے لگے ہیں جن پر 1947 سے لے کر اب تک پاک فوج کے شہداء کے نام لکھے گئے ہیں جنہوں نے مختلف جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی کارروائیوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے بعد ایک بڑے نقشے کی مدد سے پاکستان آرمی کے بنیادی ڈھانچے کی معلومات دی گئی ہیں جس کے سامنے 1947 سے لے کر اب تک کے تمام آرمی چیفس کے مجسمے اور ان کی تفصیل ترتیب سے رکھی گئی ہیں۔

اس سے آگے آپ ایک بڑے ہال میں داخل ہوں گے جس سے مختلف گیلریاں نکل رہی ہیں۔ اس ہال میں قدآور جنگی ہاتھیوں اور گھوڑوں کے مجسمے ان کے سواروں سمیت لڑتے ہوئے دکھائے گئے ہیں جس کے ساتھ ان پرانی جنگی تکنیکوں کی تفصیل بھی موجود ہے۔ اس سے آگے 1947 میں بابائے قوم کو پاکستان کی پہلی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ساتھ ہی تحریکِ پاکستان کے دیگر راہ نماؤں کی تصاویر ان کے نام اور اہم کارناموں سمیت دیکھی جا سکتی ہیں۔ آگے کی گیلری بھارتی چالبازیوں، اکہتر کی جنگ اور بنگلادیش کے قیام کا احاطہ کرتی ہے جس میں اس زمانے کے اخباری تراشوں، نقشوں، مکتی باہنی کے کیمپوں کی تفصیل اور جنگی جہازوں کے پرزے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہجرت کی وہ دل دوز تصویر ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی حساس دل تڑپ اٹھے۔ یہ بھارت سے ہجرت کرنے والے مسافروں کی جلتی ہوئی ٹرین ہے جس پر لوگ اپنا بچا کھچا اسباب لادے سوار ہیں۔

سائیڈ کی گیلریوں میں پرانے اور روایتی ہتھیار اور پاک فوج کے غیرمسلم فوجیوں کی تصاویر آویزاں ہیں۔

اس میوزیم کی سب سے منفرد اور نئی چیز وہ آڑھی ترچھی گیلری ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کاوشوں کی ایمان افروز اور خونچکاں داستان سناتی ہے۔ یہاں پاکستان میں کیے گئے تمام آپریشنز کی تصاویر، علاقوں کے تفصیلی نقشوں کی مدد سے آویزاں کی گئی ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو بھی ایک درد ناک منظر کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک خوب صورت گیلری نشان حیدر پانے والے تمام فوجیوں، ایک 1965 کی پاک بھارت جنگ اور عوام کے جذبے جب کہ ایک دنیا کے سب سے اونچے محاذ، سیاچن کے لیے مختص کی گئی ہے۔ ایک گیلری میں بڑے خوب صورت طریقے سے اقوامِ متحدہ کے تحت دنیا بھر میں موجود پاک فوج کے دستوں کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

میوزیم کے کیفے ٹیریا سے باہر نکلیں تو ایک وسیع میدان میں مختلف ہوائی جہاز اور ٹینک ڈسپلے پر رکھے گئے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان اور افواجِ پاکستان سے محبت رکھنے والے ہر پاکستانی کو یہ میوزیم لازمی دیکھنا چاہیے۔

 44۔ آرمی میوزیم راولپنڈی؛

1961 میں قائم شدہ یہ عجائب گھر افواجِ پاکستان کے درخشاں ماضی کو محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ راولپنڈی کینٹ میں واقع یہ عجائب گھر پاک فوج سے متعلق تمام اہم نوادرات اور اسلحہ محفوظ کیے ہوئے ہے۔

یہاں قدیم زمانے کے اسلحے اور وردیوں سے لے کر جنگوں میں بچ جانے والے ٹینک تک نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پاکستان آرمی کے ارتقاء کی تفصیلی تاریخ میوزیم کی نئی عمارت میں نمائش کے لیے موجود ہے۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور اس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کردار اور قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے آپریشنز پر ایک تفصیلی گیلری کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

45۔ لوک ورثہ میوزیم

اس میوزیم کے بارے میں یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ یہ ایک بین الاقوامی سطح کا میوزیم ہے جہاں پاکستان کے علاوہ ایران، ترکی، وسط ایشیائی ریاستوں اور سعودی عرب جیسے ممالک کی ثقافت اور تاریخ کو بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

اسلام آباد کے قلب میں واقع یہ عجائب گھر پاکستان اور پاکستانی عوام کی قدیم اور زندہ روایات کا امین ہے۔ براعظم ایشیا کے اہم راستوں کے سنگم پر واقع یہ میوزیم ثقافتی روابط، رہن سہن، فنون لطیفہ اور علم الانسان کے حوالے سے پاکستان کی وسیع و عریض اجتماعی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔

یہ میوزیم پاکستان کی تاریخی روایات کی ازسرنو دریافت اور جدید دور میں آثار اور تاریخ کے تسلسل کا عکاس ہے۔ اس میوزیم کے لیے نوادرات جمع کرنے کا سلسلہ 1974ء میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی عوام کی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کا باقاعدہ افتتاح 2004ء میں کیا گیا۔ یہ میوزیم معروف عوامی روایات، علم الانسان کے حوالے سے لوک فنون اور دست کاریوں کے نادر نمونوں کا مجموعہ ہے۔ ان نوادرات کو ہوبہو اسی اس طرح پیش کیا گیا ہے جس صورت میں وہ ہمیں ورثے میں ملے تھے۔

اس میوزیم کو لوک قومی ادارہ کے روایتی ورثے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ عجائب گھر جو تاریخی، آرٹ اور ثقافت سے تعلق رکھتا ہے۔ شکر پڑیاں کی پہاڑیوں اسلام آباد میں واقع ہے۔ عجائب گھر 1974 میں کھولا گیااور 2002 میں قانونی آرڈیننس کے تحت لوک ورثہ ایک خودمختار ادارہ بن گیا۔ یہ میوزیم ایک پارک کے اندر واقع ہے۔ کھلے علاقے میں ایک تھیٹر اور لوک ورثے سے متعلق چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ثقافتی اشیا سے متعلق کچھ دکانیں ہیں لیکن اصل میوزیم ایک بہت بڑی عمارت کے اندر واقع ہے۔ جس کے اندر مختلف کمروں میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے بارے میں چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔

ِ پاکستان کے مختلف علاقوں کا طرززندگی یہاں مجسموں، تصاویر، شاعری، موسیقی اور ٹیکسٹائل کے کام کے ذریعے پیش کی گئی ہے۔ یہاں کڑھائی شدہ کپڑے، زیورات، لکڑی کا کام، دھات کا کام، بلاک پرنٹنگ، ہاتھی دانت اور ہڈی کے کام کی ایک وسیع ورائٹی موجود ہے۔ روایتی فن تعمیر، شیشے کا کام، سنگ مرمر، ٹائل، پچی کاری اور فریسکو آرٹ کے نادر نمونے بھی میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔

یہاں کے صوفی ہال میں صوفیاء کرام جیسے لعل شہباز قلندرؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، سچل سرمستؒ کا کلام پیش کرتے گلوکاروں کی تصاویر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ داتا گنج بخشؒؒ، شاہ رکن عالمؒ اور بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کے مزارات کی تصاویر بھی ہیں۔

اس میوزیم کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہاں ایران، ترکی، سعودیہ اور وسط ایشیائی ریاستوں ( ازبکستان، قازقستان، تاجکستان، آزربائیجان، کرغیزستان) کے الگ ہال بنائے گئے ہیں جہاں ان ممالک کی ثقافت کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

لوک ورثے میں میوزیم کی دیواروں کو پلستر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ جیسے دیہاتی گھروں میں مٹی میں توڑی ملا کر کمروں اور دیواروں کی لپائی کی جاتی ہے۔ لوک ورثے میں سمعی اور بصری لائبریری بھی ہے، جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی آوازوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ ثقافت پر کتابیں اور موسیقی خریدی بھی جا سکتی ہے۔

 46۔ فلیگ اسٹاف ہاؤس میوزیم کراچی؛

قائداعظم ہاؤس جو فلیگ سٹاف ہاؤس بھی کہلاتا ہے، پاکستان کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے جدید پاکستان پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا جانے والا میوزیم ہے۔ کراچی میں فاطمہ جناح روڈ پہ واقع اس عمارت کو برطانوی ماہر تعمیرات، موسیس سوماک نے تعمیر کیا تھا۔

یہ عمارت محمد علی جناح کی سابقہ رہائش گاہ ہے، جو یہاں 1944ء سے اپنی وفات یعنی 1948ء تک رہائش پذیر رہے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پذیر رہیں۔ یہ عمارت حکومت پاکستان نے 1985ء میں اپنی تحویل میں لے لی اور اس عمارت کو بطور میوزیم محفوظ کریا گیا۔

سبز و سرمئی رنگ کے حسین امتزاج والی اس عمارت کے اندر بابائے قوم کے زیراستعمال اشیاء، کاروں، ملبوسات اور فرنیچر کی نمائش کی گئی ہے۔

 47۔ شاکر علی میوزیم لاہور؛

لاہور شہر میں واقع یہ چھوٹا سا نجی عجائب گھر آرٹسٹ شاکرعلی صاحب کے گھر میں واقع ہے۔ شاکر علی نہ صرف ایک پینٹر بلکہ آرٹ کے استاد اور نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بھی تھے۔ بنیادی طور پر تو اس میوزیم کا افتتاح ان کی وفات کے بعد 1975 میں کیا گیا لیکن اس کی عمارت خود ان کی اپنی بنائی گئی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس عمارت میں استعمال کی گئی اینٹیں جلی ہوئی تھیں، وہ جو بھٹے کے بالکل بیچ میں پکائی جاتی ہیں۔ ہر ایک اینٹ اور دروازہ انہوں نے خود پسند کرکے لگوایا تھا تبھی اس عمارت کو بنانے میں دس سال لگ گئے۔

جیسے ہی آپ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں آپ کی نظر سب سے پہلے ہال میں لگی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر پر پڑتی ہے جو شاکر علی صاحب اور دیگر اہم ہستیوں کی ہیں۔ یہیں ایک طرف ان کی ڈگریاں اور سندیں بھی لگائی گئی ہیں۔ دوسری سمت گھر کے مختلف کمروں (جنہیں میوزیم کی شکل دی گئی ہے) میں شاکر علی صاحب اور ان کے شاگردوں کی تصاویر، ان کے اکٹھے کیے گئے نوادرات اور خریدی گئی نایاب اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ایک گیلری میں شاکر علی کے علاوہ پاکستان کے دیگر مشہور آرٹسٹ حضرات کا کام رکھا گیا ہے۔

تہہ خانے مین ایک ریسرچ لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں آرٹ کی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان میں 3737 کتابیں، جرائد اور پورٹ فولیوز شامل ہیں۔ یہ گھر نہ صرف ایک میوزیم بلکہ آرٹ سینٹر بھی ہے جہاں نمائشیں، موسیقی کے پروگرام، مختلف سیمینار اور اداکاری کی کلاسیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ لاہور کے گارڈن ٹاؤن میں موجود یہ شان دار میوزیم پاکستان بھر سے فنونِ لطیفہ سے محبت رکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔

 48۔ کے – ٹو میوزیم ؛

1954 میں جب پہلی بار ایک اطالوی ٹیم نے کام یابی سے کے ٹو سر کیا تو اس کی پچاسویں سال گرہ کی یاد میں پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن موٹیل اسکردو کے لان میں اپنی طرز کا ایک منفرد میوزیم قائم کیا گیا۔ یہ میوزیم ایک خیمے میں بنایا گیا ہے۔ اطالوی کوہ پیما ٹیم (جس کے سربراہ آگسٹو پولینزا تھے) نے یہ بڑا خیمہ کے ٹو بیس کیمپ پر لگایا تھا جو مہم کی کام یابی کے بعد یہاں لا کر گاڑ دیا گیا اور اسے ایک میوزیم کی شکل دے دی گئی۔

اس میوزیم میں ڈاکیومینٹریز، نقشہ جات، تاریخی و جغرافیائی معلومات، کے-ٹو ریجن سے متعلق ثقافتی اشیاء اور مہم جوئی سے متعلق تصاویر رکھی گئی ہیں۔ اب یہاں ہر سال اطالوی کوہ پیماؤں کی تصویری نمائش منعقد کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


آتشِ زخم سے جب سینہ پگھلتا تھا مرا
منہ سے آواز نہیں خون نکلتا تھا مرا
سرخ انگارے دہکتے تھے مری آنکھوں میں
تیری توہین پہ جب رنگ بدلتا تھا مرا
اتنی مانوس تھی احساس کی لو دھوپ کے ساتھ
جسم سورج کے اتر جانے سے جلتا تھا مرا
کم نہ تھی موت کی رفتار سے رفتارِ سفر
سانس رک جاتے تھے جب قافلہ چلتا تھا مرا
غیر آباد مسافت میں غنیمت تھی زمیں
کارواں گرد کی خوراک پہ پلتا تھا مرا
دوڑتے دوڑتے میدان میں پیاسوں کے لیے
پاؤں کے تلووں سے احساس نکلتا تھا مرا
حبس اندر کی نکلتی تو ہوا رک جاتی
سانس مشکل سے یہ ماحول نگلتا تھا مرا
وحشتی راہ گزر طے نہ ہوئی مجھ سے علیؔ
جسم تو جسم ہے سایہ بھی دہلتا تھا مرا
(علی شیران۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


آنکھ سے دور بہت دور ہدف رکھا ہے
خوف پھر اپنے ہی پہلو کی طرف رکھا ہے
کیسے ڈر جائیں گے انجام کی خبریں سن کر
خود کو آغاز سے جب تیغ بکف رکھا ہے
مان لی جائے گی اب بات قبیلے میں مری
میرے کرتے میں ذرا تیز کلف رکھا ہے
میری خوش بختیِ تقدیر کوئی دیکھے تو
پا بہ زنجیر، مگر ہاتھ میں دف رکھا ہے
شعر گوئی سے کبھی باز نہیں آ سکتا
میرے مالک نے طبیعت میں شغف رکھا ہے
کون سی بات نے ممتاز کیا ہے سب سے
’’اشرف الخلق میں احساسِ شرف رکھا ہے‘‘
(فیضان فیضی کہوٹ پادشاہان، چکوال)


غزل


مجھے لگا تھا محبت سے پیش آتے ہیں
مگر یہ لوگ تو نفرت سے پیش آتے ہیں
ہمیں وہ اپنا کہے اور پھر رہے قائم
یہ حادثات تو قسمت سے پیش آتے ہیں
عجیب بات ہے مطلب نکالنے کے لیے
خدا سے لوگ عبادت سے پیش آتے ہیں
مرے بڑوں نے یہی بات ہے سکھائی مجھے
سبھی سے پیار سے عزت سے پیش آتے ہیں
انہیں بھی دوست کہوں چھوڑ یار جانے دے
جو میرے ساتھ ضرورت سے پیش آتے ہیں
لگا تو لوں میں پرندوں سے دل مگر شہبازؔ
یہ بے یقین ہیں ہجرت سے پیش آتے ہیں
(شہبازماہی، رینالہ خورد۔ ضلع اوکاڑہ)


غزل


دشت کی تشنگی بڑھاتا ہوں
میں اداسی کے کام آتا ہوں
تو مجھے عشق کی سہولت دے
میں ترا ضبط آزماتا ہوں
قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں
پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں
اک تھکن راستے میں ملتی ہے
اک تھکن گھر سے لے کے جاتا ہوں
شام کے سرمئی پرندوں کو
چاندنی اوڑھنا سکھاتا ہوں
دیکھتا ہوں کہیں پڑا خود کو
اور بہت دیر مسکراتا ہوں
(وسیم حیدر جعفری۔ جھنگ)

..
غزل


اختلافات کیجئے ہم سے
ہاں مگر بات کیجئے ہم سے
تم کو دعویٰ ہے گر محبت کا
یوں نہ پھر ہات کیجئے ہم سے
عہدِ رفتہ میں کیا رکھا ہے دوست
آج کی بات کیجئے ہم سے
بے تکلف ہو سو بیاں اپنے
سارے جذبات کیجئے ہم سے
چلو فرصت ملی ہے گپ شپ کی
خوب دن رات کیجئے ہم سے
وقت کافی ہے حالِ دل کے لیے
پھر شروعات کیجئے ہم سے
آپ ناراض ہی سہی پھر بھی
شکوہ ٔ ذات کیجئے ہم سے
لوٹ کر آپ پھر نہ جائیں گے
اک ملاقات کیجئے ہم سے
(مسرت عباس ندرالوی ۔ندرال، چکوال)


غزل


رنج و آلام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میں تِرے دام سے نکلوں گا تومر جاؤں گا
اب کوئی کام محبّت کے سوا مجھ کو نہیں
اب اگر کام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
جپ رہا ہوں یہ ترا نام تو میں زندہ ہُوں
میں ترے نام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میرے ہونے کی علامت ہے فلک پر یہ شفق
منظرِ شام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
منظرِ عام پہ آنے سے یہ احساس ہُوا
منظرِ عام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میں ہوں کیفیؔ،مری دُنیا سے نکالو نہ مجھے
گرد شِ جام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
(محمودکیفی۔ سیالکوٹ)


غزل
دن پہ آیا تو کبھی رات پہ رونا آیا
ہم کو جی بھر کے کسی بات پہ رونا آیا
ان کے بھیجے ہوئے پھولوں کی خوشی ایک طرف
خط میں لکھے ہوئے حالات پہ رونا آیا
شہر ایسے ہیں کہ ہوں شہرِ خموشاں جیسے
درد گونجے تو مکافات پہ رونا آیا
خشک ہوتے ہوئے اشکوں کی کوئی بات نہ کی
ان میں بہتے ہوئے جذبات پہ رونا آیا
میں کہ ہنستا تھا محبت پہ کھڑا دور کبھی
چھو کے گزری ہے تو کم ذات پہ رونا آیا
تیرے سائل کو تِرے وصل کی خُوبُو نہ ملی
خالی کاسے کو بھی خیرات پہ رونا آیا
حرف بکھرے تو خلیل ؔعرش پہ پہنچی آہیں
آس ٹوٹی تو مناجات پہ رونا آیا
( خلیل حسین بلوچ۔کراچی)


غزل


عدن کی مثل سرِ دشت، گلستان کی لَو
عجیب سے بھی عجب ہے یہ باغبان کی لَو
ہرایک یاد کا سایا ہے رقص کرنے لگے
یوں تھرتھرانے لگی ہے چراغِ جان کی لَو
ہے اُس کے گال کا تِل روزنِ سیہ جیسا
ہے اُس کا عارضِ پُرنور اِس جہان کی لَو
کہوں میں ماہ جو اُس رُو کو تو حماقت ہے
حسین مہ سے زیادہ ہے اُس کے کان کی لَو
میں روز رات تجھے یاد ایسے کرتا ہوں
کہ جیسے طفل کو ہوتی ہے امتحان کی لَو
میں کیوں نہ گرد بنوں اور بلند ہو جاؤں
کہ روندنا ہی روشؔ کو تھی رفتگان کی لَو
(علی روشؔ۔گجرات)


غزل


خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ بنے پھریے
سرکار کی مرضی ہے کہ کب کیا بنے پھریے
اندھوں کا نگر ہے یہ مرے آئینہ تمثال
اس شہر میں کیا آئینہ خانہ بنے پھریے
کیوں کوئی ٹھکانہ کرے تاریک مکاں میں
اچھا ہے کسی شہر کا رستہ بنے پھریے
میں ڈر بھی گئی، مر بھی گئی پیاس لبوں پہ
اب جائیے اور دشت میں دریا بنے پھریے
اب ہم سے مروت میں بھی یہ کام نہ ہوگا
کیوں اس کی گلی جا کے تماشا بنے پھریے
(فرح گوندل۔ اسلام آباد)


غزل


اس بات کا ملال نہیں ہے کہ سَر لگا
دکھ ہے یہی کہ تیر نشاں سے اُدھر لگا
میں نے تو بس قلم کی زباں بولی،اور لوگ
یوں دیکھنے لگے کہ مجھے خود سے ڈر لگا
مجھ کو ستارہا تھا نئی نسل کا خیال
پھر دل نے اک صدا دی کہ پاگل شجر لگا
میں شہر چھوڑتے ہوئے اتنا اداس تھا
ہر شخص زندگی سے مجھے بے خبر لگا
پھر تیرے بعد خود کی مجھے بھی تلاش تھی
پھر تیرے بعد جانے کہاں ،کس ڈگر لگا
تیرا خیال آتا رہا رات بھر مجھے
بدلی سے جھانکتا وہ قمر ہم سفر لگا
جب سے ہوئی ہے نور ؔشناسائی عشق سے
ہر ایک شخص عشق کے زیرِ اثر لگا
(حضرت نور تنہا۔کراچی)


غزل
بے نشاں ہو گئے عاشقی میں تری
نام ہے اب مرا شاعری میں تری
گفتگو کب رہی ، رابطے کب رہے
کب رہے قہقہے اب ہنسی میں تری
چھوڑ کر آ گئے راہ میں ہم تجھے
فکر لیکن رہی واپسی میں تری
آ گئیں راس ہم کو سبھی الجھنیں
تہمتیں سہہ گئے بے کسی میں تری
سوچتی ہوں کبھی چھوڑ دوں یہ گلی
آ نہ جاؤںکہیں سادگی میں تری
زندگی بچ گئی جو مری اے خدا!
آرزو ہے کٹے بندگی میں تری
(افشاں مبین۔ٹیکسلا)
’’سکائی ڈائیور‘‘
میں نے پوچھا
’’پاگل ہو تم؟
بیٹھے بٹھائے یہ کیا سوجھی؟
یہ بھی کوئی کھیل ہوا؟
مرنا ہے تو اس کے اور بھی اچھے خاصے
اور آسان طریقے ہیں
پھر یہ فلک سے نیچے گرنا
اس میں کیا ایڈونچر ہے؟‘‘
اس نے کہا
’’او پاگل لڑکی
ایسے کوئی مرتا ہے؟
کتنے اجلے چہروں والے
بڑے بڑے فرشتہ لوگ
روز بلندی سے گرتے ہیں
حتیٰ کہ
خود اپنی ہی
نظروں سے گر جاتے ہیں
کبھی کسی کو مرتے دیکھا؟‘‘
(اپسرا گل۔ صادق آباد)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

ہمارے اسکول میں جب ’بلیک بورڈ‘ پر ٹیسٹ لیے جاتے تھے۔۔۔

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

دیگر اسکولوں کی طرح امتحانات کی تیاری کے لیے ہمارے نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں بھی یہ طریقہ روا تھا کہ ہر ٹیچر اپنے مضامین کی مختلف مشقوں کے ٹیسٹ لیتا تھا۔۔۔ ظاہر ہے باری باری ایک ایک، دو دو سوالوں کے ٹیسٹ لیے جاتے، کچھ ٹیسٹ آسان ہوتے، تو کچھ دشوار۔۔۔

سارا ہوم ورک ایک طرف ہوتا اور کسی بھی ٹیسٹ کی تیاری ایک طرف۔۔۔ ہمیں اردو وغیرہ کا تو کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا۔۔۔ یہاں تک کہ اردو کا املا تو اول کلاس سے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ تیاری کی ہو، بلکہ ہمیں اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ کہہ دیتے  کہ پوری کتاب میں سے کہیں سے بھی ’املا‘ کرا دیا جائے، ہم لکھ لیں گے۔ لیکن طویل اور رٹنے والے انگریزی، سائنس اور سوشل اسٹڈیز وغیرہ کے سوالات بہت پریشان کرتے۔۔۔ اگر ہم پڑھائی میں بہت اچھے نہ تھے، تو کوئی ایسے برے بھی نہ تھے۔

بس ہماری کارکردگی اوسط رہتی، لیکن پڑھائی کی فکر اور سہم بہت رہتا تھا، اس لیے ہم نے کبھی کسی ٹیسٹ کو ایسے نہیں ٹالا۔۔۔ ہر ٹیسٹ کی تیاری کی ہے۔۔۔ اگلے دن ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر مدرسے تک کی چھٹی کی، اور کبھی جلدی چھٹی بھی کروائی۔۔۔ اس کے باوجود بہت سے ’ٹیسٹ‘ اپنے بس میں نہیں رہتے تھے۔۔۔ ہمارا حافظہ رٹنے کے حوالے سے ہمیشہ سے ناقص رہا ہے، اس لیے ٹیسٹ کی تیاری کے دوران بار بار دھیان بھٹک جاتا اور ہم اِدھر کے اُدھر کے کھیل کود کے خیالات میں محو ہو جاتے۔۔۔ اس لیے ’کھلنڈرے‘ کہلاتے۔

ٹیسٹ میں کم نمبروں پر ٹیچر کی جانب سے سزا اور اِسٹک سے پٹائی کا بھی خوف لاحق رہتا تھا۔۔۔ جان فق ہو جاتی تھی، اس کے لیے ہم نے اپنے تئیں ایک ترکیب یہ نکال لی تھی کہ ٹیسٹ تو دے دیا جائے، لیکن ایسے ٹیسٹ کا ’پیپر‘ غائب کر دیا جائے، یعنی کلاس میں بچے ٹیسٹ مکمل کرتے جاتے اور اپنا ٹیسٹ کا ’صفحہ‘ ٹیچر کے پاس جمع کراتے جاتے اور آخر میں ٹیچر باقی ماندہ بچوں سے ’پیپر‘ جمع کرلیتی تھیں، جب کہ ہم چپکے سے یہ ’ورقہ‘ اپنے بستے میں چھپا دیتے اور تاثر یہ دیتے کہ ہم نے بھی پیپر دے دیا ہے۔۔۔!

اس طرح ایک عجیب طرح کی ’کام یابی‘ کا سا احساس ہوتا کہ جیسیسر پر آئی ہوئی کوئی آفت ٹال دی ہو، گویا ٹیسٹ ہو بھی گیا اور ناغہ کیے بنا ہم ٹیسٹ کے ’مضر اثرات‘ سے بھی بچ گئے۔۔۔ غنیمت یہ ہوتا کہ اس موقعے پر کبھی کسی ہم جماعت نے پلٹا نہیں کہ ارے تم تو ذرا ٹیسٹ کا پیپر دکھاؤ۔۔۔ لیکن پھر غالباً ہمارے اسکول کی سب سے رعب دار ٹیچر مس شہلا نے ہی کچھ بھانپ لیا تھا کہ کلاس میں ایسی کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہے یا ہو سکتی ہے، لہٰذا پھر یہ ہونے لگا تھا کہ کلاس میں اس روز حاضر ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد دیکھ لی جاتی، تاکہ اگر کسی کا ’پرچا‘ گُل ہو تو صاف پتا چل جائے۔

اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ چیک ہونے کے بعد ٹیسٹ کا پیپر واپس دیتے ہوئے لڑکوں کو ڈیسک پر بھیجنے کے بہ جائے باہر ہی کھڑا کیا جاتا اورآخر میں لا محالہ ٹیسٹ کا پیپر نہ دینے والا ’مجرم‘ ہی اپنی نشست پر بیٹھا رہ جاتا اور پکڑا جاتا۔ ہمارے ساتھ کبھی ایسی نوبت نہیں آئی، ہمیں جب بھی لگا کہ ایسی کوئی سختی ہوگی یا ٹیچر اس ’نسخے‘ پر عمل کریں گی، تو ہم کوئی خطرہ مول نہیں لیتے اور ہتھیار ڈال کر خود کو حالات کے سپرد کر دیتے تھے۔ ٹیسٹ میں عموماً 10 میں سے چھے کے بعد کے نمبر ’برے‘ شمار کیے جاتے تھے۔۔۔ اور شاید کبھی سزا بھی ملتی، مس شہلا ’آدھے نمبر‘ کا بھی کافی خیال کرتی تھیں، اس لیے ان کے ٹیسٹ میں ہم لوگوں کے نمبر ساڑھے سات، ساڑھے پانچ بھی آتے تھے۔۔۔

ہم  ٹیسٹ یاد نہ ہونے کے خوف سے بھی اسکول کی چھٹیاں کرتے تھے۔ اس کے لیے گھر میں کبھی پیٹ میں درد اور کبھی کچھ اور طبیعت خرابی کا بہانہ کر دیتے، تو کبھی ضد کر کے اصل صورت حال بتا دیتے اور پھر امی سے جیسے تیسے اسکول کی چھٹی کی اجازت مل ہی جاتی، کبھی ٹیسٹ والے روز ہم نیم خوف کے عالم میں اسکول تو چلے جاتے، لیکن جوں جوں ٹیسٹ والا پیریڈ قریب آتا جاتا، ویسے ویسے یوں لگتا کہ جیسے پھانسی گھاٹ سے نزدیک ہو رہے ہوں۔۔۔ پھر کٹھن ٹیسٹ والے دن پوری کلاس نظر رکھتی کہ آج فلاں مس نے ٹیسٹ دیا ہے، ذرا دیکھو تو کیا پتا وہ آج نہ آئی ہوں۔

اور کبھی واقعی وہ غیر حاضر ہوتیں، تو کتنا سکون مل جاتا تھا، ایسا لگتا کہ کوئی طوفان آنے والا تھا جو ٹل گیا۔۔۔ شکر، اب ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ایک دن اور مل گیا۔۔۔ کبھی ٹیچر تو آتیں، لیکن وہ یہ بھول جاتیں کہ انہوں نے ہماری کلاس کو کوئی ٹیسٹ دیا ہوا ہے، تو جی چاہتا کسی طرح وقت گولی کے موافق دوڑے اور یہ کلاس ختم ہو جائے اور کوئی انہیں یہ یاد بھی نہ دلائے کہ انہوں نے آج ہمیں ٹیسٹ دیا تھا۔۔۔کبھی ایسا ہو بھی جاتا تھا اور کبھی کوئی ’ہونہار‘ خم ٹھونک کر انہیں یاد دلا دیتا کہ آج تو ٹیسٹ تھا۔۔۔

جب ہم چوتھی کلاس میں تھے، تب ہمارے اسکول کی جانب سے ’ماہانہ ٹیسٹ‘ کا ایک ’عذاب‘ شروع کیا گیا، یہ گویا ہر مہینے کے امتحانات کی طرح تھے، یہ ہمارے لیے ہر وقت کا ایک بوجھ اور ہر جنجال بن گئے تھے۔۔۔ بندہ امتحان دے کر تھوڑا سا سُکھ کا سانس لے لیتا ہے کہ چلو اب چار، چھے مہینے کے لیے تو پرسکون رہیں گے، لیکن یہ ہر مہینے ہر مضمون کے باقاعدہ ٹیسٹ اور پھر اس کا باقاعدہ ’رپورٹ کارڈ‘ میں اندراج ہونا۔۔۔ یہ سب نہایت خوف ناک تھا۔۔۔ چلو اگر مہینے کے آخری تین، چار یا پانچ دن ٹیسٹ کے لیے مختص کر لیے جائیں۔

جیسا کہ شاید اوائل میں رہا بھی، لیکن جب جس ٹیچر کی مرضی ہوتی، وہ ٹیسٹ لے لیتا، گویا ایک مستقل طور پر ہی ذہنی دباؤ کی حالت ہوگئی۔۔۔! شاید ٹیسٹوں کا یہ سلسلہ آٹھویں تک چلا، کیوں کہ مجھے اپنی آٹھویں کی رپورٹ میں ٹیسٹ والے خانوں میں کچھ سرخ نمبر یاد آرہے ہیں، یہ دیکھنا پڑے گا، لیکن درمیان میں کچھ یاد نہیں آرہا کہ پانچویں، چھٹی اور ساتویں میں بھی یہ ماہانہ ٹیسٹ جاری تھے یا نہیں۔۔۔

کلاس کے ٹیسٹ میں سختی تو ہوتی تھی، لیکن پھر بھی ’نقل‘ سے روکنے کے لیے ٹیچر بہت کڑی نظر رکھتی تھیں، ظاہر ہے کلاس میں 50 سے زائد بچے ہوتے تھے، اس لیے امتحانات کی طرح بچوں کو دور دور تو بٹھایا نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ چناں چہ بہت سے ٹیچر اعلان کر دیتے کہ کل کا ٹیسٹ ’بلیک بورڈ‘ پر لیا جائے گا ۔۔۔ اگر سائنس وغیرہ جیسے مضامین کا مشکل ٹیسٹ ہوتا، تو یہ ہم جیسوں کے لیے خاصا تسلی بخش اعلان ثابت ہوتا تھا، کیوں کہ پچاس بچوں کی کلاس میں ہماری باری آنے سے پہلے ہی لازمی طور پرآدھے گھنٹے کی کلاس کا وقت ختم ہو جاتا تھا، کیوں کہ  ایک وقت میں ایک ہی بچہ ’بلیک بورڈ‘ پر لکھنے کے لیے کھڑا ہوتا تھا، کچھ جلدی ہار مان جاتے، تو کچھ مِنن مِنن کر کے لکھتے۔۔۔ بہرحال ایسے موقع پر شاذ ہی کبھی ہمیں ٹیسٹ کے لیے پکارا گیا ہو۔۔۔

’بلیک بورڈ‘ پر ٹیسٹ کے حوالے سے ایک دل چسپ صورت حال پانچویں کلاس میں مس روبی نے پیدا کی تھی۔۔۔ یہ شکر ہے کہ وہ اردو جیسا حلوہ مضمون پڑھاتی تھیں۔۔۔ انہوں نے پانچویں کلاس میں ہمارے بہت سارے ٹیسٹ لیے، اور شاید ہر ٹیسٹ ہی بورڈ پر لیا اور کس طرح۔۔۔؟ یہ بھی سن لیجیے۔ وہ کلاس کے بڑے سارے بلیک بورڈ کو چھوٹے چھوٹے پانچ چھے خانوں میں بانٹ دیا کرتیں، جس سے بہ یک وقت چھے، چھے بچے کھڑے ہو کر پوری کلاس کے سامنے ٹیسٹ دے رہے ہوتے اور ہر ایک کا سوال الگ الگ ہوتا، کسی کو کوئی درخواست، تو کسی کو کوئی خط اور کسی کو گرامر تو کسی کو اشعار کی تشریح۔۔۔ یعنی جہاں ایک وقت میں ایک بچے کو بورڈ پر ٹسیٹ دینے کی روایت تھیِ، وہاں انہوں نے اس صلاحیت کو چھے ، سات گنا بڑھا دیا۔۔۔ اور پھر اس ٹیسٹ میں کارکردگی نہ دکھانے والے طلبہ کی ’خاطر مدارات‘ کے لیے بھی  ایک بھرپور انتظام ہوتا۔۔۔ نہایت پراعتماد، خوش مزاج اور ہنسنے بولنے والی مس روبی ’مستحق‘ بچوں کی پٹائی کے معاملے میں کبھی کسی سے کم نہیں رہیں۔۔۔

’بلیک بورڈ‘ پر اس ٹیسٹ کے سلسلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کلاس کے شاید آٹھ، دس جن لڑکوں کو اس ٹیسٹ سے استثنا دیا جاتا تھا، ہم بھی ان میں سے ایک تھے۔۔۔ ظاہر ہے، ٹیچر کو پتا ہوتا ہے کہ کون کمزور ہے، اسی لیے پھر اُسی پرزیادہ زور دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک دو دفعہ کلاس سے یہ آوازیں بھی اٹھیں کہ آپ کبھی ان سے بورڈ پر کیوں نہیں لکھواتیں تو انہوں نے شاید ایسے بچوں کا منہ بند کرنے کے واسطے ایک آدھ بار ہمیں بلایا بھی اور پھر جو لکھنے کو کہا وہ ہم نے بہ آسانی لکھ  دیا۔۔۔ جہاں ہم بہت سے مضامین پڑھتے ہوئے دباؤ میں رہتے، وہیں یہ امر ہمیں بھی ہمارے ہونے کا احساس دلا دیتا تھا۔۔۔

اب تو کیا کلاس والے اور کیا اساتذہ۔۔۔ سب ہی لوگ بچھڑ گئے اور بے فکری کی عمر کی طرح یہ سب باتیں بھی ماضی کی یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔۔۔

۔۔۔

وبا کے دن
ناہید سلطان مرزا
آئو شہرزاد ایک کہانی کہیں
جو ایک ہزار ایک راتوں تک چلے
ہر رات چاند اور تاروں کی چھائوں تلے
وہ کہانی ہر گھر کی چوپال، بیٹھک میں سنی جائے
طلسمی دروازہ، پراسرار چوکھٹوں کے اسرار کھولے
ظالم جادوگروں، چڑیلوں سے لڑتا شہزادہ
قید میں سوئی شہزادی کو چھڑانے آئے
جادو کے قالین پر سیر کرائے
ہم سب کو ایسی دنیا میں لے جائے جو سب تلخیاں بھلادے
جو خوش بودار جنگلوں، پہاڑوں ، جھیلوں، مترنم گیتوں
میں محبت سے ہم آہنگ ہو
شہرزاد تم نے بھی تو خود کو بچایا تھا
خوف کے دبیز پردے کو چیر کر
محصور، مجبور، دل گرفتہ، بے سکون
لمحوں سے آزاد ہوکر
کسی کو تجدید عہد وفا پر مجبور کیا تھا
اور کہا تھا یہ وقت بھی گزرنا تھا، گزرگیا
مگر میری سہیلی میرے لوگ بہت کٹھور ہیں
انہیں جان بچانے سے زیادہ جان لینا پسند ہے
حیلوں سے بہانوں سے نئے زاویوں سے
دل دکھانے کے نت نئے طریقوں سے
یہ اذیت پسند، تشدد پسند محروم لوگ
تمہاری کہانیاں ٹھکرادیں گے
بوسیدہ، ناکارہ، بیکار کہہ کر
جب کہ آج ان کے تمام عزائم، تمام بلندیاں، ترقیاں زمیں بوس ہیں

۔۔۔

یہ غلام ذہنیت کی نشانی ہے!
سیدہ فاطمۃ الزہرہ، لاہور

میٹرک میں اسکول کی بہتری کے لیے دس صفحوں پر کچھ تجاویز ہیڈ ماسٹر کے حوالے کیں، تو وہ مسکرا دیے۔ ’اکیڈمی‘ میں بھی ایسی ہی کوشش کی، بلکہ اُن کا سر بھی کھایا کہ سر آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہمارے سسٹم سے بچوں کو کیسے نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایک دن دسویں جماعت کی ایک بچی کے پیچھے پولیس آگئی اور خوب ہنگامہ ہوا، بچوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو فزکس کے استاد نے بس ایک جملہ بولا، ’بیٹا! برے کاموں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔۔۔!‘‘ اب مجھے سمجھ میں آگیا کہ ’برے‘ کام سے مراد کیا ہے۔ میں نے پھر سر سے جا کر کہا کہ اکیڈمی میں لڑکے اور لڑکیوں کی کلاسیں الگ کر دیں، بہت مسائل ہو رہے ہیں۔ سر اکثر ٹالتے رہتے، مگر جب ایک دن میں نے انہیں ایک تحقیق لا کے دکھائی، تو ایک دم اُن کا پارہ ہائی ہو گیا۔۔۔! تب تو میں رو دھو کے خاموش ہو گئی، مگر یہ سوال کرنے، چیزیں بہتر کرنے کی، صلاح دینے کی عادت نہ گئی۔ ایک طرف بڑے یہ کہتے ہیں کہ ’اچھے بنو! آپ مستقبل ہو‘ مگر ہم جب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو الٹا سزائیں دیتے ہیں!

پھر ایک طلبہ تنظیم میں آ کے کچھ بہتری کی امید جاگی، یہاں باقی جگہوں کی طرح ایک دم تو ’دیس نکالا‘ نہیں ملا، نہ ہی فوراً تجویز رد کی جاتی، اس سے یوں گمان ہونے لگا کے یہاں سب کہنے کی آزادی ہے، مگر مجھے وہ سردیوں کی رات نہیں بھولتی، جب صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں ’شریکِ مشورہ‘ کے طور پہ اپنی 15 سالہ عقل کے حساب سے ’مراسلے‘ چھوڑ کے ای میل پر آنے کی تجویز دی، تو رات کے 11 بجے مجھے کمرے سے باہر نکال کے کہا گیا کہ ’’آپ ابھی گھر جائیں۔۔۔!‘‘ اور میں ہکا بکا رہ گئی کہ رات کے اس پہر کہاں جاؤں۔

اب سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اُن کا اجلاس متاثر ہو رہا تھا۔ یہ ’شریکِ مشورہ‘ بس نام کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ تمام ادارے، اسکول، کالج، یونیورسٹی یہ سب کے سب بس ’مقلد‘ چاہتے ہیں، کیوں کہ ایسے نظام موجود نہیں جو ’جیتے جاگتے انسان‘ اپنے اندر رکھیں۔

یہ تو زمانے کی ریت ہے، اسپتال میں سائیکیٹرک وارڈ ہو یا یونیورسٹی، یہاں تو سب ایسا ہی ہے۔ سوال کرنے کی ضرور اجازت ہے، کیوں کہ ’جمہوریت زندہ باد‘ مگر یہ بھی بس ایک واہمہ ہے، کیوں کہ سوال کا کوئی متحمل نہیں ہو سکتا، کہ سچ کی تاب لانا تو بہت جرأت کا کام ہے۔ نہ میرے اسکول کا قصور تھا، نہ ہی کسی تنظیم اور ادارے کا۔۔۔!

یہ کیسے ممکن ہے کہ غلام قوموں کے ادارے غلام نہ ہوں۔۔۔؟ غلاموں کی طرح ان کی تربیت نہ کریں، کیوں کہ اُنہیں آتا ہی یہ ہے۔

غلام ذہنیت کی نشانی ہے کہ نیا نظام استوار کرنا نہیں آتا اور پرانے نظام سے ایسی ’سیکیوریٹی اٹیچ‘ ہے کہ اُسے چھوڑنا نہیں آتا۔ ایسے میں ہم کیسے وہ اولاد پروان چڑھا سکتے ہیں، جن کے ’ڈی این اے‘ میں غلامی نہ ہو۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


حیران کن مقامات جہاں لوگ بستے ہیں

$
0
0

دنیا عجائبات عالم کا مظہر ہے۔ جہاں سے بھی اینٹ اٹھا کر دیکھ لیا جائے وہیںکچھ نہ کچھ عجب دیکھائی دے گا۔

یوں تو ہر ایک جگہ کا اپنا ایک خاص مقام ہے مگر کچھ ایسی جگہیں اور مقامات بھی ہوتے ہیں جو انسان کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی چند مقامات قارئین کے حاضر خدمت ہیں جنہیں دیکھ کر پہلے تو ان کے ہونے پریقین کرنا مشکل لگتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ کہ وہاں لوگ زند گی بھی بسر کرتے ہیں۔

Ponte Vecchio


قرون وسطی کا بنا محرابی پل دریائے ارنو اٹلی میں واقع ہے۔ اس پل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف ایک پل نہیں بلکہ اس پل پر ایک شہر آباد ہے پل کے دونوں اطراف میں لوگوں کے گھر اور دوکانیں موجود ہیں۔

Setenil Dc las bodegas


سپین میں واقع ایک ایسا قصبہ جہاں سفید گھروں کی تعمیر پہاڑوں میں کی گئی دیکھنے والوں کے لئے حیرت و دلچسپی کا مرقع ہے۔ جہاں بڑے بڑے پتھروں اور چٹانوں تلے تین ہزار سے زائد لوگ آباد ہیں۔ تاریخ دانوں کے خیال میں یہاں دور قدیم سے لوگ آباد ہیں۔

Matmata Tunisia


جنوبی تنزانیا میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں اپنے زیر زمین غاروں اور قدیم انسانوں کی گوشۂ نشینی کی عکاسی کرتا ہے یہ گاؤں دنیا کی دس بہترین یونانی تقریح گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔زیر زمین تعمیر شدہ گہھروں کے اندرونی رابطے کے لئے غاریں بنائی گئی ہیں۔ یہ شہر آپ میں ایک عجوبہ ہے۔

Mount fanjing


تصور کو دیکھ کر شاید یہ لگے کہ یہ ایک فوٹو شاپ کی ہوئی تصویر ہے مگر درحقیقت یہ ایک اصلی جگہ ہے جو کہ جاپان کا سب سے بلند ترین پہاڑ ہے۔ یہاں دو مندر ہیں جو دو پہاڑوں کی چوٹیوں پر آپس میں جڑے ہیں۔ معتقدین کا ماننا ہے کہ یہ روحانیت کو حاصل کرنے کا ایک خاص مقام ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ اس جگہ پہچانے اور واپسی کے لئے ایک سے دو دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

Hanging Temple of hengshan


اپنے بے انتہا ڈھلانی مقام کے لئے شہرت رکھنے والا یہ مندر چین کے صوبہ شنانسی میں واقع ہے ۔ یہ وہ واحد مند ر ہے جو کہ بدھ ازم‘ تاؤ ازم اور کنفیوشزم کے پیروکاروں کے لئے مرجیع خلائق ہے۔ اپنی پندرہ سو برس کی تاریخ لئے یہ مندر آج بھی پہاڑوں کی خاطر ناک چوٹیوں پر ا ستادہ ہے۔ مکنیکس کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے پتھروں کی ان دیکھی سپورٹ حاصل ہے اور لمبے لکڑی کے ستون اسے سہارا دیئے ہیں۔ اس مندر میں چالیس کمرے ہیں اور ساری عمارت لکڑی سے بنی ہے۔

Bozouls france


کوئی بھی یہ جان کر حیران ضرور ہو گا کہ گزشتہ ایک ہزار سالوں سے 400کلو میٹر وسیع اور 100 کلو میٹر گہری کھائی کر دہانے پر واقع یہ شہر گرنے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ تو اسے قدرت کا کرشمہ ہی سمجھ لیجئے مگر یہ حقیقت ہے۔

Santurio madonna Della corona


اٹلی کے شمال میں سطح سمندر سے 774میٹر بلند پہاڑوں پر واقع یہ جگہ مراقبے‘ خاموشی اور عبارت کے لئے زمین پر جنت سے رابطے کی جگہ تصور کی جاتی ہے۔ اسے 1530 میں تعمیر کیا گیا یہاں آنے واوں کی ایک کثیر تعداد ہے جن میں سیاح بھی شامل ہیں۔ مذہبی افراد اس چرچ کی عمارت کے اندر رہتے ہیں۔

Al hajarah yemen


21 ویں صدی میں جہاں لوگوں کا ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ شوشل میڈیا ہے ونہی ایک ایسی جگہ بھی کرہ ارض پر موجود ہے جہاں اونچے نیچے چٹانوں کی چوٹیوں پر بننے گھروں میں رہنے والوں کو ایسے ذرائع کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ بارویں صدی سے یہاں آباد لوگ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آخر پہلی بار اس شہر کو آباد کس نے کیا مگر وہ آج بھی ان قدیم رویات کے حامل ہیں۔ یہاں کے لوگ گندم اور جو اگاتے ہیں اور جانور بھی رکھتے ہیں۔ چٹانوں کی چوٹیوں پر بسایہ شہر لوگوں کے لئے باعث حیرت ہے۔

Casa do penedo partugal


کیا آپ نے کبھی پتھر کے گھر میں بستے انسان دیکھے؟ اگر نہیں تو اب دیکھ لیجئے۔ آج کے دور میں جہاں آسائشوںسے مزین گھر سب کو لبھاتے ہیں ونہی پرتگال میں سن 1847کو ایک ایسا گھر تعمیر کیا گیا جو کہ بلندی پر واقع ہونے کے ساتھ صرف پتھر سے بنا تھا۔ ایسے ’’پتھر کا گھر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں کے مکین روشنی کے لئے موم بتیوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔

Villa girasole


1930ء جنوبی اٹلی میں ایک بنگلہ تعمیر کیا گیا جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سورج کے ساتھ اپنا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایک سورج مکھی کے پھول کی سی ہے کہ وہ سورج نکلنے پر اپنا رخ اس کی جانب موڑ دیتا ہے۔ ایسے ایک اٹالوی انجینئر نے تعمیر کیا۔

The post حیران کن مقامات جہاں لوگ بستے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

میں صرف کمپیوٹر اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئی۔۔۔

$
0
0

یہ بات شروع  ہوتی ہے 8 مارچ 2020ء سے، جس دن اتفاقاً میری سال گرہ بھی ہوتی ہے اور یہ وہ وقت تھا کہ جب ’کورونا‘ وائرس دنیا کے کافی ممالک میں تباہی مچا چکا تھا، بہرحال تب تک پاکستان میں حالات اتنے تشویش ناک نہیں ہوئے تھے، تو ہم لوگ کافی پرسکون تھے، مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ آنے والا وقت کس قدر کٹھن ثابت ہوگا۔

میں توکافی خوش تھی کہ اگلے دن یونیورسٹی جاؤں گی اور اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں سیروتفریح کو جاؤں گی، لیکن اسی رات کو حکومت نے ا علان کر دیا کہ اسکول اور یونیورسٹی کل سے لے کر غیراعلانیہ مدت کے لیے  بند رہیں گے۔ اس خبر کے بعد ہماری  یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ اب آن لائن کلاسیں ہوں گی۔ یہ سن کر میں نے تو پہلے یہ سوچا کہ آخر یہ سب ممکن کیسے ہوگا؟ لیکن آہستہ آہستہ سب سمٹنے لگا۔

شروع کی ’آن لائن‘ کلاسوں میں تو عجیب سا لگا، کیوںکہ ہم عام طور پر استاد کو سامنے لیکچر دیتے ہوئے دیکھنے کے عادی تھے، مگر اب ہم ایک اسکرین کے سامنے بیٹھے سبق حاصل کر رہے تھے۔ اب ہم سب پر کافی دباؤ تھا، ایک تو پڑھائی کا، اپنے پیاروں کی صحت و تن درستی کا اور اوپر سے یہ ’آن لائن‘ کلاسیں۔

اس ہی طرح آن لائن کلاسوں کا آغاز ہوا، مجھے لگا کے ہمارے اساتذہ ہم پر کام کا دباؤ کم رکھیں گے، مگر ’آن لائن‘ کلاسوں کے شروع ہوتے ہی کچھ اساتذہ نے ہم پر کام کا پہاڑ توڑ دیا، لیکن دوسری طرف کچھ اساتذہ نے ہمارا خیال کیا اور ہم پر کام کا دباؤ کم رکھا۔ ایک طرف سے دیکھا جائے، تو روز روز کے خرچے، آنے جانے کے مسائل اور خواری تھی، لیکن وہ کسر ہمارے اساتذہ مختلف ’اسائمنٹ‘ میں پوری کر دیتے تھے۔

مجھے ایسا لگا تھا کے آن لائن کلاسوں کی بدولت مجھے اپنے گھر والوں کے ساتھ ذیادہ وقت گزارنے کا موقع ملے گا، مگر حیران کن بات تو یہ تھی کہ پڑھائی کے دباؤ کی وجہ سے میں اپنے کمرے میں کمپیوٹر  اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے اہل خانہ میری شکل دیکھنے کو بھی ترس گئے تھے۔ ایک تو ہمارا انٹرنیٹ بھی اتنا آہستہ ہے کہ کبھی کبھی اساتذہ ہمارے حالات کو سمجھے بغیر ہماری غیر حاضری لگا دیتے تھے۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس سیمسٹر میںمجھے کچھ کورسوں میں ایک لفظ تک سمجھ میں نہیں آیا، اسکرین  کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر آنکھوں کا بھی بُرا حال ہو چکا ہے اور جوڑوں میں درد کا تو کوئی نہ ہی پوچھے۔ نام کی پڑھائی تو چل ہی رہی تھی اور سب سر کے اُپر سے گزر رہا تھا کیوں کہ کوئی عملی کام نہیں ہو پا رہا تھا۔

یونیورسٹی نہ جانے کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں، لیکن پھر صبح نو بجے اٹھنا پڑتا تھا اور کلاس لینی پڑتی تھی، کچھ اساتذہ تو اپنی مرضی  سے کلاسوں کے اوقات بدل دیتے تھے، جس کی وجہ سے تمام طلبہ کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مجھے تو یہ سمجھ میں نہیںآتا کہ اساتذہ یہ کیسے سوچ لیتے ہیں کہ ہم ان حالات میں اپنی سو فی صد کارکردگی دے سکتے ہیں۔

ہمارے ایک استاد نے تو حد ہی کر دی، جب انہوں نے سخت ’لاک ڈاؤن‘ میں باہر جانے کو کہا وہ بھی ایک اسائمنٹ کے لیے، جب طلبہ نے سوال اُٹھایا، تو وہ کہنے لگے کہ ’سنیٹائزر‘ ساتھ لے جائیے گا۔ یہ سن کر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ کو ہماری تھوڑی سی بھی فکر نہیں۔۔۔!

میں صرف اساتذہ ہی کے بارے میں نہیں کہوں گی، بلکہ طلبہ کے بارے میں بھی بولوں گی، جو استاد کی عزت نہیں کرتے اور اس مشکل وقت میں جب اساتذہ ہمیں پڑھا رہے ہیں، وہ بھی ہم پر اپنا قیمتی وقت لگا رہے ہیں، تو ہمیں بھی  چاہیے کہ ہم اُن کی عزت کریں، نہ کہ اُن چند طلبہ کی طرح شرارتوں، بے ادبی اور بدتہذیبی پر اُتر آئیں۔ میری کچھ کلاسیں رمضان  میں بھی ہوئیں، جن کی وجہ سے روزوں میں عبادت کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔

ان کلاسوں کی اچھی بات یہ بھی تھی کہ مجھے یونیورستی کے لیے  صبح چھے بجے اُٹھنا نہیں پڑتا تھا،آرام و سکون سے بستر میں بیٹھ کر کلاس لینے کی عیاشی تھی۔ نہ ہی تیار ہونا پڑتا تھا اور روز روز کے لمبے سفر اور تھکن سے چھٹکارا تھا۔ ’آن لائن‘ کلاسوں کی ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ ان کی بدولت اس مشکل وقت میں ہمیں مصروف رکھا ورنہ ہم بالکُل بے کار ہو جاتے۔ ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بغیر کسی فکر کے اپنے گھروں میں بیٹھے کلاس لے رہے ہیں۔

آخر میں، میں یہ ہی کہنا چاہوں گی کہ سب نے اپنی اپنی طرف سے پوری کوشش کی کے یہ ’آن لائن‘ کلاسوں کا سلسلہ کام یاب ہو جائے اور اساتذہ نے بھی اپنی طرف کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ بات مجھے کافی مثبت لگی۔ اس مشکل وقت نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمیں اللہ کا کتنا شکر ادا کرنا چاہیے، اپنی  موجودہ سہولتوں کی وجہ سے۔

بس یہ کہنا چاہوں گی کہ یونیورسٹی والوں کو بچوں پر اتنا کام کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے تھا، ہر چیز میں توازن ضروری ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو اساتذہ کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ جب آپ دوسروں کی عزت کریں گے، تب ہی لوگ آپ کی عزت کریں گے۔

The post میں صرف کمپیوٹر اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

عجلت میں کشتی نہ اتاریں ۔۔۔

$
0
0

’راستے‘ پختہ ہو رہے ہیں۔۔۔ عظیم لوگ باوقار ادارے ’سڑک‘ کی تعمیر پر مامور ہے ہیں۔۔۔ اَن تھک کوششوں نے پہاڑوں پر رستے بنائے جا چکے۔

اب سمندر کے ررمیان تیز رفتار شاہ راہوں کا قیام ناقابل عمل تصور نہیں، بلکہ تخلیقی مراحل میں ہے۔ آپ کی اور آپ کے نسلوں کی حفاظت کے لیے ’ویکسین‘ کی تیاری کی رفتار روشنی کی رفتار سے مقابلہ کر رہی ہے۔

جب بھی ہمارے جسم میں کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے، چاہے یہ فطری ہو یا غیر فطری، قدرتی نعمت یعنی مدافعتی نظام ازخود کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر عجلت میں یا خوف میں ہم بلا ضرورت اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور مہنگی ترین دوائیوں کے بدلے اپنے یا  اپنے پیاروں کے لیے تسلی خریدتے ہیں، جب کہ قدرتی مدافعتی نظام کی نعمت آپ کو صحت مند کر دیتی ہے اور ہم یہ سہرا طبیب یا دوائی کے سر باندھتے ہیں۔ شکر ہے کہ قدرتی مدافعتی نظام کے سینے میں دل نہیں ہوتا، نہ اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ورنہ پھول بھی آپ کی آنکھیں پہچانتے ہیں۔

ایک سنجیدہ پریشانی ہے اور وہ یہ کہ ہم جسم میں ڈالی جانے والی یا انڈیلی جانے والی ہر کیمیائی یا حیاتیاتی ادویات کو اپنا دوست  گردانتے ہیں، لیکن جس طرح پیٹرول گاڑی کے لیے نعمت اور گھر کے لیے خطرہ ہوتا ہے اسی طرح ادویات کا خطرہ ہم بخوشی مول لیتے ہیں۔ ہمارا حادثہ دانش مندوں کی خود سری اور نااہلیت ہے۔ اخلاقی اور مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ کھوکھلے اور مغرور پیشہ وروں کی بہتات کی افزائش دن دگنی رات چوگنی ترقی پر گام زَن ہے اور یہی ہمارا اصل امتحان ہے۔

سوچنے کی ہم دعوت دیتے ہیں اور دعوت سماج کے نقار خانے میں بازاری شور میں دب جاتی ہے۔ جہاں گردے خریدے جاتے ہوں، نشستیں بیچی جاتی ہوں، دوسروں کے لکھے عید کے پیغام آگے بڑھائے جاتے ہوں، پیسوں کے عوض اپنے بزرگوں کی خدمت کروائی جاتی ہو، جھوٹوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوں، وہاں اس آلودگی میں انسانی اخلاق کی پرورش، انسانیت کا ظہور سیلاب کے آگے بند باندھنے کے مترادف ضرور ہے، مگر باندھنے کی کوشش کرنے والا تاریخ کا عظیم دوست ہے۔ ہر تاریخ پڑھی نہیں جاتی، لیکن کرہ ارض میں اس کی موجودگی اپنا نشان اور اپنا پتا رکھتی ہے۔

چلیں آج گاڑی کو تھوڑا سا موڑتے ہیں۔۔۔ ’کوویڈ 19‘ کی ’ویکسین‘ کی دوڑ اب جیتنے کی امنگ پیدا کر رہی ہے۔ سائنس تو جذبات سے عاری ہوتی ہے، لیکن تصورات جذبات کے قیدی ہوتے ہیں اور یہی تصور سائنس کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ عجیب گھن چکر ہے۔ دوڑ میں کبھی کوئی حاوی ہوتا ہے اور کبھی کوئی زخمی، بہر کیف فائدہ ہو یا نقصان، سولی پر انسان اور سماج ہی رہتا ہے۔ مضبوط گواہی اور کمزور شواہد دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن ’ویکسین‘ کا اثر ناپنے کے لیے ہمیں تمیز کرنا پڑے گا۔ ’ویکسین‘ کام کر رہی ہے یا قدرتی نظام۔۔۔؟ یہ ہمیں معلوم کرنا پڑے گا، مہلک وائرس سے رضاکاروں کا بغل گیر ہونا اثر انگیزی ناپنے کے لیے لازمی ہے۔

رضاکاروں کی منشا اور خوش دلی منشا کے بغیر مہلک وائرس سے ملاقات اخلاقی راہ میں بڑا پتھر ہے۔ خدا نخواستہ جسم میں کوئی اندوہ ناک رد عمل رونما ہو تو حفاظت کے لیے، بحالی کے لیے بھرپور تیاری سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ ’ویکسین‘ کی تیاری میں سست روی نہ کریں، مگر جلد بازی میں سیاسی محرکات کو جگہ دینا ناقابل تلافی زخم پہنچا سکتا ہے۔ قدرتی نظام سے ہمارا مقابلہ ہے، فطری ردعمل کو ہم آج بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس جسم کو ہم مرمت کرنا چاہتے ہیں اس جسم کے خالق کو ہم نے دیکھا بھی نہیں۔ ہم خطرے مول لیتے ہیں اپنی امیدوں کے ساتھ۔

عزیزوں سیلاب کے تلاطم سے آسمان کا کچھ لینا دینا نہیں، چاند کی روشنی سے آم کے درخت کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ رات گزر جاتی ہے، دن سمٹ جاتا ہے یہ ایک کردار ہی ہے، جو آدمی کو انسان اور انسان کو انسانیت سکھانے کے جتن کرتی ہے۔ زور ٹوٹ چکا، مٹی کی خوش بو ابھر چکی، أنے والی بہار کا نقارہ بج چکا، آؤ اب کل کے خزاں کی ’تیاری‘ کریں۔

 

The post عجلت میں کشتی نہ اتاریں ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

نسل پرست ’وائرس‘ بھی سر گرم

$
0
0

کرہ ارض اس وقت اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے آزمائشی سے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف بے رحم ’کورونا‘ وائرس انسانوں کو کسی رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے نشانہ بنا رہا ہے، تو دوسری جانب طاقت کے گھمنڈ اور اجلی رنگت کے زعم میں عصبیت چلتے پھرتے انساں نما وائرس اپنے زہر اور نفرت سے صرف نسل، زبان، رنگت اور قومیت کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کا خون کر رہے ہیں۔ دونوں کا طریقہ کار ایک سا ہی تو ہے۔

’کورونا‘ انسان پر پہلا وار گلے پر کرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں کو تباہ کر کے ایک ایک سانس کے لیے انسان کو تڑپانے لگتا ہے، یہاں تک کے سانس کی آس میں وہ انسان موت کی ابدی نیند سو جاتا ہے۔

گذشتہ دنوں امریکا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی درد ناک موت نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، 46 سالہ جارج فلائیڈ  اپنی رنگت کی وجہ سے منہ کے اجلے اور مَن کے کالوں کی سیاہ کاری کا شکار ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے پر اترانے والا انسان ابھی تک دور جہالت سے باہر نہیں آیا، یہ 21 ویں صدی نہیں ہے بلکہ شاید ابھی پتھر کے زمانے کا دور جاری ہے۔

سفید فام پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کو زمین پر لٹایا، ہاتھ پشت پر باندھے اور غیر مسلح ’’ملزم‘‘ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا اور اسے پوری طاقت سے دباتا رہا، یہاں تک کہ جارج فلائیڈ کی سانس کی نالی بھینچنے لگی اور وہ نیم مردہ آواز میں پکارتا رہا ’میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔ میرا سانس اکھڑ رہا ہے۔۔۔!‘ لیکن اس کی آہ وبکا پولیس افسر کے آگے بے سود گئی۔ جارج زندگی کی الجھنوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگیا اور پولیس افسر گرفتار۔

جارج فلائیڈ کی بے رحمانہ موت پر امریکا میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، جسے صدر تڑمپ کے غیر محتاط بیان اور غیر ذمہ دارانہ بیان نے پرتشدد بنا دیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ سب شاید دانستہ کیا ہو، کیوں کہ آج کل ان کے مطمع نظر رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں جس میں وہ سفید فاموں اور کٹر امریکیوں کے ووٹرز کی ہمدردی حاصل کر کے ایک بار پھر دنیا کے سب سے طاقت وَر ملک کا سربراہ بننا چاہتے ہیں۔

جارج فلائیڈ کے گردن پر گھٹنا رکھ کر ان کا دم گھونٹنے والے پولیس افسر کی نظیر امریکی پولیس کے علاوہ اگر کہیں اور ملتی ہے تو وہ ہے آج کا ہلاکت خیز ’کورونا۔‘ یہ وائرس بھی اپنے شکار کے گلے اور پھر پھیپھڑے پر حملہ آور ہو کر نظام تنفس کو ناکارہ بنا دیتا ہے اور پھر مریض کے سانس لینے میں دشواریاں بڑھنے لگتی ہیں اور انتہائی صورت میں مریض سانس بالکل ہی نہیں لے پاتا۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور بعض صورتوں میں مریض کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

کورونا وائرس امریکی پولیس کی طرح سفاک تو ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم نسل پرست ہرگز نہیں۔ ’کورونا‘ کا شکار احتیاط نہ برتنے والے ہوتے ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل یا قومیت سے ہو۔ گو کہ عظیم جمہوریت برطانیہ نے ’کورونا‘ کا اصل ٹارگٹ جنوبی ایشیائی باشندوں کو بتایا، لیکن بعد میں آنے والے اعداد وشمار سے اس ’متعصب‘ اور ’نسل پرستانہ‘ سوچ کی نفی ہوگئی۔ برطانوی شاہی خاندان کی متوازن، خوش حال اور رکھ رکھاؤ سے بھرپور زندگی بھی انہیں کورونا وائرس سے نہ بچا سکی تھی۔

بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار ویسے ہی مسلمانوں کے خلاف کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ’کورونا‘ وبا کے دوران بھی حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آئی اور بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم پھر بے نقاب ہوا۔ ہوا یوں کہ جس وقت بھارت میں فوری لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اس دوران تبلیغی جماعت کا اجتماع جاری تھا۔ لاک ڈاؤن میں ذرایع نقل و حمل کو اچانک بند کرنے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اپنے شہروں کو واپس جاتے ہوئے بدترین مشکلات کا شکار ہوئی اور بہت سی اپنی منزلوں کو نہ پہنچ سکی، جنہیں نظام الدین کے مرکز میں ٹھیرایا گیا۔ ان میں سے کچھ افراد کا ’کورونا‘ ٹیسٹ مثبت آگیا۔

یوں ناقص کارکردگی سے ملک کی معیشت کا بھٹا بٹھانے والی مودی سرکار کو مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع ہاتھ لگ گیا اور ہر جگہ یہ بات پھیلا دی گئی کہ تبلیغی اجتماع میں کچھ غیر ملکی بھی شریک تھے اور انہی سے اجتماع کے حاضرین میں کورونا وائرس منتقل ہوا۔ اس پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے لیے نفرت میں اضافہ ہوا اور شدت پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ مسلمانوں کو جان کا خطرہ کورونا سے نہیں، بلکہ متعصب حکومت اور انتہا پسند ہندوؤں سے ہونے لگا۔ یہاں بھی تعصب اور نفرت کا وائرس کورونا وائرس سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت اور بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث معصوم اور نہتے کشمیریوں کی زندگی دُہرے عذاب میں مبتلا ہوگئی  ہے۔ ایک طرف کئی علاقوں میں تاحال کرفیو نافذ ہے، تو دوسری جانب آئے دن نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ پوری وادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ’کورونا‘ کے دوران بھی انسانی حقوق معطل ہیں۔ علاج معالجے کے لیے بھی لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد ہے۔ کورونا کے مریض علاج کی سہولتیں اور دوائیاں نہ ملنے پر گھروں میں ہی سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کی ایسی  مثال مقبوضہ فلسطین کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔

اسرائیل یوں تو کورونا کے خلاف ’ویکسین‘ کی تیاری میں مصروف ہے اور دنیا کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے طب کی دنیا میں نت نئے دعوے بھی کرتا رہتا ہے، لیکن  فلسطین میں اسرائیل کے عزائم میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ الٹا وزیراعظم نیتن یاہو نے مزید یہودی آبادکاروں کو بسانا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی فلسطینیوں پر زمین تنگ تھی، لیکن اب بالخصوص غزہ میں سخت سیکیورٹی کے باعث کورونا کے مریضوں کو بھی سخت سیکیورٹی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صحت اور علاج معالجہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے، لیکن کشمیریوں کی طرح فسلطینی بھی اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ کورونا نے جہاں دیگر عالمی راہ نماؤں کو بے نقاب کیا ہے، وہیں جارحیت پسند اسرائیل کی پول بھی کھول دی ہے۔

میانمار میں برمی فوج نے تین سال قبل روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی  میں ہلاکو خان کی بربریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ریاست کی سرپرستی اور فوج کی پشت پناہی کے ساتھ انتہا پسند بدھ متوں نے مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ نوجوانوں کا بے دردی سے قتل عام ہوا، جس پر سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلادیش ہجرت کرگئے اور پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

’کورونا‘ کے بعد بھارت کی طرح میانمار میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں کمی کے بہ جائے اضافہ ہوگیا ہے، وہاں مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پہلے ہی پابندی ہے اور روہنگیا اقلیت کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ روہنگیا سے تعلق رکھنے والے ’کورونا‘ کے مریضوں کو اسپتالوں میں بھی داخل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر ان کی جان بودھ مت کے انتہا پسند اور جابر فوج سے بچ بھی جائے، تو بے چارے اس ہلاکت خیز کورونا سے خود کو کیسے بچائیں۔

برمی فوج کے مظالم سے بچ کر بنگلادیش کے کیمپوں میں پناہ لینے والے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کے دوران بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔ بارشوں کے بعد پھوٹنے والی متعدی بیماریوں کے بعد اب ’کورونا‘ کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ بھلا پناہ گزین کیمپوں میں بھی کوئی سماجی دوری برقرار رکھ سکتا ہے؟ اب جنہیں فاقوں کا سامنا ہو وہ ’ایس اوپیز‘ کی عیاشی کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ جسم ننگے ہوں، تو منہ ڈھانپنے کو ماسک کہاں سے میسر آئے گا۔۔۔!

کچھ پناہ گزینوں نے جیسے تیسے دوسرے ممالک جانے کی کوشش بھی کی تو بیچ سمندر میں پھنس گئے۔ ’کورونا‘ کے باعث جہازوں کی آمد رفت کم تھی اس لیے کوئی مدد کو نہیں آسکا اور کشتی دو ماہ تک منجدھار میں رہی۔ جو مرتا جاتا زندہ بچ جانے والے اس کی لاش سمندر بُرد کر دیتے۔ ایسے دو واقعات میں 200 سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

شام، یمن اور عراق میں کورونا وبا کے ابتدائی دور میں تو جھڑپوں کا سلسلہ تھم گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ سے ایک بار پھر پر تشدد اور جان لیوا کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جان لیوا تو کورونا وائرس بھی ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ان ممالک کے بڑے شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں، اسپتالوں تک کو فضائی بم باری میں تباہ کر کے اپنی موت آپ کا سامان کیا گیا۔ ٹوٹے پھوٹے اسپتال، کمزور نظام صحت اور حالت جنگ کے باعث ’کورونا‘ سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں۔

جنگ زدہ ممالک اور علاقوں میں کورونا ٹیسٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے، جو کہ خطرناک ہے۔ جنگ زدہ ممالک اور پناہ گزین کیمپوں میں صحت کی سہولتوں بالخصوص کورونا سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، غیر سرکاری تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جنگ بندی کے لیے عالمی طاقتوں پر دباؤ ڈالیں۔ جنگ بندی ہو جاتی ہے اور مسائل و اختلافات کا حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے، تو پناہ گزین کیمپوں میں موجود لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ انفرا اسٹریکچر بحال ہوگا اور اسپتال دوبارہ سے تعمیر ہوں گے۔

گزشتہ برس عیسائیوں کے مذہبی تہوار ’ایسٹر‘ کے موقع پر سری لنکا کے تین گرجا گھروں اور تیں ہوٹلوں پر خودکُش حملے کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 35 غیرملکیوں سمیت 300 سے زائد عیسائی ہلاک ہو گئے تھے۔ خودکُش حملہ آوروں کا تعلق قومی توحید جماعت سے تھا۔ اس واقعے کے بعد سے سری لنکا میں مسلمانوں کے جان و مال اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، تاہم اب ’کورونا‘ کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ’کورونا‘ سے زندگی کی بازی ہارنے والے مسلمان مریضوں کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کے بہ جائے انتظامیہ انہیں نذر آتش کر رہی ہے۔ گو سری لنکا کی حکومت نے کورونا میتیوں کو دفنانے کے بہ جائے جلانے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد صرف مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

’کورونا‘ کے ساتھ انسانیت کو نسل پرستی، تعصب، جنونیت اور قومی تفاخر جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ ’کورونا‘ کی وبا تو گزشتہ برس آئی اور امید ہے کہ جلد ہی اس کا علاج بھی دریافت ہو جائے گا، لیکن جن عالمی اخلاقی بیماریوں کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے اس کوئی علاج چارہ گر ہے کہ نہیں۔۔۔

ایک طرف تو مندرجہ بالا صورت حال ہے، تو دوسری جانب سائنس دان کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں جتے ہوئے ہیں۔ تحقیق اور دوا کی تیاری کے بعد اب انسانوں پر ٹرائل جاری ہیں۔ آج نہیں تو کل ’ویکسین‘ کی دست یابی کے بعد اس وبا پر قابو پالیا جائے گا اور پھر سے زندگی رواں دواں ہو جائے گی، تاہم اس کے لیے مزید ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور رواں برس کے آخر میں ہی سائسن دان کوئی خوش خبری سنا دیں۔ اس حوالے سے چین نے اپنی فوج پر ایک ’ویکسین‘ کی ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ’ویکسین‘ چینی فوج نے ایک بائیوٹیک کمپنی کی معاونت سے تیار کی ہے۔

کورونا کی ویکسین تو بن ہی جائے گی، لیکن کیا نسل پرستی، تعصب اور مذہبی جنونیت کے خلاف بھی کوئی ویکسین کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ کورونا فری دنیا سے زیادہ ایک پُر امن دنیا کی ضرورت ہے، جہاں چہرے کی رنگت نہیں دل کے اجلے پن کو دیکھا جائے۔ جہاں بارود کی بْو نہیں، پھولوں کی خوش بو ہو۔ گرج دار طیارے بم باری کرنے کے بہ جائے خوراک تقسیم کرتے ہوں اور جہاں مذہبی جنونیت اور قوم پرستی نہیں احترام انسانیت ہو۔ دنیا کو ’’رواداری کی ویکسین‘‘ کی ضرورت ہے اور یہ ’ویکسین‘ کوئی سائنس دان یا فارمسٹ نہیں، بلکہ میں نے اور آپ نے بنانی ہے۔  یہ ’ویکسین‘ کسی لیبارٹری نہیں، بلکہ ہماری تعلیمی اداروں میں تیار ہوگی۔

saneeq90@gmail.com

The post نسل پرست ’وائرس‘ بھی سر گرم appeared first on ایکسپریس اردو.

جے آئی ٹیزپرسیاست ملک وقوم کے مفاد میں نہیں

$
0
0

کراچی:  کورونا وائرس کے پھیلاؤ، ٹڈی دل کے حملوں اور کراچی میں ہونے والی بدترین لوڈشیڈنگ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس وقت ملک کی دو سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست عدالت  کے حکم پر منظرعام پر لائی جانے والی تین جے آئی ٹیز کے گرد گھومنا شروع ہوگئی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جے آئی ٹیزتوتین سامنے آئی ہیں، لیکن اس وقت سیاست کا محور لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر جان بلوچ کی رپورٹ بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی زیدی کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ ان کے پاس موجود رپورٹ سے مختلف ہے اور اس رپورٹ میں دانستہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

علی زیدی نے عزیر بلوچ کے قریبی ساتھی حبیب جان بلوچ کی ایک وڈیو بھی شیئر کی ہے ،جس میں وہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی اس ’جے آئی ٹی سیاست‘ پر پاکستان پیپلزپارٹی نے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت معاشی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے ڈرامے کرتی ہے، عمران خان جمہوریت اور معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت ہے۔

عمران خان کرپشن کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں،عوام کوریلیف نہ دیا گیا تو حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے اور گھسیٹ کر نااہلوں کو باہر نکالیں گے۔ ہم کو جے آئی ٹیز سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ ادھر وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کا علی زیدی کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی ،گورنر سندھ عمران اسماعیل اور علی زیدی کو امن کمیٹی کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا گیا، حبیب جان نے تصدیق کی پی ٹی آئی کے کراچی کے جلسے امن کمیٹی سے کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مبینہ کرپشن اور وفاقی وزیر علی زیدی نے جے آئی ٹیز کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مشکلات کے اس ماحول میں ملک کی سیاسی قیادت کا الزام برائے الزام کی سیاست کرنا افسوسناک  ہے۔ جے آئی ٹی کی حیثیت کا تعین کسی پریس کانفرنس یا ٹی وی انٹرویو میں نہیں ہوسکتا۔ اس کی حقیقت جاننے کا اصل پلیٹ فارم ملک کی عدالتیں ہیں۔اگر کسی کو اس جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراض ہے تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائے۔

لوڈ شیڈنگ سے نبرد آزما کراچی کے شہریوں کی مدد کے لیے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کراچی آئے اور گورنر سندھ کے ہمراہ مختلف اجلاسوں اور کے الیکٹر ک حکام سے ملاقاتوں کے بعد انہوں نے شہر قائد کے باسیوں کو خوشخبری سناتے ہوئے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔اسد عمر نے اس بات کا بھی عندیہ دیاکہ اگر حکومت کو ضرورت پڑی تو کے الیکٹرک کو ٹیک اوور بھی کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بن قاسم پاور پلانٹ میں اگر گیس پریشر کا مسئلہ ہے تو پلانٹ کو فرنس آئل پر چلایا جائے۔

وفاق روزانہ 4500 ٹن فرنس آئل دے رہا ہے اورمزید 500 ٹن بھی دے سکتا ہے۔ کے الیکٹرک کو مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کی کاوشوں پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر توانائی سندھ امتیاز احمد شیخ کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرا نے کے الیکٹرک کو بچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ وفاق نے 100 ملین کیوبک فیٹ گیس بڑھا کر کراچی کے عوام پر احسان نہیں کیا 190 کیونک فیٹ گیس کے الیکٹرک کو مل رہی تھی , کے الیکٹرک کو فرنس آئل نہ ملنے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا۔

جمعیت علماء اسلام ف کو اس وقت ملک کی سب سے متحرک سیاسی قوت کہا جاسکتا ہے جو اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ ہفتے کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات اور جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ سیاسی حلقے مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کی ملاقات کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ اس ملاقات سے آصف علی زرداری کی صحت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے۔

حکومت کی رٹ اور قیمتوں کو چیک کرنے کے لیے کوئی موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے شہرقائد میں دودھ فروشوں نے دودھ کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے ، دہی کی قیمت میں 20 روپے فی کلو جبکہ سبزیوں کی قیمتوں میں بھی من مانا اضافہ کردیا ہے۔اس ضمن میں ڈیری کیٹل فارمرز  کا کہنا تھا کہ حکومت بڑھتی ہوئی لاگت، خوراک کی افراط زر اور یوٹیلیٹی چارجز وغیرہ میں اضافے کا احساس نہیں کر رہی تھی۔ کمشنر کراچی نے دودھ فروشوں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کراچی سرکلر ریلوے بحال کر نے کے لئے کراچی انتظامیہ کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلہ میں کمشنر کراچی افتخار شالوانی کی زیر صدارت اجلاس منعقد کیا گیا جس میں کے سی آر منصوبہ پر عملدرآمد کے لئے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔فیصلہ کیا گیا کہ کراچی سٹی سے اورنگی تک کا آزمائشی ٹریک دو ماہ میں مکمل ہوگا پاکستان ریلویز نے تیاری شروع کر دی ہے۔اس پر آزمائشی ٹرین چلائی جائے گی۔کمشنر نے کہا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے.

The post جے آئی ٹیزپرسیاست ملک وقوم کے مفاد میں نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

اپوزیشن حکومت کے خلاف فیصلہ کُن معرکے کیلئے تیار

$
0
0

 اسلام آباد:  حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی میوزیکل چیئر گیم اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور حکمران جماعت کو ملک میں صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایوان بالا  سے آئین کے آرٹیکل 160 میں ترمیم کیلئے  دستوری ترمیمی بل 2020  پر بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

ادھر مولانا فضل الرحمن بھی چپ کا روزہ توڑ کر سیاسی میدان میں پھر سے متحرک ہوگئے ہیں انکی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے ہونیوالی ملاقات  اور اس ملاقات کے بعد بلاول بھٹو کی انتہائی سخت پریس کانفرنس نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم  کے ساتھ چھیڑا چھاڑ کی صورت میں اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کرکے پاکستان پیپلز پارٹی نے تو حکومت کو واضع پغام دیدیا ہے۔

حزب اختلاف کی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی پیر کو ایوان بالا میں پیش کئے جانیوالے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ترمیمی بل کی منظوری  میں بری طرح شکست سے دوچار کرکے حکومت مخالفت کا عملی نمونہ پیش کردیا ہے۔

پیر کو ایوان بالا میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے  وزیر مملکت سینٹر بیرسٹر محمد علی خان سیف نے دستوری ترمیمی بل 2020 پیش کرنے کی اجازت دینے کی تحریک پیش کی تو حکمران جاعت پاکستان تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بل کی حمایت کی جبکہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) سمیت دیگر جماعتوں نے  بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملک میں صدارتی نظام لانے کی سازش قرار دیا۔

اس معاملے پراپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینٹر رضا ربانی، مشاہد اللہ خان، شیری رحمن،مولناا عطاء الحق سمیت دیگر سینٹرز کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی سامراج اور پاکستان کی اشرافیہ مل کر پاکستان کے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور  عوام کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس وقت انڈر اٹیک ہے اور اٹھارویں ترمیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ کسی کی ہمت نہیں کہ ملک میں صدارتی نظام لے کر آئے یا اٹھارویں  ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی یجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ قوتوں کے درمیان معاملات  کی گتھی سلجھنے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید اُلجھتی جا رہی ہے۔

ادھر پولیس نے ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نے جاوید ہاشمی کی گرفتاری کے لیے اسپیشل ٹیم تشکیل دے دی ہے جبکہ مخدوم جاوید ہاشمی اپنے موقف پر اسی سختی سے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

جاوید ہاشمی کی اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی گفتگو میں انکا کہنا ہے کہ انہوں نینے کوئی غلط بات نہیں کی ، پانچ بار ملکی آئین کس نے توڑا ؟ آئین توڑنے والوں کے خلاف بات کرتا رہوں گا، مجھے جیلوں میں ڈال دیں لیکن ضمانت نہیں کرواؤں گا۔

مریم نواز کا جو حالیہ ٹوئٹ سامنے آیا ہے اس سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں کسی سمجھوتے پر تیار نہیں ۔  بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تین سال  کے بعد حکومت تبدیل ہونے کے امکانات ہیں جسکے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن مشکل  یہ ہے کہ متبادل اب انتخابات کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ انتظار کرنا اور حالات کو نئے انتخابات تک پہنچنے دینا ہی ن لیگ کے مفاد میں ہے۔ یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی ، معاشی و اقتصادی حالت پر عوام کی خاموشی نے پاکستان ماضی میں چلنے والی تمام سیاسی اور احتجاجی تحاریک پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی انسانی اقدار کی طرح حریت پسندی ،رواداری، انصاف پسندی اور سیاسی اعلیٰ شعور کی بھی موت واقع ہو چکی ہے۔

یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ پاکستان جو اتنی بڑی قیمت چکا کر امریکی  چنگل سے کسی حد تک نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اسے واپس امریکی  چنگل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان افغانستان پر امریکہ کو تعاون فراہم کر رہا ہے لیکن اس تعاون کے باوجود اب بھی امریکہ ہمیں کوئی اقتصادی یا دفاعی امدار دینے کو تیار نہیں ، بلکہ اُلٹا امریکہ کی طرف واجب الادا کروڑوں ڈالر کے ’’ اتحادی سپورٹ فنڈ کے بقایا جات بھی ادا نہیں کئے جا رہے۔

امریکہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی تخریب کاری کی مخالفت کرنے کو تیار نہیں بلکہ اب تو امریکہ ایسی بھارتی کاروائیوں کو اپنے احکامات کی تعمیل کے لئے پاکستان پر دباو ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرنے لگا ہے۔ ترکی سے گن شپ ہیلی کوپٹرز کی پاکستان کو فراہمی کا سودا صرف اس وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا کہ پاکستان کو دئیے جانے والے ہیلی کوپٹرز میں امریکی انجن نصب تھا جو پاکستان کی وجہ سے امریکہ نے دینے سے انکار کر دیا ، یوں یہ سودا بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں سیدھا اسی گڑھے کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو ہمارے دشمنوں نے ہمارے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ان حالات میں چین ،روس اور ترکی سمیت دوسرے ممالک کے عالمی  سطع پر اتحاد  کی نئی صف بندی اُمید کی ایک کرن بھی ہے اور اس سے عالمی سطع پر طاقت کے توازن میں بہتری کے امکانات ہیں۔ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ چین نے سیٹیلایٹ تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنٹاگون کی ڈیفیسن اینٹیلیجنس ایجنسی نے کانگرس کو بریفنگ دی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین مدار میں گردش کرنے والے سیٹیلایٹ تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں اگر امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو چینی فوج چند گھنٹو ں اندر امریکہ اور اسکے کے اتحادی ممالک کو سیٹیلائٹ کی سبقت سے محروم کر دے گا۔ یہ ڈویلپمنٹ عالمی سطع پر امریکہ کیلئے یقینی طور پر بڑا دھچکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ داخلی و خارجی سطع پر مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اطلاعات آر ہی ہیں کہ ایبولا وائرس کے بھی دوبارہ پھیلنے کا اندیشہ ہے جبکہ دنیا ابھی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ الرٹ کے مطابق کانگو میں ایبولا وائرس کے پچاس کنفرم کیس سامنے آ چکے ہیں اور اب تک بیس افراد اس کوفناک وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب کورونا وائرس سے ہونے والی معاشی ابتری اور مہنگائی نے دنیا میں بھوک و افلاس کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس نے تحریک انصاف کی حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اب تک 10 ہزار ارب کا قرضہ لے چکی ہے۔ قرضوں میں یہ 44 فیصد کا اضافہ ملک کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے۔

The post اپوزیشن حکومت کے خلاف فیصلہ کُن معرکے کیلئے تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

وفاقی یا صوبائی سطح پر اہم تبدیلی متوقع؟

$
0
0

 لاہور: ملکی سیاست میں گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے ’’مائنس ون‘‘ کی خبریں گرم ہیں ،ان غیر مصدقہ اطلاعات کو خود وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے مائنس ہونے کا ذکر کر کے تقویت دی۔

اس میں کوئی شک یا اختلاف نہیں کہ عمران خان نے 22 سال قبل جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تواس کا مقصد کرپشن کرکے خود کو دولت مند بنانا نہیں بلکہ اس ملک و قوم کیلئے کچھ کر دکھانا تھا لیکن جس طرح سے نمک کی کان میں جا کر سب نمک ہوجاتا ہے ویسے ہی سیاست کے اسرارو رموز اور مصلحتوں نے کپتان کو مختلف معاملات میں’مفاہمت‘ پر مجبور کردیا ہے۔

عمران خان پر ان کا کوئی سیاسی مخالف یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی مالی کرپشن کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک شفاف،ایماندار، ذہین اور عوام دوست ٹیم بنانے میں ناکام رہے۔

عمران خان کے لئے سب سے بھاری بوجھ ان کی خیبر پختونخواہ اورپنجاب حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا ہے جس نے گزشتہ دوبرس میں وزیر اعظم کودفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیا ہوا ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ کپتان نے بڑی تبدیلی کیلئے خود کو تیار کر لیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ تبدیلی وقوع پذیرہوتی ہے تو آیا وفاقی سطح پر آئے گی یا دونوں صوبوں میں سے کسی ایک میں دکھائی دے گی۔

2018 ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سردارعثمان بزدارکا انتخاب نہ صرف تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا سرپرائز تھا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دھچکا لگا تھا کہ ’’کنگ میکر‘‘ کی حیثیت رکھنے والے صوبہ پنجاب کے لئے عمران خان نے ایک بالکل نیا چہرہ جوکہ’’PTI FACE ‘‘ بھی نہیں ہے اس کا انتخاب کیوں کیا۔

عمران خان چند ماہ قبل تک ہر فورم پر سردار عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہے ہیں، پارلیمانی پارٹی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے تحفظات، اعتراضات اور خدشات ہوں یا پھر پی ٹی آئی تنظیم اپنے کارکنوں کے عدم اطمینان کے بارے میں آگاہ کرتی رہے اور چاہے میڈیا اور اپوزیشن مسلسل تنقید کرتے رہیں ،عمران خان ہمیشہ سردار عثمان بزدار کا بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کا یہی اعلان ہوتا تھا کہ جب تک پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تب تک سردار عثمان بزدار ہی وزیر اعلی ہوں گے۔

پنجاب ہمیشہ سے ایک مشکل میدان حکومت رہا ہے۔آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی حیثیت سے دیگر چھوٹے صوبے بھی اس پر زیادہ وسائل لینے کاا عتراض کرتے ہیں۔ جو لوگ سردار عثمان بزدار کا موازنہ میاں شہباز شریف کے ساتھ کرتے ہیں وہ نا انصافی کرتے ہیں اور شاید تجریاتی بے ایمانی بھی کر ڈالتے ہیں ۔

پنجاب میں سب سے زیادہ عرصہ حکومت شریف برادران نے کی ہے،میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا بطور وزیر اعلی پنجاب مجموعی عرصہ اقتدار 18 سال سے زیادہ ہے جس میں سے تقریبا ساڑھے 14 سال میاں شہباز شریف نے پنجاب پر حکمرانی کی ہے اور وہ بھی بادشاہی اختیارات کے ساتھ۔ شریف برادران نے افسر شاہی میں اپنے وفاداروں کی ایک سروس تشکیل دی جو آج بھی ان کے ساتھ وفاداری نبھاتی ہے۔

اس کے برعکس سردار عثمان بزدار کو نہ ماضی کا کوئی تجربہ اور نہ ہی افسر شاہی کی صف بندی کا اختیار۔لیکن اس کے باوجود وہ د و سال گزار گئے یہی ان کی ہمت ہے اور شاید اتنا ہی کپتان کی برداشت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے سردار عثمان بزدار دو سال قبل کے بزدار سے یکسر مختلف ہیں۔

انہوں نے اقتدار کی کانٹے دار راہ گذر پر چلتے اور زخم کھاتے ہوئے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم نے پوری تائید اور اختیار کے ساتھ میجر(ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا تو درحقیقت یہ پنجاب میں ایک متوازی انتظامی سیٹ اپ تھا ۔اس عرصہ میں سردار عثمان بزدار کو بالکل ہی ’’کارنر‘‘ کردیا گیا ۔ان کے قریب سمجھے جانے والے افسروں کو صرف تبدیل کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں صوبہ بدر کیا گیا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد سردار صاحب نے’’کم بیک‘‘ کیا اور آخر کار چیف سیکرٹری تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

اس مقصد کیلئے انہوں نے 20 سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی کے ’’پریشر گروپ‘‘ کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بدر کئے جانے والے افسروں میں سے متعدد پنجاب واپس آچکے ہیں اور اہم تعیناتیاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس تمام کے باوجود پنجاب حکومت کا سب سے اہم مسئلہ’’ گورننس‘‘ اور’’ڈیلیوری‘‘ ہے ۔36رکنی پنجاب کابینہ میں سے ماسوائے 10 یا 12 وزراء کے باقی کوئی وزیر کام نہیں کر رہا ،سرکاری محکموں کی رفتار تشویش ناک حد تک سست ہے جبکہ بیوروکریٹس وزیر اعلی کے اجلاسوں اور ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

ان عوامل کی وجہ سے حکومت کی بروقت فیصلہ سازی کی صلاحت شدید متاثر ہو چکی ہے اور اس کا براہ راست نقصان حکومت کو ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ہو رہا ہے۔پنجاب میں تبدیلی کی باتیں تو تقریبا پونے دو سال سے ہو رہی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ تبدیلی لانا اتنا بھی آسان نہیں ہوگا اس کے لئے تمام اتحادیوں کا رضامند ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق) طویل عرصہ سے شدید ناراض دکھائی دیتی ہے۔چوہدری پرویز الہی جیسا معتدل مزاج اور منجھا ہوا سیاستدان اگر ناراض ہے تو یقینی طور پر حکومت کی جانب سے کوئی خامی موجود ہے۔

چوہدری مونس الہی واضح کر چکے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بننے کے امیدوار نہیں ہیں۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور سردار عثمان بزدار میں اس دفعہ تعلقات بہت مضبوط ہیں اور علیم خان کوئی لابنگ نہیں کر رہے تاہم یہ الگ بات ہو گی اگر خود عمران خان اس بارے کوئی فیصلہ کر لیں۔ عبدالعلیم خان کو عمران خان کے سب سے خاص ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور کپتان ان کی تنظیمی اور وزارتی کارکردگی سے مطمئن بھی ہے۔

چوہدری محمد سرور کسی وقت میں وزیر اعلی بننے کی دوڑ میں شامل ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ گورنر بن کر خود کو فلاحی کاموں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی دلجوئی تک محدود کرچکے ہیں ۔ان کے اور وزیر اعلی کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہتے ہیں۔ وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کا نام طویل عرصہ سے وزیر اعلی کے طور پر سنائی دیتا رہتا ہے ۔وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کو عمران خان بہت پسند کرتے ہیںاور ان کی کارکردگی سے مطمئن بھی ہیں اس لئے بہت سے حلقے مخدوم صاحب کا نام بھی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

جس طرح سے عمران خان نے پہلے سرپرائز دیا اس مرتبہ بھی کپتان سرپرائز دے سکتا ہے خواہ یہ سرپرائز کوئی نیا چہرہ لانے کے بارے میں ہو یا پھر ایک مرتبہ پھر سردار عثمان بزدار پر مکمل اظہار اعتماد کی صورت میں ہو۔

The post وفاقی یا صوبائی سطح پر اہم تبدیلی متوقع؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


ہمارے رویّے لمحۂ فکر

$
0
0

ایثار و ہم دردی، تقریباً ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایثار عربی زبان کا مصدر ہے، جس کا مطلب ہے ترجیح دینا۔ ہم دردی اردو زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے خیر خواہی، یہ دونوں بہترین صفات ہیں۔ شاید ہی کوئی انسان ہو جو چاہتا ہو کہ اسے مومن کہا جائے مگر وہ ان صفات سے متصف نہ ہو۔ یہ دونوں اچھائیاں کسی بھی مسلمان بل کہ انسان کا خاصہ ہونی چاہییں۔ ہماری زندگی بہت ہی مختصر ہے، اس زندگی میں اگر ہم ہر مقام پر دوسروں کو ترجیح دیں، ہر قیمتی اثاثے میں دوسروں کو فوقیت دیں، تو یہ جہاں ہمارے لیے باعث سکون و اطمینان بن جائے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایثار اور ہم دردی کی جو مثالیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہیں، ان کی نظیر ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ چناں چہ جب بھی آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی مجلس میں کوئی پھل، دودھ یا کوئی کھانے کی چیز آتی تو اپنے ساتھیوں کو دیتے اور آخر میں خود تناول فرماتے۔ یہی وہ خوب صورت تعلیمات تھیں جن پر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہمیشہ عمل پیرا رہے۔

جب غزوۂ احد کا موقع آتا ہے اور مسلمانوں پر عارضی طور پر حالات تنگ ہوجاتے ہیں، تو ہر صحابیؓ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے لیے بہ طور ڈھال کا کام کروں۔ ہر ایک عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپؐ کی خاطر جان دینے کو تیار ہوتا تھا۔ واقعی آج ہم صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی تعلیمات کو بھلا چکے ہیں۔

ڈاکٹر اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا:

تھے تو آبا وہ تمھارے ہی ، مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے ، منتظرِ فردا ہو

ایک اور موقع پر جب جنگ ہورہی تھی، تو صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین شہید ہورہے تھے تو بہ یک وقت تین صحابہؓ پانی طلب کرنے لگے۔ پانی پلانے والا جب پہلے کے پاس گیا تو اس نے دوسرے صحابیؓ کی طرف اشارہ کیا، دوسرے نے تیسرے کی طرف جب کہ تیسرے نے پہلے کی طرف۔ پانی پلانے والا پہلے کی طرف لوٹا تو وہ دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ دوسرے کی طرف لوٹا تو وہ بھی دنیا سے جاچکے تھے۔ تیسرے کے پاس آیا تو وہ بھی داغ مفارقت دے چکے تھے۔ کیا ایثار تھا صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا !!!

آج ہماری حالت کیا ہے!

بازار سے لے کر مسجد جیسی مقدس جگہ تک، گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے بس اسٹاپ سے لے کر، دکان پر کھڑے اشیائے خور و نوش خریدنے تک، تندور کے سامنے لگی قطار سے ٹریفک کے رش تک، ہر جگہ ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے، یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ ایثار و ہم دردی تو دُور کی بات ہے، ہم تو ایسے مواقع پر گالم گلوچ کو بھی عار نہیں سمجھتے۔ بُرا بھلا تو ثانوی ہے ہم تو لڑائی کو تیار ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں، یہ ہماری وہ غلطیاں ہیں جن کے سبب ہم اخلاقی پستی کا شکار ہورہے ہیں۔

مصائب و مشکلات کے اس دور میں، ایثار و ہم دردی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دور حاضر میں ہر ایک جلدباز ہے اور ہر ایک بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ اس صورت میں آپ ایثار و ہم دردی کا رویہ اپناتے ہوئے دوسروں کو ترجیح دیں گے، تو معاملات بہت ہی آسان ہوجائیں گے۔ ان بے صبری کے اوقات میں، پیار و محبت کا رویہ اپنائیں گے تو ہر ایک آپ کا گرویدہ ہوجائے گا۔ ہم میں سے ہر ایک اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ چناں چہ ہر دفتر جانے والا گھر سے نکل کر دفتر پہنچنے تک، تاجر دوران تجارت، معلّم و متعلّم دوران درس و تدریس، اس صفت کو بہ آسانی اپنا سکتا ہے۔ ہم اخلاقی روایات کا خیال کرتے ہوئے ایک پُرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

The post ہمارے رویّے لمحۂ فکر appeared first on ایکسپریس اردو.

توکّل کا اصل مفہوم

$
0
0

توکّل، اﷲ کے پسندیدہ اور مقرب لوگوں کے مقامات میں سے ایک مقام ہے جس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اﷲ پاک سے تعلق کی بنیاد اﷲ کی وحدانیت پر ایمان لانے کے بعد سے ہی شروع ہو جاتی ہے لیکن ہماری عملی زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور قدم قدم پر ایمان ڈگمگاتا ہے۔

خاص طور پر اس وقت جب آپ کے حالات ناساز و کشیدہ ہوں ان سے مقابلہ کرنے کے لیے اﷲ پر بھروسا، اس کی جانب اپنے آپ کو سپرد کر دینا اور اس کی رضا میں راضی ہو جانا لازم ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ایمان ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ توکّل کا مفہوم و مطلب ’’کامل بھروسا کرنا‘‘ کے ہیں۔ ہر اچّھی بُری تقدیر کے لیے اﷲ پر کامل یقین رکھنے کا نام ہی توکّل ہے۔ اﷲ تعالیٰ متوکّل لوگوں کو اپنا دوست رکھتا ہے اور جو شخص اﷲ پر توکّل کرتا ہے اس کے واسطے بس اﷲ ہی کافی ہوجاتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (حالت کشف یا خواب میں) میرے سامنے امُتّوں کو (ان کے انبیائؑ کے ساتھ) پیش کیا گیا (یعنی ہر نبیؑ کو اس کی اُمّت کے ساتھ مجھے دکھایا گیا) پس (جب ان انبیائؑ نے اپنی امّتوں کے ساتھ گزرنا) شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک نبیؑ کے ساتھ صرف ایک شخص تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کرنے والا اس ایک شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوا) اور ایک نبیؑ ایسا تھا کہ اس کے ساتھ دو شخص تھے۔

ایک اور نبیؑ گزرا تو اس کی معیت میں پوری ایک جماعت تھی اور پھر ایک نبیؑ ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک بھی شخص نہیں تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کسی ایک شخص نے بھی نہیں کی) اس کے بعد میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا انبوہ دیکھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا، اتنی بڑی اُمّت دیکھ کر میں نے امید باندھی کہ یہ میری اُمّت ہو گی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت موسیٰؑ اور ان کی اُمّت کے لوگ ہیں کہ جو ان پر ایمان لائے تھے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ذرا آپؐ نظر اٹھا کر دیکھیے! میں نے جو نظر اٹھائی تو اپنے سامنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم بے پناہ ہے جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے (میں اتنا بڑا انبوہ دیکھ کر مطمئن ہوگیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپؐ اس انبوہ کو بس نہ سمجھیے، آپؐ اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھیں گے۔

ذرا ادھر ادھر یعنی دائیں بائیں بھی نظر گھما کر تو دیکھیے! چناں چہ میں نے دائیں بائیں نظر گھما کر دیکھا تو دونوں طرف بے پناہ ہجوم تھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپؐ کے سامنے اور دائیں بائیں آسمان کے کناروں تک جو انسانوں کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے یہ سب آپؐ کی امّت کے لوگ ہیں اور ان کے علاوہ (یعنی منجملہ ان لوگوں کے یا ان کے علاوہ مزید) ان کے آگے ستّر ہزار لوگ ایسے ہیں جو جنّت میں بغیر حساب کے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو بدفالی لیتے ہیں، نہ منتر پڑھواتے ہیں اور نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکّل کرتے ہیں۔

یہ سُن کر ایک صحابی عکاشہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو خدا پر توکّل کرتے ہیں اور بغیر حساب جنّت میں داخل ہوں گے۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائی: الٰہی! عکاشہ کو ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ آپؐ نے فرمایا: اس دعا کے سلسلے میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ (مفہوم: بخاری و مسلم)

آپؐ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے کہ اگر تم لوگ اﷲ تعالیٰ پر ایسے توکّل رکھو جیسا کہ توکّل رکھنے کا حق ہے تو حق تعالیٰ تمہیں اس طرح روزی پہنچائے گا جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے، جو صبح کو بھوکے ہوتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔

حضرت ابُویعقوب بصری ؒ نے کہا ہے کہ میں مکہ معظمہ میں دس دن تک بھوکا رہا، آخر بے تاب ہوکر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ زمین پر ایک شلجم پڑا ہے، جی میں آیا کہ اُٹھا لوں تو میرے دل سے آواز آئی دس دن سے بھوکا ہے آخر سڑا ہوا شلجم تجھے نصیب ہُوا! میں نے ہاتھ کھینچ لیا اور مسجد چلا آیا کچھ دیر میں ایک شخص آپہنچا اور پٹاری بھری روغنی ٹکیاں، شکر اور مغز بادام لاکر میرے سامنے رکھ دیے اور کہنے لگا کہ میں دریائی سفر میں تھا ناگہانی طوفان آیا میں نے منّت مانی کہ اگر میں سلامت بچا تو یہ چیزیں اس درویش کو دوں گا جس سے پہلے پہل ملاقات ہوگی۔

میں نے ہر ایک میں سے مٹھی بھر کی مقدار لے کر کہا کہ باقی تجھے بخش دیا پھر میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھ اﷲ تعالیٰ کیسا رازق مطلق ہے کہ دریا میں ہوا کو تیری روزی کے بندوبست کا حکم دیا، جب کہ تُو دوسری جگہ سے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔

روٹی سے بھوک کا علاج اور پانی سے پیاس کا علاج اور کہیں آگ لگ جائے تو پانی ڈالنے سے علاج کرنا ہی جائز ہے، ایسے علاجوں سے دست بردار ہونا توکّل نہیں بل کہ ناجائز ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے یہ قول و فعل ہیں کہ قول یوں ہیں فرمایا: اے اﷲ کے بندو! دوا کا استعمال کرو اور فرمایا کہ کوئی بیماری ایسی نہیں ہے کہ جس کی دوا نہ ہو سوائے بڑھاپے کے۔ اور آپ ﷺ کے افعال یہ ہیں کہ آپ ﷺ ہر رات کو سرمہ لگاتے، ہر مہینے پچھنے لگواتے، دوا کا استعمال فرماتے اور جب سر مبارک میں درد ہونے لگتا تو آپ ﷺ مہندی لگاتے اور جسم مبارک میں کہیں بھی زخم ہوجاتا تو وہاں مہندی رکھ لیتے۔

دواؤں میں بھی تو اﷲ تعالی ہی نے تو اثر رکھا ہے۔ جو بھی اسباب مہیا ہوں انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ کرنے والی ذات صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہیں لیکن ہمارا بھروسا صرف اور صرف اﷲ کی ذات پر ہی ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لا سکتا ہے اور اسباب کی موجودی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت ایوب ؑ کو شفا دے سکتے تھے مگر دنیا کے دارالاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب ؑ کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں اور دوسرا یہ کہ جو بھی اسباب مہیا ہوں ان کو اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کم زور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا وجود بھی ہو سکتا ہے۔

حضرت مریم ؑ کو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے وقت کھجور کے تنے کو ہلانے کا حکم دیا گیا۔ کجھور کا مضبوط تنا چند طاقت ور مرد حضرات بھی آسانی سے نہیں ہلا سکتے لیکن صنفِ نازک نے اس کم زور سبب کو اﷲ کے حکم سے اختیار کیا تو سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم ؑ کے لیے تازہ کھجوریں یعنی غذا کا انتظام ہوگیا۔

اسباب، ذرائع اور وسائل کا استعمال کرنا ہی حکم الہی اور منشائے شریعت بھی ہے۔ اﷲ پاک ہمیں بھی ایسے ہی توکل کی توفیق دے جیسا کہ اُس پر توکل کا حق ہے۔

The post توکّل کا اصل مفہوم appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اُوپر والا ہاتھ‘‘

$
0
0

افراد ہوں یا اقوام سب کی خواہش اُوپر والے یعنی دینے والے ہاتھ کی ہوتی ہے۔ یعنی عزت، کام یابی، غلبہ، حکومت اور عروج و ترقی کو سبھی پسند کرتے ہیں اور ذلّت و ناکامی اور زوال و غلامی سے ہر ایک کوسوں دُور بھاگتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنّت اور سیرتِ خاتمُ النبیین ﷺ کے سرچشمۂ ہدایت کو صرف انفرادی زندگی اور اپنے ذاتی نقطۂ نگاہ سے دیکھتے، پرکھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک ہماری اجتماعی و سماجی زندگی اور اس سے متعلقہ مسائل کا تعلق ہے تو اس باب میں ہم قرآنی و نبویؐ تعلیمات اور ان سے اخذ شدہ اصولوں کو اپنے اجتماعی نظام کی اساس نہیں بناتے۔ نتیجتاً مختلف النوع اور بے پناہ مسائل میں گھری انسانیت کے لیے ہمارا قومی و ملّی وجود باعث کشش ہونے کے بہ جائے محض ایک فاضل عنصر اور دھرتی کا بوجھ بن چکا ہے۔

اُوپر والے یعنی دینے والے ہاتھ کا اوّلین تقاضا عدل اور خود کفالت پر مبنی نظام کا قیام ہے اور پھر خود کفالت و اقتصادی خوش حالی کے بعد حاصل شدہ خداداد نعمتوں اور وسائل قدرت کو ایثار و احسان کے زرّیں آفاقی اصولوں پر دیگر انسانیت تک پہنچانا ہے۔

جو اقوام کم ہمّتی و سہل پسندی کا شکار ہوتی ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کی دستِ نگر یعنی ان سے مفادات سمیٹنے کی خواہش مند اور محتاج ہوتی ہیں جسے بلاشبہ نچلے ہاتھ سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح بعض قومیں سیاسی غلبہ و اقتصادی استحکام کے ہوتے ہوئے بھی انسان دوستی اور سخاوت و ایثار کی انسانی و آفاقی خصوصیات سے عاری ہوتی ہیں لہذا ان کا غلبہ و استحکام پائے دار اور دیرپا نہیں ہوتا اور اگر کسی فرد یا قوم کی خود کفالت و خوش حالی کی تہہ میں ظلم و استحصال کی روش بھی موجود ہو تو پھر ایسے جبری غلبے کو سام راجیت و استعماریت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام دونوں کے لیے ’’اوپر والا ہاتھ‘‘ سخاوت اور جُود و عطا کا مظہر ہے اور اس کے برعکس ’’نچلا ہاتھ‘‘ محتاجی و مسکینی اور غلامی و محکومی پر دلالت کرتا ہے۔

رحمت اللعالمین و خاتمُ النبین ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ’’اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘

سبحان اﷲ العظیم ! کیا ہی خوب حکیمانہ و بے مثال قاعدہ ہے جس کی طرف لسانِ نبوت و رسالتؐ اشارہ فرما رہی ہے۔ اگر آج کی مسلم اقوام اس فرمانِ ذی شان کی معنویت و حکمت کو جان جاتیں تو یقیناً آج دوسروں کی دست نگر اور مقروض ہرگز نہ ہوتیں۔

جب دربارِ رسالتؐ میں ایک اعرابی دستِ سوال دراز کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ اُس پر بھکاری پن کا لیبل لگانا پسند نہیں فرماتے بل کہ اُس سے دریافت فرماتے ہیں کہ اُس کے پاس کیا کچھ ہے؟ وہ جواباً ایک کمبل اور ایک پیالہ ذاتی اثاثہ ظاہر کرتا ہے تو رحمتِ دو عالم ﷺ وہ اشیاء منگوا کر ایک اور صحابی کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور اس رقم سے کلہاڑا منگوا کر خود اپنے دستِ مبارک سے اس میں دستہ نصب کرکے اسے جنگل کی راہ دکھاتے ہیں۔

سرسری طور پر دیکھنے سے تو یہ محض ایک فرد کے ساتھ رحمت اللعالمین ﷺ کا تربیتی و اخلاقی برتاؤ ہے لیکن اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ اُسوۂ رسالتؐ کے باب میں اس طرح کے واقعات اپنے اندر دراصل عمومی اصلاح و فلاح کا سامان سمیٹے ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی احادیث مبارکہ میں کئی ایک جوامع الکلام ہیں جن کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ انفرادی و خاندانی معاملات سے لے کر قومی و بین الاقوامی معاملات تک ہر دور اور ہر جگہ قابلِ عمل اور قابلِ تقلید ہوتی ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذکورہ بالا واقعہ ایک فرد سے متعلق ہونے کے باوجود نہ صرف دیگر افراد بل کہ قوموں کو بھی خودداری و خود کفالت اور محنت کی قدر و عظمت کا سبق دیتا ہے۔

اسی طرح ’’اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘ کے فرمانِ عالی شان کا جوامع الکلام میں سے ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے ؟ اِس جامع ترین حدیث پر کوئی فرد عمل پیرا ہو یا کوئی قوم اِسے اپنا منشور و دستور بنا لے تو تاریخ گواہ ہے کہ قدرت کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتی۔ جب حکومتی و ریاستی سطح پر خود داری و خود انحصاری کا چلن عام نہ ہو تو بالائی سے زیریں سطح تک افراد بھی اپنے قوّت بازو سے کام لینے میں کاہلی و کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ قومیں ہوں یا افراد دوسروں پر کسی پر انحصار کرنے والے ہمیشہ محتاج اور غلام ہی رہتے ہیں۔ جس نے بھی دستِ سوال دراز کیا تو پھر وہ دراز تر ہی ہوتا رہا اور جس نے قناعت اختیار کر لی اُس نے اپنے مسائل اور پریشانیوں میں کمی کرلی اسی لیے تو قناعت کو بھی دولت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ سوال کرنا یعنی مانگنا ذلت ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ رب اللعالمین نے تمام انسانیت کو احتیاج و ضرورت کی خاطر اپنی ذات کی طرف رجوع کرنے کی تاکید فرمائی ہے، مفہوم: ’’اے انسانو! تم سب اﷲ کے در کے فقیر ہو اور اﷲ غنی ہے۔‘‘ البتہ ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے بے پناہ خزانوں اور بے شمار نعمتوں تک تمام انسانوں کی رسائی کو عدل، مساوات، شراکت اور محنت کے اصولوں کی تنفیذ و تعمیل سے مشروط ٹھہرا دیا ہے۔ گویا اجتماعی سطح پر قانونِ الٰہی کی پیروی کیے بغیر نچلے ہاتھوں کو اوپر والے ہاتھوں سے بدلنا ناممکن ہے۔ تاریخ نے وہ سنہری دور بھی دیکھا ہے جب اوپر والے ہاتھ اِس قدر کثیر اور غالب تھے کہ نچلا ہاتھ ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا۔

سخاوت و ایثار کو اﷲ اور اس کے پیارے حبیب خاتمُ النبیین ﷺ کے ہاں نہایت درجے کی پسندیدگی حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے عرب کے مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کی بیٹی کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا کر واضح فرمایا کہ سخاوت اور مال و دولت کے لٹانے پر خدا و رسولؐ کی عنایت کا عالم کیا ہوگا!

نچلا ہاتھ بے شک ناپسندیدہ اور باعث ذلّت ہے لیکن جب معاشرے کے اندر افراد کی شکل میں بھک منگے زیادہ ہوں تو اس سے وہاں کے سرمایہ دار و مال دار طبقہ کا بخل، کنجوسی اور ظلم و استحصال نمایاں ہوتا ہے۔ اور جب دنیا میں مقروض، غریب اور بدحال قومیں اور ریاستیں اپنا نچلا ہاتھ پھیلا کر دُہائی دے رہی ہوں تو لامحالہ اس کی ذمے داری بالادست عالمی سرمایہ داریت پر عاید ہوتی ہے۔

بہ ہر حال آج اگر ہم نے انفرادی طور پر عزت و آزادی سے جینا ہے یا پھر اجتماعی و قومی سطح پر حریّت و عزّت اور غلبہ و اقتدار حاصل کرنا ہے توبہ ہر صورت نچلے یعنی لینے والے ہاتھ کو اُوپر یعنی دینے والے ہاتھ سے بدلنا ہوگا۔

جن قوموں نے بھی عدل و مساوات کے زریں اصولوں پر خودداری و خود انحصاری کی راہ اختیار کی اور پھر سخاوت و ایثار کے دریا بہائے، تاریخ شاہد ہے کہ عالمِ انسانیت کی راہ بری پھر انھی کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم کے مطابق بھی زمین میں حقیقی بقاء صرف اُسی کو ملے گی جو تمام انسانیت کے لیے نفع رساں ہوگا۔

بے شک اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔

The post ’’اُوپر والا ہاتھ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

براعظم ایشیا پہ سپرمیسی کی جنگ

$
0
0

29 جون 2020ء کو بھاری ہتھیاروں سے لیس چار دہشت گردوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج، کراچی پر حملہ کیا۔ تاہم وہاں تعینات محافظوں کی بہادری نے انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ دہشت گرد عمارت میں داخل ہوکر لوگوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے تاکہ اس عمل سے عالمی سطح پر ریاست پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو بدنام کیا جاسکے۔ مگر شہید سکیورٹی گارڈز اور پولیس افسر نے جان کا نذرانہ پیش کرکے دہشت گردی کا سنگین منصوبہ ناکام بنادیا۔یہ حملہ دراصل ایک نئی ’’گریٹ گیم‘‘ کا حصہ تھا جو جنوبی ایشیا میں جنم لے چکی۔ ماضی کی گریٹ گیم میں برطانیہ اور روس بنیادی کھلاڑی تھے۔ اس نئے کھیل میں بھارت اور چین مرکزی کردار ہیں۔ یہ دونوں خفیہ و عیاں چالیں چل رہے ہیں تاکہ حریف کو معاشی و سیاسی نقصان پہنچا کر اپنے مفاد پورے کیے جاسکیں۔ یہ گریٹ گیم پچھلے چند ماہ میں شدت اختیار کرچکی کیونکہ بھارت اور چین، دونوں کے حکومتی نظام المعروف بہ اسٹیبلشمنٹ کا تصادم بھی شروع ہوچکا۔

اس نئے کھیل سے جنم لینے والی بڑی تبدیلی یہ کہ ہمارا ازلی دشمن، بھارت کا حکمران طبقہ پاکستان میں سرگرم ریاست دشمن قوتوں کو ازسرنو اپنا دوست بناچکا۔ انہی میں علیحدگی بلوچ تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ان تنظیموں نے سادہ مزاج بلوچ عوام کو دھوکا دینے کی خاطر ’’قوم پسندی‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کا چوغہ اوڑھ رکھا ہے۔ حقیقت میں ان تنظیموں کا واحد مقصد بلوچستان میں اپنے آمر لیڈروں کا اقتدار دوبارہ قائم کرنا ہے۔ یہ لیڈر اور ان کی آل اولاد قیام پاکستان سے اپنی آمرانہ حاکمیت، پُر آسائش زندگی اور مراعات سے محروم ہوگئے تھے۔ انہیں اسی بات کا شدید دکھ ہے۔ چناں چہ اپنی آسائشیں اور آمرانہ حکومتیں واپس لینے کی خاطر وہ ریاست کے خلاف سیاسی و عسکری لحاظ سے سرگرم ہو گئے۔ پچھلے کئی برس سے انہیں بھارتی حکومت کی براہ راست مالی مدد حاصل ہے جبکہ افغانستان اور ایران میں بھی بعض طاقتورعناصر ان کے پشت پناہ ہیں۔

بھارتی حکومت مال دے

پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) نامی تنظیم کے فدائین مجید بریگیڈ نامی دستے نے کیا۔ اس تنظیم کا قائد ،حیر بیار مری ایک نواب کا بیٹا ہے۔ باپ ساری عمر پاکستان کے خلاف رہا۔ بیرون ملک جاکر وطن دشمن سرگرمیاں اپناتا رہا مگر اخیر میں ریاست ہی نے اسے پناہ دی۔ بیٹے نے مگر باپ کے عبرتناک انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بیرون ملک بیٹھا پاکستان دشمن طاقتوں خصوصاً بھارتی حکمرانوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔پچھلے سال حیر بیار نے بھارت کے مشہور ہفت روزہ، دی ویک کو ایک انٹرویو دیا تھا جو 2 نومبر 2019ء کو شائع ہوا۔ اس میں حیر بیار نے کہا تھا:

’’بھارت کو ہماری ہر ممکن مدد کرنا چاہیے کیونکہ اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ آزاد بلوچستان خطے میں بھارت کو جغرافیائی و مادی فوائد بہم پہنچائے گا۔ بلوچستان معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقہ ہے۔ بھارت کو یہ معدنیات اور ایندھن درکار ہیں تاکہ وہ چین اور دیگر ممالک سے مقابلہ کرسکے۔

چین اپنے مفاد کے لیے گوادر میں بندرگاہ بنارہا ہے۔ اس کی حکمت عملی کامیاب ہے کہ وہ مقامی قوتوں کو اپنا دوست بناتا ہے۔ بھارت اب مغربی ممالک کے قریب ہے اور مقامی دوستوں کو نظرانداز کرچکا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اگلے دو عشروں میں کیا ہوگا۔ چین اور پاکستان مگر مل کر عسکری و معاشی ترقی پر توجہ دے رہے ہیں۔ مجھے بھارت کی جانب سے ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ انہیں (بھارتی حکمرانوں کو) معلوم ہونا چاہیے کہ اگر بلوچستان آزاد نہیں ہوا تو خطے میں اس کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔ لہٰذا بلوچستان کی آزادی سے بھارت کا مستقبل بھی محفوظ ہو گا۔‘‘

درج بالا خیالات سے عیاں ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بھارت کا بھرپور ساتھ چاہتے ہیں۔ بھارتی حکمران طبقے نے اندرونی مسائل اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث کچھ عرصے سے نفرت و دہشت گری کے سرپرست بلوچ لیڈروں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اسی لیے ان کی بھرپور سعی تھی کہ بھارت دوبارہ ان کی سرپرستی کرے اور انہیں ما ل و اسلحہ دے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سے آشکارا ہے کہ ان کی خواہش کسی حد تک پوری ہوگئی۔ بنیادی وجہ مگر یہ نہیں کہ بھارتی حکمران طبقہ ان بلوچ لیڈروں کے مادی مفادات پورے کرنے کا خواہاں ہے۔ اصل وجہ یہ کہ مقامی پراکسیوں یا قوتوں کے ذریعے پاکستان میں چین اور ریاست کے مفادات کو زک پہنچائی جاسکے۔ یاد رہے، پاکستان سٹاک ایکسچینج کے چالیس فیصد حصص ایک چینی گروپ کے پاس ہیں۔

دہشت گردی کی نئی لہر

پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر حملے سے قبل اچانک 10 جون سے سندھ دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہوچکا تھا۔ تب اگلے دس روز تک دہشت گردوں نے رینجرز اور شہریوں پر بم حملے کیے۔ 19 جون کے حملے میں گھوٹکی میں دو رینجرز اور ایک شہری نے جام شہادت نوش کیا۔ دیگر حملوں میں بھی رینجرز کے جوان وشہری زخمی ہوئے۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کے یہ سبھی واقعات بھارتی حکمرانوں کی پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ ہیں جو نئے مرحلے میں داخل ہو چکی۔اس جنگ میں اسرائیل اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔

جب بھارت اور چین کا لداخ میں تصادم جاری تھا تو ایم کیو ایم کے سربراہ، الطاف حسین نے لندن سے ایک انوکھا بیان دیا۔ دعوی کیاٰ کہ چین سندھ کے عوام کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ موصوف نے چینی حکومت اور سی پیک منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اسی دوران جرمنی میں بیٹھا شفیع برفت بھی چین پر برسنے لگا۔ یہ علیحدگی پسند سندھی لیڈر اور جئے سندھ متحدہ محاذ کا سربراہ ہے۔ یہ بھی سمجھتا ہے کہ چین سندھ پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس نے الطاف حسین کو دعوت دی کہ چین و پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد میں انہیں شراکت داری کرلینی چاہیے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ریاست پاکستان کی مخالف مقامی تنظیموں کے قائدین اچانک متحرک ہوگئے۔ دراصل ان کے حقیقی آقا، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے انہیں حکم دیا کہ پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور چین کے اثاثہ جات کو نشانہ بنایا جائے تاکہ پاکستانی حکومت کے لیے نیا محاذ کھل سکے۔

را طویل عرصے سے ان قائدین کو مال و دولت دے کر انہیں پال رہی ہے۔ اسی رقم کے بل بوتے پر عوام کے یہ نام نہاد لیڈر یورپی ممالک میں عیش و آرام سے رہتے ہیں جبکہ ان کی تنظیموں کے تنخواہ دار اور کرائے کے فوجی اپنے قائدین کے مفادات پورے کرتے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ذاتی اغراض پورے کرنے کی خواہشات دل میں بسائے یہ جھوٹے اور مکار قائدین نجانے کب تک اپنے پیروکاروں کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ را کے احکامات پر ریاست مخالف سبھی تنظیموں نے اتحاد بنالیا ہے۔ اب وہ مل کر ریاست پر حملے کررہی ہیں تاکہ اسے جانی و مالی نقصان پہنچایا جاسکے۔ پاکستان اور اس کے معاشرے کو کمزور کرنا بھارتی حکمران طبقے کا دیرینہ خواب ہے۔

سندھ میں رینجرز اور عوام پر حملوں میں ایک غیر معروف علیحدگی پسند تنظیم، سندھو دیش لبریشن آرمی بھی ملوث ہے۔ یہ تنظیم شفیع برفت کے سابق ساتھی، اصغر شاہ نے 2010ء میں قائم کی تھی۔ جب سکیورٹی فورسز نے اس کے گرد گھیراؤ تنگ کیا تو وہ افغانستان فرار ہوگیا۔ اصغر شاہ اب سرزمین افغاناں سے پاکستانی ریاست کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے جو نہایت تشویشناک صورتحال ہے۔

اس سے آشکارا ہے کہ افغان حکمران طبقے کے بعض عناصر بھارت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کو موقع ملا کہ وہ افغانستان سے بھی پاکستان دشمن تنظیموں کی ہر ممکن مدد کرسکے۔پچھلے پانچ برس میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بڑی مہارت، جانفشانی اور عرق ریزی سے پاکستان میں را اور دیگر دشمن خفیہ ایجنسیوں کے چھپے مراکز (سلیپرز سیل) ملیامیٹ کرڈالے ۔ تاہم اب بھی کچھ پوشیدہ عناصر موجود ہیں جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر سماج دشمن سرگرمیاں انجام دینے لگتے ہیں۔ امید ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز پیہم کوششوں اور زیرکی سے بچے کھچے دہشت گردوں کو بھی ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

پراکسی جنگ نئے مرحلے میں

مقامی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں چینی تنصیبات کو نشانہ بنانا بھارتی حکمران طبقے کا پرانا وتیرہ ہے۔ اس کا آغاز سولہ سال قبل مئی 2004ء میں ہوا تھا جب ان کے کٹھ پتلی دہشت گردوں نے گوادر میں تین چینی انجینئر مار ڈالے۔ تب سے وقتاً فوقتاً پاکستان میں چین کے شہریوں، تنصیبات اور کاروباری مراکز پر بھارتی امداد سے پلنے والے دہشت گرد حملے کررہے ہیں۔ پاکستانی قوم کو یہ تلخ سچائی مدنظر رکھنا چاہیے کہ مستقبل میں ایسے مزید دہشت گردانہ حملے انجام پائیں گے۔ وجہ یہی کہ اپنے اپنے مفادات اور اثاثہ جات کو تحفظ دینے کی خاطر بھارت اور چین کے مابین ٹکراؤ بڑھ سکتا ہے۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر کئی عوامل اس تصادم کی وجہ بنے ہیں۔ اب فریقین ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر خفیہ و عیاں حربہ اپنائیں گے۔

دور حاضر میں دشمن کے دشمنوں کو اپنا دوست بناکر انہیں بطور پراکسی استعمال کرنا سکہ رائج الوقت بن چکا۔ بھارت کے حکمران طبقے میں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی پاکستان دشمن چوکڑی (چیف آف ڈیفنس سٹاف  روات، نریندر مودی، امیت شاہ اور اجیت دوال) اسی طریق جنگ کی حامی ہے تاکہ فریق مخالف پر متواتر حملے کرکے اسے آہستہ آہستہ کمزور کیا جاسکے۔

پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے۔ پھر بھارتی حکمران طبقے کی خودسری اور ہٹ دھرمی نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بھی دونوں کو یکجا کردیا ۔ لہٰذا بھارت پاکستان میں موجود مقامی تنظیموں کے ذریعے پاکستانی ریاست و معاشرے کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔گویا آنے والے برسوں میں پاکستانی قوم وقتاً فوقتاً دشمن کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتی رہے گی۔ امید ہے، پاکستانی حسب روایت ہمت و شجاعت سے اپنے دشمن، بھارتی حکمران طبقے کے سبھی حملے خاک میں ملادیں گے اور اپنی سکیورٹی فورسز کے پشتی بان بنیں رہیں گے۔

حیرت انگیز بات یہ کہ محض پانچ سال قبل تک براعظم ایشیا کی دونوں بڑی عسکری معاشی قوتوں کے مابین تعلقات بظاہر خوشگوار تھے۔ آپس میں تجارت بڑھ رہی تھی۔ سینکڑوں چینی کمپنیاں بھارت آکر کاروبار کرنے لگیں اور ان کا بزنس چمک اٹھا تھا۔ تعلقات میں بڑھتا جوش و خروش دیکھ کر ہی بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی اس رجحان پر اظہار خیال کرنا پڑا۔جون 2017ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سینٹ پیٹرز برگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں شرکت کرنے روس پہنچا ۔یہ روسی کاروباری شخصیات کی سالانہ کانفرنس ہے جس میں دنیا بھر سے صدور اور وزرائے اعظم بھی شرکت کرتے ہیں۔ مودی نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخرسے کہا:

’’یہ سچ ہے کہ بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ لیکن پچھلے چالیس برس سے ان کی وجہ سے ایک گولی بھی نہیں۔‘‘

دو دن بعد چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان،ہوا جن ینگ معمول کی بریفنگ دے رہے تھے کہ ان سے بھارتی وزیراعظم کے جملوں پر رائے مانگی گئی۔ انہوں نے کہا ’’وزیراعظم مودی کے مثبت جملے نوٹ کر لیے گئے ہیں۔ ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘مگر چند روز بعد ڈوکلام کے علاقے میں بھارتی اور چینی افواج آمنے سامنے آ گئیں۔ اس علاقے میں بھارت‘ چین اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ چین کے مطابق یہ علاقہ اس کی ملکیت ہے۔ بھوٹان اسے اپنی مملکت میں شامل سمجھتا ہے ۔ جب چین نے ڈوکلام میں سڑک بنانی چاہی تو بھوٹان سے جنگی معاہدے کے سبب اسے روکنے کی خاطر بھارتی فوج وہاں پہنچ گئی۔ چین نے سڑک کی تعمیر روک دی تو یہ مجادلہ انجام کو پہنچا۔ اس ٹکراؤ میں ایک گولی نہیں چلی۔تین سال بعد ماہ مئی میں چین اور بھارت لداخ میں ٹکرائے۔ درست کہ اس بار بھی کوئی گولی نہیں چلی مگر یہ خونی ثابت ہوا۔ چینی فوجیوں نے بیس پچیس بھارتی فوجی مار ڈالے۔ چینی فوج کا بھی جانی نقصان ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مودی جی نے جس فخر سے چین بھارت دوستی اور قربت کا اظہار کیا تھا‘ آخر وہ چند ہی برس میں آئینے کی طرح کرچی کرچی کیسے ہو گیا؟ سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں تاریخ اور سیاسیات کے دالانوں میں گھومنا پڑے گا۔

تاریخ کے جھروکے

چین اور بھارت دنیا کی دوبڑی تہذیبوں کے امین بڑے ممالک ہیں۔ ان کے مابین تبتی سطح مرتفع کے عظیم پہاڑی سلسلوں‘ ہمالیہ‘ ہندوکش‘ قراقرام‘ پامیر‘ کونلون وغیرہ نے قدرتی دیوار بنا رکھی ہے۔ اسی لیے ماضی میں دونوں ممالک کے روابط محدود تھے۔تجارتی قافلے یا سیاح تو یہ بلند و بالا دیوار دروں سے پار کر لیتے مگر کسی حکمران کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ایک دوسرے پر لشکر کشی کر سکیں۔تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ 1221ہیں چنگیز خان جلال الدین خوارزم شاہ کا پیچھا کرتے کرتے ہندوستان پہنچا۔ مگر وہ دریائے سندھ عبور کرنے کی جرأت نہیں کر سکا ۔ تاہم چنگیزخان چین نہیں منگولیا کا حکمران تھا‘ اس لیے اسے چینی حملہ آور نہیں کہاجا سکتا ۔

انیسویں صدی میں انگریز نے اپنی عسکری طاقت اور چالوں کے باعث ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اسی زمانے میں ایشیائی مسالوں کی تجارت پر قابض ہونے کے لیے مختلف مغربی طاقتوں کے مابین جنگ جاری تھی۔ 1557ء میں چینی بادشاہ نے پانچ سو سکہ رائج الوقت کرائے پر اپنا جزیزہ‘ میکاؤ پرتگال کو لیز پر دیا ۔ انیسویں صدی میں فرانسیسی اس پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ تب برطانیہ پرتگال کا اتحادی تھا۔ اسی لیے پرتگالیوں نے انگریزوں سے عسکری مدد مانگی۔برطانوی بادشاہ نے ہندوستان کے علاقے بنگال کا کنٹرول سنبھالنے والی برطانوی تجارتی کمپنی ‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کو حکم دیا کہ وہ میکاؤ کی حفاظت کے لیے بحری فوج بھجوا دے۔ آٹھ سو ہندوستانی فوجی نو بحری جہازوں پر سوار ہو کر ستمبر 1808ء میں میکاؤ پہنچ گئے۔ اس ہندوستانی بحری فوج کا کمانڈر ایک انگریزریئر ایڈمرل ‘ ولیم اوبرائن ڈروری کو بنایا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ہندوستانی فوج نے سرزمین چین پر قدم دھرے۔

تب چین پر مانچو بادشاہ‘ جیاقنگ کی حکومت تھی۔ جب اسے علم ہوا کہ ہندوستانی فوج میکاؤ پر اتر گئی ہے تو اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے ہندوستانی سپاہیوں اور ان کے انگریز افسروں کو وحشی قرار دے کر مطالبہ کیا کہ وہ فوراً میکاؤ سے نکل جائیں۔ برطانوی چین سے ٹکراؤ نہیں چاہتے تھے ۔ اس لئے دسمبر 1808ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بحری جنگی جہاز ہندوستانی فوجیوں کو واپس بنگال‘ ہندوستان لے گئے۔پہلی افیون جنگ (ستمبر1839ء تا1842ء) کے دوران چینی اور ہندوستانی فوجیوں کا پہلا تصادم ہوا۔ اس جنگ کو جنم دینے میں بھی ہندوستان کا اہم کردار تھا۔ برطانوی تاجر ہندوستان میں بنی افیون ہی چینی شہروں میں بیچ کرزبردست منافع کمایا کرتے تھے۔ جب چینی حکومت نے افیون کی تجارت روکنا چاہی تو چین اور برطانیہ میں تصادم ہو گیا۔

انگریز مگر بہت عیار تھے۔ انہوں نے چین پر حملہ کیا تو برطانوی فوج کی آدھی نفری ہندوستانی فوجیوں پر مشتمل تھی۔ یہ ہندوستانی فوجی مدراس اور بنگال آرمی سے تعلق رکھتے تھے۔ یاد رہے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی خاطر تین افواج کھڑی کی تھیں: مدارس‘ بنگال اور بمبئی آرمی۔ ان تینوں میں عام فوجی ہندوستانی ہی ہوتے تاہم افسر انگریز بنائے جاتے۔پہلی افیون جنگ کے دوران ستمبر1841ء میں برطانوی فوج کا ایک بحری جہاز ‘ نربدا سمندری طوفان میں پھنس کر تباہ ہو گیا۔

اس پر اٹھارہ انگریز افسر اور دوسو اٹھاسی ہندوستانی فوجی سوار تھے۔ انگریز لائف بوٹس میں سوار ہو کر فرار ہو گئے اور اپنی ہندوستانی سپاہ کو ساحل پر تعینات چینی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔چینیوں نے تیر کر ساحل کی طرف آتے کئی ہندوستانی فوجی مار ڈالے۔133زندہ گرفتار ہوئے۔ انہیں قید کر لیا گیا اور دشمن سمجھ کر ان پر تشدد بھی ہوا۔ اگست 1842ء میں اکثر قیدی مار دیے گئے ۔چند قیدی ہی بچ سکے جنہیں جنگ بندی کے بعد انگریزوں کے حوالے کیا گیا۔

برطانوی فوج نے چین کے جن شہروں پر قبضہ کیا‘ وہاں بھی پہرے داری کی خاطر ہندوستانی فوجی تعینات ہوئے۔ یہ فوجی چینی عوام سے بھتا وصول کرتے تھے تاکہ ان کی جان و مال محفوظ رہے۔ یہ بھتا بڑے منظم طریقے سے لیا جاتا… جو چینی مطلوبہ رقم فراہم کر دیتا‘ اسے ایک سند (سرٹیفکیٹ) مل جاتا۔ گویا اب کوئی ہندوستانی اسے تنگ نہ کرتا۔ لیکن بعض ہندوستانی فوجی شراب کے نشے میں چینیوں کے گھروں پر دھاوا بول دیتے اور وہاں اودھم مچاتے۔چین کے شہروں میں غنڈہ گردی دکھانے کی وجہ سے چینی عوام انہیں ’’سیاہ شیطان‘‘ (Hei gui) کہنے لگے۔ عام چینی نفرت سے ان کا ذکر کرتے۔ ہندوستانیوں کے متعلق چینیوں کا خیال تھا کہ یہ لوگ چین میں آ کر آقا بن جاتے ہیں حالانکہ یہ اپنے ملک میں انگریزوں کے غلام ہیں۔(یاد رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تینوں افواج میں ہندو فوجیوں کی اکثریت تھی ۔ تب اس میں مسلم فوجی بہت کم تھے۔)

بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی فکر میں تبدیلی

غرض چینی عوام کی اکثریت ہندوستانیوں کو اچھا نہ سمجھتی ۔ اسی دوران 1842ء میں جموں کے ہندو ڈوگرا راجا نے آزاد لداخ ریاست پر قبضہ کرکے تبت پر حملہ کردیا۔ یہ کسی بھی ہندوستانی حکمران کا چین پر پہلا باقاعدہ حملہ تھا۔ تاہم ڈوگرا فوج چینیوں سے شکست کھاگئی۔ اس نے بہرحال لداخ پر قبضہ برقرار رکھا اور اسے ریاست جموں و کشمیر میں شامل کرلیا۔1962ء میں سرحدی تنازع پر چین اور بھارت کی پہلی جنگ ہوئی۔ اس میں بھارتی فوج کو عبرتناک شکست ملی۔ دونوں ممالک سرحدی تنازعات حل کرنے کی سعی کرتے رہے مگر ٹھوس کامیابی نہ پا سکے۔

تاہم معاشی مفادات انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئے۔ جب 2014ء میں نریندرمودی وزیراعظم بنا، تو بھارت چینی اشیا اور سروسز (خدمات) کی ایک بڑی مارکیٹ بن چکا تھا۔ ان کی باہمی تجارت 80 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ گو یہ چین کے حق میں تھی۔ بھارت چین سے 65 ارب ڈالر کا سامان منگواتا تھا اور صرف 15 ارب ڈالر کا اپنا مال ہی اسے فروخت کرپاتا۔

مودی کی آمد تک بھارتی حکمران طبقے کی سوچ اور نظریات میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوچکی تھی۔ جب بھارت وجود میں آیا تو وزیراعظم پنڈت نہرو سمیت اکثر کانگریسی رہنما سوشلسٹ ہونے کے باعث روس (یا سویت یونین) کی سمت جھکاؤ رکھتے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بھارت کا خوشحال اور ترقی پسند مستقبل روس کے ساتھ چلنے سے وابستہ ہے۔ مگر جب 1990ء میں روس زوال پذیر ہوا تو بھارتی حکمران طبقے نے اپنے آپ کو خلا میں پایا۔ تبھی اس میں موجود مغرب پسند گروں نے زیادہ اہمیت حاصل کرلی۔بھارت میں یہ اعجوبہ موجود تھا کہ گو حکومت روسی بلاک میں شامل تھی، مگر اس کے بہت سے سفارت کار، سرکاری افسر، دانشور، صحافی، صنعت کار وغیرہ مغربی یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے تھے۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی مغربی نظام تعلیم رائج تھا جسے انگریز آقا چھوڑ گئے تھے۔ اسی لیے بھارتی حکمران طبقے میں شامل ایک بڑا گروہ مغربی تعلیم اور تہذیب و تمدن کا پروردہ تھا۔ تاہم سرکاری پالیسیاں روس کی جانب جھکاؤ رکھتی تھیں۔ اسی واسطے وہ مغرب کو اپنا ملجا و ماوی نہیں بناسکا۔ لیکن سویت یونین (روس) کی ٹوٹ پھوٹ نے اس طبقے کو رفتہ رفتہ ابھرنے کا موقع عطا کردیا۔

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1990ء کے بعد بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مغربی طرز فکر پر مبنی معاشی و سیاسی پالیسیاں اختیار کرلیں۔ نیز وہ بتدریج امریکا، برطانیہ اور امریکی بلاک میں شامل دیگرممالک کے قریب ہوگئی۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے بھارت اور امریکا میں قربت بڑھی اور اگلے پندرہ برس میں انہوں نے معیشت و عسکریات سے متعلق کئی دوستانہ معاہدے کرلیے۔ اسی دوران معاشی و عسکری طور پر ابھرتی نئی عالمی قوت، چین امریکی حکمرانوں کی نظر میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ بن گئی۔

چین سے مقابلہ کرتے ہوئے امریکی حکمران طبقے نے بھارت کو اپنا ساتھی بنالیا۔ چناں چہ امریکا نے بھارتی معیشت و دفاع کو مضبوط بنانے کی خاطر مختلف اقدامات بھی کیے۔ مودی کی آمد کے بعد تو دونوں ممالک تیزی سے قریب آئے۔ وجہ یہ کہ مودی اینڈ کو کے جنگجویانہ، انتہا پسندانہ اور قوم پرستانہ نظریے انسان دوستی کی جانب راغب سوشلسٹ نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی لیے ہندو شاونیت کے علم برداروں نے امریکا کے قریب ہونا بہتر خیال کیا۔ پھر اس طرح وہ امریکا اورپاکستان میں دوری پیدا کرنے سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہزیمت دے کر اپنی تسکین بھی چاہتے تھے۔

دھوبی کا کتا،گھر کا نہ گھاٹ کا

امریکا سے قربت بڑھانے کے لیے ہی مودی حکومت اچانک جنوری 2015ء میں سیکرٹری خارجہ سجھاتا سنگھ کو ہٹا کر اس کی جگہ سبرانیم جے شنکر کو لے آئی۔ جے شنکر بھارتی حکمران طبقے میں امریکا سے تعلقات بڑھانے کے خواہش مند گروہ کا اہم رہنما ہے ۔ اس نے 2007ء میں دہلی کے تھنک ٹینک، انڈین فارن سروس انسٹیٹیوٹ کی شائع کردہ کتاب ’’انڈین فارن پالیسی، چیلنجز اینڈ اپورچونٹیز‘‘ میں ایک مضمون ’’انڈیا اینڈ یو ایس اے: نیو ڈائریکشن‘‘ میں لکھا کہ بھارت کو امریکا کے ساتھ مل کر چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔جے شنکر کی آمد سے بھارت اور امریکہ میں قربت مزید بڑھ گئی۔ جب قوم پرست امریکی صنعتکار، ڈونالڈٹرمپ 2017ء میں صدر بنا تو روابط میں مزید اضافہ ہواکیونکہ وہ بھارت سے ذاتی تجارتی مفاد بھی رکھتا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے بھارتی حکمرانوں کو متاثر کرنے کی خاطر مئی 2018ء میں امریکی افواج کی سب سے بڑی اور قدیم پیسفک کمانڈ کا نام بد ل کر انڈوپیسفک رکھ دیا۔

امریکا آج بھی عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر فائز ہے۔ وہ عسکری امور کی معلومات صرف ان ممالک سے شیئر کرتا ہے جن کے ساتھ یہ تین معاہدے کرلے:Logistics Exchange Memorandum of Agreement،Communications Compatibility and Security Agreement اورthe Basic Exchange and Cooperation Agreement for Geo-Spatial Cooperation۔بھارت اور امریکا پہلے دو معاہدے کرچکے، تیسرے کی خاطر گفت و شنید جاری ہے۔

تیسرا معاہدہ بھی تشکیل پایا تو بھارت لانگ رینج نیوی گیشن اور میزائل ٹارگٹنگ کے سلسلے میں امریکی عسکری سائنس و ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکے گا۔ یہ سہولت گنے چنے ممالک بشمول اسرائیل، آسٹریلیا اور برطانیہ کو حاصل ہے۔اسی دوران صدر شی جن پنگ کے بعد چین کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں بھی اہم تبدیلی نے جنم لیا۔ چین بین الاقوامی معاملات میں مفاہمتی پالیسی ترک کرکے اپنی قوت کا اظہار کرنے لگا۔ یوں بڑی قوتوں کے مابین ٹکراؤ کا خطرہ بڑھ گیا۔ اسی تصادم کا ایک مرحلہ پچھلے دنوں لداخ میں دیکھنے کو ملا جہاں چینی فوج نے ایک بار پھر بھارتی فوج کو ذلت آمیز شکست دی۔ اس ہار سے مودی جیسے متکبر حکمران کے پندار کو ٹھیس لگی۔ یقیناً اب وہ چین کو نقصان پہنچانے اور نیچا دکھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر گزرے گا۔

ماہرین سیاسیات کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات و حکمت عملی میں کوئی ملک دوسرے ملک کا سدابہار دوست نہیں ہوتا… ہر مملکت صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتی اور انہیں پورا کرنے کی سعی کرتی ہے۔اسی لیے دانشور ہر حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی ایک ملک پر اندھا اعتماد نہ کرے بلکہ دشمن ملکوں کے ساتھ بھی مفاہمت کا کوئی نہ کوئی در کھلا رکھے۔بعض بھارتی دانشوروں کا خیال ہے کہ مودی سرکار امریکا کی آغوش میں جا بیٹھی ہے۔ اس نے سارے انڈے امریکی ٹوکری میں رکھ دیئے۔

یہ عمدہ خارجہ پالیسی نہیں۔ امریکا اور چین کے مابین دراصل تجارتی مسائل کی وجہ سے ٹسل جاری ہے۔جب بھی یہ مسائل حل ہوئے،امریکا دوبارہ چین کی سمت جھک جائے گا۔ایسی صورت میں مودی سرکار پہ یہ مثل فٹ بیٹھے گی:’’دھوبی کا کتا،گھر کا نہ گھاٹ کا۔‘‘بھارتی حکمران روس کو اپنا دیرینہ دوست قرار دیتے ہیں۔مگر لداخ میں حالیہ جھڑپوں کے بعد روسی حکومت نے صاف کہہ دیا کہ بھارت اور چین مل جل کر مسائل طے کریں،ہم کچھ نہیں کر سکتے۔غرض یہ ممکن ہے کہ بھارتی حکومت کی امریکا نواز اور چین دشمن پالیسیاں اسے ایسے اندھے کنوئیں میں گرا دیں جس سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔

The post براعظم ایشیا پہ سپرمیسی کی جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک (Saim Almsuatafa Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احسن کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار20 جولائی 2020
حاکم نمبر6
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِخاص”یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: سوچ بچار اور پلاننگ کے لیے ایک مناسب دن۔
2نمبر والوں کے لیے: آپ کے اندر ایک نئی توانائی آپ کو میدانِ عمل میں ثابت قدم رکھے گی۔
3 نمبر والوں کے لیے: تلخی کا اندیشہ ہے، محتاط رہیں۔
4 نمبر والوں کے لیے: کچھ نیا شروع کرنے کے لیے ایک اچھا دن۔
5 نمبر والوں کے لیے: رشتوں اور مالی امور کے لیے ایک لکی دن۔
6 نمبر والوں کے لیے: فیملی اور گھر پر توجہ مرکوز رہے گی۔
7 نمبر والوں کے لیے: کچھ رشتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے۔
8 نمبر والوں کے لیے: سفر ہوسکتا ہے یا اہم رابطے ممکن ہیں۔
9 نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن ، خوشی سے بھرپور

منگل 21 جولائی 2020
حاکم نمبر5
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے۔
وردِخاص”یا بدیع العجائب یا اللہ” 14 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: ایک لکی دن ہوسکتا ہے، کئی طرح کی آسانیاں ہوں گی۔
2 نمبر والوں کے لیے: جذباتی کردینے والی کوئی کال آسکتی ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: ہمت نہ ہاریں، اور میدان میں ڈٹے رہیں۔
4 نمبر والوں کے لیے: مزاج میں تلخی نہ آنے دیں۔ صبر سے کام لیں۔
5 نمبر والوں کے لیے: کسی اعلٰی حکومتی شخص کا تعاون حاصل رہے گا۔
6 نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہونے کی امید ہے۔
7 نمبر والوں کے لیے: لمبی پلاننگ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
8 نمبر والوں کے لیے: مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔
9نمبر والوں کے لیے: رابطوں اور سفر کا عدد متحرک ہے۔

بدھ 22 جولائی 2020
حاکم نمبر2
صدقہ: زردرنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مفلس طالب علم کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص”یاسلام یا اللہ” 13 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: بڑوں کا تعاون حاصل ہوسکتا ہے، استاد اور مرشد مہربان۔
2 نمبر والوں کے لیے: کوئی آپ کا دل دُکھا سکتا ہے، کسی کے غلط رویے کو دل پر نہ لیں۔
3 نمبر والوں کے لیے: ہوسکتا ہے کوئی معاہدہ ہو یا کوئی آپ سے کام کرانے کا وعدہ کرے۔
4 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، خوشی مل سکتی ہے۔
5 نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، رشتوں سے خوشی ملے گی۔
6 نمبر والوں کے لیے: کاموں میں رکاوٹ آسکتی ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: ایک نئی ہمت اور توانائی آپ کو آپ کے کاموں میں کام یاب کردے گی۔
8 نمبر والوں کے لیے: کچھ امور خلاف توقع ہوسکتے ہیں، ایسا کام ہوسکتا ہے جس کی کوئی امید نہ رہی ہو۔
9 نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہونے کی توقع ہے، اچھا دن۔

جمعرات 23 جولائی 2020
حاکم نمبر1
صدقہ: کسی نیک شخص کا لباس یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِخاص ”یا ہادی یاودود یا اللہ” 21 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: آپ کے لیے ایک بہتر دن، کوئی سنیئرتعاون کرے گا۔
2 نمبر والوں کے لیے: مالی حوالے سے ایک دوست آپ کے کام آئے گا۔
3 نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل ہوسکتی ہے، محتاط رہیں۔
4 نمبر والوں کے لیے: سفر، رابطوں اور معاہدوں کے لیے ایک اہم دن۔
5 نمبر والوں کے لیے: کوئی پرانا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، خوشی لانے والا دن۔
6 نمبر والوں کے لیے: مراقبے اور روحانیت کے لیے ایک بہتر دن۔
7 نمبر والوں کے لیے: مستقل مزاجی کے بنا کام بگڑجائیں گے۔
8 نمبر والوں کے لیے: کوئی شخص آپ کے مزاج کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
9 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، حکومتی اداروں اور افراد کا تعاون رہے گا۔

جمعہ 24 جولائی 2020
حاکم نمبر5
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا۔
وردِخاص”یامعید یا معز یااللہ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: کوئی خوشی آپ کا دروازہ کھکھٹا سکتی ہے، اچھا دن۔
2 نمبر والوں کے لیے: کوئی خبر آپ کے لیے اہم ہوسکتی ہے، کوئی رابطہ ممکن ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: کاموں میں خواہ مخواہ تعطل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا، آگے بڑھنے کو راستے کھلیں گے۔
5 نمبر والوں کے لیے: زیادہ غوروفکر یا بولنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔
6 نمبر والوں کے لیے: دوستوں اور کچھ قریبی لوگوں کا تعاون رہے گا۔
7 نمبر والوں کے لیے: روحانی حوالے سے ایک بہتر دن، سکون ملے گا
8 نمبر والوں کے لیے: مشکل ہوسکتی ہے، محتاط رہیں۔
9 نمبر والوں کے لیے: سفر کے لیے اچھا دن، کچھ لوگ آپ کے کام میں معاون بنیں گے۔

ہفتہ 25جولائی 2020
حاکم نمبر8
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا 80 یا 800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ”یافتاح یارزاقْ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1 نمبر والوں کے لیے: قدرے مشکل دن، صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔
2 نمبر والوں کے لیے: کوئی چلتا کام بند ہوسکتا ہے اور کوئی نیا چل سکتا ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، کوئی بہن بھائی سُکھ کی وجہ بن سکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل تو ہوگی لیکن فائدہ ضرور ہوگا۔
5 نمبر والوں کے لیے: صدقہ دیں اور آج آرام کریں۔ نامناسب دن۔
6نمبر والوں کے لیے: کسی مجبوری میں سفر ہوسکتا ہے۔ کوئی خبر پریشان کرسکتی ہے۔
7 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، جیسے حبس میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا۔
8 نمبر والوں کے لیے: خواہ مخواہ کی سوچیں اور فضول کی پلاننگ۔
9 نمبر والوں کے لیے: صبر سے کام لیں، اور غصے سے اجتناب برتیں۔

اتوار26 جولائی 2020
حاکم نمبر2
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ”یامعیدُ یا مجیبُ یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: پیسہ، رشتے اور بہن بھائی انھیں کے گرد آج کا دن رہے گا۔
2 نمبر والوں کے لیے: جذباتی نہ ہوں، کچھ پریشانی ہوسکتی ہے۔
3 نمبر والوں کے لیے: سفر سے فائدہ ہوسکتا ہے، بزنس پھیل سکتا ہے۔
4 نمبر والوں کے لیے: خوشی والا دن، عرصے بعد راحت کا امکان ہے۔
5 نمبر والوں کے لیے: ماضی سے تعلق جُڑے گا، کوئی پرانا دوست مل سکتا ہے۔
6 نمبر والوں کے لیے: کچھ امور میں خرابی اور تاخیر کا امکان ہے۔
7 نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، ہمت پیدا ہوگی اور آپ عمل کے میدان میں سرگرم رہیں گے۔
8 نمبر والوں کے لیے: نیا راستہ، نیا بزنس یا نئی پلاننگ ہوسکتی ہے۔
9 نمبر والوں کے لیے: دو دوست یا بہن بھائی آپ کے کام آسکتے ہیں، اچھا دن۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>