Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے عوامی رویہ تبدیل ہونا بھی ضروری ہے

$
0
0

 لاہور: مہذب ملکوں میں پولیس عوام کی ’’خدمتگار‘‘ ہوتی ہے اور لوگ بلا جھجک اور خوف کے اپنے مسائل کے حل کیلئے پولیس سے رابطہ کرتے ہیں، پولیس مکمل ذمہ داری، توجہ اور پیشہ ورانہ استعداد کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔

8 گھنٹے کی ڈیوٹی کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد وہاں پولیس اہلکار سے مزید کام لینے کا تصور موجود نہیں ہے تاہم اگر کوئی بہت بڑی ایمرجنسی ہو جائے تو اضافی ڈیوٹی لی جا سکتی ہے۔ اب ذرا پاکستانی پولیس کا جائزہ لیں تو یہاں شریف آدمی پولیس کو دیکھتے ہی سہم جاتا ہے، لوگ اپنے ساتھ ہونے والی واردات یا کسی قسم کی زیادتی تو سہہ جاتے ہیں لیکن اس ڈر سے تھانے میں نہیں جاتے کہ پولیس والوں کے’’مطالبات‘‘ کیسے پورے ہوں گے۔

ہمارے پولیس اہلکار کی ظاہری حالت بھی کسی ’’خستہ حال کھنڈر‘‘کی مانند دکھائی دیتی ہے، وردی کی تبدیلی کے نام پر اسے اولیو کلر کی یونیفارم جس ڈیزائن میں پہنائی گئی ہے اس سے پولیس کا’’رعب‘‘ ہی ختم ہو گیا ہے اس سے تو کالی وردی ہی اچھی تھی کم ازکم پولیس کی انفرادیت تو معلوم ہوتی تھی، مرے کو مارے شاہ مدار کی طرح کوئی پولیس والا نئی وردی کے ساتھ جب پاوں میں بوٹ پہننے کی بجائے سینڈل پہنتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی نوکری سے ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہے۔

تھانے کی ’’ماں‘‘ کہلانے والا محرر بھی اپنی ذات میں ایک ’’ڈکٹیٹر‘‘ ہوتا ہے۔ پولیس کانسٹیبل سارا دن بنک ڈیوٹی کے بعد تھانے آکر ابھی وردی اتار رہا ہوتا ہے کہ محرر بادشاہ یہ فرمان جاری کر دیتا ہے کہ نفری کم ہے اس لئے اسے گشت پر بھی جانا ہوگا وہ بیچارہ گشت سے واپس آتا ہے تو اسے ’’چھاپہ مار ٹیم‘‘ میں شامل کردیا جاتا ہے۔ جن سپاہیوں کی محرر سے ’’لائن ‘‘ملی ہوتی ہے وہ ’’مشقت‘‘ سے محفوظ رہتے ہیں اور انہیں صرف ایسی ڈیوٹی دی جاتی ہے جس میں’’آمدن‘‘ آتی ہو۔

تھانے کی گاڑی خراب ہو جائے یا پھر ایس ایچ او یا ایس ڈی پی او کے کمرے میں اے سی یا سمارٹ ٹی وی لگوانا ہو تو نکے تھانیداروں کو’’چندہ‘‘ جمع کروانا پڑتا ہے۔ ان سب حالات کی وجہ سے پولیس اہلکار کے مزاج میں تلخ، تنخواہ کے ساتھ کرپشن اور زبان پر گالی آنا معمول بن جاتا ہے۔

جب ہم پولیس کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا 90 فیصد تعلق تھانے کے سپاہی سے لیکر ایس ایچ او یا انچارج انویسٹی گیشن رینک کے ملازمین سے ہوتا ہے کیونکہ عوام کا 99 فیصد واسطہ انہی سے پڑتا ہے اور انہی کا رویہ ’’پولیس کلچر‘‘ کہلاتا ہے۔ ڈی ایس پی اور اس سے اونچے رینک کے افسروں کا عوام کے ساتھ رویہ قدرے بہتر ہوتا ہے۔کہنے کو تو پنجاب پولیس کو ایک کھرب روپے سے زائد کا سالانہ بجٹ ملتا ہے لیکن جب وسائل کی فراہمی کا جائزہ لیں تو صورتحال بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔

کوئی بڑا مظاہرہ ہو یا کرکٹ میچ ہمیں اس کے اختتام پر سڑکوں پر سینکڑوں پولیس اہلکار ’’لفٹ‘‘ لینے کیلئے کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو موٹر سائیکل یا کار سوار کو روکنے کا اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اور لوگ انہیں ’’لفٹ‘‘دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہم پولیس کے رویوں پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن بحیثیت عوام اپنے رویے کو کسوٹی پر نہیں پرکھتے۔ پہلے تو یہ لازم ہونا چاہئے کہ پولیس فورس کے پاس ٹرانسپورٹ کا وافر انتظام ہو اس کے سپاہیوں کو سڑکوں پر کھڑے ہو کر لوگوں سے لفٹ لینے کی ضرورت ہی نہ ہو لیکن اگر کبھی کوئی باوردی اہلکار ایسا کرتا ہے تو عوام کو بھی اس اہلکار کو احترام اور عزت دینا چاہئے جو اس کے اور معاشرے کے امن و امان اور تحفظ کا فرض انجام دے رہا ہے۔

ہم لوگوں کی بے رخی کا یہ عالم ہے کہ عید کی نماز پڑھ کر جب ہم باہر نکلتے ہیں تو انجان بندوں کے گلے ملکر عید مبارک تو کہہ دیں گے لیکن جو سپاہی کئی گھنٹوں سے ہاتھ میں بندوق تھامے مسجد اور نمازیوں کی حفاظت کر رہا ہے اسے گلے نہیں لگاتے اور وہ اہلکار مسجد کے ایک کنارے کھڑا لوگوں کو عید ملتے دیکھتا رہتا ہے۔

عمران خان برطانوی نظام حکومت سے بہت متاثر ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں اسی نظام کا حوالہ دیا ہے۔ عمران خان نے بھی پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بہت دعوے کر رکھے ہیں اور ابھی تک یہ صرف ’’دعوے‘‘ ہی ہیں لیکن کپتان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف پولیس اصلاحات سے پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوگا ایک جانب ہمیں پولیس کو وسائل، تربیت اور پرسکون طرز ملازمت دینا ہوگا تو دوسری جانب عوام اور پولیس میں موجود نفرت اور بے اعتباری کی دیوار بھی مسمار کرنا ہو گی، دونوں فریقین کو ایکدوسرے کاا حترام کرنا چاہئے۔

پولیس کے تربیتی سکولوں میں ایسے کورس بھی شامل کرنا چاہئیں جو پولیس کی گفتار اور کردار میں بہتری لائیں ۔ صرف پولیس غلط نہیں ہے عوام بھی غلط ہے اور جب تک دونوں اپنی اپنی غلطیاں درست نہیں کرتے پولیس کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا چاہئے کتنے مرضی قانون بنا لیں یا پولیس اصلاحات لے آئیں۔ پولیس میں سیاسی مداخلت کو روکنا سیاستدانوں کے بس میں دکھائی نہیں دیتا اگر ایسا ممکن ہوتا تو ’’تبدیلی سرکار‘‘ کے اس دور حکومت میں پولیس کسی حد تک پاک صاف ہو چکی ہوتی لیکن یہاںتو سفارشی کلچر مزید مضبوط ہو گیا ہے۔گزشتہ دنوں آئی جی پنجاب پولیس کا ایک بیان دکھائی دیا۔

جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پولیس میں ہونے والے تمام تقرر وتبادلوں میں ان کی رائے شامل ہوتی ہے اور پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے۔کیپٹن (ر) عارف نواز انفرادی حیثیت میں اچھے انسان ہیں لیکن وہ کامیاب فورس کمانڈر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بیان شاید اپنا متوقع تبادلہ روکنے کی ایک کوشش ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ان کی ماتحت فورس بھی ان کی کمانڈ سے مطمئن نہیں ہے۔ صرف ہدایت نامے جاری کر دینا کمانڈر کی کارکردگی کا پیمانہ نہیں ہوتا، وہ ڈھائی لاکھ نفری پر مشتمل ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس کے سربراہ ہیں انہیں اپنے ادارے کی بنیادوں کو درست کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی لیکن اس وقت تو یہ عالم ہے کہ پولیس اصلاحات کے نام پر سول اور پولیس بیوروکریسی دست وگریباں ہیں۔

پچھلے کئی روز سے ٹی وی چینلز پر پولیس اصلاحات کے معاملے پر ہونے والے ٹاک شوز میں متعدد سابق آئی جیز بہت جذباتی گفتگو کر رہے ہیں اور پولیس میں احتساب کیلئے تجاویز بھی دے رہے ہیں لیکن کوئی ان سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آپ لوگوں نے اپنے 35 یا37 سالہ سروس کیریئر میں بالخصوص اپنی آئی جی شپ میں ان تجاویز کو لاگو کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔

ہم نے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں، کھربوں روپے کا نقصان اٹھایا ہے، افواج پاکستان نے بہت ہمت و استقامت کے ساتھ سرحدوں کو محفوظ بنایا ہے اور اندرون ملک بھی عسکری خفیہ ایجنسیاں بھرپور کام کر رہی ہیں لیکن ملک کے اندر امن وامان کو برقرار رکھنا اور عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پولیس کلچر اور پولیس کارکردگی کی ’’تبدیلی‘‘ اس دن ثابت ہو گی جب ہمیں کرکٹ میچ کے دوران سکیورٹی کیلئے رینجرز کی مدد درکار نہیں ہوگی اور ہمارا اپنی پولیس پر یہ اعتماد قائم ہو جائے گا کہ وہ اس قابل ہے کہ سکیورٹی کے فرائض تنہا انجام دے سکتی ہے، فی الوقت تو کرکٹ ٹیموں اور سٹیڈیم کی حفاظت کیلئے رینجرز کی تعیناتی پولیس کی پیشہ ورانہ استعداد اور کارکردگی پر حکومت کا’’عدم اعتماد‘‘ ہے۔

The post پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے عوامی رویہ تبدیل ہونا بھی ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


تری خموشی زبان دانی سے ماورا ہے
یہ بات الفاظ اور معانی سے ماورا ہے
ہماری تشنہ لبی کو کافی نہیں ہے دریا
ہم ایسے پیاسوں کی پیاس پانی سے ماورا ہے
یہ زندگی جس کو سب اداکار چاہتے ہیں
ہماراکردار اِس کہانی سے ماورا ہے
ہماری تشنہ دلی محبت سے کیا بجھے گی
ہماری خواہش تری جوانی سے ماورا ہے
مری دعا میں سوال بخشش کا ہے وگرنہ
جو مَر گیا ہے وہ مہربانی سے ماورا ہے
(علی شیران۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


آنکھ پر خواب کا بوجھ تھا بے بہا، زندگانی اذیت کا انبار تھی
کس کو معلوم تھا روح کس نوع کی بے کراں بے یقینی سے دوچار تھی
کون کرتا مناظر کی بخیہ گری، کون زخموں پہ مرہم کا دَم کاڑھتا
روکتا کون سینوں کی سسکاریاں، ہرصدا، ہر مناجات بے کار تھی
کیا ہوئی وہ ندی جس پہ سکھیوں کی باتیں تھیں اور گاگروں کی کھنک تھی بسی
کیسے اجڑے وہ پنگھٹ جہاں حسن تھا، زندگانی کی ہر شام بیدار تھی
سونی سونی ہوئی بستیوں کی فضا، وہ جو چڑیاں تھیں جا کر پرے بس گئیں
اجڑی اجڑی ہیں گاؤں کی پگڈنڈیاں، جن کے شانوں پہ سبزے کی بھرمار تھی
کھا گئی کھیت کھلیان خواہش گری، کچے رستے سڑک بوس ہوتے گئے
ہائے پیپل کی وہ نرم چھاؤں کٹی جس کے سائے میں صدیوں کی مہکار تھی
بجھ گئیں رونقیں اپنے چوپال کی، سادہ لوحوں کی باتیں ہوا ہو گئیں
اس ترقی کے آنے سے پہلے یہاں زندگی چہلیں کرتی ہوئی نار تھی
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ، راولپنڈی)

۔۔۔۔
غزل


عجیب شور میں ڈوبی وہ ایک وادی تھی
جہاں پہنچ کے سبھی نے صدا گنوا دی تھی
وہ میرے خواب پہ بھی آنکھ رکھنا چاہتا تھا
سو اپنی نیند مری آنکھ میں سلا دی تھی
ندی کا کہہ کے کسی نے مجھے بلایا تھا
اور اس کے بعد مجھے تشنگی تھما دی تھی
بچھڑ کے تجھ سے اسے میں نے بھی پکار لیا
کسی سے جس نے بچھڑ کر مجھے صدا دی تھی
شجر اداس، مکاں، راستے، چراغ اداس
کہ میرے شہر کی ہر چیز تیری عادی تھی
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


پتّھروں میں گلاب دیکھتا ہوں
اپنی مرضی کے خواب دیکھتا ہوں
آنکھ سے وہ دکھائی دیتا نہیں
دل سے میں بے حساب دیکھتا ہوں
یہ بھی ممکن ہے ڈوب جاؤں میں
اُس کی آنکھوں میں آب دیکھتا ہوں
دید کا اک سوال ہیں آنکھیں
اس کا چہرہ جواب دیکھتا ہوں
راہِ حق میں جو جان ہارتا ہے
میں اسے کام یاب دیکھتا ہوں
تُو نے دنیا کہا جِسے کیفی!
میں اُسے اک سراب دیکھتا ہوں
(محمود کیفی۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


جو آج تجھ کو امیدوں کا درس دیتی ہے
وہ خود کشی کے بھی اک تجربے سے گزری ہے
چلو چلیں کہیں تجدیدِ دوستی کے لیے
کہ گھر پہ کام نہیں، دفتروں میں چھٹی ہے
ہمارے شہر میں کیسی عجب روایت ہے
یہاں یہ آنکھ فقط حادثوں پہ کھلتی ہے
وہاں وہ دور سے تکتا ہے میرے ٹیرس کو
مری نظر میں بھی وہ گھر، وہ بالکونی ہے
تُو جانتا ہی کہاں ہے کہ کس طرح ہجرت
بسے بسائے گھروں کو اجاڑ دیتی ہے
تُو اپنے ہاتھ سے جس کو لگا کے بچھڑا تھا
ہمارے صحن کی وہ بیل پھول لائی ہے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


اس سے کرنی تھی آخری فریاد
اس کے جانے کے بعد کی فریاد
روشنی چِیختے نہیں تھکتی
تیرگی کر نہیں رہی فریاد
میں خدائے انا تھا لیکن دوست
میں نے بھی کر کے دیکھ لی فریاد
جانے والے نے جب کہا خوش رہ!
مجھ سے آکر بہت لڑی فریاد
زیست خیرات سے بھی بَدتر ہے
مل گئی خوش ہوئے! چِھنی فریاد!
لکھ رہا ہوں نئی غزل کل سے
لکھ رہا ہوں کوئی نئی فریاد
(شہزاد مہدی۔ سکردو، بلتستان)

۔۔۔
غزل


زندگی کا سہارا کارِ عشق
ڈوبتے کو کنارہ کارِ عشق
کربلا ہو یا آتشِ نمرود
امتحاں میں ہے سارا کارِ عشق
سوچتے ہیں نجانے کب ہو گا
کارآمد ہمارا، کارِ عشق
کر رہا ہے خطا دوبارہ دل
کر رہا ہے دوبارہ کارِ عشق
پھول کھلنا چمکنا تاروں کا
ہے یہ سارے کا سارا کارِ عشق
ہر محبت کی آنکھ سے بینش
کر رہا ہے نظارہ کارِ عشق
(بینش سلیم باقی۔ علی رضا آباد، لاہور)

۔۔۔
غزل


اندھیرا چار سو پھیلا ہے میرا منہ چڑاتا ہے
مرے کمرے میں چاروں اور شب بھر دندناتا ہے
وہ میرا دیکھنا اس کو مسلسل دیکھنا اس کو
اور اس کا دیکھ کر مڑنا ہمیشہ دل دکھاتا ہے
کبھی ناراض ہو جانا تو جلدی سے منا لینا
کہاں ایسی سہولت اب کہ بچپن یاد آتا ہے
ابھی تو عمر باقی ہے مگر ہم کو نجانے کیوں
کسی بدروح کا سایہ زمانے سے ڈراتا ہے
علی کچھ دیر تو لگتا ہے کوئی ہے جو اپنا ہے
مگر پھر بے وفا وہ شخص جی بھر کے رلاتا ہے
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
’’محبت ایسی ہوتی ہے‘‘


محبت ایسی ہوتی ہے۔۔۔
ہمیں شاداب رکھتی ہے
دلوں میں گر اتر جائے
تو بس بے تاب رکھتی ہے
یہ ہر ویران رستے میں دیئے روشن سے کرتی ہے
سنو، صحراؤں کی مٹی کو بھی سیراب کرتی ہے
یہی تنہائی میں دل کش دھنیں ہم کو سناتی ہے
یہ ڈھلتی شام میں شبنم کی صورت رقص کرتی ہے
یہ ہر انجان موسم میں بنا پوچھے، بنا دستک
حسیں سپنوں کی صورت گہری آنکھوں میں اترتی ہے
محبت ایسی ہوتی ہے
دلوں کو شاد رکھتی ہے
ہمیں آباد رکھتی ہے
مگر یہ بھی سنا ہو گا۔۔۔
کہیں تم نے پڑھا ہو گا!
محبت ہی تو ہوتی ہے۔۔۔
جو بگڑے تو کسی سے کچھ سنبھالا ہی نہیں جاتا
محبت ہی تو خوشیوں کا نگر تاراج کرتی ہے
محبت ایسی ہوتی ہے۔۔۔
(سدرہ ایاز۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


اپنے غم کو کیمرے سے ہی چھپا جاتا ہوں میں
اس لیے تصویر میں بھی خوش نظر آتا ہوں میں
ریل کی پٹڑی بچھی ہے خود کشی کا سین ہے
اس کہانی کو بدل کر اور کچھ لاتا ہوں میں
تم کنارے پر ذرا ٹھہرو، تمھارے واسطے
جھیل میں جاتا ہوں، جا کر چاند لے آتا ہوں میں
تیرے کوچے سے گزرتا ہوں فقیروں کی طرح
گیت کوئی درد میں ڈوبا ہوا گاتا ہوں میں
(نذیر حجازی۔ نوشکی)

۔۔۔
غزل


کسی کا یوں دیوانہ ہو گیا ہوں
کہ اپنے سے بیگانہ ہو گیا ہوں
میرے اندر نئے افکار، جذبے
بظاہر تو پرانا ہو گیا ہوں
بڑی تحقیق مجھ پر ہو رہی ہے
کوئی مخفی خرانہ ہو گیا ہوں
طریقت کا کوئی نکتہ ہوں یا میں
کلامِ عارفانہ ہو گیا ہوں
مجھے پڑھنے لگے اپنے پرائے
کوئی دل کش فسانہ ہو گیا ہوں
(محمد حسین عارف۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


کھلے ہوئے ہیں دھوپ میں کئی گلاب آج بھی
سُلگ رہے ہیں آنکھ میں پرانے خواب آج بھی
فلک کا چاند رکھ دیا کسی نے میرے ہاتھ پر
مجھے کسی نے کر دیا ہے لاجواب آج بھی
دل و نظر بچھا دیے ہیں میں نے تیری راہ میں
ترے لیے کُھلے ہیں میرے دل کے باب آج بھی
ترے قدم کو جس نے بھی چراغِ رہ بنا لیا
وہی ہوا قدم قدم پہ کام یاب آج بھی
مرے وطن کے خاکسار نیند سے اُٹھے نہیں
سروں پہ آگیا ہے کب کا آفتاب آج بھی
(خادم حسین خاکسار۔ راولپنڈی)
غزل
آپ کے سینے میں گر جو دل نہیں
زندگی پھر اتنی بھی مشکل نہیں
جس سے وابستہ ہے ہر غم اور خوشی
ہاں مجھے وہ شخص بھی حاصل نہیں
سب یہاں اس شہر میں مظلوم ہیں
کوئی بھی اس شہر میں قاتل نہیں
ڈگریاں ہر شخص کے ہی پاس ہیں
یعنی اب یاں کوئی بھی جاہل نہیں؟
(سالِم احسان۔ گوجرانوالہ)
غزل
جاں رہے یا نہ رہے محوِ تماشا ہونا
سیکھے موسیؑ سے کوئی طالبِ جلوہ ہونا
بس حدِ ظلم میں داخل نہ ہو اتنا ہے ضرور
پھر برا کچھ بھی نہیں طالبِ دنیا ہونا
اس کی تخلیق ہے بیکار نہیں ہوسکتی
ورنہ باہر ہے حدِ فہم سے اپنا ہونا
لوگ ظاہر پہ نظر رکھتے ہیں باطن پہ نہیں
کس نے دیکھا ہے مرے دل کا شکستہ ہونا
میں مسیحائی کا قائل ہوں تمہاری لیکن
ہے برا عشق کے بیمار کا اچھا ہونا
ہمسری کا تو ہے ہر ایک کو دعویٰ ممکن
اتنا آسان نہیں متقی ایسا ہونا
(متقی امروہوی)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

سعودی عرب کی پراسرار تہذیب کے راز جاننے کی کوششیں

$
0
0

ماہرین کی ایک ٹیم سعودی عرب کے آثارِ قدیمہ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے ایک ملک گیر جائزہ لے رہی ہے تاکہ وہاں کی ماضی کی پر اسرار تہذیب کے رازوں کو سمجھ سکیں۔

نوبتین ثقافت کے زمانے کی کئی ایک پتھر سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کے نشان وہاں اب بھی باقی ہیں اور ان میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں اس سے پہلے کھدائی نہیں کی گئی ہے۔

العْلَا نامی ریت کا صحرا جو پتھروں سے بھرا ہوا ہے، اپنے سیاہ آسمان کی وجہ سے مشہور ہے کیونکہ اس کی فضائی آلودگی سے پاک تاریکی ستارہ شناس ماہرین کے لیے بہت موزوں ہے لیکن اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے بھی یہ ایک پسندیدہ خطہ بن گیا ہے۔

تاریخ میں گم ہوجانے والی نوبتین تہذیب اس خطے میں 100 قبل مسیح میں آباد ہوئی اور تقریباً 200 سال تک آباد رہی۔ جہاں نوبتین کے حکمرانوں نے اردن میں پیٹرا نامی شہر کو اپنا دارالحکومت بنایا ہوا تھا، العْلا کے علاقے الحِجر میں انھوں نے اپنا دوسرا دارالحکومت بھی تعمیر کیا تھا۔ الحِجر آج مَدَائِن صَالِح کہلاتا ہے۔ تاہم اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ اس خطے میں بیلجیئم جتنے بڑے رقبے کا عمیق جائزہ لینے یہاں آئے ہیں۔

60 ماہرین کی ایک بڑی بین الاقوامی ٹیم نے ابتدائی سطح کے کام کا آغاز کردیا ہے جس میں وہ سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے میں اس تہذیب کے مرکزی علاقے کے سوا تین ہزار مربع کلو میٹر رقبے کا جائزہ لیں گے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ اتنا بڑا خطہ جس کا اب سے پہلے کسی نے جائزہ نہ لیا ہو اس پر ایک سائنسی انداز میں تحقیقی کام ہوگا۔

نوبتین تہذیب

یہ افراد جزیرہ نما عرب کے شمال میں اور قدیم عراق کے جنوب میں چوتھی صدی قبل مسیح سے لیکر سنہ 106 بعد از مسیح تک آباد رہے۔ اس تہذیب کا دارالحکومت اردن کے ایک علاقے پیٹرا میں قائم تھا، لیکن موجودہ سعودی عرب کا مدائن صالح بھی ان کے لیے کافی اہم تھا۔ چٹانوں سے کاٹے ہوئے پتھروں پر نازک قسم کی کشیدہ کاری ان کی عمارتوں پر یونان اور میسوپوٹامیا کے تہذیبی اثرات ظاہر کرتی تھیں۔ وہ اپنے معبدوں کے سامنے والے حصوں پر مہین قسم کی سنگ تراشی سے دلچسپ نمونے بناتے تھے۔ نوبتین کندہ کاری کی کئی ایک مثالیں ہیں لیکن اس حوالے سے کسی قسم کے مواد کا کوئی علم حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ رومن بادشاہ ٹروجن کی فتح کے بعد ان کا ایک آزاد تہذیب کی حیثیت سے اختتام ہو گیا تھا۔

مدائن صالح سمیت نوبتینی علاقوں میں آثارِ قدیمہ کی تلاش کے لیے کچھ عرصہ پہلے کھدائی ہوئی تھی جس میں ریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی کے عبدالرحمان السحیبانی سمیت کئی ایک سعودی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے حصہ لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اس سے قبل کی دیدان اور لحیان تہذیبوں پر زیادہ توجہ دی تھی۔ لیکن اب العلا کے لیے قائم کیا گیا شاہی کمیشن اس سے بڑے منصوبے میں شامل ہو گیا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ یہ قدیم معاشرے کس طرح پروان چڑھے تھے۔‘

اس شاہی کمیشن کی وجہ اب بہترین قسم کے تحقیقی اوزار، ٹیکنالوجی اور مہارت بھی آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے کام میں شامل ہو گئی ہے۔

اگرچہ گوگل ارتھ اور ایک ماہر کی آنکھ زمین پر قدرتی اور انسان کی بنائی ہوئی چیزوں میں فرق کر سکتی ہے، لیکن العلا کی وادی اور قریبی علاقوں کی تصاویر اس چھوٹے نچلی پرواز کرنے والے جہاز سے لی جا رہی ہیں جو خصوصی کیمروں سے لیس ہے۔ اس طریقے سے اب تک کے غیر معلوم مقامات کی تفصیلی تصویریں بنائی جا سکتی ہیں۔

امریکی ماہرِ آثارِ قدیمہ ریبیکا فْوٹ،جو العلا میں شاہی کمیشن کے تحت سروے ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، کہتی ہیں کہ اب تک کی کاوشوں کا مقصد کھدائی تھا کیونکہ جو ٹیکنالوجی اور وسائل اب حاصل ہیں وہ پہلے نہیں تھے۔ ریبیکا فوٹ کہتی ہیں کہ اس سروے کی وجہ سے سعودی عرب کا شمار قدیمی تہذیبوں میں ہونا شروع ہو جائے گا۔ وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ایک ہزار برس قبل مسیح سے تین ہزار برس قبل مسیح کے عرصے کے بارے میں اور میسوپوٹیمیا اور مصری تہذیب کے بارے میں کافی علم پہلے سے موجود ہے لیکن قدیم دور کے حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں بہت کم معلومات تلاش کی گئی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری تلاش کس طرح قدیم تاریخ کو تبدیل کرے گی، لیکن اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ دریافتیں قدیم تاریخ کے بارے میں نئے تصورات کو جنم دیں۔

ریبیکا فوٹ نے پیٹرا میں تحقیقی کام کے لیے کئی برس گزارے ہیں۔ پیٹرا نوبتینی دور کے اردن میں ایک قدیم شہر کا کھنڈر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قبرستانوں اور غیر معمولی عمارتوں اور کھڑے ہوئے پتھروں کے آثار کے فضائی جائزے سے کھوج کے لیے بہت سارے عقدے کھلیں گے جن کو سمجھنے میں دنیا عموماً کئی کئی برس لگاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کافی قابلِ بھروسہ ہے اور ’اس سطح کا کام اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا ہے۔‘ اس سے پہلے فرانسیسی ماہرین نے اس علاقے میں کھدائی کا کام کیا تھا جس کے ذریعے انھوں نے لوبان اور اگر بتیوں کی تجارت کے غیر منظم رابطوں کو دریافت کیا تھا۔ ریبیکا فوٹ اسی دریافت پر مزید کام کرنا چاہتی ہیں اور یہ جاننا چاہتی ہیں کہ پانی کا اس خطے کی خوشحالی میں کیا کردار تھا۔ ریبیکا فوٹ کہتی ہیں ’ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ایک کامیاب زراعتی نظام تھا، لیکن کیا ان خوشبودار اشیا پر کوئی ٹیکس تھا؟ وہ آب پاشی کا نظام کس طرح چلاتے تھے؟‘

اس خطے میں پانی کے بارے میں مطالعے کے آغاز کی وجہ سے ہمیں جواب ملنا شروع ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ فضائی سروے کی وجہ سے ممکن ہو گا جس کی بدولت ان مقامات کی صحیح طور پر نشاندہی بھی ہو سکے گی۔

دو سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ سے وابسطہ جیمی کوارٹرمین اب تک 1150 کے قریب جگہوں کا سروے کر چکے ہیں۔ اسے عموماً نقصانات سے بچنے والا سروے کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کوئی ایسا تعمیری کام نہ کیا جائے جو آثارِ قدیمہ کے قریب کیا جائے اور ان سے انھیں نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

کوارٹرمین کہتے ہیں کہ ’ہم نے دوسرے ملکوں کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے تاکہ ہم کسی نقصان سے بچ سکیں۔ عام لوگوں کو دیکھنے کا موقعہ دیے جانے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی چاہے یہاں کچھ بھی کرتا پھرے۔‘

یہ سروے چٹانوں پر کندہ کاری جیسے فنون کے بارے میں سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا۔ جیمی کوارٹرمین کہتے ہیں کہ ’صرف پانچ برس پہلے تک جی پی ایس بھی مطلقاً درست نہیں ہوتا تھا۔ آج ہم ڈرونز سمیت ہلکے جہاز جن کے نیچے طاقتور کیمرے نصب ہوتے ہیں اور جدید ترین فضائی فو ٹوگرافی سے بہترین جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

دو دو یا تین تین سیکنڈ میں تصویریں لینے سے جو ہزاروں تصویریں جمع ہوتی ہیں ان سے زمینی سطح کو سمجھ کر ان سے صحیح فاصلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خصوصی سوفٹویر کے ذریعے زمین کی ہائی ریزولوشن تصویروں کو بہتر طریقے سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

سروے کے حتمی مراحل میں چٹانوں پر کندہ کاری کی ماہر ماریا گوانن پیدل بھی فیلڈ میں گئیں۔ شمالی عرب میں پانچ سال گزرانے والی ماریا بہت متاثر ہیں کہ ایسا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جو تمام ادوار کا احاطہ کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پہلی بار ہم اس سرزمین کے آثارِ قدیمہ کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جانوروں کی بہت سی اقسام کے بارے میں خیال تھا کہ وہ عرب جزیرہ نما میں نہیں تھیں، لیکن چٹانوں پر ملنے والی تصاویر اس بات کی نفی کرتی ہیں۔ جانوروں کی تصاویر کی مدد سے تاریخوں کا تعین کرنے میں بھی مدد ملتی ہے، مثلاً گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری 1200 قبل مسیح سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ جزیرہ نما عرب میں پالتو بھیڑ بکریاں اور گائے سن 6800 اور 6200 قبل مسیح میں شمالی علاقوں سے لا کر متعارف کروائے گئے تھے۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عرب میں پالتو جانور اس سے پہلے آئے ہوں۔

عبدالرحمان سبحانی کچھ برسوں سے دادان میں کھدائی کر رہے ہیں جہاں نوبتین سے پرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اتنا وسیع ہے کہ اس کے نتائج کو سمجھنے میں نسلیں گزر جائیں گی۔ ’عالمی سطح پر اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف مدائن صالح اور البتراء کے ماضی بلکہ اس سے پہلے کی تہذیبوں کے بارے میں عالم میں اضافہ ہو گا جن کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔‘

عبدالرحمان کے فرائض میں ریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی کے طلبا کی تربیت بھی شامل ہے جس کا العلا میں ایک چھوٹا مرکز ہے۔ انھوں نے کہا جس ماحول میں ان طلبا کی تربیت ہو رہی ہے ممکن ہے یہ ایسی دریافتیں کریں جن کے بارے میں آج سوچا بھی نہیں جا سکتا۔     (بشکریہ بی بی سی)

سلویاسمتھ

The post سعودی عرب کی پراسرار تہذیب کے راز جاننے کی کوششیں appeared first on ایکسپریس اردو.

Dementia ؛ یاداشت کی کمی کی بیماری

$
0
0

Dementia ایک ایسی بیماری میں جس میں یادداشت نہایت کم زور ہوجاتی ہے۔ یہ بیماری Acetylcholineجو کہ ایک دماغی کیمیکل ہے، جو یادداشت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کیمیکل میں کمی کے باعث رویہ میں تبدیلی اور یادداشت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

Dementia کسی بھی طبقے کے کسی بھی فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5-7 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ Dementia کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاًVitamin B12  کی کمی۔ وہ لوگ جو سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں ان میں یہ مرض بہت عام ہے۔ اس کے علاوہ گلے کے غدود کا مسئلہ Hypothyroidism اور دماغ کی رسولیMeningioma یہ وہ وجوہات ہیں جن کو اگر ہم Treatکر دیں تو مریض کا Dementiaکا مرض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، نیند کی گولیوں کا زیاد ہ سے زیادہ استعمال Dementia کا سبب بنتی ہے۔ کسی بھی وجہ سر میں چوٹ لگ جانا Dementia کا سبب ہے۔

Dementia کی سب سے بڑی وجہAlzheimer Diseaseہے جو مغربی ممالک میں بہت عام ہے، جب کہ ہمارے یہاں Vascular Dementiaیعنی کے دماغ کی Vesselsخون کی شریانوں کا کم زور ہو جانا، کیوںکہ ہمارے یہاں شوگر اور بلڈ پریشر کا مرض بہت عام ہے۔ اس لیے Vascular Dementiaہمارے معاشرے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ( Hydrocephalus Normal Pressure)NPH  یعنی دماغ کی نالیوں میں پانی عام مقدار سے زیادہ بھر جانا اور دماغ کا پریشر بڑھ جانا۔ NPHمیں مریض کا بھولنے کے ساتھ ساتھ چلنے میں دشواری اور پیشاب پر قابو ختم ہو جاتا ہے۔ NPH بھی ایک Treatable Cause ہے Dementia کا۔

Dementia میں یادداشت میں کمی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ مریض چھوٹی چھوٹی باتیں بھول جاتا ہے۔ مثلاً گھر والوں کے نام، کوئی بھی چیز کہیں پر رکھ کر بھول جانا، گھر کا راستہ، مسجد کا راستہ، نماز بھول جانا، یہاں تک کہ اس کو پرانی ساری چیزیں یاد ہوں گی، مثلاً 65کی جنگ، 92کے ورلڈ کپ کی باتیں، لیکن وہ نئی باتیں بھول جائے گا۔یہ بیماری دماغ کے بات چیت کرنے والے حصے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مثلاً اپنی بات کو سمجھانے میں، اور دوسروں کی بات سمجھنے میں دشواری ہونا ، ایک ہی بات کو بار بار دہرانا۔

یہ بیماری دماغ کے اس حصے کو بھی متاثر کرتی ہے جس سے انسان روزمرہ کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔ مثلاً چابی کو دیکھ کر چابی نہیں بولے گا، موبائل فون کو دیکھ کر موبائل فون نہیں بولے گا۔

اس بیماری میں مریض کے روزمرہ کے وہ کام جو وہ خود کرتا ہے متاثر ہوں گے مثلاً کپڑے تبدیل کرنا، کھانا کھانا، بال بنانا اور شیو کرنا۔ یہ سب متاثر ہوں گے۔جیسے جیسے یہ مرض بڑھتا ہے مریض کے اندر کچھ نفسیاتی مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً Halucination یعنی کچھ ایسی چیزیں اس کو نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں جو کہ کمرے میں موجود اور لوگوں کو نظر نہیں آتیں Visual Halucination اور Auditory Halucination کا مطلب ہے کانوں میں آوازیں آنا۔ اس کے ساتھ ساتھ Delusion یعنی مریض دوسروں پر شک کرے گا۔ٓٓ اس قسم کی علامات سے مریض پریشان ہو کر Depression کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے جانے سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے آپ کو اکیلا تنہا کر لیتا ہے۔

اس قسم کے مریضوں کی دیکھ بھال بہت ہی محتاط طریقے سے کرنی چاہیے۔ خاص کر ایسے مریضوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر گھر سے باہر چلے بھی جائیں تو ان کے گلے میں یا ہاتھ میں ایک کارڈ یا بینڈ باندھ دینا چاہیے۔ اس پر گھر کا پتا اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔

مریض سے بات چیت کرنا، صبح سویرے دھوپ میں بٹھانا، شوگر اور بلڈ پریشر کی گولیاں باقاعدگی سے دینا اور ان سب کے ساتھ روزانہ صبح ناشتے سے پہلے کلونجی اور شہد کا استعمال مریض کے لیے خاصا مفید ثابت ہوتا ہے۔ کچھ میڈیسنز وغیرہ کے استعمال سے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے ساتھ ساتھ روزانہ 30 منٹ کی چہل قدمی، گھر والوں کا اس مریض کے ساتھ روزانہ بات چیت کا عمل جاری رکھنا، مریض کی صاف ستھرائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

The post Dementia ؛ یاداشت کی کمی کی بیماری appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اخلاقی اقدار کو نظر انداز کیا ، شفقت محمود

$
0
0

وطن عزیز کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک اس کے حکمرانوں میں اکثریت ان روایتی سیاست دانوں کی رہی، جو نسل درنسل اقتدار کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، جس کا نتیجہ معاشی و معاشرتی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا ہے، لیکن ملکی تاریخ میں چند ایسے افراد بھی ہیں، جو اپنی دیانت داری، جمہوریت پسندی اور قابلیت کے ساتھ مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کا دیّا جلائے کھڑے رہے۔ ایسی شخصیات میں ایک نام شفقت محمود کا بھی ہے۔

سینئر سیاست دان، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ شفقت محمود 19 فروری 1950ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی، ہاروڈ یونیورسٹی کیمبرج (1981ء) اور یونیورسٹی آف جنوبی کیلیفورنیا (1987ء) سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ سابق بیوروکریٹ 1973ء سے 1990ء تک مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔

انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور جوائنٹ سیکرٹری وزیراعظم سیکرٹریٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا، جس کے بعد مارچ 1994ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینئر سیاست دان 1999ء سے 2000ء تک پنجاب میں وزیراطلاعات، ثقافت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ رہے جبکہ نومبر 1996ء سے فروری 1997ء تک نگران حکومت کے دور میں بحیثیت وفاقی وزیر برائے ماحولیات، لوکل گورنمنٹ،خوراک و زراعت کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی برائے دفاع اور خارجہ امور کا ممبر رہنے کے علاوہ مختلف ادوار میں وہ پاکستان کی طرف سے کئی ممالک میں خصوصی ایلچی بھی رہے۔ 13 دسمبر 2011ء کو شفقت محمود نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے۔

جنہوں نے مسلم لیگ ن کے گڑھ تصور کئے جانے والے شہر لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سینئر سیاست دان نے اپنی عوامی مقبولیت کو ثابت کیا اور لاہور سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ رکن قومی اسمبلی کی قابلیت، صلاحیتوں اور وسیع تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں نہایت اہم وزارت برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ملک اور خطہ کی صورت حال، ماضی کی غلطیوں، مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں جاننے اور اعلٰی تعلیم کے گرتے معیار کے حوالے سے سینئر سیاست دان و وفاقی وزیر شفقت محمود سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات اور ظلم و جبر پر ہمارے چند قریبی دوست و مسلم ممالک نے خاموشی یا ڈھیلے ڈھالے موقف پر اکتفا کیا، آپ اس پر کیا کہیں گے؟

شفقت محمود: دیکھیں! او آئی سی نے قرارداد پیش کی ہے، ایران، ملائیشیا اور ترکی نے بڑا مضبوط موقف اپنایا ہے۔ یہ جو اتنی طویل جدوجہد ہے، کشمیریوں اور پاکستان کی، یہ جاری ہے، اس کے اندر ہم سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑا کردار خود کشمیریوں کا ہے، جو اس ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہیں، تو دنیا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی، مسئلہ وہاں پر ہوتا ہے۔

جہاں اندرونی جدوجہد نہ ہو۔ تاہم یہ درست ہے کہ ہمیں کافی دیر سے کچھ چیلنجز درپیش ہیں، جن میں دو سب سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں، ایک دنیا کا اخلاقی اقدار پر نہ چلنا، اس کے خلاف ہم نے جدوجہد کرنی ہے کہ ظلم جہاں پر بھی ہو وہ ظلم ہے، وہاں اپنی مجبوریوں یا مفادات کو فوقیت نہیں دینی چاہیے، تو یہ ہمارے لئے چیلنج ہے کہ ہم ساری دنیا کو اس موقف پر لے کر آئیں۔ دوسرا اگر کسی ملک کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات ہیں، وہ ضرور رکھیں، لیکن اس کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھائیں۔

ایکسپریس: کیا آپ کے ذہن میں کچھ ایسے خدشات ہیں کہ بھارت ہماری یا دنیا کی کسی بھی کمزوری کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟

شفقت محمود: مجھے پورا یقین ہے کہ بھارت بالکل بھی کامیاب نہیں ہو گا، آپ دیکھیں یہ معاملہ 5 اگست کو شروع ہوا تو آج تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں لیکن بھارت حالات پر کنٹرول (Supress) نہیں پا سکا، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کرفیو اٹھ چکا ہوتا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرفیو کب تک رہے گا، آخر کار اس کو اٹھانا پڑے گا، لیکن یہ جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آزاد کشمیر میں ہمارے اقدامات، وہاں اپنی سیاسی جماعتوں کو متعارف کروانے اور ایک باقاعدہ حکومت قائم کر دینے سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آئینی اقدامات کی سہولت فراہم ہوئی؟ اگر stand still agreement کی روح کے مطابق آزاد کشمیر کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا اور اسے صرف آزادی کے بیس کیمپ کی حیثیت حاصل رہتی تو بھارت کو بھی مقبوضہ کشمیر میں قدم جمانے کا موقع نہ ملتا؟

شفقت محمود: میرا نہیں خیال ایسا ہے، آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت( Special Status) ہے، جس پر ہم قائم ہیں، دیکھیں! ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران منتخب کریں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ صرف ایک سیاست دان نہیں، جو عمومی طور پر روایتی ہوتے ہیں بلکہ ایک نہایت سنجیدہ شخصیت اور دانش ور بھی ہے، تو اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہمیں ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے؟

شفقت محمود: ہم ہر طریقہ سے کشمیریوں کی مدد کریں گے، دنیا کا جو بھی فورم ہے، اس پر ان کے لئے آواز اٹھائیں گے، ہم کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے، لیکن ہم جنگ بھی نہیں چاہتے، تاہم یہ اگر ہم تھوپی گئی تو پھر اس کا بھرپور جواب دیں گے، وزیراعظم نے یو این کی جنرل کونسل میں جو خطاب کیا، وہ غور طلب ہے کہ ’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بظاہر پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہمیں کوئی دھونس دی جا سکتی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، ہم آخری حد تک لڑیں گے‘‘ تو اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ہم کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ اچھا جو آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں، ان پر عملدرآمد کیا جائے، اور ہم اسی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے یہ کبھی آزاد نہیں رہی، جس کی ایک مثال کبھی افغان وارکے لئے طالبانائزیشن کرنا تو کبھی ان کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرنا ہے، آج جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے تو خارجہ پالیسی کے حوالے سے آپ کیا سوچ رہے ہیں، اسے کیسے منظم اور آزاد بنایا جا رہا ہے؟

شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا موقف نہیں، دوسرا پاکستان کی خارجہ پالیسی ریاست کی خارجہ پالیسی ہے اور جو ریاست کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، اس میں ریاست کے سارے ادارے شامل ہوتے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اور جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم نے خارجہ پالیسی کی تنہائی کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات تھے، لیکن اب حالات بہت بہتر ہیں، چین کے ساتھ ہماری دوستی مزید مضبوط ہوئی ہے، ترکی اور ملائیشیا نے آؤٹ آف دا وے جا کر ہمیں سپورٹ کیا، سعودی عرب، یواے ای اور قطر جیسے ممالک نے ہمیں امداد دی ہے۔ تو یوں ہم نے عالمی سطح پر تنہائی کے تاثر کو ختم کر دیا ہے۔ لہذا ہماری اپنی خارجہ پالیسی ہے، جو ہم خود بناتے ہیں اور اس پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی جاتی۔

ایکسپریس: ایک تاثر یہ ہے کہ برسوں کے تھپیڑوں کے بعد آج ہم امریکا سے جان چھڑوا کر چین اور روس کی طرف جا رہے ہیں، لیکن کہیں چین بھی ہمارے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی تو ثابت نہیں ہو گا؟ دوسرا ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے کہ علاقائی و عالمی سطح پر پاکستان، چین اورروس مل کر کوئی نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں؟

شفقت محمود: دیکھیں! اس سوال پر مجھے اعتراض ہے، کیوں کہ چین کے بارے میں ہمیں ایسے سوالات نہیں کرنے چاہیں، چین سے ہمارے آج کے تعلقات نہیں ہیں، 60کی دہائی کے اوائل سے دیکھ لیں کہ آج تک کتنی حکومتیں آئی اور گئیں لیکن چین سے دوستی میں کبھی فرق نہیں آیا، لہذا میرا خیال ہے کہ چین کے حوالے سے ایسی تشبیہات دینا درست نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جو آپ کے بیرونی تعلقات ہوتے ہیں، وہ ’’Zero Sum Game‘‘ نہیں ہوتے، یعنی ایک ملک سے اگر آپ کے تعلقات اچھے ہیں تو دوسرے کے ساتھ خود بخود خراب ہو جائیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ چین کے ساتھ تو ہمارے بہت قریبی تعلقات ہے ہی، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکا اور روس سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہوں، لہذا ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم ہر ملک سے اپنے تعلقات بہتر کریں۔ دوسرا جو آپ نے نئی سیاسی حکمت عملی کا پوچھا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔

ایکسپریس: ملکی بہتری کے حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن تاحال اس کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آ رہی۔ آپ کی حکومت کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا، لوگ خصوصاً پی ٹی آئی ورکز و ہمدرد تبدیلی کے ثمرات کے منتظر ہیں، انہیں کیسے تسلی دیں گے؟

شفقت محمود: جو بگاڑ 70سال کا ہے، وہ ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوگا، اسی لئے ہمارا آئین بھی کہتا ہے کہ ہر حکومت 5سال کے لئے ہو گی، لہٰذا ہمارا مینڈیٹ 5 سال کا ہے، پہلا سال مشکل تھا، لیکن اب چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور 5 سال کے دوران انشاء اللہ تعالی عوام بڑی تبدیلی محسوس کریں گے، لیکن بے صبری نہیں ہونی چاہیے، بہت سارے کام ہے جن پر وقت لگے گا، مثلاً بے شمار تنظیمیں ہیں، جو عرصہ سے سربراہ کے بغیر ہی چلے جا رہی تھیں، جب سربراہ ہی نہیں ہو گا تو بہتری کیسے آئے گی، اب ہم نے یہ سب کام کرنا شروع کر دیئے ہیں، عوام کو جلد تبدیلی محسوس ہو گی۔

کچھ چیزیں جلدی بہتر ہوں گی اور کچھ میں وقت لگے، جیسے معیشت ہے، جس کو بہتر کرنے پر پر وقت لگے گا، اس لئے کہ آپ پر کھربوں روپے کے قرضے ہیں، جن کی ادائیگی اور معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لئے وقت درکار ہے، دیکھیں! گزشتہ سال مشکل تھا، مہنگائی ہوئی، لوگوں کو تکلیف بھی ہوئی اور اب آپ یہ جولائی اور اگست کے جو اعدادوشمار ہیں، ان کے مطابق آپ کے برآمدات بڑھیں اور درآمدات کم ہوئیں، آپ کا بجٹ خسارہ بھی کم ہو رہا ہے، روپیہ مستحکم ہوا ہے۔

ایکسپریس: آپ کے بقول حقیقی لیڈر شپ ملے تو بیوروکریسی من مانی نہیں کرتی، کام کرتی ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق بیورو کریسی موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، آپ خود بھی ایک بیوروکریٹ رہے ہیں تو اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟

شفقت محمود: میرا نہیں خیال کہ بیوروکریسی کچھ ایسا کر رہی ہے، شریف صاحبان نے ایک بہت بڑا جرم یہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے پسند کے بیوروکریٹس پر مشتمل افراد کی بیوروکریسی میں ن لیگ بنا دی، جس کی وجہ سے بہت سارا بگاڑ پیدا ہو گیا، لیکن ہم ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر میرٹ پر کام کر رہے ہیں، مجھے کئی لوگ آ کر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں بندہ لگایا ہوا ہے وہ ن لیگ کے بڑا قریب تھا تو میں جواب دیتا ہوں کہ کوئی بات نہیں، اگر وہ اپنا کام درست کرتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن شریف برادران نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے باقاعدہ ایک لکیر کھینچ دی کہ ہمارے ساتھ کون ہے اور مخالف کون، تاہم ہم ایسا نہیں کر رہے، ہمیں اسے ٹھیک کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔

ایکسپریس: وطن عزیز میں سیاست دانوںکی کمزوریوں کے باعث طاقت کا جھکاؤ ہمیشہ ملٹری کی طرف رہا، لیکن آج موجودہ حکومت کی دیانت داری کے بڑے چرچے ہیں تو پھر بھی یہ تاثر ختم تو درکنار کم بھی نہیں ہو رہا، کیوں؟

شفقت محمود: میرا خیال ہے کہ یہ صرف ایک سوچ ہے، اس وقت ہمارے ادارے جتنے متحد ہیں، اتنے شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں نہ ہوئے ہوں، سارے فیصلے مل کر ہو رہے ہیں، ریاست کے تمام عناصر مل کر کام کر رہے ہیں۔ عمران خان کی قیادت تسلیم شدہ ہے، جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، پہلے جو بگاڑ ہوا، اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ قیادت جب نااہل ہو اور بدیانت بھی ہو تو پھر کوئی ادارہ اس کی لیڈرشپ نہیں مانے گا، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہماری لیڈر شپ دیانت دار بھی ہے اور اہل بھی ہے، لہٰذا ریاست کے تمام ادارے ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔

ایکسپریس: کرپشن، قرضوں کی ادائیگی، باہر سے پیسہ واپس پاکستان، چوروں لٹیروں سے وصولیاں، یہ سب دعوی جو تحریک انصاف کیا کرتی تھی، آج حکومت میں آکر ان کی کیا حقیقت نکلی، قوم حقیقی نتائج کی منتظر ہے؟

شفقت محمود: حقیقت تو نکلی ہے، لیکن یہ ہم نہیں کر رہے بلکہ نیب کر رہا ہے، بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ نیب صرف لوگوں کو حراست میں نہ لے، ان کے ٹرائل کرکے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے، دوسری طرف آپ یہ دیکھ لیں کہ نواز شریف کو سزا ہوئی ہے اور وہ جیل میں ہے، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ نیب صرف خانہ پری کے لئے کام نہ کرے، جیسے علیم خان اور سبطین خان کے ساتھ کیا کہ بس پکڑ لیا اور دو تین ماہ تک کوئی چارج بھی نہیں لگایا، نیب مضبوط ہاتھ ڈالے اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ تو یوں احتساب کا عمل تو چل رہا ہے۔

ایکسپریس: لیکن سر! کسی قسم کی کوئی وصولی ہو رہی ہے نہ کوئی حتمی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

شفقت محمود: جن لوگوں نے چوریاں اور ڈاکے ڈال کر پیسہ باہر بھیجا ہے، وہ اتنی جلدی تو نہیں واپس کریں گے ناں، بہرحال میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ کچھ لوگ پیسے دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں، تو یہ اچھی بات ہے۔

ایکسپریس: تحریک انصاف نے موروثی اور روایتی سیاست کو دفن کرنے کا نعرہ لگایا لیکن ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں سے کیسے مختلف ہے؟ جبکہ اب یہ جماعت بھی دیگر سیاسی جماعتوں والی قباحتوں کا شکار ہو رہی ہے؟

شفقت محمود: بہت بڑا فرق ہے، تحریک انصاف کی قیادت دیانت دار ہے، ہر لحاظ سے قوم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے پاس چوائس ہوتی ہے، وہ بڑے اچھے اور اپنے شعبوں کے ماہرین کو لے کر آئے ہیں، ہاں البتہ کسی پر کریمینل چارجز ہیں، تو انہیں ہم آگے نہیں آنے دیں گے۔

ایکسپریس: 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کا بڑا شور و غلغلہ کیا گیا، اس بار وہی شور آپ کے بارے میں ہے، آپ درست ہیں کہ اپوزیشن؟ اگر آپ تو کیسے؟

شفقت محمود: ہم نے کہا تھا کہ آپ صرف چار حلقے کھول کر دیکھ لیں اور پھر جب یہ کھلے تو ان میں سے تقریباً تین پر دوبارہ الیکشن ہوا، اس سے ہماری بات ثابت ہوئی اور اس بار جو الیکشن ہوا ہے، اس کے دو یا تین ماہ بعد National Democratic Institute کا جو سروے آیا، اس میں 84فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کی دانست میں عام انتخابات شفاف تھے، اب اس کے بعد جتنے سروے آتے رہے، ان میں تحریک انصاف ٹاپ پر رہی، اب کچھ اوپر نیچے ہو رہا ہے، لیکن یہ معمول کی بات ہے۔ اور یہ تمام سروے ہمارے اداروں نے نہیں بلکہ عالمی اداروں نے کئے ہیں، تو اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر کسی کو الیکشن پر تحفظات ہیں تو وہ پٹیشن دائر کرے۔

ایکسپریس: الیکشن ریفارمز کے حوالے سے آپ نے بحیثیت اپوزیشن کچھ کیا نہ آج حکومت میں آکر کچھ کر رہے ہیں تو قوم کو اس سے کیا پیغام مل رہا ہے؟

شفقت محمود: ایسی کوئی بات نہیں، میں خود الیکشن ریفارمز کمیٹی کا ممبر تھا اور میرا خیال ہے کہ ہم نے کم از کم سو سے زائد میٹنگز کیں، جن میں بے شمار چیزیں کی گئیں، کچھ چیزوں پر آخر میں الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لیکن ہم نے بہت محنت کی، دیکھیں یہ ایک On Going Process ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بڑا ضروری ہے، اس لئے ہم جستجو اور کوشش جاری رکھیں گے۔

ایکسپریس: سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جس کے ثمرات سے آج تمام ترقی یافتہ ممالک مستفیض ہو چکے ہیں، لیکن ہماری حالت نہایت پتلی ہے، کیا وزارت تعلیم نے سرکاری درس گاہوں میں مروج نصابی کتب کو اپ ڈیٹ کرنے کا کوئی نظام وضع کیا ہے؟

شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی تعلیم کو وہ توجہ نہیں دی، جس کی یہ متقاضی تھی، لیکن جہاں ہم نے توجہ دی، اس میں ہمیںکامیابی ہوئی، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے ایٹم بم بنانا کوئی معمولی بات  ہے؟ لیکن ہم نے بنایا، ابھی بھی آپ کا جو ایک ادارہ ہے، جسے Pakistan Institute of Engineering & Applied Sciences کہتے ہیں، وہ دنیا کے ٹاپ اداروں میں شمار ہوتا ہے، وہاں 15سو سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن ہم نے تعلیم پر مجموعی طور پر توجہ نہیں دی، سکول ایجوکیشن اور اساتذہ کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔

جس سے ہمیں نقصان ہوا، پھر یہ بھی ہوا کہ ہم درست فیصلے بھی نہ کر سکے، مثال کے طور پر کوئی سرکاری ملازم درست کام نہیں کرتا، وہ نااہل ہے تو اس کو ہٹانے کا آسان طریقہ نہیں ہے، جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو باہر جا کر بڑے اچھے طریقے سے اور محنت سے کام کرتے ہیں، وہ سرکاری ملازمت میں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ یہاں جزا و سزا کا نظام بہت عجیب ہے، لیکن اب ہم اس روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً ہم یکساں نظام تعلیم پر کام کر رہے ہیں، جو تمام مدارس اور سکولز چاہے وہ سرکاری ہیں یا پرائیویٹ، سب پر لاگو ہو گا۔

ایکسپریس: یکساں نظام تعلیم کا کام کب تک عملی طور پر نافذ ہو سکے گا؟

شفقت محمود: دیکھیں! یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے، جس پر کام جاری ہے، پرائمری سلیبس کی آؤٹ لائن تو اگلے دو سے تین ماہ میں تیار ہو جائے گی، لیکن پھر اسے تیار کرنا کافی نہیں ہے، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے لئے ہمیں صوبوں کے پاس بھی جانا ہو گا تو میرا خیال ہے کہ اگلے سال تک اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔

ایکسپریس: گاہے بگاہے یہ بات سننے میں آتی رہتی ہے کہ ہماری وزارت تعلیم ملک کے تعلیمی نظام کو او لیول کی طرز پر استوار کرنا چاہتی ہے؟

شفقت محمود: او لیول کا ہم سے تعلق نہیں، ہم اپنا نظام بنا رہے ہیں، ہمارا جو نصاب بنے گا وہ دنیا کے کسی نصاب سے کم نہیں ہوگا اور بالآخر پانچ سے سات سال میں ایک وقت آئے گا کہ جب پورے پاکستان میں یکساں قومی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔

ایکسپریس: اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہر ملک اپنے بجٹ کا کم از کم 4 سے 5 فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کرے، کیوں کہ حقیقی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے اور آج کے تمام خوشحال ممالک ایسا کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کر رہے ہیں لیکن ہماری انصافی حکومت نے تو ایچ ای سی کے فنڈز پر 50 فیصد کٹ لگا کر گنگا ہی الٹی بہا دی، ہمارا تعلیمی بجٹ بمشکل 2 فیصد ہے، گزشتہ دنوں تو یہ اطلاعات بھی تھیں کہ کئی یونیورسٹیز فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہو چکی ہیں،کیا فرمائیں گے؟

شفقت محمود: حکومت کا جو نظام ہے ناں اس میں آپ ستارے مانگتے ہیں تاکہ آپ کو ایک موم بتی مل جائے، یہ پیسے لینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ایچ ای سی کو گزشتہ سال 65 ارب ملے تھے، اس برس 59ارب روپے ملے ہیںِ، یوں صرف 6ارب روپے کمی ہوئی ہے اور یہ Inflation کی وجہ سے تھا، پھر یہاں کے پیسے سائنس اینڈ ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی میںگئے ہیں۔ اب ہم یہ بھی اکٹھے کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ کمی بھی جلد پوری کر دی جائے گی۔

ایکسپریس: بعض ماہرین تعلیم کی تجویز ہے کہ سرکاری جامعات کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے تاہم دیگر معاملات حکومت اپنے ہاتھ میں رکھے، اس طرح جامعات شاید مالی لحاظ سے خودکفیل ہو جائیں، آپ کا کیا خیال ہے؟

شفقت محمود: دیکھیں! آپ سب ادارے تو نہیں کر سکتے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پبلک پرائیویٹ ایک اچھی چیز ہے، اور یہ پہلے سے چل رہی ہے، پنجاب میں تو 5 ہزار سکول این جی اوز کو دے بھی دیئے گئے ہیں۔

ایکسپریس: لیکن سر جامعات کی سطح پر جب یہی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہوتی ہے تو سربراہان ادارہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شفقت محمود: نہیں یہ اور چیز ہے، میرے خیال میں تو یہ غلط بات ہے کہ آپ کی یونیورسٹی سرگودھا میں ہو اور آپ نے کیمپس لاہور میں کھولا ہو، یہ کوئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نہیں ہے، لیکن جہاں جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہو سکتی ہے وہاں ہونی چاہیے۔

ایکسپریس: وطن عزیز کے تعلیمی نظام پر نجی اداروں کی اجارہ داری ہے، جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور غریب والدین اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، پھر ان غریبوں کی آہ وپکار صرف سپریم کورٹ سنتی ہے اور وہی فیسوں میں کمی لانے کے احکامات جاری کرتی رہتی ہے، لیکن افسوس تو ہمیں حکومت پر ہوتا ہے کہ اس ضمن میں وہ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیںکرتی؟

شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ریاست کی بہت بڑی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کا اتنا وسیع نیٹ ورک بنا، اگر سرکار اپنا فریضہ سرانجام دیتی تو یہ نہ ہوتا۔ اب یہ جو ایلیٹ سکول ہیں، جہاں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بچے وہاں پڑھیں، جن کی فیسیں سپریم کورٹ نے پہلے کم کیں اور اب 2017ء کی بیس لائن بنا دی گئی ہے۔ دیکھیں! آپ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنا ہے، ان کا گلا نہیں دبانا، کیوں کہ بے شمار بچے ان اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ لہذا آپ ان اداروں کو ریگولیٹ ضرور کریں لیکن انہیں اتنا مت دبائیں کہ یہ ادارے بند ہونے لگے، ان اداروں کی کمی پوری کرنے کے لئے ریاست کو ابھی وقت چاہیے، جس کے لئے کوششیں جاری ہیں، رہی بات سپریم کورٹ کے حکم کی تو اس پر ہم عملدرآمد کریں گے۔

ایکسپریس: اردو زبان کے نفاذ پر بھی تو سپریم کورٹ نے احکامات جاری کر رکھے ہیں؟

شفقت محمود: اس ضمن میں کئی چیزیں کرنے والی ہیں، کیوں کہ اس کے نفاذ میں اتنی کامیابی نہیں حاصل ہوئی، جو ہونی چاہیے تھی۔ ابھی ہم جب یکساں نصاب بنا رہے ہیں تو اس میں ہم اردو زبان کو پوری اہمیت دیں گے۔

ایکسپریس: نجی کیا اب تو سرکاری جامعات میں بھی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ایک ایک سمسٹر کی فیس 50 سے80 تک پہنچ چکی ہے، متوسط طبقہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کہاں جائے، نوجوان پڑھ نہ پائے تو پھر کیا کریں گے؟

شفقت محمود: یونیورسٹی ایجوکیشن کوئی حق نہیں ہے، لیکن اس کے لئے ہمیںکوشش یہ کرنی چاہیے کہ جو قابل بچے ہیں وہ پیسے کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جائیں، جس کے لئے ہمیں سکالر شپس کا ایک بڑا نظام بنانا چاہیے، اسی لئے ہم سکالرشپس میں 5 ارب روپے مزید ڈال رہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ جو چارجز ادا کر سکتے ہیں، انہیں دینے بھی چاہئیں اور ساری دنیا میں یہ نظام ہے کہ جو افورڈ نہیں کر سکتے انہیں سکالرشپس دیئے جائیں، لیکن ہمارا کیا نظام ہے کہ امیر ہو یا غریب کا بچہ، وہ ایک ہی فیس دے رہا ہے، جو درست نہیں، اسے ٹھیک کیا جائے گا۔

The post دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اخلاقی اقدار کو نظر انداز کیا ، شفقت محمود appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک نہتی لڑکی جس سے ہندوستان خوفزدہ ہے

$
0
0

’’مسلح فوجی رات میں گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ لڑکوں کو حراست میں لیتے ہیں۔ گھر کے سامان کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اناج اور غلے کو فرش پر بکھیر کر اس میں تیل ملا دیتے ہیں۔‘‘

’’شوپیاں میں چار (کشمیری)لڑکوں کو فوجی کیمپ میں طلب کیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ (ٹارچر)کی گئی۔ ان کے قریب ایک مائیک رکھا گیا تاکہ علاقے کے لوگوں کوان کی چیخوں سے خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

’’ آخر میں کشمیر میں جو چیز دم توڑ گئی وہ بھارت کی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی طرف نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات اسے عمران خان کے مقابلے میں منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘

یہ ان ٹویٹس کا متن ہے جو شہلا رشید نے5 اگست 2019 کو ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی شناخت پر کیے گئے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران کیے تھے۔ جب وادی کشمیر میں میڈیا کو رسائی نہیں تھی تو شہلا رشید کی طرف سے کشمیریوں پر تشدد کے حوالے سے یہ ٹویٹس سامنے آئے جس کے بعد کشمیر میں بھارتی فوج کے تشدد کو رپورٹ کیا گیا۔ انہی ٹویٹس کے بعد شہلا رشید کو سوشل میڈیا پر بھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے غدار قرار دے کر ٹرول کیا جانے لگا اور پھر ان پر غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ شہلا رشید کو ٹوئٹر پر ٹرول کیا جا رہا ہو یا انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو لیکن پہلی مرتبہ ان کی ٹویٹس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا گیا ہے۔ مذکورہ ٹویٹس کے بعد شہلا رشید پر غداری کا مقدمہ درج کرنا بھارت کی بوکھلاہٹ کو واضح کرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے ایک نہتی لڑکی کو نشانہ بنانا اور اس کی آواز دبانے کیلئے ’’غداری‘‘ جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنا بھارت کے جمہوری چہرے پر سیاہ دھبہ ہے جہاں سچ بولنے کی بھی آزادی نہیں اور بالخصوص کشمیر کے حوالے سے بات کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے۔

٭شہلا رشید کون ہے؟

شہلا رشید بھارتی مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں پیدا ہوئیں اور اب وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) دہلی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔وہ سنہ 2015 سے سنہ 2016 تک جے این یو طلبہ یونین کی نائب صدر رہیں اور اس وقت وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھیں۔

پہلی بار وہ اس وقت سامنے آئیں جب پارلیمان پر حملے کے جرم میں پھانسی پانے والے کشمیری افضل گرو کی برسی پر جے این یو میں منعقدہ پروگرام کے دوران یونین کے رہنماؤں سمیت بعض کشمیری شرکاء نے کشمیر کی آزادی اور انڈیا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے نعرے لگائے تھے۔ پولیس نے اس سلسلے میں یونین کے صدر اورکئی افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد یونین کے نائب صدر کی حیثیت سے شہلا رشید فعال رہیں ، کئی احتجاج ہوئے جن میں وہ نمایاں حیثیت اختیار کئے ہوئے تھیں اور ایک سیاسی شخصیت کے طور پرابھریں ۔

اب شہلارشید بھارت میں اقلیتوں کے لیے آواز بلند کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ اُن کا شمار اُن چند کشمیری خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے ببانگ دہل کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم پر آواز اٹھائی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بالخصوص انڈر ٹرائل نو عمر بچوں کو انصاف دلانے کے لیے سرگرم رہی ہیں۔ وہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں ،بھارت اور کشمیر میں ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات پر بھی آواز اٹھاتی نظر آئی ہیں۔ جموں کے علاقے کٹھوعہ میں کمسن ’’آصفہ‘‘ کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تو اس پر بھی شہلا رشید کی جانب سے سخت موقف دیکھنے کو ملا تھا جس کے بعد انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

کشمیر پر بھارت کی پالیسی کیلئے ان کا ایک جملہ ان کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیںکہ’’میں کشمیر میں انڈیا کی ایک بہت پُرتشدد تصویر دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں لیکن جے این یو نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار اور ارتقا کے لیے ایک جمہوری موقع فراہم کیا۔‘‘ گزشتہ مارچ میں انھوں نے سابق سرکاری افسر شاہ فیصل کی سیاسی جماعت جموں و کشمیر عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی۔

٭ غداری کے مقدمات پر شہلا رشید کا موقف

غیرملکی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق شہلا رشید کا کہنا تھا:’’ ایسے وقت میں جب لاکھوں کشمیری خاندان آپس میں رابطہ نہیں کر پا رہے، جب کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جاری ہیں، عام لوگوں کے خلاف پیلٹ گن، پیپر گیس اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، وہاں کے لوگوں کو خبروں تک کسی قسم کی کوئی رسائی نہیں، ذرائع مواصلات منقطع ہیں، تو ایسے وقت میں، میرے خلاف کسی قانونی چارہ جوئی سے مجھے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں اپنے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہی اور نہ ہی خود کو لے کر پریشان ہوں‘‘۔

’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی توجہ کشمیر پر اور جو کچھ وہاں ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے اس پر مرکوز رکھیں۔ جس طرح سے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا اور ہمارے حقوق ہم سے چھینے گئے، ہماری ساری توجہ اس پر ہونی چاہیے۔ ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے ہیں تو ایسے افراد کے خاندان والے ہائیکورٹ میں حبسِ بے جا کی رپورٹ تک نہیں لکھوا سکتے۔ کشمیر میں ہر قسم کا قانون معطل ہے، کوئی لا اینڈ آرڈر ہی نہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے ناصرف جموں و کشمیر بلکہ وہاں سے باہر رہنے والے کشمیریوں کے بھی کوئی قانونی حقوق ہی نہیں، جیسے انڈیا کے کوئی قوانین کشمیریوں پر لاگو ہی نہیں ہوتے‘‘۔

ٹویٹر پر ٹرولز کی جانب سے ان سے تشدد کے ثبوت مانگے جانے پر ان کا کا کہنا ہے کہ’’ ایسی صورتِ حال میں جب کھیل کے قواعد ہی بدل چکے ہوں، حکومت میڈیا کو کچھ دکھانے کی اجازت نہ دے رہی ہو، مجھ سے ثبوت مانگنا بے وقوفی ہے۔‘‘۔ ابھی مجھ سے ثبوت مانگے جا رہے ہیں جبکہ حکومت نے خود ہر قسم کی معلومات پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اگر کوئی کشمیر میں کیے جانے والے جرائم کی ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو مختلف جگہوں پر انڈین فوج یا سی آر پیز (نیم فوجی دستوں)یا پپیرا ملٹری یا پولیس انھیں ڈاکیومنٹ کرنے سے روک رہے ہیں، کشمیر میں صحافیوں سے ان کے موبائل چھینے جا رہے ہیں‘‘۔

٭بھارتی فوج کے حوالے سے شہلا رشید کا موقف

شہلا رشید کہتی ہیں:’’جب بات فوج کی آئے تو یہاں قوانین کو منسوخ کرنے والے قوانین موجود ہیں۔ بات ثبوتوں کی نہیں، ماضی میں بھی ایسے جعلی مقابلے ہوتے رہے ہیں جیسے کہ پتھریبل کا واقعہ(جس کا ذکر میں نے اپنی ٹویٹ میں کیا)جس کے بارے میں کافی تعداد میں شواہد موجود تھے کہ یہ بہیمانہ قتل تھا لیکن فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کے قوانین کے باعث سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ ’’ہاں جی !قتل ہوئے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہم تفتیش کی اجازت تک نہیں دے سکتے۔‘‘

میجر گوگوئی والے واقعے ( جس میں میجر لیٹول گوگوئی نے مبینہ طور پر اپنے کارواں کو سنگ باروں سے بچانے کے لیے ایک مقامی کشمیری کو جیپ سے باندھا تھا)کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:’’ تب ثبوت ساری دنیا کے سامنے موجود تھے لیکن حکومت نے کیا کر لیا؟ میجر گوگوئی کو کوئی سزا دینے کے بجائے انھیں ملک کے فوجی سربراہ کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔فوج اگر اس وعدے کے ساتھ غیر جانب دارانہ تحقیقات کا آغاز کرے کہ جنھیں الزامات کا سامنا ہے ، اگر وہ ثابت ہو گئے تو ان افراد کا کورٹ مارشل کیا جائے گا تو میں بہ خوشی فوج کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہوں‘‘۔

٭شہلارشید سے مخالف کیوں چڑتے ہیں؟

ہندوستانی ویپ پورٹل دی وائر پر لکھے گئے مضمون ’’شہلا رشید کے مخالف ان سے اتنا چڑتے کیوں ہیں؟‘‘ میں سدھارتھ بھاٹیا لکھتے ہیں کہ ’’غداری کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ حکومت ٹرولس سے متفق ہے اور یہ مانتی ہے کہ شہلا رشید ایک خطرناک انسان ہیں۔شہلا رشید نوجوان، اسمارٹ ، تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اپنی بات کہنے کاہنررکھنے والی اور عوامی مسائل سے بھرپور واسطہ رکھتی ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو ان کا ذکر رسالوں کی پسندیدہ ینگ انڈینس ٹولک فار 30 یاانڈر 30جیسی فہرستوں میں ہوتالیکن آج وہ غداری کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں اور ہندوستان کی آن لائن(اور یقینی طور پر آف لائن)آبادی کا ایک بڑا بولڈحصہ ان سے نفرت کرتا ہے اور انھیںگالیاں دیتا ہے، انھیں غدار بتاکر ٹرول کیا جاتا ہے اور ان کے سیکڑوں قسم کے نازیبا میمز بنائے اور شیئر کئے جاتے ہیں۔‘‘

مضمون نگار کے مطابق ’’غداری کے سنگین الزام میں ان کو کورٹ سے عبوری ضمانت مل گئی ہے لیکن وہ لمبے وقت کے لئے جیل بھی جاسکتی ہیں۔‘‘مضمون میں مزید لکھا گیا کہ ’’کشمیری ، جو ہندوتوا حمایتوں کی نظر میں تب تک دہشت گرد ہیں، جب تک کہ اس کے الٹ ثابت نہ ہو جائے، زبان پر تالا لگاکر رکھنا چاہیے لیکن شہلارشید نہ صرف بولتی ہیں بلکہ بلند آواز میں، وضاحت اور پورے دم خم کے ساتھ بولتی ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ وہ کبھی غصہ نہیں ہوتیں،ان کی آواز ہمیشہ نرم ہوتی ہے اور وہ سوچ سمجھ کر بولتی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ اپنا نظریہ صاف رکھتی ہیں۔ وہ ان بڑے نام والوں جیسی نہیں ہیںجواپنے خیالات کو چھپا لیتے ہیں اور غیرجانبداری دکھانے کے لئے جھوٹی مساوات کی ریاکاری کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

ہندوتوا اور حکومت کے حامیوں کی جانب سے شہلا رشیدپر غداری کا الزام لگایا جا رہا ہے تاہم اس پورے معاملے کا تکلیف دہ حصہ یہ ہے کہ شہلا کے خلاف غداری کے الزامات کی بڑے پیمانے پر مذمت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ ہندوستانی حقوق انسانی کی تنظیم کو خاموش کرا دیا گیا ہے اس کے ساتھ اہم لوگوں کی خاموشی بھی شور کر رہی ہے اور اہم لوگوں کی بھی اس مسئلے پر خاموشی حیران کرنے والی ہے حالانکہ خود شہلا رشید فطری طور پر بہادر اور بولڈ نظر آئی ہیں اور اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو گھٹیا، سیاست سے ترغیب شدہ کہہ کر انھیں خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہی بات انھیں دوسروں سے الگ کرتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ ان کے مخالف ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘

The post ایک نہتی لڑکی جس سے ہندوستان خوفزدہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

مسائلستان بن جانے والا افغانستان

$
0
0

بے کراں تاریک آسمان پر پو پھٹ رہی ہو تو سات سالہ معصوم کامران آنکھیں کھولتا ہے۔

اعصاب پہ تھکن طاری ہے مگر جی کڑا کرکے اٹھتا، ہاتھ منہ دھوتا اور وضو کرتا ہے۔ جلد قریبی مسجد سے اذان کی روح پرور آواز اس کا ولولہ تازہ عطا کرتی  ہے۔ و ہ اپنے والد، عتیق اللہ اور دیگر بھائیوں کے ساتھ مسجد میںنماز پڑھتا اور رب کے حضور سر جھکاتا ہے۔ باپ اور پانچ بھائیوں پر مشتمل خاندان پھر اینٹوں کے بھٹے کی سمت چل پڑتا ہے جو مضافات کابل میں واقع ہے۔ باپ بیٹے وہیں رات کی بچی کچھی روٹی اور سالن سے ناشتا کرکے کام پر جت جائیں گے۔

اب اگلے دس گھنٹے تک انہیں اینٹیں تیار کرنی ہیں۔کامران بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ عمر ہمجولیوں کے ساتھ کھیلنے اور ماں باپ کے لاڈ اٹھانے کی ہے مگر اس کے نرم و نازک ہاتھ اینٹیں اٹھا اٹھا کر پتھر جیسے سخت ہوچکے۔ کمسن کامران کو افغانستان میں پچھلے چار عشروں سے جاری جنگوں نے اس ناگفتہ و افسوس ناک حال تک پہنچایا ہے کہ وہ اتنی بالی عمر میں بچپن کے سہانے اور یادوں کے رنگ برنگ غباروں سے محظوظ ہونے کے بجائے محنت مشقت کرنے پہ جت گیا۔

دو سال قبل وہ صوبہ بغلان کے ایک گاؤں میں والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ باپ اور بھائی کھیتی باڑی کر کے اچھی خاصی رقم کما لیتے۔ وہ خود مقامی سکول میں زیر تعلیم تھا۔ایک دن امریکی فوج وہاں آ پہنچی ۔گاؤں کے قریب طالبان نے مستقر بنا رکھا تھا۔ فریقین کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بھاری ہتھیار استعمال کیے گئے۔

بموں نے کامران کا گھر تباہ کر دیا۔ بم گرنے سے فصل نے بھی آگ پکڑ لی اور مہینوں کی محنت دیکھتے ہی دیکھتے نذر آتش ہوئی۔جنگ زدہ گاؤں کے تمام مکین فرار ہونے پرمجبور ہو گئے۔ عتیق اللہ بھی بال بچے لیے کابل چلا آیا تاکہ وہاں کوئی روزگار ڈھونڈ سکے۔تلاش بسیار کے بعد اسے اینٹوں کے بھٹے میں ملازمت مل گئی۔

تنخواہ مگر اتنی کم تھی کہ روزمرہ اخراجات پورے نہ ہو پاتے۔ ادھر مہنگائی بڑھ رہی تھی۔ آٹے کا تھیلا کئی سو افغانی میں ملتا۔ دل پر پتھر رکھ کر عتیق اللہ نے دیگر بیٹوں کے ساتھ ننھے کامران کو بھی کام پر لگا دیا۔ سوچتا تھا کہ وہ کم از کم اپنے حصے کی روٹی تو کما ہی لے ۔ جب دو وقت کی روٹی ملنا کٹھن مرحلہ بن جائے، تو کہاں کی تعلیم اور کہاں کا کھیل کود! کامران مجبور ہے کہ باپ کا ہاتھ بٹائے۔ اسے بچپن اور لڑکپن کی وہ بے فکری، سرمستی ،آزادی اور خوشیاں میسر نہ آ سکیں جو دیگر لڑکوں کا مقدر ہوتی ہیں۔

افغانستان میں کامران کی حالت زار نایاب مثال نہیں‘ اس جیسے پانچ تا دس سال کی عمر کے ’’بیس لاکھ‘‘ مزید نوخیز لڑکے لڑکیاں نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف کام کرنے پر مجبور ہیںتاکہ اپنے غریب گھرانوں کی آمدن میں اضافہ کر سکیں۔ دراصل چالیس سال کی مسلسل جنگوں نے سرزمین افغاں کی معیشت تباہ کر ڈالی ہے۔چنانچہ افغانستان کے ہر معاشی شعبے میں ملازمتیں بہت کم جنم لیتی ہیں۔ بیشتر افغان مجبور ہیں کہ وہ اِدھر اُدھر چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہیں تاکہ جسم اور روح کا رشتہ تو برقراررکھا جا سکے۔ افغانستان میں جاری جنگ کو ہر افغان شہری اپنی مخصوص نظر سے دیکھتا ہے۔کئی افغان طالبان کو اپنا ہیرو اور حریت پسند قرار دیتے ہیںکیونکہ وہ غاصب قوتوں سے نبرد آزما ہیں۔

ان کے نزدیک افغان حکومت امریکا و نیٹوکی کٹھ پتلی ہے۔ دیگر افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ اقتدار کی جنگ ہے جو مختلف جنگی سرداروں (وارلارڈز) نے چھیڑ رکھی ہے۔ ہر گروہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔یہ امیر سرداروں کی پیدا کردہ جنگ ہے جس میں غریب ہی مرتے ہیں۔امیر سردار خود تو محلات میں آرام وآسائش سے رہتے اور قیمتی گاڑیوں کے جلوس لیے گھومتے پھرتے ہیں۔ ان کے تنخواہ دار سپاہی میدان جنگ میں کسمپرسی و گمنامی کی حالت میں مارے جاتے ہیں اور انھیں کوئی یاد تک نہیں رکھتا۔

یہ حقیقت ہے کہ نسلی‘ لسانی‘ معاشی‘ مذہبی ‘ نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باعث افغانستان میں مقیم پشتون(آبادی کا 40 فیصد) ‘ تاجک(38فیصد )‘ ہزارہ(9 فیصد)‘ ازبک(9 فیصد)‘ ایمک(4 فیصد) اوردیگر گروہ اب تک افغان قوم کی صورت اختیار نہیں کر سکے۔

یہی وجہ ہے ‘ پچھلے ڈیرھ سو برس سے یہ ملک وقتاً فوقتاً خانہ جنگی کا نشانہ بنا اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو سکا۔ ان خانہ جنگیوں اور بیرونی قوتوں کے حملوں کی وجہ سے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان افغان عوام کو اٹھانا پڑا۔ ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم ،اے سی ایل ای ڈی(Armed Conflict Location and Event Data Project) دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں،لڑائیوں اور فسادات میں ہلاک شدہ انسانوں کا ڈیٹا جمع کرتی ہے۔اس کی تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان جنگ سے متعلق اموات کے سلسلے میں دنیا کا سب سے زیادہ  خطرناک ملک بن چکا۔ حالیہ ماہ اگست میں وہاں دوران جنگ ’’روزانہ 74 مرد،عورتیں اور بچے ‘‘اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اسی طرح گلوبل پیس انڈکس کی رو سے دنیا میں سب سے زیادہ افغانستان ہی امن سے محروم مملکت ہے۔

افغانستان کے حالیہ دور ابتلا کا آغاز جولائی1973ء میں ہوا جب افغان فوج کے کمانڈر جنرل محمد داؤد خان نے سوتیلے چچا کے بیٹے اور شاہ افغانستان‘ ظاہر شاہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اسے لیفٹسٹ جماعت‘ پی ڈی پی (پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی) کی حمایت حاصل تھی۔ اب جنرل داؤد نیا افغان حکمران بن گیا۔ اس نے پی ڈی پی کے ارکان کو وزیر بنا دیا۔

مگر یہ پارٹی نظریاتی و نسلی طور پر کئی گروہوں میں تقسیم تھی جن میں ’’پرچم‘‘ اور ’’خلق‘‘ سب سے بڑے گروہ تھے۔ اب اقتدار کے مزے لوٹنے اور مراعات و آسائشیں حاصل کرنے کی تگ و دو میں دونوں گروہ لڑ پڑے۔17 اپریل 1978ء کو پرچمی لیڈر‘ میر اکبر حیدر پُراسرار انداز میں مارا گیا۔ اس کی نماز جنازہ میں کئی ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ بعداز نماز جنازہ لوگ کابل کی سڑکوں پر آ گئے اور حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی۔

داؤد خان نے عوامی مظاہرے سے خائف ہو کر پی ڈی پی کے سبھی لیڈر گرفتار کر لیے۔ مگر دس دن بعد پی ڈی پی کے حامی فوجیوں نے صدارتی محل پر قبضہ کیا اور داؤد خان کو اہل خانہ سمیت  ہلاک کر دیا۔اب پی ڈی پی کے رہنما حکمران بن بیٹھے۔جلد ہی خلقی اور پرچمی گروہوں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیڈروں کو ہلاک کرنے لگے۔ یہی نہیں‘ مخالف پارٹیوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ غرض اپریل 1978ء سے دسمبر 1979ء تک افغانستان میں انارکی اور لاقانونیت کا دور دورہ رہا۔ اسی دوران ہزار ہا افغان خانہ جنگی کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

17 دسمبر 1979ء کو سویت فوج نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ تب افغان مجاہدین نے روسیوں کا مقابلہ کیا اور فروری 1989ء میں انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔روسیوں کے خلاف جہاد میں سبھی افغان نسلوں کے مجاہدین شریک تھے۔ان کے اتحاد ہی نے سویت یونین جیسی بڑی سپر پاور کو پسپا کر ڈالا۔ روسی فوج کے جاتے ہی مگر مجاہدین کے گروہوں میں اقتدار کی جنگ ہونے لگی۔

طالبان نے اس خانہ جنگی کا خاتمہ کیا لیکن تاجک ‘ ہزارہ اور ازبک ان کی حکومت کے مخالف بن بیٹھے۔ انہوںنے شمالی اتحاد کے نام سے اپنی تنظیم قائم کر لی۔یہ گروہ طالبان پہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہبی  طور پر انتہا پسند اورسیاسی لحاظ سے جارح مزاج و ڈکٹیر ہیں۔غرض افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان اور شمالی اتحاد ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ دسمبر 2001ء میں امریکی و نیٹوافواج نے القاعدہ لیڈروں کا پیچھا کرتے ہوئے افغانستان پر دھاوا بول دیا۔

افغان طالبان تب سے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ انہیں افغان سکیورٹی فورسز اور مخالف تنظیموں مثلاً شمالی اتحاد‘ داعش اور جنگی سرداروں سے بھی لڑنا پڑا۔ ان مسلسل لڑائیوں نے مگر افغان عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے دروازے بند کر دیئے۔ ان کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولتوں مثلاً عمدہ خوراک،پینے کا صاف پانی‘ سیوریج‘ سینیٹیشن‘ اسکول ‘ ہسپتال ‘ بجلی‘ سوئی گیس اور پختہ سڑکوں سے بھی محروم ہے۔ وہ مویشی پال کر اور کھیتی باڑی کر کے روز مرہ اخراجات پورے کرنے کی خاطر کچھ رقم کماتے اور کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کی بدحالی کابنیادی سبب جنگ ہی ہے۔ممتاز امریکی ادیب،ارنسٹ ہیمنگوے نے ایک جگہ لکھا ہے:’’جنگ چاہے کتنی ہی ضروری ہو،میں اسے جرم قرار دوں گا۔‘‘امریکی جرنیل ،آئزن ہاور ساری زندگی جنگیں لڑتا رہا۔اخیر عمر میں کہنے پر مجبور ہو گیا’’جنگ کوئی مسئلہ حل نہیں کرتی۔‘‘

امریکی اور یورپی حکمران اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر لیڈروں کا خاتمہ کرنے افغانستان آئے۔ انہوںنے اعلان کیا کہ وہ اس مملکت کو جدید ‘ ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے افغانوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ انسانی حقوق کے چیمپئن اور جمہوریت کے علم بردار اس طرح  اپنے جنگی حملے کا جواز ڈھونڈنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک طرف امریکی و نیٹو فوجی افغانستان میں افغانوں کا قتل عام کرتے رہے۔اس جنگ میں دو لاکھ سے زائد افغان ہلاک ہو چکے ۔

دوسری سمت افغان حکومت کو اربوں ڈالر دیئے گئے تاکہ وہ مملکت میں ترقیاتی منصوبے شروع کر سکے۔سوال یہ ہے کہ کیا انصاف پسند اور قانون پسند سمجھنے جانے والے امریکی و یورپی حکمران طبقے نے اپنے اعلان کے مطابق افغانستان کو جدید ‘ ترقی یافتہ اور خوشحال بنا ڈالا؟سرزمین افغاناں میں بچہ بچہ  جانتا ہے کہ امریکی ونیٹو حملے سے افغان عوام غربت  ،مسائل اور آفتوں کی دلدل میں مزید دھنس گئے۔

پروفیسر نیٹا کرافورڈ امریکی بوسٹن یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی سربراہ ہیں۔انھوں نے 2011ء میں دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر ایک پرجیکٹ’’کوسٹس آف وار‘‘ (Costs of War)شروع کیا۔وہ جاننا چاہتی تھیں امریکی حکومت اپنی جنگوں پر کتنی رقم خرچ کر رہی ہے۔اس پروجیکٹ کی تازہ رپورٹ 18 نومبر 2018ئکو شائع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت مارچ 2019ء تک دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگوں پہ’’ 5.9ٹرلین ڈالر‘‘ (پانچ ہزار نو سو ارب ڈالر)خرچ کر چکی۔دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے 4.1 ٹرلین ڈالر کے اخراجات برداشت کیے تھے۔گویا اکیسویں صدی میں امریکی حکمران طبقے نے بہ لحاظ جنگی اخراجات دوسری جنگ عظیم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکی تاریخ کیی مہنگی ترین عسکری مہم جوئی بن چکی۔

5.9ٹرلین ڈالر کے اخراجات میں خالص جنگی خرچوں کے علاوہ جنگوں سے وابستہ دیگر خرچ بھی شامل ہیں۔مثال کے طور پر وہ رقومات جو اتحادی ممالک کو دی گئیں،بیرون ممالک عسکری اڈے قائم کرنے کے خرچے،معذور فوجیوں پر اٹھنے والے اخراجات،ٹھیکے داروں پر اٹھنے والا بھاری خرچ ،قرضے اور ان پہ دیا گیا سود وغیرہ۔ظاہر ہے،جنگ کا وسیع تھیٹر سجانا بچوں کا کھیل نہیں ،اس کے لیے بہت اہتمام کرنا پڑتا ہے۔

یہ تھیٹر سجانے پہ کثیر سرمایہ لگتا ہے۔’’کوسٹس آف وار‘‘پروجیکٹ کے محققوں کی رو سے 5.9 ٹرلین ڈالر میں سے تقریباً ’’دو ٹریلین ڈالر‘‘ (دو ہزار ارب ڈالر)افغان جنگ پر خرچ ہوئے۔اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان پہ چڑھے کل قرضوں کی مالیت ساڑھے تین سو ڈالر ہے۔گویا جنگ عظیم دوم کے بعد افغان جنگ امریکی تاریخ میں دوسری مہنگی ترین جنگ بن چکی۔آج بھی امریکی ہر سال مختلف مدوں میں پچاس ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک رہا ہے۔ واضح رہے، افغانستان میں انیس سال کے دوران نیٹو کے تمام اخراجات بھی مدنظر رکھیں جائیں تو افغان جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کی مالیت ڈھائی سے تین ٹرلین ڈالر کے مابین پہنچ جاتی ہے۔بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ افغانستان پہ کھربوں روپے خرچنے کا فائدہ کیا ہوا؟

امریکی وافغان حکومتوں کے اپنے اعدادوشمار کی رو سے افغانستان کی 60 فیصد آبادی انتہائی غریب ہے۔90 فیصد افغان معمولی ملازمیتیں کر رہے ہیں۔55 فیصد سے زیادہ آبادی کی عمر پانچ سے چودہ برس ہے اور ان بچوں کی اکثریت اسکول جانے کے بجائے کوئی نہ کوئی کام کر رہی ہے تاکہ زندگی کی گاڑی رواں رکھی جا سکے۔حقیقت یہ ہے کہ چند نہیں افغان عوام لاتعداد مسائل سے دوچار ہیں مثلاً:قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے جرائم کی بھرمار،اسپتالوں کی کمی سے ہر سو پھیلی بیماریاں،اسکول نہ ہونے سے پھیلی جہالت،بیروگاری،آلودگی،مہنگائی،پانی وخوراک کی کمی،بڑھتی آلودگی وغیرہ۔اکثر علاقوں میں کسان افیون اگاتے ہیں کہ یہ فصل نقد آور ہے۔

غرض کروڑوں افغان نہایت کٹھن اور دشوار زندگی گذار رہے ہیں۔امریکی ویورپی حکومتوں نے افغانستان کو جو کھربوں روپے فراہم کیے،ان کا بیشتر حصہ افغان حکمران طبقہ کھا گیا یا پھر وہ مغربی ٹھیکے دار جنھوں نے افغانستان کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔ان کھربوں روپے سے افغان عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی چینل،MSNBC کو انٹرویو دیتے ہوئے بجا فرمایا’’ امریکا نے کھربوں روپے افغان جنگ میں جھونک دئیے مگر ملکی انفراسٹرکچر بنانے پہ کوئی توجہ نہ دی۔آج میں گاڑی میں بیٹھا تو وہ چلتے ہوئے ہچکولے کھاتی رہی۔اُدھر چین نے افغانستان میں انفراسٹرکچر کھڑا کر دیا۔‘‘اس کے باوجود امریکی اسٹیبلشمنٹ کوئی سبق سیکھنے پہ آمادہ نہیں۔

28ستمبر2019ء کو افغانستان میں امریکی قبضے کے بعد چوتھے الیکشن ہوئے۔مقابلے میں پندرہ سے زائد امیدوار کھڑے تھے۔اصل مقابلہ اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کے مابین تھا۔نتائج اکتوبر کے آخری ہفتے جاری ہوں گے۔دوران الیکشن فساد، دھاندلی اور کم ٹرن آؤٹ کی خبریں سامنے آئیں۔

طالبان الیکشن کے خلاف تھے لہٰذا انھوں نے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔طالبان کی دہمکی کے سبب کئی اضلاع میں شہریوں نے ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔نئی حکومت آنے کے بعد امید نہیں کہ سرزمین افغاناں میں امن وامان اور معیشت و عوام کی حالت زار ٹھیک ہو جائے۔اس حکومت کو بھی امریکا مصنوعی طور پہ زندہ رکھے گااور وہ اس کے ٹکڑوں پر پلتی رہے گی۔

امریکا کی رخصتی اور خانہ جنگی ختم ہونے پر ہی افغانستان میں امن وخوشحالی کے آثار ہویدا ہوں گے۔مگر امریکی حکمران جغرافیائی و سیاسی تزویراتی لحاظ سے اہم یہ علاقہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔لگتا ہے، افغانستان آنے والے برسوں میں بھی بدستور خانہ جنگی،قتل وغارت،غربت ،بیروزگاری، جہالت وغیرہ کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا۔خدا جانے ،اشرف المخلوقات کو کب احساس ہو گا کہ جنگ صرف قربانیاں مانگتی ہے… بدلے میں بھی مصائب و آلام ہی دیتی ہے۔

The post مسائلستان بن جانے والا افغانستان appeared first on ایکسپریس اردو.

سقوط ڈھاکہ کا تاریخی اور سیاسی پس منظر

$
0
0

(قسط نمبر3)

وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ یک بیک نہیں ہوتا

یہ شعر سانحہ مشرقی پاکستان 16دسمبر1971ء پر پوری طرح صادق آتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے مختصر مگر جامع انداز میں پورے بنگال کے علاقے کے تاریخی سماجی اور جغرافیائی پس منظر کا جائزہ لیا جائے۔

یہ پورا خطہ صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے بنگال ہے۔ اِس وقت بھارتی مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کا مجموعی رقبہ 236322 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 25 کروڑ سے زیاد ہ ہے، بنگال جیو پولیٹیکل، ثقافتی اور تاریخی خطہ ہے، یہ جنوبی ایشیا اور خصوصاً مشرقی برصغیر کا وہ حصہ ہے جو خلیج بنگال میں برہما پتر اور گنگا ڈیلٹا سسٹم ہے اور جغرافیائی اور موسمیاتی تشکیل کے اعتبار سے دنیا کا سب سے وسیع ڈیلٹائی خطہ ہے۔

شمال اور مشرق کی طرف یہاں للترا میں دنیا کے سب سے بڑے منگروز یعنی تمر کے جنگلات ہیں،کاکسک بازار میں دنیا کی 125 کلومیٹر سب سے لمبی ییچ ہے، یہاں سندر بند کے جنگلات اہم ہیں جہاں دیگر جنگلی حیات کے علاوہ بنگال ٹائیگر بہت مشہور ہے۔ انگر یزوں کے زمانے میں یہا ں اِن شیروں کا بے دریغ شکار کیا گیا مگر اب یہاں بھارت کی سرکاراپنے علاقے میں اور بنگلہ دیشی حکومت اپنے علاقے میں اِن شیروں کی بہت حفاظت کر رہی ہے۔

بنگال کے علاقے میں اِس وقت اِن بنگال ٹائیگرز کی تعداد مجموعی طور پر ڈھائی سو کے قریب ہے جن میں تقریباً اسی بھارتی علاقے میں ہیں، باقی بنگلہ دیشی جنگلات میں ہیں۔ بنگال سے باہر جھا ڑ کھنڈ، انڈو مان کے جزائر، نیکو بار کے جزائر میں بنگالی آبادی زیادہ ہے، جہاں تک خلیجِ بنگال کے موسمیاتی نظام کا تعلق ہے تو یہ ایشیا میں بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان سر ی لنکا، بھوٹان، مالدیپ تک سالانہ مون سون سسٹم کے تحت بارشوں کا سبب بنتا ہے بلکہ بعض اوقات تو سعودی عرب کے جزیز ے میسر تک مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں، ہمالیائی شمالی پہاڑی علاقہ جس میں ہمالیائی ریاستیں نیپال، بھوٹان مشرق کی طرف میانمار ہے۔

آج سیا سی اور آئینی خود مختاری کے سبب بنگال ، مغربی بھارتی بنگال اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہے۔ بنگلہ دیش کل رقبے کا دو تہائی یعنی 147570مربع کلومیٹر اور آبادی 16 کروڑ سے زیادہ ہے اور مغربی بھارتی بنگال کا رقبہ 88752 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 9 کروڑ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ریاست تری پورا،آسام ، اور وادی ِباراک ہیں جہاں نسلی قومی لسانی اعتبار سے بنگالیوں کی تعداد زیادہ ہے اُس کو بھی بنگالیوں کا خطہ کہا جاتا ہے۔

جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو اس کا بیشتر رقبہ سمندر کی سطح سے صرف 10 میٹر بلند ہے اور کہا جاتا ہے کہ آئند ہ دس پندرہ برسوں میں گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے علاقے میں مالدیپ جیسا ملک جوآدھا سمندر میں ڈوب چکا ہے، مکمل طور پر سمندر میں ڈوب جائے گا تو بنگلہ دیش کا بھی تقریباً 10% رقبہ سمندر برد ہو جائے گا، اِس وقت دیگر ماحولیاتی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں زیرِزمین پانی میں Arsenic آرسینک کی مقدار عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے طے شدہ مقدارسے خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

یہ صورتحال بھارتی مغربی بنگال کے 9 اضلاع میں اور بنگلہ دیش کے 42 اضلاع میں کہیں زیادہ ہے، جہاں یہ پورا علاقہ دنیا کا انسانی آبادی کا گنجان ترین علاقہ ہے وہاں یہ دنیا میں اپنی خاص جغرافیائی، تاریخی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال سے انسانی تہذیب اپنے ارتقائی عمل سے گزرتی آگے بڑھتی رہی، ساتھ ہی یہاں تاریخ کی سب سے زیادہ قدرتی اور غیرقدرتی آفات آتی رہی ہیں۔

قدرتی آفات میں ایسے بدترین قحط کہ ہر قحط میں بھوک سے ہلاک ہو نے والوں کی تعداد لاکھوں سے ایک کروڑ تک پہنچی، یہاں طاعون کی وبا بھی آئی اور سیلابوں اور سمندری طوفانوں سے بھی لاکھوں کروڑوں افراد ہلاک ہوتے رہے، پھر چونکہ یہ خطہ زرعی، معدنی دولت سے مالا مال رہا اس لئے غیر قدرتی آفات کی صورت میں تاریخی اعتبار سے جہاں چین کی قدیم شاہراہ ریشم سے اور بنگال کی اہم بندر گاہوں کے وجہ سے تجارتی اور اقتصادی سرگرمیاں رہیں وہاں ہر دور میں اس کی دولت کو لو ٹنے کے لیے عالمی اور علاقائی طاقتوں نے یہاں انسانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے، پھر یہ بھی ہے کہ بنگالی قوم تہذیبی، ثقافتی بنیاد پر دنیا میں موسیقی، ادب خصوصاً شاعری، مصوری میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔

یہاں ٹیگور کو یہ اعزاز حاصل ہو اکہ انہوں نے خطے میں سب سے پہلے اور دنیا کے لٹریچر میں بنگالی ادب کی بنیاد پر نوبل انعام حاصل کیا تھا، اِن کے علاوہ نذرالسلام اوردیگرکئی بڑے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے، یہی صورت موسیقی میں رہی۔ جہاں تک تعلق تاریخ کا ہے تو بنگا ل کا خطہ انسانی تہذیب کے اعتبار سے قبل از تاریخ کے زمانوں سے جڑا ہوا ہے، یہاں مہاتما بدھ کو نروان بھی ہوا اور پھر ہندو مت کو عروج بھی حاصل ہوا۔ ساتویں صدی سے یہاں بدور حکمران رہے، نویں صدی میں یہاںسے بنگال میں سینا سلطنت کا دور رہا، پھر پالا دور سے پہلے یہاں مسلمان تاجر آنے لگے اور رفتہ رفتہ یہاں کے مقامی لوگو ں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا کہ جلد یہاں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو گئی کہ وہ پہچانے جانے لگے۔ بغد اد کے عباسی دور میں زیادہ تعداد میں مسلمان تاجر یہاں آئے جب کہ 1204ء میں یہاں مسلم حکمرانی قائم ہونے لگی۔

پھر 1352 میں سلطنت دہلی کو استحکام حاصل ہوا تو میں یہاں اسلام کو مزید فروغ حاصل ہوا، اس زمانے تک بنگال ایک ایسا زبردست پیداواری علاقہ بن چکا تھا جہاں نہ صرف زرعی پیداوار زیادہ تھی بلکہ یہاں کاٹن اور ریشم سے بنائے جانے والے کپڑوں کی صنعت بھی دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی تھی، مغلیہ سلطنت کے دور میں بنگال میں صنعت و تجارت اپنے عروج پر اس اعتبار سے بہت زیادہ اہم تھی کہ یہاں کی مقامی آبادی جو اُس وقت بھی کروڑوں میں تھی اس کی اکثریت بھی، یہاں کی صنعتی اقتصادی تجارتی ترقی سے مستفید ہو رہی تھی یعنی یہ معاشرہ خوشحال تھا اور یہاں مسلمان کو اکثریت حاصل ہو رہی تھی۔

اس کے با وجود نہ صرف یہاں امن وامان کی صورتحا ل مثالی تھی بلکہ بنگال کی مجموعی اقتصادیات، صنعت اور تجارت میں یہاں کے مقا می ہندوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ تھا۔ بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں حکومت قائم کی اس کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا، اُسے بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ بنگال کی جاگیر سراسرم کے حکمران کا شہزادہ شیر شاہ سوری تھا، اُس نے ان حالات میں ہمایوں کو شکست دی اور ہندوستان کا شہنشاہ بن گیا۔ اگرچہ شیر شاہ نے ہندوستان پر صرف پانچ سال حکومت کی لیکن بنگال سے خیبر پختونخوا تک ہندوستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے بہت کا م کئے۔

جس میں اُن کا نمایاں کارنامہ بنگال کے شہر ڈھاکہ سے پشاور تک سڑک کی تعمیر ہے جسے جرنیلی سڑک کہا جاتا ہے۔ شیر شاہ سور ی کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہمایوں نے ایران کے بادشاہ کی مدد سے دوبارہ ہندوستان کی حکومت حاصل کر لی ا ور، اورنگ زیب عالمگیر تک مغلیہ دور آب و تاب سے جاری رہا لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت زوال آمادہ تھی توساتھ ہی یورپی اقوام اپنی تجارتی کمپنیو ں کے ساتھ یہاں سمندر کے راستے آنے لگی تھیں اور اِن میں ڈچ اور برطانیہ زیادہ نمایاں تھے۔

مغلوں کے زوال کے دور میں بھی بنگال میں اُس وقت کی دنیا کی 12فیصد دولت تھی اور یہ علاقہ اُس وقت دنیا کا دولت مند خطہ مانا جاتا تھا، ریاست بنگال کے چین سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور پھر یورپ سے تجارتی تعلقا ت تھے۔ برطانیہ نے رفتہ رفتہ یہاں قوت حاصل کی اور1757ء میں بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی دوسری جنگ میں اُس کے وزیر میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست دی، واضح رہے کہ پلاسی کی پہلی جنگ میں جب نواب سراج الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو کو شکست دی تھی تو لندن کی اسٹاک ایکسچینج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئر ز گر گئے تھے، مگر جب لارڈ کلائیو نے پلا سی کی دوسری جنگ میں سراج الدولہ کو حتمی شکست دی اور اُسے شہید کر دیا تو لندن کی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ میںایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئرز کئی گنا بڑھ گئے۔

اُس وقت ہندوستان میں نہ تو لوگ اسٹاک ایکسچینج کے تصور سے آگاہ تھے اور نہ ہی اُنہیں برطانیہ سمیت عالمی بنکنگ نظام کا پتہ تھا۔ نواب سراج الد ولہ کے زمانے تک بنگال میں مقامی سطح پر پیداوار پر 10 فیصد حکومتی ٹیکس عائد تھا، یوں بنگال میں اپنے خام مال معدنیا ت، زرعی پیداوار اور صنعت و حرفت کی وجہ سے بہت خوشحالی تھی، غربت نہ ہونے کے برابر تھی اور درمیانہ طبقہ تو برطانیہ کے سرمایہ داروں سے بھی زیادہ مزے میں تھا۔ نواب سراج الدولہ سے پہلے مغلیہ دور میں بھی اور اس کے بعد بھی یہاں بڑے بڑے جاگیردار تھے جو یورپ کے کئی بادشاہوں سے کچھ زیادہ حیثیت کے مالک تھے لیکن لارڈ کلائیو نے کمپنی کے

نفع میں اضافے اور جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے سرکاری ٹیکسوں میں 50% سے زیادہ اضافہ کر دیا، اس سے ایک جانب تو کمپنی کو بہت سرمایہ ملا تو دوسری جانب بنگال میں جہاں انگریزکو میر جعفر جیسے غداروں کی صورت میں یہاں کے جاگیرداروں کی ضرورت تھی، وہاں ہندوستان میں آ بادی میں روایتی طور پر ہزاروں برسوںسے برہمن ،کھشتری، ویش اور شودر کی بنیاد پر معاشرے میں طبقاتی تقسیم تھی۔

برہمن سب سے اعلیٰ ذات ہے ،جس کی ذمہ داری مذہبی فرائض کو پورا کرنے کی ہوتی ہے یہ معاشرے کا مقدس طبقہ ہے اور اس کے بعد کھشتری جو حکمرانی بھی کرتے ہیں اور فوجی ہوتے ہیں یعنی حکمرانی اور ملکی دفاع کی ذمہ داری کھشتری کی تھی، تیسرا طبقہ ویش کا ہے جو تجارت کرتا تھا اور شروع ہی سے سود کا کام کرتا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے کے بعد بنگال میں اس طبقے یعنی بنگال کے مقامی تاجر طبقہ نے انگریز سے تعاون کیا اور شودر جو ہمیشہ سے اکثریت میں رہے ہیں اور باقی تینو ں بالا طبقات کی خدمت کرتے،کسان بھی یہی ہو تے تھے، جہاں تک تعلق ویش طبقے کا تھا تو وہ سرمایہ کی طاقت رکھتا تھا مگر معاشرے میں خصوصاً برہمن اور کھشتری طبقات میں عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور اِن کو بنیا ہی کہتے تھے۔

انگریزوں کے عہد میں ویش طبقے کے تعاون سے جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کو جی بھر کے لُوٹا تو مقامی سطح پر یہ ویش طبقہ بنگال کے معاشرے میں بالا دست ہونے لگا۔1757 ء میں فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں ٹیکسوں کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 50% کر دی تھی اور اس کی وصولی میں بھی اسی ویش طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ان ظا لمانہ ٹیکسوں کی وجہ سے صورت یہ ہو ئی کہ صرف تیرا سال بعد 1770 میں ایسا خوفناک قحط آیا کہ اس سے اُس وقت ایک کروڑ کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے، اب یعنی انگریزوں کے دور حکومت میں معاشرے میںجہاں عوام پر معاشی اقتصادی ظلم روا رکھا گیا وہاں اس سے جو تبدیلیاں شروع ہوئیں وہ اس طرح تھیں کہ معاشرے میں ویش اب بنگال میں انگریز کا شراکت دار تھا۔

اس کو استعمال کرتے ہوئے یہاں پہلے صنعتی انقلاب کے سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے، یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں نئے انداز کے جدید کارخانے لگا ئے گئے، یہاں کلکتہ جیسا دنیا کا بڑا شہر تعمیر ہوا، یہ بندر گاہ بہت بڑی تجارتی بندر گاہ بن گئی، کلکتہ کا شہر بھی ٹیکسائل کا مرکز بنا اس سے ہندو یہاں ویش یعنی ہندو بنیے کی تجارت کے سبب طاقتور ہوئے تو دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ جو پہلے بھی تھا اس کی رفتار بڑھ گئی، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہاں شودر آبادی میں اسلام قبول کرنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوا جب کہ جاگیرداروں یعنی نوابین میں مسلمان بھی شامل تھے اور جاگیردارانہ نظام کی بنیاد پر اپنی مقامی آبادی پر اثر اور طاقت کی وجہ سے انگریز کے وفادار بھی تھے مگر یہ شاہا نہ طور طریقوں کی وجہ سے مالی طور پر کمزور ہو رہے تھے۔

اِن کے مقابلے میں ہندو بنیا کے سرمائے اور معاشرتی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بنگال میں ہمیشہ سے سیلابوں اور سمندری طوفانوں کا زور رہا ہے، یو ں ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے بعد انگریز سرکار کے دور میں بھی لاکھوں افراد سیلابوں اور سمندری طوفانوں کے سبب ہلاک ہوتے رہے جس سال سیلاب یا سمندری طوفان آتے اُس سال زرعی پیداوار تباہ ہو جاتی اس سے جہاں کسان متاثر ہوتا وہاں جاگیردار کو بھی مالی نقصان ہوتا تھا۔

اُس زمانے میں آج کی طرح حکومت ایسی قدرتی آفت کی صورت میں کسانوں، جاگیر داروں اور زمینداروں کی مدد نہیں کرتی تھی۔1757 سے1857 تک انگریزی دور حکومت میں معاشرہ اتنا بدلا کہ جب انگریزوں نے 1846 تک پنجاب میں سکھوں کے خلا ف کاروائی کی تو اُن کو اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں جو فو ج میسر تھی اس کی اکثر یت بنگالیوں پر مشتمل تھی جو بنگال کے جاگیرداروں کی مرضی ہی سے انگریز فوج میں شامل تھی۔ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کے جانشینوں کو شکست دی اور پنجاب آج کا خیبر پختونخوا اور مقبوضہ و آزاد کشمیر لداخ سب فتح کر لیا اور پھر جنگی اخراجات اور تا وان جنگ میں ادائیگی کی جوکمی سکھوں کی طرف سے ہو رہی تھی اس کے لیے ڈوگر راجہ گلاب سنگھ کو کشمیر فروخت کر دیا۔

پھر تاریخ نے یہ تماشا دیکھا کہ پنجاب کے جاگیردار انگر یز کے وفادار ہو گئے اور جب 1857ء کی جنگ آزادی لڑی گئی تو اُس کو ناکام بنانے اور حریت پسندوں کو مارنے کے لیے وہ فوج بھیجی گئی جس میں پنجا ب کے جاگیر داروں کی مرضی بلکہ اُن کے حکم سے بھرتی ہونے والے سپاہی ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں دہلی اورہندوستان کے دوسرے علا قوں میں پہنچے اور آزادی کے متوالے مجاہدین کو شکست دے کر جنگ آزادی کو ناکام بنادیا۔

انگریز نے اسے غدر کا نام دیا، یعنی مشترکہ غداری اور اگست 1947 تک یہی لفظ استعمال ہوتا رہا۔ 1757 کی جنگ پلاسی سے جنگ آزادی1857 تک پوری ایک صدی میں بنگال میںاجتماعی طور پر ہندو مسلم تفریق کے بغیر انگریزوں اور غدار بنگالی جاگیرداروں کے مظالم اور ہندو بنیے کے اقتصادی جبر کے خلاف، علم و ادب ، فن و موسیقی اور شاعری سے مزین اس معا شرے کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے عالمی، قومی اور مقامی تینوں سطح پر بنگال اور بنگالیوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں اور جبر کے خلاف عوام کو بیدار کیا۔

جنگ آزادی 1857 میںکلکتہ ،ڈھاکہ ،چٹاگانگ، سلہٹ میں انگریزوں کے خلاف بنگالیوں نے ہتھیا ر اٹھائے، یعنی اجتماعی معاشرتی شعور بنگال میں انگر یزوں کے خلاف یوں بھی برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار ہوا کہ ایک تو انگریزوں کا پہلا پڑائو بنگال تھا جہاں اُن کی بنیادی دلچسپی صنعت و تجارت کی بنیاد پر دولت کا حصول تھا، یہاں بھی انگریزوں کی تعداد بنگالیوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر انگریز اپنے وفادارجاگیرداروں، نوابین ،راجوں اور مہا راجوں کے ساتھ اِن پر حکومت کر رہے تھے۔ انگریزوں نے یہاں اپنی آمد کے بعد عرصے تک کلکتہ کو اپنا مرکز رکھا اور یہاں صنعت و تجارت کو ترقی دی۔ یوں یہاں پر ان کو مختلف شعبوں میں ہنرمند، ٹیکنیکل اور ایسی تعلیم یافتہ افرادی قوت کی ضرورت تھی جو اُن کے کاروبار میں معاون ومددگار ہوں اور سب سے پہلے ایسی افرادی قوت انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق یہاں بنائی جو صنعت و تجارت کے بڑھنے سے لاکھوں تک جا پہنچی، جس طرح یورپ کے دیگر صنعتی شہروں میں اشتراکی نظریات کو مزدروں نے اپنایا، یہی صورت خصوصاً کلکتہ میں رہی۔

دوسری جانب یہاں بنگالی شعرو ادب کا معیار بھی بلند تھا اور کروڑوں افراد پر مشتمل بنگالی قوم تھی اس لیے شروع ہی سے لسانی بنیاد پر یہاں دانشوروں کا ایک بڑاگروہ قوم پرست رہا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں اسلام کو ہندوں کی اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے نظراندا ز کئے جانے والی وسیع آبادی یعنی شودروں نے اس لیے قبول کیا کہ اسلام ذات پات کی تقسیم کو نہیں مانتا اور پھر انیسویں صدی کے آخر تک تو بنگال میں مسلمان آبادی مجموعی طور پر قدرے اکثریت میں اور مشرقی بنگال جو اب بنگلہ دیش ہے اس میں بہت واضح اکثریت میں مسلمان آبادی آگئی۔

مگر بنگال میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے ہندو مسلمان کی بنیاد پر انگریز کے عہد میں بھی لڑائی جھگڑے کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہے اور جب مسٹر ہیوم نے 1885ء میں آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی تو سر سید احمد خان کے منع کرنے کے باوجود بہت سے مسلمان کانگریس میں شامل ہوئے اور ان میں بنگالی مسلمانوں کی تعداد نمایاں تھی مگر جب ہندوستان میں انگریزوں کی جانب سے پارلیمانی جمہوریت کو مراحل میں اور رفتہ رفتہ متعارف کر نے کا سلسلہ شروع ہوا تو ساتھ ہی عالمی سطح پر نو آبادیاتی نظام کو بڑے چیلنج درپیش ہوئے اِن میں ایک جانب دنیا بھر کے غلام ملکوں ’’نو آبادیات‘‘ کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کا فطری جذبہ تھا تو دوسری جانب صنعتی اقتصادی شعبے میں سرمایہ دارانہ نظام کا جبر تھا۔

ان دونوں حوالوں سے ’’بنگال کا خطہ ‘‘ ہند وستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں اہم رہا،آل انڈ یا کانگریس اپنے قیام کے بیس برس بعد نہ صرف ہندوستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت بن گئی بلکہ اس جماعت میں برصغیر کے اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد بڑی تعداد میں شامل تھے۔

اکثریت قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے تھی اور وہ برطانیہ جا کر پارلیمانی نظام کا مطالعہ و مشاہد ہ کرچکے تھے، وہ اس اعتبار سے ریاست کے تین ستونوں مقننہ،عدلیہ اور انتطامیہ کے آئینی اختیار سے واقف تھے اور اِن کے الگ الگ دائر کار کو سمجھتے تھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ چونکہ ہندوستان انگریز کی نو آبادیات تھا۔

اس لیے یہاںمقننہ کو اختیار نہیں دیا تھا بلکہ اس کی تشکیل بھی نہیں ہوئی تھی البتہ مشاورت کی حد تک ہندوستان کی مقامی لیڈ ر شب سے رابطے رہتے تھے، عدلیہ بظاہر آزاد اور قانون کے تابع تھی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے پورے دورِ اقتدار میں ہزاروں لاکھو ں ہندوستانیوں کو اس عدالتی نظام اور قانون کے تحت سزائے موت دی گئی مگر ایک بھی انگریز کو پھانسی نہیں ہوئی۔ یہاں یہ درست ہے کہ انگر یز کی کو شش ہوتی تھی کہ ہندوستانیوں کے درمیان مسئلہ ہو تو قانون کے مطابق انصاف کیا جائے اور اس کے سبب انگریز دور کا انصا ف مشہور تھا۔

1905ء میں وسیع رقبے کے صوبے بنگال کی آبادی 7 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت کے ہندوستان کی کل آبادی 24 کروڑ کا تقریباً 34 فیصد تھی تو انگر یز وائسرائے لارڈ کرزن نے یہ محسو س کیا کہ بطور وسیع رقبے اور بڑی آبادی کے صوبہ کا انتظام چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے اس لیے بنگال کو19 جولائی 1905 کو مشرقی اور مغربی بنگال کے دو صوبوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا، مشرقی بنگال جو 1947 سے1971 تک مشرقی پاکستان رہا اور اب بنگلہ دیش کہلا تا ہے۔

یہاں مسلم آبادی 80 فیصد تھی اور مغربی بنگال میں بھی مسلم آبادی 45 فیصد کے قریب تھی۔ بنگال کی تقسیم سے مشرقی بنگال کے لو گوں کو فائدہ تھا اور یہ بھی حقیقت تھی کہ اس سے بنگال جیسے صوبے کے عوام کو انتظامی لحاظ سے بھی فائد ہ ہو رہا تھا مگر اس پر بطور سیاسی جماعت کانگریس نے شدید احتجاج کیا اور پہلی مرتبہ واضح طورپر مسلمانوں نے محسوس کیا کہ کانگریس ہندو اکثریت کے مفادات کی نگران ہے اس کے ردعمل میں ہی1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، اور شائد انگریز اپنا فیصلہ 1911 میں تبدیل نہ کرتے اگر عالمی سطح پر جنگ کے آثار نمودار نہ ہوتے اور جب 1911 میں دوبارہ بنگال کو ایک صوبہ بنا دیا گیا تو مشرقی بنگال کے لوگوں کو تنسیخِ بنگال کے فیصلے سے نقصان ہوا اور مسلمانوں نے یہ محسوس کر لیا کہ ہندو پہلے ہندو ہے اور پھر بنگال میں بنگالی ہے۔

1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی 23 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت دنیا کی کل آبادی کے 20% سے زیادہ تھی اس میں بھی تقسیم بنگال اور تنسیخ ِ بنگال کے اثرات سیاسی اعتبار سے ہوئے، اور یہ ایک بڑی سیاسی، سماجی تبدیلی تھی جس سے بنگال کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور پورے برصغیر کے مسلمانوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے مگر جب جنگ عظیم اوّل 1914میں شروع ہوئی تو اُس وقت دنیا کی صورت یہ تھی کہ اپنے رقبے کے لحاظ سے آج کی طرح دنیا کا سب سے بڑا ملک روس ہی تھا، ترکی کی خلافت عثمانیہ تھی، برطانیہ اپنی نو آبادیات سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور خصوصاً بحری قوت کے اعتبار سے اُ س وقت دنیا کی سپر قوت تھا اور امریکہ دنیا کی نئی سپر پاور بن رہا تھا۔

ترکی اور جرمنی کی روس، برطانیہ سمیت یورپی ممالک سے جنگ ہوئی جس کے آخر میں امریکہ بھی ترکی اور جرمنی کے خلا ف اتحاد میں شامل ہو گیا، 1916 میں عالمی جنگ اوّ ل عروج پر تھی تو قائد اعظم اور گانگریس کے رہنمائوں نے بہت درست اندازے قائم کئے کہ اس جنگ کے بعد برطانیہ اور دیگر عالمی نو آبادیات اگر فتح یاب بھی ہوئیں تو کمزور ہو جائیں گی اور ایسی صورت میں متحدہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے لیے اگر ہندو اور مسلمان متحد ہو کر انگریزوں کے خلا ف جد وجہد کریں تو ایک لاکھ انگر یز تقریباً 25 کروڑ آ باد ی کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا، یوں1916 میں قائد اعظم کی جانب سے متحدہ ہندوستان میں مستحکم اور پائیدار ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہندوستان کے ہندو مسلم دو قوموں کی قوی شناخت کی مستقل ضمانت کے لیے ایک ایسا فارمولہ دیا جس کی بنیاد پر یہ دونوں قومیںاُس وقت متحد ہو گئیں، اس معاہدے کو اُس وقت میثاقِ لکھنو کا نام دیا گیا۔

قائداعظم اور کانگریس کے اہم رہنما سبھی بارایٹ لا یا ایل یل بی کے ساتھ قانونی اور آئینی امور پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ قائد اعظم کا موقف یہ تھا کہ بر طانیہ جو دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے، وہاں نوے فیصد سے زیا دہ افراد ایک ہی قوم ، نسل ، زبان، مذہب اور ثقافت سے وابستہ ہیں ، اس لیے وہاں کے آئین میں اِن بنیادوںپر کسی گروہ یا قوم کو تحفظ کی ضرورت نہیں مگر ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں کروڑوں کی تعداد میں ہیں، اس لیے یہاں ہندوستان کے مخصوص سماج اور وسیع ملک میں ایک ایسے آئین کی ضرورت ہو گی۔

جس میں مسلمان جو ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اُنہیں اُن کی شناخت کی آئینی ضمانت کی ضرورت ہو، اس لیے جدا گانہ انتخاب کے ساتھ مسلم ہندو تناسب کے اعتبار سے ہی اَن کے درمیان ملازمتوں اور پارلیمنٹ کی نشستوں کا تناسب ہو اور سب سے اہم یہ تھا اگر مقننہ کو ئی ایسا قانون لانا چاہتی ہو جس سے کسی مذہب کے ماننے والوں کے عقائد اور عقائد کے اعتبار سے زندگی، طرز معاشرت متاثر ہوتی ہو تو ایسی قانون سازی کے لیے یہ ہو گا کہ اُس مذہب کے ماننے والوں کی جو تعداد پارلیمنٹ میں ہو گی اُس کی دو تہائی اکثریت جب تک اس قانونی مسودے کے حق میں ووٹ نہیں دے گی اُس وقت تک وہ قانون مقننہ منظور نہ کر سکے گی۔

ان تمام نکا ت پر میثاقِ لکھنو میںاتفاق ہو گیا اور اس کی کامیابی کا سہرا قائد اعظم کے سر گیا اور اُنہیں ہند و مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فیصلہ مسلمانوں اور مسلم لیگ کی فراخدلی کا ثبوت تھا حالانکہ میثاقِ لکھنوسے صرف تین برس پہلے ہی کانگریس کے شدید احتجاج اور سیاسی دبائو کے نتیجے میں1911 کو انگریزوں نے تنسیخ بنگال کا اعلان کیا تھا یعنی دوبارہ بنگال کو ایک صوبہ بنا دیا گیا تھا۔

یہ بات راقم پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ اگرچہ کانگریس نے سیکولرازم کی بنیاد پر بھارت کے آئین کی بنیاد رکھی اور اس اعتبار سے مغل بادشاہ اکبر اعظم کی پالیسیوں کو سراہا مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب کبھی ہندو اکثریت کا مفاد سامنے آیا تو اس کے قائدیں نے ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ اِن کے سیاسی،اقتصادی، سماجی حقوق کو پامال کیا،کانگریس نے پہلی عالمی جنگ سے دو برس قبل میثاق لکھنو اس لیے کر لیا تھا کہ ا گر جنگ میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ اور جرمنی جیت گئے تو اِس سے کا نگریس اور ہندو اکثریت کو فائد ہ ہوگا اس کے علاوہ کانگریس اُس وقت مسلم لیگ سے تمام تر اختلافات میثاق لکھنو پر اتحادکی بنیاد پر انگریزوں کو دبائو میں لے آئی تھی۔

کیونکہ وہ دبائو ہی کی وجہ سے تنسیخ بنگال کرانے میں کامیاب ہوئی تھی اور پھر جلد تاریخ نے ثابت کر دیا کہ جب 1918 کو پہلی عالمی جنگ میں ترکی اور جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد کانگریس نے انگریز سرکار سے ہندو مسلم اتحاد کے دبائو کے ساتھ سیاسی قربت بڑھائی، تحریک خلافت میں ساتھ دینے کے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کو انگریز سرکار کے سامنے تنہا رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور پھر1928 میں مسلم لیگ سے بغیر کسی مشاورت کے یک طرفہ طور پر کانگریس کے رہنما موتی لال نہرو نے اپنی مشہور ِ زمانہ نہرو رپورٹ جاری کر دی جس میں میثاقِ لکھنو کو از خود مکمل طور پر مسترد کردیا۔

جس پر قائداعظم نے ہند و مسلم اتحاد کو بچانے کے لیے 1929 میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے مگر کانگریس ہندو اکثریت کے گھمنڈ پر اپنا راستہ جدا کر چکی تھی۔ 1930 کے مسلم لیگ کے جلسہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں قیام پاکستان کا بہت واضح تصور پیش کر دیا، یہ وہ دور تھا جب انگریز ہندوستان میںایک قانون ’’آئین ‘‘ نافذ کر کے انتخابات کی بنیاد پر مقامی سیاسی لیڈر شپ کو محدود حکومتی اختیارات دیکر اقتدار میں کسی حد تک شریک کر نا چاہتا تھا تاکہ عوامی لیڈروں کے تعاون سے کروڑوں افراد پر حکمرانی کو وقت کے تقاضو ں سے مصنوعی انداز میں ہم آہنگ کرتے ہوئے پرسکون ماحول جاری رکھ سکے جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ اور کا نگریس یہ چاہتے تھے کہ جو بھی قانون آئے اُن میں ان کے مطالبات اور تجاویز کو زیادہ شامل کیا جائے، یوں مشاورت کا عمل شروع ہوا جو آخر لند ن کی تین گول میز کانفرنسوں کے کچھ عرصے بعد ختم ہوا۔

1932-33 تک جب یہ گول میز کانفرنسیں ختم ہوئیں تو اسی دور میں عظیم عالمی کساد بازاری آئی جس سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثر ہوئیں، دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں اور یہی وہ زمانہ تھا جب جرمنی میں ہٹلر نے اپنے اقتدار کو مضبوط اقتصادی، سیاسی نظام کی بنیاد پر مستحکم کیا تھا اور اب بر طانیہ، فرانس اور دیگر اتحادی ملکوں کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔

انگریزوں نے 1935 ء قانون ہند نافذ کر دیا اور اس کے تحت جنگ دوسری عالمی جنگ سے دو سال قبل 1937 میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں صوبائی انتخابات کروائے، اِن انتخابات میں باوجود تقسیمِ بنگال اور تنسیخ بنگال، نہرو رپورٹ اور تحریکِ خلا فت میں کانگریس کی جانب سے دھوکوں اور بد نیتی کے ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس کو ووٹ دیئے اور کانگریس نے نو صوبوں میں سنگل پارٹی کی بنیاد پر اور باقی دو صوبوں میں مسلم لیگ کی بجائے دیگر مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلو ط صوبائی حکومتیں بنائیں اور مسلم لیگ کو چند صوبائی وزارتوں کی پیش کش کے ساتھ یہ کہا گیا کہ وہ خود کو کانگریس میں ضم کر دے۔

واضح رہے اُس وقت تک مسلم لیگ کا دوقومی نظریہ اور پاکستان کا مطالبہ ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول نہیں ہوا تھا، انہیں اب بھی کانگریس پر بھروسہ تھا مگر جب گانگریس کو وزارتیں ملیں تو جو سلوک کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا اُس سے مسلما نوں کے اوسان خطا ہوگئے،کانگریس نے اپنی سیاست کی وجہ سے مسلم دشمنی یا اپنی تنگ نظری کی وجہ سے ہندوستا ن میں مسلمانوںکی شناخت کو ختم کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں کے تحت ہندوستان میں انگریز کے اقتدار کو طول دیا جس سے نہ صرف ہندوستان کے کروڑوں افراد کو نقصان ہوا بلکہ پوری دنیا میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی آزادیاں نہ صرف تاخیر کا شکار ہوئیں بلکہ اب تک ادھوری رہی ہیں۔ 1939 میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو انگریزوں نے یہ عندیہ دینا شروع کر دیا تھا کی وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کو آزادی اور خود مختاری دے کر رخصت ہو جائیں گے۔ اِ س موقع پر کانگریس نے ہندوستان

کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کے بارے میں اپنی مقبولیت اور کارکر دگی کے لحاظ سے غلط اندازے قائم کئے اور جنگ کے آغاز پر انگریز وں پر واضح کر دیا کہ انگریز اُ ن سے یہ عہد کرے کہ اس جنگ کے خاتمے پر وہ اقتدار کانگریس کو سپرد کر کے رخصت ہو جائیں گے اور پھر اُنہوں نے انگریز سرکار پر روز بروز دبائو بڑھانا شروع کیا اور آخر 1939 میں جنگ کے آغاز پر وزارتوں سے استعفیٰ دے کر انگریز سرکار کے خلاف تحریک شروع کردی اور یہ تحریک مسلح اور پُر تشدد ہو گئی ، اس موقع پر قائد اعظم نے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ کانگریس کا ساتھ نہ دیں اور کانگریس کے استعفیٰ پر یوم نجات منایا۔

اب ہندوستان میں مسلم آبادی کانگریس کے ساتھ نہیں تھی تو دوسری جانب انگریز کو اسی ہندوستان میں540 سے زیادہ ریاستوں کے نوابین، راجائوں، مہا راجائوں اور ہزاروں بڑے زمینداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی مگر بنگال میں صورتحال یو ں مختلف تھی کہ یہاں کلکتہ، ڈھاکہ جیسے بڑے صنعتی شہروں کی بنیاد پر مزدورں،کلرکوں، طالب علموں اور عام شہریوں میں سیاسی ، سماجی شعور کی سطح اس لیے بلند تھی کہ ایک تو یہاں1757 سے جبر بھی جاری تھا اور صنعتی، اقتصادی ترقی بھی تھی، دوسری جانب یہاں انگریزوں کے خلاف شدید مزاحمت بھی رہی اور آزادی کے راستے میں ہزاروں، لاکھوں افراد شہید ہوئے جن میں نواب سراج الدولہ کے بعد سید میر ناصر علی تیتو میر تھے۔

جنہوں نے انگر یز وں کے خلا ف مسلح جدوجہد کی اور زخمی حالت میں 19 نومبر1831 کو وفات پائی، اِن کے بعد بھی بہت سے جانباز، حریت پسندوں نے جد وجہدجاری رکھی، یوں بنگال میں اگرچہ یکم اپریل1937 سے29 مارچ 1943 تک شیر بنگال ابو قاسم فضل حق وزیر اعظم بنگال رہے اور اِن پر انتظامی اعتبار سے ناکامی کے الزامات عائد ہوئے کہ 1942 کے قحط میں تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے بعد سر خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیر اعظم ہو ئے جو 1943 سے 1945 تک وزیر اعظم بنگال رہے اور ان کے بعد یعنی 1945 سے 14 اگست 1947 تک حسین شہید سہروردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔

1937 کے بعد 23 مارچ 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی 1941 ء میں مشترکہ ہندوستان کی آخری مردم شماری ہوئی جس کے مطابق ہندوستان کی 540 سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستوں کی کل آبادی 88167852 تھی جس میں مسلم آبادی 12533063 تھی اور جس میں کشمیر کی کل آبادی4021616 تھی جس میں مسلم آبادی76.43% یعنی 3735400 تھی جب کہ برٹش انڈیا کی کل آبادی292164791 تھی جس میں سے مسلم آبادی79055078 تھی جو کل برٹش انڈیا کی آبادی کا27.06% تھی جس میں خیبر پختونخوا میں مسلم آبادی کا تناسب91.80% ، برٹش بلو چستان میں87.50% ، سندھ میں 70.75% اور مشترکہ یعنی غیر تقسیم شدہ پنجا ب میں کل آبادی28418819 تھی جس میں سے مسلم آبادی16217242 یعنی کل آبادی کا 57.07% تھا اور اسی طرح غیر تقسیم شدہ بنگال کی کل آبادی60306525 تھی۔

جس میں کل مسلم آبادی 33005434 یعنی کل آبادی کا54.73% تھی اگر اس آبادی میں برٹش انڈیا کے علاوہ پنجاب اور بنگال کی ریاستوں کی آبادیوں کو لیا جائے تو بنگال کی ریا ستوں کی کل آبادی1941 کی مردم شماری کے مطابق 2144829 تھی جس میں مسلمانوںکی آبادی 372113 یعنی17.35% تھی اسی طرح پنجاب کی ریاستوں کی کل آبادی 5503554 تھی جس میں مسلم آبادی2251459 تھی، مسلم آبادی کا تناسب40.91% تھا یعنی ریا ستوں کی آبادیاں لاکھوں اور صوبوںکی آبادیاں کروڑوں میں تھیں، یوں غیر تقسیم شد بنگال میں مسلم اکثریت تھی جس کا تنا سب بشمول ریا ستوں کی آبادی کے54.50 فیصد سے زیادہ تھا اور غیر تقسیم شدہ پنجاب میںبھی اکثریت مسلم آبادی کی تھی جس کا تناسب بشمول ریاستوں کی آبادی کے تقریباً 57 فیصد تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جس طرح ہمارے ہاں خاکسار تحریک کے علامہ مشرقی عنایت اللہ نے یہ کوشش کی تھی کہ مسلح جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی جائے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے موسی لینی اور ہٹلر سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اسی طرح بنگال کے گوریلا لیڈرسباس چندر بوس نے جاپان کی مدد سے کوشش کی تھی کہ برما کی جانب سے بنگال میں انگریز کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے۔

اُن کی یہ تحریک کافی مقبول بھی ہوئی مگر 1942 کے بعد جنگ میں جاپان اور جرمنی پسپا ہونے لگے اور امریکہ بھی جنگ میں شامل ہو گیا پھر سباس چندر بوس لاپتہ ہو گیا، یوں دیکھا جائے تو بنگال میں بنگالی قوم پرستی،کمیونزم،کے اثرات کے اعتبار سے مجموعی آبادی یعنی مسلمان اور ہندو کی تفریق کے بغیر تقربیاً نصف سے کچھ زیادہ تھا اورمذہب کی بنیاد پر 54.50 فیصد مسلمان تھے۔ یہ سماجی بنت 1757 سے 1947 تک کیسے سماجی، تاریخی اور سیاسی اعتبار سے زاویے بدلتی آگے بڑھی یہاںسیاسی انجنیئرنگ کو بھی بڑا دخل ہے اور ایسی ہی سیاسی انجنیئرنگ پنجاب میں بھی ہوئی لیکن دونوں صوبوں میں انگریز وں اور کانگریس کی ملی بھگت سے تکنیک مختلف تھی۔

1937 کے انتخابات کے بعد مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات دسمبر1945 سے جنوری1946 میں ہوئے، تعریف کی بات یہ ہے کہ 1937 سے 14 اگست1947 تک بنگال اور پنجاب میں مسلمان وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ رہے، غیر تقسیم شدہ بنگال میں1937 سے 1943 تک شیرِ بنگال فضل حق وزیراعظم بنگال رہے اس کے بعد 1943 سے1945 تک خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے پھر1946 سے 14 اگست1947 تک حسین شہید سہروردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے اور پنجاب میں1937 سے1942 تک سکندر حیات خان اس کے بعد ملک خضر حیات پہلے 1942 سے1945 تک اور پھر 5 فروری1945 سے21 مارچ 1947 تک پنجا ب کے وزیر اعلیٰ رہے۔

قیام پاکستان پر ان دونوں صوبوں کے لیے یہ طے ہوا کہ بنگال میں مغربی بنگال میں ہندو بنگالی قدرے اکثریت میں تھے اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کا تناسب75 فیصد تھا۔ واضح رہے کہ اُس وقت بنگال کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بنگال کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے مگر خواجہ ناظم الدین اور دیگر مسلم لیگی لیڈر تقسیم کے حامی تھے اور خود گانگریس بھی یہی چاہتی تھی حالانکہ یہی کانگریس تھی جو 1905 میں صوبہ بنگال کی تقسیم پر چھ سال مسلسل احتجا ج کرتی رہی، اب مسئلہ یہ تھا کہ تقسیم بنگال کانگریس اور انگریز سرکار چاہتی تھی اور اب مشترکہ کی آبادی سات کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ مشرقی پاکستان کے علاقے میں تقریبا ًساڑھے چارکروڑ اور مغربی بنگال میں آبادی ڈھائی کروڑ تھی۔

جنوری 1947 میں نواکھلی میں ہندو مسلم فسادات کے چند واقعات ہوئے تو اگر یہ خون ریزی پنجاب کی طرح بڑھ جاتی تو مشرقی پاکستان کی پوری25 فیصد ہندو آبادی بھارتی مغربی بنگال ہجرت کر جاتی اور مغربی بنگال کی مسلم آبادی مشرقی پاکستان آجاتی اور نیشنل ازم کی جگہ مذہب ہمیشہ کے لیے دونوں جانب سے غالب آجاتا اس کو روکنا ضروری تھا اور اس موقع پر وزیر اعظم بنگال سہروردی اور گاندھی نے اہم کردار ادا کیا گاندھی نے یہاں مرن بھرتھ یعنی بھوک ہڑتاک تادم مرگ کردی اور اُن کی حالت انتہائی خراب ہو گئی اور یوں سہروردی اور گاندھی کی اپیل سے ہندو مسلم فسادات یہاں رک گئے حالانکہ بنگال میں آبادی پنجاب کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ تھی مگر پنجاب میں پہلے تو ریڈ کلف ایوارڈ میں بددیانتی کی گئی اور مسلم اکثریت کے مشرقی پنجاب کے علاقے گورداسپور، فیروز پور اور زیرا بھارت کو دے دیے گئے اور اس کے بعد اس وقت کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ نے مسلح جتھوں کے ذریعے اس بڑی مسلم آبادی کو مغربی پنجاب میں دھکیل دیا جہاں مسلم اکثریت ہے۔

ظا ہر ہے کہ اس کا ردعمل بھی ہوا، بنگال میں آبادی دونوں جانب بنگالی نسل کی تھی جو ہندو اور مسلم میں تقسیم تھی، پنجاب میں آبادی کی پہلی اکثریت مسلمان دوسری اکثریت ہندوکی بجائے سکھ تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود زبان، موسیقی، ادب ایک سا تھا، نفرت کی خلیج ان کے درمیان حائل کر دی گئی اور اس مقصد کے لیے سکھوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا،اس سے کشمیر پر قبضہ کرنے کے منصوبے میں انہیں فائدہ تھا، اب جہا ں تک تعلق بنگال کی تقسیم کا تھا تو قیا م پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی جس کے مطابق ملک کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی4 کروڑ20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ کے قریب تھی۔

مغربی پاکستا ن سے 45 لاکھ سکھ اور ہندو بھارت ہجرت کر گئے جن میں80% سکھ تھے اور اس کے بدلے 65 لاکھ مسلمان بھارت سے پاکستان آئے جن میں اکثریت مشرقی پنجاب سے تھی، تقسیم کے بعد مغربی پاکستان میں ہندو اور سکھ دو سے ڈھائی فیصد رہ گئے اور پنجاب میں تو وہ برائے نام ہی تھے جب کہ اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب 22 فیصد کے قریب تھا یعنی 1951 میں مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالی ایک کروڑ کے قریب تھے اور ہر چوتھا فرد ہندو تھا پھر یہاں ہندو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ دولت مند اور اعلیٰ عہدوں اور خصوصاً اکثریت یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاتے تھے۔

1961 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 32 لاکھ تھی جس میں مشرقی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ 2 لاکھ اور مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی جب کہ مشرقی پاکستان کا رقبہ 147570 مربع کلومیٹر تھااور مغربی پاکستا ن اورآج کے پاکستان کا رقبہ 881913 مربع کلومیٹر ہے۔ 1947 سے 1958 تک خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل اور محمد علی بوگرا وزیر اعظم اور بعد میں 1962 تک وزیر خارجہ ، حسین شہید سہروردی وزیر اعظم اور سکندر مرزا 1958 تک پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر رہے۔ یہ تمام بنگالی تھے اور مشرقی پاکستان سے تھے۔ مگر آزادی کے فوراً بعد ہی نفرت کی پہلی چنگاری اردو کے قومی زبان قرار دینے پر اٹھی، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، وہ جانتے تھے کہ پاکستان کی مضبوطی کی پہلی بنیاد اسلام ہے اور دوسری اردو زبان مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ دوسری پاکستانی زبانوں کے خلاف تھے۔

اُس وقت بھی سندھ میں سندھی زبان تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی تھی، مگر بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے لیے باتیں کی گئیں، اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مسائل کو اٹھایا گیا اور یہ اعداد و شمار آج تک ریکارڈ پر ہیں، جیسے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستا ن میں کئے گئے اخراجات کا پنجسالہ موازانہ جس میں 1950-55 کے حوالے سے بتایا گیا کہ مغربی پا کستان پر 1125 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کل اخراجا ت کا 63.31% تھے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل اخراجا ت کا 31.69% یعنی 524 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔

1955-60 کے دوران مغربی پا کستان پر1655 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخرجا ت کا 75.93% تھے جب کہ اسی دوران مشرقی پاکستان پر 524 کروڑ ہی خرچ ہوئے جو ان پانچ پرس کی مدت کی بنیاد پر 24.05% تھے۔ 1960-65 کے دوران مغربی پاکستان مغربی پر 3355 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا70.5% تھے اورمشرقی پاکستان پر 1404 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا29.5% تھے اور1965-70 میں مغربی پاکستان پر5195 کروڑ روپے خرچ ہوئے جوکل خراجات کا70.82% تھے اور اسی دوران مشرقی پاکستان پر 2141 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کل اخراجات کا 29.18% تھے اور ان بیس برسوں میں مجموعی طور پر مغربی پاکستان پر11334 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو بیس سالہ کل اخراجات کا71.16% تھے اور اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل 3593 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 28.84% ہوتا ہے اور اسی طرح 1960-65میں مغربی پاکستان میں جی ڈی پی4.4% اور مشرقی پاکستان میں 2.6 فیصد تھا، 1960ء میں70 فیصد برآمدات مشرقی پاکستان سے تھیں، 1970 میں60% برآمدات مشرقی پاکستان سے تھی۔

اُس وقت مشرقی پاکستان میں چائے اور پٹ سن کی پیداوار مثالی تھی جب کہ مغربی پاکستان کاٹن اور چاول کی پیداور میں آگے تھا،اَن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وقت مشرقی پا کستان میں آبادی کا تناسب55% اور مغربی پاکستان میں45% تھا اس تناظر میں کسی حد تک مشرقی پاکستان سے نا انصافی ہوئی مگر اس کو بھارت کے ہم نوائوں نے کہیں زیادہ شدت سے بھارت کے حق میں استعمال کیا اور اس سے بھارت کو یہ فائد ہوا کہ کشمیر کے مسئلے کو دو قومی نظریے کے تناطر میں مشرقی بازو کے احتجاج کی بنیاد پر پس پشت ڈال دیا گیا اور یہ عمل 1951 میں لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد تیز کر دیا گیا کیونکہ اس کے درپردہ اُس وقت کے دو بڑ ے بیورو کریٹ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا تھے۔

پھر سیاسی اعتبار سے مغربی پاکستان کی سماجی ساخت مشرقی پاکستان کے مقابلے میں مختلف تھی، مشرقی پاکستان میںکم رقبے پر یہ دنیا کا گنجان آبادی کا علاقہ تھا جہاں بڑے جاگیرداروںاور زمینداروں کی بجائے متوسط طبقے اورغریب طبقے کا سائز بڑا تھا، سیلاب اور طوفان جیسی قدرتی آفات اس کو وقفے وقفے سے متاثر کرتی ہیں۔

مغربی پاکستان کا رقبہ مشرقی پاکستان کے مقابلے میںتقریباً پانچ گنا زیادہ تھا، یہاں ایشیا کے بڑے جاگیردار اور زمیندار آج بھی طاقتورہیں، مشرقی پاکستان میں 23% ہندو آبادی کے ساتھ خواندگی کی شرح مغربی پا کستان کے مقابلے میں تقریباً تین فیصد زیادہ تھی سب سے زیادہ بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان میں آئین 1956 میں نوسال بعد نافذ العمل ہوا اور جب اس کے تحت انتخابات ہونے والے تھے تو یہ آئین ہی منسوخ کردیا گیا۔

جمہور ی عمل میں مسائل اس طرح دور ہو تے ہیں جیسے بہتا پانی شفاف ہو جاتا ہے، مثلًا اگر 1951 میں مقررہ وقت پر ملک کے پہلے انتخابات کے بعد تسلسل جاری رہتا تو پارلیمنٹ میں بہت سے مسائل بحث سے اصل حقائق کے ساتھ واضح ہو جاتے ، جیسے 1973 کے آئین اور اس میں ہو نے والی جمہوری ادوار کی ترامیم سے ہوتی رہیں، بھٹو نے آئین میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق اور صوبوں میں اور پھر صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا نظام رکھا، جس سے چند سال پہلے بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے دیرینہ مطالبات کو کافی حد تک تسلیم کیا گیا، بلوچستان کو وسیع رقبے اور پسماندگی کی بنیاد پر اُس کے حصے میں اضافہ کیا گیا، اسی طرح اُس وقت بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جا سکتا تھا۔

رقبے میں پانچ گنا بڑا مغربی پاکستان تھا، مشرقی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ملکوں سے سرحدیں ملتیں اور زیادہ طویل ہیں، ان بنیادوں پر افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر یہاں تھے اور دفاعی اخراجات بھی تھے، جہاں تک تعلق بوگرا فار مولے کا تھا تو اُس میں مشرقی اور مغربی پا کستان دو حصے تو ضرور ہوتے لیکن اگر 1947 سے1955 تک کی طرح مغربی پا کستان کے صوبے بحال رہتے تو پنجا ب کے خلاف یہاں دوسرے صوبوں کی رنجشیں نہ بڑھتی، مگر مفاد پرستوں نے بروقت مسائل کے تدارک کے لیے جمہوری بنیادوں اور جمہور کے لیے کام نہیں کیا،اور پھر یہ لاوا پک رہا تھا کہ جنگ 1965 کی شکست نے بھارت کو برانگیختہ اور سوویت یونین اور امریکہ کو پریشان کر دیا اور اس کے چھ سال کے اندر ساری اندرونی و بیر ونی سازشیں مکمل ہو گئیں، 1969 میں صدرایوب رخصت ہوئے تو جنرل یٰحی خان نے مارشل لا نافذ کرکے 1962 کا صدارتی آئین منسوخ کردیا اور اپنی جانب سے ایل ایف او لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔

(جاری ہے)

The post سقوط ڈھاکہ کا تاریخی اور سیاسی پس منظر appeared first on ایکسپریس اردو.


’’جھپٹنا، جکڑلینا اور کاٹ کھانا‘‘

$
0
0

آخرکار حکومت سندھ نے کُتوں کے خلاف مہم چلانے کی ہدایت جاری کردی۔

سندھ کے باسی بہت دنوں سے صوبے میں کُتوں کے بڑھنے اور ان کے کاٹنے کی شکایت کر رہے تھے، مگر شاید کتے بھونک بھونک کر اتنا شور مچاتے تھے کہ یہ شکایت حکم رانوں کے کانوں تک پہنچ نہیں پاتی تھی، اور لوگ شکوہ کرتے تھے کہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اب اگر جوں، جوں کی توں رہتی ہے اور نہیں رینگتی تو اس میں حکومت کا کیا قصور، البتہ جب تک سائیں قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ تھے تب تک جوں بے قصور تھی کہ کہاں رہتی کہاں رینگتی۔ پھر جوں کی مُراد بر آئی اور مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بن گئے، اور کسی حکم راں کے سر میں بسیرا کرنے کی آرزومند جوں کو رہنے کے لیے بالوں بھرا سَر مل گیا۔ اب اگر جوں کان پر نہیں رینگتی تو صرف یہ سوچ کر کہ میں اپنے کتے جانور بھائی کے مقابلے میں موئے انسان کی خاطر کیوں رینگوں۔

خیراصل بات یہ ہے کہ حکومت نے کتوں کے مقابلے میں عوام کی سُن لی۔ اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ حکومت سندھ عوام کو کتوں پر ترجیح دیتی ہے، کبھی کبھی ہی سہی۔

حکومت نے کتوں کے خلاف مہم کا اعلان کر تو دیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ہر گلی سے کُتا نکلے گا تم کتنے کُتے مارو گے؟‘‘

ہمارے دوست بانکے بھینس کالونوی جانوروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اسی لیے بھینس کالونی میں جابسے اور مچھر کالونی کی ایک خاتون سے عقد کیا اور ان دنوں گیدڑ کالونی میں رہتے ہیں۔ یوں تو انھیں ہر جانور سے محبت ہے مگر کُتوں کے معاملے میں زیادہ ہی حساس ہیں۔ کتوں سے اپنے محبت کی بابت کہتے ہیں،’’بھیا! شادی کے بعد کُتے اپنے اپنے سے لگنے لگے ہیں۔‘‘ بانکے بھینس کالونوی کتوں کے خلاف حکومت کی مہم سے بہت افسردہ ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ کتا مار مہم کے بہ جائے کتا روزگار مہم چلائی جائے، اس کے لیے پہلے کتوں کی ’’مردم شماری‘‘ کرائی جائے، پھر انھیں گھروں کی حفاظت کے لیے ماہانہ گوشت کی بنیاد پر بھرتی کرلیا جائے۔ فی گلی ایک کتا کافی ہے، یوں کتوں کی کھپت بھی ہوجائے گی، وہ آوارہ پھر کر اپنا وقت ضائع بھی نہیں کریں گے اور کم ازکم کتوں کا خون حکومت کے سر نہیں ہوگا۔

بانکے صاحب کی کتادوستی اپنی جگہ، مگر خاص طور پر کراچی میں کتوں کی بہتات دیکھتے ہوئے ہمیں ان سے اتفاق نہیں۔

احمدفراز کا محبوب خوش نصیب ہے کہ۔۔۔سُنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں۔۔۔سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں، مگر کراچی میں تو یہ حال ہے کہ

سُنا ہے دن کو اسے ’’مکھیاں‘‘ ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو ’’کُتے جکڑکے‘‘ دیکھتے ہیں

ہمیں کتوں سے یہ شکوہ نہیں کہ وہ کیوں ہیں، ہمارا گلہ تو یہ ہے کہ بھائی کُتے! یہ تم بلاوجہ بھونکتے اور بے فائدہ کاٹتے کیوں ہو؟ شیر، چیتا، بھیڑیا انسان کو چیرپھاڑ کر اپنی بھوک مٹاتے ہیں، اور ان کے ہتھے چڑھنے والے کو کم ازکم یہ اطمینان ہوتا ہے کہ چلو بندہ کسی کام آیا۔ مگر کتوں کا سب سے بڑا کُتاپن یہ ہے کہ کاٹ کر چل دیے کسی نے پوچھا کیوں کاٹا تو کہہ دیا ’’ایوئیں۔‘‘ گویا۔۔۔۔’’جھپٹنا، جکڑلینا اور کاٹ کھانا‘‘۔۔۔۔لُہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ عجبب مصیبت ہے۔۔۔ وہ عقابی روح جس کے نوجوانوں میں پیدا ہونے کے علامہ اقبال آرزومند تھے کُتوں میں بیدار ہوجاتی ہے۔

کاٹنے والے تو چلو لہو گرم رکھنے کے لیے کاٹتے ہیں، مگر بھونکنے والے صرف خون خشک کرنے کے لیے بھونکتے ہیں۔ ان میں کم ازکم ازکم اتنی ’’انسانیت‘‘ تو ہونی چاہیے کہ بھونکنے سے پہلے بتادیں، ’’بھیا! ہم کاٹنے والے نہیں، اپنی کتیا پر بھونک نہیں سکتے اس لیے تم پر بھونک کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، بُرا مت ماننا، تم تو ہمارا درد سمجھتے ہو، چلو ہم بھونک چُکے اب تم جاؤ۔‘‘ اب بندے کو کیا پتا کہ جو بھونک اور غرا کر جان نکالے ہوئے ہے وہ صرف بھونکنے والا ہے، اور اگر بھونکنے والا ہے تو کیا خود جانتا ہے کہ میں صرف بھونکنے والا ہوں کاٹنا میرے فرائض میں شامل نہیں جس کا کام اُسی کو ساجھے۔

ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ یہ اتنے کُتے اچانک آئے کہاں سے؟ غالب آج ہوتے تو ’’سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں‘‘ کی طرح یقیناً یہ سوال بھی اٹھاتے کہ۔۔۔’’اتنے کُتے کہاں سے آئے ہیں‘‘ ۔۔۔۔یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کُتوں کے یوں بھونکنے پر ہم تو بعض اوقات ان سے زیادہ بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔۔۔’’کچھ تو بھونکو‘‘ کہ مُدعا کیا ہے۔ اس بلاوہ کی بھونک پر لوگ پتھر دے ماریں تو کُتے ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں۔

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے۔ شاید ان کی یہ دردناک شکایت سُن کر ہی جذباتی کُتے انتقاماً انسانوں کو کاٹ لیتے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ کُتے اپنا تذکرہ سُن کر یہاں آگئے ہیں۔ یوں تو ہمارے عوام کے ہونٹوں پر جتنا کُتے کا نام رہتا ہے اس کی نصف تعداد میں بھی ہم کسی اور جانور کا نام نہیں لیتے۔ ہمارے ہاں کُتا تخاطب میں آتا ہے، مکالمے میں آتا ہے اور نعروں میں تو بہت ہی آتا ہے، ایسی صورت حال میں کتوں کا غول کا غول آتا ہے تو حیرانی کیسی۔ انھوں نے سوچا ہوگا جو لوگ کُتوں کا اتنا ذکر کرتے ہیں کیوں نہ ان میں جاکر رہا جائے۔

پھر کُتوں نے یہ بھی سوچا ہوگا یہاں کُتے پالے جاتے ہیں، چھوڑے جاتے ہیں، کردیے جاتے ہیں مگر کھائے نہیں جاتے۔ اب انھیں کیا خبر کہ بعض قصائی اور ہوٹل والے کُتوں کی وفاداری کا فائدہ اٹھاکر بھولے بھالے کُتوں کو گائے بکری ہونے کا یوں یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کی بات پر یقینِ کامل رکھتے ہوئے ’’پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سَر رکھ دیا‘‘ کی تصویر ہوجاتے ہیں، کتوں کا یقین اتنا راسخ ہوتا ہے کہ پہلی بوٹی کے گلے سے اُترتے ہی قصائیوں اور ہوٹلوں کے گاہک کے دل میں بھی گھر کر جاتا ہے، وہ تو جو جب طبعیت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، تو خیال کچھ دیر پہلے کے کھانے کی طرف لپکتا ہے۔

کُتے کچھ بھی سوچ کر آئیں ہوں، مگر اتنا تو سوچیں کہ ہم سندھ کے عوام پر پہلے ہی ہر کوئی غراتا اور کاٹ کھاتا ہے، پھر ہمارے ساتھ کُتوں والی بھی ہورہی ہے، یعنی تیرا غم میرا غم اک جیسا صنم، ہم دونوں کی ایک کہانی، اور ہمارے پاس کسی اور تسکین کی طرح ویکسین بھی نہیں۔ ہم کُتوں سے خائف حضرات کو مشورہ دیں گے کہ وہ کسی بھونکنے اور کاٹنے پر کمربستہ کُتے کے سامنے آتے ہی ہماری اس تحریر کی آخری سطریں پڑھ دے، وہ دُم ہلاتا ہوا اس سے لپٹ جائے گا اور نم آنکھیں اُٹھا اور دُم ہلاکر کہے گا، ’’بس بھی کر، رُلائے گا کیا پگلے۔‘‘

The post ’’جھپٹنا، جکڑلینا اور کاٹ کھانا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

$
0
0

جناب قاسم سوری کا ذکر چھڑتا ہے تو ہمارے ذہن میں شیرشاہ سوری کا نام گردش کرنے لگتا ہے۔

شیرشاہ سوری کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اس نے جرنیلی سڑک تعمیر کرائی تھی۔ ہمارے قاسم سوری صاحب نے کوئی سڑک تو تعمیر نہیں کرائی لیکن وہ اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں ’’جرنیلی سڑک‘‘ کے مسافر ضرور ہیں۔ یہ وہ سڑک نہیں جس کا ذکر اس گانے میں ہے ’’میں نکلا، گَڈی لے کے، رستے میں سڑک پہ، اک موڑ آیا، میں وہیں دل چھوڑ آیا‘‘۔۔۔اس سڑک پر کوئی موڑ نہیں آتا، اس پر چلتے ہوئے کتنے بھی یوٹرن لیے جائیں بندہ جہاں تھا وہیں رہتا ہے۔

اور پھر کوئی جب اس سڑک پر آنے کے لیے گڈی لے کے نکلتا ہے تو دل ٹھیک اسی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں ابھی ابھی ضمیر نکال کر رکھا تھا۔ یہ وہ سڑک ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا، ’’سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں۔‘‘ سڑک پر آنکھیں بند کرنے کی عیاشی اس لیے کرلی جاتی ہے کہ پتا ہوتا ہے ون وے ٹریفک ہے، بلکہ بعض اوقات تو مسافر خود گَڈی نہیں چلارہا ہوتا، نہ اُسے منزل اور راستے سے غرض ہوتی ہے، ڈرائیور اور سڑک جہاں لے جانا ہو لے جائیں۔

لیجیے، بات ہورہی تھی قاسم سوری کی اور ہم سڑک کا قصہ لے بیٹھے۔ جرنیلی سڑک کے علاوہ شیرشاہ سوری اور قاسم سوری صاحب میں ایک اور قدرمشترک بھی ہے۔ ہم اس موازنے پر شیرشاہ سوری سے sorry کرتے ہیں، لیکن اپنی ڈھٹائی کے باعث موازنے سے باز نہیں آئیں گے۔

تو یہ دوسری قدرمشترک ہے ’’حکم شاہی۔‘‘ شیرشاہ سوری بہ طور بادشاہ فرمان جاری کرتا تھا، ہمارے سوری صاحب نے بھی بہ حیثیت ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ایک شاہی فرمان جاری کیا تھا کہ اسمبلی میں کوئی لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘ استعمال نہ کرے۔ اس حکم نامے کی وجہ اب سمجھ میں آئی ہے، جب بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے نوابزادہ لشکری رئیسانی کی درخواست پر فیصلہ سُناتے ہوئے قاسم سوری کو ان کی نشست سے محروم کردیا اور اس نشست پر دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا۔ جس درخواست پر یہ فیصلہ سُنایا گیا اس کے مطابق کوئٹہ کے اس حلقے این اے 265 میں 114,000پرچیاں ڈبوں میں ڈالی گئیں، جن میں سے 65,000 ووٹ جعلی۔۔۔ یا تمیز کی زبان میں کہیں تو غیرتصدیق شدہ نکلے۔ یوں سوری صاحب کی کام یابی کالعدم قرار پائی۔

ہم حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔۔۔حیران یہ سوچ کر کہ ایسے صاف شفاف، دُھلے دُھلائے، پاکیزہ، پَوِتر اور بے داغ انتخابات میں سو دوسو نہیں پورے پینسٹھ ہزار جعلی ووٹ بھگتا دیے گئے! اور پریشانی کا سبب یہ ہے کہ اگر تمام انتخابی عذرداریوں پر چھان پھٹک اور فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کہیں کام یابیاں کالعدم ہونے کی قطار نہ لگ جائے۔ دراصل 2018 کے انتخابات اسی لیے صاف شفاف کہے جاتے ہیں کہ ان میں بڑی صفائی سے ہاتھ کی صفائی دکھائے جانے کے باوجود اتنی شفافیت تھی کہ صفائی صاف نظر آگئی اور اب بھی وقتاًفوقتاً اپنے جلوے دکھاتی رہتی ہے۔

قاسم سوری کی کام یابی کو ایک سال کی تگ ودو کے بعد کالعدم قرار دلوانے والے لشکری رئیسانی صاحب کے ہم قبیلہ اسلم رئیسانی کہہ چکے ہیں ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘‘ ان کے اس سنہرے قول کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ کام یابی کام یابی ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ بس کام یابی کے لیے دَم ہونا ضروری ہے، پھر اس کے کالعدم ہونے کا فیصلہ بھی راہی عدم ہوجاتا ہے۔

کام یابی کے لیے جس میں جتنا ہے دم والا دم کم ہو تو دَم کرالیا جاتا ہے، یہ دم وہ عامل کرتے ہیں جن سے ہر ایک کا دَم نکلتا ہے، جس پر دم کر دیا جائے وہ دم کرنے والوں کا ہم دم ہوجاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ایک مقولے کے مطابق ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح انتخابات میں کام یاب ہونے والے بہت سے امیدواروں کے پیچھے ایک بھاری ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا

ہاتھ دیا اُس نے مِرے ہات میں

میں تو ولی ہوگیا اک رات میں

یہ انتخابات کی رات ہوتی ہے۔ شاید ایسی ہی کسی رات کے بارے میں وسیم بریلوی نے کہا تھا

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

سیدھی سی بات ہے کہ اگر چراغ جلتے رہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ رات باقی ہے۔ بعض دفعہ چراغوں کی عمر بڑھانے کے لیے رات کی طوالت دراز کردی جاتی ہے۔ یہی تو ہُوا۔ انتخابات کی رات جلائے گئے چراغوں کو ہوا سے بچانے کے لیے کیا کیا اہتمام نہ کیا گیا، سب سے پہلے تو یہ یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ ۔۔۔کرو نہ فکر ضرورت پڑی تو ہم دیں گے۔

لہو کا تیل چراغوں میں ڈالنے کے لیے۔ یہ وعدہ اس وقت گلے پڑ گیا جب پتا چلا کہ چراغوں کی لو سرشام ہی ’’پھڑپھڑانے‘‘ لگی ہے، بس پھر چراغوں کو خوب لہو پلایا گیا، مگر دوسروں کا۔ بھائی مصطفیٰ کمال اب تک اس خوں ریزی پر خون کے آنسو روتے ہیں اور کہتے ہیں ’’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے۔‘‘ بہ ہرحال چراغ جل اُٹھے تو انھیں منتخب ایوانوں کی نشستوں اور عہدوں سے وزارتوں تک پھیلے طاقوں پر سجا دیا گیا، انھیں گُل ہونے سے بچانے کے لیے ہوا کے سامنے دیواریں کھڑی کردی گئیں، جھونکوں کو جھڑکیاں سُنا کر ان کا راستہ تبدیل کرادیا گیا، ٹی وی چینلوں کی کھڑکیوں کو پابند کردیا گیا کہ ہوا نہ آنے پائے۔

اب اتنی محنت سے جلائے اور بچائے جانے والے دِیوں میں سے کوئی بجھتا دکھائی دے تو یہ اندیشہ تو ہوگا نہ کہ باری باری سب کی باری آئے گی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ’’جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا‘‘ کیوں کہ الیکشن ٹریبونلز نے پھونکیں مارنا شروع کردیں تو ’’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘ کا منظر ہوگا، پھر چراغ ساز کہہ اٹھیں گے

ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا

پھر گِلہ کیوں ہمیں ہَوا سے رہے

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چراغاں بچانے کی خاطر کسی ایک چراغ کو بھی بجھنے نہ دیا جائے ، اور پھر احمد فراز کا یہ شعر ایک تبدیلی کے ساتھ حقیقت بن جائے

اگرچہ زور ہَواؤں نے ڈال رکھا ہے

مگر ’’ادارے‘‘ نے لَو کو سنبھال رکھا ہے

یہ صفحہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ خبر ملی چراغ بجھنے سے بچا لیا گیا ہے۔n

The post دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

برٹش راج کی دیسی ریاستیں

$
0
0

غیرمنقسم ہندوستان میں کہا جاتا ہے کہ 571کے لگ بھگ ریاستیں رجواڑے تھے جن میں حیدرآباددکن، بھوپال، رام پور اور پٹیالہ یا جونا گڑھ اور کشمیر کا بہاولپور جیسی بڑی اور مالدار ریاستیں تھیں تو لوہارو، پٹودی، دوجانہ اور بیجہ جیسی چھوٹی اسٹیٹس بھی۔

کہتے ہیں آخرالذکر کا نظام ایک مکھیا اور اس کا وزیر چلاتے تھے جہاں آبادی پانچ سو سے بھی کم تھی اور انگریز سرکار معمولی سا وظیفہ یا الاؤنس انہیں گزر بسر کے لیے دیا کرتی تھی۔

اٹک سے گوڑ گاؤں تک پھیلے پنجاب میں بھی ایسی بہت سی ریاستیں تھیں جہاں کے حکم راں اپنی اپنی حدود میں خودمختارانہ زندگی گزارتے تھے اور بقول شخصے ان کا سکّہ چلتا تھا ویسے ہماری معلومات کے مطابق متحدہ ہندوستان میں صرف سلطنت آصفیہ یعنی حیدرآباددکن ہی کی اپنی ریلوے اور کرنسی تھی ان کا روپیہ ’’کلدار‘‘ کہلاتا تھا کیا ریاست اور کیا حکم راں تھے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن یعنی وظیفہ خدمت تو ملتا ہی تھا اگر نظام میر عثمان علی خان کسی سے ناراض ہوکر ملازمت سے برطرف کردیتے تھے تو اسے ’’وظیفہ عتابی‘‘ جاری کیا جاتا تھا کہ گزربسر میں مشکل نہ ہو۔ تفصیل جاننی ہو تو جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برأت کا مطالعہ کرلیں جس میں ان کی حیدرآباد بدری اور وظیفہ عتابی کے حصول کا تذکرہ مرقوم ہے بات پنجاب کی ریاستوں کی ہورہی تھی اور پہنچ گئی دکن تک۔

دہلی کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت کا درجہ ملا تو انگریزوں کو فکر لاحق ہوئی کہ اسے حملہ آوروں سے بچانے کے لیے مغلیہ عہد کی طرح تحفظ دیا جائے۔ مغلوں نے اطراف دہلی میں جھجھر، پٹودی فرخ نگر، بلبھ گڑھ، لوہارو، دوجانہ اور دادری یا بہادر گڑھ کی ریاستوں کو قائم رکھا ہوا تھا تاکہ یہ بفراسٹیٹ حملہ آوروں کو پہلے مرحلے میں رو سکیں پھر لشکر مغلیہ تہس نہس کرسکے تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی حکومت نے ریاستوں کو ختم اور نوابوں، مہاراجوں کا اختیار ختم کردیا البتہ دکن کے میر عثمان علی خان کو دیش مکھ کا خطاب دے کر ان کی وفات تک مراعات دیں حالاں کہ 48ء کے پولیس ایکشن کے بعد جوناگڑھ کی طرح دکن کی مسلم ریاست بھی مہاسبھا کی ذہنیت کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔

جھجھر۔ دہلی، ملتان شاہراہ پر بہادر گڑھ اور روہتک کے مغرب میں دوجانہ سے ملحق تھی وہی دوجانہ جس کے آخری حکم راں نواب جلال الدولہ ہزہائی نس الحاج نواب محمد اقتدار علی خان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے متذکرہ ریاست محل وقوع کے اعتبار سے دہلی کی پڑوسی تھی۔

جھجھر کو جنگ آزادی 1857ء میں برٹش ایمپائر کے باغیوں کی علی الاعلان مدد کرنے پر ختم کردیاگیا تھا اور فرخ نگر و بلبھ گڑھ کے رئیسوں کی طرح نواب آف جھجھر نواب عبدالرحمٰن خان کو پھانسی دے دی گئی تھی اور ان کے اہلخانہ و عزیز و اقارب کو ریاست بدر کرکے پانی پت، لدھیانہ و دیگر مقامات پر آباد کیاگیا تھا خود نواب عبدالرحمٰن خان کے سپاہ سالار نواب عبدالحمد خان انگریزی غلبہ کے بعد کچھ عرصے کے لیے قصبہ گوڑیانی ضلع روہتک میں آکر پناہ گزیں ہوئے تھے۔

راقم کے اجداد کا تعلق گوڑیانی سے تھا جو نسلاً پٹھان تھے اور کم و بیش سات سو برس سے یہاں آباد تھے۔ جھجھر ریاست ختم کی گئی تو اس کا ایک حصہ جیند کے مہاراجہ سروپ سنگھ کے سپرد کیا جو علاقہ دادری میں واقع اور چھ سو مربع میل تھا۔ ہرگند نارنول مہاراجہ پٹیالہ کو عطا ہوا جو انگریز کے وفادار تھے۔

ایسی بندربانٹ انگریزی عہد میں ہوتی رہتی تھی۔ ریاستیں چھوٹی بڑی ہر طرح کی تھیں مثلاً پنجاب کی ایک ریاست بیجا کا رقبہ چار مربع میل تھا اور آبادی محض 981۔ سالانہ آمدنی گیارہ ہزار ہوا کرتی تھی والی کا نام ٹھاکر پران چند بیان کیا جاتا ہے اسی طرح دارکوٹی بھی پہاڑی ریاست تھی۔ مردم شماری کے مطابق 536 نفوس، سالانہ یافت 16سو روپے اور اراضی چھ مربع میل جس پر رانا رگناتھ سنگھ کا راج قائم تھا۔ ایک ریاست ڈیلاتھ بھی بیان کی جاتی ہے جس کے والی کو برٹش سرکار کی جانب سے سالانہ ڈیڑھ سو روپے اور وزیر کو تیس روپے وظیفہ عطا کیا جاتا تھا۔ یہاں تین سو بیس افراد رہا کرتے تھے۔

دیوان سنگھ مفتون نے جو پہلے اخبار رعیت سے وابستہ تھے اور پھر اپنا اخبار ریاست نکالا ایسے بہت سے والیان ریاست اور ریاستوں کا تذکرہ اپنی تحریروں میں کرتے رہے ہیں۔ ان ریاستوں کے راجوں، نوابوں اور والیان کے اختیارات لامحدود ، بعض ریاستوں کے ایک دوسرے سے تحویل مجرمان کے معاہدے بھی تھے البتہ برٹش علاقے میں ان ریاستوں کے قوانین کا اطلاق نہ ہوتا تھا دیوان سنگھ مفتون نے لکھا ہے کہ ایک بار ان سے مہاراجہ پٹیالہ ناراض ہوئے تو ایک بے بنیاد کیس بنا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ گرفتاری ہوجائے تو پٹیالہ کی جیل میں سڑتے رہیں گے۔

دیوان سنگھ نے بچنے کے لیے قانونی طریقے اختیار کیے لیکن جب مسدود پائے تو طے کیا کہ بمبئی سے مدراس ہوتے ہوئے پانڈی چری جایا جائے جو فرانس کی حدود میں تھا اور زندگی بھر ہندوستان کی بجائے وہیں قیام رہے۔ اس دوران انہوں نے لاہور سے پٹھان کوٹ، امرتسر اور جالندھر کے راستے لکھنؤ،کانپور ہوتے ہوئے جھانسی کا سفر اختیار کیا کہ اپنی زمین، گھر ایک دوست کے نام منتقل کردی جائے وہاں ریاست دتیا کے دیوان قاضی سر عزیز الدین کی بھی کوٹھی تھی ان کے ملازم نے دیوان صاحب کو مفتون کی جھانسی میں موجودگی سے آگاہ کیا تو قاضی صاحب نے بلوایا، تفصیل پوچھی اور پیش کش کی کہ جب تک اس تنازع کا فیصلہ نہ ہو آپ دتیا میں قیام کریں کیوںکہ اس ریاست کا پٹیالہ سے ایکسٹرا ڈیشن ایکٹ کا معاہدہ نہیں اور پٹیالہ کے وارنٹوں کی تعمیل ریاستی حدود میں نہیں ہوسکتی ایسا ہی ہوا۔ شملہ میں لیجسلیٹو کونسل کے اراکین نے حکومت پر دباؤ ڈالا تو تنازعہ حل ہوا۔ ریاستوں کے والی باہم دشمنیوں اور دوستیوں کے غیرتحریری رشتوں میں بھی بندھے تھے۔ نابھ اور پٹیالہ کے راجاؤں کی چپقلش برٹش راج میں چہار دانگ عالم مشہور تھی۔

یہ راجے، مہاراجے لاکھوں میں کھیلتے تھے، محل، دو محلے، زرعی رقبے، ٹیکس میں چھوٹ، لامحدود اختیارات اور برٹش ایمپائر سے ملے اعزازات پر ان کا فخر بجا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد بھارت نے تو یہ تفخرات ان سے چھین لیے البتہ پاکستان میں ون یونٹ کی تشکیل اور کچھ کو ون یونٹ کی تحلیل کے وقت انضمام کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اب ان سابق حکم رانوں کے پاس والی، نواب یا خان اور میر کا ٹائیٹل تو ہے لیکن وہ اقتدار، طاقت اور خزانے میسر نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ملنے والے وظیفے اتنے معمولی ہیں کہ بتاتے ہوئے یہ شرمندہ ہوتے ہیں۔

غالباً 2010ء میں معروف کالم نویس رؤف کلاسرا نے تحریر کیا تھا کہ قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ نواب آف جوناگڑھ کی بیوہ کو ماہانہ 50ہزار روپے، نواب آف جوناگڑھ کو سولہ ہزار 2سو روپے اور نواب آف مانا ودر کوسات ہزار روپے جب کہ تعلقہ دار سلطان آباد کو چھ سو روپے نیز مانگرول کے سابق حکم راں جو شیخ کہلاتے تھے چھ ہزار تین سو روپے ملتے ہیں۔

مانا ورد کے نواب غلام محی الدین خان کی رحلت کے بعد ان کی بیواؤں عابدہ بیگم اور قدسیہ بیگم میں جائیداد کا تنازعہ عدالت میں بھی گیا تھا۔ قلات خاران، لسبیلہ اور مکران کے حکم رانوں نے قیام پاکستان کے بعد نو مسلم مملکت سے الحاق کی منظوری دی تھی اور 12اپریل 1952ء کو یہ ریاستیں بلوچستان کا حصہ بنی تھیں۔ مکران کے سابق حکم رانوں کو چار ہزار پچاس روپے، خان آف قلات کو تین ہزار تین سو تراسی روپے ملتے ہیں۔ نواب آف دیر کو انیس سو روپے، چترال کے حکم راں کو جو مہتر کہلاتے تھے سات ہزار ایک سو ٹرسٹھ روپے، سوات کے سابق والی کو اسی ہزار روپے اور خیرپور کے میر کو تراسی ہزار 3 سو 33 نیز امیر آف بھاولپور کو ایک لاکھ 33 ہزار تین سو تینتیس روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2010ء کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے۔ ان شخصیات کے اجداد نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ راج پاٹ ختم ہوگا اور ان کے اخلاف گزر بسر کے لیے کسی اور کی سمت دیکھیں گے۔

برٹش راج میں سب سے متمول ریاست حیدرآباد دکن تھی جس کے حکم راں نظام کہلاتے تھے آخری نظام میر عثمان علی خان تھے جو اپنی متضاد شخصیت کے باعث مشہور تھے۔ ایک طرف وہ کنجوسی کی حد تک کفایت شعار تھے تو دوسری طرف ہندو یونیورسٹی بنارس اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو ایک ایک کروڑ روپے بطور عطیہ دے دیتے تھے۔ جب لوگوں کی تنخواہ دس، بیس روپے ہوا کرتی تھی۔

گولکنڈہ کی کانوں سے نکلنے والے ہیروں سے بھرے ان گنت تھیلوں والے سیکڑوں درجنوں ٹرک ان کی حیدرآباد کوٹھی میں کھڑے تھے جن کے بوجھ سے ٹائروں کی ہوا نکل چکی تھی۔ وہ اتنے دور رس تھے کہ تقسیم ہند سے قبل ہی برطانیہ سے گوا اور پرتگال سے مرماگوا کی بندرگاہ خریدنے کے لیے سرگرم عمل تھے اور خاصی حد تک کام یابی بھی ہوچکی تھی مرما کے عوض الیگزینڈر جارج نے بطور ایجنٹ نظام دکن 27مارچ 47ء کو 7ہزار پاؤنڈ اور 26 اگست 47ء کو 10ہزار پاؤنڈ وصول کیے تھے۔ یہ بندرگاہ دکن کو مل جاتی تو نظام کا اقتدار کہیں زیادہ مستحکم ہوجاتا۔

بھارت میں صرف5  ریاستوں کے حکم رانوں کو 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی اور حیدرآباد دکن ان میں شامل تھا۔ پولیس ایکشن کے بعد ریاست دکن وبرار پر بھارت نے قبضے کے بعد بھی نظام کو دیش مکھ کا اعزاز دے کر ان کی مراعات بحال رکھی تھیں۔ 65ء کی جنگ کے دفاعی فنڈ میں صہیب مرغوب کی روایت کے مطابق بغیر کسی تحریری معاہدے کے 5 ہزار کلو گرام سونا دہلی سرکار کو دے دیا تھا۔

نواب آف جوناگڑھ نواب مہابت خانجی کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وائس رائے کی طرف سے انہیں پہلے سے موجود متعدد خطابات میں اضافے کی نوید سنائی گئی تو انہوں نے انکار کردیا کہ اس کے لئے انہیں جونا گڑھ سے دہلی جانا پڑتا جو انہیں گوارا نہ تھا۔ کہتے ہیں مہابت خانجی کو کتے پالنے کا شوق تھا اور معدودے چند لوگ ہی ریاست میں ایسے متمول تھے جن کا رہن سہن ان جانوروں کے معیار کا ہو جن کے کمرے بجلی سے روشن، پانی سے آراستہ اور ٹیلی فون کی سہولت کے حامل تھے اور ان کتوں کی خدمت و نگہداشت کے لیے متعدد ملازم بھی مامور تھے۔

ان کتوں میں سے ایک کتیا روشن کی شادی ایک کتے سے کی گئی تو قرب و جوار کے راجے مہاراجے مدعو کیے گئے تھے۔ نواب صاحب کی مہا رانی کو پاکستان میں ایک ملازمہ کی تشدد سے مبینہ ہلاکت پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ بانو نامی ملازمہ کا یہ کیس مدتوں اخبارات کی زینت بنا تھا۔

برطانوی ہندوستان کی ریاستوں کے نوابین رشتوں ناتوں کی ایک سنہری زنجیر میں بھی بندھے تھے مثلاً نظام دکن کے دو صاحبزادے تھے۔ بڑے بیٹے اعظم جاہ کی شادی آخری عثمانی ترک خلیفہ عبدالمجید کی صاحبزادی شہزادی درشہوار سے ہوئی تھی جب کہ چھوٹے بیٹے معظم جاہ کا رشتہ مناکحت پرنسز نیلوفر سے بندھا تھا جو اپنی جٹھانی کی کزن تھیں۔ نظام دکن نے 24فروری 1967ء کو وفات پائی تھی۔ پٹودی کے نواب منصور علی خان جو کرکٹ کی دنیا کا بڑا نام تھے ان کی شادی اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے ہوئی تھی۔ ان کی والدہ نواب ساجدہ سلطان کا تعلق بھوپال سے تھا اور وہ نواب حمید اﷲ خان کی منجھلی بیٹی تھیں۔

بڑی بیٹی شہزادی عابدہ سلطان تھیں جو پاکستان آگئی تھیں اور ان کے بیٹے شہریار خان سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ عابدہ سلطان بڑی بیّا اور ساجدہ سلطان منجھلی بیّا کے طور پر معروف تھیں۔ بھوپال آخری ریاست تھی جس پر بھارت نے قبضہ کیا۔ نواب حمید اﷲ خان چیمبر آف پرنسز کے چانسلر بھی تھے جو تقسیم سے قبل ریاستوں کے حکم رانوں کا ایوان تھا۔ بھوپال پر بیگمات کی حکم رانی بھی رہی اور یہ اس حوالے سے بھی معروف ہے۔ بھارت میں تو ریاستوں کو ضم کرکے صوبے تشکیل دیے گئے جب کہ پاکستان میں ریاستوں کو بحال کرکے صوبے کا درجہ دینے کی تجاویز بھی زیرغور آئیں۔ ایسی ہی ایک تجویز 20ستمبر54ء کو حکومت کے زیرغور تھی جس میں خیرپور، بہاولپور کو صوبے کی حیثیت دی جانی تھی۔

آج بھی بہاولپور صوبے کی تحریک تو موثر ہے البتہ دیگر ریاستوں کے سابق حکم راں اور عوام اسے قابل عمل نہیں گردانتے۔ نواب ساجدہ سلطان کی شادی نواب افتخار علی خان پٹودی سے ہوئی تھی اور اب بھوپال کے شاہی خان سے رشتے ناتے کے باعث بھوپال میں اوقاف شاہی کی نگرانی نواب منصور پٹودی کی بیٹی صہبا علی خان کرتی ہیں جو فلمی اداکارہ سوہا علی خان اور سیف علی خان کی ہمشیرہ ہیں۔ چوں کہ نواب حمیداﷲ خان کی رحلت کے بعد حکم رانی کا تاج شہزادی ساجدہ سلطان کے سرپر سجا تھا۔ اسی طرح بلوچستان کی ریاست لسبیلہ کے حکم راں جام کہلاتے تھے۔

موجودہ جام کمال وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں ان کے والد جام یوسف مرحوم اور نواب آف خاران امیر عبدالرحمٰن شیروانی رشتے میں خان آف قلات میر احمد یار خان، احمد زئی کے داماد تھے۔ ریاست پٹودی موجودہ بھارتی صوبہ ہریانہ کے ضلع گوڑگاؤں کا حصہ ہے۔ اس ریاست کا پٹودی پیلس یا پٹودی محل جسے ابراہیم کوٹھی بھی کہا جاتا ہے خوابوں سے بھی زیادہ حسین منظر کا حامل ہے۔

گوڑ گاؤں سے 26کلو میٹر دور واقع یہ محل 150کمروں کا حامل ہے جب کہ 7ڈریسنگ روم، 7بیڈروم، 7بلیئرڈ روم، اور ایک وسیع ڈرائنگ روم پر مشتمل ہے جس کی صفائی ستھرائی کے لیے نوابی عہد میں 100ملازم مامور تھے۔ حیدرآباد دکن میں بھی فلک نما، کنگ کوٹھی اور دیگر متعدد محل اور شاہی عمارتیں اپنی مثال آپ تھیں۔ ریاست سوات کے والی میاں گل عبدالودود نے بھی1941ء میں سفید محل تعمیر کرایا تھا جو مرغزار میں واقع ہے یہ ریاست کا گرما دارالحکومت تھا۔ منگورہ سے 12کلو میٹر دور واقع سفید محل کی خوب صورتی اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں اسے موتی محل بھی کہتے تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس سفید ماربل سے تاج محل تعمیر ہوا تھا وہی اس کی تعمیر میں استعمال ہوا۔ ویسے ریاست سوات کا دارالحکومت سیدوشریف میں تھا اور تعمیر کے لئے سنگ مرمر بھوپال سے لایا گیا تھا۔ کہتے ہیں جوناگڑھ میں بھی جس کے نواب کو گیارہ توپوں کی سلامی کا اعزاز حاصل تھا۔

سمر پیلس، سٹی راج محل، دربار گڑھ پیلس جیسی عالی شان عمارات موجود تھیں۔ ریاست کا رقبہ 3 ہزار 337 مربع میل اور آبادی سات لاکھ تھی، جب کہ 84 میل طویل ساحلی پٹی پر چھوٹی بڑی 16بندرگاہیں تھیں جن میں سے ویراول سال کے بارہ مہینے استعمال ہوتی تھی۔ ریاست کا اپنا نظام ڈاک اور 2 سو تیس میل طویل ریلوے نظام تھا اور 47ء تک محصولات کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ وصول ہوا کرتے تھے۔ جوناگڑھ کے ماتحت رجواڑوں میں ماناودر، مانگرول مشہور ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی ریاست خیرپور میں بھی تالپور حکم رانوں نے فیض محل تعمیر کرایا جب کہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کا تالپور ہاؤس اور کراچی چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجرے جو عطیات ریاست سے تعمیر ہوئے حکم رانوں کی یاد دلاتے ہیں۔

لکھنؤ میں بھی جسے عمارات کا شہر کہتے ہیں نواب آصف الدولہ نے لاتعداد عمارات، محل ، امام بارگاہیں اور باغ تعمیر کرائے، واجد علی شاہ کے عہد تک کا لکھنؤ ایک حسین خواب سے کم نہ تھا نوابین کے عہد میں لکھنؤ میں تعلقہ داریاں قائم ہوئیں۔ محمود آباد، باہرہ، سیدن پور سمیت متعدد تعلقے تھے۔ راجا صاحب محمود آباد امیر حیدرخان نے 36ء میں اقتدار سنبھالا تو بارہ بنکی، لکھنؤ، لکھم پور اور کھیری کے پانچ سو مواضعات کے مالک تھے اور سالانہ آمدنی 25 لاکھ روپے تھی۔ خیبرپختوخوا کی ریاست دیر میں نواب کا سفید گنبدوں والا محل آج تک اپنی دیدہ زیبی برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ کوہ لواری اور چکدرہ سے ملحقہ دیر کی سابق ریاست سے کچھ فاصلے پر افغانستان کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ دیر کا رقبہ 3 ہزار مربع میل تھا اب اسے اپر اور لوئر اضلاع میں تقسیم کردیا گیا ہے۔

ریاست کے نواب کی رشتہ داری مہترچترال اور نواب مردان سے بھی ہے جب تک ریاست کا الحاق پاکستان سے تھا اور وہ ضم نہیں ہوئی تھی۔ انہیں ایک لاکھ روپے سالانہ اس مد میں معاوضہ ملتا تھا کہ ان کے علاقے سے گزرنے والی سڑک وفاق کے زیر استعمال تھی ۔ انگریز انہیں اس کا نصف دیا کرتے تھے۔ بہاولپور کی ریاست کے عباسی نوابوں کی رشتہ داریاں بھی دیگر ریاستوں کے نوابین یا جاگیرداروں سے ہیں۔ قلعہ دراوڑ ، صادق گڑھ پیلس اور متعدد خوب صورت محلات ریاست کی شناخت ہیں۔ ریاست کے حکم رانوں کو 17توپوں کی سلامی کا حق حاصل تھا۔ پاکستان میں صحافت اور شعر و ادب کے حوالے سے جمیل الدین عالی کا نام محتاج تعارف نہیں۔ وہ ریاست لوہارو کے حکم راں خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

جہاں راج باری پیلس، اجایانتا پیلس سمیت متعدد شاہی عمارتیں موجود ہیں۔ لوہارو کے نواب خاندان کی رشتہ داری قصور کے نواب محمد احمد خان کی فیملی سے تھی جس کے احمد رضا قصوری سیاسی طور پر معروف ہیں۔ پاکستان میں تو سابق ریاستوں اور ان کے حکمران خاندانوں کا ریاستی جائیدادوں پر تصرف رہا لیکن ہندوستان میں ایسا بہت کم ہوا بالخصوص مسلمان ریاستوں کے والی تو شکایات ہی کرتے رہے۔ کہتے ہیں تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان منتقل ہونے والوں کی املاک کو ضبط کیے جانے کا ایک قانون موجود ہے۔ البتہ 65ء اور 71ء کی جنگوں کے بعد مزید قوانین کے ذریعے دشمن کی جائیداد کو حاصل کرنے کی قانون سازی کی گئی اور انیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت 21 سو سے زائد اثاثے ضبط کیے گئے۔

انگریزوں نے 1843ء میں حیدرآباد کی چویاری سلطنت ختم کرکے سندھ پر قبضہ کیا تو صرف خیرپور کو بطور ریاست برقرار رکھا۔ حیدرآباد کے تالپور حکم رانوں کے لیے الاؤنس منظور کیے گئے۔ ان میں سے کچھ جلا وطن کیے گئے۔ سندھ میں برٹش نمائندے گورڈن نے گورنر بمبئی کو 23جون 1843ء کو مکتوب تحریر کیا کہ حکم راں فیملی کے 13ارکان اور عملے کے 98 افراد کے لیے کم سے کم 8000 روپے ماہوار الاؤنس منظور کیا جائے جب کہ ملازموں کی تنخواہ کے لئے ماہانہ 3 ہزار روپے، ملبوسات کے لیے 15سو روپے، گھوڑا گاڑیوں کے لیے25 سو روپے دیے جائیں۔

حیدرآباد کے میر نصیر تالپور کے لیے 25 سو روپے، خیرپور کے رستم تالپور کے لیے بھی 25 سو روپے، میرصوبدار کے لیے بھی 25 سو روپے نیز میر حسین علی کے لیے 14سو، میر محمد خان تالپور کے لیے چھ سو روپے کی رقم تجویز کی گئی تھی۔ بعد میں برٹش ایمپائر نے کمی بیشی کے ساتھ وظائف منظور بھی کیے تھے اسی طرح سینیٹ کی مجلس قائمہ نے 2017ء میں فروری کی 20 تاریخ کو اپنے ایک اجلاس میں ان ریاستوں کے حکم رانوں کے لیے سالانہ وظائف کی رقم 25  ہزار سے بڑھاکر 5لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی تھی جنہوں نے اپنے زیرنگیں علاقوں کا پاکستان سے الحاق کیا تھا۔ وزارت سفیران نے اضافہ 200 فیصد کرنے کی تجویز دی تھی۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جائیدادیں اور ریاستیں پاکستان میں شامل کردیں انہیں سالانہ 25 ہزار روپے وظیفہ دیا جاتا ہے۔

ان ریاستوں کے حکم راں اور خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان میں ضم ہونے والی ریاستوں کے حکم رانوں کو مراعات کے خاتمے کے (ترمیمی) بل پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ وزارت سفیران کی جانب سے الاؤنس میں  200فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی تھی جسے کمیٹی نے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی، سیکریٹری سفیران ارباب شہزاد نے کمیٹی کو بتایا کہ  2007میں وفاقی کابینہ نے سابق ریاستوں کے حکم رانوں کے الاؤنس میں  200فیصد اضافہ کی منظوری دی تھی لیکن 2008ء میں نئی حکومت آنے کے بعد اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا، سیکریٹری سفیران نے کہا کہ ان میں سے اکثر افراد اچھی کپڑے بھی افورڈ نہیں کرسکتے ہیں۔ پہلے کی حکومتوں نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔

البتہ 2013ء میں مارچ کی 2 تاریخ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایسا ہی معاملہ پیش ہوا تو عوامی نیشنل پارٹی کے سنیئر حاجی عدیل کا موقف تھا کہ سابق والیان ریاست کو کوئی الاؤنس نہیں ملنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے محلوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کردیا ہے کچھ حکم راں سیاست میں آگئے ہیں لیکن کمیٹی نے گزارہ الاؤنس ماہانہ 2لاکھ فی کس مقرر کرنے اور ہر تین برس بعد 15فیصد اضافے کی کثرت رائے سے سفارش کی تھی۔

برصغیر پاک و ہند میں صبح بنارس، شام اودھ اور شب مالوہ مشہور ہے۔ جہاں مناظر دیدنی ہوتے ہیں۔ یہ شاہی ریاستیں ، ان کے حکم راں دادودہش کی داستانیں اور بے جا اختیارات کے استعمال سے افتادگان خاک پر ٹوٹنے والے مظالم کتابوں میں مرقوم اور محفوظ ہیں اور دیکھو انہیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو کی عملی تفسیر ہیں۔ لکھنؤ کو وہاں کے باشندے رشک روضہ رضواں سے تعبیر کرتے تھے تو حیدرآباد دکن والے صدق جائسی کے الفاظ میں شاہی محافل کو دربار دربار بتاتے تھے یہی کیفیت رام پور، بھوپال، جونا گڑھ ، بھاولپور، قلات کی تھی عظمت رفتہ کی یادگاروں کا اب صرف تذکرہ باقی ہے۔ وہ بھی کب تک؟ کہ تیزی سے بدلتے منظر نامے میں سب منظر عقبی شیشے میں دھندلا رہے کہ سفر تیزی سے جاری ہے اور سب کی نگاہ ونڈ اسکرین پر ہے۔

The post برٹش راج کی دیسی ریاستیں appeared first on ایکسپریس اردو.

8 اکتوبر2005کے زلزلہ متاثرین اب کس حال میں ہیں؟

$
0
0

آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کو14برس بیت گئے۔ زلزلے میں ملبے تلے دب کر عمر بھر کیلئے معذور ہونے والے کئی متاثرین تاحال بے بسی کی تصویر بنے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اربوں ڈالر کی امداد آنے کے باوجود ان کا علاج اور بحالی تاحال ممکن نہ ہو سکی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹشن میڈیسن (NIRM) میں زیر علاج معذور خواتین علاج کی سہولیات نہ ہونے اور خاندان کی سپورٹ نہ ہونے کے باعث اپنے گھر یا آبائی علاقے میں نہیں جا سکتیں۔ متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں، خود بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن ہمارے لئے کبھی کچھ نہیں کیا گیا۔

حکومت اور این جی اوز نے ہمیں صرف شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔متاثرہ خاتون نجمہ جن کا تعلق راولاکوٹ سے ہے اور2005 کے زلزلے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اب وہ وہیل چئیر پر ہیں۔ نجمہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے گھر اس لئے نہیں جا سکتیں کیونکہ انہیں اپنی اس معذوری کے باعث ہر وقت کسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور ان کے گھر میں ہر وقت ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ میٹرک کی طالبہ تھیں اور اس وقت گھر میں ہی تھیں۔گھرگرنے کی وجہ سے وہ دب گئیں اور جب انھیں ہوش آیا تو وہ پمز اسلام آباد میں تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ڈاکٹر نے انھیںکہا کہ وہ اپنی ٹانگیں ہلا کر دکھائیں کہ ان کی ٹانگیں کام کر رہی ہیں یا نہیں تو انھیں ایک جھٹکا لگا اور ڈاکٹر سے کہا:’’ میری ٹانگوں کو کیا ہوا ہے؟ میں تو بالکل ٹھیک تھی‘‘۔

تاہم جب انہوں نے ٹانگیں ہلانے کی کوشش کی تو وہ کام نہیں کر رہی تھیں جس پر وہ سکتے میں آ گئیں اور گھنٹوں روتی رہیں اور وہ سمجھ گئیں کہ اب کبھی چل نہیں سکیں گی۔ تاہم NIRM منتقل ہونے کے بعد انہیں علاج کے ساتھ ساتھ جینے کا حوصلہ دیا گیا، نجمہ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی ہیں اور ٹیوشن بھی پڑھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں 13 سال ہو گئے ہیں اور یہاں انھیں فیملی کی طرح سپورٹ کیا گیا جس کے باعث وہ تکلیف دہ صورتحال سے نکل پائیں۔

آسیہ بی بی جن کا تعلق ضلع باغ سے ہے،کا کہنا ہے کہ جب زلزلہ آیا تو وہ گھر کے کام کر رہی تھیں۔ مکان کے گر جانے کی وجہ سے وہ دب گئی تھیں۔ انھیںکمر میں چوٹ آئی، پھر وہ ہمیشہ کیلئے معذور ہو گئیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ زلزلے نے ان کی پرانی یادیں تازہ کر دیں اور وہ بہت ڈسٹرب ہیں۔ آسیہ بی بی کے مطابق ان کا علاج تو ہو رہا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہے، زخم بن گئے ہیں۔

گھر پر سہولیات نہ ہونے کے باعث یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر میں وہیل چیئر نہیں چل سکتی ہے تو سہولیات کے فقدان کے باعث اس صورتحال میں پہاڑی پر کیسے رہ سکتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ والدین فوت ہو چکے ہیں، رشتہ دار بھی نہیں پوچھ رہے ہیں، ایسی صورتحال میں یہ جگہ چھوڑ کر کہاں جائیں ، ہمیں سنبھالنے والا کوئی موجود نہیں، یہاں بیٹھ بیٹھ کر ذہنی مریض بن چکی ہیں ، ہسپتال انتظامیہ جہاں تک ممکن ہے دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں خوشی سے نہیں بیٹھی ہوئی ہیں، زخم ٹھیک نہیں ہو رہے ہیں۔

زوبیہ کا تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے ایک نواحی گائوں سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے ملبے میں دب جانے کی وجہ سے ان کی ٹانگوں اور کمر میں زخم آئے۔ زلزلے میں ان کا گھر گرنے کے باعث ان کے بہن بھائیوں سمیت ان کے خاندان کے سات افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔ یہ بہت تکلیف دہ صورتحال تھی ۔ زوبیہ کے مطابق 14 سالوں میں آزادکشمیر کے حکمرانوں نے امداد توکیا دینی تھی، عیادت کیلئے آنا تک گوارہ نہیں کیا ۔ حکومت آزادکشمیر اگر اپنے علاقے میں سہولیات اور چھت نہیں دے سکتی تو زہر دیدے ۔ان کا کہنا ہے کہ بیڈ سول کے باعث بننے والے زخموں کا علاج آزادکشمیر میں ممکن نہیں ، شدید سردی میں مرض کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، گھر والوں نے بھی چھوڑا، ذہنی طور پر مفلوج ہوتی جا رہی ہوں ۔ یہاں اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے رہ رہی ہوں ، اگر آزاد کشمیر حکومت سہولیات مہیا کرے تو وہ آج بھی واپس جانے کو تیار ہیں۔

مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی سکینہ 2005 کے زلزلے میں ملبے تلے دب گئیں، وہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آبائی علاقے مظفر آباد میں علاج کی سہولیات نہیں جبکہ کوئی حکومتی نمائندہ یا اعلیٰ شخصیت بارہ سال گزرنے کے باوجود داد رسی کیلئے نہیں آیا۔

آزادکشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھنے والی ظریفہ بی بی نے بتایا کہ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان نے ایک مرتبہ امداد کا اعلان کیا لیکن وہ عہد وفا نہ کر سکے۔ انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہاں کا دورہ کیا اور کہا کہ متاثرہ خواتین کو سہولیات فراہم کی جائیں گی اور انھیں آزاد کشمیر میں لایا جائے گا لیکن اس کے بعد ہمیں کوئی ملنے نہیں آیا ۔

ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کی ہولناک اور وحشت سے آج بھی ڈر لگتا ہے ، اللہ پاک وہ وقت دوبارہ کبھی نہ لے کر آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت یاد کر کے بھی ڈر لگتا ہے، زلزلے میں متاثر ہونے کے بعد اس ہسپتال میں علاج تو ہو رہا ہے لیکن عمر بھی کی معذوری مقدر بن چکی ہے ۔ بٹگرام سے تعلق رکھنے والی بابو انسا کا کہنا ہے کہ موسم سرما ہمارے لئے انتہائی مشکل ترین ہو جاتا ہے ۔ ٹانگیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، آزادکشمیر میں سہولیات نہ ہونے کے باعث وہاں رہنا مشکل ہے ۔ انہیں بیڈ سول کے باعث جسم پر زخم بنے ہوئے ہیں زخموں کی مرہم پٹی کیلئے یہاں آنا پڑتا ہے، آزادکشمیر میں اس علاج کیلئے کوئی سہولت تک میسر نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کی یادداشت بہت ہولناک ہے ، وہ زلزلے کے بعد کئی ماہ تک ٹھیک سے سو نہیں سکیں، انہیں ہر وقت جھٹکے محسوس ہوتے تھے ۔

گلشن بی بی کا تعلق مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت آزادکشمیر کی جانب سے ہماری کوئی امداد نہیں کی گئی ۔ ہسپتال میں دیگر بہت سی خواتین زندہ لاشیں بنی پڑی ہیں۔ حکومت آزادکشمیر اگر اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتی تو پھر ہم جیسے لوگوں کو زہر دیدے ۔ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جب بھی 2005ء کے بارے میں خیال ذہن میں آتا ہے تو آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوتے ہیں، اللہ کے سواکوئی آسرا نہیں ہے۔

بالاکوٹ سے تعلق رکھنے ولی عابدہ شاہین نے بتایا کہ زلزلے میں ان کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ان کی بیٹیاں اور وہ گھر میں دب گئی تھیں، پھر انھیں شام پانچ بجے کے بعد نکالا گیا ۔ وہ بتاتی ہیں کہ زلزلے میں ان کی ایک اور بیٹی معذور ہو چکی ہے جو ان کے ساتھ ہی ہے۔ زلزلے میں معذور ہونے کے بعد ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی، اب وہ بے گھر ہیں اور ان کا واحد سہارا NIRM ہی ہے جس نے انھیں سنبھال رکھا ہے ورنہ وہ کس حال میںہوتیں وہ بھی نہیں جانتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ اللہ کسی دشمن کو بھی اس مرض میں مبتلا نہ کرے۔ حکمرانوں نے ہمیں جانور سے بھی بد تر سمجھا ہے۔

کوئی شنوائی نہیں ۔ حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے اگر کوئی حکمران عیادت کیلئے آ ہی جاتا تو ہمیں افسوس نہ ہوتا۔مظفر آباد کی ایک زیر علاج خاتون نے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ انٹرمیڈیٹ کی طالبہ تھیں ۔ زلزلے کے بعد معذوری کی حالت میں جب یہاں منتقل ہوئیں اور کوئی پرسان حال نہ ہونے کے باعث اسی ہسپتال کی مدد سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، وہ اب ملازمت کر رہی ہوں تاہم علاج کے تسلسل کے باعث یہاں سے منتقل نہ ہوسکی۔ ان کا کہنا تھا حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں اور بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن کھی ہمارے لئے کچھ نہ کیا گیا۔حکومت اور این جی اوز نے ہمیں شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔

زلزلے کی شدت اور تباہ کاریاں
8اکتوبر 2005ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے قیامت خیز زلزلے میں86 ہزار افراد لقمہ اجل اور70ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 6 لاکھ مکانات متاثر،33لاکھ افراد بے گھر ، سینکڑوں افراد لاپتہ (آزاد حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اس زلزلے کے نتیجے میں کتنے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں) اور30 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔7.6شدت کے اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر مظفرآباد اور بالاکوٹ ہوئے تھے جبکہ دوسرے متاثرہ علاقوں میں باغ اور راولاکوٹ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران کاغان اور اسلام آباد شامل تھے۔

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآبادمیں متعدد گائوں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔متاثرہ علاقوں میں تباہی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔ 1400 سے زائد تعلیمی اداروں کو ابھی تک چھت بھی میسر نہ آ سکی۔اس زلزلے کا مرکز پاکستان کے شمال مشرق میں مظفرآباد سے لگ بھگ 19 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا اور اس کی گہرائی سطح زمین سے محض26 کلومیٹر تھی۔ اسے ماہرین ہمالیائی سلسلے کے ہزارہ کشمیر جوڑ کہتے ہیں۔

’’میں قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘
2005 کے زلزلے کے بعد ایک جگہ آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا ’’میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘۔اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ زلزلے سے حقیقت میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ ہر چہرہ پریشان تھااور جب کبھی آفٹرشاکس آتے تو لوگوں میں بھگدڑ سی مچ جاتی۔ لوگ ملبے سے نکالی گئی لاشوں کے لیے کفن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔

کئی جگہوں پر مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں کھودی گئیں۔اس تباہی کے اثرات ہر جگہ موجود تھے۔ مظفرآباد کے کئی گائوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے اور وہاں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور تھے۔ بالاکوٹ جو کبھی زندگی سے بھرپور شہر تھا، مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ پہاڑیوں کے گرنے سے جھیلیں وجود میں آئیں۔تا ہم متاثرین میں بھی ایک جذبہ تھااور ان لوگوں میں بھی جو اس سانحے کے شکار لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے۔

امدادی کارروائیاں
دنیا بھر سے زلزلہ زدگان کی بحالی نو کیلئے ایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو دنیا نے امداد کی صورت میں دیا۔زلزلہ کے بعدملک بھر سے رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ کینیڈا، امریکا، اور برطانیہ ، کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹرز ضروری سامان کے ساتھ پہنچے اور فیلڈ ہسپتال قائم کر کے زخمیوں کے علاج اور آپریشن کئے۔ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے مالی امداد آئی اور دنیا بھر سے لوگوں نے حکومتِ پاکستان کو اپنے عطیات بھیجے۔

متاثرہ علاقوں میں جرائم اور بد عنوانیاں
زلزلے کے بعدجب متاثرہ علاقوں کی سڑک کھولی گئی تو ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کے متاثرہ علاقوںسے گاڑیاں چرانے اور تباہ شدہ گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر لے جانے کی خبریں بھی مقامی سطح پر گردش کرتی رہیں ۔یہ بھی اطلاعات تھیں کہ زلزلے سے متاثرہ کچھ لڑکیوں کو جنہوں نے اس سانحے میں اپنے خاندانوں کو کھو دیا تھا، انہیں اغوا کر کے ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کر دیا گیا ۔ جس پراس وقت کی حکومت نے فوراً بچوں، خصوصاً لڑکیوں کے متاثرہ علاقوں سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی۔

یہ بھی ہوتا رہا کہ متاثرین کے لئے لائے جانے والے امدادی سامان کے ٹرکوں اور کنٹینروں سے طبی آلات، دوائیں، کمبل اور خیمے چرائے یا چھینے گئے اور بعد میں انہیں ملک کے دیگر حصوں میں فروخت کے لیے اسمگل کردیا گیا۔اس پر انتظامیہ نے متاثرہ علاقوںسے باہر جانے والے تمام ٹرکوں اور گاڑیوں کی تلاشی کے لیے چوکیاں قائم کردیں۔ زلزلہ متاثرین کو امداد کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا سامنا تھا۔اس ہولناک تباہی کے ساتھ ہی ہر محکمے میں موجود بدعنوان لوگوں کی چاندی ہوگئی۔بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بااثر لوگوں کے قبضے سے کئی کنٹینرز برآمد کیے جن میں زلزلہ متاثرین کے لیے سامان موجود تھا۔

درست سمت میں قدم اٹھانے کی ضرورت
زلزلے کے13 سال بعد جب جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور لوگوں نے اکتوبر2005کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جس کا خمیازہ حالیہ میرپور میں آنے والے زلزلے کے نقصان کی صورت میں دیکھنا پڑا ۔آج زلزلہ سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لیا جائے تو تمام شہروں میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور لوگوں کے تحفظ کو نظر میں رکھے بغیر نئی کثیر المنزلہ عمارات تعمیر ہوتی نظر آتی ہیں۔حکومت کو اس علاقے میں عمارتوں کی تعمیرات کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنا کر ان پر سختی سے عملدرآمد کرواناچاہیے تھا جو نہ کر سکی۔ پچھلے چودہ برسوں میں فراہمی و نکاسی آب کا مناسب نظام نہیں بنایا جا سکا ۔آزاد حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ہر گائوں، قصبے اور شہر کے لیے فراہمی و نکاسی آب کا نظام بنائیں ۔

اسکولوں کی حالت بھی چنداں مختلف نہیں، طلبا اور اساتذہ ہیں لیکن بنیادی سہولیات مثلاً فرنیچر، لیبارٹریاں، لائبریری، ٹوائلٹس، پانی اور صاف ماحول میسر نہیںجبکہ بچوں کو سکول جانا یقینی بنانا چاہیے۔ صحت کے مراکز میں کوئی بھی تربیت یافتہ طبی عملہ ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں ہیں نہ ہی مریضوں کے لیے دوائیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ بڑے ہسپتالوں کے علاوہ کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے سہولیات دستیاب ہیں نہ ہی وہاں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے کوئی موزوں نظام قائم ہو سکا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بنیادی صحت مراکز بھی منظم کرے تاکہ صحت کا نظام بہتر ہو ۔ زلزلے کے اتنے برسوں بعد ہمیں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ بھلے ہی ہم نے بہت سا وقت گنوا دیا ہے، مگر اب بھی درست سمت میں درست قدم اٹھانے کا موقع موجود ہے۔

ایک کے بعد دوسری قدرتی آفت کا انتظار
بین الاقوامی برادری اور عوام کی جانب سے بے پناہ عطیات کے باوجود حکومت نے علاقے میں بسنے والوں کے لیے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بارشوں یا زلزلوں سے بچا ئو کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں ناکامی نظر آتی ہے۔ ہماری حکومت اور لوگ ایک کے بعد ایک قدرتی آفت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک اور لوگوں سے امداد آئے تاکہ عوام اور ماحولیات کی قیمت پر پیسے بنائے جائیں، پچھلے 14 قیمتی برسوں کو ہم نے کس طرح ضائع کیا ہے ۔

The post 8 اکتوبر2005کے زلزلہ متاثرین اب کس حال میں ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

زلزلہ 2005ء چودہ سال بعد !

$
0
0

سورج کی روپہلی کرنوں نے چہار سو اپنے سنہری رنگ بکھیرے‘ تو آزاد کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد میں بھی زندگی انگڑائی لے کر بیدار ہو ئی۔ لوگ روزمرہ کام کاج کرنے پر جت گئے۔

بڑے  اپنے کاموں پر جانے کی تیاری کرنے لگے‘ تو بچوں نے سکولوں کا رخ کیا۔ 8 اکتوبر 2005ء کی اس بدقسمت صبح مگر کسی شہری کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ جلد ہی زلزلے کی قدرتی آفت علاقے کو تہہ و بالا کر دینے والی ہے۔ انسان سائنس و ٹیکنالوجی میں کارہائے نمایاں انجام دے چکا مگر وہ اب تک سو فیصد حد تک اس قابل نہیں ہوا کہ سائنسی آلات کے ذریعے جان سکے ، تہہِ زمین میں زلزلہ کب نے والا ہے۔

حرکت کرتی زمین

ہم جس خشکی  پر رہتے ہیں، وہ تہہ ِ زمین مختلف پلیٹوں یا ٹکڑوں(tectonic plates) میں تقسیم ہے۔یہ پلیٹیں تیس سے ایک سو کلومیٹر دبیز (موٹی) ہیں۔ان میں آٹھ بڑی اور سو سے زائد چھوٹی پلیٹیں شامل ہیں۔ ہمارے پاکستان کا نصف سے زیادہ علاقہ ایک بڑی پلیٹ،ہندوستانی پلیٹ(Indian Plate)  جبکہ بقیہ دوسری بڑی پلیٹ،یورشیائی پلیٹ(Eurasian Plate) کا حصہ ہے۔کروڑوں سال پہلے ہندوستانی پلیٹ اور یورشیائی پلیٹ کا ٹکراؤ ہوا تھا جس سے ہمالیہ‘ ہندو کش و غیرہ کے پہاڑ پیدا ہوئے۔ ہندوستانی پلیٹ اب بھی یورشیائی پلیٹ سے ٹکرا رہی ہے۔دونوں پلیٹیں سینکڑوں ذیلی ٹکرے یا حصے رکھتی ہیں جنہیں جغرافیائی زبان میں ’’فالٹ لائن‘‘ کہتے ہیں۔

دونوں پلیٹوں کی فالٹ لائنیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو عموماً ایک نیچے چلی جاتی اور دوسری اس کے اوپر رخ کرتی ہے۔ فالٹ لائنوں کی اسی حرکت سے ان کے علاقے میں زلزلہ آ جاتا ہے۔ہمارے پنجاب اور سندھ کے صوبے ہندوستانی پلیٹ پر واقع ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوبے یورشیائی پلیٹ میں آتے ہیں۔

پاکستان بھر میں پھیلے دونوں پلیٹوں کے ٹکراؤ والے علاقے کے قریب یہ بڑے پاکستانی شہر آباد ہو چکے: کراچی‘ خضدار‘ کوئٹہ‘ ڈیرہ غازی خان‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ بنوں‘ پشاور‘ مظفر آباد اور سیالکوٹ۔ اس ٹکراؤ والے علاقے میں مظفر آباد کے قریب واقع فالٹ لائنیں سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ چنانچہ 8 اکتوبر 2005ء کو صبح آٹھ بج کر پچاس منٹ پر اچانک ہندوستانی پلیٹ کی ایک فالٹ لائن یورشیائی پلیٹ کے نیچے جا گھسی۔ یہ عمل تقریبا ایک منٹ تک جاری رہا۔ فالٹ لائنوں کی اسی حرکت سے علاقے میں زلزلہ آ گیا۔

آزادکشمیر ہل گیا

یہ فالٹ لائن زمین کی تہہ میں صرف سوا نو میل نیچے واقع تھی۔ اس باعث حرکت کی شدت بہت زیادہ تھی۔ اگر وہ پچیس تیس میل نیچے ہوتی تو زلزلے کی شدت کم ہی رہتی۔فالٹ لائنوں میں جس جگہ حرکت پیدا ہوئی، وہ مظفر آباد شہر سے صرف بارہ میل دور تھی۔ یہی وجہ ہے‘ وہ علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ کئی جگہ زمین پھٹ گئی اور بہت سی عمارتیں اندر دھنس گئیں۔ تکنیکی لحاظ سے زلزلے کی شدت 7.6 میگنا ٹیوڈ رہی۔ زلزلہ براہ راست انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر جب اس کی زد میں آ کر گھر و عمارتیں تباہ ہو جائیں تو ان میں بستے لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔

زلزلہ 8اکتوبر میں بھی گھر‘ عمارتیں‘ دفاتر وغیرہ گرنے سے ہزار ہا انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زلزلے نے 30 ہزار مربع کلو میٹر رقبے کو اپنا نشانہ بنایا۔73,338 مرد عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔ 128`304 شہری زخمی ہو گئے۔ چھ لاکھ گھر تباہ ہوئے اور 35لاکھ پاکستانی بے گھر ہو گئے۔ 5772 سکول و کالج ‘726 سرکاری عمارتیں اور 320 ہیلتھ یونٹ تباہ ہو ئے۔ نیز کئی سڑکیں‘ پل‘ بجلی گھر ‘ پانی کی پائپ لائنیں اور سیوریج سسٹم بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ مظفر آباد اور باغ کے اضلاع میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ نیز ضلع مانسہرہ میں بالاکوٹ شہر بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ ثابت تھا ۔ اس مہینے یہ خوفناک زلزلہ آئے چودہ سال بیت جائیں گے۔

ایثار و ہمدری کا بے مثال مظاہرہ

زلزلہ آنے کے بعد اہل پاکستان نے ایثار،جذبہ ہمدردی اور اخوت کا بے مثال مظاہرہ پیش کرتے ہوئے زلزلہ متاثرین کی دامے درمے سخنے مدد کی۔ کراچی اور لاہور میں مقیم ممی ڈیڈی قسم کے لڑکے بھی زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچ کر متاثرین کی مدد کرتے دیکھے گئے۔ ملک بھر سے رقوم اور امدادی سامان ان علاقوں تک بھجوایا گیا۔ پاک فوج کے جوان اور سماجی تنظیموں کے اہل کاروں نے بھی امدادی کارروائیوں میں سرگرمی سے حصہ لیا اور محبت و تعاون کی بے مثال تاریخ مرتب کی۔ بین الاقوامی برادری بھی متاثرین زلزلہ کی امداد میں پیش پیش رہی۔ بیرون ممالک سے ادویہ‘ کمبل‘ خیمے اور دیگر سامان بڑی تعداد میں موصول ہوا۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی مدد کرنے پہنچیں۔ نیز مختلف ممالک نے حکومت پاکستان کو تقریباً ساڑھے پانچ ارب ڈالر فراہم کیے تاکہ زلزلہ متاثرین کی بحالی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو پر کام شروع ہو سکے۔

دو اداروں کی تشکیل

زلزلہ متاثرین کی بحالی و تعمیر نو کے لیے حکومت پاکستان نے 24 اکتوبر 2005ء کو ایک سرکاری ادارے ’’ایرا‘‘ (Earthquake Reconstruction and Rehabilitation Authority) کی بنیاد رکھی۔17 اگست 2007ء کو قدرتی آفات اور حادثات کے نقصانات سے عہدہ براں ہونے کی خاطر ایک اور سرکاری ادارے‘ این ڈی ایم اے(National Disaster Management Authority) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پچھلے دنوں خبریں آئی تھیں کہ پی ٹی آئی حکومت ایرا کو این ڈی ایم اے میں ضم کرنا چاہتی ہے۔اس وقت لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل دونوں اداروں کے چیئرمین ہیں۔پچھلے چودہ برس سے ’’ایرا‘‘ ہی زلزلہ 8 اکتوبر کے متاثرین کی بحالی اور زلزلے سے متاثرہ علاقے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔’’ایرا‘‘ کے مطابق زلزلے کے بعد مختلف شعبہ جات میں بحالی و تعمیر نو کے 14704منصوبے تشکیل دیئے گئے۔ ان میں 10805 منصوبے مکمل ہو چکے۔2269 منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ 1630 منصوبوں پر کام شروع ہوتا ہے۔ ان تمام منصوبوں پر 5ارب ڈالر لاگت آنی تھی۔

درج بالا اعداد و شمار سے عیاں ہے کہ زلزلہ 8اکتوبر سے متاثرہ علاقوں کی بحالی و تعمیر نو میں ’’ایرا‘‘ نے تسّلی بخش اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ یہی وجہ ہے‘ زلزلے کے باعث آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ کے علاقے جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے‘ آج وہاں زندگی کی چہل پہل نظر آتی ہے اور لوگ اپنے روز مرہ معمولات میں مصروف ہو چکے ۔ امید ہے کہ ’’ایرا‘‘ اپنے متحرک چیئرمین کی زیر قیادت بقیہ غیر مکمل منصوبے بھی کامیابی سے مکمل کر لے گا۔ اگرچہ آزاد کشمیر میں  24 ستمبر2019ء کے حالیہ زلزلے نے ’’ایرا‘‘ کا کام بڑھا دیا ہے۔ اب اسے نئے زلزلہ متاثرین کو بھی امداد فراہم کرنا ہو گی۔

گندی مچھلیاں

ایک ادارے میں باصلاحیت، محنتی اور ایماندار لوگ ہوتے ہیں تو وہاں کچھ گندی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ایرا بھی ان سے محفوظ نہیں رہا۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے احتساب نے انکشاف کیا تھا کہ اکرام نوید نامی ایک افسر ایرا میں ڈائریکٹر فنانس تعینات رہا۔ اسی دوران وہ غیر ملکی امداد میں سے بیس کروڑ روپے خرد برد کرنے میں کامیاب رہا۔ بہرحال اب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکا۔حکومت کا دعوی ہے کہ وہ سابقہ حکمران شریف خاندان کی ایک اہم شخصیت کے داماد  کا آلہ کار تھا۔

2018ء میں تب کے چیف جسٹس پاکستان، ثاقب نثار نے اس شکایت پر سوموٹو ایکشن لیا تھا کہ بالا کوٹ کے متاثرین زلزلہ کی بحالی و تعمیر نو کے لیے ’’ایرا‘‘ نے منصوبے شروع نہیں کیے ہیں۔ دراصل بالا کوٹ فالٹ لائن کے بالکل اوپر واقع تھا۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ متاثرین کے لیے دس بارہ میل دور ایک نیا شہر، نیو بالا کوٹ کے نام سے بسایا جائے۔ ایک نیا شہر تعمیر کرنا آسان کام نہیں، اس کے لیے ایرا کو اپنے تمام وسائل مختص کرنا پڑتے۔ شاید اس لیے سوچا گیا کہ پہلے دیگر علاقوں میں جاری منصوبے ختم ہوجائیں، پھر نیا شہر بسانے پر توجہ دی جائے گی۔

2007ء میں حکومت پاکستان نے نیوبالا کوٹ بنانے کے لیے بارہ ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی تھی۔ مگر یہ منصوبہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ اس وقت تباہ شدہ بالا کوٹ کے پانچ ہزار سے خاندان عارضی گھروں یا خیموں میں مقیم ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن حکومت پاکستان اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے نیو بالا کوٹ میں ان کے لیے گھر تعمیر کردے گی۔یہ خاندان پچھلے چودہ برس سے تکالیف اور مصائب برداشت کررہے ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ نیا شہر بسانے کی خاطر ایرا کو فوراً مطلوبہ فنڈز فراہم کرے تاکہ ہمارے مصیبت زدہ ہم وطن اپنے دکھوں سے نجات پاسکیں۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے زلزلہ متاثرین کی بحالی و تعمیر نو کے لیے مختص فنڈز سے رقم نکلوا کر بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام، ملتان میٹروبس منصوبے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو فراہم کردیں۔ یہ ایک قسم کی چوری ہے جو سابقہ حکمرانوں نے انجام دی۔ انہوں نے زلزلہ متاثرین کو ان کے حق سے محروم کردیا۔ چرائی گئی رقم سے نیو بالا کوٹ شہر میں بہت سے گھر تعمیر ہوسکتے تھے۔ یوں ہزارہا ہم وطنوں کو کسمپرسی کی زندگی سے نجات مل جاتی۔

قانون کی خلاف ورزی

کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ آزاد کشمیر کے کئی علاقوں خصوصاً مظفرآباد میں شہریوں نے تین منزلہ عمارتیں اور گھر بھی تعمیر کرلیے ہیں۔ یہ بلڈنگ کوڈز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ زلزلہ 8 اکتوبر کے بعد حکومت آزاد کشمیر نے یہ قانون بنایا تھا کہ ہر شہری صرف دو منزلہ عمارت ہی تعمیر کرسکے گا۔ لیکن آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ میں بھی لوگوں نے فالٹ لائنوں کے علاقوں میں کئی منزلہ عمارات تعمیر کرلی ہیں۔

مستقبل میں خدانخواستہ زلزلہ آیا، تو یہ عمارات بہت زیادہ جانی نقصان ہونے کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں بلند و بالا عمارتوں اور گھروں کی تعمیر نہ ہونے دیں کیونکہ زلزلہ آنے کی صورت میں عمارتیں موت کی پیغام بر بن جائیں گی۔آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کی طرح جاپان کا بیشتر علاقہ بھی متحرک فالٹ لائنوں کے اوپر واقع ہے۔ جاپان میں ہر عمارت یا گھر مجوزہ قوانین اور ہدایات مدنظر رکھ کر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ ایسی ہر عمارت شدید زلزلوں میں سالم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اب جاپان میں زلزلے آئیں تو بہت کم جانی و مالی نقصان ہوتاہے۔ جاپان کی طرح ہمیں بھی فالٹ لائن کے قریب آباد شہروں اور قصبات میں ایسے گھر اور عمارتیں تعمیر کرنا ہوں گے جو  آٹھ میگنا ٹیوڈ کے زلزلے بھی برداشت کرلیں اور منہدم نہ ہوں۔ ان عمارتوں کی تعمیر پر زیادہ خرچ آتا ہے مگر قیمتی انسانی جانیں بچانے کے لیے کچھ زیادہ اخراجات کرلینا ہرگز خسارے کا سودا نہیں۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ایرا اور دیگر حکومتی و صوبائی اداروں نے زلزلہ 2005ء کے متاثرین کی بحالی کے لیے قابل قدر کام کیے ہیں۔ لیکن اب بھی کئی متاثرین خصوصاً بالا کوٹ کے شہری حکومتی امداد و توجہ کے منتظر ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی اشک شوئی کریں تاکہ مصیبت زدگان اپنی حالت زار سے چھٹکارا پاکر خوشحال اور خوش باش زندگی بسر کرسکیں۔زلزلہ متاثرین بھی مایوسی سے نجات پائیں اور مسائل زندگی کا دلیری سے مقابلہ کریں۔ مشہور موجد،الیگزینڈر گراہم بیل کا خوبصورت قول ہے:  ’’جب ایک دروازہ بند ہو تو دوسرا کھل جاتا ہے۔ مگر اکثر ہم بند دروازے کو تاسف و افسوس سے اتنی دیر تک دیکھتے رہتے ہیں کہ ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتا، ہمارے لیے دوسرا دروازہ کھل چکا۔‘‘ n

میر پور میں تباہی

2005ء کے زلزلے نے ضلع میر پور کو کم ہی نقصان پہنچایا تھا۔ لیکن اسی سانحہ جانکاہ کے چودہ سال مکمل ہونے سے صرف دو ہفتے قبل 27 ستمبر 2019ء کو ضلع میر پور بھی ایک بڑے زلزلے کا نشانہ بن گیا۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ زلزلہ انہی فالٹ لائنوں کے ٹکراؤ سے وجود میں آیا جنہوں نے 2005ء کے زلزلے کو جنم دیا تھا۔ اگرچہ اسی زلزلے کی شدت کم تھی یعنی 5.6 میگنا ٹیوڈ۔فالٹ لائنوں کا ٹکراؤ تہہ زمین صرف 10 کلو میٹر دور تھا، اس لیے کم شدت کا زلزلہ بھی کافی تباہی پھیلانے کا موجب بن گیا۔ ضلع میر پور اور ضلع بھمبر میں مکانات گرنے سے 39 ہم وطن چل بسے۔ ایک خاتون ضلع جہلم میں جاں بحق ہوئیں۔ زلزلے سے جاتلاں روڈ کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا اور سڑک پر جابجا گڑھے پڑگئے۔

تقریباً ایک ہزار شہری زخمی بھی ہوئے۔ اپر جہلم نہر میں شگاف پڑنے سے کئی دیہات زیر آب آگئے۔زلزلے کے بعد ’’ایرا‘‘ فوراً سرگرم ہوگیا اور متاثرین زلزلے کو فوری امداد فراہم کی گئی۔ ضلع میرپور کے رہائشیوں نے بھی جذبہ ایثار و ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور متاثرین کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ امید ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں  اب زلزلوں سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دیں گی تاکہ مستقبل میں اہل پاکستان کو شدید جانی و مالی نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مزید براں یہ ضروری ہے کہ علاقے میں جدید ترین آلات سے لیس ارضیاتی مراکز بنائے جائیں تاکہ ماہرین تہہ زمین ہونے والی تبدیلیوں اور ارضی حرکات پرنظر رکھ سکیں۔ جدید آلات کے ذریعے کچھ حد تک زلزلے کی پیشن گوئی کرنا ممکن ہوچکا ہے۔

The post زلزلہ 2005ء چودہ سال بعد ! appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے
وہ میرا ہے مگر میرا نہیں ہے
جسے کھونے کا مجھ کو ڈر ہے اتنا
اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے
نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں
بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے
سنا ہے پھول اب کھلتے نہیں ہیں
تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے
نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے
کوئی شاعر غزل کہتا نہیں ہے
صبیح و خوب رُو چہرے کئی ہیں
مگر کوئی بھی اُس جیسا نہیں ہے
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


چھپ کر رویا جا سکتا ہے
دل بہلایا جا سکتا ہے
آدم زادے عشق کی رہ میں
کام بھی آیا جا سکتا ہے
دن کو گرہن لگ سکتا ہے
دھوپ میں سایہ جا سکتا ہے
عزت ملنا مشکل ہے پر
نام کمایا جا سکتا ہے
ویسے ملنا ناممکن ہے
خواب میں آیا جا سکتا ہے
اس بستی میں چپ رہ کر بھی
شور مچایا جا سکتا ہے
خود سے تیرے چھیڑ کے قصے
جی للچایا جا سکتا ہے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


تیرا رستہ بدلنا دیکھتے ہیں
کہ دریا کا اترنا دیکھتے ہیں
تمہاری آنکھ میرا آئینہ ہے
سو تم میں ہم زمانہ دیکھتے ہیں
پڑاؤ داستاں میں آگیا ہے
کوئی کٹیا، ٹھکانہ دیکھتے ہیں
تمہیں رنجش، ملالِ عشق ہے گر
چلو پھر سوچنا کیا، دیکھتے ہیں
بدن تھر ہے سو وہ غمام فطرت
اسے دریا کرے گا؟ دیکھتے ہیں
(سارا خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


کیا بنے گا اب استخارے سے
دن گزرتا نہیں گزارے سے
اتنی وحشت سے بھر گیا دریا
خوف آنے لگا کنارے سے
دفعتاً آنکھ جب کھلی اس کی
روشنی گر پڑی ستارے سے
میں بھی محفل میں چپ رہا وہ بھی
بات کرتے رہے اشارے سے
اپنی آنکھیں تو منتظر مہدی
منسلک ہیں تیرے نظارے سے
(منتظر مہدی ہانس۔ کبیروالا)

۔۔۔
غزل


تُو فقط جسم کا سوالی ہے
یہ محبت کی پائے مالی ہے
عشق سائیں ازل سے گونگا ہے
یعنی اک ہاتھ والی تالی ہے
ایسا لگتا ہے میرے کاسے سے
شاعری ختم ہونے والی ہے
ایک تعبیر بھی نہیں پھوٹی
میرے خوابوں پہ خشک سالی ہے
شمس پیتل کا اک کٹورا ہے
چاند چاندی کی ایک تھالی ہے
کیا نیا ہے تمہاری جدت میں
چند الفاظ کی جگالی ہے
کون درویش ہے فہد سائیں؟
کس کا دل خواہشوں سے خالی ہے
(سردار فہد۔ ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


قسمت کا اپنی اوج پہ تارا نہیں رہا
اس واسطے وہ شخص ہمارا نہیں رہا
مشکل میں چل دیے ہیں سبھی اپنے چھوڑ کر
تنہا ہوں پاس کوئی سہارا نہیں رہا
جھٹکا جو ہاتھ اس نے تو ایسا لگا مجھے
اس کو مرا وجود گوارا نہیں رہا
کیسے تلاش اس کو کروں کائنات میں
ملنے کا جس کے کوئی اشارہ نہیں رہا
دل تھا بتائیں سیف کبھی وقت ایک ساتھ
لیکن کبھی بھی وقت ہمارا نہیں رہا
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


جب محبت میں مبتلا نہیں تھا
تب کوئی بھی مرا خدا نہیں تھا
زخم اس وقت بھی تھا دل پہ مرے
پھول جب شاخ پر کھِلا نہیں تھا
جب میں ہر بات اس کی مانتا تھا
دل کسی کو بھی مانتا نہیں تھا
اتفاقاً بچھڑ گئے ورنہ
یہ محبت میں طے ہوا نہیں تھا
اس کو دیکھا نہیں تھا جب میں نے
تب میں خود کو بھی دیکھتا نہیں تھا
اس کی چاہت بھی اس میں شامل تھی
چائے میں صرف ذائقہ نہیں تھا
اس کو نفرت نہیں تھی نفرت سے
زندگی اس کا مسئلہ نہیں تھا
(طارق جاوید۔کبیر والا)

۔۔۔
غزل


مصیبت کی گھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ دوستی ہے اور میں ہوں
مجھے تڑپا رہی ہے وحشتِ جاں
کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں
غضب کی دھوپ میں صحرا نشینی
لبوں پر تشنگی ہے اور میں ہوں
وہاں پر تُو، تمناؤں کی رونق
یہاں پر خامشی ہے اور میں ہوں
مجھے انکار کی عادت تھی سو اب
قفس کی کوٹھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ گمرہی ہے شہر بھر میں
فشارِ آگہی ہے اور میں ہوں
ترے کوچے میں آ بیٹھا ہوں احمد
بدن کی روشنی ہے اور میں ہوں
(احمد حجازی۔ لیاقت پور)

۔۔۔
غزل


چھوڑ کر چل دیے، بِنا پوچھے
جانے والے! تجھے خدا پوچھے
آپ جیسوں سے گفتگو بے سود
حال پوچھے نہ مدعا پوچھے
غیر مانوس راستے، رہزن
آدمی کس سے راستا پوچھے؟
میرے حالات مت بتانا تم
جھوٹ کہنا اگر مِرا پوچھے
راستہ روک کر مِرا آصِف!
ایک درویش آپ کا پوچھے
(آصف خان۔ بنوں)

۔۔۔
غزل


چراغ ایسے ہواؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
فقیر جیسے سراؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
لگا کے مہر کو اک صبح کے تعاقب میں
یہ چاند تارے خلاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
ابھی شجر تو مکمل کٹا نہیں ہے نا
تنے کی ادھ موئی چھاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
یہ کیا کہا تمھیں کرنی ہے سیر جنت کی!
تو ماں کے پاس ہی پائوں میں بیٹھ جاتے ہیں
بہار رُت میں تو ہم پر بہار آئی نہیں
ذرا سی دیر خزاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
(سید مزمل شاہ۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


ترس اپنے چاہنے والوں پہ کچھ کھایا کرو
دیکھ کر ہم کو ستم گر یوں نہ اترایا کرو
ہم ازل سے سر پھرے ہیں ناصحِ دوراں سنو
ہم نہ سمجھیں گے تری باتیں، نہ سمجھایا کرو
ہم تو ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں دل، اے جانِ جاں
بات تب ہوگی کسی زاہد کو بہکایا کرو
یہ محبت، چاہتیں، یہ دل لگی اور شاعری
چاہنے والوں کا ہدیہ ہیں نہ ٹھکرایا کرو
کون سنتا ہے جہاں میں نرم لہجوں کو عقیل
انگلی کانوں میں رکھو اور خوب چلّایا کرو
(عقیل نواز۔ اسکردو، بلتستان)

۔۔۔
غزل


ہم محبت کا تماشا نہیں ہونے دیں گے
اس تعلق کا یوں چرچا نہیں ہونے دیں گے
مسکراہٹ رہے ہر وقت ترے چہرے پر
ہم پریشاں ترا چہرہ نہیں ہونے دیں گے
سرزنِش کوئی کرے تیری ہمارے ہوتے
جی نہیں، ہم کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے
ہم گلابوں کی مہک دیں گے تری زلفوں کو
ہم تری زلفوں کو روکھا نہیں ہونے دیں گے
ان کی چُوڑی کو ہی اعجاز یہ حق ہے حاصل
اور ہم کچھ بھی انوکھا نہیں ہونے دیں گے
(اعجاز کشمیری۔ چین)

۔۔۔
غزل
ضروری تو نہیں پلکوں پہ ہر دم دکھ سجا رکھو
ابھی تو زندگی باقی ہے کچھ آنسو بچا رکھو
کسی دن لوٹ آئے گا، تمھاری یاد آئی تو
ابھی کچھ دن گزرنے دو، ابھی تم حوصلہ رکھو
سنو، رستہ کٹھن ہے، دور منزل ہے بہت لیکن
مجھے کافی ہے تم خود کو جو مصروفِ دُعا رکھو
یہاں دل توڑنا ہے معمول ہے، یا مشغلہ کہہ لو!
تمھیں کس نے کہا تھا ہم سے امیدِ وفا رکھو؟
محبت کو نباہنے کا سلیقہ چاہیے سدرہ
اُسے ہر حال میں چاہو، اُسے اپنا بنا رکھو
(سدرہ ایاز۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
اپنوں پہ بھی رہا نہ مجھے اعتبار اب
مطلب پرست بن گیا قرب و جوار اب
اپنے مفاد کے لیے کرتے ہیں بات چیت
کرتے ہیں بات بات پہ وہ کاروبار اب
انسان کی نہیں کوئی قیمت یہاں، میاں
کرسی سے کررہے ہیں یہاں لوگ پیار اب
بعدِ نماز دیتے ہیں اوروں کو بددعا
نکلے ہیں ایسے ایسے عبادت گزار اب
جو لوگ دوسروں پہ اٹھاتے ہیں انگلیاں
ہونے لگا ہے میرا بھی ان میں شمار اب
(علی محمد علوی۔ اسکردو)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر64

وہ عشرے کا آخری دن تھا اور حنیف بھائی کی حالت بہ دستور ویسی ہی تھی، جنہیں اپنا کوئی ہوش ہی نہیں تھا، جذب اور بس۔ بابا نے بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔

نہیں، نہیں! میں پھر سے گم راہ ہوگیا، وہ کیسے انہیں چھوڑ سکتے تھے، لیکن فقیر کو کچھ ایسا ہی لگا تھا۔ ہمارے ایک بابا جی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہوگا، جی! سوچ کا بھی، تو پہلے اچھی طرح سے سوچ لینا چاہیے کہ آپ کسی کے متعلق جو سوچ رہے ہیں، جو رائے بنا رہے ہیں، کیا وہ ویسا ہی ہے یا آپ گم راہ ہو چلے ہیں۔ داناؤں کا کہنا ہے کہ کسی کے لیے اچھا نہیں سوچ سکتے، بَھلا نہیں کرسکتے تو غلط بھی تو مت سوچیے اور بُرا بھی مت کیجیے۔ چلیے! یہ تو ہم کہیں اور ہی نکل چلے ہیں تو حنیف بھائی ایک جذب کی حالت میں تھے۔ دیکھیے یہ کیا یاد آیا، فقیر شاید آپ تک اُن کی کیفیت پہنچا سکے۔

جب سے دیکھا ہے اُنہیں، اپنا مجھے ہوش نہیں

جانے کیا چیز وہ نظروں سے پلا دیتے ہیں

تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں

عشق والے تو خدائی بھی لُٹا دیتے ہیں

ایسی یا اس سے قریب تر حالت تھی ہمارے حنیف بھائی کی۔ ہوش و خرد سے بے گانہ۔ فقیر کا بھی کام کاج ختم ہوگیا تھا اور ایک ہی ذمے داری تھی کہ مجھے ان کا خیال رکھنا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ لیکن بس حکم تھا تو تعمیل فرض تھی۔ سارا دن ان کی منّت سماجت میں گزرتا اور وہ پتھر کا صنم بنے کبھی مجھے اور کبھی اِدھر اُدھر تکتے، ہنستے، روتے یا پھر رقص میں ہے سارا جہاں کی تصویر بنے رہتے۔ میں نے تو انہیں سوتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ فقیر نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلسل جاگتا ہی رہے اور پھر جب فقیر کو جاگنے کا خود تجربہ ہوا تب وہ جان پایا کہ سونا بھی کیا سونا ہوتا ہے اور جاگنا بھی کیسا جاگنا۔ جی پھر کبھی کریں گے اس پر کلام۔ جی جناب! اگر آپ جاگنا چاہیں تو جاگ سکتے ہیں اور مسلسل۔

ایک دن علی الصبح ایک اجنبی کو کٹیا میں دیکھ کر فقیر چونکا، ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اجنبی یہاں چلا آیا ہو۔ اُس سے بابا نے مختصر سی بات کی اور مجھے حکم دیا کہ چلو تیار ہوجاؤ، یعنی وہ اجنبی ہماری غیر موجودی میں حنیف بھائی کی دیکھ بھال کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ فقیر تو تیار ہی تھا کہ سکھایا ہی یہ گیا ہے کہ ہر پل تیار رہو، اسباب کم سے کم رکھو کہ جب کُوچ کا نقّارہ بجے تو سامان سمیٹنے کی فکر ہی نہ ہو، چل سو چل اور چل۔

کبھی آپ نے ریلوے اسٹیشن پر یہ منظر ضرور دیکھا ہوگا کہ پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ہوا ہے، ابھی ٹرین آنے میں خاصا وقت ہوتا ہے، کچھ لوگ بار بار اپنے ڈھیر سارے سامان پر نظر جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بے چینی، بے یقینی اور پریشانی کا متحرک مجسمہ بنے ہوئے، عجلت اور خدشات کو اوڑھے ہوئے ان کی نظریں بار بار اُس سمت اٹھتی ہیں، جہاں سے ٹرین نے آنا ہوتا ہے۔ لوجی! اور پھر ٹرین آہی جاتی ہے تو وہ اپنا سامان ریل میں ٹھونسنے لگتے ہیں، یہ نہ رہ جائے وہ نہ رہ جائے، کوئی سامان ہی غائب نہ کردے، وہ کتنے پریشان ہوتے ہیں، جی ان کا پورا سفر بھی اسی طرح گزرتا ہے۔

آپ نے دیکھے ہوں گے ایسے مناظر، اور نہیں دیکھے تو جائیے خود بہ چشم سر دیکھ لیجیے، بہت عام ہیں ایسے مناظر کسی بھی اسٹیشن پر۔ لیکن ذرا سا دم لیجیے اب فقیر آپ کو ایک اور منظر دکھانے جارہا ہے، وہ بھی دیکھیے! اسٹیشن مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، ایک مسافر ایک چھوٹی سی گٹھڑی سر کے نیچے رکھے سکون سے کسی بینچ پر لیٹا ہوا یا کسی کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔

اسے ذرا سی بھی فکر نہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سارے منظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ٹرین آچکی ہے اور وہ اب بھی مزے سے بیٹھا یا لیٹا ہوا ہے، اب ٹرین نے جانے کے لیے وسل دی ہے لیکن وہ تو اب تک آسودہ ہے، اور پھر تیسری وسل پر ٹرین نے ایک چیخ ماری اور چل پڑی، اب وہ اٹھا اور آرام سے ٹرین میں سوار ہوگیا، چلو جی سفر ہوا شروع، وہ اپنی منزل تک پہنچنے تک اس سفر سے لطف اندوز ہی ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ میں آرہا ہے آپ کو کہ فقیر کہنا کیا چاہ رہا ہے۔۔۔۔ ؟ صرف اتنا سا کہ مال و اسباب اتنا مت جمع کیجیے کہ زندگی ختم شُد کی ٹرین آجائے اور آپ اپنے سامان کے لیے ہلکان ہوتے رہیں اور پورا سفر بھی اذیّت و خدشات میں گزر جائے، بس دوسرے مسافر کی طرح دنیا کے اس پلیٹ فارم پر قیام کیجیے کہ آخرت کی ٹرین آئے تو بس آپ بے فکر ہوکر اس میں سوار ہوجائیں اور آپ کا سفر بھی اطمینان سے کٹ جائے اور آپ اپنی حقیقی منزل پر سکون سے پہنچ جائیں۔ چلیے جی! رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔۔ ۔

بابا مجھے ساتھ لیے نکلے، ہم دونوں پیدل رواں تھے، میں خاموش تھا کہ بابا نے کہا: بیٹا جی! آج تو معلوم ہی نہیں کیا کہ کہاں جارہے ہیں ؟ کیا معلوم کروں بابا بس جارہے ہیں تو ٹھیک ہے، کہہ کر میں پھر خاموش ہوگیا۔ ٹیکسلا کے اسٹاپ پر ہم ایک ویگن میں سوار ہوئے جو راول پنڈی جارہی تھی، تب میں جان پایا کہ ہم کہاں جارہے ہیں، مجھے کچھ کچھ تو سمجھ میں آگیا تھا کہ عارضی منزل کون سی ہوگی۔

اصل منزل تو بس ایک ہی ہے جی! سب مسافر ہیں، اجنبی ہیں اس زمین پر، جسے نادان اپنی زمین کہتے ہیں، اس زمین کے کسی چھوٹے سے قطعے کے لیے اپنے خونیں رشتوں کو بھی خون میں نہلا دیتے ہیں، زمین تو انسان کے لیے ازل سے اجنبی تھی، ہے اور ابد تک رہے گی، کہ انسان اس زمین پر اتارا گیا ہے بس مختصر سی مدت کے لیے، یہ زمین اجنبی ہے۔

اسی لیے تو یہاں اتنی مشکلات ہیں، اتنی تنگی ہے، جنگیں ہیں، جدل ہے، قتل و غارت ہے، اجنبی نہ ہوتی تو قرار سے ہوتی، سکون کا مسکن ہوتی، ہر طرف بس سُکھ چین ہوتا، کہیں بُھوک نہ اُگتی، کوئی کسی کا حق نہ مارتا، کوئی کسی پر ظلم کا سوچتا بھی نہیں، یہ زمین انسان کے لیے اجنبی سیّارہ ہے، جی! اسی لیے یہاں ہر انسان نفسانفسی کے مہلک مرض میں بلک رہا ہے، تھوڑا سا غور کرتا تو ایسا تو کبھی نہ کرتا جو کرتا رہا ہے، جو کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اجنبی دیس کا مکیں انسان، اسے اپنا سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہے، کچھ سوچتا ہی نہیں۔ چلیے! اب سوچیے کہ انسان دراصل کہاں مقیم تھا۔۔۔؟ اور پھر کیا ہوا کہ آدم کو وہاں سے بے دخل کیا گیا تھا اور پھر اسے اس اجنبی سیّارے پر اتارا گیا۔

سوچیے ناں جی! یہ تو اس واحد و کریم و رحیم کی سخاوت ہے ناں کہ اسے کہا گیا کہ بس چند دن کے لیے جاؤ، اجنبی بن کر، مسافر بن کر رہو اور جیسا کہا ہے ویسا کرو، خود کو اپنے اصل ٹھکانے کا دوبارہ اہل ثابت کرو اور پھر سے اپنے اصل مسکن لوٹ آؤ، ایسا مسکن جہاں سُکھ چین ہے، من چاہا جیون ہے، سب کچھ ہے جی! وہاں تو خواہش کرو تو بس تکمیل ہے بِلا کسی سعی، جہد اور تاخیر کے۔ اپنے مسکن پر اپنی مرضی، تو جی یہ ہے اس اجنبی سیّارے زمین اور اس کے نادان مکین انسان کی اصل حقیقت۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس زمین کی قدر نہ کریں، نہیں ایسا ہرگز مت کریں، بالکل بھی نہیں، خبردار رہیں۔

ایسا تو خودغرض، رذیل اور احسان فراموش کرتے ہیں ناں جی! آپ تو بالکل بھی ایسے نہیں ہیں ناں جی! یہ اجنبی سیّارہ سہی لیکن آپ کا عارضی مسکن تو ہے ناں اور ہاں یہی ہے وہ سیّارہ جب سب آپ کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے اور آپ کو صرف میّت کہہ کر جلد گھر سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہی آپ کو آپ کے تمام عیوب کے ساتھ اپنے شکم میں اتار لیتی ہے، تو یہ زمین ماں سمان ہے جی! اس کی ہتک مت کیجیے کہ یہ بھی تو رب تعالٰی کی مخلوق ہے ناں۔ دیکھیے! رب تعالٰی نے ہمیں خبردار کیا ہے اور زمین جو بس اُسی کی ہے، کی حقیقت ہمیں بتائی ہے، اب یہ تو میری اپنی جہالت ہے کہ میں اس طرف متوجّہ ہی نہیں ہوتا، اور میں نے اس ضابطۂ حیات کو جو کتاب عمل ہے، اسے جُزدان میں لپیٹ کر صرف قسمیں اٹھانے کے لیے رکھ چھوڑا ہے، عجب ہوں میں!

’’جب زمین اپنے بھونچال سے جھنجوڑ دی جائے گی اور زمین اپنا بوجھ باہر نکال ڈالے گی، اور انسان کہے گا اسے کیا ہوگیا ہے؟ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بتا دے گی، کیوں کہ تمہارے پروردگار نے اسے یہی حکم دیا ہوگا اور اس روز لوگ مختلف ٹولیوں میں واپس ہوں گے، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھا دیے جائیں، جس نے ذرّہ بھر اچھائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ بھر بُرائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا۔‘‘

ویگن راول پنڈی کے پیر ودہائی اڈے پر پہنچی۔ بابا نے مجھ سے پوچھا: کچھ کھانا پینا ہے بیٹا۔ میں نے انکار کیا تو کہنے لگے: چائے بھی نہیں؟ ہم نے ایک جگہ چائے پی اور اسلام آباد جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوگئے۔ اسلام آباد اس وقت ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے، سرکاری عمارتیں تو تھیں لیکن آبادی خال خال، کسی بھی سیکٹر میں چند مکانات ہوتے تھے۔

اکثر پلاٹ خالی یا چاردیواری بنی ہوئی بس، کہیں کہیں ان خالی پلاٹس پر کوئی چھونپڑی یا خانہ بہ دوش لوگوں کے ٹھکانے۔ ہم شاہ راہ سے گزرتے ہوئے ایک کشادہ گلی میں داخل ہوئے، پوری گلی میں صرف تین مکانات اور باقی خالی پلاٹ۔ اب فقیر اسے حویلی کہے یا بنگلہ کے باہر پہنچ کر بابا نے گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کیا، ایک شخص باہر نکلا تو ہمیں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور پوچھا: کس سے ملنا ہے۔ ہماری بِٹیا یہاں رہتی ہیں جی اس سے ملنا ہے، بابا کا جواب سن کر اس نے کہا: بی بی جی کی طبیعت خراب ہے۔ جی جانتے ہیں یہ تو، بابا کے جواب پر وہ ہمیں دیکھتا رہا تب بابا نے اسے کہا: آپ ہی سب کچھ دریافت کریں گے تو ان کے گھر والے پھر کیا کریں گے۔

جائیے انہیں بتائیے کہ ہم آئے ہیں۔ وہ مبہوت الٹے قدم پلٹا، واپسی میں اس کے ساتھ نفیس لباس میں ملبوس ایک شخص بھی تھا، اس نے ہمیں دیکھا اور پھر ناگواری سے پوچھا: جی فرمائیے کس سے ملنا ہے؟ ہماری بٹیا کی طبیعت کیسی ہے اب جی، اس کی مزاج پُرسی کرنا تھی اور آپ سے ملاقات بھی۔ بابا کی بات سن کر اس نے ہمیں بہ غور دیکھا اور اندر آنے کا کہا۔ اس کی بیٹھک اور اس میں رکھی ہوئی ہر شے اس کی امارت کا ثبوت دے رہی تھی، ہم ایک صوفے پر بیٹھے تو وہ بابا سے مخاطب ہوا: جی فرمائیے۔ بابا گویا ہوئے: اجی فرمانا کیسا حضور! ہم فقیر کب فرماتے ہیں جی، ہم تو سنتے ہیں بس، فرماتے تو بڑے لوگ ہیں، ہم تو فرمانے کا حق ہی نہیں رکھتے، آپ سے ابھی تو عرض کیا ہے کہ بٹیا کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں تو بتائیے وہ کیسی ہیں اب، کچھ کھایا پیا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا تو وہ چھلک پڑا: سیدھی بات کرو، کون ہو تم لوگ، کیسے جانتے ہو اسے، کیا چاہتے ہو تم، جلدی بتاؤ اور جاؤ، میں بہت پریشان ہوں۔

اتنا وقت نہیں ہے میرے پاس۔ میں نے اسے بہ غور دیکھا، وہ تو بابا کی ہتک کر رہا تھا، اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا بابا نے اس کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر بولے: ماشاء اﷲ جی کیا کہنے! آپ تو بڑے ہی زیرک و دانا ہیں جی، تو ہم آپ کی تشفی کیے دیتے ہیں، ہم نے تو سیدھی بات ہی کی ہے، اب کون ہیں ہم لوگ تو جناب اس سوال کا جواب تو مُشکل ہے، ہم کیسے جانتے ہیں بٹیا کو تو جناب عالی اس دنیا میں ایسا بھی کوئی بدنصیب و بے مروّت بھی ہوگا کہ اپنی بٹیا کو ہی نہ جانتا ہو، چاہتے کیا ہیں یہ تو آپ آسودہ ہوکر سنیں گے تب بتائیں گے جی، اب آپ نے خود فرمایا ہے کہ آپ پریشان ہیں اور آپ کے پاس وقت بھی نہیں تو ایسے میں بھلا ہم کیا کہیں گے اور آپ کیا سنیں گے، تو بس ایسا کرتے ہیں کہ بٹیا کو اک نظر دیکھتے ہیں اور پھر رخصت۔

اس دن فقیر حیرت زدہ رہ گیا، اک مرد خُود آگاہ کا جلال و جمال اس کے رُو بہ رُو جو تھا، بابا کی پُروقار اور بایقیں آواز چار سُو گونج رہی تھی، اُن کا چہرہ دمک رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ ہر شے ساکت ہوگئی ہے، وہ ایسا سحرزدہ ہوا کہ بولنا ہی بُھول گیا، پسینے کے قطرے اس کی پیشانی پر پھیلتے ہوئے بہنے کے لیے بے تاب ہونے لگے تھے اور وہ بابا کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اور پھر بابا کی آواز نے اس سحر کو توڑ کر رکھ دیا: تو ہم خود اپنی بٹیا سے مل لیتے ہیں۔ بابا اُٹھ کھڑے ہوئے تو وہ ان کے سنگ ہوا اور پھر ایک کشادہ کمرے میں جو بیش قیمت فرنیچر سے آراستہ تھا، کمرے کے وسط میں ایک خوب صورت فانوس لٹک رہا تھا۔

امارت کا ہر نشاں اس میں موجود تھا، میں وہی ماہ وش ایک آرام دہ پلنگ پر لیٹی ہوئی ہمارے سامنے تھی، اس کے پلنگ کے ساتھ ایک کرسی پر اس کی ماں بیٹھی ہوئی، جو ہمیں دیکھ کر کھڑی ہوگئی تھی، نقاہت نے اس کی شوخی کو ماند کردیا تھا، اس نے ہمیں دیکھتے ہی اٹھنے کی کوشش کی اور پھر بابا کی آواز گونجی: ہماری بٹیا کیسی ہے اب! کہا تو تھا آسودہ رہو، کسی خدشے کو پاس مت آنے دینا کہ جو لکھا جاچکا وہ تو لکھا جاچکا تو پھر کیا روگ پالنا پگلی! لیکن بٹیا جی نے تو اپنا جیون اجیرن کرلیا، چلو اب تم کھاؤ گی، پیو گی اور ٹھیک ہوجاؤ گی، جی ہم آگئے ناں اب تو بایقیں رہو پگلی! بابا کی شفیق گفت گو نے اس کے سارے بندھن توڑ دیے اور پھر تو آنسوؤں کا سیلاب تھا جس میں ڈولتی چلی گئی، بابا اس کے سر پر اپنا دست شفقت رکھے نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے تھے، پھر بہت دیر بعد وہ اس سیلاب بلاخیز سے بچ نکلی تھی۔ اور پھر بابا اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہے تھے۔ اس دن فقیر کو وہ ایک معصوم بچے جیسی لگی تھیں اور اب تک لگتی ہیں۔

اس کے والد اور والدہ خاموشی اور حیرت سے اپنی بیٹی کو بابا کے ہاتھوں کھانا کھاتے دیکھ رہے تھے۔ سُکوت تھا مکمل سُکوت، اچانک ہی اس نے بابا سے پوچھا: وہ کیسے ہیں ۔۔۔۔؟ اور اس کے ساتھ ہی سکوت دم توڑ گیا: پگلی! یہ بھی ہم ہی بتائیں کہ وہ کیسا ہے؟ اچّھا ہے وہ بہت اچّھا، ویسا ہی جیسا تم سوچ رہی ہو، دیکھ رہی ہو، لیکن فکر نہ کرو، ٹھیک ہے بس ٹھیک ہے، تم ٹھیک ہوجاؤ تو بس وہ بھی ٹھیک ہوجائے گا ناں! اچھا تو اب بٹیا جی! اجازت دو، پریشان مت ہونا، واپس لوٹ آؤ، جتنی جلدی تم واپس لوٹو گی تو بس سمجھو وہ بھی لوٹ آئے گا اور ہاں پھر کہہ رہے ہیں کوئی بھی خدشہ اپنے پاس بھٹکنے بھی مت دینا، اﷲجی پر کامل یقین رکھو کہ اس کے حکم سے کوئی رکاوٹ بھی نہیں رہے گی، شانت ہوجاؤ اور سنو رب تعالٰی کی عنایت سے تمہیں دیکھ رہے ہیں جی تو بس اطمینان رکھو ناں پگلی! اچھا تو اب رخصت۔

ہم اس کے کمرے سے باہر نکل آئے، گھر کے صدر دروازے تک اس کے والد اور والدہ آئے اور پھر انہوں نے کہا: آپ کو تو ہم نے پانی تک کا نہیں پوچھا، کچھ وقت دیجیے کھانا کھا کر جائیے گا، ہماری بیٹی ٹھیک تو ہوجائے گی ناں، ہمارا بیٹا تو ہے نہیں، ہمارا سب کچھ ہماری بیٹی ہی ہے۔

آپ کی بیٹی۔۔۔۔۔! اجی اب تو ہماری بٹیا ہیں وہ، آپ پریشان مت ہوں، آئیں گے جی ضرور آئیں گے اور آپ کے گھر کا پانی بھی پئیں گے جی۔ بابا میرا ہاتھ پکڑے سڑک پر رواں تھے، جی فقیر نے دیکھا تھا، ہمارے اوجھل ہونے تک وہ بُت بنے ہوئے ہمیں دیکھتے رہے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

وہ وزن کم کیوں نہیں کر رہا۔۔۔؟
ر۔ ط۔ م
خانہ پُری

عمارت کے مکین جان بچانے کی تگ ودو میں ہیں۔۔۔

زلزلے کے شدید جھٹکے صاف محسوس ہو رہے ہیں، بہت سے کم زور گھر گر بھی چکے ہیں۔۔۔

بہت سی عمارتیں یوں تو مخدوش نہ لگتی تھیں، لیکن اب ان کے بھی بہت سے حصے منہدم ہو رہے ہیں۔۔۔ بہت سی لرزہ براندام عمارتوں میں بے شمار لوگ محصور ہیں۔۔۔

بہ ظاہر مضبوط اور فلک بوس عمارت میں کبھی کوئی گرنے والے چھجّے کی زد میں آجاتا ہے۔۔۔ کبھی کوئی کسی سیمنٹ کے ’کھپرے‘ سے چوٹ کھا کر گھائل ہو جاتا ہے۔۔۔

بہت سے مکین اس میں سے نکل نکل کر بھاگ رہے ہیں۔۔۔ کہ کسی طرح محفوظ ہو جائیں۔۔۔ بہت سے پہلے ہی بہت آرام سے اپنی اضافی ’کارکردگی‘ کے سبب بنائے گئے ’’محفوظ خانوں‘‘ میں جا دبکے ہیں۔۔۔

لیکن جن کا اس عمارت کے سوا کچھ نہیں، انہیں اب یہ احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ ایمان داری کے نام پر انہوں نے عمارت کے ہی کے سائے پر اکتفا کیوں کیا؟ کیا یہ سب ان کے اسی خلوص کا صلہ ہے۔۔۔؟ یا کچھ ناعاقبت اندیشی کو بھی دوش ہے۔۔۔؟

وہ چلّانے لگتے ہیں، سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے، کہ تم سب ہمیں امید کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔۔۔ ہم تمہاری دل وجان سے مدد کرتے تھے۔۔۔ تم جواب میں ہماری سیوا کرتے تو ہم اُسے اپنا فرض بتاتے۔۔۔ آج تم کیوں بے حس ہو گئے ہو، مگر اُس کی آواز اسی کے اندر گھٹ کر رہ جاتی ہے۔۔۔

وہ دیکھتے ہیں کہ ساتھ رہنے والے بھی ان کے ہم آواز ہونے سے کترا رہے ہیں۔۔۔ نگاہیں چرا رہے ہیں۔۔۔

وہ اس عمارت میں بہت گھبرا رہا ہے، ’زمین‘ زور زور سے ہل رہی ہے۔۔۔ اس کا فرش تو ڈول رہا ہے۔۔۔

’کیا یہ کوئی بحری جہاز ہے۔۔۔؟‘ وہ خود کلامی کرتا ہے۔

ہاں شاید۔ تو کیا سمندر کی لہروں میں بہت تلاطم ہے کہ بحری جہاز کا ناتواں وجود اسے سہارنے سے قاصر ہے۔۔۔ کوئی جہاز راں کو تو سمجھاؤ۔۔۔ وہ وزن کم کیوں نہیں کر رہا۔۔۔

یہ ایک آدمی، جس کا ’وزن‘ 50 کے برابر ہے۔۔۔ اگر اسے خارج کر دو، تو ہم جیسی پچاس جانیں بچ سکتی ہیں، پچاس جانوں کا مطلب پچاس گھروں کا سُکھ باقی رہ سکتا ہے۔۔۔ اور یہ جو پچاس افراد جتنا ایک ہے، اس سے کہو نا، خود ہی ڈبکی لگا دے۔۔۔ سمندر میں اس کی سب ہی سے تو دوستی ہے۔۔۔ نہ کوئی وہیل مچھلی اسے نگلے گی اور نہ کوئی شارک اسے نقصان پہنچائے گی۔۔۔

جاؤ کہوناں، تم کہو! نہیں تم کہو۔۔۔

ابھی وہ اصرار ہی کر رہے تھے کہ زور سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور گہرا غبار چھا گیا۔

میں نے جلدی سے تازہ اخبار اندر کے صفحوں تک ٹٹولا، چینلوں سے رجوع کیا۔۔۔

اور پھر سب کچھ وہم سمجھ کر ٹال دیا۔۔۔!

کتاب مرتب کرنے کی آرزو نہیں۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
حساب سودوزیاں شمار کرتے ہوئے نئے لکھے افسانوں پر نظر پڑی۔ گیارہ افسانے! زندگی کے گیارہ روپ اور ہر روپ کے سو بہروپ۔۔۔!

میں انہیں کتاب ’’برگد‘‘ میں شامل کر دوں تو 20 ہو جائیں گے لیکن، اب کوئی کتاب مرتب کرنے کی آرزو ہے نہ دل چسپی! یہ کہانیاں منظر عام پر نہیں آئیں گی۔ ایک سیاہ بکس میں کچھ ’’تحائف‘‘ کے ساتھ خانۂ بے آباد کے کسی دھول زدہ کونے میں پڑی رہیں گی۔ یہاں تک کہ ان کے کنارے مڑ جائیں گے اور کاغذ زرد ہو کر بُھربُھرا ہو جائے گا۔ تمہارے وعدوں اور میرے خوابوں کی مانند۔۔۔!

۔۔۔

راہ زن کا تو کوئی مستقبل نہیں، لیکن۔۔۔
فواد رضا، کراچی

گذشتہ شب رات ساڑھے 12 بجے تک میں اور دیرینہ دوست عدیل زمان گلشن اقبال بلاک نمبر دو میں ’پنچایت‘ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، جی بھر کے حالات پر بھڑاس نکالنے کے بعد جب رخصت کا وقت آیا، تو عدیل نے کہا کہ یار ذرا ’اے ٹی ایم‘ تک چل۔۔۔! بلاک نمبر دو عابد ٹائون سے ایک سنسنان سڑک موچی موڑ تک آتی ہے اور اسی ویرانے میں ایک بینک نے اپنی شاخ کھولی ہوئی ہے، جس میں ’اے ٹی ایم‘ بھی ہے۔ عدیل اندر گیا اور چند سیکنڈ بعد ہی واپس لوٹ آیا کہ مشین کو موت آگئی ہے، کہیں اور چلتے ہیں۔ موچی موڑ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ مجھ غریب صحافی کی بائیک نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ نصف شب کا عالم سنسان سڑک اور ایسے عالم میں پیچھے سے ایک 125 اسکوٹر کی آواز۔۔۔۔!

کراچی میں رہنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایسے ماحول میں اس آواز کا مطلب کیا ہوتا ہے، قسمت نے یاوری کی کہ اسی وقت علاقے میں میچ کے سبب گشت کرتی ہوئی پولیس کی اسکوٹریں آگئیں اور ’ون ٹو فائیو‘ پر سوار دو جوان ہمیں دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ ممکن ہے کہ ہمارا گمان غلط ہو اور وہ کوئی عام شہری ہوں، لیکن موبائل اور کیش چھنوانے کے لیے ہم ایک انتہائی شان دار جگہ پر موجود تھے! اللہ اللہ کر کے بائیک اسٹار ٹ ہوئی اور خطرے کو بھانپتے ہوئے ہم نے ’اے ٹی ایم‘ جانے کا ارادہ ملتوی کر کے بائیک واپس عدیل کے گھر کی جانب گُھمالی۔

ہم خوش نصیب رہے کہ صحیح سلامت گھروں کو پہنچ گئے، لیکن اگلی ہی صبح ’ہمدرد یونی ورسٹی‘ کی طالبہ مصباح اطہر اتنی خوش نصیب نہیں تھی۔ یعنی محض چند گھنٹوں بعد عین اسی مقام موچی موڑپر راہ زنی کی ایک واردات ہوئی اور پرس چھیننے میں مزاحمت پر موٹرسائیکل پر سوار دو ’دہشت گرد‘ مصباح کو گولی مار کر چلے گئے۔ سر میں لگنے والی گولی اس لڑکی کی موت کا سبب بن گئی، جو ایک روشن مستقبل کی خاطر گھر سے نکلی تھی، شاید موت تو اس راستے پر گھات لگائے بیٹھی تھی، بس وقت اس لڑکی کا معین تھا۔

ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ برس ہمارے دوست کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جس کے سر میں ڈکیت سیسے کی گولی محض اس لیے اتار گئے تھے کہ اس نے اپنا موبائل دینے سے انکار کیا، اس کی قسمت اچھی تھی کہ بروقت طبی امداد میسر آگئی اور وہ بچ گیا، لیکن ابھی بھی وہ مکمل صحت یاب نہیں ہو سکا ہے۔

رواں برس اس نوعیت کے درجن بھر سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں ڈکیتی یا پولیس مقابلے کے دوران شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، کراچی جہاں آج امن کے دعوے کیے جاتے ہیں، صورت حال ابھی بھی اتنی اچھی ہے نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے۔ خدارا، راستوں کے انتخاب میں احتیاط کیا کریں اور اگر ایسا کوئی مرحلہ آن پڑے تو ذلت کے شدید ترین احساس کے باوجود اپنی چیزیں ڈکیتوں کے حوالے کر دیا کریں کہ وہ مرنے یا مارنے کے لیے گھر سے نکلے ہوتے ہیں ، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور آپ ایک شان دار مستقبل کی راہ پر گام زن ہیں۔

۔۔۔

کچھ کھٹی میٹھی باتیں
مرسلہ:ظہیر انجم تبسم، خوشاب

٭ ایک بادشاہ نے اعلان کرایا کہ کوئی ذرا بتائے تو کہ سمندر میں کتنے پیالے پانی ہے، بڑے بڑے عالم جواب نہ دے سکے۔ ایک ان پڑھ شخص نے جواب دیا بادشاہ سلامت اگر پیالا سمندر سے نصف ہے، تو سمندر میں دو پیالے پانی ہوگا، اگر پیالا سمندر سے چوتھائی ہے، تو سمندر میں چار پیالے پانی ہوگا۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا۔

٭ شادی دفتر والی ایک خاتون نے شادیاں کرانے سے توبہ کرلی، کہنے لگی کہ اس کام میں جھوٹ بہت بولنا پڑتا ہے، ایک مرتبہ ایک لڑکے کی شادی کی بات کی۔ لڑکی والوں نے لڑکا پسند کر لیا، مگر مجھ سے قسم اٹھوائی کہ لڑکا کاروبار بھی کرتا ہے یا نہیں میں نے قسم کھائی کہ لڑکا لکڑی کا کاروبار کرتا ہے۔ شادی ہوگئی مگر میرا ضمیر مجھے اس قسم پر ملامت کرتا رہا۔ لڑکا مسواک فروخت کرتا تھا۔

٭ وہ اپنی بیوی کو میکے چھوڑ آیا اور کہنے لگا میں مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ رات کو ایک بجے موبائل پر میسج آتا ہے ’’بیوٹی فُل!’’وہ کون ہے جو روزانہ یہ میسج بھیجتا ہے۔ بیوی نے موبائل پر میسج دکھایا اور بتایا کہ یہ بیوٹی فل نہیں، بلکہ لکھا تھا ’بیٹری فل!‘

٭ ایک نہایت لحیم شحیم خاتون گاڑی چلا رہی تھیں۔ ایک بچے نے آواز لگائی ’’بھینس آنٹی بھینس‘‘ اس عورت نے گاڑی روکی اور بچے کے پیچھے دوڑی، مگر بھاری جسامت کے سبب نہ دوڑ نہ سکی، بچہ بھاگ گیا۔ اس کا سانس بھولا ہوا تھا، گاڑی میں بیٹھی اور چل دی، آگے دیکھا تو ایک بھینس مری ہوئی پڑی تھی، تب اسے بچے کی بات سمجھ میں آئی۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
مَن کا قبرستان!
رضوان طاہر مبین

’’انسانوں کی طرح رشتے ناتے بھی فنا کے گھاٹ اترتے ہیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے اَمر کو افسردہ دیکھا تو سمجھایا۔
’’ہممم۔‘‘
اَمر منمنایا۔
’’ہم نہ چاہیں، لیکن ہمیں مُردے تو دفنانے ہی پڑتے ہیں۔۔۔
بالکل ایسے ہی تم دَم توڑنے والے تعلق کو اپنے ’مَن کے قبرستان‘ میں اتار دیا کرو!
تاکہ اپنی زندگی شانت بنا سکو۔‘‘
ثمر نے کہا۔
’’تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
اَمر کچھ کہتے کہتے رکا۔
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘ ثمر نے پوچھا۔
’’مَن کے قبرستان میں اب کسی قبر کی جگہ نہیں۔۔۔!
اب ایک ’نعش‘ پڑے پڑے تعفن بکھیر رہی ہے۔۔۔!‘‘
امر نے جواب دیا۔

۔۔۔

جب ایک اخباری مراسلے پر ریلوے کلرک معطل ہوگیا!

اسلم ملک
میں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تھا، جب صدر پاکستان نے میرے تین خطوں کے جواب دیے تھے۔ یہ صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، اس عمر میں حکم ران اور وزراء ہی اہم شخصیات لگتے ہیں۔ کالج کے پہلے سال ہی یہ خیال ذہن سے نکل گیا اور ادیبوں شاعروں سے خط کتابت کرنے لگا۔

مجھے اس زمانے کی کوئی ایسی شخصیت یاد نہیں آتی، جسے خط لکھا ہو اور اس نے جواب نہ دیا ہو۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحمید چوہدری کا خط مجھے اکثر یاد آتا ہے… جو انہوں نے اردو میں لکھا اور مجھے لگا کہ اردو لکھنے میں کافی تگ ودو کرنا پڑی۔

ان دنوں سرکاری محکمے اخبارات میں چھپنے والے مراسلات پر بھی توجہ دیتے تھے۔ 4 مارچ 1964 کو میرا ایک مراسلہ لاہور کے روزنامہ مشرق میں شائع ہوا (تاریخ یوں یاد رہی کہ اسی دن میں پورے 13 سال کا ہوا تھا) بات یہ تھی سکّوں کا اعشاری نظام آنے کے بعد بہت عرصہ نئے اور پرانے سکوں کے تبادلے میں بہت گڑبڑ رہی۔ بہاول پور سے کلانچ والا ٹرین کا کرایہ 53 پیسے یعنی پرانے ساڑھے آٹھ آنے تھا۔ بکنگ کلرک نو آنے یعنی 56 پیسے وصول کر رہے تھے۔ انہی دنوں گائوں گئے تھے، واپس آتے ہی اخبار کو خط لکھا۔ چھپنے کے اگلے دن والد صاحب نے کہا تمہاری شکایت پر بکنگ کلرک کو معطل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے ملازمین آئے تھے، کہہ رہے تھے بچے سے کہیں معاف کر دے۔ لکھ دے کہ غلط فہمی ہوئی، جو دور ہوگئی۔ مزید یاد نہیں کہ والد صاحب نے کیا کیا۔ وہ خود یونین لیڈر تھے۔ کسی کو بے روزگار کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہاں ریلوے والوں نے بچہ اس لیے کہا کہ میرے نام کے ساتھ جماعت ہفتم بھی چھپا تھا۔ اس دوران مجھے ریلوے ہیڈ کوارٹر سے خط بھی آگیا کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کر رہے ہیں۔

کوئی دو سال پہلے، یعنی 50 سال بعد پھر کسی سرکاری شخصیت کو خط لکھا… یہ تھے چیئرمین سینیٹ… ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا، انہیں ہی موزوں سمجھا، یہ بھی خیال تھا کہ قائداعظم کے اے ڈی سی کے بیٹے ہیں، خط کا جواب دینے جیسے اصول اور عادات ضرور ان تک ضرور پہنچی ہوں گی، لیکن جواب تو کیا ان کے عملے کی طرف سے خط ملنے کی رسید/ اطلاع تک نہ ملی۔ یہ 40 سال کے قریب صحافت میں گزار چکے ایک ’بزرگ شہری‘ کا خط تھا، کوئی فضول Fan Mail تو نہیں ہوگی۔

کبھی کہا جاتا تھا خط کا جواب نہ دینا ویسی ہی بدتمیزی ہے جیسی سلام کا جواب نہ دینا۔ ہمارے ایک مدیر تھے۔۔۔ کچھ ایسا اتفاق تھا کہ اکثر میں جب دفتر جاتا، وہ نکل رہے ہوتے۔ سیڑھیوں کے قریب آمنا سامنا ہوتا۔ میں سلام کرتا… نوٹ کیا کہ وہ جواب ہی نہیں دیتے تو پھر میں نے بھی کبھی سلام نہیں کیا… وہ جوانی ایک مذہبی جماعت کی نذر کر چکے تھے، یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ سلام کے آداب سے ناواقف ہوں، بس کچھ زعمِ عظمت ہو گیا تھا، تین ماہ نگران وزیر جو رہ گئے تھے!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

سقوط ڈھاکہ کے باوجود آزاد کشمیر پرقبضے کا بھارتی خواب پورا نہ ہوا

$
0
0

قسط نمبر (4)

یہ حقیقت ہے کہ اکتوبر 1958 میں جب مارشل لا نافذ ہوا تو عوام، حکومت اور بیوروکریسی دونوں سے بیزار ہو چکے تھے، بیورو کریسی میں خصوصاً ملک غلام محمد اور سکندر مرزا نے قائد اعظم کی وفات اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاستدانوں کو استعمال کر کے بے اثر کردیا تھا۔

کچھ سیاسی رہنما مسلم لیگ سے مایوس ہو کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہو گئے تھے اور چندایک نے نئی سیاسی جماعتیں یا محاذ بنالئے تھے، پاکستان اُس وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر نہ صرف حدود اربعہ اور محل وقوع کی بنیاد پر ایک نئے ملک کی صورت سامنے آیا تھا کہ جو رقبے کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم تھااور ان کے درمیان سمندر نہیں بلکہ ایک ہزار میل کا خشکی کا حصہ اور فاصلہ دوسرے ملک ہی کا نہیں بلکہ دشمن ملک کا تھا، مشرقی پاکستان میں 93 فیصد آبادی بنگالی تھی۔

جس میں 25 فیصد تک ہندو بنگالی آبادی تھی اور یہاں متوسط طبقہ باشعور اور عوامی سطح پر سیاست پر حاوی تھا ، مغربی پاکستان میں جاگیرداروں بڑے زمیند اروں کی سیاست پر گرفت تھی، پھر پاکستان 1935 کے قانون ہند کے تحت غیر تقسیم شدہ ہندوستان میں ہونے والے دوسرے عام انتخابات دسمبر1945 جنوری 1946کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اِن انتخابات میں مرکزی اسمبلی کی تیس کی تیس کی مسلم نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کیں، آزادی کے بعد 1947سے 1958 تک انہی انتخابات اور 1956 تک انگریز عہد کے قانون ہند مجریہ 1935 کے مطابق حکومتیں تشکیل پاتی رہیں اور 1935 کے قانونِ ہند کے تحت ہمارے آئینی سربراہ برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ تھیں۔

اِن حکومتوں میں سوائے فیروز خان نون کے چار وزرا اعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور لیاقت علی خان اور آئی آئی چندریگر اور چوہدری محمد علی کا تعلق اُ ن علاقوں سے تھا جو تقسیم کے بعد ہندوستان کا حصہ تھے، یوں لیاقت علی خان سمیت وہ اراکان ِ پارلیمنٹ جن کا حلقہ انتخاب اب یہاں نہیں تھا بلکہ بھارت میں رہ گیا تھا اُن کے لیے اب یہ مشکل تھی کہ وہ کسی حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑیں، یوں مقررہ وقت پر عام انتخا بات نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی، اگر مقرر وقت پر یعنی 1951 میں انتخابات ہوتے تو پھر اِن کو پارلیمنٹ میں جگہ نہ ملتی۔

اب جہاںتک تعلق مشرقی پاکستان کی قیادت کا تھا تو اس میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا کا پس منظر جاگیردارانہ تھا جب کہ اے کے فضل حق اور حسین شہید سہروردی اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہی ہندوستان کے مغربی بنگال کی جانب سے کیمونسٹ، سوشلسٹ اور نیشنلسٹ افکار پر یقین رکھنے والوں نے اِ س ماحول میں دو قومی نظریے کو کمزور کرکے خصوصاً بنگالی قوم پرستی کو تقویت دی، حسین شہید سہروردی، اے کے فضل حق ’’ شیر بنگال‘‘ تو پہلے ہی بنگال کی تقسیم کے خلاف تھے، یہ لیڈر مسلم لیگ میں رہتے ہو ئے بھی اِن خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے۔

تقسیم سے قبل مسلم لیگ بنگال کے بہت سے اراکین اس پر اس لیے کھل کر بات چیت کرتے تھے کہ اس سے مجموعی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو فائدہ تھا اور سہہ وفاق گان یا اے بی سی فارمولے میں بھی تو آسام اور بنگال کو ایک وفاق، دوسرا مرکزی ہند وستانی صوبوں پر مشتمل علاقوں کا وفاق اور تیسرا پنجاب،سندھ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل وفاق تھا، اس تجویز کو پہلے قائد اعظم نے قبول کر نے کا اشارہ دیا تھا مگر کانگریس نے جب اس تجویز کو شدت سے رد کردیا تو پھر مسلم لیگ نے بھی اس سے انکار کردیا تھا لیکن مجموعی مسلم اکثریت کی بنیاد پر اگر بنگال، جہاں متوسط طبقہ باشعور اور تعلیم یافتہ تھا اور اس کا سائز بھی مغربی پاکستان کے متوسط طبقے سے کہیں زیادہ تھا۔

یہاں ایک بنگال بن سکتا تھا اور یہاں کروڑوں کی ہند مسلم آبادی بنگالی نیشنل ازم اور مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر متحدہ ہو کر رہ سکتی تھی، جس کا بہترین مظاہر ہ آج بھی بنگلہ دیش کے ساڑھے تیرا کروڑ مسلمان بنگالی اپنے بنگلہ دیشی تقر بیاً ڈھائی کروڑ ہندو بنگالیوں کے ساتھ کر رہے ہیں، مگر یہ کانگریس کے ساتھ ساتھ کیمونسٹ، شوسلسٹ اور نیشنلسٹ ہندو سیاستدانوں اور دانشوروں کو قبول نہ تھا، اس کی ایک بڑی اور بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں ہندو دھرم کا تعصب ہمیشہ افکارو نظریات پر حاوی رہا ہے، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں، اس کی بہترین مثال بنگال کی ہے۔

پھر مغربی پاکستان میں مفاد پرست مسلم لیگی قیادت اور کسی حد تک مشرقی پاکستا ن میں مسلم لیگ کی وہ قیادت جس کی مقبولیت کا گراف جو مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کے پر جوش عوامی رد عمل کی وجہ نیچے آرہا تھا اُس سے نے بھی بر وقت انتخابات سے گریز کیا۔ یوں جو مسلم لیگی قیادت موجود تھی وہ بھی مجموعی طور مفادات کی خاطر نہ صرف گروپوںمیں تقسیم ہو چکی تھی بلکہ انحطاط اور ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھی، تو ان حالات میں جہاں ایک نئے ملک میں منتخب قیادت کا بحران تھا وہیں ملک کی سالمیت کے حوالے سے بھی عوام وسوسوں اور اندیشوں کا شکار تھے۔

ایسے وقت میں ملک کا پہلا مارشل لاء جس کے نافذالعمل ہوتے ہی سخت قانون اور فوری فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ریلف ملا تو دو طرح کی سیاسی قیادت ایک وہ جو عوامی حمایت کھو چکی تھی اور بیوروکریسی کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کر رہی تھی، دوسری وہ جس میں سے بعض نے مسلم لیگ سے کنارہ کشی کر لی تھی اور چند ایک ایسے بھی تھے جو حکومت اور مسلم لیگ میں رہتے ہوئے بھی مشرقی پاکستان کے حوالے سے شدید موقف رکھتے، دونوں ہی مارشل لا کے نفاذ سے 1965 تک منظر نامے سے ہٹ گئے۔

بنگال کے وہ رہنما جن میں محمد علی بوگرا جنہو ں نے مشرقی آبادی کے اضافی تناسب کے باوجود برابری کا اور مغربی پاکستان کو ایک یونٹ بنانے کا اپنا مشہوربوگرا فارمولہ دیا تھا وہ 23 جنوری 1963کو انتقال کر گئے، اِن سے قبل اے کے فض حق 27 اپریل 1962 کو رخصت ہو گئے تھے، خواجہ ناظم الدین اکتوبر1964کو وفات پا گئے تھے اور 1969 میں صدر جنرل یحٰی خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے آٹھ ماہ بعد حسین شہید سہر وردی بھی 12 نومبر1969 کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے تھے، یعنی 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستا ن کی وہ لیڈر شپ جو آزادی کے عمل میں شامل تھی اور بعد میں اپنا الگ موقف بھی رکھتی تھی۔

باقی نہ رہی۔ سہر وردی اور فضل حق نہ صرف تقسیم سے قبل مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے بلکہ سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم اور فضل حق مشرقی پاکستان میں حکومت میں رہے، البتہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات کے منتخب جتو فرنٹ کے خلاف وفاق کی مداخلت کی وجہ سے وہ مغربی پا کستان کی سیاسی حاکمیت کے شدید خلاف تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ قیادت 1971 تک ہوتی تو بہت سے معاملا ت پر گفت و شنید کی بنیاد پر مسائل کا حل نکل آتا۔ صدر ایوب خان کے جانے کے بعد جنرل یحیٰ خان کو سیاسی میدان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے شاطر ترین سیاست دانوں کا سامنا تھا۔

امریکہ میں صدررچرڈ نکسن برسر اقتدار تھے اور اُن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھے جو آج بھی تقریباً 94 برس کی عمر میں امریکی تھینک ٹینک کے اہم رکن ہیں، روس میں برزنیف، چین کے موزے تنگ اور چواین لائی تھے اور ملکی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، مولانا بھاشانی، پروفیسر غفور،خان عبدالولی خان،مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ محمد نورانی، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری، نوابزادہ نصراللہ خان تھے۔ اگرچہ اُس وقت بھی بیوروکریسی میں اُنہیں اچھے اعلیٰ افسران میسر تھے مگر نہ معلوم کیوں بیشتر یا تو اُس وقت اہم عہدوں پر فائز نہیں کئے گئے یا اُن کے مشوروں پر عملد آمد نہیں ہوا۔

اسی طرح فوج میں لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے ساتھ ہوا، کہ اُن کی تجاویز اور مشوروں کو رد کر کے اُن کو مشرق پاکستان سے فارغ کردیاگیا، پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اتنے نازک حالات میں بھی صدر جنرل یحییٰ خان کو اقتدار کا لالچ تھا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ آئین کی عدم موجودگی میں سیاستدان پھر سیاسی مسائل اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے ایسے چکروں میں الجھ جائیں جیسے پہلے سیاستدانوںکو ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے الجھایا تھا۔ اب صورت یہ تھی کہ صدر ایوب خان نے 1956 کا پارلیمانی آ ئین منسوخ کر دیا تھا اور صدارتی نظام کے استحکام کے لیے 1962 کا صدارتی آئین نافذ کیا تھا جس کے بارے میں اُس وقت معروف شاعر حبیب جالب نے مشہور نظم ( ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا) کہی تھی اور مری کے مشاعرے میں سنانے پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ اب حالات مختلف تھے سیاسی لیڈروں نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی ہی اس لیے تھی کہ صدارتی نظام کو ختم کر کے پارلیمانی نظامِ نافذ کیا جائے۔

یوں جب صدر جنرل یحیٰ خان اقتدار میں آئے تو 1962 کا صدارتی آئین اپوزیشن کے لیڈروں کے پُر زور مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا تو آئینی خلا پیدا ہوا، اب امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے تو مارشل لا کے سخت قوانین سرسری سماعت کی عدالتوں کے ساتھ نافذ تھے مگر پارلیمانی جمہوریت کی بحالی اور اس کے لیے انتخابات کے لیے قوانین کی ضرورت تھی اور یوں ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈر صدر یحیٰ خان کی حکومت نے تشکیل دیا اور اسی میں مفاد پرستوں نے اقتدار کی مدت کو بڑھانے کا نسخہ تجویز کردیا تھا اور وہ یہ تھا کہ عام انتخابات کے حوالے سے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ 14 اکتوبر 1970 مقر ر کی گئی اور انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر 1970 طے ہوئی۔ اس الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مشہور ِزمانے چھ نکات کی بنیاد پر شرکت کی اور ان کے مقابل لیڈر مولانا بھاشانی ان کے حق میںاپنی پارٹی سمیت دستبردار ہوگئے۔

صدر یحییٰ خان نے ایل ایف او میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا وعدہ کیا جو واقعی پورا کیا، پاکستان کی تاریخ میں صرف 1970 کے انتخابات کو شفاف تسلیم کیا جاتا ہے مگر ایل ایف او میں یحیٰ خان کی جانب سے شرط تھی کہ انتخابات کے بعد جب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور اراکین اسمبلی حلف اٹھا لیں تو پھر90 دن کے اند ر اندر پارلیمانی نظام جمہوریت کو چلانے کے لیے نیا آئین بنایا جائے، واضح رہے کہ صدر یحیٰ خان کو یہ بتایا گیا تھا کہ اِن انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتیں قومی اسمبلی کی300 جنرل نشستوں میں سے زیادہ سے زیادہ37 نشستیں حاصل کر سکیں گی۔

یہ وہ اندازے تھے جن کی بنیاد پر یحیٰ خان کو مفاد پرستوں نے غالباً عالمی سازش کے تحت ٹریپ کیا۔ اُس وقت مغربی پاکستان سے 138 نشستوں پر 1070 امیدواروں نے کاغذ ات نامزدگی جمع کروائے۔ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں پر 876 کاغذات نامزدگی داخل ہوئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان سے جماعت اسلامی نے 151 پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے120 امیدوار کھڑے کئے جن میں سے103 صرف پنجا ب میں تھے۔ پاکستان مسلم لیگ کنونشنل نے 124 امیدوار، مسلم لیگ کونسل نے119 امید وار مسلم لیگ قیوم نے133 امیدوار کھڑے کئے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی جانب سے کس قدر زیادہ توقعات تھیں۔ مگر انتخابات کے نتائج بالکل ہی مختلف اور خلاف توقع تھے، ان انتخابات میں پاکستان میں کل ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی۔ مشرقی پاکستان کے 31211220 ووٹ تھے اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی کل تعداد 25730280 تھی۔ ووٹ ٹرن آوٹ 63% تھا۔

انتخابات کے نتائج یوں سامنے آئے کہ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 160 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کی کل 138 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی 81 نشستیں حاصل کیں، جب کہ جماعت اسلامی4 ،کونسل مسلم لیگ 2 ، مسلم لیگ قیوم 9 ، جمعیت علما اسلام ، جمعیت علما پاکستان اور کنونشنل مسلم لیگ سات، سات نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی 6 اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی ایک نشست حاصل کر سکی، جب کہ 16 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، اب یہ واضح تھا کہ بائیں بازو کی جماعتوں نے میدان مار لیا تھا اور شائد 37 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں ہی دائیں بازو کی جماعتوں کو مل پا ئیں تھیں، اور مسئلہ پھر اقتدار کی منتقلی کا ہو گیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بھٹوکا موقف یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اکثریت حاصل ہے اور جہاں تک تعلق ملک کے آئین کا ہے تو یہ کسی پارٹی کا انتخابی منشور نہیں ہو سکتا اس لیے بھٹو نے مجیب سے مذاکرات میں واضح کیا کہ وہ مشرقی پاکستان کی، الگ کرنسی ، الگ فوج یا نیم فوجی فورسزاور امور خارجہ جیسے تین نکات سے دستبرادر ہو جائیں مگر اُن کی پشت پر بھارت اور سوویت یونین تھے اور غالباً امریکہ اور برطانیہ کو بھی اپنے مفادات کے اعتبار سے اس کا کوئی نقصان نظر نہیںآتا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہو جائے۔

اب تناؤ میں اضافہ ہو رہا تھا اور پھر مجیب اور بھٹو میں ڈیڈ لاک ہو گیا۔ بھٹو نے یہ بھی کہا کہ اگر ایل ایف او سے تین ماہ کی مدت میں آئین بنانے کی شرط کو ختم کر دیا جائے تو اسمبلی کا اجلاس بلو ایا جا سکتا ہے اس طرح شائد بھٹو یہ چاہتے تھے کہ وقت مل جائے تو شائد کوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا، یہ بھی ممکن تھا کہ آئین کے بنانے کا عمل ہی طول پکڑ جاتا اور آئندہ نئے الیکشن آجاتے مگر بھارت کی جانب سے تربیت یافتہ مکتی باہنی بنگالی نوجوانون پر مشتمل فوج کے ساتھ اپنے بنگالی بولنے والے فوجیوں کو داخل کیا گیا اور یوں امن و امان کے مسائل انتہائی درجے پر پہنچ گئے۔

قتل وغارت گری بہت بڑھ گئی، واضح رہے کہ سوویت یونین اور چین کے تعلقات بھی ماضی قریب ہی میں زیادہ خراب ہوئے تھے اور سرحدوںپر دونوں ملکوں کی جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ جولائی 1971 میں صدر یحییٰ خان نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا چین کا خفیہ دورہ پی آئی اے کے طیارے سے کروایا جو بد قسمتی سے خفیہ نہ رہ سکا، یوں سابق سوویت یونین کے برزنیف نے یہ جانا کہ امریکہ اور چین اتحاد سوویت یونین کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے اور پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے آپس میں دفاعی معاہدہ کر لیا جس میں بھارت اور روس میں طے پایا کہ دونوں ملکوں میں سے اگر کسی ایک پر کسی تیسرے ملک کی جانب سے حملہ کیا جائے تو ایک ہی ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

بھارت نے یہ معاہدہ کر کے نہرو کی غیر جانبدارانہ پالیسی کو ختم کر دیا اور پھر جب شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی صدر جنرل یحییٰ خان نے فوجی ایکشن لیا تو منصوبے کے مطابق تقریباً ایک کر وڑ بنگالی بھارتی مشرقی بنگال میں پناہ لینے کے لیے داخل ہو گئے۔ یہ صورت ابھی پیدا ہوئی تھی اور پاکستان نے کوشش کی کہ جنگ کو اِن حالات میں روکا جائے اور امریکہ کے تعلقات کو استعمال کیا، جس پر بعد میں صدر نکسن نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے بھارت کی جانب سے حملے سے چار روز قبل بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو فون کیا تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہ کرے اور اندار گاندھی نے اُن کو یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کر ے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

مشرقی پاکستان کے اندر لاکھوں کی تعداد میں مکتی باہنی کے دہشت گرد تھے جو پاکستانی افواج پر گوریلا طر ز کے حملے کر رہے تھے تو ساتھ ہی 3 دسمبر1971 کو بھارت نے پاکستانی افواج سے چار گنا زیادہ تعداد اور اسلحہ اور ہتھیاروں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کی بھارت سے ملنے والی تمام سرحدوں اور آزاد کشمیر پر اُس وقت کی جنگ بندی لائن اور آج کی لائن آف کنٹرول سے بھی بھرپور حملہ کر دیا۔ اُس وقت چین میں ماوزے تنگ کیمونسٹ پارٹی کے چیئرمین اور چواین لائی وزیر اعظم تھے، پاکستان کے دوسرے ہمسایہ ملک ایران پر شہنشاہ رضاشاہ پہلوی کی حکومت تھی اور افغانستان پر شاہ ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔

چین سفارتی محاذ پر بھرپور انداز میں پاکستان کے ساتھ تھا، ایران کی ہمدردیاں اور تعاون بھی پاکستان کو میسر تھا اور افغانستان اُس وقت بھی ڈیورنڈ لائن کی بنیاد پر پاکستان سے اختلاف رکھتا تھا اور ریڈیو کابل پر پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا مگر عملی طور پر افغانستان نے اسلام دوستی کا ثبوت دیا اور ظاہر شاہ نے اس تیسری پاک بھارت جنگ میں بھی اسلامی ملک ہو نے کے ناطے بھارت کی کو ئی مدد نہیں کی بلکہ عوامی سطح پر بھارت کے خلاف پاکستان کی بھرپور حمایت کی گئی، مگر سیٹو، سینٹو جیسے دفاعی معاہدوںمیں مغربی دنیا کا بھر پور ساتھ دینے والے پاکستان کی حمایت اور مدد کے لیے امریکہ، بر طانیہ سمیت کوئی مغربی ملک نہیں آیا۔

اسی طرح پاکستان بھارت سمیت دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کی طرح دولت ِ مشترکہ کا ایک اہم رکن ملک تھا اور صدر ایوب خان کے دور حکومت میں ملکہ برطانیہ نے مغربی اور مشرقی پاکستان کا ایک طویل دورہ بھی کیا تھا مگر بھارت کی جانب سے حملے کے وقت برطانیہ نے بھی دولت مشترکہ کے فورم سے پاکستان کے لیے کچھ نہ کیا۔ اس جنگ میں پاکستان فضائیہ نے بھارت کے گیارہ اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ جنگ دسمبر1971 میںاس جنگ میں ایسٹرن کمانڈ پر بھارت کی جانب سے منصوبے کے مطابق زیادہ زور تھا اور ساتھ ہی بھارت کی کوشش تھی کہ اس جنگ میں جلد از جلد وہ کشمیر میں سیز فائر لائن پر پیش قدمی کر کے پورے آزادکشمیر پر بھی قبضہ کر لے مگر باوجود مشرقی محاذ پر انتہائی مخدوش حالات کے یہاں پر پاکستان کا دفاعی حصار مضبوط رہا، اس جنگ کے وقت بھارت میں صدروی وی گری، وزیر اعظم اندار گاندھی اور وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ تھے۔

چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل سام مانیک شا، جی او سی ایسٹرن کمانڈ لیفٹینٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ تھے۔ بھارتی نیوی کے سربراہ وائس ایڈ مرل ویسٹرن نیوی کمانڈ ایس این کوہلی اور فضائیہ کے چیف پرتاپ سی لا ل تھے، پاکستان میں صدر جنرل یحییٰ خان جو فوج کے کمانڈر انچیف بھی تھے، وزیر اعظم نور الامین تھے، واضح کہ مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 162 نشستوں میں سے 160نشستیں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے حاصل کی تھیں اور جو دوشخصیات عوامی لیگ کے مقابلے میں کامیاب ہوئی تھیں ان میں ایک راجہ تری دیو رائے اور دوسرے نورالامین تھے۔

بھٹو نے بطور وزیر خارجہ معاہد ہ تاشقند کے موقع پر صدر ایوب خان کے موقف سے اختلاف کیا تھا اور پھر اسی بنیاد پر اپنی شہرت اور مقبولیت کی وجہ سے حکومت کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی اس لیے جب جنرل یحیٰ خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے وزارتِ خارجہ کا قلمندان اپنے پاس رکھا لیکن 3 دسمبر سے16 دسمبر تیرا دن تک جاری رہنے والی اِس جنگ کے آخری دنوں میں اُنہوں نے بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھیجا۔

پاکستان کی افواج میں اُس وقت مشرقی پاکستان کے محاذ پر کمانڈنٹ ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی تھے، جبکہ پاکستان کی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالحمید خان ، لیفٹینٹ جنرلوں میں نیازی کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن، لیفٹینٹ جنرل ٹکاخان، لفٹیننٹ جنرل شیر خان، میجر جنرل افتخار جنجوعہ اور میجر جنرل خادم حسین تھے۔ پاکستان نیوی کے نیول چیف مظفر حسین اور فضائیہ کے سربراہ ایر مارشل عبد الرحیم۔ جنگ 1971 میں بھارتی فوج کی تعداد 500000 تھی جن کی مدد مکتی باہنی کے دولاکھ سے زیادہ گوریلے کر رہے تھے۔

جن کو 1966 کے بعد سے جب سے اندرا گاندھی وزیر اعظم بنی تھیں، انڈیا میں تربیت دی جا رہی تھی، پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد 365000 تھی، اس جنگ میں باوجود انتہائی خراب حالات کے پاکستان کی فضائیہ نے پہلے بڑے فضائی حملے میں بھارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور مجموعی طور پر جنگ میں 42 کے مقابلے میں 130 لڑاکا طیارے تباہ کئے۔ بھارتی طیارہ بردار بحری جہاز وکرنٹ کو نقصان پہنچایا، جنگ میں 3800 بھارتی فوجی مارے گئے جب کہ پاکستانی فوج کے 9000 سپاہی اور افسران شہید ہوئے۔ 16 دسمبر 1971 ایسٹرن کمانڈ کو شکست ہو گئی۔

تقریبا 93000 فوجیوںکو جنگی قیدی بنایا گیا جن میںساڑ ھے بارہ ہزار سویلین بھی شامل تھے، اگر چہ اسی روز شام کو صدر پاکستا ن جنرل یحییٰ خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب میں یہ کہا ،،کہ کسی ایک محاذ پر جنگ ہارنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جنگ ہار گئے ہیں ہم جنگ لڑینگے،، مگر اب صورتحال بدل گئی تھی، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل جس میں ہنگامی بنیادوں پر ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر بھیجا گیا تھا، وہاں بھٹو نے شدید احتجاج کیا، کیوں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کسی قرارداد کی منظوری کے لیے سوویت یونین اور چند ممالک کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کر کے بھارتی فوج کو وقت دیا جا رہا تھا کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر لے ،کیونکہ اگر سکیورٹی کونسل کی جانب سے 1965 کی جنگ رکوانے کی قرارداد کی طرح 16 دسمبر1971 سے پہلے جنگ بندی کی کو ئی قرارداد منظور ہو جاتی تو بھارت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔

بھارت کے مطابق اُس نے مشرقی پاکستان سے آنے والے ایک کروڑ افراد کو پناہ دے رکھی تھی، اگر جنگ بندی ہو جاتی تو پھر یہ مشکل تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے بھی اِن کا بوجھ اٹھا سکتا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے تو اِن کی واپسی پر کو ئی پابندی نہیں تھی بلکہ اِن کے گلے شکوے دور کئے جاتے، اور اگر بہت طوفان کھڑا ہوتا تو اقوام متحدہ کی جانب سے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت بھی دنیا کی بڑی قوتیں یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دینا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

بھٹو احتجاج کرتے ہو ئے اپنی تحریر کردہ تقر یر کو پھاڑ کر یہ کہتے ہو ئے ہال سے نکل آئے کہ یہاں لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ میر ے ہم وطنوں کو مارا جارہا ہے میں یہا ں اپنا وقت کیوں ضائع کروں میں واپس وطن جاؤں گا ہم لڑلیں گے ہم پاکستان کو تعمیر کریں گے، اُس وقت شیخ مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان میں قید تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو واپس پاکستان آئے تو جنگ بندی کے صرف چار دن بعد صدر جنرل یحیٰ خان مستعفیٰ ہو گئے اور چونکہ اُس وقت ملک میں کو ئی آئین نہیں تھا،اس لیے ذوالفقار علی بھٹو کو سول چیف مارشل لاایڈ منسٹریٹر اور صدر مملکت بنا کر اقتدار اُن کے سپر دکردیا گیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ جب بھارت بہت بہتر پوزیشن میں تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق اُس کا یہ منصو بہ بھی تھا۔ راجستھان، تھر پارکر سرحد سے بھارتی فوجیں نازی افواج کے فرانس پر حملے کی طرح نہایت تیز رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہو ئے پہلے سندھ بلوچستان کو باقی ملک سے کاٹ دیں اور پھر اگر مناسب صورتحال ہو تو بلوچستان سے خیبر پختونخوا کی جانب پیش قدمی کر یں لیکن ایک جانب تو اقوام متحدہ میں بھارت نے جس مسئلے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف بڑی فوجی قوت سے بھرپور حملہ کیا تھا وہ جواز اب ختم ہو گیا تھا۔

اب بد قسمتی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا اور بھارت کے پاس جنگ جاری رکھنے کا کو ئی جواز نہیں تھا، تو ساتھ ہی اب امریکہ اور چین نے بھی واضح کر دیا تھا کہ بھارت کو اب اپنی جارحیت فوراً روکنی ہو گی، اگر چہ اندرا گاندھی نے جنگ سے چند دن پہلے امریکی صدر نکسن کے انتباہ کو نہ صرف نظر انداز کر دیا تھا بلکہ صدر نکسن سے جھوٹ بول کر اُن کو یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کر ے گا۔ بھارتی فوج تعداد میں پاکستان کی افواج سے تقریباً ساڑھے تین گنا زیادہ تھی بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی تقریباً پانچ ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کر لیا تھا پھر اندرا گاندھی نے جنگ کیو ں روک دی؟

اس کی بنیاد ی وجہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر بھارتی جنرلوں خصوصاً چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل مانیک شا اور جی او سی ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ کی جانب سے دیئے گئے مشورے تھے کہ ایک تو مشرقی پاکستان میں زمینی حقائق پاکستان کے خلاف تھے اس لیے وہاں فوجی شکست ہو گئی، مغربی پاکستان میں بھارتی مزید پیش قدمی محال ہو گی اور پھر جنگی اصولوں کے مطابق اگر حالات اور مقامی آبادی فاتح افواج کے حق میں نہ ہوں تو کسی ملک کے رقبے کو فتح کر نے کے بعد اُس پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے دس گنا زیادہ فوجی قوت اور اخراجات کے باوجود قبضہ آخر چھوڑنا پڑتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ جنگ 16 دسمبر1971 میں بند ہو گئی۔ 1947اور1971کی تاریخ کی بدترین خونریزی ہوئی، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔

The post سقوط ڈھاکہ کے باوجود آزاد کشمیر پرقبضے کا بھارتی خواب پورا نہ ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


کٹی ہے عمر اِسی امتحان میں، مَیں ہوں
مکان مجھ میں، مکیں یا مکان میں، مَیں ہوں
مجھے ہی مجھ میں کبھی کوئی کھینچ مارے گا
کسی کے جسم کسی کی میان میں، مَیں ہوں
طلب نہیں ہے کسی کی نہ آرزو اب کے
خود اپنی گھات میں بیٹھا مچان میں مَیں ہوں
زمیں کو جتنا ملا ہوں یہی بہت ہوں مگر
یقیں ہے اب بھی بہت آسمان میں، مَیں ہوں
بچھڑ کے مجھ سے وہ خود سے بھی مل نہیں سکتا
کھڑا ہے دونوں طرف درمیان میں مَیں ہوں
کہیں ہوں رانجھا کہیں قیس تو کہیں عزمی
محبتوں کی ہر اک داستان میں، مَیں ہوں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


یہ ہم جو سب میں تری خُو تلاش کرتے ہیں
خود اپنے کرب کے پہلو تلاش کرتے ہیں
وہ قحطِ اشک ہے اس بار دشتِ ہجراں میں
سب اپنی آنکھ میں آنسو تلاش کرتے ہیں
دلِ تباہ! چلو مل کے اس کڑی شب میں
خیالِ یار کے جگنو تلاش کرتے ہیں
ہوائے شہر سے پوچھو ہم اُس کے دامن میں
ترے لباس کی خوشبو تلاش کرتے ہیں
تری تلاش میں نکلے تو ہم نے جانا کہ
خود اپنی ذات کو ہر سُو تلاش کرتے ہیں
وہ جن کو باندھ کے رقصاں ہو میری تنہائی
اے بزمِ یار، وہ گھنگرو تلاش کرتے ہیں
دعائیں خیمۂ شب میں بھٹکتی ہیں ایماں
فرشتے صدق کا جادو تلاش کرتے ہیں
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


اب رضامند ہے کرنے پہ گزارا پتھر
میں نے اس پیار سے شیشے میں اتارا پتھر
ہو بھی سکتا ہے جنوں رنگ دکھائے اپنا
دے بھی سکتا ہے پھسلتے کو سہارا پتھر
دشت میں کھلتے ہوئے در کو ہمی نے کھولا
شدتِ کرب سے جب کوئی پکارا پتھر
ایک آواز کو سننے کے لیے ہوگئے ہیں
آسماں، چاند، زمین اور ستارا پتھر
وجد میں آتا ہوا، رقص کناں ہوتا ہوا
لہر میں آیا تو پتھر بھی پکارا پتھر
اس نے پہنا ہے بڑے چاؤ سے اک سرخ عقیق
اس طرح ہوتا ہے پتھر کو گوارا پتھر
(عاجزکمال۔ جوہر آباد، خوشاب)

۔۔۔
غزل


برسوں خواب پڑے رہتے تھے آنکھوں کی الماری میں
میں ہی سستی کر جاتی تھے چننے کی دشواری میں
اماں بابا کے سائے میں جو گھر کی شہزادی تھی
سپنے بیچنے آئی ہے وہ مجبوری ناداری میں
ماضی حال و مستقبل کے دھاگے الجھے رہتے ہیں
گرہیں کھولتی رہتی ہوں میں تنہا شب بیداری میں
گھر کی خستہ دیواروں کو آپ گرانا پڑتا ہے
ہوتا ہے تعمیر کا پہلو چیزوں کی مسماری میں
میں بھی لڑتے لڑتے اس کے سینے سے لگ جاتی ہوں
شکوے دل سے بہہ جاتے ہیں سارے گریہ زاری میں
وہ بھی تنہا رات گئے تک اب سڑکوں پر پھرتا ہے
میرے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں، روٹی کی تیاری میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔۔
غزل


یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے
طائرِ ہجر مری راہ نہ تکنے لگ جائے
کاش میں دل ترے سینے میں اتاروں اپنا
اور مرا غم تری رگ رگ میں دھڑکنے لگ جائے
عین ممکن ہے کسی روز میں نکلوں گھر کو
اور مسکن کی طلب راہ میں تھکنے لگ جائے
لمس کا جام مرے ہاتھ سے چھوٹے یک دَم
آنکھ شرمندۂ غم ہو کے چھلکنے لگ جائے
روح تہ خانۂ حرمت میں چھپا لے خود کو
جسم بچے کی طرح رونے بلکنے لگ جائے
پاس رہ کر بھی نہ منہدی کی مہک ماند پڑے
دور رہ کر بھی وہ کنگن نہ کھنکنے لگ جائے
کیسے اس شخص کو اپنے سے الگ کر لوں میں
کیسے اک صبح اندھیرے کو لپکنے لگ جائے
لاکھ موسم کا نیا رخ مجھے چھیڑے باقی
لاکھ بارش میں کوئی آگ بھڑکنے لگ جائے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


بھیگا بھیگا ساون رُت کا چاروں جانب پہرا تھا
باہر کچھ برسات نہیں تھی، آنکھ میں پانی ٹھہرا تھا
دل پہ وار کیا تھا اُس نے تنہائی کے خنجر سے
گھپا ہوا یہ دل میں خنجر روح کی حد تک گہرا تھا
پیار میں اُس کے پہلے پہلے ہر سو رنگ بہاراں تھا
رت بدلی تو خزاں کا منظرسامنے میرے صحرا تھا
راہِ وفا میں کیا کیا یارو لوگوں نے الزام دھرے
سُن کر بھی سب جگ کی باتیں بنا ہوا میں بہرا تھا
کیسے بھولیں اُس پیکر کو ہم نے دل سے چاہا تھا
جس کا چہرہ چاند سے روشن، زلف کا رنگ سنہرا تھا
(عامر مُعان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
سدا ہم کو محبت میں سہارے مار دیتے ہیں
سمندر کچھ نہیں کہتا کنارے مار دیتے ہیں
زمانے کا ازل سے ہے یہی دستور اے ہمدم
سزا یوں دیتے ہیں ہم کو دلاسے مار دیتے ہیں
سنو ہم جو شکستہ پا ہیں تو اک بھید ہے اس میں
ہمیں اکثر ہمارے اپنے پیارے مار دیتے ہیں
ہماری جیت کیا ہوگی ترے یوں سامنے آ کر
تری آنکھوں کے یہ ہم کو اشارے مار دیتے ہیں
ہزاروں صدمے ہم پر بے اثر رہتے ہیں غیروں کے
کبھی جو بہتے ہیں آنسو تمہارے، مار دیتے ہیں
سمے بھی کاٹ کھاتے ہیں وہ خواہش بین کرتی ہے
جو مہوش تم نہیں ہو تو نظارے مار دیتے ہیں
(اُمِ فاطمہ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


جو ایک لمحے کو زندگی سے چھڑایا ہاتھ
تھی ایسی جلدی اجل سے جا کے ملایا ہاتھ
تمام قاتل ہیں میرے اپنے ہی جانتا ہوں
نہیں ہے سازش میں کوئی بھی تو پرایا ہاتھ
میں ڈوب جاتا مگر کوئی تھا بچانے والا
میں دیکھتا ہوں کہیں اچانک سے آیا ہاتھ
تھی شرط اس کی کوئی چرا کر دکھائے دل کو
وہ میں تھا جس نے سزا میں ایسی، کٹایا ہاتھ
لٹا رہا تھا مجھے وہ اک دن تمام تحفے
پرائی منہدی کے شوق سے کپکپایا ہاتھ
عجیب ہے تیری دوستی بھی عجیب تُو بھی
جھٹک دیا ہے تجھے کہ جس نے بڑھایا ہاتھ
(زوہیب نازک۔ کراچی)

۔۔۔
غزل

خراب حالوں میں آج خانہ خراب خوش ہیں
کہ تیرے عشاق سارے زیرِ عتاب خوش ہیں
یہ لمحہ لمحہ تری جدائی میں پک رہے ہیں
تری محبت میں لوگ بن کر کباب خوش ہیں
یہ کم نہیں ہے کہ میں خوشی کا سبب بنا ہوں
کہ بے بسی پر مری! عدو، بے حساب خوش ہیں
میں بیچ رستے سے اِس لیے اب پلٹ رہا ہوں
نہ ساتھ ہونے سے میرے، سب ہم رکاب خوش ہیں
رقیب خوش ہیں تو اِس پہ حیرانگی نہیں ہے
جو دیکھ لیتے ہیں خواب اس کے جناب خوش ہیں
یہ کون سچ کو چھپا رہا تھا سبھی سے فیصل
وہ کون کہتا رہا چمن میں گلاب خوش ہیں
(فیصل کاشمیری، گوجرانوالہ۔ وزیرآباد)

۔۔۔
غزل


اس سینے میں ترتیب سے غم رکھا گیا ہے
رونے میں تبھی ایک ردھم رکھا گیا ہے
ورنہ تو یہ خوابوں کے شجر سوکھ ہی جاتے
صد شکر مری آنکھ میں نم رکھا گیا ہے
ہم لوگ کہیں راہ کو منزل نہ سمجھ لیں
رستے میں اسی واسطے خم رکھا گیا ہے
کل شعر مرے سن کے وہ رویا تو میں سمجھا
کتنا مرے الفاظ میں دم رکھا گیا ہے
پہلے تو زباں دے کے مجھے پرکھا گیا تھا
اور پھر مرے ہاتھوں میں قلم رکھا گیا ہے
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ ۔پنجاب)

۔۔۔
غزل


ہر خواب ترا خواب ہے، ہر رات تری ہے
محفل ہو کہ تنہائی ہو، ہر بات رہے
پہچان نہیں پاتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں
یہ میں ہوں کہ اب مجھ میں نہاں ذات تری ہے
جوتے کی تجھے نوک پہ رکھا ہے ہمیشہ
دنیائے خرابات یہ اوقات تری ہے
گر نفس کے ہاتھوں ہُوا مجبور شفی تُو
یہ ہار کسی کی نہیں، یہ مات تری ہے
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


اگر وہ ذات سے سارا حسد نکالیں گے
پھر ان کے فیصلے میری مدد نکالیں گے
وہ اپنی حد میں اگر ہم سے ہمکلام ہوئے
ہم اُس کے بعد کہیں اپنی حد نکالیں گے
ہماری خاک کی قیمت نہیں ہے دنیا میں
ہماری خاک سے پھر خال و خد نکالیں گے
پتہ چلے گا بہتر ہمارے فرقے ہیں
ہم اہلِ دل جو حسد کے عدد نکالیں گے
ہم عہدِ نو کے سخنور کہ ہیں چھپے رستم
چھوئیں گے کہکشاں جس وقت قد نکالیں گے
ابھی تو اور تماشا بھی ہونا باقی ہے
ابھی تو خود سے وہ تازہ سند نکالیں گے
( اسد علی باقی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


کب تلک خود کو یوں گنواؤں میں
میں نے چاہا تھا چاہا جاؤں میں
اس کی آنکھوں پہ اک غزل کہہ کے
پاس بیٹھے تو گنگناؤں میں
مونگ دلتا ہے میرے سینے پر
اس کا مطلب بھی اب بتاؤں میں؟
مجھ کو پاگل بنا کے کہتا ہے
آپ آئے ہیں، کیا بناؤں میں
اس کی آنکھوں میں دیکھنا ہے مجھے
ایسی آنکھیں کہاں سے لاؤں میں
(منیر انجم منیر۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


پاس کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو
اب سمجھ آیا آپ آئے تھے
بس مری کشتیاں ڈبونے کو
مجھ سے ملنا گلے تو ہاتھوں میں
چاقو رکھنا مجھے چبھونے کو
آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے دل
توڑ ہی دیجیے کھلونے کو
خون نہ چھوٹے ان کے دامن سے
خون ہی دیجیے گا دھونے کو
(ابولویزا علی۔ کراچی)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر65

میں اور بابا کشادہ سڑک سے شاہ راہ پر پہنچے۔ ہمیں پیدل چلتے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی ، خاموشی تھی اور طویل صاف ستھری شاہ راہ جسے دونوں طرف سے گھنے سایہ دار درختوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ اک دکا گاڑیاں ہمارے پاس سے گرز رہی تھیں۔

فقیر اگلے پڑاؤ کا اور حالات کا سوچ رہا تھا کہ بابا نے کہا: کیا سوچ رہا ہے میرا بچہ ؟ بہت کچھ بابا، انہوں نے میری جانب دیکھا اور پھر بولے: ہاں انسانی دماغ بھی قدرت کا کیا شاہ کار ہے بیٹا، یہ اپنا کام جاری رکھتا ہے، کبھی تھکتا بھی نہیں ہے، انسان کی عمر بڑھتی رہتی ہے لیکن اس کی توقعات بہ جائے کم ہونے کے اور زیادہ منہ زور اور بڑھتی رہتی ہیں، نہ جانے کتنے ہی منصوبے سوچتا رہتا ہے، یہ کروں گا، وہ کروں گا، پہلی تو یہ کہ اس کی عمر طویل ہوتی چلی جائے اور دوسری اس کے مال و متاع میں اضافہ ہوتا چلا جائے، بس ایسا ہی ہے انسان بیٹا! وہ خود کو اگر اپنے رب کو سونپ دے تو سارے مسائل ہی حل ہوجائیں، لیکن نادان ہے ناں اور پھر یہ بھی کہ خود ہی کو عقل مند اور دانا بھی سمجھتا ہے۔

جی بابا! یہی حقیقت ہے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی رفتار بڑھا دی یعنی کہ ہم پیدل ہی راول پنڈی کے لیے رواں تھے، چل سو چل اور فقیر اپنے آس پاس قدرت کی صناعی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔ یہ دنیا بُتان وہم و گماں ہی تو ہے، اور کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے؟ خود فریبی سی خود فریبی ہے، پاس کے ڈھول بھی سہانے لگتے ہیں۔ ہاں جی! ایسا ہی ہے اور جب کُھلتا ہے ڈھول کا پول تب سمے بیت جاتا ہے۔ اور کیا سمے بیت جاتا ہے ۔۔۔ ؟ معلوم نہیں۔ جو واقف اسرار ہیں وہی جانتے ہیں اس بُتانِ وہم و گماں کی اصل حقیقت اور مجھ ایسے غبی، نااہل اور نادانوں کو بتاتے بھی رہتے ہیں کہ یہ کوئی نخلستان نہیں، سراب ہے، دھوکا ہے بس۔ اس کی چالوں کو اور وہی جانتے ہیں اس کی رمز بھی۔ فقیر کیا جانے اتنی استطاعت ہی کہاں ہے، فقیر تو بس ایک ڈھول کی طرح ہے جو اندر سے بالکل کھوکھلا ہوتا ہے لیکن اگر اس پر ہلکی سی بھی ضرب لگائی جائے تو چیخ اٹھتا اور اپنا ظرف بیان کردیتا ہے۔ اور سجن بیلیو!

میں واقفِ اسرار تو پہلے بھی نہیں تھا

اداسی کی گہرائی ناپے نہیں نپتی، اور گہری اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ اور سجن پیارا ملے تو بات بنے، اور جن خوش بختوں کو ملے ہیں وہ نہیں دھنستے اس دلدل میں۔ ہاں جی! دلدل میں پاؤں پڑتے ہی واپس کھینچ لیے جاتے ہیں۔ ساری حمد ہے بس رب کے لیے۔

ہم پیر ودھائی سے ٹیکسلا جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے اور پھر ہم ٹیکسلا میں تھے۔ اپنی کٹیا پہنچ کر بابا نے اس اجنبی کو رخصت کیا، حنیف بھائی اپنی اسی حالت میں تھے، فقیر سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اور کچھ سمجھ بھی نہیں آتا تھا کہ فقیر ان کے لیے آخر کیا کرے، بے بسی تھی اور کیا تھا تو فقیر نے بابا سے کہا تھا: دعا کیجیے ناں اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے، چین نصیب کر دے۔ کالی رات ٹلے تو جان فزا سحر آئے، اور ایسی سحر جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔ بچھڑے ہوؤں کو ملا دے، ملے ہوؤں کو پیوستہ رکھے۔ کوئی ماں اپنے لعل کا، کوئی بہن اپنے بھائی کا، کوئی دلہن اپنے سہاگ کا، کوئی باپ اپنے بازو کا، کوئی محبوبہ اپنے محبوب کا لاشہ نہ دیکھے۔ شانتی ہو، بہار ہو، اندیشۂ خزاں ہی نہ ہو۔ کوئی فاقہ نہ کرے، سب کے چولہے میں آگ جلتی رہے، اُن پر چڑھی ہانڈی کی خوش بُو سے صحن مہکتا رہے۔

شِکر دپہرے پپلی دے تھلے کوئی اپنی چوڑیاں کھنکھناتے ہوئے اپنے مطلوب کو بلائے اور وہ دوڑتا چلا آئے، کوئی زور زبردستی نہ ہو۔ جب رب نہیں کرتا زور زبردستی تو پھر اور کوئی کیوں کرے۔ گیت گائیں سَکھیاں اور چھیڑیں اک دُوجے کو۔ مفلس کی بیٹی کی اکھیاں بھی چمکیں اور وہ بھی اپنے خوابوں کا شاہ زادہ پائے۔ تشنگانِ علم و فن سیراب ہوں۔ کارخانوں کی مشینوں کے پہیے گھومتے رہیں۔ دھرتی ماں اپنے خزانے اگلے، بالیاں دانوں سے بھری رہیں۔ شجر پھلوں سے لدے رہیں۔ خوش بُو مہکے، دل چہکے، دریا رواں رہیں، جھیلیں بھری رہیں۔ سمندر دوست رہے، مچھیروں کی کشتیاں بھر کر آئیں۔ مزدور نہال ہوں، سرمایہ دار سخی رہیں۔

آشتی ہو، شانتی رہے اور امن کی فاختہ مسکرائے، گیت گائے۔ عالم و دانا بیدار رہیں اور راہ نما روشن ضمیر اور خدام بن جائیں۔ سچ کا بول بالا ہو اور جھوٹ کا ناس ہوجائے۔ آگ و خون کی بارش تھم جائے اور برکھا رُت کا مدھر نغمہ جاری رہے۔ بازار خریداروں سے بھرے رہیں۔ پرندوں کی طرح کوچ کوئی نہ کرے۔ کوئی خود کو نہ بیچے، سب اپنے خوابوں کو تعبیر ہوتا دیکھیں۔ بیمار شفا پائیں، طبیب، واقعی مسیحا بن جائیں، انھیں دستِ شفا کرامت ہو اور بیمار کو شِفا ملے۔ جو برادرانِ یوسف ہیں انھیں واقعی بھائی بنا دے۔ دوست نصیب کرے ایسا کہ دل کی کہہ سکیں۔ پڑوسی ایسا کہ نہال رہیں۔ سب کی خیر ہو، سب کا بھلا، سب رہیں نہال اور خوش حال۔ آباد رہیں اور شاد رہیں۔ دعا کیجیے! اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے۔

وہ میرے دل کی جانتے تھے اور یہ بھی کہ حنیف بھائی سے میرا کیسا رشتہ ہے تو فقیر کو بہت تحمل سے سُنا، وہ تو سب کی سنتے ہے۔ اور پھر میں تو اُن کا اپنا ہوں میری کیوں نہیں سنیں گے، ٹھیک ہے بہت کمّی کمین سہی، ہوں تو اُن کی نگاہ میں، نگاہِ کرم میں۔ میں نے کب کوئی کام ڈھنگ کا کیا ہے، جو اب کروں گا۔ تو میں یہ سب کچھ اپنی التجا، ان کے حضور رکھ کر سر جھکائے بیٹھ گیا۔ خاصی دیر ہوگئی۔ اور انتظار کی اک گھڑی قتل ہونے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ناں۔۔۔۔ اور بس ایسا ہی کچھ ہے۔

بابا مسکرائے، دست شفقت فقیر کے سر پر رکھا اور پھر فضا ساز بنی اور ان کی مدھر شیریں اور بایقیں آواز بلند ہوئی: ’’ہاں تو تمہاری تقریر ختم ہوئی یا کچھ اور بھی کہنا ہے۔‘‘

فقیر خاموش رہا اس لیے کہ وہ جانتے ہیں میری تقریر تو کبھی ختم نہیں ہونے کی۔ بے سر و پا باتوں اور امور کی انجام دہی کے لیے بھی تو لوگ ہونے چاہییں ناں! تو یکِ از بے کار و بے مصرف میں بھی تو ہوں۔

دیکھیے! یہ اس وقت کون یاد آیا، وہ بہ وجوہ ایک یورپی ملک چلا گیا، جی عرفان ستّار

کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں

اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں

میں دعا کروں اﷲ جی سے! تو سُن میں تو ہوں ہی سراپا دُعا، کب نہیں رہا۔ لیکن۔۔۔۔ جی جی فرمائیے! میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔ ’’ بتا مجھے! اﷲ جی نے کب ظلم کیا ہے اہلِ زمیں پر، کب رحمت نہیں کی، کب تنہا چھوڑا۔ کب دھتکارا، کب رزق بند کردیا، بول کب رحم نہیں کیا، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنا ہے اُس کی شان، اُس نے تو اس وقت بھی ویسے ہی انسان کو زمین پر نہیں اتارا کہ جاؤ یہاں سے۔ پہلے زمین کو آراستہ کیا۔ جنّت نظیر بنایا پھر اصل جنّت سے نکالا۔ اور وہ بھی اس لیے کہ جاؤ اب دنیا میں اور ثابت کرو تم اس اصل جنّت کے لائق ہو تو واپس آجانا۔ سب کچھ تو دیا یہاں پر، دنیا کو جنت نظیر بنایا تو انسان نے کیا کیا۔ وسائل انسانی پر بہ زور قبضہ کرلیا، بم بنائے، زہریلی گیس بنائی، مہلک ہتھیار بنائے اور ماحول کو مسموم کیا۔

قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ خون سے رنگین کردیا اس جنّت کو، انسان کو غلام بنایا۔ خود خدا بن کر بیٹھ گئے۔ اب بھی الزام ہے اﷲ پر ہی۔ وہ رحم کردے، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنے والا۔ انسان نے اپنے پر خود ہی ظلم کیا۔ خود کو تباہ و برباد کیا، اب بھی تم کہتے ہو کہ اﷲ رحم فرما دے۔ جاؤ انسان سے کہو۔ خلقِ خدا پر رحم کریں۔ ورنہ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ تو ابھی ابتداء ہوئی ہے آگے دیکھنا۔ ڈرو اُس وقت سے جب رحیم قہار بن جائے۔ ڈرو اُس وقت سے۔ بتا کیا کہے گا اب تُو، اب کر تقریر۔‘‘

ہاں مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بابا نے کہا تھا: ’’رب سے معافی مانگنے سے پہلے اُس سے معافی مانگ جس کا دل دکھایا، رب سے رحم کی درخواست کرنے سے پہلے اُس پر رحم کر جس پر تُونے ظلم کیا ہے۔ پہلے بندوں سے معافی مانگ پھر رب سے۔ تُونے مصوّر کی تصویروں کی، چلتی پھرتی تصویروں کی بے حرمتی کی ہے۔ مصوّر کی تصویر سے محبّت مصوّر سے محبّت ہے۔ تو اتنی سی بات نہیں سمجھ پایا اب تک۔‘‘

نہ جانے کیا کہہ رہا ہوں۔ کیا سمجھ رہا ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا مجھے۔ وہ ایک دوسرے تھے، بہت اکھڑ، ہر وقت ناک سے دھواں اور منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے۔۔۔۔ آنکھیں جیسے لال انگارہ۔۔۔۔۔ بہت سر پھرے اور دو ٹوک۔۔۔۔ کوئی رُو رعایت نہیں۔ بالکل اٹل۔۔۔۔ بُرا لگے تو لگے، وہ کہنے سے کبھی باز نہیں آئے۔

اپنی کرنے پر آتے تو کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا اُن کے سامنے۔ جلال ہی جلال اور ایسا ویسا نہیں جلال باکمال۔ کوئی بات کرنا ہو، کوئی مسئلہ درپیش ہو، کوئی الجھن ہو جس کی سُلجھن درکار ہو۔ بہت سوچنا پڑتا تھا کہ کیسے بات کریں! ہاں فقیر ہی پھنستا تھا اکثر۔ سب مجھے کہتے تم پوچھو۔ اور میں ہر بات اُن کے سامنے رکھ دیتا۔ بہت غصہ سہا میں نے اُن کا۔ لیکن مجھے اس کا بھی اقرار ہے کہ میں کم عمر اور نادان ہونے کے باوجود اُن چند لوگوں میں سے تھا جو ان کی محبّت اور شفقت کے سائے میں رہے اور ہیں۔ اکثر کہتے: میرے سامنے سب بیٹھتے ہیں تو خود کیوں نہیں پوچھتے۔ ہر ایک کا سوال تُو کیوں کرتا ہے؟ کیا جواب تھا اس کا میرے پاس! سو خموشی۔۔۔۔ اور پھر میں سنتا: ہاں بول کیا مسئلہ ہے۔

بولنے پر آتے تو پھر آپ سنتے رہیے۔ بہتا دریا۔۔۔۔ خاموش ہوتے تو صحرا کا سکوت، ہُو کا عالم۔۔۔۔ بہت گہرے، کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ رات کے آخری پہر تو یوں لگتا جیسے معصوم بچے ہوں، سر جھکائے ہوئے۔ کبھی یوں لگتا کسی عدالت میں کھڑے ہوں چُپ چاپ۔۔۔۔ بس سسکیوں میں بسی ہوئی آہ و بکا۔ بہت عجیب، بہت ہی پراسرار، مست ملنگ۔

ایک دن فقیر نے پوچھا: یہ تو بتائیے کہ انسان کیسے جیتا ہے ۔۔۔ ؟ مسکرائے۔ میں سمجھا ابھی کہیں گے: پانی پی کر، کھانا کھاکر، مرغ کھا کر، آکسیجن سے۔ لیکن بہت مایوسی ہوئی فقیر کو جب انہوں نے کہا: ’’امید پر زندہ رہتا ہے انسان۔ لیکن تُو یہ کیوں پوچھ رہا ہے ؟‘‘ میں نے کہا: بس ویسے ہی۔ اگلے ہی لمحے میرا دوسرا سوال اُن کے سامنے تھا: اور مرتا کب ہے انسان؟ تو کھلکھلا کر ہنس دیے۔ ایسے مواقع بہت کم، بہت ہی کم آتے تھے جب وہ ہنس رہے ہوں۔ پھر مجھے بہت پیار اور شفقت بھری نگاہ سے دیکھا اور بولے: ’’جب انسان مایوس ہوجائے تب وہ مر جاتا ہے۔‘‘

بہت دیر تک میں ان سے باتیں کرتا رہا۔ کچھ باتیں تو سمجھ میں آئیں اور کچھ بہت عرصے بعد میں سمجھ سکا۔ بہت ساری اب بھی نہیں سمجھا۔ خُلد آشیاں حافظ طاہر درویش نے فقیر کو فارسی کا پہلا جملہ سکھایا تھا: ’’دنیا بر امید قائم است‘‘ میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ امید، امید اور امید۔۔۔۔ فقیر کے عارضی گھر کے سامنے ایک مکان زیر تعمیر ہے۔ کل ایک معمار اس پر پھول پتّیاں بنا رہا تھا۔ تب فقیر نے سوچا یہ بھی تو امید ہی ہے۔ بیمار، مسیحا کے پاس ایک امید لے کر جاتا ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائے گا۔ حالاں کہ وہ بہت پرہیز بتاتا ہے اسے، اور وہ خوشی خوشی چھوڑ دیتا ہے بہت سی چیزوں کو۔ ایک ماں اپنے بچے کو پالتی پوستی ہے۔ امید پر ناں! ایک باپ اپنے بیٹے کو دیکھ کر خواب دیکھتا ہے امید پر۔ یہ ساری کائنات امید ہے۔ خواب امید ہے اور تعبیر بھی۔ امید سے خوشی ملتی ہے اور مشکلیں ٹلتی رہتی ہیں۔ امید اکساتی ہے انسان کو جدوجہد پر۔ اور ہاں امید ہی تو مزاحمت بھی سکھاتی ہے۔

ناامیدی ہنستے کھیلتے انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ خوشی کو غم میں بدلتی ہے۔ اور امید غم کو بھی خوشی کا جامہ پہناتی ہے۔ ناامیدی بے قرار کرتی ہے اور امید سکون دیتی ہے۔ قرار پہنچاتی ہے۔ ناامیدی فرار اور امید قیام کرنا سکھاتی ہے۔ ایسا ہی ہے۔ دنیا کیا تھی، کیا ہوگئی۔ غلط کہہ گیا، کیا بنادی گئی۔ اور یہ کس نے اس جنّت نظیر کو جہنم زار بنایا ؟ پھر کریں گے اس پر بات۔ جہنم کے شعلوں میں گھر گئی ہے دنیا۔ بارود کی بارش میں موت کا رقص جاری ہے۔ ہر ظالم، ہر جابر، مخلوقِ خدا کی گردنوں کو اپنے خونیں پنجوں میں دبوچے ہوئے ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم تہہ خاک ہو رہے ہیں۔ فضا ان کے سرخ لہو کا پیراہن بنی ہوئی ہے۔

فلک ماتم کناں، زمیں آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ انسان مارے جا رہے ہیں۔ کبھی کس نام پر، کبھی کس نام پر۔۔۔۔۔ ہر طرف رقص ابلیس اور مظلوم مخلوقِ خدا۔۔۔۔۔ لیکن ایسے میں بھی امید دم نہیں توڑتی۔ قائم رہتی ہے۔ اور یہی امید، یہی آس زندگی ہے۔ ہاں آپ دیکھتے ہیں ناں، مظلوم زمینی جبّارین کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ مزاحمت ہی مزاحمت۔۔۔۔۔ وہ زندگی کا حسن ہیں جو موت کے سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ کتنے مارو گے، یہاں تو سروں کی قطار ہے۔ دیوانے اور سر پھرے لوگ۔ اصل میں یہ پا گئے ہیں زندگی کا راز۔۔۔۔۔ نارِ نمرود میں بے خطر کود جانے والے عاشق رب کائنات کے آسرے پر، جس نے نارِ نمرود کو گلستان میں بدلا، ہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، ایسا ہی ہوگا۔

ہمارے چاروں طرف جو آگ بھڑک رہی ہے، جس کا ایندھن انسان بن رہے ہیں، یہی آگ گلستان بنے گی۔ ضرور بنے گی۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ آگ ہی رہے۔ ہمیں تو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اپنے رب پر توکل روشنی ہے، ایسی روشنی جس سے اندھیرے شکست کھاتے ہیں۔ ہاں اندھیروں کا مقدر شکست ہے، فتح و کام رانی ہمیشہ روشنی کی میراث ہے اور رہے گی۔

یہ شیاطینِ ارض لاکھ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں، لاکھ منصوبے بنائیں، لاکھ چالیں چلیں، مہرے بدلیں، ساز و سامان کا انبار لگا دیں، میرے رب کی چال کو نہیں پہنچ سکتے۔ اسی کی کبریائی تھی، ہے اور رہے گی۔

میرا رب سب کچھ درگزر کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے ہم انسان ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔ لیکن ہم رب کے باغی تو نہیں ہیں ناں۔ وہ اپنے باغیوں کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ دیکھیے! امید قائم رکھیے۔ میرا رب مایوسی کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مایوسی ابلیس بناتی ہے۔ امید اطاعت سکھاتی ہے۔ بندگی سکھاتی ہے۔ جینا سکھاتی ہے۔ مژدۂ جاں فزا ہے امید۔۔۔۔ اسے سینے سے لگائے رکھیے۔ دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ ظلم جب حد سے گزر جائے تو مٹ جاتا ہے۔ آخری معرکہ سمجھ کر میدان میں رہنے والے ہمیشہ سرخ رُو رہتے ہیں۔ بس اپنے رب پر توکل رکھیے۔ طاغوت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں۔ قوی تو صرف اور صرف میرا رب ہے۔

اور پھر وہ رات، سہانی رات بھی آئی، جب حنیف بھائی نے بابا اور فقیر کے ساتھ رقص بسمل بپا کیا، سنّاٹا اور رقص بسمل، واہ جی واہ اور واہ جی واہ، چیخے، چلاّئے، روئے، گائے، آسماں سر پر اٹھالیا پھر مسکرائے اور واپس چلے آئے۔

ملے بغیر کبھی رَد ہمیں نہیں کرنا

کئی حجاب بغل گیر ہوکے کُھلتے ہیں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

باسی کھانا(صبا ہارون ملک،لاہور)
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کھانا کھا رہی ہوں مگر تمام کا تمام کھانا باسی اور بساند بھرا ہوتا ہے۔ میں بہت پریشان ہوتی ہوں کہ ابھی تو تازہ پکایا تھا پھر یہ کیسی بو اور بساند ہے ۔ اتنا برا ہوتا ہے کہ مجھ سے کھایا نہیں جاتا ۔
تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

تحفے میں سرمہ ملتا ہے(رضا ابراجیم ،گوجرانوالہ)
خواب : میں نے دیکھا کہ میرے خالو سعودی عرب سے آئے ہیں ۔ اور مجھے تحفے میں سرمہ دے کر گئے ہیں کہ یہ شفا والا سرمہ ہے اس کو روز لگایا کرو ۔ میں خوشی خوشی اس کو لے لیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ رات کو لگا کر سویا کروں گا ۔ مجھے اس کی تعبیر بتا دیں ۔ کیونکہ میرے خالو تو کبھی عمرہ یا حج پہ نہیں گئے۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی ۔ علم و حکمت ملے گی ۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں ۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

روشن راستہ(ثوبیہ اکرام اللہ، وھاڑی )
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اکیلی کہیں جا رہی ہوں، راستہ بہت روشن ہے۔ دونوں اطراف میں خوب لائٹیں لگی ہیں مگر میرے علاوہ اس سڑک پہ اور کوئی نہیں ہے۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

ٹخنے پر چوٹ لگنا(اقراء خان، اسلام آباد )
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں جیسے کسی مہمان کی آمد پہ کی جاتی ہے ۔ میں اچانک نیچے بچھے میٹ سے الجھ کے نیچے گر جاتی ہوں جس سے میرے ٹخنے پہ شدید چوٹ لگتی ہے جیسے ھڈی کے ٹوٹنے کا درد ہو ۔ تکلیف کی شدت سے میں نیم بے ہوش ہونے والی ہوتی ہوں۔ مگر میری والدہ پریشان ہو کر پھٹے ہوئے میٹ کو ہی دیکھتی چلی جاتی ہیں کہ یہ سارا کیسے پھٹ گیا ۔
تعبیر:۔آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں ۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں ۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

ہمسائے افطاری کا سامان
دیتے ہیں(سارہ مراد، اسلام آباد)
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر بیٹھی روزہ افطار کر رہی ہوں کہ دروازے پہ ہمارے ہمسائے آ کر ایک ٹرے دے جاتے ہیں کہ آج کی افطاری ہماری طرف سے ہو گی۔ ہم خوشی خوشی وہ لے کر میز کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور اس میں جو انتہائی لذیذ کھانے ہوتے ہیں ان کو مزے سے کھاتے سے ہیں۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

پھولوں کے پودے لگوانا(فرح سلیم، فیصل آباد)
خواب: میں نے دیکھا کہ میں باغ میں ہوں اور وہاں بہت رنگا رنگ پھول کھلے ہیں جو مجھے بہت پسند آتے ہیں اور میں بہت سارے توڑ لیتی ہوں اور گھر آ کر میں ان کو مالی سے لگوا دیتی ہوں ۔گھر میں سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ مگر اگلی صبح میں جب باغ میں جا کر دیکھتی ہوں تو وہ سب جل چکے ہوتے ہیں اور کوئی ایک بھی موجود نہیں ہوتا۔ میں یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوتی ہوں۔
تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے ۔اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے۔ جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

تحفہ میں ہرن ملنا(شمیمہ انور، لاہور )
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی نانی کے گھر رہنے گئی ہوئی ہوں اور ان کے ساتھ ان کی دوکان پہ موجود ہوں۔ وہاں ان کے ساتھ ان کے دوست کے فارم پہ جاتی ہوں ۔ میری نانی اور خاندان کے دیگر افراد بھی ہمراہ ہیں ان کے پاس ادھر کافی جانور اور پرندے ہوتے ہیں۔ مجھے وہ ہرن کا ایک بچہ تحفہ میں دیتے ہیں جس کو پا کر میں بہت خوش ہوتی ہوں اور گھر آتے ہوئے مسلسل اسی خوشی کے خمار میں ہوتی ہوں۔ میری کزنز اور بہنیں مجھے مسلسل اس کی دیکھ بھال کے سلسلے میں ڈرا رہی ہوتی ہیں مگر میری نانی کہتی ہیں کہ وہ ایک جگہ اس کا گھر بنا کر اس کی دیکھ بھال کا اچھا انتظام کر دیں گی۔
تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

چقندر خریدنا(صبیحہ اکرم، لاہور)
خواب : میں نے دیکھا کہ میری ایک دوست اور میں اپنے اپنے گھر کے لئے گروسری کرنے آئے ہیں اور ہم دونوں ہی چقندروں کی ٹوکری خرید لیتے ہیں۔ میں گھر آ کر اپنی امی کو اس کے فوائد گنواتی ہوں جس پہ میری چچی کہتی ھیں کہ انہوں نے بھی ایسے ہی چمکدار چقندر منگوانے تھے ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>