Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4548 articles
Browse latest View live

ہنزہ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے

$
0
0

(قسط نمبر 5)

گلگت میں پہنچنے کے پہلے روز میں نے دیگر ضروری معلومات کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ قریب ترین مسجد کہاں ہے۔بتایا گیا کہ دفتر کے سامنے گلی میں تھوڑی دور واقع ہے۔ظہر کے وقت تو مجھے نماز پڑھ کر واپس دفتر آتے وقت کسی نے کچھ نہ کہا لیکن عصر کی نماز کے بعد جب میں باہر نکلا تونمازیوں میں شامل ایک جوان صاحب ریش شخص مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔میں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی روایت کے برعکس اُسے سلام کیا۔(خیبر پختونخوا میں کسی کو غور سے دیکھنے کا مطلب مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے) تو وہ لپک کر آگے بڑھے۔ مصافحہ کیا اوربتایا کہ اُ ن کا نام اسداللہ خان ہے اور وہ قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائینسز میں پڑھاتے ہیں۔

میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مصر ہوگئے کہ میرا گھر قریب ہے گھر چلیں۔آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔میں ہچکچاتے ہوئے اُن کے ساتھ ہو لیا۔کچھ آگے اُن کے معمر والد بھی گھر کی طرف جا رہے تھے۔چلتے چلتے انہوں نے میرا تعارف کرایا۔اتنے میں گھر آگیا ۔ پورچ میں چار گاڑیاں کھڑی تھیں۔(گلگت میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے کسی گھر میں چار گا ڑیاں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی) وسیع و عریض لان کے دو تین حصے تھے۔کئی پھل دار درخت لگے ہوئے تھے۔ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ۔ ابھی ڈھنگ سے گفتگو شروع نہ ہونے پائی تھی کہ اسداللہ خان کو گھر کے اندر بلا لیا گیا اور میرے ساتھ اُن کے والد اور دو چھوٹے بھائی رہ گئے۔

تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ یہ دونوں بھائی اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں اور اسداللہ یہاں گلگت میں والدین کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اُن کے والد بظاہر بہت سنجیدہ اور لیئے دیئے سے نظر آرہے تھے لیکن جب گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔میرے پوچھنے پر اپنی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کئے۔کہ وہ پریشنگ استور کے رہنے والے ہیں۔ 1960؁ء کے عشر ے کے اواخر میں اقتصادیات میںکراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ایکسپورٹ پروموشن بیورو کراچی میں ملازم ہوگئے۔

اُس وقت اُن کی تنخواہ چار ہزار روپے ماہانہ تھی۔(یہ اُن کا اپنا بیان ہے )دن کو دفتر کی مصروفیات سے نمٹنے کے بعد شام کے وقت کے بہتر استعمال کے لئے انہوں نے سندھ مسلم لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔دو برس مکمل ہوئے تو وہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے۔اتنے میں شمالی علاقہ جات(اُس وقت گلگت بلتستان کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا)کی ضلعی انتظامیہ میں کچھ اسامیاں خالی ہوئیں۔اور اخبار میں ان کا اشتہار آیا۔ضلع استور سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے کے لئے درخواست بھیج دی۔اُس وقت گلگت میں انتظامیہ کے سربراہ کمشنر نصرمن اللہ تھے۔

جو بعد میں صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری بھی رہے۔عطی اللہ خان نے تحریری امتحان اور بعد میں ہونے والے انٹرویو میں جو کارکردگی دکھائی۔اس پر انٹرویو لینے والی کمیٹی کے سربراہ نصر من اللہ نے انہیں کہا۔ کہ وہ کراچی چھوڑ کر یہاں آئیں اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کا عہدہ سنبھالیں۔عطی اللہ خان نے جواب میں اس عہدے کی تنخواہ پوچھی تو بتایا گیا کہ الاونسز ملا کر کوئی آٹھ سو روپے ملا کریں گے۔عطی اللہ خان نے جواب دیا کہ میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہے کہ چار ہزار روپے والی ملازمت چھوڑکر آٹھ سو روپلی پر آجاؤں۔اس پر نصرمن اللہ نے انہیں سمجھایا کہ وہ اس کم تنخواہ پر دل برداشتہ نہ ہوں۔انہیں بہت جلد ترقی کے مواقع ملیں گے اور وہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر جیسے عہدوں پر بھی کام کر سکیں گے۔

بہرحال نصر من اللہ کے سمجھانے پرعطی اللہ خان کراچی گئے وہاں ملازمت سے مستعفی ہوئے اپنا سامان اٹھایا اور گلگت کی راہ لی۔ بعد میں ترقی پانے پر انہوں نے شمالی علاقہ جات کے تمام اضلاع کے علاوہ جہلم اور اٹک میں بھی ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر کام کیا۔بچوں کو کوہاٹ اور حسن ابدال کے کیڈٹ کالجوں میں پڑھایا۔پھر گلگت بلتستان میں صوبائی سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

انہیں اپنے کیریئرکی ابتداء میں چار ہزار روپے ماہوار کی ملازمت چھوڑ کر آٹھ سو روپے ماہوار والی ملازمت پر آنے کے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہ تھی۔وہ بہت مطمئن اور آسودہ تھے۔دسمبر 2014؁ء میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی حکومت کی مدت ختم ہوئی۔اور گلگت بلتستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت تشکیل دی گئی تو عطی اللہ خان کو کابینہ میں پانی و بجلی کی وزارت دی گئی۔وزارت نے اُن کے معمولات پر کوئی اثر نہ ڈالا۔وہ پہلے کی طرح پانچوں نمازوں کے لئے آذان دیتے اور اقامت کہتے رہے۔یہ عطی اللہ خان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کے(جو ۷۲ اپریل۶۱۰۲؁ء کو راولپنڈی کے ایک نجی ہسپتال میں ۵۸ برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے اور جن کی میت کو۸۲ اپریل ۶۱۰۲؁ء کو گلگت لا کر سپرد خاک کیا گیا)چھوٹے بھائی ہیں۔

تیرہ فروری کی ہڑتال اور چودہ فروری کے احتجاج کے باوجود بجلی کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی۔اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پہلے کی طرح جاری رہی۔سولہ فروری کے اخبارات میں خبر چھپی کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں بجلی کی غیر معمولی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور خراب بجلی گھروں کی مرمت کے لئے چودہ کروڑ روپے جاری کئے ہیں۔یہ رقم بھی حسب معمول بیوروکریسی اور ٹھکیداروں کے درمیان تقسیم ہوجائے گی اور بجلی گھروں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکے گا۔(ہوا بھی ایسا ہی ہے۔یہ سطور لکھے جانے تک کارگاہ کے بجلی گھر اسی طرح سے خراب تھے جیسے وہ ایک برس پہلے تھے)گلگت بلتستان،  چترال، سوات، تور غراورکوہستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے وفاقی حکومت ہر سال اربوں روپے مہیا کرتی ہے۔

اور متعلقہ صوبائی حکومتیں منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہار دیتی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ جون کے مہینے میں پیش ہوتے ہیں اوران کی منظوری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم مختص ہونے کاکام ستمبر اکتوبر تک پھیل جاتا ہے۔جب یہ رقم ان صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی کے حوالے ہوتی ہے۔تو اس کے بعداخبارات کے ذریعے ٹینڈرطلب کئے جاتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں مزید دو ماہ لگ جاتے ہیں۔یوں جب نومبر میں ٹھیکیداروں کو ٹینڈر ز کی منظوری ملتی ہے تو سرد موسم کی شدت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ کچھ علاقوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔

کوئی ٹھیکیدار ایسے موسم میں اپنے کام ڈھنگ سے شروع نہیں کر پاتا۔ موسم کی شدت کی وجہ سے کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ جب اگلے برس اپریل میں موسم بہتر ہوتا ہے تو اُس وقت تک بمشکل بیس فیصد کام ہوا ہو تا ہے۔یہی مالی سال کی آخری سہ ماہی ہو تی ہے۔جب بیوروکریسی کی طرف سے ٹھیکیداروں پر دباؤ پڑتا ہے کہ کام مکمل کیا جائے۔سال بھر کے کام دو ماہ میں جس انداز میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ کسی سے ـڈھکی چھپی بات نہیں۔ مالی سال ختم پیسہ ہضم ٹھیکیداراور بیوروکریسی دونوں کے وارے نیارے، بیچارے عوام کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی،گلیوں کی پختگی، بجلی کی فراہمی،ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت، سکولوں،کالجوں کی تعمیر مرمت،چشموں اور نالوں سے پانی لانے والے کوہلوں کی تعمیر اور بحالی جیسے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایک اور برس انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں صورت حال اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور پھر کوئٹہ جانے والی سڑک کہنے کو پختہ شاہراہ ہے۔لیکن جن لوگوں کو اس سڑک پر سفر کرنے کا موقعہ ملا ہو وہ بخوبی بتا سکیں گے کہ اس راستے کو سڑک یا شاہراہ کا نام دینا کتنی بڑی ستم ظریفی ہے۔ جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے روا رکھی ہوئی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کا درمیانی فاصلہ 230کلو میٹر ہے۔ جسے طے کرنے میں کار پر دس گھنٹے اور فلائنگ کوچ میں بارہ سے چودہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اس سڑک کی حالت بہت بہتر ہے۔

ندی نالوں پر پل بھی بنے ہوئے ہیں۔جونہی یہ سڑک کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے تنگ درے سے ہوتی ہوئی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ دونوں صوبوں کی حد فاصل ایک برساتی نالہ ہے۔جس پر ایک عارضی پل بنا ہو اہے۔اس سے آگے ژوب تک ڈیڑھ سو کلو میٹر کے علاقے میں کم و بیش دس برساتی نالے سڑک کی راہ میں آتے ہیں۔جن میں سے ایک آدھ پر پل بنا ہوا ہے باقی تمام کے تمام خشک برساتی نالے پل کے بغیر سنگلاخ پتھروں پر اچھلتے کودتے پار کرنا پڑتے ہیں۔ اگر بارش ہوجائے تو پھر مسافروں کو برساتی نالوں کے کنارے ٹھہر کر پانی کا زور ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

کیونکہ کوئی بھی فلائنگ کوچ یا کار والا تیز برساتی ریلے میں اپنی گاڑی ڈال کر اس سے اور اپنی جان سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کرتا۔یہ انتظار ایک دو گھنٹوں سے لے کر پوری رات یا دن پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ ان تمام برساتی نالوں پر بیوروکریسی کے کاغذات کی رو سے درجنوں بار پل تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ یہ پل کاغذات ہی میں ہر سال برساتی پانی کی بھی نذر ہوجاتے ہیں۔اور حکومت ہر سال ان پلوں کی تعمیر کے لئے کروڑوں روپے مختص کر تی ہے۔یہ سارا پیسہ سڑک کے اردگرد آباد وڈیروں، ٹھیکیداروں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان ہو،کوہاٹ ہو یا چترال، ژوب ہویا کوئٹہ، لیہ ہو یا مظفر گڑھ۔ان علاقوں کا جغرافیہ تو خالق کائنات نے ترتیب دیا ہے لیکن یہاں کی پسماندگی ،غربت،مشکلات اور عوام کی بے بسی کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت، منتخب نمائندوں، مقامی بیوروکریسی اور ٹھیکیداروں پر عائد ہوتی ہے۔

جو ایک دوسرے کی ملی بھگت سے ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ ہڑپ کرکے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کو انتخابات میں کامیاب کراتے اور پھر اپنی بد عنوانیوں کے لئے انہیں ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔بدعنوانیوں کی یہ داستان بہت طویل ہے۔اس لئے ہم واپس گلگت کی طرف آتے ہیں۔جو اس علاقے کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔4208مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ضلع گلگت پورے علاقے میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔جلال آباد سے لے کر بسین تک بارہ کلو میٹر کی لمبائی اور دو سے تین کلو میٹر کی چوڑائی میں پھیلے ہوئے کم وبیش ایک لاکھ آبادی کے اس شہر کا محل و وقوع ایسا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع تور غر، کوہستان سے لے کرپورے گلگت بلتستان کے لوگوں کا رخ گلگت کی طرف ہے۔

سردیوں میں شدید سردی سے ٹھٹھرنے اور گرمیوں میں شدید گرمی سے جھلسنے کے باوجود چلاس، تانگیر، داریل، استور، منی مرگ، غذر، یاسین، پھنڈر، نگر، ہنزہ، گوجال،سکردو، شگر، کھرمنگ، گانچھے،کوہستان اور تورغر کے لوگ نقل مکانی کے لئے گلگت کو ترجیح دیتے ہیں۔2015-16؁ء کے دورانمیں دیامر۔بھاشا ڈیم کے متاثرین میں ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ تقسیم کیا گیاتھا۔وفاقی حکومت نے کم و بیش چالیس ارب روپے ضلع دیامیر کے باشندوں میں تقسیم کئے۔معاوضہ وصول کرنے والوں کی اکثریت نے کبھی دس بیس ہزار روپے سے زائد رقم اکٹھی نہیں دیکھی تھی۔چنانچہ کئی لطیفے بھی سرزد ہوئے۔

گلگت چھاؤنی میں جوٹیال کے علاقے میں ایف سی این اے چوک میں ایک بھارتی ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔(جو اُس وقت تک بغیر کسی جنگلے یا حفاظتی دیوار کے سیمنٹ کے بنے ہوئے ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا۔) ایک دن ایک بوڑھا شخص جس نے اپنی بنجر پہاڑی زمین کا معاوضہ لاکھوں روپے میں وصول کیا تھا۔اس چوک میں پیدل جاتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے قریب رکااور اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ایک گلگتی ستم ظریف نے اُس بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔بوڑھے نے جواب دیا کہ یہ جہاز دیکھ رہا ہوں۔گلگتی نے کہا کہ یہ میر ا جہاز ہے۔تم خریدنا چاہتے ہو۔بابے نے کہا کہ کیوں نہیں۔اُس شخص نے کہا کہ مجھے چھ لاکھ روپے دے دو اور یہ جہاز تمہارا ۔ بوڑھے شخص نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔

ڈب سے رقم نکالی اور گن کر چھ لاکھ روپے اُس نوسرباز کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔نوسرباز نے بابے سے کہا کہ آپ کل آکر اپنا جہاز لے جائیں۔بوڑھا خوش ہو کر وہاں سے چلاآیا۔دوسرے دن علی الصبح بابا اپنا جہاز وصول کر نے ایف سی این اے چوک پہنچا۔اور جہاز پر اپنا کپڑا مارنے لگا تاکہ اُس پر پڑی ہوئی گرد صاف کر لے۔اتنے میں چوک میں تعینات فوجی جوان بوڑھے کے پاس آئے اور پوچھا کہ بابا جی آپ کیا کر رہے ہیں۔بابے نے بتا یا کہ وہ یہ جہاز خرید چکا ہے۔اور اسے لینے آیا ہے۔فوجی جوانوںکو بابے کی دماغی صحت پر شک ہوا ۔لیکن بابا جس قدر یقین سے بات کررہا تھا۔وہ سمجھ گئے کہ کوئی بندہ بابے کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔

پھر انہوں نے بوڑھے شخص کو بتا یا کہ یہ جہاز بہت پرانا ہے۔یہ سٹارٹ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ قابل فروخت ہے۔تب جا کر اُس بوڑھے شخص کو سمجھ آئی کہ اُ س کے ساتھ کیا ہوا ہے۔اُس نے پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔نوسرباز صاحب نے اپنا صحیح نام پتہ نشان نہیں بتا یا تھا۔ لیکن ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ لینے والے سارے لوگ اس بوڑھے کی طرح نہیں تھے۔اکثریت نے جوٹیال، سکوار، گلگت چھاؤنی،غذر روڈ،شاہراہ قراقرم اور مضافات میں تجارتی اور رہائشی زمینیں خریدیں اوربڑی بڑی مارکیٹس اور پلازے تعمیر کرنا شروع کردیئے۔خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے گلگت میں زمینوں کی قیمتیں راتوں رات آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

گلگت بلتستان کی وادیوں میں ہنزہ کو اللہ رب العزت نے بہت دل کشی عطا کی ہے۔ضلع ہنزہ کا صدرمقام علی آباد ہے۔جو گلگت سے 112کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اگر کہیں رُکنا نہ ہو تو گلگت سے دو گھنٹوں میں علی آباد پہنچا جا سکتا ہے۔یہ سفر عمدہ سڑک ،دلفریب نظاروں اور پہاڑی ڈھلانوں پرخوبانی،چیری اور سیب کے درختوں سے گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات کی وجہ سے بہت پُر لطف رہا۔

راستے میں ضلع نگر میں چھلت ،چھپروٹ اور نلت وادیوں کے دامن میں سڑک کے کنارے ایک جگہ بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ یہاں زمین اور پہاڑوں کی مختلف تہیں آپس میں ملتی ہیں۔ چھلت کے بعد وادی ایک دم سے کُھل جاتی ہے۔دریا،سڑک اور دو پہاڑوں کے درمیان تنگ درہ ایک وسیع وعریض وادی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دریا ہنزہ میں شامل ہونے والے کوہستانی نالوں کے ساتھ اوپر کی طرف وادیاں اور وسیع چراہ گاہیں ہیں۔ جن کی طرف جانے والے راستے دریا پر رسوں سے بندھے ہوئے پُلوں کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے منسلک ہیں۔ سڑک غیر محسوس انداز میں دھیرے دھیرے اوپر کی جانب بڑھتی ہے۔پیچھے مڑ کر دیکھنے پر راکاپوشی ہر موڑ کے بعد اپنی نئی چھب دکھا تی اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے۔

اس آنکھ مچولی کے ساتھ آگے بڑھیں توسکندر آباد، جعفر آباد،تھول،غلمت سے گذرتے ہوئے حسن آباد کا گاؤں آجاتا ہے۔یہ ہنزہ کے صدر مقام علی آباد کے مضافات میں سے ہے۔علی آباد، حسن آباد ،کریم آباد اور سمائر ایک دوسرے کے سامنے آباد ہیں۔یہ وادی بلاشبہ گلگت بلتستان کی حسین ترین وادیوں میں سر فہرست ہے۔کریم آباد میر آف ہنزہ کے آبائی محل، التت قلعہ اور درجنوں ہوٹلوں کی وجہ سے معروف سیاحتی مقام ہے۔مارچ کے اس آخری ہفتے میں کریم آباد بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہو اتھا۔ میں نے علی آباد میں پاکستان ٹورزم ڈیلوپمنٹ کارپوریشن کے موٹل پرگاڑی رکوائی جو سڑک کے کنارے بہت ہی اچھی لوکیشن پر بنا ہوا ہے۔

موٹل کا دروازہ کھلا تھا لیکن اندر سب کچھ سردیوں کی وجہ سے بند تھا۔ ڈھلوان پر بہت ہی خوبصورتی سے تعمیر شدہ کمرے ،اُن کے آگے بنے ہوئے دریچے،دریچوں کی محرابیں یہ سب کچھ انسان کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میںپی ٹی ڈی سی کے جتنے بھی نئے موٹلز بنے ہیں۔

اُن سب کا نقشہ کسی بہت ہی اچھے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا ہے اور یہ ایک ہی ڈیزائن پر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں راما جنگل استور، خپلو، گوپس،پھنڈر،ہنزہ علی آباداورست پارہ کے موٹلز شامل ہیں۔ سکردو اور گلگت میں عرصہ دراز سے موجود پی ٹی ڈی سی کے موٹلز الگ الگ ڈیزائن میں ہیں۔ ۹۰۰۲؁ء میں صوبہ کا درجہ دیئے جانے کے بعد جن اضلاع کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا ابھی اُن کے انتظامی دفاتر کی عمارتیں مکمل نہیں ہو پائی تھیں کہ ۵۱۰۲؁ء میں وزیراعظم نوازشریف نے نگر،شگر اور کھرمنگ کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کردیا۔ ہنزہ کو ۹۰۰۲؁ء میں ضلع بنایا گیا۔ چھ برس گذرنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کے دفاتر نہیں بن پائے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہنزہ کا دفتر پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں کام کر رہا ہے۔ علی آباد سے آگے جائیں توکریم آباد کی طر ف جاتے ہوئے گینش گاؤں آتا ہے۔یہ قدیم آثار سے مالامال گاؤں ہے۔یہاں ہندو اور بدھ دور کے کئی آثار موجود ہیں جو کم و بیش ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار برس پرانے ہیں۔

یہاں شاہراہ قراقرم اس طرح سے بل کھاتی گذرتی ہے کہ علی آباد سے اس کا نظارہ آنکھوں میں بس جاتا ہے۔علی آباد سے آدھ پونے گھنٹے کی مسافت پر عطا آباد جھیل واقع ہے جوحادثاتی طور پر۴ جنوری ۰۱۰۲؁ء کو ایک پہاڑ کے یکایک دریائے ہنزہ میں گرنے سے وجود میں آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ اس پہاڑ کے گرنے سے پہلے عطا آباد گاؤں والوں کو حکومت کی طر ف سے مطلع کیا جا چکا تھا کہ پہاڑ کا ایک حصہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے کسی بھی وقت گر سکتا ہے ،اس لئے گاؤں کی زیادہ تر آبادی محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکی تھی۔لیکن کچھ افراد ایسے تھے جو اپنے گھروں میں موجود تھے۔

دن بارہ سوا بارہ بجے جب پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرا تو اس کا ملبہ دو کلومیٹر کے علاقے میں پھیل گیا۔ عطا آباد گاؤں کے تمام گھر،ڈھلوانوں پر بنے کھیت اور باغات سب دریا بُرد ہوگئے۔ ملبے کی زد میں عطا آباد کے علاوہ اس کے نیچے ڈھلان پر موجود آئین آباد گاؤں کی آبادی بھی آئی ۔ مرنے والوں کی کل تعداد انیس تھی۔ جن لوگوں کے گھر بار مال مویشی اورجائیداد تباہ ہوئی اُنہیں فی گھرانہ چھ لاکھ روپے حکومت کی طر ف سے معاوضہ دیا گیا۔دریا کی گذرگاہ بند ہوجانے کی وجہ سے دریائے ہنزہ جھیل کی صورت اختیار کرتا گیا۔اور چار ماہ میں عطا آباد جھیل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط ہو کر وجود میں آگئی۔عطا آباد سے ششکت تک کم و بیش اکیس کلو میٹر کا علاقہ جھیل بن گیا۔

اور اتنے ہی فاصلے پر نو تعمیر شدہ شاہراہ قراقرم بھی جھیل کی نذر ہو گئی۔ چین اور پاکستان کے مابین زمینی تجارت معطل ہو گئی۔سب ڈویژن گوجال کی پوری آبادی جو تقریباً پچیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اپنے ضلعی صدرمقام علی آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ گئی۔ عطا آباد سانحے کے پہلے ہی دن ریڈیو پاکستان گلگت نے اس حادثے کی خبر دنیا تک پہنچائی اور پھر متاثرین کی بحالی اور دریا کا پانی رک جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے عوام کو آگاہ رکھنے میں جو کردار اد اکیا وہ بلاشبہ انتہائی اہم تھا۔ شروع میں تو گلگت ہی سے پروگرام نشر کئے جاتے رہے۔

بعد میںصورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اُس وقت کے ڈائر یکٹر جنرل غلام مرتضیٰ سولنگی نے گلگت کا دورہ کیا اورکریم آباد کے التت قلعہ میں ایف ایم کا ایک ٹرانسمیٹر نصب کرکے خصوصی نشریات شروع کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ دریا کا راستہ بند ہوجانے کے بعد یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ رُکا ہو ا پانی کسی بھی وقت بند توڑ کر سیلاب کی صورت میں نیچے والی آبادیوں پر چڑھ دوڑے گا۔ التت قلعہ کا ہنگامی ریڈیو اسٹیشن چلانے کے لئے فنی عملے کے علاوہ محمد اسماعیل پروڈیوسر کو التت بھیجا گیا۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قواعد کے مطابق محمد اسماعیل اور دیگر عملہ نہ صرف گلگت سے التت تک کے سفر خرچ اور روزانہ الاؤنس کا حق دار تھا بلکہ اُنہیں یہاں قیام کے سارے عرصہ کا روزانہ الاؤنس دیا جانا تھا۔کیونکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے علی آباد کے ایک ہوٹل میں رہنے پر مجبور تھے۔اس حوالے سے صدر دفتر سے ٹیلی فون پر ہدایات دی گئی تھیں۔

چونکہ صورت حال ہنگامی نوعیت کی تھی اس لئے صدردفتر میںکسی نے یہ تردد نہ کیا کہ اس بارے میں تحریری احکامات بھی گلگت بھیجے جائیں۔ ساڑھے تین ماہ بعد جب التت قلعہ میں قائم ریڈیوسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور عملے کو واپس گلگت بلایا گیا تواب بن آئی ریڈیو پاکستان گلگت کے اُس وقت کے اکاؤنٹس آفیسر(جوتما م حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کی بھرپور بد دعائیں سمیٹ کر ریٹائر ہو چکے ہیں)اور اسٹیشن ڈائریکٹر کی ( وہ بھی اپنی تمام تر نالائقیوں اور احساس کمتری سمیت ریٹائر ہوچکے ہیں) جنہوںنے یہ قانونی موشگافی نکال کر کہ ’صدر دفتر سے ہمیں ٹیلی فون پر تو کہا گیا ہے لیکن جب تک تحریری احکامات نہیں آئیں گے آپ کو ٹی اے ڈی اے نہیں دیا جا سکتا‘ محمد اسماعیل اور دیگر عملے کواُن کے جائز حق سے محروم رکھا۔

جنوری ۰۱۰۲؁ء میں جب یہ سانحہ ہوا۔اور شاہراہ قراقرم کا خاصہ بڑا حصہ پانی کی زد میں آگیا۔ تو گوجال کے لوگ شروع شروع میںششکت سے عطا آباد جھیل کی دوسری طرف پیدل آتے جاتے رہے۔بعد میں تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم سے کشتیاں منگوائی گئیں۔اُنہیں چلانے کے لئے کشی ران بھی وہیں سے منگوائے گئے۔جن لوگوں کو معاوضہ ملا اُن کی اکثریت نے کشتیاں خرید لیں۔اور لوگوں کی آمد و رفت سے ایک نیا روزگار شروع ہوا۔چین سے سامان لے کر آنے والے ٹرک ششکت میں آکر مال اُتارتے جسے کشتیوں پر لاد کر پار لے جایا جاتا۔ جھیل پار کرنے کے بعد یہ سامان دوبارہ ٹرکوں میں لوڈ کرکے گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں کو بھیجا جاتا۔اس طرح اس سامان کی باربرداری کا خرچ بڑھ گیا، اور کچھ ہی عرصے میں چین کی زمینی تجارت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔پھر چین سے آنے والا سامان کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کے ذریعے آنے لگا۔ مسافروں اور سامان کو لانے لے جانے والے کشی رانوں کو بیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ،کھانا پینا اور رہائش کی سہولیات دے کر یہاں رکھا گیا۔ چین کے سرحدی شہر کاشغر سے گلگت تک خنجراب کے راستے مال منگوانے پر پندرہ دن لگتے تھے۔

جبکہ کراچی کے راستے آنے والی چینی مصنوعات کو گلگت پہنچنے میں ۵۷ دن صرف ہوتے۔سرد موسم میں عطا آباد جھیل کی رونقیں مانند پڑجاتی تھیں۔ مسافروں کی آمد و رفت بہت محدود ہوجاتی تھی۔عطا آباد جھیل کے سفر کے لئے حکومت کی طرف سے ستر روپے کرایہ مقرر کیاگیا تھا۔ جبکہ کشتیوں والے مسافروں سے فی کس ایک سو روپے وصول کرتے تھے۔ میں جب مارچ ۵۱۰۲؁ء کی ایک سرد دوپہر کو عطا آباد جھیل کے کنارے پہنچا تو آسمان ابرآلود تھا اورتیز ہوا چل رہی تھی۔ میرے ہمراہ محمد اسماعیل پروڈیوسر اور جان عالم ڈرائیور تھے۔ بادل جھیل کے کنارے کے پہاڑوں پر نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ ہوا اور پہاڑوں پر چھائے بادلوں کی آنکھ مچولی ایک خاصے کی چیز تھی جس کو دیکھنے کا موقعہ کم کم ہی ملتا ہے۔

2010؁ء میں ہونے والے اس سانحے کی زد میں آنے والی سڑک کی متبادل شاہراہ کی تعمیر پورے زور وشور سے جاری تھی۔ چینی تعمیراتی کمپنیاں عطا آباد جھیل کے علاقے میں پانچ سرنگیں تعمیر کر رہی تھیں تاکہ جھیل سے باہر محفوظ شاہراہ قراقرم کے دونوں حصوں کو ملایا جا سکے۔ ہم نے دفتر کی گاڑی جھیل کے کنارے کھڑی کی اور اپنی باری آنے پر کشتی میں جا بیٹھے۔ ایک کشتی میں عام طور پر بیس سے پچیس تک مسافر اور اُن کا سامان آتا ہے۔اگر کسی نے گاڑی بھی جھیل کے اُس پار لے جانی ہوتی تھی تو اُسے دو سے تین ہزار روپے کرایہ اد اکرنا پڑتا تھا۔گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں سے گوجال آنے والوں کو جھیل پار کرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یوں تو پاکستان میں درجنوں قدرتی جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی مثالی ہے۔ بے شمار جھیلیں ایسے دشوار گذار مقامات پر ہیں کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ صرف فضا سے ہی اُن جھیلوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

تربیلا، منگلا،ورسک،مالاکنڈ ڈیمز کی جھیلیں بھی دلکش ہیں لیکن حادثاتی طور پر بننے والی اس عطا آباد جھیل کا حسن ایسا ہے کہ انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔تاحد نظر پھیلا ہوا نیلگوں پانی جب ہلکورے لیتا ہے تو انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔سردیوں میں اس جھیل کی سطح جم جاتی ہے۔ جھیل کا ساکت پانی جو حقیقت میں ساکت نہیں ہوتا اپنے اندر ایک نامعلوم کشش رکھتا ہے۔یہ سفر بہت دل کش تھا۔یخ بستہ نیلگوں پانیوں پر آتی جاتی کشتیاں،کشتیوں میں بیٹھے ہوئے حسین لوگ، بعض کشتیوں پر بجائے جانے والے نغموں کی آوازیں، کشتیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی لہریں،ان لہروں پر ڈولتی ہوئی مرغابیاں، جھیل کے کناروں کے پہاڑوں کے ساتھ سر پٹکتا ہو اپانی ،یہ سفر ایک خواب جیسا تھا جس کے ٹوٹنے کا مجھے آج تک دکھ ہے۔ تقریباً پینتالیس منٹ کے اس دلفریب سفر کے بعد ہم ششکت پہنچے۔کشتی سے اُترنے کے بعد ہم نے گلمت تک جانا تھا جس کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر ہے۔ مسافروں کیلئے فلائنگ کوچیں اور سوزوکی پک اپ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ان میں تیس روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔اگر کسی کو عجلت ہو یا گاڑیاں موجود نہ ہوں تو انہیں ٹیکسی میں ایک سو روپے فی سواری کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہم ایک فلائنگ کوچ میں بیٹھے اور پندرہ بیس منٹ میں گلمت پہنچ گئے۔گلمت سیب، خوبانی،چیری اور ناشپاتی کے باغات،آلو گندم اور مکئی کے کھیتوں اور اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے۔

یوں تو پورے گلگت بلتستان اور چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اپر چترال اور اپر ہنزہ میںان اداروں کی موجودی بہت نمایاں ہے۔کیونکہ یہاں کی آبادی کا غالب حصہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ تعلیم، صحت ،زراعت ، باغبانی،گھریلو دستکاریوں،جنگلات اورجنگلی حیات کے شعبوں میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ادارے مصروف عمل ہیں۔اور ان کا نیٹ ورک ہر چھوٹی بڑی آبادی تک پھیلا ہوا ہے۔گلمت میں ہمیں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے مقامی دیہی تنظیم کے دفتر جانا ہوا۔جہاں بہت منظم انداز میں مرد اور عورتیں مل جُل کر اپنی تنظیم کے معاملات چلا رہے ہیں۔پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہمیں بتائے بغیر کھانا منگوا لیا گیا تھا ۔ میں نے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل کی ۔جس میں شرکاء نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح سے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت صحت، تعلیم،کھیتی باڑی، باغبانی،آبپاشی،پینے کے پانی کی فراہمی، پن بجلی کی پیداوار،گھریلو دستکاریوں،ادویات کی تیاری،روزگار کی فراہمی،سیاحت کے فروغ اور ماحول کے تحفظ کے لئے مربوط انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

The post ہنزہ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


سرکریک

$
0
0

پاکستان اور بھارت کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک سرکریک بھی ہے لیکن اسے المیہ ہی کہیں گے کہ اس سے متعلق بہت کم لوگ تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔ ویسے تو یہ معاملہ دونوں ملکوں میں 65ء کے بعد سے چلا آرہا ہے لیکن تاریخی طور پر یہ ایک صدی پرانا مسئلہ ہے جب صوبہ سندھ اور راجھستان کی ریاست بھج کے درمیان برطانوی دور میں تصفیہ کی کوششیں کی گئی تھی۔

سرکریک کہاں واقع ہے؟ اس تنازعے کی نوعیت کیا ہے؟ اس پر بھارت کا موقف کتنا درست ہے؟ اور پاکستان اسے اپنا حصہ کیوں بتاتا ہے۔ یہ سوالات اور ان کے جوابات ہر پاکستانی کے لئے جاننا بہت ضروری ہیں کیونکہ سندھ کی ساحلی پٹی پر 17کریک یا کھاڑیاں ہیں جن میں سے ایک ’’سر‘‘ بھی ہے۔ کریک کسی کھاڑی، خلیج یا دریا کے معاون ندی، نالے اور شاخ کو بھی کہتے ہیں۔

سرکریک بھارت میں رن آف کچھ اور پاکستان میں صوبہ سندھ کے درمیان 60 میل طویل دھارا ہے جو 60ء کے عشرے میں متنازعہ علاقے کے طور پر سامنے آیا اور اس مسئلے کے حل کی کوششیں شروع ہوئیں، دونوں ملک اس دلدلی ساحلی پٹی کے معاملے پر اس لئے بھی حساس ہیں کہ یہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ایک حصّہ پاکستان کا ہے تو دوسرے پر بھارت قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور اس کی بحری تنصیبات ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ساحلی پٹی کے تمام یعنی 17کے 17 کریک اس کے ہیں جب کہ بھارت سرکریک کے نصف حصّے پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ آئے دن بھارت اور پاکستان کے ماہی گیر دونوں ملکوں کے سیکوریٹی اہل کار حراست میں لیتے ہیں تو وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سرکریک کی حدود ہی میں بتائی جاتی ہے یہاں موجود آبی حیات، معدنی ذخائر اور پھر علاقائی دفاعی اہمیت بھی سرکریک کو جغرافیائی طور پر خصوصی پوزیشن دلوا دیتی ہے۔

1964ء کے بعد سے اب تک دو طرفہ مذاکرات کے ڈھائی تین درجن دور ہوچکے ہیں لیکن ہنوز ملکیت کے تنازعے کا تصفیہ نہیں ہوسکا ہے۔ حالانکہ 1914ء میں اس وقت کی برٹش حکومت نے بمبئی صوبہ کے زیرِانتظام سندھ کمشنری اور کَچھ کے مہاراجا کے درمیان معاملہ طے کرا دیا تھا جسے 24 مئی 1914ء کو بمبئی صوبہ کی قرار داد کے ذریعے تسلیم بھی کیا گیا تھا۔ نیز مہاراجہ کَچھ اور کمشنر سندھ کے مابین حدود کے تعین کے ساتھ ساتھ دستاویزات کے تبادلے میں نقشوں کے ذریعے باہم اطمینان پایا گیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور کارگل کے بعد سرنامی کریک بھی حل طلب تنازعہ ہے بھارت جو ایک طرف کشمیر، جونا گڑھ، سیاچین ، ماناودر ، مانگرول ہتھیائے ہوئے ہے، سرکریک پر بھی اپنا حق جتلاتا ہے حالاںکہ برطانوی عہد سے یہ علاقہ سندھ کا حصّہ ہے جو اسے معاہدہ 1914ء کی رو سے تقویض ہوا تھا۔

اسی لیے بے نظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد عبداﷲ شاہ مرحوم نے جو موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے والد تھے، کہا تھا کہ ہم بھارت سے جونا گڑھ اور سرکریک کا زیرقبضہ علاقہ واپس لیں گے۔ چوںکہ یہ کھاڑی ضلع سجاول میں تحصیل جاتی اور ضلع بدین میں تعلقہ گولارچی یا شہید فاضل راہو کے سنگم پر واقع ہے، چناں چہ پاکستانی حکام اسے دریائے سندھ کا معاون ہونے کے ناتے اپنا علاقہ ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔

بھارتی حکومت ممبئی گورنمنٹ کے کمشنر سندھ اور مہاراجا کَچھ کے مابین معاہدہ کے تحت طے شدہ سرحدی حدود کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ سرحد سرکریک کے مشرق میں واقع ہے۔ اس طرح بھی پاکستان وسیع علاقے کا حقدار قرار پاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھارت یہ تنازعہ کسی عالمی فورم پر بھی محض اس لیے لیجانا نہیں چاہتا کہ اسے اپنی کم زور پوزیشن کا احساس ہے۔ حکومت بمبئی اور مہاراجا کَچھ کے مابین تصفیے کی رو سے بھی بھارت کو زیرقبضہ 250 میل کا علاقہ خالی کرنا پڑے گا۔ کَچھ کے سابق حکم راں مہاراجا کنور ہمت سنگھ نے بھی دوبارہ سروے کی مخالفت کی تھی وہ کہتے ہیں کہ معاہدہ 1914ء کی رو سے سرحد کا تعین 1924ء میں ہوگیا تھا جسے ریاست بھج اور سندھ نے 1925ء میں تسلیم کرلیا تھا۔

65ء کی جنگ کے بعد سے بھارت مزید قبضے کا خواہاں ہے۔ 89ء میں بھی دونوں ملکوں میں اس تنازعے پر مذاکرات شروع کیے تھے۔ ٹھٹھہ، بدین اور بھارتی گجرات کے ماہی گیر کہتے ہیں کہ یہ تنازعہ حل ہوجائے تو ہم مشکل سے بچ جائیں گے جو آئے روز ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخلے کے نام پر پکڑے جاتے ہیں اور مہینوں کی بندش کے بعد پکڑے جاتے ہیں۔

اس وقت بھی ٹھٹھہ، بدین اور سجاول اضلاع کے درجنوں ماہی گیر بھارت کی جیلوں میں ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جنہیں انڈین نیوی نے غیرقانونی طور پر حراست میں لے لیا تھا۔ ممبئی اور کَچھ کی حکومتوں نے حد بندی کے لیے جو ستون تعمیر کیے تھے۔ ان میں سے متعدد اب وجود نہیں رکھتے۔ ویسے بھی سمندری حدود میں 90، 95 برس کیا بچے گا؟ جو ملے گا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ بھارت طے شدہ سرحد ماننے سے کیوں انکاری ہے؟ وہ ازسرنو سروے کا مدعی کیوں ہے اور اس کی آڑ میں کیا مفادات سمیٹنا چاہتا ہے۔ 30،35 برس قبل تک پاکستانی نقشے کے ساتھ جونا گڑھ، ماناودر اور مانگرول کو بھی اپنا حصّہ بتایا جاتا تھا لیکن اب یہ قصّہ پارینہ بن چکا ہے۔

ورنہ تو بھارتی قیادت خود جانتی ہے کہ 1925ء میں پاکستانی سندھ سے بھارتی گجرات تک پھیلی سرکریک کا فیصلہ ہوچکا ہے جس میں سندھ کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور اگر کوئی عالمی ثالثی کمیٹی بنتی ہے تو پاکستانی موقف تسلیم کیا جائے گا کیوںکہ جس سرحد کو مہاراجا کَچھ نے تسلیم کیا تھا۔ اس کی رو سے بھارت کو ڈھائی سو مربع میل رقبہ سے دست کش ہونا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری قوانین نے تمام ممالک کو بحری تنازعات 2007ء تک حل کرنے کے لیے کہا تھا تاکہ 2009ء تک۔ تمام دعوے نمٹائے جاسکیں اس تنازعے کا تصفیہ اسی طرح ممکن ہے کہ بھارت اپنے موقف میں لچک لائے اور سرکریک کی آبنائے کے مرکز کو سرحد بنانے پر اصرار نہ کرے اور مشرقی ساحل والی پاکستانی تجویز کے قریب آئے ورنہ جھگڑا بدستور موجود رہے گا۔ بھارتی قیادت ہٹ دھرمی سے باز آکر برطانوی ریکارڈ میں محفوظ بمبئی و کَچھ کے ریکارڈ سے استفادہ کرے اور سابقہ معاہدے کی نقول دریافت کرکے حقائق کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے موقف سے رجوع کرے اس حوالے سے چند برس قبل بی بی سی کی ایک رپورٹ تھی کہ پاکستان اور بھارت کے حکام سرکریک میں برجیاں تعمیر کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ 1964ء سے جاری جھگڑا ختم ہوسکے۔

تقریباً بارہ برس قبل یعنی 2007ء میں بھی راولپنڈی میں مذاکراتی دور کے دوران پاکستانی وفد نے جس کی سربراہی وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکریٹری ایئرایڈمرل تنویر فیض کررہے تھے بھارتی وفد کے سربراہ سرویئر جنرل ایم گوپال راؤ سے سفارشات کا تبادلہ کیا تھا۔ حد بندی سے متعلق بھارتی موقف یہ ہے کہ باؤنڈری یعنی سرحد کھاڑی کے وسط میں ہے جب کہ پاکستان کھاڑی کے جنوب مشرقی کنارے کو سرحدی مقام بتاتا ہے۔ فریقین کو اب زمین پر اس پوائنٹ کا تعین کرنا ہے جہاں سے سمندری حدود کا تعین ہونا ہے اگر سرکریک کا تنازعہ طے ہوجائے تو سیاچین و دیگر جھگڑے بھی ختم کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے بشرطے کہ بھارتی قیادت صلح، امن اور پیار کے ساتھ رہنے کی خواہاں ہو۔

دہلی کے اخبار ملاپ نے 10جنوری 2005ء کے شمارے میں سرکریک پر دوسرے سروے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ اس کے خیال میں کَچھ کے سیاسی راہ نماؤں کا موقف ہے کہ بھارت کی دوبارہ سروے پر رضامندی ایک غلطی ہے اس وقت کے بھاجپا لیڈر پشپ وان گدھوی نے کہا تھا کہ کَچھ کے رجواڑہ اور برطانوی سندھ کے حکام 1914ء میں سروے کرکے جو 67 ستون نصب کیے تھے ان میں سے 56 ابھی موجود ہیں۔ سابق ممبر پارلیمنٹ ہمت سنگھ گڈیجہ جو کَچھ کی راج فیملی کے رکن ہیں کہا کہ سمندری علاقہ سمندری مدوجزر اور برساتی پانی کے دباؤ سے شکل بدلتا رہتا ہے۔ ممبئی ریاست کی قرار داد 1192 منظور شدہ 24  فروری 1914ء کی رو سے سمجھوتہ کے بعد اصلی نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا اور کریک میں 133 ستون نصب کیے گئے تھے جن میں سے 66خشکی اور باقی کریک کے اندر تھے۔ خشکی والے 46 ستون ہنوز موجود ہیں البتہ پانی والے موجود نہیں۔ سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جدید ترین گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی ٹیکنالوجی کے تحت سروے میں گم شدہ ستونوں کی صحیح پوزیشن معلوم ہوجائے گی۔

جنرل حمید گل نے ایک بار اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ اکثر معاہدوں اور مذاکرات میں ہم سے دھوکا ہوتا رہا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن کَچھ ، کارگل اور کشمیر ہمارے پاس بطور مثال موجود ہیں جہاں بھارت نے وعدہ خلافی کی اور اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے بھی اپنا مثبت کردار ادا نہ کرسکے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کَچھ کا رن آٹھ ہزار چار سو مربع کلو میٹر پر محیط ہے جو پاکستانی دعوے کے مطابق اس کا حصّہ تھا جب کہ بھارت 5 اپریل 1965ء میں اس علاقے پر جنگ چھیڑ دی تھی کیونکہ 62ء کی ہند چین جنگ میں شکست کے بعد جواہر لعل نہرو اپنے عوام کو مطمئن کرنا چاہ رہے تھے۔ کہتے ہیں 56ء میں بھارت نے چھاؤبیٹ پر بھی قبضہ کیا تھا۔ 65ء کی سرحدی خلاف ورزی اور لڑائی برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ ولسن کی 29 اپریل کی اپیل کے بعد یکم مئی کو بند ہوگئی۔ بعد میں ایک ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے ہندوستان کو تین ہزار پانچ سو مربع میل اور پاکستان کو صرف تین سو پچاس میل کا رقبہ دیا۔

جغرافیائی اعتبار سے سرکریک پاکستانی سندھ کا حصّہ ہے۔ بھارت دراصل اس دلدلی علاقے میں موجود تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ چاہتا ہے۔ کہتے ہیں یہ علاقہ پہلے جان گنگا کہلاتا تھا پھر ایک انگریز افسرکریک کے نام پر اسے یہ شناخت ملی۔ 1965ء میں اس علاقے پر سے بھارتی قبضے کو پاک فوج نے خالی کرالیا تھا۔ ارباب نیک محمد راوی ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں افرادی قوت اور مالی تعاون کے عوض کمشنر کراچی نے خلیج سندھ کا پانچ سو میل علاقہ عنایت کردیا تھا حالاںکہ یہ حق صرف برطانوی پارلیمنٹ کو تھا۔ بھارتی حکام نقشے میں موجود سبز لکیر کو سرحد ماننے پر تیار نہیں وہ اسے حد بندی لائن نہیں علامتی نشان تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرحد کا تعین سرکریک کے درمیان سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان عالمی اصول سامنے لاتا ہے کہ درمیانی چینل کا اصول یا قانون جہاز رانی یا کشتی رانی کے قابل آبی راستوں پر ہوتا ہے جبکہ یہ علاقہ گزرگاہ نہیں۔

1914ء کے تصفیہ، 1924ء میں سرحدوں کے تعین اور 1925ء میں اس پر مفاہمت سے یہ علاقہ پاکستانی ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں سمندری حدود پر تنازعات تھے اور سامنے آئے لیکن ان کا حل تلاش کیا گیا۔ بھارت کو چلی اور پیرو کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو بحرالکاہل کے ایک حصّے پر دعویٰ رکھتے تھے۔ پیرو کے زیر قبضہ علاقے کو چلی اپنا اٹوٹ انگ بتاتا تھا پھر یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں گیا۔ حکومت پاکستان کشمیر کی طرح جونا گڑھ اور کارگل و سرکریک پر بھی اپنا کیس موثر طریقے سے عالمی فورمز پر پیش کرے اور اس تنازعے پر بھارت کی بدعہدی اور توسیع پسندانہ پالیسی سے عالمی اداروں کو آگاہ کیا جائے۔ پاک، بھارت سرحدی حدود کا تعین ہوجائے تو سرکریک کے معدنی وسائل اور آبی حیات کی صورت میں پاکستان کو ایسا خزانہ میسر آجائے گا جو اس کی مالی مشکلات میں کمی کا سبب بھی بنے گا۔

بھارت سرکریک کو ہتھیانے کی کوشش میں ہے۔ ماضی کی بھارتی حکومتوں کے مقابلے میں مودی حکومت زیادہ جارحانہ عزائم اور توسیع پسندانہ حکمت عملی رکھتی ہے۔ خطے میں اس کی تھانے داری کی خواہش کا توڑ بہت ضروری ہے حالات کے عالمی رخ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو پوری یک سوئی کے ساتھ اتحادی ممالک اور اقوام متحدہ کی مدد سے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ تنازعات طے پا جائیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کو معدنی وسائل سے مالامال جغرافیائی اہمیت کا حامل ایسا خطۂ ارضی ملے گا جو گوادر کی طرح مستقبل میں پاکستان کے لیے مالا مال ثابت ہوگا (انشاء اﷲ)

The post سرکریک appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک کشمیری قیدی کی سرگزشت

$
0
0

چوبیس سالہ کمیل سعید بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی درس گاہ ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم کی دولت پا رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام‘ سری نگر سے تعلق ہے۔ جولائی 2019ء کے آخری ہفتے جامعہ میں زیر تعلیم بیرون شہر سے آئے طلبہ کو چھٹیاں دے دی گئیں تاکہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منا سکیں۔ کمیل نے بھی بڑی بے تابی سے سری نگر کا رخ کیا۔ وہ تقریباً ایک سال بعد گھر جا رہے تھے۔اب بڑے ذوق وشوق سے منصوبے بنانے لگے کہ بھائیوں اور کزنز کے ساتھ پہاڑوں کی سیر کروں گا۔ جھیل ڈل میں مچھلیاں پکڑوں گا۔ آنے والے پُر لطف لمحات کا سوچ کر کمیل کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں۔کمیل 1 اگست کو سری نگر پہنچے۔ صرف دو دن بعد بھارتی حکومت نے وادی کشمیر میں کرفیو لگا کر اسے دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کر دیا۔

کمیل بھی لاکھوں دیگر کشمیریوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے قیدی بن گئے۔ بھارتی حکومت نے کیمونکیشن کا سارا نظام جام کر کے اہل کشمیر کو دنیا ہی نہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ کر رکھ دیا۔اب تک وہ ہزارہا کشمیریوں کو احتجاج کا ’’جرم‘‘ انجام دینے پر گرفتار کر چکی۔ بھارتی فوج اپنے عقوبت خانوں میں گرفتار اہل کشمیر پہ خوفناک تشدد کر رہی ہے تاکہ انھیں تحریک آزادی سے دور کیا جا سکے۔دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا بدترین تشدد کشمیریوں کو خوفزدہ کر کے انھیں اپنے خول میں سمیٹ دے گا یا پھر وہ دلیری سے ظالم وجابر بھارتی حکومت کا مقابلہ کریں گے۔کسی حکومت کی جانب سے اپنے لاکھوں شہریوں پر ایسے خوفناک ریاستی ظلم و جبر کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

وطن پہنچ کر بہرحال کمیل سعید کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔انھوں نے پھر اپنی چھٹیاں کیسے دل گرفتہ انداز میں گزاریں‘ اس کا احوال اپنی آپ بیتی میں بیان کیا۔ قارئین کے لیے کمیل کی دلگداز کہانی کے حصے پیش ہیں۔ کشمیری نوجوان نے بڑی دلیری اور جرأت سے اپنے جذبات عیاں کیے ہیں۔

ہفتہ،3 اگست

آج میں گاڑی میں پٹرول ڈلوانے پمپ گیا۔ وہاں پہنچا تو ہکا بکا رہ گیا۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طویل قطار لگی تھی۔ میں نے پہلے کشمیر میں اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔ لوگ ڈبوں میں پٹرول بھروا رہے تھے۔ ایک آدمی سے پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے؟ لوگ پٹرول کیوں جمع کر رہے ہیں؟

وہ بولا ’’ارے بھائی‘ پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہونے والی ہے‘‘۔

قریب کھڑے ایک بوڑھے نے کہا ’’نہیں نہیں، یہ دفعہ 370کا معاملہ ہے۔ سالے بھارتی اسے ختم کرنے لگے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وادی دوسرا شام بن جائے گی۔‘‘

اب لوگوں کی باتوں سے مجھے معلومات ملنے لگیں۔ حکومت نے وادی میں مزید فوجی بجھوا دیئے ہیں جہاں پہلے ہی کثیر تعداد میں بھارتی فوج تعینات تھی۔ ہندو یاتریوں کو کشمیر سے نکل جانے کا حکم مل چکا۔ بنگال‘ اتر پردیش اور پنجاب سے آئے مزدوروں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ وادی سے چلے جائیں۔ان احکامات نے وادی میں خوف و بے یقینی کی لہر دوڑا دی ۔ ہم کشمیری بھارتی حکمرانوں کی چال بازیوں سے خوب واقف ہیں۔ ہمیں احساس ہو گیا کہ نئی دہلی میں حکومت کی ہنڈیا میں ہمارے لیے کوئی نیا زہر یلا بھوجن تیار ہو رہا ہے۔ مگر اہل کشمیر اس کی اصلیت سے آگاہ نہیں تھے۔

پیٹرول پمپ سے واپس آتے ہوئے بھی مجھے شہریوں میں گھبراہٹ اور بے چینی کے اثرات دکھائی دیئے۔ اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں لگی تھیں۔ جنرل اسٹوروں پر ہجوم جمع تھا۔ لوگ بڑی مقدار میں روزمرہ اشیا خرید رہے تھے تاکہ انہیں ذخیرہ کیا جا سکے۔ کئی بدحواس لوگ مجھے یوں ادھر ادھر جاتے دکھائی دیئے جیسے کوئی پاگل کتا ان کے پیچھے ہو۔گھر پہنچا تو میرا سرچکرا رہا تھا۔ میں آرام کرنے بستر پر لیٹ گیا۔ میرے ذہن میں یہ خدشات چکر کھانے لگے کہ بھارتی حکمران کشمیری مسلمانوں کی نسلی صفائی کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ شام کی خبروں میں جمو ں و کشمیر کے گورنر کا بیان نشر ہوا کہ ریاست محفوظ و مامون ہے اور یہ کہ دفعہ حکومت 370ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔مودی حکومت نے پچھلے سال ریاستی حکومت ختم کر کے گورنر راج لگا دیاتھا۔ اب گورنر کے بیان نے وادی میں بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھا دی۔ ہم کشمیری سوچنے لگے کہ اگر حکومت دفعہ 370ختم نہیں کر رہی تو کیا وہ ہم پر بم گرانا چاہتی ہے؟

اتوار‘ 5اگست

رات گیارہ بجے مجھے چینائے میں مقیم اپنے ایک کزن سے موبائل پر یہ پیغام ملا ’’کیا یہ صحیح ہے کہ کل سے وادی میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند ہو جائے گی؟‘‘ میںنے جواب دیا’’بھائی‘ یہاں کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔ ہم سب اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا ’’جموں و کشمیر پولیس سے اسلحہ لے لیا گیا ہے۔ اب صرف بھارت کی سنٹرل ریزرو پولیس فورس ہتھیار رکھتی ہے۔‘‘

کزن کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ پھر خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات رحیم و کرم ہے‘ وہ اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا۔ میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ جو ہوا‘ دیکھا جائے گا۔ اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔

پیر‘ 6اگست

اگلی صبح میں بیدار ہوا‘ تو خود کو ایک نئی اور مختلف دنیا میں پایا۔ سورج بہت نکل چکا تھا ورنہ پہلے سڑک پر ٹریفک کے شور سے میری آنکھ صبح سویرے کھل جاتی تھی۔ سکول جاتے بچوں کی نٹ کھٹ آوازیں بھی مجھے جگا دیتی تھیں۔ لیکن اس صبح ماحول پہ پُراسرار سی خاموشی طاری تھی۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے موبائل پر نگاہ ڈالی‘ ’’نو نیٹ ورک‘‘ کے الفاظ میرا منہ چڑا رہے تھے۔

گویا بھارتی حکومت نے پچھلے دو برس میں ’’118 ویں‘‘ بار انٹرنیٹ بند کردیا تھا۔ میں بے تابی سے اٹھا، کھڑکی سے پردہ سرکایا اور باہر جھانکا۔ سڑک بالکل خالی تھی۔ دور دور تک کسی آدم زاد کا بھی نشان نہیں تھا، وہ بھائیں بھائیں کررہی تھی۔ دکانیں بھی بند تھیں۔

میں نے سہم کر کمرے میں رکھا ٹی وی کھولا، اس کی نشریات بھی بند پائیں۔ اب مرا دل ہولنے لگا۔ ضرور وادی پر کوئی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ میں کمرے سے نکل کر امی ابا کے پاس پہنچا۔وہ ابھی ابھی جاگے تھے۔ انہیں بھی حالات کی کچھ خبر نہ تھی۔ اتنے میں پڑوس سے چچا آگئے۔ ان کے پاس پرانا ٹرانسٹر ریڈیو تھا۔ اس سے پتا چلا کہ بھارتی پارلیمنٹ دفعہ 370 ختم کرنے والی ہے اور یہ کہ وادی میں نہایت سخت کرفیو لگ گیا ہے۔ یہ تمام جان کر ہم سب دم بخود ہوگئے، ہمیں لگا جیسے ہمارے ہاتھ پاؤں میں جان ہی نہیں رہی۔

بدھ، 7 اگست

آج شام کو ایک مقامی چینل کی نشریات آنے لگیں۔ ٹی وی پر بھارتی سیاست داں دعویٰ کرنے لگے کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے جموں و کشمیر میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ مگر کسی کشمیری نے ان فراڈیوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا۔وادی کو خوف و دہشت کی فضا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کئی کشمیری کہنے لگے کہ انتہا پسند ہندو غنڈے اب کشمیر آکر ان کا قتل عام کریں گے۔ وہ 2002ء میں نریندر مودی کی زیر قیادت گجرات میں یہ قدم اٹھا چکے تھے۔ اب تو مودی وزیراعظم تھا، انتہا پسند ہندو غنڈے ہمیں مسل کر رکھ دیتے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہ تھا۔ مودی نے مسولینی بن کر بھارت کو فاشسٹ مملکت بنا ڈالا۔

بھارتی حکمرانوں نے سبھی کشمیریوں کو گھروں میں قید کردیا۔ وہ صرف صبح یا شام و ہی روزمرہ اشیا مثلاً دودھ، سبزی وغیرہ خرید سکتے تھے۔ پھر سب گھروں میں قید ہوجاتے اور پیچ و تاب کھاتے رہتے۔ بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی۔ عید کی تیاریاں کرنا بھی محال ہوگیا۔

پیر، 12 اگست

آج عید ہے مگر کشمیر آگ میں جل رہا ہے۔ صبح سویرے ہی نوجوانوں اور سکیورٹی فورسز میں پتھر بازی کا مقابلہ ہونے لگا۔ سکیورٹی والوں نے آنسو گیس کے کئی شیل پھینکے۔ دھوئیں نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سارا دن ہیلی کاپٹر اور ڈرون فضا میں اڑتے رہے۔ لگتا تھا کہ ہم میدان جنگ میں رہ رہے ہیں۔ بہت کم لوگ قربانی کرسکے۔ پابندیوں نے عید کی ساری خوشیاں خاک میں ملا دیں۔ یا اللہ! تیرے بے بس بندے کس سے مدد مانگیں؟

منگل، 13 اگست

میرے والد کا کہنا ہے کہ مودی ملکی معیشت ٹھیک نہیں کرسکا اور وہ زوال پذیر تھی۔ مودی نے دفعہ 370 ختم کردی تاکہ بھارتی قوم کی توجہ معاشی پریشانیوں سے ہٹ کر اس جانب مبذول ہوجائے۔

سہ پہر کو مسجد میں دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک دوست نے کہا ’’حکومت اب دن بھر ہماری بجلی بھی بند رکھے گی۔ بجلی اب تک صرف اسی لیے آرہی تھی کہ ہم عید مناسکیں۔ بھارتی حکمران ظالم بن چکے۔ اب ہمیں بندوق اٹھا کر ان کے ظلم کا مقابلہ کرنا ہے۔ میں تم سب نوجوانوں کو بندوق چلانا سکھاؤں گا۔ اب گھر میں بزدلوں کی طرح بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

جمعرات، 15 اگست

آج بھارت کا یوم آزادی ہے… مگر بھارتی حکمرانوں نے ہم لاکھوں کشمیریوں کو قیدی بنا رکھا ہے۔ آج ہمارے گھروں کے باہر کہیں زیادہ سپاہی اور فوجی تعینات ہیں۔ دوپہر کو پتا چلا کہ لینڈ لائن فون کھول دیئے گئے ہیں مگر شام تک ہمارے علاقے میں کسی گھر میں لینڈ لائن فون کام نہیں کررہا تھا۔ پوری وادی کشمیر میں انٹرنیٹ بند تھا۔ سبھی سمارٹ فون بیکار ہوگئے تھے۔ کسی کشمیری کو علم نہ تھا کہ دیگر علاقوں میں آباد اس کے پیارے اور دوست احباب کس حال میں ہیں۔ بھارتی حکمرانوں نے ظلم و جبر کی انتہا کردی۔دفعہ 370 ختم ہوئے دس دن بیت چکے۔ ہم سب سخت ذہنی عذاب میں مبتلا ہیں۔ بڑے بوڑھوں کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ بہت سے نوجوان سمجھتے ہیں کہ جہاد کا وقت آپہنچا۔ میرا دوست فیاض اکثر جنگی ترانے پڑھتا ہے۔ مگر طویل قید نے ہمارے اعصاب پر نہایت برے اثرات ڈالے ہیں۔ علاقے کے کئی لوگوں کو نروس بریک ڈاؤن ہوچکا۔

اتوار، 18 اگست

ہمارے محلے میں چاچا بشیر رہتے ہیں۔ پچھلی رات سکیورٹی فورسز ان کے اٹھارہ سالہ بیٹے کو پکڑ کر لے گئی۔ اس پر الزام تھا کہ وہ ایک احتجاجی جلسے میں شریک تھا۔ پولیس افسر نے چاچا کو بتایا ’’اب کم از کم ایک سال تک بیٹے کو بھول جاؤ۔‘‘چاچا اور چاچی کی آہ و زاری سے ہمارے دل دہل گئے مگر ظالموں کے پتھر دلوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔

آج پتا چلا کہ قریبی محلے میں ایک بوڑھا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے پھینکے تھے۔ گولوں کا دھواں اس کے کمرے میں بھرگیا۔ اسی نے ضعیف آدمی کی جان لے لی۔

شام کو جب حکومت نے کرفیو ہٹایا تو ہمارے علاقے کے مرد عورتیں اور بچے… سب لوگ سڑکوں پر نکل کر بھارتی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ ہم کشمیری کبھی وادی میں آر ایس ایس کا گھناؤنا منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

جمعہ، 23 اگست

دہلی میں میری جامعہ کھل چکی مگر میں ابھی مادر علمی نہیں جاسکتا۔ کشمیر میں سب کچھ ختم ہوچکا۔ بس سلگتی راکھ رہ گئی ہے جس سے ہماری امنگوں اور آہوں کا دھواں اٹھ رہا ہے۔

The post ایک کشمیری قیدی کی سرگزشت appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’رئیس امروہوی نےشیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو کے قتل کی پیش گوئی کی!

اسلم ملک

رئیس امروہوی… سید محمد تقی اور جون ایلیا کے بھائی تھے۔ یعنی ہمہ خانہ آفتاب والی مثل سید شفیق حسن کے گھرانے پر پوری طرح صادق آتی تھی۔ رئیس امروہوی 12 ستمبر 1914 کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ اردو، عربی، فارسی کی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی، کسی اسکول یا کالج نہیں گئے۔ انگریزی کی استطاعت ذاتی مطالعے سے پیدا کی۔ کم عمری میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی اخبارات وجرائد کی ادارت کی۔

1946ء میں ’جنگ‘ سے وابستہ ہوئے۔ 5 جون 1947ء کو پہلا قطعہ شائع ہوا۔ پھر یہ تاحیات شائع ہوتا رہا۔ قطعہ ان کے لیے ’سہل ممتنع‘ بن گیا۔ ان کی زندگی میں اور ان کے بعد یاروں نے اخباری قطعے میں بہت زور مارا، مگر کوئی ان کے قریب بھی نہ پہنچ سکا۔ جائے استاد ابھی تک خالی ہی ہے۔

رئیس امروہوی کے قطعات ایک طرح سے پاکستان کی منظوم تاریخ ہیں۔ قطعات کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تین اور مجموعے بھی شائع ہوئے۔ تاریخ گوئی میں بھی رئیس صاحب کو کمال حاصل تھا۔ ’جنگ‘ میں رئیس امروہوی کا ایک ہفتہ وار کالم سیاسیات، سماجیات، مابعد الطبیعیات، نجوم، فلسفہ اور نفسیات پر شائع ہوتا تھا۔ جس میں وہ قارئین کے خطوط کے جوابات بھی دیتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ جوابات دیے۔ رئیس امروہوی ذاتی خطوط کے جواب بھی ضرور اور فوری دیتے تھے۔ دو تین بار میں نے جوابی لفافے کے ساتھ خط لکھے تو تین چار دن میں مجھے جواب موصول ہو گیا۔

1968ء یا 1969ء میں ایک ’کالم‘ میں انہوں نے ’حاضرات‘ کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے ذوالفقار بھٹو اور شیخ مجیب کے بارے میں بھی پیش گوئی کی، مجھے اشتیاق ہوا۔ خط لکھ کر اس کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوں نے مختصر جواب دیا ’بھٹو اور مجیب کا قتل!‘ غور فرمائیے، یہ پیش گوئی کتنے سال پہلے کی گئی۔

رئیس امروہوی نے اردو شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ان کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے، جن میں الف، پسِ غبار، لالہ صحرا، حکایت، آثار، بحضرتِ انسان، ملبوسِ بہار، انا من الحسین ، مثنوی لالہ صحرا شامل ہیں۔ مضامین کے مجموعے عجائباتِ نفس، عالمِ ارواح، ہپناٹزم، لے سانس بھی آہستہ، عالمِ برزخ، حاضراتِ ارواح اور نفسیات و مابعد نفسیات بھی شائع ہوئے۔

22 ستمبر 1988ء کی شام رئیس امروہوی کراچی میں اپنے گھر میں محوِ مطالعہ تھے کہ کسی نامعلوم شخص نے انہیں گولی مار کے شہید کر دیا۔۔۔ پراِسرار علوم کے اس ماہر کا قتل آج تک اِسرار کے پردے میں ہے، ان کا ایہ شعر یاد آتا ہے؎

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

۔۔۔

ذوالفقار بھٹو کی طرح عمران خان بھی ہمارے کالج سے گئے، تو وزیراعظم بن گئے
مرسلہ:سارہ شاداب، لانڈھی،کراچی

1992ء یا 1993ء کا سال تھا۔ خوب شور تھا عمران خان آرہا ہے۔ اس وقت عمران خان کے لیے واحد کا صیغہ ہی استعمال ہوتا تھا۔ شاید اس کے ساتھ پسندیدگی کا اظہار تھا یا اس کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ بے تکلفی کا ایک انداز۔ اب قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں آج کے وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں یہ تمہید باندھ رہی ہوں۔

بات عمران خان صاحب کی مخالفت کی بھی نہیں۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ شوکت خانم میموریل اسپتال کی چندہ مہم کے لیے مہم پر تھے۔ رواں ہفتے ہی آنے کی اطلاع تھی۔ حاضرین بھر گئے تھی۔ طالبات نے چھٹی کرنا چھوڑ دیا تھا کہ کہیں ہماری چھٹی والے دن ہی عمران خان نہ آجائے۔ میڈم کمال نے بھی اساتذہ سے ہنگامی بنیادوں پر نظم و ضبط رکھنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ میڈم کو عمران خان کے ساتھ طالبات کے والہانہ لگاؤ کا علم تھا، لہٰذا انہیں فکر تھی کہ یہ شوق کہیں بدنظمی میں نہ بدل جائے۔

اس بات کا اندازہ تو خود عمران خان کو بھی تھا، لہٰذا ایک دن چھٹی سے کچھ دیر بعد جب آدھی طالبات جا چکی تھیں، کچھ کالج سے نکل کر بس اسٹاپ کی طرف جا رہی تھیں۔ کالج کی بسیں طالبات کو بھر رہی تھیں، کچھ اپنے گھر سے لینے کے لیے آنے والوں کے انتظار میں تھیں کہ تین چار گاڑیاں داخل ہوئیں۔ نہ جانے کیا ایسی بات تھی ان کے آنے میں ہلچل مچ گئی اور ’’عمران خان، عمران خان‘‘ کی آوازیں شاید بس اسٹاپ کی طرف جاتی ہوئی لڑکیوں تک بھی پہنچ گئیں۔ سب پانی کے ریلے کی طرح واپس آنے لگیں۔ کالج بسوں اور وینوں میں بیٹھی ہوئی طالبات تردد میں تھیں کہ ایسا نہ ہو ہم اتر کر جائیں اور ڈرائیور ہمارا انتظار نہ کرے۔

عموماً ہوتا یہی ہے کہ کوئی طالبہ دیر کرے تو ڈرائیورز حضرات اپنی راہ لے لیتے ہیں مگر یہاں تو ڈرائیورز خود بھی اتر کر کالج کے اندر گیٹ کے پاس کھڑے ہوگئے تھے، جہاں سے ہمارا اسمبلی فلور صاف نظر آرہا تھا۔ وہاں روسٹرم پر عمران خان اور پیچھے ان کی ٹیم تھی۔ ٹیم میں بہت سے اداکار، گلوکار اور نام وَر فن کار بھی تھے۔

اساتذہ کرام کی ڈسپلن کمیٹی بھی حرکت میں آچکی تھی۔ نہایت منظم انداز میں طالبات صبح اسمبلی کے انداز میں لائن اپ ہوگئی تھیں۔ ہاں یہ الگ بات کہ جوش و خروش اور شوق، نظم کو بدنظمی کی راہ پر لگانے کے لئے تُلا کھڑا تھا۔ اساتذہ کرام، عمران خان اور طالبات کے درمیان، اسٹیج کے ساتھ ساتھ مضبوط باڑ کی طرح حائل ہو گئی تھیں۔ عمران خان کی تقریر پر لڑکیاں تالیاں بجاتے نہیں تھک رہی تھیں۔ میں تفصیل نہ بھی لکھوں تو قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ 1992ء، 1993ء والا عمران خان تھا۔ عوام میں خاص طور پر طالبات میں بے انتہا مقبول۔ چندہ مہم تو پورے ہفتے سے ہو رہی تھی کہ دیاگیا ہدف پورا ہوگیا، تو عمران خان آئیں گے۔

آج کے دن تو ریکارڈ فنڈ جمع ہوا۔ عمران خان نے شکریہ ادا کیا۔ ویسے عمران خان کی یادداشت اچھی ہے۔ بڑے لوگوں کے سے انداز نہیں ہیں، جو عموماً یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم مصروف بہت ہوتے ہیں، اس لیے یاد نہیں ہے یا پھر خود سے کبھی یاد رہنے کا اقرار نہیں کرتے۔ میں نے جب 1997ء میں یہاں کارساز پہ واقع ایک رہائش گاہ پر ان کا انٹرویو کیا اور بتایا کہ میں ’سرسید کالج‘ میں پڑھاتی ہوں تو فوراً بولے میں وہاں گیا تھا اسپتال کے چندے کے سلسلے میں۔ میں نے فوراً سوال داغ دیا۔ اب کب آئیں گے بولے دیکھیں کب آتے ہیں۔ یہاں ایک بات بہت اہم۔ غور طلب، سوچنے والی اور نوٹ کرنے والی ہے، وہ یہ کہ ہمارے کالج میں ذوالفقار علی بھٹو بھی آئے تھے، عمران خان بھی آئے، یہ دونوں جب یہاں آئے تو وزیراعظم نہ تھے، یہاں سے ہوکر گئے تو پھر وزیراعظم بھی بن گئے۔

(پروفیسرفرحت عظیم کے ایک مضمون سے منتخب کیا گیا)

۔۔۔

تمہاری آنکھوں میں تو بس میرے نام کی دھول تھی!
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

نمرتا پرکاش کہنے لگی، میرے ایک آخری سوال کا جواب دو گے؟

میں نے خفگی سے پوچھا ’’اور کتنے سوال ہیں۔۔۔؟‘‘

میں اس کے ان بے معنی سوالات کی بوچھاڑ پر جھنجھلا گیا تھا۔

مجھے یہ سوال اس وقت سوائے اذیت کے اور کچھ نہیں دے رہے تھے۔

نمرتا کہنے لگی ’’اس کا جواب اتنی ہی محبت اور خلوص کے ساتھ دینا۔۔۔‘‘

میں نے کہا ’’پوچھو؟‘‘

نمرتا کہنے لگی ’’میں تمہیں کیسی لگی تھی؟‘‘

اس نے یہ سوال اتنے لگاؤ اور محبت پاش انداز میں کیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔

میں نے کہا: ’’جب میں نے پہلی دفعہ تمہیں دیکھا، تو مجھے لگا تھا، کبھی تو یہ آنکھیں میرے دل پر حکمرانی کریں گی، لیکن تمہاری آنکھوں میں تو میرے نام کی بس دھول تھی، عکس تو کہیں پر بھی نظر نہیں آیا، اگر ہلکا سا بھی نظر آیا ہوتا تو میں تم کو تمہیں سے چھین لیتا۔۔۔‘‘

نمرتا کہنے لگی ’’مجھ سے اتنا عشق کرتے تھے؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں! اتنی محبت تھی تم سے۔۔۔‘‘

نمرتا پوچھنے لگی ’’محبت یا عشق۔۔۔؟‘‘

میں نے کہا ’’عشق کے جذبے میں ہمیشہ بغاوت کی بو نظر آئی ہے، جب کہ محبت کو میں نے ہمیشہ اپنے اندر اطاعت اور فرماں برداری کے فطری جذبے اور منفرد احساس میں محسوس کیا، اس لیے تم سے عشق نہیں، بلکہ محبت کرتا تھا۔‘‘

نمرتا کہنے لگی ’’کچھ اور کہو نا میرے بارے میں۔۔۔مجھے اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ تمہیں جانے سے نہیں روکتی۔۔۔ بس جاتے جاتے ایک آدھ جملہ میرے لیے۔۔۔ فقط میرے لیے۔۔۔‘‘

میں نے مسکراتی آنکھوں سے کہا ’’مجھے تم بہت اچھی لگی تھی، تھوڑی شرارتی بھی اور مغرور بھی۔۔۔‘‘

نمرتا کہنے لگی ’’مگر یہ سب کچھ تو مجھے میری سہیلیاں اور کزن بھی کہتی ہیں، لیکن میں تمہارے منہ سے محبت آمیز اور حقیقت بھرا جملہ سننا چاہتی ہوں، جو مجھے پوری زندگی سرشار کرتا رہے۔‘‘

میں نے کہا ’’اچھا! مجھے خلیل جبران کا ناول ’ٹوٹے ہوئے پر‘ بہت پسند ہے۔‘‘

نمرتا نے کہا ’’ہاں تو؟‘‘

نمرتا کی ’’تو‘‘ میں تحکمانہ پن ہنوز برقرار تھا۔

میں نے اپنی نگاہیں اس کے چہرے پر جما کر کہا  ’’تو اس میں تمہارے بارے میں کچھ یوں لکھا تھا:

’’تم اپنی ماں کی سچی تصویر ہو، شفاف پانی میں جھلملاتے ہوئے عکس ماہتاب کی طرح۔۔۔ تمہاری ذہانت، تمہاری شخصیت اور تمہارا حُسن، تمہارا انداز تکلّم، تمہاری مسکراہٹ اور سنجیدگی، سبھی تمہاری ماں کی وراثت ہے، اس پوری کائنات میں تم ہی میرا سب کچھ ہو، میری تسکین اور آسودگی تمہاری ہستی سے مشروط ہے، اس لیے تم اپنی ماں کا زندہ عکس ہو۔‘‘

یہ جملے سن کر اس کی پلکوں کے کونے بھیگ چکے تھے اور میری آنکھیں ہی نہیں دل بھی رو رہا تھا، اداسی میرے اندر بری طرح سرایت کر چکی تھی… پتا نہیں نزار قبانی نے کون سے جذبے کے ساتھ لکھا تھا ’’مجھے روتی ہوئی عورتیں بہت خوب صورت لگتی ہیں۔‘‘ اور ہاشم ندیم کا ’’پری زاد‘‘ میں یہ لکھنا کہ ’’حُسن اداس ہو تو کتنا مکمل ہو جاتا ہے!‘‘ اور نمرتا اس وقت سر تاپا خوب صورت بھی لگ رہی تھی اور مکمل بھی!‘‘

میں نے قریب آ کر اس کے جھکے ہوئے سر پر اپنا کپکپاتا ہوا دایاں ہاتھ اس کے سر پر رکھا، تو اس نے سر اٹھا کر میرے کان میں سرگوشی کی، جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’میری نامکمل آرزو کو حقیقت میں تم ہی تبدیل کر سکتے ہو، میری مایوسی مجھے مار ڈالے گی ایسا مت کرو۔‘‘ میں اپنے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس سے مخاطب ہوا۔

۔۔۔

تتلیاں، بھنورے، جانور اور پرندے مجھ میں سماتے چلے گئے

مریم مجید ڈار،آزاد کشمیر

وہ میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھی اور میں اس کے وجود سے اٹھتی مہکاروں کو الگ الگ پہچاننے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ چائے کی پیالی بہت وقت پہلے اپنی حدت کھو کر بد رنگ ہو چکی تھی اور سڑک کنارے بنے اس بوسیدہ ہوٹل کے دھویں سے سیاہ پڑتی وہ لکڑی کی کھڑکی میرے لیے کوہ قاف کا دروازہ تھی، جس کی چوکھٹ پر وہ بیٹھی تھی۔

وہ ایک ڈھیلے سے لبادے میں ملبوس تھی، جس میں سبز رنگ کا ہر عکس موجود تھا۔ دنیا کی ساری سرسبزی اس ماہ رو کے لباس میں تھی۔ کائل، پڑتل اور چیڑھ کی نیلگوں سبزی، نئی اگنے والی گھاس کا زمردیں حصہ، برچ کی رنگت، زیتون کے کاہی مائل چھینٹے، دھان کے کھیتوں کی جھلک اور دیودار کے پراسرار جنگلوں کا نظارہ۔۔۔!

میں گردوپیش سے مکمل بیگانہ ہو کر ہریالی کی دیوی کو دیکھ رہی تھی، جس کے بال اور آنکھیں بھی سبز تھیں اور ڈینڈلائن، بٹر کپ، رتن جوت، نیلوفر اور بنفشہ کے پھول اس کی زلفوں سے وقفے وقفے سے گر رہے تھے۔ میرے آس پاس گرنے والے پھولوں کے ڈھیر میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔

’’اے سبز بخت! تم مجھے اس پتھریلے چھپر میں جو قسمت سے آن ملی ہو تو کچھ سوال کرنے کا اذن بھی دو۔‘‘ میں نے شاید بے آواز ہی کہا تھا، مگر اس نے سن لیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر شان بے نیازی سے مسکرائی اور بے حد ننھے پرندے اس کے بالوں سے نکلے اور کھلی کھڑکی کی جانب اڑ گئے۔

وہ ایک دل رُبائی سے اٹھی، جیسے ہرا لچکیلا بانس لہرا جائے اور دو قدم چل کر میرے سامنے آن بیٹھی۔

اس کی انوکھی، پراسرار مہک سے میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور میں نے سرگوشی میں کہا ’’تمہاری اَبدی آنکھوں میں دھرتی کے ہر پیڑ کا ایک حصہ ہے، مجھے ہزاروں برس میں پل کر لمحاتی موت مرنے والوں کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے، تو اے ہریالی! مجھے بتاو کہ لافانی ہونے کے کون کون سے دکھ سہہ چکی ہو؟‘‘

وہ میرا سوال سن کر یوں ہنسی، جیسے ہنسی نہ ہو بلکہ کراہی ہو۔ میری بد رنگ چائے میں ایک زرد ڈینڈلائن پھول ’ٹپ‘ سے آن گرا۔

’’جب ستاروں کے باسی دھرتی پہ آئے، تو میری آمد بھی ان کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ عظیم ماں کے ہاتھوں سے میری لافانی زندگی کا آغاز ہوا تھا! ’’وہ بنا لب ہلائے بول رہی تھی اور میری سماعتوں میں پیڑوں کی سرگوشیاں تھیں۔ ’’کرہ ارض پر شفاف ہوا تھی اور میری ہر سانس کے ساتھ میری رنگت، خوش بو اور خوشی بڑھتی جاتی تھی اور میری پوشاک مزید گھیردار ہوتی تھی۔ میں پھیلتی، بڑھتی، اگتی چلی جاتی تھی اور رنگ رنگ کی مخلوق انوکھی دنیاوں کی تتلیاں، بھنورے، جانور اور پرندے مجھ میں سماتے چلے گئے‘‘ اس نے توقف کیا اور سر کو خفیف سی جنبش دی، تو تین آتشی گلابی اور نیلے پرندے جو انگلی سے بھی مختصر جسامت کے تھے، اپنے پر پھڑپھڑاتے نکلے اور ہمالیہ کی فضا میں معدوم ہو گئے۔

’’دھرتی پر میرے وجود کی برکتیں وسیع ہوتی گئیں اور گھنے جنگل، دیو قامت پیڑ، سبزہ زار اور چراگاہیں میری ہستی کے عجائب گھر کا حصہ بن گئے۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔‘‘

ٹین کی چھت پر بارش نے کوئی نیا ساز چھیڑ دیا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی اور اپنی انگلی پر بیٹھی ایک ننھی جامنی تتلی کے پنکھ سہلانے لگی۔ میں نے دیکھا اس کے پاؤں کے قریب دو ننھے سیاہ اور سفید خرگوش کھیل رہے تھے۔ وقت کچھ آگے سرکا اور بارش کم ہوتے ہوتے بالکل تھم گئی اور نچڑے ہوئے ہلکے اور سفید روئی کے پھویوں جیسے بادل کھلی کھڑکی سے اندر در آئے۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


ہوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں
دھواں ہوئے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
یقین کر کہ تجھے گھومتے ملیں گے جہاں
تو جب کرے گا ذرا سا قیام گردش میں
مری طلب مری رفتار کے منافی ہے
میں خاص شخص ہوں رہتا ہوں عام گردش میں
پنپ رہا ہے کہیں دل میں شوقِ دید و شنید
دھڑک رہے ہیں زمانے مدام گردش میں
بدلتا رہتا ہے چلنے سے میکدے کا نظام
کہ چل چلاؤ سے رہتا ہے جام گردش میں
رکا ہوا ہوں میں اک گردشی جزیرے پر
گزر رہے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
رکے ہوئے ہیں سبھی دوست کیوں فدا مرے
ملے گا ان کو یقیناً دوام گردش میں
(نوید فدا ستی۔ کہوٹہ)


غزل


پتھر کے لیے اور نہ شیشے کے لیے ہیں
ہم خاک کے ذرات ہیں کوزے کے لیے ہیں
منزل کے لیے ہوگا مِرا اور تعارف
چہرے کی یہ تحریریں تو رَستے کے لیے ہیں
ماں ہوں تبھی بیٹی کے لیے تنگ نظر ہوں
ہیں اور نظریات جو بیٹے کے لیے ہیں
چوپال میں غیرت کے قوانین جدا ہیں
بے باک خیالات تو حُجرے کے لیے ہیں
میں اپنے بھروسے پہ سڑک پار کروں گی
تم جیسے مددگار تو اندھے کے لیے ہیں
فوزی تِری آنکھیں جو سرائے کی طرح ہیں
یہ لوگ سمجھ لیتے ہیں رہنے کے لیے ہیں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


غزل


اک حرفِ اعتبار ہوں کچھ کیجیے مرا
میں مدعا گزار ہوں کچھ کیجیے مرا
اڑتی ہیں شہرِفکر میں لفظوں کی دھجیاں
دامانِ تار تار ہوں کچھ کیجیے مرا
آکر تمام کیجیے اس دل کے وسوسے
کس درجہ بے قرار ہوں کچھ کیجیے مرا
مجھ میں دھڑک رہی ہے کسی خواب کی نمو
اک فصلِ سازگار ہوں کچھ کیجیے مرا
جس کی ہر ایک اینٹ میں رہتی ہے خستگی
وہ سوختہ مزار ہوں کچھ کیجیے مرا
تھوڑا سا وقت دان مجھے کیجیے حضور
میں محوِانتظار ہوں کچھ کیجیے مرا
للہ.. میری خاک کو اب تو سمیٹیے
اُڑتا ہوا غبار ہوں کچھ کیجیے مرا
نس نس میں رینگتی ہیں طلب کی قیامتیں
بڑھتا ہوا فشار ہوں کچھ کیجیے مرا
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


غزل


وہ اِک خوبرو سے جو پالا پڑا تھا
بہت خوب صورت، حسیں تھا‘ بَلا تھا
وہ جب مسکراتا تھا تب پھول کھلتے
بکھرتے تھے موتی وہ جب بولتا تھا
وہ سورج تھا اس کی تب و تاب دیکھی
نگاہوں میں شاید بڑا حوصلہ تھا
ملاقات پہلی تھی‘ اُلفت پرانی
وہ تھا اجنبی پھر بھی دل آشنا تھا
تصور میں تھا داد وہ ساتھ اپنے
حقیقت میں دیکھا تو وہ جا چکا تھا
(داد بلوچ۔فورٹ منرو)


غزل


دل وہ درویش ہے جب وجد میں ہُو بولے گا
آسماں ٹوٹ پڑے گا تو نمو بولے گا
پوچھنے حال مرا جب وہ کبھی آئیں گے
لب تو خاموش رہیں گے پہ رفو بولے گا
تیرے مجذوب کریں گے وہ دھمالِ الفت
ٹوٹ جائیں گے جو گھنگھرو تو لہو بولے گا
میں ہوں کس جرم کی پاداش میں اب شہربدر
آ ذرا دیکھ کہ خود میرا عدو بولے گا
ایک منصور کی آہٹ ہے جہاں میں پھر سے
اپنے ہی خون سے جو کر کے وضو بولے گا
اک صدا کُن کی جو گونجے گی جہاں میں حامیؔ
جام چھلکیں گے صراحی سے سُبو بولے گا
(محمد حمزہ حامیؔ، کراچی)


غزل


اب جو مجھ کو گلے لگائے گا
پھر وہ جا کے سکون پائے گا
غیر کے روبرو رہے گا تُو
یا مِرے آس پاس آئے گا؟
ہر کسی سے لگا رہا ہے دل
یار کس کس کا دل دکھائے گا
جس نے جھیلا نہیں عذابِ ہجر
وہ مجھے عشق کیا سکھائے گا
وقت آتا ہے ہر کسی کا دوست
یاد رکھ میرا دور آئے گا
(اسامہ زاہروی۔ڈسکہ)


غزل


جو کہہ رہے تھے بات وہ مانی نہیں گئی
عادت یہی تمہاری پرانی نہیں گئی
کہنے لگے ہیں اب تو عزادار مجھ کو لوگ
آنکھوں سے پر یہ اشک فشانی نہیں گئی
حتیٰ کہ دار پر بھی چڑھایا گیا اسے
اُس کی مگر وہ صدق بیانی نہیں گئی
لوری کے ساتھ نانی سناتی تھی جو ہمیں
ذہنوں سے آج تک وہ کہانی نہیں گئی
الزام دھر رہے ہو یونہی بے وجہ سحر
اُس تک یہ بات میری زبانی نہیں گئی
(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)


غزل


وہ روح سے جگر کی تکرار بیچتا ہے
مجبور دھڑکنوں کی مقدار بیچتا ہے
سر کی سلامتی سے مشروط ہے جلالی
سو، شاہ تمکنت سے دستار بیچتا ہے
جب سے زباں درازی کا مول گر گیا ہے
ہر شخص خامشی سے گفتار بیچتا ہے
مجبوریاں سجائے بیٹھے ہیں ناتواں یہ
ہر شے خرید جو بھی لاچار بیچتا ہے
جس شہر میں ادب کو ترویج مل رہی ہو
اُس شہر کا سخن ور اشعار بیچتا ہے
ساگرؔ کسی کے ڈر سے خود کو چھپا رہا ہے
سرداب کے عوض جو مینار بیچتا ہے
(ساگرحضورپوری۔ سرگودھا)


غزل


سیاہ زلف کا گھیرا کبھی نہیں ہوگا
یہ وسوسہ ہے وہ میرا کبھی نہیں ہوگا
نئے دنوں کا یہ سورج اگر اُبھر نہ سکا
تَو زندگی میں سویرا کبھی نہیں ہوگا
محبتوں کے دلوں میں دیے جلانے سے
یہ نفرتوں کا بسیرا کبھی نہیں ہوگا
فقیر دیکھ کے ہاتھوں کو مجھ سے کہنے لگا
تُو جس کو چاہے گا تیرا کبھی نہیں ہوگا
کبھی تو وقت بھی بازی ضرور پلٹے گا
ہمیشہ ظلم کا ڈیرا کبھی نہیں ہوگا
تم آ گئے ہو تو دیکھو ہماری بستی میں
یہ ظلمتوں کا اندھیرا کبھی نہیں ہوگا
(سیف الرحمن،کوٹ مومن، سرگودھا)


غزل


حیف روزِقیامت بھول جاتے ہیں
لوگ کر کے محبت بھول جاتے ہیں
دُشمنوں کے ذرا سا مسکرانے پر
عمر بھر کی عداوت بھول جاتے ہیں
جب نہ آئیں شکایت ہی شکایت ہے
جب وہ آئیں شکایت بھول جاتے ہیں
توبہ توبہ مری توبہ مری توبہ
اہلِ نعمت بھی نعمت بھول جاتے ہیں
فن مرا بک نہیں سکتا کسی صورت
سَر پھرے یہ حقیقت بھول جاتے ہیں
یاد آئے خدا مشکل گھڑی میں جب
سَر پہ آئی مصیبت بھول جاتے ہیں
تُھڑ دلوں سے کہاں نسبت ہے ساگرؔ کو
جام پی کر شرافت بھول جاتے ہیں
(صدام ساگر۔گوجرانوالہ)


غزل


میری آنکھوں میں خواب رہنے دے
حُسن زیرِعتاب رہنے دے
پہلے میرا سوال تو سُن لے
اُلٹے سیدھے جواب رہنے دے
جامِ وحدت سے مجھ کو بے خود کر
ورنہ ساقی شراب رہنے دے
اپنی رحمت سے بخش دے مجھ کو
یہ حساب و کتاب رہنے دے
شعر کہہ اُن کے حُسن پر اخترؔ
عالمانہ خطاب رہنے دے
(محمد اختر سعید۔جھنگ)


غزل


اپنی انا کی جھوٹی بلندی کو پھونک دے
ایسا نہ ہو کہ وہ تری پگڑی کو پھونک دے
آتش ہے جو درونِ دلِ ہجر سوختہ
اس کی تپش نہ خرمنِ ہستی کو پھونک دے
نورِوفا کی ایک تجلی مدام مانگ
شعلۂِ حق سے عشقِ مجازی کو پھونک دے
نفرت کا اک الاؤ جو گھر گھر ہے جل رہا
ممکن ہے ایک روز وہ بستی کو پھونک دے
اس طور سے چلائے کوئی تیغِ آگہی
نشّہ فرو کرے مرا، مستی کو پھونک دے
ہو جاؤں گا مرید غمِ دہر میں ترا
یادِصنم بھلا، مرے ماضی کو پھونک دے
اے جلوۂِ حبیب کی پاکیزہ روشنی
قلبِ قمر کی گھور سیاہی کو پھونک دے
(قمرآسی، کراچی)


غزل


چُھپا کے بوتل کفن میں لے چل‘ وہیں غٹا غت پیا کریں گے
ہمیں نہ جینے دیا جہاں میں لحد میں شاید جیا کریں گے
سبق سکھایا ہے اس طرح سے تمہاری دنیا نے آج ہم کو
ستم کے بدلے ستم ملے گا‘ وفا کرو تو وفا کریں گے
میں خود میں لشکر ہوں ایک کامل‘ صبر کا تم امتحان مت لو
گریبان چاک جتنا کرو گے اتنا سِیا کریں گے
یہ راہِ اُلفت ہے جس میں ہم کو ہمیشہ پاؤ گے یوں بکھر کے
تماچا اِک گال پہ لگے گا تو دوسرا بھی دیا کریں گے
یہی ہے دستور مرتضیٰ کا‘ ہر اِک قدم پر تیرا ہی بن کر
جلے نہ چہرہ حسین تیرا‘ بدن سے سایہ کیا کریں گے
(مرتضیٰ آخوندی۔ اسکردو، بلتستان)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

چند انوکھے ملک

$
0
0

ہم سبھی نے فرانس، اسپین اور اٹلی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا اور بہت سے وہاں جانے اور وہاں رہنے کے خواب بھی دیکھتے ہوں گے، مگر یہاں ہم کچھ ایسے ملکوں کی بات کررہے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے، لیکن اگر لوگ وہاں نہیں گئے تو پھر وہ بہت کچھ دیکھنے سے محروم ہیں، کیوں کہ ان انوکھے ملکوں میں جانے کے بعد وہاں کا انوکھا اور بے مثال کلچر ان کی آنکھیں کھول دے گا اور وہاں کے جغرافیائی تجربات بھی سب کو حیران کرسکتے ہیں۔ آئیے ان ملکوں کی باتیں کرتے ہیں:

٭Vanuatu:
Vanuatuجنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ یہ کم وبیش 3,500 سال پہلے سیٹ ہوا تھا اور بعد میں معروف تاریخی مہم جو جیمس کک نے 1774میں اس کا دورہ کیا تھا۔ اگر آپ اس جزیرے کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس کے حسین و جمیل ساحل اور اس کی آبشاریں کھوج سکتے ہیں، اس کے علاوہ آپ یہاں پانی میں غرقاب بحری جہازوں کو اسکوبا ڈائیونگ کے ذریعے دیکھ اور کھوج سکتے ہیں۔آپ یہاں کے مائونٹ یاسر پر کوہ پیمائی بھی کرسکتے ہیں اور یہاں کے ریسٹورنٹس کے خوش ذائقہ کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس جزیرے کے سفر کا بہترین وقت مئی اور اکتوبر ہیں۔ یہاں ان دونوں مہینوں کے دوران متعدد فیسٹیول بھی منعقد ہوتے ہیں اور کئی اسپورٹنگ مقابلے بھی۔

٭ Kiribati:
بحرالکاہل میں ہی واقع Kiribatiکی آبادی ایک لاکھ افراد سے بھی زیادہ ہے۔Kiribati اپنے متعدد جنگ عظیم دوم کے آثار کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو یہاں کی سیر و تفریح کرکے دنیا بھر میں فشنگ یا مچھلی کے شکار کے علاوہ متعدد کلچرل تجربات بھی حاصل ہوں گے۔ یہاں کی مچھلی کے شکار کے تجربات بالکل انوکھے ہیں۔ اس جگہ کا موسم قدرتی طور پر سال بھر گرم رہتا ہے، چناں چہ یہاں جاتے وقت اپنے ساتھ سن اسکرین بھی لیتے جائیں اور ساحل کی سیر کے وقت ایک تو پینے کا ڈھیروں پانی بھی ساتھ رکھیں اور یہاں خود کو گرمی سے بچائیں، یہ بہت ضروری ہے۔

٭Mayotte:
یہ ملک اتنا زیادہ غیرمعروف اور گم نام ہے کہ اس جزیرے کا نام آج تک ورڈ پروسیسر ڈکشنری میں بھی درج نہیں کیا گیا ہے۔1843ء میں فرانس نے اس جزیرے کا کنٹرول حاصل کیا اور آج تک فرانس ہی اس پر حکومت کرتا ہے۔مایوٹی ایک مہنگا ملک ہے جہاں جانا اور قیام کرنا آسان نہیں ہے، لیکن اگر آپ دولت مند انسان ہیں اور پیسہ آپ کے ہاتھ کا میل ہے تو پھر یہاں کا سفر آپ کو ضرور کرنا چاہیے، کیوںکہ یہاں کا سفر بہت زبردست ثابت ہوگا، یہاں غوطہ خوری، تیراکی، ڈائیونگ اور سفید ریت پر آرام آپ کے سفر کو پر لطف بنادے گا۔اس ملک کے سفر کا بہترین وقت جون اور نومبر کے درمیان ہے۔

1

٭ Nauru:
یہ جزیرہ Kiribatiکا بحری پڑوسی ہے اور کسی زمانے میں ایک خوش گوار جزیرے کے طور پر جانا جاتا تھا، اس کی وجہ اس کے شہریوں کی دولت کی بڑی مقدار تھی، مگر اب یہ جزیرہ Nauruکہلاتا ہے۔ اس ننھے منے سے جزیرے میں ڈھیروں قابل دید مقامات کے ساتھ ساتھ ڈھیروں قدرتی حسین مناظر بھی ہیں۔ اس جزیرے پر پرانے فاسفیٹ کے ذخائر ہیں جنہوں نے اس ملک کو دولت مند بنادیا ہے۔اس کے علاوہ یہاں ایک Command Ridge بھی ہے یعنی ایک زبردست قسم کا پہاڑی لہریے دار پشتہ جہاں سے دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے دشمن پر نظررکھی تھی اور یہاں کے حسین و جمیل ساحل بھی قابل دید ہیں۔ اس جگہ کی سیاحت کا وقت فروری کے بعد اور نومبر سے پہلے ہے، کیوں کہ ان مہینوں میں موسلادھار بارشوں سے بچا جاسکتا ہے۔

٭برکینافاسو:
برکینافاسو مغربی افریقا میں واقع ایک لینڈلاکڈ ملک ہے جو چھ مختلف ملکوں کے درمیان واقع ہے اور اپنے خوش مزاج عوام اور اہم شخصیات کے حوالے سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ ویسے توبرکینافاسو میں سیاحوں والا روایتی ماحول نہیں ہے، مگر اگر آپ نے وہاں جانے کا اور اس ملک کو اس کے لوگوں کو دیکھنے کا فیصلہ ہی کرلیا ہے تو آپ کی طبیعت خوش ہوجائے گی، کیوں کہ یہاں کے کلچر یعنی ثقافتیں بہت عمدہ ہیں اور سیاح ان سے بہت لطف اندوز ہوں گے۔اس ملک کی سیاحت اور سیر وسفر کا بہترین وقت وسطی اکتوبر اور دسمبر کا ہے تاکہ یہاں کے تکلیف دہ نم موسم سے بچاجاسکے۔

٭آئیوری کوسٹ:
آئیوری کوسٹ ایک اور افریقی ملک ہے جس کی سرحدیں برکینافاسو سے ملتی ہیں۔ اس کا ساحل کسی زمانے میں یعنی1,000 اور 1,500 عیسوی کے درمیان ایک بہت اہم تجارتی راستہ تھا اور اسی زمانے میں بہت سی سلطنتیں اور بہت سی ثقافتیں ظہور میں آئیں۔ بعد میں آئیوری کوسٹ ایک تجارتی بندرگاہ بن گیا جسے یورپی اقوام بھی استعمال کرتی تھیں اور پھر 1893میں فرانس نے اس پر قبضہ کرلیا۔ مگر یہاں کے مقامی افراد نے 1961ء میں آزادی حاصل کرلی۔
آئیوری کوسٹ اصل میں گھنے بارانی جنگلات کا گھر ہے اور یہاں کے سفید ساحل بھی زبردست ہیں جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں آنے والے سیاح ان ساحلوں سے خوف لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس ملک کی سیاحت کا بہترین وقت نومبر اور مارچ کے اوائل کا زمانہ ہے۔

٭ Tuvalu:
یہ ایک پولی نیشیئن جزیرہ ہے جس کا پرانا نام Ellice Islands تھا۔ یہ آسٹریلیا اور ہوائی کے درمیان نصف راستےپر واقع ہے اور کسی زمانے میں یعنی 1892 اور1916 کے درمیان یہ ایک برٹش پروٹیکٹوریٹ بھی تھا۔ اس کی زمین پانی کی سطح سے بہت معمولی سی بلند ہے، جس کی وجہ سے یہاں موجودہ گلوبل وارمنگ کا بحران نہایت سنگین ہوگیا ہے اور یہ اس جزیرے کے لیے ایک بہت خوف ناک خطرہ بن چکا ہے۔ یہاں کا بلند ترین مقام پانی کی سطح سے صرف 16 فیٹ بلند ہے۔Tuvalu کی سیر و تفریح کا بہترین وقت مئی اور اکتوبر کے درمیان کا ہے تاکہ نم اور مرطوب موسم سے بچاجاسکے۔

٭Andorra:
یہ بھی ہر طرف سے خشکی سے گھر ہوا ملک ہے جو Pyrenees کے پہاڑوں کے درمیان فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے مناظر نہایت حسین و جمیل ہیں اور ان پہاڑوں پر ہائیکنگ یا کوہ پیمائی کے مواقع بھی موجود ہیں، اندورا دوسرے یورپی ملکوں کی طرح کسی زمانے میں ایک feudalistic society میں بادشاہوں اور دوسرے حکمراں خاندانوں کے زیرنگیں رہا۔ یہاں بہت سی قدیم ترین سائٹس بھی ہیں جیسے Casa de la Val جو ایک جاگیر ہے ، یہاں ایک دفاعی ٹاور بھی ہے جو 1580میں تعمیر کیا گیا تھا۔Andorra اپنے شان دار اور ذائقے دار کھانوں کے حوالے سے بھی مشہور ہے، یہاں کے ریسٹورنٹ بہترین ورائٹیز پیش کرتے ہیں۔ اس ملک کی سیاحت کا بہترین وقت اپریل اور اکتوبر کے درمیان کا ہے۔

٭ Liechtenstein:
Liechtenstein بھی ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جو وسطی یورپ میں آسٹریا اور سوئزرلینڈ کے درمیان واقع ہے۔ ان لوگوں کی بنیادی زبان جرمن ہے۔ کسی زمانے میں یہ جرمن کنفیڈریشن کا حصہ تھا اور 1866 میں اسے چھوڑ کر آزاد ہوگیا۔1968 میں اپنی فوج کی تباہی کے بعد یہ اس وقت سے غیرجانب دار بن گیا۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مائیکرو اسٹیٹ صرف 62 مربع میل یا 160مربع کلو میٹرز پر مشتمل ہے۔ اگر آپ اسنو بورڈنگ اور اسکیئنگ کے لیے موسم سرما میں جانا چاہتے ہیں تو Liechtenstein کا یہ ملک اپنی ڈھلوانوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، اس کے علاوہ موسم گرما میں آپ ہائیکنگ کے علاوہ مائونٹین بائیکنگ سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

٭Palau:
یہ ملک مغربی بحرالکاہل میں واقع ہے اور اس کے اطراف متعدد چھوٹے چھوٹے اور خوب صورت جزائر بکھرے پڑے ہیں۔
دنیا کے کئی ملک Palau پر دعویٰ کرچکے ہیں جن میں اسپین، جرمنی اور جاپان شامل ہیں۔Palau کو دنیا بھر میں ڈائیونگ یعنی غوطہ خوری اور اسنارکلنگ کے بہترین مقامات میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں متعدد کورل ریفس بھی ہیں اور متعدد جنگوں کے نتیجے میں ڈوبے ہوئے بحری غرقاب جہاز بھی ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد چھپے ہوئے غار، سرنگیں اور درجنوں عمودی ڈھلوانیں بھی ہیں گویا پانی کی دنیا کی مختلف اقسام یہاں موجود ہیں۔Palau کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لیے یہاں جانے کا بہترین وقت فروری اور مارچ کے مہینے ہیں۔

3

٭South Ossetia:
یہ جنوبی Caucasus میں واقع روسی بولنے والی مائیکرو اسٹیٹ ہے جو اتنی زیادہ نامعلوم ہے کہ گوگل کے پاس بھی اس کے حوالے سے قابل قدر معلومات نہیں ہے۔ یہاں کا سفر سب سے زیادہ مشکل اور سخت ہے، کیوں کہ یہ جارجیا کے خود مختارOblast میں شامل ہے۔ اس ملک کی سیاسی اور سازشوں سے بھری ہوئی کہانیاں بہت دل چسپ ہیں۔

٭ Futuna:
Futuna کا یہ ننھا منا سا جزیرہ بہ مشکل 50مربع میل یعنی 80 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس چھوٹے سے جزیرے کی آبادی 5,000 نفوس پر مشتمل ہے۔یہ ملک پولی نیشیا کے درمیان واقع ہے اور یہ یکساں طور نامعلوم ایک اور ملک Wallis کے ساتھ پیئر بناتا ہے۔Futuna کا کلچر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہیں بدل سکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جدید دنیا نے اسے کرپشن میں ڈالنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ اگر آپ گزرے ہوئے وقت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہترین وقت اپریل اور اکتوبر کی درمیانی مدت ہے، لیکن اگر آپ دیگر مہینوں میں وہاں جانا چاہتے ہیں تو وہاں کی بارشیں دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

٭ Nagorno Karabakh:
نوگورنو کارا باخ ایک اور خشکی سے گھرا ہوا خطہ ہے جو جنوبی Caucasus میں واقع ہے۔ نوگورنو کارا باخ ، آزر بائیجان، آرمینیا اور ایران کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ یہ مکمل طور پر پہاڑی خطہ ہے جو گھنے اور حسین جنگلات سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں متعدد میوزیم بھی ہیں جہاں جاکر آپ اس ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرسکتے ہیں جس میں آرمینیا کے ساتھ ایک جنگ بھی شامل ہے۔ نوگورنو کارا باخ تاریخ کے مسافر کے لیے ایک بالکل پرفیکٹ جگہ ہے۔

٭ وفاقی ریاست ہائے مائیکرو نیشیا:
وفاقی ریاست ہائے مائیکرو نیشیا اصل میں چار ریاستوں پر مشتمل ہے جو یہ ہیں :
Yap, Chuuk, Pohnpei اور Kosrae اور یہ سب مغربی بحرالکاہل میں واقع ہیں۔ ہر ریاست کا اپنا کلچر اور اپنی شناخت ہے جس کو کھوجا جاسکتا ہے، اس کے اطراف میں واقع پانی کی معلومات بھی جمع کی جاسکتی ہے۔ یہ وفاقی ریاستیں مونگے کی حیات سے مالامال ہیں، ہر ریاست کی الگ آب و ہوا ہے، مثال کے طور پر Yap بہت خشک آب و ہوا کا مالک ہے، جب کہ Pohnpei میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ اس ملک نے دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ اتحاد قائم کیے، اس لیے اس کی تاریخ اکثر بدلتی رہی ہے، لیکن اس کا اعتماد یو ایس اے کے ساتھ قائم ہے۔

2

٭جزائر فاک لینڈز:
ایک برطانوی علاقہ اور سیاحوں کے لیے دل چسپی کی جگہ، جزائر فاک لینڈز اصل میں جنوبی بحرالکاہل کی Patagonian Shelf پر ایک مجموعہ الجزائر ہیں۔ فاک لینڈ پینگوئنز، سیلز، الباٹروس اور دوسری انٹارکٹک مخلوق کے گھر ہیں۔ان جزائر پر آپ کو مصروف رہنے کے لیے متعدد میوزیم بھی ہیں اور جنگی یادگاریں بھی۔ جانے سے پہلے گرم ملبوسات پیک کرلیں ، کیوں کہ یہاں کا موسم سال بھر 75 درجے فارن ہائیٹ یا 24 درجے سینٹی گریڈ سے اوپر جاتا ہے۔

٭ Ascension :
یہ ایک الگ تھلگ اور آتش فشانی جزیرہ ہے جو جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ Ascension درحقیقت ایک نادر قسم کا جزیرہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں تک پہنچنا خاصا مشکل ہے، کیوں کہ ایک تو یہاں زیادہ مسافر اور سیاح نہیں جاتے، اس لیے یہاں سہولیات نہیں ہیں۔ اس جزیرے میں مستقل طور پر رہنے والوں کی تعداد 880 ہے جو اس کے دارالحکومت جارج ٹائون میں رہتے ہیں۔ یہ جزیرہ مشہور و معروف سینٹ ہیلینا کے قریب واقع ہے۔

The post چند انوکھے ملک appeared first on ایکسپریس اردو.

بچو بادشاہ؛ پیر وزیر اور ان کے سرفروش منصور

$
0
0

دوسری جنگ عظیم کے اس جاپانی شاہی فوجی کی داستان حربی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے جو 1945 میں اپنے کمانڈر میجر یوشی می ٹانی گوچی کے حکم پر فلپائن کے جنگلات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس ہدایت کے ساتھ پہنچا کہ ’’تم یہاں رکو اور آنے والے امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھو، لیکن تمہیں صرف نظر رکھنی ہے ان پر نہ تو حملہ کرنا ہے نہ ہی کسی اور کارروائی میں حصہ لینا ہے، بس امریکیوں کا جائزہ لیتے رہو۔‘‘

ہیرو اونوڈا نامی نڈر اور بہادر نوجوان کو فلپائن کے اس جنگل میں پتا ہی نہ چلا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور جاپان جو جرمنی کا اتحادی تھا یہ لڑائی ہار چکا ہے وہ تو اپنے باقی ماندہ تین ساتھیوں کے ساتھ کمانڈر کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا۔

اس کا ایک ساتھی 1950 میں دوسرا 1972 میں اور تیسرابعد میں طبعی طور پر چل بسا، تب بھی یہ گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے تھا۔ ایک جاپانی سیاح کو منیلا میں سن گن ملی تو وہ اس جزیرے پر پہنچا جان جوکھم میں ڈال کر کسی طرح ملاقات کی اور بتایا کہ دنیا تبدیل ہوچکی ہے لیکن اونوڈا مصر تھا کہ وہ ہتھیار کمانڈر کے حکم پر ہی ڈالے گا۔ نوریو سوزوکی نامی سیاح نے جاپان جاکر حکومت کو صورت حال بتائی کمانڈر یوشی کو جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کتاب مرکز چلا رہے تھے فلپائن لے جایا گیا اور ایک تقریب میں اونوڈا نے ہتھیار ڈالے یہ 1974 کے مارچ کی 10 تاریخ تھی۔

ہیرو اونوڈا کی داستان میں اس کا یہ قول سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ’’انسان کو کبھی بھی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے، میں بھی کبھی ایسا نہیں کرتا، مجھے شکست سے نفرت ہے۔‘‘ اونوڈا نے تو لاعلمی میں جدوجہد جاری رکھی لیکن سندھ میں بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے جانتے ہوئے کہ برطانیہ کا پرچم نصف دنیا پر لہراتا ہے اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا اس کے باوجود سانگھڑ، خیرپور اور ملحقہ ریگستانی و میدانی علاقوں میں متوازی حکومت قائم کی جو سانگھڑ سرکار کہلاتی تھی۔ بچو خاصخیلی اس کے بادشاہ اور پیر بخش وسان وزیراعظم مقرر ہوئے۔ وزیر، مشیر، قاضی اور کوتوال کے عہدے بھی اپنے جانثار ساتھیوں میں تقسیم کیے گئے۔

یہ حکومت کم و بیش آٹھ برس قائم رہی اس کا مرکز مکھی کے جنگلات تھے جہاں اسی نام سے منسوب جھیل بھی ہے اور یہ علاقہ موجودہ ضلع سانگھڑ کی حدود میں آتا ہے۔ کہتے ہیں 512 کوس سے زائد رقبے پر پھیلی جھیل کے قرب و جوار میں سو کے لگ بھگ دوسری جھیلیں بھی تھیں اور پورے علاقے میں پانی، درخت اور جھاڑیاں یا پودے بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض علاقوں میں تو دن کے وقت کچھ سجھائی نہ دیتا تھا گوریلا جنگ کے لیے اور حکام کی نظروں سے اوجھل رہنے کے لیے یہ جگہ مثالی تھی۔ سندھی میں شہد کو ماکھی کہتے ہیں چوںکہ اس جنگل میں درختوں پر شہد کے چھتے جا بجا ملتے تھے اس لیے یہ جنگل ابتداً ماکھی اور پھر عرف عام میں مکھی بیلہ کہلانے لگا۔

بچو بادشاہ اور پیرو وزیر کے سرفروش ساتھی منصور کہلاتے تھے اور بارہ کی نسبت سے باروٹھیا بھی پکارا جاتا تھا ان کی سرفروشی اور عوام میں مقبولیت سے ’’سارا سندھ منصور‘‘ کی کہاوت بھی زبان زد عام ہوئی۔ یہ 1890 کا عشرہ تھا جب انگریزوں کا ظلم و ستم بڑھا وہ 1839 میں کراچی، 1843 میں حیدرآباد اور 1857 میں پورا متحدہ ہندوستان فتح کرچکے تھے۔

پلاسی، بکسر اور میسور کے معرکوں میں کام یابی نے ان کی من مانیاں بڑھا دی تھیں۔ سندھ میں انگریزوں کو تالپوروں کی باقیات سے زیادہ خطرہ یہاں کے ان بااثر افراد سے تھا جو عوام میں گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان میں ایک بڑا نام راشدی پیر بھی تھے۔ یہ پیر سید علی گوہر شاہ ثانی ’’محافے دھنی‘‘ کا عہد تھا اور حُر جماعت جس کی اکثریت جنگجو تھی چیلنج کرنے کا وصف بھی رکھتی تھی۔ خیرپور کے تالپور حکم راں انگریزوں کے حامی تھے اور بعض متمول افراد بھی انگریزوں کی خوش نودی کے لیے سندھ میں انگریزوں کے مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے تھے۔ ایسے ستم بڑھے تو بغاوت کی چنگاریاں شعلہ جوالہ بن گئیں اور سانگھڑ سرکار قائم ہوئی۔

بچو بادشاہ کا گاؤں مٹھڑاؤ بیان کیا جاتا ہے جو ہیڈ جمڑاؤ روڈ پر گجری بنگلہ کے قریب آج بھی واقع ہے۔ ان کے والد وریام فقیر خاصخیلی رلی والے کہلاتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان سنجھورو کے قریب آباد ہوا۔ بچو بادشاہ سے انگریزوں کی نفرت اس قدر تھی کہ 1895 میں مٹھڑاؤ کو جلا ڈالا تھا۔ بچو بادشاہ کا سن ولادت 1863 بیان کیا جاتا ہے جب کہ پیرو وزیر کی جس کا نام پیر بخش وسان تھا تحصیل سنجھورو کے گاؤں بھڑی کے نواحی گوٹھ میں ولادت ہوئی۔ ساتھیوں میں تگیو چانگ فقیر، گلوگاگنانی منگریو، بھلوگاہو، مصری گاہو، عثمان ہنگورو، عیسیٰ ڈاہری، خمیسو وسان، سومار گاہو، فتلو ہنگورو اور رانو وسان کے نام ملتے ہیں۔

پروفیسر مبین وسان کی تحقیق کے مطابق جو روضہ دھنی چیئر لطیف یونیورسٹی خیرپور نے کتابی صورت میں شایع کی ہے خمیسو وسان کوتوال تھا جب کہ دیگر امیر، مشیر، قاضی، کوتوال حکمرانی، آبیانے کی وصولی، سماجی انصاف کی فراہمی پر مامور تھے اور درجنوں دوسرے ان کے دست و بازو مضبوط کرنے کے لیے مکھی کے ٹکن والے دڑے، ہیرن جھیل اور جھوڑو کے جھاؤ درخت کے رابطہ مراکز پر جا ملے تھے یہ افرادی قوت ضلع میں ایسی طاقت بن کر ابھری کہ متوازی حکومت سے برٹش سرکار لرزہ براندام تھی سانگھڑ سرکار کے وابستگان میں سیکڑوں نام ملتے ہیں

The post بچو بادشاہ؛ پیر وزیر اور ان کے سرفروش منصور appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

My Thought In Solitude
The Divine Rose
مصنف:بختیار حیدر
قیمت: 1500روپے،صفحات: 506
ناشر: ماورا، شاہراہ قائد اعظم، لاہور


مشاہدہ اور تجربہ وہ بھٹی ہے جس میں پک کر انسان کندن بن جاتا ہے، یوں انسان پر عقل و دانش کے نئے در وا ہوتے ہیں، اس کی سوچ اور فکر دوسروں سے ممتاز ہو جاتی ہے، اس کی کہی ہوئی باتیں دوسروں کے لئے غور و فکر کا ذریعہ بن جاتی ہیں، وہ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

ویسے بھی دانش کسی کی میراث تو ہے نہیں اللہ جسے چاہے عطا کرے، اور اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ جب وہ کسی کو کچھ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت آڑے نہیں آسکتی اور جب وہ لینا چاہے تو تب بھی کوئی روک نہیں بن سکتا۔ بختیار حیدر کی تحریریں بھی دوسروں کو دعوت فکر دیتی ہیں اور یہی ان کی چاہت ہے کہ ان کے روشن کئے ہوئے چراغ سے اندھیرے دور ہوں، انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار نظموں میں تو کیا ہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے خوبصورت فقرے بھی رقم کئے ہیں جو انسان کے قلب و نظر کو چھو لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نئی نسل کے اندر کے انسان کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔

وہ انھیں اس مادیت پرستی کے دور میں احساسات کے خزانے سے روشناس کرانا چاہتے ہیں،کیونکہ احساس ہی انسان کو دوسروں کی خوشی اور غم سے آگاہی دیتا ہے ورنہ وہ مشین بن جائے، اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب رہے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے اس سے قبل والیوم ون میں بھی ایسے ہی اپنی تحریروں کا خوبصورت گلدستہ قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، نوجوانوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
۔۔۔
قربتوں میں دوریاں
مصنف: محمد اقبال فرہاد، عمارہ رزاق
قیمت:600 روپے،صفحات: 176
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور


کہتے ہیں بات وہی ہے جو دوسروں تک پہنچے اور اثر کرے، ورنہ وہ بات ہی نہیں، یا یوں کہیں گے کہ اس بات میں وہ بات نہیں۔ بات پہنچ تو جاتی ہے مگر اثر کے لئے ضروری ہے کہ بات مخاطب کی سمجھ میں آئے اور وزن رکھتی ہو، اب ضروری ٹھہرا کہ بات سمجھائی جائے وہ تب ہی ممکن ہے جب بات آسان، سادہ اور رواں ہو۔

زیر تبصرہ کتاب کی شاعری میں یہ عنصر موجود ہے، شاعر نے ناصرف اپنی فکر پیش کی ہے بلکہ یوں سمجھائی ہے کہ پڑھنے والے کو آسانی سے سمجھ میں آ جائے، اضافی خوبی یہ ہے کہ شاعری سے نابلد افراد کی مزید آسانی کے لئے اشارات بھی دیئے گئے ہیں تاکہ انھیں سمجھ آ سکے کہ شاعر کا مدعا کیا ہے۔ آخر میں نظمیں شامل کی گئیں ہیں ان کا بھی اپنا ہی الگ انداز ہے، جیسے
دل میں اب کوئی احساس نہیں
محبت کسی کو راس نہیں
سب ایک سے ہوئے کوئی خاص نہیں
محمد اقبال فرہاد کتب بینی کا شوق بڑھانے کیلئے ’’ ریڈنگ موومنٹ‘‘ چلا رہے ہیں جس میں انھوں نے اپیل کی ہے کہ کتاب کو قاری کی تلاش ہے اس تلاش میں ان کا ساتھ دیں اور اس نمبر 03344215517 پر رابطہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔

خاکے واکے
مصنف: سجاد النبی
قیمت:400 روپے،صفحات:128
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور


خاکہ نگاری خاصا مشکل فن ہے کیونکہ اس میں آپ کسی فرد کی نظر آنے والی شخصیت کے ساتھ ساتھ نہ نظر آنے والی خصوصیات کو بھی بڑے شگفتہ انداز میں بیان کرتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ وہ فرد جس کا خاکہ لکھا گیا ہے وہ بھی مزے لیتا ہے، جیسے کوئی بہروپیا کسی کو لوٹ کر لے جائے تو وہ بیوقوف بنائے جانے پر افسردگی کے ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہا ہوتا ہے گویا بہروپیے کے فن کی داد دے رہا ہوتا ہے۔

سجاد النبی نے زیر تبصرہ کتاب میں اپنے دوستوں کے خاکے شامل کئے ہیں ۔ معروف ادیب اصغر ندیم سید کہتے ہیں ’’ خاکہ نگاری میں سجاد النبی نے دوستوںکی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن دوستانہ شرارت سے آگے نہیں بڑھے۔ ہمارے ہاں بہت سے کامیاب خاکہ نگاروں کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنا ایک جملہ بچانے کے لئے دوست قربان کر دیتے ہیں ۔ مگر سجاد النبی نے دوستی کو دائو پر نہیں لگایا، احتیاط سے دامن کو حریفانہ کھینچا ہے۔‘‘ ممتاز ادیب ظفر اقبال کہتے ہیں ’’بعض خاکے اگر دشمن بنانے کے کام آتے ہیں تو بعض کے ذریعے لکھنے والا صاحب خاکہ کی کئی خوبیوں کو بھی سامنے لے آتا ہے۔

مصنف کا انداز نظر خلاف توقع خاصا مثبت رہا ہے اور ان تحریروں سے اس نے دشمن سازی کا کام نہیں لیا۔‘‘ مصنف نے خاکوں کے لئے اپنے شہر ’’ پسرور‘‘ کے دوستوں کا انتخاب کیا ہے اور بڑے شگفتہ انداز میں ان کا تعارف قاری سے کروایا ہے جیسے’’ناک نوکیلی، آنکھ نشیلی، رنگ کچا، باتوں کا فنکار، چھٹی کیلئے اکثر بیمار، ہارون ہے نام، لیکن روپے پیسے سے نہیں کلام۔‘‘ کتاب میں 39 خاکے شامل کئے گئے ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔
عطائے عقیدت
مصنف: جاوید القادری


نعت اپنے موضوعاتی حسن و تقدس اور ہیئتی تنوع کے اعتبار سے ادب کی جملہ اصناف میں سب سے محترم، مکرّم اور آفاقی صنفِ سخن کا درجہ رکھتی ہے۔ نعت دیگر اصناف کے مقابل انتہائی مشکل ترین اور حزم و احتیاط کی متقاضی صنف ہے، اس میں انہی موضوعات اور جذبات و خیالات کو بیان کرنا چاہئے جو شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔

’’نعت‘‘ صرف رسول خدا ﷺ کے لئے مخصوص ہے، لہٰذا ’’عطائے عقیدت ‘‘ میں رسول کریم ﷺکے ذاتی اوصاف، نسلی برتری، دوسرے پیغمبروں کے مقابلے میں فضیلت، رسول اللہﷺ کے آباو اجداد اور آل و اصحابؓ کی مدح کا ذکر ہے، نیز اپنے گناہوں کا احساس اور اشک ندامت، رسولﷺ سے شفاعت طلبی، اپنے غموں کے مداوا کے لئے رسول اللہ ﷺسے فریاد، مدینہ میں تدفین کی خواہش جیسے مضامین بھی اس کتاب کا موضوع ہیں‘‘۔ ’’عطائے عقیدت‘‘ جادیدالقادری کی مؤرخانہ بصیرت، اسلوب بیان کی ندرت، مثبت انداز بیان، داعیانہ شیریں بیانی، جاندار اور پر حکمت اسلوب، شستہ انداز تحریر کی بدولت اپنی نوعیت کی ایک بہت ہی منفرد تصنیف ہے۔

’’عطائے عقیدت‘‘ مخزن نعت و منتخب مقامات از سیرت طیبہ منظوم مصنف کی برسہابرس کی محنت شاقہ اور عرق ریزی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے، واقعات کی صحت کے التزام کے ساتھ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موضوع پر بلاشبہ یہ ایک جامع منظوم تصنیف ہے۔ شاعری میں سیرت نبوی ﷺاس طرح بیان کی گئی ہے کہ اس سے اسلام کی حقانیت کے ساتھ ساتھ فقہ رسول ﷺاور احادیث رسول ﷺکی بھی تبلیغ و تر غیب ہو جائے۔ دیدہ زیب و خوش نماسرورق، عمدہ کمپوزنگ اور بہترین طباعت کے ساتھ 664 صفحات پر مشتمل اس کتاب ’’عطائے عقیدت‘‘ کے ناشر تحریک تجدید ایمان ہیں، اس کی ڈیزائننگ بریرہ مغل نے کی ہے۔

۔۔۔

دن جوگزر گئے
مصنف:محمد الیاس کھوکھر (ایڈووکیٹ)
قیمت: 500 روپے،ناشر:مکتبہ فروغ فکراقبال،970 نظام بلاک، اقبال ٹائون،لاہور

زیرنظرکتاب پر کچھ لکھنے سے پہلے آپ کو تین باتیں یاد دلانا چاہتاہوں۔
اولاً:ہر انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس مجموعے میں کامیابیوں کا حصہ زیادہ ہوتا ہے اور ناکامیاں بہت کم۔ ممکن ہے کہ آپ اس جملے کے آخری حصے سے اتفاق کرنے کے لئے آسانی سے تیار نہ ہوں تاہم حقیقت یہی ہے۔ تنہائی کے کچھ لمحات میسر ہوں تو قلم اور کاغذ لیجئے گا اور خوب سوچ سمجھ کے زندگی کے پہلے دن سے آج تک کامیابیوں اور ناکامیوں کو علیحدہ علیحدہ حصے میں لکھتے جائیے گا۔ یقیناً میری مذکورہ بالا بات سے اتفاق کریں گے۔

ثانیاً: دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں، وہ دوسرے کامیاب لوگوں سے سیکھتے ہیں، ان جیسی زندگی گزارتے ہیں۔

ثالثاً :کامیابی کے راز مشہور لوگوں کی زندگی ہی میں نہیں ہوتے۔ جوتے مرمت کرنے والے، سبزی اور پھل بیچنے والے، سر پر اینٹیں اٹھانے والے، حتیٰ کہ کسی چوراہے پر بھیک مانگنے والے، ان سب کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جن سے ہم بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں، اپنا مقام و مرتبہ بلند کر سکتے ہیں۔ زیرنظرکتاب کے مصنف وکیل تو ہیں ہی، لیکن کچھ اور بھی ہیں۔ ان کی زندگی کی کئی جہتیں ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک استاد بھی ہیں۔ دنیا میں استاد واحد شخص ہوتا ہے جس کی زندگی میں کامیابی کے راز سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

’’دن جو گزرگئے‘‘ ایک آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ بیس ابواب پر مشتمل یہ کتاب دانش کا مجموعہ ہے، وہ دانش جو مصنف نے اپنے مطالعہ کتب سے حاصل کی، ملکوں ملکوں گھوم پھر کر مشاہدے کی صورت میں جمع کی۔ یہ کتاب آپ کو بہت کچھ سکھائے گی۔ اس لئے اپنے گھر کے کتب خانے میں اسے ضرور شامل کیجئے گا۔

۔۔۔
سرور اور فسانہ ء عجائب
مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
قیمت:500 روپے
ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنر لاہور۔042-37220100

’’فسانہء عجائب ‘‘ رجب علی بیگ سرور کی پہلی تصنیف ہے جو انھوں نے 1825 ء میں لکھی۔ اس کتاب کو اردو داستانوں میں اہم مقام حاصل ہے، اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، بعض جامعات میں نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بظاہر یہ کہانی اور داستان ہے، مگر اس میں رجب علی بیگ سرور نے نوابان و شاہان اودھ کے دورِ حکومت کے سیاسی، تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی حالات کو اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ یہ کاوش اردو ادب میں ایک عمدہ اور معیاری داستان ہونے کے ساتھ ایک خاص عہد کی تاریخ بھی بن گئی۔

اردو ادب کے قارئین آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل پائے۔ ’’فسانہء عجائب‘‘ پر چند ایک مضامین ضرور لکھے گئے اور داستانِ تنقید کی بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے مگر اس تاریخی داستان پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیرِ نظر کتاب بہت مستحسن ہے ۔ انھوں نے یہ کتاب 1971ء میں لکھی تھی اب نظرِ ثانی اور اضافوں کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ نظرِ ثانی میں یہ بالکل نئی کتاب ہو گئی ہے ۔

اس مطالعے میں ہاشمی صاحب نے موضوع سے متعلق جملہ تنقیدی کام کو پیشِ نظر رکھا۔ سروری شاہ کار داستان کی کہانی ، کرداروں ، اسلوب ، مرقع نگاری اور لکھنوی تہذیب و ثقافت پر بڑی بالغ نظری سے تنقید کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ فسانہ ء عجائب کی ادبی اہمیت ناقابلِ تردید اور مسلم ہے۔کتاب کوخوب صورت سرِ ورق اور اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کیا گیا ہے،200 صفحات کی کتاب بھی مناسب ہے۔

۔۔۔

شاہداحمد دہلوی کے شاہکار خاکے
مرتب: حکیم اعجازحسین چانڈیو
قیمت: 480 روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم پاکستان

شاہد احمد دہلوی محسن ادب ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے تھے، میاں بشیر احمدکی دوسری بیوی کے بیٹے، ’’ساقی ‘‘ جیسے پروقار جریدے کے مدیر اور دلی ٹکسالی زبان کے سفیر تھے۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں:’’ شاہداحمد دہلوی کے ساتھ دلی کی ایک روایت ختم ہوگئی۔ ایک دور قبر میں اترگیا۔ شاہداحمد دہلوی کی زندگی ادب اور موسیقی سے عبارت تھی۔ ’’ساقی‘‘ کا شمار ان رسالوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہد میں ادیبوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اختر حسین رائے پوری اور بہت سے ادیب اس افق سے طلوع ہوئے۔

جن ادیبوں کی شخصیت اور تحریروں سے عصمت چغتائی متاثر ہوئی ہیں ان میں شاہداحمد دہلوی بھی ہیں۔‘‘ زیرنظرکتاب میں ا نھوں نے مولوی نذیراحمد ہلوی، میر ناصرعلی، استادبیخود دہلوی، خواجہ حسن نظامی، بشیرالدین احمد دہلوی، مولانا عنایت اللہ، مرزا عظیم بیگ چغتائی، میراجی، منٹو، جگرمرادآبادی،ایم اسلم، جوش ملیح آبادی، جمیل جالبی اور مرزاحیرت دہلوی سمیت بہت سی شخصیات کی مکمل عکاسی کی ہے۔

اس کتاب میں شاہد احمد دہلوی نے اپنا خاکہ بھی لکھاہے، چھ برس کے تھے کہ ممتا سے محروم ہوئے، والد اچھی مالی حیثیت کے حامل تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو شاہد احمد دہلوی کے حصے میں پچاس ہزار روپے نقد آئے جبکہ ایک جائیداد جس کا کرایہ 200 روپے ماہانہ تھا۔ شاید یہ 1925ء کی بات ہے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہی شاہد احمد ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ بننے پر مجبور ہوئے، انھیں صرف ساڑھے چارسو روپے ماہوار ملتا تھا۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ دونوں ملکوں کا یہ صاحب طرز انشاپرداز، واحدزباں داںگوشہ نشینی پر مجبور ہوگیا۔’بک کارنر‘ نے ان خاکوں کو انتہائی خوبصورت اندازمیں شائع کرکے مضبوط جلد میں قارئین کے لئے اس اندازمیں پیش کیا جو شاہد احمد دہلوی کے خاکوں کے شایان شان تھا۔
۔۔۔
نظر ِ ستم
شاعر: ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی
صفحات: 224، قیمت: د رج نہیں
ناشر : عظمٰی پبلی کیشنز، اچھرہ ، لاہور


ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اردو کے پہلے عرب شاعر ہیں۔ وہ عربی النسل ہونے کے باوجود اردو نہ صرف روانی سے بولتے اور لکھتے ہیں بلکہ شاعری بھی کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ نظر ِ ستم ‘‘ ان کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سر کوہسار‘‘ 1985ء میں منظر ِ عام پر آیا تھا اور پھر اس کے بعد صرف 34 برسوں میں ان کا 68 واں شعری مجموعہ سامنے آگیا ہے۔

گویا ہر چھ ماہ میں ایک کتاب یا ہر سال میں دو کتابیں۔ ایک غیر اردو دان کی اس قدر زود نویسی کی اردو شعر و ادب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر زبیر فاروق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری انہوں نے ڈاو کالج سندھ سے حاصل کی اور یہیں پر انہوں نے اردو زبان پر دسترس حاصل کی۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری سیدھی، رواں دواں، سلیس اور سادہ ہے۔ مضامین ہجرو وصال، عشق و محبت کے ہیں۔

۔۔۔

غالب از غالب (تین جلدیں)
ترتیب و تدوین: میاں شہباز علی
ناشر: شیخ مبارک علی، 62 مزنگ روڈ، صفاں والا چوک، لاہور


مرزا غالب پر یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔ خطوط میں جناب غالب نے اپنی زندگی کا جو احوال بیان کیا، میاں شہباز علی نے اسے زمانی ترتیب (Chronological order) دے دی ہے۔ اس طرح غالب کے اپنے الفاظ میں ان کی کہانی سننے کا لطف آتا ہے۔ ممتاز فکشن نگار اکرام اللہ کے بقول، ’’کتاب دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات لکھ کر کہیں سنبھال کر رکھ دی تھی، اب کہیں اس پر کسی کی نظر پڑی تو اس نے طباعت سے آراستہ کر کے ایک تحفے کے طور پر غالب کے سخن فہموں کی خدمت میں پیش کر دی ہے۔‘‘

تین دیدہ زیب جلدوں میں شائع ہونے والی غالب کی اس منفرد سوانح عمری کو 34 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب آبائو اجداد سے متعلق ہے، جبکہ دوسرے باب میں وہ اپنے سفر کلکتہ کی داستان سناتے ہیں۔ تیسرے باب میں پنشن کے قضیے کا بیان ہے، جس میں غالب عمر بھر الجھے رہے۔ چند دوسرے ابواب کے نام اس طرح ہیں: ’’شوق گنجفہ و اسیری‘‘ ، ’’دیوان ریختہ غالب‘‘ ، ’’دربار ظفر‘‘ ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘ ، ’’خط و کتابت‘‘ ، ’’مذہب و مسلک من‘‘ ، ’’لطائف و ظرائف غالب‘‘ ، ’’پیری و صد عیب‘‘۔ 1497 صفحات پر مشتمل اس مجموعے (تین جلدیں) کی قیمت سات ہزار روپے درج ہے۔ کتاب میں پروف کی غلطیاں موجود ہیں، امید ہے اگلے ایڈیشن میں انہیں درست کر لیا جائے گا۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


ڈینزل واشنگٹن… ہالی وڈ کا سپر اسٹار

$
0
0

کہتے ہیں فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، یہ ہر قسم کی نسلی، لسانی اور ثقافتی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے، جس کا ایک عملی ثبوت ہمیں دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری یعنی ہالی وڈ سے ملتا ہے، جہاں سیاہ فام اداکاروں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جنہوں نے اس انڈسٹری کے پنپنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اولین آرٹسٹوں میں شامل ہیٹی میک ڈینئل سے لے کر مورگن فریمین، سیموئل ایل جیکسن، ول سمتھ، ڈوین جانسن اور ویزلے سنائپس سے ہوتے ہوئے آج کی پود کے میمودو ایتھی تک سیاہ فام اداکاروں نے ہالی وڈ کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان ہی سیاہ فام اداکاروں میں ایک نام ڈینزل واشنگٹن کا بھی ہے، جو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں ایسے آرٹسٹوں کی کثیر تعداد ابھی بھی موجود ہے، جو آج تک آسکر ایوارڈ کو ترس رہے ہیں، لیکن ڈینزل واشنگٹن وہ فن کار ہیں، جو دو بار یہ اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔

28 دسمبر 1954ء کو نیویارک (ماؤنٹ ورنن) میں پیدا ہونے والے کامیاب امریکی اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ڈینزل ہیس واشنگٹن جونیئر کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد ڈینزل ہیس واشنگٹن پادری تھے، جو نیویارک سٹی واٹر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے، لیکن گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں بھی پارٹ ٹائم ملازمت کرنے پر مجبور تھے۔

ڈینزل کی والدہ لینس ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ گھریلو تنگ دستی کے باوجود یہ ایک خوش حال خاندان تھا، لیکن پھر اچانک واشنگٹن کے والدین میں طلاق ہوگئی، اس وقت وہ 14 برس کے تھے، یہ وہ وقت تھا، جب ایک ناپختہ ذہن لڑکے کو والدین کی مکمل توجہ چاہیے تھی، لیکن اس حادثہ نے ڈینزل کو ذہنی طور پر بہت زیادہ منتشر کر دیا۔ اداکار کی والدہ نے انہیں ماؤنٹ ورنن ایلیمنٹری سکول سے نکلوا کر آکلینڈ ملٹری اکیڈمی میں داخل کروا دیا اور بعدازاں وہ انہیں لے کر فلوریڈا چلی آئیں، جہاں واشنگٹن کو مین لینڈ ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ ہالی وڈ سٹار نے 1977ء میں فوردھام یونیورسٹی سے ڈرامہ اور صحافت میں گریجوایشن کی۔ فوردھام میں ڈینزل نے اپنی خواہش کے مطابق ایک باسکٹ بال ٹیم کو بھی جوائن کیا۔ اداکاری کی جانب فطری رجحان اداکار کو لنکولن سنٹر کیمپس لے گیا، جہاں انہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

فوردھام سے گریجوایشن کرنے کے بعد ڈینزل نے باقاعدہ طور پر شوبز کی زندگی کے آغاز کیا، وہ پہلی بار 1977ء میں سکرین پر ایک ٹیلی ویژن فلم ’’Wilma‘‘ میں جلوہ گر ہوئے، پھر ہالی وڈ میں ان کی انٹری 1981ء میں فلم ’’Carbon Copy‘‘ سے ہوئی۔ واشنگٹن کی عملی زندگی کا سب سے پہلا بڑا بریک تھرو اس وقت ہوا، جب انہوں نے 1982ء میں ٹی وی ڈرامہ ’’St. Elsewhere‘‘ میں ایک ڈاکٹر کا کردار نبھایا، یہ ڈرامہ 1988ء تک مسلسل نشر ہوا، جس نے مقبولیت کی نئی چوٹیوں کو سر کیا۔ 1989ء میں باصلاحیت اداکار نے فلم ’’Glory‘‘ میں ایسا کام کیا کہ 1990ء میں انہیں آسکر کی ٹرافی تھما دی گئی۔ 2000ء میں ڈینزل کی فلم ’’Remember the Titans‘‘ نے کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے۔

اس فلم نے ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔ جنوری 2000ء میں اداکار نے ایک نئی تاریخ اس وقت رقم کی جب انہیں فلم ’’The Hurricane‘‘ میں بہترین اداکاری پر گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا، 1963ء کے بعد وہ پہلے سیاہ فام اداکار تھے، جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ 2001ء میں دوسری بار آسکر جیت کر واشنگٹن فلم انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے لئے ایک ایس حسرت بن گئے، جس کی ہر کوئی تمنا کرتا ہے۔ بے پناہ مقبولیت کے باوجود ڈینزل کی کامیابیوں کا سفر ابھی تھما نہیں تھا، کیوں کہ 2002ء میں انہوں نے خود ہی ایک فلم ’’ Antwone Fisher‘‘ بنا ڈالی، جسے فلمی حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ معروف اداکار و ڈائریکٹر نے ہالی وڈ کو متعدد ایسی فلمیں دیں، جن کا بزنس سو سو ملین ڈالر سے زائد تھا، جو بلاشبہ ان کی مقبولیت اور کامیابی کی واضح دلیل ہے۔

پیشہ وارانہ زندگی کی تمام تر مصروفیات کے باوجود واشنگٹن نے نجی زندگی کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا، 25 جون 1983ء میں انہوں نے پاؤلیٹا پیرسن سے بیاہ رچایا اور آج تک ایک خوش و خرم ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈینزل سے پاؤلیٹا پیرسن کی ملاقات ’’Wilma‘‘ کے سیٹ پر ہوئی، اس جوڑے کو قدرت نے 4 بچوں سے نوازا۔ 1991ء میں واشنگٹن کو ان کی مادر علمی فوردھام یونیورسٹی، 2007ء میں مورہاؤس کالج اور 2011ء میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ 2011ء میں انہوں نے فوردھام یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف تھیڑ کے لئے 2 ملین ڈالر جبکہ اسی مقصد کے لئے ایک سکول کو اڑھائی لاکھ ڈالر عطیہ کئے۔

فلم، ٹی وی اور تھیٹر
ہالی وڈ سٹار نے فلمی سفر کا آغاز 1981ء میں ’’Carbon Copy‘‘ نامی مزاحیہ فلم سے کیا، جس میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا، جس کے بعد تین سال کا وقفہ آیا اور 1984ء میں انہوں نے شائقین کے لئے ’’ A Soldier’s Story‘‘ جیسی سپر ہٹ فلم دی، جس کو بے حد پسند کیا گیا۔ ’’Cry Freedom‘‘، ’’Glory‘‘، ’’ Heart Condition‘‘، ’’Unstoppable‘‘، ’’ The Hurricane‘‘، ’’ Remember the Titans‘‘، ’’Flight‘‘ کے علاوہ 2001ء میں آنے والی فلم’’Training Day‘‘ میں واشنگٹن کی بہترین پرفارمنس پر انہیں دوسری بار آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا، یوں مجموعی طور پر سپر سٹار، ہالی وڈ کو اب تک 47 سے زائد فلمیں دے چکے ہیں۔

فلم کے علاوہ ڈینزل ٹی وی پروگرامز میں بھی چھائے رہے، 1977ء میں انہوں نے پہلا ٹی وی پروگرام ’’The Wilma Rudolph Story‘‘ کیا، جس کے بعد 1979ء میں معروف زمانہ ’’Flesh & Blood‘‘ نے شائقین کے دل موہ لئے۔ اس کے بعد بھی معروف اداکار نے ’’License to Kill‘‘ جیسے مقبول ٹی وی پروگرامز میں کام کیا۔ واشنگٹن کے ٹی وی پروگرامز کی مجموعی تعداد 11 بنتی ہے۔ فلم اور ٹی وی کے علاوہ ڈینزل نے تھیٹر پر بھی پرفارم کیا، جہاں بجنے والی شائقین کی تالیاں اور سیٹیاں، ان کی بہترین پرفارمنس کا ثبوت ہیں۔ اداکار نے اپنی عملی زندگی کا سفر بھی تھیٹر سے ہی شروع کیا، انہوں نے 1979ء میں ’’Coriolanus‘‘ کے نام سے پہلے پلے میں کام کیا، جس کے بعد اداکار نے مزید 7 تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔

اعزازات
ایوارڈز کی بات کی جائے تو شائد ہی کوئی ایسا اعزاز ہو، جس کے لئے ڈینزل واشنگٹن کو حق دار نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ فلم نگری کے سب سے بڑے ایوارڈ یعنی آسکر کے لئے ہالی وڈ کے سپر سٹار کو 9 بار نامزد کیا گیا اور 2 بار تو یہ ٹرافی بھی اٹھا لائے۔ واشنگٹن کو فلم ’’Glory‘‘ اور ’’Training Day‘‘ میں بہترین پرفارمنس کے لئے آسکر سے نوازا گیا۔ گولڈن گلوب ایوارڈز کے لئے 10 بار ان کی نامزدگی ہوئی، جن میں سے 3 بار وہ ونر بھی قرار پائے۔

متنوع صلاحیتوں سے مالا مال اداکار کو شوبز انڈسٹری میں بہترین خدمات پر گریمی ایوارڈز کے لئے ایک، پرائم ٹائم ایمی ایوارڈز 2، سکرین ایکٹرز گیلڈ ایوارڈز 7 اور ٹونی ایوارڈز کے لئے 2 بار نامزد کیا گیا، جن میں متعدد بار انہیں ٹرافی تھامنے کا شرف حاصل ہوا۔ بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے اس ہیرو کو صرف ایکشن ہی نہیں بلکہ مزاحیہ اداکاری پر بھی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ڈینزل کو مجموعی طور پر 96 مختلف ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا، جن میں سے 39 بار انہوں نے میدان مار لیا۔

The post ڈینزل واشنگٹن… ہالی وڈ کا سپر اسٹار appeared first on ایکسپریس اردو.

حکومت کی طرف مت دیکھو۔۔۔ اُسے لاج آتی ہے

$
0
0

اب تک تو یوں تھا کہ ’’وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘، اگرچہ جس پر بہار آنا تھی وہ شجر ہی نظر نہیں آرہا تھا، پھر بھی امید بہار رکھی گئی۔

آس تھی کہ وہ شجر جس پر بہار آنا ہے ’’بلین ٹِری منصوبے‘‘ کے تحت زمین سے نمودار ہوگا، اور ایک دن جب ہم پاکستانی اپنے اپنے گھر سے باہر آکر دیکھیں گے تو اس پر بہار آچکی ہوگی، شاخوں سے پھل ٹپاٹپ گر رہے ہوں گے، اور لوگ ان ثمرات سے اپنی جھولیاں بھر رہے ہوں گے، لیکن ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ (امیدوں کا) آشیانہ تھا، مزیدبرآں جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

ہم نے یہ جو بَک بَک کی ہے اس کی آسان زبان میں تشریح وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب کا یہ بیان ہے کہ عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی جانب نہ دیکھیں۔ انھوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ حکومت 400 محکمے بند کررہی ہے۔ فرماتے ہیں،’’نوکریاں حکومت نہیں نجی سیکٹر دیتا ہے یہ نہیں کہ ہر شخص سرکاری نوکری ڈھونڈے۔‘‘

فوادچوہدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں، اور حکومتی امور کا تعین پولٹیکل سائنس کا موضوع، چناں چہ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سائنس داں فواد چوہدری نے دریافت کیا کہ ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں۔ اب پتا نہیں کہ یہ دریافت ’’آپی آپ‘‘ ہوگئی یا نیوٹن کی طرح ان کے سر پر بھی کوئی پھل آ بجا تھا۔ نیوٹن کا دماغ تو سیب کی دھمک سے روشن ہوا تھا، لیکن جتنی بڑی دریافت چوہدری صاحب نے کی ہے اس اعتبار سے لگتا ہے ان کے سر پر کم ازکم تربوز یا پیٹھا آ گرا ہوگا۔ ممکن ہے اس دریافت پر لوگ انھیں ’’نیو ٹُن‘‘ کہنے لگیں۔

کوئی کچھ کہے، ہم تو کہتے ہیں فوادچوہدری نے بالکل ٹھیک کہا۔ حکومت کا کام نوکری دینا نہیں۔ یوں بھی خود اس حکومت کو بڑی مشکل سے ’’نوکری‘‘ ملی ہے۔ پھر حکومت آخر کس کس کو نوکری دے۔ عثمان بزدار، فردوس عاشق اعوان، فوادچوہدری، فیاض چوہان، مرادسعید، فیصل واوڈا، شہریارآفریدی، زلفی بخاری، علی امین گنڈاپور، علی زیدی، اعظم سواتی، شیخ رشید، سمیت جانے ’’عوام‘‘ میں سے کتنے افراد کو نوکری یا ’’چاکری‘‘ دی جاچکی ہے، سو نوکری کے باب میں حکومت کا عوام سے یہ کہنا بنتا ہے کہ ’’تیرے‘‘ حصے میں کچھ بچا ہی نہیں۔

اب آپ وہی گھسی پِٹی باتیں کریں گے کہ ’’پھر عمران خان نے انتخابات کے دوران دس ملین ملازمتیں دینے کا وعدہ کیوں کیا تھا۔ اور آبی وسائل کے وزیر فیصل واوڈا نے کیوں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں نوکریاں زیادہ ہوجائیں گی لوگ کم پڑجائیں گے، اگر ایسا نہ ہو تو میری تکہ بوٹی کردی جائے۔‘‘

بھئی بات یہ ہے کہ اس وقت تک خان صاحب بہت سے حقائق سے لاعلم تھے، جیسے انھیں پتا نہیں تھا کہ۔۔۔۔ پاکستانی عوام بڑے بے صبرے ہیں، خزانہ خالی ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خودکشی واجب نہیں ہوتی، پیٹرول کے منہگے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم چور ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اسی طرح ہمارے خیال میں وہ ’’احتساب‘‘ میں کتنے ہی اچھے ہوں حساب میں کم زور ہیں، یہی وجہ ہے کہ ارکان کو گنے بغیر ہی اپنی کابینہ کو مختصر سمجھتے ہیں۔

چناں چہ یہ نہ جان پائے کہ ایک ملین میں کتنے ہندسے ہوتے ہیں، اور ملین کو درجن سمجھ کر وعدہ کر بیٹھے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے قول وعمل کا عنوان کرکٹ کی اصطلاحات بنتی ہیں، تو یہاں بھی ٹیم کے گیارہ اور بارہویں کھلاڑی کو ملاکر درجن کا لفظ ہی ان کے ذہن میں ہوگا۔ اب اگر ان کی نیت دیکھی جائے تو وفاق، پنجاب اور خیبرپختون خوا کے وزیروں، مشیروں، ترجمانوں، معاونین خصوصی اور چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی کو ملاکر تعداد دس درجن سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ وعدہ تو پورا ہوگیا۔

رہی بات فیصل واوڈا کے وعدے کی تو انھیں یقین تھا کہ منہگائی، غربت اور حالات کے باعث لوگ اتنے کم پڑجائیں گے کہ پارٹی کے جلسوں اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں سے واپسی پر استقبال کے لیے بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زحمت دینا ہوگی یا پردیس سے کرائے پر اچھی تالی بجانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کرائے پر لانا ہوں گے، بس یہی سوچ کر انھوں نے یہ دعویٰ کردیا۔

اب بے چارے واوڈا صاحب کو کیا معلوم کہ پاکستانی جتنے بے صبرے ہیں اتنے ہی ڈھیٹ ہیں۔ ورنہ ان کے حساب سے اب تک لوگ ’’کم پڑجانے‘‘ چاہیے تھے۔ رہا معاملہ تکہ بوٹی کرنے کا تو ان کے بارے میں یہ بدگمانی ٹھیک نہیں کہ وہ عوام کو آدم خور بنانا چاہتے ہیں، بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ حکومت کے فرائض میں عوام شریک کرلیے جائیں!

فوادچوہدری نے اتنا ہی کہا ہے کہ عوام نوکری کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں، ہم تو دو قدم، بلکہ ڈھائی اور ساڑھے تین قدم آگے بڑھ کر کہیں گے کہ عوام سرے سے حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ کیا ہے کہ حکومت کو لاج آتی ہے، اور وہ اٹھلا کر کہتی ہے۔۔۔’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو! غیروں پہ کُھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا۔‘‘ عوام تاجروں صنعت کاروں کو دیکھیں، جنھوں نے حکومت کی طرف دیکھنا چھوڑ کر کسی اور طرف امید بھری نظروں سے دیکھا، اور جب پیغام ملا کہ حکومت کی طرف دیکھ مگر پیار سے، تو نظر مایوس پلٹ آئی، اب لگتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے سمیت ہوائی اڈے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔

عوام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی ہے تو اس کے کچھ طریقے ہیں، مثلاً ’’دیکھنا بھی تو اُسے دور سے دیکھا کرنا‘‘ یعنی بیرون ملک جاکر مقیم ہوں اور پھر اس حکومت کو دیکھیں تو یہ بہت اچھی لگے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سرکاری عینک حاصل کریں اور وہ لگاکر دیکھیں تو سب اچھا لگے گا۔ یہ عینک حالات پر صبروشکر کرتے ’’صابرشاکر‘‘ لوگوں کے پاس ہے، ان سے عاریتاً حاصل کرکے بہ طور تجربہ کچھ دیر استعمال کی جاسکتی ہے۔ تب تک عینک اُدھار دینے والے اپنی آنکھیں بند رکھیں گے۔

چوہدری صاحب کا یہ بیان ہمارے لیے انکشاف تھا کہ لوگ نوکری کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، عجیب لوگ ہو تُسی، حکومت مختلف ممالک میں مصالحت کا فریضہ ادا کرتی پھرے، دھرنے روکے، سوشل میڈیا پر مخالفین کی دُھلائی اور اپنا دفاع کرے یا نوکری دینے جیسے فضول کاموں میں پڑ جائے! ارے جب صحت، تعلیم، ایمرجینسی، قدرتی آفات، صاف پانی، بجلی، ہر ہر سہولت کے لیے نجی شعبے کی طرف دیکھتے ہو تو نوکری کے لیے بھی اسی طرف دیکھو ناں، چلو نظریں ہٹاؤ حکومت پر سے، تمھارے مسلسل تاڑنے کی وجہ سے وہ بے چاری نروس ہوگئی ہے کچھ کر نہیں پارہی۔

The post حکومت کی طرف مت دیکھو۔۔۔ اُسے لاج آتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 66

وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ جس میں شیاطین گھومتے ہیں۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ اور رات کا کیا ہے، وہ تو ہوتی ہی ایسی ہے ناں! نہیں جی! ایسی نہیں ہوتی ہر رات۔ ہر رات، گزری ہوئی سے مختلف ہوتی ہے۔

ہمارا طرز رہائش ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر رات کو ایک جیسا سمجھنے اور ایک جیسا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کیا کسی بند کمرے میں پُوری رات کا رمز کُھل سکتا ہے؟ جب دیکھو ایک سا منظر، وہی در و دیوار اور اس لگی ہوئی کوئی پینٹنگ، زیادہ ہوا تو ایئر کنڈیشنر کی مصنوعی سرد ہوا، وہی پلنگ و بستر، اور پھر یک سانیت کا گلہ بھی جو مرض اور پھر روگ میں بدل جاتا ہے۔

ایسی جگہوں پر تو آنکھیں اور دماغ منجمد ہوجاتا ہے اور کچھ دیکھنے اور سوچنے سے انکاری۔ جی! آپ کا فرمانا درست ہے کہ جیون میں اتنے مسائل ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ جی درست فرمایا آپ نے! لیکن کیا کبھی آپ نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے ؟ اور اگر کی ہے اور پھر بھی نہیں بدل سکے تو آپ اپنی بات میں حق بہ جانب ہیں، لیکن پھر یہ بھی تو سوال ہوگا کہ یہ جو طرز زندگی ہے اسے آپ نے خود اپنے لیے منتخب بھی تو کیا ہے ناں، دور جدید کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا بھی تو آپ چاہتے ہیں ناں، اور ہاں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ آپ نے ترقی و آسائش کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اور جو کر رہے ہیں تو کیا واقعی آپ نے درست انتخاب کیا ہے ؟ ضروریات زندگی کو اسی لیے مختصر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی لیے سادگی کی تلقین کی گئی ہے کہ سادہ طرز زندگی میں آپ خود کو اس منجدھار سے بچا کر رکھ سکتے ہیں، لیکن پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماجی جبر کا سامنا کون کرے، اتنی ہمت و جرأت کہاں سے لائیں کہ ہم اپنا جیون آپ جییں اور سماج کے جبر کو پیچھے دھکیل دیں۔

فقیر کہیں اور نکل رہا ہے تو واپس پلٹتے ہیں تو بات ہورہی تھی رات کی۔ ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی جی! کوئی تاریکی سے نہاتی ہے، چیختی ہے، چلّاتی ہے، دھاڑتی ہے، جنوں میں اپنا سر اشجار سے ٹکراتی ہے، کوہ ساروں میں وحشت سے لڑکھڑاتی ہے، صحرا میں دیوانوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی رات، کسی آوارہ کی طرح بے منزل کوئی رات، ایسی بھی ہوتی ہے رات جی۔ کیا اب یہ بھی بتایا جائے کہ مقام بدلنے سے رات بدلتی ہے، اس کا اسرار بدلتا ہے، اس کی تاثیر بدلتی ہے۔ آپ کبھی صحرا میں ہوں تو دیکھیے کتنی خوب صورت ہوتی ہے رات، ستاروں سے بھرا آکاش جسے شہر کے مکین دیکھنے کو ترس گئے ہیں، دن بدلتا ہے تو رات بدل جاتی ہے۔

جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کرکے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ کرکے بھی دیکھیے، فقیر کو تو رب تعالٰی نے یہ ساری نعمتیں عنایت کی ہیں اور وافر، ثناء ہے بس رب کائنات کے لیے، بس اُسی کے لیے۔ جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے تمام ہوا ماجرا۔ شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔

واہ جی واہ! کیا جیون ہے اُن کا، فقیر کو انہوں نے اپنے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کی سعادت بخشی تھی، بہت عرصہ رہا اُن راز زندگی پانے والوں کے سنگ، رب کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ رب تعالٰی نے فرمایا ہے ناں کہ زمین کی سیر کرو اور راز ہائے کائنات کو جانو۔ رب نے چاہا تو بتائے گا آپ کو فقیر کہ خانہ بہ دوش کیا ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں، توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔ عاشقین پر، کسانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی۔ وصال میں بھی کُھلتی ہے رات! جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے۔

سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اُس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ رب کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔ رب جی کرم کرے تو بات بنے کہ بس وہی ہے، بس وہی۔

جی تو فقیر بتا رہا تھا کہ وہ رات بھی عجیب رات تھی، ویرانے میں دیوانوں کی ایک اور رات، لیکن کالی نہیں تھی وہ۔ چاندنی میں نہائی ہوئی، سحر سے بھری ہوئی، اسرار میں لپٹی ہوئی، خاموشی میں بولتی ہوئی، خمار آلود ہوا سے ڈولتی ہوئی، عجب رات۔ بابا نے فقیر کو بتایا تھا کہ تمہارے حنیف بھائی واپس لوٹ آئیں گے تب انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا، جی ایسے جیسے کسی مُردے میں کوئی روح داخل ہوگئی ہو، جی پھر ایسا ہی ہوا۔ میں اور بابا زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، ہم سے کچھ فاصلے پر حنیف بھائی سر نیہوڑائے گم سم تھے، پھر اچانک ہی وہ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے، خاموش، پھر وہ ہمارے قریب آئے اور بابا کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنا شریک بنایا، فقیر یہ سب دیکھ رہا تھا، حیرت سے نہیں، اب یہ مناظر فقیر کے لیے معمول تھے، پھر بابا اور حنیف بھائی فقیر کے پاس آئے اور اب ہم تین تھے، اور پھر اچانک خاموشی کو حنیف بھائی کی دل دوز چیخ نے چیر ڈالا تھا، اور پھر تو ان کی چیخوں سے ویرانہ گونجنے لگا۔

بابا انہیں سنبھالے ہوئے تھے، فقیر لاکھ کوشش کرلے آپ سے وہ منظر بیان نہیں کر پائے گا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں تو بس اتنا ہی جان لیں کہ کبھی کسی کے گلے پر تیز نہیں کُند چُھری پھیر دی جائے اور اس کی شہہ رگ کچھ کٹ جائے تو جان سکتے ہیں کیا حالت ہوگی اُس کی اور کیسا ہوگا وہ منظر۔ چلیے کچھ اور آسان کیے دیتے ہیں جیسے کسی دیسی مرغ کی گردن پر چُھری پھیر کر اسے ٹرپنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو جان سکتے ہیں یہ کیفیت جس پر گزر رہی ہو۔ نہیں جان سکتے آپ! نہیں بہت مشکل ہے بیان کرنا، یہ جو آپ اپنے تئیں سمجھ بیٹھے ہیں کہ فقیر کتنی آسانی سے یہ سب کچھ بیان کردیتا ہے ناں! نہیں جناب ایسا ہے نہیں، فقیر خود کو وہیں پاتا ہے اور اُسی تکلیف میں، لکھتے ہوئے آنکھیں برستی ہیں اور پھر سب دُھند ہوجاتا ہے اور کسی جگہ بیان کر رہا ہو تو آواز ہی روٹھ جاتی اور سکت ہی نہیں رہتی۔

چھوڑیے اور آگے چلیے! یہ دیکھیے

میں نے اپنا حال بتانا چاہا تھا

مجھ سے پہلے میرا آنسو بول دیا

اور یہ بھی سنیے!

اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے

اور میں سوچتا رہ گیا!

حنیف بھائی کی حالت ایسی ہی تھی، پھر ہم سب کی آنکھیں برسات ہوئیں اور اس میں ہم نہائے، پھر قرار اترا اور اس نے گلے سے لگایا اور پھر مسکراہٹ اترائی، فضا مسکرائی، ہَوا گنگنائی اور منظر بدل گیا، رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ رات نے رخت سفر باندھا اور فضا میں حنیف بھائی کی اذان فجر گونجی! واہ جی تیری آواز مکّے اور مدینے۔ بابا کی اقتداء میں صلوۃ الفجر ادا کی گئی اور ان کی مختصر سی دعا: ’’ہم تیرے ہیں مالک، ہمیں کسی اور کے حوالے مت کرنا، ہماری ساری تقصیریں معاف ہوں، تُو ہی ہے ہمارا کارساز و مالک و مختار‘‘ ناشتہ، فقیروں کا کیا ناشتہ جی! رات کی باسی روٹی اور چائے کے ساتھ، سبحان اﷲ۔ بابا نے کام پر جانے کی تیاری کی اور حنیف بھائی مجھ سے باتیں کرنے لگے، کیا باتیں، بس رہنے دیجیے۔

وہ بہت نڈھال تھے، رخصت ہوتے ہوئے میں نے بابا کی جانب دیکھا تو مسکرائے اور کہا: آج اپنے بھائی کی واپسی کا جشن مناؤ پھر کل سے کام پر جانا۔ حنیف بھائی کو بھی کیا باکمال انسان بنایا رب تعالٰی نے، اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں۔ انہیں اپنا بچپن یاد آیا پھر بابا کے ساتھ چلے آنا اور نہ جانے کیا کیا۔

فقیر جو بات سننا چاہتا تھا وہ اس بارے میں خاموش تھے، میں تو یہ سمجھا تھا اور میں بے وقوف اور عجلت کا مارا ایسا ہی تھا، ہوں اور جب تک ہوں ایسا ہی رہوں گا، احمق کہیں کا، تو سننا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے اس ماہ وش کے بارے میں بات کریں گے، تشویش اور خدشات کا اظہار کریں گے، لیکن صاحبو! عجب انسان ہیں وہ، ایک مرتبہ بھی یہ نہیں پوچھا۔ بہت دیر ہوگئی تھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنے تئیں انہیں بتایا کہ میں اور بابا اسلام آباد گئے تھے، اب پھر میں یہ سننا چاہتا تھا کہ وہ بے قرار ہوکر اس کی تفصیل پوچھیں گے تو بس سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، مسکرائے اور بس۔ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ۔ پھر کیا تھا تجسس نے مجھے گھیر لیا اور میرے چاروں اُور سے میرا منہ چڑانے لگا، آس پاس سے آوازیں آنے لگیں اور پوچھو اور پوچھو، فقیر کے صبر کا پیمانہ لبالب بھر تو چکا تھا اور آخر چھلک پڑا: حنیف بھائی آپ بھی عجیب ہیں، آپ نے تو اس کا پوچھا ہی نہیں۔

ان کے ’’کس کا‘‘ نے تو فقیر کے سارے کَس بَل نکال ڈالے۔ فقیر نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور طے کرلیا کہ اب وہ اگر خود بھی پوچھیں گے تو خاموش رہا جائے گا۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حنیف بھائی بولے: میرے بھائی نے اتنے دن تک مجھ ایسے بھائی کی خدمت کی تو بس دعا ہے کہ رب تعالٰی میرے بھائی کو اس صلہ دے۔ وہ اسی طرح سے فقیر کو مخاطب کرتے تھے۔ میں نے کیا خاک خدمت کی آپ کی اور آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ میں نے آپ کی خدمت کی، آپ کھا رہے تھے نہ پی رہے تھے تو کیسے کرتا خدمت ۔۔۔۔ ؟

فقیر کی بات بہ غور سنی میرے قریب آئے اور کہا: تُو کیوں ہے اتنا بے وقوف میرے بھائی۔ ہاں ہوں میں بے وقوف، میں بننا بھی نہیں چاہتا آپ کی طرح عقل مند، میں بھی ان سے دُو بہ دُو تھا۔ ہاں صحیح کہہ رہا ہے تُو میرے بھائی، اگر تُو بھی عقل مند ہوجاتا تو پھر کیسے چلتا کاروبار جہاں پگلے، تیرے جیسوں کی وجہ سے تو چل رہا ہے عقل مندوں کا دھندا، سارے ہی عقل مند ہوجائیں گے تو پھر تو سب کچھ الٹ پلٹ جائے گا ناں۔ حنیف بھائی نے اپنی بات ختم کی تو میں نے ایک نیا تِیر اپنے ترکش سے نکالا اور ان کی جانب پھینک دیا: جی جی! بڑے آئے عقل مند اتنے دن سے اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔

کچھ پتا ہی نہیں تھا اور اب بن رہے ہیں عقل مند۔ حنیف بھائی مسکرائے اور کہا: میں ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا ناں کہ تُو ہے ہی بے وقوف پگلے! تُو یہی سمجھ رہا ہے ناں کہ میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا، احمق انسان میں اس وقت تھا مکمل ہوش میں، اب ہوگیا ہوں بیگانہ تو، جبھی تو اتنی عقل مندی کی باتیں کر رہا ہوں۔ اب تو فقیر گم سم تھا، کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حنیف بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں، بہت دیر تک میں سوچتا رہا اور پھر سے حنیف بھائی سے الجھ گیا، لیکن مجھے تو بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ تمہارا بھائی ہوش میں نہیں ہے تو اس کا خیال رکھنا، میری بات سنی اور کہنے لگے: وہ جانتے ہیں ناں کہ تم کتنے بے وقوف ہو، اسی طرح تمہیں سمجھا سکتے تھے وہ۔ تُو پگلا ہے میرے بھائی! اور بے وقوف بھی۔ کیا مطلب میں سمجھا نہیں حنیف بھائی۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ تجھے ہر بات سمجھ میں آئے، وقت تو آنے دے پھر سمجھ بھی جائے گا، یہ کہہ کر حنیف بھائی کٹیا سے باہر نکل گئے۔

فقیر اب بھی سوچتا ہے اور بس اتنا ہی جان پایا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ پہلے سوچو پھر کلام کرو، فقیر اب بھی بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو لیکن فقیر تو کام پہلے کر لیتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی باتیں۔ فقیر تو اب بھی ویسے کا ویسا ہے جی! دھاک کے تین پات بس، بے سوچے سمجھے کلام کرتا ہے، نتیجے کو سوچے بغیر کر گزرتا ہے، کسی بھی دلدل میں اُتر جاتا ہے لیکن اس کا اعتراف بھی اور شُکر کے ساتھ کہ رب تعالٰی اُس کے بگاڑے ہوئے کام کو درست فرما دیتا ہے، اسے ہر دلدل سے نکال باہر کرتا ہے، فقیر کو اُس کے خالق و مالک و مختار رب جلیل و کریم نے کسی کے حوالے نہیں کیا، کبھی نہیں کیا، اس کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے، بس اُسی حمد ہے، اُسی کی ستائش ہے، اُسی کی بندگی ہے، اسی کی ثناء ہے، بس وہی ہے کارکُشا و کارساز، صرف وہی۔

کُھلا ہمیشہ مصیبت میں اک نہ اک درِغیب

یہ اسم کچھ مرے وردِ زبان کیسے ہیں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

ہنزہ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے

$
0
0

(قسط نمبر 5)

گلگت میں پہنچنے کے پہلے روز میں نے دیگر ضروری معلومات کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ قریب ترین مسجد کہاں ہے۔بتایا گیا کہ دفتر کے سامنے گلی میں تھوڑی دور واقع ہے۔ظہر کے وقت تو مجھے نماز پڑھ کر واپس دفتر آتے وقت کسی نے کچھ نہ کہا لیکن عصر کی نماز کے بعد جب میں باہر نکلا تونمازیوں میں شامل ایک جوان صاحب ریش شخص مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔میں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی روایت کے برعکس اُسے سلام کیا۔(خیبر پختونخوا میں کسی کو غور سے دیکھنے کا مطلب مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے) تو وہ لپک کر آگے بڑھے۔ مصافحہ کیا اوربتایا کہ اُ ن کا نام اسداللہ خان ہے اور وہ قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائینسز میں پڑھاتے ہیں۔

میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مصر ہوگئے کہ میرا گھر قریب ہے گھر چلیں۔آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔میں ہچکچاتے ہوئے اُن کے ساتھ ہو لیا۔کچھ آگے اُن کے معمر والد بھی گھر کی طرف جا رہے تھے۔چلتے چلتے انہوں نے میرا تعارف کرایا۔اتنے میں گھر آگیا ۔ پورچ میں چار گاڑیاں کھڑی تھیں۔(گلگت میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے کسی گھر میں چار گا ڑیاں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی) وسیع و عریض لان کے دو تین حصے تھے۔کئی پھل دار درخت لگے ہوئے تھے۔ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ۔ ابھی ڈھنگ سے گفتگو شروع نہ ہونے پائی تھی کہ اسداللہ خان کو گھر کے اندر بلا لیا گیا اور میرے ساتھ اُن کے والد اور دو چھوٹے بھائی رہ گئے۔

تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ یہ دونوں بھائی اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں اور اسداللہ یہاں گلگت میں والدین کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اُن کے والد بظاہر بہت سنجیدہ اور لیئے دیئے سے نظر آرہے تھے لیکن جب گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔میرے پوچھنے پر اپنی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کئے۔کہ وہ پریشنگ استور کے رہنے والے ہیں۔ 1960؁ء کے عشر ے کے اواخر میں اقتصادیات میںکراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ایکسپورٹ پروموشن بیورو کراچی میں ملازم ہوگئے۔

اُس وقت اُن کی تنخواہ چار ہزار روپے ماہانہ تھی۔(یہ اُن کا اپنا بیان ہے )دن کو دفتر کی مصروفیات سے نمٹنے کے بعد شام کے وقت کے بہتر استعمال کے لئے انہوں نے سندھ مسلم لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔دو برس مکمل ہوئے تو وہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے۔اتنے میں شمالی علاقہ جات(اُس وقت گلگت بلتستان کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا)کی ضلعی انتظامیہ میں کچھ اسامیاں خالی ہوئیں۔اور اخبار میں ان کا اشتہار آیا۔ضلع استور سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے کے لئے درخواست بھیج دی۔اُس وقت گلگت میں انتظامیہ کے سربراہ کمشنر نصرمن اللہ تھے۔

جو بعد میں صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری بھی رہے۔عطی اللہ خان نے تحریری امتحان اور بعد میں ہونے والے انٹرویو میں جو کارکردگی دکھائی۔اس پر انٹرویو لینے والی کمیٹی کے سربراہ نصر من اللہ نے انہیں کہا۔ کہ وہ کراچی چھوڑ کر یہاں آئیں اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کا عہدہ سنبھالیں۔عطی اللہ خان نے جواب میں اس عہدے کی تنخواہ پوچھی تو بتایا گیا کہ الاونسز ملا کر کوئی آٹھ سو روپے ملا کریں گے۔عطی اللہ خان نے جواب دیا کہ میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہے کہ چار ہزار روپے والی ملازمت چھوڑکر آٹھ سو روپلی پر آجاؤں۔اس پر نصرمن اللہ نے انہیں سمجھایا کہ وہ اس کم تنخواہ پر دل برداشتہ نہ ہوں۔انہیں بہت جلد ترقی کے مواقع ملیں گے اور وہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر جیسے عہدوں پر بھی کام کر سکیں گے۔

بہرحال نصر من اللہ کے سمجھانے پرعطی اللہ خان کراچی گئے وہاں ملازمت سے مستعفی ہوئے اپنا سامان اٹھایا اور گلگت کی راہ لی۔ بعد میں ترقی پانے پر انہوں نے شمالی علاقہ جات کے تمام اضلاع کے علاوہ جہلم اور اٹک میں بھی ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر کام کیا۔بچوں کو کوہاٹ اور حسن ابدال کے کیڈٹ کالجوں میں پڑھایا۔پھر گلگت بلتستان میں صوبائی سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

انہیں اپنے کیریئرکی ابتداء میں چار ہزار روپے ماہوار کی ملازمت چھوڑ کر آٹھ سو روپے ماہوار والی ملازمت پر آنے کے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہ تھی۔وہ بہت مطمئن اور آسودہ تھے۔دسمبر 2014؁ء میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی حکومت کی مدت ختم ہوئی۔اور گلگت بلتستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت تشکیل دی گئی تو عطی اللہ خان کو کابینہ میں پانی و بجلی کی وزارت دی گئی۔وزارت نے اُن کے معمولات پر کوئی اثر نہ ڈالا۔وہ پہلے کی طرح پانچوں نمازوں کے لئے آذان دیتے اور اقامت کہتے رہے۔یہ عطی اللہ خان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کے(جو ۷۲ اپریل۶۱۰۲؁ء کو راولپنڈی کے ایک نجی ہسپتال میں ۵۸ برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے اور جن کی میت کو۸۲ اپریل ۶۱۰۲؁ء کو گلگت لا کر سپرد خاک کیا گیا)چھوٹے بھائی ہیں۔

تیرہ فروری کی ہڑتال اور چودہ فروری کے احتجاج کے باوجود بجلی کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی۔اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پہلے کی طرح جاری رہی۔سولہ فروری کے اخبارات میں خبر چھپی کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں بجلی کی غیر معمولی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور خراب بجلی گھروں کی مرمت کے لئے چودہ کروڑ روپے جاری کئے ہیں۔یہ رقم بھی حسب معمول بیوروکریسی اور ٹھکیداروں کے درمیان تقسیم ہوجائے گی اور بجلی گھروں کی بحالی کا کام نہیں ہو سکے گا۔(ہوا بھی ایسا ہی ہے۔یہ سطور لکھے جانے تک کارگاہ کے بجلی گھر اسی طرح سے خراب تھے جیسے وہ ایک برس پہلے تھے)گلگت بلتستان،  چترال، سوات، تور غراورکوہستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے وفاقی حکومت ہر سال اربوں روپے مہیا کرتی ہے۔

اور متعلقہ صوبائی حکومتیں منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہار دیتی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ جون کے مہینے میں پیش ہوتے ہیں اوران کی منظوری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم مختص ہونے کاکام ستمبر اکتوبر تک پھیل جاتا ہے۔جب یہ رقم ان صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی کے حوالے ہوتی ہے۔تو اس کے بعداخبارات کے ذریعے ٹینڈرطلب کئے جاتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں مزید دو ماہ لگ جاتے ہیں۔یوں جب نومبر میں ٹھیکیداروں کو ٹینڈر ز کی منظوری ملتی ہے تو سرد موسم کی شدت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ کچھ علاقوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔

کوئی ٹھیکیدار ایسے موسم میں اپنے کام ڈھنگ سے شروع نہیں کر پاتا۔ موسم کی شدت کی وجہ سے کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ جب اگلے برس اپریل میں موسم بہتر ہوتا ہے تو اُس وقت تک بمشکل بیس فیصد کام ہوا ہو تا ہے۔یہی مالی سال کی آخری سہ ماہی ہو تی ہے۔جب بیوروکریسی کی طرف سے ٹھیکیداروں پر دباؤ پڑتا ہے کہ کام مکمل کیا جائے۔سال بھر کے کام دو ماہ میں جس انداز میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ کسی سے ـڈھکی چھپی بات نہیں۔ مالی سال ختم پیسہ ہضم ٹھیکیداراور بیوروکریسی دونوں کے وارے نیارے، بیچارے عوام کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی،گلیوں کی پختگی، بجلی کی فراہمی،ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت، سکولوں،کالجوں کی تعمیر مرمت،چشموں اور نالوں سے پانی لانے والے کوہلوں کی تعمیر اور بحالی جیسے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایک اور برس انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں صورت حال اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور پھر کوئٹہ جانے والی سڑک کہنے کو پختہ شاہراہ ہے۔لیکن جن لوگوں کو اس سڑک پر سفر کرنے کا موقعہ ملا ہو وہ بخوبی بتا سکیں گے کہ اس راستے کو سڑک یا شاہراہ کا نام دینا کتنی بڑی ستم ظریفی ہے۔ جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے روا رکھی ہوئی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب کا درمیانی فاصلہ 230کلو میٹر ہے۔ جسے طے کرنے میں کار پر دس گھنٹے اور فلائنگ کوچ میں بارہ سے چودہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اس سڑک کی حالت بہت بہتر ہے۔

ندی نالوں پر پل بھی بنے ہوئے ہیں۔جونہی یہ سڑک کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے تنگ درے سے ہوتی ہوئی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ دونوں صوبوں کی حد فاصل ایک برساتی نالہ ہے۔جس پر ایک عارضی پل بنا ہو اہے۔اس سے آگے ژوب تک ڈیڑھ سو کلو میٹر کے علاقے میں کم و بیش دس برساتی نالے سڑک کی راہ میں آتے ہیں۔جن میں سے ایک آدھ پر پل بنا ہوا ہے باقی تمام کے تمام خشک برساتی نالے پل کے بغیر سنگلاخ پتھروں پر اچھلتے کودتے پار کرنا پڑتے ہیں۔ اگر بارش ہوجائے تو پھر مسافروں کو برساتی نالوں کے کنارے ٹھہر کر پانی کا زور ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

کیونکہ کوئی بھی فلائنگ کوچ یا کار والا تیز برساتی ریلے میں اپنی گاڑی ڈال کر اس سے اور اپنی جان سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کرتا۔یہ انتظار ایک دو گھنٹوں سے لے کر پوری رات یا دن پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ ان تمام برساتی نالوں پر بیوروکریسی کے کاغذات کی رو سے درجنوں بار پل تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ یہ پل کاغذات ہی میں ہر سال برساتی پانی کی بھی نذر ہوجاتے ہیں۔اور حکومت ہر سال ان پلوں کی تعمیر کے لئے کروڑوں روپے مختص کر تی ہے۔یہ سارا پیسہ سڑک کے اردگرد آباد وڈیروں، ٹھیکیداروں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان ہو،کوہاٹ ہو یا چترال، ژوب ہویا کوئٹہ، لیہ ہو یا مظفر گڑھ۔ان علاقوں کا جغرافیہ تو خالق کائنات نے ترتیب دیا ہے لیکن یہاں کی پسماندگی ،غربت،مشکلات اور عوام کی بے بسی کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت، منتخب نمائندوں، مقامی بیوروکریسی اور ٹھیکیداروں پر عائد ہوتی ہے۔

جو ایک دوسرے کی ملی بھگت سے ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ ہڑپ کرکے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کو انتخابات میں کامیاب کراتے اور پھر اپنی بد عنوانیوں کے لئے انہیں ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔بدعنوانیوں کی یہ داستان بہت طویل ہے۔اس لئے ہم واپس گلگت کی طرف آتے ہیں۔جو اس علاقے کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔4208مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ضلع گلگت پورے علاقے میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔جلال آباد سے لے کر بسین تک بارہ کلو میٹر کی لمبائی اور دو سے تین کلو میٹر کی چوڑائی میں پھیلے ہوئے کم وبیش ایک لاکھ آبادی کے اس شہر کا محل و وقوع ایسا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع تور غر، کوہستان سے لے کرپورے گلگت بلتستان کے لوگوں کا رخ گلگت کی طرف ہے۔

سردیوں میں شدید سردی سے ٹھٹھرنے اور گرمیوں میں شدید گرمی سے جھلسنے کے باوجود چلاس، تانگیر، داریل، استور، منی مرگ، غذر، یاسین، پھنڈر، نگر، ہنزہ، گوجال،سکردو، شگر، کھرمنگ، گانچھے،کوہستان اور تورغر کے لوگ نقل مکانی کے لئے گلگت کو ترجیح دیتے ہیں۔2015-16؁ء کے دورانمیں دیامر۔بھاشا ڈیم کے متاثرین میں ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ تقسیم کیا گیاتھا۔وفاقی حکومت نے کم و بیش چالیس ارب روپے ضلع دیامیر کے باشندوں میں تقسیم کئے۔معاوضہ وصول کرنے والوں کی اکثریت نے کبھی دس بیس ہزار روپے سے زائد رقم اکٹھی نہیں دیکھی تھی۔چنانچہ کئی لطیفے بھی سرزد ہوئے۔

گلگت چھاؤنی میں جوٹیال کے علاقے میں ایف سی این اے چوک میں ایک بھارتی ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔(جو اُس وقت تک بغیر کسی جنگلے یا حفاظتی دیوار کے سیمنٹ کے بنے ہوئے ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا۔) ایک دن ایک بوڑھا شخص جس نے اپنی بنجر پہاڑی زمین کا معاوضہ لاکھوں روپے میں وصول کیا تھا۔اس چوک میں پیدل جاتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے قریب رکااور اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ایک گلگتی ستم ظریف نے اُس بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔بوڑھے نے جواب دیا کہ یہ جہاز دیکھ رہا ہوں۔گلگتی نے کہا کہ یہ میر ا جہاز ہے۔تم خریدنا چاہتے ہو۔بابے نے کہا کہ کیوں نہیں۔اُس شخص نے کہا کہ مجھے چھ لاکھ روپے دے دو اور یہ جہاز تمہارا ۔ بوڑھے شخص نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔

ڈب سے رقم نکالی اور گن کر چھ لاکھ روپے اُس نوسرباز کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔نوسرباز نے بابے سے کہا کہ آپ کل آکر اپنا جہاز لے جائیں۔بوڑھا خوش ہو کر وہاں سے چلاآیا۔دوسرے دن علی الصبح بابا اپنا جہاز وصول کر نے ایف سی این اے چوک پہنچا۔اور جہاز پر اپنا کپڑا مارنے لگا تاکہ اُس پر پڑی ہوئی گرد صاف کر لے۔اتنے میں چوک میں تعینات فوجی جوان بوڑھے کے پاس آئے اور پوچھا کہ بابا جی آپ کیا کر رہے ہیں۔بابے نے بتا یا کہ وہ یہ جہاز خرید چکا ہے۔اور اسے لینے آیا ہے۔فوجی جوانوںکو بابے کی دماغی صحت پر شک ہوا ۔لیکن بابا جس قدر یقین سے بات کررہا تھا۔وہ سمجھ گئے کہ کوئی بندہ بابے کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔

پھر انہوں نے بوڑھے شخص کو بتا یا کہ یہ جہاز بہت پرانا ہے۔یہ سٹارٹ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ قابل فروخت ہے۔تب جا کر اُس بوڑھے شخص کو سمجھ آئی کہ اُ س کے ساتھ کیا ہوا ہے۔اُس نے پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔نوسرباز صاحب نے اپنا صحیح نام پتہ نشان نہیں بتا یا تھا۔ لیکن ڈیم کی زد میں آنے والی زمینوں کا معاوضہ لینے والے سارے لوگ اس بوڑھے کی طرح نہیں تھے۔اکثریت نے جوٹیال، سکوار، گلگت چھاؤنی،غذر روڈ،شاہراہ قراقرم اور مضافات میں تجارتی اور رہائشی زمینیں خریدیں اوربڑی بڑی مارکیٹس اور پلازے تعمیر کرنا شروع کردیئے۔خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے گلگت میں زمینوں کی قیمتیں راتوں رات آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

گلگت بلتستان کی وادیوں میں ہنزہ کو اللہ رب العزت نے بہت دل کشی عطا کی ہے۔ضلع ہنزہ کا صدرمقام علی آباد ہے۔جو گلگت سے 112کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اگر کہیں رُکنا نہ ہو تو گلگت سے دو گھنٹوں میں علی آباد پہنچا جا سکتا ہے۔یہ سفر عمدہ سڑک ،دلفریب نظاروں اور پہاڑی ڈھلانوں پرخوبانی،چیری اور سیب کے درختوں سے گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات کی وجہ سے بہت پُر لطف رہا۔

راستے میں ضلع نگر میں چھلت ،چھپروٹ اور نلت وادیوں کے دامن میں سڑک کے کنارے ایک جگہ بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ یہاں زمین اور پہاڑوں کی مختلف تہیں آپس میں ملتی ہیں۔ چھلت کے بعد وادی ایک دم سے کُھل جاتی ہے۔دریا،سڑک اور دو پہاڑوں کے درمیان تنگ درہ ایک وسیع وعریض وادی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دریا ہنزہ میں شامل ہونے والے کوہستانی نالوں کے ساتھ اوپر کی طرف وادیاں اور وسیع چراہ گاہیں ہیں۔ جن کی طرف جانے والے راستے دریا پر رسوں سے بندھے ہوئے پُلوں کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے منسلک ہیں۔ سڑک غیر محسوس انداز میں دھیرے دھیرے اوپر کی جانب بڑھتی ہے۔پیچھے مڑ کر دیکھنے پر راکاپوشی ہر موڑ کے بعد اپنی نئی چھب دکھا تی اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے۔

اس آنکھ مچولی کے ساتھ آگے بڑھیں توسکندر آباد، جعفر آباد،تھول،غلمت سے گذرتے ہوئے حسن آباد کا گاؤں آجاتا ہے۔یہ ہنزہ کے صدر مقام علی آباد کے مضافات میں سے ہے۔علی آباد، حسن آباد ،کریم آباد اور سمائر ایک دوسرے کے سامنے آباد ہیں۔یہ وادی بلاشبہ گلگت بلتستان کی حسین ترین وادیوں میں سر فہرست ہے۔کریم آباد میر آف ہنزہ کے آبائی محل، التت قلعہ اور درجنوں ہوٹلوں کی وجہ سے معروف سیاحتی مقام ہے۔مارچ کے اس آخری ہفتے میں کریم آباد بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہو اتھا۔ میں نے علی آباد میں پاکستان ٹورزم ڈیلوپمنٹ کارپوریشن کے موٹل پرگاڑی رکوائی جو سڑک کے کنارے بہت ہی اچھی لوکیشن پر بنا ہوا ہے۔

موٹل کا دروازہ کھلا تھا لیکن اندر سب کچھ سردیوں کی وجہ سے بند تھا۔ ڈھلوان پر بہت ہی خوبصورتی سے تعمیر شدہ کمرے ،اُن کے آگے بنے ہوئے دریچے،دریچوں کی محرابیں یہ سب کچھ انسان کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میںپی ٹی ڈی سی کے جتنے بھی نئے موٹلز بنے ہیں۔

اُن سب کا نقشہ کسی بہت ہی اچھے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا ہے اور یہ ایک ہی ڈیزائن پر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں راما جنگل استور، خپلو، گوپس،پھنڈر،ہنزہ علی آباداورست پارہ کے موٹلز شامل ہیں۔ سکردو اور گلگت میں عرصہ دراز سے موجود پی ٹی ڈی سی کے موٹلز الگ الگ ڈیزائن میں ہیں۔ ۹۰۰۲؁ء میں صوبہ کا درجہ دیئے جانے کے بعد جن اضلاع کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا ابھی اُن کے انتظامی دفاتر کی عمارتیں مکمل نہیں ہو پائی تھیں کہ ۵۱۰۲؁ء میں وزیراعظم نوازشریف نے نگر،شگر اور کھرمنگ کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کردیا۔ ہنزہ کو ۹۰۰۲؁ء میں ضلع بنایا گیا۔ چھ برس گذرنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کے دفاتر نہیں بن پائے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہنزہ کا دفتر پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں کام کر رہا ہے۔ علی آباد سے آگے جائیں توکریم آباد کی طر ف جاتے ہوئے گینش گاؤں آتا ہے۔یہ قدیم آثار سے مالامال گاؤں ہے۔یہاں ہندو اور بدھ دور کے کئی آثار موجود ہیں جو کم و بیش ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار برس پرانے ہیں۔

یہاں شاہراہ قراقرم اس طرح سے بل کھاتی گذرتی ہے کہ علی آباد سے اس کا نظارہ آنکھوں میں بس جاتا ہے۔علی آباد سے آدھ پونے گھنٹے کی مسافت پر عطا آباد جھیل واقع ہے جوحادثاتی طور پر۴ جنوری ۰۱۰۲؁ء کو ایک پہاڑ کے یکایک دریائے ہنزہ میں گرنے سے وجود میں آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ اس پہاڑ کے گرنے سے پہلے عطا آباد گاؤں والوں کو حکومت کی طر ف سے مطلع کیا جا چکا تھا کہ پہاڑ کا ایک حصہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے کسی بھی وقت گر سکتا ہے ،اس لئے گاؤں کی زیادہ تر آبادی محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکی تھی۔لیکن کچھ افراد ایسے تھے جو اپنے گھروں میں موجود تھے۔

دن بارہ سوا بارہ بجے جب پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرا تو اس کا ملبہ دو کلومیٹر کے علاقے میں پھیل گیا۔ عطا آباد گاؤں کے تمام گھر،ڈھلوانوں پر بنے کھیت اور باغات سب دریا بُرد ہوگئے۔ ملبے کی زد میں عطا آباد کے علاوہ اس کے نیچے ڈھلان پر موجود آئین آباد گاؤں کی آبادی بھی آئی ۔ مرنے والوں کی کل تعداد انیس تھی۔ جن لوگوں کے گھر بار مال مویشی اورجائیداد تباہ ہوئی اُنہیں فی گھرانہ چھ لاکھ روپے حکومت کی طر ف سے معاوضہ دیا گیا۔دریا کی گذرگاہ بند ہوجانے کی وجہ سے دریائے ہنزہ جھیل کی صورت اختیار کرتا گیا۔اور چار ماہ میں عطا آباد جھیل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط ہو کر وجود میں آگئی۔عطا آباد سے ششکت تک کم و بیش اکیس کلو میٹر کا علاقہ جھیل بن گیا۔

اور اتنے ہی فاصلے پر نو تعمیر شدہ شاہراہ قراقرم بھی جھیل کی نذر ہو گئی۔ چین اور پاکستان کے مابین زمینی تجارت معطل ہو گئی۔سب ڈویژن گوجال کی پوری آبادی جو تقریباً پچیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اپنے ضلعی صدرمقام علی آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ گئی۔ عطا آباد سانحے کے پہلے ہی دن ریڈیو پاکستان گلگت نے اس حادثے کی خبر دنیا تک پہنچائی اور پھر متاثرین کی بحالی اور دریا کا پانی رک جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے عوام کو آگاہ رکھنے میں جو کردار اد اکیا وہ بلاشبہ انتہائی اہم تھا۔ شروع میں تو گلگت ہی سے پروگرام نشر کئے جاتے رہے۔

بعد میںصورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اُس وقت کے ڈائر یکٹر جنرل غلام مرتضیٰ سولنگی نے گلگت کا دورہ کیا اورکریم آباد کے التت قلعہ میں ایف ایم کا ایک ٹرانسمیٹر نصب کرکے خصوصی نشریات شروع کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ دریا کا راستہ بند ہوجانے کے بعد یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ رُکا ہو ا پانی کسی بھی وقت بند توڑ کر سیلاب کی صورت میں نیچے والی آبادیوں پر چڑھ دوڑے گا۔ التت قلعہ کا ہنگامی ریڈیو اسٹیشن چلانے کے لئے فنی عملے کے علاوہ محمد اسماعیل پروڈیوسر کو التت بھیجا گیا۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قواعد کے مطابق محمد اسماعیل اور دیگر عملہ نہ صرف گلگت سے التت تک کے سفر خرچ اور روزانہ الاؤنس کا حق دار تھا بلکہ اُنہیں یہاں قیام کے سارے عرصہ کا روزانہ الاؤنس دیا جانا تھا۔کیونکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے علی آباد کے ایک ہوٹل میں رہنے پر مجبور تھے۔اس حوالے سے صدر دفتر سے ٹیلی فون پر ہدایات دی گئی تھیں۔

چونکہ صورت حال ہنگامی نوعیت کی تھی اس لئے صدردفتر میںکسی نے یہ تردد نہ کیا کہ اس بارے میں تحریری احکامات بھی گلگت بھیجے جائیں۔ ساڑھے تین ماہ بعد جب التت قلعہ میں قائم ریڈیوسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور عملے کو واپس گلگت بلایا گیا تواب بن آئی ریڈیو پاکستان گلگت کے اُس وقت کے اکاؤنٹس آفیسر(جوتما م حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کی بھرپور بد دعائیں سمیٹ کر ریٹائر ہو چکے ہیں)اور اسٹیشن ڈائریکٹر کی ( وہ بھی اپنی تمام تر نالائقیوں اور احساس کمتری سمیت ریٹائر ہوچکے ہیں) جنہوںنے یہ قانونی موشگافی نکال کر کہ ’صدر دفتر سے ہمیں ٹیلی فون پر تو کہا گیا ہے لیکن جب تک تحریری احکامات نہیں آئیں گے آپ کو ٹی اے ڈی اے نہیں دیا جا سکتا‘ محمد اسماعیل اور دیگر عملے کواُن کے جائز حق سے محروم رکھا۔

جنوری ۰۱۰۲؁ء میں جب یہ سانحہ ہوا۔اور شاہراہ قراقرم کا خاصہ بڑا حصہ پانی کی زد میں آگیا۔ تو گوجال کے لوگ شروع شروع میںششکت سے عطا آباد جھیل کی دوسری طرف پیدل آتے جاتے رہے۔بعد میں تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم سے کشتیاں منگوائی گئیں۔اُنہیں چلانے کے لئے کشی ران بھی وہیں سے منگوائے گئے۔جن لوگوں کو معاوضہ ملا اُن کی اکثریت نے کشتیاں خرید لیں۔اور لوگوں کی آمد و رفت سے ایک نیا روزگار شروع ہوا۔چین سے سامان لے کر آنے والے ٹرک ششکت میں آکر مال اُتارتے جسے کشتیوں پر لاد کر پار لے جایا جاتا۔ جھیل پار کرنے کے بعد یہ سامان دوبارہ ٹرکوں میں لوڈ کرکے گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں کو بھیجا جاتا۔اس طرح اس سامان کی باربرداری کا خرچ بڑھ گیا، اور کچھ ہی عرصے میں چین کی زمینی تجارت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔پھر چین سے آنے والا سامان کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کے ذریعے آنے لگا۔ مسافروں اور سامان کو لانے لے جانے والے کشی رانوں کو بیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ،کھانا پینا اور رہائش کی سہولیات دے کر یہاں رکھا گیا۔ چین کے سرحدی شہر کاشغر سے گلگت تک خنجراب کے راستے مال منگوانے پر پندرہ دن لگتے تھے۔

جبکہ کراچی کے راستے آنے والی چینی مصنوعات کو گلگت پہنچنے میں ۵۷ دن صرف ہوتے۔سرد موسم میں عطا آباد جھیل کی رونقیں مانند پڑجاتی تھیں۔ مسافروں کی آمد و رفت بہت محدود ہوجاتی تھی۔عطا آباد جھیل کے سفر کے لئے حکومت کی طرف سے ستر روپے کرایہ مقرر کیاگیا تھا۔ جبکہ کشتیوں والے مسافروں سے فی کس ایک سو روپے وصول کرتے تھے۔ میں جب مارچ ۵۱۰۲؁ء کی ایک سرد دوپہر کو عطا آباد جھیل کے کنارے پہنچا تو آسمان ابرآلود تھا اورتیز ہوا چل رہی تھی۔ میرے ہمراہ محمد اسماعیل پروڈیوسر اور جان عالم ڈرائیور تھے۔ بادل جھیل کے کنارے کے پہاڑوں پر نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ ہوا اور پہاڑوں پر چھائے بادلوں کی آنکھ مچولی ایک خاصے کی چیز تھی جس کو دیکھنے کا موقعہ کم کم ہی ملتا ہے۔

2010؁ء میں ہونے والے اس سانحے کی زد میں آنے والی سڑک کی متبادل شاہراہ کی تعمیر پورے زور وشور سے جاری تھی۔ چینی تعمیراتی کمپنیاں عطا آباد جھیل کے علاقے میں پانچ سرنگیں تعمیر کر رہی تھیں تاکہ جھیل سے باہر محفوظ شاہراہ قراقرم کے دونوں حصوں کو ملایا جا سکے۔ ہم نے دفتر کی گاڑی جھیل کے کنارے کھڑی کی اور اپنی باری آنے پر کشتی میں جا بیٹھے۔ ایک کشتی میں عام طور پر بیس سے پچیس تک مسافر اور اُن کا سامان آتا ہے۔اگر کسی نے گاڑی بھی جھیل کے اُس پار لے جانی ہوتی تھی تو اُسے دو سے تین ہزار روپے کرایہ اد اکرنا پڑتا تھا۔گلگت اور ملک کے دوسرے حصوں سے گوجال آنے والوں کو جھیل پار کرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یوں تو پاکستان میں درجنوں قدرتی جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی مثالی ہے۔ بے شمار جھیلیں ایسے دشوار گذار مقامات پر ہیں کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ صرف فضا سے ہی اُن جھیلوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

تربیلا، منگلا،ورسک،مالاکنڈ ڈیمز کی جھیلیں بھی دلکش ہیں لیکن حادثاتی طور پر بننے والی اس عطا آباد جھیل کا حسن ایسا ہے کہ انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔تاحد نظر پھیلا ہوا نیلگوں پانی جب ہلکورے لیتا ہے تو انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔سردیوں میں اس جھیل کی سطح جم جاتی ہے۔ جھیل کا ساکت پانی جو حقیقت میں ساکت نہیں ہوتا اپنے اندر ایک نامعلوم کشش رکھتا ہے۔یہ سفر بہت دل کش تھا۔یخ بستہ نیلگوں پانیوں پر آتی جاتی کشتیاں،کشتیوں میں بیٹھے ہوئے حسین لوگ، بعض کشتیوں پر بجائے جانے والے نغموں کی آوازیں، کشتیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی لہریں،ان لہروں پر ڈولتی ہوئی مرغابیاں، جھیل کے کناروں کے پہاڑوں کے ساتھ سر پٹکتا ہو اپانی ،یہ سفر ایک خواب جیسا تھا جس کے ٹوٹنے کا مجھے آج تک دکھ ہے۔ تقریباً پینتالیس منٹ کے اس دلفریب سفر کے بعد ہم ششکت پہنچے۔کشتی سے اُترنے کے بعد ہم نے گلمت تک جانا تھا جس کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر ہے۔ مسافروں کیلئے فلائنگ کوچیں اور سوزوکی پک اپ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ان میں تیس روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔اگر کسی کو عجلت ہو یا گاڑیاں موجود نہ ہوں تو انہیں ٹیکسی میں ایک سو روپے فی سواری کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہم ایک فلائنگ کوچ میں بیٹھے اور پندرہ بیس منٹ میں گلمت پہنچ گئے۔گلمت سیب، خوبانی،چیری اور ناشپاتی کے باغات،آلو گندم اور مکئی کے کھیتوں اور اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے۔

یوں تو پورے گلگت بلتستان اور چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اپر چترال اور اپر ہنزہ میںان اداروں کی موجودی بہت نمایاں ہے۔کیونکہ یہاں کی آبادی کا غالب حصہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ تعلیم، صحت ،زراعت ، باغبانی،گھریلو دستکاریوں،جنگلات اورجنگلی حیات کے شعبوں میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ادارے مصروف عمل ہیں۔اور ان کا نیٹ ورک ہر چھوٹی بڑی آبادی تک پھیلا ہوا ہے۔گلمت میں ہمیں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے مقامی دیہی تنظیم کے دفتر جانا ہوا۔جہاں بہت منظم انداز میں مرد اور عورتیں مل جُل کر اپنی تنظیم کے معاملات چلا رہے ہیں۔پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہمیں بتائے بغیر کھانا منگوا لیا گیا تھا ۔ میں نے پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل کی ۔جس میں شرکاء نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح سے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت صحت، تعلیم،کھیتی باڑی، باغبانی،آبپاشی،پینے کے پانی کی فراہمی، پن بجلی کی پیداوار،گھریلو دستکاریوں،ادویات کی تیاری،روزگار کی فراہمی،سیاحت کے فروغ اور ماحول کے تحفظ کے لئے مربوط انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

The post ہنزہ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر67

مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے، جب بابا نے فقیر کو کہا تھا کہ آج اپنے بھائی کی واپسی کا جشن مناؤ پھر کل سے کام پر جانا، پھر حنیف بھائی سے جو گفت گو ہوئی وہ تو آپ اس سے پہلے سُن ہی چکے ہیں، حنیف بھائی تو کٹیا سے مجھے بے وقوف کہہ کر حیرت میں چھوڑ گئے تھے۔

فقیر سوچتا رہ گیا، اس لیے نہیں کہ اسے احمق کہا گیا، یہ تو فقیر کے لیے کوئی انکشاف تھوڑی ہے، یہ حقیقت ہے اور اتنا تو جانتا ہی ہے فقیر۔ فقیر تو کچھ اور سوچ رہا تھا اور پھر اس پر ایک اور انکشاف ہوا کہ حنیف بھائی کوئی ایک دو ہفتے نہیں پورے ایک ماہ دس دن بعد اپنی اُس حالت میں رہ کر واپس لوٹ آئے تھے، اور وہ جس رات واپس لوٹے وہ چالیسویں رات تھی۔ فقیر تو بہت کچھ سمجھنے سے قاصر تھا اور حنیف بھائی کو بُھلا کر بابا کے متعلق سوچ رہا تھا کہ انہوں نے تو مجھے حنیف بھائی کے متعلق یہی بتایا تھا کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں جو میں نے بھائی کو بتا دیا تھا لیکن حنیف بھائی نے یہ انکشاف کرکے کہ وہ مکمل ہوش و حواس میں تھے اور میں بے وقوف ہوں کہہ کر حیرت میں ڈال دیا تھا۔

فقیر بُری طرح سے الجھ گیا تھا کہ کون درست کہہ رہا ہے، بابا یا حنیف بھائی۔ الجھن یہ تھی کہ بابا نے فقیر سے غلط بیانی کیوں کی۔۔۔۔ ؟ اگر وہ غلط بیانی تھی تو۔ فقیر اسی کش مکش میں تھا اور اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہواکہ شام ہوگئی اور بابا جی سر پر کھڑے ہیں، انہوں نے میرے سر پر دست مبارک رکھا تو سُکون کی لہر پورے وجود میں سرایت کرگئی، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی۔ کہاں پھنس گیا ہے میرا بچہ! انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کہیں نہیں بابا بس ٹھیک ہے، جو ہے۔

میرے جواب پر بابا نے مسکراتے ہوئے پوچھا: کیا مطلب؟ میں بے وقوف ہوں ناں بابا، میں احمق ہوں، حنیف بھائی تو ایسا سمجھتے ہی نہیں بل اکثر کہتے رہتے ہیں اور آپ بھی مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں، تو بس ٹھیک ہے میں ہوں ہی ایسا۔ بابا نے میری بات بہت دھیان سے سنی: اوہو! تو یہ بات ہے، چلو میرا بچہ اتنا عقل مند تو ہوگیا ناں کہ وہ یہ تو جان پایا ہے کہ وہ احمق ہے، یہ جاننا بھی تو کوئی معمولی بات نہیں، واہ جی واہ! اتنے عقل مند تو تم ہو ہی گئے ناں۔ پتا نہیں بابا بس جو ہے وہ ٹھیک ہے۔ اتنے میں حنیف بھائی کٹیا میں داخل ہوئے، کیا ہُوا میرے بھائی کو۔۔۔۔ ؟ کچھ نہیں ہُوا آپ پریشان نہ ہوں، میں بے وقوف ٹھیک ہوں، احمقوں کو بھی کبھی کچھ ہوا ہے کیا۔ بابا اور حنیف بھائی میری بات سن کر ہنسے اور میں کٹیا سے باہر آکر بیٹھ گیا۔

نیا دن اپنی نئی ترنگ کے ساتھ باہر نکل آیا تھا اور ہم پورے ایک ماہ اور دس دن بعد اپنے پُرانے معمولات کی طرف لوٹ رہے تھے۔ بابا جاچکے تھے اور میں حنیف بھائی کے ساتھ رواں تھا، ان کی سائیکل ویسے ہی ہوا میں اڑتی جارہی تھی۔ مجھے خاموش پاکر وہ بولے: کیا ہوا میرے بھائی کو کل سے تو کوئی بات چیت ہی نہیں کررہا، بتا مجھے کیا ہوا تجھے، بول ۔ کچھ نہیں ہوا آپ آگے دیکھیں اور سائیکل چلائیں۔

دیکھو بھائی پیارے! سنو ہماری بات، حنیف بھائی نے مجھے رجھانے کی کوشش کی۔ کسی عقل مند سے آپ بات کیجیے میں بے وقوف ہوں تو بس اپنی عقل مندی مجھ ایسے پر ضائع کرنا بھی بے وقوفی ہے، اسے کسی اور کے لیے بچا رکھیے۔ فقیر بھی کوئی کم ہے کیا، اور زبان درازی میں تو بہت تاک ہے جی، اور زبان اُن کی دراز ہوتی ہے جو عاقبت نااندیش ہوں، بے وقوف و احمق ہوں، بے علمے اور عجلت کے مارے ہوں، بلا سوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہوں، کچھ جانتے نہ ہوں لیکن خود کو عالم فاضل سمجھتے ہوں، آتا جاتا کچھ نہ ہو اور کہلاتے منشی فاضل ہوں، تھڑدلے اور لایعنی باتونی ہوں، باعلم، دانا، بینا و اعلی ظرف تو کبھی ایک لفظ بھی عبث نہیں بولتے کہ جانتے ہیں اس قینچی کی طرح چلنے والی زبان کے ہر لفظ کا حساب انہیں دینا ہوگا۔

ہر لفظ کا جو اضافی ادا کیا گیا ہو، ایسا لفظ جو کسی کی بھی دل آزاری کا سبب بن گیا ہو، ایسا لفظ جو کسی کا جیون برباد کرگیا ہو، کسی کے زندگی بھر کا روگ بن گیا ہو، جی ہر لفظ کا حساب واجب ہے کہ جو زبان سے ادا کیا گیا ہو، لیکن نصیحت تو وہ قبول کرتے ہیں، عمل تو وہ کرتے ہیں جو دل زندہ رکھتے ہوں، ایثار کیش و ہم درد و مخلص ہوں، جو رب کی ہر مخلوق کے حقوق کی پاس داری اپنا نصب العین سمجھتے ہوں، مجھ ایسے تھوڑی ہوتے ہیں وہ سماج کی پیشانی کا کلنک، آپ جیسے اعلٰی ظرف ہوتے ہیں وہ جو انسانیت کے ماتھے کا جُھومر ہیں ، اس سماج کے لیے نعمت خداوندی ہیں، جنہیں دیکھ کر زندگی کا اعتبار قائم ہے، جن سے رب تعالٰی کی مخلوق آسودہ ہے۔ رب تعالٰی آپ کو سلامت رکھے اور فقیر کو انسان اور بندہ بننے کی کرامت عطا فرمائے۔

فقیر پھر کہیں اور چلا گیا تھا تو حنیف بھائی نے میری بات سنی اور پھر کہنے لگے: تو میرے بھائی حقیقت یہی ہے کہ تم بے وقوف ہو تو اس میں بُرا منانے کی کیا ضرورت ہے، اپنی آنکھیں کھولو، تمہیں یاد نہیں کہ بابا اکثر فرماتے ہیں اپنی آنکھیں اور کان کھلی اور زبان بند رکھو، لیکن میرے بھائی نے تو الٹا ہی عمل کیا ہے ناں کہ آنکھیں اور کان مکمل بند کرلیے ہیں اور زبان کی لگام یک سر اتار پھینکی ہے۔ اب تو فقیر کی سکت کامل ختم ہوگئی تھی، میں نے طیش میں آکر چلتی سائیکل سے چھلانگ لگا دی۔

حنیف بھائی نے بریک لگائی، سائیکل کھڑی کی اور میرے پاس آئے: کیا ہُوا میرے بھائی کو ؟ کچھ نہیں ہوا مجھے! آپ جائیں میں خود آجاؤں گا، انہوں نے مجھے غور سے سنا، مسکرائے اور میرا بازو پکڑ کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ تو میرا بھائی خفا ہوگیا، دیکھ پگلے! میں تو اپنے بے وقوف بھائی کو چھوڑ کر کہیں جانے کا نہیں، عقل مند ہوتا تو ایسا سوچتا بھی، اسے تو تم بُھلا ہی دو، تمہیں چھوڑ دوں گا تو جیوں کا کیسے، بالکل پگلا ہے تُو۔ نہ جانے وہ اتنے شوخ کیوں ہوگئے تھے، بہت دیر ہوگئی تھی، سورج سر چمک رہا تھا، فقیر کو ایسا لگا جیسے وہ بھی حنیف بھائی کا ہم نوا ہے، چلیں حنیف بھائی کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ بہت تاخیر سے کارخانے پہنچے ہم۔

بابا نے حنیف بھائی کو تو بہت پیار سے دیکھا اور فقیر کو؟ بس رہنے دیجیے، عجب ماجرا ہے یہ ہماری انوکھی دنیا۔ دن پسپا ہونے کو تھا اور سورج تھک کر رخصت ہوا چاہتا تھا اور ہم اپنی کٹیا کی راہ میں تھے، بابا پہلے ہی جاچکے تھے۔ کٹیا پہنچ کر ہم اپنے معمولات سے فارغ ہوئے، میں کٹیا کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ بابا مجھ سے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھ گئے۔ ایسا کبھی نہیں ہُوا تھا، وہ ہمیشہ میرے قریب بیٹھتے تھے، لیکن آج ۔۔۔۔۔۔! میرے اندر سوالات اور خدشات کا جھکّڑ چلنے لگا اور پھر وہی ہُوا ، میرے خدشات بابا کے جلال کی صورت میرے سامنے تھے۔

ہاں تو تم خود کو بہت عقل مند سمجھتے ہو ؟ بابا کا سوال میرے سامنے تھا، میں سر جھکائے بیٹھا تھا، کیا جواب تھا میرے پاس اس سوال کا۔ بولو! تم خودسر نہیں ہوسکتے سمجھے تم! آج تم نے حنیف کے ساتھ جانے سے انکار کیوں کیا بتاؤ، کل تم حنیف کے ساتھ نہیں میرے ساتھ جاؤ گے۔ بابا یہ کہہ کر چلے گئے اور فقیر سوچنے لگا کہ اس کی کون سی بات بابا کو ناگوار گزری۔ پھر اندھیرے کو روشنی نے پسپا کر ڈالا اور چڑھا نیا سویرا۔ یہ تاریکی اور نُور کی کش مکش ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، سب فنا کے لیے ہے، نابُود ہوجائے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔

میں بابا کے ساتھ روانہ ہوا۔ حنیف بھائی نے کچھ معلوم ہی نہیں کیا کہ میں کیوں بابا کے ساتھ جارہا ہوں۔ بابا ایک نئے راستے کو اختیار کیے ہوئے تھے، اور پھر وہ ایک لوہار جس کے سامنے دہکتی ہوئی بَھٹّی میں چند سلاخیں سُرخ ہو رہی تھیں اور وہ بُھجَنگ ایک کو سان پر رکھے اپنے ہتھوڑے کے وار سے کسی کارآمد اوزار میں بدل رہا تھا، کے پاس جا ٹھہر ے۔ وہ بابا کو دیکھتے ہی بابا کی سمت دوڑا، کیسے زحمت فرمائی حضور، حکم دیا ہوتا تو بندہ خود قدم بوسی کے لیے حاضر ہوجاتا۔ بابا نے بہت پیار سے اسے سینے سے لگایا اور اس کی پیشانی اُن کے بوسے کی سعادت سے پُرنور ہوئی۔

حکم کیجیے حضور بندہ تابعدار ہے آپ کا! کہہ کر وہ اپنا سر جھکا کر کھڑا ہوگیا، پھر بابا کے بیٹھنے کے بعد اس نے کائی زدہ گھڑے سے پیتل کے گلاس میں بابا کو پانی پیش کیا۔ واہ سبحان اﷲ بھئی! تمہاری طرح تمہارے گھڑے کا پانی بھی جاں فزا اور راحت بخش ہے، بابا کی یہ بات سُن کر وہ بولا: حضور بس آپ کی نظر کرم ہے، اﷲ تعالی کا احسان عظیم ہے حضور! اپنی نظر کرم میں رکھیے گا اس بندے کو۔ فقیر حیرت سے یہ سب سُن اور دیکھ رہا تھا اور اس لوہار کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بابا سے مخاطب ہوا: حکم کیجیے حضور! یہ بچہ ہے میرا، اسے زنجیر پہنانی ہے۔

بولتا بہت ہے پگلا، بابا نے اسے میرے متعلق بتایا۔ اچھا جی حضور! کہہ کر اس نے ایک موٹی آہنی زنجیر نکالی اور پھر مجھے اپنے پاس بٹھا کر میری کلائیوں اور پاؤں کے سائز کا کاٹا اور پھر میری دونوں کلائیوں اور پاؤں میں پہنا کر ایک فقیر کے گلے میں بھی ہار کی طرح ڈال دی، فقیر سر جھکائے ہوئے تھا تو بابا کی آواز آئی: اصل میں تو اس کے منہ کو تالا لگانا تھا لیکن چلو اس سے بھی کام چل جائے گا، دعا کرنا میرے بچے کے لیے اور یہ لو اپنی اُجرت، رب تعالٰی تمہیں حلال اور آسان رزق کثیر عطا فرمائے، کہتے ہوئے بابا نے اسے کچھ پیسے دیے اور ہم اس سے رخصت ہونے لگے۔ اب ایک نیا منظر تھا، ویسے تو میں آزاد تھا، مجھے چلنے پھرنے میں کوئی دقت نہیں تھی لیکن مجھے علامتی طور پر قید کردیا گیاتھا۔

میری دونوں کلائیوں، پاؤں اور گلے میں لوہے کی موٹی زنجیر تھی، پھر بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے جوتے بھی اس لوہار کے حوالے کردوں، سو میں نے حکم کی تعمیل کی۔ راستے میں بابا نے کوئی بات نہیں کی تھی اور پھر ہم اپنی آرا مشین پر تھے۔ سب نے مجھے ایک نظر دیکھا بس، جی! حنیف بھائی نے بھی، فقیر بے نوا تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میری یہ حالت دیکھ کر بابا سے الجھ جائیں گے لیکن انہوں نے تو سرے سے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا، اب میں اپنی زنجیر کو بُھول کر حنیف بھائی کے رویے پر سوچنے لگا کہ وہ آخر کیسے انسان ہیں، نہ جانے کیسے۔ جی کچھ دن بعد میں پابرہنہ اور پابند زنجیر رہنے کا عادی ہوچکا تھا۔ مجھے وہ دن بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب میں اور بابا ایک اور بابا کے حضور حاضری کے لیے گئے تھے۔

تب بابا ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے اور وہ انہیں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: اس کی زبان کو بند کرنے کا کچھ اور بھی سوچنا، بہت بھونکتا ہے یہ، لاکھ سمجھایا گیا ہے کہ تخلیے کی بات عام محفل میں مت پوچھو، لیکن باز ہی نہیں آیا ناں۔ اور بابا نے دھیمی آواز میں ان سے فرمایا تھا: حضور اب تو اتنا نہیں بولتا، اب بتائیے کہ اب اگر یہ بالکل ہی خاموش ہوجائے تو کیا میں جی پاؤں گا۔ بابا کی بات سن کر وہ مسکرائے تھے اور کہا تھا: ہاں یہ تو ہے، یہ اگر بالکل ہی بولنا بند کردے تو کیسے جییں گے پھر ہم۔ مالک ان سب کے درجات کو بلند تر کرتا چلا جائے، وہ سب مقرب اور بے ریا بندگان خدائے بزرگ و برتر تھے۔ ایسا انہوں نے کیوں کیا تھا ؟ یہ راز فقیر پر بہت عرصے بعد کھلا تھا، جی پابرہنہ رہنے سے ہی فقیر زمین سے پوری طرح ہم آہنگ ہوا تھا۔

رب تعالٰی نے توفیق عطا فرمائی تو فقیر اس رمز کو عیاں کرنے کی سعی کرے گا اور وہ لوہار کون تھے، کیا تھے، یہ بھی۔ اب بھی جب کبھی سوچتا ہوں تو اُن کی محبّت و شفقت آنکھوں سے آنسو بن کر دامن کو تر کر دیتی ہے۔ جی پابرہنہ تو رہا فقیر! لیکن کیا اس سُکون و قرار و لذّت کا اعتراف نہ کرے کہ جب رات کو سوتے وقت بابا جی حضور خود اپنے دست مبارک سے فقیر جیسے عاصی و کم ظرف و عامی کے پاؤں دُھلاتے تھے، پھر سُوئی کی نوک سے ان خار کو نکالتے تھے جو دن بھر چلتے پھرتے پاؤں میں پیوست ہوجاتے تھے اور پھر سرسوں کے تیل سے مساج کیا کرتے تھے، فقیر قطعاً اس کا حق دار نہیں تھا، نہیں بالکل بھی نہیں لیکن بابا کی کرم نوازی، ایثار، اعلٰی ظرفی، خلوص اور محبت تھی کہ فقیر جس سے سُکون و قرار پایا، سیکھا اور اب تک اس سے فیض اٹھارہا ہے۔ مالک کائنات انہیں اس کا بدل و صلہ عنایت فرمائے۔

زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی، آرا مشین ویسے ہی چلتی رہی، اس پر درختوں کو چِیر کر شہتیر بنایا جاتا رہا، ہر طرف لکڑی کا بُرادہ اُڑتا رہا، جو وہاں کے ہر مزدود کے چہرے اور جسم کا غازہ بنتا رہا اور اس کی ایک مخصوص خوش بُو آس پاس رچی بسی رہی، جیون تھا کہ رواں رہا۔ ہم سب مزدور تھے تو محنت ہماری جاگیر تھی، ہمارا ایک ہم جولی درمیان میں پکارتا رہتا: ’’ کر مزدوری تے کھا چُوری‘‘ گرمی تو پھر گرم تھی ہم سب تو سردی میں پسینے میں نہاتے تھے، واہ جی! وہ بھی کیا سہانے دن تھے۔

حنیف بھائی اسی طرح درخت کے تنے کو تنہا ہی اٹھاتے تھے، رب تعالٰی نے انہیں بہت قوی بنایا تھا، زباں بندی کے بعد فقیر حنیف بھائی کے ساتھ ہی کام پر جاتا اور ان کے ساتھ ہی واپسی ہوتی، ان کی سائیکل وہی ہوا میں اڑتی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب فقیر ان سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا، ان کی سُن کر مسکراتا اور کبھی ہنس دیتا تھا، وہ مجھے بولنے پر اکساتے تھے لیکن مجھے حکم تھا کہ اپنی زبان بند رکھوں، اب فقیر نے اپنی آنکھیں اور کان کھلی اور زبان بند رکھنے کی اپنی سی سعی کرنا شروع کی تھی، سمے اڑتا رہا اور ساتھ میں ہم بھی۔ بابا فقیر کا پہلے سے زیادہ خیال رکھتے تھے، بل کہ ایسا کہ فقیر کو کہنے دیجیے جیسا ایک ماں اپنے معصوم بچے کا رکھتی ہے، کیوں ۔۔۔۔۔۔ ؟ یہ تو بعد کے حالات و واقعات نے بتایا کہ بابا جی حضور ایسے کیوں ہوگئے تھے، اور پھر وہ دن بھی طلوع ہوا جب میں اور بابا دوبارہ اسلام آباد جانے کے لیے ویگن میں سوار تھے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

شہزادہ ولیم اور شہزادی میڈلٹن کا دورہ پاکستان، مقاصد کیا تھے؟

$
0
0

شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کے حالیہ دورہ پاکستان کو کینزنگٹن پیلس کے ترجمان نے پیچیدہ قرار دیا اور اس کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائی گئی ۔

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آج سے تیرہ سال قبل2006ء میں ان کے والد پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس پاکستان آئے تو ان کے مجوزہ پروگرام میں پشاور کے ایک اعتدال پسند مدرسے کا دورہ بھی شامل تھا لیکن29 اکتوبر سے تین نومبر تک، شہزادے کے دورے کے دوران باجوڑ کے ایک مدرسے پر ڈرون حملے اور بڑے پیمانے پر طلبہ کی شہادت کے باعث سکیورٹی وجوہات کے با عث مدرسے کا یہ دورہ ممکن نہ ہوا۔

حالیہ دورے میں شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کی قرآن مجید سننے کی روداد کو پاکستان اور مسلم دنیا میں بہت دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ بلا شبہ شاہی جوڑے کا یہ اقدام بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا جس کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔

اس سے قبل ولیم کی دادی ملکہ ایلزبتھ خود بھی پاکستان آچکی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کا شاہی خاندان اب تک اس سلطنت کے اُن حصوں میں دلچسپی رکھتا ہے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اسی لئے گاہے بگاہے اپنے سنہرے ادوار کی یادیں تازہ کرنے کے لئے(انگریزی اصطلاح میں اسے نوسٹلجیا کو مطمئن کرنا بھی کہہ سکتے ہیں) ایسے دورے ضروری ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ دورے سیاسی نہیں ہوتے لیکن ان کے علامتی اثرات کے دور رس ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ نوسٹلجیا کے حوالے سیان دوروں کی علامتی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے دورروں میں پاک افغان بارڈر پر واقع پشاور پاک کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرحد سے ملحق کیلاش کا علاقہ چین کی سرحد سے ملحق گلگت بلتستان بھی عموماً شامل ہوتے ہیں جو مملکت برطانیہ کی انڈیا میں آخری سرحدیں یا چیک پوسٹس تھیں۔

اہم بات یہ ہے کہ حالیہ شاہی دورہ برطانوی فارن آفس کی خواہش پر، اس کے اپنے ڈیزائن کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ شاہی جوڑے کے پاکستانی ملبوسات، رکشا کی سواری، غیر معمولی سادگی، عوام، بچوں یہاں تک کہ کتوں کے ساتھ بھی گھل مل جانے کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ کیٹ مڈلٹن کی آنجہانی ساس پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا کے تذکرے بھی دوبارہ زبانوں پر ہیں۔

ولیم کی والدہ ڈیانا خود عوام میں گھل مل جانے والی خاتون تھیں۔ ان کے شاہی خاندان سے اختلافات کی ایک وجہ شاہی خاندان کی روایات کے برعکس ان کا عوامی انداز بھی تھا جو ان کی ساس کو قطعاً پسند نہیں تھا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج ڈیوک اینڈ ڈچز آف کیمبرج کا ’’عوامی‘‘ دورہ خود برطانوی فارن آفس نے ترتیب دیا ہے کہ ڈیانا اپنی مختصرعمر میں عوامی انداز کو برطانوی شاہی خاندان کی اقدار و روایات کا حصہ بنا گئیں۔

کوئی وقت تھا ،جب ہندوستان میں پیدا ہونے والے برطانوی بچوں کے والدین انہیں برطانیہ بھجوا دیتے تھے کہ انہیں ہندوستان کی ہوا نہ لگ جائے۔’’نائن ٹین ایٹی فور‘‘ نامی مقبول ناول کے مصنف جارج اورویل، اپنے ناول ’’کم‘‘ میں، برطانیہ اور روسی سلطنت کے درمیان گریٹ گیم کے موضوع کو مرکزی خیال بنانے والے اور انگریزی ادب کا پہلا نوبل پرائز حاصل کرنے والے رڈ یارڈ کپلنگ کے علاوہ کشمیر، چین اور مشرقی ترکستان پر اولین سفر ناموں کے مصنف معروف مہم جو سر فرانسس ینگ ہزبینڈ، تینوں ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن انہیں چھوٹی عمر میں انگلستان بھجوا دیا گیا۔

اس دور میں انگریز اپنی سماجی زندگی کو ہندوستانیوں سے قدرے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی ہے۔ ہندوستانیوں سے فاصلہ رکھنے میں انگریز کتنا سنجیدہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انگریز طوائفوں کو ہندوستان میں پریکٹس (دھندہ کرنے) کی اجازت نہیں تھی۔

پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ڈیانا، برطانیہ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کیمقبول ترین برطانوی شہزادی ایک پاکستانی ڈاکٹر کے پیچھے پاکستان پہنچ گئیں۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائماکی مدد سے وہ پشاور میں ڈاکٹر حسنات کے خاندان سے ملیں لیکن شہزادی کی قریب ترین دوستوں کے مطابق خود ڈاکٹر حسنات نے یہ کہہ کر ان سے شادی سے انکار کر دیا کہ وہ میڈیا کی لائم لائٹ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ پاپا رازی میڈیا کی غیر ذمہ داری نے شہزادی کی جان لے لی لیکن ڈاکٹر حسنات اس میڈیا کی چکا چوند سے خود کو نہ بچا سکے۔

2013 ء میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے شہزادی کی زندگی پر ایک سیریل نشر کی جس میں ان کی زندگی کے آخری دو برسوںکو فوکس کیا گیا تو ڈاکٹر حسنات سے ان کے رومانس کی تفصیلات دنیا کے سامنے آنا ناگزیر ہوگئیں۔ ٹینا براؤن نامی صحافی نے ’’ڈیانا کرونکلز‘‘ نامی کتاب تصنیف کی جس میں شہزادی کی ذاتی زندگی سے متعلق ان کے ذاتی اسٹاف، دوستوں اور قریبی رشتے داروں سے ڈھائی سو سے زائد انٹرویوز کیے تو ان کی نا آسودہ ازدواجی زندگی اور ڈاکٹر حسنات کا ذکر ناگزیر تھا۔

شہزادی کی متعدد قریبی دوستوں نے گواہی دی کہ مصری نوجوان ’دودی فائد‘ جن کے ساتھ وہ پیرس کی ایک سرنگ میں تیز رفتاری کی وجہ سے ماری گئیں، کا ساتھ محض ڈاکٹر حسنات کو حسد کا شکار کرنا تھا ورنہ شہزادی کو اس نو دولتئے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نائن الیون سے چند سال قبل اگرڈٖیانا اس پاکستانی ڈاکٹر کو شادی پر راضی کرنے میں کامیاب ہوجاتیں توبڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا پر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے کیا اثرات مرتب ہوتے!

پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے شہزادی ڈیانا سے مراسم رہے۔ شہزادہ ولیم بچپن میں اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان آئے تو انہوں نے وزیر اعظم کے گھر کرکٹ کھیلی۔ آج بھی شہزادوں کے ان کی سابق اہلیہ جمائما اور بیٹوں سے مراسم ہیں۔ اُس وقت عمران اور جمائما میاں بیوی تھے۔ ڈیانا کی آخری رسومات کی لائیو فوٹیج میں بھی یہ دونوں دیکھے گئے تھے۔ آخری رسومات میں عمران خان مروجہ رسم کے مطابق سیاہ سوٹ میں ملبوس تھے۔آج بھی شاہی جوڑے کی وزیر اعظم سے ذاتی ملاقات میں کوئی سفارتی یا ڈپلومیٹک تصنع موجود نہیں تھا۔ خان کو برابری کی بنیاد پر سابق آقاؤں کے بچوں سے تعلقات دیکھ کر بہت سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔

برطانوی شاہی جوڑے کے عوامی دورے کو برطانوی اخبارات نے بھی بہت کوریج دی۔ امید ہے اس سے پاکستان میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور مذہبی ہم آہنگی کو بھی۔ پاکستان میں مغرب سے نفرت اور بے جا تعصب کے روئیے میں بھی کمی آئے گی۔ شاہی جوڑے کے پروگرام میں پاک افغان سرحد کے ایک علاقے کا دورہ بھی شامل تھا جو خبروں کے مطابق موسم کی خرابی کی وجہ سے ممکن نہ ہوا۔

اہم بات جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ولیم کے والد شہزادہ چارلس خود مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں کوشاں رہے ہیں۔ اکتوبر2006ء میں ہونے والے دورے کے دوران برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ چارلس کو اسلام اور مغرب کے مابین تقسیم کے تناظر میں ایک پل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ’مسلم ہیریٹیج‘ نامی ایک ادارے کے سر پرست بھی ہیں جس نے قرون وسطیٰ کے زمانوں کی مسلم ایجادات پر مشتمل نمائش دنیا کے اہم شہروں میں منعقد کی اور ماضی کی شاندار اسلامی تہذیب کو دنیا کے سامنے لانے کا سبب بنی۔ اس ادارے کی سرپرستی ظاہر کرتی ہے کہ اسلامو فوبیا کے اس دور میں شہزادہ چارلس اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔

2006ء میں ان کے مدرسے کا دورہ اگر ممکن ہو جاتا تو دنیا میں پاکستان، دینی مدارس اور خود اسلام کے بارے میں ایک مثبت تصویر ابھرتی لیکن ان کے دورے کے دوران باجوڑ حملے نے جسے پاکستانی فوج کے ترجمان اور افغانستان میں امریکی فوج نے پاکستانی فوج کی اپنی کاروائی قرار دیا، اسے منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیوں کیا گیا جب اسلام اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے معروف شہزادہ چارلس ایک مسلمان ملک کے دورے پر تھے۔

یاد رہے کہ جس روز فجر سے پہلے یہ حملہ کیا گیا، اس روز پاک فوج اور قبائلیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جانا تھا اور اس مدرسے کے مہتمم مولانا لیاقت اس معاہدے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔’لونگ وار‘ نامی ایک تحقیقی جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھائے کہ ایسے وقت میں جب معاہدہ ہونے جا رہا تھا، اس حملے کا کیا جواز تھا؟ ظاہر ہے کہ حملے کا مقصد معاہدے کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن شہزادہ چارلس کے مدرسے کے دورے کو منسوخ کرنا بھی اس کا ایک مقصد ہو سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے وہ کون سے عناصر تھے جو چاہتے تھے کہ معاہدہ نہ ہویا شہزادہ مدرسے کا دورہ نہ کریں؟ پاکستانی فوج یا ان کے حلیف امریکی؟

مولانا لیاقت اللہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی تھی۔ ایک اہم مغربی اخبار نے لکھا کہ اگر ٹارگٹ مولانا تھے تو انہیں ان کے گھر سے مدرسے کے راستے میں کسی جگہ مارا جا سکتا تھا، یوں بڑی تعداد میں طلبہ کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ عین فجر کے وقت مدرسے کے اندر حملے کا فیصلہ کس کا تھا؟’بورو آف انویسٹی گیشن‘ نامی تحقیقی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے کا جواز ایمن الزواہری کی وہاں موجودگی بھی بتائی گئی حالانکہ ایمن الظواہری کبھی باجوڑ نہیں گئے۔ بعد ازاں خود مغربی میڈیا کی تحقیق کے مطابق یہ امریکی ڈرون کا حملہ ثابت ہوا جس میں پاکستانی ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔

عالمی جریدے ’اکنامسٹ‘ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پر اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ مغربی رہنماؤںکے دوروں سے پہلے مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں تاکہ مغرب کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

اس سے قبل صدر بش کی پاکستان آمد کے موقع پر بھی ایک کاروائی کی گئی۔ یاد رہے کہ صدر بش کے برعکس جن کے پروگرام میں اسلام آباد سے باہر کسی مقام کا دورہ شامل نہیں تھا ، شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کے دورے میں پاک افغان بارڈر اور شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی شامل تھا۔

اگر پشاور کے مدرسے کا دورہ ممکن ہوتا تو بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا کو پاکستان، دینی مدارس اور خوداسلام کے بارے میں ایک مثبت تاثر ملتا جو شاید اسلاموفوبیا کی انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو منظور نہیں تھا۔ امید ہے کہ اب تیرہ برس بعد ،شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کا دورہ پاکستان اور اس کی بڑھتی ہوئی سیاحتی انڈسٹری کے بارے میں ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں بھی مدد دے گا اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں بھی۔

The post شہزادہ ولیم اور شہزادی میڈلٹن کا دورہ پاکستان، مقاصد کیا تھے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ملازمت ہو تو ایسی ہو!

$
0
0

آپ نے یہ جملہ تو اکثرو بیشتر ضرور سُنا ہی ہوگا کہ ’’ نوکر کی تے نخرہ کی ‘‘پنجابی زبان کے اِس محاورہ کا سلیس اُردو میں ترجمہ یہ بنتا ہے کہ ’’جب نوکری ہی کرنی ہے تو بھر نخرے کیا کرنے ‘‘ یعنی نوکری کرنے والے نخرے نہیں کیا کرتے۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ دنیا بھر میں ہر شخص ملازمت کے بارے میں یہی رائے رکھتا ہو۔

ہماری اِس عجیب و غریب دنیا میں حسنِ اتفاق سے کئی ایک ایسی ملازمتیں بھی پائی جاتی ہیں جن میں ملازم کے کام پر نظر رکھنے کے بجائے اُلٹا ملازمین کے’’ناز نخرے‘‘ نہ صرف پورے اہتمام کے ساتھ اُٹھائے جاتے ہیں بلکہ اُن کے ’’نخروں‘‘ کے عوض ملازمین کو اچھی خاصی تنخواہ کے ساتھ ساتھ دیگر پُرکشش مراعات کی بھی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ایسی ہی چند نازنخروں سے بھرپور ملازمتوں کا چنیدہ اور منتخب احوال پیشِ خدمت ہے۔

ناخنوں پر نیل پالش لگائیں

ماہانہ لاکھوں کی تنخواہ پائیں

نت نئے فیشن کی شائق خواتین کے لیے اِس سے اچھی ملازمت ہو ہی نہیں سکتی۔ بالکل اِس زبان زدِعام محاورے کے مصداق کہ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے۔‘‘ سچی بات ہے کہ اگر صرف اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگانے کے بدلے سالانہ 35 ہزار برطانوی پاؤنڈ (تقریباً63 لاکھ26 ہزار پاکستانی روپے ) کی ملازمت مل رہی ہو تو کون سی ایسی خاتون ہے جو یہ ملازمت کرنا نہ چاہے گی۔

Nailbox نامی کمپنی جو ناخن پالش بنانے والی دنیا کی ایک مایہ ناز کمپنی ہے، نے جون 2015 میں اِس انوکھی ملازمت کی پیشکش ایک اشتہار کی صورت میں کی تھی۔ ملازمت کا اشتہار کچھ یوں تھا کہ ’’Nailbox‘‘ کمپنی نیل پالش ڈلیوری کا کام کرتی ہے اور اسے نیل پالش ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک مستقل ملازم کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اپنی موجودہ ملازمت سے بیزار ہیں یا اپنے ناخنوں کو نیل پالش سے سجانے کے ساتھ ساتھ مفت ملنے والے دیگر تحائف بھی لینا چاہتی ہیں تو 35 ہزار پاؤنڈ کی ملازمت آپ کی منتظر ہے۔

ملازمت کی درخواست میں 100 یا اس سے کم الفاظ میں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ آخر آپ ہی اس دل کش ملازمت کے لیے بہترین انتخاب کیوں ہیں۔ منتخب امیدوار کو ہر ماہ 50 عدد نیل پالشز اور دیگر میک اپ کا سامان اس کے گھر پر پہنچایا جائے گا جسے استعمال کر کے اس کی رپورٹ تیار کرنا ہو گی۔ ملازمت قبول کرنے والے کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ نیل پالش کی ٹیسٹنگ کے دوران کوئی گھریلو کام کاج خصوصاً برتن یا کپڑے دھونے اور گھر کی صاف ستھرائی جیسے کام نہ کرے تا کہ نیل پالش کو ان کاموں سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘ کمپنی کی طرف سے ملازمت کا اشتہار سامنے آتے ہی آسان نوکری کے متلاشی دیوانے ہو گئے تھے اور کمپنی کو دیکھتے ہی دیکھے65 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوگئیں۔

کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر نکولس وٹمور نے امیدواروں کے جوش و خروش کے بارے میں بات کرتے ہوئے کمپنی کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’اگرچہ انہیں پہلے ہی سے معلوم تھا کی یہ پیشکش عوام میں کافی مقبول ہو گی کیوںکہ اس میں اچھی تنخواہ کے ساتھ مفت نیل پالش اور ڈھیروں دیگر تحائف کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے لیکن بہرحال انہیں یہ اندازہ بالکل بھی نہیں تھا کہ اس قدر زیادہ درخواستیں آئیں گی۔‘‘ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ملازمت کے حصول کے لیے کمپنی کو یونان، برازیل، امریکا اور افریقی اور ایشیائی ممالک سے بھی درخواستیں موصول ہو ئی تھیں، باوجود اِس کے کہ کمپنی اپنے اشتہار میں صاف صاف واضح کرچکی تھی کہ درخواست گزاروں کا برطانیہ میں مقیم ہونا ضروری ہے۔

کھائیں، پییں عیش کریں اور کیا۔۔۔!

عموماً دفاتر میں ملازمین کے لیے لنچ بریک کے علاوہ کھانا، پینا ایک معیوب کام سمجھا جاتاہے لیکن اِس کے باجود ہر دفتر میں ایک دو ملازم ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جو ہمہ وقت دفتر میں کچھ نہ کچھ تناول فرماتے ہی رہتے ہیں۔ اپنی اِس عادت کی بنا پر انہیں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر یہ کسی بات کی پروا نہیںکرتے کیوںکہ اِن کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ کھائے پیے بغیر کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرسکتے۔

ایسے ہی پیٹو حضرات کی دل چسپی کے لیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ دنیا بھر میں وقتاً فوقتاً ایسی ملازمتیں بھی مشتہر ہوتی رہتی ہیں جو آپ سے ماہانہ تنخواہ کے عوض صرف کھانے پینے کی توقع ہی رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک امریکی کمپنی رونلڈ ریپ بھی ہے جو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ایک بہت ہی دل چسپ ملازمت کا اعلان کرتی ہے ۔

اِس ملازمت میں کام یاب ہونے والے ملازم کو کرنا بس یہ ہوتا ہے کہ پورے ملک میں سفر کر کے باربی کیو کھانا یا چکھنا ہوتا ہے۔ اِس کام کے عوض بطور تنخواہ 13 لاکھ روپے پاکستانی دیے جاتے ہیں۔ معروف امریکی جریدے یو ایس اے ٹوڈے کے مطابق امریکا کی مشہور کمپنی رونلڈ ریپ نے اِس منفرد ملازمت کے لیے کچھ عرصہ پہلے جو اشتہار دیا تھا، وہ کچھ یوں تھا کہ ’’رونلڈ ریپ کمپنی کو چیف گِرلِنگ آفیسر (سی جی او) کی فوری ضرورت ہے۔ کمپنی کا اِس افسر کو پورے امریکا میں گھوم کر مشہور ریستورانوں کے باربی کیو کھانا یاچکھنا ہوں گے اور ان کے بارے میں اپنی رائے دینا ہوگی۔ ملازمت کا دورانیہ صرف دو ہفتے پر محیط ہوگا۔

جس میں کھانے اور سفر کے تمام اخراجات کمپنی برداشت کرے گی اور تنخواہ کے طور پر دس ہزار ڈالر بھی ادا کیے جائیں گے۔ اس طرح سی جی او کا بنیادی ذمہ داری صرف شہر شہر گھومنا پھرنا اور کھانا پینا ہوگا۔ اس ملازمت کے حصول کے لیے امیدواروں پر لازم ہے کہ وہ 100 الفاظ میں خود کو اس ملازمت کا اہل ترین فرد ثابت کریں اور ساتھ ہی بہترین بار بی کیو کی تصویریں اور طریقے بھی فراہم کریں۔‘‘

جی بھر کے ’’سونے‘‘ کی نوکری

صبح سویرے ملازمت پر جانے کے لیے گہری نیند سے بیدار ہونا کس قدر مشکل ہوتا ہے، یہ بات کسی بھی ملازمت پیشہ خاتون یا مرد کو سمجھانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، کیوںکہ روز صبح اُٹھتے ہوئے اِن سب ہی کے دل میں ایک بار تو یہ خیال ضرور مچلتا ہی ہوگا کہ ’’کاش تھوڑی سی دیر اور سولیتے‘‘ لیکن چند خوش قسمت ملازمتیں ایسی بھی ہیں جن میں بنیادی کام ہی جی بھر کے سونا ہوتا ہے۔

بظاہر سننے میں تو یہ بات کافی عجیب سی لگتی ہے لیکن ہے بالکل سچ۔ دنیا کے معروف خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا(NASA) کو ہر سال کچھ ایسے اشخاص کی بطور ملازم تلاش ہوتی ہے جو مسلسل 70گھنٹے سو سکتے ہوں۔ ناسا کے اعلان کے مطابق اپنی اِس ملازمت کے دورانِ مسلسل 70 گھنٹے سونے پر 12 ہزار ڈالر بطور معاوضہ دیئے جاتے ہیں۔ یہ ملازمت ناسا کے تحقیقاتی مشن کا ایک اہم ترین حصہ خیال کی جاتی ہے، جس کی مدد سے ناسا کے ماہرین بستر پر آرام کرنے کے دوران اپنے ملازم کو ایک مصنوعی ماحول فراہم کر کے اُس کے جسم میں وزن کی کمی سمیت دیگر تبدیلیوں کا خصوصی مطالعہ کرتے ہیں۔

اگر آپ بھی ناسا میں اِس ملازمت کو انجام دے کر واقعی بارہ ہزار ڈالر حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اچھی طرح ذہن نشین رکھیے گا کہ آپ کو ہر کام بستر پر لیٹے ہوئے ہی کرنا پڑے گا۔ اس مطالعاتی ملازمت میں شامل ہونے کے لیے آپ کو بستر پر لیٹے ہوئے ایک ہی پوزیشن میں کھانا پینا یہاں تک کہ نہانا بھی پڑے گا۔ اس ملازمت کا مقصد صرف اور صرف انسانی جسم کا مطالعہ کرنا ہے اور اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کی اِس ملازمت کے نتیجے میں حاصل کی گئی معلومات سے خلائی مشن کے دوران خلائی مسافروں کو بطور خاص مدد ملے گی جنہیں خلائی زمین پر سونے کے لیے زمین جیسا سازگار ماحول اور نرم و گداز بستر نہیں ملتا۔ لہٰذا اگر آپ 12ہزار ڈالر کمانا چاہتے ہیں تو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ اِس ملازمت کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت رکھنے والا شخص ناسا کی آفیشل ویب سائیٹ پر اِس ملازمت کے مشتہر ہونے کے بعد بہ آسانی درخواست دے سکتا ہے۔ ناسا کے علاوہ ہارورڈ میڈیکل اسکول بھی تحقیق کے لیے تواتر کے ساتھ گھنٹوں ’’سونے ‘‘ والی ملازمتوں کی پیشکش کرتا ہے۔ رواں برس کی ملازمتوں کے لیے آن لائن درخواستوں کی حتمی تاریخ اور دیگر شرائط کے لیے مندرجہ ذیل مختصر لنک سے آفیشل ویب سائیٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔  http://bit.ly/2I47rpo

قطار میں کھڑے ہونے کی ملازمت

ویسے تو قطار میں کھڑا ہونا کسی کو بھی پسند نہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو قطار میں کھڑے ہونے کے عوض معقول ماہانہ تنخواہ ملے گی تو کیا آپ پھر بھی قطار میں کھڑے ہونے سے انکار کریں گے؟ اُمید ہے کہ اکثر کا جواب نفی میں ہی ہوگا کیوںکہ کون بے وقوف ہے جو صرف قطار میں کھڑا ہونے کی ملازمت کر کے اپنی تنخواہ کھری نہ کرے۔

اٹلی اور یوکرین دنیا کے وہ ممالک ہیں جہاں پر لوگوں کو قطار میں کھڑا ہونے کے لیے باقاعدہ ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں، کیوںکہ اِن دونوں ممالک میں سرکاری بیوروکریسی کی طرف سے دفتری و انتظامی اُمور کو انتہائی سست رفتاری سے نمٹایا جاتا ہے۔ عام شکایت ہے کہ یوکرائن اور اٹلی میں سرکاری دفاتر کا عملہ اپنے کام کا متعین وقت پورا نہیں کرتا۔ اس لیے بیوروکریٹس کے پاس جانا لوگوں کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ اگر یوکرائن میں کسی کو اپنی گاڑی رجسٹر کروانی ہو، تو اسے پندرہ دستاویزات پر مختلف دفاتر سے مہریں لگوانا پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے اکثر سرکاری مقامات پر طویل قطاریں دکھائی دینا ایک عام سی بات ہے۔

ایک سروے کے مطابق صرف اٹلی میں اطالوی شہری سالانہ 400 سے زائد گھنٹے فقط قطاروں کی نذر کردیتے ہیں، جو مجموعی طور پر 44 بلین روپے کے معاشی نقصان کے برابر ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ یہاں لوگ اپنا قیمتی وقت بچانے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہونے کے لیے باقاعدہ ملازم رکھتے ہیں جن کا کام ہی قطاروں میں کھڑے ہوکر مختلف قسم کے بلزاور ٹیکسز جمع کرانا ہوتا ہے۔

اس ملازمت کو اطالوی زبان میں ’’کوڈیسٹا‘‘ کہتے ہیں، جس کا انگریزی میں متبادل لفظ Queuer یا Queuingہے۔ Queuing یا دوسروں کے لیے قطار میں کھڑے رہنے کا طریقۂ کار بہت آسان ہے۔ مثال کے طور پر چار یا پانچ ڈالر کے عوض ایک شخص کسی کے لیے قطار میں لگتا ہے، پھر جب اس پیشہ ور Queuer کی باری قریب آتی ہے تو وہ اس فرد کو بلا کر اسے اُس کی باری سونپ دیتا ہے۔ یوکرائن میں تو ملازمتیں فراہم کرنے والی کئی مستند کمپنیاں بھی لوگوں کو قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرنے کی کوفت سے بچانے کے لیے پیشہ ورانہ Queuers  یعنی قطار میں کھڑے ہونے والے افراد کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے مشہور ترین شہر نیویارک میں بھی متمول افراد میوزک کنسرٹ کے ٹکٹس، گاڑی کی رجسٹریشن اور بچت بازاروں سے مختلف چیزوں کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے ہونے کے لیے لوگوں کو پُرکشش قسم کی ملازمتیں آفر کرتے ہیں۔ نیویارک میں اِس طرح کے ملازموں کو Line-Sitters کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

پسندیدہ پروگرام دیکھیں اور مَن چاہی تنخواہ پائیں

’’ناؤ ٹی وی‘‘(NowTv) برطانیہ، آئرلینڈ اور اٹلی میں کیبل نشریات فراہم کرنے والی ایک مشہور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہے، جس نے حال ہی میں ایک دل چسپ ملازمت کے لیے آن لائن اشتہار جاری کیا ہے، جس کے مطابق اس ملازمت کے لیے کام یاب اُمیدوار کو اپنے گھر پر ایک سال کے لیے ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر صرف مختلف نشر ہونے والے پروگراموں کو دیکھنا ہوگا۔ جس کے بدلے میں 35 ہزار برطانوی پاؤنڈز کی خطیر رقم جس کی پاکستانی کرنسی میں کُل مالیت تقریباً 63 لاکھ26 ہزار روپے بنتی ہے، جس کی ادائیگی 5 لاکھ 27 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے حساب سے ایک سال میں کی جائے گی۔

ناؤ ٹی وی کی انتظامیہ کی طرف سے شرط ہے کہ اس ملازمت کے لیے باقاعدہ درخواست دینے سے قبل اپنی ایک عدد تصویر یا ویڈیو کمپنی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ضرور پوسٹ کی جائے اور ساتھ ہی بھی بتایا جائے کہ آپ اِس ملازمت کے لیے خود کو اہل کیوں سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ اِس ملازمت کو حاصل کرنے کے لیے اپنا ذہن بنائیں آپ کو خبردار کرتے چلیں کہ یہ پیشکش صرف برطانیہ میں مقیم افراد کے لیے ہے۔ اگر آپ کا کوئی عزیز برطانیہ میں مقیم ہے تو اُسے ضرور اِس ملازمت کی بابت بتایا جاسکتا ہے۔ ملازمت کی دیگر تفصیل کے لیئے اس مختصر لنک پر وزٹ کریں۔ http://bit.ly/2HX4RRX

اِک ملازمت تنہا تنہا سی۔۔۔!

اکثر قارئین یہ تو جانتے ہی ہوں گے ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو اُن کے مقدس پیشے کی مناسبت سے ہر جگہ خصوصی عزت و احترام حاصل ہوتا ہے لیکن امریکا کی کئی ریاستوں میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک افراد کو سرکاری سطح پر ایک ایسی سہولت بھی حاصل ہے، شاید جس کی مثال مشکل ہی سے دنیا کے کسی اور ملک میں مل سکے۔

امریکا کی کئی ریاستوں میں اساتذہ کو دورانِ تدریس کسی کوتاہی یا غفلت کا مرتکب ہونے کے باوجود اُنہیں فوری طور پر اُن کی ملازمتوں سے بے دخل نہیں کیا جاتا بلکہ اُنہیں اپنی غلطی سدھارنے یا کسی انتظامی واخلاقی کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف ’’ربر رومز ‘‘ (Rubber Rooms)میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ’’ربر رومز‘‘ کو آپ سادہ لفظوں میں ایسے اصلاحی کمرے کہہ سکتے ہیں جن میں بھیجے جانے والے اساتذہ کے لیے کرنے کے لیے تو کسی بھی قسم کا کوئی خاص کام نہیں ہوتا لیکن سوچنے کے لیے بہت ساری تنہائی ضرور میسر ہوتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ’’ربر رومز‘‘ میں بھیجے جانے والے اساتذہ کی نہ صرف تنخواہ یا مراعات میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہیں کی جاتی بلکہ اُن کی محکمہ جاتی ترقی کا سفر بھی بدستور جاری رہتا ہے۔

عام طور پر ایک اُستاد کو کئی سال بھی ’’ربر رومز‘‘ میں گزارنے پڑ سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق ’’ربر رومز‘‘ سے اخراج کا حتمی حکم نامہ اُس وقت تک جاری نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہاں آنے والا اُستاد اپنی اُس خامی یا کمی کو پوری طرح سے درست نہیں کرلیتا جس کے باعث اُسے یہاں بھیجا گیا ہے۔ ’’ربر رومز‘‘ میں سالہا سال گزارنے والے اساتذہ بھی اس لحاظ سے مطمئن ہی پائے گئے ہیں کہ وہ ’’ربر رومز ‘‘ میں چاہے جیسی بھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں لیکن اُن کی ماہانہ تنخواہ اور دیگر سہولیات بدستور اُنہیں دست یاب رہتی ہیں۔

The post ملازمت ہو تو ایسی ہو! appeared first on ایکسپریس اردو.


دولہا دریا خان شہید

$
0
0

گوتم بدھ نے نروان کی تلاش میں آئے عقیدت مندوں سے کہا تھا نگاہیں نیچی رکھو، عورتوں کو احترام دو، ظاہر کی صفائی اپنی جگہ باطن کی پاکیزگی کہیں زیادہ ضروری ہے، ایسے بن جاؤ جیسے سندھ کے جنگی گھوڑے شریف ہوتے ہیں۔

سندھ کے نام ور اسکالر عطا محمد بھنبھرو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلاشبہ مہران کے باشندے اہنسا کے قائل ہیں مگر جب دھرتی پر یلغار ہو تو ہم بپھر جاتے ہیں اور دفاع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کا عہد پانچویں چھٹی صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس وقت بھی سندھ کے جنگ جو اور جنگی گھوڑے مشہور تھے جو لاشوں کو رگیدتے نہیں تھے ان کا احترام کرتے تھے۔ ایسے ہی سرفروشوں میں سے ایک نام دریا خان کا بھی ہے جو سندھ کے حکم راں جام نظام الدین کا سپاہ سالار تھا۔ ضلع ٹھٹھہ کے مکلی قبرستان میں جو وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے دونوں کے مزارات آج بھی مرجع خاص و عام ہیں کہ سندھ کے باشندے دریا خان کو تو دولہا دریا خان شہید کے نام سے پکارتے ہیں۔ وجہ اس کی وطن دوستی، سرفروشی بتائی جاتی ہے۔

ٹھٹھہ کے صحافی حافظ مشتاق احمد بتانے لگے کہ ٹھٹھہ، سجاول اضلاع کے مابین گولارچی روڈ پر دولہا دریا خان پل موجود ہے جو دریائے سندھ کے دو کناروں پر آباد دونوں اضلاع کے باشندوں کو آنے جانے میں مدد دیتا ہے ٹھٹھہ سندھ کا وہ تاریخی شہر ہے جو مدتوں دارالحکومت رہا ہے۔ مغلوں کے دور میں سندھ آنے والے ایک سیاح نے اپنی کتاب میں یہاں موجود درجنوں علمی اداروں کا ذکر کیا ہے یہاں کا مکلی قبرستان لاکھوں قبور پر مشتمل ہے جن میں بادشاہ، گورنر، نواب، علمائے دین، مشائخ، دانش ور اور صاحب حیثیت افراد بھی مدفون ہیں ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد بھی ایک تاریخی پس منظر رکھتی اور اپنے 99 گنبدوں اور لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گونجنے والی آواز کے حوالے سے بھی معروف ہے۔

ایک چرواہے اور بعض روایات کے مطابق غلام کی زندگی بسر کرنے والے دریا خان کو جام نظام الدین کی قدر شناس نظروں نے اس وقت اپنے مصاحب کے طور پر منتخب کیا جب دوران سفر شدت کی پیاس لگنے پر اس نے اپنے وزیر لکھ ویر سے پانی منگوانے کا کہا۔ غلام دریا پانی لایا تو برتن میں تنکے پڑے تھے جام نے تشنگی کے باوجود ٹھہر ٹھہر کر پانی پیا اور پوچھا صاف پانی کیوں نہیں لائے تو غلام کا جواب تھا آپ ایک سانس میں پی جاتے جو نقصان پہنچاتا۔ یہ جملہ دل میں ترازو ہوگیا ایاز کی طرح جس نے محمود سے کہا تھا غلام کا کوئی نام نہیں ہوتا جس نام سے چاہے پکارو یا پھروہ مغل کنیز جسے شہزادے نے دو کبوتر پکڑائے ایک اڑ گیا شہزادے نے پوچھا کس طرح اس نے دوسرے کو اڑاتے ہوئے کہا اس طرح اور اس جملے نے محبت کے رشتے کی بنیاد رکھ دی۔

دولہا دریا خان کی جام نظام الدین نندو سے ملاقات 1475 میں ہوئی۔ سندھ کی حدود اس عہد میں موجودہ بلوچستان کے علاقے سبی تک محیط تھیں۔ چرواہے یا غلامی سے محلات کے سفر نے دریا خان میں تکبر پیدا نہ کیا بلکہ وفا شعاری بڑھ گئی۔ ابو بکر شیخ نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ جام نندو نے دولہا خان کو اپنی اولاد کی طرح پالا، پرورش کی تربیت دی اور لشکر کا سربراہ بنادیا۔ خود دریا خان نے بھی اسے مایوس نہ کیا تلوار بازی، تیراندازی، گھڑسواری سمیت تمام جنگی و حربی فنون سیکھے اور مہارت حاصل کی۔ ان صلاحیتوں کا امتحان ہرات سے آئے سلطان حسین بایقرا کے لشکر سے مقابلے میں ہوا جہاں دریا خان نے 1490 میں خونریز جنگ کے دوران سلطان محمد ارغون کو شکست دی۔ شکست خوردہ لشکر سلطان محمد ارغون کی موت کے بعد تتر بتر ہوگیا اور دولہا دریا خان فتح مندی کی داستانیں لے کر ٹھٹھہ پہنچا۔

تاریخ معصومی کے مصنف سید معصوم بکھری نے لکھا ہے کہ دریا خان نے صرف اپنی سرحدوں کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ شوریدہ سر دشمنوں کی سرکوبی بھی کی اور ملتان سے کیچ مکران بلکہ کچھ تک کے علاقے جام نظام الدین کی قلمرو میں شامل کیے۔ 1508 میں جام نظام الدین نے وفات پائی تو اس کے بیٹے جام فیروز نے تخت سنبھالا کم عمری کے باعث معاملات کی نگرانی دریا خان کے پاس تھی جو بیوہ ملکہ مدینہ کو پسند نہ تھی۔ نتیجتاً اسے نظرانداز کیا گیا بلکہ بے اختیار بھی۔ جام نظام سے محبت اور سلطنت سے وفاداری کے عہد کے باعث دریا خان نے بغاوت کی نہ کوئی انتقام لیا بلکہ اپنے آپ کو سہون کی جاگیر گاہو میں گوشہ نشیں کرلیا جو سلطنت جام نظام نے تلوار کے برتے پر قائم کر رکھی تھی وہ جام فیروز کی عیش پسندی اور غفلت کے باعث کم زور ہوئی تو جام صلاح الدین نے سلطان مظفر گجراتی کی حمایت سے لشکرکشی کرکے ہتھیالی۔ جام فیروز نے کوئی مزاحمت نہ کی جام صلاح الدین کا عرصہ اقتدار بمشکل آٹھ ماہ بیان کیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں سمہ گھرانے کے جام سنجر کے بیٹے جام صلاح الدین کو سندھ کے بعض امرائے سلطنت کی درپردہ حمایت بھی میسر تھی۔ سلطنت ہاتھ سے گئی تو ملکہ مدینہ اور جام فیروز نے گاہو جاگیر پہنچ کر دریا خان سے ملاقات کی اور اپنے گذشتہ رویے پر معذرت چاہی۔ جام صلاح الدین کی حکم رانی سے نالاں دریا خان نے بکھر، سیہون اور ہالانی و دیگر علاقوں سے سپاہی بھرتی کیے جنگی اسباب جمع کیا اور بڑی جنگ کے بعد جام فیروز کے مخالفوں کو شکست دے کر اسے پھر تاج پہنایا اور تخت پر بٹھایا، لیکن ماضی کی طرح جام فیروز نے اس کی قدر نہ کی اور یہاں تک ہوا کہ شاہ بیگ ارغون حاکم قندھار کو سندھ پر حملے کی دعوت اس لیے دی گئی کہ دریا خان سے جان چھڑائی جاسکے۔

ارغونوں نے سندھ پر قبضے کا اچھا موقع سمجھتے ہوئے لاؤلشکر جمع کیا اور ٹھٹھہ کا رخ کرلیا سندھ میں تالپور سلطنت کے خاتمے پر ایک ضرب المثل نے جنم لیا تھا کہ ’’میرن کھے گھراں لگی‘‘ یعنی تالپوروں کا نقصان اپنوں کی غداری کے باعث ہوا، لیکن دیکھا جائے تو جام حکومت کا خاتمہ بھی ان ریشہ دوانیوں کے باعث ہوا جو نادان دوستوں نے شروع کی تھیں۔ محلاتی سازشوں نے عروج پایا تو 1518 کے موسم سرما میں سبی کے ہزاروں لشکریوں نے گاہو جاگیر کے گوٹھ باغبان پر ہلہ بول دیا اور وہاں موجود ایک ہزار اونٹ اپنے ساتھ لے گئے۔ جام فیروز نے اس صورت حال میں خود کو لاتعلق رکھتے ہوئے تخت گاہ چھوڑ کر پیر پٹھو کے علاقے کی راہ اختیار کی جام نندو نے دولہا دریا خان کو مبارک خان اور خان اعظم کے القاب و خطاب سے نوازا تھا۔ یہ محض لقب نہ تھے ایک وسیع پس منظر میں اس کی خدمات کا اعتراف تھا۔ سندھ کی تاریخ اور شخصیات پر کئی کتب کے مصنف مولائی ملاح کہتے ہیں دریا خان نے دوستوں سے کہا یہ وقت قرض چکانے اور غیروں کی یلغار سے دھرتی کو بچانے کا ہے۔

1520 میں دسمبر کی 22 تاریخ کو جب سردی عروج پر تھی انسانی جسم کی شریانوں میں خون جم رہا تھا۔ دریا خان نے لشکریوں سمیت ساموئی میں ارغونوں کو للکارا۔ ساموئی مکلی سے شمال کی طرف سمہ حکم رانوں کی راج دھانی تھی گوکہ ارغون لشکر نے جنگ جیت لی اور دریا خان کے حصے میں شہادت آئی لیکن:

کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست

کا منظر تھا میر محمد پورانی نے اپنی تصنیفات نصرت نامہ تر خان میں لکھا ہے کہ شاہ بیگ ارغون نے اپنی تلوار سے دریا خان کو شہید کیا۔ یہ تلوار سندھ کی وحدت پر بھی چلی۔ ارغونوں نے سیہون سے جنوب کا حصہ جام فیروز کو گزر بسر کے لیے دیا جب کہ شمال کی سمت کا سارا علاقہ اپنی سلطنت کا حصہ بنالیا۔ مکلی کے قبرستان میں جام نظام الدین کے مقبرے کی چاردیواری میں متعدد قبریں ہیں۔ اسی قبرستان میں دریا خان کا مقبرہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سنگتراشوں نے پتھر کا لاجواب کام کیا ہے۔ قبر پر سنگی تاج بھی موجود ہے۔ دو منزلہ قبر، وہاں موجود محرابوں کا خوب صورت سلسلہ، پتھر کے گلاب اور عربی عبارات ابھری ہوئی ہیں۔ یہ ایک بہادر انسان کی آخری آرام گاہ ہے جو سندھ میں پیدا ہوا اور اس کے تحفظ پر جان وار دی۔

دریا خان محض سپاہ سالار ہی نہ تھا، ایک حساس ذہن اور محبت بھرا دل بھی رکھتا تھا۔ اس کے عشق کا قصہ بھی کتابوں میں مرقوم ہے۔ غلام محمد لاکھو نے لکھا ہے کہ ہموں نامی دوشیزہ سے جو راٹھوڑ برادری سے تعلق رکھتی تھی اور جس کا خاندان صحرائے تھر کے جھڈو گودام میں آباد تھا، کسی فوجی مہم کے دوران تالاب پر پانی بھرتے وقت سامنا ہوا اور ابتدائے عشق شادی پر منتج ہوا۔

بتاتے ہیں شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی اور ہموں نے باقی زندگی مکلی کے قریب واقع قلعہ کی حویلی میں گزاری جو اس کے لیے دریا خان نے بنوائی تھی۔ جام نظام الدین نندو کے عہد میں بے شمار جنگیں اور جھڑپیں ہوئیں اور دریا خان نے داد شجاعت دی۔ تفصیلی تذکرے تو نہیں ملتے لیکن جام نظام کے عہد میں اس کی پوزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دریا خان نے اپنے محسن کو مایوس نہیں کیا ہوگا، کیوںکہ سندھ سے محبت دریا خان کے خمیر کا حصہ تھی۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے بیٹوں سارنگ خان، موٹن خان اور محمود خان نے سندھ کے ایک اور ہیرو مخدوم بلاول کا ساتھ دیا جنھیں شاہ بیگ ارغون نے کولہو میں پلوایا تھا۔ دریا خان کو سندھ کے باشندے محبت سے ’’دولھ شاہ دریا خان شہید‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں جس کے مزار پر تحریر ہے:

یا اللہ

ھٰذا مرقد المعطر

للخان الاعظم

شہید مبارک خان

ابن سلطان نظام الدین

بلاشبہ اس مزار پر اس کی وفاداریوں اور قربانیوں کی مہک ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔

The post دولہا دریا خان شہید appeared first on ایکسپریس اردو.

سانپ سے وابستہ دہشت اور خوف کی حقیقت کیا ہے؟

$
0
0

سرد رات میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہر سو ہُو کا عالم تھا۔ زمین پر جابجا زرد پتے بکھرے ہوئے تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف دیوہیکل درختوں کے سائے خوفزدہ کرتے تھے۔

اماوس کی رات میں دور کہیں سے گیدڑ کے چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس دوران جو وقفہ آتا وہ گہری جامد خاموشی پر مشتمل ہوتا جس میں سانسوں کی آوازبھی ڈراونی محسوس ہوتی۔ یہ سارا ماحول اس قدر ہیبت ناک تھا کہ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔چند لمحوں پہلے جب اس ویران جنگل میںگاڑی کا ٹائر ایک دم پھٹا تو وہ لمحہ اس پہ بے حد بھاری گزرا۔کار آگے بڑھنے سے انکاری تھی۔

گو کہ اس لمحہ گاڑی سے باہر آکر اسے ٹھیک کرنے کی خواہش جوئے شیر لانے کے مترادف تھی مگر ایسا کرنا ناگزیر تھا ۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر زمین پر پیر رکھا تو سرد رات میں خشک پتوں کی سرسراہت بھی خون خشک کردینے والی تھی۔ شومئی قسمت گاڑی کا ٹائر جواب دے گیا تھا۔ سرد رات میں ہوا کے تندوتیز جھونکوں نے روح ٹھٹھرا کررکھ دی۔

تیزی سے ٹائر بدلتے ہاتھوں میں جیسے خون منجمد ہورہا تھا۔ ٹائر بدل کر جیسے ہی پتھر رستے سے ہٹانے کے لیے ہاتھ نیچے کیا یکدم چھٹی حس نے کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا مگر دیر ہوچکی تھی۔ پتوں کے نیچے چھپے ایک رسل وائپر نے اُسے ڈس لیا تھا۔ اندھیرے میں پتوں اور رسل وائپر کے درمیان تفریق نہ کرنے کا نتیجہ بے حد خطرناک تھا۔ داہنے ہاتھ کی پشت پر دو خون کی بوندیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ وہ خوفناک شکاری نہایت مہارت سے اپنا زہر اس کے جسم میں داخل کرچکا ہے۔ وہ تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بھاگا۔

بے تحاشہ رفتارسے دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی اسے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ مگر وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ درد کی تیز لہر اس کے رگ و پہ میں سراہیت کرتی جارہی تھی۔ اس ویران سنسان علاقے میں فسٹ ایڈ سروس تو درکنار موبائل فون نیٹ ورک بھی کام نہیں کررہا تھا۔ پوری رفتار سے گاڑی بھگاتے ہوئے وہ رفتہ رفتہ اپنی مدہم ہوتی دھڑکن کو محسوس کررہا تھا اور ابھی اس سانحے کو بیتے دس سے پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اسے امید کی ایک کرن دکھائی دی۔دور روشنیاںجگمگا رہی تھیں۔ اس کا ہاتھ سوج گیا تھا اورا سٹیرنگ پر ڈھیلی پڑچکی تھی۔

اسے اپنی سانس کی نالی تنگ ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ لعاب دہن نے حلق سے اترنے سے انکاری تھا۔ خوف اور تکلیف سے اس کی آنکھیں باہر کو پھیل گئی تھیں۔ گاڑی رک چکی تھی۔ وہ لمحہ لمحہ خود کو زندگی سے دور ہوتے دیکھ رہا تھا۔ ابھی تو اسے مزید جینا تھا۔اپنے ڈھلیے پڑتے اعصاب کے ساتھ گاڑی دوڑاتے وہ ہچکولے کھاتی گاڑی لئے آبادی میں داخل ہوگیا۔ خوش قسمتی سے سول ہسپتال مین روڈ پہ تھا۔اس کے سامنے اپنی زندگی کی فلم چل رہی تھی جس میں کہیں کہیںمستقبل کے خواب بھی نمودار ہوتے تھے۔ اس نے گاڑی ہسپتال کی جانب موڑی۔ لیکن گاڑی اندر داخل ہونے کے بجائے گیٹ کے پلر سے جا ٹکرائی۔اس کے بعد اُسے کچھ یاد نہیں جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال کے بیڈ پر پڑا تھا۔

چوکیدار نے عملے کی مدد سے اسے ایمرجنسی تک پہنچایا۔ ڈاکڑ جلد ہی علامات کی مدد سے بھانپ چکا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اسے انیٹی وینم دے دیا گیا جس سے اس کے وجود میں زندگی کی رمق جاگ اُٹھی۔ اس شخص کی طرح کئی لوگ مختلف زہریلے سانپوں کے ڈسنے اور اس کے حوالے سے حفاظتی و احتیاطی تدابیر سے ناآشنائی کی بنا پر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

دنیا بھر میں سانپوں کی 3 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے دو سو انتہائی خطرناک اور زہریلی ہیں۔ دنیا بھر میں سانپ کے ڈسنے سے ہر منٹ میں ایک شخص ہلاک جبکہ چار زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ہر سال 54 لاکھ افراد سانپوں کے ڈسنے سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی شرح پر نگاہ دوڑائی جائے تو حقائق خوفناک ہیں۔18-ہزارسے38 ہزار کے درمیان افراد جان سے جاتے ہیں جبکہ 4 لاکھ سے زائد افراد زہر سے متاثر ہونے کی وجہ سے زندگی بھرکے لیے کسی نہ کسی معذوری کو جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سانپ انسانی بستیوں کے قریب بھی پائے جاتے ہیں مگر عموماً ان کا مسکن جنگلات اور غیر آباد علاقے ہوتے ہیں۔ انٹارٹکا، آئس لینڈ، آئرلینڈ، گرین لینڈ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ  سانپ پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا دنیا میں خطرناک ترین زہریلے سانپوں کے لیے مشہور ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے دس خطرناک زہریلے سانپوں میں سے زیادہ تر وہیں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ پینتیس (35) ہزار شہری سانپ کے ڈسنے سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے بہت سے ویکسین کی عدم دستیابی اور فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

یہاں ہم پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں کی کچھ اہم اقسام کا ذکر کررہے ہیں۔

اژدھا (Indian Python)

20 فٹ تک کی لمبائی رکھنے والا اژدھا دنیا کے لمبے ترین سانپوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ چوہوں اور چھوٹے رینگنے والے جانوروں کا شکار کرنے کے دلدادہ ہوتے ہیں جبکہ  پرندوں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ عموماً یہ انسانی آبادیوں سے دور پائے جاتے ہیں ۔چوہوں کی تلاش میں یہ آبادیوں کی طرف بھی آجاتے ہیں۔ پاکستان میں اژدھے دریاؤں اور جھیلوں کے قریب اُگی گھاس میں بسیرا کرتے ہیں۔

جنوبی سندھ میں پائے جانے والے اژدھوں کی تعداد آبادیوں کے بڑھنے کی وجہ سے تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں اس کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اژدھے کے خطرناک ہونے کی وجہ سے اسے دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسرے سانپوں کی طرح کنڈلی مار کے نہیں بیٹھتا بلکہ اپنی پسلیوں کے بل رینگتا ہے۔ یہ اپنے شکار کے گرد شکنجہ تنگ کرلیتا ہے اور دم گھٹنے کی صورت میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی قیمتی کھال بھی اکثر اس کی موت کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک اچھا تیراک بھی ہوتا ہے۔ Python کی جلد قیمتی اور نایاب ہوتی ہے یہ بہت بھاری قیمت پر فروخت ہوتی ہے۔

کالا ناگ/ شیش ناگ (Cobra)

یہ عموماً تھل اور ریگستانوں میں پایا جاتا ہے۔ لمبائی کے حساب سے یہ دوسرے سانپوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اس کی حد لمبائی 2.4 میٹر تک ہوسکتی ہے۔ فصلوں، جنگلات اور خصوصاً چاول کی کاشت والے علاقے کے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ ان کی دو بڑی اقسام ہیں جو کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان میں عام طور پر پائی جاتی ہیں سمندر اور اونچائی پر واقع مقامات جیسے کے پہاڑی علاقے اس کی ذیلی اقسام کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔

کالے ناگ اور شیش ناگ کے حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں جیسے کہ اس کے سر میں ہیرا یا ناگ منی ہونا، اس کو دوسرے سانپوں سے ممتاز کرنے میں بڑا ہاتھ اس کے پھن کا ہے یہ جیسے ہی سر اٹھاتا ہے پھن پھیلا لیتا ہے۔ شیش ناگ سے متاثر ہوکر کئی ہالی وڈ اور بالی وڈ فلمیں بھی بنائی گئیں جن کو خوب پذیرائی بھی ملی۔ نر ناگ وزنی اور مادہ ناگن سے نسبتاً لمبائی میں کم ہوتے ہیں لیکن ان کی دم زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ عموماً صبح یا شام کے وقت بیدار ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ انسانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے مگر جیسے ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اپنا پھن پھیلا کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ زہریلا ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ڈسنے کے ٹھیک آٹھ منٹ بعد متاثرہ شخص کی نبض کی رفتار سست پڑنے لگتی ہے اور شدید گھبراہٹ بڑھنے لگتی ہے جس کے بعد وہ کوما میں چلا جاتا ہے اور لاکھوں میں سے ایک خوش قسمت واپس زندہ سلامت پاتا ہے۔ کالے ناگ سے لوگوں کو تو خطرہ رہتا ہی ہے مگر خود اس کو سپیئروں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے جن کا انہیں پکڑ کر نیولے سے لڑوانا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

کھپرا (Saw-Scaled Viper)

پتلا، پھرتیلا اور زہریلا ساسکیلڈ وائپر صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 1,800 میٹر کی بلندی پر واقع پہاڑی اور ریتلے میدانوں میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تھر اور چولستان کے صحراء میں جبکہ بلوچستان کی صحرائی پٹی مکران کے صحرائے استولہ میں بڑی تعداد میںموجود ہے۔ کھپرا دیکھنے میں چھوٹا اور قدرے پتلا ہوتا ہے اس کا سر تکون کی شیپ سے مماثلت رکھتا ہے اور گردن سے الگ لگتا ہے۔ اس کی گردن قدرے پتلی ہوتی ہے جبکہ آنکھیں ابھری ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر خوف اور دہشت کا احساس ہوتا ہے۔ کھپرے کا جسم دور سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جُو کے دانے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوں اس کی جلد سخت اور ابھار والی ہوتی ہے۔ رنگ زردی مائل بھورا ہوتا ہے اور اوپر کالے اور سفید رنگ کی لہریں ہوتی ہیں جبکہ اندرونی جانب سے ہلکا عنابی اور زرد رنگ ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 0.4 سے 0.6 میٹر تک ہوتی ہے۔

یہ گرمیوں کے موسم میں رات کو متحرک ہوتا ہے اور بعض اوقات سردیوں میں دن کے وقت۔ سرما کی خنک دھوپ میں کھپرا جھاڑیوں پر بیٹھے دھوپ سینکنا پسند کرتا ہے اور ایسا عموماً صبح صادق کے بعد ہوتا ہے۔ مردہ پودوں کے تنے اور پتھروں کی اوٹ اس کی پسندیدہ رہائش گاہ ہیں۔ کھپرا خود کو مٹی میں چھپا کر اپنے شکار کی گھات لگاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر وہ اپنی اس حکمت عملی سے کامیابی حاصل کرتا ہے کیونکہ عموماً لوگ اسے دیکھ نیں پاتے۔ کیونکہ سر باہر اور دھڑ مٹی میں ہونے کی وجہ سے وہ اس ماحول کا ایک حصہ لگتا ہے۔ گرم اور خشک موسم میں رات کے وقت اپنے شکار کو ڈھونڈنا اس کا دل پسند مشغلہ ہے۔یہ سانپ کنڈلی مارے رہتا ہے اور اسی حالت میں اس کے جسم کی آپس میں رگڑ کھانے سے پراسرار سرسراہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

سنگ چور (Sind Krait)

دیکھنے میں پتلا اور چمکدار، چھونے پر ہموار، مختلف رنگوں میں پائے جانے والے اس زہریلے سانپ کی اوسط لمبائی 3 سے ساڑھے 4 فٹ کے درمیان ہوتی ہے۔ کبھی نیلے، کالے، زردی مائل نیلے سرمئی، بھورے تو کبھی مکمل سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں ان کی پشت پر سفید، زرد اور ہلکی سرمئی رنگ کی افقی لائنیں ہوتی ہیں۔ چھوٹے سانپوں کے اوپر ہلکے مہین سفید نقطے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑی لکیروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جسم کی نچلی سطح سفید ہوتی ہے جبکہ اس کا انڈے نما بیضوی سر اسے گردن سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی تھوتھنی (کسی جانور کے سرکا ایسا حصہ جو آگے کو نکلا ہو اور اس میں ناک جبڑے ہوں) باریک اور ہونٹ سفید اور زردی مائل ہوتے ہیں جبکہ اس کی دم نوک دار ہوتی ہے۔ یہ عموماً رات کے وقت شکار کرتا ہے۔ یہ دن میں شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔

اپنے سرکو کنڈلی میں چھپا کر اچانک حملہ کرتا ہے۔ اس کا زہر انتہائی خطرناک اور مہلک ہے کیونکہ اس میں انتہائی زہریلے مادے ہیموٹاکسن اور نیوروٹاکسن موجود ہوتے ہیں جو جسم میں جاتے ہی تمام پٹھوں کو سکیڑ دیتا ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کے ڈسنے ہوئے 30 فیصد افراد زندہ دفن کردیئے جاتے ہیں۔ جی ہاں کیونکہ مریض کے سارے جسم کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور میٹابولزم انتہائی سست ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خون کا بہاؤ نہایت کم رفتار سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسٹیتھو سکوپ سے بھی دل کی دھڑکن سنائی نہیں دیتی اور مریض کو مردہ سمجھ کر دفنا دیا جاتا ہے۔ اس کے کاٹے کے 77 فیصد کیسز میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کی پٹی اور وزیرستان کوئٹہ کے نشیبی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ جنوب مغربی پاکستان میں پاک ایران بارڈر کے قریب علاقوں میں بھی موجود ہے۔ یہ عموماً میدانوں، دیمک کی بابیوں، چوہوں کے بلوں، کچرے کے ڈھیر اور بلندی پرواقع علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

کوری والا (Russells Viper)

تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبے، چھوٹی دم اور تیز نوکیلے دانتوں والا یہ سانپ خطرناک ترین سانپوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس کا سرلمبا تکونی اور نتھنے باہر کو نکلے ہوئے واضح ہوتے ہیں۔ عموماً گہرا براؤن، زردی مائل بھورے یا سرمئی بھورے رنگ کا ہوتا ہے جس کے اوپر چھوٹے پتوں کی طرح کے نشان ہوتے ہیں جن کی اوٹ لائن کالے رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ پھرتیلا ہوتا ہے اور عموماً موسم گرما میں رات کو باہر نکلتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں کے آغاز میں 2,200 میٹر کی بلندی والے علاقوں، میدانوں، وسیع سرسبز زاروں میں پایا جاتا ہے پاکستان میں بالخصوص وادی سندھ اور پنجاب اس کا گڑھ ہیں، یہ چوہوں کی بلوں، دیمک کی بابیوں، چٹانی پتھروں، سوکھے پتوں کے ڈھیر اور کچرے کے ڈھیر کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ یہ عموماً شکار کی تلاش میں انسانی آبادیوں کے قریب آنکلتے ہیں کیونکہ ان کا پسندیدہ ترین شکار چوہے ہوتے ہیں جوکہ گھروں  میں کھانے کی تلاش میں بسیرا کرتے ہیں اور یہ ان کے پیچھے وہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا جسم جب آپس میں ٹکڑاتا ہے تو اس سے عجب سی آواز نکلتی ہے۔ اسے دنیا کے خطرناک ترین سانپوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

سانپ اور نیولے کی لڑائی کے بارے میں تو سب جانتے ہوں گے مگر سانپ کو بین پر ناچتے دیکھ کر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے۔ جی ہاں، سانپ اپنی زبان کی مدد سے اپنی طرف آنے والے خطرے کو محسوس کرسکتا ہے۔ سانپ کے کاٹنے کی صورت میں عموماً لوگ اس ڈر سے ہی مرجاتے ہیں کہ انہیں سانپ نے کاٹ لیا مگر ضروری نہیں کہ ان کے مرنے کی وجہ سانپ کا زہر ہو، بلکہ ڈر کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کی صورت میں ان کی موت ہوجاتی ہے۔

شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ سب سانپ زہریلے نہیں ہوتے اور اگر ایک غیر زہریلا سانپ کسی کو کاٹ لے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات زہریلے سانپ کے کاٹنے سے بھی انسان کی موت نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سانپ کاٹنے سے پہلے شکار کرچکا ہوتا ہے۔ سانپ کا زہر دراصل اس کا ہتھیار ہے جسے وہ اپنے دشمن کے خلاف یا پھر شکار کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور شکار کو نگلنے سے پہلے اس میں زہر اتار دیتا ہے۔ سانپوں کے حوالے سے خوف کی ایک وجہ ان کے متعلق عوام الناس میں آگاہی کی کمی ہے جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہورہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سانپوں کو خطرناک تو سمجھا جاتا ہے مگر ان سے بلاوجہ کا ڈرنا بہادری نہیں سمجھا جاتا اور اس کی مثالیں دیکھنے کو بھی ملتی ہیں جہاں سانپ کے زہر کو ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے وہیں سانپوں کے گوشت کو بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ ان معاشروں میں عام ہے جہاں مذہبی طور پر انہیں سانپ کھانے سے منع نہیں کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خوفناک نظر آنے والے سانپوں کا گوشت انتہائی مہنگا ہوتا ہے جسے لوگ ذوق و شوق سے کھانا پسند کرتے ہیں جبکہ بڑے بڑے برانڈز سانپوں کی کھال سے جوتے، ہینڈ بیگز اور اعلیٰ کی اشیاء تیار کرتے ہیں جس کے لیے بڑے پیمانے پر سانپوں کو ہلاک کیا جاتا ہے اور یہ بات  جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بڑے برانڈ کی دلدادہ خواتین جہاں سانپوں کے خیال سے بھی ڈرتی ہیں وہیں وہ انہی سانپوں کی کھال سے بنی مختلف اشیاء کو مہنگے داموں خریدنے کو اعزاز سمجھتی ہیں۔ مگر اب دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سانپوں کو مساج کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے اور یہ مساج سینٹرز میں آنے والوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جس کے عوض مالکان بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ سانپوں کے ذریعے ایک مساج کی قیمت تقریباً 16 سے 18 ہزار پاکستانی روپوں کے برابر  ہے۔

مگر بے فکر رہیے ابھی پاکستان کے Spa اینڈ Saloons نے مساج کے لیے ان سانپوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔سانپوں سے خوفزدہ ہوجانا ایک فطری امر ہے مگر اطمینان رکھیے۔ سانپ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کے جہاں نقصان ہیں وہیں فائدے بھی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے نقصانات اور ان سے لاحق خطرات سے ناصرف آگاہی حاصل کی جائے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفیض ہوا جا سکے۔

سانپ کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیے
٭… ایسی جگہیں جہاں پر سانپوں کی موجودگی کا خطرہ ہو وہاں پر لونگ بوٹس پہن کر جانا چاہیے۔
٭… کھیتوں میں کام کرنے والے افراد نیچے دیکھیں اور دھیان دیں کیونکہ سانپ انسانوں کوکاٹنے کا Habitual نہیں ہوتا وہ ایسا Self defence میں کرتا ہے۔
٭… سانپ نظر آجائے تو اسے جانے کا راستہ دیں۔
٭….سوئے انسان کے بستر پہ سانپ آجائے تو جسم کے نیچے آجانے سے کاٹنے کا خدشہ بڑھتا ہے۔ اپنے بستر کو جھاڑ کر سوئیں۔
٭… صاف پانی سے کاٹنے کی جگہ کو دھوئیں کاٹے کی جگہ پر کٹ مت لگائیں بلکہ اسے تھوڑا دھوئیں اوپر کس کے پٹی بندھیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔
٭… ہلنا جلنا اور چلنا پھرنا بند کردیں۔
٭… اگر ٹانگ پر کاٹ لے تو اسے اونچا نہ کریں ایسی صورت میں زہر دل کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔
٭… مریض کو سونے مت دیں۔
٭… کوئی درد رفع کرنے والی دو استعمال نہ کریں۔ فوراً سے ہسپتال پہنچیں۔
٭… آکسیجن کی کمی نہ ہونے دیں۔
٭… اگر کوئی گھڑی یا انگوٹھی پہن رکھی ہو تو اسے فوراً اتار دیں ورم کی صورت میں فشار خون رک سکتا ہے۔
٭… قے ہونے کی صورت میں مریض کو بائیں جانب جھکنے دیں۔

سانپ کا زہر اتنا مہلک کیوں؟
عموماً لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر ایک سانپ کے کاٹنے میں ایسی کیا وجہ ہے کہ چند منٹوں میں کوئی بھی شخص جان کی بازی ہار سکتا ہے اور سانپ اتنے زہریلے کیوں ہوتے ہیں؟ سانپوں کی زیادہ تر اقسام زہریلی نہیں ہوتیں مگر 15 فیصد اقسام انتہائی زہریلی اور جان لیوا ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کے دانتوں کے پیچھے چھپے زہر میں ہی ان کے زہریلے ہونے کا راز پنہاں ہے۔ سانپ کا زہر عام طور پر زرد رنگ کا ایک مادہ ہوتا ہے جوکہ ایک خاص قسم کے لعاب پیدا کرنے والے گلینڈر سے بنتا ہے۔ سانپوں کی ایسی بیسیوں اقسام ہیں جو اپنے شکار کو کمزور اور ناکارہ بنانے کیلئے زہر کا استعمال کرتی ہیں۔

سانپ کا زہر خاص قسم کے پروٹین، الزائمز اور سالماتی مادوں (مالیکیولر سبٹنسز) پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ خطرناک حد تک زہریلے ہونے کے باعث خلیوں اور نروس سسٹم کو تباہ کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زہر جسم میں جاتے ہی خلیوں اور ٹشوز میں توڑ پھوڑ کرتا ہے جس سے جسم کے اندرونی حصوں میں بلیڈنگ یا پھر فالج کے ساتھ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ زہر اسی وقت اثر کرتا ہے جب وہ جسم کے خلیوں میں داخل ہوجائے۔ یوں یہ خون میں شامل ہوجاتا ہے جس سے اس کی دل تک رسائی ممکن ہوتی ہے کیونکہ پورے جسم میں خون کی سپلائی دل کے ذریعے ہوتی ہے۔ یوں سانپ کا زہر خون کے ساتھ شامل ہوکر پورے جسم میں پہنچ جاتا ہے جوکہ مریض کو موت کے منہ تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔سانپ کے زہر میں موجود زہریلے پروٹین اسے جان لیوا بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اس میں موجود الزائمز کمیائی ری ایکشنز کو تیز کرتے جس سے جسم میں موجود کیمیائی اجزاء اور مالیکول کے درمیان رابطہ برقرار نہیں رہتا جوکہ کاربوہائیڈیٹس، پروٹین، فاسفورس لپڈز اور نیوکلوٹائیڈز کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ان زہریلے الزائمز کا بنیادی مقصد خون کے سرخ خلیوں کو برباد کرنے کے ساتھ بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنا ہوتا ہے، جس سے پٹھے اپنا کنٹرول کھو دیتے ہیں۔

زہر کی تین خطرناک اقسام کون سی ہیں؟
زہر کے حوالے سے خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ مہلک اور جان لیوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں مگر ضروری نہیں کہ ہر زہر ہی جان لیوا ہو۔ جی ہاں، اب ہم آپ کو سانپوں کے زہر کے بارے میں بتانے جارہے ہیں کہ اس کی کتنی اقسام ہیں اور یہ کس طرح سے انسانی جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ گو کہ زہر مہلک اجزاء الزائمز اور غیر مہلک اجزاء کا مرکب ہوتا ہے لیکن اس کی مندرجہ ذیل اقسام اسے ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔

سائٹو ٹو کسک:-یہ ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے جوکہ جسم میں پائے جانے والے خلیوں کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے جسم میں داخل ہونے سے خلیے اور اعضاء مردہ ہوجاتے ہیں جس میں وہ حصہ گل سڑ جاتا ہے۔
مائکو ٹوکسن (رطوبت میں پائے جانے والے معاہدے) پٹھوں پر جبکہ نیفروٹوکسین گردے پر حملہ آور ہوکر کو تباہ کردیتے ہیں۔ سائٹو ٹوکسک جسم میں داخل ہونے کے بعد اتنی تباہی مچاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خلیوں (سیلز) میں توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی سیل ممبرین کو توڑنا ہے۔ سیل ممبرین (Cell Membrane) دراصل سیلز کے اوپر ایک قسم کی پروٹیکشن لیئر ہوتی ہے جو خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ زہر اسے تباہ کرنے کے بعد آسانی سے تمام خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہ زہر دل کے خلیوں کو شدید ترین نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

نیوروٹوکسن:-یہ زہریلے کیمیائی مادوں سے بنا ہوتا ہے جوکہ انسان کے عصبی نظام کو تباہ کرتا ہے۔ نیوروٹوکسن ایسا کیا کرتا ہے کہ انسان اپنے اعصاب پر سے کنٹرول کھو بیٹھتا ہے؟ تو اس سائنس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ بات جانیں، یہ زہر جسم میں داخل ہوتے ہی نیورو ٹرانسمٹرز کو متاثر کرتا ہے۔ نیورو ٹرانسمٹرز دراصل اعصابی ریشوں سے رسنے والا کمیائی مادہ ہوتا ہے جو حسی یا جذباتی تحریک کو ایک عصبے سے دوسرے عصبے یا پٹھے تک منتقل کرتا ہے۔ عام اور سادہ الفاظ میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ رگوں سے خارج ہونے والا مادہ ہے جو پٹھوں کو حرکت دینے کے عمل کو تیز کرتا ہے۔

مثال کے طور پر جیسے ہی ہمارا ہاتھ کسی گرم چیز کو چھوتا ہے تو ہم فوراً اسے پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ ایسا اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب ہمارے جسم میں نیورو ٹرانسمٹرز فعال انداز میں کام کررہے ہوں۔ گرم چیز کے چھوجانے کا احساس ان کے ذریعے دماغ تک جانا ہے اور پھر دماغ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچنے کا پیغام بھی انہی نیورو ٹرانسمٹرز کے ذریعے بھیجتا ہے۔ اگر یہ عمل متاثر ہوجائے تو انسان حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ سانپ کے اس خطرناک زہر سے پٹھوں پر فالج کا حملہ ہوتا ہے جس سے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے اور سانس لینے میں دقت کے سبب موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ زہر عموماً چھوٹے نوکیلے خمدار دانتوں والے سانپوں جیسے کہ کوبرا، مانبا، سی سنیک (سمندری سانپ)، مرجان اور ناگ کی اقسام میں پایا جاتا ہے۔

ہیموٹوکسن:-
اس قسم ے زہر سے سائٹو ٹوکسک زہر جیسے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں خون کی ترسیل میں رکاوٹ جیسے مسائل پیدا ہوں۔ لیکن اس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ خون کے سرخ خلیوں کو جما دیتا ہے اور اعضاء کے خلیوں کو مردہ کرنے کے ساتھ گردوں کے فیل ہونے کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہیموٹوکسن خون کو لوتھروں میں بدل دیتا ہے جس سے خون کی سپلائی دل تک نہ ہونے کے باعث ہاٹ اٹیک سے موت ہوجاتی ہے۔ اسے سانپ جن میں یہ مہلک زہر پایا جاتا ہے۔ عموماً وائپرز کی اقسام ہوتے ہیں۔

سانپوں کے متعلق دلچسپ حقائق
سانپ اپنے شکار کو نگل کر کھاتا ہے، کیونکہ وہ اسے ٹکڑے کرکے کھانے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔.
سانپ اپنا منہ 150 ڈگری کے اینگل پر کھول سکتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے حجم سے 75-100 فیصد بڑا شکار کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
اینا کونڈا اپنے شکار کو دبوچ کر اسے دم گھٹنے کے بعد کھاتا ہے۔
سانپ ایک سال میں 3 سے 6 مرتبہ اپنی جلد بدلتا ہے کیونکہ نئی جلد اس کے حساب کی ہوتی ہے۔ جلد تبدیل کرنے کا عمل کئی دنوں پر محیط ہوتا ہے۔
سانپ کا خوف اپنی جگہ مگر ہر سال سانپوں کے مقابلے میں شہد کی مکھیوں سے ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
سانپ کی 70 فیصد اقسام انڈے دیتی ہیں جبکہ 30 فیصد بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
بلیک مانبا دنیا کا سب سے تیز رفتار سانپ ہے جوکہ 20 کلو میٹر پر گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔
سانپوں کی پتلیاں نہیں ہوتی۔سانپ کے کان نہیں ہوتے۔سانپ اپنی زبان سے سونکھتا ہے۔
سمندری سانپ اپنی جلد کی مدد سے سانس لیتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے سانپوں کا طبی مقاصد کے لیے استعمال قدیم مصر میں 450 قبل مسیح کیا گیا۔
سانپ کا سائز تاحیات بڑھتا رہتا ہے۔

ہمارا تیار کردہ اینٹی وینم پڑوسی ملک بھارت کے تیار کردہ تریاق سے زیادہ معیاری اور زور آور ہے
پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سانپ نہ ہوں،ڈاکٹر حسین علی
تریاق کی تیاری سے سٹورمیں پہنچنے تک دو برس لگتے ہیں،گھوڑوںکو گاجریں اور کھیرے کھلاتے ہیں

سانپوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا اور انہیں قارئین تک پہنچانا ایک مشکل سفر تھا مگر اس دوران سب سے کٹھن مقام اس سلسلے میں مستند ڈاکٹر کی رائے معلوم کرنا اور سائنٹفک انفارمیشن عوام الناس کو پہنچانا تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں سب سے پہلے ان تمام علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں رابطہ کرنے کی کوشش کی جہاں پرجہاں سانپ سے ڈسے جانے والے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے مگر ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹرز اس حوالے سے کوئی بھی موقف اور معلومات دینے سے انکاری تھے۔

لاہور میں ہم نے جب اس ضمن میں جناح ہسپتال، جنرل ہسپتال اور انڈس ہسپتال کے شعبہ میڈیکل ایمرجنسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ایکسپریس نیوز کو اپنا موقف دینے سے انکار کردیا اور اس ضمن میں مصروفیت کا بہانہ بناکر جان چھڑائی یہی حال میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حضرات کا بھی تھا۔ اب یہ میڈیا سے بات نہ کرنے کے پیچھے کونسا ڈر اور خوف تھا یہ تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن ایکسپریس کا مقصد صرف لوگوں تک سانپ کے کانٹنے پر بچائو کے حوالے سے مستند معلومات کا حصول تھا۔ اس کے علاوہ بھی لاتعداد ہسپتالوں میں رابطہ کیا گیا جس پر مایوسی ہوئی۔ چار ہفتوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ہمارا رابطہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں سینئر سائنٹفک آفیسر ڈاکٹر حسین علی سے ہوا تو امید کی کرن جاگی۔ انہوں نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے بتایا کہ سانپ زیادہ تر گرم اور مرطوب علاقوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں مگر پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سانپ نہ ہوں۔

یہ الگ بات ہے کہ کچھ علاقوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے اور کچھ میں بہت کم۔ پاکستان میں کریٹ Kriat سانپ بہت خطرناک ہے جس کا زہربیک وقت نیوروٹاکس اور ہیموٹاکسن ہوتا ہے جوکہ مریض کے اعصابی نظام کو بری طرح سے تباہ کردیتا ہے۔ پہاڑی علاقوں کو بھی سانپ اپنا مسکن بناتے ہیں مگر گرم علاقوںکو ترجیح دینے کے پیچھے یہ راز کارفرما ہوتا ہے کہ سانپ اپنے جسم کا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے انہیں منتخب کرتے ہیں۔ ان سے پاکستان میں سانپوں کے حوالے سے تحقیق کے بارے میں سوال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء پاکستان میں سانپوں کے حوالے سے تحقیقی کام کرتے ہیں جس سے ناصرف انہیں بلکہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ عموماً وائلڈ لائف کے طلباء اپنی تحقیق میں سانپوں کی مختلف Speies کو Identify کرتے ہیں جس سے ان کے حوالے سے مزید جان کاری ملتی ہیں اور ان کے زہر سے لڑنے کے لیے تریاق کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔

جب ان سے اینٹی وینم(تریاق) کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ NIH پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں پر اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے اور اسے پورے پاکستان میں بھیجا جاتا ہے۔ طلب اور رسد سے متعلق سوال پر ان کا موقف یہ رہا کہ NIH، 1960ء میں قائم ہونے والا ادارہ تھا اور آج 2019ء ہے اس دوران آبادی تیزی سے بڑھی جس کی وجہ سے اینٹی وینم کی مانگ میں اضافہ ہوا مگر پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ ہم بین الاقوامی معیار کے مطابق اینٹی وینم بناتے ہیں جوکہ پڑوسی ملک بھارت کے تیار کردہ تریاق سے زیادہ معیاری اور موثر ہے۔ تریاق کی تیاری کے متعلق ڈاکٹر حسین علی کا کہنا ہے کہ ہم جو اینٹی وینم بناتے ہیں وہ چار سانپوں کوبرا، کریٹ، وائپر اور اژدھا کے زہر کو ملانے اور خشک کرنے کے بعد اسے قلیل مقدار میں گھوڑے کے جسم میں لگاتے ہیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جس میں کم مقدار میں زہر کو پروسس کرکے گھوڑے کو دینے کا مقصد اس کے اندار مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق گھوڑے کی گردن میں یہ ٹیکے لگائے جاتے ہیں جبکہ کچھ کے مطابق ان کی پیٹھ بھی اس کے لیے موزوں جگہ ہے مگر ہم ان کی گردن پر ہی لگاتے ہیں۔

پھر گھوڑے کے جسم سے خون نکال کر اسے پروسس کیا جاتا ہے جس سے پلازما الگ کرلیا جاتا ہے اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اینٹی وینم کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ تریاق کی تیاری میں سانپوں سے زہر حال کرنے سے اینٹی وینم تیار ہوکر سٹورز میں پہنچنے میں دو سال کا عرصہ لگتا ہے۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا گھوڑے کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ وہ خون دینے کے بعد مرجاتا ہے درست ہے تو اس پر انہوں نے اس قیاس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض قیاس آرئی ہے۔ گھوڑے ایسا تین سے چار ماہ کے بعد کرتے ہیں اور ایک گھوڑا طبعی موت مرنے سے پہلے تاحیات یہ کام کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر حسین علی سے جب گھوڑوں کی خوراک کے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ گھوڑوں کو مربے کھلائے جاتے ہیں تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں، ہاں ہم انہیں گاجریں اور کھیرے ضرور کھلاتے ہیں جس سے ان میں خون پیدا ہو اور ان کی اچھی صحت کے ساتھ وٹامن پہنچیں۔ اس کے علاوہ انہیں اچھی خوراک دی جاتی ہے اور ایک صحت بخش ماحول رکھا جاتا ہے۔

زہریلے سانپ کے کاٹنے کی کیا نشانی ہے؟
ڈاکٹر حسین علی نے بتایا کہ سانپ زہریلے (Venomous)اور (Non-Venomous) زہریلے نہیں بھی ہوتے۔ اب کیسے پتہ چلتا ہے کہ کسی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہے یا غیر زہریلے سانپ نے تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر کاٹے کی جگہ پر زیادہ دانتوں کے نشان ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خطرے کی کوئی بات نہیں سانپ زہریلا نہیں ایسی صورت میں اینٹی وینم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ابتدائی طبی امداد ہی کافی ہوتی ہے۔ جبکہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب کاٹنے کے صرف دو نشان ہوں ایسا زہریلے سانپوں کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان کے فینگز Fangs (آگے کے دو دانت) کے ذریعے ہی زہر جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس جگہ پر بالکل سرنج کے دو نشانوں کی طرح نشان آتے ہیں اور عموماً درد بھی نہیں ہوتی مگر آہستہ آہستہ اس پر ورم آنے لگتا ہے۔ مریض کو فوراً ہسپتال لے جانے اور اینٹی وینم دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا مریض کو ایک ہی اینٹی وینم کافی ہوتا ہے؟
تو اس پر انہوں نے بتایا کہ مریض کو ایک سے زائد اینٹی وینم دینے پڑتے ہیں اور ایک دم ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو ڈرپ میں ڈال کر آہستہ آہستہ جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔اینٹی وینم کی تعداد مریض کے قوت مدافعت پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنا اور کس طرح اس کو قبول کرتا ہے۔ جب ان سے سانپ کاٹنے کے بعد روایتی علاج کے حوالے سے سوالات کیے تو انہوں نے بتایا کہ لوگ دیہاتوں میں دم کرواتے ہیں اور زہر کو چوسنے کا رواج بھی موجود ہے مگر یہ ایک خطرناک طریقہ ہے جس میں اگر زہر ٹھیک طریقے سے نا نکلے تو مریض کی موت ہوجاتی ہے اور دم والے شخص کا موقف ہوتا ہے کہ بس میں نے تو پوری کوشش کی مگر اللہ کی مرضی۔ جبکہ دوسری طرف اس زہر چوسنے والے شخص کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسی صورت میں اکا دکا مریضوں کے بچ جانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زہر کی جگہ سے خون نکال دیا جاتا ہے جس سے اس کی سپلائی جسم میں اس طرح نہیں ہوپاتی۔کٹ لگا کر زہر نکالنے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ کٹ لگانے والا شخص تربیت یافتہ ہونا چاہیے ایسا نہ ہوکہ وہ کٹ لگا کر دوسری رگوں کو کاٹ ڈالے۔

اس ساری گفتگو پر ڈاکٹر حسین علی کا کہنا تھا کہ یہ سب روایتی طریقے خطرناک ہیں۔ اگر زہر چوسنے کا طریقہ اتنا ہی قابل اعتماد ہوتا ہے تو کوئی ایسی مشین ہی ایجاد کرلی جاتی جس سے زہر نکالا جاتا۔ مریض کو اینٹی وینم کی فراہمی کے لیے جلد سے جلد ہسپتال لے جانا ہی بہترین حل ہے۔ بات چیت کے دوران ہم نے وہاں کے ماحول اور کسی ناخوشگوار واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو ڈاکٹر حسین علی نے بتایا مجھے یہاں پر کام کرتے 20 سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے اس دوران ہمارے ہاں شنازونادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہو مگر اس صورت میں بھی ہم اینٹی وینم کو جلد از جلد لگادیتے ہیں۔

15 سالوں میں کبھی ایک آدھ مرتبہ Milking (سانپ سے زہر نکالنے کا عمل) کے دوران سانپ نے ڈس لیا۔ مگر فوری تریاق نے اس کا کچھ اثر نہ ہونے دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے شعبے میں کسی کو بھی وزٹ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایک خطرناک کام ٹرینڈ لوگ بھی بہت احتیاط سے کرتے ہیں اور عام لوگوں کی جان کو بھی خطرہ نہ ہو اس لیے انہیں وہاں تک رسائی نہیں دی جاسکتی۔ آخر پر ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سانپوں کے حوالے سے تمام معلومات عام لوگوں تک پہنچنی چاہئیں یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں بلکہ میری ذاتی تحقیق اور تجربہ میں لوگوں کو شعور دینا ان کا حق ہے۔

اینٹی وینم کیا ہے؟
آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ زہر کو زہر ہی کاٹتا ہے اور یقینا یہ سن کر حیرت بھی ہوئی ہوگی مگر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات جس کسی نے بھی کہی نہایت سوچ سمجھ کر ہی کہی۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ سانپ کے زہر کا تریاق سانپ کے زہر سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ جی ہاں، اینٹی وینم کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔

اینٹی یعنی مخالف یا توڑ اور وینم مطلب سانپ کا زہر تو یہ دراصل سانپ کے زہر کا تریاق ہوتی ہے جسے سانپ کے زہر سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اسے ناصرف زہر کے تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کئی بیماریوں جیسے کہ فالج، کینسر، الزائمرز اور دل کی بیماریوں کے علاج کی دوائوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ ہیموٹاکسن کو تو ایسی بیماریوں جن میں خون کا بہائو تیز ہوجاتا ہے جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر، خون کی بیماریوں اور دل کے امراض کے لیے خون کے بہاوء کو سست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نیوروٹاکسن ایسی ادویات میں استعمال ہوتا ہے جوکہ ذہنی امراض اور فالج کے علاج میں معاون ہوں۔

اینٹی وینم کیسے تیار کیا جاتا ہے؟
سانپ کے زہر کا تریاق تیاری کے مراحل سے گزرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ مانگتا ہے، یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے جس کے لیے ماہرین کئی تجربات کرتے ہیں جیسے کہ وہ جانور (معاون) جوکہ عموماً گھوڑے ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں انہیں طبی زبان میں ڈونزز کہا جاتا ہے۔ اینٹی وینم تیار کرنے کے لیے ماہرین پہلے ان ’’ڈونزز‘‘ کو کئی قسموں کے سانپوں کا زہر دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے ساپنوں سے زہر نکالا جاتا ہے ماہرین کے مطابق ایک سانپ سے ہر دو ہفتے کے بعد زہر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سانپوں سے زہر نکالنے کے عمل کو ملکنگ ’’Milking‘‘ کہتے ہیں۔ حاصل شدہ منجمند زہر کو تھوڑی تھوڑی مقدار میں لمبے عرصے تک گھوڑوں کو دیا جاتا ہے۔

کیونکہ گھوڑوں میں مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے جس کی وجہ سے بتدریج وہ اس زہر کے خلاف اپنے اندر مزاحمت کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان ڈونزز کے جسم سے خون نکالنے کا عمل انجام پاتا ہے اور ایسا کرکے اس خون میں سے اینٹی باڈی خلیات علیحدہ کیے جاتے ہیں اور انہی سے اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے۔ اس پورلے عمل میں دس سے بارہ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے جوکہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہوتا ہے۔ یعنی گھوڑے سے تقریباً دس پندرہ لیٹر تک خون نکالا جاتا ہے۔ جس میں پلازما کو مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد سانپوں کے زہر سے ملا کر اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گھوڑوں کو ایک خاص قسم کے ماحول میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کو اعلیٰ قسم کی غذا دی جاتی ہے۔

The post سانپ سے وابستہ دہشت اور خوف کی حقیقت کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مودی حکومت نے قوم کو ’’ہم‘‘اور ’’وہ‘‘میں تقسیم کر دیا

$
0
0

جنوبی بھارت میں واقع ریاست کیرالہ کئی لحاظ سے منفرد علاقہ ہے۔ساحلوں‘ جنگلوں اور پہاڑوں کی خوبصورت سرزمین ہے۔ عرب تاجروں نے پہلے پہل ہندوستان میں اسی جگہ قدم رکھے اور اشاعت اسلام کا آغاز کیا۔ آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی پانچویں بڑی اکثر یت یہیں آباد ہے۔

اہم بات یہ کہ یہاں ہندو‘ مسلمان اور عیسائی سبھی امن‘ شانتی اور رواداری کے ماحول میں رہتے ہیں۔ ریاست میں مذہبی دنگا فساد شاذو نادر ہوتا ہے۔ممتازبھارتی دانش ور‘ ادیب ،مقرر اور سیاست داں‘ ششی تھرور کے اجداد کا تعلق بھی کیرالہ سے ہے۔ان کے والد اخبار میں کام کرتے تھے اور بسلسلہ ملازمت دنیا میں گھومے پھرے۔ 63سالہ ششی لندن میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے ، والدین بھارت چلے آئے۔

ششی نے کالج تک تعلیم وہیں پائی۔ 1978ء میں امریکا کی ٹفٹس یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔اسی سال اقوام متحدہ سے وابستہ ہوئے اور والد کی طرح مختلف ممالک میں کام کیا۔ 2006ء میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے عہدے کا الیکشن لڑا مگر بان کی مون سے شکست کھائی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران طبقے کو ششی تھرور ناپسند تھے۔ انہیں ایک کمزور سیکرٹری جنرل درکار تھا جو امریکی مفادات کے سامنے دیوار نہ بن سکے۔

ششی صاحب نے اقوام متحدہ کو خیر باد کہا اور وطن چلے آئے۔ سیاست میں قدم رکھا اور کانگریس پارٹی سے منسلک ہوئے۔ کیرالہ سے تین بار رکن لوک سبھا منتخب ہو چکے۔ دو بار وزیر مملکت رہے۔ عمدہ لکھاری ہیں۔ نان فکشن کی 13 اور فکشن کی 4کتب شائع ہو چکیں۔ تاریخ ‘عمرانیات، معاشیات اور مستقبلیات محبوب موضوع ہیں۔ بہترین مقرر ہیں۔

2015ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی اپنی ایک تقریر میں انہوں نے ہندوستان میں برٹش راج حکومت کی لوٹ مار اجاگر کی۔ اسے بہت مقبولیت ملی۔بعد ازاں انھوں نے اپنی کتب میں انگریزوں کی سازشوں اور کرپشن کو تفصیل سے بیان کیا۔2014ء میں انتہا پسندی اور ہندو قوم پرستی کے نام لیوا نریندر مودی کی زیر قیادت بھارت میں برسراقتدار آ گئے۔ تب سے بھارت مذہبی اختلافات کا مرکز بن چکا۔ششی تھرور کلام و قلم سے انتہا پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ بڑھتے قوم پرستانہ جذبات اور آزادی رائے پہ پابندیوں کے ماحول میں حق بات کہنا ان کی منفرد شخصیت کا عکاس ہے۔بھارتی سیاسی رہنما ہونے کے ناتے پاکستان پہ تنقید کرتے ہیں مگر اس نے کبھی انتہاپسندی کا چولا زیب تن نہیں کیا۔ ششی صاحب کے سیکڑوں انٹرویوز میں سے چیدہ جوابات کا انتخاب نذر قارئین ہے۔
٭٭
سوال: رابطے سہل ہونے سے دنیا آج عالمی گاؤں بن چکی۔ مگر یہ اعجوبہ بھی سامنے آچکا کہ اقوام عالم کے مابین اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: یہ بات کسی حد تک درست ہے۔میرے لڑکپن میں آئرلینڈ میں پروٹسنٹ اور کیتھولک ایک دوسرے سے نبردآزما تھے لیکن یہ لڑائی اب ختم ہو چکی۔ مگر یہ امر بھی صحیح ہے کہ دیگر ممالک میں معاشی ومذہبی اختلافات نمایاں ہو چکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا اور سویت یونین کی سرد جنگ کے دوران کئی مسائل پس پشت چلے گئے تھے۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی‘ تو وہ مسائل پھر ابھر آئے جن میں مذہبی اختلافات‘ قوم پرستی اور مقامی قضیے نمایاں تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ عجوبہ مستقل نہیں اور آخر کار ختم ہو جائے گا۔ تاہم اسے برتنا خاصا کٹھن مرحلہ ہے کہ اس سے نئے مسئلے مثلاً دہشت گردی جنم لے چکے۔

سوال: دور جدیدمیں عالمی شہریوں کے نظریات وہ خیالات کی تشکیل میں جغرافیہ زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے یا مذہب ؟
جواب: اس وقت دنیا بھر میں جغرافیہ یا مذہب نہیں قوم پرستی عوام و خواص کے حواس پر چھا چکی ۔ دراصل یہ ’’عالمگیریت‘‘ (گلوبلائزیشن) کے خلاف رد عمل ہے۔ عالمگیریت کے بطن سے ’’نظریہ کاسموپولٹین ازم‘‘ (Cosmopolitanism) نے جنم لیا ۔ اس نظریے کی رو سے دنیا کے تمام انسانوں کو امن و محبت سے رہنا چاہے چاہے وہ کیسے ہی مذہبی و نظریاتی خیالات رکھتے ہوں۔ اس نظریے کو پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں مقبولیت ملی لیکن پھر معاشی مفادات نے اسے کمزور کر ڈالا۔دراصل جب کوئی قوم معاشی ترقی نہیں کر سکے‘ تو پھر وہ ترقی یافتہ اور امیر اقوام پر ہر قسم کے الزامات لگانے لگتی ہے۔یہی نہیں ‘ اقوام عالم کے مابین معاشی جنگ بھی چھڑ جاتی ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اقوام کے مابین معاشی اختلافات ہی نے شدت اختیار کر لی۔ انہی اختلافات نے پھر جارحانہ قوم پرستی کو جنم دیا۔ چنانچہ بھارت میں مودی لہر‘ امریکا میں ٹرمپ لہر اور برطانیہ میں بریگزٹ جیسے عجوبے سامنے آئے۔ یونان‘ ہنگری، آسٹریا اور دیگر کئی ممالک میں بھی قوم پرستانہ تحریکیں چل پڑیں۔رفتہ رفتہ انہی تحریکوں نے مذہبی قوم پرستی‘ نسلی قوم پرستی اور قومی تفاخر کا روپ دھار لیا۔ اب اپنی نسل یا قوم کی خصوصیت بڑھ چڑھ کر سامنے لائی جانے لگیں۔ یہ کہا جانے لگا کہ سچا بھارتی بننا زیاد اہم ہے اور یہ کہ امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ۔ غرض اس ماحول میں نظریہ کاسموپولٹین ازم پس پشت چلا گیا اور امن‘ محبت اور تعاون کی باتیں ہوا میں اڑ گئیں۔

سوال: اسرائیل کے مورخ و دانش ور،نوح ہراری (Yuval Noah Harari) کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں شہریوں کو قوم پرستی نہیں جذبہ حب الوطنی اختیار کرنا چاہیے۔ وجہ یہ کہ قوم پرستی تنگ نظر ذہنیت کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب: دور حاضر میں رابطے کرنا بہت آسان ہو چکا ۔ اقوام عالم نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں بلکہ ان کا باہمی انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں کسی قوم کا جارحانہ قوم پسندی پر اتر آنا یقیناً نقصان دہ عجوبہ ہے۔ پھر ایسی قوم پسندی مخصوص سیاست دانوں کے مفادات کی تکمیل کرتی اور انہیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ بھارت میں ایسا ہی ہوا ۔ جبکہ جذبہ حب الوطنی ایک شہری میں مثبت جذبے پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اپنی زمین سے محبت اور اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن سے الفت جو شہریوں میں نیکی‘ برداشت ‘ پیار اور قناعت کے اعلیٰ جذبے پروان چڑھاتی ہیں۔جذبہ حب الوطنی دیگر اقوام کے لیے منفی جذبے عموماً پیدا نہیں کرتا۔ لیکن قوم پرستی کا نظریہ انسانوں کو ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ میں تقسیم کر دیتا ہے۔ لہٰذا آج کی ایک دوسرے سے جڑی دنیا میں یہ نظریہ خطرناک نتائج کو جنم دے سکتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب جارحانہ قوم پرستی کے باعث ملک تباہ ہوئے اور اقوام صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جذبہ حب الوطنی کو اپنا لیں جو مثبت بنیادیں رکھتا ہے۔ قوم پرستی کو تو اب سیاسی ہتھیار بنایا جا چکا جس سے مفادات پورے کیے جاتے ہیں۔

سوال: بھارت میں بھی کیا ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے؟
جواب: جی بالکل۔ مودی حکومت بھارتی قوم کو ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ میں تقسیم کر کے نہایت خطرناک کھیل کھیلنے میں محو ہے۔ اب جو شہری حکومت کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا‘ وہ ’’ہم‘‘ سے نکل کر’’وہ‘‘ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ تقسیم اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ شہری کا مذہب کیا ہے‘ وہ کون سی زبان بولتا ‘ کیا کھاتا اور کیسا جانور گاڑی میں لے جاتا ہے۔ شہریوں کی زندگیوں میں مودی حکومت براہ راست مداخلت تو نہیں کر رہی لیکن اس کی خاموشی سے متشدد قوم پرستوں کو تحریک ملتی ہے کہ وہ دوسروں پر کھلے عام ظلم و تشدد کر سکیں۔ اس رویّے نے ہمارے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔مثلاً متشدد ہجوم مسلمان کوبے دردی سے مارتا رہتا ہے اور پولیس چپ چاپ تماشا دیکھتی ہے۔ گویا قانون کے رکھوالے ہی اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں۔ ہمارے آئین میں ضمانت دی گئی ہے کہ رنگ ‘ نسل‘ مذہب ‘ زبان وغیرہ سے بالاتر ہو کر ہر شہری کی جان و مال کو حکومت تحفظ دے گی۔ لیکن مودی حکومت کروڑوں شہریوں کو یہ تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی۔ یہ ناکامی بھارت میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ڈال چکی۔

سوال: مودی حکومت جس قسم کی ہندو قوم پرستی کو پروان چڑھا رہی ہے، کیا وہ ہندومت سے مختلف ہے؟
جواب: ہندومت کے دراصل کئی نمونے یا ورژن ہیں۔ یہ مذہبی اصول و قوانین کا کوئی معین اور واضح نظام نہیں رکھتا۔ ہر ہندو کو اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی نمونہ اپنالے۔ اپنی مرضی کے اعتقادات رکھے۔ من پسند دیوی دیوتا کی پوجا کرے۔ اپنی پسند کی مذہبی کتاب پڑھے۔ وہ کسی بھی دن یا وقت پر اپنی پسندیدہ روایات کے مطابق عبادت کرسکتا ہے۔ چاہے تو وہ کسی بھی مذہبی اصول کو رد کردے، کوئی اسے کچھ نہیں کہے گا۔ ہندومت میں ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دینے کا نظریہ وجود ہی نہیں رکھتا۔اس میں جو لچک پذیری ہے، میں اسے خوبی سمجھتا ہوں۔آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند مذہبی و سیاسی تنظیموں نے مگر ہندومت کو سیاسی ہتھیار بنالیا ہے تاکہ اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرسکیں۔ ہندومت کے اپنے اس نئے نمونے کو انہوں نے ’’ہندتوا‘‘ کا نام دیا جو جارحانہ قوم پرستی کے نظریات پر استوار ہے۔ یہ سیاسی نمونہ ہندومت کے مذہبی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت میں75 تا 80 فیصد باشندے ہندومت کے کسی نہ کسی نمونے پر عمل پیرا ہیں۔ ان میں سے صرف 20 فیصد ہی ہندتوا نمونے کو پسند کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں، نریندر مودی کو خصوصاً الیکشن 2014ء میں کئی ہندوئوں نے یہ سوچ کر ووٹ دیئے کہ وہ ایک اچھے منتظم ہیں۔ وہ گجرات کو ترقی دے چکے لہٰذا بھارت کی قومی معیشت کو بھی سدھار دیں گے۔ اسی خیال کی بنیاد پر انہیں زیادہ ووٹ پڑتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں مودی بھارتیوں میں منفی قوم پرستانہ جذبات بھڑکا کر زیادہ ووٹ پانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ اسی لیے پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کا خوف قوم پر طاری کرکے انہیں ووٹ لینے پڑے۔سچ یہ ہے کہ مودی اینڈ کو نے ہندومت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ برطانیہ میں بعض اوقات فٹ بال کے شائقین آپے سے باہر ہوکرغنڈہ گردی کرتے ہیں۔ تب وہ ایک اچھے خاصے شریفانہ کھیل کا تیا پانچہ کرڈالتے ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی بھی انہی برطانوی غنڈوں جیسے ہیں جنہوں نے ایک معقول مذہب کی ایسی کی تیسی کردی۔ ہندومت اب تنگ نظری کا ایسا آلہ بن چکا جس سے خالصتاً سیاسی مفادات پورے کیے جارہے ہیں۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ مودی حکومت سیکولر آئین کے بھی بخیے ادھیڑ دے گی؟
جواب: جی بالکل۔ عام خیال یہ ہے کہ سیکولر مت مذہب مخالف نظریہ ہے۔ وہ مذہب کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن بھارت میں یہ نظریہ مختلف معنی رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ تمام مذاہب باہم شیر و شکر ہوجائیں اور حکومت کسی ایک مذہب کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ آزادی کے بعد تمام حکومتوں کی سعی رہی ہے کہ سبھی مذاہب کو قریب لایا جائے تاکہ ان میں تصادم نہیں ہم آہنگی جنم لے۔ مگرآر ایس ایس کے لیڈر برسراقتدار آتے ہی قوم کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے لگے۔ کانگریس پارٹی کا نظریہ ہے کہ تمام مذاہب قابل احترام ہیں اور سبھی کو بھارت میں پھلنے پھولنے کے مواقع ملنے چاہیں۔ اسی لیے ہم تمام مذہبی تہوار یکساں جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔

سوال: ریاست جموں و کشمیر کے آرٹیکل 380 ختم کرنے کا اقدام کیا جائز تھا؟
جواب: مودی حکومت نے یہ اہم قدم اٹھانے سے قبل کشمیری رہنمائوں سے کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں نظربند کردیا۔ میرے نزدیک یہ اقدام جمہوریت کی روح کے خلاف تھا۔ اس سے بھارتی نوجوانوں کو یہی پیغام ملا کہ طاقت کے سامنے کوئی شے حتیٰ کہ اخلاقیات بھی ٹھہر نہیں سکتی۔ گویا مودی حکومت ملک میں جنگجویانہ جذبات پروان چڑھا رہی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے۔

سوال: آپ نے ہندوستان میں انگریزوں کے دور حکومت کو اپنی کتب میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی کیا وجوہ ہیں؟
جواب: دراصل برصغیر پاک و ہند میں آج بھی بہت سے لوگ انگریز راج کے گن گاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انگریز حکومت ہر لحاظ سے اچھی تھی۔ چناں چہ میں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کے ہمدرد نہیں بلکہ لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ ان کے دور حکومت میں لاکھوں ہندوستانی قحطوں کی وجہ سے مرگئے مگر انگریز حکمران بے حس بنے رہے۔ میں اسی لیے چرچل کو قاتل کہنا ہوں کیونکہ اس نے لاکھوں بنگالیوں کو سسک سسک کر مرنے چھوڑ دیا اور ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ پھر جلیانوالہ باغ جیسے قتل عام انگریز حکمرانوں کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں انگریز ہندوستان کی دولت لوٹ کر برطانیہ لے گئے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو ترقی یافتہ بنالیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے سڑکیں، ریل پٹڑیاں، افسر شاہی، کرکٹ، چائے، انگریزی زبان وغیرہ کے تحفے ہندوستانیوں کو عطا کیے۔ لیکن انہیں دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہمیں فائدہ ہوجائے بلکہ اس طرح خود غرض انگریز اپنی لوٹ مار کا عمل سہل اور آسان بنانا چاہتے تھے۔

اس سارے قضیے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ برطانیہ کی نئی نسل اپنے اجداد کی چوری چکاری اور لوٹ مار سے ناواقف ہے۔ اسے یہ علم ہی نہیں کہ برطانوی عجائب گھر ہندوستان سے چرائی قیمتی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ انگریز تو ہماری بیش قیمتی کتابیں بھی اٹھا کر لے گئے اور اپنے کتب خانوں میں سجا دیں۔ حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ کے تاج میں لگا کوہ نور ہیرا بھی ٹھگی سے انگریزوں نے اڑا یا اور اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہ کیا۔جرمنی میں ہٹلر اور اس کے حواریوں نے یہود، جپسی قوم اور دیگر غیر جرمن نسلوں پر ظلم و تشدد کیا تھا۔ آج جرمنی کی نصابی کتب میں اس ظلم و تشدد کے متعلق باقاعدہ ابواب شامل ہیں۔ جرمن استاد طلبہ و طالبات کو دورے پر نظر بندی کیمپوں میں لے جاتے ہیں۔ اس ساری سرگرمی کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل اپنے اجداد کی قبیح حرکات سے آگاہ ہو اور انہیں دہرانے سے اجتناب کرے۔ برطانیہ میں مگر نصابی کتب نو آبادیاتی تاریخ کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ کر ہی ظالمانہ اور چوری کاری پر مبنی یہ تاریخ پڑھنے کو ملتی ہے۔میری تجویز ہے کہ حکومت برطانیہ کو چاہیے وہ ایک ’’نو آبادیاتی عجائب گھر ‘‘ تعمیر کرے۔ اس میں ہندوستان سمیت تمام نو آبادیوں سے لوٹ کر لائی جانے والی اشیا رکھی جائیں۔ اس میوزیم کا دورہ کرنے والے بچوں اور طلبہ و طالبات کو یہ بھی بتایا جائے کہ برطانیہ میں جتنی بھی شاندار عمارتیں نظر آتی ہیں، یہ چوری ڈاکے کے مال سے بنائی گئیں۔

سوال: آپ کے بیانیے میں مغل حکمران کہاں فٹ ہوتے ہیں؟ آپ نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ انگریزوں سے قبل کے حکمران مختلف تھے؟
جواب: انگریز اس لحاظ سے مختلف ثابت ہوئے کہ وہ ہندوستان سے کوئی لگائو نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی اس سرزمین سے مخلص تھے۔ مغل بھی باہر سے ہندوستان آئے مگر انہوں نے اس زمین کو اپنا وطن بنالیا اور یہاں کے باشندوں میں گھل مل گئے۔ مثلاً پہلے مغل بادشاہ کو چھوڑ کر آنے والا ہر مغل حکمران ہندوستانی ماں ہی کا بیٹا تھا۔ مغل ہندوستان کو اپنا گھر سمجھتے تھے…وہ واپس اپنے آبائی ملک نہیں گئے۔ انہوں نے کبھی اپنی دولت وہاں نہیں بجھوائی اور نہ ہی بیرون ملک جائیداد بنائی بلکہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی۔ ملک ملک گھوم کر بہترین معمار، مصّور، معالج، موسیقار اور دیگر فن کار ہندوستان لے آئے۔ یوں انہوں نے ہندوستانی تہذیب، ثقافت اور تمدن کو پھلنے پھولنے کے نادر مواقع فراہم کیے۔اسے پہلے سے زیادہ پُرکشش اور دلکش بنا دیا۔

انگریزوں کا طرز عمل تو بالکل مختلف رہا۔ وہ ہندوستانی باشندوں سے دور ہی رہے۔ ان کی توجہ کا مرکز یہ امر رہا کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کی مدد سے ہندوستانی دولت سمیٹ کر برطانیہ بھجوا دی جائے۔ حد یہ ہے کہ ہندوستان میں تعینات انگریز افسر اپنی 80 فیصد تنخواہ انگلستان بھجوا دیتے تھے۔ مغل بادشاہ ملبوسات، عطریات اور زیورات کی صنعتوں کے سرپرست تھے۔ انگریز مگر یہ اشیا خریدنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے مغل حکومت کے خاتمے سے یہ صنعتیں بھی زوال پذیر ہوگئیں۔ اسی طرح مغل حکمران موسیقاروں، شاعروں، لکھاریوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ مغل حکومت مٹ جانے سے علوم و فنون پر بھی زوال آگیا۔ کسی انگریز نے ہندوستان میں سرمایہ نہیں لگایا۔ سبھی اسے واپس برطانیہ بھجواتے اور وہاں اپنی جائیدادیں بناتے رہے۔

سوال: آپ کا کہنا ہے کہ انگریز نے ہندوستان کو جمہوریت کا جو تحفہ دیا، اس کی وجہ سے یہاں کئی خرابیوں نے جنم لیا۔ اس بابت کچھ بتائیے۔
جواب: انگریز دور حکومت میں انتظامیہ (افسر شاہی) سب سے طاقتور تھی۔ وجہ یہ کہ انتظامیہ کا بڑا حصّہ انگریز افسروں پر مشتمل تھا۔ یہ انتظامیہ پہلے پہل مقامی راجائوں، سرداروں ،جاگیرداروں وغیرہ کی شراکت سے مملکت کا نظم و نسق چلاتی اور عوام کو کنٹرول کرتی رہی پھر بیسویں صدی کے اوائل سے پارلیمنٹ بنادی گئی۔ اس کے ارکان بذریعہ الیکشن منتخب ہوتے تھے۔لیکن اصل طاقت انگریزوں ہی کے ہاتھوں میں رہی۔ وہ جاتے جاتے اقتدار مقامی جاگیرداروں اور اشرافیہ کے حوالے کرگئے جو بذریعہ الیکشن پارلیمنٹ میں پہنچنے لگے۔ مگر جلد ہی پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے مابین اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جس کی وجہ سے حکمران صحیح طرح حکومت نہیں کرسکے۔ بدانتظامی کا دور دورہ رہا اور کرپشن رواج پاگئی۔ اب لوگ انسانیت کی خدمت کرنے نہیں دولت کمانے سیاست میں آنے لگے۔ یوں پارلیمانی جمہوریت کرپشن، ذاتی و جماعتی مفادات اور سازشوں کا مرکز بن گئی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت چھوٹے ممالک کے لیے تو ٹھیک ہے جہاں ایک رکن اسمبلی کا حلقہ انتخاب چند ہزار لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حلقے میں بسنے والے سبھی لوگ الیکشن لڑنے والوں کی شخصیت و کردار سے آگاہ ہوتے اور بہترین امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ مگر بھارت اور پاکستان میں بھی ہر انتخابی حلقہ لاکھوں پر مشتمل ہے۔ اکثر اوقات ہر حلقے میں 95 فیصد لوگ امیدوار کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ یوں جرائم پیشہ افراد کو معزز شخصیت بن کر جیتنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی پارلیمنٹ میں ایسے کئی امیدوار بیٹھے ہیں جن پر فوجداری مقدمے چل چکے۔

میرا خیال ہے کہ بھارت میں صدارتی طرز حکومت رائج ہونا چاہیے۔ اس طرز حکومت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صدر ہی اپنے اچھے یا برے اقدامات کا ذمے دار ہوتا ہے۔ وہی اپنی ٹیم بناتا اور اپنے ویژن کے مطابق ملک چلاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی حکومت میں تو کھچڑی سی پکی ہوتی ہے۔ ہر وزیر اپنی اپنی بولی بولتا ہے اور جب کوئی بڑی خرابی جنم لے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کسے ذمے دار ٹھہرایا جائے۔ پھر صدر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شعبے کا اہل ترین، محنتی اور باصلاحیت فرد اپنا وزیر یا مشیر بنالے۔ پارلیمانی جمہوریت میں تو ارکان اسمبلی کے مابین عہدے پانے کی خاطر مقابلہ بلکہ کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے حکومتی انتظام موثر انداز میں چلاتے ہوئے رکاوٹ درپیش رہتی ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ عموماً مختلف سیاسی جماعتیں مل کر حکومت تشکیل دیتی ہیں۔ حکومت بنتے ہی اتحادی جماعتوں کے مابین پُرکشش عہدے پانے کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جوڑتوڑ جنم لیتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں ہونے لگتی ہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت بھلا خاک ہوگئی؟ ہر کسی کو کرسیاں بچانے کی فکر لگی رہتی ہے۔ لہٰذا حکومت حکمران جوڑ توڑ کی سیاست سے پاک اور ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے وفاداریاں بدلنے والوں کے رحم و کرم پر نہیںہوتا۔ لہٰذا اس کی پوری توجہ اچھا حکومتی نظام (گڈگورننس) کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ تو نریندرمودی کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی جماعت کو اکثریتی نشستیں مل گئیں ورنہ بھارتی سیاسی تاریخ سے عیاں ہے، بڑی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے چھوٹی جماعتوں کی محتاج رہتی ہیں۔ وہ پھر ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتی ہیں اور انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی چھوٹی جماعتوں کے مفادات پورے کرنے پڑتے ہیں۔

سوال: آپ روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔
جواب: جی ہاں۔ کائنات میں ایک عظیم ترین ہستی موجود ہونے کا خیال بچپن سے مجھے میرے حواس پر چھایا ہے۔ یہ ہستی پُراسرار، ناقابل رسائی، تصّور سے ماورا اور ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ انسانوں کا ہر گروہ مگر اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی نے اسے انسانی صورت شکل دے دی، کوئی اسے نور سمجھتا ہے، بعض کے نزدیک وہ سفید ڈاڑھی والا بوڑھا ہے تو دیگر اسے سولی پر چڑھا دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام حقیقت پانے کی کوششیں ہیں جسے حقیقی زندگی میں ہم ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے۔ لیکن سچ تک رسائی کی زبردست سعی ہی ہم انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز اور علیحدہ کرتی ہے۔

سوال: آپ کبھی ایسی مصیبت یا مشکل کا شکار ہوئے کہ خدا سے ناراض ہوگئے؟
جواب: کبھی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کو اپنے مصائب اور مشکلات کا ذمے دار خدا یا قسمت کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اکثر اوقات مشکلیں انسان کے اپنے بداعمال کا ردعمل ہوتی ہیں۔ تب اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مشکل سے کیسے نکلا جائے؟ تب خدا کے حضور دعا مانگنی چاہیے کہ وہ مدد کرے اور حفاظت بھی کرتا رہے۔

سوال: آپ تحریر و تقریر میں دلنشیں اور پُراثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کا یہ نادر ذخیرہ آپ کے پاس کہاں سے آیا؟
جواب: میں پانچ سال کا تھا کہ کتابیں رسالے پڑھنے لگا۔ مطالعے کی عادت رفتہ رفتہ میرے لیے نشہ بن گئی۔ اس زمانے میں ٹی وی بہت کم دیکھا جاتا تھا۔ پھر کمپیوٹر تھا نہ موبائل فون، لہٰذا میں فارغ وقت کا بیشتر حصہ مطالعہ کرتے ہی گزارتا۔ کتابوں اور رسالوں نے مجھے تفریح ہی فراہم نہیں کی بلکہ میری تعلیم و تربیت میں بھی حصہ لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ کرنا نت نئی باتیں سیکھنے اور جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ n

محمد رفیع پسندیدہ گلوکار
سوال: آپ فلم سے شغف رکھتے ہیں؟
جواب: میرے والدین انگریزی یا ملیالم فلمیں دیکھتے تھے۔ جب میں نئی دہلی کے کالج میں داخل ہوا تو بالی وڈ فلموں میں دلچسپی لینے لگا۔ مجھے یاد ہے، جب کوئی اچھی ہندی (اردو) فلم لگتی، تو میں رات کو اپنے دوستوں کے ساتھ ’’پُھٹا‘‘ کھاتا اور اسے دیکھنے پہنچ جاتا۔ جوانی میں ’’ارادھنا‘‘ اور ’’جوانی دیوانی‘‘ میری پسندیدہ فلمیں تھیں۔ تاہم میں ہر قسم کی فلمیں دیکھ لیتا تھا تاکہ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرسکوں۔اس زمانے میں راجیش کھنہ، ششی کپور اور سنجے خان میرے پسندیدہ ہیرو تھے جبکہ ممتاز، سائرہ بانو، زینت امان اور پروین بابی کو بطور ہیروئن پسند کرتا تھا۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں کے گانے کمال کے ہیں۔ آج بھی فارغ وقت میں اسی زمانے کے گانے سنتا ہوں۔ محمد رفیع میرے من پسندگلوکار ہیں۔ان کے گانوں کا شیدائی ہوں۔

زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ
سوال: آپ کی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جسے آپ اب تک نہیں بھلا پائے؟
جواب: میں 1981ء سے 1984ء تک سنگاپور میں یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فار ریفیوجیز پروگرام کا سربراہ رہا۔ ان دنوں ویت نام سے ہزارہا لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر بیرون ممالک جارہے تھے۔ بہت سے ویت نامی سنگاپور بھی آئے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت سے میری اولیّں ذمے داری یہ تھی کہ میں پناہ گزینوں کی حفاظت کروں اور ان کے حقوق کا خیال رکھوں۔ سنگاپور بحریہ کے اہلکار سمندر میں پھنسے ویت نامی خشکی پر لاتے تھے۔ میں پھر ان سے بات چیت کرتا، انہیں سہارا دیتا اور ریفیوجی کیمپ بھجوا دیتا۔

مجھے ایک ویت نامی مہاجر خاندان کی داستان آج بھی یاد ہے۔ وہ خاندان ماں باپ اور دو چھوٹے بچوں پر مشتمل تھا۔ وہ ایک کشتی پر سوار ہوکر ویت نام سے نکلے۔ راہ میں کشتی کا انجن خراب ہوگیا۔ چناں چہ وہ سمندر کے دھارے پر بہنے لگی۔ پندرہ دن بعد غذا کا ذخیرہ ختم ہوگیا مگر مسافروں کو زمین نظر نہیں آئی۔جلد ہی بچے بھوک سے بے تاب ہوگئے۔ بارش کا پانی ان کی پیاس تو بجھا دیتا مگر بھوک کیسے مٹتی؟ آخرماں نے اپنی انگلیاں کاٹیں اور ان سے بہتا خون نیم بے ہوش بچوںکو پلا دیا تاکہ ان میں کچھ توانائی پیدا ہو اور وہ زندہ رہ سکیں۔ماں باپ کی دعائیں رنگ لائیں اور سنگاپور کے ایک جہاز نے انہیں بچالیا۔ تب چاروں جی بھوک کے باعث اتنے نڈھال تھے کہ چل بھی نہ سکے۔ ہم نے انہیں ہر ممکن مدد فراہم کی۔ میں نے پھر کوشش کرکے انہیں امریکا بھجوا دیا۔ رونگی کے وقت انہوں نے اتنے جذباتی انداز میں میرا شکریہ ادا کیا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سچ ہے، دکھی انسانیت کی خدمت کرکے انسان کو جو اطمینان اور دلی سکون ملتا ہے، وہ بڑی سے بڑی دولت بھی نہیں دے سکتی۔

حسد کا جین ہی نہیں!
سوال: یہ بتائیے، آپ کس سے حسد کرتے ہیں؟ جواہرلال نہرو، امیتابھ بچن، پی جی وڈہائوس یا گبرئیل گارشیا مارکیز سے؟
جواب: قدرت نے مجھے حسد کا جین دیئے بغیر پیدا کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ہر انسان کو ترقی کرنے کے بہترین مواقع عطا کرتی ہے اور کسی کی کامیابی پر میں حسد نہیں رشک محسوس کرتا ہوں۔ لہٰذا آپ کے سوال کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ میں حاسد بالکل نہیں۔ بہرحال میں ذہانت کے سبب جواہر لال نہرو، آواز اور پُرکشش شخصیت کے باعث امیتابھ، حس مزاح کے لیے وڈ ہائوس اور گارشیا مارکیز کا اس لیے دل سے احترام کرتا ہوں کہ انہوں نے زندگی کے عام حالات و واقعات کو اپنے زور قلم سے سحر انگیز اور جادوئی بنادیا۔

The post مودی حکومت نے قوم کو ’’ہم‘‘اور ’’وہ‘‘میں تقسیم کر دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

71ء کی جنگ میں شکست کے بعد ملک میں غربت کے بجائے خوشحالی آئی

$
0
0

(قسط نمبر6)

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے پر ذوالفقار علی بھٹو نے انگریزی میں ’’ گریٹ ٹریجڈی‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ’’ عظیم المیہ‘‘ کے عنوان سے کیا گیا جس میں اُنہوں نے بنگلہ دیش کے بننے کی وجوہات اور سازشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بھٹو وسیع مطالعے اور سیاست میں قومی اور عالمی حالات کے مطابق تخلیقی سوچ کے ساتھ وقت کے دھارے کو اپنے قومی مفاد میں موڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت، جائیداد، خاندانی پس منظر اور اچھی شکل وصورت کے ساتھ دلکش شخصیت سے نوازا تھا ، ہاں وہ بھوکے اور یا لالچی تھے تو شہرت کے تھے اُن کو اس کی ہوس تھی کہ وہ عالمی سطح کی تاریخی شخصیت بن جائیں، جس کے لیے اُنہوں نے نہایت تیز رفتاری سے خصوصاً 1967 میں پیپلز پارٹی کو تشکیل دے کر سفر شروع کیا، اور جو تصورات اُنہوں نے اپنے ذہن میں بنائے تھے اُن کا تقریباً ساٹھ فیصد اُنہوں نے جولائی1977 تک حاصل کر لیا تھا۔اب مارشل لاء کے نفاذ کے بعد وہ اقتدار سے بے دخل کر دیئے گئے۔

اقتدار سے بے دخلی کے وقت اُنہوں نے یہ کہا کہ اُنہیں اقتدار کا کوئی لالچ نہیں لیکن یہ بتا دوں کہ اِس وقت پاکستان کو میری بہت زیادہ ضرورت ہے۔ وہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک کر چکے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور وقت نے اس بار جو دھارا بدلا اُس کو موڑنا اُن کے اختیار اور قوت سے باہر تھا۔

عظیم المیے کے بعد بھٹو اقتدار میں آئے اور جب 3 جولائی 1972 کو بھارت سے شملہ معاہدہ کر لیا تو یہ اس اعتبار سے بھی بہت اچھا تھا کہ اُنہیں دوسرے قومی اور بین الا قوامی معاملات میں کام کرنے کے لیے وقت مل گیا، 1973 میں انہوں نے ملک کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ سے کامیا ب مشاورت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ایک ایسا پارلیمانی آئین بنایا جو ملک کی تمام جماعتوںکو قبول تھا، وہ ملک میں 1973 کا آئین نافذ کر چکے تھے کہ 6 اکتو بر تا 25 اکتوبر 1973 چوتھی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں بنیادی طور پر اسرائیل کے مقابلے میں مصر اور شام تھے، سابق سوویت یو نین، سعودی عرب، اردن، عراق، تیونس، لیبیا، الجیریا، مراکش اور کیوبا نے اِن کی مدد کی، اس عرب اسرائیل جنگ سے قبل یہاں پہلی جنگ جولائی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ہوئی تھی جس میں عرب ملکوں کو ہی نقصان ہوا تھا۔

دوسری جنگ 1956ء میں ہوئی جب علاقے میں جمال ناصر کی جانب سے عرب نیشنل ازم کا ڈنکا بجتا تھا، اس جنگ میں مصر نے اصفان ڈیم کی تعمیر پر فنڈز روکنے کے ردعمل میں نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا اور ردعمل میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا تھا، اس موقع پر نہ صرف روس نے براہ راست مداخلت کی دھمکی دے دی تھی بلکہ امریکہ غیر جانبدار رہا تھا اورکسی حد تک مصر کی وکالت کی تھی۔ تیسری جنگ1967ء میں ہوئی تھی جس میں عربوں کو شکست ہوئی تھی۔

1973 کی جنگ میں امریکہ اعلانیہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا تھا، اگرچہ مغربی یورپ کے بیشتر ملک اسرائیل کے ساتھ تھے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا تھا، مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے نہ صرف اپنے محدو وسائل سے بڑھ کر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کی مدد کی تھی اور بھٹو کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی تھی کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے درمیان لڑی جانے والی آخری روایتی جنگ 1971 کی پاک بھارت جنگ تھی کیونکہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے روسی ساخت کے 600 کلومیٹر دور مار کرنے وا لے سام میزائل استعمال کئے تھے جب کہ اسرائیل نے امریکی طرز کے میزائل استعمال کئے تھے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اگر چہ امریکہ اور روس میزائل ٹیکنالو جی میں کا فی آگے آگئے تھے اور پچاس کی دہائی میں میزائل سازی شروع ہو گئی تھی اور ساٹھ کی دہا ئی کے آغاز میں جب روس اور امریکہ خلا میں سیٹلائٹ چھوڑ چکے تھے تو ترکی میں قائم نیٹو کے اڈوں سے ماسکو سمیت سوویت یونین کے کئی شہر امریکی میزائلو ں کی زد میں تھے اور پھر اس دور میں کیوبا میزائل بحران نے بھی جنم لیا تھا جس کی وجہ سے دنیا میں ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی ملک میں میزائل ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا اور جلد پاکستان اس شعبے میں بھارت سے بازی لے گیا اور یہ برتری اب تک قائم ہے۔

یہ عرب اسرائیل جنگ ایسی جنگ تھی جس میں اگرچہ مصر اور شام نے کوئی بڑی فتح حاصل نہیں کی تھی مگر شکست بھی نہیں کھائی تھی اور یہ امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کے لیے بھی قدرے فکر مندی کی بات تھی کیونکہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے اہم موقع پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کے درمیان باوجود بعض اختلافات کے اِن میں کامیابی کے ساتھ اتفاق قائم کر دیا اور پہلی مرتبہ مشرقِ وسطٰی اور دیگر اسلامی ملکوں میں وہ ممالک جہاں بادشاہتیں تھیں اور وہ سوویت یونین کے خلاف اور امریکہ کے نزد یک تھے، اور وہ مسلم آبادی کے ممالک جہاں قائم حکومتوں کی قربت سابق سوویت یونین سے تھی اور وہ نظریاتی طور پر سوشلزم کو اپناتے ہوئے اسلامی ملکوں میں بادشاہتوں کے خلاف تھے۔

اِ ن میں سے بیشتر کے سر براہان کو لاہور میں 1974 میں منعقد ہونے والی اسلامی سر براہ کانفرنس میں اکٹھا کر دیا، یہ بھٹو کی طلسماتی شخصیت کا کمال تھا۔ سرد جنگ کا یہ دور بہت ہی خطرناک تھا، اُس وقت تک امریکہ کے اعتبار سے اسلامی نظریات کے حامل اسلامی ملکوں میں جہاں نیم جمہورتیں ،آمریتیں اور بادشاہتیں تھیں، وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر اس لیے اعتماد کرتے تھے کہ وہ مذاہب کو مانتے ہیں، حالانکہ عملی طور پر ان کے ہاں اس اعتبار سے اخلاقیات تقریباً ختم ہو چکی ہیں، جب کہ سوویت یونین اشتراکی نظریات کے سبب مذہب کو اشتراکیت کا دشمن تصور کرتا تھا۔

یوں 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی کانفرنس امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو پسند نہیں تھی کیونکہ اس کے سبب متضاد نظام اورنظریات رکھنے والے ممالک کے درمیان اس لحاظ سے اتفاق قائم ہو رہا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے تصادم کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور مشترکہ طور پرتجارت ، صنعت، زراعت اور دیگر شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور خصوصاً مغرب کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں واقع فرق کوختم کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے اعتبار سے قائم اس فرق کو دور کر یں گے۔

1973 کی اس جنگ کے بعد جب تیل کو روک کر اس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو اس سے ایک جانب تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں دس گنا تک اضافے کی وجہ سے ان ملکوں میں تیز رفتار تعمیراتی کام شروع ہوئے تو ساتھ ہی اں ملکوں میں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اورپسما ندہ اسلامی ملکوں سے افرادی قوت کی بڑی مانگ شروع ہوئی اور ان میں سرفہرست پاکستان تھا جس سے بھٹو دور میں ملک کی تقریباً چھ کروڑ ،آبادی میں سے35 لا کھ افراد بیرون ِ ملک کام کرنے چلے گئے، جہاں اُ ن کو ملک کے مقابلے میں آٹھ سے دس گنا زیادہ اجرت ملنے لگی۔

اس سے پاکستان تین انداز سے تبدیل ہوا، بھارت سے جنگ ہارنے اور بنگلہ دیش کے بن جانے کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہوتی مگر ایک دم سے معاشی حوشحالی آئی، ان 35 لاکھ افراد نے جب ملک میں اپنے گھر وں کو ماہانہ رقوم بھیجنی شروع کیں تو پا کستان کے پاس زرمبادلہ کا فوراً ایک مستقل اور مستحکم ذریعہ ہاتھ آگیا اور ملک امریکی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں کی محتاجی اور دبائو سے آزاد ہو گیا۔

اُس وقت پاکستانی روپے کی قیمت بنگلہ دیش کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہوئی یعنی 20 ٹکے کا ایک پاکستانی روپیہ ہوا اور بھارت کی کرنسی کے مقابلے میں بھی پاکستانی کرنسی کی قیمت زیادہ ہوئی، اس معاشی استحکام نے بھٹو کوآزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اعتماد عطا کیا ، جب کہ ملک میں سماجی طور پر مثبت معاشی تبدیلی نے سماجی تضاد کو اس لیے جنم دیا کہ یہ معاشی تبد یلی اچانک رونما ہوئی تھی، بھٹو کی غلطی یہ تھی کہ وہ اس کے ردعمل کا ٹھیک طور سے ادراک نہ کر سکے اور سماجی ارتقائی عمل میں اس تبدیلی کے اثر کو معاشرتی ضرورت کے مطابق پائیدار بنیادوں پر ملکی ترقی کے لیے استعمال نہیں کر سکے۔

آمدنیوں میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی کی اچانک قوت خرید بڑھنے سے جہاں غریب ، متوسط، اعلیٰ متوسط اور امیروں کے درمیان روایتی ا قدار کے رشتے پامال ہوئے وہاں 35 لاکھ نوجوانوں کے ملک سے باہر جانے سے بھی معاشرتی تکریم اور حرمت کا معیار تنزل کی طرف جانے لگا۔ اگرچہ بھٹو خود بھی سیاسی دانشور تھے اور اُن کی کابینہ میں مبشر حسین، حنیف رامے ،معراج خالد،حفیظ پیرزادہ اور بہت سے اہل دانش تھے مگر وہ پاکستان میں اقتصادی خوشحالی کی صورتحال میں منفی نوعیت کی سماجی تبدیلی کے اس پہلو سے واقف نہیں تھے جن کی وجہ سے سماج کی اخلاقی ، تہذیبی بُنت کمزور ہوتی ہے۔

یوں 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کو بھٹو نے بہت خوبی سے اسلامی بلاک کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال نے بھارتی وزیر اعظم کو بھی بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک لکیر سے آگے بڑھنے نہیں دیا مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد سابق سوویت یونین اور امریکہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر نئے انداز کی ایسی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہو گئے جن کی وجہ سے اچانک اور فوری طور پر ابھرنے والے اسلامی بلاک کی روک تھام کی جائے، 1973 ہی وہ سال تھا جب افغانستان میں 40 سال سے مستحکم انداز میں حکومت کرنے والے بادشاہ ظاہر شاہ کا تخت اُن ہی کے قریبی رشتہ دار سردار دائود نے الٹ دیا اور خود ملک کے پہلے صدر بن گئے۔

یہ تبدیلی بڑی اچانک تھی جس سے پاکستان کو اُس وقت قدرے مشکل کا سامنا کرنا پڑ ا کیو نکہ بھٹو نے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی نیپ اور جمعیت علما اسلام کی پہلی منتخب ، مخلوط حکومت کو بر طرف کر دیا جس کے ردعمل میں خیبر پختونخوا میں جمعیت علما اسلام کے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں قائم نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا اور نیپ کے بہت سے لیڈر اور کارکن افغانستان چلے گئے اور بلوچستان میں مزاحمت بھی شروع ہوئی۔

جب کہ بھٹو نے نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل اور خان عبدالولی خان کو جیل بھیج کر اِن پر مقدمات قائم کر دئیے۔ 1974ء میں جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کر وا کے عالمی سطح پر اپنی لیڈر شپ کو مناتے ہوئے پاکستان کو سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی طور پر مضبوط کر دیا تھا، وہاں اسی سال بھا رت نے پاکستانی سرحد تھرپارکر کے دوسری طرف راجستھان کے علاقے پوکرن میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کردیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا۔ اگرچہ ایوب خان ہی کے زمانے میں جب بھارت نے ابتدائی طور پر اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا تو صدر جنرل ایوب خان نے بھی ملک میں ایٹمی تحقیق کا ادارہ قائم کر دیا تھا۔

بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور پھر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر منیر کی سربراہی میں تیز رفتاری سے کام شروع ہوا جس کے لیے لیبیا کے صدر کرنل قدافی نے بہت مالی مدد کی، اور پھر اس مشن کو جلد ہی پاکستان کے معروف سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان نے جو اُس وقت جوان تھے اپنے ہاتھ میں لے لیا، افغانستان میں شاہ ظاہر شاہ کے بعد صدر سردار دائود کی حکومت کے آتے ہی بھٹو کے لیے قدرے پریشانی کھڑی کردی گئی تھی کیونکہ بلوچستان میں پہاڑوں پر سے جو مسلح کاروائیاں بھٹو حکومت کی جانب سے مینگل حکومت کی برطرفی کے بعد شروع ہو ئی تھیں۔

اُس پر بھٹو نے ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو اس طرح بتایا تھا کہ یہ سلسلہ ایرانی بلوچستان اور سیستان تک پھیلتا جائے گا اور اس پر فوری طور پر شہنشاہ کی کی جڑواں بہن شہزادی اشرف پہلوی نے دورہ کیا تھا اور پاکستان کو امداد بھی دی تھی اور بعد میں شہنشاہ ایران نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا ، پر سردار دائود کے بعد افغانستان کی طرف سے صورتحال بدل گئی تھی، مگر اسلامی کانفرنس کے بعد بھٹو اور سردار دائود کے درمیان ملاقات ہوئی اور بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے معلامات کو حل کرنے کی تجاویز بھی زیرغور آئیں۔ جب کہ 1975میں بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن کو فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔

یہ بھارت اور اندراگاندھی کے لیے کو ئی اچھی صورت نہیں تھی،کیونکہ بنگلہ دیش میں جو تبدیلی بھارت نے تین سال قبل ایک بڑی مہنگی جنگ کے بعد کی تھی وہ اب بھارت کے حق میں نہیں رہی تھی بلکہ کسی حد تک بھارت مخالف ہو رہی تھی، اندرا گاندھی نے 1971 کی جنگ میں بظاہر 1947-48 اور1965 کی جنگوںکی شکست کا بدلہ پاکستان سے لیا تھا اور دفاعی اور عسکری لحاظ سے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو بحال کیا تھا، اور وہ بھارت کی ہیرو بن گئیں تھیں، کہ بھارت نے پہلی مرتبہ کسی جنگ میں فتح حاصل کی تھی مگر اب تین سال بعد ہی بنگلہ دیش میںہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اُن کی پالیسیوں پر بھارت سمیت پوری دنیا میں تنقید ہونے لگی تھی اور اُن کی شہرت کا گراف نیچے آرہا تھا۔

اندرا گاندھی نے جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے 1966 ء سے ایک بڑے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلا ف سازش شروع کی تھی تو وہ یہ بھول گئی تھیں کہ اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر پاکستان سے ٹوٹ جاتا ہے تو اس سے علاقے میں علیحدگی پسند تحریکوں کو حوصلہ ملے گا جس کے رجحانات بھارت میں کہیں زیادہ موجود ہیں دوسری اہم بات یہ تھی کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بجائے کم خرچ پر یہاں مستقل طور پر سیاسی بحران پیدا کرتا رہتا تو اس سے پاکستا ن رفتہ رفتہ بہت کمزور ہو جاتا، جبکہ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان دنیا کے بدلتے حالات سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے زیادہ مضبوط اور اہم ملک بن گیا، اور اب اگر بھارت سے پاکستان کی جنگ ہوتی تو صورتحال بدل چکی تھی کیونکہ اُسے مشرقی پاکستان جس کے درمیان ایک ہزار میل بھارت کے حائل ہونے والے محاذ سے فرصت مل گئی تھی، اور پاکستان کی فوجی قوت 1971 کے مقابلے میں زیادہ ہو گئی تھی۔

1975 میں بھٹو اپنے ایک زبردست دوست شاہ فیصل سے اُس وقت محروم ہو گئے جب25 مارچ 1975 کو شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا، یہ وہ شاہ فیصل تھے جنہوں نے دسمبر1971 کی جنگ کے صرف ایک ماہ بعد لیبیا کے صدر کرنل قدافی کی طرح دل کھو ل کر پاکستان کی مالی مدد کی تھی اور پا کستان کو فوراً مالیا تی، اقتصادی طور پر مستحکم کر دیا تھا پھر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ کی ناراضی کا یکسر خیال نہ کرتے ہو ئے مصر اورشام کا ساتھ دیا تھا، اُنہوں نے فلسطین کے موقف پر عربوں کو یک جا کرنے میں اپنا خاص کردار ادا کیا تھا، وہ بھٹو کی دعوت پر اسلامی سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تھے اور اسلامی اتحاد کی حمایت کی تھی اور دنیا میں اسلامی ملکوں کے اتحاد پر امن ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں سے اتفاق کیا تھا، یوں شاہ فیصل کی شہادت کا ذوالفقار علی بھٹو کو بہت دکھ ہوا تھا۔

بھٹو کی شاہ فیصل سے عقیدت و محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے لاہور میں قدافی سے تعلق کی بنیاد ایک اسٹیڈیم تعمیر کروایا جسے قدافی اسٹیدیم کہتے ہیں تو شاہ فیصل کے نام پر صنعتی طور پر اہم اور آبادی کے اعتبار سے ملک کے تیسرے بڑے شہر لائل پور کا نام شاہ فیصل کے نام پر رکھ دیا تھا، یوں 1972 سے 1975 تک صرف چار برسوں میں نہایت تیز رفتاری سے دنیا سرد جنگ کے لحاظ سے تبدیل ہو رہی تھی، بھٹو کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ مستقبل قریب میں سوویت یونین اور اس کا وارسا گروپ اور امریکہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ کن کن محاذوں پر اور کس طرح اپنی منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کر یں گے۔

اگر چہ بھٹو دولت مشترکہ سے علیحدگی کے بعد ایک غیر جانبدارانہ ملک کے طور پر پاکستان کا دنیا بھر میں اعتماد بحال کر کے سوویت یونین کے قریب آگئے تھے اور یہ تعلقات اتنے بہتر ہوئے تھے کہ سوویت یونین نے کراچی میں اسٹیل مل کے قیام کے ساتھ دیگر بہت سے شعبوں میں پاکستان سے تعاون کیا تھا، اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال سے بھی سوویت یونین کو عالمی سطح پر سرد جنگ کے حوالے سے فائد ہ ہوا تھا مگراُس کے لیے یہ فکرمند ی کی بات تھی کہ وہ اسلامی ممالک جو سوویت یونین کے نظریات کے ہم رکاب تھے وہ اشتراکی مخالف اسلامی ملکوں سے مفاہمت کر بیٹھے تھے، اس مفاہمت سے روس کو نظریاتی اعتبار سے شکست ہوئی تھی، سوویت یونین کو اُن غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں نظریاتی اعتبار سے مشکلا ت کا بہت کم سامنا کرنا پڑتا تھا۔

جہاں آبادی کا مذہب اسلام نہیں تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اُس نے 1930 کے بعد اور پھر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے1945 کے بعد بڑی مشکل سے سنٹرل ایشیا کی مسلم آبادی کی ریا ستوں ازبکستان،کر غیزستان، تاجکستان، آذر بائیجان، ترکمانستان اور قازقستان پر اشتراکیت کو مسلط کیا تھا مگر اس کے باوجود سوویت یونین کو وہاں اسلامی عبادات کے لحاظ سے کفن دفن شادی بیاہ کے اخلاقی قوانین کے اعتبار سے رعائتیں دینی پڑی تھیں، یوں پاکستان اگرچہ اب آزاد خارجہ پالیسی کو اپنا تے ہوئے امریکی اثر سے باہر نکل آیا تھا مگر آئینی لحاظ سے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا جس میں اقتداراعلیٰ کا مالک صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

اس لیے سوویت یونین پاکستان سے تعلقات میں احتیاط برتتا تھا اس کی ایک اور بنیادی وجہ سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں سے پاکستانی علاقوں کا صدیوں پرانا تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی تعلق تھا جس کے درمیان برطانیہ اور سوویت یونین نے افغانستان کو بفر اسٹیٹ ’’حائلی ریاست‘‘ بنا کر کاٹ دیا تھا، اس لیے اب سرد جنگ میں ایک جانب امریکی بلاک کو یہ کرنا تھا کہ اُس کے پرانے مسلم اتحادی ملکوں میں جہاں شخصی حکومتیں، باد شاہتیں یا نیم جمہوریتیں قائم تھیں اُن مسلم ملکوں کو دوبارہ اُن ملکوں سے دور کرنا تھا جو سوویت یونین کے قریب تھے اور ساتھ ہی اسرائیل کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں احساس تحفظ ابھرا تھا اور عوامی سطح پر لاہور کی مسلم سربراہ کانفرنس کا خیرمقدم کیا گیا تھا اس اثر کو بھی دور کرنا تھا ، ویسے بھی یہ تاریخی حقیقت ہے کہ باوجود اس کے کہ طویل عرصے سے مسلمان حکمران آپس میں لڑتے، جنگیں کرتے رہے ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ عام مسلمان ہمیشہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پو ری دنیا کے مسلمان اسلامی قوت کے اولین درس کے مطابق ایک ہو جائیں۔

یہ حقیقت ہے کہ 1973 کی جنگ کے بعد دنیا کی اِن بڑی قوتوں کے دونوں گروہوں نے اس اتحاد کے خلاف اپنے اپنے طور اور اپنے اپنے انداز سے کام کیا، امریکہ کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ ایسے اسلامی ملک جن کے حکمرانوں کی دولت امریکہ اور مغربی ملکوں کے بنکوں میں محفوظ تھی اور اِن کی حکمرانی کی مضبوطی میں بھی امریکی بلاک کا کردار تھا اُن کو سوویت یونین سے قربت رکھنے والے اسلامی ممالک سے دورکر دیا جائے اور یہ فوراً ہونے لگا پھر معاشرتی اعتبار سے جو اسلامی ممالک سوویت یونین کے قریب تھے اورکسی حد تک اشتراکیت کو اپنے نظام سے ہم آہنگ کر نا چاہتے تھے وہاں بھی مسلمانوں کے عقائد اتنے مضبوط تھے کہ وہ اپنے مذہب کے خلا ف کسی قسم کی پابندی یا قانون سازی برداشت نہیں کر سکتے تھے اسی طرح جہاں کہیں اسلامی ملکوں کے باشاہوں،آمروں یا نیم جمہوریت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے والے سرمایہ داروں نے امریکہ یا یورپ کی طرز ترقی کے نام پر بے حیائی، شراب نوشی اور جوئے جیسی برائیوں اور گناہوں کی سرکاری سطح پر اجازت دی وہاں جب بھی عوام کو موقع ملا تو انہوں نے ایسے حکمرانوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ، یہ رجحان آج بھی دنیا کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نفسیات یعنی ماب سیکالوجی ہے۔

بھٹو نے انتخابات میں نعرہ لگایا تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، اور جب 1973 کا آئین بنایا گیا تو اُنہوںنے تما م مذہبی جما عتوں سے مشاروت کی ا ور اسلامی قوانین کی بنیادوں کو شامل کیا یعنی شراب نوشی، جوئے، بے حیائی کے خاتمے کے لیے اور ملک میں قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کا وعدہ کیا مگر عملاً 1973سے 1977 میں جب تک اُن کے خلاف تحریک زور نہیں پکڑ گئی اُس وقت تک انہوں نے شراب پر قانونی طور پر پابندی عا ئد نہیں کی۔ جمہورت کے اعتبار سے راقم الحروف سوشل ریسرچ کی بنیاد پر عوامی رحجانات کا اندازہ بھی لگاتا رہا ہے۔

1970 میں ہو نے والے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 39.2 فیصد ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی160 نشستیں حاصل کی تھیں، پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 18.6% ووٹ حاصل کر کے81 نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ جماعت اسلامی ، جمعیت علما اسلام ، جمعیت علما پاکستان نے مجموعی طور پر 14% ووٹ حاصل کئے تھے اوراگر اسلامی عقائد پر عملدآمد کرنے والی مسلم لیگ جیسی جماعتوں کے ووٹوں کے تناسب کو بھی جمع کیا جائے تو یہ شرح 28% سے زیادہ ہو جاتی ہے۔

یہ زمینی حقائق تھے کہ جب1977 مارچ میں الیکشن ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 9 جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد PNA نے مشترکہ طور پر انتخاب لڑا، قومی اسمبلی کی 200 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 155 نشستیں حاصل کیں اور پی ین اے نے صر ف 35 سیٹیں جیتیں، ظاہر ہے کہ ان انتخا بات میں دھاندلی ہوئی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر د ھاندلی نہ ہوتی تو بھی پاکستان پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے حکومت بنا لیتی مگر بھٹو دو تہائی اکثریت کے ساتھ مضبوط حکومت چاہتے تھے، یوں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کی بنیاد پر ہونے والے اتحاد کے خلاف 1977 تک مغربی قوتیں اور سوویت یونین اپنے اپنے انداز سے کاروائیاں عمل میں لاچکی تھیں۔

سعودی عرب کے شاہ فیصل کے قتل کے بعد پاکستان میں صورتحا ل بدل گئی اور پہلے 5 جولائی کو جنرل ضیاالحق نے مارشل لگا کر حالات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ تین مہینوں میں نئے انتخابات کروانے کا اعلان کیا، اور پھر بھٹو کو گرفتار کر کے اُن پر محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلایا گیا اور 18 مارچ 1978 کو سزائے موت دے دی۔ سپریم کورٹ نے 6 فروری 1979 کو اس سزا کو برقرار رکھا اور 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دے دی گئی، یہاں پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے اسلامی نظام کے نفاذ کے مراحل جاری تھے کہ ایران میں حضرت امام خمینی کے اسلامی انقلاب پر شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی 16 جنوری 1979 کو ایران سے چلے گئے اور11 فروری کوشہنشاہی ختم ہوگئی، اس کو بھی اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے شاہ ظاہر کی طرح رضا شاہ پہلوی نے بھی ایران پر تقریباً 40 سال بادشاہت کی۔

اب ایک جانب پاکستان میں اسلامی نظام کے مراحل تھے تو دوسری جانب ایران میں، جس کی سرحدیں براہ راست سوویت یونین کی سنٹرل ایشیا کی ریاستوں سے ملتی ہیں۔ یہاں بھی اسلامی انقلاب آچکا تھا۔ یہ سرد جنگ کے اعتبار سے سوویت یونین کے لیے اہم تھا اور سوویت یونین پاکستان اور ایران میں حالات کا مطالعہ 1976-77 سے کر رہا تھا اور افغانستان جو طویل عرصے سے سوویت یونین اور پاکستان ایران کے حوالے سے بفر اسٹیٹ حائلی ریاست تھی اور یہاں عوام اسلامی اقدار پر بہت زیادہ سختی سے عمل کرتے ہیں، یہاں پر اسلامی نظام کو روکنے کے لیے روس نواز نور محمد تراکئی نے اشتراکی نظریات کی بنیاد پر صدر دائود کو قتل کیا اور 30 اپریل 1978 کو افغانستان کے صدر بن گئے اور 14ستمبر 1979 میں نور محمد تراکئی کو قتل کر دیا گیا۔ اب ایک جانب ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورتحال یہ تھی کہ شہنشاہ ملکوں ملکوں پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پناہ نہیں دے رہا تھا، یہ حالت خصوصاً اس وقت پیدا ہوئی جب ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان میں بھی جنرل ضیا الحق کی حمایت میں بہت سے علما آگئے اور اسلامی نظام کے نفاذ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ساتھ ہی سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت شروع کر دی، اور افغانستان میں خونی دور شروع ہو گیا۔ سردار دائود کو خلق پارٹی کے نورمحمد تراکئی نے قتل کیا تھا اور پھر جب نور محمد تراکئی کی کارکردگی سے روس مطمین نہیں ہوا تو نور محمد تراکئی کو قتل کردیا گیا اورحفیظ اللہ امین 14ستمبر 1979 سے27 دسمبر1979 تک صدر رہے، اِن کے قتل کے بعد سوویت یونین نے ببرک کارمل کو مشرقی یورپ سے لاکر 27  دسمبر1979کو افغانستان کا صدر بنا دیا، اور پھر اُن سے روس، افغان دوستی کے تحت افغانستان میں روسی فوجیں بھیجنے کی درخواست منگوائی اور یوں دسمبر 1979 میں جدید ہتھیاروں سے لیس کثیر تعداد میں روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں اور ان کو بڑے شہروں میں تعینات کر دیا گیا۔

1980 میں روسی فوجوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر گئی،1941 کے بعد روسی فوجیں کسی ملک میں براہ راست مداخلت کے لیے داخل ہوئی تھیں، واضح رہے کہ نوآبادیاتی دور میں خصوصاً نیپولین کی جنگوںکے دور میں جب نپولین فرانس کا کمانڈر انچیف تھا تو روس کے بادشاہ زار پال اوّل نے 1804 میں نیپولین کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے تو روسی فوجیں افغا نستان سے ہو تی ہوئی داخل ہونگی اور اِن کی مدد کریں گی اور روس کو صرف بلوچستان کے ساحل سے غرض ہو گی، مگر ا یسا نہ ہو سکا اور پھر کچھ برس بعد نپولین نے روس پر ہی حملہ کر دیا۔

جس میں سردی کی وجہ سے اس کی 80% فوجی ہلاک ہو ئے، پہلی برٹش افغان وار 1839-42 میں ہوئی جس میں پہلے برطانیہ نے راجہ رنجیت سنگھ کی بھرپور فوجی مدد سے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو سکھ فوجیں پنجاب واپس ہو گئیں پھر چار سال بعد افغانیوں نے موسم سرما میں 12500 فوجیوں کو قتل کرکے افغانستان آزاد کرا لیا، دوسری برطانوی افغان جنگ 1878 میں ہوئی جس میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک معاہدے کے تحت دفاع اور خارجہ پالیسی کے اختیارات کے عوض سا لانہ ایک سبسڈی کی رقم افغانستان کو دی جانے لگی اور یہ سلسلہ تیسری برطانوی افغان جنگ 1919 تک جاری رہا، اس کے بعد سے افغانستان آزاد رہا۔ ا

لبتہ افغانستان کی حیثیت روس اور برطانوی ہند کی دو بڑی سلطنتوں کے درمیان حائلی ریاست ’’بفر اسٹیٹ‘‘ کی رہی جس کو اب روس نے پامال کردیا تھا اور یہ اُس کی مجبوری تھی، سرد جنگ کے اس انتہاہی شدت کے دور میں یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ اگر مستقل نوعیت کی کسی لڑائی میں دشمن کو الجھا دیا جائے تو چند سال بعد اُس ملک کی معیشت ، اقتصادیات سمیت معاشرہ اور ملک تباہ ہو جا تا ہے، سویت یونین نے یہ اسٹرٹیجی اپنائی کہ کسی طرح ایران اور پاکستان میں رونما ہو نے والے اسلامی انقلابی رحجانات سے اپنی سنٹرل ایشیائی ریاستوں کو محفوظ رکھا جائے۔

یوں جب افغانستان میں روسی فوجیں د اخل ہوئیں تو بھارت جو، جولائی 1971 کے روس، بھارت معاہد ے میں شریک تھا جس میں بنگلہ دیش کو بھی اُس کے قیام کے فوراً بعد شامل کرلیا گیا تھا، اب بھارت کو بھی کسی موقع پر سوویت یونین آزما سکتا تھا، جہا ں تک تعلق پاکستان کا تھا اب اُسے اپنے دفاع کی بھی فکر تھی اور 1971 کی جنگ کے اعتبار سے بدلہ لینے کا موقع بھی تھا، یوں جب 5 جنوری1980 کو دس اسلامی ملکوںنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روسی جارحیت کی مذ مت اور پھر اس کے بعد1981 میںجنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں افغانستان سے روسی فوجوںکے انخلا کے لیے ایک قرار داد 23 کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے منظور ہوئی تو جہاں اخلاقی طور پر دنیا بھر میں روس کی پوزیشن کمزور ہوئی وہاں اب باوجود دوستی کے معاہدہ کے جس میں یہ طے تھا کہ بھارت اور روس دونوں میں سے کسی ایک پر کسی تیسرے ملک کا حملہ دونوں ملکوں پر حملہ سمجھا جائے گا، بھارت اب ہچکچاہٹ کا شکار تھا، کمیونزم برصغیر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا، امریکہ ،برطانیہ، فرانس سبھی اس کے خلا ف تھے۔

چین پاکستان کا حامی تھا، یعنی پوری دنیا روس کے مخالف تھی، مگر دوسری جانب پاکستان کو افغان مجاہدین کی مدد کرنے سے روکنے کیے سرد جنگ کے طریقہ کار کے مطابق اندرونی طور پر مسائل میں الجھایا جا رہا تھا اور اس میں بھارت اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ یوں سرد جنگ کے اس نازک موقع پر بھارت نے پھر پاکستان کی مخالفت کی اور جب کہ بھارت میں اڑیسہ، ناگالینڈ ، پنجاب اور کشمیر میں بھی بھارت سے علیحدگی کے لیے کاروائیاں شروع ہو گئیں، جس پر بھارت نے پاکستان کے خلا ف زور وشور سے پر وپیگنڈا شروع کیا بد قسمتی دیکھئے کہ امریکہ نے اُس وقت بھی بھارت کو اہمیت دی، پاکستان کے لیے افغانستان کی جنگ ایک بڑی جنگ تھی جس میں پاکستان فرنٹ لا ئن کا ملک بن گیا تھا پاکستان کی فوج افغان مجاہدین کو ٹرینگ دے رہی تھی اور ساتھ ہی پاکستان نے 35 لاکھ افغان مہاجر ین کو اپنے ہاں پناہ دے دی۔

بدقسمتی سے جس طرح بھٹو دور میں پاکستان سے35 لاکھ افراد مشرق وسطٰی اور تیل پید ا کر نے والے ملکوں میں ملازمتوں کے لیے جانے سے جو معاشرتی تبدیلیاں رونما ہونی تھیں اس پر بھٹو حکومت نے سوشل سائنٹسٹز کی مدد سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جس سے معاشرہ اس کے مضر اثرات سے بچ جاتا، اسی طرح بدقسمتی سے نہ تو ضیاالحق کی حکومت نے اور نہ ہی امریکہ سمیت اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے اسٹڈی کی بنیاد پر کوئی منصوبہ بنایا، جس کے تحت 35 لاکھ افغان مہاجر آبادی کے اثرات سے پاکستان میں اقتصادی، تجارتی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی بنیادوں پر منفی انداز میں بکھرنے والی معاشرتی، سماجی بُنت کے ادھڑنے کے عمل کو روکا جا سکتا، اور یہ حقیقت کہ اُس وقت افغان مجاہدین کی آمد سے ملک اسلحہ اور منشیات کی تیاری، تجارت اور استعمال کو فروغ ملا اور یوں پاکستان کو سماجی ، ثقافتی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس دور میںبھارت نے پاکستان پر کشمیر اور بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کی مدد کر نے کے الزامات عائد کئے۔

دوسری جانب پاکستا ن میں بھی بم دھماکے اور ایسی تخریبی سرگرمیاں شروع ہو گئیں جس کے پسِ پردہ سوویت یونین اور بھارت تھے، اگر چہ یہ کہا جا تا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت 1978 میں حاصل کر لی تھی جب بھٹو جیل میں تھے مگر ضیاالحق نے ساتھ ہی میزائل ٹیکنالوجی کے حصول پر پوری توجہ دی اور آج پاکستان ا سی بنیاد پر میزائل ٹیکنالوجی میں ا پنی دفاعی صلاحیت کے لحا ظ سے بھارت سے کچھ آگے ہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ اسرائیل بھی میزائل حملہ کرتا ہے تو پاکستان اُس کا موثر جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ 1982 سے جب امریکہ نے اسٹنگر میزائل مجاہدین کو فرا ہم کئے تو روسی فضائیہ کی کمر ٹوٹ گئی، یہ میزائل ایک انسان اپنے کاندھے پر رکھ کر زمین سے فضا میں اڑتے گن شپ ہیلی کاپٹر یا لڑا کا طیارے پر داغ سکتا تھا، اور اسی فیصد تک یہ میزائل ٹھیک ٹھیک ہدف پر لگتے تھے۔

اس جنگ کو اگر جنگِ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جنگ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ یہ 1945 سے جاری سرد جنگ کا فائنل راونڈ تھا جس کو امریکی سی آئی اے نے سوویت یونین میں بیٹھے اپنے اہم ایجنٹوں کے ساتھ ڈیزائن کیا تھا لیکن ایران اور پاکستان کے حالات کی وجہ سے یہ مرحلہ غیر متوقع وقت پر آیا مگر امریکی اتحاد کے لیے نہایت موزوں تھا، سوویت یونین نے جن اثرات کو بفر اسٹیٹ افغانستان میں روکنے کا منصوبہ بنایا تھا وہ سرد جنگ کی تکنیک کے لحاظ سے بالکل ہی غلط ثابت ہوا۔

افغان عوام کی اکثریت بنیادی طور پر مذہب پرست رہی ہے اور یہاں اسلام کی آمد کے بعد افغانیوں نے کسی غیر مسلم کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، برطانیہ نے یہاں تین جنگیں لڑیں اور آخر افغانستان کو بفر اسٹیٹ کے طور پر قبول کر لیا، واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں صرف تین آزاد اسلامی ملک رہ گئے تھے، ترکی جسے اتاترک مصطفی کمال پاشا نے انگریزوں سے لڑ کر آزاد کروایا تھا، سعودی عرب جسے اس لیے آزاد رکھا گیا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان مطمئین رہیں اور مشتعل نہ ہوں اور تیرا ملک افغانستان تھا جو دو بڑی قوتوں کی سرحدوں کے درمیان حائلی ریاست ’’بفر اسٹیٹ‘‘ کے طور پر چھوڑدیا گیا تھا ۔

یوں افغانستان اب بھی ایسا اسلامی ملک ہے جس نے تاریخ میں کبھی غلامی کو قبول نہیں کیا، اب سوویت یونین کو سخت جان، حرت پسند، جہاد پر ایمان رکھنے والے مجاہدین کا سامنا تھا جن کو جدید ہتھار چلانے کی تربیت پاکستانی فوج نے دی تھی اور اِن کے اہل خانہ کو پاکستا ن نے پناہ دی اور وہ ایسی بے جگری سے لڑ رہے تھے کہ روسی فوجیں پناہ مانگتی تھیں، اگرچہ یہ جنگ دنیا کے سامنے صرف افغان مجاہدین کی سوویت یونین کی فوجوں اور افغانستان میں اُن کی کٹ پتلی حکومت کے خلاف تھی، مگر سرد جنگ کے حوالے سے یہ جنگ اردگرد کئی ملکوں کو متاثر رہی تھی خصوصاً بھارت جو سوویت یونین کا قریبی دوست تھا۔

یوں افغان جنگ کی وجہ سے امریکی سی آئی اے، روسی ایجنسی کے جی بی، بھارتی را اور پاکستان کی آئی ایس آئی سرگرم عمل تھیں، سابق سوویت یونین کے پائیلٹ بیورو میںاٖفغان جنگ کے دوران دو تین مرتبہ سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ اگر پاکستان پر بھر پور انداز میں حملہ کر دیا جائے تو افغانستان میں مزاحمت کو سختی سے دبا لیا جائے گا اور اس کے لیے بھارت سے بھی رابطے کئے گئے جہاں اندرا گاندھی کی حکومت تھی جس کو یہ اندازہ تھا کہ اب پاکستان 1971 کا پاکستان نہیں رہا بلکہ اور زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو گیا تھا۔

اس لیے اگر بھارت پھر روس سے مل کر پاکستان پر حملہ کر دیتا تو بھی بھارت اور سوویت یونین دونوں کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا، پھر اقوام متحد ہ کے ممبران کی بہت بڑی اکثریت روسی جاریت کے خلاف تھی تو دوسری جانب بھا رت میں کشمیر میں مجاہدین کی جانب سے آزادی کی تحریک شدت اختیار کر گئی تھی اور بھارتی پنجاب میں آزاد خالصتان کے لیے سکھوں کی تحریک عروج پر پہنچ گئی تھی، جسے دبانے کے لیے سکھوں کی جماعت اکالی دل کے خلاف منصوبہ بندی شروع کردی گئی تھی، اندرا گاندھی کا پہلا دور اقتدار 24 جنوری 1966 سے24 مارچ 1977 تک تھا پھر اس کے بعد دوسرا دور 14 فروری 1980 سے31 اکتوبر 1984 تھا پہلے دورِ اقتدار میں انہوں نے بنگلہ دیش بنایا مگر 1975 میں شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد بھارت میں اُن کی مقبولیت کم ہو گئی تھی اور وہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو بھارت میں خود علیحدگی کی بہت سی تحریکیں بڑی طاقت کے ساتھ ابھریں یہ اُن کے لیے چیلنج تھے مگر انہوں اسی دور میںبڑی قوتوں سے ساز باز کرتے ہوئے کشمیر کے علاقے میں سیا چن کا محاذ بھی کھول دیا۔

(جاری ہے)

The post 71ء کی جنگ میں شکست کے بعد ملک میں غربت کے بجائے خوشحالی آئی appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

لومڑی کا حملہ کرنا

(احمد داد خان، لاہور )

خواب : یہ خواب میرے ابو نے دیکھا کہ ہم سب کسی پہاڑی مقام پر گئے ہوئے ہیں ۔ وہاں ہم سب شکار کے لئے جنگل میں جاتے ہیں تو ایک لومڑی سامنے سے آ جاتی ہے اور تیزی سے بڑھ کر میرے بھائی کے پاوں پہ کاٹ لیتی ہے۔ ابو فورًا اپنی بندوق سے اس کو مار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم سب اس کو گھسیٹ کر ریسٹ ہاوس لے آتے ہیں اور سب آ آ کر اس کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے گاوں کے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور ان سب کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ اس کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ بھائی اس کے بعد خواب میں نظر نہیں آتا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری  یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

چڑیا گھر کی سیر

( صوفیہ پرویز،لاہور )

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اور میری دیورانی اپنے بچوں کو لے کر چڑیا گھر گئے ہوئے ہیں ۔ گھومتے ہوئے ہم شیر کے پنجرے کے پاس جاتے ہیں تو کئی نوجوان اس کو تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پہ شیر غیض و غضب کا شکار ہوا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیسے وہ دروازہ کھول کر باھر کی طرف لپکتا ہے۔ سب لوگ چیخیں مارتے ہوئے ادھر ادھر بھاگتے ہیں۔ ہم بھی بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شیر میری طرف لپکتا ہے اور مجھ پہ چھلانگ لگا دیتا ہے ۔ اس کے بعد مجھے نہیں یاد۔۔ البتہ میری دیورانی بچوں کو لے کر دوسری طرف چلی جاتی ہے اور ذرا بھی نہیں گھبراتی۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری  یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

ابو تحفہ میں قرآن پاک دیتے ہیں

(فائق تیمور، اسلام آباد)

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے ابو عمرہ کر کے آئے ہیں اور سارے گھر والوں کے لئے خوب تحائف لے کے آتے ہیں، مجھے جو تحفہ ملتا ہے اس میں ایک بہت خوبصورت قرآن پاک نکلتا ہے جو کہ بہت خوبصورت انداز میں پرنٹ ہوا ہوتا ہے۔ میں اسی وقت اس کی تلاوت شروع کر دیتا ہوں۔ میرے امی ابو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔ دادی تو مجھے کچھ پیسے بھی انعام کے طور پہ دیتی ہیں اور اس کے بعد مسجد اپنے ساتھ لے جاتا ہوں کہ وہاں بھی نمازیوں کو سناوں گا۔ پھر وہاں میں خوشی خوشی قاری صاحب کو بھی دکھاتا ہوں۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

ٹخنے پر چوٹ

(ابتسام بتول، لاہور )

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں جیسے کسی مہمان کی آمد پہ کی جاتی ہے۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے آج میرے سسرال کی دعوت ہے اس لئے امی اتنی تفصیلی صفائی کروا رہی ہیں ۔ میں اچانک نیچے بچھے قالین سے الجھ کے نیچے گر جاتی ہوں جس سے میرے ٹخنے پہ شدید چوٹ لگتی ہے جیسے ھڈی کے ٹوٹنے کی درد ہو۔ تکلیف کی شدت سے میں نیم بے ہوش ہونے والی ہوتی ہوں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں کہ میرے سسرال میں کوئی مسلہ تو نہیں ہو گا۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

باجرے کی روٹی

( اکرام اللہ خان ، اسلام آباد)

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے گیا ہوں ۔ وہاں ہمارے مولوی صاحب اپنے گاوں کی سوغات باجرے سے بنی ہوئی روٹی مجھے دیتے ہیں ۔ وہ میں نے اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں کھائی تو مجھے انتہائی لذیز لگتی ہے۔ میں تقریباً آدھی سے بھی زیادہ کھا جاتا ہوں اور باقی جیب میں یہ سوچ کر رکھ لیتا ہوں کہ گھر جا کر والدہ کو بھی چکھاوں گا

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

بازو پر چوٹ لگنا

( ثروت ادریس، لاہور)

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کھانا پکا رہی ہوں۔ اچانک کیبنٹ سے ٹکرا کر پھسل جاتی ہوں جس کی وجہ سے میرا بازو مڑ جاتا ہے۔ میں چیخیں مارتی ہوں تو سب گھر والے آ جاتے ہیں اور مجھے ہسپتال لے جاتے ہیں۔ وہاں ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ میرے سب پٹھے خشک ہو چکے ہیں ۔ میں یہ سن کہ ڈر جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ ابھی تو میں بالکل درست حالت میں کچن میں کام کر رہی تھی ایک دم سے سارے اعصاب کیسے جواب دے سکتے ہیں مگر مارے خوف کے مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا۔ یہ دیکھ کہ میرے میاں مجھے کسے دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا کہتے ہیں مگر کوئی ان کی نہیں سن رہا ہوتا ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4548 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>