Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4551 articles
Browse latest View live

محبت کی دھرتی ’’جھنگ’’

$
0
0

صوبہ پنجاب کے عین وسط میں واقع محبت کی سرزمین ضِلع جھنگ، بِہ لحاظ رقبہ فیصل آباد ڈویژن کا سب سے بڑا ضِلع ہے جو 6،353 مربع کلومیٹر پر مُحیط ہے۔

جھنگ، ساندل بار کا اہم ضِلع ہے جس کی آبادی تقریباً 28 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جھنگ صوبہ پنجاب کا وہ واحد ضِلع ہے جس میں تینوں دوآبے یعنی رچنا دوآبہ، چج دوآبہ اور سندھ ساگر دوآبہ شامل ہیں۔ 2009 میں چنیوٹ (جو جھنگ کی تحصیل تھی) کے ضِلع بننے سے پہلے ”کِرانہ ہِلز” کا کُچھ حِصہ بھی ضلع جھنگ میں شامل تھا۔

ہیر سیال کا ضِلع جھنگ، مشرق میں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ، مغرب میں خوشاب، بھکر اور لیہ، شمال میں چنیوٹ اور سرگودھا جب کہ جنوب میں خانیوال اور مُظفرگڑھ کے اضلاع سے گِھرا ہوا ہے۔ 9 ضِلعوں سے مُتصل یہ ضِلع، شورکوٹ کینٹ سمیت اٹھارہ ہزاری، شور کوٹ، احمد پور سیال اور جھنگ کی چار تحصیلوں اور بے شمار مشہور قصبوں پر مُشتمل ہے۔

جھنگ پاکستان کے قدیم ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس ضلع کا علاقہ ساندل بار کہلاتا تھا۔ بار، مقامی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گھنے جنگلات کے ہیں جہاں نہری نظام دست یاب نہیں ہوتا۔ یہ بار ساندل کے نام کی وجہ سے “ساندل بار” کہلانے لگا۔ ساندل پنجاب کے ہیرو ”دُلا بھٹی” کے دادا کا نام تھا۔ لوگ دریا کنارے چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے تھے جنہیں ”جھوک” کہتے ہیں۔ 1974 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کی شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جھنگ شہر اس وقت سے آباد ہے جب یہاں ”چندر گْپت موریا” کی حکومت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندرِاعظم سمندر کی طرف جاتے ہوئے اس علاقے کے کسی حِصے سے گزرا تھا۔ اسی طرح جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے آثارِقدیمہ سے ملنے والے قدیم سِکوں پر ایک طرف گوتم بدھ اور دوسری طرف اشوک کی تصویر بنی ہے۔ یعنی جھنگ شہر اشوک سے بھی پہلے آباد تھا جو چندر گپت موریا کا پوتا تھا۔

اس علاقے کا پہلا مُفصل ذِکر 1526 میں لکھی گئی شہنشاہ بابر کی کتاب ”تُزکِ بابری” میں ملتا ہے، جس کے مطابق بھیرہ، خوشاب اور چناب کے آس پاس کے علاقوں کی حکومت سید علی خان کے پاس تھی۔ بابر نے اپنی کتاب میں خوشاب، بھیرہ اور چناب کی جن ریاستوں کا ذِکر کیا ہے، تاریخ دانوں کے لیے اس زمانے میں ان ریاستوں کا حدود اربع اور محلِ وقوع وغیرہ کا پتا لگانا ایک معما ہے۔ بابر کے حملے سے لے کر محمد شاہ کے دور تک تقریباً دو صدیاں، یہ علاقے غیرمعروف اور گم نامی کی گرد میں دبے رہے۔ مغلوں سے پہلے اس علاقے پر الگ الگ مہاجر قومیں اور آباد کار حکم رانی کرتے رہے جن میں سیال، لالی، ہرل، بھٹی اور داب شامل ہیں۔

ایک اور روایت کے مطابق جھنگ شہر کو 1288 میں رائے سیال نے اپنے مرشد حضرت جلال شاہ بُخاری سُرخ پوش کے کہنے پر آباد کیا تھا۔ 1334 میں مشہور سیاح ابنِ بطوطہ کا یہاں سے گُزر ہوا تھا۔ جھنگ کا پہلا باقاعدہ سیال حکم راں “مل خان” تھا جس نے 1460 میں حکم رانی قائم کی۔ اس کے بعد 360 سال تک مُختلف سیال حکم راں آتے جاتے رہے۔ ان حکم رانوں نے جھنگ کے ساتھ دیگر نزدیکی علاقوں کو شامل کر کے اسے بہت وسعت دی۔ یہاں تک کہ سرگودھا، فیصل آباد اور ٹوبے تک کا علاقہ جھنگ میں شامل ہو گیا۔ جھنگ کے آخری سیال حکم راں احمد خان تھے جنہوں نے 1812 سے 1822تک یہاں حکومت کی۔ احمد خان کے بعد حکومت سکھوں کے قبضے میں چلی گئی۔

جنہوں نے ملتان پر قبضہ کرکے اس علاقے کو بھی فتح کرلیا۔ 1848 میں سکھوں کو شکست ہوئی اور جھنگ کا علاقہ انگریز سرکار کے زیرِاثر چلا گیا اور 1849 میں جھنگ کو ضلع بنا دیا گیا جو اپنے دور کا بہت بڑا ضلع تھا۔ اس سے آگے جھنگ کے بٹوارے شروع ہوئے۔ 1851 میں بڑے پیمانے پر کافی دیہات ضلع ملتان میں شامل کیے گئے۔ پھر 1854 میں جھنگ تحصیل کا تعلقہ”فروکہ” تب کے ضلع شاہ پور (اب سرگودھا) میں شامل کر دیا گیا۔

1861 کے ابتدائی ایام میں اس علاقے کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ضلع شاہ پور سے ”کلووال” اور ضلع مظفرگڑھ سے ”گڑھ مہاراجا” اور آس پاس کے دیہات کاٹ کر جھنگ میں شامل کر دییے گئے اور اسی سال شور کوٹ کو تحصیل کا درجہ ملا۔ پھر 1890 میں ضلع جھنگ کی حدود کا ازسرِنو تعین کیا گیا جس میں لیہ کو جھنگ سے علیحدہ کرکے ضلع مظفر گڑھ اور حیدرآباد (آج کے ضلع بھکر کا ایک علاقہ)کو ضلع میانوالی میں شامل کیا گیا۔ پنڈی بھٹیاں کا علاقہ ضلع گوجرانوالہ کا حِصہ بنا دیا گیا۔ 1886 میں لائل پور تحصیل کو ضلع جھنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1900 میں سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تحصیل کا درجہ دیا گیا اور 1904 میں لائل پور کو علیحدہ ضلع بنا دیا گیا۔

اسی سال میں کِرانہ بار کا تقریباً تمام حصہ تحصیل چنیوٹ سے ضلع شاہ پور کو منتقل کر دیا گیا۔ 1913 میں تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے32 بڑے دیہات جھنگ کی تحصیل شورکوٹ میں شامل کر دیئے گئے۔ 1947 میں آزادی کے بعد ضلع جھنگ کو چنیوٹ، احمد پور سیال اور شور کوٹ تحصیلوں کے ساتھ اسی طرح رکھا گیا۔ 2009 میں جب تحصیل چنیوٹ کو کاٹ کر پنجاب کا 36 واں ضلع بنایا گیا تو چنیوٹ کی جگہ اٹھارہ ہزاری کو جھنگ کی چوتھی تحصیل بنایا گیا۔ یہ ضلع پہلے ملتان پھر سرگودھا اور اب فیصل آباد ڈویژن کا حِصہ ہے۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ضلع جھنگ کا تقریباً تمام علاقہ میدانی ہے، ماسوائے مغرب کے جہاں تھل کا صحرائی علاقہ واقع ہے جو دریائے جہلم کے کنارے سے شروع ہوتا ہوا خوشاب ، لیہ اور بھکر کے اضلاع تک جاتا ہے۔ اس علاقے میں ماضی میں جنگلات تھے اور یہ علاقہ کسی بھی قسم کی کاشت کے لیے موزوں نہیں تھا۔ انگریزی دورحکومت میں یہاں نہری نظام بنا کر پورے علاقے کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔

ضلع جھنگ ہی وہ جگہ ہے جہاں اٹھارہ ہزاری کے قریب پاکستان کے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم کا ملاپ ہوتا ہے۔ جھنگ شہر سے 25 کلومیٹر دور 1939 میں دریائے چناب پر تریموں بیراج بنا کر ”رنگ پور کینال” اور ”تریموں سدھنائی لنک کینال” نکالی گئیں۔ رنگ پور جھنگ سمیت ضلع مظفر گڑھ کو بھی سیراب کرتی ہے۔ جھنگ کے غیر زرعی رقبے پر نایاب جنگلات اور جھاڑیوں پائی جاتی ہیں ان میں بوہڑ، ہرمل، کیکر، جھنڈ اور وان شامل ہیں۔

اس ضلع کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 28 سے 43 جبکہ سردیوں میں 6 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اوسطاً سالانہ بارش 288 ملی میٹر ہے۔ آندھیاں اور طوفان بھی شدت سے آتے ہیں۔ نہری پانی کے بہترین نظام اور بارشوں کی بدولت یہاں کئی اقسام کی زرعی اجناس اگائی جاتی ہیں جن میں گندم، کپاس، گنا، چاول، چنے، جوار، تُرش پھل، آم، سرسوں اور تمباکو شامل ہیں۔ یہاں موجود اہم صنعتوں میں روئی بیلنے، اونی کپڑا بنانے، چینی کے کارخانے، برتن بنانے، کمبل بنانے اور کھیس و دریاں بنانے کی صنعت شامل ہے۔ حویلی بہادر شاہ کے مقام پر ایک پاور پلانٹ لگایا گیا ہے جہاں گیس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

بُودوباش کے حوالے سے یہ علاقہ بہت رنگین ہے۔ ثقافتی میلے، شادی کی دل چسپ رسومات، مختلف روایتی کھیل اور عرس وغیرہ جھنگ کی پہچان ہیں۔ اسی علاقے سے ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں جیسی رومانوی داستانوں نے جنم لیا۔ پنجاب کی چار لازوال محبت کی داستانوں میں سے دو نے اس دھرتی پر جنم لیا اور جھنگ کو محبت اور پیار کی دھرتی کے روپ میں امر کر دیا۔

ضلع جھنگ کے مشہور علاقوں میں مندرجہ ذیل شام ہیں:

1۔ گڑھ مہاراجا:

تحصیل احمد پور سیال کا علاقہ جسے شہاب الدین محمد غوری کی پہلی چھاؤنی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پہلے ”راج گڑھ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ کا مزار اسی قصبے میں ہے۔

2۔ شاہ جیونہ:

جھنگ سے 34 کلومیٹر دور واقع یہ شہر حسینی قلندری سلسلے کے مشہور صوفی بزرگ، سید محبوب عالم شاہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مخدوم فیصل صالح حیات یہاں کے گدی نشین ہیں۔

3۔ ماچھی وال:

اس جگہ کا پرانا نام ”لوہ کوٹ” تھا۔ اروڑہ ہنس کے مطابق جہلم کے کنارے پر واقع اس شہر کی بنیاد بھی لاہور کی طرح رام چندر جی کے بیٹے نے رکھی تھی۔

4۔ کھیوا:

مشہور رومانوی داستان مرزا صاحباں کی صاحباں کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔

5۔ اٹھارہ ہزاری:

اٹھارہ ہزاری ایک لقب ہوا کرتا تھا جو ایسے سپہ سالار کو دیا جاتا تھا جو اٹھارہ ہزار کی فوج رکھتا ہو اور اس کا خرچ اٹھاتا ہو۔ مخدوم تاج الدین سیال یہاں کے اٹھارہ ہزاری سردار تھے۔ یہ شہر دریائے چناب پر واقع ہیڈ تریموں، اور مزار پیر تاج دین کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہاں چناب و جہلم کے شیریں پانیوں میں پائی جانے والی رہو مچھلی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔ جھنگ کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن کئی علاقوں میں سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو بھی عام بولی جاتی ہے۔ یہاں کی پنجابی کا خاص لہجہ جھنگوی کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا رہن سہن بہت سادہ ہے۔

دیہاتی خواتین زیادہ تر گھریلو دست کاریاں بنانے کا کام کرتی ہیں جن میں کھیس، دریاں، لُنگیاں اور چٹائیاں شامل ہیں۔ یہاں لنگیوں پر سونے کی تاروں سے کیا جانے والا انتہائی نفیس آر کا کام بہت مشہور ہے جو کافی مہنگا بھی ہے۔ جھنگ وہ واحد علاقہ ہے جہاں دیہاتی مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنے پہناووں میں لنگی/ لاچے کا استعمال کرتی ہیں۔ اس علاقے کے لوگ آج بھی اپنی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں آج بھی پرانے علاقائی کھیل شوق سے کھیلے جاتے ہیں۔ گھڑ سواری، نیزہ بازی، کبڈی اور کشتی کے مقابلے متواتر منعقد کرائے جاتے ہیں۔ یہ کھیل پنجاب کی لوک ثقافت کا اہم حصہ ہیں جنہیں اہلیانِ جھنگ نے مرنے نہیں دیا۔

یہ ضلع صوفیاء اور مشاہیر کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ عرس اور میلے اس علاقے کی پہچان ہیں۔ جھنگ کی دھرتی پر سیکڑوں علماء اور صوفیاء کرام ابدی نیند سو رہے ہیں جن میں حضرت سلطان باہوؒ، حضرت سید جیون شاہ آف شاہ جیونہؒ، حضرت پیر تاج دینؒ، حضرت روڈو سُلطانؒ، حاجی احمد درویش بغدادیؒ، حضرت شاہ صادق ناہنگؒ، پیر آف سیال شریفؒ، حضرت حافظ فیض سلطانؒ، پیر نور احمد ہاشمیؒ، پیر گوہر شاہؒ، پیر ہتھے وانؒ، پیر آف اٹھارہ ہزاریؒ اور پیر آف ماہنی شریفؒ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی مشاہیر کی درباریں یہاں واقع ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ ان صوفیاء کے عرس میں شرکت کرنے کے لیے جھنگ کا رُخ کرتے ہیں۔

اولیاء کرام کے دربار کے بعد یہاں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جگہ ”مائی ہیر” کا دربار ہے جو جھنگ شہر میں واقع ہے۔ مائی ہیر، جو ہیر رانجھا کی لازوال داستان کا ایک کردار ہے، اس علاقے میں محبت کی نشانی ہے۔ علاقے کے لوگوں نے اسی عقیدت کے تحت یہاں موجود اسٹیڈیم کو بھی ”مائی ہیر اسٹیڈیم” کا نام دے رکھا ہے۔

ضلع جھنگ کی اہم اور معروف شخصیات میں مشہور صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ ، وزیر خان (سردار جن کے نام سے مسجد وزیر خان منسوب ہے) علامہ ڈاکٹرطاہر القادری (اسکالر، سیاست داں)، مجیدامجد (شاعر)، علیم ڈار (کرکٹ امپائر)، محترمہ عابدہ حسین (سیاست داں)، ڈاکٹرعبدالسلام (نوبیل انعامِ یافتہ سائنس داں)، نذیر ناجی (صحافی و کالم نگار)، فیصل صالح حیات (سیاست داں)، اللہ دِتہ لونے والا (گلوکار)، محمود شام (صحافی)، سید ضمیر جعفری (شاعر)، شیخ وقاص اکرم ( سیاست داں)، منصور ملنگی (گلوکار)، غلام بی بی بھروانہ (سیاست داں) اور پیر حمید الدین سیالوی (گدی نشین دربار سیال شریف) شامل ہیں۔

اگرچہ جھنگ، فیصل آباد، سرگودھا ، ٹوبہ اور چنیوٹ سے بھی پہلے ضلع بنا دیا گیا تھا لیکن اس علاقے کی حالت آج بھی ویسی ہے۔ جھنگ ہی وہ علاقہ تھا جہاں انگریز سرکار کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس دھرتی کے سپوت رائے احمد خان کھرل نے ایک انگریز لیفٹیننٹ سمیت کئی انگریزوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ انگریز اس جسارت پر بپھر گیا اور بغاوت کو کچلنے کے ساتھ اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مشہورِ زمانہ ڈاکوؤں اور غداروں کو جاگیریں الاٹ کی گئیں اور جھنگ کی پس ماندگی پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی۔ یہاں کے محبت کرنے والے لوگوں کو انگریز سرکار نے سرکاری اصطلاح میں ”جانگلی” کا نام دیا۔ انگریز دور سے ہی اس علاقے کو ترقی سے دور رکھا گیا ہے اور آج بھی بدقسمتی سے جھنگ کا شمار پنجاب کے پس ماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔

اس علاقے سے کئی معروف سیاست داں منتخب ہوکر وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کے عہدوں تک پہنچے لیکن اس علاقے کی حالت نہ بدلی۔ نہ کوئی بڑی سرکاری یونیورسٹی، میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج اور نہ ہی کوئی بڑا سرکاری اسپتال بنا۔ ہر سال چناب میں آنے والا سیلابی ریلا اس علاقے کو نقصان پہنچاتا ہے، کھڑی فصلیں اور کئی دیہات زیرِآب آ جاتے ہیں لیکن حکم رانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

جھنگ شہر آج بھی کسی قدیم شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ مائی ہیر اور صاحباں کا جھنگ آج بھی کسی مسیحا کا منتظِر ہے۔

The post محبت کی دھرتی ’’جھنگ’’ appeared first on ایکسپریس اردو.


عطا آباد جھیل کے پانیوں پر ہچکولے کھاتی کشتی کا سفر خوفناک تجربہ تھا

$
0
0

(قسط نمبر 6)

اس علاقے کے تمام بچے سکول جاتے ہیں۔میٹرک کی تعلیم مکمل کرکے لڑکیوں اور لڑکوں کو علی آباد اور گلگت کے کالجز میں بھیج دیا جاتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اُن کے تمام اخراجات آغا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد نوجوان مرد او ر خواتین کو معقول روزگار کی فراہمی میں بھی پوری معاونت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ضلع ہنزہ میں بالعموم اور گوجال میں باالخصوص خواندگی اور روزگار کی شرح سو فیصد ہے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے تو وہ اپنی کسی کوتاہی کی وجہ سے ہوگا۔گلمت میں ایک خود روجھاڑی Sea Buckthronپیدا ہوتی ہے۔

جس پر نارنجی رنگ کے چھوٹے بیر جیسے پھل لگتے ہیں۔ جو کینسر کے علاج کیلئے اکسیر ہیں۔ گلمت میں اس پھل کو چننے اور اس کا شربت بنانے اور اس کو پیک کرکے اندرون ملک و بیرون بھیجنے کاکام سائنسی طور پر کرنے کا کام گلمت ہی کا ایک نوجوان کر رہا ہے جو غیر ملکی سیاحوں کیلئے گائیڈ کاکام بھی کرتا ہے۔لعل سلطان نامی ایک معمرخاتون خوبانی کو خشک کرکے ملک بھر میں سپلائی کرنے کا کام کر رہی ہیں۔وہ تازہ ناشپاتی اور سیب بھی فروخت کرتی ہیں۔خوبانی گلگت بلتستان اور چترال میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے اور تقریباً ہر علاقہ میں اسے خشک بھی کیا جاتا ہے۔

میں نے ان تینوں علاقوں میں تازہ اور خشک خوبانی کھائی ہے لیکن جو ذائقہ گلمت کی خشک خوبانی کا ہے وہ کہیں دیکھنے اور کھانے کو نہیں ملا۔ پاکستان کے آخری شہر سوست کی طرح گلمت میں دکانیں اور مارکیٹیں چینی ساز و سامان سے بھری پڑی ہیں۔گلمت ہی میں سابق حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ صاحب نے اپنے آبائی گھرمیں اپنا ہوٹل کھول رکھا ہے۔گھر کے لاؤنج کو انہوں نے طعام خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جبکہ وسیع و عریض چمن ایک منزلہ عمارت کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن میں پھل دار درختوں کی تعداد زیادہ ہے۔برآمدے کو انہوں نے ریسپشن ایریابنا دیا ہے۔ جس میں تاریخی نوادرات اور تصاویر اس کو دل کش نشست گاہ کی صورت دیئے ہوئے ہیں۔

پروگرام کی ریکارڈنگ اور گلمت کا ایک چکر لگانے کے بعداُسی دفتر میںظہر کی نماز اداکی ۔ ہم نے جب واپسی کا قصد کیا تو تین بج چکے تھے ۔جھیل پر جلدی پہنچنے کیلئے ٹیکسی کی اور بھاگم بھاگ ششکت پہنچے تاکہ رات گلمت میں نہ رہنا پڑے۔کیونکہ عصر کے بعد کشتیاں چلنا بند ہوجاتی تھیں۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ جھیل کے اُس پار آنے جانے میں چار پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور ہمیں بھاگم بھاگ واپس لوٹنا پڑے گا تو میں گلمت یا پسو میں ٹھہرنے کا پروگرام بنا کر آتا لیکن اب واپس جانا ضروری تھا۔ ششکت میں کشتی کا انتظار کر تے ہوئے وقت بچانے کیلئے میں نے وہاں موجود کشتیوں کے مالکان اور کشتی رانوں سے بات چیت کی ریکارڈنگ شروع کی تو حیرتوں کی ایک نئی دنیا کھل گئی۔

یہاں چلنے والی کل کشتیوں کی تعداد پینتالیس تھی۔ ہر کشتی کو پھیرا لگانے کیلئے مسافروں کی تعداد کے مطابق اپنی باری کیلئے ایک سے تین دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ منگلا اور تربیلہ ڈیموں کے کشتی ران یہاں اپنی اس نوکری سے خوش تھے کیونکہ اُنہیں ہر ماہ ملنے والی تنخواہ بیس ہزار روپے پوری کی پوری بچ جاتی تھی۔کھانا پینا رہائش کا ذمہ کشتیوں کے مقامی مالکان کا تھا جو کشتی چلانے کے فن سے ناواقف تھے۔ یہاں ڈیزل کی قیمت ایک سو روپے لیٹر تھی۔ جبکہ گلگت میں ڈیزل اسی روپے لیٹر دستیاب تھا۔ جو کشتیاں گاڑیوں اور تجارتی سامان کی بار برداری کیلئے استعمال ہوتی تھیں اُن کے مالکان کے وارے نیارے تھے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پردس سے بیس ہزار روپے کما لیتے تھے۔

مسافروں والی کشتیوں کی آمدنی بھی کم نہ تھی۔ کشتی میں سواریاں پوری ہوتے ہوتے میرے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ اب سورج بادلوں کی اوٹ میں اور پہاڑوں کے پیچھے جا چکا تھا۔ تیز سرد ہوا چل رہی تھی۔ میں نے گرم کپڑے تو پہن رکھے تھے لیکن دستانے،مفلر،بھاری سوئٹر یا اوور کوٹ نہیں پہنا تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے جھیل کی سطح پر بڑی بڑی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔کشتی میں سوار ہوتے وقت ڈر تو لگا لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ کشتی روانہ ہوئی ،کچھ آگے بڑھی تو انگریزی حرف ڈبلیو کی شکل کی جھیل میں تیزہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں کی شدت میں اضافہ ہو ا تو کشتی کاغذکی ناؤ کی طرح ڈولنے لگی۔

موت کا ایک دن اور وقت تو مقرر ہے لیکن بائیس تئیس سو فٹ گہری جھیل کے یخ بستہ نیلے پانیوں میں ڈوبنے کی خواہش ہر گز نہیں تھی۔ مسافروں پر نظر ڈالی کشتی میں سوار گوجال کی خواتین میں سے کچھ روایتی لباس اور ٹوپی میں ملبوس تھیں اور کچھ نے دور جدید کے لباس پہن رکھے تھے۔ان خواتین کی آنکھوں میں خوف اور حیرانی کے سائے تھے۔ مرد،بچے،جوان۔ بوڑھے ہر کوئی خوف زدہ نظروں سے لہروں کو دیکھ رہا تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے سردی میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا، دانت بج رہے تھے اور جسم سکڑے جارہے تھے۔ اردگرد کے سرمئی پہاڑوں کا رنگ سیاہ بادلوں کی وجہ سے خوف ناک حد تک کالا نظر آرہا تھا اور اس جھیل کے طلاطم خیز پانیوںمیں صرف اللہ کا سہارا تھا۔ ابھی کشتی نے بمشکل ایک چوتھائی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔

جس کے موٹے موٹے قطرے برچھے کی طرح لگتے ۔کشتی میںکوئی اوٹ بھی نہ تھی کہ بارش سے پناہ لیتے ۔خدا خدا کرکے پونے گھنٹے کا یہ وقت تیز ہوا کے تھپیڑے کھاتے، بارش میں بھیگتے اور سردی سے کپکپاتے ہوئے گذرا ،جب دوسرا کنارہ نظر آیا تو سب کی جان میں جان آئی۔ عطا آباد سے دفتر کی گاڑی میں سوار ہوئے تو راستے میں تھول گاؤں کے سوا کہیں نہیں رُکے۔تھول کے سیب،ناشپاتی،اناراور انگور اپنے ذائقے کی وجہ سے علاقے بھر میں مشہور ہیں۔اگرچہ یہ مارچ کا مہینہ تھا اور تھول میں ان پھلوں کی فصل جولائی اگست میں تیار ہوتی ہے۔یہ تینوںپھل بہت نازک بھی ہیں۔لیکن اس کے باوجود ایک معمر درزی غلام محمد نے چھ سات ماہ سے اپنے گھر میں محفوظ رکھے ہوئے سیب اور ناشپاتیاں فروخت کیلئے رکھی ہوئی تھی۔اور وہ اڑھائی سوروپے کلو ناشپاتی اور دو سو روپے کلو سیب بیچ رہا تھا۔ اس قدر مہنگا پھل خریدنے کے بجائے میں نے اُس سے چار کلو بادام خرید لئے، جو اُس نے تین سو روپے کلو کے حساب سے دیئے۔اس معمر درزی کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر کم ہوچکی ہے اور کوئی بھی رعایت کرنا ممکن نہیں ہے۔

گلگت واپس پہنچنے پر بہت سی مصروفیات منتظر تھیں ان میں سرفہرست ریڈیوپاکستان گلگت کی چھتیسویں سالگرہ کو شایان شان طریقے سے منانے کے انتظامات کرنا تھے۔میں یہ تقریب اچھے انداز میں منانا چاہتا تھا کیونکہ ایک عرصے سے ریڈیو پاکستان گلگت ’منقار زیر پَر‘ تھا۔اس کی وجہ وہ لوگ تھے جو اس کی بنیاد رکھنے والے محمداکرم خان کی سٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے  2000؁ء میںریٹائرمنٹ کے بعد یکے بعد دیگرے یہاں کے سربراہ بنے۔یہ سب گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے تھے۔خپلو کے رہنے والے غلام حسین کنٹرولر ریٹائرڈ کے علاوہ کسی نے بھی اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔صدر دفتر اسلام آباد کے ذمہ داران خوش تھے کہ اُنہیں دور دراز کے اس اسٹیشن کی نگرانی کیلئے مقامی افسران دستیاب ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ افسرا ن اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو مستقل اور عارضی آسامیوں پر بھرتی کرنے کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔دفتر آنے جانے کے اوقات کی پابندی کی فکر کسی کو نہ تھی۔

ریڈیوپاکستان کے پروگراموں کا ایک حسن یہ بھی ہوتا ہے کہ پروڈیوسر نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور کالجز، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے صداکار اور لکھاری ریڈیو میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے تیار رہتے ہیں جس کے باعث پروگراموں میں نیا پن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ گلگت میں یہ سلسلہ موقوف ہوچکا تھا۔پرانی گھسی پٹی آوازیں سن سن کر سامعین تنگ آچکے تھے۔

یاد رہے کہ کوئی بھی ذریعہ ابلاغ خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویثرن اپنے سامعین اور ناظرین کی ضروریات،دلچسپیوںاور تنوع کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے بصورت دیگر وہ اپنے سامعین اور ناظرین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔گلگت میں نجی شعبہ میں قائم ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن خاصا مقبول ہو چکا تھااور وہ ہزاروں روپے ماہوار اشتہارات کی مد میں کما بھی رہا تھا۔ نجی شعبہ کے ریڈیو سٹیشنوں کی مقبولیت میں جہاں کئی دیگر عوامل کارفرما ہیں وہیں پیمرا کے قوانین کے ڈھیلے ڈھالے نفاذ کا بھی قصور ہے۔

جن کے تحت کوئی نجی ریڈیو سٹیشن بھارتی گانے نہیں چلا سکتا۔ عملاً بالکل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔واہیات بھارتی گانوں کے ساتھ بلا سوچے سمجھے اور بغیر مسودہ کے انٹ شنٹ باتیں کرنے والی میزبان خواتین اور حضرات صرف اُن نوجوانوں میں مقبول ہیں۔جنہیں وقت گذارنے کیلئے لایعنی باتوں اور بے سُرے گانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے برعکس ریڈیو پاکستان ایک قومی ادارہ ہونے کے ناطے جہاں اپنے سامعین کو تفریح ،اطلاعات اور تعلیم دیتا ہے وہاں وہ سامعین میں ذوق سلیم کو پروان چڑھانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ قومی دینی اور اخلاقی اقدار کی آبیاری کرنا ریڈیو پاکستان ہی کا کام ہے جو وہ نامساعد حالات اور متعلقہ حکام کے سوتیلے پن کے باوجود سر انجام دے رہا ہے۔

جہاں تک اشتہارات سے ہونے والی آمدنی کا تعلق ہے تو اس مقصد کیلئے ریڈیو پا کستان میں سیلز کا شعبہ قائم تو ہے لیکن ایک عرصہ سے نیا خون شامل نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ اپنی پوری استعداد کے ساتھ کام نہیں کرپا رہا۔ منظور شدہ 38اسامیوں میں سے تیس خالی ہیں جبکہ جزوقتی اور کل وقتی کل ملازمین کی تعداد گیارہ ہے۔ اس قدر نامساعد حالات کے باوجود اس شعبہ نے گذشتہ مالی سال کے دوران میں 375ملین روپے اشتہارات کی مد میں کمائے۔اس آمدنی میں پانچ سو فیصد اضافہ ممکن ہے ۔لیکن اس کیلئے افرادی قوت اور تمام ملازمین کیلئے ترغیباتی پیکج ضروری ہے۔

اس کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے اٹھائی جانے والی ایک اہم فروگذاشت کو اب تک درست نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کے شعبہ اشتہارات کی آمدنی انتہائی قلیل سطح تک گرچکی ہے۔ایک وقت تھا کہ ریڈیوپاکستان کے تمام ملازمین کو اشتہارات اور سپانسر شپ لانے کی صورت میں پندرہ فیصد کمیشن دیا جاتا تھا۔(یہ کمیشن اشتہاری ایجنسیاں اسی شرح سے لے رہی ہیں)اس ترغیب کی وجہ سے تمام ملازمین کوشش کرتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ کمرشلز حاصل کئے جائیں۔ بعض عاقبت نااندیش افسران اپنے ماتحت عملے کی بہترین کارکردگی سے حسد کرتے اور اُنہیں مجبور کرتے تھے کہ کمیشن میں اُن کا حصہ بھی رکھا جائے۔

اس پر کچھ لوگوں نے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی چپ چاپ برداشت کرلی۔لیکن بعض سر پھرے ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے افسروں کے ناجائز مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔اس کشمکش کانتیجہ یہ نکلا کہ2010-11کے دوران میں اُس وقت کی انتظامیہ نے ملازمین کو دیا جانے والا کمیشن بند کردیا۔اس فیصلے نے ریڈیوپاکستان کی آمدنی پر بہت منفی اثرات مرتب کئے۔ ریڈیولائسنس کی فیس 1980؁ء کے عشرے کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ختم کی گئی تھی۔اُس کے بعد سے اب تک ریڈیوپاکستان کو معمول کی نشریات کے علاوہ ہر ہنگامی موقعہ پر یعنی سیلاب آئے یا زلزلہ،طوفان کا سامنا ہو یا سرحدوں پر کشیدگی،ٹیکس وصولی مہم ہو یا پولیو کے قطرے پلانے کیلئے عوام کو آمادہ کرنا ہو، حج کے تربیتی پروگرام ہوں یا کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ، دھرنے ہوں۔

انتخابات کرانے ہوں یا کوئی عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہو، حکومت کی طرف سے معمول کے پروگراموں کے علاوہ خصوصی پروگرام تجویز کرنے اور نشر کرنے کا کہا جاتا ہے۔اچھے وقتوں میں ہر اضافی ذمہ داری کیلئے حکومت کی طرف سے مطلوبہ فنڈز مہیا کر دیئے جاتے تھے لیکن اب کچھ عرصہ سے صورت حال گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے توریڈیوپاکستان کو مہیا کئے جانے والے بجٹ میں گذشتہ آٹھ برس سے سالانہ بنیادوں پر اضافہ کے بجائے کٹوتی ہو رہی ہے۔ہر سال ہونے والی عمومی مہنگائی کسی بھی ادارے کے آپریشنل اخراجات کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے۔

اس پر مستزاد تنخواہوں میں ہر سال ہونے والا قلیل اضافہ ہے، وہ بھی مہیا نہیں کیا جا رہا۔ دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ملازمین کو گذشتہ چار برس سے وزیراعظم کے امدادی پیکیج کی رقم نہیں دی جا رہی ۔اس کے علاوہ علاج معالجے کے اخراجات ،پینشن، گریجویٹی وغیرہ کی مدات میں ریڈیو پاکستان نے کم و بیش پونے دو ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ اسی فیصد میڈیم ویو ٹرانسمیٹر پرانی اینا لاگ ٹیکنالوجی والے ہیں اور وہ اپنی فعال طبعی عمر پوری کر چکے ہیں جنہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک قومی ادارہ ہونے کے ناطے ریڈیوپاکستان کی جملہ ضروریات حکومت نے پوری کرنی ہیں۔ نشریاتی محاذ کو اس طرح بے یار ومددگار چھوڑ دینا کسی بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ہمارے کار پردازان حکومت کو جس قدر جلد یہ بات سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔اس جملہ معترضہ کیلئے معذرت۔

اس سے پہلے ذکر چل رہا تھا۔ریڈیوپاکستان گلگت کے مختلف سربراہان کا۔جن کی اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے مسلسل عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں نے فروری 2015؁ء میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو صورت حال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ گلگت میں ہونے والی سرکاری غیر سرکاری تقریبات میں ریڈیو پاکستان گلگت کو بلانے کا تکلف نہیں کیا جاتا تھا۔ ریڈیوسٹیشن پر پروگراموں میںاہم سرکاری عہدیداروں ،غیرسرکاری تنظیموں ،شعراء،ادیبوںاور پڑھے لکھے لوگوں کا آنا جانا موقوف ہو چکا تھا۔ ڈرامے، مشاعرے، تقریبات،ادبی محفلیں اور وہ تمام پروگرام جو کسی بھی ریڈیو اسٹیشن کا خاصہ ہوتے ہیں عرصہ دراز سے بند ہو چکے تھے۔وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ فنڈز کی کمی تھی، جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔

بہرحال مجھے صفر سے کام شروع کرنا تھا۔دو اپریل کو ریڈیوپاکستان گلگت کی سالگرہ ہونا تھی ۔میں نے اس موقع کو غنیمت جان کرسب سے پہلے صدر دفتر کو خط لکھ کر یہ تقریب اپنی مدد آپ کے تحت شایان شان طریقے سے منعقد کرنے کی اجازت مانگی، جو فوری طور پر مل گئی۔تمام شعبوں کو اُن کی ذمہ داریاں حوالے کیں۔

پہلے یہ خیال تھا کہ یہ تقریب براڈکاسٹنگ ہاؤس میں منعقد کی جائے لیکن جب مہمانوں کی تعداد کے پیش نظر انتظامات کا جائزہ لیا تو بہتر لگا کہ یہ تقریب ہوٹل میں ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُ س نے یہ تقریب شایان شان طریقہ پر منانے کیلئے سارے راستے آسان کئے۔بہت ہی مناسب نرخوں پر ایک سو بیس مہمانوں کیلئے شامیانہ،کرسیاں اور لوازمات کے ہمراہ چائے کا انتظام سرینا ہوٹل نے اپنے سر لیا۔گلگت بلتستان کے نگران وزیر اطلاعات عنایت اللہ خان شمالی کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔(اُس وقت پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی پانچ برس کی مدت پوری کرچکی تھی اور وفاقی حکومت نے نئے انتخابات کیلئے نگران حکومت کا تقرر کر دیا تھا۔جس میں شاہجہاں میر کو نگران وزیر اعلی بنایا گیا تھا۔) گلگت کی علمی ادبی شحصیات اور شہریوں کے علاوہ کابینہ کے چار دیگر وزراء ،سکریٹری صاحبان اور سرکاری حکام کی بھرپور شرکت سے مہمانوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر گئی تھی۔چاروں علاقائی زبانوں میں ریڈیوپاکستان گلگت کی خدمات پر مقالے پیش کئے گئے۔ میں نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ گذارشات کیں:

محترم عنایت اللہ خان شمالی وزیر اطلاعات گلگت بلتستان اور معزز مہمانان گرامی و سامعین کرام!

؎آج پھر وسعت صحرائے جنوں

پُرسش آبلہ پا چاہتی ہے

میں اللہ رب العزت کا شکرگذار ہوں کہ اُ س نے آج ریڈیوپاکستان گلگت کی چھتیسویں سالگرہ کے موقع پر مجھے آپ سے مخاطب ہونے کے قابل بنایا۔مجھے آپ سب کو یہاں خوش آمدید کہتے ہوئے دلی مسرت ہو رہی ہے لیکن میں کوئی روایتی خطبہ استقبالیہ پڑھنے کیلئے یہاں نہیں آیا بلکہ میں آپ سے اپنے دل کی کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔یہ باتیں اگر کسی کو تلخ محسوس ہوں تو میں اس کیلئے پہلے سے معذرت چاہوں گا کہ آپ سب یہاں مہمان ہیں۔اور مہمانوں کو سامنے بٹھا کر انہیں کچھ سنانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

؎خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

میں یہاں 4فروری کو آیا تھا ۔ یہاں سب سے پہلے جس مسئلے کا سامنا ہو اوہ بجلی کی بندش تھی۔روزانہ دو تین گھنٹے کیلئے اس کی شکل دیکھنے کو ملتی ہے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ سردیوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے بجلی گھر پوری گنجائش سے کام نہیں کر پاتے، ریڈیوپاکستان میں ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگوں سے جا کر اُن سے ملا جائے،اُن کی باتیں سنی جائیں ،اُن سے شعر وادب،ثقافت،سیاحت، پھولوں، پھلوں اور فصلوں کی بات کی جائے اور اُن کے مسائل متعلقہ حکام تک پہنچائے جائیں۔ اس سلسلے میں اب تک میں کارگاہ،شیروٹ،بارگو بالا، نلتر،غلمت، جگلوٹ، عطا آباد، ششکت اور گلمت تک جا چکا ہوں۔اس کے علاوہ گلگت شہر میں بھی میرے ساتھیوں نے اسی نوعیت کے کئی پروگرام ریکارڈ کئے ہیں۔ کارگاہ میں میں نے دیکھا کہ وہاں سرکاری طور پر تعمیر کئے ہوئے پن بجلی گھروں میں سے کسی میں بھی نصب ہونے والی مشینری درست حالت میں نہیں ہے۔

کوئی بھی بجلی گھر اپنی گنجائش کی چوتھائی سے زائد بجلی پیدا نہیں کر رہا۔ جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جو بجلی گھر 1988؁ء میں تعمیر ہو ئے تو اُس کے بعد کسی نے اُن میں نصب مشینری کی حالت پر توجہ نہیں دی۔ کارگاہ کا سب سے بڑا بجلی گھر جو چار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا تھا۔2010؁ء کے سیلاب کی زد میں آیا تھا۔ ساری مشینیں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ آج پانچ برس گذرنے کے باوجود اُس کی تین مشینیںاُجڑی ہوئی پڑی ہیں۔اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ پانی کے چینلز دیکھے تو اُن میں جگہ جگہ سوراخ ہیں اور بے تحاشہ پانی ضائع ہو رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب مجھے بارگو جانے کا موقع ملا تو وہاں میں نے دیکھا کہ جو پن بجلی گھر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یا کسی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے لگا رکھے ہیں اُن سب کی مشینری بالکل ٹھیک ہے اور وہ اپنی پوری گنجائش کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں لگے ہوئے پن بجلی گھروں کی مشینری کیوں تباہ حال ہے؟ وہ اپنی پوری گنجائش سے کام کیوں نہیں کر پا رہے؟ انہیں کون سا آسیب ڈس گیا ہے؟گلگت کی سڑکیں کیوں تباہ حال ہیں؟ شہر سے نکلنے کے بعد جب تک چینیوں کی تعمیر کردہ شاہراہ قراقرم نہیں آجاتی تمام گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتی ہیں اور مسافر جھٹکے کھاکھا کر بے حال ہو جاتے ہیں۔

سڑکوں کی خراب صورت حال کے باوجود گلگت کے نوجوان موٹر سائیکل اس قدر تیز رفتاری سے چلاتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں نہ اپنی جانوں کی پروا ہے اور نہ کسی اور کی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سلطان آباد سے آگے ہنزہ جانے والی شاہراہ قراقرم پر ریس لگاتے ہوئے گلگت اور گرد و نواح کے درجنوں نوجوان موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ کیا لاکھ سوا لاکھ روپے کا موٹر سائیکل خرید کر دینے والے والدین اپنے بچوں کو تیز رفتاری سے نہیں روک سکتے؟ کیا ٹریفک پولیس ہلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلانے کے قانون پر عمل درآمد نہیں کرا سکتی؟

پینے کے پانی کا ذکر ہو تواچھے خاصے پڑھے لکھے بظاہر معزز لوگ اپنا کنکشن لگوانے کے بجائے اپنے گھر کے سامنے گذرنے والی پائپ لائن سے پانی چوری کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔گلگت سے لے کر گلمت گو جال تک میں نے جس سے بھی بات کی۔اُ س نے شکایات اور محرومیوںکا ایک طومار باندھ دیا۔جو سہولیات یا آسانیاں مہیا ہیں اُ ن کا کوئی ذکر نہیں۔ بس گلے ہی گلے ہیں۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ

؎شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اب ایک اور مسئلے کی جانب آپ کو لے کر جاتا ہوں۔ مجھ سمیت ہر سرکاری ملازم نے ملازمت حاصل کرنے کیلئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلے ہوں گے۔لیکن جب ہمیں سرکاری ملازمت خاص طور پر پکی ملازمت مل جاتی ہے تو پھر ہم میں اور فرعون میں فرق کم ہی رہ جاتا ہے۔ گردن میں اتنا سریا آجاتا ہے کہ اپنے بیوی بچے بھی بات کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ہم اپنے فرائض منصبی ایسے انداز میں ادا کرتے ہیں گویا پوری قوم پر احسان کر ر ہے ہیں۔ حالاں کہ مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے لائق ، دیانت دار اور محنتی لوگ موجود ہیں جن میں شاید کچھ میرے ماتحت یا جز وقتی طور پر کام کرتے ہوں گے۔

کسی ضرورت مند کا مسئلہ حل کرنا اُن کے بس میں بھی ہو تو وہ ایسا کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چھوٹے سرکاری ملازم کی بات کریں تو شاید وہ فرعونیت میں اپنے افسروں سے دو قدم آگے ہوںگے۔ سرکار سے مراعات لیتے وقت وہ کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے لیکن جب کام کرنے کی بات ہو تو اپنے روز مرہ کے کاموں میں دفتر کی ذمہ داریاں پوری کرنا سب سے آخری ترجیح بن جاتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کارگاہ میں ہمارے سرکاری بجلی گھر پورا کام نہیں کر پاتے۔ سیلاب کے پانچ برس گذرنے کے باوجود بجلی کی تاریں اور کھمبے سر بسجود رہتے ہیں۔ سڑکیںاُدھڑی ہوئی ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ پانی کے پائپ اور پن بجلی گھروں کے چینلز چھلنی ہیں۔ڈاکٹر خواتین وحضرات اپنی ڈیوٹی کے وقت نجی کلینکوں میں نظر آتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے سرکاری شفا خانے دواؤں اور طبی عملے سے محروم ہیں۔ اساتذہ دور دراز دیہات کے سکولوں میں صرف تنخواہ والے دن اپنی شکل دکھاتے ہیں۔ کہنے کو نیشنل بینک ملک کا سب سے بڑا بینک ہے لیکن سرکاری ہونے کی وجہ سے صارفین کو مہیا کی جانے والی خدمات کا معیار پاتال کو چھو رہا ہے۔ ترقی کے شاندار منصوبے کاغذات میں بنتے ہیں۔ ہوا میں تعمیر ہوتے ہیں۔ اور اُن پر مختص رقم چند جیبوں میں چلی جاتی ہے۔عوام کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔

یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کی تعمیر و تخریب کے ذمہ دار بھی ہم ہیں۔آپ ذرا چند لمحوں کیلئے سوچیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ میں نہایت ادب کے ساتھ اُ ن سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کروں گا۔قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت۔ آبی، معدنی، سیاحتی،زرعی،انسانی اورترقی کیلئے درکار ہر وسیلے سے نوازا ہے۔ کمی تو مجھ میں اور آپ میں ہے۔ کہ ہم اپنے ملک کا سوچنے کے بجائے اپنی جیب بھرنے کا سوچتے اور اسی کیلئے محنت کرتے ہیں۔ حالاں کہ جو رزق میرے رب نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے میں اُ س سے ایک دھیلہ زیادہ نہیں حاصل کر سکتا۔ اور اگر کر بھی لوں تو اس سے فائدہ نہیں لے سکتا۔روزانہ کروڑوں روپے کمانے والا ہو یا چند سو روپے کی مزدوری کرنے والا، ایک وقت میں ایک روٹی سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ کسی کے درجنوں گھر ہوں تب بھی ایک وقت میں ایک بستر پر ہی آدمی سو سکتا ہے۔

ایک وقت میں ایک جوڑا کپڑوں کا پہن سکتاہے۔دیکھا جائے تو ہماری بنیادی ضروریات بہت ہی محدود ہیں اور وہ باآسانی پوری ہوتی ہیں، مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم حرص میں گرفتار ہوتے ہیں حلال حرام کی تمیز کئے بغیر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کیلئے رات دن ایک کئے دیتے ہیں۔پھر ملک ویران ہونے لگتے ہیں، وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ سٹیل مل سے لے کر پی آئی اے تک سرکاری شعبے کے تمام ادارے تباہ ہونے لگتے ہیں۔ سیاح دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ امن روٹھ جاتا ہے۔ دلوں میں نفرتیں پلتی ہیں اور اللہ سزا کے طور پر ہماری زندگیوں سے سکون اور اطمینان اُٹھا لیتا ہے۔

ان الفاظ کے ساتھ جب میں نے رخصت چاہی تو تما م حاضرین جو میری گذارشات سنتے وقت حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔یہ تقریب سرینا ہوٹل کے چمن سے براہ راست ریڈیوپاکستان گلگت سے نشر ہو رہی تھی۔تین بجکر بیس منٹ پر شروع ہونے والی اس تقریب میں،مقالوں کے علاوہ اُردو،شینا،بروشسکی،کھوار اور وخی زبانوں میں گیتوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔گیتوں کے دوران حاضرین جب جوش میں آتے تو وہ ڈائس کے آگے آکر محو رقص ہوجاتے۔اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے ملازمین کی اپنے افسروں کے ہاتھوںحوصلہ شکنی کی ریڈیو پاکستان کی دیرینہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے میں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ملازمین میں مہمان خصوصی کے ہاتھوں سرٹیفیکیٹ تقسیم کرائے۔

جب چار بجکر اُ نسٹھ منٹ پر تقریب ختم کر کے قومی نشریاتی رابطے پر خبروں کا اعلان کیا گیا اور خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں تو اس تقریب کی نظامت کرنے والوں گلگت کے معروف شاعر،ادیب اور براڈکاسٹر احسان شاہ اور ثمینہ کو پورے پروگرام کے دوران میں وقت کی پابندی کا خیال بہت اچھے انداز میں رکھنے پرحاضرین محفل نے بے اختیار ہوکر داد دی اور میں نے اور میرے سارے عملے نے سکھ کا سانس لیا کہ ہم سب کی محنت ٹھکانے لگی اور تقریب کے ہر لمحہ کا بہترطریقے سے استعمال کیا گیا۔ چائے کے دوران میں جب گلگت سے تعلق رکھنے والے شعراء،ادیبوں اور دیگر مہمانوںسے ملاقات ہوئی تو وہ سب بہت خوش اور حیران تھے کہ ریڈیو پاکستان گلگت سے ایسا پروگرام بھی براہ راست نشر ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

The post عطا آباد جھیل کے پانیوں پر ہچکولے کھاتی کشتی کا سفر خوفناک تجربہ تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

10 سال کی عمر تک سکھادینے والے 10 اہم سبق

$
0
0

بچوں کی تربیت کے لیے ماؤں پر ایک بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یوں تو سب ہی چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے قابل، دیانت دار، ہم درد اور بہادر بنیں، لیکن اس کے لیے کرنا کیا ہے، اس سے واقفیت ذرا کم ماؤں کو ہی ہوتی ہے۔

ہمارے سماج میں عام طور پر خواتین کی اکثریت شادی کے بعد گھر سنبھالتی ہے اور مرد اپنے روزگار میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے بچے کی تربیت اور نگہداشت کی بڑی ذمہ داری ماں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کے حوالے سے ہونے والی معمولی سی لغزش پر بھی ماں کو قصور وار ٹھیرایا جاتا ہے۔ ہمارے پدرسری سماج میں ایک ماں کو 10 سال کی عمر تک بچے کی پرورش میں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے، کچھ ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

1عزت دینا سکھائیں

اپنے بچے کو احترام انسانیت کا درس دیں، اسے سکھائیے کہ یہ زندگی میں اس کی اولین ترجیح ہونا چاہیے، خواہ وہ کوئی بھی صنف ہو لڑکا یا لڑکی یا ’تیسری جنس‘ سب کے بنیادی انسانی حقوق ادا کرنا لازم  ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ بچہ جب بڑا ہوکر معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرے، تو وہ ہمیشہ صنفی امتیاز سے بالاتر ہوکر سوچے۔

2 غلطی ہونے پر گھبرانا نہیں چاہیے

انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا اور جب بات بچے کی ہو تو اس سے بھی بہت سی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں، ایک ماں کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہنا چاہیے، لہٰذا غلطی ہو جانے پر بچے کو حوصلہ دیں اور پریشان ہونے سے بچائیں۔ انہیں بتائیں کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور یہ غلطی ہی ہے جو ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ ایسی راہ نمائی ملنے پر بچے کو پتا ہو گا کہ غلطی بھی زندگی کا ایک رخ ہے، غلطی ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی، بلکہ کوئی نہ کوئی سبق دیتی ہے۔ جب وہ یہ بات سمجھ لے گا تو وہ کھل کر نئے کام کر سکے گا۔

3 قابلیت ’گریڈ‘ سے زیادہ اہم ہے!

بعض اوقات والدین کم گریڈ آنے پر بچے پر  سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ بچہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا، لیکن یہاں ماں اور باپ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بہت اچھے گریڈ ضروری نہیں ہے کہ بہت اعلیٰ قابلیت کی ہی علامت ہوں، ہمارے امتحانات کے نتائج بعض اوقات ذہین طالب علموں کے بہ جائے تیز حافظے والے بچوں کو آگے کردیتے ہیں، اس لیے یہ یقین دلائیے کہ گریڈ کی اونچ نیچ بھی زندگی کا حصہ ہے۔

4 اپنے بچوں کا دوست بننا

ایک ماں کے لیے اپنے بچے کا دوست بننا ضروری ہے۔ اگر بچے کے ارد گرد دوست موجود ہیں، تو اس کے دوستوں میں آپ کو اپنی جگہ آسانی سے نہیں ملے گی، لہٰذا آپ ان پر اپنی نگرانی مسلط نہ کریں،  بلکہ انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کے پیچھے آپ کی حمایت ہے اور وہ ہر معاملے میں آپ پر اعتماد اور بھروسا کر سکتے ہیں، سو آپ ان کے مشکل جذباتی لمحوں میں ایک بہترین دوست بن کر دکھائیں۔

5 بچے کو کھل کر بولنے دیں

کچھ والدین اپنے بچے کی بہ جائے  دوسرے بچے کی بات کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں یا اپنے بچے کے سامنے دوسرے بچے پر زیادہ اعتبار دکھاتے ہیں، اسی وجہ سے وہ چپ کر جاتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ ہی غلط ہے۔ یہ رویہ بچے کے مستقبل میں عدم تحفظ کو بڑھاتا ہے، اسے پتا ہے کہ میرے والدین میرے ساتھ نہیں، سو وہ مستقل پریشان رہنے لگتا ہے، یہاں والدین بھی اپنی  خامی دور کریں اور بچے کی بات مکمل ہونے سے پہلے اسے خاموش نہ کروائیں ۔ اسے بتائیں کہ تمیز اور تہذیب کے دائرے میں بڑوں کے سامنے اپنی بات کس طرح کی جاتی ہے، اگر آپ سچے ہیں تو آپ ضرور بتائیں۔

6 دوسروں کے دیکھا دیکھی

کچھ نہ کریں

اپنے بچوں میں یہ عادت پیدا کریں کہ وہ لاشعوری طور پر وہ کام نہ کرتے چلے جائیں، جس میں ان کی اپنی پسند شامل نہ ہو،

عموماً بچہ یہ سوچتا ہے کہ دوستوں میں مقبولیت بہت اہم ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں جہاں انہیں نقصان ہو سکتا ہے یا وہ پھر خوش نہیں رہ سکتے۔ یہاں بچوں کو سکھائیں کہ دوستوں کے ہر غلط یا خود کے لیے نامناسب فیصلے کو صرف اُن کے ساتھ رہنے کے لیے کبھی قبول نہ کریں، بلکہ دوستوں میں اپنا مسئلہ اور نکتہ نظر ضرور بتائیں، اگر وہ دوست ہوں گے تو آپ کی بات ضرور سمجھیں گے، پھر آپ اپنے لیے بہتر راستے کی طرف بھی گام زن رہیں گے۔ کسی کے ساتھ دینے کے چکر میں خود کا ساتھ نہ چھوڑیں، اپنی خودی کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

7 سوال کرنے میں حرج نہیں ہے

سوالات پوچھنا غلط عمل نہیں سوال کرنا بچے کا حق ہے، بہ جائے اس کے، کہ آپ کی ڈانٹ کے ڈر سے  بچہ دکھاوا کرتا رہے کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا ہے، لہٰذا بچوں کے پے در پے سوالات پر  ردعمل دکھانے کی بہ جائے پرسکون طریقے سے جواب دینے کی کوشش کریں اور سوال جواب کے اس عمل کو آسان بنائیں ۔

8 ’جان ہے تو جہان ہے‘ کی تعلیم دیں

بچے کو یہ بات بتائیں کہ اگر آپ کی طبیعت اچھی نہیں تو کلاس میں کھڑے ہو کر اپنی ٹیچر کو اپنی کیفیت ضرور بتائیں، اسے بتائیں کہ کلاس اور تعلیم بہت ضروری ہے، لیکن صحت کا خیال رکھنا اس سے بھی پہلے ضروری ہے۔

9 بچوں کو انکار کرنا بھی سکھائیں

انکار کی ایک کیفیت خود سری کی ہوتی ہے، لیکن اس میں توازن ضروری ہے، فرماں برداری کی وہ انتہا بھی غیر مناسب ہوتی ہے، جہاں بچہ انکار کرنا چھوڑ دے اور ایک ’ربورٹ‘ بن کر رہ جائے، جس سے اس کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ اس لیے بچوں کو سمجھائیں کہ اگر وہ کسی چیز کے ساتھ مطمئن نہیں ہیں، یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہے، تو اس چیز کے لیے انکار کرنے سے کترائیں۔

10 غلطی تسلیم کرنا بڑائی ہے

بدقسمتی سے تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اتنا ظرف رکھتے ہیں کہ کھلے دل سے اپنی غلطی کو تسلیم کریں، سب کے سامنے اعتراف کریں کہ ہاں ان سے بھول ہوگئی تھی یا وہ غلط سمجھ رہے تھے۔ ایک ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اوائل عمری میں بچے کو یہ بتائے کہ اپنی غلطی مان لینے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ بڑے پن کی نشانی ہے، اس لیے زندگی میں کبھی بھی یہ محسوس ہو کہ تم غلط سوچ رہے تھے تو اسے ماننے میں کبھی دیر نہ لگانا۔

یہ بچے کی تربیت کے لیے ملحوظ خاطر رکھنے و الے وہ چھوٹے چھوٹے اصول ہیں، جنہیں اپنا کر ایک ماں اپنے بچے کی اچھی شخصیت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔

 

The post 10 سال کی عمر تک سکھادینے والے 10 اہم سبق appeared first on ایکسپریس اردو.

’باورچی خانہ‘ آپ کے حسنِ ذوق کا عکاس

$
0
0

بہت سی خواتین اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باوجود باورچی خانے کے امور ملازمین پر چھوڑنا پسند نہیں کرتیں۔ ان کے خیال میں خانساماں اور ماسیاں باورچی خانے میں صفائی ستھرائی کا خیال اس طرح نہیں رکھ پاتے، جس طرح وہ چاہتی ہیں۔ اس لیے چاہے پیشہ ورانہ طور پر کتنی ہی مصروفیت ہو، وہ باورچی خانے کی ذمہ داریاں نمٹا کر ہی گھر سے نکلتی ہیں اور باقی امور واپسی میں نمٹاتی ہیں۔

باورچی خانہ گھر کا ایک نہایت اہم گوشہ ہے، جس سے خاتون خانہ کا سگھڑ پن خصوصی طور پر جھلکتا ہے۔ اس لیے اس کی ترتیب وآرایش بھی کچھ اس طرز کی ہونی چاہیے کہ کام کے دوران آپ کی طبیعت بیزاری واکتاہٹ کا شکار ہو اور نہ ہی تھکاوٹ کا احساس غالب آئے۔ ساتھ ہی دیکھنے میں بھی ہر چیز دیدہ زیب اور خوب صورت معلوم ہو۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر بالکل درست اور سلیقے سے رکھی جائے، تاکہ ضرورت پڑنے پر ہر چیز بہ آسانی دست یاب ہو۔ اس کے بعد باورچی خانے کی گنجایش کے حساب سے آرایشی اشیا کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔

باورچی خانے کا ماحول بھی کھانا پکانے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کھانا پکانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ باورچی خانے میں آسانی محسوس کرے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو یہ چیز کھانے کے معیار اور ذائقے پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ خوش دلی سے بنائے گئے کھانے سے خاتون خانہ کو بھی تھکاوٹ نہیں ہوتی اور کھانے والے بھی اس کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

چاہے آپ کا باورچی خانہ کسی بھی طرح کا ہو، اسے نظر انداز کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ بہت سی خواتین یہ سوچتی ہیں کہ ’’یہاں سجاوٹ کا کیا فائدہ۔۔۔ مہمان تو ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھتے ہیں، باورچی خانہ تھوڑی کوئی دیکھتا ہے۔‘‘ لیکن سوچیں اگر کبھی کسی نے آکر آپ کے ایسے باورچی خانے کا حشر دیکھ لیا تو اس کے ذہن میں آپ کا کیا تاثر بنے گا؟ اس لیے بعد کے پچھتاوے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ باورچی خانے کی آرایش پر خصوصی توجہ دی جائے۔ چند بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے آپ اپنے باورچی خانے کو ایک نیا روپ دے سکتی ہیں۔

رنگ انسانی نفسیات اور مزاج پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں، لہذا رنگوں کے استعمال میں خاصی محتاط رہیں۔ دیواروں پر کبھی بھی گہرے رنگ نہ کرائیں۔ بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ہلکے رنگ جلدی خراب معلوم ہوتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ گہرے رنگ کرالیے جائیں، لیکن کچن میں ہلکے رنگ کا روغن اور مناسب روشنی کا انتظام نہ صرف کچن کو رونق بخشتا ہے، بلکہ دیکھنے میں بھی کشادہ اور بھلا لگتا ہے۔ لہٰذا باورچی خانے میں ہلکے رنگوں کا چناؤ کریں۔ ساتھ ہی درمیان میں دیدہ زیب لائٹ یا اپنے باورچی خانے کی وسعت کے لحاظ سے کوئی اچھا سا فانوس لگا سکتی ہیں۔

رنگ و روغن کے بعد سب سے اہم باورچی خانے کی الماریاں اور درازیں وغیرہ ہیں۔ یہ چیزیں بہ یک وقت ہماری ضرورت پوری کرنے کے ساتھ باورچی خانے کی آرایش کا باعث بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے اسے دونوں زاویوں سے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح باورچی خانے کے شیلف بھی اسی طرح بنوانے چاہئیں کہ سہولت و آرایش دونوں ہی پوری ہوں۔ شیلف پر مستقل بنیاد پر کوئی چیز نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ صرف کام کے اوقات میں مختلف برتن اور ڈش وغیرہ رکھنے کے کام میں لینا چاہیے۔ مستقل طور پر چیزیں رکھنے کے لیے الماریاں ہونا ضروری ہیں۔

دھنیا، ہلدی، نمک، مرچیں اور دیگر مسالا جات کے لیے ایک علیحدہ الماری مختص کریں اور دالوں اور چاول وغیرہ کو کسی الگ خانے میں رکھیں۔ سہولت کے نقطہ نگاہ سے ان چیزوں کی ترتیب ایسی ہونی چاہیے کہ بوقت ضرورت آپ کو مطلوبہ چیز بہ آسانی مل جائے ، جب کہ آرایش کے حوالے سے یہ خیال رکھیں کہ یہ سارے ڈبے صاف ستھرے اور دیدہ زیب ہونے چاہئیں۔ بالخصوص اگر الماری شیشوں والی ہے تو پھر ضرور آپ کو ان تمام چیزوں کو ترتیب سے رکھنا ہوگا۔

فریج کو بھی باورچی خانے کا ہی ایک اہم جزو قرار دیا جاتا ہے، تاہم اسے باورچی خانے میں صرف اسی صورت میں رکھیں جب آپ کا باورچی خانہ بڑا ہو، ورنہ اسے کسی دوسری جگہ رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ فریج کو بھی بہت سی دیدہ زیب چیزوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ بالخصوص مقناطیس لگے مصنوعی پھول وغیرہ خاصے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔

باورچی خانے میں ایک عدد اسٹول کی موجودگی بھی خاصی ضروری ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے آرام کے لیے ضروری ہے، بلکہ بعض اوقات اونچی الماریوں تک رسائی میں بھی خاصا معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے خوب صورت ہونے کے ساتھ اس کا محفوظ ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ آپ اونچی الماریوں تک رسائی کے دوران اپنا توازن برقرار رکھ سکیں۔

سنک کو بھی کام ختم ہونے کے فوراً بعد اچھی طرح دھونے اور سوتی کپڑے سے خشک کرنے کی عادت بنا لیں، تاکہ اس پر دھبے نہ رہ جائیں، اس کے علاوہ چولھے اور تمام شیلفوں کو بھی کام ختم ہونے کے فوراً بعد گیلے سوتی کپڑے سے صاف کر کے خشک کر لیا کریں۔ اس سے نہ صرف آپ کا کچن ہر وقت صاف ستھرا نظر آئے گا، بلکہ آپ کی نفاست پسندی کا عملی نمونہ بھی پیش کرے گا۔

اگر آپ باورچی خانے میں نووارد ہیں اور آپ کو کھانے پکانے کا زیادہ تجربہ نہیں تو آپ کچھ وقت کے لیے باورچی خانے کے ایک کونے میں پکوان کے رسالوں اور اخباری صفحات کے لیے ایک علیحدہ شیلف مختص کر لیں، تاکہ آپ بروقت ان سے مدد لے سکیں۔ مزید خوب صورتی کے لیے آپ کاؤنٹر کے ایک طرف مصنوعی پھولوں کا ایک گُل دان بھی رکھ سکتی ہیں یا اگر آپ چاہیں تو کولڈرنک کی خالی شیشے کی بوتلوں میں گولڈن اسپرے کر کے اس میں نرگس کے پھول ڈال کر بھی کاؤنٹر پر سجا سکتی ہیں۔ اس سے کام کے دوران بھی آپ کی طبیعت پر خوش گوار اور تازگی کا احساس برقرار رہے گا۔

اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں توسجاوٹ کے لیے ایک چھوٹا اور خوب صورت سا کینڈل اسٹینڈ بھی کچن میں رکھ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ باورچی خانے کے لیے ایک عدد الگ کوڑے دان بھی بہت ضروری ہے، کیوں کہ باورچی خانے میں خصوصیت کے ساتھ اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سے پھل اور سبزیوں کے چھلکوں کے علاوہ بہت سی چیزوں کی خالی تھیلیاں اور ڈبے وغیرہ پھینکنے کے لیے اس کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ باورچی خانے کے گیلے کچرے کی مناسبت سے کوئی بہتر ڈسٹ بن چننا چاہیے۔ استعمال کے دوران اس کے اندر ایک بڑی سی تھیلی رکھیں، تاکہ روز کے روز کوڑے دان خالی کرنے میں آسانی رہے اور کوڑے دان بھی گندا نہ ہو۔

باورچی خانے میں ایک چھوٹا سا وال بورڈ بھی لگا لیں اور اس پر پورے مہینے پکائے جانے والے کھانوں کا چارٹ چسپاں کر دیں، تاکہ گھر والوں کو یہ شکایت بھی نہ ہو کہ ایک ہی جیسی چیز بار بار پک رہی ہے۔ اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کہ آج کیا پکایا جائے۔

 

The post ’باورچی خانہ‘ آپ کے حسنِ ذوق کا عکاس appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری ہر رسم ہی بری نہیں ہے۔۔۔!

$
0
0

عام طور پر ہمارے ہاں رسوم ورواج پر جب بات ہوتی ہے تو زیادہ تر منفی ہی رخ اختیار کرتی ہے۔ شاید  یہ فرسودہ اور لایعنی رسومات کے خلاف ہمارا ردعمل ہو، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے تو ہماری بہت سی رسوم مثبت رنگ بھی رکھتی ہیں۔ جن کے بہت سے فوائد بھی ہیں، اور بہت سے مسائل سے گلو خلاصی بھی ہوجاتی ہے، لیکن لوگ اسے بھی بے جا خیال کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں پھر ہماری خاندانی اور پھر معاشرتی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

ہماری مراد یہاں ’منگنی‘ کی رسم سے ہے، یعنی جب دو خاندان یا ایک لڑکا یا لڑکی باہم شادی کے بندھن میں بندھنے  کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اس موقع پر رشتہ طے کر کے انہیں ایک دوسرے سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی طور پر دیکھا جائے تو ’منگیتر‘ کے اس ناتے کی حیثیت صرف زبان دینے یا وعدہ کرنے کی سی ہے۔ کچھ لوگوں نے اِسے مسترد کرتے ہوئے ’منگنی‘ کے بہ جائے ’نکاح‘ کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ یعنی ہوتی منگنی ہے، لیکن اسی میں نکاح کر دیا جاتا ہے اور رخصتی کو  پھر بعد کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے۔

بہت سے حلقے اس سے مطمئن ہوتے ہیں کہ انہوں نے یہ مذہبی راہ اختیار کر کے کوئی فرسودہ رسم ختم کر دی ہے، لیکن اس سے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، کیوں کہ منگنی کے بعد ایک راستہ ہوتا ہے کہ  اگر فریقین اس رشتے سے مطمئن نہیں، تو اسے ختم کر سکتے ہیں، منگنی دراصل مستقبل کے میاں بیوی یا دو خاندانوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا وقت ہوتا ہے، کہ وہ ایک کچے دھاگے سے بندھے رشتے میں بندھ کر یہ سوچ لیں کہ وہ تاحیات اس ناتے میں بندھنے کے لیے سود مند ہیں بھی یا نہیں؟

لیکن اگر منگنی کے بہ جائے نکاح ہی طے ہوجائے اور پھر اگر خدانخواستہ اس رشتے کو توڑا جائے تو اس کے نتیجے میں لڑکی کی حیثیت ’’طلاق یافتہ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ یعنی اب دیکھیے کہ ایک نازک رشتے کو وقت سے پہلے مضبوط کر دینے کے عمل نے ہماری لڑکیوں پر کتنا برا اثر ڈالا ہے۔ چاہے شادی والدین کی طے شدہ ہو، لیکن منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی رابطے میں آجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو جاننے کی خواہش میں ایک دوسرے کی خامیوں اور کمیوں کو بھی سمجھ لیتے ہیں، چوں کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں نکاح کی شرعی و قانونی حیثیت بہت مضبوط ہے، لہٰذا اگر لڑکا اپنی منکوحہ سے ملنا چاہتا ہے تو وہ شرعی طور پر اس کا حق رکھتا ہے۔

پھر وہ بلا روک ٹوک ملتے جلتے اور گھومتے پھرتے ہیں کیوں کہ ان کے اوپر کسی قسم کی پابندی جو نہیں ہوتی، مگر اگر ایک فریق کا دل دوسرے سے بھر جائے یا اس کی خامیاں اس کی برداشت سے باہر ہونے لگیں یا پھر اسے اس سے بہتر شخصیت نظر آجائے تو خاص طور پر لڑکا یہ سوچنے لگتا ہے کہ ’’ابھی تو رخصتی نہیں ہوئی یا ابھی لڑکی رخصت ہوکر میرے گھر تو نہیں آئی! لہٰذا ابھی اس بندھن سے بہ آسانی آزاد ہوا جا سکتا ہے وغیرہ‘‘ تو ایسی صورت حال میں ایک لڑکی کی حیثیت معاشرے ، اس کے گھر والوں اور خود اس کے سامنے کیا رہ جائے گی؟  بہت سی لڑکیاں ہیں جو شادی سے پہلے طلاق ہوجانے کے بھیانک اور تلخ تجربے سے گزری ہیں۔

لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلے کے ساتھ اب دوسرا بڑا مسئلہ رخصتی سے قبل طلاق یافتہ ہونے والی لڑکیوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اس مرحلے کے بعد ان کے دوبارہ گھر بسنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔  ایسی لڑکیوں سے عموماً دوسری شادی کرنے والے مردوں کے ہی رشتے ملتے ہیں، یا پھر ان کے لیے بڑی عمر کے مردوں کے رشتے آتے ہیں۔ رخصتی ہونے سے پہلے طلاق یافتہ لڑکیوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے، جو ایک شادی شدہ طلاق یافتہ عورت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ انتہائی تگ و دوکے بعد جب ان کی شادی ہوتی ہے، تو مرد کے دل میں اول روز سے ہی یہ بات گھر کیے ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس سے پہلے بھی کسی کے نکاح میں رہ چکی ہے۔ اس لیے زندگی میں مسئلے مسائل پیدا ہونے کا احتمال زیادہ رہتا ہے۔

نکاح کا بندھن بہت پاکیزہ ہے، ہم یہاں خدانخواستہ اس پر کوئی کلام نہیں کر رہے، بس کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ نکاح کو منگنی سے متصادم سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ منگنی ایک نہایت ضروری رسم ہے، جو نکاح کرنے تک کے سال چھے ماہ کا وقت دے دیتی ہے، جس میں دونوں خاندان اور لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے حوالے سے اپنا ذہن مزید واضح کر لیتے ہیں۔ منگنی کے بعد اگر دلوں میں فرق آتا ہے تو  یہ موقع ضرور افسوس ناک اور تلخ ہوتا ہے، لیکن یقین مانیے یہ طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے بہت بہتر رہتا ہے۔

 

The post ہماری ہر رسم ہی بری نہیں ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

منی مرگ کو جنت نظیر کہہ دینے سے بھی اِس کے حسن کا حق ادا نہیں ہوتا

$
0
0

(قسط نمبر9)

گلگت  بلتستان جانے والے خواہ گلگت کے رستے جائیں یا سکردو سے ہوکر،اُنہیں دیوسائی ضرور جانا چاہیئے تاکہ وہ زندگی کے ایک حیرت انگیز تجربہ سے آشنا سکیں۔بلاشبہ گلگت  بلتستان کی دیگر وادیاں بھی خوبصورت ہیں اور نوے فیصد سیاح گلگت  پہنچنے کے بعد ہنزہ کی طرف نکلتے ہیں اور خنجراب پاس تک جا کر واپس آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے گلگت  بلتستان میں سب کچھ دیکھ لیا، حالانکہ اس طرح کے سفر میں چار پانچ دن میں وہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے باوجود دس فیصد علاقہ بھی پوری طرح نہیں دیکھ پاتے۔

بھلا ہو مستنصر حسین تارڑ صاحب کا جنہوں نے گلگت  بلتستان اور چترال کے ہر قابل ذکر مقام کی نہ صرف سیر کی بلکہ ایسے منفرد افسانوی سفر نامے تحریر کئے کہ ان علاقوں اور جگہوں کی شہرت اُردو زبان سمجھنے، بولنے اور پڑھنے والے اُن تمام لوگوں تک پہنچ گئی جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

دیوسائی دیکھنا، وہاں کی جنگلی حیات اور رنگ برنگے پھولوںسے لطف اندوز ہونے جیسے حیرت انگیز تجربے سے واپسی ہو یا کسی اور سفر سے گھر آنا ہو واپسی کا سفر سہل ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں گذر جاتا ہے۔ بڑا پانی سے چلم پہنچنے میں ہمیں نسبتاً کم وقت لگا۔ یہاں سے ہم نے ایک اور حیرت انگیز جگہ منی مرگ جانا تھا۔ جو چلم سے پنتیس کلو میٹر کے فاصلے پر4200میٹر بلند درہ برُزل کے اُس پار واقع ایک ایسی وادی ہے جسے جنت نظیر کہنا شاید اس کی خوبصورتی کے لئے ایک خراج تحسین تو ہو سکتا ہے لیکن یہ لفظ اپنے اس مفہوم کا پورا احاطہ نہیں کر پاتا۔ لیکن ذرا ٹھہریئے! ابھی ہم چلم میں ہیں اور منی مرگ جانا چاہتے ہیں۔ چلم چوکی پر تعینات فوجی سپاہیوں اور اُن کے نگران صوبیدارصاحب نے ہمیں بلا وجہ ایک گھنٹہ روکے رکھا۔ منی مرگ اور اس کے گردو نواح کے دیہات کے مقامی باشندوں کو بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت ہے۔

ہم نے استور سے چلم کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ڈپٹی کمشنر استور عمر چٹھہ سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی تھی اور انہوں نے ہمیں منی مرگ جانے کا اجازت نامہ دیا تھا۔ جس کے حصول کی ضرورت کا تو ہمیں علم نہ تھا اور نہ ہی کسی نے بتایا تھا کہ چلم چوکی کا عملہ صرف ہم جیسے غیر مقامی سیاحوں کی گوشمالی کے لئے وہاں تعینات ہے۔ہم تو ڈپٹی کمشنر استور کے پاس منی مرگ کے کسی ریسٹ ہاؤس کی بکنگ کرانے گئے تھے۔ریسٹ ہاؤس تو خیر نہ مل سکا لیکن انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اپنے عملے سے فوری طور پر منی مرگ جانے کا پر مٹ پرنٹ کروایا اور اپنے دستخط ثبت کرکے ہمارے حوالے کردیا۔

ہماری سمجھ میں اُس وقت نہیں آرہا تھا کہ اس پرمٹ کی کیا ضرورت تھی۔ اور یہاں چلم چوکی کے عملے کی باتیں سُن کر تو اس پرمٹ کو پھاڑ ڈالنے کو جی چاہ رہا تھا۔ یہاں کے عملے نے پرمٹ دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی اور کہا کہ جب تک فورس کمانڈر ناردرن ایریاز گلگت کے دفتر کی طرف سے یا منی مرگ میں تعینات بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی جانب سے کلیئرنس نہیں ملے گی ۔ہم آگے نہیں جا سکتے۔

دوپہر کا کھانا بڑا پانی دیوسائی میں کھانے اور نماز ظہر شیوسر جھیل کے کنارے ادا کرنے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ہمیں منی مرگ پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے اور عصر کی نماز وہاں پڑھ سکیں گے لیکن۔۔ قربان جاؤںحضرت علی کرم اللہ وجہہ پہ جن کا قول ہے کہ’’ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے اللہ کو پہچانا‘‘ منی مرگ کو روشنی میں دیکھنا اور وہاں نماز عصر ادا کرنا اب محال تھا کیونکہ فوجی بھائیوں کی کج بحثی کے باعث عصر کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ میں نے چوکی کے نگران صوبیدار سے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ کا پوچھا تو انہوں نے کمال مہربانی سے گارڈ روم کے پیچھے بنے ہوئے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔ وضو کرکے نماز عصر ادا کی اور اللہ رب العزت سے آسانیاں فراہم کرنے کی دعا کی۔

یقیناًقبولیت کا وقت تھا کہ جونہی دعا سے فارغ ہوا وائر لیس پر چلم چوکی کے عملے کو ہدایت کی گئی کہ ریڈیو پاکستان گلگت کے عملے کو منی مرگ کی طرف مراجعت کرنے کی اجازت ہے۔ منی مرگ جانے والے راستے کو پگڈنڈی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کیونکہ سڑک تو کب کی ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔درآں حالیکہ اس کی تعمیر نو کو ابھی سال بھی پورا نہیں ہوپایا تھا۔ اس کی حالت زار ٹھیکہ دار اور محکمہ تعمیرات کے عملے کے گٹھ جوڑ کی داستان سنا رہی تھی۔ چلم سے سترہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بُرزل ٹاپ آیا۔ یہاں بھی پاک فوج کا ایک یونٹ تعینات ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے سطح سمندر سے 13500فٹ بلند بُرزل پاس، سرینگر سے گلگت اور سکردو کے درمیان سفر کرنے کا مختصر ترین راستہ ہے جو صدیوںسے مقامی آبادیوں ،یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے تاجروں اور خانہ بدوش چرواہوںکے استعمال میں رہا۔اس راستے پر لوگ  پیدل ،خچروں، گدھوں اور گھوڑوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔1840ء میں راجہ گوہر امان کے ہاتھوں گلگت کا والی راجہ سکندر خان قتل ہوا جس کا چھوٹا بھائی کریم خان گور کا حاکم تھا۔ اپنے بھائی کے قتل کی اطلاع ملتے ہی کریم خان سرینگر چلا گیا اور وہاں کے حکمران سکھوں سے راجہ گوہر امان کے خلاف لڑنے کے لئے مدد مانگی جو سکھوں نے بخوشی مہیا کردی۔

ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل سکھ فوج کرنل نتھے شاہ کی سرکردگی میں گلگت پہنچی تو خالصہ فوج اور راجہ گوہر امان کی فوج کے درمیان بسین کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں سکھ فوج کا پلہ بھاری رہا اور راجہ گوہر امان واپس وادی یاسین چلا گیا۔گلگت کا انتظام کریم خان کے سپرد کردیا گیا تھا لیکن سکھ فوج کا ایک دستہ گلگت میں مقیم رہا۔کشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی حکومت قائم ہونے کے بعد کرنل نتھے شاہ کو دوبارہ ملازمت میں لے کر مہاراجہ نے گلگت بھیجا تاکہ اس پر قبضہ کیا جا سکے۔ڈوگرہ فوج نے استور اور گلگت میں تعینات سکھ دستے کو فارغ کردیا اور نتھے شاہ کی سربراہی میں گلگت میں ڈوگرہ راج قائم کردیا گیا۔ نتھے شاہ کے ساتھ آنے والی فوج نے برزل پاس کا راستہ استعمال کیا تھا۔

گلگت  بلتستان پر اپنا حق جتاتا ہے۔ جبکہ گلگت  بلتستان کے باشندوں نے 1947ء میںڈوگرہ فوج اور مہاراجہ کشمیر کے قبضے کے خلاف مجتمع ہو کر جنگ آزادی لڑی اور کامیاب ہوئے۔اس اعتبار سے گلگت  بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ نتھی رکھنے کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت، یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ گلگت  بلتستان کو آئینی طور پر پاکستان میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ بہرحال اس وقت حکومت پاکستان ،گلگت  بلتستان کوآئینی حیثیت دینے کی مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ گلگت  بلتستان کے عوام کسی بھی قیمت پر اپنی قسمت کو کشمیر کے ساتھ وابستہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

خیر اس جملہ معترضہ کے بعد دوبارہ بُرزل ٹاپ جسے بُرزل پاس بھی کہا جاتا ہے، کا ذکر، جہاں سڑک کے کنارے 2002ء میں گر کر تباہ ہونے والے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کا ملبہ پڑا تھا۔ یہ بات بہرحال ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ تیرہ برس گذرنے کے باوجود اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ یہاں سے کیوں نہیں اُٹھوایا جارہا؟ بُرزل ٹاپ پر سخت سردی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔چیک پوسٹ پر حاضری بھرنے کے بعد آگے جانے کا اذن ملا تو ڈھلان کا سفر شروع ہوا۔سڑک کی حالت تو پہلے سے بھی گئی گذری تھی۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ اس علاقے میں سال کے آٹھ مہینے برف پڑی رہتی ہے اس لئے سڑک سے برف ہٹانے بنانے کاکام بلڈوزر کرتے ہیں۔

ان بلڈوزروں کی زنجیر سڑک کو زخمی کر دیتی ہے اور تارکول اُدھڑ جاتا ہے۔بُرزل ٹاپ سے منی مرگ تک ساڑھے تین چار ہزار فٹ کی ڈھلان ہے۔فاصلہ کم ہونے کے باعث اس ڈھلان سے اُترنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔بالوں میں لگائی جانے والی پن جیسے درجنوں موڑ مڑنے پڑتے ہیں اور اٹھارہ کلو میٹر کے فاصلے کو انتہائی احتیاط سے طے کرنا پڑتا ہے۔منی مرگ پہنچے تو عشاء کا وقت ہو چلا تھا اور ساری بستی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔تمام دکانیں بند، ہوٹل ندارد، ضلعی انتظامیہ کے ریسٹ ہاؤس کی بکنگ ہو نہ سکی تھی۔اب جائیں تو کہاں جائیں؟

ہم لوگ بھی تو ایک دو نہیں بلکہ پورے تیرہ تھے۔ لے دے کے ہمارے پاس محکمہ جنگلات گلگت کے دفتر سے جاری شدہ ایک خط تھا جس میں مقامی فارسٹر سے کہا گیا تھا کہ وہ ریڈیوپاکستان گلگت کی ٹیم کے ساتھ ممکنہ تعاون کریں۔اب مسئلہ یہ تھا کہ اس اندھیرے میں اور مقامی لوگوں کی عدم موجودی میں محکمہ جنگلات کے دفتر کا سراغ کیسے لگایا جائے؟بجلی نہ ہونے کے باعث ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔یہ اور بات ہے کہ فوجی تنصیبات، سی ایم ایچ اور میس میں روشنی تھی۔ لیکن ہم وہاں جانے کا اذن نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے ساتھ جتنے بھی لوگ تھے وہ بھی ہماری طرح پہلی بار منی مرگ آئے تھے۔ گھپ اندھیرے میںآبادی کا حدود اربع معلوم نہیں ہو رہا تھا۔مقامی باشندوں میں سے کوئی بھی فرد سڑک پر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کیونکہ منی مرگ جیسے پہاڑی علاقوں میں عصر کے بعد دکانیں بند ہوجاتی ہیں اور لوگ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

سخت پریشانی کا عالم تھا کیونکہ واپسی کا راستہ بھی نہیں لیا جا سکتا تھا۔میں نے پھر دل ہی دل میں اللہ رب العزت سے دعا کی کہ آسانیاں عطا فرما۔ساتھ میں آیت کریمہ کا ورد کرتا رہا۔ بھوک، تھکن اور جھنجلاہٹ کی وجہ سے سب لوگ خاموش تھے۔ چلتے چلتے ایک چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے بورڈ پر گاڑی کی ہیڈ لائٹ میںنظر پڑی۔تو اُس پر محکمہ جنگلات کا مونو گرام دیکھ گاڑی کا رُخ اُس کی طرف کر دیا۔وہاں خوش قسمتی سے اس وقت بھی فارسٹرصاحب موجود تھے۔ انہوں نے اپنے کنزرویٹر کا خط پڑھا۔ تو اُ ن کے چہرے کے تاثرات کچھ نرم ہوئے۔انہوں نے مجھے اندر آنے اور بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تو میں اندر آگیا۔ اب اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا۔کہ میرے ساتھ بارہ دیگر افراد بھی ہیں۔

بہرحال خیمے میں اونٹ کے آنے کی دیر تھی کہ دونوں کمرے بھر گئے۔پھر میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں ہم اپنے بسترے اور کھانا ساتھ لے کر آئے ہیں۔ صرف سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔چولہا اور گیس کا سلنڈر بھی ہمارے پاس تھا۔ اب کھانا پکانے اور تیار ہونے کا مرحلہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوئے دو برس ہوچکے ہیں۔ لیکن اب تک اس میں پانی کا انتظام نہیں ہو سکا۔

فارسٹر صاحب کے پاس اپنے عملے کے چار افراد موجود تھے۔ انہوں نے دو جوانوں کو بالٹیاں دے کر پانی کے لئے دوڑایا۔چونکہ ہمیں روٹیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے چلم میں تلخ تجربہ ہوچکا تھا اس لئے ہم نے چلم ہی سے چاول اور متعلقہ مصالحے خرید لئے تھے کہ منی مرگ میں روٹیوں کا جھنجھٹ نہ ہو۔ گلگت میں ذبح کئے ہوئے بکرے کا گوشت ابھی ہمارے پاس موجود تھا۔اب منی مرگ کا فارسٹ ریسٹ ہاؤس تھاا ورپلاؤ پکانے کی مہم، جس میں تیرہ کے تیرہ افراد شریک تھے کیونکہ بھوک سے سب کے پیٹ میں چوھے دوڑ رہے تھے۔ پلاؤ پکنے میں ابھی دیر تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ منی مرگ کی ساڑھے نو ہزار فٹ کی بلندی میں جواں سال بکرے کے گوشت اور چاولوں کو گلانا ایک بڑی مہم سے کم نہ تھا۔

موسم بہت سرد تھا اور سردی میں بھوک بھی زیادہ لگتی ہے ۔اس حقیقت کے پیش نظر  بھوک سے بیتاب لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے چائے تیار کی گئی اور بسکٹوں کے ساتھ پیش کی گئی۔ کھانا تیار ہو ا تو چائے اور بسکٹوں والے واقعے کو ڈیڑھ گھنٹہ گذرچکا تھا۔اور رات کے گیارہ بجنے کے قریب تھے۔سب پلاؤ پہ ٹوٹ پڑے اور بقول جوش ملیح آبادی کھاتے کھاتے ٹکڑے اُڑا دیئے۔پیٹ کی آگ سرد ہوئی تو نماز عشاء ادا کرنے کی فکر کی گئی۔ اور پھر وہی معمول کہ یہ عاجز سو گیا اور یار لوگ گانے بجانے میں مشغول ہوگئے۔صبح حسب معمول میں اپنی عادت کے مطابق فجر کے لئے اُٹھا۔

نماز ادا کی اور دیگر معمولات سے فارغ ہونے کے بعد ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلا تو سورج کی روپہلی کرنیں منی مرگ کے پہاڑوں ، میدانوں، چراگاہوںاور جنگلوں پر اپنی روشنی پھیلا رہی تھیں۔فضا پر ایک سکون آمیز سکوت طاری تھا۔دور ایک پہاڑی ڈھلان پر گوجروں کے خیمے نصب تھے جن سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر چہل قدمی کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کی طرف لوٹا اور سوتوں کو جگانے کی کوشش کی کیونکہ آج ہمیں گلگت پہنچنے کا طویل سفر در پیش تھا۔کچھ پروگرام بھی ریکارڈ کرنے تھے۔اس لئے سب کو جگایا اور ڈاکٹر شیردل خان پروڈیوسر کو ساتھ لے کر منی مرگ کے اکلوتے بازار کی طرف نکلا تاکہ ناشتے کے لئے نان، پراٹھے یا جو کچھ میسر ہو خریدا جا سکے۔

بازار کیا تھا چند بے ترتیب دکانیں تھیں۔ جن کے سامنے والے میدان میں فوجی گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ خچر بھی بندھے ہوئے تھے۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ گھوڑے تو پولو کھیلنے کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ خچر بار برداری کے کام آتے ہیں۔ یہ خچر دوردراز کی فوجی چوکیوں پر سامان رسد کی ترسیل کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔دکانوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور استعمال کی معمولی چیزیں رکھی تھیں۔وہاں ایک ہوٹل سے پراٹھے پکوائے کیونکہ ناشتے کے لئے یہی دستیاب تھے۔اس ہوٹل میں چائے اور کھانا بھی ملتا تھا۔ ناشتہ کرنے والوں میں ایک نوجوان ندیم بھی تھا جو مقامی ٹھیکیدار تھا اور پی ٹی آئی کا سرگرم کارکن، وہ حال ہی میں منعقد ہونے والے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے

انتخابات میں استور کے اسی حلقے سے اُمیدوار بھی تھا۔اور ایک آزاد اُمیدوار سے شکست کھا چکا تھا۔ گلگت  بلتستان کی سیاست میں متحرک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر شیر دل خان اُسے جانتا تھا۔میں نے مقامی حالات کے حوالے سے اُس کا انٹرویو لیا۔اسی بازار میں فاروق نامی ایک بکروال بھی موجود تھا۔ جوہر سال بھیڑ بکریوں کے ایک بڑے ریوڑ کے ہمراہ راولپنڈی سے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوںمظفر آباد، کنڈل شاہی، اٹھمقام،نیلم، کیل اورتاؤبٹ کے جنگلات، وادیوں اور چرا گاہوں سے ہوتا ہوا منی مرگ کی چراہ گاہوں تک آتا اورسردیوں کے آغاز پر اسی راستے سے واپس جاتا ہے۔خانہ بدوش چرواہوں کی زندگی کے رنگ ڈھنگ شہروں میں آباد لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے لیکن بہرحال یہ چرواہے بھی گھر بار رکھتے ہیں شادیاں کرتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔رزق کے وسیلے کے طور پر بھیڑ بکریاں پالتے اور انہیں بدلتے موسموں کی مناسبت سے اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

اپنی زندگی اور طرز حیات سے مطمئن فاروق کی دلچسپ گفتگو سے پتہ چلتا تھا کہ ان اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر اپنی زندگی کے ماہ وسال گذارتے ہوئے بھی اُسے جدید دور کے تمام تقاضوں سے پوری طرح آگاہی ہے۔اُس کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر قائم تمام پاکستانی اور بھارتی فوجی چوکیوں میں تعینات افسر اور جوان چرواہوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ خانہ بدوش چرواہوں سے تعرض نہیں کرتے۔سینکڑوں بھیڑ بکریوں پر مشتمل ریوڑ کی دیکھ بھال کے لئے گھر والوں کے ہمراہ کتے بھی ہوتے ہیں جو جنگلی جانوروں سے ریوڑ کو محفوظ رکھتے اور بھیڑ بکریوں کو ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچاتے ہیں۔جتنی دیر میں پنتیس پراٹھے تیار ہوئے ۔میں دو انٹرویو کر چکا تھا۔مقامی باشندوں کی مشکلات بھری زندگی دیکھ کر ہر لمحہ رب العزت کا شکر ادا کرنے کی تحریک ملتی تھی۔جنہیں معمولی بیماریوں کے لئے بھی نہ تو ڈاکٹر کی سہولت میسر ہے ا ور نہ پوری ضروریات زندگی دستیاب ہیں۔

جس طرح سے منی مرگ کے سکولوں میں اساتذہ نام کی مخلوق عنقا تھی اسی طرح سے ڈسپنسریوں اور دیہی طبی مراکز صحت میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ بھی موجود نہ تھا۔لے دے کے ایک فوجی ہسپتال ہے۔ جس میں متعین ڈاکٹر مقامی آبادی کی طبی ضروریات پوری کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ کسی سنگین بیماری یا حادثے کی صورت میں مریضوں کو فوجی ہیلی کاپٹر میں استور یا گلگت کے ہسپتالوں تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے فوج اور منی مرگ اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں کی آبادی کا باہمی تعاون مثالی ہے۔

ریسٹ ہاؤ س لوٹ کر ناشتہ تیار کرایا اور گلگت روانگی کے لئے کمر باندھی۔اُس وقت تک دن خاصا چڑھ چکا تھا لیکن منی مرگ بازار میں کھانے پینے کی چند دکانوں کے علاوہ سارا بازار بند تھا۔ اور پورے ماحول پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔منی مرگ اور اس کے گردونواح کے جنگل طبی جڑی بوٹیوں کی پیداوار کے لئے معروف ہیں۔یہاں کے پہاڑوں اور وادیوں میں میلوں پر پھیلے جنگلات کی دیکھ بھال کے لئے محکمہ جنگلات نے ایک فارسٹرکو تعینات کر رکھا ہے۔اور کوئی عملہ نہیں ہے۔ چھ مقامی افرادکو عارضی طور پر فارسٹ گارڈ کے طور پرملازمت دی گئی ہے جنہیں پانچ ہزار روپے فی کس تنخواہ ملتی ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے کم سے کم اجرت تیرہ ہزار روپے ماہوار (2015)مقرر کی جا چکی ہے۔ لیکن شاید محکمہ جنگلات گلگت  بلتستان کے حکام اس حکم سے لاعلم ہیں۔اور اگر یہ اُن کے علم میں ہے اور یقینناً ہے۔ تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

منی مرگ میں لڑکیوں کے لئے مڈل تک اور لڑکوں کے لئے میٹرک تک سرکاری سکول کی سہولت موجود تو ہے لیکن اساتذہ کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ کیونکہ منی مرگ سے باہر کا کوئی بھی استاد یہاں آکر پڑھانے کا کشٹ نہیں اُٹھاتا۔جیسے تیسے کرکے میٹرک کرنے والے بچوں کے والدین اگر انہیں آگے پڑھانا چاہیں تو اُن کے لئے سوائے اس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو استور یا گلگت بھیجیں جہاں تعلیم اور نجی طور پر ہوسٹلوں میں رہنے کے کمر توڑ اخراجات والدین کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر منی مرگ، قمری اور گردونواح کے علاقوں سے استور اور گلگت منتقل ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منی مرگ سمٹا سکڑا ہوا قصبہ لگتا ہے جسے کسی آسیب نے گھیر رکھا ہو۔گلگت اوردیگر کئی شہروں میں ہو ٹلوں،ریسٹورنٹوں اور تنور وں پر کام کرنے والوں کی اکثریت منی مرگ اور یہاں کی دیگر بستیوں رتھک، مپنوں آباد، پُشواڑی، گھشاٹ، قمری، بنگلہ بند، زیان، دودگئی، نگئی، دومیل، کلشئی اور ٹٹویل سے تعلق رکھتی ہے۔

بھاری تعداد میں نوجوانوں کی نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔لوگ کریں تو کیا کریں؟منی مرگ کے فارسٹ ریسٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد جب ہم روانہ ہونے لگے تو راستے میں چند نوجوانوں کو ایک دکان سے باہر برآمدے میں کھڑے دیکھا۔میں نے گاڑی رکوالی اور اُن سے بات چیت کرنے کے لئے اُتر گیا۔اُن کی آنکھوں میں جو حسرتیں،تمنائیں،آرزوئیںاور ناآسودہ خواہشیں منجمد تھیں۔دنیا کا کوئی کیمرہ اُن کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتا۔اگرچہ منی مرگ لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع ہے لیکن وہاںبنیادی ضروریات بہم پہنچانے سے حکومت کو کس نے روکا ہے؟

اگر وہاں خود رو جڑی بوٹیوں کی شناخت،چھان پھٹک اور اُن سے ادویات تیار کرنے کے دو تین کارخانے لگا دیئے جائیں تو نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں گے بلکہ کروڑوں روپے کی جو جڑی بوٹیاں ہر سال یہاں کے جنگلات سے چوری چھپے اکھاڑ کر راولپنڈی،لاہوراور دیگر بڑے شہروں میں فروخت کے لئے لائی جاتی ہیں اُن سے ادویات تیار کرکے اور اُن کی صنعتی بنیادوں پر کاشت بڑھا کر ایک انقلاب بپا کیا جا سکتا ہے۔جس فارسٹ ریسٹ ہاؤس میں ہم ایک رات کے لئے ٹھہرے تھے۔اُس کا ایک کمرہ ضبط شدہ جڑی بوٹیوں سے اٹا ہوا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد یہ جڑی بوٹیاں پڑے  پڑے مٹی ہو جائیں گی یا سوکھ کر دیمک کی نظر ہو جائیں گی۔

ایک فارسٹر اور پانچ جزوقتی فارسٹ گارڈز ایک وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلے ہوئے سبزہ زاروں، جنگلات،چراگاہوں اور چشموں، آبشاروں،نالوں اور دریاؤں کے کنارے اُگنے والی خود رو جڑی بوٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ یہاں پیدا ہونے والی چند جڑی بوٹیوںکے نام یہ ہیں۔اتیس ،اسپغول،اسپند ،افسنتین ،السی،بادر نجبویہ ،باقلہ، بچھو بوٹی،اجوائن خراسانی،تالیس پتر،ترنبہ تلخ، ترنبہ شیریں، تلسی، خارسگ،خشخاش،ریشہ خطمی،ریوند چینی،زخم حیات،زیرہ سیاہ، سورنجان تلخ،ثعلب مصری،طلسمی بوٹی،کاسنی،کٹھ، گاؤزبان، میتھی، ناگر موتھااور ہینگ،کسی پنساری کے پاس جائیں تو ان بوٹیوں کے دس گرام وزن کی قیمت بیس پچیس روپے سے پانچ سو روپے تک طلب کر لیتے ہیں۔یہاں سے منوں کے حساب سے یہ بوٹیاں ہر سال لے جائی جاتی ہیں۔اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

اس پورے علاقے کی آبادی کم و بیش آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔اس علاقے کا واحد رابطہ بُرزل پاس کے ذریعے پاکستان کے دیگر علاقوں سے قائم ہے۔پوری وادی اور بُرزل پاس کا راستہ اکتوبر سے اپریل تک تقریباً بند ہی رہتا ہے کیونکہ یہاںپڑنے والی برف کی وجہ سے آمدورفت ممکن نہیں رہتی۔یوں اس علاقے کے مکینوں کو سات ماہ تک یہیں اپنے گھروں تک محدودرہنا پڑتا ہے۔مظفر آباد کو گلگت سے ملانے کے منصوبے کئی بار بنائے گئے لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کی نوبت تا حال نہیں آسکی ہے۔اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان علاقوں کی قسمت بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ بُرزل پاس کے دونوں طرف سڑک کو بہتر کئے بغیر گلگت مظفرآباد شاہراہ کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔انٹرویو دینے والے ایک شہری نے بتا یا کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک اعلی افسر کی اہلیہ نے دورہ کیا تھا۔اس دورے کو یادگار بنانے کے لئے بیگم صاحبہ ایک دستکاری سکول کا افتتاح کرنا چاہتی تھیں۔

اُن کی اس خواہش کے پیش نظر مقامی حکام نے ایک سرکاری مڈل سکول کی عمارت اپنی تحویل میں لی۔(اس سکول میں ڈھائی سو طلبہ زیر تعلیم تھے) سکول میں تعینات ہیڈماسٹر کو بیک جنبش دو بینی وہاں سے چلتا کیااور راتوں رات دستکاری سکول بنا کر کچھ سلائی مشینیں رکھ دی گئیں اور محترمہ سے فیتہ کٹوا کر دورے کو یادگار بنا دیا گیا۔اب یہ ڈھائی سو بچے جن میں سے اکثریت کے پاس موسم کی شدت کی مناسبت سے پہننے کے پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے۔اور بعض بچوں کے پاؤں جوتوں سے محروم ہوتے ہیں۔

کھلے آسمان تلے بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ کئے جا رہے ہیں۔نو ساڑھے نو ہزار فٹ بلند قصبہ منی مرگ، جہاں گرمیوں کے موسم میں بھی سردی رہتی ہے وہاں قوم کے معمار کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔کیا ان بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ منی مرگ میں اپنے والدین کے ہاں اس دنیا میں آئے۔ وہ اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے۔وہ عوام کے اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ایک وقت کھانا میسر آتا ہے تو دوسرے وقت کا معلوم نہیں ہوتا کہ کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔

خوبصورت ترین علاقہ ،جہاں روزگار کے مواقع نہیں ہیں جہاں صبح سے شام کرنا اور پھر شام سے صبح کرنا ایک بڑی مہم سے کم نہیں۔وہاںاپنے سکول کی چھت سے محروم یہ بچے بڑے ہوکر کیا بنیں گے اور کیا سوچیں گے۔یہ سوال سکول کی عمارت خالی کرانے والوں کے لئے چھوڑتا ہوں۔گلگت پہنچنے کے بعد میں نے اپنے پروڈیوسرز کے ذریعے سکریٹری جنگلات اور تعلیم کو منی مرگ میں صورت حال بتائی اور اُن کے موقف ریکارڈ کرکے نشر کئے۔

(جاری ہے)

The post منی مرگ کو جنت نظیر کہہ دینے سے بھی اِس کے حسن کا حق ادا نہیں ہوتا appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر68

میں اور بابا اسلام آباد جانے کے لیے ویگن کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑے تھے۔ فقیر کو تو علامتی طور پر پابند زنجیر کیا گیا تھا، ویسے تو آزاد تھا لیکن کلائیوں، پاؤں اور گلے میں ہار بنی آہنی زنجیر اور پھر پابرہنہ سیاہ پوش گیسو دراز فقیر کو دیکھ کر کچھ لوگ حیرت زدہ تھے۔ پھر ویگن آئی اور ہم سوار ہوئے تو مسافروں نے بھی اسی حیرت سے فقیر کو دیکھا۔ صبح کا وقت تھا ہمیں سیٹ مل گئی تھی پھر بابا نے کنڈیکٹر کو کرایہ دینا چاہا تو اس نے لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا: رہنے دو سرکار! بس دعا کرنا۔ بابا نے اسے شفقت سے دیکھا اور کہا: دعا تو ہم کرتے ہی ہیں بیٹا! لیکن تم اپنا کرایہ لو۔ لیکن وہ بہ ضد تھا کہ بابا نے اسے کہا: تو چلو اگر تم کرایہ نہیں لے رہے تو ہمیں یہیں اتار دو۔ یہ سنتے ہی ڈرائیور نے اسے کرایہ لینے کا کہا۔ تھوڑی دیر بعد بابا نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ ہماری بات کا بُرا مت ماننا بیٹا! آپ اچھے انسان ہو، جبھی تو حسّاس ہو ناں کہ ہمیں مفلس سمجھتے ہوئے اپنے حق سے دست بردار ہوئے، رب تعالٰی تمہاری روزی میں برکت دے، دیکھو! ہم بھی مزدور ہیں جی، رب تعالٰی نے ہمیں بھی دینے لائق کیا ہے تو کیسے تمہارا حق مار لیں، ہمارے پاس زادراہ ہے تو تم لوگ پریشان مت ہونا۔ ہماری گفت گو سب نے سنی تھی اور خاموشی سے۔ راول پنڈی آیا تو ہم ایک ہوٹل میں جا بیٹھے، وہاں بھی فقیر ایک عجوبہ بنا رہا۔ ہم نے چائے پی اور اسلام آباد روانہ ہوئے۔

کشادہ شاہ راہ کی وہی گلی تھی جہاں میں اور بابا پہلے آچکے تھے۔ وہی وسیع حویلی جس کے درودیوار سے امارت ٹپک رہی تھی۔ فقیر اکثر سوچتا ہے کہ کتنے بھلے لوگ ہیں ناں کہ جہاں بس چند ساعت رہنا ہے اس جگہ کو کتنا خوب صورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اچھا کرتے ہیں انسان کو نفیس ہونا ہی چاہیے لیکن ذرا اپنے بھیتر بھی تو جھانکنا چاہیے ناں!بس چند گھڑیاں یہاں بسیرا کرنا ہے، اور کہتے ہیں کبھی آئیے ناں ہماری قیام گاہ پر! قیام گاہ ۔۔۔۔؟ اچھا جی تو یہ ہے قیام گاہ۔۔۔۔؟ واقعی! چلیے ہوگی جی ہوگی فقیر کو تو بس چلتے جانا ہے تو بابا نے صدر دروازے پر نصب گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کیا، چند ساعت بعد وہی ملازم ہمارے سامنے تھا، اس نے بابا سے بہت احترام سے ہاتھ ملایا اور کچھ کہے بنا ہی گھر پلٹ گیا، واپسی میں گھر کے مالک و مالکن دونوں اس کے ساتھ تھے، انہوں نے بابا کو دیکھتے ہی سر جھکا کر سلام کیا اور ہمیں اندر آنے کی دعوت دی، گداز صوفے پر بیٹھنے تک وہ دونوں کھڑے رہے۔

میں بابا کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تو وہ بھی ہمارے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے اور بابا سے ان کی خیریت معلوم کی، پھر انہوں نے میری جانب دیکھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتے بابا نے انہیں کہا: پریشان مت ہوں آپ، یہ میرا پگلا بچہ بولتا بہت ہے ناں اورکبھی اپنی بات پر بھی اڑ جاتا ہے پگلا، تو اسے ذرا سیدھا کرنے کے لیے پابند زنجیر کیا ہے، لیکن بہت پیار سے کیا ہے جی، کچھ اثر تو ہوا ہے اس پر آگے بھی رب تعالٰی اچھا کرے گا۔ وہ دونوں بابا کی باتیں حیرت سے سن اور فقیر کو دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے بتایا: آپ کی آمد ہمارے لیے بہت باعث برکت رہی، آپ کی دعاؤں سے ہماری بیٹی بالکل تن درست ہوگئی اور اپنے معمولات میں لگ گئی ہے، پہلے کی طرح ہنستی بولتی ہے، ہمیں تو آپ کا گھر معلوم نہیں تھا ورنہ تو ہم کب کے آپ کے پاس چلے آتے، اچھا کیا آپ تشریف لائے، بس اب دعا کیجیے کہ کوئی اچھا بَر مل جائے تو بیٹی کو بیاہ دیں۔

بابا نے ان کی باتیں غور سے سنیں، مسکرائے اور کہا: اجی! ہم فقیروں کا کوئی گھر ہوتا تب تو آپ آتے بھی ناں، ہم تو خانہ بہ دوش فقیر ہیں، رب کی ساری دھرتی ہی ہمارا گھر ہے جی، ہماری بٹیا تن درست ہوگئی تو بس شُکر مالک کا، ہم سب اُسی کے ہیں، بس وہی ہمارا مالک و مختار ہے جی، بندگی یہ ہے کہ وہ جیسے کہے مانتے چلے جاؤ، اس کی رضا میں خوش دلی سے راضی رہو، وہ جو کہے تسلیم کرو۔ اس لیے کہ ہوگا تو بس وہی جو رب تعالٰی چاہیں گے تو پھر خوش خوش اس کی رضا میں راضی رہا جائے، اور وہ جو کہے تو بس تسلیم تسلیم پکارا جائے، یہی ہے ورد وظیفہ زندگی کا کہ تیری رضا اور میری تسلیم بس۔ آپ فرما رہے تھے کہ میں دعا کروں کہ ہماری بٹیا کو بہت اچھا بَر ملے تو عرض ہے کہ آپ کی دعا مستجاب ہوگئی، دیکھیے! رب تعالٰی آپ پر کتنا مہربان ہے جی کہ آپ کو کوئی زحمت بھی نہیں ہوئی ورنہ تو اچھا بَر تلاش کرنے کے لیے ماں باپ کتنے جتن کرتے ہیں، اپنے احباب و رشتے داروں کو کہتے ہیں کہ کوئی اچھا سا لڑکا ہو تو ہمیں بتائیے اور پھر یہ بھی کہ کوئی اچھا بَر مل جائے تو واہ جی واہ اور اگر مل جائے اور بیٹی کو اس کے ساتھ بیاہ دیا جائے اور بعد میں کھلے کہ اوہو یہ تو بہت بڑی غلطی ہوئی تو پھر سارا جیون آہ ہی آہ، آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو رب تعالٰی نے ہر زحمت سے بچایا اور اچھا بَر خود آپ کے گھر چلا آیا، آپ کو اس پر رب اعلیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے۔

وہ دونوں بابا کی باتیں بہت انہماک سے سُن رہے تھے لیکن خاموش تھے۔ یہ خاموشی بھی تو ایک اسرار ہی ہے ناں جی! بابا نے وقفے کے بعد پھر اپنی گفت گُو شروع کی: دیکھیے! یہ تو جیون بھر کا ساتھ ہوتا ہے، رب تعالٰی نے عورت مرد دونوں کو اپنا یہ فیصلہ کرنے میں آزاد رکھا ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کا فیصلہ مستقبل میں غلط ثابت ہو لیکن اس کی بھی تو کوئی ضمانت نہیں ہے ناں کہ والدین کا فیصلہ بالکل درست ہو، وہ بھی تو غلط ہوسکتا ہے، امکان تو دونوں جانب کے فیصلے میں ہوسکتا ہے جی، ہاں سوچ بچار ضرور کرنا چاہیے اور مشورہ بھی، لیکن اپنا مشورہ ان پر کسی بھی صورت مسلط نہیں کرنا چاہیے، دردمندی، ایثار، خُلوص اور شے ہے اور انا پرستی، خودغرضی اور رعونت یک سر دوسری، پہلی شرف انسانیت ہے اور دوسری ننگ، اب فقیر آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا بیٹا حنیف ہم آپ کو دان کرنا چاہتے ہیں، ہم نے اسے ان کے والدین سے لے کر پالا ہے، بالکل ماں کی طرح! بٹیا نے اسے دیکھا ہے اور وہ دونوں اک دوجے سنگ جیون بتانا بھی چاہتے ہیں، آپ حنیف سے مل لیجیے اور بٹیا کی رضا بھی اس سے معلوم کرلیجیے اور بسم اﷲ کیجیے، رب تعالٰی اس میں خیر و برکت دے گا، فقیر آپ کو رب تعالٰی پر یقین سے کہتا ہے کہ آپ اس رشتے سے نہال رہیں گے، حنیف آپ کا حقیقی بیٹے سے زیادہ خیال رکھے گا اور سعادت مند رہے گا۔

خاموشی کا یہ وقفہ ذرا سا طویل ہوگیا تھا، وہ دونوں سر جھکائے ہوئے تھے، میں انہیں دیکھ رہا تھا اور ان کی بات سننے کا مشتاق تھا لیکن خاموشی تھی بس، اتنے میں ملازم چائے اور لوازمات سے بھری ہوئی ٹرے لیے اندر داخل ہوا۔ اس تکلّف کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، بابا کی بات نے خاموشی کو توڑ دیا تھا۔ نہیں جی کوئی تکلف نہیں کیا ہے یہ تو عام سی بات ہے۔ ملازم نے بابا اور مجھے چائے کا کپ دیا۔ یہ بسکٹ بھی لیجیے ناں! خاتون خانہ کا اصرار بڑھا۔ چلیے آپ کی خوشی کی خاطر لیے لیتے ہیں، کہتے ہوئے بابا نے ایک بسکٹ اٹھایا۔ آپ خاموش مت رہیں جو کہنا چاہتے ہیں کہیں اور کھل کر کہیں، بابا نے انہیں مخاطب کیا۔ اب اس ماہ وش کے والد گویا ہوئے: دیکھیے! آپ کی آمد ہمارے لیے رحمت ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری کوئی اور اولاد نہیں ہے، بس ایک ہی بیٹی ہے ہماری، سوچنا پڑتا ہے، یہ سب کچھ جو آپ دیکھ رہے ہیں ایسے ہی نہیں بنا، میں نے زندگی میں بہت محنت کی ہے، آپ میری بات کا بُرا مت مانیے گا، ہم خاندانی لوگ ہیں، بہت سوچنا پڑتا ہے، آپ نے اپنے بیٹے کے لیے کہا ہے تو سچی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ کو جانتے ہیں نہ ہی آپ کے بیٹے کو، پھر آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کا کوئی گھر بھی نہیں ہے تو ایسے میں یہ فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ ؟

ہمیں تو کوئی خاندانی اور اعلٰی تعلیم یافتہ رشتہ درکار ہے، ہم آپ کو کسی آس میں نہیں رکھنا چاہتے، آپ کا گھر ہے جب چاہیں آئیے، لیکن رشتے کے لیے ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں۔ اس نے اپنی بات ختم کی تو بابا نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا: خاندانی تو ہر ایک ہوتا ہے جی، کوئی بنا خاندان کے کب ہوا ہے، ہاں یہ دوسری بات کہ انسان اپنے ہی خاندان کو اعلٰی و ارفع کہتا ہے، لیکن یہ دعویٰ ہے عبث، جو اچھا انسان ہو، چاہے کسی خاندان کا ہو تو بس وہ اچھا ہے۔ بابا خاموش ہوئے تو خاتون خانہ بولیں: جی ہے تو سچ لیکن دنیاداری کو بھی تو نبھانا پڑتا ہے۔ آپ سوچ لیجیے، حنیف سے مل لیجیے، بٹیا کی رضا معلوم کر لیجیے، ہم کسی اور دن چلے آئیں گے، بابا نے جواب دیا۔ مشکل ہے یہ ہمارے لیے، اس کے لیے آپ بالکل بھی زحمت مت کیجیے، اب وہ دونوں یک زبان تھے اور ذرا سا تلخ بھی۔

اچھا جی! تو اب جانا ہی ہوگا فقیر کو، بابا نے سر جھکائے ہوئے کہا اور پھر اچانک ان کا رنگ بدل گیا، اچھا تو آپ خاندانی ہیں جی! بہت محنت کی ہے آپ نے، ٹھیک ہے اب تو آپ نے آنے سے منع کردیا ہے تو جانے سے پہلے ایک کہانی آپ کو سنائے دیتے ہیں۔ وہ ایک گاؤں تھا جس میں ایک مزدور رہتا تھا اور ایک زمین دار کے پاس اس کے کھیتوں میں کام کرتا تھا، اس کے مویشی چراتا تھا بس ایسے ہی کام، ایسے کارآمد انسان کو بے درد دنیادار تحقیر سے کمّی پکارتے ہیں اور جیسا مزدوروں کا حال ہے جی اب تک، ان کی محنت پر کوئی جائز اجر نہیں دیتا، بس استحصال ہوتا رہتا ہے اور وہ نادار خاموشی سے سر جھکائے یہ سب ظلم و جبر سہتے رہتے ہیں، مفلسی ہے ان کا جیون تو، وہ بھی بس ایسا ہی مزدور تھا، خدا نے اسے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نواز دیا تو گزر بسر اور مشکل ہوگئی، لیکن ان تین بیٹوں میں سے ایک ذہین تھا اور مفلسی نے اسے چالاک بھی بنا ڈالا تھا۔

اب یہ ضروری نہیں کہ ہر ظالم سب کے لیے ہی بُرا ہو، کسی کے لیے وہ خیر بھی بن جاتا ہے جی، تو جس زمین دار کے پاس اس لڑکے کا باپ کام کرتا تھا، اس نے اس کے ذہین بیٹے کو اسکول میں داخل کرادیا اور اس کے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائے، کرنا خدا کہ وہ ذہین لڑکا آٹھویں پاس کرکے شہر آگیا اور ایک اور اچھے اور بھلے خدا ترس انسان نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا لیکن اسے تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی، اب وہ ذہین لڑکا اسکول جاتا اور واپسی میں اس کے گھر کے کام کردیا کرتا، سمے گزرتا چلا گیا، وہ تو کسی کے روکے رکتا نہیں اور پھر وہ دن بھی آیا جب اس ذہین لڑکے نے اپنی تعلیم مکمل کرلی، پھر ایک اور انسان سامنے آیا اور اس کی مدد سے وہ سرکاری ملازم ہوگیا اور ایسے محکمے میں جہاں رشوت کا بازار گرم تھا۔ بس اس کے بعد کہانی بدل گئی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ذہین لڑکا اپنے والدین اور دیگر بھائیوں اور اکلوتی بہن کا خیال رکھتا اور انہیں بھی آسانیاں فراہم کرتا، لیکن ہُوا بالکل اس کے الٹ، وہ دولت کمانے میں اتنا منہمک ہوا کہ اسے اور کسی کی کوئی پروا ہی نہیں رہی، یہ دولت بھی کیسا نشہ ہے ناں کہ ماں باپ مرگئے لیکن اسے خبر ہی نہ ہوئی اور جب ہوئی تو اس بات کو عرصہ گزر چکا تھا، اس نے خیال کیا کہ اچھا ہے کوئی اس سے سروکار ہی نہ رکھے، اپنے تلخ ماضی سے اکثر نادان لوگ فرار چاہتے ہیں ناں جی۔ پھر جس نے اسے ملازمت دلائی تھی اس نے اس سے اپنی بیٹی بیاہ دی اس لیے کہ وہ خود بھی تو اسی طرح سے دولت مند ہوا تھا ناں، سچ ہے کہ انسان کو اپنے جیسے ہی اچھے لگتے ہیں، تو بس زندگی گزرتی چلی گئی اور اسے کون روک سکا ہے جی۔

اس ذہین لیکن چالاک انسان نے سب سے اپنے رشتے ناتے ختم کرلیے اور اپنے جیسوں کو اپنا ہم نوا بنایا اور اسی کو اپنا خاندان سمجھا۔ انسان بھی کیسا عجیب ہے ناں کہ اگر اس کا ماضی تاب ناک ہو تو اسے سب کے سامنے دہراتا رہتا ہے، اس کا تذکرہ کرتا رہتا ہے، اس پر نازاں رہتا ہے اور اگر اس کا ماضی افلاس سے پُر ہو تو ہمیشہ اسے چُھپاتا ہے، کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کرتا اور اگر کبھی اسے وہ یاد آجائے تو اپنے آپ سے ہی الجھ جاتا ہے، لیکن اصیل وہ ہے جو اپنے ماضی اور حال کو یاد رکھے اپنے آپ میں رہے، اس سے سبق سیکھے، لیکن نہیں جی وہ تو بس کچھ سوچے سمجھے بنا ہی اڑتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے وہ ہمیشہ ہی بلند پرواز رہے گا، لیکن پھر ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب وہ کٹی پتنگ کی طرح آسمان سے ڈولتا ہوا زمین پر آکر نابود ہوجاتا ہے، ہاں تو فقیر آپ کو کہانی سنا رہا تھا جی تو پھر ایسا ہوا کہ اس ذہین آدمی کو بھی رب تعالٰی نے ایک بیٹی سے نواز دیا۔

جتن تو بہت کیے اس نے کہ اس کے ہاں بھی اولاد نرینہ ہو لیکن رب کے بھید تو رب ہی جانتا ہے جی، بس وہی۔ دھن دولت سے اس نے ایک حویلی کھڑی کرلی، کاروبار میں وہ دھنستا چلا گیا، روپے پیسے کی فراوانی بھی انسان کی ہر خواہش کو کبھی آسودہ نہیں کرسکتی، کر ہی نہیں سکتی، تو بس جی زندگی کے ایک موڑ پر جب انسان کے اعضاء بھی اس کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں اسے اپنی بیٹی کے لیے ایسے لڑکے کی تلاش ہوئی جو ان کا داماد ہونے کے ساتھ ان کا بیٹا بنے، ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے، لیکن ایسے آدمی کو بھی اپنے جیسے ہی پسند آتے ہیں ناں تو جی بس وہ اپنی خواہش کا اسیر ہوگیا، بیٹی سے پیار کا دعویٰ کرتا ہے وہ اور ہے مطلب پرست، بیٹی کی خواہش کے بہ جائے اسے اپنی خواہش جو معلوم نہیں پوری بھی ہو، نہ ہو لیکن اپنی اس بیٹی جسے وہ کہتا ہے کہ وہ میرا سب کچھ ہے، اسے اپنی بے ہودہ خواہش کی سولی پر مصلوب کردینا چاہتا ہے۔

نہ جانے اس کا کیا حشر ہوگا، ہوگا تو وہی جو رب نے لکھا ہے، فقیر دعا کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے بہ جائے رب تعالٰی کے احکامات پر عمل کرے، کسی کے حقوق غصب نہ کرے جیسا اس نے پہلے کیے ہیں، اسے عقل سلیم عطا ہو، اسے توفیق ملے کہ وہ اپنی پچھلی غلطیوں کو سدھار سکے، سب کے حقوق کو ادا کرے، اور مرنے سے پہلے اپنے گناہوں سے مکت ہوجائے، جانا تو ہے اصل ٹھکانے تو سرخ رو ہوکر جائے، فقیر تو بس دعا کرسکتا ہے جی۔ آپ نے بہت مہربانی فرمائی کہ فقیر کی کہانی سنی، اب پتا نہیں آپ کو کیوں سنائی، شاید آپ کے لیے اس میں کوئی بھلائی ہو۔ فقیر تو پکارتے رہتے ہیں جی! سب کا بھلا، سب کی خیر، سب شاد رہیں، آباد رہیں، دل دار رہیں۔

ہاں یہ جو آپ کے گھر کی چائے پی ہے یہ فقیر پر قرض ہے رب تعالٰی کی مہربانی سے ادا کردے گا، کہتے ہوئے بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ فقیر احمق کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر بابا نے انہیں یہ کہانی کیوں سنائی، اور کیا یہ ضروری ہے کہ فقیر کو سب کچھ سمجھ میں بھی آجائے لیکن فقیر اس ماہ وش کے والدین کے سفید پڑتے ہوئے چہروں کو دیکھ رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ چلتے پھرتے انسان نہ ہوں ، کسی میوزیم میں رکھا ہوا کوئی مجسمہ ہوں۔

dildargah62@gmail.com

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیر کی بیٹیاں۔۔۔جن کی آنکھوں میں خوف نہیں

$
0
0

’’مجھے جانے دو، میری دوسال کی بیٹی بھوکی ہوگی، مجھے اُسے دودھ پلانا ہے‘‘

رابعہ ایس ایچ اور کے سامنے باربار گڑگڑا کر یہ الفاظ دہرا رہی ہے، مرد قیدیوں سے بھرے کمرے میں اسیر اس ماں کو جواب ملتا ہے:

’’پریشان مت ہو، اگر تمھاری بچی مر گئی تو وہ اس کی لاش یہیں لے آئیں گے۔‘‘

مقبوضہ کشمیر میں یہ اور اس سے بھی خوف ناک مناظر روز ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔ بھارتی حکومت، فوج اور دیگر سرکاری اہل کاروں کے کشمیریوں پر ظلم اور سفاکی کہانی کے ساتھ سرزمین کشمیر پر عزم وہمت کی داستان بھی رقم ہورہی ہے، مردوں کے سخت ہاتھوں ہی سے نہیں عورتوں کی نرم انگلیوں سے بھی۔ کشمیر کی بیٹیاں خاموشی سے آنسو بہاکر ظلم نہیں سہہ رہیں، وہ اس ظلم کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے پوری جرأت کے ساتھ میدان میں ہیں، رابعہ کی طرح۔ جنھیں اپنے شیرخوار بچوں کی محبت دلیرانہ جدوجہد سے باز نہیں رکھ پارہی انھیں خوں خوار بھارتی سرکار کیا روک پائے گی۔

کشمیری خواتین کی ہمت اور بہادری کا قصہ چھیڑنے سے پہلے ان کے دُکھ درد کا بیان ہوجائے۔

انسانی المیے ہمیشہ سے ایک صنفی پہلو بھی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر جنگ اور تشدد سے متعلق المیے عورتوں اور بچوں پر قیامت گزرنے کا سانحہ بھی لیے ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی یہی ہورہا ہے۔ بھارتی فوج وادی کشمیر میں عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ کشمیر میں تعینات بھاری فوجیوں کو AFSPA کے کالے قانون کی چھترچھاؤں حاصل ہے، جس کی وجہ سے انھیں خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس قانون کے باعث کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے پر مامور بھارتی فوجیوں کے کسی ظلم پر عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کالے قانون کو بھارتی فوجی جن مظالم کے لیے استعمال کر رہے ہیں ان میں زنابالجبر سرفہرست ہے۔ 23 فروری 1991 کو کشمیری دیہات کونان اور پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے بڑی تعداد میں خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ متاثرین پچیس سال تک اس درندگی پر احتجاج اور عدالتی شنوانی کی جدوجہد کرتے رہے، لیکن ’’مہان بھارت ماتا‘‘ آنکھیں اور کان بند کیے رہی۔ آخر 2017 میں عدالت نے اس معاملے کو سماعت کے قابل قرار دیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جنسی زیادتی کشمیری خواتین کی الم ناک زندگی کا خوف ناک ترین، مگر صرف ایک پہلو ہے۔ دیگر عوامل بھی ان کے روزوشب کو کرب ناک بنائے ہوئے ہیں۔

کشمیر بنا کسی مرد کے زندگی کرتی خواتین سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جنھیں ’’نصف بیوہ‘‘ کہا جاتا ہے، کہ ان کے شوہر عرصے سے لاپتا ہیں۔ یہ عورتیں اپنے گھرانوں کی واحد کفیل ہیں۔ وادی میں تین ماہ سے نافذ کرفیو ان عورتوں کی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہورہا ہے۔ نہ وہ اپنی تیار کردہ اشیاء بیچنے بازار جاسکتی ہیں نہ ہی گاہک ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مورخ اور مصنف اُرواشی بٹالیہ اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ ہندوتوا کی علم بردار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اقدامات کے باعث بہ طور ردعمل جموں وکشمیر میں اسلامی شدت پسندی جنم لے گی جس کے اثرات عورتوں پر مرتب ہوں گے۔

مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی خواتین آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔ ’’آزادی کی تحریک میں ہم اپنے مَردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ آزادی کے حصول تک ہم نہیں رُکیں گی۔‘‘ ایک سترہ سالہ لڑکی کے یہ الفاظ محض لفظ نہیں، یہ جذبہ کشمیری عورتوں کے عمل میں بول رہا ہے۔ وہ مزاحمت کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں خواتین فعال کردار ادا کرتی آئی ہیں، لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے خلاف جنم لینے والی مزاحمت میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔ وہ مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، جلوسوں میں تعداد کے اعتبار سے ان کی شرکت بڑی واضح ہوتی ہے، یہی نہیں وہ جموں وکشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے کے لیے سرگرم عسکری تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔

اس سال 5 اگست کو جب مودی سرکار نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ریاست کی خودمختار آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا تو کشمیری سرتاپا احتجاج بن گئے۔ اس ظلم اور ریاستی بددیانتی کے خلاف عورتوں نے بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر آکر احتجاج کیا۔

ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ’’ٹی آر ٹی ورلڈ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی آر ٹی کے نمائندوں نے کچھ دنوں قبل سری نگر میں چند خاتون مظاہرین سے ملاقات اور گفتگو کی۔ یہ گفتگو کشمیر کی بیٹیوں کے عزم کی عکاس ہے۔ سری نگر کے علاقے سورا کی باسی مہ جبیں نے کہا،’’اب جب کہ میں ایک جلوس میں شامل ہوں ہماری آزادی کے سوا میں کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہمارے جذبات عروج پر ہیں۔ ہم مشکل ہی سے پیلیٹ گن یا گولی کی فکر کرتے ہیں۔‘‘

جیسے جلوس میں مہ جبیں شریک تھیں ایسا ہی ایک احتجاجی جلوس 5 اگست کو بھی ایک گاؤں فضل پورہ اور باندی پورہ سے نکالا گیا تھا، جس میں خواتین شرکاء نے نمایاں تعداد میں شرکت کی تھی۔ جلوس نکالنے اور احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس نے سری نگر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر متعدد مردوں اور ایک خاتون کو گرفتار کر لیا تھا۔ سری نگر کے علاقے سورا میں لوگوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے اور سڑک کھود کر پولیس کا راستہ روک دیا تھا۔ پولیس پر نظر رکھنے کے لیے لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی علاقے میں گشت کرتی رہی تھیں۔

’’یہ ہم عورتیں تھیں جنھوں نے مردوں کو آئیڈیا دیا تھا کہ داخلی راستہ کیسے بند کرنا ہے۔ (اس مقصد کے لیے) ہم نے چھوٹے اور بڑے پتھر، تختے، ٹین کی چادریں ایک دوسرے کے ہاتھوں (رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے) پہنچائیں۔‘‘ اس علاقے کی ایک رہائشی عورت نے فخریہ انداز میں بتایا۔ جمعے کے احتجاج کے لیے پوسٹر تیار کرتی نوجوان خاتون ریحانہ نے، جو اُستانی ہیں، ٹی آرٹی کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ہماری لڑائی آرٹیکل 370 سے بہت بڑی ہے۔ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور جب تک یہ حاصل نہیں ہوجاتی لڑتے رہیں گے۔ چاہے کتنے ہی مہینے اور سال لگ جائیں۔‘‘ وہاں موجود عورتیں ہر خوف سے بے نیاز ہوکر بھارت کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔ نماز جمعہ کے وقت جب عورتیں مقامی مسجد کے خواتین کے لیے مختص حصے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جمع تھیں، ایک عورت نے زوردار آواز میں ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ’’یہاں موجود خواتین کسی بھی عمر کی ہوں، ان کی آنکھوں میں ذرا بھی خوف نہیں تھا۔‘‘

نماز جمعہ کے بعد ہونے والا مظاہرہ مکمل طور پر پُرامن تھا، لیکن جب پولیس نے مظاہرین پر چھرے برساکر انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی تو خواتین بھڑک اُٹھیں اور انھوں نے ہاتھوں میں پتھر اُٹھالیے۔ اس سے پہلے کہ وہ پولیس پر پتھر برساتیں اطلاع ملی کے پولیس نے بستی کے کچھ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ انھوں نے پتھر پھینکے اور پولیس کا تعاقب شروع کردیا۔

دوسری طرف بستی میں امینہ جان پیلیٹ گنوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھی۔ ایک اور خاتون پانی، پٹیاں اور مختلف طبی آلات پکڑا کر اس کی مدد کر رہی تھی۔

پولیس کی انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے زخمی اسپتالوں کا رخ نہیں کرتے، پھر پولیس نے اس علاقے کے باسیوں کو اجتماعی سزا دینے کے لیے ایمبولینسوں کو یہاں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

اور اب ذکر رابعہ کا، وہی جس کی دو سالہ بچی گھر میں بھوک سے بلک رہی تھی اور وہ پولیس کی قید میں تھی۔ خود پر بیتنے والے ان کرب ناک لمحوں کے باوجود وہ نہ ڈری نہ آزادی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالنے سے دست بردار ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے،’’ہماری آزادی اور عزت ووقار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔‘‘

جس روز رابعہ پولیس کی حراست میں اذیت جھیل رہی تھی، اسی دن ایک اور خاتون ثریا کو بھی دو گھنٹے کے لیے قید میں رکھا گیا۔ وہ کہتی ہے کہ اسے اپنے مقید بہنوئی سے ملاقات کی کوشش پر یہ سزا دی گئی۔ گویا مقبوضہ کشمیر میں کسی اسیر سے ملاقات کی خواہش کرنا بھی گناہ ہے۔

بھارتی فوج کے درندوں سے جان محفوظ ہے نہ عزت، مودی کی ہندوانتہاپسند حکومت کشمیریوں کو کچل دینے پر تُلی ہے، وادی میں ظلم وزیادتی عروج پر ہے، لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی اس ’’مودی نازیت‘‘ اور ’’ہندو صیہونیت‘‘ کو روکنے کے لیے کسی عملی اقدام سے گریزاں ہے۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں بھی دختران کشمیر کی ہمت اور استقامت پورے قد سے کھڑی ہے۔ حریت کی جدوجہد میں ان کا کردار کم ہونے کے بہ جائے بڑھا ہے۔ ان کے دلوں میں بھڑکتی آگ اور آنکھوں میں جلتے چراغ امید کی وہ کرنیں ہیں جو پوری وادی میں اجالا بن کے پھیلیں گی۔

آہنی حوصلے والی آہی گر

یوں تو کشمیر کی ہر عورت آہنی عزم وارادے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر پروینہ آہنگر کو ’’کشمیر کی آہنی عورت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا سبب بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی گم شدگی کے خلاف ان کا طویل اور مسلسل احتجاج ہے، جسے 1990میں لاپتا کیا گیا تھا۔ ان کا احتجاج اپنے لخت جگر کے معاملے تک محدود نہیں ان کے دل میں کشمیر کے ہر گم ہوجانے والے بیٹے کا درد ہے، چناں چہ انھوں نے 1994سے ’’Association of Parents of Disappeared Persons‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے۔ پروینہ کو رواں سال بی بی سی کی ’’دنیا کی100مُتاثرکُن ترین خواتین‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پچاس سالہ پروینہ پچیس سال سے گم شدہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کردہ اپنی تنظیم کی قیادت کر رہی ہیں، جسے اقوام متحدہ کی معاونت حاصل ہے۔ ان کی تنظیم جبری گم شدگیوں کے خلاف دو عشروں سے دھرنے دے کر ان کی بازیابی اور مقبوضہ کشمیر میں جبراً لاپتا کردینے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

پروینہ اپنے مثالی جدوجہد کی بنا پر ناروے کے ریفٹوپرائز سمیت کئی اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔ 2015 میں انھیں امن کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔ پروینہ آہنگر کی تنظیم کو بھارتی ٹی وی چینل ’’سی این این آئی بی این‘‘ نے بھی اپنے ’’انڈین آف دی ایئرایوارڈ‘‘ کے لیے نام زد کیا تھا، لیکن تنظیم نے بھارتی میڈیا کی فریب کاریوں کے باعث اپنی نام زدگی کو مسترد کردیا تھا۔ یوں اس تنظیم نے اس ایوارڈ کو رد کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کی منافقت کا پردہ چاک کردیا تھا۔ اپنی تعریف کے مطابق یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو کسی سال ’’ہمارے سماج کی بنیاد مضبوط کرنے میں حصہ لیں اور (عالمی سطح پر) برانڈانڈیا کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوں۔‘‘ پروینہ آہنگر کی تنظیم کا موقف تھا کہ انصاف اور احتساب کے لیے ہماری جدوجہد ’’برانڈانڈیا‘‘ کی تعمیر کے لیے نہیں بلکہ برانڈانڈیا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگیاں اور حقوق روند ڈالنے پر سوال اٹھانے اور اسے چیلینج کرنے پر مبنی ہے۔

ان کے بیٹے جاوید احمد کو جب گم شدہ کیا گیا تو وہ گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ کہتی ہیں،’’جب میں نے اس کے اغوا ہونے کا سُنا تو سوچا وہ جلد رہا ہوکر گھر واپس آجائے گا، لیکن تب سے اب تک میں انتظار کر رہی ہوں۔ اب میرا انتظار اس (کی عمر) کے ستائیسویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔‘‘

اپنے بیٹے کے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کی خبر سُن کر پروینہ نے پولیس سے رابطہ کرکے شکایت درج کرائی۔ وہ کہتی ہیں کہ پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ جاوید جلد واپس آجائے گا۔ آخر اس واقعے کے نو دن بعد بھی ان کا بیٹا واپس نہ آیا تو انھیں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ پولیس بے اختیار ہے، اور انھوں نے آنسو پونچھ کر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔

1991میں انھوں نے بھارتی فوج کے خلاف اور اپنے لاپتا بیٹے کے بارے میں یہ جاننے کے لیے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ہر دروازے سے اور باربار مایوس ہونے کے بعد ان کا یقین بھارت کے نظام انصاف سے اٹھ گیا۔ پروینہ کہتی ہیں ’’وہ سب جھوٹ بول رہے تھے۔‘‘

اپنے بیٹے کی تلاش میں اور احتجاجی مہم کے دوران پروین آہن گر نے فوج کے کیمپوں کے متعدد دورے کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کا واسطہ ایسے بے شمار لوگوں سے پڑا جن کی کہانیاں پروینہ کی کہانی جیسی تھیں۔ وہ کہتی ہیں،’’ان دوروں میں مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ایک ساتھ اپنی لڑائی لڑیں تو یہ نتیجہ خیز نکلے گی۔ چناں چہ میں نے ایسے خاندانوں کو ڈھونڈنا شروع کردیا جن کا کوئی پیارا لاپتا کردیا گیا تھا۔‘‘ یہ جستجو گم شدہ افراد کے والدین کی تنظیم کے قیام پر منتج ہوئی، جو پچیس سال سے جموں وکشمیر کی عدالت عالیہ کے دروازے پر دھرنے دے کر احتجاج کر رہی ہے، لیکن گم شدہ افراد کی طرح مقبوضہ کشمیر میں عدل وانصاف بھی لاپتا ہوچکا ہے۔

پروینہ آہنگر بھارتی ریاست اور اس کے اداروں سے تو مایوس ہیں مگر اپنی جدوجہد سے نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں انصاف کی جنگ جاری رکھیں گی۔

usman.jamai@express.com.pk

 

The post کشمیر کی بیٹیاں۔۔۔جن کی آنکھوں میں خوف نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل

دیکھ یہ کیا کیا اُداسی میں

کھودیا حوصلہ اُداسی میں

آنکھ تجھ سے ہٹی تو سب منظر

کھوگئے بخدا اُداسی میں

جا کے دریا ملا سمندر سے

دشت پھرتا رہا اُداسی میں

کیا اذیت ہے تو نہ سمجھے گا

کھوکھلا قہقہہ اُداسی میں

گرد ٹھہری تھی آئینے میں کہیں

زرد چہرا ہوا اُداسی میں

اور کرتا بھی کیا بھلا راشد؟

شعر پڑھتا رہا اُداسی میں

(راشد علی مرکھیانی ۔کراچی)

غزل

لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے

جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے

تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی

اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے

آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں

کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے

کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا

بات تھی‘ بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے

کس نے سوچا تھاکہ کمروں میں فقط چپ ہوگی

کس نے سوچا تھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے

ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر

ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے

(ازبر سفیر۔ پھلرواں، سرگودھا)

غزل

دوستوں کو بہم نہیں ہوتا

آدمی محترم نہیں ہوتا

میرے پندار کا تقاضا ہے

سرِ تسلیم خم نہیں ہوتا

موت نے بارہا تسلی دی

خوف جینے کا کم نہیں ہوتا

سرحدیں ہیں زمین کی قسمت

آسماں منقسم نہیں ہوتا

سب کو جینے کا غم تو ہوتا ہے

سب کو مرنے کا غم نہیں ہوتا

اس پہ آنکھیں نکالتے ہیں سبھی

جس کے بازو میں دم نہیں ہوتا

بے دھڑک آئیے گلے ملیے

سب کی جیکٹ میں بم نہیں ہوتا

آشنا دھوپ سے نہیں جو امر

ایسی مٹی میں نم نہیں ہوتا

(امر روحانی ۔ملتان)

غزل

ہمنوائی کے دکھ، بے نوائی کے دکھ

کیا بتائیں تمہیں دلربائی کے دکھ

خوف، ویرانیاں، تلخیاں، بے بسی

سب کے سب پیار کی ہیں کمائی کے دکھ

تم نہ جانو گے پھیکی ہتھیلی ہے کیا

تم نہ سمجھو گے سونی کلائی کے دکھ

یہ ستم ہے وہی بے وفائی کرے

جس نے جھیلے ہوں خود بے وفائی کے دکھ

گو زلیخا ہوں پھر بھی سمجھتی ہوں میں

مرے یوسف تری پارسائی کے دکھ

معجزہ ، معجزہ ، اے خدا معجزہ

مار ڈالیں گے ورنہ جدائی کے دکھ

دکھ سے ثروت ہے رشتہ مرا خون کا

لکھتی رہتی ہوں ساری خدائی کے دکھ

(ثروت مختار ۔ بھکر)

غزل

مجھ پہ ہے تیری عنایت چارہ گر

کیوں کروں تیری شکایت چارہ گر

دل تمہاری بات کرتا ہے سدا

ذہن کرتا ہے ملامت چارہ گر

آؤ، پڑھاؤ نمازِ عشق تم

سونپ دی تم کو امامت چارہ گر

مر ہی جائے گا مریضِ عشق بھی

سہہ نہ پائے گا علالت چارہ گر

موت برحق ہے تمہارے ہجر میں

آ ہی جائے گی قیامت چارہ گر

دیکھ لو شہزاد سولی چڑھ گیا

آؤ تم کرلو زیارت چارہ گر

(شہزاد مہدی۔اسکردو، بلتستان)

غزل

سانپ کے جیسے نہ بچھو کی طرح ہوتے ہیں

یار تو یار ہیں، بازو کی طرح ہوتے ہیں

سرد لہجے کی تپش اور ستم ڈھاتی ہے

اس کے الفاظ بھی چاقو کی طرح ہوتے ہیں

کیا بگاڑیں گے اندھیروں کا یہ ننھے ذرے

یہ ستارے بھی تو جگنو کی طرح ہوتے ہیں

ڈوب کر پار لگاتے ہیں تری کشتی کو

یہ جو ماں باپ ہیں، چپّو کی طرح ہوتے ہیں

تول کر میں تری اوقات بتا سکتا ہوں

مجھ سے درویش ترازو کی طرح ہوتے ہیں

مجھ کو تنہائی کے لمحات سے گِھن آتی ہے

کچھ خیالات ہی بدبو کی طرح ہوتے ہیں

سنسنی پھیلتی جاتی ہے چھپانے سے میاں

عشق کے راز بھی خوشبو کی طرح ہوتے ہیں

میں نے صحرا کی نظر سے ہی تو دیکھا ہے فہد

یہ سمندر بھی تو چُلو کی طرح ہوتے ہیں

(سردار فہد۔ایبٹ آباد)

غزل

گماں کے اینٹوں کی یہ عمارت تمہاری جنت بری نہیں ہے

اگرچہ تعمیر ہو چکی تھی پہ یہ مرمت بری نہیں ہے

سکونِ صحرا جو دے رہا ہے وہ گھر تو ہرگز برا نہیں ہے

جو تم کو گھر تک ہی لا رہی ہے تمہاری وحشت بری نہیں ہے

حسین رخ پر سیاہ زلفیں نسیم سحری کے سنگ ظلمت

ہوصبحِ روشن کے سنگ ظلمت تو پھر یہ ظلمت بری نہیں ہے

ارے نہیں یہ حسین ، دلکش، وہ کہنہ ، شاطر،گھمنڈی ، سرکش

ڈرو نہیں یہ بھلی بہت ہے، یہ خوبصورت بری نہیں ہے

جو سچ لگے گا میں سچ کہوں گا جو جھوٹ ہے وہ توجھوٹ ہی ہے

بری لگی ہے مری یہ عادت ، مگر یہ عادت بری نہیں ہے

یہ کلفتیں ہیں حلال ہم پر ملن کی راحت ملے جو ہم کو

ملیں گے ہم کو یقیں دلانا تو یہ قیامت بری نہیں ہے

(ابو لویزا علی۔کراچی)

غزل

وقت بے وقت نہ یوں شور مچا کر رکھے

عقل سے بول دیا، دل سے بنا کر رکھے

پھینک آتا ہوں کبھی جا کے سمندر میں اسے

دشت کو کوئی مرے سر پہ اٹھا کر رکھے

میں نے دیوار سے جب اس کو لگایا ہے تو وقت

کیسے دیوار سے مجھ کو نہ لگا کر رکھے

عین ممکن ہے کہ ناپید ہی ہوجائے خلوص

سو جسے جتنا میسر ہے بچا کر رکھے

دل کا سامان بھی عزمی کیا جائے واپس

جس نے جو چیز اٹھائی یہاں لا کر رکھے

(عزم الحسنین عزمی۔ڈوڈے، گجرات)

غزل

خیال و خواب کے دفتر، جگہ نہیں بنتی

کسی کی یاد ہے ازبر جگہ نہیں بنتی

نہ تیرے پاس سفارش ہے اور نہ پیسہ ہے

سو حکم یہ ہے کہ جا گھر ، جگہ نہیں بنتی

اسی لیے میں تری بزم میں نہیں آتا

تری جگہ کے برابر جگہ نہیں بنتی

اُسی کے نام پہ اس دل کا انتقال ہے یار

سو اور کسی کی یہاں پر جگہ نہیں بنتی

یہ اُس کھلاڑی کو کپتان منتخب کریں گے

کہ جس کی ٹیم کے اندر جگہ نہیں بنتی

(احمد آشنا ۔سیالکوٹ)

غزل

عِجز چلتا ہے یہاں، حسنِ ادب چلتا ہے

عشق میں ایک ہی رنگ ،  ایک ہی ڈھب چلتا ہے

اے محبت تیری تقسیم پہ صدقے جاؤں

ان پہ رحمت کی نظر، ہم پہ غضب چلتا ہے

آبرو پانی میں تحلیل ہوئی جاتی ہے

وہ سمجھتے ہیں کہ بس جامِ طرب چلتا ہے

اس نے کتّوں کی طرح جسم بھنبھوڑا اور پھر

پیار سے کہنے لگا، پیار میں سب چلتا ہے

فاقہ کش جانتے ہیں ، اچھی طرح جانتے ہیں

سلسلہ رکتا ہے کب سانس کا، کب چلتا ہے

کیا توقع ہے وہاں عدل ملے گا کہ جہاں

کہیں منصب تو کہیں نام و نسب چلتا ہے

اَشہبِ زیست بھی تھک ہار چکا ہے شاہد

اب کوئی اس کو چلائے بھی تو کب چلتا ہے

( محمد اقبال شاہد۔راولپنڈی)

غزل

خوابِ سحر کا دیکھنے والا تو مَیں بھی ہوں

سورج نہیں ہوں شام کا تارہ تو مَیں بھی ہوں

یوسف کو دیکھتا ہوں مَیں چشمِ زلیخا سے

گوہر نہیں گہر کا شناسا تو مَیں بھی ہوں

دریا کے ساتھ چلنا گوارا نہیں مجھے

بہتا ہوں اپنی رَو میں کہ دھارا تو مَیں بھی ہوں

دیکھا نہیں کسی نے بھی میری طرف مگر

آنکھوں کی رہ گزار سے گزرا تو مَیں بھی ہوں

دریا کو مَیں بھی دریا سمجھتا ہوں دوستو!

ڈوبا اگر نہیں ہوں سفینہ تو مَیں بھی ہوں

وحشت مِرے سپرد بھی کر مجھ سے بھی تو مِل

صحرا نہیں ہوں ریت کا ذرّہ تو مَیں بھی ہوں

(عتیق احمد۔ ڈی آئی خان)

مگر

بوڑھا نائی، اور اک کرسی

برگد کا وہ چھوٹا بچہ اب لمبی زلفوں والا ہے

دور کہیں پہ ٹھنڈ سے مل کر، ایک ہوا کا جھونکا پیارا

اس کے جسم کے نصف کو چُھو کر، لمبی زُلفیں جُھولے ہے،

شیشے کو جس کیل سے لٹکے، عمر کا خاصہ گزرا ہے

اب اس کیل کی ریڑھ کی ہڈی

گِھس گِھس کر کچھ باقی ہے،

میں اس دلکش موسم میں

اس برگد کے سائے میں

اس ٹوٹی سی کرسی پر

اپنی اور اس نائی کی صورت

پِنڈولم پہ دیکھ رہا ہوں،

دل ہی دل میں سوچ رہا ہوں ، اب کہ شیشہ گِر جائے گا

کِرچی کِرچی ہو جائے گا، ہَوا سے مل کر برگد پیارا

شور مچائے، گِر جائے گا،گِر جائے گا،

موٹے موٹے ہاتھوں والے

گول ہتھیلی والے پتے

تالی مار کہ شرط لگا کر، باری باری شور کرے ہیں،

گِر جائے گا،گِر جائے گا

شیشہ کافی وزنی پیارے، اور اس کیل کا سر بھی اب تو

بوجھ کے مارے جھکتا جائے، تیز ہوا کے باعث اب تو

کرسی کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں

شیشے کا گرنا پکا ہے، اور میں بھی شاید گِر ہی جاؤں

میں بس اتنا سوچ رہا تھا

اتنے میں وہ بوڑھا نائی؛ سامنے آکر کہنے لگا

صاحب! شیشے ہلتے رہتے ہیں

آپ یہ میری آنکھ میں دیکھو

میری آنکھ میں جالے ہیں

’’پر آپ مکمل کالے ہیں‘‘

میں نے تو اک عمر لگا کر

شیشے کو اس کیل سے ٹانکے

سالوں بیٹھ کہ سوچا ہے

(عامر شہزاد صابری)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

شملہ ایکارڈ کی طرح جنیوا معاہدے میں بھی پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہوا

$
0
0

(قسط نمبر 9)

21 فروری1987ء کو کرکٹ ڈپلو میسی پر بھارت کا دورہ کرکے صدرجنرل ضیا الحق نے پاک بھارت سرحدوں پر بھاری تعداد میں بھارتی فوجیں کھڑی کرنے پر جب وزیر اعظم راجیو گاندھی سے یہ کہا کہ اگر وہ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا شوق پو را کر لیں مگر یاد رکھیں کہ پھر دنیا چنگیز خان اور ہلا کو خان کو بھو ل جائے گی اور صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی تو اُس وقت پوری دنیا میں پانچ اعلانیہ اور چار غیر اعلانیہ ایٹمی قوتیں موجود تھیں۔

اعلانیہ ایٹمی قوتوں میں امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین تھے، جب کہ غیر اعلانیہ قوتوں میں پاکستان، بھارت، اسرائیل اور جنوبی افریقہ شامل تھے، اگر چہ بھارت اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ 1974 میں کر چکا تھا مگریہ ابتدائی نوعیت کا تجربہ تھا۔ دھماکے پر صرف پا کستان نے شدید ردعمل کا اظہا رکیا تھا اور بھٹو نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن بھارت کے جواب میں ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔بھارت ایٹمی ہتھیار تو بنا چکا تھا مگر ابھی تک اُس نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی نہیںکی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے میزائلوں سے حملہ کر سکتا، یوں صدر جنرل ضیا الحق کا یہ انتباہ اہم تھا۔

یہ دنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں کا دور تھا۔ اب دنیا، سرد جنگ کے اختتام کے نعرے کے بعد ایک تیسرے عالمی دور میں داخل ہو رہی تھی جس کے لیے ڈبلیو ٹی او، گلو بل ولیج، نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم جیسی اصطلاحیں بھی سامنے آرہی تھیں۔  1987 میں سوویت یونین کے گورباچوف نے بھارت کا دورہ کیا اور دورے سے پہلے مزید روسی فوج کے انخلا کا اعلان کیا۔ بھارت کے دورے کے دوران انہوں نے پاکستان سے بہتر تعلقات کے قیام کی حمایت کی اور افغانستان کے غیر جانبدارانہ اور غیر وابستہ کردار کی بحالی کے حق میں تقریر کی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک کسی مذاکراتی عمل سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بہت سے امکانات اور اندیشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوست ملکوں سے مشاورت بھی کرتا ہے اور جس فریق سے مذاکرات کرنے ہوتے ہیں اُن سے بھی درپردہ مذاکرات کے اعتبار سے ممکنہ امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔

افغانستان میں امن اور دیگر معاملات کے حل کے لیے جنیوا مذاکرات کا جو سلسلہ جون 1982 سے شروع ہوا تھا، آغاز میں اس میں ایران بھی شامل تھا ، اب اپنے اختتامی مراحل میںداخل ہو رہا تھا۔ یہ ایسے تاریخی مذاکرات تھے جس کی بنیاد پر آئندہ کے لیے دنیا نے تبدیل ہو نا تھا۔ یہ صورتحال دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے مختلف تھی، دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر یہ ہوا تھا کہ ایک فریق کی شکست کے بعد اتحادی ممالک نے دنیا کو آئندہ کسی ممکنہ تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لے اقوام متحدہ کی تشکیل پر طریقہ کار وضع کیا تھا جس میں پانچ قوتوں کی بنیاد پر مفادات کے ممکنہ ٹکراؤ سے بچنے کے لئے سکیورٹی کونسل میں اِن کو ویٹو کی طاقت دی گئی تھی۔

اب صورت یہ تھی کہ سوویت یونین کے دوبارہ غیر اشتراکی بننے پرآزاد مارکیٹ کی دنیا میں داخلے اور 1945 کے بعد سے سرمایہ دارانہ معیشت پر چلنے والے ملکوں کی طرح اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں اُس کے سابق زیر اثر ممالک پر سیاسی اقتصادی کنٹرول جیسے معاملات درپیش تھے، یوں اگر چہ یہ جنیوا مذاکرات پاکستان ،افغانستان ،امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان اقوام متحدہ کے تحت کئے جا رہے تھے مگر اس میں سوویت یونین جس نے عنقریب دوبارہ روس بننا تھا اور امریکہ اور اُس کے سرمایہ دارانہ معیشت پر یقین رکھنے والے اتحادی ممالک کے ظاہری اور پو شیدہ مفادات تھے، اب جنیوا مذاکرات میں پاکستان یا افغانستان کے مفادات اور مکمل امن کی بجائے بدلتی دنیا میں اقتصادی بالادستی میں زیادہ قوت اور بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لحاظ سے شاطرانہ چالیں چلی جا رہی تھیں۔

1987 میں جب بھارت نے پاکستان کی سرحد پر بھاری تعداد میں فوجیں کھڑی کر کے اور سیا چن میں فوجی جھڑپیں کرکے ایک بحرانی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جس کو پاکستان نے کرکٹ ڈپلومیسی سے ڈیفوز کر دیا تھا، انہی دنوں جنیوا مذکرات اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو رہے تھے، اس وقت پاکستان نے یہ تجویز پیش کی کہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں متحرک مجاہدین کے تعاون سے عبوری حکومت تشکیل دی جائے مگر اس کو افغانستان کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا اور سوویت یونین اور امریکہ نے بھی افغانستان پر زور نہیں دیا تو پاکستان نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی خاطر اپنی تجو یز واپس لے لی۔ علاقائی سطح پر اب بظاہر اتفاقیہ مگر حیرت انگیز انداز میں تبدیلیوں کے اعتبار سے واقعات رونما ہو نے لگے، فروری میں بھارت نے عملی طور پر جنگ کی ناکام کو شش کی پھر اسی سال سیا چن گلیشیر پر جھڑپیں ہو ئیں۔

سوویت یونین کی جانب سے گوربا چوف نے 1988 میں اعلان کر دیا کہ اگر جنیوا معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر 15 مئی1988 سے روسی فوجوں کی واپسی افغانستان سے شروع ہو جائے گی اور یہ عمل دس مہینوں کے اندر مکمل ہو جائے گا، اس دوران افغا نستان میں سوویت یونین اور اُس کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مجاہدین کی جنگ جاری رہی تو ساتھ ہی مجاہدین کے گروپوں میں باہمی اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے ، جنیوا مذاکرات کے حتمی مراحل میں یہ تجو یز بھی دی گئی کہ روسی فوجوں کے انخلا اور عام انتخابات کے بعد افغانستان میں منتخب حکومت کے قیام تک اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے، ایک تجویز یہ بھی تھی کہ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو واپس لاکر عبوری حکومت کے ساتھ اقتدار اُن کے حوالے کیا جائے، لیکن روس اور امریکہ اپنے اپنے مفادات کے لیے سیاسی چالیں چل رہے تھے جبکہ اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل ڈیگوکارڈوویز، شٹل کا ک ڈپلو میسی اپنائے جنیوا معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔

ابھی جنیوا مذاکرات مکمل ہوئے ہی تھے اور چار دن بعد جنیوا معاہدے پر دستخط ہونے تھے کہ پاکستا ن میں 10 اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ کا بڑا واقعہ پیش آیا، یہ راولپنڈ ی کے نزدیک بڑا اسلحہ ،گولہ بارود کا ڈپو تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں امریکہ سے بھیجا جانے والا اسلحہ جو افغانستان مجاہدین کے لیے جاتا تھا وہ اسٹور کیا جاتا تھا، یہاں جو راکٹ، میزائل اور بم وغیرہ موجود تھے وہ دھماکوں سے پورے علاقے میں کئی مربع کلومیٹر رقبے پر گر تے رہے او ر دارالحکومت اسلام آباد بھی اِن کی زد میںآیا، اس ہولناک واقعے میں تقریباً 100 افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔

جاں بحق ہونے والوں میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما شاہد خاقان عباسی کے والد جونیجو حکومت کے وزیر خاقان عباسی بھی شامل تھے جو اُس وقت اپنی گاڑ ی میں سڑک پر تھے کیونکہ اوجڑی کیمپ سے جو میزائل دھماکے سے فضا میںاڑتے وہ کسی چلتی گاڑی کو از خود ہدف بنا لیتے، اس طرح خاقان عباسی جان سے گئے ۔ اس واقعے کے چار دن بعد جنیوا کے معاہدہ پر امریکہ کی جانب سے جارج شلز نے سوویت یونین کی جانب سے شیورناڈزے نے، پاکستان کی جانب سے زین نورانی نے، افغانستان حکومت کی جانب سے عبدالوکیل نے اور اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل پیر یز ڈی کوئیار نے دستخط کر دئیے۔

یہاںیہ حیرت انگیز تبدیلی تھی کہ 1982 سے شروع ہونے والے جنیوا مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے منجے ہوئے سفارت کار وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان مذاکرات کرتے رہے اور جب جنیوا معاہد ہ اپنی حتمی شکل اختیار کر نے لگا تو اِن کی جگہ وزیر مملکت امور خارجہ زین نورانی جنیوا مذاکرات میں شامل ہو گئے، اور جنیوا مذاکرات کے جو آخری راونڈز تھے،اُن میں اُن کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ دفترخارجہ کا ایک ڈائر یکٹر جنرل طوطے کی طرح اُن کو ممکنہ سوالات کے اعتبار سے جوابات رٹواتا تھا، اُن دنوں یہ بھی باتیں عام ہوئیں کہ نورانی کو پوائنٹ رٹوانے کے باوجود مذاکرات میں ایک مو قع پر جب وزیر مملکت امور خارجہ زین نورانی نے بظاہر اپنے زخمی ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی تو افغان وزیر خارجہ عبدالوکیل نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اس ہاتھ کی پٹی کے اندر مائیکرو فون پوشیدہ ہے اور باہر سے پاکستانی ڈائریکٹر جنرل دفتر خارجہ اِ ن کو ہدایات دے رہا ہے ، مگر پروٹوکول کے تحت پٹی نہیں کھولی گئی۔ بہرحال14 اپریل 1988 کو جب جنیوا معاہدے پر دستخط ہو گئے تواِس کے اہم نکا ت یوں طے پائے ۔

i ۔ روس کی مسلح افواج کا انخلا 15 مئی1988 کے بعد سے شروع ہو جائے گا اور یہ عمل نو مہینے میں مکمل کر لیا جائے گا۔

ii ۔ پندرہ مئی کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندرونی امور میں نہ کوئی مداخلت ہوگی اور نہ ان کے خلاف کسی قسم جارحا نہ کاروا ئی کی جائے گی۔

iii ۔ امریکہ اور روس علاقے کی دونوں ریاستوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے امور میںدخل نہیں دیں گے، دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔

iv۔ پاکستان اور افغانستان اپنی حدود میں ایک دوسرے کی خود مختاری، غیر جانبداری، استحکام اور یکجہتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، نہ ہی طاقت کا استعمال اور کسی نوعیت کی دھمکی دیں گے اس سلسلے میں روس اور امریکہ نے ضمانتیں بھی دیں۔

v ۔ پاکستان اور افغانستان اپنی حدود میں ایک دوسرے کیخلاف تربیتی مراکز کا بندوبست نہیں کریں گے اور نہ کسی تحریک کو مالیاتی یا فوجی امداد مہیا کریں گے، پاکستان ایک ماہ کے اندر مجاہدین کے اڈے اپنی سر زمین سے ختم کردے گا۔

vi ۔ مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے گا اور دونوں ممالک باہم تعاون کر یں گے۔

vii  ۔ پاک افغان کمیشن 15 مئی کو تشکیل پائیں گے تاکہ مہاجرین کی واپسی کے راستے متعین کئے جا سکیں، دونوں ممالک کے نمائندے مہاجرین کی واپسی کے پروگرام کو منظّم کرنے کے لیے باہم ملا قاتیں کرتے رہیں گے اِن کی رہنمائی کے لیے اقوام متحدہ کا ایک نمائندہ بھی شامل رہے گا۔

viii ۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز دونوں ملکوں میں قائم کئے جائیں گے تاکہ جنیوا معاہدے پر عملدرآمد میں پیدا ہو نے والی رکاوٹوں کودور کر سکیں، اِن ہیڈ کوارٹرز میں کام کر نے والے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے اخراجات پاکستان اور افغانستان ادا کریں گے۔

ix ۔ دونوں ممالک مخالفانہ پرا پیگنڈہ مہم ختم کر دیں گے ۔

x ۔ مستقبل میں معاہدے کو ہر دو ممالک کی دوستی، تعاون اور بھائی چارے کے فروغ کی بنیاد سمجھا جائے گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان کٹ پتلی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 23 کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے قرارداد منظور کی گئی تھی،لیکن سوویت یونین کی کٹ پتلی افغان حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے جنیوا مذاکرات میں شریک کیا گیا اور روسی فوجوں کی واپسی سے قبل امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے عبوری یا قومی افغان حکومت کی تجویز بھی قبول نہیں کی گئی، نہ ہی اقوام متحدہ کی امن فوج رکھنے پر راضی ہوئے بلکہ سوویت یونین کی فوجوں کی رخصتی پر گورباچوف نے صدر نجیب اللہ کی حکومت کو اربوں ڈالرز کا جدید روسی اسلحہ فراہم کیا۔فرنٹ لائن ملک ہونے کے لحاظ سے 35 لاکھ سے 50 لاکھ تک افغان مہاجرین کی فوراً واپسی ہی پاکستان کا بنیادی اور فوری مسئلہ تھا۔

اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان میں عدم مداخلت اور امن کی ضمانتیں امریکہ اور روس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دستخط کے ساتھ دستخط کرکے دی تھیں لیکن دنیا نے دیکھا کہ مہذب ملکوں اور اقوام نے اِس معاہدے کا کس قدر احترام کیا، اس معاہدے کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلا فات پیدا ہو گئے ہیں جن میں شدت آرہی ہے اور جنیوا معاہدے کے ایک ماہ تیرا دن بعد 29 مئی1988 کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے 58-B 2 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے صدر نے اسمبلی تحلیل کرکے حکو مت برخاست کر دی، بھٹو کے خلاف پانچ جولائی کے آپریشن کی طرح جنرل ضیا الحق نے اس آپر یشن کو بھی خفیہ رکھا اور جب وزیر اعظم چین کا دورہ کر کے وطن پہنچے ہی تھے کہ اُن کو بر طرف کر دیا گیا۔

اِس واقعہ کے ٹھیک 17 دن بعد جنرل ضیاء کے طیارے کو حادثہ پیش آیا جس میں صدر ضیاء بشمول چیئر مین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن ، لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد افضل، میجر جنرل محمد شریف ناصر،میجر جنرل عبدالسیمع ، میجر جنرل محمد حسین اعوان، بریگڈئر صدیق سالک، بریگڈئر نجیب اللہ، پاکستان میں امریکی سفیر Arnold Lewis Raphel رافیل، امریکی سفارت خانے میں امریکن ملٹری اتاشی  General Herbet M. Wassom جنرل ہر بٹ اور 30 اہم سینئر آرمی آفیسر جاں بحق ہوئے۔

17 اگست 1988ء کو بہاولپور میں مسیحی راہبر کے قتل پر تعزیت کے بعد انہوں نے امریکی ٹینکM1 کا مظاہرہ دیکھا اور  واپس بہاولپور ائرپورٹ آئے اور یہا ں سے اپنے طیار ے پاک ون میں ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد واپسی کے لیے سوار ہو ئے۔ طیارے نے 3; 40 سہہ پہر ٹیک آف کیا یہ طیارہ اُس وقت ہر اعتبار سے درست تھا، ڈھائی منٹ میں طیارے مطلوبہ بلندی پر آگیا اور اُس کا رخ اسلا م آباد کی طر ف ہو ا، 3 بجکر 51 منٹ پر طیارے کا رابط زمین سے منقطع ہو گیا اور عینی شایدین کے مطابق یہ طیارہ سیدھا تیزی سے زمین سے ٹکرا گیا اور دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا اور اس کے ٹکڑے زمین پر دور دور تک بکھر گئے، اس کے فوراً بعد قائم مقام صدر سینٹ کے چیر مین غلام اسحاق خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا تھا، جو زیادہ درست معلو م ہوتا ہے کیونکہ طیارے کا ملبہ کئی مربع کلومیٹر رقبے پر دریائے ستلج کے قریب بکھر گیا تھا۔

اس حادثے کی تحقیقات کرائی گئیں لیکن کو ئی واضح وجوہات سامنے نہیں آسکیں ۔ پاکستان میں سی ون تھرٹی چار مرتبہ حادثے کا شکار ہوا، خود امریکہ میں اس طیارے میں فنی خرابی، حادثے یا زمین سے مار گرائے جانے کے160 سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں مگر پھر بھی پور ی دنیا میں 63 برسوں سے ملٹری ٹرانسپورٹ کے اعتبار سے اس طیارے کی ما رکیٹ اب بھی مستحکم ہے ۔

مگر شک کر نے والے اس اندیشے کو نظر انداز نہیںکرتے کہ اس سازش میں امریکہ خود ہی ملوث ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ نے جنرل ضیا الحق اور اِن کے ساتھیوں کو قتل کر وانا تھا تو پھر اپنے اہم جنرل اور امریکی سفیر کو ان کے ساتھ کیوں مرواتا ؟ وہ کسی اور موقع پر جنرل ضیا الحق، جنرل اختر عبدالرحمن سمیت باقیوں کو کسی اور طرح قتل کروا دیتا۔ امریکہ کے دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے 1941 سے لیکر 1945 تک بریگیڈئیر جنرل، میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور نیوی کے فلیگ آفیسرسمیت 22 جنرل ہلاک ہو ئے،کوریا کی جنگ میں 1951-52 ایک میجر جنرل اور ایک لیفٹننٹ جنرل ہلاک ہوا ، ویتنام کی جنگ میں 6 لیفٹیننٹ جنرل اور6 میجر جنرل ہلا ک ہوئے، نائین الیون میں پینٹا گان پر دہشت گردی کے حملے میںلیفٹیننٹ جنرل Timothy L.Maud  ٹیمو ہلاک ہوا ،اور آخری میجر جنرل Harold Greene 5 اگست2014 کو کابل میں اُس وقت ہلاک ہوا جب کابل میں افغان آرمی کے ٹریننگ سنٹر میں یونیفارم پہنے افغان فوجی نے گولیاں چلادیں، اس واقعے میں دیگر فوجیوں سمیت امریکی میجر جنرل ہارولڈ گرین ہلاک ہو گیا، امریکہ اپنے ایک ایک سپاہی کے لیے کوشش کرتا ہے کہ اُسے بچانے کی خاطر اگر بڑا ایکشن لینا پڑے تو وہ لے لیتا ہے، یوں یہ اندیشہ تقریباً غلط ہے کہ امریکہ ہی 17 اگست 1988 کے واقعہ میں ملوث تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حادثے سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوا تھا اور اس کے بعد فائد ہ غالباً سوویت یونین کو ہوا۔

پاکستان کے لیے یہ نظریاتی اختلافات سے ہٹ کر بہت بڑا سانحہ تھا کہ پاکستان کی فوج کی پوری اعلیٰ قیادت ہی رخصت ہو گئی اور افغان سوویت جنگ کے بہت سے راز بھی ساتھ چلے گئے، پھر یہی قیادت اُس وقت تقریباً دس سال سے حکومت میں تھی اور یہ سانحہ اُ س وقت ہوا جب جنیوا معاہدہ ہوا تھا اور جیسا بھی ہوا یہ قیادت اُس پر عملدرآمد کرا سکتی تھی، یہاں 1979سے 1988 تک کی صورتحال کے لحاظ سے موازنہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل ضیاء الحق دونوں کی بنیادوں کیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان میں 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے الگ نہ ہوتے تو باوجود اس کے کہ امریکی سی آئی اے نے سابق سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور حکومت میں بھی نقب لگا لی تھی مگر اس کے باوجود 90 فیصد امکان یہی تھا کہ سوویت یونین افغانستان میں فوجی مداخلت نہ کرتا اور صدر سردار داؤد بھی قتل نہ ہوتے اور اگر 10% امکان پر سوویت فوجی مداخلت ہو بھی جاتی تو یہاں شام، عراق، مصر کی طرز پر حکومت قائم کرنے پر اتفاق رائے ہوتا اور ایسی صورت میں بھی بھٹو امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو سخت مراحل میں جکڑے رکھتے اور دونوں کے لیے مستقل نقصان کی بنیاد پر ایسی صورت قائم رہتی۔ اگر افغانستان میدان جنگ بنتا تو یہاں امریکہ اور سوویت یونین دونوں میں سے کسی کی فتح نہ ہوتی لیکن ایسا نہ ہو سکا، بھٹو کی موت پر فیض احمد فیض نے کہا تھا

کبھی یہ سوچنا یہ تم نے کیا کیا لو گو

یہ کس کو تم نے سرے دار کھو دیا لوگو

ہم نے اُس وقت تیسری دنیا کے ذہین ترین اور شاطر سیاست دان کو وقت کے اہم اور تاریخی موڑ پر کھو دیا، اور بھٹو کے وہ آخری الفا ظ اب بھی ریکارڈ پر ہیں ’’جب بھٹو نے کہا تھاکہ خدا کی قسم مجھے اقتدار کا لالچ نہیں ہے لیکن آج پاکستان کو میر ی بہت ضرورت ہے میں اس ملک کے بہت کام آسکتا ہوں‘‘ یہ اُن کا اُ س وقت کا ویژن تھا۔

دوسری جانب اگر صدر جنرل ضیا الحق کو اس تناظر میں دیکھا جائے جب افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور یہاں صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت تھی تو صدر ضیاالحق اُس وقت اہم تھے، انہوں نے فوجی انداز میں کام کرنا تھا، بھار ت میں کشمیر اور بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اس قدر زروں پر تھی کہ بھارت میں اندرا گاندھی جیسی وزیر اعظم کو اُن کے سکھ باڈی گاردز ہی نے قتل کر دیا تھا، جنرل ضیا الحق کے درپردہ اقدامات اور اندرا گاندھی کے غرور وتکبر اور غلطیوں کی وجہ سے 1988 تک صورتحال ایسی ہو چکی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا تھا اور مقبوضہ بھارتی کشمیر پاکستا ن کا حصہ بھی بن جاتا اور بھارتی پنجاب بھی خالصتان میں تبدیل ہو کر ایک آزاد خود مختار ریاست وجود میں آجاتی جو پنجابی نیشنل ازم اور مشترکہ ثقافت کی بنیاد پر پاکستان کی قریبی دوست ریاست ہوتی کیونکہ سکھوں کے اہم اور مقدس مذہبی مقامات بھی پاکستا ن میں واقع ہیں، پھر صدر جنرل ضیا الحق کی شخصیت افغانستا ن میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے تمام گروپوں میں ہردلعزیز اور قابلِ قبول تھی۔

یوں وہ اور جنرل اختر عبدالرحمن سمیت اور چھ جنرل اور چھ بریگیڈئیرز اور سینئر فوجی افسران ایسے تھے کہ وہ سوویت یونین کی فوجوں کے رخصت ہوتے ہی پہلے مرحلے میں مجاہدین کے گروپوں کو آپس میں ملا کر عبوری حکومت قائم کرکے روس کی صدر نجیب اللہ کی کٹھ پتلی حکومت کو رخصت کر دیتے، یوں افغانستان پر خود افغانیوں کا کنٹرول ہوتا اور پاکستان اُن کے بھر پور اعتبار کی وجہ سے اُن کے لیے اور دنیا میں اُس وقت کی سیاسی صورتحال کے تحت ایساہی اہم کر دارادا کر سکتا جیسا کہ 1974 میں لاہور کی اسلامی سر براہ کا نفرنس میں بھٹو نے ادا کیا تھا۔

افغان مجاہدن اور پاک فوج افغان جنگ سے مکمل طور پر فارغ ہو چکی ہوتی، لیکن صدر جنرل ضیا الحق اُن کے سینئر ساتھیوں کے رخصت ہونے پر سب کچھ الٹ ہو گیا، چند دنوں ہی میں صورتحال تبدیل ہونے لگی، 1988 کے انتخابات سے قبل جب بے نظیر بھٹو کی شادی ہوئی اور جب وہ انتخابات سے قبل پاکستا ن آئیں تو اُن کا استقبال دیدنی تھا، اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے تھے اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے 1985 کے انتخابات میں غیر جماعتی بنیادوں پر اپنے امیدواروں کو آزاد امیدوا ر کے طور پر کھڑا کرنے کی تجویز رد نہ کی ہوتی، اور 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کو غیر جمہوری قرار دے کر اِن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا ہوتا تو پی پی پی اس وقت بینظیر کی قیادت میں بہت اچھی پوزیشن میں ہوتی، اور بعد میں بینظیر بھٹو کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تھا کہ جس سے پنجاب کے ووٹ بنک کو جسے اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے 1937 کے الیکشن کے 33 سال بعد 1970 کے انتخابات میں نہایت واضح اکثریت حاصل کر کے فتح کیا تھا اُس ووٹ بنک کو انہوں نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بنیادی طور پر کھو دیا، جب جنرل ضیاالحق نے نوجوان نواز شریف کی صورت میں مصنوعی انداز میں پنجاب کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی سے چھیننے کی کامیا بی کی ابتدا کر دی تھی اور کراچی میں ایم کیو ایم شہری ووٹ کو اپنے قبضے میں لے رہی تھی۔

1988 میں اِن بنیاد ی اقدامات کے باوجود اگر عام انتخابات میں منظم اور انجینئرڈ، دھاندلی نہ کروائی جاتی جس کے بعد میں ثبوت اور حقائق بھی سامنے آئے تو بھی پیپلز پارٹی نہ صرف مرکز میں مضبو ط حکومت بنا لیتی بلکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی یا تو کمزور یا مخلو ط حکومت بناتی یا کم ازکم بہت طاقتور اپوزیشن کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موجود رہ کر میاںنواز شریف کو مزید مضبوط نہ ہونے دیتی اور پنجاب سے کچھ زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر کے زیادہ اکثریت سے وفاقی حکومت بناتی لیکن 1988 کے انتخابات میں انجینئرڈ دھاندلی کی بنیاد پر پنجاب کا وسیع ووٹ بنک پیپلز پارٹی کے ہا تھ سے نکل گیا، اس کے بعد اس ووٹ بنک کو بینظیر دوبارہ اس طرح حاصل کر سکتیں تھیں کہ وہ وفاق میں کمزور حکومت بنانے کی بجائے مضبوط اپوزیشن میں آتیں اور یا 1988 کے عام انتخابات  کے وقت ہی کم سے کم نعرے کی حد تک یہ مطالبہ کر دیتیں کہ 1973 کے آئین کو پہلے 5 جولائی 1977 کے وقت کی صورت میں بحال کیا جائے لیکن افسوس یہ ہے کہ اُن کے اردگرد جمع ہونے والی شخصیات میں کئی ایک ملکی اسٹیبلشمنٹ سے رسم و راہ رکھتے تھے تو کچھ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطوں میں تھے۔

بھٹو ملک کے وہ وزیراعظم تھے جنہوں نے جمہوریت کو مکمل طور پر آزاد کروایا تھا مگر اب جو دور جنرل ضیا الحق کے بعد شروع ہوا تھا، وہ ماضی کی سیاست سے بالکل مختلف تھا اب قومی سطح پر چاروں صوبوں کی بنیاد پر اگر چہ پیپلز پارٹی نے ووٹ حاصل کئے تھے اور پی پی پی کا یہ نعرہ بھی تھا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر، بینظیر، مگر ایسا تھا نہیں، جہاں تک بات بھارت پاکستان تعلقات کی تھی تو اب ایک مرتبہ پھر بھارت مشکل پوزیشن سے نکلنے کے لیے عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو استعمال کر رہا تھا اور پاکستان اچانک بڑے سانحے سے گزرنے کے بعد کمزور پارلیمنٹ کی بنیاد پر اور گیارہ سال بعد جمہوریت کی بحالی پر سیاسی اعتبار سے مستحکم نہیں تھا، پاکستان کا مالی، اقتصادی ریکارڈ قرضوں افراطِ زر، سونے کی فی دس گرام قیمت، روپے کی ڈالرکے مقابلے میںقیمت جیسے اشارات کی بنیاد پر اسی زمانے سے تنزلی کا شکار ہوا یعنی پاکستان کے پہلے 41 سال اقتصادی، معاشی لحاظ سے بہتر تھے اور پھر صورت ابتر ہونے لگی، یوں 1988-89 میں ملک پر اقتصادی انداز سے بھی عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا۔

اس کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ بھارت پاکستان تعلقات میں72  برسوں میں بھارتی وزراء اعظم نے پاکستان کے آٹھ دورے کئے اور اندرا گاندھی نے پاکستان کا کوئی دورہ نہیں کیا تھا جب کہ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آتے ہی 29 دسمبر سے31 دسمبر1988 پاکستان کا دورہ کیا اور پھر اس کے بعد راجیو گاندھی نے اپنا دوسرا دورہ 16 اور17 جولائی 1989 ء میں کیا، اور اس دوارن پاک بھارت بہتر تعلقات کی باتیں عام ہوئیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خالصتان تحریک اور کشمیر میں مجا ہدین کی تحریک بھی سرد ہونے لگی تو دوسری جانب پاکستان کے لیے افغانستان میں مسائل میں اضافہ ہونے لگا اور حقیقت میں پاکستان تاریخ کے ایک بحرانی دور میں داخل ہو گیا۔        (جاری ہے)

drirfan.baig86@gmail.com

The post شملہ ایکارڈ کی طرح جنیوا معاہدے میں بھی پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.

محمد بن سلمان اور لِنسے لوہان کے ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسیج!

$
0
0

پہلے ہی بتادیں کہ ہماری یہ تحریر کسی ذاتی معاملے یا کردار سے متعلق نہیں بلکہ خالصتاً ’’فارن افیئر‘‘ کے بارے میں ہے۔ اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی امریکی اداکارہ وگلوکارہ لِنسے لوہان سے ’’دوستی‘‘ کو ’’فارن۔۔۔ افیئر‘‘ ہی کہیں گے ناں!

بہت دنوں سے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ محمد بن سلمان ان امریکی خاتون کو اپنے طیارے پر دنیا دکھاتے رہے ہیں، انھیں دیگر تحائف کے ساتھ بہ طور تحفہ کریڈٹ کارڈ بھی دے چکے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ تاہم لنسے لوہان کے ’’پاپا جانی‘‘ مائیکل لوہان نے وضاحت کی ہے ان کی بیٹی کی سعودی ولی عہد سے ’’ Platonic Friendship‘‘ ہے۔ PLATONIC LOVE کا ترجمہ تو افلاطونی عشق ہے، Platonic Friendship کا ترجمہ آپ افلاطونی دوستی کرلیں۔ یعنی مرد عورت کے بیچ پاک، پوتر، بس قلبی اور روحانی تعلق۔۔۔۔گویا کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

مائیکل صاحب کا کہنا ہے کہ دونوں شخصیات کا باہمی تعلق محض اس بنا پر قائم ہوا کہ لنسے لوہان مشرق وسطیٰ میں لوگوں خاص طور پر مہاجرین کی مدد کے لیے کام کر رہی ہیں۔ جب والد محترم سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا،’’اس حوالے سے کچھ ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ لنسے کہتی ہے کہ وہ اچھے انسان ہیں۔‘‘

دوستی ہم مزاجی، یکساں صفات و عادات اور مشترکہ مشاغل سے جنم لیتی ہے، سو محمد بن سلمان اور لنسے لوہان کے درمیان یہ تعلق ہونا بھی چاہیے۔ دونوں اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ امریکی اداکارہ، گلوکارہ بھی ہیں، نغمہ نگار بھی، بزنس وومن اور فیشن ڈیزائنر بھی، وہ فلم ساز بھی ہیں اور سماجی کارکن بھی۔ بھائی محمد بن سلمان تو پورا سعودی عرب ہیں، ولی عہد ہیں، نائب وزیراعظم بھی (وزیراعظم بادشاہ سلامت خود ہیں) اس کے ساتھ وزیردفاع کا منصب، مختلف کونسلوں کی سربراہی بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔۔۔یوں سمجھ لیں کہ سعودی عرب میں جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ دونوں میں مہاجرین بھی قدرمشترک ہیں، وہ مہاجرین کی پیداوار بڑھانے میں حصہ لیتے ہیں یہ ان مہاجرین کی مدد کر رہی ہیں۔

ایک فیشن ڈیزائنر ہے تو دوسرا اپنی مملکت کو نیا فیشن دے رہا ہے۔ تو بھئی بنِ سلمان اور بنتِ لوہان میں کوئی پیمان ہو بھی جائے تو حیرت کیسی اور مذمت کیسی۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ مگر دونوں کے پاس مل بیٹھنے کا وقت کہاں، چناں چہ ٹیکسٹ میسیجز ہی کے توسط سے باہم رابطہ رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ سعودی ولی عہد اور ہالی وڈ کی اداکارہ ہیں، کوئی لانڈھی کا جمیل اور نیوکراچی کی شکیلہ تو نہیں کہ ایک دوسرے کو اس طرح کے برقی پیغامات بھیجتے ہوں گے ’’کیا کر رہی ہے،’’تجھے کیا‘‘،’’کیا ہوا‘‘،’’صبح سے میری یاد نہیں آئی‘‘،’’اچھا چھوڑ ناں‘‘،’’مجھے بات نہیں کرنی‘‘، ’’چل دفع‘‘۔۔۔۔ہمارے خیال میں ان کے ٹیکسٹ میسیج کچھ ایسے ہوتے ہوں گے:

لنسے لوہان’’ہائے شہزادے‘‘

محمد بن سلمان’’اہلاً سہلاً مرحبا‘‘

لنسے لوہان’’میں مہاجرین کی مدد کے لیے گئی تھی، وہاں کوئی ملا ہی نہیں‘‘

محمد بن سلمان ’’پریشان کیوں ہوتی ہو، میں مہاجرین کی نئی کھیپ تیار کردیتا ہوں، یمنی چلیں گے یا شامی؟‘‘

لنسے لوہان ’’اوہ واقعی۔۔۔تم کتنے سوئٹ ہو‘‘

محمد بن سلمان’’شُکراً۔۔۔۔اچھا یہ بتاؤ میرا تحفہ کیسا لگا؟ یہ اصلی عقیقِ یمنی ہے۔‘‘

لنسے لوہان’’ہاں مل گیا، بہت سُرخ ہے‘‘

محمد بن سلمان’’یہ ہمارا کارنامہ ہے، جب سے ہم نے یمن پردھاوا بولا ہے یمنی عقیق زیادہ سُرخ ہوگئے ہیں۔‘‘

لنسے لوہان،’’اس کی کوئی خاصیت؟‘‘

محمد بن سلمان’’یہ ہر بلا سے محفوظ رکھتا ہے‘‘

لنسے لوہان’’اچھا، تم نے تجربہ کیا ہے‘‘

محمد بن سلمان’’ہاں، جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے میں یمنی عقیق پہنے ہوں اور ہر بلا سے محفوظ ہوں۔‘‘

لنسے لوہان’’تمھارے جیسے شریف آدمی پر بلاوجہ اس قتل کا الزام آیا، خدا جمال خاشقجی کے قاتلوں کو غارت کرے۔‘‘

لنسے لوہان’’ایم بی ایس!‘‘

لنسے لوہان’’پرنس۔۔۔!‘‘

لنسے لوہان’’کہاں گئے؟‘‘

محمد بن سلمان’’سوری، یمنی عقیق والی انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی لگ رہی تھی دھاگا باندھ کر اس کی گرفت مضبوط کر رہا تھا۔‘‘

لنسے لوہان’’ہاں تو ہم کیا بات کر رہے تھے؟‘‘

محمد بن سلمان’’تم اپنی کسی نئی فلم کا تذکرہ کر رہی تھیں‘‘

لنسے لوہان’’ہممم‘‘

محمد بن سلمان’’یہ تو بتاؤ تمھاری نئی فلم کب آرہی ہے؟‘‘

لنسے لوہان’’بہت جلد۔۔۔۔تم فلموں کے شوقین ہو؟‘‘

محمد بن سلمان’’فلموں سے زیادہ میں ’شوٹنگ‘‘ کا دل دادہ ہوں‘‘

لنسے لوہان’’واؤ، میں آرٹ لورز کی بہت عزت کرتی ہوں‘‘

محمد بن سلمان’’میں تو آرٹ کا دیوانہ ہوں۔۔۔خاص طور پر مارشل آرٹ کا‘‘

لنسے لوہان’’تمھیں موسیقی کیسی پسند ہے‘‘

محمد بن سلمان’’پاپ میوزک اور جنگی ترانے‘‘

لنسے لوہان’’تمھارا مطلب ہے پوپ میوزک۔۔۔کوئی پسندیدہ گانا‘‘

محمد بن سلمان’’کئی گانے ہیں جو باربار سُنتا ہوں جیسے۔۔۔۔چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے، کہنے دو جی کہتا رہے۔۔۔۔’شام‘ ہے دُھواں دُھواں ٹِن ٹُنو ٹُن ٹُن ٹِن ٹُنو ٹُنو ٹُن ٹُن ٹِن ٹُنو ٹُن جسم کا رواں رواں کہہ رہا ہے آرزو کی داستاں۔۔۔۔من تو پے واروں یمن تو پے واروں۔۔۔‘‘

لنسے لوہان’’ڈیئر! گانے کے صحیح بول ہیں من تو پے واروں تن توپے واروں‘‘

محمد بن سلمان’’ارے میری بھولی، یمن میںوار ہو تو تن ہی تو وارے جائیں گے‘‘

لنسے لوہان’’ایک بات کہوں، بُرا تو نہیں مانو گے‘‘

محمد بن سلمان’’برا کیسے مان سکتا ہوں تم امریکی ہو‘‘

لنسے لوہان’’تم نے اتنی اصلاحات کی ہیں اپنے ملک میں جمہوریت بھی لے آؤ‘‘

محمد بن سلمان’’ہمارے ہاں پہلے ہی اتنی ریت ہے، ہر طرف ریت ہی ریت ہے تو پھر ہم جمہو۔۔۔ریت کیوں لائیں؟‘‘

لنسے لوہان’’ارے میں سعودی عرب میں ڈیموکریسی لانے کی بات کر رہی ہوں‘‘

محمدبن سلمان’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘

لنسے لوہان’’ارے تمھیں ڈیموکریسی کا نہیں پتا۔۔۔پتا کرو کہ یہ کیا ہوتی ہے‘‘

محمد بن سلمان’’مجھے پتا کرنے کا تجربہ نہیں، لاپتا کرنا ہو تو کہو۔ یہ بھی بتادینا ٹکڑے کس سائز کے ہوں۔‘‘

لنسے لوہان’’میں سمجھی نہیں‘‘

محمد بن سلمان’’جانے دو، اچھا میں بعد میں بات کرتا ہوں، مودی انکل آگئے ہیں۔‘‘

usman.jamai@express.com.pk

The post محمد بن سلمان اور لِنسے لوہان کے ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسیج! appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھی عورت سماج کی قیدی نہیں رہی

$
0
0

بابا، گاؤں جاؤ تو

کتابیں لے کر آنا

اور ایک اچھا سا قلم بھی

میں لکھوں گی اور پڑھوں گی

ادّی (بہن) کی طرح آگے بڑھوں گی

اس جیسے کئی گیت سندھ کے دیہات میں مروج ہیں جہاں تعلیم کی روشنی پھیل رہی ہے اور علم کے دیے تربیت کے چراغوں کے ساتھ مل کر شان دار مستقبل کی کرنیں بکھیر رہے ہیں یہ 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتامی برسوں کا سندھ ہے ایک سو برس قبل سندھ میں جامعات نہ تھیں اور کالج بھی معدودے چند۔ ان دنوں گریجویشن کے لیے ممبئی یونیورسٹی یا پھر علی گڑھ جانا پڑتا تھا لیکن آج جام شورو، نواب شاہ اور کراچی جامعات کے شہر ہیں۔

ایک دو نہیں نصف درجن سے زائد تعلیمی بورڈ ہیں اور لاکھوں پرائمری، سیکنڈری، مڈل اور ہائر سیکنڈری اسکول، ہزاروں کالجز اور درجنوں جامعات گویا ایک صدی میں تعلیمی انقلاب آیا ہے لیکن تعداد بڑھی تو کوالٹی متاثر ہوئی اور ڈگری ہولڈر بھی وہ قابلیت نہیں رکھتے جو ماضی میں میٹرک پاس کو میسر تھی یہ نوحہ اپنی جگہ مگر دوسری طرف بہتری بھی آئی ہے سندھ کی پس ماندہ اور معاشرتی لحاظ سے لوئر کلاس سمجھی جانے والی برادریوں میں بھی شعوری بیداری آئی ہے اور ان کے لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی آگے بڑھ رہی ہیں اور فکری اعتبار سے ان کے عزائم و ارادے بھی بلند و مستحکم ہیں گذشتہ دنوں ایک خبر نے ارض مہران ہی نہیں دیگر صوبوں کے اصحاب دانش کو چونکا دیا۔

اوڈ، باگڑی، میگھواڑ، کولہی اور گرگلے ایسی اقوام تصور کی جاتی تھیں جو تعلیم سے نابلد، پرانے رسم و رواج پر کاربند اور اونچ نیچ، چھوت چھات کے نظام میں انتہائی پس ماندہ لیکن شانتی اوڈ پولیس میں بھرتی ہوئی تو اس کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خاصا چرچا رہا۔ شاہ پور چاکر کے ریاض داہری، الیاس انجم، ٹنڈو محمد خان کے وسیع قریشی، مٹھی کے نند لعل لوہانو، کندھکوٹ کے گوکل داس، ڈہرکی کے طاہر عباس، ماتلی کے اسلم قائم خانی، حیدرآباد کے اسلم چنا سے گفتگو رہی تو مزید آگہی ہوئی سندھ کے خانہ بدوش قبائل پر میجر خورشید قائم خانی نے خاصا تحقیقی کام کیا تھا۔

ٹنڈو الٰہیار میں قیام پاکستان کے بعد راجستھان سے ہجرت کرکے آباد ہونے اورکراچی میں 80 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے خورشید قائم خانی کو سندھ کی پس ماندہ اقوام میں دیوتا کا درجہ حاصل تھا۔ ٹنڈو جام کے ظفر انجم قائم خانی بتانے لگے کہ انھوں نے پسماندہ اور معاشرتی اعتبار سے ناقابل توجہ برادریوں پر تحقیقی کام کیا تھا اور کئی کتابوں کے بھی مصنف تھے بات ہو رہی تھی شانتی اوڈ کی جو پولیس میں بھرتی ہوئی تو اس کے قبیلے کا قد کاٹھ بھی بلند ہوگیا مٹی کی دیواریں کھڑی کرنے والے اوڈ قبیلے کی شناخت ان کا یہ وصف ہی ہے قدیمی کچا قلعہ حیدرآباد کی دیواریں آج بھی اوڈ برادری کی صناعی کا شاہکار ہیں اوڈ عورتیں ہوں یا مرد محنت کش ہوتے ہیں شانتی کے والد رائے چند نے محنت مشقت کرکے اپنی بیٹی کو اس کی خواہش کے مطابق تعلیم دلوائی اور اس وقت کے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے میرٹ پر بھرتیاں کیں تو شانتی ہی نہیں گنگا میگھواڑ اور کملا لوہار کے بھی نصیبے جاگے اور وہ بھی میرٹ پر پولیس میں ملازم ہوئیں رائے چند نے صرف بیٹی ہی کو نہیں پڑھایا اس کے 3 بیٹے بھی گریجویٹ ہیں لیکن ملازمت سے محروم۔

عمر کوٹ کا ضلع عمر ماروی کی رومانوی داستان کے حوالے سے بھی مشہور ہے اور یہاں قلعہ اور شہنشاہ جلال الدین اکبر کی پیدائش بھی ہے جب بادشاہ ہمایوں دہلی کے تخت سے محرومی کے بعد راجستھان کے راستے بلوچستان ہوتا ہوا ایران گیا تھا اسی ضلع کے روپلو کولہی نے برطانوی اقتدار کو اس کے نصف النہار میں للکارا اور پھانسی کا پھندا چوما تھا اور اسی رانا جاگیر کے راجپوتوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں برٹش امپائر کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی جب خطہ اتنا زرخیز اور مردم خیز ہو تو اس کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں شانتی، کملا اور گنگا پر مائی بختاور لاشاری کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہوں گے جو آج بھی ہاری حق دار تحریک کی ہیرو شمار ہوتی ہے قیام پاکستان سے قبل مائی بختاور نے وڈیرہ کلاس کو چیلنج کرکے جان دے دی تھی لیکن بٹائی کا حق منوا لیا تھا۔

شانتی، کملا اور گنگا ہی نہیں حیدرآباد کے ملحقہ ضلع مٹیاری میں باگڑی قبیلے کی لڑکیوں نے اپنے گھر میں اسکول کھول کر فروغ تعلیم کا وہ بیڑا اٹھایا ہے جو عالمی سطح پر فنڈ بٹورنے والی سندھ کی این جی اوز بھی نہیں کرسکی ہیں۔ ملالہ یوسفزئی کی کام یابیوں کو فخر سے دیکھنے والی لیلیٰ باگڑی نے بتایا کہ اس نے کلاونتی، سونیا، سیبا، نینا، دیاونتی کے ہمراہ ایک بیڑا اٹھایا ابتدا میں مٹیاری کے باگڑی محلے میں ان کے گھر میں کلاس کا آغاز ہوا تو بہت کم بچوں نے اسکول کا رخ کیا لیکن اب بچوں کی تعداد سو کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور ان میں غالب اکثریت لڑکیوں کی ہے اور لیلیٰ کہتی ہیں کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہماری کمیونٹی علم کی روشنی سے مالا مال ہو کیونکہ ماضی میں باگڑی لڑکیوں میں پڑھنے لکھنے کا تصور نہ تھا اس اسکول کے تمام اخراجات یہ تمام سہیلیاں مل کر پورے کرتی ہیں۔

خود لیلیٰ، کلاونتی، سیبا، سونیا، نینا اور دیاونتی ابھی طالب علم اور مستقبل میں اعلیٰ تعلیم اور بڑے مناصب کی متمنی ہیں یہ باگڑی دوشیزائیں ٹنڈو محمد خان کی عائشہ لغاری اور مٹھی کی آسو کولہی کا تسلسل ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں حکومتی اعانت کے بغیر علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں ایک ٹی وی رپورٹ میں مٹیاری کے ٹیکم باگڑی، گوپال داس، موہن رام و دیگر کا خیال تھا کہ یہ کوشش کام یاب رہے گی اور آنے والے دنوں میں مٹیاری کے باگڑی محلے کے بچے نئی شناخت کے ساتھ سامنے آئیں گے وہ بتا رہے تھے کہ اسی محلے کے راجا رام باگڑی نے لڑکیوں کا حوصلہ دیکھا تو اسکول کے لیے نہ صرف کمرے دیے بلکہ کتابیں اور قلم بھی عطیہ کرتا ہے مٹیاری کے سرہندی، مخدوم اور راشدی و بھٹائی پیر بھی سامنے آئیں تو علم کے یہ چراغ مینارہ نور بن سکتے ہیں۔

سندھ میں سائیں جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے 3 برس تک وابستہ رہنے والی زاہدہ ابڑو آج کل ایک رسالے ’’ہم سری‘‘ کی ایڈیٹر اور فروغ تعلیم کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ علاقائی اخبارات و جرائد میں مضامین اور شاعری کے ذریعے سماجی شعور کو بیدار کرنا ان کا مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی مجموعہ کلام ’’آئیے، خوبصورتی تلاش کریں‘‘ بھی آنے والا ہے اور تمنا یہ ہے کہ پروین شاکر کی طرح احساس اور جذبات کو بیان کروں۔ انھوں نے تھر کے لوک گیتوں کو اظہار کا بہتر ذریعہ قرار دیا جو ایک خاص کیفیت اور لطف دیتا ہے وہ فروغ تعلیم ہی کو سندھ کی ترقی کی ضمانت قرار دیتی ہیں جس سے وہ 23 برس تک وابستہ رہی ہیں۔

اسی طرح ضلع سانگھڑکی زاہدہ ڈاہری ہیں جنھوں نے جدوجہد کی علامت کے طور پر خود کو منوایا ہے یہ شہر سیاسی شعور کے اعتبار سے بہت بلند ہے طلبا سیاست میں عثمان نوری (جو کراچی سے رکن قومی اسمبلی چنے گئے) سلیمان ڈاہری، قابل ڈاہری، شاعرہ زوبی ڈاہری، بختاور منگنھار، صاحبزادی ڈاہری، اسمٰعیل وسان، عملی سیاست میں اشتیاق پٹھان، صحافت میں راؤ محفوظ علی، کرم علی ڈاہری سمیت متعدد بڑے نام ملتے ہیں۔ زاہدہ نے معصوم بچوں سمیت 12 دن تک سندھ میں فروغ تعلیم کے لیے 12 اضلاع کا پیدل مارچ بھی کیا تھا وہ اپنے گوٹھ انڑآباد (عمر آباد) میں خواتین کے اجتماعات بھی منعقد کرتی رہتی ہیں۔

15 اکتوبر کو ہر سال دیہی خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن کی تقریب میں شرکت ہوئی تو خاتون مقرر نے کہا کہ سندھ کی دیہاتی خواتین ایک مرد کے مقابلے میں چھ گھنٹے زائد کام کرتی ہیں۔ سڑک پر مشقت، پتھر کوٹنے، بوجھ اٹھانے سے کھیت، مزدوری تک اور گھروں میں مویشیوں کی نگہداشت سے دیگر امور تک ان کا کام علی الصبح شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ 70 فیصد دیہی خواتین ان کاموں میں مردوں کا ہاتھ ہی نہیں بٹاتیں بلکہ ان سے زیادہ محنت کرکے انھیں ریلیف دیتی ہیں۔

جنوبی ایشیا میں زراعت کا شعبہ تو تقریباً خواتین کے سپرد ہے خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزارنے والی عورتوں میں اب شعوری بیداری آئی ہے تو اس کے ثمرات بھی گنگا، کملا اور شانتی جیسی درجنوں لڑکیوں کی صورت نظر آئے ہیں جو پسماندہ اقوام سے تعلق کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں ہیں۔ دیہات کی خواتین کو صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے تعلیم سے دور، فیصلوں میں عدم شرکت اور دیگر اسباب نے بھی انھیں غیر مستحکم کیا ہے حالانکہ پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے جہاں خواتین بہ لحاظ آبادی اکثریت میں ہیں اور ملکی آبادی کا 48.35 فیصد عورتیں ہیں جبکہ خواتین کی 59.21 فیصد دیہات میں مقیم ہے قومی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ تعلیم و صحت پر خرچ ہو تو خواتین اپنا فعال معاشرتی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ محترمہ نورالہدیٰ شاہ کو پڑھے لکھے افراد ان کے ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے ہی جانتے ہیں حالاںکہ ان کی تحریریں بھی سندھی سماج کا آئینہ ہیں۔

آپا نے جس طرح وڈیرانہ معاشرے، جاگیردارانہ رویوں پر سے نقاب کھینچا ہے وہ ان کا ہی خاصا ہے۔ نورالہدیٰ شاہ نے اونچی دیواروں، طویل و عریض حویلیوں، مقفل کمروں اور فرسودہ رسم و رواج کو آئینہ دکھایا تو بہادری کا نشان بن گئیں حالاںکہ ماضی قریب تک ابراہیم منشی، استاد بخاری، سرویچ سجاولی اور شیخ ایاز و دیگر نے بھی ان موضوعات کو چھیڑا تھا لیکن بلند آہنگ نورالہدیٰ شاہ سے ملا۔ غیرت کے نام پر اپنی ناموس کی حفاظت اور دوسروں کی عزت پر حملے کرنے والے ’’بے غیرتوں‘‘ پر تازیانے کا کام ان تحریروں نے بھی کیا جن میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ بدکار قرار دے کر ماری گئی ’’کاری‘‘ عورتوں کے تو قبرستان ہیں جنھیں کفن، غسل اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھوں میں دبا دیا گیا لیکن پورے سندھ میں بدکار مردوں کا کوئی قبرستان نہیں کیا سارے مرد پاک باز ہیں؟

ممتاز سماجی کارکن عظمیٰ نورانی نے ایک ورک شاپ میں امید دلائی تھی کہ جب تک خواتین اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کریں گی انھیں انصاف نہیں ملے گا لیکن جس دن انھوں نے تعلیم کو ہتھیار بنایا ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ یہ عظمیٰ نورانی کا موقف نہیں بدیہی حقیقت ہے ضلع سانگھڑ کے نواحی گوٹھ امان اللہ ڈاہری کا محبوب گرگلہ بھی ایک مثال ہے جو خانہ بدوش قبیلے گرگلہ سے تعلق رکھتا ہے مگر بالی شاہی، شکاری، کبوترے، سامی اور جوگیوں کی طرح بھیک مانگنے، مردہ جانور کھانے سے کوسوں دور ہے یہ قبائل اپنی عورتوں سے بھیک منگوانے، جسم فروشی سمیت کتنی ہی بری عادتوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے بچے کم عمری سے بھیک مانگ کر سفر کا آغاز کرتے ہیں محبوب نے بھی جو آج کل سوڈھو کہلاتا ہے کم عمری میں بھیک مانگی لیکن ایک روز اس کی زندگی میں انقلاب آگیا وہ بھی اس طرح کہ وہ امان اللہ ڈاہری گوٹھ میں ایک دکان کے باہر شدید گرمی میں سانس لینے کے لیے رکا تو اسٹیشنری شاپ کے مالک پنھل ڈاہری نے سندھی روایت کے مطابق ’’حال احوال‘‘ کیا بچے کو اس کا انداز بھایا تو اکثر سستانے کے لیے وہاں جانے لگا دکاندار نے جو ہائی اسکول میں ٹیچر بھی تھا اس کی رغبت صاف ستھرے بچوں کی سمت دیکھی تو اسے حصول علم پر آمادہ کیا اسٹیشنری دی اور ایک خط بھی جس میں ہیڈ ماسٹر سے سفارش کی گئی تھی اسکول میں اس کی خستہ حالی اور مردہ جانور کھانے، بھیک مانگنے والے خاندان کے باعث بچے ساتھ بٹھانے پر آمادہ نہ تھے۔

محبوب نے زمین پر بیٹھنا قبول کیا مگر تعلیم نہ چھوڑی اور محض تین برس میں پرائمری کی پانچ جماعتیں پاس کرلیں کہ ہر برس دو جماعتوں کا امتحان دیا۔ ہائی اسکول سے مڈل کیا اس دوران اس کی شادی قبیلے میں ہوگئی تو دلہن نے میکے میں شکایت کی کہ محبوب نہ بھیک مانگتا ہے نہ مردہ جانور کھاتا ہے جس پر قبیلے والوں نے اس کی والدہ کو رکھ کر والد کو بچوں سمیت برادری سے نکال دیا اور اس کی شادی شدہ بہن کو بھی رشتہ توڑ کر ساتھ بھیج دیا۔

محبوب کو اس واقعے کا آج تک رنج ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اپنے تمام بہن بھائیوں کو پڑھایا اور اب وہ سب محنت کرتے ہیں بھیک نہیں مانگتے ایک اخبار میں اے بی آریسر نے یہ روداد لکھی تو عظمیٰ نورانی اور شیما کرمانی کی تقاریر یاد آگئیں جن میں انھوں نے کہا تھا کہ تعلیم ہی تبدیلی لاتی ہے۔ شانتی، کملا اور گنگا کی طرح محبوب بھی تعلیم کی وجہ سے ہی سماج میں محترم ہے اور سچ یہ ہے کہ سندھی عورت اب سماج کی قیدی نہیں رہی علم کی روشنی نے اسے بہادر بنادیا ہے۔

The post سندھی عورت سماج کی قیدی نہیں رہی appeared first on ایکسپریس اردو.

خلاء میں پہنچیں صرف خواتین

$
0
0

کرۂ ارض کی دوشیزائیں جن کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ہے، اپنی آنکھوں میں نئی امنگیں اور حسین خواب سجائے، جوش اور مسرت کے بھرپور جذبات کے ساتھ مستعدی سے تیار تھیں ایک دلیرانہ کام انجام دینے کے لیے۔

طے شدہ خلائی پروگرام کے تحت 29 مارچ2019 ء، جمعہ کے روز انہیں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS)) کے باہر چہل قدمی (اسپیس واک) کرتے ہوئے ایکسٹر اویلکولر ایکٹیویٹی (EVA)کرنا تھی کہ عین وقت پر قومی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ کی جانب سے انہیں نہ صرف روک دیا گیا بلکہ اس ممکنہ خواتین کے خلائی مشن پوسیبل کو ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ میں بدل دیا گیا۔

ناسا نے اس کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ کچھ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ یہ توجیح یوں تھی، ’’اس مکمل خواتین کے خلائی مشن کے لیے درکار ’عورتوں والے سائز کے درست خلائی سوٹ دست یاب نہیں تھے‘‘، چنانچہ عالمی میڈیا اور خاص وعام میں اسے سخت تنقید کا سامنا ہے جسے ایک مذاق کے طور پر بھی لیا گیا، کیوںکہ دو خواتین خلابازوں کے لیے درست ناپ کا ایک ہی سوٹ تھا۔ اس لیے خلاء میں چہل قدمی کے اس مکمل مشن پروجیکٹ کو فی الفور منسوخ کردیا گیا ہے۔

اب چھ ماہ بعد خلاء میں دو شہزادیوں نے 18 اکتوبر 2019 ء کو رکا ہوا مشن کام یابی سے مکمل کرلیا ہے، جو کہ خلائی تاریخ میں نیا باب ہے اور خلائی چہل قدمی کے اس مشن کو تمام خواتین پر مشتمل عملے نے مکمل اور کنٹرول کیا جو ایک نیا عالمی خلائی ریکارڈ بھی ہے۔

,EVAخلائی لبا س یا ’’اسپیس سوٹ کیا ہے‘‘؟: خلائی سفر کے دوران خلابازوں کو خلاء کے ماحول کا جائزہ لینے کے لیے اپنے خلائی جہاز یا اسٹیشن سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ یہ بڑا ہی نازک وقت ہوتا ہے جس میں اپنی حفاظت کے لیے خلابازوں کو مخصوص قسم کا خلائی لباس پہنا لازمی ہوجاتا ہے، تاکہ ان کا جسم خلاء کے زبردست دباؤ کو برداشت کرسکے۔ اس صورت حال میں پہلے وہ ایک تار یا کیبل سے اپنے جہاز سے اسٹیشن سے جڑے رہتے ہیں اور فی زمانہ اب خودمختار قسم کی خلائی کرسیاں بھی موجود ہیں جو کہ انہیں خلاء میں بھٹکنے سے بچاتی ہیں۔ خلاء میں اس طرح باہر نکلنا اسپیس واک یا ’’خلائی چہل قدمی‘‘ کہلاتا ہے۔ انہیں خلاء کے جائزہ کے علاوہ اپنے اسٹیشن کی بھی دیکھ بھال کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی خلاء میں سرگرمیوں کو ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹی (EVA) کہتے ہیں۔

خلاء باز ایسے سفر پر جاتے ہیں جہاں ہوا کا عمل دخل نہیں خلائی سفر کا یہ نہایت گھٹن وقت ہوتا ہے جس میں حرارت اور سردی، دونوں سے بیک وقت واسطہ پڑتا ہے۔ اسی لیے خلائی سفر کے لیے خاص سوٹ ڈیزائن کیے جاتے ہیں جو کہ ان کی حفاظت کو یقینی بناتے میں مدد کرتے ہیں۔ خلائی سوٹ خلاء باز کے اطراف ایک باحفاظت فضائی ماحول مہیا کرتا ہے۔ لباس میں زمینی ماحول جیسا تاثر پید ا ہوتا ہے۔ درجۂ حرارت اور اندرونی دباؤ کو قائم رکھا جاتا ہے۔ خلابازوں کے کندھوں پر پانی او ر ہوا کے ٹینکر لدے ہوتے ہیں سوٹ کے اندر موجود پلاسٹک کی ٹیوبوں کے ذریعے ٹھندا پانی رواں رہتا ہے جب کہ خلائی سوٹ کے اندر ’’انڈرویئر‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس سے خلابازوں کی رفاہ حاجت پوری ہوتی ہے اور صفائی کا نظام انہیں پرسکون رکھتا ہے۔ حال ہی میں ناسا نے خلاء بازی کے لیے ایک نئے قسم کا رنگ دار سوٹ بھی لاؤنچ کردیا ہے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن(ISS)؟: زمینی مدار میں خلائی اسٹیشن ایک عارضی انسانی رہائش گاہ ہوتی ہے۔ بنیاد طور پر یہ ایک مصنوعی سیارچہ یا سیٹیلائٹ ہی ہوتا ہے جو خلاء میں گردش پذیر رہتا ہے۔ اس کا مقصد خلاء میں ایک ایسا پلیٹ فارم یا اڈا تعمیر کرنا ہوتا ہے جہاں خلائی سفر کے دوران مسافر اور خلاء میں کام کرنے والے ورکر رہتے ہیں۔ یہ روس کا نواں خلائی اسٹیشن ہے اس سے پہلے‘‘ میر‘‘ اور شروع میں خلائی اسٹیشنز کی سیریز ’’سیلوٹ‘‘ کے نام سے لاؤنچ کی جاچکی ہیں۔ میر اسٹیشن میں 11 جولائی 1999 ء میں ہوا کا دباؤ کم ہوگیا تھا جس کے بعد اسے تباہ کردیا گیا۔ میر کے بعد2000ء سے روس نے ایک نئے اور زیادہ پائے دار طویل مدتی منصوبے کے لیے حالیہ خلائی اسٹیشن ISS کو تعمیر کیا ہے اور اس کی بہتری جاری ہے۔

اس عظیم منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 20 بلین پاؤنڈز لگایا گیا تھا جب اسے لاؤنچ کیا گیا اور اس مہنگے ترین پروجیکٹ کا کسی ایک ملک کے لیے سنبھالنا ممکن نہ تھا جس کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس میں دنیا کے 15 سے زائد ممالک معاونت کررہے ہیں۔ خلائی سفر اور اسٹیشن میں رہتے ہوئے روس کو وسیع تجربات حاصل ہیں۔ اسی لیے روس اس بڑے مشترکہ منصوبے کی سربراہی کررہا ہے ۔ امریکا کے علاوہ برازیل، جاپان، کینڈا اور گیارہ یورپین ممالک اپنے سائنسی تحقیقی خدمات کے لیے کام کررہے ہیں اور اس عظیم پروجیکٹ میں برابر کے حصے دار ہیں۔ شروع میں اس کی کارکردگی کی مدت 14 برس رکھی گئی تھی۔

400 ٹن وزنی خلائی اسٹیشن ISS جس کی عرفیت ’’الفا‘‘ رکھی گئی ہے اسے روسی طاقت ور راکٹ کی مدد سے خلاء کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کے خلائی جہاز کے پے لوڈ (گنجائش) کا وزن 20 ٹن تھا۔ اسٹیشن کو پارٹس کی شکل میں خلاء میں پہنچاکر بنایا گیا ہے۔41 فٹ اور 13انچ قطر والے الفا اسٹیشن کو کمرشل مقاصد کے لیے 2004 ء میں کھولا گیا تھا جسے ’’سٹی آف دی اسکائی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ زمین کے اطراف اس کی رفتار 1800 میل فی گھنٹہ ہے اور اسے مزید وسعت دی جارہی جس کے لیے ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹیز یعنی خلائی سرگرمیوں ( EVA ) کے لیے 1,729 گھنٹوں کی چہل قدمیوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ خلائی اسٹیشن خلاء میں ایک سروس اسٹیشن بھی ہوتا ہے جہاں اسپیئر پارٹس اور ایندھن کا ذخیرہ ہوتا ہے، تاکہ خلائی جہازوں کو بوقت ضرورت امداد بہم پہنچائی جاسکے۔

ایک اسٹیشن ایک ہوٹل کی شکل میں بھی ممکن ہوسکتا ہے جس میں خلاء باز کئی ماہ قیام پذیر رہ سکیں گے۔ خلائی اسٹیشن ایک گھر کی طرح ہوتا ہے جس میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات خلاء بازوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہاں بجلی کا نظام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خلائی اسٹیشن ISS کے باہر نصب بیٹریاں بجلی مہیا کرتی ہیں جو کہ اسٹیشن پر لگے بڑے بڑے سولر پینلوں (Arrays) سے خارج ہونے والی بجلی سے چارج ہوتی رہتی ہیں اور بجلی جمع کرتی ہیں۔ چار بیٹریوں کے سیٹ کو بیٹری چارچ / ڈسچاری یونٹ (BCDU) کہا جاتا ہے۔ BCDUکے آپریشنز دسمبر 2000 ء سے جاری ہیں۔ حالیہ مشن اسی یونٹ کی بیٹریوں کو دستیاب نئی بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے کیا گیا جس سے بجلی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔

پچھلے منسوخ شدہ مشن میں دو نوجوان خواتین کرسٹینا کوچ(Christina Koch ) اور این میکلین ( Anne Mcclain) تھیں، اب این میکلین کی جگہ جسیکامیر ( Jessica Meir) کو جڑواں خلائی چہل قدمی کے مشن میں موقع دیا گیا ہے، این اس اہم مشن کا حصہ بننے سے رہ گئیں۔ دونوں خلاباز کرسٹینا اور جسیکا میر ناسا کی تربیت یافتہ خلاباز ہیں، جو خلاء کی تاریخ میں ایک نیا تاریخی ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔ یہ ناسا کی اس تمام خواتین پر مشتمل پروجیکٹ مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد ’’خواتین خلائی جوڑی ‘‘ کی شکل میں اسپیس واک کرتے ہوئے کام کرنا تھا۔ ان سرگرمیوں میں خلاء باز کو محفوظ بنانے والا لباس یعنی ’’خلائی سوٹ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ حالانکہ ناسا کے مطابق میکلین کی خلائی تر بیت وقت دونوں ہی سائز، بڑے اور درمیانے لباس کو پہنا کر کروائی جاچکی تھیں۔

عین وقت پر لباس پہننے کے بعد این میکلین کو ادراک ہوا کہ ان کا سوٹ انہیں فٹ نہیں آرہا اور مشن کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔ خلائی ادارے ناسا نے بتایا تھا کہ ان سوٹوں میں اوپری طرف، قمیض والی جگہ پر گڑبڑ ہے۔ اس وقت ناسا کے پاس بین الاقوامی اسٹیشن پر موجود صرف دَو درمیانے سائز کے خلائی سوٹس تھے جن میں سوٹ کے اوپری حصے موجود ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف ایک ہی سوٹ خلائی چہل قدمی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے خلائی لباس کو تیار کرنے میں 6 گھنٹے درکار ہوتے ہیں، تو ایسی صورت حال میں انہوں نے اس کام کو بدلنے کے بجائے عملے کو بدلنا نسبتاً آسان اور محفوظ سمجھا۔

ناسا کے خلائی مرکز ہوسٹن کی ترجمان برینڈی ڈین نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ہر شخص کی ضروریات میں تبدیلیاں الگ الگ ہوسکتی ہیں کیوںکہ ہر کسی جسم کا خلاء کی صفرکشش ثقل پر مختلف ردعمل دکھاتا ہے، جو کہ تجربوں سے ہی پرکھا جاسکتا ہے۔ 2004 ء میں امریکا کی ورجینیا یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈبائیو میکینکس کی تحقیق کے مطابق کار کے حادثات میں ڈرائیوروں کی سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے تجربات میں معلوم ہوا کہ خواتین کو گہری چوٹ کا خدشہ مردوں کے مقابلے میں 47% فیصد زیادہ ہوتا ہے اور درمیانی چوٹ کا% 71 فیصد ہوتا ہے۔ دہائیوں سے جو ڈمیاں استعمال ہورہی ہیں ان کی پچاس فیصدی اوسط ساخت مردانہ جسم کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی لیے حادثے کے درست نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، جب کہ 2015 ء کی ایک تحقیق جو جریدے ’’نیچر ‘‘ میں چھپی ہے، کہتی ہے کہ خواتین کے جسم کی حرارت میں مردوں کے مقابلے میں پانچ ڈگری فرق ہوسکتا ہے، کیوںکہ خواتین کا میٹابولزم مردوں کی نسبت 35% فیصد کم ہوسکتا ہے۔

امریکی ریڈیو کے مطابق 1990 ء میں ناسا نے اپنے چھوٹے سائز کے خلائی لباس کی تیاری میں بجٹ کی کٹوتی کی تھی جس کے لیے خلائی پروجیکٹ کو روک دیا گیا تھا۔ تاہم ناسا کے حکام نے خواتین خلابازوں کی پرفارمنس کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلاء میں مردوں کی طرح یکسوئی سے کام کرتی ہیں۔ خواتین ناسا کی ایک تہائی فورس کا حصّہ ہیں۔ ان میں 28% فیصد سنیئر ایگزیکٹیو لیڈر شپ جب کہ16% فیصد سنیئر سائنٹیفک ورکرز ہیں۔ دنیا کی پہلی خاتون خلاء باز ویلنٹینا ٹریشکووا 16 جون 1963 ء کو اپنے کام یاب تاریخی سفر روانہ ہوئیں اور بخیریت واپس آگئیں۔ مردوں کی خلاء میں کام یاب پروازوں کے بعد یہ جاننا ضروری ہوگیا تھا کہ عورتوں کے جسم پر خلاء کے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خلائی تسخیر کے حوالے سے روس اور دنیا کے دوسرے اہم ترین انسان الیکسی لینوف بھی چل بسے، عین اس جڑواں خواتین کی خلائی چہل قدمی کے مشن سے سات روز پہلے11 اکتوبر کو ان کی 80 سال میں موت واقع ہوئی۔ ایک دوسرے روسی لیجنڈ خلاء باز ویلری بائیکووسکی کی زندگی کا سفر بھی رواں سال مارچ میں اختتام کو پہنچا۔ دونوں آنجہانی خلابازوں کی روس کی خلائی تحقیق میں بہت زیادہ خدمات ہیں۔ خلاء میں اولین خلائی چہل قدمی الیکسی لینوف نے کی تھی جنہیں ’’بلونڈین ‘‘ (سنہرے بالوں والا) کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

روس میں پہلی خاتون کی پرواز کے 19 سال کے ایک بار پھر عظیم خاتون کے خلائی سفر کی داستان کو دُہرایا گیا۔ اس بار عام گھرانے کی لڑکی کے مقابلے میں ایک سوویت ملٹری کمانڈر کی بہادر اور دلیر بیٹی کو خلائی سفر پر روانہ کیا گیا۔ یہ لڑکی 34 سالہ سیوتلانہ ہیں جن کی طویل عرصے کے بعد خلاء میں بھیجے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ وہ اپنے پہلے خلائی سفر پر 19 اگست 1982 ء کو خلائی جہاز سیوزٹی۔7 سے روانہ ہوئیں تھیں ان کی اگلی پرواز 17 جولائی 1984 ء میں ہوئی جب وہ خلائی جہاز سوئزٹی ۔12 سے خلاء میں پہنچیں، سوتلانا ساویتسکایا (Svetlana Saviskaya) نے خلاء میں رہتے ہوئے خواتین کی طرف سے پہلی بار اِیکسٹرا وِیکولرَ اِیکٹیوٹیز انجام دی تھیں۔ اس طرح وہ مرد خلاء باز الیکسی لنیوف کے بعد خواتین کی پہلی چہل قدمی کرنے والی خلاباز بن گئیں۔

اسی سال امریکا کی جانب سے بھی خاتون نے خلاء میں چہل قدمی کرکے ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ سیوتلانہ 3 گھنٹے، 35 منٹس تک خلاء اسٹیشن سے باہر رہیں اور وہ روس کی جانب سے 2010 ء تک خلائی چہل قدمی کرنے والے 57 خلابازوں کی لسٹ میں واحد خاتون ہیں۔ امریکا کی جانب سے پہلی تاریخی خلائی چہل قدمی آنجہانی ایڈوروائٹ نے کی تھی اس کے بعد اب تک خواتین کو صرف خلائی مہمات میں مردوں کے ساتھ شریک کار بنایا جاتا رہا ہے، جب کہ انہوںنے خلاء کی سرگرمیوں (EVA) ، میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیا تھا۔ سنہ1984 ء سے خاتون خلاباز سیوتلانہ کی اولین خلائی چہل سے اب تک 15 خواتین خلائی چہل قدمیاں کرچکی ہیں، ان میں سوائے ایک کے تمام خواتین امریکی ہیں۔ حالیہ چہل قدمی اور اس سے متعلق سرگرمی EVA کئی عشروں کی محنت کا نچوڑ ہے۔

امریکا قومی خلائی ایجنسی ناسا (نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈ منسٹریشن) کی دونوں خلاباز خواتین جسیکا اور کرسٹینا آپس میں بہترین دوست بھی ہیں۔ 40 سالہ کرسٹینا کَوچ الیکٹریکل انجینئر ہیں جب کہ ان کی ہم عمر جسیکامیر میرین بائیلوجی ڈاکٹر ہیں جو مارچ سے خلائی اسٹیشن پر ہیں جن کی یہ چوتھی خلائی چہل قدمی تھی جب کہ وہ پروگرام کے مطابق اسٹیشن پر فروری2020 ء تک قیام پذیر رہیں گی۔ کرسٹینا نے گاڈرڈ(Goddard)خلائی مرکز رہتے ہوئے سائنسی آلات کا استعمال کیا اور کاسمولوجی (کائنات) اور آسٹروفزکس(فلکیاتی طبیعات) کا مطالعہ کیا ہے اس کے علاوہ وہ امریکی انٹارٹک پروگرام کی تحقیقاتی معاون بھی رہیں ہیں اور انہوں نے جنوبی قطب پر ایک سال گزارا تھا جب کہ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر نے ناسا کی صفر کشش ثقل پر انسانی جسم کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے اور سخت ماحولیاتی حالات پر جانوروں کی فزیالوجی (جسمانی ساخت) پر کام کرچکی ہیں۔

جسیکا میر 19 ستمبر سے آئی ایس ایس پر ہیں دونوں دوستوں نے ناسا ایک ساتھ جوائن کیا تھا۔ خلابازوں کی کلاس میں ان کا نک ِنیم “Eight Balls” ہے۔ ان کی سب سے ہائی پرسنٹیج تھی جو کسی بھی خاتون خلاباز گروپ کی اب تک کی سب سے نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ اب تک سب سے زیادہ خلاء میں وقت گزارنے والی خواتین کرسٹینا کوَچ بن چکی ہیں جو کہ ماہ اکتوبر کے اختتام پر 241 دن ISS اسٹیشن پر بسر کرچکی ہیں جو کہ کسی خاتون خلاباز کا سب سے زیاد ہ لگاتار خلاء میں رہائش کا نیا ریکارڈ ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر کو بھی لگاتار خلاء میں رہتے ہوئے 42 روز ہوچکے ہیں۔

حالیہ کامیاب مشن پانچ خلائی چہل قدمیوں کے پروگرام اور اُس خلائی مشن کا حصہّ ہے جس کا نام “Expedition-61″ رکھا گیا ہے جو چھ بین الاقوامی خلابازوں پر مشتمل ٹیم شامل ہے۔ اس میں چہل قدمیوں اور خلائی سرگرمیوں کے ساتھ لیب میں سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس ٹیم میں کرسٹینا اور جیسکا کے علاوہ ناسا کے خلاباز جوائنٹ فلائٹ انجینئر اینڈیو مورگن، روس انٹر کاسموس کے دو سنیئر خلاباز الیگیذینڈر اِکورتوو(Alexander Skvortov) ،اَولیِگ اِسکریپوچکا(Oleg Skripochka) اور اس تجرباتی مشن ایکس۔61 کے کمانڈر لوُسا پاَرِیمیتانو(Luca Parmitano)ہیں جن کا تعلق یورپی خلائی ایجنسی (ESA) سے ہے اور وہ اٹالین ہیں جب کہ خلائی اسٹیشن کے اس وقت مینجر کینی ٹوڈ(Kenny Todd) ہیں۔

سنیئر خاتون خلاباز اسٹیپنی ولسن (Stephanie Wilson) نے زمینی خلائی مرکز سے اپنی آواز کے ذریعے تمام خواتین پر مشتمل عملے کی مکمل نگرانی کی جو کہ ہوسٹن کے خلاء مرکز پر موجود تھیں۔ ولسن 42 دن خلاء میں بسر کرچکی ہیں جو کہ انہوں نے تین مختلف پروازوں کے مدد سے چار سالوں(2006-2010) میں بنایا ہے۔ بطور خلاء باز ولسن کا انتخاب اپریل 1996 ء میں ہوا تھا وہ پہلی افریقی۔ امریکی خاتون خلاباز Mac Jemison کے بعد خلاء میں جانے والی دوسری خاتون خلاباز بن گئیں۔ ولسن نے ہی 2013 ء میں کرسٹینا اور میر کا انتخاب کیا تھا۔ اس چہل قدمی کی نگراں جیکی کیگینی (Jackie Kageny)ہیں۔ فلائیٹ انجینئر جسیکا میر اور سائنس دان کرسٹینا کَوچ کی راہ نمائی اور مدد ایکس۔61 کے کمانڈر لُوسا پاَرِیمیتانو اور ان کی ٹیم کے دوسرے خلاباز بھی کرتے رہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے بروقت نمٹا جاسکے۔

اس سے پہلے 11 اکتوبر کو کرسٹینا نے اپنے ساتھی خلاباز اینڈریو مورگن کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے پرانی نکل بیٹروں کو لیتھیم آئن بیٹریوں سے تبدیل کردیا تھا جس میں 6 گھنٹے اور 45 منٹس صرف ہوئے۔ یہ اب تک43 ویں اورISS کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے 22ویں خلائی چہل قدمی تھی جس میں مکمل طور پر خواتین عملہ شامل تھا۔ پہلی تاریخی جڑواں خواتین کی چہل قدمی اپنے شیڈول کے مطابق 5 گھنٹے اور 32 منٹ تک جاری رہی اور ہدف کو پور ا کیا گیا۔ تاریخی چہل قدمی18 اکتوبر کے دن شروع ہوئی 11:38 (گرینچ وقت) اور ایکسٹرا ویکولر ایکٹیوٹی (EVA) کا آغاز کیا گیا :50 11(گرینچ وقت) صبح کے وقت ہوا۔ اسٹیفنی ولسن گراؤنڈ پر ، لُوسا اور مورگن آئی ایس ایس کے اندر موجود تھے جو اس مشن کی ہدایات دیتے رہے ۔کوچ کے پاسEVA کا بیگ تھا جس میں کام کرنے کے اوزار اور آلات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لائف سپورٹ سسٹم بھی لدا ہوتا ہے۔

کوچ کے سفید خلائی سوٹ پر سرخ پٹیاں تھیں جو ان کی شناخت بتاتی رہیں۔ خلائی اسٹیشن پرExP-61 کے حوالے سے جو سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں ان میں پرواز سے پہلے اور پرواز کے بعد صفر کشش ثقل پربائیولوجیکل صحت کے اثرات کا جائزہ ، خون دماغ پر کیسا ردعمل رکھتا ہے۔ کینسر تھراپی (علاج)، انسانی وجود کے بنیادی مادے DNA کی سیکوئنس اور خلائی زراعت اور روبوٹکس ٹیکنالوجی پر تحقیقا ت وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے پہلے خاتون خلاء باز کیٹ رُوبن(Kate Rubin) وہ پہلی شخصیت بن چکی ہیں جنہوں نے خلاء میں DNA کے تسلسل کا مشاہدہ کیا تھا جو کہ تاریخ میں پہلا تجربہ ہے۔ کیٹ نے یہاں اسٹیشن پر رہتے ہوئے اپنی زندگی کے سب سے خطرناک مہلک مرض کو پیدا کرنے کی اہلیت کا مطالعہ کیا، زمین کے برعکس صفر کشش ثقل پر۔ اس مشن میں کینیڈا کے روبوٹکس بازو” Canadarm ـ”نے بھی خدمات انجام دیں۔

امریکا بھر کے طول وعرض میں اس مشن کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور اسے خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک تقلیدی مثال سمجھا جارہا ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایک لائیو وڈیو کانفرنس میں جواں سال خلاباز لڑکیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ ’’تم نے جو کیا ہے اس پر ہمارے ملک کو تم پر فخر ہے!‘‘ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر Jim Bidenstine کہتے ہیں کہ اس طرح کی تمام کاوشیں خلابازوں کو چاند پر بھیجنے کی تیاریوں کا سلسلہ ہیں۔ پہلے مرد / خاتون کو   2024 ء تک چاند پر بھیجا جائے گا۔ ناسا کے معاون ایکٹیو ایڈمنسٹریٹر (برائے انسانی تجربات اور آپریشن) Ken Bowersoxنے بھی مشن کی کام یابی پر کہا ہے کہ خواتین نے ایک عام معمول کے کام کی طرح پرفارمنس دی ہے۔ عظیم تر خلاء کا پرامن استعمال اور انسانی تحقیقات کے علم میں اضافے میں خواتین اب برابر کی حصّہ دار بن چکی ہیں۔ امریکی ریپلکن خاتون کیتھرین کلارک نے اس پر دل چسپ ٹوئٹ کی ہے،

“One Giant Leap for Womenkind!”

The post خلاء میں پہنچیں صرف خواتین appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستانی زندگی کے ساڑھے پانچ برس ٹی وی دیکھنے پرصرف کرتے ہیں

$
0
0

ــ’’ ٹیلی ویژن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے سامنے بیٹھ کر اپنی آنکھیں اس کی اسکرین پر جمائے رکھنا پڑتی ہیں۔ ایک عام امریکی خاندان کے پاس ایسا کرنے کے لیے وقت نہیں ۔اس وجہ سے اگر کوئی اور نہ ہو تو ٹیلی ویژن کبھی بھی ریڈیو کا سنجیدہ حریف نہیں بن سکتا‘‘۔

یہ تبصرہ نیویارک ٹائمز نے 1939 میں نیویارک میں ہونے والے عالمی میلے میں امریکی عوام کے ٹیلی ویژن سے متعارف ہونے کے بعد کیا۔ لیکن وقت نے اخبار کے اس تبصرے کو غلط ثابت کردیا۔ کیونکہ آ ج وہی امریکی عوام جن کے بارے میں نیو یارک ٹائمز کا یہ کہنا تھا۔ کہ اُن کے پاس ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیںاُنھوں نے 2019 کی پہلی سہ ماہی میں روزانہ اوسطً 4 گھنٹے 27 منٹ ٹی وی دیکھا۔ جبکہ اس وقت12 کروڑ 6 لاکھ امریکی گھروں میں ٹی وی سیٹ موجود ہے۔ یعنی 30 کروڑ73 لاکھ امریکیوں کو اپنے گھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔

ایسی صورتحال صرف اکیلے امریکہ ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت ٹی وی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔ یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ (Eurodata TV Worldwide ) کے مطابق 2018 میں دنیا کے94 ممالک (جن کا مطالعہ کیا گیا) میں اوسطً 2 گھنٹے 55 منٹ ٹی وی دیکھا گیا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ  ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ 2017 میں دنیا کے1.63 ارب گھروں جو کہ عالمی سطح پر 80 فیصد گھر بنتے ہیں اُن میں ٹی وی سیٹ موجود تھا۔

ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً تمام گھروں میں اور ترقی پذیر ممالک کے 69 فیصد گھر یہ سہولت رکھتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ٹی وی نشریات کے سگنلز پہنچ رہے ہیں۔ اپنی اس قدر رسائی کی وجہ سے ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عمل دخل ہر سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں بہت بڑھ گیا ہے جس کے اعتراف کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان 17 دسمبر1996 کو کیا کیونکہ لوگوں کو مطلع کرنے، عوامی آرا کو متاثر کرنے اور اُس کی تشکیل میں ٹیلی ویژن کو ایک اہم ذریعہ کے طور پر دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔

پاکستان بھی ٹی وی کے طلسم کے حصار میں آنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاںاپریل 2018 میں گیلپ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق ملک میں فی ناظر روزانہ اوسطً تقریباً دو گھنٹے (117 منٹ( ٹی وی دیکھتا ہے۔

اگر ہم پاکستان میں ٹی وی دیکھنے کے اوسط دورانیہ کا عالمی سطح پر موازنہ کریں تو لندن کے ادارےZenith  کی رپورٹ ’’میڈیا کنزمشن فورکاسٹ2016 ‘‘ (Media Consumption Forecasts 2016) میں موجود اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹائم ٹی وی دیکھنے پر سعودی عرب میں صرف کیا جاتا ہے۔ جہاں 2016 میں اوسطاً 404.7 منٹ روزانہ فی ناظر نے ٹی وی دیکھا۔ دوسرے نمبر پر بو سنیا ہرزگوینیا تھا جہاں یہ دورانیہ 333.2 منٹ روزانہ تھاجبکہ رومانیہ میں یہ طوالت 322.5 منٹ روزانہ تھی یوں وہ تیسرے نمبر پر تھا۔ پاکستان کا اس عالمی درجہ بندی میں 47 واں نمبر تھا۔ سب سے زیادہ انفرادی اوسط طوالت پر مبنی ٹی وی دیکھنے والے پہلے دس ممالک میں سے تین کا تعلق اسلامی دنیا سے تھا۔ جن میں سعودی عرب پہلے، کویت 7 ویں اور متحدہ عرب امارات نویں نمبر پر تھا ۔

گیلپ پاکستان کے 2017 ء میں ہونے والے میڈیا سروے کے مطابق67 فیصد پاکستانیوں نے ٹی وی دیکھنے کا اقرار کیا۔ جن میں سے 74 فیصد  با قاعدہ ناظر تھے اور 21 فیصد کبھی کبھار اور5 فیصد شاذو نادر ٹی وی دیکھتے تھے۔ اسی طرح 2017-18 میں ملک میں ہونے والے پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین (ever-married women ) کا 50.6 فیصد اور اس ایج گروپ کے شادی شدہ مردوں (ever-married men) کا 55.4 فیصد ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھتے ہیں ۔ دیہی علاقوں کی خواتین میں یہ تناسب 38.9 اور شہری علاقوں میں 70.7 فیصد ہے۔

اسی طرح شہروں میں رہنے والے مردوں میں ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھنے کی شرح  68.3 فیصد اور دیہات میں 46.8 فیصد ہے۔ خواتین میں سب سے زیادہ ٹی وی دیکھنے کی شرح کا تعلق اسلام آباد سے ہے جو 77.5 فیصد ہے۔ جبکہ سب سے کم خیبر پختونخوا میں 26.9 فیصد ہے۔ اسی طرح مرد ناظرین کا سب سے زیادہ تناسب 81.8 فیصد بھی اسلام آباد سے ہی ہے اور سب سے کم 34.1 فیصد بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک میں ٹی وی سیٹس کے حوالے سے صورتحال پی ڈی ایچ سروے کے مطابق یہ ہے کہ سال2017-18 کے دوران ملک کے 62.8 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ موجود ہے۔ شہروں کے 86.4 فیصد اور دیہات کے48.1 فیصدگھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔

ٹی وی اپنے ناظرین کے لیے اطلاعات، معلومات اور تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایڈورٹائزرز کے لیے اپنے کاروبار یا پروڈکٹ کی تشہیر اور اپنی آرگنائزیشن کے لیے آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر یہ صنعت کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ٹی وی کی معاشی اہمیت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بخوبی ہوتا ہے کہ2016 میں عالمی سطح پر ٹی وی انڈسٹری کا ریونیو366 ارب بر طانوی پاؤنڈ سے زیادہ تھا اورگزشتہ سال عالمی سطح پر ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی مجموعی مالیت 200 ارب ڈالر تھی۔

پاکستان میں 2017-18 کے دوران ٹی وی پر 38 ارب روپے کے اشتہارات نشر ہوئے جو اشتہارات کی کل مالیت کا 46 فیصد تھے۔ ملک میں ٹی وی پر پیش ہونے والے اشتہارات کا بجٹ 2002 میں محض 2.66 ارب روپے تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں پرائیویٹ سیٹلائیٹ چینلز کے لئے ٹی وی انڈسٹری کے دروازے کھولے گئے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیڑی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 2003 میں پیمرا نے نجی شعبہ میں 4 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کئے جس سے مذکورہ سال ٹی وی اشتہارات کی مالیت 3.28 ارب روپے ہوگئی اور 2016-17 تک یہ اپنی بلند ترین سطح 42  ارب روپے تک پہنچ گئی تھی۔

پیمرا کے آنے کے بعد گزشتہ15 سالوں کے دوران ملک کے الیکٹرانک میڈیا کے منظر نامے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ شعبہ پاکستان کے بڑے شہروں میں براڈکاسٹنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور آلات کی تنصیب کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں کیریئر کے حصول کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے روزگارکے بڑے مواقع پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19 کے مطابق اس وقت پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں 3.5 ارب ڈالرکی مجموعی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ شعبہ 2 لاکھ سے زائد لوگوں کو صحافت، مینجمنٹ اور تکنیکی شعبوں میں روزگار فراہم کر رہا ہے۔

ملک میں اس وقت 88 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کے لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ جن میں سے 26 نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے ، تفریح (انٹرٹینمنٹ) کے 37 ، علاقائی زبانوں کے18 ، اسپیشلائزڈ سبجیکٹ کے04 ، صحت کا ایک، کھیل کا ایک اور زراعت کا بھی ایک لائسنس جاری کیا گیا ہے۔جبکہ کیبل ٹی وی کے4007 لائسنسز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی کے 05 لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ وطن عزیز میں 31 مارچ2019 تک رجسٹرڈ ٹی وی سیٹس کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ38 ہزار 6 سو 93 ہے۔ یعنی ہمارے دیس میں اوسطً گیارہ افراد کے لیے ایک ٹی وی  سیٹ موجود ہے۔ جبکہ ٹی وی ناظرین کی تعداد پاکستان کے سالانہ منصوبہ 2017-18 کے مطابق 13 کروڑ 50 لاکھ ہے یعنی ملک کی65 فیصد آبادی جس میں سے 7 کروڑ 40 لاکھ کیبل اور سٹیلائٹ کے ویورز ہیں جبکہ روایتی ٹی وی اینٹینا کے ذریعے ٹی وی دیکھنے والوں (Terrestrial viewership) کی تعداد 6  کروڑ  10 لاکھ ہے۔

تکنیکی منظر نامہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے باوجود ٹی وی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں روزمرہ زندگی کی ایک اہم ضرورت بنا ہوا ہے۔ کیونکہ نئی ٹی وی ٹیکنالوجیز تیزی سے متعارف ہو رہی ہیں اور پچھلی دو دہائیوں کے دوران متعدد ٹیکناجیز مارکیٹ میں داخل ہوئیں اور اس کے بعد نئی سے نئی اپنی جگہ لے رہی ہیں۔ اینا لاگ ٹریسٹیریل ٹی وی (Analog terrestrial TV )  نے 2000 کی دہائی میں کے اوائل میں مارکیٹ پر غلبہ حاصل کیا۔ لیکن جلد ہی 2010 کی دہائی کے وسط میں ڈیجیٹل کیبل ٹی وی نے جگہ لے لی۔ جسے ڈائریکٹ ٹو ہوم DTH اور ڈیجیٹل ٹریسٹوریل ٹیلی ویژن DTT اور دیگر بہت سی ٹیکنالوجیز کے ذریعہ چیلنج کیا جارہا ہے۔ اور2021 تک توقع کی جارہی ہے کہ ڈیجیٹل ٹیلویژن دنیا کے 98 فیصد گھروں میں ہوگا۔ اسی طرح صرف نشریاتی ٹیکنالوجی ہی ترقی پذیر نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن ہارڈ وئیر میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ ٹیلویژن کی اصل تعریف تیزی سے بدل رہی ہے۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی تیز رفتار نشوونما نے ٹی وی کا روایتی تصور تبدیل کر دیا ہے۔ 2018 میں دنیا میں فروخت ہونے والے 70 فیصد ٹی وی سیٹس سمارٹ ٹیکنالوجی کے حامل تھے۔

لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود موبائل ڈیوائسز (سمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور لپ ٹاپس) ٹی وی سیٹس اوران سیٹس پر نشریات کی viewershipکے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔کیونکہ Zenith لندن کے مطابق دنیا میںاس وقت روزانہ اوسطً ایک سو 30 منٹ موبائل انٹر نیٹ ڈیٹا استعمال کیا جا رہا ہے جو2015 میں 80 منٹ تھا۔ موبائل انٹرنیٹ اور براڈبینڈ انٹرنیٹ سے منسلک موبائل ڈیوائسزکی مدد سے دنیا بھر میں اوسطً روزانہ 136 منٹس سوشل میڈیا پر ٹائم صرف کیا جا رہا ہے جو 2012 میں 90 منٹ تھا۔ یوں اب موبائل ڈیوائسز کے استعمال پر صرف ہونے والا زیادہ سے زیادہ وقت دیگر ابلاغی ذرائع(اخبارات، میگزین، ریڈیو، سینما،ٹی وی) پر خرچ ہونے والے وقت کو کھا رہا ہے اور ٹی وی اس کا زیادہ شکارہو رہا ہے۔ Zenith  کی رپورٹ Media Consumption Forecasts 2016 کے مطابق 2010 میں دنیا میں اوسطً190.1 منٹ ٹی وی دیکھا جاتا تھا جس کے2018 تک کم ہوکر 170.1 منٹ روزانہ کی پیش گوئی رپورٹ میںکی گئی ہے۔اسی طرح اخبارات 20.1 منٹ سے کم ہوکر11.9 منٹ، میگزین 11.7 سے 5.2 منٹ، ریڈیو 60 منٹ سے کم ہوکر52.2 منٹ اور سنیما 1.7 منٹ سے کم ہوکر1.2 منٹ اوسطً روازنہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

پاکستان بھی اس رجحان کے زیر اثر ہے کیونکہ ملک میں اس وقت 93.9 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں کے97.5 فیصد اور دیہہ کے 91.6 فیصد گھروں میں موبائل فون کا وجود ہے جبکہ ملک کے موبائل فون صارفین کا 72 فیصد سمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔ بہت سی دیگر ٹیکنالوجیز کے برعکس ٹیلویژن دنیا بھر کا رجحان ہے اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی اور دنیا کے ہر گوشے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیوں میں جگہ ملی ہے۔ لیکن اس کے باوجود موبائل ڈیوائسز کی مدد سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑھتی ہوئی توجہ اور مصروفیت ٹی وی کی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔

ٹیلی ویژن کی ایجاد

وہ آئیڈیا جسے ہم آج ٹیلی ویژن کے طور پر جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس پر بحث کا آغاز تب سے ہی شروع ہوگیا تھا جب امریکی عوام کے لئے 1870 کے وسط میں ٹیلی فون متعارف ہوا۔ دراصل ٹیلی ویژن کے ابتدائی تصورات یہ تھے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس کی بدولت ٹیلی فون پر بات کرنے والے کی صورت دیکھی جا سکے۔ جارج کیری (George Carey ) نے1876 کے اوائل میں ایک ایسے عمل کے بارے میں سوچا جس کے ذریعے کسی تصویراور اُس سے   وابستہ آواز کو الیکٹرانک سگنلز میں تبدیل کیا جائے پھر ان الیکٹرانک سگنلزکو ماخذ سے وصول کنندہ کو بھیجا جائے اور برقی اشاروں کو دوبارہ تصویر اور آوازوں میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اُنھوں نے 1879 اور1880 میں سائنٹفک امریکن میں “seeing by electricity”  کے عنوان سے اس بارے میں لکھا۔25  اگست1900 کو پیرس میں ہونے والی نمائش میں انٹرنیشنل الیکٹرک سٹی کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کنسٹینٹین پارسکی (Constantin Perskyi) نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا عنوانـ ’’ٹیلی ویژن‘‘ تھا ۔

07 ستمبر1927 کو سان فرانسسکو امریکہ میں پہلی بار الیکٹرانک ٹیلی ویژن کا کامیابی کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔ یہ نظام 21 سالہ موجد فیلو ٹیلر فارنس ورتھ (Philo Taylor Farnsworth) نے تیار کیا تھا۔جو 14 سال کی عمر تک بجلی کے بغیر مکان میں رہائش پذیررہا تھا۔ فارنس ورتھ ابھی ہائی اسکول میں ہی تھا تو اُس نے ایک ایسے نظام کا تصور کرنا شروع کیا جو حرکت پذیراشکال(images) کو ایسی صورت میں گرفت میں لے سکے کہ اِنھیں ریڈیو لہروں کی صورت میں ڈھالا جا سکے اور پھر اسکرین پر ایک تصویر کی صورت میں دوبارہ تبدیل کیا جا سکے۔

روس میں بورس روسننگ (Boris Rosing)نے فارنس ورتھ کی پہلی کامیابی سے 16 سال قبل تصویری ترسیل کے بارے میں کچھ خام تجربات کیے تھے۔اس کے علاوہ ایک میکینکل ٹیلیویژن سسٹم جس میں گھومنے والی ڈسک میں سوراخ کرکے ان سوراخوں پر اشکال چسپاں کی گئی تھیں۔اس ڈسک کو تیزی سے گھمانے سے سوراخ میں لگی scanned images حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوتیں۔اس کا مظاہرہ انگلینڈ میں جان لوگی بیرڈ (John Logie Baird) اور امریکہ میں چارلس فرانسس جینکنز(Charles Francis Jenkins) نے سن 1920 کی دہائی میں کیا ۔ تاہم فارنس ورتھ کی ایجاد جس میں اشکال (images)الیکٹرانز کی ایک بیم کی صورت میں scan  ہوتیںکوجدید ٹیلی ویژن کا براہ راست جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔

ایک پاکستانی ٹی وی ناظر اپنی زندگی میں کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟

اعدادوشمار کے مطابق ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 730 گھنٹے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال ہے۔ یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطاً 48910 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی زندگی میںساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔

پاکستان میں ٹی وی کی تاریخ

پاکستان دنیا کا 52 واں ملک تھا جو ٹی وی نشریات کے نقشہ پر ابھرا۔  05 اکتوبر1960 کو وفاقی کابینہ نے ملک میں تعلیمی مقاصد کے لیے ٹی وی کے قیام کی منظوری دی۔ فروری 1961 میں صدر ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا وہ جاپان میں ٹیلیویژن کی ترقی سے بہت متاثر ہوئے۔ اُسی سال دسمبر میں حکومت پاکستان کی دعوت پر کولمبو پلان کے تین جاپانی ماہرین پاکستان آئے اُس وفد نے ملک میں ٹیلی  ویژن کے قیام کا تفصیلی جائزہ لیا۔1962 کے اوائل میں اُنھوں نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی صرف تعلیم تک محدود  کرنے کی بجائے عام مقاصد کے لیے متعارف کرایا جائے۔ اپریل1964 میں ٹیلی ویژن پلاننگ سیل قائم کیا گیا جو ڈائریکٹر جنرل آف ریڈیو پاکستان کا   ایک جزو تھا۔ یکم مئی1964 کو(Nipon Electric Company (NEC) of Japan )نے اسلم اظہر کا تقرر پروگرام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کیا۔ اسلم اظہر ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ لاہور کا مشہور ثقافتی مرکز الحمرا جہاں کبھی لاہور آرٹس کونسل کی عمارت تھی۔ یہاں اگست1964 میں کرائے پر ایک شیڈ حاصل کر کے ٹی وی کا دفتر قائم کیا گیا۔

ریڈیو پاکستان لاہور کی موجودہ عمارت کے پچھلے حصے میں اسٹوڈیوکی تعمیر شروع کر دی گئی۔ بعد میں اسلم اظہر اور اُن کے ساتھی بھی آرٹس کونسل سے یہاں ایک ٹینٹ میں منتقل ہوگئے۔ 26 نومبر1964 ملک میں ٹیلیویژن کی پہلی صبح تھی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ صدر ایوب خان نے ٹیلیویژن کا افتتاح کیا۔ قاری علی حسین صدیقی کی تلاوت سے نشریات کا آغاز ہوا۔ ذکا درانی نے پاکستان میں ٹیلیویژن کی ابتداء سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ یہ وہ پہلا چہرہ تھا جو ٹی وی پر نمودار ہوا۔ اس کے بعد طارق عزیز نے اناؤنسمنٹ کی اور پہلی خبریں بھی اُنھوں نے ہی پڑھیں۔ پہلی خاتون اناؤنسمنٹ کنول نصیر تھیں۔  ابتداء میں نشریات کا دورانیہ تین گھنٹے تھا اور پیر کے روز چھٹی ہوتی تھی۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہ راست نشر کیے جاتے تھے۔

مآخذ:  دستاویزی پروگرام ’’ پی ٹی وی کا سفر‘‘ پروڈیوسر: ناظم الدین۔ تحریر:  ضیاء الرحمان ضیا

٭ایک اور حوالے کے مطابق پاکستان میں ٹیلیویژن اصل میں نجی شعبہ کاپراجیکٹ تھا 1961 میں ممتاز صنعتکارسید واجد علی نے جاپان کی نیپون الیکٹرک کمپنی (این ای سی) کے ساتھ مشترکہ منصوبے پر دستخط کیے تھے۔ معروف پاکستانی انجینئر عبید الرحمن کو سیدواجد علی نے ٹیلی ویژن منصوبے کی سربراہی کے لئے مقرر کیا ۔ 1962 تک کئی ایک پائلٹ ٹرانسمیشن ٹیسٹوں کے سلسلے کے بعد 963 1میں ایوب خان حکومت نے ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس منصوبے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

٭ 1988 میں اُس وقت کی حکومت نے ’’پیپلز ٹیلیویژن نیٹ ورک ‘‘(پی ٹی این) کے نام سے ملک کا پہلا نیم سرکاری ٹی وی نیٹ ورک شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کی چھتری تلے شروع کیا۔ بعد ازاں پی ٹی این کا نام بدل کر اسے ’’شالیمار ٹیلیویژن نیٹ ورک‘‘ (ایس ٹی این)کر دیا گیا۔ ایس ٹی این کا آغاز پہلے اسلام آباد پھر کراچی اور بعد ازاں لاہور سے ہوا ۔1990 کی دہائی کے وسط تک اس نیٹ ورک نے پورے ملک میں وسعت اختیار کر لی ۔ ایس ٹی این نے پہلی بار پاکستان میں عام انٹینا پر سی این این انٹرنیشنل کی نشریات پیش کرنے کا آغاز کیا۔ یہ ایس ٹی این کا پہلا منصوبہ تھا ۔ 1990 میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے تحت ایس ٹی این نے پاکستان کا پہلا نجی ٹی وی چینل ’’نیٹ ورک ٹیلیویژن مارکیٹنگ ‘‘(این ٹی ایم) شروع کیا۔ یوں این ٹی ایم اور سی این این کی نشریات پیش کی جانے لگیں جو 1999 تک کامیابی سے جاری رہیں۔

مآخذ:  ورلڈ ہیرٹیج انسائیکلوپیڈیا

ایک ٹی وی پروفیشنل

فرحان مشتاق گزشتہ 15 سال سے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور پروڈیوسر منسلک ہیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اْنھیں ابلاغ عامہ کے تینوں میڈیم اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا عملی تجربہ ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ملک میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کا علمی اور عملی پہلوؤں سے تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں  ’’ پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے اہم چیلنج ٹی وی چیلنجز کی زیادہ تعداد ہے۔ ملک میں سرکاری ٹی وی کے علاوہ اس وقت 80 سے زائد نجی سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں اور مزید نئے آرہے ہیں۔ ان سب کو اپنے استحکام اور ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل کی ضرورت ہے۔

سرکاری ٹی وی کو چونکہ حکومت ،فیس اور اشتہارات کی مد میں کافی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نجی شعبہ کا مکمل انحصار اشتہارات پر ہے۔ جس کی ایک محدود مالیت ہے۔ اگرچہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے اشتہارات کی مارکیٹ کا 46 فیصد ٹی وی انڈسٹری کو ملا لیکن یہ 38 ارب روپے ہماری انڈسٹری کے لیے نا کافی ہیں۔ کیونکہ اس مالیت میں سے ایک قابلِ ذکر حصہ دو تین بڑے چینلز لے جاتے ہیں۔ ٹی وی پروڈکشن چاہے وہ نیوز ہو یا تفریحی پروگرامز ایک مہنگا کام ہے جس کے لیے وافر معاشی وسائل کی تسلسل کے ساتھ ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جب ایک کھیت پر انحصار کرنے والے بڑھ جائیں تو پھر پیٹ کسی کا نہیں بھرتا ۔

کہنا یہ ہے کہ جب آپ کے اشتھارات کی مارکیٹ محدود مالیت کی ہے تو پھر اتنے زیادہ ٹی وی لائسنسز جاری نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی اور نئے چینلز مارکیٹ میں آر ہے ہیں۔اب ایسی صورت حال میں اندسٹری پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔آمدن / معاشی وسائل میں کمی کا براہ راست پہلا اثر چینلز سے وابستہ افرادی قوت کے معاوضوں کی تاخیر سے ادائیگی پھر کمی اورآخر میں عدم ادائیگی کے بعد روزگار سے چھٹی پر منتج ہوتا ہے۔اور یہ وہ بحرانی کیفیت ہے جس سے ہمارے نجی ٹی وی چینلز اس وقت گزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چند چینلز نے بعض افراد کو خطیر معاوضوں کی ادائیگی کا جو ٹرینڈ متعارف کرایا وہ آج خود اْن کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔اس روایت نے دیگر ٹی وی ملازمین کو احساس کمتری کا شکار کیا ہے اورخاص کر اخبار ی کارکنوں کو بھی۔ دوسری جانب ٹی وی چینلز کے پاس اگر مالی وسائل کی کمی ہوگی تو اِس کابالآخر اثر اس کے مندرجات پر بھی پڑے گااوروہ غیر معیاری سب اسٹینڈرڈ مندرجات پیش کرنے لگے گا۔

اگر نیوز چینل ہے تو وہ ڈیسک اسٹوریز تک محدود ہو کر صرف خبر یں پیش کرنے والا چینل بن جائے گا نہ کے خبر حاصل کرنے اور بنانے والا۔ اسی طرح اگر تفریحی چینل ہے تو وہ نشرر مکرر اور سستے غیر ملکی مواد کو پیش کرنا شروع کر دے گا۔ یا پھر وہ ایسے مندرجات بنانے کی کوشش کرے گا جو اشتہاری کمپنیوں کی ڈیمانڈ ہو ۔یوں اس تمام صورتحال کا براہ راست اثر ناظرین پر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں بعض بڑے چینلز کے مابین پیشہ ورانہ مسابقت کی بجائے کاروباری مسابقت کی روش بھی موجود ہے۔ جس میں ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو اپنے چینلز پر اجاگر کر کے ایک دوسرے کی ویور شپ اور ساکھ کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں ٹی وی انڈسٹری کو مالی وسائل اشتہارات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور یہ اشتہارات زیادہ تر چینلز کی ویور شپ اور پروگراموں کی ریٹنگ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ کوئی چینل کتنا دیکھا جاتا ہے اْس کے پروگراموں کی کیا ریٹنگ ہے اس تمام تر کا انحصار ٹی وی نشریات کے ناظرین تک زیادہ سے زیادہ پہنچ پر منحصرہے۔ ہمارے شہروں میں اگرچہ عام ٹی وی انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر کیبل کے ذریعے ٹی وی کی نشریات ناظرین تک پہنچتی ہے جس کا تناسب 96 فیصد ہے۔ جبکہ دیہات  جہاں ابھی بھی ہماری آبادی کا آدھے سے زائد حصہ رہائش پذیر ہے وہاں ٹی وی کی نشریات کیبل سسٹم کے علاوہ عام انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی دیکھی جاتی ہیں۔دیہی علاقوں میں ناظرین کا 39 فیصد عام انٹینا کے ذریعے 15 فیصد ڈش انٹینا اور 45 فیصدکیبل کے ذریعے ٹی وی دیکھتا ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیہات کے آدھے سے زائد ناظرین کو کیبل سسٹم کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام نجی چینلز کو دیہی ناظرین کی ایک بڑی تعداد تک رسائی حاصل نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ دوسری جانب ملک میں موجود کیبل سسٹم جس کے شروع کے چینلز کی کوالٹی تو شاندار ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے ہیں نشریاتی کوالٹی میں تنزلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا کیبل نیٹ ورک ہو جس کے پہلے نمبر پر نشر ہونے والے چینلز کی نشریاتی کوالٹی اور آخری نمبرز پر آنے والے چینل کی کوالٹی یکساں ہو۔ اس طرح کی صورتحال کی موجودگی اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیبل آپریٹر کسی چینل کی ویور شپ کو کم یا زیادہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب ایک چینل کو کیبل کے ایسے نمبر پر رکھا جائے جہاں اْس کی نشریاتی کوالٹی اچھی ہو اور ناظرین کو فوراً وہ چینل مل جائے تو ایسی صورت میں چینل کی ویور شپ بڑھتی ہے۔ بانسبت کسی چینل کو ایسے نمبر پر رکھا جائے یا منتقل کر دیا جائے جہاں نشریاتی کوالٹی بھی کمزور ہو اور لوگ اْس نمبر تک جاتے ہی نا ہوں یا کم جاتے ہیں تو ویور شپ کیسے بڑھے گی اور اگر چینل کو اوپر کے نمبرز سے نیچے کی طرف شفٹ کیا گیا ہے تو اُس کی موجودہ ویور شپ بھی گئی۔ پھر ایسی صورتحال میں اشتہار کون دے گا؟

یعنی ٹی وی انڈسٹری کو ایک بڑا چیلنج ویور شپ کے حوالے سے بھی ہے۔ اگرچہ لوگ آج بھی ٹی وی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ناظرین جتنا وقت پہلے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتے تھے اب اس میں کمی آرہی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداوشمار سے با خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ 2008 میں پاکستان میں ایک ناظر اوسطً 162 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا تھا جو اب کم ہوکر117 منٹ ہو چکا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ہمارے تفریحی چینلز کے پروگراموں میں نئے آئیڈیا ز، موضوعات اور مندرجات میں تنوع کی کمی ہے۔ تو دوسری جانب اکثر نیوز چینلز کا کسی ایک خاص طرف جھکاؤ اور عوامی مسائل کی بجائے سیاسی موضوعات،شخصی اور پارٹی پروپگینڈے کا آلہ کار بننا ہے۔

دوسری بڑی وجہ موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ٹی وی ویور شپ کے معنی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔آج پروگرام آن ڈیمانڈ کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ ان سب نے لائیو ٹی وی ویور شپ کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ علاوہ ازیں موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ٹی وی ویور شپ کے لیے مستقبل میں سب سے بڑا چیلنج بن جائے گا۔ اوراس نے اپنے اثرات دکھانا بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ماہرین اب اس بارے میں مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیںکہ مستقبل میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے کے لیے شاید لوگوں کے پاس وقت نہ رہے‘‘۔

ایک میڈیا اکیڈمک پروفیشنل

ڈاکٹر زاہد بلال میڈیا اسٹڈیز کے ایک معتبر نام ہیں۔ اوکاڑہ یو نیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے قیام کا اعزاز انھیں حاصل ہے۔ آپ شعبہ ہذا کے بانی چیئرمین ہیں۔ براڈکاسٹ میڈیا اُن کی specialty ہے۔ ملک کی دو جامعات ( پنجاب یونیورسٹی اور گجرات یو نیورسٹی) میں ریڈیو اسٹیشنز بنانے اور چلانے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کی University of Oklahoma اور گجرات یونیورسٹی کے سینٹر فارمیڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز کے فیکلٹی اینڈ اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے کوآرڈینیٹر رہ چکے ہیںاس پروگرام کے تحت جامعہ گجرات میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹی وی اسٹوڈیو بھی قائم ہوا۔ ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے مندرجات ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا بنیادی موضوع ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ نجی ٹی وی چینلز کی مش روم گروتھ سے قبل سرکاری ٹی وی کو کسی قسم کا مقابلہ درپیش نہیں تھا۔ اس پر نشر ہونیوالے خبر نامے اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کو ایک بہت سخت مرکزیت کے حامل مختلف سطحوں کے نظام سے گزرنا پڑتا تھا۔ جسکی وجہ سے یہ جمود کا شکار تھے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آنے سے صحت مندانہ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی۔ اور کسی حد تک خبری نظام کا ڈھانچہ جمود کی حدود کو پھلانگنے میں کامیاب ہوا ۔ ناظرین کو متنوع اور متحرک خبرمانہ اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھنے کو ملے۔ شروع شروع میں تو یہ تحرک ناظرین کو بہت بھایا اور راس بھی آیا۔ کیونکہ اس نے معلومات تک رسائی کو ممکن بنایا مگر ڈیڑھ عشرے کی آزادی کے بعد یہ رجحان بھی جمود کا شکار ہوگیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خبروں کے مندرجات صرف سیاسی مسائل کی ایک خاص سمت ہی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جبکہ سیاسی مسائل بھی صرف سطحی طور پر پارٹی رہنماؤں کی سرگرمیوں تک محدود رہتے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے مندرجات کی رپورٹنگ بہت کم ہوتی ہے۔ چینلز کی اس یک رخی کوریج کی وجہ سے ناظرین بوریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب خبروں کا رجحان صرف چند بڑے شہروں اور اشرفیہ کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ جبکہ مضافات اور علاقائی خبروں کی چینلز میں یا تو بالکل ہی کوریج نہیں دی جاتی اور اگر کچھ ٹی وی چینلزایسا کرتے ہیں تو اس کا تناسب ناقابلِ ذکر حد تک کم ہوتا ہے۔ چینلز علاقائی صحافت کو ترقی دینے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ مضافات میں موجود رپورٹرز کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں جسکی وجہ سے معیاری کوریج نہیں ہو پاتی۔

خبروں کی پیشکش کے انداز میں بھی چینلز ایک خاص روائتی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹی وی بنیادی طور پر بصری میڈیم ہے جس پر جاندار اور متحرک ویڈیوز پر زیادہ فوکس ہونا چاہیئے۔ جبکہ ہمارے ہاں اسکرپٹ کی طوالت بہت زیادہ ہوتی ہے اور reading effect جابجا خبروں ، رپورٹس اور پیکیجز میں محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے چینلز اخبارات اور ریڈیو کے میڈیم کا اطلاق ٹی وی پر کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے چینلز کم الفاظ اور زیادہ بصری مواد کو پیش نظر رکھیں تو ویڈیو شوٹ اور ویڈیو گرافی کے انداز اور فریمنگ کی مختلف جہتیں اسے متحرک خبر نامہ بنا سکتی ہیں۔

خبروں کے مندرجات میں کاپی ایڈیٹر، رپورٹر اور ویڈیو ایڈیٹرز کی محنت کم نظر آتی ہے ۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف خبروں کا پیٹ بھرنے کے لیے معمول کے فارمولے پر خبر نامہ تیار کروایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز filters کی مختلف layers بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں چینلز میں بہت سی شفٹیں ختم کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند لوگ جب سارے کام سر انجام دیں گے تو تنوع مفقود ہو جائے گا۔ ٹاک شوز میں اینکر پرسن لگے بندھے انداز میں موضوع کی تیاری کئے بغیر پروگرام کرتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ناظرین ان سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔  ہمارامیڈیا لوگوں کے معیار کو آہستہ آہستہ بڑھانے کی بجائے خود عام لوگوں کی سطح پر آگیا ہے۔ ایک خاص انداز میں ایک ہی موضوع کو باربار رگیدا جائے تو ناظرین کی دلچسپی کیونکر برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں ترقیاتی صحافت کو بھی بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے۔

اگر ہمارے چینلز اس پر توجہ کریں تو ناظرین کی دلچسپی بڑھائی جا سکتی ہے‘‘۔ ٹی وی چینلز کے تفریحی مندرجات کے حوالے سے ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے۔ ’’ ہمارے ٹی وی چینلز کے تفریحی پروگرام خبروں سے کافی حد تک بہتر قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس میں بھی ہمارے ڈرامے اور مارننگ شوزایک خاص موضوع اور فارمیٹ تک محدود ہو گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ ناظرین کی ضرورتوں کو وہ صرف جزوی طور پر ہی پورا کر رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں جب پاکستانی ڈرامہ متنوع موضوعات، اچھے اسکرپٹ ، بہترین کہانی اور جدید پروڈکشن کے ساتھ سامنے آیا تو وہ انڈین چینلز کے سحر کو توڑنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب اکثرموضوعات محبت، رقابت اور extra marital affairs کے گرد گھومتے ہیں ۔ان ڈراموں میں اکثر ایسے سینز یا زبان استعمال کی جاتی ہے جو اس قابل نہیں ہوتے کہ آپ اپنی فیملی کے ہمراہ اُنھیں دیکھ سکیں۔

اس حوالے سے دسمبر2017 میں ہونے والاگیلپ پاکستان کا ایک ملک گیر سروے یہ بتاتا ہے کہ 67 فیصد پاکستانیوں نے یہ بات محسوس کرنے کا اظہار کیا کہ ٹی وی کا کوئی مخصوص پروگرام/ ڈرامہ اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔اگرچہ مارننگ شوز خواتین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر معیار کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی روایتی فارمولا کے تحت سطحیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اسکرپٹ اور فارمیٹ پر محنت کی جائے تو یہ بہت کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ اور مارننگ شوز صرف 20 سے50 سال تک کی آڈیینس کے لیے ہوتے ہیں۔ بزرگوں اور بچوں کے لیے اچھے تفریحی پروگرام کی ٹی وی چینلز پر شدید کمی ہے۔ بچوں کے لیے کوئی قابلِ ذکر پروگرام ھمارے چینلز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔

ٹی وی چینلز کے ضابطہ اخلاق پر عملدارآمد کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ ماضی کی نسبت خبروں میں ضابطہ اخلاق پر بہتر طور پر عمل ہورہا ہے۔ چینلز نے ممنوعہ ویڈیوز کو دھندلا نا شروع کر دیا ہے۔ بریکنگ نیوز کا ٹرینڈ بھی کم ہوا ہے۔ ٹاک شوز اور تفریحی پروگراموں کی بات کی جائے تو ضابطہ اخلاق کا اطلاق بہت ڈھیلا محسوس ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے چینلز رضاکارانہ طور پر خود کے ضابطہ اخلاق کو کسی حد تک تو استعمال میں لاتے ہیں مگر ہمارے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کی غیر سنجیدگی سے اسکے اطلاق میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں دیکھی گئی‘‘۔ ہمارے ٹی وی چینلز اپنے مندرجات میں سماجی ذمہ داری کا کتنا خیال رکھتے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے کہ ’’ سماجی ذمہ داری کا خیال رکھنے کے لیے ایک مضبوط ادارتی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ گیٹ کیپنگ کے ذریعے filters کو استعمال کرسکے۔ یہ بہت سنجیدہ اور محنت طلب کام ہے جس کے لیے بہت تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے چینلز ایسی تجربہ کار ٹیم پرInvest کرنا مناسب خیال نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہمارے چینلز اپنی سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ نہیں ہو پارہیـ‘‘۔ ٹی وی چینلز کو درپیش چلنجز اور ان کے حل کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ’’ آئی ٹی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی نفوذ پزیری کی وجہ سے ٹی وی چینلز کی حرکیات کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔

اس پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ ٹرتھ دور نے ٹی وی کے genere اور فارمیٹ کی حدود ہی کو دھندلا کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ ان ادوار کی ضروریات کے پیش نظر ان پابندیوں سے آزاد ہو کر ناظرین کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی طرز پر جب ہمارے چینلز نے پولیٹیکل کامیڈی کے پروگرام شروع کیئے تو اس جدت اور اختراع کوبہت پزیرائی ملی۔ ٹی وی چینلز کو بہت سرعت اور تسلسل کے ساتھ نئے فارمیٹ کو آزمانا چاہئیے تا کہ ورچوئل ریئیلٹی اور cloud کی دنیا سے واقفیت حاصل کرچکی سمارٹ آڈیئنس کو اپنی طرف راغب کیا جا سکے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بہت ہی انفرادی سطح پر جا کر اپنے یوزرز کو معلومات اور تفریح مہیا کرتے ہیں۔ ٹی وی کے لیے آڈیئینس کی تہہ بہ تہہ درجہ بندی بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے چینلز کو مجموعی طور پر اپنا اسپیشلائیزڈ فوکس ڈھونڈنا چاہئے جو کہ اسکی پہچان بن جائے۔ چینلز اپنی نشریات کے مندرجات کی بہت اچھی segmentation کر کہ بھی لوگوں کو مشغول کر سکتے ہیں۔اب لوگوں کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتں اور جمالیاتی ذوق globalized ہو چکا ہے۔ ایک ہی سین اور فوٹیج بار بار نہیں چلائی جا سکتی۔ ہر لحظہ ایک جاندار ، متحرک، اور انسانی ذہن کی فریکوئنسی سے ہم آہنگ بصری مواد کو تمام تر جدید تکنیکی اختراعوں سے لیس ہونا چاہئیے۔ پھر کہیں جاکر وہ ٹی وی ویورشپ کو اعتماد میں لے سکتا ہے۔ بچوں اور teenagers کے لیے پروگرامنگ ٹی وی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔اس سلسلے میںہمارے میڈیا مینجرز کو افریقی اور ترکی ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت جنکے ڈرامے،کارٹونز اور دوسرے پروگرام بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے ہیں‘‘۔

The post پاکستانی زندگی کے ساڑھے پانچ برس ٹی وی دیکھنے پرصرف کرتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

بھیس بدل کر بن گئیں مرد

$
0
0

پوری انسانی تاریخ میں خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس طرح قدم قدم پر ان کا استحصال کیا گیا، اس کے نتیجے میں عورتوں کے لیے زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا ممکن نہیں رہا تھا۔ دوسری طرف عورت چوں کہ بہ طور عورت کم زور یا شرمیلی ہوتی ہے تو اسے مختلف گائیڈ لائنز بھی اختیار کرنی پڑتی ہیں۔

اگر اس دور کی عورت نے ان حدود کو توڑا تو اسے پاگل، دیوانی بھی کہا گیا اوریہ بھی کہ یہ عورت کہلائے جانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ لیکن جب کبھی تاریخ میں حالات خواتین کے حق میں نہ ہوئے تو پھر انہوں نے اپنی حدود و قیود کو توڑا اور ایک باغی بن کر باہر نکلیں ۔ ذیل میں ہم ایسی چند باہمت اور روایت شکن خواتین کی کہانیاں بیان کررہے ہیں جنہوں نے اپنا روپ بدل کر اور خود کو مردوں کے روپ میں ڈھال کر وہ سب کام کیے جو وہ عورت کے روپ میں نہیں کرسکتی تھیں۔ ان سب خواتین نے تاریخ میں اپنا بڑا نام پیدا کیا۔

٭   Elisa Bernerström

ایلزا برنر اسٹورم نے 1808 اور 1809 کے درمیان سویڈش فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے اس وقت مرد کا روپ دھارا جب ان کا ملک روس سے لڑرہا تھا۔ایلزا ایک ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھی کہ اس کی ملاقات برنارڈ سرویئنس نامی فوجی سے ہوئی جو اس وقت اسٹاک ہوم میں مامور تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی اور انہوں نے شادی کرلی، لیکن جب رجمنٹ نے لڑائی چھوڑدی تو ایلزا کے لیے یہ مشکل کھڑی ہوگئی کہ وہ اپنے محبوب کے بغیر کیسے رہ سکے گی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہے اور اسی کے سامنے مرے، چناں چہ اس نے اپنی صنف چھپالی اور فوج میں شامل ہوگئی۔ اس نے اپنی اصل شناخت اپنی حقیقی محبت کے لیے برقرار رکھی، مگر Elisa Bernerström نے خود کو ایک ذہین فوجی بھی ثابت کردیا تھا۔ اسے میدان جنگ میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار پر اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گولہ بارود جمع کرکے اپنے ساتھی فوجیوں تک پہنچاتی تھی، مگر بعد میں اس کا راز کھل گیا اور اسے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ پہلے تو اس کے شوہر کے بارے میں سمجھا گیا کہ وہ دوران جنگ مرچکا ہے، مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ تو ایک جنگی قیدی بن چکا ہے۔ جنگ کے بعد وہ دونوں اسٹاک ہوم میں مل گئے۔ایلزا وہ واحد عورت نہیں تھی جس نے سویڈش فوج میں ملازمت کی، بلکہ وہ ان میں شامل تھی کہ جس کی بہادری کا اعتراف میدان جنگ میں کیا گیا۔

٭   Rena Kanokogi

Rena Kanokogi ایک معروف یہودی امریکی جوڈو ایکسپرٹ تھی، لیکن 1959میں اسے اندازہ ہوا کہ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے وہ نہیں چل سکتی تو اس نے اپنا روپ بدلا اور ایک مرد بن کر YMCA judo tournament میں حصہ لیا اور جیت بھی گئی۔ اس نے اپنے مقابلے پر آنے والے تمام حریفوں کو شکست دی۔ لیکن جب یہ راز کھلا تو اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جیتا ہوا میڈل واپس کردے۔ اس سب کے بعد بھی اس عورت نے ہمت نہ ہاری اور یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ جوڈو کی تربیت حاصل کرنے جاپان ضرور جائے گی۔ پھر وہ تاریخ کی پہلی خاتون ٹرینر بنی جس نے مردوں کے ساتھ ٹوکیو کے Kodokan Institute میں جوڈو کی ٹریننگ دی۔ وہ پہلی فیمیل ورلڈ چیمپئن شپ کی بانی بھی بنی جب یہ مقابلے میڈیسن اسکوائر گارڈن کے فیلٹ فورم پر منعقد کیے گئے تھے۔

لگ بھگ پچاس سال بعد 2009 میں جب وہ اپنے پہلے مقام والے میڈل سے محروم ہوئی تو رینا کو  New York State YMCA نے ایک گولڈ میڈل عطا کیا جو جوڈو کے کھیل میں اس کی خدمات کا اعتراف تھا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے Rena Kanokogi نے کہا تھا:’’یہ میڈل مجھ سے کبھی واپس لیا نہیں جانا چاہیے تھا، مگر ہم ایک غلط کو صحیح کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو شاید ٹھیک ہی ہے۔‘‘ تین ماہ بعد اس کا انتقال ہوگیا۔

٭  Joan of Arc

جان آف آرک نیو آرلیانز کی ملازمہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھی، اس نے ایک ایسے نظریے پر کام کیا جس کا خواب اس نے خود دیکھا تھا جس کے نتیجے میں اس نے تاریخ کو بدل ڈالا۔ جان آف آرک ایک کسان لڑکی تھی جس نے خود کو ایک محافظ کے روپ میں ڈھال کر ایک مرد کی طرح زندگی گزاری تاکہ سو سالہ جنگ کے دوران انگلش فوج کے خلاف فرانسیسی فوج کی قیادت کرسکے۔جان ایک شان دار لیڈر ثابت ہوئی اور شاہ چارلس VII ہفتم اس کا چیمپئن تھا۔

ایک محاصرے کے بعد اور کئی دوسری فتوحات کے بعد اس نے امتیاز حاصل کیا۔ جس کے نتیجے میں چارلس کی تاج پوشی ممکن ہوسکی۔جان آف آرک بعد میں ایک برگنڈی گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئی جو فرانسیسی امراء کا ایک گروپ تھا جو انگریزوں کے اتحادی بن گئے تھے۔ چناں چہ جان آف آرک کو ان کے حوالے کردیا گیا اور انہوں نے اس پر مختلف الزامات لگاکر ایک مذہبی مقدمے میں پھنسادیا۔ اس پر یہ الزام بھی تھا کہ وہ جان بوجھ کر طویل عرصے تک مرد بنی رہی، چناں چہ 1430 میں اسے مجرم قرار ے کر زندہ جلادیا گیا۔اس وقت جان آف آرک کی عمر صرف 19  سال تھی۔ بعد میں جان آف آرک کو بے قصور قرار دے دیا گیا بلکہ اسے اس کی بہادری کا بعدازمرگ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اپنی موت کے بعد سے وہ فنون لطیفہ اور دیگر ثقافتی کاموں میں ایک مقبول ترین شخصیت ثابت ہوئی۔

٭    Norah Vincent

Norah Vincent ایک صحافی ہے جس نے ایک “gender spy.” بننے کا فیصلہ کیا تو وہ 18 ماہ تک ایک مرد بنی رہی۔ وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ مرد بن کر یہ دیکھ سکے کہ آیا اس حیثیت میں کیا اس کے ساتھ مختلف سلوک کیا جائے گا یا نہیں۔ چناں چہ Norah Vincent نے خود کو مرد بنانے کے لیے کافی تگ و دو کی اور اپنے چہرے پر ایسے ماسک لگائے کہ خود کو بدنما بنالیا، ساتھ ہی اس نے آواز بدلنے کے لیے خصوصی کلاسیں بھی لیں تاکہ وہ کسی عورت کے بجائے کسی مرد کی طرح بولنا سیکھ سکے۔ اس نے لنگوٹ بھی کس لیا تاکہ وہ واقعی کوئی مرد لگ سکے۔ اس موضوع پر اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا عنوان تھا:  “Self-Made Man: One Woman’s Year Disguised As A Man”  یہ کتاب 2006میں شائع ہوئی تھی۔ اس نے اپنے سماجی تجربات کی تصویر کشی کی اور یہ بتایا کہ ایک عورت ہونے کے کیا فائدے ہیں اور ایک مرد ہونے کے کیا نقصانات ہیں۔

Vincent نے لکھا تھا:’’مرد بڑی مشکل میں ہیں۔ ان کے ساتھ مختلف مسائل ہیں اور عورتوں کی مشکلات بالکل دوسری ہیں۔ مردوں کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہے، انہیں ہماری محبت کی بھی ضرورت ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو ہی ایک دوسرے کی شدید ضرورت ہے۔‘‘

٭   Kathrine Switzer

Kathrine Switzer نے دوران گفتگو ان یادوں اور باتوں کا تذکرہ کیا جو وہ بوسٹن مراتھن میں اپنے کوچ کے حوالے سے کرتی تھی۔ خواتین کو اس ضمن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے، لیکن اگر وہ کرسکتیں تو ، کوچ کا کہنا تھا کہ تم اس میں جیت سکتی تھیں۔ Kathrine Switzer نے 1967میں ایک نئے نام یعنی K.V. Switzer کے نام سے اس میں حصہ لینے کے لیے سائن کیے تھے تاکہ وہ اس کھیل میں شرکت کرسکے۔ وہ پہلی خاتون ہے جس نے دنیا کے اس مشہور runner’s competition میں حصہ لیا تھا۔

اپنے ویب پیج پر اس موقع کو یاد کرتے ہوئےSwitzer نے مراتھن سے پہلے کے لمحات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ایک ریسر جس کا نام ٹام تھا، اس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ اپنی لپ اسٹک صاف کردیتی تو شاید پہچانی نہ جاتی، مگر اس نے انکار کردیا۔ جب اسپورٹس رپورٹرز نے مراتھن کے بعد اس سے سوال کیا تو Switzer نے جواب دیا کہ وہ دوڑنا چاہتی تھی اور لمبی ریس میں شریک ہونا چاہتی تھی، زیادہ اچھی کام یابی حاصل کرنا چاہتی تھی اور اگر اس کا کلب اس پر پابندی لگادیتا تب بھی وہ دوبارہ کم بیک کرتی۔

Kathrine Switzer اس خاص سبب یا وجہ کا حصہ ہے کہ ان خواتین کے لیے حالات کیسے بدلے جو ایسی ریس میں حصہ لینا چاہتی تھیں اور خاص طور سے طویل ریس میں شرکت کرنا چاہتی تھیں۔Boston Marathonمیں حصہ لینے کے کچھ ہی عرصے بعد عہدے داران نے مراتھن میں خواتین کی شرکت پر سے پابندی اٹھالی تھی۔

کیتھرین نے ایک خاتون رنر کی حیثیت سے تاریخ رقم کردی۔ اس نے1974 میں  New York City Marathon میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد میں اس نے 2017 میں بوسٹن مراتھن کے دونوں مقابلوں میں حصہ لیا تاکہ وہ اس تاریخی دوڑ کی پچاس ویں سالگرہ مناسکے۔

٭   Malinda Blalock

Sarah Malinda Blalock وہ خاتون ہے جس نے Confederate Army میں خود کو رجسٹر کرایا تھا تاکہ امریکی سول وار میں حصہ لے سکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب اس کے شوہر William Keith Blalock نے چھبیس ویں نارتھ کیرولینا رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی تو خود Malinda Blalock بھی اس طرف مائل ہوگئی۔ لیکن اس نے اس کام کے لیے 1862 میں Samuel Blalock کا نام استعمال کیا۔ Malindaکو اپنے شوہر کی حفاظت کا خیال تھا، کیوں کہ اس دور میں نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے شرط تھی کہ ان کی شادی ہوئے صرف ایک سال گزرا ہو۔ چناں چہ اس نے اسی وفاقی یونٹ کے ساتھ مارچ کیا جس میں اس نے شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسے اس میں شامل ہونے کے لیے اپنے شوہر کے بھائی کا کردار ادا کرنا تھا، تاکہ وہ اس میں شامل ہوسکے۔

دوسری طرف Blalocks پر دھیان نہیں دیا گیا کہ ایک ریاست کے مشرقی حصے کے اعتبار سے ان کی پوشاک کیا ہونی چاہیے تھی اور اس میں دشمن کی نقل و حرکت بھی دیکھنی تھی۔ تاہم ایک رات کو کیتھ اور ملندا بالوک کو دشمن فوجیوں کی تلاش کا مشن سونپا گیا ۔ مگر اسی دوران لڑائی شروع ہوگئی تو ملندا کے کندھے میں گولی لگی اور اس انجری کی وجہ سے ہی اس کے یونٹ کو اس کے راز کا پتا چل گیا۔ کیتھ شاہ بلوط کے درخت کی آڑ میں لڑھک گئی تو طبی امداد دینے والوں نے سوچا کہ غالباً وہ اپنے بخار اور چیچک کی وجہ سے ایسا کررہا ہے اس لیے انہوں نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔لیکن جب ملندا نے اسے جوائن کرنے کی کوشش کی اور اپنے ’’بھائی‘‘ کی نگہ داشت کرنی چاہی تو یونٹ کے کرنل نے منع کردیا اور اس پر زور دیا کہ وہ اپنا جرم قبول کرلے۔ بعد میں The Blalocks واپس ہوگئے اور کیتھ نے ملندا کی مدد سے ایک یونین رجمنٹ میں شمولیت اختیار کرلی۔

٭    Sarah Emma Edmonds

Sarah Emma Edmondsایک خاتون جس نے امریکی سول وار میں حصہ لینے کے لیے ایک مرد کا روپ ڈھالا تھا۔Sarah Emma Edmondsکینیڈا میں پیدا ہوئی۔ اس نے ایک میل فیلڈ نرس اور ایک جاسوس بننے کے لیے یونین آرمی میں ایک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ ایک سرگرم اور پرجوش یونیسٹ تھی اور اس مقصد کے لیے لڑنا چاہتی تھی، چناں چہ اس نے سیکنڈ مشی گن انفینڑی میں شمولیت اختیار کی ۔سارہ کو یہ کام دیا گیا تھا کہ اسے رجمنٹ کے لیے ایک میل کیریئر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ اسے جاسوسی کے مشن انجام دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔

اس نے اپنی یادوں میں لکھا کہ اس کے ساتھ دشمن کی لائنوں کے پیچھے کافی استحصال کیا گیا۔ وہ ایک اسٹریچر لے جانے والے کی حیثیت سے کام کرتی تھی اور میدان جنگ سے زخمی فوجیوں کا اٹھاکر اسپتال پہنچاتی تھی، بعد میں وہ ایک اسپتال اٹینڈنٹ بن گئی تھی۔1863 میں Sarah Edmonds کو ملیریا ہوگیا تو اس نے چھٹی لینے کی کوشش کی، مگر چھٹی نہ مل سکی، وہ اپنا علاج کرانا چاہتی تھی، لیکن اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں اس کا راز نہ کھل جائے۔چناں چہ اس نے اپنے ساتھیوں فرینکلن کو چھوڑا تو اس پر بھگوڑا ہونے کا الزام لگادیا گیا۔ اس نے جون 1863 سے جنگ کے اختتام تک United States Christian Commission میں ایک نرس کی حیثیت سے کام کیا۔ اس نے اپنی یادیں “Nurse and Spy in the Union Army”میں جمع کیں اور اس کتاب سے ہونے والی ساری آمدنی مختلف سولجر گروپس کو عطیہ کردی۔

٭     Saint Marina

یہ آٹھویں صدی کی بات ہے جب میرینا نے ایک لڑکے کا روپ دھارا تاکہ وہ ایک خانقاہ میں اپنے والد کے ساتھ رہے۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دور میں عورتوں کو خانقاہوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بس یہی وہ مقام تھا جب ایک نوجوان لڑکی کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رہ گئی۔

میرینا ایک راہب بن گئی اور اس نے Marinusنام اختیار کرلیا۔ اس خانقاہ میں کئی سال گزارنے کے کئی سال اس نے اپنے والد کے ساتھ سفر کیے۔ اس کا راز اس وقت خطرے میں پڑگیا جب ایک سرائے کے مالک کی بیٹی نے اس پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا کہ میرینا نے اسے حاملہ کردیا ہے۔ لیکن بہ جائے اس کے کہ اصل حقیقت سامنے لائی جاتی، میرینا کو خانقاہ سے نکال دیا گیا اور اس کے بعد میرینا نے خود ہی اس بچے کی پرورش کی، چناں چہ اس کی اصل اور حقیقی شناخت اس کی موت تک نہ کھل سکی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میرینا نے اپنا راز کھولنے کے بجائے وہ بچہ خود پالا۔ اس کی اصلیت کے بارے میں کوئی نہ جان سکا، میرینا 270 میں دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔پیدائشی اور کنواری سینٹ اور Antioch کی شہید کو آج سب لوگ گردوں کے مریضوں کے لیے ایک پیٹرن سینٹ کہہ کر پکارتے ہیں۔

٭     Saint Mulan

کلاسک اینیمیٹڈ ڈزنی فلم ’’مولان‘‘ ایک قدیم چینی داستانی کردار پر بنائی گئی ہے جو لگ بھگ پانچویں صدی میں ہوا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب چین پر یلغار ہوتی ہے اور مولان نامی کی ایک لڑکی اپنے بوڑھے اور کم زور باپ کی جگہ فوج میں شامل ہوتی ہے، کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اس کا بوڑھا باپ میدان میں لڑ نہیں سکتا۔

مولان نے فوج میں شامل ہونے کے بعد کوئی دس سال تک جنگ میں حصہ لیا۔ اسے کنگ فو، تلوار بازی اور تیراندازی میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ روایات کے مطابق مولان کو ایک سرکاری عہدہ دیا گیا لیکن وہ صرف ایک اونٹ چاہتی تھی تاکہ اپنے گھر جاسکے۔ جب وہ روایتی زنانہ لباس پہنتی ہے تو اس کے ساتھی فوجی سمجھ گئے کہ وہ پورے وقت تک ایک عورت ہی رہی ہے۔

صدیوں تک فلم بین اور ناظرین اس انوکھی لڑکی کے سحر میں جکڑے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانی بار بار یعنی کئی بار بیان کی گئی جن میں ڈرامے بھی شامل ہیں، اوپیراز بھی اور فلمیں بھی۔ ’’مولان‘‘ کا پہلا آن اسکرین ورژن 1927 میں آیا تھا۔ڈزنی اینیمیٹڈ فلم  “Mulan” اس کہانی کو معروف اور مقبول ثقافت میں لائی ہے۔ ایک سیکوئل “Mulan II” 2004میں آیا تھا اور ایک لائیو ایکشن فلم جس میں  Liu Yifei نے مولان کا کردار کیا ہے، یہ فلم 2020 میں ریلیز کردی جائے گی۔

٭   Hannah Snell

یہاں کے لوگ عام طور سے یہ کہتے ہیں کہ Hannah  Snell کو فوجی بننے کا بہت شوق تھا، اسی لیے اپنے بچپن میں وہ اکثر فوجی بنی رہتی تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی ایک برطانوی فوجی جیمس گرے بن کر گزاری جس نے 1700 کے عشرے میں بڑی بہادری کے کارنامے انجام دیے تھے۔ ہوا یوں کہ اس نے اپنے برادر نسبتی سے ایک مردانہ سوٹ حاصل کیا اور پھر اس کا نام اختیار کرلیا تاکہ میدان جنگ تک پہنچ سکے۔

Hannah کوئی بارہ مرتبہ زخمی ہوئی جس میں ایک بار اس کی جانگھ میں زخم آئے۔ اس نے اس موقع پر اپنی شناخت کیسے چھپائی اور اپنا علاج کیسے کرایا، یہ ابھی تک ایک بڑا راز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک مقامی عورت سے کہا تھا کہ وہ اس کی گولی نکال دے اور رجمنٹ کے سرجن کے پاس نہیں گئی تھی۔

Hannah Snell نے اپنی شناخت اپنے بحری جہاز کے ساتھیوں کے سامنے اتفاقی طور پر کھول دی تھی۔ اس کی کہانی “The Female Soldier”لندن سے دو مختلف ایڈیشنز میں شائع ہوئی تھی۔ اسے باعزت طور پر ڈسچارج کیا گیا اور پنشن بھی دی گئی جو اس زمانے میں ایک حیرت انگیز اور نادر واقعہ تھا۔اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد Hannah ایک شراب خانے میں ملازم ہوگئی۔ بعد میں دماغی اور جسمانی صحت خراب ہونے پر اسے ایک ادارے میں داخل کردیا گیا جہاں 1791میں وہ دنیا سے رخصت ہوگئی۔

٭   Mary Read

پیدائش:1690ء۔ میری ریڈ ان دو خواتین میں شمار کی جاتی ہے جن پر بحری قزاقی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ میری نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ اس وقت ایک مرد کی حیثیت سے گزارا جب اس نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی اور اسی مرد کے روپ میں وقت گزارا۔ اس نے اس دوران سمندر کا رخ بھی کیا جسے تاریخ داں قزاقی کا سنہرا دور کہتے ہیں، یہ زمانہ اٹھارویں صدی کے وسط کا ابتدائی دور تھا۔ لیکن اس کی فوجی زندگی بدلنے والی تھی، کیوں کہ جب اس کے بحری جہاز کو ویسٹ انڈیز میں قزاقوں نے پکڑا تو انہوں نے میری ریڈ کو زبردستی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ شروع میں تو وہ اس کے لیے تیار نہ تھی، مگر بعد میں اس نے اپنی قزاق والی اس زندگی سے خوب انجوائے کیا۔

اس تہلکہ خیز مہم کے دوران میری ریڈ اپنی ایک اور بحری قزاق ساتھی اینی بونی کی پارٹنر تھی جو بڑی بے رحم اور سفاک خاتون تھی اور ان دونوں نے اس حوالے سے بڑی زبردست شہرت اور مقبولیت بھی حاصل کی تھی۔ ان کی سفاکی اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بحری جہاز پر سوار کسی بھی وقت کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی تھیں۔ یہ دونوں خواتین اور ان کے عملے کو بہاماز کے گورنر نے یہ حکم دیا کہ اس جہاز کے ان دونوں خواتین کو بہ طور خاص اور پورے عملے کو برطانوی حکومت کے حوالے کیا جائے، کیوں کہ یہ سب تاج برطانیہ کے لیے خطرہ بنتے جارہے تھے۔

چناں چہ دونوں خواتین کو گرفتار کرکے ان کو سزائے موت سنادی گئی، مگر اس وقت دونوں خواتین امید سے تھیں تو ان کی سزا کچھ عرصے کے لیے روک دی گئی، بعد میں ریڈ تو اپریل 1721 میں بخار کے بعد جیل میں ہی مرگئی اور دوسری کا کچھ پتا نہ چل سکا۔

٭    Deborah Sampson

Deborah Sampson کا تعلق Massachusetts سے تھا اور وہ انقلابی جنگ میں حصہ لینے کے لیے اتنی زیادہ پرعزم تھی کہ اس نے دو بار فوج میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ اپنی دوسری کوشش کے دوران اس نے “Robert Shirtliffe,” کا نام استعمال کیا اور کام یابی سے لگ بھگ دو سال تک جنگ لڑی۔ اس کا قد پانچ فیٹ سات انچ تھا جو خاصا متاثر کن تھا۔ وہ اس دور کی خواتین کے مقابلے میں واقعی کافی دراز قد تھی۔

Deborah Sampson نے Fourth Massachusetts Regiment جوائن کی تھی اور اسے کیپٹن جارج ویب کی فوج میں بھیجا گیا تھا۔ اس کو ایک خطرناک کام دیا گیا تھا کہ وہ غیرجانب دار علاقوں پر نظر رکھے اور ان کی حفاظت بھی کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ وہ مین ہٹن میں برطانیہ کے فوجیوں اور ان کے لیے گولہ بارود اور اسلحہ کی فراہمی بھی دیکھے۔

ڈیبورا کی شناخت نے اس کے لیے بچاؤ آسان کردیا تھا، مگر اس کے لیے کئی اہم کالز ناگزیر تھیں۔ اس کی پیشانی پر ایک تلوار سے کاری ضرب لگائی گئی اور ساتھ ہی اس کی ٹانگ پر پستول سے فائر بھی کیا گیا۔ ڈیڑھ سال تک ملازم کے بعد ڈیبورا وبائی مرض میں مبتلا ہوگئی تو اسے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی شناخت کھل گئی۔ اکتوبر 1783میں اسے پورے اعزاز کی ساتھ رخصت کردیا گیا۔ جنگ کے بعد اس کی زندگی عام طور سے ایک کسان والی زندگی تھی۔1802میں اس نے پورے ملک کا دورہ کیا اور اپنے تجربات کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ وہ پہلی امریکی خاتون تھی جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ وہ اپنے لیکچرز کے دوران مکمل اور ریگولر ملٹری یونی فارم میں ہوتی تھی۔

٭     Mary Ann Evans

میری این ایوانز انیسویں صدی کی ایک مصنفہ تھی جسے یہ فکر تھی کہ اس کے کام کو مردوں کے معاشرے میں اہمیت نہیں دی جائے گی، کیوں کہ وہ ایک عورت تھی۔ چناں چہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے چھ ناول George Eliot کے قلمی نام سے شائع کروائے گی۔

اس وقت کی زیادہ تر خواتین رائٹرز ہلکے پھلکے اور رومانی ناولوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی تھیں۔ اس لیےMary Ann Evans نے کوشش کی کہ اس کے کام کو اس دور کی دیگر فیمیل رائٹرز سے ہٹ کر دیکھا جائے اور لوگ اس کے کام پر ایک ایڈیٹر یا ایک نقاد والی نظر بھی رکھیں۔ یہ بھی سوچا گیا تھا کہ ایک قلمی نام استعمال کرنے سے اس کی نجی زندگی عوامی اسکروٹنی سے بچ جائے گی، کیوں کہ وہ شادی شدہ جارج ہنری لوئس کے ساتھ بھی وابستہ تھی، اور لوئس ہی وہ واحد شخص تھا جس نے میری این کی لکھنے پر خوب حوصلہ افزائی کی تھی۔

Eliot نے Westminister Review کے لیے بھی لکھا تھا جو فلسفیانہ بنیادوں کا ایک جرنل تھا اور بعد میں وہ اس کا ایڈیٹر بھی بن گیا تھا۔ اس کی زیر ادارت درج ذیل ناول شائع ہوئے تھے:

“Adam Bede” (1859)

“The Mill on the Floss” (1860)

“Silas Marner” (1861)

“Romola” (1862-63)

“Middlemarch” (1871-72)

اور  “Daniel Deronda” (1876)

متعدد تحریریں پراونشیئل انگلینڈ میں سیٹ کردی گئی تھیں اور پھر وہ اپنے  realism اور نفسیاتی وجدان یا بصیرت کے لیے بھی جانے گئے۔ اس کی سب سے معروف مثال “Middlemarch,” ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس کی ہیروئن ایک غلط وقت میں تاریخ میں رہ رہی ہے۔

٭     Charley Parkhurst

یہ اولڈ ویسٹ کا سب سے شان دار اور زبردست اسٹیج کوچ ڈرائیور تھا اور بعد میں بہت سے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انہیں یہ پتا چلا کہ وہ ڈرائیور کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت تھی۔ Charley Parkhurst ایک یتیم خانے میں پلی بڑھی تھی جہاں سے وہ بھاگ گئی اور پھر اس نے ایک لڑکے کا روپ دھارا تاکہ اصطبل وغیرہ میں کام کرسکے۔ اور یہی وہ جگہ تھی جہاں سے اس نے کوچ چلانی سیکھی، اس عورت کو عام طور سے یا تو ایک آنکھ والی چارلی کہا جاتا تھا یہ پھر اسے چھ گھوڑوں والی چارلی بھی کہا گیا تھا۔ وہ دیکھنے میں پستہ قد تھی مگر عادت اور فطرت میں بہت مضبوط اور توانا تھی۔ اس نے ایک ماہر اور باصلاحیت کوچ ڈرائیور کی حیثیت سے بڑی شہرت حاصل کی تھی، مگر جب اس کا راز کھلا تو اسے جارجیا بھاگنا پڑا تھا۔ بعد میں چارلی کو 1851میں مغرب کی طرف کیلی فورنیا جانا پڑا جہاں پہنچ کر ایک بار Charley Parkhurst نے ایک مشہور کوچ ڈرائیور بننے کی کوشش شروع کردی جس کے نتیجے میں اس کے پاس متعدد میل کوریئر بھی آگئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1868 میں وہ پہلی خاتون تھی جس نے کیلی فورنیا میں صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالا تھا۔

1879ء میں وہ زبان کے سرطان کی وجہ سے مرگئی تو ڈاکٹرز کو یہ پتا چلا کہ Charley Parkhurst کیا تھی جس کے ہاں ابتدائی دنوں میں بچہ بھی پیدا ہوا تھا۔

٭      Dorothy Lawrence

ڈوروتھی لارنس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک جنگی نامہ نگار اور صحافی بننے کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن جب اس کے ایڈیٹرز نے اسے یہ بتایا کہ اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا تو اس نے ایک تحقیقی صحافی بننے کا ارادہ کرلیا، اس نے فرانس کے دیہی اور مضافاتی علاقوں میں سائیکل چلائی اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے خصوصی لباس بھی زیب تن کیا، یہاں تک کہ اس نے اپنی پیلی جلد کو چھپانے کے لیے فرنیچر پالش بھی استعمال کی۔ جب وہ Leicestershire Regiment میں بھرتی ہونے گئی تو اس نے اپنی دستاویزات میں جعلی طریقے سے تبدیلی کرائی اور ایک برطانوی فوجی ہونے کا دعویٰ کیا، ڈوروتھی لارنس یا ڈینس اسمتھ جیسا کہ اس کے فوجی اسے جانتے تھے، اس نے محاذ پر اگلے مورچوں کے دورے کیے اور ایک بارودی سرنگیں صاف کرنے والی کمپنی میں ایک انجینئر کی حیثیت سے کام کیا۔ میدانوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کے دس دن بعد اس نے اپنے کمانڈنگ افسر کے سامنے اعتراف کرلیا کہ وہ ایک عورت ہے، کیوں کہ اسے اندیشہ تھا کہ وہ پکڑی جائے گی تو بہت برا ہوگا۔ چناں چہ اسے ایک جاسوسہ کی حیثیت سے گرفتار کرلیا گیا۔ ادھر فوج کو اندیشہ تھا کہ کہیں ڈوروتھی کی طرح دوسری عورتیں بھی نہ کریں چناں چہ انہوں نے ڈوروتھی سے ایک حلف نامہ سائن کرالیا کہ وہ اپنے تجربات کبھی نہیں لکھے گی، مگر کئی سال بعد اس نے اپنی پوری کہانی لکھ بھی دی اور شائع بھی کرادی۔

٭   Billy Tipton

Billy Tipton کو تاریخ میں ایک مشہور جاز میوزیشئین کا مقام حاصل ہے جس نے پیانو اور سیکسافون دونوں ہی بجائے تھے۔ اس کی پیدائش کا سنہ 1914 تھا۔ اس کا پیدائشی نام  Dorothy Lucille Tipton تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہائی اسکول بینڈ پر ایک اسپاٹ نہیں لگاسکتی، کیوں کہ وہ ایک لڑکی تھی۔ بلی نے ایک پروفیشنل میوزیشیئن کے طور پر کام کیا اور پھر اس نے ایک دن یہ طے کیا کہ وہ اب مرد بن کر زندگی گزارے گی۔

1940 تک Tiptonنے خود کو ایک مرد کے بہ طور پیش کیا اور اپنی جنس چھپانے کے لیے اپنے سینے کو پوشیدہ رکھنے کا اہتمام بھی کیا۔اس نے متعدد بینڈز کے ساتھ کام کیا اور اس کی کئی خواتین کے ساتھ طویل وابستگی بھی رہی، لیکن ان میں سے کسی کو یہ پتا نہ چل سکا کہ وہ کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت ہے۔ Tipton نے 1957 میں جاز اسٹینڈرڈز کی دو البمز ریکارڈ کیں جن میں یہ گیت بھی شامل تھے:

“Can’t Help Lovin’ Dat Man,”

“Willow Weep For Me,”

“What’ll I Do” اور

“Don’t Blame Me.”

بتایا جاتا ہے کہ ان البمز کی 17,000 سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو اس زمانے میں ایک آزاد امیدوار کے لیے ایک قابل قدر کارنامہ تھا۔ Tipton نے Kitty Oakes کے ساتھ تین بیٹے گود لیے اور نہ تو Tipton کو اور نہ ہی Oakes نے کبھی Tipton کے راز کو جانا، البتہ انہیں1989 میں 74 سال کی عمر میں اس کی موت کے وقت اس کا یہ راز کھل ہوگیا۔

The post بھیس بدل کر بن گئیں مرد appeared first on ایکسپریس اردو.


پاک بھارت مقابلہ، جوہری میدان میں

$
0
0

(قسط نمبر 10)

یہ حقیقت ہے کہ 17 اگست 1988 کا واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اب دنیا بہت تیز ی اور بیدردی سے تبدیل ہو رہی تھی، یہ اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ اُن دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم اسپیڈ کے نام سے آئی۔

جس کا مرکزی خیال یہ تھا ،،کہ ایک مسافر بس میں ولن بم پلانٹ کر دیتا ہے اور ہیرو کو پیغام دیتا ہے کہ اگر بس کی رفتارایک خاص حد سے کم کی گئی تو بم پھٹ جا ئے گا اور بس مسافروں سمیت تباہ ہو جائے، شائد یہ سپر پاور کا   پوری دنیا کے لیے ایک پیغام تھا، پھر انہی دنوں یعنی نوے کی دہا ئی کے آغاز پرہی Samuel P Huntington کی شہرہ آفاق کتاب ( The Clash of Civilizations )Remaking of the World Order سامنے آئی اگرچہ ’’ تہذیبوں کا تصادم ‘‘ کے عنوان سے کتاب سے چند برس پہلے ہی اس موضوع پر سیمول پی ہنٹینگٹون کے مضامین سامنے آنے لگے تھے۔

جن کے موضوعات کو کتابی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جس میں انہوں نے سوویت یونین اور اس کے ساتھ کیمونزم کے خاتمے پر دنیا میں دوبارہ بڑی تہذیبوں کے درمیان ملکوں کی جنگوں کے بارے میں پیش گو ئی کی تھی اوراس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا تھا کہ اس بد لتی ہو ئی صورتحال میں اسلامی دنیا کے اکثر ممالک تباہی وبربادی کا شکار ہو نگے،پاکستان میں یہ تبدیلی بڑے عجیب انداز میں آئی تھی۔

ایک طرف بہاولپور کے فضا ئی حادثے میں وہ فوجی قیادت جان سے گئی تھی جس نے نہ صرف ملک پر گیارہ سال حکومت کرتے ہو ئے اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں نئی سیاسی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی کی تھی بلکہ پھر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کی اس تیز رفتاری کا سبب بھی بنی تھی مگر اب جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن نہیں تھے اوراب پاکستان میں ایک بار پھر ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسا منجھا ہوا بیوروکریٹ 1973 کے آئین میں آٹھویں ترمیم بشمول 58B2 کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور حکومت کو برخاست کے اختیارات کے ساتھ صدر مملکت ہو گیا تھا۔

غلام اسحاق خان 1915 میں پیدا ہو ئے تھے۔ 1941 میں انڈین سول سروس جوائن کی اور آزادی کے بعد ہی خیبر پختونخوا کے صو بائی سیکرٹری رہے۔ 1955 میں ون یو نٹ کے قیام کے بعد وہ پہلے مغربی پاکستان اور پھر وفاق میں مختلف عہدوں پر فائز رہے، بھٹو دور میں وہ 22 دسمبر1971 سے 30 نومبر1975 تک گورنر اسٹیٹ بنک رہے۔ 12 اکتوبر 1975 سے5 جولائی1977 تک وہ سیکرٹری دفاع رہے۔

پانچ جولائی 1977 میں مارشل لا کے نفاذ پر وہ 21 مارچ 1985 تک وفاقی سیکرٹری خزانہ رہے، اسی دوران انہوں نے اپنے لیے وفاق میں صدر ضیا الحق سے سیکر ٹری انچیف کا نیا عہدہ بھی تخلیق کروایا جو اِن کی عارضی مدت کے بعد ختم ہو گیا۔21 مارچ 1985 سے 17 اگست 1988 تک وہ چیئرمین سینٹ رہے اور پھر17 اگست 1988 سے 18 جولائی 1993 تک وہ پا کستان کے صدر رہے۔

غلام اسحاق خان بہت تجربہ کار اور زیرک ضرور تھے مگر عالمی سطح پر رونما ہو نے والی تبدیلیوں اوردنیا کے اُس وقت کے تیزی سے بدلتے حالات کے لحا ظ سے غالباً اُن کا ویژن قدرے محدود تھا کیونکہ اپنی طویل ملازمت کے دوران اور پھر بطور چیئرمین سینٹ اُن کا اس شعبے سے واسطہ نہیں رہا تھا اور ویسے بھی صدر جنرل ضیا الحق کے پورے دور میں صاحبزادہ یعقوب خان جیسی تجربہ کار اور دوربین نظرکی حامل شخصیت وزیر ِخارجہ رہی۔ غلام اسحاق خان کے دور صدارت میں تین وزراء اعظم بینظیر بھٹو، نوازشریف اور نگران وزیر اعظم غلام مصطفٰی جتوئی رہے۔

اسی طرح اِن کے دورصدارت میں تین آرمی چیف بھی رہے جن میں جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل آصف نواز اور جنرل وحید کا کڑ شامل ہیں۔ صدر جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد قانون کے مطابق چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان صدر ہوئے تھے۔

بحیثیت صدر انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا، پھر شیڈول کے مطابق 16 نومبر 1988کو اُنہوں نے عام انتخابات کروائے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کل 207 جنرل نشستوں میں سے 94 نشستیں حاصل کر کے اشتراک سے کمزور وفاقی حکومت  بنائی اور 2 ستمبر 1988 کو بینظیر بھٹو تاریخ میں پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بنیں، 12 دسمبر 1988 کو غلام اسحاق خان 348 ووٹ لیکر پانچ سال کی مدت کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے، اِن کے مقابلے میں نوابزادہ نصر اللہ خان کو 91 اور جعفر ہارون کو 16 ووٹ ملے، 6 اگست 1990 کو صدر اسحاق خان نے 58-B2 کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کر دیا اور تین ماہ کی عبوری مدت کے لیے غلام مصظفیٰ جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کیا ۔

یکم نومبر 1990 کو ہونے والے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحادی نے قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں میں سے 106 نشستیں لیکر حکومت بنائی اور میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم ہوئے مگر حالات یہ بتاتے ہیں کہ اس دوران جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں تو ایک جانب تو اِن دونوں سیاسی لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلا ف شدید انتقامی کاروائیاں کیں ایک دوسرے کے خلاف قانونی طور پر اقدامات بھی کئے تو دوسری جانب عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اِن کے اسٹیلشمنٹ سے بھی بہت سے اختلافات سامنے آتے رہے چونکہ یہ دور جو پاکستان کے اعتبار سے1988 سے شروع ہوا تھا بہت نازک دور تھا اُس وقت بیک وقت امور خارجہ، مالیاتی و اقتصادیات یعنی وزارت خزانہ اور وزارت دفاع پر بھر پور توجہ کی ضرورت تھی کہ 1945 سے 1990تک جاری رہنے والی روایتی سرد جنگ دنیا سے ختم ہو رہی تھی۔

اشتراکیت کے خاتمے پر نہ صرف دو طاقتی اور دو اقتصاد ی  نظام دنیا سے ختم ہو رہے تھے تو ساتھ ہی اس خلا کے تیزی سے پُر ہونے پر منطقی اعتبار سے دنیا بھر میں خصوصاً ان دونوں شعبوں میں ایک زلزلے کی سی کیفیت تھی، سیاسی، عسکری، دفاعی محاذوں پر اِس زلزلے کے نیچے لاوے کی لہریں جو گرافس بنا رہی تھیں بڑی قوتیں اور درمیانی مگر اہم قوتیں اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ ایجنسیوں سے اُس کے ٹھیک ٹھیک پرنٹ حاصل کر نے کی تگ و دو میں تھیں، پاکستان کے لیے اب بہت پیچیدہ اور خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔

افغانستان میں جنیوا معاہدہ قیام امن کے لیے کچھ نہ کر سکا تھا ، بھارت جہاں 1987 تک کشمیر کی تحریک اور خالصتان کی تحریک اس قدر تیز تھی کہ بھارت کی سیاسی قیادت بھارت کے مستقبل سے پریشان تھی، اب یوں لگتا تھا کہ بھارت نہ صرف مطمئین ہے بلکہ اب وہ پاکستان کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا تھا، حکومتی سطح پر دونوں جماعتوں کے شدید اختلا فات کے ساتھ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات نواز شریف کے پہلے دورِ حکو مت میں ہی سامنے آگئے حالانکہ وہ صدر ضیا الحق کے متعارف کردہ سیاسی لیڈر تھے۔

یوں 8 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کر کے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے بحالی کے احکامات صادر کئے تو سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا اور اُس وقت آرمی چیف عبد الوحید کاکڑ کے فارمولے کے تحت پہلے وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی اور اسمبلی کی تحلیل کے بعد صدر بھی مستعفی ہو گئے۔

جو مسئلہ اُس وقت صدر غلام اسحاق خان پھر صدر لغاری اور اسی طرح جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز، جنرل عبدالوحید کا کڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے سامنے تھا وہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا تھا ۔

کیو نکہ بھارت جس نے اپنا پہلا بنیادی نوعیت کا ایٹمی دھماکہ 1974 میں کیا تھا اورپھر 1987 میں جنرل ضیا الحق نے جو کچھ پیغام بھارتی وزیراعظم کو دے دیا تھا اُس کے بعد صورتحا ل عالمی سطح پر نازک ہو تی جا رہی تھی، امریکہ نے اپنا پہلا ایٹمی ٹیسٹ دھماکہ 16 جولائی 1945 کو کیا تھا، سوویت یونین نے پہلا ایٹمی دھماکہ29 اگست1949 کو کیا، برطانیہ نے 3 اکتوبر 1952 کو دھماکہ کیا، فرانس نے13 فروری1960 کو ایٹمی دھماکہ کیا اور چین نے 16 اکتوبر 1964 کو کامیاب ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔

اب پاکستان کو جو اطلا عات اپنے خفیہ ذرائع سے مل رہی تھیں وہ یہ تھیں کہ بھارت کامیاب ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی چھٹی اعلانیہ ایٹمی قوت بن جا ئے گا اور پاکستان کو اس کے مقابلے میں تکنیکی، سائنسی، سیاسی انداز میں ہر طرح سے اعلانیہ ایٹمی قو ت بننے سے روکا جائے گا، اگر چہ پاکستان نے بنیادی ایٹمی صلا حیت 1978 ہی میں حاصل کر لی تھی مگر بھرپور صلاحیت 1982 سے حاصل کر چکا تھا، اس پر اُس وقت عالمی قوتوں کی خاموشی غالباً اس لیے بھی تھی کہ سوویت یونین اور بھارت پاکستان کے خلاف کسی مشترکہ فوجی جنگی کاروائی سے باز رہیں۔

پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کے حق میں دنیا کے سامنے بہت محنت اورخوبی سے کامیاب وکالت کی۔ 1974 سے پا کستان کا بشمول بھارت دنیا سے مطالبہ رہا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علا قہ قرار دیا جائے، 1986میں ہی گورباچوف اور ا مریکی صدر رونالڈ ریگن دونوں ہی ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے پر اتفاق کر رہے تھے، اور عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف آوازیں زیادہ بلند ہونے لگیں،11 اور12 اکتوبر 1986 کو گوربا چوف اور ریگن میں ایٹمی ہتھیاروں کو محد ود کرنے پر مذاکرات ہوئے، 8 دسمبر1987 کو سوویت یونین اور امریکہ نے 3000 سے 3500 میل تک زمین سے مار کرنے والے میزائلوں کو ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے، جنوبی افریقہ جہاں عرصے سے اقلیتی سفید فام نسل پرست حکومت تھی۔

وہاں 1991-92 میں نیلسن منڈیلا کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جمہوریت کی بحالی پر ساوتھ افریقہ نے اعلان کیا کہ اُس نے اپنے چھ ایٹم بم ختم کر دئیے اور NPT پر دستخط کر دیئے،15دسمبر 1995 کوجنوب مشرقی ایشیا کو غیر ایٹمی علاقہ قرار دے دیا گیا جس میں برما، فلپائن، لاوس، ویتنام اور انڈونیشیا شامل ہیں،11 اپریل1996 کو افریقہ کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا گیا۔

اس میں مصر سمیت 46 ممالک شامل ہیں، یکم جون 1996 میں یوکرائن نے اپنا آخری نیوکلیئر ہتھیار بھی روس کو واپس کر دیا اور غیر ایٹمی ملک بن گیا اور 8 جولائی 1996 کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے ایٹمی ہتھیاروں کو غیر قانونی قرار دے دیا، 24 ستمبر 1996 کواقوام متحدہ میں Total nuclear test ban کل جوہری ہتھیاروں کے تجربے پر پابند ی کی قرارداد پر اکثر ممالک نے چین، روس، برطانیہ ،فرانس اور امریکہ سمیت دستخط کردئیے، بھارت نے دستخط کرنے سے انکار کردیا ، نومبر 1996 تک بلاروس اور قازقستان جو سوویت یونین کے بعد ایٹمی ہتھیار رکھتے تھے، ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو گئے اور اپنے ایٹمی ہتھیار روس کو واپس کر دئیے۔

اس دوران 19 اکتوبر 1993 کو بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں اور فاروق لغاری 13 نومبر 1993 کو وسیم سجاد کے168 ووٹ کے مقابلے میں 274 ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے اور پھر 5 نومبر 1996 کو صدر فارق لغاری نے اسمبلی توڑ کو بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا۔

فروری 1997 کے عام انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے، یوں 1990 کے بعد سے اور 1993 سے دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے خلاف پوری دنیا کی رائے یہ تھی کہ اب کوئی ایٹمی دھماکہ نہ ہو مگر بھارت بہت تیزی سے اپنے ایٹمی ہتھیار بنا کر اِن کو ٹیسٹ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا اور درپردہ اس حوالے سے اُس نے بڑی قوتوں کے بعض عناصر سے ممکنہ اقتصادی مالیاتی پابندیوں پر ضمانتیں بھی لے رکھی تھیں اور ایک غیر اعلانیہ ایٹمی قوت کی اُسے حمایت بھی حاصل تھی۔

یوںصدر غلام اسحاق ، صدر فاروق لغاری اور جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز ،جنرل جہانگیر کرامت ، یہ وہ شخصیات تھیں جن کے دور میں بہت خاموشی سے چاغی کے پہاڑوں میں راس کوہ کے نیچے ہزاروں فٹ کی گہرائی تک آہنی مضبوطی کی سرنگیں تعمیر ہوتی رہیں یہ گہری اور طویل سرنگیں چاغی اور آواران میں 1990 کی دہائی کے آغاز سے شروع کر دی گئیں تھیں جس کے لیے ایسے میٹریل کی ضرورت تھی جو ایٹمی دھماکوں کی قوت کو یہاں زمین کے پاتال میں برداشت کر سکے اور یہ ضروری تھا کہ تابکاری کے اثرات کو پوری گارنٹی کے ساتھ روکا جائے ورنہ بھارت سمیت امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ملکوں نے اقوام متحد ہ  کے ذریعے پا کستان پر دباؤ ڈال کر اُسے اِس کے ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر دینا تھا۔

اس لیے یہاں نہ صرف اس نکتہ نظر سے پوری تیاری کی گئی بلکہ ساتھ ہی اس کا اندیشہ بھی تھا کہ جب پاکستان یہاں اپنے ایٹمی دھماکے کرے تو سیٹلائٹ اور جدید خلا ئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جیمرز کی مدد سے دھماکوں کو منجمد کر دیا جائے، یوں اس کے لیے بھی پاکستان کے عظیم سپوت ڈاکٹر قدیرخان نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کی مدد سے ایسے انتظامات کر لیے تھے جو اس طرح کی خلائی ٹیکنالوجی کو بے اثر کردیں۔

اُس وقت پوری دنیا ایٹمی د ھماکوں کے شدید خلاف تھی اور دنیا کے ملکوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے حوصلے اس لیے بھی بلند تھے کہ اب سرد جنگ ختم ہو گئی تھی اور روس کے گورباچوف اور امریکی صدر ریگن دونوں ہی ایٹمی دھماکوں یا نیوکلیئر ٹیسٹ کے خلاف تھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا بھر میں قدرتی ماحولیات کی تیز رفتاری سے تباہی تھی، اس وقت تک امریکہ ریکارڈ کے مطابق 1945 سے نوے کی دہائی تک 1032 ایٹمی ٹیسٹ یا تجربات میں 1132 ایٹمی دھماکے کر چکا تھا جب کہ بارہ دھماکوں کا ریکارڈ ظاہر نہیں، یوں دنیا میں ہونے والے کل ایٹمی دھماکوں میں امریکہ کا تناسب 48.7% سوویت یونین نے727 ایٹمی تجربات میں ریکارڈ کے مطابق981 ایٹمی دھماکے کئے اور 248 دھماکے ریکارڈ پر نہیں، ایٹمی تجربات اور دھماکوں میں روس کا تناسب 34.4% ہے۔

برطانیہ نے اب تک 88 ایٹمی تجربات میں ریکارڈ کے مطابق 88 ایٹمی دھماکے کئے اور بغیر ریکارڈ 31 دھماکے تناسب 4.15%  ، فرانس نے 217 ایٹمی تجربات میں 217 ہی ایٹم د ھماکے کئے اس کا تنا سب 10.2 فیصد ہے، چین نے 47 ایٹمی تجربات میں 48 ایٹمی دھماکے کئے اس کا تناسب 2.22% ہے، یوں ان سب کا کل تناسب فیصد 99.67 بنتا ہے پھر تعریف کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنا پہلا دھماکہ میکسیکو میں، برطانیہ نے آسٹر یلیا  میں، فرانس نے صحارا میں اور روس نے قازقستان میں کیا اور اس کے بعد بھی زیادہ تر تجر بات اپنے ملک  سے باہر یا انٹارکٹیکا، میں یا سمندر کے نیچے اور وہ بھی کسی اور ملک کے نزدیک انٹر نیشنل واٹر میں کئے۔

جہاں تک تعلق امریکہ کے طاقتور ترین ہونے کا ہے تو اس کا گھمنڈ تھوڑے عرصے تک امریکی عوام میںایٹمی تجربات اور ہتھیاروں کے لحاظ سے رہا اور پھر امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت اہل مغرب کے اُس وقت کے اہم دانشوروں نے اس کے خلا ف آواز بلند کی، 9 جولائی1955 کو رسل،آئن اسٹائن مینیفسٹو جاری ہوا جس میں اس وقت دنیا کے دو اہم ترین مفکرین یعنی آئن اسٹائن اور برٹزنڈ رسل کے ساتھ اُس وقت دنیا کے کئی اہم دانشور وں اور سائنس دانوں نے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کی جانب توجہ دلاائی اور اس سلسلے کو بند کر نے پر زور دیا۔

یکم دسمبر 1959کو انٹار کٹیکا میں ایٹمی تجربات پر پابندی عائید کر دی گئی۔ 1961 میں بحرالکاہل میں تابکاری کے خلاف امریکہ کے شہروں میں پچاس ہزار افراد نے مظاہرہ کیا۔ 1963 کو پارشل ٹیسٹ بین ٹریٹی دستخطوں کے لیے اوپن کیا گیا،1967ء کو لاطینی امریکہ نیو کلیئر فری زون بن گیا ، 1968ء میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان Nuclear Non Proliferation Treaty NPT  ہوا، یہ معاہدہ اس اعتبار سے پہلی کامیابی تھا، 22 ستمبر 1979 کو شمالی بحیرہ ہند میں کیپ آف گڈ پر ایک ایٹمی دھماکہ کیا گیا جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دھماکہ جنوبی افریقہ کی اقلیتی سفید فام نسل پرست حکومت نے اسرائیل کے تعاون سے کیا تھا۔

عراق نے بھی اسرائیل کے مقابلے میں اپنا ایٹمی پروگرام ساٹھ کی دہائی میں شروع کر دیا تھا۔ 1976ء میں عراق نے اوریسس کلاس نیوکلیئر پلانٹ فرانس سے خریدا اور یہ کہا کہ یہ پُر امن مقاصد کے لیے خریدا گیا ہے مگر بعد میں اسرائیل نے اس کے بارے میں کہنا شروع کیا کہ عراق اس پلانٹ سے ایٹمی ہتھیار بنا نے کی تیاریاں کر رہا ہے، 7 جون 1981 اسرائیلی F16A اور F15A کے طیاروں نے اچانک حملہ کر کے بغداد کے قریب واقع  ایٹمی ری ایکڑ کو تباہ کردیا، اسرائیل نے اس حملے کا نام آپریشن اُوپرا رکھا تھا جسے آپریشن بیلان بھی کہتے ہیں۔

یہ آپریشن دنیا کی عسکری تاریخ میں فضائی مہارت کے اعتبار سے بہت مشہور ہے اسرائیلی جہاز اردن ، سعودی عرب کی سرحدی پٹی پر پر واز کرتے آئے اور تھوڑی دیر میں پورا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر کے چلے گئے، اس حملے میں عراقی فوجی اور ایک فرانسیسی جان بحق ہوا، اسرائیل کی اقوام متحدہ میں امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے مذمت کی، مگر اسرائیل کا موقف یہ تھا کہ اُس نے یہ آپریش حفظِ ماتقدم یعنی سیلف ڈیفنس میں کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کا ایک فضائی حملہ اس سے پہلے 30 ستمبر1980 میں ایران نے اسی ایٹمی ری ایکٹر پر  F4phantom لڑاکا طیاروں سے کیا تھا۔

جس میں اس ایٹمی ری ایکٹر کے ایک بہت چھوٹے حصے کو نقصان پہنچا تھا جس کو فرانس کے ماہرین نے فوراً مرمت کر دیا تھا۔ 1982 میں نیویارک میں ایٹمی ہتھیاروں اور تجربات کے خلاف دس لاکھ افراد نے مظاہر ہ کیا، یوں جیسا کہ پہلے بتایا گیاکہ ستمبر1996  کواقوام متحدہ کی میز پر آئندہ ایٹمی دھماکوں اور تجر بات پر پابندی کی قرارداد پر امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین نے دستخط  کئے مگر بھارت نے انکار کر دیا تو بعض اطلاعات کے مطابق ٹیسٹ کئے جانے والے چھ ایٹم بموں میں سے 1997 کے آغاز ہی میں پاک فوج نے چاغی میں پانچ بم اور ایک بم آوارن میں پہنچا دیاتھا۔

5 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹوکی حکومت کو برخاست کر کے اسمبلی تحلیل کر دی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا ، ملک معراج خالد نگران وزیراعظم مقرر ہو ئے  فروری 1997 کو عام انتخابات ہونے تھے، یہاں صورتحال یوں تھی کہ پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلا ف اہل فکر و دانش نے آوازیں بلند کیں کہ اب یہ گمان ہونے لگا تھا کہ جو اطلاعات بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے حوالوں سے آئی تھیں کیا اب بھارت ا پنے پروگرام پر نظر ثانی کرے گا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔

جہاں تک پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا تعلق تھا تو وہ تو بہت پہلے ہی سے تیار ہو چکے تھے بلکہ جہاں اِ ن کا تجربہ ہونا تھا وہاں بھی پہنچا دیئے گئے تھے، بھارت کا مسئلہ یہ تھا کی اُس کی تیاری مکمل نہیں ہو رہی تھی، یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کے لیے تو بڑی طاقتوں کی جانب سے کسی ممکنہ تکنیک کے استعمال کے اندیشے کے تحت قدرے گھراہٹ اور فکرمندی کا سبب تھے مگر بھارت پر بھی دباؤ تھا کہ اگر یہ ایٹمی دھماکے ناکام ہو جاتے یا ریڈیشن (تابکاری) کے اثرات پھیل جاتے تو پھر بھارت ہمیشہ کے لیے جوہری ہتھیاروں سے محروم ہو جاتا اس لیے بھارت اب بہت محتاط تھا۔

یہاں پاکستان میں 3 فروری 1997 میں انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 207 جنرل نشستوں میں سے 137 نشستیں حاصل کر کے واضح اکثریت لی، 17 فروری کو نواز شریف نے دوسری مرتبہ بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا، انہیں اعتماد کے 181 ووٹ ملے انہوں نے پیپلز پارٹی سے مل کر یکم اپریل کو آئین میں 13 ویں ترمیم کرکے حقیقی پارلیمانی جمہوریت بحال کر دی، صدر کے اسمبلی توڑنے، فوجی سربراہوں اور گورنر مقرر کرنے کے اختیارات ختم کردئے گئے اور آئین سے آرٹیکل58 (2 ) بی اورآرٹیکل 112 (2 ) بی کو نکال دیا گیا لیکن اَن کے اقتدار میں آتے ہی  آٹے کی شدید قلت پیدا ہو ئی۔

29 اپریل 1997 کو صدر فاروق لغاری جب چین روانہ ہوئے تو اختیارات میں کمی کے ساتھ اُن کا پرو ٹوکو ل بھی کم کر دیا گیا، کمشنر راولپنڈی نے اُنہیں رخصت کیا، 12 مئی کو نواز شریف نے سارک کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال سے ملا قات کی، 3 مئی 1997 کو افغانستان میں طالبان نے تین صوبوں پر قبضہ کر کے اسلامی حکومت کا اعلان کیا اور پاکستان نے اس حکومت کو فوراً تسلیم کر لیا، 5 ستمبر1997 کو ججوںکی تعداد میں کمی کا نوٹس سپریم کورٹ نے معطل کر دیا، 9 ستمبر کو چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ نے آرمی چیف سے براہ راست تحفظ مانگ لیا ، 28 نومبر کو سپر یم کورٹ میں زبردستی داخل ہوکر مسلم لیگ ن کے لیڈروں نے کارکنوں کے ہمراہ شدید ہنگامہ آرائی کی۔

2 دسمبر کو صدر فاروق لغاری نے استعفیٰ دے دیا اور وسیم سجاد صدر ہو گئے۔ 3 دسمبر کو جسٹس سجاد علی شاہ اور مختارجونیجو طویل رخصت پر چلے گئے، 13 دسمبر کو  ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے سے لو گوں کے اربوں روپے ڈوب گئے، 2 مارچ 1998 کو 17 سال بعد ملک میں مردم شماری ہوئی،7 اپریل1998 کو پاکستان نے زمین سے زمین پر 1500 کلومیٹر مار کرنے والے حتف 5 غوری میزائل کاکامیاب تجربہ کر لیا،11 مئی کو بھارت نے دو ایٹمی تجربات کی صورت میں پوکھرن راجستھان میں 5 ایٹمی دھماکے کر دیئے۔

گیارہ مئی سے اٹھائیس مئی تک پوری پاکستانی قوم شدید بے چینی اور اضطراب کے عالم میں رہی، نا قابل بیان حد تک پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ بھارت کے جواب میں دھماکے نہ کرے، ایک جانب عالمی سطح پر اربوں ڈالر کی امداد، قرضوں کی معافی جیسے لالچ دیئے جا رہے تھے تو دوسری طرف اقتصادی مالیا تی پابندیوں کے علاوہ اشاروں میں تباہ و برباد کر نے کی دھمکیوں تک نوبت پہنچ رہی تھی، افواج پاکستان اور پاکستان اٹامک کمیشن تو بہت پہلے ہی چاغی اور آواران میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب دینے کے اقدامات کر چکا تھا اور پوری قوم کے ساتھ اِن کا حکومت پر شدید دباؤ تھا کہ فوراً بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر دیئے جائیں۔

کیونکہ پاکستان تو روز اوّل سے پوری دنیا سے یہ مطالبہ کرتا رہا کہ بھارت کو ایٹمی قوت بننے سے روکا جائے کیونکہ اس طرح خطے میں میں نہ صرف بھارت اور پاکستا ن کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ جائے گا تو مجبوراً پاکستان کو بھی اس کا جواب دینا پڑے گا بلکہ اس علاقے میں جہاں پہلے سے روس اور چین جیسی بڑی اور ایٹمی قوتیں موجود ہیں یہاں دو اور ایٹمی قوتوں کے وجود میں آجانے سے صورتحال ہمیشہ اندیشوں کے تابع رہے گی کیونکہ چین اور بھارت کے درمیان بھی تنازعات ہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تو کشیدگی کہیں زیادہ ہے اور پھر 1990 میں سرد جنگ کے بعد روس کی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی تھی۔

اُس وقت چونکہ پوری دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تجربات کی وجہ سے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پر شدید برہم تھی اور روس امریکہ مفاہمت کی وجہ سے فرانس، برطانیہ اور چین نے بھی دنیا میں ایٹمی تجربات اور دھماکوں کی اقوام متحدہ کی قرار داد پر دستخط کر دیئے تھے، پاکستان نے 9 مئی کے بعد دنیا پر زور دیا کہ بھارت کے خلاف عالمی سطح پر شدید نوعیت،غیر معینہ مدت کی پابندیاں لگائی جائیں جس کے نتیجے میں بھارت فوراً ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے تو پاکستان بھی ایٹمی دھماکوں سے باز رہے گا، لیکن امریکہ، فرانس ، برطانیہ، روس اور چین جو اعلانیہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور کی بنیاد پر مستقل رکن بھی ہیں۔

بھارت کے خلاف مشترکہ طور پر کو ئی موثر اور شدید نوعیت کے اقدامات کرنے کے اعلان سے قاصر رہے، اُس وقت میاں نواز شریف کی کابینہ 20 وفاقی وزرا پر مشتمل تھی جن میںاسحاق ڈار، محمد علی خان ہو تی، شیخ رشید، سید غوث علی شاہ ، سید احمد محمود، سرتاج عزیز،گوہر ایوب، جاوید ہاشمی، خالد مقبول صدیقی، مشاہد حسین ، جنرل(ر) عبدالمجید ملک، خالد انور، راجہ محمد ظفرالحق، یٰسین خان وٹو، عابدہ حسین، سردار یعقوب خان ناصر، تہمینہ دولتانہ، راجہ نادر پرویز، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری نثار علی شامل تھے۔

اُس وقت کی اطلاعات کے مطابق دھماکوں کے حق میں اگرچہ کابینہ کی اکثریت تھی لیکن شدید دباؤکے طور پر گوہر ایوب، چوہدری نثار علی اور شیخ رشید اہم تھے اور پھر 28 مئی 1998 کو پہلے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں پانچ ایٹمی دھماکے چاغی کے پہاڑ راس کوہ میں کئی ہزار فٹ کی گہرائی میں کئے گئے اور دو دن بعد 30 مئی کو ایک ایٹمی دھماکہ خاران میں کیا گیا، 28 مئی کے دھماکوں کے وقت یہاں چاغی میں راس کوہ پر بھارت، اسرائیل، امریکہ اور روس سمیت دیگر قوتوں کی جانب سے تکنیکی طور پر دھماکوں کو روکنے کے توڑ بھی کر  لئے گئے تھے، مگر بعض اطلاعات کے مطابق جب ایٹمی تجربات کی بنیاد پر دھماکوں کے لیے بٹن دبایا گیا تو چند سیکنڈز کی دیر ہوئی تو وہاں موجود سب کے چہرے زد پڑ گئے لیکن جیسے ہی دھماکے کامیاب ہوئے تو کنٹرول روم اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا اور پاکستان دنیا کی اعلانیہ ساتویں اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔

اور یہ کریڈٹ اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے حصے میں آیا۔ اب پاکستان کو بڑے بحران کا سامنا تھا، اقتصادی بحران مہنگا ئی ڈالر کی قیمت اور افراط زر میں اضافہ تو پہلے ہی سے تھا لیکن ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے عالمی سطح کی مالیاتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں تھیں حالانکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے جذبہ حب الوطنی اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، اِن حالات میں پاکستان کو امدادی زرمبادلہ بھیجا مگر بدقسمتی سے بعض مفاد پرستوں نے ڈالر ذخیرہ کر لیے یا باہر بھجوائے۔

مئی کے بعد ہی جون میں ہر سال کی طرح قومی بجٹ پیش کرنا تھا، یوں مالی سال 1998-99 کا وفاقی بجٹ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیا جس کا مجموعی حجم 6.6 کھرب روپے تھا جس میں55 ارب 60 کروڑ روپے کا خسارہ تھا، پھر 18 جون کو پٹرول کی قیمتوں میں 25% اضافہ کر دیا گیا،17 اکتوبر 1999 کو نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کر دیا اور جنرل جہانگیر کرامت جن کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 9 جنوری1999 تھی وہ ازخود وقت سے پہلے یہ عہدہ چھوڑ گئے، یوں فروری1997 سے اکتوبر 1998 تک 20 مہینوں کے اقتدار میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ، صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری اور پھر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اپنی مدت ملازمت پوری کرنے سے پہلے اپنا عہدہ چھوڑ گئے، یوں ان اداروں اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بالکل واضح ہو گئے تھے۔

پیپلز پارٹی نے اگرچہ جمہوریت کے حق میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں آئینی ترامیم میں غیر مشروط طور پر مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا تھا مگر اس حکو مت نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھولا،17 اکتوبر 1998 کو نامور شخصیت سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا،18 نومبر 1998 کو امریکی صدر بل کلنٹن  نے بھارت اور پاکستان پر عائد اقتصادی پابندیاں از خود اٹھا دیں،11 جنوری 1999 میں بھارت میں اقلیتوں کے قتل عام پر پاکستان کے عیسائیوں نے ملک بھر میں بھرپور احتجاج کیا، سپریم کورٹ نے سندھ اسمبلی بحال کردی اور کہا کہ اسے قانون سازی کے پورے اختیارات حاصل ہونگے، تحریک جعفریہ نے مسلم لیگ سے الحاق ختم کر دیا۔

15 جنوری کو کھلی کچہری میں وزیر اعظم سے نہ ملنے دینے پر ایک شخص نے احتجاجاً خود کو آگ لگا کر ہلاک کر لیا، فروری ہی میںسابق وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ 19 فروری1999 کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ سے بذریعہ بس پاکستان لاہور آئے وزیراعظم نواز شریف نے اُن کا استقبال کیا،21 فروری1999 کو اعلان لاہور پر دستخط ہوئے جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات پر باہم گفتگو کے ذریعے حل پر زور دیا گیا،اگرچہ یہ دورہ 1988-89 کی سابق وزیراعظم راجیو گاندھی بینظیر بھٹو ملا قات کے دس سال بعد اور مئی 1998 میں بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی سے پاکستان کے وزیراعظم کی ملاقات اہم تھی، مگر نہ تو اس میں ایٹمی قوت بن جانے کے بعد کی خصوصی صورتحال زیر بحث آئی اور نہ ہی کشمیر ، سرکیک، سیا چن سمیت دیگر تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کے لیے کو ئی ٹائم فریم یا طریقہ کار طے پایا۔

جہاں تک تعلق اعلانِ لاہور کا تھا تو یہی بات 1972 کے شملہ معاہد ے میں کی گئی تھی، پھر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد ہی پاکستان پر ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہو نے کے الزامات  کے ساتھ پراپیگنڈا شروع ہو گیا اور پھر وہی دہشت گردی اور تخریب کاری کو سپورٹ کر نے کے الزمات پاکستان پر عائد کئے جانے لگے جس میں بھارتی لیڈر اور ذرائع ابلا غ پیش پیش تھے۔        (جاری ہے)

The post پاک بھارت مقابلہ، جوہری میدان میں appeared first on ایکسپریس اردو.

غلطی پکڑی گئی۔۔۔۔

$
0
0

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

ہالی وڈ کا شمار دنیا کی بڑی فلم انڈسٹریوں میں ہوتا ہے جہاں کہانی، اسکرپٹ، گرافکس اور تیکنیکی خامیوں سے لے کر ہر چھوٹی چھوٹی چیز کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ غلطیوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ عمومی طور پر ہالی وڈ کی فلموں کو غلطیوں سے مبرا سمجھا جاتا ہے اور شائقین کا خیال ہے کہ ہالی وڈ کے فلم ساز اتنی پرفیکٹ فلمیں بناتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی غلطی نہیں مل سکتی۔

لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ کوئی بھی چیز ’پرفیکٹ‘ نہیں ہوتی۔ ہالی وڈ کی بہت سی شہرۂ آفاق فلموں میں بھی غلطیاں دیکھی جاسکتی ہیں جو پردے کے سامنے بیٹھے شائقین سے چھپ نہیں سکیں۔

تاہم فلمی شائقین اتنے انہماک سے فلم دیکھتے ہیں کہ یا تو ان غلطیوں پر ان کا دھیان ہی نہیں جاتا یا پھر فلم دیکھتے ہوئے غیرارادی طور پر وہ ان غلطیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ یہاں ہم ہالی وڈ کی چند سپرہٹ فلموں کی ان بڑی غلطیوں کے متعلق بتائیں گے جو نہ جانے کیسے فلم بننے کے دوران ہدایت کاروں اور ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزرنے کے باوجود کسی کی نظروں میں نہیں آئیں لیکن بڑے پردے پر یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں چھپ نہیں سکیں اور دیکھنے والوں پر آشکار ہو ہی گئیں۔

٭فلم ٹرائے میں جہاز کی غلطی؛ہدایت کار وولف گینگ پیٹرسن کی 2004 میں ریلیز ہونے والی فلم ٹرائے (Troy) میں ہالی وڈ کے سپراسٹار بریڈ پٹ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کی کہانی قدیم یونان میں بارھویں اور تیرھویں صدی کے درمیان تین ٹرائے دیوتاؤں کے درمیان جنگ کے گرد گھومتی ہے۔

فلم کی کہانی اس دور کی ہے جب ہوائی جہاز اُڑنا تو دور شاید اسے بنانے کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا لیکن فلم کے ایک سین میں بریڈ پٹ کے عقب میں آسمان پر اڑتا ہوا جہاز بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ فلم کا یہ سین شوٹ کرتے ہوئے شاید یہ ہوائی جہاز کیمرامین کی نظر بچاکر نکل گیا اور دل چسپ بات تو یہ ہے کہ ایڈیٹنگ میں بھی اس ہوائی جہاز پر کسی کی نظر نہ پڑی لیکن یہ غلطی شائقین کی نظروں سے نہ چھپ سکی۔

٭پائریٹس آف دی کیریبیئن میں کاؤ بوائے ہیٹ پہنے ہوئے آدمی: ہالی ووڈ سپر اسٹار جانی ڈیپ کی فلم سیریز پائریٹس آف دی کیریبیئن ہر عمر کے افراد کی پسندیدہ فلم ہے اور لوگ اس سیریز کی ہر فلم دیکھتے ہوئے اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ فلم کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں دیکھ ہی نہیں پاتے۔ لیکن بہت سے فلمی ناقدین ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھی بہ آسانی پکڑ لیتے ہیں۔

اب جیسے پائریٹس آف دی کیریبیئن کی 2003 میں ریلیز ہوئی فلم دی کرس آف دی بلیک پرل کے اس سین میں جہاز کے اوپر جانی ڈیپ کے ساتھ باقی تمام لوگ اپنے اپنے کاسٹیوم پہنے کھڑے ہیں، وہیں پیچھے کھڑے شخص کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو کاؤ بوائے ہیٹ پہنے آنکھوں پر چشمہ لگائے اور ماڈرن لباس پہنے شاید سمندر کا نظارہ کررہا ہے۔ فلم کی ٹیم میں شامل اس شخص کو معلوم ہی نہیں کہ وہ بے دھیانی میں فلم کے سین کے درمیان آگیا ہے۔

٭دی میٹرکس؛ کیمرے کا عکس: 1999 میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن فلم ’’دی میٹرکس‘‘ آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔ فلم میں کمپیوٹر گرافکس سے لے کر تیکنیکی خامیوں تک ہر چیز کا خیال رکھا گیا تھا لیکن فلم ساز بھی تو انسان ہی ہیں ناں اور انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا، کہیں نہ کہیں غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ فلم کے ایک سین میں جب ہیرو نیو (Neo) اوریکلز (Oracle’s) کے گھر کے اندر جانے کے لیے دروازہ کھولتا ہے تو دروازے کے ڈور ناب یں واضح طور پر کیمرے کے عکس کو دیکھا جا سکتا ہے، جو شاید اس سین کو شوٹ کرنے کے لیے ہی وہاں رکھا گیا تھا۔

٭ہیری پوٹر میں کیمرامین کا نظر آنا:جادوئی طاقتوں پر مبنی فلم ہیری پوٹر جہاں بچوں کی پسندیدہ ہے وہیں بڑے بھی اس فلم سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ فلم ہیری پوٹر اسکرپٹ، گرافکس اور اینی میشن کا شاہ کار ہے۔ تاہم اس فلم میں کچھ غلطیاں بھی ہیں۔ فلم کے ایک سین میں اسکول کے بچوں کے ساتھ کالے لباس میں ملبوس کیمرامین پر شاید ہی کسی کی نظر گئی ہو لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس کیمرا مین کو بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے جو شاید سین کو سامنے کے زاویے سے شوٹ کررہا ہے ۔

٭ہیری پوٹر؛ ہوا میں لٹکتی ہوئی موم بتیاں:فلم ہیری پوٹر میں ہوا میں بغیر کسی سہارے کے لٹکتی ہوئی موم بتیوں کو بار بار دکھایاگیا ہے جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ جادوئی اسکول ہے۔ تاہم فلم کے ایک سین میں موم بتیوں کے ساتھ بندھی ہوئی باریک تاروں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جن سے موم بتیاں ہوا میں لٹکی ہوئی ہیں۔

٭ٹائی ٹینک ؛ ہیروئن روز کے چہرے پر تل :ہدایت کار جیمز کیمرون کا شمار ہالی وڈ کے منجھے ہوئے ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ٹائی ٹینک (Titanic) اواتار (Avatar)اور ٹرمینیٹر (Terminator) جیسی شہرہ آفاق فلمیں بناکر ثابت کردیا کہ ان جیسا ہدایت کار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ تاہم جیمز کیمرون بھی کہیں کہیں چوک گئے۔ اب ان کی نوے کی دہائی کی سپرہٹ فلم ٹائی ٹینک کو ہی لیجیے۔ فلم کی ابتدا میں جب ہیروئن روز (Rose) کو پہلے سین میں دکھایا جاتا ہے تو اس کے چہرے کے بائیں جانب تِل ہوتا ہے، تاہم فلم کے دیگر سینز میں اچانک یہ تِل بائیں سے دائیں جانب منتقل ہوجاتا ہے۔

٭ہیرو جیک کے لباس کی نظرانداز کی گئی غلطی:ٹائی ٹینک میں جیمز کیمرون سے ایک اور سین میں غلطی ہوگئی۔ جب جہاز پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے اور فلم کا ہیرو جیک (Jack) ہتھکڑی سے بندھا ہوا ہوتا ہے تو جیک کی سفید شرٹ پر اسٹرپس موجود ہوتی ہیں اور جیسے ہی روز جیک کی ہتھکڑیوں کو توڑنے کے لیے کلہاڑی لے کر آتی ہے تو بھورے رنگ کی یہ پٹیاں اچانک جیک کی شرٹ پر سے غائب ہوجاتی ہیں۔

٭فلم دی یوژول سسپیکٹس؛ جہاز کے انجن کا تبدیل ہونا :1995 میں ریلیز ہوئی فلم دی یوززول سسپیکٹس (The Usual Suspects) کے ایک سین میں جب جہاز اڑ رہا ہوتا ہے تو اس کے چار انجن واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم اگلے ہی سین میں اچانک جہاز کے انجن چار سے دو ہوجاتے ہیں۔ فلم کی یہ غلطی اتنی واضح تھی کہ تھیٹر میں بیٹھے شائقین کی آنکھوں سے چھپ نہ سکی۔

٭فلم گلیڈی ایٹر (Gladiator) کے سین میں جہاز کا نظر آنا: سن 2000 میں ریلیز ہونے والی تاریخ پر مبنی فلم گلیڈی ایٹر (Gladiator) میں قدیم یونانی دور دکھایا گیا ہے۔ گلیڈی ایٹر بہترین فلم سمیت 5 آسکر ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کام یاب ہوئی تھی۔ تاہم اس فلم کے ایک سین میں ہونے والی غلطی شائقین کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ فلم کے ایک سین میں ہیرو رسل کرو کے عقب میں ایک اڑتے ہوئے جہاز کو بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی غلطی ہے جو ہم فلم ٹرائے میں اوپر بیان کرچکے ہیں۔

٭جراسک پارک میں ڈائنوسار کے پیچھے انسانی ہاتھ :بڑے بڑے خوںخوار اور دیوہیکل جانوروں پر مبنی فلم جراسک پارک دہائیاں گزرنے کے باوجود اب بھی لوگوں کی پسندیدہ فلم ہے۔ فلم کے کچھ سینز تو ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر آج بھی دہشت آتی ہے، جیسے ڈائنوسارز کے تھیم پارک کے کچن کا سین جب دونوں بچے لیکس (Lex) اور ٹم (Tim) ڈائنو سار (dinosaur) سے بچنے کے لیے کچن میں چھپتے ہیں تو دروازے پر ڈائنو سار آتا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ڈائنو سار کے پیچھے اچانک ایک انسانی ہاتھ نظر آتا ہے جو اس کی پیٹھ پر ہوتا ہے۔ اب اتنے خوںخوار ڈائنوسار کی پیٹھ پر یہ انسانی ہاتھ کیا کررہا ہے؟ یہ تو کیمرامین ہی بتا سکتا ہے یا فلم کے ہدایت کار۔

٭گیم آف تھرونز میں پلاسٹک کی بوتل اور کافی کا کپ :موجودہ دور کی مقبول ترین ٹی وی سیریل کی بات کی جائے تو بلاشبہہ پہلا نام گیم آف تھرونز کا ذہن میں آئے گا۔ گیم آف تھرونز نے دنیا بھر میں مقبولیت کے وہ ریکارڈ توڑے جو آج تک کوئی اور ڈراما نہ توڑسکا۔ یہ ڈراما جارج مارٹن  کے افسانوی ناول اے سونگ آف آئس اینڈ فائر پر مبنی ہے جس میں قدیم دور کی دنیا اور تخت کے لیے کی جانی والی جنگیں دکھائی گئی ہیں۔ اس ڈراما سیریز کو بناتے وقت ہر طرح کی باریکی کا خیال رکھا گیا تھا، تاہم کچھ جگہوں پر میکرز چوک گئے۔

گیم آف تھرونز کے سیزن 8 کی ایک قسط میں میز پر رکھے کافی کے کپ نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور لوگ قدیم دنیا کے مناظر میں موجودہ دور کے کافی کے کپ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ کافی کا کپ معروف کمپنی اسٹار بکس (Starbucks) کا تھا جو یقیناً ڈرامے کے کردار میں سے کسی کا تھا اور سین شوٹ کرواتے وقت بے دھیانی میں میز پر ہی رکھا رہ گیا اور یہ بے دھیانی ڈرامے کی بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی، جس کی وجہ سے ڈرامے کے ہدایت کار اور ایڈیٹر کو کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

گیم آف تھرونز کی ایک اور بڑی اور فاش غلطی جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی وہ ایک سین میں پلاسٹک کی بوتل کا نظر آنا تھا۔ اب چونکہ ڈرامے میں زمانہ قدیم کی منظرکشی کی گئی ہے جہاں پلاسٹک کی بوتل میں پانی پینے کا رواج دور دور تک نہ تھا ایسے میں اسکرین پر پانی سے بھری ہوئی پلاسٹک کی بوتل نظر آجائے تو لوگ تو چونکیں گے ہی، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ڈرامے کے ایک سین کے دوران کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک کردار کے پاؤں کے پاس پلاسٹک کی بوتل کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

٭ فلم الہٰ دین: دوپٹے کی واپسی:1992 میں ریلیز ہوئی عرب کے ریگستانوں کی لوک کہانی پر مبنی اینی میٹڈ فلم الہ دین بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی بھی پسندیدہ فلم ہے اور اس کا شمار ڈزنی کے مشہور کارٹونز میں ہوتا ہے۔ تاہم اس فلم میں بھی کئی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہیں جو یاتو الہٰ دین کو پسند کرنے والوں نے جان بوجھ کر نظرانداز کردیں یا پھر کسی نے ان غلطیوں کو نوٹس ہی نہیں کیا۔

فلم کے ایک سین میں دکھایا گیا ہے شہزادی یاسمین (جیسمین) لکڑی کے بڑے سے کھمبے سے لٹک کر چھت پر پہنچ جاتی ہے اور اس دوران شہزادی کے سر سے اس کا دوپٹہ اتر جاتا ہے اور اس کے بال اور سر پر پہنا ہوا تاج نظر آنے لگتا ہے۔ تاہم جیسے ہی شہزادی ڈنڈے کے ذریعے چھت پر پہنچتی ہے تو خودبخود اس کا دوپٹہ واپس اس کے سر پر آجاتا ہے۔

٭فلم اوینجر؛ زخم غائب ہوگیا :مارول اسٹوڈیوز (Marvel Studios) کی کام یاب فلم سیریز اوینجرز بھی غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ فلم میں کئی جگہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں نظر آتی ہیں جنہیں شاید فلم بناتے وقت فلم سازوں نے نوٹس نہیں کیا یا پھر جان بوجھ کر ان غلطیوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ جیسے فلم کے ایک سین میں ٹونی (آئرن مین) کی دائیں آنکھ کے اوپر پیشانی پر ایک بڑا زخم واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، تاہم اگلے ہی سین میں آئرن مین کے چہرے پر سے جیسے ہی ماسک ہٹتا ہے تو زخم خود بخود ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

٭کار پر سے خود بخود نشان کا غائب ہوجانا:فلم اوینجرز ہی کے ایک اور سین میں نیویارک شہر میں جنگ ہوتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ نیویارک پر ایلینز (Aliens) کے حملے کے دوران بہت سی کاروں کو نقصان پہنچتا ہے اور کاریں تباہ ہوکر پلٹ جاتی ہیں۔ تاہم اگلے ہی سین میں جب تھور(Thor) کار کے پاس آکر گرتا ہے تو کار کا وہ حصہ خود بخود صحیح ہوجاتا ہے جہاں نشان تھا اور اب کار پر ایسا کوئی نشان نظر نہیں آتا جیسے اسے نقصان پہنچا ہو۔

The post غلطی پکڑی گئی۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

سیلفی۔۔۔۔اپنی فوٹو آپ کھینچا کر اگر زندوں میں ہے

$
0
0

زمانے کے انداز بدلے گئے۔۔۔۔ پہلے لوگ آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کی خیریت لیتے تھے، دعا لیتے تھے، کوئی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی خبر لیتے تھے، لَتے لیتے تھے، ہاتھ میں چائے کا کپ لیتے تھے اور سُڑپ سُڑپ پینے کے بعد جانے کی اجازت لیتے تھے۔۔۔ اب سیلفی لیتے ہیں۔ یہ شوق عام آدمی ہی کو لاحق نہیں، خواص بھی اس ’’خودتصویریت‘‘ کا شکار ہیں۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس کے موقع پر ایل سلواڈور کے صدر نائیک بوکیلے نے ڈائس پر پہنچ کر کیمرا نکالا، سامعین سے مخاطب ہوکر کہا،’’ایک منٹ ٹھہریں، میں ذرا سیلفی لے لوں‘‘ پھر سیلفی لی، اس کے بعد تقریر شروع کی۔

اگرچہ ایسے مواقع پر چاروں طرف سے تصویریں کھینچی جارہی ہوتی ہیں، لیکن سیلفی کے شائقین ’’اپنی فوٹو آپ کھینچا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کے قائل ہیں، وہ کسی اور کی کھینچی ہوئی تصویر پر اعتبار ہی نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری شکل ہے اسے کوئی اور کیوں بگاڑے ہم خود بگاڑیں گے!

انسانوں کی صحبت میں رہ کر اب جانور بھی سیلفی کی لت کا شکار ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر افریقی ملک کانگو کے گوریلے۔ کانگو میں ہے ’’ویرنگوا نیشنل پارک‘‘ جہاں ہزاروں جانور محفوظ اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں، ان میں گوریلے بھی شامل ہیں۔

ایک خبر کے مطابق یہ گوریلے اپنے نگرانوں کے ساتھ خوشی خوشی تصاویر بنواتے ہیں بل کہ ان کی سیلفی میں شامل ہوتے ہوئے پوز بھی بناتے ہیں۔ اس خبر کی سُرخی ہے ’’گوریلے بھی سیلفی کے شوقین نکلے۔‘‘ اگر موبائل فون ان گوریلوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو یہ بھی اپنی سیلفی بنابنا کر دیکھ رہے ہوں گے۔

ڈارون کے نظریے کے مطابق گوریلے انسانوں کے اسلاف ہیں، تو پھر انھیں بھی آج کے انسان کی طرح سیلفی کا شوق کیوں نہ ہو!

سیلفی کا سلسلہ موبائل فون میں کیمرے کی سہولت سمانے کے بعد سے شروع ہوا ہے، اسمارٹ فون نے ’’سیلفیانے‘‘ کے شوق کو جنون میں بدل ڈالا ہے۔ جب تک یہ سہولت نہیں تھی لوگ آئینے میں خود کو دیکھ کر خود پر واری صدقے ہولیا کرتے تھے۔ آئینے کے بارے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ سچ بولتا ہے، حالاں کہ صرف وہی آئینہ سچ بولتا ہے جو دوسرا دکھائے اور اس سچ بولتے آئینے کو دیکھ کر دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے، جو آئینہ خود دیکھا جائے اس میں خود کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لوگ اپنے حُسن سے بے خود ہوجاتے ہیں۔

آئینے کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اسے جیب میں ڈال کر باہر نہیں لے جایا جاسکتا، چناں چہ جہاں اپنا آئینہ میسر نہ ہو وہاں اپنا آپ دیکھنے کے لیے نسوار کی ڈبیا میں لگا شیشہ، کسی کی کار کا سائڈ مرر، دکانوں پر لگے تاریک شیشے اور دوسروں کی آنکھوں پر جمے کالے چشمے کام آتے تھے۔ اب موبائل فون نے اپنا عکس دیکھنا ہی نہیں اسے عظیم قومی ورثے کی طرح محفوظ کرنا بھی آسان کردیا ہے، اور اس عکس نے سیلفی کا نام پایا ہے۔

سیلفی کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ’’سیلفش‘‘ سیلفی ہوتی ہے جس میں صرف صاحب سیلفی کا رُخ روشن نظر آرہا اور اس کے سوا سب کو ڈرا اور یہ عبرت دلا رہا ہوتا ہے کہ خود کو قریب سے دیکھنا کتنا خوف ناک ہوتا ہے، دوسری قسم کی سیلفی ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کی عکاس ہوتی ہے۔۔۔ ارے نہیں نہیں۔۔۔ آپ غلط سمجھے یہ لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں وہ سیلفی نہیں۔

جس میں مفتی قوی اپنے سارے تقوے کے ساتھ روشن ’’قندیل‘‘ کی طرح جلوہ افروز ہوئے، اور پھر یہ سیلفی یوں گلے پڑی کہ موصوف عرصے تک سیلف ڈیفنس کرتے رہے، ہم ایسی تمام سیلفیوں کی بات کر رہے ہیں جن میں ’’صاحبِ سیلفی‘‘ اپنے منہ کے ساتھ دوسروں کا منہ لانے کی کوشش میں انھیں مطلوبہ زاویوں میں لاکر ان کے چہرے بگاڑ دیتا ہے، اور پھر اس سیلفی کو یوں فخریہ دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو ایک میں ہوں کہ دیا سب کی ہی صورت کو بگاڑ۔

سیلفی لینا بعض لوگوں کے لیے سانس لینے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے ان خواتین وحضرات کو کسی پر اعتبار ہو یا نہ ہو اپنے ذاتی منہ پر ذرا اعتبار نہیں، انھیں ہر کچھ دیر بعد لگتا ہے کہ شاید وہ ایک گھنٹے پہلے والا منہ نہیں رہا۔

اس امید پر کہ شاید وہ کترینہ کیف لگنے لگی ہوں یا سلمان خان کا روپ دھار چکے ہوں، اور دماغ کا یہ پیغام سْن کر کہ ’’زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا‘‘ وہ جھٹ اپنی سیلفی لے کر دیکھتے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی سیلفی والوں کو تقریب کچھ تو ’’بہرِخرافات‘‘ چاہیے۔

سو کوئی بھی موقع ہو ان کا مسئلہ صرف یہ تاریخی ریکارڈ جمع کرنا ہوتا ہے کہ کس شادی، کس منگنی اور کس میت میں یہ موجود تھے اور کیسے لگ رہے تھے، تاکہ مستقبل کے مورخ کو ان عظیم شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے ذرا سی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔ دراصل اہل سیلفی وہ فلسفی ہیں جو ہمہ وقت خود پر روشنی ڈالتے اور اپنی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے لیے سیلفی کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر داغ دہلوی آج زندگی ہوتے تو اپنا مشہور زمانہ شعر یوں کہتے:

بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر اے داغ

یہ صرف سیلفی بنا کر کمال کرتے ہیں

 

The post سیلفی۔۔۔۔اپنی فوٹو آپ کھینچا کر اگر زندوں میں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی

$
0
0

زیریں سندھ کے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور ٹنڈو محمد خان اضلاع کو مقامی باشندے لاڑ کہہ کر پکارتے ہیں، اسی طرح جیکب آباد اور ملحقہ اضلاع کو اتر کہا جاتا ہے گنے کی بمپرفصل کے باعث یہ علاقہ شوگر اسٹیٹ بھی مشہور ہے۔

ویسے یہاں دھان اور سورج مکھی کی کاشت بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور تیل و گیس کے وافر ذخائر بھی ایک وجہ شہرت ہے۔ اسی علاقے میں ضلع بدین کا قصبہ ٹنڈو غلام علی اپنی ایک انفرادیت کے باعث بھی معروف ہے۔

اول یہ کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں 36ء سے 47ء تک سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو اور بندے علی تالپور نے وزرائے اعلیٰ کا منصب سنبھالا اس زمانے میں یہ عہدہ وزیراعظم کہلاتا تھا اول الذکر دونوں شخصیات دو دو بار اس عہدے پر متمکن رہیں جب کہ آخر الذکر ایک بار ’’پریمیر‘‘ رہے۔ بندے علی تالپور کا تعلق ٹنڈو غلام علی سے تھا اور اس قصبے کا یہ نام بھی ان کے جدامجد کے نام پر ہے۔

ہمارے صحافی دوست حبیب الرحمن قریشی راوی ہیں کہ اس قصبے میں آباد تمام افراد میر صاحبان کے کرایہ دار ہیں اور تمام باشندے ایک علامتی رقم بطور کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اسی قصبے کی ایک اور شہرت یہاں لگنے والی تاریخی گدھا منڈی بھی ہے جو برسوں سے گیارہ محرم الحرام کو لگائی جاتی ہے۔ پورے ملک بالخصوص سندھ بھر سے گدھوں کے خریدار یہاں پہنچتے ہیں۔

اسی طرح مختلف اقسام کے گدھے، خچر اور بعض لوگ دوسرے جانور بھی فروخت کے لیے یہاں لے آتے ہیں لیکن مرکزی شو یا خریداری گدھوں کی ہی ہوتی ہے۔ بدین کے سنیئر صحافی ملک الیاس بتاتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے وسط تک موٹر گاڑیوں کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا اور سواری کے لیے اونٹ، گھوڑے اور گدھے ہی استعمال ہوتے تھے۔ چونکہ بیشتر میر صاحبان عقیدتاً اہل تشیع ہیں اس لیے عزاداری کا بڑے پیمانے پر یہاں اہتمام ہوتا تھا ویسے بھی سندھ کے صوفیانہ سماج میں اہل بیت اطہار اور شہدائے کربلا سے عقیدت واردات اور سادات کا احترام دیگر خطوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اس لیے ایام عاشور بالخصوص دسویں محرم کو لاڑ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹنڈوغلام علی پہنچتی تھی۔ رات گئے تک عزاداری اور شام غریباں میں شرکت کے بعد اگلے روز دیہاتی ساتھ لائے بطور سواری گدھوں کی خرید و فروخت کا بازار بھی لگا لیتے۔

ابتداً یہ کاروبار چھوٹے پیمانے پر تھا پھر آہستہ آہستہ رغبت بڑھی تو دور و نزدیک شہرہ ہوا اور بطور خاص لوگ خریداری یا فروخت کے لیے ٹنڈو غلام علی پہنچنے لگے، البتہ دن گیارہ محرم ہی کا مختص رہا۔ صدی گزر گئی، ہزاریہ تبدیل ہوا لیکن یہ سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا رہا۔ حالانکہ اب گدھے کا استعمال سوائے وزن اٹھانے یا گاڑی میں باندھنے کے کچھ نہ رہا کہ اب سواری کے لیے دیگر ذرائع میسر ہیں جو کم وقت میں طویل فاصلہ طے کرا دیتے ہیں۔

کافی عرصہ قبل ٹنڈو غلام علی جانا ہوا تھا تو اس حوالے سے وہاں دوستوں سے کچہری رہی۔ عیسیٰ کمہار نامی شخص نے جو حیدرآباد سے وین میں ہمارا شریک سفر تھا بتایا کہ اس منڈی کا ٹھیکہ سالانہ نیلام ہوا کرتا تھا اور اس وقت عیسیٰ نے اس کی مالیت کم و بیش اٹھارہ لاکھ روپے بتائی تھی اس کے بقول یہاں دو ہزار گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور خریداروں کا تعلق بھی بلوچستان، رحیم یار خان، کراچی اور پنجاب و سرحد کے مختلف علاقوں سے تھا ان میں لاسی، لاڑھی، تامٹیرا، کھودا، برا، پسر اور تھری و ایرانی نسلوں کے گدھے شامل تھے۔

گدھا منڈی میں اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے ساجن کی گفتگو سے بھی پتا چلا کہ اب سات محرم سے یہاں اسٹال لگنا شروع ہوجاتے ہیں اور خریدار و فروخت کنندہ اپنے مال سمیت آنے لگتے ہیں لیکن اصل کاروبار 11 محرم کو ہی ہوتا ہے جب کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ لاڑکانہ کے ایک شخص نذیر نے جو ایک مرتبہ اس منڈی میں گدھا فروخت کرچکا ہے۔

دعویٰ کیا کہ منڈی میں کھانے پینے کی اشیا خاصی مہنگی ہوتی ہیں حالانکہ دیہاتی علاقہ ہونے کے ناطے اس کا جواز نہیں ہے البتہ اس نے سیکیورٹی، روشنی، پانی کے انتظامات کی تعریف کی جو بہتر تھے گدھا منڈی سے متعلق ایک نجی ٹی وی چینل نے خصوصی رپورٹ پیش کی تو اس میں تاجروں کا شکوہ تھا کہ بیرون شہر سے آنے والے ہم سے سستے داموں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کراچی، کوئٹہ، بہاولپور و پشاور لے جا کر گراں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

ایک تاجر کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے گدھوں کو گھاس نہیں بلکہ، مکھن، سیب اور بادام کھلاتا ہے تاکہ اچھے دام مل سکیں اور وہ زیادہ وزن اٹھا سکے۔ منڈی پر ایک علاقائی اخبار نے فیچر شایع کیا تو اس میں مذکور تھا کہ سال گذشتہ لاسی نسل کا گدھا خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا جس کی قیمت اس کا مالک 18 لاکھ روپے طلب کر رہا تھا بالآخر سودا دس لاکھ روپے میں طے ہوا۔ اسی طرح طوفان نامی ایک گدھے کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مانگی جا رہی تھی جبکہ خریدار آٹھ لاکھ روپے لگا چکے تھے۔ مسن وڈی سے لایا جانے والا یہ گدھا اس کے مالک کے بقول دیسی گھی، بادام، باجرہ، گندم، جو وغیرہ کھاتا ہے۔

اسی طرح پارس نامی گدھے کا مالک بھی بارہ لاکھ روپے سے کم پر فروخت کرنے کو تیار نہ تھا اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر شے کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن گدھوں کی قیمتیں کم لگائی جا رہی ہیں۔

حالانکہ اس کی پورے سال نگہداشت پر جو رقم خرچ اور محنت کی گئی ہوتی ہے اس کا معاوضہ تو ملنا چاہیے اگر خرچہ بھی پورا نہ ہو تو فروخت کا کیا فائدہ۔ نگر اور ہنزہ میں گدھوں کی فروخت کے کاروبار سے منسلک افلاطون نامی ضعیف العمر شخص نے کراچی پریس کلب پر دوران ملاقات بتایا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں آج بھی ذریعہ سفر گدھا ہی ہے جو بار برداری کا کام بھی دیتا ہے۔

اگر نگر یا ہنزہ کا باشندہ اسے سستے داموں فروخت کر رہا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ کام کا نہیں رہا اس لیے بیچا جا رہا ہے ورنہ کوہستانی علاقوں کا آدمی کبھی گدھا کم قیمت پر فروخت نہیں کرے گا۔

ٹنڈو غلام علی کے باشندے اس گدھا منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی گدھا منڈی تصور کرتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں، ہمارے یہاں رواج ہی کچھ ایسا ہے۔ ضلع عمر کوٹ کے شہری کنری کی مرچ منڈی کو بھی ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی قرار دیتے ہیںِ کہ یہاں کی ڈنڈی کٹ اور ہائبرڈ مرچیں ملک اور بیرون ملک پسند کی جاتی ہیں۔

کنری نیشنل پریس کلب کے سابق صدر فتح روز خان بتانے لگے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مرچیں ضلع عمر کوٹ میں کاشت ہوتی ہیں۔ سیزن کے وقت یومیہ 8 سے 10 ہزار بوری مرچ منڈی میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہے۔ 20 سے 22 کلو وزن والی بوری کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں۔ گویا سال بھر میں یہ منڈی اور اس کے تاجر کروڑوں کا لین دین کرتے ہیں۔

ضلع ٹنڈو الہٰیار میں نصرپور کا قصبہ پیاز کی پیداوار اور اپنی منڈی کے لحاظ سے مشہور ہے۔ نصر پور کے صحافی عبدالکریم آرائیں بتانے لگے کہ یہاں کی ہزاری پیاز دور دور تک مشہور ہے اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ویسے تو پورے ملک بالخصوص سندھ میں ان دنوں پیاز اور ٹماٹر مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں لیکن نصر پور کی پیاز منڈی میں ہزاری پیاز کی آمد نے شہر میں کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔

عبدالکریم آرائیں بی بی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر نصرپور کی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی بتاتے ہیں۔ فون پر بات ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ آج کل یہاں کی منڈی میں یومیہ درجنوں ٹرک پر پیاز لاد کر ملک بھر میں بھیجی جا رہی ہے۔ ایک ٹرک میں تقریباً ایک سو بیس بوریاں لدی ہوتی ہیں اور اس کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں کا سودا ہوتا ہے۔

انھوں نے اصرار کیا کہ نصرپور کی پیاز منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی پیاز منڈی کا درجہ حاصل ہے۔ سکھر کی چھوارہ منڈی، حیدرآباد کا شاہی بازار، کراچی کی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن اور کراچی ہی کی بلند و بالا عمارت حبیب بینک پلازہ کو بھی ایشیا کی سب سے بلند عمارت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس میں صداقت کتنی ہے اس سے قطع نظر۔ مبالغے کی حد تک لوگ اپنی بستی، شہر اور بازار سے محبت کرتے ہیں یہ اصل بات ہے۔

ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی سے شروع تذکرہ پیاز، ٹماٹر، مرچ سمیت جانے کتنی اجناس اور شہروں تک پھیل گیا گدھا منڈی میں اس برس بھی ہزاروں گدھے فروخت کے لیے لائے گئے تھے اور ہزاروں خریدار یہاں پہنچے ہوئے تھے جو قد و قامت اور تن و توش ہی نہیں گدھوں کو دوڑا کر بھی دیکھتے اور قیمت کا تعین کرتے تھے۔

کہتے ہیں پونے دو سو برس سے جاری یہ گدھا منڈی ہر برس زیادہ بزنس کرتی ہے اور ماضی کے ریکارڈ توڑتی ہے حالانکہ چنگ چی رکشاؤں کے آجانے کے بعد سواری اور وزن اٹھانے کا دھندا مندا ہوگیا ہے جن کے کرائے بھی کم ہیں ٹاؤن کمیٹی ٹنڈو غلام علی ہر سال اس منڈی کا ٹھیکہ نیلام کرتی ہے جس کے لیے باقاعدہ بولی لگتی ہے اور زیادہ دام دینے والا اسے حاصل کرکے یہاں سہولتوں کا بندوبست کرکے لائے جانے والے گدھوں اور خریداری پر ٹیکس وصول کرتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا کاروبار یا گزر بسر اس منڈی سے وابستہ ہے یہاں اشیائے خوردونوش، جانوروں کا چارہ، پانی ودیگر اشیا کے اسٹال بھی لگتے ہیں اور بہت سے گھرانے پورے سال اس منڈی کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل میں مالی معاونت کرتی ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ میں دو ایسے دیہاتی بھی دکھائے گئے تھے جو برسوں سے اس منڈی میں شرکت کے لیے آتے ہیں لیکن گدھوں کی خریداری کی بجائے وہ اسے ملنے ملانے کا اہم موقع تصور کرتے ہیں۔ بقول ان کے سائیں جو سال بھر نہ مل پائیں وہ یہاں ضرور مل جاتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں یہ منڈی ہی نہیں میل ملاپ کا فیسٹیول بھی ہے اور مجناں یا مولابخش ہی نہیں درجنوں دیگر افراد بھی اپنے پیاروں سے ملنے یہاں آتے ہیں کہ وہ گدھا خریدنے یا بیچنے ضرور آئے ہوں گے۔

بدین کے سنیئر صحافی خالد محمود گھمن نے رابطے پر انکشاف کیا کہ اس برس راکٹ، طوفان، کلاشن کوف، میزائل اور ایف سولہ نامی گدھوں کے ساتھ ساتھ مادھوری، ریشماں، کرشمہ، شرمیلا اور نازو نامی گدھیوں کو بھی فروخت کے لیے لایا گیا تھا۔ ان گدھوں اور گدھیوں کی انٹری دبنگ تھی کہ انھیں خوبصورت سہروں، لڑیوں، جھانجھروں، شیشے والی پٹیوں اور گھنگھروؤں سے سجایا گیا تھا اور بعض کو تو مزید خوبصورت بنانے کے لیے رنگ بھی کیا گیا تھا، جن کی قیمت 80 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک تھی۔ اس مرتبہ افغانی، ملتانی اور کوہستانی نسل کے گدھے بھی فروخت کے لیے موجود تھے۔

گدھوں میں ریس کا مقابلہ راکٹ نامی گدھے نے جیتا۔ رنراپ طوفان رہا ریس جیتنے پر مالک کو 50 ہزار روپے کا انعام بھی دیا گیا۔ منڈی میں خریدوفروخت کے لیے آنے والے بتاتے ہیں کہ اس منڈی سے خریدے گئے گدھے اور خچر افغان روس جنگ میں راشن اور ہتھیاروں کی رسد میں بھی استعمال ہوئے تھے اور آج بھی اسمگلنگ کے لیے سدھائے گئے گدھوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو سامان لے کر طے شدہ راستوں پر کسی نگرانی یا رہنمائی کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔
ٹنڈو غلام علی کا قصبہ اور یہاں کی گدھامنڈی بہت سی داستانوں کی بھی امین ہے۔ تین راتیں یہاں قیام کرنے والے راتوں کو کچہری میں قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں، لوک دانش کے جواہر بکھیرتے ہیں اور لطیف، سچل کے اشعار، وتایو فقیر کے واقعات اور مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی کی پیش گوئیاں سنا کر آنے والے دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں زیربحث لاتے ہیں کہ ان کے خیال میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے۔ وہ مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی نے اپنے اشعار میں شاہ نعمت ولی کی طرح بیان کردیا ہے ویسے یہ موضوع خود تفصیلی مکالمہ چاہتا ہے۔ انشا اللہ آئندہ سہی۔

The post ٹنڈو غلام علی کی گدھا منڈی appeared first on ایکسپریس اردو.

قطب شمالی کے برف زاروں میں پنپتی نئی سردجنگ

$
0
0

نومبر کی ایک سرمئی شام قطب شمالی میں آباد جوا ہیون نامی قصبے کا نومنتخب پٹرول کمانڈر مارون ایٹکیٹک منجمد سمندر پر کھڑا اپنے جوانوں کا منتظر تھا جنھیں اس نے میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔

اس وقت درجۂ حرارت منفی بیس ڈگری سیلسیئس تھا۔ قطب شمالی کے اعتبار سے درجۂ حرارت کی شدت بہت زیادہ کم نہیں تھی اس کے باوجود جنوب سے چلتی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں اترتی محسوس ہورہی تھی۔ تیزرفتار ہوا کے دوش پر آتے برف کے ذرات مارون کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد بیس کے لگ بھگ مقامی مرد اور چند عورتیں (جو انوایٹ کہلاتے ہیں) مارون کے گرد جمع ہوگئے تھے۔

ان سب کے شانوں پر رائفلیں جھول رہی تھیں۔ سبھی نے رینڈیئر کی کھال کی دستی ساختہ جیکٹیں پہن رکھی تھیں، پتلونیں قطبی ریچھ کی سموردارکھال سے بنائی گئی تھیں جب کہ کچھ نے سر پر پہنی ہوئی بے حد گرم ٹوپیوں پر مفلر بھی لپیٹ رکھے تھے۔ ایٹکیٹک نے سیل کی کھال سے بنے دستانے ہاتھوں پر چڑھائے اور اس دن کے پروگرام کا خاکہ بیان کرنے لگا۔

دو درجن کے لگ بھگ مردوزن کا یہ گروپ کینیڈین رینجرز کا حصہ ہے جو کینیڈا کی مسلح افواج کا ریزرو جزو ہے۔ ایٹکیٹک کو بہ طور کمانڈر اس گروپ کی سربراہی کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس گروپ کو ایک ہفتے تک جزیرہ کنگ ولیم کے بے شجر ساحل پر اسنوموبائل (برف پر چلنے والی اسکوٹر نما گاڑی) کے ذریعے پیٹرولنگ کرنی تھی۔

یہ ایٹکٹیک کا اولین مشن تھا۔ ایک ہفتے کے دوران گروپ کے اراکین کو جی پی ایس کے استعمال کی تربیت دی جانی تھی، انھیں فوج کے انداز میں ہدف کو نشانہ بنانا سکھایا جاتا، سرچ اینڈ ریسکیو کی صورتحال میں فرائض کی ادائیگی سکھائی جاتی۔ اس کے علاوہ گروپ کو شکار اور آئس فشنگ کے بھی مواقع میسر آنے تھے۔

میں دائرے کے کنارے کھڑا اپنی پلکوں پر جم جانے والے برف کے ذرات جھاڑ رہا تھا۔ میری نگاہیں ان کے چہروں کا طواف کررہی تھیں جن پر کہیں کہیں سرما زدگی (فراسٹ بائٹ) کے نشانات نظر آرہے تھے جو ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھے۔ تمغوں کے مانند ان کے چہروں پر سجے یہ نشانات کرۂ ارض کے ناموافق ترین حالات کے حامل خطے میں کھلے آسمان تلے بِتائے گئے وقت کی غمازی بھی کررہے تھے۔

جلد ہی گروپ کی میٹنگ اختتام کو پہنچی اور پھر وہ دو دو چارچار کی ٹکڑیوں میں بٹ کر تاریکی میں لمبی مسافت پر روانہ ہونے سے قبل سگریٹ نوشی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایٹکیٹک برف پر چلتا ہوا میرے پاس آیا اور دریافت کیا کہ کیا میرا لباس جسم کو گرم رکھنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ ایٹکیٹک درازقد اور چوڑے شانوں والا ہنس مُکھ شخص تھا۔ کمانڈر منتخب ہونے سے پہلے اسے بہ طور رینجر خدمات انجام دیتے ہوئے برسوں گزرچکے تھے۔ اس نے دوستانہ انداز میں مجھے تنبیہہ کی کہ دوران سفر میں سو نہ جاؤں۔

’’ایسا ہوتا رہتا ہے‘‘، اس نے کہا۔ ’’کئی بار ایسا ہوا کہ لوگ اپنی اسنوموبائل سے گر کر لاپتا ہوگئے۔‘‘ ایٹکیٹک نے مجھے یاد دلایا کہ جزیرے سمیت Nunavut کے پورے علاقے میں کہیں بھی سیل فون سروس نہیں ہے۔’’اگر کسی وجہ سے آپ ہم سے جُدا ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے رہیں تاوقتے کہ کوئی آپ تک پہنچ جائے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اور کوشش کریں کہ کسی قطبی ریچھ سے مڈبھیڑ نہ ہو۔‘‘

رینجرز کو ’قطب شمالی میں کینیڈا کی آنکھیں اور کان‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے یونٹ 1940ء کی دہائی سے ملک کے سب سے بیرونی سرحدی حصوںمیں پیٹرولنگ کرتے آرہے ہیں۔ قطب شمالی کے بعید ترین علاقوں میں فرائض کی ادائیگی میں مصروف بیشتر رینجرز مقامی رضاکار ہیں۔ گزرے برسوں میں انھوں نے اسکاؤٹس کے طور پر بھی اپنا کردار نبھایا ہے، جنگی کھیلوں میں حصہ لیا ہے۔

فوجیوں کو اگلو بنانا سکھایا ہے اور قطب شمالی کے بے شجر میدانوں (ٹنڈرا) میں نقل و حرکت کرنے اور انتہائی یخ بستہ موسم میں زندگی سے ناتا جوڑے رکھنے میں ان کی مدد کی ہے۔ قطب شمالی کے بعیدترین حصوں کے مانند کینیڈا اور باقی دنیا کے لیے رینجرز کے شب و روز دھندلکے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ قلیل بجٹ اور استعمال شدہ ہتھیاروں کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے آرہے ہیں جن میں 1940ء کے عشرے میں بنی ہوئی برطانیہ کی سرکاری بولٹ ایکشن رائفلیں بھی شامل ہیں جن پر ملکہ برطانیہ کے تاج کی شبیہ بہ طور مہر کندہ ہے۔

میرے دورے کے موقع پر کینیڈا کی حکومت رینجرز کی ازسرنوتعیناتیاں کررہی تھی۔ سبب یہ تھا کہ قطب شمالی اور اس میں چھپے وسیع معدنی ذخائر پر حق ملکیت جتانے کی عالمی دوڑ سے متعلق اطلاعات نے اوٹاوا میں براجمان سیاست دانوں کو رینجرز سے زیادہ فنڈز اور بہتر اسلحہ و سازوسامان مہیا کرنے اور مزید رضاکاروں کی بھرتی جیسے وعدوں پر مجبور کردیا تھا۔ امریکا کے عسکری حکام کی بھی قطب شمالی کے پوشیدہ ذخائر پر نظر تھی اور وہ الاسکا میں اسی نوعیت کی سرگرمیاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

ایٹکیٹک نے حکومتی توجہ کا خیرمقدم کیا تھا۔ وہ قطب شمالی میں پلا بڑھا تھا اور اب اپنے بیٹے کو پروان چڑھا رہا تھا۔ وہ دوستانہ سے لے کر بیگانگی تک، ہزاروں میل کی دوری پر بیٹھے ہوئے حکم رانوں کے مختلف انداز کی بہ خوبی تفہیم رکھتا تھا۔ لیکن اس بار یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ سیاست دانوں کے دماغ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے: برسوں تک اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کے بعد کہ قطب شمالی کرۂ ارض کے کسی بھی مقام کی نسبت تیزی سے گرم ہوتا جارہا ہے۔

بالآخر کینیڈا کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک ہورہا تھا۔ ’’ہم انوایٹ لوگ موسمی تغیر کی ایک عرصے سے نشان دہی کرتے آرہے ہیں کہ آب و ہوا تبدیل ہورہی ہے،‘‘ بے شجر میدان (ٹنڈرا) کا رُخ کرنے سے قبل ایٹکیٹک نے مجھے بتایا۔ ’’اب حکومت اس مظہر کو تسلیم کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ ہم اس (موسمی تغیر) پر نگاہ رکھیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ ہمیں اپنے کینیڈین ہونے پر فخر ہے۔‘‘ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا،’’ کاش کہ ہم اتنے کینیڈین ہوجائیں کہ حکومت ہمیں اچھی فون سروس مہیا کردے۔‘‘

رواں برس مئی کے اوائل میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے فن لینڈ کے سب سے شمالی صوبے کے دارالحکومت رووانیمی کا دورہ کیا تھا۔ دورے کا مقصد قطب شمالی کی سرحد کے ساتھ لگنے والے آٹھ ممالک اور خطے کی مقامی آبادیوں کے نمائندوں پر مشتمل آرکٹک کونسل میں تقریر کرنا تھا۔ بیس برس سے یہ کونسل موسمی تبدیلیوں پر مجلسی بحث، تعاون، اور رجعت پسندانہ تصورات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ ایک ایسی انتظامیہ کا ایلچی ہونے کی بنا پر جو اس اپروچ کی مخالف ہو، پومپیو کی کونسل کی تقریب میں شرکت بہت عجیب معلوم ہورہی تھی۔

اجلاس سے ایک روز قبل ایک تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے پومپیو نے کہا تھا،’’اب وقت آگیا ہے کہ امریکا قطب شمالی کی قوم اور اس خطے کے مستقبل کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ قطب شمالی کو بہت سے لوگ بنجر و بے ثمر خطہ سمجھتے ہیں مگر یہ بے پناہ مواقع کی سرزمین ہے۔‘‘

پومپیو کی تقریر کے بعد ایک دہائی سے قطب شمالی کو بے کار و بے وقعت قرار دینے کا سلسلہ اختتام پذیر ہوگیا، جس سرزمین کو کبھی منجمد بنجر جزو ارضی سمجھا جاتا تھا اب اسے روزانہ ہی اُبھرتا ہوا محاذ قرار دیا جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر قطب شمالی اب کاروبار کے لیے کُھلا ہے۔

تاریخ بنی نوع کے انسان کے بیشتر ادوار میں کرۂ ارضی کا 66 درجہ عرض بلد سے اوپر کا حصہ بڑے پیمانے کی تجارتی سرگرمیوں سے دور رہا ہے۔ ایک زمانے سے مہم جوؤں، تخمینہ کاروں، اور سائنس دانوں کو یقین تھا کہ قطب شمالی کی برف کی دبیزترین تہوں میں زبردست قدرتی وسائل اور آبی گزرگاہیں پوشیدہ ہیں، تاہم ہلاکت خیز سرد موسم، حوصلہ شکن تاریکی اورطویل ترین فاصلے انسان کے ہاتھوں اس خطے کے ’استحصال‘ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔

آج قطب شمالی میں بدلتے موسم کے باعث رینڈیئر کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔ اب یہاں مچھروں کی بہتات ہے اورموسم گرما میں درجۂ حرارت ماضی کی نسبت زیادہ رہنے لگا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کُن اور واضح تبدیلی سمندر میں نظر آتی ہے جہاں گرمیوں میں برفیلے پانی پر بہتے برف کے وسیع و عریض ٹکڑوں کے دکھائی دینے کے مناظر تشویش ناک رفتار سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔

قطب شمالی کی گرمیوں میں سمند پر تیرتی وسیع و عریض برفانی پرتیں ہمیشہ سکڑتی ہیں اور سردیوں میں ان کا حجم دوبارہ بڑھ جاتا ہے، تاہم موسم گرما میں ان پرتوں کے سکڑنے کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جب کہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پگھلنے کا عمل تیزتر ہوتا جارہا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ قطب شمالی ہر سال 21 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط برف سے محروم ہورہا ہے، اور 2014ء میں نیشنل کلائمیٹ اسسمنٹ تیار کرنے والے ماہرین پیش گوئی کرچکے ہیں کہ 2050ء تک قطب شمالی پر برف ناپید ہوجائے گی۔

واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹر میں قائم پولر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ مائیکل فراگا کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہورہا ہے۔

اس نئے محاذ پر مقابلہ برف سے ڈھکی زمین پر حق ملکیت جتانے کا نہیں ہوگا۔ کچھ متنازع قطعات کے سوا قطب شمالی کی تقسیم ہوچکی ہے۔ اس کے بجائے ممالک اور بڑے بڑے ادارے سونا، ہیرے، نایاب دھاتوں، پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے کھربوں ڈالر مالیت کے وسیع و عریض ذخائر میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔

ان معدنیات کے علاوہ ان کی نگاہیں نئی سمندری گزرگاہوں، مچھلیوں اور دیگر آبی حیات پر بھی ہے۔ کئی مقامات پر بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے برف کے پگھلاؤ میں تیزی آئی ہے۔ روس اور ناروے گذشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے زیادہ فعال ممالک ثابت ہوئے ہیں جو قدرتی گیس و تیل کے انفرا اسٹرکچر، گہرے پانی کی بندرگاہوں اور بحرمنجمد شمالی کے برفیلے پانی میں سفر جاری رکھنے والے خصوصی بحری جہازوں کی تیاری پر اربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔

اسی دوران چین نے روسی منصوبوں کی حمایت اور قطب شمالی کی دیگر اقوام کو ترقیاتی قرضوں کی پیشکشوں کے ذریعے خطے میں اپنے قدم جمالیے ہیں۔ چین قطب شمالی کے جنوبی طرف ڈھائی ہزار میل کی دوری پر واقع ہونے کے باوجود برف شکن بحری جہاز تیار کررہا ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی قوم مستقبل میں قطب شمالی میں اپنے پاؤں مزید مضبوط کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

چین کے برعکس بیشتر مغربی اقوام بشمول کینیڈا اور امریکا، جو مشترکہ طور پر بحرمنجمد شمالی کی نصف سے زائد ساحلی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، نے قطب شمالی کو نظرانداز کررکھا تھا۔ امریکا کے پاس پانچ برف شکن جہاز ہیں( روس کے برف شکن جہازوں کی تعداد 51 ہے) مگر شمالی نصف کرّے کے شمال میں گہرے پانی کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے۔ اس عدم توازن کی وجہ سے خطے میں تناؤ کی صورت حال جنم لے رہی ہے جو بڑی طاقتوں کے درمیان تصادم یا پھر ایک نئی سرد جنگ کے آغاز پر منتج ہوسکتی ہے۔ آرکٹک کونسل میں پومپیو کی موجودگی کے پس پردہ حقیقی سبب یہی خوف تھا جسے امریکا میں بالآخر محسوس کرلیا گیا۔

پومپیو نے آرکٹک کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا،’’ یہ خطہ طاقت اور مسابقت کا اکھاڑا بن گیا ہے، اور قطب شمالی کی آٹھوں اقوام کو اس نئے مستقبل سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ ہم اسٹریٹیجک آویزش کے ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔۔۔۔ جہاں قطب شمالی اور اس کی حقیقی ریاستوں اور اس خطے میں ان کے مفادات کے لیے نئے خطرات موجود ہیں۔‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ اگر پومپیو قطب شمالی کو میدان سمجھتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جاسکتی ہو تو پھر کچھ اقوام یہ دوڑ شروع کر بھی چکی ہیں۔

کنگ ولیم جزیرے پر رینجرز مغرب میں اسنوموبائلوں کی ایک طویل قطار کی صورت میں سفر کررہے تھے۔ کچھ چوبی برف گاڑیوں (سلیج) کو بھی کھینچ رہے تھے جن پر اشیائے خورونوش، کیمپنگ کا سامان اور عسکری آلات لدے ہوئے تھے۔

میں اس قافلے میں مستعار لی گئی اسنوموبائل پر سوار شامل تھا۔ تاریک تارین رات میں کئی گھنٹوں کے انتہائی دشوار سفر کے بعد بالآخر ہم ایک منجمد جھیل پر پہنچ گئے جو Kakivakturvik کہلاتی ہے۔ ہیڈلیمپ اور ہیڈلائٹس سروں پر جمائے ہوئے رینجرز منجمد جھیل پر پھیل گئے اور سخت برفانی سطح پر کینوس سے بنے بڑے بڑے خیمے گاڑنے لگے۔ خیمے نصب کرنے کے بعد وہ برف گاڑیوں پر سے رینڈیئر کی کھالیں، ترپالیں کھینچ لائے۔ پھر فوم کے گدے، سلیپنگ بیگ، اور خوراک سے بھرے ہوئے کولر اٹھاکر لائے گئے۔

کچھ ہی دیر کے بعد خیمے جدید لال ٹینوں کی روشنی سے جگمگانے لگے۔ کچھ خیموں سے مٹی کے تیل کے چولہوں کے جلنے کی مخصوص آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں بھاپ اڑاتے چائے کے کپ ایک دوسرے کو تھمائے جانے لگے۔

سلیج کو کھینچنے والے کئی پسندیدہ کتوں کی کہانیاں سنائی گئیںجس کے بعد رینجرز ایک بار پھر کُھلی فضا میں آگئے۔ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں وہ منجمد جھیل کی سطح پر بکھر گئے۔ انھوں نے اوزاروں کی مدد سے قریباً ایک فٹ دبیز برف کی تہہ میں چوڑے سوراخ کیے اور پھر مچھلی پکڑنے کے جال تاریک دکھائی دینے والے پانی میں ڈال دیے۔

قطب شمالی کے کینیڈا کی حدود میں آنے والے علاقے میں رینجرز عسکری مشقوں کے ساتھ ساتھ روایتی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں جیسے جانوروں اور مچھلیوں کا شکار اب بھی اس خطے میں روزمرّہ زندگی کا جزولازم ہے۔

آئندہ کئی روز تک مارون کا گروپ فوجی مشقوں، جی پی ایس آلات کے استعمال اور ان سرگرمیوں کے درمیان توازن لانے کی کوشش کرتا رہا۔  بحرمنجمد شمالی کے اوپر منہ زور ہوائیں چل رہی تھیں اور ٹنڈرا کے میدانوں میں کہر کی دبیز تہہ اور بادل گویا نیچے اترآئے تھے۔ درجۂ حرارت دو بار بلند ہوتا ہوا نقطۂ انجماد کی طرف بڑھا مگر پھر گر کر صفر سے بہت نیچے چلاگیا۔ نومبر کے آخری ایام میں درجۂ حرارت کے بلندی اور پستی کی جانب سفر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے شب و رو ز اب کیمپ اور اس کے ارد گرد کی سفید و سرمگیں دنیا تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔

دن کا آغاز و اختتام مچھلی کے شکار ہی پر ہوتا تھا۔ یہاں چار مچھلیاں (پہاڑی ٹراؤٹ ) اتنی کثیر تعداد میں تھیں کہ ہر خیمے کے پہلو میں پکڑی گئی مچھلیوں کا ڈھیر تیزی سے وسیع ہوتا جارہا تھا۔ ہمیں جب بھی بھوک لگتی تو بس خیمے کے دروازے سے ہاتھ باہر نکالتے اور ایک مچھلی اندر کھینچ لیتے۔کبھی کبھار ہم مچھلیوں کے ٹکڑے کرکے ان کا سوپ بھی بنالیتے ہیں۔ اکثر اوقات ہم انھیں کچا ہی کھاتے تھے۔ مارون انھیں’منجمد سوشی‘ کہتا تھا۔ ٹراؤٹ مچھلیاں پکنے پر بے حد لذیذ ہوتی ہیں، مگر کچی اور جمی ہوئی حالت میں کھانے پر مجھے بے ذائقہ معلوم ہوتی تھیں۔

مچھلی کے شکار کے علاوہ ہمارا وقت چھوٹے موٹے کاموں میں صرف ہورہا تھا۔ سورج چند ہی گھنٹوں کے لیے نکلتا تھا۔ اس کی ناتواں روشنی میں ہم برف کو پگھلا کر پینے کے پانی کی شکل دیتے تھے۔

برف کا فرش نرم پڑجانے پر خیموں کو دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔ غضب ناک سرد موسم میں اسنوموبائلز میں بار بار کوئی نہ کوئی نقص پیدا ہوجاتا تھا۔ ایک روز کیمپ کے قریب ایک قطبی ریچھنی اپنے دو بچوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد کسی فرد کا رفع حاجت کے لیے تنہا باہر جانا مشکل ہوگیا جو رگوں میں خون جمادینے والی سردی میں پہلے ہی آسان نہیں تھا۔

میرا خیمہ تین افراد کے لیے تھا: میں، مارون ایٹکیٹک اور اس کا چوہتر سالہ باپ جیکب، جو جوا ہیون کے سب سے معروف شکاریوں میں شمار ہوتا تھا۔ جیکب ایٹکیٹک نے ایک اگلو میں جنم لیا تھا۔ اس کی انگریزی سے واقفیت صرف چند لطائف تک محدود تھی جو وہ کبھی کبھار سنا دیتا تھا۔ اپنی زندگی میں جیکب نے بارہا بے رحم سرد موسم، بھوکے ریچھوں اور فراسٹ بائٹ کا سامنا کیا تھا۔

کئی بار اس کی کشتی کو حادثات پیش آ ئے اور وہ قحط سالی میں بھی زندہ رہا تھا جو بہت سے انوایٹ افراد کی زندگیاں نگل گئی تھی۔ ہر صبح وہ ہم سے پہلے بیدار ہوجاتا تھا۔ اور اس بڑے گدے کے کنارے پر بیٹھ کرجس پر ہم تینوں سوتے تھے، بغیر خمیر کیے ہوئے آٹے کی میٹھی چپاتیاں پکاتا تھا۔ اس دوران وہ اپنی مادری زبان میں مناجات بھی پڑھتا رہتا تھا۔  ایک شام جب ہم اپنے سلیپنگ بیگز میں گھسے ہوئے تھے، مارون نے مجھے بتایا کہ ایک بار اس نے قطب شمالی سے نکل جانے کی کوشش کی تھی۔

اسے جنوبی کینیڈا میں ایک اسکول کے بارے میں پتا چلا تھا جہاں چھوٹے انجنوں کی مرمت کرنا سکھایا جاتا تھا۔ تاہم کئی برس قبل اس کے بھائی کو گھر سے کینیڈا کے بدنام زمانہ رہائشی اسکولوں میں سے ایک میں لے جایا گیا تھا جہاں علاقائی علم و فنون اور مقامی روایات کو ظالمانہ طور سے مسترد کردیا جاتا تھا۔ اس تجربے سے سبق لیتے ہوئے مارون کے باپ نے اسے ہدایت کردی تھی کہ وہ کہیں جانے کے بجائے گھر ہی پر رہے، اپنے روایتی طور طریقے سیکھے اور خاندان کو مکمل رکھے۔

مارون کو اپنے اس فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ وہ اب خود ایک باپ اور جوا ہیون میں رضاکار فائرمین تھا۔ اسے ٹیلی فون لائنوں کی مرمت کرنے والی کمپنی میں نوکری مل گئی تھی اور وہ اپنے باپ سے بھی جو کچھ سیکھ سکتا تھا، سیکھ رہا تھا۔ جیکب کو ورثے میں سادہ اور قدیم قطب شمالی ملا تھا جب کہ مارون ایک ایسے قطب شمالی میں پروان چڑھا جو اس کے جوان ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتا چلاگیا تھا۔ جہاں مواقع کم اور منشیات کا استعمال زیادہ تھا۔ اور جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی جدید ٹیکنالوجی کی رسائی ہوچکی تھی۔

مارون کو یہ ادراک ہوچکا تھا کہ اس کا قطب شمالی ایک نئی ہیئت اختیار کررہا تھا۔ وہ پڑھتا تھا کہ برف پگھل رہی ہے، اور یہ کہ اس خطے میں ایک اور جنگ چھڑ سکتی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے آبائی خطے کا موسم وہ نہیں رہا جو اس کے بچپن میں ہوا کرتا تھا۔

اگرچہ موسم اتنا گرم نہیں ہوا تھا مگر ناقابل پیش گوئی ضرور ہوگیا تھا۔ جہاں تک اس ’گولڈ رش‘ کی بات تھی جس کے بارے میں مارون سنتا رہتا تھا تو اس کے خیال میں ایسا کچھ ہو نہیں رہا تھا۔’’یہ تمام باتیں محض فرض کی جارہی ہیں،‘‘ مارون نے مجھے خطے کے پوشیدہ خزانوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور ممکنہ ملازمتوں کی پیش گوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔’’ میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کررہا۔ نہ ہی میں خود کو اس کا جزو سمجھتا ہوں۔‘‘

اگلی صبح میں، مارون، جیکب کچھ دوسرے رینجرز کے ساتھ اسنوموبائلز پر رینڈیئر کے شکار کے لیے نکلے تھے کہ شدید برفانی طوفان نے آلیا۔ برفانی ہوا ہمیں اڑائے دے رہی تھی۔ آسمان سے برستی برف نے حدنگاہ اتنی محدود کردی تھی کہ چند فٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بہ دقت تمام ہم جیکب کی راہ نمائی میں کئی گھنٹے کے بعد کیمپ واپس پہنچ سکے تھے۔

میں اپنی اسنوموبائل پر جیکب کے پیچھے تھا۔ گاگلز پر جمی برف کی تہہ نے مجھے قریب قریب نابینا کردیا تھا۔ جو گرم ماسک میں نے سر اور چہرے پر چڑھا رکھا تھا، طوفان میں کسی لمحے اس کا کچھ حصہ سرک گیا تھا اور مجھے اس حصے کی جلد پر شدید جلن کا احساس ہورہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے دہکتا ہوا سکہ جلد پر رکھ دیا ہو۔ اس کے باوجود میں مارون کے پیچھے پیچھے تھا۔ کئی گھنٹوں تک طوفان سے نبردآزما رہنے کے بعد جب خیمے میں سکون کے لمحات میسر آئے تو جیکب نے میرے چہرے فراسٹ بائٹ کو دیکھا، اسے اپنے انگوٹھے سے دبایا اور کہا،’’تمھیں یہاں آنے کی معمولی قیمت چکانی پڑگئی۔‘‘

قطب شمالی کے اس نئے محاذ کی ابتدا اگست 2007ء کی ایک پُرسکون صبح اس وقت ہوئی جب روس کی دو چھوٹی آبدوزیں چودہ ہزار فٹ نیچے بحر منجمد شمالی کی تہہ میں پہنچیں اور قطب شمالی میں ٹائٹینیم سے بنا روسی پرچم گاڑ دیا۔ پرچم کی تصاویر نشر ہوتے ہی مغرب نے روس کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔

2007ء تاریخ ارضی کے گرم ترین سال میں سے ایک تھا۔ صرف ایک ماہ بعد مصنوعی سیارے کے ذریعے بحرمنجمدشمالی پر نگاہ رکھنے والے سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ سمندری برف سکڑ کر اب تک مشاہدہ کیے گئے کم ترین پھیلاؤ پر آگئی ہے۔ سدرن کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جوناتھن مارکوٹز کہتے ہیںکہ یہ انسانی تاریخ میں قطب شمالی کی برف کا سب سے بڑا ضیاع تھا جس کی پیش گوئی موسمی تغیر کے جارح ترین ماڈل بھی نہیں کرسکے تھے۔

پروفیسر کے مطابق اس انکشاف نے ہر ایک کو یہ باور کرادیا تھا کہ برف تیزی سے غائب ہورہی تھی، اور پھر کچھ اقوام نے اس ضمن میں اقدام کرنے شروع کردیے۔‘‘آج روس قطب شمالی کی غالب طاقت بن گیا ہے۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بحری بیڑا ہے جو انتہائی شمالی حصے کے پانیوں میں پورا سال سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں دائرہ قطب شمالی پر روس کے درجنوں فوجی اڈے قائم ہیں۔ اس کے برعکس امریکا کا قطب شمالی میں محض ایک فوجی اڈہ، ایک ایئرفیلڈ اور شمالی گرین لینڈ میں مستعار لیا گیا قطعۂ ارضی ہے۔

روس نے شمال میں نئے فوجی اہلکار تعینات کردیے ہیں، آب دوزوں کی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں، اور اس کے جنگی طیارے پھر سے قطب شمالی کی فضاؤں میں لوٹ آئے ہیں اور باقاعدگی سے ناٹو کی فضائی حدود سے شور مچاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ تاہم مارکوٹز اور کئی دیگر محققین نے مجھے بتایا کہ شمال میں روسی سرگرمیاں اس کے عالمی مقاصد سے زیادہ داخلی منصوبوں کی آئینہ دار ہیں۔

قطب شمالی کی روسی حدود میں دو کروڑ شہری بستے ہیں۔ یہاں Murmansk اور Norilsk سمیت بڑے بڑے شہر ہیں۔ کینیڈا اور امریکا کی قطب شمالی کی مجموعی آبادی پچاس لاکھ سے بھی کم ہے۔ امریکی حدود میں قطب شمالی میں سب سے بڑا قصبہUtqiavik ہے جسے پہلے Barrow کہا جاتا تھا۔ اس کی آبادی محض چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ مارکوٹز کاکہنا ہے کہ روسی معدنی وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اسی لیے وہ قطب شمالی کو مستقبل کے معدنی وسائل کے منبع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں واقع سمسن سینٹر میں سینیئر فیلو یُن سن کے مطابق قطب شمالی میں چینی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے پس پردہ بھی زمین پر نہیں بلکہ وسائل پر مرتکز حکمت عملی ہے۔ یُن نے مزید کہا کہ تیل و گیس کے روسی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ چین خاص طور سے نئی سمندری گزرگاہوں تک رسائی حاصل کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے جن کے ذریعے ایشیائی بندرگاہوں اور یورپی مارکیٹوں کے درمیان سامان کی نقل و حمل کا عرصہ دو ہفتے تک کم ہوجائے۔

گذشتہ جنوری میں چینی حکومت نے قطب شمالی کے بارے میں چینی عزائم کے خاکے پر مشتمل وائٹ پیپر شایع کیا تھا۔ اس وائٹ پیپر میں چین نے خود کو ’ قطب شمالی کی نزدیکی ریاست‘ قرار دیا تھا جو دیگر اقوام کے اشتراک سے تجارت اور تحقیق کی غرض سے ’قطبی شاہراہ ریشم‘ تعمیر کرنے کی خواہاں ہے۔ ’’ یہ معاملہ بہت احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے،‘‘ سن نے مجھ سے کہا۔ ’’ میں تمھیں اس کا لفظی ترجمہ بتاؤں گی جو چینیوں نے مجھ سے کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم قطب شمالی پر کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے، لیکن اگر ہم وہاں سے کچھ حاصل کرسکتے ہیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ ‘‘

اس نئے محاذ کے ساتھ ساتھ مسافت طے کرتے ہوئے سرد جنگ سے مماثلت کے تمام پہلو معدوم ہوتے چلے گئے۔ قطب شمالی، شمالی امریکا کی اقوام کے دماغ سے غائب تھا۔ دہائیاں گزرگئیں مگر امریکا اور کینیڈا نے اپنے شمالی علاقوں کو ترقی دینے اور مقامی آبادی پر سرمایہ لگانے پر توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ پومپیو کی مواقع کی زبان سے پُر تقریر بھی کھیل میں آخر میں شامل ہونے والے کھلاڑی کی منصوبہ بندی کے اظہار سے زیادہ ایک تنبیہہ لگ رہی تھی۔

یہ رویہ اکثر اوقات قطب شمالی کے باسیوں کے لیے توہین آمیز ہوتا ہے، بالخصوص اس وجہ سے کہ مواقع کے وعدوں میں ہمیشہ انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے Nunavut Territory کے بڑے جو ساوی کٹاک اس وقت مارون ایٹکیٹک کے ہمنوا بن گئے جب اس نے مجھے بتایا کہ نئے قطب شمالی کے منصوبوں میں  انوایٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جو نے کہا،’’ہم خوش ہیں اور کینیڈا کا جزو ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر ہم خود کو وہ بڑا بھائی محسوس کرتے ہیں جس کے حصے میں کاٹھ کباڑ کے سوا کچھ نہیں آتا۔‘‘

ساوی کٹاک نے صحت، روزگار کے مواقع، ٹیکنالوجی، ثانوی تعلیم سمیت متعدد شعبے گنوادیے جن میں قطب شمالی کے باسی جنوبی آبادیوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر جو نے ان چند پہلوؤں کا تذکرہ کیا جن میں شمال، جنوب سے آ گے تھا۔ ان میں برف کا غیاب، رہنے سہنے کی لاگت، درجۂ حرارت میں اضافے کی شرح، خودکشیوں کی شرح شامل تھے۔ جو نے کہا کہ اس بار جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ سب سے پہلے انھیں متأثر کرے گا۔ اس نے کہا،’’میں اس بارے میں کچھ زیادہ کہنے کا متمنی نہیں کہ روس، چین یا امریکا کیا کرنا چاہتے ہیں یا کیا کرسکتے ہیں۔ ہم اتنے چھوٹے اور ہمارے وسائل اتنے محدود ہیں کہ ہماری حیثیت محض تماش بینوں کی سی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں خود کو حتی المقدور تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرلیں۔‘‘

ایک ہفتے کے بعد موسم قدرے بہتر ہوا تو مارون ایٹکیٹک نے فیصلہ کیا کہ یہ وقت روسیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہت موزوں تھا۔ وہ سابق کینیڈین انفنٹری مین اور رینجر پروگرام کے انسٹرکٹر سارجنٹ ڈین لشمین کے ساتھ مل کر بھورے رنگ کے گتے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا گٹھڑ کھینچتا ہوا لے آیا۔ اس گٹھڑ میں بندھے ہوئے گتے کے ٹکڑے دراصل قدآدم فوجیوں کے کٹ آؤٹس ( cut out) تھے۔ انھیں کیمپ کے باہر لے جاکر برف میں گاڑ دیا گیا۔ یہ کاغذی فوجی حملہ کرنے کی پوزیشن میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے منھ چلانے کے انداز میں کھلے ہوئے تھے اور رائفلوں کا رخ سامنے دشمن کی جانب تھا۔

مارون نے بتایا کہ ان کاغذی اہداف کو سردجنگ کے دوران ناٹو افواج کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس نے سو گز کے فاصلے پر برف میں ایک لکیر کھینچی اور اپنے سپاہیوں کو ترتیب سے اس کے ساتھ ساتھ کھڑا کردیا۔ اس نے ہر رینجرکو مٹھی بھر گولیاں دے دی تھیں۔ رینجرز نے اپنی قدیم رائفلیں لوڈ کرنے کے بعد گھٹنے زمین پر ٹکا کر شست باندھی اور اپنے اپنے ہدف کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مارون کا کہنا تھا کہ پرانی رائفلوں کا فائدہ یہ ہے کہ متحرک حصے کم ہونے کی وجہ سے یہ منجمد نہیں ہوتیں اور انتہائی منفی درجۂ حرارت میں بھی کارآمد رہتی ہیں۔

میں نے لشمین سے پوچھا جو کئی بار افغانستان کو بھیجے جانے والے جنگی دستوں کا حصہ رہ چکا تھا، کہ کیا اس کے خیال میں قطب شمالی میں سرد جنگ چھڑنے والی ہے۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے جواب دیا،’’عسکری نقطۂ نظر سے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ہم نے یہاں کتنا وقت صرف بنیادی نوعیت کے کاموں میں صرف کیا ہے۔

کتنی ہی بار اس سرد جہنم میں آلات اور دوسرا سامان خراب ہوا ہے۔ یہاں تو صرف زندہ رہنے کے لیے ہی بے پناہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ان حالات میں مجھے کسی سرد جنگ کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔‘‘کینیڈین رینجرز کا قیام پہلی سردجنگ کے دوران عمل میں آیا تھا جب عسکری منصوبہ سازوں کو بیلسٹک میزائل اور خلائی دوڑ کے خوف کی وجہ سے قطب شمالی کی صورت میں اپنی پشت کمزور محسوس ہوئی تھی۔ تاہم بذات خود رینجرز کا مقصد کسی حملہ آور فوج سے مقابلہ کبھی نہیں رہا۔ آج بھی زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ قطب شمالی کے کان اور آنکھیں چینی برف شکن جہازوں، مسافر اور باربردار دیوہیکل کشتیوں کو بحرمنجمد شمالی میں محوسفر دیکھنے پر ہی اکتفا کریں گی۔

فائرنگ لائن پر موجود ایک رینجر پاؤل اکولاک تیس برس سے اس پروگرام میں بہ طور رضاکار خدمات انجام دے رہا ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں اس نے ناٹوفوجیوں کی تربیت میں معاونت کی تھی۔ چوڑے دہانے والے خوش اخلاق پاؤل کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ خطہ کبھی جنگ کی لپیٹ میں آئے گا۔

اس سلسلے میں میری ناٹو حکام سے بھی بات چیت ہوئی تھی۔ ان میں سے بیشتر کا خیال تھا کہ روس قطب شمالی میں جنگ چھیڑ کر رہے گا۔ کچھ کی رائے تھی کہ جنوب میں کہیں جنگ چھڑے گی جو بالآخر قطب شمالی تک پھیل جائے گی۔ اس ضمن میں کچھ نے کریمیا پر روس کے قبضے اور بحیرۂ جنوبی چین میں چین کے جارحانہ اقدامات کا بھی حوالہ دیا۔ تاہم بہت سے غیرفوجی اذہان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک مختلف قطب شمالی کے لیے امید ہنوز موجود ہے جو سردجنگ کا میدان کم اور انٹارکٹیکا یا خلا سے زیادہ مشابہ ہوگا۔ ان دونوں خطوں (انٹارکٹیکا اور خلا) میں، جو دونوں محاذ بھی بنے ہوئے ہیں، بین الاقوامی معاہدوں اور طویل فاصلوں نے سیاسی کشمکش کے اثرات کی شدت کو کم کردیا ہے۔

برٹش کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر مائیل بائرز کہتے ہیں،’’جن ممالک کو کہیں اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ بالآخرد سرد، تاریک، خطرناک اور مہنگے خطوں میں ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعاون کی یہ ضرورت تعاون کی روایت کو جنم دے دیتی ہے۔‘‘

یہ کیمپ میں ہماری آخری شام تھی۔ سورج غروب ہوجانے کے بعد نوجوان انیوایٹ کا ایک چھوٹا سا گروپ اسنوموبائلز پرسوار نمودار ہوا اور ہمیں دیکھ کر نعرے بلند کیے۔ رینجرز نے خوش دلی سے ہاتھ ہلاکر ان کے نعروں کا جواب دیا۔ کچھ ہی دیر بعد فضا میں سگریٹوں کا دھواں لہرانے لگا تھا۔ موسم سرد مگر قدرے بہتر تھا۔ نوجوانوں کا یہ گروپ مغرب میں رینڈیئر کے شکار میں مصروف رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک اور نوجوان اسنوموبائل پر نمودار ہوا۔ اپنی گاڑی سے اتر کر وہ عجلت بھرے انداز میں آگے بڑھتا ہوا ٹھوکر کھاکر گر پڑا۔ اس نے مختصر سے مجمع کو اپنے ساتھی کے بارے میں بتایا جس کی سلیج وہ اپنے اسنوموبائل کے پیچھے باندھ کر کھینچ رہا تھا۔ نوجوان نے بتایا کہ ایک جگہ اس نے اچانک پیچھے دیکھا تو سلیج خالی تھی۔ یقیناً پیچھے سوار نوجوان سلیج پر سے کہیں گرگیا تھا۔ مارون اور دوسرے رینجرز نے مزید تفصیلات بتانے کے لیے کہا مگر نوجوان کے پاس اس سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ نوجوانوں کا یہ گروپ دراصل رینجرز کا تربیت یافتہ سرچ اینڈ ریسکیو مشن تھا۔ چند ہی لمحوں کے بعد دو رینجرز ریسکیومشن کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

ہم ان کی اسنوموبائلز کی ہیڈلائٹس سے خارج ہونے والی روشنی کو تاریکی میں غائب ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہم میں سے بیشتر ٹہلتے ہوئے اپنے خیموں میں واپس آگئے۔ ہم نے چائے بنائی۔ مارون فکر مند ضرور تھا مگر بہت زیادہ نہیں کیوں کہ گم شدہ نوجوان اسی سرزمین پر پلا بڑھا تھا اور جانتا تھا کہ اس برف زار میں تنہا رہ جانے پر کیا کرنا چاہیے۔ میرے پردۂ تصور پر چند روز قبل کیمپ کے قریب نمودار ہونے والی ریچھنی کی شبیہہ اُبھر آئی۔ میں سوچنے لگا کہ اس سے مڈبھیڑ ہونے پر نوجوان کیا کرے گا۔

(بشکریہ نیشنل جیوگرافک)

The post قطب شمالی کے برف زاروں میں پنپتی نئی سردجنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4551 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>