Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

ملکی تعمیر نو کے آغاز میں کیا رکاوٹ ہے؟

$
0
0

موجودہ حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، ایک سال میں بھی حکومتی اقدامات کے ثمرات سامنے نہیں آئے، قوم اب بھی پُر اُمید ہے ۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک کچھ خاص ’’ ڈلیور‘‘ نہیں کر سکی نئی۔ حکومت میں شامل شیخ رشید سمیت پُرانے اور تجربہ کار وزراء کی کارکردگی بھی متاثر کُن نہیں ہے۔

٭ حکومت کو ایک سال میں 11 ارب ڈالر بیرونی اور4313 ارب روپے اندرونی قرضہ حاصل کرنا پڑا ہے۔
٭مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکی ہے ۔
٭موجودہ سیاسی نظام طاقتور نہیں ہو سکا۔
٭ لاقانیت میں واضح کمی واقع نہیں ہوئی۔
٭محکمہ پولیس اور دوسرے سرکاری محکمے بے مہار ہو چکے ہیں۔
٭مسئلہ کشمیر پر خارجہ پالیسی کی خامیاں اور کمزور یاں سامنے آئی ہیں۔
٭ ابھی تک مرکز اور صوبوں میں منظم اور مربوط نظام حکومت نظر نہیں آیا ۔
٭ پہلے تحریک انصاف کے بعض راہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ پاکستانیوں کے 400 ارب ڈالر بیرونی بنکوں میں موجود ہیں لیکن اب یہ رقم 120 ڈالر تک سُکڑ چکی ہے۔
٭پہلے ہر مسئلے کی وجہ کرپشن کو قرار دیا جاتا تھا، اب تمام ’’ کرپٹ ‘‘ سیاستدان جیلوں میں بند ہیں یا خودساختہ ’’ گھر یلو نظر بندی ‘‘ یا جلاوطنی میں ہیں مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔!

پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ جانتے ہیں، انکا یہ بھی کہنا تھا بلکہ اب تک کہنا ہے کہ وہ تمام الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت اور ادراک رکھتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے دعویٰ بھی رہا ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرپشن کے ناسُور کی اصل تشخیص اور اسکا موثر علاج تجویز کرچکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے تو اسکا آدھا علاج ہو جاتا ہے، دوائی صحیح تجویز کردی جائے تو پورا علاج ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز میں یہ بات عجیب نظرآتی ہے کہ ’’ مرض کی مکمل تشخیص بھی ہو چکی ہے‘‘۔ ’’ مناسب علاج اور دوا بھی تجویز کر دی گئی ہے‘‘ مگر علاج شروع ہی نہیں کیا جا رہا۔ بصیرت کا فقدان ہے؟ ناتجربہ کاری ہے؟ قوت ِ فیصلہ میں کمی ہے؟ کسی قسم کا خوف ہے؟ کوئی بڑی رکاو ٹ ہے؟ کوئی خاص قسم کا اندورنی و بیرونی دباؤ ہے؟ قریبی ساتھی کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں؟ ریاستی اداروں کا مکمل تعاون حاصل نہیں ہے؟ حکومت اور ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی نہیں پائی جاتی؟ عوام بھولی بھولی یا بے شعور ہے؟ یا کوئی اور وجہ ہے؟ تما م مسائل کی وجہ مذہبی اور اخلاقی اقدار سے دُوری ہے؟۔

موجودہ حکومت کا ویژن ہی نیا پاکستان بنانا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں انسانوں کی مرضی یا پسند نہیں دیکھی جاتی، اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات کو ہر چیز پر تر جیح دی جاتی ہے، اسلامی اصول تما م انسانوں کیلئے سراسر بھلائی ہیں، ان اصولوں میں وہ اخلاقی اقدار پنہاں ہیں کہ جن پر عمل کرکے دنیا کو خوشیوں کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے، یہ اصول مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے یکسر امّن وآشتی، محبت اور ہر قسم کے تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق معاشرہ تشکیل دینے میں کس کو اعتراض ہو سکتا ہے؟۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ اقتصادی و معاشی مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہم آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے، ہم قرضوں کے جال کی وجہ سے اپنی خود مختاری سے کسی حد تک ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، آج ہم اپنے مذہبی،قومی اور روایتی تشحض کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں قرضہ دینے والی قوتیں ہم پر اپنا دباؤ بڑھا دیتی ہیں، جبکہ پوری قوم موجودہ حکومت سے مختلف توقعات قائم کئے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اخراجات بھی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ضروریات ِ زندگی کی معمولی سے معمولی شئے سے لیکر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ ذرائع آمدن میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ بجلی،گیس اور پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے عام شہریوں کی معاشی حالت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ دوائیاں مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے اپنی فیسوں اور لیبارٹریز نے ٹیسٹوں کی فیسوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے، اسکولوں کی فیس میں اضافہ ہو چکا ہے، پرائیویٹ تعلیمی ادارے مختلف مَد میں فیسوں کے علاوہ بھی رقم بٹور رہے ہیں۔ کتابوں،کاپیاں، سٹیشنری اور دوسری تعلیمی اشیاء کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے ۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابھی تک حکومت اسکے سامنے بند باندھنے میں قطعاً کامیاب نہیں ہوئی۔ اس تمام مہنگائی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور عسکری ادارے ایک ’’ پیج‘‘ (صفحے) پر ہیں یعنی تمام اُمور سلطنت میں سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اپوزیشن کی تقریباً ساری اہم قیادت اسیر ہے، جو باہر ہیں وہ مصلحت کے تحت دبی آواز میں مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہیں، بھارت نے جنگ کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے قوم بھی خاموشی سے اچھے وقتوں کا انتظار کر رہی ہے مگر یہاں ایک بہت ہی پیچیدہ اور احساس مسئلہ یہ ہے کہ اگر تمام مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو اس دفعہ اس کا ذمہ دار سیاسی اور عسکری قیادت کو برابر کا سمجھا جائے گا۔ عوام کے دِلوں میں اپنے عسکری اداروں کے متعلق بے لوث محبت پائی جاتی ہے اور فوج کو ہر مسئلے کا آخری حل سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ عام لوگوں میں یہ سوچ و فکر بھی پائی جاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوںاور افراد سے جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں، فوج ان پر قابو پانے اور سلجھانے اور سنوارنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے، فوج ایک منظم اور مضبوط ادارہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام کسی بھی قسم کے اندرونی و بیرونی بحران کی وجہ سے پریشانی یا اضطراب کا شکار نہیں ہوتی، انھیں اُمید ہوتی ہے کہ فوج کوئی نہ کوئی عملی حل نکال ہی لے گی، حتیٰ کہ جب سیاسی ادوار میں بے چینی پیدا ہوئی اور فوج نے اقتدار سنبھالا تو عوام نے فوج سے بہت ساری امیدیں اور توقعات وابستہ رکھی تھیں۔

مگر اب سیاسی اور عسکری ادارے ہم آ ہنگی کے ساتھ ملکی نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں، اُن پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہو چکی ہے کہ عوام کی اُمیدوں کو ٹوٹنے نہ دیں۔ وقت کا انتظار کئے بغیر عوام کو روزگار اور تمام بنیادی سہولتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ قوم اچھے وقت کا شدت سے انتظار کر رہی ہے اور کسی معجزے کی منتظر ہے، ملک اور ریاستی اداروں سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگوں کا یہ حق بھی ہے کہ انکا معیار زندگی بلند کیا جائے اور انھیں تفکرات سے نجات دلوائی جائے۔

میگا پراجیکٹس سے فوائد حاصل کئے جائیں
اعدادوشمار کے مطابق حکومت نے ایک سال میں گیارہ ارب ڈالر مزید قرض لیا ہے، حکومت کے مطابق یہ قرض سود اور پُرانے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں لیا گیا ہے، گیارہ ارب ڈالر کا مطلب 1760 کھرب روپے ہے، ایک پڑ ھا لکھا طبقہ یہ سوچ سوچ کر اضطرابی کیفیت سے دو چار ہے کہ آخرکار اس اقتصادی و معاشی بحران کا نتیجہ کیا نِکلے گا، قوم کو مزید بحرانی کیفیت کا شکار نہیں رکھا جا سکتا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ناگزیر ہے۔

کئی حل موجود بھی ہیں مگر حکومت کئی وجوہات کی بِنا پر’’ رسِک‘‘ لینے سے کنی کتر ارہی ہے۔ حتیٰ کہ کئی میگا پراجیکٹس ایسے ہیں کہ جنکی تعمیل سے شائد کچھ بہتری کے آثار پیدا ہو سکیں، مگر اُن کی تکمیل اورانھیں چلانے میں بھی کئی رکاوٹیں درپیش ہیں، ان پراجیکٹس کی تکمیل اور کامیابی میں کچھ عالمی قوتوں کا آلہ کار بھارت سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس نے حکومت اور ریاستی اداروں کی تمامتر توجہ اپنی جانب مبذول کروا رکھی ہے، وہ آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت ایسی ضرور کرتا ہے کہ ریاست اپنے مفاد کے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر ہی نہیں پائی۔

بلکہ حکومت ان منصوبوں کو کامیاب کرنے کیلئے پورا زور لگانے سے بھی ہچکچا رہی ہے، ’’ سی پیک ‘‘ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ’’ سی پیک ‘‘ کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یورپ اور اہم عالمی قوتیں ہیں، اگر دیکھا جائے تو سی پیک کی کامیابی سے جہاں چینی تجارت کو وسُعت حاصل ہوگی وہاں پاکستان کو بھی بے پناہ تجارتی، معاشی اور اقتصادی فوائد حاصل ہونگے، مگر بھارت بیرونی قوتوں کے ایماء پر ’’پاگل کُتے ‘‘ کی طرح ’’ کاٹ کھانے ‘‘ کو دوڑ پڑتا ہے ساری توجہ بھارت کے ’’ بھونکنے ‘‘ اور ’’ کاٹ کھانے ‘‘ سے بچنے کی جانب مبذول ہوجاتی ہے، اسکا علاج تو یہی ہے کہ ایک دفعہ ’’ پتھر یا اینٹ‘‘ مار کر اُسے بھاگنے پرمجبور کیا جائے وگر نہ وہ اسی طرح ہمیں پریشان کرتا رہے گا اور پاکستان ’’ راستے ‘‘ میں رک کر اسکے ’’ باؤلے پن ‘‘ سے بچنے کی تدبیر کرتا رہے گا۔ ایک دفعہ ’’ اینٹ یا پتھر ‘‘ مارکر بھارت کو خاموش کر دیا جائے تو ہم اپنی توجہ دوسری جانب مبذول کر پائیں گے۔ ایک بار سی پیک کامیاب ہوجائے اور چین کو بھی اسکے مطلوبہ ثمرات حاصل ہو جائیں تو وہ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرے گا، جو قرض کی بجائے سرمایہ کاری کی شکل ہو سکتی ہے۔

پاکستان کو سب سے زیادہ قرض چین نے دیا ہوا ہے، سی پیک کے تناظر میں بھی بہت سارا قرض ملک پر چڑھ چکا ہے، اگر کوئی منصوبہ بیچ میں لٹک جائے تو اس پر ہونے والی ساری سرمایہ کاری وقتی طور پر ’’ ڈمپ‘‘ ہوجاتی ہے، ہر منصوبہ مقررہ وقت کے اندر مکمل ہوناچاہیے خواہ اس کا انجام کچھ بھی ہو وگرنہ منصوبہ شروع ہی نہ کیا جائے۔ بیرونی مخالف عوامل سے نبٹنے کی صلاحیت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی، فی الحال تو بھارت سے نبٹنا ضروری ہے اسکو ہلہ شیری دینے والے خود بخود پیچھے ہٹ جائیں گے۔ ہمیں اپنی خود مختاری پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اورنہ ہی کوئی سمجھوتہ کرناچاہیے۔

سابقہ حکومتو ں نے اچھے بھلے ’’میگا پراجیکٹس ‘‘ سے انتخابی فوائد حاصل کرنے کیلئے انھیں متنازعہ بھی بنا دیا اور خزانے پر بوجھ بھی، حتیٰ کہ’’ میٹروبس ‘‘جیسے عوامی بہبود کے منصوبے بھی خزانے پر بوجھ بنا دئیے گئے ہیں۔ دس روپے سے تیس روپے کی ٹکٹ کرنے کے باوجود سات ارب سالانہ کا خسارہ ہے، پشاور کی’’ میٹروبس‘‘ ابھی تک مکمل ہی نہیں ہوئی، شہباز شریف میں یہ خوبی تو تھی کہ ’’پراجیکٹ ‘‘ مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کروا لیتے تھے، کاش وہ اقتدار اور مال کی ہوس کا شکار نہ ہوتے، موجودہ حکومت اورنج ٹرین منصوبے کو مکمل کرنے سے بھی گریزاں ہی نظر آتی ہے کہ ٹرین چلنے کے بعد خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑ جائے، اگر اورنج ٹرین کی ٹکٹ زیادہ رکھی جاتی ہے تو لوگ سفر نہیں کریں گے، ٹکٹ کم رکھی جاتی ہے تو نقصان کا اندیشہ ہے۔

پچھلے دور میں بجلی کے منصوبوں پر قرض لیکر جو سرمایہ کاری کی گئی اس کی وجہ سے گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل تو ہوگئی مگر اس بجلی کا زیادہ فائدہ اور سہولت گھریلو صارفین کو حاصل ہوا، صنعتی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی فوائد حاصل نہیں ہوئے۔

موجودہ حکومت اگر کچھ معاملات میں ایک خاص ’’ لائن آف ڈائریکشن ‘‘ اختیار کر لے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ میگا پراجیکٹس سے بھی خاطر خواہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اب ماضی کے معاملات کی طرف توجہ نہ دی جائے کہ کونسا پراجیکٹ نقصان کا باعث ہے اور کونسا فائدے کا، بلکہ اب تمام توجہ اس جانب مبذول کی جائے کہ ان سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ بھارت کو خاموش کروانے کے بعد’’ سی پیک‘‘ صنعتی زونز کے قیام، سفری سہولتوں اور صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ انڈسٹری کو بجلی کے ریٹ کا ٹیرف کم کردیا جائے۔ کیونکہ صنعتی ترقی کا زرِمبادلہ اور کئی مَدوں میں زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ایک طویل اور دیر پا مہم شروع کی جائے جس میں ہر شہری کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ سی پیک کے معاملے میں عالمی قوتوں کے خدشات کو دور کیا جائے بلکہ چین کی مرضی سے انھیں بھی شمولیت کی دعوت دی جائے۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ سی پیک یا ’’ ون روڈ ون بیلٹ‘‘ جیسے منصوبوں سے چین کو تجارتی اجارہ داری حاصل ہوگی۔ شائد انکے خدشات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انھیں مطمین نہیں کر پائے۔

صنعتی زونز کے قیام میں بہت تیزی اور شِدت لائی جائے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ محض تعمیرات کے شعبے سے ایک کروڑ نوکریاں حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور اس کا ریاست کی ترقی میں حصہ نہیں ہوگا۔ ایک کروڑ نوکریاں صنعت وتجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں پیدا کی جائیں تو ملک ترقی کی انتہا تک چلاجائے گا۔

پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پچاس لاکھ مکانات بننے سے ایک کروڑ نوکریاں تو نِکل ہی آئیں گی۔ ’’ مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان مکانات کی تعمیر اور تکمیل کے بعد ایک کروڑ بندے نیا کام کیاکریں گے اور پچاس لاکھ گھروں میں رہنے والے گھروں کے اخراجات کیسے پورے کریں گے، کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں ایسی صنعتیں قائم کی جائیں کہ جن کی مصنوعات کی اندرونی اور بیرونی سطح پر فروخت باآسانی ہو سکے۔

اس وقت ملک میں بہت ساری مصنوعات غیر ملکی دکھائی دیتی ہیں ان کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے، یہ مصنوعات ملک میں ہی تیار کی جائیں تو زرمبادلہ بھی بچے گا اور عوام کو روز گار بھی نصیب ہوگا۔

صنعتی و تجارتی انقلاب کی ضرورت
کافی عرصہ سے یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے ’’ متعلقہ وزارتوں ‘‘ کی بیوروکریسی میں مطلوبہ اہلیت موجود نہیں ہے، حیران کن بات ہے کہ اگر اورنج ٹرین پر 200 ارب روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو 200 ارب روپے سے صنعتوں کے جال کیوں نہیں بچھائے گئے؟ اگر 200 ارب روپے سے وہ صنعتیں قائم کی جائیں، جنکے قیام سے ہماری درآمدات میں کمی آتی تواقتصادی اُمور کے ایک’’ ماہر سید خرم‘‘ کے بقول 5 لاکھ افراد کو روز گار مِل سکتا تھا اور کم ازکم 2.5 ارب ڈالر درآمدات کی مَد میں بچ سکتے تھے۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ تعلیم اور طب کی سہولیات سے بھی زیادہ ضروری صنعتی انقلاب ہے، ملک میں اگر پیسہ وافر ہو تو رفاہ عامہ اور مفاد عامہ کے تمام کاموں میں رقم با آسانی خرچ کی جا سکتی ہے۔

لوٹی ہوئی دولت کب وصول ہوگی
تحریک انصاف کا سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس خزانوں میں جمع کروائیں گے ۔ مگر اس سلسلے میں ابھی کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ مگر قیدیوں کی ’’وی آئی پی موومنٹ ‘‘ پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ز کی پوری ٹیم انکی صحت کا خیال رکھنے کیلئے جیلوں میں موجود رہتی ہے، لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کیلئے ہرقدم اٹھایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی ہمت نہ ہو۔

تحریک انصاف کے حامیوں کو پُختہ یقین تھا کہ جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ، رشوت اور سفارش کو بہت بڑا جرم قرار دیا جائے گا ، وزیر اعظم عمرا ن خان کی تقریریں بھی موجود ہیں مگر ابھی تک اسمبلیوں میں موثر قانون سازی نہیں کی گئی۔ سرکاری ملازمین آج بھی دھڑلے سے رشوت لیکر جائز و ناجائز کا م کر رہے ہیں، وزیر توانائی عمر ایوب کے دعوؤں کے برعکس تحر یک انصاف کے ایک سال میں بھی واپڈا اہلکار وں کی مِلی بھگت سے کروڑوں یونٹ بجلی چوری ہوتی ہے۔ سر کاری دفاتر میں کام کروانے کے ریٹ مقرر ہیں۔

سڑکوں پر ہی قانون نظر نہیں آتا
پاکستان کی تمام سڑکوں پر تجاوزات قائم ہیں، کوئی گلی محلہ ایسا نہیں کہ جہاں عارضی دوکانیں، ریڑھیاں اور ٹھیلے موجود نہ ہو ں۔ لوگوں نے اپنی دکانیں سڑکوں تک بڑھائی ہوئی ہیں، صرف چند بڑ ی سڑکیں یا ’’بلیووارڈ ‘‘ چھوڑ کر ہر سڑک کے بیچ میں کاروبار ہو رہا ہے۔ ریڑھیوں اور ٹھیلوں کی بہتات کی وجہ سے بعض بازاروں کا نام ہی ’’ ریڑھیوں والا بازار ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ ٹاؤن شپ، اچھرہ اور لاہور کے دوسرے علاقوں میں ریڑھیوں والے بازار ضرور ہوتے ہیں۔ عابد مارکیٹ مزنگ چونگی، ہال روڈ اور شاہ عالمی کے علاقوں کی تجاوزات ہی کسی کو نظر نہیں آتیں۔ مینار پاکستان سے لیکر ٹھوکر نیاز بیگ لاہور تک ہر مصروف سڑک پر پھلوں کی ریڑ ھیوں کی بہتات نظر آتی ہے، مگر حکومت اور متعلقہ محکموں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔

تجاوزات ختم کروانے کے ذمہ دار تمام محکموں کے ملازمین کو صرف اپنی ’’ دیہا ڑیوں‘‘ سے غرض ہے۔ تمام سڑکیں پھلوں اور دوسرے کاروبار کیلئے نہیں، ٹریفک کیلئے ہیں، تمام شہری سڑکوں پر سفر کرنے کا باقاعدہ ٹوکن ٹیکس کی مد میں فیس ادا کرتے ہیں۔ تجاوزات ختم کرنے کے معاملے میں اپوزیشن کے بیکار شور کی پرواہ نہ کی جائے۔ پاکستانی قوم کو نظم وضبط میں لانے کا آغاز سڑکوں اور گلیوں سے ہی ہوگا ۔ روز گار کے سلسلہ میں تجاوزات یا کسی بھی خلاف ِ قانون کام کی اجازت دی ہی نہیں جا سکتی ۔ اسمگلروں، چوروں، ڈاکوؤں، منشیات فروشوں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کی مانند تجاوزات قائم کرنے والوں نے بھی خلاف قانون راستہ اپنایا ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے۔ روزگار کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو بھی ناجائز کام کی اجازت دی جائے۔ ہر سڑک پر تجاوزات سے لاقانونیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

بدمعاشوں اور قبضہ گروپوں کے اڈے ختم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے
یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ ملک کے ہرحصے میں بدمعاشوں، غنڈوں، منشیات فروشوں ،قبضہ گروپوں اور ناجائز فروشوں کے باقاعدہ اڈے قائم ہیں، یہ اڈے بدمعاشی کی ’’نرسریاں‘‘ ہیں، ان اڈوں میں ’’کن ٹٹے‘‘ اور ’’ رنگ باز‘‘ بیٹھے ہیں، یہ لوگ شریف شہریوں کی رقومات اینٹھ لیتے ہیں، املاک پر قبضہ کر لیتے ہیں یا زور زبردستی سے املاک اونے پونے خرید لیتے ہیں، یہ اڈے اور یہ بدمعاش پوشیدہ بھی نہیں ہوتے، ان کی باہمی دشمنیوں اور قتل وغارت کی داستانیں بھی عام ہیں مگر حکومت وقت بھی ان چند افراد پر ہاتھ ڈالنے سے کنی کتراتی ہے۔

کئی علاقوں کی وجہ شہرت ہی بدمعاشوں کے اڈے اور بدمعاش ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے حلقہ انتخاب جو گوالمنڈی وغیرہ کے علاقوں پر مشتمل تھا میں ہر دور میں بدمعاشوں کی ’’ متوازی حکومت ‘‘ قائم رہی ہے۔ ماضی کے بیشتر بدمعاش ریاض گجر، ٹیپو ٹرکاں والا وغیرہ وفات پاچکے ہیں مگر ان کے جان نشین اب بھی بڑے دھڑلے سے ’’یہ اڈے ‘‘ چلا رہے ہیں، ہر علاقے میں بدمعاشوں کی متوازی حکومت قائم ہوئی ہے تقریباً تمام سیاسی نمائندے ان اڈوں پر حاضری دینا اور بدمعاشوں کی حمایت حاصل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اس ضمن میں صوبائی حکومت صرف یہ وضاحت کر دے کہ علی الاعلان بدمعاشی کرنے والے ان غنڈوں اور قبضہ گروپوں پر کوئی قانون لاگوکیوں نہیں ہوتا؟ علاقہ تھانہ، ایس ایچ اواور پولیس نفری کی ذمہ داری کیا ہے ؟ شریف عوام کو تحفظ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ لاقانونیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عام افراد سرمایہ کاری کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات کا نوٹس کب لیں گے؟ انڈر ورلڈ اور مافیاز ختم کرنے کیلئے اقدامات کب اٹھائے جائیں گے؟

ہر مارکیٹ میں موجود اسمگلنگ کا مال کہاں سے آتا ہے ؟
پاکستان کی کوئی بھی مارکیٹ ایسی نہیں ہے کہ جہاں اسمگل شدہ اشیاء نہ ہوں، عوام حیران کہ یہ اسمگل شدہ مال کن راستوں سے آرہا ہے؟ اگر کچھ راستے اور سڑکیں ایسی ہیںکہ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود نہیں ہوتے اور یہ مال اُن راستوں سے آجاتا ہے تو پھر پورا ملک ہی غیر محفوظ ہے۔ دہشت گردوں کی پوری فوج اسلحہ لیکر ان راستوں سے اہم مارکیٹوں تک پہنچ سکتی ہے اور انھیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ محکمہ کسٹم، پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے محکموں کو یہ سب کچھ نظرکیوں نہیں آتا؟ اسمگلروں اور اسمگل شدہ اشیاء بیچنے والے تاجروں کو کس کی پشُت پناہی حاصل ہے؟ ’’تحریک انصاف‘‘ میں شامل عوامی نمائندوں کی نگاہوں سے یہ سب کچھ ایک دم اوجھل کیوں ہوگیا ہے؟

یہ ہول سیل مارکیٹیں ہمیشہ کھلی جگہ پر قائم کی جاتی ہیں تاکہ سامان لانے اور پہنچانے میں کوئی دِقت نہ ہو مگر شہر لاہور کی تقریباً تمام ہول سیل مارکیٹیں اندروں شہر کی ان گلیوں میں قائم ہیں کہ جہاں سے اکیلے بندے کا گزرنا محال ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان علاقوں میں رہائشی مکانات کو پلازوں میں تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی؟ کونسلروں، ایم پی ایز اور یہاں کے ایم این اے کے علم میں یہ لاقانونیت کیوں نہیں آئی؟ اگر یہ سب کچھ ’’ عوامی نمائندوں ‘‘ اور سرکاری ملازمین کے باہمی تعاون اور مِلی بھگت کی وجہ سے ہوا ہے تو کسی کو بھی کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا؟

کیا یہ نظام بھی بدنیت افراد کی کمزور بیساکھیوں پر کھڑا ہے؟ کیا موجودہ حکومت کسی ’’ عوامی ردعمل ‘‘ کے خوف کی وجہ سے لاقانونیت پر نکیل نہیں ڈال سکی؟ کیا آج بھی غیر ذمہ دار اور مفاد پرست عناصر ریاست سے بھی مضبوط ہیں؟ ایسے لاتعداد سوالات ہر ذہن میں کلبلا رہے ہیں، حکومت کو ان سوالات کا جواب بھی دینا پڑے گا اور ان کا حل بھی بتانا پڑے گا۔ مگر شائد موجودہ حکومت بھی بیماری کی صحیح تشخص کر سکی ہے، نہ ہی موثر علاج تجویز کر سکی ہے ۔شائد پانچ سال ایسے ہی پورے ہو جائیں گے۔

ایم اے پاس کو سر جن لگانے کا حکم شاہی
ایک دفعہ ایک ایسے بیوروکریٹ سے ملاقات کا اتفاق ہوا کہ جنہوں نے ایم بی بی ایس کرکے سی ایس ایس ( مقابلے کا امتحان) دیا، امتحان اور انٹر ویو میں کامیاب ہونے کے بعد انھیں سول ایڈ منسٹریشن میں بطور اے سی تعینات کردیا گیا، جب وہ بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے تو میں نے ایک سوال کیا کہ ’’ میڈیکل کے شعبے یعنی وزات صحت میں بھی تو انتظامی شعبے ہیں وہاں تعینات کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے وہ ان ڈاکٹرز، انجنیئرز اور ایم بی اے حضرات اور چارٹرڈ اکاونٹس کا بتانے لگے کہ جو اسوقت سول بیوروکریسی کے انتظامی اُمور کے شعبوں میں تعینات ہیں، ہمارے مسا ئل کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تقر یباً ہر شعبے میں اس شعبے سے متعلقہ قابل اور اہل افراد کی کمی ہے، لوگ سی ایس ایس کرکے اپنی متعلقہ وزارتوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر یا سیکشن افسر بننے کو تر جیح دینے کی بجائے، کسٹم ، پولیس، ایکسائز اور فارن آفس کو ترجیح دیتے ہیں، اور حکومت بھی ان کی خواہش کا احترام کرتی ہے۔ ایسے بندوں کو غیر متعلقہ محکموں میں کام کرتے دیکھ کر ایک بھارتی ریاست کے وہ مہاراجہ یاد آجاتے ہیں، جن کے پاس اُس زمانے کا ایم اے پاس سفارشی نوجوان ملازمت کیلئے آیا، تو انھوں نے اُسے ہسپتال میں ’’ سرجن‘‘ لگانے کے احکامات جاری کردئیے، پہلے والے سرجن کو کوتوال لگانے کا حکم دیا اور کوتوال کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیدیا۔ وطن عزیز میں کئی جگہ ایسے ہی مناظر نظر آتے ہیں ، جب تک ہر محکمے میں ایکسپرٹ نہیں لگائے جائیں گے، اداروں کی ترقی مشکل ہی ہے، اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت تمام بیوروکریٹس اور سر کاری افسران کی متعلقہ شعبے کی تعلیم اور مہارت دیکھتے ہوئے انھیں متعلقہ شعبوں میں تعینات کرے۔

مفید پراجیکٹس تو جاری رہنے چاہئیں
پچھلے ادوار میں شروع ہونے والے عوامی مفاد کے پراجیکٹس کو مکمل ہونا چاہیے، اگر ممکن ہو تو جاری رہنے بھی چاہئیں۔ جیسے کہ پرویز الٰہی دور کے مفید پراجیکٹس مثلاً ریسیکو 1122 اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تمام ادویات کی مفت فراہمی کو اگلے ادوار میں بند نہیں کیا گیا۔ اب شہباز شریف دور میں طالبعلموں کیلئے خریدے گئے۔ 5000 لیپ ٹاپ خراب ہو رہے ہیں اگر مزید تقسیم ممکن نہیں تو کم از کم یہ لیپ ٹاپ ہی تقسیم کردیں۔ طالبعلموں میں نہیں کرنے تو سرکاری دفاتر میں ہی تقسیم کردیں کہ دفتری کاموں میں سہولت ہو، اور بھی کئی ایسے کام ہیں جنہیں جاری رکھنا چاہیے۔ پیسہ تو قوم کا خرچ ہوا ہے کسی کی اپنی جیب سے تو نہیں گیا۔ پراجیکٹس جاری نہ رہنے سے کسی کا کیا نقصان ہوگا ۔ ماسوائے قو م کے نقصان کے!n

کہیں بھی تبدیلی نظر نہیں آتی
جمہوری نظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر علاقے سے بلدیاتی سطح سے لیکر ایم این اے کی سطح تک وہ افراد منتخب کئے جائیں کہ جو اپنے علاقے کے تمام مسائل اور ’’ جغرافیے‘‘ سے واقف ہوں وہ اپنے علاقے کی عوام کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہ ہونے دیں ۔ وہ اپنے علاقے کی عوام کے محافظ ہوتے ہیں، محکمہ پولیس اور دوسرے تمام سر کاری ادارے عوام کے حقوق اور تحفظ کیلئے انکے معاون ہوتے ہیں ، باکردار اور دیا نتدار عوامی نمائندے اگر باصلاحیت بھی ہوں تو انکے علاقے میں کسی قسم کا ایسا مسئلہ ہی نہ پیدا ہو کہ کسی کو بھی کوئی تکلیف پہنچے ، کسی کی حق تلفی ہو، کوئی سرکاری ملازم کسی کے ساتھ زیادتی کر سکے، مفاد عامہ کے تمام کاموں میں کوئی رکاوٹ درپیش ہو ، جمہوریت میں کو نسلر سے لیکر وزیراعظم تک ایک مربوط سیاسی نظام ہوتا ہے، مگر ہر علاقے میں نا انصافی، لاقانو نیت، غنڈہ گردی اور لاتعداد عوامی مسائل نظرآتے ہیں۔ سرکاری مشینری عوام و نمائندوں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی، اس جمہوری نظام میں بھی عوام لاوارث اور بے بس ہے، کہیں بھی تبدیلی نظر نہیں آتی،اس حکومت پر بنیادی ذمہ داری یہی عائد ہوتی ہے کہ وہ سر کاری مشینری کے اختیارات متعین کرے۔ عوامی نمائندوں کو پولیس اور دوسرے سر کاری اہلکاروں کا تابع بنانے کی بجائے عوامی مفادات کے کاموں میں انھیں سیاسی اور عوامی نمائندوں کا تابع بنایا جائے۔ اگر وزیر اعظم اور ان کے ساتھی ترقی یافتہ ممالک کے جمہوری نظام سے واقف ہیں تو تبدیلی کیلئے انھیں اس ملک میں ’’ صفر ‘‘ سے سفر شروع کرنا پڑے گا۔ان ممالک کی طرح سیاسی اور حکومتی اداروں کو عوام کے مفادات کا نگہبان بنانا پڑے گا۔ عوام کو ملک سے بددل کرنے والے عناصر کو ریاست کا بد ترین مجرم قرار دیا جائے گا، مگر موجودہ حکومت ان بنیادی مسائل اور معاملات میں بھی ابھی تک خاموش ہے !!!

The post ملکی تعمیر نو کے آغاز میں کیا رکاوٹ ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

استاد کو بھی’گارڈ آف آنر‘دے کر رخصتکرنا چاہیے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ط۔م

یہ وہ زمانہ ہے جب ہم دو سال کے لیے ’جامعہ اردو‘ میں ’پناہ گزین‘ ہوئے، ہمارا پڑائو ’شعبۂ اِبلاغ عامہ‘ میں تھا۔۔۔ جہاں ہمیں ایک دن خبر

ملی کہ ’بلوچستان یونیورسٹی‘ سے ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر اب یہاں آگئی ہیں۔۔۔ وہ بلوچستان میں ’اِبلاغ عامہ‘ کا ایک بہت نمایاں نام ہیں۔ ’جامعہ اردو‘ میں تحقیقی مقالے کے حوالے سے انہوں نے ہماری پہلی کلاس غالباً کمپیوٹر لیب میںلی تھی، کیوںکہ شعبے کے باقی کمرے خالی نہ تھے۔ کلاس کے روبرو ڈاکٹر توصیف احمد خاناور ڈاکٹر سیمی مشترکہ طور پر موجود تھے۔۔۔ ڈاکٹر سیمی نہایت سلیقے، ٹھیرائو اور شائستگی سے گفتگو کر رہی تھیں، یوں شیرینیٔ گفتار ’میڈم‘ کی شخصیت کا پہلا بالمشافہ حوالہبنی۔۔۔ پھر اُن کے بلند معیار تدریس وتحقیق نے ڈاکٹر سیمی سے متعلق ہمارے اندر ایک احتیاط بسا دی۔۔۔ وہ ہمارے تحقیقی مقالے کی نگراں رہیں، ہمیں ہر لمحہ یہ خیال رہتا کہ ہم جامعہ بلوچستان میں ’رئیس کلیہ فنون‘ کے عہدے پر رہنے والی سنیئر استاد کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔۔۔ یا یوں کہیں کہ ہماری قابلیت کا کچھ بھرم ہی رہ جائے۔ یہ دھڑکا لگا رہتا کہ وہ یہ نہ سوچیں کہ دیکھو یونیورسٹی تک آگئے ہیں اور انہیں یہ بات بھی بتانا پڑ رہی ہے۔۔۔ یہ فکر فروری 2011ء میں تب تک دامن گیر رہی، جب تک معروف صحافی مظہر عباس نے ہمارے مقالے کا’وائیوا‘ نہ لے لیا، اب پتا نہیں ہم اپنی اس جستجو میں کتنا کام یاب رہے۔۔۔

ڈاکٹر سیمی نغمانہ کی ’جامعہ اردو‘ آمد ہمارے ’ایم اے‘ کے دوسرے برس کا واقعہ تھا، اسی اثنا میں جامعہ بلوچستان میں اِبلاغ عامہ کیپروفیسر ناظمہ طالب کا قتل ہوگیا۔۔۔ آج یہ واقعہ ٹٹولا تو تاریخ 27 اپریل 2010ء نکلی، یعنی پھر پورے پانچ برس بعد 2015ء میں اسی اپریل کی 29 تاریخ کو ہمارے استاد ڈاکٹر یاسر رضوی بھی کراچی میں قاتلوں کا ہدف بن گئے۔۔۔! کیا عجیب اتفاق ہے۔۔۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل پر جب ’یوم سیاہ‘ منایا گیا، تو ہم نے زندگی میں پہلی بار اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھی۔۔۔ پھر اسی شام ’کراچی پریس کلب‘ میں تعزیتی تقریب میں ہم نے ڈاکٹر سیمی نغمانہ کو اپنی ساتھی پروفیسر کی موت پر غم وغصے میں دیکھا۔۔۔ انہوں نے بہت سے ’ناخدائوں‘ کی بھی خوب خبر لی، جنہوں نے ناظمہ طالب کے کراچی میں تبادلے کے لیے مدد نہ کی، جب کہ پروفیسر ناظمہ بھی سیمی نغمانہ کی طرح بلوچستان کے خراب حالات کے سبب کراچی آنا چاہتی تھیں، لیکن نہ آسکیں اور وہاں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔۔۔!

وقت آگے بڑھا اور ڈاکٹر سیمی ’جامعہ اردو‘ سے ’جامعہ کراچی‘ آگئیں۔۔۔ اور پھر کچھ برس بعد 11 اکتوبر 2019ء کو صدر شعبہ اِبلاغ عامہ کے طور پر ریٹائر ہوگئیں۔۔۔ اب ظاہر ہے، استاد صدر یا جرنیل وغیرہ تو ہوتا نہیں ناں، کہ اس کی ریٹائرمنٹ پر کوئی ’گارڈ آف آنر‘ ہو اور اخباری صفحے سے لے کر اطلاعات کے جلتے بُجھتے ’برقی پردے‘ اس کا عکس دکھائیں کہ آج ایک سنیئر استاد نے اپنی ’صدرِ شعبہ‘ کی مسند اپنے پیش رو کے سپرد کر دی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں استاد کو شایان شان طریقے سے رخصت کرنے کی رِیت ہی نہیں۔۔۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس کی روایت ڈالیں، لیکن اس سے پہلے ہم طلبہ کو بھی اپنے اساتذہ کو ساری زندگی اپنے والدین کی طرح عزیز رکھنا چاہیے، بہت زیادہ نہ سہی، لیکن جب بھی موقع ملے، ان کی قدم بوسی ضرور کرنا چاہیے۔۔۔ اور سماج میں ہمیشہ ان کے مرتبے کے سربلندی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔۔۔

یوں تو ہماپنے تمام اساتذہ کی قدموں کی خاک کو نگاہوں کا سرمہ کرلینے والوں میں سے ہیں۔۔۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے اساتذہ کی کہکشاں میں ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر ایک درخشاں ستارے کی طرح ہیں۔۔۔ جنہوں نے ہمیں تحقیق وتدریس کی نئی سمتوں اور نئی منزلوں سے روشناس کرایا۔۔۔ اُن کی بردباری اور شخصیت کا وقار یقیناً استادکے رتبے کو بلند تر کرتا ہے۔۔۔ ہمیں یہ سوچ بھی خوشی وانبساط اور اطمینان دیتی ہے کہ ہم نے کم وقت کے لیے ہی سہی، لیکن اُن سے زانوئے تلمذ طے کیے ہیں۔۔۔ ان کی کوئٹہ سے کراچی آمد اگرچہ مجبوری کے سبب تھی، لیکن یہ ہماری اُن کی شاگردی میں آنے کا ذریعہ بن گئی۔۔۔ بس اِن گنے چُنے اور ٹوٹے پھوٹے سے لفظوں سے میں اپنی استاد ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔۔۔ اور اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

۔۔۔
’’نئی‘‘ بھینس اور مٹی کے تیل والا گھر!
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب

ہمارے گائوں میں ایک صاحب بہت سیدھے سادے تھے، ایک دن ان کا بیٹا بیرون ملک سے واپس آیا، تو اس نے والد سے کہا یہ پرانی بھینس فروخت کرکے بہت اعلیٰ نسل کی بھینس لے آئو۔ وہ آدمی بالکل سیدھا سادا تھا۔ منڈی جاکر بھینس 10ہزار میں فروخت کرکے اگلے روز ایک عمدہ بھینس 12ہزار کی خرید لایا۔ جب وہ گائوں کے اندر داخل ہوا تو گائوں کے چند لوگوں نے اسے روک لیا اور نئی بھینس خریدنے کی مبارک باد دی۔ اسی خوشی میں اس کو چائے پلائی اور کہنے لگے اب اس خوشی میں ہمارے ساتھ چائے پیو پھر ہم تمھارا کے گھر جاکر نئی بھینس کی مبارک باد دیں گے۔ دوستوں نے کہا بھینس کو کھلا چھوڑ دو یہ چرتی رہے گی۔ تم ہمارے ساتھ چائے پیو۔ اس نے بھینس کو کھلا چھوڑ دیا اور تمام دوست چائے پینے لگے۔ چائے پی کر فارغ ہوئے تو میدان میں بھینس کو نہ پایا، تب اس کے دوستوں نے بتایا بھینس گم نہیں ہوئی، پہلے تمھارے گھر جاکر بھینس خریدنے کی خوشی میں مٹھائی کھاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ دوست ہنستے جاتے تھے۔ تب بابا جی نے کہا ایک تو تم نے میری بھینس گم کر دی ہے اوپر سے ہنس رہے ہو، انہوں نے کہا ہنسنے کی وجہ گھر جا کر بتائیں گے ۔ وہ گھر پہنچ گئے۔ بھینس گھر میں موجود تھی۔ تب دوستوں نے ہنسنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔ یہ تو وہی بھینس ہے جو کل تم منڈی میں بیچ آئے تھے۔ اس کے خریدار نے اس کو نہلا دھلا کر، مہندی لگاکر، گھنٹی گلے میں ڈال کر، ہار پہناکر خوب صورت کرکے تمھیں دو ہزار روپے زائد میں بیچ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے خود گائوں میں اپنے گھر آگئی ہے۔ اس پر وہ سیدھا سادا آدمی بہت حیران ہوا۔ یہ واقعہ آج سے 40 سال پہلے کا میرے گائوں کا سچا واقعہ ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں جب آدمی کسی بات کا پختہ تہیہ کرلے تو اس کے ذہن سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں، جو اس کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ایک دن گائوں کا غریب آدمی مٹی کے تیل کا کنستر بھرکر دکان دار کو دے آیا اور اس کے بدلے راشن لے آیا۔ گائوں میں کرنسی کم چلتی ہے، جب کہ چیز کے بدلے چیز لینے کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔ اگلے ہفتہ وہ پھر ایک کنستر مٹی کے تیل کا دکان دار کو دے آیا دکان دار نے پوچھا اتنا تیل کہاں سے لاتے ہو۔ اس نے کچھ نہ بتایا۔ اگلے ہفتہ جب وہ کنستر بھرکر لایا تو دکان دار نے اسے مجبور کیا۔ وہ کہنے لگا میں ایک شرط پر بتاتا ہوں اگر تم کسی سے ذکر نہ کرو۔ دکان دار مان گیا۔ غریب آدمی کہنے لگا۔ میں نے اپنے گھر پانی کا نلکا لگوایا، زمین سے پانی کی جگہ تیل نکل آیا۔ دکان دار اس کے ساتھ گھر گیا اور نلکا چلاکر تیل کا کنستر بھر لایا۔ اگلے روز کان دار نے گائوں کے نمبردار کو بتایا۔ اس نے غریب آدمی سے مکان خریدنے کا کہا مگر اس نے انکار کردیا۔ آخر نمبردار نے بھاری رقم کی پیش کش کی تو وہ مان گیا۔

اب نمبردار بہت خوش تھا۔ وہ روزانہ تیل کا کنستر بھرتا اور دکان دار کو دے آتا۔ غریب آدمی کافی رقم لے کر بچوں سمیت نامعلوم مقام پر منتقل ہوگیا اور بڑا اچھا مکان بنایا مگر کسی کو معلوم نہ تھا وہ کہاں گیا۔ کچھ دن بعد نمبردار نے نلکا چلایا تو اس میں تیل نہ نکلا۔ اسے فکر ہوئی اس نے کھدائی کرائی تو دیکھا نیچے زمین میں مٹی کے تیل کا بڑا ڈرم رکھا ہوا تھا جس کے اوپر نلکا لگا دیا گیا۔ نمبردار بہت پچھتایا، لیکن اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔

۔۔۔

صد لٖفظی کتھا
قد
رضوان طاہر مبین
’’شرطیہ قد بڑھائیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے اشتہار دیکھا اور انہیں لے کر مطب میں داخل ہوا، بولا:
’’یہ بہت بڑا علمی نام سمجھے جاتے ہیں۔۔۔
کئی کتابیں لکھ چکے۔۔۔
بس قد تھوڑا سا کم ہے۔۔۔
اگر قد بڑھ جائے، تو ان کی شخصیت کو چار چاند لگ جائیں۔۔۔!‘‘
’’میاں، آپ انہیں یہاں سے لے جائیے۔۔۔!‘‘
معالج نے عینک کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے کہا۔
’’کیا علاج کے لیے اِن کی عمر زیادہ ہے؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم صرف جسمانی قامت ہی بڑھا سکتے ہیں۔۔۔
ذہنی طور پر ’چھوٹے قد‘ کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں!‘‘
معالج نے جواب دیا۔

۔۔۔

پاکستان کی پہلی عید پر
قائد کا پیغام
مرسلہ:سارہ شاداب، لانڈھی،کراچی

پاکستان کی پہلی عیدالفطر18 اگست 1947ء کو قائداعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’ہمارے وہ بھائی جو آج ہندوستان میں اقلیتوں کی حیثیت سے ہیں، یقین رکھیں کہ ہم انہیں نہ کبھی نظر انداز کریں گے اور نہ فراموش۔ ہمارے دل ان کے لیے بے قرار ہیں۔ ہم ان کی اعانت اور فلاح و بہبود کے ضمن میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے، کیوں کہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبے ہی تھے، جو حصول پاکستان کے لیے جدوجہد اور اس کی منزل مقصود کی جانب سفر میں پیش پیش تھے اور جنہوں نے اس کا پرچم سر بلند رکھا۔ میں ان کی امداد و اعانت کبھی نہیں بھول سکتا ہوں اور نہ مجھے یہ امید ہے کہ پاکستان میں اکثریتی صوبے کبھی اس بات کو سراہنا بھولیں گے کہ حصول پاکستان کی تاریخی اور غازیانہ جدوجہد میں جو آج پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ اقلیتی صوبے پیش رو اور ہراوّل دستہ تھے۔

۔۔۔

’’آپ ہمیں بے وقوفبھی سمجھتے ہیں۔۔۔!‘‘
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری کہتے ہیں کہ ہندوستان میں جب ہنگامی حالت کا نفاذ کیا گیا، تو میں نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ ’سرکار چور ہے‘ تو دوسرے دن پولیس اسٹیشن پر مجھے بلا لیا گیا۔ افسر نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ نے رات کو مشاعرے میں یہ کہا کہ سرکار چور ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’جی یہ تو کہا ہے کہ سرکار چور ہے، لیکن یہ تو نہیں کہا کہ ہندوستان کی سرکار چور ہے، پاکستان کی سرکار چور ہے یا امریکا کی سرکار چور ہے یا برطانیہ کی سرکار چور ہے۔‘‘
پولیس افسر نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا ’’اچھا۔۔۔! اب آپ ہمیں بے وقوف بھی سمجھتے ہیں۔۔۔ کیا ہمیں معلوم نہیں سرکار کہاں کی چور ہے۔۔۔!

۔۔۔

پنگھٹ سے فلٹر پلانٹ تک
امجد محمود چشتی، میاںچنوں

ایک دور تھا کہ جب گائوں کی گوریاں مٹی کے مٹکے اٹھا ئے کنووں یا آبادی سے ہٹ کر واقع پنگھٹ سے پانی بھرنے جاتی تھیں۔ وقت کا پہیا چلتا رہا اور بتدریج ہر گھر میں پانی میسر ہونے لگا اور باہر سے پانی بھر کر لانے کی ضرورت جاتی رہی۔ پنگھٹ اور گوری ماضی کا حصہ بن گئیں۔ پھر یوں ہوا کہ گھر کے نلکوں یا پمپ کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا، اس لیے شہروں اور قصبوں میں جگہ جگہ واٹر پلانٹ نصب ہوگئے۔ یوں پھر سے لوگ شہر کے فلٹروں سے پانی بھرنے جاتے اور آتے نظر آنے لگے ہیں، مگر دورِِ رفتہ کے پنگھٹ اور آج کے پنگھٹ میں کافی فرق موجود ہے۔ ماضی میں سکھیوں سہیلیوں کے قافلے خوبصورت منقش مٹکے اٹھائے رواں دواں نظر آتے تھے۔ اُن پنگھٹوں کے ڈگر بڑے کٹھن ہوتے تھے۔ جن پہ کبھی کبھی چال اور رفتار میں بدنظمیاں بھی دیکھنے میں آتی تھیں۔ دل پھینک عشاق ان لمحات کی تاک میں رہتے تھے۔ کہیں راہوں میں آنکھیں بچھتی تھیں، تو کہیں کسی سے نگاہیں چار ہونے کے امکانات رہتے۔ وہ ہاتھوں سے دل تھامے جاتے ، تو دوسری طرف بھی دل میں لڈو پھوٹا کرتے۔مٹی کے برتنوں کو کنکر بھی لگا کرتے اور بہت سے نند لال پنگھٹ پہ چھیڑ خوانی کی غرض سے براجمان ہوا کرتے۔ ان حالات میں اُن مٹکوں اور عصمتوں کا تحفظ جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔

مگر آج فلٹر والے پنگھٹ پر ایسا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ آج پانی بھرنے کے لیے وہ نازک اندام گوریوں کے بہ جائے سخت اور کرخت صورتوں اور مزاجوں کے حامل مرد حضرات دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی مٹکوں کے بہ جائے پلاسٹک کی بوتلیں اور کین وغیرہ لیے ہوئے۔ ان کے راستوں میں کوئی کہکشاں نہیں ہوتی۔ ان بے چاروں کی خاطر کوئی گوریمنتظر نہیں ہوتی، بلکہ انہیں بادلِ نخواستہ اپنی ہی گھر والی اور دیگر اہل خانہ کے لیے فلٹر سے پانی لانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سائیکلوں، اسکوٹروں رکشوں اور دیگر گاڑیوں پر پانی بھرنے آتے ہیں، لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ لوگ مجبوراً ہی سہی، لیکن پھر سے پانی بھر کر لانے کی روایت کی طرفلوٹ رہے ہیں۔

آج صاف پینے کے پانی کی کم یابی اتنا بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ’’جوئے شیر لانے‘‘ کا محاورہ’’جوئے آب لانے‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا اور مستقبل میں شرم سے پانی پانی ہونے اور دودھ میں ملانے کے لیے بھی صاف پانی مہیانہ ہو۔ہمارے پچھلوں کے لیے پانی کی فراہمی پنگھٹوں کی مرہونِ منت تھی اور آج ہم فلٹروں سے تشنگی دور کرتے ہیں۔ یہ تھا ایک سے دوسرے پنگھٹ (فلٹر) تک کا قصہ۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

اُردو کا نفاذ … قومی یکجہتی کا ذریعہ

$
0
0

پاکستانی عدالت کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا گیا۔ یہ فیصلہ قرآن پاک کے غیرمستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر جاری کیا گیا۔

اگرچہ اردو کو ملک کی سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم جاری ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال اردو کو ریاستی اور حکومتی اداروں میں نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔

5ستمبر2015ء میں ایک عدالتی حکم جاری کیا گیا تھا جس کے تحت عدالتی اور سرکاری دفتری زبان کے طور پر اردو زبان کو نافذ کیا جانا چاہیے ، لیکن یہ حکم اپنے نافذ کا منتظر ہی رہا۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ بات موجود ہے جس کے تحت کہا گیا کہ 14اگست 1988ء تک تمام قومی اور حکومتی اداروں میں اردو کو نافذ کیا جائے ۔ اس کے بعد کتنے ہی 14اگست آئے اور گزرگئے لیکن اردو کا نافذ نہیں ہوسکا۔ البتہ 4  مئی 2019ء کے دن لاہور کی عدالت نے اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا گیا۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔

اردو زبان ہمارے لیے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کی تہذیب، ثقافت اور اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں برسوں اردو کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔ یعنی سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان کے طور پر اردو کو نافذ نہیں کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ انگریزی زبان کا ناجائز اور غیرقانونی تسلط ہے، جس کے ذریعے نوجوانوں کا تعلیمی قتل عام کیا گیا… اور کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی ترقی اردو کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں… انگریزی کو ابتدائی جماعتوں سے ذریعہ تعلیم بناکر صرف طوطوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی تھا۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کرسکے… حالاں کہ قومی زبان یک جہتی کا باعث بنتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آج پاکستانی خود اپنی زبان بولتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، خاص طور سے یہ بات تو اور باعث شرم ہے کہ نوجوان اردو بولنے میں خود کو کمتر محسوس کرنے اور کہلانے میں ایک طرح کا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اردو بولنے اور پڑھنے والے کو کم علم، کم تر اور کم درجہ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان کے بڑے نام ور ادیب، شاعر، سائنس داں اور ڈاکٹروں کی اکثریت نے اردو میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کی بلکہ ٹاٹ اسکولوں میں بھی تعلیم حاصل کی اور ایک مقام اور نام حاصل کیا۔ یقیناً اگر اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے گا تو ہماری شرح خواندگی بڑھے گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے امتحان پاس کریں گے۔ ہنرمند افراد کی تعداد بڑھے گی۔

لوگوں کو عدالت اور سرکاری دفاتر میں کام کروانے میں آسانی ہوگی۔ آج دفاتر میں کاغذات پر انگریزی میں جو نوٹ لکھے جاتے ہیں وہ عام لوگ نہیں پڑھ پاتے۔ عدالتوں میں اپنے چلنے والے کیسوں کے بارے میں سمجھ نہیں پاتے جو کچھ وکیل انہیں بتاتا ہے اس پر یقین کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ اپنی جائیداد بیچ کر وکیل کرتے ہیں۔ اگر عدالت میں اردو زبان کا نفاذ ہوگا تو وہ خود کیس کو سمجھ سکیں گے اور وکیلوں کے جھانسے میں آکر اپنی جمع پونجی نہ گنوائیں گے۔

اردو کی ناقدری میں والدین کا بھی خاصا حصہ ہے جن کو اس بات کی جلدی تھی اور ہے کہ ان کے بچے فر فر انگلش بولنا شروع ہوجائیں لہٰذا جب اس تمنا میں انہوں نے انگلش میڈیم اسکولوں میں بچوں کو O اور A لیول کے لئے داخل کرانا شروع کیا تو ان ہائی فائی اسکولوں میں فیس بھی بڑی ہائی فائی تھی لیکن والدین اس امید پر اس کو بھگتے رہے کہ ایک دن ان کا بچہ فر فر انگلش بولتا ہوا کسی بڑے ادارے میں بڑے عہدے پر فائز ہوجائے گا۔

بڑے انگلش میڈیم اسکولز سسٹم نے اردو کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنا شروع کردیا کہ پھر بچوں پر اضافی بوجھ پڑے گا اور بچے انگلش مضامین پر پوری توجہ نہ دے سکیں گے۔ ان دلیلوں کے آگے والدین ڈھیر ہوگئے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کی دیکھا دیکھی چھوٹے چھوٹے گلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اُگے اسکولوں نے بھی اردو زبان کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے حالاں کہ ان کے پاس انگریزی پڑھانے کے لیے بھی اچھے تربیت یافتہ اساتذہ بھی میسر نہیں تھے۔ یوں اردو اور انگریزی دونوں کی سطح گرنا شروع ہوگئی ہے اور احساس کمتری چھوت کے مرض کی طرح بڑھنے لگا ہے۔

دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں کہ کسی قوم نے اپنی زبان چھوڑ کر غیر ملکی زبان کو اپنایا اور پھر ترقی کی…!! جاپان کے بارے میں تو یہ بات مشہور ہے کہ جب دوسری عالم گیر جنگ میں اسے شکست ہوئی تو فاتح اقوام نے پوچھا مانگو کیا مانگتے ہو؟

جاپان کے دانا اور بینا شہنشاہ نے کہا ’’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘‘آج دیکھ لیں ترقی یافتہ ممالک میں اس کاکیا مقام ہے۔ تعلیم کے بارے میں اقبال نے بہت پہلے ایک بات کہی تھی کہ:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کہ آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ

یاد رہے کہ اقبال کے زمانے میں انگریز سرکار تھی۔ لہٰذا تعلیم کی ساری پالیسی ان کی مرضی و منشاء سے بنائی جاتی تھی۔ اقبال اسی چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جوانوں کی ترقی سے خوش تو ہیں مگر ہنستے ہوئے لب سے فریاد بھی بلند ہوجاتی ہے۔ سمجھ رہے تھے کہ نوجوان تعلیم حاصل کریں گے تو انہیں اچھی ملازمتیں ملیں گیں اور مالی لحاظ سے فارغ البالی حاصل ہوگی لیکن یہ کیا معلوم تھاکہ تعلیم کے ساتھ الحاد اور دین سے بیزاری بھی آئے گی۔ پس مغربی تعلیم تو شیریں کی طرح پرویز کے گھر آگئی لیکن ساتھ میں فرہاد کا تیشہ بھی لے آئی ہے اور اس کے ذریعے دین کی بربادی کا سامان بھی ہورہا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد معاملہ یہ ہوا کہ شیریں کے پاس فرہاد کے تیشے کے علاوہ بھی کچھ اور سامان میسر آگیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی قسم کے تعلیمی ادارے اپنی اپنی تعلیم پالیسی کے تحت تعلیم دے رہے ہیں۔ کچھ سرکاری ہیں اور کچھ نجی، کسی میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور کچھ اردو زبان میں تعلیم دے رہے ہیں۔ کچھ میں سرکاری یا وفاقی نصاب پڑھایا جارہا ہے۔ کچھ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا نصاب پڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں قوم تقسیم نہ ہوگی تو کیا ہوگی ۔ طبقات در طبقات انگلش اور اردو میڈیم … دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم … شہری اسکول اور دیہاتی اسکول … پھر O لیول اور A لیول میں پڑھایا جانے والا برطانوی اور امریکن نصاب… قوم کو تقسیم کرنے کا انتہائی ابتدائی سطح پر مکمل انتظام کیا گیا ہے۔

تعلیمی پالیسی کیا ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں… ملک میں تعلیمی تنزلی کی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔ سیاست دان خواہ اپنے منشور اور تقریروں میں کتنے ہی دعوے کریں لیکن تعلیم کبھی ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔ لہٰذا شرحِ خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور بنگلادیش سے اوپر ہے۔ پاکستان میں سالانہ ملک کی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کا بھی ایک بڑا حصہ کرپشن اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔

گھوسٹ اسکولوں کی تعداد پورے ملک میں بارہ سو کے قریب ہے۔ ان کے خلاف کارروائی… کاغذی کارروائی تک محدود ہے۔ عملہ کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ حقیقی طور پر ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں موجود ہی نہیں ہوتیں۔

سیاست داں اقتدار میں آکر اپنا کام لوگوں کو ملازمتیں دینا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا سیاسی بنیادوں پر دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی شعبے میں بھی نا اہل لوگ بھرتی کرتے ہیں۔ یوں اسے تباہی سے دوچار کردیاگیا ہے۔

پچھلے دور حکومت میں خادم اعلیٰ پنجاب نے سو فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مہم کا اعلان کیا لیکن پالیسی وہ اختیار کی جس سے خواندگی میں کمی آنا لازم ہے۔ یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے علیحدہ پرائمری اسکول ختم کردیے۔ نتیجتاً والدین نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا ہی بند کردیا۔ اب ہمارے سندھ کے وزیراعلیٰ سندھ میں نظام تعلیم کے نئے ٹرینڈ کو متعارف کروا رہے ہیں۔

جس کے تحت صوبے میں کیمبرج نظام کے تحت پچاس نئے اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیم میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہم کو خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

مسئلہ وہ ہی معیار تعلیم اور نظام تعلیم کا ہے۔ سب سے پہلے جو چیز قومی سطح پر طے کرنے کی چیز ہے وہ ہے نظام تعلیم … یکساں نظام تعلیم کے تحت ہی معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کرسکتا ہے۔ ورنہ طبقاتی نظام تعلیم معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔ جس سے تعمیر و ترقی نہیں بلکہ نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ، نچلے طبقے کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خامی نظام تعلیم میں ہے جہاں شہری، دیہاتی، میٹرک، کیمبرج ، مدرسہ کتنے ہی طرز کی تعلیم رائج ہے۔ پھر دیہات میں اردو ذریعۂ تعلیم ہے، شہروں میں اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں۔ دیہات سے بچے تعلیم پاکر شہر میں مزید تعلیم کے لئے آتے ہیں تو نصاب میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان کے اتنے سالوں کی تعلیم پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ طالب علم دلبرداشتہ ہوکر کامیابی کی منازل طے کرنے کے بجائے ناکامی کی طرف گام زن ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات تعلیمی سفر کو یکسر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

معیارتعلیم کا یہ حال ہے کہ ملک کے بعض علاقوں کے سرکاری اور نجی اسکول کے پانچویں جماعت کے طلبہ میں سے 48 فیصد لکھی ہوئی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔

دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان شعبۂ تعلیم میں اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ (اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان بنیادی تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول میں پچاس سال جب کہ ثانوی تعلیم کے میدان میں ساٹھ سال پیچھے ہے ۔

ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی کل آبادی میں گیارہ کروڑ 30 لاکھ نوجوان ہیں جو کل آبادی کا 65 فیصد بنتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے انسانی سرمائے یعنی (ہیومن کیپٹل) سے متعلق 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 130 ممالک میں 125نمبر پر ہے۔ حالاں کہ کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی اس کے لیے سرمایہ ہوتی ہے، جس کو تعلیم و تربیت فراہم کرکے ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی نوجوانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ اس کی وجوہات میں اسکولوں میں بچوں کا داخلہ نہ ہونا ، ناقص بنیادی تعلیم اور نظام تعلیم اور فنی تربیت کا فقدان ہے… اور ان میں سب سے بڑی وجہ ابتدائی تعلیم اردو کے بجائے انگریزی ہے۔

اس وقت ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب یہ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو بڑے ہوکر یہ صرف محنت اور مزدوری کرنے والے کام ہی کرسکیں گے۔ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصے کی صلاحیت قومی سطح پر ضائع ہوجائے گی۔

پچھلے دنوں جاپان کے قونصل جنرل نے کراچی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان میں تعلیم اپنی زبان میں خاص طور سے اور تکنیکی یعنی فنی تعلیم عام ہوجائے تو پاکستان کی غیر معمولی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ جاپان کی ترقی کی بنیادی وجہ اس کا جاپانی زبان میں تعلیمی نظام کا ہونا ہے۔ جاپان کے پاس کسی قسم کے قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود جاپانی قوم ترقی کے بلندیوں پر ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے ہم ایٹمی حملوں اور زلزلوں سے کامیابی سے نمٹتے رہے ہیں۔

پاکستان میں دقیانوسی تعلیمی نصاب اور انگریزوں کے زمانے کا نظام تعلیم ہے۔ فنی تعلیم پر توجہ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اس قدر بڑی نوجوانوں کی آبادی کو قوم کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے اپنی زبان میں بھرپور فنی تعلیم دی جائے۔ خواہ اس کی ڈگری انجینئرنگ سے کم ہو لیکن وہ ایک اچھا روزگار ضرور فراہم کرنے والی ہو۔ اس طرح یہ نوجوان ہمارے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی بن سکیں گے انشاء اﷲ۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم اردو اور نظام تعلیم یکساں ہونا چاہیے۔ انگریزی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائی جانی چاہیے نہ کہ ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے…

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو سرکاری تعلیمی دفتری اور عدالتی زمان کے طور پر اختیار نہیں کرسکے ہیں… حالاں کہ قومی زبان یک جہتی کا بھی باعث بنتی ہے۔

The post اُردو کا نفاذ … قومی یکجہتی کا ذریعہ appeared first on ایکسپریس اردو.

دیہاتی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صرف تنخواہ والے دِن نظر آتے ہیں

$
0
0

(قسط نمبر 4)
کارگاہ نالے سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک جوان شخص گدھے پر جلانے کی لکڑی لادے ہوئے گلگت کی طرف رواں دواں نظر آیا۔ میں نے گاڑی رکوا ئی تاکہ اُس سے گفتگو کر سکوں اور ممکن ہو تو اُس یہ بات چیت ریکارڈ کرکے نشر کروں۔ اس شخص کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس کی عمر بمشکل دس برس ہوگی۔ دونوں کے چہرے شدید غربت، مفلوک الحالی اور مشقت بھری زندگی کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے تین چار مرتبہ جلانے کی لکڑی گدھے پر لاد کر گلگت آتا ہے۔ دو من تک خشک لکڑی گدھے پر لائی جا سکتی ہے جو سات سے آٹھ سو روپے من (فی چالیس کلو گرام) فروخت ہوتی ہے۔ پھر اس رقم سے وہ اپنے گھر کے لئے ضروریات زندگی خرید کر واپس کارگاہ گائوں چلاجاتا ہے۔

واپسی پر اگر گائوں کے کسی دوکاندار کا سامان ہو تو وہ بھی گدھے پر لاد دیا جاتا ہے جس سے کچھ اضافی رقم ہاتھ آجاتی ہے۔بچے کو نہ پڑھانے کے سوال پر اُس نے بتایا کہ کارگاہ میں سرکاری سکول تو موجود ہے لیکن اس میں تعینات استاد صاحب مہینے میں صرف ایک بار اپنی شکل تنخواہ والے روز دکھاتے ہیں اور پھر مہینے بھر کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ (اس صورت حال کی کھوج بین کرنے سے پتہ چلا کہ 2008؁ء سے 2013؁ء تک یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت تھ۔ حکومت کے مقامی کارپرازان نے گلگت بلتستان کے ہر سر کاری محکمے میں گریڈ چودہ تک کی اسامیوں کی جس انداز میں سیل لگائی ہوئی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جس شخص نے چار سے پانچ لاکھ روپے دے کر ملازمت حاصل کی ہو وہ بھلا کیوں ڈیوٹی دینے آئے گا۔

ایسے بھی ہوا ہے کہ جو لوگ پہلے سے کا نٹر یکٹ پر کسی آسامی پر تعینات تھے وہ تمام اسامیاں بھی نئے لوگوں کو فروخت کی گئیں اور پہلے سے برسر روزگار لوگوں کو بے روزگار کیاگیا۔اب کا نٹریکٹ والے ملازمین جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں) یہ بچہ اور کارگاہ نالے کے اطراف میں آباد دیہات میں رہنے والے اس کے ہم عمر بچے سارا دن ادھر اُدھر آوارہ گھومتے ہیں اور جو لوگ گلگت میں رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ہمراہ گلگت رہتے اور وہاں اُن کو پڑھاتے ہیں۔ ان کے گدھے کی حالت بھی انہی کی طرح خستہ تھی۔ بوجھ کی وجہ سے وہ چلتے ہوئے ڈگمگا رہا تھا۔ میں نے جب گدھے کی اس حالت اور اس کی قیمت پوچھی تو اُس نے بتایا کہ یہ اکلوتا گدھا اس کے روزگار کا ذریعہ ہے اور اس کی قیمت کم وبیش پچاس ہزار روپے ہے۔اگر زیادہ صحت مند گدھا خریدنا ہو تو اس کے لئے ستر سے اسی ہزار روپے درکار ہوں گے۔

اب میں یہ تو نہیں جانتا کہ وہ تندرست گد ھا خریدنے کے لئے ستر اسی ہزار روپے کب اور کہاں سے فراہم کر سکے گا لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ گدھے پر لکڑی بیس کلو میٹر دور سے لاکر فروخت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والا یہ شخص گلگت بلتستان کے اُن ہزاروں نوجوانوں سے بہت بہتر ہے جوسارا دن موٹر سائیکلوں اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں ادھر سے اُدھرسڑکوں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے ماں باپ کی کمائی کو اڑانے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔

ایک طرف برائے نام تعلیم حاصل کرکے لاکھوں روپے کے عوض سرکاری ملازمت خریدنے پر صرف کر نے پر کرتے ہیں۔ دوسری جانب لوگ اسمبلیوں میں آکر وزارت خریدتے اور پھر اپنی رقم کو کئی گنا کرنے کی تگ و دو میں محنت کرنے والے غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حق مار کر لاکھوں روپے وصول کرکے ملازمتیں بیچ دیتے ہیں۔یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دینور سے سلطان آباد اور پھر جوتل تک شاہراہ قراقرم ایک سیدھ میں بنی ہوئی ہے۔ہر سال کم از کم پندرہ سے بیس نوجوان موٹر سائیکل سوار یہاں ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔زخمی ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں ہوتی ہے۔

پاکستان میں قدرتی جنگلات صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جنگلات کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کے پانچ فیصد رقبے سے بھی کم ہے لیکن جو بچے کھچے جنگلات ہیں وہ بھی ٹمبر مافیا کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گلگت کے اردگرد سارے پہاڑگھنے جنگلات سے مالامال تھے۔ اب پورے گلگت بلتستان میںجنگلات کی تباہی کا کام اس قدر وسیع پیمانے پر ہو چکا ہے کہ 2015؁ء کے موسم سرما میں برف اتنی کم ہوئی کہ وادی نلتر میں پاک فضائیہ کے سکی ٹریننگ سکول میں سکی کے سالانہ قومی مقابلے جنوری میں منعقد کرائے جا سکتے۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں 18 جنوری کو سکی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جہاں جہاں برف باری ہوتی ہے اُ ن میں سے ہر قابل ذکر مقام پہ سکی انگ کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سکی کے مقابلے سوات میں مالم جبہ، گلگت بلتستان میں نلتر اور رتو میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ 18جنوری کے بعد ہونے والی تھوڑی بہت برف باری کے بعد 8 فروری کو پانچ روزہ جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور انٹر سروسز سکی چیمپئن شپ کے مقابلے شروع ہوئے۔ اس مقصد کے لئے سکی انگ ٹریک پر اردگرد سے برف جمع کرکے ڈالی گئی۔پانچ روزہ مقابلوں کی اختتامی تقریب بارہ فروری کو ہونا تھی۔ جس کے مہمان خصوصی چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود تھے۔

میرے ہمراہ نیوزسٹرنگر شیر عباس اور شیر محمد نیوز ایڈیٹر نے اس تقریب کی کوریج کے لئے گلگت سے صبح چھ بجے روانہ ہونا تھا۔ گلگت ائر پورٹ پر پاک فضائیہ کا ایک دفتر قائم ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے متعلق تمام لوگوں نے اسی دفتر آنا اور فضائیہ کی مہیا کی ہوئی ٹرانسپورٹ پر نلتر جانا تھا۔ صبح سات بجے ہم فضائیہ کی بس پر نلتر روانہ ہوئے اورشاہراہ قراقرم کے بجائے دریائے ہنزہ کے اُس پار پرا نی سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں ایک بڑا گائوں نومل آتا ہے۔ جو گلگت سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نومل ایک بڑی آبادی ہے۔اپنے نام کی طرح خوبصورت یہ گائوںجو اپنی زرعی پیداوار، خاص طور پر پھلوں کے لئے، بہت مشہور ہے۔یہ گائوں دریائے ہنزہ کے کنارے آباد ہے۔روایتی زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ نومل کے باغات میں چیری کی بہت اچھی قسم پیدا ہو تی ہے۔

اس وسیع و عریض گائوں کے سرسبز و شاداب کھیت،باغات اور کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے گھر بہت ہی حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ نومل سے آگے سڑک وادی نلتر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس سڑک کی حالت بہت خراب تھی۔ گاڑی کی رفتار بہت آہستہ کرنا پڑی۔راستے میں چودہ اور اٹھارہ میگاواٹ کے دو بجلی گھر زیر تعمیر ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ نلتر نالہ بہہ رہا ہے۔

سڑک جسے پگڈنڈی کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہیں تو نالے کے ساتھ چلتی ہے اور کہیں نالے سے اونچی ہو جاتی ہے۔ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے پانی کچھ دھیمے انداز میں بہہ رہا تھا۔صاف شفاف پانی برف کی طرح ٹھنڈاجھاگ اُڑاتا بہت حسین لگ رہا تھا۔ کچھ آگے نلتر پایاں آکر گاڑیاں روک دی گئیں۔ کیونکہ یہاں سے آگے سڑک کی حالت ایسی تھی کہ صرف طاقتور جیپیں ہی آگے جا سکتی ہیں اور فضائیہ کی ڈبل کیبن پک اپس ہمیں لینے کے لئے یہاں کھڑی تھیں۔ نلتر ، گلگت سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گلگت سے نلتر جانے کے دو راستے ہیں ایک شاہراہ قراقرم کے ذریعے، اور دوسرا پرانا راستہ شاہراہ قراقرم کے اُس پار دریائے ہنزہ کے دوسرے کنارے چلتا ہے۔

سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پرواقع وادی نلتر گلگت بلتستان کے اُن چند مقامات میں سے ایک ہے۔ جہاں تھوڑے سے رقبے پر قدرتی جنگلات اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔پاک فضائیہ نے نلتر میں پہلی بار اپنا ایک چھوٹا سکول 1959؁ء میں قائم کیا جس میں فضائیہ کے افسروں کو خاص طور پر ہوا بازوں کو برف اور سردی میں رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ 1961؁ء میں یہاں سکی ٹریننگ سکول کھولا اور تعمیرات شروع کی گئیں۔یہ سکول مری کے قریب قائم کالاباغ ائر بیس کا ایک یونٹ ہے۔بہت ہی خوبصورت وادی میں پہاڑ کی چو ٹی سے لے کر نیچے تک برف بچھی ہوئی ہے۔چیڑھ کے گھنے درختوں میں گھرا ہوا سکی انگ ٹریک شاہ خان سکی سکول نلتر میں پڑھنے والے بچوں کی تربیت کے لئے بھی کام آتا ہے۔

مہمان خصوصی جنرل راشد محمود کی آمد ہیلی کاپٹر میں ہوئی۔ اُ ن کے ہمراہ وائس ائر چیف سہیل خان بھی تھے۔ تقریب بہت شاندار رہی جس میں سکی مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کے کھلاڑی گروپوں کی صورت میں سکی کرتے ہوئے نیچے آئے۔ مہما ن خصوصی کے سامنے سے گذرتے ہوئے سلامی دی ۔ کھلاڑیوں میں سرمائی اولمپکس میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والا کارپورل محمد عباس بھی شامل تھا۔ جو نلتر کا رہنے والا اور شاہ خان سکی سکول کا تربیت یافتہ ہے۔ کھلاڑیوں کے بوٹوں پر رنگین دھواں چھوڑنے والا مادہ نصب تھا اور نیچے آتے آتے وہ کرتب دکھاتے ہوائی جہازوں کے انجنوں سے نکلنے والے رنگین دھوئیں کی طرح اپنے جوتوں سے دھواں نکالتے آ رہے تھے۔ تمام کھلاڑیوں کے نیچے پہنچ جانے پر فوٹو سیشن ہوا اور پھر تقریب ختم ہوتے ہی مہمانوں کو آفیسرز میس کی طرف جانے کا کہا گیا۔

جہاں ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہم یعنی میں، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور سٹرنگر شیر عباس جونہی میس جانے کے لئے آگے بڑھے تو پاک فضائیہ کے ڈائریکٹر سپورٹس گروپ کیپٹن ندیم شاہد نے ہمیں اپنے ہمراہ آنے کو کہا اور چیئر لفٹ کی طرف لے گئے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ تقریب کے سارے مہمان اپنی اور فضائیہ کی گاڑیوں پر میس کی طرف جارہے تھے اور ہم چار افراد چیئر لفٹ پر بیٹھے تھے۔ کم و بیش ڈیڑھ کلو میٹر طویل اور سکی سکول سے اتنی ہی اونچائی پر واقع چوٹی کی طرف رواں دواں تھے۔ ہالینڈ کے انجینئرز ابھی نلتر میں تعینات اور چیئر لفٹ کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد آزمائشی مدت میں اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔

وہ ہم سے پہلے چیئر لفٹ کے ذریعے اوپر جا چکے تھے۔ ڈیڑھ کلو میٹر طویل اس چیئر لفٹ کو اوپر جاتے ہوئے تقریباً دو ہزار فٹ بلندی پر جانا پڑتا ہے۔سارا راستہ چیڑھ کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے لئے کئی درختوں کو کاٹنا پڑا۔ اوپر نرم کومل برف کی ایسی چادر بچھی ہوئی تھی جس پر پائوں رکھتے ہی بندہ گھٹنوں تک برف میں دھنس جاتا تھا۔ اوپر چیئر لفٹ تعمیر کرنے والے ڈچ انجینئر چیئر لفٹ کے دھرے سے برف ہٹانے اور اس کی سٹنگ کرنے میں مصروف تھے۔ ہمیں اوپر پہنچا کر چیئر لفٹ بند کر دی گئی تھی تاکہ کام مکمل کیا جا سکے۔ وہیں قریب ہی چرواہوں کا ایک کمرہ بنا ہو اتھا۔ سردی اس قدر تھی کہ بھاری گرم کپڑوں کے باوجود ہم ٹھٹھر رہے تھے۔

سردی سے بچنے کے لئے اس کمرے کا رخ کیا۔ جو اپنے مکینوں سے تو خالی تھا۔ لیکن کمرے کی حالت اپنے اندر ایک پوری داستان سموئے ہوئی تھی۔ یہ کمرہ گرمیوں میں جانور لے کر چراہ گاہوں کو جانے والے چرواہوں کے رہنے کا کام آتا ہے۔پچیس بائی پچیس کے اس کمرے میں ایک طرف ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ یقینناً یہ چرواہوں کے سونے کی جگہ تھی۔ درمیان میں آگ جلانے کا انتظام تھا۔ اور ایک بڑی کیتلی بھی دیوار کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔جو دھوئیں سے کالی سیاہ ہو چکی تھی۔ کمرے میں چبوترے کے بالمقابل دوسری طرف بکریوں کی مینگنیاں پڑی تھیں اورظاہر ہے کہ یہ جگہ بکریوں کے لئے مخصوص تھی۔ جہاں وہ رات کو اپنے رکھوالوں کے ہمراہ خونخوار جنگلی جانوروں یعنی بھیڑیئے، جنگلی کتوں، چیتوں اور ریچھوں سے محفوظ رہتی تھیں۔نلتر گائوں کا ایک چرواہا سردی کے موسم میں جبکہ جانوروں کو چراہ گا ہوں سے واپس نیچے لایا جا چکا ہوتا ہے۔سکی سکول میں مزدوری کر رہا تھا اور اُس وقت ڈچ انجینئروں کے ساتھ برف کی صفائی وغیرہ پر مامور تھا۔ اُس نے دھوئیں سے کالی چھت میں لگے شہتیروں میں سے ایک سے کچھ ٹکڑے توڑے اور ہمارے لئے آگ جلا دی۔

تاکہ ہم اُس پر ہاتھ تاپ سکیں اور جتنی دیر چیئر لفٹ بند رہتی ہے۔ اپنے آپ کو گرم رکھ سکیں۔بیس بائیس برس کے نوجوان چرواہے نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ خود بھی دیسی سٹائل میں سکی کرتا رہا ہے۔غربت کی وجہ سے وہ سکول تو نہیں پڑھ سکا لیکن بچپن میں سردیوں کے دوران میں سکی کرتے ہوئے اور گرمیوں میں اپنے گھر کے جانور چراتے ہوئے اب وہ بڑا ہوگیا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے دوران میں اُس نے یہاں مزدوری کرتے ہوئے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔یہاں اُسے آٹھ سو روپے روزانہ مزدوری ملتی تھی۔ کیونکہ اس قدر بلندی پر دشوار ترین علاقے میں کوئی بھی تعمیراتی کام کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ اور یہ تو چیئر لفٹ کی تعمیر تھی۔ جس کے دوران میں زیادہ وزنی سامان مثلاًوہ بڑا پہیہ، اور اس سے متعلق تمام مشینری جس پر چیئر لفٹ کا رسہ چلتا ہے۔اپنی تنصیب کے مقام تک پہنچانے میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں سے کام لیا گیا۔اب ایک شاندار اور خوبصورت ترین مناظر کی حامل چیئر لفٹ مکمل ہو چکی ہے۔ہماے ہمراہ چیئر لفٹ پر اوپر آنے والے سوئس ٹیکنیشنزآخری سٹاپ کے پلیٹ فارم کی اونچائی کم کرنے کی فکر میں تھے۔اس لئے کہ اگر لفٹ پر سوار افراد خبردار نہ ہوں۔تو اُترنے سے پہلے لفٹ کے پائیدان کی سطح کے برابر پلیٹ فارم سے ٹکرا کر اُن کے پائوں پنڈلی سے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔

(یاد رہے کہ اُس وقت تک چیئرلفٹ عوام کے لئے نہیں کھولی گئی تھی)پوچھنے پر بتا یا گیا کہ عوام کے لئے چیئر لفٹ کو کھولنے سے پہلے چیئر لفٹ کی نشست کو کم و بیش ڈیڑھ فٹ مزید اونچا کیا جائے گا تاکہ پلیٹ فارم پر اُترنے سے پہلے لوگوں کو اپنے پائوں اوپر نہ کرنے پڑیں۔نلتر چیئر لفٹ کی بلندی سے نیجے وادی کا منظر ناقابل بیان خوبصورتی لئے ہوئے تھا۔اور دل سے بے اختیار خالق کائنات کی حمد وثنا نکل رہی تھی۔

میں ایوبیہ اور پتریاٹہ کی چیئر لفٹوں اور کیبل کار کی سیر بھی کر چکا ہوں۔ لیکن جو منظر نلتر میں دیکھنے کو ملا۔اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہاں چرواہوں والی کوٹھڑی میں چند مقامی نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جو لفٹ کی تعمیر کے دوران میں یہاں مزدوری کرتے رہے۔اور اب وہ اس توقع میں تھے کہ چیئر لفٹ کھلنے سے پہلے اُنہیں یہاں پکی نوکری مل جائے گی۔یہ تمام نوجوان سکی کے کھلاڑی بھی تھے اور محمد کریم کی قسمت پر رشک کررہے تھے۔جس نے نلتر بالا ہی کی گلیوں میں پرورش پائی۔اپنے طور پر سکی سیکھی اور پھر سکی میں اپنی مہارت کے باعث پاک فضائیہ میں ملازمت حاصل کی۔محمد کریم نے 2014؁ء کے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کے لئے طلائی تمغہ حاصل کیا۔نلتر چیئر لفٹ سے اوپر وسیع میدان ہے۔جہاں گرمیوں میں چرواہے اپنے مال مویشی لے کر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سردی کا موسم شروع ہونے پر نیچے اُترتے ہیں۔اس چراہ گاہ میں شلجم اور آلو بھی کاشت کئے جاتے ہیں۔جو اپنے ذائقے کی بدولت ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔چیئر لفٹ سے اُترے تو مہمانوں کو میس لے جانے والی تمام گاڑیاں جا چکی تھیں۔

میں نے سکی کرنے والے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کے لئے بنے ہوئے سن روم میں ظہر کی نماز ادا کی۔جس کی پیشانی پر لکھا تھا’’Up we fly-Down we ski‘‘پاک فضائیہ کے اس سکی سکول کے لئے جس نے بھی یہ فقرہ سوچا اور یہاں لکھوایا۔وہ یقینناً اہل دل میں سے تھا۔اور تعریف کا مستحق بھی۔فون کا انتظام کچھ زیادہ بہتر نہ تھا۔ اس لئے گاڑی منگوانے کا خیال ترک کرکے ہم میس کی طرف پیدل چل پڑے۔یہ راہ بہت دشوار تھی۔سارا راستہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ہر قدم پر بہت پھونک پھونک کرآگے بڑھنا پڑتا تھا۔گو یہ پل صراط تو نہ تھا اور نہ ہی نیچے جہنم کی آگ بھڑک رہی تھی لیکن برف کا جہنم زار ضرور تھا۔ جس پر گرنے کی صورت میں ہڈی پسلی ایک ہونے کا خدشہ تھا۔

ہر ممکن احتیاط کے باوجودمیں دو بار پھسل کر برف پر گرا۔شکر ہے کہ چوٹ زیادہ نہیں آئی ورنہ نلتر کا یہ دورہ تکلیف دہ بن جاتا۔خدا خدا کرکے آفیسرز میس کی عمارت آئی اور ہماری جان میں جان۔میس میں میڈیا کوآرڈینیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر عباس علی شرمیلی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے معذرت خواہ تھے کہ وہ پیغام نہ ملنے کے باعث گاڑی نہ بھجوا سکے۔بہر حال پہلے ریڈیوپاکستان گلگت ٹیلی فون کرکے تقریب کی خبر لکھوائی تاکہ مقامی اور قومی خبروں میں شامل ہوسکے ۔پھر کھانا کھایا۔ ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی میں ریڈیوپاکستان سکردو میں طلبہ اور نوجوانوں کے پروگراموں میں میزبان کی حیثیت سے شریک ہوا کرتے تھے۔ اور انہوں نے ریڈیوپاکستان سکردو سے وابستگی کی وجہ سے جو اعتماد حاصل کیا۔

اسی کی بدولت وہ ایف ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج پہنچے اور گریجویشن کرکے پاک فضائیہ میں شامل ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ نلتر کے باشندوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔گفتگو کے دوران میں ایک شخص اپنی سات ماہ کی بچی کو لے کر میس آیا۔جسے بخار تھا۔ڈاکٹر عباس نے اُس بچی کا معائنہ کیا اور دوائیں تجویز کرکے دو روز بعد دکھانے کی ہدایت کی۔
گلگت واپس آتے ہوئے گاڑی میں ہمارے ساتھ گروپ کیپٹن ریٹائرڈ ظفر بھی موجود تھے۔راستے میں انہوں نے بتایا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعدسے یعنی گذشتہ دس برس سے ہر سال مارچ سے نومبر تک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نلتر میں رہتے ہیں اور یہاں سکول چلاتے ہیں۔’’پڑھالکھا پاکستان نلتر‘‘ کے نام سے چلنے والے اس پرا جیکٹ کے تحت لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔انہیں کتب ،کاپیاں اور یونیفارم بھی مہیا کی جاتی ہے۔اس وقت اُن کے سکول میں ایک سو بچے زیر تعلیم ہیں۔وہ بتا رہے تھے کہ اُن کی زیادہ تر طالبات پندرہ سے اٹھارہ برس عمر کی ہیں جنہیں غربت کی وجہ سے سکول کی شکل بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔اب وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی پڑھنے کی اجازت ملنے پر ان کے رضاکارانہ منصوبے سے مستفید ہو رہی ہیں۔میں نے انہیں ریڈیوپاکستان گلگت آکر یہ تما م باتیں سامعین تک پہنچانے کی دعوت دی۔

نلتر کی وجہ شہرت پاک فضائیہ کا سرمائی سکول ہونے کے علاوہ اس علاقے کی بے پناہ قدرتی خوبصورتی ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان اور چترال کی ہر وادی اور ہر منظر دل کش ہے۔لیکن بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں جا کر واپس آنے کو جی نہیں چاہتا۔ایسے مقامات میںضلع استور میں منی مرگ، راما اور پریشنگ، ضلع چترال میں بمبوریت، بونی اور قاق لشٹ،ضلع گلگت میں نلتر،نومل اور حراموش ،ضلع نگر میں چھلت،راکاپوشی ویو پوائینٹ اور مناپن، ضلع غذر میں پھنڈر،گلاپور،شیر قلعہ،درکوت اور گوپس ضلع ہنزہ میں خیبر،شمشال،گلمت ،ششکت،حسینی اور کریم آباد شامل ہیں۔ نلتر شاہراہ قراقرم سے سترہ کلو میٹر دور ہے۔کوئی عام سی جگہ ہوتی تو یہ فاصلہ بیس پچیس منٹ میں طے ہوتا لیکن یہ نلتر ہے۔جہاں کی سٹرک ایک کچی پگڈنڈی کی طرح ہے۔جو سال میں کئی مرتبہ لینڈ سلائڈنگ، سیلاب اور پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بندہوتی ہے۔اس کے علاوہ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہ راستہ خطرناک چڑھائیوںاور موڑوں سے عبارت ہے۔

اسی لئے نلتر پایاں پہنچنے میں دو گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔نلتر کی وجہ شہرت اس کی تین جھیلیں بھی ہیں۔جو اس قدر شفاف ہیں کہ ان کے پانیوں میں موجود گھاس، پتھریلی چٹانیں اور مچھلیاں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ دعوت نظارہ دیتی ہیں۔یہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں ایک دوسرے سے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔نلتر پایاں اور نلتر بالا کی آبادیوں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قدرتی جھیلیں بہترین سیاحتی سیر گاہیں بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔شرط صرف یہاں کی سڑک اورقیام و طعام کی سہولتوں کو بہتربنانے کی ہے۔ پاکستان بھر سے ہر سال بلا مبالغہ لاکھوں لوگ ناران جاتے ہیں تاکہ جھیل سیف الملوک کا نظارہ کر سکیں۔یقینناً سیف الملوک اور اس کے اردگرد کا علاقہ بہت خوبصورت ہے۔لیکن سیاحوں کی لاپرواہی ، گندی عادات اور متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے جھیل سیف الموک اب گندے پانی کا ایک جوہڑ بنتی جا رہی ہے۔جبکہ نلتر کی جھیلیںاس قدر شفاف ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے۔ہر طرف ایک پرسکون خاموشی کا راج ہے۔ اگر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو تو جھیل کی سطح پر ہلکورے لیتا پانی ہپناٹائز کردیتا ہے۔اور بندہ لہریں گنتے گنتے اپنے غم بھول جاتا ہے۔نلتر کی دیگر تفصیلات آپ آئندہ انہی صفحات میں پڑھ سکیں گے۔

اگلا دن تیرہ فروری جمعتہ المبارک کا تھا۔اُس روز گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے ہڑتال تھی۔شہر اور چھائونی کی تمام دکانیں بند تھیں۔یہاں تک کہ تنور بھی بند تھے۔اُس روز مجھ جیسے مسافروں کوکھانے پینے کی بڑی دقت رہی۔ہفتہ کے روز میں شہر کی طرف گیا تاکہ سابق سٹیشن ڈائریکٹر اور ریڈیوپاکستان گلگت کے بانی محمد اکرم خان سے ملاقات کرسکوں۔جو شہر کی جامع مسجد اور ملحقہ پولو گرائونڈ کے پیچھے کرائے کے ایک مکان میں رہتے ہیں۔وہ20اکتوبر2000؁ء کو کنٹرولرکی حیثیت سے ریٹائرہوئے تھے۔1979؁ء میں اُس وقت کی حکومت نے گلگت میں ریڈیوسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو محمد اکرم خان راولپنڈی میں سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے تعینات تھے۔

اُنہیں گلگت بھیجا گیا۔معلوم نہیں کہ کیوں گلگت شہر یا چھائونی کے بجائے دریا پار کی آبادی دینور میں زمین خریدی گئی اور 250واٹ کے ٹرانسمیٹر سے نشریات کا آغاز کیا گیا۔1989؁ء میں یہاں دس کلو واٹ کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا یوں ریڈیوپاکستان گلگت کی آواز گلگت شہر سے نکل کر دور درازعلاقوں تک پہنچی۔پہلے سٹیشن ڈائر یکٹر سلیم اقبال سلیم تھے۔ جنہیںاُس وقت کے مقامی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ریڈیو پاکستان کے لئے گلگت چھائونی کے علاقہ جوٹیال میں تین سو کنال زمین الاٹ کرنے کی پیش کش کی۔لیکن سلیم اقبال سلیم صاحب نے کوئی دلچسپی نہ لی۔اور یوںیہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ بعد میں 5جنوری 1985؁ء کو محمد اکرم خان پروگرام منیجر کے عہدے پر ترقی پا کر سٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہوں نے کوشش کرکے ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر سے منظوری لی اورجوٹیال میں بارہ کنال رقبہ خریداجہاں نئے براڈکاسٹنگ ہائوس کی تعمیر شروع ہوئی۔محمد اکرم خان یہاں اپنے ریٹائر ہونے تک یعنی 2000؁ء تک سٹیشن ڈائریکٹر رہے۔

وہ ریڈیوپاکستان میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کرنے سے 1979؁ء تک ریڈیوپاکستان راولپنڈی میں تعینات رہے اور شینا پروگرام پیش کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان گلگت قائم ہوا تو اُنہیں یہاں بھیج دیا گیا۔ اس سٹیشن کی تعمیر و ترقی میں محمد اکرم خان نے بے حد اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے میں اُن کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملنے کا خواہاں تھا۔وہ بہت محبت سے ملے اور کافی دیر تک اپنے دور کی باتیں کرتے رہے۔

میں دفتر واپس آیا تو ریڈیوپاکستان کی عمارت سے کافی پہلے اُترنا پڑا کیونکہ سڑک ٹریفک کے لئے بند کی جا چکی تھی۔ میں دفتر کی طرف پیدل چل پڑا کچھ آگے گیا تو معلوم ہوا کہ گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے جوٹیال اور ملحقہ آبادیوں کی خواتین اپنے بچوں سمیت باہر آچکی ہیں اور انہوں نے یہ ٹریفک احتجاجاً بند کر رکھی ہے۔مظاہرین کے مطالبے پر پانی و بجلی کے نگران وزیر عطی اللہ خان اور ایکسئن مذاکرات کے لئے پہنچ گئے۔ مظاہرین ریڈیوپاکستان گلگت کے صدر دروازے کے بالکل سامنے دھرنا دیئے ہوئے تھے۔

اس لئے میں نے مظاہرین کے چند رہنمائوں اور معمرنگران وزیر کو میں اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ وہ اندر آئے ۔تو اُن کے لئے ریڈیو سٹیشن کے لان میں کرسیاں لگوا دیں۔ مظاہرین کے نمائندے اور وزیر موصوف مذاکرات کرنے لگے۔ان مذاکرات میں چند خواتین بھی شامل تھیں اور بڑے جوش و جذبے سے اپنے موقف کی وضاحت کر رہی تھیں۔میں نے باہر بیٹھے مظاہرین کے لئے جن میں بچے بھی شامل تھے پینے کے لئے پانی بھیجا۔عطی اللہ خان خود بھی جوٹیال کے علاقہ ذوالفقار آباد میں رہتے ہیں۔اُن کے اس کہنے پر طویل مذاکرات کامیابی سے ختم ہوئے۔عطی اللہ خان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور میری اُن کے ساتھ پہلی ملاقات بڑے دلچسپ انداز میں ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

The post دیہاتی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صرف تنخواہ والے دِن نظر آتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

انوکھے گاؤں

$
0
0

جب کبھی ہم کسی گاؤں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے خیالوں میں عام طور سے یہ بات آتی ہے کہ یہ گاؤں سرسبز و شاداب ہوگا، یہاں کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے عقبی صحنوں میں مویشی بھی ہوں گے اور ان چھوٹے گھروں میں بہت سے لوگ امن، پیار اور محبت سے رہتے ہوں گے۔

دنیا کے اکثر گاؤوں کے بارے میں اسی انداز سے سوچا جاتا ہے، مگر ایسا سب کے ساتھ نہیں ہے۔ دنیا کے سبھی گاؤں پر یہ منظر نامہ پورا نہیں اترتا۔ دنیا کے کچھ ملکوں کے گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں کے عجیب و غریب اور پراسرار لوگ اپنی روایات کے باعث آپ کے لیے شدید حیرت کا باعث ثابت ہوں گے۔ مثال کے طور پر براعظم افریقا کے ایک ملک برکینا فاسو میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں کے لوگ کم و بیش چھ صدیوں سے مگرمچھوں کے ساتھ ساتھ بہت امن اور پیار سے رہتے ہیں۔

ذیل میں ہم ایسے ہی کچھ حیرت انگیز اور عجیب و غریب گاؤوں کا تذکرہ کررہے ہیں:

 ایک روسی گاؤںTsovkra-1 کے تنی ہوئی رسی پر چلنے والے لوگ:

روس کے ایک گاؤں میں کسرتی جسم کے مالک اس کے مکین ایسے بھی ہیں جو بڑے آرام اور اطمینان سے تنی ہوئی رسی کے اوپر چل سکتے ہیں۔ یہ روایت کم و بیش ایک سو سال پرانی ہے، مگر کسی کو اس کے آغاز ہونے کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہے۔ یہ روسی گاؤں عظیم کوکس پہاڑی سلسلے میں واقع ہے اور اس گاؤں کا نام ہے:Tsovkra-1 یہ ننھا منا سا اور ساری دنیا سے الگ تھلگ گاؤںTsovkra-1اپنے اندر ایک بہت ہی خاص بات یہ رکھتا ہے کہ اس گاؤں کا ہر تن درست اور صحت مند فرد بہت آسانی سے تنی ہوئی رسی پر چل سکتا ہے۔ اس گاؤں میں یہ روایت کوئی ایک صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے چلی آرہی ہے۔

یہ درحقیقت کس طرح اور کب شروع ہوئی، یہ تو کوئی نہیں جانتا، لیکن یہ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کا سلسلہ رومانی کہانیوں اور دلہنوں کی تلاش کے حوالے سے شروع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ بہت طویل عرصہ پہلے اس گاؤں کے نوجوان اپنے لیے بیویاں یا دلہنیں تلاش کرنے دشوار گزار پہاڑی علاقوں کے سفر کرتے تھے، مگر بعد میں وہ ان مشکلات سے تنگ آگئے ، کیوں کہ انہیں اپنے لیے شریک سفر تلاش کرنے پہاڑوں میں آباد مشکل گاؤوں اور دیہات کی خاک چھاننی پڑتی تھی، چناں چہ کچھ عرصے بعد انہوں نے اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ اپنی ایک وادی سے دوسری وادی کے سرے تک ایک موٹی اور مضبوط رسی باندھ دی اور پھر اس پر چلتے ہوئے وہ راستہ آسانی سے طے کرنے لگے۔

جس کے لیے انہیں سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ جلد ہی تنی ہوئی رسی پر چلنا ایک طرح کے مقابلے میں بدل گیا اور جیتنے والا اپنی مردانگی اور بہادری سے دلہن جیت کر لے جانے لگا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ sovkra-1نامی اس گاؤں میں کم و بیش 17  مرد و خواتین پیدا ہوئیں جنھوں نے بعد میں دنیا بھر کے سرکسوں میں اپنی رسی پر چلنے کی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا اور عالمی شہرت حاصل کی۔

اس فن میں مظاہرہ کرنے کا زریں دور وہ دہائیاں تھیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد آئیں۔ اس دور میں سرکس بہت ہی مشہور اور مقبول تھے۔ چناں چہ اس گاؤں کے ماہر افراد نے بڑا نام کمایا۔ اس وقت بھی یہ گاؤں 400 سے کم افراد کا گھر ہے اور یہ سبھی افراد تنی ہوئی رسی پر چلنے میں مہارت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اس گاؤں کے بچوں کو بھی کم عمری میں ہی اسکولوں میں رسی پر چلنا سکھادیا جاتا ہے، لیکن چوں کہ اس گاؤں میں نہ تو حالات اچھے ہیں نہ ہی اچھے مستقبل کے مواقع دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ماضی کا یہ فن اور یہ خوب صورت روایت آہستہ آہستہ مٹنے لگی ہے اور اس گاؤں کے اکثر نوجوان گاؤں سے ہجرت کرکے دوسرے بہتر مقامات پر چلے گئے تو ماضی کا یہ آرٹ بھی خطرے میں پڑگیا۔ لیکن یہ گاؤں اور اس گاؤں کے لوگ اپنے اس فن پر فخر کرتے ہیں اور اپنے ماضی کے ہیروز کا تذکرہ بڑے احترام سے کرتے ہیں۔

Hogewey ڈیمینشیا کے مریضوں کے لیے ہالینڈ کا خصوصی گاؤں:

نیدرلینڈ یا ہالینڈ میں ایک خصوصی گاؤں واقع ہے جس کا نام Hogewey ہے، یہ گاؤں ان لوگوں کے لیے ہے جو dementia یعنی فتور دماغ کے مرض میں مبتلا ہوں، کیوں کہ ان مریضوں کو اس گاؤں میں ایک نارمل زندگی رہنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ اس گاؤں میں ایسے مریضوں کی نگہ داشت بھی کی جاتی ہے، مگر یہ نگہ داشت کرنے والے اپنی اصل شکل و صورت میں ان کے سامنے نہیں آتے، بلکہ بھیس بدل کر آتے ہیں، یہ ایک گاؤں بھی ہے اور ایک نرسنگ ہوم بھی یعنی اسے ہم village-cum-nursing-home کہہ سکتے ہیں، اس گاؤں کی اپنی دکانیں بھی ہیں اور ریسٹورنٹس بھی، یہاں تک کہ یہاں کے اپنے مووی تھیٹر بھی ہیں۔

Hogewey اصل میں ایمسٹرڈم کے کنارے پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی ہر چیز اپنی ہے، ہم نے اوپر بتادیا کہ اس کے پاس دکانیں، ریسٹورنٹس اور مووی تھیٹر کے ساتھ ساتھ ایک ہئیر ڈریسر کی دکان بھی ہے۔ اس گاؤں میں 23 اپارٹمنٹس ہیں جن میں کم و بیش 152 رہتے ہیں اور بڑے امن اور سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک ایسی چیز جو اس گاؤں کو دنیا کے باقی تمام دیہات سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جگہ درحقیقت گاؤں نہیں ہے، بلکہ یہ یعنی Hogewey ایک نرسنگ ہوم ہے جہاں کے رہنے والے ڈیمینشیا کے مریض ہوتے ہیں۔ Hogewey کسی مووی سیٹ کی طرح کی چیز ہے، جب کہ اکثر نرسنگ ہومز میں ڈاکٹرز اور نرسیں سفید یونی فارم میں پوری جگہ کا راؤنڈ لیتے ہیں۔

مگر Hogewey میں یہ لوگ شاپ کیپرز، ریسٹورنٹ مینیجرز اور یہاں تک کہ سپر مارکیٹ کے کیشیئرز تک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نرسیں پڑوسیوں کی طرح اپنے مریضوں کے ساتھ باتیں کرتی ہیں اور بہ حکم دواؤں کی فراہمی کے بہ جائے انہیں بڑے پیار اور دوستانہ انداز سے دوا کھلاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ Hogewey کے مریض یہاں ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں، کیوں کہ یہاں ان کے ساتھ میڈیکل اسٹاف بہت اچھا اور دوستانہ سلوک کرتا ہے۔ پ

ھر یہاں انہیں بہت زیادہ دوا بھی نہیں دی جاتی اور وہ اپنے گھر کی طرح اس جگہ آرام اور سکون سے رہتے ہیں۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک Hogeweyنے الزائمر کے امریکی ماہرین کی داد اور تعریف بھی سمیٹی اور ساتھ ہی دنیا کے دوسرے ملکوں کے طبی ماہرین نے بھی اس جگہ کے اسٹاف کی مریضوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تعریف کی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح Hogewey کے طبی ماہرین اپنے مریضوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، اس سے مریض بھی جلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس جگہ کی تعمیر اور اس کے قیام میں اندازاً25 ملین امریکی ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔

رین بو فیملی ولیج: تائیوان کا انوکھا گاؤں:

رین بو فیملی ولیج، تائیوان کا ایک ایسا انوکھا گاؤں ہے جہاں کی ہر سطح کو رنگا رنگ اور حسین و جمیل تصویروں سے سجایا گیا ہے اور یہ تمام رنگین تصویریں یا پینٹنگز ایک  96 سالہ سابق جنگی فوجی نے پینٹ کی ہیں جن کا مقصد اس گاؤں کو منہدم ہونے سے بچانا تھا۔ ان تمام زبردست اور خوب صورت پینٹنگز کو دیکھنے جب دنیا بھر کے سیاح اس گاؤں میں آئے تو گاؤں کے میئر نے اس گاؤں کو منہدم کرنے کے بجائے اسے محفوظ رکھنے کا حکم جاری کردیا۔

چینی سول وار کے درمیان Kuomintang (KMT) nationalists کمیونسٹ پاٹیوں کے خلاف لڑے تھے، لیکن جب 1949 میں ماؤزے دنگ نے People’s Republic of China کی بنیاد رکھی تو KMT کے ارکان چین سے بھاگ کر تائیوان چلے گئے۔ تائیوان میں انہوں نے ایک ایسے گاؤں میں رہنا شروع کردیا جو فوج کا محتاج اور اسی پر انحصار کرتا تھا۔ اس وقت یہ سوچا گیا کہ اس گاؤں کے گھر ان آنے والوں کو لیے عارضی پناہ گاہیں ہوں گی، مگر ایسا نہ ہوا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھر ان افراد کی مستقل پناہ گاہیں بن گئے۔ ایسا ہی ایک گاؤں تائیوان کے علاقے Taichung کے نینٹن ضلع میں بھی واقع تھا۔

ہوانگ یونگ فو اسی گاؤں کے اصل رہائشیوں میں شامل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب تعمیرات کے ماہروں یعنی ڈیولپرز نے ٹوٹی پھوٹی جائیدادیں خریدنی شروع کردیں اور ان کے مالکان کو اچھی قیمت دے کر رخصت کرنا شروع کردیا تولگ بھگ گیارہ سال پہلے حکومت نے اس گاؤں کو منہدم کرنے کی دھمکی دی، مگر اس جگہ کا پرانا رہائشی ہوانگ یونگ فو یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا، کیوں کہ وہ اسے اپنا گھر سمجھتا تھا، چناں چہ اس نے 86 سال کی پکی عمر میں اپنے برش اور رنگ اٹھائے اور اپنے گھر کو پینٹ کرنا شروع کردیا۔ جلد ہی اس نے آس پاس کے گھروں اور گلیوں کو بھی پینٹ کرنا شروع کردیا اور کنکریٹ کے ہر سینٹی میٹر پر ڈرائنگز اور فیگرز پینٹ کرڈالیں۔

پھر تو یہ رنگ رنگ گاؤں دوسرے لوگوں اور خاص طور سے باہر سے آنے والے مسافروں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور وہ سب ہی اسے دیکھنے بڑے شوق سے یہاں آنے لگے۔ جیسے جیسے اس کی شہرت بڑھی، یہ جگہ سیاحوں کے لیے ایک ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ بن گئی۔ آج اس گاؤں کے ہر در و دیوار پر یا تو چیتوں اور شیروں کی چھلانگیں مارتی اور غراتی ہوئی تصویریں پینٹ ہیں یا پھر بڑی بڑی آنکھوں والے پانڈاز اپنی معصوم آنکھوں سے سب کو دیکھتے نظر آتے ہیں یا پھر رنگا رنگ پروں والے مور اپنے پر پھیلائے کھڑے ہیں ، یا پھر بلیوں کے بچے شوخیاں کرتے دکھائے گئے ہیں۔

ان میں خلاؤں میں تیرتے خلاباز بھی ہیں اور ان میں رقص کرتے سمورائی بھی ہیں اور اسی طرح کے ڈھیروں ڈرائنگز بنی ہوئی ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں دنیا کے اس انوکھے گاؤں کو “Rainbow Family Village” یعنی قوس قزح والے خاندان کے گاؤں کا نام دے دیا گیا ہے اور ہوانگ یونگ فو کو ’’رین بو گرانڈ پا‘‘ یعنی قوس قزح کے دادا جان کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بلاشبہہ ان کی ان رنگین پینٹنگز نے اس گاؤں کو منہدم ہونے یا دنیا سے مٹنے سے بچالیا۔ اب ہر سال ایک ملین سے زیادہ سیاح اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں اور ان بے شمار حسین و جمیل تصاویر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس ہستی سے ملنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں جس نے یہ سب مناظر تخلیق کیے ہیں۔

سیاٹل کا “tiny house” ولیج:

 سیاٹل میں ایک چھوٹا سا گھر “tiny house” ولیج ہے جو بے گھر افراد کرائے پر لے سکتے ہیں اور وہ یہاں سو سکتے ہیں، کھاسکتے ہیں اور یہاں نہادھو سکتے ہیں۔ یہاں ایک ماہ تک رہنے کے لیے ان کرائے دار مکینوں کو 90امریکی ڈالر ادا کرنے ہوتے ہیں جن میں تمام ضروری چیزوں یا utilities کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ جگہ ایسے بے گھر لوگوں کی مدد کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا مقصد انہیں ان کے قدموں پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ 2016 کی بات ہے جب سیاٹل نے بے گھر افرادکی حالت بہتر بنانے کے لیے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا تھا اور اس پہلے tiny-house village کی بنیاد رکھی تھی۔

یہ گاؤں اس ضمن میں یعنی بے گھر افراد کی مدد کے لیے ایک انوکھا اور غیرمعمولی قدم تھا۔ یہ گھر سیاٹل کے وسطی ضلع کے علاقے Good Sheppard میں واقع Lutheran Church کے میدانوں میں قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت اس کے ہر گھر کے استعمال کا کرایہ 90 ڈالر ماہانہ تھا۔ سیاٹل جیسے شہر میں جہاں کے گھروں کے کرائے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں، وہاں ان tiny-house villageکاقیام بے گھر افراد کے لیے ایک سستی ترین جنت تھی۔tiny-house village کے ہر گھر کی تعمیر پر 2,200 ڈالر لاگت آئی تھی اور اس کے تعمیری اخراجات زیادہ تر عطیات سے پورے کیے جاتے تھے۔ پھر ان مکانوں کی تعمیر کے لیے بھی متعدد آرگنائزیشنز کے والنئیرز نے اپنی مفت خدمات پیش کردی تھیں۔

ہر گھر میں تمام ضروری سہولیات موجود ہیں جیسے بجلی اور مقفل ہونے والے دروازے۔ ان میں ایک مرکزی بلڈنگ بھی ہے جس میں فلشنگ ٹوائلٹس لگے ہیں اور نہانے کے لیے بھی شاورز لگائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی چوبیس گھنٹے سیکیورٹی کا بھی انتظام ہے۔ چوں کہ سیاٹل میں موسم سرما میں پارہ نقطۂ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے تو ان گھروں میں رہنے والے مکینوں کو معمولی معاوضے کے بدلے گرم ماحول فراہم کیا جاتا ہے جہاں وہ پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ اس حرارت بخش ماحول میں وقت گزارتے ہیں۔

 انڈیا کا ایک گاؤں Marottichal جہاں کے لوگ شطرنج کے ماہر ہیں:

انڈیا میں Marottichal نامی ایک گاؤں ہے جہاں کے لوگ کسی زمانے میں اپنے علاقے میں الکوحل بہت زیادہ استعمال کرتے تھے، مگر بعد میں جب یہاں الکوحل پر پابندی عائد کی گئی تو اس گاؤں کے لوگوں نے اپنا دل بہلانے اور اپنا غم غلط کرنے کے لیے شطرنج کھیلنی شروع کردی تو ان کا گاؤں ’’شطرنج کا گاؤں‘‘ کہلایا اور پھر یہ لوگ رفتہ رفتہ اس کھیل میں مہارت بھی حاصل کرتے چلے گئے۔ اس کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس گاؤں کے لوگ شطرنج کے کھیل میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اور بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شطرنج کی تعلیم میں ان لوگوں کی شرح کا تناسب سو فی صد ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ نصف صدی پہلے تک Marottichal نامی یہ گاؤں شمالی کیرالہ کے دوسرے گاؤں کی طرح تھا۔ اس کے رہنے والے الکوحل کے رسیا تھے۔ یہاں کی چھوٹی سی آبادی بھی ناجائز اور غیرقانونی جوئے کی عادی تھی۔ اسی دوران اس گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک جس کا نام اونی کرشنن تھا، وہ کسی قریبی قصبے میں رہنے گیا تو وہاں سے شطرنج سیکھ کر آگیا اور پھر اسے دیکھ کر یہاں کے سبھی لوگ اس کھیل کی طرف راغب ہونے لگے۔اونی کرشنن جب اپنے گاؤں واپس آیا تو اس نے گاؤں میں چائے کی ایک دکان کھول لی اور ساتھ ہی اس نے گاؤں کے لوگوں کو شطرنج کا کھیل بھی سکھانا شروع کردیا۔

پھر تو اس کھیل کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی اور جلد ہی لگ بھگ ہر فرد شطرنج کے سحر میں جکڑ گیا۔ جیسے جیسے یہاں شطرنج کا کھیل مقبولیت حاصل کرتا رہا ویسے ویسے شراب نوشی اور جوئے کی عادتیں بھی کم ہوتی چلی گئیں۔ آج Marottichal نامی یہ گاؤں پوری دنیا میں اس گاؤں کے شطرنج کے دیوانوں کے حوالے سے مشہور ہے، یہاں تک کہ اس گاؤں کے بچے بھی شطرنج کا کھیل بڑے شوق اور اہتمام سے کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی چیس ایسوسی ایشن نے اپنے اسکولوں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ شطرنج کے کھیل کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں۔

مزید یہ کہ امریکا اور جرمنی کے مسافر اور سیاح بھی اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں تو وہ یہاں کے اس کھیل کو بھی دیکھتے ہیں اور گاؤں والوں کے کھیل کی مہارت کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

The post انوکھے گاؤں appeared first on ایکسپریس اردو.

بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی خواتین!

$
0
0

اُس روز جب میں بازار سے خریداری کے بعد گھر لوٹی تو گلی میں کُھلی سوزوکی کھڑی تھی جس میں مزدور الماری اٹھا کر رکھ رہے تھے۔ میرے قدم سست پڑگئے۔ وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ہاتھ میں کچھ سامان اٹھائے کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے سُتے ہوئے چہرے سے اس کی پریشانی ہویدا تھی۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’مالک مکان نے گھر خالی کروا لیا ہے۔‘‘

’’مگر کیوں؟‘‘ میں بھونچکا رہ گئی۔

’’کیوں کہ ان کی نظر میں جو کام میں نے شروع کیا ہے وہ گھٹیا اور گندا ہے، اس سے ان کے گھر میں نحوست پھیلے گی اور باجی (مکان مالک کی بیوی) کہہ رہی تھیں پڑوسیوں کو بھی اس پر اعتراض ہے۔‘‘ وہ بولتی چلی گئی۔ اس نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا تھا اور اسی محلہ میں ایک بیوٹی پارلر کے ذریعے اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اب گھر میں یہ کام شروع کیا تھا۔

’’سوچا تھا گھر میں باعزت طریقے سے کچھ کما کر، چار پیسے جوڑ کر اس سال اپنے بچوں کو لازمی اسکول میں داخل کرواؤں گی۔ پچھلے سال بھی نہیں کروا سکی تھی۔ گھر کے سارے کام اور ذمہ داریاں مجھے ہی پوری کرنا ہیں، بس یہی ایک کام ہے جو گھر بیٹھے کر سکتی ہوں، تعلیم، ڈگری میرے پاس نہیں، نہ ہی کوئی خاص ڈپلومہ ہے کہ کسی ادارے میں کام کر سکوں۔‘‘

اس کی آواز ڈوب رہی تھی، مگر وہ خاموش ہونے کو تیار نہ تھی۔ ’’بس ایک یہی راستہ نظر آیا تھا، سوچا تھا بچوں کو پال لوں گی، مگر جب مالک مکان کو ہی یہ کام پسند نہیں تو کیا کرسکتی ہوں۔‘‘ میرے پاس تو اس کے کسی بھی سوال کا جواب نہ تھا۔ حالات کی ماری عورت جو اپنے چار بچوں کی کفالت گھر بیٹھ کر کرنا چاہتی تھی، لیکن سماج نے اس کے کام کو، اس کے ہنر کو، اس کے پیشے کو شرم ناک اور گھٹیا کہہ کر کتنی سفاکی سے اسے روزگار سے دور کر دیا تھا۔ خود کو نیک، پرہیزگار ثابت کر کے ایک مجبور و بے بس عورت پر اپنے گھر کے دروازے بند کرنے والے کسی کام کو برا اور ناجائز تو قرار دیتے ہیں، مگر خود اس کی روٹی روزی کا انتظام کرنے میں کون سا اپنے اختیار اور وسائل استعمال کرتے ہیں۔

بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی کوئی بھی مجبور عورت آٹھ یا دس گھنٹوں کی مصروفیت کے بعد جب اپنے گھر پہنچتی ہے کچن اس کا منتظر ہوتا ہے یا گھر کے دوسرے بہت سے کام ہوتے ہیں جو اسے کرنے پڑتے ہیں۔ ایک ورکر کو جو بیوی اور ماں بھی ہو اپنی گھر کی ذمہ داریاں ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کب رات گہری ہوجاتی ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں اگر کوئی عورت اپنے گھر پر کام کرنا چاہے تو روایت پرست معاشرہ ان کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ کرائے کے مکان میں رہتی ہوں تو!

ہر عورت کسی بازار اور چلتے ہوئے روڈ پر دکان کرائے پر حاصل کر کے اپنا کاروبار شروع نہیں کرسکتی۔ اس کے پیچھے کئی مسائل ہوسکتے ہیں جن سے نمٹنا ہر عورت کے بس کی بات نہیں۔ کچھ خواتین کو اپنے گھر کے مردوں کی حمایت اور مکمل مدد حاصل ہوتی ہے۔ صاحبِ ثروت عورت یا چھوٹے پیمانے پر کام شروع کرنے والی خاتون کو اپنے بھائیوں یا شوہر کی وجہ سے بیوٹی پارلر کھولنے میں مشکل پیش نہیں آتی اور یوں ان کا کام چل جاتا ہے، لیکن ایسی خواتین جن پر کنبے کی کفالت کا بوجھ ہو اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو تو اور وہ اپنے گھر میں بیوٹیشن کا کام کرنا اس کی اجازت نہیں ملتی جس سے ان کی ہر امید دم توڑ دیتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خاص طور پر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اب بھی اس کام کو برا سمجھا جاتا ہے اور اکثر گلی محلے کی دکان میں کوئی بیوٹی پارلر کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، تب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ کسی بیوٹی پارلر میں تنخواہ پر کام شروع کر دیتی ہیں جہاں ہزاروں اور لاکھوں کمانے والے پارلر مالک گھنٹوں کی محنت کے عوض صرف دس ہزار پر ٹرخا دیتے ہیں۔ اگر پارلر میں رش ہے تو اس ورکر کو مقررہ وقت سے زیادہ رکنا پڑتا ہے اور محنت بھی کرنا پڑتی ہے، لیکن اضافی رقم نہیں دی جاتی۔ فیشن اور بیوٹی انڈسٹری اب پاکستان میں بھی خاصی پنپ چکی ہے اور اس کا دائرہ بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے علاقوں اور قصبوں تک پھیل رہا ہے۔

سجنا سنورنا عورت کی فطری خواہش اور اس کی کم زوری رہا ہے۔ موجودہ دور میں فیشن اور گلیمر کا ایسا طوفان آیا جس نے ہر طبقے کی عورت کو متاثر کیا ہے۔ بیوٹی پارلرز کی وجہ سے لڑکیاں بھی اپنے سجنے سنورنے اور رنگ روپ کے حوالے سے زیادہ جذباتی نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف میڈیا نے فیشن اور بیوٹی انڈسٹری کو اپنے مارننگ شوز کے ذریعے ہر طبقے کی عورت کو خوب صورتی اور سولہ سنگھار کے جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔ لڑکیوں میں اس رجحان کو دیکھتے ہوئے کاروباری طبقہ فائدہ اٹھانے کے لیے خوب تیاری سے میدان میں اترا ہوا ہے۔ نت نئی کریموں کے استعمال سے جلد کو ملائم اور رنگت کو نکھارنے، بال رنگ کر شخصیت کو الگ ہی ’لک‘ دینے کے حوالے سے تشہیری مہمات زوروں پر ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ تو کاسمیٹک مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو ہو رہا ہے اور دوسری طرف نام ور بیوٹی پارلر اور چھوٹے پیمانے پر یہ کاروبار کرنے والی خواتین اٹھا رہی ہیں۔

شادیوں کے سیزن اور عیدین پر پارلروں میں جگہ نہیں ہوتی۔ میک اپ، مہندی، ہیئر کٹنگ اور کلر کروانے کے ساتھ لڑکیاں ان پارلروں میں موجود بیوٹیشنز سے مختلف ٹریٹمنٹ لیتی ہیں اور پیکجز کے نام پر پارلر کی مالکن اپنی جیب بھرتی چلی جاتی ہے۔ تہواروں اور شادی کے سیزن میں ہر چھوٹے بڑے کام کے دام دگنے کردیے جاتے ہیں اور اسپیشل عید پیکج کا نام دے کر خوب کمائی کی جاتی ہے۔ ان دنوں پارلر میں کام کرنے والی خواتین بارہ بارہ گھنٹے کھڑے رہ کر اپنے کنبے کے لیے شاید دو وقت کی روٹی سے کچھ بڑھ کر پا ہی لیتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو بناؤ سنگھار سے خوب صورت بنانے کی تگ و دو میں ان ورکرز کی اپنی زندگی کتنی بدصورت ہو جاتی ہے اس کا احساس نہ تو پارلر کی مالک کو ہوتا ہے اور نہ ہی سماج ان سے ہم دردی جتاتا ہے۔

شادی کے سیزن میں پارلر مالکان ایک ہی دن میں متعدد دلہنیں تیار کرنے والی ورکرز کو کوئی اسپیشل معاوضہ نہیں دینا چاہتے۔ یہ ورکر وہی ماہانہ 10 سے 12 ہزار تنخواہ پر دلہنیں بھی تیار کرتی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ کی یہ لڑکیاں جہاں اپنی مالکن کی کڑوی اور سخت باتیں سہتی ہیں وہیں اکثر خواتین کسٹمرز کا بھی ناروا سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گھمنڈی، احساسِ برتری کا شکار عورتیں ان ورکرز کو اپنی غلام ہی سمجھ لیتی ہیں۔ اسی طرح بعض خواتین کسی مشہور اداکارہ جیسا میک اپ یا کوئی لُک چاہتی ہیں جو ان پر سوٹ نہ بھی کرتا ہو، لیکن سمجھانے کے باوجود اپنی خواہش کی تکمیل پر مصر رہتی ہیں اور جب محنت کے باوجود ایسا نہیں ہوتا تو اس کا سارا غصہ بیوٹیشن پر اتار دیتی ہیں، یہی نہیں بلکہ سیلون مالک سے اس کی شکایت بھی کرتی ہیں جس پر اپنے کسٹمر کی خوشامد کرتے ہوئے وہ اپنی ورکر کی توہین کرتی ہیں اور اسے سخت برا بھلا کہتی ہیں۔

اکثر علاقوں میں غریب گھرانے کی ان لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت کی عدم دست یابی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ٹریفک جام، بسوں اور چنگچی رکشوں کے انتظار میں ان کا بہت سا وقت برباد ہو جاتا ہے اور بعض اوقات پارلر پہنچنے میں تاخیر پر ایک بار پر ذلت اور توہین ان کا مقدر بنتی ہے۔ اکثر پارلروں میں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں ہے جب کہ شدید بیماری اور ہنگامی صورتِ حال میں بھی چھٹی نہیں دی جاتی جس کا ایسی لڑکیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔ دباؤ میں کام کرنے کی وجہ سے وہ بیماریوں کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ چھٹی کرنے پر ان کی قلیل تنخواہ میں سے کٹوتی کرنا بھی عام ہے جس سے ان کی مشکل بڑھ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بعض مالکان اپنے اپر کلاس کلائنٹس کو گھروں پر تیار کرنے کی سہولت دیتے ہیں اور اس کے لیے ان خواتین ورکرز کو مجبور کیا جاتا ہے جب کہ اکثر یہ بات پہلے سے طے نہیں ہوتی۔ ایک اور مسئلہ بچوں والی خواتین کا ہے جو اول تو ایسی ملازمت کے لیے اہل ہی نہیں سمجھی جاتیں اور اگر انھیں بیوٹی پارلر میں رکھ بھی لیا جائے تو میٹرنٹی تعطیل یا کسی بچے کی بیماری کی صورت میں چند روز کی چھٹیاں دینے کے بجائے فارغ ہی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے سماج کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کم زور، مجبور اور بے بس کو پیسے کی اور ہمت افزائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

بیوٹی پارلر ورکرز کا ایک اور مسئلہ واش روم جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دست یابی ہے۔ ایک کمرے یا دکان میں بنائے گئے پالروں میں واش روم کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پالرز کسی بڑے بازار میں ہوں تو انہیں اسی ٹوائلٹ میں جانا پڑتا ہے جو مرد بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلر مالکان بیوٹیشن کی تربیت کے نام پر بڑی رقم بٹورتے ہیں اور طویل عرصے تک مفت کام کرواتے ہیں اور غریب اور مجبور لڑکی کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔ پارلر مالکان تو اپنی تنظیمیں بنا لیتے ہیں اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کے قانون کے نفاذ اور ٹیکس وصولی پر مل کر احتجاج کرتے ہیں مگر یہ ورکرز اپنے حق کے لیے کس پلیٹ فارم سے آواز بلند کریں۔

اگر اس منافقت اور دہرے و استحصالی رویہ پر مالکان سے بات کی جائے تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان غیرتربیت یافتہ، کم پڑھی لکھی اور بعض اوقات ان پڑھ لڑکیوں کو اپنے ہاں کام دیتی ہیں اور یوں ان کی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انہیں ماہر بنانے کے لیے اپنے اوزار اور کاسمیٹکس کا سامان دیتی ہیں جو ایک بڑا خرچ ہے۔ جب یہ کام سیکھ جاتی ہیں تو باقاعدہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اس میں اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ اضافی کام پر الگ سے بخشش دی جاتی ہے۔ دوسری طرف پارلر ورکر کہتی ہیں کہ پوش علاقوں اور بڑے تجارتی مراکز کے پارلر مالکان سیزن میں دس گھنٹے اور ہفتے بھر کام لینے کے باوجود تنخواہ کے نام پر دس ہزار سے زیادہ نہیں دیتے۔ اس شعبے میں کام کرنے والی لڑکیوں سے دو یا تین سال تک کام نہ چھوڑنے کا معاہدہ بھی کیا جاتا ہے۔

بعض بڑے بیوٹی پارلر جب کسی مستند ادارے کی سند یافتہ بیوٹیشن کو ملازمت دیتے ہیں تو ساتھ ہی بانڈ پر دستخط کروائے جاتے ہیں جس میں اگر کوئی لڑکی مقررہ مدت سے پہلے کام چھوڑنا چاہے تو جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ پارلر میں کام کرنے والی ایک لڑکی زرمینہ کہتی ہیں کہ ان کے خاوند پر فالج کا حملہ ہوا جس کے بعد مجبوراً بیوٹی پارلر میں کام کرنا پڑا، دن میں نو گھنٹے اور ہفتے کے چھے دن کام کے بعد ماہانہ دس ہزار ملتے ہیں جو اس منہگائی میں صرف دو وقت کی روٹی اور بلوں میں نکل جاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ پارلر میں ایک دن میں دس پیڈی کیور اور مینی کیور کرلیتی ہیں جس کے لیے کسٹمر بارہ سو ادا کرتا ہے۔

ہیر کٹنگ کے 400 سے 600 تک بھی لیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ بلیچ، فیشل و دیگر پیکجز کی صورت میں گاہک سے تین سے چار ہزار لیے جاتے ہیں اور اس میں ساری محنت ہماری ہوتی ہے۔ اس طرح ایک مالک کو تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد بھی ماہانہ ہزاروں اور بعض بڑے پارلروں میں لاکھوں کی آمدنی ہوتی ہے، مگر ورکر کو صرف آٹھ سے دس ہزار یا زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار ہی ملتے ہیں جب کہ آمدورفت اور کھانے پینے کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ اپنے گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے والی یہ بیوٹی پارلر ورکر طبقاتی فرق اور امیر خواتین کو اپنے بناؤ سنگھار پر یوں پیسا لٹاتا دیکھ کر شدید احساسِ کم تری اور محرومی کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔

وہ ان بیگمات کی عیاشیوں اور خوش حال زندگی کا اپنی ابتر زندگی سے موازنہ کرتے کرتے اندر سے مرنے لگتی ہیں۔ ان ورکرز کو اضافی کام پر الاؤنس نہ دینے، اوور ٹائم پر مجبور کرنے کے علاوہ طویل اوقاتِ کار، اجرت کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور ضرورت پر آسانی سے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے بدترین حالات کا سامنا ہے، لیکن اس ضمن میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ انتہا تو دیکھیے کہ ایک طرف یہ لڑکیاں اس پیشے میں کم اجرت اور دیگر مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور دوسری طرف سماج میں ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا اور عزت اور احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ دیکھا جائے تو یہ خواتین اپنی حقیقی زندگی کی کٹھنائیوں اور پیشہ ورانہ زندگی کی مشکلات سے تنہا ہی لڑ رہی ہیں اور کوئی بھی ان کے مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ خواتین جن نامساعد حالات میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روٹی کا بندوبست کرنے کی تگ و دو کر رہی ہیں اس پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان کو عزت و احترام دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وہ خواتین جن کا کوئی مرد سرپرست نہیں، وہ بہت زیادہ توجہ کی مستحق ہیں۔ روایت پرست معاشرے کے زرخیز ذہنوں اور باشعور طبقے کو ان کے مسائل کا سدباب کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے ورنہ یہ سماج بھوک کے خوف سے خود کشی کرنے والیوں کو دفنانے کے لیے بھی تیار رہے۔

The post بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی خواتین! appeared first on ایکسپریس اردو.

مغرب میں واٹر برتھ پروسس کا تیزی سے مقبول ہوتا رجحان

$
0
0

زمانۂ حمل کسی بھی عورت کی زندگی کا سب سے خوب صورت وقت ہوتا ہے۔

نو ماہ بعد ایک نئی زندگی عورت کی جان سے طلوع ہوتی ہی ہے، جسے دیکھ کر عورت اس درد اور تکلیف کو یکسر بھلا دیتی ہے جسے اس نے متواتر نو مہینے جھیلا ہوتا ہے۔ فی زمانہ، دورانِِ حمل، عورت کا زیادہ تر وقت اسپتال کے چکروں میں گزر جاتا ہے۔

لاتعداد دوائیں، جن کی اکثر عورت کو ضرورت بھی نہیں ہوتی وہ نسخے کے طور پر تجویز کردی جاتی ہیں۔ کسی قسم کی پیچیدگی کا شکار نہ ہونے کے باوجود عورت نفسیاتی طور پر اس دباؤ میں ڈال دی جاتی ہے کہ اگر یہ دوائیں نہ لیں اور خون اور پیشاب کے مختلف ٹیسٹ باقاعدگی سے نہ کروائے تو بے شمار مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

اور یوں اللہ اللہ کر کے زمانۂ حمل جیسا خوب صورت وقت لاتعداد تفکرات، پریشانیوں اور اسپتالوں کے چکروں میں گزر کر اختتام پذیر ہوجاتا ہے اور پھر بچے کی پیدائش کا دن آن پہنچتا ہے ۔ وہ دن جس کا انتظار ہر جوڑے کو بے چینی سے ہوتا ہے۔ اسی خوشی کے حصول کے لیے نو ماہ کی جسمانی اور مالی مشقت کبھی خوشی سے تو کبھی مجبوراً برداشت کرلی جاتی ہے، لیکن یہ ایک دن تو گویا نو مہینوں سے زیادہ بھاری ثابت ہوتا ہے۔

سسرال والے ایک پاؤں پر کھڑے نظر آتے ہیں تو میکے والے بھی دوڑ لگاتے ہیں۔ والدین بننے والا جوڑا اس دن سب سے زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ مرد کی نظریں اپنے آنگن میں گونجنے والی چہکار سے زیادہ اسپتال کے خرچوں پر مرکوز ہوتی ہیں تو دوسری جانب لیبر روم کے اندر انجیکشن اور ڈرپوں کے سہارے عورت کو ناقابلِ برداشت تکلیف میں مبتلا کرنے کا کام پوری تن دہی سے جاری ہوتا ہے۔

عورت کی جان اور مرد کی جیب دونوں ناقابلِ برداشت بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ اس خطرناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ بچے کی پیدائش کا خوب صورت اور قدرتی عمل اس قدر پیچیدہ، تکلیف دہ اور مہنگا کیوں بنادیا گیا ہے ؟ کیا بے شمار ادویات اور بھاری رقوم کے بغیر نارمل ڈلیوری ہونا واقعی ممکن نہیں؟

سائنس کا ذرا سا بھی مطالعہ رکھنے والے افراد اس بات سے بہ خوبی واقف ہوں گے کہ عورت اگر صحت مند بچے کو نارمل طریقے سے جنم دے رہی ہو تو اسے کسی قسم کی ادویات کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اور ہم جیسے پس ماندہ معاشروں میں زمانہ حمل میں اور ڈلیوری کے وقت ادویات کا بے دریغ استعمال گویا لازمی مضمون سمجھ کر کروایا جاتا ہے۔ لیکن یہ جان کر سب کو حیرت ہوگی کہ جدید سائنس کی بدولت اب مغربی معاشرہ عورت کے لیے ڈرگ فری ڈلیوری کی راہ ہموار کر چکا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ تصور محض ایک بھیانک خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ ہماری آج کی تعلیم یافتہ عورت کے لیے بھی ڈرگ فری ڈلیوری کے تصور کو ہضم کرنا ناممکن ہے۔

ڈرگ فری ڈلیوری کا اس وقت سب سے تیزی سے مقبول ہوتا طریقہ واٹر برتھ پروسس( Water Birth Process ) ہے۔ پانی کے اندر بچے کی پیدائش شاید ہمارے لیے ایک اچھوتا خیال ہو لیکن یہ درحقیقت فطرت سے بے حد قریب اور عورت کے لیے نسبتاً کم تکلیف دہ طریقہ ہے۔ 1805میں فرانس میں پہلی بار واٹر برتھ پروسس کو متعارف کروایا گیا، جب ایک عورت کو اڑتالیس گھنٹے مستقل درد اٹھانے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے گرم پانی کے ٹب میں بیٹھنے کا مشورہ دیا۔

جس کے پندرہ منٹ کے اندر اندر ہی اس نے بنا کسی پیچیدگی کے ایک صحت مند بچے کو جنم دے دیا۔ 1960میں یہ طریقہ روس کے اسپتالوں میں آزمایا گیا اور نہایت کام یاب رہا۔ روس میں واٹر برتھ کو متعارف کروانے والے ڈاکٹر نے اس تجربے کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ ٹھنڈے ماحول کے بجائے گرم پانی میں بچے کی پیدائش کا عمل نہ صرف ماں کو بہت سی تکالیف سے بچاتا ہے بلکہ یہ بچے کے دماغ اور اس کی سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ اس انکشاف کے باوجود بھی ایک عرصے تک دنیا نے اس طریقے کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی۔

1970میں فرانس کی مڈ وائفس اور ڈاکٹروں نے اس طریقے کو مزید رواج دینے کا ارادہ کیا اور جوڑوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے مختلف پروگرامز بھی ترتیب دیے۔ فرانس کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ پیدائش کا رائج الوقت طریقہ عورتوں اور نومولود بچوں کے لیے اکثر مختلف قسم کے ٹراما کا باعث بن جاتا ہے اور پیدائش کے وقت پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اکثر ساری زندگی ماں اور بچے کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ فرانسیسی ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق رحمِ مادر سے ماں کے بازوؤں تک پہنچنے کا یہ سفر گرم پانی میں طے ہو تو بچے کے لیے نہایت فرحت کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے دنیا میں آکر بے حد پُرسکون رہتے ہیںاور خشکی میں پیدا ہونے والے بچوں کی بہ نسبت بہت کم روتے ہیں۔

1980میں امریکا میں واٹر برتھ کے ذریعے پہلی ڈلیوری کروائی گئی، جس میں صرف نوے منٹ کے دردِزہ کے بعد صحت مند بچے نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ 1989میں امریکی چرچ نے ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا کہ گذشتہ چار سال میں کیلیفورنیا کے اسپتال میں چار سو تراسی بچوں کی پیدائش واٹر برتھ پروسس کے ذریعے ہوئی اور ان میں سے ہر بچہ صحت مند اور محفوظ ہے۔

مختلف تحقیقی کاوشوں اور آگہی منصوبوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوے کی دہائی کے اختتام تک واٹر برتھ پروسس یو کے، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں تیزی سے رواج پانے لگا۔ برطانیہ میں 1992اور 1993میں دو رپورٹیں شایع ہوئیں، جن میں واٹر برتھ پروسس کے عمل کی اہمیت کو واضح کیا گیا۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار کیا گیا کہ ڈلیوری کے وقت عورت کو اس بات کی بھی آزادی دی جائے کہ وہ جس پوزیشن میں بھی آرام محسوس کرے، اس میں ہی رہتے ہوئے اپنے بچے کو جنم دے۔ ان رپورٹوں کے بعد برطانیہ کے اسپتالوں میں تیزی سے برتھ پُول قائم کیے جانے لگے۔

رائل کالج آف مڈوائفس نے اس طریقے کی مکمل حمایت جاری رکھی اور عملے کو واٹر برتھ کے لیے تربیت فراہم کرنے کے لیے شعبے قائم کیے گئے۔ نیز وہ جوڑے جو اسپتال کے بجائے گھر میں ڈلیوری کروانا چاہتے تھے، تربیت یافتہ عملہ ان کی مدد اور راہ نمائی کے لیے وہاں ساتھ موجود ہوتا۔

1996میں بیلجیم میں یہ طریقہ انتہائی مقبول ہوا اور وہاں ہر آٹھ ہزار میں سے ڈھائی ہزار بچے اسی طریقے سے دنیا میں آنے لگے، ان میں سے ہر کیس میں مائیں اور بچے کسی بھی قسم کے انفیکشن سے محفوظ تھے۔

نوے کی دہائی وہ دہائی تھی جس میں واٹر برتھ پر بے شمار تحقیقی کام ہوا، لیکن اب بھی پیدائش کے لیے اس عمل کا انتخاب کرنے والے جوڑوں کی تعداد بہت کم رہی۔ حتٰی کہ 2007میں بھی نارمل ڈلیوری کی حاملہ خواتین میں سے صرف تین فی صد عورتوں کا انتخاب واٹر برتھ پروسس ٹھہرا۔ رفتہ رفتہ ذہن بدلنے لگے اور یہ طریقہ قبولیت اختیار کرنے لگا اور2014 میں وہ وقت بھی آیا کہ صرف یو کے میں اس طریقے کا انتخاب کرنے والے جوڑوں کی تعداد تیس فی صد تک جاپہنچی اور اب یہ طریقہ ایشیا کی خواتین میں بھی فطری طریقے سے پیدائش کے عمل سے گزرنے کی آمادگی پیدا کر رہا ہے۔ رواں سال جولائی کے مہینے میں ابوظبی کے برجیل اسپتال میں پیدا ہونے والی ننھی عائشہ یہاں کی پہلی واٹر برتھنگ بے بی قرار پائی ہے۔

اس کیس کی نگراں ڈاکٹر سوسن عبدالرحمان نے گلف نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ طریقۂ پیدائش بے حد آسان اور عین فطری ہے اور اس میں عورت کو درد بڑھانے کی کوئی دوا دینے کی ضرورت ہی نہیں، انہوں نے کہا کہ اس طریقے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈلیوری کے فوراً بعد عورت اپنے معمول کے کاموں میں آسانی سے مصروف ہو جاتی ہے۔

اگست کے مہینے میں برازیلین نژاد بولی وڈ اداکارہ اور ماڈل برونا عبداللہ نے ممبئی کے ایک اسپتال میں واٹر برتھ پروسس کے ذریعے بچی کو جنم دیا۔ ”مائی برتھ اسٹوری” کے نام سے انہوں نے انسٹاگرام پر ایک تفصیلی پوسٹ بھی شیئر کی۔ برونا نے لکھا کہ ”میں فطری طریقے سے بچے کو جنم دینا چاہتی تھی، جس میں نہ کوئی دوا ہو اور نہ سرجری۔ اس لیے میں نے واٹر برتھنگ کا انتخاب کیا۔ ڈلیوری کے دوران گرم پانی نے میرے اعصاب کو بہت پرسکون رکھا اور میری تکلیف کو حد سے بڑھنے نہیں دیا۔ پیدائش کے اس طریقے نے مجھے مکمل خوشی فراہم کی۔

منٹوں میں میرا درد غائب ہوگیا اور طبیعت بحال ہوگئی۔ یوں میں نے پہلے ہی لمحے سے بیٹی کے ہونے کی خوشی کو محسوس کیا اور اس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کیے، یہ سب واٹر برتھ پروسس کی وجہ سے ممکن ہوا۔” بھارت کی ہی ایک اور اداکارہ کالکی کوچلین واٹر برتھنگ کے عمل ذریعے دسمبر میں گوا کے پُرفضا مقام پر اپنے بچے کو جنم دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔

برطانوی اور امریکی ماہرین کے نزدیک واٹر برتھ کو رواج دینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف ڈلیوری کے وقت کی تکلیف کو گھٹاتا ہے بلکہ بے جا اخراجات سے بھی فرد کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس طریقے میں سب سے زیادہ پُرسکون حاملہ عورت ہوتی ہے جسے پیدا کرنے کے وقت، جگہ اور پوزیشن کے بارے میں مکمل اختیار اور آزادی حاصل ہوتی ہے۔

یہ طریقہ ایسے معاشروں میں خصوصی ثمرات کا باعث بن سکتا ہے جہاں بچے کی پیدائش کے فطری عمل کو نہایت پیچیدہ ثابت کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت نارمل ڈلیوری کے اخراجات لاکھوں تک جاپہنچے ہیں۔ یہ وہ تلخ جام ہے جس کے گھونٹ بھلا کس نے نہیں بھریں ہوں گے؟ حمل ٹھہرنے سے لے کر پیدائش تک کا ایک ایک لمحہ صرف جوڑے پر ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث ِتشویش بنا رہتا ہے۔ ولادت کے نام پر کئی کئی دن اسپتالوں میں روکنا، درد بڑھانے کی دوائیں، ڈرپ اور انجیکشن کا استعمال اور پھر ڈلیوری مزید آسان کرنے کے نام پر کٹ مارنے کا عمل عورت کو بعد میں کتنی پیچیدگیوں میں مبتلا کردیتا ہے یہ ہم اپنے آس پاس بکھری کہانیوں میں بہ خوبی دیکھ سکتے ہیں۔

واٹر برتھ پروسس پر ہمارے جیسے معاشروں میں عمل کرنے کی بے حد ضرورت ہے، جہاں نصف سے زائد آبادی معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہے۔ اولاد کے حصول کے لیے کوئی مقروض ہوجاتا ہے، تو کوئی اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کوئی بھاری اخراجات کے ڈر سے مزید اولاد کی خواہش کو ہمیشہ کی نیند سلادیتا ہے۔ ماں بننے والی عورتوں کے ساتھ الگ ظلم ہوتا ہے۔

درد بڑھانے کی دوائیں دے کر طویل گھنٹوں تک اسپتال کے بستر پر تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ عورتیں بچہ پیدا کرنے کی قیامت خیز اذیت سے گزر کر ادھ موئی ہوجاتی ہیں، نارمل بچہ پیدا کر نے کے باوجود بھی کئی کئی دن بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں رہتیں۔ بدقسمتی سے صرف اسپتال ہی نہیں بلکہ ناتجربہ کار دائیوں اور مڈوائفس سب نے مل کر پیدائش کے پرسکون اور فطری عمل کو ایک گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے۔

مغربی ممالک میں اس وقت نئی ماں بننے والی عورتوں کی اولین خواہش واٹر برتھنگ بن چکی ہے۔ انڈیا میں بھی اس طریقے کی کافی آمادگی پائی جارہی ہے۔ عام عورتیں ہی نہیں بلکہ سیلیبریٹیز بھی اسی طریقے سے ماں بننے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ان سب کے نزدیک اس طریقے کو اپنانے کی سب سے بڑی وجہ اس کا ڈرگ فری ہونا ہے۔ ڈاکٹر امیت دھرندر ممبئی میں واٹر برتھنگ کے بانی مانے جاتے ہیں۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے اس پروسس کی پریکٹس کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت عورت کے لیے آس پاس کے ماحول کو جس قدر آرام دہ بنایا جائے گا عورت اتنے ہی فطری طریقے سے بچے کو جنم دے گی۔ اس کے جسم میں اینڈورفنز اور اوکسیٹوکن جیسے مثبت ہارمونز داخل ہوں گے جو ولادت کے فطری طریقے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر اطراف کا ماحول عورت کے لیے آرام دہ نہ ہو اور وہ اس سے مطابقت حاصل نہ کر سکے تو اس کے جسم میں اینڈرینالین جیسے منفی ہارمونز داخل ہونے لگتے ہیں جو ولادت کے عمل میں مختلف پیچیدگیوں کا باعث بنتے ہیں۔

واٹر برتھنگ کا عام ہونا بے شک اس وقت کی ایک بڑے ضرورت ہے، لیکن تمام فوائد صرف اسی صورت میں سامنے آئیں گے جب یہ کام ماہرین کی نگرانی میں کیا جائے۔ پانی بہت صاف اور زیادہ مقدار میں ہو اور اس بات کا یقین ہو کہ حمل کسی بھی پیچیدگی کا شکار نہیں اور ڈلیوری بالکل نارمل متوقع ہے۔

The post مغرب میں واٹر برتھ پروسس کا تیزی سے مقبول ہوتا رجحان appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں سے فلم شروع ہوتی ہے

$
0
0

 

 

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جس نے بچپن میں ٹام اینڈ جیری کارٹون نہ دیکھے ہوں۔ اگر دنیا کے مشہور ترین کارٹونز کی بات کی جائے تو ٹام اینڈ جیری اس فہرست میں سب سے آگے کھڑے نظر آئیں گے۔ 70 کی دہائی کی بات کریں، 80 کی دہائی کی، 90 کی دہائی کی یا اکیسویں صدی کی۔ ٹام اینڈ جیری دہائیوں سے بچوں کے پسندیدہ کارٹون چلے آرہے ہیں۔ جہاں بچوں کو ٹام اینڈ جیری پسند ہیں وہیں اس کارٹون کی ابتدا میں دکھائے جانے والے دہاڑتے ہوئے شیر کو بھی لوگ بہت پسند کرتے ہیں اور جب ایک گول دائرے میں سے شیر کا دہاڑتا ہوا چہرہ نظر آتا ہے تو بچے کارٹون دیکھنے کے لیے مزید پُرجوش ہوجاتے۔

ٹام اینڈ جیری دیکھتے وقت کیا کبھی آپ نے نوٹس کیا کہ کارٹون کی ابتدا میں یہ دہاڑتا ہوا شیر کیوں دکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہالی ووڈ فلم دیکھتے ہوئے اکثر فلم کے آغاز میں آپ میں سے بہت سے لوگوں نے ایک خاتون کو شمع ہاتھ میں تھامے کھڑے ہوئے دیکھا ہوگا فلم کی شروعات سے پہلے اس خاتون کو کیوں دکھایا جاتا ہے؟ کبھی کسی نے اس پر غور کیا۔ اسی طرح اکثر ہالی وڈ فلموں کی شروعات میں 20 سینچری فوکس لکھا ہوا نظر آتا ہے یا ہاتھ میں فشنگ راڈ تھامے چاند پر بیٹھا ہوا لڑکا دکھایا جاتا ہے، جس کے بعد فلم شروع ہوتی ہے۔ اسے دکھانے کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں یقین ہے فلم دیکھنے کی ایکسائٹمنٹ میں کبھی آپ نے دہاڑتے ہوئے شیر، ہاتھ میں شمع تھامے ہوئے خاتون، چاند پر بیٹھا لڑکا یا 20 سینچری فوکس وغیرہ پر غور نہیں کیا ہوگا اور اگر کیا ہوگا تو کارٹون یا فلم دیکھتے ہوئے اسے نظرانداز کردیا ہوگا۔

فلم یا کارٹون کی ابتدا میں دکھائے جانے والی یہ بے حد مختصر اینی میشن ویڈیوز یا تصاویر دراصل اس فلم کو بنانے والی کمپنی کی پہچان ہوتی ہیں جنہیں عرف عام میں ’’لوگو‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’لوگو‘‘ کسی بھی کمپنی یا اسٹوڈیو کا چہرہ ہوتا ہے۔ ہر کمپنی کا اپنا ایک مخصوص ’’لوگو‘‘ ہوتا ہے جس سے اس کی شناخت ہوتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں کمپنیوں کے ’’لوگو‘‘ ہیں لیکن چند ’’لوگو‘‘ اتنے مشہور ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر فوراً سمجھ جاتے ہیں یہ فلم یا کارٹون کس کمپنی نے بنائے ہیں۔

تاہم ’’لوگو‘‘ بنانا یا ڈیزائن کرنا آسان کام نہیں اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی اور کئی دل چسپ حقائق چھپے ہوتے ہیں۔ کئی مرا حل طے کرنے کے بعد کسی کمپنی کا ’’لوگو‘‘ بنتا ہے اور سالوں کی کڑی محنت کے بعد یہ ’’لوگو‘‘ مشہور ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم آپ کو ہالی وڈ اسٹوڈیوز کے چند مشہور ’’لوگو‘‘ کے پیچھے چھپے دل چسپ حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے ٹام اینڈ جیری دیکھتے وقت یا ہالی وڈ کی کوئی اور فلم دیکھتے ہوئے کبھی آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ فلم کی ابتدا میں دکھائے جانے والے ’’لوگو‘‘ کے پیچھے اتنی دل چسپ کہانیاں چھپی ہوں گی۔

دہاڑتا ہوا شیر (ایم جی ایم اسٹوڈیو)

’’ایک گول دائرے کے اندر دہاڑتا ہوا شیر‘‘ دراصل یہ دہاڑتا ہوا شیر ہالی وڈ کے مشہور اسٹوڈیو ’’ایم جی ایم (میٹرو گولڈون میئر)‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ہالی ووڈ اسٹوڈیوز کے مقبول ترین ’’لوگوز‘‘ میں سے ایک ہے۔ ہاورڈ ڈائٹز نامی شخص نے یہ ’’لوگو‘‘ 1916 میں سیموئل گولڈونز نے گولڈون پکچر کارپوریشن کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔ بعدازاں گولڈون پکچرز نے میٹرو پکچرز کارپوریشن اور لوئس بی کے ساتھ اشتراک کرلیا جس کے بعد ایم جی ایم (میٹرو گولڈون میئر) کمپنی وجود میں آئی اور اب دہاڑتا ہوا شیر ایم جی ایم اسٹوڈیو کی نمائندگی کرتا ہے۔

تاہم اس دہاڑتے ہوئے شیر کے پیچھے بڑی دل چسپ کہانی ہے۔ یہ ’’لوگو‘‘ بنانے کے لیے مختلف ادوار میں کُل 5 شیروں کا استعمال ہوا ہے۔ 1916سے 1928 تک خاموش فلموں کے لیے بنائے گئے ’’لوگو‘‘ میں جس شیر کا استعمال کیا گیا اس کا نام ’’سلیٹ‘‘ تھا۔ تاہم اس وقت شیر کو بھی خاموش ہی دکھایا گیا تھا۔ 1928 میں پہلی بار دہاڑتا ہوا شیر ’’جیکی‘‘ دکھایا گیا۔ جب خاموش فلم شروع ہوتی تھی تو اس کے آغاز میں ایک دہاڑتے ہوئے شیر کو دکھانا کافی دل چسپ تجربہ تھا اور اس شیر کی آواز لوگوں کو سنانے کے لیے اس وقت سنیما میں مخصوص قسم فونو گراف رکھے جاتے تھے۔

اس کے بعد ایم جی ایم اسٹوڈیو نے اپنے ’’لوگو‘‘ میں جس تیسرے شیر کا استعمال کیا اس کا نام ’’ٹینر‘‘ تھا۔ لیکن اب بھی بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کی ابتدا میں جیکی کو ہی دکھایا جاتا تھا۔ اسٹوڈیو کے ’’لوگو‘‘کے لیے استعمال ہونے والے چوتھے شیر کا نام ’’جارج‘‘ تھا۔ یہ ’’لوگو‘‘ 1956 میں بنایا گیا تھا۔ بالآخر 1957 میں اسٹوڈیو کا اب تک کا سب سے مشہور اور پانچواں دہاڑتا ہوا شیر دکھایا گیا، جس کا نام ’’لیو‘‘ہے اور اس کی دہاڑ لوگوں کو اتنی پسند آئی کہ یہ ’’لوگو‘‘ کمپنی کا چہرہ بن گیا۔

ان دہاڑتے ہوئے شیروں کے بارے میں ایک بات بہت مشہور ہے جس کی وجہ سے کمپنی کو کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ ایم جی ایم اسٹوڈیو کی انتظامیہ نے شیر سے اپنی پسندیدہ آواز نکلوانے کے لیے اسے کئی طرح سے اذیت دی۔ یہاں تک کہ ٹی وی اسکرین پر لوگوں کو گول دائرے کے اندر شیر کا چہرہ دکھایا جاتا تھا جب کہ اس کے پیچھے شیر کو رسیوں سے باندھ کر اس کی دُم زور سے کھینچی جاتی تھی تاکہ شیر دہاڑے۔ اس عمل کی کئی تصاویر بھی میڈیا میں وائرل ہوئیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ شیر کے منہ سے دہاڑ نکلوانے کے لیے اسے کمپنی کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اذیت نہیں دی گئی تھی، بلکہ ’’لیو‘‘ کی مخصوص دہاڑ دراصل جنگل کے دیگر شیروں کی آوازوں کو ملاکر بنائی گئی تھی۔

ہاتھ میں شمع تھامے خاتون (کولمبیا پکچرز)

ہالی وڈ کی بہت سی فلمیں دیکھتے ہوئے آپ میں سے اکثر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ کچھ فلموں کے آغاز میں سفید لباس زیب تن کیے اور ہاتھ میں شمع تھامے ایک نہایت خوب صورت خاتون کو دکھایا جاتا ہے۔ یہ دراصل ہالی وڈ کے مشہور اسٹوڈیو کولمبیا پکچرز کا ’’لوگو‘‘ہے۔ اور اس ’’لوگو‘‘ کا نام ’’دی ٹارچ لیڈی‘‘ ہے۔ کولمبیا پکچرز اسٹوڈیو1919 میں قائم کیا گیا تھا، ابتدا میں اس کا نام کون برینڈٹ کون فلمز تھا۔

دو بھائیوں ہیری کون، جیک کون اور ان کے دوست جوبرینڈٹ نے مل کر یہ اسٹوڈیو قائم کیا تھا۔ ابتدا میں یہ کمپنی نہایت کم بجٹ کی فلمیں پروڈیوس کرتی تھی۔ 1924 میں کون برادرز نے اپنے اسٹوڈیو کی ترقی اور مشہوری کے لیے اس کا نام ’’کولمبیا پکچرز‘‘ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی کمپنی کا ’’لوگو‘‘ بھی ڈیزائن کیا گیا جس میں ایک خاتون ہاتھ میں ٹارچ تھامے امریکی پرچم سے بنے لباس میں ملبوس نظر آتی تھی، جب کہ اوپر کی جانب ’’اے کولمبیا پروڈکشن‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ اس کے علاوہ اس خاتون کے سر پر ایک کپڑا بھی پہنایا گیا تھا۔ یہ خاتون کون تھی اس کے بارے میں درست معلومات موجود نہیں ہیں، تاہم بہت سی خواتین نے ’’لوگو‘‘ میں موجود خاتون ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس ’’لوگو‘‘ میں کئی طرح کی تبدیلیاں کی گئیں۔ 1939 میں خاتون کو دل کش دکھانے کے لیے اس کے لباس میں مختصر تبدیلی کی گئی اور سر پر سے کپڑا بھی ہٹادیا گیا۔ اس کے علاوہ خاتون کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے عقب میں صرف کولمبیا لکھا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’لوگو‘‘ میں مزید تبدیلی آتی گئی امریکی جھنڈے کا رنگ دھیما کرنے کے علاوہ پس منظر میں بادلوں کا اضافہ کیا گیا۔

1993 میں سونی پکچرز انٹرٹینمینٹ نے پیراماؤنٹ کی خریداری کے بعد ’’لوگو‘‘ میں موجود خاتون کو کمپیوٹر پر کلاسک لُک دیا اور جینی جوزف نامی خاتون نے ’’لوگو‘‘ میں دکھائی جانے والی خاتون کے لیے ماڈلنگ کی۔ یہاں ایک دل چسپ بات قابل ذکر ہے کہ ’’لوگو‘‘ میں جینی جوزف کا صرف جسم شامل کیا گیا، خاتون کے چہرے کو بنانے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال کیا گیا۔

اس ’’لوگو‘‘ کے حوالے سے دوسری دل چسپ بات یہ ہے کہ جینی جوزف کوئی پیشہ ور ماڈل یا اداکارہ نہیں بلکہ ایک عام گھریلو خاتون تھی جو امریکا میں رہائش پذیر تھی۔ اس کے علاوہ خاتون کے لباس میں شامل امریکا کے جھنڈے کو ہٹاکر اس میں نیلے رنگ کا کپڑا شامل کردیا گیا۔

پہاڑ کے گرد گھومتے 22 ستارے (پیراماؤنٹ پکچرز)

ہالی وڈ کے معروف ترین اسٹوڈیوز میں سے ایک پیراماؤنٹ پکچرز اسٹوڈیو ہے جس کا ’’لوگو‘‘ یا پہچان ایک اونچے پہاڑ کے گرد گھومتے ہوئے 22 ستارے ہیں۔ یقیناً ہالی وڈ فلم دیکھتے ہوئے آپ نے کئی بار فلم کے آغاز میں برف سے ڈھکے پہاڑ کے ارد گرد گول دائرے میں گھومتے ستارے ضرور دیکھے ہوں گے۔ پیراماؤنٹ پکچرز اسٹوڈیو 1912 میں ڈینئل اور چارلز نے ایڈولف زوکور کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔

اس اسٹوڈیو کا ’’لوگو‘‘ ڈبلیو ڈبلیو ہاڈکنسن نے زوکور کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ ’’لوگو‘‘ میں دکھائے جانے والے برف سے ڈھکے پہاڑ کا نام بین لومونڈ ماؤنٹین ہے جہاں ہاڈکنسن کا بچپن گزرا تھا۔ ابتدا میں پہاڑ کے گرد 24 ستارے گھومتے ہوئے دکھائے گئے تھے جو اس وقت اس اسٹوڈیو سے جڑے 24 اداکاروں کی نمائندگی کرتے تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان ستاروں کی تعداد گھٹا کر 22 کردی گئی۔ لیکن آج تک ستاروں کی تعداد کو گھٹانے کی وجہ کسی کو معلوم نہ ہوسکی۔

دی ڈبلیو بی شیلڈ (وارنر بروس پکچرز)

بَگز بنی کارٹون دیکھتے ہوئے آغاز میں آپ سب نے ایک شیلڈ کے اندر بڑا سا ڈبلیو بی لکھا ہوا تو ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ ہالی وڈ کی صف اول کی کمپنیوں میں سے ایک کمپنی وارنر بروس کا ’’لوگو‘‘ ہے۔ یہ کمپنی پولینڈ سے امریکا آئے چار یہودی بھائیوں ہیری، البرٹ، سیم اور جیک نے مل کر بنائی تھی جس کا نام وارنر بروس رکھا گیا۔ بہت سے لوگ اس نام کو وارنر برادرز پڑھتے ہیں لیکن قانونی طور پر اسٹوڈیو کا نام وارنر بروس ہے۔

والٹ ڈزنی

1923 میں نہایت چھوٹے پیمانے پر قائم ہونے والی کمپنی والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کو آج انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کا کنگ کہا جاتا ہے۔ اس کمپنی کی ابتدا مشہور کارٹون کردار مکی ماؤس سے ہوئی تھی۔ تاہم دنیا کی نمبر ون اینی میٹڈ کمپنی بننے سے قبل اس اسٹوڈیو کو کئی ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ والٹرایلاس والٹ ڈزنی نے اپنے بھائی روئے ڈزنی کے ساتھ مل کر یہ کمپنی بنائی تھی۔

اس دور میں یہ چھوٹے پیمانے پر کارٹونک فلمیں بنانے والی کمپنی ہوا کرتی تھی۔ ابتدا میں یہ کمپنی ’’لاف او گرام‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے اسے ناکامی کا سامنا پڑا۔ والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کے ’’لوگو‘‘ میں ہمیشہ ایک خوب صورت قلعہ دکھایا جاتا ہے۔ ابتدا میں کمپنی کے ’’لوگو‘‘ میں یہ قلعہ جرمنی کے مشہور نشوانسٹین قلعے سے متاثر ہوکر شامل کیا گیا تھا اور 2006 تک یہی قلعہ والٹ ڈزنی کا ’’لوگو‘‘ رہا۔ تاہم 2006 کے بعد ’’لوگو‘‘ میں موجود قلعے کو پیرس میں ڈزنی لینڈ میں موجود سنڈریلا کے قلعے سے تبدیل کردیا گیا۔ لہٰذا والٹ ڈزنی کی فلموں کے آغاز میں آپ جو قلعہ دیکھتے ہیں وہ ڈزنی کی مشہور زمانہ اینی میٹڈ فلم سنڈریلا کا خوب صوت محل نما قلعہ ہے۔

 چاند پر بیٹھا ننھا لڑکا (ڈریم ورکس پکچرز)

1994 میں ہالی وڈ کے مشہور و معروف ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ، ڈزنی اسٹوڈیو کے چیئرمین جیفری کیٹزن برگ اور ریکارڈ پروڈیوسر ڈیوڈ گیفین نے مل کر ’’ڈریم ورکس‘‘ اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈریم ورکس پکچرز کا شمار ہالی وڈ کے مشہور و معروف اسٹوڈیوز میں ہوتا ہے جب کہ اس اسٹوڈیو کی پہچان ’’چاند پر بیٹھا ہوا لڑکا ہے جس نے ہاتھ میں مچھلی پکڑنے کی ڈور تھام رکھی ہے۔‘‘ ابتدا میں کمپنی کا ’’لوگو‘‘ ڈیزائن کرتے وقت ننھے لڑکے کی جگہ ایک آدمی کو چاند پر بیٹھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ بعدازاں آرٹسٹ رابرٹ ہنٹ نے فیصلہ کیا کہ چاند پر آدمی کی جگہ لڑکے کو بیٹھا ہوا دکھایا جائے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ رابرٹ ہنٹ نے چاند پر بیٹھے ہوئے لڑکے کو اپنے بیٹے ولیم کا روپ دیا۔ اس طرح ولیم ڈریم ورکس پکچرز کی شناخت بن گیا۔ چاند پر بیٹھا ہوا یہ ننھا لڑکا ولیم آج ہالی ووڈ میں میوزک کمپوزر ہے اور میوزک انڈسٹری کے شعبے سے وابستہ ہے۔

The post جہاں سے فلم شروع ہوتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


مجھے ناشرین نے دھمکایا کہ ’کتابیں بیچنے سے تعلق رکھو، چھاپنے سے نہیں‘ سید فرید حسین

$
0
0

یہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی کا شورش زدہ کراچی ہے۔۔۔ جب شرپسندوں نے فرقہ واریت کا زہر بھر دیا ہے، اور تفرقے بازی کا یہ ناگ اس نگر کو بری طرح ڈس رہا ہے۔۔۔ امن وامان کے واسطے یہاں کرفیو کا نفاذ ہوتا ہے۔۔۔ جس میں روزانہ کچھ دیر کو وقفہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ اور گھر سے باہر نکلنے کی اس چُھوٹ میں شہری اپنی ضروریات زندگی کے سامان کے لیے دوڑے پڑتے ہیں۔۔۔

گلی محلے کی دکانوں میں ایک بھیڑ پڑی جاتی ہے۔۔۔ کہیں قطاریں ہوتی ہیں تو کہیں دھکم پیل کا عالَم ہوتا ہے، اشیائے خوردونوش کا کال پڑا جاتا ہے، لیکن اس کرفیو میں نرمی کے انتظار میں ایک شخص ایسی تمام فکروں سے ماورا بھی ہے، وہ تو اپنے ’بورے‘ تیار کر کے تاک میں ہوتا ہے۔۔۔ کہ کب کرفیو اُٹھے اور کب وہ یہ بار اٹھائے اپنے اہداف پورے کرنے کو نکل پڑے اور دوبارہ کرفیو لگنے سے پہلے پہلے اپنی کارروائی مکمل کر کے لوٹ آئے۔۔۔

یہ شخص نہ تو کھانے پینے کی چیزوں کے لیے دوڑتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی مذموم مقصد کے لیے۔۔۔ اس کے بورے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اس میں نہ تو شر پھیلانے کا سامان ہے اور نہ ہی بھوک مٹانے کے لوازم۔۔۔ اس میں تو کتابیں ہیں۔۔۔ جسے وہ طارق روڈ اور نرسری سے لے کر لالو کھیت اور ناظم آباد وغیرہ تک کی دکانوں اور ’آنہ لائبریوں‘ میں دینے جاتا ہے، تاکہ وہاں آنے والے قارئین خالی ہاتھ نہ جائیں۔۔۔ پھر 1992ء کے ’کراچی آپریشن‘ کے دوران بھی اس کی یہی مشق رہی۔۔۔ یہ ’فرید پبلشرز‘ کے روح و رواں سید فرید حسین ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 1965ء میں کراچی میں آنکھ کھولی، سات بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ والدین کا تعلق شمالی ہندوستان کے علاقے ’بدایوں‘ سے ہے، ممتاز شاعر شکیل بدایونی والدہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ پڑھنا لکھنا اور اچھی زبان وراثت میں ملی، والد عام بول چال کے الفاظ درست کراتے۔ چھے سال کی عمر میں والدہ سے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا، والدہ حافظ نہ تھیںِ، لیکن باورچی خانے میں سے ہی سن کر غلطی بتا دیتی تھیں، کلام پاک کا اچھا تلفظ انہی کی دین ہے۔

فرید حسین اپنے والد سید تہذیب حسین کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ  یہاں سرکاری ملازم رہے، جاتے تو روزانہ تھے، لیکن کام ایسا کچھ خاص نہ کرتے تھے، دادا ’بدایوں‘ زمیں دار  تھے، وہ وہیں رہے، دو پھوپھیاں یہاں بیاہی گئی تھیں، اس لیے دادی پاکستان آگئی تھیں۔ والد ہندوستان گئے اور دادا بھی پاکستان آئے، لیکن فرید حسین کبھی نہ جا سکے۔

سال میں دو بار فصلوں کی کٹائی کے بعد دادا ہمیں یہاں پیسے بھیجتے، اس لیے کوئی معاشی تنگی نہ تھی۔ جب روپیا آتا تو ہم یہاں اپنا مکان بنا لیتے، وہاں سے روپیے کے تبادلہ یوں ہوتا کہ یہاں والوں نے وہاں والوں سے طے کر لیا کہ تم اُدھر دے دو بدلے میں ہم اِدھر تمہارے حساب میں دے دیں گے۔ پھر دادا نے پیسے بھیجنے بند کر دیے، کہا کہ تہذیب میاں (فرید حسین کے والد) بڑے خرچیلے ہوگئے ہیں، اب جب  میرے پوتے بڑے ہوں گے، تو میں خود پیسے دینے جاؤں گا، 1984ء میں دادا یہاں آنے والے تھے، لیکن جس دن انہیں یہاں آنا تھا ، اس سے ایک دن پہلے بیمار پڑے اور انتقال کر گئے، مجھے لگتا ہے کہ خاندان کے کسی فرد نے ہی ان کی جان لی، کیوں کہ وہ یہاں روپیا لانے والے تھے۔

سید فرید حسین ماضی کے در وا کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے 1952ء میں ہندوستان سے ہجرت کی اور جیکب آباد آئے، پھر سکھر میں خاندان کے کئی لوگوں کو بسایا اور سکھر کی پہلی آٹے کی چکی ’نیم کی چاڑی‘ میں قائم کی۔ پھر 1960ء کے زمانے میںکراچی اگٓئے، یہاں پاک کالونی کی طرف آصف کالونی کے نام سے ایک بستی بسائی، ناظم آباد میں بھی لوگوں کو گھر بنوا کر دیے۔

ذریعۂ معاش کے لیے بھینسوں کا باڑا قائم کیا، ان کی 60 بھیسنیں تھیں، جن کا دودھ بکتا کم اور بٹتا زیادہ تھا، پھر بھی بچ جاتا، تو ضایع کرنا پڑتا۔ ایک مرتبہ ہندوستان گئے، تو اِن کے پیچھے رکھوالے نے ہیرا پھیری کر کے سارا کاروبار تلپٹ کر دیا، لیکن والد شریف النفس آدمی تھے، کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا، انہوں نے یہاں 140 سے زائد شادیاں طے کرائیں، جو اب خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں، وہ اتنی بے لوث فکر کے مالک تھے کہ اس موقع پر اگر کوئی تحفہ بھی دیتا، تو وہ اسے بھی قبول نہ کرتے۔ انہوں نے ’نئی کراچی‘ میں ایک ’مارٹ‘ بھی کھولا، جہاں آٹا اور چینی وغیرہ بغیر راشن کارڈ کے بھی مل جاتی تھی، پھر کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم ہو گیا۔

اپنی تعلیم کے حوالے سے فرید حسین بتاتے ہیں کہ مختلف سرکاری اسکولوں کے طالب علم رہے، جیکب لائن کے گورنمنٹ اسکول میں پڑھے، جہاں  ڈاکٹر پیرزادہ قاسم سمیت  بہت سے نام وَر لوگ زیر تعلیم رہے، یہاں بڑے بھائی کے ساتھ اداکار جاوید شیخ، بہروز سبز واری وغیرہ ہوتے تھے۔ والد ’جٹ لائن‘ کے ماحول سے مطمئن نہ ہوئے تو وہاں سے کوچ کیا۔

پھر پاپوش نگر اور فیڈرل بی ایریا وغیرہ میں بھی رہائش رہی۔ بُری صحبت سے بچانے کے لیے ہی والد نے انہیں تیسری کلاس سے ’اردو بازار‘ میں کام پر لگا دیا، یہ 1970ء کا عشرہ تھا، 125 روپے مہینا طے ہوا، اسکول کے بعد جب سب بچے کھیلنے کود میں لگے ہوئے ہوتے، تو وہ جٹ لائن سے پیدل دکان جا رہے ہوتے، یہ  بہت برا لگتا، لیکن کشش یہ تھی کہ دکان پر بہت ساری کتابیں پڑھنے کا موقع مل جاتا، گھر جاتے ہوئے بھی کتابیں لے جاتے، چوتھی، پانچویں جماعت تک عمروعیار اور امیر حمزہ وغیرہ پڑھ لیے۔ میٹرک کے بعد پھر شام میں ’ایس ایم کالج‘ میں داخلہ لیا، جو دکان والوں کو پسند نہیں آیا۔ انہوں نے والد سے کہہ دیا کہ انہیں اب شوق نہیں رہا۔

پھر والد اکاؤنٹس کے شعبے میں لے گئے، آٹھ ہزار تنخواہ تجویز ہوئی، لیکن وہ رات بھر سوچتے رہے کہ یہ بالکل اجنبی دنیا ہوگی، اور کتابیں کیسے پڑھوں گا، ایسے حالات بھی نہیں کہ کتابیں خرید سکوں۔ چناں چہ ملازمت پر جانے کے بہ جائے کتابوں کی فراہمی کا کام شروع کر دیا۔ کتب فروش پہلے ہی ان سے مانوس تھے، اس لیے خوب حوصلہ افزائی ہوئی، پھر دھیرے دھیرے انہیں دیگرشہروں سے کتابوں کی پوری ایجینسی ملنے لگی۔

1984ء میں انہوں نے کتابوں کی اشاعت بھی شروع کر دی، یعنی ’فرید پبلشرز‘  قائم ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ پہلی کتاب کون سی چھاپی؟ تو فرید حسین نے بتایا کہ ابتداً ممتاز شاعر محسن بھوپالی کے مجموعے ’ماجرا‘ اور ’گرد مسافت‘ وغیرہ شایع کیں، پھر سلیم کوثر کا کلام چھاپا، محسن بھوپالی اور کراچی کے دیگر مصنفین کو  لاہور کے ناشرین نہیں چھاپتے تھے، ہم نے انہیں فروغ دیا۔ پھر عارف شفیق، خالد معین اور فاطمہ حسن وغیرہ کو بھی شایع کیا۔ جب میں نے کتابیں چھاپنا شروع کیں تو لاہور کے بہت سے ناشرین نے دھمکایا کہ تم صرف کتابیں بیچنے سے واسطہ رکھو، چھاپنے سے نہیں! کراچی کے بھی کچھ بڑے کاروباری اداروں نے مجھے روکنا چاہا، لیکن میں ڈٹا رہا۔‘

ہم نے فرید حسین سے اب تک شایع کی جانے والی کتابوں کا شمار پوچھا، تو وہ یہ کہہ کر ٹال گئے کہ کبھی اس طرح گن کر کام نہیں کیا۔ اُن  کے خیال میں ضیا دور کے بعد کتب بینی زوال پذیر ہوئی۔ انہوں نے بات ضیا دور سے جوڑی، تو ہم نے اس کے سیاسی اسباب کے خیال سے انہیں مزید ٹٹولا، لیکن وہ بولے کہ شاید ٹی وی کا چلن عام ہوا اور لائبریریاں ختم ہونے لگیں، عوامی کتب خانوں میں ایک کتاب کے 20،  20سیٹ جاتے تھے۔

وہ بہت آسانی سے کتاب کی قیمت وصول کرلیتے تھے، ہر علاقے میں ہماری گاڑی بھر کر جاتی تھی، آج ڈیفنس کلفٹن کا کتاب فروش بھی ایک دو نسخے ہی لیتا ہے۔ پہلے کتابوں کا ایک ایڈیشن ہی دو ہزار چَھپتا تھا اور اب فقط 500 یا 300 ہی چَھپ کر رہ جاتی ہے، جب کہ پہلے بری سے بری کتاب بھی ہزار تک بک ہی جاتی تھی۔ دوہزار نسخے تو صرف رضیہ بٹ کے کراچی کے لیے آتے تھے، کرفیو میں بھی ہم ایک کتاب کے ہزار، ہزار نسخے ختم کرلیتے تھے، اب500 نسخے بک جانا ہی بڑی بات ہوتی ہے، البتہ جو ناول ’ڈراماٹائز‘ ہو جائے، وہ بہت فروخت ہوتا ہے، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناولوں کی بہت مانگ ہے۔

فرید حسین کا خیال ہے کہ ’انٹرنیٹ کا مواد غیر معتبر ہوتا ہے، مطبوعہ کتاب رہتی دنیا تک رہے گی‘ ہم نے کہا جب معتبر مصنفین انٹرنیٹ پر ہی لکھنا شروع کر دیں، تب تو وہ معتبر ہو جائے گا؟ وہ بولے کہ مطبوعہ کتاب کے بغیر کوئی منصف نہیں کہلا سکتا، گورے ہم سے 150 سال آگے ہیں، وہاں آج بھی کتابوں کے لاکھوں کے ایڈیشن چھپ رہے ہیں۔

ہم نے کہا جب ایک ضخیم کتاب کا نسخہ موبائل میں سما جائے، تو پھر تو موبائل میں پڑھنا ہی سہل ہوگا؟ وہ بولے کہ ’یہ ٹھیک ہے، لیکن موبائل کا زیادہ استعمال ہمارے جسم پر کس قدر مضر اثرات کا باعث ہے، اس کا ہمیں ابھی ٹھیک سے اندازہ نہیں ہے۔‘

عام ناشرین کی جانب سے مصنفین کے استحصال کی تائید کرتے ہوئے فرید حسین کہتے ہیں کہ کتاب چلنے والی ہو تو معاوضہ لکھاری کا حق بنتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ اگر کسی کی پہلی تصنیف ہو تو پہلے سے کتاب کے چلنے نہ چلنے کا تعین کیسے کریں گے؟ کہتے ہیں کہ مشاعروں یا رسائل وجرائد میں مقبولیت سے پتا چل جاتا ہے۔ مجھ سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔ میں نے منظر بھوپالی کو  10فی صد رائلٹی دی، تو وہ حیران رہ گئے، بولے کہ پچھلے ناشر نے تو 25 کتابیں تک نہ دی تھیں۔ دیگر ناشرین اور خود میں فرق کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ جرأت مندی کا فرق ہے۔

کتابوں کی صنعت کے مسائل کا ذکر ہوا تو  فرید حسین بولے کہ معیشت کی زبوں حالی میں حکومت سے کیا شکایت کی جائے، یہاں ہر کتاب کے تین نسخے اکادمی ادبیات میں جمع کرانے کا قانون تو ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت کسی کتاب کے ہزار پانچ سو نسخے ہی خرید لے۔ پہلے لندن اور کینیڈا وغیرہ سے لوگ آکر کتابیں بھر بھر کر لے جاتے تھے، لیکن اب کتابوں کی قیمت سے چار گنا زیادہ تو کرایہ لگ جاتا ہے، اس لیے بس ایک، ایک دو دو کتابیں ہی لے پاتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال اور عشرت العباد کبھی ’کتب میلے‘ میں نہیں آئے!

سید فرید حسین بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ جناح کالج کے پرنسپل کو کہتے سنا کہ کہ کیا ظلم ہے، اتنی مہنگی، 150 روپے  کی کتاب۔ میں نے اجازت لے کر ان سے عرض کیا کہ جوتے کی دکان پر تو نو سو 99 کے پورے ہزار روپے دے کر نکل آتے ہیں، یہاں ہم آپ کو بغیر کہے رعایت بھی دیں گے، لیکن آپ اسے ظلم کہہ رہے ہیں۔‘ ہم نے کہا محض کتابوں پر رعایت دینے سے تو کتاب کو فروغ نہیں دیا جا سکتا، اصل کام تو پڑھنے کی عادت پروان چڑھانا ہے، جس کے لیے ناشرین کو اخبارات کے ساتھ مل کر ایسے پروگرام ترتیب دینا چاہئیں، جس سے مطبوعہ مواد پڑھنے کی طرف رغبت ہو؟‘

اس پر فرید حسین والدین کو قصور وار ٹھیراتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں گذشتہ 33 برس سے کراچی میں سالانہ کتب میلہ لگا رہا ہوں، یہ میرا جنون ہے، اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں بڑے بڑے شعرا ادیبوں کے علاوہ شیوخ الجامعہ اور سیاسی لوگوں کو بھی اسی لیے مدعو کرتا ہوں کہ لوگ کسی نہ کسی نسبت سے وہاں کا رخ کریں اور جب آئیں گے تو پھر کتابیں بھی لیں گے۔ جون ایلیا دو بار ہمارے میلے میں آئے، قائم علی شاہ، رؤف صدیقی، راشد ربانی، وقار مہدی اور شہلا رضا وغیرہ بھی آتے رہے، سخت اختلاف کے باوجود جماعت اسلامی کے ڈاکٹر پرویز محمود کو بھی بلایا ہے۔

فرید حسین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں کتب میلے میں نثار کھوڑو آئے، تو انہوں نے لاڑکانہ میں ’کتب میلہ‘ لگانے کی دعوت دی، کچھ عرصے بعد ان کی حکومت آگئی، اتفاق سے ہمارے میلے کی عمارت کی بالائی منزل پر ان کا راشن کی تقسیم کا پروگرام تھا، وہ مجھ سے بولے کہ ’’کیوں لگاتا ہے یہ۔۔۔؟‘‘ میں نے انہیں اُن کا یہاں آنا یاد دلایا تو پھر ان کے تیور ٹھیک ہوگئے۔

ہم نے گفتگو میں یوں ہی لقمہ دینے کو سابق گورنر سندھ عشرت العباد اور سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال کی آمد کا کہہ دیا، لیکن ہم یہ سن کر حیران رہ گئے کہ یہ دونوں اصحاب ایک مرتبہ بھی اُن کے ’کتب میلے‘ میں شریک نہ ہوئے۔۔۔! فرید حسین کہتے ہیں کہ عشرت العباد کو بلایا، لیکن انہیں شوق ہی نہ تھا۔

’کیا مصطفیٰ کمال ایک مرتبہ بھی نہ آئے؟‘ فرید حسین تو ان کی شہری حکومت میں کونسلر رہے، اس لیے ہم نے بار بار یہ سوال دُہرایا، لیکن فرید حسین کی تردید ہمیں حیران کیے گئی۔

دکان پر ٹھیرانے پر اشتیاق احمد خفا ہوگئے!

سید فرید حسین بتاتے ہیں کہ ’جب شیخ غلام علی اینڈ سنز نے اشتیاق احمد کے ناول چھاپنا شروع کیے، تو وہ ’کراچی بک ہاؤس‘ میں ملازم تھے، جس کے ذمے اس کی تقسیم آئی۔ کہتے ہیں کہ میں نے ناول پڑھے تو بہت متاثر ہوا، پھر ہر کتب فروش کو تاکیداً دی کہ یہ لے کر جاؤ اور بچوں کو ایک بارضرور دینا۔ یہ 1978ء 1979ء کی بات ہے، جس کے کچھ دن بعد اشتیاق احمد کراچی میں بے پناہ مقبول ہوئے۔‘

’’یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں اشتیاق احمد کا فروغ آپ کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے؟‘‘ ہم نے براہ راست ان کے دعوے کی تصدیق چاہی، تو بولے الحمدللہ، اس پر مجھے فخر ہے کہ ہمارے پاس سے 10، 10 ہزار نسخوں تک کی پیشگی بکنگ ہوتی تھی، ایک ہی دن میں ذخیرہ ختم ہو جاتا تھا۔ اشتیاق احمد کے کراچی آنے کا پروگرام ہوا۔ ہم کراچی میں ان کے تقسیم کار تھے، انہیں ہمارے پاس آنا تھا، ہم انتظار کرتے رہے، پتا چلا کہ ان کا کوئی قاری انہیں ’کینٹ اسٹیشن‘ سے ہی گاڑی میں اپنے ساتھ لے گیا، بعد میں ہمارے پاس پھر وہ اسی گاڑی میں آئے، ہم نے انہیں دکان پر بٹھایا۔ ہماری چھوٹی سی دکان میں اے سی نہیں تھا، سخت گرمی تھی، انہیں یہ امر ناگوار گزرا، پھر وہ ایسے ناراض ہوئے کہ اپنی کتب کی تقسیم ہم سے لے کر اخبار مارکیٹ میں کسی کو دے دی۔ اب اخبار فروش کتابوں کا معاملہ کیا جانیں، لہٰذا منفی اثر پڑا۔

ڈراموں میں اداکاری سے بلدیہ عظمیٰ کے چیئرمین تک

کتابوں کے درمیان ہوش سنبھالنے والے سید فرید حسین  ادبی تنظیم ’بزم فروغ ادب وفن‘ کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی ہیں، ان کی دکان پر مختلف شعرا اور ادیبوں کی بیٹھک رہتی تھی، جو کرفیو میں بھی جاری رہتی، وہ 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، چار بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں، کرکٹ کے بہت شوقین رہے، عمران خان من پسند تھے، فوج  میں جانے کی خواہش بھی رہی، اچھی صورت اور متناسب قد کاٹھ کے سبب 1980ء کے دہائی کے اوائل میں ’پی ٹی وی‘ کے ڈراموں میں کچھ چھوٹے کردار بھی ادا کرنے کا موقع ملا۔ 2005ء کی شہری حکومت میں پہلی بار ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے کونسلر بنے، اِن دنوں بھی بلدیہ عظمیٰ میں ’ایم کیو ایم‘ کے منتخب یو سی چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ اسی ذمہ داری کے سبب 2015ء سے اپنی دکان سے غافل ہوں، چند ماہ میں یہ ذمہ داری ختم ہوگی، تو پھر توجہ دوں گا۔  میں نے کتابوں کی اشاعت میں بہت روپیا صرف کیا، میرے بھائی بھی میرے ساتھ رہے، لیکن اس شعبے کی کم آمدن کے سبب چھوڑ گئے، ایک چھوٹا بھائی شان مختلف ٹی وی اشتہارات میں کام کرتے رہتے ہیں۔

’’میری 200 کتاب ’نائن زیرو‘ بھیج دیجیے گا!‘‘

سید فرید حسین نے بتایا کہ ایک مرتبہ رینجرز کے کوئی میجر میرا نام پوچھتے ہوئے دکان پر آئے اور کہا کہ وہ مجھ سے اپنی کتاب چھپوانا چاہتے ہیں، میں نے مسودہ دیکھا، یہ کمپیوٹر سیکھنے کے حوالے سے ایک کتاب تھی، انہوں نے اس کا حساب کتاب بتا دیا، کتاب چھپ گئی، جب لینے آئے تو اس کے 200 نسخے مجھے دے کر بولے کہ یہ ’نائن زیرو‘ پر دے دیجیے گا۔ میں حیران رہ گیا کہ انہیں میری ’ایم کیو ایم‘ سے قربت کی خبر کیسے ہوگئی، حالاں کہ تب تک میں نے ان کی کوئی کتاب بھی شایع نہیں کی تھی۔

کراچی کے سارے بڑے دماغ مار دیے گئے۔۔۔!

ہم نے عام ذرایع اِبلاغ میں پابند نام کی کتب کی دکان پر موجودگی اور اشاعت پر سوال کیا، تو بولے کہ پڑھنے پر کوئی قانون نہیں روکتا۔ میں نے کبھی غلط کام نہیں کیا، اس لیے کبھی نہیں ڈرا، کتاب تو علم ہے۔ 22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال میں جو کچھ ہوا، کیا صحیح  اور کیا غلط، یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ نئے لوگ آئیں، مغرب میں بھی لوگ 60 سال کی عمر کے بعد آرام کرتے ہیں۔ ہم نے فرید حسین کی ’ایم کیو ایم‘ سے تعلق کو کریدا، تو وہ بولے کہ میں کبھی کارکن نہیں رہا، ’ایم کیو  ایم‘ پنجاب کے رکن افتخار رندھاوا کی  کتاب ’ریاستی دہشت گردی‘  کی کراچی میں اشاعت سے اس قربت کا آغاز ہوا، پھر ’ایم کیو ایم‘ کے مشاعروں کے لیے میری مدد لی گئی، پرویز مشرف کے دور میں ’نائن زیرو‘ میں تین لائبریریاں بنوائیں، ہزاروں کتابیں میں نے اور دیگر ناشرین نے بھی دیں۔ آج ان کا کیا حال ہے؟

’’ہم نے پوچھا کہ اُن کتابوں کی ادائی بھی ہوئی یا۔۔۔؟‘‘

عام قارئین کی طرح ہمارے ذہن میں بھی فوراً یہی سوال آیا تھا۔ ہم نے کہا تاثر تو یہ ہے نا کہ کتابیں ’نائن زیرو‘ جا رہی ہیں تو اس کے پیسے ملے بھی ہوں گے یا نہیں؟ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فوراً ہوئی، کہتے ہیں کہ ’پی ٹی وی‘ کی ’خبر خواں‘ نسرین پرویز کی ایک کتاب ’سلمیٰ کامقدمہ‘ میں بے نظیر پر تنقید تھی، وہ بھی چھاپی۔ مشہور کتاب ’پارلیمنٹ سے بازار حُسن تک‘ تقسیم کی، جس میں الطاف حسین کے خلاف بھی لکھا گیا ہے، مجھے تو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کتاب میں اگر کچھ غلط ہے تو اس کا ذمہ دار لکھنے والا ہے۔ الطاف حسین کے لیکچر بھی چھاپے اور پھر ان پر ایک کتاب ’سفر زندگی‘ بھی شایع کی، اس کے 10 ایڈیشن چھپ چکے تھے، لیکن بے شمار غلطیاں تھیں، وہاں کسی نے ٹھیک نہ کرائیں۔ میں نے تصحیح کرا کے 10 ہزار چھاپی، جس کی ادائی ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی نے ڈر کے مارے غلطیاں ہی نہ بتائی ہوں۔۔۔!‘ فرید حسین کہتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم‘ میں بھی لوگ تشدد میں ملوث ہوئے ہوں گے، لیکن کراچی کے سارے بڑے دماغ ’ایم کیو ایم‘ کی آڑ میں مار دیے گئے! میں اگر خود  نوشت لکھوں تو یہ بے شمار واقعات سے پُر ہوگی۔

The post مجھے ناشرین نے دھمکایا کہ ’کتابیں بیچنے سے تعلق رکھو، چھاپنے سے نہیں‘ سید فرید حسین appeared first on ایکسپریس اردو.

خیبر پختونخوا حکومت جے یوآئی کا مارچ ناکا م بنا سکے گی؟

$
0
0

پشاور: نہ، نہ کرتے اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ آزادی مارچ کے حوالے سے آن ملی ہیں تاہم ان کی آمد علامتی طور پر ہی ہوگی۔

مذکورہ اپوزیشن پارٹیاں جن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی پارٹیاں بھی شامل ہیں، ان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں شمولیت حاضری لگانے کے مترادف ہوگی اور اس حوالے سے سارا بوجھ مولانا اور ان کے پارٹی کارکنوں پر ہی ہوگا جس کے لیے وہ تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، اب تک یہ مخفی تھا کہ مولانا فضل الرحمن کس مقام سے خود جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی راہ لیں گے،کچھ لوگوں کا خیال تھا وہ پشاور یا ڈی آئی خان سے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف جائیں گے مگر انہوں نے الگ مقام کا انتخاب کیا، وہ سکھر سے جلوس کی قیادت کریں گے، وہ اس مقصد کے لیے کوئٹہ یا کراچی کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔

تاہم اس سے پنجاب پہنچتے، پہنچتے تاخیر ہو جاتی جبکہ سکھر پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے اس لیے وہ سکھر سے روانہ ہوں گے اور اگلے مرحلے میں وہ رحیم یار خان سے پنجاب میں داخل ہو جائیں گے جس کے بعد سارا میدان پنجاب ہی میں لگے گا کیونکہ پنجاب میں داخل ہوتے ہی ان کے راستے میں رکاوٹیں آنی شروع ہو جائیں گی، وزیراعظم عمران خان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سے ایک سے زائد ملاقاتیں کر چکے ہیں اور ان ملاقاتوں کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دونوں صوبائی حکومتیں ایسی پالیسی اور حکمت عملی اپنائیں کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھ آزادی مارچ کے نام پر چلنے والے پارٹی کارکن اسلام آباد نہ پہنچ سکیں، اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تو کھل کر سامنے نہیں آرہے کہ انہوں نے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی کابینہ کے ارکان بار، بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہر صورت آزادی مارچ کی راہ روکیں گے اور کسی بھی طور مارچ کو اسلام آباد نہیں پہنچنے دیں گے۔

یہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کے اسی اعلان کا ہی اثر ہے کہ جے یوآئی کے کارکن مٹہ سوات میں ان کے گھر کے باہر مجمع لگانے پہنچ گئے جس کا مقصد انھیں یہ پیغام دینا تھا کہ اگر ان کی راہ روکی گئی تو پھر وہ بھی دوسروں کی راہ روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم اصل صورت حال آنے والے دنوں میں ہی معلوم پڑے گی کہ مرکزی اور پنجاب وخیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں کیا حکمت عملی اپنانے جا رہی ہیں۔

البتہ اس وقت تک مرکزی و صوبائی حکومتیں جو حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں وہ اشتعال انگیز ہے کیونکہ ایک جانب تو وزیراعظم خود اور پھر ان کی پارٹی کے ساتھی مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے بھی خواہاں ہیں جس کے لیے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں یقینی طور پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی جیسے سنجیدہ لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ساتھ ہی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا تڑکہ بھی لگایا گیا ہے تاکہ معاملات کو سنبھالاجا سکے۔

تاہم ساتھ ہی دوسری جانب خود وزیراعظم اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے جن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اس کا سیدھا سادھا مطلب ’’آؤ جنگ کریں‘‘ہی بنتا ہے اور چونکہ وزیراعظم جو اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں، جب ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں تو ان کی پارٹی کے دیگر ارکان کی جانب سے نہ صرف یہ کہ ان الفاظ کا اعادہ کیاجاتا ہے بلکہ ساتھ ہی وزیراعظم سے ایک، دو نہیں بلکہ دس قدم آگے جا کر ایسے الفاظ اور جملوں کا استعمال کیا جا رہا ہے کہ اس کے بعد تو لگتا نہیں کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے یہ کام رہبر کمیٹی پر چھوڑ دیا ہے۔

جس میں دیگر پارٹیوں کے نمائندے بھی شامل ہیں،کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر یہ مذاکرات ہوں بھی تو کس بات پر ہونگے اور کامیابی کیسے ہو پائے گی ؟کیونکہ مولانا فضل الرحمن تو وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ دونوں مطالبات تسلیم کرنا نہ تو وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کے بس کی بات ہے اور نہ ہی وہ انھیں تسلیم کر سکتے ہیں۔یہ دونوں مطالبات تو ایسے ہیں کہ جن کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ہی کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو کر سکتی ہے تاہم اسٹیبلشمنٹ نے فی الوقت چپ سادھ رکھی ہے اور وہ یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟

The post خیبر پختونخوا حکومت جے یوآئی کا مارچ ناکا م بنا سکے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

قوم پرست جماعتوں کی طرف سے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان

$
0
0

کوئٹہ: اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام (ف) نے اس مارچ میں شرکت کیلئے عوامی مہم کا آغاز کر رکھا ہے اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع اور انکی ٹیم اس حوالے سے صوبے کے مختلف علاقوں میں اجتماعات کا انعقاد کرکے عوام کو موبلائز کررہی ہے۔

اس کے علاوہ وہ مختلف قوم پرست اور سیاسی جماعتوں سے رابطے بھی کر رہے ہیں جس میں وہ اس آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے بھی اس آزادی مارچ کی حمایت کردی ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پشین میں ایک بڑے جلسہ عام میں اس آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جماعت کے ورکرز کو اسلام آباد دھرنے میں شریک ہونے کی ہدایت بھی کی ہے۔

جمعیت علماء اسلام(ف) کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے پی کے اکرم درانی نے اپنی جماعت کی قیادت کی ہدایت پر کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی سے ملاقات کرکے اس حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں جس میں اس آزادی مارچ کے حوالے سے حکمت عملی طے کی گئی ہے اسی طرح نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو اور جمعیت کی قیادت کے درمیان بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور نیشنل پارٹی نے بھی آزادی مارچ کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔بلوچستان سے دیگر جماعتوں سے بھی اس آزادی مارچ میں شرکت اور حمایت حاصل کرنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کی مرکزی و صوبائی قیادت رابطوں میں مصروف ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں برسراقتدار جماعت اور تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیر داخلہ میر ضیاء اﷲ لانگو نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران آزادی مارچ کے قافلوں کو نہ روکنے کا اعلان کرکے سیاسی جماعتوں کو حیرانگی میں ڈال دیا ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے آزادی مارچ کو ہر صورت روکنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ بلوچستان جہاں مخلوط حکومت ہے اور تحریک انصاف اس کی ایک بڑی اتحادی جماعت ہے یہاں کے وزیر داخلہ ضیاء اﷲ لانگو کا یہ کہنا ہے کہ احتجاج کرنا جمعیت کا جمہوری حق ہے جمعیت علماء اسلام (ف) ایک جمہوری سیاسی جماعت ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی اس احتجاج کوروکنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام (ف) ایک عوامی پاور رکھتی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان سے آزادی مارچ میں شرکت کیلئے ایک بڑی تعداد اسلام آباد کی طرف جائے گی جس کیلئے تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں اور جے یو آئی (ف) کی صوبائی قیادت بھی اس حوالے سے کافی متحرک نظر آرہی ہے۔ بلوچستان سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی جانب سے اس آزادی مارچ کی حمایت کے بعد اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی اور اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرے گی۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے آزادی مارچ کے قافلوں کو نہ روکنے کے اعلان کو بھی سیاسی حلقے ایک سیاسی فیصلے سے تعبیر کرتے ہوئے خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے ان ڈائریکٹ اس مارچ اور احتجاج کی حمایت کردی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں بھی سیاسی ماحول کروٹ لے رہا ہے جس کی نشاندہی عرصہ دراز سے کی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے حکومت پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) سے رابطے کئے ہیں اور اُسے حکومت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ جس کی بظاہر کوئی تصدیق نہیں کر رہا تھا لیکن آزادی مارچ کے حوالے سے جام حکومت اور ان کے وزیر داخلہ کی جانب سے نرم رویئے نے در پردہ رابطوں کی تصدیق کردی ہے۔

The post قوم پرست جماعتوں کی طرف سے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.

پی پی کا سیاسی جلسہ، بلاول کی وفاقی حکومت پر شدید تنقید

$
0
0

کراچی: وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے دورہ کراچی میں شہریوں کو مسائل کے حل کی نوید سنائی ہے۔

وزیراعظم سے جہاں ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی نے ملاقات کی وہیں وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے وفود بھی ملاقات کے لیے آئے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہر قائد کے مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

کراچی کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن عوامی فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاق اپنے وسائل کے مطابق شہرکے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان پر تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھے اور پارٹی دفاترکی واپسی، لاپتہ کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا ہے۔

اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر اس حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی ان مسائل پر وزیراعظم سے بات ہوئی ہے ۔ ہم نے وزیراعظم سے حیدرآباد یونیورسٹی کے افتتاح اور کیسز ختم کروانے کی بات کی ہے۔

جن مسائل کی نشاندہی کی تھی ان کے حل کی رفتار کم ہے۔ جی ڈی اے کے وفد نے بھی اپنے حلقوں میں درپیش مسائل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے۔ ادھر سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وزیراعظم عمران خان کے دورے کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ماضی میں جب کبھی وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا وہ گئے مگر اب وزیراعظم اپنے سندھ کے دوروں اور اجلاس میں وزیراعلی سندھ کو مدعو نہیں کرتے ہیں۔ جب بھی وزیراعظم بلائیں گے وزیراعلیٰ سندھ ضرور جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے اس شکوے پر تحریک انصاف کی جانب سے عجیب منطق سامنے آئی ہے۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ اگر مراد علی شاہ کو بلایا اور وہ نہیں آئے تواس سے وزیراعظم کی بے عزتی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کو اگر وزیراعظم سے ملنا ہے تواس کے لیے خط لکھیں۔ سیاسی مبصرین نے فردوس شمیم نقوی کے اس بیان کو انتہائی غیر سنجیدہ قرار دیا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کا شکوہ بجا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو مدعو کرنا چاہیے تھا ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نہیں چاہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ سیاسی اختلافات کو ایک جانب سے رکھ کر بات کی جائے تو وفاق کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وزیراعظم کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو نظر انداز نہ کریں ۔ بہر حال مجموعی طور پر وزیراعظم نے اپنے اس دورے میں بھی وہی باتیں کی ہیں، جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نظر نہیںآتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وفاق کے جاری منصوبوں کے حوالے سے حکومت سندھ کو بھی اعتماد میں لیں اور ان کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔

سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں 18اکتوبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مزار قائد اعظم کے سامنے ایک بڑا جلسہ عام منعقدکیا گیا، جس سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پارٹی کے مرکزی قائدین نے خطاب کیا۔ حاضری کے لحاظ سے ا س جلسے کو پیپلزپارٹی کا کامیاب شو قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ سانحہ 18 اکتوبر کی تلخ یادیںآج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ سانحہ 18 اکتوبر کے شہدا کو ہم بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگوں نے خان کو گھر بھیجنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی خان کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ عمران خان کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں ۔ کراچی کا حصہ وفاق سے چھین کر رہوں گا۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی نے اس جلسے میں حکومت کے خلا ف طبل جنگ بجا دیا ہے۔

انہیں بخوبی علم ہے کہ ان کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی اور مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک میں پیپلزپارٹی کا کیا کردار ہوگا۔غالب امکان ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی جلسے میں خود شریک نہیں ہوں گے بلکہ ان کی نمائندگی دیگر پارٹی رہنما کریں گے۔کراچی کی سیاست کے حوالے سے بھی اس جلسے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری نے خود کو کراچی کا بیٹا قرار دیتے ہوئے اس کا حق چھین کر لینے کی بات کی ہے اسے شہریوں کی جانب سے ستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اب یہ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کا کام ہے کہ وہ پارٹی چیئرمین کے وژن پر عمل کرتے ہوئے کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل عوامی رابطہ مہم میں تیزی لائیں۔

The post پی پی کا سیاسی جلسہ، بلاول کی وفاقی حکومت پر شدید تنقید appeared first on ایکسپریس اردو.

حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی؟

$
0
0

 اسلام آباد: ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں داخلی و خارجی سطح پر صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے۔

جس سے سیاسی و اقتصادی بے یقینی بڑھتی چلی جا رہی ہے جوکسی طور پر بھی معیشت کے حق میں بہتر نہیں ہے اسے چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق حکومت کی ناتجربہ کاری کہیں یا انتخابی بیانیہ کی مجبوری کہ جب سے اقتدار میں آئی ہے کہ اس وقت سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مسلسل محاذ آرائی سے دوچار ہے اور تو اور خود پارٹی کے اندر بھی محاذ آرائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی حکومت اور مخالفین ایک دوسرے پر خوب تنقید کر رہے ہیں۔ مگر اس سارے کھیل میں نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے کیونکہ ملک کو جن سیاسی، معاشی، دفاعی و خارجی چیلنجز کا سامنا ہے وہ انتشار، افراتفری،عدم استحکام کی بجائے قومی یکجہتی، استحکام اور امن و امان کا تقاضا کرتے ہیں مگر جو ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے اس سے آنے والے دنوں میں معاملات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ابھی پاکستان کو چین، ترکی، ملائیشیا سمیت دیگر دوست ممالک کی حمایت سے فیٹف میں کچھ عارضی ریلیف ملا ہے اور ازلی دشمن بھارت کی تمام تر کوششوں اورلابنگ کے باوجود پاکستان فیٹف میں بلیک لسٹ ہونے سے بچ ضرورگیا ہے مگر بلیک لسٹ کی تلوار ابھی بھی سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ فیٹف نے پاکستان کو فروری 2020 تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح پاکستان کو 27 میں سے باقی 22 شرائط کو پورا کرنے کیلئے مزید 123دن مل گئے ہیں اور پاکستان کو مستقل طور پر فیٹف بلیک لسٹ سے بچنے اور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے فروری 2020 تک فیٹف کی باقی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

دوسری طرف اٹھائیس اکتوبر سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ مشن پہلے اقتصادی جائزہ کیلئے پاکستان آرہا ہے جس میں اگلی قسط لینے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہو گا اور جو شرائط پوری نہیں ہو سکیں ان پر استثنٰی لینا ہوگا، اس جائزہ مشن کی پاکستان آمد سے پہلے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اپنی ٹیم کے ہمراہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے بعد اگلے چند روز میں پاکستان واپس پہنچنے والے ہیں مگر واشنگٹن میں ان اجلاسوں کے موقع پر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سربراہان سمیت دیگر اہم شخصیات سے سائیڈ لائن ملاقاتیں کی ہیں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بڑی کمپنیوں کے اہم حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور ان کے ہمراہ پاکستانی وفد نے واشنگٹن کے دورے کے دوران عالمی بنک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہان سے علیحدہ ملاقاتیں کیں اور انہیں پاکستانی معیشت میں استحکام اور ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کی کوششوں اور بالخصوص موجودہ مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں معاشی اشاریوں میں ہونے والی نمایاں بہتری سے آگاہ کیا ہے۔

ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پاکستانی وفد کے ہمراہ عالمی بنک کے منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وان ٹراٹسن برگ اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران نئے ایم ڈی کو ان کی تعیناتی پر مبارکباد دی اور عالمی بنک کی جانب سے پاکستان کو فراہم کردہ امداد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مشیر خزانہ نے ملاقات کے دوران پاکستان میں عالمی بنک کے منصوبوں کی تکمیل کی رفتار کو بہتر بنانے اور اس ضمن میں کیے گئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا اور جواب میںعالمی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وان ٹراٹسن برگ نے مشیر خزانہ کو بتایا کہ پاکستان عالمی بنک کے بڑے تین شراکت داروں میں سے ایک ہونے کے علاوہ انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن ورلڈ بنک کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے بھی بڑے پیمانے پر استفادہ کر رہا ہے۔

ایکسل وان ٹراٹسن برگ نے کہا کہ پاکستان کو عالمی بنک کے دستیاب وسائل کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری اہم ملاقات انٹر نشینل مانٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جارجیوا اور دیگر اعلیٰ حکام سے ہوئی ہے جس میں ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے نئی ایم ڈی کو ان کی تعیناتی پر مبارکباد دی اور انہیں پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ پر ابتک ہونے والی پیش رفت سے آگا ہ کیا۔ ان ملاقاتوں کی جو سرکاری سطح پر تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ تو بہت حوصلہ افزاء ہیں اور آئی ایم ایف و عالمی بینک کے سربراہان نے بھی پاکستانی معیشت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے آزادی کے مارچ سے جو سیاسی حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اس سے سیاسی عدم استحکام اور بے یقننی بڑھے گی کیونکہ جوں جوں آزادی مارچ کی تاریخ قریب آرہی ہے ماحول تلخ ہوتا جا رہا ہے اور اسلام آباد میں اعلان کردہ آزادی مارچ اور دھرنے سے قبل ہی جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنماؤں کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے ہیں جب کہ کچھ کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

سکیورٹی اداروں کے خلاف تقریر پر مولانا فضل الرحمان کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کو نظر بند کرنے کے فیصلے کی بھی اطلاعات ہیں اوراعلیٰ سطح اجلاس میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع بتا رہے ہیں کہ فضل الرحمان کو اکتوبر کے آخری 4 روز ترجیحاً 26 اکتوبر کو گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ 25 اکتوبر کو جمعہ ہوگا اور حکومت جمعتہ المبارک سے قبل مولانا کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنماوں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کیلئے نظربند کیا جا سکتا ہے جبکہ جماعت کے سرگرم کارکنوں کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتار کیا جا سکتا ہے جبکہ انصار الاسلام پر پابندی کی سمری حتمی منظوری کیلئے وزیر اعظم کو بھجوا دی گئی ہے اور ممکنہ طور پر 26 اکتوبر کو انصار الاسلام پر پابندی لگادی جائے گی جبکہ حکومت کے پاس امن برقرار رکھنے کیلئے سوائے تمام وسائل، اختیارات اور آپشنز استعمال کرنے کے کوئی اور آپشن نہیں رہ جاتا ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ کیا حکومت آزادی مارچ کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو پائے گی اور اگر حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو کوئی بڑا حادثہ بھی جنم لے سکتا ہے جس سے جمہوری نظام کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

The post حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پی ٹی آئی کی نئی تنظیم سازی حکومت کیلئے معاون ہو سکتی ہے

$
0
0

 لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے آئین میں ترامیم کے بعد نئی تنظیم سازی کے نوٹیفیکیشن جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں اور آئندہ ماہ کے وسط تک ضلعی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آجائے گا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ متعدد اہم رہنماوں کی تنظیمی عہدوں کے حصول کیلئے عدم دلچسپی دکھائی دی ہے اور بہت زیادہ جوڑ توڑ یا لابنگ دکھائی نہیں دی ہے۔ تنظیم سازی میں غیر معمولی جوش و خروش نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد جب تنظیمیں بنائی گئی تھیں تو ماسوائے صوبائی صدور اور جنرل سیکرٹریز کے دیگر عہدیداروں کو حکومتی وزراء اور عہدیداروں کی جانب سے ’’نو لفٹ‘‘ کا سامنا رہا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے حوالے سے متعدد مرتبہ کوشش کر چکے ہیں اور ہر مرتبہ انہیں اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول میں زیادہ تر ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ مینار پاکستان جلسے کے بعد جب تحریک انصاف نے ’’ٹیک آف‘‘ کیا اور پارٹی میں نئے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہونے لگے تب پارٹی میں تنظیمی عہدوں کی جنگ چھڑ گئی۔ نئے لوگوں نے ’’یونیٹی‘‘ اور پرانے والوں نے’’نظریاتی‘‘ گروپ کے نام سے کام شروع کردیا۔

عمران خان نے پہلی مرتبہ پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی تو ملک بھر میں پارٹی میں لڑائیاں، ناراضگیاں پیدا ہو گئیں۔ ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچی جانے لگیں اور پارٹی متحد ہونے کی بجائے زیادہ تقسیم ہو گئی اور جب چند برس کے بعد کپتان نے ایک مرتبہ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا چاہا تو وہی سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور مرکزی رہنماوں کی جنگ زیادہ شدت اختیار کر گئی۔

جس کے بعد کپتان نے الیکشن ہی منسوخ کر دیا۔کبھی صوبائی تنظیم نامزد کی جاتی رہی اور کبھی ریجن بنائے جاتے رہے اورکبھی آرگنائزر لگائے جاتے رہے۔ حکومت قائم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے نئے آئین کے تحت صوبائی تنظیمیں بنا دی گئی اور ان پر عہدیداروں کی تقرری بھی کردی گئی لیکن پھر اندورنی اختلافات کی وجہ سے صوبائی تنظیمیں تحلیل کردی گئیں اور اب پارٹی آئین میں ترمیم کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ریجنل تنظیمیں تشکیل دے دی گئیں۔ پنجاب میں ریجنز کی تعداد 4 سے کم کر کے 3 کردی گئی ہے اور اعجاز چوہدری بعض حلقوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود سنٹرل پنجاب ریجن کے صدر کا عہدہ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق چوہدری محمد اشفاق کو مرکزی نائب صدر، رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب کو مرکزی ایڈشنل سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے جبکہ اعجاز احمد چوہدری مرکزی پنجاب ریجن میں بطور صدر قیادت کریں گے۔ شمالی پنجاب ریجن کے صدر کی ذمہ داریاں رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی جبکہ جنوبی پنجاب ریجن کی صدارت نور بھابھا کے سپرد کی گئی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اہم ترین اور نہایت فعال رہنما محمد شعیب صدیقی مرکزی پنجاب کے جنرل سیکرٹری تعینات ہو گئے ہیں جو کہ ان کی خدمات کا پارٹی قیادت کی جانب سے خوبصورت اعتراف ہے۔ شمالی پنجاب میں جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں ڈاکٹر حسن مسعود ملک کے سپرد کی گئی ہیں۔عثمان سعید بسرا مرکزی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات جبکہ انجینئر افتخار احمد چوہدری شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔

علی امتیاز وڑائچ سینئر نائب صدر مرکزی پنجاب کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ شمالی پنجاب میں سینئر نائب صدر کا عہدہ انجینئر عطا ء اللہ خان شادی خیل سنبھالیں گے۔ میجر غلام سرور اور شبیر سیال مرکزی پنجاب کی گورننگ باڈی میں بطور نائب صدور نامزد ہوئے ہیں جبکہ بریگیڈئیر ممتاز کاہلوں اور یاسر بلوچ شمالی پنجاب کے لئے بطور نائب صدور نامزد کئے گئے ہیں۔

ندیم افضل بنٹی شمالی پنجاب جبکہ ندیم قادر بھنڈر مرکزی پنجاب میں ایڈیشنل جنرل سیکرٹری کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔ رانا ندیم احمد، ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور شکیل احمد خان نیازی مرکزی پنجاب میں بالترتیب ڈپٹی جنرل سیکرٹری لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ ڈویژن اور ساہیوال ڈویژن ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

شمالی پنجاب کے لئے محمد عارف عباسی، جاوید نیاز منجھ اور چوہدری ممتاز کاہلوں بالترتیب راولپنڈی، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے لئے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں جبکہ رفعت زیدی شمالی پنجاب جبکہ حافظ عبیداللہ مرکزی پنجاب کے سیکرٹری مالیات کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔

اعجاز چوہدری اور نور بھابھا کی پارٹی کیلئے خدمات کے سب معترف ہیں، اسی طرح صداقت عباسی نے بھی پارٹی کیلئے بہت محنت کی ہے۔ تنظیم سازی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنا مفید ہوگا کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ ابھی تو ضلع کی سطح پر تنظیم سازی میں کافی مشکلات کا خدشہ ہے کیونکہ ایک ایک ضلع میں کئی کئی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔

تنظیم سازی کا عملی فائدہ تحریک انصاف کو اسی وقت ہوگا جب پارٹی عہدیداروں کو حکومت عزت اور توجہ دے گی۔ پارٹی عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز کو صوبائی وزراء کی جانب سے مکمل تعاون فراہم ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت عوامی سطح پر جس شدت کے ساتھ تحریک انصاف کو تنقید اور احتجاج کا سامنا ہے۔

اس کا سامنا کرنا اور عوامی رائے کو تبدیل کرنا انہی گراس روٹ لیول تک موجود رہنماوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بلدیاتی الیکشن مستقل قریب میں تو ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں لیکن بلدیاتی الیکشن کی تیاری کیلئے تحریک انصاف کی تنظیمیں کلیدی کردار نبھا سکتی ہیں کیونکہ جب پرائمری سطح کی تنظیم فعال ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گلی محلہ کی سطح پر تحریک انصاف کی نمائندگی ووٹرز کی رائے سازی میں معاون ثابت ہو گی۔ سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی کو اب خواتین ونگ کی تشکیل کا مشکل مرحلہ بھی مکمل کر لینا چاہئے کیونکہ خواتین رہنماوں میں کافی تحفظات اور خدشات پھیل رہے ہیں۔

The post پی ٹی آئی کی نئی تنظیم سازی حکومت کیلئے معاون ہو سکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کیمرہ ٹریپ؛ نایاب جانوروں تک دسترس کا انمول طریقہ

$
0
0

برطانیہ کے شہزادے ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ مڈلٹن نے حال ہی میں اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں کا دورہ کیا جہاں وہ تیندوے کی نسل کی نگرانی کے غرض سے اسکول کے بچوں کے ساتھ ایک ‘کیمرا ٹریپ’ بھی نصب کیامگر یہ ’کیمرہ ٹریپ‘ کیا ہوتا ہے اور اس سے جنگلی حیات کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ماحولیاتی امور کے صحافی خان شہرام یوسفزئی کو پاکستان کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں میں پائے جانے والے برفانی تیندوے کی نسل پر نظر رکھنے کے لیے کیمرہ ٹریپ لگانے کا تجربہ ہے۔ یہ مضمون ان کے تجربات پر مبنی ہے۔

میری نظروں کے سامنے وہ ایک مسحور کردینے والا برفانی تیندوا تھا۔ اس کی موجودگی میں میں مبحوس ہو کر رہ گیا، جیسے اس کی سرخی مائل آنکھیں میرے بدن کو گھائل کررہی ہوں۔ اس کے کان چپٹے اور لب دم بستہ غراہٹ سے سکڑے ہوئے تھے۔ اس کانرم، لچکیلا جسم جیسے چٹان سے گلے مل رہا ہو اور وہ بڑی جست لگانے کے لیے اپنے بدن کو تیار کررہا ہو۔

یہ اتنا نایاب اور دلکش منظر تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے میں بھول گیا کہ میں بذات خود وہاں موجود نہیں تھا بلکہ میرے ہاتھ میں ’کیمرہ ٹریپ‘ سے لیا گیا عکس تھا۔ اس نایاب جانور کی جھلک کے لیے عموماً جنگلی حیات کی عکس بندی کرنے والے بھی پہلے سے نصب شدہ ‘کیمرہ ٹریپ’ کی فوٹیج پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ایسے ہی کسی تیندوے کی تلاش میں گلگت بلتستان کے ناہموار پہاڑوں میں ایک ہفتہ بسر کیا تھا۔

کیمرہ ٹریپ ہوتا کیا ہے؟

کیمرہ ٹریپ ایک ایسا کیمرا ہوتا ہیں جس کو پانی سے بچاؤ کے لیے سیاہ پلاسٹک کے ڈبے میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس ڈبے میں ایک عدد موشن سینسر، میموری کارڈ، دیر تک چلنے والی بیٹریاں اور سرد موسم سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے انسولیشن کی جاتی ہے. تحقیق کے خوگر آئی یو سی این پاکستان کے مینیجر سعید عباس اور دیگر سائنسدان ایسے خطرناک جانوروں پر تحقیق کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال کرتے ہیں۔

میں نے اپنے حالیہ سفر پر سعید عباس اور ان کی ٹیم کیساتھ گلگت بلتستان کے علاقے نگر میں ہوپر گلیشیر سے بھی آگے ،گہرے ارغوانی رنگ کی چٹانوں کے بیچ عمدہ فوٹیج کے حصول کے لیے بلند سطح پر ‘کیمرہ ٹریپ’ لگایا تھا۔یہاں ہوا کا گزر بہت تیز تھا اور ایسی ہی جگہوں پر برفانی تیندوے پہاڑی بکروں اور مارخور کے شکار کی گھات میں رہتے ہیں۔ عموماً یہ چھپ کر وار کرتے ہیں اور اپنے طاقتور جبڑوں سے چشم زدن میں شکار کا گلے گھونٹ دیتے ہیں۔

برفانی تیندوں کی گھٹتی تعداد

یہ بات تو یقینی طور پر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ علاقہ کتنے برفانی تیندوں کا مسکن ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت 4700 کے لگ بھگ برفانی تیندوے پائے جاتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی تعداد 400 سے کم رہ گئی ہے۔ ریوڑ کی حفاظت اور بچاؤ کی خاطریہاں بسنے والے گلہ بانوں کے ہاتھوں کئی تیندوے ہر سال مارے جاتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف ،این جی اوز، رینجرز اور متعدد قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ماہرین کی زیرنگرانی پہلی بار برفانی تیندوں کے صحیح اعدادو شمار کے لیے گنتی کی جارہی ہے۔ اس امر سے یہ امید بندھی ہے کہ ان کی تعداد کے حوالے سے درست معلومات میسر آئیں گی جس کی بدولت اس جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں گے جیسے دوسری جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیگر علاقوں میں کیے جاتے ہیں۔

کیمرہ ٹریپ سے معاونت کیسے ممکن ہے؟

سعید عباس نے کہا کیمرہ ٹریپ کی مدد سے تیندوں کی کھوج میں خاصی معاونت ملی ہے۔ ‘ ہم نہ صرف ان کے پیروں کے نشانوں سے ان کا کھوج لگا سکتے ہیں بلکہ ان تصاویر کے ذریعے بھی ان کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ ہم ایک ایک تیندوے کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور ان کے تقسیم شدہ علاقوں کی شناخت بھی عین ممکن ہے۔’

کیمرہ ٹریپ سے قبل سائنس دانوں کے پاس برفانی تیندوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے کا طریقہ ان جانوروں کے پنجوں کے نشان کی پیمائش پر مبنی تھا جس میں غلطی کا امکان بہرحال موجود تھا مگر’کیمرہ ٹریپ’ کے ذریعے ان کو انفرادی طور پر رنگت اور جسم پر موجود دھبوں کے نشانات کے توسط سے شناخت کیا جاسکتا ہے جو ہر تیندوے کی کھال پر مختلف انداز میں الگ الگ پائے جاتے ہیں۔

‘کیمرہ ٹریپ’ ان علاقوں میں کام کرنے والی تنظیموں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ سعید عباس نے بتایا کہ اب تک جتنے مقامات پر ‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کیا گیا ہے اس میں جنگلی حیات کے علاوہ ہمیشہ مختلف انواع کی چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ ‘کئی بار شکاریوں کی نقل و حرکت جاننے کے لیے کیمروں کو متحرک کیا جاتا ہے جو کئی تصاویر اتار لیتے ہیں۔ ایسے شکاری بیشتر برفانی تیندویاور دیگر جانوروں کے شکار کے لییان کا پیچھا کرتے ہیں جو انھیں محفوظ علاقوں میں لے جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں ساری نقل و حرکت ‘کیمرہ ٹریپ’ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ لیکن شکاریوں کی سرگرمیوں کا علم اکثر کئی ماہ کے بعد ہوتا ہے، جب کیمروں کو اتارا جاتا ہے اور ان سے تصاویر حاصل کی جاتی ہیں۔’

سعید کا کہنا تھا کہ ‘پہلے پہل تو میں نے ان تصاویر کو مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کے طور پر لیا مگر پھر مجھے ان کی سرگرمیاں مشکوک نظرآنے لگیں۔ ان تصاویر میں مقامی لوگوں کے ساتھ کچھ شکاری بھی تھے،جنھوں نے پیسوں کے عوض مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں۔’

سعید نے مزید بتایا کہ انھوں نے تمام تفصیلات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی لوگوں تک پہنچائیں جس کی وجہ سے ذمہ دارشخص کی نشاندہی ممکن ہوئی اور اس نے اعتراف کیا کہ شکاریوں کے ایک گروہ نے پہاڑوں میں رہنمائی کرنے کے لیے اسے پیشگی ادائیگی کی تھی۔

ٹرافی ہنٹنگ معاہدہ اور اس کی خلاف ورزی

قارئین کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ شمالی علاقہ جات کی تمام کمیونٹیزکے ساتھ ‘ٹرافی ہنٹنگ پروگرام’ کے تحت ایک معاہدہ ہے جس کی مدد سے مقامی افراد خطے میں مارخوروں اور پہاڑی بکروں کے لائسنس یافتہ شکار سے آمدنی کما سکتے ہیںمگر تیندوے کا شکار معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ اس معاہدے کے تحت مقامی افراد برفانی تیندوں اور دیگر جانوروں کے شکار نہ خود کر سکتے ہیں اور نہ ہی باہر سے آنے والیغیر قانونی طور پر شکار کرنے والے شکاریوں کو کسی بھی قسم کی معاونت فراہم کر سکتے ہیں اگر کمیونٹی اپنے عہد کو برقرار رکھتی ہے تو ان کو علاقے کو غیر قانونی شکار سے محفوظ بنانے پر سالانہ انعام سے نوازا جاتاہے۔ تاہم اگر کسی برادری کا کوئی فرد غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جائے تو اس کی برادری اپنی انعامی رقم سے مرحوم ہوجاتی ہے۔ سعید عباس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ جب کسی برادری کو اپنے انعام سے ہاتھ دھونا پڑا ہوں مگر اس کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے۔’

کیمرہ ٹریپ ایک ‘ہتھیار’

غیر قانونی طور پر شکار کرنے کے ایسے واقعات نے سعید اور دیگر محققین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ وہ ‘کیمرہ ٹریپ’ کے توسط سے شکاریوں کا کھوج لگائیں۔ ان محققین کے پاس شکاریوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ کیمرہ ہی ہے۔

‘ہر برس ہم ممکنہ شکاریوں کو پکڑنے کے لیے برفانی تیندوے کی حدود والے علاقوں میں میں’کیمرہ ٹریپ’ نصب کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ ہمیں کوئی شکاری اس میں نظر نہ آئے۔ مگر کوئی شکاری نظر آتا ہے تو کم از کم ہمارے پاس اس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوتے ہیں۔’

مارگلہ کی پہاڑیوں کے لیے ناگزیر

شمال کے دور درازسَربلند پہاڑوں کی مانند ہمالیہ سلسلے کا نقطہ آغازیعنی مارگلہ کی پہاڑیوں کا نیشنل پارک نباتات اور حیوانات کے لیے کم نہیں ہے۔ یہ علاقہ جنگلی جانوروں اور نایاب پرندوں کی جائے پناہ ہے۔ 125 کلومیٹر کے فاصلے پر پھیلے ہوئے اس پارک کا دلفریب قدرتی حسن نہ صرف وفاقی دارالحکومت کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ اس خطے میں موجود نایاب جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے۔

گلگت بلتستان میں کام کرنے والے ماہرین کی طرح مارگلہ نیشنل پارک میں بھی تیندوں کے تحفظ اور ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ نیشنل پارک میں موجود جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے اکثر شکاری گھات میں رہتے ہیں اورجانوروں کے عدم تحفظ کی وجہ سے یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات خطرے سے دوچار ہے۔

کیمرہ ٹریپ نصب کرنے والے گمنام ہیروز کو خراج تحسین

جنگلی حیات کے تحفظ، نگرانی اور سروے کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال انتہائی مؤثر ثابت ہورہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت تکنیکی اعتبار سے اس میں مزید بہتری کے امکانات روشن ہیں۔ ‘کیمرہ ٹریپ’ کے توسط سے جو واضح تصاویر ہم تک پہنچتی ہیں وہ ایسی نایاب مخلوق کی ہوتیں ہیں جو دنیا کے انتہائی دور دراز مقامات اور پہاڑوں میں رہتی ہے۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں موسم سرما میں درجہ حرات منفی 20سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے۔ماہرین برفانی تیندوں کی غاروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی کٹھن فاصلے طے کرتیہیں اور ایک ایک تصویر کے حصول کے لیے بڑے بڑے پہاڑیوں سلسلوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔

‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کرنا بذات خود ایک انتہائی دشوار کام ہے اور اسے کرنے والے ماہرین اور محققین کی محنت کو کم ہی سراہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہی وجہ ہو کہ برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد پر اس مقصد کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک ‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کا ان گمنام ہیروز کو خراج تحسین بھی ہوگا جو سارا سال اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ماحول اور اس میں رہنے والے نایاب جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں۔

The post کیمرہ ٹریپ؛ نایاب جانوروں تک دسترس کا انمول طریقہ appeared first on ایکسپریس اردو.


بیماری سے شفایابی میں دعا کی تاثیر

$
0
0

بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اس سے شفاء بھی اللہ ہی دیتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ’’کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں وہ (اللہ) ہی مجھے شفاء دیتا ہے۔‘‘ بیماریوں کے علاج کے لیے مختلف طریقہ ہائے علاج مستعمل ہیں۔ انسان بیماری پہ قابو پانے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ اس کے لیے نت نئی دوائیں استعمال کرتا ہے لیکن شفاء صرف اس وقت ملتی ہے جب اللہ کی طرف سے منظوری ہو۔ رسول پاک ﷺکا ارشاد ہے ’’ہر بیماری کے علاج کے لیے دوا ہے اور جب دوا کے اثرات بیماری کی ماہیت کے مطابق ہوتے ہیں تو اس وقت اللہ کے حکم سے مریض کو شفا ہو جاتی ہے‘‘۔

یعنی بیماری کا علاج کرنا سنت نبوی ہے۔ سر درد کے لیے مختلف ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے استعمال سے معدہ کا السر یا اس کے پھٹنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اس طرح اگر پینسلین کی دوا بغیر ٹیسٹ کے لگا دی جائے تو اس سے صدمہ (Shock) کے باعث موت ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ بیماری ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے دوا ضرور لیں مگر اللہ سے شفا کی دعا کرنا نہ بھولیں۔

مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بعض ایسے محیر العقول واقعات کا سامنا پڑتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس بات کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ دوائیں صرف ایک ذریعہ ہیں، حقیقی شفا صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ذیل میں ایسے چند واقعات بیان کیے جا رہے ہیں:

-1        92ء کی بات ہے میں کنگ ایڈرورڈ میڈیکل کالج ہوسٹل کی مسجد میں معتکف تھا۔ ایک این جی او میں ان دنوں ایک پراجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ میرے پاس دو مریض آتے تھے۔ رشید کو دمہ کا مرض تھا اور اسلم کو مرگی۔ وہ پندرہ دن بعددوائی لے کے جاتے تھے۔ دفتر سے پیغام آیا کہ دوائیں لکھ دیں۔ غلطی سے رشید کی دوائیاں اسلم کو چلی گئیں اور اسلم کی رشید کو ۔ عید کے بعد جب دونوں نے بتایا کہ اس دفعہ جو دوائیں ملی ہیں ان سے زیادہ افاقہ ہوا۔ استفسار پر حقیقت کا پتہ چلا تو سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ اندازہ ہو گیا کہ شفا دواؤں میں نہیں صرف اللہ کی رضا سے ملتی ہے۔

-2        بھولا عمر 23 سال چھ ماہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا مگر کچھ بن نہ پڑ رہا تھا۔ اس کے والد کو ہمارا پتہ چلا۔ ایک دن لے کر آ گئے کلینک میں اس کا معائنہ کیا۔ بیماری کی تھوڑی بہت سمجھ آئی لیکن اس وقت اللہ سے خاص دعا کی کہ یا اللہ اس کو صحت دے۔ سات دن کی دوائی دی۔ ہفتہ بعد بھولا اپنے پاؤں پر چل کر دروازے سے کلینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا اورآنکھوں سے تشکر کے آنسو جاری ہو گئے۔ اس نے اس بات کا مزید قائل کر دیا دعا دوا سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔

-3        ماہ نور تین سال کی پھول سی بچی قبض کے مرض میں مبتلا، اس کے علاج کے لیے ہر تدبیر کر ڈالی۔ ایلوپیتھک، ہومیو پیتھک، حکمت، دیسی ٹوٹکے، غرضیکہ جو کچھ بن پڑا کیا۔ معصوم بچی نے کھانے پینے سے بھی کنارہ کر لیا۔ تقریباً 5،6 دن بعد حاجت ہوتی۔ بہت تکلیف سے پاخانہ کرتی اسے دیکھ کر بہت تکلیف اور پریشانی ہوتی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تمام دوائیں استعمال کر ڈالیں۔ تمام مستعمل طریقہ ہائے علاج آزما لیے آخر کار بچوں کی بیماریوں کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت نے کہا کہ سرجری اس کا علاج ہے۔ آپریشن تھیٹر میں لے آئیں۔ سرجری کر کے مقعد کو کھول دیں گے۔ مگر اسماء اس پہ راضی نہ ہوئی۔ پھر ڈاکٹر محمود شوکت سے بات ہوئی انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے ایک بار زیتون کا تیل استعمال کرا کے دیکھ لو اللہ سے دعا کر کے زیتون کے تیل کا استعمال شروع کیا۔ ایک ہفتے کے باقاعدہ استعمال سے خاصا افاقہ ہوا۔ بچی کی تکلیف میں کمی کے ساتھ ہی اس کا مرجھایا ہوا چہرہ کھلنے لگا اور برسوںکی تکلیف دو ماہ زیتون کے تیل کے باقاعدہ استعمال سے بالکل ختم ہو گئی۔

-4        اسماء کی ممانی کی انگلیوں میں سخت تکلیف تھی۔ زبردست انفیکشن ہو گیا تھا۔ انگلیاں نیلی پیلی ہو رہی تھیں۔ تمام قسم کی اینٹی بائیوٹکس دوائیں استعمال کر ڈالیں۔ ذرا افاقہ نہ ہوا۔ ہاتھ سن ہونے لگا، پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ انگلیوں کے متاثرہ حصہ پر کالا نشان بن رہا تھا جو گنگرین کی پکی نشانی ہے۔

الٹراساؤنڈ اور انجیو گرافی سے پتہ چلا کہ بازو کو خون کی سپلائی بالکل بند ہے۔ اور اس کا واحد علاج فوری آپریشن ہے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کے سرجن نے کہا کہ فوری آپریشن کروائیں ورنہ دل کے دورے کا خطرہ ہے۔ آپریشن سے گھبرا گئیں۔ سیالکوٹ کے قریب کسی بزرگ کا پتہ چلا۔ ان کے پاس حاضر ہوئیں۔ انہوں نے کلام اللہ پڑھ کر دم کیا۔ کچھ پڑھنے کا بتایا۔ اللہ کے فضل سے انگلیاں خود بخود ٹھیک ہونا شرو ع ہو گئیں اور آج اس بات کو تین سال ہو گئے وہ ماشاء اللہ چنگی بھلی زندگی گزاری رہی ہے۔

-5        کاشف عمر 20 سال بہت زیادہ ابتر حالت میں کلینک آیا۔ حالت بہت خراب لگ رہی تھی۔ ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ بیماری سے دونوں پھیپھڑے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ طبی اندازوں کے مطابق اس کا بچنا محال نظر آرہا تھا۔ اللہ سے دعا کر کے علاج شروع کیا۔ آہستہ آہستہ افاقہ ہونا شروع ہوا۔ ماشاء اللہ 9 ماہ علاج سے کاشف مکمل صحت یاب ہو چکا ہے۔ اور نارمل زندگی گزار رہا ہے۔

-6        عبدالرشید کو فالج کا حملہ ہوا تھا۔ نیو رولوجی وارڈ میں داخل تھا۔ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس کی بیوی بہت خدمت گزار تھی۔ ہر وقت اس کیخدمت میں مصروف رہتی۔ وارڈ میں باجماعت نماز ہوتی۔ اس کی بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ عبدالرشید بھی نماز پڑھنا چاہتاہے میں نے کہا: ضرور اسے سہارا دے کر لائیں۔کچھ دن تو وہیل چیئر پر آتا رہا۔ پھر نماز کی برکت سے وہ خود چل کر آنے لگا اور فزیوتھراپسٹ نے کہا کہ نماز کی وجہ سے اس کے جسم کے متاثرہ حصوں میں دوبارہ قوت آناشروع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس کا چلنا پھرنا ممکن ہوا ہے۔

-7        82 کی بات ہے، والدہ صاحبہ کو نسوانی تکلیف ہوئی۔ بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے نقاہت زیادہ ہو گئی۔ ایمرجنسی میں سرگودھا سے لاہور لے آئے۔ یہاں لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں داخل کرایا۔ پروفیسر فخر النساء نے کہا کہ فوری آپریشن کرنا پڑے گا۔ آپریشن کے لیے تیاری کا حکم صادر ہو گیا مگر والدہ آپریشن تھیٹر میں جانے سے گھبرا گئیں۔ ایک ہفتہ میں تین بار تھیٹر لے کر گئے لیکن اس کے دروازے تک پہنچتے ہی حالت غیر ہو جاتی۔ میں میڈیکل سٹوڈنٹ تھا۔ پروفیسر صاحبہ نے بلا لیا کہنے لگیں: انھیںگھر لے جائیں، میں نے آپریشن نہیں کرنا۔ امی کہنے لگیں: سرگودھا چلیں اللہ نے مجھے ٹھیک کردیا ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے اس بات کو 30 سال سے زائد گزر چکے۔ والدہ ماشاء اللہ صحت مند ہیں اور وہ خاص تکلیف جس کا واحد علاج آپریشن بتایا گیا تھا کبھی دوبارہ نہ ہوئی۔

ان تمام واقعات کے علاوہ کئی دفعہ آزمایا کہ دوا سے زیادہ فائدہ دعا میں ہوتا ہے اور بعض پیچیدہ بیماریوں میں جہاں دوائیں کوئی اثر نہیں کرتیں۔ صدق دل سے کی ہوئی دعا ایسا اثر دکھاتی ہے کہ مہینوں کی تکلیف دنوں میں دور ہو جاتی ہے، مریض اور معالج دونوں کا دھیان اللہ کی طرف ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔ دوا لینے سے پہلے مریض یہ خیال کرے کہ دوا صرف ضرورت کے درجے میں اور سنت نبوی سمجھ کر لے رہا ہوں۔ لیکن شفا صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور مہربانی فرمائیں گے اور بیماری سے اس کی رحمت کے باعث نجات ملے گی۔

٭صدقہ میں شفاء

رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’صدقہ بلا کو ٹالتا ہے‘‘ بیماری ایک بلا کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور اس بلا کو ٹالنے کے لیے علاج کی صورت میں مختلف حیلے بہانے کیے جاتے ہیں۔ علاج کرنا اور صحیح طریقے سے علاج کرنا سنت نبویؐ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔

علاج کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مکمل شفاء کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر عاجزی سے دعا کی جائے۔ اس کی رحمت طلب کی جائے اور بیماری سے نجات کی التجا کی جائے۔

’’صدقہ‘‘ واقعی بلاؤں کو ٹالتا ہے اور آدمی کو ناگہانی حادثات، تکالیف اور بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔

میرے ایک بزرگ محمد افضل مرحوم و مغفور امیر تبلیغی جماعت تلقین فرمایا کرتے تھے کہ روزانہ صدقہ کی عادت ڈالیں۔ چاہے ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ بیماری اور حادثات سے بچنے کا یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ روزانہ صدقہ کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ رہتی ہے اور اس کی وجہ سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ روزانہ صدقہ کی عادت کو اپنایا جائے۔

ژ          بیماری لمبی اور علاج کارگر نہ ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل نسخہ پر عمل کریں۔ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔

ژ          سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ہر بیماری کا علاج ہے اور شفاء اللہ تعالیٰ نے دینی ہے۔

ژ          صدقہ بلا کو ٹالتا ہے۔ جب دوا کار گر نہ ہو رہی ہو تو پھر ’’صدقہ‘‘ دینا شروع کریں۔ صدقہ دینے سے پہلے اچھی طرح وضو کریں اور دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجات پڑھ جر عاجزی و انکساری سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں اور اس کے بعد گھر سے نکلیں اور پھر جو غریب اور نادار سب سے پہلے ملے۔ اس کو صدقے کے پیسے دیں۔ یہ عمل روزانہ کرنا ہے۔ ہر دوسرے دن صدقے کے پیسے پہلے دن سے ڈبل کرتے جائیں۔ یعنی پہلے دن دس، دوسرے دن بیس، تیسرے دن تیس اور چوتھے دن چالیس روپے اسی طرح دس دن تک عمل جاری رکھیں۔

ژ          اس دوران علاج کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے شفاء کی امید رکھیں۔ لمبی اور جان لیوا بیماری کی صورت میں یہ عمل چھ ماہ تک ہر مہینے چاند کی پہلی تاریخ سے دس تاریخ تک کریں اور مختصر بیماری کی صورت میں انشاء اللہ یہ عمل ایک ماہ کرنا ہی کافی ہے۔

ژ          دکھوں ، تکالیف، ناگہانی آفتوں اور حادثات سے بچنے کے لیے بھی یہ عمل کافی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ روزانہ صدقہ چاہے کتنا ہی کم ہو حادثات اور ناگہانی آفتوں سے بچنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔

٭دُعا میں شفاء

رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ہر بیماری کے علاج کے لیے دوا ہے اور جب دوا کے اثرات بیماری کی ماہیت کے مطابق ہوتے ہیں تو اس وقت اللہ کے حکم سے مریض کو شفا ہو جاتی ہے۔‘‘ یعنی دوا کے ساتھ ساتھ شفاء کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مہربانی کا شامل حال ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دوا کے ساتھ ساتھ شفاء کے لیے اللہ سے لو لگائی جائے۔ اسی سے رحمت اور کرم کی دعا کی جائے۔

مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کافی عرصہ گزر گیا۔ ہمیشہ نماز مغرب سے فارغ ہو کر کلینک میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور مریضوں کی شفاء کے لیے دعا کر کے مریضوں کا چیک اپ شروع ہوتا ہے۔ کئی دفعہ آزمایا کہ دوا سے زیادہ فائدہ ’’دعا‘‘ میں ہوتا ہے اور بعض پیچیدہ بیماریوں میں جہاں دوائیں کوئی اثر نہیں کر رہی ہوتیں، صدق دل سے نکلی ہوئی ایسا اثر دکھاتی ہے کہ مہینوں کی تکلیف دنوں میں رفع ہو جاتی ہے۔ مریض اور معالج دونوں کا دھیان اللہ کی طرف ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔ دوا لینے سے پہلے مریض یہ خیال کرے کہ دوا صرف ضرورت کے درجے میں اور سنت نبوی ﷺ سمجھ کر لے رہا ہوں۔ لیکن شفاء صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے دینا ہے۔ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ مہربانی فرمائیں گے اور بیماری سے نجات ملے گی۔

قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی تلاوت سے بھی اللہ تعالیٰ مہربانی فرماتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب تو ہے ہی سرچشمہ ہدایت و رحمت۔

ہیپاٹائٹس کے کئی مریضوں نے بتایا کہ انہوں نے سورۃ رحمن کی تلاوت سننے اور اس کا دم کیا ہوا پانی پینے سے بیماری میں کمی اور سکون محسوس کیا۔ اس کے علاوہ کسی بھی درد کی صورت میں سات دفعہ سورۃ الحمدشریف پڑھ کر دم کرنے سے درد میں افاقہ ہو جاتا ہے۔

دن میں روزانہ کم از کم ایک دفعہ دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجات پڑھ کر اللہ سے عافیت، صحت اور سکون مانگیں۔ ان شاء اللہ سکون قلب بھی ہو گا اور بیماریوں سے نجات بھی۔

The post بیماری سے شفایابی میں دعا کی تاثیر appeared first on ایکسپریس اردو.

بریگزٹ؛ اب کیا ہونے والا ہے؟

$
0
0

سام راجیت کے دَور میں برطانوی سلطنت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ خود اسے اپنے ’’یونین جیک‘‘ کے دفاع اور اسے برقرار رکھنے کی فکر لاحق ہے۔

تین برسوں سے برطانوی حکومت کے یورپی یونین سے علیحدگی یعنی ’’بریگزٹ‘‘ دردِسر بنا ہوا ہے۔ برطانیہ کا یورپی اخراج کا فیصلہ دو وُزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کے عہدوں سے رخصتی کی وجہ بن چکا ہے، کیمرون بریگزٹ کے حق میں تھے جب کہ تھریسامے یورپ سے انخلاء چاہتی تھیں۔ نئے وزیراعظم بورس جانسن بھی بریگزٹ کے حوالے سے سخت عتاب میں ہیں۔

وہ بریگزٹ کے بھرپور حامی ہیں ان کے لیے بھی یہ معاملہ ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ 43 سال پہلے برطانیہ نے بڑی منت سماجت کرکے یورپی یونین میں جگہ پائی تھی لیکن اب عوام کی اکثریت یورپی اتحاد سے انخلاء چاہتی ہے۔ 28 ممالک کی یورپی یونین میں شامل برطانیہ واحد ملک ہے جس نے باقاعدہ ریفرنڈم کو بنیاد بنایا اور یورپ کو چھوڑ دینے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔

جغرافیائی سرحدوں کے لحاظ سے بھی یورپ سے تقسیم برطانیہ کبھی بھی یورپی علامتی ریاست نہیں رہا ہے اور فرانس کی سپورٹ سے اس نے یونین میں جگہ پائی اور اس کی یونین میں شمولیت سے پہلے یورپی معاشی تعاون(ECC) کی بدولت وہ آزاد تجارت اور آزاد منڈی کی صورت میں اپنے پاؤں گاڑ چکی تھی۔

جنوری 1999 ء سے یورپی کرنسی ’یورو‘ کے اجراء سے اب اتحادی یونین کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور وہ پاؤنڈ اور ڈالر کا مقابلہ کررہی ہے جس کی بدولت یورپ کو واحد خطّے میں بدلنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جو 50 کڑوڑ سے زائد آبادی کے براعظم کو سماجی، سیاسی و معاشی استحکام مہیا کررہی ہے، جس کی بہتری و خوش حالی کے لیے رکن ممالک باہم مل کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ 2019 ء میں برطانیہ کا یورپی یونین چھوڑنے کا معاملہ پہلے طے پاچکا ہے لیکن اب ڈرامائی طور پر ملکی پارلیمنٹ میں صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔

جنوری 2019 ء میں ہاؤس آف کامن یا ’’دارالعوام‘‘ میں وزیراعظم مے کی پے درپے تاریخی شکستوں نے بریگزٹ معاملہ کو اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔ مارچ میں یورپی یونین سے انخلاء کے عوامی ’’ریفرنڈم‘‘ پر یہ سوال بہت زیادہ گردش میں رہا کہ بریگزٹ پر ڈیل ہوتی یا نہیں؟ دارالعوام اور دارالامراء نے ’’نوڈیل بریگزٹ‘‘ کا راستہ عملی طور پر بند کردیا ہے جب کہ نئے وزیراعظم پرزور طریقے سے کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی معاہد ہ ہوتا ہے یا نہیں، برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ وہ کسی ڈیل کے حامی نہیں۔ بحران کے آغاز سے حالیہ تین سالوں میں”Brexit” پر ہونے والی پیش رفت کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔

2014ء کے برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ سے جڑے رہنے یا الگ ہونے کے بڑے ریفرنڈم میں ڈیوڈکیمرون سرخرو ہوگئے تھے اور اسکاٹ لینڈ برطانیہ کے ہاتھوں سے نکل جانے سے بچ رہا تھا لیکن 2016 ء کے ’’بریگزٹ ریفرنڈم‘‘ میں وہ عوامی اکثریت کی رائے کا دفاع نہ کرسکے اور بدستور یورپی یونین کا حصّہ بنے رہنے پر اپنا رول ادا نہیں کرسکے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے سے سبک دوش ہوگئے تھے۔

جون 2019 ء میں ان کی جانشین وزیراعظم تھریسامے بھی بریگزٹ میں ناکامی پر مستعفی ہوچکی ہیں۔ برطانیہ کو 1945ء کے بعد سب سے بڑا معاشی بحران کا سامنا ہے جب کہ یونین کے اکثریتی ارکان چاہتے ہیں وہ بنا ڈیل کے یورپ سے باہر نکل جائے جب کہ برطانیہ کی ڈیفالٹ پوزیشن بھی یہی ہے۔ بریگزٹ نے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے اس سے نہ صرف معاشرہ تقسیم ہوا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ اب اہم سوالات یہ سامنے ہیں کہ نئے وزیراعظم بورس جانسن بھی گھر کو لوٹیں گے یا وہ برطانیہ کی تقسیم کا موجب بنیں گے؟

کسی معاہدے کا حصّہ بن جانے سے آپ کو سو فی صدی فوائد تو کبھی حاصل نہیں ہوسکتے، آپ کو کہیں فائدہ مل رہا ہوتا ہے تو کہیں منفی اثرات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں یورپی یونین میں شمولیت کو دیکھتے ہوئے برطانوی عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ وہ اپنی آزادی کو محدود بنا چکے ہیں اور یورپی اقوام یونین کا حصہ ہونے کی بنا پر اپنے ملک میں ان سے مراعات کو شیئر کرنا پڑتا ہے، جب کہ اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ برطانیہ کے ذہین طالب علموں کے لیے یورپ میں تعلیم کے شان دار مواقع میسر آرہے ہیں اور وہ اسکالرشپ پر اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہی جب کہ سائنسی تحقیق کاروں کو بھی دیگر اقوام کے ساتھ سیکھنے اور مہارت کے یکساں مواقع میسر آرہے ہیں۔

اسی صورت حال کے پیش نظر عظیم آنجہانی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے بریگزٹ کی سخت مخالفت کی تھی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تعلیمی وتحقیقی نقصانات سے آگاہ کردیا تھا، جب کہ برطانوی سرکار کی سوچ یہ بھی ہے کہ یونین سے الگ ہوکر آزادانہ طور پر تجارت کرسکتے ہیں اور چین کے معاشی منصوبوں میں شریک ہوکر اپنی ملکی معیشت کو زیادہ مستحکم بناسکتے ہیں۔

اسی لیے برطانیہ کے پاکستان، چین اکنامک منصوبے (CPEC) میں حصّے دار بننے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ بریگزٹ کا معاملہ بظاہر سال رواں میں اپنے انجام کو پہنچ جاتا تھا جب باقاعدہ طور پر مارچ 2019 ء کو اسے یونین سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنا تھی، لیکن بدلتی ڈرامائی صورت حال کے بعد بریگزٹ پر برطانیہ میں عمومی رائے خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔ حالیہ سال کی دارالعوام میں سابق وزیراعظم تھریسا مے کو متواتر تین بار زبردست پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب سے وزیراعظم تھریسامے نے اقتدار سنبھالا تھا ان کے لیے بریگزٹ وبال ِجان بنا رہا۔ ان کے مخالفین پارلیمانی ارکان بنا کسی ڈیل کے نکلنے کو تیار نہیں پھر برطانوی سیاست میں بھونچال تو آنا ہی تھا کہ سیدھی سمت میں جاتے ہوئے اچانک یوٹرن لیا گیا۔ برطانیہ یورپ سے نکلنے کی صورت میں 39 ارب پاؤنڈ یونین کو ادا کرنے کا پابند ہے جب کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

لندن کے سابق میئر اور صحافی بورس جانسن نے اپنی ہی کنزرویٹو پارٹی کی وزیراعظم کے خلاف مہم چلائی تاکہ یورپی یونین سے باہر نکلا جاسکے۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا تھا کہ بریگزٹ پر کسی ڈیل کے بنا ہی یورپی اتحاد کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کتنے سنجیدہ ہیں اس بات کا اندازہ ان کے حالیہ اس اقدام سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

جس میں انہوں نے اکتوبر کے مہینے میں بریگزٹ کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو پانچ ہفتے کے لیے منسوخی کا حکم دیا تھا تاکہ اس دوران ان کے خلاف کوئی تحریک نہ آسکے۔ یہ سراسر غیرجمہوری روایت ہے اور ان کی پارلیمنٹ کو معطل یا منسوخ کرنے کے عمل کو برطانیہ میں نہایت تشویش اور سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جمہوریت پرا یک بڑا حملہ سمجھا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف ارکان پارلیمنٹ اور بنا کسی معاہدے کے یورپی یونین سے نکلنے ’’نو ڈیل بریگزٹ‘‘ کے مخالفین نے شدید ردعمل دکھایا ہے۔

لندن اور دوسرے شہروں میں اس کے خلاف بھرپور مظاہرے کیے گئے۔ لیبر پارٹی کے شیڈو چانسلر جان میکڈانل نے بھی اقدام پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’بریگزٹ کے بارے میں کوئی رائے ہو، اگر وہ وزیراعظم کو جمہوری اداروں کی آزادانہ کاروائی روکنے کی اجازت دے دیں تو پھر وہ انتہائی خطرناک راستے پر گام زن ہیں۔‘‘ دارالعوام کے اسپیکر جان بروکو بھی بظاہر اسی خیال کے حامی لگتے ہیں جنہوں نے حکومتی منصوبے کو آئین کی بے حرمتی قرار دیا ہے۔ جان بروکو پہلے ہی اپنے استعٰفی کا اعلان کرچکے ہیں۔ وہ بریگزٹ کے خلاف رہے ہیں دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی پولین لیتھم کہتے ہیں کہ انہیں اطمینان ہے کہ جانسن وہ کچھ کررہے ہیں جو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ضروری ہے، جب کہ عوامی رائے سامنے ہے۔ لیبرپارٹی کی سنیئر پارلیمنٹیرین مارگریٹ بیکٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ہماری تاریخ میں پارلیمان کے بغیر حکومتوں کی نظیر موجود ہے لیکن جب آخری بار ایسا ہوا تھا تو اس کا نتیجہ خانہ جنگی تھا۔

چناںچہ سپریم کورٹ سے کی گئی 70 ارکان پارلیمان کی اپیل پر کورٹ کے گیارہ ججوں نے پارلیمان کی منسوخی کے حکومتی آرڈر کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ قانون شکنی کے مترادف ہے۔ کورٹ کی صدر لیڈی ہیل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمان کی منسوخی کی درخواست بھی اصلیت میں ایک غیرقانونی عمل تھا کیوںکہ اس سے پارلیمنٹ کے آئینی تقاضوں پر پورا اترنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس سے پہلے اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے بھی اسے ایک غیرقانونی عمل سے تعبیر کیا تھا۔ بورس سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھڑک اٹھے اور سخت نالاں ہیں۔ انہوں نے نازیبا الفاظ بھی کہہ ڈالے، پارلیمنٹ کو بھی برا بھلا کہا اور اسے ڈرپوک، ہتھیار ڈالنے والی مردہ پارلیمنٹ کہا ہے اور اس کے بعد وہ پارلیمان سے چلے گئے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ قانونی جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں۔

٭فوری انتخابات یا ریفرنڈم؟

برطانیہ کے لوگوں کی عمومی خواہش ہے کہ فوری الیکشن ہوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیوںکہ انتخابی مہم کے لیے 25 روز درکار ہوتے ہیں جو کہ اب ماہ اکتوبر کے بعد ہی ہوسکتے ہیں۔ 14 اکتوبر کو ملکہ برطانیہ اپنا روایتی خطاب کریں گی، جو ان سطور کی اشاعت تک ہوچکا ہوگا۔ ملکہ کا خطاب ہر پارلیمانی سال سے شروع ہوتا ہے جو کہ سولھویں صدی کی روایت ہے۔ ملکہ نے 2017 ء سے یہ خطا ب نہیں کیا ہے۔ ملکہ کے خطاب کے بعد ہوسکتا ہے کہ دارالعوام کو کہا جائے کہ وہ انتخابات جلد کروانے کے متعلق حکومت کی حمایت کرے۔ اس کے لیے دارالعوام کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جب کہ ابھی تک ممبران پارلیمنٹ اس کے موڈ میں نہیں دکھائی دیتے، جب کہ ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت نیا قانون پاس کردے جس میں جلد انتخابات کی تاریخ ہو اس کے لیے محض سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ تیسرا متبادل راستہ ’’عدم اعتماد کا ووٹ‘‘ ہوسکتا ہے، لیکن یہاں عدم اعتماد کے ووٹ کا حزب اختلاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم خود ہی اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی اپیل کرسکتے ہیں۔

اگر زیادہ ممبران پارلیمنٹ عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالیں تو پھر 14 دنوں میں موجودہ حکومت یا پھر اس کی متبادل حکومت کسی نئے وزیراعظم کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حاصل کرے، اگر کوئی بھی ایسا نہ کرپائے تو پھر عام انتخابات ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم بورس دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر بریگزٹ پر تاخیر کے لیے حکومت کو مجبور کیا گیا تو قبل ازوقت انتخابات ہوں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس ’’10 ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی کی صورت میں وزیراعظم 14 اکتوبر کو عام انتخابات کا فیصلہ کرلیں گے۔ اگر بات پھر ریفرنڈم پر چلی گئی تو ریفرنڈم کے لیے شرائط ایک قانون میں وضع کردی گئی ہیں۔ اسے ’’پارٹیز، الیکشنز اور ریفرنڈم ایکٹ 2000 ء ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس قانون میں بھی نئی قانون سازی کا معاملہ وقت طلب ہے۔

٭بیک اسٹاپ مسئلہ:

بظاہر چھوٹا نظر آنے والا معاملہ اصل میں ایک بڑا مسئلہ اسے مختصراً ’’بیک اسٹاپ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ شمالی آئرلینڈ اور آئرلینڈ کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے۔ بریگزٹ کے بعد وہ برطانیہ سے زیادہ یورپی اتحاد سے جڑا رہے گا۔ دونوں آئرلینڈوں کے مابین بارڈر پوسٹس اور چیک پوائنٹس رہیں گے یا ہٹادیے جائیں گے؟ سابق وزیراعظم مے بارڈر پوسٹس کے خلاف تھیں۔ ان کے مطابق کسی برطانوی وزیراعظم کے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین معاہدہ جو کہ شائع شدہ 585 صفحات پر مشتمل ہے، مذاکرات کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی سخت شرائط کے تحت کہا گیا ہے کہ آئرلینڈ والوں کے ساتھ جبر والی سرحدی پابندیوں سے بچا جائے۔

 ٭آرٹیکل 50 اور بریگزٹ کی منسوخی:

بریگزٹ کی منسوخی کے لیے قانونی صورت حال یہ ہے کہ آرٹیکل 50 کو منسوخ کردیا جائے، یہ آرٹیکل 2007 ء میں یورپی یونین کے ممبرممالک کے درمیان ہونے والے لزبن معاہدے کا ایک حصّہ ہے جس میں باور کرایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی ممبر یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اسے وزیراعظم نے خود لاگو کیا تھا جس کی منسوخی کے لیے فروری میں ایک آن لائن پٹیشن پر 60 لاکھ لوگوں نے دستخط کیے تھے، لیکن تھریسامے کا موقف تھا کہ وہ اسے منسوخ نہیں کریں گی۔ اصل میں اس کی منسوخی اتنا آسان کام بھی نہیں ہے۔

یورپی کورٹ آف جسٹس نے پچھلے سال کہہ دیا تھا کہ برطانیہ خود ہی آرٹیکل 50 منسوخ یا خارج کرسکتا ہے، اس کے لئے اسے 27 دیگر ممبر ممالک سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یورپی کونسل کو ایک خط لکھنا ہوگا جو کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک کے سربراہوں پر مشتمل ہے۔ آرٹیکل 50 قانونی طور پر بالکل واضح ہے اور غیرمشروط ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ برطانیہ زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے آرٹیکل 50 کو منسوخ کردے اور کچھ عرصے بعد اسے دوبارہ لاگو کرلے۔

 ٭ کیا برطانیہ ٹوٹ جائے گا؟

برطانیہ کو آئرلینڈ کے ساتھ سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا سوال ایک بار پھر سر اٹھا سکتا ہے، کیوںکہ وہ بھی یورپی یونین کا رکن ہے۔ برطانیہ سے علیحدگی کی صورت میں اسے بھی دوبارہ اپنی شناخت منواکر یونین میں جگہ بنانا ہوگی۔ بی بی سی کی اسکاٹ لینڈ کی ایڈیٹر سارا اسمتھ نے بریگزٹ پر اپنے تبصرے میں برطانیہ کی تقسیم کا عندیہ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں روتھ ڈیوڈسن کی نئی توانا قیادت میں اسکاٹش کنزرویٹو پارٹی کو حالیہ سالوں میں اچھا سہارا ملا ہے اور پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔

پارٹی کے مخالفین اس بات پر قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بورس جانسن کے وزیراعظم بننے سے یہ عمل رک جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کا اتحاد خطرے میں پڑجائے اور بات علیحدگی تک جاپہنچے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ جانسن ایک صاف گو، سادہ مزاج اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ برطانیہ میں یونین میں رہنے کے حامی روتھ ڈیوسن اس سے زیادہ مختلف ہوسکتے تھے دونوں ماضی میں ایک دوسرے کی شدید مخالفت کرچکے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یورپی اتحاد میں رہنا چاہتا ہے۔ جتنا سخت اور مشکل قسم کا بریگزٹ بورس لیں پائیں گے اتنا ہی اسکاٹ لینڈ کی اسکاٹش پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ والے سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں کہ اب مزید برطانیہ کا حصّہ بنے رہنا ان کے بہترین مفاد میں نہیں رہا ہے۔ کچھ حالیہ عوامی سروے اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ یورپین یونین سے بنا کسی معاہدے کت علیحدگی کی صورت میں اسکاٹ لینڈ میں 60 فی صد رائے دہندگان برطانیہ سے آزادی کے حق میں رائے دے سکتے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں لوگوں کی امنگیں اور خواہشات برطانیہ کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں سے مختلف ہیں۔ انہیں یورپی یونین سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یورپی اتحاد نے بریگزٹ کی ممکنہ تاریخ 29 مارچ 2019 ء میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا، لیکن برطانوی کی طرف سے ایک ہفتے میں معاہدہ طے نہ پانے کی صورت میں 12 اپریل تک تاخیر مہلت دی گئی اور اب یہ تاریخ 31 اکتوبر ہے۔ بنا کسی معاہدے کے یورپ چھوڑنے کے عمل کو روکنے کے لیے بل منظور کرواکر حزب اختلاف حکومت کو پہلے ہی شکست دے دی ہے۔ بل کے حق میں 301 جب کہ مخالفت میں 328 ووٹ ڈالے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ایسا بل نہیں پیش کرسکتے، جس سے برطانیہ کے یورپ سے باہر نکلنے میں تاخیر ہوسکے۔ اپوزیشن لیڈر جیرمنی کوربن کہتے ہیں کہ بل انتخابات سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے۔ حکومتی شکست میں حکم راں جماعت سے سابق کابینہ کے وزراء سمیت 21 ارکان پارلیمنٹ نے اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کیے ۔ بل وزیراعظم کو پابند کردے گا کہ وہ یونین سے تاریخ بڑھوانے کے لیے درخواست کریں۔

اس صورت حال سے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ 19 اکتوبر سے پہلے کسی معاہدے کے بنا برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیں یا وہ کوئی نیا فیصلہ منظور کرالیں۔ 31 اکتوبر سے پہلے اگر بورس یورپی اتحاد سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور ممبران پارلیمنٹ اس کی حمایت کرتے ہیں تو معاملہ بالکل صاف اور واضع ہے کہ بریگزٹ ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں چاہیے۔ اگر کوئی معاہد ہ نہیں ہوتا تب 31 اکتوبر، رات گیارہ بج کر 30 منٹ پر برطانیہ اصولی طور پر اتحاد سے باہر ہوجائے گا۔

اگر وزیر اعظم ڈیڈلائن میں وقت چاہیں اور اس کے لیے درخواست کریں تب بھی یہ یونین پر منحصر ہے کہ وہ مانے یا انکار کردے۔ فوری طور پر برطانیہ یونین کی کسٹمریونین اور سنگل مارکیٹ سے آؤٹ سمجھا جائے گا جو تجارتی آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ ملکی معیشت کے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔ پاؤنڈ تین سالوں میں ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم تر قیمتی سطح پر آگیا ہے۔ ڈالر1.20 جب کہ یورو10 . 1 پر ہے۔ نو ڈیل بریگزٹ سے ملک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے اور خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یورپی باشندے ریکارڈ تعداد میں برطانیہ چھوڑ رہے ہیں۔

ان میں طالب علم بھی شامل ہیں۔ بی بی سی کے گگن سیہر وال کے مطابق ترک وطن کرنے والے طالب علموں میںسخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اس طرح مختلف نسلوں کے لوگوں کو پیغام مل رہا ہے کہ ان کا اس ملک سے کچھ لینا دینا نہیں رہا۔ جہاں تک یورپین یونین کا تعلق ہے اسے برطانیہ کے یونین میں شامل رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، نقصان بہرحال برطانیہ کے کھاتے میں جائے گا اور اسے معاشی، تعلیمی وسائنسی تحقیقی میدان میں ملنے والی مراعات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

The post بریگزٹ؛ اب کیا ہونے والا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

دونوں بڑی طاقتوں نے پاکستان توڑنے میں بھارت کا ساتھ دیا

$
0
0

(قسط نمبر5)

جنگ 1965 ء میں پاکستان نے اپنے سے تین گنا زیادہ فوجی قوت اسلحہ اور ہتھیار رکھنے والے ملک بھارت کو حقیقت میں شکست دی تھی اور یہ واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان کی فوج عسکری صلاحیت و مہارت کے ساتھ جذبہء ایمانی اور حب الوطنی سے بھی سر شار ہے اسی لئے اتنی بہادری سے لڑی کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ یہ جنگ مغربی پاکستا ن کی بھارت سے ملنے والی سرحدوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر اور انہی فضاؤں میں لڑئی گئی۔

یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی دوسری جنگ تھی جو پہلی پاک بھارت جنگ کے 17 سال بعد لڑی گئی تھی۔ پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان نے بغیر کسی بڑی طاقت کی امداد اور پاکستان کے انگریز آرمی چیف اور بھارت پاکستان کے مشترکہ انگریز کمانڈر انچیف کی مرضی کے خلاف اپنے مسلمان فوجی کمانڈروں، کشمیری مجاہدین اور پاکستان کے قبائلی لشکر کے ساتھ جیتی تھی، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے تھے۔

یہ بھارت کی عسکری قوت، مہارت کی ساکھ اور ایک بڑے ملک ہو نے کے ناطے دنیا میں ایک بڑا چیلنج ہی نہیں بلکہ ندامت کا مقام تھا، بھارت نہ صرف پاکستان سے دو جنگوںمیں شکست کھا چکا تھا بلکہ 1962ء میں چین سے ہونے والی جنگ میں بھی بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی تھی، جس میں بھارت کے ہزاروں فوجی ہلاک زخمی اور لا پتہ ہوئے جبکہ بہت سے جنگی قید ی بھی بنائے گئے تھے اور بھارت سے چین نے لداخ میں ساڑھے گیارہ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ چھین لیا تھا۔ واضح رہے کہ اُ س وقت چین اقوام متحدہ کا رکن نہیں تھا اور اس کی جگہ تائیوان کو نمائندگی دی گئی تھی۔ چین اُس وقت تک ایٹمی قوت بھی نہیں تھا۔

یوں جن قوتوں نے کو شش کی تھی کہ بھارت کو چین اور پاکستان سے لڑ وا کرعلاقے میں اپنے نائب کے طور پر چین اور پاکستان پر مسلط کر دیں، اُن قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی اور اس خطے میں دنیا نے یہ تسلیم کر لیا کہ بھارت پاکستان اور چین دونوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یوں معاہدہ تاشقند امریکہ اور سابق سوویت یونین کی عالمی سیاسی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر مشترکہ فیصلہ تھا۔

امریکہ نے 1965 کی جنگ کے دوران ہی دنوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روک دی تھی، اور اس کا واضح دباؤ پاکستان پر تھا،کیونکہ بھارت جو سوویت یونین فرانس و برطانیہ سے بھی اسلحہ حاصل کرتا تھا، اُس کے لیے مسائل کم تھے مگر پاکستان کی دفاعی، عسکری ، صنعتی اور اقتصادی ضروریات کا مکمل انحصار امریکہ پر تھا۔ غالباً صدر ایوب خان کو یہی دکھ تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام ’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ رکھا، اگرچہ اس کا اردو لفظی ترجمہ یوں ہے کہ ’’دوست آقا نہیں‘‘ لیکن جب اِس کا اردو ترجمہ سامنے آیا تو علامہ اقبال کے مصرع ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی ‘‘ کو کتاب کے نام کے طور پر استعمال کیا گیا تھا جس سے اُس پوری صورتحال کو سمجھنے میں قومی فکر واحساس کے ساتھ بڑی وسعت آگئی تھی۔

ایوب خان اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو تو اُس وقت دنیا میں ’’فرینڈ آف امریکا ‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا مگرجنگ کے عین موقع پر جب پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ اگر اُسے اسلحہ طیاروں اور دیگر جنگی مشینری کے پرزہ جات کی سپلائی جاری رہتی تو پاکستان جنگ میںبھارت کو شکست دے کر مقبوضہ کشمیر آزاد کرا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کو مجبوراً نہ صرف 17 روز میں جنگ بند کرنا پڑی بلکہ تین مہینے بعد ہی جنوری 1966 میں سابق سوویت یونین کی ریاست ازبکستان کے مشہور شہر تاشقند میں معاہدے پر د ستخط کرنے پڑ ے جس میںطے پایا کہ 25 فروری 1966 سے پہلے پہلے دونوں ملکوں کی فوجیں کشمیر کی جنگ بندی لائن سمیت بھارت اور پاکستان کی سرحدوں پر زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آجائیں گی۔

یہ معاہدہ سرد جنگ کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز صورتحال لے کر سامنے آیا۔ 1960 سے1965 تک کیوبا میزائل بحران، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل، ویتنام کی شدید جنگ، پاکستان میں واقع امریکہ اڈے سے پرواز کرنے والے جاسوسی طیارے کا روس میں گرا کر پائلٹ کو گرفتار کرنے کا واقعہ، 1962 میں بھارت اور چین کی جنگ اور 1964 چین کا کامیاب ایٹمی تجربہ کر کے دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بننے کا اعلان اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں روس امریکی مفادات کا شدید ٹکراؤ اور بحران اپنے عروج پر پہنچ رہا تھا مگر امریکہ اور سابق سوویت یونین دونوں جو سرد جنگ کے اس دور میں ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھے۔

آخر کیوں بھارت کے حق میں پاکستان پر دباؤ ڈال کر صلح کر وانا چاہتے تھے؟ کیا جموں و کشمیر لداخ اور گلگت و بلتستان پر جو علاقے 1947-48 میں پاکستان نے اور 1962 میں چین نے بھارت سے جنگ کے ذریعے حاصل کر لیے تھے وہ تزویراتی طور پرکسی فیصلہ کن مرحلہ کے لیے کا فی نہیں تھے یا اس ریجن میں دنیا کے سب سے بلند اور بڑ ے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کے جو سب سے بڑے وسائل مو جود ہیں اِن پر جمہوریت ، انسانی حقوق کے اعتبار سے سیاست میں اُس وقت امریکہ اور روس کے درمیان مشترکہ مفاد تھا کہ بھارت کو اُس مشکل سے نکال لیا گیا۔

اس اندیشے کو یوں تقویت ملتی ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی پُر اسرار انداز میں موت واقع ہوئی اور بھارتی میڈیا نے یہ کہا کہ شاستری کو زہر دیا گیا مگر بھارتی حکومت نے اس پر یہ موقف اختیا رکیا کہ اس طرح خارجی سطح پر بھارت کے تعلقات د نیا کی بڑی قوتوں سے خراب ہوں گے اور پھر اِن کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم بنایا گیا، اس دوران ایک جانب تو امریکہ نے پاکستان کی امداد کم کردی اور پہلے1953 سے 1964 تک جو امداد تھی وہ بھی بہت کم ہو گئی بلکہ PL480 کے تحت دی جانے والی مفت خوراک کی امداد جو بھارت کو پاکستان سے زیادہ ہی دی جاتی تھی وہ بھی بہت کم کردی گئی۔

ایوب خان جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں تیز رفتاری سے کام کیا تھا ایک تو وہ عوام سے دور رہے، دوئم اُنہوں نے جو صدارتی نظام متعا رف کروایا تھا اس میں واقعی جمہوریت آٹے میں نمک کے برابر تھی اور آمر یت کہیں زیادہ تھی، پریس پر مکمل کنٹرول تھا، اُنہوں نے 1958 سے 1963-64 تک تیز رفتار ترقی کی مگر اس ترقی کے ثمرات زیادہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو ملے کیونکہ اس دور میں دنیا بھر میں صنعتی ترقی ہی کو مستحکم تسلیم کیا جاتا تھا۔ اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

یوں ایوب خان کے دور کے پہلے حصے میں انہوں نے صرف اور صرف صنعتی ترقی پر زور دیا۔ سرمایہ کاروں صنعتکاروں کو ضرورت سے زیادہ مراعات دیں، ٹیکس اور ڈیوٹیاں معاف کیں یا بہت زیادہ چھوٹ دی۔ دوسری جانب مزدوروں کو حقوق نہ دئیے گئے تھے، یوں ارتکاز ِ دولت کی وجہ سے ملک کی دولت کا بڑا حصہ مشہور 22 خاندانوں کے پاس جمع ہو گیا ، پھر دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے مقابلے میں کراچی میں صنعتی ترقی کہیں زیادہ ہوئی مشرقی پاکستان میں متوسط طبقے کا سائز مغربی پاکستان کے مقابلے میں بڑا تھا اور غربت کہیں زیادہ تھی اور جاگیردارانہ نظام بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، مغربی پاکستان میں بڑے جاگیردار بھی تھے جو ایوب خان کے ساتھ تھے مگر اِن کے سامنے صنعتکار اور سرمایہ دار مزے کر رہے تھے۔

1958 سے 1965 تک سات برسوں میں حقیقی سیاست اور سیاستدان آمرانہ فضا میں تھے مگر پانی کے نیچے لہروں کی ہلچل جاری تھی جو سطح پر خاموشی کے ساتھ کسی طوفان کی پرورش کر رہی تھی، پریس کی پابندی کی وجہ سے جہاں حقیقی صورتحال سے عام لوگ بے خبر تھے تو ا قتدار کے آخری برسوں میں بیوروکریسی نے صدر ایوب خان کو بھی حقیقی صورتحال سے بہت حد تک بے خبر رکھا تھا۔ معاشی گراف ایک خاص نکتے پر آکر رک گیا تھا۔

جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تو قوت خرید میں کمی کے سبب غریب عوام کی برداشت ختم ہونے لگی اور مزدوروں کی ہڑتالیں اور احتجاج بھی ہو نے لگے۔ جنوری 1965 میں عام انتخابات میں متحرمہ فاطمہ جناح کے مقابلے اگرچہ ایوب خان کامیاب ہو ئے تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی انتخابات اُن کی ناکامی کی بنیاد ثابت ہوئے ، اِ س کا ردعمل مشرقی پاکستان اور کراچی میں سامنے آیا مگر اس کو اُس وقت انتظامیہ نے قوت سے دبا دیا، اور پھر 1965 کی 17 روزہ جنگ جس میں عالمی میڈیا نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستان نے یہ جنگ جیتی اور اُن اخبارات اور رسائل کے ریکارڈ آج بھی نیٹ پر دستیاب ہیں، اس جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں ہم نے اُس جنگ کی فتح کو ضائع کردیا اور مجبوراً امریکہ اور روس کے دباؤ کو قبول کیا، یوں جہاں ایوب خان رخصت ہوئے وہاں بڑی قوتوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ بھارت کے کھو ئی ہوئی عالمی ساکھ کو بہتر انداز میں بھرپور قوت کے ساتھ سامنے لائیں گے۔

اور لال بہادر شاستری کی تاشقند میں پُراسرا موت کے بعد اندارگاندھی کے بطور بھارتی وزیر اعظم بر سراقتدار آنے کے بعد کے حالات اور واقعات یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی جانب سے بھارت کی مدد میں اضافہ ہوا۔ بھارت کو Pl480 کے تحت مفت خوراک کی امداد زیادہ مقدار میں دی جانے لگی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ 11 تا 15 اکتوبر 1949 میں امریکہ کا کیا تھا، اُن کی بیٹی اندرا گاندھی آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بعد جیسے ہی وزیر اعظم بنیں اُنہوں نے بھی پہلا دورہ 28-29 مارچ1966 میں امریکہ ہی کا کیا اور امریکی صدر لنڈن بی جانسن سے اہم ملاقاتیں کیں اور یہ بھی اہم ہے کہ اندراگاندھی نے 3 تا 16 دسمبر1971 تیسری پاک بھارت جنگ سے صرف ایک ماہ پہلے 3 نومبر تا 6 نومبر1971 امریکہ کا دورہ کیا تھا، جب امریکی صدر رچرڈ نکسن کو اقتدار میں آئے ہوئے دس ماہ ہو ئے تھے، اور یہ وہی صدر رچرڈ نکسن تھے جنہوں نے 1971 کی جنگ کے بعد یہ کہا تھا کہ اندار گاندھی نے اُن کو تین دسمبر سے قبل یہ یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔

اب اُس زمانے کے حالات و واقعات کے تناظر میں کیا کہا جا سکتا ہے کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اگر اندراگاندھی نے امریکی صدر کو دھوکہ دے کر پاکستان پر حملہ کیا تو اس کے ردعمل میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ کیا کیا؟ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ بھارت پر امریکہ کی جانب سے مہربانیاں اس کے بعد کچھ زیادہ بڑھ گئیں، 16 دسمبر1971 کو پاکستان نے مشرقی محاذ پر ہتھیار ڈال دئیے اور17 دسمبر 1971 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اور 20 دسمبر 1971کو پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے سپرد کر دیا گیا۔

سرد جنگ کے اُس دور میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی شکست اگرچہ ایک عالمی سازش تھی، اور امریکہ اور روس کے رویوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِ ن دونوں قوتوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا، سوویت یونین نے تو پاکستان میں قائم امریکی اڈے سے فضائی جاسوسی کا بدلہ بھی لیا تھا اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کا بھرپور ساتھ دے کر پاکستان سمیت خطے میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی حمایت اور مدد کرنے والے ممالک کو اس جنگ سے انتباہ بھی کر دیا تھا۔ پھر جہاں تک تعلق امریکہ کا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید امریکہ یہ چاہتا ہوکہ اسٹر ٹیجک پوزیشن کے اعتبار سے وہ صرف مغربی پاکستان ہی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، اور مشرقی پاکستان کا بوجھ نہ اٹھائے، دسمبر 1971 میں جنگ کے بعد پاکستانی عوام کی حالت انتہائی مایوس کن تھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایران، افغانستان دونوںنے اس موقع سے کوئی فائد ہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی سطح پر ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان، مشرقی پاکستان کا 147570 مربع کلو میٹر رقبے سے ہاتھ دھو چکا تھا تو مغربی پاکستان میں بھی تقریباً 15010مربع کلو میٹر رقبے پر بھارت کا قبضہ تھا،واضح رہے کہ جنگ سے پہلے یا جنگ کے بعد مذاکرات کے لیے خصوصاً آج کے زمانے میں خارجی اور داخلی سطحوں پر مضبوط پوزیشن کی بنیاد پر ہی میز پر کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جو 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ میں جیتا بھی تھا اور بہتر پوزیشن میں بھی تھا کیونکہ یہ پہلی پاک بھارت جنگ اُس وقت پاکستان انگریز آرمی چیف کی مرضی کے خلاف اور اپنے مسلمان فوجی افسران ، کشمیری مجاہدین اور پا کستان کے قبائلی لشکر کی بنیاد پر لڑا تھا اور یہ جنگ ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی۔ پاکستان کو اُس وقت اسلحہ اور ہتھیاروں کے لیے کسی پر انحصار کی ضرورت نہیں تھی یوں پا کستان کی یہ انتہائی غلطی تھی کہ پاکستان نے یہ جنگ اقوام متحدہ کے کہنے پر بند کی۔

نہرو اقوام متحدہ پہنچے تھے اور جنگ بندی کے لیے قائداعظم تیار نہیں تھے، اور پھر نہرو اپنے وعدے ہی سے نہیں، بلکہ عملی طور پر اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں سے مکر گئے جن پر انہوں نے اقوام متحدہ اور پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا، 1965 کی جنگ کے بعد 1966 میں نہ صرف بھارت کی شکست کے بدنما داغوں کو عالمی طاقتوں نے دھو دیا بلکہ اُس کی تباہ شدہ عسکری ساکھ کو بھی بحال کیا، مگر اب صورتحال بھارت کے حق میں تھی، 20ستمبر1971 کو جب بھٹو اقتدار میں آئے توسرکاری خزانے میں حکومت کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی صرف تین ماہ کی رقم تھی۔ بھٹو نے آتے ہی پچاس ، سو اور پانچ سوروپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی اور عوام کو چند روز کا وقت دیا کہ وہ اپنے کرنسی نوٹ جمع کر وا دیں واضح رہے کہ ایوبی دور میں بھی منی ٹریل بتانا ضروری ہوتا تھا، اُس وقت بھی یہ قانون نافذالعمل تھا یوں کروڑوں اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جو بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستا ن کے علاوہ پاکستان میں بھی ناجائز طور پر موجود تھے وہ ضائع ہوئے اور ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ زیادہ نہ ہوا۔

اُس وقت امریکہ سمیت مغربی دنیا نے یہ سوچا تھا کہ شائد پیپلز پارٹی ایسے حالات میںاپنے سوشلسٹ پروگرام کوترک کر کے امریکہ اور یورپی ممالک سے قرضے لے گی اور مکمل انحصار اِن پر کرے گی مگر اسی دور میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو مشرق وسطیٰ میں عرب امارات سمیت دیگر ملک آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے رکن بنے، لیبیا میں قدافی کا انقلاب بھی نیا تھا اور صدر کرنل قدافی مصر کے جمال ناصر کے بعد لیبیا ہی کے نہیں بلکہ عرب دنیاکے مقبول لیڈر تھے، سعودی عرب میں شاہ فیصل بھی پاکستان کے پُرخلوص دوست تھے، بھٹو نے پہلے چند دنوں عرب ملکوں کے طوفانی دورے کئے جن کی مدد سے مالی بحران فوراً قابو میں آگیا اور ملک میں عوام کو احساس ہی نہیں ہوا کہ پاکستان ایک بڑی جنگ ہارا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کی وہ اشیا جن میں ماچس، چائے، پٹ سن وغیرہ شامل تھیں وہ بھی دنیا کے دیگر ملکوں سے وافر مقدار اور تعداد میں منگوا کر مارکیٹ کو متوازن رکھا گیا۔

اس کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو حکومت کا پہلا بجٹ مالی سال 1972-73 خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا۔اب بھٹو نے بڑی جرات اور ہمت سے کام لیتے ہوئے پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکالنے کا اعلان کر دیا، اُن نازک حالات میں بھی یہ طے کر لیا کہ پاکستا ن اب اپنی خارجہ پالیسی کے تحت غیر جانبدار رہے گا۔ بھٹو اُس وقت کی سرد جنگ کا ٹھیک سے اندازہ کر چکے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں تو خاموش تماشائی تھا کہ اُسے اس سے کوئی نقصان نہیں تھا مگر اس سے آگے یعنی بھارت کے پاکستان کی جانب بڑھنے کی صورت میں امریکی مفادات کو خطرہ تھا۔ دوسری جانب چین پاکستان کے ساتھ تھا کہ جب تک معاملات طے نہ ہو جاتے اُس وقت تک بنگلہ دیش کو سوویت یونین اور امریکہ سمیت کتنے ہی ملک تسلیم کر لیتے وہ اقوام متحدہ کا رکن نہیں بن سکتا تھا۔

اس کے ساتھ ہی بھٹو نے ملک کے اندر 1972 کے عبوری آئین کے لیے کام کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دیں، آئین سازی کے عمل میں دائیں اور بائیں بازوکی جماعتوں کو شریک کیا اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کی اور ساتھ ہی انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر چند مہینوں میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ملک کو ایک نئی خارجہ پالیسی کے ساتھ ملک کو مضبوط کیا، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایسے اقدامات کئے کہ خود بھارت یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر پاکستان سے جلد مذاکرات نہ کئے تو بھارت پر عالمی اور اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا۔

یوں پاکستان کا دفترخارجہ جو براہ راست اُن کی اپنی نگرانی میں کام کر رہا تھا، بھارتی دفترِخارجہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہو ئے شملہ مذاکرات کے لیے کام کرتا رہا۔ اُس وقت بڑی عجیب صورتحال تھی وہی بھارتی وزیرِ خارجہ سردار سورن سنگھ تھے جو معاہدہ تاشقند کے وقت آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ تھے اور پر یشان تھے کہ کہیں پاکستان فوجوں کو زمانہ امن پر لے جانے پر اور خصوصاً کشمیر میں سیزفار لائن پر لے جانے پر اڑ نہ جائے، یہاں وہ اندراگاندھی کے ساتھ فاتحانہ انداز اختیار کئے ہو ئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کا ڈرافٹ 28 جون 1972 کو تیار کیا گیا تھا اور شائد اس میں 3 جولائی تک کئی تبدیلیاں کی گئی ہوں مگر یہ ضرور تھا کہ شملہ معاہدہ میں بھٹو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے تھے حالانکہ بھارت کی جانب سے کو ششیں تھیں کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ طے ہوا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر کے درمیان لائن کو سرحد تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بھارتی فارن آفس کے اعلیٰ عہد یدار معاہدے کے ڈرافٹ میں اس کو شامل کر چکے تھے، مگر بھٹو نے اس کو تسلیم نہیں کیا، بھٹو شملہ جانے والے وفد میں اپنی بیٹی بینظیربھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں اور سنیئر صحافیوں کو لے گئے تھے کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے مختلف دور میں تین چار مرتبہ ایسا ہوا کہ بھٹو جھنجھلا کر اٹھ گئے اور وفد میں شامل لو گوں سے کہا کہ سامان باندھ لیں اور واپس پاکستان جائیں، آخر مذاکرات اس پر طے ہوئے کہ سیز فارلائن 1971 کی جنگ بندی کے مقامات کے مطابق ہو گی، یہی موقف بھٹو کا تاشقند کے معاہدے کے وقت تھا جس کو اُس وقت امریکہ اور روس کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان اپنا نہیں سکا تھا، مگر اب پاکستان بہت کمزور پوزیشن پر تھا اس لیے اس کو مانا گیا اور سیز فارلائن کو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔

شملہ معاہدے میںیہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم کی بجائے دونوں ملک آپس میں مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کریں گے۔ اس معاہدے پر 3 جولائی 1972 کو پاکستان کی جانب سے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کئے اور اس کے بعد انہی دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ نے شملہ معاہدے کی توثیق کر دی۔ یوں اس معاہدے کی اہمیت اس اعتبار سے کہیں زیادہ ہے کہ اس معاہدے کو بھارت اور پاکستان کے تمام عوام نے جمہوریت کی بنیاد پر اپنے منتخب نمائندوں کی وساطت سے منظور کیا تھا۔

جنگ 1971 کی فتح کے بعد بھارتی وزیراعظم نے طنزیہ کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریے کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جولائی 1971 میں سوویت یونین اور بھارت کے درمیان جو معاہد ہ تعاون کے لیے ہوا تھا اس میں بنگلہ دیش کو بھی اس کی علیحدگی کے فوراً بعد شامل کر لیا اور شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو آئینی طور پر سیکولر اسٹیٹ بنا دیا لیکن بنگلہ دیش کو بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر یک جا نہیں کیا۔

یہ وہی بنگال تھا جس کو 1905 میں جب انگریز سرکار نے مشرقی اور مغربی بنگال کے دوصوبوں کے طور پر تقسیم کیا تھا تو اس سے مسلم اکثریت کے مشرقی بنگال کو فائدہ تھا اور کانگریس نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس کے ردعمل کے نتیجے میں 1906 میں ڈھاکہ میں آل نڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا، اور پھر 1911 میں کانگریس کے دباؤ کے نتیجے میں انگریز نے تنسیخ بنگال کرکے پھر ایک صوبہ بنگال بنایا تھا، لیکن پھر جب1941 کی مردم شماری میں مشترکہ بنگال کی آبادی کا 54.73 فیصد مسلمان تھا اور 1937 سے 1947 تک مشترکہ بنگال کے وزراء اعظم مسلمان تھے تو اس لیے کانگریس نے یہی بہتر جانا کہ بنگال پُر امن طور پر تقسیم ہو جائے۔

یہاں تقسیم کے وقت امن اس لیے ضروری تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو 23 سے 24 فیصد ہند و بنگالی آبادی تھی وہ مغربی اور مشرقی پنجاب جیسی خونریزی اور قتل وغارت گری سے نہ صرف بچ جائے بلکہ مشرقی پاکستان میں کل آبادی کی یہ چوتھائی بنگالی آبادی مغربی بنگال میں مذہبی نفرت کے ساتھ اِس طرح منتقل نہ ہو جیسے پنجاب میں سکھ اور مسلمان آبادی کو ایک نہایت سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت کیا گیا تاکہ اِن میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر قیامت تک نفرت رہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سکھ اور مسلمان پنجابی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کے بعد بھی محبت کے کسی رشتے سے جڑے رہیں، اور ایسا ہی ہوا۔

مگر 16دسمبر1971 کی فتح کے بعد نہ تو بھارت نے چاہا کہ بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی بنگال ایک ہو جائیں اور باوجود بھارت کی فوجی امداد اور مکتی باہنی کی ٹریننگ کے نہ ہی شیخ مجیب الرحمن یہ حوصلہ کر سکے کہ بنگلہ دیش کے 77% مسلمان عوام کو یہ کہہ دیں کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے والے بنگال کو بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر دوبارہ ایک کر دیا جائے، بلکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں جو بنگالی رہ گئے اور آج اُن کی تعداد 30 لاکھ ہے جس میں سے تقریباً پچیس لاکھ بنگالی صرف کراچی میں رہتے ہیں اِن بنگالیوں کو بھی بنگلہ دیش قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اِن بنگالیوں میں سے کوئی اگر بنگلہ دیش میں اپنے عزیز رشتہ داروں سے بنگلہ دیش جا کر ملنا چاہے تو اُسے نہ صرف پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے بلکہ جب تک بنگلہ دیش کا سفارت خانہ ویزا نہ دے تب تک وہ بنگالی بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہو سکتا۔

سرد جنگ کے آغاز پر جب تک سابق سوویت یونین ایٹمی قوت نہیں بنا تھا تواُس وقت شائد امریکہ،کینیڈا،آسٹریلیا، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی یورپی ممالک کے عزائم کچھ اور نظر آتے تھے، مگر روس کی جانب سے کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے کے ساتھ روس جب اسپیس ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتا آگے نکل گیا تو اشتراکی نظریات کی بنیادوں پر انقلابات کے ذریعے حکومتوں کے تختے الٹ کر وہاں کیمو نزم یا نیم اشتراکیت اور نیشنل ازم کی بنیاد پر اپنی حامی حکومتوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا۔

دوسری جانب امریکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھنے والی عموماً قبائلی ، مضبوط شخصیات، بادشاہوں ، فوجی جنرلوں، بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ اِن ملکوں میں عوام کے مذہبی عقائد کو جذباتیت کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا تھا، البتہ امریکہ اور مغر بی ممالک مختلف ملکوں میں نیشنل ازم اور شخصی حکومتوں کے لبادے میں نام نہاد جمہوریت کے بھی حامی تھے، یوں ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو کے نام پر ان قوتوں کے درمیان پنجہ آزمائی ہوتی رہی جس سے پوری دنیا کے معاشروں میں فطرتی انداز کا تہذیبی ارتقا ابہام کا شکار ہوا اور یوں نظریات اور عقائد کی بنیادوں پر سرد جنگ کا ایندھن غریب اور پسماندہ ملکوں کے عوام بنتے رہے۔

جنوبی ایشیائی ملکوں سمیت دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں پھر وہ قیادتیں بھی قتل ہوتی رہیں جو بڑی قوتوں کے مفادات کے لیے اپنی لیڈرشپ کو استعمال کرتی تھیں، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل 300 جنرل نشستوں میں سے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے160 پر کامیابی حاصل کر کے واضح اکثریت حاصل کی تھی اور مغربی پاکستان میں 138 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے81 نشستیں حاصل کی تھیں، مذہبی جماعتیں تقریباً 18 سے 20 نشستیں حاصل کر سکی تھیں اگر شیخ مجیب الرحمن قید سے رہائی کے بعد بنگلہ دیش کے اعلان کی بجائے ڈھاکہ میں پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلواتے تو یقیناً مغربی پاکستان سے لبرل جماعتوں کے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی ضرور شرکت کے لیے ڈھاکہ جاتے، چاہے پاکستان پیپلز پارٹی اس سے انکار ہی کیوں نہ کر تی، شیخ مجیب الرحمن مشترکہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے، وہ دو تہائی اکثریت سے نیا پارلیمانی آئین تشکیل دیتے مگر بڑی قوتیں ڈرامے میں کردار کے مطابق اسکرپٹ میں جتنا کردار دیتی ہیں اس سے زیادہ یا کم کرنا پھر ایکٹر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایکٹر کا انجام اُسے معلو م نہیں ہوتا، شیخ مجیب الرحمن نے بھی کردار ادا کیا مگر معاشرے میں مذ ہبی اور قوم پرستی کے رجحانات تاریخی پس منظر کے اعتبار سے فطری ارتقا چاہتے تھے اور پھر یہی وجوہات تھیں کہ 1975 میں فوجی بغاوت کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کو قتل کر دیا گیا، اس کے بعد پھر دوسرے فوجی جنرل ضیاء الرحمن نے 16سال تک حکومت کی اور اُن کا انجام بھی ایسا ہی ہوا اور اب جب سے بنگلہ دیش میںشیخ مجیب الر حمن کی بیٹی حسینہ واجد برسر اقتدار آئی ہیں انہوں نے 1971 کی بنیاد پر خصوصاً جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی ستر، ستر، اسی، اسی سالہ بزرگ شخصیات کو سزائے موت دی اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اقدامات کا ردعمل بھی شدید انداز سے آتا ہے۔ یہی صورت اندرا گاندھی اور اُن کے بیٹے راجیو گاندھی کی تھی جن کو سکھ اور تامل ہندو انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ یہاں بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادتوں کا حوالہ مختلف ہے کہ اُن کے قتل اور پھانسی میں بھی اگر چہ بڑی قوتوں کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں شخصیات نے مذہبی تضادات اور قومی تضادات کو متصادم ہو نے سے روکا، اس کی بہترین مثال بھٹو کا 1973 کا آئین تھا جس میں مذہبی جماعتوں سمیت نیشنلسٹ جماعتوں نے بھی دستخط کئے تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ بھٹو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت تیز رفتاری سے قومی اور بین الاقومی سطح پر مکمل آزادی اور خود مختاری سے ایسا کردار ادا کیا جو حیرت انگیز تھا ۔

بھٹو نے اقتدر میں آتے ہی نہ صرف پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے باہر نکال لیا بلکہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی بھرپور فوجی امداد کی، یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ ایم ایم عالم جیسے پائلٹ کو بھی اسرائیل کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے نہیں روکا اور پھر 1974 تک لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کر وا کر مسلم دنیا کے اکثر ملکوں کو باوجود اُن کے بہت سے اختلافات کے مختصر سے عرصے میں ایک دوسرے سے قریب کر دیا۔

مورخین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بڑے لیڈر یا قد آور لیڈر پہلی عالمی جنگ 1914-18 سے دوسری عالمی جنگ 1939-45 کے درمیان پید ا ہوئے جس میں برصغیر میں اصول پرست اور دو قومی نظریے پر ایک نیا ملک بنانے والے قائد اعظم محمدعلی جناح اور عدم تشدد کے فلسفے کے پر چارک موہن داس گاندھی تھے، اگر چہ پنڈت جواہر لال نہرو بھی اسی دور کی پیداوار تھے اور انہوں نے بھی آزادی کے فوراً بعد غیر جانبدارا ملکوں کی تنظیم کے حوالے سے عالمی سطح پر کردار ادا کیا تھا مگر بعد میں وقت نے ثابت کر دیا کہ انہیں جمہوریت اور تیسری دنیا کے مفادات کے مقابلے میں اپنا خاندان اور اس کے بعد ہند و مفادات عزیز تھے، اور وہ جس عہد میں تھے اُس دور میں نو آبادیاتی نظام ٹوٹ رہا تھا اور جس ملک میں بھی پہلا لیڈر سربراہ آیا آج بھی اُسی کی تصویر اُس ملک کے کرنسی نوٹ پر نظر آتی ہے ، اب جہاں تک بھٹو کی شخصیت کی بات ہے تو وہ دوسری عالمی جنگ کے26 سال بعد اقتدار میں آئے اور صرٖ ف پانچ سال کے عرصے میں پوری دنیا میں بڑی قوتوں کے مقابلے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کئے، یہی بھٹو تھے جنہوں نے باوجود بہت کمزور پوزیشن کے مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہد ے میں زندہ رکھا اور ٹیبل پر مذاکرات میں کھویا کم اور حاصل کہیں زیادہ کیا۔

(جاری ہے)

The post دونوں بڑی طاقتوں نے پاکستان توڑنے میں بھارت کا ساتھ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

ایبی احمدامن کے نوبیل انعام کے صحیح حق دار

$
0
0

حیرت کی بات تو اس وقت ہوتی جب امن کا نوبل انعام ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی احمد ایبی کے بجائے کسی اور کا نصیب بن جاتا۔ ویسے تو اس انعام کے سب سے زیادہ خواہش مند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور اپنی اس خواہش کا وہ بار بار اظہار بھی کرتے رہے ہیں، لیکن اسے ان کی بدقسمتی کہا جائے یا باقی دنیا کی خوش قسمتی کہ وہ ہر بار اس انعام کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ٹرمپ صاحب کے بقول نوبیل امن انعام کی کمیٹی ان کے ساتھ ہر بار ناانصافی کر جاتی ہے، جب کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کے سینے پر ایسی بہت سی کام یابیوں کے تمغے ہیں جس کی بنا پر اس انعام کا ان سے بڑا حق دار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے سینے پر سجے یہ تمغے سوائے ان کے اور کسی کو کیوں نظر نہیں آتے؟ بہرحال دل کے ارمانوں کا تو کام ہی آنسوؤں میں بہہ جانا ہوتا ہے، وہ بہہ رہے ہیں۔ لیکن یہاں ہمارا موضوعِ گفتگو ہیں ایتھوپیا کے جواں سال اور ذہین حکم راں ایبی احمد، جو اس سال نوبیل امن انعام کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ ایتھوپیا کے نومنتخب اور باہمت وزیر اعظم ایبی احمد، اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے جو حکمتِ عملی اپنا کر چلے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ایتھوپیا کی تقدیر بدلنا شروع ہوگئی۔ وہ ایتھوپیا جہاں سالوں سے خانہ جنگی کا راج تھا، قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ اریٹیریا کے ساتھ جاری سرحدی تنازعات کی نذر ہورہا تھا، وہاں ایبی احمد کی لائی گئی اصلاحات قابلِ قدر تبدیلیوں کا باعث بننے لگیں۔ عوام کے چہروں پُرسکون اترا ۔ معیشت کے ڈولتے پہیے کو قرار آیا اور پھر مختصر وقت میں ہی ایک ایسا نظام تشکیل پانے لگا کہ دنیا بھر کی نگاہیں ایتھوپیا کی جانب مرکوز ہونے پر مجبور ہو گئیں اور ایبی احمد کو بلاشبہہ ایک جینوئین لیڈر قرار دیا جانے لگا۔

اس سال امن کے نوبیل انعام کے لیے سویڈن کی باہمت ، اور کم سن بچی گریٹا تھنبرگ کو سب سے پسندیدہ شخصیت قرار دیا جارہا تھا ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے انفرادی سطح پر شروع ہونے والی گریٹا کی کاوشیں آج دنیا کے ہر ملک میں اپنا رنگ بکھیر رہی ہیں۔ اس بچی کی تقلید میں ہر جمعہ کو دنیا کے بیشتر ممالک کے بچے اسکول اسٹرائک کرکے سڑکوں پر آبیٹھتے ہیں اور دنیا بھر کے حکم رانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے فی الفور اقدامات کر کر اس دنیا کو ان کے اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ترین بنایا جائے۔ اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے گریٹا کا عزم اور حوصلہ اگرچہ مثالی اور ایک علیحدہ تفصیلی موضوع ہے لیکن میرے نزدیک ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی حمد کو اس بڑے انعام کے لیے منتخب کرنا اور گریٹا تھنبرگ پر ان کو فوقیت دینا ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے۔

اس وقت صرف افریقا کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی تنازعے، خانہ جنگی یا انتشار کی لپیٹ میں ہیں۔ ان ممالک میں جو حکم راں بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے وہ گذشتہ حکومتوں کی بُری کارکردگی کا رونا روتے روتے ہی اپنا دورِ اقتدار اور بچا کھچا اثاثہ ہڑپ کر کے عوام کو الوداع کہہ کر رخصت ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ مزید انتشار، بد امنی، بے چینی اور معاشی زبوں حالی کی صورت میں متعلقہ ممالک کا مقدر بن جاتا ہے۔

ایبی احمد کا مختصر دورِحکومت ان گنت مسائل میں گھرے، ان بے شمار ممالک کے لیے ایک زندہ مثال اور اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ہمت اور ارادے سے انسان بد سے بدترین صورت حال پر بھی قابو پالیتا ہے۔ ایبی احمد کو دیا جانے والا امن کا نوبیل انعام پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے جن کا ایمان ہے کہ سالوں کا بگاڑ دنوں اور مہینوں میں دور نہیں کیا جاسکتا۔ گو یا یہ ایک اعلان ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ بالآخر حاصل کر ہی لیتا ہے۔

ایتھوپیا سو ملین باشندوں کی سرزمین اور نائیجیریا کے بعد براعظم افریقا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کی معیشت کی ترقی کی رفتار اس وقت خطے میں سب سے زیادہ تیز ہے، جس کا سہرا بلاشبہ نئے وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ ان کی اصلاحات دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف ایتھوپیا ہی نہیںبلکہ افریقا کی تاریخ میں ایبی احمد جیسا ریفارمر پہلے کبھی نہیں آیا۔ ایبی احمد نہایت قابل اور تعلیم یافتہ وزیراعظم ہیں، جن کا سب سے بڑا مقصد ایتھوپیا کو نسلی گروہوں کی باہمی چپقلش سے نجات دلا کر پُرامن اور متحد ملک کی حیثیت سے ابھارنا ہے۔

اپنے منصب پر فائز ہوتے ہی انھوں نے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی جیل سے رہائی کا حکم نامہ جاری کیا۔ حکومتی سطح پر خواتین کو زیادہ نمائندگی دی اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کم بدعنوان ہوتی ہیں، اس لیے وہ ملک میں امن اور استحکام لانے میں زیادہ سے زیادہ مدد گار ثابت ہوں گی۔ حتٰی کہ وزیردفاع جیسے حساس منصب پر بھی ایک خاتون کو فائز کیا گیا۔ یوں ایتھوپیا روانڈا کے بعد افریقا کا وہ دوسرا ملک بن گیا، جہاں وزراء کی کل تعداد کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ چودہ سال قبل اس وقت کی ایتھوپین حکومت نے، اٹھارہ ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد، اپوزیشن لیڈر کو امریکا جلاوطن کردیا تھا۔ ایبی احمد نے نہ صرف اس کو ملک واپس بلایا بلکہ قومی الیکشن بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تعینات کر کے دنیا کو مزید حیرت زدہ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ اریٹیریا کے ساتھ سالوں سے جاری کشیدگی ختم کرنے اور مشترکہ سرحد دوبارہ کھولنے میں بھی ایبی احمد کا کردار سراہے جانے کے قابل ہے۔

اریٹیریا ایتھوپیا کا بدترین دشمن ملک تھا۔1991میں اس نے ایتھوپیا سے آزادی حاصل کی۔ اس کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ خون خرابے کا باعث بنا رہا، یہاں تک کہ مختصر عرصے میں ستر ہزار لوگ اس تنازعے میں جان سے گزر گئے ، جس کے بعد سن 2000 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک امن معاہدہ بھی ہوا لیکن یہ معاہدہ محض کاغذات تک محدود رہا اور مکمل امن عملی طور پر خطے کا مقدر بن نہ سکا۔

حتٰی کہ  2018میں اقتدار ایبی احمد کے ہاتھوں میں منتقل ہوگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دونوں ممالک کے لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ ایبی احمد کا یہ کارنامہ اس قدر بڑا تھا کہ ان کو اس بنیاد پر امن کے نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایبی حمد نے کینیا اور صومالیہ اور سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان سالوں سے جاری تنازعات کے حل میں بھی ثالثی کی اور ان ممالک کو مذاکرات کی میز پر لابٹھایا۔ ساتھ ہی انھوں نے ملکی معیشت کو ریاستی گرفت سے آزاد کر کے پنکھ پھیلانے کے جو مواقع فراہم کیے، اس کے لیے ایتھوپیا کی سرزمین ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

ارومو قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایبی احمد نے جب وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا تو عوام سے ایک ہی وعدہ لیا کہ وہ ’’زخم بھرنے کے لیے‘‘ ان کا ساتھ دیں گے۔ زخم بھرنے کی اس اپیل کا ایتھوپیا میں خیرمقدم کیا گیا اور ایبی احمد نے بھی اس وعدے کو کسی قدم پر فراموش نہیں کیا۔ نہایت کم وقت میں انھوں نے ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے جو سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان کا نام اس سال کے ٹائم میگزین میں سال کی سو بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ بلاشبہہ ایبی احمد کی سمجھ داری ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہے۔

وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں تبدیلی کی خواہش کی قیمت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اپنا خون بہا کے ادا کی ہے۔ اَسّی سے زیادہ نسلی گروہوں اور خانہ جنگی کے حامل ملک، ایتھوپیا میں ایبی احمد نے اپریل2018 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے ذہن میں ’’حقیقی‘‘ تبدیلی کا پورا نقشہ موجود تھا۔ شرپسند عناصر نے ان کے نیک ارادے بھانپتے ہوئے کئی بار ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی لیکن ایبی احمد ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے زندہ بچ گئے۔

مسلمان باپ اور عیسائی ماں کے بطن سے جنم لینے والے ایبی احمد جاپان کی طرز پر ہتھیاروں کے بجائے دماغ کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے 2010 میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا اور کم وقت میں ہی دلوں میں گھر کر لیا۔ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پُرامید بھی ہیں اور فکرمند بھی۔ ایک طرف امید ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے تو دوسری طرف فکر انھیں تھک کر گرنے نہیں دیتی۔

ایبی کی تمام اصلاحات اور منصوبوں کے باوجود یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ ایتھوپیا میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کرپشن کی جڑیں اندر تک پھیل چکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث ذہین اور باصلاحیت باشندوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑکر جا چکی ہے۔ نسلی تنازعات اب بھی ایک بڑے خطرے کی صورت ایتھوپیا پر منڈلا رہے ہیں، لیکن وہ ان سب چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

ایبی احمد نہایت تعلیم یافتہ وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے عدیس ابابا یونی ورسٹی سے امن اور سیکیورٹی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اپنی نوجوانی میں انہوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی اور اس کا دور ختم ہونے کے بعد فوجی تربیت حاصل کی اور تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لیفٹینینٹ کرنل بن گئے ۔  1995میں وہ اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر روانڈا میں تعینات ہوگئے۔ روانڈا اس وقت بدترین نسل کشی کے دور سے گزر رہا تھا۔ وہاں صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد قتل ہو چکے تھے۔

2010 میں ایبی احمد نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور روموپیپلز ڈیموکریٹک آرگنائزیشن کے رکن بن گئے۔ اس وقت وہ افریقا کے سب سے کم عمر حکم راں ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس وقت ایبی احمد نے ایتھوپیا کا اقتدار سنبھالا اسی سال چند ماہ کے وقفے سے پاکستان میں بھی تبدیلی کے بلند بانگ دعووں اور وعدوں کے ساتھ عمران خان نے اقتدار سنبھالا۔ دونوں کا وزارتِ عظمٰی کے لیے یہ تجربہ پہلا تھا۔ ایبی احمد عمران خان سے عمر میں کم ہو کر بھی سمجھ داری میں بازی لے گئے اور اس بات کو بہ خوبی سمجھ کر میدان میں آئے کہ مملکتیں ذاتی تجربوں کی بھینٹ چڑھنے کے رسک کی متحمل نہیں ہوا کرتیں۔ کسی بھی ملک کے عوام اپنا ووٹ، حکم رانوں کی شکل و صورت دیکھ کر نہیں بلکہ ان کا وہ عزم، حوصلہ، ہمت، جنون، جذبہ اور اخلاص دیکھ کر دیا کرتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کو پستی سے اٹھا کر اوپر لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ احمد ایبی ان صفات سے مالامال ہیں، ان کی صورت میں ایتھوپیا کو مسیحا مل گیا ہے، جو ان کے رِستے زخموں کو تیزی سے بھر رہا ہے لیکن ہم بہ حیثیت قوم اب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ہی ہیں۔

ایتھوپیا کی تاریخ کا مہنگا ترین عشائیہ

یہ دنیا کا سب سے منفرد جب کہ ایتھوپیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ڈنر تھا۔ ایتھوپیا کے جواں سال اور پُرجوش وزیراعظم ایبی احمد ایک ایک مہمان کا خود استقبال کر رہے تھے۔ ڈنر کے دوران کسی مخصوص کرسی پر براجمان ہونے کے بجائے وہ ٹیبل کے گرد گھومتے ہوئے مہمانوں کو ٹھیک طرح سے کھانے کی پیشکش کرتے رہے۔ یہ ڈنر اس اعتبار سے بالکل منفرد تھا کہ دو سو سرمایہ داروں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے اس میں شرکت کے لیے فی کس، ایک لاکھ تہتر ہزار ڈالر کی بھاری رقم ادا کی تھی۔

فنڈ ریزنگ ڈنر رواں سال فروری کے مہینے میں ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں منعقد کیا گیا۔ یہ ایبی احمد کے ان اچھوتے اقدامات میں سے ایک تھا، جو وہ ایتھوپیا کو شدید بحران سے نکالنے کے لیے اب تک کرتے آئے ہیں۔ اس ڈنر سے انھوں نے خطے میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے ایک بلین ڈالر کی بڑی رقم جمع کی ، جس کے لیے ان کا عزم تھا کہ یہ رقم تین سالہ منصوبے کی تکمیل پر لگائی جائے گی، جس میں دریاؤں کی صفائی، دارالحکومت میں خوب صورت عمارتوں کی تعمیر اور تفریحی پارکوں کا قیام شامل ہے۔ اس اچھوتے اور تاریخی ڈنر کے بعد شریک مہمانوں کا یہ کہنا تھا کہ ڈنر تو ایک بہانہ ہے، اصل میں تو ہم ایتھوپیا کے لیے امید کی کرن دیکھ کر بہت مطمئن ہوئے۔

The post ایبی احمدامن کے نوبیل انعام کے صحیح حق دار appeared first on ایکسپریس اردو.

نوبیل انعامات 2019 کس کس کے سر پر سجا تاج!

$
0
0

اس وقت دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے جات میں بہترین کارکردگی دکھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے بے شمار قسم کے انعامات متعارف کروائے جاچکے ہیں جو قابل ذکر کارکردگی کے حامل افراد کو باقاعدگی سے ہر سال دیے جاتے ہیں۔

لیکن نوبیل انعامات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ نہ صرف ان کے اعلان کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں بلکہ انہیں حاصل کرنے والی شخصیات کی ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی اور ان کی جدوجہد بارے میں بھی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ اپنے قیام کے ایک سو چار سالوں میں اب تک یہ انعامات ایک ہزار سے زائد شخصیات کو دیے جاچکے ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کو ان انعامات کے لیے سب سے زیادہ بار نامزد ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، جب کہ تین بار امن کا نوبیل انعام اس کمیٹی کے حصے میں آبھی چکا ہے۔ امریکا میں اس انعام کو حاصل کرنے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔

اس بات سے لوگوں کی اکثریت واقفیت رکھتی ہے کہ نوبیل انعامات زندگی کے وسیع شعبہ جات میں سے چھے اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں کیمیا، فزکس، ادب، امن، میڈیسن اور اکنامکس شامل ہیں۔ اس سال ان شعبوں کے جن مایہ ناز افراد کے سر پر یہ تاج سجا ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

آسٹریا کے ادیب پیٹر ہانڈ کے  ( Peter Handle ) بنے ادب کے نوبیل انعام کے حق دار:

کسی بھی ملک کے لے یقیناً یہ ایک بہت بڑاعزاز ہے کہ نوبیل انعام وہاں کے کسی شہری کا مقدر بنے۔ آسٹریلیا سب سے زیادہ نوبیل انعامات حاصل کرنے والے ممالک میں سولہویںنمبر پر ہے۔ اب تک بارہ نوبیل انعامات اس سرزمین کا مقدر بن چکے ہیں۔ اس سال ادب کے شعبے کے لیے آسٹریا کے ادیب پیٹر ہانڈ کے کا انتخاب کیا گیا۔ دسمبر 1942کی ایک یخ بستہ شام میں جنم لینے والے پیٹر ہانڈ کے نے پادری بننے کا خواب آنکھوں میں سجا کر نوعمری کی منازل طر کیں، لیکن وقت کے تیز چکر اور اندر اٹھتی تخلیقی صلاحیتوں کی مشترکہ سازشوں نے انہیں ادیب بنا کے چھوڑا اور ادیب بھی ایسا جس کے ادبی کارناموں کا اعتراف ایک دنیا کرنے پہ مجبور ہوگئی۔ اسی کی دہائی میں پیٹر آسٹریلیا میں ایک مایہ ناز ادیب کے طور پر شہرت کے آسمان کا روشن ستارہ بن کر چمکے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس سال ادب کے شعبے میں دو انعامات کا اعلان کیا گیا، کیوں کہ گذشتہ سال اٹھنے والے سیکس اسکینڈل کی وجہ سے ادب کے نوبیل انعام کو روک لیا گیا تھا، لہٰذا اس سال 2018کے ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا ہے جو پولینڈ کی معروف ادیبہ اور شاعرہ اولگا توکار چسک( Olga Tokarczuk ) کے حصے میں آیاہے۔ ان کے نام کے انتخاب کو اگر ایک طرف پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آسٹرین ادیب پیٹر ہانڈکے کا 2019کے نوبیل انعام کے لیے انتخاب پوری دنیا میں وجہ تنازعہ بن چکا ہے۔ وجہ کیا ہے آئیے اس پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پیٹر ہانڈکے معروف آسٹرین ناول نگار اور ڈرامہ نگار ہیں۔ 1966میں ان کا پہلا ناول The Hornets منظر عام پر آیا اور اس کے اگلے سال  The peddler شایع ہوا۔ 1968میں ان کا شایع ہونا والا ناول Kaspar  یورپ میں بے انتہا سراہا گیا، جس پر پیٹر کو برلن میں انعام سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے بے شمار فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے اور بہت سے ڈراموں میں بطور معاون رائٹر کام بھی کیا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی میں شہرت کے آسمان پر ستارے کی طرح چمکنے لگے۔ پیٹر ہانڈکے کی ذات سے جُڑے اس تنازعے کی جڑیں 1996میں ان کے شایع ہونے والے ایک سفرنامے A Journey to the rivers : Justice for Serbia  سے جاملتی ہیں۔

اس ناول میں سرب افواج کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا۔ اُس وقت بھی ان کے اس سفرنامے پر فوری ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے ناشروں نے اسے مزید چھاپنے اور اس کی پبلسٹی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے باوجود پیٹر نہ صرف اپنے موقف پہ قائم رہے بلکہ 2006 میں وفات پانے والے سرب صدر سلوبوڈون میلوسوک کے جنازے میں شرکت کر کے تعزیتی خطاب بھی کیا۔ یاد رہے کہ 1995میں سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل کشی کی گئی، جس میں سات ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ بین الاقوامی فوج داری عدالت نے سربوں کی طرف سے ہونے والے اس ظلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔

ماضی کے ان تمام واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسے ادیب کو نوبیل انعام سے نوازنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، جو سربوں کے اس ظلم پر ان کے ساتھ کھڑا ہو اور مسلمانوں کی نسل کشی کی مذمت کرنے کے بجائے سرے سے ایسے کسی سانحے سے ہی انکاری ہو۔ کیا اسی طرح ’’ہولوکاسٹ‘‘ سے انکار کرنے والے کسی شخص کو نوبیل انعام ملنا ممکن ہے؟

اس وقت پوری دنیا میں نوبیل انعام کے اس حق دار کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ امریکا میں کوسووو کے موجودہ سفیر نے اس فیصلے کو ایک بہت بڑا اسکینڈل قرار دیا ہے جب کہ نوبیل انعام کمیٹی کا کہنا ہے کہ پیٹر کو یہ انعام بہترین ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا ہے لیکن انسانی ہم دردی سے خالی دل کا مالک فرد ایک بہترین ادیب بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ البانیہ کے وزیرخاررجہ نے ایک ٹوئیٹ میں بھی اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شرم ناک قرار دیا ہے اور البانیہ کے وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا کہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کسی نوبیل انعام کو دیکھ کر ان کا دل متلائے گا۔ صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مصنفین اور ادبی تنظیموں کو بھی اس فیصلے پر تحفظات ہیںاور ان کے اندر سخت بے چینی پائی جارہی ہے۔

٭ کیمیا کا نوبیل انعام کروایا تین سائنس دانوں نے اپنے نام

کیمیا کا مضمون شاید طلبا کے لیے تو روکھا پھیکا ہو لیکن سائنس دانوں کے لیے ہمیشہ سے ایک دل چسپ موضوعِ تحقیق رہا ہے۔ لیتھیم آئن بیٹری کی دریافت ایک ایسا منفرد کارنامہ ہے جس کی بنا پر اس بار کا نوبیل انعام تین سائنس دانوں کا نصیب بنا ہے، جن میں امریکا کے جان بی گوڈاینوف (J.B Goodenough) ، برطانیہ کے ایم اسٹینلے ( Michel Stanley ) اور جاپانی کیمیا داں اکیر ایو شینو (Akira Yoshino )  شامل ہیں۔ اس بات سے بھلا کون واقف نہیں کہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال ہونے والی لیتھیم بیٹریاں کم وزن ، بے پناہ طاقت کی حامل اور دوبارہ چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان بیٹریوں کو روز ہم اپنے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں میں دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان کے خالق کیمیا دانوں کے نام سے واقف ہیں۔ نوبیل انعام کا حق دار بنا کر سویڈش کمیٹی نے ہمیں ان کیمیا دانوں کے نہ صرف نام اور چہروں سے روشناس کروایا ہے بلکہ ان کے کارناموں اور ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے اکسایا بھی ہے۔

کیمیا کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے کیمیا داں اٹھہتر سالہ برطانوی نژاد امریکی، مائیکل اسٹینلے ہیں۔ یہ بیک وقت برطانیہ کی Binghamton یونی ورسٹی اور امریکا کی نیویارک یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں، جس وقت ان کو نوبیل انعام دینے کا اعلان ہوا وہ جرمنی میں ایک کانفرنس میں موجود تھے، جو لیتھیم بیٹریوں کے ہی متعلق جاری تھی۔ اس اعلان کے بعد مائیکل اسٹینلے نے اس بڑی خوشی اور کام یابی کو وطن میں موجود اپنے دوستوں اور طلبا کے ساتھ ویڈیو چیٹ پر شیئر کیا۔ ٹھیک اسی وقت جرمنی کے کانفرنس روم میں بھی ان کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی ٹیبل کارڈز، پھولوں، پھلوں، ڈونٹس اور چاکلیٹس سے بھر دی گئی۔ جرمنی میں موجود ان کے طلبا اور ساتھیوں نے اس خوشی کو بڑے پیمانے پر سیلیبریٹ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہاں سے واپسی کی فلائٹ میں ایئرلائن نے بھی ان کو اسپیشل پروٹوکول دیا۔

1970 میں ایک تیل کی کمپنی میں کام کرنے کے دوران مائیکل اسٹیل نے جب اس وقت پڑنے والے تیل کے شدید بحران کا جائزہ لیا تو ان کے ذہن میں لیتھیم بیٹریوں کی تخلیق کا خیال آیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ایک بیٹری بنائی جس میں لیتھیم میٹل انوڈ اور ٹائٹینییم ڈسلفائڈ کیتھوڈ کا استعمال کیا۔ لیکن اس کی مینوفیکچرنگ پہ آنے والی بھاری لاگت اور سیکیوریٹی رسک کی وجہ سے یہ منصوبہ کمرشلائز نہ ہوسکا۔ اس منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1980 کی ابتدا میں امریکی سائنس داں گوڈ اینوف نے ری چارج ایبل بیٹری کو لیتھم ذخیرہ کرنے کے قابل تہہ دار آکسائڈز کی مدد سے تیار کرلیا۔

گوڈ اینوف نوبیل انعام حاصل کرنے والے اب تک کے سب سے معمر سائنس داں ہیں۔ ان کی عمر ستانوے برس ہے۔ 1922میں جرمنی میں جنم لینے والے گوڈ اینوف کو رواں سال مئی میں سائنس کی دنیا کے قدیم ترین ”کوپلے ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا جو انہیں لندن کی رائل سوسائٹی کی طرف سے دیا گیا تھا۔ 1952میں انہوں نے شکاگو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جس وقت انہوں نے یہ دریافت کی اس وقت وہ آکسفورڈ میں ان آرگینک کیمسٹری لیب کے سربراہ تھے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ” یہ انعام ثابت کرتا ہے کہ انسان ستانوے برس کی عمر میں بھی جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ لیتھیم بیٹریاں ابلاغ کی پوری دنیا میں ایک بڑے معاون کے طور پر خدمت انجام دے رہی ہیں۔”

جاپانی کیمیا داں اکیرا یوشینو نے ان دونوں کیمیا دانوں کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے پانچ سال بعد پہلی کمرشل لیتھیم بیٹری تیار کرلی جس میں انہوں نے کاربن میٹیریل استعمال کیا۔ یہ بیٹری 1991میں پہلی بار مارکیٹ میں متعارف ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسانی زندگی میں ایک بڑا انقلاب رونما ہوگیا۔ بغیر تاروں اور فوسل فیول کے چلنے والی یہ بیٹریاں بے شک انسانیت کی ایک بڑی خدمت کے مترادف ہیں۔ یوشینو کا کہنا ہے کہ اس انعام کے اعلان سے صرف تیس منٹ پہلے ان کے موبائل پر کال آئی اور انہیں مبارک باد دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انعام ان کے اور پوری قوم کے لیے بے شک ایک بڑا اعزاز تو ہے لیکن وہ اپنے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری بھی محسوس کررہے ہیں۔

صرف نوبیل انعام کو ہی نہیں بلکہ اکیرا یوشینو نے بتایا کہ پوری جاپانی قوم کے لیے ایک اور خوشی کی خبر بھی ہے اور وہ یہ کہ جاپان اس بار تاریخ میں پہلی بار” رگبی ورلڈ کپ” کے کواٹر فائنل تک آپہنچا ہے۔ اکیرا کو یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب جاپان ایک ایسا ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا جس کی کامیابی کی کہانیاں ہر شعبے میں پرواز کریں گی۔ اکیرا یوشینو کا کہنا ہے کہ لیتھیم بیٹریوں کے ضمن میں اب بھی بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ہم حاصل نہیں کرسکے، لہٰذا میری کی خواہش ہے کہ مستقبل میں اس پر مزید کام کروں۔

یہ سچ ہے کہ تینوں کیمیا دانوں نے انسانی زندگی کی ایک بڑی خدمت سر انجام دی ہے اور ہماری دنیا کو  Rechargeable World میں بدل ڈالا ہے اور تحقیق کا وہ دروازہ کھولا ہے جو کبھی بند ہونے والا نہیں۔

٭  فزکس کا نوبیل انعام کائنات کی ساخت اور اس کی نئی تفہیم کے نام

نئی دنیاؤں، کہکشاوں اور سیاروں کی دریافت صرف سائنس دانوں کا ہی نہیں بلکہ ایک عام فرد کی دل چسپی کا موضوع بھی ہے ۔ کائنات کی ساخت اور نئے سیاروں کی تلاش کا عمل نہ کبھی ختم ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ اس بار ایک اور سیارہ دریافت کرنے کا سہرا سوئزرلینڈ کے دو سائنس دانوں مائیکل مئیر( Michal  Mayor )اوردیدئیر کوئلو ( Didier Queloz ) کے سر بندھا ہے۔ 1995میں ان دونوں سائنس دانوں نے ہمارے سولر سسٹم کے باہر پہلا سیارہ دریافت کیا تھا، جس کو exoplanet کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت سے آج تک چار ہزار سے زائد ایکسو پلانٹ دریافت ہو چکے ہیں۔ جدید فلکیات میں اس دریافت کو ایک بہت بڑی کام یابی سے موسوم کیا جاتا ہے۔

یہ نہ صرف ایک انقلابی دریافت تھی بلکہ اس نے کائنات کی طرف سے انسانی نظریے میں بھی انقلاب پیدا کیا۔ ہزاروں سال پہلے زمین اور سولر سسٹم کسی دنیا کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ ہزاروں سال سے انسانی ذہنوں میں کلبلانے والے اس سوال کا جواب صرف چوبیس برس پہلے ملا۔ سوئزرلینڈ کے ان دو سائنس دانوں نے 1995میں ایک ایسے سیارے کا سراغ لگایا جو کسی ستارے کی مانند سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ اس کو51 peg b کا نام دیا گیا۔ یہ دراصل گیسوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو ہماری زمین سے پچاس نوری سال کی دوری پر ہے۔ جو وزن میں جوپیٹر کے برابر تھا۔ اس دریافت نے کائنات کے متعلق بہت سی سائنسی تھیوریز کو بھی تبدیل کردیا۔ یہ کائنات کے اس مقام پہ پہلی دریافت ہے جہاں ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بناتے ہیں۔

اس سال فزکس کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے تیسرے سائنس داں جیمز پیبل  (Jmaes Peebles ) ہیں، جنہیں انعام کی نصف رقم کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی سے منسلک جیمز پیبلز نے کائنات کے ارتقا سے متعلق علم میں اضافہ کیا اور اور نظامِ کائنات میں ہماری زمین کے مقام کے حوالے سے انقلابی تحقیقات کیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ بگ بینگ کے وقت کائنات میں مائیکروویو تابکاری موجود تھی۔ اس کے علاوہ کائنات میں مادہ سیاہ اور اس سے منسلک توانائی کے بارے میں بھی تحقیق کی جس سے کائنات کے متعلق سائنسی نظریات آگے بڑھانے میں بے حد مدد ملی۔

1901میں نوبیل انعامات کے اجرا کے بعد سے اب تک ایک سو تیرہ فزکس کے انعامات دیے جاچکے ہیں، جن میں سے انفرادی طور پر اسے حاصل کرنے والے سائنس دانوں کی تعداد سینتالیس ہے ، جب کہ تین بار یہ انعام خواتین سائنس دانوں کے نام بھی ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رواں سال انعام حاصل کرنے والے تینوں سائنس دانوں نے کائنات کی بنیادی ساخت اور دوردراز نئی دنیائیں دریافت کرنے کے حوالے سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور علمِ کائنات کے شعبے میں مزید تحقیق کے دروازے وا کردیے ہیں۔ فزکس کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قبل از وقت نہیں کہ اس کائنات میں جو معمے ہزاروں سالوں سے حل نہ ہوئے تھے اب ان گتھیوں کے سلجھنے کا وقت بہت قریب آپہنبچا ہے۔

٭کیلن، ریٹکلف اور سیمنزا بنے میڈیسن کے نوبیل انعام کے حق دار

خلیے آکسیجن کی دست یابی کو کیسے محسوس کرتے ہیں اور کیسے اسے اپنے موافق بناتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب حاصل کرکے انسانیت کی ایک بڑی خدمت کرنے والے ان تین سائنس دانوں میں سے دو کا تعلق امریکا اور ایک کا برطانیہ سے ہے۔ ان تینوں سائنس دانوں کو 2016 میں میڈیکل سائنس کے بہت بڑے ”لاسکر ایوارڈ”سے بھی نوازا گیا۔

2018 میں انہیں بایومیڈیکل سائنس کی قابل قدر خدمت انجام دینے پر ” میسری پرائز” کا بھی حق دار بنایا گیا۔

یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ ڈاکٹر پیٹر ریٹکلف(Dr Peter Ratcliffe )نے اپنی اس تحقیق کو جسے اس سال نوبیل انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے، آج سے ستائیس سال قبل ایک سائنس جنرل Nature  میں شایع ہونے کے لیے ارسال کیا تھا جسے چھاپنے سے انکار کردیا گیا۔ 5 اگست 1992کو اس سائنس جرنل کے ایڈیٹر Dr Rory Howlett نے ان کے ریسرچ پیپر کو مسترد کرنے کی اطلاع انہیں بذریعہ خط دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت ان کی ریسرچ اور پرپوزل کو ایک عام ذہن تو کیا دیگر سائنس داں بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ اسی وجہ سے ان کی ریسرچ کو دیوانے کی بَڑ قرار دے کر قابلِ اشاعت نہیں سمجھا گیا۔

کسی بھی نوبیل انعام یافتہ سائنٹفک ریسرچ کو ابتدا میں مسترد کردینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ 2013کے نوبیل انعام یافتہ سائنس داں پیٹر ہگس جنہوں نے Higgs Modelپیش کیا تھا، اس ریسرچ کو 1964میں ایک فزکس جنرل میں اشاعت کے لیے ارسال کیا گیا، جسے مسترد کردیا گیا اور بعدِازاں یہی تحقیق نوبیل انعام کی مستحق قرار پائی۔ اسی طرح 1977میں میڈیسن کا نوبیل انعام پانے والے Rosalyn Yallow  کی ریسرچ کو جرنل آف کلینکل انویسٹیگیشن نے مسترد کردیا تھا۔ یہی اس بار کے فاتح پیٹر ریٹکلف کے ساتھ ہوا۔

میڈیسن کے شعبے میں دوسرے نوبیل انعام یافتہ سائنس داں ولیم جی کیلن ( William G Kaelin )ہارورڈ یونی ورسٹی میں میڈیسن کے پروفیسر ہیں۔Dana -Farber لیبارٹری میں ان کی تحقیق کا موضوع کینسر کی وجہ بننے والے ٹیومر تھے۔ ان کو نوبیل انعام سے نوازنے کی خبر اسٹاک ہوم میں صبح پانچ بجے ٹیلی فون کال کے ذریعے دی گئی تو وہ حیران رہ گئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خواب جیسا تھا۔

اسی شعبے میں تیسرے انعام یافتہ سائنس داں جی لیونارڈ سیمنزا (  Gregg Leonard Seminza ) کا تعلق بھی امریکا سے ہے۔ اس عظیم ریسرچ کی ابتدا انہی کے ہاتھوں نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ تینوں سائنس داں اپنے اپنے طور پر اس تحقیق میں مصروف رہتے اور وقتاً فوقتاً اس بارے میں تبادلۂ خیال کرتے اور مختلف مواقع پر ملاقات کرکے اپنا ڈیٹا شیئر کرتے۔ سیمنزا کا کہنا ہے کہ ان کی اس تحقیق کو کئی مایہ ناز ریسرچ جرنلز نے مسترد کردیا تھا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلاک بسٹر اور حیران کن دریافتیں سائنس دانوں کی سمجھ سے بھی اکثر باہر ہوتی ہیں، لیکن سائنس خود آگے بڑھتی ہے اور اپنا راستہ بناتی ہے۔ واضح رہے کہ ان تینوں سائنس دانوں کی یہ تحقیق خون کی کمی، سرطان اور خون کی دیگر خطرناک اور جان لیوا بیماریوں جیسے ہارٹ فیل اور پھیپھڑوں کی خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے راستے ہم وار کرے گی۔ میڈیسن پر ہونے والی تحقیقات سے انسانی زندگی کو تکالیف سے بچایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کے انعام کا اعلان ہر سال سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔

٭  اقتصادیات کے شعبے کا نوبیل انعام بھی تین ماہرینِ اقتصادیات کے نام

تمام شعبوں کے نوبیل انعامات کے مقابلے میں اقتصادیات کے نوبیل انعام کا اجرا 1968میں کیا گیا۔ اب تک اکیاون بار اس انعام کا اعلان ہوا اور چوراسی افراد میں اسے تقسیم کیا گیا۔لہذا اس انعام کا اعلان بھی سب سے آخر میں ہی کیا جاتا ہے۔ اس شعبے کے لیے بھی تین کی گنتی کی تکرار ہوئی اور عالمی غربت کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کرنے والے تین چہرے دنیا کے سامنے آئے جنہوں نے اپنی تجرباتی سوچ کے تحت غربت جیسی بھیانک عالمی وبا کو دورکرنے کے لیے نئے اور عملی ماڈل پیش کیے ۔ ان تین میں سے دو نوبیل انعامات ایک ہی گھر کے نام ہوئے یعنی ابھیجیت بینرجی ( Abhijt Banerjee )اور ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو ( Esther Duflo ) ۔ ابھیجیت بھارتی نژاد امریکی ہیں جب کہ ان کی اہلیہ فرانسسی نژاد امریکی ہیں اورور میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں ۔ اس انعام کے تیسرے حق دار مائیکل کریمر ( Michael Kremer )امریکی ماہرِ اقتصادیات ہیں۔

مائیکل کریمر کو جس خدمت کی بنا پر اس انعام کا مستحق قرار دیا گیا وہ ان کا ایک فیلڈ ورک تھا ۔انہوں نے نوے کی دہائی کے درمیانی عرصے میں ایک تجربے کے ذریعے یہ دکھایا کہ اسکول جانے کے نتائج کا مغربی کینیا پہ کیا فرق پڑا۔ اس تحقیق کے براہِ راست نتیجے کے طور پر بھارت میں پانچ ملین بچوں کو اسکولوں میں remedial tutions فراہم کی گئیں۔ جب کہ بہت سے ممالک میں صحت کے شعبے میں بھاری سبسڈیز لاگو کی گئیں۔ساتھ ہی مائیکل کریمر نے ترقی پذیر ممالک میںگلوبلائزیشن ، تعلیم ، ہیلتھ کئیر اور زراعت اور انکے معاشرے پر پڑنے والے اثرات پر بہت زیادہ تحقیقات کیں۔

انہوں نے World Teachکی بھی بنیاد رکھی ، جس کے طفیل سالانہ چھے لاکھ بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ مائیکل کریمر Deworm The World  پروگرام کے ،کو فاؤنڈر بھی ہیں۔اس پروگرام کے تحت، کینیا ، ویت نام ، انڈیااور ایتھوپیا میں بہت کامیابی کے ساتھ ستائیس ملین لوگوں کو سالانہ طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پروگرام کے تحت مشرقی افریقا کے ایک ملین لوگوں کے لیے ، صاف پانی کی فراہمی کا کام بھی جاری ہے ۔اس کے علاوہ ان ممالک کے گیارہ ملین باشندوں کو نمونیے کی ویکسین بھی دی جا چکی ہے۔

اقتصادیات کے شعبے میں دوسری نوبیل انعام یافتہ خاتون پروفیسر ڈفلو نے پیرس سے تاریخ اور اقتصادیات کی ڈگری حاصل کی۔پھر 1999میں ایم آئی ٹی سے ہی اکنامکس میں پی ایچ ڈی کیا۔ڈفلو نے بے پناہ اعزازات اور ایوارڈز حاصل کیے ۔2015میں دی پرنسس آف آسٹریاز ایوارڈ فار سوشل سائنس اور دی اے ایس کے سوشل سائنس ایوارڈ حاصل کیا۔2011میں ڈیوڈ اینڈ کرشو ایوارڈ حاصل کیا۔ ڈفلونے اپنے شوہر ابھیجیت بینرجی کے ساتھ مل کر Poor Economics کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کو 2011میں بزنس بک آف دا ائیر کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی اور اسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ سترہ زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ چھیالیس سالہ ڈفلو یہ نوبل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین اور دوسری خاتون ہیں۔ انعام ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان کی اس کامیابی کے بعد اقتصادیات کے شعبے سے وابستہ دیگر خواتین کا بھی حوصلہ بڑھے گا اور ان کے ساتھی مرد ان کو برابر کی عزت دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان سے قبل اقتصادیات کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی خاتون ایلینور کا تعلق امریکا سے ہے۔

اٹھاون سالہ ابھیجیت بینرجی اس نوبیل انعام کے تیسرے حق دار ہیں ۔ کلکتہ کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کر کے یہ امریکا چلے گئے جہاں1988میں ہارورڈ یونی ورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت یہ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔ 2003میں انہوں نے عبداللطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی۔ ساتھ ہی یہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جن میں What the economy need now?( 2019)، Poor Economics ( 2011 ) اور Making Aid Work ( 2007) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور کتابیں اور کئی ڈاکیومینٹری فلمز بھی ان کے پروفائل کا حصہ ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھیجیت کے والد دیپک بینرجی پریزیڈنسی کالج میں اکنامک کے استاد اور والدہ نرملا بینرجی ماہرِاقتصادیات ہیں۔

The post نوبیل انعامات 2019 کس کس کے سر پر سجا تاج! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>