Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

ٹارچر…اہل کشمیر کی آواز دبانے کا بھارتی ہتھیار

$
0
0

’’مخالفین کو کچلنے کا بہترین ہتھیار ٹارچر ہے۔بے رحمی دوسروں میں ہمارا خوف پیدا کرتی ہے۔تب وہ ہم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔لیکن ہمیں ان کا پیار نہیں درکار،بس انھیں ہم سے خوفزدہ رہناچاہیے۔‘‘(ہائنرش ہملر،نازی جرمن خفیہ پولیس،گستاپو کا سربراہ)

٭٭

یہ 2012ء کی بات ہے، برطانیہ کے ٹی وی چینل فور سے ایک دستاویزی پروگرام ’’کشمیرز ٹارچر ٹریل‘‘  (Kashmir’s Torture Trail) نشر ہوا۔ اس کے ڈائریکٹر ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی، جینرہ نیومان تھے۔ اس زمانے میں بھارتی سکیورٹی فورسز حسب معمول ریاست جموں و کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں کو بھیانک انداز میں ٹارچر کا نشانہ بنارہی تھیں۔ پروگرام نے بھارتی فوج اور حکمران طبقے کے مکروہ چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر ڈالا۔ پروگرام میں ایک ادھیڑ عمر کشمیری، قلندر ختانہ کا انٹرویو دکھایا گیا جنہیں بھارتی فوج نے خوفناک تشدد کرکے معذور کردیا تھا۔ اس مقہور کشمیری نے اپنی داستان الم کچھ یوں سنائی:

’’میں وادی کشمیر کے ایک گاؤں کا باسی ہوں۔ 1992ء میں ایک دن اچانک بھارتی کی بارڈر سکیورٹی فورس کے فوجیوں نے مجھے گرفتار کیا اور سری نگر لے گئے۔ انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں پاکستان سے آنے والے گوریلوں کا گائیڈ ہوں اور انہیں ان کے ٹھکانوں تک پہنچاتا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک کسان ہوں اور گوریلوں سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ البتہ میں ان سے ہمدردی ضرور رکھتا ہوں۔ بس یہی بتانا میرا جرم بن گیا اور مجھ پر خوفناک تشدد کیا جانے لگا۔

’’بھارتی فوجیوں نے سب سے پہلے میری انگلیوں پر ڈنڈے مارے۔ تب جو شدید تکلیف ہوئی وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔ آج بھی میری انگلیاں صحیح طرح حرکت نہیںکرپاتیں۔ فوجی پھر میرے اوپر چڑھ گئے اور مجھے ٹھڈوں سے مارنے لگے۔ اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو ایک فوجی نے لمبا چوڑا خنجر اپنے بیگ سے نکالا اور میرے دونوں پیر کاٹ ڈالے۔ میں نے اپنے سامنے دونوں پیروں کو ہلتے پھڑکتے دیکھا۔ پھر شدید درد کے مارے میں بے ہوش ہوگیا۔ میرے پیر کاٹ دینے پر بھی ان کی آتش غضب نہ بجھی۔ ایک دن انہوں نے میری رانوں کا گوشت کاٹا اور زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرنے لگے۔ وہ انسان نہیں انسانوں کے روپ میں بھیڑیے تھے، آدم خور حیوان !‘‘

کمانڈ کے حکم پر بھارتی فوجیوں نے خاص مقصد حاصل کرنے کی خاطر قلندر ختانہ کو بہیمانہ ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ اس خوفناک واقعے سے قلندر کے علاقے میں آباد دیگر کشمیری مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے قلندر ختانہ پر ظالمانہ تشدد کرکے ان باشندوں  پر آشکارا کردیا کہ اگر کسی کشمیری مسلمان نے نعرہ آزادی بلند کیا، تو اسے بھی انسانیت سوز ٹارچر سے گزرنا ہوگا۔گویا بھارتی حکومت اور فوج نے کشمیری مسلمانوں کو مطیع و فرمانبردار بنانے کے لیے خوف کو خطرناک ہتھیار بنالیا۔

تشدد کی شرمناک تاریخ

انسانی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے حکمران خوف کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ جب ایک فوج کسی نئے علاقے پر قبضہ کرتی، تو اس معاشرے کے بعض سرکردہ رہنماؤں کو سرعام رونگٹے کھڑے کردینے والے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ مدعا یہی ہوتا تھا کہ ان پُرتشدد مظاہروں سے مقامی آبادی کو اتنا زیادہ خوفزدہ کردیا جائے کہ وہ نفسیاتی و جسمانی طور پر فاتحین کی غلام بن جائے۔ اس خوف کے باعث عوام میں پھر مزاحمت یا بغاوت کے جذبات نہ ابھرسکیں۔

زمانہ قدیم میں مگر انسان پر وحشت، بربریت، حیوانیات کا غلبہ تھا۔ وہ اجڈ، غیر مہذب اور وحشی بنا پھرتا۔ پیغمبروں، فلسفیوں اور دانش وروں نے رفتہ رفتہ انسان کو آداب زندگی سکھلائے اور اسے امن، محبت، خیر، رحم دلی، ہمدردی، رواداری جیسی اعلیٰ آسمانی صفات کی سمت راغب کرنے لگے۔ انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی لیکن آج بھی بعض ممالک میں قدیم انسانوں کی ایسی اولاد موجود ہے جو انہی کی طرح وحشت و بربریت سے متصف ہے۔ دور جدید کے ایسے وحشی اور بے رحم انسانوں میں بھارتی حکمران طبقہ بھی شامل ہے۔ یہ حکمران طبقہ سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جرنیلوں، ججوں اور مذہی رہنماؤں پر مشتمل ہے۔ ان میں 99 فیصد افراد ہندوؤں کی اونچی ذاتوں (برہمن و کھشتری) سے تعلق رکھتے ہیں۔

مغرب و بھارت کے غیر جانب دار مورخین کی تحقیق سے ثابت ہوچکا کہ اعلیٰ ذات کے ان ہندوؤں نے خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف مذہب کو بطور نفرت و تشدد کا ہتھیار استعمال کیا اور اپنی سازشوں کی مدد سے  1947ء میں بھارت کے حکمران بننے میں کامیاب رہے۔ پہلے برہمن بھارتی وزیراعظم، جواہر لعل نہرو بظاہر سیکولر اور انسان دوست رہنما تھے لیکن ریاست جموں و کشمیر کے معاملے میں ان پر بھی قومی و مذہبی جذبات غالب آگئے۔ وہ جانتے تھے کہ ریاست میں مسلمان اکثریت رکھتے ہیں اور عدل و انصاف کی رو سے وہ ہندو بھارت کا حصہ نہیں بن سکتی۔ لیکن ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کی خاطر نہرو جھوٹ، مکاری اور دغا بازی سے کام لیتے رہے۔ دراصل کشمیری پنڈت ہونے کے ناتے وہ اپنے اجداد کے وطن کو ہر قیمت پر بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ یہ ان کے نسل پرست اور معتصب ہونے کا بھی ثبوت ہے۔

غیر مسلموں کا تسلط

جموں و کشمیر میں صوفیا اور حکمرانوں کے ذریعے اسلام پھیلا۔ اٹھارہویں صدی تک علاقے کی کثیر آبادی مسلمان ہوچکی تھی۔ بدقسمتی سے مسلم حکمرانوں کی نااہلیت، کشمیری پنڈتوں کی سازشوں اور بین الاقوامی سیاست کے باعث 1820ء میں غیر مسلم سکھوں نے ریاست پر قبضہ کرلیا۔ تب پنجاب اور دیگر علاقوں میں سکھوں اور مسلمانوں کے مابین لڑائی جاری تھی۔

اسی لیے فاتح سکھ ریاستی مسلمانوں پر جذبہ انتقام سے ظلم و ستم کرنے لگے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو خوف و دہشت کے ماحول سے دوچار ہونا پڑا۔ حملہ آوروں نے جامع مسجد سری نگر بند کردی۔ اذان دینا ممنوع قرار پایا۔ گائے کے ذبیح پر بھی پابندی لگ گئی۔ مسلمانوں پر بھاری ٹیکس عائد کردیئے گئے۔ جس کشمیری نے حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی، اسے خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر سری نگر میں ایک کشمیری نے گائے ذبح کردی۔ حکومت نے اسے اہل خانہ سمیت آگ میں زندہ جلا ڈالا۔ یہ لرزہ خیز قدم اسی لیے اٹھایا گیا تاکہ مقامی مسلم آبادی میں خوف پیدا کیا جاسکے۔ مسلمانوں میں یہ جرات جنم نہ لے کہ وہ حکومتی اقدامات کو چیلنج کرسکیں۔

1820ء سے لے کر اب تک ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان غیر مسلم حکمرانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ مارچ 1948ء سے جون 2018ء تک ریاست میں مسلمان وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ حکومت کرتے رہے۔ ان کے دور حکومت میں مسلمانوں کو آخر غیر مسلموں کے ظلم و ستم سے نجات ملی لیکن بیشتر کشمیری باشندوں  کا معیار زندگی بلند نہیں ہوسکا۔ وہ بدستور غربت اور جہالت کا شکار رہے۔ البتہ بھارتی کانگریسی جماعت کا حلیف مٹھی بھر بااثر کشمیری طبقہ امیر کبیر بننے میں ضرورکامیاب رہا۔

اہل کشمیر پہ ظلم وستم

برطانوی اور ہندوستانی مورخین نے اپنی کتب میں ان مظالم کی سنسنی خیز داستانیں رقم کی ہیں جو غیر مسلم خصوصاً ہندو ڈوگرا حکمران کشمیری مسلمانوں پر ڈھاتے رہے۔ ان ڈوگرا حکمرانوں کو انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں فروخت کردی تھی۔ انھوں نے پھر ریاستی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں سکھوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ظالمانہ اور وحشیانہ پالیسی کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اکثریتی مسلمانوں میں اتنا زیادہ خوف و ڈر پیدا کردیا جائے کہ وہ اقلیتی ہندوؤں کی  حکومت کے خلاف آواز تک بلند نہ کرسکے۔ جبرو تشدد کے اسی ماحول نے کشمیری مسلمانوں کو اپنے خول میں سمٹ جانے پر مجبور کر ڈالا۔

ڈوگرا حکمران حکومت سنبھالتے ہی ریاست کو ’’ہندو راشٹریہ‘‘ میں بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ کئی مورخین مثلاً مریدو رائے (کتابHindu Rulers and Muslim Subjects ) ، جوزف کوربل (Danger in Kashmir)، پریم ناتھ بزاز (The History of Struggle for Freedom in Kashmir)، ملک فضل حسین (Kashmir Aur Dograh Raj)، ٹائن ڈیل بسکو (The Missionary and the Maharajas) وغیرہ نے ان کوششوں کی تفصیل بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ حکومت سنبھالنے کے صرف چار سال بعد مہاراجا گلاب سنگھ نے فیصلہ کر لیا کہ تمام ریاستی مسلمانوں کو اپنے اجداد کا مذہب (بت پرستی المعروف بہ ہندومت) اختیار کرلینا چاہیے۔ چناں چہ وہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر تیار کرنے لگا۔ تاہم بنارس اور متھرا کے بعض اہم پنڈتوں نے اس اقدام کی مخالفت کر دی۔انھیں خطرہ تھا کہ اس اقدام سے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان ہندوؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

اس طرح پورے ہندوستان میں اشاعت اسلام کا آغاز ہو جاتا۔  یہی وجہ ہے، گلاب سنگھ اپنے شیطانی اور ظالمانہ پلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔نفرت اور انتقام کے منفی جذبات سے بھرے گلاب سنگھ نے پھر ریاستی مسلمانوں کی زمینیں سرکاری ملکیت میں لے لیں۔ صرف حکومت کے کٹر حامی غدار مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا گیا۔ گویا اب مسلمان مالک مزارع بن کر اپنی ہی زمینوں اور باغات پر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ حکومت نے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا۔ ریشم، زعفران، کاغذ، تمباکو، گندم ،نمک شال بافی،کپڑا سازی،غرض ہر شے پہ ٹیکس لگا دیا۔ریاست میں تمام صنعتوں میں کام کرنے والے مسلمانوں پر  بھاری ٹیکس ٹھونس دیئے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلم عوام کو معاشی طور پر کمزور کردیا جائے۔ وہ روٹی کمانے کے چکر میں پھنس کر حکومت کے خلاف اقدامات نہ کرسکیں۔

ڈوگرا شاہی نے مسلمانوں کی کئی مساجد اور خانقاہوں پر قبضہ کرلیا۔ بعض مندروں میں تبدیل کردی گئیں۔ دیگر گودام خانے بنادیئے گئے ۔وہاں اجناس یا اسلحہ ذخیرہ کیا جاتا۔ ریاست میں اشاعت اسلام روکنے کی خاطر حکومت نے یہ قانون بنا دیا کہ اگر کوئی بت پرست (ہندو) مسلمان ہوجاتا تو وہ باپ دادا کی جائیداد سے وراثت میں کچھ نہ لے پاتا۔ لیکن کوئی مسلمان بت پرستی اختیار کرلیتا، تو اسے وراثت میں جائیداد پانے کا حق مل جاتا۔ اس قانون کے باوجود کوئی بھی ریاستی مسلمان اپنے دین سے مال و دولت کی خاطر تائب نہیں ہوا۔

ریاست کی انتظامیہ میں مسلمان نہ ہونے کے برابر تھے۔ کسی مسلمان کو بھرتی کیا جاتا، تو اسے معمولی ملازمت ہی ملتی۔ معمولی جرائم پر مسلمانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا۔ حتیٰ کہ عدالتوں سے بھی انہیں انصاف نہ ملتا۔ 1920ء کے عشرے تک ریاست میں یہ قانون موجود تھا کہ جو مسلمان گائے ذبح کرتا، اسے سزائے موت دی جاتی۔ بعدازاں سزا کم کرکے سات برس کردی گئی۔

ہندو حکمرانوں نے مسلم رعایا کی حالت زار تبدیل اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ انگریز حکومت نے 1941ء میں پورے ہندوستان میں مردم شماری کرائی تھی۔ اس کی رپورٹ میں درج ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں ’’93.4 فیصد‘‘ آبادی ناخواندہ ہے۔1940ء تک ریاست کے ہر چھیاسٹھ مربع مل علاقے میں لڑکوں کا صرف ایک سکول تھا۔ چار سو سڑسٹھ مربع میل علاقے میں لڑکیوں کا صرف ایک سکول بنایا گیا جبکہ پوری ریاست میں صرف ایک کالج قائم تھا۔ ڈوگرا حکومت نے جان بوجھ کر ریاست میں علم و تعلیم دشمن ماحول بنائے رکھا تاکہ مسلم آبادی جہالت کی زنجیروں میں جکڑی رہے اور ترقی نہ کرسکے۔

برطانیہ کا مشہور مورخ الیسٹر لیمب اپنی کتاب ’’Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990‘‘ میں لکھتا ہے ’’ریاست جموں و کشمیر کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلم اکثریت سے تعصب برتا جاتا حتیٰ کہ ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے جن سے واضح طور پر ہندو فائدے میں رہتے۔ ریاستی انتظامیہ کے ہر شعبے میں برہمن پنڈت چھائے ہوئے تھے جو کرپٹ اور لالچی تھے۔ ریاست میں اسلحے کا لائسنس صرف ہندو حاصل کرسکتے تھے۔ کوئی مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی نہ کیا جہاں اعلیٰ عہدے صرف برہمن اور کھشتری ذاتوں کو ملتے تھے۔‘‘

الیسٹر لیمب مزید لکھتا ہے ’’1927ء میں بنگالی برہمن سرکاری افسر، البیون راج کمار بینرجی کو وزیراعظم جموں و کشمیر بنایا گیا۔ یہ ڈوگرا راج کی تاریخ میں واحد وزیراعظم ہے جس نے حکومتی مظالم کے خلاف بطور احتجاج 1929ء میں استعفیٰ دے دیا۔ اس نے استعفیٰ دیتے ہوئے لکھا ’’حکومت نے دانستہ ریاست میں مسلمان قوم کو ناخواندہ اور غریب رکھا ہے۔ ریاستی انتظامیہ ان سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ مسلمان غربت کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت اور عوام کے مابین کوئی رابطہ نہیں۔‘‘

پریم ناتھ بزاز اپنی کتاب ’’Inside Kashmir ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’وادی کشمیر کے باشندے ڈوگرا راجا کو اجنبی سمجھتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈوگرا کشمیر کو مفتوحہ علاقے قرار دیتے ۔ جموں ان کا حقیقی دیس تھا۔ اسی لیے نے ریاست میں ایسا انتظامیہ ڈھانچا کھڑا کیا جس میں وہ آقا بن گئے جبکہ کشمیری باشندے غلام۔ خاص طور پر مسلمان عوام کی حالت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت چیتھڑوں میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اکثر کا لباس صحیح طرح ستربھی ڈھک نہیں پاتا۔ وہ حلیے سے سرکاری خزانہ بھرنے والے کسان یا مزدور نہیں کوئی فقیر دکھائی دیتے۔ کشمیری کسان موسم گرما کے چھ ماہ کھیتوں اور باغات میں محنت مشقت کرتا ہے تاکہ حکومت کو ٹیکس، سرکاری افسروں کو رشوت اور سود خور کو سود دے سکے۔ کسانوں کی اکثریت زمین داروں کی غلام ہے۔ محنت مشقت کے بدلے انہیں جو فصل ملتی ہے، وہ تین ماہ بہ مشکل چلتی ہے۔ پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انہیں کوئی اور کام کرکے کمائی کرنا پڑتی ہے۔ تمام کشمیری مسلمان کرپٹ اور ظالم حکومت کی جلائی آگ میں جھلس رہے ہیں۔‘‘

جموں کا قتل عام

1947 میں تقسیم ہند کے وقت جموں میں بھی ’’61 فیصد‘‘ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ گویا ریاست میں جموں کا علاقہ بھی مسلم اکثریتی تھا۔ جلد ہی مہاراجا اور ہندو انتہا پسند جماعت، آر ایس ایس کے لیڈروں نے ملی بھگت سے جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کرادی۔ ریاستی پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے نہتے، غریب اور بے بس مسلمان پر پے در پے حملے کیے۔ اس قتل عام کا صرف ایک مقصد تھا… یہ کہ جموں میں مسلم اکثریت ختم کردی جائے تاکہ وہ قانوناً پاکستان میں شامل نہیں ہوسکے۔

16 جنوری 1948ء کو مشہور طیوریات اور لکھاری، ہوریس الیگزینڈر نے برطانوی ہفتہ وار میگزین’’ اسپیکٹر‘‘ (The Spectator) میں ایک مضمون لکھا۔ ہوریس الیگزنڈر پرندوں کا مطالعہ کرنے ریاست جموں و کشمیر جاتا رہتا تھا۔ وہاں مسلمانان جموں کے قتل عام نے اسے حواس باختہ کردیا۔ ہوریس نے اپنے مضمون میں لکھا کہ جموں میں دو لاکھ مسلمان مار دیئے گئے۔ 10 اگست 1948ء کو برطانوی اخبار دی ٹائمز نے جموں میں قتل عام پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ ایک سابق ریاستی آئی سی ایس (انڈین سول سروس) افسر نے تیار کی تھی۔ اس کے مطابق جموں میں نہایت منظم طریقے سے دو لاکھ سینتیس ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے۔ بہت سے مسلمان پاکستان ہجرت کرگئے۔ چناں چہ دسمبر 1947ء تک جموں میں مسلمانوں کی تعداد صرف ’’38 فیصد‘‘ رہ گئی اور وہ اکثریت میں نہیں رہے۔

5 مارچ 1948ء کو شیخ عبداللہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم بن گئے۔ یہ 1820ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ کسی اعلیٰ ریاستی عہدے پر ایک مسلمان کو تعینات کیا گیا۔ اگرچہ ہری سنگھ اور پھر اس کا بیٹا، کرن سنگھ مہاراجا کی حیثیت سے برقرار رہے لیکن اب حکومت میں مسلمان بھی شریک کار بن گئے۔ اس تبدیلی کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ اب ہندو انتظامیہ کھل کر مسلم عوام پر ظلم و ستم نہیں کرسکتی تھی۔ شیخ عبداللہ حکومت رفتہ رفتہ آبادی میں تناسب کے لحاظ سے کشمیری مسلمانوں کو ملازمتیں دینے لگی۔ زمینوں کے مالکانہ حقوق مسلم کسانوں کو مل گئے۔ اس سے مسلم علاقوں میں خوف و ہراس کم ہوا اور کشمیری مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگیا۔

شیخ عبداللہ ریاست کو آزاد و خودمختار مملکت بنانا چاہتے تھے۔ اس اقدام سے ان کے سدا وزیراعظم رہنے کا خواب بھی پورا ہوجاتا۔ تاہم بھارتی حکمران طبقہ اب جموں و کشمیر چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں تھا۔ چناں چہ اگست 1953ء میں شیخ عبداللہ کو باغی قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ اب ریاست پر قبضہ کرنے کی خاطر بھارتی حکمران رفتہ رفتہ قوانین نافذ کرنے لگے۔ مقصد یہ تھاکہ ریاست کو آئینی و قانونی طور پر بھارت کے دائرکار میں شامل کردیا جائے۔

ریاست کا  الیکشن 1987ء

بھارتی حکومت کے مسلمان کشمیری ایجنٹ ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کرنے لگے۔ ان کی ذمے داری تھی کہ وہ بھارتی حکومت کے احکامات خاموشی سے بجا لاتے رہیں۔ تاہم مسلم اکثریتی علاقوں کے خصوصاً شہروں میں تعلیم عام ہونے سے کشمیریوں میں اس شعور نے جنم لیا کہ ہندو بھارتی حکمران ان پر حکومت کررہے ہیں اور وہ کشمیری مسلمانوں کے نہیں اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ چناں چہ ریاست کو بھارتی حکمران طبقے کے بالادست اثر آزاد کرانے کی سوچ نے جنم لیا۔ اسی سوچ نے 1987ء کے ریاستی الیکشن میں عملی جامہ پہن ڈالا۔

اس الیکشن میں بھارتی حکمران طبقے کی مخالف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد ’’ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ اس اتحاد کے مقاصد یہ تھے کہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس مل کر مسلم علاقوں میں جو لادینیت اور فحاشی پھیلا رہے ہیں ،اسے روکا جائے۔مدعا یہ تھا کہ کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو تحفظ دیا جائے۔ یہ اتحاد برسراقتدار آکر ریاستی حکومت سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ کم از کم وادی کشمیرمیں شریعت نافذ کرنے کا بھی متمنی تھا۔

مسلم یونائیٹڈ فرنٹ نے ریاستی اسمبلی کی 76 نشستوں میں سے 43 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ جلد ہی پوری ریاست میں یہ تاثر پھیل گیا کہ مسلم فرنٹ ساری نشستیں جیت جائے گا۔ مسلم علاقوں میں فرنٹ کی مقبولیت تیزی سے بڑھ  رہی تھی۔ اس صورت حال نے بھارتی حکمران طبقے میں کھلبلی مچادی۔ مسلم فرنٹ علی الاعلان بھارت کا مخالف تھا۔ بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ اگر فرنٹ کے سارے امیدوار جیت گئے تو ریاستی اسمبلی میں انہیں اکثریت حاصل ہوجاتی۔ وہ پھر ریاست جموں و کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا بل بھی اسمبلی میں منظور کراسکتے تھے۔یوں اس امکان نے جنم لیاکہ مسلم فرنٹ کی کامیابی سے ریاست بھارت کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔

مسلم فرنٹ کی کامیابی روکنے کے لیے فیصلہ ہوا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے بیشتر امدواروں کو ہر جائز و ناجائز طریقوں سے کامیاب کرایا جائے گا۔ چناں چہ 23 مارچ 1987ء کو الیکشن ہوا تو اس دن ریاستی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کئی حلقوں میںمسلم فرنٹ کے امیدوار ہزارہا ووٹوں سے جیت رہے تھے مگر شام کو نیشنل کانفرنس کے امیدوار کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔ حکومتی سرپرستی میں کیے جانے والے ایسے کھلم کھلا فراڈ کی مثال نہیں ملتی۔ یوں بھارتی حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر کشمیری مسلمانوں کی تمناؤں کا خون کر ڈالا۔

ریاستی اسمبلی کی چھیتر میں سے تقریباً 55 نشستیں مسلم اکثریتی علاقوں میں  تھیں۔ ان میں سے 40 نیشنل کانفرنس کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ گیارہ پر بھارتی حکمران طبقے کی جماعت، کانگریس نے قبضہ کرلیا جبکہ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کو صرف چار نشستیں دی گئیں۔فرنٹ کی جماعتیں بھارتی حکمرانوں کی جانب سے ہوئی شرم ناک دھاندلی کے خلاف بجا طور پر احتجاجی مظاہرے لگیں۔ ریاستی حکومت نے بھارتی حکومت کی ایما پر فرنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو وسیع پیمانے پر گرفتار کرلیا۔

مسلح تحریک آزادی کا آٓغاز

کشمیر کی جدید تاریخ میں الیکشن 1987ء اہم باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے جب زور زبردستی سے کشمیری مسلمانوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے سے روکا تو وہ بھی گولی کا جواب گولی سے دینے پر مجبور ہوگئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل کشمیر پُر امن طریقے سے اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب طاقت کے نشے میں بدمست بھارتی حکمران آمر بن گئے اور انہوں نے کشمیری مسلمانوں کی تمناؤں کو فوجی بوٹ تلے کچل ڈالا، تو کشمیریوں نے بھی بندوق سنبھال لی۔ یوں ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کی آمریت اور استبدادیت کے خلاف اہل کشمیر کی مسلح تحریک کا آغاز ہوگیا۔

بھارت کے حکمران خود کو جمہوری اور انسانی حقوق کا محافظ کہتے ہیں۔اگر یہ حقیقت ہوتی تو  اہل کشمیر کے جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے بھارتی حکمران انہیں آزادی و خود مختاری دے دیتے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں نے ماضی کے جابر و ظالم بادشاہوں کا روپ دھار لیا۔ انہوں نے ریاست میں لاکھوں فوجی بھجوائے اور ہر پانچ چھ میل بعد ایک ٹارچر کیمپ بنادیا گیا۔ ارضی جنت کہلائی جانے والی پہاڑوں اور حسین مناظر کی بستی ظلم و درندگی کے استعارہ بن جانے والے کیمپوں سے داغدار ہوگئی۔

اب جو بھی حریت پسند کشمیری گرفتار ہوتے، انہیں ٹارچر کیمپوں میں لایا جانے لگا۔ تشدد کے مختلف طریقے اپنا کر ان کی ایسی بری حالت کردی جاتی کہ انہیں دیکھ کر ہر ذی حس انسان تھرا اٹھتا۔ مقصد یہی تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو اتنا زیادہ خوف و دہشت میں مبتلا کردیا جائے کہ وہ بھارت کے خلاف احتجاج نہ کرسکیں۔ ڈوگرا بادشاہوں کا ظالمانہ وتیرہ بھارتی حکمرانوں نے بھی اختیار کرلیا تاکہ کشمیری مسلمانوں کو بدستور اپنا مطیع بنا کر رکھا جائے۔

ٹارچر کے طریقے

پچھلے تیس برس میں کئی ٹارچر کیمپ بدنام زمانہ حیثیت حاصل کرچکے۔ ان کیمپوں میں ہری نواس، پاپا دوم، کارگو، کواسا ہاؤس، ریڈ 16، بادامی باغ کنٹونمنٹ، شریف آباد کیمپ، پاپا اول وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کیمپوں میں لاکھوں مجاہدین آزادی کشمیر کو اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فوج نے ٹارچر کے ایسے نادر و نایاب طریقے ایجاد کیے کہ انہیں دیکھ کے ظالم و جابر حکمران بھی ششدر رہ گئے ہوں گے۔

ریاست جموں و کشمیر میں دو سماجی تنظیمیں، Association of Parents of Disappeared Persons اور Jammu Kashmir Coalition of Civil Society  سرگرم عمل ہیں۔ان تنظیموں نے پچھلے دو سال کے دوران ایسے سیکڑوں کشمیریوں سے انٹرویو کے جنہیں ٹارچر کیمپوں میں  تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس تحقیق پر مبنی رپورٹ ’’ Torture: Indian State’s Instrument of Control in Indian-administered Jammu and Kashmir ‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی۔اس میں محقیقن نے ٹارچر کے ان لرزہ خیز طریقوں کو بیان کیا ہے جو بھارتی سیکورٹی فورسز کشمیری مجاہدین آزادی پر آزماتی ہیں:

٭برہنہ کرنا٭ڈنڈوں،فولادی سریوں یا چمڑے کی بیلٹوں سے مارنا٭رولر پھیرنا۔تشدد کے اس طریقے میں بھاری چوبی یا فولادی شہتیر مجاہد کی ٹانگوں پر چلایا جاتا ہے۔اکثر ظالم فوجی اس شہتیر پر بیٹھ جاتے ہیں٭پانی میں زبردستی سر ڈالے رکھنا جس میں مرچیں ملی ہوتی ہیں٭زخموں پر نمک چھڑکنا٭بجلی کے جھٹکے دینا٭چھت سے الٹا لٹکا دینا٭گرم سلاخوں سے جسم داغنا٭بدن پہ گرم پانی ڈالنا٭جلتی سگریٹ جسم پہ لگانا٭تنہائی میں قید رکھنا٭سونے نہ دینا٭جنسی اذیت کا نشانہ بنانا۔

آج کی مہذب ،تہذیب یافتہ،انسانی حقوق کی چیمین جدید دنیا میں صرف تین ممالک کی حکومتوں نے ماضی کے وحشیانہ ،انسانیت سوز اور حیوانی ادوار کی بھیانک یادیں تازہ کرتے ہوئے انسانوں پہ ٹارچر کی غیر انسانی روایت وسیع پیمانے پر برقرار رکھی ہے۔اول امریکی حکومت جس نے پوری دنیا میں ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں۔دوم بھارتی حکومت جس نے پورے بھارت خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ٹارچر کیمپ کھول رکھے ہیں۔سوم اسرائیلی حکومت جس کے ٹارچر کیمپوں میں فلسطینی مجاہدین پہ ظلم وستم کیا جاتا ہے۔ان تینوں حکومتوں کا نشانہ عموماً مسلمان بنتے ہیں۔طرفہ تماشا یہ کہ میڈیا میں ان تینوں حکومتوں کے بجائے مسلمان ہی دہشت گرد اور فسادی قرار پاتے ہیں…خرد کا نام جنوں پڑ گیا،جنوں کا خرد،جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!

بھارتی فوج کا لرزہ خیز ٹارچر اہل کشمیر کو عارضی طور پہ خوفزدہ کر سکتا ہے مگر یہ خوفناک پالیسی ہمیشہ کامیاب ثابت نہیں ہوتی۔5 اگست 2019ء  کے بعد اہل کشمیر پہ ظلم وتشدد کے نئے دور کا آغاز ہو چکا۔مگروہ دن قریب ہے جب ظلم حد سے بڑھنے پر کشمیری جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پوری قوت سے بھارتی غاصبوں سے نبردآزما ہوں گے۔تب بھارتی حکمرانوں کو اپنے ظلم وستم کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔انھیں اپنے ’’مہاتما‘‘گاندھی کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے:

’’مجھے زنجیروں میں جکڑ دو، ٹارچر کا نشانہ بناؤ، میرے بدن کو چیرپھاڑ دو مگر تم میری سوچ کو قید میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘

The post ٹارچر…اہل کشمیر کی آواز دبانے کا بھارتی ہتھیار appeared first on ایکسپریس اردو.


قلعہ احمد پور لمہ

$
0
0

صبح ہوتی ہے اور زندگی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں چہل پہل اور رونق لگ جاتی ہے۔

یہ احمدپور لمہ ہے، جو تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔ یہ سندھ کی سرحد سے پہلے صوبہ پنجاب کی آخری ٹاؤن کمیٹی ہے۔ اسی رونق والے قصبے میں شمال کی جانب ایک ویرانہ ہے۔ یہ قلعہ احمدپور لمہ ہے۔

دفاعی لحاظ سے یہ قلعہ دراوڑ کے بعد ریاست بہاولپور کا سب سے بڑا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ احمدپور لمہ ہے جو اب تباہ ہو چکا ہے۔ یہ بربادی کی ایک الم ناک داستان ہے۔

معدوم دریائے ہاکڑہ کی گمشدہ تہذیبوں کا امین یہ علاقہ دور قدیم سے دفاعی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے کی مستند تاریخی معلومات کے مطابق یہاں493 تک مشہور رائے حکم راں خاندان کے دیوا جی کا دور رہا جن کا دارالحکومت الور یا اروڑ تھا۔ یہ موجودہ روہڑی کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہاں کی بھربھری چٹانوں پر قلعے و رہائش گاہوں کے کھنڈرات ملتے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والے راجاسہرسن کے دور میں یہ اس کے زیرانتظام پانچ صوبوں میں الور کے تحت اہم دفاعی مقام کی حیثیت رکھتا تھا۔

احمدپورلمہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توروایات کے مطابق تقریباً 2200 سال قبل بدھ ازم کے ایک روحانی پیشوا جنہیں لامہ کہا جاتا ہے، نے یہاں سکونت اختیار کی۔ ان لامہ کا اصل نام نہیں ملتا۔ وہ وسطی ہندوستان سے یہاں آئے اور دریائے سندھ کے کنارے آباد اس جگہ رہنا شروع کیا۔ ان کے پیروکاروں نے اس آبادی کو لامہ کی رہائش کا نام دیا۔ اس سے پہلے اس جگہ کا کیا نام تھا؟ تاریخ میں اس پر تاریکی کے پردے ہیں۔ راجا داہر کے الور پر حکم رانی کے دور میں بھی یہی ناماستعمال ہونے کے شواہد ملتے ہیں، مگر بعد میں اس کا نام مقامی سرکش قبیلے لتا کی وجہ سے لتی واہن ہوا۔ یہاں دریائے سندھ کے کنارے درختوں اور سرکنڈوں کا وسیع جنگل تھا۔ پھر کئی صدیاں گزرنے کے بعد ایک مقامی راجا نے اپنے بیٹیکوڈھن مل کے نام پر اس کا نام دڑہ کوڈھن مل رکھا۔ اس کا جنوبی علاقہ روہی کی حدود کو چھوتا ہے۔

روایات کے مطابق712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے تسخیر ملتان کی مہم کی راہ میں حائل بھاٹیہ نامی مذہبی مقام پر حملہ کرنے کی ٹھانی اور حملے سیقبل لامہ میں اس کے قدیم قلعے میں ایک رات قیام کیا تھا۔ یہ وہی بھاٹیہ ہے جو موجودہ بھٹہ واہن ہے۔ احمدپور لمہ سیبھاٹیہ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسی بھاٹیہ پرراجا ادم جام بھی حکم راں رہا جس کا دور بہاولپور میں سلطنت عباسیہ کے ابتدائی دور سے محض چند سال قبل تک کا ہے۔ اسکے زیر انتظام سندھ کا ڈہرکی تک کا موجودہ علاقہ تھا اور یہاں کی رعایا ادم جام کی باج گزار تھی۔ تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے احمدپورلمہ کو خاص اہمیت رہی۔ ادم جام کا پایہ تخت بھاٹیہ مشہور رومانوی کردار سسی کی جائے پیدائش ہے اور بھاٹیہ یا بھٹہ واہن سسی کی جائے پیدائش کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ محمدبن قسم رات گزارنے کے بعدیہاں سے بھاٹیہ اور ملتان پر حملہ آور ہوا۔ سومرو اور سمہ خاندانوں کی حکم رانی میں بھی اسے تجارتی اہمیت حاصل رہی۔

عباسی خاندان کے ریاست بہاولپور پر حکم رانی کے دور میں سردار احمد خان عباسی کے نام پر اس کا نام احمدپور لمہ رکھا گیا۔ کچھ لوگ سرائیکی زبان میں لمہ مغرب کو کہتے ہیں، جب کہ درحقیقت یہ لمہ لامہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جسے سردار احمدخان عباسی کے دور تک بھی یاد رکھا گیا اور احمدپور کے ساتھ لمہ لگایا گیا۔

یہ وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی مرکز بنتا گیا۔ دریائے سندھ کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے یہاں کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ نواب بہاول خان عباسی سوئم کے دور میں قدیم و شکستہ قلعے کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ قلعے کی دیواروں کو گرا کر نئی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ پہلے سے موجود منجنیقوں کے ساتھتوپیں بھی رکھی گئیں اور فوجی رجمنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔1775میں سردار احمدخان نے شہر کے اردگرد کچی مٹی سے تیس فٹ اونچی دیوار تعمیر کروائی۔ قلعہ کی حدود کے لیے دیواریں اور نئے برج بنوائے۔ ایک نہر بھی کھدوائی جسے اپنا نام دیا جو آج بھی احمدواہ کے نام سے معروف ہے۔

قلعہ کی بنیادیں مٹی سے بنائی گئی تھیں، جب کہ اس کا کچھ حصہ پختہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی مٹی کی دیواروں کی چوڑائی اتنی تھی کہ اس پر بیک وقت دو گھڑسوار دوڑ سکتے تھے۔ اس شہر کے آٹھ دروازے تھے جن کو آہنی دروازوں سے تحفظ حاصل تھا۔ یہاں بارود خانہ بھی تھا۔ یہاں دریائے سندھ کی جانب لائٹ ٹاور بھی تھا جو دریائی مسافروں کی منازل کی جانب راہ نمائی کرتا تھا۔

یہاں عمائدین ریاست بہاولپور اور انگریز سرکار کے اعلٰی حکام بھی رہائش پذیر ہوتے تھے۔قلعے کے پختہ حصے کو ریسٹ ہاؤس کا درجہ دیا گیا۔ تین منزلہ ریسٹ ہاؤس فن تعمیر کا شاہ کار تھا، جسے اب بھی بیرونی دیواروں سے جانچا جاسکتا ہے۔ سندھ کا سرحدی شہر ہونے کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ مبینہ طور پرانگریز سرکار نے یہاں پھانسی گھاٹ بھی بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان سے انگریز سرکار کے مخالفین کو یہاں لاکر خفیہ طور پر موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ 1868 میں یہاں پولیس اسٹیشن قائم کردیا گیا، جو چند سال قبل شہر کے مشرقیحصے میں منتقل ہو گیا۔ اب یہ کھنڈر ہے۔

اس کی دیواریں ٹوٹ چکی ہیں۔ اس کی چھتوں کا سامان غائب ہے اور یہ بالکل تباہ ہو چکا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کی اوپر کی دونوں منزلیں گر چکی ہیں۔ پختہ دیواریں موجود ہیںجو بتدریج ختم ہورہی ہیں۔ قلعہ بدترین حالت میں ہے۔ اس کی زمین بوس دیواروں کی مٹی تک لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ قلعے کا لائٹ ٹاور قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل منہدم ہوگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزسرکار کے دور میں یہاں ایک زیرزمین سرنگ بھی بنائی گئی تھی اور رازداری کے ساتھ حکومت مخالف حریت پسندوں کو دریائے سندھ کے راستے فوراً اسی سرنگ کے ذریعے لایا جاتا تھا۔ اس سرنگ کا منہ دریائے سندھ کے کنارے پر تھا۔ بارشوں کے پانی کا نکاس نہ ہونے کیوجہ سے یہ زیرزمین سرنگ بھی بیٹھ گئی، جب کہ پھانسی گھاٹ کو 1940 کے لگ بھگ منہدم کردیا گیا تھا۔ قلعے کے چاروںبرج درست حالت میںتھے۔

قلعے کی فصیل 1970 کے اوائل تک مکمل حالت میں تھی۔ پھر شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔ 18 نومبر 1935 کو والیٔ ریاست بہاولپور نواب صادق محمد خان خامس عباسی نے صادق آباد کے نام سے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی، جو اس سے پہلیایک بستی تھی۔ اسے صادق ورند نامی مقامی زمیندار کے نام پر صادق آباد کا نام دیا گیا۔

یہاں ریلوے لائن موجود تھی اور1870 تک احمدپورلمہتحصیل کا درجہ رکھتا تھا۔ میونسپل اور منصفی کی عدالتیں بھی قائم تھیں۔ بازار نسبتاً تنگ جب کہ گلیاں کشادہ تھیںاور روزمرہ اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے بازاروں میں شام گئے تک رونق رہتی تھی۔ کھنڈرات بوسیدہ و کہنہ تاریخی عمارتوں کے شہراحدپورلمہ کو ریاست بہاولپور کے بھی پُررونق اور اہم شہر کی حیثیت حاصل رہی۔ 17 اپریل 1988 تک کینائب منصفی کی عدالت کو 1905 میں نائب منصفی عدالت سے منصفی کے درجے پر ترقی دے دی گئی۔ احمدپور لمہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر دور میں موجودہ صادق آباد چوںکہ ایک بستی تھی ریلوے اسٹیشن کی موجودگی کی وجہ سے ریاستی حکام اور عوام آمدورفت کے لیے یہی اسٹیشن استعمال کیا کرتے۔

1939 میں احمدپورلمہ کا تحصیل مقام کا درجہ ختم کر کے صادق آباد کو تحصیل بنادیا گیا۔ اس کی اہمیت بتدریج کم ہوتی گئی اور اس کے اثراتاس کے واحد قلعے پر بھی پڑے۔ عدم توجہی اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے قلعے کے حصے گرتے رہے۔ پختہ اینٹیں اٹھا لی گئیں۔ پولیس اسٹیشن جب تک قلعے میں رہا اسی مخصوص حصے کی نگہداشت ہوتی رہی جب تک یہاںپولیس اسٹیشن قائم تھا قلعے کی شکستگی کا سفر سست رہا۔ مگر پولیس اسٹیشن کے منتقل ہوتے ہی سب کچھ گویا ختم ہوگیا۔ پہلے پہل قلعے کے بالمقابل ٹنکی گراؤنڈ کو کوڑے کا مرکز بنایا گیا۔ شہر بھر کا کوڑا کچرا یہاں ڈالا جانے لگا اور اس خوب صورت سرسبز گراؤنڈکو کوڑے سے بھر دیا گیا۔

بعدازاں شہر بھر کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے والی واحدواٹر سپلائی ٹنکی کو ہی غیرفعال کرکے اس کے پائپ تک اکھڑوا لیے گئے۔ اس کے پمپنگ اسٹیشن کو کوڑے میں دفن کر دیا گیا۔ اور پھر جب اس پر بھی خاموشی رہی تو اب قلعے کو شہر کے کچرے سے بسانے کی کوشش جاری ہے۔

اس وقت ان کھنڈرات میں کوڑا کرکٹ کی بہتات ہورہی ہے اور یہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت شہری نہیں ڈال رہے بلکہ مقامی بلدیاتی انتظامیہ نے شکستہ وتباہ شدہ قلعے کی زمین کو کچرے کے لیے چُن لیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مقامی انتظامیہ نے اب اس قلعے کے کھنڈرات میں شہر بھر کی گندگی ڈالنا شروع کردی ہے۔ زمینی حقائق اور تاریخ سے نابلد مقامی انتظامیہ اس تاریخی ورثے کو برباد کررہی ہے۔

یہ قدیم تاریخی قلعہ کھنڈر بن چکا ہے اور اس کو گندگی سے دفن کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ یہ مکھیوں اور مچھروں کی افزائش کا گھر ہے۔ یہ گندگی کا شاہکار ہے۔ جگہ جگہ گندگی اور پلاسٹک بیگ کی آمیزش نے تباہی کا سفر بڑھا دیا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر جانوروں کی آلائشوں اور زہریلی گیسز کی وجہ سے شدید تعفن رہتا ہے۔ایسی بربادی تو شاید دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔ یہ کوڑے اور گندگی کے ڈھیر اس قلعے کے کھنڈرات کو تیزی سے تباہ کررہے ہیں۔ ہمارا ورثہ بہت تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ یہ بدانتظامی کی ایک بھیانک مثال ہے۔ مقامی سیاسی نمائندے اس معاملے میںنااہل اور بے پرواہ ہیں۔ اس قومی ورثے کو محفوظ کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے مگر حکومت کی ترجیحات میں شاید یہ شامل نہیں۔ مقامی انتظامیہ بھی شاید یہی چاہتی ہے کہ کھنڈرات کو کوڑے کے ڈھیر میں دفن کردیا جائے، تا کہ آنے والی نسلیں کوڑا ہٹا کر قلعے کے کھنڈرات دیکھ سکیں۔

 

The post قلعہ احمد پور لمہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر ’’سہیل ایاز‘‘ کل اسکول کھول لے؟

$
0
0

بچوں سے زیادتی اور اس درندگی کی وڈیو بنانے والے سہیل ایاز کی گرفتاری کی خبر صرف ایک خبر نہیں، اس میں ہماری بے خبری، بے حسی اور بچوں کے تحفظ سے بے اعتنائی کی پوری کہانی چھپی ہے۔

راولپنڈی سے گرفتار ہونے سہیل ایاز کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کی فحش وڈیوز بنانے والے ایک گروہ کا سرغنہ ہے اور بچوں سے زیادتی کی وڈیوز براہ راست ’’ڈارک ویب‘‘ پر لاتا رہا ہے۔ اس پر تیس بچوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کا الزام ہے۔ قانونی زبان میں ابھی وہ ’’مشکوک‘‘ ہے، لیکن اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ ایک سیاہ ماضی رکھتا ہے، جس کی تفصیل خبروں میں آچکی ہے کہ سہیل ایاز برطانیہ میں بچوں سے زیادتی اور اس غلیظ عمل کی وڈیو بنانے کے الزام میں برطانیہ میں قید کاٹنے کے بعد دس سال قبل ملک بدر کردیا گیا تھا۔

یہ شخص برطانیہ میں بچوں کو تحفظ کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے ’’سیو دی چلڈرن‘‘ سے وابستہ تھا، جہاں وہ اپنا مکروہ کھیل کھیلتا رہا۔ گرفتاری کے بعد اس کے لندن میں واقع گھر سے ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے زیادتی اور ان سے ہوس ناکی کرنے کے عمل کی تصاویر برآمد ہوئی تھیں، جن میں سے کچھ تصاویر۔۔۔صرف چھے (6) ماہ کے بچوں کی تھیں۔۔۔! کچھ تصاویر میں خوف زدہ، کرب اور تکلیف سے تڑپتے معصوم بچے بندھے ہوئے تھے یا ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ سہیل ایاز نے اعتراف کیا تھا کہ یہ تصاویر درندگی کے 397 واقعات کی ہیں۔ اعترافی بیان کے مطابق اس نے بچوں سے متعلق ادارے میں ملازمت کی ہی اس لیے تھی کہ وہ بے آسرا بچوں تک رسائی حاصل کرسکے۔ عدالت نے 2009میں اسے چار سال قید رکھنے کی سزا سُنائی اور سزا پوری ہونے کے بعد اسے برطانیہ سے نکال دیا گیا۔

اپنے کرتوتوں سے ملک کا نام ’’روشن‘‘ کرکے واپس آنے والے سہیل ایاز کو یہاں خیبرپختونخوا کے گورننس اینڈپالیسی پروجیکٹ میں کنسلٹنٹ کی ملازمت مل گئی اور تنخواہ تین لاکھ روپے ماہ وار قرار پائی، باقی مراعات الگ سے۔

فرض کیجیے سہیل ایاز مشکوک سے مجرم تک کا سفر طے کرکے بچوں سے زیادتی کے الزام میں سزا پاتا ہے، پھر چند سال بعد رہا ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ کوئی اسکول کھولتا ہے، بچوں کے لیے کوئی تربیتی مرکز قائم کرتا ہے، یتیم خانہ بنانے کی ٹھانتا ہے، ڈے کیئر سینٹر بناتا ہے یا بچوں سے متعلق کسی تنظیم یا ادارے کا قیام عمل میں لاتا ہے تو ہمارے ملک میں کون سا قانون ہے جو اسے روک پائے؟

چلیے وہ اپنی شیطانیت کے لیے کسی ذریعۂ معاش اور خدمت خلق کا سہارا نہیں لیتا، تاہم یہ بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سزایاب ہونے کی صورت میں (سزا نہیں ہوتی تو اپنا ماضی سامنے آنے کے باعث) وہ اس شہر میں نہیں رہے گا جہاں کتنے ہی بچوں کی زندگیاں کچل چکا ہے اور جہاں قدم قدم پر بدنامی اس کا سایہ بنی رہے گی، گویا اس کا اگلا مسکن میرا شہر بھی ہوسکتا ہے آپ کا شہر بھی، میرا محلہ بھی، آپ کا محلہ بھی، میرا پڑوس بھی آپ کا پڑوس بھی۔ اتنا ہی نہیں۔ وہ اپنی پہچان چھپاتے ہوئے ٹیوشن پڑھانے کا پیشہ اپنالے، کسی اسکول میں ملازمت کرلے یا بچوں سے متعلق کسی بھی ادارے سے وابستہ ہوجائے، کسے پتا چلے گا کہ کتنے ہی معصوم بچے ایک عفریت کے پنجوں کی دسترس میں ہیں؟

یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں، ایسے کتنے ہی درندے ہمارے بچوں کے ارد گرد موجود ہیں جو بچوں سے زیادتی کے جرم کی سزا پاکر رہا ہوئے اور اب کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ان کے آس پاس رہتے بستے زندگی کرتے افراد میں سے کوئی ان کے پس منظر اور سزا کے بارے میں نہیں جانتا۔ بچوں سے زیادتی کا شیطانی فعل قتل، چوری، ڈاکے، راہ زنی، بدعنوانی جیسا کوئی جرم نہیں، ایسے واقعات ایک خاص ذہنی رجحان کی پیداوار ہوتے ہیں۔

قتل فوری اشتعال کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور انتقامی کارروائی بھی، ڈاکا، چوری اور راہ زنی کی واردات کسی مجبوری کا شاخسانہ ہوسکتی ہے، لیکن جنسی زیادتی وہ بھی بچوں سے! اس کا کوئی جواز دینا ممکن ہے؟ اس عمل کو تو درندگی کہنا بھی درندوں کی توہین ہے کیوں کہ درندے اپنی بھوک کی جبلت کے تحت کم زور جانوروں کے بچوں کو چیرپھاڑ تو دیتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سُنا یا دیکھا کہ کسی بھی جانور نے اپنی نوع کے کسی بچے سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو؟ حیرت ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزائے موت کیوں مقرر نہیں۔ سزائے موت تو رہی دور کی بات، مگر ہمارے ملک میں تو وہ سادہ سے قوانین بھی موجود نہیں جو ان بھیڑیوں سے بچوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

مختلف ممالک میں بچوں سے زیادتی کا ارتکاب کرکے سزا پانے والوں یعنی جنسی مجرم (Sex offender) کی شناخت اور ان سے بچوں کو بچائے رکھنے کے لیے ’’سیکس افینڈر رجسٹریشن‘‘ کا قانون رائج ہے، جس کے تحت جنسی مجرموں کو لمبے عرصے تک یا تاحیات کچھ پابندیوں اور قواعدوضوابط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکس افینڈر رجسٹریشن دراصل ایسی فہرست کا نام ہے جس میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔ رجسٹریشن کا یہ سلسلہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی موجود ہے۔

بی بی سی کی ویب سائٹ پر آنے والی کریم مغل اور دانش حُسین  کی تحریر کردہ رپورٹ کے مطابق ’’برطانیہ میں 2003 میں پاس ہونے والے قانون کے تحت ’وائلنٹ اینڈ سیکس افینڈرز رجسٹر‘ رکھا جاتا ہے جس میں ہر اس شخص کا نام درج کیا جاتا ہے جو جنس سے متعلق کسی بھی نوعیت کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔ اگر کسی شخص کو جنس سے متعلقہ جرم میں چھے ماہ یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوتی ہے تو اس کا نام رجسٹر میں اگلے دس برس تک کے لیے درج کرلیا جاتا ہے اور اگر سزا 30 ماہ سے زائد ہے تو ایسے مجرم کا نام غیرمعینہ مدت تک کے لیے رجسٹر میں درج رہتا ہے۔

ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کے تحت عوام کو اس رجسٹر تک براہ راست رسائی نہیں ہوتی۔ تاہم معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص پولیس سے کسی مشتبہ شخص کے حوالے سے معلومات لے سکتا ہے کہ آیا اس کا نام رجسٹر میں موجود ہے یا نہیں۔‘‘

برطانیہ میں جنسی مجرم کے طور پر رجسٹرڈ کوئی شخص قانون، طب، تدریس اور نرسنگ کے شعبوں میں ملازمت حاصل نہیں کرسکتا۔ نہ وہ سماجی بہبود کا کوئی کام کر سکتا ہے۔ بعض اوقات برطانوی پولیس جنسی جرائم کی سزا پاکر رہا ہونے والوں پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی جنسی مجرم کے کمپیوٹر میں مخصوص سافٹ ویئر انسٹال کردیا جاتا ہے، جس کی مدد سے اس جنسی مجرم کی طرف سے انٹرنیٹ پر کسی غیرقانونی مواد کی تلاش یا اسے دیکھنے کی صورت میں پولیس فوری مطلع ہوجاتی ہے۔

جنسی مجرم کی رجسٹریشن اور نوٹیفکیشن سسٹم گذشتہ بیس سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے۔ یہ سلسلہ 1994میں امریکا سے شروع ہوا، جسے کے بعد سے برطانیہ کے علاوہ کئی ملک جنسی مجرموں کے اندراج کا نظام اپنا چکے ہیں۔ یہ اندراج دیگر مجرموں کے کوائف جمع کرنے یعنی ’’کریمنل ہسٹری ریکارڈ انفارمیشن‘‘ کے مماثل ہوتا ہے۔

امریکا کی تمام ریاستوں میں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن رائج ہے۔ یہ اندراج ویب سائٹس کی صورت میں عوام کے لیے قابل رسائی ہے۔ تاہم کچھ کچھ جنسی مجرموں کا ریکارڈ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جنسی مجرموں سے متعلق درج کی جانے والی معلومات میں نام، پتا، جائے روزگار، ان کے جسم پر موجود نشانات، ٹیٹوز، تصویر، زیرملکیت گاڑی کی تفصیلات اور فنگرپرنٹس شامل ہیں۔

اس کے ساتھ جنسی مجرموں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عاید ہیں، جن میں کسی جگہ بلاجواز وقت گزارنے یا پائے جانے پر ممانعت، مخصوص علاقے میں رہنے اور کام کرنے پر پابندی جو بعض اوقات پورے پورے شہر بھی ہوسکتے ہیں، اور جنسی مجرموں کے لیے مختص جگہوں پر انھیں بالجبر رکھنا شامل ہیں۔ امریکا میں جنسی مجرموں کے لیے ایسی ہی مختص ایک جگہ Julia Tuttle Causeway sex offender colony ہے۔ یہ میامی شہر کی آبادی سے باہر شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ کالونی جنسی مجرموں سے بچوں کو بچانے کے لیے کئی قوانین کے خالق رون بوک نے قائم کی تھی۔ ان قوانین کے تحت جنسی جرم کے مرتکب افراد کا اسکولوں، پارکس، بس اسٹاپس اور بے گھر افراد کی پناہ گاہوں کے نزدیک ڈھائی ہزار فٹ کی حدود میں رہنا ممنوع ہے۔

امریکا کی ریاستوں میں اس حوالے سے مختلف قوانین رائج ہیں۔ بعض ریاستوں میں کم خطرناک جنسی مجرموں کے کوائف عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ اکثر ریاستوں میں جنسی مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، جسے سامنے رکھتے ہوئے اور رجسٹریشن اور پابندیوں کا دورانیہ دس سال سے تاعمر ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف امریکا میں جنسی مجرموں کے کوائف عوام کے لیے قابل رسائی ہیں، رجسٹریشن کے قانون کے حامل دیگر ممالک میں یہ کوائف شہریوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، لیکن اِن ممالک میں بھی نہایت خطرناک مجرموں اور وہ سزایافتہ افراد جن کے دوبارہ اس جرم کے مرتکب ہونے کا اندیشہ ہو، ان کے کوائف عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔

امریکا کے کچھ علاقوں میں ویب سائٹ کے علاوہ اخبارات اور کمیونٹی نوٹیفکیشنز کے ذریعے بھی جنسی مجرموں کی بابت عوام کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ جنسی مجرم کس زمرے میں آتا ہے اگر وہ امریکا کی ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل ہوتا ہے تو اس کی رجسٹریشن اس ریاست میں کی جاتی ہے اور اس کے کوائف تک عوام کو رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔

رجسٹریشن کا دورانیہ ختم ہوجانے کے باوجود جنسی مجرموں کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کچھ امریکی ریاستوں کے قوانین کے مطابق ایسے مجرم کسی ایسی جگہ سے مخصوص فاصلے کی دوری پر رہنے کے پابند ہیں جہاں بچے اور خاندان اکھٹے ہوتے ہیں، جیسے اسکول، عبادت گاہیں، پارک، اسٹیڈیم، ہوائی اڈے، اپارٹمنٹس، شاپنگ مال، اہم ریٹیل اسٹورز، کالجوں کے کیمپس، مخصوص محلے۔ کچھ ریاستوں میں جنسی مجرم کا ووٹ دینا بھی ممنوع ہے اور آتشیں اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔

امریکی ریاست میسوری میں ہالووین کے تہوار کی سرگرمیوں میں رجسٹرڈ جنسی مجرم حصہ نہیں لے سکتے۔ امریکا میں منائے جانے والے تہوار ہالووین (Halloween) کے موقع پر لوگ ڈراؤنے روپ دھار کر مختلف مقامات پر مٹرگشت کرتے ہیں۔ گھر کے باہر ہیبت ناک شکلیں تراش کر ان میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ہی بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جا کر دستک دیتی اور ’’دھمکاکر‘‘ مٹھائی طلب کرتی ہیں۔ گھر کے مکین انھیں ٹافیاں وغیرہ دے کر رخصت کردیتے ہیں۔ ریاست میسوری میں جنسی مجرموں پر اس تہوار کی کسی بھی سرگرمی میں شرکت پر پابندی ہے۔ انھیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بچے سے ہالوین سے متعلق رابطہ نہیں کریں گے اور شام پانچ بجے سے رات ساڑھے دس بچے تک اپنے گھر میں رہیں گے۔ اس دوران وہ اپنے گھر کے باہر روشنیاں بند رکھیں گے اور لکھ کر لگائیں گے کہ ’’یہاں نہ مٹھائی ملے گی نہ خاطر ہوگی، اس گھر میں جنسی مجرم ہے۔‘‘

جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پابندیوں کے قوانین اس حقیقت کے پیش نظر بنائے گئے ہیں کہ ان کا جرم محض جرم نہیں بلکہ ایک خاص شیطانی رجحان اور مکروہ فطرت کے تحت کیا جانے والا عمل ہے، جسے وہ باربار دہراتے ہیں یا دہرا سکتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ معصوم بچوں کی شخصیت قتل کردینے والے ان موذی افراد کے لیے سزائے موت مقرر ہو، لیکن کم ازکم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ بچوں کا بچپن اور معصومیت کچلے جانے سے بچانے کی خاطر ضروری قوانین بنائے جائیں۔ پاکستان میں معاشرے، حکومتی اداروں اور قانون ساز اداروں میں بچوں کے مسائل پر سوچنا بچکانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصور کا خوف ناک اسکینڈل سامنے آنے اور (اعدادوشمار) بچوں سے ہر سال زیادتی کے واقعات کے باوجود ہمارے ہاں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔

دوسری طرف کوئی ایسا نظام کار بھی موجود نہیں جس سے پتا چل سکے کہ کسی ریاست سے ملک بدر ہوکر واپس آنے والے پاکستانی کو کس بنا پر نکالا گیا؟ سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ سہیل ایاز کے جیسے معاملے میں ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ وہ کسی (ڈیپورٹ کیے جانے والے) شخص کے جرائم کی بابت جان سکے۔ پاکستان اور برطانیہ ہوں یا دنیا کے کوئی بھی دیگر دو ممالک، کیا بچوں اور خواتین سے زیادتی اور اس عمل کی تصاویر اور وڈیوز فحش سائٹس پر لانے کا دھندا دہشت گردی سے کم سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کی معلومات کے باہمی تبادلے کی ضرورت محسوس نہ کی جائے؟ خاص طور پر اس وقت جب ایسا کوئی مجرم میزبان ملک سے اپنے آبائی وطن بھیجا جارہا ہو۔ دہشت گرد معصوم لوگوں کی زندگیوں سے ایک بار کھیلتے ہیں لیکن جنسی مجرم تو پھول سے بچوں کی زندگیوں میں ہمیشہ کے لیے اذیت، تذلیل اور کرب بھر دیتے ہیں۔ ایسی تکلیف کہ وہ روز جیتے روز مرتے ہیں۔

اگر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان جنسی مجرموں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کا نظام موجود ہوتا اور پاکستان میں ایسے مجرموں کی رجسٹریشن یا کم ازکم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ان کے کوائف کی موجودگی کا انتظام ہوتا تو سہیل ایاز جیسے شیطان کو مبینہ طور پر تیس بچوں کی زندگیاں جہنم بنانے سے روکا جاسکتا تھا۔ بچوں سے زیادتی کا معاملہ اب سادہ نہیں رہا، حقائق نے منکشف کردیا ہے کہ یہ سلسلہ ڈارک ویب سائٹس، پورنوگرافی، غلیظ مشغلے اور معصوم فرشتوں کے پر نوچ کر بیچنے جیسے کالے دھندے تک دراز ہے۔

کیا اب بھی ہمیں ہوش نہیں آئے گا؟ جب تک جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر پابندیوں کے لیے قانون سازی نہیں ہوتی اور ان قوانین کا مؤثر اطلاق نہیں ہوتا یہ درندے جانے کس کس مقام پر ہمارے بچوں کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ اگر رجسٹریشن اور پابندیوں کے بارے میں کسی کا خیال ہے کہ یہ ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی ہے، تو وہ اس تحریر کے شروع میں سہیل ایاز سے برآمد ہونے والی تصاویر سے متعلق سطریں پھر پڑھ لے۔۔۔اور بتائے کیا یہ دو ٹانگوں والی مخلوق انسان تو کیا جانور کہلانے کے بھی لائق ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر آئیے پاگل کُتوں، آدم خور بھیڑیوں اور زہر نسوں میں بھرتے سانپوں کو ضرر پہنچانے کے ہر عمل کو بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دلوانے کی جدوجہد کریں۔

The post اگر ’’سہیل ایاز‘‘ کل اسکول کھول لے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

اب کتّے بھی ’’مقدس‘‘ ہوا کریں گے۔۔۔؟

خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

ثمر بھائی بہت غصے میں تھے، کہنے لگے پہلے ہی کیا کم تھا کہ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ کہتے ہیں کتوں پر لکھ دیجیے، مگر ذرا ’کتوں‘ کو بچا کے۔۔۔!‘
ہم نے کہا ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں، ہر شریف آدمی کو ’’کتوں‘‘ سے بچ کے ہی رہنا چاہیے۔۔۔

وہ بولے کہ ’میں سچ مچ کے کتوں کی بات کر رہا ہوں۔‘ انہوں نے دنوں ہاتھوں کو پنجے کی شکل دے کر منہ سے کتے کی شبیہہ بنانے کی کوشش کی، پھر بولے:
’’پہلے میں بھی یہی سمجھا تھا کہ شاید ان کے ’کُتے‘ علامتی ہیں۔۔۔ تو میں نے کہا آپ بے فکر ہو جائیں، اپنی جان کسے پیاری نہیں، اس سماج میں برسوں سے قلم کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، ہمیشہ بہت بچ بچا کے لکھا ہے، کبھی کسی ’’کتے‘‘ کو ہم سے شکایت نہیں ہوئی مگر وہ تو یہی گلی والے اصلی کتوں کی بات کر ر ہے تھے!‘‘

ہم نے کہا ’’بھئی ’حقوق‘ کا دور دورہ ہے، جب ’سماجی کتے‘ سرِعام عوام کو کاٹ رہے ہیں، مار رہے ہیں، دھمکا رہے ہیں، گالم گلوچ کر رہے ہیں، قبضے کر رہے ہیں اور پھر ان کی دہشت بھی اتنی ہے کہ ہم ان کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں، تو ظاہر ہے اتنی بدنامی مول لینے کے بعد کیا ’حقیقی کتوں‘ کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے ’انسانی حقوق‘ کا عَلم بلند کریں۔۔۔؟‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو کہ ان کے شناختی کارڈ بھی بنوا دیں، پھر ملازمتوں میں ان کا کوٹا رکھیں۔۔۔؟ مجھے تو لگ رہا ہے کہ بہت جلد یہ پارلیمان میں نمائندگی سے لے کر اپنے علاحدہ صوبے کا مطالبہ بھی کر ہی ڈالیں گے۔۔۔!‘‘
ثمر بھائی نے گھورتے ہوئے کہا۔

’’الگ صوبے کی بات نہ کریں، کیوں کہ ملک کے طول وارض میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ’’کتے‘‘ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا ’ملک گیر‘ راج کسی ایک جگہ تک محدود ہو۔‘‘ میں نے ایک آنکھ میچتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے، میں ایک سنجیدہ بات کر رہا ہوں۔‘‘ ثمر بھائی خفا ہوئے، تو میں ان کی طرف ہمہ تن گوش ہوگیا، وہ بولے کہ رواں برس کراچی سمیت سندھ بھر میں کتوں کے کاٹنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں، بروقت ٹیکے نہ لگنے سے درجن بھر سے زائد اموات بھی ہو چکی ہیں، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ اس پر بھی ہم کتا مار مہم کی بات کریں، تو ’حیوانی حقوق‘ کے عَلم بردار شور مچاتے ہیں کہ ’کتے نہ مارو!‘ یعنی کتے ہم انسانوں کو مارتا رہے، کوئی پروا نہیں، لیکن اگر ہم اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے کتوں کو ماریں تو یہ غلط۔۔۔!
بھئی، اگر کتوں سے اتنی ہی ہم دردی ہے تو پہلے خود جا کر اِن سے مذاکرات کرلو۔۔۔ انہیں سمجھائو کہ اگر وہ ’جیو اور جینے دو‘ پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، تو جہاں ہم اتنے سارے ’’کتے‘‘ برداشت کر ہی رہے ہیں، تم بھی رہ لینا۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔۔!

یہ ’کتّے پسند‘ صرف حکومت پر لعن طعن کرتے ہیں کہ وہ ’سگ گزید‘ یعنی کتے کے کاٹنے کے ٹیکوں کا بندوبست کرے، یعنی بلاواسطہ وہ کتوں کے بھونکنے سے لے کر کاٹنے تک کے جملہ حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔۔۔ بس یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا۔۔۔!‘‘
ہم نے ثمر بھائی کو بے تکان بولتے رہنے دیا، وہ واقعی تپے ہوئے تھے، پھر ہمیں تاکید کرتے ہوئے وہ کہنے لگے:

’’تم ’خانہ پُری‘ میں ضرور یہ لکھ دینا کہ یہ ہمارا جگرا ہی ہے کہ ہم پہلے ہی کتنے ’’کتے‘‘ برداشت کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہم ابھی اتنے ’کتے‘ بھی نہیں ہوئے کہ گلی کے ’کتوں‘ کا خوف ناک ہوتا ہوا ’کتا پن‘ بھی چپ کیے سہے جاتے رہیں۔۔۔!‘‘
ہم نے اثبات میں سر ہلایا اور سوچنے لگے کہ ’خبر‘ کی تعریف کے مطابق کتا اگر انسان کو کاٹے تو خبر نہیں ہے، انسان اگر کتے کو کاٹ لے تو خبر ہے‘ لیکن اب تو کتے کا کاٹنا اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آئے روز ہی اس طرح کے واقعات خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔۔۔ لیکن حیرت ہے کہ ’کتے‘ (ہر قسم کے) تو باز نہیں آرہے، لیکن حکام شہریوں کے تحفظ کے لیے آخر کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟

۔۔۔

صدلفظی کتھا
حقیقت
رضوان طاہر مبین
’’ہجر پر گریہ کرنا تو سنا تھا۔۔۔
لیکن تم ہجر ختم ہونے پر رو رہے ہو۔۔۔؟‘‘
امر نے ثمر کی ڈبڈباتی پلکوں سے تنگ آکر کہا۔
’’میری کیفیت تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔‘‘
ثمر نے ایک سرد آہ کھینچتے ہوئے کہا۔
’ظاہر ہے، تم سمجھائو گے نہیں، تو کیسے سمجھوں گا۔۔۔!‘
امر تنک کر بولا۔
’میرے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں۔۔۔
اس لیے یہ ملنا، دوبارہ چھن جانے کے لیے ہے۔۔۔!
ثمر ٹھیرا اور پھر بولا:
جیسے زمین پر چت حریف پر غصہ نکالنے کے لیے پہلوان اسے دوبارہ اٹھاتا ہے۔۔۔
لیکن پھر دوبارہ زمین پر دے مارتا ہے۔۔۔!

۔۔۔

اپنے افکار زندہ رکھنے میںاپنا آپ کئی بار مرتا ہے۔۔۔!
سیدہ فاطمۃ الزہرہ، لاہور

کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا واقعی سعادت حسن منٹو کی یہ فکر ٹھیک تھی کہ برہنہ سچ بولو، شراب پیو، مقدموں میں کھڑے رہو اور چیخو کہ میں اْس سماج کو بے لباس کیا کروں، جو پہلے سے ہی ننگی ہے، اِس کو کپڑے پہنانا میرا کام نہیں!‘ منٹو نے یہ کیوں بولا کہ اس کو کپڑے پہنانا میرا کام نہیں؟ کیا وہ بھی میری طرح بڑوں سے سچ بول بول کر، بہتری کی تجاویز دے دے کر تھک گیا؟ کیا یہی فن کار کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی حالتِ زار پر مرثیہ نگاری کر کے مر جائے، کیوں کہ نظام تبدیل کرنے سے بہرحال یہ قلم کاری بہت آسان ہے۔۔۔!

مگر پھر سوچتی ہوں، منٹو نے کیوں سمجھا کہ وہ اس ذمہ داری سے بَری ہے؟ اگر کپڑے پہنانا فن کاروں کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ کیا منٹو نے یہ جذباتی جملہ بولا تھا، جو اِس وقت میری کیفیت ہے یا واقعی وہ ایسے ہی سوچتا تھا۔۔۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سوچنے والا انسان غلام قوموں میں ایک کرب میں مبتلا ہو تا ہے اور منٹو کا یہ جملہ تکلیف سے نکلا تھا!

تکلیف میں جذباتی بات منہ سے نکل ہی آتی ہے، مگر آج اگر منٹو سے بات کر سکتی تو اُسے کہتی، منٹو! میرے خیال میںکوئی بھی فن کار یا لکھاری اِس ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہو سکتا، کیوں کہ مجھے لگتا ہے وہ چور دروازہ ہے۔ کپڑے پہنانا ہمارا ہی کام ہے۔ لکھنے کا تحفہ اسی لیے عطا ہوا ہے کہ تکلیف کو قلم بند کر کے روح کو سکون مل سکے، کیوں کہ ’قوموں کی آزادی کا دارومدار لکھاری کے قلم پر ہے۔‘

اور منٹو! یہ بھی سوچتی ہوں کہ نئی بات سوچنا شاید اتنی بڑی بات نہیں، مگر اپنے تصورات اور خیالات کو مرنے نہ دینا، اپنا آپ کھونے نہ دینا، معاشرہ نیا سوچنے پہ سولی پہ لٹکا دے، پھر بھی نہ بھاگنا، فرار نہیں ڈھوننا اور معاشرے کو کپڑے پہنانے میں اپنا کردار ادا کرنا بہت بڑی بات ہے کہ اس میں اپنا آپ کئی کئی بار مرتا ہے۔

۔۔۔

’دلّی والے‘
ذائقہ نہیں ابھارسکتے تبھی وہ۔۔۔

مرسلہ: تحریم صبا، سعید منزل، کراچی

برصغیر کی مسلم برادری میں لذت کام و دہن میں کباب کا بہت بڑا مقام ہے، کراچی جو صرف ’چھوٹا پاکستان‘ ہی نہیں، بلکہ ’چھوٹا ہندوستان‘ بھی ہے، یہاں ہندوستان کے شہروں سے معروف کبابوں کی ایک دنیا ہے، دلی، میرٹھ اور بہار کے کباب سرِ شام کراچی کی فضا کو اشتہا انگیز خوش بو سے مہکاتے ہیں، مگر اتنے برس ہوگئے کبھی لکھنئو کے کباب نہ کہیں نظر آئے، نہ ان کا تذکرہ سنا، گویا لکھنئو والے کبابوں سے محروم ہیں! لکھنئو والے یہ تو کہتے سنے جاتے ہیں کہ دلی والے ذائقہ نہیں اْبھار سکتے، تو اپنے اس عیب کو تیز مرچوں میں چھپا دیتے ہیں، کھانا ہے تو لکھنئو کی نہاری اور بریانی کھائیے، جس میں مسالوں کی سُوں سُوں نہیں، بلکہ ذائقے کی واہ واہ ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ لکھنؤ والے بھی کباب بناتے ہیں اور بہت خوب بناتے ہیں، ’ٹنڈے کباب‘ دراصل شامی کباب کے قبیل کے ہیں، مگر صاحب ہیں خاصے کی چیز، کراچی میں ملنے والے شامی کباب مناسب طور پر سینکے ہوئے ہوں، تو سرخی مائل ہوتے ہیں اور زیادہ سینکے ہوئے ہوں تو کتھئی یا سیاہ۔ ٹنڈے کباب بھی خوب سینکے ہوئے ہوتے ہیں، مگر کراچی میں ملنے والے کبابوں کے مقابلے میں ان کی نزاکت و لذت کے تو کیا ہی کہنے، ہاتھ لگانے سے رواں رواں بکھر جاتا ہے اور ذائقہ تو اللہ کی رحمت۔ ایک پلیٹ میں چار کباب اور پراٹھا، چار کباب ختم کر دیے، پتا ہی نہ چلا، ساتھ میں نئے زمانے کا سالن تھا، یہ تو خیر چینی پکوان ہے، کچھ چکن شاسلک سے نزدیک تر۔ لکھنؤ والوں نے میٹھے میں زعفرانی کھیر پیش کی، جو واقعی زعفران کا تڑکا لیے ہوئے تھی، لکھنؤ کا جادو لذت کام و دہن میں بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

لکھنئو والے سیخ کباب بھی بناتے ہیں، اِدھر دلی کے سیخ کباب مشہور ہیں تو دوسری طرف سانبھل کے سیخ کباب کی بھی بہت شہرت ہے۔ لکھنئو کے ایک خانساماں کے بقول دلی والے نہاری سے آگے جاتے ہی کب ہیں، ہم نے ان سے کہا میاں دلی کے دھاگے والے کباب تم نے کھائے ہیں؟ کہنے لگے جو کباب کو بکھرنے سے بچانے کے لیے دھاگے باندھتے پھریں، وہ پکانا کیا جانے، ہم نے ان سے کہا آپ پاجامے میں ازار بند نہیں ڈالتے، سنبھالنے کے واسطے تو تڑپ کر بولے احرام میں کب ازار بند ہوتا ہے؟ ہم نے کہا مذہب کو درمیان میں مت گھسیٹیے، یہ بتائیے کہ کیرالہ کی پھولوں والی لنگی خوش نما یا لکھنئو کا چوڑی دار پاجاما؟ تو لاجواب ہوگئے مگر قائل نہ ہوئے۔

ہم نے ان سے کہا بھائی ہم دلی والے نہیں اس لیے ہمیں دلی کے کبابوں سے کیا لینا دینا، ہم تو گجرات کے ہیں اور ڈھوکرے کی سوغات رکھتے ہیں، ڈھوکرے کو کچھ کہا تو جدہ میں نقص امن کا خطرہ پیدا ہو جائے گا، تو ہنس دیے، آداب اور گرم جوش مصافحے کے ساتھ رخصت کیا۔

۔۔۔

محمد علی کی اسکرپٹ لکھنے کی سات لاکھ روپے کی پیش کش کیوں ٹھکرا ئی گئی؟

فیاض اعوان

سلیم احمد سے ملاقات ہوئی تو ادبی اور دینی نوعیت کے سوالات کے بعد میں نے ان سے یہ سوال بھی کیا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے اداکار محمد علی کی سات لاکھ کی پیش کش ٹھکرا دی تھی۔
سلیم احمد جو قبل ازیں میرے سوالات کے جوابات مزے مزے سے اپنے مخصوص انداز میں دے رہے تھے گویا ایک کرنٹ سا انہیں لگا۔ کیا تیزی تھی اور کیا طراری تھی مگر اب یکایک ٹھٹھک گئے، ٹھیرگئے۔ وہاں کچھ اور ادیب بھی موجود تھے۔ سلیم احمد کی آواز بلند ہوگئی۔ لہجہ بدل گیا۔ پہلو بدلا اور بولے۔

’’ فیاض اعوان صاحب! میں نے تو آپ سے کچھ نہیں کہا آپ نے ازخود سوال اٹھایا ہے۔ تو میں بتاتا ہوں کہ محمد علی صاحب کی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ لکھنے سے میں نے کیوں انکار کیا۔ محمد علی صاحب نے آپ سے جو کچھ فرمایا ہے بالکل درست فرمایا ہے۔ انہوں نے مجھے سات لاکھ کی آفر دی، مگر میں نے انکار کر دیا۔
(اس وقت سات لاکھ کی رقم موجودہ سات کروڑ سے بھی بالا تھی۔ احقر جس صحافتی ادارے میں تھا۔ ماہانہ 600 روپے تنخواہ تھی۔ جو جملہ ساتھی دوستوں سے زیادہ تھی۔ اندازہ کیجیے) محمد علی صاحب نے مجھ پر بہت زور دیا اصرار کیا، بہت دبائو ڈالا۔ مجھے ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچانے کی بات کی، مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نہیں مانا!

انہوں نے کہا ’’اب آپ کا سوال ہوگا کہ میں نے انکار کیوں کر دیا کیا مجھے پیسہ اچھا نہیں لگتا۔ کوئی رغبت نہ تھی۔ تو یہ بات نہیں تھی۔ پیسہ مجھے کل بھی اچھا لگتا تھا آج بھی لگتا ہے۔ پیسہ فیاض اعوان، کسے اچھا نہیں لگتا۔ معاشرے میں کون شخص ہے، جو پیسے کی اہمیت سے واقفیت نہیں رکھتا ہے۔ میں بھی رکھتا ہوں۔ اور آپ نے میرا گھر اور میرے بچوں کی حالت خود ملاحظہ کرلی ہے۔

اب آپ کیا یہ خیال فرمائیں گے کہ مجھے اپنے بچوں سے محبت نہیں ہے، تو یہ بات نہیں ہے۔ جیسے سب ماں باپ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور احساس رکھتے ہیں میرے لیے بھی میرے بچے اسی طرح سے ہیں، جب کہ آپ جانتے ہیں میرے پاس تو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کسی سے پوچھ لیجیے، بات یہ ہے کہ میں محمد علی صاحب کی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ لکھ سکتا تھا اور ہر کام کر سکتا تھا اور آپ واقف ہیں، میں کیسا لکھتا ہوں۔ میری فلم کی کہانی اور اسکرپٹ کیسا ہوتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں ایک عمر میں اپنی ترجیحات متعین کرنا پڑتی ہیں، چناں چہ میری ترجیحات میں کسی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ کی جگہ نہیں نکلتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنا وہ کام کرنا ہے، جو کرنا ہے اور میں کیا کام کرتا ہوں وہ آپ جانتے ہیں۔ آخر میں ایک انسان ہوں۔ ایک وقت میں دو کام نہیں ہو سکتے یا آپ پیسہ کمالیجیے یا آپ کام کرلیجیے۔ اگر آپ واقعتاً سنجیدہ کام یا اسلام اور پاکستان کے حوالے سے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پتّہ مارنا ہوگا۔ میں کیا اور میری ہستی کیا، مگر یہ مجھے کل بھی معلوم ہے۔

تو! بس یہ میرا جرم ہے اور وہ وجہ ہے جس کے سبب میں نے اداکار محمد علی کی خطیر رقم کی وہ پیش کش قبول کرنے سے انکارکر دیا تھا، حالاں کہ پیسہ جس قدر میری ضرورت تھی آج بھی ہے۔ وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔
اس آخری جملے اور الفاظ تک پہنچتے پہنچتے میں نے دیکھا۔ انہوں نے اپنا سر خم کر لیا تھا اور اپنی آنکھیں انتہائی حد تک نیچے کر لی تھیں۔ مبادا کہیں میں ان کی آنکھوں میں چھپی نمی یا آنسو چھلکتے نہ دیکھ لوں۔ جو انہوں نے بعدازاں کمال مہارت کے ساتھ اپنی آستین میں چھپالیے تھے۔ تو ان لمحات میں خود میری آنکھیں بھی برسنے لگیں۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

مقامی لوگ پیدل چل کر بھی راما فیسٹیول میں شرکت کیلئے پہنچتے ہیں

$
0
0

( قسط نمبر10)

گلگت بلتستان کا ایک ضلع استور ہے۔ جو گلگت سے کم و بیش ایک سو تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ استور کے ضلعی ہیڈکوارٹر پہنچنے کے لئے پہلے شاہراہ قراقرم پر سفر کرنا ہوتا ہے۔جو گلگت سے رائے کوٹ پل تک انتہائی شاندار طور پر حال ہی میں چین نے ازسر نو بنائی ہے۔ جگلوٹ اور بونجی سے آگے تھیلچی کے مقام پر ایک ذیلی سڑک استور کی جانب مڑتی ہے۔

دریائے سندھ پر بنے پختہ پُل کو پار کرنے کے بعد یہ سڑک دریائے استور کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جس کا تصور کرنا شاہراہ قراقرم کے سفر کے دوران ناممکن ہے۔5092مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلاہوا ضلع استور پہلے پہل ضلع دیامر کی ایک تحصیل تھی، جسے 2004 ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔

اس کے مغرب میں ضلع دیامر،شمال میں ضلع گلگت،مشرق میں ضلع سکردو اور جنوب میں صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کا ضلع نیلم واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 8500 فٹ ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ الف اعلان پاکستان کی ضلعی تعلیمی رینکنگ 2015ء کے مطابق ضلع استور پاکستان کے تعلیمی نقشے پر 148اضلاع میں 32ویں نمبر پر ہے۔ لیکن اگر بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ضلع148 اضلاع میں114ویں نمبر پر ہے۔

استور کے لوگ سنٹرل سپیریئر سروسز کے امتحان میں بھی گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے کہیں آگے ہیں۔ روزگار کے مواقع کی قلت اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ تھوڑا بہت میل جول رکھنے کی وجہ سے استور کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر سے جڑاہوا ہے۔کشمیر کے لوگ بھی تعلیم کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔

انہی تاریخی اور جغرافیائی حقائق اورکشمیر کے ساتھ قربت کی بنا پر ضلع استور میں تعلیم کو دی جانے والی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔استور کی تاریخ کا احوال کچھ یوں بیان کیاجاتا ہے کہ ایک ایرانی سردار غازی مکپون پہاڑوں کے ساتھ اپنی دلچسپی کی وجہ سے پھرتے پھراتے اس خطے میں جا نکلا۔ اس کی شادی سکردو کے حکمران خاندان میں ہوئی ۔اس شادی کے نتیجے میں اس کے چار بیٹے پیدا ہوئے جو اسکردو، استور،کھرمنگ اور روندو کی وادیوں کے حکمران بنے۔کئی صدیوں تک ان علاقوں میں اسی خاندان کی حکمرانی رہی۔

پھر آپس کی چپقلشوں اور اقتدار کے جھگڑوں کی وجہ سے اس حکمران خاندان کی گرفت کمزور پڑتی گئی یہاں تک کہ کشمیر کے حکمران ڈوگروں نے اٹھارویں صدی میں یہاں اپنا تسلط جمالیا۔ ڈوگروں اور بعد میں کشمیرکے حکمران بننے والوں سے لڑ کر آزادی حاصل کرنے اور پاکستان میں شامل ہونے والے گلگت بلتستان کے باشندے سیاسی اعتبار سے بہت بیدار مغز ہیں۔ لیکن غربت، وسائل پر چند بااثر خاندانوں کا قبضہ اور موسم کی شدت ایسے مسائل ہیں جن سے نبردآزما رہنا ان کی قسمت میں لکھا ہے۔

استور نامی قصبہ تو چالیس کلومیٹر کے بعد آجاتا ہے لیکن راستے بھر میں دریائے استور اپنی خوبصورتی، تیز رفتاری، جوش، تُندی اور گذرگاہ کی دل فریبی کے بنا پر آپ کو کسی اور طرف نظریں جمانے کا موقعہ نہیں دیتا۔ استور سے لے کر دریائے سندھ کا حصہ بننے تک یہ دریا اس قدراُترائی میں بہتا ہے کہ اگر اس پر ہر دس کلو میٹر کے بعد بند باندھ کر بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیم بنایا جائے۔

تو یقینا ہر ڈیم سے پانچ پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔دریا کا بہاؤانتہائی تنگ گھاٹیوں میں اس قدر نشیب میں ہے کہ ڈیم بنانے کے لئے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر بند باندھنے کی ضرورت نہیں۔ قدرتی طور پر دونوں اطراف کے بلند و بالا پہاڑ ڈیموں کی دیواروں کا کام دے سکتے ہیں۔ جبکہ بہاؤ رو کنے کے لئے کنکریٹ کی ایک مضبوط دیوار بند کا کام دے گی۔ اس راہ میں دریا کے کنارے کچھ زیادہ آبادیاں بھی نہیں ہیں کہ جنہیں دوبارہ بسانے پر بہت زیادہ خرچ اُٹھتا ہو۔ زیادہ تر بستیاں دریائے استورسے بہت بلندی پر ہیں اور دریا میں گرنے والے نالوں سے اُوپر آباد ہیں۔سڑک کا زیادہ تر حصہ بھی دریا سے اس قدر اونچائی پر ہے کہ ازسرنو تعمیر کئے جانے والے حصوں پر بہت بھاری رقم خرچ نہ ہوگی۔

استور کہنے کو تو ضلعی صدرمقام ہے لیکن اس کی سڑکیں، گلیاں، بازار، آبادی اور دیگر سہولیات کسی بھی اعتبار سے ضلعی صدر مقام سے لگا نہیں کھاتیں۔تنگ و تاریک سڑکیں، جنہیں پختہ کرنے والوں کی ہڈیاں بھی قبروں میں گل چکی ہوں گی اور ان کی مرمت کرنے والے ابھی پیدا ہی نہیں ہو سکے ہیں۔ کچی گلیاں، زمانہ قدیم کی پرانی وضع کی دکانیں،اور بے تحاشہ تجاوزات اگر استور کی خوبصورتی کو ماند رکھنے کے لئے ناکافی ہوں توبغیر منصوبہ بندی کے بننے والی مار کیٹیں، ہوٹل،گھر اور دکانیںباقی ماندہ کام بخوبی کر رہی ہیں۔

دن کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے بازاروں میں جیپوں اور گاڑیوں کا شور، حجاموں، مستریوں، سبزی فروٹ والوں، ہوٹلوں،اور پھیری لگا کر سامان فروخت کرنے والوں کا اس قدر شور ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔یہی بازار سرشام یوں خاموش ہوجاتا ہے جیسے یہاں کوئی نہیں رہتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیاحوں کی جنت کہلائے جانے کے مستحق اس علاقے کے مرکزی قصبے کے کسی بھی پٹرول پمپ میں موجود باتھ روم استعمال کے قابل نہیں۔ پوچھنے پر انتہائی لاتعلقی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پانی نہیں ہے۔ در آں حال یہ کہ استور قصبے میں دریائے استور کے علاوہ جگہ جگہ چشمے اور نالے بہہ رہے ہیں۔

استور کی وجہ شہرت بہت سی جگہیں ہیں۔ جن میں چلم، منی مرگ، پریشنگ، رتواور دیوسائی، میرملک، راما جھیل، رین بو جھیل، اللہ والی جھیل( یہ نام اس جھیل کو اس لئے دیا گیا ہے کہ پریشنگ وادی کے ایک کنارے واقع اس جھیل کا اگر بلندی سے نظارہ کیا جائے تو یہاں پریشنگ نالہ ’جسے دریا کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ ایسے ’زگ زیگ‘ انداز میں بہہ رہا ہے کہ جیسے خالق کائنات کا نام اللہ لکھا ہواہو۔یہاں اس دریا کاپانی جھیل کہ صورت اختیار کرلیتا ہے اسی وجہ سے اسے اللہ والی جھیل کہا جاتا ہے۔)

استور کے قابل ذکر سیاحتی مقامات میں سے ایک نمایاں نام راما جھیل کا ہے۔شہر کے مرکزی چوک سے ایک راستہ راما جھیل کی طرف مڑتا ہے۔جو یہاں سے تقریباً بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ سارا راستہ پیچ در پیچ موڑوں، کھیتوں اور اُن کے درمیان بنے ہوئے نئے اور پرانے گھروں سے ہو کر گذرتا ہے۔جہاں کاشت کئے ہوئے کھیت اور گھر نہیں ہیں وہاں تا حد نظر قدرت نے سبزہ بچھا رکھا ہے۔

جس پر علاقے کے لوگوں کے مال مویشی چرتے ہیں۔یہ سڑک کسی زمانے میں پختہ تعمیر ہوئی ہو گی لیکن اب یہ ا پنی حالت زار کی وجہ بننے والے متعلقہ عملے،ٹھیکیداروں اور یہاں کے رہنے والوں کی غفلت کی داستان بہ زبان خاموشی سنا رہی ہے۔استور کی پسماندگی، سڑکوں، پلوں، راستوں اور عمومی صورت حال اس قدر تکلیف دہ ہے کہ بیان سے باہر ہے۔راما میڈوز ایک ملکوتی خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے۔آپ کے سامنے کھلا سرسبز وشاداب ہموار میدان ہے۔ جس میں نالیوں کی صورت دودھیا برفیلا پانی بہہ رہا ہے۔پانی کے کنارے بھیڑ بکریاں اور مویشی چر رہے ہیں۔

میدان کے اردگرد چیڑھ، دیودار اور کیل کے اونچے اونچے درخت ہیں۔میدان کے پیچھے ایک ڈھلوان پر شاداب جنگل اپنی خوبصورتی سے آپ کو مسحور کررہا ہے۔جنگل سے چونگڑا کی برفپوش چوٹی، اس کے ساتھ جڑا ہو نانگا پربت،نیلے آسمان پر بادلوں کی تیرتی ٹکڑیاں،یہاں اگر چاند کی چودھویں رات کو آسمان صاف ہو تو چاندنی میں نہائے ہوئے راما میڈوز میں گذاری ہوئی رات آپ کی زندگی کی سب سے حسین رات ثابت ہو گی۔ مجھے جھیلیں اچھی لگتی ہیں۔ قدرتی جھیلیں اپنے اندر بے پناہ خوبصورتی رکھتی ہیں۔ گلگت بلتستان آنے کا ایک مقصد قدرتی مناظر خاص طور پر جھیلوں سے لطف اندوز ہونا تھا۔

مجھے راما جھیل دیکھنے کی خواہش پوری کرنے کے لئے تین بار راما جانا پڑا۔ پہلی بار میں یہاں مئی کے مہینے میں ریڈیو پاکستان کی ایک ٹیم کے ہمراہ آیا تھا۔اُس وقت راما جنگل اور اس کے اردگرد کا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔استور سے آنے والی کچی پکی سڑک اسی جنگل میں ختم ہو جاتی ہے۔جھیل کی طرف جانے کے لئے ایک ٹریک سا بنا ہوا ہے۔ جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی چل سکتی ہے۔پہاڑی علاقوں میں پیدل چلنا بہت محنت طلب کام ہوتا ہے۔ جب برف میں چلنا پڑجائے توچند قدم پر سانس پھول جاتا ہے۔

راما میں بنے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر معلوم ہوا کہ راما جھیل جانے وا لے راستے میں لکڑی کا ایک پل آتا ہے۔ جس کا ایک کنارا اس طرح سے پانی کی زد میں آ کر منہدم ہو چکا ہے کہ گاڑی کا پل پار کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔اس پل سے آگے جھیل کے راستے میں ایک دوگلیشیر بھی آتے ہیں۔جنہوں نے پیدل جانے والوں کا راستہ بھی روک رکھا ہے۔اس مقام سے جھیل تک کا فاصلہ گو کہ زیادہ نہیں دو یا تین کلو میٹر ہے لیکن چڑھائی اس قدر سخت ہے کہ پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں اور چلچلاتی دھوپ میں منجمند برف پر چڑھائی چڑھنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ غرض جی کڑا کرکے جھیل دیکھنے کی خواہش پوری کرنے کو اگلی بار پر اُٹھا رکھا اور ریسٹ ہاؤس ہی میں پکنک منا لی۔

جس میں شرکت کے لئے میرے ساتھ ریڈیو پاکستان گلگت سے شاہ زمان، اکاؤنٹینٹ محمد اکرم، ایڈمن اسسٹنٹ خورشید احمد خان، پروڈیوسر واجد علی، پروڈیوسر غلام محمد، پروگرام منیجر گل بہار، لائبریرین لیاقت علی، سکیورٹی گارڈ اور علی حسن ڈرائیور بھی آئے تھے۔ پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس کے ساتھ ہی محکمہ جنگلات کا بھی ریسٹ ہاؤس ہے جو قدرے پرانا اور نسبتاً چھوٹا ہے۔کچھ آگے پی ٹی ڈی سی موٹل ہے جس میں بارہ کمرے ہیں۔ اس موٹل کے سامنے پولو گراؤنڈ ہے۔ اور ایک وسیع قطع اراضی سرسبز میدان پر مشتمل ہے۔جس کے اردگرد چیڑھ اور دیودار کا ایک گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہی جنگل راما کی سب سے بڑی خوبصورتی،سب سے بڑا حسن اور وجہ شہرت ہے۔

دوسری مرتبہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اگست کے پہلے ہفتے استور جانا ہوا۔اگرچہ برف پگھل چکی تھی لیکن راما نالے کے پل کی مرمت نہیں ہو پائی تھی اور اُس روز راما جھیل دیکھنے کے خواہش مندوں کی ایک کثیر تعداد جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے جھیل دیکھنے سے محروم رہی۔ہم نے جنگل میں اندر تک جا کے ایک نسبتاً خاموش جگہ پر ڈیرہ جمایا۔ کھانا گرم کیا اوراس سے لطف اندوز ہوئے۔ جنگل میں پکنک منانے والوں کی کثیر تعداد موسیقی اور رقص سے دل بہلا رہی تھی۔اس جنگل کی خوبصورتی اور قدرتی ماحول سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔

تیسری بار راما پہنچنے کی وجہ راما فیسٹول تھا۔ جس کا انعقاد صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر کیا تھا۔اس فیسٹول کی کوریج کے لئے میرے ہمراہ خورشید احمد خان پروڈیوسر اور علی حسن ڈرائیور تھے۔ ظہرکی نماز پڑھ کر اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ گلگت سے روانہ ہوئے تو کم و بیش چالیس کلو میٹر بعد تھلیچی کے قریب ہماری گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔خوش قسمتی سے قریب ہی ایک پیٹرول پمپ تھا جہاں پنکچر لگانے کی سہولت موجود تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پیٹرول پمپ پر ایک ہی شخص تعینات تھا جو گاڑیوں میں پیٹرول/ڈیزل بھی بھرتا تھا اور پنکچر بھی لگاتا تھا۔

اُس کی مصروفیت کی وجہ سے ہمیں وہاں ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔اس تاخیر کی وجہ سے جب ہم استور پہنچے تو رات چھا چکی تھی اور عشاء کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ بازار میں ہی ایک زیر تعمیر مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد ایک قریبی ہوٹل میں کھانا کھایا۔کیونکہ استور اوراسی طرح کے تمام علاقوں میں لوگ سرشام گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور ہوٹل وغیرہ بھی رات گئے تک نہیں کھلے ہوتے۔کھانے سے فارغ ہوکر رات بسر کرنے کے لئے جگہ تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔تمام ہوٹل ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے اور کہیں بھی جگہ نہیں تھی۔ایک ہوٹل والے نے کہا کہ اگر آپ ایک کمرے میں گذارا کر سکیں تو ہمارے ہمسائے میں واقع ایک ہوٹل ہے۔

اس میں انتظام کر دیتے ہیں۔کوئی اور چارہ نہ دیکھ کر ہم نے اس پر حامی بھر لی۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ہوٹل کم و بیش پچاس برس پرانا ہے کچے کمرے اور لکڑی کے چرمراتے شہتیروں کی چھتیں ہیں۔یہ ہوٹل ریسپشن وغیرہ جیسی لغویات سے پاک تھا اور انتظام کرنے والوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ تھا۔ لیکن اس میں کچھ مقامی افراد مسافروں کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں مقیم صاحب مصر تھے کہ انہیں کمرے کا کرایہ پانچ سو روپے اسی وقت ادا کئے جائیں کیونکہ مالک کا یہی حکم ہے۔ ہم نے انہیں ساتھ والے ہوٹل کا حوالہ دیا کہ ہماری بات اُس سے ہو چکی ہے اور وہی ہماری بکنگ کا ذمہ دار ہے، ہم صبح اسے ہی ادائی کریں گے لیکن یہ مسافر صاحب رقم لینے پر اصرار کرتے رہے۔ہمارے سمجھانے پر بھی جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو ہم نے سامان اُٹھایا اور وہاں سے چل دیئے۔شہر کی دوسری طرف ضلعی دفاتر کے ساتھ ایک نیا ہوٹل موجود تھا جہاں خوش قسمتی سے جگہ مل گئی۔

لیکن وہاں مسئلہ یہ بن گیا کہ ہمارے ساتھ والے کمرے میں کوئی چھ افراد مقیم تھے اور لگتا تھا کہ وہ برسوں بعد ایک دوسرے سے ملے ہیں۔کیونکہ ہر پانچ منٹ بعد وہ باآواز بلندگپ شپ کے دوران جوش میں آکر ایک دوسرے کے ہاتھوں پہ ہاتھ مار کر قہقہے لگاتے تھے اور شدید تھکن کے باوجود اُن کا شور ہماری نینداُچاٹ کئے جا رہا تھا۔

تقریباً دو گھنٹے تک اس صورت حال میں کروٹیں بدلتے ہوئے وقت گذارا اور پھرمیں تنگ آکر اُن کے پاس گیا اور دریافت کیاکہ آخر وہ کب تک سو نا پسند کریں گے؟اس پر شاید انہیں تھوڑی سی شرم آئی اور اُن کی ہنگامہ آرائی پر مشتمل محفل قدرے انسانیت کی حدود میں آگئی۔صبح ناشتہ کرنے کے بعد جب ہم راما کی طرف روانہ ہوئے تو ایک حیرت انگیز منظر دیکھنے کو ملا۔ استور شہر اور مضافات کی تقریباً ساری آبادی یعنی خواتین، بچے بوڑھے، جو ان، لڑکے لڑکیاں جوق در جوق موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، جیپوں، پک اپس کے ذریعے اور پیدل راما کی طرف رواں دواں تھے۔ سال میں ایک مرتبہ منعقد ہونے والے راما فیسٹول میں شرکت کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے عام لوگوں کے لئے استور میںتفریح کے مواقع کی کمی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ شدید سردی کے پانچ چھ ماہ گھروں میں بند رہنے والی خواتین کے لئے بھی گھروں سے باہر نکلنے کا یہ ایک نادر موقع تھا اس لئے وہ اپنے شیر خوار بچوں کو اُٹھائے بڑی استقامت سے ساتھ راما کی طرف جا رہی تھیں۔

اور تو اور چل سکنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔گاڑیوں کی ایک طویل قطار کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جب ہم راما پہنچے تو ایک بہت بڑا میلہ ہمارا منتظر تھا۔ روایتی دستکاریوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کے بے شمار سٹال خیموں کی صورت لگے ہوئے تھے۔ڈھول کی مسحور کن دھنیں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا دل بہلا رہی تھیں۔پی ٹی ڈی سی مو ٹل کے جو کمرے پولو گراؤنڈ کے سامنے تھے اُن میں اٹلی سے آئے ہوئے سیاحوں کا ایک گروپ مقیم تھا۔ وہ سب اپنے کمروں سے باہر نکل کر میلے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اس میلے کے مہما ن خصوصی تھے۔اُ ن کی آمد پر پولو کا میچ شروع ہوا۔شائقین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ہر دو ٹیموں کے حامی نعرے لگا کراپنی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔لیکن یہ میچ ضلع دیامر کی ٹیم نے با آسانی جیت لیا۔ دیامر کی ٹیم داریل تانگیر کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جن کے گھوڑے چھوٹے قد کے تھے اور وہ با آسانی تیز بھاگ سکتے تھے۔ کھلاڑی بھی بہت منجھے ہوئے اور تجربہ کا ر تھے۔وہ استور کے کھلا ڑیوں کو اس طرح سے پٹا رہے تھے کہ چند منٹوں میں سارا میچ یکطرفہ نظر آنے لگا۔ وقت ختم ہونے تک دیامر کی ٹیم دس گول کر چکی تھی جبکہ استور والے ابھی پانچ گول کر پائے تھے۔کھیل ختم ہونے پر انعامات تقسیم کئے گئے۔ اور پھر وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے تقریر کی۔

حافظ صاحب جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل ہیں اور اپنے بڑے بھائی سیف الرحمان کے قتل کے بعد سیاست میں آئے۔وہ بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ نپے تلے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بہت اچھے انداز میں بیان کردیتے ہیں۔اُن کی غیرمعمولی مقبولیت کا ایک سبب اُن کا یہ فن خطابت بھی ہے۔ مئی 2015ء میں ہونے والے انتخابات میں اُن کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حا صل کی اور انہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔نوجوان ہونے اور پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور کی بدترین بدعنوانی کی وجہ سے حافظ حفیظ الرحمان بہت ہی محتاط ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کرپشن ختم ہو۔ گلگت بلتستان میں بدعنوانی روکنے کے لئے محض انتظامی حکم نامہ کافی نہیں۔

یہاں تو بدعنوانی کی جڑیں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ انہیں اکھاڑ پھینکنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ میں یہاں صرف ایک چھوٹی سی کچی سڑک کی مثال دوں گا۔ راما جھیل تک پہنچنے کے لئے استور سے راما جنگل تک ایک پختہ سڑک موجود ہے جو کہ ’ہر چند کہیں ہے، کہیں نہیں‘ کے مصداق راما جھیل کا رخ کرنے والوں کا امتحان تو لیتی ہی ہے لیکن اصل امتحان راما جنگل پہنچ کر شروع ہوتا ہے۔جنگل سے آگے ڈیڑھ دو کلو میٹر کی کچی سڑک ہے جس پر جیپیں اور گاڑیاں چل سکتی ہیں۔

اس کچے راستے کا آغاز راما جھیل سے نکلنے والے نالے پر بنے ہوئے پُل سے ہوتا ہے۔اُس برس مئی میں اس پُل کا ایک پشتہ سیلابی پانی کی نذر ہو چکا تھا۔یہ پشتہ مئی سے لے کر اگست تک کے سارے عرصے میں مرمت نہیں ہو پایا۔ گویا ان چار ماہ میں کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح راما جھیل کا شہرہ سُن کر اُسے دیکھنے کی غرض سے استور اور پھر راما جنگل تک پہنچ بھی جائے تو بھی وہ راما جھیل نہیں دیکھ سکتاتھا۔کیونکہ چند ہزار روپوں سے اس چھوٹے سے پشتے کی مرمت کا کشٹ اُٹھانے کی زحمت کون کرے؟ یہ اور بات ہے کہ ہر سال کے بجٹ میں سرکاری طور پر راما جنگل سے راما جھیل تک جانے والے راستے کو کھلا رکھنے کے لئے دس لاکھ روپے منظور کئے جاتے ہیں کیونکہ اس راہ میں دو گلیشئر بھی آتے ہیں اور لینڈ سلائڈنگ بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے چار بار راما جانے اور آخری مرتبہ جھیل تک پہنچنے میں کامیاب ہونے کے باوجود نہیں مل سکا۔

جب میں بہ ہزار دقت راما جھیل تک پہنچا تواس کے منظر میں اتنی دل کشی نہ تھی جس قدر کہ اُس کا شہرہ سنا تھا۔ جھیل کے اردگرد کے پہاڑ درختوں سے خالی ہو چکے تھے۔ جلانے کے لئے کاٹے جانے والے درختوں کی جگہ پُر کرنے کے لئے شجر کاری کی زحمت محکمہ جنگلات نے نہیں کی۔ حالانکہ راما جنگل کی دیکھ بھال اسی محکمے کی ذمہ داری ہے اور اس کا ایک ریسٹ ہاؤس یہاں گذشتہ پینتالیس برس سے موجود ہے۔جہاں قدم رنجہ فرمانے والے بڑے بڑے افسر اور وزراء خوش وقتی کے لئے تو یہاں آتے ہیں لیکن کبھی اپنے عملے کی کارکردگی دیکھنے یا جنگل کی حفاظت میں ناکامی پرذمہ داروں سے باز پُرس کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ بلاشبہ جھیل سے پہلے واقع راما جنگل بہت ہی خوبصورت جگہ ہے ۔

جہاں پہنچ کر استور اور اُس سے آگے کے راستے کی ساری کوفت،تھکن اور پریشانی ایک خوشگوار حیرت میں بدل جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو کس قدر رعنائیوں سے نوازا ہے۔ایک شاندار سدا بہار قدرتی جنگل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ جس میں چشمے بھی ہیں اورگھنیرا سایہ بھی۔ قدرت کے سارے رنگ یہاں آنکھ مچولی کرتے نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں استور، گلگت، چلاس اور ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ کیمپنگ کرنے ،دن گذارنے اور پکنک منانے آتے ہیں۔ جگہ جگہ آگ جلائی جاتی ہے ۔قریبی نالے کا پانی برتن دھونے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہاں آنے والوں کے ہمراہ خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں۔کھانے پینے اور سیر کرنے کے علاوہ یہاں آنے والوں کو باتھ رومز کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ جن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اگر استور کی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی محکمہ سیاحت راما جنگل کو ایک پکنک پوائنٹ کے طور پر کچھ سہولیات کے ساتھ متعارف کرائیں تو یقینناً یہاں سیاحوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ ۔کھانا پکانے کے لئے چند باورچی خانے اورخواتین و حضرات کے لئے الگ الگ بیت الخلاء تعمیر کرا دے ۔تو ایک دن یا زیادہ وقت گذارنے کے لئے یہاں آنے والے سیاح جگہ جگہ آگ جلاکر اور جنگل میں ہر طرف بول و براز کرکے ماحول کو آلودہ نہیں کریں گے۔یہاں پانی کی کمی نہیں ہے۔ہر طرف چشمے بہہ رہے ہیں۔راما جھیل سے نکلنے والا نالہ بھی قریب ہی بہہ رہا ہے۔تھوڑی سی پیش بندی کرکے اس جنگل کے حسن کو برقرا ر رکھا جا سکتا ہے۔

جو لوگ یہاں آکر خیمے لگاکر قیام کریں یا ایک دن کی پکنک منائیں اُن سے مناسب رقم بطور فیس لی جا سکتی ہے اس طرح سے باورچی خانے اور بیت الخلاء کی صفائی اور پانی کی نکاس کا مناسب انتظام چلانا بھی دشوار نہیں ہوگا۔ بصورت دیگر راما جنگل کا حال بھی جھیل سیف الملوک سے مختلف نہیں ہوگا۔جو سیاحوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں،گندگی پھیلانے اور حکومت کی غفلت کے با عث گندے بدبودار پانی کا ایک جوہڑ بن چکی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہر سال قدرت جھیل سیف الملوک اوراس کے اردگردکے پہاڑوں پر اس قدر برف باری کردیتی ہے کہ اس کا حسن برقرار رہتا ہے۔   (جاری ہے)

The post مقامی لوگ پیدل چل کر بھی راما فیسٹیول میں شرکت کیلئے پہنچتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

وادیٔ سون اور کیمپنگ گالا  

$
0
0

 

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے چند سالوں سے حکومتِ پاکستان نے سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں اور آج بھی اس میدان میں بہت محنت کر رہی ہے اور اِس ضمن میں پنجاب حکومت اور اس کے سیاحتی ادارے ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کا کردار بھی نہایت اہم اور قابلِ داد ہے۔

اس سال پنجاب حکومت اور ٹی ڈی سی پی نے پنجاب میں دو سیاحتی مقامات کو ڈیویلپ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جن میں ایک ضلع ڈیرہ غازی خان کا علاقہ کوہِ سلیمان و فورٹ منرو اور دوسرا ضلع خوشاب میں واقع وادیٔ سون سکیسر شامل ہیں۔وادیٔ سون سکیسر ضلع خوشاب کے شمال میں واقع ایک خوب صورت وادی ہے جو لاہور سے صرف چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں منفرد ساخت کے حامل پہاڑوں کے بیچ پنجاب کی چند خوب صورت جھیلیں، چشمے، باغات اور آثارِقدیمہ واقع ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

وادی سون کی مٹی زیادہ تر بُھربُھری ہے اور یہاں کے پہاڑ ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھر پر مشتمل ہیں جب کہ یہاں کی زراعت کا دارومدار برسات پر ہے۔ سون سیسر کی بلندی سطحِ سمندر سے پانچ ہزار دس فٹ بلند ہے۔ اور یہ وادی پچاس کلومیٹر لمبی اور نو کلومیٹر چوڑی ہے جہاں پنجاب اُڑیال اور چنکارہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔اس وادی کی مسحور کن خوب صورتی کو عوام الناس کے سامنے لانے اور ایکو ٹورزم کو پروموٹ کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کے ادارے ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب نے میڈیا کے نمائندوں، بلاگرز، اینکرز، وی لاگرز، ماہرینِ آثارِقدیمہ اور فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے دو روزہ سون ویلی ٹور اور کیمپنگ گالا کا اہتمام کیا، جس میں کیمپنگ، شامِ موسیقی، ہائیکنگ، بوٹنگ اور سائیکلنگ سمیت وادیٔ سون کا بھرپور ٹور شامل تھا۔

ٹور کے پہلے روز جو جگہ سب سے پہلے دکھائی گئی وہ ’’کنہٹی باغ ‘‘ تھا جو 1933 میں ضلع شاہپور کے انگریز انجنیئر میجر ویٹ برن نے بنوایا تھا۔ اس کا نام باغ میں موجود ایک دل کش آبشار کے پاس واقع چٹان ’’کنہٹ‘‘ سے نکلا ہے۔ باغ میں موجود نباتات میں بادام، خوبانی، انناس اور ویلنشیا کے درختوں سمیت کئی قسم کی جڑی بوٹیاں اور پودے شامل ہیں۔ اس خوب صورت باغ میں سیاحوں کے لیے ایک کیمپنگ سائیٹ بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔

اس کے بعد ہمیں ’’کھبیکی جھیل‘‘ لے جایا گیا جو قدرت کا ایک حسین شاہ کار ہے۔ اس جھیل کا نام قریبی گاؤں کھبیکی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آج سے تین سال پہلے جب میں یہاں گیا تھا تو یہ پانی کی ایک عام جھیل کے علاوہ کچھ نہ تھی جس کے کناروں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ لیکن پنجاب حکومت کے وادیٔ سون کو ڈویلپ کرنے کے منصوبے کے بعد اس کی حالت ہی بدل گئی ہے۔

یہاں ٹی ڈی سی پی کا ایک خوب صورت ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں کھانے پینے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سائیکنگ اور بوٹنگ کی سہولیات بھی میسر ہیں۔ نئی بنچوں اور روشنیوں کی قطار نے اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اسی جھیل کے کنارے منعقد ہونے والی شامِ موسیقی، کیمپنگ اور آتش بازی نے ٹور کا مزہ دوبالا کردیا جہاں مقامی فن کاروں اور سرگودھا سے آئے نوجوانوں کے میوزیکل بینڈ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ جھیل کے پاس ہی ایک ’’برڈ واچ ٹاور‘‘ بنایا گیا ہے تاکہ سیاح اس جگہ سے جھیل پر آنے والے سائیبیریا کے ہجرتی پرندوں کا نظارہ کر سکیں۔

اگلے دن ہمیں ’’ڈیپ شریف‘‘ کا تالاب دکھایا گیا۔ مرکزی سڑک سے اندر کی طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک کا پیدل سفر کرنے کے بعد جب آپ سفید پہاڑیوں کے بیچ موجود ایک گہرے سبز پانی کا شفاف تالاب دیکھتے ہیں تو آپ کی تمام تھکن دور ہوجاتی ہے۔ اِسے اوپر سے بہہ کر آنے والی ایک آبشار بھر رہی ہے۔ یہ چشمہ اور تالاب اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہی معلوم ہوتا ہے جو چٹیل پہاڑوں اور ویران راستوں کے بیچ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس کا پانی سبز، شفاف اور میٹھا ہے۔ اس کے قریب ہی حضرت سراج الدین نقشبندی ؒ کی درگاہ واقع ہے جس کی وجہ سے اس جگہ کو ’’ڈیپ شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔

آخر میں ہمیں وادیٔ سون کے خوب صورت راستوں پر سے سکیسر بیس لے جایا گیا، جہاں بیس کمانڈر کی طرف سے پُرخلوص ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہاں ہمیں سکیسر کا مندر، پرانا زیتون کا درخت، پُرانی غاریں، ایئربیس میوزیم، ہیلی پیڈ اور زیتون کا باغ دکھایا گیا۔ ان سب جگہوں کی تاریخ و اہمیت کے بارے میں خصوصی طور پر بتایا گیا۔ اسی مقام پر ہم نے زِپ لائن اور تیراندازی جیسی بھرپور سرگرمیوں سے لطف اٹھایا جس کے لیے ہم سب نے پاکستان ایئرفورس کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ یوں یہ بھرپور تاریخی و معلوماتی ٹرپ اپنے اختتام کو پہنچا۔ بلاشبہہ یہ ایک منظم اور زبردست ٹرپ تھا جس سے یقیناً ٹورزم کو پھلنے پھولنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔

The post وادیٔ سون اور کیمپنگ گالا   appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


بس اک تیری کمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
ادھوری زندگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
وہ چھت جس پر تمہارے حسن کی بارش برستی تھی
اسی چھت کی نمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
تم آئے، پاس بیٹھے اور رخصت بھی ہوئے لیکن
تمہاری خامشی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
یہ کیسے پیاس کا خاموش دریا مجھ میں بہتا ہے
یہ کیسی تشنگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
پرائی روشنی ٹہری ہوئی ہے میری آنکھوں میں
پرائی تیرگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
یہ کس کے شعر مجھ پر رات دن الہام ہوتے ہیں
یہ کس کی شاعری مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
میں کلیوں اور پھولوں میں جسے تقسیم کرتا تھا
تمہاری وہ ہنسی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
(یاسین ضمیر۔ کوئٹہ، بلوچستان)


غزل


خزاں کی رُت میں بہاروں کی آرزو لے کر
کہاں چلی ہے مجھے تیری جستجو لے کر
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ رہ گزر کا پتہ
میں آگیا ہوں کہاں تیری آرزو لی کر
ہمارے سینے میں دل ہی نہیں ملے گا حضور
ہمارا دل تو گیا کوئی خوبرو لے کر
سخن تراش کے سب لائے تیری محفل میں
میں آ گیا ترا انداز گفتگو لے کر
فقیہہِ شہر کی ہمسائیگی ملی جب سے
میں پھر رہا ہوں ہتھیلی پہ آبرو لے کر
امیرِ شہر کا برتاؤ خود ہی بدلے گا
چلیں جو ہم بھی ان آنکھوں میں کچھ لہو لے کر
یہاں تو چاک گریباں ہیں خود رفو گر بھی
میں آگیا ہوں کہاں حاجت رفو لے کر!
میں اپنی آنکھیں بچھادوں گا اس کی راہوں میں
کوئی جو آئے ثمر اس کا ہو بہو لے کر
(ثمریاب ثمر۔ سہارنپور، اترپردیش، انڈیا)


غزل
عجیب لڑکا ہے اپنی ضد پر اڑا رہے گا
میں جب تلک ہاں نہیں کہوں گی کھڑا رہے گا
ہمارے قد پر نہ جائیو، ہے اگرچہ چھوٹا
ہمارا کردار ہے جو صدیوں بڑا رہے گا
ہمارے دل کے یہ قفل تجھ پر کھلے رہیں گے
ہمارا یہ ہاتھ تیری جانب بڑھا رہے گا
کسی نے پاکٹ منی بچا کر جو لے دیا تھا
ہماری نتھ میں وہی نگینہ جڑا رہے گا
کسی کی آنکھیں تمام قصہ عیاں کریں گی
کسی کے چہرے پہ اور چہرہ چڑھا رہے گا
ہمارے جسموں کے زخم جلدی بھریں گے لوگو
ہمارے دل پر شگاف لیکن پڑا رہے گا
(ماہ رو ندا احمد۔ فیصل آباد)


غزل


کیا آپ نے کرنا تھا جفاؤں کا گلہ بھی؟
لیکن یہ بتائیں کہ وہ دلدار ملا بھی؟
فرمائیں گے پھر کاتبِ تقدیر تبسّم
بے چین صداؤں سے اگر عرش ہلا بھی
دنیائے غمِ زیست میں آئی تھی محبت
صحرائے دلِ زار میں اک پھول کِھلا بھی
وہ ناخنِ خوں رنگ ہی منظورِ نظر ہے
پرسش سے اگر زخمِ دل آزار سِلا بھی
مقتل میں مرے درد کا دارو بھی ملے گا
مل جائے گا ناکام سی کاوش کا صلہ بھی
اشعار بھی لائے گی، مئے درد کی بارش
قندیلِ غمِ یار کو بخشے گی جِلا بھی
تاثیر بس اب نوکِ قلم دل میں ڈبو لے
یہ زہر ہے شیریں اسے پیاسے کو پِلا بھی
(تاثیر خان ۔ سوات)


غزل


روتے روتے جو کُھلا بھوک مٹانے کا خیال
ماں کو پھر آگیا بچوں کو سلانے کا خیال
کون آئے گا جو گرتوں کو سہارا دے گا
یوں تو ہر شخص کو ہے ہنسنے ہنسانے کا خیال
وہ انا زادی لیے پھرتی ہے کب سے دل میں
مجھے اقرار کے دو بول سنانے کا خیال
میں کہ انگاروں پہ چلتا رہا تیری خاطر
اور تو کرتا رہا، ہائے، زمانے کا خیال
ہم ستم زاد قبیلہ ہیں سو ہم رکھتے ہیں
دل میں آنگن کا گھنا پیڑ گرانے کا خیال
خواب اس شوخ کے ہیں لذت و دلداری کے
کس لیے آئے گا پھر خود کو جگانے کا خیال
دشت گلزار سماں، شہر لگے ویرانہ
جیسے عاشق کی نظر جیسے دیوانے کا خیال
ابر آلود مری آنکھ ہوئی ہے انجم
آج جاگا ہے اسی روگ پرانے کا خیال
(عظیم انجم ہانبی۔ کوئٹہ، بلوچستان)


غزل


دل کے فرسودہ خیالات بدل سکتا ہوں
میں محبت کی روایات بدل سکتا ہوں
تُو فقط مجھ کو فقیرِ رہِ دنیا نہ سمجھ
میں ترے شہر کے حالات بدل سکتا ہوں
جانے کیوں مجھ میں تصرف نہیں کرتی وہ مہک
پھول سے میں ہی تو وہ ہاتھ بدل سکتا ہوں
میں اکیلے نہیں کر سکتا گزر دنیا میں
میں زمانے کو ترے ساتھ بدل سکتا ہوں
حسن گر خود سے مکرنے پہ مصر ہے تو پھر
عشق ہوں اپنی کرامات بدل سکتا ہوں
کون سنتا ہے یہاں رام کہانی میری
یعنی میں اپنے بیانات بدل سکتا ہوں
کوئی لمحہ ہے اسد میرے تعاقب میں مگر
وقت ہوں، وقت پہ اوقات بدل سکتا ہوں
(اسد کمال۔ سعودی عرب)


غزل
پہلے مجھ پر بہت فدا ہونا
اس کی چاہت کا پھر فنا ہونا
کس سہولت سے زندگی کاٹی
مجھ کو آیا نہ پارسا ہونا
خود کو محرومِ روشنی رکھ کر
کتنا مشکل ہے اک دیا ہونا
یہ بھی بخیے ادھیڑ دیتی ہے
اس کو ہلکا نہ لے ہوا ہونا
آگہی وقت کی ضرورت ہے
پر اذیت ہے آشنا ہونا
میری ترتیب سے رہی نالاں
زیست کو آ گیا خفا ہونا
اس کے جیون میں آگیا کوئی
کھا گیا مجھ کو دوسرا ہونا
(انعمتا علی۔ جہلم)


غزل


جتنے بھی خوف ہیں انہیں خود سے جدا کروں گا میں
میرے بھی کچھ سوال ہیں پیشِ خدا کروں گا میں
وعدہ رہا، یقین کر، لکھ لے، ہوس کے باب میں
جس سے بھی رابطہ ہوا اس سے وفا کروں گا میں
عشقِ فریب کار پر لعنت ہزار بار ہو
ایسے غذابِ جاں سے بھی خود کو رہا کروں گا میں
جس کو غرض نہ ہو کوئی، مال و زر و زمین سے
ایسے کسی امیر کی دل سے ثنا کروں گا میں
توڑوں گا رسم خوف کی، گاؤں گا دل کی حمد میں
دل کی ہر ایک رسم کو پھر سے روا کروں گا میں
جس میں بجز وصال کے کوئی غرض نہ ہو چھپی
ایسے کسی جمال کی دل سے دعا کروں گا میں
(اشکر فاروقی۔ جام پور)


غزل


میں تو زندہ ہوں مری ذات کہاں ہے مجھ میں
رنج وآلام کا انبوہِ گِراں ہے مجھ میں
ادھ جلے خواب، کہیں جھلسی ہوئی تعبیریں
حسرت و یاس ہے، وحشت ہے، دھواں ہے مجھ میں
تو مجھے توڑ کر اے دوست بکھر جائے گا
میں اکیلا تو نہیں ہوں تُو نہاں ہے مجھ میں
میرے ماتھے کی لکیروں کی تھکن بولتی ہے
کتنی صدیوں کا چھپا کرب عیاں ہے مجھ میں
دو کناروں میں ہے تقسیم متاعِ ہستی
شدّتِ درد کا اک سیلِ رواں ہے مجھ میں
خامشی چیخ رہی ہے مرے دروازے پر
اندروں بارِ دگر آہ و فغاں ہے مجھ میں
(محمد عثمان ناظر۔ اٹک)

.;..
غزل
درد کی دیوار پر ٹانکی ہوئی تصویر ہے
زندگی روزِ ازل سے موت کی جاگیر ہے
شہرِ دل میں سر اٹھاتی خواہشوں کے درمیاں
ہر قدم پر آدمی کے سامنے تقدیر ہے
دن ہیں مایوں کے خزائیں لائی ہیں ابٹن ابھی
فصلِ گل کی رونمائی میں ذرا تاخیر ہے
انتشارِ زندگی میں ایک لمحے کا سکوں
جاگتی آنکھوں سے دیکھے خواب کی تعبیر ہے
کر لیا تسخیر جس کو عشق نے وہ آدمی
اس جہاں کے واسطے ناقابلِ تسخیر ہے
آگہی کا لطف دیتا ہے سدا انسان کو
ہجر کے اندر اگرچہ موت کی تاثیر ہے
(کنزہ سید منزہ۔ ساہیوال)


غزل
ٹوٹے دل کی دوا ہو گیا
غم مرا حوصلہ ہو گیا
اس نے آواز جب دی مجھے
سارا منظر ہرا ہو گیا
آپ اِس سے نہیں ہو سکے
پر یہ دل آپ سا ہو گیا
شاعری ہی تو کی ہے شروع
ایسا ویسا بھی کیا ہو گیا
لمحہ لمحہ مرے ساتھ ہے
کیسے کہہ دوں جدا ہو گیا
ہم کہ عزلت نشیں تھے کبھی
ان سے پھر سامنا ہو گی
آئنہ ہی دکھایا تھا نا
بے سبب تُو خفا ہو گیا
(صائمہ جاوید۔ کہوٹہ)


غزل

ہم جو مل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
پھول کھِل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
میسجز بجھتے چلے جاتے ہیں مانندِ چراغ
اور دل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
اپنے ہر ایک تعلق کے لبوں پر اب ہم
رکھ کے سِل، بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
شامِ ہجراں ترے لفظوں سے مخاطب ہونے
مستقل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
ایک مصنوعی محبت کے سہارے ذیشاں
متصل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
(ذیشان ساجد۔ تلہ گنگ)


غزل
بہت ارماں مچلتے تھے دلِ معصوم کے اندر
مگر وہ لٹ گئے سارے دھڑا دھڑ دھوم کے اندر
کھلا رکھا ہمیشہ سے ہی دروازہ محبت کا
کہ ہوسکتا ہے آجائے کہیں سے گھوم کے اندر
بناتا ہے محل اپنے غریبوں کی کمائی سے
یہی تو جنگ ہے اس حاکم ومحکوم کے اندر
پلٹ دے گا بساطِ جنگ یقینا دیکھنا اک دن
جوغیرت جاگ اٹھے گی ذرا مظلوم کے اندر
میں ان بے کیف لمحوں میں سنادوں کیا غزل تجھ کو
میر اشعار لرزیدہ ہیں سب مفہوم کے اندر
اب اہلِ فن ہی سمجھیںگے میرے اشعار کو عارف
کہ ہیں کچھ بولتی غزلیں میرے منظوم کے اندر
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)


غزل


زلف سَر ہوتے ہوتے جو سَر ہو گئی
زندگی خوب سے خوب تَر ہو گئی
ظلمتِ شب کے بادل سبھی چھٹ گئے
اشکِ غم سے منور سحر ہو گئی
اٹھتے اٹھتے جو لیں اس نے انگڑائیاں
ساری دنیا کو جیسے خبر ہو گئی
جو گئی رخ پہ تیرے اچانک نظر
زندگی کِھل کے رشکِ قمر ہو گئی
گُل کِھلے تو وہ زینتِ گلشن ہوئے
شاخ لچکی تو تیری کمر ہو گئی
ہے یہ اپنے گناہوں کی اخترؔ سزا
جب بھی مانگی دعا بے اثر ہو گئی
(محمد اختر سعید۔ جھنگ)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر69

بابا نے فقیر کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور ہم جانے کے لیے تیار تھے کہ ان مُجسّموں میں اچانک زندگی کے آثار نمودار ہوئے اور پھر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے، سر جھکائے ہوئے تھے وہ اور ان کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ پہلے وہ پھوار بنے اور پھر گرج چمک کے ساتھ برسن ہارے رم جھم، رم جھم ہوئے۔ منظر یک سر بدل گیا تھا، جیسے برسات کے بعد آکاش نکھر جاتا ہے۔

بابا نے میرا ہاتھ چھوڑا اور ان کے سروں پر اپنا دست شفقت رکھا، بابا کے دست شفقت کی تاثیر یہ کمّی کمین بہت اچھی طرح سے جانتا تھا کہ کیسے دل کی بے قراری کو قرار آجاتا ہے، یہی ہُوا ان پر سکینت اتر آئی تھی، اس ماہ وش کے والد بابا سے لپٹے ہوئے سسک رہے تھے اور ان کے والدہ ساتھ کھڑی ہوئی زمین کو تک رہی تھی، ملازم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا اور فقیر تو رہا ہی ہمیشہ محو حیرت ہے جی۔ اتنے میں اطلاعی گھنٹی نے کسی کے آنے کا مژدہ سنایا اور ملازم نے باہر دوڑ لگائی، واپسی میں اس کے ساتھ وہ پَری رُو ماہ وش تھی۔

اس نے آتے ہی بابا کو جُھک کر سلام کیا اور اس کے لیے بھی بابا کا دست شفقت مقدر تھا، پھر وہ اپنے والدین کی حالت دیکھ کر پریشان ہوئی۔ کیا ہُوا آپ کو ۔۔۔ ؟ اس نے اُن نے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ وہ لب کُشا کرتے بابا بول پڑے: کچھ نہیں ہوا پگلی! ہم تمہارے متعلق باتیں کر رہے تھے تو بات ذرا تفصیل سے ہوگئی، یہ بہت نیک دل ہیں ناں ان کا جی بھر آیا، تم سے اتنا پیار جو کرتے ہیں۔

اوہو! تو یہ بات ہے، ہاں یہ تو سچ ہے کہ میرے بنا تو ماما پاپا جی ہی نہیں سکتے۔ اچھا بابا! آپ رکیے میں ابھی آتی ہوں، کہہ کہ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں اور بابا صوفے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ تب اس کے والد نے بابا سے کہا: ہم سے جو غلطی ہوئی، اس کے لیے ہم انتہائی شرمندہ ہیں، آپ بڑے ہیں، آپ کا دل بھی بڑا ہے، ہمیں معاف کر دیجیے، آج سے آپ ہی ہمارے سرپرست ہیں، ہمیں قبول کرلیجیے، اور رہی ہماری بیٹی تو اسے تو آپ اپنی بیٹی کہہ ہی چکے ہیں تو بس آج سے سارے اختیارات آپ کے ہیں، آپ جو فیصلہ کریں گے ہم دل و جاں سے اسے قبول کرتے ہیں، لیکن ہمیں اب تنہا مت چھوڑیے گا۔

ارے ارے! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، فقیر کا کام تو بس سمجھانا ہے جی، باقی کام تو رب تعالٰی کے ہیں کہ وہ فقیر کی بات میں برکت ڈالے اور وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں رب تعالی اپنے گناہوں پر ندامت کی کرامت مرحمت فرماتا ہے، بہت خوش مقدّر ہوتے ہیں وہ جی! انسان تو خطا و نسیان میں گُندھا ہوا ہے، خطاکار و گناہ گار ہے جی! اور کون ہے، جو خطا و گناہ سے پاک نہ ہو، انسان ہو اور خطا کار نہ ہو، ممکن ہی نہیں، بس وہ لوگ ہیں۔

اس سے مبّرا جنہیں رب تعالٰی ایسا بنائے کہ وہ معصوم ہوں، لیکن وہ لوگ ہوتے ہیں رب کے چہیتے جو اپنی غلطیوں کا ندامت سے اعتراف کریں ، اس پر کبھی جواز نہ لائیں اور اس کا ارتکاب بھی نہ کریں بل کہ اپنی زیادتیوں کو حسنات سے بدلنے کی سعی کریں، جتنا بھی ممکن ہو سکے اور رب تعالٰی سے دعا کرتے رہیں کہ مالک ہم سے غلطی ہوئی، ہم خطاکار ہیں اور اس پر شرمندہ ہیں بس تُو ہمیں معاف کردے اور اپنی پناہ میں کھ لے۔

ہمارے لیے ہر وہ راہ کھوٹی کردے جو تیری حکم عدولی کی طرف لے جائے اور ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس راہ کا مسافر بنادے جو تیری رضا کی طرف جاتی ہو، وہ نیک بخت لوگ بس تیری رضا میری تسلیم جپتے رہتے ہیں جی! اور پھر رب تعالٰی ان کی خطاؤں سے درگزر کردیتا اور انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما دیتا ہے اور یہی نجات کا سندیسہ ہے جی! آپ نے رجوع کیا تو بس بات ہی ختم ہوئی، اب بس رب تعالٰی سے لو لگائیے اور سکھی رہیے، فقیر کو آپ نے جو عزت دی رب تعالٰی آپ کو اس کا احسن بدل عنایت فرمائے اور آپ کو راہ راست پر رکھے۔

بابا کی بات میں وقفہ آیا ہی تھا کہ وہ ماہ وش کمرے میں داخل ہوکر بابا کے پاس بیٹھ گئی، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور کہا: تمہیں کیا ہُوا ہے، یہ کیا حال بنایا ہُوا ہے تم نے اپنا، زیادہ شوق تھا تو گلے میں کوئی اچھی سی چَین پہن لیتے ناں۔ فقیر نے مُسکرا کر اس کی جانب دیکھا تو بابا بو ل پڑے: بٹیا! یہ زنجیریں تو میں نے اسے پہنائی ہیں، بک بک بہت کرتا ہے ناں، اتنا بڑا ہوگیا ہے اور کبھی کبھی اڑیل گدھا بھی بن جاتا ہے، تو اسے ذرا سیدھا کرنا تھا، تالا تو اس کے مونہہ کو لگانا چاہیے تھا لیکن بس اس کے ساتھ رعایت کی، تم اس کی زیادہ فکر مت کرو۔ اس نے بابا کی باتیں حیرت سے سنیں اور پھر اس میں حنیف بھائی کی روح داخل ہوگئی۔

حنیف بھائی میری وجہ سے بابا سے الجھ جاتے تھے، لیکن کچھ عرصے سے وہ خاموش تھے، بابا مجھے کچھ بھی کہیں وہ کبھی مداخلت نہیں کرتے تھے، فقیر کو جب پابہ زنجیر کیا گیا تھا تو اس نے سوچا تھا کہ حنیف بھائی قیامت مچا دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، لیکن اب فقیر کے سامنے وہ ماہ وش بابا سے مزاحم تھی، عجب ہے ناں یہ، جی بہت عجیب، فقیر کو یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ماہ وش حنیف بھائی اور حنیف بھائی ماہ وش بن گئے تھے۔

اس نے بابا کی بات سنی اور پھر تو غضب ہی ہوگیا وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی اور بابا سے مخاطب ہوئی: یہ کیا بات ہوئی بابا! یہ کون سا طریقہ ہے سمجھانے کا، آپ اسے بڑا کہہ رہے ہیں، کہاں سے لگتا ہے یہ بڑا، قد بڑا ہونے سے کوئی بڑا ہوجاتا ہے کیا، آپ نے زیادتی کی اس کے ساتھ اور ۔۔۔۔ ۔ بابا نے اس کی بات درمیان میں سے ہی اچک لی اور گویا ہوئے: دیکھو پگلی! سنو ہماری دنیا اس دنیا سے مختلف ہے، تم سمجھ رہی ہو کہ میں نے اس سے زیادتی کی، نہیں، نہیں میں تو ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا، مجھے تو اس سے بے پناہ انس ہے پگلی، میرا بچہ ہے یہ اور چہیتا بھی اور یہ جو کچھ کیا ہے بہت پیار سے کیا ہے میں نے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی پیچھے ہٹنے والی کہاں تھی، اس نے بھی بابا کی بات درمیان سے کاٹ ڈالی اور بولی: بابا اچھی محبّت ہے یہ، اچھا اُنس ہے کہ اسے قید کردیا اور کہہ رہے ہیں کہ بہت پیار سے کیا ہے یہ سب کچھ، میری سمجھ سے بالا ہے آپ کا پیار، اسے چہیتا بھی کہہ رہے ہیں اور سزا بھی دے رہے ہیں، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

لیکن اب جو آپ نے کیا وہ تو ہوگیا اب آپ فورا اسے آزاد کریں بس۔ اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، فقیر اس کی جرأت اور جسارت پر حیران تھا کہ اس نے بابا سے اس لہجے میں ناصرف بات کی بل کہ ان پر تنقید کی اور اپنا حکم بھی سنا ڈالا۔ اس کے والدین بھی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن بابا مسکرا رہے تھے اور پھر وہ بولے: بہت پگلی ہو تم، اچھا تو ہم سوچیں گے کہ تمہارے اس چھوٹے بھائی کا کوئی اور علاج کریں، چلو اب تو خوش ناں۔ ہاں بس جلد سوچیے گا، کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے آئی۔ فقیر یہ سمجھا کہ اب وہ حنیف بھائی کا معلوم کرے گی لیکن نہیں صاحب وہ تو فقیر کو کھوجنے کی مشتاق تھی۔ اس نے فقیر سے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال پوچھ لیے تھے کہ فقیر الجھ گیا تھا۔ کون ہو تم، کہاں سے آئے ہو، بابا کے پاس کیسے پہنچے، کیا کرتے ہو، کیا سوچتے ہو، تم بہت ضدّی ہو کیا۔

پڑھنے جاتے ہو، کام کیا کرتے ہو، کھانا کون بناتا ہے، کپڑے کون دھوتا ہے، کیوں بولتے ہو تم اتنا، اپنا بھی کچھ سوچا ہے، کیا کروگے آگے، یہ بال اتنے کیوں بڑھائے ہوئے ہیں تم نے، اور نہ جانے کیا کیا وہ جاننا چاہتی تھیں لیکن فقیر ان کے سوال کا کیا جواب دیتا کہ وہ تو خود بھی کچھ نہیں جانتا اور اس وقت تک عامی ہی ہے، کیسے انہیں بتاتا کہ وہ کون ہے، اس کا جواب تو ہنوز فقیر کے پاس نہیں ہے، بابا کے پاس کیسے پہنچا تھا فقیر یہ کوئی مختصر داستان تو نہیں تھی ناں اور پھر کیسے انہیں بتاتا کہ وہ کیا سوچتا ہے، چلیے سارے سوالات کے جوابات چاہے درست نہ ہوں پھر بھی دیے جاسکتے ہیں لیکن یہ کیسے بتایا جاسکتا ہے کہ آگے کیا سوچا ہے، فقیر تو اب تک صرف یہ جان پایا ہے کہ لمحۂ موجود ہے زندگی بس، آگے کا کیا معلوم جی! خیر فقیر نے اس کے سوالات کو آسودہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن اس کے بعد اس کی حیرت کو کیسے سنبھالا جاتا تو فقیر نے باہر کی راہ لیتے ہوئے اس کی جانب دیکھا، اس کی آنکھیں تو برسات بنی ہوئی تھیں۔

میں باہر آکر بابا کے پاس بیٹھ گیا تھا، خاموشی تھی، اس کے بعد بابا نے دعا کے لیے اپنے پاکیزہ ہاتھ رب تعالٰی کے حضور بلند کیے: یااﷲ! ہم تیرے نادارو بے بس و لاچار بندے ہیں، ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، گناہ ہوئے ہیں اور ہم انسان ہیں یہ تو ہوتے رہیں گے، لیکن ہم تیری رحمت پر یقین رکھتے ہیں کہ تُو پشیمان بندوں سے درگزر فرماتا ہے تو ہمیں اپنی رحمت سے معاف فرما دے، ہمارے لیے ہر وہ راہ کھوٹی کردے جو تجھ سے دور کردے، ہمارے لیے ہر اس راہ کو منتخب اور آسان فرمادے جو تیری رضا تک پہنچا دے، تُو ہمیں اپنی رضا میں پیکر تسلیم بنا دے۔

ہماری غلطیاں درگزر ہوتی رہیں، ہم نادان انسان ہیں تو ہمارے فیصلے بھی ناقص ہیں، تُو ہمارے فیصلوں میں برکت عطا فرما اور انہیں آسانی سے کامل فرما، ہر شر و فساد سے اپنی پناہ میں رکھ لے اور تیرے جن دو بندوں کے بندھن کا تیرے نام اور یقین کامل سے فیصلہ کیا ہے اسے آسانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھ، انہیں اپنی کسی بھی مخلوق کا محتاج مت رکھنا اور صرف خود ہی کافی ہوجانا اور ابد تک۔ آمین

قصۂ مختصر کیے دیتا ہے فقیر! شادی کی ساری تفصیلات طے ہوگئی تھیں اور ایک دن فقیر حنیف بھائی کا ایک جوڑا ناپ کے لیے ان کے گھر دینے گیا تھا۔ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب حنیف بھائی کو لوگوں کے ساتھ اس ماہ وش کے والدین نے دولہا بنے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا، وہ حیرت کے ساتھ انتہائی خُوش تھے۔ جی اس سے پہلے انہوں نے حنیف بھائی سے ملنے پر کوئی اصرار نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے سارے اختیارات پہلے ہی بابا کو سونپ چکے تھے۔ فقیر آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہے کہ حنیف بھائی کو رب تعالٰی نے انتہائی وجیہہ بنایا تھا، قوی اور بلند قامت، کشادہ پیشانی اور روشن آنکھیں، دودھ مکھن جس میں زعفران گندھا ہوا ہو جیسی رنگت، واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد۔ حنیف بھائی کے لیے ساری خریداری اس ماہ وش کے والدین نے کی تھی جس کی ساری ادائی بہ اصرار بابا نے کی تھی۔ ساری تقاریب سادگی سے انجام پزیر ہوئیں اور حنیف بھائی اور وہ ماہ وش جیون بھر کے لیے بندھ گئے تھے۔

یاد ہے فقیر کو وہ دن بھی جب ولیمہ تھا اور بابا انتہائی مطمئن تھے، دیگر مہمانوں کے ساتھ ہمارے مزدور بھائی بھی اس میں شریک تھے۔ اور پھر وہ گھڑی آگئی تھی جب میں اور بابا واپس جانے کے لیے تیار تھے۔ بابا نے حنیف بھائی کو سینے سے لگایا ہوا تھا اور وہ اشک بار تھے، حنیف بھائی بھی، بابا کی زبان پر بس ایک ہی ورد تھا: مالک انہیں بس تیرے ہی سپرد کیا ہے، تُو نے مجھ ناتواں پر جو ذمے داری ڈالی تھی، اسے تیرے ہی کرم سے انجام دیا ہے، شُکر لازم ہے مجھ ناتواں پر، پَر کیسے ادا ہو پائے گا تیرا شُکر! حمد بس تیری ہے، بس تیرے ہی حوالے کیا ہے انہیں۔

کیسا سماں تھا وہ، جی بیان کیسے کیا جائے کہ آنکھیں برسنے سے نہیں رکتیں، رکتی ہی نہیں۔ ان سب کا اصرار تھا کہ ہم اس رات کو وہیں رکیں لیکن بابا نے یک سر انکار کردیا تھا۔ بابا کی ایک عادت تھی کہ وہ سب سے ملنے کے بعد بہ آواز بلند فرماتے: ’’اب رخصت‘‘ اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اس دن بھی انہوں نے سب سے رخصت ہونے کے بعد یہی کہا تھا اور فقیر کا ہاتھ تھامے تیزی سے وہاں سے نکل آئے تھے۔ جی فقیر نے پیچھے مڑ کر کئی مرتبہ دیکھا تھا حنیف بھائی کو، کیسے بتائے ان کا حال بھی تو بس قصہ ختم ہوا۔ رب تعالٰی انہیں سدا اپنی امان میں رکھے۔

ہم پیر ودھائی پہنچ کر ایک ویگن میں سوار ہوئے اور پھر ٹیکسلا آگیا تھا۔ اپنی کٹیا تک ہم بالکل خاموشی سے پیدل آئے تھے، رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا اور بابا وضو کرنے کے بعد سجدہ ریز تھے۔ جی فقیر ان کی سسکیوں کو سُن سکتا تھا، وہ پوری رات شب شُکر تھی۔ صبح بابا کی طبیعت ناساز تھی فقیر نے بابا کو ناشتا دیتے ہوئے چھیڑا تھا: بابا ایسا لگتا ہے کہ حنیف بھائی آپ کے بیٹے نہیں، بیٹی تھی جسے آپ نے رخصت کردیا۔ وہ فقیر کو دیکھ کر مسکرائے تھے لیکن اشک بار اور کہا تھا: نہیں باز آئے گا ناں تُو پگلے! لیکن سچ کہہ رہا ہے تُو جب میں اس کی ماں بن سکتا ہوں تو پھر وہ میری بیٹی کیوں نہیں بن سکتا۔ ہاں فقیر اپنے نصیب پر نازاں ہے کہ بابا نے اسے کئی مرتبہ کہا: تُو ہے ناں میرا پاگل بچہ، میرا لاڈلا بیٹا۔

بابا کی حالت نہیں سنبھل پائی تھی۔ دو دن بعد انہوں نے حنیف بھائی کے لیے ایک خط مجھ فقیر سے ہی لکھوایا تھا، فقیر اس کے مندرجات بتانے سے قاصر ہے۔ وہ دن بھی فقیر کو بہت اچھی طرح سے یاد رہے گا جب وہ لوہار بابا کٹیا میں داخل ہوئے اور کہا تھا: سرکار حاضر ہوں، اور بابا نے اسے سینے سے لگا کر کہا تھا: اپنا کام ختم ہوا الحمدﷲ، اب تمہارا کام ہے آگے، اپنا یہ پگلا بچہ رب تعالٰی کے حکم پر تمہیں سونپ رہا ہوں، احتیاط کرنا بہت پاگل ہے یہ۔ اور اس کے ہاتھ میں فقیر کا ہاتھ دے دیا تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے سر جھکائے کپکپا رہے تھے اور بس اتنا کہا تھا: حضور! دعا کیجیے گا اور کبھی اس بندے کو تنہا مت چھوڑیے گا۔

وہ گھڑی کیسے فراموش کی جائے جب بابا نے نماز فجر ادا کی تھی، فقیر اور لوہار بابا انہیں دیکھ رہے تھے، پھر انہوں نے ہماری جانب دیکھا تھا اور مسکرائے تھے، ہمیں اپنے پاس بلا کر بوسہ دیا اور وہیں لیٹ کر کچھ پڑھنے لگے اور پھر اچانک کلمۂ طیبہ بلند ہوا اور بابا اس عارضی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی تجہیز و تکفین میں ہمارے کارخانے کے مزدور اور نہ جانے کہاں کہاں سے خلق خدا امڈ آئی تھی، نہ جانے کس نے انہیں اطلاع دی تھی۔ وہ فقیر کو پہلے ہی منع کرچکے تھے کہ حنیف بھائی کو اس کی اطلاع نہیں دی جائے گی، جب بھی ان سے ملاقات ہوگی تو بس بابا حضور کا خط انہیں دے دیا جائے۔ حنیف بھائی کا حال بعد میں سنائے گا فقیر! چلیے اب رخصت۔

لیکن بتانے دیجیے ناں اپنے غم کا حال

اُس کا سینہ بھی زخمی تھا، اُس کے سُر بھی بوجھل تھے

میرا درد سمجھنے والا کوئی نہ تھا، شہنائی تھی

اور بابا حضور کی عنایات کا بھی جی!

دنیا کا ہر بندھن میں نے توڑ دیا اعجاز مگر

مجھ سے وہ زنجیر نہ ٹوٹی جو تُونے پہنائی تھی

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


سیلفی کا جان لیتا جنون

$
0
0

’’چلیں اب ایک سیلفی ہوجائے۔۔۔!‘‘ شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ہمیں یہ جملہ سنائی نہ دیتا ہو۔ گھر، دفتر، تفریحی مقامات حتٰی کہ بیچ ٹریفک میں بھی آج کل لفظ ’’سیلفی‘‘ کی گونج بہ آسانی سنی جاسکتی ہے۔

موبائل فون کے ذریعے اپنی تصویر بنانے کا عمل سیلفی کہلاتا ہے، سب سے پہلی سیلفی کس نے لی ہوگی یا اس لفظ کا سب سے پہلے استعمال کس نے کیا ہوگا؟ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال 2013 تک لفظ سیلفی اتنی شہرت اور اہمیت ضرور اختیار کر گیا تھا کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے اِس لفظ کو اُس سال کا مشہور ترین لفظ قرار دینے میں ذرا بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیلفی لینے کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

جس میں سب سے کلیدی کردار آئے دن نت نئے متعارف ہونے والے اسمارٹ فونز کا ہے ۔ اب تو ’’سیلفی فون‘‘ بھی عام فروخت کے لیے دست یاب ہیں جن میں بطور خاص سیلفی لینے کے لیے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار چار کیمرے نصب ہوتے ہیں تاکہ آپ کی لی گئی سیلفی زیادہ سے زیادہ شان دار نظر آسکے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ اب سیلفی خوش گوار یادیں محفوظ کرنے کے بجائے صرف خودنمائی کے لیے استعمال ہورہی ہیں تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں سیلفی کے ذریعے خودنمائی کا یہ خبط اس خطرناک سطح تک جاپہنچا ہے کہ بعض مواقع پر لوگ منفرد یا انوکھی سیلفی لینے کی کوشش میں اپنی قیمتی جان تک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

جدید طبی اصطلاح میں سیلفی کے اِس جنون کو ’’سیلفی سینڈروم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیقاتی مطالعے میں کیے گئے سروے کے مطابق اکتوبر 2011 سے اکتوبر 2019 تک307 افراد سیلفی لیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے جو سالانہ اوسطاً 39 افراد بنتے ہیں۔ سیلفی کے دوران موت کے نمایاں ترین اسباب میں ڈوب جانا یا اونچی جگہ سے گرنا سرفہرست ہے جب کہ قاتل سیلفی کی دوڑ میں مرد خواتین پر واضح عددی برتری رکھتے ہیں، اب تک سیلفی سے ہونے والی ہر دس اموات میں سے سات اموات مردوں کی تھیں اور یہ تناسب 70 فیصد کے قریب بنتا ہے۔

نیز سب سے زیادہ فکر کی بات تو یہ ہے کہ سیلفی لیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دینے والوں میں پچاس فیصد افراد کی عمریں 20 سے 29 سال کے درمیان ہوتی ہیں جبکہ 36 فیصد افراد کی عمر 10 سے 19 سال بتائی گئی ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں شریک سائنس دانوں نے تجویز دی ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص خطرناک مقامات پر سیلفی کی ممانعت کے زون ہنگامی بنیادوں پر بنائے جائیں تاکہ اس نوعیت کی ذاتی تصاویر کے سبب واقع ہونے والی اموات کا کچھ سدباب کیا جاسکے۔

شاید اسی لیے بعض ممالک میں سیلفی لینے کے دوران بڑھتی شرح اموات پر اکثر پبلک مقامات اور سیاحتی جگہوں کو ”نو سیلفی زون” بھی قرار دیا جارہا ہے، جس میں سمندر کا کنارہ، پہاڑیاں اور بلند عمارتیں شامل ہیں۔ فی زمانہ موضوع کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے قارئین کی دل چسپی و معلومات کے لیے چند جان لیوا سیلفیوں کا مختصر احوال پیش ِ خدمت ہے۔

٭ڈوبتے سورج کے ساتھ سیلفی نے زندگی کا چراغ گُل کردیا

نومبر 2018 میں ایک 35 سالہ جرمن نژاد خاتون سری لنکا میں دورانِ سیاحت اپنی ایک دوست کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوکر ڈوبتے سورج کا نظارہ کر رہی تھی کہ اچانک اُس کے ذہن میں پہاڑ سے ذرا مزید ا آگے جھک کر غروب ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ سیلفی لینے کا انوکھا خیال آیا اور اُس نے یہ بات اپنی دوست کو بتاتے ہوئے کہا ’’چلو ڈھلتے سورج کے کچھ مزید قریب جاکر سیلفی لیتے ہیں‘‘۔ دوست نے اس خطرناک کام سے خاتون کو باز رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ خاتون اپنی دوست کی بات کو سنا اَن سنا کر جیسے ہی آگے بڑھی وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث پیر پھسلنے سے 4000 فٹ (ایک ہزار 200 میٹر) بلند پہاڑ سے ایک کھائی میں جاگری۔ بدقسمتی سے اس کھائی تک پہنچنے کوئی راستہ نہ تھا۔

جس کے باعث سری لنکن آرمی کو طلب کرنا پڑا۔ سری لنکن آرمی اور امدادی کارکنوں نے 6 گھنٹے کی تلاش اور ریسکیو آپریشن کے بعد خاتون کی لاش کو بڑی تگ و دو کے بعد آرمی ہیلی کاپٹر کی مدد سے گہری کھائی سے نکالا۔ یہ جان لیوا حادثہ سری لنکا کے معروف سیاحتی مقام ورلڈز اینڈ پر پیش آیا، جو سری لنکا کے وسط میں ’’ہورٹن پلینز نیشنل پارک‘‘ میں قائم ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے یہ جگہ انتہائی پرکشش سمجھی جاتی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جو اس سیاحتی مقام پر ہوا ہو۔ اس سے قبل سال 2015 میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والا نیا نویلا شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کو منانے کے لیے اسی مقام پر سیلفی لیتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، تاہم خوش قسمتی سے یہ جوڑا پہاڑ کی چوٹی سے گرنے کے بعد ایک درخت کی شاخوں میں پھنس گیا تھا جس کی وجہ سے اس نو بیاہتا جوڑے کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔

٭بالکونی میں بنائی گئی جان لیوا سیلفی

گھر کی بالکونی میں میں کھڑے ہوکر سیلفی لے کر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کرنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں کی زندگی فلیٹس میں مقید ہوتی ہے۔ گھر کی بالکونی سے سیلفی لے کر بیرونی زندگی کی منظرکشی کرنا اکثر افراد کا من پسند مشغلہ ہے مگر یہ کام کتنا زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، اس کا اندازہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پیش ہونے والے ایک تازہ واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں پاناما شہر میں ایک 44 سالہ امریکی خاتون سینڈرا مونیولا دا کوسٹا (Sandra Manuela Da Costa) صرف ایک منفرد سیلفی لینے کے شوق میں رہائشی ٹاور کی 27 ویں منزل سے گر کر ہلاک ہوگئی۔ سینڈرا دو بچوں کی ماں اور اسکول ٹیچر تھی جو حال ہی میں پرتگال سے اپنی ملازمت کے سلسلہ میں پانامہ شہر میں منتقل ہوئی تھی۔

وہ اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی کی ریلنگ کے ساتھ کھڑے ہوکر سیلفی لیتے ہوئے اپنے پیچھے کے منظر کو تصویر میں شامل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ تاہم وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور بالکونی سے نیچے آ گری۔ امریکی پولیس کے ذرائع کے مطابق سینڈرا تیز ہوا چلنے کے باعث اپنا توازن کھو بیٹھی۔ نیز لوکسر ٹاور میں رہنے والے عینی شاہدین کے مطابق زمین پر گرتے ہوئے بھی اس خاتون نے سیلفی اسٹک کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ مذکورہ ٹاور کے نزدیک موجود تعمیراتی کام کرنے والے تعمیراتی کمپنی کے ایک مزدور نے اپنے موبائل فون سے سینڈرا کے بالکونی سے گرنے کے منظر کو ریکارڈ کر لیا۔ نوجوان مزاحیہ شاعر نوید ظفر کیانی کا زیرِنظر شعر ایسے حادثات کی مناسبت سے کتنا بر محل شعر ہے کہ

منظر کے انتخاب نے چھت سے گرادیا

سیلفی کے اشتیاق میں بندہ تمام شُد

اس واقعے کی انٹرنیٹ پر زیرگردش وڈیو میں ایک شخص کو دوسرے سے یہ کہتے ہوئے صاف سنا جا سکتا ہے کہ ”یہ خاتون پاگل ہے، یہ جا رہی ہے، اس کو دیکھو، اس کو دیکھو… یہ نیچے گر رہی ہے۔” برطانوی اخبار ڈیلی مِرر نے اپنی ویب سائٹ پر واقعے کی وڈیو پوسٹ کی ہے، جسے اس مختصر لنک سے آپ بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں: http://bit.ly/2Akgigb

٭جنگلی ریچھ کے ساتھ سیلفی لینے کا انجام

مئی 2018 میں بھارتی ریاست اڑیسہ میں سیلفی کے ایک شوقین کو ناگہانی حادثے کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ایک ریچھ نے جس کے ساتھ وہ اپنی سیلفی بنانے کے لیے اس کے قریب پہنچ گیا تھا اچانک جنگلی ریچھ نے اس پر حملہ کرکے ہلاک کردیا۔ 27سالہ پربھو بھٹارا جو کہ پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھا اور شادی کے مہمانوں کو اپنے ٹرک میں لے کر اُڑیسہ شہر کے ایک مضافاتی گاؤں جارہا تھا کہ سڑک کنارے ایک ریچھ کو دیکھ کر اس نے اس کے ساتھ سیلفی لینے کا پروگرام بنایا اور گاڑی روک کراس نے مہمانوں کو گاڑی میں ہی چھوڑا اور خود جنگلی ریچھ کے پاس جا پہنچا لیکن اس سے پہلے کہ سیلفی کے لیے پوز بناتا ریچھ نے اس پر حملہ کردیا اور اسے بھنبھوڑ کر شدید زخمی کردیا۔

جس سے پربھو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ریچھ وہاں ایک جوہڑ پر پانی پینے میں مصروف تھا اور پربھو دبے قدموں ریچھ کے بالکل عقب میں پہنچ کر سیلفی لینے ہی والا تھا کہ اچانک اُس کا پاؤں پھسل گیا اور توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے ریچھ کے چنگل میں جا پھنسا۔ ایک شخص نے پربھو کو بچانے کی کوشش بھی کی جو کامیاب نہ ہوسکی جب کہ وہاں موجود افراد نے پتھر اور ڈنڈے مار کر ریچھ کو بھگانا بھی چاہا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جائے حادثہ کی تصویر چند مقامی لوگوں نے اتاری اور اس واقعے کی وڈیو بھی بنائی۔

وڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ حادثہ کا آغاز ریچھ کی برہمی سے ہوا، جس نے اپنے ساتھ سیلفی بنانے والے شخص پر اپنے تیز ناخنوں سے حملہ کرکے اسے بری طرح زخمی کیا اور پھر اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیا جب کہ اس کے ہتھے چڑھنے والا پربھو جان بچانے کی بھرپور جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ وڈیو میں مقامی لوگوں کے چیخنے چلانے کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ اس حادثے کی انٹرنیٹ پر زیرگردش ویڈیو کا مختصر لنک ہے: http://bit.ly/2EUbceH ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسی علاقہ میں دسمبر 2017 میں بھی تین مختلف واقعات میں دو افراد ہاتھیوں کے ساتھ سیلفی بنانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

٭چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی کا بخار

تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں واقع ’’سیمسین ریلوے اسٹیشن‘‘ پر ایک 24 سالہ خاتون اپنے دوست کے ساتھ ریل کی پٹری پر آنے والی ریل کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہوگئی ۔ اس اندوہ ناک واقعے میں خاتون کے بچ جانے والے دوست کا حادثہ کی تمام تر تفصیل بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میں اور میری دوست ریلوے ٹریک کے سامنے بیٹھے مشروب پی رہے تھے کہ اچانک ہمیں دور سے ریلوے پٹری پر ایک ریل گاڑی آتی دکھائی دی۔ میری دوست نے مجھ سے کہا کہ کیوں نہ اس آنے والی ٹرین کے ساتھ ایک سیلفی ہوجائے، ہماری یہ سیلفی سوشل میڈیا پر دھوم مچا سکتی ہے۔

مجھے بھی اپنی دوست کی اس بات سے اتفاق تھا سو ہم دونوں ریلوے پٹری کے عین بیچوں بیچ کھڑے ہوکر ریل گاڑی کے اپنے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے، جیسے ہی ریل گاڑی ہمارے قریب آئی ہم نے سیلفی اُتار کر جلدی سے ریلوے پٹری سے دور ہوجانے کی کوشش کی لیکن شاید ٹرین ہماری توقع سے زیادہ تیزرفتار تھی اور ہماری ریل گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ ‘‘ فروری 2018 کی صبح پیش آنے والے اس حادثے میں بدقسمت خاتون موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تھی جب کہ اُس کا دوست ریل گاڑی کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگیا تھا، جسے بعدازاں جائے حادثہ پر موجود لوگوں کی کوشش سے بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں اُسے ملنے والی طبی امداد نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں میں چلتی ٹرین کے عین سامنے آکر سیلفی بنانے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔

خاص طور پڑوسی ملک بھارت میں اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ گذشتہ سال جنوری 2017 میں بھی بھارتی شہر کلکتہ کے علاقے ہاوڑا میں چلتی ٹرین میں لڑکوں کا گروپ سیلفی اسٹک کے ذریعے سیلفی بنا رہا تھا، اسی دوران ایک لڑکا ٹرین سے باہر گرگیا، جس پر دوست کو بچانے کے لیے اس کے تین ساتھیوں نے بھی نیچے چھلانگ لگادی، مگر ان میں سے دو لڑکے ٹرین کے پہیوں کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق سارا مسئلہ سیلفی بنانے سے شروع ہوا، بچے تصویر بنانے میں اتنا مگن تھے کہ انہیں ٹرین کے ہلنے کا احساس ہی نہ ہوا، اور جھٹکا لگنے سے جب ایک دوست باہر گرا تو دیگر بھی اسے بچانے کے لیے گود پڑے اور ٹرین کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔

٭اُڑتے جہاز کے ساتھ سیلفی کا جنون

میکسیکو سٹی کی ریاست چیہواہوا کے ایک قصبے چینیپاس میں رہنے والی دو نوجوان لڑکیاں جن کی عمریں بالترتیب 17 اور 18 برس کے لگ بھگ تھیں، رن وے سے بلند ہوتے ایک چھوٹے طیارے کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش میں طیارے کے پر کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ دونوں لڑکیاں رن وے کے قریب منعقد ہونے والی گھوڑوں کی ریس کی تقریب میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور تقریب کے اختتام پر گھر واپسی کے لیے اپنی فلائیٹ کا انتظار کر رہی تھیں کہ کسی طرح یہ دونوں ایئرپورٹ سیکیوریٹی اہل کاروں سے نظر بچا کر رن وے پر جاپہنچیں۔ رن وے سے ایک اُڑنے والے جہاز کے بالکل قریب سے سیلفی لینے کی خواہش میں وہ رن وے پر کھڑے ایک ٹرک پر چڑھ گئیں تاکہ بلند ہوتے جہاز کے ساتھ بالکل قریب سے ایک یادگار اور منفرد سیلفی اُتار کر اپنی دوستوں کو حیران کر سکیں، مگر اُن کا یہ ’’سیلفی ایڈونچر‘‘ جان لیوا ثابت ہوا اور طیارے کا پر ان دونوں لڑکیوں کے سروں ٹکرا گیا جس کے باعث دونوں بچیاں موقع پر ہی دم توڑ گئیں جب کہ لڑکیوں کے ساتھ پر ٹکرانے کے باعث طیارے کو بھی زبردست نقصان پہنچا اور طیارے میں سوار کئی مسافر زخمی بھی ہوئے۔ تاہم ایئرپورٹ حکام کی جانب سے طیارے کے حادثے میں زخمی ہونے والے مسافروں کی اصل تعداد میڈیا کو فراہم نہیں کی گئی۔

٭کیا جان لیوا سیلفی سے بچنا ممکن ہے؟

سیلفی سینڈروم کے مرض پر تحقیق کرنے والے کئی نامور محققین اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اُمید ہے کہ اگر لوگ ہمارا ساتھ دیں اور سیلفی لیتے ہوئے غیرضروری ایڈونچر ازم سے پرہیز کریں تو اس مسئلہ سے بخوبی نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘ اس ضمن میں محققین کی ٹیم نے ’’سیفٹی کیمرا‘‘ کے نام سے ایک ایسی منفرد موبائل اپلی کیشن بھی تیار کی ہے جو سیلفی لینے والے افراد کو خطرے سے متنبہ کرتی ہے۔ یہ موبائل ایپ اونچے مقامات، ٹرین کی پٹری یا ایسی کسی بھی خطرناک صورت حال جس سے سیلفی لینے والے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ دورانِ سیلفی ہی سرخ لفظوں میں لکھا ایک پیغام سیلفی لینے والے کی موبائل اسکرین پر ظاہر کردیتی ہے کہ ’’ یہاں سیلفی لینا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ‘‘ جب کہ محفوظ مقام پر سیلفی لیتے ہوئے موبائل اسکرین پر سبز لفظوں میں یہ پیغام نمودار ہوجاتا ہے کہ ’’یہاں سیلفی لی جاسکتی ہے۔‘‘ چونکہ یہ ایپ حال ہی میں تخلیق کی گئی ہے۔

اس لیے اس کے سو فیصد درستی کے حوالے سے تو فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس ایپ کو بنانے والی ٹیم کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ ان کی ٹیم نے تین ہزار سیلفیوں پر اس ایپ کا تجربہ کیا ہے اور خطرناک تصاویر کے بارے میں اس ایپ نے 70 فیصد مواقع پر بالکل درست نشان دہی کی ہے۔ دعوے کی سچائی جاننے اور اُس کی تصدیق و تردید کے لیے آپ اپنی رائے بھی اس ایپ میں درج کرسکتے ہیں، جو مستقبل میں اس ایپ کو مزید بہتر بنانے میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایپلی کیشن کو درج ذیل مختصر لنک سے ڈاؤن لوڈ کرکے اپنا اسمارٹ فون کا ناگزیر حصہ بنایا جاسکتا ہے: http://bit.ly/2rUfv0X    n

The post سیلفی کا جان لیتا جنون appeared first on ایکسپریس اردو.

ہے کوئی کراچی جیسا تخلیقی شہر!

$
0
0

ارے بھئی یونیسکو! یہ کیا بات ہوئی، لاہور کو تخلیقی شہر قرار دے کر اسے تخلیق کار شہروں کی فہرست میں شامل کرلیا۔

ہمارے کراچی پر کیوں نظرکرم نہ کی؟ کیا ہم سمجھیں کہ ۔۔۔یہ جو لاہور سے محبت ہے۔۔۔یہ کسی اور سے محبت ہے؟ ہم کراچی سے ہونے والے اس امتیازی سلوک پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ ہم کراچی والے ویسے ہی لاہور کی کچھ خصوصیات کے باعث اس سے جلے بُھنے رہتے ہیں۔

جیسے لاہوری بڑے فخر سے کہتے ہیں،’’جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا۔‘‘ کراچی والے سوچتے ہی رہ گئے کہ اس کے مقابلے میں اپنے شہر کے لیے کوئی کہاوت ایجاد کریں، مگر اب تو شہرقائد کا یہ حال ہے کہ بس یہ کہا جاسکتا ہے’’جس نے کراچی دیکھ لیا اس نے یہاں پیدا ہونے سے انکار کردیا۔‘‘ اور یہ مغلوں کی حرکت دیکھیے، لاہور میں دھڑادھڑ عمارتیں بنا دیں۔

کراچی میں کوئی کچراکُنڈی ہی بنا جاتے، اپنے کسی بادشاہ کو کراچی میں دفن ہی کردیتے، کم ازکم مغلیہ سلطنت کے آخر والے بادشاہوں کی تدفین تو کراچی میں ہوسکتی تھی، جن کے پاس میئرکراچی سے بھی کم اختیارات تھے۔ ہماری قسمت میں شاہ لکھے بھی تھے تو سائیں قائم علی شاہ جیسے۔ اور تو اور ہم اہل کراچی دریا سے بھی محروم ہیں، اسی لیے یہاں خون کی ندیاں بہاکر دریا کا متبادل دینے کی کوششیں بڑے خلوص سے کی جاتی رہی ہیں۔ اتنی محرومیاں کیا کم تھیں کہ یونیسکو نے ان میں مزید اضافہ کردیا۔

اگر لاہور کو ادب کے زمرے میں یہ اعزاز دیا گیا ہے تو ہمارا شہر تو ادب سمیت کتنے ہی شعبوں میں تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ فن تعمیر ہی کو لیں۔ چائنا کٹنگ جیسی تخلیق بیجنگ اور شنگھائی والے بھی نہ کرسکے جو ہم کراچی والوں نے کر ڈالی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے ذریعے ٹریفک کی تیزرفتاری پر قابو پانے کا خیال دنیا کے کسی اور شہر کے باسیوں کو آیا؟ سڑکوں پر گڑھے کرکے پانی جمع کرنے کا اچھوتا آئیڈیا قلت آب کے اس دور میں کراچی کے سوا دنیا کا کوئی شہر پیش کرسکا؟

اب بات ہوجائے مصوری کی۔ یہ جو اسٹریٹ آرٹ کے چرچے ہیں یہ دنیا نے ہم سے ہی سیکھا ہے۔ پان اور گُٹکے کی پچکاریوں سے شہر کی دیواروں پر جو شاہ کار تخلیق کیے گئے ہیں انھوں نے پورے کراچی کو ایک گیلری میں تبدیل کردیا ہے۔ اتنے لال تو ماسکو اور بیجنگ جیسے کمیونسٹ شہر نہیں ہوسکے۔

4

جتنا ہم نے سرمایہ داری کے پاکستانی مرکز کو کرڈالا۔ دیواروں پر نقش دل اور تیر کی وہ تصاویر اس کے علاوہ ہیں جو بتاتی ہیں کہ ان دنوں ’’ایس‘‘ یعنی شبو اور ’’بی‘‘ مطلب بَنے کے درمیان زوردار عشق ’’چل ریا ہے۔‘‘ کچھ عرصے پہلے تک تو ہمارے شہر میں گلی گلی اور چوراہوں پر ’’ایک صاحب‘‘ کی قدآدم تصاویر لگی تھیں، دراصل بات یہ ہے کہ پورے شہر میں ایک ہی تصویر کی نمائش لگی تھی، پھر یہ ایگزیبیشن آپریشن کی نذر ہوگئی۔ یہ ایک ہی ’’ماڈل‘‘ کی تصویر کو کئی طرح سے پیش کرنے کا مقابلہ تھا، گویا ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔‘‘ ایسی تخلیقی اُپچ کسی اور شہر میں ملے گی؟

گلوکاری کے شعبے میں تو ہمارا کراچی بے مثال ہے۔ یہاں خالصتاً سیاسی تقریریں بھی گانوں میں ڈھلتی رہی ہیں، یہاں تک کہ ۔۔۔گاتے گاتے بیٹھ گئی آواز ہمارے ’’بھائی‘‘ کی۔ تان سین کے بارے میں مشہور ہے کہ جب دیپک راگ الاپتے تو دیے خودبہ خود جلنا شروع ہوجاتے تھے۔ کراچی میں تو ایسے ایسے ماہر فن پیدا ہوئے کہ دیپک راگ الاپ کر پورے شہر میں آگ لگادی۔ پرویزمشرف کے دور حکومت میں کراچی کی قیادت ’’راگ درباری‘‘ اونچے سُروں میں الاپتی رہی اور حکم راں کے سُر سے سُر ملاتی رہی۔ کاش اتنے سُریلے لوگوں کے شہر کو موسیقی کے صیغے ہی میں تخلیقی قرار دے دیا جاتا۔

اداکاری میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کیا یونیسکو والوں نے ان معروف سیاست داں کی وڈیو نہیں دیکھی جو کیمروں کا سامنا کرتے ہوئے کیمرامینوں کے عقب میں دور تک پھیلی خالی جگہ دیکھ کر یوں ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے سامنے موجود لاکھوں کے مجمع کی پذیرائی کا جواب دے رہے ہوں۔ یہ وہی سیاست داں ہیں جنھوں نے مشہور زمانہ ’’میرے پاس ماں ہے‘‘ کے مکالمے پر پوری فلم بنا ڈالی۔ اداکار محمد علی مکالموں کی جذباتی طرزادائیگی خاص طور پر رونے کی اداکاری کے سبب ’’شہنشاہِ جذبات‘‘ کہے جاتے تھے، کراچی کی سیاست میں ایسے شاہانِ جذبات کی کمی نہیں جنھیں رونے پر ملکہ حاصل ہے۔

جلسہ ہو، ٹاک شو یا پریس کانفرنس جب یہ ’’ٹُک‘‘ روتے ہیں تو سمجھو میرتقی میر کی ساری شاعری، ہیرو سے بچھڑ کر روتی ہیروئنوں کے بین اور پاکستانی ڈراموں میں اور انھیں دیکھ کر بہانے جانے والے سارے ٹسوے ایک طرف اور ان سیاست دانوں کی اشک بہانے کی قابل رشک مشق دوسری طرف۔ حیرت ہے یونیسکو کو یہ فن کاری کیوں نظر نہ آئی۔

اور یونیسکو والو! کراچی جیسے باادب شہر کے مقابلے میں لاہور کو ترجیح کس بنا پر دے دی؟ ادب کے جو نظارے کراچی نے دکھائے کوئی دوسرا شہر کیا دکھا پائے گا۔ یہاں ایک زمانے میں ایسے اجتماعات ہوتے تھے جن کے شرکاء سرجھکائے باادب بیٹھے ٹیلی فون سے نشر ہونے والی تقاریر اور ’’لیکچر‘‘ سُنا کرتے تھے۔ یہ ادب برائے ادب نہیں ’’ادب برائے زندگی‘‘ تھا، جسے بعض لوگ ’’ادب بچائے زندگی‘‘ کہتے تھے! یہ ادبی وشعری ذوق ہی تو ہے کہ ہمارے شہر میں غیرشاعر بھی تخلص رکھنے لگے، جیسے ’’کانا‘‘،’’کن کٹا‘‘، ’’ٹُنٹا‘‘،’’موٹا‘‘ وغیرہ، یہ تخلص شعری ذوق وشوق ہی نہیں اصحاب تخلص کی انکساری کا بھی پتا دیتے ہیں۔ یہ حضرات شعر نہیں کہتے تھے خود ’’شیر‘‘ ہوتے تھے۔

اب بتاؤ یونیسکو! اتنی تخلیقیت دنیا کے کسی اور شہر میں ملے گی؟ تو پھر کہو تخلیقی شہر ہونے کے اعزاز کا حق دار لاہور تھا یا کراچی؟

The post ہے کوئی کراچی جیسا تخلیقی شہر! appeared first on ایکسپریس اردو.

عالمی سیاسی بساط پر ایٹمی ہتھیاروں کا ظہور

$
0
0

(قسط نمبر 11)

بیسویں صدی انسانی تاریخ کی ہولناک صدی تھی اس صدی میںجہاں انسان نے ترقی کرتے ہوئے کائنات کو تسخیر کرنے کے کئی کامیاب کارنامے سرانجام دیتے ہوئے چاند پر قدم رکھا اور مریخ تک رسائی حاصل کی خلا میں سیٹلائٹ بھیج کر زمین اور دیگر سیاروں کے چپے چپے پر نظر رکھی ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے طاعون، چیچک، جیسی وبائی بیماریوں کا دنیا سے خاتمہ کردیا اور بہت سی لا علاج بیماریوں کا علاج عام کردیا۔

منہ زور طوفانوں، سیلابوں اور دریاؤں کو روک کر سینکڑوں مربع کلومیٹر پر محیط ہزاروں وسیع بند تعمیر کر دیئے، ماضی کے مقابلے میں فی ایکڑ زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کردیا،کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اس وسیع و عریض دنیا کو گلو بل ویلج بنا دیا وہیں دوسری طرف اسی سائنس و ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر خود اپنی تباہی کا اس قدر سامان میسر کر لیاکہ اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہی میںاپنے ہاتھوں پوری دنیا کو تباہ و بر باد ہوتے دیکھ رہا ہے اور جہاں تک تعلق ایٹمی یا جوہری ہتھیا روں کا ہے تو، امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، جو اعلانیہ ایٹمی قوتیں ہیں ان کے علاوہ غیراعلانیہ ایٹمی قوتیں جن میں اسرائیل اور شمالی کو ریا شامل ہیں، اِن میںسے کسی بھی ملک میں کبھی بھی کمانڈ پر بیٹھے ہوئے شخص کی کمپوٹر کے بٹن پر انگلی کی ایک جنبش کروڑوں برسوں سے تشکیل پانے والی اس دنیا کو لمحوں میں تباہ کر سکتی ہے۔

1895 سے لے کر 1937 تک ا نسان نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ ایٹم کیا ہے اس میں کس قدر تو انائی ہو سکتی ہے اور بطور ہتھیار یہ کس قدر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم  میں تقربیاً دوکروڑ افراد ہلاک اور اس سے کچھ زیادہ زخمی اور معذور ہوئے تھے اُس کے منفی اثرات 1930-32 میں عظیم عالمی کساد بازاری کی صورت میں پوری دنیا میں واضح ہوگئے۔

1918 میں ختم ہو نے والی جنگ کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت برطانیہ اگر چہ فاتح تھی مگر اب وہ سپر پاور نہیں رہی تھی کہ پہلی جنگ عظیم نے اُسے نو آبادیاتی نظام کے اعتبار سے دنیاکے کل رقبے میں سے تقریباً چوتھائی رقبے اور آبادی کا مالک بنا دیا تھا مگر جنگ عظیم نے برطانیہ سمیت ایشیا،افرایقہ، یورپ اور آسٹریلیاکو اب دنیا کے سرمایہ داروں اور ذہین و فطین افراد سائنس دانوں ماہرین معاشیات سب کے لیے بے اعتبار بنادیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں اگرچہ امریکہ بھی جرمنی اور ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہوا تھا مگر وہ سب سے آخر میں شامل ہوا، اور اس جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ امر یکہ ہی کو ہوا تھا۔

اس جنگ میں ایک سلطنتِ عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی دوسری روس کی زا ر سلطنت کا خاتمہ اشتراکی انقلاب کے ساتھ ہوا تھا۔ 1492 میں دریافت ہونے والے ملک امریکہ نے 4 جو لائی 1776 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔ ابراہم لنکن کے صدر منتخب ہو نے کے بعد ملک سے غلام داری کے خاتمے کے اعلان پر ۔ خانہ جنگی  شروع ہو گئی۔جو 12اپریل 1860 سے9 اپریل 1865 تک جاری، اور اس جنگ میں ’’1000000 سے1600000‘‘ امریکی ہلاک ہوئے تھے، ان انقلابی نوعیت کے مراحل سے گزر کر امریکہ اب دنیا کا سب سے طاقتور، دولت مند اور خوشحال ملک بن گیا  1930-32 کی کساد بازاری کے زمانے میں سوویت یونین اور پھر کچھ عرصے بعد جرمنی ایسے ملک تھے جو اقتصادی طور پر بحران کی بجائے بہتری کی جانب گامزن تھے۔

امریکہ بھی تھوڑے عرصے بعد کک  بسکٹ کی اقتصادی بہتری کی اصطلاح کے ساتھ گریٹ فنانشل ڈپریشن سے نکل آیا تھا، پرانے سیاسی نوآبادیا تی نظام کی بساط لپیٹی جا رہی تھی اور اس کی جگہ نیااقتصادی نو آبادیاتی نظام تشکیل پا رہا تھا، پہلی جنگ عظیم کا شکست خوردہ جرمنی سنبھل چکا تھا، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات ومعاشیات کے ماہرین نے اعلان کر دیا تھا کہ امریکہ مواقع کی سر زمین ہے۔

اگرچہ اکثر سائنس دان اور ماہرین اپنے علم اور ریسرچ کے اچھے داموں کے لیے امریکہ جا چکے تھے مگر یہاں کچھ جرمن قوم پرست اور روس میں اشتراکی نظریات کے حامل ایسے سائنس دان ٹیکنیشن اور ماہرین تھے، جو بہت رومانی تصورات کے ساتھ وطنیت، قومیت اور اشتراکی نظریات کی بنیادوں پر جرمنی اور سوویت یونین میں موجود تھے، اس عالمی ماحول اور تناظر میں 1939ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ سے تین سال پہلے ہی امریکہ نے دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بنا لیا اور اسی طرح سائنس اور ٹیکنا لو جی کے شعبوں میں ترقی اور فوقیت کی بنیاد پر امریکہ اب دنیا کے تمام ملکوں سے کافی آگے نکل گیا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ نے جس طرح دفاعی جنگ لڑی اُس کی مثال د نیا میں نہیں ملتی، جنگ اس وقت یعنی 1942 کے بعد قدرے پلٹنے لگی اور مختلف محاذوں پر جرمنی پسپا ہونے لگا اس کی ایک بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی جنگ میں شمولیت تھی اور یوں اس صورتحال کو دیکھ کر ماہرین نے پیش گوئی کر دی تھی کہ اب جرمنی اور جاپان کو اس جنگ میں شکست ہو جا ئے گی لیکن ایک نہایت تشویشناک بات یہ تھی کہ جوہری توانائی کا راز جرمنی کو  بھی معلوم تھا اور امریکہ کی بھی اب کوشش یہ تھی کہ ایٹم بم بنا کر اس کا تجربہ کیا جائے۔ امریکہ میں جہاں سائنسی ریسرچ کا ماحول اور وسائل پہلے بھی دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے۔

وہاں اگرچہ 1937سے ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے کے لیے ریسرچ جاری تھی، اس تحقیق کو 1939 سے1941 تک تیز کر دیا گیا، امریکہ میں کوڈ نیم The Manhattan Project کے نام سے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے کام ہو رہا تھا۔ 28 دسمبر 1942ء کو امریکی صدر فرینک ڈی روز ویلٹ نے2 ارب ڈالر کی خطیر رقم جو آج تقریباً 25 ارب ڈالر بنتی ہے، دے کر حکم دیا کہ اس پروجیکٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد ماہرین کو جمع کر کے جلد از جلد ایٹم بم بنایا جائے، یوں مین ہٹن پروجیکٹ میں 130000 افراد کو بھرتی کیا گیا۔

اُس وقت اگرچہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا مگر امریکہ، برطانیہ اور اِن کے اتحادیوں کو اگر فکر تھی تو یہ کہ جرمنی نے اگر پہلے ایٹم بم بنا لیا تو نہ صرف فاشسٹ جرمنی جنگ جیت جائے گا بلکہ وہ دنیا کا جو حشرکر ے گا وہ تاریخ کے لیے ناقابلِ بیان ہو گا، جرمنی سے برطانیہ اور پھر امریکہ منتقل ہو نے والا جرمن نژاد یہودی البرٹ آئن اسٹائن امریکہ میں تھا جو پہلے ہی E=mc,2 دریافت کر چکا تھا اس سے امید تھی کہ وہ ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانے میں دیگر سائنس دانوں کی مدد کر سکتا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ اس ہتھیار سے دنیا میں بڑی تباہی و بربادی ہو گی مگر جب اُسے امریکہ نے اپنے جاسوسوں سے حا صل کئے جانے والے ثبوتوں اور معلومات کے ساتھ بتایا  کہ جرمنی کے نسل پرست بلکہ فاسشٹ نظریات کے حامل جرمن سائنس دان متواتر کوششوں سے ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اگر جرمنی نے ایٹم بم بنا لیا تو دنیا کی صورتحال کیا ہو گی۔ یوں آئن اسٹائن امریکی سائنس دانوں کی مدد پر آماد ہوا لیکن عجیب سی بات ہے کہ اپریل 1945 تک جرمنی کو مکمل شکست ہو چکی تھی البتہ جاپان شکست ماننے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھا۔

دوسری جانب امریکی سائنس دان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگئے، امریکہ نے یہ بم جاپان میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے تاکہ جاپان کو روکا جا سکے ۔ جاپان کا یہ حشر امریکہ نے دنیا خصوصاً سوویت یونین کی عبرت کے لیے بھی کیا تھا ذرا تصور کریں کہ اُس وقت صرف امریکہ واحد ایٹمی قوت تھی اور وہ جسے چاہتی لمحوں میں جلا کر بھسم کر سکتی تھی،  مگر اس د وران دن رات سوویت یونین ، برطانیہ اور فرانس ایٹم بم بنانے میں مصروف رہے تاکہ وہ دنیا میں امریکہ کے سامنے بے بس نہ رہیں۔

امریکہ یہ جانتا تھا اور اگر وہ ان ملکوں کی ایٹمی تنصیبات پر ایٹم بم گرا دیتا یا عالمی سطح پر آمرانہ انداز اختیار کرکے اُس وقت کا ورلڈ آڈر جاری کر دیتا کہ صرف امریکہ کو ایٹم بم رکھنے کا حق ہے تو دنیا کیا کر لیتی کہ ایٹم بم بہت ہی تباہ کن ہتھیار ہے اور اگر اُس وقت پوری دنیا بھی متحد ہو کر امریکہ کے مقابل آتی تو بھی امریکہ اِس پوزیشن میں تھا کہ سب کے مزاج درست کردیتا اور شائد ایسا کرنا اگر حکومت کے بس میں ہوتا تو امریکی حکومت ایسا کر گزرتی، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکہ کے عوام کا انسانی بنیادوں پر ایسا دباؤ تھا کہ یوں نہیں ہوا۔

اُس وقت جب 15  اگست 1945کے فوراً بعد ہی سوویت یونین اور اس کے کیمونسٹ بلاک اور امریکہ، مغربی یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک جو آزادانہ معاشیات پر اور سر مایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتے تھے اِن کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی تو یہ اندیشے ضرور تھے کہ امریکہ کبھی بھی کسی موقع پر ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے، اور وہ اُس وقت اس انداز کی سپر پاور تھا کہ بشمول روس اور چین دنیا کے کئی ملکوں کو چند منٹوں میں خاکستر کر سکتا تھا۔ 29 اگست1949 کو سوویت یونین نے بھی کامیاب ایٹمی دھماکہ کر کے دنیاکی دوسری ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔

اس پر امریکی حکومت کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا مگر ساتھ ہی دو طرح کے تجزیے سامنے آنے لگے وہ یہ کہ اب چو نکہ روس بھی ایٹمی قوت ہے اس لیے اگر مستقبل میں ان کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو پھر ایسی جنگ عظیم یا عالمی جنگ ایک تو چند گھنٹوں یا دنوں میں اس طرح ختم ہو جا ئے گی کہ پوری دنیا ہی جنگ کے ساتھ ختم ہو چکی ہو گی دوسرے تجزیے یوں تھے کہ اب دنیا میں طاقت کا توازن برقرار ہو گیا ہے اس لیے اب جنگ خصوصاً عالمی یا جنگ عظیم کے خطرات ختم ہو گئے ہیں اور یہ دوسرا نقطہ نظر آج تک درست ثابت ہو رہا ہے کہ اب ایٹمی ہتھیارکی ایجاد اور استعمال کو 74 سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن تیسری عالمی یا جنگ عظیم نہیں ہوئی۔

جب سابق سوویت یونین نے 1949 میں کامیاب ایٹمی دھماکہ کر دیا تو امریکی سی آئی اے حر کت میں آئی کیو نکہ اس کی معلومات کے مطابق ایک تو سوویت یونین کے سائنس دان اُس وقت تک ایٹم بم بنانے کی تکنیک تک نہیں پہنچے تھے تو دوسری جانب جو دھماکہ سوویت یونین نے کیا تھا وہ امریکی طرز کا تھا اور بعد میں یہ راز معلوم ہو گیا کہ امریکہ سے یہ ایٹمی راز چرایا گیا تھا اور سوویت یو نین کو فراہم کردیا گیا تھا اور اس راز کو روس کو فراہم کر نے والوں کو امریکہ نے گرفتار بھی کر لیا یہ ایک امریکی جوڑا تھا جو اشتراکی نظریات رکھتا تھا بیوی ایتھل اداکارہ تھی اور سیکرٹری کی نوکری کرتی تھی جب کہ شوہر جولیس روز مبرگ اٹامک ٹیکنالوجی میں انجینئر تھا اور اُنہوں نے امریکہ کے ایٹمی راز روس کو دیئے۔

1951 میں اِن کے بارے میں معلومات اور ثبوت مل گئے اور پھر 19 جولائی1953 کو اِن دونوں میاں بیوی کو الیکڑک چیر پر سزائے موت دے دی گئی۔اس دوران اُنہیں امریکہ کا غدار کہا گیا اور اِن کے بچے بھی تھے جن کو امریکی معاشرے میں شرمندگی اور ندامت کا سامناتھا جب کہ یہ جوڑا اشتراکی نظرایات سے سچائی کے ساتھ منسلک تھا اور اُن کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے دنیا کو ایک سرمایہ دار ملک کی غلامی سے بچا لیا اور دنیا کو متوازن طاقت کی بنیاد پر امن بخشا۔

اُس زمانے میں اشتراکی نظریات کے حامل اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض پنڈی سازش کیس میں جیل میں تھے اُن پر ملک میں انقلاب لانے کی سازش کا مقدمہ تھا اور یہ باتیں بھی ہو رہی تھیں کہ شائد اُن کو ساتھیوں سمیت سزائے موت ہو جائے، یوں ایتھل اور جولیس روزمنبرگ کے خطوط اُن کی موت کے بعد فیض احمد فیض کو اُس وقت کی منٹگمری اور آج کی ساہیوال جیل میں ملے تو انہوں نے 15 مئی 1954کو اِن خطوط سے متاثر ہوکر ایک شاہکار نظم اِن کے نام سے لکھی جو درج ذیل عنوان کے ساتھ یوں ہے۔

(  ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے  )

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں  ہم

دار  کی   خشک   ٹہنی   پہ   وارے   گئے

تیرے ہاتھوں کی  شمعوں کی  حسرت میں  ہم

نیم   تاریک  راہوں   میں   مارے   گئے

سولیوں   پہ   ہمارے   لبوں  سے   پرے

تیرے    ہونٹوں    کی   لالی   لپکتی   رہی

تیری    زلفوں   کی   مستی     برستی    رہی

تیرے   ہاتھوں   کی  چاندی     دہکتی   رہی

جب  کھلی  تیری   راہوں    میں  شام  ِ ستم

ہم  چلے  آئے  لائے  ،  جہاں   تک  قدم

لب  پہ  حرفِ  غزل  ،  دل  میں  قند یلِ  غم

اپنا   غم   تھا   گو اہی    ترے   حسن   کی

دیکھ    قائم   رہے    اِس   گواہی   پہ   ہم

ہم  جو   تاریک   راہوں   میں   مارے   گئے

نارسائی        اگر    اپنی       تقدیر      تھی

تیر ی    الفت    تو    اپنی    ہی    تد بیر   تھی

کس    کو    شکوہ    گر    شوق    کے   سلسلے

ہجر  کی  قتل   گاہوں   سے   سب   جا    ملے

قتل گاہوں   سے    چن     کے   ہمارے   علم

اور    نکلیں    گے    عُشّاق    کے      قافلے

جن  کی   راہِ   طلب   سے    ہمارے      قدم

مختصر    کر    چلے     درد     کے      فاصلے

کر   چلے    جن   کی    خاطر   جہاں گیر   ہم

جاں    گنوا    کر   تری    دلبری   کا     بھرم

ہم   جو   تاریک    راہوں   میں  مارے     گئے

دنیا آج شائد اس واقعہ کو فراموش کر چکی ہے لیکن تصور کر یں کہ اگر آج تک صرف امریکہ ایٹمی قوت ہوتی تو کیا ہوتا؟ سابق سوویت یونین کے بعد 3 اکتوبر 1953 کو برطانیہ 13 فروری1960 کو فرانس اور 16 اکتوبر 1964 کو چین بھی ایٹمی قوت بن گیا البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دوران جب ابھی چین نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا اکتوبر 1962 کے 13 دن پوری دنیا پر بہت بھاری گزر ے۔  ہوا یوں کہ امریکہ کے نزدیک کیوبا میں فیڈرل کاسترو اور چہ گویرا کیوبا کے عوام کی بھرپور قوت اور حمایت سے یہاں اشتراکی انقلاب لے آئے اس اشتراکی انقلاب کی پشت پر سابق سوویت یونین تھا۔

جس نے اس پوری مسلح تحریک کو اسلحہ بارود فراہم کیا تھا، یوں سوویت یونین نے یہاں ایٹمی میزائل نصب کر دئیے اور اِن کی زد میں امریکہ تھا یہ امریکہ کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا کہ سوویت یونین یہاں سے امریکہ کو بری طرح تباہ کر سکتا تھا، یہ امریکہ کے بنیادی وجود اور پالیسی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج تھا، جس کو اُس وقت کے  نوجوان امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بڑی جرات سے قبول کیا اور سوویت یونین کو الٹی میٹم دے دیا کہ اگر یہ میز ائل فوراً یہاں سے نہ ہٹائے گئے تو امریکہ ایٹمی جنگ کا آغاز کر دے گا۔

یوں 13 دن پوری دنیا خو ف میں مبتلا رہی کیونکہ اُن کے سامنے 17 سال پہلے بہت کم قوت کے ایٹم بم لٹل بوائے اور فیٹ مین کے خوفناک نتائج تھے ۔ روس کے خروشف اپنی جگہ تھے اور امریکہ کے مقبول صدر کینیڈی اپنی جگہ تھے۔ کیوبا امریکہ سے صرف 90 میل کے فاصلے پر واقع ایک جزیرہ ہے امریکہ نے کیوبا کے گرد اپنی بحری فوج کو بڑی تعداد میں جمع کر دیااور آخرکار روس اور امریکہ میں مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ امریکہ کیوبا میں قائم کاسٹر و کی حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا اور بظاہر اس شرط پر سابق سوویت یونین نے کیوبا سے اپنے میزائل ہٹا لیے اور اسی نکتے پر دنیا کا مشہور اشتراکی گوریلا لیڈ ر چہ گویرا ناراض ہو کر کیوبا چھوڑ گیا اور پھر کچھ عرصے بعد بولیویہ میں لڑتا ہوا زخمی ہوا جسے بعد میں قید کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔

ایٹمی قوت کی یہ مثال جس میں سابق سوویت یونین اورآج کے روس نے 1949 میں امریکہ کے سامنے خود کو منوایا اس کے بعد غیر اعلانیہ قوت اسرائیل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل چین سے پہلے ایٹمی قوت بن گیا تھا 30 ستمبر1986 میں اسرائیل کے ایک ایٹمی ٹیکنیشن نے اسرائیل کے ایٹمی رازوں سے متعلق معلومات ذرائع ابلاغ کو فراہم کیں، اس ٹیکنیشن کا نام مور ڈی چائی وانیو می Mordechai Vanumi تھا جس کو بعد میں اسرائیل میں طویل مدت کی قید ہوئی، اس کی معلومات کی بنیاد پر سنڈے میگزین نے بتایا کہ اسرائیل کے پاس 200 سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، اور اسی اسرائیل نے عراق پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے قبل ہی حملہ کر کے اُس کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا۔

اسرائیل کی یہ پوزیشن ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ہر بار جاریت بھی کرتا ہے مگر اس کے خلاف کوئی بھرپور جواب نہیں دیتا ،پھر ایک مثال ساوتھ افریقہ کی بھی رہی جہاں جب تک سفید فام اقلیت نسلی امتیاز کی بدترین پالیسیوں کے ساتھ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود حکمرانی کر تی رہی تو اُن کے خلاف اقوام متحدہ کے تحت بھی طاقت کی بنیاد پرکوئی کاروائی  نہیں کی گئی۔

جنوبی افریقہ نے بھی اُس زمانے میں اسرائیل کی مدد سے ایٹمی ہتھیار بنائے تھے اور اس کا اعتراف اُس نے اس وقت کیا جب نیلسن منڈیلا کے ساتھ مفاہمتی عمل کے بعد جنوبی افریقہ میں صورتحال نارمل ہو گئی تو ساوتھ افریقہ نے کہا کہ اُن کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے جو اُنہوں نے ضائع کر دیئے اور اُن کے اس بیان پر دنیا نے خا موشی سے یقین کر لیا حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ اُس نے اپنے ایٹمی ہتھیار اسرائیل کو دیئے تھے پھر ایٹمی ہتھیار اور سیاسی قوت اور اثر ورسوخ کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب تک چین نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا۔

اُس وقت تک نہ صرف امریکہ ،بر طانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کا رویہ چین سے بہتر نہیں تھا؟ بلکہ سابق سوویت یونین بھی چین پر اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا تھا مگر جب1964 میں چین نے بھی ایٹمی دھماکہ کر لیا تو امریکہ برطانیہ اور روس سمیت بہت سے ملکوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اب اس ملک کو نہ صرف تسلیم کر نا ہو گا بلکہ اقوام متحد ہ میں تائیوان کی بجائے چین کی حیثیت کے مطابق رکنیت کے ساتھ وٹیو پاور دینا ہو گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چین کے ایٹمی قوت بننے کے صرف سات سال بعد ہی چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ساتھ رکنیت مل گئی۔

یوں جب بھارت نے 1974  میں اپنا  بنیادی نوعیت کا ایٹمی دھماکہ کر لیا تھا تو اگر چہ اُس وقت بھارت اس قابل نہیں تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا مگر یہ پا کستان کے لیے چیلنج تھا اور پا کستان نے بہت عمدہ طریقے سے بھارت سے پہلے ایٹمی قوت حاصل کر لی تھی، لیکن جب 9 مئی کو بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کئے تو یہ اس بات کا اعلان تھے کہ اب بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے اور پھر پاکستان نے باوجود شدید بیرونی دباؤ کے 28 مئی 1998 کو 5 ایٹمی دھماکے کئے اور اس کے بعد 30 مئی کو ایک اور ایٹمی دھماکہ کر دیا، بھارت کو یہ یقین تھا کہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے پاکستان ایٹمی دھماکے نہیں کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور اب دنیا اس کو کتنا ہی نظر اندز کر نے کوشش کرے کہ پاکستان اور بھارت کے اعلانیہ ایٹمی قوت بن جانے سے اِن دونوں ملکوں کے تنا زعات اور مسائل پر ایٹمی قوت کے لحاظ سے اثر نہیں پڑے گا تو یہ حقیقت کے بالکل منافی بات ہے۔

البتہ یہ سوال ضرور ہے کہ دونوں ملکوں کے اعلانیہ ایٹمی قوت بنے اب 19 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک اِن کے درمیان موجود تنازعات اور مسائل کیوں حل نہیں ہوئے؟ اور خصوصاً کشمیر جیسا مسئلہ جس پر اقوام متحد ہ کی ایسی منظورشدہ قراردادیںہیں جس پر دونوں فریق یعنی پاکستان اور بھارت اتفاق کر چکے ہیں تو اس کے لیے ہمیں 28 مئی1998 کے بعد سے تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہو گی، دھماکوں کے بعد یوں لگا جیسے معاملات پر سنجیدگی سے دو نوں ملکوں کی حکومتیں توجہ دے رہی ہیں اور ایٹمی دھماکوں کے چند مہینوں بعد ہی بھارتی وزیر اعظم واچپائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور اعلان لاہور بھی ہوا مگر ایک بار پھر بس شملہ معاہدے کے اُن نکات کو دھرایا گیا جس پر کبھی بھی بھارت نے عمل نہیں کیا، اس کے بعد کہا جا تا تھا ہے کہ 6 مارچ 1999 کو راولپنڈی میں وزیر اعظم نواز شریف کو بم دھماکے میں اڑانے کی ایک کوشش ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر فورسز نے ناکام بنا دی اور چھ دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا، اسی روز نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے والے122 سائنس دانوں، انجنئیروں اور کارکنوں کو ایٹمی دھماکوں میں اہم کردار ادا کر نے پر خصوصی ایوارڈ دئیے گئے۔

اسی دوران نواز حکومت نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلا ف سخت قانونی اقدامات کئے، 13 مارچ لاہور ہائی کورٹ نے کرپشن کے ایک مقدمے میں بینظیر بھٹو اور اِن کے شوہر آصف علی زرداری کو پانچ سال قید اور 86 لاکھ ڈالر کی سزا سنائی، پاکستان نے غوری میزائل ii کا کامیاب تجربہ کیا جس کا ہدف 2000 کلومیٹر ہے، 19 اپریل کو نواز شریف 27 سال بعد چار روزہ دورے پر روس گئے۔

4 مئی 1999 کو نیلسن منڈیلا حکومت کی دعوت پر پاکستان آئے، اُنہوں نے جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے اور کشمیر کے مسئلے کو بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی، 18 مئی1999 کو حکو مت کے مطابق دوران تفتیش آصف علی زرداری نے خودکشی کی ناکام کوشش کی جب کہ زرداری کے اہل خانہ اور پیپلز پارٹی نے اِسے قتل کی کوشش قرار دیا،آصف علی زرداری کی زبان کا ٹنے کی خبر عام ہوئی اور اُن کو زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل  کردیا گیا، 27 مئی کو 100 یوم تکبیر اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا گیا۔

یہ بات واضح ہے کہ ایک سال قبل پاکستان باوجود دنیا کے شدید دباؤ کے بھارت کے مقابلے میں فوراً ہی اعلانیہ ایٹمی قوت بن گیا مگر اس بنیاد پر نہ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے فوری مذ اکرات شروع ہو ئے اور نہ ہی حکومت، بھارت اور بیرونی دنیا کے پاکستان مخالف بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام مخالف پروپیگنڈے کو روک سکی اور نہ ہی اس کا موثر جواب دے سکی، اسی طرح اُس وقت جو مالیاتی بحران اٹھا، اُس پر بھی حکو مت قابو پا نے میں ناکام رہی اور ساتھ ہی اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے اپوزیشن کو دبا دیا۔

ایٹمی پروگرام کے لیے ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے اسکے نام یا عنوان کے لحاظ سے اُسے نرم یا دفاعی انداز میں پرامن ظاہر کرے اُس کے لیے کو ئی مذہبی قومی جارحانہ قسم کا تاثر ظاہر نہ ہو مثلاً امریکہ نے جو ایٹم بم جاپان پر گرائے اُن کے نام بہت سادہ اور قدرے نرم انداز کے رکھے یعنی ننھا بچہ اور موٹا آدمی، بھارت نے 1974 میں اپنا پہلا ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو اُس کا نام مسکراتا بدھا رکھا حالانکہ یہ نام ہندو تاریخ کے اعتبار سے حقائق کے بالکل منفی تھا مگر بھارت اپنے ایٹمی پروگرام کو دنیا کے سامنے پُرامن رکھنا چاہتا تھا۔

واضح رہے کہ مہاتما بدھ اپنے عہد میں ہندوستان میں نہایت پُر امن عقائد کی تعلیمات دیتا رہا مگر ہندو دھرم اِن تعلیمات کے خلا ف رہا اور یہاں مہاتما بدھ سدھارتا نے جو تپسیہ کی وہ فاقوں سے رہا تا کہ اُسے حق کی معرفت ہو تو اُس کا بت جو ہندوستان میں مقبول ہوا وہ فاقہ زدہ نحیف اور کمزور انسان کا ہے جس کا پیٹ بھوک اور فاقے کی وجہ سے بالکل اندر دھنسا ہوا ہے جسے فاسٹنگ بدھا کہا جاتا ہے پھر دوسری حقیقت یہ ہے کہ تقریباً دوہزار سال قبل یہاں ہمارے ہاں اشوک اعظم کی حکومت تھی تو جنگ کلنگا میں اشوک اعظم نے ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور جب اُس نے اتنی لاشیں دیکھیں تو اُس نے بدھ مت اختیار کیا اور پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہندومت دوبارہ ہند وستان پر غالب آگیا۔

اب جہاں تک سمائلنگ بدھا کی بات ہے تو بدھ مت ہندوستان سے نکل کر چین جا پان ،کوریا جیسے ملکوں میں مقبول ہوا اور آج وہاں آبادی کی اکثریت بدھ مت ہے اور اُن کے ہاں مہا تما بدھ کا مجسمہ مسکراتا اور بھاری جسم کا ہے جو امن کے ساتھ خوشحالی کا واضح تصور دیتا ہے اور دنیا میں زیادہ تر اسی سمائلنگ بدھا کے مجسمے کو جانا جاتا ہے پھر اِس وقت بھارت میں بدھ مت آبادی کا تناسب صرف 0.70% ہے لیکن بھارت نے اپنے عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے ایٹمی پرو گرام کی ابتدا کو سمائلنگ بدھا سے اس لیے منسلک کیا کہ چین میں آبادی کی اکثریت عقائد کے اعتبار سے بدھ مت ہے اور تبت جہاں بھارت مغربی ملکوں سے مل کر چین کے خلاف ایک سیاسی محاذ کھولے ہوئے ہے اور دلائی لامہ کو بھارت میںسیاسی پناہ دی ہوئی ہے۔

یوں بھارت شروع ہی سے انسانیت کی تباہی کے لیے بنائے جانے والے ہتھیار اور اس کے خوفناک ممکنہ استعمال پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ سب میک اپ کرتا رہا ہمارے ہاں جب ہم نے بھارت کے جواب میں کامیاب ایٹمی دھماکے کر لئے تو نواز شریف کی حکومت نے عوام کو دعوت دی وہ اس اہم دن کا کوئی ایسا نام تجویز کریں تاکہ اس یادگار دن کو ہمیشہ اس نام کے ساتھ یاد رکھا جائے اور منایا جائے، یوں کروڑوں لوگوں نے نام دئیے اور اکثر یت کی بنیاد پر دن کا نام ’’یومِ تکبیر‘‘ طے پایا یعنی اللہ اکبر کا دن، ہم آغاز سے ہی  ایٹم بم بنانے کے مخالف تھے ہم نے تو پوری دنیا کو کہا تھا کہ بھارت کو ایٹم بم بنانے سے باز رکھیں۔

ہم نے 1974سے1998 تک متواتر یہ مطالبہ کیا تھا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پا ک علاقہ قرار دیا جائے، پھر سوال یہ ہے کہ ہم سب مسلمان دن کی پانچ نمازوں اور اذانوں میں کئی بار اللہ اکبر یعنی تکبیر کی آواز بلند کرتے ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جنگوں میں نعرہ تکبیر اس لیے لگایا جاتا ہے کہ اسلام کی بنیاد توحید ہے اور جنگ صرف ظلم کے خلاف اور اللہ کی عظمت کے لیے لڑی جاتی ہے وہی سب سے بڑا ہے اور قرآن میں جس نے اپنے نام اور تقریباً ہر احکامات کی ابتدا اپنے عظیم صفاتی ناموں رحمان اور رحیم سے کی ہے۔

یوں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دن کا نام یوم بقائے پاکستان ، یوم تحفظِ پا کستان رکھا جاتا اور اگر مذہب کے ساتھ اس دن کو جوڑنا ضروری تھا تو یوم رحمان یا یوم رحیم نام رکھ دیا جاتا کیونکہ پاکستان لفظ پاک سے نکلا ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر دو قومی نظریے پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں پھر ہم نے دھماکوں سے پہلے کئی دہائیوں سے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پا ک علاقہ قرار دیا جائے۔

مگر بعض معصوم لوگوں نے یوم تکبیر کے ساتھ اسلامی اتحاد کے جوش و جذبے کے تحت پاکستان کے اٹیم بم کو اسلامی بم کا نام دے کر خوب شور مچایا،اس دوران ہماری حکومت نے بیرونی پروپیگنڈا مشن کی جانب توجہ نہیں دی اور پھر پاکستان پر بیرونی دنیا کا دباؤ بڑھنے لگا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں ہے اور ساتھ ہی بعد میں اسلامی دہشت گردی کا شور شرابا شروع ہوا اور ہم نے اپنی ایٹمی قوت کی بنیاد پر اسٹرٹیجی کے لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کے لیے جو دباؤ اقوام متحدہ، دنیا کی بڑی قوتوں اور بھارت پر ڈالنا تھا، اب سارا زور اس پر صرف کرنا پڑا کہ ہم دنیا کو اس کا یقین دلاتے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے اور ہم اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو کسی کے خلا ف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے صرف جنگ 1965 ہی ایک ایسا مو قع تھا جب ہمارا پر وپیگنڈا بہت بہتر انداز کا رہا۔

ورنہ ہم نے اکثر و بیشتر بہت حما قت کی ہے مثلاً مجھے یاد ہے کہ ہم 1973 تک نصاب کی کتابوں میں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کا سن پیدائش 1873 پڑھتے رہے،1973 میںجب ہم بحران کا شکار تھے تو بھارت نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامہ اقبال کا سو سالہ یوم پیدائش قومی سطح پر منایا اور اُن کو ہندوستان کا شاعر بنا کر پیش کرنے کی ناکام کو شش کی، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کا مدلل جواب دیتے کہ علامہ آغاز میں واقعی وطنیت کی بنیاد پر اور فطرت کے حسن سے متاثر ہو کر شاعری کرتے رہے اور ترانہ ہندی میں یہ کہا کہ (سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔۔ ہم بلبلیں اس کی یہ گلستاں ہمارا ) مگر پھر وہ کون سے عوامل تھے کہ یہی علامہ اقبال یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ( چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا ۔۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ) لیکن ہم نے یہ نہیں کیا۔

اُس وقت بھی حکومت نے دانشوروں اور ماہر ین سے مشاورت نہیں اور بیورو کریٹس نے جو کہا وہ مان لیا گیا اور پھر حکومت نے یہ اعلان کیا کہ علامہ اقبال سیالکو ٹ میں پیدا ہوئے تھے اوراقبال کا سنِ پیدائش تحقیق کے مطابق رجسٹر پیدائش سیالکو ٹ میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ میں1973 کی بجائے1977 ہے یوں پھر نصاب کی تمام کتابوں میں اقبال کو چار سال بعد پیدا کیا گیا اور آج ہم علامہ اقبال کا یہی سن پیدائش یعنی1977 پڑھتے ہیں اور بھارت میں وہی 1973 کا سن پیدائش پڑھا جاتا ہے اسی طرح جب 23 مارچ 1940 کو یوم پاکستان کو یاد رکھنے کے لیے کہ کس طرح برصغیر کے مسلمان ایک ہوئے اور پاکستا ن کا مطالبہ کیا، یہاں لاہور میں ایک مینار تعمیر کیا گیا تو بیوروکریٹس نے اس دن کی یاد کے حوالے سے اس کا نام یادگارِ پاکستان رکھ دیا تھا، اور کچھ عرصہ بعد جب دانشوروں اور ماہر ین نے حکومت کی متواتر توجہ دلائی کہ لفظ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کے لے استعمال ہوتا ہے تو اس مینار کا نام مینار پاکستان کیا گیا بد قسمتی سے ہمارے ایٹمی پروگرام کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے ہم وہ دباؤ جو اس بنیاد پر ڈالنا چاہیے تھا وہ بھارت سمیت دیگر ملکوں اور اقوام متحدہ پر نہیں ڈال سکے۔     (جاری ہے)

The post عالمی سیاسی بساط پر ایٹمی ہتھیاروں کا ظہور appeared first on ایکسپریس اردو.

انصاف کے نام پر ناانصافی کی بدترین کہانی

$
0
0

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی گمشدگی اور پھر امریکی عدالت میں مقدمے کے بعد چھیاسی سال قید کی سزا بلا شبہ عوامی سطح پر پاکستان کے حساس ترین مسئلوں میں سے ایک ہے۔

دہشت گردی کی جنگ میں القاعدہ سے منسلک کی جانے والی یہ واحد خاتون ہیں اور ان کی کہانی اتنی متنازعہ ہے کہ اس پر پاکستانی قوم بری طرح تقسیم ہے۔ کچھ لوگ انھیں ’دہشت گرد‘ کہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انھیں پاکستان بلکہ مسلم امت کی بیٹی قرار دیتے ہیں۔

قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی واپسی کی بات کرنے والوں میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں اور برطانوی صحافی ایوان رڈلے کے مطابق افغان طالبان نے بھی ماضی میں قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی رہائی کی کوشش کی۔ ان کی2003 ء میں گمشدگی،2008ء میں دوبارہ زخمی حالت میں افغانستان کے صوبے غزنی میں منظر عام پر آنا، امریکی عدالت میں مقدمہ کے بعد چھیاسی سال کی قید کے دوران بہت سے ایسے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

جن کے جواب ان کے خاندان سمیت آج تک کوئی بھی نہ دے سکا۔ 2003ء کے بعد ان کی گمشدگی کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے اور ان کی تصویر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ شائع ہوئی ہیں کہ شاید دو دفعہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والی بے نظیر بھٹو کی میڈیا کوریج بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکے لیکن یہ تمام تحریریں اور میڈیا کوریج بھی بہت سے ناگزیر اہمیت کے حامل سوالات کا جواب نہیں دے سکی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ تر میڈیا کوریج مستند حوالوں پر مبنی نہیں ہے جس کی وجہ سے کنفیوژن کو مزید بڑھانے کا سبب بنتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس ساری پریس کوریج میں جس چیز کی کمی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی تھی وہ ان سارے حالات و واقعات کے بارے میں عافیہ صدیقی کا اپنا موقف تھا جو کبھی میڈیا میں سامنے نہیں آ سکا تھا لیکن 2019ء میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نوجوان بیرسٹر داؤد غزنوی پہلی مرتبہ نیویارک میں عافیہ کے کیس سے متعلق قانونی دستاویزات اور میڈیا کوریج کی مدد سے اس کہانی کے بہت سے پہلوؤں کو اپنی کتاب ’AAFIA UNHEARD:UNCOVERING THE PERSONAL AND LEGAL MYSTERIES SURROUNDING FBI’S WANTED MOST WANTED WOMAN‘ میں دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ بلا شبہ عافیہ صدیقی کے کیس، ان کی شخصیت اور ان کی زندگی کے پُراسرار واقعات پرمبنی پہلی تفصیلی کتاب ہے۔

اکہرے بدن کے نوجوان داؤد کے لہجے میں اعتماد لیکن برتاؤ میں عاجزی اور سوچ بہت سلجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے لئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقصد کے لئے عافیہ کا استعمال کر رہی ہیں۔

اس کتاب کی رونمائی رواں سال24 اکتوبر کو ہیوسٹن یونیورسٹی میں ہوئی جہاں ڈاکٹر عافیہ نے امریکا میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ داؤد کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ واشنگٹن میں امریکہ کے معروف ترین تھنک ٹینکس میں سے ایک ’ولسن سنٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ساؤتھ ایشیا کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین تک نہ صرف کتاب پہنچانے میں بلکہ کتاب کے حق میں ان سے مثبت کمنٹس لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

مائیکل کا کہنا ہے کہ ’’عافیہ ان ہرڈ‘‘ عافیہ صدیقی کی انتہائی پیچیدہ اور پراسرار کہانی کو سنانے کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔ عافیہ کے کیس کو دنیا کے سامنے لانے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والی برطانوی صحافی ایوان رڈلے کا کہنا ہے کہ کہ پندرہ سال تک عافیہ کے کیس پر کام کرنے کے بعد ان کے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ انھیں اس موضوع پر کتاب پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریر کی خوبصورتی یہ ہے کہ داؤد معلومات کو سامنے رکھ کر عافیہ کے جرم یا بے گناہی کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔

داؤد نے قانونی دستاویزات ہی نہیں بلکہ 2003ء سے لے کر 2010ء کی پریس کوریج کے ذریعے معلومات کو اس طرح یکجا کیا ہے کہ عافیہ کی زندگی سے متعلق تمام اہم سوالات کے جوابات قاری کو خود مل جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ عافیہ کی شہریت پاکستانی ہے یا امریکی؟ داؤد ان کے مقدمے کی اَوریجنل ایف آئی آر قاری کے سامنے لاتے ہیں جس کے مطابق عافیہ پاکستانی شہری ہیں۔

گو یہ بات راز نہیں لیکن پاکستان میں بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ امریکی عدالت نے عافیہ کو دہشت گرد قرار نہیں دیا پھر بھی دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں لوگ عافیہ کو آج بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر رائے عامہ ابھی تک بری طرح تقسیم ہے۔ داؤد نے خود کوئی تبصرہ دیئے بغیر عدالتی کاروائی کے ریکارڈز من و عن نقل کر دیے جس سے یہ حقیقت قاری کے سامنے آتی ہے کہ امریکی عدالت میں نہ صرف عافیہ پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا مقدمہ نہیں چلا بلکہ عافیہ کے مخالف پروسیکیوٹر وکلاء نے شروع میں ہی عدالت پر واضح کر دیا کہ وہ اس حوالے سے کوئی بحث نہیں چاہتے۔

عدالت میں عافیہ کے مخالف وکیلوں نے اس سوال پر بھی بحث نہیں کی کہ 2003ء سے 2008ء تک عافیہ کہاں تھیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق امریکی حکومت کا موقف اس بارے میں یہ تھا کہ عافیہ امریکا کی کسی خفیہ جیل میں نہیں تھیں اور امریکی حکومت اس سے لا علم ہے کہ عافیہ اس دوران کہاں تھیں۔ یاد رہے کہ مقدمے سے قبل 2006ء میں صدر بش اس بات کا اعتراف کر چکے تھے کہ سی آئی اے امریکا سے باہر مختلف ممالک میں خفیہ جیلیں آپریٹ کر رہی ہے جہاں قیدیوں سے اعتراف جرم کے لئے تشدد کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو امریکی قوانین کے مطابق بھی غلط ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا موقف یہ تھا کہ انہیں2003ء سے2008ء تک خفیہ جیل میں رکھا گیا اور انھیں قید کرنے والوں نے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ فیصلے میں جج کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ عافیہ خفیہ جیل میں تھیں۔

دوسری طرف عافیہ کے وکیلوں کا یہ کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے ایف بی آر کی کلاسیفائیڈ انفارمیشن بھی عافیہ کے وکلاء سے شئیر کرنے سے انکار کر دیا جس سے اس بات کے ثبوت مل سکتے تھے کہ عافیہ اس عرصے میں کہاں تھیں۔ 2010ء میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عافیہ کے فیصلے کے بعد اس کے وکلاء کا کہنا تھا کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں ریکارڈز تک رسائی نہ دینا خود امریکی قانون میں موجود شفافیت کے اصول کے خلاف ہے۔

یاد رہے کہ 2006ء میں گوانتانامو سے رہا ہونے والے اور اپنے اذیت ناک تجربے پر کتاب لکھنے والے برطانوی شہری معظم بیگ پہلی مرتبہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے لائے کہ افغانستان کی بدنام زمانہ ’بگرام جیل‘ جسے گوانتا نامو کی جڑواں جیل بھی کہا جاتا ہے میں ایک خاتون قیدی بھی موجود تھی جس کی چیخوں کی آواز باقی قیدیوں کے لئے بہت اذیت کا سبب ہوتی تھی۔ ان کی کتاب منظر عام پر آنے کے بعد ایوان رڈلے نے بگرام کی خاتون قیدی کی تلاش شروع کی۔

ایوان نے گوانتانامو سے آزاد کردہ مختلف قیدیوں سے بگرام کے قیدی کے بارے میں انٹرویوز کیے تو ایک سے زائد نے عافیہ کی تصویر دیکھ کر تصدیق کی کہ یہی بگرام کی قیدی نمبر 650 ہے۔ اس کے بعد ایوان نے جولائی 2008ء میں پاکستان میں عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس کی جس سے یہ کیس منظر عام پر آیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں عافیہ کی قید پر احتجاج شروع ہوا۔ اس پریس کانفرنس کے ٹھیک دو ہفتے بعد عافیہ افغانستان کے صوبے غزنی میں اچانک دوبارہ نمودار ہوئیں اور شوٹنگ کا وہ مبینہ واقعہ پیش آیا جس میں عافیہ خود زخمی ہوئیں اور انہیں کچھ دن بگرام ہی کے ہسپتال میں علاج کے بعد امریکا منتقل کیا گیا۔

یاد رہے کہ اس کیس کا سرکاری نام ’امریکی حکومت بمقابلہ عافیہ صدیقی‘ ہے۔ یہ کیس امریکی حکومت نے عافیہ کے خلاف دائر کیا تھا اور اس میں سات مختلف دفعات میں عافیہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش کی، امریکی حکومت کے اہل کاروں پر ہتھیار اٹھائے، امریکیوں پر حملہ کیا۔ یہ ساتوں الزامات ایک ہی واقعہ کے بارے میں ہیں لیکن ان سب میں عافیہ کو الگ الگ قید کی سزائیں ہوئی ہیں جن کا مجموعی عرصہ چھیاسی برس ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عافیہ نے اپنے عدالتی بیان میں افغان پولیس اسٹیشن میں امریکی اہل کاروں پر فائرنگ کی تردید کی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غزنی کے پولیس اسٹیشن میں فارنسک رپورٹ کے مطابق دیواروں پر ایم فور رائفل کے فائر کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود جج نے دیوار میں سوراخوں کی موجودگی اور امریکی فوج اور ایف بی آئی کے اہل کاروں کی گواہی پر فیصلہ دیا جن میں سے ایک کی گولی سے عافیہ زخمی ہوئیں۔ شوٹنگ کے بعد گزرنے والے واقعات کے بارے میں عدالت میں عافیہ کا کہنا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں ایک اہل کار کی آواز سنائی دی، ’’ہماری ملازمت جا سکتی تھی۔‘‘

عدالتی کاروائی کی تفصیل کے مطابق عافیہ کے وکیل نے کیس شروع ہونے پر یہ درخواست دی کہ عافیہ کی ذہنی حالت صحیح نہیں اور وہ مقدمے کی کاروائی میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہے۔ جبکہ امریکی حکومت کا موقف یہ تھا کہ عافیہ مقدمہ سے بچنے کے لئے ڈھونگ کر رہی ہیں۔ جس پر جج نے عافیہ کے ذہنی حالت کے بارے میں میڈیکل رپورٹس حاصل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب میں مذکور ماہر نفسیات کی رپوٹس کے مطابق عافیہ کی ذہنی حالت کے بارے میں ماہرین نفسیات کی رائے منقسم تھی جبکہ ان کے ایک ماہر نفسیات کا اپنی تفصیلی رپورٹ میں یہ کہنا تھا کہ عافیہ کا رویہ ان لوگوں کے بالکل برعکس ہے جو ڈھونگ یا ڈرامہ کرتے ہیں۔

اس کے باوجود عدالت نے مقدمے کو جاری رکھنے کا حکم دیا۔ یہ بات بھی کتاب میں مذکور کورٹ کے ریکارڈ میں ہے کہ عافیہ نے خود متعدد مرتبہ اس بات کی تردید کی کہ وہ ذہنی طور پر ابنارمل ہیں لیکن خود عافیہ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ عافیہ نارمل نہیں تھیں۔ کورٹ کی کاروائی کے دوران ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کبھی کبھی نارمل ہوتی تھیں لیکن کبھی کبھی گفتگو کرتے ہوئے اپنا توازن کھو بیٹھتی تھیں، غیر متعلق باتیں شروع کر دیتی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق ماہر نفسیات نے عافیہ سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا انھیں خود کشی یا مرنے کی خواہش محسوس ہوتی ہے؟ عافیہ کا جواب تھا کہ ان کے مذہب میں خود کشی حرام ہے۔

جج برمن کی فائنل تقریر کے مطابق عدالتی کاروائی میں مداخلت کے با عث کئی مرتبہ عافیہ کو عدالت سے ملحق کمرے میں ایک ٹی وی پر اپنا فیصلہ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عافیہ واقعی ذہنی طور پر نارمل نہیں تھیں (اور اگر وہ واقعی بگرام جیل میں تشدد کا شکار رہی تھیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ خود عافیہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہیں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ہو سکتا ہے۔

زندگی میں صدمے یا تکلیف دہ تجربات سے گزرنے والوں میں یہ نفسیاتی بیماری عام ہے)۔ داؤد کے مطابق عافیہ کی ذہنی حالت کچھ ایسی تھی کہ وہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتی تھیں۔ انہیں ایک ایسا مینٹل ڈس آرڈر تھا کہ انہیں ایک دفعہ اپنے کمرے میں کتا نظر آیا۔ کتاب میں مذکور عدالتی کاروائی کے مطابق عافیہ صدیقی نے کئی مرتبہ اپنے وکیلوں پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا اور یہ واضح کیا کہ یہ میرے وکیل نہیں ہیں اور وکلاء تبدیل کرنے کی در خواست دی لیکن جج نے یہ کہہ کر ان کی در خواست مسترد کر دی کہ ان کے پاس متبادل وکیل موجود نہیں۔ عافیہ کا کہنا تھا کہ متبادل وکیل کے انتظام کے لئے اسے کچھ ٹائم دیا جائے لیکن جج نے وقت دینے سے انکار کر دیا۔

عدالت کی کاروائی میں فیصلے کے بعد عافیہ کی ایک طویل تقریر موجود ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جج برمن سمیت سب کو معاف کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں یہ غلط مشہور ہے کہ مجھے امریکا میں ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی خفیہ جیل میں مجھ پر تشدد کیا گیا لیکن امریکا کی جیل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے سورۃ حجرات کی ایک آیت کا حوالہ دے کر مسلم دنیا سے اپیل کی کہ ان کے نام پر کوئی تشدد نہ کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم دنیا کو اس پر حیرت ہو گی لیکن انہیں امریکا سے محبت ہے اور وہ کسی سے نفرت نہیں کرتیں۔ داؤد کا کہنا ہے کہ عافیہ کا رویہ دہشت گردوں سے بالکل مختلف تھا۔ اس تقریر میں عافیہ نے اپنا ایک خواب بھی سنایا جس کے مطابق آنحضرت ﷺ جیل میں ان کے کمرے میں تشریف لائے جہاں بہت سے امریکی فوجی جنگی قیدی بنے بیٹھے ہیں۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں الفاظ یاد نہیں لیکن رحمت اللعالمین ﷺ ان قیدیوں کو تسلی دیتے ہیں۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس خواب کو دیکھ کر جیل میں بہت سکون ملا۔

مقدمے کے دوران کچھ عجیب واقعات ہوئے جن کا ذکر جج برمن نے فیصلہ سناتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں موجود ایک شخص نے جیوری کے دو ممبران کی طرف انگلی سے نا زیبا اشارہ کیا جس پر انہیں جیوری کے دو ممبران کے مشورے سے انہیں پینل سے نکال دینا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکا کے اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کا فیصلے سے قبل جج برمن سے ملاقات بھی ایک انتہائی قابل اعتراض امر تھا۔ داؤد کے مطابق عافیہ کے وکلاء نے اس پر اعتراض کیا اور خود عافیہ نے بھی کہ اس سے جج کی غیر جانب داری مشکوک ہوتی ہے۔ جج کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات محض چند سیکنڈ پر مبنی تھی۔

کتاب کے مطابق عافیہ کی امریکا رہائش کے دوران2002ء میں ایف بی آئی نے ان سے اور ان کے سابق شوہر سے تفتیش کے لئے رابطہ کیا تھا اور ایف بی آئی کے ساتھ باقاعدہ اٹارنی کے ذریعے سوال جواب کی نشست بھی ہوئی تھی لیکن امریکی حکومت کے وکلاء کے مطابق عافیہ اس تفتیش سے بچنے کے لئے پاکستان چلی گئی تھیں۔

اس حوالے سے عدالت میں عافیہ کا موقف یہ تھا کہ ان کے والد کی طبیعت خراب تھی اور وہ چھ مہینے کی حاملہ تھیں۔ اگر وہ اس وقت پاکستان نہ جاتیں تو ایئر لائن انہیں سفر سے روک دیتی اور وہ اپنے والد سے نہ مل سکتی تھیں جن کا کچھ ہی عرصے بعد انتقال ہو گیا۔ عافیہ نے واضح الفاظ میں کورٹ میں اس بات کی تردید کی کہ ان کے پاکستان جانے کے فیصلے سے ایف بی آئی کی تفتیش کا کوئی تعلق تھا۔ ان کے بیان کے مطابق ایف بی آئی نے ان کے شوہر سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا آپ کبھی اسامہ بن لادن سے ملے ہیں؟ جس کا جواب ان کے سابق شوہر نے نفی میں دیا تھا۔ عافیہ سے ایف بی آئی نے اسلامی تنظیموں کو فنڈ دینے سے متعلق سوال کیا تھا جس کا جواب عافیہ کے بیان کے مطابق انہوں نے یہ دیا کہ یہ میرا فرض ہے اور میں ایسا کرتی رہوں گی۔

تعجب اس بات پر ہے کہ داؤد کی کتاب میں مذکور عدالتی کاروائی کے مطابق خود امریکی حکومت کے وکلاء نے ان تمام الزامات پر بات کرنے سے انکار کر دیا لیکن پھر بھی فیصلے کے وقت جج نے اس بات کو دہرایا کہ عافیہ عمار البلوچی کی منکوحہ تھیں اور انہیں کے پیچھے افغانستان گئی تھیں (جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس پر عدالت میں بحث ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیے گئے) عالمی اور امریکی (اور اسلامی) قانون کے مطابق ایک فرد پر جب تک الزام ثابت نہ ہو اسے معصوم تصور کیا جاتا ہے اور اسے مجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری الزام لگانے والے پر ہوتی ہے لیکن دہشت گردی کی جنگ میں اس دوران حالات کچھ ایسے تھے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزم پر عائد ہوتی تھی لیکن اسے اور اس کے وکلاء کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جاتے تھے۔

عافیہ کے کیس میں بھی یہی ہوا، عافیہ کے وکلاء کو اتنے سنگین الزامات کے باوجود اس معلومات تک رسائی نہیں دی گئی جس سے ان الزامات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ ہوتا بلکہ خود عدالتی کاروائی کے دوران عافیہ نے جب بھی خفیہ قید میں اپنے اوپر گزرنے والے ٹارچر کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی، مخالف وکیل نے اعتراض اٹھایا اور جج نے اعتراض برقرار رکھا۔ داؤد نے خود تبصرہ دینے کے بجائے عدالتی کاروائی کو من وعن نقل کر دیا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عمارالبلوچی سے عافیہ کی شادی، ان کا القاعدہ کے لئے پوسٹ باکس کھلوانے کے الزامات کو تواتر کے ساتھ دہرایا گیا ہے لیکن اس پر نہ تو عدالت میں بحث ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت ان الزامات کے حق میں مہیا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ سورس بتائی جاتی ہے جن کے ذریعے یہ الزامات سامنے آئے۔ ایسے میں ان الزامات کی کیا حیثیت ہے؟

اس کا فیصلہ ہم قاری اور قانون جاننے والوں پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں تک کے اس پر عدالت میں بحث نہ ہونے کے باوجود جج نے فیصلے کے بعد تقریر میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ الزامات پاکستانی اور عالمی میڈیا میں بھی گردش کرتے رہے لیکن صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صحافیوں نے اس کی سورس نہیں بتائی۔ کچھ صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں ایف بی آئی کے ریکارڈز تک رسائی حاصل تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحافیوں کو ایف بی آئی کے ریکارڈز تک رسائی دی گئی تو وکلاء کو کیوں نہیں دی جا سکتی تھی اور عدالت میں وہ ثبوت کیوں نہیں لائے گئے جن کے باعث عافیہ کو القاعدہ کا ممبر کہا جاتا رہا۔

ایک اور اہم بات جس کا عافیہ نے اپنے بیان میں ذکر کیا ہے، وہ یہ کہ 2008 میں ان کے سامنے آنے پر ان کے پاس سے امریکا کی اہم عمارتوں کے نقشے اور بم بنانے کے کیمیکل لے کرغزنی کے گورنر ہاؤس کے باہر گھومنے کا ذکر ہے۔ عافیہ کا عدالت میں یہ کہنا تھا کہ اسے خفیہ جیل میں قید کروانے والوں نے وہاں چھوڑا تھا اور اس یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ تعاون کرے اور ویسا ہی کرے جیسا اس سے کہا جا رہا ہے تو اس کے بچے اسے واپس مل جائیں گے۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک میگزین کے کچھ حصے نقل کرنے کو کہا گیا تھا اور اس نے مجبوری میں ویسا ہی کیا جیسا کہا گیا تھا۔

عافیہ پر الزامات کے مطابق ایک کنفیوژن یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عافیہ کے سابق شوہر نے ان کے خلاف گواہی دی اور ان کے انتہا پسند ہونے اور بچوں کے انتہاپسندانہ طریقے سے پرورش کے حوالے سے ان میں جھگڑا ہوا۔ داؤد کا کہنا ہے کہ پورے کیس کی کاروائی میں انہیں ان کے شوہر کا کوئی بیان کہیں نہیں ملا۔

کتاب میں 272 حوالے موجود ہیں جن میں نیویارک کی عدالت کی کارروائیوں کی دستاویزات، عافیہ کی ذہنی حالت سے متعلق میڈیکل ماہرین کی رپورٹس، غزنی کے پولیس اسٹیشن میں جہاں عافیہ پر امریکی اہل کاروں پر فائر کھول دینے کا الزام ہے کی دیواروں پر آتش گیر مادے کی موجودگی سے متعلق فورینسک رپورٹ، 2003ء سے2019 تک پاکستان اور انٹرنیشنل میڈیا کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی کوریج، امریکی حکومت کے ڈی کلاسیفائیڈ کیبلز شامل ہیں۔ انٹرویو میں داؤد کا کہنا ہے کہ انہوں نے کتاب کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے پہلے سے شائع شدہ الیکٹرانک اور تحریری کوریج کے علاوہ کوئی زبانی سورس استعمال نہیں کی کیونکہ وہ بیانیہ کو پیچیدہ کرنے کا باعث ہوتی۔

یہ بات قابل ذکر بھی ہے اور قابل تعریف بھی کہ کتاب میں استعمال کردہ تمام سورسز انتہائی مستند ہیں۔ اس حوالے سے تحریر علمی اور تحقیقی حوالے سے عالمی معیار کی حامل ہے۔ کہیں کہیں ان کے دئیے ہوئے لنکس کام نہیں کر رہے لیکن وہ میڈیا رپورٹس گوگل کرنے پر مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ عافیہ اور ایمان ہرسی علی نامی صومالوی امریکی خاتون پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے حوالے خاصی تعداد میں حوالہ جات میں موجود ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اگر داؤد اس کتاب کے بجائے اس کتاب کی ما خذین سورسز سے خود استفادہ کرتے۔ تحقیقی حوالوں میں بارہا مختلف حوالہ جاتی اسٹینڈرڈز استعمال کئے گئے ہیں جو مغربی قاری کو ایک منفی تاثر دے سکتے ہیں۔

کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلا باب 2002ء تک عافیہ کی زندگی پر مشتمل ہے، دوسرا اور تیسرا باب عافیہ کی گمشدگی سے متعلق ہے جس میں انتہائی مستند ذرائع سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ عافیہ 2003ء سے 2008ء تک کہاں تھیں اوران کی گمشدگی سے متعلق کون سا بیانیہ صحیح ہے اور امریکی عدالت نے ان کی گمشدگی سے متعلق سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے کیا کوششیں کیں اورخود عافیہ کا کیا موقف ہے؟

چوتھے باب میں ’’امریکی حکومت بالمقابل عافیہ صدیقی‘‘ کی عدالتی کاروائی اور عافیہ کی گواہی، پانچویں باب میں فورینسک ایکسپرٹ کی آراء پر مبنی رپورٹس کی مدد سے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا عافیہ نے ایم فوررائفل سے امریکی اہل کاروں کو شوٹ کرنے کی کوشش کی تھی یا نہیں؟

چھٹے باب میں امریکی حکومت کے متعین کردہ نفسیاتی ماہرین کی رپورٹس کی مدد سے اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا عافیہ ذہنی طور پر اس قابل تھیں کہ وہ عدالت کی کاروائی میں حصہ لے سکتیں ہیں اور اپنے وکیلوں کے ساتھ تعاون کر سکتیں؟ ساتویں باب میں عافیہ کی اپنے وکیلوں پر عدم اعتماد کا اظہار اور جج کے ان کو یہ اجازت نہ دینے سے متعلق ایک طویل بحث ہے کہ وہ اپنے اٹارنی تبدیل کرنا چاہتی ہیں، آٹھویں اور نویں باب میں فیصلہ کی عدالتی کاروائی اور نویں میں اپیل نہ کرنے سے متعلق عافیہ کے فیصلے کے بارے میں حقائق بھی شامل ہیں۔ اس میں فیصلے کے بعد عافیہ کی اپنی طویل تقریر موجود ہے۔ دسویں باب میں داؤد نے کتاب میں موجود حقائق کے حوالے سے اپنی رائے بہت محتاط انداز میں تحریر کی ہے۔

حاصل کلام:

ایک نہایت قبل ذکر بات یہ ہے کہ داؤد نے اہم اور مستند سورسز کے ذریعے عافیہ کی گمشدگی اور کیس تک کے اہم واقعات سے متعلق حقائق اپنے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں لیکن اپنی رائے یا تبصرہ دینے سے حتی الامکان پرہیز کیا ہے۔ عافیہ کیس جیسے ہائی پروفائل کیس میں ایک پاکستانی نوجوان کے لئے غیر جذباتی ہو کر صحافت کے تقاضے پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہو گا۔ کتاب میں تکنیکی زبان میں ماہرین کی رپورٹس اور عدالتی کاروائی کی طویل تفصیلات کبھی کبھی قاری کو بور کر دیتی ہیں جن کے اہم حصوں کو اپنے الفاظ میں تحریر کر کے مختصر کیا جا سکتا تھا لیکن داؤد کا کہنا ہے کہ یہ غیرجانبداری کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ضروری تھا تاکہ لوگ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ کون سا بیانیہ درست ہے۔ داؤد عافیہ کی کہانی سے متعلق کون کون سے سوالات کے جوابات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں یہ جاننے کے لئے کتاب پڑھنا ضروری ہے۔

ایک محقق کے لئے عافیہ کی زندگی کے حقائق کریدنے کے بہت سے پہلو ہو سکتے تھے اور داؤد نے وکیل ہونے کی حیثیت سے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔ یہ عافیہ کی زندگی کی پراسرار واقعات پر پہلی مفصل کتاب ہے لیکن عافیہ کی کہانی سے متعلق بہت سے پہلو ابھی تشنہ ہیں اور انویسٹی گیٹیو صحافیوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حقیقت کو منظر عام پر لانے کے لئے مختلف پہلوؤں سے مستند تحقیق کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔

ڈاکٹرعافیہ کو کیسے واپس لایاجاسکتا ہے؟

داؤد نے ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے لئے خصوصی ٹیلی فونک انٹرویو میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ عافیہ کے پہلے وکیل چارلس سوئفٹ سے ان کی رائے لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب عافیہ کو پاکستان واپس لانے کا واحد قانونی طریقہ ان کی ذہنی حالت اور بیماری کو وجہ بنا کر انسانی بنیادوں پر یو ایس اٹارنی جرنل کو پٹیشن دائر کرنا ہے یا پاکستانی حکومت کا براہ راست امریکی حکومت سے درخواست کرنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عافیہ کا مسئلہ پاکستان اور مسلم دنیا کے لئے بہت حساس مسئلہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں عافیہ کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہیں اور اس کے نام پر سیاست بھی کرتی رہی ہیں۔

یہ مسئلہ اتنا حساس ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی پارٹی کے منشور میں عافیہ کی رہائی کا دعویٰ شامل ہے۔ اس کے نام پر داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں پاکستان اور پاکستان سے باہر معصوم شہریوں کو ورغلا کر دہشت گردی کے لئے بھرتی کر رہی ہیں۔ عافیہ کی امریکا میں قید پوری مسلم دنیا میں انتہا پسندی بڑھا رہی ہے جو امریکا کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ داؤد بہت پر امید ہیں کہ اگر یہ نکات پاکستانی فوج اور عمران خان کی حکومت سنجیدگی سے امریکی حکومت سے مذاکرات میں اٹھائے تو امریکا کو عافیہ کی پاکستان منتقلی پر اعتراض نہیں ہوگا۔ امریکی قانون میں انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی کی نظیر موجود ہے۔

عافیہ کیس کے دو متبادل بیانیے

عافیہ کیس کے بارے میں ایک دوسرے کے مقابل دو مختلف بیانیہ موجود ہیں جس پر پاکستانی اور عالمی رائے عامہ شدید دلچسپی رکھنے کے باوجود منقسم ہے۔ ایک بیانیہ وہ ہے جو مختلف مواقع پر امریکی حکومت، عالمی میڈیا میں عافیہ کے خلاف منظر عام پر آیا جس کے مطابق عافیہ امریکا میں اپنے دور طالب علمی کے دوران انتہا پسندی کا شکار ہوگئی تھیں اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے کسی درجہ میں منسلک ہوگئیں۔ ان کے خلاف ایف بی آئی نے نائن الیون کے بعد تحقیقات شروع کیں تو وہ حاملہ حالت میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد نامعلوم وجوہات کے باعث انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی لی اور یہ امریکا واپس گئیں اور انہوں نے القاعدہ کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے ایک ساتھی امجد خان کے لئے ایک پوسٹ باکس کھولا جو القاعدہ کی معاونت کے لئے تھا۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کی فنڈنگ کے لئے ہیروں کی اسمگلنگ کی۔ اس بیانیہ میں ان کی نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے بھتیجے عمار البلوچی سے شادی کی بات بھی تواتر سے کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ یا اس کے پیچھے افغانستان چلی گئیں۔

جہاں سے2008ء میں انہیں افغانستان کے صوبے غزنی میں گورنر ہاؤس کے باہر مشکوک حالت میں ایک بارہ سالہ بچے کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو بعد ازاں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کا اپنا بیٹا ثابت ہوا اور ان کے قبضے سے کچھ خطرناک کیمیکل اور بم برآمد ہوئے۔ افغان پولیس اسٹیشن میں انہوں نے امریکی اہل کاروں پر ایم فور مشین گن سے فائر کیا اور اس کے رد عمل میں جو فائرنگ امریکی اہل کار نے ان پر کی اس کے نتیجے میں یہ زخمی ہوگئیں۔ انہیں کچھ عرصہ افغانستان میں علاج کے بعد امریکا منتقل کردیا گیا جہاں ان پر مقدمہ چلا، انہیں سزا ہوئی۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ایک متبادل بیانیہ بھی موجود ہے جو عافیہ کے خاندان اور ان کے حامیوں کا ہے جس کے مطابق تین بچوں کی ماں اور معروف ترین امریکی اداروں کی ڈگری یافتہ، مسلمانوں اور غریبوں کا درد دل میں رکھنے والی عافیہ بیگناہ ہے، ان کا دہشت گردی کے کسی نیٹ ورک سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی وار آن ٹیرر نامی عالمی جنگ کا شکار ہونے والے دوسرے بے شمار بے گناہ قیدیوں کی طرح ہیں جن میں سے بہت سوں کو کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر گونتا نامو بے سے رہا کر دیا گیا۔ 2003ء میں اسے پاکستانی انٹیلی جنس کے اداروں نے امریکی تحویل میں دیا۔

اس نے افغانستان کی بدنام زمانہ امریکی جیل بگرام میں پانچ اذیت ناک سال گزارے، جس کے بعد اسے ایک پلاٹ کے تحت افغانستان ہی کے صوبے غزنی میں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور زخمی اور تقریباً نیم مردہ حالت میں امریکا منتقل کر دیا گیا اور امریکی عدالت نے86 سال قید کی سزا سنائی۔ آج کل ٹیکساس کی ایک جیل ایف ایم سی کارسویل میں یہ اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس جیل میں ذہنی طور پر معذور یا ابنارمل خواتین قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

The post انصاف کے نام پر ناانصافی کی بدترین کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا تخلیق کردہ ایک سافٹ ویئر جوشیطان بن گیا

$
0
0

12 نومبر کی سہ پہر راولپنڈی پولیس نے ایسے ملزم کو گرفتار کیا جو بچوں پر زیادتی کرتے ہوئے ان کی فلمیں بناتا تھا۔ یہ فلمیں پھر وہ ڈارک ویب میں سرگرم بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ فروخت کردیتا۔

سہیل نامی یہ مجرم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے۔ خیبرپختونخوا کے شعبہ پلاننگ میں کام کرتے ہوئے تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پاتا تھا۔ مزید تفتیش سے انکشاف ہوا کہ وہ برطانیہ اور اٹلی میں بھی بچوں پر ظلم کرچکا۔ چناں چہ وہاں کی حکومتوں نے اسے ملک بدر کردیا۔

مقام حیرت ہے کہ پاکستان میں یہ بد سیرت انسان کھلا گھومتا رہا اور پولیس نے اس پر نظر نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے،کئی بچے اس کے لالچ و ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے۔چند دن بعد جامکے چٹھہ(گوجرانوالہ)سے ایک امام پکڑا گیا۔یہ بد بخت بھی مسجد آنے والوں بچوں سے زیادتی کرتا،ان کی وڈیو بناتا اور ڈارک ویب میں فروخت کر دیتا۔

دور حاضر کا بھیانک عجوبہ

انسانی فطرت دنیا کے پُراسرار اور سمجھ نہ آنے والے چندعجائب میں سے ایک ہے۔ فلسفہ اور سائنس ابھی تک اسے سمجھنے کی سعی میں ہیں۔ بعض مفکرین کا دعوی ہے کہ انسان فطرتاً شرپسند ہے۔دیگر اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتے۔ مثلاً یونانی فلسفی افلاطون کا قول ہے ’’انسان قدرتی طور پر شر کو پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے، جب اس کے سامنے دو شر آئیں تو عموماً وہ چھوٹا شر ہی اپناتا ہے۔‘‘ تاہم دور جدید میں بڑھتی مادہ پرستی،خواہشات اور پیسے کی ہوس انسانوں کو ایسے خوفناک کام کرنے پر بھی اکسانے لگی ہے جو ماضی میں عنقا تھے۔ دور حاضر کے انہی بھیانک عجوبوں میں بچوں کا جسمانی استحصال اور خواتین پر ظلم بھی شامل ہے۔

کہتے ہیں کہ بچے وہ ہاتھ ہیں جنہوں نے جنت تھام رکھی ہے۔ جو انسان دن میں کچھ وقت معصوم بچوں کے ساتھ گزار لے، اس کی تھکن دور ہوتی اور وہ ہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ یہ تو گھر اور محلے کی رونق ہیں۔ مگر قیامت کا زمانہ آگیا کہ شقی القلب لوگ ان پھولوں اور کلیوں کو بے دردی سے مسلنے لگے ہیں۔ ان کے نہ دل لرزتے اور نہ ہاتھ کانپتے ہیں۔

پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم، ساحل بچوں پر ہونے والے ظلم کے اعدادو شمار اکٹھے کرتی ہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال آٹھ سو بچیاں اور چھ سو لڑکے ظلم کا نشانہ بن چکے۔ چار سو بچے اغوا ہوئے جبکہ کئی لڑکوں لڑکیوں پر ظلم کرنے کے بعد انہیں قتل کردیا گیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ تھانے میں درج ہوئی ورنہ بہت سے والدین بدنامی سے بچنے کی خاطر ایسے واقعات پوشیدہ رکھتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روزانہ دس بچے بچیاں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ ماضی میں ایسے اُکا دُکا واقعات ہوتے تھے لیکن اب روزانہ خبریں آنے لگی ہیں کہ فلاں جگہ بچہ یا بچی درندگی کا نشانہ بن گئی۔

دنیا بھر کے عالم فاضل اور مفکر متفق ہیں کہ تمام جرائم اور گناہوں میں اسفل ترین اور قبیح ترین گناہ یہ ہے کہ کسی بچے بچی پر ظلم ڈھایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس سوچ کے باوجود پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں بچوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے واقعات میں اضافہ کیوں جاری ہے؟ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کے استحصال کی فلمیں بنانا اور تصاویر لینا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ دنیا بھر میں ایسے کئی جرائم پیشہ گروہ جنم لے چکے جو ان گھٹیا ترین فلموں و تصاویر کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ یہ گھناؤنا کاروبار کئی ارب ڈالر مالیت رکھتا ہے۔

اس عالمی کاروبار کی خوفناکی کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہ بے ضمیر گروہ نوزائیدہ بچوں پر ہوتے ظلم کی فلمیں و تصاویر بھی خریدتے اور بیچتے ہیں۔یہ بڑا المیہ ہے کہ دور جدید کی ایجادات… انٹرنیٹ، موبائل فون اور رابطہ کرنے والے سافٹ ویئرز نے اس گھٹیا و ذلیل ترین کاروبار کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کیے۔بے شک ان ایجادات کے فوائد بھی ہیں۔یہ معلومات کی فراہمی اور رابطے کا بڑا ذریعہ بن چکیں۔لیکن بچوں پہ ظلم کو بڑھاوا دینا ان ایجادات کا نہایت منفی و شرپسندانہ روپ ہے۔ اب کوئی بھی بچے پر ہوتے جبر کی ویڈیو عام موبائل سے بنا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو پھر دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم جرائم پسند گروہ مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ وہ گروہ یہ ویڈیو ہوس کے مارے لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرتے اور سالانہ کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔اسی خرید وفروخت نے اسفل کاروبار کو منافع بخش بنا دیا۔

آج دنیا کے ہر ملک میں ان جرائم پیشہ گروہوں کے ایجنٹ موجود ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں سے فحش ویڈیوز اور تصاویر منہ مانگے داموں پر خریدتے ہیں۔ ان ویڈیو میں بالغ ہی نہیں بچوں پر ہوتا ظلم بھی دکھایا جاتا ہے۔ یہ ویڈیوز گروہوں کی ویب سائٹوں پر برائے فروخت رکھی جاتی ہیں۔ جس ویڈیو میں جتنا زیادہ ظلم اور وحشیانہ حرکات ہوں، وہ اتنی ہی مہنگی ہوتی ہے۔ سادیت پسند لوگ اسے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جرائم پیشہ گروہوں کے ایجنٹ غریب نوجوانوں کو پھانس رہے ہیں۔ وہ انہیں کہتے ہیں کہ راتوں رات امیر بننے کا نسخہ یہ ہے کہ بچوں کو استحصال کا نشانہ بناؤ اور اس قبیح عمل کی ویڈیو بنالو۔ اس ویڈیو کی بھاری رقم ملے گی۔ یہی وجہ ہے، ترقی پذیر ممالک میں بچوں پر ظلم کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان واقعات کی لرزہ خیز ویڈیوز زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔

اکلوتی سپر پاور کا ہاتھ

اس موقع پر قدرتاً یہ سوال جنم لیتا ہے کہ دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا گھوڑے بیچ کر سوئے ہیں؟ ان کی موجودگی میں بچوں پر ہوتے ظلم و ستم کی ویڈیوز و تصاویر کا کاروبار کیسے پھل پھول رہا ہے؟ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ بیشتر مغربی ممالک دنیائے سائنس و ٹیکنالوجی کے سرتاج ہیں۔ کیا وہ ایسے آلات اور سافٹ ویئر بھی نہیں رکھتے جو انٹرنیٹ میں ویڈیوز کا بھیانک کاروبار کرنے والے گروہوں کی ویب سائٹیں ڈھونڈ نکالیں اور ان کا قلع قمع کردیں؟ یہ خوفناک کاروبار انہی ویب سائٹوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہوئے آخر کار یہ تلخ بلکہ حیران کن سچائی سامنے آتی ہے کہ دنیائے نیٹ میں شیطانی ویڈیوز اور تصاویر کے کاروبار کو دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا کے باعث پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔نیٹ کی بے کراںدنیا میں اس خوفناک کاروبار کو وسعت بلکہ جنم دینے میں امریکی حکمران طبقے نے براہ راست کردار ادا کیا۔

اٹھائیس برس قبل 6 اگست 1991ء کو پہلی ویب سائٹس لانچ ہوئی تھی۔ آج دنیائے نیٹ میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ویب سائٹس موجود ہیں۔ ہر سیکنڈ میں دو جبکہ فی گھنٹہ سات ہزار دو سو نئی ویب سائٹس کھل جاتی ہیں۔ ان ویب سائٹوں میں کھربوں میگا بائٹ ڈیٹا محفوظ ہے۔ اس ڈیٹا کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ صرف یوٹیوب پر فی سیکنڈ ’’82ہزار‘‘ ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ آج دنیا کے ’’ساڑھے چار ارب‘‘ انسان روزانہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ڈیڑھ ارب سے زائد ویب سائٹس کو دو گروہوں یا حصّوں میں تقسیم کیا گیا… سرفیس ویب (Surface Web ) اور ڈیب ویب (Deep Web) ۔سرفیس ویب دنیائے نیٹ کا 10 فیصد حصہ ہے۔ اس میں وہ ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر کوئی رسائی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر نیوز سائٹس جیسے روزنامہ ایکسپریس کی سائٹ، ایمزن، فیس بک، یوٹیوب، بینک، سرکاری محکمے وغیرہ وغیرہ۔

امریکی انٹیلی جنس کی تمنا

حکومتیں، بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ڈیٹا عوام سے پوشیدہ رکھنا چاہتی ہیں، وہ ان کی خفیہ ویب سائٹس میں محفوظ ہوتا ہے۔ ان ویب سائٹس کو رمز شناسی (Encryption) پر مبنی سافٹ ویئرز کے ذریعے ناقابل رسائی بنایا جاتا ہے۔ صرف یوزر نیم اور پاس ورڈ رکھنے والے ہی ان میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کی تمام ویب سائٹس ڈیپ ویب کا حصہ ہیں۔ یہ دنیائے نیٹ کا 90 فیصد حصہ ہے۔ گویا عام لوگ نیٹ کی 90 فیصد ویب سائٹس تک رسائی نہیں رکھتے۔ڈیپ ویب ہی میں مختلف ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ بڑی انٹیلی ایجنسیوں مثلاً امریکا کی سی آئی اے کے ایجنٹ دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔ انہی ایجنٹوں کی مدد سے امریکا نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اثرورسوخ بڑھایا اور وہاں اپنے مفادات پورے کیے۔ یہی ایجنٹ ہیں جن کی مدد سے ستر سال قبل شام اور ایران میں امریکا کے مخالف مسلمان حکمرانوں کی حکومتوں کا تختہ الٹا گیا۔ یوں عالم اسلام میں امریکی حکمران طبقے کی سازشوں کا آغاز ہوا جس میں شامل بیشتر مرد وزن اسرائیل نواز ہیں۔

ماضی میں بیرون ملکوں میں مقیم امریکی ایجنٹ اپنی خفیہ ایجنسیوں اور ساتھیوں سے مختلف طریقوں کی مدد سے رابطہ رکھتے تھے۔ مثلاً ریڈیو پر رمز شناسی پر مبنی جملوں سے پیغام دیئے جاتے۔ اخبارات میں اشتہار چھپواتے۔ جناتی زبان میں خط لکھے جاتے۔غرض تب باہمی رابطے کا طریق کار خاصا کٹھن اور پیچیدہ تھا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد منظر نامہ رفتہ رفتہ تبدیل ہوا۔سی آئی اے نے مختلف ویب سائٹس بنائیں اور ان کے ذریعے پیغام رسانی ہونے لگی۔ ظاہر ہے، اس رابطے کو بھی خفیہ رکھنے کی خاطر رمز شناسی سے مدد لی گئی۔ مگر امریکی حکمران طبقے کو اندیشہ تھا کہ روس، چین یا دیگر معاصر ممالک کے ماہرین رمز شناسی اس پیغام رسانی کو سمجھنے کا طریقہ دریافت کرسکتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسا طریق کار دریافت کرنے پر غور و فکر ہونے لگا جس کے ذریعے دنیائے انٹرنیٹ میں سی آئی اے کی ویب سائٹس کو ہی دریافت کرنا بہت مشکل ہوجائے۔ مزید براں پیغام رسانی بھی پوشیدہ اور خفیہ رکھی جاسکے۔

یہ واضح رہے کہ امریکا جاسوسی و سراغ رسانی کا دنیا بھر میں سب سے بڑا نیٹ ورک رکھتا ہے۔ یہ نظام ’’انٹیلی جنس کمیونٹی‘‘(United States Intelligence Community ) کہلاتا ہے۔ اس کمیونٹی میں سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت ’’17 انٹیلی جنس ایجنسیاں‘‘ شامل ہیں۔ ان ایجنسیوں کے مزید کئی ذیلی ادارے ہیں۔ ان اداروں میں سے 1200 تو سرکاری جبکہ 1900 نجی بتائے جاتے ہیں۔ اداروں سے تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ مردوزن وابستہ ہیں۔ یہ سبھی امریکا اور بیرون ممالک میں انٹیلی جنس کی مختلف خدمات انجام دیتے ہیں۔ اتنے زیادہ ایجنٹوں کے مابین رابطے کا مربوط اور نہایت خفیہ نظام تشکیل دیئے رکھنا بچوں کا کھیل نہیں اور نہایت مہارت، بہت سا سرمایہ اور وقت چاہتا ہے۔

اونین روٹنگ کی تخلیق

کمپیوٹر سائنس سے متعلق امریکی انٹیلی جنس ادارے دنیائے انٹرنیٹ میں اپنا رابطے کا نظام پوشیدہ رکھنے اور کوئی منفرد سافٹ ویئر تخلیق کرنے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ انٹرنیٹ کی آمد نے باہمی رابطہ آسان بنادیا تھا۔ اب بھاری بھرکم وائرلیس ریڈیو یا اخبار میں اشتہار چھپوانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ لیکن امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی دنیائے نیٹ میں پیغام رسانی کے اپنے نظام کو زیادہ سے زیادہ خفیہ رکھنا چاہتی تھی تاکہ دشمن اس تک رسائی نہ پاسکے۔مزید براں اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ بیرون ممالک میں اس کے جو ایجنٹ پرائیویٹ یا سرکاری اداروں میں کام کررہے ہیں، وہ سی آئی اے یا امریکی افواج کی ویب سائٹس استعمال کرتے ہوئے پکڑے جاسکتے ہیں۔

مثلاً ایک این جی او کی انتظامیہ کو علم ہوا کہ فلاں اہل کار اکثر سی آئی اے یا امریکی فوج کی ویب سائٹ پر جاتا ہے، تو یقیناً وہ حیران رہ جاتی۔ اسی طرح سرکاری ادارے کے کرتا دھرتا یہ جان کر حیران پریشان ہی ہوں گے کہ فلاں اہل کار اکثر امریکی انٹیلی جنس ویب سائٹوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ غرض اپنی سرگرمیوں سے یہ ایجنٹ جلد نظروں میں آجاتا۔ان کی شناخت پوشیدہ رکھنا ضروری تھا تاکہ وہ اپنے اصل کام بخوبی انجام دے سکیں۔

1995ء میں آخر امریکی بحریہ کے تحقیقی ادارے، نیول ریسرچ سینٹر سے منسلک کمپیوٹر سائنس دانوں پال سیورسن، مائیکل ریڈ اور ڈیوڈ گولڈ شیاگ نے ایسا سافٹ ویئر تیار کرلیا جو دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی انٹیلی جنسی کمیونٹی کی ڈیجیٹل پیغام رسانی خفیہ رکھ سکتا تھا۔ یہ دنیائے نیٹ میں پیغام رسانی خفیہ رکھنے والا پہلا سافٹ ویئر تھا جسے ’’اونین روٹنگ‘‘ (Onion routing) کا نام ملا۔ 1995ء سے 2002ء تک امریکا کے مختلف عسکری و سول تحقیقی ادارے اس سافٹ ویئر کو بہتر بناتے رہے تاکہ وہ موثر بن سکے۔ اسی دوران سافٹ ویئر کو عملی جامہ بھی پہنادیا گیا۔

منصوبے کے تحت سب سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں امریکی ایجنٹوں نے اپنے خفیہ مراکز میں ’’روٹر‘‘(Router) نصب کیے۔روٹر نیٹ ورکنگ کے وہ آلات ہیں جو بذریعہ نیٹ آنے والے پیغامات آگے بھجواتے ہیں۔ ان روٹروں کی تعداد ایک سے دو ہزار کے مابین تھی۔ یہ کام ہوچکا تو امریکا کے خفیہ ایجنٹوں نے اپنے خفیہ مراکز میں کمپیوٹر نصب کیے اور انہیں ووٹروں سے منسلک کردیا۔ امریکا کے مختلف شہروں میں سرور (Server) رکھے گئے۔ سرور وہ آلہ ہے جس میں سافٹ ویئر سے متعلق سارا ڈیٹا جمع ہوتا ہے۔ اس طرح امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نیٹ کی دنیا میں ایک خفیہ نیٹ ورکنگ نظام تخلیق کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا نیٹ ورک سسٹم تھا۔

پرتوں پہ مبنی پیغام

اونین روٹنگ کا سافٹ ویئر ایک ڈیجیٹل پیغام پر تین یا زیادہ رمزی پرتیں (Encryption Layers) چڑھا تا ہے۔ پیغام پر جتنی زیادہ رمزی پرتیں ہوں، مخالفین کے لیے اسے دریافت کرنا اتنا ہی زیادہ مشکل ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایک کمپیوٹر سے پیغام دوسرے کمپیوٹر بھجوایا جائے، تو وہ مختلف روٹروں سے ہوتا منزل تک پہنچتا ہے۔جب وہ پہلے روٹر تک پہنچے تو وہاں پیغام کی پہلی پرت کھلتی ہے ۔وہ کھل کر اسے بتاتی ہے کہ پیغام دوسرے روٹر کو بھجوانا ہے۔

دوسرا روٹر دوسری پرت کھول کر اسے تیسرے اور تیسرا آخری پرت کھول کر پیغام اپنی منزل یعنی دوسرے کمپیوٹر تک پہنچا دیتا ہے۔ گویا ڈیجیٹل پیغام پر پیاز کے چھلکے کی طرح رمزی تہیں چڑھی ہوتی ہیں، اسی لیے سافٹ ویئر کو ’’اونین‘‘(پیاز) کا نام دیا گیا۔اس نیٹ ورک میں گھومنے پھرنے اور پیغام رسانی کی خاطر پھر ایک براؤزر تخلیق کیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس نیٹ ورک میں امریکی انٹیلی جنٹس کمیونٹی نے اپنی مختلف ویب سائٹس بھی بنالیں۔ یوں دنیائے انٹرنیٹ کے متوازی ایک اور ڈیجیٹل دنیا وجود میں آگئی۔یہی دنیا ’’ڈیپ ویب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

اونین روٹنگ کے روٹر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ اسی لیے ایک خفیہ پیغام دو تین روٹروں سے ہوتا ہوا منزل تک پہنچتا۔ یہی وجہ ہے، دشمن کی انٹیلی جنس کے واسطے یہ پتا چلانا تقریباً ناممکن ہوگیا کہ خفیہ پیغام کس کمپیوٹر سے بھیجا گیا اور کون سے کمپیوٹر تک پہنچا۔ سب سے پہلے تو دشمن ایجنسیوں کو امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اونین روٹنگ نیٹ ورک سسٹم میں داخل ہونے کی خاطر ہی بہت تگ و دو کرنا تھی۔ یوں امریکیوں نے اپنا جاسوسی کا مربوط طریق کار ایجاد کرلیا۔ اب امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اور افواج (بری، فضائیہ اور بحری) اپنے ایجنٹوں کی شناخت پوشیدہ رکھنے اور پیغام رسانی خفیہ رکھنے کی خاطر دنیائے انٹرنیٹ میں متوازی نیٹ ورکنگ سسٹم بلا خوف و خطر استعمال کرسکتی تھیں۔

ایک خامی کی دریافت

رفتہ رفتہ مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ دنیائے ڈیپ ویب میں صرف امریکیوں ہی کی حکمرانی ہے۔ ان کے علاوہ اس دنیا میں کوئی اور سرگرم نہیں تھا۔ یہ انٹرنیٹ کی متوازی دنیا کی بڑی خامی تھی۔ بالفرض روس، چین یا شمالی کوریا کے ماہرین کمپیوٹر اس دنیا میں داخل ہوجاتے، تو وہ کسی نہ کسی طرح امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اور افواج کے راز جان لیتے۔

یوں امریکی جاسوسوں کی شناخت چھپی نہ رہتی اور ان کی پیغام رسانی بھی افشا ہوجاتی۔اب امریکی اسٹیبلشمنٹ سرجوڑ کر بیٹھ گئی کہ خامی کیسے دور کی جائے؟ طویل مشاورت کے بعد طے پایا کہ اونین روٹنگ سافٹ ویئر عوام میں مفت تقسیم کردیا جائے۔یوں دنیا کے سبھی لوگوں کو اجازت مل جاتی کہ وہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی تخلیق کردہ ڈیپ ویب میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ 2004ء میں ہوا۔ اسی وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اونین روٹنگ سافٹ ویئر مفت لائسنس کے ذریعے دنیائے انٹرنیٹ میں رکھ دیا۔ اب دنیا کا ہر شخص یہ قیمتی سافٹ ویئر ڈاؤن لوڈ کرکے اسے کام میں لاسکتا تھا۔

ایک انوکھی چال

سوال یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے نے کروڑوں روپے خرچ کر جو قیمتی سافٹ ویئر بنایا ، اسے مفت کیوں تقسیم کیا جانے لگا؟ امریکی چاہتے تھے، ان کے تخلیق کردہ متوازی نیٹ ورک میں عام لوگ بھی اپنی ویب سائٹس کھول لیں۔ اس طرح امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اور عام افراد کی ویب سائٹس گھل مل جاتیں۔ یوں امریکا کی دشمن طاقتوں کے لیے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ویب سائٹس تک پہنچا مزید دشوار مرحلہ بن جاتا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی چال کامیاب رہی۔جلد ہی مختلف حکومتوں سے لے کر عام لوگوں اور گروہوں نے اونین روٹنگ سافٹ ویئر سے فائدہ اٹھا کر اپنی ویب سائٹس کھول لیں۔ ان ویب سائٹس تک صرف مخصوص براؤزر کے ذریعے پہنچا جاسکتا تھا۔

اولیّں ویب سائٹس ان گروہوں یا افراد کی تھی جو اپنی حکومتوں سے نبرد آزما تھے۔ ایسے گروہوں اور افراد کی خواہش تھی کہ انٹرنیٹ میں ایسا طریق کار مل جائے جس کی مدد سے وہ آپس میں رابطہ رکھیں اور مخالف حکومتیں ان کی پیغام رسانی دریافت نہ کرسکیں۔اونین روٹنگ سافٹ ویئر نے ان کی یہ ضرورت پوری کردی۔ نت نئی ویب سائٹس کھلنے سے نیٹ کے متوازی نیٹ ورک میں ٹریفک بھی بڑھ گئی۔ یوں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی یہ تمنا پوری ہوئی کہ عام لوگ اس کا خفیہ نیٹ ورک استعمال کرنے لگیں۔ اب امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی عام لوگوں کے درمیان رہ کر جاسوسی و سراغ رسانی کا اپنا کام زیادہ محفوظ طریقے سے کرسکتی تھی۔

2004ء میں امریکی حکومت نے اونین روٹنگ سافٹ ویئر اور براؤزر ماہرین کمپیوٹر کی ایک ٹیم کے حوالے کردیا۔ امریکی حکومت پھر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے اس ٹیم کو بھاری رقم فراہم کرنے لگی۔ مقصد یہ تھا کہ یہ ماہرین سافٹ ویئر کو بذریعہ تحقیق و تجربات بہتر بناتے رہیں۔ ماہرین نے دسمبر 2006ء میں دی تور پروجیکٹ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کردی۔ مقصد یہ تھا کہ سافٹ ویئر کو باقاعدہ طریق کار سے برتا جائے۔

آج بھی امریکی حکومت ہی اس تنظیم کو بھاری امداد دیتی ہے تاکہ اونین روٹنگ سافٹ ویئر میں خامیاں دور کی جاسکیں۔اس داستان سے عیاں ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے جاسوسی کی اپنی سرگرمیاں پوشیدہ رکھنے کی خاطر اربوں روپے خچ کرکے ایک سافٹ ویئر تیار کیا اور اس کی مدد سے دنیائے انٹرنیٹ میں ایک خفیہ و متوازی گوشہ تخلیق کرلیا۔ عام براؤزر اس گوشے تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن پھر اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ وہ سافٹ ویئر مفت تقسیم کرنے لگی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ اپنی بنائی خفیہ دنیا یعنی ڈیپ ویب میں امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی سرگرمیاں زیادہ پوشیدہ رکھی جاسکیں۔

سافٹ وئیر کی بڑھتی مقبولیت

رفتہ رفتہ دنیا بھر کی حکومتوں کے سرکاری اداروں، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دیگر نے ڈیپ ویب میں اپنی ویب سائٹس کھول لیں۔ عام براؤزر ان تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ جلد ہی دولت مند اداروں نے اونین روٹنگ سے ملتے جلتے سافٹ ویئر اور براؤزر تخلیق کرلیے۔ یہ ادارے اپنے ڈیٹا اور کمیونیکیشن نظام زیادہ خفیہ اور ناقابل رسائی بنانا چاہتے تھے۔ 2010ء تک ڈیپ ویب میں باہمی رابطے کی ویب سائٹس بھی کھل گئیں۔ وہاں وسل بلوئر پہنچ کر حکومتوں اور طاقتور شخصیات کے جرائم کا پردہ چاک کرنے لگے۔ اس طرح دنیا بھر کے لوگوں کو ایسا پلیٹ فارم مل گیا جہاں وہ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر مجرموں کے کرتوت افشا کرسکتے تھے۔

یوں سچائی کی راہ پر گامزن انسانوں کو انکشافات اور اپنے خیالات کے اظہار کی خاطر نیا ہتھیار ہاتھ آگیا۔2011ء میں جب ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز ہوا تو مصر، اردن، لیبیا، مراکش وغیرہ میں لوگوں کی اکثریت نے ڈیپ ویب کی کمیونیکیشن ویب سائٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطہ رکھا۔ سرفیس ویب میں موجود کمیونکیشن سائٹس تک رسائی پر حکومتوں نے پابندی لگادی تھی۔ غرض یہ ڈیپ ویب کا مثبت روپ تھا جو 2011ء میں سامنے آیا۔ اب نہتے و کمزور عوام ڈیپ ویب کی کمیونکیشن سائٹس کی مدد سے آپس میں رابطہ کرکے آمرانہ و مطلق العنان حکومتوں کے خلاف منظم تحریک چلاسکتے تھے۔

منفی روپ افشا ہوا

آہستہ آہستہ مگر ڈیپ ویب کا منفی روپ بھی افشا ہوا۔ یہ کہ ڈیپ ویب کی خفیہ نوعیت جرائم پیشہ گروہوں کو بہت پسند آئی۔ اس دنیا میں گھومنے والا ہر شخص بے شناخت رہتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے،کہاں سے آیا اورکدھر چلا گیا۔ اسی نوعیت سے جرائم پیشہ گروہوں نے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے مفت دستیاب متعلقہ سافٹ ویئرز کی مدد سے ڈیپ ویب میں اپنی ویب سائٹس کھولیں اور وہاں ہر قسم کا غیر قانونی کاروبار کرنے لگے۔

مثلاً منشیات کی فروخت، اسلحہ بیچنا، فحش فلموں اور رسالوں کا بزنس وغیرہ۔ رفتہ رفتہ ان کا کاروبار پھیلتا چلاگیا اور ان کی ویب سائٹس پر ہر نوعیت کا جرم انجام پانے لگا۔آج ماہرین ڈیپ ویب میں غیر قانونی غیر اخلاقی اور ناجائز سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹس کو ’’ڈارک ویب‘‘ یا ’’ڈارک نیٹ‘‘ کا نام دے چکے۔ ڈیپ ویب کا یہ چھوٹا سا حصہ ہے، مگر خاص طور پر پوری دنیا میں آباد بچوں اور خواتین کے لیے نہایت خطرناک مقام بن چکا۔ اسی حصّے میں پورنو گرافی کا بزنس پھیل رہا ہے اور شیطان صفت مرد پیسے یا نفس کی ہوس پوری کرنے کی خاطر معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔

عمل کا وقت

اب وقت آچکا کہ تمام ممالک کی حکومتیں سر جو ڑکر بیٹھ جائیں تاکہ ڈارک ویب میں سرگرم تمام ویب سائٹس کا قلع قمع ہوسکے۔ڈارک ویب پوری دنیا میں انسانی معاشرے تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے اور اسے ختم کرنا ضروری ہو چکا۔ خاص طور پر امریکی حکومت کو ڈارک ویب کے خلاف بھرپور مہم چلانی چاہیے کیونکہ اس عفریت کی موجد امریکا کی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس نے اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے جو بظاہر بے ضرر سافٹ ویئر بنایا، وہ اب ایسا خوفناک جن بن چکا جو پوری دنیا میںپھول جیسے نرم و نازک بچوں اور خواتین کو ہڑپ کر رہا ہے۔ ڈارک ویب میں پنپتے خیبیاثہ کاروبار کے باعث ہزارہا بچے اور خواتین اپنے بچپن کی انمول خوشیوں سے محروم ہوگئے اور ان کی زندگیاں اچانک دردناک عذاب میں بدل گئیں۔

امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ سائنس و ٹیکنالوجی کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ ان کے لیے ڈارک نیٹ میں سرگرم پورنوگرافی سمیت تمام مجرمانہ سرگرمیاں انجام دینے والی ویب سائٹس بند کرنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔اس سلسلے میں مختلف طریقے اپنانا ممکن ہیں مثلاً عام لوگوں تک ڈارک ویب کے سافٹ وئیر کی رسائی روک دی جائے۔

ان مغربی حکومتوں نے ڈارک ویب کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، تو یہی سمجھا جائے گا کہ ان ممالک کا حکمران طبقہ اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے دنیا بھر کے بچوں و خواتین پہ ہوتے ظلم وستم کو چنداں اہمیت نہیں دیتا۔حد درجے کی یہ سفاکانہ بے حسی وخود غرضی عموماًحکمرانوں سے مخصوص سمجھی جاتی ہے۔مذید براں زیادتی کرنے والے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔فی الوقت انھیں دی گئی سزائیں بہت ہلکی ہیں۔مثلاً سہیل برطانیہ اور اٹلی میں صرف چار سال بعد ہی رہا ہو گیا۔ایسے مجرم تو ساری عمر جیل کی چکی پیسیں تب بھی یہ سزا کم ہے۔

The post امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا تخلیق کردہ ایک سافٹ ویئر جوشیطان بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

عراق پر امریکی حملہ آج بھی جاری

$
0
0

امریکا عراق میں اپنے پیچھے انتشار اور تشدد چھوڑ کر ہی نہیں آیا اس نے ہلاکت آفرینی کے ایسے نشانات بھی چھوڑے ہیں جو عراقیوں کی جانے کتنی نسلوں تک ثبت ہوتے رہیں گے۔

امریکی فوج پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے سرزمین عراق پر اپنے غاصبانہ قیام کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، جن کے تباہ کن اثرات مقامی آبادی اور ماحول پر ہوکر رہیں گے، لیکن امریکا کی طرف سے اپنی سیاہ کاری کو سفید جھوٹ سے چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بالآخر حقیقت سامنے آگئی۔

پہلی مرتبہ آزاد محققین کوایسے عراقی بچوں کے بارے میں پتا چلا ہے جو پیدائشی طور پر معذوریوں اور امراض کا شکار ہیں، جیسے دل کی بیماریاں اور اعضاء میں نقص۔ ان بچوں کی جائے پیدائش 2003 میں عراق پر قبضے کے بعد ملک کے جنوب میں قائم کیے جانے والے امریکی ایئربیس کے اطراف کا علاقہ ہے۔

جہاں امریکیوں نے بڑے پیمانے پر تابکاری کی حامل ’’ڈپلیٹڈ یورینیم‘‘ استعمال کی تھی۔ ان محققین کی تحقیق کی بنیاد عراقی ڈاکٹروں کا عرصے سے زورشور کے ساتھ کیا جانے والا یہ انکشاف تھا کہ جنگِ عراق (جس کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا) کے پہلے سال جن علاقوں میں زبردست معرکے ہوئے، وہاں پیدا ہونے والے بچوں کی بلند شرح پیدائشی طور پر جسمانی نقائص کا شکار ہے۔ ان بچوں کی تصاویر مختلف سائٹس پر موجود ہیں، جنھیں دیکھنے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔

2016 میں محققین نے بغداد کے جنوب میں نصیریہ شہر کے قریب واقع تلیل ایئربیس، جو امریکیوں کے تسلط میں تھا، کے اردگرد کے دیہات میں جنم لینے والے بچوں کے بالوں اور دانتوں کا طبی معائنہ کیا تو انھیں ان دانتوں اور بالوں سے یورینیم اور تھوریم (Thorium) کے اجزاء ملے۔ یہ بھاری تاب کاری کی صلاحیت رکھنے والی دھاتیں جوہری ایندھن میں استعمال ہوتی ہیں اور سرطان کا سبب بن سکتی ہیں۔

تھوریم ڈیپلیٹڈ یورینیم سے براہ راست حاصل کی جانے والی زہرآلود ضمنی کیمیائی پیداوار ہے، جو جوہری بجلی کی صنعت میں استعمال ہوتی ہے۔ تھوریم کو جنگ عراق کے دوران بھی ہتھیاروں میں بروئے کار لایا گیا۔ اپنی بلند درجے کی کثافت کے باعث ڈیپلیٹڈیورینیم گولیوں کو آرمرڈ وہیکلز اور دیگر نہایت مضبوط دفاعی آلات کو چھید ڈالنے کی صلاحیت عطا کردیتی ہے۔ امریکی فوج نے اس دھات کا کیمیائی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ملٹری بیس کے باہر زمین میں دبایا اور گڑھوں میں جلایا، جس کی وجہ سے اس کے زہریلے اثرات سے مقامی فضا بھر گئی۔

مشی گن سے تعلق رکھنے والی غیرجانب دار اور آزاد محقق موژگان سوابی اصفہانی(Mozhgan Savabieasfahani) جو اس تحقیقی مقالے کی شریک مصنف ہیں، کا کہنا ہے کہ تلیل ایئربیس کے گردونواح میں جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں تھوریم کی مقدار کی شرح ان بچوں میں اس دھات کی مقدار سے اٹھائیس گنا زیادہ ہے جو ایئربیس سے دوردراز علاقوں میں پیدا ہوئے اور جن میں کوئی پیدائشی نقص نہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ہم ان بچوں میں بنیادی طور پر ڈیپلیٹڈیورینم کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔‘‘

اعدادوشمار کی مدد سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تلیل ایئربیس کے قریب جنم لینے والے بچوں میں پیدائشی طور پر جسمانی نقائص، دل کی بیماریوں، ریڑھ کی ہڈی میں بگاڑ، ہونٹ کٹے ہوئے ہونے، اعضاء کا نہ ہونا، ان میں معذوری یا نقص کے پائے جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

محققین کا یہ انکشاف تو آج سامنے آیا ہے، مگر عراقی ڈاکٹر عراق پر امریکی حملے کے بعد سے بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیوں والے علاقے میں پیدائشی نقائص کے ساتھ جنم لینے والے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر خدشات اور خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اس نوعیت کے دیگر مطالعات سے سامنے آیا ہے کہ عراق کے مختلف شہروں، جہاں امریکی فوج کا قیام تھا یا اس نے بڑی جنگیں لڑیں، میں اسقاط حمل، بچوں کا سرطان، leukemia (خون کا سرطان) اور بچوں کی اموات میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان شہروں میں فلوجہ سرفہرست ہے، جہاں مذکورہ جنگ کے سب سے بڑے معرکے ہوئے۔

دوسری طرف سائنس داں، عراقی معالج اور عالمی مبصرین اس شک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مخصوص عراقی علاقوں کے نوزائدہ بچوں میں نقائص اور امراض کا باعث ڈیپلیٹڈ یورینیم ہے۔ 2014 میں ایک عراقی ڈاکٹر نے ویب سائٹ ’’ٹُرتھ آؤٹ‘‘ کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا تھا کہ جنگ عراق کا مرکز بننے والے علاقوں میں فضا کو آلودہ کردینے والی ڈیپلیٹڈ یورینیم نسل کشی کے لیے کافی ہے۔

1

اگرچہ امریکی سرکار نے عراق کی وزارت صحت کو ڈیپلیٹڈیورینیم کے اخراج سے ہونے والی آلودگی کی کھوج لگانے کے لیے ڈیٹا فراہم کیا تھا، تاہم یہ پتا لگانا ناممکن ہے کہ جنگ کے دوران اس دھات کا کس مقدار میں استعمال کیا گیا۔ جنگ اپنے پیچھے مختلف النوع زہربھری آلودگی چھوڑ گئی ہے۔

جس کی وجہ سے عراقی دو عشروں سے ماحولیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں ناقص الاعضا بچوں کی پیدائش جیسا سنگین مسئلہ بھی شامل ہے، لیکن امریکا کے انسانیت دشمن حربوں اور سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لیے عالمی ادارے اور خود عراق کی وہائٹ ہاؤس کی احسان مند حکومت اس معاملے کو دبانے اور ہیراپھیری کے ذریعے اسے چھپانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ان کی کوشش رہی ہے کہ ڈیپلیٹڈیورینم کے استعمال سے متعلق تحقیقی مطالعے میں سامنے آنے والے نتائج کو مکمل طور پر رد کرنا ممکن نہیں تو کم ازکم انھیں توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور ان کے گرد شکوک کی گَرد اُڑائی جائے۔ عالمی ادارۂ صحت اور عراقی حکومت کی جانب سے ایک سروے کیا گیا، جس کے نتائج کے ذریعے عراقی ڈاکٹروں کے دعوؤں کی تردید کی گئی۔ اس صورت حال میں مختلف حلقوں کا اصرار تھا کہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اور اب تازہ ترین تحقیقی مطالعات نے تلیل ایئربیس کے گردونواح میں جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے بالوں اور دانتوں میں تھوریم کی موجودگی ثابت کرکے اس علاقے میں ڈیپلیٹڈیورینیم اور امریکی فوج کے درمیان براہ راست تعلق کی تصویر دکھا دی ہے۔

اس تحقیقی کاوش کی شریک محقق موژگان سیوابی اصفہانی کا کہنا ہے کہ بچوں کے دانت ماحولیاتی اثرات قبول کرنے کے معاملے میں نہایت حساس ہوتے ہیں۔ دانتوں میں اتنی بڑی مقدار میں تھوریم کا پایا جانا بتاتا ہے کہ یہ اثرات اس وقت مرتب ہوئے جب وہ ماں کے پیٹ میں تھے۔

اقوام متحدہ کے اعداوشمار کے مطابق صرف 2003 میں 2 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ڈیپلیٹڈ یورینیم عراقی فضا میں داخل ہوئی، جس میں سے زیادہ تر امریکیوں کی طرف سے چلائی جانے والی ہزاروں گولیوں سے نکل کر فضا میں پھیلی۔ اس سے پہلے بھی امریکی فوج نے کویت پر عراقی قبضے کے باعث ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران عراق، کویت اور سعودی عرب میں ڈیپلیٹڈ یورینیم سے لیس ہتھیار استعمال کیے تھے۔ اس جنگ سے واپس آنے والے فوجی صحت کے کچھ خاص مسائل کا شکار ہوگئے تھے، اس بیماری کو Gulf War syndrome کا نام دیا گیا تھا۔ محققین طویل عرصے تک اس شک کا اظہار کرتے رہے کہ اس مرض کا سبب ڈیپلیٹڈیورینیم کا استعمال ہوسکتا ہے۔

2003 کی جنگ میں امریکا نے ہزاروں ٹن کی مقدار کے حامل عسکری آلات عراق بھیجے تھے، جن میں ٹینک، ٹرک، آرمرڈوہیکلز، پیادہ فوج کا اسلحہ، اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم شامل ہیں، ان میں سے کچھ پر ڈیپلیٹڈ یورینیم کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ ان عسکری آلات میں سے بہت سے خراب ہوکر عسکری کباڑ خانوں میں جاپہنچے اور درجنوں امریکی ایئربیس اور عراق میں موجود دیگر امریکی تنصیبات کے قریب بکھرے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکی ملٹری بیس میں ڈیپلیٹڈ یورینیم میں بھی ذخیرہ کی گئی تھی، جو آخرکار خارج ہوکر فضا میں تحلیل ہوگئی۔ تازہ ترین تحقیقی مطالعے کا محور تلیل ایئربیس ہے، مگر یہ عراق بھر میں پھیلی امریکا کی درجنوں فوجی سائٹس میں سے صرف ایک ہے، دیگر امریکی عسکری اڈے اپنے اندر کتنا زہر چھپائے ہیں اور کتنا اُگل چکے ہیں، یہ حقائق ابھی سامنے نہیں آئے۔ موژگان سیوابی اصفہانی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے تحقیقی مطالعے میں یہاں (تلیل ایئربیس پر) جو دیکھا اور جو اخذ کیا اس کے اطراف کا منظرنامہ عراق میں قائم کیے جانے والے ہر امریکی ملٹری بیس کے جیسا ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فضا میں یورینیم اور تھوریم کی آلودگی حاملہ خواتین کے رحم میں موجود بچوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہے۔

عراق پر جنگ کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر مسلط کی گئی تھی، بعد میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا، اور اب یہ سچ سامنے آیا ہے کہ جس الزام کو جواز بنا کر عراق پر قبضہ کیا گیا اور وہاں بدامنی اور خلفشار کے بیج بوئے گئے، اس الزام کو خود امریکیوں نے عراقی سرزمین پر حقیقت کا روپ دیا ہے۔

امریکا نے عراق میں ڈیپلیٹڈ یورینیم جیسے سفاک عنصر کا استعمال عراق کے مسلمانوں کی نسلوں کو اپاہج بنانے کے لیے یہ سب کیا یا اس کے لیے عراق کے باسی یا مسلمان انسان کا درجہ ہی نہیں رکھتے اور ان پر جنگی ضرورت کے تحت کوئی بھی حربہ آزمایا اور تجربہ کیا جاسکتا ہے، کچھ بھی ہو امریکی اپنے ظلم، بے حسی اور انسانیت دشمنی کے نشانات عراق کی ہواؤں اور فضا پر بھی ثبت کر گئے ہیں، جو اعضا سے محروم اور بیماریوں میں مبتلا بچوں، مہلک امراض اور ماحولیاتی تباہی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور جانے کب تک عراق میں امریکاگردی کی یاد بنے تازہ رہیں گے۔ دراصل عراقیوں پر امریکی حملہ ختم نہیں ہوا، اب تک جاری ہے اور جانے کب تک اہل عراق کو ہلاکت میں ڈالے رہے گا۔

The post عراق پر امریکی حملہ آج بھی جاری appeared first on ایکسپریس اردو.

سجا پھر فیض میلہ

$
0
0

 پاکستان میں کمیونسٹ و مارکسسٹ خیالات کے حامل اور باغی شعراء کم ہی رہے ہیں جو تھے ان میں سب سے سب سے اونچا قد فیض احمد فیض کا ہے۔ اپنے باغی خیالات اور بائیں بازو سے قربت کی وجہ سے فیض نے اپنا موضوع غریب اور محنت کش طبقے کو بنایا ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ فیض احمد فیض مزدور اور کسان کا شاعر ہے۔

اردو ادب میں علامہ محمد اقبال اور مرزا غالب کے بعد فیض احمد فیض کو تیسرا بڑا شاعر مانا جاتا ہے (بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں بھی کرتے) لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فیض کے کلام میں جو جوش، ولولہ اور پُختگی نظر آتی ہے وہ بہت کم شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔

فیض کا نام ان تخلیق کاروں میں سرِفہرست ہے جنھوں نے اپنی تخلیقات کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے عطا کردہ سیاسی شعور پر رکھی اور دوسری طرف ان فنی اور جمالیاتی تقاضوں سے بھی عہدہ برآ ہوئے جو اعلیٰ ادبی تخلیقات کی اساس ہیں۔ فیض ان ترقی پسند شعراء میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اس نظریے کی ترویج میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا ہے اور اس کردار کو نبھانے کے لیے جس سیاسی و ادبی شعور کی ضرورت تھی فیض کے پاس وہ موجود تھا۔

ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

فیض کے ساتھ زندگی میں کیا گزری اور کیا کیا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ یہاں میں ذکر کروں گا فیض احمد فیض کے اسلوب و فکر کو زندہ رکھنے اور ان کے علمی و ادبی کام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے حوالے سے لاہور میں منعقد کیے جانے والے سالانہ فیض فیسٹیول کا۔

15

زیادہ دور نہیں بس کچھ سال پہلے کی ہی بات ہے کہ فیض فاؤنڈیشن (جو ان کی بیٹیاں چلا رہی ہیں) نے فیض کے چاہنے والوں کے تعاون سے ”فیض انٹرنیشنل فیسٹیول” کا انعقاد شروع کیا جہاں فیض کے کلام کے ساتھ ساتھ دوسری بیٹھکیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ پچھلے سال 2018 میں اس فیسٹیول میں بھارت کے مشہور لکھاری جاوید اختر اور ان کی اہلیہ اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھی شرکت کی تھی جس کے بعد اس میلے کی شہرت کو چارچاند لگ گئے تھے۔

اس سال یہ میلہ ”فیض فیسٹیول” کے نام سے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں 15 سے 17 نومبر تک منعقد ہوا جس میں فنونِ لطیفہ کی تمام اصناف کا احاطہ کیا گیا اور شعبہ زندگی کے ہر میدان سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس میں شرکت کی۔

اس میلے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنی طرز کا واحد ایونٹ ہے جو 2015 سے باقاعدگی سے ہر سال منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ اس بار بھی اس میں کئی پروگرام بیک وقت منعقد کیے گئے تھے جہاں فلم، ٹی وی، موسیقی، سیاست، ادب، صحافت، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والی کئی معروف ہستیوں نے شرکت کی جن میں اسد عمر، شازیہ مری ، احسن اقبال، نفیسہ شاہ، افراسیاب خٹک، نسیم زہرہ، حامد میر، منیزے جہانگیر، وسعت اللہ خان، وجاہت مسعود، احسن خان، اصغر ندیم سید، ماہرہ خان، علی سیٹھی، سرمد کھوسٹ، سامعہ ممتاز، واسع چوہدری، عدیل ہاشمی، نور الحسن، نمرہ بُچہ، کلپنا دیوی، پیٹر جیکب، سردار رمیش سنگھ اروڑہ، سلیمہ ہاشمی اور فرح یاسمین شیخ شامل ہیں۔

بیک وقت مختلف ہالز میں ہونے والے پروگرامز میں اجوکا تھیٹر کا ڈراما سائرہ اور مائرہ، سماجی مسائل میں میڈیا کا کردار، سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت، اقلیتوں کے مسائل، عام شہری اور ماحولیاتی بحران، راولپنڈی سازش کیس کا حال، عاصمہ جہانگیر کی یاد میں، پاکستانی سنیما کا مستقبل، پنجاب میں سکھ مت، پاکستان کی خواتین کھلاڑی، سانحہ جلیانوالہ باغ جیسے موضوعات پر ادبی و فکری بیٹھکیں اور رقص و شاعری کے مختلف پروگرام شامل تھے۔ ایک سیشن میں عدیل ہاشمی نے پیانو پر فیض کا کلام خوب صورت انداز میں پڑھ کہ سماں باندھ دیا جب کہ فرح یاسمین شیخ کے کلاسیکل رقص کا سیشن بھی خوب رہا۔

باہر گیلری میں فیض احمد فیض کی زندگی سے متعلق تاریخی تصاویر کی نمائش کی گئی تھی جب کہ لان میں کھانے پینے کے اسٹالز اور کتاب میلہ بھی لگائے گئے تھے، جہاں فیض سمیت بہت سے ادیبوں اور شعراء کی کتابیں سستے داموں مل رہی تھیں۔ اس کے علاوہ پختون اور پنجابی موسیقی اور نوجوان طلباء کا رقص بھی شامل تھا۔

16

دوسری طرف کچھ مزدور پیشہ اور فیض کے پرانے چاہنے والوں سے جب بات کی تو ان کا یہ کہنا تھا کہ فیض احمد فیض غریب طبقے اور مزدور کا شاعر تھا جسے اب کمرشل کر دیا گیا ہے۔ یہ فیسٹیول اب ان جیسے لوگوں کی پہنچ سے بہت دور کر دیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ کو اس فیسٹیول میں کامریڈ، مزدور و کسان راہ نما اور استاد جگہ جگہ نظر آتے تھے، لیکن مڈل کلاس فن کاروں کو نظرانداز کر کہ اس میلے میں ایلیٹ کلاس کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے جس پر ہمیں تحفظات ہیں۔

بہرحال، دہشت گردی کے عفریت سے تازہ تازہ نکلنے والے معاشرے کے لیے ایسے ادبی و ثقافتی میلے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں ہر شہر میں سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونا چاہیے۔ یہی ادبی میلے ہی ہیں جو ہماری سوچ کو تخلیق کے آسمان میں اڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں۔

بلاشبہہ لاہور میں اس فیسٹیول کا انعقاد اہلِ علم و ادب کے لیے خوش گوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے جسے تمام عمر کے افراد کی شرکت نے انتہائی مقبول بنا دیا ہے۔

بقول فیض ؛

دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج

ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج

سخت ویراں ہے محفلِ ہستی

اے غمِ دوست تو کہاں ہے آج

The post سجا پھر فیض میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.


دنیا کے سات بلند ترین پہاڑی شہر

$
0
0

مائیکرو اسکوپک بیکٹیریا کی طرح انسان نے بھی انتہائی شدید حالات میں اپنے وجود کو شدید موسموں میں محفوظ بھی کرلیا ہے اور ان حالات میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔

صحارا کی جھلسا دینے والی شدید گرمیوں سے لے کر سائبیریا کے منجمد کردینے والے ٹنڈرا تک میں انسانی زندگی پائی جاتی ہے اور ان حالات میں بھی لوگ وہاں رہتے ہیں۔ صورت حال اس حد تک بدل گئی ہے کہ ان بلندوبالا پہاڑوں میں جہاں زندگی بچانے والی آکسیجن انتہائی حد تک کم ہوتی ہے، وہاں بھی انسان ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ کم و بیش 140 ملین افراد مستقل طور پر نہایت بلندیوں پر رہ رہے ہیں۔

جن کی بلندیاں ایشیا کے ہمالیاز میں 2,500 میٹر سے لے کر  8,200 فیٹ تک ہوتی ہیں۔ جنوبی امریکا میں انڈیز میں بھی یہی صورت حال ہے اور افریقا کے بلند و بالا مقامات پر ایتھوپیئن Highlandsمیں بھی یہی پوزیشن ہے اور صورت حال تو اس حد تک چلی گئی ہے کہ قرب و جوار کے ملحقہ شہروں میں بھی یہ لوگ رہتے ہیں اور خوب پھل پھول رہے ہیں۔ یہاں ہم دنیا کے سات بہت بلند شہروں اور آبادیوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں سے ہر ایک 10,000 فیٹ کی بلندی سے بھی زیادہ بلندی پر واقع ہے۔

٭  La Rinconada  :

یہ پیرو کا ایک شہر ہے جو Peruvian Andes کے دور دراز علاقے کا شہر ہے اور ماضی میں یہ ایک سونے کی کان کا کیمپ تھا جو آج ایک بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس پہاڑی شہر یعنی La Rinconadaمیں کم و بیش 50,000 سے بھی زیادہ افراد 16,732 فیٹ یعنی 5,100  میٹرز کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یہ شہر ’’دنیا کا بلند ترین شہر‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔

la-rinconada  حالاں کہ اس شہر نے اپنی معیشت کو مکمل طور پر قریبی سونے کان کے باعث بہت ترقی دی ہے، لیکن اس کے باوجود اس شہر کا بنیادی ڈھانچہ غریب ہے اور اس کا شمار غریب معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اس شہر میں پلمبنگ کا کوئی نظام نہیں ہے اور اسی لیے یہاں گندگی کی نکاسی کو بھی کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں آلودگی کے مسائل بھی ہیں اور انہی کی وجہ سے یہاں کان کنی کے مسائل بھی ہیں۔

اس شہر کے لگ بھگ سبھی مکین یہاں کام کرنے والے کان کن یا ورکر ہیں جو دور دراز مقامات سے روزگار کی تلاش میں یہاں آئے ہیں اور وہ یہاں کسی محفوظ روزگار کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اچھی اور خوش حال زندگی گزار سکیں۔ ان کا ادائیگی کی سسٹم بہت ہی عجیب اور انوکھا ہے جسے یہاں کے لوگ مقامی زبان میں Cachorreo کہتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے ملازمین کسی بھی تن خواہ یا ادائیگی کے بغیر پورے30  دن تک کام کرتے ہیں اور پھر اکتیسویں دن انہیں اجازت ہوتی ہے کہ وہ اس کان سے جتنا خام مال ساتھ لے جاسکیں، اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس کے بعد یہ ورکر کان کن اس خام مال سے جو بھی چیز یا چیزیں نکال سکتے ہیں، وہ ان کی ملکیت ہوتی ہے۔

یہ اس خطے کی کمپنیوں کا تن خواہ یا ادائیگی کا غیر روایتی طریقہ ہے، اس کے باوجود یہاں آنے والے کارکن اسی میں خوش ہیں اور انہیں اس طریقے سے معاوضہ وصول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ جوق در جوق کام کی تلاش میں یہاں آتے رہتے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران La Rinconada  کی آبادی 230 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔

٭  El Alto  :

El Alto نامی یہ شہر بولیویا کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ شہری مراکز میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ اور پھیل رہا ہے۔ اس کے اربن سینٹرز بھی بہت شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ اس کی آبادی 1.1 ملین سے بھی زیادہ ہوچکی ہے اور یہ شہر 13,615 feet یعنی کم و بیش 4150میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کا شمار بھی دنیا کے بلند ترین شہروں میں ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں  Alto نامی یہ شہر ملحقہ La Paz کا ایک چھوٹا سا ذیلی قصبہ ہوا کرتا تھا اور یہ  Altiplano highlands پر واقع تھا، لیکن بعد میں بولیویا کے دیہی علاقوں سے1950 کی دہائی میں La Paz کی طرف بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کے باعث یہ خطہ خاصا پھیل گیا اور صرف چالیس سال سے بھی کم عرصے میں اس چھوٹے سے شہر نے ایک بڑے اور معروف شہر کا رتبہ حاصل کرلیا۔

جس خطے میں El Alto واقع ہے، وہ بالکل خشک ہے اور شدید ہے اور اسی لیے1903 تک یہ بالکل غیر آباد تھا۔ لیکن جب جھیلTiticaca پر نئی ریلوے لائن بچھائی گئی اور افریقا کھاڑی کے دائرے تک پہنچا جہاں لاپاز کا ٹرمنس واقع تھا تو یہاں ریلوے ورکرز کے لیے ان کی آبادیوں کے قریب گھر بھی بنائے گئے۔

1925 میں یہاں ایک ہوائی اڈا بھی بنایا گیا جو نئی ایئر فورس کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جسے دیکھ کر روایتی بستیوں میں بھی تبدیلیاں واقع ہونے لگیں اور علاقے کا چہرہ بدلتا چلا گیا۔

1939میں El Alto کا پہلا ایلیمینٹری اسکول کھولا گیا، پھر 1950 کے عشرے میں El Alto بہت تیزی اور شان کے ساتھ ترقی کرتا گیا اور پھیلتا چلا گیا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ آبادی La Paz’ water supply کے ساتھ منسلک ہوگئی اور پانی کی پریشانی اس خطے میں ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے اس شہر میں پانی واٹر ٹینکرز کے ذریعے ہی سپلائی ہوا کرتا تھا۔

1985 میں El Alto کا ضلع اور اس کے ملحقہ علاقے سیاسی طور پر La Paz  کے شہر سے علیحدہ ہوگئے اور 1987 میں El Alto ایک شہر کی حیثیت سے انکارپوریٹ ہوگئے یعنی ان کی کوئی الگ اور آزاد حیثیت نہیں تھی۔بس یہ ایک آزاد اور خود مختار شہر بن گیا تھا۔

٭  Potosi  :

یہ شہر یعنی Potosi بھی بولیویا کا ہی دوسرا شہر ہے جو 13,420  فیٹ کی بلندی پر یعنی 4,090 میٹرز کی اونچائی پر واقع ہے۔اس کی بنیاد 1545 میں ایک کان کنی کے ٹاؤن کے طور پر رکھی گئی تھی، جلد ہی یہ ترقی کرتا چلا گیا اور خوب دولت کمانے والا شہر بن گیا یہ دنیا میں اور امریکاز میں سب سے بڑا شہر بھی بن گیا جس کی آبادی 240,000 افراد تک جا پہنچی۔Potosi نامی یہ شہر Cerro de Potosí نامی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جو ماضی میں چاندی کی کان کے حوالے سے بہت مشہور تھا جہاں سے 4,824 میٹرز کی بلندی پر خوب چاندی ملتی تھی اور اسی لیے اس شہر نے پورے خطے پر اپنی حکم رانی قائم کررکھی تھی۔

The Cerro Rico نامی یہ پہاڑ  Potosí کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خوش حالی کا سبب بھی ہے، کیوں کہ یہ شہر اسپین کے لیے نیو ورلڈ اسپینش امپائر کے دوران چاندی کی سپلائی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ تھا۔یہ  Potosí ہی تھا جہاں سے اسپین کے لیے چاندی کی سپلائی بڑی مقدار میں ہوا کرتی تھی۔ 1556 سے لے کر 1783 کے دوران  Cerro Rico سے خالص چاندی یعنی 45,000 شارٹ ٹن بھیجی گئی تھی جس میں سے 9,000 شارٹ ٹن چاندی اسپین کے شاہی طبقے کو بھیجی جاتی تھی۔

اتنی زیادہ اور بے تحاشہ چاندی کی کان کنی سے یہ پہاڑ بھی خود بہ خود ہی کم ہونے لگا اور پھر چند سو میٹرز تک رہ گیا۔ پھر 1672 میں چاندی کے سکے ڈھالنے کے لیے ایک ٹکسال قائم کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ پانی ریزروائرز بھی تعمیر کئے گئے تھے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اس موقع پر 86سے بھی زیادہ چرچ تعمیر کیے گئے تھے۔

9

جس کے نتیجے میں اس شہر کی آباد ی بڑھ کر لگ بھگ دو لاکھ نفوس تک جا پہنچی جس کے بعد یہ شہر نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا بلکہ دولت مند ترین شہر بھی بن گیا۔ 1800 کے بعد چاندی کی کانوں کی پیداوار کم کردی گئی اور اس کی جگہ ٹن کو اس کی مین پراڈکٹ بنادیا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ وہاں سستی کے ساتھ معاشی زوال کا آغاز ہوگیا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ چاندی کی پہاڑی کان پہلے کی طرح آج تک چاندی فراہم کررہی ہے۔ لیکن ایک تو اس شہر کے کان کنوں یا ورکرز کی معاشی حالت بہت خراب ہے، پھر ان کی حفاظت کے لیے بھی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی حفاظتی اوزار و آلات ہیں، پھر یہاں کے کان کن سارا سارا دن دھول مٹی میں اٹے رہتے ہیں، اسی لیے ان ورکرز کی اوسط زندگی کم ہوتی چلی جارہی ہے، کیوں کہ ان کے حلق اور پیٹ میں سارا دن دھول مٹی جاتی ہے۔ اس سے ان میں silicosis یعنی سلیکون کی بیماری بھی بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ چالیس سال کی عمر تک موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

٭  Shigatse  :

Shigatse اصل میں عوامی جمہوریہ چین کے Tibet Autonomous Region (TAR) خطے کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی 100,000 افراد پر مشتمل ہے اور یہ تبت کے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ شہر 12,600 فیٹ یعنی 3,840 میٹرز کی بلندی پر واقع ہے اور یہ مغربی تبت میں Yarlung Tsangpo (aka Brahmaputra) اور  Nyang River اور(Nyang Chu or Nyanchue) کے سنگم پر واقع ہے۔Shigatse ایک سیدھی سادی بنجر میں پر بلند پہاڑوں کے درمیان میں واقع ہے اور شہری علاقے میں یہYarlung Zangbo River کے جنوب میں جنوب وسطی تبت کے خود مختار خطے میں واقع ہے۔ یہ شہر Ü-Tsang  صوبے کا قدیم دارالحکومت تھا اور فی الوقت یہ جدید Shigatse کمشنری میں واقع ہے جو TAR. کا انتظامی ضلع ہے۔

٭  Juliaca  :

Juliaca جنوب مشرقی پیرو کے پونو ریجن میں سان رومن کا کیپیٹل سٹی ہے۔ یہ خطے کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی کم و بیش 225,146 نفوس پر مشتمل ہے اور یہ 2007کے اعداد و شمار کے مطابق 12,549 فٹ یا سطح سمندر سے 3,825 میٹرز کی بلندی پر Collao Plateau پر واقع ہے۔یہ Puno کے خطے میں سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ ساتھ ہی یہ اس خطے میں سب سے بڑا ٹرانزٹ پوائنٹ ہے اور اسی لیے پیرون کے جنوبی شہروں کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات قائم ہیں جن میں درج ذیل شہر شامل ہیں:

Arequipa،  Puno، Tacna, Cuzco،  Ilo، اور جمہوریہ بولیویا۔

٭  Oruro  :

یہ Urusky کے خطے میں واقع چاندی کی کان کا مرکز ہے جو یکم نومبر 1606 کو قائم ہوا تھا۔Oruro بولیویا کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 2010 کی مردم شماری کے مطابق235,393  افراد پر مشتمل ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے 12,159 فیٹ یا 3,706میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سے چاندی کی کان کے خاتمے کے بعد Oruro انیسویں صدی کے اواخر میں دوبارہ قائم ہوا۔مگر دوسری بار Oruro ٹن کے مائننگ سینٹر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ ایک طویل عرصے تک Oruro کی La Salvadora کی ٹن کی کان دنیا میں ٹن کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ذریعہ کم پیداواری بنتا چلا گیا اور اس کے بعد اس پر پھر زوال آگیا، حالاں کہ اس کا بنیادی ایمپلائر آج بھی کان کنی کی صنعت ہے۔

٭  Lhasa  :

Lhasa ایک چھوٹا سا طاس ہے جو ہمالیائی پہاڑوں سے گھر ہوا ہے۔Lhasa کی بلندی لگ بھگ 11,800فیٹ یا 3,600 میٹرز ہے اور یہ تبت کی سطح مرتفع کے مرکز میں واقع ہے جہاں قریبی اور ملحقہ پہاڑ5,500 میٹرز یا 18,000 فیٹ تک بلند ہیں۔The Kyi River  یا ( Kyi Chu) یارلونگ دریائے زینگ بو کا معاون ہے جو شہر کے جنوبی حصے کے ساتھ بہتا ہے۔

اس دریا کو مقامی تبتی “merry blue waves” کہتے ہیں جو برف سے ڈھکی چوٹیوں اور Nyainqêntanglha پہاڑوں کے درمیان سے بہتا ہے اور دریائے یارلونگ زینگ بو کو Qüxü کے مقام پر خالی کردیتا ہے۔ یہ اس کے بعد ایک نہایت سحرانگیز حسن کا منظر پیش کرتا ہے۔ Lhasa تبتی سطح مرتفع پر واقع دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی 550,000 نفوس سے بھی زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس شہر میں متعدد اہم ترین تبتی بودھ مقامات ہیں جیسے پوٹالا محل، جوکھنگ مندر اور Norbulingka  کے محلات۔ان میں سے زیادہ تر  Chengguan District میں شہر کی سیٹ کی حیثیت سے واقع تھے۔n

The post دنیا کے سات بلند ترین پہاڑی شہر appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

دل کش لفظوں میں پروئی ہوئی سنجیدگی

1
شان الحق حقی جیسا ماہر لسانیات اور محقق جب مزاح نگاری کے میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے، تو پھر اس کی کیا صورت گری ہوتی ہے، اسے لفظوں میں اور وہ بھی محدود لفظوں میں بتا دینا کم سے کم اس طالب علم کے بس کا تو روگ بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ گذشہ دنوں ’اوکسفرڈ‘ کے تحت حقی صاحب کے باغ وبہار قلم کی یہ ’بہار‘ بہ عنوان ’’نوک جھوک‘‘ شایع کی گئی ہے۔۔۔ 263 صفحات کی کتاب کی قیمت 595 روپے ہے۔

اس کے پہلے حصے میں طنزیہ اور فکری پہلو لیے ہوئے 13 مضامین جلوہ افروز ہیں، جب کہ دوسرے حصے میں ’الف‘ اور ’ب‘ کے مختلف موضوعات پر ’نوک جھوک‘ کی صورت میں اردو زبان سنور رہی ہے۔۔۔ کیسے کیسے عام سے موضوعات شان الحق حقی کی نوک قلم پر آکر گیرائی اور گہرائی پا لیتے ہیں، یہ پڑھ کر ہی اندازہ ہو پاتا ہے، پھر ایک چھوٹے سے جملے میں لفظیات، معنویت اور اردو لسانیات کے جو جوہر ہیں۔

اس کے تو کیا ہی کہنے۔۔۔ لیکن یہ صرف طنز ومزاح یا شگفتگی قطعی نہیں، بلکہ کئی جگہوں پر شیریں ذخیرہ الفاظ میں کڑوے تر حقائق اور پرکشش شبدوں میں سنجیدہ تر موضوعات بھی پیش کیے گئے ہیں۔۔۔ ’عرض مصنف‘ میں شان الحق حقی رقم طراز ہیں کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ تخلیق کار ایک واسطے کی حیثیت رکھتا ہے، ورنہ اس کی تخلیقات، بلکہ وہ خود بھی معاشرے کی تخلیق ہوتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کو حق ہے کہ وہ اپنی اس ملکیت کے ساتھ جو سلوک چاہے کرے اور معنی چاہے اسے پہنائے، وہی معتبر ہوں گے، نہ کہ مصنف کا قول، چاہے وہ غالب ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

۔۔۔
گئے وقتوں کی پرچھائیاں اوردردِ رفتہ کا بیان

2
راشد اشرف نے ’زندہ کتابوں‘ کے سلسلے میں ایک جلد میں دو کتابیں ’یادوں کے گلاب اور ڈربے‘ یک جا کی ہیں۔ 535 صفحات تک دراز اس کتاب کے 317 صفحات تک ’یادوں کے گلاب‘ کے 61 مضامین شامل ہیں، جسے پڑھیے تو نگاہوں کے سامنے بیتے زمانے کے مناظر چلنے لگتے ہیں، یاسیت اور اداسی امنڈ امنڈ کر آتی ہے، ان صفحات میں آنسو، گریہ اور ہجر نمایاں ہے۔

اِن کے لفظوں میں ایک بے چینی ہے، جو سطر سطر میں بسی ہے، اس کا وہ خود اعتراف بھی کرتے ہیں، شاید یہی تلاش ہے، جسے وہ ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی معنی پہنا دیتے ہیں۔ آپ اسے ادب وتاریخ کے حوالے سے کسی خانے میں رکھیے، یا سوانحی داستان قرار دے دیجیے۔ اس کی اپنی ادبی اہمیت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی، پھر اس میں مرصع زبان کا لطف بھی ملتا ہے۔

خود نوشت کا تو رنگ ہے ہی۔ اے حمید کے سوانحی ناول ’ڈربے‘ میں درد اور رنج کا یہ بیان ذرا اور پھیل جاتا ہے، پچھلے صفحوں میں جو کوئی ایک اداسی عنوان سے شروع ہو کر چند صفحوں کے بعد اگلے عنوان سے پہلے ختم ہو جاتی تھی، اور پھر اس کی جگہ کوئی دوسرا ہجر لے لیتا تھا، لیکن ’ڈربے‘ میں گئے وقت کے ایک ہی درد کی بازگشت ہے، جس میں سو، سو طرح کے بیان ملتے ہیں، یہ ہجرت اور ہجرت کے بعد کی ایک داستان الم ہے۔ اپنی دھرتی چھوٹنا اور پھر ایک اور جگہ آکے پڑ جانا اور پھر پس منظر میں مشاہدے، امنڈتے خیالات اور پیش منظر میں نئے المیوں کی کسک بہت گہری ہے۔۔۔کتاب کی ضخامت کے باوجود قیمت صرف 500 روپے ہے۔

۔۔۔
ایک متحرک زندگی کا احوال


’’ٹنڈو آدم سے کراچی‘‘ ڈاکٹر رضوان اللہ خان کی یادداشتیں ہیں، جس کا آغاز ان کی پیدائش کے بعد ان کا نام رکھے جانے کے مرحلے سے شروع ہوتا ہے۔ کتاب میں وہ اپنے والد کو بھی ’سالار صاحب‘ سے مخاطب کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔ تب ہجرت کا واقعہ تازہ تھا اس لیے انہیں اپنی تصاویر کھنچوا کر ہندوستان بھجوانا بھی یاد ہے۔ وہ اپنے عقائد کے حوالے سے بھی اظہار خیال کرتے ہیں، کچھ آبائی تہذیب کی روایاتوں کا ذکر اور کچھ آنکھوں دیکھے دل چسپ واقعات بھی کتاب میں شامل کیے ہیں۔

اپنے اساتذہ کا بھی خصوصی طور پر ذکر ہے، انہوں نے کچھ وقت بعد ٹنڈوآدم سے حیدرآباد کا رخ کیا اور پھر کراچی آگئے۔ وہاں پیش آنے والے سیاسی حالات اور اپنے مشاہدات کا بھی چیدہ چیدہ ذکر کتاب میں موجود ہے۔ ’زندہ کتابوں‘ کے بانی راشد اشرف نے یہ تصنیف اصرار کر کے قلم بند کرائی ہے، یعنی اس کی طبع اول ہی ’زندہ کتابوں‘ کے سلسلے کے تحت عمل میں آئی ہے۔

کتاب کے آخری باب میں مصنف کے روحانی تجربات کا ذکر بھی شامل ہے۔ 448 صفحات کی یہ کتاب چھے ابواب میں بانٹی گئی ہے، پھر ان ابواب کو مزید ذیلی عنوانات میں بھی تقسیم کیا گیا ہے، کتاب کے آخر میں مصنف نے اپنی زندگی کی اہم شخصیات وغیرہ کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ قیمت 450 روپے ہے۔

۔۔۔

بچوں کے لیے ’بڑی کہانیاں‘


کہنے کو وقاص اسلم کی کتاب ’’اللہ کے دوست‘‘ احادیث مبارکہ سے آراستہ بچوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے، لیکن سچ پوچھیے، تو ہم نے اِس میں بہت سی ’بڑی کہانیاں‘ پائیں۔۔۔ 96 صفحات کی اس کتاب میں 16 سبق آموز کہانیاں سجی ہیں، ہر کہانی میں ’سیرت طیبہ‘ کا پیغام اس کا حُسن ہے، یا یوں کہیے جس پیغام مبارکہ کے گرد کہانی بُنی گئی ہے، اس بُنت کی داد دل سے نکلتی ہے۔۔۔ البتہ ہر حدیث کے ساتھ کتاب کا حوالے کی ضرورت شاید نہیں تھی۔

کیوں کہ یہ کہانیاں تو بچوں کے لیے ہیں، نہ کہ یہ کوئی تحقیقی مقالہ ہے، جہاں حوالہ دیا جانا لازمی ہو۔ بہرحال ہر کہانی اپنے پیغام کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط مرکزی خیال رکھتی ہے، جس میں بڑی خوبی یہ ہے کہ بہت سی عام نصیحتیں پڑھ کر بھی کہیں تکرار کا احساس نہیں ہوتا۔ بالخصوص ’بلاعنوان‘ نامی کہانی میں تو سماجی المیہ نوحہ کناں ہے، جس میں ایک مالکن اپنے بچوں کے پرانے کپڑے کوڑے دان کی نذر کر دیتی ہے، لیکن اپنی ملازمہ کے بچوں کو دینا اپنی توہین سمجھتی ہے۔۔۔!‘ یہ کہانی تو بڑوں کو بھی جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’گلستان کتاب گھر‘ (خانیوال) نے عمدہ زبان وبیان کے ساتھ بچوں کے ادب میں ایک اچھا اضافہ کیا ہے۔

۔۔۔
فلسفہ وتصوف کا بیان


مولانا صلاح الدین علی نادر عنقا ’پیر اویسی‘ کی کتاب ’’عرفان وتصوف، حقیقت دین‘ میں فلسفیانہ انداز میں مذہب سے متعلق بہت سے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ کتاب کے فلیپ کے مطابق مصنف ’پیر اویسی‘ روحانیت کے ساتھ طبعیات، ریاضیات، مابعد الطبعیات سے لے کر فن تعمیر اور فلسفے وغیرہ تک کے میدانوں کے شناور ہیں، جس سے ہم ان کے طرز اظہار کی جہتوں کا اندازہ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے حوالوں کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ خاکی سرورق سے آراستہ اس کتاب کی ضخامت 96 صفحات ہے، اس کتاب کے ناشر ’مطبوعات مکتبِ طریقیتِ اویسی شاہ مقصودی‘ کراچی ہیں۔

۔۔۔
تاریخ اور خود نوشت کے رنگ لیے ہوئے خاکے


ہمیں تو رام لعل کے ’شخصی خاکوں‘ کی اس کتاب میں خود نوشت کا گہرا رنگ بھی چھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بہت سی شخصیات کے باب میں انہوں نے مذکورہ شخصیت سے اپنی خط وکتابت کو بھی تحریر کا حصہ بنایا ہے، جو کہ خاکوں میں عمومی طور پر روا نہیں ہوتا۔ رام لعل کو بھی اپنی ان تحریروں کو خاکہ کہنے پر زیادہ اصرار نہیں۔

بلکہ ’پیش لفظ‘ میں وہ اسے تاثراتی مضامین کہتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں کہ ’اس میں خاکہ نگاری، تنقیدنگاری اور افسانہ نگاری تینوں اصناف شیر وشکر ہو گئی ہیں۔‘ کتاب کی ورق گردانی کیجیے، تو دیکھیے کہ اس کے مندرجات میں تلوک چند محروم، فراق گورکھ پوری، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، فیض احمد فیض، خواجہ احمد عباس، جگن ناتھ آزاد سے قتیل شفائی اور فہمیدہ ریاض تک جیسی، گئے وقتوں کی شخصیات کا بیان ہے۔

پھر ان شخصیات کے حوالے سے بہت سے اہم تاریخی واقعات کا بھی ایک سلسلہ دراز دکھائی دیتا ہے، اس لیے ادبی اور سوانحی کے ساتھ ساتھ اس کتاب کو بجا طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تصنیف بھی کہا جا سکتا ہے۔۔۔ رام لعل کی یہ تصنیف ’دریجوں میں رکھے چراغ‘ 280 صفحات ہر مشتمل ہے، جسے راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 31‘ کے ذریعے نئے قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ ’بزم تخلیق ادب‘ کی شایع کردہ اس مجلد کتاب کی قیمت500 روپے ہے۔

۔۔۔
کچھ ’بھولی ہوئی‘ کہانیوں کی یاد


ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی دو کتابیں ’بھولی ہوئی کہانیاں‘ (اشاعت اول 1995ء) اور ’ہفت محل‘ (اشاعت اول 1994ء) ایک جلد میں یک جا کی گئی ہیں۔ اول الذکر ابتدائی 129 صفحات تک دراز ہے، جب کہ موخرالذکر آخری 182 صفحات تک تمام ہوتی ہے۔ ’بھولی ہوئی کہانیاں‘ کے حوالے سے مصنف نے کہا ہے کہ ’’یہ دوسروں کی نہیں، بلکہ خود میری کہانیاں ہیں، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔‘‘ گیارہ مضامین میں علی گڑھ، پھر علی گڑھ کے احباب، جبل پور اور پھر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور دیگر چند ایک شخصیات کو موضوع کیا گیا ہے۔

دوسری کتاب ’ہفت محل‘ کے حوالے سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ یہ مضامین کچھ علمی ہیں اور کچھ تجرباتی، کہتے ہیں کہ ان مضامین سے ان کی زندگی کے مراحل کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں عربی زبان، تحقیق، اسلامی تصوف اور مثنوی مولانا روم سمیت پانچ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں کتابوں کا تاثر مشاہداتی اور تجرباتی ہے، کہیں کہیں روزنامچے کا رنگ بھی غالب ہے، جس کی وجہ سے احوال خاصا تفصیلی معلوم ہوتا ہے، لیکن مصنف کی شخصیت کھلنے کے ذیل میں ہم اسے خوبی ہی شمار کریں گے۔ مجلد کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، کتاب کی اشاعت کا اہتمام راشد اشرف نے کیا ہے، جب کہ اشاعت ’فضلی بک سپر مارکیٹ‘ سے معروف سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت عمل میں آئی ہے۔

۔۔۔
بٹوارے کے درد میں گھلیہوئی ایک تہذیب


1947ء کے بٹوارے کو آٹھویں دہائی لگ چکی ہے۔۔۔ اب اُس ہنگام کو دیکھنے والی آنکھیں سمٹتی جا رہی ہیں۔۔۔ تاریخ عالم کا یہ ایک ناقابل فراموش واقعہ جو ہجرت اور کشت وخون سے ہی مزین نہیں ہے، بلکہ اپنی وسعتوں میں بہت سے تہذیبی اور زمانی المیے بھی سموئے ہوئے ہے۔۔۔ آنے والی نسلوں کے لیے اِس کا سرمایہ بس جتنا محفوظ ہو سکا وہ ہوگیا، اب اس میں اضافے کے امکانات گھڑی کی نہ رکنے والی ٹک ٹک سے بہت محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ زیر تبصرہ خود نوشت کچھ ایسی ہی یادوں سے آراستہ ہے، جس کی اشاعت اول ہی راشد اشرف کے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت عمل میں آئی ہے۔

اگر آپ گئے وقتوں کو سراپا مجسم دیکھنے والے لفظ پسند کرتے ہیں، تو یقیناً اس کتاب کے ایک ایک لفظ میں بسے ہوئے اُس ماضی کی لذت اور چاشنی کو سیدھا اپنے دل پر محسوس کریں گے۔۔۔ رقت جذبات سے ممکن ہے کئی بار آپ کی نظر بھی دھندلا جائے اور آپ کو مطالعہ جاری رکھنے کو اپنی پلکیں پونچھنا پڑیں۔۔۔ کیوں کہ اس کتاب کی راقمہ صوفیہ انجم تاج نے تو پاکستان ہجرت نہیں کی، لیکن ان کی بہن ’پٹنہ‘ سے کراچی بیاہ کر آئیں۔

جب کہ مصنفہ خود شادی کے بعد لندن چلی گئیں۔۔۔ یوں اس کتاب کے ورق ورق میں زمینی اور زمانی دونوں طرح کا ہجر پوری طرح گریہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند لکھتے ہیں کہ ’’صوفیہ انجم تاجؔ کی یہ کتاب تذکرہ نویسی اور خود نوشت سوانح کے کوائف نگاری یعنی باقیات نویسی کا وہ نمونہ ہے، جو اردو میں ’نہیں کے برابر ہے۔

مصنفہ ایمان داری سے اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادوں کو جز دان کی گرہیں کھولتی چلی گئی ہیں اور جو کچھ بھی برآمد ہوا ہے اسے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔‘‘ یہ کتاب ’مثال پبلی کیشنز‘ (فیصل آباد) سے شایع کی گئی ہے، صفحات 256 اور قیمت 500 روپے ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک نہایت متاثرکُن تصنیف ہے، شمس الرحمن فاروقی صاحب بالکل درست کہتے ہیں کہ ’’صوفیہ انجم تاجؔ ہمارے شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی یادوں کے پردے میں ایک پوری زندگی اور ایک پوری تہذیب بیان کر دی ہے۔‘‘

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

دورحاضر کے اثرات، اردو فن خطاطی بقا کی جنگ سے دوچار

$
0
0

لاہور: ماضی کے کئی فن  دور حاضر کے جدید تقاضوں میں کہیں کھو گئے ہیں۔

خطاطی مسلمانوں کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ ہے جسے کمپیوٹر نے بری طرح متاثرکیا ہے مگر آج بھی کئی خطاط ایسے ہیں جو ناصرف خطاطی کے فن کو زندہ رکھنے کے لئے اسے نوجوان نسل کو منتقل کررہے ہیں بلکہ پاکستان کی قومی زبان اردو کی پہچان خط نستعلیق لاہوری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔

نوجوان عکاشہ مجاہد کا تعلق گیلانی خاندان سے ہے ، یہ خاندان گزشتہ تین سو سال سے فن خطاطی سے وابستہ ہے اوراسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔اس خاندان کے بعض افراد ایسے ہیں جنہوں نے 17 قرآن مجید اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں بیشمار خطاط پائے جاتے ہیں تاہم عکاشہ مجاہد کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عربی اور انگلش کے بھی اعلی پائے کے خطاط ہیں، خطاطی کے اسرار و رموز، ذوق و شوق،نفاست ونزاکت ان کے خون میں شامل ہے۔ انہوں نے فیصل ٹاؤن لاہورمیں ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں نوجوان نسل کوخطاطی اور پینٹنگ سکھائی جاتی ہے۔

عکاشہ مجاہد کہتے ہیں کہ خطاطی مسلمانوں کا تہذیبی وثقافتی ورثہ ہے، مسلمان حکمرانوں، بادشاہوں، وزیروں اور اہل علم نے ہر دور میں خون جگر سے خطاطی کے فن کو سینچا اور سنوارا ہے۔ ایک وقت تھا جب مسلمان بادشاہ خطاطوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اس طرح سے یہ فن عروج کو پہنچا مسلمانوں کی پہچان اورشناخت بن گیا۔ اس دوران خطاطوں نے ایسے شہ پارے تخلیق کئے کہ جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو یہ فن بھی زوال کاشکار ہونا شروع ہوگیا۔ وہ اپنے خاندان کے اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ نوجوان نسل بھی اس میں خصوصی دلچسپی دکھارہی ہے ، ماں باپ خود بچوں کو خطاطی سکھانے کے لئے لے کر آتے ہیں۔

فیصل ٹاؤن لاہور میں واقع خطاطی کے اس مرکز میں نامور خطاط خالد محمود صدیقی بھی نوجوانوں کو مختلف خطوط کے اسراز و رموز اور لکھنے کی مہارت کا درس دیتے ہیں۔ خالد محمود صدیقی کا تعلق بھی خطاط خاندان سے ہے جبکہ وہ اس موضوع پر 2 کتابیں بھی تحریر کرچکے ہیں۔

خالد محمود صدیقی نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب برصغیرمیں نئی زبان اردو وجود میں آئی تو اس وقت یہ مسئلہ بھی سامنے آیا تھا کہ اردو کو لکھا کیسے جائے گا۔ اس وقت برصغیر میں فارسی اورعربی رسم الخط کا رواج تھا۔ اردو میں چونکہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ بھی شامل تھے جس کی وجہ سے کئی الفاظ ایسے تھے جن کو عربی اورفارسی میں لکھنا ممکن نہیں تھا۔ 1928 میں استاد عبدالمجید پروین رقم نے نستعلیق لاہوری کی پہلی تختی لکھی ، ان کا قیام پاکستان سے قبل ہی انتقال ہوگیا تاہم جب پاکستان بنا تو اس وقت لاہور میں ساٹھ کے قریب خطاطی سیکھنے کے مراکز تھے جن میں الماس رقم کی بیٹھک ، تاج الدین زریں رقم کی بیٹھک ، محمد اعظم منور رقم کی بیٹھک ، محمد بخش جمیل رقم کی بیٹھک اور حاجی دین محمد کی بیٹھک مشہور تھیں۔ اس زمانے میں خطاطی مرکز کو بیٹھک کہا جاتا تھا، ان مراکز میں استادعبدالمجید پروین رقم کے انداز خط کی تربیت دی جاتی تھی۔

خالد محمود صدیقی نے کہا کہ کمپیوٹرکی وجہ سے لوگوں نے خط لکھنا چھوڑ دیا جب کہ خط کے بڑے استاد بھی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اب ہماری کوشش ہے کہ خط کو بحال کیا جائے بالخصوص لاہوری نستعلیق کو اس کا مقام دلوایا جائے۔ خطاطی کا تعلق جمالیات کی صنعف سے ہے، جو دل ودماغ کو روشن کرتی ہے، خط جس قدرخوبصورت ہوگا دیکھنے والوں اتنا ہی اچھالگے گا۔ کمپیوٹرپرموجود اردوفونٹ محدودہیں ، ان کو ایک خاص اندازاورجگہ میں ہی لکھاجاسکتا ہے جبکہ خطاطی کے ذریعے لاہوری نستعلیق ایسا خط ہے جسے جس اندازمیں چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی ) ہرتین سال بعد اسلامی ممالک کے مابین اسلامی کیلیگرافی کے مقابلے کرواتی ہے ، مگربدقسمتی سے اردو کا لاہوری نستعلیق خط ان مقابلوں میں شامل نہیں کیاجاتا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 50 کروڑ افراد کا نمائندہ خط عالمی سطح پرتسلیم نہیں کیاجارہا ہے، حالانکہ اوآئی سی کی جیوری میں دوپاکستانی خطاط بھی شامل رہے ہیں لیکن کبھی لاہوری نستعلیق کو تسلیم کروانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔

خطاطی بالخصوص اسلامی کیلی گرافی سیکھنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ ایک خاتون صائمہ نورکہتی ہیں وہ خود ایک آرٹسٹ ہیں اورپینٹنگ کرتی ہیں ، انہوں نے جب پہلی بار لفظ اللہ لکھنا چاہا تومجھے مشکل پیش آئی تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے کیلی گرافی سیکھنا چاہیے اوراب 6 ماہ ہوگئے ہیں میں کئی خط لکھنا سیکھ چکی ہوں۔انہوں نے کہا اگرآپ کمپیوٹرپربھی کوئی خط استعمال کرناچاہتے ہیں توپہلے آپ کواس خط کی سمجھ ہونی چاہیے۔

ایک اور خاتون طالبہ میمونہ صابر کا کہنا تھا کہ وہ اسلامک کیلی گرامی روح کی تسکین کے لئے سیکھ رہی ہیں ، جس طرح انسان کو مختلف شوق ہوتے ہیں ،کوئی میوزک سیکھتا ہے ، کسی کولکھنے کا شوق ہے میں جب قرآن پاک پڑھتی ہوں توقرآن کی آیات کو سمجھنا چاہتی ہوں ، انہیں منفرداندازمیں لکھنا چاہتی ہوں ، ایسا اندازجو دل ودماغ اور روح کو تروتازی کردے ۔اسی لئے خطاطی سیکھ رہی ہوں۔

The post دورحاضر کے اثرات، اردو فن خطاطی بقا کی جنگ سے دوچار appeared first on ایکسپریس اردو.

عورت اور سیاسی قوت کا حصول

$
0
0

دینا پور ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ مجسٹریٹ صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ پورے شہر کا بلاوا تھا۔ دلہن دوسرے شہر سے بیاہ کر آرہی تھی۔ بڑی دھوم دھام تھی۔ دلہن بیاہ کر آئی، صورت سیرت ہر طرح سے بہت ہی پیاری تھی۔ چند ہی دنوں میں اس نے اپنے کیا، غیر کیا، سب ہی کا دل موہ لیا۔ بچے بچے کی زبان پر دلہن بھابھی کا چرچا تھا۔

ایسا لگتا تھا وہ کسی کی تکلیف دیکھ ہی نہیں سکتی تھیں۔ نہ جانے کتنی دوائیں یاد تھیں۔ یونانی دواؤں کے تو نسخے کے نسخے انہیں یاد تھے اور پھر مختلف جڑی بوٹیوں کے فوائد اور نقصانات بھی معلوم تھے۔ میٹرک پاس تھیں، لہٰذا بستی کی بچیوں کو اور عورتوں بعض اوقات لڑکوں اور مردوں کو بھی پردے میں بیٹھ کر پڑھا دیا کرتی تھیں۔ کڑھائی، بنائی، سلائی سب بہت اچھی کرتی تھیں۔ قصبے کی عورتوں اور بچیوں کا تو ان کی کوٹھی میں اسکول سا لگا رہتا۔ کسی کو کروشیا سکھا رہی ہیں، تو کوئی اون سلائی لیے کھڑی ہے۔

سلائی کی مشین ان کے گھر میں موجود تھی۔ وہ بھی ہر آنے جانے والے کی دسترس میں تھی۔ کتنی ہی غریب عورتوں کو انہوں نے قسطوں پر سلائی کی مشین دلوا دی تھیں اور کپڑے سینا بھی سکھا دیا تھا۔ قصبے کی لڑکیوں کے رشتے نسبتوں میں ان کا مشورہ اولین درجہ رکھتا۔ وہ نوجوانوں کی دوست اور بوڑھوں کی ساتھی تھیں۔

دینا پور کے پرائمری اسکول کو دلہن بھابھی ہی نے سیکنڈری کا درجہ دلوایا۔ ان ہی کی کوشش سے لڑکیوں کے لیے  بھی سیکنڈری اسکول قائم ہوا۔ ایک انڈسٹریل ہوم کی ابتدا بھی کی۔ قصبے کے لوگ دلہن بھابھی کے کارناموں کو گن نہیں پاتے تھے۔ پورا قصبہ ایک خاندان کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں شریک ہوتے تھے۔

دلہن بھابھی کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے۔ ایک لڑکا اور تین لڑکیاں۔ چاروں قصبے کے ان ہی اسکولوں میں پڑھے جو دلہن بھابھی کی محنت سے تیار ہوئے تھے۔ بیرسٹر صاحب کی یہ خواہش کسی طرح پوری نہ ہوئی کہ ان کے پوتی پوتا کانونٹ اسکول میں پڑھیں۔ دلہن بھابھی کا خیال تھا کہ اگر ہمارے بچے انہی اسکولوں میں پڑھیں گے، تو استاد بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔

آپ کے گھر ہفتے میں کتنی بار دعوت ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وقت کا اچھا خاصا ضیاع ہوجاتا ہے پھرکسی اور کام کے لیے  فرصت کہاں رہتی ہے لیکن پھر بھی ان متمول گھرانوں کی چند خواتین ایسی ضرور ہیں جو رفاہی کاموں میں حصہ لیتی ہیں اور اپنے وقت کا بیش تر حصہ ان کاموں میں صرف کرتی ہیں۔ وہ خواتین جو سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں ان میں سے بعض آگے بڑھ کر سیاست میں بھی حصہ لینے لگتی ہیں۔

ہمارے یہاں اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ درمیانے اور نچلے طبقے کی خواتین سماجی بہبود اور سیاست کے میدان میں آگے آئیں۔ آبادی کے لحاظ سے ہمارے یہاں کی خواتین کا سماجی بہبود کے کاموں اور سیاست کے میدان میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سیاست کے میدان میں آگے بڑھنے میں معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں عورتوں کی مدد اور مشورہ بھی شامل ہوگا۔

نومی وولف امریکا کی ایک مشہور و معروف مصنفہ ہیں۔ انہوں نے آزادیٔ نسواں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب دی بیوٹی متِھ، 1991ء میں شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ عورت کو حسن کی دیوی بنا کر بہت نقصان پہنچایا گیا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ وہ جسمانی حسن کا مرقع بن کر مردوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بنی رہے۔ وہ حسن کے معیار پر پورا اترنے میں زیادہ تر وقت صرف کرتی رہے۔ نومی وولف اپنی تازہ ترین کتاب ’فائر ود فائر ‘ میں کہتی ہیں کہ آزادیٔ نسواں کی تحریک اب بعد از وقت ہوگئی ہے۔ عورتوں کو اپنی عددی طاقت کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ نومی وولفکی اس تحریک کو قوتِ نسواں کا نام دیا جارہا ہے۔

The post عورت اور سیاسی قوت کا حصول appeared first on ایکسپریس اردو.

بچے کی ’عزت نفس‘ اجاگر کیجیے

$
0
0

بچے ہمارے گھر کے آنگن میں مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں، جن سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہیں، جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔

بچوں کی تربیت میں بظاہر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن میں نہیں رکھتے، مگر یہی چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہیں۔ ہماری مراد بچے کی توہین، تضحیک اور تذلیل ہے، جو بچے کی شخصیت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ جن والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اچھے انداز میں کرنی ہے، انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں، کیوں کہ بچہ بھی مکمل انسان ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر کریں۔

اس کے احساسات کا خیال رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اپنی تذلیل محسوس کرتا ہے اور بعض اوقات اس پر ردعمل بھی دیتا ہے، کیوں کہ اس میں بھی عزت نفس ہوتی ہے۔ بچے کے وجود کو اہمیت دینا اس کی تربیت کا ایک اہم عمل ہے۔ جن بچوں کو احترام میسر ہو، وہ نیک سیرت اور شریف بنتے ہیں اور اپنے مقام کی حفاظت کے لیے برے کاموں سے بچتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اچھے کام کر کے دوسروں کی نظر میں اپنا مقام بنائیں۔ جن بچوں کے والدین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، پھر بچے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔

دراصل بچے جب والدین اور بڑے بہن بھائیوں کو دیکھتے ہیں، تو وہ بھی ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بصورت دیگر جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کی توہین و تحقیر کرتے ہیں، بچوں کے دل میں ان کے خلاف کینہ پیدا ہو جاتا ہے، جس سے وہ جلد یا بدیر وسرکش اور نافرمان ہو جاتے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے بہت سے ایسے والدین ہیں، جو بچے کے احترام کو تربیت کے منافی سمجھتے ہیں۔ اگر انہوں نے بچوں کو زیادہ اہمیت دی، تو وہ بگڑ جائیں گے اور پھر ان کا احترام نہیں کریں گے۔ دراصل وہ بچے کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کم تری پید اکر دیتے ہیں، جو کہ بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ احساس کم تری بچوں کو زندگی بھر اگے نہیں بڑھنے دیتا، کیوں کہ ہم نے ان پر اپنے مخصوص نظریے کی مہر لگا دی ہوتی ہے۔

یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں جس طرح سے بچوں کا احترام کیا جانا چاہیے، وہ نہیں کیا جاتا۔ انہیں خاندان کا باقاعدہ جزو بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ انہیں بچہ سمجھ کے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، دسترخوان پر انہیں باقاعدہ پلیٹ چمچا بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ گاڑی میں ان کے لیے مخصوص جگہ نہیں ہوتی یا تو وہ کھڑے ہو جائیں یا والدین کی گود میں بیٹھ جائیں۔

محفل میں انہیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا اور دوران گفتگو ان سے مودبانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کے لیے شکریہ اور اللہ حافظ نہیں ہوتا۔ ان سے متعلقہ امور میں بھی ان سے بالکل مشورہ نہیں لیا جاتا۔ آپ کی یہ نظراندازی ان کے اندر حکم عدولی کی تحریک بھی پیدا کر سکتی ہے۔۔۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسے بد عادات میں پڑنے سے پہلے اچھے ماحول میں ہی اپنی توجہ کا محور بنالیجیے۔

آج کا بچہ پہلے زمانے کے بچوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ اپنے اچھے برے ہر رویے کا اظہار کرتا ہے، لیکن والدین کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو صاحب عزت بنانے کے لیے اس پر سختی اور مارپیٹ کرتے ہیں اور بچے میں عزت نفس پیدا کرنے کے بہ جائے اس کی عزت نفس ہی مار دیتے ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے، اسے پھر عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر اسے کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اس پر کسی بھی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے برا محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں، بلکہ ان کو خاص ہونے کا احساس بھی دلائیں۔ ان سے ’تم‘ یا ’تو‘ کہہ کر مخاطب ہونے کے بہ جائے ’آپ‘ کہہ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے دو فوائد ہیں کہ بچہ ہر کسی سے عزت کی امید رکھے گا۔ دوسرا دوسروں سے بھی اسی طرح مخاطب ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مزید نکھر جائے گی۔ مار پیٹ بچے میں آپ کا ڈر تو پیدا کر سکتی ہے، لیکن عزت نہیں۔

بچوں کی تربیت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب تک بچے کو چھوٹے بڑے کا امتیاز نہ ہو جائے، اس وقت اسے آپ کہہ کر مخاطب کریں۔ چند سال کے عرصے میں بچے کی عادت راسخ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بچے کے سامنے کوئی پست یا بے تکلفی کی بات نہ کریں اور ایسی بد گفتگو سے بھی مکمل طور پر پرہیز کیا جائے۔

جس سے انہیں جھوٹ اور غیبت وغیرہ کی عادت پڑے۔ بات بات پر انہیں غصہ کرنا نہ سکھائیں، صحت مند بچے کے لیے عزت نفس ایک ایسا ہتھیار ہے، جو اس کے لیے دنیا کے مسائل سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو بچے اپنی عزت نفس کے حوالے سے اچھا محسوس کرتے ہیں وہ زندگی کے چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بچے حقیقت پسند ہوتے ہیں، بحیثیت ایک ماں کو مضبوط قوتِ ارادی کا حامل ہونا چاہیے۔ اچھی عزت نفس کا مالک ہونا چاہیے تاکہ بچے ماں کو اپنا رول ماڈل بنائیں، کیوں کہ ماں کی شفقت و محبت بچے میں خود اعتمادی بڑھانے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔

بچے سے باقاعدہ مثبت اور حوصلہ افزا باتیں کیا کریں، جیسا کہ تم بہت بہادر ہو اور بہت ذہین ہو۔ ہمیں آپ پر بڑا فخر ہے۔ موقع محل کے مطابق فوراً بچے کی تعریف کریں۔ اس سے بچے میں خود اعتمادی بڑھتی ہے۔ آئندہ اور اچھا کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی کوشش اسے اچھا انسان بننے میں مدد دے گی۔ کسی دانش ور کا قول ہے کہ بچے کا ذہن ایک ایسی خوب صورت سلیٹ کی مانند ہے، جس پر وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب رنگینیاں لکھ دی جائیں۔

The post بچے کی ’عزت نفس‘ اجاگر کیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>