Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4564 articles
Browse latest View live

سارے رنگ

$
0
0

ہم ’فیل‘ ہونے والوں سے کوئی پوچھے
 یہ بِنا امتحان کے ’پاس‘ ہونا۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

’کورونا‘ کے سبب فروری 2020ء سے اسکولوں اور کالجوں سمیت تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں سندھ کے وزیرتعلیم سعید غنی نے بنا امتحان کے تمام طالب علموں کو پاس کرنے کا اعلان کر دیا۔۔۔! جس نے ہمارے پرائمری اسکول سے شروع ہونے والے ’فیل‘ کے ایک پورے ’سلسلے‘ کی یاد دلا دی۔۔۔ یہاں تو اردو کا بھی ’پاس‘ ہونا بعض اوقات بہت سے امتحانات کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر بڑے بڑے امتحان لا کھڑے کرتا ہے۔۔۔ بہرحال ہم یہاں انگریزی کے ’پاس‘ ہونے کا ہی پاس رکھیں گے۔۔۔

ہمارے تعلیمی مراحل میں کیسے کیسے مضامین آئے اور کس کس طرح ہم نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی۔۔۔ بالخصوص روز اول سے ریاضی یا ’میتھ‘ کا امتحان ہمارے لیے کسی عذاب سے کم نہیں رہا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ’میتھ‘ سے موت آتی تھی، اس کلاس میں ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ جوں جوں جمع تفریق کی آسان مشقوں کے بعد ذرا ضرب اور تقسیم کے ’ٹیڑھے‘ سوالات شروع ہوتے، ہمارے ذہن پر بوجھ بننے لگتا۔۔۔ ہم میتھ کی کتاب میں یہ دیکھتے رہتے کہ اب ’آسان مشقوں‘ کا کتنا کام رہ گیا ہے، گویا جیسے کوئی قریب آتے ہوئے ’خطرے‘ کے نشان کو دیکھ کے ڈرتا رہتا ہے کہ اب بس اتنا دور ہے۔۔۔!

ہم باوجود کوشش کے ’ریاضی‘ کے سوالات کبھی نہیں سمجھ پائے۔۔۔ ہندسوں اور کلیوں کے گورکھ دھندے کے پیچیدہ مراحل ہمیں کبھی ازبر نہیں ہو سکے، آخر کو پھر ہم ریاضی کے سارے ’حساب کتاب‘ بلیک بورڈ سے دیکھ کر ’چھاپ‘ لیتے، کبھی خدانخواستہ کوئی ٹیچر کچھ سوال سمجھا کر باقی ماندہ سوال خود کرنے کے لیے کہتا، تو ہم اپنے ڈیسک پر ساتھ بیٹھے دیرینہ ہم جماعت عاطف الرحمن کی نقل کرتے یا بعد میں اس کی کاپی سے مِن وعَن اتا رلیتے۔۔۔ یوں سال تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا، لیکن امتحانات کے زمانے میں شاید پورے امتحانات ایک طرف اور صرف ’ریاضی‘ کا پرچا ایک طرف۔۔۔ اس لیے جیسے تیسے کر کے ریاضی کے امتحان کے ’گیپ‘ والے دن اپنی چھوٹی بہن سے کچھ آسان سوالات حل کرنے کے طریقے بہ مشکل سمجھتے، کچھ رَٹ لیتے اور جیسے تیسے جا کر امتحان میں لکھ آتے۔۔۔ کبھی کوئی اہم مشق بہت جاں گسل ہوتی، تو اکا دکا چیزیں نقل کرنے کو ’ایگزام بورڈ‘ یا ہتھیلی پر ضرور لکھ کے لے گئے۔

باقی کوئی نقل وغیرہ نہیں کی، یوں سمجھیے جب کام یابی سے یہ ’میتھ‘ کا پیپر دے کر لوٹتے، تو بھلے اس کے بعد کئی پرچے باقی ہوں، لیکن ذہن پر سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ جاتا۔۔۔ اس کے باوجود بھی، جب ہم اپنے ’فیل‘ ہونے کی ’تاریخ‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ انتہائی غیرمتوقع طور پر پانچویں کلاس میں ’سوشل اسٹدیز‘ سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ ہم پر ’ہاف ائیرلی‘ کی ’رپورٹ کارڈ‘ سے یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ہم فیل ہوگئے ہیں۔۔۔! تو ہم ’رپورٹ‘ ہاتھ میں لیے اپنی ڈیسک پر نہ جانے کتنی دیر تک ’ہیڈ ڈاؤن‘ کیے زارو قطار روتے رہے تھے۔۔۔ ہمیں یاد ہے کہ مس شائستہ کے اُس سوشل اسٹڈیز کے پیپر میں صرف ’سوال وجواب‘ اور ’چوس دی کریکٹ آنسرز‘ تھے۔ ہم مطمئن تھے، پیپر یقیناً اچھا نہیں ہوا تھا، لیکن ہمیں کسی طور یہ ڈر نہیں تھا کہ فیل بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔

زندگی میں پہلی بار فیل ہونے کے موقع پر گھر میں پوزیشن ہولڈر چھوٹی بہن کے سامنے ذلت کا احساس ہمیں اور مار رہا تھا۔۔۔ خیر دوسری بار ’فیل‘ ہونے کا سہرا ضرور ’میتھمٹیکس‘ کے سر بندھا۔۔۔ اور تب ہم ساتویں جماعت میں تھے، تو یہ بھی ’ہاف ایئر لی‘ امتحانات۔۔۔ لیکن دل چسپ امر یہ تھا کہ ہمیں ’میتھ‘ پڑھانے والے کلاس ٹیچر سر منظور تھے، انہوں نے ہمیں کم ازکم پاس ہونے کے لیے درکار 33 میں کم پڑنے والے چند نمبر دے کر ’پاس‘ کیا، کیوں کہ ہم ’میتھ‘ میں فیل ہونے کے باوجود کلاس میں تھرڈ تھے۔۔۔ سر منظور نے بتایا تھا کہ پلس کیے گئے یہ نمبر ٹوٹل میں شمار نہیں ہوں گے، بس یہ آپ کو تھرڈ ہونے کی وجہ سے ’رعایت‘ دی گئی ہے۔

شاید اب مجھ جیسے اوسط درجے کے طالب علم کے لیے کٹھن تعلیمی مراحل شروع ہو چکے تھے۔۔۔ آٹھویں میں سائنس کے سخت ٹیچر سر عرفان کے پیپر کی سختی سے ہم نہ لڑ سکے۔۔۔ اس کی بُہتیری تیاری کی، لیکن ہمیں ’انجام‘ صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اس لیے ہم نے غیرحاضر ہونے میں پناہ ڈھونڈی۔۔۔ شاید طبیعت خرابی کا کچھ بہانہ کیا تھا، یا پھر یہی کہہ دیا تھا کہ گھر میں مہمان آنے کی وجہ سے ہماری تیاری نہیں ہو سکی۔۔۔ بہرحال ہمارا ایسا کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔۔۔ ہر دم اور ہر طرح زیادہ سے زیادہ پڑھانے کے خواہاں ابو اس بات پر کافی پریشان ہوئے تھے۔۔۔ اور پھر انہوں نے بہت چاہا کہ کسی طرح ٹیوشن وغیرہ کا کوئی سلسلہ ہو اور ہماری یہ کسر پوری ہو جائے۔۔۔ لیکن جناب یہ کسر کیا تھی، بس رَٹا مارنے کا معاملہ تھا۔۔۔ اتنا سارا ہم رٹ نہیں پا رہے تھے، اور یوں بس ’غیر حاضر‘ ہو کر براہ راست ’فیل‘ ہونے کی ہزیمت سے بچے۔۔۔ لیکن رپورٹ میں تو بہرحال ’فیل‘ ہی لکھ دیا گیا۔۔۔ جس پر کلاس کے بھلے بچے رشک کرتے تھے کہ تم اچھا خاصا ’پاس‘ ہو جاتے، اگر سائنس کے پیپر میں آجاتے۔۔۔ اب اپنی اصل حالت تو ہم ہی جانتے تھے، اس لیے چُپکے ہو رہے۔ شکر ہے یہ بھی ’ہاف ائیر لی‘ امتحان ہی تھے۔

یوں ہم تین بار الگ الگ مضامین میں ناکامی کی ہزیمت اٹھا چکے تھے۔ ’جنرل گروپ‘ کے نویں کے امتحانات میں یہ سوچ کر دل مسرت سے بھرا جاتا تھا کہ اس کے بعد اب زندگی میں دوبارہ کبھی ’میتھ‘ سے سامنا نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن جناب ایسے کیسے۔۔۔؟ ’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے!‘‘ یہ میٹرک کلاس کی ریاضی تھی، اپنی سی ’ریاضت‘ اور تیاری کے بعد جب پیپر دے کے گھر آکر تخمینہ لگایا تو ’انّا للہ‘ تو اسی وقت پڑھ لی تھی کہ کام خراب ہوگیا ہے۔۔۔! بہرحال یوں کہہ لیں کہ عزت بچ گئی کہ پھر کچھ چیزیں رَٹ کے اگلے سال میٹرک کے امتحانات کے ساتھ ریاضی سے بھی ’جان چھڑوانے‘ میں کام یاب ہوگئے۔۔۔ مگر مجموعی طور پر گریڈ ’سی‘ بنا۔۔۔ جو یقیناً کوئی قابل فخر نہیں۔۔۔

اب ہم کالج میں آچکے تھے، جہاں فرسٹ ایئر کے تو پیپر نکال ہی لیے، لیکن انٹر میں پہلی مرتبہ ’انگریزی‘ ہمارے پیروں کی زنجیر بن گئی۔۔۔ ہمارے اسلامیہ کالج میں ’انگریزی‘ کے اساتذہ ہی ’غائب‘ رہتے تھے، کچھ ہی کلاسیں لی ہوں گی، اس لیے اب ہم اپنے دَم پر کیسے پاس ہوتے۔۔۔! پھر بدقسمتی یہ بھی تھی کہ ’انٹر‘ میں انگریزی کے دونوں پیپر کے نمبر ملا کر بھی اگر ’پاسنگ‘ ہو جائے، تو بات بن جاتی، لیکن ہمارے تو پچھلے نمبر بھی واجبی نکلے۔۔۔ اس لیے ہم بری طرح مار کھا گئے۔۔۔ یہ ہماری تعلیمی زندگی کا ایک شدید ترین صدمہ تھا۔

شاید یہ رزلٹ رمضان میں آیا تھا اور ہم رزلٹ کے اخبار میں اپنا ’انجام‘ دیکھ کر کمرے میں جا کر بہت دیر تک کونے میں پڑے رہے تھے۔۔۔ کیوں کہ ہم تو پوری تندہی سے ’جامعہ کراچی‘ میں ’آنرز‘ کے خواب دیکھ رہے تھے اور اب ہر چند کہ سال تو ضایع نہیں ہوا، پہلے تو سال ضایع ہونے کا خوف بھی لاحق ہوا تھا، لیکن پھر پتا چلا کہ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا جا سکتا ہے، تو کچھ جان میں جان آئی اور پھر سَپلی یا ’ضمنی امتحان‘ میں سرخرو ہوگئے۔

یوں ہمارا سال تو بچ گیا، لیکن ’بی اے آنرز‘ سے محرومی کوئی کم دھچکا نہ تھا۔۔۔ اس دوران ’جامعہ اردو‘ سے ’جامعہ کراچی‘ تک کتنے پھیرے لگائے تھے کہ کوئی درخواست وغیرہ دے کر داخلے میں رعایت مل جائے۔۔۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔۔۔ لیکن جب ’سَپلی‘ دی اور اس کا رزلٹ آیا تو ’بی‘ گریڈ میں لکھے گئے دو رول نمبروں میں سے ایک ہمارا تھا، خدا جانے دوسرے طالب علم پر کیا گزری ہوگی، جو ’بی‘ گریڈ لانے کے باوجود ہماری طرح ’سَپلی‘ کا داغ لگا بیٹھا تھا۔۔۔ تو یہ ہے ہمارے پانچ بار فیل ہونے کا ’کچا چٹھا‘ جسے سپردِ قلم کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ہم جیسے طالب علموں نے ’پاس‘ ہونے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے۔۔۔ اور آج ’کورونا‘ کی دور دور رہنے کی اس وبا میں کتنے آرام سے بیٹھے بٹھائے ’پاس‘ ہونے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔۔۔ ذرا کوئی ہم سے پوچھے کہ ایسے مشکل امتحانات کے ایک ایک پَل کیسے پہاڑ جیسے ہوتے تھے۔۔۔ اور ان امتحانات سے گزرنا کسی طرح ’پل صراط‘ سے گزرنے جیسا ہوتا تھا۔

۔۔۔

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
حمزہ فضل اصلاحی

دنیا بھر میں کئی مشہور دیواریں ہیں، جیسے ’دیوار چین‘ اور دیوار برلن، ان کی اپنی اپنی تاریخ ہے، داستانیں ہیں، دیومالائی قصے اور کہانیاں بھی۔ یہ ان کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ دیواروں کے محاورے اور کہاوتیں بھی ہیں۔ کوئی کسی خطرے سے کسی کی حفاظت کرتا ہے یا اپنے عزم اور حوصلے سے خطرے کو ٹال دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا۔ اسی طرح کسی کو دیوار سے لگایا بھی جاتا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دیواروں میں چنوایا بھی جاتا تھا۔

اور اور تو دیواریں سنتی بھی ہیں۔ ان کے کان بھی ہوتے ہیں۔ اب بولنے بھی لگی ہیں، کاتب یا فن کار انہیں زبان دیتے ہیں، ان پر آڑی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، انہیں لفظوں اور جملوں سے سجاتے ہیں۔ ان کے ذریعے لکیر کے فقیر سماج کو سبز باغ دکھاتے ہیں، چلتے چلتے انگریزی کا ماہر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، بیٹھے بیٹھے مضر اور مہلک بیماریوں سے نجات دلانے کا راستہ بتاتے ہیں، پلک جھپکتے ہی دولت کا انبار لگانے کا جادوئی نسخہ بھی سجھاتے ہیں۔ اس طرح کسی کو چونا لگانے کے لیے رنگ و روغن کی ہوئی دیواریں ضروری نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کسی بھی اور کسی کی بھی دیوار پر کیا جا سکتا ہے۔ کسی کی پرانی دیوار پر فن کا مظاہرہ کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ہنسی خوشی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگانے کی اجازت دے ہی دے گا۔ یہ دیواریں رشتوں میں بھی حائل ہوجاتی ہیں، خون کے رشتوں کو بھی نہیں چھوڑتیں۔ سنیے عباس تابش کیا کہہ رہے ہیں: ’’بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ = ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ‘‘

تازہ دیوار (وال) کو ’سوشل میڈیائی‘ مجاہدوں نے ’دیوار قہقہہ‘ بنا دیا ہے۔ اس کے نیچے یا اس کی تصویروں کے نیچے بیٹھ کرخوب ہنس رہے ہیں اور ہنسا رہے ہیں، دراصل یہ دیوار ماتم (دیوار گریہ نہیں) ہے۔ اس کی جڑوں میں رہنے والے خود کو کیا سمجھتے ہوں گے۔ وہ پوچھتے ہوں گے کہ آپ اپنے جیسے انسانوں کو اتنا گیا گزرا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ روتے نہیں ہوں گے؟ چلیے اچھا ہے، جو کبھی پکی دیوار بنانے کا خواب بھی نہیں دیکھے ہوں گے، اب وہ قیصر الجعفری کے الفاظ میں ان دیواروں سے مل کر رو لیں گے، جی بھر کے رو لیں گے۔

ویسے بھی کچی دیواروں سے مل کر رونا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ کچی دیواریں آنسو جذب کرنے سے کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس دیوار کو بچانے کے لیے لوگ آنسو پی جاتے ہیں۔ آنسو کے سامنے دیوار کھڑی کرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ان دیواروں کو چھو لیں گے، اگر ان پر کانٹے نہیں لگائے ہوں گے تو گھڑی دو گھڑی کے لیے ان پر بیٹھ کر دم لے لیں گے۔

۔۔۔

 

کام یاب ہو تو سیاست داں اورناکام رہے تو مہاتما۔۔۔!
مولوی محمد سعید

30 جنوری 1948ء کی شام تھی۔ میں ہمشیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا کہ میرا منجھلا بھانجا بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا ’’مہاتما گاندھی کو گولی لگ گئی ہے۔ لوگوں نے ریڈیو پر سنا ہے۔‘‘ یہ سن کر بڑا قلق ہوا۔ ذہن میں بے شمار خدشات ابھرنے لگے کہ اگر کسی مسلمان نے انھیں قتل کیا ہے، تو اسی آڑ میں اب تک بیسیوں مسلمان بستیاں تہ تیغ ہوچکی ہوں گی، لیکن جب تفصیلات آنا شروع ہوئیں اور خود پٹیل کی زبانی سنا کہ قاتل ایک ہندو نتھورام گوڈسے ہے تو کم ازکم یہ خدشہ رفع ہوگیا۔

دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات نئی دہلی پہنچنا شروع ہوگئے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں ان کی موت نے انسانوں کو مغموم نہ کیا ہو۔ پاکستان میں بازار اور سنیما فوراً بند ہوگئے۔ ریڈیو پر سے گاندھی جی کے بارے میں اتنا جامع پروگرام پیش کیا گیا کہ خود ہندوستانیوں نے اپنے ریڈیو کی کم مائیگی پر شکوہ اخباروں میں کیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ میں فیض صاحب نے بڑا پرسوز مقالہ لکھا جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ فیض کی شاعرانہ افتاد طبع بھی بڑی آب و تاب سے جھلک رہی تھی۔

قائد اعظم کا پیغام حسب معمول ہر شاعری سے مبرا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو اس پس منظر سے جدا نہ کیا، جس میں ربع صدی سے دونوں ایک دوسرے کے رفیق و حریف رہ چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی عظیم ہندو راہ نما تھے۔ عام لوگ اس ماحول میں اس پیغام سے قدرے مایوس ہوئے لیکن قائد نے ہنگامی طور پر بھی اپنے طویل سیاسی تجربے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا۔ وہ شخصیات کو ان کے کردار اور ماحول سے جدا کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک ہر فعال شخصیت کی طرح گاندھی جی کسی لمحے بھی تنقید سے بالا نہیں تھے۔

گاندھی جی نے ہر بڑے آدمی کی طرح اپنے مداح بھی چھوڑے اور ناقد بھی۔ خود انگریزوں کے اندر بعض اہل قلم ان کی مہاتمیت سے مرعوب تھے اور بعض انتہائی نکتہ چیں، چناں چہ لارڈ ویول نے ان کی شخصیت کا جو تجزیہ کیا ہے ان کے تلخ تجربے کا غماز ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ گاندھی جی 70 فی صد نہایت زیرک سیاست داں تھے، 15 فی صد مہاتما تھے اور باقی 15 فیصد محض ڈھونگ، لیکن دنیا کے اکثر صحافی ان کے اس قدر مداح تھے کہ انھوں نے ان کا نام دنیا کے ہر گوشے میں اچھال رکھا تھا۔ ہمارے جاننے والی لیگ کی ایک مقتدرہ خاتون جب یورپ گئیں تو واپسی پر کہنے لگیں کہ یوگوسلاویہ کے دیہات میں سے گزر رہی تھی کہ لوگوں نے پہچان کر کہ ہندوستان سے آئی ہوں، گاندھی جی کے بارے میں استفسارات کیے۔

گاندھی جی کے سیاسی اسلحہ خانے میں ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ کسی سیاسی چال میں کام یاب ہوجاتے، تو سیاست داں ہوتے، ناکام رہتے تو مہاتما۔ پھر کبھی اعتراف گناہ، کبھی سچائیت کا برت، ورنہ اکثر چپ۔

ویسے وہ عملی تحریکوں کا ڈول ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے تقریباً ہر 10 برس کے بعد ایک تحریک میدان میں اتاری اور جتنا قدم آگے بڑھا اسے اگلی تحریک تک مستحکم کرتے رہے۔ جنوبی افریقا سے آنے کے بعد پہلی تحریک میں جو خلافت ایجی ٹیشن کے ایام میں چلی وہ دوسروں کے سہارے آگے بڑھی لیکن وہ اس سے جلدی دست بردار ہوگئے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی قوم پرستی کی تحریک مسلمانوں کی بین الاقوامیت میں گم ہوتی دکھائی دی۔ بعد کی دو تحریکیں (1931 اور 1943 کی) انھیں کی پروردہ تھیں۔ ان تحریکوں سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنے عدم تشدد کو اپنے پیروکاروں کے تشدد کے سہارے آگے بڑھانا جانتے تھے۔

بہرکیف اس نیم براعظم کے اندر سیاسی بیداری پیدا کرنے میں ان کا بڑا گراں قدر حصہ ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ زندگی کے کاروبار میں وہ اتنے ہی کشادہ قلب تھے، جتنا کہ ایک ذات پات کا معترف ہندو ہو سکتا ہے۔ خود انھوں نے بارہا کہا کہ میری سوچ سراسر ہندوانہ ہے۔ جہاں تک ان کی مہاتمیت کا تعلق ہے وہ اپنے پرستاروں کے نزدیک مہاتما بدھ کے بعد سب سے بڑے انسان تھے۔ اس لیے یہ امر باعث تعجب نہیں کہ ان کی زندگی میں ان کی مورتی کی پوجا شروع ہو چکی تھی۔

(خود نوشت آہنگ بازگشت سے لیا گیا)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


41 برسوں سے جل رہے افغانستان سے امن اب بھی دور

$
0
0

( قسط نمبر23)

دنیا کے وہ تما م ممالک جن کی سرحدیں خشکی سے ملتی ہیں اگر یہ سرحدیں صحرائی یا بالکل غیر آباد علاقوں میں  نہ ہوں تو عموماً سرحدوں کے دو نوں جانب کئی کئی کلو میٹر تک ایک ہی قوم نسل کے لوگ آباد ہو تے ہیں۔ یوں اِن کے معاشرتی ،ثقافتی ،تہذیبی، مذہبی معیارات بھی ایک جیسے ہو تے ہیں۔ اگر تاریخی اعتبار سے ایک ملک صدیوں سے دوسر ے ہمسایہ ملک پر غالب رہتا تو اس کے اثرات بھی آئندہ زمانوں تک رہتے ہیں۔ اسی طرح ایسے ملکوں کی سرحدوںکے دونوں جانب موسم اور ماحولیات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے پھر بعض جگہوں پر تو یوں بھی ہو تا ہے کہ دریا بہتے ہو ئے ایک سے دوسر ے ملک میں جا تے اور پھر واپس بھی ہوتے ہیں جیسے دریا ئے کابل جو  پاکستان سے افغانستا ن جا تا ہے اور پھر واپس  پاکستان میں داخل ہو کر دریائے سندھ میں مل جا تا ہے۔ پاکستا ن کی سرحد یں افغانستان ، ایران، بھارت اورچین سے ملتی ہیں چین کی سرحد پر ہمالیہ کا بلند پہاڑی سلسلہ ہے اس لیے سرحدکے دونوں جانب ثقافتی ملاپ میں کافی غیر آباد علاقہ حائل ہے۔ ہند وستان کی تقسیم کے وقت چونکہ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے دونوں جانب قتل و غارت گری ہو ئی اس لئے ان میں ہمسائیگی کے رشتے کمزور ہیں لیکن ایران اور افغانستان سے عوامی سطحوں پر رشتے ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔

افغانستان ، پاکستان اور پھر کسی قدر ایران ، ازبکستان ، ترکمانستان اور تاجکستان پر سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے اثرات مرتب ہو ئے۔ جہاں تک تعلق ترکمانستان ،ازبکستان اور تاجکستان کا ہے تو جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو یہ ممالک سوویت یونین کی ریاستیں تھیں۔  1990-92 میں سوویت یونین کے بکھر جانے سے اِن ملکوں کے آزاد اور خود مختار ہو نے کی راہ ہموار ہو ئی ،یوں ان ملکوں پر افغان سوویت جنگ کے مثبت اثرات مرتب ہو ئے۔ البتہ 1992 کے بعد افغانستا ن میں ازبکستان نے بھی مداخلت کی اسی طرح ایران شروع ہی سے افغان سوویت جنگ سے متاثر ہوا مگر ایران نے حکمت عملی سے اپنے معاشرے کو جنگ کے منفی اثرات سے کا فی حد تک محفوظ کیا۔ سوویت یو نین نے افغا نستان میں فوجیں داخل کیں تو پا کستان میں  افغان مہاجر ین کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی، تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب مہاجرین نے ایران میںبھی پناہ لی لیکن ایران کی حکومت نے اِن مہاجرین کو اپنے شہروں میں آزادانہ رہائش اختیار کر نے کی اجازت نہیں دی اور کیمپوں تک محدود رکھا ۔

چین میں ماؤزے تنگ کے اشتراکی انقلاب تک انگریزوں نے افیون اوراس سے تیارکردہ منشیات کو یہاں فروغ دیا تھا اور کروڑوں چینی افیون کے عادی تھے،ماوزے تنگ نے انقلاب کے بعد چین میںمنشیات کی پید واراور اس کے استعمال کو انقلابی انداز سے ختم کردیا ۔اُس زمانے میںچین کی آزادی کے بعد اس علاقے میں ایک جانب سوویت یونین اور چین ویت نا م کی جنگ ِآزادی میں ویتنامیوں کی مدد کررہے تھے تو دوسری جانب یہاں نوآبادیاتی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے برطانیہ نے فرانس کی مدد کی پھر بعد میں امریکہ جنگ میں کود پڑا۔ سی آئی اے نے چین کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کے لیے اور پھر چین اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں منشیات کے پھیلاو کے لیے افیون کی پیدا وار او رمنشیات خصوصاً ہیروئن کی تیاری کے لیے سمگلر وں اور بدمعاشوں کی درپردہ بہت مدد کی۔

1950 میں یہاں افیون کی سالانہ پیداوار 600 ٹن سے زیادہ تھی اس کاروبار میں برما میانمار کی فوج اور یہاں کا م کر نے والی آئل اینڈ گیس کی کمپنیاں بھی ملوث رہیں لیکن جب سوویت فوجیں افغانستان میںداخل ہو ئیں تو افیون کی پیداوار اور منشیات خصوصاً ہیروئن کی پیداوار کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز افغانستان بن گیااور اب تک منشیات کی پیداور اور تجارت کے لحاظ سے افغانستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے افغانستان جنگ، خانہ جنگی ، بد امنی اور لاقانونیت کا شکار ہوا تھا اور پھر یہاں امریکہ ،بر طانیہ اور مغربی اتحاد کے دوسرے ممالک اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خلاف تھے اور اس کے درمیان خصوصاً افغانستان اور پا کستان کے کروڑوں عوام تھے جن کے پُر امن اور مستحکم معاشرے میں افیون ،ہیروئن، مار فین اب عام ہو گئی تھی منشیات کاکاروبار کرنے والے انٹر نیشنل اسمگلر یہاں بھی زور پکڑگئے ا س صورتحال میں جدید اور خطر ناک اسلحہ بھی انہی بڑی قوتوں کی وجہ سے عام ہوا اور اس کے پھیلاو میں زیادہ کردار سابق سوویت یونین نے ادا کیا کہ1980 کی دہائی میں پا کستان میں کلاشنکوف کلچر معاشرے میں جڑیں مضبوط کر نے لگا۔

کلاشنکوف صرف دو ہزار روپے میں ملنے لگی۔ اس سے قبل بڑے بڑے قبائلی سرداروں ، نوابوںکے پاس عام رائفلز اور بندوقیں ہوتی تھیں اب قبائل نے اپنی دشمنوں کے لیے یہ جدید اسلحہ خریدنا شروع کیا۔ یہ خریداری میزائل ،دستی بم، بارودی سرنگوں تک جا پہنچی اور پاکستانی معاشرہ  بدامنی اور بحران کا شکار ہو نے لگا۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ جتنے قبائلی سردار اور معتبرین 1980 کے بعد سے اب تک غیر طبعی طور پر جاں بحق ہوئے اتنی تعداد میں گذشتہ ڈیڑھ صدی میں ہلاک نہیں ہوئے۔ پھر 1980 میں جب پاک افغان سرحدوں پر افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مجاہدین لڑ رہے تھے تو اِن سرحدوں کے ساتھ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ جاری تھی اُس وقت بلوچستان کے ضلع چاغی میں ہیروئین کا عادی پہلا پاکستانی ملا تھا اور 1985 تک پاکستان میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد 35 لاکھ ہو گئی تھی اور اب بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے  اسی طرح لاکھوں افراد کے پاس کلاشنکوف  ،کلاکوف اور ایسا ہی جدید اسلحہ مو جود ہے ۔

افغانستان میں سوویت مداخلت اور اس کے بعد سے اب تک امن قائم نہیں ہو سکا جس کا سب سے زیادہ معاشرتی ،سماجی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور یہ نقصان اب تک متواتر جاری ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگی میں معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ پاک، افغان  معاشرے  اس لحاظ سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اس کے بعد جو صورت عراق، شام ، لیبیا ، یمن اور دیگر ملکوں کے معاشروں کی ہو رہی ہے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس ڈیکلریشن اور چارٹر کے لیے از خود ایک بہت بڑا تاریخی سوال ہے جس کا جواب اقوام متحدہ کے 75 سال پو رے ہو نے پر عالمی انسانیت کی پکار کے باوجود نہیں آرہا۔ 14 اپریل 1988 کو جنیوا معاہدے کے بعد نو ماہ میں سوویت یو نین نے اپنی فو جیں واپس بلوا لیں لیکن یہاں افغا نستان میں مجاہدین کے ساتھ لڑنے والی افغان حکومت جس کو غیر جمہوری انداز میں اور فوجی قوت سے سوویت یونین نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس کو جنیوا معاہدے میں قانونی حیثیت بھی دی گئی اور اس کو امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی تسلیم کیا اور پھر اُس وقت افغانستان کے مسئلہ کا کوئی حل بھی تجویز نہیں کیا گیا اور اس موقع پر افغانستان میں صدر نجیب اللہ کی حکومت کو بڈگرام کے ایر بیس پر جدید لڑاکا طیاروں کے ساتھ اربوں ڈالر کے ٹینک ، توپیں ، میزائل اور دیگر اسلحہ مفت دے کر سوویت فوجیںافغا نستان سے واپس چلی گئیں۔

افغانستان پر مکمل قبضہ کا تاریخی تصور یہ رہا ہے کہ جس کا قبضہ کابل پر مستحکم ہو جائے اُسی کی حکومت افغا نستان پر تسلیم کی جاتی ہے۔ افغانستان میںبھی آبادی اپنے مخصوص لسانی ، قومی ، نسلی اور فرقہ وارانہ تناسب کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں آباد ہے، اور اسی تنوع کے لحاظ سے افغانستان کی سرحدی قربت سے منسلک ہے ، افغانستان کی سب سے بڑی آبادی 42 % پشتون آبادی ہے جو پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اسی طرح باقی لسانی ، قومی اور فرقے کے اعتبار سے آبادیوں کے گروپ ایران ، ازبکستان ،،ترکمنستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے ساتھ آباد ہیں۔

یوں 1979-80 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں جارحیت کی تو اس کے خلاف پورے ا فغانستان کے تمام علاقوں میں مز احمت شروع ہوئی اور کیونکہ یہ مزاحمت افغانستان کے سرکاری طور پر کیمونسٹ ہونے کے اعلانیہ پر ہوئی تھی اور افغانستان کی99% آبادی مسلمان ہے اس لیے اس مزاحمت کو جہاد قراردیا گیا اور لڑنے والے مجاہد ین کہلا ئے اور1980 میںجب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 کے مقابلے میں 116 ملکوں کی اکثریت سے سوویت یونین کے خلاف قرارداد منظور کی تو عملی طور پر پوری دنیا نے افغان عوام کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مجاہدین کی اس مسلح جد وجہد کو ایک مرکزیت نہیں دی گئی اور نہ صرف یہ کہ گروہی تقسیم رہی بلکہ لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہمسایہ ملکوں نے اپنے گروپوں کو مضبوط بنانے کو ترجیح دی۔ سب سے منفی انداز سوویت یونین اور امریکہ سمیت دیگر بڑی قوتوں نے اپنا یا جس کا واضح ثبوت 1988 کا جنیوا معاہدہ تھا جب افغا نستان سے سوویت یونین کی فوجیں واپس چلیں گئیں تو یہاں غالباً پا کستان ، ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں میں بھی کسی کو یہ خبر نہیں یا یہ احساس نہیں تھا کہ خود سوویت یونین کے توڑنے اور یہاں سے اشتراکی نظام کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی بھی طے کر لی گئی ہے۔

غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے جنیوا معاہدے میں افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے معاہد ے کا فریق بنانے پر رضامندی اختیار کی اور یوں افغانستان میں جنگ جاری رہی جو خانہ جنگی بھی کہلائی کہ اس میں صدر نجیب اللہ کی کیمو نسٹ حکومت اور اُسکی مسلح فوج میں بھی افغان تھے اور اُن کے خلاف لڑنے والے بھی مجاہدین بھی افغان تھے۔

صدر ببرک کارمل جو سوویت خفیہ ایجنسی کے جی پی کے خاص تربیت یا فتہ تھے وہ 27 دسمبر1979 کو مشرقی یورپ سے لا کر صدر بنا دیئے گئے تھے اور 4  دسمبر1986 تک 6 سال 332 دن صدر رہے اور جب جنیوا معاہدے سے قبل سوویت یونین نے یہ عندیہ دے دیا کہ وہ افغانستان سے اپنی فو جیں واپس بلا لے گا تو افغانستان کا یہ واحد کیمو نسٹ صدر تھا جس کو سوویت یونین نے زندہ افغانستان سے ماسکو بلوا لیا اور پھر وہ 1996 میں 67 برس کی عمر میں طبعی موت مرے یہ ببرک کارمل تھے جنہوں نے افغانستان میں مجاہدین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے پا کستان میں دہشت گردی کو فراوغ دیا یہاں اسلحہ پہنچایا اور اسی دور سے پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے شروع ہوئے بعد میں صدر نجیب اللہ 30 ستمبر 1987 سے16 اپریل1992 تک افغانستان کے صدر رہے۔ واضح رہے کہ 1988 میں جنیو ا معاہدے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی جانب سے افغان مجاہدین کو اسلحہ کی سپلائی بند کر دی گئی تھی، اُوجڑی کیمپ آتشزدگی کے سبب تباہ ہو گیا تھا اور کابل کی فتح کے لیے لڑائی جاری تھی اس دوران مجاہدین کے گروپوں کو سعودی عرب ، ایران ، پاکستان  اور ازبکستان کی جانب سے اپنے سیاسی اور اسٹرٹیجکل مفادا ت کے تحفظ کے لیے امداد جاری رہی۔

1991 میں سوویت یونین صدر گور با چوف کی اصلا حات گلاسنس اور پرسٹرائیکا کے تحت اشتراکیت بھی ترک کرنے لگا اور اپنی نو آبادیات کو بھی سیاسی طور پر آزاد کرنے کا عمل شروع کر دیا ۔ مشرقی یورپ میں وارسا گروپ کے اشتراکی ملکوں میں بھی تخت الٹ گئے تو صدر نجیب کی امداد بند ہو گئی۔ واضح رہے کہ سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد اگرچہ پورے افغانستان میں مجاہدین نے روسیوں اور افغانستان کی کیمو نسٹ حامی فوج کو بہت نقصان پہنچایا مگر کابل تقریباً محفوظ رہا تھا اب مجاہدین اور کیمونسٹوں کے گروپوں کے درمیان کابل پر قبضے پر جنگ شدت اختیار کر گئی تھی۔

احمد شاہ مسعود کابل کا محاصرہ کئے تھے ، برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار ،صبغت اللہ مجددی ، رشید دوستم سب ہی 1992 میں کابل پر قبضے کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ 18 مارچ 1992 کو صدر نجیب اللہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے وہ مستعٰفی ہو جا تے ہیں مگر اب کیمونسٹوں میں گروپ بن گئے اور حکومت پر اُن کا کنٹرول نہیں رہا ، اس دوران صدر نجیب اللہ نے کابل سے فرار ہو نے کی بھی کو شش کی مگر رشید دوستم کی فورس کا کابل کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر قبضہ تھا جنہوں نے صدر نجیب کو فرار ہونے سے روک دیا بعد میں صدر نجیب اللہ نے کابل میں اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ  لی۔ اپریل1992 میں  پشاور معاہدہ میں مجاہدین گروپوں میں طے پا یا کہ اسلامی ریاستِ افغانستان کی حکومت کے لیے ایک سپریم کونسل بنائی جا ئے گی اور دو ماہ عبوری مدت کے لیے صبغت اللہ مجددی صدر ہوں گے۔

گلبدین حکمت یار کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی گئی جس پر اِن کی حزب اسلامی نے انکار کیا اور کابل میں داخل ہو نے کا اعلان کیا اس کے بعد 1992 میںبرہان الدین ربانی کی قیادت میں افغانستان کی اسلامی حکومت 1996 تک قائم رہی لیکن مجاہدین کے گروپ آپس میںاتحاد بھی کرتے رہے اور ایک ووسرے کے خلا ف لڑتے بھی رہے اور اس دوران یوںتو کئی گروپ اس خانہ جنگی میں شامل رہے۔

علاقائی سطح پر حزب ِ وحدت کو ایران کی حمایت رہی جب کہ جنبش ِ ملی اور اس کے لیڈر جنرل رشید دوستم کی پشت پناہی ازبکستان نے کی اور حزب ِاسلامی گلبدین حکمت یار کی مدد  پا کستان نے کی مگر 1994 سے پاکستان نے گلبدین حکمت یار کی امداد بند کر دی اور یوں افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف حکمت یار نے لڑائی بند کردی۔ اسی زمانے سے طالبان کی قوت ابھری جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کی پشت پر پاکستان تھا اور پھر 1996 سے 27 دسمبر1997 تک طالبان بشمول کابل افغانستان کے 80% رقبے پر قابض ہو گئے جب کہ احمد شاہ مسعود ، ربانی متحدہ محاذ رشید دوستم کا 20% رقبے پر قبضہ رہا۔ 1996 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صدر نجیب اللہ کو سر عام پھانسی دے دی گئی۔

27 ستمبر1996 سے 13 نومبر2001 تک افغانستان کے 80% رقبے پر طالبان کا قبضہ رہا۔ دارالحکومت کابل میں امارات اسلامی افغانستان سپریم کو نسل کے سربراہ ملا عمر تھے۔ وہ13 اپریل 1994 سے طالبان کے سربراہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کی خانہ جنگی میں شریک تما م مجاہدین گروپوں کو پسپاکرکے 80% رقبے پر قابض ہو گئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف جہاد میں افغانیوں کے ساتھ سعودی عرب کے بھی مسلمان شریک ہوئے تھے جن میں سب سے اہم اُسامہ بن لادن تھے جو کروڑوں ڈالرکا ذاتی سر مایہ لے کر افغانستان آئے تھے اور سوویت یونین کے خلاف عملی جہاد میں شریک ہوئے اور مجاہدین کے ہمراہ سوویت فوج کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑتے رہے، یہاں تک کہ ایک لڑئی میں انہوں نے روسی فوجی افسر سے دست بدست لڑکر جو کلاشنکوف چھینی تھی وہ مرتے دم تک اُن کے پاس رہی۔ 1988 کے بعد جب افغانستان میں مجاہدین کے گروپ آپس میں اقتدار کی خاطر لڑنے لگے تو وہ مایوس ہو کر واپس سعودی عرب آگئے تھے۔

1991 میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور پھر امریکہ نے اسی بہانے عراق پر بھر پور حملہ کر دیا اس موقع پر سعودی عرب نے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے امریکی فوجی امداد پر انحصار کیا اور سعودی عرب میں امریکی فوجی آئے۔ یہ صورتحال اسلامی ممالک میں عوامی سطح پراچھی نظروں سے نہیں دیکھی گئی اور اسامہ بن لادن نے بھی سعودی عرب کے اِن اقدامات پر تنقید کی جس کے سبب اسامہ بن لادن کو سعودی عرب چھوڑنا پڑا اور وہ سوڈان چلے گئے، اب وہ امریکہ کے خلاف تھے اورسوڈان میں قیام کے دوران القاعدہ کی طرف سے نیروبی اور تنزانیہ میں امریکیوں کو نشانہ بنایا گیا تو اُن پر سوڈانی حکومت کا دباؤ بڑھ گیا اور اسامہ بن لادن کو سوڈان بھی چھوڑنا پڑا۔ 1996 میں کابل فتح ہو گیا تھا اور اسی زمانے میں بذریعہ طیارہ اسامہ بن لادن دوبارہ افغانستان آگئے۔  12 اکتوبر1999 کو پاکستان کے آرمی چیف کے طیارے کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان اُترنے سے روکنے پر فوجی قیادت نے وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر ہو ئے۔

افغانستان میں 1996 میں جب طالبان کی حکومت قائم ہو ئی تو تھوڑے عرصے بعد اس حکومت کو سعودی عرب اور پا کستا ن نے  تسلیم کر لیا اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے امریکہ بھی تسلیم کر لے گا مگر بعد میں صورت بدلنے لگی اور جب خصوصاً  اُسامہ بن لادن افغانستان آگئے تو امریکہ نے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کردیا پھر یہ کہا کہ طالبان اُسامہ کو ملک بدر کر دیں مگر طالبان نے انکار کردیا جس پر 1997 میں بل کلنٹن کے حکم پر بحیرہ عرب سے جلال آباد کے قریب طورا بورا میں اُسامہ کے مرکز پر کروز میزائل داغے گئے۔ 1990-91 کے بعد سے پا کستان اور مریکہ میں قریبی تعلقات کا دور ختم ہو گیا تھا۔ صدر رونالڈ ریگن کے دور ِاقتدار میں پاکستان امریکہ کے تعلقات بہت دوستانہ رہے لیکن اُن کی صدرات کے آخری برسوں میں امریکہ کا واضح جھکاؤ بھارت کی جانب ہو نے لگا۔ بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی پر سوویت یونین کے صدر گو رباچوف نے واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں واپس بلا رہے ہیں۔

راجیو گا ندھی نے 20 اکتوبر 1987 کو امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور مشترکہ اعلانیہ میں صدر رونالڈ ریگن نے بھارت کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ پا کستان اور بھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی روک تھام کے بارے میں بھی بات کی جس پر راجیو  نے کہا کہ بھارت اس کی تائید کرتا ہے اور بھارت کے پاس ایٹمی ہتھیا ر نہیں ہیں۔ راجیو گاندھی 2 دسمبر 1989 میں وزارت عظمٰی سے فارغ ہوئے اور 21 مئی 1991 کو انہیں خود کش بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اُن کے بعد 1989 سے وشونت پرتاب سنگھ، چندرا شیکر، نرسیماراؤ، اٹل بہاری واجپائی، دیو گوواڈا، اندرکمار گجرال اور پھر دوبارہ اٹل بہاری واجپائی 1998 میں بھارت کے وزیر اعظم  بنے تومئی1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دئیے جن پر پاکستان نے کچھ دن انتظار کیا اور28 مئی1998  کو پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے حساب برابر کر دیا۔

اس واقعہ  کے دو سال تین ماہ اور چودہ دن بعد 11 ستمبر2001 کو غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ دہشت گردوں نے چار مسافر بردار جہازوں کو اغوا کیا ، دو جہاز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دئے گئے، ایک جہاز نے واشنگٹن میں پینٹاگان کو نشانہ بنا یا جبکہ چوتھا اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے ہی مار گرایا گیا۔ امریکہ نے اس کا الزام القاعدہ اور اُسامہ بن لادن پر عائد کرتے ہو ئے طالبان حکومت سے اُسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ جواب میں اُسامہ نے اِن حملوں سے لاتعلقی ظاہر کی۔ واضح رہے کہ اس سے دو روز قبل 9 ستمبر2001 کو احمد شاہ مسعود خود کُش حملے میں جاں بحق ہو چکے تھے اور طالبان اور القاعدہ نے اُس سے بھی لاتعلقی ظاہر کی تھی۔

امریکہ نے اپنے دفاع کے حق کی بنیاد پر دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے افغانستان کے خلاف کاروائی شرع کر دی۔ صدر جارج بش نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ہاٹ لائن پر بات کی اور  پرویز مشرف نے امریکہ کو تعاون فراہم کرنے کا یقین دلا دیا۔ امریکہ اور نیٹو افواج نے جدید ہتھیاروں کے ساتھ افغانستان کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس زمانے میں 2007 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی جس میں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف رہے ، اس دوران آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی رہے، اس دور میں پا کستان شدید نوعیت کی دہشت گرد کاروائیوں کا شکار رہا اور بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا۔  5 جون 2013 سے 28 جولائی 2017 تک میاں نواز شریف اور اس کے بعد جون 2018 تک شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوئے اور پھر تحریک انصاف کے عمران خان وزیر اعظم ہوئے۔

نائن الیون کے حملوں کے بعد  2 مئی 2011 کو پاکستان میں غیر معمولی واقعہ پیش آیا ۔ امریکہ نے چار ہیلی کا پٹروں کی مدد سے حملہ کرکے ابیٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو شہید کر نے کا دعویٰ کیا۔ حملے کے چھ گھنٹوں کے اندر اُس کی لاش طیارے کے ذریعے سمندر میں کسی نامعلوم مقام پر پھینکنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ پاکستان پر اس لحا ظ سے امریکہ کا دباؤ  مزید بڑھ گیا، صدر اوبامہ کی صدارت کی دوسری مدت میں ہی طے پایا کہ افغانستا ن سے امریکی فوجوں کو مرحلہ وار واپس بلوا یا جا ئے۔ 2002 میں افغانستان میں امریکی فوج  10000 تھی جو 2011 میں ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی پھر بتدریج کم ہوئی ۔

2015 سے2019 کے درمیان افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بیس ہزار سے دس ہزار کے درمیان رہی اور ساتھ ہی طالبان سے امن مذاکرت شروع کرنے کی بات ہوئی۔ اِن مراحل میں قطر میں طالبان کے نمانندوں سے بھی رابطے ہوئے تو ساتھ ہی مری میں امریکی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو ا ہی تھا کہ  29 جولائی2015 میں افغان مخبرات نے خبر دی کہ ملا عمر کا تو کراچی میں انتقال ہو چکا ہے، بعد میں اس کی تصدیق ہوئی کہ ملا عمر کا انتقال 23 اپریل 2013 میں ہو چکا تھا۔

بھارت میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے نریندرا مودی پہلے26 مئی 2014 کو منتخب ہوئے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2017 میں امریکہ کے صدر ہوئے۔ مودی 30 مئی2019 میں دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اُس وقت سے بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے مقابلے کے لیے تیار ہوتا نظرآیا اور بھارت کی یہ کو شش رہی کہ طالبان سے امریکی مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ اسی دوران اگست 2019 کو مودی حکومت نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت کی ضمانت پراہم کرنے والی شقوں  370 اور 35A کو ختم کر دیا۔ اگرچہ اس کا افغان طالبان امریکہ مذاکرات سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن بھارت نے بھی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر امریکہ طالبان مذکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو تجارتی، اقتصادی اور سیاسی طور پر بھارت کو اس کا نقصان پہنچے گا۔

دوسری جانب امریکی فوجوں کو اب افغانستان میں 19 واں سال ہے جو کسی ملک میں جنگ کی بنیاد پر امریکی فوج کے قیام کی سب سے بڑی مدت ہے۔ اس دوران بی بی سی28 فروری2020 کے مطابق 2002 سے2019 تک تقریباً 750 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات افغانستان میں ہو چکے ہیں جب کہ کل اخراجات کا 16% یعنی 137 ارب ڈالر 18 برسوں میں افغانستان کی تعمیر و ا ستحکام پر خرچ کئے گے۔

اِن میں سے85 ارب ڈالر افغانستان کے دفاع پر خصوصاً افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو مضبو ط کرنے کے لیے خرچ کئے گئے۔ منشیات جو افغانستان سمیت پاکستا ن، ایران ، سنٹر ل ایشیا کے ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اس کے خاتمے کے لیے امریکہ افغانستان میں یومیہ 15 لاکھ ڈالر خرچ کرتا رہا ہے اور 2002 سے اب تک یہ رقم 9 ارب ڈالر ہے جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق 2017 میں افغانستان میں افیون کے زیر کاشت رقبے میں ریکارڈ اضافہ ہوا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اربوں ڈالر کی رقم امریکیوں کی غفلت کی وجہ سے فراڈ اور بے قائدگیوں کی نذر ہو گئی۔ افغانستان میں 2002 سے 2019 تک 2300 امریکی فوجی ہلاک اور20660 زخمی ہوئے جب کہ گیارہ ہزار سویلین مارے گئے۔

حکومت کے مطابق 2014 سے2019 تک افغانستان میں45000 افغان فوجی جاںبحق ہوئے اور 2009 سے 2015 تک 35 ہزار سویلین جاںبحق ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امن مذاکرات کے دوران دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ وہ اگر چاہیں تو ایک کروڑ افراد ہلاک کر کے امن قائم کر دیں لیکن حالیہ مذاکرات سے ایک بار پھر اُمید ہو رہی ہے کہ41 سال سے جنگوں اور خانہ جنگیوں میں جلنے والے ملک کو امن کی اشد ضرورت ہے اور اب افغانستا ن سے خطے کے بہت سے ممالک کا امن اور ترقی وابستہ ہے، لیکن دوسری جانب اس بار2019 میں امریکہ کا دفاعی بجٹ تاریخ کابڑا دفاعی بجٹ ہے جس کا حجم 685 ارب ڈالر ہے جو دنیا کی باقی ٹاپ ٹین فوجی قوتوں کے 2019 کے مجموعی بجٹ 655 ارب ڈالر سے 30  ارب ڈالر زیادہ ہے۔ افغانستان 41 برسوں سے جنگوں اور خانہ جنگیوں سے گزر رہا ہے اور بڑی قوتیں اعلانیہ یہ کہتی رہی ہیں کہ وہ یہاں اپنے مفادات کا تحفظ کریں گی، پراکسی جنگ میں مہرے افغانستان سے یا ہمسائے ملکوں سے چلائے جاتے ہیں، اور اقوام متحدہ کا حقیقی منصف کا کردار سکیو رٹی کونسل میں پانچ ویٹو پاوز کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے ۔ (جاری ہے)

The post 41 برسوں سے جل رہے افغانستان سے امن اب بھی دور appeared first on ایکسپریس اردو.

علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
اس ہفتے آپ کے ستارے آپ کے کیریئر اور پلاننگ کے گھروں میں براجمان ہیں۔
سوموار اور منگل اس ہفتے کے اہم ترین دن ہیں۔
سنیئرز کا تعاون حاصل رہے گا، لیکن کچھ پہلو آپ کے ذہنی سکون کو متاثر بھی کرسکتے ہیں، اہم فیصلوں کا وقت، جو آپ کے آنے والے دنوں کو خوب صورت بناسکتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
آپ کا وقار بلند ہوتا نظر آتا ہے، آپ کی شخصیت میں نکھار آپ کو شہرت دے سکتا ہے۔ آپ کی درست وقت میں تیزی سے درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت بیدار ہے۔ سوموار اور 26 جولائی تھوڑی سی دقت کے ساتھ آپ کے بزنس اور کام کو بیرونِ ملک پھیلاتی نظر آتی ہے۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
یہ ہفتہ مالی حوالے سے اہم ہے، اچانک پیسہ مل سکتا ہے، ہفتہ اتوار کسی محبوب سے ملاقات ہونے کی امید ہے، ستاروں کی کچھ منفی شعاعیں آپ کی صحت کو متاثر کرسکتی ہیں، خصوصاً گلے اور سانس کی نالیوں کو۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
گذشتہ دنوں ہونے والی کیریئر کی تبدیلیاں اب آپ کو نئے سرے سے میدان میں اترنے پر اکسائیں گی۔ آپ ایک نئی توائی اور بھرپور صلاحیتوں سے آگے بڑھیں گے۔
آپ کا اعتماد بڑھ چکا ہے، ہفتہ اور اتوار کچھ مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
یہ ہفتہ آپ کو گذشتہ کئی دنوں سے جاری مسائل سے نکال دے گا،
شریکِ حیات سے تلخی کا اندیشہ ہے، کاموں میں کچھ الجھنیں ہوسکتی ہیں اور صحت متاثر رہ سکتی ہے، لیکن 23 جولائی کے بعد آپ ان حالات پر قابو پانے کی چابی حاصل کرچکے ہوں گے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
لاٹری، پرائز بانڈ اور اسی نوع کے ذرائع آمدن کی طرف توجہ مرکوز رہے گی۔
اس میں ممکن ہے کہ آپ کو کام یابی بھی مل جائے کیوںکہ آپ کے ستارے آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کے سو فی صد امکانات تب بڑھ جاتے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زحل آپ کی پیدائش کے وقت سعد تھا۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
بہت ہی شان دار ہفتہ نظر آتا ہے، آپ کے عزت ووقار میں اضافہ، آپ کا پروموشن اور آپ کے کیریئر میں اہم تبدیلی نظر آرہی ہے، مخالفیں کے حصے میں مات لکھ دی گئی ہے، کئی ہفتوں سے جاری مشکل حل ہوتی نظر آتی ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
ستارے آپ کی حمایت میں چل رہے ہیں، آپ کو کچھ اقدام کرنے میں ذہنی الجھن کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے کیوںکہ یہ ہفتہ آپ کے ذرائع آمدن کو وسعت دے اور آپ کے تعلقات کا دائرہ اور وسیع ہوجائے گا۔

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبر تا 22 دسمبر
تعلقات کا سیارہ اپنے گھر میں موجود ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ فریب دینے والا سیارہ بھی ہے، محتاط رہیں، والدین کی صحت خصوصاً بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے حوالے سے محتاط رہیں، صدقہ لازمی دیں۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
شریکِ حیات یا بزنس پارٹنر سے تعلقات میں دراڑ پڑنے کا اندیشہ ہے لیکن بدھ کو اس میں بہتری آنے کی امید ہے۔
ہفتہ اتوار آپ کی جاب اور کیریئر میں کچھ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
صحت اور کام میں جاری کچھ مسائل ابھی مکمل حل نہیں ہوںگے، کچھ ناگہانی الجھنیں پریشان کرسکتی ہیں، صدقہ دیں اور مایوسی سے نکلیں، غصہ نہ کریں اور پرسکون ہوکے ان مسائل کا حل تلاش کریں، صدقہ دیں ہفتہ اتوار کسی دوست کا تعاون حل تلاش کرنے میں مدد کرے گا۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
یہ ہفتہ 90 فی صد آپ کے لیے بہترین نظر آرہا ہے۔
کئی خوشیاں متوقع ہیں، آپ کو دلی سکون ملتا نظر آتا ہے، مالی فائدے ہونگے اور کسی مہربان سے ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ ہفتہ اتوار کچھ امور میں پریشانی ہوسکتی ہے۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

عجائب خانوں کی عجیب دنیا

$
0
0

(آخری قسط )

 49۔ اسٹیٹ بینک میوزیم کراچی ؛

پاکستان کے واحد کرنسی میوزیم کا قیام پاکستانی کرنسی اور سکوں کو محفوظ رکھنے کے لیے 2004 میں اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ میں عمل میں لایا گیا جو پہلے ”ایمپیریل بینک آف انڈیا” کی عمارت تھی۔ یونانی و رومن طرزِتعمیر کی حامل یہ عمارت 1920 میں برطانوی سامراج نے تعمیر کروائی تھی جسے اسٹیٹ بینک میوزیم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہاں کی دو گیلریوں میں کرنسی نوٹوں اور سِکوں کی گیلری شامل ہے۔

کرنسی نوٹ گیلری؛ یہ گیلری کاغذی کرنسی کی ابتدا اور ارتقاء سے متعلق معلومات مر مشتمل ہے جس میں کاغذی کرنسی کا آغاز، پاکستانی کاغذی کرنسی اور دنیا کے بیشتر ممالک کی کرنسی شامل ہے۔ 1947 سے اب تک جاری ہونے والے تمام پاکستانی نوٹ یہاں محفوظ ہیں۔

سِکہ جات کی گیلری؛ یہ گیلری سکوں سے محبت رکھنے والوں کے لیے ہے جہاں سِکہ ڈھالنے کا عمل دکھانے سے لے کر پرانی مشینیں، اوزار اور سکوں کا میٹیریل شامل ہے۔ یہاں سکے بنانے کے پورے عمل کا احاطہ کرتی ڈاکیومینٹری بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں وادیٔ سندھ کے قدیم سکوں سے لے کر عرب، مغل، برٹش اور برصغیر کے ادوار کے سکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ 1947 سے لی کر اب تک کے تمام پاکستانی سِکوں کی کلیکشن بھی موجود ہے۔

50۔ پنجاب یونیورسٹی میوزیم؛

یہ میوزیم لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں ایگریکلچرل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے سامنے واقع ہے جس کا افتتاح جنوری 2016 میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کیا۔یہ میوزیم خاص طور پر علمِ حیوانات و حیاتیات کے طالب علموں کی تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ علمی و تحقیقی عجائب گھر بیشتر حیوانات بشمول آبی جانور، کیڑے و حشرات الارض، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جانوروں سے محبت کرنے والوں اور ماہر حیاتیات کے لیے یہ دیکھنے لائق ہے۔

51۔ پاکستان میری ٹائم میوزیم؛

پاک بحریہ کے زیرانتظام یہ عجائب گھر و تفریح گاہ کراچی کی مشہور شاہراہ شاہراہ فیصل کے قریب واقع ہے۔ یہاں بحری امور سے وابستہ نادر اشیاء کا اہم ذخیرہ موجود ہے۔

یہ میوزیم چھے گیلریز اور ایک آڈیٹوریم پر مشتمل ہے۔ اس میوزیم میں جدید طریقوں سے پاک بحریہ کی تاریخ کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ بحریہ کا قدیم ورثہ اور میری ٹائم کے مختلف لوازمات، خوب صورت تصاویر جن میں محمد بن قاسمؒ کی دیبل پر حملے کی تصویر بھی شامل ہے، قدیم اسلامی جہازرانی کے اوزار، نقشے اور تھری-ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے دکھائے گئے ہیں۔

ان سب کے علاوہ پاک بحریہ کی آبدوز پی این ایس ہنگور اور مجاہد بھی یہاں رکھی گئی ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کی تاریخ کو تصویروں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ پارک کے اندر منوڑا لائٹ ہاؤس جیسا ایک لائٹ ہاؤس بھی بنایا گیا ہے۔ دیکھنے والے اس لائٹ ہاؤس سے پورے میوزیم کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔یہاں کی میرین لائف گیلری میں سمندر کے اندر موجود بے شمار مخلوق اور کورل ریف کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ایک جگہ ایک عظیم الجثہ وھیل کا ڈھانچا چھت سے لٹکایا گیا ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتا ہے۔بحریہ سے محبت رکھنے والوں کو پاکستان میں بحری امور سے متعلق واحد میوزیم لازمی دیکھنا چاہیے۔

52۔ قومی عجائب گھر برائے سائنس و ٹیکنالوجی؛

آج کے دور میں سائنس و ٹیکناوجی کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں ہم بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اسی تناظر میں جی ٹی روڈ پر لاہور کی انجنیئرنگ یونیورسٹی کے مقابل 1965 میں ایک میوزیم بنایا گیا جہاں سائنس سے متعلق بہت سا کام نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس میوزیم کا آئیڈیا 1965 میں محمد اکمل صاحب نامی ایک سابقہ مکینیکل انجینیئر نے پیش کیا تھا جنہوں نے سب سے پہلے اسے انجنیئرنگ یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے کھولنے کا خیال پیش کیا تھا۔ اس میوزیم کو 1976میں عوام کے لیے کھولا گیا۔ اپنی مقبولیت کی بدولت گذشتہ پگپن سالوں میں اس عجائب گھر کی کئی بار توسیع کی گئی اور اسے عالمی معیار کے مطابق بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس عجائب گھر کی مختلف گیلریوں سے گزرتے ہوئے آپ نت نئی مشینیں، مقناطیس، ڈیزل جنریٹر، برقی آلات، راکٹ ٹیکنالوجی، پینڈولم اور دیگر اہم سائنسی سامان دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دوسری منزل پر ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں طالب علم مختلف سائنسی جریدوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان کا واحد سائنسی میوزیم ہونے کی بدولت یہاں عوام الناس کا رش دیکھنے کو ملتا ہے۔

53۔ لائل پور میوزیم؛

فیصل آباد کے پرانے نام کو ”لائل پور” میوزیم سے زندہ رکھا گیا ہے اور بلاشبہہ یہ ایک احسن اقدام ہے کہ پرانے نام بھی ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر واقع یہ میوزیم ساندل بار کی ثقافت کا مظہر ہے جہاں 10 گیلریوں میں قدیم و جدید تاریخ کو زندہ رکھا گیا ہے۔ اس میوزیم کو 2011 میں اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بنوایا تھا جو بورڈ آف گورنرز کے زیرنگرانی تھا۔ اب یہ میوزیم کمشنر فیصل آباد ڈویژن کے ماتحت ہے۔ اس کی وجہ شہرت پارچہ بافی اور ساندل بار گیلریاں ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔سب سے پہلے گنگاپور کی گھوڑا گاڑی یا گھوڑا ٹرین کا ماڈل آپ دیکھ سکیں گے جو سر گنگا رام کی اہم خدمات میں سے ایک تھی۔

تعین سمت و سوچ گیلری؛میوزیم کے دروازے سے داخل ہوتے ہی یہ پہلی گیلری ہے جس میں پتھر کے دور سے شروع کر کے قیام پاکستان تک آتے آتے مختلف ادوار کو ایک دیوار پر دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد مختلف نقشہ جات آویزاں ہیں جن میں پاکستان ، پنجاب اور فیصل آباد ڈویژن کے ساتھ ضلع، شہر اور ٹاؤن لیول تک کے نقشے شامل ہیں۔ یہاں فیصل آباد کے فضائی منظر کا بھی ایک نقشہ دکھایا گیا ہے۔

ساندل بار گیلری؛دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو بار کہا جاتا ہے۔ ساندل بار پنجاب کا وہ علاقہ ہے جو راوی اور چناب کے بیچ واقع ہے اور لائل پور اس کا مرکزی شہر ہے۔اس جگہ ساندل بار کا ایک بڑا نقشہ، یہاں کی ثقافت، رسم و رواج، کھیل اور اس علاقے میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس کے نمونے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ساندل بار کے علاقے میں پرندوں کی تین سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ان میں سے تیس کے قریب انواع کو اس گیلری میں دکھایا گیا ہے۔ ساندل بار کے علاقے میں پائے جانے درختوں اور پودوں کے حوالے سے بھی مواد موجود ہے۔ دوآبے اور بار اس گیلری کا اہم موضوع ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں بولی جانے والی زبانوں کے حوالے سے نقشہ جات بھی ہیں۔

گیلری کی اہم بات یہ کہ اس کے ایک جانب دریائے راوی اور دوسری طرف چناب کی منظرکشی کی گئی ہے جو اپنے عنوان ساندل بار سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے اس کا تصوراتی منظر پیش کرتا ہے۔

مقامی قدیم ورثہ گیلری؛میوزیم کی تیسری گیلری میں آثار قدیمہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ساندل بار کے مختلف اضلاع میں واقع قدیم ٹبوں اور عمارتوں کو ٹائلز کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ چنیوٹ کی پہاڑیوں کی سنگ تراشی کے نمونے، مٹی کے مجسمے، قیمتی موتی اور سکوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔اس گیلری میں شورکوٹ ، گندھارا اور انڈس ویلی جیسی قدیم ادوار کی کوزی گری بھی رکھی گئی ہے۔ سجاوٹی کام سے مزین لکڑی کا بنا کجاوہ، جو اونٹ پر رکھا جاتا ہے، بھی یہاں رکھا گیا ہے۔

مسلم تا انگریز ورثہ گیلری؛عجائب گھر کی چوتھی گیلری میں حضرت سلطان باہوؒ کے مقبرے کا دل کش ماڈل، اسلامی طرز کے خوب صورت ڈیزائن والے قدیم عمارتوں کے حصے، قرآن پاک کے نادر نسخے، ظروف سازی، دھاتی و روغنی کام اور سکھ و انگریز دور کے مختلف جنگی ہتھیار رکھے گئے ہیں۔

چناب کالونی گیلری؛اس میں برطانوی دور کے اندر بننے والی لوئر چناب کالونی، ریلوے اور نہری نظام کو ایک بڑے نقشے کی مدد سے دکھایا گیا ہے ساتھ ہی جھنگ اور چنیوٹ میں واقع پُل کو تصویری شکل میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ برطانوی، سکھ اور مغل ادوار میں استعمال ہونے والے اسلحے کے ساتھ ساتھ ملتانی ٹائل ورک اور کیلی گرافی کے نمونوں کے شوکیس بھی ہیں۔ لوئر چناب کالونی کا ایک خوب صورت ماڈل بھی اس کی زینت ہے۔

لائل پور گیلری؛اس گیلری میں برطانوی دور میں بننے والے لائل پور کے نقشہ جات اور اس دور میں کیے جانے والے مختلف معاہدوں کی قانونی دستاویزات موجود ہیں۔ برطانوی دور میں مختلف ذاتوں اور ان کے لباس کے حوالے سے تاریخی تصاویر کے ساتھ ساتھ برٹش دور سے لیکر اب تک فیصل آباد میں شہر سازی کس طرح بڑھی ہے، اس پر جی آئی ایس کی مدد سے تیار نقشے بھی رکھے گئے ہیں۔

سوچ و عمل گیلری؛ یہاں قیام پاکستان سے قبل انگریزوں کے دفاتر میں استعمال ہونے والی اشیاء سمیت مواصلات کے اوزار، قدیم ہتھیار، عدالتی سامان سمیت اس دور میں تعمیر ہونے والی اہم عمارتوں کی بہترین تصاویر لگائی گئی ہیں۔

ساندل بار سے تعلق رکھنی والی مختلف شخصیات کی تصاویر بھی اس گیلری کا حصہ ہیں جن میں دلا بھٹی، احمد خان کھرل شہید، بھگت سنگھ، سر گنگا رام، نصرت فتح علی خان، ارفع کریم، ڈاکٹر عبدالسلام، حضرت سلطان باہوؒ، بابا گرونانک اور صوفی برکت علی نمایاں ہیں۔

معاشرتی حسن گیلری؛یہ گیلری مختلف قدیم پیشوں کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ چاندی کے زیورات بنانے کے مختلف اوزار، کمہار اور لوہار کے اوزار، پتلی تماشہ، قدیم لباس، کپڑوں پر ٹھپا سازی کی صنعت کے حوالے سے مختلف اشیاء کے شوکیس موجود ہیں۔ چنیوٹ کے لکڑی کے کام میں استعمال ہونے والے اوزار بھی رکھے گئے ہیں۔یہاں لائل پور کی اہم شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں ہیں جن میں ضیاء محی الدین، ساحر لدھیانوی، ڈاکٹر طارق رحمان، امیتابھ بچن کی والدہ اور مالا بیگم کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔ بھگت سنگھ کے گھر کی مختلف اشیا کا ایک کارنر الگ سے موجود ہے۔

پارچہ بافی گیلری؛چوںکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذکر کے بغیر فیصل آباد کا تعارف ادھورا ہے اس لیے یہ یہاں کی اہم گیلری ہے۔ اس گیلری میں ہاتھ اور کھڈی سے بنے ہوئے کپڑوں کے مختلف نمونہ جات، ہاتھ سے کام کرنے والے اوزار چرخہ، روئی دھننے والا آلہ، بیلنا اور کھڈی وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

تحریک پاکستان گیلری؛

اس گیلری میں تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کی مختلف تصاویر کے علاوہ ارفع کریم کو ملنے والے تمغوں اور اس کے زیراستعمال اشیا رکھی گئی ہیں۔حضرت سلطان باہوؒ کے مقبرے کا ماڈل اور جھنگ سے نکلنے والے نوادرات بھی عجائب گھر کا حصہ ہیں۔

54۔ لاہور ہیریٹیج کلب میوزیم؛

طاہر یزدانی ملک صاحب (مرحوم) لاہور کی ایک جانی مانی ہستی تھے۔ وہ ایک سیاح اور تاریخ و ثقافت سے انتہائی محبت کرنے والے شخص تھے جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنی اسی محبت بلکہ جنون سے مجبور ہو کر انہوں نے اپنے گھر کے ایک مخصوص حصے میں لاہور ہیریٹیج کلب اور میوزیم کی بنیاد رکھی۔ افسوس کہ میں ان کی زندگی میں ان سے ملاقات نہ کر سکا۔ ان کی یہ تنظیم خالصتاً غیرسرکاری اور غیرمنافع بخش ہے۔

کہتے ہیں کہ ان کے پاس زبردست معلومات تھیں اور جب ایک بار وہ کسی موضوع پر بولنا شروع ہوتے تھے تو سننے والا گنگ رہ جاتا تھا۔

ان کے اس میوزیم میں آپ ہزارہ اور وادیٔ کالاش کے خوب صورت اور نفیس ملبوسات کے علاوہ خوب صورت گھڑٰیال، شمع دان، چھوٹا دھاتی سامان، ڈھیر ساری پرانی استریاں، عطر کی شیشیاں، روایتی ملبوسات، پُرانے ریڈیو، بُدھا کے مجسمے، خوب صورت پیانو، جنگِ عظیم کی بندوقیں، ہزارہ ثقافت کی خوب صورت جائے نماز اور پرانی پاکستانی و ہندوستانی فلموں کی تصاویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔تاریخ کے متوالوں کے لیے یہ میوزیم کسی خزانے سے کم نہیں۔یہ میوزیم گلبرگ بلاک ای میں واقع ہے جسے آج کل طاہر یزدانی مرحوم کے بیٹے علی شیر طاہر دیکھ رہے ہیں۔

55۔ کومو میوزیم آف آرٹ؛

(COMO (contemporary/modern) Museum of Art )

لاہور کے علاقے گلبرگ کے قلب میں واقع کومو میوزیم، پاکستان کا پہلا میوزیم ہے جو خصوصی طور پر صرف جدید و ہم عصر آرٹ کی ترقی و ترویج کے لیے بنایا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے مقاصد میں لاہور میں ادب، ثقافت اور آرٹ کو پروان چڑھانا بھی شامل ہے جس کے لیے یہاں ہر قسم کی نمائشیں اور بیٹھکیں منعقد کی جاتی ہیں۔

یہ میوزیم سال 2019 کے اوائل میں آرٹسٹ و ڈیزائنر سحر ترین نے بنایا ہے۔ یہاں کا خوب صورت اسٹوڈیو تمام آرٹسٹس کے کام کو سراہنے کا کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔ یہ میوزیم 2019 کے لاہور لٹریری فیسٹیول اور لاہور بینالے جیسے ایونٹس کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔ہر سال مئی کی 18 تاریخ کو دنیا بھر میں عجائب گھروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سیاح کا تعلق اس کی زمین، اسکی ثقافت سے تب تک نہیں جڑ سکتا جب تک وہ ان عجائب گھروں میں محفوظ اپنی تاریخ میں دل چسپی نہیں لیتا۔سیاحت کا، تاریخ کا، رسم و رواج کا، ثقافت کا اور ان عجائب گھروں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور انہی کے حسین امتزاج کو ہم ورثہ کہتے ہیں۔

عالمی یوم عجائب گھر، ہر سال دنیا بھر میں ”بین الاقوامی کونسل برائے عجائب گھر ”کے تعاون سے 18 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عجائب گھروں کی اہمیت اور اس کے معاشرے اور ثقافت پر اثرات کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 1977ء میں ہوئی۔ عالمی یوم عجائب گھر کی شراکت میں عالمی سطح پر ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016ء میں 145 ممالک کے 35,000 عجائب گھروں نے اس عالمی یوم میں شرکت کی۔

پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو جتنا یہ تاریخ و ثقافت کے حوالے سے امیر ملک ہے، اتنے ہی کم ہمارے پاس عجائب گھر ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حکومتی سرپرستی میں ہمارے پاس تقریباً 56 چھوٹے بڑے میوزیم اور 12 آرٹ گیلریز موجود ہیں، جب کہ دو درجن کے قریب نجی عجائب گھر بھی مقامی ثقافت کو سنبھالنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ عجائب گھر ہمارا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جن کے بغیر ہماری تاریخ نا مکمل ہے۔ ان کی تعداد میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملتان اور ڈیرہ غازی خان جیسے بڑے اور تاریخی شہروں میں میوزیم کا نہ ہونا بھی سراسر زیادتی ہے۔ ذرا سوچیں تو، وہ شہر کہ جس کی بنیادوں میں عجائبات بھرے پڑے ہیں ایک عجائب گھر سے محروم ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے یہاں ایک عجائب گھر کا قیام ناگزیر ہے۔ حکومت وقت کو اس پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے تاکہ اس خطے کے تاریخی و ثقافتی خزانوں کو یہیں نمائش کے لیے رکھا جا سکے۔

The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکی اشرافیہ موساد کے شکنجے میں

$
0
0

’’میں مظلوم کی ہرممکن مدد کروں گا چاہے وہ میرا دشمن  ہو۔مگر میں غدار کو کبھی معاف نہیں کر سکتا چاہے وہ میرا بھائی ہی ہو۔‘‘(ارطغرل،بانی سلطنت عثمانیہ)

٭٭

پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ کراچی کا جرائم پیشہ رہنما،عذیر بلوچ غدار بھی تھا۔ اس نے پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسی کو پاکستانی عسکری تنصیبات کی تفصیل فراہم کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را سے بھی رابطے میں رہا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے غدار پائے جاتے ہیں جو خصوصاً دشمنوں کا ساتھ دے کر پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں۔انہی بدبختوں کے متعلق شاعر مشرقؒ نے فرمایا تھا:

جعفراز بنگال و صادق از دکن

ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن

(بنگال میں نواب سراج الدولہؒ سے غداری کرنے والے میر جعفر اور دکن میں سلطان ٹیپوؒ کے غدار میر صادق کا وجود انسانیت، دین اور وطن تینوں کے لیے باعث عار اور شرمناک ہے۔)

دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں مختلف ممالک میں لوگوں کو غدار بنانے کی خاطر بہت پاپڑ بیلتی ہیں۔ کبھی زر کا جال پھینکا جاتا ہے تو کبھی زن و زمین کا۔ لالچی اور خواہش پرست انسان آخر اس جال میں پھنس کا ملک و قوم سے غداری کرنے کا ناقابل معافی جرم کر بیٹھتے ہیں۔ اس خرابی سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں چاہے وہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا ہی ہو۔حال ہی میں انکشاف ہوا کہ امریکا کا بدنام زمانہ متوفی کھرب پتی، جیفرے اپستین(Jeffrey Epstein) اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد کا ایجنٹ تھا۔ موساد اس کے ذریعے دنیا بھر خصوصاً امریکا کے ایلیٹ طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوں کو جنس کے ہتھیار کی مدد سے جال میں پھانستی اور پھر انہیں اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر استعمال کرتی ۔

جیفرے کی کہانی  ڈرامائی اور حیرت انگیز ہے۔ یہ عیاں کرتی ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کیونکر ہر ملک میں جاسوسی کے جال بچھا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں۔اور یہ بھی کہ بظاہر قانون پسند اور انسانی حقوق کے چیمپئن بنے بیٹھے ملکوں میں بھی اقتدار کے ایوانوں میںاخلاقیات،قانون اور اصولوں کو پیروں تلے روند کر بڑے گھناؤنے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔

امریکی اور مغربی میڈیا میں مگر یہ انکشاف چھپالیا گیا کہ جیفرے موساد کا ایجنٹ تھا۔وجہ ظاہر ہے۔ امریکی مغربی میڈیا کے بیشتر مالکان یہودی یا ان کے آلہ کار ہیں۔ اسی لیے وہ موساد کوبدنام کرنے والی خبریں زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیتے۔ چناں چہ عام امریکی اس تلخ سچائی سے ناواقف ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی اپنے ایجنٹوں (اور امریکا کے غداروں) کی مدد سے سرزمین امریکا پر نہایت خوفناک کھیل کھیلنے میں مصروف رہی ہے۔ اس کھیل کا واحد مقصد جنس کی فطری ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر امریکی ایلیٹ طبقے کو  اپنے قابو میں لانا تھا۔

امریکا میں جیفرے اپستین کے طریق واردات پر روشنی ڈالتی پندرہ سے زائد کتب شائع ہوچکیں۔ ان میںFilthy Rich: The Shocking True Story of Jeffrey Epstein،

Epstein: Dead Men Tell No Tales، TrafficKing: The Jeffrey Epstein case اور Relentless Pursuit: My Fight for the Victims of Jeffrey Epsteinقابل ذکر ہیں۔ یہ منکشف کرتی ہیں کہ کیسے ایک غریب گھرانے میں جنم لینے والا ناجائز بچہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا آلہ کار بنا۔ جو آشکارا کرتی ہیںکہ مغربی ممالک کے معاشرے میں موساد نے گہرائی میں پنجے گاڑ رکھے ہیں اور وہ خصوصاً امریکی ایلیٹ طبقے میں نفوذ کرکے انہیں مختلف حیلے بہانوں اور ہتھکنڈوں سے اپنے قابو میں کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعے مملکت اسرائیل کے مفادات کی تکمیل ہوسکے۔

مثال کے طور پر امریکی پارلیمنٹ (کانگریس)، فوج اور افسر شاہی کے بہت کم ارکان فلسطین میں جاری اسرائیلی حکومت کے ظلم و ستم پر احتجاج کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے، امریکی ایلیٹ طبقے کے بیشتر ارکان کے ضمیر خوابیدہ ہیں؟ وہ اسرائیلی حکمران طبقے کے مظالم دیکھتے ہوئے بھی کیوں خاموش رہتے ہیں؟ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ موساد ان کی نجی زندگی کے بارے میں چشم کشا راز اپنے قبضے میں رکھتی ہے۔ یہ راز منظر عام پر آجائیں تو امریکی عوام میں ان کی عزت دو کوڑی کی  نہ رہے۔ لہٰذایہ راز پوشیدہ رکھنے کی خاطر امریکی ایلیٹ طبقے کے ارکان موساد کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر آزادی سے اہم معاملات پر رائے نہیں دے پاتے۔ جیفرے کی داستان  یہی خوفناک سچائی بڑی بے باکی سے سامنے لاتی ہے۔

یہود کی سرپرستی

جیفرے اپستین 1952ء میں نیویارک میں پیدا ہوا۔ اس کا یہودی دادا انیسویں صدی میں روس سے امریکا آیا تھا۔ باپ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی فوجی رہا۔ جنگ کے بعد بلدیہ نیویارک میں اسے بطور مالی ملازمت مل گئی۔ اس کا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ بیسی نامی لڑکی کو کئی سال داشتہ بنائے رکھا۔ جب وہ حاملہ ہوگئی تو مجبوراً اس سے شادی کرنا پڑی۔ چند ماہ بعد جیفرے پیدا ہوا۔اس نے مقامی سکولوں میں تعلیم پائی۔ وہ ایک عام طالب علم تھا۔ تاہم ایک عمل ترقی کرنے کی وجہ بن گیا۔وہ یہ کہ امریکا میں سبھی یہودی ایک دوسرے سے تعلق رکھتے اور آگے بڑھنے میں مدد کرتے ہیں…چاہے انہیں غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات کرنا پڑیں۔ جیفرے کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ وہ نیویارک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا کہ 1973ء میں مشہور ڈالٹن سکول کے پرنسپل، ڈونالڈ بر نے اسے بطور ریاضی استاد ملازمت دے دی۔

ڈونالڈ بر دوسری جنگ عظیم میں امریکی خفیہ ایجنسی، او ایس ایس کا افسر رہا تھا۔ اسی ادارے کے بطن سے نئی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے جنم لیا۔ ڈونالڈبر اس  سے بھی منسلک رہا۔ وہ پھر شعبہ تعلیم کی سمت آگیا۔ امریکی محقق لکھتے ہیں کہ ڈونالڈ بر نے جیفرے کا جعلی سی وی تیار کیا۔ اس میں اسے گریجویٹ دکھایا گیا حالانکہ وہ ابھی زیر تعلیم تھا۔ ڈونالڈ بر نے یہ فراڈ انجام دے کر بہ حیثیت پرنسپل جیفرے کو بھرتی کرلیا۔ یاد رہے ڈونالڈ بھی یہودی تھا۔ گو ترقی کرنے کی خاطر وہ نوجوانی میں عیسائی بن گیا  مگر اس نے یہودی کمیونٹی سے تعلقات برقرار رکھے۔اسی لیے وہ جیفرے کو جانتا تھا۔

1973ء میں ڈونالڈبر نے ایک ناول’’ Space Relations‘‘ لکھا تھا۔ اس میں ایک سیارے کا تذکرہ ہے جہاں ایلیٹ طبقے نے خواہشات کی تکمیل کے لیے بچوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ تعجب خیز بات یہ کہ کئی سال بعد جیفرے نے اسی کریہہ انگیز تصّور کو حقیقت کا روپ دے ڈالا۔

ڈالٹن سکول میں نیویارک کے طبقہ ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے لڑکے لڑکیاں پڑھتے تھے۔ انہیں پڑھاتے پڑھاتے جیفرے لڑکیوں سے عشق لڑانے لگا۔ یہی وجہ ہے، سکول انتظامیہ نے اس کی ناشائستہ سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نکال دیا۔ تب تک جیفرے کا مربی، ڈونالڈبر بھی سکول چھوڑ چکا تھا۔ آج کل اس کا بیٹا، ولیم بر امریکا میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز ہے۔ اس کی رگوں میں بھی یہود کا خون دوڑ رہا ہے۔ بظاہر یہ کیتھولک ہے۔ امریکا میں مسلم مہاجرین کی آمد کا سخت مخالف ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، ڈالٹن سکول میں امرا کے بچے پڑھتے تھے۔ انہی میں ایلن گرین برگ کے بچے بھی شامل تھے۔ ایلن ایک سرمایہ کار کمپنی، بیئر سٹرنز(Bear Stearns) میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ اس کا یہودی دادا روس سے آیا تھا۔ جیفرے نے موقع پاکر اس سے تعلقات قائم کرلیے اور ایلن گرین برگ کے بچوںکو پڑھانے لگا۔ یہ تعلقات رنگ لائے اور ایلن نے کہیں زیادہ تنخواہ پر جیفرے کو اپنی کمپنی میں ملازمت دلوادی۔ یہ 1976ء کی بات ہے۔

پہلا جرم

1978ء میں ایلن اپنی کمپنی کا سی ای او بن گیا۔ اب تو جیفرے کی گویا لاٹری نکل آئی۔ وہ کمپنی میں تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ 1980ء تک وہ کمپنی کا حصے دار بن چکا تھا۔ اس نے امریکا کے نامی گرامی سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور تاجروں سے تعلقات بڑھالیے۔1981ء میں مگر اسے کمپنی سے نکال دیا گیا۔ دراصل جیفرے ’’ان سائیڈ ٹریڈنگ‘‘ کرتے ہوئے پکڑا گیا جو امریکا میں جرم ہے۔ تاہم ایلن گرین برگ سے تعلقات کے باعث جیفرے مقدمے میں پھنسنے سے بچنے میں کامیاب رہا۔اس  نے جلد ہی اپنی کمپنی کھول لی۔ وہ ان دولت مندوں کو اپنی خدمات پیش کرنے لگا جن کا سرمایہ فراڈیے بروکر یا وکیل ہڑپ کرجاتے تھے۔ جیفرے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کوششوں سے ان کا سرمایہ بہ عوض فیس واپس کراسکتا ہے۔ اس امر سے افشا ہوتا ہے کہ تب جیفرے سی آئی اے کا ایجنٹ بن چکا تھا۔ ظاہر ہے، خفیہ ایجنسی سے اپنے تعلقات کے بل بوتے پر ہی اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے گاہکوں کوجرائم پیشہ لوگوں سے رقم واپس دلوا دے گا۔

اس زمانے میں جیفرے کے پاس آسٹریا کا جعلی پاسپورٹ تھا۔ اس میں تصویر تو اسی کی تھی مگر نام جعلی تھا۔ پاسپورٹ میں اسے سعودی عرب کا سکونتی بتایا گیا۔ یہ جعلی پاسپورٹ 2019ء میں جیفرے کی گرفتاری کے بعد اس کے گھر میں موجود تجوری سے برآمد ہوا۔ اسی دور میں وہ اسلحہ بھی اپنے پاس رکھتا تھا۔ ان دونوں ثبوتوں سے عیاں ہے کہ جیفرے تب اپنے سرپرستوں کی مدد سے سی آئی اے کا ایجنٹ بن چکا تھا۔جیفرے نے اس زمانے جن گاہکوں کے لیے اپنی خدمات انجام دیں، ان میں عدنان خشوگی کا نام بھی شامل ہے۔ تب یہ ایک بہت بڑا سعودی اسلحہ ڈیلر تھا۔ ممکن ہے کہ اسی سے تعلقات کی بنا پر جیفرے کے جعلی پاسپورٹ میں سعودی عرب کا پتا لکھ دیا گیا۔

1987ء میں ایک امریکی صیہونی عیسائی (صیہونیت سے رغبت رکھنے والے غیر یہودی) سٹیون ہوفن برگ نے جیفرے کی خدمات حاصل کرلیں۔ یہ شخص مہا فراڈیا تھا۔ اس نے ایک کمپنی، ٹاورز فنانشل کارپوریشن کھول رکھی تھی۔ یہ دراصل ’’پونزی اسکیم‘‘ (Ponzi scheme) تھی یعنی لوگوں سے سرمایہ کاری کے نام پر رقم بٹورنے کا بہانہ تھا۔ جیفرے نے اسے مزید مالیاتی طریقے بتائے جن کی مدد سے سٹیون دھوکے بازی کے ذریعے عوام سے مزید سرمایہ چھین سکتا تھا۔ 1993ء میں کمپنی کا فراڈ طشت ازبام ہوگیا۔ مگر اس سے قبل 1989ء میں جیفرے کمپنی کو چھوڑ چکا تھا۔ بنیادی وجہ یہ کہ انہی دنوں اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد نے بھی جیفرے کو اپنا ایجنٹ بنالیا تھا۔

موساد سے رابطہ

موساد اس لحاظ سے دنیا کی عجیب و غریب خفیہ ایجنسی ہے کہ وہ جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے دوست دشمن میں تمیز نہیں کرتی۔ وہ صرف اسرائیل کے مفادات مدنظر رکھتی اور ضرورت پڑنے پر اپنے سرپرست …امریکی حکمران طبقے کو بھی چونا لگا جاتی ہے۔ پچھلے اسّی برس میں ایسے کئی واقعات جنم لے چکے جب موساد کے ایجنٹ امریکا میں امریکیوں کی جاسوسی کرتے یا امریکی مفادات کونقصان پہنچاتے پکڑے گئے۔ ان ایجنٹوں کو سزائیں بھی ملیں مگر یہ سلسلہ رک نہیں سکا۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکا میں یہودی امریکی حکمران طبقے میں اتنا زیادہ نفوذ کرچکے کہ وہ اپنے مفادات کو ایک حد سے زیادہ کبھی متاثر نہیں ہونے دیتے۔

یہ یقینی ہے کہ 1988ء کے آس پاس موساد نے امریکی یہودی، جیفرے اپستین کو اس لیے اپنا ایجنٹ بنایا تاکہ امریکا کے مالیاتی شعبے میں دخل ہوسکے۔ وہ اس کی وساطت سے امریکی سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، تاجروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈائریکٹروں وغیرہ کے پوشیدہ راز جاننا چاہتی تھی۔ بہرحال موساد کا ایجنٹ بن کر جیفرے کی حیثیت اور مرتبے میں زیادہ اضافہ ہوگیا۔ ظاہر ہے، اس کی چرب زبانی اور پُرکشش شخصیت دیکھ کر ہی موساد نے اسے اپنا ایجنٹ بنایا۔ موساد کو یقین تھا کہ وہ دیئے گئے مشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جیفرے کی داستان عجب سے  عیاں ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں یہود ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ترقی کی سیڑھی چڑھنے میں ہم مذہبوں کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل کی قومی سلامتی کا معاملہ ہو تو وہ دل کھول کر رقم لٹاتے ہیں۔ جیفرے کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ وہ موساد کا ایجنٹ بنا، تو امریکا میں اسے ایک اور امیر کبیر یہودی مربی، لس ویکسنر مل گیا۔ وہ ایل  برانڈز (L Brands)نامی کمپنی کا کھرب پتی مالک تھا۔

 غلیسین کے ساتھ شراکت

لس ویکسنر نے جیفرے کو اپنا مالیاتی مشیر بنالیا۔ ساتھ ساتھ وہ اسے امریکا اور برطانیہ میں موساد کے ایسے خفیہ ایجنٹوں سے ملانے لگا جو ’’ہائی سوسائٹی‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بظاہر معززین میں شامل تھے مگر حقیقتاً امریکی و برطانوی معاشروں میں سرگرم بیشتر یہودی کسی نہ کسی طرح اسرائیل کو فائدہ پہنچارہے تھے۔ انہی میں رابرٹ میکسویل بھی شامل تھا، برطانیہ میں ایک بڑا میڈیا ٹائکون۔

رابرٹ میکسویل روسی یہودی تھا۔ 1948ء میں موساد کا ایجنٹ بن گیا۔ بعدازاں یورپی ممالک میں سرگرم یہود کی مدد سے ترقی کرتا گیا۔ اس نے مختلف اخبارات و رسائل خریدلیے جن میں ڈیلی مرر نمایاں تھا۔ وہ ان کے ذریعے اسرائیلی مفادات کی تکمیل کرنے لگا۔ اس نے جیفرے کو بھی بتایا کہ میڈیا کو پروپیگنڈا ہتھیار کیسے بنایا جاتا ہے تاکہ یورپ اور امریکا میں عوام اسرائیلی مفادات سے ہمدردی اور قربت محسوس کرنے لگیں۔

جیفرے نے رابرٹ میکسویل کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اس کی بیٹی، غلیسین کے ساتھ تعلقات قائم کرلیے۔ وہ ایک سوسائٹی گرل تھی۔ جو مرد اسے بھاتا، اس کے ساتھ نتھی ہوجاتی۔ دونوں کا معاشقہ جاری تھا کہ 1991ء میں بظاہر کاروباری خسارے کے باعث رابرٹ نے خودکشی کرلی۔ لیکن اندرون خانہ کے رازوں سے شناسا امریکی صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ ر براٹ نے اسرائیلی حکومت سے دس ملین ڈالر طلب کیے تھے تاکہ اپنے گرتے کاروبار کو سہارا دے سکے۔ اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر رقم نہ ملی تو وہ برطانیہ اور امریکا میں موساد کی خفیہ سرگرمیوں سے پردہ اٹھا دے گا۔ اس دھمکی کے سبب اسرائیلی حکمرانوں کو رابرٹ سے خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے اس کا قصّہ تمام کرادیا۔

باپ کی موت کے بعد بھی غیسلین نے جیفرے سے ملنا جلنا رکھا۔ غیسلین کا برطانیہ اور امریکا کی ہائی سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس کی وساطت سے جیفرے اپستین بھی دونوں ممالک کی ہائی سوسائٹی کا حصہ بن گیا۔ یہ یقینی ہے کہ اسی دوران موساد نے غیسلین کو بھی اپنا ایجنٹ بنالیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ باپ کی زندگی ہی میں یہ مقام پاچکی ہو۔ بہرحال اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے دو طاقتور مغربی ملکوں کے ایلیٹ اور اعلیٰ ترین طبقے میں اپنے ایجنٹ چھوڑ دیئے۔چندسال گزار کر جب جیفرے نئے انداز زندگی سے ہم آہنگ ہوگیا تو یہ منصوبے بننے لگے کہ امریکی ایلیٹ طبقے کے ارکان کو اپنی مٹھی میں کیونکر لیا جائے؟ موساد انہیں اپنے جال میں پھانس کر اسرائیل کے مفادات پورے کرنا چاہتی تھی۔ غوروفکر کے بعد جنس کوبطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ یہ منصوبہ غیسلین اور جیفرے کے سپرد ہوا تاکہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔

منصوبے کے مطابق غیسلین امریکا اور برطانیہ میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بے سہارا کم عمر لڑکیوں کو تلاش کرنے لگی۔ جب کوئی ایسی معقول صورت لڑکی ملتی تو وہ اس سے دوستی کر لیتی۔اسے عمدہ کھانے کھلاتی،  اچھے لباس فراہم کرتی اور رقم بھی دے ڈالتی۔ یوں وہ اسے اپنے دام میں گرفتار کرلیتی۔ رفتہ رفتہ وہ بہلا پھسلا کر لڑکی کو جسم فروشی پر آمادہ کرلیتی۔ اسی دوران جیفرے نے نیویارک، فلوریڈا، پیرس اور سٹینلے میں گھر خرید کر وہاں عیاشی کے اڈے قائم کردیئے۔ بعدازاں کریبین کے علاقے میں ایک پورا جزیرہ خریدا اور وہاں نیا اڈا بنادیا۔ ہر اڈے کے کمروں اور خواب گاہوں میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تاکہ وہاں انجام پائی ہر سرگرمی ریکارڈ کی جاسکے۔1994ء سے موساد کے وضع کردہ منصوبے پر عمل شروع ہوگیا۔ جیفرے اور غیسلین پہلے عالمی ہائی سوسائٹی کے کسی بااثر رکن کو ٹارگٹ کرتے۔ پھر وہ کسی لڑکی کے ساتھ تعلق بنانے کا لالچ دے کر اسے اپنے کسی عیاشی کے اڈے میں لے آتے۔ وہاں اس کی نازیبا ویڈیو بناکر اسے اپنے شکنجے میں کس لیا جاتا۔ وہ بااثر شخصیت پھر مجبوراً بظاہر جیفرے و غیسلین مگر حقیقتاً موساد کے اشاروں پر چلنے لگتا۔

ہائی پروفائل ناموں کی فہرست

جیفرے و غیسلین آہستہ آہستہ اپنے مکروہ دھنے کو وسعت دیتے چلے گئے۔ ساتھ ساتھ جیفرے سرمایہ کار بن گیا۔پُراسرار طور پر سرمایہ کاری نے اسے کھرب پتی بنا دیا۔ یقنناً یہ ترقی موساد کی مرہون منت تھی۔ اس نے بوئنگ طیارہ خریدا اور اسے ’’لولیتا ایکسپریس‘‘ کا نام دیا۔ یہ جہاز ہائی پروفائل مہمانوں کی آمدورفت کے لیے استعمال ہوتا۔ اس کے احباب میں بل کلنٹن (سابق امریکی صدر)، ڈونالڈ ٹرمپ، برطانوی شہزادہ اینڈریو، یہود باراک (سابق اسرائیلی وزیراعظم)، ٹونی بلیئر (سابق برطانوی وزیراعظم)، ہنری کسنجر (سابق وزیر خارجہ)، رپرٹ مردوخ (میڈیا ٹائکون) اور امریکا و برطانیہ کے نامی گرامی سیاست داں، صنعت کار، سرمایہ کار، سیلی برٹیز اور فلمی ستارے شامل تھے۔سوال یہ ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں کیا یہ دریافت نہیں کرسکیں کہ جیفرے اور غیسلین موساد کے ایجنٹ ہیں؟

ان کا نشانہ بنے کسی بھی شکار نے کیا اپنی قومی خفیہ ایجنسیوں کومطلع نہیں کیا کہ دونوں موساد ایجنٹ  لڑکیوں کے ذریعے ہائی پروفائل شخصیات کو اپنے دام میں پھنسا رہے ہیں تاکہ انہیں بلیک میل کرسکیں، جیفرے اور  غیسلین کم ازکم دس بارہ سال تک اپنا مکروہ دھندہ چلاتے رہے مگر امریکا اور برطانیہ میں انہیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تھا حالانکہ بظاہر ان  ملکوں میں قانون بہت سخت سمجھا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقتور ہیں اور ان کے ہاتھ بھی لمبے ہیں مگر دونوں موساد ایجنٹ کئی سال امریکی و برطانوی اداروں سے بچے رہے۔ آخر کیوں اور کیسے؟

ممکن ہے کہ جیفرے اور غیسلین نے اپنا دھندہ اتنی چالاکی سے چلایا کہ وہ قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔ یا پھر دونوں موساد ایجنٹ اپنے شکار سے جو اہم معلومات حاصل کرتے تھے، ان سے امریکی و برطانوی خفیہ ایجنسیاں بھی مستفید ہوتی رہیں۔ اس نظریے کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ 2008ء میں آخر کار جیفرے قانون کی گرفت میں آ گیا مگر امریکی حکومت اسے سزا دیتے ہوئے لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ جیفرے نے ایلیٹ امریکی طبقے میں شامل  اپنی گرفت میں آئے  شکاروں سے حکومت پر دباؤ ڈلوا دیا کہ اسے ہرگز جیل نہ بھجوایا جائے۔غریب اور بے سہارا کم عمر بچوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا ظالم اور حیوانوں جیسی صفت رکھنے والے انسانوں کا کام ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے دونوں ایجنٹ بھی بے ضمیر اور وحشی تھے۔ ان بچیوں کے ذریعے نہ صرف جیفرے اور غیسلین نے اپنی نفسانی خواہشات پوری کیں بلکہ انہیں اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر کھلونا بنالیا۔ یوں انہوں نے سینکڑوں معصوم لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر ڈالیں۔ اس جرم پر اپنا دین و امان کھو دینے والے دونوں حیوانوں کو جتنی سزا ملتی، کم تھی۔

قانون بھی کچھ نہ بگاڑ سکا

مارچ 2005ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پالم بیچ پولیس تھانے کو ایک خاتون کی کال موصول ہوئی۔ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اس کی چودہ سالہ نابالغ سوتیلی بیٹی سے جیفرے اپستین نے تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ یہ ایک جرم تھا، اس لیے پولیس جیفرے کے خلاف تفتیش کرنے لگی۔تھانے کا سربراہ مائیکل ریٹر نامی افسر تھا۔ وہ ایک ایماندار اور بااصول افسر تھا۔ کسی کی سفارش پر دھیان نہ دیتا اور قانون کے مطابق چلنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ جب اس نے جیفرے کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو اسے بااثر شخصیات کے فون آنے لگے۔ وہ تفتیش رکوانا چاہتے تھے، اس امر نے مائیکل کو یقین دلا دیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

اس نے جیفرے کے مقامی گھر پر چھاپہ مار ا۔ وہاں سے کئی بچیوں کی برہنہ تصاویر برآمد ہوئیں۔ خفیہ کیمرے بھی ملے۔ یوں تفتیش کا دائرہ کار پھیل گیا۔ گھر سے ملی دستاویزات سے آشکارا ہوا کہ جیفرے جنوبی امریکا، سابق روسی ریاستوں اور یورپی ممالک سے بھی لڑکیاں منگواتا ہے جو عموماً کم عمر ہوتی ہیں۔مائیکل ریٹر مع ٹیم تیرہ ماہ تک جیفرے کے کیس پر تفتیش کرتا رہا۔ وہ جان گیا کہ یہ ظالم معصوم بچیوں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے۔ وہ اسے کڑی سے کڑی سزا دلوانا چاہتا تھا۔ مگر اسے احساس نہ تھا کہ جیفرے امریکا کے قانون کو بھی اپنی باندی بنا چکا۔ طاقتور امریکی قانون بھی جیفرے جیسے بدقماش اور زہریلے انسان کے سامنے بے بس ثابت ہوا۔

ہوا یہ کہ اس وقت کے ریاستی وکلا جیفرے کو سزا دلوانے کے بجائے اسے رہا کرانے کی کوششیں کرتے رہے۔ یوں انہوں نے عدل و انصاف کا دن دیہاڑے خون کردیا۔ اخلاقیات اور قانون کی دھجیاں بکھیردیں۔ اس مہم میں ریاستی اٹارنی جنرل، الیگزینڈر اکوسٹا پیش پیش تھا۔ ریاستی مشینری کی بھرپور سرگرمیوں کے باعث جیفرے کو صرف 13 ماہ کی سزا ہوئی۔ مگر جیفرے نے یہ سزا نجی جیل میں اس طرح کاٹی کہ اسے روزانہ 12 گھنٹے ’’کاموں‘‘ کی خاطر باہر جانے کی آزادی تھی۔ اس کیس سے عیاں ہے کہ امریکی ایلیٹ طبقے کے ارکان نے اپنی چمڑی بچانے کی خاطر قانون کو توڑ مروڑ دیا تاکہ جیفرے اپستین کو گزند نہیں پہنچے۔

اگر وہ جیل جاتا تو ان کی عیاشیوں کی کچا چٹھا طشت ازبام کرکے انتقام لے سکتا تھا۔یوں امریکی اشرافیہ کی سرپرستی کے باعث موساد کا ایجنٹ اور عیاش و بدکردار جیفرے آزاد پھرنے لگا۔ ریاستی اٹارنی جنرل الیگزینڈر اکوسٹا کو اپنی ’’خدمات‘‘ کا یہ انعام ملا کہ موساد اور امریکی اشرافیہ کے دباؤ پر اپریل 2017ء میں ٹرمپ نے اسے وزیر محنت بنادیا۔ جب جیفرے  دوبارہ قانون کی گرفت میں آیا تو سابقہ کرتوتوں کی وجہ سے عوامی دباؤ پر اسے جولائی 2019ء میں استعفی دینا پڑا۔پولیس کیس اور پھر مقدمے میں پھنس کر جیفرے کے خلاف پنڈورا کا پٹارا کھل گیا۔ آنے والے برسوں میں اس کے ہاتھوں برباد ہوئی لڑکیاں جیفرے پر مقدمات دائر کرنے لگیں۔ ان کی شہادتوں سے عیاں ہوا کہ جیفرے نے پورا ایک گروہ بنا رکھا تھا جو معصوم لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے دام میں گرفتار کرلیتا۔ وہ پھر جیفرے کی وساطت سے موساد کی تخریبانہ سرگرمیوں میں استعمال ہوتیں۔ تاہم جیفرے اپنی دولت اور اثرورسوخ کے سہارے مقدمات میں سزاؤں سے بچتا رہا۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی؟

ہوا یہ کہ اکتوبر 2017ء میں انکشاف ہوا، امریکا میں ایک اور بااثر یہودی فلم پروڈیوسر ہاروے وینسٹین بھی جنسی درندہ ہے۔ وہ اداکاری کے لیے آنے والی لڑکیوں کو استعمال کرکے انہیں کردار دیتا تھا۔ کوئی ستم رسیدہ لڑکی وینٹین کے خلاف کارروائی کی ہمت نہ کرتی کیونکہ اسے علم تھا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ طاقتور اور بااثر وینسٹین اس کا کیریئر تباہ کردیتا۔مگر اکتوبر کے بعد سے کئی اداکارائیں اس کے خلاف بیان دینے لگیں۔تب ’’می ٹو‘‘تحریک چل پڑی جس کی لپیٹ میں جیفرے بھی آ گیا۔ یہ یقینی ہے کہ جب جیفرے اپستین اور  وینسٹین بوڑھے ہوکر کسی کام کے نہیں رہے، تو موساد اور امریکی ایلیٹ طبقے پر مشتمل نیٹ ورک نے انہیں لاوارث چھوڑ دیا۔ جب انہوں نے شکایت کی یا ’’راز‘‘ افشا کرنے کی دھمکی دی تو نیٹ ورک نے میڈیا کے ذریعے ان کا ٹرائل شروع کردیا ۔

پاکستانی چوکنا رہیں

6جولائی 2019ء کو امریکی پولیس نے جیفرے کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ایک ماہ بعد 9 اگست کو وہ اپنے قید خانے میں مردہ پایا گیا۔سرکاری بیان یہ ہے کہ اس نے خودکشی کر لی۔مگر جیفرے کے گھناؤنے کردار سے آگاہ امریکی دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے ایلیٹ حکمران طبقے نے اسے قتل کروا دیا۔انھیں ڈر تھا کہ جیفرے انتقاماً ان کے تباہ کن غیر اخلاقی راز پولیس کے حوالے کر سکتا ہے۔اسی طرح فروری2020ء  میں ہاروے وینسٹین کو بھی عدالت نے تئیس سال کی سزائے قید  سنا دی۔اب وحشی سور کہلانے والے اس گناہ گار کی زندگی جیل میں گذرے گی۔واضح رہے،کتاب’’Epstein: Dead Men Tell No Tales‘‘ میں اسرائیل کے سابق جاسوس، آری بن  مناشی(Ari Ben-Menashe) نے تصدیق کی ہے کہ جیفرے اور  غیسلین،دونوں موساد کے ایجنٹ تھے۔امریکی پولیس نے2 جولائی کے دن   غیسلین کو بھی گرفتار کر لیا۔وہ پچھلے ایک برس سے چھپتی پھر رہی تھی۔اسے ایسے قید خانے میں رکھا گیا ہے جہاں ایسی کوئی شے نہیں کو خودکشی کرنے میں کام آ سکے۔حتی کہ اسے کاغذ سے بنا لباس پہنایا جاتا ہے۔دیکھیے کہ غیسلین سے تفتیش کے ذریعے پولیس کیا انکشافات دریافت کرتی ہے۔

جیفرے اور  غیسلینکی خوفناک اور عبرت ناک داستان میں پاکستانی حکمران طبقے اور عوام،دونوں کے لیے سبق موجود ہیں۔یہ عیاں کرتی ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو غیرملکی خفیہ ایجنسیوں ،خاص طور پر را،موساد،سی آئی اے اور افغان این ڈی ایس کی چالوں سے خبردار رہنا چاہیے۔وہ اس طرح کے طریقوں کے ذریعے انھیں پھانسنے کی سعی کرسکتی ہیں۔جبکہ پاکستانی قوم  ہر شعبے میں سرگرم ایسے لوگوں سے چوکنا رہے جو ریاست،ریاستی اداروں اور ہماری اقدار وروایات کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔یہ لوگ غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں۔

The post امریکی اشرافیہ موساد کے شکنجے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

گلیشیئر سُکڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔

$
0
0

تبت میں واقع کیلاش کی پہاڑی چوٹی چار بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان دریاؤں میں دریائے سندھ، برہم پترا، ستلج اور گھاگھرا ( کرنالی) شامل ہیں۔ اس چوٹی کے قریب سے سے نکلنے والے یہ دریا ہمالیہ کے آرپار مشرق و مغرب اور پھر اترائی میں سمندر تک یوں پھیلے ہوئے ہیں جیسے پانی کی کسی مقدس دیوی نے اپنے ہاتھ پھیلا رکھے ہوں۔ پاکستان، تبت، شمالی ہندوستان، نیپال اور بنگلادیش سے گزرنے والے یہ دریا ان ممالک میں بسنے والی اقوام اور تہذیب و تمدن کی بقا کے ضامن ہیں، تاہم خود ان دریاؤں کا وجود مون سون کی بارش اور گلیشیئروں سے پگھلتی برف کا رہین منت ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں سال کے بعد اب حضرت انسان بھی ان دونوں مظاہر میں دخیل ہوچکا ہے۔

کوہ ہمالیہ کے شمالی جانب سے نکلنے والے دریا، مثلاً برہم پترا کو بیشتر پانی موسم گرما میں برسنے والی مون سون کی بارش مہیا کرتی ہے۔ اس کے برعکس کیلاش کی چوٹی سے مغرب میں بہنے والے دریائے سندھ کی روانی کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش میں پڑنے والی قدرتی برف اور گلیشیئروں کے پگھلنے سے برقرار رہتی ہے۔ گلیشیئروں کو ’ آبی مینار ‘ ( واٹر ٹاور) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ یہ قدرتی برف کو ذخیرہ کرلیتے ہیں اور پھر موسم بہار اور گرما میں یہ برف پگھل کر پانی کی صورت دریاؤں میں بہنے لگتی ہے۔ یوں گلیشیئر دریاؤں کو پانی مہیا کرکے انسانی آبادی اور ماحولیاتی نظام کی بقا اور نمو کے ضامن بنتے ہیں۔

پاکستان اور شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں نہری پانی سے کاشتکاری کا دنیا کا وسیع ترین نظام دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاک و ہند میں 27کروڑ نفوس کی بقا دریائے سندھ، بہ الفاظ دیگر اسے پانی مہیا کرنے والے گلیشیئروں سے منسلک ہے۔ ان میں سے بیشتر گلیشیئر اب سکڑ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر دریائے سندھ کے بہاؤ میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر پیش گوئیوں کے مطابق عالمی درجۂ حرارت بڑھتا ہے اور گلیشیئر کے پگھلاؤ کا عمل جاری رہتا ہے تو پھر 2050ء میں دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ بعدازاں بہاؤ میں بتدریج کمی آتی چلی جائے گی۔

پاک و ہند میں دریائے سندھ کا 95 فیصد پانی کام میں لایا جاتا ہے۔ دوسری جانب سندھ طاس کے علاقوں میں آبادی کا گراف تیزی سے بلندی کی جانب گامزن ہے۔ اس لحاظ سے دریا کے پانی کا استعمال بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ گذشتہ دنوں معروف سائنسی جریدے ’ نیچر‘ میں سائنس دانوں کے ایک عالمی گروپ نے دنیا بھر کے ان گلیشیئروں کا جائزہ لیا تھا جو دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق دریائے سندھ سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ سائنس دانوں نے لکھا کہ طاس کے علاقے میں پانی کی ہر لمحہ بڑھتی ضرورت کے پیش نظر اس بات کے امکانات محدود ہیں کہ دریا اس بڑھتے ہوئے دباؤ کو برداشت کرپائے۔ اس صورت میں پاکستان سب سے زیادہ متأثر ہوگا۔

پاکستان، ہندوستان اور چین تینوں کثیر آبادی کے حامل ممالک ہیں اور اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے یقیناً ان کے پاس متعدد جواز ہوں گے۔ تینوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔ اس تناظر میں مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کوئی ایسا تنازع بھی جنم لے سکتا ہے جو راتوں رات دنیا کو بدل دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیلاش کی چوٹی کے شمال میں دریائے سندھ آبی بلبلوں کی صورت میں زمین سے برآمد ہوتا ہے، جیسے چار ہاتھ رکھنے والی پانی کی دیوی سانس لے رہی ہو۔ یہاں سے یہ دریا مغربی پہاڑیوں میں سے بھارت کے بالائی حصے کے ساتھ ساتھ متنازع سرحدی علاقہ عبور کرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں سے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش سے بغل گیر ہوتا ہے۔ اس مقام سے یکدم یہ دریا بائیں جانب رخ بدلتا ہے اور جنوب میں پنجاب کی جانب گھوم جاتا ہے۔ اس موڑ سے 40 میل شمال کی جانب، دریائے سندھ کے معاون دریائے ہنزہ کی وادی میں گلکن نامی گلیشیئر ہے جس کے دونوں اطراف سرسبز باغات اور دیہات ہیں مگر ریت اور مٹی کے باعث خود یہ گلیشیئر سیاہ ہوچکا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ نظارہ مسحورکن دکھائی دیتا ہے۔ دریائے ہنزہ اس وادی کے وسط میں سے گزرتا ہے۔ وادی کے سرسبز باغات اور کھیت اسی دریا سے سیراب ہوتے ہیں۔

سندھ طاس کے بالائی علاقے میں ہوپر اور برپوگلیشیئر پگھل چکے ہیں۔ ان سے وابستہ بڑی محنت سے بنایا گیا نظام آب پاشی سوکھ چکا ہے اور اس پر انحصار کرتی آبادیاں ویران ہوچکی ہیں۔ ان آبادیوں میں مکانات ہنوز نظر آتے ہیں مگر ان میں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئر ایک فوری خطرے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات برف کی مضبوط چادر کے پیچھے پانی کے تالاب ہوتے ہیں۔ یہ پانی دھماکے سے پھٹ کر باہر آسکتا ہے جس سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ 2018 میں وادی اشکومن میں اسی نوع کے سیلاب کی وجہ سے تباہی پھیل گئی تھی۔ بدسوات اور بلہانز کے دیہات تباہ ہوگئے تھے۔

موسمی تغیرات نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں بسنے والے 70 لاکھ افراد کو ان سیلابوں کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ پاسونامی گاؤں کے رہائشی کہتے ہیں کہ گاؤں کے قریب واقع تین گلیشیئر درحقیقت تین ڈریگن ہیں جن کے دہانوں میں ہم جی رہے ہیں۔ 2008ء میں ایک ڈریگن نے سردیوں میں سیلاب ’اُگلا‘ تھا۔ اسی طرح پچھلے اگست میں ایسا ہی ایک سیلاب ایک ہوٹل، پاک آرمی کا دفتر اور باغات بہا لے گیا تھا۔

شمالی علاقوں میں بسنے والے دوسرے لوگوں کی طرح پاسو کے باسی بھی موسمی تبدیلیوں کو محسوس کررہے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں درجۂ حرارت اتنا بڑھ گیا کہ زندگی میں پہلی بار گاؤں کے لوگ برقی پنکھے منگوانے پر مجبور ہوگئے۔ سردیوں میں اب وہ شدت اور کاٹ نہیں رہی جو گاؤں کے باسیوں کے لیے قابل اطمینان بات ہے۔ دریائے ہنزہ میں سونے کے ذرات کی تلاش کے لیے ایک نمایاں تعداد وادی کا رخ کرتی ہے۔ یہ لوگ دریا کے کنارے کنارے خیمہ زن ہوجاتے ہیں اور دریائی ریت کو چھان کر اس میں طلائی ذرات تلاش کرتے ہیں۔ سیلاب جہاں مقامی آبادی کے لیے تباہی لاتے ہیں وہیں یہ لوگ سیلاب آنے پر اظہار مسرت کرتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں سیلانی پانی کے ساتھ چٹانوں میں سے دھاتیں باہر آجاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاک و ہند کی درمیانی سرحد کے دونوں جانب قلت آب بحرانی صورت حال کو پہنچ چکی ہے۔ بھارتی پنجاب میں ہر سال قرضوں تلے دبے ایک ہزار کسان خودکشی کرلیتے ہیں کیوں کہ زیرزمین پانی کا حصول مہنگا ہے۔ پانی کی سطح نیچے چلے جانے کی وجہ سے ہر سال انھیں گہرے کنویں کھودنے پڑتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان کی گہرائی 400 فٹ تک ہوتی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ چاول کی کاشت ہے جسے کاشت سے لے کر پکنے کے مرحلے تک پانی کی اضافی مقدار درکار ہوتی ہے۔

راجستھان کی سرحد کے پار صوبہ سندھ کا صحرائے تھر ہے۔ اس صحرا کے کچھ حصے میں نہری آبپاشی کا نظام بھی موجود ہے جہاں 200 میل دور دریائے سندھ پر بنے ہوئے سکھربیراج سے پانی لایا جاتا ہے۔ یہاں نہری نظام کے اختتام پر مرچ کی پیداوار کا علاقہ ہے۔ کنری میں پاکستان کی سب سے بڑی مرچ منڈی لگتی ہے۔ تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال پیداوار دو تہائی کم رہی۔ اس کی وجہ انتہائی شدت کی گرمی تھی۔ سرخ مرچ کے کاشت کاروں کی تنظیم کے صدر میاں سلیم کے مطابق مئی 2019 میں درجۂ حرارت 117 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ گیا تھا۔ بقول سلیم انھوں نے 40 سال میں کبھی اتنی زیادہ گرمی نہیں دیکھی۔ پھر انھوں نے زندگی میں پہلی بار اکتوبر کے مہینے میں بارش کا مشاہدہ کیا۔ غیرمتوقع بارش کے سبب مرچوں کی چنائی میں تاخیر ہوئی اور فصل کھیتوں ہی میں سڑگئی۔

تھر کے صحرائی علاقوں میں واقع دیہات میں سب سے بڑا مسئلہ قلت آب ہے۔ کاشت کاری کے لیے نہری پانی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہوپاتا۔ مقامی لوگوں کے لیے مون سون کی غیرمتوقع بارش بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ پھر ایک اور سنگین مسئلہ زیرزمین پانی کا زہرآلود ہونا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کھیتوں میں ڈالے جانے والے کیمیائی کھادوں کا اثر زیرزمین پانی تک پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں کنووں کا پانی زہریلا ہوگیا ہے۔ اس آلودہ پانی کی وجہ سے علاقے میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

پاکستان کے وسیع علاقے میں زہریلے مادوں سے آلودہ پانی پایا جاتا ہے۔ 2017ء میں سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکویٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیقی رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دریائے سندھ کے طاس میں 6 کروڑ افراد آرسینک سے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ آرسینک قدرتی طور پر مٹی میں پایا جاتا ہے اور کھادوں سے بھی مٹی میں شامل ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ آبپاشی کے نتیجے میں یہ عنصر زیرزمین پانی کے سوتوں میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں بچوں کی بڑی تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ پاکستان میں کم از کم بچوں کی ایک تہائی تعداد کو پیٹ بھر غذا میسر نہیں آتی۔ غذائی قلت کا شکار بچوں کی شرح ان زرعی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں غذائی فصلوں پر برآمدی فصلوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مندرجہ بالا تمام مسائل سندھ طاس کے علاقوں میں پانی کے استعمال کے انداز سے جُڑے ہیں۔ ڈیم، بیراج اور نہروں کی وجہ سے پانی کی افراط اور ارزانی ہوئی اور دریا کی لائی ہوئی زرخیز مٹی آبی ذخائر میں جمع ہونے لگی۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سبز انقلاب کے ہمراہ مزید ’ پیاسی‘ فصلیں ، کیمیاوی کھادیں اور حشرات کش زہر بھی آگئے۔ آبپاشی کے نہری نظام میں کیمیاوی کھادوں اور حشرات کش زہر ، دونوں ہی درکار ہوتے ہیں کیوں کہ کھیتوں میں کھڑے ہوئے پانی سے حشرات کی نمو کو فروغ ملتا ہے۔ علاوہ ازیں اس پانی میں ملے ہوئے کیمیاوی کھاد کے کیمیکل زیرزمین پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب دریا سے ضرورت سے 10 گنا زائد پانی لیا جارہا ہے۔ چنانچہ اب پانی کی قلت ہوگئی ہے اور یہ آلودہ اور زہریلا بھی ہوگیا ہے۔

ماہرین کی رائے میں نظام آب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں پانی سے مستفید ہونے کے قدیم روایتی طریقے موجود ہیں مگر انھیں انگریز دور ہی سے نظرانداز کردیا گیا۔ ان کے بجائے دونوں ممالک کی تو جہ بڑے بڑے انجنیئرنگ پروجیکٹس؛ ڈیموں اور نہروں کی تعمیر پر رہی ہے۔ اور اب بھی دونوں ممالک سندھ طاس کے علاقے میں نئے ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ موسمی تغیر اس لحاظ سے پاکستان کے لیے نعمت ثابت ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت پورے نظام آب پر نظرثانی اور غوروفکر کا موقع میسر آسکتا ہے اور ارباب اختیار کی توجہ مہنگے ہائیڈروالیکٹرک ڈیموں سے سستے سولر پاور منصوبوں کی جانب مبذول ہوسکتی ہے۔ اس کی بدولت نہری آبپاشی کے بجائے ڈرپ اریگیشن کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سندھ اور معاون دریاؤں کے کنارے کنارے جنگلات کی بحالی عمل میں آسکتی ہے۔ یہ جنگلات سیلابی پانی کو جذب کرکے سیلاب سے پھیلنے والی تباہی کا راستہ روکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیرزمین پانی کے سوتوں کو بھی زندہ رکھیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیم اور ذخائر آب قحط سالی کے دوران پاکستان کو صرف 30 دن تک پانی فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس سندھ طاس کے زیرزمین پانی کے سوتے یا ذخائر آب مسلسل تین سال تک پانی کی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔

(بہ شکریہ: نیشنل جیوگرافک میگزین)

The post گلیشیئر سُکڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ذائقے بلوچستان کے

$
0
0

پیارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں میل پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات؛ اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوب صورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مختلف قومیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج اور کھانے کے الگ الگ طریقے ہیں۔ آج ہم بتائیں گے بلوچستان کے کچھ ایسے کھانوں کے بارے جو دورقدیم سے اس سر زمین پر لوگوں کی غذا رہے ہیں۔ بلوچستان کے روایتی کھانوں کو مزے دار سمجھا جاتا ہے، جو ہر کھانے والے کو پسند آتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ کھانوں کے بارے میں جانیے:

٭ تندوری چکن:تندوری روٹی تو سب نے کھا رکھی ہو گی۔ ہر شہر میں تندروری روٹی آسانی سے مل جاتی ہے جو کھانے میں انتہائی ذائقہ دار ہوتی ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے اسی تندرور میں گوشت بھی بنایا جاتا ہے، جو لذت کے اعتبار سے اعلیٰ پائے کا کھانا ہے۔ تندوری گوشت ہمیشہ بکرے کے گوشت سے بنایا جاتا ہے۔ اس کو پکانے کے لیے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھروں میں یہ گوشت نہیں بن سکتا، کیوںکہ اس گوشت کو بنانے کے لیے ایک تندور کی ضرورت لازم و ملزوم ہوتا ہے۔بلوچستان کے مخصوص شہروں میں تندوری گوشت بنایا جاتا ہے۔ تندوری گوشت بنانے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں، پھر آگ کی حدت برابر کی جاتی ہے، جس کے بعد اس میں مسالہ جات لگا بکرے کا گوشت رکھ دیا جاتا ہے۔

٭ کھڈی کباب: ذبح شدہ بکرے یا دنبے پر مسالے لگا کر زمین میں ایک تندوری گڑھے کی تہہ میں دہکتے انگاروں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر مسالہ لگے بکرے کو اس تندور کے گڑھے میں انگاروں سے زرا اوپر لوہے کی سلاخ کی مدد سے رکھا جاتا ہے۔ اس تندور کو اوپر سے ٹین سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر کوئلے رکھ دیے جاتے ہیں، تاکہ کباب دونوں طرف سے پک جائے۔ ایک سے دو گھنٹے بعد تندور کا ڈھکن کھول دیا جاتا ہے۔ اب آپ اس کباب بنے بکرے کو کسی خوب صورت برتن میں ڈال کر کھائیں، بلوچستان کے اس لذیز کھانے کو کھاتے ہوئے انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔

٭ پلی:بلوچستان کے مختلف شہری علاقوں اور دیہی علاقوں میں مختلف سبزیوں کو خشک کرنے کا رواج کب سے چلا آ رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ بلوچستان میں سرد علاقوں میں گوشت خشک کیا جاتا ہے، جب کہ گرم علاقوں میں سبزیاں خشک کی جاتی ہیں، جن میں ساگ، پالک، پودینہ، (چنے کے سبز پتے) اور دیگر سبزیاں شامل ہیں، جب کہ بلوچستان میں گوشت (لائی) سکھانے کا رواج بھی صدیوں سے سرد علاقوں میں چلا آ رہا ہے۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں سردیوں میں چنے کی پلی کو خشک کیا جاتا ہے۔ پھر اسی خشک پلی کو گرمیوں میں پکایا جاتا ہے۔

چنے کی فصل سردیوں میں تیار ہوتی ہے۔ اس دوران جب چنے کی پلی بلوچستان کی سر زمین پر عام جام پائی جاتی ہے تو پلی کو خشک کیا جاتا ہے۔ آج کل بلوچستان میں اکثر گھروں میں ذائقہ دار پلی بنائی جاتی ہے۔ پلی کو مقامی مسالوں کے ساتھ ذائقہ دار بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں پلی خاصی مقبول سوغات ہے۔ پلی میں مختلف اقسام کے گوشت کے علاوہ آلو، ٹماٹر، پیاز اور مسالا جات ملائے جاتے ہیں۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں بھی پلی کو خاص سوغات سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان میں سبزیوں کو خشک کرکے لمبے عرصے تک قابل استعمال بنا لینے کی رسم بہت پرانی ہے۔ بلوچستان میں جن موسموں میں سبزیاں نہیں ہوتیں۔ ان موسموں میں یہ خشک سبزیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں سبزیوں کو سُکھانے کا یہ عمل قدرتی ہے اور کسی بھی قسم کے کیمیکل کی آمیزش سے پاک ہے۔

٭ لوبیا:لوبیا انگریز سرکار کا پسندیدہ کھانا تھا۔ بلوچستان کی سر زمین پر انگریز سرکار نے جب قدم رکھا تو لوبیا کی فصلوں پر دُہرا لگان وصول کرتے تھے۔ انگریز حاکم فوجیوں کو لوبیا اس لیے کھلائے جاتے تھے تاکہ ان کی جسمانی طاقت میں اضافہ ہو اور وہ میدان جنگ میں دشمن کو شکست دیں۔ لوبیا کو طاقت کے لیے بہت اہم غذا تصور کیا جاتا ہے۔

اس کے اندر پروٹین موجود ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھا کہ انگریز لوبیا کے شوقین ہیں تو بلوچستان کے کسانوں نے لوبیا کاشت کرنا ہی چھوڑ دیا اور اس کی جگہ پر چنے اور تل کاشت کرنے لگے تھے۔ لوبیا پکانے کا طریقہ انتہائی آسان ہے خالی پانی میں دو سے تین گھنٹوں تک ہلکی آنچ پر ابالیں پھر جب لوبیا مکمل حل ہوجائے تو اس میں پیاز، لہسن ، سرخ پسی ہوئی مرچیں، کٹی ہوئی سرخ مرچیں، سفید اور سیاہ زیرہ، ٹماٹر، شملہ مرچیں، پودینہ دھنیا ٹماٹر اور کالی مرچیں اور نمک ڈالیں اور پھر مزے لے لے کر کھائیں۔

٭ روسٹ:بلوچستان کی ایک مخصوص ڈش جس کو “روشت” یا روسٹ کہتے ہیں، یہ کالی مرچ میں دنبے کی نمکین چربی اور گوشت کے ساتھ تیار ہوتی ہے اور یخنی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی خالص سادہ اور مزے کی ڈش ہے۔ بلوچی میں اس کو نمکین روسٹ بھی کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے جو بھی ایک کھائے گا تو اسی ہی کے گْن گائے۔

بلوچستان کی ’’روسٹ‘‘ یا روشت اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ روسٹ اگرچہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بہت کم تیار کی جاتی ہے لیکن بلوچستان میں تیار کی جانے والی روسٹ اپنی مثال آپ ہے۔

روسٹ کو تیار کرنے کے لیے کسی بڑی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسے تیار کرنے کے لیے کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوتا ہے۔ روسٹ کو مسلسل آگ پر تین سے پانچ گھنٹے تک پانی کے بھاپ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں آگ کی تپش کو برابر رکھا جاتا ہے۔ روسٹ ہمیشہ گائے، بھیڑ یا بکری کے ران کے گوشت سے بنایا جاتا ہے۔ روسٹ میں تیز نمک، پسی ہوئی کالی مرچیں، زیرہ، الائچی پاؤڈر لیموں کا رس، لہسن ادرک ڈالا جاتا ہے جب کہ گھی کی کمی گوشت کی چربی سے پوری ہوجاتی ہے۔

بلوچی روسٹ کھانے کی ثقافت قدیم دور سے لے کر آج کے جدید دور تک جاری ہے۔ روسٹ یا روشت پہلی مرتبہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

٭ سفید چاول اور آم:ان دنوں آم کا موسم ہے اور آم پورے ملک میں عام مل رہا ہے۔ تازہ آم ہو اور سفید چاول، تو پھر کھانے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ میٹھے میٹھے آموں کے ساتھ سفید چاول کھانے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہ منفرد خوراک بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔

٭ دستی سِوَیاں:دستی سِویّاں بلوچستان کی خاص سوغات میں ایک سوغات ہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں دستی سویاں ایک سفید کپڑے کے ساتھ گھر کی چھت سے باندھ دی جاتی ہیں، جن کا استعمال دو سے تین ماہ بعد کیا جاتا ہے۔ دیسی سویاں جب چھت سے لٹکتی ہیں تو بلوچ بچے بڑے فرمائش کر دیتے ہیں ’’ماں جی! آج گرماگرم سویاں بنائیں۔‘‘ اور پھر گھر میں سویاں تیار ہوجاتی ہیں۔ ان سویوں میں تازہ دیسی مکھن یا دیسی گھی ڈالا جاتا ہے۔ جب میٹھی (چیز) مٹھائی (گنے سے نکلنے والی) ڈالی جاتی ہے تو پھر ان کی لذت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ سویاں خوب پیٹ بھر کر اور مزے لے لے کر کھائی جاتی ہیں۔ یہ سویاں بلوچستان میں صدیوں سے بہ طور پکوان پکائی اور کھائی جارہی ہیں، اور شاید تاقیامت کھائی جاتی رہیں۔

٭ کاک روٹی:بلوچستان کے لوگ کھانوں کے بہت شوقین ہیں۔ ان کھانوں میں ایک ایسی روٹی پکائی جاتی ہے جو پاکستان میں کہیں بھی نہیں ملتی، جس کا نام ’’کاک روٹی‘‘ ہے۔ کاک روٹی تیز آگ کی حدت پر براہِ راست پکائی جاتی ہے۔ کاک روٹی گرم گول پتھروں پر آٹا لپیٹ کر انگاروں پر پکائی جاتی ہے۔

یہ روٹی پکانے سے پہلے ایک جیسی ناپ کے گول پتھروں کو انگاروں پر خوب گرم کیا جاتا ہے۔ پھر ان پر آٹا لپیٹ کر ہلکی انگاروں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہلکی آنچ سے یہ گولہ اندر تک اچھی طرح پک جاتا ہے۔ کاک روٹی کے پیڑے کے اندر ایک پتھر ہوتا ہے جسے روٹی کھاتے وقت نکال دیا جاتا ہے۔ جب یہ روٹی آگ کے قریب رکھی جاتی ہے تو اس کے اندر موجود پتھر بھی گرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ روٹی اندر سے بھی پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ کاک روٹی بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ یہ روٹی کئی کئی روز سفر میں بھی کھائی جاتی ہے۔ شاید یہ روٹی جنگوں کے دوران بہت کھائی جاتی رہی ہے۔ کاک روٹی اکثر سجی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

٭ روٹ:روٹ بلوچستان کی خاص سوغات ہے جسے میٹھی روٹی بھی کہتے ہے۔ یہ روٹی خالص دیسی گھی، گندم کے آٹے، گڑ اور خشک میوہ جات سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ روٹی بلوچستان کے لوگ اس وقت بناتے تھے جب وہ جنگ کے لیے نکلتے تھے یا لمبے سفر پر جاتے تھے آج کل روٹ بنانا بلوچستان میں نایاب ہو گیا ہے، مگر کچھ علاقوں میں اس نایاب روٹی کو آج بھی بنایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ نشے کے عادی حضرات روٹ بناتے وقت خشک میوہ جات کے بجائے اس میں بھنگ کا پانی ڈال دیتے ہے، تاکہ جب سفر کے دوران نشے کی طلب ہو اس روٹی سے گزارہ کرلیا جائے۔

٭ بلوچی بُسری: جوں ہی سردیاں آتی ہیں تو اس موسم کی ابتدا بلوچستان کے باسی بلوچی خاص خاص ’’بلوچی بُسری سے کرتے ہیں۔ بلوچی بُسری کو تیار کرنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچی بُسری بغیر مسالوں کے آگ پر روٹی کی طرح تیار کی جاتی ہے۔اس پکوان کو بنانے میں دس سے بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کی تیاری میں گندم کی روٹی، دیسی گھی، مکھن اور گُڑ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ روٹی کا ایک حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر دوسرے حصے میں گڑ ڈالا دیا جاتا ہے اور روٹی کو دونوں طرف سے مکھن لگاکر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بلوچی بُسری گرم گرم کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہے۔

اس سوغات کا رواج کس دور سے شروع ہوا، یہ کوئی نہیں جانتا، نہ ہم نہ ہمارے آبا و اجداد اور نہ گوگل بے چارہ۔ بلوچی بُسری صدیوں سے بلوچ خواتیں بناتی چلی آ رہی ہیں۔ بلوچستان میں اکثر علاقوں میں بلوچی بُسری کا ناشتہ لازم سمجھا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں اس کو میٹھی روٹی کا بھی نام بھی دیا گیا ہے۔ گڑ اور دیسی گھی کے تڑکے سے تیار ہونے والی یہ میٹھی روٹی لذیذ ہونے کے ساتھ سردیوں میں جسم کے اندر حرارت پیدا کرکے جسم کو گرم رکھتی ہے۔شادی کے دن دولہا کو بلوچی بُسری ضرور کھلائی جاتی ہے۔ یہ بُسری دلہن کے گھر والے تیار کرکے لاتے اور کھلاتے ہیں۔ اس وقت چار سے پانچ بُسریاں پکائی جاتی ہیں، جن پر دولہا کے رشتے دار بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی خواتین بلوچی بسری پکاتی ہیں۔ خالص بلوچی رسم و رواج کے حامل علاقوں میں جہاں خواتین زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں وہاں بلوچی بسری کے ہنر سے آشنا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اس ہنر کو اپنانے کے بعد بلوچ خواتین کی شادیاں بھی جلد ہو جاتی ہیں اور شادی کے بعد جب عورت ماں بنتی ہے تو اسے ایک ہفتے تک بلوچی بسری کھلائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے مردوں کی نسبت بلوچ خواتین بلوچی بسری زیادہ شوق سے کھاتی ہیں۔

The post ذائقے بلوچستان کے appeared first on ایکسپریس اردو.

 احساس پروگرام کی آڑ میں جعل ساز گروہ سرگرم

$
0
0

سکھر:  لاک ڈاؤن میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، دنیا بھر کے نظام کو تہس نہس کرنے والی عالمگیر وبا کرونا وائرس کے انتہائی مہلک اثرات امن و امان کی فضاء خراب ہونے کی صورت میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔

بڑے بڑے کارخانے، فیکٹریاں، ملز بند ہونے اور دکانوں میں وقت محدود ہونے سمیت کاروباری سرگرمیاں کم ہونے کا جواز بناکر فارغ کئے جانیوالے ہزاروں لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے بھی محروم ہوگئے ہیں، ایسے میں کسی بھی معاشرے میں جرائم اور فحاشی کے ناسور پروان چڑھتے ہیں۔

ملک بھر کی طرح سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں بھی کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، جس کے منفی اثرات کاروباری سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور ضلع بھر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، ایسے لوگ جو کہ کارخانوں، فیکٹریوں، ملز، نجی اداروں، دکانوں میں چوکیداری، نائب قاصد، آفس بوائے، خاکروب، کمپیوٹر آپریٹر، سیلز مین سمیت دیگر ذمہ داریاں انجام دیا کرتے تھے وہ لوگ اپنی ملازمت سے محروم ہوکر بیروزگاری کی دلدل میں دھنس گئے ہیں، جن میں سے بعض لوگوں نے جرائم کی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے، جس کا واضح ثبوت ضلع سکھر میں چند ماہ کے دوران جرائم کی شرح میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہونا ہے۔

اس بات سے مفر ممکن نہیں دنیا کی تلخ ترین اور سفاک حقیقت بھوک ہے، کسی بھی نظریے، فرقے حتی کہ مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ورنہ یہ بات باور نہ کرائی جاتی کہ بعید نہیں بھوک حد کفر کو چھولے، اینٹھی آنتوں میں جب بھوک کا الاؤ بھڑکتا ہے تو تہذیب و تمدن کی سبھی دلیلوں کو خاکستر کرکے رکھ دیتا ہے، فلسفہ خودی اور شرافت ڈھکوسلہ دکھائی دینے لگتی ہے،  بھوک شدید ترین انسانی جذبوں میں سے ایک ہے جس کی تکمیل تہزیب یافتہ انداز میں ہونی چاہئے۔ جرائم کی راہ اپنانے والے بیروزگاروں نے خوشی سے اس راہ کا مسافر بننا قبول نہیں کیا بلکہ حالات کے جبر نے انہیں ان راہوں پر دھکیلا ہے۔

لاک ڈاؤن سے صنعتی و کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات اور لوگوں کے بیروزگار ہونے کے بعد ضلع سکھر میں چوری، ڈکیتی، رہزنی، لوٹ مار، دکانوں کے تالے توڑنے، گھروں میں گھس کر ڈکیتی، پانی کی موٹروں کی چوری سمیت دیگر چھوٹے وموٹے جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔

پہلے پہل ضلع کے نواحی علاقوں علی واہن، ٹھیکراٹو، سنگرار، اچھی قبیوں، روہڑی، تماچانی، باگڑجی، آباد لاکھا، آرائیں، لال مشائخ، سائیٹ ایریا جیسے علاقوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اب شہر کے علاقے بھی جرائم پیشہ عناصر کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ تھانہ اے سیکشن، بی، سی، سائیٹ، آباد، ائیرپورٹ، روہڑی، پنوعاقل، تماچانی، نیوپنڈ سمیت ضلع بھر کے تمام تھانوں کی حدود میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گھر میںچوری یا موٹر سائیکل چھیننے سمیت دیگر جرائم کی واردات رپورٹ نہ کراتا ہو، سب سے زیادہ پروان چڑھنے والے جرائم موٹر سائیکلوں کی چوری یا چھیننا  ہے جبکہ اس مں لوگوں کے گھروں میں چوری اور تالے توڑ کر دکانوں کا صفایا بھی شامل ہے۔ بعض علاقوں میں تو چوروں کے گروہوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، گھروں کے باہر نصب پانی کی موٹریں چوری کرکے بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے۔

گنجان آبادی والے علاقے نیوپنڈ میں چوروں کی جانب سے بڑھتی ہوئی وارداتوں سے پریشان ہوکر لوگوں نے چوکیداری سسٹم بھی شروع کررکھا ہے، رات کے وقت مختلف علاقوں میں لوگ چوکیداری کرتے ہیں اور اس حوالے سے علاقہ مکینوں نے شیڈول بنارکھا ہے جس کے تحت 4سے 5افراد یومیہ رات جاگ کر گزارتے ہیں تاکہ چوروں کو گھروں کے باہر نصب موٹریں چوری کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے پولیس تو اپنے فرائض بہتر انداز سے انجام دے رہی ہے اور عادی مجرم جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں۔

پولیس ترجمان کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پریس بھی جاری کی جاتی ہے جس میں روپوش، اشتہاری ملزمان سمیت دیگر کی گرفتاری کی خبریں شامل ہوتی ہیں مگر بیروزگاری کی دلدل میں اترنے والا نوجوان طبقہ جو کہ جرائم کی تاریک راہوں میں دھنس رہا ہے اسے گرفتار کرنے یا اس کا ذہن بدلنے کے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ مخیر حضرات ضرورتمندوں و مستحقین کی مدد بھی کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو کہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے محروم ہیں، بچوں کو بھوک سے بلکتا اور تڑپتا دیکھ کر لوگ جرائم کی راہ نہیں اپنائیں گے تو پھر کیا کرینگے؟ یہ سوال شہری و عوامی حلقوں میں بھی سنائی دے رہا ہے مگر اسکے سدباب کے لئے نہ تو انتظامیہ کوئی خاطر خواہ اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے نہ ہی تو سوسائٹی میں سے کوئی ایسی آواز بلند ہورہی ہے جس پر عمل کرکے ان نوجوانوں کا مستقبل تباہ و تاریک ہونے سے بچایا جاسکے۔

بعض پولیس افسران نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جب لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو پھر وہ جرم ہی کرینگے، پولیس فورس اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا کررہی ہے مگر جو شخص اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے جرم کی واردات کرتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت جرم کرنے سے روک نہیں سکتا، وہ ہزار حربے استعمال کرکے بالآخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے، اصل خطرہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں اگر عادی مجرم بن گئے اور اپنی ضروریات پوری ہونے کے بعد ان لوگوں نے جرائم کی راہ کو نہ چھوڑا تو پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باعث لوگ عدم تحفظ کا شکار بھی ہوگئے ہیں اور لوگوں میں اس بات کا بھی خوف بڑھ گیا ہے کہ رات کے وقت شہر سے باہر کے علاقوں میں جانے سے گریز کررہے ہیں۔

ایک جانب جرائم کی مختلف وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب جعل ساز گروہ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی مدد کے لئے 12ہزار روپے کے وظیفہ کے احساس کفالت پروگرام کی آڑ لیکر جعل ساز گروہ اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔

ضلع سکھر کے مختلف علاقوں میں متعدد ایسے گروہ ہیں جوکہ لوگوں کے گھروں میں جاکر ان سے معلومات حاصل کرتے ہیں، وزیر اعظم پروگرام میں نام شامل کرانے کیلئے فارم بھر کر فیس کی مد میں 500 روپے وصول کرتے ہیں، ان لوگوں کا زیادہ تر نشانہ دیہی علاقوں کے سادہ لوح عوام ہوتے ہیں، اس قسم کے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں اور پولیس نے متعدد گروہوں کے کارندوں کو گرفتار بھی کیا ہے مگر مکمل طور پر ان گروہوں کی سرکوبی نہیں ہوسکی ہے اور اب بھی مختلف مقامات پر جعل سازی کرنیوالے یہ گروہ تسلسل سے کام کررہے ہیں۔

شہری و عوامی حلقوں نے لاک ڈاؤن کے باعث بڑھتی بیروزگاری اور جرائم کی وارداتوں میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ 5 ماہ سے کرونا وائرس کی وبا نے پورے ملک کے سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، ایسے میں بیروزگار ہونیوالے افراد جن کے بیوی و بچے اور بوڑھے ماں باپ بھوک سے بے حال ہیں، وہ جرائم کی راہ اختیار کررہے ہیں۔

یہ بات پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے، کوئی بھی ایک شخص، ادارہ یا حکومت اس مسئلے کو اکیلے حل نہیں کرسکتی، اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایک موثر پالیسی یا حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی جس کے تحت بیروزگار ہونیوالے افراد اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے، تب ہی ہم معاشرے میں پنپتے ہوئے جرائم کو روک سکتے ہیں ورنہ بھوک و افلاس کی کوکھ سے جنم لینے والے جرائم پیشہ عناصر اپنے دکھوں و محرومیوں کا مداوا کرنے کے لئے جرم پر جرم کرتے جائیں گے اور معاشرے کے تار و پود بکھرتے جائیں گے‘‘۔

The post  احساس پروگرام کی آڑ میں جعل ساز گروہ سرگرم appeared first on ایکسپریس اردو.


اَیڈ ….وہ بھی رومن انگلش میں؟؟

$
0
0

 زباں فہمی نمبر 58

’’چائے چاہیے…..‘‘۔’’کون سی جناب…..‘‘۔’’…..عمدہ ہے…..لیجیے‘‘۔’’…..لیجیے ، ….. پیجیے‘‘۔’’بھول نہ جانا پھر پَپّا…..،…..لے کر گھر آنا‘‘۔’’رنگ بِکھراتی، زُلف لہراتی….. اِٹھلاتی بَل کھاتی آئی……….لان‘‘۔’’راہ کا، ہر گام کا، ساتھی ہے یہ کام کا ……….‘‘۔ تاروں کی جھِل مِل میں آیا، سبھی کے دلوں میں سمایا……….۔’’دانے دانے پہ لکھا ہے ، پینے والے کا نام…..چائے‘‘۔’’پیو اور پِلائو …..ہے …..اور …..سے …..۔’’نام ہی کافی ہے‘‘۔’’تھوڑی سی پتّی …..کی، چائے بنائے کمال کی…..دانے دار چائے۔’’جو ہے سب کو پسند، میری مٹھی میں بند…..ہے کیا بتادو نا…..مصالحہ‘‘۔ (مسالے پر اصرار کرنے والے جان لیں کہ فرہنگ آصفیہ میں بھی مصالحہ ہی ہے)۔

’’اک چُٹکی ….. سے، چُٹکی بجاتے ہی…..دانت سفید اور چمک دار……….۔ اگر آپ بیسویں صدی کی پیداوار ہیں تو یقیناً ان تمام اشتہارات کے مندرجہ بالا نمونوں میں بہ آسانی خالی جگہیں پُر کرلیں گے، بلکہ از خود گُنگُنانے لگیں گے۔ وجوہ دو ہی ہیں: اوّل، ان اشتہارات کا مقبول ہونا اور مسلسل چلنا اور دُوَم، ان کی تیاری کے ہر مرحلے میں کی جانے والی محنت، جس میں معیاری اور مصنوعات کی پہچان کرانے والی مخصوص زبان کا برمحل استعمال شامل ہے۔

یہ تھا ہمارا درخشاں ماضی اور اَب ملاحظہ فرمائیں، بدلا ہوا منظر:’’سر! مجھے آپ سے ایک Adکی Copyلکھوانی ہے، But، اردو میں نہیں،…….Roman English میں،………Because, you knowمیری اردو Weakہے……‘‘جب آپ سے اس طرح کی فرمائش کوئی Burger لڑکی ، (وہ بھی آپ کی ’رفیقہ ملازمت‘ ۔یا۔افسر)کرے تو کیا خیال ہے……اپنا سرپیٹیں گے یا ……خیر اس ’’یا‘‘ کے بعد تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک جگہ کا ایک ہی بار پیش آنے والا واقعہ نہیں، جس میں خاکسار کو باری باری انگریزی اور اردو میں سمجھانا پڑا ہو کہ اصل میں آپ کو کیا مطلوب ہے، بلکہ اسی نوعیت کے واقعات کئی بار پیش آچکے ہیں۔

اس نئی پَود کو یہ سمجھانا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ Roman زبان میں نہیں، بلکہ رسم الخط (Script) میں لکھنا کیا ہوتا ہے۔ بعض کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ Roman کوئی زبان بھی ہے اور یہ بھولی مخلوق یہ بات بھی بمشکل سمجھ پاتی ہے کہ What is SCRIPT?۔ (اشتہارات میں اردو رسم الخط کی جگہ رومن اردو کا رواج تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے اور ہمیں اس کے سَدّباب کے لیے بھی تحریک چلانی ہوگی)۔

ایسے لسانی لطائف کا عام ہونا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں موجود ’سندیافتہ‘ یا Degree-holder جُہَلاء ہماری تعلیمی بقاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس میں روز افزوں اضافہ ہمارے ناقص، (نام نہاد جدید)، تعلیمی نظام کی پول کھولنے کو کافی ہے۔ آپ کسی شعبے میں چلے جائیں، زبان کا قتل ِعام اور عرف ِ عام میں ’’جھٹکا‘‘ دیکھنے کو ملے گا۔ اگر آپ نے واقعی کچھ محنت سے پڑھ لیا ہے تو آپ اس قبیل کے لوگوں میں، بقول اُن کے Misfit ہیں۔

ہمارے یہاں تعلیم کے محدود معانی ہی ہماری ’سندیافتہ‘ جہالت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خاکسار نے جان بوجھ کر ’’علم‘‘ نہیں کہا۔ آسان الفاظ میں سمجھایا جائے تو معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں، معاشرے کے ہر طبقے میں اور ہر جگہ، سیکھنے کے دو طریقے ہیں: ایک رسمی تعلیم (Formal education/academics) اور دوسرا غیررسمی تعلیم (Non-formal education)۔ مگر ہم تو رَٹّا لگا کر، نقل کرکے، رشوت دے کر، تگڑی سفارش، دھونس اور بدمعاشی کے طفیل ہر طرح کا امتحان بہت اعلیٰ ’نشانات‘ (Marks) اور درجے میں پاس کرلیتے ہیں یعنی اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں……حد تو یہ ہے کہ غیرملکی زبان کے امتحانات میں بھی نقل کرنے والے یا نقل کی کوشش کرنے والے ہمارے اپنے طلبہ ہی ہوتے ہیں۔

تازہ ترین کارنامہ جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے وطنِ عزیز کی بدنامی کا سبب بنا، سرکاری ایئرلائن کے ہوابازوں کی جعلی یا مشکوک اسناد کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس شعبے میں ’’سب اچھا ہے‘‘، مگر کسی بھی اہم معاملے میں رازاِفشا کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے ہمیں اجتماعی، قومی اور عالمی سطح پر کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ بہرحال ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

ہمارے یہاں اخبارات، رسائل، ٹی وی، ریڈیو، سنیما، موبائل فون، انٹرنیٹ، حتیٰ کہ پمفلٹ یا بِل بورڈ تک، ہمہ اقسام کی اغلاط سے پُر اشتہارات ہماری علمی کم مائیگی کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ نکتہ وار بات کی جائے تو سب سے پہلے زبان کی ہئیت (Form)کا معاملہ ہے۔

شعبہ تشہیر (Advertising)میں مستحکم نشستوں پر براجمان لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو خواہ کتنی ہی آسان لکھی جائے، عوام اور اُن کے کسی بھی مصنوعہ (Product)کے تیارکنندگان کے لیے ناقابل فہم ہوگی۔ مثال کے طور پر ہندوستان سے تیار شدہ ایک اشتہار، اُسی ادارے کے پاکستانی نمایندے یہاں بنوائیں گے تو سب سے پہلے تو انھیں یہ باور کرایا جائے گا کہ یہاں Creative لوگ ہی نہیں، جو ہیں، وہ بس ہم ہیں (جو اس اصطلاح کا ترجمہ تو کُجا، اس کی تعریف بھی بیان نہیں کرسکتے)، پھر اُن سے یہ کہا جائے گا کہ جناب ایسا کرتے ہیں کہ نئے سِرے سے Shoot یعنی عکاسی کی زحمت کرنے کی بجائے صرف VO (Voice over)یعنی پس پردہ آواز کا Script یعنی متن تبدیل کردیتے ہیں۔

تھوڑے بہت فرق سے۔ اب ذرا سوچیں کہ صابن کے اشتہار میں ہندوستان والے تو انگریزی کے ساتھ ساتھ، شُدھ ہندی کی آمیزش کرتے ہیں، مگر جب ہماری باری آتی ہے تو Creative Managerکا اس نکتے پر اصرار ہوتا ہے کہ لفظ ’جِلد‘ مشکل ہے (برگروں کے لیے)، Skin لکھیں۔ اور پھر چل سوچل۔ ایک ایسی ملغوبہ یا مخلوط (Minglish) زبان تیار ہوجاتی ہے جس میں پچانوے یا اٹھانوے فی صد الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں (جن میں بعض یا کبھی کبھی تو اکثر) کم خواندہ، نیم خواندہ یا ناخواندہ صارف /ناظر/قاری کے لیے ناقابل ِفہم ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک مصنوعہ یا ایک قسم کی مصنوعات کا معاملہ نہیں، بلکہ جو اشتہارات ہمارے یہاں ہی ’سوچے‘ ، لکھے اور بنائے جاتے ہیں، اُن میں بھی بُہتات ایسے ہی اشتہارات کی ہے۔

زبان سے آگے بڑھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اشتہار کا تخیل۔یا۔عرف عام میں Concept کیا ہے اور کیسا ہے۔ یہ بجائے خود انتہائی نازک اور بحث طلب موضوع ہے جس کی بابت کسی بھی بڑے سے بڑے تشہیری ادارے میں کوئی راہ نمائی حاصل کرنا چاہتا ہے نہ کوئی بہ آسانی راہنمائی کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔ بس جیسا بھی اُوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا، من پسند افراد کی بیٹھک ہوئی، مشتہر (Advertiser/Client) کو بتایا، دکھایا (جو عموماً اُنھی جیسی سوچ اور محدود ذہنی استعداد کا حامل ہوتا ہے یا ہوتی ہے) اور بس جناب اشتہار کو عملی جامہ (یا اُن کے حساب سے پاجامہ) پہنادیا گیا، خواہ یہ اشتہار کسی بھی ذریعہ ابلاغ (Medium of Communication)کے لیے بنانا مقصود ہو۔

کسی تجربہ کار، جہاں دیدہ شخصیت سے یہ پوچھنے کی زحمت شاذ ہی گوارا کرتے ہیں کہ اگر ہم یہ چیز بنائیں گے تو اس کے، قلیل اور طویل مدت میں، کیا نتائج یا ثمرات برآمد ہوں گے۔ اب آتے ہیں نفس مضمون یا Contentکی طرف۔ آپ چاہیں تو آسانی کے لیے مندرجات کہہ لیں۔ جب ہم کوئی Copyیعنی تشہیری متن لکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا اثر براہ ِ راست یا بالواسطہ ہمارے ’مُخاطب‘ ناظر، سامع یا قاری (Target audience)پر کیا مرتب ہوگا یا ہوسکتا ہے۔ یہ دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف معاملہ ہے۔ آپ کو اپنی اقدار ، عوام الناس کی (یا اگر خواص کے لیے بھی اشتہار بن رہا ہے تو اُن کی) نفسیات اور مافی الضمیر کی ادائی کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا۔

دوسری طرف آپ کو Copyمیں اشتہار کے حُجم یا سائز ہی کی فکر نہیں کرنی ، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہی جانے والی بات ، کس پیرائے میں درست اور مؤثر ہوگی۔ قارئین کرام یہاں راقم دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہے: ایک تو یہ کہ اس تحریر میں انگریزی اصطلاحات اور الفاظ کا استعمال فقط اس لیے ناگزیر محسوس ہوا کہ شعبہ تشہیر سے متعلق افراد پڑھ کر سمجھ سکیں، کسی سے ترجمہ نہ کرانا پڑے اور دُوَم یہ کہ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے یہاں سِرے سے کوئی اچھا اشتہار سوچا نہیں جاتا، لکھا نہیں جاتا یا بنایا نہیں جاتا۔ یہ وضاحت اس لیے اور اُن لوگوں کے لیے ازبس ضروری ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کا مطلب ہے تنقیص یعنی کیڑے نکالنا اور پھر وہ یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اس تحریر کا راقم کوئی منفی سوچ کا حامل شخص ہے۔ تنقید کا مفہوم کئی بار اپنی تحریر وتقریر میں دُہرانے کے بعد، یہاں پھر پیش کردو ں کہ کسی کام کی انجام دہی میں، خوبی یا خوبیوں کی نشان دِہی (نہ کہ دَہی)، انھیں سراہنا اور کمی، خامی یا خرابی کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی بہتری، اصلاح اور پختگی کی تجویز یا تجاویز پیش کرنا ہی اصل میں تنقید ہے۔

اَب اس تمہید کے بعد دو مثالیں دیکھیں۔ ایک اشتہار ماضی قریب میں ٹیلی وژن کے پردۂ نیرنگ کی زینت بنا جس میں ایک چینی لڑکی ایک مخصوص کمپنی کے مصالحے سے بریانی تیار کرتی ہے اور ہمسایوں (نہ کہ ہمسائیوں) کے گھر لے جاتی ہے، جہاں اُس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ راقم نے گذشتہ ملازمت میں اس اشتہار کا تجزیہ بزبان انگریزی کرتے ہوئے مجموعی طور پر اچھا اور کامیاب اشتہار قراردیا۔ اس کے تخیل اور عکاسی کی داد دی، مگر یہ نشان دِہی بھی کی کہ (عوام میں رائج مفروضے کی بنیاد پر )، بریانی کو پنجاب سے مخصوص کرنا اور پھر اس اشتہار میں اردو کی بجائے پنجابی کا غیرضروری استعمال کسی طور موزوں نہیں۔ اس بارے میں مفصل گفتگو ہوسکتی ہے اور کم فہم حضرات کَج بحثی بھی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض دیگر اشتہارات کے تجزیے بھی راقم کا موضوع سخن بنے۔ ویسے اگر انگریزی کا استعمال برداشت کیا جائے تو دو اشتہار بہت اچھے لگتے ہیں۔

ایک تو وہ جس میں لفظ ’ممی‘ کو Tummyسے ہم قافیہ بنا کر متن لکھا گیا اور دوسرا وہ جس میں کہا گیا ، ’’……..سب Rightکردے گا‘‘۔ اب یہ دیکھیے کہ اِن دنوں صابن یا ڈِٹرجنٹ کے تقریباً ہر اشتہار میں یہ کہا اور دکھایا جاتا ہے کہ بچوں کا گندہ ہونا (گندا درست نہیں) اور گندگی سے لتھڑ جانا کوئی بُری بات نہیں، بلکہ مستحسن ہے۔ ’’کیوںکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔’’داغ نہیں تو کام نہیں‘‘۔’’ہمارا ڈِٹرجنٹ…….ضِدّی سے ضِدّی داغ نکال دیتا ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اشتہار کا متن لکھنے والے جان لیں کہ یہ ضِدّی داغ کوئی چیز نہیں۔ جہاں تک سوال ہے چھوٹے بچوں کے کپڑوں اور ہاتھ پائوں کے، کھیل یا کسی بھی سرگرمی میں گندے ہونے کا تو سائنس اور تہذیبی علم یہ کہتا ہے کہ قدرتی طور پر ایسا ہوجانا کچھ ایسا مضرّ بھی نہیں، مگر حدِاعتدال اور ہماری اسلامی تعلیم کا خیال رکھنا اور انھیں بتانا اور سمجھانا لازم ہے۔

اسی نوعیت کے بعض اشتہارات میں نانی یا دادی کی یہ کہہ کر تحقیر کی جاتی ہے کہ آپ پرانے زمانے کی ہیں…………۔ چلتے چلتے ایک انکشاف: گزشتہ دنوں فوت ہونے والے ممتاز سیاست داں، شعبہ تشہیر کی معروف شخصیت اور خاکسارکی شعبہ تشہیر میں اولین ملازمت میں، آجر محترم دوست محمد فیضی نے ایک مرتبہ استفسار فرمایا، ’’صدیقی صاحب! یہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ Slogan’جہاں مامتا، وہاں………..‘ کس نے لکھا تھا‘‘۔ میرا جواب نفی میں سن کرخود ہی بتایا، ’’علامہ نیاز فتح پوری نے‘‘۔ مرحوم فیضی صاحب مجھ سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک موقع پر انھوں نے (سابق گورنرسندھ کے ایماء پر) مجھ سے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اطراف میں لگوانے کے خیال سے، خیرمقدمی کلمات پر مبنی بِل بورڈز کا تشہیری متن لکھواکر اشتہارات تیار کروائے، میری تحریر کو بہت سراہا، شاید گورنر نے بھی زبانی منظوری دے دی، مگر پھر نامعلوم کیا ہوا کہ بعجلت تمام تیار کردہ یہ مخلصانہ منصوبہ عملی شکل نہ اختیار کرسکا۔

The post اَیڈ ….وہ بھی رومن انگلش میں؟؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اُسطُوراُلبحُور‘‘پر چند روز

$
0
0

جب ہم بچپن میں یہ سنتے اور پڑھتے تھے کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے تو اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کیونکہ ہر طرف زمین ہی زمین نظر آتی تھی، لیکن پھر جو ایک ہفتہ کھلے سمندر میں گزار کے آئے تو تین چوتھائی کا تناسب پانی کی وسعت، شوکت، ہیبت اور عظمت کے اظہار کے لیے بہت کم معلوم ہوا۔ ہمیں اور ہمارے ایک عالم فاضل صحافی دوست (اُن کا نام گلزار فرض کرلیتے ہیں) کو یہ موقع چند سال قبل امریکا کی ایک جہازراں کمپنی Royal Caribbean International (آرسی آئی) نے اپنے تفریحی بحری جہازLegend of the Seas کے افتتاحی سفر پر مدعو کرکے فراہم کیا۔

یہ دورۂ سنگاپور سے شروع ہوکر تھائی لینڈ اور ملائیشیا سے ہوتا ہوا سنگاپور ہی پر ختم ہوا۔ ہم کراچی سے شام سات بجے بذریعہ سنگاپور ایئرلائنز براستہ لاہور دوسرے دن صبح چھ بجے سنگاپور پہنچے۔ ہم نے ہوائی جہاز ہی میں اپنی گھڑیاں تین گھنٹے آگے کرلی تھیں اور یوں آٹھ (بظاہر گیارہ) گھنٹے کا یہ سفر ہنستے بولتے، کھاتے کھلاتے اور بہت سوں کا ’’پیتے پلاتے‘‘ گزر گیا۔ پرواز نہایت آرام بخش تھی اور فضائی میزبان اتنے حسین اور ’’فرحت بخش‘‘ کہ، بقول استاد نصرت فتح علی خاں: دل کرے ویکھدا رواں! سفر کے اختتام پر کچھ لوگوں کا جہاز سے اُترنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا اور کچھ اپنی ’’خوش مشروبی‘‘ کے باعث اُترنے کے قابل نہیں تھے…اُنھیں اُتارا گیا۔

ہم یہاں واضح کردیں کہ صحافی دوست نے جہاز کا نام ’’آسان زبان‘‘ میں ترجمہ کیا__اُسطُور اُلبحُور۔) یہ ترجمہ سن کر ہمارے کانوں میں خارش ہونے لگی۔ ہم نے اُن سے کہا ’’ایک ترجمہ ہم نے بھی کیا ہے لیکن ذرا مشکل ہے۔‘‘ وہ بے صبری سے بولے ’’ہاں ہاں، بتاؤ۔‘‘ ہم نے عرض کیا ’’سمندروں کی داستان۔‘‘ انھوں نے برُا سا منہ بنا کر جملہ کسا ’’یہ استادی تو نہ ہوئی۔‘‘سنگاپور ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو لائن میں لگی ہوئی سب سے آگے والی ٹیکسی کے ڈرائیور نے اپنی گاڑی کی ڈِکی کھول کر ہمارا مودبانہ استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں ٹیکسیاں پبلک مقامات سے اسی طرح نمبر سے چلتی ہیں۔

نہ ڈرائیور کو مسافر کے انتخاب کا حق حاصل ہے اور نہ مسافر کو ڈرائیور کا۔ یہ نظم و ضبط کا وہ درس تھا جو ہم یہاں سے سن کرگئے تھے اور وہاں اس پر عمل ہوتے دیکھا۔ ٹیکسی چلی تو گلزار صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا ’’بندرگاہ یہاں سے کتنی دُور ہے؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا ’’سنگاپور ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ یہی ملک ہے اور یہی اس کا دارالحکومت ہے۔ یہاں کوئی جگہ کسی دوسری جگہ سے دُور نہیں۔‘‘ ہمیں اس مختصر اور برجستہ جواب پر رضی اختر شوقؔ کا شعر یاد آگیا جو انھوں نے اپنے شہروں کے بارے میں کہا تھا ؎

اب جو چلے  تو یہ کُھلا شہر کشادہ ہوگئے

بڑھ گئے اور فاصلے گھر سے گھروں کے درمیاں

ایک پورٹ سے دوسری پورٹ کا فاصلہ صرف بیس منٹ میں طے ہوگیا۔ راستے میں نہ کوئی ٹوٹی ہوئی سڑک ملی، نہ کہیں گندگی کا ڈھیر نظر آیا اور نہ پولیس کا سپاہی۔ صفائی ہمارے ایمان کا نصف جزو ہے لیکن ہمارے گٹر اُبلتے، متعفّن شہروں کے مقابلے میں سنگاپور لیبارٹری کی طرح صاف ستھرا اور باغ کی طرح ہرا بھرا لگا یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کے ’’اوور ہیڈ برج‘‘ بھی رنگ برنگے پھولوں سے لدے ہوئے تھے جنھیں دیکھ کر دل فرطِ مسرّت سے کھِل اٹھا۔ آپ بے شک اسے بارش کی برکت قرار دے دیں لیکن یہی بارش ہمارے شہروں کی غلاظت میں اضافہ کردیتی ہے جب کہ وہاں کا حال اس شعر کا عکاس تھا  ؎

صفائی ہے باغِ محبت میں ایسی

کہ بادِصبا نے بھی تنکا نہ دیکھا

ہماری حیرانیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ٹیکسی اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ ہم نے جو میٹر دیکھا تو ایک اور حیرانی ہماری جھولی میں تھی۔ ہمارے یہاں کا ڈرائیور اپنی ٹیکسی کا اسٹیئرنگ بھی کنٹرول کرتا ہے اور میٹر بھی۔ وہاں کا میٹر خودکار ہونے کے ساتھ ساتھ خودمختار بھی تھا۔ یہ اسی تاجرانہ دیانت کا نتیجہ ہے کہ صرف پچاس لاکھ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک میں، ایشیا کی حد تک، معیارِزندگی جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور یہ دنیا کا اٹھارواں امیر ترین ملک ہے۔ بندرگاہ پر ہمیں اپنا مطلوبہ جہاز تلاش کرنے میں ذرا دقت نہ ہوئی۔ ہم نے جہاز کے مین گیٹ پر متعین دو سیکوریٹی گارڈز کو ٹکٹ وغیرہ دکھا کر اپنی آمد کی اطلاع دی۔

یہ دونوں جو صورت سے جاپانی لگتے تھے ہمارے کاغذات چیک کرتے ہوئے آپس میں اپنی زبان بول رہے تھے۔ اسی اثنا میں ہم نے اپنے ساتھی سے کہا ’’یار گرمی بہت ہے۔‘‘ اس پر ایک گارڈ، جس کے سینے پر Netra Chemjongکے نام کا ٹیگ لگا ہوا تھا، نہایت شستہ اردو میں ہم سے مخاطب ہوا ’’صاحب، گرمی تو ابھی اور بڑھے گی۔‘‘ لیجیے، مزید حیرانی! ہم نے اس سے پوچھا ’’آپ اردو سمجھتے ہیں؟‘‘بولا ’’اچھی طرح۔ ہم لوگ نیپال کے رہنے والے ہیں اور ہمارے ملک میں اردو خوب سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ میں نے یہ زبان انڈونیشیا میں بھی سنی ہے۔‘‘ ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ ہم نے انھیں اجنبی سمجھ کر اردو میں کوئی غیرذمے دارانہ بات نہیں کی تھی۔

اب ذرا جہاز کا حال سن لیجیے۔ ہم تو بہت حیران ہولیے اب آپ کی باری ہے۔ گیارہ عرشوں (Decks) پر مشتمل، مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ Legend of the Seas میں لگ بھگ ایک ہزار کمرے (Cabins) تھے اور اس میں مجموعی طور پر دو ہزار افراد کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی۔ اُس وقت جہاز میں مختلف ملکوں کے ایک ہزار چھے سو مسافر تھے جن میں زیادہ تر یورپی اور امریکی تھے۔ ہمارے علاوہ انڈونیشیا کی ایک خاتون بھی صحافیوں کی نمائندگی کررہی تھیں جب کہ ایک ملائیشیا کی اور سری لنکا کی دو خواتین کا تعلق ’’ٹریول ٹریڈ‘‘ سے تھا۔ ہم چھے لوگ آر سی آئی کے ریجنل چیف مسٹر کیلون ٹان (Kelvin Tan)کے خاص مہمان تھے۔

جہاز میں چھے خود کار اور ’’بولنے والی‘‘ لفٹیں تھیں۔ ہر ڈیک پر جب لفٹ رکتی ہے تو ایک دل کش نسوانی آواز ڈیک نمبر کا اعلان کرکے یہ بتاتی کہ لفٹ اوپر جارہی ہے یا نیچے۔ جہاز کے مرکزی حصے کی دو کیپسول ٹائپ کی خوب صورت لفٹوں میں بھی یہی اہتمام تھا۔ (اُس وقت یہ عام بات نہ تھی۔) جہاز میں آٹھ سو افراد کی نشستوں کا ایک جدید تھیٹر، ساڑھے پانچ سو نشستوں کا مرکزی تفریحی لاؤ نج، ڈیڑھ سو افراد کا ایک کانفرنس سینٹر، ایک ہزار افراد کا مین ڈائننگ ہال، ڈھائی سو افراد کا ڈانسنگ فلور، لائبریری، شاپنگ مال، فوٹو اسٹوڈیوز، پکچر گیلری، بیوٹی پارلرز، فٹنس کلبس، میڈیکل کلینکس، قمار بازوں کی دل جوئی کے لیے ایک عظیم الشان چمکتا، پھڑکتا سا کیسینو اور ٹیلکس سینٹر کے علاوہ بالائی عرشے پر دو سوئمنگ پول، ایک منی گالف کورٹ اور کوہ پیماؤں کے شوق کی تکمیل کی خاطر ایک مصنوعی پہاڑ کا اہتمام تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مسافروں کو تازہ ترین خبروں کی فراہمی کے لیے جہاز سے ہر روز ایک اخبار بھی شائع ہوتا تھا۔

ہم ایک ہفتے اُس جہاز پر رہے اور خوب گھومے پھرے لیکن پھر بھی پورے طور پر اس کی سیر نہ کرسکے۔ ویسے بھی ہم دونوں کا یہ پہلا بحری سفر تھا اس لیے جہاں ہماری دل چسپی کی کوئی چیز نظر آتی، ہم دیر تک اسے دیکھتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ جہاز پر چوبیس گھنٹوں میں دس مواقع پر کھانا مقررہ اوقات پر (فی سبیل اﷲ) ہر عرشے کے ڈائننگ ہال میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ جو چاہیں، جب چاہیں (بغیر ذاتی خرچ کے) اپنے کمرے میں منگوا سکتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ پیٹُو لوگوں کی جنت تھا۔ ہم اکثر کھانا اپنے عرشے ہی پر کھاتے تھے۔ ایک رات گلزار صاحب نے کہا ’’کیوںنہ آج ’ٹاپ فلور‘ (Upper deck) پر چلیں۔ وہاں تھائی فُوڈ میلہ ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’بھائی، تھائی میلہ ہو یا ہائی میلہ، ہمیں تو سبزی ہی کھانی ہے۔ وہ بھی نہ ملی تو کیا کریں گے؟‘‘، ’’نیچے آجائیں گے۔‘‘ انھوں نے کھڑے کھڑے مسئلہ حل کردیا۔ ہم اس خیال سے کہ کھلے عرشے پر رات کے وقت کا سمندر بھی دیکھ لیں گے، راضی ہوگئے۔

عرشے کے ایک حصے پر کھانے کی دسیوں میزیں سجی ہوئی تھیں جبکہ دوسرا حصہ جہاں سوئمنگ پول، گالف کورٹ وغیرہ تھے، خالی پڑا تھا۔ کھانے والے حصے میں باربی کیو کا ایک سیکشن، ذرا سی اوٹ میں، علاحدہ بنایا گیا تھا۔ گلزار صاحب وہاں جانے لگے تو ہم نے انھیں روکا لیکن وہ نہ مانے۔ دو منٹ بعد ہی اُبکائیاں لیتے ہوئے واپس لوٹ آئے۔ کہنے لگے ’’وہاں تو ’گندے جانور‘‘ کی سری بھی روسٹ ہورہی ہے۔‘‘ بہرحال کھانے سے فارغ ہوکر ہم دونوں دوسری طرف چلے گئے۔ وہاں سب سے الگ تھلگ، سمندر اور آسمان کا نظارہ کیا تو دل پر دہشت بلکہ وحشت طاری ہوگئی۔ کثافت سے پاک آسمان گہرا نیلا تھا اور اس پر تارے ایسے چمک رہے تھے جیسے سیکڑوں میل دُور برقی قمقمے روشن ہوں۔ اِدھر ہمارا عظیم الشان جہاز درویشانہ بے نیازی سے سمندر کا سینہ چیرتا چلا جارہا تھا۔ کبھی ہم اُوپر دیکھتے، کبھی نیچے۔ اسی والہانہ کیفیت میں اچانک مرحوم ضمیر جعفری کا ایک بہت پرانا شعر زبان پر آگیا  ؎

یہ تاروں بھاری رات اور یہ سمندر

یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

جہاز کے چار عرشے زیرِآب تھے اور سات سطح آب کے اوپر۔ ہمیں اور گلزار صاحب کو نیچے سے تیسرے عرشے پر بنے ہوئے دو کمرے دیے گئے جو ساتھ ساتھ تھے۔ تمام کمرے اندرونی ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ ہر کمرہ اپنی گنجائش، آسائش اور تعیّشات کے اعتبار سے فائیواسٹار ہوٹل کے کمرے سے کم نہیں تھا۔ چلتے ہوئے جہاز سے جب ہم اپنے زیرِآب عرشے کی بُلٹ پروف، شیشہ بند کھڑکی سے باہر دیکھتے تو رئیس امروہوی کے اس شعر کو حقیقی تعبیر مل جاتی کہ ؎

خاموش زندگی جو بسر کررہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہیں ہم

ہمارے مزاح گو دوست ضیا الحق قاسمی نے اس شعر کی یہ دل چسپ تضمین کی تھی ؎

کچھ کام مل گیا ہے ہمیں آب دوز پر

’’گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہیں ہم‘‘

اندر کی بات بہت ہوگئی۔ اب کچھ باہر کا حال ہوجائے۔ ایک صبح جہاز تھائی لینڈ کے ایک جزیرے ’’پھُکٹ‘‘ (Phuket) پر لنگرانداز ہوا۔ یہاں ہماری گائڈ نُونی(Nooni) نام کی ایک شوخ و شنگ، تیزطرار اور ’’فراخ دل‘‘ قسم کی لڑکی تھی جو فرفر انگریزی بول رہی تھی۔ نُونی نے بتایا کہ جزیرے کی تین لاکھ آبادی میں 75فی صد بدھ، 20 فی صد مسلمان اور بقیہ 5 فی صد میں عیسائی، لامذہب خانہ بدوش اور دیگر قومیتوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں بُدھوں کے 28 مندر اور مسلمانوں کی 35 مسجدیں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے پودے کو شورزمین ہی زیادہ موافق آتی ہے۔ بقول نونی، بدھ مذہب کے لوگ توحید پرست ہوتے ہیں اور حیات بعد الممات پر ایمان رکھتے ہیں۔

ان کے یہاں خاندان کی اکائی پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ گھر کے سب افراد ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور بزرگوں کو اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ مغربی ملکوں کی طرح بوڑھے والدین کو ’’اولڈ پیپلز ہومز‘‘ میں ’جمع‘ نہیں کروادیتے۔ اکثر گھروں میں تین نسلیں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ بدھوں کا مذہبی رہنما (Monk) تجرد کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اسے اپنا کھانا پکانے کی بھی اجازت نہیں۔ وہ نذرنیاز پر گزارا کرلیتا ہے جو اسے دل کھول کردی جاتی ہے۔ (شاید اسی لیے وہ عام آدمی سے زیادہ فربہ اور مچرّب ہوتا ہے۔)

تھائی، دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں اسے ایک ہے۔ صرف ایک لفظ ’’ما‘‘ (Ma)کو چار مختلف لہجوں میں ادا کریں تو چار الگ الگ معانی نکلتے ہیں یعنی (۱) یہاں آؤ (۲) کتا (۳) گھوڑا اور (۴) ماں۔ تھائی لفظ ’’ہا‘‘ کے معنی ہیں پانچ۔ اس لیے اگر آپ کو555 کا سگریٹ درکار ہوتو دکان دار سے کہیں ’’ہاہاہا‘‘۔ ہم نے یہاں اسکوٹر کو بطور ٹیکسی پہلی بار استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ ایک سواری کے لیے یہ سستا اور تیزترین ذریعۂ سفر ہے جو اَب ہمارے یہاں بھی رائج ہوگیا ہے۔

البتہ جو شخص یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے ہم ’’بائکیا‘‘ کہتے ہیں۔ ہمیں یہ تحقیرآمیز لفظ ایک آن نہیں بھاتا۔ آپ اسے ’’بائک مین‘‘(Bike man) یا سیدھا سادہ ’’بائک والا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے سے اُس جزیرے میں مغربی طرز کے خوبصورت مکانات، اعلیٰ درجے کے ہوٹل، کشادہ پارک اور دل کش ساحل نظر آئے۔ ایسے ہی ایک ساحل پر ہلکی دھوپ میں چمکتی ہوئی ریت پر چلتے چلتے ہم لہروں تک جاپہنچے۔ راستے میں بہت سے سیاح (جن میں بیشتر خواتین تھیں) ریت پر پڑے غسلِ آفتابی لے رہے تھے۔ وہ سب ’’لباسِ فطرت‘‘ میں ملبوس تھے جس کی ستائش ہمارے ایک کلاسیکی شاعر نے ان الفاظ میں کی تھی ؎

کب ہے عریانی سے بہتر کوئی دنیا میں لباس

یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا

(صاحب مرزا شناورؔ)

ہمارے دوست انورشعور صاحب نے اس لباس کے یہ ’’فضائل‘‘ گنوائے ہیں ؎

مفت بھی ہے لباسِ عریانی

اور مجھ پر بھلا بھی لگتا ہے

ہم تھوڑی دیر لہروں کا لطف لے کر اسی راستے سے اپنی بس کے قریب پہنچے تو اچانک گلزار صاحب نے اپنے الٹے ہاتھ کی آستین کے کف کو نیچے کھینچتے ہوئے کہا ’’میری گھڑی ساحل پر کہیں گِرگئی ہے۔ آپ بس میں بیٹھیے، میں بس ابھی آتا ہوں۔‘‘ ہم نے مسکراتے ہوئے اُن کے حکم کی تعمیل کی۔ بیس منٹ بعد وہ خوش خوش لوٹے۔ ہم نے پوچھا مل گئی گھڑی؟‘‘ بولے ’’ہاں‘‘۔ یہ کہہ کر آستین اوپر کھینچتے ہوئے ہمیں اپنی گھڑی دکھائی۔ ہم نے اس راز پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا کہ گھڑی تو اُن کی کلائی پر پہلے بھی نظر آرہی تھی۔ یہ تو محض ’’آنکھوں کی دوبارہ ٹکور‘‘ کا بہانہ تھا۔ پھُکٹ میںہم نے جی بھر کر سیر سپاٹا کیا…اور وہ بھی پھوکٹ میں! ہر طرف خوش حالی دیکھی اگرچہ نُونی بار بار کہہ رہی تھی کہ ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ شاید اُن لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی ہے۔ ہمیں دیکھیں کس طرح غربت، مہنگائی، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی، لوڈشیڈنگ اور بدعنوانی کا ’’زنانہ وار‘‘ (ہم نے مضمون 8مارچ کو لکھا ہے) مقابلہ کررہے ہیں۔

یہ ایک غیرمسلم ملک کا ذکر تھا۔ اب ایک اسلامی ملک کا حال بھی سن لیجیے۔ جہاز ملائیشیا کی ایک بندرگاہ پنانگ (Penang) پر رُکا تو ہم شہر کی سیر پر نکلے۔ ہم نے کیبل کاریں تو بہت دیکھی ہیں لیکن کیبل ٹرین زندگی میں پہلی بار اُس شہر میں دیکھی۔ پچاس ڈبوں پر مشتمل خوب صورت ٹرین تاروں کے سہارے سفر کرتی ہوئی سطح زمین سے پہاڑ کی چوٹی تک جاتی ہے۔

ایک مرحلے پر جب یہ تقریباً 70ڈگری کے زاویے سے ترچھی ہوتی ہے تو اچھے اچھے جیالوں، متوالوں اور کھلاڑیوں کی سسکیاں نکل جاتی ہیں۔ پہاڑ کے اُوپر بنے ہوئے پھل دار درختوں کے باغات میں دو گھنٹے تفریحی کرکے جب ہم واپس لوٹے تو دوپہر کے کھانے کی فکر ہوئی۔ ہم نے پورا بازار گھوم لیا۔ دونوں طرف ہوٹل ہی ہوٹل تھے لیکن حلال کھانا کہیں دستیاب نہ تھا۔ اب ہم لوگ لاکھ گناہ گار سہی لیکن باہر جاکر حلال گوشت پر کوئی مصالحت نہیں کرتے۔ ہمیں ’’لیجنڈ آف دی سیز‘‘ کا ایک عشائیہ یاد آیا جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے۔ مسٹرکیلون ٹان ایک بڑی سی گول میز پر صحافیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کھانے سے پہلے تمام مہمانوں کے سامنے سرخ شراب (Red wine) کی بڑی بڑی بوتلیں رکھ دی گئیں۔ کہا گیا کہ یہ خاص شراب بھوک کو مہمیز کرنے کی خاطر بطور Starter (شروعات) پیش کی جارہی ہے۔ تاہم گلزارصاحب کے حلق کو وہ ایسی راس آئی کہ گلاس پر گلاس اتارتے چلے گئے۔

ہم نے دو ایک بار انھیں ٹوکا بھی لیکن وہ ’مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال ہوتی ہے‘ والی قطعاً غیرشرعی کہاوت پر یقین رکھتے تھے۔ جب تک ویٹر لڑکی ایک ایک مہمان کے پاس آکر کھانے کا آرڈر لیتی ہوئی ہم تک پہنچی، گلزار صاحب پوری طرح ٹُن ہوچکے تھے۔ بہرحال اُس نے ہم سے ہماری پسند پوچھی تو ہم نے اسے تلی ہوئی مچھلی اور اُبلے ہوئے چاول لکھوائے۔

جب وہ برابر والی نشست پر گلزار صاحب کے پاس آئی تو موصوف نے مخمور آنکھوں سے اُسے دیکھا اور لڑکھڑاتی زبان میں بولے (ترجمہ) ’’وہی جو میرے دوست نے منگوایا ہے۔‘‘ لڑکی نے مودبانہ عرض کیا ’’سر، آپ کے لیے ’چکن گِرِل‘ بھی لے آؤں۔ یہ ہماری آج کی خاص ڈِش ہے۔‘‘ ہمارے دوست نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کرتے ہوئے اُسی ڈانواڈول زبان سے کہا (ترجمہ) ’’ہرگز نہیں۔ تمھاری مرغی حلال نہیں ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے شراب کا گلاس اپنے منہ سے لگالیا۔ یہ پوری کیفیت (جس میں حبّہ برابر جھوٹ یا مبالغہ نہیں) امریکا میں مقیم نامور مزاح گو خالد عرفان کے اس شعر کی غماز تھی ؎

تمھاری دعوت قبول مجھ کو مگر تم اتنا خیال رکھنا

بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو، چکن فرائڈ حلال رکھنا

اب پھر آتے ہیں ملائیشیا کی طرف۔ اس ملک کے دارالحکومت (کوالا لمپور) میںہم نے (اُس وقت کے) دنیا کے سب سے اونچے ’’جڑواںٹاورز‘‘ (Twins Towers)دیکھے۔ سواسو منزلہ یہ خوب صورت ٹاورز (جنھیں اوپر سے ایک پل کے ذریعے ملادیا گیا ہے) انجنیئرنگ کا شاہکار ہیں۔ ٹاورز کی تیسری منزل پر برابر برابر تیرہ ریسٹورنٹ تھے جو ملک کے ہر صوبے کی نمائندگی کرتے تھے۔

ایک طرف نماز کا اہتمام بھی تھا۔ ہم نے ان ہی میں سے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور وہیں نماز پڑھی۔ کوالالمپور اپنی صفائی، کشادگی، عمارات اور امارت کے لحاظ سے مغربی ملکوں کی ہم سری کر رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہمارے ایک سابق  وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف1997ء میں جب اس ملک کا دورہ ختم کرکے واپس جارہے تھے تو سرکاری کار ملائیشیا کے وزیرِاعظم مہاترمحمد خود چلا رہے تھے۔ انھیں سڑک پر ایک آئس کریم کا خالی پیکٹ نظر آیا جو انھوں نے گاڑی روک کر اٹھا لیا اور ایئرپورٹ پہنچ کر ’’ڈسٹ بِن‘‘(کُوڑا دان) میں ڈال دیا تھا۔

یہ وہاں کے ماحول کا اثر تھا کہ گلزار صاحب ٹافی کھاکر اس کا ریپر ہاتھ میں لیے Use Me (مجھے استعمال کیجیے) کا ڈبا ڈھونڈتے پھرے۔ وطن عزیز میں ہوتے تو بے فکری سے ہوا میں اُچھال دیتے۔ ہم ’’اُسطُوراُلبحُور‘‘ سے سنگاپور لوٹ رہے تھے تو زبردست بارش شروع ہوگئی۔ پہلی نظر میںاوپری عرشے سے سمندر پر بارش کا منظر بہت بھلا لگا لیکن پھر اپنے تھر اور چولستان یادآگئے۔ کلیجے میں ایک ہُوک اُٹھی اور زبان پربے ساختہ احمد فرازؔ کا یہ شعر آگیا ؎

صحرا تو بُوند کو بھی ترستا د کھائی دے

بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے

The post ’’اُسطُوراُلبحُور‘‘پر چند روز appeared first on ایکسپریس اردو.

زارشاہی کے روس سے کمیونسٹ سوویت یونین تک

$
0
0

( قسط نمبر24)

اگر بیسویں صدی عیسوی کے دو بڑے تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے تو یہ دو واقعات روس اور سوویت یونین کے ہیں۔ روس اشتراکی انقلاب کے بعد 1922 میں سوویت یونین بنا اور پھر1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ 26 دسمبر 1991 سے پہلے سوویت یونین کا رقبہ 2 کروڑ 23 لاکھ 7 ہزار 815 مربع کلومیٹر تھا اور آبادی 29 کروڑ 26 لاکھ 10 ہزار 734 تھی اب روس کا کل رقبہ 1کروڑ 70 لاکھ 98 ہزار242 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 14 کروڑ 68 لاکھ 80 ہزار432 ہے۔ اگرچہ رقبے کے اعتبار سے اب بھی روس دنیا کا سے سے بڑا ملک ہے،مگر اب سوویت یونین کو بکھر کر پندرہ آزاد وخود مختار ملکوں میں تقسیم ہو ئے  29 سال ہو چکے ہیں۔ یہ 20ویں  صدی کے دنیا کے دو بڑ ے واقعات ہیں اور سوویت یونین نے ،،Modran History ‘‘جدید تاریخ میں اس کی بہت بڑی قیمت بھی چکائی ہے ۔

روس ، یوکرائن اور بیلاروس کے علاقوں میں انسان تو ہزاروں برسوں سے آباد رہے ہیں اور  یہاں واقع آثار ِ قدیمہ اِس کی گواہی بھی دیتے ہیں مگر روس کی تاریخ اتنی زیادہ پرانی نہیں ۔ 800 سن ِ عیسوی میں Slavic سلاویک کے لوگوں نے یوکرائن اور روس کی جانب ہجرت کی۔

روس کی تاریخ میں پیٹر اعظم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وہ 1672 میں پیدا ہوا اور 1725 میں وفات پائی۔ اسے بادشاہ بننے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ 244110 مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل جزیرے بر طانیہ نے علم ، تحقیق اور روشن خیالی کی بنیاد پر بے پناہ تر قی کی۔   1689 میں جب زار پیٹر اعظم روس کا باد شاہ بنا تو روس مغربی یورپ اور خصوصاً برطانیہ کے مقابلے میں کئی سو سال پیچھے تھا۔ یہاں غلام رکھنے کارجحان شدت سے اُس وقت بھی مو جود تھا اور روس میں غلاموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ روس نے مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اصلاحات سے کو ئی استفادہ نہیں کیا تھا۔

یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ روس اور مغربی یورپ خصوصاً برطانیہ کے سماج میں علمی تحقیقی اور فکری لحاظ سے کتنا بڑا فاصلہ موجود تھا۔ پیٹر اعظم کو اس اعتبار سے روس ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے عظیم حکمرانوں میں شامل کیا جاتا ہے کہ اُس نے مغربی یورپ اور روس کے معاشروں کے درمیان حائل اس فرق کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ پیٹر اعظم نے بادشاہ بننے کے بعد1697-98 میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے 250 اہم ماہرین ، مشیروں اور دانشوروں کے ہمراہ ( پیورتورمیخائیلوف ) کے جعلی نام سے مغربی یورپ کا ایک طویل دورہ کیا۔

اس دوران پیٹر اعظم نے ہالینڈ میں ’’ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی،، کے بحری جہاز میں ترکھان کی حیثیت سے کچھ عرصہ کام کیا پھر برطانوی رائل نیوی میں کم درجے کے مزدور کے طور پر کام کیا ، پرشیا میں اُس نے اسلحہ ساز ی کے کام کو سمجھا ، اس کے دیگر 250 مشیروں اور ماہر ین نے کارخانوں ، اسلحہ سازی کی فیکٹریوں، سکولوں ، کالجوں ، یو نیورسٹیوں کا مشاہدہ کیا۔  پیٹر  نے برطانیہ کی مجلس قانون ساز کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کی اور جمہوری انداز میں قانون سازی کا بطور ایک عام آدمی مشاہدہ کیا۔

یوں اس مدت میں اس نے اپنے 250 ماہر ین اور مشیروں کے ساتھ مغربی تہذیب، ثقافت ، ادب، بحری وبری عسکریت، اسلحہ سازی ، سائنس ، صنعت ، ٹیکنالوجی  اور ایڈمنسٹریشن کو عملی طور پر دیکھا اور تجربہ حاصل کیا اور پھر 1698 میں روس واپس آکر اپنے مشاہدے ، تجربے اور علم سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے روسی ریاست اور اس کے معاشرے کو جدید تہذیب اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تیز رفتار ترقی کرنے کی غرض سے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ اُس نے روس میں مغربی ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کے لیے مغربی یورپ سے ماہرین اور گاریگروں کو پُرکشش معاوضے پر روس بلوایا، یہاں تک کہ اُس نے آئزک نیوٹن کو منہ مانگی پیشکش کی کہ وہ لندن سے ماسکو آجائے مگر نیوٹین نے انکار کردیا اور ساتھ ہی ساتھ ذہین، لائق اور محنتی روسی نوجوانوں کو وظائف دے کر مغربی یورپ بھیجا تاکہ وہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم حاصل کر کے واپس روس آئیں اور روس کو تیزی سے ترقی دیں۔

پیٹر دی گریٹ نے اپنے دور میں زیادہ توجہ صنعت و تجارت پردی جس سے مزدوروں، کاریگروں ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوا  اور معاشرے میں متوسط تعلیم یافتہ طبقے کے سائز کے بڑھنے کی وجہ سے روسی معاشرے میں سماجی شعور کی سطح  بلند ہوئی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی قبولیت کا راستہ ہموار کر دیا۔

اس نے بری و بحری فوج ، اسلحہ سازی پر مغربی یورپ کے انداز سے بھر پور توجہ دی، بیوروکریسی کو جد ید خطوط پر استوار کیا، اس نے روسی اشرافیہ کو مغربی تہذیب اور مزاج میں پوری طرح رنگ دیا، اس طرح عوام نے پھر اشرافیہ کی تقلید کی اور روسی ثقافت میں شہری زندگی کے انداز کو اپنانے کا رجحان بڑھ گیا، اُس نے روسی کیتھولک کلیسا کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے سیکولر ازم کو اپنایا اور پھر اس نے اپنی فوجی قوت کو بھی آزمایا، ابتدائی طور پر کچھ جنگوں میں اُسے عارضی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُسے فتوحات حاصل ہوئیں۔ پیٹر دی گریٹ سے قبل ترکی کی سلطنت عثمانیہ روس پر بھاری تھی لیکن پیٹر اعظم کے دور میں روس خلافتِ عثمانیہ کا ہم پلہ ہو گیا۔

پیٹر اعظم روس کا وہ عظیم محسن تھا جس نے روس کے معاشرے کو اس قابل بنادیا کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں کا مقابلہ کر سکے، سماجی علوم کے ماہرین اور محققین اس پر متفق ہیں۔ روس پیٹر دی گریٹ کے دور میں فوجی اعتبار سے بھی ایک بڑی وقت بن گیا تھا۔ یوں پیٹر اعظم کے بعد روس نے کئی جنگیں کیں، روس کی سرحدیں اُس زمانے کی ایک بڑی سلطنت عثمانیہ سے ملتی تھیں۔ یوں بڑی فوجی قوت بنتے ہی 1736 میں روس کی بڑی جنگ سلطنت عثما نیہ سے ہوئی، اس کے بعد روس مشہور سات سالہ جنگ میں 1757 میں شریک ہوا اور 1762 میں بغیر کسی معاہدے کے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 1762 میں زار پیٹر سوئم کو قتل کر دیا گیا تو اُس کی ملکہ کیتھرئین دوئم کو اقتدار ملا جس نے 34 سال حکومت کی۔

یہ دور روس کا سنہری دور کہلاتا ہے جب ملک میں خوشحالی عام تھی۔ یہی دور تھا جب 1789 سے1799 کے درمیان انقلابِ فرانس آیا جس میں مفکر دانشور ادیب والئٹیر اور روسو کے نظریات اور تحریروں نے اہم کردار ادا کیا  اور اس انقلاب نے بشمول روس اور یورپ امریکہ اور دیگر ملکوں کے اہل دانش ، فلاسفروں اور انقلابیوں کو متاثر کیا۔ والئٹیر اور روسو کی کتابیں ، تحریریں کئی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کر سامنے آئیں ۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر دانشور ، مصف صحافی کارل مارکس بھی اس انقلاب سے متاثر ہوا تھا۔ 1778 میں والئٹیر اور روسو کا نتقال ہوا اُس وقت کارل مارکس 60 سال کا ہو چکا تھا اور وہ کیمونسٹ مینو فسٹو لکھ چکا تھا اور داس کیپٹل بھی مکمل ہوگئی تھی۔

اس کے تھوڑے عرصے کے بعد نپولین بونا پارٹ نے فرانس میں قوت اور بعد میں اقتدار حاصل کیا جو سکندر اعظم کی طرح دنیا کو فتح کر نے کا خوا ب رکھتا تھا، اُس نے 24 جون 1812 کو مغربی روس کے دریائے نیمان کو پار کر کے روس پر حملہ کر دیا حالانکہ گیارہ بارہ سال قبل جب زار پال اوّل روس کا بادشاہ تھا تو اُس نے نپولین کے ساتھ مل کر ہندوستان پر حملے کی بات چیت کی تھی۔ نیپو لین جسے فرانس کی فوج اور عوام فتح کی علا مت سمجھتے تھے اور اُس نے یورپ اور دیگر علاقوں میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے تھے وہ سمجھتا تھا کہ وسیع رقبے کے ملک روس کو بھی فتح کر لے گا اور شروع میں اُسے فتوحات بھی ہوئیں لیکن یہ عظیم فوجی کمانڈر نیپولین کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی ۔ روسی بادشاہ الیگزینڈر اوّل نے اس سے اپنے ملک کے وسیع رقبے شدید سرد موسم اور صبر و استقامت کو استعمال میں لاتے ہوئے مقابلہ کیا۔

نیپولین نے بہت کوشش کی کہ تیز رفتار حملے کرتے ہو ئے روس کو فتح کر لے یہاں تک کہ باروڈونیو کے چھوٹے قبضے پر اور ماسکو سے سات میل دور کی لڑائی میں نپولین نے72000 افراد ایک دن میں ہلاک کئے، مگر روسی جب اپنی خاص اسٹر ٹیجی کے تحت پسپا ہوتے تو شہروں، دیہاتوں کو خود ہی آگ لگا دیتے اور خوراک اوررہائش کے سامان خود تباہ کر دیتے، نیپولین نے ماسکو بھی فتح کر لیا مگر یہاں بھی اُسے آگ اور راکھ کے سوا کچھ نہ ملا ، یوں دسمبر1812 تک روسیوں نے نیپولین کی سپلائی لائن کاٹ دی اور پھر شدید سردی کی وجہ سے 600000 فرانسیسی فوجی ہلاک ہو گئے اور نپولین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس جنگ میں تقریباً 400000 روسی بھی مارے گئے لیکن روسیوں نے اپنے دفاع کی ایک عظیم تاریخ رقم کردی جو تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب فرانس ، بر طانیہ ، امریکہ اور روس دنیا میں مستقبل قریب کی چار بڑی قوتوں کی حیثیت اختیار کرنے والے تھے۔ اس موقع پر تاریخی تناظر میں دیکھیں تو فرانس سے یہ غلطی ہوئی کہ نیپولین نے روس پر حملہ کیا اور اس جنگ ہی کی وجہ سے نیپولین اور فرانس کو تاریخی نقصان ہوا۔

اس جنگ میں فرانس کے چھ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے اور روس کے تقریباً چار لاکھ  فوجی مارے گئے جب کے ماسکو سمیت روس کے کئی شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ اس کے بعد 1825 میں سینٹ پیٹر برگ میں جمہوریت کے حامیوں کی بغاوت کا واقعہ پیش آیا، پھر 1853 سے روس کے خلاف جنگ کریمیاکا محاذ تشکیل پانے لگا جس میں ایک جانب روس تھا اور دوسری طرف فرانس ، برطانیہ ، سلطنت سارڈینیا اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا اتحاد تھا۔

کریمیا کی جنگ مارچ 1854 سے فروری1856 تک جاری رہی، بیشتر جنگ جزیرہ نما کریمیا کے علاقے ہی میں لڑ ی گئی مگر کچھ معرکے بحیرہ بالٹک کے خطوں میں بھی ہوئے۔ یہ جنگ اگرچہ جنگ عظیم اوّل سے تقریباً 60 سال پہلے لڑی گئی مگر اسی جنگ میں اُس وقت کی بڑی قوتوں نے اُس زمانے کی جدید ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں استعمال کرکے جنگ کے روائیتی طریقوں کو بدل دیا۔ فرانس ، برطانیہ کی جانب سے جدید انداز کی بندوقوں کا استعمال بھی ہوا اور آخر میں جنگ کا اختتام معاہدہ پیرس پر ہوا جس میں تمام فریقین نے دستخط کئے اس جنگ میں روس کے ہاتھوں سے خطے کے بہت سے علاقے نکل گئے۔

یوں روس کو اس جنگ کا بڑا نقصان ہوا۔  تاریخ کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں، کہ نیپولین جیسے زیرک جنرل سے ایک فاش غلطی روس پر حملے کی ہوئی تو دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اُس نے امریکہ میں اپنی فرانسیسی نوآبادی لاؤسینیا Louisiana کی ریاست امریکہ کو فروخت کر دی، اس امریکی ریاست کا رقبہ 135382 مربع کلو میٹر ہے اور آج اس کی آبادی 4649000 ہے۔ اگر نپولین اس ریاست کو امریکہ کو فروخت نہ کرتا تو آج امریکہ کی یہ حیثیت نہ ہوتی۔ اسی طرح 1867 کو روس نے امریکہ کو الاسکا کا علاقہ 72 لاکھ ڈالر میں فروخت کر دیا۔

یہ جغرافیائی اور اسٹرٹیجکل اعتبار سے آج اہم ترین علاقہ ہے۔ الاسکا کا مجموعی رقبہ 17 لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں زمینی رقبہ 1481346 مربع کلومیٹر اور آبی رقبہ 236507 مربع کلومیٹر یعنی مجموعی رقبے کا13.77% ہے، یہ رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے جب اس کو روس نے امریکہ کو فروخت کیا تو اس وقت یہ تقریباً غیر آباد علاقہ تھا، آج اس کی آبادی710249 ہے جو امریکہ کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں آبادی کی گنجانیت کے لحاظ سے بہت ہی کم ہے، یہاں زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے، 1912 میں یہاں مقامی حکومت قائم کی گئی، 1958 میں امریکی صدر جنرل آئزن ہاور کے دستخط سے الاسکا کو امریکہ کی 49 ویں ریاست کا درجہ دیا گیا۔

الاسکا کا یہ سودا  روس کی بہت بڑی غلطی تھی اگر چہ زار پیٹر دی گریٹ کے دور میں روس میں تیز رفتار اصلاحات کا عمل شروع ہوا تھا اور ترقی و تحقیق اور علوم کی خلیج جو مغربی یورپ اور روس کے درمیان حائل تھی اُس کو پیٹر اعظم نے بہت کم کردیا تھا مگر اس کے بعد یہ عمل سست ہو گیا۔ دوسری جانب روس کا دانشور وں، ادیبوں شعرا اور فلاسفروں اور انقلابیوں کا طبقہ جو انقلاب فرانس اور اس کے مفکرین والئٹیر اور روسوکی تحریروں سے متاثر تھا اب کارل مارکس کے زیر اثر تھا جبکہ روسی ادب عالمی سطح پر دوستو وسکی Dostovesky (پیدائش 1821 ،وفات1881) لیو ٹالسٹائی Leo Tolstoy(پیدائش 1821 وفات 1910) الیگزینڈر پوشنکن Alaxander Pushkin (پیدائش 1799 وفات 1837) جیسے ادیبوں کی بنیاد پر نہ صرف روسی ادب خود کو عالمی سطح پر تسلیم کر وا چکا تھا بلکہ اس ادب نے اجتماعی سماجی سیاسی شعور کی بنیاد پر حقوق کی جدوجہد کا عزم روسیوں میں پید ا کر دیا تھا۔

پھر مغربی یورپ کے مقابلے میں یہاں معاشرے پر شاہی آمریت کا اثر بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعی فکرو احساس، جذبات ایک ولولے اور جوش کے ساتھ اندر ہی اندر لاوے کی طر ح پک رہا تھا۔ 1897 میں روس میں اس قدر تبدیلی آئی کہ یہاں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی قائم ہو گئی، یہی پارٹی بعد میں بالشیوک Bolshevik اور مینشیویک Menshevik گروہوں میں تقسیم کا سبب بنی یعنی روس میں جماعتی بنیادوں پر جمہوری عمل کی ابتدا 1897 میں ہوئی۔

20 اکتوبر 1894 نیکو لیس دوئم روس کے بادشاہ بنے اور دس سال بعد 1904 میں روس کی جاپان سے جنگ ہوئی، یہ روسی جاپانی جنگ مینچوریا ، بحیرہ زرد، Yellow Sea ، جزیرہ نما کوریا، بحیرہ جا پان کے علاقے میں لڑی گئی۔ روسی بادشاہ نیکولیس کی فوجوں کی تعداد 1365000 اور جاپانی بادشاہ میجی کی فوجوں کی تعداد 1200000 تھی۔ یہ جنگ 8 فروری1904 سے 5 ستمبر 1905 تک ایک سال اور سات مہینے جاری رہی جس میں روس کے 526223 فوجی ہلاک، مزید بوجہ بیماری18830 ہلاک، 146032 زخمی اور74369 جنگی قیدی ہوئے۔ جاپان کے 55655 فوجی ہلاک مزید فوجی بوجہ بیماری 27200ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

یہ جنگ آج بھی ماڈرن ہسٹری میں اپنی خاص اہمیت رکھتی ہے، اس جنگ کی وجوہات اُس وقت یہ تھیں کہ روس کوبحرالکاہل پر اپنی بحریہ اورسمندری تجارت کے لیے گرم پانی کی بندرگاہ کی ضرورت تھی، ولادی وستوک کی بندرگاہ صرف گرمیوں میں ہی کام آتی تھی جب کہ جاپان کے ذریعے لیز پر دیئے جانے والا بحری اڈہ پورٹ آرتھر سارا سال کام کرتا تھا، پہلی چین، جاپان جنگ کے خاتمے کے بعد جاپان کو کوریا اور مینچوریا میں اثر و رسوخ پیدا کر کے اپنے منصوبوں پر روسی تجاوزات کا خدشہ تھا۔ روس نے 16 ویں صدی میںایون ٹیر دور ہی سے سائبرین مشرق بعید میں توسیع پسندانہ پالیسی کا مظاہرہ کیا تھا ۔

روس کو حریف کے طور پر دیکھتے ہوئے جاپان نے کو ریا پر اپنے اثر و رسوخ کو تسلیم کرنے پر روس کو پیشکش کی کہ جاپان مینچوریا میں روس کے تسلط کو تسلیم کر لے گا ،  مگر روس  نے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ جاپان 39 متوازی شمال میں کوریا اور روس کے درمیان ایک غیر جابندارانہ بفر زون ہونا چاہیے۔ جاپان نے ایشیا میں روسی توسیع کے اَن منصوبوں کو خطرہ تصور کیا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔

1904 میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد جاپانی بحریہ نے چین کے پورٹ آرتھر پر روسی مشرقی بحری بیڑے پر اچانک حملہ کر کے اُسے نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد جاپان نے روس کو کئی شکستیں دیں اور موقع فراہم کیا کہ روس بات چیت کر لے مگر روسی بادشاہ نیکولیس دوئم کو اعتماد تھا کہ روس یہ جنگ جیت جائے گا اور اُس نے جنگ جاری رکھی پھر جاپان کی جانب سے ثالث کی بنیاد پر مسئلہ حل کرنے کے لیے ہیگ کی ثالثی عدالت میں جانے سے بھی روس نے انکار کردیا اور پھر آخر روس یہ جنگ ہار گیا اور اختتام معاہدے پر ہوا جس میں امریکی صدر تھیوڈرو روزویلٹ نے اہم کردار ادا کیا۔

اس جنگ میں جاپانی فوج کی مکمل فتح نے عالمی مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی ایشیا میں پہلی بار کسی ایشیا ئی ملک نے یورپ کے ملک کو شکست دی تھی اور وہ بھی روس جیسی قوت کو، روس جاپان جنگ نے یہاں طاقت کا توازن تبدیل کر دیا تھا اور آج  بھی اس علاقے میں صورتحال کو 1904-05 کے اسٹرٹیجیکل تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

نیکولیس دوئم روس کا آخری بادشاہ تھا ثابت ہوا۔ 1905 کی جنگ جس میں لاکھوں روسی ہلاک اور زخمی ہوئے اور سب سے زیادہ یہ کہ جاپان جیسے ایشیائی ملک سے روس کے جیسی بڑی طاقت نے ذلت آمیز شکست کھائی تھی۔ یوں روسی عوام میں نیکو لیس کی مقبولیت کو دھچکا لگا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب روس میں کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے اور نظریات کی بنیاد پر لینن اور اسٹالن روس میں تحریک چلا رہے تھے۔ روس ، جاپان جنگ سے اس تحریک کو کا فی تقیو یت ملی۔ اسی سال زار شاہی خاندان میں تاریخ کی مشہور پُراسرار شخصیت گر یگو ری راسپو ٹین Grigori Rasputin داخل ہوا، اس کا شاہی خاندان میں اثر و رسوخ اس طرح ہوا کہ زار نیکولیس کا ولی عہد ایلکسیِ خون کی مہلک بیماری ہوموفیلیا میں مبتلا ہوا۔ (اس بیماری میں مریض کا خون جمنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ایک مرتبہ چوٹ لگ جائے تو خون نہیں رُکتا، زیادہ خون بہنے سے موت واقع ہو جاتی ہے) یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔

زار اور ملکہ زارینہ ولی عہد کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے کہ راسپوٹن نے زار نیکو لیس کو اپنی خد مات پیش کیں اور ولی عہد کو کئی بار انتہائی تشویش ناک حالت سے تندرست کرنے میں کامیاب رہا۔ راسپوٹین نے اپنی روحانی طاقت سے زار خاند ان خصوصاً ملکہ زارینہ کو حد درجہ متاثر کیا، اِس کے روحانی نظریات بھی عجیب وغریب تھے، گناہوں سے دل کو پاک کر نے کے حوالے سے اُس کا نظریہ تھا کہ انسان اتنے گناہ کر ے کہ دل میں گناہ کی خواہش ہی نہ رہے تو پھر انسان مکمل پاک ہوتا ہے۔

ملکہ زارنیہ سے راسپوٹین کے تعلقات کے اعتبار سے شاہی خاندان بدنام بھی ہو رہا تھا لیکن راسپوٹین کا زار خاندان پر اتنا اثر تھاکہ کسی کی جرات نہیں تھی کہ راسپوٹین کے خلاف بادشاہ سے کو ئی بات کرے۔ زار نیکولیس کی ملکہ نے سفارش کر کے راسپوٹین کو روسی کلیسا کا سربراہ مقرر کروایا تھا پھر شاہی خاندان اُس کی پیش گوئیوں ، روحانی کرامات یا جادو سے اتنے متاثر تھا کہ سلطنت کے ا کثر فیصلے اُس کے مشوروں سے ہو تے تھے ، اعلیٰ اور اہم عہدوں پر تقرریاں راسپوٹین ہی کے مشوروں اور سفارشات کی بنیاد پر ہوتی تھیں اس لیے بعض مورخین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ 1905 سے 1916 تک روس پر عملاً راسپوٹین ہی کی حکو مت تھی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بر طانوی ایجنٹ ’’لارنس آف عریبیہ ‘‘ یعنی لارڈ لارنس کی طرح راسپوٹین بھی جرمنی کا ایجنٹ تھا کیو نکہ اُس نے روس کی 1914 میں پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحاد میں شرکت اور جنگ کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اس موقع پر دربار اور روس کی پوری اشرافیہ اتحاد میں شامل ہو کر جرمنی کے خلاف جنگ کی حامی تھی اس لیے بادشاہ نیکولیس کو اتحاد میں شامل ہو کر جرمنی کے خلاف جنگ کرنی پڑی۔ جنگ کے دوران راسپوٹین کا شاہی خاندان پر اثر بہت زیادہ ہوچکا تھا۔ یوں خاندان کے وہ شہزادے جو راسپوٹین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

انہوں نے 30 ستمبر1916 کو روسی اشرافیہ کے بہت سے لو گوں کے ساتھ مل کر راسپوٹین کے قتل کا منصوبہ بنایا، اس گروپ کی قیادت شہزادہ یوسویوف اور گریند ڈیوک یالوچ  نے کی اور گولیاں مار کر راسپوٹین کو پانی میں پھینک دیا۔ کہا جا تا ہے کہ اس کے باوجود کئی گھنٹوں بعد راسپوٹین کی جان نکلی،  راسپوٹین کی پراسرار قوتوں کا زار خاندان پر اتنا اثر تھا کہ اُس کی موت کے بعد ملکہ اور بادشاہ خود کو بہت غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ دوسری جانب زار نیکولیس بادشاہ نے ایک طرف تو اپنی حاکمیت کو مستحکم رکھنے کے لیے اختیارات نہ صرف اپنے پا س رکھے تھے بلکہ ان کا استعمال عوام کے خلاف کیا تھا ، پھر روس کا یہ آخری بادشاہ نیکو لیس تاریخ کا سب سے امیر انسان تھا۔

اکتوبر1917 میں روس میں کارل مارکس کے اشتراکی نظریات  کی بنیاد پر لینن،اسٹالن اور دیگر کیمونسٹ رہنما دنیا کا پہلا کیمونسٹ انقلاب لے آئے اورآخری زار بادشاہ نیکولیس دوئم کو خاندان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور  پھر 17 جولائی 1918 میں یکاٹربرگ میں اِس بادشاہ کو پورے خاندان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

لینن نے 1921 میں نئی معیشت متعارف کر وادی تھی جس کے لیے 1917 سے 1921 تک  اشتراکی انقلابی پروگرام کے تحت کارخانے زمینیں جاگیریں اور نجی تجارتی مراکز سب قومی ملکیت میں لئے گئے تھے اور 1922 تک خانہ جنگی پر بھی قابو پا لیا تھا مگر اُس وقت تک روس کی اس انقلابی حکومت میں بھی بعض افراد مارکس اور لینن کے نظریات کے مطابق ایک طویل المدت حکومت کے بارے میں مشکوک تھے۔ 1922 ہی میں لینن نے روس کو سوویت یونین بنا نے کا اعلان کرتے ہوئے جمہوریہ یوکرائن، جمہوریہ بلا روس اور روس کو ملا کر ون پارٹی کیمونسٹ پارٹی بالشیوک حکومت کی بنیاد رکھی۔ 1924 میں لینن کے بعد جوزف اسٹالن کیمونسٹ پارٹی جنرل سیکرٹری بنا اور پارٹی کا کنٹرول ماسکو کے پولٹ بیورو کے پاس آ گیا جس میں مرکزی حیثیت جوزف اسٹالن ہی کی تھی۔

معاشی اقتصادی اور عسکری اعتبار سے اب  امریکہ کی دنیا پر حکومت تھی جو سوویت یونین کے اشتراکی معیشت کے مقابلے میں آزاد مارکیٹ کی معیشت یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا حامی تھا اور  اس تضاد کے ساتھ ہی 1918 سے دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ سوویت یونین نے دنیا بھر میں مزدوروں اور کسانوں کو قومی ملکیت کی بنیاد پر بنیادی ضروریات خوراک ، لباس ، رہائش ، علاج ومعالجہ، تعلیم کی فراہمی کا عملی نمونہ دیا تھا جو اُس زمانے کے اعتبار سے اُن کے لیے بہت پُرکشش تھا کہ اب تک سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں میں مزدوروں اور کسانوں کو ایسے حقوق حاصل نہیں تھے ، سوویت یونین کے انقلاب کی مخالفت خصوصاً امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے جاری تھی لیکن جنگ عظیم اوّل نے پورے یورپ کو معاشی ، اقتصادی اور سیاسی طو ر پر نڈھال کر دیا تھا ۔

جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد دنیا کو کسی دوسری عالمی جنگ سے بچانے کے لیے امن پسند دانشوروں، سیاستدانوں ، ادیبوں سب کو فکر تھی او ر اسی احساس کے تحت 1919 میں جہاں فرانس کے محل وارسائی میں معاہدہ وارسائی ہو ا تھا وہیں عالمی سطح پر دنیا میں امن کو بر قرار رکھنے کے لیے لیگ آف نیشن ’’اقوام عالم ‘‘ قائم کی گئی مگر ساتھ ہی ساتھ اُس وقت بد قسمتی سے دنیا میں ایک جانب نو آبادیاتی قوتوں کی طرف سے اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے منصوبے بنائے گئے تو دوسری جانب امریکہ کو دنیا کے سرمایہ داروں اور ماہرین اور سائنس دانوں نے محفوظ قلعہ تصور کیا اور دنیا کے سرمایہ اور ذہین و فطین افراد کو اس محفوظ قلعے کی کشش کھنچنے لگی، اسی بحرانی صورت سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ سوویت یونین کو مضبوط کر تے ہوئے اِسے دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر منوالے۔

دنیا کے وسیع رقبے پر پھیلی ایک ارب سے زیادہ آبادی کی نوآبادیات یعنی مقبو ضہ ملکوں پر حکومت کرنا آسان نہیں تھا، اب روس کے بعد چین اور دوسرے ملکوں میں عوامی سطح پر آزادی کی تحریکیں اٹھنے لگی تھیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا سب سے زیادہ اثر اسلحہ سازی پر پڑا، پہلی جنگ عظیم میں ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال ہوا تھا اور امریکہ نے1911 میں دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بنا چکا تھا۔

اسی طرح جاپان جو 1905 میں روس جیسی طاقت کو شکست دے چکا تھا اب مزید طاقت حاصل کر چکا تھا پھر جنگ عظیم اوّل کے منفی اثرات بھی دنیا پر مرتب ہو رہے تھے، صنعتی زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اقتصادی سرگر میاں سست ہو گئی تھیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی تھی اور اس ماحول میں روس کی زار سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد سوویت یونین بن کر استحکام اور وسعت کی جانب گامزن تھی، برطانیہ اور امریکہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد کزن ممالک بن گئے تھے یعنی اِن کے درمیان اتحاد اور تعلقات میں بہت زیادہ قربت ہو گئی تھی اور عالمی سطح پر دفاع ، تجارت ، اور امورِ خارجہ میں اشتراک بہت بڑھ گیا تھا جو آج تک قائم ہے ۔

(جاری ہے)

The post زارشاہی کے روس سے کمیونسٹ سوویت یونین تک appeared first on ایکسپریس اردو.

شکرگزاری کے 10طریقے جو آپ کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیں گے

$
0
0

صبر اور شکر، عموماً یہ دو لفظ ایک ساتھ سننے میں آتے ہیں۔ آزمائشوں پر صبر کرنا اور نعمتوں پر شکر کرنا زندگی کو سہل بنانے کے دو خوبصورت اصول ہیں۔ صبر کے پھل کے ذائقوں سے پھر کسی روز ملاقات کریں گے۔ آئیے! آج شکر کرنا سیکھتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

’’تم شکر کرو، میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘

اللہ پاک  کی عطا کی گئی زندگی پر راضی رہنا اور زندگی کا حسن بڑھاتی نعمتوں پر شکر ادا کرنا اس ذاتِ مبارک کا اپنے بندے پر حق ہے جس نے ہماری زندگی کو ان نعمتوں سے سجایا۔ سر سے لے کر پاؤں تک ہم اپنے جسم کے اعضاء  اور ان سے جڑی نعمتوں پر ہی شکر ادا کرنے لگیں تو ان کا ہی شمار ممکن نہیں۔

آج کل کے مشینی دور میں ہم ہر شے کی سائنسی توجیح تلاش کرتے ہیں۔ اور اس توجیح کے ساتھ قرآن پاک کی یاددہانی منسلک ہوجائے تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی۔کیا آپ جانتے ہیں کہ شکر گزاری، شکر ادا کرنا اور اس کا اظہار کرنے کا بظاہر چھوٹا سا عمل آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بارہا ریسرچ سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ شکر گزار ہونا:

آپ کی خوشیوں کے ذائقے کو بڑھاتا ہے۔

بہتر اور پرسکون نیند کی وجہ بنتا ہے۔

جسم کو طاقت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔

بے چینی/اضطراب (anxiety) اور اداسی (Depression) کی علامات کے تدارک میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

جسمانی درد میں بھی حیرت انگیز کمی کا باعث بنتا ہے۔

شکر کی یہ بظاہر مثبت عادت نہ صرف یہ کہ آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے کرشماتی ثابت ہوتی ہے بلکہ آپ کے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات پر بھی اپنے اثرات ثبت کرتی ہے۔ یہ عادت رشتوں کے بیچ کی کڑواہٹ کے لئے زہرِ قاتل کا کام کرتی ہے۔ آپ کے دفتر/ کام کرنے کی جگہ پر موجود لوگوں کے ساتھ آپ کے تعلقات کو خوبصورت بناتی ہے۔

زندگی کے معاملات کو لے کر شکایات، بے چینی، اضطراب اور انتہائی حالت میں دولت کی ہوس کو چھوتی خواہش کی موجودگی میں اپنی زندگی  میں موجود نعمتوں کا کفر کرتے لوگوں میں ’’شکر گزار‘‘ بننا نشے کی مانند ہے۔ آپ ایک بار اس کا اصل ذائقہ چکھ لیں تو پھر ناشکری کی کیا مجال کہ وہ آپ کے پاس پھٹک بھی پائے۔ ’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق آپ جتنا اس عادت کو اپنی زندگی کاحصہ بنائیں گے اس کے معاملات و واقعات اتنے ہی مثبت اور خوبصورت ہوتے جائیں گے۔

ہماری زندگی شکر کے لائق نعمتوں سے بھری پڑی ہے اب سوال یہ ہے کہ آخر آغاز کہاں سے کیا جائے؟ اس کے لئے چند معمولات پر نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ صبح کا آغاز شکر گزاری کے اظہار سے کیجیئے

شکر کی عادت کا بیج بونے کے لئے سب سے زرخیز زمین ہے صبح کا وقت۔۔۔ یعنی دن کا آغاز ہے

’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور ہمیں آخر کار اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح  مسلم)

اللہ کے نبی ﷺ کی سکھائی گئی اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ صبح  آنکھ کھلتے ہی سب سے  پہلے  شکر ادا کرنا واجب ہے کہ ہمیں موت نما نیند سے نکال کر  ایک اور روشن  دن دیا گیا۔ دن کے آغاز کی اس پہلی سوچ، پہلی دعا ، پہلے شکر کا اثر دن بھر کے تمام کاموں پر  پڑتا ہے۔

’’اس نئے دن کے لئے شکریہ  اللہ جی۔۔۔  میں شکر گزار ہوں کہ مجھے ایک نیا دن عطا کیا گیا‘‘

2۔ عبادت کیجئیے

دن کا آغاز عبادت ( نماز و تسبیحات) سے کرنا دراصل شکر گزاری کاہی اظہار ہے کہ ہمیں ہمارے خالق نے ایک نیا دن نعمت کی طرح دیا ہے سو اس کی عبادت ، اس کا شکر ادا کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔

ہماری عبادات عموماً ہماری خواہشات اور اغراض کے گرد گھومتی ہیں لیکن اگر اپنی عبادات کو شکر کی غرض سے جوڑ لیا جائے تو اس کے فوائد دوچند ہوجاتے ہیں۔

’’ میں شکر گزار ہوں کہ میری زندگی کی مشکلات مجھے مضبوط تر بنارہی ہیں‘‘

3۔ روزانہ شکر گزاری تحریر کرنے کی عادت ڈالیں

’’شکریہ‘‘کے مصنف ڈاکٹر رابرٹ اپنی تحقیق کا ذکر کرتے ہیں کہ دو گروہوں پر تجربہ کیا گیا۔ ایک کو اپنی ڈائری میں ہفتہ وار پانچ چیزیں تحریر کرنے کو کہا گیا جس کے لئے وہ شکر گزار ہیں اور دوسرے گروہ کو وہ پانچ چیزیں تحریر کرنے کو کہاگیا جس کے لئے وہ شکوہ کناں ہیں۔ پہلے گروہ کو اپنی خوشی، اطمینان، جسمانی اور ذہنی صحت میں اضافے کا اظہار کرتے پایا گیا جبکہ دوسرے گروہ کا تجربہ اس کے الٹ تھا۔

نعمتوں کو شمار کرنا آپ کے نزدیک ان کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ جس کے مقابلے میں شکایات اپنی اہمیت کھونے کھونے لگتی ہیں۔

4۔ غور و فکر کرنا/ مراقبہ کرنا:(Meditation)

شکر گزار مراقبہ (Gratitude Meditation)، مراقبہ اور شکر گزاری مل کر آپ کی خوشیوں کو دوآتشہ کردیں گے۔ اپنی زندگی میں موجود مثبت چیزوں پر شکر گزار ہونا اور منفی چیزوں کے اندر بھی مثبت تلاش کرنا اس مراقبے کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ آپ کی خود اعتمادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

5۔ چہل قدمی کیجئے

چہل قدمی کی عادت کے جسمانی صحت پر اثرات سے کسے انکار ہے اس چہل قدمی کے ساتھ شکر گزاری کی عادت جوڑئیے۔ جسے ماہرینِ نفسیات سیورنگ واک (Savoring Walk ) کا نام دیتے ہیں۔ چہل قدمی کرتے ہوئے شعوری طور پر ان چیزوں پر توجہ مرکوز کیجئیے جنھیں عموماً آپ نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ آپ کے جسم کو حرارت  کا احساس دلاتا سورج ہوسکتا ہے یا خوشگواریت کا احساس دلاتی ہوا۔ کوئی کھلتا پھول یا کسی تتلی کا پھول در پھول  سفر کرنا ، کسی پرندے کا  گیت  یا کسی شناسا  کی آواز بظاہر بے ضرر چیزوں پر مثبت انداز میں نظرِ ثانی  زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کا انداز بدلنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

6۔  ہفتے کا ایک دن شکایت سے مستثنیٰ قرار دیجئیے

ہفتے کا ایک مخصوص دن  زندگی سے تمام شکایا ت کو ذرا پرے کرکے صرف اور صرف نعمتوں کو گنیے۔ یقین کیجئیے آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی میں نعمتوں کے مقابلے میں  آپ کی گنتی ختم ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

7۔ شکر گزاری کا اقرار کرنا

میں شکر گزار ہوں کہ میری زندگی میں محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں۔

میں شکر گزار ہوں کہ میں اپنی پسند کا کھانا چکھ سکتا ہوں،کھا سکتا ہوں۔

میں شکر گزار ہوں ہر اس چیز کے لئے جو میری زندگی میں موجود ہے۔

یہ اور اس طرح کے لاتعداد جملے آپ کو یاددہانی کراتے ہیں کہ زندگی چند بْرے تجربات سے بہت آگے کی چیز ہے۔

8۔ تحریری شکریہ ادا کرنا

اپنی زندگی میں موجود لوگوں کو کسی تحفے، کسی کارڈ یا پھر خط کے ذریعے ان کی آپ کی زندگی میں  موجودگی کا  شکریہ ادا کرنا رشتوں کی پائیداری کے ساتھ ساتھ  ذہنی سکون کا بھی باعث بنتا ہے۔ اپنے اردگرد لوگوں کو احساس دلائیے کہ وہ آپ کے لئے اہم ہیں۔ آپ ان کی قدر کرتے ہیں، ان سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں اور ان کی اپنی زندگی میں موجودگی کو شکرکرنے کی وجہ سمجھتے ہیں۔

9۔ مدد کے لئے ہاتھ بڑھائیے

اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، آپ کو بہت سی اداس روحیں مسیحائی کی منتظر دکھائی دیں گی۔ ان کی مدد کرنے کے لئے خود کو آمادہ کیجئے۔ اپنی تکالیف سے صرفِ نظر کرکے کسی دوسرے کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھانا اس بات کا اظہار  ہے کہ آپ اپنی تکالیف کے مقابلے میں دوسروں کا درد زیادہ محسوس کرتے ہیں۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان  بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

دوسروں کی مدد پر آمادگی آپ کے اندر شکر گزاری کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ دوسروں کی مشکلات اور پریشانیوں کو جان کر اپنی تکلیف بیت چھوٹی محسوس ہوتی ہے اور اس سے منسلک منفی اثرات بھی زائل ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔اور یہی انسانیت کی معراج ہے۔

10۔ رات کو سونے سے پہلے شکر گزاری کا  اعادہ کرنا مت بھولئے

دن بھر کی تھکن سمیٹ کر بستر پر لیٹنا اور ایک پرسکون نیند کی خواہش انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ بستر پر لیٹنے اور سونے کے درمیانی وقفے کو کارآمد بنائیے۔ صبح کی پہلی سوچ کی مانند رات کی آخری سوچ کا چہرہ بھی تبدیل کیجئے۔ سونے کے مسنون اعمال کے ساتھ ساتھ دن بھر کے معاملات پر نظر ثانی اور ان کا مثبت نکتہ نظر سے جائزہ لینا بہت سی مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک مکمل دن کے معمولات کا جائزہ لیتے ہوئے شعوری طور پر ان واقعات پر توجہ دیجیے جو شکر گزاری کا مؤجب بن سکتے ہیں۔ وہ کسی دیرینہ دوست کا غیر متوقع میسج یا کال، کسی مہمان کی پرمسرت صحبت، کسی بچے کی معصوم ہنسی، کسی  پیارے کی مسکراہٹ، کسی  جانب سے موصول ہونے کا شکریہ یا کوئی تعریفی جملہ اور اس طرح کی کئی دوسری وجوہات ہوسکتی ہیں۔

آپ کے پاس ایک آرام دہ بستر کی دستیابی، کمرے میں موسم کی سختی و نرمی کے مطابق اے سی، پنکھا ، ہیٹر یا محض چھت کی موجودگی ہی ایسی نعمتیں ہیں جن سے بہت سے لوگ محروم ہیں۔

بنا دواؤں کے نیند آنا، بنا کسی شدید تکلیف کے دن بھر گزارنا۔ غرض شکر گزاری کی اتنی وجوہات ہیں کہ آپ سوچنے بیٹھیں تو دنگ رہ جائیں گے۔ دن بھر کے معمولات کا جائزہ اور ان سے متعلق شکر گزاری کا اظہار اعصابی تناؤ، نفسیاتی دباؤ میں نمایاں کمی کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً نیند بہتراور پرسکون ہوتی ہے۔

زندگی کے معاملات اور عادات میں یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں آپ کی شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آپ ’’شکر گزاری‘‘ کو ایک موقع تو دیجئیے اس کے اثرات مجھ سے بڑھ کر آپ بتاپائیں گے۔ تو آئیے! شکر گزاری کی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ اس سفر میں ایسا وقت بھی آئے گا یہ عادت سانس لینے جیسی ضرورت بن جائے گی اور زندگی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود مسکرائے گی۔

(انشاء اللہ)

The post شکرگزاری کے 10طریقے جو آپ کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

سانپ:جس کا ذکر الہامی کتابوں سے مختلف تہذیبوں تک میں موجود

$
0
0

موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی سانپ اپنے مسکن سے باہر نکل آتے ہیں، جس کی وجہ سے سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مکمل اور جامع تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں نمایا کمی لائی جاسکتی ہے اور قیمتی جانو کو بچانے کے علاوہ سانپ کے متعلق معلومات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔

عصر حاضر میں کرہ ار ض پرسا نپوںکی تقریباً 3 ہزار اقسام پائی جاتیں ہیں، جن میں 375اقسام زہریلے سانپوں کی ہے اور ان میں 45ایسی اقسام ہیں، جن کے ایک ہی بار ڈسنے سے انسان مر سکتا ہے۔ سانپ ہر قسم کے ماحول میں موجود ہیں، یہ جنگلوں، صحراؤں، پانی اور پہاڑوں پر موجود ہوتے ہیں، تاہم زیا دہ تر سانپ زمین میں بل بنا کر رہتے ہیں۔

سا نپوں کی تمام اقسام گو شت خور ہو تی ہیں۔ یہ اپنی خوراک کو چبا نہیں سکتے بلکہ نگلتے ہیں اور ان کی خوراک معدے میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ سانپ قدرت کی ایک بہت پرانی تخلیق ہے، جس کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ خاص طور پر انجیل مقدس اورقرآن ِپاک میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علا وہ سانپ کو مختلف کہانیوں، داستانوں، ناولوں میں بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں میں مختلف حوالوں سے اس کا تذکرہ موجود ہے۔ دنیا کے بعض مذاہب میں اس کی پوجا کی جاتی ہے اور اس کو دیوتا کا رتبہ دیا جاتا ہے۔ بعض تہذیبوں میں اس کو بطور خوراک استعمال کیا جاتا ہے، خاص کر سوپ بنا کر پیا جاتا ہے ہے،اس کی شراب بھی بنائی جاتی ہے۔ کچھ تہذیبوں میں اس کو پالتو جانور کے طور پر بھی پالا جاتا ہے۔ ملکہ قلوپطرہ واحد ملکہ تھیں، جنھوں نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر خود کشی کی۔ موجودہ ترقی کے دور میں سانپ کی جلد کے جوتے، پرس، بیگ، بیلٹ اور لباس تیار کیے جاتے ہیں۔

سانپ ایک صفائی پسند رینگنے والا (Repitile ) جانور ہے، جو وقتاً فوقتاً اپنی جلد کو تبدیل کر تا رہتا ہے۔ جلد کی تبدیلی کے اس عمل کو Molting (مولٹینگ )کہتے ہیں۔ سانپ سال میں تین سے چھے بار اپنی کھال تبدیل کر تے ہیں ۔ یہاں یہ بات بتانا نہایت ضروری ہے کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سا نپ تو زہر بناتے ہی نہیں۔ سا نپ کا زہر یعنی Venom (وینم) سانپ کا تھوک ہو تا ہے جو اس کے زہریلے دانتوں Fangs (فینگس) کے ذریعے دوسرے جانوروں یا انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ عموماً سانپوںکی خوراک میں دیمک ، چو ہے ، پرندے اور ان کے انڈے، مینڈک سے لے کر چھوٹے بکر ے یا ہرن وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ سانپ عمو ماً اپنے منہ کے سائز سے تین گناہ زیادہ بڑا شکا ر ہڑپ کر سکتا ہے کیوںکہ سانپ کے جبڑوں میں بہت زیادہ لچک ہوتی ہے۔ زہریلے سا نپ عمو ما اپنے شکا ر کو زہر کے ذریعے قابو کر تے ہیں جبکہ بڑے سانپ اپنے شکار کو اپنی لپیٹ میں لے کر قابو میں کر تے ہیں۔

تمام سانپ پیدائشی طور پر تیرنا جانتے ہیں اور یہ عموماً روزانہ کی بنیاد پر شکار نہیں کر تے۔ مثال کے طور پر (اینا کونڈ ا ) Anaconda  (پائتھن)Python ایک بار اپنی بھر پور خور اک کھانے کے بعد تقریبا ایک سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس وقت سانپ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں سوائے انٹارکٹکا، آئس لینڈ ، نیو زی لینڈ اور گرین لینڈ۔ سانپ عمو ما گر میوں میں نکلتے ہیں اور سر دیوں میں یہ زیرِ زمیں چلے جاتے ہیں۔ سانپوں کی زیادہ تر اقسام انڈے دیتی ہیں لیکن کچھ اقسام ایسی بھی ہیں جو براہِ راست بچے پیدا کرتی ہیں۔ سا نپ ایک پُر امن جانور ہے، جو حملہ کرنے میں عموما پہل نہیں کر تے، لیکن انسان فطر ی طور پر سانپ سے خو فزدہ پایا گیا ہے۔ اس خو ف کو نفسیات کی زبان میںOphidiophobia کہتے ہیں ۔ یہ با ت بڑ ی دلچسپی کی حامل ہے کے انسان جتنا سانپ کو دیکھ کر خو فزدہ ہو تا ہے، سانپ اس سے تین گنا ہ زیادہ انسان کو دیکھ کر خوفزدہ ہو تا ہے۔

سانپ عموماً چار انچ سے لے کر تیس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں اور یہ وزن میں ایک گرام سے لے کر 227کلو گرام تک ہو سکتے ہیں۔ سانپوں کی آ نکھوں کی پتلی سے ان کے زہر یلے اور غیر زہریلے ہو نے کا پتہ چل سکتا ہے۔ عموما زہریلے سانپ کی پہچان ان کی بیضوی آنکھ کی پتلی سے ہوتی ہے اور یہ عموما عمودی ہو تی ہے۔ سا نپ رنگوں کی تمیز نہیں کر سکتے ۔

سانپوں کے بیرونی کان بھی نہیں ہو تے اور نہ ہی ان کے کان کا پردہ ہو تا ہے۔ البتہ ان کے کان میں چھوٹی سی ہڈی ہوتی ہے۔ جس سے زمین کی تھر تھرا ہٹ ان تک منتقل ہو تی ہے۔ اس کے علا وہ سانپ ہو اکے ذریعے سے بھی آ وازکی لہر وں کو پکڑ لیتا ہے لیکن یہ انسانی کان کی طرح سُن نہیں سکتا۔ ہر سانپ کی دو دھار ی زبان ہوتی ہے جس کی حر کت منہ کے اندر باہر جا ری رہتی ہے اور یہ زبان سے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔

سا نپ عمو ما دس سے چا لیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ سانپ کے شکار کو پکڑنے والے اور زہر والے دانت الگ الگ ہوتے ہیں ۔ سا نپ کے زہریلے دانت اس کی آنکھوں کے پیچھے ایک تھیلی سے جڑے ہوتے ہیں جس میں زہر ہوتا ہے اور یہ زہرمائع کی شکل میں مو جود ہوتا ہے۔ جیسے ہی سانپ کسی کو کا ٹتا ہے تو یہ زہریلے دانتوں کے ذریعے دوسرے جاندار کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے جو شکا رکو یا تو مفلو ج کر دیتا ہے یا مار دیتا ہے۔ اگر سانپ کے زہریلے دانتو ں کو تو ڑ دیا جائے تو کچھ ہی عر صہ کے بعد یہ دانت دوبارہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔

اس بات کو انتہائی توجہ کے سا تھ پڑھنا چاہیے کے اگر سانپ کو مار دیا جائے یا اس کے سر کو کاٹ کے الگ کر دیا جائے تو پھر بھی یہ کاٹ سکتے ہیں حتٰی کے مرنے کے کئی گھنٹے بعد بھی ان میں انسانوں اور دیگر جانوروں کے کاٹنے کی صلاحیت موجو د رہتی ہے اور مرنے کے بعد یہ عموما زیادہ زہر چھو ڑتے ہیں۔ چند جانور خاص طور پر نیولا سانپ کے زہر کے اثر سے قدرتی طور پر محفوظ رہتا ہے۔

ان پر سانپ کا زہر کوئی اثر نہیں کرتا۔ زمینی، بحری، جنگلی سانپوں کے علا وہ اُڑنے والے سانپوں کی اقسام بھی پائی جا تیں ہیں۔ جو کے 300 فٹ سے زیادہ بلند ی تک ہو ا میں اُڑ سکتے ہیں۔ سانپ پتھروں، درختوں اور اینٹوں میں عمو ما اس لئے رہتے ہیں کیو نکہ یہ اشیا سورج کی روشنی کو جذب کرتیں ہیں اور یہ ان کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علا وہ سانپ کی چند مخصوص اقسام ایسی بھی ہیں جو منہ سے زہر کو برا ہِ راست ہو ا میں پھینکتے ہیں اور اس کی رینج آٹھ فٹ تک ہو سکتی ہے۔ یہ کسی بھی پوزیشن میں زہر پھینک سکتے ہیں ۔ خا ص طور پر یہ شکار کی آ نکھو ں میں زہر پھینکنے کی کو شش کر تے ہیں۔ اگرچہ اژدھا دنیا میں سب سے بڑا سانپ ہے لیکن زہریلے پن کے حوالے سے دنیا کا لمبا ترین زہریلا سا نپ کنگ کوبرا ہے جو کہ ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی اٹھارہ فٹ تک ہو سکتی ہے۔

یہ بڑی خطر ناک پھنکار منہ سے نکالتا ہے۔ اور اسکا زہر ایک ہاتھی تک کو بھی مار سکتا ہے۔ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں Pit Viper , King Cobra اور  Python شامل ہیں ۔ دنیا میں دو سروں والے سا نپ بھی پائے جا تے ہیں لیکن ان کی تعدا د بہت کم پائی جاتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم زیا دہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی ۔ دنیا میں 70 فیصد سانپ انڈے دیتے ہیں اور 30 فیصد سا نپ زندہ بچو ں کو جنم دیتے ہیں ۔اس وقت کرہ ارض پر سانپوں کی تیزی سے ختم ہونے والی قسم کو St. Losia Racer کہتے ہیں اور اس وقت ان کی تعداد 18سے 100 کے درمیا ن پائی گئی ہے۔ اس وقت دنیا میں سالانہ ایک لاکھ کے قر یب افراد کی اموات سانپ کے کاٹنے سے ہو رہی ہے، جن میں آ دھے سے زیادہ افرادکی تعداد جنوب و مشرقی ایشیا میں ہے۔

Black Mumba  دنیا کا تیز رفتار ترین سانپ ہے جو کہ مشر قی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی رفتا ر تقریبا 19کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس سانپ کا نام اس کے کالے رنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی جلد کا رنگ گہر ا سبز ہو تا ہے۔ اس کے منہ کے اندرونی حصے کا رنگ گہر ا کا لا ہو تا ہے ور اسی وجہ سے اس کو Black Mumba کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار انتہائی زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے۔ اس کے کا ٹنے کے بعد تقریبا 7 سے 15 گھنٹے کے اندر اندر انسان کی مو ت ہو سکتی ہے۔ سا نپ کا بین کی آواز پر نا چنے کا کھیل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ سا نپ بین کی آ واز کے بجائے سپیرے کی بین کی حرکات کی وجہ سے ناچتا ہے۔

اب ہم قارئین کو بتاتے ہیں کہ سا نپ اگر کا ٹ لے تو ایسی صو رت میں کیا کیا جا ئے؟

اس صور ت میں ہسپتا ل کا رخ کر نا چا ہیے اور فرسٹ ایڈ کے طور پر مزید احتیاطی تدا بیر اختیا ر کرنی چاہیں، جن میں اگر مر یض نے کو ئی جیو لر ی وغیرہ پہنی ہوئی ہے تو و ہ اسے فوراً اُتار دے کیوںکہ سوجن کی صورت میں خون کی روانی متا ثر ہو سکتی ہے۔ ڈسنے والی جگہ کو دل کی سطح سے نیچا رکھیں۔ اپنے ہو ش و حواس کو قابو میں رکھیں اور چلنے پھرنے سے گر یز کر یں کیو نکہ اگر آپ چلیں گے تو پھر اس صور ت میں خون کی گر دش تیز ہو گی جس کی وجہ سے سا نپ کا زہر پور ے جسم میں پھیل سکتا ہے۔ زخم کو سانپ اور خشک پٹی سے ڈھانپ کر رکھیں اور جتناجلدی ہو سکے ہسپتال پہنچ کر Anti Venom ویکسین کا استعمال کر یں۔ ہر سانپ کے لئے مخصو ص ویکسین بنائی جاتی ہے اور اگر سانپ نامعلوم ہو تو Poly Anti Venom ویکسین لگائی جاتی ہے۔ جو ہر طرح کے سانپ کے زہر کے خلا ف موثر کام کر تی ہے۔

اگر خدا نخواستہ سانپ کاٹ لے تو سا نپ کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور نہ ہی اس کو بند یا مارنے کی کوشش کرنی چا ہیے۔ اس طر ح کر نے سے سا نپ کے ڈسنے کے مزید امکانا ت بڑھ سکتے ہیں۔ سانپ کے ڈسنے والی جگہ پرنہ ہی کو ئی رسی باندھی جائے اور نہ ہی زخم کو چوسنے کی کوشش کی جائے، متاثرہ جگہ کو کٹ لگانے سے بھی گر یز کیا جائے۔ متاثرہ حصے کو نہ ہی پانی میں ڈبویا جائے اور نہ ہی اس پر کوئی بر ف وغیرہ لگائیں ۔ اس کے علا وہ نہ ہی مر یض کو کو ئی مشر وب مثلاً کافی وغیرہ دیں۔ مر یض کو ہسپتا ل کے اندر کم از کم چو بیس گھنٹے انڈر آبزرویشن (Under Observation) رکھنا چاہیے۔ خا ص طور پر ایسے مر یض جن کو اینٹی سنیک وینم (Anti Snake Venom ) ویکسین لگائی جا تی ہے کیوں کہ ان میں شدید الرجی کے ری ایکشن کے ا مکانات ہو سکتے ہیں ۔سا نپ کے ڈسنے کے بعد بحالی صحت میں عام طور پر 3 سے 9ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

سا نپ کے ڈسنے کی صور ت میں در ج ذیل چند علا مات ظا ہر ہو سکتی ہیں۔ جن میں متا ثرہ جگہ پر دانتو ں کے دو نشانات ، سوجن ، درد ، زخم کے گر د جگہ کا سر خ ہو جانا ، اُلٹی یا متلی کی کیفیت، پسینہ اور لعاب کا زیادہ بننا، بینائی کا دھندلا جانا، با زو اور ٹانگو ں کا سُن ہو جانا، مر یض کا غشی اور بے ہو شی کی حا لت میں جانا وغیرہ شامل ہیں۔

سانپ کا زہر خون کے نظام، پٹھوں، اعصابی نظام کو شدید متاثر کرتا ہے۔ سانپ کے زہر کو پینے سے زہر اثر نہیں کرتا۔ اس تصوراتی خیال کہ ساون کے مہینے میں سانپ کو مارنے سے سانپ “ویر‘‘دشمنی رکھتا ہے اور سانپ کو مارنے والے شخص کو سات سمندر پار تک پیچھا کرتا ہے اور اس کو ڈسنے تک سکون سے نہیں بیٹھتا ، کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے سانپ کے ڈسنے سے ہونے والی اموات اور معذوری کو تقریباً 50 فیصد تک کم کرنے کے لیے 2030ء کا ہدف مقرر کیا ہے اور اپنی کاوشوں میں مصروف ہے۔

The post سانپ:جس کا ذکر الہامی کتابوں سے مختلف تہذیبوں تک میں موجود appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک انصاف بلوچستان میں اپنی غلطیوں کی سے وجہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی

$
0
0

سردارروح اللہ خلجی کا تعلق بلوچستان کے ایک قبائلی اور کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کا شمار موجودہ حکم راں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین اور صف اول کی ابتدائی قیادت میں ہوتا ہے۔

25 اپریل 1996ء کو پاکستان کے افق پر نمودار ہونے والی سیاسی جماعت کی تشکیل ہو یا شوکت خانم کینسر اسپتال کا قیام، آزاد عدلیہ کی تحریک ہو یا دھاندلی کے خلاف آزادی مارچ، آزاد الیکشن کمیشن اور آزاد احتساب کے لیے جدوجہد میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ پارٹی کے سنیئر نائب صدر، سینٹرل میڈیا کوآرڈینیٹر، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن صوبائی صدر سمیت پارٹی کے متعدد عہدوں پر فائز رہنے اور سیاسی میدان میں کافی تگ و دو اور تھکی تھکی خاموشی کے بعد انہوں نے گذشتہ دنوں ایکسپریس کو انٹرویو دیا، جس میں سامنے آنے والی ان کی رائے، خیالات اور مختلف معاملات پر گفتگو قارئین کی نظر ہے۔

سردار روح اللہ خلجی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے اپنی وابستگی سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان کی شخصیت سے کافی متاثر تھے۔ تاہم طلباء سیاست کے دوران وہ نواب اکبر خان بگٹی کی فکر اور نظریات کے گرویدہ تھے۔ عمران خان کی سماجی خدمات شوکت خانم اسپتال کے قیام نے انہیں عمران خان کی جانب مائل کیا بعدازاں وہ ان کے نظریات کے اسیر ہوگئے اور 26 اپریل 1996ء کو وجود میں آنے والی جماعت سے باقاعدہ منسلک ہوکر انصاف، انسانیت اور خودداری کا نعرہ لیے فرسودہ، جاگیردارانہ نظام، روایتی سیاست سے نبردآزما رہے۔ ان کا خیال ہے کہ لسانی، مذہبی اور روایتی بنیادوں پر ہونے والی سیاست نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہے اور ملک کو سیاست کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

بلوچستان میں پہلے سے موجود بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کو فعال بنانے میں درپیش مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں سردار روح اللہ خلجی نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے بعد متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ جب عمران خان کوئٹہ کے دورے پر آتے تو بمشکل وہ دس بیس لوگ جمع کرپاتے تھے۔ صوبے کی قبائلی روایات کے تحت اکثر لوگ اور قبائلی عمائدین عمران خان سے ملنے خود آتے اور کھانے کی دعوت دیتے۔

ان کی سیاسی سرگرمیاں پارٹی کے دفتر تک محدود ہوا کرتی تھیں۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی سطح پر بننے والی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی پہلے سے موجودگی میں جب وہ عمران خان کے نظریہ کا پرچار کرتے تھے تو انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ تنقید نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے ہوتی بلکہ ان کے اپنے گھر، قبیلے اور قریبی رفقا بھی تنقید کے نشتر برساتے کہ کھلاڑی اور سیاست داں میں بڑا فرق ہے، گیند والا کھلاڑی معاشرے میں اپنا سیاسی مقام کبھی نہیں بنا پائے گا۔

اس بے رحمانہ تنقید سے وہ دل برداشتہ بھی ہوئے مگر عمران خان کی صورت میں امید کی آخری کرن نے مایوس ہونے نہیں دیا۔ انہیں عمران خان کی قیادت پر پورا یقین تھا کہ جس طرح انہوں نے کھیل کے میدان اور سماجی اور فلاحی کاموں میں ملک کے لوگوں کو مایوس نہیں کیا اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں ہونے دیں گے۔

سردار روح اللہ خلجی اور ان کے خاندان کا گزر بسر تجارت پر ہے مگر وہ تبدیلی کے جُنون میں اس قدر مگن رہے کہ انہوں نے اپنے آبائی کاروبار اور قبائلی معاملات کو پس پشت ڈال دیا اور اپنا تمام وقت سیاست کو دیتے ہوئے نامساعد حالات، مشکلات اور وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود دن رات کی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے بھر میں فعال کیا۔

قوم پرست اور وفاقی جماعتوں میں شمولیت نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عمران خان سے رابطے میں رہے۔ ابتدا میں اکثر دوستوں کی مختلف رائے سامنے آتی تھی کیوںکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے مختلف نظریات اور سیاسی وابستگی ہونے کے باوجود یہاں کے سیاست دانوں کے ایک دوسرے سے قریبی مراسم اور رابطے ہیں۔ 2002ء میں جب ق لیگ کی حکومت بنی تو مجھے ق لیگ کے دوستوں نے شمولیت کی دعوت دی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھی بھی رابطے میں رہے، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے بھی کئی مرتبہ شمولیت کے لیے رابطے کیے اور ابھی ان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اپنے سیاسی سفر کے دوران انہوں نے کبھی الیکشن لڑنے کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قیادت سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی، کیوںکہ وہ سیاست کو عوامی خدمت سے تعبیر کرتے ہوئے سیاست کو ایک رضاکارانہ عمل گردانتے ہیں۔ نظریاتی جدوجہد کے قائل ہیں اور انہوں نے پوری زندگی اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاست میں رضاکارنہ خدمات انجام دی ہیں۔

2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں گورنرشپ کے لیے تحریک انصاف قیادت کی جانب سے ان کا نام تجویز کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہماری خواہش تھی کہ صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنے، تاہم اکثریت نہ ہونے کی بنا پر قیادت نے حکومت سازی کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی، گورنر کے لیے بہت سے نام زیرغور آئے۔ کارکنوں کی خواہش تھی کہ پارٹی سے گورنر کے لیے کسی دوست کا انتخاب کیا جائے اس سلسلے میں رابطے بھی ہوئے۔ تاہم حتمی فیصلہ قیادت کو کرنا تھا اور وہ قیادت کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پارٹی میں مرکز اور صوبے کی سطح پر دھڑے بندیوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی میں دھڑے بندی ہو یا سرکاری محکموں میں ہونے والی کرپشن، دونوں ہمیشہ اوپر کی سطح سے ہوتے ہوئے نچلی سطح تک پہنچتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف ایک جمہوری جماعت ہے، پارٹی کے اندر اختلاف رائے سے پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں، جہانگیر ترین ہوں یا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سردار یار محمد رند یا نوابزادہ ہمایوںجوگیزئی، یہ سب ہماری پارٹی کا اثاثہ ہیں اور عمران خان کے نظریات پر متفق ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کمی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے قیام کے لیے جب چندہ اکٹھا کیا تو دو سالوں کے دوران وہ بمشکل دو کروڑ روپے جمع کرپائے۔ تاہم کورونا کی وبا کے دوران عمران خان کی کال پر ملکی وبین الاقوامی سطح پر ایک دن میں اربوں روپے جمع ہوئے، جو لوگوں کا آج بھی ان پر اعتماد کا اظہار ہے، مگر عمران خان کی پالیسیوں اور عوامی جدوجہد سے وہ لوگ ضرور خائف ہیں جنہوں نے گذشتہ سات دہائیوں سے اقتدار پر قابض رہ کر کرپشن اور کمیشن کو تقویت دی اور آج بھی ملک کی ترقی میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔

سردار روح اللہ خلجی سمجھتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا بہت بڑا اہم کردار ہے اور یہی نوجوان ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، جن کی حمایت سے پارٹی 2013ء اور 2018ء کے انتخابات معرکہ سر کرنے میں کام یاب ہوئی۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت سے ملک کی ترقی کے لیے ہونے والی جدوجہد کو تقویت ملی ہے۔

عمران خان سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی عمران خان سے کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم پارٹی کے پروگرامز میں یکجا ہونے کا موقع ملا ہے، اسلام آباد میں پارٹی کنونشن کے موقع پر غیررسمی ملاقات ہوئی ہے۔

ملک کی معاشی بدحالی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک اچھے، قابل اور معاملہ فہم انسان ہیں، کرونا نے پورے دنیا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ملک کو بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ ادوار میں جس بے دردی سے ملک کو لوٹا گیا اس کا ازالہ بھی موجودہ حکومت کے ذمہ ہے۔ حکومت بہتر طرزحکم رانی کی داغ بیل ڈال کر ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہورہا ہے۔

وفاق میں غیرمنتخب معاونین اور مشیروں کے ذریعے حکومتی نظام کو چلانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار تک آئے ہیں اور جمہوریت کا استحکام عوامی نمائندوں کی فیصلہ سازی اور شراکت داری میں ہے۔ تاہم جہاں تک معاونین اور مشیروں کی تعیناتیوں سے متعلق سوال ہے تو یہ تمام لو گ کوالیفائیڈ ہیں اور عمران خان کے نظریے پر قائم ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک اور قوم کے بہتر مفاد میں ڈیلیور کیا جائے۔

سردار اختر مینگل کے وفاقی حکومت کے اتحاد سے علیحدگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل صوبے کے ایک اہم سیاسی راہ نما اور قدآور قبائلی شخصیت ہیں۔ صوبہ کی سطح پر ہم ان کی جماعت سے رابطے میں ہیں جب کہ مرکزی قیادت بھی کوشش میں ہے کہ بی این پی دوبارہ اتحاد کا حصہ بنا کر اپنے صفوں میں بٹھایا جائے۔ پارٹی نے ان کے جائز مطالبات تسلیم کیے ہیں اور یہ ہمارے مشترکہ نقاط ہیں جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

اپوزیشن جماعتوں کی حکومت پر تنقید اور قبل ازوقت انتخابات کے مطالبہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اقتدار کے مز ے لوٹنے والوں کو گوارہ نہیں کہ ملک کا نظام بہتر لوگ خوش حال ہوں اگر حکومت اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں کام یاب ہوجاتی ہے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں ہمیشہ ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مفادات کے لیے ہونے والے اقدامات میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہیں۔

چینی اسکینڈل سے پارٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کاروباری شخص ضروری ہیں مگر وہ ایک قابل اور سلجھے سیاست داں ہیں، جب چینی اسکینڈل کی رپورٹ منظرعام پر آئی تو انہیں قریب سے جاننے کی وجہ سے حیرت ضرور ہوئی، تاہم معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے کمیٹی کی رپورٹ آنے تک اس معاملے پر بات چیت نہیں کرسکتا۔

2018 ء کے انتخابات میں صوبے میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی اور پارٹی کے مستقبل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے صوبے میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہوئی، مشاورت سے امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا تو یقیناً واضح اکثریت ملتی مگر اس دوران مشاورت پر ذاتی فیصلوں کو فوقیت دی گئی۔ صوبے میں تحریک انصاف کا مستقبل بلوچستان عوامی پارٹی کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ پارٹی اس وقت صوبے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اگر مستقبل میں پارٹی کو کوئی سیاسی نقصان پہنچتا ہے تو صوبائی حکومت وجہ بنے گی۔

وزیراعلیٰ کے خلاف اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان بلوچستان کی حکومت کو صوبے کی تعمیر وترقی میں ہر ممکن معاونت فراہم کررہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ بلوچستان بھی دیگر صوبوں کے برابر ترقی یافتہ ہو وفاقی حکومت صوبے کی پس ماندگی کے خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت کو ہر ممکن وسائل فراہم کررہی ہے۔

تحریک انصاف صوبے کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتی اتحاد کا حصہ بنی ہمارا اتحاد بلوچستان عوام پارٹی کے ساتھ ہے اور کوشش کریں گے کہ اس اتحاد کو برقرار رکھا جائے۔ تاہم صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کو نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے اور اتحادی ہونے کے باوجود صوبے سے متعلق ہونے والے فیصلوں میں ہمارے اراکین اسمبلی سے مشاورت نہیں کررہی ہے۔

کوئٹہ سے پارٹی نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر کام یابی حاصل کی ہے تاہم شکایات سامنے آرہی ہیں کہ ان حلقوں میں حکومت اپنے لوگوں فنڈز فراہم کرکے انہیں نواز رہی ہے۔ اتحادی ہونے کے ناتے حکومت کے اندر اور باہر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ پارٹی کی سنیئر قیادت سے حکومت کے امتیازی رویہ کے خلاف رابطے ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بھی مشاورت ہورہی ہے اور کارکنوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔

The post تحریک انصاف بلوچستان میں اپنی غلطیوں کی سے وجہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ ’پرائمری اسکول‘ میں ہمارا آخری برس تھا۔۔۔

$
0
0

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

پانچویں کلاس میں ہمارے چھے سالہ ’پرائمری اسکول‘ کے دور میں تیسری مرتبہ مس شہلا قیصر ہماری کلاس ٹیچر تھیں۔۔۔ ہمیں بہ خوبی اندازہ تھا کہ یہ دوپہر میں لگنے والے ہمارے پرائمری اسکول میں آخری برس ہے۔۔۔ یہ اتفاق تھا کہ پرائمری اسکول کے آخری برس بھی ہمارا کمرا وہی تھا، جو پورے پانچ برس قبل ہمارا ’کے جی ٹو اے‘ کا کمرا قرار پایا تھا۔۔۔ یعنی کمرا نمبر 10۔ ایک دن کیا ہوا۔۔۔ صبح کی شفٹ کے کچھ اوباش لڑکوں نے دائیں طرف کھلنے والی کھڑکیوں سے باہر کے برآمدے یا آپ اسے اسکول کی گندی گلی کہہ لیں، (اس کے ساتھ اسکول کی چار دیواری تھی، ’بریک‘ میں بچے کھیلتے ہوئے کھڑکیوں سے کود کر وہاں چلے جاتے تھے) وہاں مس شہلا کے نام سے کوئلے سے کوئی نازیبا جملے لکھ دیے۔۔۔!

دراصل اسکول کے برابر میں ہی کوئلے کا ٹال تھا، اس لیے دیوار سے اونچے رکھے ہوئے کوئلے کے ذخیرے سے اکثر کوئلے کے ٹکڑے وہاں آن پڑتے تھے۔۔۔ اب وہ کیا برے کلمات تھے، ہماری تو دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی، تاہم کان میں بھی نہ پڑے کہ کیا لکھا تھا۔۔۔ اگر فقط نام بھی لکھ دیا تھا، تو یہ بھی کوئی کم بات تو نہ تھی، بس اس روز اسکول کی اسمبلی کے بعد جب مس شہلا کلاس میں آئیں، تو ان کا پارا بہت بلندیوں کو چھو رہا تھا۔۔۔ اور کھڑکیوں کے پار ’گندی گلی‘ میں اسکول کا بابا یا کوئی صفائی والا پانی کی بالٹی لیے دیوار سے ان فقروں کو مٹا رہا تھا۔۔۔

مس شہلا غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں اور ان کی ساری برہمی کلاس پر نکل رہی تھی کہ یہ آپ ہی لوگ ہوتے ہیں، جو پھر صبح کی شفٹ میں جاتے ہیں، تو پھر ایسی حرکتیں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان کے اس برہم لیکچر کے دوران بار بار ہمارے ذہن میں یہ بات آتی رہی کہ ان سے کہیں کہ مس، صبح کی بدنام شفٹ کے لفنگے دراصل نئے داخلہ لینے والے لڑکے ہوتے ہیں، دوپہر کی شفٹ والے لڑکے ہر گز ایسے اوباش نہیں نکلتے۔۔۔ لیکن یہ کہہ کیسے سکتے تھے، پرائمری تک کلاس میں تو ہماری آواز ہی نہیں نکلتی تھی۔۔۔

خیر یہ پرائمری اسکول میں الوداعی برس تھا۔۔۔ میں اسے محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ وقت سِرکتا رہا اور پھر اسکول کی روایتی ’الوداعی پارٹی‘ کا دن بھی آگیا۔۔۔ لیکن یہ پارٹی پتا نہیں کیوں نہایت ہی سادہ طریقے سے منعقد ہوئی تھی۔۔۔ بس پارٹی کیا تھی ہمارے لیے دوپہر میں ایک کھانے کا اہتمام تھا۔۔۔ یہ ہمارے اسکول کی وہی روایتی پارٹی تھی، جو چوتھی کلاس کی جانب سے پانچویں کلاس کو دی جاتی تھی، اب ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ جب ہم چوتھی میں تھے، تو پانچویں کلاس کو دی جانے والی پارٹی میں شریک نہ ہوئے۔ ہمیں آدھا کلو گلاب جامن لانے کو کہا گیا تھا، پہلے ہمیں بیکری کے جیلی والی ختائیاں بتائی گئی تھیں، مگر وہ مس افشاں نے کچھ ایسے بتائے ’ٹِپکے والے بسکٹ‘ ہمارے کچھ پلے ہی نہ پڑا کہ یہ کیا بلا ہے۔

اس لیے پھر گلاب جامن کہہ دی گئی۔۔۔ ہم اپنے مزاج اور طبیعت سے مجبور ہو کر پارٹی کو خاطر میں نہیں لائے اور اُس روز اسکول سے ہی گُل ہوگئے۔۔۔ اب پانچویں میں بھی مکمل طور پر یہی خیال تھا کہ کیا ان ’فضولیات‘ میں پڑنا۔۔۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ یہ پرائمری اسکول کے آخری دنوں میں سے ایک تھا، اور دن تھا جمعہ۔۔۔ ہاں شاید جمعہ ہی۔۔۔ ہمیں ہدایت کی گئی کہ آج الوداعی پارٹی ہوگی، اس لیے جو بچے اسکول سے قریب رہتے ہیں، وہ گھر جائیں اور جلدی سے پارٹی کے لیے کپڑے تبدیل کر آئیں۔۔۔ کچھ بچے آمادہ ہوگئے، مگر ہم چُپکے رہے، تو مس شہلا نے آواز دے کر ہمیں مخاطب کیا تھا کہ آپ کیوں نہیں جا رہے، جائیے، آپ کا گھر قریب ہے۔۔۔ اب فرار کا تو کوئی راستہ تھا ہی نہیں، اس لیے چاروناچار یونیفارم کی جگہ گھر کے کپڑے پہن کے آئے۔۔۔ پرائمری اسکول کے پورے چھے سال پڑھائی میں ہمارا بھرپور ساتھ دینے والا یار، عاطف الرحمن بھی اس ’پارٹی‘ میں ہمارے ساتھ شریک ہوا۔۔۔ جمعہ تھا، تو یاد پڑتا ہے کہ جمعے کی نماز سے نمٹ کر ہم دوبارہ اسکول آگئے، اور جو اسکول سے دور رہنے والے بچے تھے۔

وہ اسکول میں ہی ٹھیرے رہے۔۔۔ پھر ہمارے لیے اسٹیج کے بالکل سامنے پڑنے والی راہ داری، (پانی کے کولروں کے بالکل عقب میں) جہاں ہماری ’فور‘ اور پھر برابر میں ’ٹو‘ کلاس والے کمرے تھے، وہاں ہماری کلاس نے دوپہر کا کھانا کھایا۔۔۔ ہم تو گھر سے باہر کا پانی بھی نہیں پیتے تھے، دل نہیں مانتا تھا، کہ پتا نہیں پانی اور گلاس وغیرہ کیسے کیسے ہوں، لیکن اس بار صورت حال ایسی ہوئی تھی کہ ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔۔۔ ہمارے اساتذہ پوری طرح ہماری میزبانی کر رہے تھے۔

’کے جی‘ میں ہمیں پڑھانے والی سادہ سے مزاج کی مس راحت کا روٹیاں لا لا کر ہمیں دینا، مہمانوں کی طرح خاطر مدارت کرنا اور کہنا ’کھاؤ!‘ مجھے خوب یاد ہے۔۔۔! شاید اس وقت تک سب اساتذہ نہیں ٹھیرے تھے اور بچے بھی ہم دو کلاسوں کے ہی تھے۔۔۔ کھانے کے بعد ہم اسی سے جڑی ہوئی دائیں طرف کی راہ داری میں زمین پر اور کچھ اکڑوں بیٹھ گئے تھے، وہیں پھر کچھ دیر کو ہنسنے ہنسانے اور ’ہَلّا گُلا‘ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔۔۔ لیکن ہوا کیا کیا تھا یہ بالکل یاد نہیں آرہا، البتہ ایک الگ سی آواز کے مالک ’فورتھ‘ کلاس کے بھوری سی آنکھوں والے لڑکے، کا گانا گانا یاد ہے، جس کا نام مجھے تب بھی شاید معلوم نہیں تھا۔

اس نے اس وقت شاہ رخ خان کی نئی نئی آنے والی فلم ’’دل تو پاگل ہے‘‘ کا مقبول گانا ’بھولی سی صورت آنکھوں میں مستی، دور کھڑی شرمائے۔۔۔!‘ گایا تھا اور پھر اس کی آواز میں ’آئے ہائے۔۔۔!‘ کہنے پر سبھی کے بے ساختہ قہقہے گونج گئے تھے۔۔۔ عموماً یہ لڑکا اسکول کی اسمبلی میں نعتیں پڑھنے لگا تھا اور ہماری کلاس کے ’بی‘ سیکشن والے شاہ نواز کی طرح اس حوالے سے بہت پکا ہو گیا تھا۔۔۔ الوداعی پارٹی میں اس کے گانے پر جب ہم لوگوں کی ہنسی شاید مذاق اڑانے کا رخ اختیار کرنے لگی، تو اس وقت کی ہیڈ مسٹریس نے ہمیں ٹوکا تھا کہ یہ بری بات ہے، وہ آپ کے لیے گانا گا رہا ہے، اور آپ مذاق اڑارہے ہیں۔۔۔! بس الوداعی پارٹی کی کُل یہی یادیں ہمارے ذہن میں باقی ہیں، پھر ہم چَھٹی کلاس میں آگئے، اسکول کی عمارت تو یہی تھا، لیکن شفٹ دوپہر کے بہ جائے صبح کی تھی اور تمام اساتذہ اور عملہ مکمل طور پر الگ تھا۔۔۔ لیکن ’پرائمری اسکول‘ کے ’بَچپنے‘ کا ایک بڑا باب بند ہوگیا۔۔۔

۔۔۔

چائے اور ’چائے پانی‘
فاطمہ بنتِ علی، کراچی

بچپن میں مجھے یہ لگتا تھا کہ جو چیزیں لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں یا پسند کرتے ہیں، وہی ملک کی قومی شناخت بنتی ہے، اس لیے قومی کھیل کرکٹ اور قومی کھانا دال روٹی لگا، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، تو معلوم ہوا کہ قومی کھیل تو ہاکی اور غیر سرکاری طور پہ قومی سالن نہاری ہے، خیر ہم نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن جب قومی مشروب کا نام پڑھا تو پیروں تلے زمین نکل گئی آسمان ٹوٹ پڑا، جب معلوم ہوا کہ گنّے کا رس قومی مشروب ہے۔

یہ حقیقت ہم جیسوں کو جب پتا چلتی ہوگی دل پہ چُھریاں چلتی ہوںگی، کیوں کہ ہم نے تو ہمیشہ چائے کو ہی قومی مشروب سمجھا، کیوں کہ صبر کے گھونٹ کے بعد یہاں جو گھونٹ سب سے زیادہ پیا جاتا ہے وہ چائے کا ہی ہے۔

اردو زبان میں چائے کا لاحقہ پانی ہے، اسی لیے پاکستان میں چائے اور پانی لازم و ملزوم بھی سمجھے جاتے ہیں، عموماً لوگ کسی کی بے مروتی کا ذکر بہت دکھ بھرے انداز میں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں چائے پانی تک کا نہیں پوچھا حالانکہ چائے میں پانی بھی شامل ہوتا ہے، اگر صرف چائے کے لیے کہہ دیا جائے تب بھی دکھ اتنا کم نہیں ہوتا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم نے گھر گھر کی چائے پی ہوئی ہے کیوں کہ پہلے جہاں جاتے تھے لوگ اخلاقاً چائے اور مروتاً بسکٹ ضرور پیش کرتے تھے، لیکن اب جب سے کولڈرنک آئی ہے اس نے چائے کی قدروقیمت ہی کم کر دی ہے، ہمیں کولڈرنک دو وجوہات کی بنا پہ اچھی نہیں لگتی ہے، ایک تو اس کے ساتھ کبھی بسکٹ نہیں پیش کیے جاتے عموماً لوگ اسے مکمل ناشتا سمجھ لیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ بسکٹ کو کولڈرنک میں ڈبو کر نہیں کھایا جا سکتا۔۔۔

ہمارے گھروں میں چائے پانی ایک مشروب کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن سرکاری دفاتر میں یہ ایک اصطلاح کے طور پہ رائج ہے، بلکہ اس اصطلاح کو تنخواہ کے برابر عزت دی جاتی ہے بلکہ کہیں کہیں اس کی عزت تنخواہ سے بھی زیادہ ہے، اسی لیے ہر اچھے برے کام کو جلد کرانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔۔

لیکن پتا نہیں کیوں شعرا حضرات کو چائے جیسا اہم مشروب پسند نہیں ہے، کیوں کہ ہم نے بڑے سے بڑے شاعر کے دیوان کے دیوان کھنگال لیے ہمیں چائے پہ شراب کے مقابلے میں کم کلام ملا، حالاں کہ چائے کی تاریخ سینکڑوں سال پرانی ہے، یقیناً شعرا حضرات چائے سے زیادہ تلخ مشروب پینا پسند کرتے ہیں، اسی لیے جا بجا چائے نوشی کے بہ جائے ’مے‘ اور ’نوشی‘ اور ’مے نوشی‘ پر بڑے بڑے شعرا کے کلام ملتے ہیں۔

شاید چائے صرف جسمانی محنت کرنے والوں کا مشروب ہے، کیونکہ چائے پینے سے لوگ چاق و چوبند ہو جاتے ہیں، اپنا کام بہتر انداز میں کرنے لگتے ہیں، لیکن شعرا حضرات کے لیے چائے ان کی ذہنی صحت اور شاعری دونوں کے لیے موزوں ترین مشروب نہیں ہے، بلکہ نقصان دہ ہے اسی لیے نہ چائے پیتے ہیں اور نہ اس پہ لکھتے ہیں۔

ریاض خیر آبادی نے شراب پر بہت بہترین غزلیں لکھیں، لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی ’مے نوشی‘ نہیں کی، بلکہ ہاتھ تک نہیں لگایا لیکن ان کے کلام میں مے نوشی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جس سے پڑھ کر ہمیشہ یہی تاثر ملتا ہے کہ شاعری کی بنیاد تجربہ ہے، لیکن درحقیقت شاعری کی بنیاد صرف مشاہدہ ہی ہوگا۔

ہم بھی کسی ایسے ہی شاعر کی تلاش میں ہیں، جس سے بھلے زندگی بھر چائے نہ پینے کا گناہ سرزد ہوگیا ہو، لیکن کم ازکم ریاض خیرآبادی کی پیروی کرتے ہوئے چار چھ غزلیں چائے پہ ہی لکھ دیں، کیوں کہ اگر ہم نے چائے پر کوئی غزل یا نظم لکھ دی تو لوگ کہیں چائے پینا ہی نہ چھوڑ دیں۔

ہمارے نزدیک شعرا کی چائے کی بے رغبتی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ ایک تو یہ گرم ملتی ہے اور دوسری یہ کہ بوتلوں میں بند نہیں ملتی ہے پھر چائے ٹھنڈی ہو جانے کے بعد اپنا رنگ ذائقہ اور خوش بو سب کھو دیتی ہے اور چائے کو کوٹ کی جیب میں بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے آمدورفت میں خلل پڑنے کے باعث چائے کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی ہوگی۔

چوں کہ چائے عوام الناس میں بہت مقبول ہے اسی لیے چائے کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر وہ افراد جن کا شاعری سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ان کے بھی اشعار چائے سے متعلق پڑھنے کو ملتے ہیں، لیکن ان اشعار کو پڑھنے سے زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ وہ لکھے ہی نہیں جاتے۔

ہمارے یہاں چائے نہ صرف ہر موسم میں مقبول ہے بلکہ کئی بیماریوں کا حل صرف ایک پیالی چائے میں پوشیدہ ہے، اگر تھکن محسوس ہو رہی ہے، تو چائے پی لو۔ گلا خراب ہے تو چائے میں نمک ڈال کر نوش کرلو، نیند کو بھگانا ہے تو چائے، سر میں درد ہو تو چائے، اسی لیے دفتر سے واپسی پہ حضرات کو گھر میں سب سے پہلے چائے ہی پیش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سر درد نہیں ہوتا ہے بلکہ وجہ دردِ سر ہوتی ہے، جسے عرف عام میں بیوی کہا جاتا ہے، وہ احتیاطی تدابیر کے طور پہ پہلے ہی چائے پلا دیتی ہے کہ سر میں درد ہو ہی نہیں۔

لیکن اس دنیا میں ابھی بھی کچھ عجیب و عجیب افراد موجود ہیں جو کسی قسم کی بھی نوشی بالخصوص چائے نوشی سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے۔۔۔ ایسے افراد کا تو الگ سے حساب ہونا چاہیے کہ وہ کفران نعمت کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے لیے ان کے گھر والے دوست احباب سب قصور وار ہیں جن کی سنگت میں بھی وہ اس سنگین جرم کے مرتکب ہوئے، ویسے چائے نہ پینے والوں کے یہ سزا بھی کم ہے کیا کہ وہ چائے نہیں پیتے !۔

۔۔۔

ہندوستان کا صدیوں سے الگ تھلگ قبیلہ
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج اور انسانی ترقی کے باعث دنیا ’گلوبل ویلیج‘ بن گئی ہے، مگر آج بھی دنیا میں کئی قبائل، شہروں اور آبادیوں سے الگ تھلگ آباد ہیں اور ان کا دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایسا ہی ایک قبیلہ بھارت میں جزائر انڈیمان اور نکوبار کے ساتھ ’’ sentinel island‘‘ میں آباد ہے۔ مورخین کے مطابق سولہ ہزار سال قبل یہ لوگ افریقا سے یہاں آئے اور اب تک ’قرنطینہ‘ کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ بعض اسے 60 ہزار سال قدیم قبیلہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس قبیلے کا ذکر مشہور سیاح مارکو پولو نے بھی کیا ہے۔ جزیرے کا رقبہ ساٹھ مربع کلومیٹر اور آبادی بمشکل دو تین سو افراد پر مشتمل ہے۔

کئی بار حکومتوں، تنظیموں، سیاحوں اور عوام کی جانب سے قبیلے کے لوگوں سے رابطے اور معلومات کی کوششیں کی گئیں، مگر ہر بار ہی تیروں اور نیزوں سے جواب ملا، کیوں کہ وہ لوگ انسانوں سے خائف ہیں اور دنیا سے قطعاََ رابطہ نہیں چاہتے۔ آزادی سے قبل کمپنی سرکار نے جزیرے میں مداخلت کی اور یہاں چار بچے اور دو مرد بھی اٹھا لائی، جب کہ باقی لوگ جھونپڑیاں چھوڑ کر جنگل میں چھپ گئے۔ دو دن میں دونوں مرد مر گئے تو بچوں کو واپس وہیں چھوڑ دیا گیا۔

ڈاکٹرز کے مطابق وہ لوگ ہزاروں برس سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ہماری آبادیوں میں نہیں رہ سکتے۔ ان کا اپنا طرزِحیات اور بہت محدود قوت ِ مدافعت ہے، پھر ایک عیسائی مبلغ نے جزیرے میں جانے کی کوشش کی، جسے جنگلی باشندوں نے پکڑ کر ہلاک کر دیا۔ تاہم انہوں نے بلا وجہ کسی شخص یا کسی آبادی کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا ۔ وہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں وہاں جا کر قبیلے سے رابطوں پر پابندی لگا دی گئی، پھر بھی دور ساحل سے سیاح دوستانہ رابطوں کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر وہاں جا کر پھل اور تحائف پھینک آتے ہیں، جنہیں وہ لوگ جنگل سے نکل کر اٹھا تے، ناچتے اور ننگ دھڑنگ بھاگتے دیکھے جاتے ہیں۔

ان لوگوں کی زبان، رسومات، لباس اور مذہب کا کچھ علم نہیں ہو سکا۔ صرف ایک بار 20 سال پہلے مدھومالا خاتون نے حیرت انگیز طور پر اس جزیرے کے لوگوں سے کام یاب دوستانہ رابطہ کیا اور کافی دیر جنگل میں رہی اور بہت سا سامان بھی انہیں دیا۔ تاہم بعد ازاں وہ لوگ ایسے رابطوں پر آمادہ نہ ہوئے، حتٰی کہ نیشنل جیوگرافک جیسے چینل بھی اس جنگل کے اندر جانے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ ہمارے نزدیک وہ جنگلی، پس ماندہ اور وحشیانہ زندگی گزار رہے ہیں، مگر وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں۔

The post وہ ’پرائمری اسکول‘ میں ہمارا آخری برس تھا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا20اپریل
27 جولائی کا دن بچوں، محبوب اور تخلیقی امور سے متعلق کچھ پریشانیاں لاسکتا ہے، گھر اور والدہ کے حوالے سے متعلق کچھ چیزیں الجھاسکتی ہیں۔
جمعہ کچھ الجھاؤ کے بعد آسانیاں لاسکتا ہے، ہفتہ اور اتوار آپ کو عملی میدان میں سخت فیصلوں کی ہمت دے گا، آخری دو دن بہت اہم اور اچھے ہیں۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
چاند کم زور حالت میں رہے گا، ایسا وقت کسی ایسے شخص سے ملاسکتا ہے جو آپ کو سبز باغ دکھا کے لوٹنے کی کوشش کرسکتا ہے، قریبی لوگوں سے تعلقات میں محتاط رہیں، بیرونِ ملک سے متعلقہ امور کو محتاط ہوکے ڈیل کریں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
اس ہفتے پیسے ڈوبنے اور پھر اچانک ملنے کی اطلاعات ہیں۔
کوئی نقصان ہوسکتا ہے لیکن پھر نقصان پورا بھی ہوجائے گا۔
ممکن ہے آپ کی کوئی لاٹری نکل آئے، اہم لوگوں سے ملاقاتیں اور سفرہوسکتے ہیں۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
یہ ہفتہ بہت اچھا رہنے کی امید ہے۔
کئی لوگ رشتۂ ازواج میں بندھ جائیں گے، سوموار اور منگل کچھ جذباتی اور مزاج میں تلخی لاسکتے ہیں، جمعہ سے اتوار تک پبلک ڈیلنگ سے امور میں کام یابی اور وقار میں اضافہ نظر آتا ہے،ترقی ہوسکتی ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
قریبی مہربانوں کی وجہ سے کافی مسائل پر قابو پالیں گے، آپ کی قوتِ فیصلہ اور توانائی آپ کو ان مسائل سے نکالنے میں مدد دے گی۔ آخری دو دنوں میں خفیہ سازشوں اور سازشین سے محتاط رہیں۔ کوئی خوب پریشان کرسکتا ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
اولاد اور شریکِ حیات سے کچھ پریشانی ہوسکتی ہے، ہوسکتا ہے آپ کی بات انہیں سمجھنے میں اور آپ کو انہیں سمجھنے میں مشکل پیش آئے۔ اس ہفتے آپ کو مالی فائدہ ضرور ہوگا، لاٹری یا کوئی اور ایسا ذریعہ جو بنا مشقت کے ہو، ہوسکتا ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کے باس اور سنیئرز کا ستارہ آپ کی حمایت کررہا ہے۔
سوموار اور منگل ممکن ہے کچھ پریشانی اور دل شکستگی کا سامنا ہو۔
لیکن جمعہ اور ہفتہ آپ کو مدد دے گا کہ آپ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرلیں۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
شریکِ حیات سے ان بن ہوسکتی ہے، لیکن آپ کا سیارہ پلوٹو آپ کی سوچ کو گہرائی اور لمبی پلاننگ دے گا، آپ کی سوچ میں پہلے کی نسبت بلوغت زیادہ آرہی ہے۔آپ کے کاموں میں تیزی سے کئی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اور آپ انہیں جلدی سے سرانجام بھی دیں گے، اچھا ہفتہ!

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبرتا 22 دسمبر
یہ ہفتہ آپ کے تعلقات کے حلقہ میں وسعت لاسکتا ہے، اس میں اچھے اور برے کی تمیز ضرور کرلیں، اگست کے شروع میں ہی آپ کی مالی پوزیشن بہت اچھی ہورہی ہے۔
پرانا وراثتی معاملہ طے ہوسکتا ہے یا اچانک کہیں سے کوئی رقم آپ کے اکاؤنٹ میں آسکتی ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
اولاد اور آپ کے کیریئر کا سیارہ کم زور چل رہا ہے۔
تعلقات میں بگاڑ نظر آرہا ہے، گھر اور بڑے بہن بھائیوں سے متعلق کچھ الجھنیں ہوسکتی ہیں۔ والدہ سے کسی بات پر اختلافِ رائے ہوسکتا ہے۔ صدقہ لازم دیں۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
آن لائن یا بیرون ملک سے منسلک بزنس مین یا روحانیت کے مسافروں کے لیے یہ ہفتہ اہم ہوسکتا ہے۔ آپ کے خیالات آپ کے حالات سے کچھ مختلف ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ مسائل جنم لے سکتے ہیں، آخری دنوں میں اپنی صحت کا خیال رکھیں۔
سوموار اور منگل بزنس کے حوالے سے جذباتی ہونے سے گریز کریں۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
آپ کے کام اور بزنس میں وسعت پیدا ہوتی نظر آتی ہے، مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
آپ کی توجہ اولاد، محبوب اور تخلیقی کاموں پر فوکس رہے گی۔
ہفتہ اور اتوار آپ کو کوئی خوشی کی خبر دے سکتے ہیں۔

The post علمِ نجوم کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفٰے صائم
واٹس اپ (923338818706)
فیس بک ( Almsuatafa Saim Saim)

علمِ الاعداد
نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش!
مثلًا احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
احسن کا نمبر 2 نکلا۔

اعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار27 جولائی 2020
حاکم نمبر4
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 20 یا 200 روپے
وردِخاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 11 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: اچانک سفریا کسی سے بزنس پر معاہدے ہونے کا امکان ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں اور بڑی خوشی کا راستہ کھول سکتی ہیں۔
3 نمبر والوں کے لیے: رابطے، سفر اور پلان کئی بنیں گے لیکن کئی آپشن ہونے کی وجہ سے کنفیوژن ہوسکتی ہے۔
4نمبر والوں کے لیے: ہمت وصبر سے اپنے کام کو جاری رکھیں، دلبرداشتہ نہ ہوں، کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: توانائی محسوس ہوگی۔ حالات آپ کے قابو میں نظر آتے ہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: جاری کاموں میں کچھ نیا ہوسکتا ہے جو اچھا انجام رکھتا ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، رشتوں سے خوشی ملے گی ۔
8نمبر والوں کے لیے: مستقبل کی منزل اور راہیں متعین کرنے کے لیے ایک معاون دن۔
9نمبر والوں کے لیے: کچھ اندورنی ٹوٹ پھوٹ سکتی ہے، لوگوں کے منفی رویوں کو اگنور کریں۔

منگل 28 جولائی 2020
حاکم نمبر3
صدقہ: سرخ رنگ کی چیزیں یا 90 یا 900 روپے
وردِخاص ”یا بدیع العجائب یا اللہ” 14 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: آپ کا چیلینجنگ حالات کا سامنا ہوسکتا ہے، صدقہ دیں۔
2نمبر والوں کے لیے: سفر کرسکتے ہیں، معاہدوں اور وعدوں کے لیے اچھا وقت۔
3نمبر والوں کے لیے: کوئی خوشی آرہی ہے، جو فیملی اور فنانس سے متعلق ہوسکتی ہے۔
4نمبر والوں کے لیے: یہ دن خیالات میں جلنے کُڑھنے کا نہیں ہے، عملی میدان میں اتریں۔
5نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل ہوسکتی ہے، ہمت اور صدقہ سے کام لیں ۔
6نمبر والوں کے لیے: اچھا دن، توانائی ساتھ دے گی اور آپ اپنے رکے کام بھی سرانجام دے لیں گے۔
7نمبر والوں کے لیے: کاموں کی ابتدا کے لیے اچھا دن ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: مالی اور فیملی کے لیے پلاننگ کے لیے ایک معان دن۔

بدھ 29 جولائی 2020
حاکم نمبر9
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مفلس طالب علم کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص” یاسلام یا اللہ” 13 بار پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل ہوسکتی ہے، لیکن حالات آپ کے حق میں رہیں گے۔
2نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن کچھ خوامخواہ کی تلخی ہوسکتی ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن، کئی فائدے ہوسکتے ہیں۔
4 نمبر والوں کے لیے: حالات ناموافق ہوسکتے ہیں، مزاج میں گرمی آسکتی ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: سفر یا رابطوں میں تیزی اور ان سے فائدہ ہوسکتا ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: آپ کی مرضی کے حالات ہوسکتے ہیں، اچھا دن۔
7نمبر والوں کے لیے: مراقبہ اور روحانیت کے لیے ایک بہتر دن۔
8نمبر والوں کے لیے: مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، محتاط رہیں۔
9 نمبر والوں کے لیے: تلخی، لڑائی اور تیزرفتاری سے گریز کریں۔

جمعرات 30 جولائی 2020
حاکم نمبر8
صدقہ: کسی نیک شخص کو لباس دیں یا کھانا کھلادیں یا 30 یا 300 روپے دے دیں۔
وردِخاص ”یاہادی یاودود یا اللہ” 21 بار تلاوت مناسب عمل ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: ایک مشکل دن ہوسکتا ہے، آپ کے مزاج سے معاملات ہٹ کے ہوسکتے ہیں۔
2 نمبر والوں کے لیے: ذہنی طور پر کوفت اور ہیجانی کیفیت ہوسکتی ہے۔
3نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
4نمبر والوں کے لیے: فیملی اور گھر سے متعلق چھوٹی موٹی الجھنوں کو چھوڑ کے بہتر دن۔
5نمبر والوں کے لیے: قطعی طور پر ایک محتاط رہنے والا دن، صدقہ لازم دیں۔
6نمبر والوں کے لیے: کچھ خواب ٹوٹ سکتے ہیں، کسی سازش کا شکار ہوسکتے ہیں۔
7نمبر والوں کے لیے: بہتر دن، کوئی اچھی خبر مل سکتی، ہے حالات میں بہتری۔
8نمبر والوں کے لیے: ملاجلا دن، معمول کے مطابق حالات کی امید ہے۔
9نمبر والوں کے لیے حالات الٹ ہوسکتے ہیں، محتاط رہیں صدقہ دیں۔

جمعہ 31 جولائی 2020
حاکم نمبر3
صدقہ: 60 یا 600 روپے کسی بیوہ کی مدد کرنا بہتر عمل ہوگا
وردِخاص”یامعید یا معز یا اللہ ” 13 یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: ایک اہم دن، کچھ تندی بادِمخالف کا سامنا ہوسکتا ہے۔
2نمبر والوں کے لیے: سفر اور رابطے سودمند ہوسکتے ہیں۔
3نمبر والوں کے لیے: کچھ اچھی خبریں ملنے کی امید ہے، خوشی ملے گی۔
4نمبر والوں کے لیے: ماضی سے منسلک کوئی شے یا کوئی شخص سے آمنا سامنا ہوسکتا ہے۔
5نمبر والوں کے لیے: کسی بزرگ یا سنیئر کی کوئی بات آپے لیے تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔
6نمبر والوں کے لیے: بہتر دن، توانائی اور جرأت سے حالات کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
7نمبر والوں کے لیے: کسی اہم شخصیت سے ملاقات ہوسکتی ہے، کچھ نیا ہوسکتا ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ مل سکتا ہے، رشتوں سے خوشی ملے گی۔
9نمبر والوں کے لیے: شان دار دن، گھر سے جڑے کئی سکھ ملیں گے۔

ہفتہ 1 اگست 2020
حاکم نمبر3
صدقہ: سیاہ رنگ کی چیزیں یا80 یا800 روپے کسی معذور یا مزدور کو دینا بہتر ہوگا۔
وردِخاص ”یافتاح یارزاقُ یا اللہ ” 80 یا 8 بار پڑھنا بہتر ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: تبدیلی کا دن، غیرارادی اور غیرمتوقع فیصلے ہوسکتے ہیں۔
2نمبر والوں کے لیے: میل ملاقات کے لیے اہم دن۔
3نمبر والوں کے لیے: گھر میں ہوکے گھر والوں سے دوری کا ماحول بن سکتا ہے۔
4نمبر والوں کے لیے سفر، فطرت، فنونِ لطیفہ۔۔۔ ماضی یہ سلسلے اہم رہیں گے۔
5نمبر والوں کے لیے: کچھ مشکل ہوسکتی ہے، الرٹ رہیں۔
6نمبر والوں کے لیے: مزاج میں تلخی اور تندی کا عنصرغالب ہوسکتا ہے، کول رہیں۔
7نمبر والوں کے لیے: بہتر دن، کوئی نیا پروگرام بن سکتا ہے۔
8نمبر والوں کے لیے: مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔
9نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن، فیملی کے بارے مستقبل کے پلان کے لیے اچھا وقت۔

اتوار2 اگست 2020
حاکم نمبر6
صدقہ: سفید رنگ کی چیزیں یا 13 یا 100 روپے کسی مستحق کو دے سکتے ہیں۔
وردِخاص ”یامعیدُ یا مجیبُ یا اللہ” 13 بار یا اپنے نمبر کے برابر پڑھنا مناسب ہوگا۔
1نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن، آج آپ کسی پرانے دوست سے ملتے نظر آتے ہیں۔
2نمبر والوں کے لیے: جذباتی تکلیف مل سکتی ہے، لوگوں سے امیدیں کم وابستہ رکھیں۔
3نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن، ایک نئی توانائی محسوس کریں گے۔
4نمبر والوں کے لیے: کسی سے ملاقات ہوگی جو آپ کو بزنس میں مدد دے گی۔
5نمبر والوں کے لیے: بزنس بڑھے گا، مالی فائدہ ہوگا۔
6نمبر والوں کے لیے: گھر کی خوب صورتی کے لیے ایک اچھا وقت ہے۔
7نمبر والوں کے لیے: کچھ امور ناگوار ہوسکتے ہیں، محتاط رہیں۔
8نمبر والوں کے لیے سفر کا پلان بن سکتا ہے، رابطے بڑھیں گے۔
9نمبر والوں کے لیے: بہت اچھا دن، خوشیاں دینے والا دن ہوسکتا ہے۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

مِرے شوق کی بلندی۔۔۔آصف فرّخی کا ادبی سفر

$
0
0

زندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جو کبھی سست روی اور کبھی سُبک انداز میں جاری رہتا ہے، کسی بھی موت کو ’اچانک‘ قرار دینے کی گنجائش نہیں چھوڑتا، لیکن پھر بھی کچھ زندگیاں اس قدر ’زندہ‘ اور دمِ آخر تک اتنی تخلیقی وفور کی حامل رہی ہوتی ہیںکہ اُن کا آناً فاناً ختم ہوجانا پیچھے رہ جانے والوں کو دنوں غیر یقینی اور حیرت کی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

ڈاکٹر آصف فرخی جنہوں نے ادبی دنیا میں خود کو صرف آصف فرخی کہنا اور کہلوانا پسند کیا، بزمِ جہاں سے یوں اچانک رخصت ہوئے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے بہت اونچی اڑان باندھی ہو، لمحہ بہ لمحہ بلندیوں کا سفر طے کیا ہو اور ابھی مزید بلندیاں اُس کی منتظر ہوں کہ معاً اُڑان کی یہ کہانی بیچ میں روک دی گئی ہو۔ آصف فرخی نے ادبی دنیا میں جتنی بھی مسافت طے کی وہ کمیت اور کیفیت دونوں میں بڑی خیرہ کُن ہے۔

وہ مزید زندہ رہتے تو نہ جانے اور کتنی کام یابیاں اُن کے حصے میں آتیں۔ ایک وسیع المطالعہ انسان، اردو اور انگریزی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر گہری نظر، افسانہ نگار، نقاد، انٹرویونگار، اردو اور انگریزی زبانوں میں اپنے انداز کے لکھنے والے، ایک غیرروایتی قسم کے تازہ کار ادبی جریدے کے ایڈیٹر اور پھر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی تنظیمی سرگرمیوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے آصف فرخی غیرمعمولی توانائی کے ساتھ ادبی دنیا میں مصروفِ کار تھے۔ اُن کی کاوشیں اور حاصلات کا احاطہ آسان کام نہیں۔

آصف فرخی کا ادبی سفر بڑے موزوں پس منظر میں ہوا۔ اچھے اسکول کی تعلیم انہیں میسر آئی۔ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ بوسٹن، امریکا جاکر پبلک ہیلتھ کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ اس ساری پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں گھر میں ایک بڑا ادبی ماحول میسّر آیا جس نے اُن کی پرداخت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی ایک مستند محقّق، اردو ادب کے پروفیسر اور ادیب تھے۔ اُن کے چچا انور احسن صدیقی معروف ترقی پسند ادیب، کالم نگار اور دانشور تھے۔ نظری اعتبار سے آصف فرخی نے اپنا ادبی سفر چچا کے بجائے والد کے روایتی ادبی افکار کے زیرِاثر شروع کیا لیکن جلد ہی وہ جدیدیت کی طرف مائل ہوتے چلے گئے۔

اُن کے افسانے زمانۂ طالب علمی ہی میں ادبی جریدوں میں شایع ہونا شروع ہوچکے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعے میں وسعت بھی آئی اور خیالات میں بھی بڑی حد تک وسیع النظری داخل ہوتی گئی۔ ترقی پسندی اور ترقی پسندوں سے اُن کی مکمل نظریاتی وابستگی تو کبھی نہیں ہوئی بلکہ بعض مواقع پر اور بعض تحریروں میں انہوں نے اچھی خاصی جارحیت تک کا مظاہرہ کیا لیکن کچھ موضوعات ایسے ضرور تھے جن کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر اُن کو ترقی پسندوں کے قریب بھی لایا۔1995 میں انہوں نے ارجنٹینا کے ناول نگار عمر ریوا بیلا(Omar Rivabella)کے ناول Requiem for a Woman’s Soul کا ترجمہ ’ماتم ایک عورت کا‘ کے عنوان سے کیا۔ اس ناول کے بارے میں معروف امریکی ناول نگار نارمن میلر نے کہا تھا کہ ’یہ ناول انسانی وقار پر دہشت کی یورش اور اذیت اٹھانے والوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے‘۔

یہ ناول ارجنٹینا میں فوجی شب خون اور آمریت کے زمانے میں آزادی خواہوں پر ٹوٹنے والی ابتلا اور اپنے حقوق کے طلب گاروں کے غائب کردیے جانے کی اذیت کا ایک تخلیقی اظہاریہ ہے۔ یہ ناول او راس جیسی دیگر غیر ملکی تحریروں نے آصف فرّخی کے طرزِ فکر میں تبدیلی کے تخم بونے شروع کیے۔

وقت گزرنے اور ارد گرد کی امتداد کے ساتھ ساتھ اُن کے پسندیدہ موضوعات کا میدان پھیلتا چلا گیا۔ خاص طور سے عالمی امن اور بالخصوص جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کے خلاف اُن کے خیالات اُن کے اور اکثر ترقی پسندوں کے خیالات میں قدرِمشترک بن گئے۔ پھر جس طرح سے انہوں نے فلسطینی اور دیگر عربی ادبیات کا ترجمہ کرکے اُن کو اردو کے قارئین تک پہنچایا اُس نے بھی اُن کو ترقی پسند حلقوں کے قریب آنے میں مدد دی۔

اس مشترک میدان کا بہت اچھا اظہار اُن کے نکالے ہوئے رسالے ’دنیا زاد‘ میں ہوا جس میں روایت پسند اور جدیدیت پسند ادیبوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسند اہلِ قلم کو بھی بڑے پیمانے پر شایع کیا گیا۔ چنانچہ ’دنیازاد‘ کے صفحات میں جہاں عالمی سطح کے اہلِ قلم مثلاً نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، ڈاکٹر اقبال احمد، حمزہ علوی، ارُن دھتی رائے، نجیب محفوظ اور محمود درویش کی تخلیقات کے تراجم شایع ہوئے، وہیں فیض احمد فیض، شیخ ایاز، حسن عابدی، انور احسن صدیقی، مسعود اشعر، انوار احمد، امر جلیل، امداد حسینی، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، کشور ناہید، شاہ محمد مری اور ایسے ہی بیسیوں ترقی پسندوں کی تخلیقات تواتر سے شایع ہوتی رہیں۔

’دنیا زاد‘، آصف فرخی کے مزاج کا بہترین پَرتو ثابت ہوا۔ تازہ کاری، نت نئے موضوعات کی تلاش، ہمعصر عالمی ادبی رجحانات کی عکاسی، پاکستان کی مختلف زبانوں میں ہونے والے تخلیقی تجربات کے اردو تراجم اور پھر ان سب کی پیشکش میں ایک غیرروایتی اسلوب، یہ سب عناصر ’دنیا زاد‘ کو ’دنیا زاد‘ بناتے تھے۔ عام طور سے ادبی جرائد مختلف اصناف کی چیزوں کو شعبوں کی شکل میں شایع کرتے ہیں۔

’دنیا زاد‘ نے اس اسلوب کو ترک کرکے نثر، نظم، افسانے، تنقید اور تراجم میں کسی ترتیب کو مستقل حیثیت نہیں دی۔ یہ بھی ایک نیا انداز تھا پڑھنے والوں کی نظر میں آنے کا۔ آصف ہر چیز کو نیا بنا کر پیش کرنے کے ماہر تھے۔ سب سے زیادہ انہوں نے جس چیز کو نئے انداز میں برتنے کی کوشش کی وہ اساطیری موضوعات، اساطیری کردار اور قدیم داستانوں سے اخذ کردہ لفظیات، تراکیب اور خیالات کو آج کے موضوعات پر منطبق کرنے کی ان کی معنی خیز اور دل چسپ روش تھی۔ یہ ماضی اور حال کے درمیان ایک رشتہ بنانے اور اس رشتے کو باور کرانے کی ایک اچھی کوشش تھی جس نے جلد ہی پڑھنے والوں کو آصف فرخی کی اپنی تحریروں اور اُن کے مرتب کردہ جریدے کی طرف متوجہ کرلیا۔

’دنیا زاد‘ کا یہ پہلو بھی بہت قابلِ تحسین تھا کہ آصف فرخی نے ہم عصر دنیا میں ہونے والے تلاطم خیز واقعات، عالمی سیاست کی بے مہر تبدیلیوں، بڑی طاقتوں کی سفاک سیاست، اور ان سب کے نتیجے میں ابھرنے والے تہذیبی و ثقافتی رجحانات اور تخلیقی تجربات سے لمحہ بہ لمحہ واقف رہنے کا مظاہرہ کیا۔ ’دنیا زاد‘ نے ’’عاشق من الفلسطین‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل جو خصوصی شمارہ شایع کیا، وہ اردو زبان میں فلسطین سے متعلق نمائندہ ادب کا بہترین مرقع تھا۔ عراق پر امریکی جارحیت کے پس منظر میں ’دنیا زاد‘ کے خصوصی شمارے کا عنوان ’میں بغداد ہوں‘ تھا۔ اس شمارے میں یورپ، امریکا، عالم ِعرب اور برصغیر کے اہل ِقلم کی تحریریں، غم و غصے، احتجاج، ملال، اور پھر اٹھ کھڑے ہونے، کے رویوں کا اظہار ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھیں تویہ بصرہ و بغداد کے کراچی اور لاہور سے ہم آغوش ہونے اور وسیع تر انسانی تہذیب کی مشترکہ ابتلاؤں اور نجات کی مشترک خواہشوں کے اظہار پر صاد کرتی نظر آتی ہیں۔

نو گیارہ کے بعد دنیا دہشت گردی کے جس گرداب میں پھنسی، اس حوالے سے ’دنیا زاد‘ میں تخلیق کاروں کا بیانیہ نظم و نثر، سیاسی و سماجی تجزیوں کی شکل میں ایک خصوصی شمارے میں یکجا ہوا۔ شمارے کا عنوان تھا، ’دنیا دنیا دہشت ہے‘۔ جتنی دہشت انگیز، عالمی دہشت گردی تھی، شاید اتنا ہی دہلا کر رکھ دینے والا یہ عنوان تھا۔ بعدازاں، ’دنیا زاد‘ کے کم و بیش ہر شمارے کو کوئی نہ کوئی عنوان دیا گیا، خواہ وہ خصوصی شمارہ نہ بھی رہا ہو۔ البتہ یہ عنوان مذکورہ شمارے میں شامل چند خصوصی تحریروں کے حوالے سے قائم کیا جاتا تھا۔ عنوانات قائم کرنے میں آصف فرّخی کی اختراع پسندی، اور چیزوں کو کہانیوں کے روپ میں دیکھنے اور دکھانے کا رویہ واضح طور سے جھلکتا تھا۔ کچھ عنوان، مثلاً، یہ تھے -’سایۂ دیوارِ یار‘، ’جل دھارا‘، ’کوئے ملامت‘، ’قصّۂ رنگ ِشکستہ‘، ’نیند کے خلاف بیانیہ۔‘

آصف فرخی کاا پنا تخلیقی سفر اُن کے پہلے افسانوی مجموعے ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘ سے شروع ہوا جو 1982میں شایع ہوا۔ دو سال بعد اُن کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’اسمِ اعظم کی تلاش‘ شایع ہوا۔ اُن کا تیسرا مجموعہ 1991 میں ’چیزیں اور لوگ‘ کے عنوان سے اور چوتھا مجموعہ 1995 میں ’شہر بیتی ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے دو سال بعد 1997 میں ’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘ اور2009 میں ’میرے دن گزر رہے ہیں‘ شایع ہوئے۔

مجموعی طور پر ان چھے مجموعوں میں کوئی ایک سو سے زیادہ افسانے شامل ہوئے جو اس لحاظ سے ایک اچھی تعداد ہے کہ ان کے علاوہ وہ تنقیدی مضامین بھی لکھ رہے تھے، یورپی، امریکی اور لاطینی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم بھی کررہے تھے، انگریزی اور اردو مطبوعات میں کتابوں پر ان کے تبصرے بھی شایع ہورہے تھے اور وہ ادیبوں اور دانشوروں کے مفصّل انٹرویوز بھی کررہے تھے جن کی بڑی تعداد انگریزی رسالے ’ہیرلڈ‘ میں شایع ہوئی۔ اردو میں شایع ہونے والے انٹرویوز اُن کی کتاب ’حرفِ من و تو‘ میں یکجا ہوکر شایع ہوچکے ہیں۔

آصف فرخی کی ذاتی اور طبع زاد تحریروں میں اُن مختلف اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے جو مختلف اوقات میں اُن پر مرتب ہوئے۔ قدیم داستانوں اور کلاسیکی ادب سے انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ اپنی کئی کہانیوں میں انہوں نے اساطیری اندازِ تحریر اختیار کیا۔ انہوں نے علامتی کہانیاں بھی لکھیں۔ بیسویں صدی کے اردو ادب کا مطالعہ کیا اور پھر ہمعصر بین الاقوامی ادبی رجحانات سے بھی مستفید ہوئے۔ ان تمام اثرات کو قبول کرنے کے باوجود انہوں نے کسی ایک اسلوب کی پیروی سے احتراز کیا، پیروی کی بھی تو کم عرصے کے لیے، اور پھر وہ اپنا راستہ بنانے میں لگ گئے۔

وہ مختلف اوقات میں میراجی، محمد حسن عسکری، اور انتظار حسین سے ذہنی طور پر بہت قریب رہے۔ انتظار صاحب سے ذہنی قربت زیادہ گہری تھی اور کسی نہ کسی حد تک آخر وقت تک برقرار رہی۔ جہاں تک مؤخر الذکر کا تعلق ہے، آصف فرخی کے پہلے افسانوی مجموعے ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘ کی کہانیوں پر انتظار حسین کے اثرات کے پس منظر ہی میں قمرجمیل نے بعض سخت جملے لکھے تھے: ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب، ایسا لگتا ہے دنیا پر بڑی بوڑھیوں کا راج ہے…آصف فرّخی بھی انتظار حسین کی طرح ناسٹیلجیا کا شکار ہے…ہجرت کی خوشبو آخر کہاں تک ساتھ دے گی۔ افسوس یہ ہے کہ ہجرت کی یہ خوشبو اس نوجوان سے بھی لپٹی ہوئی ہے۔‘ بہر حال، ہجرت کی خوشبو کی یہ تہمت زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہی، جلد ہی یہ دوسری ہجرتوں سے آمیز ہوگئی۔ ہجرت کا زیادہ بڑا بیانیہ آصف فرّخی کے یہاں، فلسطین کی سرزمین سے ابھرا۔ ’دنیا زاد‘ میں شرقِ اوسط سے متعلق ہجرت کی کہانیاں اور اس کا سماجی و سیاسی تجزیہ، بھرپور طریقے سے آیا۔

گذشتہ دس پندرہ برسوں میں آصف فرّخی کو ادبی سرگرمیوں کا ایک اور میدان میسر آگیا۔ ملکی اور بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں تو وہ برسہا برس سے شریک ہورہے تھے اور ان کانفرنسوں کے طفیل اُن کا اہلِ علم میں حلقۂ احباب بھی وسیع ہوچکا تھا، دس پندرہ برس قبل کراچی میں لٹریچر فیسٹیول اور ادبی کانفرنسوں کا ڈول ڈالا گیا۔ آصف فرّخی ان سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔

1980 اور 1991 کے عشرے کراچی پر بہت بھاری گزرے تھے۔ نسلی و مذہبی انتہاپسندی کے ہاتھوں شہر کا تہذیبی لبادہ تار تار ہوچکا تھا۔ کراچی بہت تیزی کے ساتھ ایک شہرِ خاک و خون، ایک آسیب زدہ شہر بن چکا تھا۔ دہشت گردی کی آئے دن کی وارداتیں، خونریزی، سربریدہ لاشیں، ایمبولینسوں کی دل و دماغ کو چیرتی ہوئی آوازیں، مخصوص اداروں کی اندرونی لڑائیاں، ان کے پروردہ سیاسی چہروں کی کاروائیاں، مافیاؤں کی ریشہ دوانیاں، ان سب کے نتیجے میں کراچی جو کبھی رونقوں کا شہر تھا، ایک شہرِبرباد کی تصویر بن چکا تھا۔ لیکن پھر اسی بربادی کے اندر سے تعمیر و تہذیب کی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔1990کے عشرے سے علمی، ادبی اور ثقافتی سطح پر کراچی کے احیاء کی انفرادی اور کہیں کہیں اجتماعی کوششوں کا آغاز ہوا۔

چند اہلِ بصیرت نے علمی تحقیقات کے ذریعے، کچھ نے ادبی جرائد کے وسیلے سے اور کچھ نے اپنی نثری و شعری تخلیقات کے حوالے سے کراچی کے احیاء کی کوشش شروع کی۔ بہت سے نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں مگر کچھ کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ کراچی کے محسن تھے اور آئندہ کا مؤرخ ان کو اسی طور دیکھنے پر مائل ہوگا۔ عارف حسن، اجمل کمال، فہمیدہ ریاض، احمد شاہ، امینہ سید اور آصف فرّخی، ان سب کی علمی اور عملی کاوشوں کے نتیجے میں کراچی کا ادبی و تہذیبی تشخص بحال ہوا۔  ان لوگوں نے جس پس منظر میں یہ کام کیا اُس کو دیکھ کر حسن عابد کا شعر زبان پر آجاتا ہے  ؎

ہَوا کرتی ہے اپنا کام اور شمعیں بجھاتی ہے

ہم اپنا کام کرتے ہیں، نئی شمعیں جلاتے ہیں

آصف فرّخی کی ادبی خدمات ذہن میں آتی ہیں تو ذہن خود بخود کچھ ذاتی یادوں کی طرف بھی مڑ جاتا ہے۔ آصف فرّخی اپنے قریبی ادبی احباب کے ساتھ یقیناً بہت شیر و شکر رہتے ہوں گے، لیکن عام طور سے وہ خاصے لیے دیے رہتے تھے۔ اُن سے شناسائی تو زمانۂ طالب علمی ہی میں ہوگئی تھی جب وہ ڈاؤ میڈیکل کالج اور میں کراچی یونیورسٹی میں زیرِتعلیم تھا۔

ہمارے درمیان میل جول کے کچھ زیادہ اسباب موجود نہیں تھے، پھر نظریاتی فاصلے بھی اپنی جگہ موجود تھے۔ ان فاصلوں کو جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی فوجی آمریت نے اور بھی وسیع کردیا تھا۔ یہ دائیں بازو کے طمطراق اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کے دن تھے۔ پاکستان میں میکارتھی ازم اسلامائزیشن کی جُون میں آیا۔ محمد حسن عسکری نے مغرب کے تمام تصورات، نظریات اور ثقافتی مظاہر کو بیک جنبشِ قلم گمراہی قرار دے دیا۔

بایاں بازو کہیں مدافعت اور کہیں مزاحمت میں سرگرداں تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آصف فرخی اور ترقی پسندحلقوں کے درمیان اجنبیت کی یہ فضا کم ہونا شروع ہوئی اور اس تبدیلی کا سبب خود آصف فرّخی کے یہاں نموپذیر ہونے والا ایک نیا احساس تھا جس کے تحت انہوں نے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار کو خود ہی نرم کرنا شروع کیا اور اپنی سرحدوں کو ازسرِنو طے کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ ’دنیازاد‘ کے اجراء نے اُن کے لیے اس کام کو اور بھی آسان بنادیا۔ تب انہوں نے اپنے بنیادی تصورات پر قائم رہتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ مشترک موضوعات کی تلاش کا کام شروع کیا۔ اُن کی یہ پیش قدمی میرے لیے اُن کے قریب آنے کا سبب بن گئی۔

مارچ 2011 میں ہمیں بنگلادیش جانے اور ڈھاکا کی بریک یونیورسٹی کی ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ کا مقصد پاکستان، بنگلادیش اور ہندوستان کے درمیان 1971 کے واقعات کے حوالے سے علم، تحقیق اور مکالمے کے کسی پلیٹ فارم کی تعمیر کے امکان کی تلاش تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس ورکشاپ میں تینوں ملکوں کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر اہلِ قلم شامل تھے۔ پاکستان سے آصف فرّخی، پنجابی کے معروف شاعر اور ادیب ریٹائرڈ کرنل نادر اور راقم اس ورکشاپ میں شریک ہوئے۔ کرنل نادر 1971 میں مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ مارچ 1971 کے بعد انہوں نے جو کچھ ہوتے دیکھا اُس کے نتیجے میں وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔

فوج سے اُن کو فارغ کردیا گیا۔ برسوں بعد علاج معالجے کے نتیجے میں معمول کی زندگی شروع ہوئی تو انہوں نے قلم و قرطاس کا سہارا لیا اور ادیب بن گئے۔ اسی ورکشاپ میں امریکا سے کامران اصدر علی جن کا تعلق پاکستان ہی سے ہے اور یاسمین سائیکیا تشریف لائیں جو آسام سے تعلق رکھتی ہیں لیکن جنوبی ایشیا پر اپنی تحقیقات کے حوالے سے ثقافتی تاریخ نویسوں میں اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ یہ ورکشاپ بڑی گرما گرم بحثوں کی حامل ثابت ہوئی۔ سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ بہت سے فاصلے اور غلط فہمیاں اس ورکشاپ کی میز پر ختم ہوئیں۔ آصف فرّخی نے 1971 کے واقعات کے، پاکستانی ادبیات پر اثرات پر گفتگو کی۔ مجھے 1971 سے متعلق پاکستان میں تاریخی اور سیاسی کتب اور سرکاری بیانیوں کے جائزے کا موقع ملا۔ ورکشاپ کے انہی دنوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ بنگلادیش میں آصف فرّخی کے دوست احباب کی کمی نہیں ہے۔

بنگلادیش کی اس ورکشاپ کا ایک اور نتیجہ یہ بھی نکلا کہ آصف فرّخی کی مشاورت سے ہم نے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں نو لیکچروں کی ایک سیریز کا انعقاد کیا جس کا موضوع 1971 کے واقعات کا تاریخی و سیاسی پس منظر اور پھر اس پس منظر میں لکھا جانے والا ادب تھا۔ اس سیریز کے ابتدائی دو لیکچر میرے حصے میں آئے جب کہ بقیہ سات لیکچر آصف فرّخی نے دیے۔ انہی لیکچروں کے دوران ایک موقع پر وہ انتظار حسین صاحب کو سینٹر لائے اور ان سے اُن کے ایک ناول کا حصہ طالب علموں کے سامنے پڑھوایا اور پھر اس پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ایک اور روز وہ معروف افسانہ نگار اسد محمد خان صاحب کو لے آئے۔ انہوں نے بھی اپنا ایک افسانہ طالب علموں کے سامنے پڑھا اور پھر ان کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔

یہ تجربہ اتنا کام یاب رہا کہ بعدازاں جب آصف فرّخی نے حبیب یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کی تو انہوں نے تقسیمِ ہند اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات پر باقاعدہ کورس ڈیزائن کیے۔ خود مجھے بھی ایک آدھ مرتبہ ان کی دعوت پر ان کورسوں میں اظہارِخیال کا موقع ملا اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ انہوں نے طالب علموں کو روایتی نصاب سے ہٹ کر تاریخ کے بہت اہم موضوعات پر بڑے تخلیقی انداز میں سوچنے اور اپنے خیالات مدوّن کرنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔

آصف فرّخی سے تعلق کی ایک اور سبیل اُن کے چچا انور احسن صدیقی صاحب کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ انور احسن صدیقی ہمارے ترقی پسند حلقوں میں غیرمعمولی عزت اور احترام کے حامل رہے تھے۔ انہوں نے بڑی صبرآزما زندگی گزاری تھی۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو باوجود بہت سے مواقع کے، کبھی حرص و ہوس کے سیلاب میں نہیں بہے۔ ادب، صحافت اور کالم نگاری میں انہوں نے اپنی زندگی بِتا دی تھی۔ آصف فرّخی نے اپنے اشاعتی ادارے ’شہرزاد‘ سے انور احسن صدیقی کی خودنوشت ’دلِ پُر خوں کی اِک گلابی سے‘ کے عنوان سے شایع کی۔ یہ خودنوشت کیا تھی، پاکستان کے ابتدائی پانچ چھ عشروں کے المیوں اور طربیوں کا بیان تھا۔ صدیقی صاحب کے انتقال پر مجھے ایک مفصّل مضمون اُن کے حوالے سے لکھنے کا موقع ملا تو آصف فرّخی نے بڑی خوش دلی سے اس کو ’دنیا زاد‘ میں شایع کیا۔ بلکہ ایک موقع پر ڈاکٹر اسلم فرّخی صاحب کے سامنے مجھ سے یہ مضمون پڑھوایا بھی۔

کراچی کے لٹریچر فیسٹیولز اور ادبی کانفرنسوں میں اُن سے ملنا ایک معمول کی بات بن گئی تھی۔ انہی ملاقاتوں میں کچھ نئے منصوبے اور نئے امکانات بھی زیربحث آجاتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اُن کے انتقال سے قبل محض چند روز میں اُن سے دو ملاقاتیں ہوگئیں۔ کورونا کی جان لیوا وبا نے سب کا سکون برباد کر رکھا تھا۔ شہر بند تھا۔ تعلیمی ادارے، کتابوں کی دکانیں، لائبریریاں سبھی پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں وباؤں کے تناظر میں لکھے جانے والے ادب پر میں نے کچھ خامہ فرسائی شروع کی تو تیسرے یا چوتھے مضمون کے بعد میں نے آصف فرّخی کو فون کرکے پوچھا کہ ان کے ادارے سے چھپنے والا ڈاکٹر حسن منظر کا ناول‘ وبا‘ مجھے کس طرح مل سکتا ہے، دکانیں اور لائبریریاں تو سب بند ہیں۔ آصف فرّخی نے کہا کہ آپ مجھ سے میری ذاتی کاپی لے سکتے ہیں۔

میں نے ان کے گھر جا کر وہ ناول لیا اور ہفتہ دس روز بعد اس کو واپس کرنے گیا تو انہوں نے مشہور نوبل انعام یافتہ پرتگالی ناول نویس حوزے سارا ماگو کے ناول کا ترجمہ ’اندھے لوگ‘ یہ کہہ کر مجھے دیا کہ یہ مشکل ناول ہے، احمد مشتاق نے اس کا اچھا ترجمہ کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس پر بھی تجزیاتی مضمون لکھنا چاہیں گے۔ وبا کی بندشوں میں آصف فرّخی صاحب سے یہ دوسری ملاقات ان کے انتقال سے محض چار پانچ روز قبل ہوئی اور پھر وہ خاموشی سے دنیا سے چل دیے، بہت سارے کام کرکے، اور بہت سے چھوڑ کر۔ کام کرنے والے یہی کرتے ہیں۔

The post مِرے شوق کی بلندی۔۔۔آصف فرّخی کا ادبی سفر appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں

اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار26اپریل 2021
آج کا حاکم نمبر 1 ہے ،گھر اور پلاٹ کی خریدوفروخت کے لیے ایک موزوں وقت ہوسکتا ہے کیوںکہ 2،5 اور 8 متحرک ہوچکے ہیں۔
1،2،4،5،6،اور 9 کے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 27 اپریل 2021
آج کا حاکم نمبر9 ہے۔غیرمتوقع حالات، خیالات اور واقعات ہوسکتے ہیں۔ تشدد، جذباتی اور آتشی حادثے ہوسکتے ہیں۔
1،2،3،5،6 اور 7 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
4،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذور سیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 28 اپریل 2021
آج کا حاکم نمبر6 ہے۔توڑ پھوڑ اور دل شکستہ کردینے والے حالات کے بعد کوئی بہتر خبر کی امید کی جاسکتی ہے۔
1،4،5،6،8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
2،3اور 7 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُ یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 29 اپریل 2021
آج کا حاکم نمبر5 ہے۔ سفر ہوسکتا ہے۔ نئی خبریں اور نئی ایجاد بھی سامنے آسکتی ہے۔
1،2،5،6،7،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
3،4 اور 8 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ یا اللہ 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 30 اپریل 2021
آج کا حاکم نمبر9 ہے۔ایک گرم دن، مذہبی حلقوں کی طرف سے گرمی اور الجھن لانے والے واقعات ہوسکتے ہیں۔
1،2،3،5،6 اور 7 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
4،8 اور 9 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 1 مئی 2021
آج کا حاکم نمبر1 ہے۔حکم رانوں کے لیے بالکل بھی بہتر دن نظر نہیں آتا ہے۔
1,2,4،5،6 اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3، 6 اور 7 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”یافتاح یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار2 مئی 2021
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔ سابقہ دنوں کا تسلسل چل رہا ہے۔
حکم راں طبقے کے لیے مشکل دن ہوسکتا ہے۔ غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1،2،3،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

’قائداعظم اکادمی‘ بدترین سرکاری غفلت اور مجرمانہ بے حسی کا شکار۔۔۔!

$
0
0

ہر سال قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش، یوم وفات اور دیگر اہم قومی دنوں کے موقع پر ہم متعدد مرتبہ قائد کے نام سے منسوب اداروں اور مختلف تنصیبات کا ذکر ستنے اور پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے غور کیا اس میں قائد کی جائے پیدایش، ان کے مدفن اور مختلف نوادرات سے آراستہ عجائب خانوں کا ذکر تو بار بار آ جاتا ہے، لیکن ’قائداعظم اکادمی‘ کا تذکرہ بہت کم سننے میں آتا ہے۔۔۔!

وہی ’قائداعظم اکادمی‘ جو 1976ء میں بابائے قوم محمد علی جناح کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں مزار قائد کے مقابل مرکزی ایم اے جناح روڈ پر قائم کی گئی۔۔۔ شہر کی مصروف ترین شاہ راہ اور قائد کی آخری آرام گاہ کے عین سامنے ہونے کے باوجود نہیں معلوم ایسا کیا ماجرا ہے کہ یہ جگہ ہم سب کی نظروں سے کچھ اوجھل سی رہتی ہے۔۔۔

اور شاید یہی غفلت اس کی موجودہ صورت حال، انتظامی و مالی بحران اور سنگین ترین مسائل کا سبب بھی ہے۔۔۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ملک کے بانی کے نام سے منسوب ایک علمی اور تحقیقی ادارہ آج اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے ’حکومت پاکستان‘ سے توجہ کی بھیک مانگ رہا ہے، دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت کو ذرا اونچا سنائی دیتا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا آج ’قائداعظم اکادمی‘ سال بھر سے اپنے بجٹ سے محروم ہوتی۔۔۔؟ جی بالکل آپ نے بالکل درست پڑھا، اکادمی کو 10 ماہ گزر جانے کے باوجود اب تک موجودہ مالی سال 2020-21ء کا بجٹ نہیں دیا گیا ہے اور اس کے ملازمین کو جولائی 2020ء سے پانچ ماہ تک تو فنانس ڈویژن نے ’اے جی پی آر‘ کے ذریعے تنخواہ دی، لیکن اب یہ سلسلہ گذشتہ چار ماہ سے موقوف ہے۔۔۔ کیوں کہ اب ان کے پاس بھی ’ریزرو فنڈ‘ ختم ہوگیا ہے۔ یوں اب صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کے بچے کچھے ملازمین کو آخری تنخواہ دسمبر (برائے نومبر 2020ء) کی ملی ہوئی ہے۔۔۔ ایسی صورت حال کے باوجود بھی وفاقی وزارت نے ’اکادمی‘ کے ملازمین سے شکایت کی ہے کہ وہ ان کا ’میڈیا ٹرائل‘ کر رہے ہیں۔۔۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔!

اسی مالی بحران کے سبب اب نوبت یہ آگئی ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کو بجلی منقطع کرنے کا نوٹس ملا ہوا ہے۔۔۔ اس بحرانی صورت حال میں 17 فروری 2021ء کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ’قائداعظم اکادمی‘ تشریف لائے، تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ ’سربراہِ مملکت‘ کی آمد سے شاید کچھ مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن افسوس، ان کے وعدوں کے باوجود ’قائداعظم اِکادمی‘ کے دن نہ پھر سکے۔۔۔!

ہم نے شہرِقائد کے قلب میں واقع ’قائداعظم اکادمی‘ کی زبوں حالی کے قصے سنے، تو خود وہاں پہنچے۔۔۔ اکادمی کے کُھلے ہوئے دروازے سے جب اندر داخل ہونے لگے، تو دور بیٹھے ہوئے کسی ملازم نے ’دربان‘ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہمیں سوالیہ انداز میں ایک آواز لگائی، ہم نے کہا ’ڈائریکٹر۔۔۔؟‘ تو وہ ہمیں موجودہ ڈائریکٹر زاہد حسین ابڑو کے کمرے میں لے گیا۔۔۔

زاہد حسین ابڑو کہتے ہیں کہ ’وہ ’ریسرچ آفیسر‘ ہیں اور ان کے پاس ڈائریکٹر اکادمی کا ’چارج‘ ہے، جو کہ 20 گریڈ کا ہوتا ہے، لیکن وہ اس وقت 17 گریڈ میں ہیں۔‘ ان کا اصرار ہے کہ دراصل ’ڈائریکٹر‘ کی پوسٹ اب بھی خالی ہی ہے۔ وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کراچی آنے سے پہلے 2001ء سے اکادمی کے اسلام آباد دفتر میں متعین تھے، وہ کہتے ہیں کہ ’وہ سب آفس ہے، انھیں کراچی کے مرکزی دفتر سے کام دیا جاتا ہے۔۔۔ اب یہاں وہ ریسرچ کے کام میں اکیلے ہیں، ورنہ یہاں اس شعبے میں مع ڈائریکٹر سات افراد ہوتے ہیں۔ اکادمی کے شعبۂ تحقیق میں 1976ء میں تقرریاں ہوئیں، اس کے بعد خالی ہونے والوں کی جگہ پر نہیں کی گئی۔‘

قائداعظم اکادمی کے ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ سے ’انضمام‘ کا ذکر چِھڑا، تو زاہد حسین ابڑو نے بتایا کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کو دسمبر 2019ء میں ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ کے ساتھ ضم کیا گیا، جسے دونوں اداروں کے ملازمین کی جانب سے چیلینج کیا گیا اور اب اس پر ’حکمِ امتناع‘ حاصل کیا گیا ہے اور اس کا فیصلہ ہونے تک تقرریاں نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت 15 ملازم یہاں اور 10 اسلام آباد دفتر میں ہیں۔ اکادمی میں نچلی سطح پر آخری بھرتی 2010ء میں کی گئی۔۔۔‘‘

ہم نے پوچھا کہ اس وقت ’اکادمی‘ میں کتنی اسامیاں خالی ہیں۔۔۔؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حکمِ امتناع کے سبب اس کا ذکر کرنا ٹھیک نہیں ہے، قائداعظم اِکادمی ایک ’سب آرڈینیٹ‘ آفس ہے، خودمختار ادارہ ہوتا تو خود بھرتیاں کر سکتے تھے۔۔۔ یہاں کے لیے ریکروٹمنٹ رول ہونے چاہییں۔‘

مطبوعات کے حوالے سے زاہد حسین ابڑو نے بتایا کہ ’’ایک کتاب ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ اور قائداعظم اکادمی نے مل کر شایع کی ہے۔ اس کتاب میں (1937ء تا 1948ء) ’مزار قائد میوزیم‘ میں آویزاں ’سپاس ناموں‘ کو جمع کیا گیا ہے۔ اس سال بس یہی ایک کتاب شایع ہو سکی ہے، جب کہ پچھلے برس سات کتابیں دوبارہ شایع ہوئی ہیں۔۔۔ اس سال کا بجٹ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ ہمیں کچھ کتب دوبارہ شایع کرنی تھیں، لیکن بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے۔‘‘

’قائداعظم اکادمی‘ اور ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ کے عجیب وغریب انضمام کو دیکھیے، تو دونوں میں سوائے قائداعظم کے اور کوئی قدر مشترک نہیں ہے، اس حوالے سے سابق ریزیڈنٹ انجینئر ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ انجینئر عارف کہتے ہیں کہ ’’قائداعظم اکادمی 1976ء میں قائم ہوئی، اس میں اب قائداعظم کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں۔۔۔!‘‘ ہم نے کہا کہ ایسے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق مکمل ہو گئی ہے، یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے، وقت کے ساتھ نئے پہلو اور نئے زاویے سامنے آتے رہتے ہیں۔۔۔‘

انجینئر عارف کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک، ڈیڑھ سال بطور ڈائریکٹر ذمہ داری نبھائی اور مارچ 2021ء میں ’قائداعظم اکادمی‘ کے ڈائریکٹر کی مسند سے سُبک دوش ہوئے۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’قائداعظم اکادمی‘ اور ’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ دو یک سر مختلف ادارے ہیں، حکومت نے 400 مختلف ادارے باہم ضم کیے ہیں، یہ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ جس کے تحت دونوں اداروں کا سربراہ ایک ہوگا، لیکن نچلی سطح پر دونوں الگ الگ ہی رہیں گے۔ گویا ’انضمام‘ سے صرف ایک سربراہ کے عہدے کی بچت ہوگی، لیکن اب یہ ’انضمام‘ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ ’قائداعظم اکادمی‘ کا انضمام کرنا تھا تو اِسے اور ’اقبال اکادمی‘ کو ضم کرنا چاہیے تھا، وہ بہتر رہتا۔‘‘

سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر تحقیقی ادارے کے لیے تحقیق کے میدان کے آدمی ہونے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک انجنیئر تاریخ وغیرہ کی کیا تحقیق کر سکے گا۔۔۔؟ انجینئر اپنی مہارت تعمیرات اور ’سنگ مرِمر‘ میں دکھا سکتا ہے، تحقیق میں نہیں، وہ تحقیقی موشگافیوں اور کتاب اور تاریخی دستاویزات کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت وغیرہ کیسے کر سکتا ہے؟‘‘

ایک طرف یہ سرکاری بے اعتنائی ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر بھی صورت حال اچھینہیں ہے۔ عوامی خدمات کے لیے بلا معاوضہ اپنے دروازے کھولے رکھنے والی ’قائداعظم اکادمی‘ کی لائبریری کا رجسٹر، زیادہ سے زیادہ چھے، سات افراد کی آمد کی خبر دیتا ہے۔

سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر اپنی دوسری مدت (2017ء تا 2019ء) کے تجربات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’ان تین برسوں میں اُن سے ملنے تو بہت سے شناسا آتے رہے، لیکن کوئی ایک فرد بھی خاص کتابوں کے لیے وہاں نہیں آیا کہ جو یہ کہے کہ دراصل میں فلاں کتاب کی تلاش میں ’قائداعظم اکادمی‘ آیا تھا، مجھے پتا چلا آپ بھی یہاں ہیں، تو میں آپ سے ملنے بھی آگیا۔۔۔! ’قائداعظم اکادمی‘ کے پہلے ڈائریکٹر شریف المجاہد کے پاس شہر کے نام وَر محققین سمیت روزانہ سات آٹھ افراد لازمی آتے تھے، جس کسی کو ایک مضمون بھی لکھنا ہوتا تھا، وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کا ایک چکر لگا لیتا تھا اور اسے بہت سا مواد مل جاتا تھا، اب ایسی صورت حال نہیں دکھائی دیتی۔۔۔!!‘‘

ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے جامعات سے جڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ طالب علموں کو معلوم تو ہو کہ شہر میں ایسی ایک اکادمی بھی موجود ہے، تاکہ وہ کبھی بھولے بھٹکے وہاں آ جایا کریں۔۔۔؟ تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبۂ تاریخ، سیاسیات اور ’پاکستان اسٹڈی سینٹر وغیرہ کے طالب علموں کو لاتے رہتے تھے، تاکہ اکادمی کا نئی نسل سے رشتہ جڑے، لیکن اب یہ ساری تاریخی ونادر کتابیں ضایع ہو رہی ہیں۔۔۔ میں تو وہاں آنے والے طالب علموں کی دس، پندرہ صفحات کی فوٹو کاپی بھی بلا معاوضہ کروا دیتا تھا، تاہم مکمل کتاب کی کاپی کرانے کریم آباد ہمارا آدمی لے جاتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے عوامی رابطہ قائم کرنے کی خاطر قائداعظم اکادمی کے ’جناح ہال‘ میں ایک دارالمطالعہ بنانے کا سوچا تھا، تاکہ لوگ وہاں روزانہ اخبارات پڑھنے کے لیے آئیں اور لوگوں کو ادارے سے واقفیت ہو سکے۔۔۔‘‘

خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک موضوع پر ایک چھت کے نیچے اتنی تعداد میں کتابوں کا اور کوئی کتب خانہ نہیں ہے۔ یہاں قائداعظم اور تاریخ پاک و ہند پر بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہم نے وہاں دیگر موضوعات کی کتابوں کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا مرزا غالب اور حسرت موہانی وغیرہ پر کچھ کتب انھوں نے بھی اکادمی کو عطیہ کی ہیں، لیکن دراصل یہ دونوں شخصیات بھی تو ہندوستانی تاریخ ہی سے جڑی ہوئی ہیں۔

نام وَر محقق اور سابق مدیر اردو لغت بورڈ عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ’جیسے دنیا بھر میں اپنے قائدین اور اکابرین کے لیے باقاعدہ ادارے ہوتے ہیں، جو ان راہ نماؤں کے بارے میں مسلسل تحقیق کر کے اپنے عوام کے لیے مناسب نرخ پر ان مطبوعات کی فراہمی یقینی بناتے ہیں، ’قائداعظم اکادمی‘ کو بھی ایسے ہی شایان شان ہونا چاہے، جس میں تحقیقی مطبوعات کے علاوہ مختلف پروگرام، دستاویزی فلموں کے علاوہ الگ سے کوئی چینل بھی ہونا چاہیے۔

جو قائداعظم اور پاکستان کی تاریخ سے جڑے ہوئی مختلف شخصیات کے حوالے سے مسلسل کام کرے۔ یہی نہیں قائداعظم کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں بھی اکادمی کی طرف سے مدد ملنی چاہیے، قائداعظم پر اردو مطبوعات کے انگریزی کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں میں ترجمے ہونے چاہئیں، لیکن جب اکادمی میں اسکالر ہی نہیں ہوں گے، تو یہ کام کیسے ہوں گے؟ ’قائداعظم اکادمی‘ میں ایسا منظم سلسلہ ہونا چاہیے کہ یہاں دنیا بھر میں قائداعظم پر ہونے والی ساری تحقیق کا مکمل ریکارڈ ہو۔۔۔ اور قائداعظم پر ہونے والی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے باقاعدہ ان مطبوعات کو خریدنے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔‘

موجودہ ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ زاہد حسین ابڑو نے ہمیں بتایا کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر دوپہر سے شام تک ’مزارِ قائد‘ پر کتابوں کا اسٹال لگایا جاتا ہے، جو خاصا کام یاب ہے، دیگر جگہوں پر بھی اسٹال لگاتے ہیں، لیکن اگر کرایہ زیادہ ہو تو پھر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ہمارے پاس بجٹ ہو تو ’قائداعظم اکادمی‘ کی طرف سے تاریخ کے موضوعات پر ماہانہ لیکچر سیریز شروع کرانا چاہتے ہیں۔۔۔

ہم نے زاہد ابڑو کو اقبال اکادمی کی مثال دی کہ وہ دنیا بھر میں علامہ اقبال پر شایع ہونے والی ہر کتاب لیتے ہیں، تو وہ بولے کہ ’’ہمیں بھی جیسے جیسے پتا چلتا ہے، ہم بھی لے لیتے ہیں، ساری تو نہیں، ہمیں کیا پتا، کس نے کیا لکھا ہے، لیکن معلومات کر کے ایسی کتابیں لیتے ہیں۔‘‘

’’قائداعظم اکادمی کے لیے کابینہ سے بجٹ منظور ہو گیا ہے‘‘: قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت

’قائداعظم اکادمی‘ کی الم ناک صورت حال کے حوالے سے یہ امر ضروری تھا کہ باقاعدہ طور پر قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت (اسلام آباد) اس معاملے پر اپنا موقف دے۔ ہم نے اس حوالے سے ’وفاقی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت‘ سے رابطہ کیا، تو ان کے عہدے داران اس حوالے سے رائے دینے سے گریزاں رہے۔ سیکریٹری قومی وزارت قومی ورثہ وثقافت، نوشین جاوید مصروفیت کے سبب ہمارے رابطے میں نہ آسکیں، تاہم دفتری ذرایع نے ’ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے قائداعظم اکادمی کی نئی عمارت سے متعلق لاعلمی ظاہر کی۔

’قائداعظم اکادمی‘ کی رکی ہوئی تنخواہوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اِن کا بجٹ منظور ہو گیا ہے، بس اب اس کے طریقۂ کار پر عمل کے لیے کچھ وقت لگے گا، تاہم اس ادائی ہو جانے کی کوئی مدت بتانے سے انکار کیا۔ اکادمی کے قائم مقام ڈائریکٹر کے حوالے سے کہا گیا کہ تقرریاں نہیں کی جا سکتیں، اس لیے ادارے میں موجود سینئیر ترین افسر کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ معاملہ عدالت میں ہونے کے سبب تقرریاں نہیں کی جا سکتیں۔ اداروں کا انضمام کابینہ اور حکومت کا فیصلہ تھا۔

ہم سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت قومی ثقافت و قومی ورثہ کے عہدے داروں نے نہایت محتاط رویہ اپنایا، وہ ہمیں اپنا نام دینے سے منع کرتے رہے، ’قائداعظم اکادمی‘ کے معاملات سے لاعلمی اور اس موضوع پر باقاعدہ کوئی بات کرنے سے انکار کرتے رہے، اسی محکمے سے ایک صاحب نے تو یہ کہہ کر ہمیں ہی شک میں ڈال دیا کہ قائداعظم اکادمی ’نیشنل ہیریٹیج‘ (قومی ورثے) کے دائرے میں آتا ہے، جو کہ اب ان کے ’محکمۂ ثقافت‘ کا حصہ نہیں، ہم نے معلومات لیں، تو ایسا بالکل نہیں ہے، یہ دونوں محکمے بدستور یک جا ہی ہیں۔n

 وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کی نئی عمارت کیا ہوئی۔۔۔؟

پچھلی وفاقی حکومت کی جانب سے ’قائداعظم اکادمی‘ کے لیے نئی اور وسیع عمارت کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ اس حوالے سے سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں ’’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ کے دفتر کے ساتھ ڈھائی ایکڑ زمین پر اکادمی کی نئی عمارت کا منصوبہ تھا، لیکن ہر نیا آنے والا نئے انداز میں کام شروع کرتا ہے، اس لیے پچھلی حکومت کے جاتے ہی یہ معاملہ بھی نہیں رہا۔‘‘

ہم نے سابق وفاقی مشیر عرفان صدیقی سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس بابت ہمیں بتایا کہ ’’قائداعظم اکادمی ملک کا ایک بڑا ادارہ ہے، ہم نے اس کے لیے مزارقائد کے باہر کی کچھ غیر استعمال جگہ پر اکادمی کے لیے ایک بڑی عمارت کا منصوبہ بنایا تھا، مجوزہ تین چار منزلہ عمارت میں بڑا کتب خانہ، آڈیٹوریم اور ہال وغیرہ قائم ہوتا۔

صدر ممنون حسین سے اس منصوبے کی منظوری کے بعد ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ کے پاس یہ منصوبہ لے کر گئے تھے اور انھوں نے بھی اس کی توثیق کر دی تھی، جس کے بعد تعمیر کا کام شروع ہونا تھا، لیکن حکومت کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام سرد خانے کی نذر ہوگیا اور مجوزہ جگہ اب بھی خالی ہی پڑی ہوئی ہے۔۔۔ ورنہ ہم چاہتے تھے کہ بانیٔ پاکستان کے نام پر قائم یہ بڑا ادارہ، ان کے مزار کے ساتھ ہی منتقل ہو جاتا، جہاں اس کو کام کرنے کے لیے وسیع جگہ میسر ہوتی اور محققین اور طالب علموں کے ساتھ وہاں دیگر آنے والوں کی علمی پیاس کو دور کرنے کے لیے قائداعظم اکادمی وہیں موجود ہوتی۔‘‘

نئی جگہ سے منتقلی کے حوالے سے مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ کے انجینئر عارف تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس منصوبے کو ہم ہی نے منظور کرایا تھا، لیکن اب معاملہ سست روی کا شکار ہے۔ اس کے لیے رقم نہیں دی گئی، تاہم اس کا ’آرکیٹچکر کمپٹیشن‘ کرایا گیا ہے، جس میں مختلف آرا کے بعد ممکن ہے کہ اس منصوبے پر کوئی پیش قدمی کی جائے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ اور ’قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت‘ نئی عمارت کے حوالے سے یک سر لاعلمی ظاہر کرتے ہیں۔

 صدر مملکت آئے، تو ملازمین کو کمروں میں بند کردیا گیا!

ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے تاریخی ذخیرۂ کتب سے مزین کتب خانہ بھی دیکھا، یہاں اردو لغت بورڈ کی مکمل 22 جلدوں کے علاوہ 1994ء سے دو اخبارات کی باقاعدہ جلدیں موجود ہیں، آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم کی تاریخی دستاویزات کے ساتھ ساتھ، پچیس ہزار کتابیں بھی موجود ہیں۔ قائد کی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے رکنیت کے فارم کی نقل ہے۔ ایسی تمام نادر دستاویزات اسلام آباد میں ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ قائداعظم کے سیاسی مخالف معروف کانگریسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزاد کی کچھ کتب کی موجودگی سے ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔۔۔

ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے عملے سے بھی ملاقات کی، اور وہاں مہمانوں کے تاثرات کے رجسٹر میں مختلف نامی گرامی شخصیات کے تاثرات مع دستخط بھی دیکھے۔۔۔ ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ادارہ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا، تاہم جنرل ضیا الحق پہلے صدر مملکت تھے، جو ’قائداعظم اکادمی‘ آئے۔۔۔ اور رواں برس فروری میں ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے دوسرے صدر بن گئے، جو ’قائداعظم اکادمی‘ تشریف لائے۔۔۔ وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جب صدر عارف علوی یہاں آئے تو بڑے سخت حفاظتی اقدام کیے گئے۔۔۔

اس کے لیے دفتری عملے کے باقاعدہ پاس وغیرہ بھی بنوائے گئے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہیں معلوم ایسی کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ جب صدر عارف علوی آئے، تو چند ایک کے سوا اکادمی کے باقی ملازمین کو ان کے کمروں میں بند کر دیا گیا۔۔۔ اور جب تک صدر مملکت اکادمی میں موجود رہے، عملے کو باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی! ہم نے اس کا سبب پوچھا، تو بتایا کہ ’حفاظتی نقطۂ نظر‘ سے ایسا کیا گیا، مبیّنہ طور پر اس قدم کا مقصد ملازمین کی جانب سے صدر کو ’قائداعظم اکادمی‘ کی حالت کی سن گن سے بچانا تھا۔ ہم نے کہا یہ امر تو بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی مہمان آئے، تو میزبان کو مہمان نوازی کرنے دینے کے بہ جائے اسی کے گھر میں قید کر دیا جائے۔۔۔

 2017ء اکادمی کے سروس رول ابھی تک منظور نہ ہو سکے

1976ء میں قائم ہونے والی ’قائداعظم اکادمی‘ کو 2014ء میں وفاقی وزارت کے ماتحت کر دیا گیا، جس کے بعد اکادمی کے ملازمین پنشن سمیت مختلف سرکاری مراعات کے حق دار ہوگئے، تاہم 2017ء تاحال اکادمی کے ’سروس رول‘ منظور نہیں ہو سکے ہیں، جس کے باعث خاصا انتظامی بحران موجود ہے، موجودہ صورت حال میں تقرریوں کے حوالے سے قائداعظم اکادمی کے ’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ‘ کے ساتھ انضمام پر عدالتی حکم امتناع کے باعث قانونی رکاوٹ موجود ہے۔

’قائداعظم اکادمی‘ کے مرکزی تحقیقی اور انتظامی عہدے بھی خالی ہیں۔ ’ایکسپریس‘ کو حاصل معلومات کے مطابق اس وقت وہاں 27 میں سے صرف 15 اسامیوں پر ملازم موجود ہیں۔ خالی اسامیوں میں ڈائریکٹر، معاون ڈائریکٹر، دو سینئر یسرچ فیلو، چار ریسرچ فیلو، اکاؤنٹنٹ اور اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کی اسامیاں خالی ہیں، ایک ’یو ڈی سی‘ (یونیورسل ڈیسیمل کلاسیفکیشن) اور اسسٹنٹ لائبریرن 10 سال سے ان فٹ ہیں۔

2010ء سے قائداعظم اکادمی کے لائبریری انچارج ’عبدالماجد فاروقی ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم اکادمی کی مرکزی اور کلیدی عہدوں سمیت تقریباً 45 فی صد اسامیاں خالی ہیں۔ سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بدقسمتی سے اب وہاں صرف کلرک ہی باقی رہ گئے ہیں، موجودہ ڈائریکٹر بھی تحقیق سے زیادہ دفتری معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے اب وہاں باقاعدہ ریسرچ کا کوئی آدمی نہیں۔ وہ 2007ء میں، تحقیقی معاون مہر الاسلام 2009ء میں اور شہلا کاظمی 2014ء میں ریٹائر ہوئے، اور باقاعدہ طور پر ان کی جگہ پُر نہیں کی جا سکی۔‘‘

The post ’قائداعظم اکادمی‘ بدترین سرکاری غفلت اور مجرمانہ بے حسی کا شکار۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4564 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>